کریپٹو کرنسی Cryptocurrency (بِٹ کوئن Bitcoin وغیرہ) ایک فرضی کرنسی ہے، اور اس کا عنوان ہاتھی کے دانت کی طرح محض دکھانے کی چیز ہے، اور فقہائے کرام کی تصریحات Description کی روشنی میں یہ کرنسی از رُوئے شرع مال نہیں ہے اور نہ ہی ثمن عرفی۔
نیز اس کاروبار میں حقیقت میں کوئی مبیع sold وغیرہ نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں بیع sell کے جواز کی شرعی شرطیں پائی جاتی ہیں؛ بلکہ در حقیقت یہ فاریکس ٹریڈنگ (غیر ملکی کرنسی کی تجارت Forex Trading) کی طرح سود Interest اور جُوئے Gambling کی شکل ہے ؛ اس لیے کرپٹو کرنسی (بٹ کوئن یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی) کی خرید وفروخت کی شکل میں نیٹ پر چلنے والا کاروبار شرعاً حلال وجائز نہیں ہے، مسلمانوں کو اس میں حصہ داری نہیں کرنی چاہیے۔
آج کل دنیا میں جو مختلف کرنسیاں (سِکے) رائج ہیں، وہ فی نفسہ مال نہیں ہیں، وہ محض کاغذ کا ٹکڑا ہیں، ان میں جو مالیت یا عُرفی ثمنیت (customary price) پائی جاتی ہے ، وہ دو وجہ سے ہے؛ ایک تو اس وجہ سے کہ ان کے پیچھے ملک کی اقتصادی چیزیں (جیسے: سونے اور چاندی کے سکے ّ، گندم، جو، کھجور وغیرہ) ہوتی ہیں ؛ اسی لیے ملک کی اقتصادی ترقی اور انحطاط کا کرنسیcurrency کی قدر وقیمت value پر اثر پڑتا ہے ، یعنی: اقتصاد ہی کی وجہ سے ملک کی کرنسی کی قدر وقیمت value گھٹتی بڑھتی ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر ملک عوام کے لیے اپنی کرنسی کا ضامن وذمہ دار ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ملک اپنی کوئی کرنسی بند کرتا ہے تو کرنسی محض کاغذ کا نوٹ بن کر رہ جاتی ہے اور اس کی کوئی قدر وقیمت value یا حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اب سوال یہ ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی کے پیچھے کیا چیز ہے جس کی وجہ سے اس کی قدر وقیمت value متعین ہوتی ہے اور اس کی ترقی اور انحطاط سے کرنسی کی ویلیو گھٹتی بڑھتی ہے؟ اسی طرح اس کرنسی کا ضامن وذمہ دار کون ہے؟ نیز کرنسی کی پشت پر جو چیز پائی جاتی ہے، کیا واقعی طور پر اس پر کرنسی کے ضامن کا کنٹرول ہوتا ہے یا یہ محض فرضی اور اعتباری چیز ہے؟
ڈیجیٹل کرنسی کے متعلق مختلف تحریرات پڑھی گئیں اور اس کے متعلق غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ڈیجیٹل کرنسی محض ایک فرضی چیز ہے اور اس کا عنوان ہاتھی کے دانت کی طرح محض دکھانے کی چیز ہے اور حقیقت میں یہ فاریکس ٹریڈنگ وغیرہ کی طرح نیٹ پر جاری سٹے بازی اور سودی کاروبار کی شکل ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مبیع وغیرہ نہیں پائی جاتی اور نہ ہی اس کے کاروبار میں بیع کے جواز کی شرعی شرطیں پائی جاتی ہیں۔
پس خلاصہ یہ کہ بٹ کوئن یا کوئی اور ڈیجیٹل کرنسی، محض فرضی کرنسی ہے، حقیقی اور واقعی کرنسی نہیں ہے، نیز کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی میں واقعی کرنسی کی بنیادیں صفات نہیں پائی جاتیں، نیز ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار میں سٹہ بازی اور سودی کاروبار کا پہلو معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے بٹ کوئن Bitcoin یا کسی اور ڈیجیٹل کرنسی کی خرید اری کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح بٹ کوئن Bitcoin یا کسی بھی ڈیجیٹل کرنسی کی تجارت بھی فاریکس ٹریڈنگ کی طرح ناجائز ہے؛ لہٰذا اس کاروبار سے پرہیز کیا جائے۔
مجتہادانہ استدلالی حوالہ جات:
قال اللّٰہ تعالی:
﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾
[سورۃ البقرة: 275]
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
[سورۃ المائدة، ۹۰]
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَى أُمَّتِي الْخَمْرَ، وَالْمَيْسِرَ۔
[مسند أحمد:6547+6564، المعجم الكبير للطبراني:127]
{وَلا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ} أَيْ: لا يأكل بعضكم مال بعضٍ بما لا يحلُّ في الشَّرع من الخيانة والغضب والسَّرقة والقمار وغير ذلك
[الوجيز للواحدي(م468ھ) : ص153 دار القلم , الدار الشامية - دمشق، بيروت]
لِأَنَّ الْقِمَارَ مِنْ الْقَمَرِ الَّذِي يُزَادُ تَارَةً، وَيُنْقَصُ أُخْرَى، وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرِينَ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ فَيَجُوز الِازْدِيَادُ وَالِانْتِقَاصُ فِي كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فَصَارَ قِمَارًا. وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ
[تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي-الزيلعي(م743ھ): 6/ 227 الناشر: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة]
واضح رہے کہ کسی بھی قدری (Value-able) چیز کے کرنسی بننے کے لیے ضروری ہے کہ اس مقامی حکومت اور اسٹیٹ کی جانب سے اس کرنسی کو سکہ (Coin) اور ثمن (Price) تسلیم کرکے اس کو عام معاملات (لین دین) میں زرِ مبادلہ کا درجہ دے دے دیا گیا ہو، ایسی کرنسی کو لوگ رغبت ومیلان کے ساتھ قبول کرنے کے لیے آمادہ بھی بن جائیں اور اُسے رواجِ عام مل جائے۔
۱:… مذکورہ ڈیجیٹل کرنسی نہ تو کسی حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ کرنسی (ثمن Price) ہے اور نہ ہی تمام لوگوں میں اس کا رواج ہے، لہٰذا اس کی ثمنیت قابلِ اعتبار نہیں ہے, اور محض چند ٹوکن جن کی کوئی واقعی مالی حیثیت نہیں ہے، اس کی قیمت ۱۰۰ یورو سے ۲۸۰۰۰ تک مقرر کرنا درست نہیں ہے۔ نیز اگر مجوزہ ڈیجیٹل کرنسی کو بالفرض قانونی واصطلاحی کرنسی تسلیم کرلیا جائے تو ڈیجیٹل کرنسی کا مبادلاتی exchanges عمل (لین دین) شرعی لحاظ سے بیع صرف (نقدی cash کا لین دین) کہلائے گا، جبکہ نقدی cash کا آپس میں تبادلہ کرتے وقت ایک ہی مجلس میں قبضہ ضروری ہے، جبکہ مذکورہ کمپنی ٹوکن دینے کے ۹۰ دن بعد ان ٹوکنوں کو دگنا کرکے ڈیجیٹل کوائنز (سکوں) میں تبدیل کرکے دیتی ہے تو یہ بھی بیع sell صرف میں اُدھار کی ایک صورت ہونے کی وجہ سے ناجائز ہی ہے ، لہٰذا سوال میں مذکور منافع کا پہلا طریقہ بھی ناجائز ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’والمالیۃ تثبت بتمول الناس کافۃً أو بعضہم والتقوم یثبت بہا وبإباحۃ الانتفاع بہٖ شرعاً۔‘‘ (ج:۴،ص:۵۰۱،ط:ایچ ایم سعید)
وفیہ ایضاً: ’’ہو مبادلۃ شئ مرغوبٍ فیہ بمثلہٖ علی وجہٍ مفیدٍ مخصوصٍ۔‘‘ (ج:۴،ص:۵۰۶،ط:ایچ ایم سعید) بدائع الصنائع میں ہے: ’’وأما الشرائط (فمنہا) قبض البدلین قبل الافتراق لقولہٖ علیہ الصلاۃ والسلام فی الحدیث المشہور والذہب بالذہب مثلاً بمثل یداً بید والفضۃ بالفضۃ مثلاً بمثل یداً بید، الحدیث۔‘‘ (فصل فی شرائط الصرف،ج:۵،ص:۲۱۵)
۲…مذکورہ کمپنی کے منافع حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ جس کی تین صورتیں ہیں، یہ تینوں صورتیں دراصل کمیشن کے تحت آتی ہیں اور کمیشن کی اسلامی قانونِ تجارت اور تبادلہ میں مستقل تجارتی حیثیت نہیں ہے، اس لیے کہ جسمانی محنت (جو کہ تجارت کا ایک اہم جزء ہے) کے غالب عنصر (dominant element) سے خالی ہونے کی بنا پر فقہاء کرام نے اصولاً اس کو ناجائز قرار دیا ہے، لیکن لوگوں کی ضرورت Need اور تعامل Interaction کی وجہ سے اس کی محدود Limited اور مشروط Conditional اجازت دی ہے، بظاہر مذکورہ کمپنی کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کا سرمایہ اپنے کاروبار میں لگا کر اور میمبر در میمبر سازی کرکے زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کرنا اور اس حاصل ہونے والی رقم سے لوگوں کو کمیشن فراہم کرنا ہے، لہٰذا اس کمپنی سے معاملہ کرنا اور اس میں سرمایہ کاری Investment کرکے منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے، چونکہ اس کمپنی کے کوائنز Coins اور ٹوکن Token خریدنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اس کمپنی کے ممبر member بن کر مذکورہ تینوں صورتوں ’’Direct Sale‘‘ ، ’’ Network Bonus ‘‘ اور ’’Matching Bonus‘‘ کے ذریعے کمیشن حاصل کرنا بھی درست نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے: ’’والربح إنما یستحق بالمال أو بالعمل أو بالضمان۔‘‘ (فتاویٰ شامی، کتاب المضاربۃ،ج:۵،ص:۶۴۶،ط:ایچ ایم سعید)
وفیہ ایضاً: ’’سئل عن محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار: فقال: أرجو أنہ لابأس بہ وإن کان فی الأصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیرمن ہذا غیر جائزۃ فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ۔‘‘
(فتاویٰ شامی ،مطلب فی أجرۃ الدلال،ج:۶،ص:۶۳،ط:ایچ ایم سعید)
الأشباہ والنظائر میں ہے: ’’ما أبیح للضرورۃ یقدر بقدرہا۔‘‘
(الأشباہ والنظائر ،القاعدۃ الخامسۃ: الضرر یزال،ص:۸۷، قدیمی)
وفیہ ایضاً: ’’وصرح بہ فی فتاویٰ قاری الہدایۃ ثم قال والعقد إذا فسد فی بعضہ فسد فی جمیعہٖ۔‘‘
(الأشباہ والنظائر ،القاعدۃ الثانیۃ،ص:۱۱۷، قدیمی)
۳… مذکورہ کمپنی کے کوائنز (سکوں) کا حصول اور ان کی خرید وفروخت چونکہ ناجائز ہے، اسی طرح ان کوائنز کو دگنا کرکے بیچنا بھی ناجائز ہے۔
البنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے:
’’إن فساد العقد فی البعض إنما یؤثر فی الباقی إذا کان المفسد مقارناً۔‘‘
(البنایۃ شرح الہدایۃ ،ج:۸،ص:۱۷۷)
نیز ان کوائنز (سکوں) کی زیادتی بلاعوض ایک عقد میں لازم ہونے کی وجہ سے بھی جائز نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’باب الربا ہو لغۃً مطلق الزیادۃ وشرعاً (فضل) ولو حکماً فدخل ربا النسیئۃ والبیوع الفاسدۃ فکلہا من الربا فیجب رد عین الربا ولو قائمًا لارد ضمانہٖ لأنہٗ یملک بالقبض قنیۃ وبحر (خال عن عوض) … مشروط ذٰلک الفضل لأحد العاقدین۔‘‘
(فتاویٰ شامی ،ج:۵،ص:۱۶۸،۱۶۹،ط:ایچ ایم سعید)
۴،۵…مذکورہ کمپنی کا ٹوکن اور کوائنز کا لین دین کرنا چونکہ ناجائز ہے، اس لیے اگر کوئی اس کمپنی میں صرف کوائنز حاصل کرنے کے لیے رکنیت حاصل کرے اور نیٹ ورکنگ (Networking) کے ذریعے اگرچہ ممبر سازی نہ کرے، تب بھی ان کوائنز کو خریدنا جائز نہیں ہے۔ نیز اس طرح کی مشکوک کمپنی کے کارو بار میں سرمایہ کاری کرنا بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ شریعتِ اسلامی میں کاروبار اور لین دین کا مدار معاملات کی صفائی اور دیانت وامانت پر ہے اور فرضی چیزوں کے بجائے اصلی اور حقیقی چیزوں کی خرید وفروخت اور حقیقی محنت پر زور دیتی ہے اور استفتاء کے ساتھ منسلکہ فتویٰ سے یہ بھی بات واضح ہوتی ہے کہ ’’One Coin ‘‘ (ون کوائن) کمپنی کے معاملات صاف اور واضح نہیں ہیں، لہٰذا ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ بظاہر دوسروں کا مال، غیر واضح، مبہم اور ناجائز طریقے سے ہتھیانے کے مترادف ہے، جسے شرعی اصطلاح میں ’’اکل باطل‘‘کہتے ہیں۔
تفسیر کبیر میں ہے:
’’قال بعضہم: اللّٰہ تعالٰی إنما حرم الربا حیث أنہ یمنع الناس عن الاشتغال بالمکاسب… فلایکاد یتحمل مشقۃ الکسب والتجارۃ والصناعات الشاقۃ۔‘‘
[التفسیر الکبیر للرازی، سورۃ البقرۃ،ج:۷،ص:۹۱، ایران]
بعض علماء فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اس لیے سود کو حرام قراردیا ہے کہ یہ لوگوں کو اسباب معاش اختیار کرنے سے روکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا لوگ کمائی، تجارت اور سخت محنتوں کے بوجھ برداشت کرنے سے کتراتے ہیں۔‘‘
احکام القرآن میں ہے:
’’نہٰی لکل أحد عن أکل مال نفسہ ومال غیرہٖ بالباطل وأکل مال نفسہٖ بالباطل إنفاقہٗ فی معاصی اللّٰہ وأکل مال الغیر بالباطل قد قیل: فیہ وجہان: أحدہما ما قال السدی وہو أن یاکل بالربا والقمار والبخس والظلم وقال ابن عباسؓ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ والحسن رحمہ اللّٰہ تعالٰی أن یأکلہٗ بغیر عوض۔‘‘
[احکام القرآن ،ج:۲،ص:۲۱۶، دار الکتب العلمیہ، بیروت]
’’ہر ایک کو اپنا مال اور دوسروں کا مال ناحق طور پر کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اپنے مال کو ناحق طور پر کھانا یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کیا جائے اور دوسرے کے مال کو ناحق طور پر کھانے کے متعلق آیا ہے اس کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت: سدیؒ فرماتے ہیں : اس کو سود، جوا، کمی(ناپ تول میں) اور ظلم کے ذریعہ کھائے۔ حضرت ابن عباسؓ اور حسنؒ فرماتے ہیں کہ: اس کو بغیر عوض کے کھائے(سودی معاملہ کرے)۔
No comments:
Post a Comment