یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
اور (اے نبیؐ) ہم نےتمہیں بھیجا ہے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔
[سورة الانبياء:107]
القرآن:
اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو۔۔۔
[سورۃ الأنفال، آیت نمبر 33]
رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا: کیا آپ (قریش کے) مشرکین پر لعنت نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، بلکہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
[صحیح مسلم:2599()]
اور پرہیزگاروں کیلئے ہدایت (بن کر)۔
[مسند احمد:22218ـ22307]
میں تو بس ایک رحمت ہوں جو رہنمائی کرتا ہے۔
[الصحيحة:490، حاکم:100]
میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو (اے اللہ) میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب (امیر المؤمنین) کو لکھ بھیجوں گا۔
[سنن ابوداؤد:4659، مسند احمد:23706]
حضرت ابن عباس نے فرمایا: جو ایمان لائے گا اس پر دنیا اور آخرت میں رحم کیا جائے گا، اور جو ایمان نہیں لائے گا کہ وہ اس عذاب سے بچ جائے گا جو موجودہ دنیا میں قوموں پر ہوتا تھا۔ یعنی دھنسنے، چہرے بگڑنے اور پتھروں کی بارش سے، یہی اس دنیا میں رحمت ہے۔
[المعجم الكبير للطبراني:12358، دلائل النبوة للبيهقي:5/486]
(اے پیغمبر) بیشک ہم نے تمہیں کو حق (یعنی قرآن) دے کر اس طرح بھیجا ہے کہ تم (جنت کی) خوشخبری دو اور (جہنم سے) ڈراؤ، اور جو لوگ (اپنی مرضی سے) جہنم (کا راستہ) اختیار کرچکے ہیں ان کے بارے میں آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔
[سورۃ البقرة، آیت نمبر 119]
حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ جب آیت نازل ہوئی: اور آپ اپنے خاندانی قرابت داروں کو ڈراتے رہئیے۔ ﴿سورۃ الشعراء:214﴾ تو نبی کریم ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارنے لگے۔ اے بنی فہر! اور اے بنی عدی! اور قریش کے دوسرے خاندان والو! اس آواز پر سب جمع ہوگئے اگر کوئی کسی وجہ سے نہ آسکا تو اس نے اپنا کوئی چودھری بھیج دیا، تاکہ معلوم ہو کہ کیا بات ہے۔ ابولہب قریش کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مجمع میں تھا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں خطاب کر کے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تم سے کہوں کہ وادی میں (پہاڑی کے پیچھے) ایک لشکر ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات سچ مانو گے؟ سب نے کہا کہ ہاں، ہم آپ کی تصدیق کریں گے ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا ہی پایا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر سنو، میں تمہیں اس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو بالکل سامنے ہے۔ اس پر ابولہب بولا، تجھ پر سارے دن تباہی نازل ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا۔ اسی واقعہ پر یہ سورہ لھب نازل ہوئی ﴿ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ برباد ہوگیا، نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی ہی اس کے آڑے آئی﴾۔
[صحیح بخاری:4770ـ4971]
حضرت عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ملا اور عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی جو صفات توریت میں آئی ہیں؟ قسم اللہ کی! آپ ﷺ کی تورات میں بالکل بعض وہی صفات آئی ہیں جو قرآن شریف میں مذکور ہیں۔ جیسے کہ اے نبی! ہم نے تمہیں گواہ، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا، اور ان پڑھ قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تم میرے بندے اور میرے رسول ہو۔ میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے۔ تم نہ بدخو ہو، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور غل مچانے والے، (اور تورات میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ) وہ (میرا بندہ اور رسول) برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لے گا۔ بلکہ معاف اور درگزر کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس کی روح قبض نہیں کرے گا جب تک ٹیڑھی شریعت کو اس سے سیدھی نہ کرا لے، یعنی لوگ لا إله إلا الله نہ کہنے لگیں اور اس کے ذریعہ وہ اندھی آنکھوں کو بینا، بہرے کانوں کو شنوا اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو پردے کھول دے گا۔
یعنی انہی کی جنس (انسان)
اور قوم (عرب) کا ایک آدمی رسول بنا کر بھیجا جس کے پاس بیٹھنا بات چیت کرنا،
زبان سمجھنا اور ہر قسم کے انوار و برکات کا استفادہ کرنا آسان ہے، اس کے احوال،
اخلاق سوانح زندگی، امانت و دیانت خدا ترسی اور پاکبازی سے وہ خوب طرح واقف ہیں۔ اپنی
ہی قوم اور کنبے کے آدمی سے جب معجزات ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں تو یقین لانے میں زیادہ
سہولت ہوتی ہے۔ فرض کرو کوئی جن یا فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا تو معجزات دیکھ
کر یہ خیال کر لینا ممکن تھا کہ چونکہ جنس بشر سے جداگانہ مخلوق ہے شاید یہ خوارق
اس کی خاص صورتِ نوعیہ اور طبیعتِ ملکیہ و جنیہ کا نتیجہ ہوں، ہمارا اس سے عاجز رہ
جانا دلیلِ نبوت نہیں بن سکتا۔ بہرحال مومنین کو خدا کا احسان ماننا چاہیئے کہ اس نے
ایسا رسول بھیجا جس سے بےتکلف فیض حاصل کر سکتے ہیں اور وہ باوجود معزز ترین اور
بلند ترین منصب پر فائز ہونے کے ان ہی کے مجمع میں نہایت نرم خوئی اور ملاطفت کے
ساتھ گھلا ملا رہتا ہے ﷺ۔
فرائضِ نبوت:
پہلا فریضہ تلاوت آیات ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی آیات کو تلاوت کرنا بذات خود ایک مقصد اور ایک نیکی ہے، خواہ تلاوت آیات بغیر سمجھے کی جائے، کیونکہ قرآن کے معنی کی تعلیم آگے ایک مستقل فریضے کے طور پر بیان کی گئی ہے، دوسرا مقصد قرآن کریم کی تعلیم ہے، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کے بغیر قرآن کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا ممکن نہیں ہے، اور یہ کہ صرف ترجمہ پڑھ لینے سے قرآن کریم کی صحیح سمجھ حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ اہل عرب عربی زبان سے خوب واقف تھے، انہیں ترجمہ سکھانے کے لئے کسی استاذ کی ضرورت نہیں تھی، تیسرے آپ کا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ حکمت کی تعلیم دیں، اس سے معلوم ہوا کہ حکمت و دانائی اور عقلمندی وہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے تلقین فرمائی، اس سے نہ صرف آپ کی احادیث کا حجت ہونا معلوم ہوتا ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر آپ کا کوئی حکم کسی کو اپنی عقل کے لحاظ سے حکمت کے خلاف محسوس ہو تو اعتبار اس کی عقل کا نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کی سکھائی ہوئی حکمت کا ہے، چوتھا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو پاکیزہ بنائیں اس سے مراد آپ کی عملی تربیت ہے، جس کے ذریعے آپ نے صحابہ کرام کے اخلاق اور باطنی صفات کو گندے جذبات سے پاک کرکے انہیں اعلی درجے کی خصوصیات سے آراستہ فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن وسنت کا صرف کتابی علم بھی انسان کی اصلاح کے لئے کافی نہیں ہے، جب تک اس نے اس علم کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی عملی تربیت نہ لی ہو، آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو اپنی صحبت سے سرفراز فرما کر ان کی تربیت فرمائی، پھر صحابہ نے تابعین کی اور تابعین نے تبع تابعین کی اسی طرح تربیت کی، اور یہ سلسلہ صدیوں سے اسی طرح چلا آتا ہے، باطنی اخلاق کی اسی تربیت کا علم علم احسان یا تزکیہ کہلاتا ہے اور تصوف بھی در حقیقت اسی علم کا نام تھا اگرچہ بعض نااہلوں نے اس میں غلط خیالات کی ملاوٹ کرکے بعض مرتبہ اسے خراب بھی کردیا ؛ لیکن اس کی اصل یہی تزکیہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے یہاں فرمایا ہے، اور ہر دور میں تصوف کی اصل حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے والے ہمیشہ موجود رہے ہیں۔
[مكارم الأخلاق لابن أبي الدنيا:13، مسند أحمد:8952، صحيح الأدب المفرد:273(صفحہ118)، المستدرك على الصحيحين للحاكم:4221، السنن الكبرى-البيهقي:20783، صحيح الجامع الصغير:2349]
(میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں)
[مسند البزار:8949، السنن الكبرى-البيهقي:20783، سلسلة الأحاديث الصحيحة:45]
القرآن:
اور یقیناً آپ(اے پیغمبر!) اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہیں۔
[سورۃ القلم،آیت#4]
=چنانچہ ہر فعل آپ کا موصوف باعتدال اور قرین رضائے الٰہی ہے۔
=
=کہ بیشک آپ ﷺ ان اخلاق پر ہیں جس کا آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم دیا ہے۔ آپ راضی رہتے ہیں اللہ کی رضا کے ساتھ اور ناراض ہوجاتے ہیں اس کی ناراضگی کے ساتھ۔
=اور وہ بھی اس مرتبہ پر کہ آپ ﷺ کی سیرت تو نظیر اور نمونہ کا کام دے گی زندگی کے ہر ہر شعبہ میں اور وہ بھی کسی ایک قوم ، کسی ایک زمانہ کے لئے نہیں، ہر ملک ، ہر قوم ، ہر زمانہ کے لئے عدیم النظیر سیرت والے کی جانب جنون ودیوانگی کی نسبت دینا خود اپنے پاگل پن کا ڈھنڈورا پیٹنا ہے۔
عظیم اخلاق کی تفاسیر»
(1)قرآن(کی تعلیمات)، آپ کے اخلاق تھے۔
[تفسير البغوي:2248، مسند احمد:25302+25813(24601)]
سورۃ المؤمنون(آیت 1سے11) پڑھ لو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق تھے۔
[الأدب المفرد-للبخاري:308]
(2)قرآن، آپ کا اخلاق تھا کہ آپ اللہ کی رضا پر راضی رہتے اور اسکی ناراضگی والی باتوں پر غصہ ہوتے۔
(3)قرآن، آپ کا اخلاق تھا اور آپ کنواری لڑکیوں سے بڑھ کر لوگوں سے حیا کرنے والے تھے جو اپنے پردے میں ہوتی ہیں۔
(4)دینِ اسلام، آپ کا اخلاق تھا۔
[تفسير مقاتل بن سليمان:4/403، تفسير ابن جرير: 23/150]
(5)عظیم اخلاق یہ ہیں کہ اللہ کے احکام کو بجا لاتے تھے اور اللہ کی ممانعت سے رکتے تھے۔
[تفسير الثعلبي:9/10، تفسير البغوي:8/188]
(6)آپ نے خادم کو کبھی اف تک نہ کہا، کبھی یہ نہ کہا کہ یہ کیوں نہ کیا اور یہ کیوں کیا؟
[صحیح البخاري:6038، تفسير البغوي:2251]
ملامت کرنے والے ملامت کرتے تو آپ فرماتے کہ اسے چھوڑدو، اگر یہ چیز مقدر میں ہوتی تو اس طرح ہوجاتا۔
[السنة ابن ابي عاصم:355، جامع الاحاديث-للسيوطي:12358]
(7)آپ نہ فحش کام کرنے والے تھے، اور نہ فحش بات کہنے والے تھے، اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے، اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے تھے، لیکن آپ درگذر کرنے والے، اور معاف کرنے والے تھے۔
[جامع الترمذي:2016، صحيح ابن حبان:7288، مسند احمد:25990]
(8)اللہ کی راہ میں لڑنے کے علاؤہ کسی پر ہاتھ نہ اٹھاتے، نہ خادم پر اور نہ عورت پر۔
[تفسير البغوي:2256، شرح السنة-للبغوي:3667]
(9)جب کسی مرد کو مصافحہ کرتے تو اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ کھینچتے جب تک وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے، اور اپنے چہرے کو اس کے چہرے سے نہ پھیرتے حتیٰ کہ وہ خود اپنے چہرے کو پھیر لے، اور آپ (علیہ السلام) کو کبھی کسی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی طرف ٹانگیں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
اس مضمون کی آیت سورۂ
بقرہ میں دو جگہ گذر چکی ہے خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی چار شانیں بیان کی گئیں۔
(۱) تلاوت آیات (اللہ کی آیات پڑھ کر
سنانا):-
جن کے ظاہری معنی وہ لوگ اہل زبان ہونے کی وجہ سے سمجھ لیتےتھے اور اس پر
عمل کرتے تھے۔
(۲) تزکیہ نفوس (نفسانی آلائشوں اور تمام مراتب شرک و معصیت سے ان
کو پاک کرنا اور دلوں کو مانجھ کر صقیل بنانا):-
یہ چیز آیات اللہ کے عام مضامین پر
عمل کرنے، حضور کی صحبت اور قلبی توجہ و تصرف سے باذن اللہ حاصل ہوتی تھی۔
(۳)
تعلیم کتاب (کتاب للہ کی مراد بتلانا):-
اس کی ضرورت خاص خاص مواقع میں پیش آتی تھی
۔ مثلًا ایک لفظ کے کچھ معنی عام تباور اور محاورہ کے لحاظ سے سمجھ کر صحابہ کو
کوئی اشکال پیش آیا، اس قت آپ کتاب اللہ کی اصلی مراد جو قرائن مقام سے متعین ہوتی
تھی بیان فرما کر شبہات کا ازالہ فرما دیتے تھے، جیسے اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ
لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ (سورۃ الانعام۔۸۲) الخ اور دوسرے مقامات میں
ہوا۔
(۴) تعلیم حکمت (حکمت کی گہری باتیں سکھلانا):-
اور قرآن کریم کے غامض اسرار و
لطائف اور شریعت کی دقیق و عمیق علل پر مطلع کرنا خواہ تصریحًا یا اشارۃً۔ آپ نے
خد اکی توفیق و اعانت سے علم و عمل کے ان اعلیٰ مراتب پر اس درماندہ قوم کو فائز
کیا جو صدیوں سے انتہائی جہل و حیرت اور صریح گمراہی میں غرق تھی۔ آپ کی چند روزہ
تعلیم و صحبت سے وہ ساری دنیا کے لئے ہادی و معلم بن گئ۔ لہذا انہیں چاہیئے کہ اس
نعمت عظمیٰ کی قدر پہچانیں۔ اور کبھی بھولے سے ایسی حرکت نہ کریں جس سے آپ کا دل
متالم ہو۔
پیغمبروں کی مشترکہ خوبی:
پیغمبر کی سنت/عادت/اخلاق/انداز: 1- نصیحت(advice)
[حوالہ سورۃ الاعراف:21+79، القصص:20]
2-تبلیغ(preaching)
[حوالہ سورۃ المائدۃ:99-92]
دو اقسام: 4- بشارت(good tidings for pious-people)
5- انذار(Warning for wicked-people)
[حوالہ سورۃ المائدۃ:19]
دوسرے الفاظ میں ترغیب(motivation/Incentive of piousness) ترهيب(de-motivation/intimidation from evilness)
پیغمبر محمد ﷺ کے بھیجے جانے کی خوبیاں:
اللہ کی آیات(نصیحتیں، احکام، نشانیاں) پڑھ کر سنانا۔
کتاب اللہ کے علاوہ حکمت کی بھی تعلیم(Education) دینا۔
لوگوں کا تزکیہ کرنا۔
[سورۃ البقرۃ:129، آل عمران:164، الجمعۃ:2]
القرآن:
جو اس رسول یعنی نبی امی کے پیچھے چلیں جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے (75) جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دے گا، برائیوں سے روکے گا، اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام قرار دے گا، اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اتار دے گا جو ان پر لدے ہوئے تھے۔ (76) چنانچہ جو لوگ اس (نبی) پر ایمان لائیں گے اس کی تعظیم کریں گے اس کی مدد کریں گے، اور اس کے ساتھ جو نور اتارا گیا ہے اس کے پیچھے چلیں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔
[سورۃ الاعراف:157]
(75): حضرت موسیٰ ؑ کی قوم بنی اسرائیل کو ان کی وفات کے بعد بھی صدیوں تک باقی رہنا تھا اور حضرت موسیٰ ؑ نے دنیا اور آخرت کی بھلائی کی جو دعا کی تھی وہ بنی اسرائیل کی اگلی نسلوں کے لئے بھی تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرتے وقت یہ بھی واضح فرمادیا کہ بنی اسرائیل کے جو لوگ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے زمانے میں موجود ہوں گے، ان کو دنیا اور آخرت کی بھلائی اسی صورت میں مل سکے گی جب وہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لاکر ان کی پیروی کریں، آنحضرت ﷺ کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی کچھ صفات بھی بیان فرمائیں، جن میں سے پہلی صفت یہ ہے کہ آپ نبی ہونے کے ساتھ رسول بھی ہوں گے، عام طور سے رسول کا لفظ ایسے پیغمبر کے لئے بولا جاتا ہے جو نئی شریعت لے کر آئے، لہذا اس لفظ سے اشارہ کردیا گیا کہ آنحضرت ﷺ نئی شریعت لے کر آئیں گے، جس میں کچھ فروعی احکام تورات کے احکام سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور بنی اسرائیل کو اس وقت یہ نہ کہنا چاہیے کہ یہ تو ہماری شریعت سے مختلف احکام بیان کررہے ہیں، اس لئے ان پر کیسے ایمان لائیں ؟ چنانچہ پہلے سے بتایا جارہا ہے کہ ہر دور کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں اور جو رسول نئی شریعت لے کر آتے ہیں ان کے فروعی احکام پہلے احکام سے مختلف ہوسکتے ہیں، آنحضرت ﷺ کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ امی ہوں گے، یعنی لکھتے پڑھتے نہیں ہوں گے، عام طور سے بنی اسرائیل امی نہیں تھے ؛ بلکہ نسلی عربوں کو امی کہا جاتا تھا [2: 78۔ 3: 20۔ 2: 63] اور خود یہودی عرب نسل کے لوگوں کے لئے کسی قدر حقارت کے پیرائے میں استعمال کرتے تھے [دیکھئے سورة آل عمران 3: 75] اس لئے اس لفظ سے یہ اشارہ بھی دے دیا گیا کہ وہ بنی اسرائیل کے بجائے عربوں کی نسل سے مبعوث ہوں گے، آپ کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ کا ذکر مبارک تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہوگا، اس سے ان بشارتوں کی طرف اشارہ ہے جو آپ کی تشریف آوری سے متعلق ان مقدس کتابوں میں دی گئی تھیں، آج بھی بہت سی تحریفات کے باوجود بائبل میں متعدد بشارتیں موجود ہیں، تفصیل کے لئے دیکھئے حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی ؒ کی کتاب اظہار الحق کا اردو ترجمہ بائبل سے قرآن تک مرتبہ راقم الحروف۔
(76): اس سے ان سخت احکام کی طرف اشارہ ہے جو یہودیوں پر عائد کیے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ احکام تو خود تورات میں تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس وقت یہودیوں کو ان کا پابند کیا تھا۔ بعض سخت احکام ان کی نافرمانیوں کی سزا کے طور پر نافذ کیے گئے تھے جس کا ذکر سورة نساء [160:4] میں گذرا ہے اور بہت سے احکام یہودی علماء نے اپنی طرف سے گھڑ لیے تھے۔ شاید ”بوجھ“ سے پہلی اور دوسری قسم کی طرف اور گلے کے طوق سے تیسری قسم کے احکام کی طرف اشارہ ہو۔ بتایا جا رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ ان احکام کو منسوخ کر کے ایک آسان اور معتد شریعت لائیں گے۔
پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نہ تو میں دین یہودیت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں اور نہ دین عیسائیت دے کر کہ میں تم لوگوں کو رہبانیت کی تعلیم دوں ، بیجا مشقت وتکلیف میں مبتلا کروںاور لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور لذات دنیا سے مطلقًا کنارہ کشی کی اجازت دوں بلکہ میں تو دین حنیفہ دے کر بھیجا گیا ہوں جو ایک آسان دین ہے جس میں نہ تو انسانیت عامہ کے لئے بیجا تکلیف وحرج ہے اور نہ زائد از ضرورت مشقت ومحنت ہے
[احمد:22291]
اللہ نے مجھے بھیجا رحمت اور ہدایت سارے جہاں والوں کے لئے ، مجھے بھیجا تاکہمیں بانسریاں باجے اور تمام آلات موسیقیاور جاہلیت کی باتوں کو اور بتوں کو مٹا ڈالوں۔ [احمد:22307]
میں تو قاسم بنایا گیا ہوں اور تم میں تقسیم کرنا میرا کام ہے
[بخاری:3114] میں جوامع الکلم کے ساتھ مبعوث ہوا ہوں [بخاری:2811] مجھے تو تعلیم دینے والا بنا کر بھیجا گیا ہے
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم انصاریوں میں لڑکا پیدا ہوا اور یہ ارادہ کیا گیا کہ اس کا نام محمد رکھا جائے شعبہ نے کہا منصور کی حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انصاری نے کہا میں اس لڑکے کو سرور عالم ﷺ کی خدمت میں لے گیا اور سلیمان کی حدیث میں یہ کہا گیا کہ خود ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تھا جس کا نام انہوں نے محمد رکھنا چاہا تو سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا میرا نام رکھ لو مگر میری کنیت نہ رکھنا کیونکہ میں تو قاسم بنایا گیا ہوں اور تم میں تقسیم کرنا میرا کام ہے۔ حصین کا بیان ہے کہ سرور دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں تو (اموالِ غنیمت) تقسیم کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں جو تم میں تقسیم کرتا ہوں۔ عمرو کہتے ہیں کہ شعبہ نے قتادہ سے بذریعہ سالم حضرت جابر سے سنا ہے کہ اس انصاری نے اپنے بیٹے کا نام قاسم رکھنا چاہا تو سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرا نام رکھ لو مگر میرے نام کے ساتھ میری کنیت نہ رکھنا۔
[أخرجه البخارى (3114) ، ومسلم (3/1683، رقم 2133) . وأخرجه أيضًا: ابن أبى شيبة (5/264، رقم 25927) ، وأحمد (14249) . أخرجه الحاكم (4/308، رقم 7735) وقال: صحيح على شرط الشيخين، ووافقه الذهبى. وأخرجه أيضًا: الطيالسى (ص 239، رقم 1730) ، وابن سعد (1/107) .]
*مجھے تقسیم کرنے والا (قاسم) بنا کر بھیجا گیا ہے، میں تم میں (مالِ غنیمت) تقسیم کرتا ہوں۔*
[صحیح بخاری:3114، صحیح مسلم:2133(5588)]
*میں تمہیں نہ کوئی چیز دیتا ہوں، اور نہ کسی چیز کو روکتا ہوں، میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں، جہاں جہاں کا مجھے "حکم" ہوتا ہے، بس وہیں رکھ دیتا ہوں۔*
[صحیح بخاری:3117]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: جو کچھ تم غنیمت میں حاصل کرو، بےشک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے یعنی رسول اللہ ﷺ اس کی تقسیم کریں گے۔(سورۃ الانفال:41)
حضرتعبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے
ہیں نبی اکرم ﷺ اپنی مسجد میں دو محافل کے پاس سے گزرے توارشاد
فرمایادونوں نیکی کا کام کررہے ہیں لیکن ان میں سے ایک دوسرے پر فضیلت
رکھتی ہے۔ یہ لوگ جو اللہ سے دعا مانگ رہے ہیں اس کی بارگاہ میں متوجہ ہیں اگر
اللہ نے چاہا تو انہیں عطا کردے اور اگر چا ہے تو عطا نہ کرے اور یہ لوگ جو دین کا
علم حاصل کررہے ہیں اور ناواقف لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں یہ افضل ہیں کیونکہمجھے
تو تعلیم دینے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔راوی بیان کرتے ہیں پھر
نبی اکرم ﷺ ان حضرات میں تشریف فرما ہوگئے۔
[أخرجه ابن ماجه (1/83، رقم 229)، أخرجه أيضًا: الطيالسى (ص 298، رقم 2251) ، والبزار (6/428، رقم 2458) ، والحارث (1/185، رقم 40) ، وفى الحديث أن النبى - صلى الله عليه وسلم - دخل المسجد وقوم يذكرون الله عز وجل وقوم يتذاكرون الفقة فذكره.]
حضرتابو امامہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہاللہ
تعالیٰ نے مجھے بھیجا رحمت اور ہدایت سارے جہاں والوں کے لئے ، مجھے بھیجا تاکہمیں
بانسریاں باجے اور تمام آلات موسیقیاور
جاہلیت کی باتوں کو اور بتوں کو مٹا ڈالوں،
[أخرجه الطيالسى:1230 ، أحمد:22307 ، الطبرانى:7803، شعب الإيمان للبيهقي:6108 ، ذم الملاهي لابن أبي الدنيا:69، المنهيات، الحكيم الترمذي:ص91، الكبائر للذهبي:ص85]
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا میں
جوامع الکلم کے ساتھ مبعوث ہوا ہوںاور بذریعہ رعب میری
مدد کی گئی ہے ایک دن جب کہ میں سو رہا تھا تو میرے پاس روئے زمین کے خزانوں کی
کنجیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں رکھ دی گئیں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تو رخصت ہو گئے اور تم اس خزانہ کو
نکال رہے ہو۔
[أخرجه البخارى (3/1087، رقم 2815) ، ومسلم (1/371، رقم 523) ، والنسائى (6/3، رقم 3087) . وأخرجه أيضًا: أحمد (2/264، رقم 7575) ، وابن حبان (14/277، رقم 6363) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (1/161، رقم 139) .]
تشریح : حدیث کے آخری جزو کا مطلب
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ مجھے بشارت عطاء فرمائی کہ بڑے بڑے علاقوں
اور شہروں کا فتح ہونا اور ان کے خزانوں اور مال واسباب کا حاصل ہونا میرے لئے اور
میری امت کے لئے آسان کردیا گیا ۔ یا خزانوں سے مراد معدنیات ہیں جوزمین کے نیچے
چھپی ہوئی ہیں جیسے سونا ، چاندی اور دوسری قیمتی چیزیں ۔
حضرتابوامامہؓ (صدی بن عجلان)کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم
لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک لشکر میں نکلے تو دوران سفر جب ہم
میں سے ایک شخص ایک ایسی غار (وادی) کے درمیان سے گزرا جس میں کچھ پانی اور سبزہ
تھا تو اس نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ اسی غار میں رہ جائے اور دنیا سے کنارہ کشی
کر لے ۔ چنانچہ اس نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی آپ
ﷺ نے فرمایایاد رکھو!نہ
تو میں دین یہودیت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں اور نہ دین عیسائیت دے کر کہ
میں تم لوگوں کو رہبانیت کی تعلیم دوں ، بیجا مشقت وتکلیف میں مبتلا کروںاور لوگوں کے ساتھ رہن
سہن اور لذات دنیا سے مطلقًا کنارہ کشی کی اجازت دوں بلکہ میں تو دین حنیفہ دے کر
بھیجا گیا ہوں جو ایک آسان دین ہے جس میں نہ تو انسانیت عامہ کے لئے بیجا تکلیف
وحرج ہے اور نہ زائد از ضرورت مشقت ومحنت ہے۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں
محمد ﷺ کی جان ہے دن کے صرف ابتدائی یا آخری حصے میں یعنی صبح
وشام کو اللہ کی راہ جہاد میں چلے جانا دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور تم سے کسی
کا میدان جنگ کی جماعت نماز کی صف میں کھڑا ہونا اس کی ساٹھ سال کی تنہا پڑھی جانے
والی نماز سے بہتر ہے ۔" [أخرجه أحمد (22291) ، والطبرانى (8/216، رقم 7868) .]
*نہ تو میں(محمد ﷺ) دینِ یہودیت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں، اور نہ دینِ عیسائیت دے کر کہ میں تم لوگوں کو رہبانیت(یعنی دنیا کی حلال چیزیں چھوڑنے) کی تعلیم دوں، بیجا مشقت وتکلیف میں مبتلا کروں اور لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور لذات دنیا سے مطلقًا کنارہ کشی کی اجازت دوں، بلکہ میں تو دینِ حنیف﴿یعنی سب بناوٹی خداؤں سے منہ موڑ کر، صرف آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے، ایک حقیقی خدا کی بندگی کرنے والا دینِ توحید﴾ دے کر بھیجا گیا ہوں جو﴿عمل کے لحاظ سے﴾ ایک آسان دین ہے، جس میں نہ تو انسانیتِ عامہ کے لئے بیجا تکلیف وحرج ہے، اور نہ زائد از ضرورت مشقت ومحنت ہے۔*
[مسند احمد:22291، معجم الکبیر للطبرانی:7868]
قرآنی شاھدی: *۔۔۔اور وہ(پیغمبر) ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اتار دے گا جو ان پر لدے ہوئے تھے۔۔۔۔*
[سورۃ الاعراف:آیت#157 ﴿تفسیر البغوی:570(1/601﴾ ]
القرآن: *(اے پیغمبر) کہہ دو کہ میرے پروردگار نے مجھے ایک سیدھے راستے پر لگا دیا ہے جو کجی سے پاک دین ہے، ابراہیم کا دین۔ جنہوں نے پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ صرف اللہ کی طرف کیا ہوا تھا، اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔*
[سورۃ نمبر 6 الأنعام ،آیت نمبر 161]
القرآن: *اور (مجھ سے) یہ (کہا گیا ہے) کہ : اپنا رخ یکسوئی کے ساتھ اس دین کی طرف قائم رکھنا، اور ہرگز ان لوگوں میں شامل نہ ہونا جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مانتے ہیں۔*
[سورۃ يونس ،آیت نمبر 105]
القرآن: *اور اس سے بہتر کس کا دین ہوگا جس نے اپنے چہرے (سمیت سارے وجود) کو اللہ کے آگے جھکا دیاہو، جبکہ وہ نیکی کا خوگر بھی ہو، اور جس نے سیدھے سچے ابراہیم کے دین کی پیروی کی ہو، اور (یہ معلوم ہی ہے کہ) اللہ نے ابراہیم کو اپنا خاص دوست بنا لیا تھا۔*
[سورۃ النساء ،آیت نمبر 125]
القرآن: *ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی، بلکہ وہ تو سیدھے سیدھے مسلمان تھے، اور شرک کرنے والوں میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔*
[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 67]
ترجمہ :بیشک اللہ
تعالیٰ نے کوئی نبیؑ ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ
ڈرایا ہو۔ اور میں تمام انبیاء کے آخر میں ہوں اور تم آخر میں ہو سب امتوں سے
[سنن ابن ماجہ:جلد
سوم:حدیث نمبر 957 (- فتنوں کا بیان : فتنہ دجال]
ایمان کا تقاضا
: نیکیوں (اور سنّتوں) کا حکم کرنا اور برائیوں (بدعتوں) سے روکنا
حضرتعبداللہ بن مسعودؓ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایامجھ
سے پہلے جس امت میں نبی بھیجا گیا ہےاس کی امت میں سے اس کے
کچھ دوست اور صحابی بھی ہوئے ہیں جو اس کے طریقہ پر کار بند اور اس کے حکم کے پیرو
رہے ہیں لیکن ان صحابیوں کے بعد کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں جن کا قول فعل کے خلاف
اور فعل حکم نبی کے خلاف ہوا ہے جس شخص نے ہاتھ سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ
بھی مومن تھا جس نے زبان سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا جس نے
دل سے جہاد کیا (یعنی نفرت کا اظھار کرتے ان کی ان باتوں سے الگ
رہا) وہ بھی مومن تھا اس کے علاوہ رائی کے دانہ کے برابر ایمان کا کوئی درجہ
نہیںابورافعؒ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث حضرت ابن عمرؓ کے سامنے بیان کی انہوں نے نہ مانا اور انکار کیا اتفاق سے حضرت عبداللہ بن
مسعود ؓ آگئے اور قناہ وادی مدینہ میں اترے تو حضرت ابن عمرؓحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی عیادت کو مجھے اپنے ساتھ لئے گئے
میں ان کے ساتھ چلا گیا جب ہم وہاں جا کر بیٹھ گئے تو میں نے حضرت عبداللہ بن
مسعودؓ سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے یہ
حدیث اسی طرح بیان کی جیسا کہ میں نے حضرت ابن عمرؓ سے بیان کی
تھی حضرت صالحؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ابورافعؒ سے اسی طرح بیان
کی گئی ہے۔(مسلم)
نبی ﷺ کی بعثت قیامت کی قرب کی نشانی ہے
بإصبعيه هکذا بالوسطی
والتي تلي الإبهام بعثت والساعة کهاتين
آپ نے بیچ کی اور
انگوٹھے کے پاس والی انگلی کے اشارے سے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے
ہیں۔
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2079 (4642) - تفاسیر کا بیان : تفسیر سورت والنازعات]
حضرتجابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہمجھے پانچ چیزیں ایسی
دی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ دی گئی تھیں، ایک ماہ کی راہ سے بذریعہ
رعب کے میری مدد کی گئی اور زمین میرے لئے مسجد اور طاہر کرنے والی بنائی گئی اور
یہ اجازت مل گئی کہ میری امت میں سے جس شخص کو جہاں نماز کا وقت آجائے وہ وہیں پڑھ
لے اور میرے لئے غنیمت کے مال حلال کر دیئے گئے، دیگر نبی خاص اپنی قوم کی طرف
مبعوث ہوتے تھے اورمیں تمام لوگوں کی طرف مبعوث
کیا گیا ہوںاور مجھے شفاعت (کی اجازت) عنایت فرمائی گئی ہے۔ [صحیح بخاری:جلد اول:حدیث
نمبر 328, - تیمم کا بیان : تیمم کے احکام، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے
کہ پس تم پاک مٹی سے تیمم کرو اور اس سے اپنے منہ کو اور ہاتھوں کو ملو، جو تیمم
کی اجازت دیتا ہے]
تشریح :مجھ کو اس رعب کے ذریعہ
نصرت عطا ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے
اور اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلہ پر مجھے اس خصوصیت کے ساتھ فتح ونصرت
عطا فرماتا ہے کہ ان کے دلوں میں میرا رعب اور خوف پیدا ہوجاتا ہے اور وہ مجھ سے
ایک مہینہ کی مسافت کی دوری پر بھی ہوتے ہیں تو میرے نام ہی سے ان کی ہمت پست
ہوجاتی ہے اور مارے رعب ودہشت کے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ، ساری زمین کو میرے لئے مسجد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے پہلے کے رسولوں اور نبیوں کی شریعت
میں ہر جگہ نماز پڑھنا اور عبادت کرنا درست نہیں تھا ان کی نمازوعبادت کے لئے جو
جگہ عبادت خانہ کے طور پر متعین اور مخصوص ہوتی تھی بس وہیں نماز وعبادت ہوسکتی
تھی لیکن مجھے یہ خصوصیت عطاء ہوئی کہ میں اور میری امت کے لوگ بیت الخلاء وغسل
خانہ اور مقبرہ کے علاوہ پوری روئے زمین پر جس جگہ اور جہاں چاہیں نماز پڑھ سکتے
ہیں الاّ یہ کہ کسی جگہ کی ناپاکی کا علم یقین کے ساتھ ہوجائے تو اس جگہ نماز
پڑھنا جائز نہیں اسی طرح گذشتہ امتوں میں پانی کے بغیر پاکی حاصل نہیں ہوتی تھی
لیکن ہمارے لئے یہ جائز قرار دیا گیا ہے کہ اگر کہیں پانی دستیاب نہ ہو یا پانی کے
استعمال میں کوئی شرعی عذر حائل ہو تو پاک مٹی کے ذریعہ تیمم کرکے پاکی حاصل کی
جاسکتی ہے میرے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا کی وضاحت یہ ہے کہ مال غنیمت
کے بارے میں گذشتہ امتوں میں جو یہ معمول تھا کہ حاصل ہونے والا مال غنیمت اگر
جانوروں کے علاوہ کسی اور جنس کا ہوتا تو اس کو جمع کرکے ایک جگہ رکھ دیا جاتا اور
پھر آسمان سے ایک آگ اترتی اور وہاں جمع شدہ تمام مال واسباب کو جلا کر واپس چلی
جاتی اور اگر مال غنیمت مویشوں اور جانوروں کی صورت میں ہوتا تو اس کے حقدار صرف
وہی لوگ ہوتے تھے جو اس کو دشمنوں سے چھنتے اور اس پر قبضہ کرتے تھے نبی اور رسول
کو اس میں سے کچھ نہ ملتا لیکن ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ صرف
یہ کہ خمس یعنی مال غنیمت کا پانچوں حصہ بلکہ صفی بھی لینا جائز کیا گیا ہے صفی اس
چیز کو کہتے ہیں جو مال غنیمت میں سب سے اچھی ہو چنانچہ مال غنیمت میں جو چیز سب
سے اچھی معلوم ہوتی تھی جیسے تلوار وغیرہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے
لئے مخصوص فرمالیتے تھے مجھے کو شفاعت عظمی عامہ کے مرتبے سے سرفراز فرمایا گیا
قیامت کے دن یہ مرتبہ خاص صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوگا اور شفاعت
کے جتنے بھی مواقع اور مقام ہوں گے وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی مرتبہ
کے تحت ہوں گے اس بارے میں تفصیلی بحث باب شفاعتہ میں گذر چکی ہے مجھ کو روئے زمین
کے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا کہ بارے میں یہ ذہن نشین رہے کہ آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کی رسالت صرف انسانوں کی تک محدود نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کی بعثت جنات کی طرف بھی ہوئی ہے اپنی رسالت کے ذریعہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ
وسلم روئے زمین کے تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام ہدایت پہنچایا اسی طرح جنات کی
بھی ہدایت فرمائی اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول الثقلین کہا جاتا ہے
ہوسکتا ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی اس وقت تک
جنات کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہ ہوئی ہوبعد میں ہوئی ہو اور اسی وجہ
سے اس حدیث میں جنات کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے چھ چیزوں کے ذریعہ دوسرے انبیاء پر
فضیلت دی گئی ہے ، (١) مجھے جامع کلمات عطاء ہوئے (٢) دشمنوں کے دل میں میرا رعب
ڈالنے کے ذریعہ مجھے فتح ونصرت عطا فرمائی گئی (٣) مال غنیمت میرے لئے حلال ہوا
(٤) ساری زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی قرار دیا گیا ، (٥) ساری مخلوق
کے لئے مجھے نبی بنا کر بھیجا گیا (٦) اور نبوت ورسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا
گیا ۔ (مسلم ) تشریح : مجھے جامع کلمات عطاہوئے ۔" کا مطلب یہ ہے کہ دین کی
حکمتیں اور احکام ، ہدایت کی باتیں اور مذہبی ودنیاوی امور سے متعلق دوسری چیزوں
کو بیان کرنے کا ایسا مخصوص اسلوب مجھے عطا فرمایا گیا جو نہ پہلے کسی نبی اور
رسول کو عطا ہوا اور نہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے فصیح وبلیغ کو نصیب ہوا ! اس
اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ تھوڑے سے الفاظ کے ایک چھوٹے سے جملہ میں معانی ومفہوم
کا ایک گنجینہ پہناں ہوتا ہے ، پڑھئے اور لکھئے تو چھوٹی سی سطر بھی پوری نہ ہو ،
لیکن اس کا فہم اور وضاحت بیان کیجئے تو کتاب کی کتاب تیار ہوجائے ، چنانچہ آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وارشادات میں اس طرح کے کلمات کی ایک بڑی تعداد ہے جن
کو " جوامع الکلم " سے تعبیر کیا جاتا ہے ، ان میں سے چند کلمات کو بطور
مثال یہاں نقل کیا جاتا ہے : ١انماالاعمال بالنیات ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعمال
کا مدار نیتوں پر ہے ۔ ٢ومن حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ ۔ بے فائدہ بات کو ترک
کردینا آدمی کے اسلام کا حسن ہے ۔ ٣الدین النصیحۃ ۔ دین خیر خواہی کا نام ہے
٤العدۃ دین وعدہ ۔ وعدہ ، بمنزلہ دین کے ہے ۔ ٥المستشارموتمن جس سے مشورہ لیا جائے
وہ امانتدار ہے ۔ بعض علماء نے بڑی محنت اور دیدہ ریزی سے کام لے کر احادیث کے
ذخائر میں سے اس طرح کی حدیثوں کو ، جو جوامع الکلم " میں سے ہیں چنا ہے (اور
انکا مجموعہ تیار کیا ہے !بعض شارحین نے یہ لکھا ہے کہ " مجھے جوامع الکلم
یعنی جامع کلمات عطاہوئے ہیں ۔" میں جوامع الکلم سے " قرآن کریم "
مراد ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ کے کلام کا یہ اعجاز نمایاں ہے کہ چھوٹے چھوٹے جملوں
میں بڑے بڑے مضمون پنہاں ہیں ، لیکن پہلی وضاحت ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے ،
کیونکہ اسی مضمون کی ایک دوسری روایت میں " اختصہ لی الکلام " کے الفاظ
بھی نقل کئے گئے ہیں اس سے اسی قول کی تائید ہوتی ہے کہ یہاں " جوامع الکلم
" سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اقوال مراد ہیں " اور نبوت
ورسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کیا گیا ، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے وحی آنے کا
سلسلہ منقطع ہوگیا ، رسالت تمام ہوئی اب میرے بعد کوئی اور نبی ورسول نہیں آئے گا
کیونکہ اللہ کا دین مکمل ہوگیا ہے قیامت کے قریب حضرت عیسی علیہ السلام کا اترنا
بھی اسی دین کو مضبوط بنانے اور زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے لئے ہوگا۔
بعثت من خير قرون
بني آدم قرنا فقرنا حتی کنت من القرن الذي کنت فيه
انقلابِ زمانہ کے
ساتھ مجھے بنی آدم کے بہترین خانوادوں میں منتقل کیا جاتا رہا ، آخر دور
میں میرا وجود جس میں کہ مقدر تھا.
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 781 (3344) - انبیاء علیہم السلام کا بیان : رسول اللہ ﷺ کے اوصاف]
یعنی حضرت آدم (علیہ
السلام) کے بعد ، نبی محمد (ﷺ) کے نسب کے جتنے
بھی سلسلے ہوۓ وہ سب حضرت آدم کی اولاد میں سے بہترین خانوادے
تھے، آپ کے اجداد میں ابراہیم علیہ السلام پھر اسماعیل علیہ
السلام جو ابو العرب ہیں اس کے بعد عربوں کے جتنے سلسلے ہیں ان سب میں آپ کا
خانوادہ اولادِ اسماعیل کی شاخ کنانہ سے پھر قریش سے پھر بنی ہاشم سے
ہے، جو سب سے زیادہ بلند تر اور رفیع المنزلت خانوادہ ہے.
ترجمہ: حضرتانسؓ سے مروی ہے کہرسول الله ﷺ اپنی ولادت سے چالیس برس بعد مبعوث کے گئے.
==========================================
عبیداللہ بن عبداللہ بن
عتبہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک اعرابی نے مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کر دیا، تو لوگوں نے
اسے پکڑ لیا، نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اس کے
پیشاب پر ایک ڈول پانی (کا خواہ کم ہو یا بھرا ہو) ڈال دو، اس لئے کہ تم لوگ نرمی
کرنے کے لئے بھیجے گئے ہو، سختی کرنے کیلئے نہیں۔
[صحیح بخاری: حدیث
نمبر 221 - وضو کا بیان : مسجد میں پیشاب پر پانی ڈالنے کا بیان]
No comments:
Post a Comment