Tuesday, 4 January 2022

اللہ ہی مختار کل کیوں؟

 اختیاراتِ مصطفیٰ:

مختار کل صرف اللہ ہے،

[حوالہ» سورۃ ھود:107، الحج:14، البروج:16]


البتہ نبی ﷺ کو دنیا میں بہت سے اختیار دئے گئے ہیں،

[حوالہ» سورۃ البقرۃ:126، الاحزاب:51]


اور آخرت میں بھی بہت سارے اختیار دئے جائیں گے، جو اولین اور آخرین میں سے سب سے زیادہ ہیں،

[حوالہ» سورۃ الکوثر:1]


لیکن وہ جز اختیارات ہیں، کل نہیں ہیں۔

[حوالہ» سورۃ البقرۃ:272، آل عمران:128+161، النساء:88، الانعام:58، الاعراف:188، الانفال:63+67، التوبہ:43+80+113، یونس:15+49+99، الرعد:38، الکھف:24، القصص:56، غافر:78، الاحقاف:9، المنافقون:6، التحریم:1، الحاقۃ:44-47، الجن:20+21، عبس:1-2]


ورنہ یہ ماننا لازم آئے گا کہ۔۔۔


(1) اللہ کی "اذن" کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ اس کی شرط لگائی۔

[حوالہ» سورۃ البقرۃ:91+249+255، آل عمران:145+166، النساء:64، الاعراف:58، الانفال:66، یونس:3+100، ھود:105، الرعد:38، ابراھیم:11، طٰہٰ:109، الحج:65، الاحزاب:46، سبا:12+23، غافر:78، الشوريٰ:51، المجادلۃ:10، التغابن:11، النبا:38]


اور


نبی ﷺ کی کسی "اجازت" پر اللہ کو معافی کا اعلان نہ فرمانا پڑتا۔

[سورۃ التوبۃ:43]


(2) اور اللہ کی "امر" کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ س کی شرط لگائی۔

[حوالہ» سورۃ الانبیاء:28، النور:55، الجن:27]


(3) اور 
اللہ کی "رضا" کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ اس کی شرط لگائی۔

[حوالہ» سورۃ الانبیاء:28، النور:55، الجن:27]


(4) اور اللہ کو "پکارنے" کی ضرورت نہیں رہے گی، جبکہ نبی ﷺ نے بھی اللہ کے علاوہ کسی کو غائبانہ مدد کیلئے نہیں پکارا، کیونکہ اللہ کے علاوہ کسی کو پکارنا شرک ہے۔

[حوالہ» سورۃ الاحقاف:4، فاطر:40، سبا:22، الاعراف:194-197]




اس عقیدے کے بارے میں 36 آیتیں اور 10 حدیثیں ہیں ، آپ ہر ایک کی تفصیل دیکھیں۔






اختیارات کی 4 قسمیں ہیں:

[۱]۔۔۔ازل سے ابد تک ہر ہر چیز کرنے کا اختیار ، یہ اختیار صرف اللہ کو ہے۔
[۲]۔۔۔حضور ﷺ کو زندگی میں بہت سے اختیار دئے گئے
[۳]۔۔۔ حضور ﷺ کو قیامت میں چار اختیار دئے جائیں گے
[۴] ۔۔۔ کیا حضور ﷺ کوزید کو شفا دینے ، روزی دینے ،نفع اور نقصان دینے کا اختیار ہے۔



اختیار کی پہلی قسم: [۱] ازل سے ابد تک ہر ہر چیز کرنے کا اختیار ، یہ اختیار صرف اللہ کو ہے۔

 

اس کے لئے یہ آیتیں ہیں:

(1) ﴿اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ﴾ ۔

ترجمہ:

اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ، اور وہی ہر چیز کا رکھوالا ہے۔

[آیت 62، سورۃ الزمر 39]

 

(2) ﴿ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ﴾   ۔

ترجمہ:

وہ ہے اللہ جو تمہارا پالنے والا ہے ، ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔

[آیت 62، سورۃ غافر 40]

 

(3) ﴿إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ﴾  ۔

ترجمہ:

یقینا آپ کا رب چو چاہے کرتا ہے۔

[آیت 107، سورۃ ھود 11]

 

(4) ﴿ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ (١٥) فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ﴾  ۔

ترجمہ:

عرش کا مالک ہے ، بزرگی والا ہے ، جو کچھ ارادہ کرتا ہے کر گزرتا ہے۔

[آیت 16، سورۃ البروج 85]

 

(5) ﴿قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾   ۔

ترجمہ:

آپ یہ کہہ دیجئے کہ اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ، اور وہ ایک ہی غالب ہے۔

[آیت 16، سورۃ الرعد 13]

 

ان 5 آیتوں میں ہے کہ ازل سے ابد تک کا پورا پورا اختیار صرف اللہ کو ہے ، کسی اور کو نہیں ہے۔





احادیث طیبات
حدیث نمبر1:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک اعرابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ننھے بچوں سے پیار کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھنے لگا کہ کیا آپ بچوں سے )ازرہ ِ شفقت( پیار کرتے ہیں ؟ ہم تو ایسا نہیں کرتے ، اس دیہاتی کے اس سوال پر جناب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَوَأَمْلِكُ لَكَ أَنْ نَزَعَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَةَ•
[صحیح البخاری:5998، صحیح مسلم:2317]
یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے تیرے دل سے شفقت نکال دی ہے تو کیا میں تیرے لیے اس کا مالک ہوں؟!

حدیث نمبر2:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم نازل ہوا کہ آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو خدا کے عذاب سے ڈرائیے تو آپ نے اپنے تمام خاندان اور برادری کو جمع کرکے فرمایا: اے خاندان قریش ! اپنے آپ کو جہنم کے عذاب سے (یعنی توحید ورسالت وغیرہ عقائد قبول کر کے) پچا لو میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے تمہیں نہیں بچا سکتا اے خاندان بنو عبد مناف ، اپنی جانوں کو عذاب سے بچا لو میں تمہیں خدا کے عذاب سے نہیں بچاسکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب اور میری پھوپھی صفیہ اپنے بچاو کا انتظام فرما لو میں تمہیں خدا کی گرفت نہیں بچا سکتا۔ آگے ارشاد ہوتا ہے:
يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا•
اے (میری لختِ جگر)فاطمہ! جس کا میں مالک ہوں (مالی، ضروریاتِ زندگی وغیرہ) وہ مانگ تو میں تجھے دے دوں گا لیکن اللہ تعالیٰ کی گرفت سے میں تجھے نہیں بچا سکتا۔
[صحیح البخاری:2753+4771، صحیح مسلم:206+352]




حدیث نمبر3:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات ازواج مطہرات رضی ا للہ عنہما میں برابر ی کرتےتھے اور یہ فرمایا کرتے تھے:
اللهم ! هذه قسمي فيما أملك فلا تؤاخذني فيما تملك ولا أملك•
قال الترمذی: یعنی انما الحب و المودۃ•
یعنی اے اللہ! جس ظاہری تقسیم کا میں مالک ہوں میں کو ادا کر چکا اور جس چیز کا تو مالک ہے اور میں مالک نہیں ( یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی محبت) تو اس میں میرا مواخذہ نہ کرنا۔
[سنن الترمذی:1140، سنن ابی داود:2134، سنن النسائی:3943، ابن ماجہ:1971، مستدرک الحاکم:2761]

اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح علی شرط مسلم قرار دیا۔
[مستدرک الحاکم: کتاب النکاح- ح2761]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اسناد صحیح ورجالہ کلھم ثقات •
[تفسیر ابن کثیر ج3ص511]






حدیث نمبر4:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس خلاصہ یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق عامۃ المسلمین (مثلاً غنیمت وغیرہ) میں خیانت کرنے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ جس نے اونٹ ،بکری ، گھوڑے ، کپڑے وغیرہ میں خیانت(چوری) کی تو یہ تمام اشیاء قیامت کے دن اس کی گردن پر ہوں گی اور اپنی اپنی آواز ظاہرکرتی ہوں گی اور ایسا خائن وہاں کہے گا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي فَأَقُولُ لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ•
اے اللہ کے رسول میری مدد کیجیے اور میں کہوں گا: میں تمہارے لئے اختیار نہیں رکھتا، (کیونکہ) میں تجھے تبلیغ کر چکا تھا۔
[بخاری:1402+3073، مسلم:1831]



حدیث نمبر5:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیبیاں تھیں؛ حضرت خدیجہ ، حضرت زینب ام المساکین، حضرت عائشہ، حضرت جویریہ، حضرت حفصہ ، حضرت ام سلمہ، حضرت زینب بنت حجش ، حضرت ام حبیبہ ، حضرت صفیہ ، حصرت سودہ، حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنھن۔
[مرقات: ج4ص42]
اور دو لونڈیاں تھیں؛ ایک حضرت ماریہ قبطیہ جن کے بطن سے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔
[مستدرک: ج4ص38]
اور دوسری حضرت ریحانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما تھیں۔
[مستدرک ج4ص41]
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا آپ کی زندگی میں وفات پا گئی تھیں بقیہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن آپ کے بعد زندہ رہیں، ان کے بارے میں آپ کو کافی پریشانی تھی آپ نے فرمایا :
إن أمركن مما يهمني بعدي الحدیث•
[جامع الترمذی:3749 وقال حدیث حسن صحیح غریب، موارد الظماٰن: ص547]
کہ بے شک تمہارا معاملہ مجھے اپنے بعد پریشان کر رہا ہے۔

No comments:

Post a Comment