Wednesday 13 January 2016

دین اسلام میں آسانی ضرور ہے، مگر من مانی نہیں ہے


اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ

اللہ تعالٰی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:185]

لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها ۚ 
اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی کو مگر جس قدر اس کی گنجائش ہے 
[قرآن- سورۃ البقرۃ:286]

یعنی (1)اللہ وہی تکلیف(شرعی احکام) دیتے ہیں جو اختیار میں ہوں۔ (2)اور بلااختیار ہوجانے والی باتوں پر پکڑ نہیں فرماتا۔


ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے امام عبداللہ بن مبارک نے، ان سے ابراہیم بن طہمان نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حسین مکتب نے (جو بچوں کو لکھنا سکھاتا تھا) بیان کیا، ان سے ابن بریدہ نے اور ان سے حضرت عمران بن حصین ؓ نے کہا کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا۔ اس لیے میں نے نبی کریم ﷺ سے نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر، اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔
[صحيح البخاری: باب-جب بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو کروٹ کے بل لیٹ کر پڑھے - حدیث نمبر 1117]
حضرت عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے آدمی کی نماز کے بارے میں پوچھا جسے وہ بیٹھ کر پڑھ رہا ہو؟ تو آپ نے فرمایا: جو کھڑے ہو کر نماز پڑھے وہ بیٹھ کر پڑھنے والے کے بالمقابل افضل ہے، کیونکہ اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا، اور جو لیٹ کر پڑھے اسے بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ملے گا۔
[صحیح البخاری:1115، 1116، سنن ابو داود:951، سنن الترمذی:371، سنن النسائی:1661، سنن ابن ماجہ:1231]
یعنی
تکلیف شدید نہ ہو یعنی برداشت کے قابل ہو تو کھڑے ہوکر نماز پڑھنا افضل ہے اور بلاوجہ بیٹھ کر پڑھنے سے آدھا ثواب کا نقصان ہوگا۔
اور
تکلیف برداشت سے زیادہ ہو تو بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے ورنہ لیٹ کر پڑھنا بھی جائز ہے اور نماز کا ثواب بھی پورا ملتا ہے۔
پیغمبر ﷺ کے دور میں کرسی ہونے کے باوجود زمین پر ہی بیٹھ کر نماز پڑھی جاتی تھی، لہٰذا علماء نے کرسی پر نماز پڑھنے پر ثواب کا نقصان ہونے کا حکم بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ کرسی سے بہتر ہے کہ لیٹ کر اشارہ سے زمین ہی پر نماز پڑھی جائے کیونکہ نبی ﷺ نے یہی تعلیم دی ہے۔






فَاتَّقُوا اللّٰہَ  مَا  اسۡتَطَعۡتُمْ
پس اللہ سے ڈرتے رہو جہاں تک تم سے ہوسکے۔
[سورۃ التغابن:16]
یعنی اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، جو تمہیں وعظ  ونصیحت کی جاتی ہے اس کو سنو اور جس کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے اس کی اطاعت کرتے رہو۔ اور جس سے تمہیں روکا جاتا ہے اس نافرمانی سے بچنے کی کوشش کرتے رہو۔



حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: جو آدمی کسی ایسی قوم میں ہو جس میں گناہ کے کام کئے جاتے ہوں اور وہ اسے روکنے پر قدرت رکھتا ہو اور نہ روکے تو اللہ اسے مرنے سے پہلے ضرور کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔
[سنن ابو داؤد - لڑائی اور جنگ وجدل کا کتاب - نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنے کا بیان - حدیث نمبر 4339]





















سب سے ہلکا-آسان مطالبہ:
حضرت انس‌ؓ سے مروی ہے كہ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت كے دن سب سے كم عذاب والے جہنمی سے فرمائے گا:
(اے ابن آدم  تمہارا ٹھكانہ كیسا رہا؟ وہ كہے گا: یہ بدترین ٹھكانہ ہے۔ اس سے كہا جائے گا:)
اگر تمہیں دنیا اور جو كچھ اس میں ہے سب مل جائے تو كیا تم اسے بدلے میں دے دو گے؟
(اگر پوری زمین کے برابر تیرے پاس سونا ہو تو کیا اس کو فدیہ دے کر عذاب سے نجات لے سکتا ہے؟)
وہ كہے گا: ہاں۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: (تو جھوٹ بولتا ہے) *میں نے تجھ سے اس سے بھی آسان بات كا مطالبہ كیا تھا* جب تم اپنے باپ كی پشت میں تھے، (آدم كی پشت میں تھے:) *كہ تو میرے ساتھ( كسی كو) شریک نہ كرنا* (پھر میں تجھے جہنم میں داخل نہیں كروں گا) تم نے شرک پر ہی اصرار كیا(جمے رہے)، پھر اسے جہنم میں ڈالنے كا حكم دے دیا جائے گا۔
[مسند احمد:12312، صحیح بخاری:3334+6557، صحیح مسلم:2805(7083)]
یہ (مضمون) اللہ پاک نے (اپنے ان الفاظ میں بھی یوں) فرمایا ہے:
جن لوگوں نے کفر اپنایا اور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے، ان میں سے کسی سے پوری زمین بھر کر سونا قبول نہیں کیا جائے گا، خواہ وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے اس کی پیشکش ہی کیوں نہ کرے۔ ان کو تو دردناک عذاب ہو کر رہے گا، اور ان کو کسی قسم کے مددگار میسر نہیں آئیں گے۔
[تفسير الطبري:7384، البعث والنشور للبيهقي ت حيدر:92، البعث والنشور للبيهقي ت الشوامي:655]

شرک جھوٹ ہے، توحید حق ہے:
القرآن:
کہہ دو کہ : اگر اللہ کے ساتھ اور بھی خدا ہوتے جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو وہ عرش والے (حقیقی خدا) پر چڑھائی کرنے کے لیے کوئی راستہ پیدا کرلیتے۔
[سورۃ الإسراء:42]

اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے۔ لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں۔
[سورۃ الانبیاء:22]




نیکی کے ارادے اور کوشش پر فضل واحسان:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
اے فرشتو!
(1)جب میرا بندہ کسی برائی کا ارادہ کرے تو جب تک وہ اس پر عمل کرے اسے مت لکھو
(2)اور اگر وہ اس پر عمل کرے تو پھر اس کے برابر گناہ لکھو۔
(3)اگر وہ میرے خوف سے اس برائی کو ترک کردے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھو
(4)اور اگر کوئی بندہ نیکی کرنا چاہے تو اس کے لیے ارادے ہی پر ایک نیکی لکھ دو
(5)اور اگر اس پر عمل کرلے تو دس(10) گنا سے سات سو(700) گنا تک نیکی لکھو۔
[صحیح البخاری:7501]
تفسير سورة الانعام:160

القرآن:
اور الله کئی گنا اضافہ کردیتا ہے جس کیلئے چاہتا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:261]




























اللہ غفور رحیم کا فرمان ہے :
تمہارے رب نے مہربانی کرنا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے ، تو جو شخص بھی تم میں سے جہالت کی بنا پر کو‏ئی گناہ کرلے اور اس کے بعد توبہ کرتے ہوۓ اصلاح کرلے تو یقینا اللہ تعالی بڑی مغفرت والا اور بڑی رحمت والا ہے۔
[سورۃ الانعام:54]

اور نبی کریم ﷺ کے متعلق فرمایا:
﴿وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ ‌وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾ 
ترجمہ:
۔۔۔اور وہ ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے وہ طوق اتار دے گا جو ان پر لدے ہوئے تھے۔۔۔۔
[سورۃ الاعراف:157]
اس سے ان سخت احکام کی طرف اشارہ ہے جو یہودیوں پر عائد کیے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ احکام تو خود توراۃ میں تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس وقت یہودیوں کو ان کا پابند کیا تھا۔ بعض سخت احکام ان کی نافرمانیوں کی سزا کے طور پر نافذ کیے گئے تھے جس کا ذکر سورة نساء (160:4) میں گذرا ہے اور بہت سے احکام یہودی علماء نے اپنی طرف سے گھڑ لیے تھے۔ شاید ” بوجھ “ سے پہلی اور دوسری قسم کی طرف اور گلے کے طوق سے تیسری قسم کے احکام کی طرف اشارہ ہو۔ بتایا جا رہا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان احکام کو منسوخ کر کے ایک آسان اور معتد شریعت لائیں گے۔
حضرت ابوامامہؓ (صدی بن عجلان) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک لشکر میں نکلے تو دوران سفر جب ہم میں سے ایک شخص ایک ایسی غار (وادی) کے درمیان سے گزرا جس میں کچھ پانی اور سبزہ تھا تو اس نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ اسی غار میں رہ جائے اور دنیا سے کنارہ کشی کر لے ۔ چنانچہ اس نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی آپ ﷺ نے فرمایا یاد رکھو! نہ تو میں دین یہودیت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں اور نہ دین عیسائیت دے کر کہ میں تم لوگوں کو رہبانیت کی تعلیم دوں ، بیجا مشقت وتکلیف میں مبتلا کروں اور لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور لذات دنیا سے مطلقًا کنارہ کشی کی اجازت دوں بلکہ میں تو دین حنیفہ دے کر بھیجا گیا ہوں جو ایک آسان دین ہے جس میں نہ تو انسانیت عامہ کے لئے بیجا تکلیف وحرج ہے اور نہ زائد از ضرورت مشقت ومحنت ہے۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے دن کے صرف ابتدائی یا آخری حصے میں یعنی صبح وشام کو اللہ کی راہ جہاد میں چلے جانا دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور تم سے کسی کا میدان جنگ کی جماعت نماز کی صف میں کھڑا ہونا اس کی ساٹھ سال کی تنہا پڑھی جانے والی نماز سے بہتر ہے ۔"
[احمد:22291]
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک اعرابی نے مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کر دیا، تو لوگوں نے اسے پکڑ لیا، نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی (کا خواہ کم ہو یا بھرا ہو) ڈال دو، اس لئے کہ تم لوگ نرمی کرنے کے لئے بھیجے گئے ہو، سختی کرنے کیلئے نہیں۔
[صحیح بخاری: حدیث نمبر 221 - وضو کا بیان : مسجد میں پیشاب پر پانی ڈالنے کا بیان]






























دین متین
(1)حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«إِنَّ ‌هَذَا ‌الدِّينَ ‌مَتِينٌ، فَأَوْغِلُوا فِيهِ بِرِفْقٍ»
ترجمہ:
’’یہ دین ٹھوس (سنجیدہ اور مضبوط) ہے، لہٰذا اس کی گہرائی میں نرمی وآہستگی سے داخل ہو۔‘‘
[مسند أحمد:13052، الأحاديث المختارة-المقدسي:2115، صحيح الجامع الصغير:2246]

(2)محمد بن المنكدر، حضرت جابرؓ سے روایت کرتے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ هَذَا ‌الدِّينَ ‌مَتِينٌ فَأَوْغِلْ فِيهِ بِرِفْقٍ، وَلَا تُبَغِّضْ إِلَى نَفْسِكَ عِبَادَةَ اللَّهِ، فَإِنَّ الْمُنْبَتَّ لَا أَرْضًا قَطَعَ، وَلَا ظَهْرًا أَبْقَى۔
ترجمہ:
’’یہ دین ٹھوس (سنجیدہ اور مضبوط) ہے، لہٰذا اس کی گہرائی میں نرمی وآہستگی سے داخل ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت سے اپنے نفس کو متنفر نہ کرو، کیونکہ بوئی ہوئی زمین نہ کاٹی جاتی ہے اور نہ باقی رہتی ہے۔‘‘
(یعنی وگرنہ اپنے مقصد کو کھو دو گے)
[معجم ابن الأعرابي:1883، أمثال الحديث لأبي الشيخ الأصبهاني:229، فوائد العراقيين لأبي سعيد النقاش:61، مسند الشهاب القضاعي:1147، السنن الكبرى-البيهقي:4743]


(3)اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کی روایت میں مزید یہ الفاظ بھی مروی ہیں کہ:
فَاعْمَلْ عَمَلَ امْرِئٍ يَظُنُّ أَنْ لَنْ يَمُوتَ أَبَدًا، وَاحْذَرْ حَذَرًا يَخْشَى أَنْ يَمُوتَ غَدًا۔
ترجمہ:
لہٰذا ایسے شخص ک جیسا عمل کر جس کا گمان ہے کہ وہ ہرگز نہیں مرے گا اور ڈرنا چھوڑدے کہ کہیں تجھے کل ہی موت نہ آ جائے۔
[الزهد والرقائق-ابن المبارك:1334، السنن الكبرى-البيهقي:4744]





تین حالتوں میں شرعی تکالیف معاف ہیں

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ : عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ ، وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَكْبَرَ " .
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (فرشتوں کے اعمال لکھنے کا) قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے: (1) سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہوجائے، (2) مجنوں سے یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہوجائے، اور (3) بچہ پر سے یہاں تک کہ بڑا (بالغ) ہوجائے۔

اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور اس میں ”کھوسٹ بوڑھے“ کا اضافہ ہے۔
حوالہ
زاد فيه والخرف.


حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ (1)چھوٹا یا بوڑھا کھوسٹ ہونا، (2)نیند اور (3)دیوانگی ۔۔۔ اہلیت (عقل اور ارادہ) کو کھو دینے کے اسباب میں سے ہیں۔ اہلیت آدمی کی وہ شخصی صلاحیت ہے، جس کی بنا پر اس کے حق میں یا اس کے خلاف شرعی حقوق ثابت ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر کم سن، پاگل اور سونے والے واجبات و منہیات کے مکلف نہیں ہوتے۔ یہ ان کے ساتھ اللہ کا لطف و مہربانی ہے۔ کم سن کا عذر احتلام یعنی بلوغت سے ختم ہوجاتا ہے، سونے والے کا بیدار ہونے سے اور پاگل کا شعور وآگاہی کے بعد۔

لہٰذا کفریہ کلمات کہنے سے نہ وہ دین سے پھرجانے والا مرتد ہوتا ہے، اور نہ طلاق طلاق بڑبڑانے اور پاگل سے زنا یا چوری ہوجانے پر، نابالغ بچے کا اجازت نہ لینے پر[سورۃ النور:59]، ان کا حساب نہ لیا جائے گا اور نہ ہی عذاب دیا جائے گا، کیونکہ ان میں اس وقت نہ عقل ہے نہ ارادہ۔

حضرت علیؓ سوئے ہوئے آدمی کے تصرفات قولی کا کوئی اعتبار نہیں فرماتے تھے، اس حالت میں دی ہوئی طلاق، (کفریہ کلمات بڑبڑانے کے سبب) ارتداد اور کئے ہوئے معاملات کو درست نہیں مانتے تھے، آپؓ  کا ارشاد ہے کہ نیند میں مدہوش انسان مرفوع القلم ہوتا ہے جب تک بیدار نہ ہوجائے۔ 
(مصنف ابن ابی شیبہ:۱/۲۵۸)



تین حالتوں میں امتِ محمدیہ پر رحم


حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْهُذَلِيُّ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ " .
ترجمہ:
حضرت ابوذر غفاریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بےشک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے (1) خطا (یعنی بلا اختیار وارادہ کے ہوجانے والی بات)، (2) بھول اور (3) زبردستی (کروائے گئے کام) معاف کردیئے ہیں۔

القرآن:


جس میں تم غلطی کرلو اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن گناہ اس میں ہے جو تمہارے دل عمدا (جان بوجھ کر) کریں۔
[سورۃ الاحزاب:5]


معافی کے قابل کون؟

حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كُلُّ ‌أُمَّتِي ‌مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ

ترجمہ:

میری ساری امت کو معاف کردیا گیا ہے سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے۔

[صحيح البخاري:6069، صحیح مسلم:2990]



قرآنی شاہدی
مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعدِ إيمٰنِهِ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمٰنِ وَلٰكِن مَن شَرَحَ بِالكُفرِ صَدرًا فَعَلَيهِم غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُم عَذابٌ عَظيمٌ {16:106}
جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔ بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے۔ تو ایسوں پر الله کا غضب ہے۔ اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا
مرتد کون ہے ؟: ایک تو وہ مجرم ہیں جو سینکڑوں دلائل و آیات سن کر بھی یقین نہ لائیں۔ مگر ان سے بڑھ کر مجرم وہ ہیں جو یقین لانے اور تسلیم کرنے کے بعد شیطانی شبہات و وساوس سے متاثر ہر کر صداقت سے منکر ہو جائیں۔ جیسا کہ عبداللہ بن ابی سرح نے کیا تھا کہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا۔ العیاذ باللہ۔ ایسے لوگوں کی سزا آگے بیان فرمائی ہے ۔ درمیان میں { اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ } الخ سے ایک ضروری استثناء کر دیا گیا ۔ یعنی اگر کوئی مسلمان صدق دل سے برابر ایمان پر قائم ہے ایک لمحہ کے لئے بھی ایمانی روشنی اور قلبی طمانیت اس کے قلب سے جدا نہیں ہوئی صرف کسی خاص حالت میں بہت ہی سخت دباؤ اور زبردستی سے مجبور ہو کر شدید ترین خوف کے وقت گلوخلاصی کے لئے محض زبان سے منکر ہو جائے یعنی کوئی کلمہ اسلام کےخلاف نکال دے بشرطیکہ اس وقت بھی قلب میں کوئی تردد نہ ہو۔ بلکہ زبانی لفظ سے سخت کراہیت و نفرت ہو ، ایسا شخص مرتد نہیں بلکہ مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔ ہاں اس سے بلند مقام وہ ہے کہ آدمی مرنا قبول کرے مگر منہ سے بھی ایسا لفظ نہ نکالے۔ جیسا کہ حضرت بلالؓ، حضرت یاسرؓ ، حضرت سمیہ حضرت خبیب بن زید انصاری اور حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کے واقعات تاریخوں میں موجود ہیں۔ بنظر اختصار ہم یہاں درج نہیں کر سکتے ابن کثیر میں دیکھ لئے جائیں ۔






بیماری میں صحت مندی کے اعمال کا ثواب
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى ، وَمُسَدَّدٌ ، الْمَعْنَى قَالَا : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّكْسَكِيِّ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ مَرَّةٍ ، وَلَا مَرَّتَيْنِ ، يَقُولُ : " إِذَا كَانَ الْعَبْدُ يَعْمَلُ عَمَلًا صَالِحًا ، فَشَغَلَهُ عَنْهُ مَرَضٌ ، أَوْ سَفَرٌ ، كُتِبَ لَهُ كَصَالِحِ مَا كَانَ يَعْمَلُ ، وَهُوَ صَحِيحٌ مُقِيمٌ " .
ترجمہ:
حضرت ابوموسیؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ اکثر سنا ہے۔ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جب کوئی شخص مستقل طور پر پابندی کے ساتھ کوئی نیک عمل کرتا رہتا ہے اور پھر وہ کسی بیماری یا سفر کی بنا پر اس کو نہ کر سکے تو اس کو اس کا ثواب اسی طرح ملے گا جس طرح وہ صحت اور اقامت کی صورت میں کیا کرتا تھا۔

Narrated Muhammad ibn Khalid as-Sulami: 
As-Sulami's grandfather, who was a Companion of the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) said: I heard the Apostle of Allah (peace_be_upon_him) say: When Allah has previously decreed for a servant a rank which he has not attained by his action, He afflicts him in his body, or his property or his children.





القرآن:
ہم نے تم پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ تم تکلیف اٹھاؤ۔
[سورۃ طٰہٰ:2]
اس تکلیف سے مراد وہ تکلیفیں بھی ہوسکتی ہیں جو آنحضرت ﷺ کو کفار کی طرف سے پہنچ رہی تھیں، اس صورت میں مطلب یہ ہے کہ یہ تکلیفیں ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو دور فرما کر آپ کو فتح عطا فرمائے گا۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ شروع میں ساری ساری رات جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت فرماتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔ اس آیت نے ارشاد فرمایا کہ آپ کو اتنی تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ نے رات کے شروع حصے میں سونا اور آخری حصے میں عبادت کرنا شروع کردیا۔






























قرآنی شاہدی
معذوروں کیلئے احکام میں رعایت:
وَمَن كانَ مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ ۗ يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ {2:185}
اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (روزہ رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔۔۔
مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو اول رمضان میں روزہ کا حکم فرمایا اور بوجہ عذر پھر مریض اور مسافر کو افطار کرنے کی اجازت دی اور دیگر اوقات میں ان دنوں کے شمار کے برابر روزوں کا قضا کرنا تم پر پھر واجب فرمایا ایک ساتھ ہونے یا متفرق ہونے کی ضرورت نہیں تو اس میں اس کا لحاظ ہے کہ تم پر سہولت رہے دشواری نہ ہو اور یہ بھی منظور ہے کہ تم اپنے روزوں کا شمار پورا کر لیا کرو ثواب میں کمی نہ آ جائے اور یہ بھی مدنظر ہے کہ تم اس طریقہ سراسر خیر کی ہدایت پر اپنے اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس کو بزرگی سے یاد کرو اور یہ بھی مطلوب ہے کہ ان نعمتوں پر تم شکر کرو اور شکر کرنے والوں کی جماعت میں داخل ہو جاؤ سبحان اللہ روزہ جیسی مفید عبادت ہم پر واجب فرمائی اور مشقت و تکلیف کی حالت میں سہولت بھی فرمادی اور فراغت کے وقت میں اس نقصان کے جبر کا طریقہ بھی بتلا دیا۔


وضو کیلئے پانی پر قدرت نہ ہو تو مٹی سے تیمم کرنے میں حرج نہیں۔
القرآن:
اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک (دھو لیا کرو) اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارے جسم کو (غسل کے ذریعے) خوب اچھی طرح پاک کرو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے جسمانی ملاپ کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرو (11) اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس (مٹی) سے مسح کرلو۔ اللہ تم پر کوئی تنگی مسلط کرنا نہیں چاہتا، لیکن یہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک صاف کرے، اور یہ کہ تم پر اپنی نعمت تمام کردے، تاکہ تم شکر گزار بنو۔
[سورۃ المائدہ:6]
تفسیر:
11: ”قضائے حاجت کی جگہ سے آنا“ در حقیقت اس چھوٹی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے جس میں انسان پر نماز وغیرہ پڑھنے کے لیے صرف وضو واجب ہوتا ہے اور عورتوں سے ملاپ، اس بڑی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے جس کو جنابت کہتا ہے اور جس میں غسل واجب ہوتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ جب پانی میسر نہ ہو یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو ناپاکی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی دونوں صورتوں میں تیمم کی اجازت ہے اور دونوں صورتوں میں اسکا طریقہ ایک ہی ہے۔







القرآن:
نہ کسی نابینا کے لیے اس میں کوئی گناہ ہے، نہ کسی پاؤں سے معذور شخص کے لیے کوئی گناہ ہے، نہ کسی بیمار شخص کے لیے کوئی گناہ ہے، اور نہ خود تمہارے لیے کہ تم اپنے گھروں سے کچھ کھالو (44) ، یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماؤں کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، (45) یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا ان گھروں سے جن کی چابیاں تمہارے اختیار میں ہوں۔ (46) یا اپنے دوستوں کے گھروں سے، اس میں بھی تمہارے لیے کوئی گناہ نہیں ہے کہ سب ملکر کھاؤ، یا الگ الگ۔ چنانچہ جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، کہ یہ ملاقات کی وہ بابرکت پاکیزہ دعا ہے جو اللہ کی طرف سے آئی ہے۔ اللہ اسی طرح آیتوں کو تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم سمجھ جاؤ۔
[سورۃ النور:61]
تفسیر:
44: ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ بعض افراد جو نابینا یا پاؤں سے معذور یا بیمار ہوتے تھے وہ دوسروں کے ساتھ مل کر کھانا کھانے سے اس لئے شرماتے تھے کہ شاید دوسروں کو ان کے ساتھ کھاتے ہوئے کراہیت محسوس ہو، اور بعض معذور افراد یہ بھی سوچتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی معذوری کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ جگہ گھیر لیں یا نابینا ہونے کی بنا پر دوسروں سے زیادہ کھالیں، دوسری طرف صحت مند لوگ بھی بعض اوقات یہ خیال کرتے تھے کہ کہیں یہ اپنی معذوری کی وجہ سے دوسروں کا ساتھ نہ دے سکیں کم کھائیں اور مشترک کھانے میں سے اپنا مناسب حصہ نہ لے سکیں، یہ احساس ان حضرات کے دل میں اسلام کے ان احکام نے پیدا کیا جن کی رو سے کسی دوسرے کو اپنی طرف سے ادنی سی تکلیف پہنچانا گناہ قرار دیا گیا ہے، نیز مشترک چیزوں کے استعمال میں احتیاط کی تاکید کی گئی ہے، ان آیات نے یہ واضح فرمایا کہ بےتکلف مقامات پر اتنی باریک بینی کی ضرورت نہیں ہے۔
 45: عرب کے لوگوں میں یہ عام رواج تھا کہ ان کے گھروں میں آنے والے یہ رشتہ دار جن کا اس آیت میں ذکر ہے اگر ان کی اجازت کے بغیر بھی ان کے گھر سے کچھ کھالیتے تو وہ نہ صرف یہ کہ برا نہیں مناتے تھے ؛ بلکہ خوش ہوتے تھے، جب یہ احکام آئے کہ کسی کی چیز اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں تو بعض صحابہ یہاں تک پرہیز کرنے لگے کہ اگر کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کے گھر جاتے اور اس کی بیوی بچے ان کی کچھ خاطر تواضع کرتے تو ان کو کھانے میں تردد ہوتا تھا کہ گھر کا اصل مالک تو موجود نہیں ہے اس لئے ہمیں اس کی اجازت کے بغیر کھانا نہیں چاہیے، اس آیت نے واضح فرمادیا کہ جہاں یہ بات یقینی ہو کہ اصل مالک ہمارے کھانے سے خوش ہوگا، وہاں کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے، البتہ جہاں یہ بات مشکوک ہو وہاں یہ حکم نہیں ہے چاہے کتنے قریبی رشتہ دار کا گھرہو۔
 46: بعض حضرات جب جہاد کے لئے جاتے تو اپنے گھر کی چابیاں ایسے معذور افراد کے حوالے کرجاتے جو جہاد میں جانے کے لائق نہیں تھے، اور ان کو یہ بھی کہہ جاتے تھے کہ ہمارے گھر کی کوئی چیز اگر آپ کھانا چاہیں تو کھالیا کریں، اس کے باوجود یہ معذور حضرات احتیاط کی وجہ سے کھانے سے پرہیز کرتے تھے، اس آیت نے ان کو بھی یہ ہدایت فرمادی کہ اتنی احتیاط کی ضرورت نہیں ہے، جب مالک کی طرف سے چابیاں تک آپ کے حوالے کردی گئیں ہیں اور اجازت بھی دے دی گئی ہے تو اب کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے۔

لَيسَ عَلَى الأَعمىٰ حَرَجٌ وَلا عَلَى الأَعرَجِ حَرَجٌ وَلا عَلَى المَريضِ حَرَجٌ ... {24:61}
نہ تو اندھے پر کچھ گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر ...
یعنی جو کام تکلیف کے ہیں وہ ان کو معاف ہیں مثلاً جہاد، حج، جمعہ اور جماعت اور ایسی چیزیں۔ (کذا فی الموضح)







کس کیلئے جنت کا راستہ آسان ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی ، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی ، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اور جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے ، اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگوں کا کوئی گروہ اکٹھا نہیں ہوتا ، وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا درس و تدریس کرتے ہیں مگر ان پر سکینت ( اطمینان و سکون قلب ) کا نزول ہوتا ہے اور ( اللہ کی ) رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین میں جو اس کے پاس ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتا ہے اور جس کے عمل نے اسے ( خیر کے حصول میں ) پیچھے رکھا ، اس کا نسب اسے تیز نہیں کر سکتا ۔
[صحیح مسلم:2699(6853)]تفسیر سورۃاللیل:7






























***********************

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي لَأَعْرِفُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنَ النَّارِ ، وَآخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ ، يُؤْتَى بِرَجُلٍ فَيَقُولُ : سَلُوا عَنْ صِغَارِ ذُنُوبِهِ وَاخْبَئُوا كِبَارَهَا ، فَيُقَالُ لَهُ : عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا ، عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا فِي يَوْمِ كَذَا وَكَذَا ، قَالَ : فَيُقَالُ لَهُ : فَإِنَّ لَكَ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً ، قَالَ : فَيَقُولُ : يَا رَبِّ لَقَدْ عَمِلْتُ أَشْيَاءَ مَا أَرَاهَا هَا هُنَا ، قَالَ : فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ .
[جامع الترمذي » كِتَاب صِفَةِ جَهَنَّمَ » بَاب مَا جَاءَ أَنَّ لِلنَّارِ نَفَسَيْنِ وَمَا ذُكِرَ ... رقم الحديث: 2538(2 : 661)2596]
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کرو چنانچہ اس کے سامنے صغیرہ گناہ لائے جائیں گے اور کبیرہ گناہ چھپا لئے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ تم نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا؟ وہ ہر گناہ کا اقرار کرے گا کسی کا بھی انکار نہیں کرے گا اور کبیرہ گناہوں کے خوف سے ڈر رہا ہوگا اس وقت حکم ہوگا کہ ہر گناہ کے بدلے اسے ایک نیکی دے دو وہ کہے گا کہ میرے بہت سے گناہ ایسے ہیں جنہیں ابھی تک میں نے دیکھا ہی نہیں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس بات پر میں نے نبی کریم ﷺ کو اتنا ہنستے ہوئے دیکھا کہ دندان مبارک ظاہر ہوگئے ۔
[أخرجه أحمد (5/157، رقم 21430 - 35/388، رقم 21492) ، ومسلم (1/177، رقم 190) ، والترمذى (4/713، رقم 2596) وقال: حسن صحيح. وابن حبان (16/375، رقم 7375) .]


فضائل توبہ و استغفار پر چہل حدیث

قرآنی شاہدی
إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صٰلِحًا فَأُولٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنٰتٍ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا {25:70}
مگر جس نے توبہ کی اور یقین لایا اور کیا کچھ کام نیک سو ان کو بدل دے گا، اللہ برائیوں کی جگہ بھلائیاں اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان [۸۵]
یعنی گناہوں کی جگہ نیکیوں کی توفیق دے گا اور کفر کے گناہ معاف کرے گا۔ یا یہ کہ بدیوں کو مٹا کر توبہ اور عمل صالح کی برکت سے ان کی تعداد کے مناست نیکیاں ثبت فرمائے گا۔ کما یظہر من بعض الاحادیث۔


***********************
معمولات میں ناغہ
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَحَرْمَلَةُ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، وَعُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَخْبَرَاهُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِهِ، أَوْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ، فَقَرَأَهُ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَصَلَاةِ الظُّهْرِ، كُتِبَ لَهُ كَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنَ اللَّيْلِ»
ترجمہ:
عبدالرحمان بن عبدالقاری سے روایت ہے ، کہا : میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ، کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کسی کا حزب ( قرآن کا 1/7 حصہ جو عموما ایک رات میں تہجد کے دوران میں پڑھا جاتا تھا ) یا اس کا کچھ حصہ سوتے رہ جانے کی وجہ سے رہ گیا اور اس نے اسے نمازِ فجر اور نمازِ ظہر کے درمیان پڑھ لیا تو اس کے حق میں یہ لکھا جائے گا ، جیسے اس نے رات ہی کو اسے پڑھا ۔ 
[أخرجه ابن المبارك (1/441، رقم 1247) ، وأحمد (1/32، رقم 220) ، والدارمى (1/412، رقم 1477) ، ومسلم (1/515، رقم 747) ، وأبو داود(2/34، رقم 1313) ، والترمذى (2/474، رقم 581) وقال: حسن صحيح. والنسائى (3/259، رقم 1790) ، وابن حبان (6/370، رقم 2643) ، وأبو يعلى (1/202، رقم 235) . وأخرجه أيضًا: عبد الرزاق (3/50، رقم 4748) ، والبزار (1/428، رقم 302) وابن ماجه (1/426، رقم 1343) ، وابن خزيمة (2/195، رقم 1171) ، والبيهقى (2/485 رقم 4340) . وأخرجه أبو نعيم فى الحلية (8/326)]

مرنے سے پہلے بغیرمانگے عطا کئے گئے اللہ کے انعامات کا شکر ادا کرلو۔۔۔بےشک جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت(رضا) ہی سے ہوگا، لیکن اعمال ہی (1)قیامت کے حساب، (2)جہنم کے عذاب اور (3)جنت میں دائمی غربت اور ندامت سے بچائیں گے۔


***********************

فضائلِ کلمہ توحید


انمول نبوی نصیحت

حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ ، عَنِ أَشْيَاخِهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَوْصِنِي ، قَالَ :" إِذَا عَمِلْتَ سَيِّئَةً فَأَتْبِعْهَا حَسَنَةً تَمْحُهَا " ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَمِنْ الْحَسَنَاتِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ؟ قَالَ : " هِيَ أَفْضَلُ الْحَسَنَاتِ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ... رقم الحديث: 20959(20974)21487]

حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺ مجھے کوئی وصیت فرمائیے ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر تم سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کے بعد کوئی نیکی کر لیا کرو جو اس گناہ کو مٹا دے میں نے عرض کیا کہ ((لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ یعنی نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے)) کہنا نیکیوں میں شامل ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ تو سب سے افضل نیکی ہے۔
[خلاصة حكم المحدث : صحيح | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الترغيب:3162
خلاصة حكم المحدث : حسن | المحدث : ابن حجر العسقلاني | المصدر : الأمالي المطلقة: 129]


قرآنی شاہدی:
۔۔۔ بےشک نیکیاں دور ہٹاتی ہیں برائیوں کو ۔۔۔
[سورۃ ھود:114]




کلمہ توحید کے تقاضے

http://raahedaleel.blogspot.com/2012/12/blog-post_9910.html

کیا پہلا کلمہ (طیب) کہیں ثابت ہے؟

فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ ۔۔۔ {47:19} سو تو جان لے کہ نہیں کسی کی بندگی سوائے اللہ کے

http://raahedaleel.blogspot.com/2014/02/4719.html

دعا(غائبانہ حاجات میں پکارنا)عبادت ہی تو ہے - ترمذی:3318

نہیں ہے کوئی عالم الغیب اور حاضر و ناظر ، سواۓ الله کے




***********************

نیند کا غلبہ اور مفت تہجد کا ثواب:
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ اسے نبی  ﷺ  تک پہنچاتے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا: جو آدمی بستر پر لیٹتے وقت نیت رکھتا ہو کہ رات کو ( نماز تہجد کے لیے ) اٹھے گا لیکن اسے گہری نیند آ گئی اور وہ صبح تک سویا رہا تو اس کے لیے اس نماز کا ثواب لکھا جائے گا جس کی اس نے نیت کی اور اس کی نیند اس کے رب عزوجل کی طرف سے اس پر نوازش ہو گی۔
[نسائی:1786، ابن ماجہ:1344، حاکم:1170]
القرآن»
اور جو ارادہ کرے آخرت کا اور اس کیلئے ویسی کوشش بھی کرے۔۔۔تو ایسے لوگوں کی کوشش کی پوری قدر دانی کی جائے گی۔
[سورۃ الاسراء:19]



************************














اسلام میں نکاح کا آسان طریقہ



﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجاً وَذُرِّیَّة﴾․(سورہ رعد:38)
ترجمہ:” اور ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے یقینا بہت سے رسول بھیجے او رانہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا۔“

نکاح کے فضائل او راہمیت سے متعلق بے شمار حدیثیں ہیں ،لیکن میں تفصیل میں نہ جاتے ہوئے چند احادیث پر اکتفا کرتے ہوئے ساتھ ہی سماج اور معاشرہ میں رائج اور غیر ضروری رسم ورواج پر روشنی ڈالوں گا، جس نے نکاح جیسی اہم اور پاکیزہ ضرورت کو مشکل بنا دیا ہے۔

اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے متعلق جو معتدل فکر او رمتوازن نظریہ پیش کیا ہے وہ نہایت ہی جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے، بلکہ نکاح انسان کی بہت ساری فطری ضروریات میں سے ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ چنا ں چہ اسلام نے نکاح کو انسان کی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے او راحساس بندگی اور شعور زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ مذکورہ بالاآیت کریمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرام بھی صاحب اہل وعیال رہے ہیں او ران کی سنتوں میں نکاح کرنا بھی شامل ہے۔

حضور صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیتے ہوئے فرمایا:”النکاح من سنتی“ نکاح میری سنت ہے او رایک دوسری جگہ نکاح کو آدھا ایمان کہا: عن انس قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”إذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین، فلیتق الله فی النصف الباقی․“ (رواہ البیھقی)

حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملہ میں الله سے ڈرتا رہے۔“

نکاح سے متعلق معاشرہ میں رائج رسم ورواج
چند رسم ورواج کا تعلق لڑکے والوں کی طرف سے ہے توبعض لڑکی والوں کی طرف سے ، دونوں ہی افراط وتفریط میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے ہیں۔ ابتدائی مرحلہ میں کبھی شادی سے اعراض ہوتا ہے، تکمیل تعلیم کا بہانہ ہوتا ہے ، عورتوں کا غیر ضروری تعلیم میں مشغول ہو نا ہوتا ہے اورتنگ دستی کا بہانہ تو کبھی ذمہ داریوں سے فرار۔ یہ ساری کے ساری غیر ضروری وجوہات ہیں، جو حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل منافی ہیں۔

بعض رسم ورواج لڑکی والوں کی طرف سے ہیں
وقت اور زمانہ کے لحاظ سے مختلف ملکوں میں مختلف رواج ہیں۔ کہیں مہر کی زیادتی اور زیور کا مطالبہ ہوتا ہے ، جس سے بہت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جس کی تمام تر ذمہ داری لڑکی کے اولیا پر عائد ہوتی ہے۔

٭… یہ چیز لا تعدادلڑکوں اور لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔
٭ …لوگ انجام سے بے خوف ہوکر اپنی لڑکی کا رشتہ اس شخص سے کر دیتے ہیں جو حق مہر زیادہ سے زیادہ ادا کرے۔
٭ …حق مہر او رزیور کی زیادتی سے شادی میں تاخیر ہوتی ہے۔
٭…اگر میاں بیوی میں اختلاف ہو جائے تو شوہر بیوی کو طعنہ دیتا ہے کہ میں نے تمہیں اتنا حق مہر اور زیور زیادہ دیا ہے۔
٭ …اگر میاں بیوی میں آسانی سے گزار ہ نہ ہو سکے تو آسانی سے علیحدگی نہیں ہوتی، کیوں کہ شوہر زیور او رمہر کی اتنی کافی مقدار کے لیے متفکر رہتا ہے اور بیوی کو بہت زیادہ تنگ کرتا ہے، حتی کہ نوبت خاندانی لڑائیوں تک پہنچ جاتی ہے۔

لہٰذا حق مہر میں آسانی کی فضا قائم کرنے سے ہی معاشرہ میں امن وسکون پیدا ہو گا اور بے شمار لوگوں کی شادیاں بآسانی انجام پائیں گی۔

بعض رسم ورواج لڑکے والوں کی طرف سے ہیں
جہیز کا ظالمانہ مطالبہ۔

لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ ہندوؤں کی رسم ہے،وہ اپنی لڑکیوں کو وراثت سے محرم کرنے کے لیے شادی پر کچھ نہ کچھ دیتے تھے، تاکہ لڑکی اس سامان کے عوض وراثت سے اپنا حصہ مانگنا ترک کر دے۔
٭… جہیز کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی تاخیر کا سبب بنتی ہے اور بہت ساری لڑکیاں شادی کی نعمت سے محروم رہ جاتی ہیں۔
٭… لڑکی کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے بے جا اور غیر ضروری جہیز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وراثت میں حصہ دیگر وارثین کی طرح لڑکیوں کا بھی حق ہے، الله کا ارشاد ہے:﴿یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْنِ فَإِن کُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَیْْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَإِن کَانَتْ وَاحِدَةً فَلَہَا النِّصْف﴾․( سورہ النساء:11)

” الله تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے او راگر صرف لڑکیاں ہی ہوں انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اسے صرف آدھا ملے گا۔“
٭…حد تو یہ ہے کہ لڑکے والوں کی طرف سے ایک لسٹ بھیجی جاتی ہے جو گھڑی، سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑی، سوٹ کیس، بیڈ ، مکان اور ملبوسات وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔
٭… اخلاقی حالت اتنی پست ہو چکی ہے کہ لڑکیوں کو طعنہ دیا جاتا ہے ،کہ وہی چیز استعمال کرنا جو اپنے گھر سے لائی ہو۔
٭… جس کے گھر میں دو چار بچیاں ہو جائیں تو ان کا جینا دو بھر ہو جاتا ہے اور جیتے جی مردہ معلوم ہوتے ہیں۔
٭…مرد عورت کا غلام ومحکوم ہو جاتا ہے او رعورت حاکم ہو جاتی ہے۔ ( راقم الحروف کے والد محترم جناب مولانا علی حسن صاحب اپنی تقریر میں ایک مرتبہ فرمارہے تھے کہ آج کل ہمارے معاشرہ میں ہر آدمی کا ایک اسٹنڈرڈ بن گیا اور اپنی سطح کے مطابق، بلکہ بڑھ کر اگر گھڑی مانگنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو گھڑی کے انداز میں او رگاڑی موٹر سائیکل والے اپنے اپنے انداز میں مانگتے ہیں، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عورت حاکم بن جاتی ہے اور مرد محکوم ہو جاتا ہے ،کیوں کہ عورت نے جہیز سے مرد کو خرید لیا ہے، لہٰذا مرد بیوی کے اشارہ پر ناچتا ہے)
٭…اخباروں کی سرخیاں اس طرح کی خبروں سے بھری پڑی ہیں کہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے باپ نے پھانسی لگالی تو بیٹی نے خود کشی کر لی یا کہیں بہو کو جلا دیا گیا۔
٭…والدین سے مجبوراً جہیز لینا یقیناً باطل طریقہ سے مال کھانے کے ضمن میں آتا ہے ، الله پاک کا ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾․(سورہ نساء:29)

اے ایمان والو! ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۔“ ایک حدیث میں حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” ایک مسلمان کا خون، اس کا مال، اس کی عزت وآبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔“ اس آیت کریمہ او رحدیث مبارکہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جہیز کا لینا اور اس کا استعمال کرنا ناجائز ہے۔

٭…عام طور پر بہت بڑی بارات ایک جلوس کی شکل میں لے جاتے ہیں، جس میں ناچ گانے کا اہتمام کرتے ہیں، اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لڑکی والوں کو ایک اچھی خاصی تعداد کے لیے کھانا تیار کرنا پڑتا ہے، جو ان کے لیے ایک بے جا بوجھ ہے۔ اور لڑکے والوں کو باراتیوں کو منتقل کرنے کے لیے کئی کئی بسوں اور کاروں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، جس میں کافی پیسوں کا بے جا اسراف ہوتا ہے۔ یہ وہی نکاح ہے جس کو شریعت نے دو خاندانوں کے مابین محبت، مؤدت او ررحمت کا ذریعہ بنایا ہے، جو باہمی نفرت وعداوت اور دشمنی کا باعث بن جاتا ہے۔ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ظلم سے جہیز حاصل کرنے والوں کو خود ہی اپنی بیٹیوں کے معاملہ میں بہت زیادہ پریشان کن او رتکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑے: ﴿وَتِلْکَ الأیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْْنَ النَّاس﴾ (سورہ آل عمران:140) یہ تو زمانہ کے نشیب وفراز ہیں، جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ آج ہماری کل تمہاری باری ہے !!!!

بعض لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ لڑکی والے خود سے جہیز دے رہے ہیں۔ پھر بھی یہی حکم ہے کہ اس موقع سے آپ ان کو منع کر دیں، کیوں کہ یہ فتنہ کو فروغ دینا ہے او راگر دینا ہی ہے تو سال دوسال کے بعد دیں، پھر دیکھیے ملتا ہے کہ نہیں؟ اس لیے اس فتنہ سے بچنے کے لیے ہمیں ہر مشتبہ چیز سے بچنا ہو گا۔ والله ولی التوفیق․

مذکورہ بالا دو طرفہ ظالمانہ رسم ورواج سے بچنے کے لیے چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو دیکھتے اور صحابہ کی زندگی کا مطالعہ کرتے او راس کے مطابق شادیاں کرتے، جس سے ہمارا معاشرہ مثالی شوہر او رمثالی بیوی سے مزّین ہوتا۔ یہ ساری پریشانیاں او رمصیبتیں اس لیے ہیں کہ ہم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے اور ایک نئی قسم کی شریعت گھڑ لی ہے۔

شوہر کے متعلق حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عن عائشة قالت قال رسول صلی الله علیہ وسلم:”خیرکم خیرکم لأھلہ، وأنا خیرکم لأھلی، واذا مات صاحبکم فدعوہ․“ (رواہ الترمذی)

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لیے اچھا ہو اورمیں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب میں اچھا ہوں، جب تمہارا کوئی ساتھی فوت ہو جائے تو اس کی بری باتیں کرنا چھوڑ دو۔“

”عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: خیرکم خیر کم للنساء․“ (رواہ الحاکم) حضرت ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو۔“

”عن عائشة  قالت: ماضرب رسول الله صلی الله علیہ وسلم خادما ولا إمراة قط․“ (رواہ ابوداؤد) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم یا عورت کو نہیں مارا۔

گھر کے کام کاج میں شوہر کو بیوی کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔

عورت کے متعلق حضور صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات
حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے مال اور اس کی عزت کی محافظ ہو۔ شیریں گفتار ہو، خوش مزاج ہو، قناعت پسند ہو اور شوہر کا دل لبھانے والی ہو۔ شوہر کی اطاعت گزار اور شکر گزار ہو اور اپنے بچوں سے پیار کرنے والی ہو۔

”عن ابی ھریرة قال: قیل یا رسول الله: أی النساء خیر؟ قال التی تسرہ إذا نظر، وتطیعہ إذا امر، ولا تخالفہ فی نفسھا ومالھا بما یکرہ․“ (رواہ النسائی)

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول الله بہترین عورت کون سی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” وہ عورت کہ جب اس کی طرف اس کا شوہر دیکھے تو اسے خوش کر دے، جب کسی بات کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرے، نیز عورت کی جان او رمال کے معاملے میں شوہر جس چیز کو ناپسند کرتا ہو اس میں اس کی مخالفت نہ کرے۔“

حضرت ابوہریرہ سے مزید روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جو عورت پانچ وقت کی نمازیں ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے ، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرماں برداری کرے، اسے ( قیامت کے روز) کہا جائے گا جنت کے (آٹھوں) دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہو جائے۔“

ہمارے لیے نبی صلی الله علیہ وسلم کی شادیاں، آپ صلى الله عليه وسلم کی پیاری بیٹیوں کا نکاح اور صحابہ کرام  کا نکاح نمونہ ہے۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اپنی چار صاحب زادیوں کی شادی کی، ان میں سے ام کلثوم اور حضرت رقیہ کو کسی قسم کا جہیز دینا ثابت نہیں ہے، البتہ حضرت زینب کو حضرت خدیجہ نے اپناایک ہار دیا تھا، جو جنگ بدو میں حضرت زینب  نے اپنے شوہر ابو العاص بن ربیع کو چھڑوانے کے لیے بطور فدیہ بھجوایا تھا، جسے رسول الله صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد واپس بجھوایا۔ حضرت فاطمہ  کو حضرت علی  نے مہر میں ایک ڈھال دی تھی، جسے فروخت کرکے رسول صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو گھر کا ضروری سامان پانی کا مشک، تکیہ اور چادر بنوا کردی تھی۔

صحابہ کرام  کے نکاح کے واقعات
صحابہ کرام کے ایسے بہت سارے واقعات ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے چندہ کرکے ان کی شادیاں کرائیں، حتی کہ مہر او رولیمہ بھی چندہ سے ہوا۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کے خادموں میں سے ربیعہ بن کعب بھی تھے۔ ایک مرتبہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا یا ربیعہ! تم نے شادی کی یا نہیں؟ حضرت ربیعہ  نے کہا نہیں۔ حضور صلی الله علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اسی طرح دوسری مرتبہ سوال کیا، چناں چہ تیسری بار حضرت ربیعہ نے کہا کہ یا رسول الله ! میں بہت غریب ہوں اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں مجھ سے کون شادی کرے گا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ فلاں انصار کے قبیلہ میں جاؤ او رکہنا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے میری شادی کروانے کے لیے بھیجا ہے، لہٰذا انہوں نے ایسا ہی کیا اور قبیلہ والوں نے ان کی شادی کرا دی۔ پھر حضور صلی الله علیہ وسلم نے انصار کے سردار حضرت بریدہ بن حصیب کو سونے کی تھوڑی مقدار جمع کرنے کو کہا، جس سے مہر ادا کیا گیا اور پھر حضرت بریدہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بکری کے لیے کہا اور حضرت عائشہ نے جَو دیا، پھر روٹی اور گوشت سے ولیمہ کیا گیا۔ (الامام احمد فی المسند:4:58)

حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سہل بن سعد ساعدی کا نکاح ایک عورت سے کرایا، حضرت سہل بن سعد ساعدی اتنے غریب تھے کہ ان کے پاس مہر میں دینے کے لیے ایک لوہے کی انگوٹھی تک نہ تھی تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ چلو اس کو قرآن سکھا دینا۔ (بخاری:5087، مسلم:1425)

حضرت بلال نے جب اپنی شادی کی تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک سونے کا ٹکڑا لے کر آئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ اس کو بیچ دو اور صحابہ سے کہا کہ اپنے بھائی کی ولیمہ میں مدد کرو۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ سے زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص نادار غریب ہو تو عورت کے والدین حسب استطاعت اپنے داماد کا تعاون کرنے کے لیے گھر کا بنیادی اور ضروری سامان دے سکتے ہیں۔ والله ولی التوفیق․









عصرحاضر میں اسلامی قانون کی معنویت




اسلامی قانون ایک انتہائی حساس موضوع ہے جس پر ہردور کے بہترین دماغ خرچ ہوئے ہیں اور امت کے ذہین ترین لوگوں نے اس پرکام کیاہے، دیگر علوم وفنون کی طرح اس کی فنی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے، لیکن اصل چیز جس نے ہر دور میں اس کو زندہ علم کے طور پر باقی رکھا ہے اور جس میں دنیا کا کوئی علم وفن اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا وہ ہے حالات زمانہ پر اس کی تطبیق کا مسئلہ، یہ محض ایک فن نہیں ہے جو تحقیق وریسرچ کی چہار دیواری میں محدود ہے بلکہ دنیا کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے، احوال زمانہ پر اس کی نظر ہے، سوسائٹی کا نظم وضبط اس کے ذمہ ہے، نظام اخلاق کی باگ ڈور اس کے پاس ہے، احوال وظروف کی تشکیل میں اس کا بڑا حصہ ہے، اگر معاشرہ پر اسلامی قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جائے گا، اسلامی قانون اخلاق اور انسان کی پرائیویٹ لائف سے بھی بحث کرتا ہے اور سیاسی اور سماجی نظام سے بھی، اسلامی قانون انسانی دنیا کے لئے خدا کا شاندار عطیہ ہے، انسانوں کا بنایا ہوا کوئی قانون اس کی ہمسری نہیں کرسکتا، جب تک دنیاپر اسلامی قانون کی حکمرانی قائم رہی دنیا میں امن وسکون اور خوشحالی وفارغ البالی بھی پورے طور پر باقی رہی، لیکن جب سے دنیا اس قانون کے سایہ سے محروم ہوئی ہے بدامنی، بدچلنی، غربت وبھوک مری عام ہوئی، محبت ورواداری نے دم توڑ دیا، انسانی قدریں پامال ہوئیں، سارا فلسفہٴ اخلاق کتابوں کے اوراق تک محدود ہوکر رہ گیا، عام زندگی سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا، قانون کو بازیچہ اطفال بنادیاگیا، دنیا کے کہترین دماغوں نے بھی اس پر دماغی زورآزمائی شروع کردی، جو قانون کے تعلق سے خود مخلص نہیں تھے ان کو عوامی انتخابات کے ذریعہ قانون سازی کا اختیار دے دیاگیا اس طرح قانون کو اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنالیا گیا، دنیا نے اسلامی قانون سے محرومی کیا گوارا کی، زندگی کی ساری نعمتوں سے محروم ہوگئی، آج دنیا کو پھر اسی قانون کی ضرورت ہے، آج دنیا جس امن وسکون کی متلاشی ہے وہ صرف اور صرف قانون اسلامی کی نگرانی ہی میں حاصل کی جاسکتی ہے دنیا کے تمام تر قوانین اس کے سامنے بونے اور ادھورے ہیں سب نے اسلامی قانون سے خوشہ چینی کی ہے اور سینکڑوں برسوں سے ہزاروں دماغ اس کی ترتیب وتہذیب میں لگے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے دور طفولیت سے بھی نہیں نکل سکے ہیں۔

آج دنیا کے سنجیدہ لوگ دوبارہ اسلامی قانون کے تعلق سے غور کرنا چاہتے ہیں، مگر کچھ ہمارے اپنوں کی نادانی اور کچھ غیروں کی عیاری کہ یہ بات صرف نظریہ وتفکیر کی حد تک رہ جاتی ہے کوئی عملی صورت نہیں بن پاتی، ان حالات میں ہمارے ذہین اورمخلص لوگوں کو اس موضوع پر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے، ادھر چند دہائیوں سے اسلامی علوم پر کام کرنے والوں میں یہ رجحان بڑھا ہے اوراس سلسلے کی بعض کاوشیں بھی سامنے آئی ہیں، اس ضمن میں حقیر راقم الحروف کی بھی ایک کوشش دوسال قبل کتابی صورت میں سامنے آئی ہے، اس میں اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لئے بہت کچ مواد مل سکتا ہے۔

ایک مکمل نظام حیات

اسلام ایک آفاقی مذہب اور مکمل نظام حیات کا نام ہے جس نے ہر دور میں انسانیت کی رہبری کی ہے ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک روئے زمین کی سب سے مضبوط اور رقبہ کے لحاظ سے سب سے وسیع قیادت کی زمام کار اس کے ہاتھ میں رہی ہے اور اس پورے عرصے میں سینکڑوں انقلابات اور حالات کی گردشوں کے باوجود کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی کسی حلقے میں یہ احساس نہیں پایاگیا کہ اس قانونی نظام میں کسی قسم کی تنگی یا تشنگی پائی جاتی ہے اسلام کے قانونی نظام نے ہردور میں انسانیت کے ہر طبقے کے مسائل کو حل کیا اور ملک وقوم کی ترقی واستحکام میں بنیادی رول ادا کیا۔

جب تک مسلمان شعوری طور پر اس نظام سے وابستہ رہے ان کی ترقی وتوسیع کا سلسلہ جاری رہا، وہ جہاں گئے ارض وفلک نے ان کا استقبال کیا لوگوں نے اپنی پلکیں بچھائیں اور دنیا نے ان کا خیرمقدم کیا اس لئے کہ وہ ایسا نظام حیات جاری کرنے گئے تھے جو امن وخوشحالی، ترقی واستحکام اور داخلی وخارجی سکون کا دائمی ضامن ہے۔

زوال کا سبب

لیکن جب مسلمانوں کا رشتہ شعوری یا غیرشعوری طورپر اس نظام سے کمزور ہوا تو وہ بھی اندرونی طور پر کمزور ہونے لگے اور ان کی قومی واجتماعی زندگی پر زوال کی پرچھائیاں پڑنے لگیں اس لئے کہ اجتماعی زندگی کیلئے اجتماعی نظام کی ضرورت ہے اور کسی بھی اجتماع کے ٹوٹنے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس نظام کو توڑ دیا جائے یا مشتبہ کردیا جائے جس سے وہ اجتماع جڑا ہوا ہے، کسی بھی قوم کا زوال اسی نقطہ سے شروع ہوتا ہے خواہ اس کا ادراک قوم کے بڑے طبقے کو ہو یا نہ ہو، مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا، مسلمانوں نے جو خدائی قانون اور اسلامی نظام روئے زمین پر نافذ کیا تھا اس میں مسلمان فاتح کی حیثیت سے تھے، اس نظام کی ترجیحات میں سب سے بڑا حصہ مسلمانوں کا تھا۔ دوسری اقوام اور اقلیتوں کو بھی تمام انسانی حقوق دئیے گئے تھے مگر فرق یہ تھا کہ اس میں مسلمانوں کی حیثیت دینے والوں کی اور دوسری اقوام کی لینے والوں کی تھی، لیکن جب اسلامی نظام کی جگہ دوسرا نظام آیا اور اجتماعیت دین سے کٹ کر غیردینی نظام سے جڑگئی تو اس نئے نظام میں تمام ترجیحات دوسروں کے لئے ہوگئیں اوراس کی اگلی صفوں میں ایسے لوگ براجمان ہوگئے جن کو مسلمانوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی اس لئے اب مسلمانوں کو پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کے علاوہ کوئی چارئہ کار نہ تھا۔

اگر اس موقعہ پر بھی مسلمانوں کی قومی غیرت اور دینی حس جاگ اٹھتی تو وہ اپنی غلطیوں کی تلافی کرسکتے تھے اور اس نئے مصنوعی نظام سے پیچھا چھڑاسکتے تھے مگر افسوس کہ مسلمانوں کے حکمراں طبقے کی غالب اکثریت ایسی مجرمانہ غفلت کی شکار رہی اور جھوٹی مصلحتوں اور عارضی لذتوں کے وہ ایسے دلدادہ رہے کہ ان کی ساری حس ہی مردہ ہوکر رہ گئی، بقول شاعر

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اور جب کوئی قوم اس درجہ بے حسی کا شکار ہوجاتی ہے تو زندگی کی ساری رعنائیاں اس سے رخصت ہوجاتی ہیں اور اس میں اور مردہ جسم میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ ... قرآن حکیم نے اس قومی زوال اور اجتماعی بے حسی کو موت کا نام دیا ہے:

اموات غیر احیاء و ما یشعرون ایان یبعثون (النمل:۲۱)

ترجمہ: ”یہ زندوں کی آبادی نہیں بلکہ مردوں کی بستی ہے، جو اٹھنے اور اٹھائے جانے سے بے خبر پڑے ہیں“

آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے عمومی زوال کا بڑا سبب یہ ہے کہ اپنے چشمہ حیات سے ان کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے انھوں نے اس قانونی نظام کو سردخانے میں ڈال دیا ہے، جو نہ صرف ان کی زندگی و تشخص کو ضمانت فراہم کرتا ہے بلکہ ساری انسانیت کی حیات وارتقا کا راز بھی اس میں پوشیدہ ہے، مسلمانوں کی مثال اس کائنات ارضی میں دل کی ہے دل سے صالح خون جاری ہوگا تو سارے عالم کا نظام درست رہے گا اور دل کا نظام کمزور ہوگا تو سارے عالم پر اس کا اثر پڑے گا۔ لیکن مسلمان اپنا یہ مقام بھول گئے ان کو اپنی حقیقت کا عرفان نہ رہا انھیں یاد نہ رہا کہ وہ کس خدائی منصب اور خدائی نظام کو لے کر اس انسانی دنیا میں آئے ہیں؟ انسانیت کتنی پیاسی ہے؟ قوموں کو ان کی کتنی ضرورت ہے؟ انھوں نے اپنے اوپر غفلت وخود فراموشی کی چادر تان لی اور اقوام عالم کو وادیٴ ظلمات میں جنگل کی بھیڑ کی طرح بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا، بلکہ وہ بھی دنیا کی دوسری قوموں کی طرح مادہ پرستی، دنیا طلبی، بدمستی وعیش کوشی کے میدان میں کود پڑے اور ابلیسی نظام یہی چاہتا تھا کہ دوسروں کو جگانے والی قوم خود سوجائے، بارخلافت اٹھانے والی جماعت خود تھک کر بیٹھ جائے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سوتا خشک ہوکر رہ جائے۔

بقول ڈاکٹر اقبال۔

ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

کاش کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی کہ مسلمان پھر اپنے گھر کی طرف پلٹیں، اپنا کھویا ہوا خزانہ واپس لیں، انھیں ایسی آنکھ نصیب ہو کہ وہ ہیرے موتی اور کنکر پتھر میں فرق کرسکیں اور وہ پوری بصیرت کے ساتھ جان سکیں کہ انسانوں کا بنایا ہوا مصنوعی نظام کبھی خالق کائنات کے عطا کردہ قانونی نظام کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا پھر یہ کیسی نادانی ہے؟ کہ خالق کا آستانہ چھوڑ کر دنیا مخلوق کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔

اولٰئک یدعون الی النار واللّٰہ یدعو الی الجنة (البقرة:۲۲۱)

ترجمہ: ”دنیا والے آگ کی طرف بلارہے ہیں اور اللہ تمہیں جنت کی طرف پکاررہا ہے“

مگر اکثر لوگ رحمن کی پکار کے بجائے شیطان کے بلاوے پر کان دھررہے ہیں۔ (قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز، ج:۱، ص:۵۵-۵۷)

اسلامی قانون کا مزاج

اس ضمن میں ہمیں اسلامی قانون کے مزاج کو اپنے پیش نظر رکھنا بہت مفید ہوگا اس طرح اسلامی قانون کی افادیت اور اہمیت کو ہم اور اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں:

اسلامی قانون میں تمام اقوام عالم اور دنیا کے ہر خطے کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت رکھی گئی ہے، اسی مقصد کے پیش نظر اسلامی قانون کی تشکیل کے وقت چند بنیادی امور کا لحاظ کیا گیا جن سے اسلامی قانون کے ذوق ومزاج پر روشنی پڑتی ہے مثلاً:

* پورا لحاظ رکھا گیا ہے کہ کوئی ایسا حکم نہ دیا جائے جو عام لوگوں کیلئے ناقابل برداشت ہو۔
* عید اور تہوار منانے کی خواہش ہر قوم کے اندر موجود ہے اس جذبہ کی قدردانی کرتے ہوئے سال میں دودن قومی عید کیلئے مقرر کئے گئے اور ان میں جائز اور مباح حد تک خوشی منانے اور زیب وزینت کرنے کی اجازت دی گئی۔
* عبادات میں طبعی رغبت ومیلان کو اہمیت دی گئی اور ان تمام محرکات وعوامل کی اجازت دی گئی جو اس میں معاون ومددگار ثابت ہوں بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت نہ ہو۔
* جو چیزیں طبع سلیم پر گراں گذرتی ہیں ان کو ممنوع قراردیا گیا۔
* تعلیم وتعلّم اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو دائمی شکل دی گئی تاکہ انسانی طبائع کو اسلامی مزاج کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملتی رہے۔
* بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے دو درجے مقرر کئے گئے تاکہ انسان اپنی سہولت کے مطابق جس کو چاہے اختیار کرے۔
* بعض احکام میں رسول اللہ عليه وسلم سے دو مختلف قسم کے عمل منقول ہیں اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔
* بعض برائیوں میں مادی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیاگیا۔
* احکام کے نفاذ میں تدریجی ارتقا کو ملحوظ رکھا گیا، یعنی ایک ہی وقت میں تمام احکام نافذ نہیں کردئیے گئے اور نہ ساری پابندیاں عائد کردی گئیں۔
* تعمیری اصلاحات میں قومی کردار کی پختگی اور خامی کی خاص رعایت رکھی گئی۔
* نیکی کے زیادہ تر اعمال کی مکمل تفصیل بیان کردی گئی اور اس کو انسانوں کی فہم پر نہیں چھوڑا گیا ورنہ بڑی دشواری پیش آتی۔
* بعض احکام کے نفاذ میں حالات ومصالح کی رعایت کی گئی اور بعض میں اشخاص وافراد کی۔

قرآن وحدیث میں متعدد صراحتیں اور ا شارات ایسے موجود ہیں جن سے مندرجہ بالا اصولوں پر روشنی پڑتی ہے، مثلاً:

فبما رحمة من اللّٰہ لنت لہم ولو کنت فظاً غلیظ القلب لانفضوا من حولک (آل عمران: ۱۷)

ترجمہ: ”اللہ ہی کی رحمت سے آپ ان کے لئے اتنے نرم دل ہیں، اگر آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے چلے جاتے۔“

لا یکلف اللّٰہ نفساً الا وسعہا (بقرة: ۲۸۶)

ترجمہ: ”اللہ کسی شخص کو اس کی قدرت وطاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا“

یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر (بقرة: ۱۸۵)

ترجمہ: ”اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے دشواری اور تنگی نہیں چاہتا۔“

وما جعل علیکم فی الدین من حرج (الحج:۷۸)

ترجمہ: ”اللہ نے دین کے معاملے میں تمہارے لئے کوئی تنگی نہیں رکھی“

ما یرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطہرکم (المائدة:۶)

ترجمہ: ”اللہ نہیں چاہتا کہ تمہیں کسی دشواری میں مبتلا کرے بلکہ اس کا مقصد تم کو پاک وصاف کرنا ہے۔“

رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے حضرت موسیٰ اشعری رضى الله تعالى عنه اور حضرت معاذ بن جبل رضى الله تعالى عنه کو دینی معاملات کا انتظام سپرد کرتے وقت فرمایا:

یسرا ولا تعسرا ولا تنفرا تطاوعا ولا تختلفا (متفق علیہ: مشکوٰة ۳۲۳ باب ما علیٰ الولاة من التیسیر)

ترجمہ: آسانی پیداکرو، مشکل میں نہ ڈالو، رغبت دلاؤ، نفرت نہ دلاؤ، جذبہٴ اتحاد واتفاق کو فروغ دو۔

ایک اور موقعہ پر ارشاد فرمایا:

بعثت بالحنفیة السمحة (رواہ احمد: مشکوٰة شریف: ۳۳۴ الجہاد)

ترجمہ: میں آسان دین حنیف دے کر بھیجا گیا ہوں۔
مجمع الزوائد: 2/263-5/282-4/305
المحدث : ابن حجر العسقلاني | المصدر : كشف الستر
الصفحة أو الرقم: 37 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
 الراوي : أبو أمامة الباهلي | المحدث : الألباني | المصدر : السلسلة الصحيحة
الصفحة أو الرقم: 2924 | خلاصة حكم المحدث : جاء مفرقا عن جمع من الصحابة
المحدث : ابن باز | المصدر : مجموع فتاوى ابن باز
الصفحة أو الرقم: 228/2 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : أحمد شاكر | المصدر : عمدة التفسير
الصفحة أو الرقم: 1/223 | خلاصة حكم المحدث : [أشار في المقدمة إلى صحته]
المحدث : الشوكاني | المصدر : السيل الجرار
الصفحة أو الرقم: 1/149 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
يني الحنبلي | المصدر : كشف اللثام
الصفحة أو الرقم: 4/367 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
الراوي : عائشة أم المؤمنين | المحدث : محمد جار الله الصعدي | المصدر : النوافح العطرة
الصفحة أو الرقم: 63 | خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
الراوي : [عائشة] | المحدث : الزرقاني | المصدر : مختصر المقاصد
الصفحة أو الرقم: 193 | خلاصة حكم المحدث : حسن

لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام (ابن ماجہ: ۳۴۰ مستدرک حاکم ج۲ ص ۵۷،۵۸)

ترجمہ: اسلام میں نہ کسی کو تکلیف پہنچانا ہے اور نہ خود تکلیف اٹھانا ہے۔

مسواک کے بارے میں رسول اللہ … نے ارشاد فرمایا:

لولا ان اشق علی امتی لامرتہم بالسواک عند کل صلوٰة (المشکوٰة: ۴۵ باب سنن الوضوء)

ترجمہ: اگر مجھے اسے بات کااندیشہ نہ ہوتا کہ میری امت مشقت میں پڑجائے گی تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا وجوبی حکم دیتا۔

کعبہ میں ترمیم نہ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا:

لولا حدثان قومک بالکفر لہدمت الکعبة ثم لجعلت لہا بابین (الحدیث) (مسند احمد ص ۱۸۹۶ حدیث نمبر ۲۵۹۵۲)

ترجمہ: اگر میری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی تو میں کعبہ کو توڑ کر اساس ابراہیمی پر اس کے دروازے بنادیتا (اور حطیم کو اس میں شامل کرتا)

آپ کا عام دستور تھا کہ جب آپ کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا جاتا تو آپ صلى الله عليه وسلم اس میں آسان تر کو اختیار فرماتے بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہوتا۔

وما خیر رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم الا اختار أَیْسرہما مالم یکن اثماً . (متفق علیہ: مشکوٰة:۵۹۱، مسند احمد بروایت حضرت عائشہ ص ۱۸۳۷ حدیث نمبر ۲۵۰۵۶)

ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه نے حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے پوچھا کہ دین میں تنگی نہ ہونے کا کیا مطلب ہے جب کہ ہم کو بدکاری، چوری اور دوسری بہت سی سفلی خواہشات کی چیزوں سے روک دیاگیا ہے، حضرت ابن عباس نے جواب دیا تنگی نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ سخت قسم کے احکام کا جو بوجھ بنی اسرائیل پر تھا وہ اس امت پر نہیں ہے۔ (کشاف ص ۲۹۲، تفسیر کبیر ج۶ ص ۱۲۸)

ان آیات واحادیث سے اسلامی قانون کا مزاج سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے اور عام انسانی مفادات کیلئے اس میں کتنی گنجائش ہے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں اسلامی قانون میں جو جامعیت، ابدیت، معنویت، زندگی، نفاست وحس اور ہر دور کے حالات پر اس کی تطبیقی صلاحیت پائی جاتی ہے وہ دنیا کے کسی قانون میں نہیں ہے اسی لئے ہر زمان ومکان میں اسی کو قیادت کا حق بنتا ہے۔

اسلامی قانون کے اس امتیاز کو درج ذیل عنوانات کے تحت سمجھا جاسکتا ہے۔

قانونی حیثیت

سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسانی قانون کی توثیق وتصدیق انسانی جماعت یا انسانی عدالت کرتی ہے اس کے بغیر وہ قانون بن ہی نہیں سکتا، جبکہ اسلامی قانون کی تصدیق خود رب کائنات کرتا ہے، دنیاکی عدالت اس کو مانے یا نہ مانے اس کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

تقدیس کا پہلو

انسانی قانون اپنے لئے کوئی تقدیس کا پہلو نہیں رکھتا، یہ لوگوں کے جسموں پر حکومت کرتا ہے دلوں پر نہیں، جبکہ اسلامی قانون اپنے ماننے والوں کے نزدیک ایک مقدس ومحترم قانون ہے، یہ انسانوں کے لئے خدا کا عطیہ ہے، اس طرح یہ جسموں کے ساتھ دلوں پر بھی حکومت کرتا ہے اور سوسائٹی کے ظاہر وباطن دونوں سے بحث کرتا ہے۔

مثبت ومنفی فرق

انسانی قانون کی تعمیر عموماً منفی بنیادوں پر ہوئی ہے، یہ اکثر رد عمل کے نتیجہ میں وجود پذیر ہوتا ہے، اسی لئے افراد کی تعمیر، اخلاقیات، تزکیہٴ نفس اور تطہیر وتربیت کے ابواب میں یہ کوئی رہنمائی نہیں کرتا، جبکہ اسلامی قانون زیادہ تر مثبت اصولوں پر چلتا ہے، اور اعمال سے زیادہ اسباب ومحرکات پر نگاہ رکھتا ہے اور اسی کی روشنی میں یہ قانون سازی کرتا ہے۔

قانونی معنویت

انسانی قانون کی بنیاد محض خاندانی رسوم وروایات اور علاقائی عرف وعادات پر ہے اس لئے اس میں تعصبات وتنگ نظری کی تمام آلودگیاں موجود ہیں اس میں علمی اور فلسفیانہ بنیادوں کی آمیزش نہیں ہے، جبکہ اسلامی قانون کی بنیاد روز اوّل ہی سے انسانی فطرت اور ہدایت الٰہی پر ہے، یہ ابتداہی سے عالمگیر اور فلسفیانہ بنیادوں پر تعمیرہوا ہے، انسانی قانون ہزاروں سال کے ارتقاء کے بعد جس منزل پر پہنچے گا اسلامی قانون کا پہلا قدم ہی وہاں سے اٹھا ہے۔

قانونی وحدت

قانون میں وحدت ویکسانیت بھی ایک ضروری چیز ہے انسانی قانون میں اصل کے لحاظ سے وحدت ویکسانیت موجود نہیں ہے اس لئے کہ اس کے سرمایے میں خاندانی روایات اور قومی عرف وعادات کا بڑا حصہ ہے جو ہر علاقہ اور خاندان کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں... جبکہ اسلامی قانون شروع سے وحدت کے اصول پر قائم ہے اس لئے کہ اس کی بنیاد رسم وروایات کے بجائے ہدایت الٰہی پر ہے، حضرت آدم عليه السلام سے لے کر حضور صلى الله عليه وسلم تک تمام انبیاء کے قوانین ایک ہی وحدت کے ساتھ وابستہ ہیں، خود قرآن اس کی شہادت دیتا ہے۔

شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ أن أقیموا الدین ولا تفرقوا فیہ (شوریٰ:۱۳)

ترجمہ: تمہارے لئے بھی اسی دین کو مشروع کیا ہے جس کی تعلیم نوح کو دی تھی اور اے پیغمبر! یہ بھی جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور یہی دین ہے جس کی تعلیم ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دی تھی کہ اس دین کو قائم کریں اور اس میں اختلاف نہ کریں۔

سرچشمہٴ قانون

اسی طرح انسانی قانون چند انسانی ذہنوں کی پیداوار ہے جبکہ اسلامی قانون خود خالق کائنات کا دیا ہوا عطیہ ہے اور آج اس حقیقت کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں کہ انسان کبھی خود اپنے لئے قانون مرتب نہیں کرسکتا، اس لئے کہ انسان محدود علم واحساس رکھتا ہے وہ کروڑوں انسانوں کی نفسیات کا قدر مشترک معلوم نہیں کرسکتا اور تمام لوگوں کے احساسات وطبائع کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون سازی ہرگز نہیں کرسکتا، قانون خواہ کتنے ہی اخلاص کے ساتھ بنایا جائے مگر اس میں طبعی میلانات اور ذاتی رجحانات کا اثر ناگزیر طور پر آئے گا... اس لئے قانون سازی کا حق صرف خالق کائنات کو ہے۔

قانون جماعت سے یا جماعت قانون سے؟

انسانی قانون اور اسلامی قانون کے درمیان ایک اصولی فرق یہ بھی ہے کہ انسانی قانون میں قانون جماعت سے موٴخر ہوتا ہے، سوسائٹی پہلے ہوتی ہے اوراس کی تنظیم کیلئے قانون بنایا جاتا ہے، قانون جماعت کو پیدا نہیں کرتا....

جبکہ اسلام میں قانون جماعت سے مقدم ہے جماعت کے وجود اور اس کے حالات پر قانون کا انحصار نہیں ہوتا بلکہ قانون پہلے بنتا ہے اس کے مطابق جماعت کی تعمیرہوتی ہے، اگر حالات سازگار نہیں ہیں تو ان کی اصلاح کی جاتی ہے اور ان کو نفاذ قانون کے لائق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر حالات کی بنا پر قانون نہیں بدلا جاسکتا۔

نفاذ کی قوت

انسانی قانون قوت نفاذ کے لحاظ سے بھی کمزور واقع ہوا ہے اسے اپنے افراد پر مکمل قابو نہیں ہوتا اور نہ تنہا قانون جرائم کے انسداد کے لئے کافی ہوتا ہے اس کو اپنے کسی بھی قانون کے عملی نفاذ کے لئے مضبوط مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہے اسی لئے اس قانون میں مجرمین کے بچ نکلنے کے بہت سے امکانات موجود ہوتے ہیں۔

اس کے برخلاف اسلامی قانون کا آغاز ہی فکر آخرت اور حلال و حرام کے احساس سے ہوتا ہے وہ انسانی ضمیر کی تربیت کرتا ہے اور اس کے ظاہر وباطن کو قانون کیلئے تیار کرتا ہے، وہ اپنے ہر شہری کے دل ودماغ میں یہ احساس راسخ کرتا ہے کہ

کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ. (متفق علیہ ریاض الصالحین للنواوی ج۱ ص ۱۴۵)

ترجمہ: ”تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی متعلقہ ذمہ داری کے بارے میں باز پرس ہوگی۔“

انما انا بشر وانہ یاتینی الخصم فلعل بعضکم ان یکون الحن بحجتہ من بعض فاحسب انہ صدق فاقضی لہ بذٰلک فمن قضیت لہ بحق فانما ہی قطعة من النار فلیأخذہا او لیترکہا (متفق علیہ مشکوٰة باب الاقضیہ والشہادات: ۳۲۷)

ترجمہ: ”میں ایک انسان ہوں، میرے پاس مقدمات آتے ہیں، ممکن ہے کہ کوئی فریق اپنے مدمقابل سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کے ظاہری دلائل کی بنا پر اس کو سچ گمان کروں اور اس کے حق میں فیصلہ کردوں اس لئے اگر میں کسی بھائی کیلئے دوسرے مسلمان بھائی کے حق کا فیصلہ کردوں تو محض فیصلہ کی بنا پر وہ درست نہیں ہوجائے گا وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہوگا جو چاہے لے اور جو چاہے چھوڑ دے۔“

انسانی قانون نہ صرف یہ کہ نگرانی اورحق پرستی کی اس عظیم قوت سے محروم ہے بلکہ اس کا تصور بھی اس کے دامن خیال میں نہیں ہے۔

اسلامی قانون میں انسانی نفسیات کی رعایت

اسلامی قانون فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اس میں انسانی طبائع اورنفسیات کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے قرآن کی آیت ذیل میں اسی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے:

فاقم وجہک للدین حنیفاً فطرة اللّٰہ التی فطر الناس علیہا لاتبدیل لخلق اللّٰہ ذٰلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لایعلمون (الروم:۳۰)

ترجمہ: ”پس پوری یکسوئی کے ساتھ اس دین کی طرف متوجہ ہوجاؤ جو اللہ کی اس فطرت کے عین مطابق ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں“

انسانی قانون میں کبھی بھی تمام انسانی طبائع اور تقاضوں کی رعایت ممکن نہیں ہے اس کی بیشمار مثالیں موجود ہیں (تفصیل کے لئے مطالعہ کریں حقیر راقم الحروف کی کتاب ”قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز،ج۱،ص۲۵۱-۲۵۴)

اسلامی قانون میں انسانی مصالح کی رعایت

اسلامی قانون کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں انسانی مصالح کو قانونی اساس کا درجہ حاصل ہے انسانی مصالح سے مراد پانچ امور ہیں... جان ... دین... نسل... عقل... اور مال، ان پانچوں چیزوں کی حفاظت سے متعلق تمام چیزیں مصالح انسانی میں داخل ہیں، دین ودنیا کے معاملات کا مدار انہی پر ہے اورانہی کے ذریعہ فرد اور جماعت کے جملہ مسائل کی نگرانی ہوتی ہے، تفصیل کیلئے مذکورہ بالا کتاب کا مطالعہ کیاجائے۔

آج دنیا کو پھر اسی قانون کی ضرورت ہے

مذکورہ بالا وجوہات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ انسانی دنیا کی رہنمائی آج بھی اسلامی قانون ہی کے ذریعہ ممکن ہے، اسلام ایک مکمل دین اور مکمل قانون ہے یہ ساری انسانیت کیلئے ایک فطری قانون ہے...

صدیوں سے انسان قانون سازی کے میدان میں کوشش کررہا ہے اگرچے کہ اس میں الٰہی قوانین سے بڑی حد تک استفادہ کیاگیاہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا مکمل قانون وضع نہ کیا جاسکا جس کو ناقابل ترمیم قرار دیا جائے اور انسانی جذبات وافعال کا مکمل آئینہ دار اس کو کہا جاسکے... یہ صرف قانون اسلامی ہے جو اپنے کو کامل ومکمل بھی کہتا ہے اور ناقابل تنسیخ بھی قرار دیتا ہے۔

الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (مائدة:۳)

ترجمہ: ”آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور بحیثیت دین اسلام کو پسند کیا“

ونزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شیء وہدیً ورحمة وبشریٰ للمسلمین (الاعراف:۵۲)

ترجمہ: ”اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا واضح بیان اور مسلمانوں کے لئے ہدایت ورحمت وبشارت موجود ہے۔“

قرآن ایسے اصول وکلیات سے بحث کرتا ہے جن پر ہرزمانہ اور ہر خطہ میں پیش آنے والی جزئیات کو منطبق کیا جاسکتا ہے اور ہر دور کے حالات وواقعات میں قرآنی نظائر وامثال سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے، قرآن کا یہ دعویٰ واقعات وتجربات کی روشنی میں بالکل درست ہے۔

ولقد ضربنا للناس فی ہذا القرآن من کل مثل (زمر:۲۷)

ترجمہ: ”اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کیلئے ہر طرح کی مثالیں بیان کردی ہیں“

 اوراس کا اعتراف اپنے الفاظ میں قانون کے مغربی ماہرین نے بھی کیاہے کہ شریعت اسلامی میں زندگی کے تمام مسائل ومشکلات کے حل کی پوری صلاحیت موجود ہے، متعدد سیمیناروں میں ان ماہرین نے باقاعدہ یہ قرار داد منظور کی کہ شریعت اسلامی بھی قانون سازی کے عام مصادر میں سے ایک مصدر ہے، اس میں ارتقاء کی پوری صلاحیت موجود ہے اور یہ قرار داد قانون مقارن کی بین الاقوامی کانفرنس ۱۹۳۱/ منعقدہ لاہای) میں منظور ہوئی، پھر اس کی تجدید اسی شہر میں ہونے والی دوسری کانفرنس (۱۹۳۷/) میں ہوئی، نیز اسی طرح کی ایک قرار داد وکلاء کی بین الاقوامی کانفرنس (منعقدہ لاہای ۱۹۴۸/) میں بھی منظور ہوئی۔

حقوق مقارنہ کی بین الاقوامی اکیڈمی کے شعبہٴ شرقیہ نے ۱۹۵۱/ میں پیرس یونیورسٹی کے کلیة الحقوق میں ”ہفتہٴ فقہ اسلامی“ کے نام سے ایک کانفرنس منعقد کی، اس میں حقوق کے تمام کالجوں کے عرب وغیر عرب اساتذہ، ازہر کی کلیات کے اساتذہ اور فرانس اور دیگر ممالک میں وکالت اور استشراق سے وابستہ متعدد ماہرین کو دعوت دی گئی، اس میں مصر سے ازہر اور حقوق کی کلیات کے چار ارکان نے اور سوریا کے کلیة الحقوق سے دو ارکان نے نمائندگی کی ... مناقشات کے دوران ان کے بعض ارکان جو سابق میں پیرس میں وکالت کے نقیب رہ چکے تھے اٹھ کر کھڑے ہوئے اور کہا کہ:

”میں حیران ہوں کہ کیسے تطبیق دوں اس کہانی کے درمیان جو اب تک سنی جاتی تھی اور آج کے اس انکشاف کے درمیان، ایک زمانہ تک یہ باور کرایاگیا کہ اسلامی فقہ ایک جامد اور غیرترقی پذیر قانون ہے اس میں قانون سازی کی اساس بننے اور عصر جدیدکی ترقی یافتہ تغیر پذیر دنیا کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے جبکہ آج کے محاضرات ومناقشات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی قانون کے تعلق سے یہ مفروضہ بالکل بے بنیاد ہے اور دلائل و براہین اس کے خلاف ہیں۔

چنانچہ ہفتہ فقہ اسلامی کے اختتام پر اس کانفرنس نے درج ذیل تجاویز منظور کیں:

* حقوق کے بارے میں قانون سازی کے نقطئہ نظر سے فقہ اسلامی کے سرچشموں کی بڑی اہمیت ہے جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

* حقوق کے اس عظیم مجموعے میں مذاہب فقہیہ کا اختلاف دراصل معانی ومفاہیم اور اصول وکلیات کا بڑا سرمایہ ہے جو مقام حیرت ومسرت ہے اور جن کی وجہ سے فقہ اسلامی زندگی کے تمام تر جدید تقاضوں اور قانونی ضروریات کی تکمیل کرسکتی ہے۔ (قوانین عالم میں اسلامی قانون کا امتیاز ج۱ ص ۲۷۲-۲۷۴)

ان سیمیناروں نے عرب کے ماہرین قانون کو موجودہ قوانین پر نظر ثانی کی دعوت دی اور ان کے ذہنوں کو اس جانت متوجہ کیا کہ شریعت اسلامیہ ایک ترقی پذیر اور ہر زمانہ اور ہر خطہ کے مسائل وجزئیات کی تطبیق دینے والی ابدی شریعت ہے اور جو لوگ دنیاکو شریعت اسلامی کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں اوراحکام اسلامی کے علاوہ کسی قانون کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، ان کا دعویٰ درست ہے۔

ان سیمیناروں اور کانفرنس کے بڑے خوشگوار اثرات قانونی دنیا پر پڑے اور پوری دنیا قانونی رہنمائی کے لئے شریعت اسلامی کی طرف متوجہ ہوگئی مثلاً منحرف مصر نے اپنا جدید قانون تمدن تیار کیا تو اسلامی قانون کو ایک بڑے مآخذ کی حیثیت سے سامنے رکھا اور اس سے خاصا استفادہ کیا، مصر نے اسلامی فقہ کو عام سرکاری مآخذ میں سے ایک مآخذ تسلیم کیاہے (تفصیل کے لئے دیکھئے ڈاکٹر احمد فراج حسین کی کتاب ”تاریخ الفقہ الاسلامی ص ۱۸)

اس کے بعد متحدہ عرب جمہوریات نے جب اپنا دستور مرتب کیا تو اس میں شریعت اسلامیہ کو تشریعی اساس قرار دیا۔

اسی طرح مصر کی حکومت نے جب دوبارہ اپنے دستور کی ترتیب کا کام انجام دیا تو اس نے ہر قانون میں اسلامی احکام کے التزام کی ہدایت دی اور اس کو دستور کا لازمی جزو قرار دیا۔

اگر یونیورسٹیوں میں تحقیق وریسرچ کے شعبہ میں اسلامی قانون کو مطالعہ کا خاص موضوع بنایا جائے تو وہ دن دور نہیں کہ دنیا کے تمام قوانین اس کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے۔

چنانچہ عربی یونیورسٹیوں کے اتحاد نے متعلقہ تمام کالجوں کے ذمہ داروں کو اس کیلئے دعوت دی تاکہ مذکورہ احساسات کو عملی شکل دی جاسکے ... اس سلسلے میں مورخہ ۲۴،۳۰/اپریل ۱۹۷۳ء کو بیروت یونیورسٹی میں پہلی کانفرنس ہوئی اور اس کانفرنس نے یہ اپیل کی کہ بلاد عرب کی تمام کلیات الحقوق میں شریعت اسلامیہ کو قانون کے سرکاری مآخذ کی حیثیت سے تحقیق و دراست کا موضوع بنایا جائے۔

دوسری کانفرنس مارچ ۱۹۷۴ء میں بغداد یونیورسٹی میں ہوئی اس میں اس کے مختلف پہلوؤں پر مناقشہ کیاگیا اور کافی بحث وتمحیص کے بعد بعض سفارشات منظور ہئیں ان میں اہم ترین حصہ وہ ہے جو ملک کے دستوری حقوق کی روشنی میں شریعت اسلامیہ کو قانون سازی کا مرکزی مآخذ بنانے کی سفارش کی گئی تھی۔ (تفصیل کیلئے ملاحظہ کریں ڈاکٹر فراج حسین کی کتاب تاریخ الفقہ الاسلامی ص ۱۹-۲۰)

اس طرح کی کوششیں چھوٹی بڑی سطح پر بار بار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی قانون کے تعلق سے غلط فہمیاں دور ہوں اور دنیا پھر اسلامی قانون سے استفادہ کے قابل ہوسکے۔



* * *







ضرورت وحاجت کی تعریف

اور احکامِ شرعیہ میں ان کا لحاظ
(۱)

مذہبِ اسلام مکمل دستورِ زندگی اور کامل نظامِ حیات کا ضامن ہے، قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہبری کا سامان مہیا کرتا ہے، اس کے بنیادی اصول وضوابط اٹل ضرور ہیں؛ مگر تغیر پذیر دنیا میں ہر انقلاب سے نمٹنے کی صلاحیت بھرپور رکھتا ہے، یہی تو اس کا امتیاز ہے کہ زمان ومکان سے ماوراء ہوکر بھی ممکن حد تک سہولت پر مبنی قانون کی لافانی قوت سے ہر موڑ پر دست گیری کرتا رہتا ہے، اس دین کا خاص لقب ہی اَلْحَنِیْفِیَّةُ السَّمْحَةْ (یعنی سیدھا اور آسان مذہب) ہے جو معتدل مزاج بناکر زندگی کے ہر گوشہ کو سیراب رکھتا ہے۔ ظاہرِ اسلام سے وابستہ ہوکر زندگی کا ایک خاص رخ متعین ہوتا ہے جو ”من چاہی“ کے بجائے ”رب چاہی“ پر مرکوز ہوتا ہے، قانونِ الٰہی ہر موڑ پر اپنی بالادستی باقی رکھتا ہے، جس پر عمل پیرا ہونا عموماً نفس انسانی پر شاق گزرتا ہے، اور ایسا بوجھ جو بشری وسعت سے باہر ہو، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ڈالا ہی نہیں، قرآنِ کریم نے صاف لفظوں میں اعلان کردیا:
لاَیُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا (بقرہ:۲۸۶)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی سکت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔
”وسع“ کی تفسیر امام رازی (محمد فخرالدین بن علامہ ضیاء الدین متوفی ۶۰۴ھ) اور علامہ زمخشری (جار اللہ محمود بن عمر متوفی ۵۳۸ھ) وغیرہ نے بڑی وضاحت سے کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ: ”وسع“ کا مطلب ہے جسے انسان وسعت وسہولت کے ساتھ کرسکے، جسے کرنے میں اسے تنگی اور گھٹن پیش نہ آئے، اللہ تعالیٰ انسان کو اسی چیز کا مکلف بناتا ہے جسے انسان پوری توانائی صرف کیے بغیر آسانی سے کرسکتا ہے۔ (تفسیر رازی:۴/۱۵۱، مطبوعہ: دارالفکر بیروت، تفسیر کشاف ۱/۴۰۸ مطبوعہ: مطبع مصطفی البانی، مصر ۱۹۷۲/)
اسی طرح متعدد آیات ہیں جن میں ”حرج و تنگی“ کو اس امت سے اٹھالینے کا مژدہ سنایاگیا ہے، مثال کے طور پر قرآن وضو کی تعلیم کے بعد کہتا ہے:
مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَّلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن (مائدہ:۶)
ترجمہ: اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر تنگی کرے؛ لیکن چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور پورا کرے اپنے احسان تم پر؛ تاکہ تم احسان مانو۔
ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:
وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِي الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ (حج:۷۸)
ترجمہ: تمہارے اوپر دین میں تنگی کو مسلط نہیں کیا۔
اس قسم کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی بنیادی خوبی سہولت و آسانی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اپنے ماننے والوں کو سمجھایا: انَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِیْنَ (بخاری:۱/۳۵ ”کتاب الوضو“ باب صب الماء علی البول فی المسجد)
(تم آسانی پیدا کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو، دشواری میں ڈالنے والے بناکر نہیں بھیجے گئے) آپ کا طریقہٴ کار بھی کچھ اسی طرح تھا روایت ہے:
مَا خُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بَیْنَ الأَمْرَیْنِ الاّ اخْتَارَ أیْسَرَہُمَا مَالَمْ یَکُنْ اثْمًا، فَانْ کَانَ اثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ (ابوداؤد:۲/۶۶۰، کتاب الأدب، باب في العفو والتجاوز)
(جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں کے مابین اختیار دیاگیا تو آپ نے سہولت والے امر کو اختیار کیا، اِلاّ یہ کہ وہ گناہ کا کام ہو (بایں طور کہ گناہ کا ذریعہ بن رہا ہو) تو ایسے موقع پر بہت دور بھاگنے والے تھے)
ذخیرئہ حدیث میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ آپ علیہ الصلاة والسلام نے محض اس وجہ سے خفگی کا اظہار فرمایا کہ سہولت سے اعراض کرکے پُرمشقت عمل کو اختیار کیاگیا، حضرت مُعاذ بن جبل اور حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہما جلیل القدر صحابہ میں ہونے کے باوجود جب ایک موقع پر سہولت کو چھوڑ کر ایسے عمل کو اختیار کرتے ہیں جس میں بظاہر عند اللہ محبوبیت بھی ہوتی ہے؛ مگر عام لوگوں کے لیے شاق ہوتا ہے، تو فوراً دربارِ رسالت سے ڈانٹ پڑتی ہے۔
حدیث کی متداول کتابوں میں مذکور ہے: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عشاء کی نماز میں ایک مرتبہ لمبی سورت شروع کردی، ایک صاحب جو دن بھر کام کرکے چور ہوگئے تھے، محض اس خیال سے کہ نماز لمبی ہوجائے گی، اپنی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل گئے، لوگوں نے چہ می گوئی کی ، تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی جس پر ڈانٹ کے الفاظ تھے:
یَا مُعَاذُ! أَفَتَّانٌ أَنْتَ، (بخاری: ۱/۹۸، کتاب الصلاة، باب: من شکا امامہ ایٴا طوّل) (اے معاذ! کیا فتنے میں مبتلا کرنے والے ہو)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا قصہ فجر کا ہے، راوی کا بیان ملاحظہ فرمائیں:
مَا رَأیْتُہ غَضِبَ فِيْ مَوْعِظَةٍ کَانَ أَشَدَّ غَضَباً مِنْہُ یَوْمَئِذٍ (بخاری: ۱/۹۸، کتاب الصلاة، باب: من شکا امامہ اذا طوّل) (میں نے نصیحت کرنے میں اس موقع سے زیادہ حالتِ غضب میں کبھی نہیں دیکھا)
ایک دوسری روایت میں سہولت سے اعراض کرنے کے عواقب کو بیان کرتے ہوئے تنبیہ فرمائی: انَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُشَادَ الدِّیْنَ أَحَدٌ الاّ غَلَبَہ (بخاری: ۱/۱۰، کتاب الایمان، باب: الدین یسر) (دین کی بنیادی خوبی تو آسانی میں ہے، جو بھی دین میں شدت اختیار کرتا ہے تو مغلوب ہوجاتا ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے کہ نتیجتاً چھوڑ دیتا ہے)
اور ارشاد ہے: عَلَیْکُمْ مِنَ الأعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ فانَّ اللّٰہَ لاَ یَمُلُّ حَتّٰی تَمُلُّوْا (بخاری:۱/۱۱، کتاب الایمان، باب: احب الدین الی اللہ عز وجل أدومہ) (تم ایسے اعمال اختیار کرو جو تمہارے بس میں ہوں؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک ثواب دینا بند نہیں کرتا؛ جب تک کہ تم بھاری سمجھ کر چھوڑ نہ دو)
انھیں آیات و احادیث کو بنیاد بناکر فقہاء نے ”اَلْمَشَقَّةُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ“ (مشقت آسانی پیدا کرتی ہے) جیسے مختلف اصول بھی متعین کیے ہیں، جن کو ان آیات واحادیث کے بھرپور ترجمان بھی کہہ سکتے ہیں۔
نیز اسی زریں قانونِ یسر وسہولت پر کاربند رہتے ہوئے الٰہی قانون پر عمل کرکے اللہ کے ماننے والوں نے دنیا کے اسلام مخالف طاقتوں کو چنے چبوائے، اور ہر میدانِ عمل میں سرخروئی، ہر کارزار میں فتح مندی، اور زندگی سے وابستہ سماجی، اقتصادی ومعاشی ہر شعبے میں اپنے وپرائے کی دل پذیری سمیٹ کر دنیا پر راج کیا، معاشرت کی بکھری اور منتشر زلفوں کو سنوار کر دنیا کو ایک محکم نظام عطا کیا جس پر آج بھی بڑی حد تک عمل ہورہا ہے۔
تقریباً دو صدی قبل سے مسلمانوں کا سیاسی زوال شروع ہوا، دیکھتے دیکھتے زمامِ اقتدار غیروں کے ہاتھ چلا گیا، اقتصادی ومعاشی دنیا پر یہودی ایجنٹوں کا کنٹرول ہوا، رفتہ رفتہ مسلمانوں کامزاج اسلامی شریعت سے ہٹ کر یورپ کے نظام پر مرکوز ہوکر رہ گیا، اب ماحول کی تبدیلی، سوسائٹی کے بگاڑ، افکار وخیالات کے عدمِ توازن اور غیرقوموں کی مداخلت یا بے جا رواداری سے بہت سے اسلامی احکام پر عمل کرنا بظاہر ناممکن یا تنگی ودشواری کا باعث بن گیا، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مخالف حالات، شدید تر ضرورت اور حرج وتنگی کی وجہ سے شرعی احکام میں کچھ تغیر ہوتا ہے یا نہیں، گنجائش کا پہلو نکلتا ہے یا نہیں، اگر گنجائش کا پہلو ہے تو وہ کون سے احکام ہیں جو یسر و تخفیف کو قبول کرتے ہیں، اور کون سے احکام ہیں جو تخفیف کو قبول نہیں کرتے، ظاہر ہے نہ تو لوگوں کو آزاد چھوڑا جاسکتا ہے کہ من مانی کرکے اپنی خواہشاتِ نفس اور محض سہولت پسندی کا نام ضرورت وحاجت رکھ لیں اور نہ ہی غیر معمولی تنگی ودشواری میں ہی مبتلا کرکے اسلام بیزاری میں مبتلا کریں؛ اس لیے ضرورت ہے کہ اصولی طور پر لوگوں کے احوال اور درپیش حالات کے لیے ”ضرورت وحاجت“ کا سانچہ تیار کیا جائے؛ تاکہ بروقت ناپ تول کر شریعت کے مزاج ومذاق سے ہم آہنگ خطوط متعین کیے جاسکیں۔ مندرجہ ذیل سطور میں کوشش کی جائے گی کہ ”ضرورت وحاجت“ سے متعلق ضروری مباحث اختصار کے ساتھ آجائیں۔
”ضرورت وحاجت“ فقہ اسلامی کا وسیع باب ہے، عبادات سے لے کر معاملات تک میں ان کی تاثیر نمایاں ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس کے لغوی واصطلاحی معنی پر غور کرلیا جائے۔
”ضرورت“ لغت میں
”ضرورت“ ضرر سے نکلا ہے، یہ لفظ ”نقصان“ کے ہم معنی نفع کی ضد ہے۔ اس مادہ سے نکلنے والے تقریباً تمام ہی الفاظ میں نقصان کا معنی ملحوظ ہے۔ ”ضریرالبصر“ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے، جس کی بینائی ناقص یعنی کمزور ہو، قرآنِ پاک میں ”ضراء“ کا لفظ اسی مادہ سے ”سراء“ کے بالمقابل استعمال ہوا ہے، ”ضراء“ جانی ومالی نقصان مراد ہے، ابوالدُقَیس کے حوالہ سے علامہ زبیدی حنفی (محب الدین ابی فیض محمد مرتضیٰ) نے تاج العروس میں اور ابن منظور (محمد بن مکرد بن علی انصاری الرویفعی ۷۱۱ھ) نے لسان العرب میں یہ معنی بیان کیا ہے:
مَا کَانَ مِنْ سُوْءِ حَالٍ أَوْ فَقْرٍ أَوْ شِدَّةٍ فِيْ بَدَنٍ فَہُوَ ضَرٌ (تاج العروس: ۳/۳۴۸، لسان العرب: ۹/۳۲، مادہ: ضرر)
(ہرقسم کی بدحالی، وفقر، یا جسمانی مشقت ضرر ہے)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لغت کے لحاظ سے ضرورت کسی بھی ”قابلِ لحاظ نقصان“ کو کہا جاتا ہے، خواہ جسم سے متعلق ہو یا دوسرے انسانی احوال سے۔ صاحب لغة الفقہاء نے شدید حاجت اور لاعلاج مشقت کا نام ضرورت رکھا ہے۔ اَلضَّرُوْرَةُ: اَلْحَاجَةُ الشَّدِیْدَةُ وَالْمَشَقَّةُ الشَّدِیْدَةُ الَّتِيْ لاَ مَدْفَعَ لَہَا (لغة الفقہاء: ۲۸۳)(ضرورت نام ہے حاجتِ شدیدہ کا اور ایسی مشقت کا جس کے دفعیہ کے لیے کوئی چیز موجود نہ ہو)
ویسے لغت میں ”ضرورت“ اضطرار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ابن منظور (محمد بن مکرد ابن علی انصاری الرویفعی متوفی ۷۱۱ھ) لیث کے حوالہ سے لکھتے ہیں: اَلضَّرُوْرَةُ اسْمٌ لِمَصْدَرٍ: الاِضْطِرَارُ تَقُوْلُ حملتنی الضرورة علی کذا وکذا (لسان العرب: ۹/۳۳)
(ضرورت، اضطرار کا اسم ہے تم کہتے ہو ضرورت نے مجھے اس پر مجبور کیا)
اسی طرح ضرورت کا معنی لغت میں مطلقاً حاجت کے بھی کیاگیا ہے، علامہ فیروز آبادی (مجدالدین محمد بن یعقوب) لکھتے ہیں: اَلضَّرُوْرَةُ: اَلْحَاجَةُ (القاموس المحیط: ۲/۷۵ مطبوعہ دارالفکر بیروت)
اسی لیے امام راغب (ابوالقاسم حسین بن محمد اصبہانی متوفی: ۵۰۲ھ) نے ضرورت کی مختلف قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: لفظ ضروری کا اطلاق تین طرح ہے: ایک تو جبر وبے اختیاری صورت پر جیسے کہ درخت کو جب تیز وتند ہوا حرکت دے، دوسرے وہ صورت ہے کہ بغیر اس کے اس شئے کا وجود ناممکن ہو، جیسے بدن کی حفاظت کے لیے ضروری خوراک، تیسرے ایسے موقع پر کہا جاتا ہے؛ جب کہ کسی چیز کا اس کے خلاف ہونا ممکن نہ ہو، مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ ایک جسم بہ یک وقت دو جگہوں پر یقینا نہیں ہوسکتا۔ (المفردات في غریب القرآن، ص۲۹۶)
جمیل محمد لکھتے ہیں: لغت کی رو سے لفظ ضرورت کے استعمال کے لیے حالت کا کسی خاص معین حد کو پہنچنا ضروری نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل لغت ضرورت کی حاجت سے اور اضطرار کی احتیاج سے، اور اسی طرح حاجت کی ضرورت سے تفسیر کرتے ہیں (نظریة الضرورة، جمیل محمد: ۲۲ بحوالہ: ضرورت وحاجت سے مراد ۲۰۸ مطبوعہ فقہ اکیڈمی)
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کا استعمال لغت کے لحاظ سے تین معنی پر ہوتا ہے: (۱) ناقابل لحاظ نقصان (۲) اضطرار (۳) مطلق حاجت۔
ضرورت کی تعریف اصحاب بصیرت علماء کی نظر میں
 ضرورت کی بنیادی طور پر دو تعریفیں ہیں، ایک کے حامل علامہ حموی (احمد بن محمد مکی ابوالعباس الحسینی ۱۰۹۸ھ) ابن ہمام (کمال الدین بن محمد بن عبد الاحد متوفی ۶۸۱ھ) علامہ سیوطی (جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر متوفی ۹۱۱ھ) اور ماضی قریب کے شیخ مصطفی زرقاء (متوفی ۱۴۲۰ھ-۱۹۹۹/) ہیں، ان حضرات کی تعریف کا لُبِّ لُباب یہ ہے کہ مصالحِ خمسہ (تحفظ نفس، تحفظ دین، تحفظ مال، تحفظ نسل، تحفظ عقل) میں صرف تحفظ نفس کی بقا جن امور پر موقوف ہو وہی ضرورت ہے۔ علامہ سیوطی (جلال الدین بن عبدالرحمن بن ابی بکر متوفی ۹۱۱ھ) لکھتے ہیں:
فَالضَّرُوْرَةُ بُلُوْغُہ حَدًّا انْ لَمْ یَتَنَاوَلِ الْمَمْنُوْعُ ہَلَکَ أَوْ قَارَبَ (الأشباہ والنظائر للسیوطی، ۱۱۴، مطبوعہ: موٴسسة الکتب الثقافیہ بیروت ۱۴۱۶ھ)
(ضرورت آدمی کا اس حد تک پہنچ جانا ہے کہ اگر ممنوعہ چیز نہ کھائے تو ہلاک ہوجائے یا ہلاکت کے قریب ہوجائے)
ان بزرگوں کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”ضرورت“ اسی اضطرار کے معنی میں ہے جس کو قرآنِ کریم میں فَمَنِ اضّطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ امام ابوبکر جصاص (متوفی ۳۷۰ھ) اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: مَعْنَی الضَّرُوْرَةِ ہٰہُنَا ہُوَ خَوْفُ الضَّرَرِ عَلٰی نَفْسِہ أَوْ بَعْضِ أعْضَائِہ بِتَرْکِہ الْأَکْلَ (احکام القرآن للجصاص:۱/۱۸۱، مطبوعہ: دارالفکر، بیروت ۱۴۳۲ھ)
(یہاں پر ضرورت کا مفہوم یہ ہے کہ ترکِ اکل کی وجہ سے نفس یا کسی عضو کے ہلاک ہونے کا خوف ہو۔ اس کے برخلاف کچھ دوسرے بزرگوں نے جن میں سرِفہرست مالکی فقیہ اور اصولی امام علامہ شاطبی (ابو اسحاق ابراہیم متوفی ۷۹۰ھ) ہیں، انھوں نے تھوڑا توسع اختیار کیا اور ضرورت کا تعلق صرف ہلاکتِ نفس سے ہی نہیں؛ بلکہ حیاتِ انسانی کے پانچ مصالح میں سے کسی پر بھی شدید زد پڑنے والی ہر صورت سے کیا، اور ”ضرورت“ کو ایک اصل کلی قرار دیا جس کی مختلف جزئیات ہیں۔ علامہ شاطبی (ابواسحاق ابراہیم متوفی ۷۹۰ھ) لکھتے ہیں:
ضروری احکام سے مراد وہ احکام ہیں جو دین ودنیا کے مصالح کی بقا کے لیے ناگزیر ہوں، اس طور پر کہ اگر وہ مفقود ہوجائیں تو دنیا کی مصلحتیں صحیح طریقہ پر قائم نہ رہ سکیں؛ بلکہ فساد وبگاڑ اور زندگی سے محرومی کا باعث بن جائیں یا ان کے فقدان سے نجات اور آخرت کی نعمت سے محرومی اور کھلا ہوا نقصان و خسران اٹھانے کا باعث ہو۔(الموافقات: ۲/۴، کتاب المقاصد، النوع الاول، المسئلة الاولیٰ، مطبوعہ: بیروت)
ان کی ہی پیروی کرتے ہوئے شیخ عبدالوہاب خلاّف نے علم اصول الفقہ میں اور شیخ ابوزہرہ نے اصول الفقہ میں ضرورت کو وسیع تر مفہوم میں استعمال کیاہے، فقہاء واصولیین کے استعمال سے بھی اسی نظریہ کی تائید ہوتی ہے، صاحب ہدایہ مختلف جگہوں پر ضرورت کو بنیاد بناکر مسائل کو مدلل کرتے ہیں، اکثر مواقع پر تحفظِ نفس کے علاوہ دیگر مصالح کا تحفظ واضح طور پر نظر آتا ہے، یہی حال کچھ دیگر مصنّفین کا بھی ہے، نمونہ کے لیے چند عبارتیں پیش کی جارہی ہیں:
(۱) جس جانور میں دم مسفوح (بہتا ہوا خون) نہ ہو، اگر پانی میں گرکر مرجائے تو پانی ناپاک نہیں ہوتا، امام شافعی رحمہ اللہ کا اختلاف ہے ان کی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
لِأنَّ التَّحْرِیْمَ لاَ بِطَرِیْقِ الْکَرَامَةِ آیَةٌ لِلنِّجَاسَةِ بِخِلاَفِ دُوْدِ النَّحْلِ وَسُوْسِ الثِّمَارِ لِأنَّ فِیْہِ ضَرُوْرَةٌ (ہدایہ:۱/۳۷)۔
(اس لیے کہ ایسی تحریم جو بطریقِ کرامت نہ ہو اس کے نجس ہونے کی دلیل ہوتی ہے برخلاف شہد کی مکھی اور پھلوں کے کیڑے کہ اس میں ضرورت ہے)
(۲) قلیل وکثیر کی مقدار متعین کرتے ہوئے مصنف موصوف رقم طراز ہیں:
جَعَلَ الْقَلِیْلَ عَفْوًا لِلضَّرُوْرَةِ وَلاَ ضَرُوْرَةَ فِي الْکَثِیْرِ وَہُوَ مَا یَسْتَکْثِرْہُ النَّاظِرُ الَیْہِ فِي الْمَرْوِيِ عَنْ أبِيْ حَنِیْفَةَ وَعَلَیْہِ الْاعْتِمَادُ (ہدایہ:۱/۴۲، باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء وما لا یجوز بہ) (کنواں میں قلیل مقدارلید قابلِ عفو ہے کہ اس میں ضرورت ہے، کثیر مقدار میں ضرورت نہیں ہے، کثیر مقدار وہ ہے جس کو دیکھنے والے کثیر محسوس کریں، امام ابوحنیفہ سے یہی مروی ہے اور اسی پر اعتماد ہے)
(۳) کتبِ دینیہ کو جنبی کے لیے اپنی آستین سے چھونے میں حرج نہیں ہے؛ جبکہ قرآنِ کریم کو آستین سے مس کرنا مکروہ ہے۔ دلیل بیان کرتے ہوئے صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں: لاِٴنَّ فِیْہِ ضَرُوْرَةً (ہدایہ: ۱/۶۵ باب الحیض والاستحاضہ) (فرماتے ہیں کہ اس میں ضرورت ہے)۔
(۴) بیع وشراء کے ایک مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے ہدایہ میں ذکر کیاگیا ہے:
وَلاَ تَجُوْزُ بَیْعُ بَیْضَتِہ عِنْدَ أبِيْ حَنِیْفَةَ وَعِنْدَہُمَا یَجُوْزُ لِمَکَانِ الضَّرُوْرَةِ (ہدایہ: ۳/۵۴ باب البیع الفاسد)
(امام ابوحنیفہ کے نزدیک ریشمی کیڑے کے انڈوں کا فروخت کرنا ناجائز ہے؛ لیکن حضراتِ صاحبین کے نزدیک ضرورت کی وجہ سے جائز ہے)
(۵) صاحبِ دُرِ مختار (محمد علاء الدین حصکفی متوفی ۱۰۸۸ھ) موزے پر مسح کی مدت پوری ہوگئی؛ لیکن وضو باقی ہے، اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَمُضِيُّ الْمُدَّةِ وَانْ لَمْ یَمْسَحْ انْ لَمْ یَخْشَ بِغَلَبَةِ الظَّنِّ ذَہَابَ رِجْلِہ مِنْ بَرَدٍ لِلضَّرُوْرَةِ فَیَصِیْرُ کَالْجَبِیْرَةِ فَیَسْتَوْعِبُہ بِالْمَسْحِ (درمختار مع رد المحتار ۱/۲۰۲، باب المسح علی الخفین، مطلب نواقض المسح، مطبوعہ: مکتبہ رشیدیہ پاکستان ۱۴۱۲ھ)
(اگر موزے پر مسح کی مدت پوری ہوگئی؛ لیکن وضو باقی ہے تو موزے اتارکر پیروں کا دھونا فرض ہے؛ لیکن سردی کی وجہ سے ظن غالب ہے کہ پاؤں شل ہوجائے گا تو مدت پوری ہونے کے بعد بھی مسح جاری رکھے، جس طرح زخمی غضو کے جبیرہ پر مسح کرتا ہے، یہ رخصت ضرورت کی وجہ سے ہے۔
(۶) علامہ رافعی (فقیہ اکبر عبدالقادر رافعی فاروقی مفتی دیار مصریہ متوفی ۱۳۲۳ھ) اپنی مایہ ناز تعلیق میں تحریر فرماتے ہیں:
فِيْ مَوَاقِعِ الضَّرُوْرَةِ أَيْ: بِأَنْ طَالَتْ عِدَّتُہَا تَعَالَجَتْ فَرْجَہَا بِدَوَاءٍ حَتّٰی رَأَتْ صُفْرَةً مثلاً فَہِيَ حَیْضٌ وَانْ لَمْ یَکُنْ فِيْ أَیَّامِ حَیْضِہَا (تقریرات رافعی:۱/۳۸ ملحق بردالمحتار)
(مواقع ضرورت میں یہ ہے کہ کسی کی عدت طویل ہوگئی اس نے اپنی شرم گاہ میں کوئی دوا داخل کیا، یہاں تک کہ پیلا مادہ نظر آیا تو یہ حیض ہوگا؛ اگرچہ کہ ایام حیض کے ماسواء میں ہو)
یہ چند مثالیں ہیں جن سے یہ بات بخوبی معلوم ہوسکتی ہے کہ ضرورت کا اطلاق، شریعت غرا میں صرف اسی وقت نہیں ہوتا ہے؛ جبکہ ہلاکتِ نفس کا تیقن یا غلبہ ظن ہو؛ بلکہ اس کے مفہوم میں توسع ہے جو مقاصدِ پنج گانہ (تحفظ نفس، تحفظ مال، تحفظ عقل، تحفظ دین، تحفظ نسل) میں سے ہر ایک سے اس کا تعلق قائم ہے۔ نیز اضطرار کی کیفیت ہی میں منحصر نہیں؛ بلکہ شدید ضرر اور غیرمعمولی مشقت بھی لاحق ہو تو ضرورت کا تحقق ہوجاتاہے۔
بہرحال یہ دو نقطہ ہائے نظر ہوئے، راقم یہ سمجھتا ہے کہ دونوں تعریف میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے۔ علامہ حموی (احمد بن محمد مکی ۱۰۹۸ھ) اور ان کی اتباع کرنے والوں کے پیش نظر وہ ضرورت ہے جو دلائلِ قطعیہ سے ثابت احکام جیسے کلمہٴ کفر کا زبان سے تکلم کرلینا، مردار کا گوشت وغیرہ کھالینا میں بھی موثر ہو؛ جبکہ علامہ ابو اسحاق شاطبی (متوفی ۷۹۰ھ) ہر اس ضرورت کی تعریف کررہے ہیں جو احکام میں مطلقاً موثر ہوتی ہے؛ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ کچھ بزرگوں نے ضرورت شدیدہ بمعنی اضطرار کی تعریف پر زور دیا ہے، تو دوسرے بزرگوں نے مطلق ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے۔
شریعت میں اضطرار کا استعمال بھی ضرورت کے عام معنی میں ہوا ہے
اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ ”ضرورت“ ایک مفہومِ کلی کا نام ہے جو کھانے پینے سے ہی متعلق نہیں؛ بلکہ اپنے مفہوم و استعمال کے لحاظ سے عموم رکھتی ہے، اس میں اضطرار کا معنی بھی پایا جاتا ہے؛ لیکن حقیقت میں وہ بھی ”ضرورت“ کی ایک نوع ہی ہے۔ ذرا ہم آیات واحادیث پر سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ”اضطرار“ قرآن کے سیاق وسباق میں کھانے پینے کے ضمن میں ضرور آیا ہے؛ بلکہ اس کا استعمال خاص طور پر اس موقع پر ہوا ہے؛ جب کہ جان آخری مرحلہ میں پہنچ چکی ہو؛ لیکن احادیث میں ”مضطر“ بھی وسیع مفہوم میں ہی استعمال ہوا ہے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(۱) نَہَیٰ رَسُولُ اللّٰہِ صَلی اللّٰہُ علیہ وسلم عَنْ بَیْعِ الْمُضْطَرِّ (ابوداؤد: ۲/۴۸۰، کتاب البیوع، باب بیع المضطر) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مضطر کی بیع سے منع فرمایا)
ظاہر ہے خریدوفروخت کے باب میں مذکور ”مضطر“ کی حالتِ زار ہونا ضروری نہیں ہے کہ بغیر اس قسم کی بیع وشراء جان خطرے میں پڑجائے، یا قریب بہ ہلاکت ہوجائے؛ بلکہ مجبور شخص جو شدید ضرورت کی بنا پر، یا کسی خاص مصلحت کے حصول کے لیے بیچنے پر مجبور ہوا ہے، وہی مراد ہے۔ علامہ خطابی (ابوسلیمان احمد بن محمد متوفی ۳۸۸ھ) حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَالثَّانِيْ أَنْ یَضْطَرَّ الٰی الْبَیْعِ لِدَیْنٍ رَکِبَہ أَوْ مُوٴُنَةٍ تُرْہِقُہ فَیَبِیْعُ مَا فِيْ یَدِہ فِالْوَکْسِ بِالصَّرُوْرَةِ (حاشیہ ابوداؤد: ۲/۴۷۹، کتاب البیوع، باب بیع المضطر) (دوسری صورت یہ ہے کہ قرض کا بار آگیا، یا کوئی اور تاوان دینا پڑگیا، جس کی وجہ سے بیچنے پر مجبور ہوجائے تو اپنے مال کو کم قیمت میں ضرورت کی وجہ سے بیچ دے)
(۲) مسند احمد کی روایت ہے: اذا اضَّطَرَرْتُمْ اِلَیْہَا فَاغْسِلُوْہَا بِالْمَاءِ (مسنداحمد:۲/۱۸۲)
(جب تم ان برتنوں کے استعمال پر مجبور ہوتو ان کو پانی سے دھولیا کرو)
ظاہر ہے کہ برتن کے نہ رہنے سے جان نہیں چلی جاتی؛ اس لیے کہ انسان بھون کر کھاسکتا ہے۔ ہاں شدید مجبوری ہوتی ہے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
(۳) موطا مالک کی روایت ہے: اذَا اضَّطَرَّ الٰی لُبْسٍ مِنْ شَيْءٍ مِنَ الثِّیَابِ الَّتِيْ لَابُدَّ لَہ مِنْہَا صُنْعُ ذٰلِکَ وَاقْتَدیٰ (موطا مالک: ۱۴۰، کتاب الحج، باب ما جاء فیمن أحصر بغیر عدد)
(حاجی جب کسی کپڑے کے پہننے پر مجبور ہوجائے جو کہ اس کے لیے ضروری بھی ہوتو پہن لے اور فدیہ دے دے)
معلوم ہوا کہ احادیث میں ”مضطر“ بھی وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ امام ابوبکر جصاص (احمد الرازی متوفی ۳۷۰ھ) نے تو قرآن کریم کی آیت: ”الَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ الَیْہ“ کی تفسیر کرتے ہوئے آیت سے بھی عموم ہی کو مستفاد مانا ہے: آیت میں مذکور ”ضرورت“ دیگر محرمات کو بھی شامل ہے اور بعض آیات میں مردار وغیرہ کے سیاق میں اس کا تذکرہ اس آیت کے عموم سے مانع نہیں ہے۔ (احکام القرآن للجصاص: ۱/۱۸۲ مطبوعہ دارالفکر ۱۴۳۲ھ)
اسی طرح مفسر موصوف آیت اضطرار کے تحت ضرورت کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وَقَدِ انْطَویٰ تَحْتَہ مَعْنَیَانِ اس کے تحت دو شکلیں آتی ہیں: ایک شکل بھوک کی وجہ سے اضطرار اور مردار کھانے کی اور دوسری شکل اکراہ کی وَکِلَا الْمَعْنَیَیْنِ مُرَادٌ بِالْآیَةِ عِنْدَنَا لِاحْتِمَالِہِمَا اور دونوں ہی معنی مراد ہیں اس لیے کہ آیت دونوں کی محتمل ہے (احکام القرآن: ۱/۱۸۱، مطبوعہ دارالفکر، بیروت ۱۴۳۲ھ)
جب اضطرار بھوک و پیاس کے ساتھ خاص نہیں ہے، تو ضرورت کو بھوک وپیاس کے ساتھ کیوں کر خاص کیا جاسکتا ہے؛ اس لیے زیادہ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ”ضرورت“ ایک مفہومِ کلی ہے جو مختلف نوع کو شامل ہے۔
(باقی آئندہ)
$ $ $




دین آسان ہے۔[بخاری:39]
    اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔فَاِنّ مَعَ الْعُسْر یُسْراً۔َاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً و قال علیہ الصلوٰۃُ و السلام الدین یسرٌ صدق اﷲ العلی الظیم و صدق رسولہ النبی الکریم
    پس تنگی کے ساتھ آسانی ہے، بےشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ اور آپ ﷺِ کا ارشاد مبارک ہے کہ دین آسان ہے۔
     بزرگو اور دوستو ! دین بہت آسان ہے ۔ لیکن ایک چیز اس پر عمل کو مشکل بناتی ہے ۔ اگر اس کا علاج ہوجائے تو پھر سب کچھ آسان ہوجائے سوال یہ ہے کہ دین آسان کیسے ہے؟ اور اس چیز کے ساتھ مشکل کیوں ہوجاتا ہے پھر علاج کے ذریعے اس مشکل کو کیسے دور کیا جاتا ہے؟ دین آسان اس لئے ہے کہ یہ دین فطرت کے مطابق ہے اور جو چیز بھی فطرت کے مطابق ہو وہ آسان ہوتی ہے۔ مثلاً پانی ڈھلوان کی طرف بہتا ہے یہ اس کی فطرت ہے۔ اگر آپ اس کو اوپر کی طرف لے جانا چاہیں تو پھر مشکل ہوگی اسی طرح ہمارے جسم کی جو ساخت ہے اسے مدنظر رکھ کر اگر ہم شریعت کے مطابق عمل کریں تو بہت آسانی رہتی ہے ۔ آنکھ ، کان ، زبان ، دل دماغ ان سب چیزوں کو راحت ہو تی ہے ۔ ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر صحیح کام کرتی ہے ۔ اس لحاظ سے دین بہت آسان ہے کیونکہ یہ فطرت کے مطابق ہے ۔ لیکن اگر ہم شریعت کے مطابق نہیں چلیں گے تو پھر بے شک ہمیں محسوس ہو یا نہ ہو کچھ عرصہ بعدخود بخود احساس ہوجاتا ہے کہ کسی چیز کا نقصان ہورہا ہے ۔ اب دین کو مشکل بنانے والی چیز کیا ہے ؟ وہ چیز نفس ہےنفس کی خواہشات بہت محدود اور فوری ہوتی ہیں ،نفس زیادہ دور نہیں سوچتا وہ فوری تقاضوں پر عمل کرتا ہے مثلاً smoking﴿سگریٹ نوشی﴾ کو لے لیں ایک آدمی smoking کررہا ہے تو اس کی خواہش ہے سگریٹ پینے کی ، اب اس کے سگریٹ پینے کا مزا کتنی دیر تک رہے گا ۔ آدھے گھنٹے کا ہوگا ، ایک گھنٹے کا ہوگا یا زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک اس کو دوسری سگریٹ کی طلب نہیں ہوتی ، وہ مزا اس کا برقرار رہے گا ۔ بس اتنی دیر تک وہ مزا ہوگا ۔ جو دن میں دس سگریٹ پیتا ہے اس کا مطلب ہے کہ اس کا مزازیادہ سے زیادہ سو ا گھنٹے کا ہے اور جو کم پیتا ہے اس کا نسبتاً زیادہ ہوگا ۔ یہ مثال میں اس لئے دے رہا ہوں کہ بات سمجھ میں آجائے ۔ اب اس سگریٹ کا نقصان کتنی دیر کے لئے ہوگا ۔ ہر نیا سگریٹ آپ کے جسم پر بوجھ ہے ۔ اگر آپ نے دو سگریٹ پیے ہیں تو آپ کا جسم دو سگریٹوں کا نقصان اٹھائے ہوئے ہے ۔ اگر تین سگریٹ پتےک ہیں تو تین سگریٹوں کا نقصان ہوا ہے ۔ اسی طرح اگر کسی شوگر کے مریض نے کوئی میٹھی چیز استعمال کی ہے تو اس کا نقصان کتنا ہوگا ۔ جتنی جتنی زیادہ میٹھی چیزیں کھائے گا ، اتنا اتنا نقصان بڑھ رہا ہے ۔ حتی کہ وہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتا ہے ۔ اس لحاظ سے نفس کی جو خواہش ہوتی ہے وہ اندھی ہوتی ہے ۔ یہ زیادہ دور نہیں دیکھتا ۔ یہ فوری تقاضے پر عمل کرنا چاہتا ہے زنا کو لے لیں اس کا مزا بھی تھوڑی دیر کے لئے ہوگا ۔ لیکن یہ ایسی چیز ہے جس پر قتل بھی ہوسکتا ہے ۔ بدنامی اور دوسری چیزیں الگ ہونگی ۔ اس طرح چوری ، ڈکیتی سب چیزیں اس میں آجاتی ہیں ۔ محدود فائدے کیلئے انسان بہت لمبے عرصے کا نقصان اٹھاتا ہے ۔ یہ میں دنیا کی بات کررہا ہوں ، ابھی میں نے آخرت کی بات نہیں کی ۔ یہ میں دنیا کے نقصان کی بات کررہا ہوں ۔ اللہ جل شانہ قرآن پاک میں فرماتے ہیں
    کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ و تَذَرُونَ الْآخِرۃ
    ہر گز نہیں مگر تم جو قریب آنے والی چیز ہوتی ہے اس پر ریجھتے ہو اور جو بعد میں آنے والی چیز ہے اس کو چھوڑتے ہو ہماری نفسیات کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن پاک میں بتادیا ہے ، دین کے اندر سب سے بڑی رکاوٹ یہی نفس ہے ۔ دین ایک دن کیلئے نہیں ہے ۔ دین تو پوری زندگی کیلئے ہے بلکہ اس نہ ختم ہونے والی زندگی کیلئے ہے ۔ دین ہمیں جو دے رہا ہے اس کی ابتداء میں مشقت ہے ۔ اور انتہاء میں راحت ہے ۔ انتہائیں بھی دو ہیں ایک دنیا کی انتہا ہے اور ایک آخرت کی انتہا ۔ آخرت کی انتہا کو ہمیں ماننا پڑے گا کیونکہ ہمارا دین ہے ہی اسی کیلئے ۔ دنیا کی انتہا یہ ہے کہ جب انسان دین پر چلتا ہے تو آہستہ آہستہ جو مشقت وہ اٹھا رہا ہوتا ہے وہ پھر مشقت نہیں رہتی ۔ بلکہ اس مشقت میں مزا آنے لگتا ہے ۔ یعنی وہ مشقت راحت بن جاتی ہے ، مثلاً تہجدکی نماز کے لئے اٹھنا مشقت والی چیز ہے ۔ لیکن جو مسلسل تہجد پڑھتا ہے کیا اس کے لئے یہ چیز مشقت رہ جاتی ہے ؟ اس سے اگر ایک دن بھی تہجد کی نماز قضا ہوجائے تو پتہ نہیں پھر اس پر کیا گزرتی ہے۔ اگر یہ مشقت والی چیز تھی تو اس کو تکلیف کیوں نہیں ہوتی ؟اس لئے کہ مشقت راحت میں بدل گئی ہے ۔ اسطرح دین کی ہر ہر نعمت کا دنیا میں بھی فائدہ ہوتا ہے ۔ ابتداء میں وہ چیز مشقت ہوتی ہے بعد میں مزا آتا ہے، راحت محسوس ہوتی ہے ۔ نفس کی چیزوں کے ابتداء میں راحت نظر آتی ہے لیکن بعد میں وہ مشقت ہوتی ہے۔ مشقتیں بھی دو قسم کی ہیں، ایک آخرت کے لئے مشقت ہے جس کو سب لوگ مانتے ہیں کیونکہ دین ہے ہی اس کے لئے ، اور ایک دنیا کی مشقت ہے جس کے بارے میں ابھی تذکرہ کرچکا ہوں ۔ دنیا میں اس مشقت کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ آپ سکول کے ایک بچے کو لے لیں ۔ والدین اس کو سکول بھیجتے ہیں ، وہ بچہ ضد کرتا ہے کہ میں سکول نہیں جاتا ۔ کیونکہ اس میں مشقت ہے ۔ وہ یہ مشقت برداشت نہیں کرتا کہ میں پڑھوں ،استاد کی جھڑکیاں سنوں ۔ تو بظاہر وہ سکول نہیں گیا اور راحت حاصل کی ، لیکن کیا یہ راحت اسے راس آئے گی ؟ آگے جا کر اس کو بظاہر بڑی مشکل اٹھانی پڑے گی زندگی میں ۔ مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں جب انسان کسی تکلیف سے بھاگتا ہے تو فوری مشقت کو دیکھ کر بھاگتا ہے لیکن بعد میں اس کی وجہ سے جو راحت ملنے والی ہے اس کو چھوڑ دیتا ہے ۔ دین کی بات میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کی ابتداء میں مشقت نظر آتی ہے لیکن بعد میں راحت نصیب ہوتی ہے ۔ تو یہ نفس ہمارے لئے دین کو مشکل بناتا ہے ۔اب اگر اس نفس کی اصلاح ہوجائے تو دین مشکل نہ رہے ۔ بہت آسان ہوجائے ۔ جب نفس ، نفس مطمئنہ بن جائے تو بس اس کو نماز میں بھی راحت ملے گی ، اس کو روزے ، زکواۃ ،حج یعنی اللہ جل شانہ کی ہر عبادت میں راحت ملے گی اور اس کی مخالف چیزوں میں اس کو تکلیف ہوگی ۔ تو اس وجہ سے انسان اگر اپنے نفس کی اصلاح کرلے تو دین مشکل نہ رہے ۔ دین جتنا مشکل نظر آ تا ہے اس کا مطلب ہے نفس میں اتنی گڑ بڑ موجود ہے، اور ابھی نفس پر محنت کی ضرورت ہے ۔ جب تک نفس کی پوری اصلاح نہیں ہوتی اس وقت تک نفس کی چاہت کا اختلاف کرنا عقلمندی ہے ۔ بے شک وہ مشکل نظر آتا ہو ۔ اس وقت نفس کی چاہت کے خلاف کرنا عقلمندی ہے ، اجر تو اس کو مستقل طور پر ملتا رہے گا ۔ کیونکہ جو مجاہدہ وہ کررہا ہے اس کے ذریعے اس کو ہدایت بھی ملے گی اور اجر بھی ملے گا ۔ لیکن جس وقت اس کے نفس کا علاج ہوجائے گا اس کے بعد ماشاء اللہ اس کو اجر بھی ملے گا اور راحت بھی ملے گی ۔ دوسری چیز شیطان ہے ۔ یہ بھی انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے ۔ یہ دورکی سوچتا ہے قریب کا نہیں سوچتا ۔ بات الٹ ہوگئی ۔ نفس فوراً کا سوچتا ہے ۔ شیطان دور کی سوچتا ہے ۔ بڑا ہی چالاک ہے ۔ ایک آدمی کہتا ہے توحید ہی سب کچھ ہے ۔ شیطان کہتا ہے بالکل توحید ہی سب کچھ ہے اور اس کو توحید میں اتنا آگے لے جاتا ہے کہ بزرگوں کی ، اولیا کرام کی اور آپ ﷺِ کی توہین میں ڈال دیتاہے توحید کے نام سے دیکھیں کتنی زبردست چال ہے ۔ وہ خود سامنے نہیں آتا، دور سے وار کرتا ہے ۔ اس طرح اگر کوئی ادب میں آنا چاہتا ہے تو اسے کہتا ہے بالکل ٹھیک ، بہت اچھی بات ہے ادب کرو ، ادب کرو ، اور ادب میں اتنا آگے لے جاتا ہے کہ اسے شرک بنا دیتا ہے یوں سمجھ لیجئے کہ شیطان دور کی سوچتا ہے اور نفس قریب کا سوچتا ہے شیطان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپکو کسی چیز میں مزاآتا ہے یا نہیں ۔ آپ کو دنیا کا فائدہ ہوتا ہے یا نہیں ۔ اس کو اس بات سے غرض ہے کہ آپ اس چیز کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دور ہورہے ہیں یا نہیں ۔ آخرت میں آپ کا نقصان ہورہا ہے یا نہیں ۔ اسی وجہ سے اس کا کافر کے ساتھ ، مسلمان کے ساتھ ، عالم کے ساتھ اور غیر عالم کے ساتھ ، ہوشیار کے ساتھ اور بے وقوف کے ساتھ ، ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا معاملہ ہے ۔ہر ایک کیلئے ایک علیحدہ جال بنتا ہے ۔ سادہ لوح کو سادگی میں مارتا ہے ۔ ہوشیارکو ہوشیاری میں مارتا ہے ۔ عقلمندوں کو عقل کے ذریعے مارتا ہے ۔ عالموں کو علم سے مارتا ہے ۔ جاہلوں کو جہل میں مارتا ہے ۔ ہر ایک کو اسی کے داؤ میں مارتا ہے ۔ یہ شیطان کا کمال ہے ۔شیطان دور اندیش ہے negative دوراندیش منفی دوراندیش ، یہ دور کی کوڑی لاتا ہے ۔ یہ کافر کو ان اچھے اچھے کاموں پر مطمئن کرلیتا ہے جس سے معاشرے میں قدر بڑھتی ہے ،مثلاً پابندی وقت ، معاملات کی صفائی ، باقاعدگی ، ان تمام چیزوں میں اس کو فائنل ٹچ دیتا ہے ، تاکہ لوگ اس کو دیکھ کر کفر کی طرف آجائیں ۔ اور مسلمان کی ہر چیز کو بگاڑتا ہے چاہے وہ دنیا کی چیز ہو چاہے آخرت کی ۔تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ اسلام سے متنفر ہوجائیں ، کیونکہ شیطان کو پتہ ہے کہ کافر کامیاب تو ہونہیں سکتا ۔ ظاہر ہے جب تک کلمہ نہیں پڑے گا اس کی کوئی چیز قبول نہیں ۔ لہذا آخر میں میرے ہی پاس آئے گا ۔ اور مسلمان کا اس کو پتہ ہے کہ چونکہ اس کو اسلام کا فائدہ حاصل ہے یہ میرے لئے مسئلہ بن سکتا ہے لہذا اس کو راستے سے کوئی چیز بھی ہٹانے نہیں دیتا کیونکہ اس سے اس کو اجر ملتا ہے کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان سے اچھی طرح ملنے بھی نہیں دیتا کہ اس پر بھی اس کو اجر ملے گا ۔ والدین کی طرف محبت کی نظر کرنے سے بھی روکتا ہے کیونکہ اس پر بھی اجر ہے ۔ وہ ہر اجر والی چیز سے روکتا ہے ۔ بس یہی بات ہے کہ آدمی شیطان کی بات نہ مانے اور شیطان کی چال کو سمجھ جائے ۔ شیطان کی کوئی تربیت نہیں کرسکتا وہ ہماری رینج سے باہر ہے ۔ بات صرف یہ ہے کہ انسان اس کی بات نہ مانے ۔ شیطان کسی سے اپنی بات زبردستی نہیں منوا سکتا ۔ اس کو یہ طاقت حاصل نہیں ہے ۔ وہ صرف وسوسہ ڈالے گا اور وسوسہ ڈالنے کیلئے وہ نفس کو استعمال کرتا ہے ۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ جو آدمی توحید کی بات کرتا ہے اس کو توحید میں مارتا ہے ۔ وہ انسان کے نفس کو دیکھتا ہے کہ یہ اپنی نفس میں کونسی خواہش لیے بیٹھا ہے ۔ اس کے نفس کو کس چیز کی خواہش ہے ۔ جس آدمی کو مال کی خواہش ہو اسے مال کے ذریعے مارتا ہے ۔ جسے بڑائی کی خواہش ہو اسے بڑائی سے مارتا ہے ۔ جسے لذتوں کی خواہش ہو اسے لذتوں کی طلب میں مارتا ہے ۔ یعنی یہ بات وہ جانتا ہے کہ انسان کے نفس میں کونسی خواہش ہے وہ اسی کے مطابق وسوسہ ڈالتا ہے ۔ اگر کوئی شخص نفس کی اصلاح کرلے تو شیطان سے بھی بچ گیا اور نفس سے بھی بچ گیا ۔ کیونکہ جب نفس صحیح ہوگیا تو پھرشیطان اس کے ساتھ کیا کرسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی بھی قرآن مجید یا حدیث میں یہ نہیں آیا کہ جس نے شیطان کی تربیت کی وہ کامیاب ہوگیا ۔ شیطان کاذکر ضرور ہے مگر اس کے متعلق یہ ہے کہ اس کو دشمنی میں پکڑو ۔ اور یہ فرمایا کہ وہ بے شک تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ لہذا اس کو دشمن تو بتاتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ شیطان کی تربیت کرو ۔لیکن نفس کی تربیت کے بارے میں فرمان ہے قَدْأَفْلَحَ مَن زَكّٰھاَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسّٰهَا یقیناً کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا ، یقیناناکام ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس کی اصلاح پر زور ہے ، قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی ۔ اس وجہ سے دین پر چلنے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ نفس ہی ہے ۔ شیطان صرف اس کو استعمال کرتا ہے ۔ اگر کوئی نفس کی اصلاح کرلے تو دین پر چلنا بہت آسان ہے ۔ ابھی کچھ مہمان آئے تھے میں ان سے بات کررہا تھا ۔ وہ دین کی کچھ مشکلات کی بات کررہے تھے ، میں نے کہا دین بہت آسان ہے ۔ بس دو روشنیاں ہاتھ میں پکڑ لو پھر کچھ مشکل نہیں ۔ ایک وحی کی روشنی ہے یعنی قرآن و سنت ۔ اس کیلئے علماء کے پاس جاؤ ، ان سے مسئلہ معلوم کرو کہ میں کام کیسے کروں ، یہ ظاہر کی بات ہے ۔ دوسری دل کی صفائی ہے ۔ دل کی صفائی کے لئے صوفیاء کے پاس جاؤ ۔ وہاں اگر آپ کو شیخ مل گیا تو بس اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہو ، اور اس کے ساتھ رابطہ رکھو ، بس ماشاء اللہ دین پر چلنا آسان ہوگا ۔تو یہ دو راستے ہیں ۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ میں مرضی بھی اپنی کروں اور پھر راستہ بھی آسان ہوجائے تو یہ تو دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے ۔ جب آپ کارخریدتے ہیں تو اس کی booklet ﴿کتابچہ ﴾پڑھنا پڑتی ہے کہ اس کو کس طرح چلائیں گے تو یہ ٹھیک چلے گی ۔ آپ کوئی بھی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے ماہرین سے پوچھتے ہیں ۔یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مرضی تو ہم اپنی کریں اور پھر کہیں کہ ساری چیزیں آسان ہوجائیں ، یہ ممکن نہیں ۔ علماء سے ظاہر کی اور صوفیاء سے اپنے دل کی اصلاح کیلئے رجوع کرنا پڑے گی ۔ ان دو راستوں کو زندہ کرلو کوئی مشکل نہیں ۔ آپ ﷺِ نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے ۔ حدیث جبرائیل میں ہے ۔آپﷺِ سے جبرائیل امین نے تین سوال پوچھے تھے ۔ پہلا سوال ا یمان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ، اللہ پر ایمان ،کتابوں پر ایمان ، رسولوں پر ایمان ، آخرت میں اٹھنے پر ایمان ۔ دوسرا سوال اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو عبادت کرے اللہ جل شانہ کی ، نماز پڑھے ، روزہ رکھے ، زکواۃ دے ، وغیرہ ۔ پھر پوچھا احسان کیا ہے ؟ فرمایا احسان یہ ہے کہ تو ایسی عبادت کرے جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے ،اور اگر ایسا نہیں ہے تو خدا تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے ۔ ان تین سوالوں کی جوابات میں ساری بات آگئی ۔ ایمان کیا ہے ، اسلام کیا ہے یہ علماء سے پوچھو ۔ احسان کیا ہے یہ صوفیاء سے پوچھو ۔ دل کی ایسی کیفیت کیسے بنے گی کہ تو ایسی عبادت کرے جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے ۔ یہ عملی چیز ہے ۔ theoretical چیز نہیں ہے ۔ عملی چیز عمل سے حاصل ہوتی ہے ۔ علمی چیز علم سے حاصل ہوتی ہے ۔ اگر کوئی اس طرح کرلے تو بڑی کامیاب زندگی گزار سکتا ہے ۔ ہمارا وقت بہت قیمتی ہے ۔ ہمار ا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے ۔ دیکھیں یہ منٹ جو ہم سے چلا گیا یہ پھر کبھی نہیں آئے گا ۔ ایک لطیفہ ہے کہ ایک شخص راستے میں کھڑا رو رہا تھا ۔ایک دوسرا شخص وہاں سے گزر رہا تھا ۔ اس نے پوچھا کیوں رو رہے ہو ، کہا میرا ایک پیسہ گم ہوگیا ہے ۔ اس نے جیب سے ایک پیسہ نکال کر اس کو دے دیا اور چلا گیا ۔ واپسی پر اس نے دیکھا کہ وہ شخص وہی کھڑا رو رہا تھا ۔ اس نے پوچھا اب کیوں رورہے ہو ، اس نے جواب دیا کہ اگر وہ پیسہ گم نہ ہوچکا ہوتا تو اب دو ہوچکے ہوتے ۔ اسی طریقے سے میں نے اگر پہلے سیکنڈ کو ضائع نہ کیا ہوتا تو مجھے اس سیکنڈ کا بھی ملتا اور اس سیکنڈ کا بھی مجھے ملتا ۔ اب اگر میں توبہ کرتا ہوں تو چلو گذشتہ گناہ تو معاف ہوگئے ۔ لیکن وہ جو میں پہلے کرسکتا تھا وہ تو نہیں ہوا ۔ اب اگر میں نیک کام کررہا ہوں تو یہ نیک کام میرا جمع تو ہوگیا لیکن اگر گذشتہ بھی ہوتا تو مزید ہوجاتا ۔ تو جو وقت گیا وہ پھر واپس نہیں آتا ۔ اب اگر کسی کو ہدایت ملتی ہے اور مثال کے طور پر اس کی عمر بیس سال ہے ۔ اور اس کی طبعی عمر ستر سال ہو تو پچاس سال اس کو عمل کرنے کیلئے مل رہے ہیں ۔ دوسری طرف اگر وہ ساٹھ سال کی عمر میں ہدایت پر آتا ہے ۔ تو اس کو دس سال عمل کرنے کیلئے مل رہے ہیں ۔ توجو فرد جتنی تاخیر کرے گا اتنا وہ اپنا نقصان کررہا ہے ۔ اسی لئے جس وقت بھی اللہ جل شانہ آپ کو کہیں پہنچا دے بس اسی وقت سے کام شروع کردیں ،کیونکہ کامیابی تو کام سے ہوگی ۔ اور کام کوئی مشکل نہیں ۔ اس کیلئے جنگل میں نہیں جانا پڑے گا ۔ اس کے لئے لمبے چوڑے مجاہدے نہیں کرنے پڑیں گے ۔ آج کل کے دور میں مشائخ نہ بڑے مجاہدے کراتے ہیں ، نہ جنگل میں بھیجتے ہیں ۔ بلکہ آپ ہی کے ماحول کے اندر وہ ایسا طریقہ آپ کو بتائیں گے کہ آپ اپنے ماحول کے اندر بننا شروع ہوجائیں گے ۔ دکاندار کو دکان میں اصلاح مل سکتی ہے ۔ طالبعلم کو طالبعلمی میں اصلاح مل سکتی ہے ۔ افسر کو افسری میں اصلاح مل سکتی ہے ۔ ملازم کو ملازمت میں اصلاح مل سکتی ہے۔ کاروباری کو کاروبار میں اصلاح مل سکتی ہے ۔ ہر شخص کو اپنے اپنے فیلڈ میں اصلاح مل سکتی ہے ۔ جیسے صحابہ کرام زندگی کے ہر ہر شعبے میں موجود تھے اور پھر بھی صحابہ تھے ۔ کوئی بیمار تھا ، کوئی صحتمند تھا ، کوئی مالدار تھا ، کوئی غریب تھا ، کوئی طاقتور تھا کوئی کمزور تھا ، کوئی ملازم تھا کوئی کاروباری تھا ، ہر ہر شعبے میں صحابہ ملیں گے ، انہوں نے ہر ہر شعبے میں دین کو زندہ کیا ۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی شعبے میں رہ کر اپنی اصلاح کرسکتا ہے ۔ ا سکے لئے کوئی اور کام نہیں کرنا پڑے گا ۔ صرف اپنی زندگی بدلنے کی نیت کرنی ہوگی ۔ اس کے لئے ان طریقوں کو اختیار کیا جائیگا ۔ طریقہ یہی ہے کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مناسبت پیدا کی ہے ان سے اصلا ح لینا شروع کردیں اس کے بعد اگر کسی نے بیعت کیا ہے تو وہ تو نور ٌ علیٰ نور ہے ۔ کیونکہ وہ سلسلے کی برکت بھی حاصل کررہا ہے ۔ لیکن اگر بیعت نہیں کیا اور اصلاح لے رہا ہے تو پھر بھی ماشاء اللہ کام چل رہا ہے ۔ کیونکہ تربیت ضروری ہے وہ فرض عین ہے ۔ البتہ بیعت مستحب ہے لیکن اس کی برکات سے بھی انکار نہیں ہے ۔ اس وجہ سے دین بہت آسان ہے ۔ دین میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ فطرت کے عین مطابق ہے ۔ دین کے خلاف چلنا مشکل ہے ۔ آپ اندازہ کریں شریعت کے مطابق شادی کرنا آسان ہے یا شریعت کے خلاف ۔ اسی طرح شریعت کے مطابق رات کو جلدی سونے اور صبح سویرے جلدی اٹھنے میں زیادہ فائدہ ہے یا دیر سے سونے اور دیر سے اٹھنے میں فائدہ ہے ۔ساری چیزیں صاف نظر آتی ہیں لیکن اگر آنکھیں بند ہیں تو ہمارے نفس نے ہماری آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔ اس وجہ سے بس جلدی سے اس بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے اور کام شروع کردینا چاہیے ۔و آخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العٰلمین۔


دینِ اسلام اور راہِ اعتدال
اس کارخانہٴ قدرت میں سب سے مؤثر وفعال عنصرانسان ہے، اس عالم امکان کے سارے ہنگامے، نوبہ نوحسن آفرینیاں او رجہان رنگ وبو کے سارے نقش ونگار اس کے وجود کے کرشمے ہیں۔

عقل واختیار کی دولت سے مالا مال اورالله تعالیٰ کے قول: ﴿ولقد کرمنا بنی آدم وحملناھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبات وفضلناھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً﴾․(بنی اسرائیل:70)

﴿انی جاعل فی الارض خلیفة﴾․ (بقرہ:30)

بڑے بڑے تمغوں کا تن تنہا مالک یہ انسان بھی دوسری مخلوقات کی طرح ﴿ألا لہ الخلق والامر﴾․ (اعراف:54) کے تکوینی نظام طاعت کا پابند ہونے کے ساتھ ساتھ تشریعی احکام کا بھی پابند ہے ، انسان کو ”خلیفة الله فی الارض“ قرار دینے کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ تصرف واستفادے میں آزاد نہیں، بلکہ محکوم ونائب ہے۔

شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰت والتسلیمات افراط وتفریط کے درمیان ایک معتدل شریعت ہے ، جس میں نہ بالکل کھلی چھوٹ ہے اور نہ ہی بالکل مواخذہ ومطالبہ ہے۔ اسلام انسان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ فکر سے کام لے کر، جس چیز کو چاہے اپنے قبضہٴ قدرت میں لائے، مگر اسے اخلاقی ذمہ داری کا پابند بناتا ہے کہ وہ فکری آزادی سے وہ کام لے جو دوسروں کے لیے مفید ہو اور اس میں کسی کی حق تلفی نہ ہو ، چناں چہ الله تعالیٰ نے جہاں انسان کے لیے کائنات کی سب چیزیں مسخر کرنے کا ذکر کیا ہے وہاں ”لکم“ کی قید لگائی ہے، یعنی یہ تسخیر فائدہ اٹھانے اور پہنچانے کے لیے ہے ، نہ کہ نقصان اور ضرر پہنچانے کے لیے ۔

لہٰذا وہ تمام صنعتیں اور فیکٹریاں ممنوع ہوں گی جن سے نسل انسانی کی بقا کو خطرہ لاحق ہو۔ ایسی تمام نشہ آور اشیا ممنوع ہوں گی جن سے انسان کی عقل وفکر متاثر ہوتی ہو ، اسی سے فیملی پلاننگ کا مسئلہ بھی واضح ہو جاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اسلام کسی کے آنے جانے، کھانے پینے اور کاروبارکرنے پر اس وقت تک پابندی نہیں لگاتا جب تک اس کی کوئی بنیادی قدر مجروح نہ ہوتی ہو، یا کسی کی حق تلفی نہ ہوتی ہو۔

اسلام اپنے ماننے والوں کوجائز لذتوں سے لطف اٹھانے کی دعوت دیتا ہے، مگر ودسری طرف ﴿لاتسرفوا﴾ ( یعنی دائرہ اعتدال سے قدم باہر نہ رکھنے) کی بھی تاکید کرتا ہے ، نفس انسانی میں لذتوں پر جھک پڑنے کا قدرتی میلان موجود ہے ، عوام کی گمراہی کا نام فسق ہے اور خواص جب گمراہ ہوتے ہیں تو رہبانیت کے گڑھے میں جاپڑتے ہیں، مگر اسلام لذتوں پر جھک پڑنے کا نام فسق اور لذتوں سے بالکل کنارہ کش ہونے کا نام رہبانیت رکھتے ہوئے دونوں سے منع کرکے راہ اعتدال اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے،اسلام ہر انسان کی بنیادی ضروریات یعنی دین ، جان، نسل ، مال اور عقل کی حفاظت کو ضروری قرار دیا گیا ہے ، موافقات شاطبی (ج4، ص:24) میں ایک اصول مذکور ہے کہ ”مجموع الضروریات خمسة: حفظ الدین ، والنفس، والنسل، والمال، والعقل․“ اس اصول کے تحت ہر ایسا طریقہ اختیار کرنے سے اسلام روکتا ہے جس سے انسان کے دین ومذہب، جان ومال اورنسل وعقل کو نقصان پہنچتا ہو۔

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے فکر وخیال کی آزادی ہو ، اس کی جان، اس کی عزت وآبرو اور مال محفوظ ہو ، اس نقطہٴ نظر سے آپ اسلام پر نظر ڈالیں گے تو ان حقوق کے ادا کرنے میں اسلام کا سینہ دنیا کے دوسرے دنیوی ومذہبی نظاموں سے زیادہ کشادہ نظر آئے گا۔ اگر آپ ایک طرف یونایٹڈنیشن (UNO) کا منشور پڑھیں اور پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے آخری حج یعنی حجةالوداع کا خطبہ پڑھیں تو ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق نظر آئے گا۔

اسلام بے سوچے سمجھے کسی کو ماننے پر مجبور نہیں کرتا، حتی کہ بنیادی عقائد توحید وآخرت جن کو اصول مسلمہکی طرح مان لینا چاہیے ، ان کے لیے بھی اسلام عقلی دلائل فراہم کرتا ہے ۔ اسلام ہر شخص کو دنیا میں اس بات کی آزادی دیتا ہے کہ وہ صراط مستقیم پر چلتا رہے یا غلط عقیدہ قائم کرکے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں پر بھٹکتا پھرے، بہرحال اس دنیا میں اسے کوئی نظر یہ یا عقیدہ قبول کرنے پر مجبو رنہیں کیا جاسکتا۔

قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی﴾․ ( بقرہ:256)
ترجمہ:” دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے ، بھلائی اور گمراہی دونوں واضح ہو چکی ہیں۔“

اسلام نے محض حریت عقیدہ کا نظریہ پیش نہیں کیا ہے، بلکہ عملی اور قانونی طور پر اس کی حفاظت بھی کی ہے ۔ فقہ کا قاعدہ ہے کہ ” امرنا بترکھم وما یدینون“ یعنی ہمیں کفار او ران کے دین کو چھوڑنے یعنی مجبور نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، چناں چہ اسلامی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کسی کافر کو جبراً مسلمان نہیں بنایا گیا۔

حضرت ریحانہ جو بنوقریظہ کی جنگ میں گرفتار ہو کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مِلک میں آئیں، حضور صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا ، بلکہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئیں، چناں چہ امام طبری اپنی تاریخ کی کتاب میں فرماتے ہیں:” وقد کانت حین سباھا تعصبت بالاسلام، وکانت یھودیة، فلم یکرھھا حتی اسلمت من تلقاء نفسھا“․

نیز اہل نجران او رمدینہ کے یہودیوں کو مذہبی آزادی اورجان ومال کی حفاظت کی تحریر عطا فرمانا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام غیر مسلموں کو مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کرتا۔ ہاں! اسلام کی دعوت دینے کو جائز قرار دیا ہے تو بھی وہ دعوت عمدہ پیرائے میں ہو اور اخلاق حسنہ کی بھی شرط لگائی گئی ہے ۔

الله تعالیٰ کا رشاد ہے :﴿ادع الی سبیل ربک بالحکمة﴾․ (نحل:125)
ترجمہ: اور بلاؤ اپنے رب کی طرف حکمت کے ساتھ۔

اسلام کو سختی اور تنگ نظری کا طعنہ دینے والوں کا زیادہ تر نشانہ جہاد ہوتا ہے کہ جہاد کا مطلب غیر مسلماوں کو مسلمان ہونے پر مجبور کرنا ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ جہاد کاکا مقصد امن عامہ اور عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا وار فساو وظلم کو ختم کرنا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر جب موذی مرض اور بدنی فساد کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کرے تو کوئی اسے سختی نہیں سمجھتا، بلکہ اس کی تحسین کرتا ہے، مگر جب اسلام امن عامہ کی بحالی اور فساد فی الارض کے خاتمے کے لیے جہاد کا حکم دیتا ہے تو وہ سب کو سختی اور ظلم نظر آتا ہے۔

لطیفہ یہ کہ اسلام کو تنگ نظری اور سختی کا طعنہ دینے والے وہ ہیں جن کے یہاں حق ، قوت وطاقت کا نام ہے ، جن کے ہاں طاقت ور ہر قسم کے حق کا مالک ہے او رکمزو رکے سارے حقوق طاقت ور کے لیے مباح ہیں، جن کے ہاں ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کا قانون رائج ہے او رجن کے ظلم کے سامنے خود ظلم بھی شرماجائے او رجن کے ہاں انصاف عنقاء ہے #
        شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر ہیں پھینکتے
        دیوار آہنی پہ حماقت تو دیکھیے

روشن خیال اور تجدد نواز ( جو جاہلیت فرنگ سے مرعوب افراد کا دوسرا نام ہے ) اسلامی سزاؤں کو سخت او رانسانی حقوق کے خلاف کہہ کر اسلام کو بدنام کرنے اور یہود ونصاری ٰ کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا مصداق ہیں ، کیوں کہ خودشریعت موسویہ اور عیسویہ میں بھی ایسی ہی سزائیں مقرر رہی ہیں ، حتی کہ تورات میں چو رکو قتل کرنے اور زانی کو رجم کرنے کا حکم بھی ملتا ہے ، شریعت موسویہ میں بھی نقب زن کی جان سے امان اٹھ جاتی ہے ، کوئی اسے قتل کر دے تو اس سے بدلہ نہ لیا جائے گا۔

توراة میں ہے کہ:
”اگر چور سیند مارتے ہوئے دیکھا جائے اور اسے کوئی مار بیٹھے او ر وہ مر جائے تو اس کے لیے خون نہ کیا جائے گا۔“ ( خروج:2:22)

موجودہ تورات میں اتنے تحریفی انقلابات کے باوجود بھی حکم قصاص ان الفاظ میں موجود رہ گیا ہے :
”اگر وہ اس صدمہ سے ہلاک ہو جائے تو جان کے بدلہ میں جان لے اور آنکھ کے بدلہ میں آنکھ، دانت کے بدلہ میں دانت۔“ (خروج:25:23-21)

تورات میں ایک جگہ نقب زن کے قتل کا حکم بھی ملتا ہے:
”اگر کوئی شخص اپنے بھائیوں بنی اسرائیل میں سے کسی کو چرانے میں پکڑا جائے او راس کا بیوپار کرے یا اسے بیچ ڈالے تو چور ما ڈالا جائے اورتُو شرکو اپنے درمیان سے دفع کر۔“ ( استثناء:7:24)

نیز رجم کا حکم تو تورات وانجیل دونوں میں ہی موجود ہے ، چناں چہ تورات میں ہے کہ:”اگر یہ بات سچ نکلے اور لڑکی کے کنوارے پن کی نشانیاں پائی نہ جائیں تو وہ اس لڑکی کو اس کے ماں باپ کے گھر کے باہر دروازہ پر نکال لائیں اور اس کی بستی کے لوگ اس پر پتھراؤ کریں کہ وہ مر جائے۔“ (استثناء:23:22)

انجیل میں ہے کہ:”تورات میں موسی علیہ السلام نے ہم کو حکم دیا کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کردیں تو ایسی عورت کی نسبتکیا کہتا ہے؟“ (یوحنا:604:7)

ان تمام حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی سزائیں، جن پر یہ روشن خیال او راہل مغرب اعتراض کرتے ہیں، وہ تو شریعت موسویہ عیسویہ میں بھی رہی ہیں اور ویسے بھی مجرمین کی سزا کا مقصد اصلی ”نکال“ یعنی عبرت حاصل ہو ، پھر عبرت وموعظت کے لیے سزاؤں کا محض جسمانی حیثیت سے سخت اور تکلیف دہ ہونابھی کافی نہیں ہے، رسوائی، دماغی وقلبی تکلیف کا پہلو بھی ان میں نمایاں ہونا چاہیے۔

اسلامی فلسفہ تعزیر میں یہ بھی خوبی ہے کہ سزا کے تجویز کرنے میں دو بڑے پہلو پیش نظر رہتے ہیں:

ایک انتقامی یعنی مظلوم یا مستغیث کے جذبات کی تسکین۔

دوسرے انتظامی یعنی آئندہ کے ممکن مجرموں کی حوصلہ شکنی۔ تو یہ ساری چیزیں سزا کو سخت تو بناتی ہیں، مگر ان میں فوائد بھی ہیں، لہٰذا سختی کا اعتراض بے جا ہے۔

نیز یہ بھی سوچنا چاہیے کہ الله تعالیٰ حاکم مطلق ہے ، وہ جس جرم کی جو سزا مقرر فرمائے، اس کی مرضی ہے، کسی کو اعتراض کا حق نہیں پہنچتا اور الله تعالیٰ کا حکم حکمت ومصلحت سے خالی نہیں ہوتا ہے تو حاصل یہ ہے کہ سزاؤں کا سخت ہونا درحقیقت کوئی قابل اعتراض ہے ہی نہیں کہ ان پر انگلی اٹھائی جائے۔

الله تعالیٰ کی صفت عدالت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ سزاؤں میں کچھ سختی ہو تبھی تو عدل وانصاف قائم ہو گا، ان تمام عقلی اور قیاسی دلائل کے باوجود بھی ممکن ہے کچھ لوگ سزاؤں کی ان سختیوں پر چیں بجبیں ہوں تو ان سے گزارش ہے کہ ساری عقلی اور قیاسی بحثوں سے قطع نظر صرف عملی او رتجرباتی حیثیت سے ہی دیکھ لیں کہ جن ملکوں نے اپنے ہاں قانون نرم کرکے سزائیں ہلکی سے ہلکی کر دی ہیں ، ان کے ہاں بدامنی اور جرائم کا کیا حال ہے؟ او رجن کے ہاں اب تک اسلامی تعزیرات وحدود کا نفاذ جاری ہے وہاں کا کیا حال ہے؟ یہی فرق بھی ان معترضین کے منھ پر زور دار طمانچہ ہے۔

دین اسلام کو عبادات احکام کے اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو دین اسلام میں سہولت اور آسانی ہی ہے، اس کے احکام میں عزائم بھی ہیں اور رخصتیں بھی ، جو اعمال رخصت ہیں ان میں تو سہولت ہے ہی اور جو اعمال عزیمت ہیں ، ان میں بھی چوں کہ میانہ روی اور اعتدال کی رعایت ہے ، اس وجہ سے یہ کہنا درست ہے کہ دین اسلام اپنے احکام کے اعتبار سے سہولت والا دین ہے۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ماجعل علیکم فی الدین من حرج﴾․(حج:78) یعنی الله تعالیٰ نے دین اسلام میں مشقت اور تعب نہیں رکھی ، حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے : ”ان الدین یسر“ ․ (بخاری:39، ص:10)

یعنی دین آسان ہے ۔ ایک اور حدیث میں حضور صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :”احب الدین الی الله الحنیفیة السمحة“․ (بخاری ص:10) یعنی آسان او رتوحید والی شریعت الله تعالیٰ کے ہاں محبوب ہے۔

شریعت کے آسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے احکام پر کوئی عمل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ، اس کے احکام میں کوئی حکم ایسا نہیں جو فی نفسہ ناقابل برداشت ہو ، بظاہر ایسا لگتاہے کہ شر میں سہولت اور خیر میں دشوار ی ہے، مگر دراصل بات یہ ہے کہ شر میں فی نفسہ سہولت نہیں ہے، مگر عادت کے غلبہ سے وہ سہل ومرغوب معلوم ہوتا ہے اور خیر میں فی نفسہ دشواری نہیں ہے، مگر عادت نہ ہونے سے اس میں عارضی دشواری معلوم ہوتی ہے۔

آسان ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کسی عمل کے کرنے میں کچھ بھی تکلیف نہ ہو اور جو چاہے کر لے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نفسانی خواہشات کے مطابق ہونا آسانی نہیں اور تنگی نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایسی تنگی نہیں ہے کہ انسان اسے برداشت نہ کرسکے، اگر بالفرض کچھ محنت اٹھانی بھی پڑتی ہے تو یہ قابل اعتراض بات تو نہیں ہے ، دنیاوی بادشاہوں اور حکمرانوں کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے کس قدر کوشش او رتکلفات سے کام لیا جاتا ہے تو الله تعالیٰ جو مالک حقیقی ہے، اس کے لیے تھوڑی سی محنت برداشت کرنا کون سا مشکل ہے کہ اس پر اعتراض کیا جاتا ہے ؟ ویسے تھوڑی بہت محنت تودنیا کے ہر کام میں کرنی ہی پڑتی ہے، تعلیم حاصل کرنے، ملازمت اور تجارت وصنعت میں کسی کیسی محنتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں؟ مگر ان کی وجہ سے بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کام سخت ہیں او ربعض اوقات تو ماحول کے غلط اور مخالف ہونے یا ملک وشہر میں اس کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے بعض احکام مشکل نظر آتے ہیں ،مگر دراصل وہ مشکل ہوتے نہیں، بلکہ کرنے والے کو بھاری اس لیے معلوم ہوتے ہیں، کہ ماحول میں کوئی اس کا ساتھ دینے والا نہیں ہوتا جس ملک میں روٹی کھانے اور پکانے کی عادت نہ ہو وہاں روٹی حاصل کرنا کس قدر دشوار ہوتا ہے ، یہ سب سمجھتے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ روٹی پکانا، کھانا بڑا سخت کام ہے۔

بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ھو اجتباکم وماجعل علیکم فی الدین من حرج﴾ ․ (حج:78) یعنی الله تعالیٰ نے تمہیں چن لیا اور تم پر دین میں کوئی حرج نہیں رکھا تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ جو چاہو کرو تو اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ اجتباء یعنی چن لینے کا مطلب یہ نہیں کہ اب عمل نہیں کرنا ہے، بلکہ عمل بھی ضروری ہے، الله تعالیٰ نے تو اجتباء کا سامان مہیا کر دیا ہے ، اب عمل خود کرنا پڑے گا، جیسے دعوت کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ منھ میں نوالہ بھی میزبان ڈالے گا۔

نیز دین کے آسان ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ پچھلی امتوں پر جو سختیاں تھیں ، وہ اس امت پر نہیں ، چناں چہ یہود پر پچاس نماز یں فرض تھیں ، زکوٰة چوتھائی حصہ کا نکالنا فرض تھا، نجاست لگنے پر کپڑے کو کاٹنا ضروری تھا، بھول چوک پر سزا ہوتی تھی ، گناہ کے جرم میں بعض حلال چیزیں حرام ہو گئیں تھیں، وغیرہ ، اسی سلسلہ میں قرآن مجید میں حضور صلی الله عیہ وسلم کی صفت یوں بیان کی گئی کہ ﴿ویضع عنھم اصرھم والاغلال التی کانت علیھم﴾(انفال)

ترجمہ… اور وہ ( یعنی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم) ان سے وہ بوجھ اور بیڑیاں ( یعنی سختیاں) دو رکرتے ہیں جو ان (یہودیوں اور امم سابقہ) پر تھیں۔

یہودیوں کی شرارت اور نافرمانی کی وجہ سے کئی حلال اشیا ان کے لیے حرام قرار دی گئی تھیں اور کئی خبائث ( حرام) کو انہوں نے اپنے لیے حلال قررار دے دیا تھا، اس بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے ” فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم طیبت احلت لھم․“

ترجمہ: یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر بہت سی طیبات (یعنی حلال چیزوں) کو حرام قرار دیا تھا جو ان کے لیے حلال تھیں۔ جب کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے طیبات کی حلت کا اعلان فرمایا۔ معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں وہ سختیاں نہیں ہیں جو سابقہ امتوں پر تھیں ، چناں چہ انجیل میں پطرس ( حواری مسیح علیہ السلام) کا قول غیر اسرائیلی مسیحیوں کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ : ” اب تم ان کی گردن پر ایسا جوارکھ کر جس کو نہ ہمارے باپ دادا اٹھا سکتے تھے نہ ہم خدا کو کیوں آزماتے ہو ؟ (اعمال:10:15)

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امتوں پر کیسی سختیاں تھیں ، اگرچہ انجیل کے اس قول میں مبالغہ ہے، کیوں کہ سختیاں ناقابل برداشت نہ تھیں، بہرحال یہ تمام سختیاں پہلے ادیان میں تھیں، مگر دین اسلام میں نہیں ہیں۔

اسلام ایک آفاقی وبین الاقوامی مذہب ہے، اس کے احکام وتصورات کی بنیاد نہ تو محض چند مشترک مادی اغراض پر ہے او رنہ ہنگامی اورعارضی حالات نے انہیں جنم دیا ہے اور نہ اس میں کسی خاص گروہ یا قوم ہی کی سیاسی برتری یا معاشی بہبود پوشیدہ ہے ، بلکہ اس کے واضع الله تعالیٰ نے اس کی فطرت وساخت ہی ایسی بنائی ہے کہ وہ ہر انسان کے لیے ، ہر وقت اور ہر زمانہ میں قابل عمل ہے ، الله تعالیٰ نے انسان کو زندگی دی ہے تو اسے زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔

دنیا میں زندگی گزارنے کے دو طریقے اور نظام چل رہے ہیں ، ایک وہ جوالله تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا ہے او رایک وہ ہے جو انسان نے خود اپنے لیے طے کیا ہے، یا یوں کہیے کہ گھڑ لیا ہے ۔ الله تعالیٰ نے جونظام انسانوں کو دیا ہے ، وہ اسلام ہے اور دوسرے نظام مختلف ناموں سے اس دنیا میں موجود ہیں، بعض تو اپنے وجود مستعار کو بھی کھو چکے ہیں اور کئی نظام ختم ہونے کو ہیں ، الله تعالیٰ نے اسلام کو انسانی ، مزاج وفطرت کے مطابق تشکیل دیا ہے، اسلامی نظام میں انسان کی تمام خوبیوں اور ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہے ، چناں چہ خطا ونسیان پر مواخذہ نہ ہونا او رمشقت والے احکام مقرر نہ ہونا اس کی دلیل ہے۔

شریعت کے احکام کا جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ مختلف نظاموں میں یہ بات تو مشترک ہے کہ وہ زندگی کے ایک شعبے یا ایک شعبے کے چند مسائل پر تو بحث کر سکتے ہیں اور وقتی حل نکال سکتے ہیں، مگر مجموعی طور پر کوئی بھی انسانی نظام اس قابل نہیں کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرسکے اور اس کے مسائل کو بخوبی حل کر سکے۔

مسلمانوں کا ایک طبقہ، جن میں مغرب زدہ دین دار طبقہ بھی ہے، اس دھوکے میں ہے کہ اسلام چند مخصوص عبادات کا نام ہے او ردنیاوی معمولات کے طے کرنے کے لیے ہمیں ایک عقلی طریقہ کار یا نظام کی ضرورت ہے ، یہ وہ عام خیال ہے جس کی وجہ سے لوگ اسلام کو مسجد تک محدود رکھتے ہیں او رمسجد سے باہر اپنی عقل لڑاتے ہیں، گویا نعوذ بالله! خدا صرف مسجد میں ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ اسلام پوری زندگی پر محیط تو ہے مگرچودہ سو سال پرانا ہونے کی وجہ سے اس کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں ، آج کی دنیا سائنسی دنیا ہے ، لہٰذا اسلام کی عام زندگی پر من وعن عمل کرنا ممکن نہیں رہا ہے ، لہٰذا اجتہاد کیا جائے اور اجتہاد کا معیار ان حضرات کی خواہش کے مطابق ہو ، مگر یہ بھی الله تعالیٰ پر بہتان ہے کہ نعوذ بالله! الله تعالیٰ نے انسان کو تخلیق تو کر دیا مگر وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی ضرورتوں کے لیے موثر لائحہ عمل ترتیب دینے میں ناکام رہا ، سچ یہ ہے کہ اسلام مسجدکی طرح باہر بھی ایک لائحہ عمل فراہم کرتا ہے ، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ انسان اپنی خواہش کو ترک کرکے الله تعالیٰ کی خواہش کی پیروی کرے ، وہ جدید سائنسی دور میں سائنسی کرشموں کو اپنا خالق نہ بنائے ، بلکہ الله تعالیٰ کی مخلوق بن کر اسی کو معبود برحق سمجھے۔ جو لوگ یہ شرط پوری کرنے کو تیار ہیں اسلام انہیں لائحہ عمل فراہم کرتا ہے۔

اسلام کے احکام میں ایسی لچک ہے جو انہیں ہر زمانہ میں ہر ایک کے لیے قابل عمل بناتی ہے ، الله تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین ہی حقوق انسانی کا بہترین مصدر ہو سکتے ہیں، مگر انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں خامی رہتی ہے ، کیوں کہ انسانوں کے مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا ایک انسان کا وضع کردہ قانون دوسرے انسان کے مزاج سے متصادم ہو گا، وہ اسے توڑنے کی کوشش کر ے گا، لیکن الله تعالیٰ کے قانون میں کوئی خامی ونقصان کی گنجائش نہیں ہے ، لہٰذا ہر انسان جو سلیم الفطرت اور عقل مند ہو، وہ اسے بخوشی قبول کرے گا۔

دین اسلام کی عبادات کے سلسلہ میں غور کیا جائے تویہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں آسانی ہی آسانی ہے ۔ ایک سلسلہ تو انعامات خداوندی کا ہے او رایک عبادات کا ہے ، انعامات تو بے شمار ہیں:﴿ وان تعدوا نعمة الله لا تحصوھا﴾․ ( براہیم:34)

ترجمہ:… او راگر تم الله تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے ۔ اس رب السموات والارض کے احسانات کا کیا شمار ہے ؟ جس نے پیدا ہونے سے پہلے ہی وہ تمام ضروریات مہیا فرما دیں جن پر حیات انسانی کا مدار ہے ، پیدائش سے بلوغ تک کی طویل مدت احسانات کی طویل حکایت ہے ، جس کے صلہ میں کوئی چیز مطلوب نہیں ہے ، کوئی خدمت وعبادت متعلق نہیں ہے او ربلوغ کے بعد جو عبادات متعلق ہیں وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ان انعامات کے مقابلہ میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمہ وقت بغیر انقطاع کے الله جل شانہ کا شکر بجا لایا جاتا اور عبادات کا سلسلہ قائم رہتا ، لیکن جوسلسلہ عبادات ہے وہ بھی سہل و آسان ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ الله تعالیٰ خالق کائنات ہے ، سب سے پہلے اسے وحدہ لاشریک ماننے کاحکم ہوا، پھر ہر وقت کی عبادت فرض کرنے کے بجائے نماز صرف پانچ وقت فرض ہے ، پھر اس میں بھی اوقات نشاط کا لحاظ کیا گیا ہے چوبیس گھنٹوں میں سے نمازوں کے اوقات کو نکالا جائے تو مشکل سے تقریباً گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ بنتا ہے۔ گویا الله رب العزت نے چوبیس گھنٹے عبادت فرض کرنے کے بجائے صرف گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ اپنی بارگاہ میں حاضری دینے کے لیے فرمایا اورباقی وقت (تقریباً23 گھنٹے) آرام وراحت اور کاروبار کرنے کی اجازت دے دی۔

اسی طرح زکوٰة کا معاملہ سراسر سہولت پر مبنی ہے کہ ہر شخص پر فرض نہیں ہے ، بلکہ صاحب نصاب پر فرض ہے ، پھر ہر قسم کے مال پر بھی زکوٰة نہیں، بلکہ اس مال پر ہے جو نامی اور ضرورت سے زیادہ ہو ، پھر جو زکوٰة مقرر ہے وہ بھی صرف چالیسواں حصہ ہے۔

رمضان المبارک کے روزے ہیں ، ان میں بھی آسانی ہی آسانی ہے ، سال بھر میں صرف ایک مہینہ کے روزے فرض ہیں ،پھر صرف دن میں تو روزہ ہے مگر رات کو کھانے ، پینے او رجماع کی اجازت ہے ۔ نیز سحری کرکے روزے کا حکم او ربیمار کے لیے افطار کی اجازت ، یہ سب سہولت نہیں تو او رکیا ہے ؟

حج کو لے لیں ، پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج فرض ہے ، وہ بھی صرف ان لوگوں پر جو صاحب مال اور اصحاب ثروت ہوں، گھر کے اخراجات کے علاوہ آمدورفت کا خرچہ او ر راستہ کا امن ہو تو حج فرض ہو گا ، ورنہ نہیں ۔ یہ سہولت ہی تو ہے۔

معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ کی طرف سے انعامات کا سلسلہ تو بے شمار ہے، مگر ان کے مقابلے میں عبادات بہت کم ہیں او رپھر ان میں بھی آسانی ہی آسانی ہے ۔

دین میں آسانی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خود شریعت کا حکم مسلمان کو یہ ہے کہ وہ اعمال میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرے ، لہٰذا لازم ہے کہ دین کے اعمال وعبادات میں ایسی شدات کو اختیار نہ کیا جائے کہ آدمی اصل عمل سے ہی رہ جائے۔

مسند احمد کی روایت ہے کہ:” ان ھذا الدین متین فاوغلوا فیہ برفق“ (مسند احمد)
ترجمہ:… دین بہت مضبوط ہے ، اس میں نرمی اور آہستگی سے داخل ہو۔
پھر آگے ارشاد ہے:
” فسددوا وقاربوا“
یعنی درست طریقہ اختیار کرو اور قریب قریب چلتے رہو۔
یعنی اگر تم اکمل پر عمل نہیں کر سکتے یا طریق اعتدال پر کلی طور پر نہیں چل پائے تو کم از کم یہ کوشش کرو کہ اس کے قریب قریب رہو۔


          انسانیت کی تخلیق کے وقت سے ہی حق وباطل کی جو کشمکش ربّانی اور شیطانی طاقتوں کے درمیان شروع ہوئی ہے، اس کے مظاہر چاہے بدلتے رہے ہوں؛ مگر بنیادی طور پر دونوں طرح کے گروہوں کے دلائل اور کردار ایک ہی رہے ہیں۔ شیطان نے جس طرح اپنی نسلی برتری کے غرور میں حق سے بغاوت کی وہ آج تک اہل باطل کا شیوہ بنا ہوا ہے۔ اہل حق کو شکست دینے کے لیے ان کو لالچ اور خوف کے ساتھ اہل حق کے درمیان گروہی، نسلی، فروعی مسائل کی بنیاد پر جھگڑوں فسادوں اور کُشت وخون کو بڑھاوا دینا اہل باطل یا شیطانی ٹولہ کے ہمنواؤں یا علمبرداروں کا موٴثر ترین ہتھیار رہا ہے۔ اسلامی تاریخ اس کی گواہ بھی ہے اور مسلمان اس کے ہردور میں بری طرح شکار بھی ہوئے ہیں۔ شیطانی طاقتیں مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کے لیے نظریہ یا عقیدہ اور عمل دونوں طرح سے حملہ آور رہے ہیں، اوّل الذکر حملہ کو وہ دل ودماغ کی جنگ (War of hearts and minds) کہتے ہیں، جو کہ کھلے حملہ کی شکل میں بھی ہورہی ہے اور اسلامی اصطلاحوں اور اسلام کے خیرخواہ بن کر بھی ہورہی ہے۔ امریکی سازشی ٹولہ رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) نے امریکی حکومت کے لیے 9/11سے بہت پہلے جو مسلم دشمن ایجنڈہ بناکر دیا تھا، اس میں اہم ترین مسلمانوں کو اندرونی محاذ یعنی مسلکی اختلاف کے فروغ کے ذریعہ کمزور کرنا بھی تھا۔


          دنیا میں بدامنی اور تشدد کی اصل وجوہات کی طرف سے انصاف پسند انسانوں کی توجہ ہٹانے کے لیے اور اپنی غلامی اور لوٹ کھسوٹ دنیا پر مسلط رکھنے کے لیے اسلام کو صدیوں سے تختہٴ مشق بنایا جاتا رہا ہے، کہا یہ جاتا ہے کہ اسلامی عقیدہ میں، علیحدگی پسندی، انتشار تشددپسندی کی اصل وجہ ہے، اس کی تعلیمات کی وجہ سے مسلمان غیراقوام کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرپاتے اور یہ سب ”وہابی اسلام“ سیاسی اسلام“ عسکری اسلام“ کی وجہ سے ہورہا ہے، مغربی اورہندوستانی اسلام دشمن مورخین، کالم نگار اور دفاعی ماہرین تسلسل سے اسلام پسندی کی بڑھتی لہر کے لیے شاہ ولی اللہ، سید قطب شہید اور مولانا مودودی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ انھوں نے سیاسی اسلام کی فکر کو ہوادی اوراس کا مقابلہ کرنے کے لیے ”اعتدال پسند“ ”تکثیریت حامی اسلام“ اور ”صوفی اسلام“ کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اسی غرض سے دنیا بھر میں اسلامی معاشروں میں ”مقامی کلچر“ اور رسومات کے فروغ کے نام پر مخالف اسلام تعلیمات اور رسوم ورواج کو بڑھاوا دیا جارہا ہے، انڈونیشیا، افریقی ممالک، عرب ممالک، ایشیا ہر جگہ ثقافت وتہذیب کے نام پر شرک، بے حیائی، بدعملی، جنسی اختلاط، ناچ گانے کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ”صوفی اسلام“ کو جس طرح صرف درگاہوں اورمزاروں اور قوالیوں تک محدود کیاجارہاہے، یہ خود ایک بہت بڑا مغالطہ ہے جو اصل ”صوفیت“ طریقہٴ سلوک اور احسان کی جڑ کاٹنے کے لیے دیا جارہا ہے، جو راہِ سلوک واحسان، دراصل اسلام پر غایت درجہ عمل، اللہ رب العالمین پر بے پناہ توکل اوراس سے شدید محبت اور دنیا سے بے رغبتی کی اعلیٰ تعلیمات واخلاق کے لیے جانا جاتا تھا، اسے صرف میلوں، ٹھیلوں اور قوالیوں کے مترادف قرار دینے کے پیچھے منشا صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ کی کامیابی جو کہ صرف اللہ کی مدد کے ساتھ مشروط ہے اور اللہ کی مدد دین پر عمل کرنے اور دین کی نصرت کرنے سے مشروط ہے، اُس بنیاد کو ڈھادیا جائے۔ امت کو اللہ تبارک وتعالیٰ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہٴ کرام اور اولیائے امت کے پسندیدہ عقیدہ اور اعمال سے منحرف کرکے خرافات، استیصال پسند رسومات و توہمات میں غرق کردیاجائے اور سیدھے سادھے عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کے بہانہ ”مقامی تہذیب اور رسومات“ اور ثقافت کے نام پر ایجاد کرکے مشرکانہ مذاہب کی طرح ایک مذہبی پاپائیت یا برہمنیت قائم کردی جائے۔

          اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا، اُس کو کرامت اور بزرگی عطا کی ، اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین آسان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عملاً کون سا دین آسان ہے؟ اسلام میں زندگی کے کسی بھی مرحلہ؛ پیدائش، ختنہ، عقیقہ، نکاح، موت میں کسی پنڈت کی ضرورت نہیں ہے، کان میں اذان کوئی بھی نیک انسان پڑھ سکتا ہے، عقیقہ ختنہ میں بھی کوئی بچولیا، درکار نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ جو لوگ خواتین کے حقوق ان کی عزت، حفاظت اور ا ٓزادی کی بات کرتے ہیں، انھیں غور کرنا چاہیے کہ منگنی، رخصتی، جہیز، تلک، جوتا چھپائی، چھوچھک جیسی خرافات اگر ”کلچر“ اور ”گنگاجمنی“ تہذیب والا اسلام مان لیا جائے تو ان خرافات کی منحوسیت سے ہی کروڑوں معصوم لڑکیوں اور خواتین کو ہر طرح کے استحصال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، انھیں رسومات کے بوجھ نے امت مسلمہ کے کروڑوں والدین کی زندگی کو زہربنادیا ہے ”سادہ اسلام“ میں نہ جہیز نہ تلک نہ چھوچھک اوپر سے مہر کی نقد ادائیگی اور وراثت میں خواتین کا حصہ ملتا ہے، سب کی زندگی میں اطمینان اور سکون اور معاشرہ کو ہزار طریقہ کے امراض، جرائم اور مسائل سے نجات دیتا ہے۔ حضرت ربعی بن عامر نے رستم کے دربار میں رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا مقصد بتایا کہ ”لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں اور دوسرے ادیان کے جور وظلم سے نکال کر اسلام کے عدل میں لانے کے لیے دعوت دیتے ہیں۔“ سورہ الاعراف میںآ یت نمبر ۱۵۶ میں بتایاگیا ہے کہ : ”حکم کرتا ہے ان کو نیک کام کا، منع کرتا ہے برے کام سے، حلال کرتا ہے پاک چیزیں اورحرام کرتا ہے ناپاک چیزیں اور اتارتا ہے ان پر سے ان کے بوجھ اور وہ قیدیں جو ان پر تھیں“۔ (الاعراف ۱۵۶) نصاریٰ نے دین کے نام پر اپنے آپ اپنے اوپر جو چیزیں حرام کرلی تھیں یا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں، ان کے بارے میں قرآن کا کھلا اعلان ہے کہ ترک دنیا جو انھوں نے اپنی طرف سے ایجاد کرلیا تھا ہم نے نہیں لکھا تھا۔ (الحدید۲۷) حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری فرماتے ہیں ”اخلاق کی تکمیل یہ ہے کہ سالک اپنے ہر کردار میں شریعت کا پابند ہو جب اس سے کوئی بات خلاف شریعت نہ ہوگی تو وہ دوسرے مقام پر پہنچے گا جس کا نام طریقت ہے جب اُس میں ثابت قدم رہے گا تو معرفت کا درجہ حاصل کرے گا۔ جب اس میں بھی پورا ترے گا تو حقیقت کا رتبہ پائے گا۔ حضرت نے فرمایا نماز رکن دین ہے اور رکن وستون مترادف ہیں اگر ستون قائم رہے تو گھر کھڑا رہے گا اور جب ستون ہی گرجائے گا تو گھر بھی گرجائے گا۔ فرماتے ہیں حاجت مندوں کی مدد کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔اگر کوئی شخص اوراد اور وظائف میں مشغول ہو اور کوئی حاجت مند آجائے تو لازم ہے کہ وہ اوراد ووظائف چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو اور اپنے مقدور کے مطابق اس کی حاجت پوری کرے۔ فرمایا افضل ترین زہد موت کو یاد کرنا ہے۔ جھوٹا، خیانت کرنے والا اور کنجوس جنت کی بوتک نہ پائیں گے۔ ”بزم صوفیہ“ از مولانا سید صباح الدین عبدالرحمن، نام نہاد صوفی اسلام جس کو رسول مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ پر کھڑا کیا جارہا ہے اس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ اس میں بندوں سے محبت کا پیغام ہے یہ کسی سے تفریق نہیں کرتا؛ مگر یہ سب تو عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ یہ تعلیمات اسلام کا بنیادی حصہ ہیں، اللہ رب العالمین اوراللہ رحمن ورحیم اور رسول رحمة للعالمین اورامت مسلمہ خیرامت برائیوں سے روکنے والی اور بھلائیوں کا حکم دینے والی ہے؛ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ شرک، کفر، ظلم، نافرمانی، سود، زنا پر سزا نہیں دے گا یا امت مسلمہ کو ان برائیوں پر گرفت نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ اور رسول کے احکامات چھوڑ کر بندوں کو خوش کرنے کے لیے دہلی کے مشہور صوفی شاعر مرزا بیدل کا واقعہ یاد آرہا ہے جب ان کے ایک ایرانی معتقد نے دہلی میں ان سے ملاقات کی اور انھیں حجام کی دوکان پر داڑھی منڈاتے دیکھا تو ان کے ذہن میں جو تصور تھا کہ جس شاعر کا کلام عرفانِ خدا سے اتنا معمور ہے، وہ داڑھی منڈارہا ہے تو انھوں نے مرزا سے کہا تو مرزا نے جواب دیا کہ داڑھی منڈا رہا ہوں کسی کے دل پر تو استرا نہیں چلا رہا ہوں اس پر ایرانی معتقد نے کہا: ہاں، مگر انسانیت کی سب سے حساس شخصیت کے دل پر تو استرا چلوارہے ہو، یہ سننا تھا کہ مرزا بیہوش ہوگئے اور جب ہوش میں آئے تو پھر سنتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا اور اس شرک کی بنیاد پر اٹھنے والی تہذیب کے ہر خلافِ شرع رسوم ورواج سے بچنے کی تاکید کی مثلاً ۱۰/محرم الحرام کے روزہ کو اپنایا مگر یہودیوں سے مخالفت کے لیے، ۹یا۱۱/محرم الحرام کو بھی روزہ رکھنے کے لیے کہا اور خلاف شرع عنصر سے پرہیز کرایا۔

          اس بحث میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا لوگوں کی خوشی یا ناراضگی کا لحاظ کرکے امت مسلمہ کو خیرامت کے تقاضے پورے نہیں کرنے چاہئیں، لوگوں کو برا لگے گا اس لیے شرک، بت پرستی، بے حیائی، سود، زنا، جوا، شراب، قتل اولاد اور نسل، وطن ، زبان وغیرہ کے نام پر پھیلائے گئے جنون کو بُرا نہ کہیں ان کی مشرکانہ رسوم میں شریک ہوں غیر اللہ کے نام پر چڑھائے گئے پرساد وغیرہ کھائیں اور انھیں ان کی گمراہیوں، بداعمالیوں، خرافات، رسوم ورواج میں مست رہنے دیں تو کیا یہ رویّہ ان کروڑوں بندگانِ خدا کے ساتھ ہمدردی اور بھلائی وخیرخواہی کا رویّہ ہوگا؟ جس پڑوسی، دوست، ہم سفر کے ساتھ ہمیں ہمدردی، محبت اوراس کی خوشی ناخوشی کا خیال ہے ہم اس کو ہمیشہ کی ناکامی، قبر کی ناکامی، جہنم کی ہولناکیوں، جنت کی نعمتوں اور اللہ کی رضا اور اُس کے دیدار کے مزہ اور سرور سے واقف نہیں کرائیں گے؛ کیوں کہ اس کو برا لگے گا؟ ہم شوگر کے مریض کو میٹھا کھلائیں گے ہم بلڈ پریشر والے کو قورمہ کھلائیں گے، ہم گڑھے کی طرف جانے والے کو نہیں بتائیں گے کہ آگے گڑھا ہے، ہم زنا کرنے والے کو شراب پینے والے کو جوا کھیلنے والے کو نہیں روکیں گے؛ کیوں کہ ان کو برا لگے گا تو کیا یہ رویّہ ہمارے صوفیائے کرام اور صلحائے عظام کا تھا؟ کیا اس روّیہ کو اسلامی، انسانی، ہمدردانہ، سوفیانہ رویّہ کہا جاسکتا ہے؟ کیا انبیاء کرام علیہم السلام اپنے اعزہ، اقرباء، رشتہ داروں، ہمسایوں سے تمام تر تعلقات کے باوجود ان کو حق کی دعوت بلا ان کی خوشی ناخوشی کا خیال کیے نہیں دیتے تھے؟ آج پروپیگنڈہ کے بل بوتے پر تکثیریت Pluralism ، رواداری Tolerance، اعتدال پسندی اور پرامن بقائے باہم Peactul co-existenceکے نام پر امت مسلمہ کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کی طرف، انسانی بھائی چارہ اور مساوات کی طرف توحید کی طرف نہ بلائے، اور یہ گلی سڑی مغربی، امریکی تہذیب امریکن طرز زندگی American way of life کے نام پر دنیا میں زنا، شراب، بے حیائی، عریانیت، سودخوری، قتل اولاد، ذخیرہ اندوزی، رشوت خوری کی تہذیب کو آزادی، جمہوریت، خوشحالی، مساوات، حقوق نسواں کے خوشنما ناموں کے پردہ میں اپنے نظام تعلیم، اطلاعات، تفریح کے ذریعہ عالم انسانیت پر تھوپتے رہیں اور حق پرستوں کو انتہاپسند، وہابی اور دہشت گرد بتاتے رہیں۔

***




No comments:

Post a Comment