Friday, 13 September 2013

توہین رسالت کا موثر حل سنتوں کو زندہ کرنا



جرم توہین رسالت ۔۔۔ چند پہلو
حضور اقدس ﷺ کی ذات اقدس میں اللہ جل شانہ نے وہ تمام انسانی بلند اوصاف واخلاق جمع فرمادئیے تھے جن پر ”شرف انسانی“ کی بنیاد قائم ہے اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے﴿وانک لعلیٰ خلق عظیم﴾ کے بلیغ الفاظ ارشاد فرمائے ہیں، ایک مسلمان کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، حکم، آپ کی سنت و سیرت اور زندگی گزارنے کی ایک ایک ادا، اس طرح قابل تقلید اور محبوب ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی طرف اس کا اسلام اور ایمان نگاہ اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتا، حضورﷺ ہی اس کے لیے عقیدتوں اور محبتوں کا چشمہٴ خیر ہیں اور ان ہی کے نام سے اس کی آبرو قائم ہے، وہ بجا طور پر یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ”آبروئے ماز نام مصطفیٰ است“ … بلکہ اس کی عقیدت اور عقیدے کا معیار یہ ہوتا ہے کہ : 
        محمد عربی کہ آبروئے ہر دوسرا است
        کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او


اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضورﷺ کی سیرت، کسی خاص ملت کا نہیں بلکہ وہ سرمایہ انسانیت ہے، خود غیر مسلم مورخین نے جگہ جگہ اس کا اعتراف و اقرار کیا ہے، ان مورخین اور مصنفین کی ایک طویل فہرست ہے، یہاں صرف مشہور فرانسیسی مورخ لامارتاں کی تحریر کا ایک اقتباس درج کیا جاتا ہے، وہ اپنی مشہور کتاب ”تاریخ ترکیہ“ میں لکھتا ہے:
”دنیا میں کسی انسان نے محمد ﷺ کے نصب العین سے بلند نصب العین اپنے سامنے نہیں رکھا۔ یہ عظیم الشان نصب العین کیا تھا، خدا اور بندے کے درمیان توہمات کے پردے اٹھا دینا، خدا کو انسان کے قلب میں رچا دینا، انسان کو خدائی صفات کے رنگ میں رنگ دینا اور صد ہا باطل خداؤں کے بجائے خدا کا منزہ اور مقدس تصور پیش کرنا۔ آج تک کبھی کسی انسان نے اتنے بڑے کام کا بیڑا نہیں اٹھایا، جس کے وسائل اور ذرائع اس قدر محدود ہوں اور مقصد اتنا دشوار اور اس کی قدر سے باہر ہو… نصب العین کی بلندی، وسائل کی کمی اور پھر نتائج ایسے درخشاں حاصل کرنا اگر یہ کسی انسان کی غیر معمولی قابلیت کا معیار نہیں تو کون ہے، جو اس میدان میں محمد ﷺ کے مقابلہ میں کسی دوسرے انسان کو پیش کرنے کی جرات کرسکتا ہے؟ دنیا کے اور بڑے بڑے انسانوں نے صرف اسلحہ، قانون یا سلطنتیں پیدا کیں، وہ زیادہ سے زیادہ مادی قوتوں کی تخلیق کرسکے جو اکثر اوقات خود ان کی آنکھوں کے سامنے راکھ کا ڈھیر ہوکر رہ گئیں۔ لیکن اس انسان نے صرف جیوش و عساکر، مجالس قانون ساز، وسیع سلطنتوں، قوموں اور خاندانوں کو ہی حرکت نہیں دی بلکہ ان کروڑوں انسانوں کے قلوب کو بھی، جو اس زمانہ کی آباد دنیا کے ایک تہائی حصہ میں بستے ہیں اور اس سے بھی زیادہ اس شخصیت نے قربان گاہوں، دیوتاؤں، مذاہب ومناسک، تصورات اور معتقدات بلکہ روحوں تک کو ہلا دیا … اس نے ایسی قومیت کی بنیاد رکھی، جس نے دنیا کی مختلف نسلوں اور زبانوں کے امتزاج سے ایک امت واحدہ پیدا کردی۔ یہ لافانی امت اور باطل خداؤں سے سرکشی اور تنفر اور ایک خدائے واحد کے لیے والہانہ عشق … اس نے تمام باطل خداؤں کی عبادت گاہوں کو ڈھا دیا اور ایک تہائی دنیا میں آگ لگا دی۔ …”اس کی پاک زندگی ، اس کی توہم پرستی کے خلاف جنگ، مکی دور میں طرح طرح کے مصائب کا حیرت انگیز استقلال اور صبر سے مقابلہ کرنا، پھر اس کی ہجرت اور دعوت رشد وہدایت، خدا کی راہ میں غیر منقطع جہاد، اپنے مقصد کی کامیابی پر یقین محکم اور نامساعد حالات میں اس کی مافوق البشر جمعیت خاطر، فتح و کامرانی میں تحمل و عفو، کسی سلطنت سازی کے لیے نہیں، بلکہ خالص خدائی مقاصد کی کامیابی کے واسطے۔ اس کی شبانہ روز نمازیں، دعائیں، اپنے معبود سے راز و نیاز کی باتیں، اس کی حیات، اس کی رحلت اور بعد وفات اس کی مقبولیت، یہ تمام حقائق کس قسم کی سیرت کی گواہی دیتے ہیں۔ عظیم مفکر ، بلند پایہ خطیب، پیغامبر، مقنن، سپہ سالار، نہ صرف اجسام بلکہ اذہان و قلوب پر غلبہ پانے والا، صحیح نظریہ حیات کو علی وجہ البصیرت قائم کرنے والا، بہت سی سلطنتیں اور ان سب پر آسمانی بادشاہی کا بانی … یہ ہیں محمد ﷺ… ان تمام معیاروں کو اپنے ساتھ لاؤ، جس سے انسان کی عظمت اور بلندی کو ناپا اور پرکھا جاسکتاہے، اس کے بعد بتاؤ کہ کیا دنیا میں اس سے بزرگ تر اور کوئی انسان کبھی ہوا ہے“؟
(تاریخ ترکیہ جلد اول، صفحہ: 276)







توہین رسالت کے مرتکب کے لیے توبہ کی گنجائش

توہین رسالت کے سلسلے میں مسلمان کا حکم

یہ مسئلہ تو اتفاقی ہے کہ اگر کوئی مسلمان شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اور توہین رسالت کا مرتکب ہو جائے تو اس سے وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا اور جرم ثابت ہونے پر اس کو قتل کیا جائے گا، لیکن قتل کی یہ سزا حکومت وقت دے گی، عوام کو اس کا اختیار حاصل نہیں۔ یہ شق اجماعی ہے اور اس کے دلائل نہایت واضح ہیں اور خود یہ عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں کئی ایسے بدبختوں کو موت کی سزا دی ہے جن کے قصے کتب حدیث اور سیرت میں مشہور ہیں۔

۱۔ عن علی رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من سب نبیا قتل ومن سب اصحابہ جلد (الصارم المسلول، ص ۹۲)
۲۔ فی اکفار الملحدین للعلامۃ الکاشمیری رحمہ اللہ تعالی: فی کتاب الخراج: اجمع المسلمون علی ان شاتمہ صلی اللہ علیہ وسلم کافر ومن شک فی عذابہ وکفرہ کفر ’’شفا‘‘ (ص ۵۴)

اور اس کا یہ کفر ’’ارتداد‘‘ کے حکم میں ہوگا۔

۳۔ فی رسائل ابن عابدین: الساب المسلم مرتد قطعا الخ (ص ۳۱۹)
۴۔ وفیہا: من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم او ابغضہ کان ذلک منہ ردۃ الخ (ص ۳۲۵)
۵۔ وفی الدرالمختار : حکمہ حکم المرتد الخ ( ۴/۲۳۴)
۶۔ وفی فتح الباری: ومن طریق الولید بن مسلم عن الاوزاعی ومالک فی المسلم ھی ردۃ الخ وغیر ذلک من الکتب الفقہیۃ۔

اور مرتد اگر مرد ہو اور وہ سچی توبہ نہ کرے تو اس کی سزا بھی بحکم نصوص قطعی قتل ہی ہے۔ اس سے بھی معلو م ہوتا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ 

اس سلسلہ میں ذمی کا حکم

توہین رسالت کا مذکورہ حکم مسلمان کے بارے میں اجماعی ہے، البتہ ذمی کے بارے میں معمولی سا اختلاف ہے اور توہین رسالت کا مسئلہ زیادہ تر چونکہ غیر مسلموں کی طرف سے پیش آتا ہے، اس لیے اس کا خلاصہ ’’الصارم المسلول‘‘ سے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

(۱) امام مالک،اہل مدینہ، امام احمد بن حنبل، فقہاء حدیث، خود امام شافعیؒ کے نزدیک ذمی کو بھی مسلمان کی طرح توہین رسالت کی وجہ سے قتل کیا جائے گا۔

(۲) امام شافعیؒ کے اصحاب کے اس میں مختلف اقوال ہیں۔ جہاں تک امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب کا مذہب ہے تووہ درج ذیل عبارات سے واضح ہے او ر وہ یہ کہ توہین رسالت کا مرتکب اگر ذمی ہے تو پہلی دفعہ میں اس کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ امام اس پر مناسب تعزیر جاری کرے گا۔ البتہ اگر وہ اس جرم کا ارتکاب مکرر کرے تو اس صورت میں اس کو قتل کیا جائے گا۔ عربی عبارات درج ذیل ہیں:

۷۔ وتحریر القول فیہ ان الساب ان کا ن مسلما فانہ یکفر ویقتل بغیر خلاف وھو مذہب الائمۃ الاربعۃ وغیرہم وقد تقدم ممن حکی الاجماع علی ذلک اسحاق بن راہویہ وغیرہ، وان کان ذمیا فانہ یقتل ایضاً فی مذہب مالک واھل المدینۃ وسیاتی حکایۃ الفاظہم، وھو مذہب احمد وفقہاء الحدیث، واما الشافعی فالمنصوص عنہ نفسہ ان عہدہ ینتقض بسب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وانہ یقتل ہکذا حکاہ ابن المنذر والخطابی وغیرہما۔
واما ابوحنیفۃ واصحابہ فقالوا: لا ینتقض العہد بالسب ولا یقتل الذمی بذلک لکن یعزر علی اظہارہ ذلک کما یعزر علی اظہار المنکرات التی لیس لہم فعلہا من اظہار اصواتہم بکتابہم ونحو ذلک وحکاہ الطحاوی عن الثوری ومن اصولہم ان مالا قتل فیہ عندہم مثل القتل بالمثقل والجماع فی غیر القبل اذا تکرر فللام ان یقتل ...... لہذا افتی کثرہم بقتل من اکثر من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اہل الذمۃ وان اسلم بعد اخذہ، وقالوا: یقتل سیاسۃ الخ (ص۳ تا ۱۱)

مسلمان مرتکب توہین کی توبہ کا حکم

اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب شخص کی توبہ قابل قبول ہے یا نہیں او راس توبہ سے اس کے قتل کی سزا معاف ہو جائے گی یا نہیں؟ اگر قابل قبول ہے تو کب؟ اور توبہ کی نوعیت کیا ہو گی؟ اس کو ’’استتبابہ‘‘ کہتے ہیں۔

اس میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف اس بات پر مبنی ہے کہ اس شخص کا قتل ’’حداً‘‘ ہے یا ’’ردۃ‘‘ ہے، چنانچہ جو حضرات کہتے ہیں اس کا قتل ردۃً ہے، وہ استتابہ کے قائل ہیں او رجو حضرات کہتے ہیں کہ اس کا قتل حداً ہے، ان کے نزدیک اس میں عفو کی کوئی صورت نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ شخص سچی توبہ کرے تو توبہ کرنے سے اس کا آخرت کا معاملہ سدھر جائے گا، البتہ دنیا میں اس کی سزائے قتل ساقط نہیں ہوگی، خواہ گرفتاری سے قبل ہو یا گرفتاری کے بعد ہو، کیوں کہ حد ثابت ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی اس کو معاف کر سکتا ہے، چنانچہ حضرت ا بن مسعودؓ سے یہی مروی ہے:

۸۔ لا ینبغی لوال ان یوتی بحد الا اقامہ (مصنف عبدالرزاق وغیرہ :۷/۳۷۰)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی صراحۃً منقول ہے:

۹۔ لا عفو فی الحدود عن شئ منہابعد ان تبلغ الامام 
۱۰۔ فی اکفار الملحدین : فی قبول التوبۃ فی احکام الدنیا اختلاف وتقبل فیما بینہ وبین اللہ تعالیٰ الخ (ص ۵۴)
۱۱۔ فی رسائل ابن عابدین: وممن قال ذلک مالک بن انس واللیث واحمد واسحاق وھو مقتضی قول ابی بکر رضی اللہ عنہ ولا تقبل توبتہ عند ھولاء وبمثلہ قال ابوحنیفۃ واصحابہ والثوری واھل الکوفۃ والاوزاعی فی المسلم لکنہم قالوا: ھی ردۃ الخ 
۱۲۔ وفیہا : وقال فی محل آخر قال ابوحنیفۃ واصحابہ: من برئ من محمد اوکذب بہ فھو مرتد حلال الدم الا ان یرجع الخ 
۱۳۔ وفیہا : وبعد فاعلم ان مشہور مذہب مالک واصحابہ وقول السلف وجمہور العلماء قتلہ حداً لا کفراً ان اظہر التوبۃ منہ، ولہذا لا تقبل توبتہ ولا تنفعہ استقالتہ وحکمہ حکم الزندیق، سواء کانت توبتہ بعد القدرۃ علیہ والشہادۃ علی قولہ او جاء تائباً من قبل نفسہ لانہ حد وجب لاتسقطہ التوبۃ کسائر الحدود، قال القابسی: اذا اقر بالسب وتاب منہ واظہر التوبۃ قتل بالسب لانہ ھو حد، وقال محمد بن ابی زید مثلہ واما مابینہ وبین اللہ تعالیٰ فتوبتہ تنفعہ ، وقال ابن سحنون: من شتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الموحدین ثم تاب لم تزل توبتہ عنہ القتل۔
۱۴۔ وفیہا بعد التفصیل الطویل: اقول: فقد تحرر من ذلک بشہادۃ ھولاء العدول الثقات الموتمین ان مذہب ابی حنیفۃ قبول التوبۃ کمذہب الشافعی، وفی الصارم المسلول لشیخ الاسلام ابن تیمیہ قال: وکذلک ذکر جماعۃ آخرون من اصحابنا انہ یقتل ساب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا تقبل توبتہ سواء کان مسلما او کافرا وعامۃ ھولاء لما ذکروا المسئلۃ قالوا: خلافاً لابی حنیفۃ والشافعی، وقولہما ای ابی حنیفۃ والشافعی: ان کان مسلماً یستتاب، فان تاب والاقتل کالمرتد وان کان ذمیا ..... الخ 
۱۵۔ وفیہا: وقال ابویوسفؒ وایما رجل مسلم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او کذبہ او عابہ او تنقصہ فقد کفر باللہ تعالیٰ وبانت منہ امراتہ فان تاب والا قتل وکذلک المراۃ الا ان اباحنیفۃ قال: لا تقتل المراۃ علی الاسلام انتہیٰ بلفظہ وحروفہ الخ (ماخوذۃ من رسالۃ تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام المتضمنۃ لرسائل ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ)
۱۶۔ وفی الشرح الصغیر للددیر: (وقتل الزندیق) بعد الاطلاع علیہ بلااستتابۃ وھو من اسر الکفر واظہر الاسلام وکان یسمٰی فی زمن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم منافقاً (بلا قبول توبۃ) من حیث قتلہ، ولا بدمنہ من توبتہ لکن ان تاب قتل حداً والا کفراً ( الا ا ن یجء) قبل الاطلاع علیہ فلا یقتل ....کالساب للنبی مجمع علیہ فیقتل بدون استتابۃ ولاتقبل توبتہ ثم ان تاب قتل حداً ولا یعذر بجھل لانہ لایعذر احدفی الکفربالجہل (اوالسکر) حراما (او تہور) کثرۃ الکلام بدون ضبط ولا یقبل منہ سبق اللسان او غیظ (او بقولہ: اردت کذا) الخ ( ۴/ ۴۳۸)
وفی استتابۃ المسلم خلاف، ہل یستتاب فان تاب ترک والا قتل او یقتل لو تاب والراجح الاول۔
وفی حاشیۃ علی الشرح الصغیر للصاوی: (قولہ: والراجح الاول) ای قبول التوبۃ کما ھو مذہب الشافعی الخ ( ۴/۴۴۰)

ان عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے او را س کا حاصل یہ ہے کہ شافعیہ اور حنفیہ کے ہاں اس کی توبہ قبول ہے اور اس کی وجہ سے اس سے قتل کی سزا ساقط ہو جائے گی اور امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے نزدیک اس کی توبہ دنیا کے حق میں قبول نہیں ہو گی اور توبہ کی وجہ سے اس کی سزا قتل ساقط نہیں ہوگی۔

امام مالک اور ان کے اصحاب کا مذہب مشہور یہی نقل کیا گیا ہے جیسا کہ عبارت نمبر ۱۳ سے واضح ہے، لیکن مالکیہ کی مشہور کتاب الشرح الصغیر اوراس کے حاشیہ میں ترجیح قبول توبہ کو دی جائے گی۔ ملاحظہ ہو : عبارت نمبر ۱۶۔

البتہ بزازیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حنفیہ کے ہاں بھی اس کو حد کے طورپر قتل کیا جائے گا اور بزازیہ کی اتباع میں متاخرین حنفیہ نے بھی اس قول کو ذکر کیا ہے، لیکن علامہ شامیؒ نے اس کی سخت تردید کی ہے اور اس کو غلط فہمی قرار دیا ہے ۔ لہٰذا اس سلسلہ میں اس قول پر اعتماد نہ کیا جائے، چنانچہ ان کی عبارت ملاحظہ ہو:

۱۷۔ فی الشامیۃ بعد بحث طویل یرد علی البزازیۃ: فقد علم ان البزازی قد تساہل غایۃ التساہل فی نقل ہذہ المسالۃ ولیتہ حیث لم ینقلہا عن احد من اہل مذہبنا بل اسند الیٰ مافی الشفاء والصارم امعن النظر فی المراجعۃ حتی یری ماھو صریح فی خلاف ما فہمہ ممن نقل المسالۃ عنہم ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم، فلقد صار ہذا التساھل سبباً لوقوع عامۃ المتاخرین عنہ فی الخطا حیث اعتمدوا علی نقلہ وقلدوہ فی ذلک ولم ینقل احد منہم المسئلۃ عن کتاب من کتب الحنفیۃ بل المنقول قبل حدوث ھذاالقول من البزازی فی کتبنا وکتب غیرنا خلافہ (۴؍۲۳۴) کذا فی شرح عقو درسم المفتی لابن عابدین (ص۳۲)

ذمی مرتکب توہین کی توبہ کا حکم

اس میں تین اقوال مشہور ہیں:

ا۔ ذمی کو بہرحال قتل کیا جائے گا، اگرچہ گرفتاری کے بعد، توبہ بھی کر لے۔ یہ امام احمد اور امام مالک کا مشہور موقف ہے اور امام شافعیؒ کا ایک قول ہے۔

۲۔ ذمی اگر توبہ کرے اور توبہ کامطلب یہ ہے کہ مسلمان ہو جائے تواس کی یہ توبہ قبول کی جائے گی ۔ یہ امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ سے ظاہرالروایۃ ہے۔

۳۔ ذمی کو قتل کیا جائے گا مگر یہ کہ یا تو اسلام لے آئے یا حقیقی ذمی بن جائے اور اسی پر امام شافعی کا ظاہر کلام دلالت کرتاہے۔ (خلاصہ ماخوذہ از الصارم المسلول ص۳۳۰)

ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ استتا بہ کے مسئلہ میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور مالکیہ کے راجح قول کے مطابق مسلمان کی توبہ قابل قبول نہیں اور ذمی کی توبہ کے بارے میں مذکورہ بالا تین اقوال ہیں۔ اس لیے زمانہ کے حالات اور تقاضوں کے مطابق حکومت وقت ان دو میں سے کسی بھی موقف کے مطابق قانون بنا سکتی ہے، لیکن شان رسالت اور ناموس رسالت کی انتہائی عظمت اور جلالت شان کا تحفظ بہرحال انتہائی ضروری ہے، اور اگر قانون میں توبہ کی گنجائش نکالی گئی تو توبہ کا وہی طریقہ کا ر اختیار کرنا ہوگا جو اس سنگین ترین جرم کے مطابق ہو جس کا طریقہ ذیل ہے:

توبہ کا طریقہ

(۱) مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہو چکا ہے کہ توہین رسالت کا مرتکب شخص بالاتفاق دائرۂ اسلام سے خارج ہو چکاہے، لہٰذا توبہ کی صورت میں اس کے لیے سربرآوردہ علما وعوام کے مجمع میں فوراً تجدید ایمان کرنی لازم ہو گی اور اس کا اسی قدر اعلان ہوگا جس قدر ان حرکتوں کا اعلان ہو چکا تھا۔ 

(۲) چونکہ کافر ہونے کی وجہ سے اس کا نکاح ختم ہو چکا تھا، اس لیے اسلام لاتے ہی فوراً نکاح کی تجدید کرنی لازم ہوگی اوراس کا اعلان بھی اسی طرح ہو گا جس طرح تجدید ایمان کا اعلان کیا تھا۔ 

(۳) یہ شخص گزشتہ جرم پر انتہائی شرمندہ رہے گا۔

(۴) اس وقت انتہائی عاجزی اور گریہ وزاری سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔

(۵) آئندہ کے لیے ان سب باتوں کے نہ کرنے کا پختہ عہد کرے۔

(۶) توہین رسالت پر مشتمل مواد اگر کتاب اور تحریری شکل میں ہو تو اس صورت میں اس کے سارے موجود نسخے جلائے اور جہاں جہاں یہ کتاب یا رسالہ پہنچا ہے، ہر ممکن طریقہ سے وہاں سے اس کو ختم کرانے کی کوشش کرے۔ اخبارات کے ذریعے اس کا عام اعلان کرے کہ میں اس کتاب یا رسالہ سے براء ت کا مکمل طریقہ سے اعلان کرتا ہوں، لہٰذا اس کتاب کو جلایا جائے یا کم از کم اس سے میرے نام کا ورق جلایا جائے۔






جناب نبی کریم ﷺ کے ساتھ کسی مسلمان کی عقیدت و محبت، بے حقیقت جذباتی نظریہ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ یہ اس کے ایمان کا جز اور اس کے دین کا حصہ ہے، حضور ہی اس کی محبتوں کا محور اور اس کی تمناؤں کی آماج گاہ ہیں، حضورﷺ ہی کی اتباع اس کی سعی و عمل کے لیے نمونہٴ بہشت ہے اور اسی میں اس کی ابدی سعادت کا راز مضمر ہے، قرآن کریم نے جگہ جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے، ارشاد ہے:
قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿التوبة٪۲۴﴾

”آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تم کو اندیشہ ہو، اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، اگر تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (سزا دینے کے لئے ) اپنا حکم بھیج دے اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا“۔ (التوبة: 24)۔


ایک اور آیت میں حضور ﷺ کی اتباع کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے: 
وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ (الحشر:7)
”اور رسول جو کچھ تمہیں دے دیا کریں وہ لے لیا کرو، اور جس سے وہ تمہیں روک دیں، رک جایا کرو۔ اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سخت سزا دینے میں بڑا سخت ہے“۔(الحشر:7)


ایک دوسری آیت میں اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے، سرتسلیم خم کرنے کو موٴمنین کا شیوہ بتلاتے ہوئے کہا گیا: 
اِنَّمَا کَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ․(النور: 51)
”ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب وہ بلائے جاتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف کہ (رسول) ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو وہ (ایمان والے) کہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“۔ (النور: 51)


ایک اور جگہ وضاحت کردی ہے کہ اللہ اور رسول کے فیصلے اور حکم آنے کے بعد کسی موٴمن مرد، عورت کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اس کے برعکس من مانی کریں، ایسی صورت میں سوائے تعمیلِ حکم کے اس کے لئے کسی اور راہ کو اختیار کرنے کی گنجائش نہیں، ارشاد ہے: 
وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا․(الاحزاب:36)
”اور کسی مومن مرد یا مومن عورت کے لئے یہ درست نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا حکم دے دیں تو پھر ان کو اپنے (اس) امر میں کوئی اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا، وہ صریح گمراہی میں جا پڑے گا“۔ (الاحزاب:36)


حضرت انس کی حدیث امام بخاری اور امام مسلم نے نقل فرمائی ہے، کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :
لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين․
”تم میں سے کوئی مومن نہیں بن سکتا جب تک اس کو مجھ سے اپنے ماں باپ، اولاد اور باقی سب لوگوں سے بڑھ کر محبت نہ ہو“۔
[أخرجه أحمد (3/177، رقم 12837) ، وعبد بن حميد (ص 355، رقم 1175) ، والبخارى (1/14، رقم 15) ، ومسلم (1/67، رقم 44) ، والنسائى (8/115، رقم 5014) ، وابن ماجه (1/26، رقم 67) ، والدارمى (2/397، رقم 2741) ، وابن حبان (1/405، رقم 179) .]





عہد نبوی کے واقعات

حضور اکرم ﷺ کی شان اقدس میں بعض بدبختوں کی طرف سے گستاخی کا سلسلہ کوئی نیا نہیں، خود عہد نبوی میں دربار نبوت کی بے حرمتی کے واقعات پیش آئے ہیں اور آپ کی ناموس پر کٹ مرنے والی پاکیزہ ہستیوں نے ان دریدہ دہن بدبختوں کو اپنے انجام تک پہنچایا ہے :
…ایک نابینا صحابی کی باندی حضور کی شان میں گستاخی کرتی تھی، وہ ایک رات اٹھے اور تلوار سے اس باندی کا پیٹ چاک کرکے اس کو قتل کردیا، حضور ﷺ کو خبر ملی تو فرمایا کہ اس کا خون ہدر اور رائیگاں ہے۔
(بلوغ المرام فی احادیث الاحکام ، ص: 123)
…کعب بن اشرف مشہور یہودی رئیس تھا، حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا اور ہجویہ اشعار کہتا، حضرت محمد بن مسلمہ نے حضور ﷺ کی خواہش پر جاکر اس کا کام تمام کیا…
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم: 4037)
…مدینہ منورہ میں ابوعفک نامی ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں ہجویہ نظم لکھی، حضرت سالم بن عمیر نے حضور ﷺ کے اشارے پر جاکر اسے قتل کیا…
(سیرة ابن ہشام، جلد:4، صفحہ282)
… فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کردیا گیا تھا، لیکن شاتم رسول ابن خطل کو معافی نہیں دی گئی، اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑا تھا اور اسی حالت میں اسے قتل کیا گیا، ابن خطل کی دو لونڈیوں کا خون بھی حضور ﷺ نے رائیگاں قرار دیا تھا کیونکہ وہ بھی حضور ﷺ کی شان میں ہجویہ اشعار گایا کرتی تھیں۔
(الکامل لابن اثیر: 169/2، صحیح بخاری، کتاب المغازی، رقم: 4035)
… عصما ء بنت مروان شاعرہ تھی اور قبیلہ بنو امیہ سے اس کا تعلق تھا، اس نے حضور ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی، حضرت عمیر بن عدی نے حضور ﷺ کے کہنے پر جاکر اس کو قتل کیا۔
(سیرت ابن ہشام، جلد:4، صفحہ283)







توہین رسالت کی سزا:

عہد نبوی کے ان واقعات سے ایک بات بالکل بے غبار ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ ”توہین رسالت“ کا جرم ایسا نہیں جس سے چشم پوشی کی جائے یا اس سے درگزر کیا جائے، چنانچہ تمام ائمہ کا اس پر اجماع ہے کہ توہین رسالت کا مجرم واجب القتل ہے … علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: ”حاصل یہ ہے کہ شاتم رسول کے کفر اور اس کے قتل کے درست ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور یہی ائمہ اربعہ سے منقول ہے“۔ (جلد4، صفحہ:64)

فقہ مالکیہ کے مشہور عالم قاضی عیاضؒ لکھتے ہیں: ”رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی اور تنقیص کرنے والے کے قتل پر امت کا اجماع ہوچکا ہے“۔
(کتاب الشفاء: 211/2)


فقہ حنفی کی مشہور شخصیت امام سرخسی رحمہ الله شاتم رسول کے قتل پر اجماع نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
”جس شخص نے رسول الله ﷺ پر شتم کیا، آپ کی توہین کی، دین یا شخصی اعتبار سے آپ پر عیب لگایا، آپ کی صفات میں کسی صفت پر نکتہ چینی کی تو چاہے یہ شاتم رسول مسلمان ہو یا غیر مسلم، یہودی ہو یا عیسائی یا غیر اہل کتاب، ذمی ہو یا حربی، خواہ یہ شتم واہانت عمداً ہو یا سہواً ، سنجیدگی سے ہو یا بطور مذاق، وہ دائمی طور پر کافر ہوا، اس طرح پر کہ اگر وہ توبہ بھی کرلے تو اس کی توبہ نہ عنداللہ قبول ہوگی نہ عندالناس اور شریعت مطہرہ میں متاخر و متقدم تمام مجتہدین کے نزدیک اس کی سزا اجماعاً قتل ہے“۔
(خلاصة الفتاویٰ: 286/3)


بعض مغرب زدہ مسلمان دانشوروں نے ”تنقید اور توہین“ کا شوشہ چھوڑ کر اس بات پر جو زور دیا ہے کہ مسلمانوں کو تنقید اور توہین کا فرق ملحوظ رکھنا چاہیے، توہین رسالت کی تو گنجائش نہیں لیکن تنقید پر مسلمانوں کو جذبات میں نہیں آنا چاہیے، یہ درست نہیں، منصب نبوت ہر قسم کی تنقید سے بلند ہے، انبیا معصوم ہوتے ہیں اور حضورﷺ سید الانبیاء ہیں، منصب نبوت کی طرف کسی قسم کی انگشت نمائی یا تنقید ”توہین رسالت“ ہی کے زمرے میں آتی ہے، امت کے جلیل القدر علماء نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، یہ دانشور اگر ان کتابوں کا بغور مطالعہ کرلیں تو انہیں مستشرقین کے دائرہ اثر سے نکلنے کا موقع مل جائے گا، علامہ تقی الدین سبکیؒ کی کتاب ”السیف المسلول علی من سب الرسول“ علامہ ابن الطلاع اندلسیؒ کی تالیف ”اقضیة الرسول“ مشہورحنفی عالم، علامہ زین العابدین شامیؒ کی ”تنبیہ الولاة علی احکام شاتم خیر الأنام“ اور علامہ ابن تیمیہؒ کی شہرہ آفاق تصنیف ”الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ … اس موضوع پر ایسی کتابیں ہیں جنہوں نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا اور سب اس پر متفق ہیں کہ بارگاہ رسالت میں کسی بھی قسم کی تنقید کی سزا موت اور قتل ہے۔ چنانچہ جب اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ تھا اور مسلمانوں کی عدالتیں دشمنوں کے دباؤ سے آزاد تھیں، تب کوئی ایسا واقعہ پیش آتا تو مجرم موت کی سزا پاکر کیفر کردار تک پہنچ جاتا بلکہ نویں صدی کے وسط میں اندلس کے اندر ”شاتمین رسول“ نے ایک جماعت کی شکل اختیار کرلی تھی لیکن مسلمان قاضیوں نے کوئی نرمی نہیں برتی اور اس کیس کے ہر مجرم کو سزائے موت دی، یولوجیس نامی عیسائی اس گروہ کا سربراہ تھا اور اس کی سزائے موت کے ساتھ ہی مسلم ہسپانیہ میں اس بدبخت جماعت کا خاتمہ ہوا۔(تفصیل کے لیے دیکھئے، تاریخ ہسپانیہ، جلد۱، صفحہ:200)






عیسائی دنیا کی اسلام دشمنی

عیسائی دنیا کے ساتھ عالم اسلام کے تصادم کی بڑی طویل تاریخ ہے اور باہمی دشمنی کی جڑیں صدیوں پر محیط ہیں، عیسائی پادریوں کی اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف ان کے پروپیگنڈے کا خود عیسائی موٴرخین نے اعتراف کیا ہے۔ مشہور مورخ ڈوزی اپنی کتاب میں لکھتا ہے: 
”سب سے بڑھ کر پادری تھے جو شدید پیچ و تاب کھاتے تھے۔ جبلی طورپر وہ محمد ﷺ کے پیروکاروں سے نفرت کرتے تھے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کی تعلیمات کے بارے میں وہ انتہائی باطل نظریات رکھتے تھے یا جس طرح وہ عربوں کے درمیان رہتے تھے، تو ان کے لیے اس سے زیادہ کوئی چیز آسان نہ تھی کہ وہ ان معاملات میں سچائی سے آگہی حاصل کرتے، لیکن انہوں نے اڑیل انداز سے ، سرچشمہ کے اس قدر قریب ہونے کے باوجود اس حصول آگہی سے انکار کرتے ہوئے مکہ کے پیغمبر ﷺ سے متعلق ہر قسم کے مضحکہ خیز افسانے پر اعتبار کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کو ترجیح دی، خواہ ایسے افسانے کا ماخذ کچھ بھی نہ ہو“۔
(ہسپانوی اسلام، صفحہ:268)




اور جے جے سانڈرس لکھتا ہے:
”اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیغمبر عربی ﷺ کو عیسائیوں نے کبھی بھی ہمدردی اور التفات کی نظرسے نہیں دیکھا جن کے لیے حضرت عیسیٰ کی شفیق اور معصوم ہستی ہی آئیڈیل رہی ہے۔ عیسائیت کو اسلام سے پہنچنے والے نقصانات اور وہ پروپیگنڈا جو صلیبی جنگوں کے دور میں پھیلایا گیا، غیر جانبدارانہ رائے کے لیے ممد و معاون نہ تھے اور اس وقت سے لے کر تقریباً آج تک محمد ﷺ کو متنازعہ لٹریچر میں پیش کیا گیا ہے۔ بے ہودہ کہانیاں پھیلائی گئیں اور طویل عرصے تک ان پر یقین کیا جاتا رہا ہے“۔
(عہد وسطی کے اسلام کی تاریخ،ص:35-34)


ڈبلیو منٹگمری واٹ اپنی کتاب ”اسلام کیا ہے؟“ میں رقمطراز ہے: 

”مشکل یہ ہے کہ ہم اس گہرے تعصب کے وارث ہیں، جس کی جڑیں قرون وسطی کے جنگی پروپیگنڈے میں پیوست ہیں۔ اب اس کا وسیع پیمانے پر اعتراف کیا جانا چاہیے۔ تقریباً آٹھویں صدی عیسوی سے عیسائی یورپ نے اسلام کو اپنا عظیم دشمن سمجھنا شروع کیا جو عسکری اور روحانی دونوں حلقہ اثر میں اس کے لیے خطرہ تھا۔ اسی مہلک خوف کے زیر اثر عیسائی دنیا نے اپنے اعتقاد کو سہارا دینے کے لیے اپنے دشمن کو ممکنہ حد تک انتہائی ناپسندیدہ نظر سے پیش کیا۔ حتی کہ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں بھی ان کے کچھ اثرات باقی ہیں“۔
(اسلام کیا ہے؟ صفحہ: 201)

ایک اور جگہ ڈاکٹر واٹ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ: ”اسلام کے بارے میں ہمارا رویہ مجموعی طور پر غیر جانبدرانہ نہیں ہے۔ کسی حد تک اب بھی ہم عہد وسطیٰ کے جنگی پروپیگنڈے کے زیر اثر ہیں“۔ 


ان اقتباسات کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے ساتھ عیسائی دنیا کی دشمنی اسے توہین رسالت کے جرم پر وقتاً فوقتاً آمادہ کرتی رہی ہے اور گذشتہ دو تین صدیوں سے ”آزادیٴ اظہار رائے“ کی جو مسموم ہوا یورپ میں چل پڑی ہے، اس ناقابل معافی جرم کو بھی وہ اس کے بھینٹ چڑھانے کی سعی کررہی ہے، پاکستان میں قابل فہم طور پر ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے ’‘’توہینِ رسالت“ کی سزا موت ہے، مغربی ممالک نے اس قانون کے خلاف بڑا واویلا مچایا اور اسے ”آزادی“ کے خلاف قرار دے کر مختلف حکومتوں پر یہ قوتیں دباؤ ڈالتی رہیں لیکن الحمدلله یہاں کی عوامی قوت کے خوف سے کوئی حکومت اب تک اس میں تبدیلی نہیں کرسکی ہے۔ایک مشہور بیورو کریٹ اور ادیب قدرت اللہ شہاب نے اس سلسلے میں مسلمانوں کے جذبات کا تجزیہ کرتے ہوئے کافی حد تک صحیح لکھا ہے کہ:
”رسول خدا کے متعلق اگر کوئی بدزبانی کرے تو لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ تو مرنے کی بازی لگا بیٹھتے ہیں، اس میں اچھے، نیم اچھے، بُرے مسلمان کی بالکل کوئی تخصیص نہیں، بلکہ تجریہ تو یہی شاہد ہے کہ جن لوگوں نے ناموس رسالت پر اپنی جان عزیز کو قربان کردیا، ظاہری طور پر نہ تو وہ علم و فضل میں نمایاں تھے اور نہ زہد و تقوی میں ممتاز تھے، ایک عام مسلمان کا شعور اور لاشعور جس شدت اور دیوانگی کے ساتھ شانِ رسالت کے حق میں مضطرب ہوتا ہے، اس کی بنیاد عقیدہ سے زیادہ عقیدت پر مبنی ہے ، خواص میں یہ عقیدت ایک جذبہ اور عوام میں ایک جنون کی صورت میں نمودار ہوتی ہے“۔




ایک عام مسلمان کا حضور اکرم ﷺ کے ساتھ عقیدت ومحبت کا یہ عالم ہے کہ وہ ناموس رسالت پر کٹ مرنے کو اپنے لیے مایہ فخر سمجھتا ہے اور مولانا محمد علی جوہر کی ایمانی غیر ت وحمیت کے یہ الفاظ تقریباً ہر مسلمان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں:


”جہاں تک خود میرا تعلق ہے، مجھے نہ قانون کی ضرورت ہے نہ عدالتوں کی حاجت، اگر کوئی ہندوستانی اس قدر شقی القلب ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے ان میں سب سے اشرف نبی سرور کونین اور باعثِ تکوین دوعالم ﷺ کا جو تقدس میرے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اس کا اتنا پاس بھی نہیں کرتا کہ اس برگذیدہ ہستی کی توہین کرکے میرے قلب کو چور چور کرنے سے احتراز کرے … تو مجھ سے جہاں تک صبر ہوسکے گا، صبر کروں گا، جب صبر کا جام لبریز ہوجائے گا تو اٹھوں گا اور یا تو اس گندہ دل ، گندہ دماغ ، گندہ دہن کافر کی جان لے لوں گا یا اپنی جان اس کی کوشش میں کھو دوں گا“۔
(مولانا محمد علی جوہر، آپ بیتی اور فکری مقالات، صفحہ:232)


جب کہیں مسلمان خود اقلیت میں ہوگئے یا مسلمانوں کی عدالتیں غیروں کے دباؤ میں آگئیں اور وہاں توہینِ رسالت کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے انصاف کے راستوں میں رکاوٹیں پیش آنے لگیں، تب سے عام مسلمانوں نے کسی قانون اور عدالت کی پروا نہیں کی، غازی علم الدین شہید سے لے کر عامر چیمہ شہید تک ناموسِ رسالت پر کٹ مرنے والے سعادت مندوں نے خود کو فنا کرکے دوام حاصل کیا۔


جہاں تک آزادی یا آزادی اظہار رائے کا تعلق ہے تو دنیا کے کسی بھی دستور میں ”آزادیِ مطلق“ کا حق نہیں دیا گیا، یہاں سیکولر ہونے کے دعویٰ دار چند معروف دستوروں کے حوالے دئیے جاتے ہیں: سب سے پہلے فرانس کو لے لیں جہاں کے اخبارات نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں اہانت آمیز خاکے شائع کیے ہیں اور اسے ”آزادی اظہار رائے“ کا اپنا حق قرار دیا ہے، اس کے آرٹیکل نمبر ۱ میں کہا گیا ہے: ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور آزاد رہے گا اور سب کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے، لیکن سماجی حیثیت کا تعلق مفاد عامہ کے پیش نظر کیا جائے گا“۔ اور آرٹیکل نمبر4میں کہا گیا ہے: ”آزادی کا حق اس حد تک تسلیم کیا جائے گا جب تک کہ اس سے کسی دوسرے شخص کا حق متاثر یا مجروح نہ ہو اور ان حقوق کا تعین بھی قانون کے ذریعہ کیا جائے گا“۔ جرمنی کے آئین کے آرٹیکل نمبر5 میں کہا گیا ہے: ”ہر شخص کو تحریر، تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق حاصل ہے“۔ مگر اس کے ذیلی آرٹیکل نمبر 2 میں واضح کردیا گیا ہے کہ یہ حقوق شخصی عزت و تکریم کے دائروں میں رہتے ہوئے استعمال کئے جاسکیں گے۔ امریکی دستور میں بھی مطلق آزادی کا کوئی تصور نہیں، امریکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دستور میں ایسی تحریر اور تقریر کی اجازت نہیں جو عوام میں اشتعال انگیزی یا امن عامہ میں خلل اندازی کا سبب بنے یا اس سے اخلاقی بگاڑ پیدا ہو، ریاست کو ایسی آزادی سلب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، اسی طرح آزادیٴ مذہب کے نام پر توہین مسیح کے ارتکاب کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
(امریکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تفصیل محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب ”ناموس رسالت اور توہین رسالت“ کے باب پنجم میں لکھی ہے)
یہی حال برطانیہ کا ہے، وہاں بھی حضرت عیسیؑ یا برطانیہ کی ملکہ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کی اجازت نہیں، وہاں ہائیڈ پارک میں ”اسپیکر کارنر“ کے نام سے ایک گوشہ مختص ہے جہاں مخصوص اوقات میں ہر شخص کو جو جی میں آئے کہنے یا بکنے کی چھوٹ دی گئی ہے، لیکن یہاں بھی کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ حضرت عیسی ؑ کی توہین کرے یا ملکہ کی شان میں گستاخی کرے۔ جب خود ان قوموں کے دساتیر میں ”آزادیٴ اظہار رائے“ کو مشروط کیا گیا کہ اس کی اسی وقت اجازت ہے جب وہ کسی کے حق اور جذبات مجروح کرنے کا ذریعہ نہ بنے، ایسے میں قانونی حوالے سے اس کا جواز کیونکر ہوسکتا ہے کہ کائنات کی سب سے بزرگ ہستی کی توہین کی جائے۔ جو دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے اربوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا ذریعہ بنتی ہے!! حقیقت یہ ہے کہ ناموس رسالت پر حملوں کے اس طرح کے افسوس ناک واقعات، عیسائی دنیا کی اس پرانی اسلام دشمنی کا نتیجہ ہیں جو صدیوں سے قائم ہے اور قرب قیامت تک قائم رہے گی، پیغمبر اسلام، اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ، اس کے متعصبانہ خمیر میں شامل ہے اور اس کے لیے انہوں نے بڑے بڑے ادارے قائم کیے جن کے تحت ہزاروں افراد کام کررہے ہیں ، یہ لوگ صدیوں سے اسلام کے قلعے پر علمی ، عملی اور سائنسی محاذوں سے حملہ آور ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اس قلعے میں شگاف پڑے، انہیں معلوم ہے کہ دین اسلام ہی ان کی ظاہری چمک دمک والی لیکن اندر سے کھوکھلی اور فرسودہ تہذیب کو کارزارحیات میں شکست وریخت سے دوچار کرکے مٹا سکتا ہے کہ وہی ایک زندہ، جاوید اور قیامت تک رہنے والا دین برحق ہے … ﴿یریدون لیطفئوانور الله بأفواھھم والله متم نورہ ولو کرہ الکٰفرون﴾․





پاکستان میں توہین رسالت کا قانون اور پس منظر

پاکستان، اسلام کے نام پر بننے والا ملک ہے جس کی پہچان اور دنیا کے نقشے پر جس کے وجود میں آنے کا جواز اسلام اور اس کی تعلیمات کا عملی نفاذ تھا، برصغیر میں ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے بڑی ایمان افروز تحریکیں چلی ہیں اور خواجہٴ بطحا ﷺ کے تقدس پر جانیں قربان کرنے کی لہو رنگ تاریخ مرتب ہوئی ہے، عام مسلمانوں نے جب بھی دیکھا کہ توہین رسالت کے مجرم کو قانون گنجائش فراہم کررہا ہے اور انصاف پر قانون کی گرفت ڈھیلی پڑرہی ہے تب مسلمانوں نے انصاف خود اپنے ہاتھوں میں لیا ہے، انہوں نے پھر کسی قانون، کسی کالے ضابطے کی پروا نہیں کی۔ انیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں راجپال نامی بدبخت نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی پر مشتمل ایک کتاب ”رنگیلا رسول“ کے نام سے لکھی تھی، انگریز کا قانون نافذ تھا، مسلمان بجا طور پر مشتعل تھے، دفعہ 144 نافذ کردی گئی تھی اور کسی قسم کے جلسے اور اجتماع کی اجازت نہیں تھی، اس موقع پر خطیب الہند، حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے جو تقریر کی اس سے مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، انہوں نے فرمایا:
”جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے، پولیس جھوٹی، حکومت کوڑھی اور ڈپٹی کمشنر نااہل ہے وہ ہندو اخبارات کی ہرزہ سرائی تو روک نہیں سکتا لیکن علمائے کرام کی تقریریں روکنا چاہتا ہے، وقت آگیا ہے کہ دفعہ 144 کے یہیں پرخچے اڑا دئیے جائیں۔ میں دفعہ144 کو اپنے جوتے کی نوک تلے مسل کر بتا دوں گا # 

        پڑا فلک کو دل جلوں سے کام نہیں
        جلا کے راکھ نہ کردوں تو داغ نام نہیں

راجپال کو غازی علم دین نے حملہ کرکے ٹھکانے لگایا اور یوں جس انصاف کو فراہم کرنے میں عدالت پس وپیش سے کام لیتی رہی، ایک عام مسلمان نے بڑھ کر قانون اپنے ہاتھ میں لیا اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا۔


انگریزی دور حکومت میں مجموعہ تعزیرات ہند نافذ تھا جس کی دفعہ 295میں مذہبی محترم شخصیات اور مقدس مقامات کی بے حرمتی اور توہین کی سزا زیادہ سے زیادہ دو سال قید اور جرمانہ تھا، پاکستان بننے کے بعد اس مجموعہ کو ضابطہ تعزیرات پاکستان کے طورپر تسلیم کرلیا گیا لیکن اس میں جناب نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کے مجرم اور اس کی سزا شامل نہیں تھی۔ 1986 ء میں تعزیرات پاکستان میں ایک نئی دفعہ ”295، سی“ کا اضافہ کیا گیا جس میں پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کے مجرم کو عمر قید یا موت کی سزا مقرر کی گئی، 30 اکتوبر 1990ء میں وفاقی شرعی عدالت نے ”عمر قید“ کی سزا کو غیر شرعی قرار دے کر منسوخ کردیا اور صرف موت کی سزا کو برقرار رکھا، جس کے الفاظ یہ ہیں:
”جو شخص بذریعہ الفاظ زبانی ، تحریری یا اعلانیہ اشارتاً یا کنایتاً بہتان تراشی کرے، یا رسول کریم ﷺ کے پاک نام کی بے حرمتی کرے، اسے سزائے موت دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا“۔


مغرب اور حقوق انسانی کی نام نہاد تنظیموں نے اس قانون کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کیا اور مختلف حکومتوں پر اس میں ترمیم اور تخفیف کے لیے دباؤ ڈالا جاتا رہا، بعض حکمران اس میں ترمیم کے لیے آمادہ بھی ہوئے لیکن عوامی طاقت کے خوف سے وہ اس میں تبدیلی نہیں کرسکے … اس سلسلے میں تحفظ ختم نبوت سے وابستہ علماء اور مخلص کارکنوں کا کردار قابل رشک رہا، انہوں نے جہاں کہیں، اس طرح کی سازش کی بو محسوس کی، عوام میں بیداری کے لیے ”ہشیار باش“ کی صدا لگائی اور لوگوں کو بروقت جگانے کا فریضہ انجام دیتے رہے اور ایک مومن کے لیے اس سے بڑھ کر اور سعادت کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے وقت، اس کے مال، اس کی فکر اور اس کی مساعی کا محور آقا ئے نامدار ﷺ کی ناموس کا تحفظ ہو، مبارک ہیں ایسے لوگ! اور قابل رشک ہیں ان کی زندگی کے لمحات!


آخری بات

جہاں تک مغرب اور کفریہ طاقتوں سے دلائل کی روشنی میں مکالمے کا تعلق ہے، یہ بات اپنی جگہ بے غبار ہے کہ ان کا رویہ عناد اور دشمنی پر مبنی ہے اور ایک عناد اور کینہ رکھنے والا دشمن، دلائل سے کبھی متاثر نہیں ہوتا، اس کے پاس اگر طاقت ہوتی ہے تو دلائل کی ٹکسال بھی اس کی اپنی ہوتی ہے اور خیر و شر کے پیمانے بھی وہ خود بناتا اور بگاڑتا ہے … ہاں! اہل اسلام کا یہ فریضہ ضرور ہے کہ وہ انسانیت کی ابدی صداقتوں کی روشنی میں حق اور حقیقت کو اجاگر کریں، خیر و شر اور نیکی اور بدی کے صحیح پیمانوں کا تعارف کرائیں اور داعیانہ اسلوب میں واضح کریں کہ کائنات کی مقدس ترین ہستی کی شان میں گستاخی صرف مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے کا سبب نہیں بلکہ یہ اہانت آمیز رویہ اختیار کرنے والی ان قوموں کے لیے دنیا اور آخرت کی بربادی اور تباہی کا ذریعہ بھی ہے، قرآن کریم نے اپنے بلیغ اسلوبِ بیان میں جگہ جگہ اس کا ذکر کیا ہے، ارشاد ہے: 
وَلَقَدِ اسۡتُہۡزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیۡنَ سَخِرُوۡا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ․ (الانعام: 10)

اور بلاشبہ آپ سے پہلے رسولوں سے بھی ہنسی کی جاتی رہی، پھر گھیر لیا ان ہنسی کرنے والوں کو اس چیز نے جس پروہ ہنسا کرتے تھے، یعنی انبیاءؑ کے ساتھ استہزا کرتے تو انبیا ان کو عذاب سے ڈراتے لیکن وہ اس عذاب کا بھی تمسخر اڑاتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی عذاب میں مبتلا کیا جس کا وہ مذا ق اڑاتے تھے۔(الانعام: 10)


اس آیت مبارکہ میں رسول اکرم ﷺ کو دو طرح سے تسلی دی گئی ہے، ایک تو انبیائے سابقین کے ساتھ بھی کفار کے استہزا کا ذکر کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ آپ سے پہلے بھی انبیا کو ان حالات سے دو چار ہونا پڑا ہے لہذا آپ کفار کی تمسخر آمیز فرمائشوں سے دل گیر نہ ہوں، برابر اپنی دعوت کو آگے بڑھاتے رہئے۔ اور آیت کے دوسرے حصے میں بتایا کہ ایسے بدبخت اورموذی لوگوں سے متعلق سنة اللہ بھی یہ رہی ہے کہ ان کو کچھ مہلت دینے کے بعد بالآخر دنیا ہی میں عذاب الٰہی سے دوچار ہونا پڑا ہے اور اپنے انجام بد کو وہ پہنچے ہیں ،مفسرین نے لکھا ہے کہ کفار میں سے جو لوگ آپ کا زیادہ مذاق اڑایا کرتے تھے ان میں ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن عبدالمطلب، اسود بن عبدیغوث اور حارث بن قیس پیش پیش تھے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ حرم میں تشریف فرما تھے کہ جبرئیل امین تشریف لائے اور ان پانچوں میں سے ہر ایک کے مختلف اعضا کی طرف اشارہ کیا جو ان کی ہلاکت کا سبب بنا۔


ایک دوسری آیت کریمہ میں ارشاد ہے: وَ لَقَدِ اسۡتُہۡزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَاَمۡلَیۡتُ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثُمَّ اَخَذۡتُہُمۡ ۟ فَکَیۡفَ کَانَ عِقَابِ ․ (الرعد: 32)

اور بہت سے پیغمبر وں کا آپ سے پہلے بلاشبہ مذاق اڑایا گیا، میں نے پہلے تو ان کو مہلت دی، پھر ان کو پکڑ لیا ، سو ان کا عذاب کس قدر درد ناک تھا!


اس لیے فخر موجودات حضرت پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے، انسانیت کے مجرموں پر اس حقیقت کو بار بار واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کا یہ رویہ، ان کی دنیوی اور اخروی تباہی اور بربادی کا ذریعہ ہے، اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں، اس کی پکڑ آئے گی اور ضرور آئے گی، پس اقوام و ملل کی تباہی کی تاریخ سے ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا!!





***********************





سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت وعقیدت مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے اور کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک رسول اللہ ﷺ کو تمام رشتوں سے بڑھ کر محبوب ومقرب نہ جانا جائے۔ فرمانِ نبوی ﷺ ہے تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ماں، باپ، اولاد اور باقی سب اشخاص سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کاشروع دن سے ہی یہ عقیدہ ہےکہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ گرامی سے محبت وتعلق کے بغیر ایمان کا دعویٰ باطل اور غلط ہے۔ ہر دور میں اہل ایمان نے آپ ﷺ کی شخصیت کے ساتھ تعلق ومحبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ اور اگر تاریخ کے کسی موڑ پر کسی بد بخت نے آپ ﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شتم رسول ﷺ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ چند سال قبل ڈنمارک ناروے وغیرہ کے بعض آرٹسٹوں نے جو آپ ﷺ کی ذات گرامی کے بارے میں خاکے بنا کر آپﷺ کا مذاق اڑایا۔ جس سے پورا عالم اسلام مضطرب اور دل گرفتہ ہوا تو نبی کریم ﷺ سے عقیدت ومحبت کے تقاضا کو سامنے رکھتے ہو اہل ایمان سراپا احتجاج بن گئے اور سعودی عرب نے جن ملکوں میں یہ نازیبا حرکت ہوئی ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔ پاکستان میں ’’تحریک حرمت رسولﷺ‘‘ معرض وجود میں آئی جس میں ملک بھر کی 22 دینی وسیاسی جماعتیں شامل ہوئیں۔ اور اسی دوران گستاخ رسول کی سزا وانجام کے حوالے سے متعدد نئی کتب چھپ منظر عام پر آئی ہیں کتاب ہذا بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’توہین رسالت کی سزا‘‘ جناب پروفیسر حبیب اللہ چشتی کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے توہین رسولﷺ کرنے والوں کے لیے سزائے موت کے قانون کو قرآن وسنت، اجماعِ امت، اقوال ائمہ فقہ اور تاریخی حوالوں سے ثابت کیا ہے۔ یہ کتاب جمال رسول ﷺ کا دلکش تذکرہ اور قانون توہین رسالت کا تاریخی مجموعہ ہے۔ (م۔ ا)
https://islamicbookslibrary.wordpress.com/tag/tauheen-e-risalat/


جاہلیت جدیدہ کے علم برداروں نے آزادی اظہار کے نام پر انبیائے کرام علیہم السلام کو بالعموم او رحضور حتمی المرتبت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تنقیص و اہانت کو اپنا منتہائے نگاہ ٹھہرا لیا ہے،جس کے مظاہر حالیہ چند برسوں میں مختلف یورپی ممالک میں دیکھنے کو ملے۔ان حالات میں یہ لازم تھا کہ جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کی تقدیس و تعظیم کے تصور کو اجاگر کیا جاتا اور توہین رسالت کی شناعت و قباحت اور اس کی سزا وعقوبت کو کتاب وسنت کی روشنی میں واضح کیا جاتا۔اسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کرامت کہیے یا عنداللہ ان کی مقبولیت کہ ناموس رسالت کے دفاع و تحفظ پر جو کچھ شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے قلم سے نکلا ہے سات صدیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اس قدر جاندار،زندہ اور مدلل ہے کہ اس مسئلہ میں آج بھی سند اور اولین مرجع کی حیثیت رکھتا ہے۔زیر نظر کتاب حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے خاص اسی مسئلہ پر تحریر کی ہے اور اپنے خاص انداز تحریر میں اس قضیہ کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔اس کتاب کے حسن قبول کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جو شیخ الاسلام کے سخت ناقد اور مخالف ہیں وہ بھی اس کا اردو ترجمہ کر کے شائع کر رہے ہیں،جیسا کہ اس سے قبل اس ترجمے کو اسی ویب سائٹ پر پیش کیا جا چکا ہے۔اب معروف سلفی عالم اور مصنف و مترجم جناب پروفیسر غلام احمد حریری مرحوم کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔جو اگرچہ کافی عرصہ سے موجود ہے تاہم اس کی نئی طباعت حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے عقیدہ ناموس رسالت میں پختگی آنے کی اور جناب رسالتمآب ﷺ سے محبت و الفت کے رشتے مزید مستحکم ہوں گے۔ان شاء اللہ تعالیٰ
http://pdf9.com/download-book-al-sarim-al-maslool-id-5444.html



***********************


توہینِ رسالت کی سزا
آجکل بہت سے لوگ توہین رسالت ﷺ کے قانون کو ختم کروانے کی کوشش کر رہے ہیں لہذا ہم  اس موضوع کے متعلق دلائل پیش کریں گے
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو نبی کریم ﷺ کو ایذا پہنچائے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی ایذاء کو اپنی ایذاء شمار کیا ہے ۔ جو شخص اللہ عز و جل کی شان میں گستاخی کرے، گالیاں دے اسکے قتل میں کسی کو اختلاف نہیں۔ اور اس بات کو اللہ تعالی نے اپنے اور اپنے نبی ﷺ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔  اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
اللہ اور اُسکے رسول کو ستانے والے ملعون ہیں:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ عَذَابًا مُّہِیۡنًا 
(سورۃ الاحزاب :٥٧)

بیشک جو لوگ اللہ عزوجل اور اسکے رسول ﷺ کو ایذاء دیتے ہیں ، ان پر اللہ تعالی نے دنیا و آخرت میں لعنت فرمائی ہے اور انکے لئے ذلت والا عذاب ہے۔
ورۃ الاحزاب:٥٧)


دوسری بات یہ کہ دنیا میں اگر اللہ عز و جل کسی کو ملعون قرار دے تو اسکا مطلب یہی ہے کہ وہ واجب القتل ہے۔


مَّلۡعُوۡنِیۡنَ ۚۛ اَیۡنَمَا ثُقِفُوۡۤا اُخِذُوۡا وَ قُتِّلُوۡا تَقۡتِیۡلًا ۔ سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا۔
(سورۃ الاحزاب:٦١-٦٢،  پ٢٢ع٥)

وہ ملعون جہاں پائے جائیں انہیں پکڑو اورخوب اچھی طرح قتل کرو۔ (خوب قتل کرنا) اللہ کی سنت ہے ان لوگوں میں جو پہلے ہوچکے ہیں اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تغیر نہ پائو گے۔
(سورۃ الاحزاب:٦١-٦٢)

اس آیت کے تحت فائدہ یہ لکھا ہے:

۔۔۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو بے دریغ قتل کرنا واجب ہے۔
(گستاخ رسول اور مرتد کی شرعی سزا:ص٢٩ از فقیہہ العصر حضرت مفتی عبد الشکور ترمذی صاحب رحمہ اللہ)

فرمایا:

اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ
(سورۃ المائدہ ٣٣)
یہی سزا ہے ان کی جو لڑائی کرتے ہیں اللہ سے اور اسکے رسول سے اور دوڑتے ہیں ملک میں فساد کرنے کو ان کو قتل کیا جائےیا سولی چڑھائے جاویں یا کاٹے جاویں ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے [یعنی داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں] یا دور کر دیے جاویں اس جگہ سے [یعنی کہیں اور لے جا کر انہیں قید کر دیں] یہ ان کی رسوائی ہے دنیا میں اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔


بدامنی پھیلانے والوں کی سزا:

یعنی بدامنی کرنےکو اکثر مفسرین نے اس جگہ رہزنی اور ڈکیتی مراد لی ہے مگر الفاظ کو عموم پر رکھا جائے تو مضمون زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔ آیت کی جو شان نزول احادیث صحیحہ میں بیان ہوئی وہ بھی اس کی مقتضی ہے کہ الفاظ کو ان کے عموم پر رکھا جائے۔ "اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنا" یا "زمین میں فساد اور بدامنی پھیلانا" یہ دو لفظ ایسے ہیں جن میں کفار کے حملے، ارتداد کا فتنہ، رہزنی، ڈکیتی، ناحق قتل و نہب، مجرمانہ سازشیں اور مغویانہ پروپیگنڈا سب داخل ہو سکتے ہیں اور ان میں سے ہر جرم ایسا ہے جس کا ارتکاب کرنے والا ان چار سزاؤں میں سے جو آگے مذکور ہیں کسی نہ کسی کا ضرور مستحق ٹھہرتا ہے۔

آنحضرت ﷺ کے لئے منافقین کی بدگوئی اور منافقین کا نفاق کھلنے پر خوف اور ان کا اللہ کی آیات سے استہزاء:
قرآن : اور ان (منافقین) میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبرکو ایذا دیتے ہیں(مذاق اڑاتے پیغمبر کی باتیں نقل کرکے عیب لگاکر)، اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے(یعنی ہر بات سن کر مان لیتے ہیں چنانچہ جب ہم حلفیہ کہیں گے کہ ہم نے ایسا نہیں کہا تو آپ ہمیں بھی سچا مان لیں گے)، ان سے کہدو کہ وہ(نبی)کان ہے تو تمہاری بھلائی کےلئے۔ وہ اللہ کا اور مومنوں کی(اطلاع کردہ)بات کا یقین رکھتا ہے۔ اور جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں ان کے لئے رحمت ہے اور جو لوگ اللہ کے رسول کو رنج پہنچاتے ہیں انکے لئے عذاب الیم تیار ہے۔ مومنو! یہ لوگ تمہارے سامنے (رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینے والی اطلاعات کی تردید کرتے) اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں۔ حالانکہ اگر یہ دل سے(واقعی)مومن ہوتے تو اللہ اور اسکے پیغمبر اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ(انکی اطاعت کرکے)انہیں خوش کریں۔ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ جو شخص اللہ اور اسکے رسول سے مقابلہ کرتا ہے تو اس کے لئے جہنم کی آگ تیار ہے جسمیں وہ ہمیشہ جلتا رہے گا۔ یہ بڑی رسوائی ہے۔ منافق ڈرتے رہتے ہیں کہ انکے بارے میں کہیں کوئی ایسی سورت نہ اتر آئے کہ انکی دل کی باتوں(منافقت)کو ان(مسلمانوں)پر ظاہر کردے(لیکن پھر بھی استھزاء کرتے ہیں)۔ ان سے کہدو کہ ہنسی کئے جاؤ۔ جس بات سے تم ڈرتے ہو اللہ اسکو ضرور ظاہر کر دے گا۔ اور اگر تم ان سے اس بارے میں دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم اللہ اور اسکی آیتوں اور اسکے رسول سے دل لگی کرتے تھے؟ عذر مت پیش کرو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو(توبہ کے سبب)معاف کردیں تو دوسری(نفاق اور تمسخر پر ڈٹے رہنے والی)جماعت کو سزا بھی دیں گے کیونکہ وہ گناہ کرتے رہے ہیں۔
[سورۃ التوبۃ:٦١-٦٦]



احادیث و آثار سے دلائل

ذیل میں نبی کریم ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا عمل پیش کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے قرآن و حدیث سے کیا سمجھا اور کیا عمل کیا اور حضور پاک ﷺ نے انکے عمل کی تصدیق فرمائی۔

(١حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ '' جس نے نبی ﷺ کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں''۔
(الاسرار المرفوعہ للملا علی القاریؒ: حرف سین، الحدیث ٢٢٣)

مَنْ سَبَّ الْأَنْبِيَاءَ قُتِلَ , وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي جُلِدَ۔
[أخرجه الطَّبرانيُّ في المعجم الأوسط (5/ 37 - 38) رقم (4609)، وفي الصغير (1/ 393) رقم (659)، الهيثمي في مجمع الزوائد (10568)، السيوطي في الفتح الكبير (11845) وفي الجامع الصغير (12391) وفي جامع الأحاديث (22364) من حديث علي بلفظ: "من سب الأنبياء قتل]


(٢بخاری شریف کی حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے کعب بن اشرف کو قتل کرنے کا حکم دیا  اور یہ فرمایا:
من لکعب بن الاشرف! فانہ یوذی اللہ و رسولہ
کون کعب بن اشرف کو ٹھکانے لگائے گا کہ وہ اللہ عزوجل اور اسکے رسول ﷺ کو ایذاء دیتا ہے۔
(صحیح البخاری: کتاب المغازی، باب قتل کعب بن اشرف ص٦٢٢ج٢، حدیث 4037)


اس حدیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ کعب بن اشرف کا قتل اسکے شرک کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ نبی کریم ﷺ کو ایذاء پہنچانے کی وجہ سے تھا۔ اگر قتل شرک کی وجہ سے ہوتا تو تمام مشرکین کو قتل کیا جاتا نیز مسلمانوں کو اس سے یہ دلیل ملتی کہ تمام مشرکین کو قتل کردو اور مسلمان دنیا میں کوئی مشرک زندہ نہ چھوڑتے۔

(٣اسی طرح بخاری شریف کی روایت ہے (کتاب المغازی، باب قتل ابی رافع عبداللہ بن ابی الحقیق ج٢ص٦٢٤ ،حدیث 4038-4040) یہ روایت ابو رافع کے قتل کے بارے میں ہے حضرت براء بن عاذبؓ کا بیان ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کو ایذاء دیتا اور آپﷺ کی نسبت برائیوں کی طرف کرتا تھا۔

(٤بخاری کی روایت ہے (کتاب المغازی:  باب غزوة الفتح فی رمضان، ص٦١٤)  فتح مکہ کے دن نبی ﷺ نے ابن خطل اور اسکی دو لونڈیوں کے قتل کا حکم دیا، وہ لونڈیاں آنحضرت ﷺ کو اپنے گانوں میں گالیاں دیا کرتی تھیں۔

(٥ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کو گالی دیا کرتا تھا  آپ ﷺ نے فرمایا : من یکفینی عدوی؟ فقال خالد: انا۔ فبعثہ ﷺ فقتلہ ( کنزالعمال ٣٦٦١٩، حلیة الاولیا ج٨ ص ٤٥) آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون شخص میرے اس دشمن کو ٹھکانے لگائے گا  تب حضرت خالد  بن ولیدؓ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا۔ آپ ﷺ نے انکو بھیجا اور انھوں نے جا کر اس ملعون کو قتل کیا۔


(٦اسی طرح آپ ﷺ نے کفار کی اس پوری جماعت کو قتل کرنے کا حکم دیا جو آپ ﷺ کو ایذاء دیا کرتی اور اکثر و بیشتر آپ ﷺ کو گالیاں دیا کرتی ۔ ان میں نضر بن الحارث اور عقبہ بن ابی معیط جیسے کفار تھے۔ آپ ﷺ نے فتح مکہ سے پہلے اور بعد ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے انکے قتل کا وعدہ لیا تھا چناچہ وہ سب قتل کئے گئے، البتہ گرفتار ہونے سے پہلے جس نے اسلام قبول کرلیا  تھا اسے معاف کردیا گیا۔


(٧بزارؒ نے روایت بیان کی ہے کہ جب عقبہ بن ابی معیط قتل ہونے لگا تو اس نے پکار کر کہا کہ اے قبیلہ قریش کے لوگو ! دیکھو آج میں تمہارے سامنے قتل کیا جا رہا ہوں (اور تم خاموش کھڑے ہو) تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ
بکفرک وافترائک علی رسول اللہ ﷺ
تو اپنے کفر اور رسول اللہ ﷺ پر افترا پردازی کے سبب قتل ہو رہا ہے۔
(مجمع الزوائد للھیثمی: ج٦ ص٨٩ ، کتاب المغازی والسیر،  باب ما جاء فی الاسری، قال الھیثمی :رواہ البزاز وفیہ یحی بن سلمة بن کھیل وھو ضعیف ووثقہ ابن حبان)

(٨عبد الرزاق نے ذکر کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کو گالی دی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون شخص اس سے نپٹے گا؟ حضرت زبیرؓ نے کہا ''میں '' ۔ پھر انہوں نے اس سے جنگ کرکے اسے ٹھکانے لگا دیا۔
(رواہ عبد الرزاق فی مصنفہ)

(٩ایک عورت نبی کریم ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون اسکی زبان بند کرے گا پس حضرت خالدؓ نکلے اور اس عورت کو قتل کر دیا۔
(مصنف عبدالرزاق)

(١٠ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ پر جھوٹ باندھا تو آپ ﷺ نے حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ کو بھیجا کہ اسے قتل کردیں (مصنف عبدالرزاق)

(١١ابن قانعؒ نے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! میں نے اپنے باپ کو آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کے کلمات کہتے سنا تو مجھ سے برداشت نہ ہوسکا اور میں نے اسے قتل کردیا ، اسکی یہ بات نبی ﷺ کو ناگوار نہ گذری (الشفا) (یعنی کسی گناہ یا قصاص وغیرہ کا ذکر نہ کیا نہ ہی انکے اس عمل کو غلط قرار دیا۔

(١٢حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں یمن میں ایک عورت نبی کریم ﷺ کو گانے میں گالی دیا کرتی تھی۔ یمن کے حاکم کو معلوم ہوا تو اسکا ایک ہاتھ کٹوا دیا اور سامنے کے دانت تڑوا دیے۔ جب حضرت ابو بکرؓ کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا کہ اگر تم ایسا نہ کرتے تو میں اس عورت کو قتل کرنے کا حکم دیتا کیونکہ انبیاءؑ کو گالی دینے والے کی سزا عام لوگوں کو گالی دینے والے کی سزا کے برابر نہیں ہونی چاہیئے(الشفا:٢٢٦)

(١٣حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ خطمہ کی ایک عورت آنحضرت ﷺ کی ہجو گایا کرتی تھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون ہے جو میرے لئے اس عورت کو ٹھکانے لگائے ؟ تو اسی قبیلہ کا ایک آدمی اٹھا کہ یہ کام میں کروں گا پھر وہ گیا اور اس عورت کو قتل کردیا اور واپس آکر نبی کریم ﷺکو بتایا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لاینتطیح فیھا عنزان۔ اس میں تو بکریاں بھی سینگ نہیں مارتیں (یہ ایک مثال بیان فرمائی ہے مطلب یہ کہ اس کا خون مباح ہے کچھ حرج نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی اس میں فتنہ ہے)۔
(کنز العمال ٤٤١٣١، کشف انحفاء للعجلونی ج٢ حرف اللام الف حدیث رقم ٣١٣٧)

(١٤ابودائود اور نسائی کی روایت ہے:

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابیؓ کی ایک باندی تھی جو نبی کریم ﷺ کو برا بھلا کہتی تھی، انہوں نے بارہا منع کیا مگر وہ باز نہ آئی ۔ ایک رات وہ نبی کریم ﷺ کی شان میں بدزبانی کر رہی تھی کہ نابینا صحابی نے اسے قتل کردیا اور آکر نبی کریم ﷺ کو اطلاع دی تو آپ ﷺ نے لوگوں کو جمع فرمایا پھر اس نابینا نے کھڑے ہوکر سارا واقعہ سنایا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگو! گواہ رہو کہ اسکا خون مباح(بے بدلہ  بے سزا) ہے۔
[أبي داود:4361، النسائي:4070، الحاكم:8044، البيهقي:13375+16863+20434، الأحاديث المختارة:178، الطبراني:11984، الدارقطني:3194+3195+4503+4505، المطالب العالیة:2046، إتحاف الخيرة المھرة للبوصیری:4610]

(١٥حضرت ابو برزہؓ کی روایت ہے کہ ایک دن میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک مسلمان پر حضرت ابوبکرؓ ناراض ہوئے (قاضی اسماعیل اور دیگر آئمہ حدیث کا بیان ہے کہ اس نے حضرت ابو بکرؓ کو گالی دی تھی)۔ حضرت ابو بکرؓ نے اسے ڈانٹا تو اس نے جواب میں بدزبانی کی ۔ تب میں نے کہا کہ اے خلیفہ رسول! مجھے اجازت دیں تو اسے قتل کردوں؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مجھ سے فرمایا کہ تم بیٹھو، یہ حق سوائے رسول اللہ ﷺ کے اور کسی کیلئے نہیں ہے۔
( یہ روایت ابودائود شریف ج٢ ص٢٢٣ پر  ہے)

قاضی ابومحمد بن نصرؒ نے کہا کہ جس وقت حضرت ابوبکرؓ نے یہ بات فرمائی تو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے اس بات کی تردید نہیں کی (گویا اجماع صحابہ ہے) ۔ اس واقعہ سے علماء نے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ

جو شخص نبی کریم ﷺ کو ناراض کرے یا کوئی ایسا عمل کرے جو آپ ﷺ کی ناراضگی کا سبب ہو یا وہ عمل آپ ﷺ کی تکلیف کا باعث ہو یا آپ ﷺ کو گالی دے تو اسے قتل کردینا چاہیئے:

(١٦کوفہ کے حاکم نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے دریافت کیا کہ کیا میں اس شخص کو قتل کردوں جو حضرت عمرؓ کو گالی دے؟ تو انہوں نے جواب لکھا کہ '' گالی دینے کی بنا پر کسی مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں البتہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کو گالی دے اسے قتل کرنا جائز ہے اسکا خون حلال ہے۔

(١٧حضرت خالد بن ولیدؓ کا عمل:

حضرت خالد بن ولیدؓ نے مالک بن نویرہ کو محض اس لئے قتل کردیا تھا کہ اس نے نبی کریم ﷺ کو ''تمہارے ساتھی'' کہا تھا (تمہارے رسول نہیں کہا)
(الشفا ص ٢٢١)

(١٨اگر کوئی ذمی آنحضرت ﷺ کو برا بھلا کہے تو اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کے بعد اس کا ذمی ہونا باطل ہوجائے گا ۔ اسکی دلیل ابودائود شریف کی حدیث ہے:

ان یھودیة کانت تشتم النبی ﷺ وتقع فیہ فحنقھا رجل حتی ماتت فابطل رسول اللہ ﷺ ذمتھا۔
(رواہ ابو دائود عن علی ٢٥٢٢ و سندہ صحیح)

اس حدیث میں ایک یہودیہ شاتمہ رسول ﷺ کا گلہ گھونٹ کر مارنے والے کا خون آپ ﷺ نے معاف فرمادیا۔

(١٩حضرت عمرؓ کا ارشاد:

الصارم المسلول ص ٤١٩ پر ہے کہ عن مجاھد قال اتی عمر برجل یسب رسول اللہ ﷺ فقتلہ ثم قال عمر : من سب اللہ او سب احدا من الانبیاء فاقتلوہ۔

حضرت مجاھدؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جو رسول اللہ ﷺ کو برا کہتا تھا حضرت عمرؓ نے اسکو قتل کردیا اور فرمایا: جو اللہ تعالی کو یا انبیاءؑ میں سے کسی کو برا کہے اسے قتل کردو۔

(٢٠بخاری شریف ج٢ ص ٦١٤ پر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر حویرث ابن نقید کو قتل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ یہ بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو آپ ﷺ کو ایذا دیا کرتے تھے حضرت علیؓ نے اسکو قتل کیا۔

(٢١) توہین رسالت کے مرتکب عیسائی کو سزا:کعب بن علقمہ کہتے ہیں کہ غرفہ بن الحارث کندی کے پاس سے ایک عیسائی گزرا تو اُنہوں نے اسے اسلام کی دعوت پیش کی تو اُس عیسائی نے رسول اللہﷺ کی اہانت کی۔غرفہ کندی نے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور اس کی ناک پھوڑ دی۔یہ کیس عمرو بن العاص کے پاس لایا گیا تو عمرو فرمانے لگے: ہم نے ان کو عہد و پیمان دیا ہے (یعنی ان کی حفاظت ہم پر لازم ہے) غرفہ کندی نے فرمایا:
«مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَكُونَ أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ يُظْهِرُوا شَتْمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِنَّمَا أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ نُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ كَنَائِسِهِمْ , يَقُولُونَ فِيهَا مَا بَدَا لَهُمْ , وَأَنْ لَا نُحَمِّلَهُمْ مَا لَا يَطِيقُونَ , وَإِنْ أَرَادَهُمْ عَدُوٌّ قَاتَلْنَاهُمْ مِنْ وَرَائِهِمْ , وَنُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ أَحْكَامِهِمْ , إِلَّا أَنْ يَأْتُوا رَاضِينَ بِأَحْكَامِنَا , فَنَحْكُمَ بَيْنَهُمْ بِحُكْمِ اللهِ وَحُكْمِ رَسُولِهِ , وَإِنْ غَيَّبُوا عَنَّا لَمْ نَعْرِضْ لَهُمْ فِيهَا.»
''اللہ کی پناہ! ہم ان کو اس بات پر عہد و پیمان دیں کہ وہ نبی کریم ﷺ پر سب و شتم کا اظہار کریں۔ ہم نے ان کو اس با ت کا عہد دیا ہے کہ ہم اُنہیں ان کے گرجا گھروں میں چھوڑ دیں وہ اپنے گرجا گھروں میں جو کہنا ہے کہیں اور ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالیں او راگر کوئی دشمن ان کا قصد کرے تو ہم ان کے پیچھے ان سے لڑائی لڑیں اور اُنہیں ان کے احکامات پر چھوڑ دیں،اِلا یہ کہ وہ ہمارے احکامات پر راضی ہوکر آئیں تو ہم ان کے درمیان اللہ اور اس کے رسول ﷺکے حکم کے مطابق فیصلہ کریں او راگر وہ ہم سے غائب ہوں تو ہم ان کے پیچھے نہ پڑیں۔''
عمرو بن العاص نے فرمایا: صدقتَ ''تم نے سچ کہا''
[السنن الكبرى للبيهقي: كِتَابُ الْجِزْيَةِ - جِمَاعُ أَبْوَابِ الشَّرَائِطِ الَّتِي يَأْخُذُهَا الْإِمَامُ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ - بَابُ يَشْتَرِطُ عَلَيْهِمْ أَنْ لَا يَذْكُرُوا رَسُولَ اللهِ ﷺ إِلَّا بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ۔۔۔ حدیث:18710]
خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
[إرشاد الفقيه، لابن كثير: 2/345 ، الإصابة،لابن حجر العسقلاني:3/195]

حاصل کلام

ایسے تمام واقعات و احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی اور سب و شتم کی سزا قتل ہے اور یہ سزا مقدمہ چلائے بغیر بھی جاری کی جاسکتی ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ عدالت میں مقدمہ کیا جائے لیکن اگر کوئی شخص شاتم رسول کو مقدمہ سے پہلے ہی قتل کردے تو قاتل پر کچھ سزا نہیں۔

اجماع امت

(١قال أَبُو بَكْرِ بْنُ الْمُنْذِرِ: أَجْمَعَ عَوَامُّ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ مَنْ سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْتُلُ.
وَمِمَّنْ قَالَ ذَلِكَ: «مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَاللَّيْثُ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَهُوَ مَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ».
۔۔۔ «وَهُوَ مُقْتَضَى قَوْلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عنه: ولا تقبل توبته عند هؤلاء» .
وَلَا نَعْلَمُ خِلَافًا فِي اسْتِبَاحَةِ دَمِهِ بَيْنَ عُلَمَاءِ الْأَمْصَارِ وَسَلَفِ الْأُمَّةِ.
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/474]
ترجمہ: ابوبکر بن منذرؒ نے کہا ہے کہ عام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص نبی کریم ﷺ کو گالی دے اسے قتل کردینا چاہیئے۔ یہی بات امام مالکؒ، لیثؒ، احمدؒ، اسحاقؒ وغیرہ نے بھی کہی ہے یہی امام شافعیؒ کا مذہب ہے۔۔۔ یہی حضرت ابو بکرؓ کے قول کا تقاضا ہے ۔۔۔ ایسے شخص کے مباح الدم ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔(الشفا بتعريف حقوق المصطفى:ص٢٢٠)

مباح الدم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسکو قتل کرنے کا کوئی گناہ نہیں، نہ ہی قاتل سے قصاص لیا جائے گا

(٢) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سُحْنُونٍ: «أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ أَنَّ شَاتِمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَنَقِّصَ لَهُ كَافِرٌ، والوعيد جار عليه بعذاب الله له، وَحُكْمُهُ عِنْدَ الْأُمَّةِ الْقَتْلُ.. وَمَنْ شَكَّ فِي كُفْرِهِ وَعَذَابِهِ كَفَرَ.
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/476]
ترجمہ: محمد بن سحنونؒ فرماتے ہیں کہ تمام علمائے امت کا اس امر پر اجماع ہے کہ شاتم النبی یا وہ شخص جو نبی ﷺ میں نقص نکالے کافر اور مستوجب وعید عذاب ہے اور پوری امت کے نزدیک واجب القتل ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے کافر ہونے اور مستحق عذاب ہونے میں شک کرے وہ خود کافر ہے (الشفا :ص٢٢١)

(٣) وَقَالَ أَبُو سُلَيْمَانَ «1» الْخَطَّابِيُّ: «لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ اخْتَلَفَ فِي وُجُوبِ قَتْلِهِ إِذَا كَانَ مُسْلِمًا» .
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/477]
ترجمہ: ابو سلیمان خطابیؒ نے کہا ہے کہ میں مسلمان علماء میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو آپ ﷺ کو گالی دینے والے کو قتل کرنے کا قائل نہ ہو بشرطیکہ وہ خود مسلمان ہو۔ (الشفا :ص٢٢١)

(٤قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ فِي الْعُتْبِيَّةِ : «مَنْ سَبَّهُ أَوْ شَتَمَهُ، أَوْ عَابَهُ أَوْ تَنَقَّصَهُ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ، وَحُكْمُهُ عِنْدَ الْأُمَّةِ الْقَتْلُ كَالزِّنْدِيقِ وَقَدْ فَرَضَ اللَّهُ تعالى توقيره وبره» .
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/477]
ترجمہ: ابن القاسمؒ نے العتبیة میں لکھا ہے کہ جو نبی کریم ﷺکو گالی دے یا آپ ﷺ پر عیب لگائے یا آپ ﷺ میں نقص نکالے ، اسے قتل کیا جائے گا اور ساری امت کے نزدیک اسکو قتل کرنے کا حکم اسی طرح ہے جس طرح زندیق کو قتل کرنے کا حکم ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کی تعظیم و توقیر کو فرض قرار دیا ہے(الشفا :٢٢١)

(٥) وَمِنْ رِوَايَةِ أَبِي الْمُصْعَبِؒ وَابْنِ أَبِي أُوَيْسٍؒ سَمِعْنَا مَالِكًاؒ يَقُولُ: «مَنْ سَبَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ شَتَمَهُ أَوْ عَابَهُ أَوْ تَنَقَّصَهُ قُتِلَ مُسْلِمًا كَانَ أَوْ كَافِرًا وَلَا يُسْتَتَابُ»
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/478]
ترجمہ: ابو مصعبؒ اور ابن ابی اویسؒ کی روایت میں ہے کہ ہم نے امام مالکؒ سے سنا ہے، وہ فرماتے تھے کہ جو شخص نبی کریم ﷺ کو گالی دے یا برا کہے یا عیب لگائے یا آپ ﷺ پر کوئی نقص عائد کرے ، اسے قتل کیا جائے چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے۔ (الشفا :ص٢٢١)
(٦) وَفِي كِتَابِ مُحَمَّدٍ : (أَخْبَرَنَا أَصْحَابُ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ غَيْرَهُ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ مُسْلِمٍ أَوْ كَافِرٍ قُتِلَ وَلَمْ يُسْتَتَبْ» ) .
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/478]
ترجمہ: امام احمدؒ بن ابراھیم کی کتاب میں ہے کہ امام مالکؒ نے فرمایا کہ جو شخص نبی کریم ﷺ کو یا کسی اور نبی کو گالی دے اسے قتل کیا جائے اور اسکی توبہ قبول نہ کی جائیگی چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر۔
(٧) وَقَالَ أَصْبَغ : «يُقْتَلُ عَلَى كُلِّ حَالٍ، أَسَرَّ ذَلِكَ أَوْ أَظْهَرَهُ وَلَا يُسْتَتَابُ لِأَنَّ تَوْبَتَهُ لَا تُعْرَفُ» .
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/478]
ترجمہ: اصبغؒ کہتے ہیں کہ ہر صورت میں اسے قتل کیا جائے گا چاہے وہ اعلانیہ گالی دے یا خفیہ طور پر اور اسکی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔
(٨) وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَكَمِ: «مَنْ سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مُسْلِمٍ أَوْ كَافِرٍ قُتِلَ وَلَمْ يُسْتَتَبْ» . وَحَكَى الطَّبَرِيُّ مِثْلَهُ عَنْ أَشْهَبَ عَنْ مالك .
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/478]
ترجمہ: عبد اللہ بن عبد الحکمؒ سے روایت ہے کہ جو شخص نبی کریم ﷺ کو گالی دے ، اسے قتل کیا جائے اور اسکی توبہ قبول نہ کی جائے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر۔
(٩) وَرَوَى ابْنُ وَهْبٍ عَنْ مَالِكٍ: «مَنْ قَالَ إِنَّ رِدَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُرْوَى زِرَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وسخ أراد به عَيْبَهُ قُتِلَ» .
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/479]
ترجمہ: امام مالکؒ سے روایت ہے کہ جس شخص نے یہ کہا کہ نبی ﷺ کی چادر یا آپ ﷺ کی قمیض کے کنارے میلے ہیں  اور اس سے اس کا ارادہ آپ ﷺ کی تحقیر کا ہو تو اسے قتل کیا جائے ۔
(١٠وَقَالَ بَعْضُ عُلَمَائِنَا: «أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ مَنْ دَعَا عَلَى نَبِيٍّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ بِالْوَيْلِ «2» أَوْ بِشَيْءٍ مِنَ الْمَكْرُوهِ أَنَّهُ يُقْتَلُ بِلَا اسْتِتَابَةٍ» .
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/479]
ترجمہ: بعض مالکی علماء رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ جس شخص نے انبیا کرام علیھم الصلوة والسلام میں سے کسی بھی نبی کے لئے ویل(عذاب) یا برے امر کی بددعا کی تو اسے بغیر توبہ کرائے قتل کیا جائے گا
(١١) وَأَفْتَى أَبُو الْحَسَنِ الْقَابِسِيُّ: (فِيمَنْ قَالَ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَمَّالُ «4» يَتِيمُ أَبِي طَالِبٍ» بِالْقَتْلِ) .
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/479]
ترجمہ: ابو الحسن قالبسیؒ نے ایسے شخص کو قتل کرنے کا فتوی دیا جس نے نبی ﷺ کے بارے میں یہ کہا کہ آپ ﷺ لوگوں پر بوجھ اور ابو طالب کے یتیم تھے۔
(١٢) وَأَفْتَى أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ أَبِي زَيْدٍ: (بِقَتْلِ رَجُلٍ سَمِعَ قَوْمًا يَتَذَاكَرُونَ صِفَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ مَرَّ بِهِمْ رَجُلٌ قَبِيحُ الْوَجْهِ وَاللِّحْيَةِ فَقَالَ لَهُمْ:
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/479]
ترجمہ: ابو محمد بن ابی زیدؒ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺکے ساتھ گستاخی کرنے میں زبان کی لغزش کا عذر نہیں سنا جائے گا
(١٣علامہ شرنبالیؒ لکھتے ہیں :
ولا تقبل توبة ساب النبی علیہ السلام سواء جاء تائبا من قبل نفسہ او شھد علیہ بذلک۔
(١٤علامہ خفاجیؒ (نسیم الریاض ص٣٩٩) پر لکھتے ہیں :
کسی کیلئے روا نہیں کہ نبی کی شان میں گستاخی سنے، سوائے اسکے کہ یا تو اس گستاخ کی جان لے لے یا اپنی جان فی سبیل اللہ دے دے
(١٥علامہ شامی رحمہ اللہ شاتم الرسول کے مباح الدم ہونے پر آئمہ اربعہ کا اجماع نقل کرتے ہیں :
لا شك ولا شبهة في كفر شاتم النبي ﷺ يَةِ وفي استباحة قتله وهو منقول عن الائمة الاربعة ۔۔ الخ
شاتم رسول ﷺ کے کفر اور قتل کے جائز ہونے میں کوئی شک شبہہ نہیں ہے ،چاروں اماموں (امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) سے یہی منقول ہے۔(شامی ص٤٠٦ج٣)
(١٦تفسیر مظہری (اردو)ص٥٣٤ج ہفتم میں ہے کہ :
حتی کہ علماء نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی نے نشہ کی حالت میں بھی آپ ﷺ کے لئے غلیظ الفاظ استعمال کئے تو اسے قتل کردیا جائے۔۔ الخ


توہینِ رسالت کی سزا کا خلاصہ:
1) رسول اللہ ﷺ کی شان میں صراحتا یا تعریضا بدگوئی کرنے یا تہمت لگانے والا شخص مرتد ہے۔
2) مرتد کی سزا قتل(کرنا فرض)ہے۔
3) قتل کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ہے، عام آدمی کیلئے قانون کے نفاذ کو مناسب نہیں۔ لیکن اگر کسی نے کردیا تو نہ اس پر قصاص ہے نہ تاوان کیونکہ مرتف مباح الدم (یعنی جائز القتل ہوتا) ہے۔ عام شخص کیلئے ایسا کرنا صرف خلافِ مستحب یعنی مکروہِ تنزیہی ہے جس پر حکومت کی طرف سے صرف تادیب ہوگی۔
4) اسی طرح شانِ رسالت میں جب ادنیٰ سى بے ادبی کو حبط اعمال کا سبب قرار دیا گیا ہے[قرآن-سورۃ الحجرات:2]تو گستاخی شدید ترین جرم ہے۔ اس کے بعد ایمان سلامت رہنا بھی دشوار ہے۔
گستاخ رسول کی سزا فقہاء نے لکھی ہے کہ اس کو بطور حد کے قتل کردیا جائے گا اور توبہ کرنے پر بھی یہ سزا اس سے معاف نہیں ہوگی۔
وقال في سابّ الأنبیاء: والکافر یسب نبي من الأنبیاء فإنہ یقتل حدا ولا تقبل توبتہ مطلقا (الشامي: ج6 ص370، زکریا)
[کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ:5/816-818،اردو ترجمہ لاھور 1984ع]

کتب سابقہ کے حوالے:
نقل از ہفت روزہ القلم
(١بائبل میں ہے :
انبیاء کی توہین کے مرتکب شخص کو زندہ جلا دیا جائے۔
(٢لوقا میں ہے:
خدا اور پیغمبروں کی توہین ناقابل معافی جرم ہے (١٠:١٢)
(٣تورات کتاب نمبر٣ (١٦:٢٤) اگر کوئی انبیاء کی توہین کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔
اگر مسلمانوں کے نبی کی توہین پر سزا ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو پھر مسیحی عقائد کی توہین پر مسیحی ممالک میں سزا کیوں دی جارہی ہے؟ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں کسی بھی نبی کی توہین پر سزا ہے جبکہ مسیحی ملکوں میں صرف مسیحیت کی توہین جرم ہے۔ عیسائی دنیا میں ان سزائوں کا تناسب کیا ہے؟ اسکو صرف ایک چھوٹے سے ملک مالٹا سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جہاں ٢٠٠٨ میں صرف ایک برس میں ٦٢١ افراد کو مسیحیت کی توہین پر سزا سنائی گئی ۔ اسی طرح کئی ممالک میں یہودیت کی توہین جرم ہے نیزمزید نئے قوانین اس ضمن میں بنائے جا رہے ہیں ۔ اگر اہل کفر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو ڈرا کر یہ قانون بدل دیا جائے گا تو انشا اللہ ایسا کبھی نہ ہوگا اور اگر اسلام غدار حکمرانوں نے ایسا کر بھی لیا تو اس سے تصادم مزید بڑہے گا ۔ پھر ہر گلی ہر محلے میں کوئی نہ کوئی غیر مسلم روزانہ توہین کے الزام میں قتل ہوا کرے گا ۔
اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ﴿الکوثر:3)
کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بے نام رہے گا۔
وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ (النشرح:4)
اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کیا۔



توہین رسولﷺکی شرعی سزا:بعض اہم سوالات

توہین رسالت کےحوالہ سے ملک بھر میں جاری بحث مباحثہ میں بعض ایسے اعتراضات بھی اُٹھائے جارہے ہیں جن سے یہ تاثر دیا جاسکے کہ توہین رسالت کی سزا یا تو شرعی طورپر ایک مسلمہ امر نہیں، یا اس کا اطلاق موجودہ حالات پر نہیں ہوتا۔ اس نوعیت کے اعتراضات نے چونکہ میڈیا کے ذریعے ہر عام وخاص کو متاثر کیا ہے، اس لئے ان کے بارے میں شریعت ِاسلامیہ کے موقف کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
نبی کریمﷺ تو معاف کرنے والے اور رحمت للعالمین ہیں!
کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت سے ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ آپ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کومعاف کردیا کرتے تھے۔ آپ پر بہت طعنہ زنی کی جاتی رہی، آپ کو ایذا دی گئی اور طائف کی وادی میں آپ پر پتھراؤ تک کیا گیا،حتیٰ کہ خونِ مبارک آپ کے جوتوں میں جم گیا، آپ نے تب بھی کسی کو سزا نہ دی تو پھر ایسے رحمۃ للعالمین اور محسن انسانیت ﷺ سے توہین رسالت کی اتنی سنگین سزا کا صدور بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے۔
جواب: آپ کی سیرتِ مطہرہ کا یہ پہلو بڑا ہی واضح ہے جس کا اعتراف مسلمانوں کےعلاوہ غیر مسلموں نے بھی کیا ہے، تاہم قرآن وسنت کی نصوص اور صحابہ کرام کے واقعات سے یہ امر ایک مسلمہ اُصول کے طورپر ثابت شدہ ہے کہ نہ صرف شانِ رسالت میں گستاخی کی سزا قتل ہی ہےبلکہ نبی کریمﷺ نے خود مدینہ منورہ میں اپنے بہت سے گستاخان کو قتل کرنے کا براہِ راست حکم صادر فرمایا۔ اور صحابہ کرام کی مجلس میں اس دشنام طرازی کے جواب میں اُن کو قتل کرنے کی دعوتِ عام دی ۔ ایسے جانثار صحابہ کی آپ نے حوصلہ افزائی کی اور اُن کی مدد کے لئے دعا بھی فرمائی جیسا کہ خالد بن ولید، حضرت زبیر، عمیر بن عدی او رمحمد بن مسلمہ کے واقعات احادیث میں موجود ہیں کہ اِن کے ہاتھوں قتل ہونے والے گستاخانِ رسول کو قتل کرنے کے لئے آپ نے کھلی دعوت دی۔ محمد بن مسلمہ کو آپ نے خود کعب بن اشرف کے قتل کی مہم پر بھیجتے ہوئے اُن کے لیے اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا فرمائی ، ایسے ہی حضرت حسان بن ثابت کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ
''روح القدس کے ذریعے ان کی مدد فرما!''
جہاں تک سیرتِ نبوی کے اس پہلو کا تعلق ہے جس میں آپ نے اپنے دشمنوں کو معاف فرمایا، تو اس کی وضاحت یہ ہے :
1. اس سلسلے میں آپ کو شخصی اذیت دینے والے اور آپ کی رسالت پر زبان طعن دراز کرنے والوں میں فرق کرنا ہوگا۔ جن لوگوں نے آپ کی ذاتِ مبارکہ یعنی محمد بن عبد اللہ کو اذیت دی، تو آپ نے اپنی وسیع تر رحمت کی بنا پر ان کو معاف فرما دیا، لیکن جو لوگ آپ کے منصب ِرسالت پر حرف گیری کرتے تھے، اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے تھے، اُنہیں آپ نے معاف نہیں کیا کیونکہ منصب ِرسالت میں یہ گستاخی دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پر زبان درازی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنا او راپنے رسول مکرم کا تذکرہ یکجا کیا ہے۔آپ کی ذات کے سلسلے میں زیادتی کی معافی بھی آپﷺ خود ہی دے سکتے ہیں، آپ کا کوئی اُمتی ایسا نہیں کرسکتا۔
2. تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو منصب ِنبوت میں نقب لگانے والے تھے، ان کا عبرت ناک انجام ہوا۔ ان لوگوں میں ابو لہب کے ذکر بد کے لئے ایک پوری سورت مخصوص کرکے اُسے نمونۂ عبرت بنادیا گیا، ابو جہل بدر میں مارا گیا، عاص بن وائل اور ولید بن مغیرہ، اَسود بن عبد یغوث، اَسود بن مطلب، حارث بن عبطل سہمی اور عاص بن وائل یہ تمام نام اس انجام کا مظہر ہیں جو اللہ ربّ العزت ایسے لوگوں کا کیا کرتے ہیں۔تفسیر در ِّ منثور میں مذکور ہے :
''[مذکورہ بالا] افراد نے نبی کریم کا استہزا کیا جس سے آپ رنجیدہ خاطر ہوئے۔ فوراً حضرت جبریلؑ تشریف لائے، اور ولید بن مغیرہ کی آنکھ کی طرف اشارہ کیا، اس کی آنکھ پھوٹ گئی،آپﷺ نے فرمایا: میں نے تو کچھ نہیں کیا اورنہ کچھ کہا تو جبریل بولے: میں نے آپ کی طرف سے انتقام لیا ہے۔ پھر حارث کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ وہ اپنا پیٹ پکڑے درد سےلوٹ پوٹ ہورہا ہے۔ آپ نے کہا : میں نے تو کچھ نہیں کیا،
تو جبریل بولے : میں نے آپ کا دفاع کیا ہے۔ ایسے ہی عاص بن وائل کے پاؤں کے ساتھ ہوا، اسود بن مطلب ایک درخت کے نیچے لیٹا تھا کہ ایک ٹہنی درخت سے گر کر اس کی آنکھ میں پیوست ہوگئی اور وہ اندھا ہوگیا۔ اسود بن یغوث کے سر میں شدید زخم نمودار ہوگیا جس سے وہ مارا گیا۔ اورحارث بن غیطل کے پیٹ میں صفرا اتنا شدید ہوگیا کہ غلاظت اس کے منہ سے خارج ہونے لگی اور اسی حال میں اس کی موت واقع ہوئی۔ یہ پانچوں اپنی قوم کے سردار تھے، نبی کریم ﷺکا مذاق اڑانے پر اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرمائی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا۔ ''

[دلائل النبوۃ از اصبہانی :1/63، طبرانی الاوسط، دلائل النبوۃ للبیہقی، درّمنثور: 5/101 (زیر آیت الحجر:95)]

جب طائف کی وادی پر محسن انسانیت ﷺکو پتھرمارے گئے اور آپ کے قدمِ مبارک سے خون جاری ہوگیا تو جبریل امینؑ نےآسمان سے نازل ہوکر کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ان پر میں طائف کے پہاڑوں کو اُلٹادوں۔جواب میں آپ نے تاریخ ساز جملہ بول کر اپنی رحمت للعالمینی کو ثابت کردیا: جعلوا يرجمونه بالحجارة، وهو يقول:«اللهم اهد قومي، فإنهم لا يعلمون»
'' طائف کے بدبختوں نے] آپ پر پتھراؤ شروع کردیا اور آپ جواب میں فرماتے جاتے: الٰہی ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما، یہ جانتے نہیں ہیں۔''

[تفسیر ابن كثير:ج 6/ ص 571]

انسانی تاریخ میں شاتمانِ رسالت کا کیسا عبرت ناک انجام ہوا، اس کےلئےدیکھئے مضمون: 'شاتمین رسول کا عبرت ناک انجام: تاریخ کے آئینے میں'

[فرائیڈے سپیشل بحوالہ کتابچہ 'قانونِ توہین رسالت کیوں ضروری ہے؟']

3. بعض آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مسلمان اس وقت خودایسے شاتمانِ رسالت کی سرکوبی کی قوت نہ رکھتے تھے، حتیٰ کہ بیت اللہ میں نماز سرعام پڑھنے سے بھی بعض اوقات گریز کرنا پڑتا تھا، سو اُس دور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس اذیت پر صبر وتحمل کی تلقین کی او رنبی کریمﷺ کو خود دلاسہ دیا کہ آپ کی شان میں دریدہ دہنی کرنے والے دراصل اللہ کی تکذیب کرتے ہیں

قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَيَحْزُنُكَ الَّذِيْ يَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ۰۰۳۳
اور وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَۙ۰۰۹۷

جنہیں اللہ ہی خوب کافی ہے

﴿إِنّا كَفَينـٰكَ المُستَهزِءينَ ٩٥﴾.... سورة الحجر

عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب پتہ چل جائے گا کہ کون مجنوں اور دیوانہ ہے؟

﴿فَسَتُبصِرُ‌ وَيُبصِر‌ونَ ٥ بِأَييِكُمُ المَفتونُ ٦ ﴾..... سورة ن

قرآنِ کریم میں صحابہ کو ایسے وقت صبر وتحمل کی ہدایت کی گئی:
﴿لَتُبلَوُنَّ فى أَمو‌ٰلِكُم وَأَنفُسِكُم وَلَتَسمَعُنَّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم وَمِنَ الَّذينَ أَشرَ‌كوا أَذًى كَثيرً‌ا وَإِن تَصبِر‌وا وَتَتَّقوا فَإِنَّ ذ‌ٰلِكَ مِن عَزمِ الأُمورِ‌ ١٨٦ ﴾.... سورة آل عمران
''البتہ ضرور تم اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں آزمائے جاؤگے اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے اذیت کی بہت سی باتیں سنو گے۔ اگر تم صبر کرو او راللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔''
سیدنا اُسامہ بن زید روایت کرتے ہیں کہ
«وکان رسول اللہ ﷺ یتأول في العفو ما أمرہ اللہ عزوجل به حتی أذن اللہ فیھم فلما غزا رسول اللہ ﷺ بدرًا فقتل اللہ بها من قتل من صنادید الکفار وَسَادَةِ قُرَيْشٍ»
''نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر ان کے بارے میں درگذر سے کام لیتے تھے حتیٰ کہ اللہ نے آپ کو ان کے بارے اجازت دے دی۔ پھر جب آپ نے غزوۂ بدر لڑا اور اللہ تعالیٰ نے اس غزوے میں قریش کے جن کافر سرداروں کو قتل کرنا تھا، قتل کرا دیا۔''
[صحيح بخاری: رقم 5739]

گستاخانِ رسول کو نظرانداز کرنے کا دور مدینہ منورہ کے ابتدائی سالوں تک رہا، اس دور کے بہت سے واقعات جن میں آپ کو رَاعِنَا وغیرہ کہنا بھی شامل ہیں، ان کی توجیہ بھی یہی ہے جیسا کہ حبر الامہ سیدنا ابن عباس [تفسیر ابن كثیر:1/ 383] میں فرماتے ہیں:

﴿فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ﴾ کا عفو و درگزر والا حکم آیت ﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ﴾....التوبة "سے منسوخ ہوا۔ «فنُسِخ ھذا عفوہ عن المشرکین» ''اس نے مشرکوں کے بارے میں آپ کی معافی کو منسوخ کردیا ہے۔'' (مختصراً)
ان نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں گستاخانِ رسول کی باقاعدہ سزا سے قبل اللہ تعالیٰ نے شاتمانِ رسالت کو خود کیفر کردار تک پہنچایا اور اس وقت تک مسلمانوں کو اس دشنام طرازی کا ردّعمل پیش کرنے کی اجازت نہ تھی۔ مزید برآں نبی کریمﷺ اپنی رحمت وشفقت کی بنا پر اپنا شخصی حق معاف توفرما سکتے تھے، لیکن شان رسالت میں زیادتی پر معافی کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں۔
شاتم رسول کی توبہ کا مسئلہ؟
اس سوال کے دو مختلف پس منظر ہیں او رہر دو کی وضاحت بھی علیحدہ ہے:
(1) اُصولی طورپر شاتم رسول کی توبہ کے بارے میں یہ واضح رہنا چاہئے کہ شتم رسول صرف ایک گناہ ہی نہیں بلکہ شریعت کی رو سے ایک قابل سزا جرم بھی ہے۔ اس بنا پر دیگر جرائم کی طرح جب اس کا علم عوام تک ہوجائے، مسلم حکمران اور اسلامی عدالت تک پہنچ جائے تو دیگر جرائم کی طرح اس کی سزا کی معافی نہیں ہوسکتی۔جیسا کہ چوری ایک گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ جرم بھی ہے یعنی دنیا میں ا س فعل کے ارتکاب پر مسلم حکومت اس کی سزا دینے کی پابند ہے۔چوری کے بارے میں مشہور واقعہ کتب ِاحادیث میں آتاہے :
«عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ أَنَّ رَجُلًا سَرَقَ بُرْدَةً فَرَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ قَدْ تَجَاوَزْتُ عَنْهُ قَالَ: فَلَوْلَا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ يَا أَبَا وَهْبٍ فَقَطَعَهُ رَسُولُ الله ﷺ»
''صفوان بن اُمیہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے چادر چوری کی تو اس کا کیس نبی کریمﷺ تک پہنچایا گیا، آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ شکایت کنندہ نے کہا : میں نے اس کو معاف کردیا تو آپ نے فرمایا: ابو وہب ! میرے پاس آنے سے پہلے پہلے تو نے اسے معاف کیوں نہ کردیا۔ سو رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔''
[سنن نسائی: 4796]

اسلام میں جرائم کے حوالے سے دو طرح کےحقوق میں خلل واقع ہوتا ہے: پہلا حق اللہ اور دوسرا حق العباد۔ یعنی ان جرائم کو اللہ نے بھی حرام قرار دیا ہے اور انسانوں کے مصالح بھی اس سے متاثرہوتے ہیں۔ چوری اور زنا کی طرح شتم رسول کے مسئلے میں بھی حق اللہ کے علاوہ حقوق العباد میں نبی کریمﷺ کا حق شدید متاثر ہوتاہے او رعامتہ المسلمین کا حق بھی،جنہیں نبی کریم سے غایت درجہ محبت کی بنا پر اس فعل پر شدید تکلیف ہوتی ہے۔

جہاں تک توبہ کی قبولیت کی بات ہے تو جب تک یہ معاملہ اللہ اور بندے کے مابین ہوتا ہے، اس وقت تک اللہ کے حق کی تکمیل خلوصِ دل سے توبہ کرنے کے ذریعے ہوسکتی ہے، ایسے ہی متاثر ہ فریق جس کے حق میں زیادتی کی گئی ہے، اگر وہ چوری کی صورت میں قاضی کے پاس پہنچنے سے قبل معاف کردے تو تب بھی مجرم کی سزا معاف ہوسکتی ہے۔ البتہ جب یہ معاملہ عوام الناس اور حاکم وقاضی کے پاس پہنچ جائے ، تو اس وقت مسلم حکام پر برائی کی نشرواشاعت کے خاتمہ اور نفاذِ شرع کی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے اس کی وضاحت ہوچکی ہے۔ تاہم جرائم کے اس سلسلے میں قتل کا معاملہ دیگر جرائم سے مختلف ہے ،کیونکہ کسی نفس کوقتل کردیا جانا ایک بہت ہی اہمیت والا مسئلہ ہے۔ اس بنا پر حدود یا جرائم سے قطع نظر قصاص کی صورت میں جواباً قتل کی سزا کی معافی کا اختیاربھی حاکم کے پاس پہنچ جانے کے باوجود متاثرہ فریق کے پاس رہتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَمَن قُتِلَ مَظلومًا فَقَد جَعَلنا لِوَلِيِّهِ سُلطـٰنًا فَلا يُسرِ‌ف فِى القَتلِ إِنَّهُ كانَ مَنصورً‌ا ٣٣ ﴾.... سورة الاسراء
''اور جو انسان ناحق قتل کردیا جائے تو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اُس کی مدد کی جائے گی۔''
دوسرے مقام پر قرآن کریم میں ہے:
﴿فَمَن عُفِىَ لَهُ مِن أَخيهِ شَىءٌ فَاتِّباعٌ بِالمَعر‌وفِ وَأَداءٌ إِلَيهِ بِإِحسـٰنٍ ذ‌ٰلِكَ تَخفيفٌ مِن رَ‌بِّكُم وَرَ‌حمَةٌ....١٧٨ ﴾.... سورة البقرة
''اور جو شخص اپنے بھائی کی طرف سے معاف کردیا گیا،تومعروف طریقہ سے دیت کا تصفیہ ہونا چاہئے اور قاتل کو چاہئے کہ راستی کے ساتھ ادائیگی کرے۔یہ تمہارے ربّ کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔''
واضح ہوا کہ اسلام میں جرائم کی توبہ کے دو پہلو ہیں: اللہ کا حق اور بندوں کا حق۔ مسلمان کی مخلصانہ توبہ سے اللہ کاحق تو ختم ہوجاتا ہے،لیکن متاثرہ فریق اور بعض اوقات مسلم معاشرے کا حق برقرار رہتا ہے، جس بنا پر اس کو دنیاوی سزا دی جاتی ہے۔ اگر محض توبہ کرنے سے اسلام میں سزا معاف ہوجاتی تو اس توبہ کا سب سے زیادہ حق ان صحابہ کرام کو حاصل تھا جنہوں نے گناہ کی سرزدگی کے بعد اپنے آپ کو پاک صاف کرنے کے لئے حضور ﷺ کے دربارِ رسالت میں پیش کردیا تھا۔ دورِ رسالت میں ایسے واقعات جن میں زنا اور چوری کے مرتکب صحابہ نے اپنے آپ کو خود پیش کیا، ان کی تعداد درجن سے زائد ہے۔ اور اُنہی میں سے ایک صحابیہ غامدیہ کے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ آپ نے اس صحابیہ کو بار بار واپس بھیجا کہ
٭ کیا تمہیں دیوانگی تو لاحق نہیں ہے؟
٭ وضع حمل کے بعدآنا: «فاذهبي حتى تلدي فلما ولدت أتته بالصبي في خرقة»
٭ پھر وہ صحابیہ وضع حمل کے بعد آئی تو کہا : بچے کی رضاعت کے بعد آنا
٭ تب وہ صحابیہ آئیں اور بچے کےہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا۔ (صحیح مسلم:1695)
اگر محض توبہ سے شریعت ِاسلامیہ کے بیان کردہ جرائم کی سزا ختم ہوجاتی تو اس صحابیہ کی ختم ہونا چاہئے تھی جن کے بارے میں نبی کریم نے تعریفی جملہ ارشاد فرمایا تھا۔ ایک اورروایت میں مختصر واقعہ اور تعریفی جملہ یوں بیان ہوا ہے:
«امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَتْ نَبِيَّ اللہ ﷺ وَهِيَ حُبْلَى مِنْ الزِّنَى فَقَالَتْ يَا نَبِيَّ اللہِ أصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ فَدَعَا نَبِيُّ اللہِ ﷺ وَلِيَّهَا فَقَالَ أَحْسِنْ إِلَيْهَا فَإِذَا وَضَعَتْ فَأْتِنِي بِهَا فَفَعَلَ فَأَمَرَ بِهَا نَبِيُّ اللہِ ﷺ فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا فَقَالَ لَهُ عُمَرُ تُصَلِّي عَلَيْهَا يَا نَبِيَّ اللهِ وَقَدْ زَنَتْ فَقَالَ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ وَهَلْ وَجَدْتَ تَوْبَةً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا للہِ تَعَالَى»
''جہینہ قبیلہ کی ایک عورت نبی کریمﷺ کے پاس آئی اور وہ زنا کی بنا پر حاملہ تھی۔کہنے لگی: یارسول اللہ! مجھ پر حد لگا دیجئے، میں نے شرعی حد کو پامال کیا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اس کے سرپرست کو بلایا او رکہا کہ اس سے اچھا سلوک کرنا اور وضع حمل کے بعد میرے پاس لے آنا۔ اس نے ایسے ہی کیا، تب نبی کریم نے اس کے بارے میں حکم دیا، اس کے کپڑے باندھ دیے گئے پھر اس کو رجم کردیا گیا۔ نبی کریم نے اس عورت کی دعائے مغفرت کی۔ سیدنا عمر کہنے لگے: آپ اس کی دعاے مغفرت کیوں کرتے ہیں، حالانکہ وہ تو زانیہ تھی۔ سید المرسلین نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے جو اگر ستر اہل مدینہ پر بھی تقسیم کردی جائے تو ان کو بھی کافی ہوجائے۔ اس سے بہتر توبہ کیا ہوگی جس میں اس نے اپنے آپ کو خود ربّ کے حضور پیش کردیا۔''
[صحيح مسلم رقم: 3209، ج 9/ص 70]

دورِ نبوی میں ایسے واقعات صرف زنا کے بارے میں نہیں بلکہ چوری وغیرہ کے بارے میں بھی ملتے ہیں۔ ان اعترافات کے پیچھے دراصل شریعت ِاسلامیہ کا یہ تصور موجود ہے:
«قَالَ مَنْ أَصَابَ حَدًّا فَعُجِّلَ عُقُوبَتُهُ فِي الدُّنْيَا فَالله أَعْدَلُ مِنْ أَنْ يُثَنِّيَ عَلَى عَبْدِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الْآخِرَةِ وَمَنْ أَصَابَ حَدًّا فَسَتَرَهُ الله عَلَيْهِ وَعَفَا عَنْهُ فَالله أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يَعُودَ إِلَى شَيْءٍ قَدْ عَفَا عَنْهُ»
نبی کریم ﷺ کا فرما ن مروی ہے کہ جس شخص نے حد والے جرم کا ارتکاب کیا، اور اسے دنیا میں ہی اس کی سزادے دی گئی تو اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ عادل ہیں کہ اس شخص پر آخرت میں سزا کو دوبارہ عائد کریں۔اور جس شخص نے حد والے جرم کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ کو چھپائے رکھا او راسے معاف کردیا تو اللہ اس سے کہیں زیادہ کریم ہیں کہ معاف کردہ جرم کی پھر سزا دیں۔''
[جامع ترمذی: 2550]

ان شرعی تصورات کو ملایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بیان کردہ جرائم کی سزا محض توبہ،حتیٰ کہ خود اعترافِ جرم کرلینے اور اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کردینے سے بھی رفع نہیں ہوجاتی۔ تاہم اگر کوئی انسان دنیا میں یہ سزا پالے تو قیامت کے روز یہ سزا اس کے لئے جرم سے کفارہ بن جاتی ہے۔ اور یہ بھی اس حالت میں جب اس سزا کے ملنے پر وہ نادم ہو۔ اگر وہ نادم نہیں تو دنیا میں ملنے والی سزاکے باوجود آخرت میں بھی اس پر مزید سزا دی جائے گی۔ ان حالات میں کسی مجرم کا اپنے آپ کو خود سزا کیلئے پیش کرنا ایک قابل قدر ، قابل تعریف اورعزیمت والا فعل ہے جس کی تعریف خود زبانِ رسالت سے بیان ہوئی ہے۔

توہین رسالت دیگر جرائم کی طرح ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا مل کررہے گی۔ مذکورہ بالا استدلال کے علاوہ شاتم رسو ل کی توبہ قبول نہ ہونے کی براہِ راست دلیل حدیث ِنبوی میں درج وہ مشہور واقعہ بھی ہے جس میں شاتم رسول عبد اللہ بن ابی سرح کی توبہ کا مسئلہ پیش آیا۔ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا یہ ہے:
«أَمَّا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللهِ ﷺ النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ بَايِعْ عَبْدَ اللهِ قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَأْبَى فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ فَقَالُوا وَمَا يُدْرِينَا يَا رَسُولَ اللهِ مَا فِي نَفْسِكَ هَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ قَالَ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ أَعْيُنٍ»
''جہاں تک عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کی بات ہے تو اس نے سیدنا عثمان بن عفان کے ہاں پناہ لےلی او رجب نبی کریم ﷺنے لوگوں کو بیعت کے لئے دعوت دی تو عثمان اس کو بھی ساتھ لے آئے۔ حتی ٰ کہ اس کو نبی کریم کے پاس لا کھڑا کیا اور کہنے لگے: یارسول اللہ! عبد اللہ کی بیعت قبو ل کر لیجئے۔ راوئ حدیث کہتے ہیں کہ آپﷺ نے سرمبارک بلند کیا اور تین بار اس کی جانب دیکھا، ہر بار آپ بیعت سے انکار کرتے رہے۔ آخر کار تیسری بار کے بعد آپ نے بیعت لے لی۔ پھر آپ ﷺ صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم میں کوئی عقل مند آدمی نہیں تھا ؟ جو عبد اللہ کو قتل کردیتا جب وہ مجھے دیکھ رہا تھا کہ میں نے اس کی بیعت کرنے سے اپنے ہاتھ کو روک رکھا ہے۔ صحابہ نے جواب دیا کہ یارسول اللہ ! ہمیں پتہ نہ چل سکا کہ آپ کے جی میں کیا ہے؟آپ ہمیں اپنی آنکھ سے ہی اشارہ فرما دیتے۔تو آپﷺ نے کہا: کسی نبی کے یہ لائق نہیں کہ وہ کن انکھیوں سے اشارے کرے۔''
[سنن نسائی رقم:3999، ج 12/ ص 427]

بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے جرم سے معافی کی سزا اسی وقت مل سکتی ہے جب نبی کریم ﷺ خود اپنے حق میں زیادتی کو معاف فرما دیں جیسا کہ مذکورہ بالا واقعات ميں بادلِ نخواستہ آپ نے عبد اللہ بن ا بی سرح کی توبہ کو منظور کرلیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد چونکہ اَب آپ کی ذات کی طرف سے یہ معافی دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا ، اس لئے گستاخِ رسول کی سزا بھی معاف نہیں کی جاسکتی۔ بہر حال یہ بعض اہل علم کا قول ہے، تاہم توہین رسالت میں اگر مسلمانوں کی حق تلفی کو بھی شامل کیا جائے جو بہت اہم پہلو ہے، تو اس کی سزا کی معافی کا کوئی اِمکان نہیں رہتا۔
٭ یاد رہے کہ مختلف احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ توہین رسالت کے مجرمین سے توبہ کا مطالبہ کبھی نہیں کیا گیا اور ان کا جرم اتنا سنگین ہے کہ فتح مکہ کےموقع پر عام معافی کے دن اور امن و امان کے مرکز مسجد ِحرام میں بھی آپﷺ نے ان کی سزا میں کوئی رعایت نہیں کی ۔ جب آپﷺ نے تمام لوگوں کو امن وامان دے دی تو اس دن بھی گستاخانِ رسول کو امان نہ دی:
«لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ النَّاسَ إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَقَالَ اقْتُلُوهُمْ وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِي جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ وَمَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ فَأَمَّا عَبْدُ اللہِ بْنُ خَطَلٍ فَأُدْرِكَ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ»
'' فتح مکہ کے روز نبی کریمﷺ نے تمام لوگوں کو امان دے دی، سوائے چار مردوں اور دو عورتوں کے ۔ فرمایا: ان کو قتل کردو، اگرچہ تم اُنہیں کعبہ کے پردوں سے لٹکے ہوئے بھی پالو۔ ان میں ایک عکرمہ بن ابو جہل تھا، دوسرا عبد اللہ بن خطل، تیسرا مقیس بن صبابہ اور چوتھا عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح۔ عبد اللہ بن خطل کو تو اس حال میں قتل کیا گیا جبکہ وہ کعبہ کے غلاف سے لپٹا ہوا تھا۔'' حدیث میں آگے باقی لوگوں کی سزا کا تذکرہ ہے۔
[سنن نسائی: 3999]

٭توہین رسالت کو فقہاے کرام نے ارتداد قراردیتے ہوئے اس کی سزا قتل بیان کی ہے۔ اس سے یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہئے کہ ارتداد کےتمام احکام مثلاً توبہ اور معافی وغیرہ بھی اس پر لاگو ہیں۔ بلکہ توہین رسالت کی ارتداد سے جزوی مشابہت پائی جاتی ہے اور فقہا نے سزائے قتل کی توجیہ کے طور پر اسے ارتداد قرار دیا ہے۔ وگرنہ اِرتداد ایک ایسا گناہ اور جرم ہے جس کی بغیر سزا کے بھی توبہ ہوسکتی ہے ۔ جبکہ توہین رسالت ارتداد سے زیادہ بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے جس کی چوری اور زنا وغیرہ کی طرف سزا معاف نہیں کی جاسکتی۔
توہین رسالت کے ارتداد سے بڑا جرم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ارتداد میں تو صرف اسلام سے خروج پایا جاتا ہے، جبکہ توہین رسالت میں نبی اسلامﷺ پر جارحیت کرتے ہوئے اسلام سے خروج کیا جاتا ہے۔ اور اس میں آپ کے خلاف پروپیگنڈا اور زبان درازی بھی شامل ہے۔ چنانچہ خروج کی حد تک توہین رسالت کا جرم ارتداد ہے جبکہ مزید زیادتیوں کی بنا پر ایک قابل سزا جرم ہے جو صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ محدث کے گذشتہ شمارے میں توہین رسالت کےقابل سزا جرم ہونے کے بارے میں مسالک اربعہ کے ممتاز فقہا کے اقتباسات شائع کئے گئے تھے۔
٭پاکستان یا عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کے موجودہ حالات میں توہین رسالت کے جرم کا اگر دینی مصالح کے لحاظ سے بھی جائزہ لیا جائے تو اس کو کسی طورقابل توبہ نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ مسلمانوں کے اس دورِ زوال میں ہر کہ ومہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہونے کے بعد ، بظاہر توبہ کا داعی بن بیٹھے گا، حالانکہ توبہ کی اس کی کوئی خالص نیت نہ ہوگی۔ اس سے رحمۃ للعالمین کا تقدس اور ناموس دشمنوں کے ہاتھ میں کھیل بن جائے گی۔یہ دور اس لحاظ سے بڑا دردناک ہے کہ اس میں غیر مسلموں نے اہانت ِرسول کو ایک کھیل اور مشغلہ بنا رکھا ہے، میڈیا کے اس دور میں تاریخ کی سب سے بڑی اور وسیع اہانت کا ارتکاب کیا جارہا ہے، جو مسلسل بھی ہے اور تنوع پذیر بھی۔ حتی کہ مسلم ممالک کے حکمران بلادِ اسلامیہ میں ایسا ظلم کرنے والوں کا ناطقہ بند کرنے کی بجائے ان کو فوری طورپر کفار کے محفوظ ہاتھوں میں پہنچانے کی جلدی کرتے ہیں۔ اور پاکستان میں تو صورتحال یہاں تک افسوس ناک ہے کہ ایسے شاتم رسول افراد اور ان کے گھرانے عیسائی کمیونٹی او رمغرب نواز این جی اوز کی طرف سے سپانسر کئے جاتے اور خصوصی اعزاز وپروٹو کول کے مزے اُڑاتے پھرتے ہیں۔ یہ افسوس ناک صورتحال کسی باخبر شخص سے مخفی نہیں ہیں۔ ان حالات میں شریعت ِاسلامیہ کے اس حکم کی معنویت بالکل واضح بلکہ انتہائی ضروری نظر آتی ہے۔
(2) توہین رسالت کی توبہ کا دوسرا پہلو، اسلام سے قطع نظر، خالص جرم وسزا کےقانونی پہلو سے متعلق ہے۔ پاکستان میں توہین رسالت ایک طے شدہ جرم ہے جس کے جرم قرار پانے کے تمام قانونی ضابطے بالکل مکمل ہیں۔کیا پاکستان کے مجموعہ تعزیرات میں کوئی اور بھی ایسے قوانین ہیں جن کی توبہ کی بنا پر ان کی سزاساقط ہوجاتی ہے۔ کیا پاکستان میں چوری یا فراڈ یا دہشت گردی کرنے کے بعد کوئی مجرم اگر توبہ کرلے تو اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے؟ اگر یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے تو پھر کیا توہین رسالت ہی ایسا ہلکا جرم ہے جسے ایک مستند قانون ہوتے ہوئے بھی قابل توبہ قرار دینے کی سعی کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر نے آسیہ مسیح سے 20 نومبر کو شیخوپورہ میں اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ہمراہ ملاقات میں یہی قرار دیا تھا کہ ''آسیہ مسیح بے گنا ہ ہے۔ اگر اس نے کوئی کوتاہی کی بھی ہے تو وہ اب توبہ کرچکی اور معافی کی طالب ہے۔''
کیا توہین رسالت کی سزا غیر مسلم کو بھی دی جائے گی؟
میڈیا میں یہ سوال بھی تکرار سے اُٹھایا جاتا رہا ہے کہ اگر یہ اسلامی قانون ہے تو پھر اس کو صرف مسلمانوں پر ہی نافذ ہونا چاہئے۔ غیرمسلم اور مسیحیوں پر اس قانون کے نفاذ کا کیا مطلب ہے؟ اس سوال کے بھی دو مختلف تناظر میں دو علیحدہ جوابات ہیں:
(1) اسلامی پہلو سے:
1. یہ بات درست ہے کہ یہ اسلامی قانون ہے، لیکن اسلام کا یہ قانون، مسلمانوں سمیت تمام غیرمسلموں کو شامل ہے۔ اسلام کی رو سے جو شخص بھی توہین رسالت کا مرتکب ہو، اس کویہ سزا دی جائے گی۔ جیسا کہ
1. نبی کریم ﷺ نے خود کعب بن اشرف یہودی کو اپنی نگرانی میں قتل کرایا۔
2. ابو رافع سلام بن الحقیق یہودی کو اپنے حکم سےقتل کرایا۔ آپ نے عبد اللہ بن عتیک کو اس یہودی کو قتل کرنے کی مہم پر مامور کیا۔
[صحیح بخاری: 4039]

3. حضرت زبیر کوآپ ﷺنے ایک مشرک شاتم رسول کو قتل کرنے بھیجا۔

4. عمیر بن اُمیہ نے اپنی گستاخِ رسول مشرک بہن کو قتل کیا اور آپ نے اس مشرکہ کا خون رائیگاں قرار دیا۔
5. بنوخطمہ کی گستاخ عورت عصما بنت ِمروان کو عمیر بن عدی خطمی نے قتل کردیا اور نبی کریمﷺ نے اس فعل پر عمیر بن عدی کی تحسین کی۔
6. دورِ نبوی میں ایک یہودیہ نبی کریم ﷺکو دشنام کیا کرتی اورگستاخی کرتی تھی۔ ایک مسلمان نے گلا گھونٹ کر اس کو قتل کردیا تو آپ نے اُس کا خون رائیگاں قرار دیا۔

[سنن ابو داود: 4262، السنن الکبریٰ للبیہقی: 7/60]
7. سیدنا عمر بن خطاب نے اپنے دورِ خلافت میں بحرین کے بشپ کی گستاخی پر اس کے قتل پر اظہارِ اطمینان کیا۔
8. مکہ مکرمہ اور مدینہ کے ابتدائی سالوں میں دشنام طرازی کرنے والے مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے خود نشانِ عبرت بنا کر موت سےہم کنار کیا۔
ان تمام صورتوں میں کسی کے ذہن میں یہ شبہ تک نہیں اُبھراکہ اسلام کی رو سے غیر مسلموں کو توہین رسالت پر قتل کرنا درست نہیں، تاآنکہ مملکت ِاسلامیہ پاکستان کےمغرب زدہ دانشوروں کی عقل ومنطق کو یہ بات کھٹکی اور اُنہوں نے اس کے لئے حیلے بہانے تراشنے شروع کردیے۔شریعت کے اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ
2. اسلام ، جو اللہ کا آخری اور مکمل دین ہے، اپنے بھرپور استحقاق کے باوجود اپنے ماننے والوں کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ غیر مسلموں کے معبودوں اوران کی عبادت گاہوں کو مسمار کریں۔ اسلام کا یہ اُصول اس آیت ِکریمہ میں موجود ہے:
﴿وَلا تَسُبُّوا الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدوًا بِغَيرِ‌ عِلمٍ.....  ١٠٨ ﴾.... سورة الانعام
''اور تم اُن معبودوں کو جنہیں یہ لوگ اللہ کے ماسوا عبادت کے لئے پکارتے ہیں، گالی مت دو۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ جواباً غصے میں اللہ تعالیٰ کو بغیر علم کے گالیاں بکیں گے۔''
جب اسلام اس ضابطہ اخلاق کو اپنے ماننے والوں پر عائد کرتا ہے تو پھر اسلام اس کا حق رکھتا ہے کہ دیگر مذاہبِ باطلہ کے لوگ بھی اسلام کی مقدس شخصیات اور مقامات وشعائر کا پورا احترام کریں۔
3. اسلام نے صرف اس کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ مذاہب ِسماویہ کی مقدس شخصیات کی توہین پر سنگین سزا بھی عائد کی۔توہین رسالت کے بارے میں یہ شرعی حکم صرف رسالت مآب ﷺ کے لئے نہیں بلکہ تما م سابقہ انبیائے کرام کی توہین کے لئے بھی یہی سزا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب کا فرمان ہے:
«من سبّ الله أو سبّ أحدًا من الأنبياء فاقتلوه»
''جو کوئی اللہ کو گالی دے، یا انبیا کو گالی دے، تو اس کو قتل کردیا جائے۔''
[كنز العمال: 335465 ، الصارم المسلول:201]

4. اسلام ایک الہامی شریعت کے ساتھ ساتھ ایک کامل نظریۂ حیات بھی ہے، جس میں سیکولرزم کی طرح پرائیویٹ اور پبلک کی کوئی تقسیم نہیں ہے، نہ ہی دین ودنیا کی کوئی تقسیم موجود ہے۔ چنانچہ اسلام کے سیاسی نظم کا تقاضا یہ ہے کہ دار الاسلام میں اسلامی قوانین کی پاسداری کی جائے۔اگر دار الاسلام میں غیرمسلم لوگ چوری کریں تو ان پر اسلام کا قانونِ سرقہ یعنی قطع ید کو نافذ کیا جائے گا، جیسا کہ موسوعۃ الاجماع میں ہے:
«إن إجماع المسلمین علی أن المسلم تقطع یدہ إذا سرق مالاً لمسلم ولغیرمسلم، وعلى أن غیر المسلم یقطع بسرقة مال المسلم ومال غیرالمسلم»

''اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے کہ ایسے مسلمان شخص کا ہاتھ کاٹا جائے گا جو کسی دوسرے مسلمان یا غیر مسلم کا مال چوری کرے۔ اسی طرح ایسے غیر مسلم شخص کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا جو کسی مسلمان یا غیر مسلم کا مال چوری کرے۔''

[موسوعة الإجماع في الفقه الإسلامي: 1/342]


جیسے کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ توہین رسالت ایک قابل سزا جرم اور اسلام کا پبلک قانون ہے جس کی پابندی اسلامی ریاست کے تمام شہریوں کو کرنا ہوگی۔دارالاسلام میں ذمی حضرات اسی صورت میں رہ سکتے ہیں جب وہ ریاستی قانون کی پابندی کریں گے۔ بصورتِ دیگر ذمی حضرات کا عہد اورامان نامہ ٹوٹ جائے گا۔دورِ نبوی میں مدینہ منورہ میں کعب بن اشرف، بنوخطمہ کی گستاخ عورت اورابو رافع سلام بن الحقیق وغیرہ کے گستاخی رسول پر قتل کے رائیگاں جانے کی شرعی اساس یہی ہے۔
5. اسلام کی رو سے نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد تمام انسان، آپ کی اُمت کا حصہ ہیں۔ چاہے وہ آپ کی دعوت کو قبول کرکے اُمت ِاجابت کی سعادت حاصل کریں یا قبول نہ کرکے اُمت ِدعوت کی حیثیت پر برقرار رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو کائنات کے لئے رحمت للعالمین اور انسانیت کا محسن ومعلم بنا کر بھیجا ہے حتیٰ کہ آپ کی یہ فضیلت اور امامت سابقہ تمام انبیا پر بھی حاوی ہے۔ چنانچہ سورۃ النساء میں کفار اور عاصیوں کو نبی کریم ﷺکی اُمت قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَكَيفَ إِذا جِئنا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهيدٍ وَجِئنا بِكَ عَلىٰ هـٰؤُلاءِ شَهيدًا ٤١ يَومَئِذٍ يَوَدُّ الَّذينَ كَفَر‌وا وَعَصَوُا الرَّ‌سولَ لَو تُسَوّىٰ بِهِمُ الأَر‌ضُ وَلا يَكتُمونَ اللَّهَ حَديثًا ٤٢ ﴾..... سورة الانعام
'' پھر سوچو کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اِن لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد ﷺ کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔ اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے کفر کیا اور رسول کے نافرمان رہے، تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے۔''
اس آیت ِمبارکہ میں کفار اور عاصیانِ رسول کو بھی آپ ﷺکی اُمت قرار دیا گیا ہے، جنہیں شرعی اصطلاح میں 'اُمت ِدعوت' کہا جاتاہے۔اس اُمت پر بھی اسلام کی رو سے آپ کا حق احترام واجب ہوتا ہے۔ایک اور مقام پر بھی قرآنِ کریم میں ہے :
﴿وَما أَر‌سَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرً‌ا وَنَذيرً‌ا وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ‌ النّاسِ لا يَعلَمونَ ٢٨ ﴾.... سورة سبا
6. آزادئ اظہار کا جدید تصوربھی ، انسانی آزادی اور اظہارِ رائے کے حق کو اُس حد تک محدود کرتا ہے جہاں اس سے کوئی دوسرا متاثر نہ ہو۔ آزادیٔ اظہار کی یہ حد بندی صرف ایک مسلمہ حقیقت نہیں بلکہ یورپی کنونشن کا چارٹر اس کو قانونی حیثیت بھی عطا کرتا ہے۔ جس کی رو سے
''آزادیٔ خیالات کے ان حقوق پر معاشرے میں موجود قوانین کے دائرہ کار کے اندر ہی عمل کیا جاسکتا ہے، تاکہ یہ آزادیاں کسی دوسرے فرد یاکمیونٹی کے تحفظ،امن وامان اور دیگر افراد یا کمیونٹی کے حقوق اور آزادیوں کو سلب کرنے کا ذریعہ نہ بنیں۔'' (مجریہ ١٩٥٠،روم)
یوں بھی یہ مطالبہ ہی ایک مہذب معاشرے میں کراہت آمیز ہے کہ انسانیت کی مسلمہ مقدس اور محسن شخصیتﷺ کے تقدس کو پامال کرنے کو انسانی حق قرار دیا جائے۔ آپﷺ کی توہین سے پوری دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یعنی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل شکنی اور دل آزاری ہوتی ہے۔انسانی حقوق کے ایسے تصور جن سےایسے رویے استدلال لیتے
ہیں، اس قابل ہیں کہ اُنہیں قوت سے کنٹرول کرکےمسلمہ تہذیب وآداب کا مقید بنایا جائے ۔
(2) جدید قانون کی رو سے: نیشنل [وطنی] ریاست کے نقطہ نظر سے جس پر اس وقت دنیا بھر کی تمام ریاستیں قائم ہوئیں اور کاربند ہیں، یہ مسئلہ تو بڑا ہی سادہ ہے کہ کیا توہین رسالت کا پاکستانی قانون پاکستان کے غیرمسلم شہریوں پر لاگو کیا جائے گا؟
توہین رسالت کا قانون پاکستان کا 'لاء آف لینڈ' ہے جس کے قانونی ہونے کے تمام سیاسی مطالبے مثلاً پارلیمنٹ کی توثیق ومنظوری اور عدالتی تقاضے بخیر وخوبی پورے کئے گئے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ یہ قانون آخر کار 1992ء میں پاکستانی پارلیمنٹ کی منظوری کی بنا پر نافذ العمل ہے، کیونکہ جہاں تک وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا تعلق ہے جس میں 30/اکتوبر 1991ء کی تاریخ دی گئی تھی، اس میں سزائے قید کے خاتمے کے ساتھ اس سزاے موت کو تمام انبیا کی توہین تک وسیع کرنے کی بات بھی کی گئی تھی۔ لیکن جب قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہ معاملہ دوبارہ 1992ء میں پیش ہوا تو تمام انبیا کی توہین پر سزاے موت کی شق کو ختم کردیا گیا اور آج پاکستان میں یہی قانون نافذ ہے جو تمام تر ارتقاکے بعد آخرکار پارلیمنٹ کی طرف سے اسی صورت میں منظور ہوا ہے کہ اس میں صرف نبی کریمﷺ کی توہین وگستاخی پر سزاے موت کی سزا کا تعین کیا گیا ہے۔
٭ یہاں موضوع سے قطع نظر ایک اور وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ 1992ء میں بینظیر بھٹو کا اس قانون کےبارے میں کردار کیا تھا؟ جیسا کہ راقم اپنے سابقہ مضمون میں واضح کرچکا ہے کہ بینظیر اس قانون کی سخت مخالف تھیں اور اسے پاکستان کے لئے بدنامی کا سبب قرار دیتی تھی، ان کا تفصیلی بیان اور ردّ عمل اُس مضمون میں مذکور ہے۔ موجودہ پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب 'چاہ ِیوسف سے صدا'میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ بینظیر بھٹو بھی اس قانون کی مؤید تھیں، حالانکہ یہ بات تاریخی طورپر حقائق کے منافی ہے۔ بینظیر بھٹو نے اس اپنے مراسلے میں دراصل اس موقف کی حمایت کی تھی جو 1986ء میں ضیا حکومت کے وزیر قانون اقبال احمد خاں کا تھا اور جس کی مخالفت وفاقی شرعی عدالت نے اپنی ڈیڈ لائن 30/اکتوبر1991ء کے ذریعے کی۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ قرار دیا کہ اگر حکومت نے قانون توہین رسالت کی سزا سے سزاے قید کا خاتمہ نہ کیا تو 30/اکتوبر 1991ء تک یہ سزا ے قید ختم ہوکر از خود صرف سزاے موت رہ جائے گی۔ بینظیر بھٹو نے اس وقت اپنا مراسلہ لکھ کر، سزاے قید کو برقرار رکھنے کی حمایت کی تھی۔یہ ہے بینظیر بھٹو کی حمایت کی وہ حقیقت جس کا ڈھنڈورا آج پیپلز پارٹی کے عہدیداران بشمول وزیر اعظم پاکستان پیٹتے پھرتے ہیں۔
٭جہاں تک نواز حکومت کی 1992ء میں اسمبلی سے منظوری او رتائید کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مجاہدِ ناموس رسالت محمد اسمٰعیل قریشی بتاتے ہیں کہ نواز شریف کو ان کے والد محترم میاں محمد شریف سے ملاقات کرکے، اس قانون کی حمایت پر نہ صرف آمادہ کیا گیا تھا، بلکہ ان کے والدصاحب نے اس قانون کے خلاف اپیل پر اُنہیں ڈانٹ پلائی تھی۔ بعد میں جب یہ پدرانہ دباؤ نہ رہا تو اسی نواز حکومت نے 1998ء میں اس قانون کے قابل عمل ہونے کے راستے میں سنگین رکاوٹیں کھڑی کردیں جس کی تفصیل میرے سابقہ مضمون میں گزر چکی ہے۔یہ نواز حکومت ہی تھی جس نے 1994ء میں سلامت اور رحمت مسیح کو چندگھنٹوں میں جرمنی کے سفر پر روانہ کردیا تھا۔
ان واقعاتی وضاحتوں اور حقائق کی درستگی سے قطع نظربہرحال توہین رسالت پاکستان کا منظور شدہ قانون ہے جو بلاامتیاز نہ صرف پاکستان کے تمام شہریوں بلکہ پاکستان میں آنے والے مسافروں اور زائرین پر بھی عائد ہوتا ہے، جیساکہ لاہور میں دوہرے قتل کے امریکی مجرم ریمونڈ ڈیوس کا فیصلہ بھی پاکستانی قانون کی روشنی میں کیا جائے گا۔ اس میں مذہبی حوالے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ پاکستان کا پبلک لاء ہے جو پاکستان کی دھرتی پر نافذ ہے۔
٭جس طرح پاکستانی تارکین وطن پر جرمنی یا امریکہ کا قانون ان ممالک میں رہتے ہوئے نافذ ہوتاہے ، اسی طرح پاکستان کا قانونِ دہشت گردی پاکستان میں قیام پذیر لیکن دنیا بھر کے شہریوں پر نافذ ہوتا ہے۔ یادش بخیر، ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر افغانستان کی بگرام ائیربیس میں ہونے والے ایک واقعہ کا مقدمہ امریکی عدالت میں کیوں چلایا جارہا ہے؟ جبکہ عافیہ صدیقی پر ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے یاتو پاکستان میں پاکستانی قانون او رعدلیہ کے تحت کیس چلنا چاہئے یا افغانستان میں وقوعہ ہونے کی بنا پر افغانستان میں کیس چلنا چاہئے۔
امریکہ جہاں بھی اپنی افواج بھیجتا ہے، وہاں اپنے فوجی کیمپ بناتا ہے، جن کے بارے میں مقامی حکومت سے وہ معاہدہ کرتا ہے کہ وہاں امریکہ کا قانون نافذ ہوگا اور امریکی عدالتیں ہی اس کا فیصلہ کریں گی۔ اس بنا پر افغانستان کا بگرام ائیربیس ہو یا پاکستان کا جیکب آباد کا امریکی کیمپ، ان دونوں مقامات پر ہونے والے جرائم کا تعین اور ان کی سزا کا فیصلہ امریکی عدالتیں کریں گی، چاہے مجرموں کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔نیشنل ریاستوں کے اس مسلمہ تصور کے بعد یہ ایک قانونی مذاق ہے کہ کہا جائے کہ آسیہ مسیح پر پاکستانی قانون کے مطابق کیوں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے اور اسے توہین رسالت کی سزا کیوں دی جاسکتی ہے؟
٭یورپی ممالک سیکولر ریاستیں ہیں، جو اپنے ہاں دیگر مذاہب کی آزادی کے نظریے کے داعی اور محافظ ہیں۔ یہ ممالک مذہبی جبر کے شدید ناقد ہیں۔اس کے باوجود فرانس ، بلجیم اور اٹلی میں پہلے حجاب وسکارف اور چھ ماہ قبل چہرے پر نقاب کے حوالے سے قانون پاس ہوا ہے جس کی رو سے فرانس میں چہرے پر نقاب ڈالنے والی عورت کو 725یورو جرمانہ19 اور قید کی سزا دی جائے گی۔فرانس ، سیکولرزم کا چیمپئن ملک اور مذہبی تحفظ کا داعی، اپنے ہاں مسلم خواتین پر اپنا غیراسلامی قانون نافذ کرنے میں کوئی جھجک نہیں رکھتا۔ دوسری طرف پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، اور یہ ملک دستوری طورپر سیکولر ہونے کی بجائے اسلام کے فروغ اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے بنایا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے لادین دانشوروں کو یہاں غیرمسلموں پر تو اسلام کا نفاذ چبھتا ہے، لیکن یورپ کے سیکولر ملک میں مسلمان خواتین پر یہ مذہبی جبر دکھائی بھی نہیں دیتا !!
شاتم رسو ل اورحنفی فقہا  کا موقف؟
شاتم رسول کی سزا ایک مسلمہ شرعی تقاضا ہے۔ اس کے منکرین کو تو قرآنِ کریم اور احادیث ِمبارکہ کی صریح نصوص کی کوئی فکر نہیں، لیکن ہمارے بعض ایسے بزعم خویش اسلامی دانشور بھی ہیں جو اس سلسلے میں مسلمانوں میں باہمی اختلاف کا شوشہ پیدا کرکے مطلب براری کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے مفکرین حنفی فقہ کا حوالہ کس منہ سے دیتے ہیں حالانکہ کسی مسئلہ کے اجماعی طورپر اُمت اسلامیہ کا موقف ہونے اور قرآن وحدیث میں اس کا غیرمتزلزل اثبات موجود ہونے کے باوجود یہ مفکرین اس کودرخورِ اعتنا نہیں جانتے، جیساکہ ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔تاہم اہل مغرب سے اس کی کوئی تائید مل جائے یا ان کے مفادات پر کوئی حرف گیری کرنے لگے تو تب ایسے دانشور اسلام سے اس کے خلاف دلائل ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں۔
ٹی وی کے مباحثوں میں جاوید احمد غامدی عام یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ''اے مسلمانانِ پاکستان! آپ اس سلسلے میں میری نہ مانیں، امام ابو حنیفہ کی ہی تسلیم کرلیں جو شاتم رسول کی سزا قتل قرار نہیں دیتے۔'' غامدی صاحب کے ادارے 'المورد' کے سکالرزنے ایسے تمام اقتباسات کو بڑی جستجو کے بعد جمع کرکےمختلف ذرائع کے ذریعے پھیلانے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کے پیش کردہ موقف میں بہت سے مغالطے دیے جاتے ہیں:
1. اوّل تو یہ ملت ِاسلامیہ کا اجماعی موقف ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے اور اس میں حنفی علما کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ ابن المنذر لکھتے ہیں:
«أجمع عوام أهل العلم علی أن حدّ من سبّ النبي ﷺ القتل»

''اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی ﷺ کو گالی دیتاہے ، اس کی سزا قتل ہے ۔''

[موسوعة الدفاع عن رسول الله ﷺ: ج1/ص12]

2. یہی حنفیہ کے معتبر فقہا کا بھی موقف ہے جیساکہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں:
«کل من أبغض رسول ﷺ بقلبه کان مرتدًا، فالساب بطریق أولیٰ ، ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاطه القتل»
[فتح القدیر بحواله البحر الرائق شرح كنز الدقائق ج 13/ ص 495]

''جس شخص نے بھی رسول اللہ ﷺ سے دلی طور پر بغض رکھا، وہ مرتد ہوجاتاہے ، تو گالی دینےوالا تو بالاولیٰ مرتد ہوگا ۔ اور پھر ایسا شخص ہمارے نزدیک بطورِ حد قتل کیا جائے گا اور قتل کے بارے میں اس کی کوئی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ ''
اور قاضی ابو یوسف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
«وأیما مسلم سبّ رسول الله ﷺ أو کذبه أو عابه أو تنقصه فقد کفر بالله وبانت منه امرأته»

'' جس مسلمان نے بھی رسول اللہ ﷺ کو گالی دی ، آپ کی تکذیب یا توہین کی تو وہ کافر ہوگیا ، اس کی عورت اس سے جدا ہوجائے گی ۔''

[کتاب الخراج بحواله حاشية رد المحتار ج 4 /ص 419]

جیسا کہ اوپر دو معتبر حنفی علما کا قول ذکر ہوچکا ہے کہ شاتم رسول کی سزا بطورِ شرعی حد کے قتل ہے اور ا س کی توبہ ناقابل قبول ہے۔ یاد ر ہے کہ احناف کے ہاں اسی قول کا اعتبا رکیا جاتا ہے جس پر ان کے ہاں فتویٰ دیاجاتا ہو اور پاکستان کے علماے احناف کا فتویٰ بھی وہی ہے جو پوری ملت ِاسلامیہ کا ہے، جیسا کہ اس سلسلے میں پاکستان کے علماے احناف نے اپنا موقف پیش کردیا ہے کہ امام ابو حنیفہ اور بعض علما احناف کی طرف اس قول کی نسبت درست نہیں!
3. اگر امام ابو حنیفہ کی طرف اس قول کی نسبت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو ان کا موقف کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے او راس سے موجودہ صورتحال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
«والسّابّ إن كان مسلما فإنّه يكفر ويقتل بغير خلاف، وهو مذهب الأئمّة الأربعة وغيرهم، وإن كان ذمّيّا فإنّه يقتل عند الجمهور ، وقال الحنفيّة : لا يقتل، ولكن يعزّر على إظهار ذلك»

''اگر دشنام طرازی کرنے والا مسلمان ہو تو وہ کافر ہوجائے گا، اور بلا اختلاف اس کی سزا قتل ہے۔یہی ائمہ اربعہ وغیرہ کا متفقہ موقف ہے۔ تاہم اگر وہ ذمی ہے تو جمہور کے ہاں اس کی سزابھی قتل ہے، لیکن حنفیہ کا موقف ہے کہ اس کو لازما ً قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس جرم کے اظہار پر اس کو تعزیری سزا دی جائے گی۔''

[الموسوعة الفقهية الكويتية ج 2 / ص 4883]

علامہ ابن تیمیہ نے بعض حنفی علما کا موقف ان الفاظ میں درج کیا ہے:
«وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا: لا ينتقض العهد بالسبّ، ولا يقتل الذمي بذلك، لكن يعزر على إظهار ذلك كما يعزر على إظهار المنكرات التي ليس لهم فعلها من إظهار أصواتهم بكتابهم ونحو ذلك، وحكاه الطحاوي عن الثوري»

''امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کا کہنا یہ ہے کہ ذمی کا عہد نبی کریم ﷺکو گالی دینے سے ٹوٹتا نہیں ہے اور اس بنا پر ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اس کی سزااس کو دی جائے گی جس طرح دیگر منکرات وغیرہ کی سزا اُنہیں دی جاتی ہے، جن میں سے ان کا اپنی کتب کو بلند آواز سے پڑھنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اور یہی موقف امام طحاوی نے ثوری سے بھی نقل کیا ہے۔''

[الصارم المسلول: 1/17]

اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کی دشنام طرازی پر علمائے اُمت اور احناف میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اس کی سزا قتل ہے۔تاہم بعض احناف کا یہ موقف فقط ایسے ذمی لوگوں کے بارے میں ہے جو دارالاسلام میں رہتے ہوں کہ اگر وہ شتم رسول کریں گے تو ان کی معاہدہ اور امان نامہ نہیں ٹوٹے گا، لیکن اُنہیں اس جرم کی سزا ضرور دی جائے گی جو لازمی نہیں کہ قتل ہی ہو، جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے۔پتہ چلا کہ احناف کا یہ موقف ایسے ذمی لوگوں کے بارے میں جو دارالاسلام میں رہ کر ذمی کے فرائض یعنی جزیہ بھی ادا کرتے ہوں۔ احناف کے اس موقف سے اگر یہ ثابت شدہ ہو تو پاکستان کی موجودہ صورتحال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کیونکہ پاکستان کے غیرمسلم نہ تو ذمی ہیں اور ہی ذمی کی حیثیت کو قبول کرکے جزیہ وغیرہ ادا کرتے ہیں بلکہ یہ تو برابر کے شہری ہونے کے داعی ہیں۔ دراصل پاکستان خالص طورپر اسلامی مفہوم میں دارالاسلام نہیں بلکہ ایک وطنی ریاست ہے جس میں رہنے والے ایک باہمی متفقہ دستور کی بنا پر اپنے حقوق کا تعین کرتے ہیں۔ان حالات میں ایک ایسی ریاست میں ذمی کا مسئلہ ڈال کر معاملہ کو اُلجھانا مغرب زدہ دانشوروں کا وطیرہ ہی ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف حنفیہ کے نامور فقیہ علامہ محمد امین عرف قاضی ابن عابدین نے اپنی کتاب میں علامہ ابن تیمیہ کے اس اقتباس کو بیان کرکے اس کی وضاحت یوں کی ہے :
«ومن أصولهم: يعني الحنفية أن ما لا قتل فيه عندهم مثل القتل بالمثقل والجماع في غير القبل، إذا تكرر فللامام أن يقتل فاعله، وكذلك له أن يزيد على الحد المقدر إذا رأى المصلحة في ذلك، ويحملون ما جاء عن النبي ﷺ وأصحابه من القتل في مثل هذه الجرائم، على أنه رأى المصلحة فذلك ويسمونه القتل سياسة.»
«وكان حاصله: أن له أن يعزر بالقتل في الجرائم التي تعظمت بالتكرار، وشرع القتل في جنسها، ولهذا أفتى أكثرهم بقتل من أكثر من سب النبي ﷺ من أهل الذمة وإن أسلم بعد أخذه، وقالوا يقتل سياسة، وهذا متوجه على أصولهم اهـ . فقد أفاد أنه يجوز عندنا قتله إذا تكرر منه ذلك وأظهره.
وقوله: وإن أسلم بعد أخذه، لم أر من صرح به عندنا، لكنه نقله عن مذهبنا وهو ثبت فيقبل»

''اُصولِ حنفیہ میں سے یہ ہے کہ احناف میں بھاری آلہ سے قتل پر یا قُبل کے علاوہ کسی جگہ میں جماع کرنے پر سزاے قتل ضروری نہیں ۔ تاہم جب یہ فعل تکرار سے ہوں تو حاکم اس کے فاعل کو قتل کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے او رحاکم کو یہ صلاحیت بھی حاصل ہے کہ مصلحت ِعامہ کا لحاظ کرتے ہوئے متعین حد پر سزا کا اضافہ بھی کرسکتا ہے۔اس کی دلیل نبی کریمﷺ او رآپ کے صحابہ کرام کا اس جیسے جرائم میں عوامی مصلحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قتل کی سزا کا فیصلہ کرنا ہے۔ احناف میں ایسی سزائے قتل کو سیاستاً سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (یعنی ایک تو وہ سزاے قتل جو شرعاً مقرر ہے او ردوسری جو شرعی مصلحت کی بنا پر دی جائے ،وہ 'سزاے قتل سیاستاً 'کہلائے گی)
حاصل بحث یہ ہے کہ قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ تکرار سے ہونے والے جرائم کی شدت کی بنا پر ان میں قتل کی سزاجاری کرے۔ اسی بنا پر بہت سے احناف نے ایسے بہت سے شاتمان رسول کے قتل کا فتویٰ دیا ہے جو ذمی ہونے کے باوجود تکرار سے اس فعل شنیع کا ارتکاب کرتے تھے، باوجود اس امر کے کہ مجرم ذمی پکڑے جانے کے بعد توبہ کرکے اسلام بھی لے آئے۔او رحنفیہ نے کہا کہ ایسے شاتمان کو سیاستاً [مصلحت ِشرعی کی بنا پر]قتل کیا جائے گا۔اور یہ موقف ان کے اصول سے ثابت شدہ ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے[حنفیہ] کے ہاں بھی شاتم ذمی کا قتل کرنا جائز ہے، جب وہ تکرار کا مرتکب ہو او رکھلم کھلا یہ جرم کرے۔
امام ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ اگر چہ ایسا ذمی پکڑے جانے کے بعد اسلام بھی لے آئے [تب بھی اس کو قتل کیا جائے گا] تو مجھے علم نہیں کہ حنفیہ میں سے کسی نے اس کی صراحت بھی کی ہے یا نہیں؟ تاہم جب امام ابن تیمیہ  حنفیہ کے بارے میں یہ بات جو بتا رہے ہیں توایک معتبر شخصیت ہونے کے ناطے ان کی بات کا اعتبار کیا جانا چاہئے۔''

[ردّ المحتار على الدر المختار: 4 /233]

مذکورہ بالا طویل اقتباس سے معلوم ہوا کہ
٭ توہین رسالت کے ارتکاب کی صورت میں ذمی کو تعزیری سزا دی جائے گی۔
٭ احناف کے ہاں ذمی کومسلسل یا کھلم کھلا توہین رسالت پرقتل کی سزا دی جاسکتی ہے۔
٭ اس سزا کی اساس شریعت کے براہِ راست حکم کی بجائے قاضی کے پیش نظر مصلحت شرعی ہوگی جسے اصطلاحاً 'سزاے قتل سیاستاً' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
٭ اگرشاتم رسول ذمی توبہ کے بعد اسلام بھی لے آئے تو اس کی توبہ ناقابل قبول ہوگی۔
4. احناف کے اس موقف کی وضاحت کے بعد، آخر میں سب سے اہم نکتہ جو ایک مسلمان کے لئے اساسی حیثیت رکھتا ہے، یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے دور میں ایسے شاتمانِ رسول سے جو غیر مسلم اور ذمی تھے، کوئی رعایت ملحوظ نہ رکھی اور ان کو خود اپنے حکم سے قتل کروایا ۔ احادیث کے یہ چھ واقعات چار صفحات پہلے بیان ہوچکے ہیں۔
اس ضمن میں کعب بن اشرف یہودی اور ابو رافع سلام بن الحقیق یہودی کے واقعات، جن میں آپ نے خود صحابہ کو ان شاتمانِ رسول کو قتل کرنے کے لئے بھیجا، صحیح بخاری کی احادیث ہیں اور امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق: إذا صح الحدیث فهو مذهبي ''جب کوئی حدیث ِصحیح آجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔'' ان کا قول بھی ان احادیث کے بعد یہی بنتا ہے جودیگر علماے اُمت کا ہے جیسا کہ مشہور حنفی امام قاضی ابن عابدین فرماتے ہیں:
«إذَا صَحَّ الْحَدِيثُ وَكَانَ عَلَى خِلَافِ الْمَذْهَبِ عُمِلَ بِالْحَدِيثِ، وَيَكُونُ ذَلِكَ مَذْهَبَهُ وَلَا يَخْرُجُ مُقَلِّدُهُ عَنْ كَوْنِهِ حَنَفِيًّا بِالْعَمَلِ بِهِ، فَقَدْ صَحَّ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: إذَا صَحَّ الْحَدِيثُ فَهُوَ مَذْهَبِي. وَقَدْ حَكَى ذَلِكَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِ مِنْ الْأَئِمَّةِ» (رد المحتار: 1 / 166)
'' جب کوئی حدیث صحیح اور مستند ہو حالانکہ وہ حنفی مذہب کے خلاف ہو تو اس صحیح حدیث پر عمل کیا جائے گا اور وہی امام ابوحنیفہ کا مسلک ہوگا۔ اور اس حدیث پر عمل کرنے کی بنا پر امام ابو حنیفہ کا مقلد حنفیت کے دائرہ سے خارج نہیں ہوگا۔ کیونکہ امام ابوحنیفہ سے یہ بات درست طورپر منقول ہے کہ جب حدیث صحیح مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔ یہ بات ابن عبد البر اور دیگر ائمہ اسلاف نے امام ابو حنیفہ سے بیان کی ہے۔''
الغرض یہی مستند شرعی مسئلہ ہے اور یہی حقیقی حنفی موقف ہے جیسا کہ اوپر کی تصریح سے معلوم ہوا اور اسی کو تمام فقہاے عظام اورمحدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین نے اختیار کیا ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم!
چنانچہ ذمی کے لئے توہین رسالت کی سزا میں رعایت نہ تو امام ابو حنیفہ کا موقف ہے، نہ ہی پاکستان کے عیسائی یا دیگر غیر مسلم ذمی ہیں، نہ وہ اس حیثیت کو مانتے او رنہ ہی اس کے تقاضے پورے کرتے ہیں، پھر جاوید غامدی کا واویلا اور ان کے لئے رعایت کا مطالبہ کس بنا پر ہے؟ پاکستان کے ایک شہری ہونے کے ناطے ان پر پاکستان کاہی قانون توہین رسالت لاگو ہوگا، اور یہی پاکستان کے قانون او راسلام کا تقاضا ہے۔
٭ آج بعض لوگ یہ شبہ بھی پیدا کرتے ہیں کہ گستاخِ رسو ل کی سزا عورت کو نہیں دی جائے گی، حالانکہ احادیث ِرسول میں یہودیہ،عمیر بن اُمیہ کا اپنی گستاخ مشرکہ بہن کوقتل کرنے اور عمیر بن عدی کے عصما بنت مروان کو قتل کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس جرم کی سزا میں عورت او رمرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔



19. تفصیلات : 'یورپ میں حجاب ونقاب کے خلاف مہم' از راقم (ماہنامہ 'محدث': اپریل 2010ء)






توہین رسالت کی سزا کے متعلق حنفی مسلک


(علامہ ابن عابدین الشامی کی معرکۃ الآرا تحقیق کا خلاصہ)


ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ کے مارچ ۲۰۱۱ء کے شمارے میں راقم کا ایک مقالہ ’’ توہین رسالت کی سزا فقہ حنفی کی روشنی میں ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مقالے کے آخر میں تمام مباحث کا خلاصہ راقم نے ان سات نکات کی صورت میں پیش کیا تھا : 

’’ ۱۔ کسی شخص کو اس وقت تک گستاخ رسول قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک مقررہ شرعی ضابطے پر اس کا جرم ثابت نہ ہو۔ 

۲ ۔ اگر گستاخ رسول اس جرم سے پہلے مسلمان تھا تو اس کے اس جرم پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوگا اور اگر وہ پہلے ہی غیر مسلم تھا تو پھر اس فعل پر سیاسۃ کے احکام کا اطلاق ہوگا ۔ 

۳ ۔ حد ارتداد کو ملزم کے اقرار یا دو ایسے مسلمان مردوں کی گواہی ، جن کا کردار بے داغ ہو ، سے ہی ثابت کیا جاسکتا ہے ، جبکہ سیاسۃ کو عورتوں اور غیر مسلموں کی گواہی ، نیز قرائن اور واقعاتی شہادتوں سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے ۔ 

۴ ۔ پہلی صورت میں سزا بطور حد موت ہے لیکن سزا کے نفاذ سے پہلے عدالت مجرم کو توبہ کے لیے کہے گی اور اگر عدالت اس کی توبہ سے مطمئن ہو تو اس کی سزا ساقط کردے گی ۔ دوسری صورت میں کوئی مقررہ سزا نہیں ہے بلکہ جرم کی شدت و شناعت اور مجرم کے حالات کو دیکھتے ہوئے عدالت مناسب سزا سنائے گی ، جو بعض حالات میں سزاے موت بھی ہوسکتی ہے ۔ سیاسۃً دی جانے والی سزا کو حکومت معاف کرسکتی ہے اگر مجرم کا طرز عمل تخفیف کا متقاضی ہو ۔ 

۵ ۔ حد ارتداد حق اللہ ہے اور سیاسۃ کی سزا حق الامام ہے ، اور حنفی فقہا کے مسلمہ اصولوں کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق الامام دونوں سے متعلق سزاؤں کا نفاذ حکومت کا کام ہے ۔ 

۶ ۔ اگر کسی شخص نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایسے شخص کو قتل کیا جو پہلے مسلمان تھا لیکن توہین رسالت کے نتیجے میں مرتد ہوگیا تھا اور اس کا جرم مقررہ ضابطے پر ثابت ہوا تھا ، تو قاتل کو قصاص کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر اس قاتل کو سیاسۃً مناسب سزا دی جاسکے گی ۔ اگر مقتول کا جرم مقررہ ضابطے پر ثابت نہیں ہوا تھا تو سیاسۃ کے علاوہ قاتل کو قصاص کی سزا بھی دی جائے گی ۔ 

۷ ۔ اگر مقتول پہلے سے ہی غیر مسلم تھا اور اس کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوا تھا ، یا اسے عدالت کی جانب سے سزاے موت نہیں سنائی گئی تھی ، یا اس سزا میں تخفیف کی گئی تھی ، تو قاتل کو قصاص کی سزا بھی دی جائے گی اور سیاسۃً کوئی اور مناسب سزا بھی سزا بھی دی جاسکے گی ۔ اگر مقتول کا جرم بھی ثابت تھا اور اسے سزاے موت بھی سنائی گئی تھی تو قاتل کو قصاص کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر تادیب کے لیے اسے سیاسۃً مناسب سزا دی جاسکے گی ۔ ‘‘ 

ان نتائج بحث میں سے بعض پر چند اہل علم کی جانب سے عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا کیونکہ ان کی راے میں متاخرین فقہاے احناف کی راے اس مقالے میں نظر انداز کی گئی تھی۔ درحقیقت متاخرین کی اختلافی راے پر راقم نے مقالے کے حواشی میں بحث کی تھی اور شاید اسی وجہ سے بعض اہل علم اسے نظر انداز کرگئے تھے۔ اس مقالے میں راقم کا مفروضہ یہ تھا کہ متاخرین کی راے حنفی مسلک کی صحیح نمائندگی نہیں کرتی ۔ اس موضوع پر اپنی جانب سے مزید کچھ کہنے کے بجاے راقم نے مناسب خیال کیا کہ اس مسئلے میں علامہ محمد امین ابن عابدین الشامی کی معرکہ آرا تحقیق کا خلاصہ پیش کر دیا جائے۔ 

توہین رسالت کی سزا کے متعلق معاصر اہل علم کی بحث میں بالعموم قاضی عیاض بن موسی کی الشفا بتعریف حقوق المصطفی اور شیخ الاسلام احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ الحرانی کی الصارم المسلول علی شاتم الرسول کے مندرجات کو ہی مد نظر رکھا گیا ہے ۔ قاضی عیاض کا تعلق مالکی مسلک سے جبکہ امام ابن تیمیہ کا تعلق حنبلی مسلک سے تھا۔ شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے ممتاز فقیہ خاتمۃ المجتہدین تقی الدین السبکی کی نہایت اہم تالیف السیف المسلول علی من سبّ الرسول کو بالعموم اس سلسلے میں نظر انداز کیا گیا ہے، لیکن سب سے بڑا ظلم علامہ ابن عابدین الشامی کے ساتھ ہوا ہے کیونکہ ان کی تحقیق کا جو خلاصہ رد المحتار میں ملتا ہے، اس سے لوگوں نے بالعموم مختلف اقتباسات سیاق و سباق سے کاٹ کر نقل کیے ہیں اور یوں علامہ شامی نے جس بات کی تردید میں اپنی توانائیاں صرف کی اسی بات کو علامہ شامی کے حوالے سے لوگوں نے نقل کیا ہے ! یہی کچھ ان کے اس رسالے کے ساتھ ہوا ہے جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا جارہا ہے ۔ 

علامہ شامی کا یہ رسالہ ان کے مجموعۂ رسائل کی پہلی جلد میں پندرھویں نمبر پر آتا ہے ۔ اس کا پورا عنوان ہے : 

’’تنبیہ الولاۃ و الحکام علی أحکام شاتم خیر الأنام أو أحد أصحابہ الکرام علیہ و علیھم الصلاۃ و السلام ‘‘

راقم کی راے یہ ہے کہ موجودہ دور کے مخصوص تناظر میں اس عنوان میں تھوڑی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ اب اسے محض تنبیہ الولاۃ و الحکام نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا زیادہ مناسب عنوان شاید تنبیہ العلماء والولاۃ والحکام  ہو ۔ راقم نے اس انتہائی اہم رسالے کا انگریزی زبان میں ترجمہ مکمل کر لیا ہے اور آج کل اس پر تحقیقی حواشی اور مقدمہ لکھنے کا کام جاری ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے ۔ 

واضح رہے کہ اس مقالے میں راقم کا مطمح نظر توہین رسالت کی سزا کے بارے میں حنفی فقہا کے موقف کے دلائل واضح کرنا نہیں ، بلکہ راقم کا مقصود صرف یہ ہے کہ توہین رسالت کی سزا کے مختلف پہلووں پر حنفی فقہا کے موقف کی صحیح تصویر سامنے لائی جائے ، اگرچہ اس کوشش میں ضمناً فقہاے احناف کے دلائل کا خلاصہ بھی سامنے آجائے گا ۔ 

علامہ شامی کے رسالے کا اجمالی خاکہ

علامہ شامی نے اپنے اس رسالے کو دو ابواب میں تقسیم کیا ہے : 

باب اول میں گستاخ رسول کی سزا پر تفصیلی بحث ہے جبکہ باب دوم صحابۂ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والے کی سزا کے بارے میں ہے۔ 

چونکہ موضوع زیر بحث کا تعلق باب اول سے ہے اس لیے اس باب کے مندرجات کا خاکہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ علامہ شامی نے اس باب کو تین فصول میں تقسیم کیا ہے جن میں پہلی دو فصول اس شخص کے متعلق ہیں جو اس فعل کے ارتکاب سے قبل مسلمان تھا : 

فصل اول میں علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ اگر ایسا شخص اس فعل سے توبہ نہ کرے تو اس کی سزا بطور حد موت ہے۔ 

فصل دوم میں علامہ شامی نے تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ ایسے شخص سے توبہ کے لیے کہنا لازم ہے اور اگر قاضی اس کی توبہ سے مطمئن ہو تو اس شخص کی دنیوی سزا ساقط ہو جائے گی ۔ انھوں نے تفصیل سے اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ کا مسلک واضح کیا ہے ۔ 

فصل سوم اس گستاخ رسول کی سزا کے متعلق ہے جو مسلمان ریاست کا باشندہ ہو ۔ علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ اس شخص کو فساد کے ارتکاب کی وجہ سے قاضی مناسب سزا دے سکتا ہے جو بعض شنیع صورتوں میں سزاے موت بھی ہوسکتی ہے۔ 

فصل اول : اگر مسلمان اس جرم کا ارتکاب کرے 

علامہ شامی نے اس فصل کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے : 

پہلے حصے میں انھوں نے اس مسئلے میں فقہا کی آرا اور دلائل کا خلاصہ ذکر کیا ہے ، جبکہ دوسرے حصے میں انھوں نے اس بات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے کہ ایسے گستاخ رسول کی سزا کی علت ’’گستاخی‘‘ ہے یا ’’ کفر ‘‘ ؟ 

ایسا مجرم اگر توبہ نہ کرے تو اس کی سزاے موت پر اجماع ہے ۔ 

چنانچہ پہلے حصے میں علامہ شامی نے اس بات پر فقہا کا اجماع نقل کیا ہے کہ اگر مسلمان کہلانے والا شخص رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے اور اس فعل سے توبہ نہ کرے تو اس کی سزا بطور حد موت ہے ۔ انھوں نے اس ضمن میں بعض لوگوں کے شبہے کا جواب بھی دیا ہے جو یہ کہتے تھے کہ اس فعل کے ارتکاب سے مسلمان تبھی مرتد ہوگا جب وہ اس فعل کو اعتقاداً جائز سمجھے ۔ علامہ شامی نے قرآن و سنت کی نصوص اور اجماع و قیاس کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ اس فعل کا مرتکب مرتد ہوجاتا ہے خواہ وہ اعتقاداً اس کی حلت کا قائل نہ ہو ۔ 

سزاے موت کی علت : گستاخی یا ارتداد ؟ 

اس کے بعد دوسرے مسئلے میں علامہ شامی نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ ایسے شخص کو جو سزا دی جاتی ہے وہ خاص اس گستاخی کے سبب سے دی جاتی ہے یا اس وجہ سے دی جاتی ہے کہ یہ گستاخی ارتداد ہے اور اس وجہ سے اس شخص کو دراصل ارتداد کی سزا دی جاتی ہے ؟ 

انھوں نے قرار دیا ہے کہ گستاخ رسول کی سزاے موت کی علت یہ ہے کہ اس فعل کی وجہ سے وہ مرتد ہوجاتا ہے ۔ اگر گستاخی ہی علت ہوتی تو پھر ہر گستاخ کو بطور حد سزاے موت دی جاتی حالانکہ فقہائے احناف سے صراحت کی ہے کہ غیرمسلم گستاخ رسول کو بعض حالات میں سزاے موت دی جاتی ہے تو وہ بطور حد نہیں بلکہ بطور سیاسۃ دی جاتی ہے۔ چنانچہ پہلے وہ مرتد اور عام کافر میں چند فروق ذکر کرتے ہیں ۔ مثال کے طور عام کافر کو ذمی بناکر اس پر جزیہ عائد کیا جاسکتا ہے اور اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ، جبکہ مرتد کو ذمی نہیں بنایا جاسکتا اور اگر اس نے اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا تو اسے قتل کیا جائے گا ۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قتل مرتد کی علت کفر نہیں بلکہ کفر کی خاص شکل ۔ مسلمان کی طرف سے ارتداد۔ ہے اور ارتداد کی یہ سزا بطور حق اللہ واجب ہے ۔ لہٰذا مرتد کی سزاے موت حد ہے ، خواہ متقدمین فقہائے احناف نے کتاب الحدود میں اس کا ذکر نہ کیا ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ متقدمین بھی ارتداد کے لئے ان ساری صفات کے قائل ہیں جو حد کی ہیں ۔ 

یہاں ابن عابدین ایک شبہے کا ذکر کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر یہ سزا حد ہے تو پھر یہ توبہ سے ساقط کیسے ہوتی ہے ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ مرتد کی بطور حد سزاے موت کی وجہ خاص فعل ارتداد نہیں ہے بلکہ فعل ارتداد کے ساتھ ساتھ اس کا دوسرا سبب اس کا کفر پر قائم رہنے کا ارادہ ہے ۔ اور ایسی علت جو دو اجزا پر مشتمل ہو وہ ان میں کسی کے بھی نہ ہونے کی صورت میں موجود نہیں رہتی ۔ پس اس کے اسلام کی طرف لوٹ آنے کے بعد تنہا ارتداد سزاے موت کا سبب نہیں بن سکتا کیونکہ سزاے موت بیک وقت دو افعال کی جزا تھی ۔ 

وہ مزید کہتے ہیں کہ عام قاعدے کے تحت تو بقیہ حدود کی طرح چاہیے تھا کہ یہ حد بھی توبہ سے ساقط نہ ہوتی لیکن کئی آیات و احادیث میں صراحتاً قرار دیا گیا ہے کہ اسلام قبول کرنے پر پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ اس لیے فقہا نے اسے عام قاعدے سے استثنا قرار دیا ہے ۔ اسی طرح اس سزا پر یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے کہ اگر یہ حد ہے تو پھر مرتد عورت پر کیوں نہیں نافذ کی جاتی کیونکہ کئی روایات میں صراحتاً کافر عورتوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے ۔ اس لیے یہ ممانعت بھی ایک استثنائی حکم ہے ۔ 

فصل دوم : مسلمان کہلانے والے گستاخ رسول کی توبہ کے بعد سزا کا سقوط 

اس فصل کو علامہ شامی نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے : 

حصۂ اول میں انھوں نے ایسے گستاخ رسول کی توبہ کی قبولیت پر مختلف مسالک کے فقہا کا اختلاف نقل کیا ہے ؛ 

حصۂ دوم میں انھوں نے اس پر بحث کی ہے کہ کیا ایسے گستاخ رسول سے توبہ کے لیے کہناواجب ہے؟ 

حصۂ سوم میں انھوں نے اس مسئلے میں حنفی مسلک کے نمائندہ موقف کی تنقیح کی ہے اور نہایت تفصیل سے امام ابوحنیفہ کی راے کی وضاحت کی ہے ، نیز بعض متاخرین حنفی فقہا کی اختلافی آرا کی کمزوری بھی واضح کی ہے ۔ 

ایسے مجرم کی توبہ کی قبولیت کے متعلق مذاہب فقہ کا اختلاف 

حصۂ اول میں علامہ شامی نے واضح کیا ہے کہ ایسے گستاخ رسول کی توبہ کی قبولیت کے مسئلے پر فقہا کا اختلاف ہے ۔ 

چنانچہ انھوں نے قاضی عیاض کی الشفا اور دیگر فقہا کی کتب سے طویل اقتباسات نقل کرکے دکھایا ہے کہ فقہا کے ہاں اس مسئلے پر تین آرا پائی جاتی ہیں: 

۱ ۔ امام مالک کی مشہور راے یہ ہے کہ ایسے گستاخ رسول کو سزا گستاخی کی ملتی ہے ، نہ کہ کفر کی ، اور اس وجہ سے یہ سزا توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ یہ راے امام شافعی ، امام احمد اور امام لیث سے بھی نقل کی گئی ہے۔ 

۲ ۔ امام مالک سے ہی دوسری راے کی روایت ولید بن مسلم نے کی ہے اس شخص پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوگا جن میں ایک حکم توبہ کی قبولیت کا ہے ۔ یہی راے امام ابو حنیفہ ، امام ثوری اور امام اوزاعی کی ہے ۔ 

۳ ۔ تیسری راے ، جس کی روایت سحنون نے کئی مالکی فقہا سے کی ہے ، یہ ہے کہ اس شخص پر زندیق کے احکام کا اطلاق ہوگا ، گویا اس کی توبہ دنیوی سزا ساقط نہیں کرسکے گی ۔ 

کیا ایسے مجرم کو توبہ کے لیے کہنا واجب ہے ؟ 

حصۂ دوم میں علامہ شامی نے واضح کیا ہے کہ جو فقہا ایسے گستاخ کی توبہ کی قبولیت کے قائل نہیں ہیں وہ اس سے توبہ کرانے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ البتہ توبہ کی قبولیت کے قائل فقہا میں بھی اکثریت کا کہنا یہ ہے ، اور یہی حنفی فقہا کا نمائندہ موقف ہے ، کہ اگر ایسے شخص کو توبہ کے لیے کہے بغیر بھی اسے سزاے موت دی گئی تو اس سزا کو جائز سمجھا جائے گا ، اگرچہ قانوناً صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسے توبہ کے لیے کہا جائے ، اس کے شبہات دور کیے جائیں اور اسے رجوع کا موقع دیا جائے ۔ علامہ شامی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر ایسا شخص غور و فکر کے لیے مہلت چاہے تو پھر حنفی فقہا کا موقف یہ ہے کہ اسے سوچنے سمجھنے کے لیے مہلت دینا واجب ہے ۔ 

ایسے مجرم کی توبہ کے قانونی اثرات کے متعلق امام ابو حنیفہ کے مسلک کی تحقیق 

حصۂ سوم اس ساری بحث کی جان ہے ۔ یہاں علامہ شامی نے فقہ حنفی کے تمام ذخیرے کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد جو نتائج نکالے ہیں وہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں ۔ علامہ شامی کی اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ کسی بھی فقہی مسلک ، اور بالخصوص حنفی مسلک ، میں اگر ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہوں تو ان میں کسی راے کو اس مسلک کا نمائندہ موقف ماننے کے لیے کیا طریق کار اختیار کرنا چاہیے ۔ اصول قانون اور اصول فقہ پر کام کرنے والوں کے اس فصل میں بہت مفید مواد موجود ہے ۔ 

امام ابو حنیفہ کے مسلک کے متعلق دیگر مذاہب کے ائمہ کی گواہی 

اس مقام پر پہلے تو علامہ شامی نے قاضی عیاض اور امام طبری کے اقتباسات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ ایسے گستاخ کی توبہ کی قبولیت اور توبہ کے ذریعے اس کی سزا کے سقوط کے قائل تھے کیونکہ وہ اس پر مرتد کے احکام کا اطلاق کرتے تھے ۔ اس کے بعد انھوں نے دو اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے : 

۱ ۔ یہ کہ یہی راے امام مالک سے ولید بن مسلم نے روایت کی ہے کہ ایسے گستاخ پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوگا۔ 

۲ ۔ دوسری یہ کہ توبہ کی عدم قبولیت کے متعلق امام مالک کی مشہور راے کی بنیاد یہ امر ہے کہ وہ اس سزا کو گستاخ کے مرتد ہوجانے کی حد نہیں بلکہ خاص گستاخی کے فعل کی حد سمجھتے ہیں ، اور یہی راے قاضی عیاض نے امام شافعی ، امام احمد اور امام لیث سے نقل کی ہے ۔ 

اس آخری نکتے کے متعلق علامہ شامی فرماتے ہیں کہ امام احمد کی مشہور راے تو یہی ہے جو قاضی عیاض نے نقل کی ہے ۔ تاہم امام شافعی کے مسلک کی تحقیق کے متعلق علامہ شامی کی راے قاضی عیاض سے مختلف ہے ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ یہ راے شافعی فقیہ ابو بکر الفارسی کی راے کے موافق ہے جو قرار دیتے ہیں کہ حد قذف کی طرح یہ سزا بھی توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ( کیونکہ شافعی فقہا کے نزدیک حد قذف حق العبد سے متعلق ہے ، نہ کہ حق اللہ سے متعلق ، اور ابو بکر الفارسی کی راے میں گستاخ رسول کی سزا رسول اللہ ﷺ کے حق سے متعلق ہے ) ۔ دیگر مشہور شافعی فقہا میں ابو بکر القفال اور امام الحرمین نے بھی اسی راے کو ترجیح دی ہے لیکن خاتمۃ المحققین تقی الدین السبکی نے صراحت کی ہے کہ امام شافعی کا مشہور مسلک اس کے برعکس توبہ کی قبولیت ہی کا ہے اور اسی مسلک پر قاضیوں نے فیصلے دیے ہیں ۔ امام سبکی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ امام فارسی کے قول کی روایت مختلف الفاظ میں کی گئی ہے ، اور یہ کہ اس کے قول کی سیاق و سباق اسے گستاخی کی ایک خاص نوعیت ، رسول اللہ ﷺ کے خلاف قذف کے ارتکاب ، کے ساتھ خاص کردیتا ہے ۔ امام الحرمین نے بھی امام فارسی کے قول کی روایت قذف کے لفظ کے ساتھ کی ہے ۔ شافعیہ کے مسلک کے متعلق امام سبکی کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ : 

۱۔ گستاخی کی عام صورتوں میں مجرم کو توبہ کے لیے کہا جائے گا اور اگر اس نے توبہ کی تو اس کی سزا ساقط ہوجائے گی ؛ 

۲ ۔ اگر گستاخی قذف کی نوعیت کی ہو اورپھر مجرم توبہ کرے تو پھر شافعیہ کے ہاں تین آرا ہیں : ایک یہ کہ اس کی سزا ساقط ہوجائے گی ؛ دوسری یہ کہ اس کی سزاے موت ساقط ہوجائے گی لیکن اسے سزاے قذف دی جائے گی ؛ اور تیسری راے یہ ہے کہ اسے سزاے موت ہی دی جائے گی ۔ 

جہاں تک امام ابوحنیفہ کے مسلک کا تعلق ہے تو امام سبکی نے تصریح کی ہے کہ حنفی مسلک توبہ کی قبولیت ہی کا ہے اور اس میں دو رائیں نہیں پائی جاتیں۔ اس کے بعد علامہ شامی نے اس سلسلے میں امام تیمیہ کی گواہی پیش کی ہے ۔ امام ابن تیمیہ نے بھی امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کا یہی مسلک نقل کیا ہے کہ اگر مجرم پہلے مسلمان ہو اور گستاخی کے بعد توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور اس کی سزا ساقط ہوجائے گی ۔ 

امام ابو حنیفہ کے مسلک کے متعلق متقدمین فقہاے احناف کی گواہی 

اس کے بعد علامہ شامی قرار دیتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے مسلک کے متعلق اگر حنفی متون خاموش بھی ہوتیں تو امام طبری ، قاضی عیاض ، امام ابن تیمیہ اور امام سبکی جیسے انتہائی ثقہ اور معتبر فقہاء کی گواہی اس سلسلے میں کافی تھی ۔ تاہم حنفی متون اس سلسلے میں خاموش نہیں ہیں بلکہ وہ صراحتاً اس گواہی کی تائید کرتی ہیں ۔ یہاں علامہ شامی امام ابوحنیفہ کے ممتاز شاگرد امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم کی کتاب الخراج سے یہ اقتباس نقل کرتے ہیں جو فقہ حنفی کے موقف کے متعلق بالکل صریح ہے : 

و قال ابو یوسف : و أیما رجل مسلم سب رسول اللہ ﷺ أو کذبہ أو عابہ أو تنقصہ، فقد کفر باللہ تعالیٰ ، و بانت منہ امرأتہ ۔ فان تاب، و الا قتل ۔ و کذلک المرأۃ ، الا أن أبا حنیفۃ قال : لا تقتل المرأۃ ، و تجبر علی الاسلام ۔ 
[ابو یوسف کا قول ہے کہ جو مسلمان رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے ، یا ان کی تکذیب کرے ، یا ان کی عیب جوئی کرے ، یا ان کی شان میں تنقیص کرے ، تو اس نے اللہ تعالیٰ کے کفر کا ارتکاب کیا اور اس کی بیوی بائن ہوگئی ۔ پھر اگر وہ توبہ کرے تو بہتر ورنہ اسے سزاے موت دی جائے گی۔ یہی حکم عورت کا بھی ہے ۔ البتہ ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے اسلام کی طرف لوٹ آنے پر مجبور کیا جائے گا۔ ] 

اس اقتباس سے دیگر امور کے علاوہ علامہ شامی یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ حنفی مسلک کے مطابق توبہ کی قبولیت سے مراد سزا کا سقوط ہے کیونکہ امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ : فان تاب، والا قتل۔ 

علامہ شامی نے شیخ الاسلام السعدی کی تالیف النتف الحسان سے یہ اہم اقتباس بھی اس سلسلے میں نقل کیا ہے : 

من سب رسول اللہ ﷺ فانہ مرتد وحکمہ حکم المرتد، یفعل بہ ما یفعل بالمرتد 
[جس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو وہ مرتد ہوا ۔ اس کی قانونی حیثیت وہی ہے جو مرتد کی ہے، اور اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو مرتد کے ساتھ کیا جائے گا ۔ ] 

اس کے بعد انھوں نے اس مفہوم کی کئی عبارات فتاوی مؤید زادہ ، شرح الطحاوی ، معین الحکام اور نور العین شرح جامع الفصولین سے نقل کی ہیں جن سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حنفی مسلک یہی ہے کہ دیگر مرتد ین کی طرح گستاخ رسول کی سزا بھی توبہ کے بعد ساقط ہوجاتی ہے ۔ 

ایسے مجرم کی قانونی پوزیشن وہی ہے جو مرتد کی ہے 

اس کے بعد علامہ شامی نے ایک اور پہلو سے اس مسئلے کو لیا ہے ۔ انھوں نے دکھایا ہے کہ حنفی فقہا ارتداد کا حکم واضح کرتے ہوئے جب ان الفاظ کا ذکر کرتے ہیں جن کے کہنے سے سے کوئی مسلمان مرتد ہوسکتا ہے تو ان میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر انھوں نے فتاوی تاتارخانیہ سے یہ عبارت نقل کی ہے : 

من لم یقر ببعض الأنبیاء، أو عاب نبیاً بشیء، أ و لم یرض بسنۃ من سنن سید المرسلین ﷺ فقد کفر۔ 
[جس نے انبیاء علیہم السلام میں بعض کا انکار کیا، یا کسی نبی کی عیب جوئی کی، یا سید المرسلین ﷺ کی سنن میں کسی سنت کو ناپسند کیا تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔] 

اس طرح کی کئی عبارات علامہ شامی نے التتمۃ ، المحیط ، الظاھریۃ اور متون معتبرہ جیسے مختصر القدوری ، کنز الدقائق ، المختار ، ملتقی الأبحر ، الھدایۃ اور امام محمد بن الحسن الشیبانی کی الجامع الصغیر سے نقل کی ہیں ۔ اس کے بعد وہ قرار دیتے ہیں کہ جب حنفی فقہا صراحتاً اس کو ارتداد قرار دیتے ہیں اور پھر ارتداد کے قانونی اثرات میں ایک اہم اثر یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ مرتد کو توبہ کے لئے کہا جائے گا اور اگر وہ توبہ کرے تو اس کو ارتداد کی سزا نہیں دی جائے گی ، تو ظاہر ہے کہ یہی حکم گستاخ رسول کا بھی ہے ۔ 

اس استدلال پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ زندیق بھی تو مرتد ہوتا ہے مگر فقہا اس کی توبہ کے قائل نہیں ہیں تو علامہ شامی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ زندیق یا جادوگر کو محض ارتداد کی وجہ سے نہیں ، بلکہ فساد فی الارض کی وجہ سے سزاے موت دی جاتی ہے اور گستاخ رسول کو بھی بعض صورتوں میں ارتداد کے بجائے فساد فی الارض کی بنیاد پر سزاے موت دی جاسکتی ہے ، جیسے مثال کے طور غیر مسلم گستاخ رسول کا حکم ہے ، بلکہ فساد فی الارض کی بنیاد پر سیاسۃً سزاے موت تو زندیق، جادوگر، مرتد یا گستاخ رسول کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس مسلمان کو بھی دی جاسکتی ہے جس نے کفر کا ارتکاب نہ کیا ہو ، جیسے مثال کے طور پر باغیوں کو سیاسۃً سزاے موت دی جاسکتی ہے ۔ 

بعض متاخرین احناف کی اختلافی راے 

یہاں سے علامہ شامی اس بات کی طرف رخ کرتے ہیں کہ بعض متاخرین احناف نے کس بنا پر قرار دیا ہے کہ گستاخ رسول مسلمان کو سزاے موت بطور حد دی جائے گی اور اس کی توبہ مقبول نہیں ہوگی ؟ مثال کے طور پر الفتاوی البزازیۃ میں یہی قرار دیا گیا ہے جس کی اتباع الدرر و الغرر میں کی گئی ہے۔ ابن الھمام نے بھی فتح القدیر میں اسی طرح کی رائے کا اظہار کیا ہے ۔ نیز ابن نجیم نے الأشباہ و النظائر اور البحر الرائق میں کہا ہے کہ فتوی اسی قول پر دینا چاہیے کہ گستاخ رسول کی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ اس بات کی اتباع ان کے شاگرد علامہ تمرتاشی نے التنویر میں کی۔ پھر یہی بات علامہ خیر الدین الرملی ، صاحب النھر اور علامہ شرنبلانی نے اور ان کے بعد دیگر کئی متاخرین نے اپنے فتاوی میں کی ہے ۔ 

اختلاف کا اصولی فیصلہ 

اس اختلاف کا اصولی فیصلہ تو علامہ شامی ان اصولوں کے ذریعے کرتے ہیں جن کے ذریعے یہ طے کیا جاتا ہے کہ روایات میں اختلاف کی صورت میں مفتی بہ قول کی پہچان کس طرح ہوگی ؟ یہاں علامہ شامی نے شیخ امین الدین بن عبدالعال کے فتاوی سے جو اہم اصول بیان کیے ہیں ان میں سے چند کا یہاں ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے : 

  • اگر امام ابو حنیفہ سے ایک سے زائد آرا مروی ہوں تو اس راے کی اتباع کی جائے گی جو زیادہ قوی ہو ۔ پس اگر صاحبین کی راے امام کی سے مروی آرا میں کسی ایک سے موافق ہو تو اس کے خلاف راے پر فتوی نہیں دیا جائے گا ۔ 
  • اگر امام اور ان کے تلامذہ میں اختلاف ہو تو امام کی راے پر فتوی دیا جائے گا ، بالخصوص جبکہ صاحبین میں کسی ایک کی راے امام کی راے کے موافق ہو ۔ 
  • اگر امام ایک طرف ہوں اور صاحبین دوسری طرف تو اگر یہ اختلاف کسی شرعی دلیل کی تعبیر و تشریح پر مبنی ہو تو امام کی راے پر عمل کیا جائے گا ، اور اگر اختلاف احوال کے تغیر کی بنا پر ہو تو صاحبین کی راے پر فتوی دیا جائے گا ۔ 
  • اگر کسی مسئلے میں امام کی راے نقل نہ کی گئی ہو تو فتوی ابو یوسف کی راے پر دیا جائے گا ؛ وہ بھی نہ ہو تو محمد کی راے پر ، ورنہ زفر کی راے پر اور وہ بھی نہ ہو تو حسن ( بن زیاد ) کی راے پر فتوی دیا جائے گا ۔ 
  • اگر کسی مسئلے پر ان کبار فقہا یا ان کی طرح کے دیگر فقہا کی راے نہ ملے تو پھر دیکھنا چاہیے کہ ان کے بعد کے فقہا نے اس مسئلے میں کوئی متفقہ راے دی ہے یا نہیں ؟ اگر دی ہے تو اسی کی اتباع کی جائے گی ۔ اگر ان کا اختلاف ہو تو پھر جمہور فقہاے مذہب کی راے ، بالخصوص ابو حفص ، ابو جعفر ، ابو اللیث اور طحاوی جیسے فقہا کی راے پر فتوی دینا چاہیے ۔ 
  • اگر یہ راستہ بھی میسر نہ ہو تو پھر مفتی پر یہ ذمہ داری آن پڑتی ہے کہ وہ ان فقہاے کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود اس مسئلے کا شرعی حل تلاش کرے ۔ 
  • واضح رہے کہ وہی مفتی فقہا کی آرا میں اختلاف کی صورت میں کسی راے کا انتخاب کرسکتے ہیں جو کسی مسئلے کا قانونی تجزیہ کرنے اور اس کے لیے قانونی حکم کے استنباط کے لیے مجتہدانہ بصیرت رکھتے ہوں ۔ باقی رہے ہم اور ہمارے معاصرین ، اور ہمارے ان کے اساتذہ اور ان اساتذہ کے اساتذہ ، تو ہماری حیثیت تو صرف مجتہدین کی آرا کے نقل کرنے والوں اور ان کی حکایت کرنے والوں کی ہے ۔ 

یہاں علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ حنفی مسلک میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا اور اس کی شہادت متقدمین احناف کی نصوص بھی دیتی ہیں اور دیگر مسالک کے فقہاء کی عبارات بھی ۔ اس لیے امام بزازی کی عبارت ، جہاں پہلی دفعہ حنفی فقہا کے ہاں ایک مختلف راے ملتی ہے ، اصولاً ناقابل قبول ہے ۔ 

بزازی اور ان کے متبعین کی راے کے اصل مآخذ 

اس کے بعد علامہ شامی نے یہ بات بھی قطعی طور پر ثابت کی ہے کہ فتاوی بزازیہ کی عبارت حنفی فقہا کی تصریحات کے بجائے مالکی فقیہ قاضی عیاض کی الشفا اور حنبلی فقیہ امام ابن تیمیہ کی الصارم المسلول سے ماخوذ ہے ۔ نیز علامہ شامی نے یہ بھی دکھایا ہے کہ بزازی سے قاضی عیاض اور امام ابن تیمیہ کی عبارات کے فہم میں غلطی ہوئی ہے ورنہ قاضی عیاض اور امام ابن تیمیہ دونوں نے حنفی موقف کو صحیح طور پر نقل کیا ہے۔ اسی طرح علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ ابن الھمام کا انحصار بزازیۃ پر تھا اور خود ابن الھمام کے شاگرد رشید علامہ قاسم نے ان کے قول کو اس بنیاد پر رد کیا ہے کہ وہ حنفی مسلک کے خلاف ہے ۔ اسی طرح ابن نجیم پر خود ان کے اہل عصر نے بھی اس سلسلے میں تنقید کی تھی ، بالخصوص جبکہ ابن نجیم نے حوالہ الجوھرۃ کا دیا ہے لیکن وہاں یہ عبارت نہیں پائی جاتی ۔ 

کیا توبہ کی قبولیت سے مراد اخروی سزا کا سقوط ہے ؟ 

یہ ثابت کرنے کے بعد کہ حنفی مسلک توبہ کی قبولیت کا ہی ہے ، علامہ شامی اس تاویل کی طرف رخ کرتے ہیں جو بعض لوگوں نے بزازی اور ابن الھمام وغیرہ کے دفاع میں پیش کی ہے ، کہ توبہ کی قبولیت سے مراد اخروی سزا کا سقوط ہے ، نہ کہ دنیوی سزا ۔ علامہ شامی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ تاویل پیش کرنے والے اصل محل نزاع کو ہی نظر انداز کرگئے ہیں۔ قاضی عیاض ، امام ابن تیمیہ ، امام سبکی اور اما م ابو یوسف کی جو عبارات نقل کی گئیں ان میں صراحتاً مذکور ہے کہ اصل بحث سزاے موت کے سقوط یا عدم سقوط پر ہے ۔ چنانچہ امام ابو یوسف قرار دیتے ہیں : فان تاب، والا قتل۔ 

کیا توبہ اس لیے دنیوی سزا ساقط نہیں کرسکتی کہ مجرم فساد کا ارتکاب کرتا ہے ؟ 

بزازی اور ابن الہمام کے قول کی ایک اور تاویل یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ اس قول کی بنا یہ امر ہے کہ مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ محترم شخصیت کی شان میں گستاخی کرکے مجرم فساد فی الارض کا ارتکاب کرتا ہے اور یہ حنفی مسلک کا مسلمہ اصول ہے کہ فساد فی الارض کی سنگین صورت میں مجرم کو سزاے موت دی جاسکتی ہے ۔ اس تاویل کا جواب علامہ شامی یہ دیتے ہیں کہ ایک تو گستاخ رسول تعزیری نہیں بلکہ اسے ارتداد کی سزا بطور حد دی جاتی ہے اگر وہ توبہ نہ کرے ، دوسرے اگر سزاے موت فساد کی وجہ سے دی جارہی ہے تو یہ حکم مطلق صورت میں صحیح نہیں ہے کیونکہ فساد کی ہر صورت پر موت کی سزا نہیں دی جاسکتی ، بلکہ صرف اسی صورت میں یہ سزا دی جاتی ہے جب مجرم معاشرے میں عمومی انتشار کا باعث بنے اور اس کے فساد کے خاتمے کے لیے سواے سزاے موت کے اور کوئی راستہ نہ ہو ۔ پس اگر مجرم اسے عادت بنالے کہ جب بھی وہ پکڑا جائے وہ توبہ کرکے خود کو بچانے کی کوشش کرے ، یا وہ جرم انتہائی اشتعال انگیز انداز میں یا سرکشی کے ساتھ کرے تب اسے فساد کا مرتکب قرار دے کر سزاے موت دی جاسکتی ہے لیکن ایسا جرم کی ہر صورت میں نہیں ہوسکتا ۔ 

کیا اس طرح بزازی اور دیگر فقہا کی کتب پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے؟ 

یہاں علامہ شامی اس اعتراض کا بھی رد کرتے ہیں کہ ان کے اس موقف کی وجہ سے بزازیہ جیسی مستند کتاب ناقابل اعتماد ٹھہرتی ہے ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ امام بزازی ، محقق ابن الھمام اور دیگر فقہا جنھوں نے اس راے کا اظہار کیا ہے ، ان کا احترام اور ان کے ساتھ عقیدت اپنی جگہ لیکن اللہ کی کتاب کے سوا کوئی کتاب غلطی سے پاک نہیں ہوسکتی اور اللہ تعالیٰ نے اس امت پر جو احسان کیے ہیں ان میں ایک بڑا احسان یہ ہے کہ ہر دور میں اس نے اپنے بعض بندوں سے یہ کام لیا ہے کہ وہ اپنے پیش رووں کی غلطیوں کا احتساب کرکے شرعی احکام کی توضیح اور احقاق حق کا فریضہ ادا کرتے رہیں۔ پس فقہا نے اپنے پیش رووں کے کام کا تنقیدی جائزہ لے کر اس میں غث و ثمین کی تمییز کا کام ہمیشہ سے جاری رکھا ہے اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے بھی اختلاف کرتے آئے ہیں ۔ پھر علامہ شامی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ غلطی کسی ایک اہل علم سے ہوجاتی ہے لیکن ان پر اعتماد کی وجہ سے دوسرے اس راے کو نقل کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں بات پھیل جاتی ہے لیکن جب یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ پہلا قدم ہی غلط اٹھایا گیا تھا تو پھر اس غلطی پر اصرار نہیں کرنا چاہیے ۔ اس کے بعد انھوں نے کئی ایسی مثالیں دی ہیں جن میں بعض بڑے اہل علم سے کسی مسئلے کے صحیح حکم کے تعین میں تسامح ہوا ہو اور بعد کے فقہا نے اس کی تصحیح کی ہو ۔ 

کیا ایسے مجرم پر مرتد کے بجاے زندیق کے احکام کا اطلاق ہوگا؟ 

اس مقام پر پہنچ کر علامہ شامی ایک اور اہم تاویل کا تنقیدی تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔ شیخ ابو السعود الآفندی سے روایت کی گئی ہے کہ گستاخ رسول پر عام مرتدین کے بجاے زندیق کے احکام کا اطلاق ہوگا جن میں ایک یہ ہے کہ اس کی ظاہری توبہ دنیوی سزا ساقط نہیں کرسکتی۔ صاحب در مختار کی تحقیق کے مطابق اس راے کی بنا یہ امر ہے کہ فقہا کے درمیان گستاخ رسول کی توبہ کی قبولیت و عدم قبولیت پر اختلاف اس صورت میں ہے جب اسے گرفتار نہ کیا گیا ہو ، اور یہ کہ جب اسے گرفتار کیا گیا تو پھر بالاتفاق اس کی توبہ سزا ساقط نہیں کرسکے گی کیونکہ اسے زندیق سمجھا جائے گا۔ چنانچہ اس سلسلے میں عثمانی خلیفہ کے ایک فرمان کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے جو ۹۳۴ ھ میں جاری کیا گیا تھا اور جس میں قرار دیا گیا تھا کہ اگر مجرم کی توبہ قاضی کو مطمئن کردے تو اسے سزاے موت کے بجاے تعزیری سزا دی جائے گی جیسا کہ امام اعظم کا مسلک ہے ، اور اگر قاضی مجرم کی توبہ سے مطمئن نہ ہو تو وہ اسے دیگر فقہا کی راے کے مطابق سزاے موت دے گا ۔ 

علامہ شامی کہتے ہیں کہ محقق ابوالسعود کے احترام اور ان کے ساتھ عقیدت کے باوجود کہنا پڑتا ہے کہ ان کے قول کے دو اجزا باہم متناقض ہیں کیونکہ پہلے جز میں قرار دیا گیا ہے کہ گرفتاری کے بعد مجرم کی توبہ کی عدم قبولیت پر کوئی اختلاف نہیں ہے ، جبکہ آخری جز میں تصریح کی گئی ہے کہ امام اعظم اور دیگر فقہا کا اختلاف گرفتاری کے بعد کے مرحلے پر ہے ۔ مزید برآں خود مفتی ابو السعود نے ایک اور فتوی میں قطعی الفاظ میں تصریح کی ہے کہ امام اعظم کا مسلک یہی ہے کہ مجرم کی گرفتاری کے بعد بھی اس کی توبہ قاضی کو مطمئن کردے تو وہ سزا کو ساقط کردے گا ۔ 

علامہ شامی نے اس بات کا بھی تفصیلی تجزیہ کیا ہے کہ کیا گستاخ رسول کو زندیق سمجھا جاسکتا ہے ؟ اور کیا اسے زندیق قرار دینے سے بزازی کا دیگر فقہاے احناف کے ساتھ اختلاف رفع ہوجاتا ہے ؟ انھوں نے واضح کیا ہے کہ اس مجرم کو زندیق قرار دینے سے ان تمام عبارات کی مخالفت لازم آتی ہے جن میں قرار دیا گیا ہے کہ وہ مرتد ہے اور اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو مرتد کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ اس عمومی حکم کی تخصیص تبھی مانی جاسکتی ہے جب ائمۂ مذہب سے اس کی روایت کی گئی ہو اور ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے ۔ نیز اگر یہ تخصیص مان لی گئی تب بھی بزازی اور ائمۂ مذہب کا اختلاف رفع نہیں ہوتا کیونکہ بزازی اور ان کے متبعین کی راے یہ ہے کہ گرفتاری سے قبل بھی اس مجرم کی توبہ ناقابل قبول ہے ۔ گویا اس تاویل کو ماننے سے دو آرا کا اختلاف رفع نہیں ہوتا بلکہ اس سے ایک تیسری راے وجود میں آجاتی ہے ۔ 

یہاں پھر علامہ شامی اس اصول کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ جب مذہب کے مجتہدین کے ساتھ متاخرین کا اختلاف ہو تو مجتہدین کی راے پر عمل لازم ہے ۔ اس لیے فتوی بزازی اور ان کے بعد آنے والوں کی راے کے بجاے ابو یوسف ، طحاوی اور دیگر ائمۂ مذہب کے موقف پر ہی دیا جائے گا ۔ حقیقی اختلاف تو اس صورت میں ہوتا جب ان ائمۂ مذہب کے مرتبے کے مجتہدین سے کوئی مختلف راے منقول ہوتی ۔ ( مثال کے طور پر ابو یوسف کچھ کہتے اور محمد کچھ اور ۔ ) اس صورت میں بھی ہمارا کام یہ نہ ہوتا کہ کسی ایک راے کی ترجیح کریں ، بلکہ یہ کام اصحاب ترجیح ہی کا ہوتا اور ہم پر ان کی اتباع لازم ہوتی ۔ اب جبکہ ائمۂ مذہب میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں تو ان سے مرتبے میں کم متاخرین نے خواہ ایک مختلف راے اختیار کی ہو اس اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ 

علامہ شامی اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ بزازی ، ابن الہمام ، ابن نجیم اور دیگر فقہا پر، جنھوں نے ائمۂ مذہب سے منقول موقف کے خلاف راے اختیار کی ہے، دیگر فقہاے مذہب کی جانب سے مسلسل تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔ بہ الفاظ دیگر ان کے اختلاف کو مذہب کے اندر قبولیت عامہ حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔ 

گستاخی کے ہر ملزم کو زندیق کیوں قرار نہیں دیا جاسکتا؟ 

پھر علامہ شامی یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ گستاخی کے ہر ملزم کو زندیق کیوں قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ انھوں نے ابن الھمام کے حوالے سے زندیق کی یہ تعریف پیش کی ہے کہ زندیق سے مراد وہ شخص ہے جو کسی دین پر ایمان نہ رکھتا ہو اور جو عہد رسالت کے منافقین کی طرح ہو کہ بظاہر مسلمان ہو لیکن بباطن کافر ہو ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی پہچان صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس کا راز کسی طرح آشکارا ہوجائے ، یا وہ اپنے کسی ساتھی پر اپنا اصل عقیدہ واضح کرے ۔ یہاں البحر الرائق اور الخلاصۃ سے بعض جزئیات نقل کرنے کے بعد علامہ شامی التجنیس سے یہ اہم جزئیہ نقل کرتے ہیں کہ زندیق کی تین قسمیں ہیں : 

۱۔ ایسا زندیق جو اصلاً مشرک ہو ؛ 

۲ ۔ ایسا زندیق جو پہلے مسلمان تھا ؛ اور 

۳ ۔ ایسا زندیق جو پہلے ذمی تھا ۔ 

ان میں پہلی قسم سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا ، الا یہ کہ وہ مشرکین عرب میں سے ہو۔ ( احناف کے نزدیک مشرکین عرب کے لیے دو ہی راستے ہیں : اسلام یا سزاے موت ۔ ) اسی طرح تیسری قسم کے زنادقہ سے بھی تعرض نہیں کیا جائے گا کیونکہ اہل ذمہ بھی غیر مسلم ہیں اور زنادقہ بھی ، اور الکفر ملۃ واحدۃ ۔ البتہ دوسری قسم کے زنادقہ ، جو پہلے مسلمان تھے ، کا حکم یہ ہے کہ انھیں اسلام قبول کرنے کو کہا جائے گا اور انکار پر انھیں سزاے موت دی جائے گی کیونکہ وہ مرتد ہو گئے ۔ 

علامہ کمال پاشا نے بھی تصریح کی ہے کہ ایسے زنادقہ اور مرتدین میں احکام کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ۔ البتہ انھوں نے تنبیہ کی ہے کہ اگر اس قسم کے زنادقہ میں اگر کوئی ایسا ہو جو اپنے مسلک کے لیے بہت مشہور ہو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت بھی دیتا ہو تو اگر گرفتاری سے پہلے وہ توبہ کرے تو اسے ارتداد کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن اگر گرفتاری تک اس نے توبہ نہیں کی تو اسے سزاے موت دی جائے گی خواہ گرفتاری کے بعد وہ توبہ کرے ۔ علامہ شامی قرار دیتے ہیں کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس دوسری قسم کے زنادقہ میں جن کی توبہ گرفتاری کے بعد ان کی سزا کو ساقط نہیں کرسکتی ، یہ وہ مخصوص طبقہ ہے جن کو فساد پھیلانے کی وجہ سے سزا دی جاتی ہے ، بالکل اسی طرح جیسے جادوگروں ، ڈاکووں اور رہزنوں اور دیگر مفسدین کو سزاے موت دی جاتی ہے ۔ 

کیا گستاخی کے ہر ملزم کو زنادقہ کے اس مخصوص طبقے میں شامل سمجھا جاسکتا ہے ؟ 

اس مقام پر علامہ شامی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا گستاخی کے ہر ملزم کو زنادقہ کے اس مخصوص طبقے میں شامل سمجھا جاسکتا ہے ؟ وہ پھر یاد دلاتے ہیں کہ ان مخصوص زنادقہ کی سزاے موت کی علت ان کا کفر نہیں ، بلکہ یہ امر ہے کہ یہ فساد پھیلاتے ہیں ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا مرتکب اپنا خبث باطن آشکارا کردیتا ہے اور اس کے ظاہری اسلام یا توبہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، تو علامہ شامی اس بات کو نہیں مانتے ۔ وہ قرار دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو پھر یہی حکم اس شخص کا بھی ہوتا جو رسول کے بجاے خدا کی شان میں گستاخی کرے ۔ نیز وہ یاد دلاتے ہیں کہ زنادقہ میں بھی یہ حکم صرف اس مخصوص طبقے کے لیے ہے جو اپنے مسلک کے لیے معروف ہو اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت بھی دیتا ہو ۔ گستاخی کا ہر مجرم اس نوعیت کا نہیں ہوتا ۔ علامہ شامی توجہ دلاتے ہیں کہ بسا اوقات اس جرم کا ارتکاب اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی شخص کو بہت زیادہ اشتعال دلایا جائے ۔ البتہ اگر مجرم اس فعل کے لیے معروف ہو اور وہ دوسروں کو بھی اس کے ارتکاب کی ترغیب دیتا ہو تو پھر اس کے زندیق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اسے قطعی طور پر سزاے موت دی جائے گی خواہ وہ دعوی کرتا ہو کہ اس نے توبہ کرلی ہے ۔ 

تکفیر میں احتیاط کی ضرورت 

یہاں پہنچ کر علامہ شامی اس اہم حقیقت کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ کسی قول یا فعل کو کفر یا گستاخی قرار دینے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اگر کسی قول یا فعل کی مناسب تاویل ممکن ہو تو اس کے مرتکب کو کافر یا گستاخ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس سلسلے میں انھوں نے جامع الفصولین ، الفتاوی الصغری ، البزازیۃ ، التتارخانیۃ ، البحر الرائق اور خیر الدین الرملی کے فتاوی سے کئی جزئیات نقل کی ہیں ۔ 

ساری بحث کا خلاصہ 

علامہ شامی نے ایک بہترین محقق کا کردار ادا کرتے ہوئے اس ساری بحث کا خلاصہ بھی اس مقام پر پیش کیا ہے ۔ چنانچہ وہ قرار دیتے ہیں کہ فقہاے احناف سے اس گستاخ رسول کے متعلق جو پہلے مسلمان تھا ، تین آرا نقل کی گئی ہیں : 

۱ ۔ پہلی راے وہ ہے جس کی روایت امام ابو حنیفہ سے قاضی عیاض مالکی ، امام ابن تیمیہ حنبلی اور امام سبکی شافعی نے کی ہے کہ اس مجرم کی توبہ اس کی سزاے موت کو ساقط کردے گی خواہ اس نے توبہ گرفتاری سے قبل کی ہو یا بعد میں ۔ امام ابو حنیفہ سے اس راے کی روایت امام طبری نے بھی کی ہے ۔ یہ راے فقہاے احناف کے متقدمین کی مستند کتابوں میں بھی منقول ہے ۔ چنانچہ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں اس کی تصریح کی ہے اور یہی بات شرح الطحاوی میں بھی منقول ہے ۔ نیز حنفی مسلک کی معتبر متون کے مندرجات سے بھی اسی راے کی تائید ہوتی ہے ۔ 

۲ ۔ دوسری راے بزازیہ میں پیش کی گئی ہے کہ مجرم کی توبہ ، خواہ گرفتاری سے قبل ہو یا بعد میں ، ناقابل قبول ہے اور اس کی سزا توبہ سے ساقط نہیں ہوگی ۔ اس راے کی بنیاد حنفی مسلک کی اپنی روایت پر نہیں بلکہ قاضی عیاض کی الشفا اور امام ابن تیمیہ کی الصارم المسلول کی ان عبارات پر ہے جن میں امام ابو حنیفہ کا مسلک بیان کیا گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان عبارات کے فہم میں امام بزازی سے تسامح ہوا ہے ۔ یہ راے دراصل مالکی اور حنبلی فقہا کی ہے ۔ بزازی کے بعد اس راے پر اعتماد علامہ خسرو نے الدرر میں ، محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں ، ابن نجیم نے البحر الرائق اور الأشباہ میں ، علامہ تمرتاشی نے التنویر اور المنح میں ، شیخ خیر الدین الرملی نے اپنے فتاوی میں اور بعض دیگر متاخرین فقہا نے اپنی کتب میں کیا ہے ۔ 

۳ ۔ تیسری راے مفتی ابو السعود نے اختیار کی ہے کہ گرفتاری سے قبل اس شخص کی توبہ قابل قبول ہے لیکن گرفتاری کے بعد اس کی توبہ اسے سزاے موت سے نہیں بچا سکتی ۔ 

یہ بات بھی ثابت ہوچکی کہ بزازی اور ان کے متبعین کی راے پر دیگر فقہاے مذہب اس بنا پر مسلسل تنقید کرتے آئے ہیں کہ یہ راے حنفی مسلک کے مطابق نہیں ہے ۔ مفتی ابو السعود کی راے دراصل اس کوشش پر مبنی ہے کہ کسی طرح پہلی دو آرا میں تعارض کو رفع کیا جاسکے لیکن اس کوشش سے تعارض تو کیا رفع ہوتا ، ایک تیسری راے وجود میں آگئی ۔ 

ترجیح کے دس دلائل 

بحث کے آخر میں علامہ شامی بعض مزید دلائل سامنے لاتے ہیں جن کی بنا پر وہ ان تین آرا میں پہلی راے کو ترجیح دیتے ہیں جو براہ راست ائمۂ مذہب سے منقول ہے ۔ جو دس دلائل یہاں علامہ شامی نے دیے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے : 

۱ ۔ ہم مقلد ہیں اور مقلد پر مجتہد کی راے کی اتباع واجب ہے ۔ 

۲ ۔ اس مسئلے میں امام کے ساتھ ابو یوسف اور محمد دونوں متفق ہیں جبکہ امام کے ساتھ صاحبین میں کسی ایک کی راے بھی موافق ہو تو حنفی مسلک میں اسی راے کی اتباع کی جاتی ہے ۔ 

۳ ۔ متقدمین اور متاخرین کے اختلاف کی صورت میں متقدمین کی راے کی اتباع ضروری ہے ۔ 

۴ ۔ متون اور شروح کے درمیان تعارض کی صورت میں متون کو ترجیح حاصل ہے اور اس مسئلے میں پہلی راے ہی متون کے مطابق ہے ۔ 

۵ ۔ اس جرم کا مرتکب اصلاً مسلمان تھا اور شہادتین کی وجہ سے اس کی جان کو عصمت حاصل تھی ۔ پس جو شخص اس کے خون کی حلت کا دعویدار ہے اس پر لازم ہے کہ اس حلت کے لیے قطعی دلیل لائے ۔ جس مجتہد کی اتباع ہم نے اپنے اوپر لازم قرار دی ہے ان کی راے بھی اس حلت کے خلاف ہے ۔ ہم اپنے طور پر مجتہد بھی نہیں ہیں اور ایسے مجتہد کے مقلد بھی نہیں ہیں جو اس حلت کے قائل ہوں ۔ 

۶ ۔ کسی کو عدالتی کاروائی کے ذریعے مرتد قرار دینا ایک انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ اس لئے اس میں حتی الامکان احتیاط کی ضرورت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کے تقاضے اپنی جگہ، لیکن اس محبت کا اولین تقاضا ان کی شریعت کی اتباع ہے : 

ان أمر الدم خطر عظیم حتی لو فتح الامام حصناً أو بلدۃً و علم أن فیھا مسلماً لا یحل لہ قتل أحد من أھلھا لاحتمال أن یکون المقتول ھو المسلم ۔ فلو فرضنا ان ھذہ النقول قد تعارضت فالأحوط فی حقنا أن لا نقتلہ لعدم الجزم بأنہ مستحق القتل ، فان الأمر اذا دار بین ترکہ مع استحقاقہ للقتل و بین قتلہ مع عدم استحقاقہ لہ تعین ترکہ لخطر الدماء ۔۔۔ و الأدلۃ فی ذلک متعارضۃ مع احتمالھا للتأویل بلا نص صریح ۔ و لیس لنا أن ننصب بآرائنا حدوداً و زواجر ۔ و انما کلفنا بالعمل بما ظھر أنہ من شرع نبینا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ۔ فحیث قال لنا : اقتلوا ، قتلنا ۔ وحیث قال : لا تقتلوا ترکنا ۔ و حیث لم نجد نصا قطعیاً و لا نقلاً عن مجتھدنا مرضیاً ، فعلینا أن نتوقف، ولا نقول ان محبتنا لنبینا صلی اللہ تعالی علیہ و سلم تقتضی أن نقتل من استطال علیہ و ان أسلم، لأن المحبۃ شرطھا الاتباع، لا الابتداع ۔ فاننا نخشی أن یکون صلی اللہ تعالی علیہ وسلم أول من یسألنا عن دمہ یوم القیامۃ ۔ فالواجب علینا الکف عنہ حیث أسلم، و حسابہ علی ربہ، العالم بما فی قلبہ، کما کان صلی اللہ تعالی علیہ و سلم یقبل الاسلام فی الظاھر، ویکل الأمر الی عالم السرائر ۔ 
[کسی کی جان کی حلت کا فیصلہ کرنا ایک سنگین معاملہ ہے ۔ یہاں تک کہ اگر امام کوئی قلعہ یا شہر فتح کرے اور اسے علم ہو کہ وہاں ایک مسلمان ہے تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ وہاں کے لوگوں میں کسی ایک کو بھی قتل کرے کیونکہ ہر شخص کے متعلق یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ شاید وہی مسلمان ہو ۔ پس اگر ہم نے یہ فرض کیا کہ ان نصوص کے درمیان تعارض ہے تو ہمارے حق میں زیادہ محتاط طریقہ یہی ہے کہ اسے سزاے موت نہ دیں کیونکہ اس کا سزاے موت کا مستحق ہونا قعطی نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس کے معاملے میں دو امکانات ہیں کہ یا تو اسے سزاے موت کا مستحق ہونے کے باوجود چھوڑ دیا جائے یا اسے مستحق نہ ہونے کے باوجود سزاے موت دی جائے تو جان لینے کی سنگینی کی وجہ سے اسے چھوڑ دینا لازمی ہوگیا ۔۔۔ اور اس مسئلے میں دلائل کا آپس میں تعارض ہے اور ان میں کوئی نص صریح نہیں ہے بلکہ ہر ایک دلیل تاویل کا احتمال رکھتی ہے اور ہمیں یہ اختیار نہیں حاصل کہ ہم اپنی آراء کی بنیاد پر حدود قائم کریں اور سزائیں دیں ، بلکہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کا جو حکم ہم پر ظاہر ہو جائے تو اس پر عمل کریں ۔ پس اگر شریعت نے ہمیں کہا کہ سزاے موت دو تو ہم دیں گے اور اگر کہا کہ نہ دو تو نہیں دیں گے ، اور جہاں ہمیں کوئی قطعی نص نہ ملے ، نہ ہی ہمیں اپنے مجتہد کی جانب سے مقبول روایت ملے ، تو ہماری ذمہ داری ہوگی کہ ہم رک جائیں ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہماری محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان پر زبان دراز کرنے والے کو سزاے موت دیں کیونکہ ان کے ساتھ محبت کی شرط یہ ہے کہ ان کی اتباع کی جائے نہ کہ اپنی جانب سے شریعت میں حکم کا اضافہ کیا جائے ، کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں قیامت کے دن اس کے خون کے متعلق سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ ہی ہم سے نہ پوچھ لیں ! پس ہم پر واجب ہے کہ جب اس نے اسلام قبول کرلیا تو ہم اسے سزاے موت دینے سے باز رہیں اور اس کے ساتھ حساب کا معاملہ اس کے رب پر چھوڑ دیں جو اس کے دل کی اندرونی کیفیت سے باخبر ہے ، جیسے رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ظاہری اسلام کو قبول فرماتے تھے اور ان کے دلوں کا معاملہ رازوں سے باخبر ذات پر چھوڑ دیتے تھے ۔ ] 

۷ ۔ اگر ہمارا مسلک یہ ہو کہ اس مجرم کو توبہ کے باوجود بہر صورت سزا دینی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے نزدیک سزاے موت کی علت خاص گستاخی کا فعل ہے، نہ کہ یہ امر کہ مسلمان گستاخی کے ارتکاب کی وجہ سے مرتد ہوجاتا ہے ۔ اگر ایسا ہو تو پھر ہر گستاخ کو گستاخی کے فعل کی وجہ سے لازماً سزاے موت دی جائے گی ، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم ۔ تاہم یہ بات ہمارے مسلک کے اس صریح فیصلے کے خلاف ہوگی جس کی تصریح متون میں کی گئی ہے کہ گستاخی کے ارتکاب کی وجہ سے ذمی کا عقد نہیں ٹوٹتا ، اگرچہ حکمران بعض حالات میں اس کے فساد کے خاتمے کے لیے بطور سیاسہ اسے سزاے موت دے سکتا ہے ۔ 

۸ ۔ اگر خون کی حلت و حرمت کے متعلق دلائل میں تعارض ہو تو احناف کے ہاں ترجیح حرمت کی دلیل کو حاصل ہوگی ۔

۹ ۔ شبھۃ کی موجودگی میں حد ساقط ہوتی ہے ، جیسا کہ فقہ کا مسلمہ قاعدہ ہے ۔ 

۱۰ ۔ ابن ابی سرح کے واقعے سے بھی یہی حقیقت ثابت ہوتی ہے جنھوں نے ارتداد کا ارتکاب بھی کیا اور شان رسالت میں گستاخی بھی کی لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان کو دربار رسالت میں لے آئے تو آپ نے بالآخر اس کی جانب سے توبہ اور اسلام کو دوبارہ قبول کرنے کا فعل قبول کرلیا ۔ اگر یہ حد کا معاملہ ہوتا جس میں معافی نہیں ہوتی ، نہ ہی رحم کی درخواست کی جاسکتی ہے تو رسول اللہ ﷺ کبھی ان کی بیعت قبول نہ کرتے ۔ یہ تاویل بھی صحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے سے قبل ہی اس نے اسلام قبول کیا تھا کیونکہ جیسا کہ امام سبکی نے تصریح کی ہے یہ روایت اہل سیر کے ہاں غیر مقبول ہے ۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ابن ابی سرح آپ کا سامنا کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کیا میں نے اس کی بیعت قبول نہیں کی اور اسے امان نہیں دیا؟ انھوں نے جواب دیا : کیوں نہیں لیکن وہ اسلام سے قبل اپنے گناہوں کو یاد کرکے پچھتاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : اسلام اپنے سے پہلے کے گناہوں کو دھو دیتا ہے ۔ اسے معلوم ہوا کہ نہ صرف سزاے موت بلکہ گناہ بھی قبولیت اسلام کی وجہ سے دھل جاتا ہے ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ سزا حق اللہ ہے ، نہ کہ حق العبد ، کیونکہ حق العبد ہونے کی صورت میں یہ سزا قبولیت اسلام پر ساقط نہ ہوتی ۔ 

کیا مجرم کو معاف کرنا رسول اللہ ﷺ کا ذاتی حق تھا ؟ 

بعض لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ کسی مجرم کو معاف کرنا یا نہ کرنا رسول اللہ ﷺ کا ذاتی حق تھا ، اس لیے آپ کی رحلت کے بعد کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ مجرم کو معاف کردے ، پس توبہ سے صرف گناہ ہی معاف ہوسکتا ہے ، دنیوی سزا ساقط نہیں ہوسکتی ۔ اس سلسلے میں ایک حدیث کا حوالہ بھی بالعموم دیا جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جس نے کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی کی تو اسے سزاے موت دو۔ 

علامہ شامی اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ روایات میں مجرم کے لیے عفو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اصطلاح شریعت میں گناہ کی معافی کے لیے نہیں بلکہ سزا کی معافی کے لیے رائج ہے ۔ نیز یہ بھی مسلّم ہے کہ رسول اللہ ﷺ انتہائی کریم تھے ، اپنی امت کی غلطیوں کے معاف کرنے میں نہایت رحم دل تھے اور ذاتی حق کے معاملے میں درگزر سے کام لیتے تھے، البتہ جہاں اللہ تعالیٰ کی حدود کی پامالی ہوتی تو آپ وہاں سختی سے کام لیتے تھے ۔ جہاں تک مذکورہ حدیث کا تعلق ہے تو اس کی تاویل وہی ہے جو اسی نوعیت کی دوسری حدیث کی ہے : جس نے اپنا دین تبدیل کیا اسے سزاے موت دو ، یعنی اگر وہ توبہ نہ کرے ۔ یہی کچھ یہاں بھی کہا جائے گا کہ جس نے کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی کی اسے سزاے موت دو اگر وہ توبہ نہ کرے ۔ 

مزید برآں اس سزا کی علت خاص گستاخی کا فعل نہیں ہے بلکہ یہ امر ہے کہ گستاخی کی وجہ سے یہ شخص مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کی سزا موت ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر گستاخ کے ذمی ہونے کی صورت میں بھی اسے لازماً یہ سزا دی جاتی حالانکہ مسلمہ طور پر ہمارا مسلک یہ نہیں ہے ۔ اگر گستاخی کو علت قرار دیا جائے تب بھی یہی کہا جائے گا کہ گستاخی سزاے موت کی علت اس وجہ سے ہے کہ گستاخی کا یہ فعل کفر و ارتداد کا موجب ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ گستاخی بذات خود علت ہے خواہ وہ کفر و ارتداد کی موجب نہ ہو تو کیا وہ کسی ایسی صورت کا تصور کرسکتا ہے جس میں گستاخی تو ہو لیکن وہ گستاخی کفر و ارتداد کی موجب نہ ہو ؟ 

علامہ شامی یہاں پہنچ کر فریق مخالف کے دیگر دلائل کے بھی تفصیلی جواب دیے ہیں ۔ 

کعب بن الاشرف وغیرہ کی سزاے موت سے زیرنظر مسئلے میں استدلال باطل ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ کعب بن الاشرف ، ابو رافع ، ابن خطل اور اس نوعیت کے دیگر مجرموں کو یقیناًرسول اللہ ﷺ نے سزاے موت سنائی لیکن ان میں کسی بھی سزا سے مسئلۂ زیر بحث پر کوئی اثر نہیں پڑتا جب تک کہ یہ ثابت نہ کیا جائے کہ ان میں سے کوئی مسلمان ہوا تھا اور اس کے باوجود رسول للہ ﷺ نے اس کی سزاے موت برقرار رکھی ۔ ابن ابی سرح کے واقعے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد سزا ساقط ہوجاتی ہے۔ 

جہاں تک مجرم کی سزاے موت پر اجماع کے دعوے کا تعلق ہے تو علامہ شامی نے واضح کیا ہے کہ یہ اجماع اس صورت میں ہے جب مجرم نے توبہ نہ کی ہو کیونکہ توبہ کی صورت میں سزاے موت کے وجوب و عدم وجوب پر فقہا کا اختلاف ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ 

اسی طرح علامہ شامی فرماتے ہیں کہ یہ موقف صحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ذاتی حق کا معاف کرنا بعد کے لوگوں کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ اسلام قبول کرنے سے پچھلے جرائم معاف ہوجاتے ہیں تو گویا آپ نے تصریح کی کہ جس نے اسلام قبول کیا اسے میں نے معاف کردیا ۔ اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام سبکی نے نقل کیا کہ ہبار بن الاسود بن عبد المطلب کی سزاے موت کا رسول اللہ ﷺ نے حکم جاری کیا تھا لیکن انھوں نے آپ کے سامنے آکر اسلام کی قبولیت کا اعلان کیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمھیں معاف کردیا اور اسلام پچھلے جرائم کو دھو دیتا ہے ۔ پس اگر گستاخی کو رسول اللہ ﷺ کے ذاتی حق پر عدوان سمجھا جائے تب بھی رسول اللہ ﷺ نے گویا اعلان عام فرمایا ہے کہ اگر کسی نے اسلام قبول کیا تو میں نے اسے معاف کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں پیش کیا جاسکتا جب کسی شخص نے گستاخی کے بعد اسلام قبول کیا ہو اور پھر بھی اسے سزاے موت دی گئی ہو ۔ 

علامہ شامی مزید فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اسلام قبول کرنے کی شرط پر اپنا حق معاف کردیا ہے تو آپ کا خلیفہ آپ کا حق نافذ کرنے کا مجاز نہیں رہا ۔ نیز اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا حق معاف نہیں فرمایا تب بھی خلیفہ صرف اسی صورت میں آپ کا حق نافذ کرسکتا ہے جب یہ ثابت کیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا حق نافذ کرنے کا اختیار خلیفہ کو دیا ہے ۔ 

اسلام پچھلے جرائم کو مٹا دیتا ہے 

علامہ شامی کا اٹھایا گیا یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اگر اس سزاے موت کی بنیاد مصلحت عامہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اسے کبھی معاف نہ کرتے اور اگر اس کی بنیاد یہ امر ہوتا کہ اللہ کے رسول کی شان میں گستاخی کرکے اور دین کی توہین کرکے مجرم نے حق اللہ کی پامالی کی ہے تو اسلام قبول کرکے وہ اس جرم کو مٹا دیتا ہے ۔ یہاں علامہ شامی قرآن کریم کی بعض ان آیات سے استدلال کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مرتد کی توبہ مقبول ہے ۔ بناے استدلال یہ امر ہے کہ یہ حکم تمام مرتدین کے لیے ہے جن میں گستاخ رسول بھی شامل ہے ۔ اسی طرح وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ مسلمان کا خون صرف تین میں سے کسی ایک امر کی بنیاد پر حلال ہوتا ہے : زانی محصن ، نفس بالنفس اور مرتد ۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ گستاخی کا مجرم جب اسلام قبول کرلیتا ہے تو وہ ان تین اصناف میں سے کسی صنف میں بھی شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ علامہ شامی یہ نکتہ بھی اٹھاتے ہیں کہ جب اللہ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی سزاے موت توبہ اور قبول اسلام سے ساقط ہوسکتی ہے تو یہی حکم رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لیے بھی ہے کیونکہ دونوں جرم ایک ہی نوعیت کے ہیں ۔ 

لوگوں کے دلوں میں جھانکنا ہماری ذمہ داری نہیں 

علامہ شامی مزید فرماتے ہیں کہ یہ بات بھی غلط ہے کہ گستاخی کا ارتکاب کرکے مجرم قطعاً اپنا خبث باطن آشکارا کردیتا ہے کیونکہ جب وہ توبہ کرکے اسلام قبول کرلیتا ہے تو وہ اس بات کی نفی کردیتا ہے ۔ یہاں وہ ان آیات او ر احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ لوگوں کے ظاہری اسلام کو قبول کرنا چاہیے اور ان کے دل کے عقیدے کا فیصلہ اللہ پر چھوڑنا چاہیے ۔ یہی طرز عمل رسول اللہ ﷺ نے منافقین کے معاملے میں اختیار کیا تھا ۔ 

آخر میں علامہ شامی نہایت عجز و انکساری کے ساتھ قرار دیتے ہیں کہ ان کی اس تحقیق سے شاید ان کا دعوی قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتا لیکن اس سے کم از کم شبھۃ تو پیدا ہوجاتا ہے جس کی موجودگی میں کسی ایسے شخص کے لیے ، جو اپنے دین اور عزت کے بارے میں حساس ہو ، یہ جائز نہیں کہ وہ قطعیت کے ساتھ ایسے مجرم کی توبہ کی عدم قبولیت اور اس کی سزاے موت کے عدم سقوط کی بات کرے۔ 

فصل سوم : ذمی کی جانب سے گستاخی کا ارتکاب 

مسلمان ، جو گستاخی کے نتیجے میں مرتد ہوجائے ، کے مسئلے کے تفصیلی تجزیے کے بعد علامہ شامی فصل سوم میں ذمی کی جانب اس جرم کے ارتکاب کے قانونی اثرات پر بحث کرتے ہیں ۔ 

ذمی کے متعلق امام ابو حنیفہ کا مسلک 

اس فصل کی ابتدا میں علامہ شامی نے امام سبکی ، قاضی عیاض اور امام ابن تیمیہ کے طویل اقتباسات پیش کیے ہیں جن میں امام ابو حنیفہ کے متعلق صراحت کی گئی ہے کہ وہ ذمی کے لیے تعزیری سزا کے قائل تھے اور سزاے موت کو اس کے لیے حد نہیں سمجھتے تھے کیونکہ ان کا موقف یہ تھا کہ جب ان کے شرک کے باوجود ان کے ساتھ عقد ذمہ کیا گیا تو اس کفر میں اضافے پر یہ عقد ٹوٹ نہیں سکتا لیکن فساد کے ارتکاب کی وجہ سے اسے مناسب سزا دی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد انھوں نے قرار دیا ہے کہ حنفی مسلک کی متون میں اسی بات کی تصریح کی گئی ہے جس کی روایت دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے یہ تین بڑے ائمہ کررہے ہیں ۔ 

بعض فقہاے احناف کی اختلافی راے 

البتہ علامہ عینی نے امام شافعی کی راے کو اختیار کیا ہے کہ گستاخی سے ذمی کا عقد ٹوٹ جاتا ہے ۔ اسی طرح محقق ابن الہمام نے قرار دیا ہے کہ اگر ذمی ایسی بات کا کھلے عام اظہار کرے جو گستاخی کے زمرے میں آتی ہو اور وہ ان کے عقائد کا حصہ بھی نہ ہو تو اس پر اس کا عقد ٹوٹ جاتا ہے اور اگر وہ اس بات کا کھلے عام اظہار نہ کرے، لیکن کسی طرح اس کی بات کی سن گن ملے تو اس پر عقد نہیں ٹوٹتا ۔ تاہم ابن الھمام کا یہ موقف حنفی مسلک کے صریح خلاف ہے اور اس وجہ سے ان کے شاگرد علامہ قاسم نے اپنے شیخ کی اس راے کی اتباع سے منع کیا ہے ۔ ابن نجیم نے بھی اس راے پر کڑی تنقید کی ہے ۔ اسی طرح ابن نجیم نے علامہ عینی کی بات کو بھی رد کیا ہے کیونکہ اس کے حق میں ائمۂ مذہب سے کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ علامہ خیر الدین الرملی نے دفاع کی کوشش اس طرح کی ہے کہ عدم نقض سے سزاے موت کا عدم لازم نہیں آتا ۔ انھوں نے ابن السبکی کے حوالے سے یہ بھی قرار دیا ہے کہ امام شافعی کا مسلک بھی اصلاً یہی ہے کہ گستاخی سے ذمی کا عقد نہیں ٹوٹتا لیکن اسے سزاے موت دی جاسکے گی ۔ 

اگر ذمی گستاخی کو عادت بنالے 

اس کے بعد علامہ شامی نے مختلف کتب فقہ سے بہت ساری عبارات پیش کی ہیں جن کا مقتضا یہ ہے کہ ذمی اگر گستاخی کو عادت بنالے ، یا سرکشی کے ساتھ اس جرم کا ارتکاب کرے تو حنفی مسلک کے مطابق ایسے شخص کے فساد کے خاتمے کے لیے اسے بطور سیاسہ سزاے موت دی جاسکتی ہے ۔ 

عقد ذمہ نہ ٹوٹنے کے قانونی نتائج 

علامہ شامی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ عقد ذمہ نہ ٹوٹنے سے کیا فرق پڑتا ہے جبکہ اسے اس کے باوجود سزاے موت دی جاسکتی ہے ؟ انھوں نے دکھایا ہے کہ اگر اس کا عقد ٹوٹنے کی بات مانی جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اسے دیگر حربیوں کی طرح غلام بنایا جاسکے گا اور اس کا مال مسلمانوں کے لیے فے کی حیثیت رکھے گا ۔ گویا جب حنفی فقہا یہ کہتے ہیں کہ اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا لیکن اسے سزا دی جاسکے گی تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اسے حقوق شہریت حاصل رہیں گے اور ان کے بموجب اسے اور اس کے اموال کو دیگر امور سے قانونی تحفظ حاصل رہے گا، لیکن اس مخصوص جرم کے ارتکاب کی وجہ سے اسے اس جرم کی سزا دی جاسکے گی ۔ 

کیا ایسے مجرم کو سزاے موت نہیں دی جاسکے گی؟ 

بعض حنفی کتب میں قرار دیا گیا ہے کہ اس جرم کے بار بار ارتکاب پر بھی ذمی کو سزاے موت نہیں دی جائے گی ۔ علامہ شامی نے اس بات کا یہ جواب دیا ہے کہ اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ وہ اس جرم کا اظہار کھلے عام نہ کرتے ہوں ، گویا فساد نہ پھیلا رہے ہوں ، یا مراد یہ ہے کہ انھیں بطور حد سزاے موت نہیں دی جائے گی ، گویا سیاسۃً سزاے موت کی نفی اس سے نہیں ہوتی ۔ یہاں انھوں نے الملتقی سے یہ جزئیہ نقل کیا ہے کہ کوڑوں کی سزا کو رجم کی سزا کے ساتھ یا جلاوطنی کی سزا کے ساتھ اکٹھا نہیں کیا جائے گا ، الا یہ کہ فساد کے خاتمے کے لیے حکمران ان دو طرح کی سزاوں کو اکٹھا کرنے میں ہی مصلحت سمجھے ۔ نیز فقہا نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ سیاسہ پر مبنی حکم جاری کرنا حکمران کا اختیار ہے نہ کہ قاضی کا ۔ اس لیے جب وہ کہتے ہیں کہ ایسے مجرم کو سزاے موت نہیں دی جائے گی تو مراد یہ ہوتی ہے کہ قاضی اسے سزاے موت نہیں دے سکے گا ، الا یہ کہ حکمران اسے سیاسۃً ( یعنی فساد کے خاتمے کے لیے ) سزاے موت دینے کا فیصلہ کرلے۔ 

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔





ناموسِ رسالت کی پامالی، مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟

اللہ نے کائنات کو انسان کے لیے اور انسا ن کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ، مگر انسا ن محض اپنی عقل سے اللہ کی معر فت ، اس کی عبا دت اور اس کی رضا کے طریقوں کو معلو م نہیں کر سکتا تھا ،لہٰذا نسان کی راہ نما ئی کے لیے حضرات انبیا علیہم السلا م کو وقفے وقفے سے اللہ رب العز ت مبعو ث فر ما تے رہے، جنہوں نے انسا ن کی کامل راہ نمائی کی،صر ف اعتقا د اور عبا دت ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ معا شرت، تعلیم، حقو ق، اخلاق ، تزکیہ وغیرہ تمام ضروریات ِاورحیا ت ضروریات دین کے سلسلے میں اعتد ال کی را ہ بتا ئی ۔

انبیا ئے کرام علیہم السلا م نے بے لو ث ہو کر امت کی راہ نما ئی کی ، مگر دنیا میں اللہ کا دستو ررہا ہے کہ ہر چیز کا مبدااورمنتہیٰ ہو تا ہے، یعنی ہر چیز کا ایک نقطہٴ آ غا ز تو دوسر ا نقطہٴ انتہا ہو تا ہے ۔ لہٰذا نبو ت کا نقطہٴ آ غا ز حضرت آ د م علیہ السلام کو اور نقطہ انتہا حضر ت محمد عر بی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنا یا ۔

انبیا کوئی عام انسا ن نہیں ہو ا کر تے تھے، بلکہ وہ اللہ کے خصو صی فضل کی وجہ سے تمام انسا نی خوبیو ں کے مالک ہو تے تھے اور تمام انسا نی وحیوانی رذا ئل سے پاک ہو تے تھے، جنہیں اسلامی اصطلا ح میں معصو م کہا جاتا ہے۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیا ء معصو م ہیں ، صحابہ محفوظ ہیں ، اوراولیاء موفّق ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت اقدس اللہ کی مخلو ق میں سب سے زیادہ پا کیز ہ، با اخلاق اور با بر کت ذات ہے ، اسی لیے مسلمانو ں کو ان کی اطاعت، ان سے سچی محبت اورآ پ کی عقیدت ومحبت کا حکم دیا گیا ہے ،بلکہ ان کی محبت اور عشق اور ان کی اطاعت پر اللہ کی رضا کو مو قو ف رکھا گیاہے ۔

فرما نِ الہٰی ہے : ﴿اِنْ کُنْتُمْ تُحِبِّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْانِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ﴾ ”آپ کہہ دیجیے اگر تم اللہ کی محبت چا ہتے ہو تو میر ی اطا عت کرو، اللہ تم سے محبت کرنے لگ جا ئیں گے۔ “ اطاعت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان پر فر ض عین ہے اور آدمی کسی کی اطاعت پر اسی وقت آ ما دہ ہو تا ہے جب اس سے محبت ہو ۔

خلا صہٴ کلا م یہ کہ انسا ن کی زندگی کا مقصد حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کی اطا عت ومحبت کے واسطہ سے اللہ کی خوش نودی حاصل کر نا ہے ، گویا مقصدحیا ت کا حصو ل ہی مو قوف ہے اتبا عِ رسو ل پر، جس کو آ پ مند ر جہ ذیل نقشہ سے آ سا نی کے سا تھ سمجھ سکتے ہیں۔

مگر افسو س آج امت اس مقصد کو نہیں سمجھ سکی اور نا دا نی میں ایک دوسرے کی مخالفت پراتر آئی ہے، جس کا فا ئدہ غیرو ں نے اٹھا نا شروع کر دیا اور قر آ ن پر ،رسو ل پر ، شر یعت پر کیچڑاچھا لنے لگے ہیں اور ہم بس اپنے ہی اختلا ف میں مست ہیں۔

ہمیں یہ یا د رکھنا چاہیے کہ زندگی کا اصل مقصد خوا ہشا ت پر قا بو پاکر اپنی مرضی سے اللہ کے رضا کی حتی المقدو ر کوشش کرنا ہے ،مدا رس میں تعلیم کا مقصد بھی یہی ہے ، تبلیغ کے ذریعہ اصلا ح کا مقصد بھی یہی ہے ، دعو ت کے ذریعہ ہدایت کا مقصد بھی یہی ہے ، خا نقا ہوں کے ذریعہ تز کیہ کا مقصد بھی یہی ہے اور انسا ن کو اپنی زندگی کی ضروریات میں بھی اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر مشغول ہو نا چا ہیے ۔

لہٰذا سب سے پہلے تو میں امت کو بھی دعو ت دو ں گا کہ وہ اپنے آپسی اختلا ف کو چھوڑ کر متحد ومتفق ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو اور جذبا ت میں نہ آکر حدو د شریعت میں رہ کر علما ئے راسخین کے ذریعہ قر آ ن و حدیث کی روشنی میں راہ نما ئی حاصل کر ے ،کوئی قدم علمائے را سخین کی راہ نمائی کے بغیر نہ اٹھا ئے ،ورنہ بجائے فا ئدہ کے نقصا ن ہو گا او ر زندگی کا اہم مقصد یعنی رضائے الہٰی حاصل نہ ہو سکے گا ۔

رسو ل الله صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت اقدس پر کیچڑ اچھا لنا اور آپ کی مقد س ذا ت کو داغ دار کرنا یقینا ایک انتہائی گھنا وٴنی حر کت ہے، جس کی مذمت تو کیا ایسی حر کت کے مر تکب کو قتل بھی کر دیا جائے تو کم ہے ۔ شریعت کا حکم بھی یہی ہے کہ نامو س رسالت پر حملہ کرنے والے کو تہ تیغ کر دیا جائے اور تاریخ شا ہد ہے کہ مسلما نو ں نے ایساکیا۔ جیسا کہ آپ اگلے صفحا ت میں ملاحظہ فرمائیں گے ۔ علما ء کے یہا ں اس میں کوئی اختلا ف نہیں رہا ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ نے تو ا س پر مستقل کتا ب تحریر فر ما ئی ہے ۔” الصارم المسلو ل علی شا تم الرسول “ کتاب کے اخیر میں مصنف نے لکھا ہے :

” صر ف نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں، تمام انبیا جن کو صرا حةً ووصفاً قرآ ن نے نبی کہا ہو ، ان کی اہانت کا حکم شریعت اسلا میہ میں قتل ہے۔ مثلا ً اگرکسی نے دورا ن گفتگو کسی نا منا سب با ت یا فعل کی نسبت کسی نبی کی جانب اس کے نبو ت کا علم رکھتے ہوئے تعیینی طور پر کی، تو ایسا کہنے والے یا کرنے والے نے شا ن نبو ت میں گستاخی کی اور اگر اسے ان کے منصب نبوت کاعلم نہ تھا ،یا مطلقا ً گرو ہ انبیا کی طر ف ایسی نسبت کی تو اس کا حکم بھی وہی (قتل) ہے ۔ کیوں کہ تما م انبیاء پر علی الا طلا ق ایما ن رکھنا واجب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خصو صا ً، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قر آ ن کریم میں بتلا دیا ہے ۔ان کو بر ا بھلا کہنے والا اگر مسلما ن ہے تو وہ کافر و مر تد ہے اور اگر ذمی ہے تو اس سے قتا ل و اجب ہے ۔

اہا نت نبو ت کے مر تکب کی سزا صر ف اور صرف قتل ہے ، اس پر دلائل کے انبا ر مو جو د ہیں، جو اپنی عمو میت کے سبب لفظا ً اور معنی ً اس پر دال ہیں ۔ (ابن تیمیہ  فر ما تے ہیں) میر ے علم میں کو ئی بھی عالم دین ، فقیہ شریعت ایسا نہیں جس نے حکم مذکو رہ سے اختلا ف کیا ہو ۔ البتہ اکثر فقہا ء کا کلا م اس سز ا کے سلسلے میں ہمار ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ وشتم کرنے والوں کے متعلق ہے ۔ کیو ں کہ اس کی ضرو رت زیا دہ ہے ۔آپ کی نبو ت کی تصد یق اور آپ کی اطاعت اجما لا ً و تفصیلا ً ہر طرح سے واجب ہے ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی اہا نت کا جر م دیگر انبیا کی اہانت سے کہیں زیا دہ ہے ۔ جیسا کہ آ پ کی حر مت و عظمت دیگر انبیا سے کہیں زیا دہ ہے ۔ لیکن اس با ت کا قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اہانتِ منصبِ رسالت میں تمام انبیاء و رسل آپ کے بھا ئی ہونے کی حیثیت سے شریک ہیں ۔ (اور ان کی اہا نت آپ کی اہانت ہے) لہٰذا کسی بھی نبی کی شا ن میں گستا خی کرنے والے کا خو ن حلا ل ہے اور وہ کافر واجب القتل ہے ۔ “(الصارم المسول علی شاتم الرسول:401)

اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اب کہیں صحیح معنی میں اسلا می عدالت ہی نہیں۔پور ی دنیا الحاد اور دہریت کے دلدل میں پھنسی ہو ئی ہے اور وقفہ وقفہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی جسا رت کی جا رہی ہے، توہمیں کیا کر نا چا ہیے ، کیا سڑ کو ں پر آ کر ٹائر جلا نا چا ہیے ؟
کیا عوام کی املا ک کو نقصا ن پہنچا نا چاہیے ؟
کیا احتجا جات کے ذریعہ سڑ کو ں کو رو ک کر نعرہ با ز ی کرنی چا ہیے ؟
کیا قتل و غا ر ت گری کا بازا ر گرم کرنا چا ہیے ؟
کیا مذکو رہ حر کتو ں کی اسلا م اجا زت دیتا ہے ؟
ظاہربات ہے اسلا م اس کی اجا ز ت نہیں دیتا ہے ، مگر مسلما ن ہے کہ انہیں کیے جا رہا ہے ، اب سو ال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چا ہیے ؟ تاکہ صحیح معنی میں ہم شر یعت کے احکام کے مطا بق نا مو س رسا لت کا دفاع کر سکیں ۔

اگر ہم واقعةً مسلما ن ہیں اور حدود شریعت میں رہ کر نامو سِ رسالت کا دفا ع کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں مندرجہ ذیل امو ر کی طر ف خا ص تو جہ دینی چا ہیے ۔

1…اسلا می تعلیما ت کی مکمل پیرو ی اور غیراسلا می نظریات ، افکا ر ، خیالا ت ، عادات، اطوار ، تہذیب وتمدن ،معاشرت ومعیشت ، سیا ست وغیرہ سے کلی اجتناب کرنا ہو گا۔ خاص طور پر فیشن پرستی اور مادی افکار کو پور ی ہمت اور استقلال کے ساتھ چھوڑنا ہو گا اور سادگی والی زندگی گزا رنا ہو گی ، یہی سب سے پہلے کر نے کا کا م ہے، مگر اسے چھوڑکر امت دیگر غیر شرعی طریقو ں کو اختیار کر رہی ہے ۔

2…عالمی طور پر تما م مسلمانو ں کو متحد ہوکر U.N.O. کو ایسے قا نو ن وضع کر نے پر مجبو ر کر ناہوگا ، جس میں انبیا ئے کرام علیہم السلام کی اہانت کرنے والو ں کو قتل کی سزا دی جائے اور اگرایسا نہ ہو تو نامو س رسالت پر حملہ کر نے والو ں کو کسی تدبیر سے قتل کرنے کی کوشش کر نی چا ہیے ۔

3… یو رپ جو ان تمام غلیظ اور نا پا ک حر کتو ں کی پشت پنا ہی کر رہا ہے ، اسے مند رجہ ذیل طریقوں سے سبق سکھا یا جا ئے ۔
(الف)… مسلمان مغر بی مصنو عا ت کا مکمل با ئیکا ٹ کریں ۔
(ب)…ڈالر،یورو اورپا ؤنڈکے ذریعہ معاملہ نہ کرکے اس کی ویلیو کو کم کر نا چا ہیے ۔
(ج)…پور ے عالم میں دین اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح تعارف پیش کر نا چا ہیے ۔
(د) …اپنے علاقوں میں ایسی کمیٹیا ں بنا نی چاہیے جو بائیکا ٹ پر لو گو ں کو آما دہ کر یں اور امر بالمعر و ف اورنہی عن المنکر کریں ۔

4…ہر گھرمیں اسلام اور نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سیر ت کی تعلیم کو عا م کرنا چا ہیے ۔

5…نما ز کا مکمل اہتمام کر نا چا ہیے ۔

6…زندگی کے ہر موڑ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتو ں کو معلو م کرکے اس پر عمل کر نا چا ہیے ۔

7…بد عات و خرا فا ت سے اجتنا ب کر نا چا ہیے ۔

8…صحابہ سے محبت اور ان کی زندگیو ں کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔

9…علما ء سے محبت اور ہر دنیوی ودینی معاملہ میں ان سے رہنما ئی حاصل کر نی چاہیے ۔

10…اپنی اولا د کی صحیح اسلا می تر بیت کرنی چا ہیے ۔

11…رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو پڑھ کر اس کو اپنی زندگی میں نافذ کر نا چاہیے ۔

12…لو گو ں کو سیر ت سے وابستہ کرنے کے لیے سیرت کے عنو ا ن پر مسابقا ت (تقریری مقابلے) رکھنے چا ہیے ۔

غرضیکہ ہم سب پر اپنی استطاعت کے مطابق رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفا ع لا ز م ہے ۔

المر ء یقیس علی نفسہ 
جس ملعون نے یہ فلم بنائی ہے، وہ ایک بد اخلا ق ، بد کر دار شخص ہے، اس پر امر یکی عدالتوں میں کئی مقدمات درج ہیں ۔ عربی کا محاورہ ہے کہ آدمی دوسر و ں کو بھی اپنے ہی اوپر قیا س کرتاہے ،ورنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والاصفا ت کے اخلاق و اطوار ،روز روشن کی طر ح عیا ں ہیں ۔

قر آ ن نے آ پ کو کہا ہے ﴿انک لعلٰی خلق عظیم﴾ اس کے بعد مزید کسی کی شہادت کی ضرورت نہیں ۔مگر ہم انہیں انگریز وں میں سے بعض کے تاثرا ت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار ے میں نقل کردینا چاہتے ہیں ۔ ”الفضل ما شہدت بہ الا عدا ء “ کے تحت کہ” حق تو وہ ہے جس کی سچائی پر دشمن بھی مجبو ر ہوجاتے ہیں ۔“

حکیم الا مت مجدد ملت حضرت مو لانا اشرف علی تھانوی  نے ”شہادة الا قو ا م علی صدق الا سلا م “ کے نام سے ایک رسالہ مر تب فر ما یا تھا جو، حقا نیت اسلا م کے نام سے شا ئع ہوا ہے ۔جس میں حضرت نے غیر مسلمو ں کے اسلا م ، قر آ ن اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے با رے میں تاثر ا ت کو مختلف اخبارات و رسا ئل سے اخذ کر کے جمع کیا ہے ۔ ہم یہاں نقل کردیتے ہیں ۔

ڈاکٹرجے ،ڈبلیو، لیٹزآ پ کی شخصیت کا اعترا ف ان لفظو ں میں کرتے ہیں : اگرسچے رسو ل میں ان علامتو ں کا پایا جا نا ضروری ہے کہ وہ ایثار نفس اور اخلاص نیت کی جیتی جاگتی تصویر ہو او راپنے نصب العین میں یہاں تک محو ہو کہ طر ح طر ح کی سختیا ں جھیلے ، انوا ع و اقسا م کی صعوبتیں برداشت کر ے ، لیکن اپنے مقصد کی تکمیل سے باز نہ آ ئے ، ابنا ئے جنس کی غلطیوں کو فو راً معلو م کر لے اور ان کی اصلاح کے لیے اعلیٰ درجہ کی دانش مندا نہ تدابیر سوچے اور ان تدابیر کو قو ت سے فعل میں لا ئے تو میں نہایت عاجزی سے اس بات کے اقر ا ر کر نے پر مجبو ر ہوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے نبی تھے اور ان پر وحی ناز ل ہو تی تھی ۔

پروفیسر فریمین : حقیقی اور سچے ارادوں کے بغیر یقینا کوئی اور چیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا لگا تار استقلال کے ساتھ، جس کا آپ سے ظہور ہو ا آگے نہیں بڑھا سکتی ،ایسا استقلا ل جس میں پہلی وحی کی نز و ل کے وقت سے لے کر آخر دم تک نہ کبھی آپ مذبذب (متردد)ہو ئے اور نہ کبھی آپ کے قدم سچا ئی کے اظہار سے ڈگمگا ئے ۔

رومن صاحب : حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فقط ایک صاحب علم ہی نہ تھے، بلکہ صاحب عمل بھی تھے ، انہوں نے اپنی امت کو عمل کی تا کید کی ، چناں چہ جیسی انسا نیت و مر وت مسلما نو ں میں ہے شاذو نا در ہی کسی قو م میں پائی جاتی ہے ۔

ڈاکٹر ما رگیلوش : میں (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے بہت عظیم لو گوں میں شما ر کر تا ہو ں ، انہو ں نے قبائل عر ب سے ایک عظیم الشا ن سلطنت قا ئم کرکے بہت بڑی پولیٹکل گتھی کو سلجھا یا او ر میں ان کی کما حقہ تعظیم وتکر یم کر تا ہو ں ۔

لا لہ لا جپت ر ائے : میں مذہب اسلام سے محبت کر تا ہو ں اور اسلامی پیغمبر کو دنیا کے بڑے بڑ ے مہاپر شو ں میں سمجھتا ہو ں ۔ آپ کی سو شل اور پولیٹکل تعلیم کا مدا ح ہو ں اور اسلام کا بہتر ین رنگ وہ تھا جوکہ حضرت عمر  کے زما نے میں تھا ۔

ایڈورڈگبن : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب صاف شک و شبہ سے بالا تر ہے اور خدا کی وحدا نیت کی تصدیق میں قر آ ن ایک شا ن دا ر شہا دت ہے۔ (بحو الہ حقا نیت اسلا م منقول از اخبار ”المشرق “ یکم جولا ئی ۱۹۲۷ء )

ایک مسیحی عالم نے ایک کتا ب مسمیٰ بہ” قرا ن السعیدین “لکھی ہے، اس میں اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر زور دیا ہے اور بتا یا ہے کہ ایما ن داری، بے تعصبی ،وسیع القلبی اور شر افت اس با ت کی مقتضی ہے کہ عیسائی دو ست اپنے دلو ں کو صا ف کریں اوریقین جا نیں کہ دین داری اس کے علا وہ کچھ اور ہے کہ آنحضرت کو بر ا بھلا کہیں اور ان سے بغض وعدا وت رکھیں، بلکہ مناسب ہے کہ ان کی خوبیو ں پر نظر کریں، حسب مر تبہ ان کی قد ر کریں ، تعظیم کر یں ، او ر حتی المقدور مسلما نو ں کے جذبات کاپا س کر تے ہو ئے ان کے ساتھ رو ا داری سے پیش آئیں ۔

اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور نر م دلی کی آ یت بھی نقل کی ہے کہ رسو ل ایمان داروں پر شفیق و مہر با ن ہیں اور ہم تسلیم کر تے ہیں کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم ایک روشن چرا غ تھے ، رحمة للعا لمین ، صا حب خلقِ عظیم تھے کہ ان کے اوصا ف سے آخر ان کی کوشش با ر آ ور اور سعی مشکو ر ہوئی ۔

داؤ د آ فندی مجاعض نامو ر عیسا ئی اہل قلم کی نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ۔
دنیا کا عظیم تر ین سب سے بڑ ا انسا ن وہ ہے جس نے صر ف دس سا ل کے قلیل زما نے میں ایک محکم دین اور اعلیٰ درجہ کا فلسفہٴ طریقِ معاشر ت اورقوانینِ تمدن وضع کیے ۔ قا نو ن جنگ کی کا یہ پلٹ دی او رایک ایسی قو م وسلطنت بنا دی کہ وہ عرصہ ٴ در ا ز او ر مدت ِ مدید تک دنیا پر حکم ر ا ں رہی ۔ اور آج تک زمانہ کا سا تھ دے رہی ہے اور لطف یہ ہے کہ وہ شخص باو جو د ایسے عظیم ترین اور بے مثل کا م کر نے کے محض نا خوا ندہ اور امّی تھا ۔ وہ مر دِ گرامی اور اجلِ اعظم ”محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب قریشی ،عربی، مسلما نو ں کے نبی ہیں ۔ “

مسٹر گووند جی ڈسا ئی گجرا ت کے ایک فا ضل ہندو تعلیم یا فتہ گزرے ہیں ، آ پ نے اپنی زندگی میں ایک مضمو ن اسلام اور اہنسا پرتحریر فر مایا تھا ، اس مضمو ن کو گا ندھی جی نے بھی اپنے اخبار ”ینگ انڈیا “میں درج کیا تھا ، آپ نے اس مضمو ن میںآ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شا ن میں عقیدت کے جو پھول بر سا ئے ہیں ، وہ آپ کے الفاظ میں حسب ذیل ہیں :

انسا نی شرافت : یہ امر واقعہ ہے کہ ذاتی طور پر رسو ل عر بی ایک ایسے شخص تھے ،جن میں بڑی انسا نیت اور شرافت تھی ، آپ کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ آپ اپنے سے کم درجہ کے لو گوں سے بڑی رعایت کرتے تھے ۔ اور آپ کا کم سن غلا م، چا ہے کچھ ہی کرتا تھا، آپ اس کا مضحکہ اڑا نے کی اجا زت نہ دیتے تھے ۔

بچو ں پر شفقت : آپ بچو ں سے بڑ ا انس رکھتے تھے ، آپ ان کو راستہ میں رو ک لیتے اور ان کے سر و ں پر ہا تھ پھیر تے تھے ۔ آپ نے عمر بھر کسی کو نہیں ما را ۔ آپ نے شدید تر ین الفاظ جو کبھی مخالفین مذہب کے متعلق کہے یہ تھے کہ اسے کیا ہے ؟ خدا کر ے اس کا چہر ہ خا ک آ لو د ہو ۔ جب آپ سے کہا گیا کہ فلا ں شخص کو بددعا دیں تو آپ نے جوا ب دیا کہ میں بددعا دینے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہو ں ، بلکہ انسا نو ں کے ساتھ رحم کا سلو ک کر نے آیا ہوں۔

رسو ل عر بی میں تمام انسا نو ں سے زیا دہ انسا نیت تھی ۔ جب آ پ اپنی والدہ کی قبر پر جا تے تو روتے تھے اور ان لوگوں کو رُلا تے جو اس وقت آپ کے گر د وپیش کھڑ ے ہو تے تھے ۔

نبو ت کا تاجدا ر جھونپڑیوں میں : جس قد ر سادہ اطوار رکھتے تھے اسی قد ر آ پ مخیر تھے ۔ آپ اپنی بیو یو ں کے ساتھ جھونپڑیو ں کی ایک قطا ر میں رہتے تھے ۔ آپ خود آگ جلا تے ا ور جھونپڑیوں میں جھا ڑو دیتے تھے۔ آپ کے پاس جو کچھ کھا نا ہو تا تھا اس میں سے ان لو گو ں کو حصہ دیتے تھے جو آپ کے پاس جاتے تھے ۔ آپ کا معمو لی کھانا کھجو ریں اور پا نی یا جو کی رو ٹی ہو تی تھی ۔ دودھ اور شہد آ پ کا ساما ن عشرت تھاا ور ان دو نو ں چیزوں کے آپ بڑے شا ئق تھے، مگر آپ یہ چیز یں شا ذ ونا در ہی استعمال کر تے تھے ۔جب آپ عر ب کے با دشا ہ بن گئے تو بھی آپ ریگستا نو ں کی سیا حت کو بہت پسند کر تے تھے ۔

غریبو ں کا احترام : رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے غر یبو ں کو یہ کہہ کر تقدس بخش دیاکہ غریبی آ پ کا فخر ہے ۔ آپ نے خدا سے دعا کی کہ آپ کو غریبی میں رکھے ، آپ کو حالت غریبی میں مو ت دے اور حشرکے دن آپ کو غریبوں میں اٹھائے ۔

بزرگی اور پیغامبری : آپ اس قد ر منکسر مزا ج تھے کہ آپ کسی کو اپنی نسبت اس سے کچھ زیا دہ نہیں کہتے تھے کہ آپ خدا کے بند ے اور اس کے پیغا مبر ہیں ۔آپ اپنے دلی معتقدو ں کو یا د دلا تے رہتے تھے کہ میں انسا ن سے بڑھ کرنہیں ہو ں، اگرچہ آپ کا دعویٰ تھا کہ آپ خا تم النبیین اور سر آمد انبیا ء ہیں، یعنی سب سے آخر اور سب سے بڑے نبی ہیں، مگر ساتھ ہی اپنے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں اور نیز با قی انسا ن اس وقت تک بہشت میں داخل نہ ہو ں گے جب تک کہ خدا آپ کو اپنی رحمت سے نہ ڈھا نک دے گا ۔ جہاں آپ نے ایک طر ف یہ اعلا ن کیا کہ خو د میں محض خدا کے فضل کی بدو لت نجا ت پا ؤ ں گا، وہاں آپ نے انسا نو ں کو بھی تسکین دی کہ خدا کی رحم دلی اس کے غصہ پرغالب آ جا تی ہے اور یہ کہ خدا نے بہشت کے دروا زے نام نہا د بے دینو ں پر بند بھی نہیں کیے ۔ آپ نے فر ما یا کہ اگر کسی بے دین کو معلو م ہو جا ئے کہ خدا کس درجہ رحیم ہے، تب بھی اسے بہشت کی طرف سے مایو سی نہ ہو نی چاہیے ۔

محسن اعظم 
ونکلٹا رتنام ، مدراس: محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے ساتھ اتنا احسا ن کیا ہے کہ دوسروں نے نہیں کیا ۔

لا ئق عز ت ومحبت 
لالہ لاجپت رائے: مجھے یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں کہ میر ے دل میں پیغمبر اسلا م کے لیے نہا یت عز ت ہے ۔ میر ی رائے میں ہا دیا ن دین اور راہ برا ن بنی نو ع انسا ن میں ان کا درجہ بہت اعلیٰ ہے۔

جلیل القدر مصلح 
کاؤنٹ ٹالسٹائی :حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا منکسر المزاج ، رحم دل ، راست با ز ، خلیق ، متحمل ، انصاف پسند اور جلیل القدر مصلح وریفا رمرتھے …۔ دنیا کے تمام انصاف پسند محققین اس امر کو تسلیم کر تے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز ِ عمل ، اخلاق انسا نی کا حیرت انگیز کارنامہ ہے ۔ہم یہ یقین کرنے پر مجبورہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ وہدایت خالص سچا ئی پر مبنی تھی #

بنی نوع انسان کے لیے رحمت 
پرو فیسر رگھو پتی سہائے /فر ا ق گو رکھپوری : میرا اٹل ایما ن ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر اسلام کی ہستی بنی نو ع انسا ن کے لیے ایک رحمت تھی ، پیغمبر اسلا م نے تا ریخ و تمدن ، تہذیب واخلا ق کو وہ کچھ دیا ہے جو شاید ہی کوئی اوربڑی ہستی دے سکی ہو ۔ پیغمبر اسلا م کے پر ستانہ جذبا ت رکھنا ، ان کا دلی احتر ا م کر نا ، ہر انسا ن کا فرض ہے ، بلکہ ہر انسا ن کے لیے سعاد ت ہے ، اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں #
            تفرقوں سے پاک ہے آنسو محبت کے فراق
            اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آ تے تو…؟

پر وفیسر با سو رتھ اسمتھ : بلا شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسو ل ہیں، اگر پوچھا جا ئے کہ افریقہ (بلکہ پوری دنیا) کو مسیحی مذہب نے زیاد ہ فائدہ پہنچا یا یا اسلا م نے ؟ تو جو اب میں کہنا پڑے گا کہ اسلا م نے ۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قر یش ہجر ت سے پہلے خدا نہ خوا ستہ شہید کر ڈالتے ،تومشر ق ومغرب د و نو ں نا کار ہ رہ جاتے ۔ اگر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آ تے تو دنیا کا ظلم بڑھتے بڑھتے اس کو تبا ہ کردیتا ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے ، تو یور پ کے تاریک زما نے دو چند، بلکہ سہ چند تا ریک ترہو جا تے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو تے ، تو انسا ن ریگستا نو ں میں پڑے بھٹکتے پھرتے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو تے تو عیسا ئیت بگڑ کر بد سے بدتر ہو جا تی ۔ جب میںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ صفا ت اور تمام کا رنا مو ں پر بحیثیت مجموعی نظر ڈا لتا ہو ں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا تھے ،کیا ہو گئے۔اور آپ کے تا بع د ار غلا مو ں نے، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کی رو ح پھونک دی تھی ، کیا کیا کا ر نامے دکھا ئے ، تو آپ مجھے سب سے بزر گ تر اور بر تر اور اپنی نظیر آپ ہی دکھا ئی دیتے ہیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا سے لے کرانتہا تک یعنی بعثت سے لے کر دار البقا میں جا نے تک اپنے کو نبی کہلا یا اور اس سے رتی بھر آ گے نہیں بڑھے ۔ میں یہ اعتقا د کر نے کی جر أ ت کر تا ہو ں کہ نہا یت اعلیٰ درجہ کے فلا سفر اور سا ئنس داں اور فضلا ئے عا لی دماغ اورعیسا ئی ایک دن با لا تفاق تصدیق کر یں گے کہ بلا شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسو ل ہیں۔(محمد اینڈ محمڈن ازم ،تالیف پرو فیسر با سو رتھ اسمتھ )

یہ تھے وہ تأثرا ت جو غیر مسلموں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار ے میں بیا ن کیے ،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت تو اتنی جا مع الکمالا ت ہے کہ کوئی لکھنے والا اسے اپنے احاطہ میں نہیں لا سکتا۔ سلف صا لحین اور معاصر موٴلفین نے سیر ت پا ک کے ایک ایک مو ضو ع پر ہزا ر ہا ہزار صفحا ت تحریر کیے ہیں، مگر پھر بھی آ پ کی سیرت کا حق ادا کر نے سے قا صر ہیں ۔ کسی شاعر نے کیا خو ب کہا ہے ۔ #
        تھکی ہے فکر رسا، مدح باقی ہے
        قلم ہے آبلہ پا، مدح باقی ہے
        ورق تمام ہوا، مدح باقی ہے
        تمام عمر لکھا، مدح باقی ہے

تحفظ نامو س رسالت سے متعلق کتب الصارم المسلول علی شاتم الرسول السیف المسلو ل علی شا تم الر سو ل صلی الله علیہ وسلم ( تقی الدین السبکی  )الشفا ء (قاضی عیاض  ) تنبیہ الو لا ة والحکام علی شا تم خیر الا نا م (رسا ئل ابن عابدین)

(اردو کتابیں) گستا خ رسو ل کی سزا بز با ن سیدنا محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم۔ (مولا نا محمد حسن صاحب ) نا مو سِ رسالت کی حفا ظت کیجیے (مو لا نامفتی محمد تقی عثما نی) با محمدصلی الله علیہ وسلم با و قا ر (قاضی محمد زاہد الحسینی) اسلا م میں اہا نت رسو ل صلی الله علیہ وسلم کی سزا (ڈاکٹر مولا نا محسن عثما نی ندوی) تو ہین ِ رسالت صلی الله علیہ وسلم اور اس کی سزا (مفتی جمیل احمد تھانوی )









گستاخ رسول کی سزا  ایک ایسا  امر ہے کہ جس کے ثبوت کے لئے قرآن و حدیث میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔ جو پیش کئے گئے اگر ان دلائل کو ایک انسان مدنظر رکھے تو وہ کبھی بھی اس مسئلے کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہوگا۔ لیکن چونکہ  کم علمی کے سبب بعض لوگوں کے ذہن میں بعض اشکالات اور اعتراضات پیدا ہوجاتے ہیں ، جس کےسبب وہ اس عالمی اور مشہور مسئلے میں تردد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں بروقت مناسب رہنمائی نہ ہونے سے کبھی کبھی  اس سلسلے میں بعض اوقات مخالفت پر بھی اُ تر آتے ہیں۔
لھٰذا اعتراضات اور جوابات پیش خدمت ہیں
(۱) اعتراض:
قرآن مجید میں پیغمبروں کے ساتھ استہزاء  کا جرم کا ذکر بار بار آیا ہے  لیکن مجرم کیلئے سزائے موت  کا کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔
جواب:
اصل گفتگو اسلامی شریعت کے دائرے میں ہورہی ہے۔ اور احادیث کے نصوص سے قتل کی سزا ثابت ہے۔اور اگر صرف احادیث سے قتل کی سزا ثابت ہے تو کیا منکرین حدیث کی طرح سے احادیث کا انکار کیا جاے گا۔ شراب نوشی کے حد کے بارے میں قرآن میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے بلکہ احادیث سے ثابت ہے ، تو اعتراض کرنے والے اسکے بارے میں کیا کہتے ہیں-
(۲) اعتراض:
رسول اللہ ﷺ دعوت و تبلیغ کیلئے طائف گئے تھے اور وہاں کے لوگوں نے آپکو سخت تکلیف پہنچائی تھی لیکن اسکے باوجود جب فرشتہ ملک الجبال آپ کے پاس آیا اور ان طائف والوں کی ہلاکت کی اجازت مانگی تو نبی ﷺ نے اسکی اجازت نہیں دی۔
جواب:
یہ واقعہ مکی زندگی کے دوران ہوا اور یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا ، اور اس وقت تک شاتم رسول کے لئے سزا موت  کا حکم نہیں ملا تھا۔
نیز اس وقت تک شریعت محمدی نافذنہیں ہوا تھا۔لھذا طائف والوں کو عذاب نہیں ملا۔ظاہر ہے اکثر احکامات ہجرت کے  بعد لاگو ہوے ہیں۔اور چونکہ انہوں نے نبی کی عزت کو مجروح کیا تھا ،  لھٰذا نبی پاک ﷺ نے ان لوگوں سے  حکمت کی بناء پر بدلہ لینا گورا نہیں کیا
(۳)اعتراض:
سہل بن عمرو ، عکرمہ بن ابوجھل اور عبد اللہ ابن ابی ابن سلول نے بھی آپ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کی تھی لیکن انکو کچھ نہیں کہا گیا ،بلکہ عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا جنازہ بھی  حضور نے بذات خود پڑھایا، تو انکو کیوں قتل نہیں کیا گیا؟
جواب:
اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے ایک مشہور قاعدہ  بیان کرتا ہوں  اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے کسی دوسرے آدمی کو بے گناہ قتل کردیا۔ اب قاتل کیلئے سزائے موت ہے، اور اسکا خون مباح ہے۔ قتل ثابت ہونے پر اسکو ضرور قتل کیا جائے گا۔ لیکن  مقتول کےوارث کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اس قاتل کو معاف کردے ،
اور مقتول کے وارث کے معاف کرنے کے بعد اس قاتل کو سزائے موت دینا جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ حق صرف مقتول کے وارث کے پاس ہے ، کسی اور کے پاس نہیں۔لھٰذا  اگر مقتول کے وارث موجود نہ ہوں تو کوئی  دوسرا  آدمی اس قاتل کے سزاے موت کو نہیں بدل سکتا۔
بالکل ایسے ہی چونکہ شاتم رسول نے نبی کی توہین کی ہوتی ہے تو یہ گستاخ سزاے موت کا حقدار بن گیا ہے۔لیکن اگر نبی کسی حکمت کے سبب اس گستاخ کی اس گستاخی کو معاف کردے تو ظاہر ہے کہ اس شاتم رسول کو سزاے موت نہیں ہوگی۔
اور جس طرح صرف مقتول کے وارث کے پاس قاتل کو معاف  کرنے کا حق ہوتا ہے۔بالکل ایسے ہی گستاخ رسول کو معافی کا حق صرف رسول کو ہی ہوتا ہے۔نبی کے علاوہ کسی کو بھی یہ حق حاصل  نہیں کہ وہ اہانت رسول کے مرتکب شخص کو معاف کردے۔
ظاہر ہے نبی کی عزت کو اس نے مجروح کیا ہوتا ہے تو معافی کا اختیار بھی صرف نبی کوحاصل  ہوگا۔
اور یہی امت مسلمہ کا معمول ہے کہ نبی پاک ﷺ کے وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے لے کر آج کے دور تک  امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ گستاخ رسول کو سزاے موت دی جاے گی۔ اور اسی قاعدے کی بنیاد پر ان علماء کا فیصلہ ہے جو کہ گستاخ رسول کی سزاے موت کو توبہ کے بعد بھی بحال رکھتے ہیں۔
نیز نبی پاک ﷺ صاحب شریعت تھے اور  صاحب حکمت تھے۔ انکو معلوم تھا کہ کس کے قتل کرنے میں حکمت ہے  اور کس کے قتل نہ کرنے میں۔ لھذا  ابن خطل  اور  اور حویرث کے  سزاے موت کو نبی ﷺ نے بحال رکھا اور سہل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جھل  کو معاف کیا۔ اور بعد میں  یہ دونوں سچے دل سے اسلام لائے تھے۔
رہا یہ سوال کہ عبد اللہ ابن ابی ابن سلول  کا جنازہ نبی ﷺ نے خود پڑھایا تھا ، تو   یہ بات درست ہے اور عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کی منافقت کا علم نبی ﷺ کو بھی ہوا تھا۔ لیکن عبد اللہ ابن ابی ابن سلول مدینہ میں ایک قبیلہ  کا سردار تھا اور مدینہ میں اگر نبی ﷺ تشریف نہ لاتے تو اسکی سرداری یقینی تھی۔لیکن  نبی پاک ﷺکی تشریف آوری  سے اسکو سرداری نہ مل سکی، اور حضور ﷺ اس کوشش میں ہوتے تھے کہ کسی طرح  عبد اللہ ابن ابی ابن سلول سچے  دل سے مسلمان ہوجاے،  اور منافقت کی چادر اتار پھینکے۔
اور اسکی گستاخیوں کو بھی صرف اسلئے معاف کیا کہ معافی کا اختیار نبی ﷺ کو حاصل تھا۔
نیز حضور ﷺ امت پر مہربان تھے اور چاہتے تھے کہ یہ لوگ جہنم کی آگ سے بچ جائیں ،لھٰذا اسی لئےنبی پاک ﷺ نے عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا جنازہ پڑھا۔
لیکن اس واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو منافقین کے جنازے پڑھنے سے منع کردیا۔اور یہ حکم نازل ہوا کہ  نہ تو ان منافقین کیلئے مغفرت کی دعاء کی جاے اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھا جائے(التوبة:84) اور یہ حکم آج تک قائم ودائم ہے۔
………………………………………………………………………
(۴) اعتراض:
نبی ﷺ تو امت کیلئے رحمت عالم بنا کر بھیجے  گئے تھے ۔نا کہ قاتل عالم۔لھۃذا گستاخ رسول کی سزاے موت درست نہیں ہے۔
جواب:
یہ درست ہے کہ نبی پاک ﷺ اس  دنیا کیلئے رحمت عالم بنا کر بھیجے گئے تھے۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہےکہ مجرموں کو کچھ نہ کہا جاے اور ان کو کھلے عام چھوڑدیا جاے۔ مجرموں کو پکڑ کر انکو انکے جرم کے مطابق سزا  دینا ہی عین رحمت اور انصاف ہے۔ورنہ تو قاتل اور چور قتل اور چوریاں کرتے،اور قانون انکو کچھ نہ کہتی، تو یہ تو انصاف نہیں بلکہ مجرموں کو  اپنے کئے کی سزا دینا ہی رحمت اور  انصاف ہے ۔ اور اسی لئے نبی کو رحمت عالم بنا کر بھیجا گیا تھا۔
قرآن مجید میں ہے کہ
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة:179)
ترجمہ:۔۔  اور تمہارے واسطے قصاص میں بڑی زندگی ہے،اے عقلمندو!تاکہ تم بچتے رہو۔
تو قصاص کو حیات اسلئے کہا گیا کہ اس سے کشت وخون کی بدامنی سے انسانیت کو نجات ملتی ہے۔شاتم رسول پیغمبر کے کردار کی قتل کی کوشش کرتا ہے، اور اس گستاخ  کا قتل ہی پیغمبرکے کردار کے قتل کا بدلہ ہے۔
آج اگر ایک ملک کی سفیر کی بےحرمتی ہوتی ہے تو پورے ملک کی  بے حرمتی سمجھی جاتی ہے۔ تو انبیاء بھی اللہ تعالیٰ کے سفیر ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ   کے سفیر کی بے حرمتی عذاب الہی کو دعوت دیتی ہے اور عذاب سے پورا علاقہ تباہ ہوتا ہے ، تو پورے علاقے کی تباہی کے بجاے کیوں نہ اس گستاخ کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔

اہانت رسول کی سزا اقوال سلف کی روشنی میں
ا۔ قانون ناموس رسالت کو ختم کروانے کے لئے انگریز کے وفادار نام نہاد مسلمان میدان عمل میں آگئے۔اسی طرح ایک نام نہاد سکالر جاوید غامدی نے یہ شوشہ پھیلانے کی کوشش کی کہ فقہائے احناف کے نزدیک گستاخِ رسول کی سزا موت نہیں، لہٰذا 295سی، کو ختم کردیا جائے، اس شخص کا مقصد اُمتِ مسلمہ میں افتراق و انتشار کی فضا پیدا کرنا ہے۔اُمت ِمسلمہ کو ایسے اشخاص کے گھناؤنے کردار سے خبردار رہنا چاہئے۔ گستاخِ رسول کی سزا کے حوالے سے احناف کے جلیل القدر علما کی آرا ملاحظہ فرمائیے:

1. امام محقق ابن الہمامؒ (861هـ)
«کل من أبغض رسول الله ﷺ بقلبه کان مرتدًا فالساب بطریق أولى ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاط القتل.... وإن سبّ سکران ولا یعفی عنه»
[فتح القدیر: 5 /332]
''ہر وہ شخص جو دل میں رسول ﷺ سے بغض رکھے، وہ مرتد ہے اور آپ کو سب و شتم کرنے والا تو بدرجہ اولیٰ مرتد ہے اسےقتل کیا جائے گا۔ قتل کے ساقط کرنے میں اسکی توبہ قبول نہیں۔ اگرچہ حالت ِنشہ میں کلمہ گستاخی بکا ہو ، جب بھی معافی نہیں دی جائے گی۔''

2. علامہ زین الدین ابن نجیمؒ (970هـ)
«کل کافر فتوبته مقبولة في الدنیا والآخرة إلا جماعة الکافر بسب النبي وبسبّ الشیخین أو إحداهما.... لا تصح الردة السکران إلا الردة بسب النبي ولا یعفی عنه.... وإذا مات أو قتل لم یدفن في مقابر المسلمین، ولا أهل ملته وإنما یلقی في حفیرة کالکلب»
[الاشباه والنظائر: 158،159]
''ہر قسم کے کافر کی توبہ دنیا و آخرت میں مقبول ہے، مگر ایسے کفار جنہوں نے حضورﷺ یا شیخین میں سے کسی کو گالی دی تو اُس کی توبہ قبول نہیں۔ ایسے ہی نشہ کی حالت میں ارتداد کو صحیح نہ مانا جائے گا مگر حضورﷺ کی اہانت حالتِ نشہ میں بھی کی جائے تو اُسے معافی نہیں دی جائے گی۔ جب وہ شخص مرجائے تو اسے مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرنے کی اجازت نہیں، نہ ہی اہل ملت (یہودی نصرانی) کے گورستان میں بلکہ اسے کتے کی طرح کسی گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔''

3. امام ابن بزارؒ (1252هـ)
«إذا سبّ الرسول ﷺ أو واحد من الأنبیاء فإنه یقتل حدًا فلا توبة له أصلًا سواءً بعد القدرة علیه والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حد واجب فلا یسقط بالتوبة ولا یتصور فیه خلاف لأحد لأنه حق تتعلق به حق العبد فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین وکحد القذف لا یزول بالتوبة»
[رسائل ابن عابدین: 2/327]
''جو شخص رسول اللہ ﷺ کی اہانت کرے یا انبیا میں سے کسی نبی کی گستاخی کرے تو اسےبطورِ حد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں، خواہ وہ تائب ہوکر آئے یا گرفتار ہونے کے بعد تائب ہو اور اس پر شہادت مل جائے تو وہ زندیق کی طرح ہے۔اس لیے کہ اس پر حد واجب ہے اور وہ توبہ سے ساقط نہیں ہوگی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ یہ ایسا حق ہے جو حق  کےساتھ متعلق ہے، جو بقیہ حقوق کی طرح توبہ سے ساقط نہیں ہوتا جیسے حد ِقذف بھی توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔''

4. علامہ علاء الدین حصکفیؒ (1088هـ)
«الکافر بسبّ النبي من الأنبیاء لا تقبل توبته مطلقًا ومن شكّ في عذابه و کفره کفر»
[الدر المختار: 6 /356]
''کسی نبی کی اہانت کرنے والا شخص ایسا کافر ہے جسے مطلقاً کوئی معافی نہیں دی جائے گی، جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے، وہ خود کافر ہے۔''

5. علامہ اسماعیل حقیؒ (1127هـ)
«واعلم انه قد اجتمعت الأمة علی أن الاستخفاف بنبینا وبأي نبي کان من الأنبیاء کفر، سواء فعله فاعل ذلك استحلالا أم فعله معتقدًا بحرمته لیس بین العلماء خلاف في ذلك، والقصد للسب وعدم القصد سواء إذ لا یعذر أحد في الکفر بالجهالة ولا بدعوی زلل اللسان إذا کان عقله في فطرته سلیما»
[روح البیان: 3 /394]
''تمام علماے اُمت کااجماع ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ ہوں یا کوئی اور نبی علیہ السلام ان کی ہر قسم کی تنقیص و اہانت کفر ہے، اس کا قائل اسے جائز سمجھ کر کرے یا حرام سمجھ کر، قصداً گستاخی کرے یا بلا قصد، ہر طرح اس پر کفر کافتویٰ ہے۔ شانِ نبوت کی گستاخی میں لا علمی اور جہالت کا عذر نہیں سنا جائے گا، حتیٰ کہ سبقت ِلسانی کا عذر بھی قابل قبول نہیں، اس لیے کہ عقل سلیم کو ایسی غلطی سے بچنا ضروری ہے۔''

6. علامہ ابوبکر احمد بن علی رازیؒ الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ)
«ولا خلاف بین المسلمین أن من قصد النبي ﷺ بذلك فهو ممن ینتحل الإسلام أنه مرتد فهو یستحق القتل»
[احکام القرآن: 3 /112]
''تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جس شخص نےنبی کریم ﷺ کی اہانت اور ایذا رسانی کا قصد کیا وہ مسلمان کہلاتا ہو تو بھی وہ مرتد مستحق قتل ہے۔''

ذمی شاتم رسول کا حکم
جو شخص کافر ہو اور اسلامی سلطنت میں رہتا ہوں، ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اسے حکومت تحفظ فراہم کرتی ہے، مگر جب وہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہو تو اس کا عہد ختم ہوجاتا ہے اور اس کی سزا بھی قتل ہے۔

7. امام ابوحنیفہؒ نعمان بن ثابت (80-150هـ)
علامہ ابن تیمیہؒ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فإن الذمي إذا سبه لا یستتاب بلا تردد فإنه یقتل لکفره الأصلي کما یقتل الأسیر الحربی»
[الصارم المسلول:ص 260]
''اگر کوئی ذمی نبی کریم ﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کردیں گے کیونکہ اسے اس کے کفر اصلی کی سبب قتل کیا جائے گا جیسے حربی کافر کو قتل کیا جاتا ہے۔''

8. امام محقق ابن الہمامؒ (861هـ)

[فتح القدیر: 5 /303]
''میرے نزدیک مختار یہ ہے كہ ذمی نے اگر حضورﷺ کی اہانت کی یا اللہ تعالی جل جلالہ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی، اگر وہ ان کے معتقدات سے خارج ہے جیسے اللہ تعالی کی طرف اولاد کی نسبت یہ یہود و نصاریٰ کا عقیدہ ہے، جب وہ ان چیزوں کا اظہار کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔''

9. علامہ ابن عابدین شامیؒ
«فلو أعلن بشتمه أو إعتاده قُتل ولو امرأة وبه یفتٰی الیوم»
[رد المحتار: 6 /331]
''جب ذمی علانیہ حضورﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے قتل کیا جائے گا، اگرچہ عورت ہی ہو او راسی پر فتویٰ ہے۔''
حرفِ آخر
قاضی عیاض مالکی اور علامہ ابن تیمیہؒ(728هـ)،دونوں نے امام ابوسلیمان خطابیؒ کا موقف نقل کرتے ہوئے لکھا:
«لا أعلم أحدا من المسلمین اختلف في وجوب قتله»
''میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں سے کسی نے شاتم رسول کے قتل میں اختلاف کیا ہو۔''
علامہ ابن تیمیہؒ(728هـ)مزید لکھتے ہیں:
«إن الساب إن کان مسلما فإنه یکفرویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الأئمة الأربعة وغیرهم»
[الصارم المسلول:ص24]
''بے شک حضور نبی کریمﷺ کو سب و شتم کرنے والا اگرچہ مسلمان ہی کہلاتا ہو، وہ کافر ہوجائے گا۔ ائمہ اربعہ اور دیگر کے نزدیک اِسےبلا اختلاف قتل کیا جائے گا۔''

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسولﷺ کی محبت عطا فرمائے، او رقرآن و سنت کے مطابق ہمیں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!



ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کچھ واقعات
یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی شان اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آ رہے ہیں ۔ کبھی یہودیہ عورتوں نے آپ ﷺ کو گالیاں دیں ، کبھی مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے ۔ کبھی آپ ﷺ کی ہجو میں اشعار پڑھے اور کبھی نازیبا کلمات کہے ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے شان نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروا دیا ۔ کبھی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دے کر اور کبھی انہیں پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے ۔ کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے حب نبی ﷺ میں خود گستاخ رسول ﷺ کے جگر کو چیر دیا اور کسی نے نذر مان لی کہ گستاخ رسول ﷺ کو ضرور قتل کروں گا ۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اللہ ﷺ کا گستاخ ۔ اور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت ﷺ کو خود دیکھنے کے لئے گستاخ رسول ﷺ اور یہودیوں کے سردار کا سر آپکے سامنے لا کر رکھ دیا ۔ جو گستاخان مسلمانوں کی تلواروں سے بچے رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں کن عذابوں میں مبتلا کیا اور کس رسوائی کا وہ شکار ہوئے اور کس طرح گستاخ رسول ﷺ کو قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھینک دیا تا کہ دنیا کیلئے عبرت بن جائے کہ گستاخ رسول ﷺ کا انجام کیا ہے انہیں تمام روایات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یہ اوراق اپنوں اور بیگانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ کبھی آپ ﷺ کی ذات اور بات کا حلیہ نہ بگاڑنا ۔ ذات اور بات کا حلیہ بگاڑنے سے امام الانبیاءعلیہما لسلام کی شان اقدس میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ آپ اپنی دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھو گے ۔ رسوائی مقدر بن جائے گی ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو تکلیف دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں ۔
(( ان الذین یوذون اللّٰہ ورسولہ لعنھم اللّٰہ فی الدنیا والآخرۃ واعد لھم عذابا مھینا )) ( 33/احزاب 57 ) ” بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ “
آئیے گستاخان رسول ﷺ کا انجام دیکھئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسی حوالے سے کارہائے نمایاں ملاحظہ فرمائیے اور اسی بارے میں ائمہ سلف کے فرامین و فتاویٰ بھی پڑھئے پھر فیصلہ فرمائیے کہ ان حالات میں عالم اسلام کی کیا ذمہ داری ہے ۔

⭕یہودیہ عورت کا قتل :
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( ان یھودیة کانت تشتم النبی ﷺ وتقع فیہ ، فخنقھا رجل حتی ماتت ، فاطل رسول اللہ ﷺ دمھا۔
[ابوداود: کتاب الحدود،باب الحکم فیمن سب النبی ﷺ،حدیث:4362]
ایک یہودیہ عورت رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا۔
[ابوداود:4362، بیھقی:13376+18709، الأحاديث المختارة:547،جامع الأحاديث:32713، كنز العمال 40364]



⭕گستاخ رسول ﷺ ام ولد کا قتل :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا تھا وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ایک رات اس عورت نے رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینا شروع کیں اس نے ایک بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ مر گئی ۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کیا گیا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا ۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا ۔ جو کچھ کیا ۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے ۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ بات سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہو گیا ۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی اکرم ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا ۔ اس نے آکر کہا ۔ اے اللہ کے رسول ﷺ میں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ ﷺ کو گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی ۔ میں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی گزشتہ رات جب وہ آپکو گالیاں دینے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا میں نے زور سے اسے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے ساری گفتگو سننے کے بعد فرمایا تم گواہ رہو اس کا خون ہدر(بےبدلہ وبےسزا) ہے ۔ (ابوداود ، الحدود ، باب الحکم فیمن سب النبی ﷺ ، نسائی ، تحریم الدم ، باب الحکم فیمن سب النبی ﷺ)

گستاخ نبی ﷺ اور گستاخ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حکم :
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( قال رسول اللہ ﷺ من سب نبیا قتل ، ومن سب اصحابہ جلد ))
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے نبی ﷺ کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے آپ ﷺ کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں ۔
[أخرجه الطَّبرانيُّ في المعجم الأوسط (5/ 37 - 38) رقم (4609)، وفي الصغير (1/ 393) رقم (659)، الهيثمي في مجمع الزوائد (10568)، السيوطي في الفتح الكبير (11845) وفي الجامع الصغير (12391) وفي جامع الأحاديث (22364) من حديث علي بلفظ: "من سب الأنبياء قتل]

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فتویٰ :
حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
(( کنت عند ابی بکر رضی اللہ عنہ ، فتغیظ علیٰ رجل ، فاشتد علیہ ، فقلت : ائذن لی یا خلیفۃرسول اللّٰہ اضرب عنقہ قال : فاذھبت کلمتی غضبہ ، فقام فدخل ، فارسل الی فقال : ما الذی قلت آنفا ؟ قلت : ائذن لی اضرب عنقہ ، قال : اکنت فاعلا لو امرتک ؟ قلت : نعم قال : لا واللّٰہ ما کانت لبشر بعد رسول اللّٰہ ﷺ ))۔
[مسند الإمام أحمد:54+61 وأخرجه الطيالسي (4) ، والمروزي (66) و (67) ، والنسائي 7 / 108، وأبو يعلى (81) و (82) ، والحاكم 4 / 354 من طرق عن شعبة، بهذا الإسناد.
وأخرجه الحميدي (6) ، وأبو داود (4363) ، والبزار (49) ، والمروزي (68) ، والنسائي 7 / 109 و110، وأبو يعلى (80) ، والحاكم 4 / 354 من طرق عن أبي برزة، به، وصححه الحكم على شرط الشيخين، ووافقه الذهبي.]

میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ بھی جواباً بدکلامی کرنے لگا ۔ میں نے عرض کیا ۔ اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ ۔ مجھے اجازت دیں ۔ میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ میرے ان الفاظ کو سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سارا غصہ ختم ہو گیا ۔ آپ وہاں سے کھڑے ہوئے اور گھر چلے گئے ۔ گھر جا کر مجھے بلوایا اور فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے مجھے کیا کہا تھا ۔ میں نے کہا ۔ کہا تھا ۔ کہ آپ رضی اللہ عنہ مجھے اجازت دیں میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میں تم کو حکم دے دیتا ۔ تو تم یہ کام کرتے؟ میں نے عرض کیا اگر آپ رضی اللہ عنہ حکم فرماتے تو میں ضرور اس کی گردن اڑا دیتا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ نہیں ۔ اللہ کی قسم ۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں کہ اس سے بدکلامی کرنے والے کی گردن اڑا دی جائے یعنی رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کی ہی گردن اڑائی جائے گی۔
[سنن ابوداود: کتاب الحدود، باب الحکم فیمن سب النبی ﷺ، حدیث:4363
سنن نسائی:كِتَابُ تَحْرِيمِ الدَّمِ،  ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى الْأَعْمَشِ ۔۔۔ حدیث:4074]


⭕عصماء بنت مروان کا قتل :
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( ھجت امراۃ من خطمۃ النبی ﷺ فقال : ( من لی بھا ؟ ) فقال رجل من قومھا : انا یا رسول اللّٰہ ، فنھض فقتلھا فاخبر النبی ﷺ ، فقال : ( لا ینتطح فیھا عنزان )) ( الصارم المسلول 129 ) ” خَطمَہ “ قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ کی ہجو کی ۔ نبی ﷺ نے فرمایا : ” اس عورت سے کون نمٹے گا ۔ “ اس کی قوم کے ایک آدمی نے کہا ۔ اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ کام میں سرانجام دوں گا ، چنانچہ اس نے جا کر اسے قتل کر دیا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں یعنی اس عورت کا خون رائیگاں ہے اور اس کے معاملے میں کوئی دو آپس میں نہ ٹکرائیں ۔ بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے ۔
عصماء بنت مروان بنی امیہ بن زید کے خاندان سے تھی وہ یزید بن زید بن حصن الخطمی کی بیوی تھی یہ رسول اللہ ﷺ کو ایذاءو تکلیف دیا کرتی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی ﷺ کے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی ۔ عمیر بن عدی الخطمی کو جب اس عورت کی ان باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا ۔ تو کہنے لگا ۔ اے اللہ میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول اللہ ﷺ کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا ۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت بدر میں تھے ۔ جب آپ ﷺ غزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے ۔ تو اس کے ارد گرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے ۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی ۔ عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا ۔ تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا ۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اسے زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہو گئی ۔ پھر نماز فجر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ادا کی جب نبی اکرم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے؟ کہنے لگے ۔ جی ہاں ۔ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول ﷺ ۔
عمیر کو اس بات سے ذرا ڈر سا لگا کہ کہیں میں نے رسول اللہ ﷺکی مرضی کے خلاف تو قتل نہیں کیا ۔ کہنے لگے ۔ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا اس معاملے کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز واجب ہے ؟ فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں ۔ پس یہ کلمہ رسول اللہ ﷺ سے پہلی مرتبہ سنا گیا عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارد گرد دیکھا پھر فرمایا تم ایسے شخص کو دیکھنا پسند کرتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو ۔ ( الصارم المسلول 130 )

⭕ابوعفک یہودی کا قتل :
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مورخین کے حوالے سے شاتم رسول ﷺ ابوعفک یہودی کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ :
(( ان شیخا من بنی عمرو بن عوف یقال لہ ابوعفک وکان شیخا کبیرا قد بلغ عشرین ومایة سنة حین قدم النبی ﷺ المدینة ، کان یحرض علیٰ عداوۃ النبی ﷺ ، ولم یدخل فی الاسلام ، فلما خرج رسول اللہ ﷺ الی بدر ظفرہ اللہ بما ظفرہ ، فحسدہوبغی فقال ، وذکر قصیدۃ تتضمن ھجو النبی ﷺوذم من اتبعہ )) الصارم المسلول 138
بنی عمرو بن عوف کا ایک شیخ جسے ابوعفک کہتے تھے وہ نہایت بوڑھا آدمی تھا اس کی عمر 120 سال تھی جس وقت رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے ۔ تو یہ بوڑھا لوگوں کو آپ ﷺ کی عداوت پر بھڑکاتا تھا اور مسلمان نہیں ہوا تھا جس وقت رسول اللہ ﷺ بدر کی طرف نکلے غزوہ بدر میں آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطاءفرمائی تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کر دیا اور بغاوت و سرکشی پر اتر آیا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مذمت میں ہجو کرتے ہوئے ایک قصیدہ کہا ۔ اس قصیدے کو سن کر سالم بن عمیر نے نذر مان لی کہ میں ابوعفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے خود مرجاؤں گا ۔ سالم موقع کی تلاش میں تھا ۔ موسم گرما کی ایک رات ابوعفک قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے صحن میں سویا ہوا تھا سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ اس کی طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دی جس سے وہ بستر پر چیخنے لگا ۔ لوگ اس کی طرف آئے جو اس کے اس قول میں ہم خیال تھے وہ اسے اس کے گھر لے گئے ۔ جس کے بعد اسے قبر میں دفن کر دیا اور کہنے لگے اس کو کس نے قتل کیا ہے ؟ اللہ کی قسم اگر ہم کو معلوم ہو جائے کہ اسے کس نے قتل کیا ہے تو ہم اس کو ضرور قتل کر دیں گے ۔

انس بن زنیم الدیلمی کی گستاخی :
انس بن زنیم الدیلمی نے رسول اللہ ﷺ کی ہجو کی اس کو قبیلہ خزاعہ کے ایک بچے نے سن لیا اس نے انس پر حملہ کر دیا انس نے اپنا زخم اپنی قوم کو آ کر دکھایا ۔
واقدیؒ نے لکھا ہے کہ عمرو بن سالم خزاعی قبیلہ خزاعہ کے چالیس سواروں کو لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس مدد طلب کرنے کیلئے گیا انہوں نے آ کر اس واقع کا تذکرہ کیا جو انہیں پیش آیا تھا جب قافلہ والے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ انس بن زنیم الدیلمی نے آپ ﷺ کی ہجو کی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا ۔ ( الصارم المسلول139)

⭕گستاخ رسول ﷺ ایک عورت :
ایک عورت رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی آپ ﷺ نے فرمایا :
من یکفینی عدوی میری دشمن کی خبر کون لےگا ؟ تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو قتل کر دیا ۔ ( الصارم المسلول163)

⭕مشرک گستاخ رسول ﷺ کا قتل :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
((ان رجلا من المشرکین شتم ر سول اللّٰہ ﷺ فقال رسول اللّٰہ ﷺ ( من یکفینی عدوی ؟ ) فقام الزبیر بن العوام فقال : انا فبارزہ ، فاعطاہ رسولُ اللّٰہ ﷺ سلبہ )) ( الصارم المسلول : 177 )
مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کو گالی دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے اس دشمن کی کون خبر لے گا ؟ تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ میں حاضر ہوں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔ “

⭕کعب بن اشرف یہودی کا قتل:
کعب بن اشرف ایک سرمایا دار متعصب یہودی تھا اسے اسلام سے سخت عداوت اور نفرت تھی جب مدینہ منورہ میں بدر کی فتح کی خوش خبری پہنچی ۔ تو کعب کو یہ سن کر بہت صدمہ اور دکھ ہوا ۔ اور کہنے لگا ۔ اگر یہ خبر درست ہے کہ مکہ کے سارے سردار اور اشراف مارے جا چکے ہیں تو پھر زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے ۔ جب اس خبر کی تصدیق ہو گی تو کعب بن اشرف مقتولین کی تعزیت کے لئے مکہ روانہ ہوا مقتولین پر مرثیے لکھے ۔ جن کو پڑھ کر وہ خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا ۔
رسول اللہ ﷺ کے خلاف قتال کے لئے لوگوں کو جوش دلاتا رہا ۔ مدینہ واپس آکر اس نے مسلمان عورتوں کے خلاف عشقیہ اشعار کہنے شروع کر دئیے اور رسول اللہ ﷺ کی ہجو میں بھی اشعار کہے ۔ کعب مسلمانوں کو مختلف طرح کی ایذائیں دیتا ۔ اہل مکہ نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد ﷺ کا دین ۔ تو اس نے جواب دیا کہ تمہارا دین محمد ﷺ کے دین سے بہتر ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی حرکات کی وجہ سے اسکے قتل کا پروگرام بنایا اور قتل کے لئے روانہ ہونے والے افراد کو آپ ﷺ بقیع کی قبرستان تک چھوڑنے آئے ۔ چاندنی رات تھی پھر فرمایا جاؤ ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ:
(( قال رسول اللّٰہ ﷺ ( من لکعب بن الاشرف ، فانہ قد اذی اللّٰہ ورسولہ ؟ ) فقام محمد بن مسلمۃ فقال : انا یا رسول اللّٰہ اتحب ان اقتلہ ؟ قال نعم قال : فاذن لی ان اقول شیا ، قال : قل )) رواہ البخاری کتاب المغازی باب قتل کعب بن الاشرف ، رواہ مسلم کتاب الجہاد والسیر باب قتل کعب بن الاشرف طاغوف الیھود ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ۔ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ ! کو تکلیف دی ہے اس پر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ۔ اور عرض کی۔ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا آپ ﷺ پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں ۔ مجھ کو یہ پسند ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا ۔ پھر آپ ﷺ مجھے کچھ کہنے کی اجازت دے دیں یعنی ایسے مبہم کلمات اور ذومعنیٰ الفاظ جنہیں میں کہوں اور وہ سن کر خوش و خرم ہو جائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ اجازت ہے ۔ “
محمد بن مسلمہ کعب بن اشرف کے پاس آئے آ کر اس سے کہا کہ یہ شخص ( اشارہ حضور اکرم ﷺ کی طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا ہے اس نے ہمیں تھکا مارا ہے اس لئے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں ۔ جواباً کعب نے کہا ۔ ابھی آگے دیکھنا اللہ کی قسم بالکل اکتا جاؤ گے ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ چونکہ ہم نے اب ان کی اتباع کر لی ہے جب تک ہم اس کا انجام نہ دیکھ لیں اسے چھوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ میں تم سے ایک دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں کعب نے کہا ۔ میرے پاس کوئی چیز گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ تم کیا چیز چاہتے ہو ۔ کہ میں گروی رکھ دوں ۔ کعب نے کہا ۔
اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا تم عرب کے خوبصورت جوان ہو تمہارے پاس ہم اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ کعب نے کہا ۔ پھر اپنے بیٹوں کو گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ ہم اپنے بیٹوں کو گروی کس طرح رکھ سکتے ہیں ۔ کل انہیں اس پر ہر کوئی گالیاں دے گا کہ آپ کو ایک دو وسق غلے کے عوض گروی رکھا گیا تھا ۔ یہ ہمارے لئے بڑی عار ہو گی البتہ ہم آپ کے پاس اپنے اسلحہ کو گروی رکھ سکتے ہیں جس پر کعب راضی ہو گیا محمد بن مسلمہ نے کعب سے کہا کہ میں دوبارہ آؤں گا ۔
دوسری دفعہ محمد بن مسلمہ کعب کے پاس رات کے وقت آئے ۔ ان کے ہمراہ ابو نائلہ بھی تھے یہ کعب کے رضاعی بھائی تھے ۔ پھر انہوں نے اس کے قلعے کے پاس جا کر آواز دی ۔ وہ باہر آنے لگا ۔ تو اس کی بیوی نے کہا مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہے کعب نے جواب دیا کہ یہ تو محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں اگر شریف آدمی کو رات کے وقت بھی نیزہ بازی کیلئے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے محمد بن مسلمہ اور ابونائلہ کے ہمراہ ابوعبس بن جبر ، حارث بن اوس اور عباد بن بشر بھی تھے ۔
محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے سر کے بال ہاتھ میں لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا ۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر مضبوطی سے پکڑ لیا ہے تو پھر تم اس کو قتل کر ڈالنا ۔ کعب چادر لپٹے ہوئے باہر آیا ۔ اس کا جسم خوشبو سے معطر تھا ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ میں نے آج سے زیادہ عمدہ خوشبو کبھی نہیں سونگھی ۔ کعب نے کہا ۔ میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو عطر میں ہر وقت بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ کیا مجھے تمہارے سر کو سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا اجازت ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے کعب کا سر سونگھا اس کے بعد اس کے ساتھیوں نے سونگھا پھر انہوں نے کہا ۔ دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا ۔ اجازت ہے ۔ پھر جب محمد بن مسلمہ نے پوری طرح سے اسے قابو کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔
پھر رات کے آخری حصے میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ ﷺ نے دیکھتے ہی فرمایا : افلحت الوجوہ ان چہروں نے فلاح پائی اور کامیاب ہوئے ۔ انہوں نے جواباً عرض کیا ووجھک یا رسول اللہسب سے پہلے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک ، اے اللہ کے رسول ﷺ ! اس کے بعد کعب بن اشرف کا قلم کیا ہوا سر رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھ دیا تو آپ ﷺ نے الحمد للہ کہا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔ ( فتح الباری 272/7 )

پوری بحث کا خلاصہ 
جو شخص حضور اکرم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کا مرتکب ہو اور یہ حرکت قصدا کی ہو تو ایسا شخص دائرہ اسلام سے نکل کر شرعا مرتد ہوجاتا ہے اگر وہ اس قبیح اور شنیع حرکت پر ندامت کے ساتھ بصدق دل توبہ و استغفار کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہو جائے تو بھتر ورنہ اسے قتل کر دیا جائے اور یہی اس کی سزا ہے مگر قتل کرنے کا اختیار عام عوام کو ہرگز نہیں بلکہ مسلمان حاکم اور قاضی کو ہے اور عوام صرف اس کے خلاف قانونی چارہ جوئ کر سکتے ہیں اور کورٹ واقعہ کی مکمل تحقیق کے بعد اسے سزا دے تاکہ دوسروں کے لئے نشان عبرت بنے.




غازی عبدالقیوم، غازی علم الدین کو چیلنج کیوں؟
یا رسول الله! میں ہوں اسے مارنے والا، یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی، گستاخیاں کرتی تھی، میں اسے روکتا وہ رکتی نہ تھی، میں اسے دھمکاتا وہ باز نہ آتی تھی، وہ مجھ پر تو مہربان تھی، میرے اس سے دو بچے ہیں، جو موتیوں کی طرح ہیں مگر اس نے آج رات آپ کو گالیاں دینی اور بُرا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر اُس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اُسے مار ڈالا… نبی پاک ﷺ کی عالی خدمت میں صبح کے وقت ایک باندی کے قتل کا ذکر کیا گیا، آں حضور ﷺ نے لوگوں کو جمع کیا اور الله کی قسم دے کر فرمایا کہ میرا تم پر حق ہے، میں قسم دے کر کہتا ہوں کہ جس نے اسے قتل کیا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ ایک نابینا صحابی آگے بڑھا، اُس پر خوف طاری تھا۔ عرض کیا یا رسول الله! یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور تفصیل بتائی۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا ”لوگو! گو اہ رہو، اس ( مقتولہ) کا خُون بے سزا ہے۔“ (مفہوم حدیث ابوداؤد، نسائی، کنزل العمال ودیگر)

ایک یہودی عورت نبی مکرم ﷺ کو سب وشتم کیا کرتی تھی۔ ایک صحابی نے اُس کا گلا دبا کر قتل کر دیا۔ اس کے خون کو بھی ناقابل باز پرس قرار دیا گیا۔ ( بحوالہ ابوداؤد)

ایک اور عورت رسول الله ﷺ کو گالیاں دیتی تھی ارشاد گرامی ہوا:”من یکفینی عدوی؟“ کون اس کی خبر لے گا؟ اس پر سیدنا خالد بن ولید رضی الله عنہ نے اُسے قتل کر دیا ۔ (بحوالہ الصارم المسلول)

خطمہ قبیلے کی ایک عورت عصماء نامی نے نبی پاک ﷺ کی ہجوکی ارشاد ہوا ” اس سے کون نمٹے گا؟“ عمیر بن عدی اُسی کے رشتے دار تھے۔ بینائی بیحد کمزور کہ جہاد میں نہ جاسکتے تھے۔ نبی اور اصحاب نبی غزوہٴ بدر گئے ہوئے تھے۔ عمیر بن عدی نے منت مانی۔ یا الله! اگر تونے اپنے رسول علیہ السلام کو غزوہٴ بدر سے بخیروعافیت لوٹا دیا تو اس (خبیثہ) کو میں قتل کردو ں گا۔ نبی مکرم ﷺ مدینہ پہنچے۔ عمیر بن عدی آدھی رات کو اُس عورت کے گھر میں داخل ہوئے، اُس کے بچے اس کے اردگرد سوئے ہوئے تھے۔ عمیر رضی الله عنہ نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا تو پتا چلا کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ حضرت عمیر نے بچے کو اس کے سینے سے الگ کر دیا۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ اس کی پشت سے پار ہو گئی… نماز سے فارغ ہو کر نبی پاک ﷺ نے عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا ” تم نے بنتِ مروان کو قتل کیا ہے ؟“ عمیر کہتے ہیں مجھے ڈر لگا کہ کہیں میں نے خلافِ مرضی رسول تو یہ قتل نہیں کیا… عرض کیا ” جی ہاں، اے الله کے رسول! کیا اس معاملے میں مجھ پر کچھ (سزا) واجب ہے ؟“ … ارشاد گرامی ہوا ” اس معاملے میں تو دو بکریاں بھی سینگ نہ ٹکرائیں“ پھر لوگوں سے فرمایا“ تم لوگ اگر اُس شخص کو دیکھنا چاہتے ہو جس نے الله اور رسول کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو۔ “ … جب حضرت عمر فاروق اعظم نے کہا کہ ” یہ نابینا ہم سے بازی لے گیا“ تو ارشاد نبوی ہوا ”یہ نابینا نہیں بینا ہے۔“

ابن خطل نبی مکرم کی ہجو میں اشعار کہتا۔ اُس کی باندیاں ارنب اور قرتنا اُن اشعار کو گاکر پڑھتیں۔ قرتنا کی طلب معافی اور زاری پر اسے داخلہٴ اسلام کی اجازت مل گئی مگر ارنب فتح مکہ کے موقعہ پر قتل کی گئی … عبدالعزی ابن خطل مذکور کعبہ کے پردوں پر چھپ گیا، مگر اُسے وہاں بھی پناہ نہ دی گئی، اصحاب رسول کو حکم ہوا اُسے وہیں قتل کر دو، چناں چہ قتل کر دیا گیا۔ فتح مکہ ہی کے موقعہ پر ایک او رگستاخ رسول حویرث کو سیدنا علی نے قتل کیا… فتح مکہ کے موقعہ پر جب ” لا تثریب علیکم الیوم“ عام معافی کا اعلان ہوا، ابن خطل سمیت5 گستاخان رسول کو رحمتِ عامہ اور عفوعامہ سے محرومی ہی ملی اور نارجحیم ان کا مقدر ہوا… ابو عفک یہودی 120 سال کا بوڑھا تھا، مگر بیحد گستاخِ رسول۔ سالم بن عمیر ایک عاشق رسول نے سوتے میں اسے بستر پر ہی حوالہ تیغ کر دیا… انس بن زینم دیلمی کو بنی خزاعہ کے ایک بچے نے زخمی کر دیا، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ رسول پاک ﷺ کو واقعہ کا علم ہوا توکوئی باز پرس نہ فرمائی … دشمن رسول، یہودی سردار ابو رافع کو سیدنا عبدالله بن عتیک رضی الله عنہ اور ان کے رضا کار ساتھیوں کے ذمہ کرکے اہل حجاز کے اس بڑے تاجر کو قتل کر وا دیا گیا۔ ایک اور بڑے گستاخِ رسول یہودی سردار کے بارے میں ارشاد رسول ہوا”کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ الله اور اس کے رسول کو بہت ستارہا ہے!“ محمد بن مسلمہ انصاری نے اجازت رسول سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اسے جہنم رسید کر دیا… یہ واقعات موجودگی رسول کے وقت کے ہیں، عورت ہو یا مرد، بوڑھا ہو یا جوان، عام آدمی ہو یا سردار، ایک ہی سلوک کا مستحق ہے۔ پہلی شریعتوں میں بھی یہی حکم تھا۔ کسی بھی نبی کی توہین پر اب بھی یہی حکم ہے، حتی کہ نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط بدر کے جنگی قیدی تھے۔ انہیں بھی تہہ تیغ کیا گیا۔ ارشاد رسول ہوا”اس الله کی تعریف ہے جس نے تجھے قتل کرکے میری آنکھیں ٹھنڈی کیں۔“

آئین پاکستان میں شریعت کورٹ کے فیصلے کو قومی اسمبلی نے 1984ء میں قانونی شکل دے کر آئین کا حصہ بنایا، پھر 2 جون 1992ء کو متفقہ طور پر توہین رسالت پر سزائے موت کا قانون بنایا گیا۔ گستاخ نتھورام کو جہنم رسید کرنے والے غازی عبدالقیوم نے انگریز جج کے سوال پر دیوار پر لگی جارج پنجم کی تصویر کی طرف اشارہ کرکے پوچھا تھا” اگر کوئی اسے گالی دے، تمہارا خون جوش نہیں مارے گا؟ “ اور اب آج کے پاکستان میں آئینی قانونی کارروائی کو کسی کے دباؤ پر معطل کرکے محمدی دیوانوں غازیوں غازی عبدالقیوم، غازی علم الدین اور ان کے ساتھیوں کو کیوں چیلنج کیا جا رہا ہے؟!






توہینِ رسالت اورملتِ اسلامیہ کی ذمہ داری



شیطانی فلم کے خلاف امریکی حکمرانوں اور ترجمانوں نے انتہائی گستاخانہ طنز آمیز بیانات جاری کرکے اپنی شیطنت پر پردہ ڈالنا چاہا ہے، اور انھیں کی لَےْ میں لَےْ ہمارے کچھ علما ، نام نہاد دانشور اور اردو میڈیا کے بعض حضرات بھی ملارہے ہیں۔ ایک گھر یا ایک ادارہ کے آپ ذمہ دار ہیں، آپ کے کارکنوں میں سے ایک خلافِ قانون یا خلافِ تہذیب حرکت کرتاہے، مثلاً ایک راہ گیر کے پتھر ماردیتا ہے، وہ آپ کے پاس شکایت لے آتا ہے، آپ کہتے ہیں: مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے دکھ پر افسوس کرتا ہوں، آپ کہتے ہیں اپنے ملازم کو سزا دیجیے، وہ آئندہ سے ایسا نہ کرے، وہ کہتاہے یہ نہیں ہوسکتا، یہ تواس کی آزادی پر پابندی لگانے والی بات ہے۔ ہماری تہذیب میں ایسا نہیں ہوتا۔ بتائیے ایسے میں شکایت کرنے والا فرد کیاکرے گا؟ ہمارے نام نہاد دانشوران نے ایک جملہ رٹ لیاہے ”یہ تو ان کی سازش ہے، وہ اشتعال دلانا چاہتے ہیں، ہماری امیج خراب کرنا چاہتے ہیں، دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان خونخوار ہیں، دہشت گرد ہیں، ہمیں صبر وضبط وحکمت اور ہوش سے کام لینا چاہیے۔“ حالاں کہ امریکی حکمرانوں نے اپنے بیانات سے اپنی نیت صاف کردی ہے۔ یورپ کے بڑے مسلم آبادی والے ملک فرانس میں کارٹون کی اشاعت اورحکومتی سطح پر اس کی حمایت اور احتجاج پر پابندی کے ذریعہ اپنا عندیہ واضح کردیا ہے کہ وہ آئندہ بھی اس طرح کی مذموم حرکتیں جاری رکھنے پر پابندی نہیں لگائیں گے۔ اس مسئلہ پر خاص طورپر اقوامِ متحدہ میں اوبامہ اور اس کے نمائندہ الان چیمبرلن (Allen Chamberlain) نے جلے ہوئے پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں افسوس ہے مگر ہم دنیا میں ہر جگہ انسانی حقوق اور حقِ اظہار رائے کی حفاظت کریں گے۔“ اور اس طرح طنز بھی کیاکہ جہاں اظہارِ رائے کی آزادی نہیں ہے، وہیں تشدد، غریبی اورانتہا پسندی پائی جاتی ہے۔ میں اپنے دانشور علماء اور بزرگان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مندرجہ بالا بیان پڑھ کر انصاف سے بتائیں کہ اس میں افسوس کا اظہار ہے یا اپنی جہالت اور شرارت پر اصرار اور ملتِ اسلامیہ پر طنز ہے۔ یہ مغربی بھیڑیے کتنے جمہوریت پسند، انسانی حقوق کے دل دادہ اور حقِ اظہار رائے کے حمایتی ہیں، اس پر الجیریا سے لے کرہندوستان تک کروڑوں بے گناہوں کا خون اور صدیوں کی غلامی گواہ ہے۔ ان کی جمہوریت نے کتنی جمہوریتوں کا گلا گھونٹا ہے اورآج بھی گلا گھونٹوارہے ہیں۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کے احتجاج میں چار امریکی ہلاک ہوگئے تو سارے میڈیا آسمان سر پراٹھائے ہوئے ہیں؛ مگر عراق پر بُش کے اقوامِ متحدہ کی اجازت کے بغیرکیے گئے حملے میں پانچ لاکھ سے زیادہ معصوم بچے، بوڑھے، خواتین شہید کیے گئے تب میڈیاچپ رہا؟ جو میڈیا اور مسلم دانشور اس وقت چپ بیٹھے رہے، جب گوانتا موبے اور ابوغریب میں امریکی حکومت کی مرضی قرآن پاک کی بے حرمتی کو ایک تعذیبی ہتھکنڈہ (Torture Tool) کی طرح بار بار استعمال کیاگیا۔ قرآن کو جوتوں کی ٹھوکریں ماری گئیں اوراسے فلش بھی کیاگیا؛ تاکہ قیدی برداشت نہ کرکے اپنے راز اُگل دیں۔ یہ سب ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ وکی لیکس میں بھی محفوظ ہے۔ گردنوں میں پٹہ ڈال کر خبیث امریکی خاتون فوجی کی فوٹولوگوں کو ابھی بھی یاد ہے۔ اس وقت یہ واعظین اور صبر اور حکمت کی تلقین کرنے والے کہاں تھے؟ مسلمانوں کو گردن جھکاکر جینے اور شعائرِ اسلام اور پیغمبرِ آخرالزماں ﷺ کی کردار کشی پر مظاہرہ کرنے والوں کوجذباتی، بیوقوف اور صبر وحکمت سے عاری بتانے والے کہاں تھے؟ اور ابھی یہ سلسلہ رکا کہاں ہے؟ پچھلے ہی دنوں افغانستان میں قرآن سوزی امریکی فوجیوں کے ذریعہ کی گئی۔ اس پر دنیا میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ افغانستان کو چھوڑ کر دنیا نے مسلمانوں کو کیا تمغے عطا کیے۔ کتنے غیرمسلم اسلام لے آئے کہ مسلمانوں نے بڑے اونچے اخلاق کا مظاہرہ کیا اور قرآن سوزی کے واقعات کے باوجود آرام سے قورمہ، نہاری کھارہے ہیں اور T-20 کا مزہ لے رہے ہیں؟
          علم وحکمت کے ٹھیکیداروں سے سوال یہ ہے کہ ۵۶ ملکوں اور ڈیڑھ ارب آبادی والی اُمّتِ مسلمہ پر شعائرِ اسلام کی بے حرمتی ہونے پر کوئی شرعی ذمہ داری حکومتی اور اجتماعی سطح پر عائد ہوتی ہے یا نہیں؟ جس طرح امریکہ عافیہ صدیقی، خالد شیخ، ابوحمزہ مصری کو زبردستی اغوا کرکے قانوناً ملک بدر کرالیتا ہے۔ یہ ۵۶ مسلم ملک ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ ایسا نہیں کرتے تب ملت میں مایوسی، بے مائیگی اور انتشار پھیلتا ہے۔ جب اجتماعیت کے سربراہ مجرمانہ خاموشی یادکھاوے والی کارروائیاں کرکے عوام کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں، تب عوام اپنے طور پر فیصلہ کرتی ہے۔ خواص اور نام نہاد دانشوروں اور صحافیوں کے امریکی دوروں اور مدرسوں اور جامعہ ملیہ ومسلم یونیورسٹی اور اسلامک کلچر سینٹر دہلی وغیرہ میں امریکی سفارت کاروں کی بار بار کی آمد اور نوازشوں کے طفیل عراق پر امریکی حملہ کے بعد سے لگاتار مسلم قائدین اور اردو صحافت میں ایمانی بے حسی بڑھی ہے۔ گوکہ اس کے عنوانات بہت خوشنما صبر، حکمت اور ہوش مندی وغیرہ کے ہی ہیں۔ اگر یہ مغرب کی سازش کا ایک پہلو ہوسکتا ہے کہ وہ ہمیں چھیڑکر اس کے ردعمل کے ذریعہ ہماری منفی تصویر دکھانا چاہتا ہے تو کیا ایک پہلو یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ دھیرے دھیرے ملت کے اندر سے ایمانی غیرت، حمیت، حس اور اللہ اور رسول ﷺ، قرآن، کعبہ کی بے توقیری کا ماحول پیدا کردے۔ آج رسول ﷺ کے کارٹون اور کردارکشی پر ہم چپ رہیں تو خدا نخواستہ جب کل کعبہ مشرفہ پر حملہ ہو، جیسا کہ امریکی فوج کے تربیتی اسکول میں حال تک تربیت کی جاتی رہی ہے تو اس وقت بھی کچھ ”جذباتی، بے صبروں اور بے وقوفوں“ کے علاوہ ساری امت، ”صبر“، ”حکمت“ اور ”دانائی“ کے ساتھ ﴿انَّا ہٰہُنا قٰعِدون﴾ ”ہم تو یہاں بیٹھے رہنے والوں میں سے ہیں“ کا ورد کرتی رہے گی، تو کیا اللہ تعالیٰ کے حضور بھی یہ پوری ملت، حکومتیں، جماعتیں اور علماء ودانشوران جواب دہی کرپائیں گے؟
          حضور ﷺ کے زمانہ میں بھی غزوات میں بعض صحابہٴ کرام سے ڈسپلن کی خلاف ورزی یا اجتہادی غلطی وغیرہ ہوئی ہے۔ مثلاً ایک مقابل کو کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کردیا کہ یہ جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہے تو حضور ﷺ نے افسوس بھی کیا۔ صحابی رضی اللہ عنہ کوپھٹکار لگائی؛ مگر کیا آئندہ ایسا پھر نہ ہوجائے کہ اندیشہ سے جہاد کو ہی ختم کردیا کہ بس اب صرف دعوت اور تبلیغ ہوگی؟ دنیا بھر کے احتجاج میں جو بھی غیرقانونی حرکتیں اورنقصانات مسلمانوں نے کیے اس کا قانونی اورمالیاتی جرمانہ، سزا اور تاوان کی شکل میں متاثرین کو دیا جانا چاہیے؛ مگر مغرب سے بھی حساب چکانا ضروری ہے، اس نے مسلم دنیا میں جو لوٹ مار کی ہے، عراق سے تو تیل چرایا جارہا ہے، جو لاکھوں بے گناہ شہید کیے گئے ہیں ۴۵ سالوں سے لاکھوں فلسطینی مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں، خود امریکی حکومت کے اعتراف کے مطابق ڈرون حملوں میں ہزاروں بے گناہ بچے، عورتیں متوازی نقصانCollateral damage کے طور پر مارے گئے ہیں، ان سب کا جرمانہ بھی لیا جانا ضروری ہے۔ ان کا یاد دلایا جانا ضروری ہے۔ مغرب کے ان بے شرم قائدین اور ان کے مشرقی غلاموں کو جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ الجیریا میں جمہوریت کا گلا گھوٹنے کی وجہ سے اب تک ۲۵ لاکھ انسانی جانیں ضائع ہوگئیں؛ کیونکہ امریکہ اسلام پسند اسلامک سالوشن فرنٹ کو الیکشن میں منتخب ہوکر اقتدار میں آنے نہیں دینا چاہتا تھا اور آج ۲۰ سال سے قتل وخون جاری ہے۔ یہ سوال اوباما اور اس کے غلاموں سے کون پوچھے گا؟ جو مسلمانوں کو انسانی حقوق کے عدمِ تحفظ اور تشدد کے فروغ کا طعنہ دیتا ہے! آج فلسطین میں حماس کی جمہوری جیت کے خلاف فتح کو مغرب کیوں حمایت دے رہا ہے۔ یہ کس جمہوریت کا اصول ہے؟ آج سعودی عرب کی بادشاہی کی طرف سے آنکھیں کیوں بند رکھی جارہی ہیں۔ بادشاہی اور جمہویت میں کیا تعلق ہے؟
          آزادی اظہار رائے کی حقیقت سب کو معلوم ہے کہ یہودیوں کو بدنام کرنا جرم ہے۔ لندن کے مئیرکین لیونگسٹن کو عہدہ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تاریخ دان ارون کو جیل ہوگئی۔ احمدی نژاد کے خلاف میڈیا میں طوفان کھڑا کیاگیا، برٹش شہزادی کے برہنہ فوٹو کو حضور ﷺ کے کارٹون کے اگلے دن کورٹ کے آرڈر سے شائع نہیں ہونے دیا اور امریکہ اور یوروپ میں سیکورٹی کے نام پر انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ہوائی اڈوں پر اسکیننگ سے لے کر ننگی تلاشیاں لینے والے پر ہر مسجد میں FBI کے مخبر گھسیڑنے والے ہر امریکی کی E-Mail اور فیس بک پرنظر رکھنے والے کس منھ سے انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں؟ ضرورت ہے اس منافقت کو برہنہ کرکے سامنے لانے کی۔ ان کے انصاف کے پیمانے بھی ملاحظہ ہوں۔ پادری ٹیری جونز قرآن پاک کو جلاکر بے حرمتی کرتا ہے، اسے ایک دن کی سزا یہ مکارحکومت دیتی ہے۔ کیا دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے حقوق کی قیمت ان ظالموں نے اتنی ہی لگائی ہے؟ اس سے چھوٹے چھوٹے جرائم میں مسلم علماء، عمرقید، تنہائی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ گذشتہ روز ہی ایک امریکی عدالت نے 11/9 کے مشکوک پراَسرار واقعہ کے لیے القاعدہ اور ایران پر ۶/ارب ڈالر کا جرمانہ صرف ۴۵ متاثرین کے خاندانوں کے لیے کیا ہے؟ مگر عراق پر غیرقانونی امریکی حملہ کے ۵ لاکھ متاثرین لوگوں سے الٹا ان کا پیٹرول بطورِ خرچہ وصول کیا جارہا ہے؟
          یہ ہے اس انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی حقیقت جس کا شور مچاکر اپنی ذہنی خباثت اور مذہبی دشمنی کو روبہ عمل لایا جارہا ہے۔ اقوامِ متحدہ ماحولیات کے خلاف نشہ آور ادویہ کے خلاف، بچہ مزدوری کے خلاف، سر پر غلاظت ڈھونے کے خلاف، تمباکو نوشی کے خلاف قوانین بناتی ہے؛ مگر اہانتِ دین کے قانون کو یہ ظالم مغربی ممالک پاس نہیں ہونے دیتے کہ اس کا غلط استعمال ہوگا۔ غلط استعمال تو دنیا کے ہرقانون کا ہورہا ہے۔ سیکورٹی کے قوانین ہوں، جہیز کے خلاف قانون ہو یا زنا یا خواتین کے خلاف دست درازی کے قوانین ہوں؛ مگر اس کے باوجود یہ قوانین جاری وساری ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف خصوصی قوانین کی زد میں ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ہزاروں بے گناہوں کی جو جوانیاں برباد کردی گئیں اور گھر اجاڑدیے گئے؛ مگر قوانین زندہ ہیں؛ کیونکہ ممالک کے تحفظ کا سوال ہے۔ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اہلِ ایمان کے لیے اللہ اور رسول ﷺ، قرآن، کعبہ عزیز ہے۔ وہ ان کی بے ادبی پر تمام قانونی کارروائیاں کرے گی، چاہے دشمنان دین کو کتنا ہی ناگوار گذرے۔ جس جس طرح کی کارروائیاں اہلِ مغرب دینِ اسلام کے خلاف کررہے ہیں، وہ علمی نوعیت کی ہے ہی نہیں کہ ان کا علمی جواب دیا جائے۔ وہ سب کے سب ہتک اور توہین کے زمرہ میں آتی ہیں۔ امت مسلمہ کے لیے فی الوقت ترجیحات میں سب سے ضروری کاموں میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو وجود میں لانے کا ہے۔ کروڑوں روپیہ کے کانفرنس، سیمینار، اجتماعات، امریکہ، برطانیہ کے تبلیغی دوروں کے ساتھ ساتھ صبر، حکمت، طویل المدتی پالیسی کے تحت اپنا میڈیا کیوں نہیں کھڑا کیاجاتا؟ غیرمسلموں نے E-TV اور Z. Salam شروع کردیا اور ہمارے دانشور بھی انھیں کے بھروسہ بیٹھے رہتے ہیں، جو حضرات بڑی حکمت و دانائی کی باتیں کررہے ہیں وہ ایمان داری کے ساتھ بتاسکتے ہیں کہ احتجاج یا مظاہرہ کے بجائے کتنے غیرمسلموں تک نبیِ رحمت ﷺ کی سیرت سے متعلق مواد پہنچاسکے؟ اب تک طویل المدتی پالیسی کے تحت وہ کتنے غیرمسلموں تک دعوتی ربط کرپائے؟
          آج وطن پرستی کے نام پر اس کی حفاظت کے لیے اس کے پرچم، قومی نشان، قومی ترانہ، قومی جانور تک کی بے عزی پر سزا ہوتی ہے، اور ہمارے دانشور ہمیں بتارہے ہیں کہ رحمةٌ للعالمین کی بے حرمتی کی سزا قرآن مجید میں بیان ہی نہیں ہوئی ہے؛ جب کہ قرآن تو رسول اللہ ﷺ کی آواز سے بلند آواز کرنے پر سارے اعمال غارت ہونے کی خوفناک تنبیہ کرتا ہے، اور ہم رسول ﷺ کی کردارکشی کوپی جانے پر آمادہ کیے جارہے ہیں۔ کیا خود حضور ﷺ نے شاتم رسول ﷺ کعب بن اشرف کے خلاف کارروائی نہیں کروائی تھی؟ جھوٹے داعیانِ نبوت کے خلاف مسلح کارروائی نہیں کی تھی؟ یہ کام عوام نے نہیں کیے تھے؛ مگر حکومتیں کیوں نہیں کرتیں؟ جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے؟ قیامت کے دن اللہ دلوں کے راز کھول کر سب سے حساب لے گا اس حساب سے اور رسول اللہ ﷺ کے حضور پیشی کا خیال کرکے اپنے خیال کا اظہار کرنا چاہیے۔ حالات کا جبر، غلط رجحانات وخیالات کی اشاعت کا ذریعہ نہ بنادے، اس بدنصیبی سے ہمیں پناہ مانگنی چاہیے۔


***






شانِ رسالت مآب  ﷺ میں گستاخی پر ہمارا احتجاج

اور
ہماری نجی زندگی میں سنتِ نبوی ﷺ


عشق ہے پیارے کھیل نہیں ہے
عشق ہے کارِ شیشہ و آہن
          موٴمن آزاد نہیں، کہ جو جی میں آئے اس پر عمل پیرا ہوجائے، اس کے محبوب ﷺنے ہر معاملہ میں اُسوئہ اورطرزِ عمل چھوڑا ہے۔ اہانت کے معاملے بھی پے بہ پے آپ ﷺ کی زندگی میں آئے۔ مکی زندگی ہی میں نہیں، مدنی زندگی میں بھی، اور آپ ﷺ کے اور آپ کے اصحاب کے لیے بنیادی طور پر یہ ہدایتِ ربّانی رہنما رہی:
”تم ضرور آزمائے جاؤگے اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں، اور کتنی ہی دل آزار باتیں بھی تمھیں سننی پڑیں گی اہلِ کتاب اور مشرکین سے، اور اس کے مقابلہ میں اگر تم نے صبر اور تقوے کی روش سے کام لیا تو یہ یقینا عزم وہمت کی بات ہے“۔ (سورئہ آلِ عمران/۱۸۶)
          امکان ہوتو بدلہ لینے اور سزا دینے کا جواز اس آیت سے بھی نکل رہا ہے؛ لیکن ترجیح اسی کو مل رہی ہے کہ نظر انداز کیا جائے اور آں حضرت ﷺ کا اُسوئہ مبارکہ اسی کے مطابق رہا، اور یہ اس لیے کہ آپ کے لائے ہوئے دین کی مصلحت وہاں یہی تھی، اور اس مصلحت سے بڑھ کر کوئی چیز ظاہر ہے کہ آپ کو عزیز نہیں ہوسکتی تھی۔ اس معاملہ میں مصلحت بینی کی حد یہ ہے کہ سردارِ منافقین عبداللہ بن اُبیّ جس کی شرارتوں اور سازشوں سے آں حضور ﷺ کو شاید ہی مدنی زندگی کے کسی دن میں چین رہا ہو؛ آپ ﷺ کا حال یہ رہا کہ اس کی موت پر آپ نے قمیص مبارک اس کے کفن کے لیے دی، اس کے منھ میں اپنا لعابِ دہن برائے برکت ٹپکایا اور نمازِ جنازہ، جو دعائے مغفرت کے ہم معنی ہے، اس کے باوجود پڑھائی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد نازل ہوچکا تھا کہ ”ان منافقین کے لیے تم اے نبی مغفرت مانگو یا نہ مانگو، اگر تم ستر(۷۰) بار بھی ان کے لیے مغفرت مانگو تب بھی اللہ انھیں ہرگز نہ بخشے گا۔“ (التّوبہ۹/۸۰) حضرت عمر نے قرآن کی آیت یاد دلائی، تو فرمادیا کہ مجھے اللہ نے منع نہیں کیا ہے مجھ پر چھوڑدیا ہے کہ کروں یا نہ کروں۔ اور اگر مجھے یقین ہوتا کہ ستر دفعہ سے زیادہ میں مغفرت ہوجائے گی تب میں زیادہ بھی کرتا۔ (گویا جانتے تھے کہ مغفرت نہیں ہونی) یہ ہے اس ذاتِ گرامی کا اُسوئہ مبارکہ جس کے عشق کی بات یہاں گفتگو میں ہے۔ اس نے کئی بار واجب القتل ہونے کے کام کیے، بعض مرتبہ تو لوگوں کو یقین ہوگیا کہ قتل کا حکم صادر ہوگا؛ لیکن آں حضرت ﷺ نے اسلام اور ملتِ مسلمہ کی مصلحت اسی میں دیکھی کہ درگذر سے کام لیا جائے۔ کیا شان ہے اس پیغمبرِ اعظم ﷺ کی! اللّٰہُم صلِّ وسلِّمْ علٰی عبدِک ونبِیِّکَ صلوٰةً وّسلاماً دائمین متلازمَینِ الٰی یومِ الدین․
          پس جب رسولِ خدا ﷺ کا یہ اسوئہ حسنہ ہمارے سامنے ہے تو دشمنانِ انسانیت کی طرف سے جب بھی آپ کی اہانت کی کوئی صورت رونما ہو؛ جیسا کہ ادھر چند سال سے فرزندانِ مغرب نے اس ملعون عمل کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے، تو ہمارا غم وغصہ تو ایمان کی علامت ہے؛ لیکن ردِعمل میں ہمیں اسلام اور ملتِ اسلام کی مصلحت دیکھنی ہے، اگر ہم موٴمن اور واقعی ”عاشقِ رسول ﷺ“ ہیں۔ نہیں تو ہم صرف اپنے نفس کو تسکین دینے والے ہوں گے، اور نامِ عشق کو رسوا کرنے والے۔
          ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ایک نوجوان نے ڈنمارک میں حبِّ رسول ﷺ کے حوالہ سے اپنی جان کو کھلے خطرہ میں ڈال کر وہاں کے ایک ملعون فلم ڈائرکٹر کا کام تمام کردیا؛ لیکن اس کا بھی کوئی اثر شیطان کے لشکر پر نہیں ہوا ہے، چہ جائے کہ ہمارے محض مظاہرے اور نعرے۔ آئے دن کسی مغربی ملک میں ایک ملعون اُٹھ رہا ہے اور اپنے پہلے والے سے بڑھ کر خباثت کی داد اپنے ہم وطنوں سے چاہ رہا ہے، تو کیا اپنے ردِعمل کی یہ بے اثری دیکھتے ہوئے بھی یہ بجا ہوگا کہ اپنے غم وغصہ کے اظہار کے لیے یہ بے اثر طریقے مسلسل آزماتے رہنے کو ہم تقاضائے عشقِ ﷺ رسول سمجھتے رہیں؟ یہ تو ملتِ اسلام کی بے بسی کا اظہار اور شیاطین کی ہمت افزائی ہے کہ وہ کچھ بھی کریں یہ چاردانگِ عالم میں پھیلی ہوئی امت اپنا سینہ پیٹ کر رہ جانے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔
          آخر ہمیں کیوں کر اپنی اس شرمناک کمزوری کا رہ رہ کر اظہار کرنا پسند ہے؟ کہیں ہم اپنے اس احتجاجی عمل کو اس کے موٴثر ہونے نہ ہونے سے قطعِ نظر بجائے خود ایک کارِ ثواب تو نہیں سمجھ رہے ہیں؟ خدا نہ خواستہ اگر ایسا ہے، تو پھر ہم نے نہ حضور سیدالرُسل کے مرتبہ ومنزلت کو سمجھا اور نہ آپ کی غلامی میں پوشیدہ عزت کو جانا، ہم آپ کے نام پر بے بسی کا اظہار کرتے مظاہروں اور جلوسوں کو کارِ ثواب سمجھ رہے ہیں! افسوس، صد افسوس!
          تو پھر ہم کیاکریں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے، راقم اپنی سمجھ کے مطابق جواب عرض کرتا ہے جو ایک تجربہ کا نتیجہ ہے، دوسرے حضرات بھی غور کریں۔ برطانیہ میں کم لوگ ہوں گے جنھیں رُشدی کی کتاب کے خلاف ”اسلامک ڈیفنس کونسل“ کی سرگرم جدوجہد یاد نہ ہو۔ راقم نے بھی اس کونسل کے کنوینر کی حیثیت سے اس سلسلہ میں اپنی استطاعت بھر حصہ لینے کو عزت وسعادت سمجھا۔ کونسل نے اپنی جدوجہد کے سلسلہ میں کتاب کے پبلیشر پینگوئن کے آفس کو نشانہ بناکر ایک عوامی مارچ بھی طے کیا تھا، ۲۸/جنوری ۱۹۸۹/ کا یہ مارچ، جس میں پورے ملک سے ۲۰-۲۵ ہزار فرزندانِ اسلام نے آپ سے آپ شرکت کی، اس کی شکل اپنے روایتی احتجاج کی بے ثمری کو یاد کرتے ہوئے نیز مغرب کی ایک نئی دنیا کا خیال کرکے اپنے برّصغیر کے روایتی مظاہروں سے بالکل مختلف تجویز کی گئی تھی۔ اس میں نعرہ زنی اور اظہارِ غیظ وغضب کے بجائے پلے کارڈز کے ذریعہ اپنی جذباتی تکلیف کا اظہار کرکے گویا برطانوی پبلک سے ہم نوائی کی اخلاقی اپیل تھی۔ خیال تھا کہ شاید کچھ شریف روحیں ہماری ہم نوائی کو سامنے آئیں اور کتاب کے ناشر اور حکومت پر کچھ دباؤ پڑسکے۔
          ہمارے اس طرزِ احتجاج کی تحسین تو بیشک ہوئی، (خاص کر اس لیے کہ دو ہفتے پہلے انگلینڈ کے ایک شہر میں اس کے بالکل برعکس کتاب سوزی کی صورت میں احتجاج کا آتشیں واقعہ ہوچکا تھا) لیکن جو مقصود تھا وہ حاصل نہیں ہوا۔ بات وہیں کی وہیں رہی اور پھر دو ہفتہ بعد آیت اللہ خمینی صاحب نے جو مصنف اور ناشرین کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تو وہی حکومت جو انسانیت اور تہذیب واخلاق کے ناتے ہماری اخلاقی اپیل سے کوئی اثر لینے کو تیار نہ ہوئی وہ رشدی کے تحفظ میں ایسی سرگرم ہوئی جیسے اس ملعون تصنیف میں وہ اس کا ایجنٹ ہو۔ اس تجربہ کے بعد سے ذہن بن گیا کہ یہ مغربی دنیا بالکل الگ ذہن و مزاج کی حامل ہے، اسے تو ہم بس کبھی طاقت نصیب ہوتب ہی اپنے احساسات کا احساس کراسکتے ہیں؛ چنانچہ اس ایک واقعہ کے بعد اب امریکہ، اسامہ اور طالبان کے قضیے سے تو اس شرارت کی لائن ہی لگ گئی ہے اور ہر شرارت پہلی والی کو پیچھے چھوڑے جارہی ہے؛ چنانچہ یہ تازہ فلم والی خباثت، جیساکہ لوگ بتاتے ہیں، خباثت کی ساری حدوں کو پار کرگئی ہے اور کہیں کی بھی حکومت ہماری شکایت اور آہ وفغاں پر نوٹس لینے کو تیار نہیں ہے۔ مسلم حکومتوں کے اتحاد (او․ آئی․ سی) کی جانب سے ۱۹۹۹/ سے اقوامِ متحدہ میں کوشش ہورہی ہے کہ ”آزادیِ اظہار“ کے اس ننگ انسانیت مغربی کلچر کو کچھ حدود وقیود کا پابند کیا جائے؛ لیکن مغربی حکومتیں کسی طرح اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے رہی ہیں (اس المیہ کا بڑا تفصیلی بیان ۲۵/ستمبر کے ”دی نیوز“ میں سابق پاکستانی سفیر محترمہ ملیحہ لودھی کے قلم سے نکلا ہوا موجود ہے)
          یہ بالکل ایک صاف پاگل پن کیا مغرب میں حضور پاک ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین سے نفرت پیدا کرنے کے لائحہٴ عمل کے طور پر اختیار کیاگیا ہے؟ جی نہیں، اس کام کے لیے پاگل پن کی ضرورت نہیں تھی نہ وہ مفید ہے۔ یہ ”پاگل پن“ اگر کوئی مقصد رکھتا ہے اوریقینا رکھتا ہے، تو وہ عالمِ اسلام میں نشأة ِ ثانیہ کے اٹھتے ہوئے آثار سے خوف زدہ ہوکر اس کا راستہ روکنا ہے۔ اس کا آغاز امریکہ نے 11/9 کے حوالہ سے ”دہشت پسندی کے خلاف جنگ“ (War on Terrorism) کا نام دے کر کیا، جسے بارہواں سال چل رہا ہے اور جس کے ذریعہ وہ تمام قوتیں جنگی اسلحہ سے تباہ کردینے کی مہم جاری ہے، جنھیں امریکہ اس نشأتی لہر کا بازوئے شمشیرزن سمجھ رہا ہے، پھر اس آغاز کے چند سال بعد یہ اشتعال انگیز فلموں اور کارٹونوں کا سلسلہ اسی مہم کا دوسرا پارٹ ہے جس نے مسلم دنیا میں اشتعال انگیزی کا ایک مستقل سلسلہ قائم کردیا ہے۔ ایک حرکت پر بات ٹھنڈی پڑتی ہے تو دوسری برآمدجس کے نتیجہ میں ہمارے یہاں وہ تک ہورہا ہے جو جمعةُ المبارک ۲۰/ستمبر کو پاکستان کے شہروں میں بصد رنج وقلق دیکھا گیا۔ یعنی ایک طرف اپنے ہاتھوں سے ملک کو ملینوں بلینوں کا نقصان، دوسری طرف اپنی پولیس کے ہاتھوں اپنی ہی بیسیوں لاشیں گرنا، اور پھر حکومت اور عوام کے درمیان جو دوری وبے اعتمادی ہمارے یہاں یونہی عام ہے، اس میں مزید تناؤ کا اضافہ۔ ایسے حالات میں نشأةِ ثانیہ کا کہاں گذر؟ مزید ایک نتیجہ اس اشتعال انگیزی کا یہ ہے کہ نوجوانوں میں مغرب، بالخصوص امریکہ، کے خلاف جو کچھ بھی ممکن ہوکرگزرنے کا جذبہ بالکل قدرتی طور سے پیدا ہوتا ہے، اور امریکہ کی نظر میں گویا نئے ”دہشت گرد“ پیدا ہوتے ہیں جن کا تعاقب اس کی ذمہ داری ہے۔
          کیا اس صورتِ حال کا تقاضا یہ نہیں کہ ہم شدید جذباتی اذیت کے باوجود مغرب کی ان اشتعال انگیزیوں کا نوٹس لینا اسی طرح بند کردیں جس طرح رسول اللہ ﷺ کے عمومی اُسوئہ مبارکہ میں ہم دیکھتے ہیں؟ جب ہم ان شیاطین کا کچھ کر نہ سکیں تو کیا اسلام اور ملت کے نقطئہ نظر سے یہ بات زیادہ آبرومندانہ نہیں ہے کہ سورئہ آلِ عمران کی اوپر گزری آیت (”اور ضرور تمہاری آزمائش اپنے مالوں اور جانوں میں ہونی ہے اور ضرور ایسا ہوگا کہ تم کو اہلِ کتاب اور مشرکین سے بڑی اذیتیں پہنچیں۔ اور اس کا مقابلہ تم نے اگر صبر اور تقوے کی روش سے کیا تو یقینا یہ عزم وہمت کی بات ہوگی۔“) پر عمل کیا جائے؟ اور غور کیجیے تو یہ قرآنی ہدایت دراصل ایسے ہی حالات کے لیے ہے جن سے ہم گزررہے ہیں۔ یہی واحد صورت ان حالات میں ہے کہ اس شیطانی سلسلہ کا تار ٹوٹے، مغربی حکومتوں سے اس بات کی توقع کہ وہ آپ کے درد کو سمجھیں، بدقماشوں کو لگام دینے کے لیے کسی عالمی قانون کی منظوری پر راضی ہوں، جس کے لیے او․ آئی․ سی کی طرف سے کوششیں ہیں، اس توقع کی کیا گنجائش اس صورتِ حال میں ہے کہ یہ حکومتیں تو پاکستان کے قانونِ تحفظِ حرمتِ رسول ﷺ کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں، جو لوگ آپ کے اپنے ملکوں میں بھی آپ کے حُرُمات ومقدّسات کی بے حرمتی کی آزادی کے لیے بضد ہیں کیا ان سے یہ توقع بجا ہے کہ وہ اپنے یہاں تحفظ نافذ کریں گے؟
          اس دن کے لیے انتظار اس دن کا کیجیے جب ہم آپ اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مرضیات پر ڈھال کر اسلام کا گزرا ہوا دور واپس دیکھنے کے لائق ہوجائیں اور وہ دور عشقِ رسول کے جھنڈے اُٹھانے اور احتجاج کرنے سے نہیں، اللہ ورسول ﷺ کی مرضیات کے آگے بصد شوق سرجھکانے سے آئے گا، جو بلاشبہ اس وقت ہمارا حال نہیں ہے۔ اِلاّ یہ کہ ہم جانتے نہ ہوں یا اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہوں۔ اوراگر اس بات کی شرح درکار ہوتو ایک پیرِدانا کی حکایت سن لیجیے:
          گذشتہ صدی کے ہمارے نامور علماء میں سے مولانا سید مناظراحسن گیلانی (م-۱۹۷۵ء) جن کو علم کے ساتھ اللہ نے عشقِ مصطفوی ﷺ کی دولت سے بھی خوب خوب نوازا تھا، دارالعلوم دیوبند میں اپنی طالب علمی کے احوال لکھتے ہوئے اپنے استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن(م-۱۹۲۰/) کے درس کا ایک واقعہ سناتے ہیں: ”بخاری شریف کا سبق ہورہا تھا، مشہور حدیث گذری کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک موٴمن نہیں ہوسکتا، جب تک اس کے مال، بال بچے اور سارے انسانوں سے زیادہ، میں اس کے لیے محبوب نہ ہوجاؤں۔ فقیر نے عرض کیا کہ ”بحمداللہ عام مسلمان بھی سرکارِ کائنات ﷺ کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین کو توایک حد تک مسلمان برداشت کرلیتا ہے؛ لیکن رسالت مآب ﷺ کی ہلکی سی سبکی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کردیتی ہے کہ ہوش حواس کھوبیٹھتے ہیں، آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے ہیں۔“ یہ سن کر حضرت نے فرمایا: ہوتا بے شک یہی ہے جو تم نے کہا؛ لیکن کیوں ہوتا ہے؟ تہہ تک تمہاری نظر نہیں پہونچی، محبت کا اقتضا یہ ہے کہ محبوب کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے؛ لیکن عام مسلمانوں کو جو برتاؤ آں حضرت ﷺ کی مرضیِ مبارک کے ساتھ ہے وہ بھی ہمارے تمہارے سامنے ہے۔ پیغمبر ﷺ نے ہم سے کیا چاہا تھا اور ہم کیا کررہے ہیں، اس سے کون ناواقف ہے، پھر سبکی آپ ﷺ کی جو مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے اس کی وجہ محبت تو نہیں ہوسکتی۔“
          خاکسار نے عرض کیاکہ تو آپ ہی فرمائیں، اس کی صحیح وجہ کیا ہے؟ نفسیاتِ انسانی کے اس مبصرِ حاذق نے فرمایا کہ ”سوچوگے تو درحقیقت آں حضرت ﷺ کی سبکی میں اپنی سبکی کا غیرشعوری احساس پوشیدہ ہوتا ہے، مسلمانوں کی خودی اور انا مجروح ہوتی ہے، ہم جسے اپنا پیغمبر اور رسول… مانتے ہیں تم اس کی اہانت نہیں کرسکتے۔ چوٹ درحقیقت اپنی اسی ”انانیت“ پر پڑتی ہے؛ لیکن مغالطہ ہوتا ہے کہ پیغمبر ﷺ کی محبت نے ان کوانتقام پر آمادہ کیا ہے، نفس کا یہ دھوکہ ہے، محبوب کی مرضی کی جسے پرواہ نہ ہو، اذان ہورہی ہے اور لایعنی اور لاحاصل گپوں سے بھی جو اپنے آپ کو جدا کرکے موٴذن کی پکار پر نہیں دوڑتا، اسے انصاف سے کام لینا چاہیے کہ محبت کا دعویٰ اس کے منھ پہ کس حد تک پھبتا ہے۔“ (احاطہٴ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن، ص۱۵۳-۱۵۴)
          اللّٰہُمَّ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ المستقیمَ صِراطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالین اٰمین


***




وکی لیکس آزادیِ اظہار رائے اور اہانتِ رسول  ﷺ



ملکی اور بین الاقوامی سطح کے دو سنسنی خیز انکشافات نے اس دورِ منافقت کے رئیس المنافقین کی آزادیِ جمہوریت کے بلند بانگ دعووں کی پول کھول دی ہے۔ جولیان اسانج کی وکی لیکس کے ذریعہ لاکھوں انکشافات نے جہاں منافقوں کے سردار کو سرِبازار رسوا کیا ہے، وہیں دنیا بھر کے نام نہاد واظہار رائے کی آزادی کے علمبرداروں اور مسلم دانش فروشوں کو بھی ننگا کردیا ہے، جن کا یہ کہنا ہے کہ اگر دنیا میں نبی آخرالزماں حضرت محمد  ﷺ کی اہانت کے لیے طرح طرح کی سازشیں اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں تومسلم دنیا کو اس پر ردِّعمل نہیں کرنا چاہیے، انھیں اس طرزِعمل پر درگزر سے کام لے کر علمی انداز میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کوآزادی کا سبق پڑھانے والے بیرونی آقا اور ان کے ڈالروں کے غلام مقامی دانشوران کہتے ہیں کہ حضور  ﷺ کی ذات اتنی کمزور تھوڑی ہے کہ ان کی پگڑی میں بم دکھادینے سے، ان کا کارٹون بار بار بنانے سے اور انھیں بار بار نشر کرنے سے آپ کی ذاتِ گرامی پر حرف آجائے گا؛ مگر یہ منطق اب وکی لیکس کے معاملہ میں مغربی منافقین کے ذریعہ نہیں اپنائی جارہی ہے اور نہ ان کے بے غیرت ایمان فروش مقامی حصہ دار واویلا مچارہے ہیں۔ مغرب نے خود یہ کیا کہ جولین اسانج کے ذریعہ کیے گئے بھانڈا پھوڑ کا حقائق کے ذریعہ مقابلہ کرنے کے بجائے میڈیا کے گلاگھوٹنے اور جولین اسانج اور اس کے معاونین کے خلاف زبردست ہمہ جہت ظلم اور سازشوں کے طریقے اپنانے شروع کردیے ہیں۔ سب سے پہلے اس کے خلاف زنا کا مقدمہ درج کراکے اس کے خلاف انٹرپول کا وارنٹ حاصل کرلیا۔ مغرب میں ایک خاص بات یہ ہے خصوصاً امریکہ میں کہ اگر کوئی مشہورآدمی حق بات کہہ دے یا مسلمان ہوجائے تو فوراً اس کے خلاف کوئی دس پندرہ سال پرانا زنا کا کیس درج ہوجاتا ہے۔ مائیکل جیکسن اور مائیک ٹائیسن کے ساتھ ہی ہوا اور اب اسانج کے ساتھ بھی یہی کیاگیا۔ وکی لیکس سے پہلے ان محترمہ کو چھ سال تک یاد ہی نہیں رہا کہ ان کی آبروریزی ہوئی ہے؟ اب اچانک ایسا یادآیا کہ انٹرپول سے وارنٹ جاری ہوگئے۔ حماس رہنما کے دوبئی کے ہوٹل میں شہید کرنے والے ۱۸/سے زیادہ ملزمین آج تک مغربی ممالک میں انٹرپول کے وارنٹ کے باوجود آزاد ہیں اوراسانج کو مفرور ہونا پڑا۔ وکی لیکس کی سائٹ کو اسی دن ہیک (غیرقانونی طور پر بند) کردیاگیا۔ اس کے معاون کو جیل میں رکھا گیا اور امریکی اہلکار کو زیرسماعت رکھا گیا ہے، جہاں جرم ثابت ہونے پراسے ۵۲/سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس کا مقابلہ شعائرِاسلام کی اہانت کرنے والے ابوغریب اور بگرام ہوائے اڈے امریکی/ مغربی اہل کاروں کے رویہ سے یہ موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کس طرح کے دو پیمانے آزادی اور جمہوریت کے معاملہ میں بھی اپنائے جاتے ہیں۔ امریکی حکومت کی بے عزتی کرنے یا اس کی سیکوریٹی کو نام نہاد خطرہ پیدا کرنے پر ۵۲ سال تک کی سزا اور دنیا بھر کی غیرقانونی سازشیں اور بندشیں اور رسولِ آخرالزماں  ﷺ کی اہانت اور قرآن پاک کی بے حرمتی پر الٹا مسلمانوں کو وعظ ونصیحت اور صبر نما دیوّسی کی تلقین جب کہ ان کا تعلق دنیا کے ۱۲۰ کروڑ مسلمانوں کے جذبات سے ہے۔ اس کے علاوہ وکی لیکس کی معلومات کومیڈیا کے ذریعہ ایسا رخ دیا جاتا ہے جس سے مسلمان ممالک میں آپس میں تعلقات خراب ہوں یا اندرون ملک خانہ جنگی برپا ہو، بھی قابلِ غور کمینہ حرکت ہے جو ہمارا میڈیا بھی کررہا ہے اور بین الاقوامی (صہیونی) میڈیا بھی کررہا ہے۔
          دوسرا بھانڈا پھوڑا ہمارے ملک کے جی ٹو اسپیکٹرم نام کے لائسنس کی نیلامی سے متعلق ہے جس میں سرکاری احتسابی ادارہ کے مطابق سرکار کو ۴۰/ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اس غداری کے عمل میں کمران افسران، میڈیا، عدلیہ سبھی ناقابلِ تردید ثبوت کی بنیاد پر ملوث ہیں۔ اس عمل غداری میں ملک کے دو سب سے بڑے تجارتی گھرانوں ٹاٹا اور امبانی کے ساتھ میڈیا کے مغل اپنی نیک نامی کے پرچم گاڑنے والے گھڑیال اور انتہائی اعلیٰ سطح کے آئی․ اے․ ایس․ افسران شامل ہیں۔ ٹاٹا اور امبانی کے دھندوں کو مشورہ دینے والی اور ان کے کاروبار کے لیے حکومت میں کام کرنے والی کمپنی وبشنوی کی مالکہ نیرا رادیا کے فون حکومت ٹیپ کررہی تھی جو کہ چھ ماہ تک ٹیپ کیے گئے تھے۔ ان سے پتہ چلا کہ ان سرمایہ داروں کی سفارش میں بڑے بڑے ڈھونگی اور نام نہاد کھوجی پترکار پربھوچاؤلہ، ویرسنگھوی، شنکرائیرز گنپتی سبرامنیم، سنجے نرائن نے مختلف اوقات میں مختلف کمپنی مالکان، سرکار، اورنیرا رادیا کی کمپنی کے درمیان رابطہ یعنی دلالی کا کام کیا ہے۔ بہرحال بڑے بڑے ڈھونگی پکڑے گئے مگر ہمارے سماج میں ایک اخبار والا کہتا ہے کہ میں نے ہائی کورٹ کے جج کو ۹/کروڑ میں خریدا ہے۔ جب عدلیہ بھی آستھایا مایا کا شکار ہوتو ایسے سماج میں کون کس سے کہاں شکایت کرے؟ یہاں ٹاٹا اور ان کے حامی Privacy رازداری کے آڑ لے کر سپریم کورٹ جارہے ہیں؛ مگر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سچ جھوٹ پھیلانے کے لیے میڈیا بالکل بے قید رہتا ہے۔ کیا ہماری کوئی Privacy نہیں ہے؟
***






ڈیڑھ ارب مسلم عوام صرف ایک ایک ڈالر/ ریال / درہم / روپیہ و غیرہ جمع کرے تو اتنی دولت جمع ہو سکتی ہے کہ اس سے گستاخ رسولؐ اور قرآن مجید کو اعلانیہ جلانے (شہید کرنے) والوں کو اسی ملک کے کسی بھی فرد سے انعام کی لالچ میں موثر، نتیجہ خیز اور عبرت آمیز سزا دلوائی جا سکتی ہے، تو ہم حرمت رسولؐ اور قرآن مجید کے لئے کب ، کیا ، کہاں اور کیسے کیوں نہیں کچھ کرتے دکھائی دے رہے ہیں ؟؟؟

کیا اس عمل کے بعد توہین کرنے والے ذلیل ترین شخص کو ایسی حرکت سے باز نہیں کیا جا سکتا ؟؟؟

کیا اس سے دوسروں کو ان حرکات سے روکا نہیں جا سکتا ؟؟؟

کیا اس سے ہمیں کوئی کافر یا منافق حکمران یا ملکی قانون اس قابلِ عمل سزا دینے یا دلوانے میں رکاوٹ بن سکتا ہے ؟؟؟

کیا سب سے زیادہ سچا ایمان و عشق رکھنے والے نبیؐ کے ساتھیوں (صحابہؓ) کی زندگی سے ہمیں ایسے شریر لوگوں کو سزا دلانے میں موثر نتیجہ کے حصول میں ہر طرح کا جوکھم اٹھاتے کے ہمیں سبق نہیں ملتے ؟؟؟

اسی لئے تو الله تعالیٰ قرآن مجید میں فرما چکا : "اور جب ان (منافقین) سے کہا جاتا ہے کہ لوگوں (یعنی اصحابُ النبی) کی طرح تم بھی ایمان لے آؤ، (تو) کہتے ہیں کہ کیا ہم ایمان لے آئیں جس طرح ایمان لاۓ بیوقوف، (مومنو!) سن لو! (دراصل) یہی بیوقوف ہیں لیکن نہیں جانتے". (البقرہ : ١٣)

دوسری آیت میں فرمایا : پھر اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم (یعنی اصحابُ النبی) ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں... (البقرہ : ١٣٧)

اور فرمایا : جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین (صحابہؓ) میں سے بھی اور انصار (صحابہؓ) میں سے بھی۔ اور جنہوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان (صحابہؓ) کی پیروی کی خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے.(التوبہ : ١٠٠)

تو کیا ہم ان سچے ایمان و عشق والے صحابہؓ کی پیروی کرتے الله کی رضا اور جنت کے حصول کی عظیم کامیابی نہیں چاہتے؟؟؟
کل قیامت میں رسول الله کے سامنے کیا منہ لیجائیں گے ؟؟؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ صحابہؓ کی پیروی کا حکم قرآن کو ہمارے چھوڑنے کے سبب نبیؐ کی "شفاعت" کے بجاۓ "شکایت" اور اس صدی کی امت پر (نبی کے ذریعہ پہنچے اس حکم قرآنی سے) بے وفائی کا مقدمہ نہ ہوجاۓ ، جس کی خبر پہلے ہی دے چکے ؛ وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا[٢٥:٣٠]
ترجمه: اور پیغمبر (روزِ قيامت) کہیں گے کہ اے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا.




No comments:

Post a Comment