الله لفظ کے معانی:
عربی زبان کے ماہر امام الراغب الأصفهاني(م502ھ) اپنی کتاب [المفردات في غريب القرآن: صفحہ83] فرماتے ہیں:
1️⃣ بعض کا قول ہے کہ اللہ لفظ کی اصل route-word ﴿اِلٰه...یعنی خدا/معبود﴾ ہے، ہمزہ (تخفیفاً) حذف کردیا گیا ہے، اور اس پر الف لام (تعریف) لاکر الله تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے،
(حقیقی/سب کا ایک+خدا=اللہ) اسی تخصیص کی بناء پر قرآن حکیم میں فرمایا :۔
{هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا}
*کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے۔*
[سورة مریم:65]
اِلٰه(خدا) کا لفظ عام ہے، اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے (خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل...یعنی بناوٹی.مٹنے والا)۔ اور وہ ﴿مشرکین﴾ سورج کو ﴿
الاھۃ﴾ کہہ کر پکارتے تھے، کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا۔
اِلٰہ(خدا) کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ ﴿عربی verb forms کے باب فتح سے﴾
اَلَہَ یَاْلَہٗ اَلْھًا فَھُوَ اٰلِہٌ سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ *"
پرستش کرنا"* کے ہیں
اس بنا پر اِلٰہ کے معنیٰ ہوں گے ﴿پرستش کے لائق﴾معبود۔
2️⃣ اور بعض ﴿عربی کے ماہرین﴾ نے کہا ہے کہ یہ اَلِہَ (باب سَمِعَ کے وزن پر ہے) بمعنیٰ *"تحَیُّر"*(یعنی حیرتـ/سراسیمگی) سے مشتق ہے، اور الله تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک ﴿مکمل/پورا سمجھنے) سے چونکہ عقلیں مُتحیّر اور درماندہ ہیں، اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی نے فرمایا ہے:
"کُلُّ دُونِ صِفَاتِهِ تَحْبِیرُ الصِّفَاتِ، وَضَلَّ هُنَاکَ تَصَارِیفُ اللَّغَاتِ"۔
ترجمہ:
"اللہ کی صفات کے سوا سب کچھ محض توصیفوں کی آرائش ہے، اور زبانوں کے پیچیدہ اسالیب وہاں گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔"
[وضاحت:-(1)خُدا کی صفات کی بالاتری:-انسانی کوششیں اُس کی صفات کو بیان کرنے میں ناکام ہیں، اور یہ توصیفیں محض "سجاوٹ" ہیں۔ (2)انسانی زبان کی محدودیت:-گہرے حقائق کو سمجھنے میں زبانوں کے پیچیدہ اسالیب اور لفظی بازیگری گمراہ کر سکتی ہے۔]
اس لئے کہ انسان جس قدر صفاتِ الٰہیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس بناء پر پیغمبر ﷺ نے فرمایا ہے:
«تَفَكَّرُوا فِي خَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَفَكَّرُوا فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں (عظمتوں) میں غور و فکر کیا کرو، اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:1788]
3️⃣ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل route-word ﴿ولاہ﴾ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر ﴿والھا﴾ بنالیا ہے اور وَلِہَ (باب سَمِعَ) کے معنیٰ: "عشق و محبت میں وارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں" اور الله تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والِہانہ محبت ہے، اس لئے اللہ کہا جاتا ہے، اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے، جیسے: جمادات اور حیوانات، اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے، جیسے: بعض انسان، اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے: ذات الله تعالیٰ تمام اشیاء کو محبوب ہے۔
اور آیت کریمہ:
{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ }
ترجمہ:
مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔
[سورة الإسراء:44]
بھی اسی معنیٰ پر دلالت کرتی ہے۔
4️⃣ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ﴿لاہ یلوہ لیاھا﴾ سے ہے، جس کے معنیٰ: "پردہ میں چھپ جانا" کے ہیں اور الله تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب (پوشیدہ) ہے، اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے۔
اسی معنیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن حکیم میں فرمایا :۔
{ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ }
ترجمہ:
وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے۔
[سورة الأَنعام 103]
نیز آیت کریمہ:
{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ }
اور وہ ظاہر بھی ہے (اپنی قدرتوں سے) اور باطن بھی ہے (اپنی ذات کے لحاظ سے)۔
[سورة الحدید 3]
اس میں ﴿الباطن﴾ کہہ کر بھی اسی معنیٰ کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
5️⃣ اِلٰه یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے، اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے، لیکن اہلِ عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا، اس لئے ﴿اٰلِہَۃٌ﴾ جمع کا صیغہ استعمال کرتے تھے۔
قرآن میں ہے:
{ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا }
کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں۔
[سورة الأنبیاء 43]
اور (فرعون سے اسکی قوم کے سرداروں نے) کہا:
{وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ}
اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں۔
[سورة الأَعراف:127]
ایک قراءت میں ﴿واِلاھتک﴾ ہے۔
[القرطبي:7/ 262]
جس کے معنیٰ:- "اور تیری عبادت" کے ہیں، ﴿ولاہ انت﴾ یہ اصل میں للہ انت ہے، ایک لام کو تخفیف کے لئے حذف کردیا گیا ہے۔
اَللّٰھُمَّ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنیٰ:- "یَا اَللہ" کے ہیں، اور اس میں میم مُشدّد (حرف ندا) یَا کے عوض میں آیا ہے۔
[الغريبين للهروي :1/ 79]
6️⃣ اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یَا اللہ امنا بخیر (یعنی اے اللہ! تو خیر کے ساتھ ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرتِ استعمال کی بناء پر ) ۔۔۔
[امام الفراء، معاني القرآن:1/ 203]
﴿حی ھلا﴾ کی طرح مرکب کرکے اَللّٰھُمَّ بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے: ھلم )
حوالہ
[امام الراغب الأصفهاني، المفردات في غريب القرآن: صفحہ83]
نوٹ:
قوسین(brakets) میں خدا-معبود یہ عربی لفظ اِلٰہ کا فارسی/اردو ترجمہ ہے۔ گذرے ہوئی صدیوں میں جتنے عجمی اولیاء وعلماء اور مسلمان تھے وہ اللہ کو خدا کہتے تھے لیکن وہ مشرکوں کے جھوٹے خداؤں کی طرح اللہ کو خدا نہیں مانتے، بلکہ قرآن کے حقیقی-تنہا-غالب-سب کا...خدا ﴿إِلَهُكُمْ﴾ ﴿إِلَهٌ وَاحِدٌ﴾ مان کر کہتے تھے اور ہیں۔
ورنہ
نماز۔ روزہ بھی فارسی ترجمہ ہے عربی﴿الصلاۃ﴾ ﴿الصوم﴾ کا۔ لہٰذا عربی-قرآن واحادیث میں نماز۔روزہ کا لفظ نہیں ملے گا۔

قرآن میں اللہ کے معانی»
1️⃣ تم سب کا معبود(خدا)
القرآن:
اِنَّمَاۤ اِلٰهُكُمُ اللّٰهُ الَّذِىۡ لَاۤ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَؕ وَسِعَ كُلَّ شَىۡءٍ عِلۡمًا ۞
ترجمہ:
حقیقت میں تم سب کا معبود تو بس ایک ہی اللہ ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
[سورۃ نمبر 20 طه، آیت نمبر 98]
2️⃣ تنہا خدا
حوالہ
﴿إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ﴾
(تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے)
[قرآنی حوالہ جات:- سورۃ البقرۃ:163، النساء:171، المائدۃ:73، الانعام:19، ابراھیم:52، النحل:22+51، الکھف:110، الانبیاء:108، الحج:38، فصلت:6]
3️⃣ سب پر غالب معبود(خدا)
حوالہ
القرآن:
قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا مُنۡذِرٌ ۖ وَّمَا مِنۡ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الۡوَاحِدُ الۡقَهَّارُ ۞
ترجمہ:
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ : میں تو ایک خبردار کرنے والا ہوں، اور کوئی عبادت کے لائق نہیں اس اللہ کے سوا جو ایک ہے، جو سب پر غالب ہے۔
[سورۃ نمبر 38 ص،آیت نمبر 65]
[قرآنی حوالہ جات:- سورۃ یوسف:39، الرعد:16، ابراھیم:48، الزمر:4، غافر:16]
[سورۃ النساء:171، البقرۃ:163، النحل:22، الکھف:110، الانبیاء:108، الحج:34، العنکبوت:46، الصافات:4، فصلت:6]
4️⃣حقیقی مولا-مددگار-اختیار والا۔
حوالہ
القرآن:
ثُمَّ رُدُّوۡۤا اِلَى اللّٰهِ مَوۡلٰٮهُمُ الۡحَـقِّؕ اَلَا لَهُ الۡحُكۡمُ وَهُوَ اَسۡرَعُ الۡحَاسِبِيۡنَ ۞
ترجمہ:
پھر ان سب کو اللہ کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے جو ان کا مولائے برحق ہے۔ یاد رکھو ! حکم اسی کا چلتا ہے اور وہ سب سے زیادہ جلدی حساب لینے والا ہے۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 62]
[سورۃ یونس:30]
5️⃣حقیقی رب۔
القرآن:
فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الۡحَـقُّ ۚ فَمَاذَا بَعۡدَ الۡحَـقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ۚ فَاَنّٰى تُصۡرَفُوۡنَ ۞
ترجمہ:
یہی اللہ تو تمہارا پروردگار برحق ہے۔ اور حق بات کے ظاہر ہونے کے بعد گمراہی کے سوا ہے ہی کیا؟ تو تم کہاں پھرے جاتے ہو۔
[سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 32]
یعنی سب کی تربیت کرنے اور پالنے والا خالق
6️⃣حقیقی مالک
القرآن:
فَتَعٰلَى اللّٰهُ الۡمَلِكُ الۡحَـقُّ ۚ وَلَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ يُّقۡضٰٓى اِلَيۡكَ وَحۡيُهٗۖ وَقُلْ رَّبِّ زِدۡنِىۡ عِلۡمًا ۞
ترجمہ:
تو اللہ جو سچا بادشاہ ہے عالی قدر ہے۔ اور قرآن کی وحی جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے قرآن کے (پڑھنے کے) لئے جلدی نہ کیا کرو اور دعا کرو کہ میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے۔
[سورۃ نمبر 20 طه، آیت نمبر 114]
فضائلِ سورة الإخلاص تہائی قرآن کے برابر
No comments:
Post a Comment