Thursday, 13 January 2022

جاہل اور غیرعالم میں فرق


جاہل اور غیرعالم مترادف اور ہم معنیٰ الفاظ بھی ہیں، اور ان کے معانی اور استعمال میں کچھ فرق بھی ملتا ہے۔


جاہل کے لغوی معانی:

(1) ان پڑھ، بے علم، ناخواندہ

(2) ناواقف، بے خبر

(3) (مجازاََ) نادان، بیوقوف، وحشی، اجڈ، بد اخلاق، بے ادب، گستاخ

(4) (تصّوف) سرکش مرید، طالب کاذب۔




اللہ پاک نے قرآن مجید میں بعض جگہوں پر جاہلوں کی جہالت کا ذکر بھی فرمایا ہے۔

[سورۃ الانعام:111، الاعراف:138، ھود:29، النمل:55، الاحقاف:23]


اورج اہل بھی قرار دیا ہے۔

[سورۃ البقرۃ:273، الزمر:64، القصص:55، الفرقان:66]


اور بعض جگہ جاہل کے بجائے یوں فرمایا:

﴿الَّذِينَ ‌لَا ‌يَعْلَمُونَ﴾ جو علم نہیں رکھتے۔

[سورۃ البقرۃ:113-118، یونس:89، الروم:59، الجاثیہ:18]


اور عالم کے مقابلے میں بھی یوں ہی فرمایا:

﴿الَّذِينَ ‌لَا ‌يَعْلَمُونَ﴾ جو علم نہیں رکھتے

[سورۃ الزمر:9]


‌لَا ‌يَعْلَمُونَ - ‌أَيْ - لَا يَعْلَمُونَ دِينَ اللَّهِ تَعَالَى وَتَوْحِيدَهُ فَهُمْ مُحْتَاجُونَ إِلَى سَمَاعِ كَلَامِ اللَّهِ

ترجمہ:

وہ نہیں جانتے - یعنی - وہ اللہ کے دین اور اس کی وحدانیت کو نہیں جانتے کیونکہ وہ اللہ کی باتیں سننے کے محتاج ہیں۔

[تفسير البغوي: سورۃ التوبۃ:6]



جہالت نام ہے۔۔۔
(1)دین کی باتوں میں مذاق کرنے کا۔
[حوالہ سورۃ البقرۃ:67]
(2)ضد و ہٹ دھرمی(بے دینی) کا۔
[حوالہ سورۃ الاعراف:199]
(3)سب کو ہدایت پر لانے کیلئے ہلکاں ہونا
[حوالہ سورۃ الانعام:35]
(4)ایمان نہ لانے کیلئے کافروں کا من پسند معجزات کا مطالبہ کرنا۔
[حوالہ سورۃ الانعام:111]
(5)بناوٹی خدا کی چاہت وعبادت۔
[حوالہ سورۃ الاعراف:138]
(6)نیکی ونصیحت کی بات کو قبول نہ کرنے اور ستانے والے ہٹ دھرمی
[حوالہ سورۃ الاعراف:199، ھود:46 الفرقان:63]
(7)نافرمانی کے کام
[حوالہ یوسف:33+ 89]
(8)ہم جنس پرستی
[حوالہ سورۃ النمل:55]
(9)بیہودہ بات کرنا اور بچنے والوں سے الجھنا۔
[حوالہ سورۃ القصص:55]
(10) غیراللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دینا۔
[حوالہ سورۃ الزمر:64]
(11)کٹ حجتی کرنا۔

[حوالہ سورۃ الاحقاف:23,ھود:46 الفرقان:63]


ہدایت یا جہالت:

القرآن:

بھلا کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ یقین رکھتے ہوں ان کے لیے اللہ سے اچھا فیصلہ کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 50]

تشریح:

یعنی دنیاوی علوم وفنون سے غفلت جہالت نہیں بلکہ سارا جہاں بنانے والے الله کے فیصلوں سے منہ موڑنا جہالت ہے۔


امام تفسیر مجاہدؒ(م102ھ) نے فرمایا:
"كُلُّ عَامِلٍ بِمَعْصِيَةِ اللَّهِ فَهُوَ ‌جَاهِلٌ ‌حِينَ ‌عَمِلَهَا"۔
ترجمہ:
”یعنی جو شخص کسی کام میں اللہ تعالی کی نافرمانی کر رہا ہے وہ یہ کام کرتے ہوئے جاہل ہی ہے۔“ 
[تفسير ابن كثير، سورۃ النساء، آیۃ 17]






حکم کی اہمیت حاکم کی طاقت پہچاننے سے حاصل ہوتی ہے:

درحقیقت علم وحکمت، عدل اور رحم کی خوبیوں میں کامل۔۔۔ہر چیز کا ایک اکیلا خالق، مالک، غالب، رب۔۔۔جس کا اصلی نام اللہ یعنی حقیقی خدا ہے۔۔۔کے تعارف وپہچان سے جاہل شخص ہی نافرمان رہتا ہے، اور توبہ بھی نہیں کرتا کہ توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ اور بہترین خطاکار ہر بار توبہ کرنے والے ہیں۔


مومن کون؟

جہالت کی تلاش و خواہش الله اور اسکی ہدایت پر یقین نہ ہونے کی علامت ہے۔ اور شریعتِ خداوندی پر یقین رکھنے والا ہی مومن ہے۔


اسلامی اور مغربی تہذیب میں فرق کی بنیاد ﴿ہدایت یا جہالت﴾ ہی ہے۔



جہالت دراصل "مخالفتِ حق" کا نام ہے۔

جہالت تین قسم پر ہے:

(1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنیٰ ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظامِ طبعی کے "خلاف" جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے۔

(2) کسی چیز کے "خلافِ واقع" (خلافِ حقیقت) یقین و اعتقاد قائم کرلینا۔

(3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے "خلاف" سر انجام دینا۔ ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا: کوئی شخص دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنیٰ کے اعتبار سے آیت:

أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ

وہ کہنے لگے کہ کیا آپ ہمارا مذاق بناتے ہیں؟ موسیٰ نے کہا : میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں (ایسے) نادانوں میں شامل ہوں (جو مذاق میں جھوٹ بولیں)۔

[سورۃ البقرة:67]

میں هُزُواً (مذاق اڑانے) کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

[المفردات فی غریب القرآن-امام راغب: ص209]



لا ‌يعلمون : ‌أي أن القوم كانوا يعلمون، ولكنهم أفسدوا علمهم، وجحدوا وكفروا وكتموا۔

ترجمہ:

وہ نہیں جانتے: یعنی لوگ جانتے تھے لیکن انہوں نے اپنے علم کو بگاڑا، اور کفر کیا اور چھپایا۔

[تفسير الطبري:1645، سورۃ البقرۃ:101]



علماء کے بجائے جاہلوں(مخالفت کرنے والوں) سے فتویٰ لینے کی پیشگوئی:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا ، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا " ، قَالَ الْفِرَبْرِيُّ : حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ ... رقم الحديث: 99(100)]
حضرت عبداللہ ابن عمروؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم  نے ارشاد فرمایا۔اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
[صحیح بخاری: حدیث نمبر 100 - علم کا بیان : علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا]
تشريح:
(1) اللہ نے نبی کے بعد علم کی حفاظت اور تعلیم کا ذریعہ علماء کو بنایا ہے۔
(2) مسائل(یعنی جو باتیں پوچھی جائیں)غیرعالم سے نہ پوچھنا۔
(3) گذرے ہوئے علماء(صحابہؓ اور ائمہؒ) زیادہ قابلِ اعتماد اور قابلِ تقلید ہیں۔






















اور اگر بالفرض ہم ان کے پاس فرشتے بھیج دیتے، اور مردے ان سے باتیں کرنے لگتے، اور (ان کی مانگی ہوئی) ہر چیز ہم کھلی آنکھوں ان کے سامنے لاکر کے رکھ دیتے (49)، تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے، الا یہ کہ اللہ ہی چاہتا (کہ انہیں زبردستی ایمان پر مجبور کردے تو بات دوسری تھی، مگر ایسا ایمان نہ مطلوب ہے نہ معتبر) لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔(50)

[سورۃ الانعام:111]

(49) یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ فرمائش کیا کرتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھے ہوئے ہیں۔ اور انہوں نے بڑی سرکشی اختیار کی ہوئی ہے۔

[سورۃ الفرقان:21]

یعنی یہ ان کا تکبر ہے جو ان سے ایسی باتیں کہلوا رہا ہے۔ یہ اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھتے ہیں کہ اپنی ہدایت کے لیے کسی پیغمبر کی بات ماننا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اور مطالبہ یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود آکر انہیں سمجھائیں، یا کم از کم کوئی فرشتہ بھیجیں۔

(50) یعنی حقیقت تو یہ ہے کہ تمام معجزات کو دیکھ کر بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ پھر بھی جو مطالبات کر رہے ہیں وہ محض جہالت (مخالفت) پر مبنی ہیں۔




امام شافعیؒ (م150ھ) نے فرمایا:
جاہل کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وہ عالم ہے اس لئے وہ کسی کا بات نہیں سنتا۔


امام حسن البصریؒ (م١١٠ھ) فرماتے ہیں:
‌الفِتْنَةُ ‌إِذَا ‌أَقْبَلَتْ عَرَفَهَا كُلُّ عَالِمٍ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ عَرَفَهَا كُلُّ جَاهِلٍ۔
ترجمہ:
فتنہ جب سر اٹھاتا ہے تو ہر عالم اسے پہچان لیتا ہے، اور جب چلا جاتا ہے تو ہر جاہل کو پتہ چلتا ہے کہ یہ فتنہ تھا۔
[التاريخ الكبير للبخاري:5830(‌‌2987)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:9/24]

آجکل رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی حرف بحرف صادق آ رہی ہے۔ لوگ چند کتابوں کا مطالعہ کر کے علماء کا لبادہ پہن کر سادہ لوح مسلمانوں کو غلط سلط باتیں بتاکر راہ حق اور صراط مستقیم سے برگشتہ کرتے ہوئے وقت کا علامہ بننے کی پرزور کوشش کر رہے ہیں۔ عوام بھی ان کا خوب ساتھ دے رہی ہے اور ان کو سراہتے ہوئے انہیں علماء سے زیادہ اہمیت دینے لگی ہے۔ انھیں عوام کی بدولت یہ ممبر و محراب اور کانفرنسوں وغیرہ میں اپنا تسلط قائم کرنے لگے ہیں۔ ان کی شہرت اور چمک دمک کو دیکھتے ہوئے نوجوانانِ ملت بھی اسی راہ پر چل نکلے ہیں، لہذا آپ کو سوشل میڈیا پر اس طور سے نام نہاد مبلغین ودعاۃ اور محققین و مفتیان کے القاب کے مصداق افراد مل جائیں گے جو بزعمِ خویش دین کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ چناچہ آپ دیکھیں گے کہ جس نے بھی ایک دو کتابیں پڑھ لیں یا ایک دو لیکچر سن لئے وہ گروپس، پیجز، بلاگس، ویب سائٹس اور یوٹیوب چینل بناتا ہے، اور قرآن و حدیث کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے دین اسلام کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ لہذا کوئی محققِ دوراں بنتے ہوئے احادیث کی صحت و ضعف پر کلام کرتا ہے تو کوئی منسوخ جیسی احادیث کو بیان کرکے ان سے مسائل کا استنباط کرتا نظر آتا ہے۔ یہ دقیق مسائل ہوں یا غیردقیق سب میں اپنی رائے دینے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور جب تک دن میں دو چار فتوے نہ دے لیں اور مناظرے نہ کرلیں ان کو سکون نہیں ملتا۔ اتنا ہی نہیں مناظر کے نام پر گالی گلوچ کرنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے نام پر نوجوان لڑکیوں سے جنسی و دل لگی کو کار ثواب سمجھتے ہیں۔ ان کے قد میں ہی نہیں رکھتے بلکہ وہ دوسروں کے مقالات و مضامین اور تحقیقات کو چرا کر اپنے بلاگز اور ویب سائیٹس اور گروپس میں اپنے نام سے شیئر کرتے ہیں اور لوگوں کی واہ واہی بٹورتے ہیں۔ یہ علماء کی ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کو شیئر کرنے میں اپنی کسر شان سمجھتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اگر کسی عالم کا لکچر بھی شیئر کرتے ہیں تو خود کا یوٹیوب چینل بنا کر اس میں اپ لوڈ کر کے شیئر کرتے ہیں۔

امام ابن الجوزی(م597ھ) فرماتے ہیں:
قَالَ وأكبر(وَأَكْثَرُ) أَسبَابه أَنه قد يعاني هَذِه الصِّنَاعَة ‌جهال ‌بِالنَّقْلِ يَقُولُونَ مَا وجدوه مَكْتُوبًا وَلَا يعلمُونَ الصدْق من الْكَذِب فهم يبيعون على سوق الْوَقْت وَاتفقَ أَنهم يخاطبون الْجُهَّال من الْعَوام الَّذين هم فِي عداد الْبَهَائِم فَلَا يُنكرُونَ مَا يَقُولُونَ وَيخرجُونَ فَيَقُولُونَ قَالَ الْعَالم فالعالم عِنْد الْعَوام من صعد الْمِنْبَر۔
ترجمہ:
اور ان کا سب سے بڑا(سب سے زیادہ) سبب یہ ہے کہ اس فن میں ان لوگوں نے دخل اندازی کی جو نقلی دلائل سے عاری وجاہل ہوتے ہیں۔ جو لکھا ہوا پاتے ہیں اسی کو یہ کہتے ہیں۔ سچ و جھوٹ کی پہچان کی کسوٹی ان کے پاس نہیں ہوتی۔ یہ وقت کے بازار میں دینی خدمت کا کاروبار کرتے ہیں۔ اور (اس پر) اتفاق ہے کہ یہ عام طور پر عوام میں سے ایسے جاہلوں کو مخاطب کرتے ہیں جو چوپایوں کے قائم مقام (یعنی ناسمجھ) ہوتے ہیں لہذا وہ ان کی غلطیوں پر نکیر نہیں کرتے اور یہ کہتے ہوئے نکلتے ہیں کہ عالم نے کہا۔ بس عوام کے نزدیک وہی عالم ہے جو منبر (stage) پر چڑھ گیا۔
[تحذیر الخواص-امام السیوطی(م911ھ) :ص230، القصاص والمنکرین-امام ابن الجوزي(م597ھ): ص318]


No comments:

Post a Comment