

توہین رسالت کے مرتکب کے لیے توبہ کی گنجائش
توہین رسالت کے سلسلے میں مسلمان کا حکم
یہ مسئلہ تو اتفاقی ہے کہ اگر کوئی مسلمان شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اور توہین رسالت کا مرتکب ہو جائے تو اس سے وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا اور جرم ثابت ہونے پر اس کو قتل کیا جائے گا، لیکن قتل کی یہ سزا حکومت وقت دے گی، عوام کو اس کا اختیار حاصل نہیں۔ یہ شق اجماعی ہے اور اس کے دلائل نہایت واضح ہیں اور خود یہ عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں کئی ایسے بدبختوں کو موت کی سزا دی ہے جن کے قصے کتب حدیث اور سیرت میں مشہور ہیں۔
۱۔ عن علی رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من سب نبیا قتل ومن سب اصحابہ جلد (الصارم المسلول، ص ۹۲)
۲۔ فی اکفار الملحدین للعلامۃ الکاشمیری رحمہ اللہ تعالی: فی کتاب الخراج: اجمع المسلمون علی ان شاتمہ صلی اللہ علیہ وسلم کافر ومن شک فی عذابہ وکفرہ کفر ’’شفا‘‘ (ص ۵۴)
اور اس کا یہ کفر ’’ارتداد‘‘ کے حکم میں ہوگا۔
۳۔ فی رسائل ابن عابدین: الساب المسلم مرتد قطعا الخ (ص ۳۱۹)
۴۔ وفیہا: من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم او ابغضہ کان ذلک منہ ردۃ الخ (ص ۳۲۵)
۵۔ وفی الدرالمختار : حکمہ حکم المرتد الخ ( ۴/۲۳۴)
۶۔ وفی فتح الباری: ومن طریق الولید بن مسلم عن الاوزاعی ومالک فی المسلم ھی ردۃ الخ وغیر ذلک من الکتب الفقہیۃ۔
اور مرتد اگر مرد ہو اور وہ سچی توبہ نہ کرے تو اس کی سزا بھی بحکم نصوص قطعی قتل ہی ہے۔ اس سے بھی معلو م ہوتا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔
اس سلسلہ میں ذمی کا حکم
توہین رسالت کا مذکورہ حکم مسلمان کے بارے میں اجماعی ہے، البتہ ذمی کے بارے میں معمولی سا اختلاف ہے اور توہین رسالت کا مسئلہ زیادہ تر چونکہ غیر مسلموں کی طرف سے پیش آتا ہے، اس لیے اس کا خلاصہ ’’الصارم المسلول‘‘ سے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
(۱) امام مالک،اہل مدینہ، امام احمد بن حنبل، فقہاء حدیث، خود امام شافعیؒ کے نزدیک ذمی کو بھی مسلمان کی طرح توہین رسالت کی وجہ سے قتل کیا جائے گا۔
(۲) امام شافعیؒ کے اصحاب کے اس میں مختلف اقوال ہیں۔ جہاں تک امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب کا مذہب ہے تووہ درج ذیل عبارات سے واضح ہے او ر وہ یہ کہ توہین رسالت کا مرتکب اگر ذمی ہے تو پہلی دفعہ میں اس کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ امام اس پر مناسب تعزیر جاری کرے گا۔ البتہ اگر وہ اس جرم کا ارتکاب مکرر کرے تو اس صورت میں اس کو قتل کیا جائے گا۔ عربی عبارات درج ذیل ہیں:
۷۔ وتحریر القول فیہ ان الساب ان کا ن مسلما فانہ یکفر ویقتل بغیر خلاف وھو مذہب الائمۃ الاربعۃ وغیرہم وقد تقدم ممن حکی الاجماع علی ذلک اسحاق بن راہویہ وغیرہ، وان کان ذمیا فانہ یقتل ایضاً فی مذہب مالک واھل المدینۃ وسیاتی حکایۃ الفاظہم، وھو مذہب احمد وفقہاء الحدیث، واما الشافعی فالمنصوص عنہ نفسہ ان عہدہ ینتقض بسب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وانہ یقتل ہکذا حکاہ ابن المنذر والخطابی وغیرہما۔
واما ابوحنیفۃ واصحابہ فقالوا: لا ینتقض العہد بالسب ولا یقتل الذمی بذلک لکن یعزر علی اظہارہ ذلک کما یعزر علی اظہار المنکرات التی لیس لہم فعلہا من اظہار اصواتہم بکتابہم ونحو ذلک وحکاہ الطحاوی عن الثوری ومن اصولہم ان مالا قتل فیہ عندہم مثل القتل بالمثقل والجماع فی غیر القبل اذا تکرر فللام ان یقتل ...... لہذا افتی کثرہم بقتل من اکثر من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اہل الذمۃ وان اسلم بعد اخذہ، وقالوا: یقتل سیاسۃ الخ (ص۳ تا ۱۱)
مسلمان مرتکب توہین کی توبہ کا حکم
اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب شخص کی توبہ قابل قبول ہے یا نہیں او راس توبہ سے اس کے قتل کی سزا معاف ہو جائے گی یا نہیں؟ اگر قابل قبول ہے تو کب؟ اور توبہ کی نوعیت کیا ہو گی؟ اس کو ’’استتبابہ‘‘ کہتے ہیں۔
اس میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف اس بات پر مبنی ہے کہ اس شخص کا قتل ’’حداً‘‘ ہے یا ’’ردۃ‘‘ ہے، چنانچہ جو حضرات کہتے ہیں اس کا قتل ردۃً ہے، وہ استتابہ کے قائل ہیں او رجو حضرات کہتے ہیں کہ اس کا قتل حداً ہے، ان کے نزدیک اس میں عفو کی کوئی صورت نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ شخص سچی توبہ کرے تو توبہ کرنے سے اس کا آخرت کا معاملہ سدھر جائے گا، البتہ دنیا میں اس کی سزائے قتل ساقط نہیں ہوگی، خواہ گرفتاری سے قبل ہو یا گرفتاری کے بعد ہو، کیوں کہ حد ثابت ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی اس کو معاف کر سکتا ہے، چنانچہ حضرت ا بن مسعودؓ سے یہی مروی ہے:
۸۔ لا ینبغی لوال ان یوتی بحد الا اقامہ (مصنف عبدالرزاق وغیرہ :۷/۳۷۰)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی صراحۃً منقول ہے:
۹۔ لا عفو فی الحدود عن شئ منہابعد ان تبلغ الامام
۱۰۔ فی اکفار الملحدین : فی قبول التوبۃ فی احکام الدنیا اختلاف وتقبل فیما بینہ وبین اللہ تعالیٰ الخ (ص ۵۴)
۱۱۔ فی رسائل ابن عابدین: وممن قال ذلک مالک بن انس واللیث واحمد واسحاق وھو مقتضی قول ابی بکر رضی اللہ عنہ ولا تقبل توبتہ عند ھولاء وبمثلہ قال ابوحنیفۃ واصحابہ والثوری واھل الکوفۃ والاوزاعی فی المسلم لکنہم قالوا: ھی ردۃ الخ
۱۲۔ وفیہا : وقال فی محل آخر قال ابوحنیفۃ واصحابہ: من برئ من محمد اوکذب بہ فھو مرتد حلال الدم الا ان یرجع الخ
۱۳۔ وفیہا : وبعد فاعلم ان مشہور مذہب مالک واصحابہ وقول السلف وجمہور العلماء قتلہ حداً لا کفراً ان اظہر التوبۃ منہ، ولہذا لا تقبل توبتہ ولا تنفعہ استقالتہ وحکمہ حکم الزندیق، سواء کانت توبتہ بعد القدرۃ علیہ والشہادۃ علی قولہ او جاء تائباً من قبل نفسہ لانہ حد وجب لاتسقطہ التوبۃ کسائر الحدود، قال القابسی: اذا اقر بالسب وتاب منہ واظہر التوبۃ قتل بالسب لانہ ھو حد، وقال محمد بن ابی زید مثلہ واما مابینہ وبین اللہ تعالیٰ فتوبتہ تنفعہ ، وقال ابن سحنون: من شتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الموحدین ثم تاب لم تزل توبتہ عنہ القتل۔
۱۴۔ وفیہا بعد التفصیل الطویل: اقول: فقد تحرر من ذلک بشہادۃ ھولاء العدول الثقات الموتمین ان مذہب ابی حنیفۃ قبول التوبۃ کمذہب الشافعی، وفی الصارم المسلول لشیخ الاسلام ابن تیمیہ قال: وکذلک ذکر جماعۃ آخرون من اصحابنا انہ یقتل ساب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا تقبل توبتہ سواء کان مسلما او کافرا وعامۃ ھولاء لما ذکروا المسئلۃ قالوا: خلافاً لابی حنیفۃ والشافعی، وقولہما ای ابی حنیفۃ والشافعی: ان کان مسلماً یستتاب، فان تاب والاقتل کالمرتد وان کان ذمیا ..... الخ
۱۵۔ وفیہا: وقال ابویوسفؒ وایما رجل مسلم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او کذبہ او عابہ او تنقصہ فقد کفر باللہ تعالیٰ وبانت منہ امراتہ فان تاب والا قتل وکذلک المراۃ الا ان اباحنیفۃ قال: لا تقتل المراۃ علی الاسلام انتہیٰ بلفظہ وحروفہ الخ (ماخوذۃ من رسالۃ تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام المتضمنۃ لرسائل ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ)
۱۶۔ وفی الشرح الصغیر للددیر: (وقتل الزندیق) بعد الاطلاع علیہ بلااستتابۃ وھو من اسر الکفر واظہر الاسلام وکان یسمٰی فی زمن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم منافقاً (بلا قبول توبۃ) من حیث قتلہ، ولا بدمنہ من توبتہ لکن ان تاب قتل حداً والا کفراً ( الا ا ن یجء) قبل الاطلاع علیہ فلا یقتل ....کالساب للنبی مجمع علیہ فیقتل بدون استتابۃ ولاتقبل توبتہ ثم ان تاب قتل حداً ولا یعذر بجھل لانہ لایعذر احدفی الکفربالجہل (اوالسکر) حراما (او تہور) کثرۃ الکلام بدون ضبط ولا یقبل منہ سبق اللسان او غیظ (او بقولہ: اردت کذا) الخ ( ۴/ ۴۳۸)
وفی استتابۃ المسلم خلاف، ہل یستتاب فان تاب ترک والا قتل او یقتل لو تاب والراجح الاول۔
وفی حاشیۃ علی الشرح الصغیر للصاوی: (قولہ: والراجح الاول) ای قبول التوبۃ کما ھو مذہب الشافعی الخ ( ۴/۴۴۰)
ان عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے او را س کا حاصل یہ ہے کہ شافعیہ اور حنفیہ کے ہاں اس کی توبہ قبول ہے اور اس کی وجہ سے اس سے قتل کی سزا ساقط ہو جائے گی اور امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے نزدیک اس کی توبہ دنیا کے حق میں قبول نہیں ہو گی اور توبہ کی وجہ سے اس کی سزا قتل ساقط نہیں ہوگی۔
امام مالک اور ان کے اصحاب کا مذہب مشہور یہی نقل کیا گیا ہے جیسا کہ عبارت نمبر ۱۳ سے واضح ہے، لیکن مالکیہ کی مشہور کتاب الشرح الصغیر اوراس کے حاشیہ میں ترجیح قبول توبہ کو دی جائے گی۔ ملاحظہ ہو : عبارت نمبر ۱۶۔
البتہ بزازیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حنفیہ کے ہاں بھی اس کو حد کے طورپر قتل کیا جائے گا اور بزازیہ کی اتباع میں متاخرین حنفیہ نے بھی اس قول کو ذکر کیا ہے، لیکن علامہ شامیؒ نے اس کی سخت تردید کی ہے اور اس کو غلط فہمی قرار دیا ہے ۔ لہٰذا اس سلسلہ میں اس قول پر اعتماد نہ کیا جائے، چنانچہ ان کی عبارت ملاحظہ ہو:
۱۷۔ فی الشامیۃ بعد بحث طویل یرد علی البزازیۃ: فقد علم ان البزازی قد تساہل غایۃ التساہل فی نقل ہذہ المسالۃ ولیتہ حیث لم ینقلہا عن احد من اہل مذہبنا بل اسند الیٰ مافی الشفاء والصارم امعن النظر فی المراجعۃ حتی یری ماھو صریح فی خلاف ما فہمہ ممن نقل المسالۃ عنہم ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم، فلقد صار ہذا التساھل سبباً لوقوع عامۃ المتاخرین عنہ فی الخطا حیث اعتمدوا علی نقلہ وقلدوہ فی ذلک ولم ینقل احد منہم المسئلۃ عن کتاب من کتب الحنفیۃ بل المنقول قبل حدوث ھذاالقول من البزازی فی کتبنا وکتب غیرنا خلافہ (۴؍۲۳۴) کذا فی شرح عقو درسم المفتی لابن عابدین (ص۳۲)
ذمی مرتکب توہین کی توبہ کا حکم
اس میں تین اقوال مشہور ہیں:
ا۔ ذمی کو بہرحال قتل کیا جائے گا، اگرچہ گرفتاری کے بعد، توبہ بھی کر لے۔ یہ امام احمد اور امام مالک کا مشہور موقف ہے اور امام شافعیؒ کا ایک قول ہے۔
۲۔ ذمی اگر توبہ کرے اور توبہ کامطلب یہ ہے کہ مسلمان ہو جائے تواس کی یہ توبہ قبول کی جائے گی ۔ یہ امام احمد اور امام مالک رحمہما اللہ سے ظاہرالروایۃ ہے۔
۳۔ ذمی کو قتل کیا جائے گا مگر یہ کہ یا تو اسلام لے آئے یا حقیقی ذمی بن جائے اور اسی پر امام شافعی کا ظاہر کلام دلالت کرتاہے۔ (خلاصہ ماخوذہ از الصارم المسلول ص۳۳۰)
ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ استتا بہ کے مسئلہ میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور مالکیہ کے راجح قول کے مطابق مسلمان کی توبہ قابل قبول نہیں اور ذمی کی توبہ کے بارے میں مذکورہ بالا تین اقوال ہیں۔ اس لیے زمانہ کے حالات اور تقاضوں کے مطابق حکومت وقت ان دو میں سے کسی بھی موقف کے مطابق قانون بنا سکتی ہے، لیکن شان رسالت اور ناموس رسالت کی انتہائی عظمت اور جلالت شان کا تحفظ بہرحال انتہائی ضروری ہے، اور اگر قانون میں توبہ کی گنجائش نکالی گئی تو توبہ کا وہی طریقہ کا ر اختیار کرنا ہوگا جو اس سنگین ترین جرم کے مطابق ہو جس کا طریقہ ذیل ہے:
توبہ کا طریقہ
(۱) مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہو چکا ہے کہ توہین رسالت کا مرتکب شخص بالاتفاق دائرۂ اسلام سے خارج ہو چکاہے، لہٰذا توبہ کی صورت میں اس کے لیے سربرآوردہ علما وعوام کے مجمع میں فوراً تجدید ایمان کرنی لازم ہو گی اور اس کا اسی قدر اعلان ہوگا جس قدر ان حرکتوں کا اعلان ہو چکا تھا۔
(۲) چونکہ کافر ہونے کی وجہ سے اس کا نکاح ختم ہو چکا تھا، اس لیے اسلام لاتے ہی فوراً نکاح کی تجدید کرنی لازم ہوگی اوراس کا اعلان بھی اسی طرح ہو گا جس طرح تجدید ایمان کا اعلان کیا تھا۔
(۳) یہ شخص گزشتہ جرم پر انتہائی شرمندہ رہے گا۔
(۴) اس وقت انتہائی عاجزی اور گریہ وزاری سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔
(۵) آئندہ کے لیے ان سب باتوں کے نہ کرنے کا پختہ عہد کرے۔
(۶) توہین رسالت پر مشتمل مواد اگر کتاب اور تحریری شکل میں ہو تو اس صورت میں اس کے سارے موجود نسخے جلائے اور جہاں جہاں یہ کتاب یا رسالہ پہنچا ہے، ہر ممکن طریقہ سے وہاں سے اس کو ختم کرانے کی کوشش کرے۔ اخبارات کے ذریعے اس کا عام اعلان کرے کہ میں اس کتاب یا رسالہ سے براء ت کا مکمل طریقہ سے اعلان کرتا ہوں، لہٰذا اس کتاب کو جلایا جائے یا کم از کم اس سے میرے نام کا ورق جلایا جائے۔
سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت وعقیدت مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے اور کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک رسول اللہ ﷺ کو تمام رشتوں سے بڑھ کر محبوب ومقرب نہ جانا جائے۔ فرمانِ نبوی ﷺ ہے تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ماں، باپ، اولاد اور باقی سب اشخاص سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کاشروع دن سے ہی یہ عقیدہ ہےکہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ گرامی سے محبت وتعلق کے بغیر ایمان کا دعویٰ باطل اور غلط ہے۔ ہر دور میں اہل ایمان نے آپ ﷺ کی شخصیت کے ساتھ تعلق ومحبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ اور اگر تاریخ کے کسی موڑ پر کسی بد بخت نے آپ ﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شتم رسول ﷺ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ چند سال قبل ڈنمارک ناروے وغیرہ کے بعض آرٹسٹوں نے جو آپ ﷺ کی ذات گرامی کے بارے میں خاکے بنا کر آپﷺ کا مذاق اڑایا۔ جس سے پورا عالم اسلام مضطرب اور دل گرفتہ ہوا تو نبی کریم ﷺ سے عقیدت ومحبت کے تقاضا کو سامنے رکھتے ہو اہل ایمان سراپا احتجاج بن گئے اور سعودی عرب نے جن ملکوں میں یہ نازیبا حرکت ہوئی ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔ پاکستان میں ’’تحریک حرمت رسولﷺ‘‘ معرض وجود میں آئی جس میں ملک بھر کی 22 دینی وسیاسی جماعتیں شامل ہوئیں۔ اور اسی دوران گستاخ رسول کی سزا وانجام کے حوالے سے متعدد نئی کتب چھپ منظر عام پر آئی ہیں کتاب ہذا بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’توہین رسالت کی سزا‘‘ جناب پروفیسر حبیب اللہ چشتی کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے توہین رسولﷺ کرنے والوں کے لیے سزائے موت کے قانون کو قرآن وسنت، اجماعِ امت، اقوال ائمہ فقہ اور تاریخی حوالوں سے ثابت کیا ہے۔ یہ کتاب جمال رسول ﷺ کا دلکش تذکرہ اور قانون توہین رسالت کا تاریخی مجموعہ ہے۔ (م۔ ا)
https://islamicbookslibrary.wordpress.com/tag/tauheen-e-risalat/
جاہلیت جدیدہ کے علم برداروں نے آزادی اظہار کے نام پر انبیائے کرام علیہم السلام کو بالعموم او رحضور حتمی المرتبت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تنقیص و اہانت کو اپنا منتہائے نگاہ ٹھہرا لیا ہے،جس کے مظاہر حالیہ چند برسوں میں مختلف یورپی ممالک میں دیکھنے کو ملے۔ان حالات میں یہ لازم تھا کہ جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کی تقدیس و تعظیم کے تصور کو اجاگر کیا جاتا اور توہین رسالت کی شناعت و قباحت اور اس کی سزا وعقوبت کو کتاب وسنت کی روشنی میں واضح کیا جاتا۔اسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کرامت کہیے یا عنداللہ ان کی مقبولیت کہ ناموس رسالت کے دفاع و تحفظ پر جو کچھ شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے قلم سے نکلا ہے سات صدیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اس قدر جاندار،زندہ اور مدلل ہے کہ اس مسئلہ میں آج بھی سند اور اولین مرجع کی حیثیت رکھتا ہے۔زیر نظر کتاب حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے خاص اسی مسئلہ پر تحریر کی ہے اور اپنے خاص انداز تحریر میں اس قضیہ کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔اس کتاب کے حسن قبول کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جو شیخ الاسلام کے سخت ناقد اور مخالف ہیں وہ بھی اس کا اردو ترجمہ کر کے شائع کر رہے ہیں،جیسا کہ اس سے قبل اس ترجمے کو اسی ویب سائٹ پر پیش کیا جا چکا ہے۔اب معروف سلفی عالم اور مصنف و مترجم جناب پروفیسر غلام احمد حریری مرحوم کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔جو اگرچہ کافی عرصہ سے موجود ہے تاہم اس کی نئی طباعت حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے عقیدہ ناموس رسالت میں پختگی آنے کی اور جناب رسالتمآب ﷺ سے محبت و الفت کے رشتے مزید مستحکم ہوں گے۔ان شاء اللہ تعالیٰ
http://pdf9.com/download-book-al-sarim-al-maslool-id-5444.html
اللہ اور اُسکے رسول کو ستانے والے ملعون ہیں:
بدامنی پھیلانے والوں کی سزا:
یعنی بدامنی کرنےکو اکثر مفسرین نے اس جگہ رہزنی اور ڈکیتی مراد لی ہے مگر الفاظ کو عموم پر رکھا جائے تو مضمون زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔ آیت کی جو شان نزول احادیث صحیحہ میں بیان ہوئی وہ بھی اس کی مقتضی ہے کہ الفاظ کو ان کے عموم پر رکھا جائے۔ "اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنا" یا "زمین میں فساد اور بدامنی پھیلانا" یہ دو لفظ ایسے ہیں جن میں کفار کے حملے، ارتداد کا فتنہ، رہزنی، ڈکیتی، ناحق قتل و نہب، مجرمانہ سازشیں اور مغویانہ پروپیگنڈا سب داخل ہو سکتے ہیں اور ان میں سے ہر جرم ایسا ہے جس کا ارتکاب کرنے والا ان چار سزاؤں میں سے جو آگے مذکور ہیں کسی نہ کسی کا ضرور مستحق ٹھہرتا ہے۔
احادیث و آثار سے دلائل
(کنز العمال ٤٤١٣١، کشف انحفاء للعجلونی ج٢ حرف اللام الف حدیث رقم ٣١٣٧)
( یہ روایت ابودائود شریف ج٢ ص٢٢٣ پر ہے)
(الشفا ص ٢٢١)
«مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَكُونَ أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ يُظْهِرُوا شَتْمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِنَّمَا أَعْطَيْنَاهُمْ عَلَى أَنْ نُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ كَنَائِسِهِمْ , يَقُولُونَ فِيهَا مَا بَدَا لَهُمْ , وَأَنْ لَا نُحَمِّلَهُمْ مَا لَا يَطِيقُونَ , وَإِنْ أَرَادَهُمْ عَدُوٌّ قَاتَلْنَاهُمْ مِنْ وَرَائِهِمْ , وَنُخَلِّيَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ أَحْكَامِهِمْ , إِلَّا أَنْ يَأْتُوا رَاضِينَ بِأَحْكَامِنَا , فَنَحْكُمَ بَيْنَهُمْ بِحُكْمِ اللهِ وَحُكْمِ رَسُولِهِ , وَإِنْ غَيَّبُوا عَنَّا لَمْ نَعْرِضْ لَهُمْ فِيهَا.»
''اللہ کی پناہ! ہم ان کو اس بات پر عہد و پیمان دیں کہ وہ نبی کریم ﷺ پر سب و شتم کا اظہار کریں۔ ہم نے ان کو اس با ت کا عہد دیا ہے کہ ہم اُنہیں ان کے گرجا گھروں میں چھوڑ دیں وہ اپنے گرجا گھروں میں جو کہنا ہے کہیں اور ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالیں او راگر کوئی دشمن ان کا قصد کرے تو ہم ان کے پیچھے ان سے لڑائی لڑیں اور اُنہیں ان کے احکامات پر چھوڑ دیں،اِلا یہ کہ وہ ہمارے احکامات پر راضی ہوکر آئیں تو ہم ان کے درمیان اللہ اور اس کے رسول ﷺکے حکم کے مطابق فیصلہ کریں او راگر وہ ہم سے غائب ہوں تو ہم ان کے پیچھے نہ پڑیں۔''
عمرو بن العاص نے فرمایا: صدقتَ ''تم نے سچ کہا''
[السنن الكبرى للبيهقي: كِتَابُ الْجِزْيَةِ - جِمَاعُ أَبْوَابِ الشَّرَائِطِ الَّتِي يَأْخُذُهَا الْإِمَامُ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ - بَابُ يَشْتَرِطُ عَلَيْهِمْ أَنْ لَا يَذْكُرُوا رَسُولَ اللهِ ﷺ إِلَّا بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ۔۔۔ حدیث:18710]
خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
[إرشاد الفقيه، لابن كثير: 2/345 ، الإصابة،لابن حجر العسقلاني:3/195]
وَمِمَّنْ قَالَ ذَلِكَ: «مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَاللَّيْثُ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَهُوَ مَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ».
۔۔۔ «وَهُوَ مُقْتَضَى قَوْلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عنه: ولا تقبل توبته عند هؤلاء» .
وَلَا نَعْلَمُ خِلَافًا فِي اسْتِبَاحَةِ دَمِهِ بَيْنَ عُلَمَاءِ الْأَمْصَارِ وَسَلَفِ الْأُمَّةِ.
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/474]
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/476]
ترجمہ: محمد بن سحنونؒ فرماتے ہیں کہ تمام علمائے امت کا اس امر پر اجماع ہے کہ شاتم النبی یا وہ شخص جو نبی ﷺ میں نقص نکالے کافر اور مستوجب وعید عذاب ہے اور پوری امت کے نزدیک واجب القتل ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے کافر ہونے اور مستحق عذاب ہونے میں شک کرے وہ خود کافر ہے (الشفا :ص٢٢١)
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/477]
ترجمہ: ابو سلیمان خطابیؒ نے کہا ہے کہ میں مسلمان علماء میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو آپ ﷺ کو گالی دینے والے کو قتل کرنے کا قائل نہ ہو بشرطیکہ وہ خود مسلمان ہو۔ (الشفا :ص٢٢١)
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/477]
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/478]
ترجمہ: ابو مصعبؒ اور ابن ابی اویسؒ کی روایت میں ہے کہ ہم نے امام مالکؒ سے سنا ہے، وہ فرماتے تھے کہ جو شخص نبی کریم ﷺ کو گالی دے یا برا کہے یا عیب لگائے یا آپ ﷺ پر کوئی نقص عائد کرے ، اسے قتل کیا جائے چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے۔ (الشفا :ص٢٢١)
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/478]
ترجمہ: امام احمدؒ بن ابراھیم کی کتاب میں ہے کہ امام مالکؒ نے فرمایا کہ جو شخص نبی کریم ﷺ کو یا کسی اور نبی کو گالی دے اسے قتل کیا جائے اور اسکی توبہ قبول نہ کی جائیگی چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر۔
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/478]
ترجمہ: اصبغؒ کہتے ہیں کہ ہر صورت میں اسے قتل کیا جائے گا چاہے وہ اعلانیہ گالی دے یا خفیہ طور پر اور اسکی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/478]
ترجمہ: عبد اللہ بن عبد الحکمؒ سے روایت ہے کہ جو شخص نبی کریم ﷺ کو گالی دے ، اسے قتل کیا جائے اور اسکی توبہ قبول نہ کی جائے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر۔
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/479]
ترجمہ: امام مالکؒ سے روایت ہے کہ جس شخص نے یہ کہا کہ نبی ﷺ کی چادر یا آپ ﷺ کی قمیض کے کنارے میلے ہیں اور اس سے اس کا ارادہ آپ ﷺ کی تحقیر کا ہو تو اسے قتل کیا جائے ۔
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/479]
ترجمہ: ابو الحسن قالبسیؒ نے ایسے شخص کو قتل کرنے کا فتوی دیا جس نے نبی ﷺ کے بارے میں یہ کہا کہ آپ ﷺ لوگوں پر بوجھ اور ابو طالب کے یتیم تھے۔
[الشفا بتعريف حقوق المصطفى:2/479]
ترجمہ: ابو محمد بن ابی زیدؒ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺکے ساتھ گستاخی کرنے میں زبان کی لغزش کا عذر نہیں سنا جائے گا
گستاخ رسول کی سزا فقہاء نے لکھی ہے کہ اس کو بطور حد کے قتل کردیا جائے گا اور توبہ کرنے پر بھی یہ سزا اس سے معاف نہیں ہوگی۔
وقال في سابّ الأنبیاء: والکافر یسب نبي من الأنبیاء فإنہ یقتل حدا ولا تقبل توبتہ مطلقا (الشامي: ج6 ص370، زکریا)
[کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ:5/816-818،اردو ترجمہ لاھور 1984ع]
توہین رسالت کےحوالہ سے ملک بھر میں جاری بحث مباحثہ میں بعض ایسے اعتراضات بھی اُٹھائے جارہے ہیں جن سے یہ تاثر دیا جاسکے کہ توہین رسالت کی سزا یا تو شرعی طورپر ایک مسلمہ امر نہیں، یا اس کا اطلاق موجودہ حالات پر نہیں ہوتا۔ اس نوعیت کے اعتراضات نے چونکہ میڈیا کے ذریعے ہر عام وخاص کو متاثر کیا ہے، اس لئے ان کے بارے میں شریعت ِاسلامیہ کے موقف کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔
نبی کریمﷺ تو معاف کرنے والے اور رحمت للعالمین ہیں!
کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت سے ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ آپ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کومعاف کردیا کرتے تھے۔ آپ پر بہت طعنہ زنی کی جاتی رہی، آپ کو ایذا دی گئی اور طائف کی وادی میں آپ پر پتھراؤ تک کیا گیا،حتیٰ کہ خونِ مبارک آپ کے جوتوں میں جم گیا، آپ نے تب بھی کسی کو سزا نہ دی تو پھر ایسے رحمۃ للعالمین اور محسن انسانیت ﷺ سے توہین رسالت کی اتنی سنگین سزا کا صدور بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے۔
جواب: آپ کی سیرتِ مطہرہ کا یہ پہلو بڑا ہی واضح ہے جس کا اعتراف مسلمانوں کےعلاوہ غیر مسلموں نے بھی کیا ہے، تاہم قرآن وسنت کی نصوص اور صحابہ کرام کے واقعات سے یہ امر ایک مسلمہ اُصول کے طورپر ثابت شدہ ہے کہ نہ صرف شانِ رسالت میں گستاخی کی سزا قتل ہی ہےبلکہ نبی کریمﷺ نے خود مدینہ منورہ میں اپنے بہت سے گستاخان کو قتل کرنے کا براہِ راست حکم صادر فرمایا۔ اور صحابہ کرام کی مجلس میں اس دشنام طرازی کے جواب میں اُن کو قتل کرنے کی دعوتِ عام دی ۔ ایسے جانثار صحابہ کی آپ نے حوصلہ افزائی کی اور اُن کی مدد کے لئے دعا بھی فرمائی جیسا کہ خالد بن ولید، حضرت زبیر، عمیر بن عدی او رمحمد بن مسلمہ کے واقعات احادیث میں موجود ہیں کہ اِن کے ہاتھوں قتل ہونے والے گستاخانِ رسول کو قتل کرنے کے لئے آپ نے کھلی دعوت دی۔ محمد بن مسلمہ کو آپ نے خود کعب بن اشرف کے قتل کی مہم پر بھیجتے ہوئے اُن کے لیے اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا فرمائی ، ایسے ہی حضرت حسان بن ثابت کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ
''روح القدس کے ذریعے ان کی مدد فرما!''
جہاں تک سیرتِ نبوی کے اس پہلو کا تعلق ہے جس میں آپ نے اپنے دشمنوں کو معاف فرمایا، تو اس کی وضاحت یہ ہے :
1. اس سلسلے میں آپ کو شخصی اذیت دینے والے اور آپ کی رسالت پر زبان طعن دراز کرنے والوں میں فرق کرنا ہوگا۔ جن لوگوں نے آپ کی ذاتِ مبارکہ یعنی محمد بن عبد اللہ کو اذیت دی، تو آپ نے اپنی وسیع تر رحمت کی بنا پر ان کو معاف فرما دیا، لیکن جو لوگ آپ کے منصب ِرسالت پر حرف گیری کرتے تھے، اس کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے تھے، اُنہیں آپ نے معاف نہیں کیا کیونکہ منصب ِرسالت میں یہ گستاخی دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پر زبان درازی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں بیسیوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنا او راپنے رسول مکرم کا تذکرہ یکجا کیا ہے۔آپ کی ذات کے سلسلے میں زیادتی کی معافی بھی آپﷺ خود ہی دے سکتے ہیں، آپ کا کوئی اُمتی ایسا نہیں کرسکتا۔
2. تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو منصب ِنبوت میں نقب لگانے والے تھے، ان کا عبرت ناک انجام ہوا۔ ان لوگوں میں ابو لہب کے ذکر بد کے لئے ایک پوری سورت مخصوص کرکے اُسے نمونۂ عبرت بنادیا گیا، ابو جہل بدر میں مارا گیا، عاص بن وائل اور ولید بن مغیرہ، اَسود بن عبد یغوث، اَسود بن مطلب، حارث بن عبطل سہمی اور عاص بن وائل یہ تمام نام اس انجام کا مظہر ہیں جو اللہ ربّ العزت ایسے لوگوں کا کیا کرتے ہیں۔تفسیر در ِّ منثور میں مذکور ہے :
''[مذکورہ بالا] افراد نے نبی کریم کا استہزا کیا جس سے آپ رنجیدہ خاطر ہوئے۔ فوراً حضرت جبریلؑ تشریف لائے، اور ولید بن مغیرہ کی آنکھ کی طرف اشارہ کیا، اس کی آنکھ پھوٹ گئی،آپﷺ نے فرمایا: میں نے تو کچھ نہیں کیا اورنہ کچھ کہا تو جبریل بولے: میں نے آپ کی طرف سے انتقام لیا ہے۔ پھر حارث کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ وہ اپنا پیٹ پکڑے درد سےلوٹ پوٹ ہورہا ہے۔ آپ نے کہا : میں نے تو کچھ نہیں کیا،
تو جبریل بولے : میں نے آپ کا دفاع کیا ہے۔ ایسے ہی عاص بن وائل کے پاؤں کے ساتھ ہوا، اسود بن مطلب ایک درخت کے نیچے لیٹا تھا کہ ایک ٹہنی درخت سے گر کر اس کی آنکھ میں پیوست ہوگئی اور وہ اندھا ہوگیا۔ اسود بن یغوث کے سر میں شدید زخم نمودار ہوگیا جس سے وہ مارا گیا۔ اورحارث بن غیطل کے پیٹ میں صفرا اتنا شدید ہوگیا کہ غلاظت اس کے منہ سے خارج ہونے لگی اور اسی حال میں اس کی موت واقع ہوئی۔ یہ پانچوں اپنی قوم کے سردار تھے، نبی کریم ﷺکا مذاق اڑانے پر اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرمائی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا۔ ''
[دلائل النبوۃ از اصبہانی :1/63، طبرانی الاوسط، دلائل النبوۃ للبیہقی، درّمنثور: 5/101 (زیر آیت الحجر:95)]
جب طائف کی وادی پر محسن انسانیت ﷺکو پتھرمارے گئے اور آپ کے قدمِ مبارک سے خون جاری ہوگیا تو جبریل امینؑ نےآسمان سے نازل ہوکر کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ان پر میں طائف کے پہاڑوں کو اُلٹادوں۔جواب میں آپ نے تاریخ ساز جملہ بول کر اپنی رحمت للعالمینی کو ثابت کردیا: جعلوا يرجمونه بالحجارة، وهو يقول:«اللهم اهد قومي، فإنهم لا يعلمون»
'' طائف کے بدبختوں نے] آپ پر پتھراؤ شروع کردیا اور آپ جواب میں فرماتے جاتے: الٰہی ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما، یہ جانتے نہیں ہیں۔''
[تفسیر ابن كثير:ج 6/ ص 571]
انسانی تاریخ میں شاتمانِ رسالت کا کیسا عبرت ناک انجام ہوا، اس کےلئےدیکھئے مضمون: 'شاتمین رسول کا عبرت ناک انجام: تاریخ کے آئینے میں'
[فرائیڈے سپیشل بحوالہ کتابچہ 'قانونِ توہین رسالت کیوں ضروری ہے؟']
3. بعض آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مسلمان اس وقت خودایسے شاتمانِ رسالت کی سرکوبی کی قوت نہ رکھتے تھے، حتیٰ کہ بیت اللہ میں نماز سرعام پڑھنے سے بھی بعض اوقات گریز کرنا پڑتا تھا، سو اُس دور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس اذیت پر صبر وتحمل کی تلقین کی او رنبی کریمﷺ کو خود دلاسہ دیا کہ آپ کی شان میں دریدہ دہنی کرنے والے دراصل اللہ کی تکذیب کرتے ہیں
قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَيَحْزُنُكَ الَّذِيْ يَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ۰۰۳۳
اور وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَۙ۰۰۹۷
جنہیں اللہ ہی خوب کافی ہے
﴿إِنّا كَفَينـٰكَ المُستَهزِءينَ ٩٥﴾.... سورة الحجر
عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب پتہ چل جائے گا کہ کون مجنوں اور دیوانہ ہے؟
﴿فَسَتُبصِرُ وَيُبصِرونَ ٥ بِأَييِكُمُ المَفتونُ ٦ ﴾..... سورة ن
قرآنِ کریم میں صحابہ کو ایسے وقت صبر وتحمل کی ہدایت کی گئی:
﴿لَتُبلَوُنَّ فى أَموٰلِكُم وَأَنفُسِكُم وَلَتَسمَعُنَّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم وَمِنَ الَّذينَ أَشرَكوا أَذًى كَثيرًا وَإِن تَصبِروا وَتَتَّقوا فَإِنَّ ذٰلِكَ مِن عَزمِ الأُمورِ ١٨٦ ﴾.... سورة آل عمران
''البتہ ضرور تم اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں آزمائے جاؤگے اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے اذیت کی بہت سی باتیں سنو گے۔ اگر تم صبر کرو او راللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔''
سیدنا اُسامہ بن زید روایت کرتے ہیں کہ
«وکان رسول اللہ ﷺ یتأول في العفو ما أمرہ اللہ عزوجل به حتی أذن اللہ فیھم فلما غزا رسول اللہ ﷺ بدرًا فقتل اللہ بها من قتل من صنادید الکفار وَسَادَةِ قُرَيْشٍ»
''نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر ان کے بارے میں درگذر سے کام لیتے تھے حتیٰ کہ اللہ نے آپ کو ان کے بارے اجازت دے دی۔ پھر جب آپ نے غزوۂ بدر لڑا اور اللہ تعالیٰ نے اس غزوے میں قریش کے جن کافر سرداروں کو قتل کرنا تھا، قتل کرا دیا۔''
[صحيح بخاری: رقم 5739]
گستاخانِ رسول کو نظرانداز کرنے کا دور مدینہ منورہ کے ابتدائی سالوں تک رہا، اس دور کے بہت سے واقعات جن میں آپ کو رَاعِنَا وغیرہ کہنا بھی شامل ہیں، ان کی توجیہ بھی یہی ہے جیسا کہ حبر الامہ سیدنا ابن عباس [تفسیر ابن كثیر:1/ 383] میں فرماتے ہیں:
﴿فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ﴾ کا عفو و درگزر والا حکم آیت ﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ﴾....التوبة "سے منسوخ ہوا۔ «فنُسِخ ھذا عفوہ عن المشرکین» ''اس نے مشرکوں کے بارے میں آپ کی معافی کو منسوخ کردیا ہے۔'' (مختصراً)
ان نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں گستاخانِ رسول کی باقاعدہ سزا سے قبل اللہ تعالیٰ نے شاتمانِ رسالت کو خود کیفر کردار تک پہنچایا اور اس وقت تک مسلمانوں کو اس دشنام طرازی کا ردّعمل پیش کرنے کی اجازت نہ تھی۔ مزید برآں نبی کریمﷺ اپنی رحمت وشفقت کی بنا پر اپنا شخصی حق معاف توفرما سکتے تھے، لیکن شان رسالت میں زیادتی پر معافی کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں۔
شاتم رسول کی توبہ کا مسئلہ؟
اس سوال کے دو مختلف پس منظر ہیں او رہر دو کی وضاحت بھی علیحدہ ہے:
(1) اُصولی طورپر شاتم رسول کی توبہ کے بارے میں یہ واضح رہنا چاہئے کہ شتم رسول صرف ایک گناہ ہی نہیں بلکہ شریعت کی رو سے ایک قابل سزا جرم بھی ہے۔ اس بنا پر دیگر جرائم کی طرح جب اس کا علم عوام تک ہوجائے، مسلم حکمران اور اسلامی عدالت تک پہنچ جائے تو دیگر جرائم کی طرح اس کی سزا کی معافی نہیں ہوسکتی۔جیسا کہ چوری ایک گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ جرم بھی ہے یعنی دنیا میں ا س فعل کے ارتکاب پر مسلم حکومت اس کی سزا دینے کی پابند ہے۔چوری کے بارے میں مشہور واقعہ کتب ِاحادیث میں آتاہے :
«عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ أَنَّ رَجُلًا سَرَقَ بُرْدَةً فَرَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ قَدْ تَجَاوَزْتُ عَنْهُ قَالَ: فَلَوْلَا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ يَا أَبَا وَهْبٍ فَقَطَعَهُ رَسُولُ الله ﷺ»
''صفوان بن اُمیہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے چادر چوری کی تو اس کا کیس نبی کریمﷺ تک پہنچایا گیا، آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ شکایت کنندہ نے کہا : میں نے اس کو معاف کردیا تو آپ نے فرمایا: ابو وہب ! میرے پاس آنے سے پہلے پہلے تو نے اسے معاف کیوں نہ کردیا۔ سو رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔''
[سنن نسائی: 4796]
اسلام میں جرائم کے حوالے سے دو طرح کےحقوق میں خلل واقع ہوتا ہے: پہلا حق اللہ اور دوسرا حق العباد۔ یعنی ان جرائم کو اللہ نے بھی حرام قرار دیا ہے اور انسانوں کے مصالح بھی اس سے متاثرہوتے ہیں۔ چوری اور زنا کی طرح شتم رسول کے مسئلے میں بھی حق اللہ کے علاوہ حقوق العباد میں نبی کریمﷺ کا حق شدید متاثر ہوتاہے او رعامتہ المسلمین کا حق بھی،جنہیں نبی کریم سے غایت درجہ محبت کی بنا پر اس فعل پر شدید تکلیف ہوتی ہے۔
جہاں تک توبہ کی قبولیت کی بات ہے تو جب تک یہ معاملہ اللہ اور بندے کے مابین ہوتا ہے، اس وقت تک اللہ کے حق کی تکمیل خلوصِ دل سے توبہ کرنے کے ذریعے ہوسکتی ہے، ایسے ہی متاثر ہ فریق جس کے حق میں زیادتی کی گئی ہے، اگر وہ چوری کی صورت میں قاضی کے پاس پہنچنے سے قبل معاف کردے تو تب بھی مجرم کی سزا معاف ہوسکتی ہے۔ البتہ جب یہ معاملہ عوام الناس اور حاکم وقاضی کے پاس پہنچ جائے ، تو اس وقت مسلم حکام پر برائی کی نشرواشاعت کے خاتمہ اور نفاذِ شرع کی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے اس کی وضاحت ہوچکی ہے۔ تاہم جرائم کے اس سلسلے میں قتل کا معاملہ دیگر جرائم سے مختلف ہے ،کیونکہ کسی نفس کوقتل کردیا جانا ایک بہت ہی اہمیت والا مسئلہ ہے۔ اس بنا پر حدود یا جرائم سے قطع نظر قصاص کی صورت میں جواباً قتل کی سزا کی معافی کا اختیاربھی حاکم کے پاس پہنچ جانے کے باوجود متاثرہ فریق کے پاس رہتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَمَن قُتِلَ مَظلومًا فَقَد جَعَلنا لِوَلِيِّهِ سُلطـٰنًا فَلا يُسرِف فِى القَتلِ إِنَّهُ كانَ مَنصورًا ٣٣ ﴾.... سورة الاسراء
''اور جو انسان ناحق قتل کردیا جائے تو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اُس کی مدد کی جائے گی۔''
دوسرے مقام پر قرآن کریم میں ہے:
﴿فَمَن عُفِىَ لَهُ مِن أَخيهِ شَىءٌ فَاتِّباعٌ بِالمَعروفِ وَأَداءٌ إِلَيهِ بِإِحسـٰنٍ ذٰلِكَ تَخفيفٌ مِن رَبِّكُم وَرَحمَةٌ....١٧٨ ﴾.... سورة البقرة
''اور جو شخص اپنے بھائی کی طرف سے معاف کردیا گیا،تومعروف طریقہ سے دیت کا تصفیہ ہونا چاہئے اور قاتل کو چاہئے کہ راستی کے ساتھ ادائیگی کرے۔یہ تمہارے ربّ کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔''
واضح ہوا کہ اسلام میں جرائم کی توبہ کے دو پہلو ہیں: اللہ کا حق اور بندوں کا حق۔ مسلمان کی مخلصانہ توبہ سے اللہ کاحق تو ختم ہوجاتا ہے،لیکن متاثرہ فریق اور بعض اوقات مسلم معاشرے کا حق برقرار رہتا ہے، جس بنا پر اس کو دنیاوی سزا دی جاتی ہے۔ اگر محض توبہ کرنے سے اسلام میں سزا معاف ہوجاتی تو اس توبہ کا سب سے زیادہ حق ان صحابہ کرام کو حاصل تھا جنہوں نے گناہ کی سرزدگی کے بعد اپنے آپ کو پاک صاف کرنے کے لئے حضور ﷺ کے دربارِ رسالت میں پیش کردیا تھا۔ دورِ رسالت میں ایسے واقعات جن میں زنا اور چوری کے مرتکب صحابہ نے اپنے آپ کو خود پیش کیا، ان کی تعداد درجن سے زائد ہے۔ اور اُنہی میں سے ایک صحابیہ غامدیہ کے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ آپ نے اس صحابیہ کو بار بار واپس بھیجا کہ
٭ کیا تمہیں دیوانگی تو لاحق نہیں ہے؟
٭ وضع حمل کے بعدآنا: «فاذهبي حتى تلدي فلما ولدت أتته بالصبي في خرقة»
٭ پھر وہ صحابیہ وضع حمل کے بعد آئی تو کہا : بچے کی رضاعت کے بعد آنا
٭ تب وہ صحابیہ آئیں اور بچے کےہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا۔ (صحیح مسلم:1695)
اگر محض توبہ سے شریعت ِاسلامیہ کے بیان کردہ جرائم کی سزا ختم ہوجاتی تو اس صحابیہ کی ختم ہونا چاہئے تھی جن کے بارے میں نبی کریم نے تعریفی جملہ ارشاد فرمایا تھا۔ ایک اورروایت میں مختصر واقعہ اور تعریفی جملہ یوں بیان ہوا ہے:
«امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَتْ نَبِيَّ اللہ ﷺ وَهِيَ حُبْلَى مِنْ الزِّنَى فَقَالَتْ يَا نَبِيَّ اللہِ أصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ فَدَعَا نَبِيُّ اللہِ ﷺ وَلِيَّهَا فَقَالَ أَحْسِنْ إِلَيْهَا فَإِذَا وَضَعَتْ فَأْتِنِي بِهَا فَفَعَلَ فَأَمَرَ بِهَا نَبِيُّ اللہِ ﷺ فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا فَقَالَ لَهُ عُمَرُ تُصَلِّي عَلَيْهَا يَا نَبِيَّ اللهِ وَقَدْ زَنَتْ فَقَالَ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ وَهَلْ وَجَدْتَ تَوْبَةً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا للہِ تَعَالَى»
''جہینہ قبیلہ کی ایک عورت نبی کریمﷺ کے پاس آئی اور وہ زنا کی بنا پر حاملہ تھی۔کہنے لگی: یارسول اللہ! مجھ پر حد لگا دیجئے، میں نے شرعی حد کو پامال کیا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اس کے سرپرست کو بلایا او رکہا کہ اس سے اچھا سلوک کرنا اور وضع حمل کے بعد میرے پاس لے آنا۔ اس نے ایسے ہی کیا، تب نبی کریم نے اس کے بارے میں حکم دیا، اس کے کپڑے باندھ دیے گئے پھر اس کو رجم کردیا گیا۔ نبی کریم نے اس عورت کی دعائے مغفرت کی۔ سیدنا عمر کہنے لگے: آپ اس کی دعاے مغفرت کیوں کرتے ہیں، حالانکہ وہ تو زانیہ تھی۔ سید المرسلین نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے جو اگر ستر اہل مدینہ پر بھی تقسیم کردی جائے تو ان کو بھی کافی ہوجائے۔ اس سے بہتر توبہ کیا ہوگی جس میں اس نے اپنے آپ کو خود ربّ کے حضور پیش کردیا۔''
[صحيح مسلم رقم: 3209، ج 9/ص 70]
دورِ نبوی میں ایسے واقعات صرف زنا کے بارے میں نہیں بلکہ چوری وغیرہ کے بارے میں بھی ملتے ہیں۔ ان اعترافات کے پیچھے دراصل شریعت ِاسلامیہ کا یہ تصور موجود ہے:
«قَالَ مَنْ أَصَابَ حَدًّا فَعُجِّلَ عُقُوبَتُهُ فِي الدُّنْيَا فَالله أَعْدَلُ مِنْ أَنْ يُثَنِّيَ عَلَى عَبْدِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الْآخِرَةِ وَمَنْ أَصَابَ حَدًّا فَسَتَرَهُ الله عَلَيْهِ وَعَفَا عَنْهُ فَالله أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يَعُودَ إِلَى شَيْءٍ قَدْ عَفَا عَنْهُ»
نبی کریم ﷺ کا فرما ن مروی ہے کہ جس شخص نے حد والے جرم کا ارتکاب کیا، اور اسے دنیا میں ہی اس کی سزادے دی گئی تو اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ عادل ہیں کہ اس شخص پر آخرت میں سزا کو دوبارہ عائد کریں۔اور جس شخص نے حد والے جرم کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ کو چھپائے رکھا او راسے معاف کردیا تو اللہ اس سے کہیں زیادہ کریم ہیں کہ معاف کردہ جرم کی پھر سزا دیں۔''
[جامع ترمذی: 2550]
ان شرعی تصورات کو ملایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بیان کردہ جرائم کی سزا محض توبہ،حتیٰ کہ خود اعترافِ جرم کرلینے اور اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کردینے سے بھی رفع نہیں ہوجاتی۔ تاہم اگر کوئی انسان دنیا میں یہ سزا پالے تو قیامت کے روز یہ سزا اس کے لئے جرم سے کفارہ بن جاتی ہے۔ اور یہ بھی اس حالت میں جب اس سزا کے ملنے پر وہ نادم ہو۔ اگر وہ نادم نہیں تو دنیا میں ملنے والی سزاکے باوجود آخرت میں بھی اس پر مزید سزا دی جائے گی۔ ان حالات میں کسی مجرم کا اپنے آپ کو خود سزا کیلئے پیش کرنا ایک قابل قدر ، قابل تعریف اورعزیمت والا فعل ہے جس کی تعریف خود زبانِ رسالت سے بیان ہوئی ہے۔
توہین رسالت دیگر جرائم کی طرح ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا مل کررہے گی۔ مذکورہ بالا استدلال کے علاوہ شاتم رسو ل کی توبہ قبول نہ ہونے کی براہِ راست دلیل حدیث ِنبوی میں درج وہ مشہور واقعہ بھی ہے جس میں شاتم رسول عبد اللہ بن ابی سرح کی توبہ کا مسئلہ پیش آیا۔ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا یہ ہے:
«أَمَّا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ فَإِنَّهُ اخْتَبَأَ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَلَمَّا دَعَا رَسُولُ اللهِ ﷺ النَّاسَ إِلَى الْبَيْعَةِ جَاءَ بِهِ حَتَّى أَوْقَفَهُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ بَايِعْ عَبْدَ اللهِ قَالَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَأْبَى فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ فَقَالُوا وَمَا يُدْرِينَا يَا رَسُولَ اللهِ مَا فِي نَفْسِكَ هَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ قَالَ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ أَعْيُنٍ»
''جہاں تک عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کی بات ہے تو اس نے سیدنا عثمان بن عفان کے ہاں پناہ لےلی او رجب نبی کریم ﷺنے لوگوں کو بیعت کے لئے دعوت دی تو عثمان اس کو بھی ساتھ لے آئے۔ حتی ٰ کہ اس کو نبی کریم کے پاس لا کھڑا کیا اور کہنے لگے: یارسول اللہ! عبد اللہ کی بیعت قبو ل کر لیجئے۔ راوئ حدیث کہتے ہیں کہ آپﷺ نے سرمبارک بلند کیا اور تین بار اس کی جانب دیکھا، ہر بار آپ بیعت سے انکار کرتے رہے۔ آخر کار تیسری بار کے بعد آپ نے بیعت لے لی۔ پھر آپ ﷺ صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم میں کوئی عقل مند آدمی نہیں تھا ؟ جو عبد اللہ کو قتل کردیتا جب وہ مجھے دیکھ رہا تھا کہ میں نے اس کی بیعت کرنے سے اپنے ہاتھ کو روک رکھا ہے۔ صحابہ نے جواب دیا کہ یارسول اللہ ! ہمیں پتہ نہ چل سکا کہ آپ کے جی میں کیا ہے؟آپ ہمیں اپنی آنکھ سے ہی اشارہ فرما دیتے۔تو آپﷺ نے کہا: کسی نبی کے یہ لائق نہیں کہ وہ کن انکھیوں سے اشارے کرے۔''
[سنن نسائی رقم:3999، ج 12/ ص 427]
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے جرم سے معافی کی سزا اسی وقت مل سکتی ہے جب نبی کریم ﷺ خود اپنے حق میں زیادتی کو معاف فرما دیں جیسا کہ مذکورہ بالا واقعات ميں بادلِ نخواستہ آپ نے عبد اللہ بن ا بی سرح کی توبہ کو منظور کرلیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد چونکہ اَب آپ کی ذات کی طرف سے یہ معافی دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا ، اس لئے گستاخِ رسول کی سزا بھی معاف نہیں کی جاسکتی۔ بہر حال یہ بعض اہل علم کا قول ہے، تاہم توہین رسالت میں اگر مسلمانوں کی حق تلفی کو بھی شامل کیا جائے جو بہت اہم پہلو ہے، تو اس کی سزا کی معافی کا کوئی اِمکان نہیں رہتا۔
٭ یاد رہے کہ مختلف احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ توہین رسالت کے مجرمین سے توبہ کا مطالبہ کبھی نہیں کیا گیا اور ان کا جرم اتنا سنگین ہے کہ فتح مکہ کےموقع پر عام معافی کے دن اور امن و امان کے مرکز مسجد ِحرام میں بھی آپﷺ نے ان کی سزا میں کوئی رعایت نہیں کی ۔ جب آپﷺ نے تمام لوگوں کو امن وامان دے دی تو اس دن بھی گستاخانِ رسول کو امان نہ دی:
«لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ أَمَّنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ النَّاسَ إِلَّا أَرْبَعَةَ نَفَرٍ وَامْرَأَتَيْنِ وَقَالَ اقْتُلُوهُمْ وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ عِكْرِمَةُ بْنُ أَبِي جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَطَلٍ وَمَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي السَّرْحِ فَأَمَّا عَبْدُ اللہِ بْنُ خَطَلٍ فَأُدْرِكَ وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ»
'' فتح مکہ کے روز نبی کریمﷺ نے تمام لوگوں کو امان دے دی، سوائے چار مردوں اور دو عورتوں کے ۔ فرمایا: ان کو قتل کردو، اگرچہ تم اُنہیں کعبہ کے پردوں سے لٹکے ہوئے بھی پالو۔ ان میں ایک عکرمہ بن ابو جہل تھا، دوسرا عبد اللہ بن خطل، تیسرا مقیس بن صبابہ اور چوتھا عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح۔ عبد اللہ بن خطل کو تو اس حال میں قتل کیا گیا جبکہ وہ کعبہ کے غلاف سے لپٹا ہوا تھا۔'' حدیث میں آگے باقی لوگوں کی سزا کا تذکرہ ہے۔
[سنن نسائی: 3999]
٭توہین رسالت کو فقہاے کرام نے ارتداد قراردیتے ہوئے اس کی سزا قتل بیان کی ہے۔ اس سے یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہئے کہ ارتداد کےتمام احکام مثلاً توبہ اور معافی وغیرہ بھی اس پر لاگو ہیں۔ بلکہ توہین رسالت کی ارتداد سے جزوی مشابہت پائی جاتی ہے اور فقہا نے سزائے قتل کی توجیہ کے طور پر اسے ارتداد قرار دیا ہے۔ وگرنہ اِرتداد ایک ایسا گناہ اور جرم ہے جس کی بغیر سزا کے بھی توبہ ہوسکتی ہے ۔ جبکہ توہین رسالت ارتداد سے زیادہ بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے جس کی چوری اور زنا وغیرہ کی طرف سزا معاف نہیں کی جاسکتی۔
توہین رسالت کے ارتداد سے بڑا جرم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ارتداد میں تو صرف اسلام سے خروج پایا جاتا ہے، جبکہ توہین رسالت میں نبی اسلامﷺ پر جارحیت کرتے ہوئے اسلام سے خروج کیا جاتا ہے۔ اور اس میں آپ کے خلاف پروپیگنڈا اور زبان درازی بھی شامل ہے۔ چنانچہ خروج کی حد تک توہین رسالت کا جرم ارتداد ہے جبکہ مزید زیادتیوں کی بنا پر ایک قابل سزا جرم ہے جو صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ محدث کے گذشتہ شمارے میں توہین رسالت کےقابل سزا جرم ہونے کے بارے میں مسالک اربعہ کے ممتاز فقہا کے اقتباسات شائع کئے گئے تھے۔
٭پاکستان یا عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کے موجودہ حالات میں توہین رسالت کے جرم کا اگر دینی مصالح کے لحاظ سے بھی جائزہ لیا جائے تو اس کو کسی طورقابل توبہ نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ مسلمانوں کے اس دورِ زوال میں ہر کہ ومہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہونے کے بعد ، بظاہر توبہ کا داعی بن بیٹھے گا، حالانکہ توبہ کی اس کی کوئی خالص نیت نہ ہوگی۔ اس سے رحمۃ للعالمین کا تقدس اور ناموس دشمنوں کے ہاتھ میں کھیل بن جائے گی۔یہ دور اس لحاظ سے بڑا دردناک ہے کہ اس میں غیر مسلموں نے اہانت ِرسول کو ایک کھیل اور مشغلہ بنا رکھا ہے، میڈیا کے اس دور میں تاریخ کی سب سے بڑی اور وسیع اہانت کا ارتکاب کیا جارہا ہے، جو مسلسل بھی ہے اور تنوع پذیر بھی۔ حتی کہ مسلم ممالک کے حکمران بلادِ اسلامیہ میں ایسا ظلم کرنے والوں کا ناطقہ بند کرنے کی بجائے ان کو فوری طورپر کفار کے محفوظ ہاتھوں میں پہنچانے کی جلدی کرتے ہیں۔ اور پاکستان میں تو صورتحال یہاں تک افسوس ناک ہے کہ ایسے شاتم رسول افراد اور ان کے گھرانے عیسائی کمیونٹی او رمغرب نواز این جی اوز کی طرف سے سپانسر کئے جاتے اور خصوصی اعزاز وپروٹو کول کے مزے اُڑاتے پھرتے ہیں۔ یہ افسوس ناک صورتحال کسی باخبر شخص سے مخفی نہیں ہیں۔ ان حالات میں شریعت ِاسلامیہ کے اس حکم کی معنویت بالکل واضح بلکہ انتہائی ضروری نظر آتی ہے۔
(2) توہین رسالت کی توبہ کا دوسرا پہلو، اسلام سے قطع نظر، خالص جرم وسزا کےقانونی پہلو سے متعلق ہے۔ پاکستان میں توہین رسالت ایک طے شدہ جرم ہے جس کے جرم قرار پانے کے تمام قانونی ضابطے بالکل مکمل ہیں۔کیا پاکستان کے مجموعہ تعزیرات میں کوئی اور بھی ایسے قوانین ہیں جن کی توبہ کی بنا پر ان کی سزاساقط ہوجاتی ہے۔ کیا پاکستان میں چوری یا فراڈ یا دہشت گردی کرنے کے بعد کوئی مجرم اگر توبہ کرلے تو اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے؟ اگر یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے تو پھر کیا توہین رسالت ہی ایسا ہلکا جرم ہے جسے ایک مستند قانون ہوتے ہوئے بھی قابل توبہ قرار دینے کی سعی کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر نے آسیہ مسیح سے 20 نومبر کو شیخوپورہ میں اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ہمراہ ملاقات میں یہی قرار دیا تھا کہ ''آسیہ مسیح بے گنا ہ ہے۔ اگر اس نے کوئی کوتاہی کی بھی ہے تو وہ اب توبہ کرچکی اور معافی کی طالب ہے۔''
کیا توہین رسالت کی سزا غیر مسلم کو بھی دی جائے گی؟
میڈیا میں یہ سوال بھی تکرار سے اُٹھایا جاتا رہا ہے کہ اگر یہ اسلامی قانون ہے تو پھر اس کو صرف مسلمانوں پر ہی نافذ ہونا چاہئے۔ غیرمسلم اور مسیحیوں پر اس قانون کے نفاذ کا کیا مطلب ہے؟ اس سوال کے بھی دو مختلف تناظر میں دو علیحدہ جوابات ہیں:
(1) اسلامی پہلو سے:
1. یہ بات درست ہے کہ یہ اسلامی قانون ہے، لیکن اسلام کا یہ قانون، مسلمانوں سمیت تمام غیرمسلموں کو شامل ہے۔ اسلام کی رو سے جو شخص بھی توہین رسالت کا مرتکب ہو، اس کویہ سزا دی جائے گی۔ جیسا کہ
1. نبی کریم ﷺ نے خود کعب بن اشرف یہودی کو اپنی نگرانی میں قتل کرایا۔
2. ابو رافع سلام بن الحقیق یہودی کو اپنے حکم سےقتل کرایا۔ آپ نے عبد اللہ بن عتیک کو اس یہودی کو قتل کرنے کی مہم پر مامور کیا۔
[صحیح بخاری: 4039]
3. حضرت زبیر کوآپ ﷺنے ایک مشرک شاتم رسول کو قتل کرنے بھیجا۔
4. عمیر بن اُمیہ نے اپنی گستاخِ رسول مشرک بہن کو قتل کیا اور آپ نے اس مشرکہ کا خون رائیگاں قرار دیا۔
5. بنوخطمہ کی گستاخ عورت عصما بنت ِمروان کو عمیر بن عدی خطمی نے قتل کردیا اور نبی کریمﷺ نے اس فعل پر عمیر بن عدی کی تحسین کی۔
6. دورِ نبوی میں ایک یہودیہ نبی کریم ﷺکو دشنام کیا کرتی اورگستاخی کرتی تھی۔ ایک مسلمان نے گلا گھونٹ کر اس کو قتل کردیا تو آپ نے اُس کا خون رائیگاں قرار دیا۔
[سنن ابو داود: 4262، السنن الکبریٰ للبیہقی: 7/60]
7. سیدنا عمر بن خطاب نے اپنے دورِ خلافت میں بحرین کے بشپ کی گستاخی پر اس کے قتل پر اظہارِ اطمینان کیا۔
8. مکہ مکرمہ اور مدینہ کے ابتدائی سالوں میں دشنام طرازی کرنے والے مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے خود نشانِ عبرت بنا کر موت سےہم کنار کیا۔
ان تمام صورتوں میں کسی کے ذہن میں یہ شبہ تک نہیں اُبھراکہ اسلام کی رو سے غیر مسلموں کو توہین رسالت پر قتل کرنا درست نہیں، تاآنکہ مملکت ِاسلامیہ پاکستان کےمغرب زدہ دانشوروں کی عقل ومنطق کو یہ بات کھٹکی اور اُنہوں نے اس کے لئے حیلے بہانے تراشنے شروع کردیے۔شریعت کے اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ
2. اسلام ، جو اللہ کا آخری اور مکمل دین ہے، اپنے بھرپور استحقاق کے باوجود اپنے ماننے والوں کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ غیر مسلموں کے معبودوں اوران کی عبادت گاہوں کو مسمار کریں۔ اسلام کا یہ اُصول اس آیت ِکریمہ میں موجود ہے:
﴿وَلا تَسُبُّوا الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدوًا بِغَيرِ عِلمٍ..... ١٠٨ ﴾.... سورة الانعام
''اور تم اُن معبودوں کو جنہیں یہ لوگ اللہ کے ماسوا عبادت کے لئے پکارتے ہیں، گالی مت دو۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ جواباً غصے میں اللہ تعالیٰ کو بغیر علم کے گالیاں بکیں گے۔''
جب اسلام اس ضابطہ اخلاق کو اپنے ماننے والوں پر عائد کرتا ہے تو پھر اسلام اس کا حق رکھتا ہے کہ دیگر مذاہبِ باطلہ کے لوگ بھی اسلام کی مقدس شخصیات اور مقامات وشعائر کا پورا احترام کریں۔
3. اسلام نے صرف اس کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ مذاہب ِسماویہ کی مقدس شخصیات کی توہین پر سنگین سزا بھی عائد کی۔توہین رسالت کے بارے میں یہ شرعی حکم صرف رسالت مآب ﷺ کے لئے نہیں بلکہ تما م سابقہ انبیائے کرام کی توہین کے لئے بھی یہی سزا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب کا فرمان ہے:
«من سبّ الله أو سبّ أحدًا من الأنبياء فاقتلوه»
''جو کوئی اللہ کو گالی دے، یا انبیا کو گالی دے، تو اس کو قتل کردیا جائے۔''
[كنز العمال: 335465 ، الصارم المسلول:201]
4. اسلام ایک الہامی شریعت کے ساتھ ساتھ ایک کامل نظریۂ حیات بھی ہے، جس میں سیکولرزم کی طرح پرائیویٹ اور پبلک کی کوئی تقسیم نہیں ہے، نہ ہی دین ودنیا کی کوئی تقسیم موجود ہے۔ چنانچہ اسلام کے سیاسی نظم کا تقاضا یہ ہے کہ دار الاسلام میں اسلامی قوانین کی پاسداری کی جائے۔اگر دار الاسلام میں غیرمسلم لوگ چوری کریں تو ان پر اسلام کا قانونِ سرقہ یعنی قطع ید کو نافذ کیا جائے گا، جیسا کہ موسوعۃ الاجماع میں ہے:
«إن إجماع المسلمین علی أن المسلم تقطع یدہ إذا سرق مالاً لمسلم ولغیرمسلم، وعلى أن غیر المسلم یقطع بسرقة مال المسلم ومال غیرالمسلم»
''اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے کہ ایسے مسلمان شخص کا ہاتھ کاٹا جائے گا جو کسی دوسرے مسلمان یا غیر مسلم کا مال چوری کرے۔ اسی طرح ایسے غیر مسلم شخص کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا جو کسی مسلمان یا غیر مسلم کا مال چوری کرے۔''
[موسوعة الإجماع في الفقه الإسلامي: 1/342]
جیسے کہ پیچھے گزر چکا ہے کہ توہین رسالت ایک قابل سزا جرم اور اسلام کا پبلک قانون ہے جس کی پابندی اسلامی ریاست کے تمام شہریوں کو کرنا ہوگی۔دارالاسلام میں ذمی حضرات اسی صورت میں رہ سکتے ہیں جب وہ ریاستی قانون کی پابندی کریں گے۔ بصورتِ دیگر ذمی حضرات کا عہد اورامان نامہ ٹوٹ جائے گا۔دورِ نبوی میں مدینہ منورہ میں کعب بن اشرف، بنوخطمہ کی گستاخ عورت اورابو رافع سلام بن الحقیق وغیرہ کے گستاخی رسول پر قتل کے رائیگاں جانے کی شرعی اساس یہی ہے۔
5. اسلام کی رو سے نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد تمام انسان، آپ کی اُمت کا حصہ ہیں۔ چاہے وہ آپ کی دعوت کو قبول کرکے اُمت ِاجابت کی سعادت حاصل کریں یا قبول نہ کرکے اُمت ِدعوت کی حیثیت پر برقرار رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو کائنات کے لئے رحمت للعالمین اور انسانیت کا محسن ومعلم بنا کر بھیجا ہے حتیٰ کہ آپ کی یہ فضیلت اور امامت سابقہ تمام انبیا پر بھی حاوی ہے۔ چنانچہ سورۃ النساء میں کفار اور عاصیوں کو نبی کریم ﷺکی اُمت قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَكَيفَ إِذا جِئنا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهيدٍ وَجِئنا بِكَ عَلىٰ هـٰؤُلاءِ شَهيدًا ٤١ يَومَئِذٍ يَوَدُّ الَّذينَ كَفَروا وَعَصَوُا الرَّسولَ لَو تُسَوّىٰ بِهِمُ الأَرضُ وَلا يَكتُمونَ اللَّهَ حَديثًا ٤٢ ﴾..... سورة الانعام
'' پھر سوچو کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اِن لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد ﷺ کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔ اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے کفر کیا اور رسول کے نافرمان رہے، تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں وہاں یہ اپنی کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکیں گے۔''
اس آیت ِمبارکہ میں کفار اور عاصیانِ رسول کو بھی آپ ﷺکی اُمت قرار دیا گیا ہے، جنہیں شرعی اصطلاح میں 'اُمت ِدعوت' کہا جاتاہے۔اس اُمت پر بھی اسلام کی رو سے آپ کا حق احترام واجب ہوتا ہے۔ایک اور مقام پر بھی قرآنِ کریم میں ہے :
﴿وَما أَرسَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرًا وَنَذيرًا وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ٢٨ ﴾.... سورة سبا
6. آزادئ اظہار کا جدید تصوربھی ، انسانی آزادی اور اظہارِ رائے کے حق کو اُس حد تک محدود کرتا ہے جہاں اس سے کوئی دوسرا متاثر نہ ہو۔ آزادیٔ اظہار کی یہ حد بندی صرف ایک مسلمہ حقیقت نہیں بلکہ یورپی کنونشن کا چارٹر اس کو قانونی حیثیت بھی عطا کرتا ہے۔ جس کی رو سے
''آزادیٔ خیالات کے ان حقوق پر معاشرے میں موجود قوانین کے دائرہ کار کے اندر ہی عمل کیا جاسکتا ہے، تاکہ یہ آزادیاں کسی دوسرے فرد یاکمیونٹی کے تحفظ،امن وامان اور دیگر افراد یا کمیونٹی کے حقوق اور آزادیوں کو سلب کرنے کا ذریعہ نہ بنیں۔'' (مجریہ ١٩٥٠،روم)
یوں بھی یہ مطالبہ ہی ایک مہذب معاشرے میں کراہت آمیز ہے کہ انسانیت کی مسلمہ مقدس اور محسن شخصیتﷺ کے تقدس کو پامال کرنے کو انسانی حق قرار دیا جائے۔ آپﷺ کی توہین سے پوری دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یعنی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل شکنی اور دل آزاری ہوتی ہے۔انسانی حقوق کے ایسے تصور جن سےایسے رویے استدلال لیتے
ہیں، اس قابل ہیں کہ اُنہیں قوت سے کنٹرول کرکےمسلمہ تہذیب وآداب کا مقید بنایا جائے ۔
(2) جدید قانون کی رو سے: نیشنل [وطنی] ریاست کے نقطہ نظر سے جس پر اس وقت دنیا بھر کی تمام ریاستیں قائم ہوئیں اور کاربند ہیں، یہ مسئلہ تو بڑا ہی سادہ ہے کہ کیا توہین رسالت کا پاکستانی قانون پاکستان کے غیرمسلم شہریوں پر لاگو کیا جائے گا؟
توہین رسالت کا قانون پاکستان کا 'لاء آف لینڈ' ہے جس کے قانونی ہونے کے تمام سیاسی مطالبے مثلاً پارلیمنٹ کی توثیق ومنظوری اور عدالتی تقاضے بخیر وخوبی پورے کئے گئے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ یہ قانون آخر کار 1992ء میں پاکستانی پارلیمنٹ کی منظوری کی بنا پر نافذ العمل ہے، کیونکہ جہاں تک وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا تعلق ہے جس میں 30/اکتوبر 1991ء کی تاریخ دی گئی تھی، اس میں سزائے قید کے خاتمے کے ساتھ اس سزاے موت کو تمام انبیا کی توہین تک وسیع کرنے کی بات بھی کی گئی تھی۔ لیکن جب قومی اسمبلی اور سینٹ میں یہ معاملہ دوبارہ 1992ء میں پیش ہوا تو تمام انبیا کی توہین پر سزاے موت کی شق کو ختم کردیا گیا اور آج پاکستان میں یہی قانون نافذ ہے جو تمام تر ارتقاکے بعد آخرکار پارلیمنٹ کی طرف سے اسی صورت میں منظور ہوا ہے کہ اس میں صرف نبی کریمﷺ کی توہین وگستاخی پر سزاے موت کی سزا کا تعین کیا گیا ہے۔
٭ یہاں موضوع سے قطع نظر ایک اور وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ 1992ء میں بینظیر بھٹو کا اس قانون کےبارے میں کردار کیا تھا؟ جیسا کہ راقم اپنے سابقہ مضمون میں واضح کرچکا ہے کہ بینظیر اس قانون کی سخت مخالف تھیں اور اسے پاکستان کے لئے بدنامی کا سبب قرار دیتی تھی، ان کا تفصیلی بیان اور ردّ عمل اُس مضمون میں مذکور ہے۔ موجودہ پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب 'چاہ ِیوسف سے صدا'میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ بینظیر بھٹو بھی اس قانون کی مؤید تھیں، حالانکہ یہ بات تاریخی طورپر حقائق کے منافی ہے۔ بینظیر بھٹو نے اس اپنے مراسلے میں دراصل اس موقف کی حمایت کی تھی جو 1986ء میں ضیا حکومت کے وزیر قانون اقبال احمد خاں کا تھا اور جس کی مخالفت وفاقی شرعی عدالت نے اپنی ڈیڈ لائن 30/اکتوبر1991ء کے ذریعے کی۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ قرار دیا کہ اگر حکومت نے قانون توہین رسالت کی سزا سے سزاے قید کا خاتمہ نہ کیا تو 30/اکتوبر 1991ء تک یہ سزا ے قید ختم ہوکر از خود صرف سزاے موت رہ جائے گی۔ بینظیر بھٹو نے اس وقت اپنا مراسلہ لکھ کر، سزاے قید کو برقرار رکھنے کی حمایت کی تھی۔یہ ہے بینظیر بھٹو کی حمایت کی وہ حقیقت جس کا ڈھنڈورا آج پیپلز پارٹی کے عہدیداران بشمول وزیر اعظم پاکستان پیٹتے پھرتے ہیں۔
٭جہاں تک نواز حکومت کی 1992ء میں اسمبلی سے منظوری او رتائید کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مجاہدِ ناموس رسالت محمد اسمٰعیل قریشی بتاتے ہیں کہ نواز شریف کو ان کے والد محترم میاں محمد شریف سے ملاقات کرکے، اس قانون کی حمایت پر نہ صرف آمادہ کیا گیا تھا، بلکہ ان کے والدصاحب نے اس قانون کے خلاف اپیل پر اُنہیں ڈانٹ پلائی تھی۔ بعد میں جب یہ پدرانہ دباؤ نہ رہا تو اسی نواز حکومت نے 1998ء میں اس قانون کے قابل عمل ہونے کے راستے میں سنگین رکاوٹیں کھڑی کردیں جس کی تفصیل میرے سابقہ مضمون میں گزر چکی ہے۔یہ نواز حکومت ہی تھی جس نے 1994ء میں سلامت اور رحمت مسیح کو چندگھنٹوں میں جرمنی کے سفر پر روانہ کردیا تھا۔
ان واقعاتی وضاحتوں اور حقائق کی درستگی سے قطع نظربہرحال توہین رسالت پاکستان کا منظور شدہ قانون ہے جو بلاامتیاز نہ صرف پاکستان کے تمام شہریوں بلکہ پاکستان میں آنے والے مسافروں اور زائرین پر بھی عائد ہوتا ہے، جیساکہ لاہور میں دوہرے قتل کے امریکی مجرم ریمونڈ ڈیوس کا فیصلہ بھی پاکستانی قانون کی روشنی میں کیا جائے گا۔ اس میں مذہبی حوالے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ پاکستان کا پبلک لاء ہے جو پاکستان کی دھرتی پر نافذ ہے۔
٭جس طرح پاکستانی تارکین وطن پر جرمنی یا امریکہ کا قانون ان ممالک میں رہتے ہوئے نافذ ہوتاہے ، اسی طرح پاکستان کا قانونِ دہشت گردی پاکستان میں قیام پذیر لیکن دنیا بھر کے شہریوں پر نافذ ہوتا ہے۔ یادش بخیر، ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر افغانستان کی بگرام ائیربیس میں ہونے والے ایک واقعہ کا مقدمہ امریکی عدالت میں کیوں چلایا جارہا ہے؟ جبکہ عافیہ صدیقی پر ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے یاتو پاکستان میں پاکستانی قانون او رعدلیہ کے تحت کیس چلنا چاہئے یا افغانستان میں وقوعہ ہونے کی بنا پر افغانستان میں کیس چلنا چاہئے۔
امریکہ جہاں بھی اپنی افواج بھیجتا ہے، وہاں اپنے فوجی کیمپ بناتا ہے، جن کے بارے میں مقامی حکومت سے وہ معاہدہ کرتا ہے کہ وہاں امریکہ کا قانون نافذ ہوگا اور امریکی عدالتیں ہی اس کا فیصلہ کریں گی۔ اس بنا پر افغانستان کا بگرام ائیربیس ہو یا پاکستان کا جیکب آباد کا امریکی کیمپ، ان دونوں مقامات پر ہونے والے جرائم کا تعین اور ان کی سزا کا فیصلہ امریکی عدالتیں کریں گی، چاہے مجرموں کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔نیشنل ریاستوں کے اس مسلمہ تصور کے بعد یہ ایک قانونی مذاق ہے کہ کہا جائے کہ آسیہ مسیح پر پاکستانی قانون کے مطابق کیوں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے اور اسے توہین رسالت کی سزا کیوں دی جاسکتی ہے؟
٭یورپی ممالک سیکولر ریاستیں ہیں، جو اپنے ہاں دیگر مذاہب کی آزادی کے نظریے کے داعی اور محافظ ہیں۔ یہ ممالک مذہبی جبر کے شدید ناقد ہیں۔اس کے باوجود فرانس ، بلجیم اور اٹلی میں پہلے حجاب وسکارف اور چھ ماہ قبل چہرے پر نقاب کے حوالے سے قانون پاس ہوا ہے جس کی رو سے فرانس میں چہرے پر نقاب ڈالنے والی عورت کو 725یورو جرمانہ19 اور قید کی سزا دی جائے گی۔فرانس ، سیکولرزم کا چیمپئن ملک اور مذہبی تحفظ کا داعی، اپنے ہاں مسلم خواتین پر اپنا غیراسلامی قانون نافذ کرنے میں کوئی جھجک نہیں رکھتا۔ دوسری طرف پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، اور یہ ملک دستوری طورپر سیکولر ہونے کی بجائے اسلام کے فروغ اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے بنایا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے لادین دانشوروں کو یہاں غیرمسلموں پر تو اسلام کا نفاذ چبھتا ہے، لیکن یورپ کے سیکولر ملک میں مسلمان خواتین پر یہ مذہبی جبر دکھائی بھی نہیں دیتا !!
شاتم رسو ل اورحنفی فقہا کا موقف؟
شاتم رسول کی سزا ایک مسلمہ شرعی تقاضا ہے۔ اس کے منکرین کو تو قرآنِ کریم اور احادیث ِمبارکہ کی صریح نصوص کی کوئی فکر نہیں، لیکن ہمارے بعض ایسے بزعم خویش اسلامی دانشور بھی ہیں جو اس سلسلے میں مسلمانوں میں باہمی اختلاف کا شوشہ پیدا کرکے مطلب براری کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے مفکرین حنفی فقہ کا حوالہ کس منہ سے دیتے ہیں حالانکہ کسی مسئلہ کے اجماعی طورپر اُمت اسلامیہ کا موقف ہونے اور قرآن وحدیث میں اس کا غیرمتزلزل اثبات موجود ہونے کے باوجود یہ مفکرین اس کودرخورِ اعتنا نہیں جانتے، جیساکہ ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔تاہم اہل مغرب سے اس کی کوئی تائید مل جائے یا ان کے مفادات پر کوئی حرف گیری کرنے لگے تو تب ایسے دانشور اسلام سے اس کے خلاف دلائل ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں۔
ٹی وی کے مباحثوں میں جاوید احمد غامدی عام یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ''اے مسلمانانِ پاکستان! آپ اس سلسلے میں میری نہ مانیں، امام ابو حنیفہ کی ہی تسلیم کرلیں جو شاتم رسول کی سزا قتل قرار نہیں دیتے۔'' غامدی صاحب کے ادارے 'المورد' کے سکالرزنے ایسے تمام اقتباسات کو بڑی جستجو کے بعد جمع کرکےمختلف ذرائع کے ذریعے پھیلانے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کے پیش کردہ موقف میں بہت سے مغالطے دیے جاتے ہیں:
1. اوّل تو یہ ملت ِاسلامیہ کا اجماعی موقف ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے اور اس میں حنفی علما کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ ابن المنذر لکھتے ہیں:
«أجمع عوام أهل العلم علی أن حدّ من سبّ النبي ﷺ القتل»
''اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی ﷺ کو گالی دیتاہے ، اس کی سزا قتل ہے ۔''
[موسوعة الدفاع عن رسول الله ﷺ: ج1/ص12]
2. یہی حنفیہ کے معتبر فقہا کا بھی موقف ہے جیساکہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں:
«کل من أبغض رسول ﷺ بقلبه کان مرتدًا، فالساب بطریق أولیٰ ، ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاطه القتل»
[فتح القدیر بحواله البحر الرائق شرح كنز الدقائق ج 13/ ص 495]
''جس شخص نے بھی رسول اللہ ﷺ سے دلی طور پر بغض رکھا، وہ مرتد ہوجاتاہے ، تو گالی دینےوالا تو بالاولیٰ مرتد ہوگا ۔ اور پھر ایسا شخص ہمارے نزدیک بطورِ حد قتل کیا جائے گا اور قتل کے بارے میں اس کی کوئی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ ''
اور قاضی ابو یوسف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
«وأیما مسلم سبّ رسول الله ﷺ أو کذبه أو عابه أو تنقصه فقد کفر بالله وبانت منه امرأته»
'' جس مسلمان نے بھی رسول اللہ ﷺ کو گالی دی ، آپ کی تکذیب یا توہین کی تو وہ کافر ہوگیا ، اس کی عورت اس سے جدا ہوجائے گی ۔''
[کتاب الخراج بحواله حاشية رد المحتار ج 4 /ص 419]
جیسا کہ اوپر دو معتبر حنفی علما کا قول ذکر ہوچکا ہے کہ شاتم رسول کی سزا بطورِ شرعی حد کے قتل ہے اور ا س کی توبہ ناقابل قبول ہے۔ یاد ر ہے کہ احناف کے ہاں اسی قول کا اعتبا رکیا جاتا ہے جس پر ان کے ہاں فتویٰ دیاجاتا ہو اور پاکستان کے علماے احناف کا فتویٰ بھی وہی ہے جو پوری ملت ِاسلامیہ کا ہے، جیسا کہ اس سلسلے میں پاکستان کے علماے احناف نے اپنا موقف پیش کردیا ہے کہ امام ابو حنیفہ اور بعض علما احناف کی طرف اس قول کی نسبت درست نہیں!
3. اگر امام ابو حنیفہ کی طرف اس قول کی نسبت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو ان کا موقف کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے او راس سے موجودہ صورتحال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
«والسّابّ إن كان مسلما فإنّه يكفر ويقتل بغير خلاف، وهو مذهب الأئمّة الأربعة وغيرهم، وإن كان ذمّيّا فإنّه يقتل عند الجمهور ، وقال الحنفيّة : لا يقتل، ولكن يعزّر على إظهار ذلك»
''اگر دشنام طرازی کرنے والا مسلمان ہو تو وہ کافر ہوجائے گا، اور بلا اختلاف اس کی سزا قتل ہے۔یہی ائمہ اربعہ وغیرہ کا متفقہ موقف ہے۔ تاہم اگر وہ ذمی ہے تو جمہور کے ہاں اس کی سزابھی قتل ہے، لیکن حنفیہ کا موقف ہے کہ اس کو لازما ً قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس جرم کے اظہار پر اس کو تعزیری سزا دی جائے گی۔''
[الموسوعة الفقهية الكويتية ج 2 / ص 4883]
علامہ ابن تیمیہ نے بعض حنفی علما کا موقف ان الفاظ میں درج کیا ہے:
«وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا: لا ينتقض العهد بالسبّ، ولا يقتل الذمي بذلك، لكن يعزر على إظهار ذلك كما يعزر على إظهار المنكرات التي ليس لهم فعلها من إظهار أصواتهم بكتابهم ونحو ذلك، وحكاه الطحاوي عن الثوري»
''امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کا کہنا یہ ہے کہ ذمی کا عہد نبی کریم ﷺکو گالی دینے سے ٹوٹتا نہیں ہے اور اس بنا پر ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اس کی سزااس کو دی جائے گی جس طرح دیگر منکرات وغیرہ کی سزا اُنہیں دی جاتی ہے، جن میں سے ان کا اپنی کتب کو بلند آواز سے پڑھنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اور یہی موقف امام طحاوی نے ثوری سے بھی نقل کیا ہے۔''
[الصارم المسلول: 1/17]
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کی دشنام طرازی پر علمائے اُمت اور احناف میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اس کی سزا قتل ہے۔تاہم بعض احناف کا یہ موقف فقط ایسے ذمی لوگوں کے بارے میں ہے جو دارالاسلام میں رہتے ہوں کہ اگر وہ شتم رسول کریں گے تو ان کی معاہدہ اور امان نامہ نہیں ٹوٹے گا، لیکن اُنہیں اس جرم کی سزا ضرور دی جائے گی جو لازمی نہیں کہ قتل ہی ہو، جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے۔پتہ چلا کہ احناف کا یہ موقف ایسے ذمی لوگوں کے بارے میں جو دارالاسلام میں رہ کر ذمی کے فرائض یعنی جزیہ بھی ادا کرتے ہوں۔ احناف کے اس موقف سے اگر یہ ثابت شدہ ہو تو پاکستان کی موجودہ صورتحال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کیونکہ پاکستان کے غیرمسلم نہ تو ذمی ہیں اور ہی ذمی کی حیثیت کو قبول کرکے جزیہ وغیرہ ادا کرتے ہیں بلکہ یہ تو برابر کے شہری ہونے کے داعی ہیں۔ دراصل پاکستان خالص طورپر اسلامی مفہوم میں دارالاسلام نہیں بلکہ ایک وطنی ریاست ہے جس میں رہنے والے ایک باہمی متفقہ دستور کی بنا پر اپنے حقوق کا تعین کرتے ہیں۔ان حالات میں ایک ایسی ریاست میں ذمی کا مسئلہ ڈال کر معاملہ کو اُلجھانا مغرب زدہ دانشوروں کا وطیرہ ہی ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف حنفیہ کے نامور فقیہ علامہ محمد امین عرف قاضی ابن عابدین نے اپنی کتاب میں علامہ ابن تیمیہ کے اس اقتباس کو بیان کرکے اس کی وضاحت یوں کی ہے :
«ومن أصولهم: يعني الحنفية أن ما لا قتل فيه عندهم مثل القتل بالمثقل والجماع في غير القبل، إذا تكرر فللامام أن يقتل فاعله، وكذلك له أن يزيد على الحد المقدر إذا رأى المصلحة في ذلك، ويحملون ما جاء عن النبي ﷺ وأصحابه من القتل في مثل هذه الجرائم، على أنه رأى المصلحة فذلك ويسمونه القتل سياسة.»
«وكان حاصله: أن له أن يعزر بالقتل في الجرائم التي تعظمت بالتكرار، وشرع القتل في جنسها، ولهذا أفتى أكثرهم بقتل من أكثر من سب النبي ﷺ من أهل الذمة وإن أسلم بعد أخذه، وقالوا يقتل سياسة، وهذا متوجه على أصولهم اهـ . فقد أفاد أنه يجوز عندنا قتله إذا تكرر منه ذلك وأظهره.
وقوله: وإن أسلم بعد أخذه، لم أر من صرح به عندنا، لكنه نقله عن مذهبنا وهو ثبت فيقبل»
''اُصولِ حنفیہ میں سے یہ ہے کہ احناف میں بھاری آلہ سے قتل پر یا قُبل کے علاوہ کسی جگہ میں جماع کرنے پر سزاے قتل ضروری نہیں ۔ تاہم جب یہ فعل تکرار سے ہوں تو حاکم اس کے فاعل کو قتل کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے او رحاکم کو یہ صلاحیت بھی حاصل ہے کہ مصلحت ِعامہ کا لحاظ کرتے ہوئے متعین حد پر سزا کا اضافہ بھی کرسکتا ہے۔اس کی دلیل نبی کریمﷺ او رآپ کے صحابہ کرام کا اس جیسے جرائم میں عوامی مصلحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے قتل کی سزا کا فیصلہ کرنا ہے۔ احناف میں ایسی سزائے قتل کو سیاستاً سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (یعنی ایک تو وہ سزاے قتل جو شرعاً مقرر ہے او ردوسری جو شرعی مصلحت کی بنا پر دی جائے ،وہ 'سزاے قتل سیاستاً 'کہلائے گی)
حاصل بحث یہ ہے کہ قاضی کو یہ حق حاصل ہے کہ تکرار سے ہونے والے جرائم کی شدت کی بنا پر ان میں قتل کی سزاجاری کرے۔ اسی بنا پر بہت سے احناف نے ایسے بہت سے شاتمان رسول کے قتل کا فتویٰ دیا ہے جو ذمی ہونے کے باوجود تکرار سے اس فعل شنیع کا ارتکاب کرتے تھے، باوجود اس امر کے کہ مجرم ذمی پکڑے جانے کے بعد توبہ کرکے اسلام بھی لے آئے۔او رحنفیہ نے کہا کہ ایسے شاتمان کو سیاستاً [مصلحت ِشرعی کی بنا پر]قتل کیا جائے گا۔اور یہ موقف ان کے اصول سے ثابت شدہ ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے[حنفیہ] کے ہاں بھی شاتم ذمی کا قتل کرنا جائز ہے، جب وہ تکرار کا مرتکب ہو او رکھلم کھلا یہ جرم کرے۔
امام ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ اگر چہ ایسا ذمی پکڑے جانے کے بعد اسلام بھی لے آئے [تب بھی اس کو قتل کیا جائے گا] تو مجھے علم نہیں کہ حنفیہ میں سے کسی نے اس کی صراحت بھی کی ہے یا نہیں؟ تاہم جب امام ابن تیمیہ حنفیہ کے بارے میں یہ بات جو بتا رہے ہیں توایک معتبر شخصیت ہونے کے ناطے ان کی بات کا اعتبار کیا جانا چاہئے۔''
[ردّ المحتار على الدر المختار: 4 /233]
مذکورہ بالا طویل اقتباس سے معلوم ہوا کہ
٭ توہین رسالت کے ارتکاب کی صورت میں ذمی کو تعزیری سزا دی جائے گی۔
٭ احناف کے ہاں ذمی کومسلسل یا کھلم کھلا توہین رسالت پرقتل کی سزا دی جاسکتی ہے۔
٭ اس سزا کی اساس شریعت کے براہِ راست حکم کی بجائے قاضی کے پیش نظر مصلحت شرعی ہوگی جسے اصطلاحاً 'سزاے قتل سیاستاً' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
٭ اگرشاتم رسول ذمی توبہ کے بعد اسلام بھی لے آئے تو اس کی توبہ ناقابل قبول ہوگی۔
4. احناف کے اس موقف کی وضاحت کے بعد، آخر میں سب سے اہم نکتہ جو ایک مسلمان کے لئے اساسی حیثیت رکھتا ہے، یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے دور میں ایسے شاتمانِ رسول سے جو غیر مسلم اور ذمی تھے، کوئی رعایت ملحوظ نہ رکھی اور ان کو خود اپنے حکم سے قتل کروایا ۔ احادیث کے یہ چھ واقعات چار صفحات پہلے بیان ہوچکے ہیں۔
اس ضمن میں کعب بن اشرف یہودی اور ابو رافع سلام بن الحقیق یہودی کے واقعات، جن میں آپ نے خود صحابہ کو ان شاتمانِ رسول کو قتل کرنے کے لئے بھیجا، صحیح بخاری کی احادیث ہیں اور امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق: إذا صح الحدیث فهو مذهبي ''جب کوئی حدیث ِصحیح آجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔'' ان کا قول بھی ان احادیث کے بعد یہی بنتا ہے جودیگر علماے اُمت کا ہے جیسا کہ مشہور حنفی امام قاضی ابن عابدین فرماتے ہیں:
«إذَا صَحَّ الْحَدِيثُ وَكَانَ عَلَى خِلَافِ الْمَذْهَبِ عُمِلَ بِالْحَدِيثِ، وَيَكُونُ ذَلِكَ مَذْهَبَهُ وَلَا يَخْرُجُ مُقَلِّدُهُ عَنْ كَوْنِهِ حَنَفِيًّا بِالْعَمَلِ بِهِ، فَقَدْ صَحَّ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: إذَا صَحَّ الْحَدِيثُ فَهُوَ مَذْهَبِي. وَقَدْ حَكَى ذَلِكَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِ مِنْ الْأَئِمَّةِ» (رد المحتار: 1 / 166)
'' جب کوئی حدیث صحیح اور مستند ہو حالانکہ وہ حنفی مذہب کے خلاف ہو تو اس صحیح حدیث پر عمل کیا جائے گا اور وہی امام ابوحنیفہ کا مسلک ہوگا۔ اور اس حدیث پر عمل کرنے کی بنا پر امام ابو حنیفہ کا مقلد حنفیت کے دائرہ سے خارج نہیں ہوگا۔ کیونکہ امام ابوحنیفہ سے یہ بات درست طورپر منقول ہے کہ جب حدیث صحیح مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔ یہ بات ابن عبد البر اور دیگر ائمہ اسلاف نے امام ابو حنیفہ سے بیان کی ہے۔''
الغرض یہی مستند شرعی مسئلہ ہے اور یہی حقیقی حنفی موقف ہے جیسا کہ اوپر کی تصریح سے معلوم ہوا اور اسی کو تمام فقہاے عظام اورمحدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین نے اختیار کیا ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم!
چنانچہ ذمی کے لئے توہین رسالت کی سزا میں رعایت نہ تو امام ابو حنیفہ کا موقف ہے، نہ ہی پاکستان کے عیسائی یا دیگر غیر مسلم ذمی ہیں، نہ وہ اس حیثیت کو مانتے او رنہ ہی اس کے تقاضے پورے کرتے ہیں، پھر جاوید غامدی کا واویلا اور ان کے لئے رعایت کا مطالبہ کس بنا پر ہے؟ پاکستان کے ایک شہری ہونے کے ناطے ان پر پاکستان کاہی قانون توہین رسالت لاگو ہوگا، اور یہی پاکستان کے قانون او راسلام کا تقاضا ہے۔
٭ آج بعض لوگ یہ شبہ بھی پیدا کرتے ہیں کہ گستاخِ رسو ل کی سزا عورت کو نہیں دی جائے گی، حالانکہ احادیث ِرسول میں یہودیہ،عمیر بن اُمیہ کا اپنی گستاخ مشرکہ بہن کوقتل کرنے اور عمیر بن عدی کے عصما بنت مروان کو قتل کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس جرم کی سزا میں عورت او رمرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔
19. تفصیلات : 'یورپ میں حجاب ونقاب کے خلاف مہم' از راقم (ماہنامہ 'محدث': اپریل 2010ء)
توہین رسالت کی سزا کے متعلق حنفی مسلک
(علامہ ابن عابدین الشامی کی معرکۃ الآرا تحقیق کا خلاصہ)
ماہنامہ ’’الشریعہ ‘‘ کے مارچ ۲۰۱۱ء کے شمارے میں راقم کا ایک مقالہ ’’ توہین رسالت کی سزا فقہ حنفی کی روشنی میں ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مقالے کے آخر میں تمام مباحث کا خلاصہ راقم نے ان سات نکات کی صورت میں پیش کیا تھا :
’’ ۱۔ کسی شخص کو اس وقت تک گستاخ رسول قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک مقررہ شرعی ضابطے پر اس کا جرم ثابت نہ ہو۔
۲ ۔ اگر گستاخ رسول اس جرم سے پہلے مسلمان تھا تو اس کے اس جرم پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوگا اور اگر وہ پہلے ہی غیر مسلم تھا تو پھر اس فعل پر سیاسۃ کے احکام کا اطلاق ہوگا ۔
۳ ۔ حد ارتداد کو ملزم کے اقرار یا دو ایسے مسلمان مردوں کی گواہی ، جن کا کردار بے داغ ہو ، سے ہی ثابت کیا جاسکتا ہے ، جبکہ سیاسۃ کو عورتوں اور غیر مسلموں کی گواہی ، نیز قرائن اور واقعاتی شہادتوں سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے ۔
۴ ۔ پہلی صورت میں سزا بطور حد موت ہے لیکن سزا کے نفاذ سے پہلے عدالت مجرم کو توبہ کے لیے کہے گی اور اگر عدالت اس کی توبہ سے مطمئن ہو تو اس کی سزا ساقط کردے گی ۔ دوسری صورت میں کوئی مقررہ سزا نہیں ہے بلکہ جرم کی شدت و شناعت اور مجرم کے حالات کو دیکھتے ہوئے عدالت مناسب سزا سنائے گی ، جو بعض حالات میں سزاے موت بھی ہوسکتی ہے ۔ سیاسۃً دی جانے والی سزا کو حکومت معاف کرسکتی ہے اگر مجرم کا طرز عمل تخفیف کا متقاضی ہو ۔
۵ ۔ حد ارتداد حق اللہ ہے اور سیاسۃ کی سزا حق الامام ہے ، اور حنفی فقہا کے مسلمہ اصولوں کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق الامام دونوں سے متعلق سزاؤں کا نفاذ حکومت کا کام ہے ۔
۶ ۔ اگر کسی شخص نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایسے شخص کو قتل کیا جو پہلے مسلمان تھا لیکن توہین رسالت کے نتیجے میں مرتد ہوگیا تھا اور اس کا جرم مقررہ ضابطے پر ثابت ہوا تھا ، تو قاتل کو قصاص کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر اس قاتل کو سیاسۃً مناسب سزا دی جاسکے گی ۔ اگر مقتول کا جرم مقررہ ضابطے پر ثابت نہیں ہوا تھا تو سیاسۃ کے علاوہ قاتل کو قصاص کی سزا بھی دی جائے گی ۔
۷ ۔ اگر مقتول پہلے سے ہی غیر مسلم تھا اور اس کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوا تھا ، یا اسے عدالت کی جانب سے سزاے موت نہیں سنائی گئی تھی ، یا اس سزا میں تخفیف کی گئی تھی ، تو قاتل کو قصاص کی سزا بھی دی جائے گی اور سیاسۃً کوئی اور مناسب سزا بھی سزا بھی دی جاسکے گی ۔ اگر مقتول کا جرم بھی ثابت تھا اور اسے سزاے موت بھی سنائی گئی تھی تو قاتل کو قصاص کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر تادیب کے لیے اسے سیاسۃً مناسب سزا دی جاسکے گی ۔ ‘‘
ان نتائج بحث میں سے بعض پر چند اہل علم کی جانب سے عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا کیونکہ ان کی راے میں متاخرین فقہاے احناف کی راے اس مقالے میں نظر انداز کی گئی تھی۔ درحقیقت متاخرین کی اختلافی راے پر راقم نے مقالے کے حواشی میں بحث کی تھی اور شاید اسی وجہ سے بعض اہل علم اسے نظر انداز کرگئے تھے۔ اس مقالے میں راقم کا مفروضہ یہ تھا کہ متاخرین کی راے حنفی مسلک کی صحیح نمائندگی نہیں کرتی ۔ اس موضوع پر اپنی جانب سے مزید کچھ کہنے کے بجاے راقم نے مناسب خیال کیا کہ اس مسئلے میں علامہ محمد امین ابن عابدین الشامی کی معرکہ آرا تحقیق کا خلاصہ پیش کر دیا جائے۔
توہین رسالت کی سزا کے متعلق معاصر اہل علم کی بحث میں بالعموم قاضی عیاض بن موسی کی الشفا بتعریف حقوق المصطفی اور شیخ الاسلام احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ الحرانی کی الصارم المسلول علی شاتم الرسول کے مندرجات کو ہی مد نظر رکھا گیا ہے ۔ قاضی عیاض کا تعلق مالکی مسلک سے جبکہ امام ابن تیمیہ کا تعلق حنبلی مسلک سے تھا۔ شافعی مسلک سے تعلق رکھنے والے ممتاز فقیہ خاتمۃ المجتہدین تقی الدین السبکی کی نہایت اہم تالیف السیف المسلول علی من سبّ الرسول کو بالعموم اس سلسلے میں نظر انداز کیا گیا ہے، لیکن سب سے بڑا ظلم علامہ ابن عابدین الشامی کے ساتھ ہوا ہے کیونکہ ان کی تحقیق کا جو خلاصہ رد المحتار میں ملتا ہے، اس سے لوگوں نے بالعموم مختلف اقتباسات سیاق و سباق سے کاٹ کر نقل کیے ہیں اور یوں علامہ شامی نے جس بات کی تردید میں اپنی توانائیاں صرف کی اسی بات کو علامہ شامی کے حوالے سے لوگوں نے نقل کیا ہے ! یہی کچھ ان کے اس رسالے کے ساتھ ہوا ہے جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا جارہا ہے ۔
علامہ شامی کا یہ رسالہ ان کے مجموعۂ رسائل کی پہلی جلد میں پندرھویں نمبر پر آتا ہے ۔ اس کا پورا عنوان ہے :
’’تنبیہ الولاۃ و الحکام علی أحکام شاتم خیر الأنام أو أحد أصحابہ الکرام علیہ و علیھم الصلاۃ و السلام ‘‘
راقم کی راے یہ ہے کہ موجودہ دور کے مخصوص تناظر میں اس عنوان میں تھوڑی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ اب اسے محض تنبیہ الولاۃ و الحکام نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا زیادہ مناسب عنوان شاید تنبیہ العلماء والولاۃ والحکام ہو ۔ راقم نے اس انتہائی اہم رسالے کا انگریزی زبان میں ترجمہ مکمل کر لیا ہے اور آج کل اس پر تحقیقی حواشی اور مقدمہ لکھنے کا کام جاری ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے ۔
واضح رہے کہ اس مقالے میں راقم کا مطمح نظر توہین رسالت کی سزا کے بارے میں حنفی فقہا کے موقف کے دلائل واضح کرنا نہیں ، بلکہ راقم کا مقصود صرف یہ ہے کہ توہین رسالت کی سزا کے مختلف پہلووں پر حنفی فقہا کے موقف کی صحیح تصویر سامنے لائی جائے ، اگرچہ اس کوشش میں ضمناً فقہاے احناف کے دلائل کا خلاصہ بھی سامنے آجائے گا ۔
علامہ شامی کے رسالے کا اجمالی خاکہ
علامہ شامی نے اپنے اس رسالے کو دو ابواب میں تقسیم کیا ہے :
باب اول میں گستاخ رسول کی سزا پر تفصیلی بحث ہے جبکہ باب دوم صحابۂ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والے کی سزا کے بارے میں ہے۔
چونکہ موضوع زیر بحث کا تعلق باب اول سے ہے اس لیے اس باب کے مندرجات کا خاکہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ علامہ شامی نے اس باب کو تین فصول میں تقسیم کیا ہے جن میں پہلی دو فصول اس شخص کے متعلق ہیں جو اس فعل کے ارتکاب سے قبل مسلمان تھا :
فصل اول میں علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ اگر ایسا شخص اس فعل سے توبہ نہ کرے تو اس کی سزا بطور حد موت ہے۔
فصل دوم میں علامہ شامی نے تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ ایسے شخص سے توبہ کے لیے کہنا لازم ہے اور اگر قاضی اس کی توبہ سے مطمئن ہو تو اس شخص کی دنیوی سزا ساقط ہو جائے گی ۔ انھوں نے تفصیل سے اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ کا مسلک واضح کیا ہے ۔
فصل سوم اس گستاخ رسول کی سزا کے متعلق ہے جو مسلمان ریاست کا باشندہ ہو ۔ علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ اس شخص کو فساد کے ارتکاب کی وجہ سے قاضی مناسب سزا دے سکتا ہے جو بعض شنیع صورتوں میں سزاے موت بھی ہوسکتی ہے۔
فصل اول : اگر مسلمان اس جرم کا ارتکاب کرے
علامہ شامی نے اس فصل کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے :
پہلے حصے میں انھوں نے اس مسئلے میں فقہا کی آرا اور دلائل کا خلاصہ ذکر کیا ہے ، جبکہ دوسرے حصے میں انھوں نے اس بات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے کہ ایسے گستاخ رسول کی سزا کی علت ’’گستاخی‘‘ ہے یا ’’ کفر ‘‘ ؟
ایسا مجرم اگر توبہ نہ کرے تو اس کی سزاے موت پر اجماع ہے ۔
چنانچہ پہلے حصے میں علامہ شامی نے اس بات پر فقہا کا اجماع نقل کیا ہے کہ اگر مسلمان کہلانے والا شخص رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے اور اس فعل سے توبہ نہ کرے تو اس کی سزا بطور حد موت ہے ۔ انھوں نے اس ضمن میں بعض لوگوں کے شبہے کا جواب بھی دیا ہے جو یہ کہتے تھے کہ اس فعل کے ارتکاب سے مسلمان تبھی مرتد ہوگا جب وہ اس فعل کو اعتقاداً جائز سمجھے ۔ علامہ شامی نے قرآن و سنت کی نصوص اور اجماع و قیاس کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ اس فعل کا مرتکب مرتد ہوجاتا ہے خواہ وہ اعتقاداً اس کی حلت کا قائل نہ ہو ۔
سزاے موت کی علت : گستاخی یا ارتداد ؟
اس کے بعد دوسرے مسئلے میں علامہ شامی نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ ایسے شخص کو جو سزا دی جاتی ہے وہ خاص اس گستاخی کے سبب سے دی جاتی ہے یا اس وجہ سے دی جاتی ہے کہ یہ گستاخی ارتداد ہے اور اس وجہ سے اس شخص کو دراصل ارتداد کی سزا دی جاتی ہے ؟
انھوں نے قرار دیا ہے کہ گستاخ رسول کی سزاے موت کی علت یہ ہے کہ اس فعل کی وجہ سے وہ مرتد ہوجاتا ہے ۔ اگر گستاخی ہی علت ہوتی تو پھر ہر گستاخ کو بطور حد سزاے موت دی جاتی حالانکہ فقہائے احناف سے صراحت کی ہے کہ غیرمسلم گستاخ رسول کو بعض حالات میں سزاے موت دی جاتی ہے تو وہ بطور حد نہیں بلکہ بطور سیاسۃ دی جاتی ہے۔ چنانچہ پہلے وہ مرتد اور عام کافر میں چند فروق ذکر کرتے ہیں ۔ مثال کے طور عام کافر کو ذمی بناکر اس پر جزیہ عائد کیا جاسکتا ہے اور اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ، جبکہ مرتد کو ذمی نہیں بنایا جاسکتا اور اگر اس نے اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا تو اسے قتل کیا جائے گا ۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قتل مرتد کی علت کفر نہیں بلکہ کفر کی خاص شکل ۔ مسلمان کی طرف سے ارتداد۔ ہے اور ارتداد کی یہ سزا بطور حق اللہ واجب ہے ۔ لہٰذا مرتد کی سزاے موت حد ہے ، خواہ متقدمین فقہائے احناف نے کتاب الحدود میں اس کا ذکر نہ کیا ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ متقدمین بھی ارتداد کے لئے ان ساری صفات کے قائل ہیں جو حد کی ہیں ۔
یہاں ابن عابدین ایک شبہے کا ذکر کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اگر یہ سزا حد ہے تو پھر یہ توبہ سے ساقط کیسے ہوتی ہے ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ مرتد کی بطور حد سزاے موت کی وجہ خاص فعل ارتداد نہیں ہے بلکہ فعل ارتداد کے ساتھ ساتھ اس کا دوسرا سبب اس کا کفر پر قائم رہنے کا ارادہ ہے ۔ اور ایسی علت جو دو اجزا پر مشتمل ہو وہ ان میں کسی کے بھی نہ ہونے کی صورت میں موجود نہیں رہتی ۔ پس اس کے اسلام کی طرف لوٹ آنے کے بعد تنہا ارتداد سزاے موت کا سبب نہیں بن سکتا کیونکہ سزاے موت بیک وقت دو افعال کی جزا تھی ۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ عام قاعدے کے تحت تو بقیہ حدود کی طرح چاہیے تھا کہ یہ حد بھی توبہ سے ساقط نہ ہوتی لیکن کئی آیات و احادیث میں صراحتاً قرار دیا گیا ہے کہ اسلام قبول کرنے پر پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ اس لیے فقہا نے اسے عام قاعدے سے استثنا قرار دیا ہے ۔ اسی طرح اس سزا پر یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے کہ اگر یہ حد ہے تو پھر مرتد عورت پر کیوں نہیں نافذ کی جاتی کیونکہ کئی روایات میں صراحتاً کافر عورتوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے ۔ اس لیے یہ ممانعت بھی ایک استثنائی حکم ہے ۔
فصل دوم : مسلمان کہلانے والے گستاخ رسول کی توبہ کے بعد سزا کا سقوط
اس فصل کو علامہ شامی نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے :
حصۂ اول میں انھوں نے ایسے گستاخ رسول کی توبہ کی قبولیت پر مختلف مسالک کے فقہا کا اختلاف نقل کیا ہے ؛
حصۂ دوم میں انھوں نے اس پر بحث کی ہے کہ کیا ایسے گستاخ رسول سے توبہ کے لیے کہناواجب ہے؟
حصۂ سوم میں انھوں نے اس مسئلے میں حنفی مسلک کے نمائندہ موقف کی تنقیح کی ہے اور نہایت تفصیل سے امام ابوحنیفہ کی راے کی وضاحت کی ہے ، نیز بعض متاخرین حنفی فقہا کی اختلافی آرا کی کمزوری بھی واضح کی ہے ۔
ایسے مجرم کی توبہ کی قبولیت کے متعلق مذاہب فقہ کا اختلاف
حصۂ اول میں علامہ شامی نے واضح کیا ہے کہ ایسے گستاخ رسول کی توبہ کی قبولیت کے مسئلے پر فقہا کا اختلاف ہے ۔
چنانچہ انھوں نے قاضی عیاض کی الشفا اور دیگر فقہا کی کتب سے طویل اقتباسات نقل کرکے دکھایا ہے کہ فقہا کے ہاں اس مسئلے پر تین آرا پائی جاتی ہیں:
۱ ۔ امام مالک کی مشہور راے یہ ہے کہ ایسے گستاخ رسول کو سزا گستاخی کی ملتی ہے ، نہ کہ کفر کی ، اور اس وجہ سے یہ سزا توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ یہ راے امام شافعی ، امام احمد اور امام لیث سے بھی نقل کی گئی ہے۔
۲ ۔ امام مالک سے ہی دوسری راے کی روایت ولید بن مسلم نے کی ہے اس شخص پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوگا جن میں ایک حکم توبہ کی قبولیت کا ہے ۔ یہی راے امام ابو حنیفہ ، امام ثوری اور امام اوزاعی کی ہے ۔
۳ ۔ تیسری راے ، جس کی روایت سحنون نے کئی مالکی فقہا سے کی ہے ، یہ ہے کہ اس شخص پر زندیق کے احکام کا اطلاق ہوگا ، گویا اس کی توبہ دنیوی سزا ساقط نہیں کرسکے گی ۔
کیا ایسے مجرم کو توبہ کے لیے کہنا واجب ہے ؟
حصۂ دوم میں علامہ شامی نے واضح کیا ہے کہ جو فقہا ایسے گستاخ کی توبہ کی قبولیت کے قائل نہیں ہیں وہ اس سے توبہ کرانے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ البتہ توبہ کی قبولیت کے قائل فقہا میں بھی اکثریت کا کہنا یہ ہے ، اور یہی حنفی فقہا کا نمائندہ موقف ہے ، کہ اگر ایسے شخص کو توبہ کے لیے کہے بغیر بھی اسے سزاے موت دی گئی تو اس سزا کو جائز سمجھا جائے گا ، اگرچہ قانوناً صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسے توبہ کے لیے کہا جائے ، اس کے شبہات دور کیے جائیں اور اسے رجوع کا موقع دیا جائے ۔ علامہ شامی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر ایسا شخص غور و فکر کے لیے مہلت چاہے تو پھر حنفی فقہا کا موقف یہ ہے کہ اسے سوچنے سمجھنے کے لیے مہلت دینا واجب ہے ۔
ایسے مجرم کی توبہ کے قانونی اثرات کے متعلق امام ابو حنیفہ کے مسلک کی تحقیق
حصۂ سوم اس ساری بحث کی جان ہے ۔ یہاں علامہ شامی نے فقہ حنفی کے تمام ذخیرے کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد جو نتائج نکالے ہیں وہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں ۔ علامہ شامی کی اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ کسی بھی فقہی مسلک ، اور بالخصوص حنفی مسلک ، میں اگر ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہوں تو ان میں کسی راے کو اس مسلک کا نمائندہ موقف ماننے کے لیے کیا طریق کار اختیار کرنا چاہیے ۔ اصول قانون اور اصول فقہ پر کام کرنے والوں کے اس فصل میں بہت مفید مواد موجود ہے ۔
امام ابو حنیفہ کے مسلک کے متعلق دیگر مذاہب کے ائمہ کی گواہی
اس مقام پر پہلے تو علامہ شامی نے قاضی عیاض اور امام طبری کے اقتباسات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ ایسے گستاخ کی توبہ کی قبولیت اور توبہ کے ذریعے اس کی سزا کے سقوط کے قائل تھے کیونکہ وہ اس پر مرتد کے احکام کا اطلاق کرتے تھے ۔ اس کے بعد انھوں نے دو اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے :
۱ ۔ یہ کہ یہی راے امام مالک سے ولید بن مسلم نے روایت کی ہے کہ ایسے گستاخ پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوگا۔
۲ ۔ دوسری یہ کہ توبہ کی عدم قبولیت کے متعلق امام مالک کی مشہور راے کی بنیاد یہ امر ہے کہ وہ اس سزا کو گستاخ کے مرتد ہوجانے کی حد نہیں بلکہ خاص گستاخی کے فعل کی حد سمجھتے ہیں ، اور یہی راے قاضی عیاض نے امام شافعی ، امام احمد اور امام لیث سے نقل کی ہے ۔
اس آخری نکتے کے متعلق علامہ شامی فرماتے ہیں کہ امام احمد کی مشہور راے تو یہی ہے جو قاضی عیاض نے نقل کی ہے ۔ تاہم امام شافعی کے مسلک کی تحقیق کے متعلق علامہ شامی کی راے قاضی عیاض سے مختلف ہے ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ یہ راے شافعی فقیہ ابو بکر الفارسی کی راے کے موافق ہے جو قرار دیتے ہیں کہ حد قذف کی طرح یہ سزا بھی توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ( کیونکہ شافعی فقہا کے نزدیک حد قذف حق العبد سے متعلق ہے ، نہ کہ حق اللہ سے متعلق ، اور ابو بکر الفارسی کی راے میں گستاخ رسول کی سزا رسول اللہ ﷺ کے حق سے متعلق ہے ) ۔ دیگر مشہور شافعی فقہا میں ابو بکر القفال اور امام الحرمین نے بھی اسی راے کو ترجیح دی ہے لیکن خاتمۃ المحققین تقی الدین السبکی نے صراحت کی ہے کہ امام شافعی کا مشہور مسلک اس کے برعکس توبہ کی قبولیت ہی کا ہے اور اسی مسلک پر قاضیوں نے فیصلے دیے ہیں ۔ امام سبکی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ امام فارسی کے قول کی روایت مختلف الفاظ میں کی گئی ہے ، اور یہ کہ اس کے قول کی سیاق و سباق اسے گستاخی کی ایک خاص نوعیت ، رسول اللہ ﷺ کے خلاف قذف کے ارتکاب ، کے ساتھ خاص کردیتا ہے ۔ امام الحرمین نے بھی امام فارسی کے قول کی روایت قذف کے لفظ کے ساتھ کی ہے ۔ شافعیہ کے مسلک کے متعلق امام سبکی کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ :
۱۔ گستاخی کی عام صورتوں میں مجرم کو توبہ کے لیے کہا جائے گا اور اگر اس نے توبہ کی تو اس کی سزا ساقط ہوجائے گی ؛
۲ ۔ اگر گستاخی قذف کی نوعیت کی ہو اورپھر مجرم توبہ کرے تو پھر شافعیہ کے ہاں تین آرا ہیں : ایک یہ کہ اس کی سزا ساقط ہوجائے گی ؛ دوسری یہ کہ اس کی سزاے موت ساقط ہوجائے گی لیکن اسے سزاے قذف دی جائے گی ؛ اور تیسری راے یہ ہے کہ اسے سزاے موت ہی دی جائے گی ۔
جہاں تک امام ابوحنیفہ کے مسلک کا تعلق ہے تو امام سبکی نے تصریح کی ہے کہ حنفی مسلک توبہ کی قبولیت ہی کا ہے اور اس میں دو رائیں نہیں پائی جاتیں۔ اس کے بعد علامہ شامی نے اس سلسلے میں امام تیمیہ کی گواہی پیش کی ہے ۔ امام ابن تیمیہ نے بھی امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کا یہی مسلک نقل کیا ہے کہ اگر مجرم پہلے مسلمان ہو اور گستاخی کے بعد توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور اس کی سزا ساقط ہوجائے گی ۔
امام ابو حنیفہ کے مسلک کے متعلق متقدمین فقہاے احناف کی گواہی
اس کے بعد علامہ شامی قرار دیتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے مسلک کے متعلق اگر حنفی متون خاموش بھی ہوتیں تو امام طبری ، قاضی عیاض ، امام ابن تیمیہ اور امام سبکی جیسے انتہائی ثقہ اور معتبر فقہاء کی گواہی اس سلسلے میں کافی تھی ۔ تاہم حنفی متون اس سلسلے میں خاموش نہیں ہیں بلکہ وہ صراحتاً اس گواہی کی تائید کرتی ہیں ۔ یہاں علامہ شامی امام ابوحنیفہ کے ممتاز شاگرد امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم کی کتاب الخراج سے یہ اقتباس نقل کرتے ہیں جو فقہ حنفی کے موقف کے متعلق بالکل صریح ہے :
و قال ابو یوسف : و أیما رجل مسلم سب رسول اللہ ﷺ أو کذبہ أو عابہ أو تنقصہ، فقد کفر باللہ تعالیٰ ، و بانت منہ امرأتہ ۔ فان تاب، و الا قتل ۔ و کذلک المرأۃ ، الا أن أبا حنیفۃ قال : لا تقتل المرأۃ ، و تجبر علی الاسلام ۔
[ابو یوسف کا قول ہے کہ جو مسلمان رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے ، یا ان کی تکذیب کرے ، یا ان کی عیب جوئی کرے ، یا ان کی شان میں تنقیص کرے ، تو اس نے اللہ تعالیٰ کے کفر کا ارتکاب کیا اور اس کی بیوی بائن ہوگئی ۔ پھر اگر وہ توبہ کرے تو بہتر ورنہ اسے سزاے موت دی جائے گی۔ یہی حکم عورت کا بھی ہے ۔ البتہ ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے اسلام کی طرف لوٹ آنے پر مجبور کیا جائے گا۔ ]
اس اقتباس سے دیگر امور کے علاوہ علامہ شامی یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ حنفی مسلک کے مطابق توبہ کی قبولیت سے مراد سزا کا سقوط ہے کیونکہ امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ : فان تاب، والا قتل۔
علامہ شامی نے شیخ الاسلام السعدی کی تالیف النتف الحسان سے یہ اہم اقتباس بھی اس سلسلے میں نقل کیا ہے :
من سب رسول اللہ ﷺ فانہ مرتد وحکمہ حکم المرتد، یفعل بہ ما یفعل بالمرتد
[جس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو وہ مرتد ہوا ۔ اس کی قانونی حیثیت وہی ہے جو مرتد کی ہے، اور اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو مرتد کے ساتھ کیا جائے گا ۔ ]
اس کے بعد انھوں نے اس مفہوم کی کئی عبارات فتاوی مؤید زادہ ، شرح الطحاوی ، معین الحکام اور نور العین شرح جامع الفصولین سے نقل کی ہیں جن سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حنفی مسلک یہی ہے کہ دیگر مرتد ین کی طرح گستاخ رسول کی سزا بھی توبہ کے بعد ساقط ہوجاتی ہے ۔
ایسے مجرم کی قانونی پوزیشن وہی ہے جو مرتد کی ہے
اس کے بعد علامہ شامی نے ایک اور پہلو سے اس مسئلے کو لیا ہے ۔ انھوں نے دکھایا ہے کہ حنفی فقہا ارتداد کا حکم واضح کرتے ہوئے جب ان الفاظ کا ذکر کرتے ہیں جن کے کہنے سے سے کوئی مسلمان مرتد ہوسکتا ہے تو ان میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر انھوں نے فتاوی تاتارخانیہ سے یہ عبارت نقل کی ہے :
من لم یقر ببعض الأنبیاء، أو عاب نبیاً بشیء، أ و لم یرض بسنۃ من سنن سید المرسلین ﷺ فقد کفر۔
[جس نے انبیاء علیہم السلام میں بعض کا انکار کیا، یا کسی نبی کی عیب جوئی کی، یا سید المرسلین ﷺ کی سنن میں کسی سنت کو ناپسند کیا تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔]
اس طرح کی کئی عبارات علامہ شامی نے التتمۃ ، المحیط ، الظاھریۃ اور متون معتبرہ جیسے مختصر القدوری ، کنز الدقائق ، المختار ، ملتقی الأبحر ، الھدایۃ اور امام محمد بن الحسن الشیبانی کی الجامع الصغیر سے نقل کی ہیں ۔ اس کے بعد وہ قرار دیتے ہیں کہ جب حنفی فقہا صراحتاً اس کو ارتداد قرار دیتے ہیں اور پھر ارتداد کے قانونی اثرات میں ایک اہم اثر یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ مرتد کو توبہ کے لئے کہا جائے گا اور اگر وہ توبہ کرے تو اس کو ارتداد کی سزا نہیں دی جائے گی ، تو ظاہر ہے کہ یہی حکم گستاخ رسول کا بھی ہے ۔
اس استدلال پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ زندیق بھی تو مرتد ہوتا ہے مگر فقہا اس کی توبہ کے قائل نہیں ہیں تو علامہ شامی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ زندیق یا جادوگر کو محض ارتداد کی وجہ سے نہیں ، بلکہ فساد فی الارض کی وجہ سے سزاے موت دی جاتی ہے اور گستاخ رسول کو بھی بعض صورتوں میں ارتداد کے بجائے فساد فی الارض کی بنیاد پر سزاے موت دی جاسکتی ہے ، جیسے مثال کے طور غیر مسلم گستاخ رسول کا حکم ہے ، بلکہ فساد فی الارض کی بنیاد پر سیاسۃً سزاے موت تو زندیق، جادوگر، مرتد یا گستاخ رسول کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس مسلمان کو بھی دی جاسکتی ہے جس نے کفر کا ارتکاب نہ کیا ہو ، جیسے مثال کے طور پر باغیوں کو سیاسۃً سزاے موت دی جاسکتی ہے ۔
بعض متاخرین احناف کی اختلافی راے
یہاں سے علامہ شامی اس بات کی طرف رخ کرتے ہیں کہ بعض متاخرین احناف نے کس بنا پر قرار دیا ہے کہ گستاخ رسول مسلمان کو سزاے موت بطور حد دی جائے گی اور اس کی توبہ مقبول نہیں ہوگی ؟ مثال کے طور پر الفتاوی البزازیۃ میں یہی قرار دیا گیا ہے جس کی اتباع الدرر و الغرر میں کی گئی ہے۔ ابن الھمام نے بھی فتح القدیر میں اسی طرح کی رائے کا اظہار کیا ہے ۔ نیز ابن نجیم نے الأشباہ و النظائر اور البحر الرائق میں کہا ہے کہ فتوی اسی قول پر دینا چاہیے کہ گستاخ رسول کی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ اس بات کی اتباع ان کے شاگرد علامہ تمرتاشی نے التنویر میں کی۔ پھر یہی بات علامہ خیر الدین الرملی ، صاحب النھر اور علامہ شرنبلانی نے اور ان کے بعد دیگر کئی متاخرین نے اپنے فتاوی میں کی ہے ۔
اختلاف کا اصولی فیصلہ
اس اختلاف کا اصولی فیصلہ تو علامہ شامی ان اصولوں کے ذریعے کرتے ہیں جن کے ذریعے یہ طے کیا جاتا ہے کہ روایات میں اختلاف کی صورت میں مفتی بہ قول کی پہچان کس طرح ہوگی ؟ یہاں علامہ شامی نے شیخ امین الدین بن عبدالعال کے فتاوی سے جو اہم اصول بیان کیے ہیں ان میں سے چند کا یہاں ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے :
- اگر امام ابو حنیفہ سے ایک سے زائد آرا مروی ہوں تو اس راے کی اتباع کی جائے گی جو زیادہ قوی ہو ۔ پس اگر صاحبین کی راے امام کی سے مروی آرا میں کسی ایک سے موافق ہو تو اس کے خلاف راے پر فتوی نہیں دیا جائے گا ۔
- اگر امام اور ان کے تلامذہ میں اختلاف ہو تو امام کی راے پر فتوی دیا جائے گا ، بالخصوص جبکہ صاحبین میں کسی ایک کی راے امام کی راے کے موافق ہو ۔
- اگر امام ایک طرف ہوں اور صاحبین دوسری طرف تو اگر یہ اختلاف کسی شرعی دلیل کی تعبیر و تشریح پر مبنی ہو تو امام کی راے پر عمل کیا جائے گا ، اور اگر اختلاف احوال کے تغیر کی بنا پر ہو تو صاحبین کی راے پر فتوی دیا جائے گا ۔
- اگر کسی مسئلے میں امام کی راے نقل نہ کی گئی ہو تو فتوی ابو یوسف کی راے پر دیا جائے گا ؛ وہ بھی نہ ہو تو محمد کی راے پر ، ورنہ زفر کی راے پر اور وہ بھی نہ ہو تو حسن ( بن زیاد ) کی راے پر فتوی دیا جائے گا ۔
- اگر کسی مسئلے پر ان کبار فقہا یا ان کی طرح کے دیگر فقہا کی راے نہ ملے تو پھر دیکھنا چاہیے کہ ان کے بعد کے فقہا نے اس مسئلے میں کوئی متفقہ راے دی ہے یا نہیں ؟ اگر دی ہے تو اسی کی اتباع کی جائے گی ۔ اگر ان کا اختلاف ہو تو پھر جمہور فقہاے مذہب کی راے ، بالخصوص ابو حفص ، ابو جعفر ، ابو اللیث اور طحاوی جیسے فقہا کی راے پر فتوی دینا چاہیے ۔
- اگر یہ راستہ بھی میسر نہ ہو تو پھر مفتی پر یہ ذمہ داری آن پڑتی ہے کہ وہ ان فقہاے کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود اس مسئلے کا شرعی حل تلاش کرے ۔
- واضح رہے کہ وہی مفتی فقہا کی آرا میں اختلاف کی صورت میں کسی راے کا انتخاب کرسکتے ہیں جو کسی مسئلے کا قانونی تجزیہ کرنے اور اس کے لیے قانونی حکم کے استنباط کے لیے مجتہدانہ بصیرت رکھتے ہوں ۔ باقی رہے ہم اور ہمارے معاصرین ، اور ہمارے ان کے اساتذہ اور ان اساتذہ کے اساتذہ ، تو ہماری حیثیت تو صرف مجتہدین کی آرا کے نقل کرنے والوں اور ان کی حکایت کرنے والوں کی ہے ۔
یہاں علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ حنفی مسلک میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا اور اس کی شہادت متقدمین احناف کی نصوص بھی دیتی ہیں اور دیگر مسالک کے فقہاء کی عبارات بھی ۔ اس لیے امام بزازی کی عبارت ، جہاں پہلی دفعہ حنفی فقہا کے ہاں ایک مختلف راے ملتی ہے ، اصولاً ناقابل قبول ہے ۔
بزازی اور ان کے متبعین کی راے کے اصل مآخذ
اس کے بعد علامہ شامی نے یہ بات بھی قطعی طور پر ثابت کی ہے کہ فتاوی بزازیہ کی عبارت حنفی فقہا کی تصریحات کے بجائے مالکی فقیہ قاضی عیاض کی الشفا اور حنبلی فقیہ امام ابن تیمیہ کی الصارم المسلول سے ماخوذ ہے ۔ نیز علامہ شامی نے یہ بھی دکھایا ہے کہ بزازی سے قاضی عیاض اور امام ابن تیمیہ کی عبارات کے فہم میں غلطی ہوئی ہے ورنہ قاضی عیاض اور امام ابن تیمیہ دونوں نے حنفی موقف کو صحیح طور پر نقل کیا ہے۔ اسی طرح علامہ شامی نے ثابت کیا ہے کہ ابن الھمام کا انحصار بزازیۃ پر تھا اور خود ابن الھمام کے شاگرد رشید علامہ قاسم نے ان کے قول کو اس بنیاد پر رد کیا ہے کہ وہ حنفی مسلک کے خلاف ہے ۔ اسی طرح ابن نجیم پر خود ان کے اہل عصر نے بھی اس سلسلے میں تنقید کی تھی ، بالخصوص جبکہ ابن نجیم نے حوالہ الجوھرۃ کا دیا ہے لیکن وہاں یہ عبارت نہیں پائی جاتی ۔
کیا توبہ کی قبولیت سے مراد اخروی سزا کا سقوط ہے ؟
یہ ثابت کرنے کے بعد کہ حنفی مسلک توبہ کی قبولیت کا ہی ہے ، علامہ شامی اس تاویل کی طرف رخ کرتے ہیں جو بعض لوگوں نے بزازی اور ابن الھمام وغیرہ کے دفاع میں پیش کی ہے ، کہ توبہ کی قبولیت سے مراد اخروی سزا کا سقوط ہے ، نہ کہ دنیوی سزا ۔ علامہ شامی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ تاویل پیش کرنے والے اصل محل نزاع کو ہی نظر انداز کرگئے ہیں۔ قاضی عیاض ، امام ابن تیمیہ ، امام سبکی اور اما م ابو یوسف کی جو عبارات نقل کی گئیں ان میں صراحتاً مذکور ہے کہ اصل بحث سزاے موت کے سقوط یا عدم سقوط پر ہے ۔ چنانچہ امام ابو یوسف قرار دیتے ہیں : فان تاب، والا قتل۔
کیا توبہ اس لیے دنیوی سزا ساقط نہیں کرسکتی کہ مجرم فساد کا ارتکاب کرتا ہے ؟
بزازی اور ابن الہمام کے قول کی ایک اور تاویل یہ بھی پیش کی گئی ہے کہ اس قول کی بنا یہ امر ہے کہ مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ محترم شخصیت کی شان میں گستاخی کرکے مجرم فساد فی الارض کا ارتکاب کرتا ہے اور یہ حنفی مسلک کا مسلمہ اصول ہے کہ فساد فی الارض کی سنگین صورت میں مجرم کو سزاے موت دی جاسکتی ہے ۔ اس تاویل کا جواب علامہ شامی یہ دیتے ہیں کہ ایک تو گستاخ رسول تعزیری نہیں بلکہ اسے ارتداد کی سزا بطور حد دی جاتی ہے اگر وہ توبہ نہ کرے ، دوسرے اگر سزاے موت فساد کی وجہ سے دی جارہی ہے تو یہ حکم مطلق صورت میں صحیح نہیں ہے کیونکہ فساد کی ہر صورت پر موت کی سزا نہیں دی جاسکتی ، بلکہ صرف اسی صورت میں یہ سزا دی جاتی ہے جب مجرم معاشرے میں عمومی انتشار کا باعث بنے اور اس کے فساد کے خاتمے کے لیے سواے سزاے موت کے اور کوئی راستہ نہ ہو ۔ پس اگر مجرم اسے عادت بنالے کہ جب بھی وہ پکڑا جائے وہ توبہ کرکے خود کو بچانے کی کوشش کرے ، یا وہ جرم انتہائی اشتعال انگیز انداز میں یا سرکشی کے ساتھ کرے تب اسے فساد کا مرتکب قرار دے کر سزاے موت دی جاسکتی ہے لیکن ایسا جرم کی ہر صورت میں نہیں ہوسکتا ۔
کیا اس طرح بزازی اور دیگر فقہا کی کتب پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے؟
یہاں علامہ شامی اس اعتراض کا بھی رد کرتے ہیں کہ ان کے اس موقف کی وجہ سے بزازیہ جیسی مستند کتاب ناقابل اعتماد ٹھہرتی ہے ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ امام بزازی ، محقق ابن الھمام اور دیگر فقہا جنھوں نے اس راے کا اظہار کیا ہے ، ان کا احترام اور ان کے ساتھ عقیدت اپنی جگہ لیکن اللہ کی کتاب کے سوا کوئی کتاب غلطی سے پاک نہیں ہوسکتی اور اللہ تعالیٰ نے اس امت پر جو احسان کیے ہیں ان میں ایک بڑا احسان یہ ہے کہ ہر دور میں اس نے اپنے بعض بندوں سے یہ کام لیا ہے کہ وہ اپنے پیش رووں کی غلطیوں کا احتساب کرکے شرعی احکام کی توضیح اور احقاق حق کا فریضہ ادا کرتے رہیں۔ پس فقہا نے اپنے پیش رووں کے کام کا تنقیدی جائزہ لے کر اس میں غث و ثمین کی تمییز کا کام ہمیشہ سے جاری رکھا ہے اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے بھی اختلاف کرتے آئے ہیں ۔ پھر علامہ شامی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ غلطی کسی ایک اہل علم سے ہوجاتی ہے لیکن ان پر اعتماد کی وجہ سے دوسرے اس راے کو نقل کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں بات پھیل جاتی ہے لیکن جب یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ پہلا قدم ہی غلط اٹھایا گیا تھا تو پھر اس غلطی پر اصرار نہیں کرنا چاہیے ۔ اس کے بعد انھوں نے کئی ایسی مثالیں دی ہیں جن میں بعض بڑے اہل علم سے کسی مسئلے کے صحیح حکم کے تعین میں تسامح ہوا ہو اور بعد کے فقہا نے اس کی تصحیح کی ہو ۔
کیا ایسے مجرم پر مرتد کے بجاے زندیق کے احکام کا اطلاق ہوگا؟
اس مقام پر پہنچ کر علامہ شامی ایک اور اہم تاویل کا تنقیدی تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔ شیخ ابو السعود الآفندی سے روایت کی گئی ہے کہ گستاخ رسول پر عام مرتدین کے بجاے زندیق کے احکام کا اطلاق ہوگا جن میں ایک یہ ہے کہ اس کی ظاہری توبہ دنیوی سزا ساقط نہیں کرسکتی۔ صاحب در مختار کی تحقیق کے مطابق اس راے کی بنا یہ امر ہے کہ فقہا کے درمیان گستاخ رسول کی توبہ کی قبولیت و عدم قبولیت پر اختلاف اس صورت میں ہے جب اسے گرفتار نہ کیا گیا ہو ، اور یہ کہ جب اسے گرفتار کیا گیا تو پھر بالاتفاق اس کی توبہ سزا ساقط نہیں کرسکے گی کیونکہ اسے زندیق سمجھا جائے گا۔ چنانچہ اس سلسلے میں عثمانی خلیفہ کے ایک فرمان کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے جو ۹۳۴ ھ میں جاری کیا گیا تھا اور جس میں قرار دیا گیا تھا کہ اگر مجرم کی توبہ قاضی کو مطمئن کردے تو اسے سزاے موت کے بجاے تعزیری سزا دی جائے گی جیسا کہ امام اعظم کا مسلک ہے ، اور اگر قاضی مجرم کی توبہ سے مطمئن نہ ہو تو وہ اسے دیگر فقہا کی راے کے مطابق سزاے موت دے گا ۔
علامہ شامی کہتے ہیں کہ محقق ابوالسعود کے احترام اور ان کے ساتھ عقیدت کے باوجود کہنا پڑتا ہے کہ ان کے قول کے دو اجزا باہم متناقض ہیں کیونکہ پہلے جز میں قرار دیا گیا ہے کہ گرفتاری کے بعد مجرم کی توبہ کی عدم قبولیت پر کوئی اختلاف نہیں ہے ، جبکہ آخری جز میں تصریح کی گئی ہے کہ امام اعظم اور دیگر فقہا کا اختلاف گرفتاری کے بعد کے مرحلے پر ہے ۔ مزید برآں خود مفتی ابو السعود نے ایک اور فتوی میں قطعی الفاظ میں تصریح کی ہے کہ امام اعظم کا مسلک یہی ہے کہ مجرم کی گرفتاری کے بعد بھی اس کی توبہ قاضی کو مطمئن کردے تو وہ سزا کو ساقط کردے گا ۔
علامہ شامی نے اس بات کا بھی تفصیلی تجزیہ کیا ہے کہ کیا گستاخ رسول کو زندیق سمجھا جاسکتا ہے ؟ اور کیا اسے زندیق قرار دینے سے بزازی کا دیگر فقہاے احناف کے ساتھ اختلاف رفع ہوجاتا ہے ؟ انھوں نے واضح کیا ہے کہ اس مجرم کو زندیق قرار دینے سے ان تمام عبارات کی مخالفت لازم آتی ہے جن میں قرار دیا گیا ہے کہ وہ مرتد ہے اور اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا جو مرتد کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ اس عمومی حکم کی تخصیص تبھی مانی جاسکتی ہے جب ائمۂ مذہب سے اس کی روایت کی گئی ہو اور ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے ۔ نیز اگر یہ تخصیص مان لی گئی تب بھی بزازی اور ائمۂ مذہب کا اختلاف رفع نہیں ہوتا کیونکہ بزازی اور ان کے متبعین کی راے یہ ہے کہ گرفتاری سے قبل بھی اس مجرم کی توبہ ناقابل قبول ہے ۔ گویا اس تاویل کو ماننے سے دو آرا کا اختلاف رفع نہیں ہوتا بلکہ اس سے ایک تیسری راے وجود میں آجاتی ہے ۔
یہاں پھر علامہ شامی اس اصول کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ جب مذہب کے مجتہدین کے ساتھ متاخرین کا اختلاف ہو تو مجتہدین کی راے پر عمل لازم ہے ۔ اس لیے فتوی بزازی اور ان کے بعد آنے والوں کی راے کے بجاے ابو یوسف ، طحاوی اور دیگر ائمۂ مذہب کے موقف پر ہی دیا جائے گا ۔ حقیقی اختلاف تو اس صورت میں ہوتا جب ان ائمۂ مذہب کے مرتبے کے مجتہدین سے کوئی مختلف راے منقول ہوتی ۔ ( مثال کے طور پر ابو یوسف کچھ کہتے اور محمد کچھ اور ۔ ) اس صورت میں بھی ہمارا کام یہ نہ ہوتا کہ کسی ایک راے کی ترجیح کریں ، بلکہ یہ کام اصحاب ترجیح ہی کا ہوتا اور ہم پر ان کی اتباع لازم ہوتی ۔ اب جبکہ ائمۂ مذہب میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں تو ان سے مرتبے میں کم متاخرین نے خواہ ایک مختلف راے اختیار کی ہو اس اختلاف کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
علامہ شامی اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ بزازی ، ابن الہمام ، ابن نجیم اور دیگر فقہا پر، جنھوں نے ائمۂ مذہب سے منقول موقف کے خلاف راے اختیار کی ہے، دیگر فقہاے مذہب کی جانب سے مسلسل تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔ بہ الفاظ دیگر ان کے اختلاف کو مذہب کے اندر قبولیت عامہ حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔
گستاخی کے ہر ملزم کو زندیق کیوں قرار نہیں دیا جاسکتا؟
پھر علامہ شامی یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ گستاخی کے ہر ملزم کو زندیق کیوں قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ انھوں نے ابن الھمام کے حوالے سے زندیق کی یہ تعریف پیش کی ہے کہ زندیق سے مراد وہ شخص ہے جو کسی دین پر ایمان نہ رکھتا ہو اور جو عہد رسالت کے منافقین کی طرح ہو کہ بظاہر مسلمان ہو لیکن بباطن کافر ہو ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی پہچان صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس کا راز کسی طرح آشکارا ہوجائے ، یا وہ اپنے کسی ساتھی پر اپنا اصل عقیدہ واضح کرے ۔ یہاں البحر الرائق اور الخلاصۃ سے بعض جزئیات نقل کرنے کے بعد علامہ شامی التجنیس سے یہ اہم جزئیہ نقل کرتے ہیں کہ زندیق کی تین قسمیں ہیں :
۱۔ ایسا زندیق جو اصلاً مشرک ہو ؛
۲ ۔ ایسا زندیق جو پہلے مسلمان تھا ؛ اور
۳ ۔ ایسا زندیق جو پہلے ذمی تھا ۔
ان میں پہلی قسم سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا ، الا یہ کہ وہ مشرکین عرب میں سے ہو۔ ( احناف کے نزدیک مشرکین عرب کے لیے دو ہی راستے ہیں : اسلام یا سزاے موت ۔ ) اسی طرح تیسری قسم کے زنادقہ سے بھی تعرض نہیں کیا جائے گا کیونکہ اہل ذمہ بھی غیر مسلم ہیں اور زنادقہ بھی ، اور الکفر ملۃ واحدۃ ۔ البتہ دوسری قسم کے زنادقہ ، جو پہلے مسلمان تھے ، کا حکم یہ ہے کہ انھیں اسلام قبول کرنے کو کہا جائے گا اور انکار پر انھیں سزاے موت دی جائے گی کیونکہ وہ مرتد ہو گئے ۔
علامہ کمال پاشا نے بھی تصریح کی ہے کہ ایسے زنادقہ اور مرتدین میں احکام کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ۔ البتہ انھوں نے تنبیہ کی ہے کہ اگر اس قسم کے زنادقہ میں اگر کوئی ایسا ہو جو اپنے مسلک کے لیے بہت مشہور ہو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت بھی دیتا ہو تو اگر گرفتاری سے پہلے وہ توبہ کرے تو اسے ارتداد کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن اگر گرفتاری تک اس نے توبہ نہیں کی تو اسے سزاے موت دی جائے گی خواہ گرفتاری کے بعد وہ توبہ کرے ۔ علامہ شامی قرار دیتے ہیں کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس دوسری قسم کے زنادقہ میں جن کی توبہ گرفتاری کے بعد ان کی سزا کو ساقط نہیں کرسکتی ، یہ وہ مخصوص طبقہ ہے جن کو فساد پھیلانے کی وجہ سے سزا دی جاتی ہے ، بالکل اسی طرح جیسے جادوگروں ، ڈاکووں اور رہزنوں اور دیگر مفسدین کو سزاے موت دی جاتی ہے ۔
کیا گستاخی کے ہر ملزم کو زنادقہ کے اس مخصوص طبقے میں شامل سمجھا جاسکتا ہے ؟
اس مقام پر علامہ شامی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا گستاخی کے ہر ملزم کو زنادقہ کے اس مخصوص طبقے میں شامل سمجھا جاسکتا ہے ؟ وہ پھر یاد دلاتے ہیں کہ ان مخصوص زنادقہ کی سزاے موت کی علت ان کا کفر نہیں ، بلکہ یہ امر ہے کہ یہ فساد پھیلاتے ہیں ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا مرتکب اپنا خبث باطن آشکارا کردیتا ہے اور اس کے ظاہری اسلام یا توبہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، تو علامہ شامی اس بات کو نہیں مانتے ۔ وہ قرار دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو پھر یہی حکم اس شخص کا بھی ہوتا جو رسول کے بجاے خدا کی شان میں گستاخی کرے ۔ نیز وہ یاد دلاتے ہیں کہ زنادقہ میں بھی یہ حکم صرف اس مخصوص طبقے کے لیے ہے جو اپنے مسلک کے لیے معروف ہو اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت بھی دیتا ہو ۔ گستاخی کا ہر مجرم اس نوعیت کا نہیں ہوتا ۔ علامہ شامی توجہ دلاتے ہیں کہ بسا اوقات اس جرم کا ارتکاب اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی شخص کو بہت زیادہ اشتعال دلایا جائے ۔ البتہ اگر مجرم اس فعل کے لیے معروف ہو اور وہ دوسروں کو بھی اس کے ارتکاب کی ترغیب دیتا ہو تو پھر اس کے زندیق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اسے قطعی طور پر سزاے موت دی جائے گی خواہ وہ دعوی کرتا ہو کہ اس نے توبہ کرلی ہے ۔
تکفیر میں احتیاط کی ضرورت
یہاں پہنچ کر علامہ شامی اس اہم حقیقت کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ کسی قول یا فعل کو کفر یا گستاخی قرار دینے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اگر کسی قول یا فعل کی مناسب تاویل ممکن ہو تو اس کے مرتکب کو کافر یا گستاخ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس سلسلے میں انھوں نے جامع الفصولین ، الفتاوی الصغری ، البزازیۃ ، التتارخانیۃ ، البحر الرائق اور خیر الدین الرملی کے فتاوی سے کئی جزئیات نقل کی ہیں ۔
ساری بحث کا خلاصہ
علامہ شامی نے ایک بہترین محقق کا کردار ادا کرتے ہوئے اس ساری بحث کا خلاصہ بھی اس مقام پر پیش کیا ہے ۔ چنانچہ وہ قرار دیتے ہیں کہ فقہاے احناف سے اس گستاخ رسول کے متعلق جو پہلے مسلمان تھا ، تین آرا نقل کی گئی ہیں :
۱ ۔ پہلی راے وہ ہے جس کی روایت امام ابو حنیفہ سے قاضی عیاض مالکی ، امام ابن تیمیہ حنبلی اور امام سبکی شافعی نے کی ہے کہ اس مجرم کی توبہ اس کی سزاے موت کو ساقط کردے گی خواہ اس نے توبہ گرفتاری سے قبل کی ہو یا بعد میں ۔ امام ابو حنیفہ سے اس راے کی روایت امام طبری نے بھی کی ہے ۔ یہ راے فقہاے احناف کے متقدمین کی مستند کتابوں میں بھی منقول ہے ۔ چنانچہ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں اس کی تصریح کی ہے اور یہی بات شرح الطحاوی میں بھی منقول ہے ۔ نیز حنفی مسلک کی معتبر متون کے مندرجات سے بھی اسی راے کی تائید ہوتی ہے ۔
۲ ۔ دوسری راے بزازیہ میں پیش کی گئی ہے کہ مجرم کی توبہ ، خواہ گرفتاری سے قبل ہو یا بعد میں ، ناقابل قبول ہے اور اس کی سزا توبہ سے ساقط نہیں ہوگی ۔ اس راے کی بنیاد حنفی مسلک کی اپنی روایت پر نہیں بلکہ قاضی عیاض کی الشفا اور امام ابن تیمیہ کی الصارم المسلول کی ان عبارات پر ہے جن میں امام ابو حنیفہ کا مسلک بیان کیا گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان عبارات کے فہم میں امام بزازی سے تسامح ہوا ہے ۔ یہ راے دراصل مالکی اور حنبلی فقہا کی ہے ۔ بزازی کے بعد اس راے پر اعتماد علامہ خسرو نے الدرر میں ، محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں ، ابن نجیم نے البحر الرائق اور الأشباہ میں ، علامہ تمرتاشی نے التنویر اور المنح میں ، شیخ خیر الدین الرملی نے اپنے فتاوی میں اور بعض دیگر متاخرین فقہا نے اپنی کتب میں کیا ہے ۔
۳ ۔ تیسری راے مفتی ابو السعود نے اختیار کی ہے کہ گرفتاری سے قبل اس شخص کی توبہ قابل قبول ہے لیکن گرفتاری کے بعد اس کی توبہ اسے سزاے موت سے نہیں بچا سکتی ۔
یہ بات بھی ثابت ہوچکی کہ بزازی اور ان کے متبعین کی راے پر دیگر فقہاے مذہب اس بنا پر مسلسل تنقید کرتے آئے ہیں کہ یہ راے حنفی مسلک کے مطابق نہیں ہے ۔ مفتی ابو السعود کی راے دراصل اس کوشش پر مبنی ہے کہ کسی طرح پہلی دو آرا میں تعارض کو رفع کیا جاسکے لیکن اس کوشش سے تعارض تو کیا رفع ہوتا ، ایک تیسری راے وجود میں آگئی ۔
ترجیح کے دس دلائل
بحث کے آخر میں علامہ شامی بعض مزید دلائل سامنے لاتے ہیں جن کی بنا پر وہ ان تین آرا میں پہلی راے کو ترجیح دیتے ہیں جو براہ راست ائمۂ مذہب سے منقول ہے ۔ جو دس دلائل یہاں علامہ شامی نے دیے ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے :
۱ ۔ ہم مقلد ہیں اور مقلد پر مجتہد کی راے کی اتباع واجب ہے ۔
۲ ۔ اس مسئلے میں امام کے ساتھ ابو یوسف اور محمد دونوں متفق ہیں جبکہ امام کے ساتھ صاحبین میں کسی ایک کی راے بھی موافق ہو تو حنفی مسلک میں اسی راے کی اتباع کی جاتی ہے ۔
۳ ۔ متقدمین اور متاخرین کے اختلاف کی صورت میں متقدمین کی راے کی اتباع ضروری ہے ۔
۴ ۔ متون اور شروح کے درمیان تعارض کی صورت میں متون کو ترجیح حاصل ہے اور اس مسئلے میں پہلی راے ہی متون کے مطابق ہے ۔
۵ ۔ اس جرم کا مرتکب اصلاً مسلمان تھا اور شہادتین کی وجہ سے اس کی جان کو عصمت حاصل تھی ۔ پس جو شخص اس کے خون کی حلت کا دعویدار ہے اس پر لازم ہے کہ اس حلت کے لیے قطعی دلیل لائے ۔ جس مجتہد کی اتباع ہم نے اپنے اوپر لازم قرار دی ہے ان کی راے بھی اس حلت کے خلاف ہے ۔ ہم اپنے طور پر مجتہد بھی نہیں ہیں اور ایسے مجتہد کے مقلد بھی نہیں ہیں جو اس حلت کے قائل ہوں ۔
۶ ۔ کسی کو عدالتی کاروائی کے ذریعے مرتد قرار دینا ایک انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ اس لئے اس میں حتی الامکان احتیاط کی ضرورت ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کے تقاضے اپنی جگہ، لیکن اس محبت کا اولین تقاضا ان کی شریعت کی اتباع ہے :
ان أمر الدم خطر عظیم حتی لو فتح الامام حصناً أو بلدۃً و علم أن فیھا مسلماً لا یحل لہ قتل أحد من أھلھا لاحتمال أن یکون المقتول ھو المسلم ۔ فلو فرضنا ان ھذہ النقول قد تعارضت فالأحوط فی حقنا أن لا نقتلہ لعدم الجزم بأنہ مستحق القتل ، فان الأمر اذا دار بین ترکہ مع استحقاقہ للقتل و بین قتلہ مع عدم استحقاقہ لہ تعین ترکہ لخطر الدماء ۔۔۔ و الأدلۃ فی ذلک متعارضۃ مع احتمالھا للتأویل بلا نص صریح ۔ و لیس لنا أن ننصب بآرائنا حدوداً و زواجر ۔ و انما کلفنا بالعمل بما ظھر أنہ من شرع نبینا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ۔ فحیث قال لنا : اقتلوا ، قتلنا ۔ وحیث قال : لا تقتلوا ترکنا ۔ و حیث لم نجد نصا قطعیاً و لا نقلاً عن مجتھدنا مرضیاً ، فعلینا أن نتوقف، ولا نقول ان محبتنا لنبینا صلی اللہ تعالی علیہ و سلم تقتضی أن نقتل من استطال علیہ و ان أسلم، لأن المحبۃ شرطھا الاتباع، لا الابتداع ۔ فاننا نخشی أن یکون صلی اللہ تعالی علیہ وسلم أول من یسألنا عن دمہ یوم القیامۃ ۔ فالواجب علینا الکف عنہ حیث أسلم، و حسابہ علی ربہ، العالم بما فی قلبہ، کما کان صلی اللہ تعالی علیہ و سلم یقبل الاسلام فی الظاھر، ویکل الأمر الی عالم السرائر ۔
[کسی کی جان کی حلت کا فیصلہ کرنا ایک سنگین معاملہ ہے ۔ یہاں تک کہ اگر امام کوئی قلعہ یا شہر فتح کرے اور اسے علم ہو کہ وہاں ایک مسلمان ہے تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ وہاں کے لوگوں میں کسی ایک کو بھی قتل کرے کیونکہ ہر شخص کے متعلق یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ شاید وہی مسلمان ہو ۔ پس اگر ہم نے یہ فرض کیا کہ ان نصوص کے درمیان تعارض ہے تو ہمارے حق میں زیادہ محتاط طریقہ یہی ہے کہ اسے سزاے موت نہ دیں کیونکہ اس کا سزاے موت کا مستحق ہونا قعطی نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس کے معاملے میں دو امکانات ہیں کہ یا تو اسے سزاے موت کا مستحق ہونے کے باوجود چھوڑ دیا جائے یا اسے مستحق نہ ہونے کے باوجود سزاے موت دی جائے تو جان لینے کی سنگینی کی وجہ سے اسے چھوڑ دینا لازمی ہوگیا ۔۔۔ اور اس مسئلے میں دلائل کا آپس میں تعارض ہے اور ان میں کوئی نص صریح نہیں ہے بلکہ ہر ایک دلیل تاویل کا احتمال رکھتی ہے اور ہمیں یہ اختیار نہیں حاصل کہ ہم اپنی آراء کی بنیاد پر حدود قائم کریں اور سزائیں دیں ، بلکہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کا جو حکم ہم پر ظاہر ہو جائے تو اس پر عمل کریں ۔ پس اگر شریعت نے ہمیں کہا کہ سزاے موت دو تو ہم دیں گے اور اگر کہا کہ نہ دو تو نہیں دیں گے ، اور جہاں ہمیں کوئی قطعی نص نہ ملے ، نہ ہی ہمیں اپنے مجتہد کی جانب سے مقبول روایت ملے ، تو ہماری ذمہ داری ہوگی کہ ہم رک جائیں ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہماری محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان پر زبان دراز کرنے والے کو سزاے موت دیں کیونکہ ان کے ساتھ محبت کی شرط یہ ہے کہ ان کی اتباع کی جائے نہ کہ اپنی جانب سے شریعت میں حکم کا اضافہ کیا جائے ، کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں قیامت کے دن اس کے خون کے متعلق سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ ہی ہم سے نہ پوچھ لیں ! پس ہم پر واجب ہے کہ جب اس نے اسلام قبول کرلیا تو ہم اسے سزاے موت دینے سے باز رہیں اور اس کے ساتھ حساب کا معاملہ اس کے رب پر چھوڑ دیں جو اس کے دل کی اندرونی کیفیت سے باخبر ہے ، جیسے رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ظاہری اسلام کو قبول فرماتے تھے اور ان کے دلوں کا معاملہ رازوں سے باخبر ذات پر چھوڑ دیتے تھے ۔ ]
۷ ۔ اگر ہمارا مسلک یہ ہو کہ اس مجرم کو توبہ کے باوجود بہر صورت سزا دینی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے نزدیک سزاے موت کی علت خاص گستاخی کا فعل ہے، نہ کہ یہ امر کہ مسلمان گستاخی کے ارتکاب کی وجہ سے مرتد ہوجاتا ہے ۔ اگر ایسا ہو تو پھر ہر گستاخ کو گستاخی کے فعل کی وجہ سے لازماً سزاے موت دی جائے گی ، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم ۔ تاہم یہ بات ہمارے مسلک کے اس صریح فیصلے کے خلاف ہوگی جس کی تصریح متون میں کی گئی ہے کہ گستاخی کے ارتکاب کی وجہ سے ذمی کا عقد نہیں ٹوٹتا ، اگرچہ حکمران بعض حالات میں اس کے فساد کے خاتمے کے لیے بطور سیاسہ اسے سزاے موت دے سکتا ہے ۔
۸ ۔ اگر خون کی حلت و حرمت کے متعلق دلائل میں تعارض ہو تو احناف کے ہاں ترجیح حرمت کی دلیل کو حاصل ہوگی ۔
۹ ۔ شبھۃ کی موجودگی میں حد ساقط ہوتی ہے ، جیسا کہ فقہ کا مسلمہ قاعدہ ہے ۔
۱۰ ۔ ابن ابی سرح کے واقعے سے بھی یہی حقیقت ثابت ہوتی ہے جنھوں نے ارتداد کا ارتکاب بھی کیا اور شان رسالت میں گستاخی بھی کی لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان کو دربار رسالت میں لے آئے تو آپ نے بالآخر اس کی جانب سے توبہ اور اسلام کو دوبارہ قبول کرنے کا فعل قبول کرلیا ۔ اگر یہ حد کا معاملہ ہوتا جس میں معافی نہیں ہوتی ، نہ ہی رحم کی درخواست کی جاسکتی ہے تو رسول اللہ ﷺ کبھی ان کی بیعت قبول نہ کرتے ۔ یہ تاویل بھی صحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے سے قبل ہی اس نے اسلام قبول کیا تھا کیونکہ جیسا کہ امام سبکی نے تصریح کی ہے یہ روایت اہل سیر کے ہاں غیر مقبول ہے ۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ ابن ابی سرح آپ کا سامنا کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کیا میں نے اس کی بیعت قبول نہیں کی اور اسے امان نہیں دیا؟ انھوں نے جواب دیا : کیوں نہیں لیکن وہ اسلام سے قبل اپنے گناہوں کو یاد کرکے پچھتاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : اسلام اپنے سے پہلے کے گناہوں کو دھو دیتا ہے ۔ اسے معلوم ہوا کہ نہ صرف سزاے موت بلکہ گناہ بھی قبولیت اسلام کی وجہ سے دھل جاتا ہے ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ سزا حق اللہ ہے ، نہ کہ حق العبد ، کیونکہ حق العبد ہونے کی صورت میں یہ سزا قبولیت اسلام پر ساقط نہ ہوتی ۔
کیا مجرم کو معاف کرنا رسول اللہ ﷺ کا ذاتی حق تھا ؟
بعض لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ کسی مجرم کو معاف کرنا یا نہ کرنا رسول اللہ ﷺ کا ذاتی حق تھا ، اس لیے آپ کی رحلت کے بعد کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ مجرم کو معاف کردے ، پس توبہ سے صرف گناہ ہی معاف ہوسکتا ہے ، دنیوی سزا ساقط نہیں ہوسکتی ۔ اس سلسلے میں ایک حدیث کا حوالہ بھی بالعموم دیا جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جس نے کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی کی تو اسے سزاے موت دو۔
علامہ شامی اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ روایات میں مجرم کے لیے عفو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اصطلاح شریعت میں گناہ کی معافی کے لیے نہیں بلکہ سزا کی معافی کے لیے رائج ہے ۔ نیز یہ بھی مسلّم ہے کہ رسول اللہ ﷺ انتہائی کریم تھے ، اپنی امت کی غلطیوں کے معاف کرنے میں نہایت رحم دل تھے اور ذاتی حق کے معاملے میں درگزر سے کام لیتے تھے، البتہ جہاں اللہ تعالیٰ کی حدود کی پامالی ہوتی تو آپ وہاں سختی سے کام لیتے تھے ۔ جہاں تک مذکورہ حدیث کا تعلق ہے تو اس کی تاویل وہی ہے جو اسی نوعیت کی دوسری حدیث کی ہے : جس نے اپنا دین تبدیل کیا اسے سزاے موت دو ، یعنی اگر وہ توبہ نہ کرے ۔ یہی کچھ یہاں بھی کہا جائے گا کہ جس نے کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی کی اسے سزاے موت دو اگر وہ توبہ نہ کرے ۔
مزید برآں اس سزا کی علت خاص گستاخی کا فعل نہیں ہے بلکہ یہ امر ہے کہ گستاخی کی وجہ سے یہ شخص مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کی سزا موت ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر گستاخ کے ذمی ہونے کی صورت میں بھی اسے لازماً یہ سزا دی جاتی حالانکہ مسلمہ طور پر ہمارا مسلک یہ نہیں ہے ۔ اگر گستاخی کو علت قرار دیا جائے تب بھی یہی کہا جائے گا کہ گستاخی سزاے موت کی علت اس وجہ سے ہے کہ گستاخی کا یہ فعل کفر و ارتداد کا موجب ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ گستاخی بذات خود علت ہے خواہ وہ کفر و ارتداد کی موجب نہ ہو تو کیا وہ کسی ایسی صورت کا تصور کرسکتا ہے جس میں گستاخی تو ہو لیکن وہ گستاخی کفر و ارتداد کی موجب نہ ہو ؟
علامہ شامی یہاں پہنچ کر فریق مخالف کے دیگر دلائل کے بھی تفصیلی جواب دیے ہیں ۔
کعب بن الاشرف وغیرہ کی سزاے موت سے زیرنظر مسئلے میں استدلال باطل ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ کعب بن الاشرف ، ابو رافع ، ابن خطل اور اس نوعیت کے دیگر مجرموں کو یقیناًرسول اللہ ﷺ نے سزاے موت سنائی لیکن ان میں کسی بھی سزا سے مسئلۂ زیر بحث پر کوئی اثر نہیں پڑتا جب تک کہ یہ ثابت نہ کیا جائے کہ ان میں سے کوئی مسلمان ہوا تھا اور اس کے باوجود رسول للہ ﷺ نے اس کی سزاے موت برقرار رکھی ۔ ابن ابی سرح کے واقعے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد سزا ساقط ہوجاتی ہے۔
جہاں تک مجرم کی سزاے موت پر اجماع کے دعوے کا تعلق ہے تو علامہ شامی نے واضح کیا ہے کہ یہ اجماع اس صورت میں ہے جب مجرم نے توبہ نہ کی ہو کیونکہ توبہ کی صورت میں سزاے موت کے وجوب و عدم وجوب پر فقہا کا اختلاف ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔
اسی طرح علامہ شامی فرماتے ہیں کہ یہ موقف صحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ذاتی حق کا معاف کرنا بعد کے لوگوں کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ اسلام قبول کرنے سے پچھلے جرائم معاف ہوجاتے ہیں تو گویا آپ نے تصریح کی کہ جس نے اسلام قبول کیا اسے میں نے معاف کردیا ۔ اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام سبکی نے نقل کیا کہ ہبار بن الاسود بن عبد المطلب کی سزاے موت کا رسول اللہ ﷺ نے حکم جاری کیا تھا لیکن انھوں نے آپ کے سامنے آکر اسلام کی قبولیت کا اعلان کیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمھیں معاف کردیا اور اسلام پچھلے جرائم کو دھو دیتا ہے ۔ پس اگر گستاخی کو رسول اللہ ﷺ کے ذاتی حق پر عدوان سمجھا جائے تب بھی رسول اللہ ﷺ نے گویا اعلان عام فرمایا ہے کہ اگر کسی نے اسلام قبول کیا تو میں نے اسے معاف کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں پیش کیا جاسکتا جب کسی شخص نے گستاخی کے بعد اسلام قبول کیا ہو اور پھر بھی اسے سزاے موت دی گئی ہو ۔
علامہ شامی مزید فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اسلام قبول کرنے کی شرط پر اپنا حق معاف کردیا ہے تو آپ کا خلیفہ آپ کا حق نافذ کرنے کا مجاز نہیں رہا ۔ نیز اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا حق معاف نہیں فرمایا تب بھی خلیفہ صرف اسی صورت میں آپ کا حق نافذ کرسکتا ہے جب یہ ثابت کیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا حق نافذ کرنے کا اختیار خلیفہ کو دیا ہے ۔
اسلام پچھلے جرائم کو مٹا دیتا ہے
علامہ شامی کا اٹھایا گیا یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اگر اس سزاے موت کی بنیاد مصلحت عامہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اسے کبھی معاف نہ کرتے اور اگر اس کی بنیاد یہ امر ہوتا کہ اللہ کے رسول کی شان میں گستاخی کرکے اور دین کی توہین کرکے مجرم نے حق اللہ کی پامالی کی ہے تو اسلام قبول کرکے وہ اس جرم کو مٹا دیتا ہے ۔ یہاں علامہ شامی قرآن کریم کی بعض ان آیات سے استدلال کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مرتد کی توبہ مقبول ہے ۔ بناے استدلال یہ امر ہے کہ یہ حکم تمام مرتدین کے لیے ہے جن میں گستاخ رسول بھی شامل ہے ۔ اسی طرح وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ مسلمان کا خون صرف تین میں سے کسی ایک امر کی بنیاد پر حلال ہوتا ہے : زانی محصن ، نفس بالنفس اور مرتد ۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ گستاخی کا مجرم جب اسلام قبول کرلیتا ہے تو وہ ان تین اصناف میں سے کسی صنف میں بھی شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ علامہ شامی یہ نکتہ بھی اٹھاتے ہیں کہ جب اللہ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی سزاے موت توبہ اور قبول اسلام سے ساقط ہوسکتی ہے تو یہی حکم رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لیے بھی ہے کیونکہ دونوں جرم ایک ہی نوعیت کے ہیں ۔
لوگوں کے دلوں میں جھانکنا ہماری ذمہ داری نہیں
علامہ شامی مزید فرماتے ہیں کہ یہ بات بھی غلط ہے کہ گستاخی کا ارتکاب کرکے مجرم قطعاً اپنا خبث باطن آشکارا کردیتا ہے کیونکہ جب وہ توبہ کرکے اسلام قبول کرلیتا ہے تو وہ اس بات کی نفی کردیتا ہے ۔ یہاں وہ ان آیات او ر احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ لوگوں کے ظاہری اسلام کو قبول کرنا چاہیے اور ان کے دل کے عقیدے کا فیصلہ اللہ پر چھوڑنا چاہیے ۔ یہی طرز عمل رسول اللہ ﷺ نے منافقین کے معاملے میں اختیار کیا تھا ۔
آخر میں علامہ شامی نہایت عجز و انکساری کے ساتھ قرار دیتے ہیں کہ ان کی اس تحقیق سے شاید ان کا دعوی قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتا لیکن اس سے کم از کم شبھۃ تو پیدا ہوجاتا ہے جس کی موجودگی میں کسی ایسے شخص کے لیے ، جو اپنے دین اور عزت کے بارے میں حساس ہو ، یہ جائز نہیں کہ وہ قطعیت کے ساتھ ایسے مجرم کی توبہ کی عدم قبولیت اور اس کی سزاے موت کے عدم سقوط کی بات کرے۔
فصل سوم : ذمی کی جانب سے گستاخی کا ارتکاب
مسلمان ، جو گستاخی کے نتیجے میں مرتد ہوجائے ، کے مسئلے کے تفصیلی تجزیے کے بعد علامہ شامی فصل سوم میں ذمی کی جانب اس جرم کے ارتکاب کے قانونی اثرات پر بحث کرتے ہیں ۔
ذمی کے متعلق امام ابو حنیفہ کا مسلک
اس فصل کی ابتدا میں علامہ شامی نے امام سبکی ، قاضی عیاض اور امام ابن تیمیہ کے طویل اقتباسات پیش کیے ہیں جن میں امام ابو حنیفہ کے متعلق صراحت کی گئی ہے کہ وہ ذمی کے لیے تعزیری سزا کے قائل تھے اور سزاے موت کو اس کے لیے حد نہیں سمجھتے تھے کیونکہ ان کا موقف یہ تھا کہ جب ان کے شرک کے باوجود ان کے ساتھ عقد ذمہ کیا گیا تو اس کفر میں اضافے پر یہ عقد ٹوٹ نہیں سکتا لیکن فساد کے ارتکاب کی وجہ سے اسے مناسب سزا دی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد انھوں نے قرار دیا ہے کہ حنفی مسلک کی متون میں اسی بات کی تصریح کی گئی ہے جس کی روایت دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے یہ تین بڑے ائمہ کررہے ہیں ۔
بعض فقہاے احناف کی اختلافی راے
البتہ علامہ عینی نے امام شافعی کی راے کو اختیار کیا ہے کہ گستاخی سے ذمی کا عقد ٹوٹ جاتا ہے ۔ اسی طرح محقق ابن الہمام نے قرار دیا ہے کہ اگر ذمی ایسی بات کا کھلے عام اظہار کرے جو گستاخی کے زمرے میں آتی ہو اور وہ ان کے عقائد کا حصہ بھی نہ ہو تو اس پر اس کا عقد ٹوٹ جاتا ہے اور اگر وہ اس بات کا کھلے عام اظہار نہ کرے، لیکن کسی طرح اس کی بات کی سن گن ملے تو اس پر عقد نہیں ٹوٹتا ۔ تاہم ابن الھمام کا یہ موقف حنفی مسلک کے صریح خلاف ہے اور اس وجہ سے ان کے شاگرد علامہ قاسم نے اپنے شیخ کی اس راے کی اتباع سے منع کیا ہے ۔ ابن نجیم نے بھی اس راے پر کڑی تنقید کی ہے ۔ اسی طرح ابن نجیم نے علامہ عینی کی بات کو بھی رد کیا ہے کیونکہ اس کے حق میں ائمۂ مذہب سے کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ علامہ خیر الدین الرملی نے دفاع کی کوشش اس طرح کی ہے کہ عدم نقض سے سزاے موت کا عدم لازم نہیں آتا ۔ انھوں نے ابن السبکی کے حوالے سے یہ بھی قرار دیا ہے کہ امام شافعی کا مسلک بھی اصلاً یہی ہے کہ گستاخی سے ذمی کا عقد نہیں ٹوٹتا لیکن اسے سزاے موت دی جاسکے گی ۔
اگر ذمی گستاخی کو عادت بنالے
اس کے بعد علامہ شامی نے مختلف کتب فقہ سے بہت ساری عبارات پیش کی ہیں جن کا مقتضا یہ ہے کہ ذمی اگر گستاخی کو عادت بنالے ، یا سرکشی کے ساتھ اس جرم کا ارتکاب کرے تو حنفی مسلک کے مطابق ایسے شخص کے فساد کے خاتمے کے لیے اسے بطور سیاسہ سزاے موت دی جاسکتی ہے ۔
عقد ذمہ نہ ٹوٹنے کے قانونی نتائج
علامہ شامی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ عقد ذمہ نہ ٹوٹنے سے کیا فرق پڑتا ہے جبکہ اسے اس کے باوجود سزاے موت دی جاسکتی ہے ؟ انھوں نے دکھایا ہے کہ اگر اس کا عقد ٹوٹنے کی بات مانی جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اسے دیگر حربیوں کی طرح غلام بنایا جاسکے گا اور اس کا مال مسلمانوں کے لیے فے کی حیثیت رکھے گا ۔ گویا جب حنفی فقہا یہ کہتے ہیں کہ اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا لیکن اسے سزا دی جاسکے گی تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اسے حقوق شہریت حاصل رہیں گے اور ان کے بموجب اسے اور اس کے اموال کو دیگر امور سے قانونی تحفظ حاصل رہے گا، لیکن اس مخصوص جرم کے ارتکاب کی وجہ سے اسے اس جرم کی سزا دی جاسکے گی ۔
کیا ایسے مجرم کو سزاے موت نہیں دی جاسکے گی؟
بعض حنفی کتب میں قرار دیا گیا ہے کہ اس جرم کے بار بار ارتکاب پر بھی ذمی کو سزاے موت نہیں دی جائے گی ۔ علامہ شامی نے اس بات کا یہ جواب دیا ہے کہ اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ وہ اس جرم کا اظہار کھلے عام نہ کرتے ہوں ، گویا فساد نہ پھیلا رہے ہوں ، یا مراد یہ ہے کہ انھیں بطور حد سزاے موت نہیں دی جائے گی ، گویا سیاسۃً سزاے موت کی نفی اس سے نہیں ہوتی ۔ یہاں انھوں نے الملتقی سے یہ جزئیہ نقل کیا ہے کہ کوڑوں کی سزا کو رجم کی سزا کے ساتھ یا جلاوطنی کی سزا کے ساتھ اکٹھا نہیں کیا جائے گا ، الا یہ کہ فساد کے خاتمے کے لیے حکمران ان دو طرح کی سزاوں کو اکٹھا کرنے میں ہی مصلحت سمجھے ۔ نیز فقہا نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ سیاسہ پر مبنی حکم جاری کرنا حکمران کا اختیار ہے نہ کہ قاضی کا ۔ اس لیے جب وہ کہتے ہیں کہ ایسے مجرم کو سزاے موت نہیں دی جائے گی تو مراد یہ ہوتی ہے کہ قاضی اسے سزاے موت نہیں دے سکے گا ، الا یہ کہ حکمران اسے سیاسۃً ( یعنی فساد کے خاتمے کے لیے ) سزاے موت دینے کا فیصلہ کرلے۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔
اللہ نے کائنات کو انسان کے لیے اور انسا ن کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ، مگر انسا ن محض اپنی عقل سے اللہ کی معر فت ، اس کی عبا دت اور اس کی رضا کے طریقوں کو معلو م نہیں کر سکتا تھا ،لہٰذا نسان کی راہ نما ئی کے لیے حضرات انبیا علیہم السلا م کو وقفے وقفے سے اللہ رب العز ت مبعو ث فر ما تے رہے، جنہوں نے انسا ن کی کامل راہ نمائی کی،صر ف اعتقا د اور عبا دت ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ معا شرت، تعلیم، حقو ق، اخلاق ، تزکیہ وغیرہ تمام ضروریات ِاورحیا ت ضروریات دین کے سلسلے میں اعتد ال کی را ہ بتا ئی ۔
انبیا ئے کرام علیہم السلا م نے بے لو ث ہو کر امت کی راہ نما ئی کی ، مگر دنیا میں اللہ کا دستو ررہا ہے کہ ہر چیز کا مبدااورمنتہیٰ ہو تا ہے، یعنی ہر چیز کا ایک نقطہٴ آ غا ز تو دوسر ا نقطہٴ انتہا ہو تا ہے ۔ لہٰذا نبو ت کا نقطہٴ آ غا ز حضرت آ د م علیہ السلام کو اور نقطہ انتہا حضر ت محمد عر بی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنا یا ۔ انبیا کوئی عام انسا ن نہیں ہو ا کر تے تھے، بلکہ وہ اللہ کے خصو صی فضل کی وجہ سے تمام انسا نی خوبیو ں کے مالک ہو تے تھے اور تمام انسا نی وحیوانی رذا ئل سے پاک ہو تے تھے، جنہیں اسلامی اصطلا ح میں معصو م کہا جاتا ہے۔ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیا ء معصو م ہیں ، صحابہ محفوظ ہیں ، اوراولیاء موفّق ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت اقدس اللہ کی مخلو ق میں سب سے زیادہ پا کیز ہ، با اخلاق اور با بر کت ذات ہے ، اسی لیے مسلمانو ں کو ان کی اطاعت، ان سے سچی محبت اورآ پ کی عقیدت ومحبت کا حکم دیا گیا ہے ،بلکہ ان کی محبت اور عشق اور ان کی اطاعت پر اللہ کی رضا کو مو قو ف رکھا گیاہے ۔ فرما نِ الہٰی ہے : ﴿اِنْ کُنْتُمْ تُحِبِّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْانِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ﴾ ”آپ کہہ دیجیے اگر تم اللہ کی محبت چا ہتے ہو تو میر ی اطا عت کرو، اللہ تم سے محبت کرنے لگ جا ئیں گے۔ “ اطاعت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان پر فر ض عین ہے اور آدمی کسی کی اطاعت پر اسی وقت آ ما دہ ہو تا ہے جب اس سے محبت ہو ۔ خلا صہٴ کلا م یہ کہ انسا ن کی زندگی کا مقصد حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کی اطا عت ومحبت کے واسطہ سے اللہ کی خوش نودی حاصل کر نا ہے ، گویا مقصدحیا ت کا حصو ل ہی مو قوف ہے اتبا عِ رسو ل پر، جس کو آ پ مند ر جہ ذیل نقشہ سے آ سا نی کے سا تھ سمجھ سکتے ہیں۔ مگر افسو س آج امت اس مقصد کو نہیں سمجھ سکی اور نا دا نی میں ایک دوسرے کی مخالفت پراتر آئی ہے، جس کا فا ئدہ غیرو ں نے اٹھا نا شروع کر دیا اور قر آ ن پر ،رسو ل پر ، شر یعت پر کیچڑاچھا لنے لگے ہیں اور ہم بس اپنے ہی اختلا ف میں مست ہیں۔ ہمیں یہ یا د رکھنا چاہیے کہ زندگی کا اصل مقصد خوا ہشا ت پر قا بو پاکر اپنی مرضی سے اللہ کے رضا کی حتی المقدو ر کوشش کرنا ہے ،مدا رس میں تعلیم کا مقصد بھی یہی ہے ، تبلیغ کے ذریعہ اصلا ح کا مقصد بھی یہی ہے ، دعو ت کے ذریعہ ہدایت کا مقصد بھی یہی ہے ، خا نقا ہوں کے ذریعہ تز کیہ کا مقصد بھی یہی ہے اور انسا ن کو اپنی زندگی کی ضروریات میں بھی اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر مشغول ہو نا چا ہیے ۔ لہٰذا سب سے پہلے تو میں امت کو بھی دعو ت دو ں گا کہ وہ اپنے آپسی اختلا ف کو چھوڑ کر متحد ومتفق ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو اور جذبا ت میں نہ آکر حدو د شریعت میں رہ کر علما ئے راسخین کے ذریعہ قر آ ن و حدیث کی روشنی میں راہ نما ئی حاصل کر ے ،کوئی قدم علمائے را سخین کی راہ نمائی کے بغیر نہ اٹھا ئے ،ورنہ بجائے فا ئدہ کے نقصا ن ہو گا او ر زندگی کا اہم مقصد یعنی رضائے الہٰی حاصل نہ ہو سکے گا ۔ رسو ل الله صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت اقدس پر کیچڑ اچھا لنا اور آپ کی مقد س ذا ت کو داغ دار کرنا یقینا ایک انتہائی گھنا وٴنی حر کت ہے، جس کی مذمت تو کیا ایسی حر کت کے مر تکب کو قتل بھی کر دیا جائے تو کم ہے ۔ شریعت کا حکم بھی یہی ہے کہ نامو س رسالت پر حملہ کرنے والے کو تہ تیغ کر دیا جائے اور تاریخ شا ہد ہے کہ مسلما نو ں نے ایساکیا۔ جیسا کہ آپ اگلے صفحا ت میں ملاحظہ فرمائیں گے ۔ علما ء کے یہا ں اس میں کوئی اختلا ف نہیں رہا ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ نے تو ا س پر مستقل کتا ب تحریر فر ما ئی ہے ۔” الصارم المسلو ل علی شا تم الرسول “ کتاب کے اخیر میں مصنف نے لکھا ہے : ” صر ف نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں، تمام انبیا جن کو صرا حةً ووصفاً قرآ ن نے نبی کہا ہو ، ان کی اہانت کا حکم شریعت اسلا میہ میں قتل ہے۔ مثلا ً اگرکسی نے دورا ن گفتگو کسی نا منا سب با ت یا فعل کی نسبت کسی نبی کی جانب اس کے نبو ت کا علم رکھتے ہوئے تعیینی طور پر کی، تو ایسا کہنے والے یا کرنے والے نے شا ن نبو ت میں گستاخی کی اور اگر اسے ان کے منصب نبوت کاعلم نہ تھا ،یا مطلقا ً گرو ہ انبیا کی طر ف ایسی نسبت کی تو اس کا حکم بھی وہی (قتل) ہے ۔ کیوں کہ تما م انبیاء پر علی الا طلا ق ایما ن رکھنا واجب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خصو صا ً، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قر آ ن کریم میں بتلا دیا ہے ۔ان کو بر ا بھلا کہنے والا اگر مسلما ن ہے تو وہ کافر و مر تد ہے اور اگر ذمی ہے تو اس سے قتا ل و اجب ہے ۔ اہا نت نبو ت کے مر تکب کی سزا صر ف اور صرف قتل ہے ، اس پر دلائل کے انبا ر مو جو د ہیں، جو اپنی عمو میت کے سبب لفظا ً اور معنی ً اس پر دال ہیں ۔ (ابن تیمیہ فر ما تے ہیں) میر ے علم میں کو ئی بھی عالم دین ، فقیہ شریعت ایسا نہیں جس نے حکم مذکو رہ سے اختلا ف کیا ہو ۔ البتہ اکثر فقہا ء کا کلا م اس سز ا کے سلسلے میں ہمار ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ وشتم کرنے والوں کے متعلق ہے ۔ کیو ں کہ اس کی ضرو رت زیا دہ ہے ۔آپ کی نبو ت کی تصد یق اور آپ کی اطاعت اجما لا ً و تفصیلا ً ہر طرح سے واجب ہے ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی اہا نت کا جر م دیگر انبیا کی اہانت سے کہیں زیا دہ ہے ۔ جیسا کہ آ پ کی حر مت و عظمت دیگر انبیا سے کہیں زیا دہ ہے ۔ لیکن اس با ت کا قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اہانتِ منصبِ رسالت میں تمام انبیاء و رسل آپ کے بھا ئی ہونے کی حیثیت سے شریک ہیں ۔ (اور ان کی اہا نت آپ کی اہانت ہے) لہٰذا کسی بھی نبی کی شا ن میں گستا خی کرنے والے کا خو ن حلا ل ہے اور وہ کافر واجب القتل ہے ۔ “(الصارم المسول علی شاتم الرسول:401) اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اب کہیں صحیح معنی میں اسلا می عدالت ہی نہیں۔پور ی دنیا الحاد اور دہریت کے دلدل میں پھنسی ہو ئی ہے اور وقفہ وقفہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی جسا رت کی جا رہی ہے، توہمیں کیا کر نا چا ہیے ، کیا سڑ کو ں پر آ کر ٹائر جلا نا چا ہیے ؟ کیا عوام کی املا ک کو نقصا ن پہنچا نا چاہیے ؟ کیا احتجا جات کے ذریعہ سڑ کو ں کو رو ک کر نعرہ با ز ی کرنی چا ہیے ؟ کیا قتل و غا ر ت گری کا بازا ر گرم کرنا چا ہیے ؟ کیا مذکو رہ حر کتو ں کی اسلا م اجا زت دیتا ہے ؟ ظاہربات ہے اسلا م اس کی اجا ز ت نہیں دیتا ہے ، مگر مسلما ن ہے کہ انہیں کیے جا رہا ہے ، اب سو ال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چا ہیے ؟ تاکہ صحیح معنی میں ہم شر یعت کے احکام کے مطا بق نا مو س رسا لت کا دفاع کر سکیں ۔ اگر ہم واقعةً مسلما ن ہیں اور حدود شریعت میں رہ کر نامو سِ رسالت کا دفا ع کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں مندرجہ ذیل امو ر کی طر ف خا ص تو جہ دینی چا ہیے ۔ 1…اسلا می تعلیما ت کی مکمل پیرو ی اور غیراسلا می نظریات ، افکا ر ، خیالا ت ، عادات، اطوار ، تہذیب وتمدن ،معاشرت ومعیشت ، سیا ست وغیرہ سے کلی اجتناب کرنا ہو گا۔ خاص طور پر فیشن پرستی اور مادی افکار کو پور ی ہمت اور استقلال کے ساتھ چھوڑنا ہو گا اور سادگی والی زندگی گزا رنا ہو گی ، یہی سب سے پہلے کر نے کا کا م ہے، مگر اسے چھوڑکر امت دیگر غیر شرعی طریقو ں کو اختیار کر رہی ہے ۔ 2…عالمی طور پر تما م مسلمانو ں کو متحد ہوکر U.N.O. کو ایسے قا نو ن وضع کر نے پر مجبو ر کر ناہوگا ، جس میں انبیا ئے کرام علیہم السلام کی اہانت کرنے والو ں کو قتل کی سزا دی جائے اور اگرایسا نہ ہو تو نامو س رسالت پر حملہ کر نے والو ں کو کسی تدبیر سے قتل کرنے کی کوشش کر نی چا ہیے ۔ 3… یو رپ جو ان تمام غلیظ اور نا پا ک حر کتو ں کی پشت پنا ہی کر رہا ہے ، اسے مند رجہ ذیل طریقوں سے سبق سکھا یا جا ئے ۔ (الف)… مسلمان مغر بی مصنو عا ت کا مکمل با ئیکا ٹ کریں ۔ (ب)…ڈالر،یورو اورپا ؤنڈکے ذریعہ معاملہ نہ کرکے اس کی ویلیو کو کم کر نا چا ہیے ۔ (ج)…پور ے عالم میں دین اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح تعارف پیش کر نا چا ہیے ۔ (د) …اپنے علاقوں میں ایسی کمیٹیا ں بنا نی چاہیے جو بائیکا ٹ پر لو گو ں کو آما دہ کر یں اور امر بالمعر و ف اورنہی عن المنکر کریں ۔ 4…ہر گھرمیں اسلام اور نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سیر ت کی تعلیم کو عا م کرنا چا ہیے ۔ 5…نما ز کا مکمل اہتمام کر نا چا ہیے ۔ 6…زندگی کے ہر موڑ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتو ں کو معلو م کرکے اس پر عمل کر نا چا ہیے ۔ 7…بد عات و خرا فا ت سے اجتنا ب کر نا چا ہیے ۔ 8…صحابہ سے محبت اور ان کی زندگیو ں کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ 9…علما ء سے محبت اور ہر دنیوی ودینی معاملہ میں ان سے رہنما ئی حاصل کر نی چاہیے ۔ 10…اپنی اولا د کی صحیح اسلا می تر بیت کرنی چا ہیے ۔ 11…رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو پڑھ کر اس کو اپنی زندگی میں نافذ کر نا چاہیے ۔ 12…لو گو ں کو سیر ت سے وابستہ کرنے کے لیے سیرت کے عنو ا ن پر مسابقا ت (تقریری مقابلے) رکھنے چا ہیے ۔ غرضیکہ ہم سب پر اپنی استطاعت کے مطابق رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفا ع لا ز م ہے ۔ المر ء یقیس علی نفسہ جس ملعون نے یہ فلم بنائی ہے، وہ ایک بد اخلا ق ، بد کر دار شخص ہے، اس پر امر یکی عدالتوں میں کئی مقدمات درج ہیں ۔ عربی کا محاورہ ہے کہ آدمی دوسر و ں کو بھی اپنے ہی اوپر قیا س کرتاہے ،ورنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والاصفا ت کے اخلاق و اطوار ،روز روشن کی طر ح عیا ں ہیں ۔ قر آ ن نے آ پ کو کہا ہے ﴿انک لعلٰی خلق عظیم﴾ اس کے بعد مزید کسی کی شہادت کی ضرورت نہیں ۔مگر ہم انہیں انگریز وں میں سے بعض کے تاثرا ت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار ے میں نقل کردینا چاہتے ہیں ۔ ”الفضل ما شہدت بہ الا عدا ء “ کے تحت کہ” حق تو وہ ہے جس کی سچائی پر دشمن بھی مجبو ر ہوجاتے ہیں ۔“ حکیم الا مت مجدد ملت حضرت مو لانا اشرف علی تھانوی نے ”شہادة الا قو ا م علی صدق الا سلا م “ کے نام سے ایک رسالہ مر تب فر ما یا تھا جو، حقا نیت اسلا م کے نام سے شا ئع ہوا ہے ۔جس میں حضرت نے غیر مسلمو ں کے اسلا م ، قر آ ن اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے با رے میں تاثر ا ت کو مختلف اخبارات و رسا ئل سے اخذ کر کے جمع کیا ہے ۔ ہم یہاں نقل کردیتے ہیں ۔ ڈاکٹرجے ،ڈبلیو، لیٹزآ پ کی شخصیت کا اعترا ف ان لفظو ں میں کرتے ہیں : اگرسچے رسو ل میں ان علامتو ں کا پایا جا نا ضروری ہے کہ وہ ایثار نفس اور اخلاص نیت کی جیتی جاگتی تصویر ہو او راپنے نصب العین میں یہاں تک محو ہو کہ طر ح طر ح کی سختیا ں جھیلے ، انوا ع و اقسا م کی صعوبتیں برداشت کر ے ، لیکن اپنے مقصد کی تکمیل سے باز نہ آ ئے ، ابنا ئے جنس کی غلطیوں کو فو راً معلو م کر لے اور ان کی اصلاح کے لیے اعلیٰ درجہ کی دانش مندا نہ تدابیر سوچے اور ان تدابیر کو قو ت سے فعل میں لا ئے تو میں نہایت عاجزی سے اس بات کے اقر ا ر کر نے پر مجبو ر ہوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے نبی تھے اور ان پر وحی ناز ل ہو تی تھی ۔ پروفیسر فریمین : حقیقی اور سچے ارادوں کے بغیر یقینا کوئی اور چیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا لگا تار استقلال کے ساتھ، جس کا آپ سے ظہور ہو ا آگے نہیں بڑھا سکتی ،ایسا استقلا ل جس میں پہلی وحی کی نز و ل کے وقت سے لے کر آخر دم تک نہ کبھی آپ مذبذب (متردد)ہو ئے اور نہ کبھی آپ کے قدم سچا ئی کے اظہار سے ڈگمگا ئے ۔ رومن صاحب : حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فقط ایک صاحب علم ہی نہ تھے، بلکہ صاحب عمل بھی تھے ، انہوں نے اپنی امت کو عمل کی تا کید کی ، چناں چہ جیسی انسا نیت و مر وت مسلما نو ں میں ہے شاذو نا در ہی کسی قو م میں پائی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر ما رگیلوش : میں (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے بہت عظیم لو گوں میں شما ر کر تا ہو ں ، انہو ں نے قبائل عر ب سے ایک عظیم الشا ن سلطنت قا ئم کرکے بہت بڑی پولیٹکل گتھی کو سلجھا یا او ر میں ان کی کما حقہ تعظیم وتکر یم کر تا ہو ں ۔ لا لہ لا جپت ر ائے : میں مذہب اسلام سے محبت کر تا ہو ں اور اسلامی پیغمبر کو دنیا کے بڑے بڑ ے مہاپر شو ں میں سمجھتا ہو ں ۔ آپ کی سو شل اور پولیٹکل تعلیم کا مدا ح ہو ں اور اسلام کا بہتر ین رنگ وہ تھا جوکہ حضرت عمر کے زما نے میں تھا ۔ ایڈورڈگبن : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب صاف شک و شبہ سے بالا تر ہے اور خدا کی وحدا نیت کی تصدیق میں قر آ ن ایک شا ن دا ر شہا دت ہے۔ (بحو الہ حقا نیت اسلا م منقول از اخبار ”المشرق “ یکم جولا ئی ۱۹۲۷ء ) ایک مسیحی عالم نے ایک کتا ب مسمیٰ بہ” قرا ن السعیدین “لکھی ہے، اس میں اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر زور دیا ہے اور بتا یا ہے کہ ایما ن داری، بے تعصبی ،وسیع القلبی اور شر افت اس با ت کی مقتضی ہے کہ عیسائی دو ست اپنے دلو ں کو صا ف کریں اوریقین جا نیں کہ دین داری اس کے علا وہ کچھ اور ہے کہ آنحضرت کو بر ا بھلا کہیں اور ان سے بغض وعدا وت رکھیں، بلکہ مناسب ہے کہ ان کی خوبیو ں پر نظر کریں، حسب مر تبہ ان کی قد ر کریں ، تعظیم کر یں ، او ر حتی المقدور مسلما نو ں کے جذبات کاپا س کر تے ہو ئے ان کے ساتھ رو ا داری سے پیش آئیں ۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور نر م دلی کی آ یت بھی نقل کی ہے کہ رسو ل ایمان داروں پر شفیق و مہر با ن ہیں اور ہم تسلیم کر تے ہیں کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم ایک روشن چرا غ تھے ، رحمة للعا لمین ، صا حب خلقِ عظیم تھے کہ ان کے اوصا ف سے آخر ان کی کوشش با ر آ ور اور سعی مشکو ر ہوئی ۔ داؤ د آ فندی مجاعض نامو ر عیسا ئی اہل قلم کی نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ۔ دنیا کا عظیم تر ین سب سے بڑ ا انسا ن وہ ہے جس نے صر ف دس سا ل کے قلیل زما نے میں ایک محکم دین اور اعلیٰ درجہ کا فلسفہٴ طریقِ معاشر ت اورقوانینِ تمدن وضع کیے ۔ قا نو ن جنگ کی کا یہ پلٹ دی او رایک ایسی قو م وسلطنت بنا دی کہ وہ عرصہ ٴ در ا ز او ر مدت ِ مدید تک دنیا پر حکم ر ا ں رہی ۔ اور آج تک زمانہ کا سا تھ دے رہی ہے اور لطف یہ ہے کہ وہ شخص باو جو د ایسے عظیم ترین اور بے مثل کا م کر نے کے محض نا خوا ندہ اور امّی تھا ۔ وہ مر دِ گرامی اور اجلِ اعظم ”محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب قریشی ،عربی، مسلما نو ں کے نبی ہیں ۔ “ مسٹر گووند جی ڈسا ئی گجرا ت کے ایک فا ضل ہندو تعلیم یا فتہ گزرے ہیں ، آ پ نے اپنی زندگی میں ایک مضمو ن اسلام اور اہنسا پرتحریر فر مایا تھا ، اس مضمو ن کو گا ندھی جی نے بھی اپنے اخبار ”ینگ انڈیا “میں درج کیا تھا ، آپ نے اس مضمو ن میںآ نحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شا ن میں عقیدت کے جو پھول بر سا ئے ہیں ، وہ آپ کے الفاظ میں حسب ذیل ہیں : انسا نی شرافت : یہ امر واقعہ ہے کہ ذاتی طور پر رسو ل عر بی ایک ایسے شخص تھے ،جن میں بڑی انسا نیت اور شرافت تھی ، آپ کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ آپ اپنے سے کم درجہ کے لو گوں سے بڑی رعایت کرتے تھے ۔ اور آپ کا کم سن غلا م، چا ہے کچھ ہی کرتا تھا، آپ اس کا مضحکہ اڑا نے کی اجا زت نہ دیتے تھے ۔ بچو ں پر شفقت : آپ بچو ں سے بڑ ا انس رکھتے تھے ، آپ ان کو راستہ میں رو ک لیتے اور ان کے سر و ں پر ہا تھ پھیر تے تھے ۔ آپ نے عمر بھر کسی کو نہیں ما را ۔ آپ نے شدید تر ین الفاظ جو کبھی مخالفین مذہب کے متعلق کہے یہ تھے کہ اسے کیا ہے ؟ خدا کر ے اس کا چہر ہ خا ک آ لو د ہو ۔ جب آپ سے کہا گیا کہ فلا ں شخص کو بددعا دیں تو آپ نے جوا ب دیا کہ میں بددعا دینے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہو ں ، بلکہ انسا نو ں کے ساتھ رحم کا سلو ک کر نے آیا ہوں۔ رسو ل عر بی میں تمام انسا نو ں سے زیا دہ انسا نیت تھی ۔ جب آ پ اپنی والدہ کی قبر پر جا تے تو روتے تھے اور ان لوگوں کو رُلا تے جو اس وقت آپ کے گر د وپیش کھڑ ے ہو تے تھے ۔ نبو ت کا تاجدا ر جھونپڑیوں میں : جس قد ر سادہ اطوار رکھتے تھے اسی قد ر آ پ مخیر تھے ۔ آپ اپنی بیو یو ں کے ساتھ جھونپڑیو ں کی ایک قطا ر میں رہتے تھے ۔ آپ خود آگ جلا تے ا ور جھونپڑیوں میں جھا ڑو دیتے تھے۔ آپ کے پاس جو کچھ کھا نا ہو تا تھا اس میں سے ان لو گو ں کو حصہ دیتے تھے جو آپ کے پاس جاتے تھے ۔ آپ کا معمو لی کھانا کھجو ریں اور پا نی یا جو کی رو ٹی ہو تی تھی ۔ دودھ اور شہد آ پ کا ساما ن عشرت تھاا ور ان دو نو ں چیزوں کے آپ بڑے شا ئق تھے، مگر آپ یہ چیز یں شا ذ ونا در ہی استعمال کر تے تھے ۔جب آپ عر ب کے با دشا ہ بن گئے تو بھی آپ ریگستا نو ں کی سیا حت کو بہت پسند کر تے تھے ۔ غریبو ں کا احترام : رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے غر یبو ں کو یہ کہہ کر تقدس بخش دیاکہ غریبی آ پ کا فخر ہے ۔ آپ نے خدا سے دعا کی کہ آپ کو غریبی میں رکھے ، آپ کو حالت غریبی میں مو ت دے اور حشرکے دن آپ کو غریبوں میں اٹھائے ۔ بزرگی اور پیغامبری : آپ اس قد ر منکسر مزا ج تھے کہ آپ کسی کو اپنی نسبت اس سے کچھ زیا دہ نہیں کہتے تھے کہ آپ خدا کے بند ے اور اس کے پیغا مبر ہیں ۔آپ اپنے دلی معتقدو ں کو یا د دلا تے رہتے تھے کہ میں انسا ن سے بڑھ کرنہیں ہو ں، اگرچہ آپ کا دعویٰ تھا کہ آپ خا تم النبیین اور سر آمد انبیا ء ہیں، یعنی سب سے آخر اور سب سے بڑے نبی ہیں، مگر ساتھ ہی اپنے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں اور نیز با قی انسا ن اس وقت تک بہشت میں داخل نہ ہو ں گے جب تک کہ خدا آپ کو اپنی رحمت سے نہ ڈھا نک دے گا ۔ جہاں آپ نے ایک طر ف یہ اعلا ن کیا کہ خو د میں محض خدا کے فضل کی بدو لت نجا ت پا ؤ ں گا، وہاں آپ نے انسا نو ں کو بھی تسکین دی کہ خدا کی رحم دلی اس کے غصہ پرغالب آ جا تی ہے اور یہ کہ خدا نے بہشت کے دروا زے نام نہا د بے دینو ں پر بند بھی نہیں کیے ۔ آپ نے فر ما یا کہ اگر کسی بے دین کو معلو م ہو جا ئے کہ خدا کس درجہ رحیم ہے، تب بھی اسے بہشت کی طرف سے مایو سی نہ ہو نی چاہیے ۔ محسن اعظم ونکلٹا رتنام ، مدراس: محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے ساتھ اتنا احسا ن کیا ہے کہ دوسروں نے نہیں کیا ۔ لا ئق عز ت ومحبت لالہ لاجپت رائے: مجھے یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں کہ میر ے دل میں پیغمبر اسلا م کے لیے نہا یت عز ت ہے ۔ میر ی رائے میں ہا دیا ن دین اور راہ برا ن بنی نو ع انسا ن میں ان کا درجہ بہت اعلیٰ ہے۔ جلیل القدر مصلح کاؤنٹ ٹالسٹائی :حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا منکسر المزاج ، رحم دل ، راست با ز ، خلیق ، متحمل ، انصاف پسند اور جلیل القدر مصلح وریفا رمرتھے …۔ دنیا کے تمام انصاف پسند محققین اس امر کو تسلیم کر تے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز ِ عمل ، اخلاق انسا نی کا حیرت انگیز کارنامہ ہے ۔ہم یہ یقین کرنے پر مجبورہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ وہدایت خالص سچا ئی پر مبنی تھی # بنی نوع انسان کے لیے رحمت پرو فیسر رگھو پتی سہائے /فر ا ق گو رکھپوری : میرا اٹل ایما ن ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر اسلام کی ہستی بنی نو ع انسا ن کے لیے ایک رحمت تھی ، پیغمبر اسلا م نے تا ریخ و تمدن ، تہذیب واخلا ق کو وہ کچھ دیا ہے جو شاید ہی کوئی اوربڑی ہستی دے سکی ہو ۔ پیغمبر اسلا م کے پر ستانہ جذبا ت رکھنا ، ان کا دلی احتر ا م کر نا ، ہر انسا ن کا فرض ہے ، بلکہ ہر انسا ن کے لیے سعاد ت ہے ، اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں # تفرقوں سے پاک ہے آنسو محبت کے فراق اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آ تے تو…؟ پر وفیسر با سو رتھ اسمتھ : بلا شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسو ل ہیں، اگر پوچھا جا ئے کہ افریقہ (بلکہ پوری دنیا) کو مسیحی مذہب نے زیاد ہ فائدہ پہنچا یا یا اسلا م نے ؟ تو جو اب میں کہنا پڑے گا کہ اسلا م نے ۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قر یش ہجر ت سے پہلے خدا نہ خوا ستہ شہید کر ڈالتے ،تومشر ق ومغرب د و نو ں نا کار ہ رہ جاتے ۔ اگر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آ تے تو دنیا کا ظلم بڑھتے بڑھتے اس کو تبا ہ کردیتا ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے ، تو یور پ کے تاریک زما نے دو چند، بلکہ سہ چند تا ریک ترہو جا تے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو تے ، تو انسا ن ریگستا نو ں میں پڑے بھٹکتے پھرتے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو تے تو عیسا ئیت بگڑ کر بد سے بدتر ہو جا تی ۔ جب میںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ صفا ت اور تمام کا رنا مو ں پر بحیثیت مجموعی نظر ڈا لتا ہو ں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا تھے ،کیا ہو گئے۔اور آپ کے تا بع د ار غلا مو ں نے، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کی رو ح پھونک دی تھی ، کیا کیا کا ر نامے دکھا ئے ، تو آپ مجھے سب سے بزر گ تر اور بر تر اور اپنی نظیر آپ ہی دکھا ئی دیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا سے لے کرانتہا تک یعنی بعثت سے لے کر دار البقا میں جا نے تک اپنے کو نبی کہلا یا اور اس سے رتی بھر آ گے نہیں بڑھے ۔ میں یہ اعتقا د کر نے کی جر أ ت کر تا ہو ں کہ نہا یت اعلیٰ درجہ کے فلا سفر اور سا ئنس داں اور فضلا ئے عا لی دماغ اورعیسا ئی ایک دن با لا تفاق تصدیق کر یں گے کہ بلا شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسو ل ہیں۔(محمد اینڈ محمڈن ازم ،تالیف پرو فیسر با سو رتھ اسمتھ ) یہ تھے وہ تأثرا ت جو غیر مسلموں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار ے میں بیا ن کیے ،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذا ت تو اتنی جا مع الکمالا ت ہے کہ کوئی لکھنے والا اسے اپنے احاطہ میں نہیں لا سکتا۔ سلف صا لحین اور معاصر موٴلفین نے سیر ت پا ک کے ایک ایک مو ضو ع پر ہزا ر ہا ہزار صفحا ت تحریر کیے ہیں، مگر پھر بھی آ پ کی سیرت کا حق ادا کر نے سے قا صر ہیں ۔ کسی شاعر نے کیا خو ب کہا ہے ۔ # تھکی ہے فکر رسا، مدح باقی ہے قلم ہے آبلہ پا، مدح باقی ہے ورق تمام ہوا، مدح باقی ہے تمام عمر لکھا، مدح باقی ہے تحفظ نامو س رسالت سے متعلق کتب الصارم المسلول علی شاتم الرسول السیف المسلو ل علی شا تم الر سو ل صلی الله علیہ وسلم ( تقی الدین السبکی )الشفا ء (قاضی عیاض ) تنبیہ الو لا ة والحکام علی شا تم خیر الا نا م (رسا ئل ابن عابدین) (اردو کتابیں) گستا خ رسو ل کی سزا بز با ن سیدنا محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم۔ (مولا نا محمد حسن صاحب ) نا مو سِ رسالت کی حفا ظت کیجیے (مو لا نامفتی محمد تقی عثما نی) با محمدصلی الله علیہ وسلم با و قا ر (قاضی محمد زاہد الحسینی) اسلا م میں اہا نت رسو ل صلی الله علیہ وسلم کی سزا (ڈاکٹر مولا نا محسن عثما نی ندوی) تو ہین ِ رسالت صلی الله علیہ وسلم اور اس کی سزا (مفتی جمیل احمد تھانوی ) |
گستاخ رسول کی سزا اور اعتراضات کے جوابات
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة:179)
[فتح القدیر: 5 /332]
[الاشباه والنظائر: 158،159]
[رسائل ابن عابدین: 2/327]
[الدر المختار: 6 /356]
[روح البیان: 3 /394]
[احکام القرآن: 3 /112]
[الصارم المسلول:ص 260]
[فتح القدیر: 5 /303]
[رد المحتار: 6 /331]
[الصارم المسلول:ص24]
[ابوداود: کتاب الحدود،باب الحکم فیمن سب النبی ﷺ،حدیث:4362]
ایک یہودیہ عورت رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا۔
[ابوداود:4362، بیھقی:13376+18709، الأحاديث المختارة:547،جامع الأحاديث:32713، كنز العمال 40364]
[مسند الإمام أحمد:54+61 وأخرجه الطيالسي (4) ، والمروزي (66) و (67) ، والنسائي 7 / 108، وأبو يعلى (81) و (82) ، والحاكم 4 / 354 من طرق عن شعبة، بهذا الإسناد.
وأخرجه الحميدي (6) ، وأبو داود (4363) ، والبزار (49) ، والمروزي (68) ، والنسائي 7 / 109 و110، وأبو يعلى (80) ، والحاكم 4 / 354 من طرق عن أبي برزة، به، وصححه الحكم على شرط الشيخين، ووافقه الذهبي.]
[سنن ابوداود: کتاب الحدود، باب الحکم فیمن سب النبی ﷺ، حدیث:4363
سنن نسائی:كِتَابُ تَحْرِيمِ الدَّمِ، ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى الْأَعْمَشِ ۔۔۔ حدیث:4074]
|
No comments:
Post a Comment