Wednesday, 19 January 2022

اللہ کو خدا کہنا جائز ہونے کے دلائل

علماء کے ذمہ تو بس آسان الفاظ اور دلائل سے پہنچادینا ہے، منوانا نہیں۔

اردو-فارسی لُغت(زبان) میں لفظ خدا کے معنیٰ:
[خدا: اللہ، مالک، آقا، حاکم][پروردگار]۔

اللہ کے متعدد صفاتی ناموں کیلئے لفظ خدا کا استعمال:
دلیل(1)
لفظ خدا کے معنیٰ خود-آ ۔۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔ خود-موجود ہے، تو اللہ کے نام ﴿‌الواجد﴾ یعنی وہ جو اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہیں، اس پر شاہد ہے۔
[حوالہ حدیث - جامع الترمذي:3507، سنن ابن ماجه:3861، صحيح ابن حبان:808]
نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ ہی وہ جنا گیا۔
[سورۃ الاخلاص:3]


دلیل(2)
لفظ خدا کیلئے عربی میں لفظ ﴿‌مَالِكِ﴾(یعنی جسے چاہے اپنا ملک دینے اور چھیننے والا-ہر چیز کا مالک-خصوصا قیامت کے دن کا اکیلا مالک) بھی استعمال ہوتا ہے۔
[قرآنی حوالہ جات:- سورۃ الفاتحہ:4، الفرقان:26 الانفطار:19 (آل عمران:26، فاطر:13)]


دلیل(3)
لفظ خدا کیلئے عربی میں لفظ ﴿‌رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (پروردگار سارے جہاں کا) بھی استعمال ہوتا ہے۔
[قرآنی حوالہ جات:- سورۃ الفاتحہ:1، البقرۃ:131، المائدۃ:28، الانعام:45+71+162، الاعراف:54+121+140، یونس:10، النمل:8، الصافات:182،  غافر:64-66، فصلت:9، الجاثیۃ:36, الحشر:16، التکویر:29، المطففین:6]
رب کسے کہتے ہیں؟
جو (1)زندگی اور (2)موت دیتا رہتا اور (3)کائنات کا نظام سنبھالتا رہتا ہے۔
القرآن:
(ابراھیم نے کہا:) میرا رب وہ ہے جو زندگی بھی دیتا ہے اور موت بھی، (نمرود نے سزاۓ موت والے قیدی کو رہا کرکے کہا) میں بھی زندگی دیتا ہوں اور (زندہ کو مارکر) موت دیتا ہوں، (ابراہیم نے کہا:) الله تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تم ذرا مغرب سے تو نکال کرلاؤ؟ اس پر وہ کافر مبہوت ہوکر رہ گیا۔
[سورۃ البقرۃ:258]

(4)جو سب کو تخلیق کرتا اور (5) پھر انہیں اس کے کام کرنے کا طریقہ دل میں سجھادیتا ہے کہ کیسے دودھ پینا ہے، چلنا ہے، زبان بولنی ہے وغیرہ
القرآن:
ہمارا رب وہ ہے جس نے دی ہر چیز کو اسکی شکل وصورت پھر ہدایت۔
[سورۃ طه:50]

جو (6)کھلاتا ہے بھوک میں اور (7)امن بخشتا ہے خوف سے۔
[سورۃ قریش:4]

اللہ رب ہے تمام جہانوں کا۔
[قرآنی حوالہ جات:- سورۃ المائدۃ:28، الاعراف:54، النمل:8، القصص:30، غافر:64، الحشر:16، التکویر:29]
یعنی
فرشتوں کے جہان کا، جنوں کے جہان کا، چرندوں کے جہان کا، پرندوں کے جہان کا، مچھلیوں کے جہان کا وغیرہ


دلیل(4)
لفظ خدا کیلئے عربی میں لفظ ﴿أَحْكَمُ ‌الْحَاكِمِينَ﴾(یعنی سب سے بڑا حکم وفیصلہ کرنے والا - جس کے حکم کو دوسرے حکم والے بھی نہ ٹال سکیں ۔۔۔ جیسے: ہمیں زندگی، عقل، بھوک، بیماری، بڑھاپا، موت وغیرہ دینے کے حکم کو نافذ کرنے والا ہے) بھی استعمال ہوتا ہے۔
[قرآنی حوالہ جات:- سورۃ ھود:45، التین:8]


دلیل(5)
اللہ کے ذاتی نام کیلئے لفظ خدا کا استعمال:
نزولِ قرآن سے پہلے اللہ کا لفظ خدا کیلئے بطورِ اسم "ذات" کے مستعمل تھا۔ جیساکہ شعراءِ جاہلیت کے کلام سے ظاہر ہے یعنی خدا کی تمام صفتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی تھیں، یہ کسی خاص صفت کیلئے نہیں بولا جاتا تھا۔

لفظ خدا کیلئے عربی میں لفظ ﴿‌إِلَهٌ﴾ یا ﴿‌آلِهَةً﴾ ﴿‌اَللہُ﴾ بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی معبود، عبادت وپرستش کے قابل۔

آسان سوال:
دوسری زبان میں اللہ کے صفاتی ناموں کا ترجمہ کرتے [السمیع کو سننے والا]، [البصیر کو دیکھنے والا] اور [رب کو پروردگار-پالنہار] مخالفین بھی کہنا-لکھنا جائز سمجھتے ہیں تو پھر لفظ ﴿‌إِلَهٌ﴾ یا ﴿‌آلِهَةً﴾ ﴿‌اَللہُ﴾ کا دیگر زبان میں ترجمہ کیوں ناجائز ہے؟

کیا اللہ کو صرف اللہ کہہ کر پکارنا لازم ہے؟
کہہ دو کہ : چاہے تم اللہ کو پکارو، یا رحمن کو پکارو، جس نام سے بھی (اللہ کو) پکارو گے (ایک ہی بات ہے) کیونکہ تمام بہترین نام اسی کے ہیں۔۔۔
[سورۃ الاسراء:110]
قرآن مجید میں "اللھم" (یعنی اے میرے اللہ!) کہہ کر پکارنا صرف 5 مرتبہ ثابت ہے، جبکہ انبیاء کی دعاوں میں "رب" کہہ کر پکارنا تو 40 مرتبہ سے بھی زیادہ ثابت ہے۔ تو پھر "رب" کو فارسی،اردو زبان میں "پروردگار، پالنہار"  کہنا لکھنا جائز کیوں؟


دلیل(6)
اللہ پاک کو قرآن مجید میں 10 مرتبہ(إِلَهُكُمْ یعنی تم سب کا خدا)، 11 مرتبہ﴿‌إِلَهٌ وَاحِدٌ یعنی ایک اکیلا خدا) اور 5 مرتبہ﴿‌الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ یعنی ایک-سب پر غالب فرمایا گیا ہے۔ یعنی متعدد خداؤں کا تصور جھوٹ ہے کیونکہ سب کا خالق، مالک، رب ایک ہی ہے۔
حوالہ
﴿إِلَهُكُمْ ‌إِلَهٌ ‌وَاحِدٌ
(تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے)
[قرآنی حوالہ جات:- سورۃ البقرۃ:163، النساء:171، المائدۃ:73، الانعام:19، ابراھیم:52، النحل:22+51، الکھف:110، الانبیاء:108، الحج:38، فصلت:6]

﴿‌الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
(ایک-سب پر غالب)
[قرآنی حوالہ جات:- سورۃ یوسف:39، الرعد:16، ابراھیم:48، الزمر:4، غافر:16]


   
"رحمٰن" لفظ کو "اَلْ" معرفہ سے "الرحمٰن" کہا جاتا ہے، اسی طرح ﴿‌إِلَهٌ﴾ کو (اَلْ) معرفہ سے (اللہ) یعنی حقیقی إِلَٰه کہا جاتا ہے۔
﴿‌اَلْ﴾ + ﴿‌إِلَهٌ﴾ = (اَللہُ)



إِلَه (خدا-معبود) کسے کہتے ہیں؟
إِلَهٌ‌ وہ ہستی ہے جسے (1)غائبانہ مدد کیلئے پکارا جائے اور (2)وہ تکلیف دور کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔
القرآن:
بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بےقرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے، اور تکلیف دور کردیتا ہے اور جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) اللہ کے ساتھ کوئی اور إِلَهٌ‌ ہے؟ نہیں ! بلکہ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔
[سورۃ النمل، آیت نمبر 62]
نوٹ:
(1)دعا کی قبولیت کیلئے بےقرار یعنی تڑپتے دل سے پکارنا شرط ہے، چاہے پکارنے والا مسلمان نہ بھی ہو۔

(2)جب اللہ کے علاوہ کوئی  جو شخص کسی مخلوق کو مدد کیلئے غائبانہ پکارے تو وہ اپنے اس عمل سے اس مخلوق کو خدا مان رہا ہے کیونکہ وہ اس مخلوق کیلئے خدائی والی عقیدت رکھتا ہے کہ وہ پکار سنتا ہے اور تکلیف دور کرنے پر قادر ہے، اور یہ الله کی خاص خوبیوں میں اس مخلوق کو شریک partner بنانا یعنی شرک کرنا ہے۔

(3)الله پاک کا ہمیں زمین میں "خلیفہ" بنانے کی خبر دینے کا مقصد اس خلافت کا انعام دینے والے الله کو یاد رکھنا اور خلافت کے عہدے کی ذمہ داری نبھانا ہے یعنی خود کو زمین میں الله کا نائب سمجھتے بےقرار لوگوں کی مدد کرے اور تکالیف دور کرے۔

(4)کیا ایسی خوبیوں والے الله کے علاؤہ کوئی اِلٰه ثابت کرسکتے ہو؟ جب نہیں کرسکتے تو صرف الله ہی کو اِلٰه مانو۔

(5)یہ نصیحت یعنی خیرخواہی یعنی بھلائی والی بات سمجھنے والے تم میں بہت ہی کم ہیں۔
لہٰذا
اس نصیحت کو زیادہ سے زیادہ یاد رکھنا اور دوسروں تک پہنچانا چاہئے۔ کیونکہ دین نام ہی نصیحت یعنی خیر پہنچانے کا ہے۔





















دلیل(7)مومنین کی راہ کی اتباع ہے۔
[حوالہ سورۃ النساء:115]
آج تک کے وہ سارے ائمہ، اولیاء اور علماء نے خدا کہا یا لکھا، ان سب کے ایمان پر شبہ اور ان کی گمراہی کا وسوسہ پیدا کرتا ہے۔



دلیل(8)تحریرات میں اللہ نام کی بے حرمتی سے حفاظت:
اللہ پاک کے لکھے ہوئے نام کی عام تحریرات میں جو بے احترامی عام ہےوہ کسی سے دھکی چھپی نہیں، لہذا خصوصا تحریرات میں خدا لفظ لکھنا زیادہ مناسب ہے جسے عام کرنا چاہئیے۔
اللہ نام کے بجائے خدا لفظ میں بناوٹی خداؤں کا تصور اور معنیٰ شامل ہوسکتے ہیں، لہذا لفظ خدا سے لکھی تحریرات کی بےاحترامی ایسی متصور نہیں۔


اللہ کو خدا کہنا ایسے ہی جائز ہے جیسے ہم نماز، درود، پیغمبر، پیامبر، فرشتے، دوزخ، بہشت، وغیرہ یہ کلمات کہتے ہیں، یہ سارے کے سارے کلمات غیر عربی ہیں۔ قرآن وحدیث میں کہیں بھی موجود نہیں ہیں۔ ایسے ہی خدا کا لفظ قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے کیونکہ یہ ایک غیر عربی کلمہ ہے۔ فارسی اور اردو میں ہم اللہ کو خدا یا پروردگار کہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے لیے  لفظ  خدا کا استعمال جائز ہے اور صدیوں سے اکابر دین اس کو استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور کبھی کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔ اب کچھ لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کے ذہن پر عجمیت کا وہم سوار ہے۔ انہیں بالکل سیدھی سادی چیزوں میں عجمی سازش نظر آتی ہے، یہ ذہن غلام احمد پرویز اور اس کے ہمنواؤں نے پیدا کیا۔ اور بہت سے پڑھے لکھے شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا شکار ہوگئے۔

عربی میں لفظ رب، مالک اور صاحب کے معنیٰ میں ہے۔ اسی کا ترجمہ فارسی میں لفظ خدا کے ساتھ کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس طرح لفظ رب  کا اطلاق بغیر اضافت کے غیر اللہ پر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح لفظ خدا جب بھی مطلق بولا جائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ کسی دوسرے کو خدا کہنا جائز نہیں۔

غیاث اللغات میں ہے:
خدا بالضم بمعنی مالک و صاحب۔ چوں لفظ  خدا مطلق باشدبر غیر ذاتِ باری تعالیٰ اطلاق نکند، مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود، چوں کہ خدا، ودہ خدا۔

ٹھیک یہی مفہوم اور یہی استعمال عربی میں لفظ  رب کا ہے۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ اللہ تو حق تعالیٰ شانہ کا ذاتی نام ہے۔ جس کا نہ کوئی ترجمہ ہوسکتاہے نہ کیا جاتاہے۔ دوسرے اسمائے الہٰیہ صفاتی نام ہیں جن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہوسکتاہے اور ہوتا ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے کسی بابرکت نام کا ترجمہ غیر عربی میں کردیا جائے۔ اور اہل زبان اس کو استعمال کرنے لگیں تو اس کے جائز نہ ہونے اور اس کے استعمال کے ممنوع ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
اور جب لفظ  خدا صاحب اور مالک کے معنی میں ہے۔ اور لفظ  رب کے مفہوم کی ترجمانی کرتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ اس میں مجوسیت یا عجمیت کا کیا دخل ہوا۔ کیا انگریزی میں لفظ رب کا کوئی ترجمہ نہیں کیا جائے گا؟ اور کیا اس ترجمہ کا استعمال یہودیت یا نصرانیت بن جائے گا؟ افسوس ہے کہ لوگ اپنی ناقص معلومات کے بل بوتے پر خود رائی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کی پوری تاریخ سیاہ نظر آنے لگتی ہے۔ اور وہ چودہ صدیوں کے تمام اکابر کو گمراہ یا کم سے کم فریب خوردہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہی خودرائی انہیں جہنم کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھیں۔
فقط واللہ اعلم




علامہ ابو الفضل محمود آلوسی البغدادی (متوفی 1270ھ) لکھتے ہیں کہ:

اس مقام پرخلاصہ کلام یہ ہے کہ علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ باری تعالیٰ کے بارے میں ان اسماء وصفات کا اطلاق (مطلق استعمال) جائز ہے بشرطیکہ ان کے بارے میں شارع سے (شریعت میں) اجازت وارد ہے اور یہ نام ممنوع ہیں اگر ان کی ممانعت وارد (یعنی ثابت) ہے۔

جن ناموں کے بارے میں نہ اجازت ہے اور نہ منع، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بارے میں ان کے جواز اطلاق میں اختلاف ہے اور اللہ ان ناموں کے مفہوم کے ساتھ موصوف ہے۔

تمام زبانوں میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو نام لیے جاتے ہیں، ان کے جواز اطلاق میں کسی کا بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (اگر اللہ کے بارے میں ایسا نام لیا جائے جو ان زبانوں میں نہیں ہے) اور اس نام کے اطلاق سے اللہ کی مدح ہوئی ہے۔

نقص (خامی) کا وہم نہیں ہوتا تو جمہور اہل حق نے خطرے کے پیش نظر اسے مطلقاً منع کر دیا ہے جبکہ معتزلہ اسے مطلقاً جائز سمجھتے ہیں۔

قاضی ابوبکر بھی اسی طر ف مائل ہیں (کیونکہ الٰہ ورب کے بارے میں) ’’خدا‘‘ اور (ترکی زبان میں) ’’تکری‘‘ کا لفظ بغیر انکار کے مطلقاً شائع (ومشہور) ہے پس یہ اجماع ہے (کہ خدا کا لفظ جائز ہے)اور رد کیا گیا (یا وارد ہوا کہ) بے شک اگر اجماع ثابت ہوجائے تو شرعی اجازت کے لئے کافی ہے۔

[روح المعانی ج 5 جزء 9 ص 121 تحت آیۃ: 180من سورۃ الاعراف]

اس طویل عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے لئے خدا کا لفظ بالاجماع جائز ہے۔

اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ شاہ ولی اللہ الدہلوی (متوفی 1176ھ) نے قرآن مجید کے فارسی ترجمے میں جابجا، بڑی کثرت سے خدا کا لفظ لکھا ہے مثلاً دیکھئے ص5 (مطبوعہ:تاج کمپنی لمیٹڈ)

سعدی شیرازی (متوفی 691ھ) نے بھی ’’خدا‘‘ اور ’’خداوند‘‘ کا لفظ کثرت سے استعمال کیا ہے۔ مثلاً دیکھئے بوستان (ص 10)

مشہور اہل حدیث عالم فاخر الٰہ آبادی (متوفی 1164ھ) نے فارسی زبان میں ایک بہترین رسالہ لکھا ہے جس کا نام ’’رسالہ نجاتیہ‘‘ ہے۔ اس رسالے میں انھوں نے ’’خدا‘‘ کا لفظ لکھا ہے مثلاً: دیکھئے (ص 42) اسی طرح اور بھی بہت سے حوالے ہیں۔ یہ کتابیں علماء وعوام میں مشہور ومعروف رہی ہیں۔

کسی ایک مسلمان نے بھی یہ نہیں کہا کہ’’خدا‘‘ کا لفظ ناجائز یا حرام یا شرک ہے۔

چودہویں پندرہویں صدی میں بعض لوگوں کا لفظ ’’خدا‘‘ کی مخالفت کرنا اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔






واضح رہے کہ کسی بھی زبان سے تعلق رکھنے والا شخص اگر ایسا لفظ بولے جو معبود حقیقی کی نشاندہی کرتا ہے اس لفظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارنا درست ہے جیسے: خدا، ایزد، یزداں، گوڈ وغیرہ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات واجب الوجود ہے اور لفظ خدا واجب الوجود ہی کی ترجمانی کرتا ہے، کیونکہ لفظ خدا دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ایک ’’خود‘‘ دوسرا ’’آ‘‘ تو معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود واجب ہے یعنی بغیر کسی کی احتیاج کے ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ خدا کا استعمال بلاکراہت جائز ہے، نیز اسی طرح لفظ گوڈ سے بھی صاحب لسان کا اللہ ہی کو پکارنا ہوتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، منع وہ لفظ ہے جو کسی قوم کا شعار بن چکا ہو اور اس سے اس قوم کی پہچان ہو، جیسے لفظ بھگوان کہ اگرچہ اس سے صاحب لسان کا اللہ ہی کو پکارنا ہو، لیکن ان کا یہ شعار بن چکا ہے، لہٰذا اس لفظ سے پکارنے سے احتراز کیا جائے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں ہے:
 ’’الاسم العاشر قولنا واجب الوجود لذاتہ…وقولہم بالفارسیۃ خدای معناہ أنہ واجب الوجود لذاتہ لأن قولنا خدای مرکبۃ من لفظتین فی الفارسیۃ، أحدہما ’’خود‘‘ ومعناہ ذات الشیئ ونفسہ وحقیقتہ والثانیۃ قولنا ’’آی‘‘ معناہ جاء ، فقولنا خدای معناہ أنہ بنفسہ جاء وہو إشارۃ إلی أنہ بنفسہ وذاتہ جاء إلی الوجود لابغیرہ وعلی ہذا الوجہ فیصیر تفسیر قولہم خدای أنہ لذاتہ کان موجودا۔‘‘
[تفسیر کبیر،ص:۱۰۰،۱۰۱ الباب الثالث من ہذا الکتاب فی مباحث الاسم]

شیخ عبد الوہاب شعرانی اپنی کتاب’’الیواقیت والجواہر‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’فإن قلت: فہل یعم تعظیم الأسماء جمیع الألفاظ الدائرۃ علی ألسنۃ الخلق علٰی اختلاف طبقاتہم وألسنتہم؟ فالجواب نعم، ہی معطمۃ فی کل لغۃ مرجعہا إلی ذات واحدۃ فان اسم اللّٰہ لایعرف العرب غیرہ وہو بلسان فارسی خدا، أی بلسان الحبشۃ ’’واق‘‘ وبلسان الفرنجی ’’کریطر دروا‘‘ بحث علی ذلک فی سائر الألسن تجد ذلک اسم الإلٰہی معظما فی کل لسان من حیث لایدل علیہ‘‘۔
 [الیواقیت والجواہر،ص:۷۸،ط:مصری]

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
’’مگر اس صورت میں ان ہی ناموں کو منع کیا جاسکتا ہے جو غیر قوم کا شعار ہیں اور جو شعار نہیں ان کو منع نہیں جاسکتا، جیسے خدا، ایزد، یزداں کہ یہ نام کسی مخصوص غیر مسلم کے شعار نہیں، بلکہ بکثرت اہل اسلام کی تصانیف میں موجود ہیں۔
[فتاویٰ محمودیہ،ج:۱،ص:۲۷۱،ط: ادارۃ الفاروق]

نیز لفظ گاڈ سے کسی شخص کے بے ادبی کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں فرمایا:
’’اپنے محاورات اور بول چال میں اللہ تعالیٰ کا ایسا نام لینا اولیٰ اور مناسب ہے جو قرآن شریف اور حدیث شریف سے ثابت ہو، تاہم ہر زبان میں اللہ تعالیٰ کے نام ہیں ان کا بھی ادب واحترام لازم ہے۔ یہ بات جانتے ہوئے کہ فلاں لفظ اللہ تعالیٰ کا نام ہے اس کی بے ادبی کرنے کا حق نہیں، اس سے پورا پرہیز لازم ہے۔‘‘
[فتاویٰ محمودیہ،ج:۱،ص:۲۶۷،۲۶۸،ط:ادارۃ الفاروق]

اور حضرت مفتی شفیع صاحب کی اس تفسیر سے مراد لفظ خدا وغیرہ کا اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرنے کی نفی کرنا نہیں، بلکہ جو اسماء اللہ رب العزت کے توقیفی ہیں اس لفظ کو چھوڑ کر اسی عربی زبان میں اس کا ہم معنی مترادف لفظ استعمال کرنا درست نہیں، جیسے کہ اللہ رب العزت کی ایک صفت کریم ہے اس کو چھوڑ کر سخی کہنا یا شافی کے بجائے طبیب کہنا یا نور کے بجائے ابیض کہنا درست نہیں، جیساکہ امداد الفتاویٰ کے گزشتہ حوالے کی عبارت سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے اور حضرت مولانا مفتی شفیع نے خود اس لفظ ’’خدا ‘‘کو صفحہ:۱۳۳ پر استعمال کیا ہے۔ لہذا سائل اس عبارت کے ظاہر سے جو سمجھے ہیں وہ درست نہیں۔ ۲- جی ہاں لفظ اللہ حق سبحانہ وتعالیٰ کا اسم ذات ہے جس کا ایک معنی ’’وہ ذات کہ جو مستحق ہے اس بات کی کہ اس کی عبادت کی جائے‘‘ اور ایک معنی ’’واجب الوجود ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا‘‘۔ چنانچہ تفسیر القرطبی میں ہے:
’’فاللّٰہ اسم للموجود الحق الجامع لصفات الإلٰہیۃ المنعوت بنعوت الربوبیۃ المنفرد بالوجود الحقیقی لا إلہ إلا ہو سبحانہ وقیل: معناہ الذی یستحق أن یعبد ، وقیل: معناہ واجب الوجود الذی لم یزل ولایزال والمعنی واحد‘‘۔
[تفسیر القرطبی،ج:۱، ص:۱۰۲،ط:دار الکتب المصریہ، القاہرۃ]
تفسیر البیضاوی میں ہے: ’’وقیل علم لذاتہ المنصوصۃ لأنہ یوصف ولایوصف بہٖ‘‘۔
[تفسیر البیضاوی، ج:۱، ص:۱۳]

اور بہتر یہ ہے کہ لفظ اللہ کا ترجمہ لفظ اللہ سے ہی کیا جائے، لیکن تفہیم کی غرض سے دوسری زبان میں اس کا ایسے الفاظ سے ترجمہ کرنا جس سے حق سبحانہ وتعالیٰ کی ذات کا تعارف ہو درست ہے۔



الله لفظ کے معانی:
قرآنی عربی کے ماہر امام الراغب الأصفهاني(م502ھ) فرماتے ہیں:

(1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں route-word ﴿اِلٰه...یعنی خدا/معبود﴾ ہے، ہمزہ (تخفیفاً) حذف کردیا گیا ہے، اور اس پر الف لام (تعریف) لاکر الله تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے، ﴿جیسے اَلْ+اِلٰه=اَلله...یعنی حقیقی خدا﴾ اسی تخصیص کی بناء پر قرآن حکیم میں فرمایا :۔
{هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا}
*کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے۔*
[سورة مریم:65]
اِلٰه(خدا) کا لفظ عام ہے، اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے (خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل...یعنی بناوٹی.مٹنے والا)۔
اور وہ ﴿مشرکین﴾ سورج کو ﴿الاھۃ﴾ کہہ کر پکارتے تھے، کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا۔ اِلٰہ(خدا) کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ ﴿عربی verb forms کے باب فتح سے﴾ اَلَہَ یَاْلَہٗ اَلْھًا فَھُوَ اٰلِہٌ سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ *پرستش کرنا کے ہیں* اس بنا پر اِلٰہ کے معنیٰ ہوں گے ﴿پرستش کے لائق﴾معبود۔

(2)اور بعض ﴿عربی کے ماہرین﴾ نے کہا ہے کہ یہ اَلِہَ (باب سَمِعَ کے وزن پر ہے) بمعنیٰ *"تحَیُّر"* سے مشتق ہے، اور الله تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک ﴿مکمل/پورا سمجھنے) سے چونکہ عقلیں مُتحیّر اور درماندہ ہیں، اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی نے فرمایا ہے:
*كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات۔*
اس لئے کہ انسان جس قدر صفاتِ الٰہیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس بناء پر پیغمبر ﷺ نے فرمایا ہے:
*«تَفَكَّرُوا فِي خَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَفَكَّرُوا فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»*
ترجمہ:
*اللہ تعالیٰ کی نعمتوں (عظمتوں) میں غور و فکر کیا کرو، اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو۔*
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:1788]

(3) بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل ﴿ولاہ﴾ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر ﴿والھا﴾ بنالیا ہے اور وَلِہَ (باب سَمِعَ) کے معنیٰ: *"عشق و محبت میں وارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں"* اور الله تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والِہانہ محبت ہے، اس لئے اللہ کہا جاتا ہے، اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے، جیسے: جمادات اور حیوانات، اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے، جیسے: بعض انسان، اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے: ذات الله تعالیٰ تمام اشیاء کو محبوب ہے۔
اور آیت کریمہ:
*{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ }*
ترجمہ:
*مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔*
[سورة الإسراء 44]
بھی اسی معنیٰ پر دلالت کرتی ہے۔

(3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ﴿لاہ یلوہ لیاھا﴾ سے ہے، جس کے معنیٰ: *"پردہ میں چھپ جانا"* کے ہیں اور الله تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب (پوشیدہ) ہے، اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے۔
اسی معنیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن حکیم میں فرمایا :۔
{ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ }
ترجمہ:
وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے۔
[سورة الأَنعام 103]
نیز آیت کریمہ:
{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ }
اور وہ ظاہر بھی ہے (اپنی قدرتوں سے) اور باطن بھی ہے (اپنی ذات کے لحاظ سے)۔
[سورة الحدید 3]
اس میں ﴿الباطن﴾ کہہ کر بھی اسی معنیٰ کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

اِلٰه یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے، اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے، لیکن اہلِ عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا، اس لئے ﴿اٰلِہَۃٌ﴾ جمع کا صیغہ استعمال کرتے تھے۔
قرآن میں ہے:
{ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا }
*کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں۔*
[سورة الأنبیاء 43]
اور (فرعون سے اسکی قوم کے سرداروں نے) کہا:
{وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ}
*اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں۔*
[سورة الأَعراف:127]

ایک قراءت میں ﴿واِلاھتک﴾ ہے۔
[القرطبي:7/ 262]
جس کے معنیٰ:- تیری *"عبادت"* کے ہیں، ﴿ولاہ انت﴾ یہ اصل میں للہ انت ہے، ایک لام کو تخفیف کے لئے حذف کردیا گیا ہے۔

اَللّٰھُمَّ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنیٰ:- *"یَا اَللہ"* کے ہیں، اور اس میں میم مُشدّد (حرف ندا) یَا کے عوض میں آیا ہے۔
[الغريبين للهروي :1/ 79]

اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یَا اللہ امنا بخیر (یعنی اے اللہ! تو خیر کے ساتھ ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرتِ استعمال کی بناء پر ) ۔۔۔ 
[امام الفراء، معاني القرآن:1/ 203]

﴿حی ھلا﴾ کی طرح مرکب کرکے اَللّٰھُمَّ بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے: ھلم )
حوالہ
[امام الراغب الأصفهاني، المفردات في غريب القرآن: صفحہ83]

اللہ کے معانی»

(1)اکیلا معبود(خدا)
حوالہ
[سورۃ النساء:171، البقرۃ:163، النحل:22، الکھف:110، الانبیاء:108، الحج:34، العنکبوت:46، الصافات:4، فصلت:6]



(2)حقیقی مولا۔۔۔اختیار والا۔
حوالہ
[سورۃ الانعام:72، یونس:30]

حقیقی رب۔۔۔یعنی تربیت کرنے اور پالنے والا خالق۔
[یونس:32]

حقیقی مالک
[طٰہٰ:114]



(3)سب کا معبود(خدا)
[طٰہٰ:98]



No comments:

Post a Comment