عبادت کسے کہتے ہیں:
ہر قول اور فعل ، دعا اور پکار ، ثنا اور تعظیم ، رکوع اور سجود ، قیام اور قعود وغیرہ جو اس اعتقاد اور شعور کے ساتھ ہو کہ معبود کو مافوق الاسباب ہمارے تمام معاملات پر غیبی قبضہ اور تسلط حاصل ہے، اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے، وہ عبادت ہے. چنانچہ علامہ ابن القیم رح نے عبادت کی تعریف کو ایک جامع تعبیر سے حسب ذیل عبارت میں بیان فرمایا ہے:
العبادة عبارة عن الإعتقاد والشعور بأن للمعبود سلطة غيبية في العلم والتصرف فوق الأسباب يقدر بها على النفع والضر. فكل دعاء وثناء وتعظيم ينشأ من هذه الإعتقاد فهو عبادة.
ترجمہ :
عبادت اس اعتقاد اور شعور کا نام ہے کہ معبود کو ایک غیبی تسلط حاصل ہے، جس کی وجہ سے وہ نفع نقصان پر قادر ہے، اس لئے ہر تعریف، ہر پکار اور ہر تعظیم جو اس مذکورہ اعتقاد اور شعور کے ساتھ ہو وہ عبادت ہے.
An expression of the belief and perception that the diety has an unseen authority (control, power) in knowledge and control (of the affairs) above the (created) ways and means (asbaab) through which He has power of benefit and harm. So every invocation (du'a), praise and veneration that emanates from this belief is considered ibaadah (worship).
إِيّاكَ
نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ {1:5}
|
(اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
|
اس
آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں ) غائبانہ
حاجات میں(مدد
مانگنی بالکل ناجائز ہے ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الہٰی اور غیر
مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت حق
تعالیٰ ہی سے استعانت ہے۔
|
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ يُسَيْعٍ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ " ، ثُمَّ قَرَأَ : وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ سورة غافر آية 60 " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ، وَقَدْ رَوَاهُ مَنْصُورٌ ، وَالْأَعْمَشُ ، عَنْ ذَرٍّ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ذَرٍّ هُوَ ذَرُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ ثِقَةٌ وَالِدُ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ .
حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ دعا ہی تو عبادت ہے، پھر یہ آیت پڑھی: یعنی اور کہتا ہے تمہارا رب مجھ کو پکارو کہ پہنچوں تمہاری پکار کو بے شک جو لوگ تکبر کرتے ہیں میری بندگی سے اب داخل ہوں گے دوزخ میں ذلیل ہو کر۔ (سورۃ المؤمن:60)
[ترمذی:2969-3247، ابوداؤد:1479، ابن ماجة:3828]
الشواهد
|
القرآن:
اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یہ لوگ جن کو "پکارتے" ہیں، وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، وہ تو خود ہی پیدا کئے گئے ہیں۔
[سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 20]
دلیل کی دو قسمیں»(1)عقلی (2)علمی:
ثبوتِ علم کی دو بنیادیں» (1)کتاب (2)روایت:
القرآن:
تم ان سے کہو کہ : کیا تم نے ان چیزوں پر کبھی غور کیا ہے جن کو تم اللہ کے سوا "پکارتے" ہو؟ مجھے دکھاؤ تو سہی کہ انہوں نے زمین کی کونسی چیز پیدا کی ہے ؟ یا آسمانوں (کی تخلیق) میں ان کا کوئی حصہ ہے ؟ میرے پاس کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اس قرآن سے پہلے کی ہو، یا پھر کوئی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو۔ اگر تم واقعی سچے ہو۔
[سورۃ الأحقاف:4]
تفسیر:
مشرکین کے پاس اپنے شرک والے عقیدوں کو ثابت کرنے کے لئے نہ کوئی عقلی دلیل ہے جو یہ ثابت کرسکے کہ جن معبودوں کو یہ پوجتے ہیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خدائی میں کوئی حصہ لیا ہے، اور نہ کوئی نقلی دلیل ہے۔
علمی(نقلی) دلیل دو قسم کی ہوسکتی ہے:
(1)اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب نازل ہوئی ہو جس میں ان معبودوں کو اللہ تعالیٰ کی خدائی میں شریک قرار دیا گیا ہو۔
(2)کسی پیغمبر نے کوئی بات کہی ہو، جس پر کوئی علمی سند (یعنی پہنچانے والے محافظوں یا انکی کتابوں کا سہارا) ہو۔
لہٰذا مشرکین سے کہا جارہا ہے کہ اگر سچے ہو تو ایسی کوئی کتاب یا علمی روایت ہے تو لاکر دکھاؤ۔
دعا میں توحید سے کفر وشرک
القرآن:
(جواب دیا جائے گا کہ :) تمہاری یہ حالت اس لیے ہے کہ اللہ کو تنہا پکارا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے، اور اگر اس کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرایا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے۔ اب تو فیصلہ اللہ ہی کا ہے جس کی شان بہت اونچی، جس کی ذات بہت بڑی ہے۔
[سورۃ نمبر 40 غافر، آیت نمبر 12]
دعا صرف اللہ سے مانگنی چاہئے۔
غائب سے مدد مانگنا ہو تو صرف اللہ سے مدد مانگے۔
اس کے لئے یہ آیتیں ہیں:
1-﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ ۔
ترجمہ:
اے اللہ ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں ، اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
[آیت 4، سورہ الفاتحۃ 1]
اس آیت میں حِصر(limitation) کے ساتھ بتایا کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور صرف اللہ ہی سے مدد مانگتے ہیں ، دن رات میں فرض نماز سترہ رکعتیں ہیں ، اور کم سے کم سترہ مرتبہ ایک مومن سے کہلوایا جاتا ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور صرف اللہ ہی سے مانگتے ہیں ، اس لئے کسی اور کی عبادت بھی جائز نہیں اور کسی اور سے مدد مانگنا بھی جائز نہیں ہے ۔
2- ﴿..... أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٤٠) بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ.....﴾ ۔
ترجمہ:
تو کیا اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکارو گے اگر تم سچے ہو ، بلکہ اسی کو پکارو گے ۔
[آیت 40-41، سورۃ الانعام 6]
3-﴿إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ.....﴾
ترجمہ:
اللہ کے علاوہ جس کو پکارتے ہو وہ تمہاری طرح اللہ کے بندے ہیں
[آیت۱۹۴، سورۃ الاعراف۷]
4-﴿.....وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ﴾ ۔
ترجمہ:
اللہ کے علاوہ جس کو بھی پکارتے ہو وہ گٹھلی کے چھلکے کا بھی مالک نہیں ہے [ تو تمہاری مدد کیا کریں گے ]
[آیت۱۳، سورۃ فاطر۳۵]
5-﴿قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا ﴾ ۔
ترجمہ:
آپ فرما دیجئے کہ میں صرف اللہ ہی کو پکارتا ہوں ، اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرتا
[آیت ۲۰، سورۃ الجن ۷۲]
6-﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا ﴾
ترجمہ:
اور یقینا تمام سجدے اللہ ہی کے لئے ہیں اس لئے اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو
[۱۸، سورت الجن۷۲]
اس آیت میں ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو مت پکارو، تو دوسرے سے دعا مانگنا کیسے جائز ہو گا۔
7-﴿وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ.... ﴾
ترجمہ:
اگر اللہ تم کوئی تکلیف پہنچائے تو اللہ کے علاوہ کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے
[آیت ۱۷، سورت الانعام ۶]
8- ﴿وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ....﴾ ۔
ترجمہ:
اگر اللہ تم کوئی تکلیف پہنچائے تو اللہ کے علاوہ کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے
[آیت ۱۰۷، سورت یونس ۱۰]
9-﴿.....حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ﴾
ترجمہ:
یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی روح قبض کرنے کے لیے آپہنچیں گے تو وہ کہیں گے کہ : کہاں ہیں وہ (تمہارے معبود) جنہیں تم اللہ کے بجائے پکارا کرتے تھے ؟ یہ جواب دیں گے کہ : وہ سب ہم سے گم ہوچکے ہیں۔ اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔
[آیت ۳۷، سورت الاعراف ۷]
﴿أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ﴾
ترجمہ:
بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بےقرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے، اور تکلیف دور کردیتا ہے اور جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ؟ نہیں! بلکہ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔
[آیت ٦٢، سورت النمل ٢٧]
اس آیت سے معلوم ہوا کہ خدا کہتے ہی اسے ہیں جو دعائیں سنتا اور تکلیف دور کرتا ہو۔
ان 10 آیتوں میں حِصر (limitation) اور تاکید (Emphasis) کے ساتھ فرمایا کہ صرف اللہ ہی کو پکارو ، اور اسی سے مدد مانگو تو اللہ کے علاوہ سے کیسے مانگنا جائز ہو گا ۔
آپ خود بھی ان آیتوں پر غور کریں۔
غائب سے مدد مانگنا ہو تو صرف اللہ سے مدد مانگے۔
ان آیتوں میں تاکید اور حصر کے ساتھ کہا گیا ہے کہ صرف اللہ ہی سے مدد ہو سکتی ہے:
(10، 11) وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ۔
ترجمہ:
مدد تو صرف اللہ ہی کے پاس سے آتی ہے ، جو مکمل اقتدار کا مالک ہے ، حکمت والا ہے
[آیت 126، سورت آل عمران 3]
[آیت 10، سورۃ الانفال 7]
(12، 13، 14، 15) وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ۔
ترجمہ:
اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی رکھوالا ہے اور نہ مدد گار ہے۔
[آیت 107، سورۃ البقرۃ 3][آیت 116، سورۃ التوبۃ 9][آیت 22، سورۃ العنکبوت 29][آیت 31، سورۃ الشوری 42]
(16) مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ۔
ترجمہ:
اور اللہ کے علاوہ تمہارا نہ کوئی رکھوالا ہے اور نہ کوئی مدد گار۔
[آیت 177، سورۃ البقرۃ 2]
(17) مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا وَاقٍ۠۔
ترجمہ:
اللہ کے علاوہ نہ تمہارا کوئی مددگار ہوگا، نہ کوئی بچانے والا۔
[آیت 37، سورۃ الرعد 13]
ان 8 آیتوں میں حصر کے ساتھ بتایاکہ اللہ کے علاوہ کوئی مدد گار نہیں ہے ، اور نہ کوئی رکھوالا ہے۔
اس لئے اللہ کے علاوہ کسی سے مدد نہیں مانگنی چاہئے۔
آپ ان آیتوں کو خود بھی غور سے پڑھیں ۔
لوگوں سے بھی مانگنا سخت ناپسندیدہ ہے۔
|
**************************************
وَإِذا
سَأَلَكَ عِبادى عَنّى فَإِنّى قَريبٌ ۖ أُجيبُ دَعوَةَ
الدّاعِ إِذا دَعانِ ۖ فَليَستَجيبوا لى وَليُؤمِنوا بى لَعَلَّهُم يَرشُدونَ
{2:186}
|
اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں
دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے
پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو
مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک رستہ پائیں
|
دعا کی قبولیت یقینی ہے:شروع
میں یہ حکم تھا کہ رمضان میں اول شب میں کھانے پینے اور عورتوں کے پاس جانے کی
اجازت تھی مگر سو رہنے کے بعد ان چیزوں کی ممانعت تھی بعض لوگوں نے اس کے خلاف
کیا اور سونے کے بعد عورتوں سے قربت کی پھر آپ ﷺ سے آ کر عرض کیا اور اپنے قصور
کا اقرار اور ندامت کا اظہار کیا اور توبہ کی
نسبت آپ سے سوال کیا تو اس پر یہ آیت اتری کہ تمہاری توبہ قبول کی گئ اور احکام
خداوندی کی اطاعت کی تاکید فرما دی گئ اور حکم سابق منسوخ فرما کر آئندہ کو
اجازت دے دی گئ کہ تمام شب رمضان میں صبح صادق سے پہلے کھانا وغیرہ تم کو حلال
ہے جس کا ذکر اس کے بعد کی آیت میں آتا ہے اور آیت سابقہ میں جو بندوں پر سہولت
اور عنایت کا ذکر تھا اس قرب و اجابت و اباحت سے اس کی بھی خوب تاکید ہو گئ۔ اور
ایک تعلق کی وجہ یہ بھی ہے کہ پہلی آیت میں تکبیر اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے
کا حکم تھا آپ ﷺ سے بعض نے پوچھا کہ ہمارا رب دور ہے تو ہم اس کو
پکاریں یا نزدیک ہے تو آہستہ بات کریں ۔ اس پر یہ آیت اتری یعنی وہ قریب ہے ہر
ایک بات سنتا ہے آہستہ ہو یا پکار کر اور جن موقعوں میں پکار کر تکبیر کہنے کا
حکم ہے وہ دوسری وجہ سے یہ نہیں کہ وہ آہستہ بات کو نہیں سنتا ۔
|
إِن
يَدعونَ مِن دونِهِ إِلّا إِنٰثًا وَإِن يَدعونَ إِلّا شَيطٰنًا مَريدًا {4:117}
|
یہ جو اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں تو عورتوں کی اور
پکارتے ہیں تو شیطان کی سرکش ہی کو
|
قُل
أَرَءَيتَكُم إِن أَتىٰكُم عَذابُ اللَّهِ أَو أَتَتكُمُ السّاعَةُ أَغَيرَ
اللَّهِ تَدعونَ إِن كُنتُم صٰدِقينَ
{6:40}
|
کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر اللہ کا عذاب
آجائے یا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو
گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)؟
|
مشرکین سے الله و رسول کا سوال:
القرآن : قُل أَرَءَيتَكُم إِن أَتىٰكُم عَذابُ اللَّهِ أَو أَتَتكُمُ السّاعَةُ أَغَيرَ اللَّهِ تَدعونَ إِن كُنتُم صٰدِقينَ(الانعام:٤٠)
ترجمہ : تو کہہ دیکھو تو اگر آوے تم پر عذاب اللہ کا یا آوے تم پر قیامت کیا الله کے سوا کسی اور کو پکارو گے بتاؤ اگر تم سچے ہو؟
تشریح : یہ تکذیب کرنے والوں کے لئے زجر ہے، یعنی جو لوگ ضد و عناد کی وجہ سے آیات الہی کو جھٹلاتے ہیں ان کے دلوں پر مہر جباریت لگ جاتی ہے اور وہ کفر و شرک کے اندھیروں میں سرگرداں پھرتے رہتے ہیں، نہ حق سنتے ہیں اور نہ حق بات کہہ سکتے ہیں. حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جب منکرین ضد و عناد کی وجہ سے حق کا انکار کرتے ہیں تو حق تعالیٰ ان سے فہم کی استعداد سلب کرلیتا ہے اور ان کے دلوں پر مہر جباریت ثبت کردیتا ہے لیکن جسے چاہتا ہے یعنی جو لوگ انابت کرتے ہیں تو ان کو قبول حق کی استعداد عطا فرمادیتا ہے.
بَل
إِيّاهُ تَدعونَ فَيَكشِفُ ما تَدعونَ إِلَيهِ إِن شاءَ وَتَنسَونَ ما تُشرِكونَ
{6:41}
|
بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ
کے لئے اسے پکارتے ہو۔ وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم
شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو
|
مشرکین مصیبت میں اللہ ہی کو پکارتے ہیں:جب
اندھے بہرے گونگے ہو کر آیات اللہ کو جھٹلایا اور گمراہی کے عمیق غار میں جا
پڑے۔ اس پر اگر دنیا میں یا قیامت میں اللہ کا سخت عذاب نازل ہو تو سچ سچ بتلاؤ
کہ اللہ کے سوا اس وقت کسے پکارو گے۔ دنیا کی چھوٹی چھوٹی مصیبتوں میں بھی جب گھر
جاتے ہو تو مجبور ہو کر اسی خدائے واحد کو پکارتے ہو اور سب شرکاء کو بھول جاتے
ہو { فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ
} جس پر اگر اللہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو دور بھی کر دیتا ہے۔ اسی سے اندازہ کر
لو کہ نزول عذاب یا ہول قیامت سے بچانے والا بجز اللہ کے اور کون ہو سکتا ہے پھر
یہ کس قدر حماقت اور اندھا پن ہے کہ اس اللہ کی عظمت و جلال کو فراموش کر کے اس
کی نازل کی ہوئی آیات کی تکذیب اور فرمائشی آیات کا مطالبہ کرتے ہو۔
|
وَلا
تَطرُدِ الَّذينَ يَدعونَ رَبَّهُم
بِالغَدوٰةِ وَالعَشِىِّ يُريدونَ وَجهَهُ ۖ ما عَلَيكَ مِن حِسابِهِم مِن شَيءٍ
وَما مِن حِسابِكَ عَلَيهِم مِن شَيءٍ فَتَطرُدَهُم فَتَكونَ مِنَ الظّٰلِمينَ
{6:52}
|
اور جو لوگ صبح وشام اپنی پروردگار سے دعا کرتے ہیں
(اور) اس کی ذات کے طالب ہیں ان کو (اپنے پاس سے) مت نکالو۔ ان کے حساب (اعمال)
کی جوابدہی تم پر کچھ نہیں اور تمہارے حساب کی جوابدہی ان پر کچھ نہیں (پس ایسا
نہ کرنا) اگر ان کو نکالوگے تو ظالموں میں ہوجاؤ گے
|
یعنی رات اور دن اس
کی عبادت میں حسن نیت اور اخلاص کے ساتھ مشغول رہتے ہیں۔
|
دعا مانگنے والوں کا مقام:یعنی
جب ان کا ظاہر حال یہ بتلا رہا ہے کہ شب و روز اللہ کی عبادت اور رضا جوئی میں
مشغول رہتے ہیں تو اسی کے مناسب ان سے معاملہ کیجئے۔ ان کا باطنی حال کیا ہے یا
آخری انجام کیا ہوگا اس کی تفتیش و محاسبہ پر معاملات موقوف نہیں ہو سکتے۔ یہ
حساب نہ آپ کا ان کے ذمہ ہے نہ ان کا آپ کے۔ لہذا اگر بالفرض آپ دولتمندوں کی
ہدایت کی طمع میں ان غریب مخلصین کو اپنے پاس سے ہٹانے لگیں تو یہ بات بےانصافی
کی ہو گی۔ موضح القرآن میں ہے کافروں میں بعض سرداروں نے حضرت ﷺ سے
کہا کہ تمہاری بات سننے کو ہمارا دل چاہتا ہے لیکن تمہارے پاس
بیٹھتے ہیں رذیل لوگ۔ ہم ان کے برابر نہیں بیٹھ سکتے اس پر یہ آیت اتری۔ یعنی
اللہ کے طالب اگرچہ غریب ہیں۔ ان ہی کی خاطر مقدم ہے۔
|
قُل
إِنّى نُهيتُ أَن أَعبُدَ الَّذينَ تَدعونَ
مِن دونِ اللَّهِ ۚ قُل لا أَتَّبِعُ أَهواءَكُم ۙ قَد ضَلَلتُ إِذًا وَما أَنا۠
مِنَ المُهتَدينَ {6:56}
|
(اے پیغمبر! کفار سے) کہہ دو کہ جن کو تم
اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے۔ (یہ بھی) کہہ دو کہ
میں تمہاری خواہشوں کی پیروی نہیں کروں گا ایسا کروں تو گمراہ ہوجاؤں اور ہدایت
یافتہ لوگوں میں نہ رہوں
|
مشرکین کو انذار:گذشتہ
آیت میں وہ چیزیں بیان ہوئیں جو مومنین سےکہنے کے لائق ہیں۔ اس رکوع میں ان امور
کا تذکرہ ہے جو مجرمین اور مکذبین کے حق میں قابل خطاب ہیں۔ یعنی آپ فرما دیجئے
کہ میرا ضمیر ، میری فطرت، میری عقل میرا نور شہود اور وحی الہٰی جو مجھ پر
اترتی ہے یہ سب مجھ کو اس سے روکتے ہیں کہ میں توحید کامل کے جادہ سے ذرا بھی
قدم ہٹاؤں۔ خوا تم کتنے ہی حیلے اور تدبیریں کرو میں کبھی تمہاری خوشی اور خواہش
کی پیروی نہیں کر سکتا۔ بفرض محال اگر پیغمبر کسی معاملہ میں وحی الہٰی کو چھوڑ
کر عوام کی خواہشات کا اتباع کرنے لگیں تو اللہ نےجنہیں ہادی بنا کر بھیجا تھا
معاذ اللہ وہ ہی خود بہک گئے پھر ہدایت کا بیج دنیا میں کہاں رہ سکتا ہے۔
|
قُل
مَن يُنَجّيكُم مِن ظُلُمٰتِ البَرِّ وَالبَحرِ تَدعونَهُ
تَضَرُّعًا وَخُفيَةً لَئِن أَنجىٰنا مِن هٰذِهِ لَنَكونَنَّ مِنَ الشّٰكِرينَ
{6:63}
|
کہو بھلا تم کو جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں سے
کون مخلصی دیتا ہے (جب) کہ تم اسے عاجزی اور نیاز پنہانی سے پکارتے ہو (اور کہتے
ہو) اگر اللہ ہم کو اس (تنگی) سے نجات بخشے تو ہم اس کے بہت شکر گزار ہوں
|
قُل أَنَدعوا مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُنا وَلا يَضُرُّنا
وَنُرَدُّ عَلىٰ أَعقابِنا بَعدَ إِذ هَدىٰنَا اللَّهُ كَالَّذِى استَهوَتهُ
الشَّيٰطينُ فِى الأَرضِ حَيرانَ لَهُ أَصحٰبٌ يَدعونَهُ إِلَى الهُدَى
ائتِنا ۗ قُل إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الهُدىٰ ۖ وَأُمِرنا لِنُسلِمَ لِرَبِّ
العٰلَمينَ {6:71}
|
کہو۔ کیا ہم اللہ کے سوا ایسی چیز کو پکاریں جو نہ
ہمارا بھلا کرسکے نہ برا۔ اور جب ہم کو اللہ نے سیدھا رستہ دکھا دیا تو (کیا) ہم
الٹے پاؤں پھر جائیں؟ (پھر ہماری ایسی مثال ہو) جیسے کسی کو جنات نے جنگل میں
بھلا دیا ہو (اور وہ) حیران (ہو رہا ہو) اور اس کے کچھ رفیق ہوں جو اس کو رستے
کی طرف بلائیں کہ ہمارے پاس چلا آ۔ کہہ دو کہ رستہ تو وہی ہے جو اللہ نے بتایا
ہے۔ اور ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ ہم خدائے رب العالمین کے فرمانبردار ہوں
|
مسلمان کی شان: یعنی
مسلمان کی شان یہ ہے کہ گمراہوں کو نصیحت کر کے سیدھی راہ پر لائے اور جو اللہ سے
بھاگ کر غیر اللہ کی چوکھٹ پر سر رکھے ہوئے ہیں ان کو خدائے واحد کےسامنے سر
بسجود کرنے کی فکر کرے۔ اس سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ اللہ کےسوا کسی ایسی
ہستی کے آگے سر جھکائے گا جس کے قبضہ میں نہ نفع ہے نہ نقصان۔ یا اہل باطل کی
صحبت میں رہ کر توحید و ایمان کی صاف سڑک چھوڑ دے گا اور شرک کی بھول بھلیاں کی
طرف الٹے پاؤں پھرے گا۔ اگر معاذ اللہ ایسا ہو تو اس کی مثال اس مسافر کی سی ہو
گی جو اپنے راہ جاننے والے رفقاء کے ساتھ جنگل میں سفر کر رہا تھا کہ ناگاہ غول
بیابانی (خبیث جنات) نے اسے بہکا کر راستہ سے الگ کر دیا۔ وہ چاروں طرف بھٹکتا
پھرتا ہے اور اس کےرفقاء ازراہ خیر خواہی اسے آوازیں دے رہے ہیں کہ ادھر آؤ
راستہ اس طرف ہے۔ مگر وہ حیران و مخبوط الحواس ہو کر نہ کچھ سمجھتا ہے نہ ادھر
آتا ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کہ مسافر آخرت کے لئےسیدھی راہ اسلام و توحید کی ہے اور
جن کی رفاقت و معیت میں یہ سفر طے ہوتا ہے وہ پیغمبر اور اس کے متبعین ہیں۔ جب
یہ بدبخت شیاطین و مضلین کے پنجہ میں پھنس کر صحرائے ضلالت میں بھٹکتا پھرتا ہے
اس کے ہادی اور رفقاء ازراہ ہمدردی جادۂ حق کی طرف بلا رہے ہیں مگر یہ نہ کچھ
سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ تو اے گروہ اشرار کیا تمہاری یہ غرض ہے کہ ہم اپنی ایسی
مثال بنا لیں یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں اتری ہے جنہوں نے مسلمانوں سے ترک
اسلام کی درخواست کی تھی۔
|
ہم
سے یہ امید مت رکھو کہ اسے چھوڑ کر ہم شیطان کی بتلائی ہوئی راہوں پر چلیں گے۔
|
وَلا
تَسُبُّوا الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ
اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدوًا بِغَيرِ عِلمٍ ۗ كَذٰلِكَ زَيَّنّا لِكُلِّ
أُمَّةٍ عَمَلَهُم ثُمَّ إِلىٰ رَبِّهِم مَرجِعُهُم فَيُنَبِّئُهُم بِما كانوا
يَعمَلونَ {6:108}
|
اور جن لوگوں کو یہ مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان
کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں اللہ کو بےادبی سے بے سمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں۔
اس طرح ہم نے ہر ایک فرقے کے اعمال (ان کی نظروں میں) اچھے کر دکھائے ہیں۔ پھر
ان کو اپنے پروردگار ک طرف لوٹ کر جانا ہے تب وہ ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کیا
کرتے تھے
|
دوسروں کے معبودوں کو برا نہ کہو:یعنی
تم تبلیغ و نصیحت کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکے۔ اب جو کفر و شرک یہ لوگ کریں
اس کے خود ذمہ دار ہیں۔ تم پر اس کی کچھ ذمہ داری نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ تم
اپنی جانب سے بلاضرورت ان کے مزید کفر و تعنت کا سبب نہ بنو۔ مثلًا فرض کیجئے ان
کے مذہب کی تردید یا بحث و مناظرہ کے سلسلہ میں تم غصہ ہو کر ان کے معبودوں اور
مقتداؤں کو سب و شتم کرنے لگو جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ جواب میں تمہارے معبود
برحق اور محترم بزرگوں کی بےادبی کریں گے اور جہالت سے انہیں گالیاں دیں گے۔ اس
صورت میں اپنے واجب التعظیم معبود اور قابل احترام بزرگوں کی اہانت کا سبب تم
بنے۔ لہذا اس سے ہمیشہ احتراز کرنا چاہیئے۔ کسی مذہب کے اصول و فروع کی معقول
طریقہ سے غلطیاں ظاہر کرنا یا اس کی کمزوری اور رکاکت پر تحقیقی و الزامی طریقوں
سے متنبہ کرنا جداگانہ چیز ہے۔ لیکن کسی قوم کے پیشواؤں اور معبودوں کی نسبت
بغرض تحقیر و توہین دلخراش الفاظ نکالنا قرآن نے کسی وقت بھی جائز نہیں رکھا۔
|
یعنی دنیا چونکہ
دارلامتحان ہے۔ اس کا نظام ہم نے ایسا رکھا ہے اور ایسے اسباب جمع کر دیئے ہیں
کہ یہاں ہر قوم اپنے اعمال اور طور طریقوں پر نازاں رہتی ہے، انسانی دماغ کی
ساخت ایسی نہیں بنائی کہ وہ صرف سچائی کے قبول اور پسند کرنے پر مجبور ہو غلطی
کی طرف گنجائش ہی نہ رکھے۔ ہاں اللہ کے یہاں جا کر جب تمام حقائق سامنے ہوں گے،
پتہ چلے جائے گا کہ جو کام دنیا میں کرتے تھے وہ کیسے تھے۔
|
قُل
أَمَرَ رَبّى بِالقِسطِ ۖ وَأَقيموا وُجوهَكُم عِندَ كُلِّ مَسجِدٍ وَادعوهُ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ ۚ كَما بَدَأَكُم
تَعودونَ {7:29}
|
کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف کرنے کا حکم
دیا ہے۔ اور یہ کہ ہر نماز کے وقت سیدھا (قبلے کی طرف) رخ کیا کرو اور خاص اسی
کی عبادت کرو اور اسی کو پکارو۔ اس نے جس طرح تم کو ابتداء میں پیدا کیا تھا اسی
طرح تم پھر پیدا ہوگے
|
فواحش کی مذمت:روح
المعانی میں ہے "القسط علی ما قال غیر واحد العدل و ہوا لوسط من کل شیٔ
المتجافی عن طرفی الافراط و التفریط" آیت کا حاصل یہ ہوا کہ حق تعالیٰ نے
ہر کام میں توسط و اعتدال پر رہنے اور افراط و تفریط سے بچنے کی ہدایت کی ہے پھر
بھلا فواحش کا حکم کیسے دے سکتے ہیں۔
|
اخلاص کا حکم:مترجم
محقق نے { مَسْجِدً } کو غالبًا مصدر میمی بمعنی سجود لے کر تجوزًا نماز کا
ترجمہ کیا ہے اور "وجوہ" کو اپنے ظاہر پر رکھا ہے۔ یعنی نماز ادا کرنے
کے وقت اپنا منہ سیدھا (کعبہ کی طرف) رکھو۔ مگر دوسرے بعض مفسرین { اَقِیْمُوْا
وُجُوْ ھَکُمْ } سے یہ مراد لیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کی طرف ہمیشہ استقامت کے
ساتھ دل سے متوجہ رہو۔ ابن کثیرؒ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی عبادات میں
سیدھے رہو۔ جو راستہ پیغمبرﷺ کا ہے اس سے ٹیڑھے ترچھےنہ چلو۔
عبادت کی مقبولیت دو ہی چیزوں پر موقوف تھی اللہ کے لئے ہو۔ جس کو آگے فرمادیا۔ {
وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ } اور اس مشروع طریق کے موافق ہو جو
انبیاء و مرسلینؑ نے تجویز فرمایا ہے۔ اس کو { اَقِیْمُوْا وُجُوْ ھَکُمْ } میں
ادا کیا گیا۔ بہرحال اس آیت میں اوامر شرعیہ کی تمام انواع کی طرف اشارہ کر دیا
ہے جو بندوں کے معاملات سے متعلق ہیں وہ سب "قسط" میں آ گئے اور جن کا
تعلق اللہ سے ہے اگر قالبی ہیں تو { اَقِیْمُوْا وُجُوْ ھَکُمْ } میں اور قلبی ہیں
تو { وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ } میں مندرج ہو گئے۔
|
یعنی انسان کو
اعتدال، استقامت اور اخلاص کی راہوں پر چلنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ موت کے بعد
دوسری زندگی ملنے والی ہے جس میں موجودہ زندگی کے نتائج سامنے آئیں گے اس کی فکر
ابھی سے ہونی چاہیئے۔ { ولتنظر نفس ما قدمت لغد }۔ (الحشر۔۱۸)
|
فَمَن
أَظلَمُ مِمَّنِ افتَرىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَو كَذَّبَ بِـٔايٰتِهِ ۚ
أُولٰئِكَ يَنالُهُم نَصيبُهُم مِنَ الكِتٰبِ ۖ حَتّىٰ إِذا جاءَتهُم رُسُلُنا
يَتَوَفَّونَهُم قالوا أَينَ ما كُنتُم تَدعونَ
مِن دونِ اللَّهِ ۖ قالوا ضَلّوا عَنّا وَشَهِدوا عَلىٰ أَنفُسِهِم أَنَّهُم
كانوا كٰفِرينَ {7:37}
|
تو اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے
یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے۔ ان کو ان کے نصیب کا لکھا ملتا ہی رہے گا یہاں تک کہ
جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) جان نکالنے آئیں گے تو کہیں گے کہ جن کو
تم اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے وہ (اب) کہاں ہیں؟ وہ کہیں گے (معلوم نہیں) کہ وہ
ہم سے (کہاں) غائب ہوگئے اور اقرار کریں گے کہ بےشک وہ کافر تھے
|
ہبوط آدم علیہ السلام:یعنی
ان سچے پیغمبروں کی تصدیق کرنا ضروری ہے جو واقعی اللہ کی آیات سناتے ہیں باقی جو
شخص پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کر کےاور
جھوٹی آیات بنا کر اللہ پر افتراء کرے یا کسی سچے پیغمبر کو اور اس کی لائی ہوئی
آیات کو جھٹلائے ان دونوں سے زیادہ ظالم کوئی نہیں۔
|
یعنی
دنیا میں عمر و رزق وغیرہ جتنا مقدر ہے یا یہاں کی ذلت و رسوائی جو ان کے لئے
لکھی ہے وہ پہنچے گی۔ پھر مرتے وقت اور مرنے کے بعد جو گت بنے گی اس کا ذکر آگے
آتا ہے اور اگر { نَصِیْبُھُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ } سے دنیا کا نہیں عذاب آخروی کا
حصہ مراد لیا جائے تو { حَتّٰی اِذَا جَآءَتْھُمْ } سے اس پر تنبیہ ہو گی کہ اس
عذاب کے مبادی کا سلسلہ اسی دنیوی زندگی کے آخری لمحات سے شروع ہو جاتا ہے۔
|
یعنی
جب فرشتے نہایت سختی سے ان کی روح قبض کر کے برے حال سے لے جاتے ہیں تو ان
سےکہتے ہیں کہ اللہ کے سوا جن کو تم پکارا کرتے تھے وہ کہاں گئے جو اب تمہارےکام
نہیں آتے، انہیں بلاؤ تاکہ اس مصیبت سے تمہیں چھڑائیں۔ اس وقت کفار کو اقرار
کرنا پڑتا ہے کہ ہم سخت غلطی میں پڑے تھے کہ ایسی چیزوں کو معبود و مستعان بنایا
جو اس کے مستحق نہ تھے۔ آج ہماری اس مصیبت میں ان کا کہیں پتہ نہیں لیکن یہ
ناوقت کا اقرار و ندامت کیا نفع دے سکتا ہے۔ حکم ہو گا { ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ
} الخ باقی بعض مواضع میں جو وارد ہوا ہے کہ وہ اپنے کفر وشرک سے انکار کریں گے،
اس آیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ قیامت میں مواقف اور احوال مختلف ہونگے اور
جماعتیں بھی بےشمار ہوں گی۔ کہیں ایک موقف یا ایک جماعت کا ذکر ہے کہیں دوسری
کا۔
|
ادعوا
رَبَّكُم تَضَرُّعًا وَخُفيَةً ۚ إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ {7:55}
|
(لوگو) اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے
چپکے دعائیں مانگا کرو۔ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
|
اللہ کو پکارنے کا طریقہ:جب
"عالم خلق و امر" کا مالک اور تمام برکات کا منبع وہ ہی ذات ہے تو اپنی
دنیوی و اخروی حوائج میں اسی کو پکارنا چاہئے۔ الحاح و اخلاص اور خشوع کےساتھ
بدون ریاکاری کے آہستہ آہستہ اس سے معلوم ہوا کہ دعاء میں اصل اخفاء ہے اور یہی
سلف کا معمول تھا۔ بعض مواضع میں جہر و اعلان کسی عارض کی وجہ سے ہوگا۔ جس کی
تفصیل روح المعانی وغیرہ میں ہے۔
|
یعنی دعاء میں حد
ادب سے نہ بڑھے ۔ مثلًا جو چیزیں عادتًا یا شرعًا محال ہیں وہ مانگنے لگے یا
معاصی اور لغو چیزوں کی طلب کرے یا ایسا سوال کرے جو اس کی شان و حیثیت کے مناسب
نہیں، یہ سب "اعتداء فی الدعاء" میں داخل ہے۔
|
وَلا
تُفسِدوا فِى الأَرضِ بَعدَ إِصلٰحِها وَادعوهُ
خَوفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحمَتَ اللَّهِ قَريبٌ مِنَ المُحسِنينَ {7:56}
|
اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور اللہ سے
خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ کی رحمت
نیکی کرنے والوں سے قریب ہے
|
اللہ کو پکارنے کا طریقہ:پچھلی
آیتوں میں ہر حاجت کے لئے اللہ کو پکارنے کا طریقہ بتلایا تھا۔ اس آیت میں مخلوق
اور خالق دونوں کے حقوق کی رعایت سکھلائی یعنی جب دنیا میں معاملات کی سطح درست
ہو تو تم اس میں گڑ بڑی نہ ڈالو اور خوف و رجاء کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول
رہو۔ نہ اس کی رحمت سے مایوس ہو اور نہ اس کےعذاب سے مامون اور بےفکر ہو کر
گناہوں پر دلیر بنو۔ میرے نزدیک یہ ہی راجح ہے کہ یہاں { وَادْعُوْہُ } الخ میں
دعاء سے عبادت مراد لی جائے۔ جیسا کہ صلوٰۃ تہجد کے بارہ میں فرمایا۔ {
تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ
طَمَعًا }۔ (السجدہ۔۱۶)
|
وَلِلَّهِ
الأَسماءُ الحُسنىٰ فَادعوهُ بِها ۖ
وَذَرُوا الَّذينَ يُلحِدونَ فى أَسمٰئِهِ ۚ سَيُجزَونَ ما كانوا يَعمَلونَ
{7:180}
|
اور اللہ کے سب نام اچھے ہی اچھے ہیں۔ تو اس کو اس
کے ناموں سے پکارا کرو اور جو لوگ اس کے ناموں میں کجی اختیار کرتے ہیں ان کو
چھوڑ دو۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اس کی سزا پائیں گے
|
اسمائے حسنیٰ کے ساتھ دعا کا حکم:غافلین
کا حال ذکر کر کے مومنین کو متنبہ فرمایا ہے کہ تم غفلت اختیار نہ کرنا۔ غلفت
دور کرنے والی چیز اللہ کی یاد ہے سو تم ہمیشہ اس کو اچھے ناموں سے پکارو اور
اچھی صفات سے یاد کرو جو لوگ اس کے اسماء و صفات کے بارہ میں کج روش اخیتارکرتے
ہیں انہیں چھوڑ دو وہ جیسا کریں گے ویسا بھریں گے۔ اللہ کے ناموں اور صفتوں کے
متعلق کجروی یہ ہے کہ اللہ پر ایسے نام یا صفت کا اطلاق کرے جس کی شریعت نے اجازت
نہیں دی اور جو حق تعالیٰ کی تعظیم و اجلال کے لائق نہیں۔ یا اس کے مخصوص نام
اور صفت کا اطلاق غیر اللہ پر کرے، یا ان کے معانی بیان کرنے میں بے اصول تاعل
اور کھینچ تان کرے۔ یا ان کو معصیت (مثلًا سحر وغیرہ) کے مواقع میں استعمال کرنے
لگے۔ یہ سب کجروی ہے۔
|
هُوَ
الَّذى خَلَقَكُم مِن نَفسٍ وٰحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنها زَوجَها لِيَسكُنَ إِلَيها
ۖ فَلَمّا تَغَشّىٰها حَمَلَت حَملًا خَفيفًا فَمَرَّت بِهِ ۖ فَلَمّا أَثقَلَت دَعَوَا اللَّهَ رَبَّهُما لَئِن ءاتَيتَنا
صٰلِحًا لَنَكونَنَّ مِنَ الشّٰكِرينَ {7:189}
|
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا
اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اس کے پاس جاتا
ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر جب کچھ
بوجھ معلوم کرتی یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے پروردگار
خدائے عزوجل سے التجا کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں صحیح وسالم (بچہ) دے گا تو ہم
تیرے شکر گذار ہوں گے
|
إِنَّ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمثالُكُم ۖ فَادعوهُم
فَليَستَجيبوا لَكُم إِن كُنتُم صٰدِقينَ {7:194}
|
(مشرکو) جن کو تم اللہ کے سوا
پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم ان کو پکارو اگر سچے ہو تو
چاہیئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں
|
أَلَهُم
أَرجُلٌ يَمشونَ بِها ۖ أَم لَهُم أَيدٍ يَبطِشونَ بِها ۖ أَم لَهُم أَعيُنٌ
يُبصِرونَ بِها ۖ أَم لَهُم ءاذانٌ يَسمَعونَ بِها ۗ قُلِ ادعوا شُرَكاءَكُم ثُمَّ كيدونِ فَلا تُنظِرونِ
{7:195}
|
بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے
پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں؟ کہہ دو کہ اپنے شریکوں
کو بلالو اور میرے بارے میں (جو) تدبیر (کرنی ہو) کرلو اور مجھے کچھ مہلت بھی نہ
دو (پھر دیکھو کہ وہ میرا کیا کرسکتے ہیں)
|
بتوں کی پوجا خلاف عقل ہے:جن
بتوں کو تم نے معبود ٹھہرایا ہے اور خدائی کا حق دیا ہے وہ تمہارے کام تو کیا
آتے خود اپنی حفاظت پر بھی قادر نہیں اور باوجود مخلوق ہونے کے ان کمالات سے
محروم ہیں جن سے کسی مخلوق کو دوسری پر تفوق و امتیاز حاصل ہو سکتا ہے۔ گو ان کے
ظاہری ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان سب کچھ تم بناتے ہو لیکن ان اعضاء میں وہ قوتیں
نہیں جن سے انہیں اعضاء کہا جا سکے۔ نہ تمہارے پکارنے سے مصنوعی پاؤں سے چل کر
آسکتے ہیں۔ نہ ہاتھوں سے کوئی چیز پکڑ سکتے ہیں، نہ آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، نہ
کانوں سے کوئی بات سنتے ہیں۔ اگر پکارتے پکارتے تمہارا گلا پھٹ جائے گا تب بھی
وہ تمہاری آواز سننے والے اور اس پر چلنے والے یا اس کا جواب دینے والے نہیں۔ تم
ان کے سامنے چلاؤ یا خاموش رہو، دونوں حالتیں یکساں ہیں۔ نہ اس سے فائدہ نہ اس
سے نفع تعجب ہے کہ جو چیزیں مملوک و مخلوق ہونے میں تم ہی جیسی عاجز و درماندہ
بلکہ وجود و کمالات وجود میں تم سے بھی گئ گزری ہوں انہیں اللہ بنا لیا جائے اور
جو اس کا رد کرے اسے نقصان پہنچنے کی دھمکیاں دی جائیں۔ آنحضرت ﷺ کو
مشرکین کی دھمکیاں: چنانچہ مشرکین مکہ نبی کریم ﷺ کو کہتے تھے کہ آپ ہمارے بتوں
کی
بےادبی کرنا چھوڑ دیں ورنہ نہ معلوم وہ کیا آفت تم پر نازل کر دیں { وَیُخَوِّ
فُوْنَکَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ } (زمر رکوع۴) اسی کا جواب { قُلِ ادْعُوْا شُرَکَآءَ کُمْ } الخ
سے دیا یعنی تم اپنے سب شرکاء کو پکارو اور میرے خلاف اپنے سب منصوبے اور
تدبیریں پوری کر لو، پھر مجھ کو ایک منٹ کی مہلت بھی نہ دو۔ دیکھوں تم میرا کیا
بگاڑ سکو گے۔
|
وَالَّذينَ تَدعونَ مِن دونِهِ لا يَستَطيعونَ نَصرَكُم وَلا
أَنفُسَهُم يَنصُرونَ {7:197}
|
اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ نہ
تمہاری ہی مدد کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ خود ہی اپنی مدد کرسکتے ہیں
|
وَإِن
تَدعوهُم إِلَى الهُدىٰ لا يَسمَعوا ۖ
وَتَرىٰهُم يَنظُرونَ إِلَيكَ وَهُم لا يُبصِرونَ {7:198}
|
اور اگر تم ان کو سیدھے رستے کی طرف بلاؤ تو سن نہ
سکیں اور تم انہیں دیکھتے ہو کہ (بہ ظاہر) آنکھیں کھولے تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں
مگر (فی الواقع) کچھ نہیں دیکھتے
|
بتوں کی پوجا خلاف عقل ہے:یعنی
بظاہر آنکھیں بنی ہوئی ہیں، پر ان میں بینائی کہاں؟
|
وَإِذا
مَسَّ الإِنسٰنَ الضُّرُّ دَعانا
لِجَنبِهِ أَو قاعِدًا أَو قائِمًا فَلَمّا كَشَفنا عَنهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن
لَم يَدعُنا إِلىٰ ضُرٍّ مَسَّهُ ۚ
كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلمُسرِفينَ ما كانوا يَعمَلونَ {10:12}
|
اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹا اور بیٹھا
اور کھڑا (ہر حال میں) ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کر دیتے
ہیں تو (بےلحاظ ہو جاتا ہے اور) اس طرح گزر جاتا ہے گویا کسی تکلیف پہنچنے پر
ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کو ان کے اعمال آراستہ
کرکے دکھائے گئے ہیں
|
یعنی
انسان اول بے باکی سے خود عذاب طلب کرتا اور برائی اپنی زبان سے مانگتا ہے۔ مگر
کمزور اور بودا اتنا ہے کہ جہاں ذرا تکلیف پہنچی ، گھبرا کر ہمیں پکارنا شروع کر
دیا۔ جب تک مصیبت رہی کھڑے ، بیٹھے ، لیٹے ہر حالت میں اللہ کو پکارتا رہا۔ پھر
جہاں تکلیف ہٹا لی گئ، سب کہاسنا بھول گیا۔ گویا اللہ سے کبھی کوئی واسطہ نہ تھا۔
وہ ہی غرور و غلفت کا نشہ ، وہ ہی اکڑفوں رہ گئ جس میں پہلے مبتلا تھا۔ حدیث میں
ہے کہ تو اللہ کو اپنے عیش و آرام میں یاد رکھ ، اللہ تجھ کو تیری سختی اور مصیبت
میں یاد رکھے گا۔ مومن کی شان یہ ہے کہ کسی وقت اللہ کو نہ بھولے ۔ سختی پر صبر
اور فراخی پر اللہ کا شکر ادا کرتا رہے۔ یہ ہی وہ چیز ہے جس کی توفیق مومن کے سوا
کسی کو نہیں ملتی۔
|
هُوَ
الَّذى يُسَيِّرُكُم فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۖ حَتّىٰ إِذا كُنتُم فِى الفُلكِ
وَجَرَينَ بِهِم بِريحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحوا بِها جاءَتها ريحٌ عاصِفٌ
وَجاءَهُمُ المَوجُ مِن كُلِّ مَكانٍ وَظَنّوا أَنَّهُم أُحيطَ بِهِم ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ لَئِن
أَنجَيتَنا مِن هٰذِهِ لَنَكونَنَّ مِنَ الشّٰكِرينَ {10:22}
|
وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے
اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے اور
کشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم جھونکوں) سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور
وہ ان سے خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے اور لہریں ہر طرف سے
ان پر (جوش مارتی ہوئی) آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (اب تو) لہروں میں
گھر گئے تو اس وقت خالص اللہ ہی کی عبادت کرکے اس سے دعا مانگنے لگتے ہیں کہ (اے
خدا) اگر تو ہم کو اس سے نجات بخشے تو ہم (تیرے) بہت ہی شکر گزار ہوں
|
أَلا
إِنَّ لِلَّهِ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَمَن فِى الأَرضِ ۗ وَما يَتَّبِعُ الَّذينَ
يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ شُرَكاءَ ۚ إِن
يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُصونَ {10:66}
|
سن رکھو کہ جو مخلوق آسمانوں میں ہے اور جو زمین
میں ہے سب اللہ کے (بندے اور اس کے مملوک) ہیں۔ اور یہ جو اللہ کے سوا (اپنے بنائے
ہوئے) شریکوں کو پکارتے ہیں۔ وہ (کسی اور چیز کے) پیچھے نہیں چلتے۔ صرف ظن کے
پیچھے چلتے ہیں اور محض اٹکلیں دوڑا رہے ہیں
|
یعنی
کل زمین و آسمان میں خدائے واحد کی سلطنت ہے۔ سب جن و انس اور فرشتے اسی کے
مملوک و مخلوق ہیں۔ مشرکین کا غیر اللہ کو پکارنا اور انہیں خدائی کا حصہ دار
بنانا ، محض اٹکل کے تیر اور واہی تباہی خیالات ہیں۔ ان کے ہاتھ میں نہ کوئی
حقیقت ہے نہ حجت و برہان ، خالی اوہام و ظنون کی اندھیریوں میں پڑے ٹھوکریں کھا
رہے ہیں۔
|
وَلا تَدعُ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُكَ وَلا يَضُرُّكَ ۖ
فَإِن فَعَلتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظّٰلِمينَ {10:106}
|
اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ
پکارنا جو نہ تمہارا کچھ بھلا کرسکے اور نہ کچھ بگاڑ سکے۔ اگر ایسا کرو گے تو
ظالموں میں ہوجاؤ گے
|
یعنی
اگر میرا طریقہ اور مسلک دینی تمہاری سمجھ میں نہیں آیا اس لئے اس کی نسبت شکوک
و شبہات میں پھنسے ہوئے ہو تو میں تمہیں اپنے دین کا اصل اصول (جو توحید خالص
ہے) سمجھائے دیتا ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ میں تمہارے ان فرضی معبودوں کی عبادت
سےسخت نفور اور بیزار ہوں جس کے اختیار کرنے کا امکان بھی کبھی میری طرف سے دل
میں نہ لانا۔ میری عبادت خالص اس خداوند قدوس کے لئے ہے جس کے قبضہ میں تمہاری
سب کی جانیں ہیں ۔ کہ جب تک چاہے انہیں جسموں میں چھوڑے رکھے اور جب چاہے ایک دم
میں کھینچ لے گویا موت و حیات کا رشتہ جس کے ہاتھ میں ہے بندگی اسی کی ہو سکتی
ہے نہ صرف یہ کہ جوارح سے اس کی بندگی کی جائے ضروری ہے کہ دل میں اس کی توحید و
تفرید پر پورا یقین و ایمان ہو اور ظاہر و باطن میں اسی دین حنیف پر جو ابراہیم
خلیل اللہ کا دین ہے پوری ہمت اور توجہ سے مستقیم رہ کر شرک جلی و خفی کا تسمہ
نہ لگا رہنے دیا جائے۔ جس طرح عبادت صرف اسی کی کریں۔ استعانت کے لئے بھی اسی کو
پکاریں کیونکہ ہر قسم کا نفع نقصان اور بھلائی برائی تنہا اسی کے قبضہ میں ہے
مشرکین کی طرح ایسی چیزوں کو مدد کے لئے پکارنا جو کسی نفع نقصان کے مالک نہ ہوں
سخت بے موقع بات بلکہ ظلم عظیم (یعنی شرک) کا ایک شعبہ ہے۔ اگر بفرض محال نبی سے
ایسی حرکت صادر ہو تو ان کی عظیم الشان شخصیت کو لحاظ کرتے ہوئے ظلم اعظم ہو گا۔
|
وَما
ظَلَمنٰهُم وَلٰكِن ظَلَموا أَنفُسَهُم ۖ فَما أَغنَت عَنهُم ءالِهَتُهُمُ
الَّتى يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ مِن
شَيءٍ لَمّا جاءَ أَمرُ رَبِّكَ ۖ وَما زادوهُم غَيرَ تَتبيبٍ {11:101}
|
اور ہم نے ان لوگوں پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے
خود اپنے اُوپر ظلم کیا۔ غرض جب تمہارے پروردگار کا حکم آپہنچا تو جن معبودوں کو
وہ اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے۔ اور تباہ کرنے کے
سوا ان کے حق میں اور کچھ نہ کرسکے
|
یعنی
اللہ نے کسی کو بے قصور نہیں پکڑا جو ظلم کا وہم ہو سکے ، جب وہ جرائم کے ارتکاب
میں حد سے نکل گئے اور اس طرح اپنے کو کھلم کھلا سزا کا مستحق ٹھہرا دیا تب اللہ کا عذاب آیا۔ پھر دیکھ لو جن معبودوں (دیوتاؤں) کا انہیں بڑا سہارا تھا اور جن
سے بڑی بڑی توقعات قائم کر رکھی تھیں وہ ایسی سخت مصیبت کے وقت کچھ بھی کام نہ
آئے۔
|
باطل
معبود کام کیا آتے ؟ الٹے ہلاکت کا سبب بنے ۔ جب انہیں نفع و ضرر کا مالک سمجھا
، امیدیں قائم کیں، چڑھاوے چڑھائے ۔ تعظیم اور ڈنڈوت کی ، تو یہ روز بد دیکھنا
پڑا۔ تکذیب انبیاء وغیرہ کا جو عذاب ہوتا ، شرک و بت پرستی کا عذاب اس پر مزید
رہا۔
|
لَهُ دَعوَةُ الحَقِّ ۖ وَالَّذينَ يَدعونَ مِن دونِهِ لا يَستَجيبونَ لَهُم بِشَيءٍ
إِلّا كَبٰسِطِ كَفَّيهِ إِلَى الماءِ لِيَبلُغَ فاهُ وَما هُوَ بِبٰلِغِهِ ۚ
وَما دُعاءُ الكٰفِرينَ إِلّا فى ضَلٰلٍ
{13:14}
|
سودمند پکارنا تو اسی کا ہے اور جن کو یہ لوگ اس کے
سوا پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرتے مگر اس شخص کی طرح جو
اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا دے تاکہ (دور ہی سے) اس کے منہ تک آ پہنچے
حالانکہ وہ (اس تک کبھی بھی) نہیں آسکتا اور (اسی طرح) کافروں کی پکار بیکار ہے
|
معبودان باطل سے دعا کی مثال:یعنی
پکارنا اسی کا چاہئےجو ہر قسم کے نفع و ضرر کا مالک ہے ۔ عاجز کو پکارنے سے کیا
حاصل ؟ اللہ کے سوا کون ہے جس کے قبضہ میں اپنا یا دوسروں کا نفع و ضرر ہے ؟ غیر
اللہ کو اپنی مدد کے لئے بلانا ایسا ہے جیسے کوئی پیاسا کنویں کی من پر کھڑا ہو
کر پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے اور خوشامد کرے کہ میرے منہ میں پہنچ جا۔ ظاہر ہے
قیامت تک پانی اس کی فریاد کو پہنچنے والا نہیں۔ بلکہ اگر پانی اس کی مٹھی میں
ہو۔ تب بھی خود چل کر منہ تک نہیں جا سکتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ
"کافر جن کو پکارتے ہیں بعضے محض خیالات و اوہام ہیں ، بعضے جن اور شیاطین
ہیں ، اور بعضی چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں ، لیکن اپنے خواص کی مالک نہیں
۔ پھر ان کے پکارنے سے کیا حاصل" ؟ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی
قسم میں ہوں۔"
|
وَالَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ لا يَخلُقونَ شَيـًٔا وَهُم
يُخلَقونَ {16:20}
|
اور جن لوگوں کو یہ اللہ کے سوا پکارتے
ہیں وہ کوئی چیز بھی تو نہیں بناسکتے بلکہ خود ان کو اور بناتے ہیں
|
اُنکے معبود خود مخلوق ہیں:اللہ تو وہ ہے جس کے عظیم الشان اور غیر محصور انعامات کا اوپر تذکرہ ہوا۔ اب مشرکین
کی حماقت ملاحظہ ہو کہ ایسے عالم الکل اور اللہ کا شریک ان چیزوں کو ٹھہرا دیا۔
جو ایک گھاس کا تنکا پیدا نہیں کر سکتیں ، بلکہ خود ان کا وجود بھی اللہ کا پیدا
کیا ہوا ہے۔
|
وَإِذا
رَءَا الَّذينَ أَشرَكوا شُرَكاءَهُم قالوا رَبَّنا هٰؤُلاءِ شُرَكاؤُنَا
الَّذينَ كُنّا نَدعوا مِن دونِكَ ۖ
فَأَلقَوا إِلَيهِمُ القَولَ إِنَّكُم لَكٰذِبونَ {16:86}
|
اور جب مشرک (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو دیکھیں گے
تو کہیں گے کہ پروردگار یہ وہی ہمارے شریک ہیں جن کو ہم تیرے سوا پُکارا کرتے
تھے۔ تو وہ (اُن کے کلام کو مسترد کردیں گے اور) اُن سے کہیں گے کہ تم تو جھوٹے
ہو
|
کفار اور انکے جھوٹے معبود: یعنی
ہم تو ان کی بدولت مارے گئے ۔ شاید مطلب ہو کہ ہم بذات خود بے قصور ہیں ، یا یہ
کہ انہیں دوہری سزا دیجئے۔
|
باطل معبودوں کا جواب:یعنی
جھوٹے ہو جو ہم کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا۔ ہم نے کب کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو۔
فی الحقیقت تم محض اپنے اوہام و خیالات کو پوجتے تھے جس کے نیچے کوئی حقیقت نہ
تھی ، یا جن و شیاطین کی پرستش کرتے تھے ۔ مگر وہاں شیطان بھی یہ کہہ کر الگ ہو
جائے گا۔ { وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ
دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا
اَنْفُسَکُمْ } (ابراھیم رکوع۴) غرض
جن چیزوں کو مشرکین نے معبود بنا رکھا تھا ، سب اپنی علیحدگی اور بیزاری کا
اظہار کریں گے ، کوئی سچ کوئی جھوٹ ، پتھر کے بتوں کو تو سرے سے کچھ خبر ہی نہ
تھی۔ ملائکہ اور بعض انبیاء و صالحین ہمیشہ شرک سے سخت نفرت و بیزاری اور اپنی
خالص بندگی کا اظہار کرتے رہے۔ رہ گئے شیاطین سو ان کا اظہار نفرت گو جھوٹ ہو گا
، تاہم اس سے مشرکین کو کلی طور پر مایوسی ہو جائے گی کہ آج بڑے سے بڑا رفیق بھی
کام آنے والا نہیں۔
|
وَيَدعُ
الإِنسٰنُ بِالشَّرِّ دُعاءَهُ بِالخَيرِ
ۖ وَكانَ الإِنسٰنُ عَجولًا {17:11}
|
اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی
طرح برائی مانگتا ہے۔ اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے
|
انسان کی ناعاقبت اندیشی:یعنی
قرآن تو لوگوں کو سب سے بڑی بھلائی کی طرف بلاتا اجر کبیر کی بشارتیں سناتا ،
اور بدی کے مہلک نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ لیکن حضرت انسان کا حال یہ ہے کہ وہ سب
کچھ سننے کے بعد بھی اپنے لئے برائی کو اسی اشتیاق و الحاج سے طلب کرتا ہے۔ جس
طرح کوئی بھلائی مانگتا ہو ، یا جیسے بھلائی طلب کرنا چاہئے وہ انجام کی طرف سے
آنکھیں بند کر کے بڑی تیزی کےساتھ گناہوں اور برائیوں کی طرف لپکتا ہے بلکہ بعض
بدبخت تو صاف لفظوں میں زبان سے کہہ اٹھتے ہیں ۔ { اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا
ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ
اَوِائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ } (خداوند ! اگر پیغمبر اپنے دعوے میں سچے ہیں
تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دیجئے یا اور کوئی سخت عذاب نازل کیجئے) بعض بے
وقوف غصہ سے جھنجھلا کر اپنے حق میں یا اپنی اولاد وغیرہ کے حق میں بے سوچے
سمجھے بد دعا کر بیٹھتے ہیں بعض دنیا کے نفع عاجل کو معبود بنا کر ہر ایک حلال و
حرام طریقہ سے اس کی طرف دوڑتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس لہلہاتے پودے کے نیچے
سانپ بچھو بھی چھپے ہوئے ہیں۔ جو انجام کار ہلاکت کے گڑھے میں پہنچا کر رہیں گے
۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنی جلد بازی سے کسی چیز کی ظاہری ٹیپ ٹاپ کو دیکھ لیتا
ہے ، بدی کے دورس نتائج پر غور نہیں کرتا ۔ بس جو بات کسی وقت سانح ہوئی فورًا
کہہ ڈالی یا ایک دم کر گذرا ۔ جدھر قدم اٹھ گیا بے سوچے سمجھے ادھر ہی بڑھتا چلا
گیا۔ اگر جلد بازی چھوڑ کر متانت ، تدبر اور انجام بینی سے کام لے تو کبھی ایسی
غلطیاں نہ کرے۔
|
قُلِ
ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِهِ
فَلا يَملِكونَ كَشفَ الضُّرِّ عَنكُم وَلا تَحويلًا {17:56}
|
کہو کہ (مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں (معبود ہونے
کا) گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے
کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے
|
معبودان باطل کی حقیقت:یعنی
اللہ تو وہ ہے کہ جس کو چاہے عذاب دے جس پر چاہے مہربانی فرمائے ، جس کو جس قدر
چاہے دوسروں پر فضیلت عطا کرے ، اس کی قدرت کامل اور علم محیط ہو ۔ اب ذرا
مشرکین ان ہستیوں کو پکاریں جن کو انہوں نے اللہ سمجھ رکھا یا بنا رکھا ہے۔ کیا
ان میں ایک بھی ایسا مستقل اختیار رکھتا ہے کہ ذرا سی تکلیف کو تم سے دور کر سکے
یا ہلکی کر دے یا تم سے اٹھا کر کسی دوسرے پر ڈال دے۔ پھر ایسی ضعیف و عاجز
مخلوق کو معبود ٹھہرا لینا کیسے روا ہو گا۔
|
أُولٰئِكَ
الَّذينَ يَدعونَ يَبتَغونَ إِلىٰ
رَبِّهِمُ الوَسيلَةَ أَيُّهُم أَقرَبُ وَيَرجونَ رَحمَتَهُ وَيَخافونَ عَذابَهُ
ۚ إِنَّ عَذابَ رَبِّكَ كانَ مَحذورًا {17:57}
|
یہ لوگ جن کو (اللہ کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے
پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (اللہ کا) زیادہ
مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے
ہیں۔ بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے
|
معبودان باطل کی حقیقت:بخاری
میں روایت ہے کہ کچھ لوگ جاہلیت میں جنات کی عبادت کرتے تھے ۔ وہ جن مسلمان ہو
گئے اور یہ پوجنے والے اپنی جہالت پر قائم رہے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔
بعض کہتے ہیں کہ جن ، ملائکہ ، مسیحؑ و عزیرؑ وغیرہ کے پوجنے والے سب اس میں
شامل ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جن ہسیتوں کو تم معبود و مستعان سمجھ کر پکارتے ہو ،
وہ خود اپنے رب کا بیش از بیش قرب تلاش کرتے ہیں۔ ان کی دوادوش صرف اس لئے ہے کہ
اللہ کی نزدیکی حاصل کرنے میں کون آگے نکلتا ہے ، ان میں جو زیادہ مقرب ہیں وہ ہی
زیادہ قرب الہٰی کے طالب رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کسی سب سے زیادہ مقرب بندہ
کی دعا وغیرہ کو حصول قرب کا وسیلہ بنائیں ۔ پس جب تمہارے تجویز کئے ہوئے
معبودوں کا اللہ کے سامنے یہ حال ہے تو اپنے تئیں خود فیصلہ کر لو کہ اللہ تعالیٰ
کو خوش رکھنا کہاں تک ضروری ہے ۔ غیر اللہ کی پرستش سے نہ اللہ خوش ہوتا ہے نہ وہ
جنہیں تم خوش رکھنا چاہتے ہو (تنبیہ) "توسل" اور "تعبد" میں
فرق ظاہر ہے۔ پھر توسل بھی اسی حد تک مشروع ہے جہاں تک شریعت نے اجازت دی۔
|
یعنی باوجود غایت
قرب کے ان کی امیدیں محض حق تعالیٰ کی مہربانی سے وابستہ ہیں اور اسی کے عذاب سے
ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہر قسم کا نفع پہنچانا ، یا ضرر
کو روکنا ایک اللہ کے قبضہ میں ہے۔
|
وَإِذا
مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِى البَحرِ ضَلَّ مَن تَدعونَ
إِلّا إِيّاهُ ۖ فَلَمّا نَجّىٰكُم إِلَى البَرِّ أَعرَضتُم ۚ وَكانَ الإِنسٰنُ
كَفورًا {17:67}
|
اور جب تم کو دریا میں تکلیف پہنچتی ہے (یعنی ڈوبنے
کا خوف ہوتا ہے) تو جن کو تم پکارا کرتے ہو سب اس (پروردگار) کے سوا گم ہوجاتے
ہیں۔ پھر جب وہ تم کو (ڈوبنے سے) بچا کر خشکی پر لے جاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے
ہو اور انسان ہے ہی ناشکرا
|
انسان کی ناشکری:یعنی
مصیبت سےنکلتے ہی محسن حقیقی کو بھول جاتا ہے۔ چند منٹ پہلے دریا کی موجوں میں
اللہ یاد آرہا تھا۔ کنارہ پر قدرم رکھا اور بے فکر ہو کر سب فراموش کر بیٹھا ۔ اس
سے بڑھ کر ناشکر گذاری کیا ہوگی۔
|
قُلِ
ادعُوا اللَّهَ أَوِ ادعُوا الرَّحمٰنَ ۖ أَيًّا ما تَدعوا فَلَهُ الأَسماءُ الحُسنىٰ ۚ وَلا تَجهَر
بِصَلاتِكَ وَلا تُخافِت بِها وَابتَغِ بَينَ ذٰلِكَ سَبيلًا {17:110}
|
کہہ دو کہ تم (اللہ کو) الله (کے نام سے) پکارو یا
رحمٰن (کے نام سے) جس نام سے پکارو اس کے سب اچھے نام ہیں۔ اور نماز نہ بلند
آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو
|
اسم اللہ اور اسم رحمٰن:سجود
و خشوع وغیرہ کی مناسبت سے یہاں دعاء (اللہ کو پکارنے) کا ، اور دعاء کی مناسبت
سے اگلی آیت میں صلوٰۃ کا ذکر کیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے ناموں میں
سے مشرکین عرب کے یہاں اسم "اللہ" کا استعمال زیادہ تھا۔ اسم
"رحمٰن" سے چنداں مانوس نہ تھے ۔ البتہ یہود کے یہاں اسم
"رحمٰن" بکثرت مستعمل ہوتا تھا۔ عبرانی میں بھی یہ نام اسی طرح تھا
جیسے عربی میں دوسری طرف مسیلمہ کذاب نے اپنا لقب "رحمان الیمامہ" رکھ
چھوڑا تھا۔ غرض مشرکین حق تعالیٰ پر اسم "رحمان" اطلاق کرنے سے بدکتے
اور وحشت کھاتے تھے۔ چنانچہ جب حضور ﷺ کی زبان سے "رحمان" سنتے تو کہتےکہ محمد
ﷺ ہم کو
تو دو خداؤں کے پکارنے سے منع کرتے ہیں اور خود اللہ کے سوا دوسرے اللہ (رحمان) کو
پکارتے ہیں۔ یہود کو یہ شکایت تھی کہ محمد ﷺ کے یہاں "رحمان" کا
ذکر ایسی کثرت سے کیوں نہیں ہوتا جس طرح ہمارے یہاں ہوتا
ہے۔ دونوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا۔ کہ "اللہ" اور
"رحمٰن" ایک ہی ذات منبع الکمالات کے دو نام ہیں ۔ صفات و اسماء کے
تعدد سے ذات کا تعدد لازم نہیں ہوتا۔ جو یہ چیز توحید کے منافی سمجھی جائے ۔ رہی
یہ بات کہ کسی ایک نام کا ذکر کثرت سے کیوں نہیں ہوتا تو سمجھ لو کہ اللہ کے جس
قدر اسمائے حسنٰی ہیں ان میں سے کوئی نام لے کر پکارو مقصود ایک ہی ہے ۔ عنوانات
و تعبیرات کے تنوع سے معنون نہیں بدلتا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر سخن وقتے دہر
نکتہ مکانے وارد عبارا ثناشتی واحد ، وکل الیٰ ذاک الجمال یشیر
|
یعنی جہری نماز میں
(اور اسی طرح دعاء وغیرہ میں) بہت زیادہ چلانا بھی نہیں اور بالکل دبی آواز بھی
نہیں ، بیچ کی چال پسند ہے (موضح القرآن) احادیث میں ہے کہ مکہ میں جب قراءت زور
سے کی جاتی تو مشرکین سن کر قرآن اور اس کے بھیجنے والے اور لانے والے کی شان
میں بدزبانی کرتے تھے۔ اس لئے آپ نے بہت آہستہ پڑھنا شروع کر دیا۔ اس پر یہ آیت
نازل ہوئی۔ یعنی نہ اس قدر زور سے پڑھو کہ مشرکین اپنی مجالس میں سنیں (تبلیغ کا
وقت مستثنٰی ہے کیونکہ وہاں تو سنانا ہی مقصود ہے) اور نہ اتنا آہستہ کہ خود
تمہارے ساتھی بھی سن کر مستفید نہ ہو سکیں۔ افراط و تفریط چھوڑ کر میانہ روی
اختیار کرو۔ اس سے قلب متاثر ہوتا ہے اور تشویش نہیں ہوتی۔
|
وَرَبَطنا
عَلىٰ قُلوبِهِم إِذ قاموا فَقالوا رَبُّنا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ لَن نَدعُوَا۟ مِن دونِهِ إِلٰهًا ۖ لَقَد قُلنا إِذًا
شَطَطًا {18:14}
|
اور ان کے دلوں کو مربوط (یعنی مضبوط) کردیا۔ جب وہ
(اُٹھ) کھڑے ہوئے تو کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔
ہم اس کے سوا کسی کو معبود (سمجھ کر) نہ پکاریں گے (اگر ایسا کیا) تو اس وقت ہم
نے بعید از عقل بات کہی
|
اصحاب کہف کی نیند کی مدت: یعنی
مضبوط و ثابت قدم رکھا کہ اپنی بات صاف کہدی۔
|
یعنی جب "رب" وہ ہی ہے تو معبود کسی اور
کو ٹھہرانا حماقت ہے ۔ "ربوبیت" و "الوہیت" دونوں اسی کے
لئے مخصوص ہیں۔
|
وَاصبِر
نَفسَكَ مَعَ الَّذينَ يَدعونَ رَبَّهُم
بِالغَدوٰةِ وَالعَشِىِّ يُريدونَ وَجهَهُ ۖ وَلا تَعدُ عَيناكَ عَنهُم تُريدُ
زينَةَ الحَيوٰةِ الدُّنيا ۖ وَلا تُطِع مَن أَغفَلنا قَلبَهُ عَن ذِكرِنا
وَاتَّبَعَ هَوىٰهُ وَكانَ أَمرُهُ فُرُطًا {18:28}
|
اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور
اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ ان کے ساتھ صبر کرتے رہو۔ اور تمہاری نگاہیں ان میں
(گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائشِ زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ۔ اور جس
شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا
ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا
|
دعا مانگنے والے صحابہ کی
مدح اور فضیلت:یعنی
اس کے دیدار اور خوشنودی حاصل کرنے کے شوق میں نہایت اخلاص کے ساتھ دائمًا عبادت
میں مشغول رہتے ہیں ۔ مثلاً ذکر کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں ، نمازوں پر مداومت
رکھتے ہیں۔ حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں خالق و مخلوق دونوں کے حقوق پہچانتے
ہیں ، گو دنیوی حیثیت سے معزز اور مالدار نہیں ۔ جیسے صحابہ میں اس وقت عمار ،
صہیب ، بلال ، ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم تھے۔ ایسے مومنین مخلصین کو اپنی
صحبت و مجالست سےمستفید کرتے رہئے۔ اور کسی کے کہنے سننے پر ان کو اپنی مجلس سے
علیحدہ نہ کیجئے۔
|
سرداران کفار کی مذمت:یعنی
ان غریب شکستہ حال مخلصین کو چھوڑ کر موٹے موٹے متکبر دنیاداروں کی طرف اس غرض
سے نظر نہ اٹھائیے کہ ان کے مسلمان ہو جانے سے دین اسلام کو بڑی رونق ہو گی۔
اسلام کی اصلی عزت و رونق مادی خوشحالی اور چاندی سونے کے سکوں سے نہیں ۔ مضبوط
ایمان و تقویٰ اور اعلیٰ درجہ کی خوش اخلاقی سے ہے۔ دنیا کی ٹیپ ٹاپ محض فانی
اور سایہ کی طرح ڈھلنے والی ہے ، حقیقی دولت تقویٰ اور تعلق مع اللہ کی ہے جسے
نہ شکست ہے نہ زوال ، چنانچہ اصحاب کہف کے واقعہ میں اللہ کو یاد کرنے والوں اور
دنیا کے طالبوں کا انجام معلوم ہو چکا۔
|
یعنی
جن کے دل دنیا کے نشہ میں مست ہو کر اللہ کی یاد سے غافل اور ہر وقت نفس کی خوشی
اور خواہش کی پیروی میں مشغول رہتے ہیں ، اللہ کی اطاعت میں ہیٹے اور ہواپرستی
میں آگے رہنا ان کا شیوہ ، ایسے بدمست غافلوں کی بات پر آپ کان نہ دھریں خواہ وہ
بظاہر کیسے ہی دولتمند اور جاہ و ثروت والے ہوں۔ روایات میں ہے کہ بعض صنادید
قریش نے آپ سےکہا کہ ان رذیلوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیجئے تاکہ سردار آپ کے پاس
بیٹھ سکیں رذیل کہا غریب مسلمانوں کو اور سردار دولتمند کافروں کو۔ ممکن ہے آپ
کے قلب مبارک میں خیال گزرا ہو کہ ان غرباء کو تھوڑی دیر علیحدہ کر دینے میں کیا
مضائقہ ہے ۔ وہ تو پکےمسلمان ہیں مصلحت پر نظر کر کے رنجیدہ نہ ہوں گے اور یہ
دولت مند اس صورت میں اسلام قبول کر لیں گے۔ اس پر یہ آیت اتری کہ آپ ہر گز ان
متکبرین کا کہنا نہ مانئے کیونکہ یہ بیہودہ فرمائش ہی ظاہر کرتی ہے کہ ان میں
حقیقی ایمان کا رنگ قبول کرنے کی استعداد نہیں ۔ پھر محض موہوم فائدہ کی خاطر
مخلصین کا احترام کیوں نظر انداز کیا جائے نیز امیروں اور غریبوں کے ساتھ اس طرح
کا معاملہ کرنے سے احتمال ہے کہ عام لوگوں کےقلوب میں پیغمبر کی طرف سے معاذ
اللہ نفرت اور بد گمانی پیدا ہو جائے جس کا ضرر اس ضرر سے کہیں زیاد ہو گا جو ان
چند متکربین کے اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں تصور کیا جا سکتا ہے۔
|
وَيَومَ
يَقولُ نادوا شُرَكاءِىَ الَّذينَ زَعَمتُم فَدَعَوهُم
فَلَم يَستَجيبوا لَهُم وَجَعَلنا بَينَهُم مَوبِقًا {18:52}
|
اور جس دن اللہ فرمائے گا کہ (اب) میرے شریکوں کو جن
کی نسبت تم گمان (الوہیت) رکھتے تھے بلاؤ تو وہ ان کے بلائیں گے مگر وہ ان کو
کچھ جواب نہ دیں گے۔ اور ہم ان کے بیچ میں ایک ہلاکت کی جگہ بنادیں گے
|
شیاطین کی مذمت:یعنی
جن کو میرا شریک بنا رکھا تھا ۔ بلاؤ ! تا اس مصیبت کے وقت تمہاری مدد کریں۔
|
مشرکین اور شرکاء کی حالت: اس
وقت رفاقت اور دوستی کی ساری قلعی کھل جائے گی ایک دوسرے کے نزدیک بھی نہ جا
سکیں گے ۔ کام آنا تو درکنار دونوں کے بیچ میں عظیم و وسیع خندق آگ کی حائل ہو
گی (اعاذنا اللہ منہا)۔
|
وَأَعتَزِلُكُم
وَما تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ وَأَدعوا رَبّى عَسىٰ أَلّا أَكونَ بِدُعاءِ رَبّى شَقِيًّا {19:48}
|
اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ اللہ کے سوا پکارا
کرتے ہیں ان سے کنارہ کرتا ہوں اور اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا۔ امید ہے کہ
میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا
|
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت:یعنی
میری نصیحت کا جب کوئی اثر تم پر نہیں ، بلکہ الٹا مجھے دھمکیاں دیتے ہو ، تو اب
میں خود تمہاری بستی میں رہنا نہیں چاہتا ۔ تم کو اور تمہارے جھوٹے معبودوں کو
چھوڑ کر وطن سے ہجرت کرتا ہوں تاکہ یکسو ہو کر اطمینان سے خدائے واحد کی عبادت
کر سکوں حق تعالیٰ کے فضل و رحمت سے کامل امید ہے کہ اس کی بندگی کر کے میں
محروم و ناکام نہیں رہوں گا ۔ غربت و بےکسی میں جب اس کو پکاروں گا ، ادھر سے
ضرور اجابت ہو گی ۔ میرا اللہ پتھر کی مورتی نہیں کہ کتنا ہی چیخو چلاؤ سن ہی نہ
سکے۔
|
وَالَّذينَ
لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِلٰهًا ءاخَرَ
وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ ۚ
وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ يَلقَ أَثامًا {25:68}
|
اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں
پکارتے اور جن جاندار کو مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر
جائز طریق پر (یعنی شریعت کے مطابق) اور بدکاری نہیں کرتے۔ اور جو یہ کام کرے گا
سخت گناہ میں مبتلا ہوگا
|
قتل کی جائز صورتیں:مثلاً
قتل عمد کے بدلہ قتل کرنا، یا بدکاری کی سزا میں زانی محصن کو سنگسار کرنا، یا
جو شخص دین چھوڑ کر جماعت سے علیحدہ ہو جائے، اس کو مار ڈالنا، یہ سب صورتیں {
اِلَّا بِالْحَقِّ } میں شامل ہیں۔ کما ورد فی الحدیث۔
|
جہنم کی وادی آثام:یعنی بڑا سخت گناہ
کیا جس کی سزا مل کر رہے گی۔ بعض روایات میں آیا کہ “ آثام” جہنم کی ایک وادی کا
نام ہے جس میں بہت ہی ہولناک عذاب بیان کئے گئے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہا
|
فَما
زالَت تِلكَ دَعوىٰهُم حَتّىٰ جَعَلنٰهُم
حَصيدًا خٰمِدينَ {21:15}
|
تو وہ ہمیشہ اسی طرح پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے
ان کو (کھیتی کی طرح) کاٹ کر (اور آگ کی طرح) بجھا کر ڈھیر کردیا
|
عذاب دیکھ کر جرائم کا اعتراف:یعنی
جب عذاب آنکھوں سے دیکھ لیا تب اپنے جرموں کا اعتراف کیا اور برابر یہ ہی چلاتے
رہے کہ بیشک ہم ظالم اور مجرم ہیں ۔ لیکن "اب پچتائے کا ہوت ہے جب چڑیاں چگ
گئیں کھیت" یہ وقت قبول توبہ کا نہ تھا۔ اعتراف و ندامت اس وقت سب بیکار
چیزیں تھیں ۔ آخر اس طرح ختم کر دیے گئے جیسے کھیتی ایک دم میں کاٹ کر ڈھیر کر
دی جاتی ہے یا آگ میں جلتی ہوئی لکڑی بجھ کر راکھ رہ جاتی ہے ۔ العیاذ باللہ۔
|
يَدعوا
مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُ وَما لا يَنفَعُهُ ۚ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ
البَعيدُ {22:12}
|
یہ اللہ کے سوا ایسی چیز کو پکارتا ہے جو نہ اسے نقصان
پہنچائے اور نہ فائدہ دے سکے۔ یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے
|
غیر اللہ کو پکارنا:یعنی
اللہ کی بندگی چھوڑی دنیا کی بھلائی نہ ملنے کی وجہ سے ۔ اب پکارتا ہے ان چیزوں
کو جن کے اختیار میں نہ ذرہ برابر بھلائی ہے نہ برائی ۔ کیا اللہ نے جو چیز نہیں
دی تھی وہ پتھروں سے حاصل کرے گا ؟ اس سے بڑھ کر حماقت کیا ہو گی۔
|
يَدعوا
لَمَن ضَرُّهُ أَقرَبُ مِن نَفعِهِ ۚ لَبِئسَ المَولىٰ وَلَبِئسَ العَشيرُ
{22:13}
|
ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ
قریب ہے۔ ایسا دوست برا بھی اور ایسا ہم صحبت بھی برا
|
یعنی
بتوں سے نفع کی تو امید موہوم ہے (بت پرستوں کے زعم کے موافق) لیکن انکو پوجنے
کا جو ضرر ہے وہ قطعی اور یقینی ہے اس لئے فائدہ کا سوال تو بعد کو دیکھا جائے
گا ، نقصان ابھی ہاتھوں ہاتھ پہنچ گیا۔
|
جب
قیامت میں بت پرستی کے نتائج سامنے آئیں گےتو بت پرست بھی یہ کہیں گے { لَبِئْسَ
المَوْلٰی وَلَبِئْسَ الْعَشِیْرُ } یعنی جس سےبڑی امداد و رفاقت کی توقع تھی وہ
بہت ہی برے رفیق اور مددگار ثابت ہوئے کہ نفع تو کیا پہنچاتے الٹا ان کے سبب سے
نقصان پہنچ گیا ۔ مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا ، موم سمجھا تھا تیرے دل
کو سو پتھر نکلا۔
|
ذٰلِكَ
بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الحَقُّ وَأَنَّ ما يَدعونَ
مِن دونِهِ هُوَ البٰطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ العَلِىُّ الكَبيرُ {22:62}
|
یہ اس لئے کہ اللہ ہی برحق ہے اور جس چیز کو (کافر) اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہے اور اس لئے اللہ رفیع الشان اور بڑا ہے
|
اللہ کی قدرت کاملہ:یعنی
اللہ کے سوا ایسے عظیم الشان انقلابات اور کس سے ہو سکتے ہیں۔ واقع میں صحیح اور
سچا اللہ تو وہ ہی ایک ہے باقی اسکو چھوڑ کر خدائی کے جو دوسرے پاکھنڈ پھیلائے
گئے ہیں سب غلط، جھوٹ اور باطل ہیں۔ اسی کو اللہ کہنا اور معبود بنانا چاہئے جو
سب سے اوپر اور سب سے بڑ اہے اور یہ شان بالاتفاق اسی ایک اللہ کی ہے۔
|
يٰأَيُّهَا
النّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاستَمِعوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ لَن يَخلُقوا ذُبابًا
وَلَوِ اجتَمَعوا لَهُ ۖ وَإِن يَسلُبهُمُ الذُّبابُ شَيـًٔا لا يَستَنقِذوهُ
مِنهُ ۚ ضَعُفَ الطّالِبُ وَالمَطلوبُ {22:73}
|
لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ
جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے
لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا
نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
|
شرک کی مثال:یہ
توحید کے مقابلہ میں شرک کی شناعت و قبح ظاہر کرنے کے لئے مثال بیان فرمائی جسے
کان لگا کر سننا اور غوروفکر سے سمجھنا چاہئے۔ تا ایسی رکیک و ذلیل حرکت سے باز
رہو۔
|
شرکاء اور مشرکین کمزور ہیں:یعنی
مکھی بہت ہی ادنیٰ اور حقیر جانور ہے۔ جن چیزوں میں اتنی بھی قدرت نہیں کہ سب مل
کر ایک مکھی پیدا کر دیں، یا مکھی ان کے چڑھاوے وغیرہ میں سے کوئی چیز لیجائے تو
اس سے واپس لے سکیں ان کو "خالق السماوات و الارضین" کے ساتھ معبودیت
اور خدائی کی کرسی پر بٹھا دینا کس قدر بے حیائی حماقت اور شرمناک گستاخی ہے۔ سچ
تو یہ ہے کہ مکھی بھی کمزور اور بتوں سے بڑھ کر ان کا پوجنے والا کمزور ہے جس نے
ایسی حقیر اور کمزور چیز کو اپنا معبود و حاجت روا بنا لیا۔
|
وَإِذا
أُلقوا مِنها مَكانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنينَ دَعَوا
هُنالِكَ ثُبورًا {25:13}
|
اور جب یہ دوزخ کی کسی تنگ جگہ میں (زنجیروں میں)
جکڑ کر ڈالے جائیں گے تو وہاں موت کو پکاریں گے
|
کفار زنجیروں میں بندھے ہونگے:یعنی
دوزخ میں ہر مجرم کے لئے خاص جگہ ہو گی جہاں سے ہل نہ سکے گا۔ اور ایک نوعیت
کےکئ کئ مجرم ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑے ہوں گے۔ اس وقت مصیبت سے گھبرا کر موت
کو پکاریں گے کہ کاش موت آ کر ہمارے ان دردناک مصائب کا خاتمہ کر دے۔
|
لا
تَدعُوا اليَومَ ثُبورًا وٰحِدًا وَادعوا ثُبورًا كَثيرًا {25:14}
|
آج ایک ہی موت کو نہ پکارو بہت سی موتوں کو پکارو
|
بار بار کی موت:یعنی
ایک بار مریں تو چھوٹ جائیں۔ دن میں ہزار بار مرنے سے بدتر حال ہوتا ہے۔ (موضح
القرآن)
|
قُل
ما يَعبَؤُا۟ بِكُم رَبّى لَولا دُعاؤُكُم
ۖ فَقَد كَذَّبتُم فَسَوفَ يَكونُ لِزامًا {25:77}
|
کہہ دو کہ اگر تم (اللہ کو) نہیں پکارتے تو میرا
پروردگار بھی تمہاری کچھ پروا نہیں کرتا۔ تم نے تکذیب کی ہے سو اس کی سزا
(تمہارے لئے) لازم ہوگی
|
یعنی تمہارے نفع
ونقصان کی باتیں سمجھا دیں۔ بندہ کو چاہئے مغرور اور بے باک نہ ہو، اللہ کو اس کی
کیا پرواہ ہاں اس کی التجاء پر رحم کرتا ہے، نہ التجا کرو گے اور بڑے بنے رہو گے
تو مٹھ بھیڑ کے لئے تیار ہو جاؤ جو عنقریب ہونے والی ہے۔
|
کفار کی تکذیب کا انجام:یعنی
کافر جو حق کو جھٹلا چکے۔ یہ تکذیب عنقریب ان کے گلے کا ہار بنے گی اس کی سزا سے
کسی طرح چھٹکارا نہ ہو گا۔ آخرت کی ابدی ہلاکت تو ہے ہی دنیا میں بھی اب جلد مٹھ
بھیڑ ہونے والی ہے ۔ یعنی لڑائی جہاد۔ چنانچہ غزوہ “بدر” میں اس مٹھ بھیڑ کا
نتیجہ دیکھ لیا۔ تم سورۃ الفرقان وللہ الحمد والمنہ۔
|
قالَ
هَل يَسمَعونَكُم إِذ تَدعونَ {26:72}
|
ابراہیم نے کہا کہ جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ
تمہاری آواز کو سنتے ہیں؟
|
دعوت توحید:یعنی
اتنا پکارنے پر کبھی تمہاری بات سنتے ہیں؟ اگر نہیں سنتے (جیسا کہ ان کے جماد
ہونے سے ظاہر ہے) تو پکارنا فضول ہے۔
|
فَلا
تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلٰهًا ءاخَرَ
فَتَكونَ مِنَ المُعَذَّبينَ {26:213}
|
تو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو مت پکارنا، ورنہ تم
کو عذاب دیا جائے گا
|
شیاطین کو دور کر دیا گیا ہے:یہ
فرمایا رسول کو اور سنایا اوروں کو یعنی جب یہ کتاب بلا شک و شبہ خد اکی اتاری
ہوئی ہے، شیطان کا اس میں ذرہ بھر دخل نہیں تو چاہئے کہ اس کی تعلیم پر چلو جس
میں اصل اصول توحید ہے۔ شرک و کفر اور تکذیب کی شیطانی راہ اختیار مت کرو۔ ورنہ
عذاب الہٰی سے رستگاری کی کوئی سبیل نہیں۔
|
أَمَّن
يُجيبُ المُضطَرَّ إِذا دَعاهُ وَيَكشِفُ
السّوءَ وَيَجعَلُكُم خُلَفاءَ الأَرضِ ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَليلًا ما
تَذَكَّرونَ {27:62}
|
بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس
سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں
(اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی
اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو
|
مصیبت کو دور کرنے والا کون ہے:یعنی
جب اللہ چاہے اور مناسب جانے تو بے کس اور بیقرار کی فریاد سن کر سختی کو دور کر
دیتا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ { فَیَکْشِفُ مَاتَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ
شَآءَ } (انعام رکوع۴) گویا
اسی نے دعاء کو بھی اسباب عادیہ میں سے ایک سبب بنایا ہے جس پر مسبّب کا ترتب
بمشیت الہٰی استجماع شروط اور ارتفاع موانع کے بعد ہوتا ہے۔ اور علامہ طیبی
وغیرہ نے کہا کہ آیت میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ سخت مصائب و شدائد کے وقت تو تم
بھی مضطر ہو کر اسی کو پکارتے ہو اور دوسرے معبودوں کو بھول جاتے ہو۔ پھر فطرت
اور ضمیر کی اس شہادت کو امن و اطمینان کے وقت کیوں یاد نہیں رکھتے۔
|
یعنی
ایک قوم یانسل کو اٹھا لیتا اور اس کی جگہ دوسری کو آباد کرتا ہے جو زمین میں
مالکانہ اور بادشاہانہ تصرف کرتے ہیں۔
|
یعنی پوری طرح
دھیان کرتے تو دور جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ انہی پر اپنی حوائج و ضروریات اور
قوموں کے ادل بدل کو دیکھ کر سمجھ سکتے تھے کہ جس کے ہاتھ میں ان امور کی باگ ہے
تنہا اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔
|
إِنَّكَ
لا تُسمِعُ المَوتىٰ وَلا تُسمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ
إِذا وَلَّوا مُدبِرينَ {27:80}
|
کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو (بات) نہیں سنا سکتے
اور نہ بہروں کو جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر پھر جائیں آواز سنا سکتے ہو
|
وَقيلَ
ادعوا شُرَكاءَكُم فَدَعَوهُم فَلَم يَستَجيبوا لَهُم وَرَأَوُا
العَذابَ ۚ لَو أَنَّهُم كانوا يَهتَدونَ {28:64}
|
اور کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ۔ تو وہ اُن
کو پکاریں گے اور وہ اُن کو جواب نہ دے سکیں گے اور (جب) عذاب کو دیکھ لیں گے
(تو تمنا کریں گے کہ) کاش وہ ہدایت یاب ہوتے
|
مشرکین کو اپنے شرکاء کو پکارنے کا حکم:یعنی
کہا جائے گا کہ اب مدد کو بلاؤ ، مگر وہ کیا مدد کر سکتے خود اپنی مصیبت میں
گرفتار ہوں گے۔ کذا قال المفسرون۔ اور حضرت شاہ صاحبؒ کی تحریر کا حاصل یہ ہے کہ
شیاطین جب نیکوں کا نام لیں گے تو مشرکین سےکہا جائے گا کہ ان نیکوں کو پکارو!
وہ کچھ جواب نہ دیں گے۔ کیونکہ وہ ان مشرکانہ حرکات سے راضی نہ تھے یا خبر نہ
رکھتے تھے۔
|
یعنی اس وقت عذاب
کو دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں سیدھی راہ چلتے تو یہ مصیبت کیوں
دیکھنی پڑتی۔
|
وَلا
يَصُدُّنَّكَ عَن ءايٰتِ اللَّهِ بَعدَ إِذ أُنزِلَت إِلَيكَ ۖ وَادعُ إِلىٰ رَبِّكَ ۖ وَلا تَكونَنَّ مِنَ
المُشرِكينَ {28:87}
|
اور وہ تمہیں اللہ کی آیتوں کی تبلیغ سے بعد اس کے
کہ وہ تم پر نازل ہوچکی ہیں روک نہ دیں اور اپنے پروردگار کو پکارتے رہو اور
مشرکوں میں ہرگز نہ ہو جیو
|
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت:یعنی
دین کے کام میں اپنی قوم کی خاطر اور رعایت نہ کیجئے اور نہ آپ کو ان میں گنئے
گو کہ اپنے قرابت دار ہوں۔ ہاں ان کو اپنے رب کی طرف بلاتے رہئے اور اللہ کے
احکام پر جمے رہئے۔
|
وَلا
تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلٰهًا ءاخَرَ ۘ لا
إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيءٍ هالِكٌ إِلّا وَجهَهُ ۚ لَهُ الحُكمُ وَإِلَيهِ
تُرجَعونَ {28:88}
|
اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود (سمجھ کر) نہ
پکارنا اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کی ذات (پاک) کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی
ہے۔ اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے
|
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت:یہ
آپ کو خطاب کر کے دوسروں کو سنایا۔ اوپر کی آیتوں میں بھی بعض مفسرین ایسا ہی
لکھتے ہیں۔
|
ہر شے فانی ہے سوائے اللہ کے:
یعنی ہر چیز اپنی ذات سےمعدوم ہے اور تقریبًا تمام چیزوں کو فنا ہونا ہے، خواہ
کبھی ہو۔ مگر اس کا منہ یعنی وہ آپ کبھی معدوم تھا، نہ کبھی فنا ہو سکتا ہے۔ سچ
ہے؎ { اَلَا کُلُّ شیءٍ مَا خَلَا اللہ بَاطِلٌ }۔ قال تعالیٰ { کُلُّ مَنْ
عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ} اور
بعض سلف نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ سارے کام مٹ جانے والے اور فنا ہو جانے والے
ہیں بجز اس کام کے جو خالصًا لوجہ اللہ کیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
|
سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے:یعنی
سب کو اس کی عدالت میں حاضر ہونا ہے جہاں تنہا اسی کا حکم چلے گا۔ صورۃً و
ظاہرًا بھی کسی کا حکم و اقتدار باقی نہ رہے گا۔ اے اللہ اس وقت اس گنہگار بندہ
پر رحم فرمایئے اور اپنے غضب سے پناہ دیجئے۔ تم سورۃ القصص وللہ الحمد والمنۃ۔
|
إِنَّ
اللَّهَ يَعلَمُ ما يَدعونَ مِن دونِهِ
مِن شَيءٍ ۚ وَهُوَ العَزيزُ الحَكيمُ {29:42}
|
یہ جس چیز کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں (خواہ) وہ کچھ
ہی ہو اللہ اُسے جانتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے
|
یعنی ممکن تھا سننے والا تعجب کرے کہ سب کو ایک ہی
ذیل میں کھینچ دیا کسی کو مستثنٰی نہ کیا بعض لوگ بت کو پوجتے ہیں، بعض آگ پانی
کو، بعض اولیاء یا فرشتوں کو، سو اللہ نے فرما دیا کہ اللہ کو سب معلوم ہیں۔ اگر
کوئی ایک بھی ان سے مستقل قدرت و اختیار رکھتا تو اللہ سب کی یک قلم نفی نہ
کرتا۔
|
یعنی اللہ کو کسی کی رفاقت نہیں چاہئے، وہ زبردست
ہے، اور مشورہ نہیں چاہئے کیونکہ حکیم مطلق ہے۔
|
فَإِذا
رَكِبوا فِى الفُلكِ دَعَوُا اللَّهَ
مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ فَلَمّا نَجّىٰهُم إِلَى البَرِّ إِذا هُم يُشرِكونَ
{29:65}
|
پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے
(اور) خالص اُسی کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ اُن کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا
دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگے جاتے ہیں
|
ذٰلِكَ
بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الحَقُّ وَأَنَّ ما يَدعونَ
مِن دونِهِ البٰطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ العَلِىُّ الكَبيرُ {31:30}
|
یہ اس لئے کہ اللہ کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ
اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ لغو ہیں اور یہ کہ اللہ ہی عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے
|
معبود ہونے کا اہل صرف اللہ ہے:یعنی
حق تعالیٰ کی یہ شئون عظیمہ او رصفات قاہرہ اس لیے ذکر کی گئیں کہ سننے والے
سمجھ لیں کہ ایک اللہ کو ماننا اور صرف اس کی عبادت کرنا ہی ٹھیک راستہ ہے۔ اس کے
خلاف جو کچھ کہا جائے یا کیا جائے باطل اور جھوٹ ہے۔ یا یہ مطلب ہو کہ اللہ
تعالیٰ کا موجود بالذات اور واجب الوجود ہونا جو { بِاَنَّ اللہَ ھُوَ الْحَقُّ
} سے سمجھ میں آتا ہے اور دوسروں کا باطل و ہالک الذات ہونا اس کو مستلزم ہے کہ
اکیلے اسی اللہ کے واسطے یہ شئون و صفات ثابت ہوں، پھر جس کے لئے یہ شئون و صفات
ثابت ہوں گی وہ ہی معبود بننے کا مستحق ہو گا۔
|
لہذا بندہ کی
انتہائی پستی اور تذلل (جس کا نام عبادت ہے) اسی کے لئے ہونا چاہئے۔
|
وَإِذا
غَشِيَهُم مَوجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا
اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ فَلَمّا نَجّىٰهُم إِلَى البَرِّ فَمِنهُم
مُقتَصِدٌ ۚ وَما يَجحَدُ بِـٔايٰتِنا إِلّا كُلُّ خَتّارٍ كَفورٍ {31:32}
|
اور جب اُن پر (دریا کی) لہریں سائبانوں کی طرح چھا
جاتی ہیں تو اللہ کو پکارنے (اور) خالص اس کی عبادت کرنے لگتے ہیں پھر جب وہ اُن
کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو بعض ہی انصاف پر قائم رہتے ہیں۔ اور
ہماری نشانیوں سے وہی انکار کرتے ہیں جو عہد شکن اور ناشکرے ہیں
|
اللہ کو پکارنا انسانی ضمیر کی آواز ہے:اوپر
دلائل و شواہد سے سمجھایا تھا کہ ایک اللہ ہی کا ماننا ٹھیک ہے اس کے خلاف سب
باتیں جھوٹی ہیں۔ یہاں بتلایا کہ طوفانی موجوں میں گھر کر کٹر سے کٹر مشرک بھی
بڑی عقیدت مندی اور اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسانی
ضمیر اور فطرت کی اصلی آواز یہ ہی ہے۔ باقی سب بناوٹ اور جھوٹے ڈھکوسلے ہیں۔
|
یعنی
جب اللہ تعالیٰ طوفان سے نکال کر خشکی پر لے آیا۔ تو تھوڑے نفوس ہیں جو اعتدال کی
راہ پر قائم رہیں ورنہ اکثر تو دریا سے نکلتے ہی شرارتیں شروع کر دیتے ہیں۔
مترجم رحمہ اللہ نے { فَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ } کا ترجمہ کیا "تو کوئی ہوتا
ہے ان میں بیچ کی چال پر"۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں یعنی جو حال خوف کے
وقت تھا وہ تو کسی کا نہیں ، مگر بالکل بھول بھی نہ جائے ایسے بھی کم ہیں نہیں
تو اکثر قدرت سے منکر ہوتے ہیں۔ اپنے بچ نکلے کو تدبیر پر رکھتےہیں یا کسی ارواح
وغیرہ کی مدد پر۔
|
قدرت الٰہیہ کا انکار:یعنی
ابھی تھوڑی دیر پہلے طوفان میں گھر کر جو قول و قرار اللہ سے کر رہے تھے سب
جھوٹے نکلے۔ چند روز بھی اس کے انعام و احسان کا حق نہ مانا۔ اس قدر جلد قدرت کی
نشانیوں سے منکر ہو گئے۔
|
تَتَجافىٰ
جُنوبُهُم عَنِ المَضاجِعِ يَدعونَ
رَبَّهُم خَوفًا وَطَمَعًا وَمِمّا رَزَقنٰهُم يُنفِقونَ {32:16}
|
اُن کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے
پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے اور جو (مال) ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں
سے خرچ کرتے ہیں
|
تہجد پڑھنے اور دعا مانگنے والوں کی مدح:یعنی
میٹھی نیند اورنرم بستروں کو چھوڑ کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ مراد تہجد کی
نماز ہوئی جیسا کہ حدیث صحیح میں مذکور ہے۔ اور بعض نے صبح کی یا عشاء کی نماز
یا مغرب و عشاء کے درمیان کی نوافل مراد لی ہیں۔ گو الفاظ میں اس کی گنجائش ہے
لیکن راجح وہ ہی پہلی تفسیر ہے۔ واللہ اعلم۔
|
حضرت شاہ صاحبؒ
لکھتے ہیں "اللہ سے لالچ اور ڈر برا نہیں دنیا کا یا آخرت کا۔ اور اس واسطے
بندگی کرے تو قبول ہے۔ ہاں اگر کسی اور کے خوف و رجاء سے بندگی کرے تو ریا ہے
کچھ قبول نہیں"
|
قُلِ
ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِ
اللَّهِ ۖ لا يَملِكونَ مِثقالَ ذَرَّةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَلا فِى الأَرضِ وَما
لَهُم فيهِما مِن شِركٍ وَما لَهُ مِنهُم مِن ظَهيرٍ {34:22}
|
کہہ دو کہ جن کو تم اللہ کے سوا (معبود) خیال کرتے
ہو ان کو بلاؤ۔ وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور
نہ ان میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے
|
یہاں
سے مشرکین مکہ کو خطاب ہے جنکی تنبیہ کے لئے "سبا" کا قصہ سنایا تھا۔
یعنی اللہ کے سوا جن چیزوں پر تم کو خدائی گمان ہے ذرا کسی آڑے وقت میں ان کو
پکارو تو سہی دیکھیں وہ کیا کام آتے ہیں؟
|
يولِجُ
الَّيلَ فِى النَّهارِ وَيولِجُ النَّهارَ فِى الَّيلِ وَسَخَّرَ الشَّمسَ
وَالقَمَرَ كُلٌّ يَجرى لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم لَهُ
المُلكُ ۚ وَالَّذينَ تَدعونَ مِن دونِهِ
ما يَملِكونَ مِن قِطميرٍ {35:13}
|
وہی رات کو دن میں داخل کرتا اور (وہی) دن کو رات
میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا ہے۔ ہر ایک ایک
وقت مقرر تک چل رہا ہے۔ یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے اسی کی بادشاہی ہے۔ اور جن
لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو
(کسی چیز کے) مالک نہیں
|
لیل و نہار کے تغیرات:یہ
مضمون پہلے کئ جگہ گذر چکا ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی رات دن کی
طرح کبھی کفر غالب ہے کبھی اسلام۔ اور سورج چاند کی طرح ہر چیز کی مدت بندھی ہے
دیر سویر نہیں ہوتی"۔ حق کا نمایاں غلبہ اپنے وقت پر ہو گا۔
|
باطل معبودوں کی حقیقت:یعنی
جس کی صفات و شئون اوپر بیان ہوئیں حقیت میں یہ ہے تمہارا سچا پروردگار اور کل
زمین و آسمان کا بادشاہ۔ باقی جنہیں تم اللہ قرار دیکر پکارتے ہو۔ وہ مسکین
بادشاہ تو کیا ہوتے کھجور کی گٹھلی پر جو باریک جھلی سی ہوتی ہے اس کے بھی مالک
نہیں۔
|
إِن
تَدعوهُم لا يَسمَعوا دُعاءَكُم وَلَو سَمِعوا مَا استَجابوا لَكُم ۖ
وَيَومَ القِيٰمَةِ يَكفُرونَ بِشِركِكُم ۚ وَلا يُنَبِّئُكَ مِثلُ خَبيرٍ
{35:14}
|
اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور
اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کرسکیں۔ اور قیامت کے دن تمہارے شرک سے
انکار کردیں گے۔ اور (خدائے) باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا
|
باطل معبودوں کی حقیقت:یعنی
جن معبودوں کا سہارا ڈھونڈتے ہو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے اور توجہ کرتے بھی تو
کچھ کام نہ آ سکتے۔ بلکہ قیامت کے دن تمہاری مشرکانہ حرکات سے علانیہ بیزاری کا
اظہار کریں گے۔ اور بجائے مددگار بننے کے دشمن ثابت ہوں گے۔
|
اللہ ہی سچی خبر دینے والا ہے:یعنی اللہ سے زیادہ
احوال کون جانے وہ ہی فرماتا ہے کہ یہ شریک غلط ہیں جو کچھ کام نہیں آ سکتے ایسی
ٹھیک اور پکی باتیں اور کون بتلائے گا۔
|
قُل
أَرَءَيتُم شُرَكاءَكُمُ الَّذينَ تَدعونَ
مِن دونِ اللَّهِ أَرونى ماذا خَلَقوا مِنَ الأَرضِ أَم لَهُم شِركٌ فِى
السَّمٰوٰتِ أَم ءاتَينٰهُم كِتٰبًا فَهُم عَلىٰ بَيِّنَتٍ مِنهُ ۚ بَل إِن
يَعِدُ الظّٰلِمونَ بَعضُهُم بَعضًا إِلّا غُرورًا {35:40}
|
کہہ دو کہ بھلا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا جن کو تم اللہ کے
سوا پکارتے ہو۔ مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین سے کون سی چیز پیدا کی ہے یا (بتاؤ
کہ) آسمانوں میں ان کی شرکت ہے۔ یا ہم نے ان کو کتاب دی ہے تو وہ اس کی سند
رکھتے ہیں (ان میں سے کوئی بات بھی نہیں) بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے
ہیں محض فریب ہے
|
ان معبودوں نے کیا پیدا کیا:یعنی
اپنے معبودوں کے احوال میں غور کر کے مجھے بتلاؤ کہ زمین کاکونسا حصہ انہوں نے
بنایا، یا آسمانوں کے بنانے اور تھامنے میں ان کی کس قدر شرکت ہے۔ اگر کچھ نہیں
تو آخر اللہ کس طرح بن بیٹھے۔ کچھ تو عقل سے کام لو۔
|
یعنی
عقلی نہیں تو کوئی معتبر نقلی دلیل پیش کرو۔ جس کی سند پر یہ مشرکانہ دعویٰ کرتے ہو۔
|
یعنی عقلی یا نقلی
دلیل کوئی نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان میں سے بڑے چھوٹوں کو اور اگلے پچھلوں کو
شیطان کے اغواء سے یہ وعدہ بتلاتے چلے آئے کہ { ھٰؤلاءِ شُفَعَاءُ نَا
عِنْدَاللہِ } (یہ بت وغیرہ اللہ کے ہاں ہمارے شفیع بنیں گے) اور اس کا قرب عطا
کریں گے۔ حالانکہ یہ خالص دھوکا اور فریب ہے۔ یہ تو کیا شفیع بنتے، بڑے سے بڑا
مقرب بھی وہاں کفار کی سفارش میں زبان نہیں ہلا سکتا۔
|
أَتَدعونَ بَعلًا وَتَذَرونَ أَحسَنَ الخٰلِقينَ {37:125}
|
کیا تم بعل کو پکارتے (اور اسے پوجتے) ہو اور سب سے
بہتر پیدا کرنے والے کو چھوڑ دیتے ہو
|
حضرت
الیاسؑ بعض کے نزدیک حضرت ہارونؑ کی نسل سے ہیں۔ اللہ نے ان کو ملک شام کے ایک
شہر "بعلبک" کی طرف بھیجا۔ وہ لوگ "بعل" نامی ایک بت کو
پوجتے تھے۔ حضرت الیاسؑ نے ان کو اللہ کے غضب اور بت پرستی کے انجام بد سے ڈرایا۔
|
انسان کی ناشکری (نافرمانی) کا حال
وَإِذا
مَسَّ النّاسَ ضُرٌّ دَعَوا رَبَّهُم
مُنيبينَ إِلَيهِ ثُمَّ إِذا أَذاقَهُم مِنهُ رَحمَةً إِذا فَريقٌ مِنهُم
بِرَبِّهِم يُشرِكونَ {30:33}
|
اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار
کو پکارتے اور اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ ان کو اپنی رحمت کا مزا
چکھاتا ہے تو ایک فرقہ اُن میں سے اپنے پروردگار سے شرک کرنے لگتا ہے
|
وَإِذا
مَسَّ الإِنسٰنَ ضُرٌّ دَعا رَبَّهُ
مُنيبًا إِلَيهِ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعمَةً مِنهُ نَسِىَ ما كانَ يَدعوا
إِلَيهِ مِن قَبلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندادًا لِيُضِلَّ عَن سَبيلِهِ ۚ قُل
تَمَتَّع بِكُفرِكَ قَليلًا ۖ إِنَّكَ مِن أَصحٰبِ النّارِ {39:8}
|
اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار
کو پکارتا (اور) اس کی طرف دل سے رجوع کرتا ہے۔ پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے
کوئی نعمت دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور
اللہ کا شریک بنانے لگتا ہے تاکہ (لوگوں کو) اس کے رستے سے گمراہ کرے۔ کہہ دو کہ
(اے کافر نعمت) اپنی ناشکری سے تھوڑا سا فائدہ اٹھالے۔ پھر تُو تو دوزخیوں میں
ہوگا
|
انسان کی ناشکری کاحال:یعنی
انسان کی حالت عجیب ہے مصیبت پڑے تو ہمیں یاد کرتا ہے، کیونکہ دیکھتا ہے کوئی
مصیبت کو ہٹانے والا نہیں۔ پھر جہاں اللہ کی مہربانی سے ذرا آرام و اطمینان نصیب
ہوا معًا وہ پہلی حالت کو بھول جاتا ہے جس کے لئے ابھی ابھی ہم کو پکار رہا تھا۔
عیش و تنعم کے نشہ میں ایسا مست و غافل ہو جاتا ہے گویا کبھی ہم سے واسطہ ہی نہ
تھا۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو دوسرے جھوٹے اور من گھڑت خداؤں کی طرف منسوب
کرنے لگتا ہے اور ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو خدائے واحد کے ساتھ کرنا
چاہئے تھا۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور اپنے قول و فعل سے دوسروں کو بھی
گمراہ کرتا ہے۔
|
یعنی
اچھا۔ کافر رہ کر چند روز یہاں اور عیش اڑا لے۔ اور اللہ نے جب تک مہلت دے رکھی
ہے دنیا کی نعمتوں سے تمتع کرتا رہ اس کے بعد تجھے دوزخ میں رہنا ہے۔ جہاں سے
کبھی چھٹکارا نصیب نہ ہو
|
فَإِذا
مَسَّ الإِنسٰنَ ضُرٌّ دَعانا ثُمَّ إِذا
خَوَّلنٰهُ نِعمَةً مِنّا قالَ إِنَّما أوتيتُهُ عَلىٰ عِلمٍ ۚ بَل هِىَ فِتنَةٌ
وَلٰكِنَّ أَكثَرَهُم لا يَعلَمونَ {39:49}
|
جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا
ہے۔ پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے نعمت بخشتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے
(میرے) علم (ودانش) کے سبب ملی ہے۔ (نہیں) بلکہ وہ آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر
نہیں جانتے
|
خوشی و تکلیف میں مشرکین کی دو عملی:یعنی
جس کے ذکر سے چڑتا تھا مصیبت کے وقت اسی کو پکارتا ہے اور جس کے ذکر سے خوش ہوتا
تھا انہیں بھول جاتا ہے۔
|
یعنی قیاس یہ ہی چاہتا تھا کہ یہ نعمت مجھ کو ملے۔
کیونکہ مجھ میں اس کی لیاقت تھی اور اس کی کمائی کے ذرائع کا علم رکھتا تھا اور
اللہ کو میری استعداد و اہلیت معلوم تھی، پھر مجھے کیوں نہ ملتی۔ غرض اپنی لیاقت
اور عقل پر نظر کی، اللہ کے فضل و قدرت پر خیال نہ کیا۔
|
نعمت امتحان ہے:یعنی ایسا نہیں
بلکہ یہ نعمت اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہے کہ بندہ اسے لیکر کہاں تک منعم حقیقی
کو پہنچانتا اور اس کا شکر ادا کرتا ے۔ اگر ناشکری کی گئ تو یہ ہی نعمت نقمت بن
کر وبال جان ہو جائے گی۔ حضرت شاہ صاحبؒ کہتے ہیں "یہ جانچ ہے کہ عقل اس کی
دوڑنے لگتی ہے تا اپنی عقل پر بہکے۔ وہ ہی عقل رہتی ہے اور آفت آ پہنچتی
ہے" پھر کسی کے ٹالے نہیں ٹلتی۔
|
وَلَئِن
سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُل
أَفَرَءَيتُم ما تَدعونَ مِن دونِ
اللَّهِ إِن أَرادَنِىَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَل هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهِ أَو
أَرادَنى بِرَحمَةٍ هَل هُنَّ مُمسِكٰتُ رَحمَتِهِ ۚ قُل حَسبِىَ اللَّهُ ۖ
عَلَيهِ يَتَوَكَّلُ المُتَوَكِّلونَ {39:38}
|
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس
نے پیدا کیا تو کہہ دیں کہ اللہ نے۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا
پکارتے ہو۔ اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور
کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے
ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں
|
اللہ کے نفع و ضرر کو کوئی نہیں ٹال سکتا:یعنی
ایک طرف تو خداوند قدوس جو تمہارے اقرار کے موافق تمام زمین و آسمان کا پیدا کرنے
والا ہے اور دوسری طرف پتھر کی بیجان مورتیں یا عاجز مخلوق جو سب ملکر بھی اللہ کی
بھیجی ہوئی ادنٰی سے ادنٰی تکلیف و راحت کو اس کی جگہ سے نہ ہٹا سکے۔ تم ہی بتاؤ
دونوں میں سے کس پر بھروسہ کیا جائے اور کس کو اپنی مدد کے لئے کافی سمجھا جائے حضرت
ہودؑ کی قوم نے بھی کہا تھا۔ اِنۡ نَّقُوۡلُ اِلَّا اعۡتَرٰىکَ بَعۡضُ اٰلِہَتِنَا
بِسُوۡٓءٍ (ہود۔۵۴) یعنی “ہم
تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں تکلیف پہنچا کر دیوانہ کر دیا ہے”, جس کا جواب حضرت ہودؑ نے
یہ دیا۔ اِنِّیۡۤ اُشۡہِدُ اللّٰہَ وَ اشۡہَدُوۡۤا اَنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ۔
مِنۡ دُوۡنِہٖ فَکِیۡدُوۡنِیۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ لَا تُنۡظِرُوۡنِ اِنِّیۡ تَوَکَّلۡتُ
عَلَی اللّٰہِ رَبِّیۡ وَ رَبِّکُمۡ ؕ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ اِلَّا ہُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِہَا
ؕ اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ (ہود۔۵۴،۵۵،۵۶) یعنی “میں
اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ جنکو تم اللہ کا شریک بناتے ہو۔ میں
ان سے بیزار ہوں۔ یعنی جنکی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو تو تم سب مل کر میرے بارے
میں جو تدبیر کرنی چاہو کر لو اور مجھے مہلت نہ دو۔ میں اللہ پر جو میرا اور تمہارا
سب کا پروردگار ہے بھروسہ رکھتا ہوں زمین پر جو چلنے پھرنے والا ہے وہ اللہ کے قبضہ
قدرت میں ہے بیشک میرا پروردگار سیدھے رستے پر ہے۔ “اور
حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشۡرِکُوۡنَ بِہٖۤ
اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ رَبِّیۡ شَیۡئًا ؕ وَسِعَ رَبِّیۡ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا اَفَلَا
تَتَذَکَّرُوۡنَ ۔ وَ کَیۡفَ اَخَافُ مَاۤ اَشۡرَکۡتُمۡ وَ لَا تَخَافُوۡنَ اَنَّکُمۡ
اَشۡرَکۡتُمۡ بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ عَلَیۡکُمۡ سُلۡطٰنًا ؕ فَاَیُّ
الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (انعام۔۸۰،۸۱) یعنی “اور جن چیزوں کو تم اس کا شریک بناتے ہو میں ان سے نہیں
ڈرتا۔ ہاں جو میرا پروردگار کچھ چاہے۔ میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ
کئے ہوئے ہے۔ کیا تم خیال نہیں کرتے؟ بھلا میں ان چیزوں سے جنکو تم اللہ کا شریک
بناتے ہو۔ کیونکر ڈروں جبکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہو
جسکی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی۔ اب دونوں فریق میں سے کونسا فریق امن و بے خوفی
کا زیاد حقدار ہے اگر سمجھ رکھتے ہو تو بتاؤ۔”
|
ذٰلِكُم
بِأَنَّهُ إِذا دُعِىَ اللَّهُ وَحدَهُ
كَفَرتُم ۖ وَإِن يُشرَك بِهِ تُؤمِنوا ۚ فَالحُكمُ لِلَّهِ العَلِىِّ الكَبيرِ
{40:12}
|
یہ اس لئے کہ جب تنہا اللہ کو پکارا جاتا تھا تو تم
انکار کردیتے تھے۔ اور اگر اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جاتا تھا تو تسلیم کرلیتے
تھے تو حکم تو اللہ ہی کا ہے جو (سب سے) اوپر اور (سب سے) بڑا ہے
|
کفار کیلئے ہلاکت کا ابدی فیصلہ:یعنی
بیشک اب دنیا کی طرف واپس کئے جانے کی کوئی صورت نہیں۔ اب تو تم کو اپنے اعمال
سابقہ کا خمیازہ بھگتنا ہے۔ تمہارے متعلق ہلاکت ابدی کا یہ فیصلہ اس لئے ہوا ہے
کہ تم نے اکیلے سچے اللہ کی پکار پر کبھی کان نہ دھرا۔ ہمیشہ اس کا یا اس کی
وحدانیت کا انکار ہی کرتے رہے۔ ہاں کسی جھوٹے اللہ کی طرف بلائے گئے تو فورًا
آمنا و صدقنا کہہ کر ان کے پیچھے ہو لئے۔ اس سے تمہاری خو اور طبعیت کا اندازہ
ہو سکتا ہے کہ اگر ہزار مرتبہ بھی واپس کیا جائے، پھر وہی کفر و شرک کما کر لاؤ
گے۔ بس آج تمہارے جرم کی ٹھیک سزا یہ ہی حبس دوام ہے جو اس بڑے زبردست اللہ کی
عدالت عالیہ سے جاری کی گئ۔ جس کا کہیں آگے مرافعہ (اپیل) نہیں۔ اس سے چھوٹنے کی
تمنا عبث ہے۔
|
فَادعُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ وَلَو كَرِهَ
الكٰفِرونَ {40:14}
|
تو اللہ کی عبادت کو خالص کر کر اُسی کو پکارو اگرچہ
کافر برا ہی مانیں
|
رزق رسانی میں اللہ کی نشانیاں: یعنی بندوں کو چاہئے سمجھ سے کام لیں۔ اور ایک اللہ کی طرف رجوع ہو کر
اسی کو پکاریں، اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کریں۔ بیشک مخلص بندوں کے اس
موحدانہ طرز عمل سے کافر و مشرک ناک بھوں چڑھائیں گے کہ سارے دیوتا اڑا کر صرف
ایک ہی اللہ رہنے دیا گیا مگر پکا مُؤحِّد وہ ہی ہے جو مشرکین کے مجمع میں توحید
کا نعرہ بلند کرے۔ اور ان کے برا ماننے کی اصلًا پروا نہ کرے۔
|
وَاللَّهُ
يَقضى بِالحَقِّ ۖ وَالَّذينَ يَدعونَ مِن
دونِهِ لا يَقضونَ بِشَيءٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّميعُ البَصيرُ {40:20}
|
اور اللہ سچائی کے ساتھ حکم فرماتا ہے اور جن کو یہ
لوگ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی حکم نہیں دے سکتے۔ بےشک اللہ سننے والا (اور) دیکھنے
والا ہے
|
اللہ دلوں کے راز اور آنکھوں کی خیانت جانتا ہے: یعنی مخلوق سے نظر بچا
کر چوری چھپے سے کسی پر نگاہ ڈالی یا کن انکھیوں سے دیکھا یا دل میں کچھ نیت کی
یا کسی بات کا ارادہ یا خیال آیا، ان میں سے ہر چیز کو اللہ جانتا ہے اور فیصلہ
انصاف سے کرتا ہے۔
|
بت فیصلہ نہیں کر سکتے: یعنی فیصلہ کرنا اسی کا کام ہو سکتا ہے جو سننے اور جاننے والا ہو۔
بھلا یہ پتھر کی بیجان مورتیں جنہں تم اللہ کہہ کر پکارتے ہو کیا خاک فیصلہ کریں
گے۔ پھر جو فیصلہ بھی نہ کر سکے و ہ اللہ کس طرح ہوا۔
|
لا
جَرَمَ أَنَّما تَدعونَنى إِلَيهِ لَيسَ
لَهُ دَعوَةٌ فِى الدُّنيا وَلا فِى الءاخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنا إِلَى اللَّهِ
وَأَنَّ المُسرِفينَ هُم أَصحٰبُ النّارِ {40:43}
|
سچ تو یہ ہے کہ جس چیز کی طرف تم مجھے بلاتے ہو اس
کو دنیا اور آخرت میں بلانے (یعنی دعا قبول کرنے) کا مقدور نہیں اور ہم کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں
|
تمہاری دعوت کی کوئی سند نہیں آئی:یعنی
ماسوا اللہ کے کوئی چیز ایسی نہیں جو دنیا یا آخرت میں ادنٰی ترین نفع و ضرر کی
مالک ہو۔ پھر اُسکی بندگی اور غلامی کا بلاوا دینا جہل و حماقت نہیں تو اور کیا
ہے۔ { وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یُدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَنْ لَا
یَسْتَجِیْبُ لَہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَھُمْ عَنْ دُعَاءِ ھِمْ
غَافِلُوْنَ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَاءً وَکَانُوْ
بِعِبَادَتِھِمْ کَافِرِین }۔ (احقاف رکوع۱) آخر ایسی عاجز اور بے بس چیزوں کی طرف آدمی کیا
سمجھ کر دعوت دے۔ اور تماشہ یہ ہے کہ ان میں بہت چیزیں وہ ہیں جو خود بھی اپنی
طرف دعوت نہیں دیتیں۔ بلکہ دعوت دینے کی قدرت بھی نہیں رکھتیں۔
|
یعنی انجام کار ہر
پھر کر اسی خدائے واحد کی طرف جانا ہے۔ وہاں پہنچ کر سب کو اپنی زیادتیوں کا
نتیجہ معلوم ہو جائے گا۔ بتلاؤ اس سے بڑھ کر زیادتی کیا ہوگی کہ عاجز مخلوق کو
خالق کا درجہ دے دیا جائے۔
|
قالوا
أَوَلَم تَكُ تَأتيكُم رُسُلُكُم بِالبَيِّنٰتِ ۖ قالوا بَلىٰ ۚ قالوا فَادعوا ۗ وَما دُعٰؤُا۟
الكٰفِرينَ إِلّا فى ضَلٰلٍ {40:50}
|
وہ کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے پیغمبر
نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے۔ وہ کہیں گے کیوں نہیں تو وہ کہیں گے کہ تم ہی دعا کرو۔
اور کافروں کی دعا (اس روز) بےکار ہوگی
|
نافرمان جہنمیوں کو فرشتوں کا جواب: یعنی
اس وقت ان کی بات نہ مانی اور انجام کی فکر نہ کی جو کچھ کام چلتا۔ اب موقع ہاتھ
سے نکل چکا۔ کوئی سعی سفارش یا خوشامد درآمد کام نہیں دے سکتی۔ پڑے چیختے چلاتے
رہو۔ نہ ہم ایسے معاملات میں سفارش کر سکتے ہیں، نہ تمہاری چیخ و پکار سے کوئی
فائدہ ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "دوزخ کے فرشتے کہیں گے سفارش کرنا
میرا کام نہیں۔ ہم تو عذاب دینے پر مقرر ہیں۔ سفارش کام ہے رسولوں کا، سو رسولوں
سے تم برخلاف ہی تھے" (تنبیہ) آیہ ہذا سے معلوم ہوا کہ آخرت میں کافروں کی دعاء
کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ باقی دنیا میں کافر کے مانگنے پر اللہ تعالیٰ کوئی چیز دے
دیں تو وہ دوسری بات ہے جیسے ابلیس کو قیامت تک مہلت دیدی۔
|
وَقالَ
رَبُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم ۚ إِنَّ
الَّذينَ يَستَكبِرونَ عَن عِبادَتى سَيَدخُلونَ جَهَنَّمَ داخِرينَ {40:60}
|
اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا
کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کنیاتے
ہیں۔ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے
|
یعنی میری ہی بندگی
کرو کہ اس کی جزا دوں گا اور مجھ ہی سے مانگو کہ تمہارا مانگنا خالی نہ جائے گا۔
|
دعا بندگی کی شرط ہے: بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا۔ نہ مانگنا غرور ہے۔ اور اس آیت
سے معلوم ہوا کہ اللہ بندوں کی پکار کو پہنچتا ہے۔ یہ بات تو بیشک برحق ہے، مگر
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بندے کی ہر دعا قبول کیا کرے۔ دعا کی فضیلت: یعنی جو
مانگے وہ ہی چیز دے دے۔ نہیں اس کی اجابت کے بہت سے رنگ ہیں جو احادیث میں بیان
کر دیے گئے ہیں۔ کوئی چیز دینا اس کی مشیت پر موقوف اور حکمت کے تابع ہے۔ کما
قال فی موضع آخر { فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآءَ } (انعام
رکوع۴) بہرحال بندہ کا کام ہے مانگنا اور یہ مانگنا خود
ایک عبادت بلکہ مغز عبادت ہے۔
|
هُوَ
الحَىُّ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ فَادعوهُ
مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ ۗ الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العٰلَمينَ {40:65}
|
وہ زندہ ہے (جسے موت نہیں) اس کے سوا کوئی عبادت کے
لائق نہیں تو اس کی عبادت کو خالص کر کر اسی کو پکارو۔ ہر طرح کی تعریف اللہ ہی
کو (سزاوار) ہے جو تمام جہان کا پروردگار ہے
|
جس
پر کسی حیثیت سے کبھی فنا اور موت طاری نہیں ہوئی، نہ ہو سکتی ہے۔ اور ظاہر ہے
جب اسکی حیات ذاتی ہوئی تو تمام لوزام حیات بھی ذاتی ہوں گے۔
|
کلمہ توحید الحمدللہ: کمالات اور خوبیاں سب وجود حیات کے تابع ہیں۔ جو حیّ علی الاطلاق ہے
وہ ہی عبادت کا مستحق اور تمام کمالات اور خوبیوں کا مالک ہو گا۔ اسی لئے {
ھُوَالْحَیّ } کے بعد { اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } فرمایا ۔ جیسا
کہ پہلی آیت میں نعمتوں کا ذکر کر کے { فَتَبَارَکَ اللہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ
} فرمایا تھا۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ { لَااِلٰہَ اِلَّا اللہَ } کے بعد {
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } کہنا چاہیئے۔ اس کا ماخذ یہ ہی آیت ہے۔
|
قُل
إِنّى نُهيتُ أَن أَعبُدَ الَّذينَ تَدعونَ
مِن دونِ اللَّهِ لَمّا جاءَنِىَ البَيِّنٰتُ مِن رَبّى وَأُمِرتُ أَن أُسلِمَ
لِرَبِّ العٰلَمينَ {40:66}
|
(اے محمد ﷺ ان سے) کہہ دو کہ مجھے اس بات
کی
ممانعت کی گئی ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ان کی پرستش کروں (اور میں
ان کی کیونکر پرستش کروں) جب کہ میرے پاس میرے پروردگار (کی طرف) سے کھلی دلیلیں
آچکی ہیں اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ پروردگار عالم ہی کا تابع فرمان ہوں
|
یعنی
کھلے کھلے نشانات دیکھنے کے بعد کیا حق ہے کہ کوئی خدائے واحد کے سامنے سر
عبودیت نہ جھکائے اور خالص اسی کا تابع فرمان نہ ہو۔
|
وَضَلَّ
عَنهُم ما كانوا يَدعونَ مِن قَبلُ ۖ
وَظَنّوا ما لَهُم مِن مَحيصٍ {41:48}
|
اور جن کو پہلے وہ (اللہ کے سوا) پکارا کرتے تھے
(سب) ان سے غائب ہوجائیں گے اور وہ یقین کرلیں گے کہ ان کے لئے مخلصی نہیں
|
یعنی
دنیا میں جنہیں اللہ کا شریک بنا کر پکارتے تھے آج ان کا کہیں پتہ نہیں۔ وہ اپنے
پرستاروں کی مدد کو نہیں آتے۔ اور پرستاروں کے دلوں سے بھی وہ پکارنے کے خیالات
اب غائب ہو گئے انہوں نے بھی سمجھ لیا کہ خدائی سزا سے بچنے کی اب کوئی سبیل
نہیں۔ اور گلوخلاصی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ آخر آس توڑ کر بیٹھ رہے۔ اور جن کی
حمایت میں پیغمبروں سے لڑتے تھے آج ان سے قطعًا بے تعلقی اور بیزاری کا اظہار
کرنے لگے۔
|
And there will fail them those whom they had been calling upon aforetime, and they will perceive that there is for them no shelter.
لا
يَسـَٔمُ الإِنسٰنُ مِن دُعاءِ الخَيرِ
وَإِن مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَـٔوسٌ قَنوطٌ {41:49}
|
انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں
اور اگر تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہوجاتا اور آس توڑ بیٹھتا ہے
|
وَإِذا
أَنعَمنا عَلَى الإِنسٰنِ أَعرَضَ وَنَـٔا بِجانِبِهِ وَإِذا مَسَّهُ الشَّرُّ
فَذو دُعاءٍ عَريضٍ {41:51}
|
اور جب ہم انسان پر کرم کرتے ہیں تو منہ موڑ لیتا
ہے اور پہلو پھیر کر چل دیتا ہے۔ اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی
دعائیں کرنے لگتا ہے
|
یعنی
اللہ کی نعمتوں سے متمتع ہونے کے وقت تو منعم کی حق شناسی اور شکر گذاری سے
اعراض کرتا ہے اور بالکل بے پروا ہو کر اُدھر سے کروٹ بدل لیتا ہے۔ پھر جب کوئی
تکلیف اور مصیبت پیش آتی ہے تو اسی اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر لمبی چوڑی دعائیں
مانگنے لگتا ہے۔ شرم نہیں آتی کہ اب اسے کس منہ سے پکارے۔ اور تماشا یہ ہے کہ
بعض اوقات اسباب پر نطر کر کے دل اندر سے مایوس ہوتا ہے، اس حالت میں بھی بدحواس
اور پریشان ہو کر دعا کے ہاتھ بے اختیار اللہ کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ قلب میں
ناامیدی بھی ہے اور زبان پر یااللہ بھی، حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یہ سب
بیان ہے انسان کے نقصان (و قصور) کا۔ نہ سختی میں صبر ہے نہ نرمی میں شکر"۔
|
وَلا
يَملِكُ الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِهِ
الشَّفٰعَةَ إِلّا مَن شَهِدَ بِالحَقِّ وَهُم يَعلَمونَ {43:86}
|
اور جن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ سفارش
کا کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ ہاں جو علم ویقین کے ساتھ حق کی گواہی دیں (وہ سفارش
کرسکتے ہیں)
|
اللہ کے آگے سفارش کا حق: یعنی اتنی سفارش کر سکتے ہیں کہ جس نے انکے علم کے موافق کلمہ اسلام
کہا اس کی گواہی دیں۔ بغیر کلمہ اسلام کسی کے حق میں ایک حرف سفارش کا نہیں کہہ
سکتے اور اتنی سفارش بھی صالحین کریں گے جو سچائی کو جانتے اور اسکو زبان و دل
سے مانتے ہیں دوسروں کو اجازت نہیں۔
|
And those whom they call upon beside Him own not the power of intercession save those who have borne witness to the truth and who know.
قُل
أَرَءَيتُم ما تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ
أَرونى ماذا خَلَقوا مِنَ الأَرضِ أَم لَهُم شِركٌ فِى السَّمٰوٰتِ ۖ ائتونى
بِكِتٰبٍ مِن قَبلِ هٰذا أَو أَثٰرَةٍ مِن عِلمٍ إِن كُنتُم صٰدِقينَ {46:4}
|
کہو کہ بھلا تم نے ان چیزوں کو دیکھا ہے جن کو تم
اللہ کے سوا پکارتے ہو (ذرا) مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں کون سی چیز
پیدا کی ہے۔ یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے۔ اگر سچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی
کتاب میرے پاس لاؤ۔ یا علم (انبیاء میں) سے کچھ (منقول) چلا آتا ہو (تو اسے پیش
کرو)
|
یعنی
خداوند قدوس نے آسمان و زمین اور کل مخلوقات بنائی۔ کیا سچے دل سے کہہ سکتے ہو
کہ زمین کا ٹکڑا یا آسمان کا کوئی حصہ کسی اور نے بھی بنایا ہے یا بنا سکتا ہے۔
پھر انکو اللہ کے ساتھ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیوں پکارا جاتا ہے۔
|
یعنی
اگر اپنے دعوۓ شرک میں سچے ہو تو کسی
آسمانی کتاب کی سند لاؤ یا کسی ایسے علمی اصول سے ثابت کرو جو عقلاء کے نزدیک
مسلم چلا آتا ہو۔ جس چیز پر کوئی نقلی یا عقلی دلیل نہ ہو آخر اسے کیونکر تسلیم
کیا جائے۔
|
Say thou: bethink ye: whatsoever ye call upon beside Allah- show me whatsoever they have created of the earth? Or have they any partnership in the heavens? Bring me a Book before this, Or some trace of knowledges if ye say sooth.
وَمَن
أَضَلُّ مِمَّن يَدعوا مِن دونِ اللَّهِ
مَن لا يَستَجيبُ لَهُ إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ وَهُم عَن دُعائِهِم غٰفِلونَ {46:5}
|
اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو ایسے
کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ
ہو
|
یعنی
اس سے بڑی حماقت اور گمراہی کیا ہو گی کہ اللہ کو چھوڑ کر ایک ایسی بے جان یا بے
اختیار مخلوق کو اپنی حاجت براری کے لئے پکارا جائے جو اپنے مستقل اختیار سے کسی
کی پکار کو نہیں پہنچ سکتی۔ بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو پکارنے کی خبر بھی
ہو۔ پتھر کی مورتوں کا تو کہنا ہی کیا، فرشتے اور پیغمبر بھی وہ ہی بات سن سکتے
اور وہ ہی کام کر سکتے ہیں جس کی اجازت اور قدرت حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو۔
|
And who is more astray than he who calleth beside Allah, Unto such as will answer it not till the Day of Resurrection and who are of their call unaware.
وَأَنَّ
المَسٰجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدعوا مَعَ
اللَّهِ أَحَدًا {72:18}
|
اور یہ کہ مسجدیں (خاص) اللہ کی ہیں تو اللہ کے ساتھ
کسی اور کی عبادت نہ کرو
|
مساجد صرف اللہ کے لئے ہیں: یعنی یوں تو اللہ کی ساری زمین اس امّت کے لئے مسجد بنادی گئ ہے۔ لیکن
خصوصیت سے وہ مکانات جو مسجدوں کے نام سے خاص عبادت الہٰی کے لئے بنائے جاتے
ہیں۔ ان کو اور زیادہ امتیاز حاصل ہے۔ وہاں جا کر اللہ کے سوا کسی ہستی کو
پکارنا ظلم عظیم اور شرک کی بدترین صورت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خالص خدائے واحد کی
طرف آؤ اور اس کا شریک کر کے کسی کو کہیں بھی مت پکارو خصوصًا مساجد میں جو اللہ
کے نام پر تنہا اسی کی عبادت کے لئے بنائی گئ ہیں۔ بعض مفسّرین نے
"مساجد" سے مراد وہ اعضاء لئے ہیں جو سجدہ کے وقت زمین پر رکھے جاتے
ہیں۔ اس وقت مطلب یہ ہو گا کہ یہ اللہ کے دیئے ہوئے اور اس کے بنائے ہوئے اعضاء
ہیں۔ جائز نہیں کہ ان کو اس مالک و خالق کے سوا کسی دوسرے کے سامنے جھکاؤ۔
|
And the prostrations are for Allah; wherefore call not along with Allah anyone.
وَأَنَّهُ
لَمّا قامَ عَبدُ اللَّهِ يَدعوهُ كادوا
يَكونونَ عَلَيهِ لِبَدًا {72:19}
|
اور جب اللہ کے بندے (محمدﷺ) اس کی عبادت ) پکارنے(کو
کھڑے ہوئے تو کافر ان کے گرد ہجوم کرلینے کو تھے
|
یعنی
بندہ کامل محمد رسول ﷺ۔
|
قرآن پڑھنے کے وقت آنحضرت کے گرد ہجوم: یعنی آپ جب کھڑے ہو کر قرآن پڑھتے ہیں تو لوگ ٹھٹھ کے ٹھٹھ آپ پر
ٹوٹے پڑتے ہیں۔ مؤمنین تو شوق و رغبت سے قرآن سننے کی خاطر اور کفار عداوت و
عناد سے آپ پر ہجوم کرنے کے لئے۔
|
قُل
إِنَّما أَدعوا رَبّى وَلا أُشرِكُ بِهِ
أَحَدًا {72:20}
|
کہہ دو کہ میں تو اپنے پروردگار ہی کی عبادت ) پکارنے(کرتا
ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا
|
کفّار سے آنحضرت کی دوٹوک گفتگو: یعنی کفار سے کہہ دیجئے کہ تم مخالفت کی راہ سے بھیڑ کیوں کرتے ہو،
کونسی بات ایسی ہے جس پر تمہاری خفگی ہے۔ میں کوئی بری اور نامعقول بات تو نہیں
کہتا۔ صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کاشریک کسی کو نہیں سمجھتا۔ تو اس میں
لڑنے جھگڑنے کی کون سی بات ہے اور اگر تم سب مل کر مجھ پر ہجوم کرنا چاہتے ہو تو
یاد رکھومیرا بھرووسہ اکیلے اسی اللہ پر ہے جو ہر قسم کے شرک سے پاک اور بے نیاز
ہے۔
|
No comments:
Post a Comment