محبتِ رسول ﷺ کا تقاضا#2» الله کے بعد سب سے زیادہ نبی سے محبت یہ ہے کہ، دین کو غالب کرنے کی جدوجہد کرنا: القرآن: (اے پیغمبر ! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ : اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔ [سورۃ التوبۃ:24]
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . ح وحَدَّثَنَا آدَمُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ " . ترجمہ : ”تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں “۔ ایمان کیسا ہو؟؟؟
|
******************************************
|
(مسلم، بَاب فِي الْإِيلَاءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ،حدیث نمبر:۲۷۰۴)
( ابن ماجہ، کتاب الاطعمہ، باب الرقاق،حدیث نمبر:۳۳۲۹)
(ترمذی ،باب ماجاء فی عیش النبی ﷺ،حدیث نمبر:)
(مسلم ،کتاب الجنائز، باب فی کفن المیت،حدیث نمبر:۱۵۶۴)
(اسد الغابہ،مالك بن قيس بن خيثمة،۲/۴۶۶،۴۶۷)
(مسلم، کتاب الوصیۃ ،بَاب تَرْكِ الْوَصِيَّةِ لِمَنْ لَيْسَ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ،حدیث نمبر:۳۰۸۹)
(بخاری ،کتاب المناقب، بَاب قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ،حدیث نمبر:۳۵۱۵)
(فتح الباری،۱۱/۱۰۸)
(طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ)
حديثِ حضرت خدیجہ:
بےشک آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں
ضعیفوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں
ناداروں کو کمائی سے لگاتے ہیں
مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں
اور
حق بجانب باتوں میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد فرماتے ہیں.
[صحیح بخاری:3+ صحیح مسلم:160]
سیرت منانے کا نہیں، اپنانے کا نام ہے.
حضرت ابوھریرہ کے سامنے چپاتیاں آئیں تو دیکھ کر روپڑے(کیوں)کہ رسول الله ﷺ نے اپنی آنکھوں سے
چپاتی نہیں دیکھی.
[ابن ماجہ:3338]
[ترمذی:3789، طبرانی:10664، حاکم:4716 ، الأحادیث
المختارۃ:383، الشریعۃ لآجری:1760، الأعتقاد للبیھقی:ص#327]
...تو جس نے میرے
صحابہ(ساتھیوں)سے محبت کی تو اس
نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی...
[ترمذی:3862]
دعوت توحید کے لیے طائف کے شہر سے وحشیانہ سلوک کے بعد لوٹتے ہوئے، اللہ کی طرف سے جبرئیل کے ساتھ بھیجے گئے پہاڑوں کے فرشتے سے عذاب دینے کی اجازت لینے پر نبی ﷺ نے فرمایا:
مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔
[بخاری:3231+7389،مسلم:1795]
زخمی دل پر مرہم رکھنے والی اللہ کی تسلی:
وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۔۔۔ترجمہ:
اور (اے پیغمبر!) تم اپنے رب کے حکم پر جمے رہو، کیونکہ تم ہماری نگاہوں میں ہو۔
[سورۃ الطور:48]
تشریح:
یہ بڑی پیار بھری تسلی ہے جو نبی محمد ﷺ کو دی جا رہی ہے کہ آپ اپنے کام (یعنی ایک حقیقی خدا-جس نے سب کو پیدا کیا اور جسے کسی نے پیدا نہیں کیا-کی ہی عبادت کیلئے بلانے) میں لگے رہئے، ہم ہر وقت آپ کی نگرانی اور حفاظت کر رہے ہیں۔
فتحِ مکہ کے موقع پر جب رسول الله ﷺ نے مخالفینِ مکہ سے
کہا: اب تم کیا کہتے اور
گمان رکھتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: ہم آپ سے خیر کی امید رکھتے ہیں، کریم بھائی ہیں
اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔
آپ نے فرمایا: تو میں وہی کہوں گا جیسا میرے بھائی(حضرت)یوسف نے(اپنے بھائیوں سے)کہا: آج تم پر کوئی
بازپرس نہیں،الله تمہیں بخشے اور سب سے بڑا رحم والا ہے۔
[بیھقی:11234،طحاوی:5454]
جبکہ ہر مسلمان جذبہ انتقام سے سرشار ہے سینوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، جوش انتقام میں بار بار زبان پر یہ الفاظ آرہے ہیں:
الْيَوْمَ نَضْرِبُكُمْ عَلَى تَنْزِيلِهِ ... ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ ... وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ
آج ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے کہ تمہاری کھوپڑی سر سے الگ ہو جائے گی اور تم اپنے دوست و احباب کو بھی بھول جاؤ گے۔
[ترمذی:7867]
سپاہیوں کی اس درجہ حوصلہ مندی اور جرات مندانہ کلمات پر فاتح مکہ کو تو آگ بگولہ ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ سربراہان مملکت کا یہی دستور رہا ہے کہ فوج کے حوصلہ اور جرات کو دیکھ کر سینہ آگ سے بھڑک اٹھتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم نے بھی ایک چیونٹی کی سلیمانؑ نبی سے کہی گئی یہ بات بیان کرتا ہے:
إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا
[سوره نمل:34]
بادشاہ جب فاتح بن کر کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کے نظم و انتظام کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں، اس علاقے کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسوا کرکے ذلت و خواری کا پرچم ان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں، یہی حکام عالم کا امتیاز اور طور و طریقہ رہا ہے۔
لیکن وہ بادشاہ جس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے مکہ اور طائف کی گلیوں میں جس کو لہولہان کیا گیا تھا جس کے راستوں میں کانٹے بچھائے گئے تھے اور ہر طرح سے اس کو ستایا گیا تھا ظلم و جبر کی تمام کہانیوں کو پس پشت ڈال کر تواضع و انکساری کو سینے سے لگائے ہوئے اخوت و محبت اور عفو درگزر کی ایک عظیم مثال قائم کر کے امن و سلامتی کا پرچم لہراتے ہوئے مکہ میں داخل ہوتا ہے، کفار قریش آپ کے سامنے آئے شرماتے ہوئے سہمے ہوئے ڈرے ہوئے، رحمت عالم نے قریش مکہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: يا معشر قريش ما ترون اني فاعل فيكم (فتح الباری) اے قریشیو: تم جانتے ہو میں آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا ؟
کہنے لگے؛ کہ اللہ کے رسول ہم نے آپ جیسا حلیم و بردبار نہیں دیکھا، کسی انسان کو رتبہ اور مرتبے میں آپ کے ہم پلہ نہیں پایا، آپ کی شرافت ضرب المثل ہے اور شریفوں سے شرافت کی ہی توقع رکھی جاتی ہے، اس لیے ہمیں آپ سے خیر و معافی کی امید ہے۔۔۔ لیکن دل اندر سے کہہ رہے تھے کہ آج جان کی خیر نہیں ہمارے ایک ایک ظلم کا بدلہ لیا جائے گا، آج ایک ایک مسلمان شہید کے خون کے بدلے کا دن ہے، ہمیں اپنے کرتوتوں کی سزا بھگتنی ہی پڑے گی، ابو جندل کی پیٹھ سے لے کر بلال حبشی کے سینے تک کتنے جسم ہیں جن کو ہم نے نہیں چھیدا، نہیں تپایا، نہیں داغا، ہمارے ہی ظلم و ستم کے سبب محمد بن عبد اللہ کو گھر سے بے گھر ہونا پڑا تھا، ہمارے ہی سردار ابوسفیان کی بیوی نے محمد کے پیارے چچا حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا، اور ابن قمیہ ہمیں میں سے تھا جس نے در یتیم آمنہ کے چہرے کو لہولہان کیا تھا۔۔۔ رحمت عالم ظلم و ستم کی ہر کہانی کو بھلا کر کہتے ہیں: اليوم يوم المرحمة اليوم يوم بر ووفاء (البدایہ والنهایہ) لوگوں آج معافی کا دن ہے رحم و کرم کا دن ہے آج احسان و وفا کا معاملہ کیا جائے گا، لا تثريب عليكم اليوم اذهبوا فانتم الطلقاء (فتح الباری) آج تم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اس پر کہ جسنے زخم کھاکر پھول برسائے
بس یوں سمجھئے کہ قاتلوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھا کر اتار دیا گیا، تلواریں گردن کے قریب لاکر روک دی گئیں، موت کا فرشتہ حلقوموں کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا چکا تھا کہ اسے تھما دیا گیا، انسانیت کی پوری تاریخ عفو و درگزر اور اخوت و محبت کی اس مثال سے خالی ہے، کسی مبالغے کے بغیر پوری دیانت اور کمال ذمہ داری کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر جامع شخصیت تاریخ و سیر میں کہیں نظر آتی ہی نہیں، آپ کا پیغام ملکوں اور خطوں سے نکل کر ایک عظیم انقلاب کی شکل میں رونما ہوا، اور اس پیغام سے پوری دنیا گونج اٹھی قوموں کی تقدیریں بدل گئیں، غلام تک پستیوں سے نکل کر شہہ نشینوں پر جا بیٹھے، یہ انقلاب چہروں اور صورتوں کا نہیں فکر و نظر اور ضمیر و باطن کا انقلاب تھا جس نے چوروں اور لٹیروں کو بھی انتہائی دیانت دار اور امن پسند بنا دیا، اس نے دشمنوں کو بھی اپنے گلے لگایا، صالح تمدن اور پاکیزہ معاشرے کی بنیاد ڈالی۔
آپ کی حیات طیبہ کھلی ہوئی ایک روشن کتاب ہے قلم ہزاروں سطریں بھی کاغذ پر منتقل کردے تب بھی آپ کے کسی ایک وصف کی مکمل تصویر نہیں کھچ سکتی۔۔۔ اگر دل کی آنکھیں بالکل بے نور ہو جائیں تو اس کا کوئی علاج نہیں، ہاں اگر دل میں درد اور طبیعت میں احساس ہو چشم بصیرت میں ذرا سی بھی روشنی موجود ہو تو آپ کی زندگی کو پڑھنے والا یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا اور اس کا دل خود بخود کہہ اٹھے گا کہ بس یہی زندگی حق و صداقت پیار و محبت عفو و درگزر اور اخوت و بھائی چارگی کا آخری معیار ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے پوچھا کہ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کو سب سے بڑی ایذاء کیا پہنچائی ہے؟ آپ نے فرمایا:
ایک دن رسول اللہ ﷺ حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کی گردن میں چادر ڈال کر بل دینے لگا، وہ بری طرح آپ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اس وقت ابوبکر صدیق ؓ دوڑے دوڑے آئے، انھوں نے اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے:
’’کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمھارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے۔‘‘
[سورۃ غافر/المؤمن:28]
[صحیح البخاری: کتاب مناقب الأنصار، باب ما لقی النبی ﷺ و أصحابہ من المشرکین بمکۃ :حدیث#3856]
حضرت علیؓ نے فرمایا:
ایک بار ابوجہل نے نبی ﷺ سے کہا: ہم تمہیں نہیں جھٹلاتے، لیکن ہم جھٹلاتے ہیں تو اسے جو(پیغام)آپ لاۓ ہیں، تو اللہ نے(یہ آیت)نازل فرمائی:
(اے رسول) ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، کیونکہ دراصل یہ تمہیں نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ (سورة الأنعام:33)
[ترمذي:3064،حاکم:3230]
اور جب پڑھی جاتی ہیں ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں تو کہتے ہیں وہ لوگ جن کو امید نہیں ہماری ملاقات کی، لے آ کوئی قرآن اس کے سوا یا اس کو بدل ڈال، تو (اے نبی) کہدو کہ میرا کام نہیں کہ بدل ڈالو اس کو اپنی طرف سے، میں تو پیچھے چلتا ہوں اس حکم کے جو آئے میری طرف، میں ڈرتا ہوں عظیم دن کے عذاب سے، اگر نافرمانی کروں اپنی رب کی۔
[سورۃ یونس:15]
حضرت ابوھریرہؓ کے سامنے چپاتیاں آئیں تو دیکھ کر روپڑے کہ رسول الله ﷺ نے اپنی آنکھوں سے
چپاتی نہیں دیکھی.
[سنن ابن ماجہ:3338]
(اے پیغمبر!) شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کیے جار ہے ہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے۔
[سورة الشعراء:3]
اب (اے پیغمبر) اگر لوگ (قرآن کی) اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے تم افسوس کر کر کے ان کے پیچھے اپنی جان کو گھلا بیٹھو گے۔
[سورة الكهف:6]
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا:
نبی ﷺ
کا کافروں کیلئے رحمت ہونا یہ ہے کہ وہ دنیا میں زمین میں دھنسا دیے
جانے، یا آسمان سے پتھروں کی بارش کی صورت میں اس طرح کے عذاب سے محفوظ رہے، جیسے
عذاب سابقہ امتوں پر آئے تھے۔
[تفسیر(امام)ابن کثیر:5/387،سورة الأنبیاء:107]
تفسیر(امام)الطبري:17/83
القرآن:
اور وہ اللہ کی محبت کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ کوئی شکریہ۔
[سورۃ الدھرأالانسان:8-9]
نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(بہترین اسلام یہ ہے کہ) تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اُس شخص کو جسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔
[بخاري:12+28+5882، مسلم:39، أبوداود:5194، نسائي:5000، ابن ماجه:3253]
تم رحمان کی عبادت کرو اور کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
[ترمذي:1855، أحمد:6587، دارمي:2081، بزار:2402، الأدب المفرد للبخاري:981]
وہ بندہ مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے.
[صحيح الأدب المفرد:112، مسند ابي يعلي : 2699]
جب تم میں کسی شخص کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو کم از کم ایک یا دو لقمہ اس کھانے میں سے اسے کھلا دے کیونکہ اس نے (پکاتے وقت) اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی ہے۔
[صحيح بخاري:5460]
اے لوگو! سلام عام کرو اور کھانا کھلاؤ، اور نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
[ترمذي:2485، ابن ماجه:1334+3251، أحمد:23835، دارمي:1460]
تم میں سے بہترین وہ ہیں جو کھانا کھلاتے ہیں اور سلام کا جواب دیتے ہیں۔
[أحمد:23971+23974، طحاوي:7105، حاکم:7739، شعب الإيمان:8973]
جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اُسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دوری پَر کر دے گا، اور دو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔
[حاکم:7172، المعجم الأوسط:6518، شعب الإيمان:3368]
جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا ( یہ سن کر ) ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! یہ کس کے لیے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو اچھی طرح بات کرے، کھانا کھلائے ، خوب روزہ رکھے اور اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوں۔
[الترمذي:1984، أحمد:1338، حاكم:270]
حديثِ حضرت خدیجہ:
بےشک آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں
ضعیفوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں
ناداروں کو کمائی سے لگاتے ہیں
مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں
اور
حق بجانب باتوں میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد فرماتے ہیں.
[بخاری:3+مسلم:160]
سیرت،منانےنہیں،اپنانے کا نام ہے۔
This is all history, it has nothing to do with ISLAM.
ReplyDeleteThis your thinking is not Islam but the way of Prophet is able to follow by The Holy Quran.
Delete