Friday, 21 February 2014

فرض علم :-(1) اور تم جان لو کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے۔۔۔۔[القرآن،سورۃ محمد:19]



فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ وَلِلمُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ ۗ وَاللَّهُ يَعلَمُ مُتَقَلَّبَكُم وَمَثوىٰكُم {47:19}
سو تو جان لے کہ کسی کی بندگی نہیں سوائے اللہ کے اور معافی مانگ اپنے گناہ کے واسطے اور ایماندار مردوں اور عورتوں کے لئے [۳۰] اور اللہ کو معلوم ہے بازگشت تمہاری اور گھر تمہارا [۳۱]
یعنی جتنے پردوں میں پھرو گے پھر بہشت یا دوزخ میں پہنچو گے جو تمہار اصلی گھر ہے۔
ہر ایک کا ذنب (گناہ) اس کے مرتبہ کے موافق ہوتا ہے۔ کسی کام کا بہت اچھا پہلو چھوڑ کر کم اچھا پہلو اختیار کرنا گو وہ حدود ءجواز و استحسان میں ہو، بعض اوقات مقربین کے حق میں ذنب (گناہ) سمجھا جاتا ہے۔ { حَسَنَاتُ الْابْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ } کے یہ ہی معنی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ دن میں سو بار استغفار فرماتے تھے (تنبیہ) { فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَااِلٰہَ اِلَّا للہُ } الخ کا خطاب ہر ایک مخاطب کو ہے۔ اور اگر خاص نبی کریم مخاطب ہوں تو مطلب یہ ہے کہ اس علم پر برابر جمے رہیئے۔ اور استغفار کرتے رہے۔ اور { فَاعْلَمْ } کی تفریع ماقبل پر اس طرح ہے کہ قیامت آنے کے بعد کسی کو ایمان و توبہ وغیرہ نافع نہیں تو آدمی کو چاہئے کہ اس کے آنے سے قبل صحیح معرفت حاصل کرے۔ اور ایمان و استغفار کے طریق پر مستقیم رہے۔

نہیں ہے کوئی معبود (عبادت کے لائق) سواۓ الله کے

عبادت کسے کہتے ہیں:
ہر قول اور فعل ، دعا اور پکار ، ثنا اور تعظیم ، رکوع اور سجود ، قیام اور قعود وغیرہ جو اس اعتقاد اور شعور کے ساتھ ہو کہ معبود کو مافوق الاسباب ہمارے تمام معاملات پر غیبی قبضہ اور تسلط حاصل ہے، اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے، وہ عبادت ہے.
چنانچہ علامہ ابن القیم رح نے عبادت کی تعریف کو ایک جامع تعبیر سے حسب ذیل عبارت میں بیان فرمایا ہے: العبادة عبارة عن الإعتقاد والشعور بأن للمعبود سلطة غيبية في العلم والتصرف فوق الأسباب يقدر بها على النفع والضر. فكل دعاء وثناء وتعظيم ينشأ من هذه الإعتقاد فهو عبادة. [مدارج السالکین: ١/٤٠]
ترجمہ :
عبادت اس اعتقاد اور شعور کا نام ہے کہ معبود کو ایک غیبی تسلط حاصل ہے، جس کی وجہ سے وہ نفع نقصان پر قادر ہے، اس لئے ہر تعریف، ہر پکار اور ہر تعظیم جو اس مذکورہ اعتقاد اور شعور کے ساتھ ہو وہ عبادت ہے.
An expression of the belief and perception that the diety has an unseen authority (control, power) in knowledge and control (of the affairs) above the (created) ways and means (asbaab) through which He has power of benefit and harm. So every invocation (du'a), praise and veneration that emanates from this belief is considered ibaadah (worship).
 *****************************************






وَإِذ أَخَذنا ميثٰقَ بَنى إِسرٰءيلَ لا تَعبُدونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسانًا وَذِى القُربىٰ وَاليَتٰمىٰ وَالمَسٰكينِ وَقولوا لِلنّاسِ حُسنًا وَأَقيمُوا الصَّلوٰةَ وَءاتُوا الزَّكوٰةَ ثُمَّ تَوَلَّيتُم إِلّا قَليلًا مِنكُم وَأَنتُم مُعرِضونَ {2:83}
اور جب ہم نے لیا قرار بنی اسرائیل سے کہ عبادت نہ کرنا مگر اللہ کی اور ماں باپ سے سلوک نیک کرنا اور کنبہ والوں سے اور یتیموں اور محتاجوں سے او رکہیو سب لوگوں سے نیک بات اور قائم رکھیو نماز اور دیتے رکھیو زکوٰۃ پھر تم پھر گئے مگر تھوڑے سے تم میں اور تم ہو ہی پھرنے والے [۱۲۵]
یعنی احکام الہٰی سے اعراض کرنا تو تمہاری عادت بلکہ طبعیت ہو گئ ہے۔

وَإِلٰهُكُم إِلٰهٌ وٰحِدٌ ۖ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ الرَّحمٰنُ الرَّحيمُ {2:163}
اور معبود تم سب کا ایک ہی معبود ہے کوئی معبود نہیں اس کے سوا بڑا مہربان ہے نہایت رحم والا [۲۲۹]
یعنی معبود حقیقی تم سب کا ایک ہی ہے اس میں تعدد کا احتمال بھی نہیں سو اب جس نے اس کی نافرمانی کی بالکل مردود اور غارت ہوا دوسرا معبود ہوتا تو ممکن تھا کہ اس سے نفع کی توقع باندھی جاتی یہ آقائی اور پادشاہی یا استادی اور پیری نہیں کہ ایک جگہ موافقت نہ آئی تو دوسری جگہ چلے گئے یہ تو معبودی اور خدائی ہے نہ اُس کے سوا کسی کو معبود بنا سکتے ہو اور نہ کسی سے اس کے علاوہ خیر کی توقع کر سکتے ہو۔ جب آیہ { وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ } نازل ہوئی تو کفار مکہ نے تعجب کیا کہ تمام عالم کا معبود اور سب کا کام بنانے والا ایک کیسے ہو سکتا ہے اور اس کی دلیل کیا ہے اس پر آیہ { اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ } الخ نازل ہوئی اور اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں بیان فرمائیں۔

اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ الحَىُّ القَيّومُ ۚ لا تَأخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَومٌ ۚ لَهُ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۗ مَن ذَا الَّذى يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ ۚ يَعلَمُ ما بَينَ أَيديهِم وَما خَلفَهُم ۖ وَلا يُحيطونَ بِشَيءٍ مِن عِلمِهِ إِلّا بِما شاءَ ۚ وَسِعَ كُرسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ ۖ وَلا يَـٔودُهُ حِفظُهُما ۚ وَهُوَ العَلِىُّ العَظيمُ {2:255}
اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں زندہ ہے سب کا تھامنے والا [۴۱۶] نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اجازت سے جانتا ہے جو کچھ خلقت کے روبرو ہے اور جو کچھ انکے پیچھے ہے اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے گنجائش ہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کو اور گراں نہیں اس کو تھامنا ان کا اور وہی ہے سب سے برتر عظمت والا [۴۱۷]
اس آیت میں توحید ذات اور عظمت صفات حق تعالیٰ کو بیان فرمایا کہ حق تعالیٰ موجود ہے ہمیشہ سے اور کوئی اس کا شریک نہیں تمام مخلوقات کا موجد وہی ہے تمام نقصان اور ہر طرح کے تبدل اور فتور سے منزہ ہے سب چیزوں کا مالک ہے تمام چیزوں کا کامل علم اور سب پر پوری قدرت اور اعلیٰ درجے کی عظمت اس کو حاصل ہے کسی کو نہ اتنا استحقاق نہ اتنی مجال کہ بغیر اس کے حکم کے کسی کی سفارش بھی اس سے کر سکے کوئی امر ایسا نہیں جس کے کرنے میں اس کو دشواری اور گرانی ہو سکے ۔ تمام چیزوں اور سب کی عقلوں سے برتر ہے اس کے مقابلہ میں سب حقیر ہیں ۔ اس سے دو مضمون اور خوب ذہن نشین ہو گئے ایک تو حق تعالیٰ کی ربوبیت اور حکومت اور اپنی محکومیت اور عبدیت جس سے حق تعالیٰ کے تمام احکامات مذکورہ اور غیر مذکورہ کا بلا چون و چراں واجب التصدیق اور واجب التعمیل ہونا اور اس کے احکام میں کسی قسم کے شک و شبہ کا معتبرنہ ہونا معلوم ہو گیا دوسرے عبادات و معاملات کثیرہ مذکورہ سابقہ کو اور ان کے ساتھ تنعیم و تعذیب کو دیکھ کر کسی کو خلجان ہو سکتا تھا کہ ہر ہر فرد کے اس قدر معاملات و عبادات کثیرہ ہیں کہ جن کا مجموعہ اتنا ہوا جاتا ہے کہ ان کا ضبط اور حساب کتاب محال معلوم ہوتا ہے پھر اس کے مقابلہ میں ثواب و عقاب یہ بھی عقل سے باہر غیر ممکن معلوم ہوتا ہے سو اس آیت میں حق سبحانہ نے چند صفات مقدسہ اپنی ایسی ذکر فرمائیں کہ وہ تمام خیالات بسہولت دور ہوگئے یعنی اس کا علم و قدرت ایسا کامل ہے کہ ایک چیز بھی ایسی نہیں جو اس سے باہر ہو جس کا علم اور قدرت ایسا غیر متناہی اور ہمیشہ یکساں رہنے والا ہو اس کو تمام جزئیات عالم کے ضبط رکھنے اور ان کاعوض عطا فرمانے میں کیا دقت ہو سکتی ہے۔
پہلی آیت سے حق سبحانہ کی عظمت شان بھی مفہوم ہو تی ہے اب اس کے بعد اس آیت کو جس میں توحید ذات اور اس کا تقدس و جلال غایت عظمت و وضاحت کے ساتھ مذکور ہے نازل فرمائی اور اسی کا لقب آیۃ الکرسی ہے اسی کو حدیث میں اعظم آیات کتاب اللہ فرمایا ہے اور بہت فضیلت اور ثواب منقول ہے اور اصل بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں رلا ملا کر تین قسم کے مضمون کو جگہ جگہ بیان فرمایا ہے علم توحید و صفات، علم احکام، علم قصص و حکایات سے بھی توحید و صفات کی تقریر و تائید مقصود ہوتی ہے یا علم احکام کی تاکید و ضرورت اور علم توحید و صفات اور علم احکام بھی باہم ایسے مربوط ہیں کہ ایک دوسرے کے لئے علت اور علامت ہے صفات حق تعالیٰ احکام شرعیہ کے حق میں منشاء اور اصل ہیں تو احکام شرعیہ صفات کے لئے بمنزلہ ثمرات اور فروع ہیں تو اب ظاہر ہے کہ علم قصص اور علم احکام سے علم توحید کو ضرور اعانت اور تقویت پہنچے گی اور علم قصص اور علم توحید و صفات سے ضرور علم احکام کی تاکید اور اس کی ضرورت بلکہ حقیقت اور اصلیت ثابت ہو گی اور یہ طریقہ جو تین طریقوں سے مرکب ہے بغایت احسن اور اسہل اور قابل قبول ہے اول تو اس وجہ سے کہ ایک طریقہ کہ پابندی موجب ملال ہوتی ہے اور ایک علم سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجانا ایسا ہوجاتا ہے جیسا ایک باغ کی سیر کر کے دوسرے باغ کی سیر کرنے لگے دوسرے تینوں طریقوں سے مل کر حقیقت منشاء ثمرہ نتیجہ سب ہی معلوم ہو جائے گا اور اس میں تعمیل احکام نہایت شوق و مستعدی اور رغبت و بصیرت کے ساتھ ہو گی۔ اس لئے طریقہ مذکورہ بغایت عمدہ اور مفید اور قرآن مجید میں کثیر الاستعمال ہے اس جگہ دیکھ لیجئے کہ اول احکام کو کس کثرت و تفصیل سے بیان فرمایا اس کے بعد بقدر مصلحت قصص کو بیان کر کے تمام احکامات مذکورہ کے فوائد و نتائج گویا ہم کو آنکھوں سے دکھلا دیئے ان سب کے بعد آیۃ الکرسی جو کہ دربارہ توحید و صفات ممتاز آیت ہے اس کو بیان فرما کر جملہ احکامات کی جڑ کو دلوں میں ایسا مستحکم فرما دیا کہ اکھاڑے نہ اکھڑے۔

اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ الحَىُّ القَيّومُ {3:2}
اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں زندہ ہے سب کا تھامنے والا [۱]
نجران کے ساٹھ عیسائیوں کا ایک مؤقر و معزز وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس میں تین شخص عبدالمسیح عاقب بحیثیت امارت و سیادت کے، ایہم السید بلحاظ رائے و تدبیر کے اور ابو حارثہ بن علقمہ با عتبار سب سے بڑے مذہبی عالم اور لاٹ پادری ہونے کے عام شہرت اور امتیار رکھتے تھے۔ یہ تیسرا شخص اصل میں عرب کے مشہور قبیلہ "بنی بکر بن وائل" سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر پکا نصرانی بن گیا۔ سلاطین روم نے اس کی مذہبی صلابت اور مجدد شرف کو دیکھتے ہوئے بڑی تعظیم و تکریم کی۔ علاوہ بیش قرار مالی امداد کے اس کے لئے گرجے تعمیر کئے اور امور مذہبی کے اعلیٰ منصب پر مامور کیا۔ یہ وفد بارگاہ رسالت میں بڑی آن بان سے حاضر ہوا اور متنازع فیہ مسائل میں حضور ﷺ سے گفتگو کی جس کی پوری تفصیل محمد بن اسحاق کی سیرۃ میں منقول ہے ۔ سورۂ " آل عمران" کا ابتدائی حصہ تقریباً اسی نوے آیات تک اسی واقعہ میں نازل ہوا۔ عیسائیوں کا پہلا اور بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ حضرت مسیحؑ بعینہ الله یا الله کے بیٹے یا تین خداؤں میں کے ایک ہیں۔ سورۂ ہذا کی پہلی آیت میں توحید خالص کا دعویٰ کرتے ہوئے الله تعالیٰ کی جو صفات "حیّ قیوم" بیان کی گئیں وہ عیسائیوں کے اس دعوے کو صاف طور پر باطل ٹھہراتی ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺ نے دوران مناظرہ میں ان سےفرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ حَیّ (زندہ) ہے جس پر کبھی موت طاری نہیں ہو سکتی ۔ اسی نے تمام مخلوقات کو وجود عطا کیا اور سامان بقاء پیدا کر کے ان کو اپنی قدرت کاملہ سے تھام رکھا ہے۔ برخلاف اس کے عیسٰیؑ پر یقینًا موت و فنا آ کر رہے گی۔ اور ظاہر ہے جو شخص خود اپنی ہستی کو برقرار نہ رکھ سکے دوسری مخلوقات کی ہستی کیا برقرار رکھ سکتا ہے۔ "نصاریٰ نے سن کر اقرار کیا (کہ بیشک صحیح ہے ) شاید انہوں نے غنیمت سمجھا ہو گا کہ آپ اپنے اعتقاد کے موافق { عیسٰی یاتی علیہ الفناء } کا سوال کر رہے ہیں یعنی عیسٰی پر فنا ضرور آئے گی، اگر جواب نفی میں دیا تو آپ ہمارے عقیدہ کے موافق کہ حضرت عیسٰیؑ کو عرصہ ہوا موت آ چکی ہے۔ ہم کو اور زیادہ صریح طور پر ملزم اور مفحم کر سکیں گے۔ اس لئے لفظی مناقشہ میں پڑنا مصلحت نہ سمجھا۔ اور ممکن ہے یہ لوگ ان فرقوں میں سے ہوں جو عقیدہ اسلام کے موافق مسیحؑ کے قتل و صلب کا قطعًا انکار کرتے تھے اور رفع جسمانی کے قائل تھے جیسا کہ حافظ ابن تمیمہ نے "الجواب الصحیح" اور "الفارق بین المخلوق و الخالق" کے مصنف نے تصریح کی ہے کہ شام و مصر کے نصاریٰ عمومًا اسی عقیدہ پر تھے۔ مدت کے بعد پولس نے عقیدہ صلب کی اشاعت کی۔ پھر یہ خیال یورپ سے مصر و شام وغیرہ پہنچا بہرحال نبی کریم ﷺ کا { انّ عیسیٰ اتی علیہ الفناء } کے بجائے { یاتی علیہ الفناء } فرمانا، درآں حالیکہ پہلے الفاظ تردید الوہیۃ مسیح کے موقع پر زیادہ صاف اور مسکت ہوتے۔ ظاہر کرتا ہے کہ موقع الزام میں بھی مسیحؑ پر موت سے پہلے لفظ موت کا اطلاق آپ نے پسند نہیں کیا۔

هُوَ الَّذى يُصَوِّرُكُم فِى الأَرحامِ كَيفَ يَشاءُ ۚ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ العَزيزُ الحَكيمُ {3:6}
وہی تمہارا نقشہ بناتا ہے ماں کے پیٹ میں جس طرح چاہے کسی کی بندگی نہیں اسکے سوا زبردست ہے حکمت والا [۷]
یعنی اپنے علم و حکمت کےمطابق کمال قدرت سے جیسا اور جس طرح چاہا ماں کے پیٹ میں تمہارا نقشہ بنایا مذکر، مونث، خوبصورت، بدصورت، جیسا پیدا کرنا تھا کر دیا ۔ ایک پانی کے قطرہ کو کتنی پلٹیاں دے کر آدمی کی صورت عطا فرمائی۔ جس کی قدرت و صنعت کا یہ حال ہے کیا اس کے علم میں کمی ہو سکتی ہے یا کوئی انسان جو خود بھی بطن مادر کی تاریکیوں میں رہ کر آیا ہو اور عام بچوں کی طرح کھاتا، پیتا، پیشاب، پاخانہ کرتا ہو۔ اس خداوند قدوس کا بیٹا یا پوتا کہلایا جا سکتا ہے ؟ { کبُرتْ کلمۃً تخرج من افواھہم ان یقولون الاّ کذبًا } عیسائیوں کا سوال تھا کہ جب مسیحؑ کا ظاہری باپ کوئی نہیں تو بجز الله کے کس کو باپ کہیں { یُصَوِّرُ کُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآءُ } میں اس کا جواب بھی ہو گیا۔ یعنی الله کو قدرت ہے رحم میں جس طرح چاہے آدمی کا نقشہ تیار کر دے۔ خواہ ماں باپ دونوں کے ملنے سے یا صرف ماں کی قوت منفعلہ سے اسی لئے آگے فرمایا { ھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } یعنی زبردست ہے جس کی قدرت کو کوئی محدود نہیں کر سکتا۔ اور "حکیم" ہے جہاں جیسا مناسب جانتا ہے کرتا ہے۔ "حوا" کو بدون ماں کے، "مسیح" کو بدون باپ کے، "آدم" کو بدون ماں باپ دونوں کے پیدا کر دیا۔ اس کی حکمتوں کا احاطہ کون کر سکے۔

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ وَالمَلٰئِكَةُ وَأُولُوا العِلمِ قائِمًا بِالقِسطِ ۚ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ العَزيزُ الحَكيمُ {3:18}
اللہ نے گواہی دی کہ کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا [۲۳] اور فرشتوں نے [۲۴] اور علم والوں نے بھی [۲۵] وہی حاکم انصاف کا ہے کسی کی بندگی نہیں سوا اس کے زبردست ہے حکمت والا [۲۶]
انصاف کرنے کے لئے دو باتیں ضروری ہیں، زبردست ہو کہ اس کے فیصلے سے کوئی سرتابی نہ کر سکے اور حکیم ہو کہ حکمت و دانائی سے پوری طرح جانچ تول کر ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرے کوئی حکم بےموقع نہ دے۔ چونکہ حق تعالیٰ عزیز و حکیم ہے لہذا اس کے منصف علی الا طلاق ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے غالبًا اس لفظ { قَآئِمًا بِالْقِسْطِ } میں عیسائیوں کے مسئلہ کفارہ کا بھی رد ہو گیا۔ بھلا کہ کہاں کا انصاف ہو گا کہ ساری دنیا کے جرائم ایک شخص پر لاد دیے جائیں اور وہ تنہا سزا پا کر سب مجرموں کو ہمیشہ کے لئے بری اور پاک کر دے۔ خدائے عادل و حکیم کی بارگاہ ایسی گستاخیوں سے کہیں بالا و برتر ہے۔
علم والے ہر زمانے میں توحید کی شہادت دیتے رہے ہیں اور آج تو عام طور پر توحید کے خلاف ایک لفظ کہنا جہل محض کا مترادف سمجھا جاتا ہے مشرکین بھی دل میں مانتے ہیں کہ علمی اصول کبھی مشرکانہ عقائد کی تائید نہیں کر سکتے۔
ظاہر ہے فرشتوں کی گواہی الله کی گواہی کے خلاف کیسے ہو سکتی ہے ۔ فرشتہ تو نام ہی اس مخلوق کا ہے جو صدق و حق کے راستہ سے سرتابی نہ کر سکے۔ چنانچہ فرشتوں کی تسبیح و تمجید تمامتر توحید و تفرید باری پر مشتمل ہے۔
ابتداء میں نصاریٰ "نجران" سے خطاب تھا اور نہایت لطیف انداز سے الوہیت مسیح کے عقیدہ کا ابطال اور توحید خالص کا اعلان کر کے ایمان لانے کی ترغیب دی گئ تھی۔ درمیان میں ان مواقع کا ذکر فرمایا جو انسان کو وضوح حق کے باوجود شرف ایمان سے محروم رکھتے ہیں۔ یعنی مال و اولاد اور سامان عیش و عشرت۔ ان آیات میں مومنین کی صفات بیان کرنے کے بعد پھر اصل مضمون توحید وغیرہ کی طرف عود کیا گیا ہے۔ یعنی توحید خالص کے ماننے میں کیا تردد ہو سکتا ہے۔ جب کہ خود حق تعالیٰ اپنی تمام کتابوں میں برابر اس مضمون کی گواہی دیتا رہا ہے۔ اور اس کی فعلی کتاب (صحیفہ کائنات) کا ایک ایک ورق بلکہ ایک ایک نقطہ شہادت دیتا ہے کہ بندگی کے لائق ربّ العالمین کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ { و فی کل شئی لہ اٰ یۃ۔ تَدُلُّ عَلٰی اَنَّہٗ وَاحِدٌ } { سَنُرَیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فَیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ؕ اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدٌ } (حٓمٓ سجدہ رکوع۶ )


قُل يٰأَهلَ الكِتٰبِ تَعالَوا إِلىٰ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَينَنا وَبَينَكُم أَلّا نَعبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلا نُشرِكَ بِهِ شَيـًٔا وَلا يَتَّخِذَ بَعضُنا بَعضًا أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوا فَقولُوا اشهَدوا بِأَنّا مُسلِمونَ {3:64}
کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ اللہ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو الله کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (الله کے) فرماں بردار ہیں
یعنی تم دعویٰ اسلام و توحید کر کے پھر گئے، ہم الحمد اللہ اس پر قائم ہیں کہ اپنے کو محض خدائے واحد کے سپرد کر دیا ہے اور اسی کے تابع فرمان ہیں۔
پہلے نقل کیا جا چکا کہ حضور ﷺ نے جب وفد نجران کو کہا { اَسْلِمُوا } (مسلم بن جاؤ) تو کہنے لگے ۔ { اَسْلَمْنَا } (ہم مسلم ہیں) اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی طرح ان کو بھی مسلم ہونے کا دعویٰ تھا اسی طرح جب یہود و نصاریٰ کے سامنے توحید پیش کی جاتی تو کہتے کہ ہم بھی الله کو ایک کہتے ہیں۔ بلکہ ہر مذہب والا کسی نہ کسی رنگ میں اوپر جا کر اقرار کرتا ہے کہ بڑا الله ایک ہی ہے۔ یہاں اسی طرف توجہ دلائی گئ کہ بنیادی عقیدہ (الله کا ایک ہونا اور اپنے کو مسلم ماننا) جس پر ہم دونوں متفق ہیں۔ ایسی چیز ہے جو ہم سب کو ایک کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ آگے چل کر اپنے تصرف اور تحریف سے اس کی حقیقت بدل نہ ڈالیں۔ ضرورت اُس کی ہے کہ جس طرح زبان سے مسلم و موحد کہتے ہو ۔ حقیقۃً و عملًا بھی اپنے آپ کو تنہا خدائے وحدہٗ لا شریک لہٗ کے سپرد کر دو۔ نہ اس کے سوا کسی کی بندگی کرو نہ اس کی صفات خاصہ میں کسی کو شریک ٹھہراؤ۔ کہ کسی اور عالم، فقیر، پیر، پیغمبر کے ساتھ وہ معاملہ کرو جو صرف رب قدیر کے ساتھ کیا جانا چاہیئے۔ مثلًا کسی کو اس کا بیٹا پوتا بنانا، یا نصوص شریعت سے قطع نظر کر کے محض کسی کے حلال و حرام کر دینے پر اشیاء کی حلت و حرمت کا مدار رکھنا۔ جیسا کہ { اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ } کی تفیسر سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سب امور دعویٰ اسلام و توحید کے منافی ہیں۔

اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ لَيَجمَعَنَّكُم إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ لا رَيبَ فيهِ ۗ وَمَن أَصدَقُ مِنَ اللَّهِ حَديثًا {4:87}
اللہ (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ قیامت کے دن تم سب کو ضرور جمع کرے گا اور الله سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہے؟
یعنی قیامت کا آنا اور ثواب و عقاب کے سب وعدوں کا پورا ہونا سب سچ ہے اس میں تخلف نہیں ہو گا ان باتوں کو سرسری خیال نہ کرو۔

وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يَمسَسكَ بِخَيرٍ فَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {6:17}
اور اگر الله تم کو کوئی سختی پہنچائے تو اس کے سوا اس کو کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر نعمت (وراحت) عطا کرے تو (کوئی اس کو روکنے والا نہیں) وہ ہر چیز پر قادر ہے

قُل إِنّى عَلىٰ بَيِّنَةٍ مِن رَبّى وَكَذَّبتُم بِهِ ۚ ما عِندى ما تَستَعجِلونَ بِهِ ۚ إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيرُ الفٰصِلينَ {6:57}
کہہ دو کہ میں تو اپنے پروردگار کی دلیل روشن پر ہوں اور تم اس کی تکذیب کرتے ہو۔ جس چیز (یعنی عذاب) کے لئے تم جلدی کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے (ایسا) حکم الله ہی کے اختیار میں ہے وہ سچی بات بیان فرماتا ہے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
یعنی عذاب الہٰی چنانچہ کفار کہتے تھے { اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاْمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِئْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ } (اگر یہ حق ہے جس کی ہم تکذیب کر رہے ہیں تو آپ آسمان سے ہم پر پتھروں کی بارش کر دیجئے یا ہم پر اور کوئی سخت عذاب بھیج دیجئے)
یعنی میرے پاس الله کی صاف و صریح شہادت اور واضح دلائل پہنچ چکے جن کے قبول سے سرمو انحراف نہیں کر سکتا۔ تم اس کو جھٹلاتے ہو تو اس کا انجام سوچ لو۔

وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتٰبٍ مُبينٍ {6:59}
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے۔ اور کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے
یعنی لوح محفوظ میں ہے۔ اور لوح محفوظ میں جو چیز ہو گی وہ علم الہٰی میں پہلے ہو گی اس اعتبار سے مضمون آیت کا حاصل یہ ہوا کہ عالم غیب و شہادت کی کوئی خشک و تر اور چھوٹی بڑی چیز حق تعالیٰ کے علم ازلی محبط سے خارج نہیں ہو سکتی۔ بناءً علیہ ان ظالموں کے ظاہری و باطنی احوال اور ان کی سزا دہی کے مناسب وقت و محل کا پورا پورا علم اسی کو ہے (تنبیہ) "مفاتیح" کو جن علماء نے مفتح بفتح المیم کی جمع قرار دیا ہے انہوں نے "مفاتیح الغیب" کا ترجمہ "غیب کے خزانوں" سے کیا اور جن کے نزدیک مفتح بکسر المیم کی جمع ہے وہ "مفاتیح الغیب" کا ترجمہ مترجمؒ کے موافق کرتے ہیں یعنی "غیب کی کنجیاں" مطلب یہ ہے کہ غیب کے خزانے اور ان کی کنجیاں صرف الله کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ ہی ان میں سے جس خزانہ کو جس وقت اور جس قدر چاہے کسی پر کھول سکتا ہے کسی کو یہ قدرت نہیں کہ اپنے حواس و عقل وغیرہ آلات ادراک کے ذریعہ سے علوم غیبیہ تک رسائی پاسکے یا جتنے غیوب اس پر منکشف کر دیے گئے ہیں ان میں ازخود اضافہ کر لے کیونکہ علوم غیبیہ کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں نہیں دی گئیں۔ خواہ لاکھوں کروڑوں جزئیات و واقعات غیبیہ پر کسی بندے کو مطلع کر دیا گیا ہو۔ تاہم غیب کے اصول و کلیات کا علم جن کو "مفاتیح غیب" کہنا چاہئیے حق تعالیٰ نے اپنے ہی لئے مخصوص رکھا ہے۔

وَحاجَّهُ قَومُهُ ۚ قالَ أَتُحٰجّونّى فِى اللَّهِ وَقَد هَدىٰنِ ۚ وَلا أَخافُ ما تُشرِكونَ بِهِ إِلّا أَن يَشاءَ رَبّى شَيـًٔا ۗ وَسِعَ رَبّى كُلَّ شَيءٍ عِلمًا ۗ أَفَلا تَتَذَكَّرونَ {6:80}
اور اس سے جھگڑا کیا اسکی قوم نے بولا کیا تم مجھ سے جھگڑا کرتے ہو اللہ کے ایک ہونے میں اور وہ مجھ کو سمجھا چکا [۱۰۰] اور میں ڈرتا نہیں ہوں ان سے جنکو تم شریک کرتے ہو اس کا مگر یہ کہ میرا رب ہی کوئی تکلیف پہنچانی چاہے احاطہ کر لیا ہے میرے رب کے علم نے سب چیزوں کا کیا تم نہیں سوچتے [۱۰۱]
حضرت ابراہیمؑ کی قوم کہتی تھی کہ تم جو ہمارےمعبودوں کی توہین کرتے ہو۔ ڈرتے رہو کہیں اس کے وبال میں تم معاذ اللہ مجنون اور پاگل نہ بن جاؤ یا اور کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ ۔ اس کا جواب دیا کہ میں ان سے کیا ڈروں گا جن کےہاتھ میں نفع و نقصان اور تکلیف و راحت کچھ بھی نہیں۔ ہاں میرا پروردگار مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس سے دنیا میں کون مستثنیٰ ہے۔ وہ ہی اپنے علم محیط سے جانتا ہے کہ کس شخص کو کن حالات میں رکھنا مناسب ہوگا۔
یعنی جس کو الله سمجھا چکا اور ملکوت السمٰوت والارض کی علیٰ وجہ البصیرت سیر کرا چکا کیا اس سے یہ امید رکھتے ہو کہ وہ تمہارے جھگڑنے اور بیہودہ جدول و بحث کرنے سے بہک جائے گا کبھی نہیں۔

ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم ۖ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ فَاعبُدوهُ ۚ وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ وَكيلٌ {6:102}
یہ اللہ تمہارا رب ہے نہیں ہے کوئی معبود سوا اسکے پیدا کرنے والا ہر چیز کا سو تم اسی کی عبادت کرو اور وہ ہرچیز پر کارساز ہے [۱۴۳]
اس کی عبادت اس لئے کرنی چاہئے کہ مذکورہ بالاصفات کی وجہ سے وہ ذاتی طور پر استحقاق معبود بننے کا رکھتا ہے اور اس لئے بھی کہ تمام مخلوق کی کارسازی اسی کے ہاتھ میں ہے۔

اتَّبِع ما أوحِىَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ ۖ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ وَأَعرِض عَنِ المُشرِكينَ {6:106}
تو چل اس پر جو حکم تجھ کو آوے تیرے رب کا کوئی معبود نہیں سوا اسکے اور منہ پھیر لے مشرکوں سے [۱۴۷]
آپ خدائے واحد پر بھروسہ کر کے اس کے حکم پر چلتے رہیں اور مشرکین کے جہل و عناد کی طرف خیال نہ فرمائیں جو ایسے روشن دلائل و بیانات سننے کے بعد بھی راہ راست پر نہ آئے۔

قُل يٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّى رَسولُ اللَّهِ إِلَيكُم جَميعًا الَّذى لَهُ مُلكُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۖ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ يُحيۦ وَيُميتُ ۖ فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ الَّذى يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمٰتِهِ وَاتَّبِعوهُ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ {7:158}
تو کہہ اے لوگو میں رسول ہوں اللہ کا تم سب کی طرف جس کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں کسی کی بندگی نہیں اسکےسوا وہی جلاتا ہے اور مارتا ہے سو ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امی پر جو کہ یقین رکھتا ہے اللہ پر اور اسکے سب کلاموں پر اور اسکی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ [۱۹۴]
یعنی آپ کی بعثت تمام دنیا کے لوگوں کو عام ہے۔ عرب کے امیین یا یہود و نصاریٰ تک محدود نہیں۔ جس طرح خداوند تعالیٰ شہنشاہ مطلق ہے آپ اس کے رسول مطلق ہیں۔ اب ہدایت و کامیابی کی صورت بجز اس کے کچھ نہیں کہ اس جامع ترین عالمگیر صداقت کی پیروی کی جائے جو آپ لے کے آئے ہیں۔ یہ ہی پیغمبر ہیں جن پر ایمان لانا تمام انبیاء و مرسلین اور تمام کتب سماویہ پر ایمان لانے کا مرادف ہے۔

يَسـَٔلونَكَ عَنِ السّاعَةِ أَيّانَ مُرسىٰها ۖ قُل إِنَّما عِلمُها عِندَ رَبّى ۖ لا يُجَلّيها لِوَقتِها إِلّا هُوَ ۚ ثَقُلَت فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ لا تَأتيكُم إِلّا بَغتَةً ۗ يَسـَٔلونَكَ كَأَنَّكَ حَفِىٌّ عَنها ۖ قُل إِنَّما عِلمُها عِندَ اللَّهِ وَلٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ {7:187}
تجھ سے پوچھتے ہیں قیامت کو کہ کب ہے اسکے قائم ہونے کا وقت تو کہہ اسکی خبر تو میرے رب ہی کے پاس ہے وہی کھول دکھائے گا اس کو اسکے وقت پر وہ بھاری بات ہے آسمانوں اور زمین میں جب تم پر آئے گی تو بیخبر آئے گی [۲۲۷] تجھ سے پوچھنے لگتے ہیں کہ گویا تو اسکی تلاش میں لگا ہوا ہے تو کہہ دے اس کی خبر ہے خاص اللہ کے پاس لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے [۲۲۸]
ان لوگوں کے طرز سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا وہ آپ کی نسبت یوں سمجھتے ہیں کہ آپ بھی اسی مسئلہ کی تحقیق و تفتیش اور کھوج لگانے میں مشغول رہے ہیں اور تلاش کے بعد اس کے علم تک رسائی حاصل کر چکے ہیں حالانکہ یہ علم حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ انبیاءؑ اس چیز کے پیچھے نہیں پڑا کرتے جس سے الله نے اپنی مصلحت کی بناء پر روک دیا ہو۔ نہ ان کے اختیار میں ہے کہ جو چاہیں کوشش کر کے ضرور ہی معلوم کر لیا کریں۔ ان کا منصب یہ ہے کہ جن بےشمار علوم و کمالات کا الله کی طرف سے افاضہ ہو نہایت شکر گذاری او ر قدر شناسی کے ساتھ قبول کرتے رہیں۔ مگر ان باتوں کو اکثر عوام کالانعام کیا سمجھیں۔
پہلے { عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُھُمْ } میں خاص اس قسم کی اجل (موت) کا ذکر تھا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں کب آ جائے۔ یہاں تمام دنیا کی اجل (قیامت) کے متعلق متنبہ فرما دیا کہ جب کسی کو خاص اپنی موت کا علم نہیں کب آئے پھر کل دنیا کی موت کو کون بتلا سکتا ہے کہ فلاں تاریخ اور فلاں سنہ میں آئے گی۔ اس کے تعین کا علم بجز خدائے علام الغیوب کسی کے پاس نہیں۔ وہ ہی وقت معین و مقدر پر اسے واقع کر کے ظاہرکر دے گا کہ الله کے علم میں اس کا یہ وقت تھا آسمان و زمین میں وہ بڑا بھاری واقعہ ہو گا اور اس کا علم بھی بہت بھاری ہے جو الله کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ گو اس واقعہ کی امارات (بہت سی نشانیاں) انبیاءؑ خصوصًا ہمارے پیغمبر آخر الزماں ﷺ نے بیان فرمائی ہیں تاہم ان سب علامات کے ظہور کے بعد بھی جب قیامت کا وقوع ہو گا تو بالکل بےخبری میں اچانک اور دفعۃً ہو گا۔ جیسا کہ بخاری وغیرہ کی احادیث میں تفصیلًا مذکور ہے۔

قُل لا أَملِكُ لِنَفسى نَفعًا وَلا ضَرًّا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ ۚ وَلَو كُنتُ أَعلَمُ الغَيبَ لَاستَكثَرتُ مِنَ الخَيرِ وَما مَسَّنِىَ السّوءُ ۚ إِن أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ وَبَشيرٌ لِقَومٍ يُؤمِنونَ {7:188}
تو کہہ دے کہ میں مالک نہیں اپنی جان کے بھلے کا اور نہ برے کا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں جان لیا کرتا غیب کی بات تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھ کو برائی کبھی نہ پہنچتی [۲۲۹] میں تو بس ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں ایماندار لوگوں کو
اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ کوئی بندہ خواہ کتنا ہی بڑا ہو نہ اپنے اندر "اختیار مستقل" رکھتا ہے نہ "علم محیط" سیدالانبیاء جو علوم اولین و آخرین کے حامل اور خزائن ارضی کی کنجیوں کے امین بنائے گئے تھے۔ ان کو یہ اعلان کرنے کا حکم ہے کہ میں دوسروں کو کیا خود اپنی جان کو بھی کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا نہ کسی نقصان سے بچا سکتا ہوں ۔ مگر جس قدر اللہ چاہے اتنے ہی پر میرا قابو ہے۔ اور اگر میں غیب کی ہر بات جان لیا کرتا تو بہت سی وہ بھلائیاں اور کامیابیاں بھی حاصل کر لیتا جو علم غیب نہ ہونے کی وجہ سے کسی وقت فوت ہو جاتی ہیں نیز کبھی کوئی ناخوشگوار حالت مجھ کو پیش نہ آیا کرتی۔ مثلًا "افک" کے واقعہ میں کتنے دنوں تک حضور ﷺ کو وحی نہ آنے کی وجہ سے اضطراب و قلق رہا۔ حجۃ الوداع میں تو صاف ہی فرما دیا { لَوْاسْتَقبَلْتُ مِنْ اَمْرِیَ ما اسْتَدْ بَرْتُ لَمَا سُقْتُ الھَدْیَ } (اگر میں پہلے سے اس چیز کو جانتا جو بعد میں پیش آئی تو ہرگز ہدی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا) اسی قسم کے بیسیوں واقعات ہیں جن کی روک تھام "علم محیط" رکھنے کی صورت میں نہایت آسانی سے ممکن تھی۔ ان سب سے بڑھ کر عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ "حدیث جبرئیل" کی بعض روایات میں آپ نے تصریحًا فرمایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے جبرئیل کو واپسی کے وقت تک نہیں پہچانا۔ جب وہ اٹھ کر چلے گئے تب علم ہوا کہ جبرئیل تھے۔ یہ واقعہ بتصریح محدثین بالکل آخر عمر کا ہے۔ اس میں قیامت کے سوال پر { ما المسئولُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِل } ارشاد فرمایا ہے۔ گویا بتلا دیا گیا کہ "علم محیط" الله کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اور "علم غیب" تو درکنار محسوسات و مبصرات کا پورا علم بھی الله ہی کے عطا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ کسی وقت نہ چاہے تو ہم محسوسات کا بھی اور ادراک نہیں کر سکتے۔ بہرحال اس آیت میں کھول کر بتلا دیا گیا کہ "اخیتار مستقل" یا "علم محیط" نبوت کے لوازم میں سے نہیں۔ جیسا کہ بعض جہلاء سمجھتے تھے۔ ہاں شرعیات کا علم جو انبیاءؑ کے منصب سےمتعلق ہے کامل ہونا چاہئے اور تکوینیات کا علم الله تعالیٰ جس کو جس قدر مناسب جانے عطا فرماتا ہے۔ اس نوع میں ہمارے حضور ﷺ تمام اولین و آخرین سے فائق ہیں۔ آپ کو اتنے بیشمار علوم و معارف حق تعالیٰ نے مرحمت فرمائے ہیں جن کا احصاء کسی مخلوق کی طاقت میں نہیں۔

إِنَّما يَعمُرُ مَسٰجِدَ اللَّهِ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ وَأَقامَ الصَّلوٰةَ وَءاتَى الزَّكوٰةَ وَلَم يَخشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسىٰ أُولٰئِكَ أَن يَكونوا مِنَ المُهتَدينَ {9:18}
وہی آباد کرتا ہے مسجدیں اللہ کی جو یقین لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور قائم کیا نماز کو اور دیتا رہا زکوٰۃ اور نہ ڈرا سوائے اللہ کے کسی سے سو امیدوار ہیں وہ لوگ کہ ہوویں ہدایت والوں میں [۱۷]
پہلے فرمایا تھا کہ مسلمان بدون امتحان کے یونہی نہیں چھوڑ ے جا سکتے ، بلکہ بڑے بڑے عزائم اعمال (مثلاً جہاد وغیرہ) میں ان کی ثابت قدمی دیکھی جائے گی اور یہ کہ تمام دنیا کے تعلقات پر کس طرح الله و رسول کی جانب کو ترجیح دیتے ہیں اس رکوع میں یہ بتلایا کہ الله کی مساجد (عبادت گاہیں) حقیقۃً ایسے ہی اولوالعزم مسلمانوں کے دم سے آباد رہ سکتی ہیں۔ مساجد کی حقیقی آبادی یہ ہے کہ ان میں خدائے واحد کی عبادت اس کی شان کے لائق ہو ۔ "ذکر اللہ" کرنے والے کثرت سےموجود ہوں جو بے روک ٹوک الله کو یاد کریں۔ لغویات و خرافات سے ان پاک مقامات کو محفوظ رکھا جائے ۔ یہ مقصد کفار و مشرکین سےکب حاصل ہو سکتا ہے؟ دیکھئے مشرکین مکہ بڑے فخر سے اپنے کو "مسجد حرام" کا متولی اور خادم کہتے تھے ۔ مگر ان کی بڑی خدامت گذاری یہ تھی کہ پتھر کی سینکڑوں مورتیاں کعبہ میں رکھ چھوڑی تھیں ان ہی کی نذر و نیاز کرتے اور منتیں مانتے تھے۔ بہت سے لوگ ننگے طواف کرتے تھے ، ذکر اللہ کی جگہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے اور خدائے واحد کے سچے پرستاروں کو وہاں تک پہنچنے کی اجازت نہ دیتے تھے لے دے کر ان کی بڑی عبادت یہ تھی کہ حاجیوں کے لئے پانی کی سبیل لگا دی یا حرم شریف میں چراغ جلا دیا۔ یا کعبہ پر غلاف چڑھایا یا کبھی ضرورت ہوئی تو شکست و ریخت کی مرمت کرا دی مگر یہ اعمال محض بےجان اور بے روح تھے۔ کیونکہ مشرک کو جب الله کی صحیح معرفت حاصل نہیں تو کسی عمل میں اس کا قبلہ توجہ اور مرکز اخلاص خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کی ذات منبع الکمالات نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے کافر کا کوئی عمل الله کے نزدیک زندہ اور معتدبہ عمل نہیں ہے (اسی کو {حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ } سے تعبیر فرمایا) الغرض کفار و مشرکین جو اپنے حال و قال سے اپنے کفر و شرک پر ہر وقت شہادت دیتے رہتے ہیں ، اس لائق نہیں کہ ان سے مساجد اللہ خصوصًا مسجد حرام کی حقیقی تعمیر (آبادی) ہو سکے یہ کام صرف ان لوگوں کا ہے جو دل سے خدائے واحد اور آخری دن پر ایمان لا چکے ہیں جوارح سے نمازوں کی اقامت میں مشغول رہتے ہیں، اموال میں سے باقاعدہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور الله کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔ اسی لئے مساجد کی صیانت و تطہیر کی خاطر جہاد کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ایسے مومنین جو دل زبان ہاتھ پاؤں ، مال و دولت ہر چیز سے الله کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ ان کا فرض منصبی ہے کہ مساجد کو آباد رکھیں اور تعمیر مساجد کے جھوٹے جھوٹے دعوے رکھنے والے مشرکین کو خواہ اہل قرابت ہی کیوں نہ ہوں وہاں سے نکال باہر کریں کیونکہ ان کے وجود سے مساجد اللہ کی آبادی نہیں بربادی ہے۔

اتَّخَذوا أَحبارَهُم وَرُهبٰنَهُم أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ وَالمَسيحَ ابنَ مَريَمَ وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدوا إِلٰهًا وٰحِدًا ۖ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ سُبحٰنَهُ عَمّا يُشرِكونَ {9:31}
ٹھہرا لیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا اللہ کو چھوڑ کر [۳۰] اور مسیح مریم کے بیٹے کو بھی اور انکو حکم یہی ہوا تھا کہ بندگی کریں ایک معبود کی کسی کی بندگی نہیں اسکے سوا وہ پاک ہے ان کے شریک بتلانے سے
ان کے علماء مشائخ جو کچھ اپنی طرف سے مسئلہ بنا دیتے خواہ حلال کو حرام یا حرام کو حلال کہہ دیتے اسی کو سند سمجھتے کہ بس الله کے ہاں ہم کو چھٹکارا ہو گیا۔ کتب سماویہ سے کچھ سروکار نہ رکھا تھا محض احبار و رہبان کے احکام پر چلتے تھے ۔ اور ان کا یہ حال تھا کہ تھوڑا سا مال یا جاہی فائدہ دیکھا اور حکم شریعت کو بدل ڈالا۔ جیسا کہ دو تین آیتوں کے بعد مذکور ہے ۔ پس جو منصب الله کا تھا (یعنی حلال و حرام کی تشریح) وہ علماء مشائخ کو دے دیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے فرمایا کہ انہوں نے عالموں اور درویشوں کو الله ٹھہرا لیا۔ نبی کریم ﷺ نے عدی بن حاتم کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اسی طرح کی تشریح فرمائی ہے اور حضرت حذیفہ سے بھی ایسا ہی منقول ہے حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "عالم کا قول عوام کو سند ہے جب تک وہ شرع سےسمجھ کر کہے ۔ جب معلوم ہو کہ خود اپنی طرف سےکہا ، یا طمع وغیرہ سے کہا ، پھرسند نہیں"۔

فَإِن تَوَلَّوا فَقُل حَسبِىَ اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ عَلَيهِ تَوَكَّلتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ العَرشِ العَظيمِ {9:129}
پھر بھی اگر منہ پھیریں تو کہہ دے کہ کافی ہے مجھ کو اللہ کسی کی بندگی نہیں اسکے سوا اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی مالک ہے عرش عظیم کا [۱۵۵]
گر آپ کی عظیم الشان شفقت ، خیر خواہی اور دل سوزی کی لوگ قدر نہ کریں ، تو کچھ پروا نہیں۔ اگر فرض کیجئے۔ ساری دنیا آپ سے منہ پھیر لے تو تنہا الله آپ کو کافی ہے جس کے سوا نہ کسی کی بندگی ہے نہ کسی پر بھروسہ ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ زمین و آسمان کی سلطنت اور "عرش عظیم" (تخت شہنشاہی کا) مالک وہ ہی ہے۔ سب نفع و ضرر ، ہدایت و ضلالت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ فائدہ ابوداؤد میں ابوالدرداء سے روایت کی ہے کہ جو شخص صبح و شام سات سات مرتبہ { حَسْبِیَ اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ } پڑھا کرے ، الله اس کے تمام ہموم و غموم کو کافی ہو جائے گا۔ باقی عرش کی عظمت کے متعلق اگر تفصیل دیکھنا ہو تو "روح المعانی" زیر آیت حاضرہ ملاحظہ کیجئے۔ تم سورۃ التوبہ بفضل اللہ وحسن توفیقہ۔ اللہم تب علی واجعل لی براۃ من النار انک انت التواب الرحیم۔

قُل لَن يُصيبَنا إِلّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا هُوَ مَولىٰنا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ {9:51}
تو کہہ دے ہم کو ہر گز نہ پہنچے گا مگر وہی جو لکھ دیا اللہ نے ہمارے لئے وہی ہے کارساز ہمارا اور اللہ ہی پر چاہئے کہ بھروسہ کریں مسلمان

وَعَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذينَ خُلِّفوا حَتّىٰ إِذا ضاقَت عَلَيهِمُ الأَرضُ بِما رَحُبَت وَضاقَت عَلَيهِم أَنفُسُهُم وَظَنّوا أَن لا مَلجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلّا إِلَيهِ ثُمَّ تابَ عَلَيهِم لِيَتوبوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوّابُ الرَّحيمُ {9:118}
اور ان تین شخصوں پر جن کو پیچھے رکھا تھا [۱۳۶] یہاں تک کہ جب تنگ ہو گئی ان پر زمین باوجود کشادہ ہونے کے اور تنگ ہو گئیں ان پر ان کی جانیں اور سمجھ گئے کہ کہیں پناہ نہیں اللہ سے مگر اس کی طرف پھر مہربان ہوا ان پر تاکہ وہ پھر آئیں بیشک اللہ ہی ہے مہربان رحم والا [۱۳۷]
ان تین میں سے حضرت کعبؓ بن مالک نے اپنا واقعہ نہایت شرح و بسط سے عجیب موثر طرز میں بیان فرمایا ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ملاحظہ کیا جائے ۔ یہاں اس کے بعض اجزاء نقل کئے جاتے ہیں کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ تبوک کی مہم چونکہ بہت سخت اور دشوار گذرا تھی حضور ﷺ نے صحابہ کو عام حکم تیاری دیا ۔ لوگ مقدور و استطاعت کے موافق سامان سفر درست کرنے میں مشغول تھے ۔ مگر میں بے فکر تھا کہ جب چاہوں گا فورًا تیار ہو کر ساتھ چلا جاؤں گا۔ کیونکہ بفضل ایزدی اس وقت ہر طرح کا سامان مجھ کو میسر تھا۔ ایک چھوڑ دو سواریاں میرے پاس موجود تھیں۔ میں اسی غفلت کے نشہ میں رہا۔ ادھر نبی کریم ﷺ نے تیس ہزار مجاہدین اسلام کو کوچ کا حکم دے دیا۔ مھے اب بھی یہ خیال تھا کہ حضور روانہ ہو گئے تو کیا ہے اگلی منزل پر آپ سے جا ملوں گا۔ آج چلوں کل چلوں اسی امروز فردا میں وقت نکل گیا۔ حضور ﷺ نے تبوک پہنچ کر فرمایا { مَافَعَلَ کَعْبُ بن مَالِکٍ } (کعب بن مالک کو کیا ہوا) بنی سلمہ کا ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہ ! اس کی عیش پسندی اور اعجاب و غرور نے نکلنے کی اجازت نہ دی۔ معاذ بن جبل نے کہا کہ تو نے بری بات کہی۔ الله کی قسم ہم نے اس میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ حضور ﷺ یہ گفتگو سن کر خاموش رہے ۔ کعب کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی تشریف بری کے بعد بہت زیادہ وحشت اس سے ہوتی تھی کہ سارے مدینہ میں پکے منافق یا معذور مسلمان کے سوا مجھے کوئی مرد نظر نہ پڑتا تھا۔ بہرحال اب دل میں طرح طرح کے جھوٹے منصوبے گانٹھنے شروع کئے کہ آپ ﷺ کی واپسی پر فلاں عذر کر کے جان بچا لوں گا۔ مگر جس وقت معلوم ہوا کہ حضور ﷺ خیر و عافیت سے واپس تشریف لے آئے دل سے سارے جھوٹ فریب محو ہو گئے اور طے کر لیا کہ سچ کے سوا کوئی چیز اس بارگاہ میں نجات دلانے والی نہیں۔ حضور ﷺ مسجد میں رونق افروز تھے اصحاب کا مجمع تھا۔ منافقین جھوٹے حیلے بہانے بنا کر ظاہری گرفت سے چھوٹ رہے تھے کہ میں حضور ﷺ کے سامنے آیا۔ میرے سلام کرنے پر آپ ﷺ نے غضب آمیز تبسم فرمایا اور غیر حاضری کی وجہ دریافت کی ۔ میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ! ﷺ اگر اس وقت میں دنیا والوں میں سے کسی دوسرے کے سامنے ہوتا تو آپ ﷺ دیکھتے کہ کس طرح زبان زوری اور چرب لسانی سے جھوٹے حیلے حوالے کر کے اپنے کو صاف بچا لیتا۔ مگر یہاں تو معاملہ ایک ایسی ذات مقدس سے ہے جسے جھوٹ بول کر اگر میں راضی بھی کر لوں تو تھوڑی دیر کے بعد الله اس کو سچی بات پر مطلع کر کے مجھ سے ناراض کر دے گا۔ برخلاف اس کے سچ بولنے میں گو تھوڑی دیر کے لئے آپ ﷺ کی خفگی برداشت کرنی پڑے گی لیکن میں امید کرتا ہوں کہ الله کی طرف سے اس کا انجام بہتر ہو گا۔ اور آخرکار سچ بولنا ہی مجھے الله و رسول کے غصہ سے نجات دلائے گا۔ یا رسول اللہ ﷺ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس غیر حاضری کا کوئی عذر نہیں جس وقت حضور ﷺ کی ہمرکابی کے شرف سے محروم ہوا اس وقت سے زیادہ فراخی اور مقدرت کبھی مجھ کو حاصل نہ ہوئی تھی۔ میں مجرم ہوں آپ ﷺ کو اختیار ہے جو فیصلہ چاہیں میرے حق میں دیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی ۔ اچھا جاؤ اور خدائی فیصلہ کا انتظار کرو۔ تینوں صحابیوں سے معاشرتی مطالبہ: میں اٹھا اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ (ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع) یہ دو شخص بھی میرےہی جیسے ہیں۔ ہم تینوں کے متعلق آپ نے حکم دے دیا کہ کوئی ہم سے بات نہ کرے۔ سب علیحدہ رہیں۔ چنانچہ کوئی مسلمان ہم سے بات نہ کرتا تھا نہ سلام کا جواب دیتا تھا۔ وہ دونوں تو خانہ نشین ہو گئے شب و روز گھر میں وقف گریہ و بکار رہتے تھے۔ میں ذرا سخت اور قوی تھا۔ مسجد میں نماز کے لئے حاضر ہوتا ۔ حضور ﷺ کو سلام کر کے دیکھتا تھا کہ جواب میں لب مبارک کو حرکت ہوئی یا نہیں۔ جب میں حضور ﷺ کی طرف دیکھتا آپ ﷺ میری طرف سے منہ پھیر لیتے تھے ۔ مخصوص اقارب اور محبوب ترین اعزہ بھی مجھ سے بیگانہ ہو گئے تھے ۔اسی اثناء میں ایک روز ایک شخص نے بادشاہ "غسان" کا خط مجھے دیا ۔ جس میں میری مصیبت پر اظہار ہمدردی کرنے کے بعد دعوت دی تھی کہ میں اس کے ملک میں آجاؤں۔ وہاں میری بہت آؤ بھگت ہو گی ۔میں نے پڑھ کر کہا کہ یہ بھی ایک مستقل امتحان ہے۔ آخر وہ خط میں نے نذر آتش کر دیا۔ چالیس دن گذرنے کے بعد بارگاہ رسالت سے جدید حکم پہنچا کہ میں اپنی عورت سے بھی علیحدہ رہوں۔ چنانچہ اپنی بیوی کو کہہ دیا کہ اپنے میکے چلی جائے اور جب تک الله کے یہاں سے میرا کوئی فیصلہ نہ ہو وہیں ٹھہری رہے۔ سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر اسی حالت میں موت آ گئ تو حضور ﷺ میرا جنازہ نہ پڑھیں گے ۔ اور فرض کیجئے ان دنوں میں آپ ﷺ کی وفات ہو گئ تو مسلمان ہمیشہ یہ ہی معاملہ مجھ سے رکھیں گے۔ میری میت کے قریب بھی کوئی نہ آئے گا۔ غرض پچاس دن اسی حالت میں گذرے کہ الله کی زمین مجھ پر باوجود فراخی کے تنگ تھی بلکہ عرصہ حیات تنگ ہو گیا تھا زندگی موت سے زیادہ سخت معلوم ہوتی تھی۔ کہ یکایک جبل سلع سے آواز آئی "یا کعب بن مالک ! ابشر" ( اے کعب بن مالک خوش ہو جا) میں سنتے ہی سجدہ میں گر پڑا۔ معلوم ہوا کہ اخیر شب میں حق تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر علیہ السلام کو خبر دی گئ کہ ہماری توبہ قبول ہے آپ ﷺ نے بعد نماز فجر صحابہ کو مطلع فرمایا۔ ایک سوار میری طرف دوڑا کہ بشارت سنائے ۔ مگر دوسرے شخص نے پہاڑ پر زور سے للکارا۔ اس کی آواز سوار سے پہلے پہنچی اور میں نے اپنے بدن کے کپڑے اتار کر آواز لگانے والے کو دیے۔ پھر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لوگ جوق جوق آتے اور مجھے مبارک باد دیتے تھے۔ مہاجرین میں سےحضرت طلحہؓ نے کھڑے ہو کر مصافحہ کیا۔ حضور ﷺ کا چہرہ خوشی سے چاند کی طرح چمک رہا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا الله نے تیری توبہ قبول فرمائی ۔ میں نے عرض کیا کہ اس توبہ کا تتمہ یہ ہے کہ اپنا کل مال و جائداد الله کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب نہیں کچھ اپنے لئے روکنا چاہئے۔ چنانچہ میں نے خیبر کا حصہ الگ کر کے باقی مال صدقہ کر دیا۔ چونکہ محض سچ بولنے سے مجھ کو نجات ملی تھی اس لئے عہد کیا کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا۔ اس عہد کے بعد بڑے سخت امتحانات پیش آئے ۔ مگر الحمد اللہ میں سچ کہنے سے کبھی نہیں ہٹا۔ اور نہ انشاء اللہ تازیست ہٹوں گا۔ یہ واقعہ ہے جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔ گویا ان تینوں پر الله کی پہلی مہربانی تو یہ ہی تھی کہ ایمان و اخلاص بخشا نفاق سے بچایا ۔ اب نئی مہربانی یہ ہوئی کہ توبہ نصوح کی توفیق دے کر پھر اپنی طرف کھینچ لیا اور کوتاہیوں کو معاف فرما دیا۔
یہ تین شخص کعب بن مالک ، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع ہیں ۔ جو باوجود مومن مخلص ہونے کے محض تن آسانی اور سہل انگاری کی بنا پر بدون عذر شرعی کے تبوک کی شرکت سے محروم رہے۔ جب حضور ﷺ واپس تشریف لائے تو نہ انہوں نے منافقین کی طرح جھوٹے عذر پیش کئے اور نہ بعض صحابہ کی طرح اپنے کو ستونوں سے باندھا۔ جو واقعہ تھا صاف صاف عرض کر دیا اور اپنی کوتاہی اور تقصیر کا علانیہ اعتراف کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ منافقین کی طرف سے بظاہر اغماض کر کے ان کے بواطن کو الله کے سپرد کیا گیا۔ "اصحاب سواری" کی (یعنی جو مسجد کے ستونوں سے بندھے ہوئے تھے) توبہ قبول کر لی گئ۔ اور ان تینوں کا فیصلہ تادیبًا کچھ مدت کے لئے ملتوی رکھا گیا۔ پچاس دن گذرنے کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی پیچھے رکھے جانے کا یہ ہی مطلب ہے ۔ جیسا کہ بخاری میں خود کعب بن مالک سے نقل کیا ہے۔

فَإِن تَوَلَّوا فَقُل حَسبِىَ اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ عَلَيهِ تَوَكَّلتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ العَرشِ العَظيمِ {9:129}
پھر بھی اگر منہ پھیریں تو کہہ دے کہ کافی ہے مجھ کو اللہ کسی کی بندگی نہیں اسکے سوا اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی مالک ہے عرش عظیم کا [۱۵۵]
گر آپ کی عظیم الشان شفقت ، خیر خواہی اور دل سوزی کی لوگ قدر نہ کریں ، تو کچھ پروا نہیں۔ اگر فرض کیجئے۔ ساری دنیا آپ سے منہ پھیر لے تو تنہا الله آپ کو کافی ہے جس کے سوا نہ کسی کی بندگی ہے نہ کسی پر بھروسہ ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ زمین و آسمان کی سلطنت اور "عرش عظیم" (تخت شہنشاہی کا) مالک وہ ہی ہے۔ سب نفع و ضرر ، ہدایت و ضلالت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ فائدہ ابوداؤد میں ابوالدرداء سے روایت کی ہے کہ جو شخص صبح و شام سات سات مرتبہ { حَسْبِیَ اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ } پڑھا کرے ، الله اس کے تمام ہموم و غموم کو کافی ہو جائے گا۔ باقی عرش کی عظمت کے متعلق اگر تفصیل دیکھنا ہو تو "روح المعانی" زیر آیت حاضرہ ملاحظہ کیجئے۔ تم سورۃ التوبہ بفضل اللہ وحسن توفیقہ۔ اللہم تب علی واجعل لی براۃ من النار انک انت التواب الرحیم۔

قُل هَل مِن شُرَكائِكُم مَن يَهدى إِلَى الحَقِّ ۚ قُلِ اللَّهُ يَهدى لِلحَقِّ ۗ أَفَمَن يَهدى إِلَى الحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لا يَهِدّى إِلّا أَن يُهدىٰ ۖ فَما لَكُم كَيفَ تَحكُمونَ {10:35}
پوچھ کوئی ہے تمہارے شریکوں میں جو راہ بتلائے صحیح تو کہہ اللہ راہ بتلاتا ہے صحیح تو اب جو کوئی راہ بتائے صحیح اسکی بات ماننی چاہئے یا اسکی جو آپ نہ پائے راہ مگر جب کوئی اور اسکو راہ بتلائے سو کیا ہو گیا تم کو کیسا انصاف کرتے ہو [۵۶]
''مبداء'' و ''معاد'' کے بعد درمیانی وسائط کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی جس طرح اول پیدا کرنے والا اور دوبارہ جلانے والا وہ ہی الله ہے ، ایسے ہی ''معاد'' کی صحیح راہ بتلانے والا بھی کوئی دوسرا نہیں ۔ الله ہی بندوں کی صحیح اور سچی رہنمائی کر سکتا ہے۔ مخلوق میں کوئی بڑا ہو یا چھوٹا، سب اسی کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ اسی کی ہدایت و رہنمائی پر سب کو چلنا چاہئیے بت مسکین تو کس شمار میں ہیں جو کسی کی رہنمائی سے بھی چلنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ بڑے بڑے مقربین (انبیاء و ملائکہ علیہم السلام) بھی برابر یہ اقرار کرتے آئے ہیں کہ الله کی ہدایت و دستگیری کے بدون ہم ایک قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ان کی رہنمائی بھی اسی لئے بندوں کے حق میں قابل قبول ہے کہ الله  بلاواسطہ ان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ پھر یہ کس قدر نا انصافی ہے کہ انسان اس ہادی مطلق کو چھوڑ کر باطل اور کمزور سہارے ڈھونڈے ۔ یا مثلاً احبار و رہبان پر برہمنوں اور مہنتوں کی رہنمائی پر اندھا دھند چلنے لگے۔

قُل لا أَملِكُ لِنَفسى ضَرًّا وَلا نَفعًا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذا جاءَ أَجَلُهُم فَلا يَستَـٔخِرونَ ساعَةً ۖ وَلا يَستَقدِمونَ {10:49}
تو کہہ میں مالک نہیں اپنے واسطے برے کا نہ بھلے کا مگر جو چاہے اللہ ہر فرقہ کا ایک وعدہ ہے جب آ پہنچے گا ان کا وعدہ پھر نہ پیچھے سرک سکیں گے ایک گھڑی اور نہ آگے سرک سکیں گے [۷۴]
یعنی عذاب وغیرہ بھیجنا الله کا کام ہے ، میرے قبضہ اور اختیار میں نہیں۔ میں خود اپنے نفع نقصان کا صرف اسی قدر مالک ہوں جتنا للہ چاہے۔ پھر دوسروں پر کوئی بھلائی برائی وارد کرنے کا مستقل اختیار مجھے کہاں سے ہوتا۔ ہر قوم کی ایک مدت اور میعاد الله کے علم میں مقرر ہے۔ جب میعاد پوری ہو کر اس کا وقت پہنچ جائے گا۔ ایک سیکنڈ کا تخلف نہ ہو سکے گا۔ غرض عذاب کے لئے جلدی مچانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ الله کے علم میں جو وقت طے شدہ ہے اس سے ایک منٹ آگے پیچھے نہیں سرک سکتے۔ زمخشری کے نزدیک { لَا یَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ } اس سے کنایہ ہے کہ عذاب کا اپنے وقت معین پر آنا اٹل ہے ۔ کنایہ میں حقیقت تقدم و تاخر کا نفیًا یا اثباتًا اعتبار نہیں۔ فتنبہٖلہ۔

وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدكَ بِخَيرٍ فَلا رادَّ لِفَضلِهِ ۚ يُصيبُ بِهِ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ ۚ وَهُوَ الغَفورُ الرَّحيمُ {10:107}
اور اگر پہنچا دیوے تجھ کو اللہ کچھ تکلیف تو کوئی نہیں اس کو ہٹانے والا اس کے سوا اور اگر پہنچانا چاہے تجھ کو کچھ بھلائی تو کوئی پھرنے والا نہیں اس کے فضل کو پہنچائے اپنا فضل جس پر چاہے اپنے بندوں میں اور وہی ہے بخشنے والا مہربان [۱۴۰]
جب ان چیزوں کے پکارنے سے منع کیا جن کے قبضہ میں تمہارا بھلا برا کچھ نہیں تو مناسب ہوا کہ اس کے بالمقابل مالک علی الاطلاق کا ذکر کیا جائے جو تکلیف و راحت اور بھلائی برائی کے پورے سلسلہ پر کامل اختیار اور قبضہ رکھتا ہے جس کی بھیجی ہوئی تکلیف کو دنیا میں کوئی نہیں ہٹا سکتا ۔ اور جس پر فضل و رحمت فرمانا چاہے کسی کی طاقت نہیں کہ اسے محروم کر سکے۔

أَلّا تَعبُدوا إِلَّا اللَّهَ ۚ إِنَّنى لَكُم مِنهُ نَذيرٌ وَبَشيرٌ {11:2}
کہ عبادت نہ کرو مگر اللہ کی [۲] میں تم کو اسی کی طرف سے ڈر اور خوشخبری سناتا ہوں [۳]
یعنی جو کتاب کو مانے اور شرک چھوڑ کر خدائے واحد کی عبادت کرے اسے فلاح دارین کی خوشخبری سناتے ہیں۔ جو نہ مانے اور کفر و شرک اختیار کرے اس کو عذاب الہٰی سے ڈراتے ہیں۔
یعنی اس محکم و مفصل کتاب کے نازل کرنے کا بڑا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو صرف خدائے واحد کی عبادت کی طرف دعوت دی جائے۔ اور اس کے طریقے سکھائے جائیں ۔ اسی عظیم و جلیل مقصد کے لئے پہلے انبیاء تشریف لائے تھے۔ { وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ } (الانبیاء رکوع۲) { وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُاللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ } (النحل رکوع۵) ۔

فَإِلَّم يَستَجيبوا لَكُم فَاعلَموا أَنَّما أُنزِلَ بِعِلمِ اللَّهِ وَأَن لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ فَهَل أَنتُم مُسلِمونَ {11:14}
پھر اگر نہ پورا کریں تمہارا کہنا تو جان لو کہ قرآن تو اترا ہے اللہ کی وحی سے اور یہ کہ کوئی حاکم نہیں اسکے سوا پھر اب تم حکم مانتے ہو [۲۰]
یعنی فرمائشی معجزے طلب کرتے ہیں ، جن کا دیا جانا مصلحت نہیں۔ اور جو سب سے بڑا معجزہ (قرآن) ان کے سامنے ہے ، اسے مانتے نہیں ، کہتے ہیں یہ تو (معاذ اللہ) تمہاری بنائی ہوئی گھڑنت ہے۔ اس کا جواب دیا کہ تم بھی آخر عرب ہو ، فصاحت و بلاغت کا دعویٰ رکھتے ہو ، سب مل کر ایسی ہی دس سورتیں گھڑ کر پیش کر دو اور اس کام میں مدد دینے کے لئے تمام مخلوق کو بلکہ اپنے ان معبودوں کو بھی بلا لاؤ جنہیں خدائی کا شریک سمجھتے ہو۔ اگر نہ کر سکو اور کبھی نہ کر سکو گے تو سمجھ لو کہ ایسا کلام خالق ہی کا ہو سکتا ہے۔ جس کا مثل لانے سے تمام مخلوق عاجز رہ جائے۔ تو یقینًا یہ وہ کلام ہے جو اللہ نے اپنے علم کامل سےپیغمبر پر اتارا ہے بیشک جس کے کلام کا مثل نہیں ہو سکتا اس کی ذات و صفات میں کون شریک ہو سکتا ہے۔ ایسا بے مثال کلام اسی بے مثال اللہ کا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ کیا ایسے واضح دلائل کے بعد بھی مسلمان ہونے اور اللہ کا حکم بردار بننے میں کسی چیز کا انتظار ہے (تنبیہ) اعجاز قرآن کی کچھ تفصیل سورہ "یونس" میں گذر چکی۔ ابتداء میں پورے قرآن سے تحدی کی گئ تھی۔ پھر دس سورتوں سے ہوئی ۔ پھر ایک سورت سے جیسا کہ بقرہ اور یونس میں گذرا ۔ گویا ان کا عجز بتدریج نمایاں کیا گیا۔

أَن لا تَعبُدوا إِلَّا اللَّهَ ۖ إِنّى أَخافُ عَلَيكُم عَذابَ يَومٍ أَليمٍ {11:26}
کہ نہ پرستش کرو اللہ کے سوا [۳۷] میں ڈرتا ہوں تم پر دردناک دن کے عذاب سے [۳۸]
یعنی غیر اللہ کی پرستش سے باز نہ آنے کی صورت میں سخت عذاب آنے کا ڈر ہے ۔ دردناک دن سے وہ دن مراد ہے جس میں المناک اور دردانگیز حوادث کا وقوع ہو۔ مثلاً قیامت کا دن یا وہ دن جس میں قوم نوح غرقاب کی گئ۔
یعنی وَدّ ، سُواع ، یَغُوث ، یَعُوق ، نَسْر کی جن کا ذکر سورہ نوح میں آئے گا۔

قالَ سَـٔاوى إِلىٰ جَبَلٍ يَعصِمُنى مِنَ الماءِ ۚ قالَ لا عاصِمَ اليَومَ مِن أَمرِ اللَّهِ إِلّا مَن رَحِمَ ۚ وَحالَ بَينَهُمَا المَوجُ فَكانَ مِنَ المُغرَقينَ {11:43}
بولا جا لگوں گا کسی پہاڑ کو جو بچا لے گا مجھ کو پانی سے [۶۲] کہا کوئی بچانے والا نہیں آ ج اللہ کے حکم سے مگر جس پر وہی رحم کرے اور حائل ہو گئ دونوں میں موج پھر ہو گیا ڈوبنے والوں میں [۶۳]
یعنی کس خبط میں پڑا ہے۔ یہ معمولی سیلاب نہیں۔ عذاب الہٰی کا طوفان ہے۔ پہاڑ کی کیا حقیقت کوئی چیز آج عذاب سے نہیں بچا سکتی ہاں اللہ ہی کسی پر رحم کرتے تو بچ سکتا ہے مگر اس ہنگامہ داروگیر اور مقام انتقام میں کٹر مجرموں پر رحم کیسا ہے ؟ باپ بیٹے کی یہ گفتگو پوری نہ ہوئی تھی کہ پانی کی ایک موج نے درمیان میں حائل ہو کر ہمیشہ کے لئےدونوں کو جدا کر دیا۔
وہ اپنے جہل و غبادت سے ابھی یہ خیال کر رہا تھا کہ جس طرح معمولی سیلابوں میں بعض اوقات کسی بلندی پر چڑھ کر آدمی جان بچا لیتا ہے میں بھی کسی اونچے پہاڑ پر چڑھ کر جان بچا لوں گا۔

يَومَ يَأتِ لا تَكَلَّمُ نَفسٌ إِلّا بِإِذنِهِ ۚ فَمِنهُم شَقِىٌّ وَسَعيدٌ {11:105}
جس دن وہ آئے گا بات نہ کر سکے گا کوئی جاندار مگر اسکے حکم سے سو ان میں بعضے بدبخت ہیں اور بعضے نیک بخت [۱۴۷]
یعنی کوئی شخص ایسی بات جو مقبول و نافع ہو بدون حکم الہٰی کے نہ کر سکے گا اور محشر کے بعض مواقف میں تو مطلقًا ایک حرف بھی اذن و اجازت کے بدون منہ سے نہ نکال سکیں گے۔


وَلَو شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النّاسَ أُمَّةً وٰحِدَةً ۖ وَلا يَزالونَ مُختَلِفينَ {11:118}

اور اگر چاہتا تیرا رب کر ڈالتا لوگوں کو ایک راستہ پر اور ہمیشہ رہتے ہیں اختلاف میں
إِلّا مَن رَحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذٰلِكَ خَلَقَهُم ۗ وَتَمَّت كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَملَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الجِنَّةِ وَالنّاسِ أَجمَعينَ {11:119}
مگر جن پر رحم کیا تیرے رب نے [۱۵۹] اور اسی واسطے انکو پیدا کیا ہے اور پوری ہوئی بات تیرے رب کی کہ البتہ بھر دوں گا دوزخ جنوں سے اور آدمیوں سے اکٹھے [۱۶۰]
یعنی دنیا کی آفرینش سے غرض یہ ہی ہے کہ حق تعالیٰ کی ہر قسم کی "صفات جمالیہ" و "قہریہ" کا ظہور ہو اس لئے مظاہر کا مختلف ہونا ضروری ہے تاکہ ایک جماعت اپنے مالک کی وفاداری و اطاعت دکھا کر رحمت و کرم اور رضوان و غفران کا مظہر بنے ۔ جو { اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ } کی مصداق ہے اور دوسری جماعت اپنی بغاوت و غداری سے اس کی صفت عدل و انتقام کا مظہر بن کر حبس دوام کی سزا بھگتے۔ جس پر اللہ کی یہ بات پوری ہو { لَاَ مْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ } بہرحال آفرینش عالم کا تشریعی مقصد عبادت ہے { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ } (الذاریات رکوع۳) اور تکوینی غرض یہ ہے کہ تشریعی مقصد کو اپنے کسب و اختیار سے پورا کرنے اور نہ کرنے والے دو گروہ ایسے موجود ہوں جو حق تعالیٰ کی صفات جلالیہ و جمالیہ یا بالفاط دیگر لطف و قہر کے مورد مظہر بن سکیں ؂ درکارخانہ عشق از کفر ناگزیر است۔ دوزخ کرابسوز دگر بولہب نہ باشند۔ پھر لطف و کرم کے مظاہر بھی اپنے مدارج استعداد و عمل کے اعتبار سے مختلف ہوں گے۔ ؂ گلہائے رنگ رنگ سے ہے رونق دمن۔ اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے۔
یعنی جیسا کہ بارہا پہلے لکھا جا چکا ہے اللہ تعالیٰ کی حکمت تکوینی اس کو مقتضی نہیں ہوئی کہ ساری دنیا کو ایک ہی راستہ پر ڈال دیتا اسی لئے حق کے قبول کرنے نہ کرنے میں ہمیشہ اختلاف رہتا ہے اور رہے گا۔ مگر فی الحقیقت اختلاف اور پھوٹ ڈالنے والے وہ لوگ جنہوں نے صاف و صریح فطرت کے خلاف حق کو جھٹلایا۔ اگر فطرت سلیمہ کے موافق سب چلتے تو کوئی اختلاف نہ ہوتا ۔ اسی لئے { اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ } سے متنبہ فرما دیا کہ جن پر اللہ نے ان کی حق پرستی کی بدولت رحم کیا وہ اختلاف کرنے والوں سے مستثنٰی ہیں۔

ما تَعبُدونَ مِن دونِهِ إِلّا أَسماءً سَمَّيتُموها أَنتُم وَءاباؤُكُم ما أَنزَلَ اللَّهُ بِها مِن سُلطٰنٍ ۚ إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ ۚ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ وَلٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ {12:40}
کچھ نہیں پوجتے ہو سوائے اس کے مگر نام ہیں جو رکھ لئے ہیں تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے نہیں اتاری اللہ نے ان کی کوئی سند [۶۰] حکومت نہیں ہے کسی کی سوائے اللہ کے اس نے فرما دیا کہ نہ پوجو مگر اسی کو [۶۱] یہی ہے راستہ سیدھا پر بہت لوگ نہیں جانتے [۶۲]
یعنی یوں ہی بے سند اور بے ٹھکانے کچھ نام رکھ چھوڑے ہیں جن کے نیچے حقیقت ذرہ برابر نہیں۔ ان ہی نام کے خداؤں کی پوجا کر رہے ہو ۔ ایسے جہل پر انسان کو شرمانا چاہئے۔
یعنی توحید خالص کے راستہ میں ایچ پیچ کچھ نہیں۔ سیدھی اور صاف سڑک ہے جس پر چل کر آدمی بے کھٹکے اللہ تک پہنچتا ہے لیکن بہت لوگ حماقت یا تعصب سے ایسی سیدھی بات کو بھی نہیں سمجھتے۔
یعنی قدیم سے انبیاء علیہم السلام کی زبانی یہ ہی حکم بھیجتا رہا کہ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک مت کرو۔ { وَسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَآ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِھَۃً یُّعْبَدُوْنَ } (زخرف رکوع۴)

وَقالَ يٰبَنِىَّ لا تَدخُلوا مِن بابٍ وٰحِدٍ وَادخُلوا مِن أَبوٰبٍ مُتَفَرِّقَةٍ ۖ وَما أُغنى عَنكُم مِنَ اللَّهِ مِن شَيءٍ ۖ إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ ۖ عَلَيهِ تَوَكَّلتُ ۖ وَعَلَيهِ فَليَتَوَكَّلِ المُتَوَكِّلونَ {12:67}
اور کہا اے بیٹو نہ داخل ہونا ایک دروازہ سے اور داخل ہونا کئ دروازوں سے جدا جدا اور میں نہیں بچا سکتا تم کو اللہ کی کسی بات سے حکم کسی کا نہیں سوائے اللہ کے اسی پر مجھ کو بھروسہ ہے اور اسی پر بھروسہ چاہئے بھروسہ کرنے والوں کو [۹۴]
برادران یوسفؑ پہلی مرتبہ جو مصر گئے تھے عام مسافروں کی طرح بلا امتیاز شہر میں داخل ہو گئے تھے ۔ لیکن یوسفؑ کی خاص توجہات و الطاف کو دیکھ کر یقینًا وہاں کے لوگوں کی نظریں ان کی طرف اٹھنے لگی ہو ں گی۔ اب دوبارہ جانا خاص شان و اہتمام سے بلکہ کہنا چاہئے کہ ایک طرف یوسفؑ کی دعوت پر تھا ۔ بنیامین جس کی حفاظت و محبت حضرت یعقوبؑ یوسفؑ کے بعد بہت کرتے تھے ، بھائیوں کے ہمراہ تھے ۔ یعقوبؑ کو خیال گذرا کہ ایک باپ کے گیارہ وجہیہ و خوش رو بیٹوں کا خاص شان سےبہیأت اجتماعی شہر میں داخل ہونا خصوصًا اس برتاؤ کے بعد جو عزیز مصر (یوسفؑ) کی طرف سے لوگ پہلے مشاہدہ کر چکے تھے ، ایسی چیز ہے جس کی طرف عام نگاہیں ضرور اٹھیں گی۔ "العین حق" نظر لگ جانا ایک حقیقت ہے (اور آج کل مسمریزم کے عجائبات تو عمومًا اسی قوت نگاہ کے کرشمے ہیں) یعقوبؑ نے بیٹوں کو نظر بد اور حسد وغیرہ مکروہات سے بچانے کے لئے یہ ظاہری تدبیر تلقین فرمائی کہ متفرق ہو کر معمولی حیثیت سےشہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہوں تاکہ خواہی نخواہی پبلک کی نظریں ان کی طرف نہ اٹھیں ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کر دیا کہ میں کوئی تدبیر کر کے قضاء و قدر کے فیصلوں کو نہیں روک سکتا۔ تمام کائنات میں حکم صرف اللہ کا چلتا ہے ۔ ہمارے سب انتظامات حکم الہٰی کے مقابلہ میں بیکار ہیں۔ ہاں تدبیر کرنا بھی اسی نے سمجھایا ہے اور جائز رکھا ہے ۔ آدمی کو چاہئے کہ بچاؤ کی تدبیر کر لے مگر بھروسہ اللہ پر رکھے گویا لڑکوں کو سنایا کہ میری طرح تم بھی تہ دل سے اللہ کی حفاظت پر بھروسہ رکھو۔ تدابیر پر مغرور نہ بنو۔

أَلَم يَأتِكُم نَبَؤُا۟ الَّذينَ مِن قَبلِكُم قَومِ نوحٍ وَعادٍ وَثَمودَ ۛ وَالَّذينَ مِن بَعدِهِم ۛ لا يَعلَمُهُم إِلَّا اللَّهُ ۚ جاءَتهُم رُسُلُهُم بِالبَيِّنٰتِ فَرَدّوا أَيدِيَهُم فى أَفوٰهِهِم وَقالوا إِنّا كَفَرنا بِما أُرسِلتُم بِهِ وَإِنّا لَفى شَكٍّ مِمّا تَدعونَنا إِلَيهِ مُريبٍ {14:9}
کیا نہیں پہنچی تم کو خبر ان لوگوں کی جو پہلے تھے تم سے قوم نوح کی اور عاد اور ثمود اور جو ان سے پیچھے ہوئے کسی کو انکی خبر نہیں مگر اللہ کو [۱۳] آئے انکے پاس انکے رسول نشانیاں لے کر پھر لوٹائے (الٹے دے لئے) انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں [۱۴] اور بولے ہم نہیں مانتے جو تم کو دے کر بھیجا اور ہم کو تو شبہ ہے اس راہ میں جسکی طرف تم ہم کو بلاتے ہو خلجان میں ڈالنے والا
یعنی کفار فرط غیظ سے اپنے ہاتھ کاٹنے لگے جیسے دوسری جگہ ہے { عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَ نَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ } یا انیباء کی باتیں سن کر فرط تعجب سے ہاتھ منہ پر رکھ لئے ، یا ہاتھ منہ کی طرف لے جا کر اشارہ کیا بس چپ رہئے ، یا ہماری اس زبان سے اس جواب کے سوا کوئی توقع نہ رکھو ، جو آگے آ رہا ہے۔ یا پیغمبر کی باتیں سن کر ہنستے تھے اور کبھی ہنسی کے دبانے کو منہ پر ہاتھ رکھ لیتے تھے اور یہ بھی ممکن ہے کہ { اَیْدِیْھِمْ } کی ضمیر کفار کی طرف اور { اَفْوَاھِھِمْ } کی "رُسُل" کی طرف راجع ہو ، یعنی ملعونوں نے اپنے ہاتھ پیغمبروں کے منہ میں اڑا دئے کہ وہ بالکل بول نہ سکیں یا دونوں ضمیریں "رسل" کی طرف ہوں ، یعنی سخت گستاخانہ طور پر انبیاء کے ہاتھ پکڑ کر انہیں کے منہ میں ٹھونس دئے بعض کے نزدیک یہاں "ایدی" سے مراد نعمتیں ہیں یعنی جو عظیم الشان نعمتیں انبیاء نے پیش کی تھیں مثلاً شرائع الہٰیہ وغیرہ ناقدری سے انہیں کی طرف لوٹا دیں۔ کسی کو قبول نہ کیا جیسے ہمارے محاورات میں کہتے ہیں کہ میں نے فلاں شخص کی چیز اس کے منہ پر ماری۔ بہرحال کوئی معنی لئے جائیں سب کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے نعمت خداوندی کی ناقدری کی اور انبیاء علیہم السلام کی دعوت قبول نہ کی ان کےساتھ بڑی بے رخی بلکہ گستاخی سے پیش آئے۔
یہ موسیٰؑ کے کلام کا تتمہ ہے۔ یا اسے چھوڑ کر حق تعالیٰ نے اس امت کو خطاب فرمایا ہے بہرحال اس میں بتلایا کہ جو بے شمار قومیں پہلےگذر چکیں ان کے تفصیلی پتے اور احوال بجز اللہ کےکسی کو معلوم نہیں البتہ چند قومیں جو عرب والوں کے یہاں زیادہ مشہور تھیں ان کے نام لے کر اور بقیہ کو { وَالَّذِیْنَ مِنْ بِعْدِھِمْ } میں درج کر کے متنبہ فرماتے ہیں کہ ان اقوام کا جو کچھ حشر ہوا کیا وہ تم کو نہیں پہنچا۔ تعجب ہے اتنی قومیں پہلے تباہ ہو چکیں اور ان کے حال سے ابھی تک تمہیں عبرت حاصل نہ ہوئی۔ (تنبیہ) ابن عباس نے { لَا یَعْلَمُھُمْ اِلَّا اللہُ } کو پڑھ کر فرمایا { کَذِبَ النَّسَّابُوْنَ } یعنی انساب کی پوری معرفت کا دعویٰ رکھنے والے جھوٹے ہیں ۔ عروۃ بن الزبیر فرماتے ہیں کہ ہم نے کسی کو نہیں پایا جو معد بن عدنان سے اوپر (تحقیقی طور پر) نسب کا حال بتاتا ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

يُنَزِّلُ المَلٰئِكَةَ بِالرّوحِ مِن أَمرِهِ عَلىٰ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ أَن أَنذِروا أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا أَنا۠ فَاتَّقونِ {16:2}
اتارتا ہے فرشتوں کو [۳] بھید دے کر [۴] اپنے حکم سے جس پر چاہے اپنے بندوں میں [۵] کہ خبردار کر دو کہ کسی کی بندگی نہیں سوا میرے سو مجھ سے ڈرو [۶]
یعنی توحید کی تعلیم ، شرک کا رد اور تقویٰ کی طرف دعوت ، یہ ہمیشہ سے تمام انبیاء علیہم السلام کا مشترکہ و متفقہ نصب العین (مشن) رہا ہے ۔ گویا اثبات توحید کی یہ نقلی دلیل ہوئی۔ آگے عقلی دلائل بیان کی جاتی ہیں۔
وہ بندے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ ساری مخلوق میں سے اپنی حکمت کے موافق اپنے کامل اختیار سے چن لیتا ہے ۔ { اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ } (انعام رکوع۱۵) { اَللہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ } (الحج رکوع۱۰)۔
یہاں "روح" سے مراد وحی الہٰی ہے جو اللہ کی طرف سے پیغمبروں کی طرف غیر مرئی طریق پر بطور ایک بھید کے آتی ہے ۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا { یُلْقِی الرُّوحَ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ } (المومن رکوع۲) ایک جگہ قرآن کی نسبت فرمایا { وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا } (شوریٰ رکوع۵)۔ قرآن یا وحی الہٰی کو "روح" سے تعبیر فرمانے میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح مادی اجسام کو نفخ روح سے ظاہری حیات حاصل ہوتی ہے ، اسی طرح جو قلوب جہل و ضلال کی بیماریوں سے مردہ ہو چکےتھے وہ وحی الہٰی کی روح پا کر زندہ ہوجاتے ہیں۔
یعنی فرشتوں کی جنس میں سے بعض کو جیسے حضرت جبریلؑ یا حفظۃ الوحی ، جن کی طرف { فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا } (جن رکوع۲) میں اشارہ کیا ہے۔

وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسٰنًا ۚ إِمّا يَبلُغَنَّ عِندَكَ الكِبَرَ أَحَدُهُما أَو كِلاهُما فَلا تَقُل لَهُما أُفٍّ وَلا تَنهَرهُما وَقُل لَهُما قَولًا كَريمًا {17:23}
اور حکم کر چکا تیرا رب کہ نہ پوجو اس کے سوائے اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو [۳۴] اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک ان میں سے یا دونوں تو نہ کہہ ان کو ہوں اور نہ جھڑک ان کو اور کہہ ان سے بات ادب کی [۳۵]
بڑھاپے میں خدمت کی احتیاج زیادہ ہوتی ہے ، جس سے بعض اوقات اہل و عیال بھی اکتانے لگتے ہیں زیادہ پیرانہ سالی میں ہوش وحواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے۔ بڑی سعادت مند اولاد کا کام ہے کہ اس وقت بڈھے والدین کی خدمت گذاری و فرمانبرداری سے جی نہ ہارے قرآن نے تنبیہ کی کہ جھڑکنا اور ڈانٹنا تو کجا ان کےمقابلہ میں زبان سے "ہوں" بھی مت کرو ۔ بلکہ بات کرتے وقت پورے ادب و تعظیم کو ملحوظ رکھو۔ ابن مسیب نے فرمایا ایسی طرح بات کرو جیسے ایک خطا وار غلام سخت مزاج آقا سے کرتا ہے۔
اللہ تو حقیقۃً بچہ کو وجود عطا فرماتا ہے ، والدین اس کی ایجاد کا ظاہری ذریعہ ہیں اس لئے کئ آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق کے ذکر کئے گئے ۔ حدیث میں ہے کہ وہ شخص خاک میں مل گیا جس نے اپنے والدین کو پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی ۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنا یہ ہے کہ زندگی میں ان کی جان و مال سے خدمت اور دل سے تعظیم و محبت کرے ۔ مرنے کے بعد ان کا جنازہ پڑھے ، ان کے لئے دعاء استغفار کرے ، ان کے عہد تا مقدور پورے کرے ، ان کے دوستوں کے ساتھ تعظیم و حسن سلوک سے اور ان کے اقارب کے ساتھ صلہ رحم سےپیش آئے ۔ وغیرہ ذاٰلک۔


وَلَئِن شِئنا لَنَذهَبَنَّ بِالَّذى أَوحَينا إِلَيكَ ثُمَّ لا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَينا وَكيلًا {17:86}

اور اگر ہم چاہیں تو لیجائیں اس چیز کو جو ہم نے تجھ کو وحی بھیجی پھر تو نہ پائے اپنے واسطے اس کے لادینے کو ہم پر کوئی ذمہ دار
إِلّا رَحمَةً مِن رَبِّكَ ۚ إِنَّ فَضلَهُ كانَ عَلَيكَ كَبيرًا {17:87}
مگر مہربانی سے تیرے رب کی اس کی بخشش تجھ پر بڑی ہے [۱۳۳]
یعنی قرآن کا جو علم تم کو دیا ہے اللہ چاہے تو ذرا سی دیر میں چھین لے پھر کوئی واپس نہ لا سکے۔ لیکن اس کی مہربانی آپ پر بہت بڑی ہے اسی لئے یہ نعمت عظمیٰ عنایت فرمائی ، اور چھیننے کی کوئی وجہ نہیں۔ صرف قدرت عظیمہ کا اظہار مقصود ہے اور یہ کہ کیسی ہی کامل روح ہو اس کے سب کمالات موہوب و مستعار ہیں ، ذاتی نہیں۔


وَلا تَقولَنَّ لِشَا۟يءٍ إِنّى فاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا {18:23}

اور نہ کہنا کسی کام کو کہ میں یہ کروں گا کل کو
إِلّا أَن يَشاءَ اللَّهُ ۚ وَاذكُر رَبَّكَ إِذا نَسيتَ وَقُل عَسىٰ أَن يَهدِيَنِ رَبّى لِأَقرَبَ مِن هٰذا رَشَدًا {18:24}
مگر یہ کہ اللہ چاہے اور یاد کر لے اپنے رب کو جب بھول جائے اور کہہ امید ہے کہ میرا رب مجھ کو دکھلائے اس سے زیادہ نزدیک راہ نیکی کی [۲۵]
اصحاب کہف کا قصہ تاریخی کتابوں میں نادرات میں لکھا تھا ۔ ہر کسی کو کہاں خبر ہو سکتی ، مشرکین نے یہود کے سکھانے سے حضرت سے پوچھا۔ مقصود آپ کی آزمائش تھی ، حضرت نے وعدہ کیا کہ کل بتا دوں گا اس بھروسہ پر کہ جبریل آئیں گے تو دریافت کر دوں گا۔ جبریل پندرہ دن تک نہ آئے ۔ حضرت نہایت غمگین ہوئے ، مشرکین نے ہنسنا شروع کیا۔ آخر یہ قصہ لے کر آئے اور پیچھے نصیحت کی کہ آئندہ کی بات کے متعلق بغیر "انشاء اللہ" کے وعدہ نہ کرنا چاہئیے۔ اگر ایک وقت بھول جائے تو پھر یاد کر کے کہہ لے۔ اور فرمایا کہ امید رکھ کہ تیرا درجہ اللہ اس سے زیادہ کرےیعنی کبھی نہ بھولے (موضح القرآن) یا اصحاب کہف کے واقعہ سے زیادہ عجیب طور پر آپ کی حفاظت فرمائے اور کامیاب کرے جیسا کہ غار ثور کے قصہ میں ہوا۔ یا واقعہ کہف سے زیادہ عجیب واقعات و شواہد آپ کی زبان سے بیان کرائے۔

لا يَملِكونَ الشَّفٰعَةَ إِلّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحمٰنِ عَهدًا {19:87}
نہیں اختیار رکھتے لوگ سفارش کا مگر جس نے لے لیا ہے رحمٰن سے وعدہ [۱۰۱]
یعنی جن کو اللہ تعالیٰ نے شفاعت کا وعدہ دیا مثلًا ملائکہ ، انبیاء ، صالحین وغیرہ ہم وہ ہی درجہ بدرجہ سفارش کریں گے بدون اجازت کسی کو زبان ہلانے کی طاقت نہ ہو گی اور سفارش بھی ان ہی لوگوں کی کر سکیں گے جن کے حق میں سفارش کئے جانے کا وعدہ دے چکے۔ کافروں کے لئے شفاعت نہ ہوگی۔

اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ لَهُ الأَسماءُ الحُسنىٰ {20:8}
اللہ ہے جسکے سوا بندگی نہیں کسی کی اُسی کے ہیں سب نام خاصے [۶]
آیات بالا میں جو صفات حق تعالیٰ کی بیان ہوئی ہیں (یعنی اس کا خالق الکل ، مالک علی الاطلاق ، رحمٰن ، قادر مطلق اور صاحب علم محیط ہونا) ان کا اقتضاء یہ ہے کہ الوہیت بھی تنہا اسی کا خاصہ ہو بجز اس کےکسی دوسرے کے آگے سر عبودیت نہ جھکایا جائے ۔ کیونکہ نہ صرف صفات مذکورہ بالا بلکہ کل عمدہ صفات اور اچھے نام اسی کی ذات منبع الکمالات کے لئے مخصوص ہیں۔ کوئی دوسری ہستی اس شان و صفت کی موجود نہیں جو معبود بن سکے۔ نہ ان صفتوں اور ناموں کےتعدد سے اس کی ذات میں تعدد آتا ہے۔ جیسا کہ بعض جہال عرب کا خیال تھا کہ مختلف ناموں سے اللہ کو پکارنا دعوےٰ توحید کے مخالف ہے۔

إِنَّنى أَنَا اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا أَنا۠ فَاعبُدنى وَأَقِمِ الصَّلوٰةَ لِذِكرى {20:14}
میں جو ہوں اللہ ہوں کسی کی بندگی نہیں سوا میرے سو میری بندگی کر اور نماز قائم رکھ میری یادگاری کو [۱۱]
اس میں خالص توحید اور ہر قسم کی بدنی و مالی عبادت کا حکم دیا۔ نماز چونکہ اہم العبادات تھی اس کا ذکر خصوصیت سے کیا تھا اور اس پر بھی متنبہ فرما دیا گیا کہ نماز سے مقصود اعظم اللہ تعالیٰ کی یادگاری ہے۔ گویا نماز سے غافل ہونا اللہ کی یاد سے غافل ہونا ہے اور ذکر اللہ (یاد اللہ) کے متعلق دوسری جگہ فرمایا ۔ { وَاذْکُرْ رَبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ } یعنی کبھی بھول چوک ہو جائے تو جب یاد آ جائے اسے یاد کرو۔ یہ ہی حکم نماز کا ہے کہ وقت پر غلفت و نسیان ہو جائے تو یاد آنے پر قضا کر لے { فَلْیُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا }۔

إِنَّما إِلٰهُكُمُ اللَّهُ الَّذى لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ وَسِعَ كُلَّ شَيءٍ عِلمًا {20:98}
تمہارا معبود تو وہی اللہ ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں سب چیز سما گئ ہے اُسکے علم میں [۱۰۱]
باطل کو مٹانے کے ساتھ ساتھ حضرت موسٰیؑ قوم کو حق کی طرف بلاتے جاتے ہیں ۔ یعنی بچھڑا تو کیا چیز ہے کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی معبود نہیں بن سکتی سچا معبود تو وہ ہی ایک ہے۔ جس کے سوا کسی کی بندگی عقلًا و نقلًا و فطرۃً روا نہیں اور جس کا لا محدود علم ذرہ ذرہ کو محیط ہے۔

يَومَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفٰعَةُ إِلّا مَن أَذِنَ لَهُ الرَّحمٰنُ وَرَضِىَ لَهُ قَولًا {20:109}
اُس دن کام نہ آئے گی سفارش مگر جسکو اجازت رحمٰن نے دی اور پسند کی اسکی بات [۱۱۲]
یعنی اس کی سفارش چلے گی جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سفارش کی اجازت ملے اس کا بولنا اللہ کو پسند ہو ۔ اور بات ٹھکانے کی کہے اور ایسے شخص کی سفارش کرے جس کی بات (لا الٰہ الا اللہ) اللہ کو پسند آ چکی ہے کافر کے حق میں کوئی سعی سفارش نہیں چلے گی۔

وَذَا النّونِ إِذ ذَهَبَ مُغٰضِبًا فَظَنَّ أَن لَن نَقدِرَ عَلَيهِ فَنادىٰ فِى الظُّلُمٰتِ أَن لا إِلٰهَ إِلّا أَنتَ سُبحٰنَكَ إِنّى كُنتُ مِنَ الظّٰلِمينَ {21:87}
اور مچھلی والے کو جب چلا گیا غصہ ہو کر [۱۰۳] پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے اُسکو [۱۰۴] پھر پکارا اُن اندھیروں میں [۱۰۵] کہ کوئی حاکم نہیں سوائے تیرے تو بے عیب ہے میں تھا گنہگاروں سے [۱۰۶]
یعنی میری خطا کو معاف فرمائے ۔ بیشک مجھ سے غلطی ہوئی۔
یعنی دریا کی گہرائی مچھلی کے پیٹ اور شب تاریک کے اندھیروں میں۔
یعنی یہ خیال کر لیا کہ ہم اس حرکت پر کوئی داروگیر نہ کریں گے ، یا ایسی طرح نکل کر بھاگا جیسے کوئی یوں سمجھ کر جائے کہ اب ہم اس کو پکڑ کر واپس نہیں لا سکیں گے۔ گویا بستی سےنکل کر ہماری قدرت سے ہی نکل گیا یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ یونسؑ فی الواقع ایسا سمجھتے تھے ۔ ایسا خیال تو ایک ادنیٰ مومن بھی نہیں کر سکتا۔ بلکہ غرض یہ ہے کہ صورت حال ایسی تھی جس سے یوں مترشح ہو سکتا تھا۔ حق تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ کاملین کی ادنیٰ ترین لغزش کو بہت سخت پیرایہ میں ادا کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے کئ جگہ لکھ چکے ہیں اور اس سےکاملین کی تنقیض نہیں ہوتی بلکہ جلالت شان ظاہر ہوتی ہےکہ اتنے بڑے ہو کر ایسی چھوٹی سی فروگذاشت بھی کیوں کرتے ہیں۔
"مچھلی والا" فرمایا حضرت یونسؑ کو ۔ ان کا مختصر قصہ یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہر نینوٰی کی طرف (جو موصل کے مضافات میں سے ہے) مبعوث فرمایا تھا۔ یونسؑ نے ان کو بت پرستی سے روکا اور حق کی طرف بلایا وہ ماننے والے کہاں تھے ، روز بروز ان کا عناد و تمرد ترقی کرتا رہا۔ حضرت یونسؑ کی بدعا: آخر بد دعا کی اور قوم کی حرکات سےخفا ہو کر غصہ میں بھرے ہوئے شہر سے نکل گئے حکم الہٰی کا انتظار نہ کیا اور وعدہ کر گئے کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا۔ ان کے نکل جانے کے بعد قوم کو یقین ہوا کہ نبی کی بد دعا خالی نہیں جائے گی کچھ آثار بھی عذاب کے دیکھے ہوں گے ۔ گھبرا کر سب لوگ بچوں اور جانوروں سمیت باہر جنگل میں چلےگئے ماؤں کو بچوں سے جدا کر دیا میدان میں پہنچ کر سب نے رونا چلانا شروع کیا۔ بچے اور مائیں، آدمی اور جانور سب شور مچا رہے تھے ، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ قوم یونسؑ کی توبہ اور عذاب کا ٹلنا: تمام بستی والوں نے سچے دل سےتوبہ کی ۔ بت توڑ ڈالے ، خدائے تعالیٰ کی اطاعت کا عہد باندھا اور حضرت یونسؑ کو تلاش کرنے لگےکہ ملیں تو ان کے ارشاد پر کاربند ہوں۔ حق تعالیٰ نے آنے والا عذاب ان پر سے اٹھا لیا۔ { فَلَوْلَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفعَھا اِیْمَانُھَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ لَمَّآ اٰمَنُوْ کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذابَ الْخِزِیِ فی الحَیٰوۃ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنَا ھُمْ اِلٰی حِیْنِ }۔ (یونس رکوع۱۰) ادھر یونسؑ بستی سے نکل کر ایک جماعت کے ساتھ کشتی پر سوار ہوئے ، وہ کشتی غرق ہونے لگی کشتی والوں نے بوجھ ہلکا کرنے کا ارادہ کیا کہ ایک آدمی کو نیچے پھینک دیا جائے ( یا اپنے مفروضات کے موافق یہ سمجھے کہ کشتی میں کوئی غلام مولا سے بھاگا ہوا ہے) بہرحال اس آدمی کے تعیین کےلئے قرعہ ڈالا۔ وہ یونسؑ کے نام پر نکلا۔ دو تین مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر دفعہ یونسؑ کے نام پر نکلتا رہا۔ یہ دیکھ کر یونسؑ دریا میں کود پڑے۔ مچھلی کا حضرت یونسؑ کو نگلنا: فورًا ایک مچھلی آ کر نگل گئ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ یونسؑ کو اپنے پیٹ میں رکھ ، اس کا ایک بال بینکا نہ ہو۔ یہ تیری روزی نہیں بلکہ تیرا پیٹ ہم نے اس کا قید خانہ بنایا ہے۔ اس کو اپنے اندر حفاظت سے رکھنا۔ حضرت یونسؑ کی دعا اور رہائی: اس وقت یونسؑ نے اللہ کو پکارا۔ { لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن } اپنی خطا کا اعتراف کیا کہ بیشک میں نے جلدی کی کہ تیرے حکم کا انتظار کئے بدون بستی والوں کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا ۔ گو یونسؑ کی یہ غلطی اجتہادی تھی جو امت کے حق میں معاف ہے ، مگر انبیاء کی تربیت و تہذیب دوسرے لوگوں سے ممتاز ہوتی ہے۔ جس معاملہ میں وحی آنے کی امید ہو۔ بدون انتظار کئے قوم کو چھوڑ کر چلا جانا ایک نبی کی شان کے لائق نہ تھا۔ اسی نامناسب بات پر داروگیر شروع ہو گئ۔ آخر توبہ کے بعد نجات ملی۔ مچھلی نے کنارہ پر آ کر اگل دیا۔ اور اسی بستی کی طرف صحیح سالم واپس کئے گئے۔

فَتَعٰلَى اللَّهُ المَلِكُ الحَقُّ ۖ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ رَبُّ العَرشِ الكَريمِ {23:116}
سو بہت اوپر ہے اللہ وہ بادشاہ سچا کوئی حاکم نہیں اس کے سوائے مالک اس عزت کے تخت کا [۱۱۴]
جب وہ بالاوبرتر، شہنشاہ، مالک علی الاطلاق ہے تو ہو نہیں سکتا کہ وفاداروں اور مجرموں کو یوں کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دے۔

إِن حِسابُهُم إِلّا عَلىٰ رَبّى ۖ لَو تَشعُرونَ {26:113}
ان کا حساب پوچھنا میرے رب کا ہی کام ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو

اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ رَبُّ العَرشِ العَظيمِ ۩ {27:26}
اللہ ہے کسی کی بندگی نہیں اس کے سوائے پروردگار تخت بڑے کا [۳۴]
یعنی اس کے عرش عظیم سے بلقیس کے تخت کو کیا نسبت۔

قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ {27:65}
تو کہہ خبر نہیں رکھتا جو کوئی ہے آسمان اور زمین میں چھپی ہوئی چیز کی مگر اللہ [۹۳] اور ان کو خبر نہیں کب جی اٹھیں گے [۹۴]
اللہ کی قدرت تامہ اور علم محیط:اس آیت میں مضمون سابق کی تکمیل اور مضمون لاحق کی تمہید ہے۔ شروع پارہ سے یہاں تک حق تعالیٰ کی قدرت تامہ، رحمت عامہ اور ربوبیت کاملہ کا بیان تھا۔ یعنی جب وہ ان صفات و شئون میں منفرد ہے تو الوہیت و معبودیت میں بھی منفرد ہونا چاہئے۔ آیت حاضرہ میں اس کی الوہیت پر دوسری حیثیت سے استدلال کیا جا رہا ہے۔ یعنی معبود وہ ہو گا جو قدرت تامہ کے ساتھ علم کامل و محیط بھی رکھتا ہو۔ اور یہ وہ صفت ہے جو زمین و آسمان میں کسی مخلوق کو حاصل نہیں، اسی رب العزت کے ساتھ مخصوص ہے پس اس اعتبار سے بھی معبود بننے کی مستحق اکیلی اس کی ذات ہوئی۔ (تنبیہ)۔ عالم الغیب کے الفاظ کا استعمال: کل مغیبات کا علم بجز خدا کے کسی کو حاصل نہیں، نہ کسی ایک غیب کا علم کسی شخص کو بالذات بدون عطائے الہٰی کے ہو سکتا ہے۔ اور نہ مفاتیح (غیب کی کنجیاں جن کا ذکر سورہ "انعام" میں گذر چکا) اللہ نے کسی مخلوق کو دی ہیں۔ ہاں بعض بندوں کو بعض غیوب پر باختیار خود مطلع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شخص کو حق تعالیٰ نے غیب پر مطلع فرما دیا، غیب کی خبر دے دی۔ لیکن اتنی بات کی وجہ سے قرآن و سنت نے کسی جگہ ایسے شخص پر "عالم الغیب" یا "فلان یعلم الغیب" کا اطلاق نہیں کیا۔ بلکہ احادیث میں اس پر انکار کیا گیا ہے۔ کیونکہ بظاہر یہ الفاظ اختصاص علم الغیب بذات الباری کے خلاف موہم ہوتے ہیں۔ اسی لئے علمائے محققین اجازت نہیں دیتے کہ اس طرح کے الفاظ کسی بندہ پر اطلاق کئے جائیں۔ گو لغۃً صحیح ہوں کسی کا یہ کہنا کہ { اِنَّ اللہَ لَا یَعْلَمُ الْغَیْبَ } (اللہ کو غیب کا علم نہیں) گو اس کی مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے کوئی چیز غیب ہے ہی نہیں، سخت ناروا اور سوء ادب ہے۔ یا کسی کاحق سے موت اور فتنہ سے اولاد اور رحمت سے بارش مراد لے کر یہ الفاظ کہنا { انی اکرہ الحق وَاُحِبُّ الفتنۃ وافِرُّ مِنَ الرَّحْمَۃِ } (میں حق کو برا سمجھتا ہوں اور فتنہ کو محبوب رکھتا ہوں اور رحمت سے دور بھاگتا   ہوں) سخت مکرو اور قبیح ہے، حالانکہ باعتبار نیت و مراد کے قبیح نہ تھا اسی طرح فلاں عالم الغیب وغیرہ الفاظ کو سمجھ لو۔ اور واضح رہے کہ علم غیب سے ہماری مراد محض ظنون و تخمینات نہیں اور نہ وہ علم جو قرائن و دلائل سے حاصل کیا جائے۔ بلکہ جس کے لئے کوئی دلیل و قرینہ موجود نہ ہو وہ مراد ہے۔ سورہ انعام و اعراف میں اس کے متعلق کسی قدر لکھا جا چکا ہے۔ وہاں مراجعت کر لی جائے۔
یعنی قیامت کب آئے گی جس کے بعد مردے دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اس کی خبر کسی کو نہیں ۔ پہلے سے مبداء کا ذکر چلا آتا تھا۔ یہاں سے معاد کا شروع ہوا۔

وَهُوَ اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ لَهُ الحَمدُ فِى الأولىٰ وَالءاخِرَةِ ۖ وَلَهُ الحُكمُ وَإِلَيهِ تُرجَعونَ {28:70}
اور وہی اللہ ہے کسی کی بندگی نہیں اسکے سوا اسی کی تعریف ہے دنیا اور آخرت میں اور اسی کے ہاتھ حکم ہے اور اسی کے پاس پھیرے جاؤ گے [۹۶]
یعنی جس طرح تخلیق و اختیار اورعلم محیط میں وہ منفرد ہے الوہیت میں بھی یگانہ ہے۔ بجز اس کے کسی کی بندگی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اسی کی ذات منبع الکمالات میں تمام خوبیاں جمع ہیں۔ دنیا اور آخرت میں جو تعریف بھی خواہ وہ کسی کے نام رکھ کر کی جائے حقیقت میں اسی کی تعریف ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے۔ اسی کا فیصلہ ناطق ہے۔ اسی کو اقتدار کلی حاصل ہے اور انجام کار سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ آگے بتلاتے ہیں کہ رات دن میں جس قدر نعمتیں اور بھلائیاں تمکو پہنچتی ہیں اسی کے فضل و انعام سے ہیں۔ بلکہ خود رات اور دن کا ادل بدل کرنا بھی اس کا مستقل احسان ہے۔

وَلا تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلٰهًا ءاخَرَ ۘ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيءٍ هالِكٌ إِلّا وَجهَهُ ۚ لَهُ الحُكمُ وَإِلَيهِ تُرجَعونَ {28:88}
اور مت پکار اللہ کے سوائے دوسرا حاکم [۱۲۷] کسی کی بندگی نہیں اسکے سوائے ہر چیز فنا ہے مگر اس کا منہ [۱۲۸] اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف پھر جاؤ گے [۱۲۹]
یعنی سب کو اس کی عدالت میں حاضر ہونا ہے جہاں تنہا اسی کا حکم چلے گا۔ صورۃً و ظاہرًا بھی کسی کا حکم و اقتدار باقی نہ رہے گا۔ اے اللہ اس وقت اس گنہگار بندہ پر رحم فرمایئے اور اپنے غضب سے پناہ دیجئے۔ تم سورۃ القصص وللہ الحمد والمنۃ۔
یعنی ہر چیز اپنی ذات سےمعدوم ہے اور تقریبًا تمام چیزوں کو فنا ہونا ہے، خواہ کبھی ہو۔ مگر اس کا منہ یعنی وہ آپ کبھی معدوم تھا، نہ کبھی فنا ہو سکتا ہے۔ سچ ہے؎ { اَلَا کُلُّ شیءٍ مَا خَلَا اللہ بَاطِلٌ }۔ قال تعالیٰ { کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ} اور بعض سلف نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ سارے کام مٹ جانے والے اور فنا ہو جانے والے ہیں بجز اس کام کے جو خالصًا لوجہ اللہ کیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
یہ آپ کو خطاب کر کے دوسروں کو سنایا۔ اوپر کی آیتوں میں بھی بعض مفسرین ایسا ہی لکھتے ہیں۔

الَّذينَ يُبَلِّغونَ رِسٰلٰتِ اللَّهِ وَيَخشَونَهُ وَلا يَخشَونَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ وَكَفىٰ بِاللَّهِ حَسيبًا {33:39}
وہ لوگ جو پہنچاتے ہیں پیغام اللہ کے اور ڈرتے ہیں اس سے اور نہیں ڈرتے کسی سے سوائے اللہ کے اور بس ہے اللہ کفایت کرنے والا [۵۷]
یعنی اللہ کا حکم اٹل ہے جو بات اس کے یہاں طے ہو چکی ضرور ہو کر رہے گی۔ پھر پیغمبر کو ایسا کرنے میں کیا مضائقہ ہے جو شریعت میں روا ہو گیا۔ انبیاء و رسل کو اللہ کے پیغامات پہنچانے میں اس کے سوا کبھی کسی کا ڈر نہیں رہا۔ (چنانچہ آپ نے بھی پیغام رسانی میں آج تک کسی چیز کی پروا نہیں کی نہ کسی کےکہنے سننے کے خیال سے کبھی متاثر ہوئے) پھر اس نکاح کے معاملہ میں رکاٹ کیوں ہو۔ حضرت داؤٗدؑ کی سو بیویاں تھیں اسی طرح سلیمانؑ کی کثرت ازواج مشہور ہے جو الزام سفیہاء آپ کو دے سکتے ہیں انبیائے سابقین کی لائف میں اس سے بڑھ کر نظیریں موجود ہیں۔ لہذا اس طرح کی سفیہانہ اور جاہلانہ نکتہ چینیوں پر نطر نہیں کرنا چاہئے۔ آگے بتلایا ہے کہ زید بن حارثہؓ جن کو آپ نے متبنٰی کر لیا تھا آپ کے واقعی بیٹے نہیں بن گئے تھے کہ ان کی مطلقہ سے آپ نکاح نہ کر سکیں۔ اور ایک زید کیا، آپ تو مردوں میں سے کسی کے بھی باپ نہیں۔ کیونکہ آپ کی اولاد میں یا لڑکے ہوئے جو بچپن میں مر گئے۔ اور بعض اس آیت کے نزول کے وقت پیدا ہی نہیں ہوئے۔ یا بیٹیاں تھیں جن میں سے حضرت فاطمہ زہراءؓ کی ذریت دنیا میں پھیلی۔

وَلا تَنفَعُ الشَّفٰعَةُ عِندَهُ إِلّا لِمَن أَذِنَ لَهُ ۚ حَتّىٰ إِذا فُزِّعَ عَن قُلوبِهِم قالوا ماذا قالَ رَبُّكُم ۖ قالُوا الحَقَّ ۖ وَهُوَ العَلِىُّ الكَبيرُ {34:23}
اور کام نہیں آتی سفارش اس کے پاس مگر اس کو کہ جس کے واسطے حکم کر دے [۳۴] یہاں تک کہ جب گھبراہٹ دور ہو جائے ان کے دل سےکہیں کیا فرمایا تمہارے رب نے وہ کہیں فرمایا جو واجبی ہے اور وہی ہے سب سے اوپر بڑا [۳۵]
یہ فرشتوں کا حال فرمایا جو ہمہ وقت اس بارگاہ کے حاضر باش ہیں۔ جب اوپر سے اللہ کا حکم اترتا ہے ایسی آواز آتی ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر کھینچی جائے۔ (شاید اتصال و بساطت کو قریب الی الفہم کرنے کے لئے یہ تشبیہ دی گئ) فرشتے دہشت اور خوف و رعب سے تھرا جاتے ہیں اور تسبیح کرتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ جب یہ حالت رفع ہو کر دل کو تسکین ہوئی اور کلام اتر چکا۔ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا حکم ہوا۔ اوپر والے فرشتے نیچے والوں کو درجہ بدرجہ بتلاتے ہیں کہ جو اللہ کی حکمت کے موافق ہے اور آگے سے قاعدہ معلوم ہے وہ ہی حکم ہوا۔ ظاہر ہے وہاں معقول اور واجبی بات کے سوا کیا چیز ہو سکتی ہے پس جس کےعلوّ و عظمت کی یہ کیفت ہو کہ حکم دے تو مقربین کا مارے ہیبت و جلال کے یہ حال ہو جائے وہاں کس کی ہمت ہے کہ ازخود سعی و سفارش کے لئے کھڑا ہو جائے(تنبیہ) آیت کی اور تفسیریں بھی کی گئ ہیں جن کی نسبت حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں "وجمیع ذلک مخالف لہذا الحدیث الصحیح (الذی فی البخاری) ولاحادیث کثیرۃ تویدہ (فتح الباری ۱۳۔۳۸۱)"۔
یعنی یہ مسکین کیا کام آتے جنہیں آسمان و زمین میں نہ ایک ذرہ کا مستقل اختیار ہے (بلکہ بتوں کو تو غیر مستقل بھی نہیں) نہ آسمان و زمین میں ان کی کچھ شرکت نہ اللہ کو کسی کام میں مدد کی ضرورت، جو یہ اس کے معین و مددگار بن کر ہی کچھ حقوق جتلاتے۔ اس کی بارگاہ تو وہ ہے جہاں بڑے بڑے مقربین کی یہ بھی طاقت نہیں کہ بدون اذن و رضاء کے کسی کی نسبت ایک حرف سفارش ہی زبان سے نکال سکیں۔ انبیاء و اولیاء اور ملائکۃ اللہ کی شفاعت بھی صرف انہی کے حق میں نافع ہو گی جن کے لئے ادھر سے سفارش کا حکم مل جائے۔

يٰأَيُّهَا النّاسُ اذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم ۚ هَل مِن خٰلِقٍ غَيرُ اللَّهِ يَرزُقُكُم مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ ۚ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ فَأَنّىٰ تُؤفَكونَ {35:3}
اے لوگو یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر کیا کوئی ہے بنانے والا اللہ کے سوائے روزی دیتا ہے تم کو آسمان سے اور زمین سے کوئی حاکم نہیں مگر وہ پھر کہاں الٹے جاتے ہو [۷]
یعنی مانتے ہو کہ پیدا کرنا اور روزی کے سامان بہم پہنچا کرزندہ رکھنا سب اللہ کے قبضہ اور اختیار ہے۔ پھر معبودیت کا استحقاق کسی دوسرے کو کدھر سے ہو گیا جو خالق و رازق حقیقی ہے وہ ہی معبود ہونا چاہئے۔

وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِن تُرابٍ ثُمَّ مِن نُطفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُم أَزوٰجًا ۚ وَما تَحمِلُ مِن أُنثىٰ وَلا تَضَعُ إِلّا بِعِلمِهِ ۚ وَما يُعَمَّرُ مِن مُعَمَّرٍ وَلا يُنقَصُ مِن عُمُرِهِ إِلّا فى كِتٰبٍ ۚ إِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرٌ {35:11}
اور اللہ نے تم کو بنایا مٹی سے پھر بوند پانی سے پھر بنایا تم کو جوڑے جوڑے اور نہ پیٹ رہتا ہے کسی مادہ کو اور نہ وہ جنتی ہے بن خبر اس کے [۱۶] اور نہ عمر پاتا ہے کوئی بڑی عمر والا اور نہ گھٹتی ہے کسی کی عمر مگر لکھا ہے کتاب میں بیشک یہ اللہ پر آسان ہے [۱۷]
یعنی جس کی جتنی عمر ہے لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے اور جو اسباب عمر کے گھٹنے بڑھنے کے ہیں یا یہ کہ کون عمر طبعی کو پہنچے گا۔ کون نہیں، سب اللہ کے علم میں ہے اور اللہ کو ان جزئیات پر احاطہ رکھنا بندوں کی طرح کچھ مشکل نہیں۔ اس کو تو تمام ماکان و ما یکون، جزئی، کلی اور غیب و شہادت کا علم ازل سے حاصل ہے۔ اس کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "ہر کام سہج سہج ہوتا ہے جیسے آدمی کا بننا" اور اپنی عمر مقدر کو پہنچنا۔ اسی طرح سمجھ لو اسلام بتدریج بڑھے گا اور آخر کار کفر کو مغلوب و مقہور کر کے چھوڑے گا۔
یعنی آدم کو مٹی سے پھر اس کی اولاد کو پانی کی بوند سے پیدا کیا۔ پھر مرد عورت کے جوڑے بنا دیے جس سے نسل پھیلی۔ اس درمیان میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک جو ادوار و اطوار گذرے سب کی خبر اللہ ہی کو ہے۔ ماں باپ بھی نہیں جانتے کہ اندر کیا کیا صورتیں پیش آئیں۔

إِنَّهُم كانوا إِذا قيلَ لَهُم لا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ يَستَكبِرونَ {37:35}
وہ تھے کہ ان سے جب کوئی کہتا کسی کی بندگی نہیں سوائے اللہ کے تو غرور کرتے [۲۶]
یعنی ان کا کبروغرور مانع ہے کہ نبی کے ارشاد سے یہ کلمہ (لا الٰہ الاللہ) زبان پر لائیں جس سے ان کے جھوٹے معبودوں کی نفی ہوتی ہے۔ خواہ دل میں اسے سچ ہی مانتے ہوں۔

خَلَقَكُم مِن نَفسٍ وٰحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنها زَوجَها وَأَنزَلَ لَكُم مِنَ الأَنعٰمِ ثَمٰنِيَةَ أَزوٰجٍ ۚ يَخلُقُكُم فى بُطونِ أُمَّهٰتِكُم خَلقًا مِن بَعدِ خَلقٍ فى ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ۚ ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم لَهُ المُلكُ ۖ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ فَأَنّىٰ تُصرَفونَ {39:6}
بنایا تم کو ایک جی سے پھر بنایا اس سے اس کا جوڑ ا [۹] اور اتارے تمہارے واسطے چوپاؤں سے آٹھ نر مادہ [۱۰] بناتا ہے تم کو ماں کے پیٹ میں ایک طرح پر دوسری طرح کے پیچھے [۱۱] تین اندھیروں کے بیچ [۱۲] وہ اللہ ہے رب تمہارا اسی کا راج ہے کسی کی بندگی نہیں اسکےسوائے پھر کہاں سے پھرے جاتے ہو [۱۳]
یعنی جب خالق، رب، مالِک اور مَلِک وہ ہی ہے تو معبود اس کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ خدائے واحد کے لئے ان صفات کا اقرار کرنے کے بعد دوسرے کی بندگی کیسی۔ مطلب کے اتنا قریب پہنچ کر کدھر پھرے جاتے ہو۔
ایک پیٹ دوسرا رحم تیسری جھلی جس کے اندر بچہ ہوتا ہے۔ وہ جھلی بچہ کے ساتھ نکلتی ہے۔
یعنی بتدریج پیدا کیا۔ مثلاً نطفہ سے علقہ بنایا، علقہ سے مضغہ بنایا، پھر ہڈیاں بنائیں اور ان پر گوشت منڈھا، پھر روح پھونکی۔
یعنی تمہارے نفع اٹھانے کے لئے چوپایوں میں آٹھ نر و مادہ پیدا کئے۔ اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری جن کا ذکر "سورہ انعام" میں گذر چکا۔
یعنی آدمؑ اور ان کا جوڑا حضرت حوّا۔

وَنُفِخَ فِى الصّورِ فَصَعِقَ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَمَن فِى الأَرضِ إِلّا مَن شاءَ اللَّهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فيهِ أُخرىٰ فَإِذا هُم قِيامٌ يَنظُرونَ {39:68}
اور پھونکا جائے صور میں پھر بیہوش ہو جائے جو کوئی ہے آسمانوں میں اور زمین میں مگر جس کو اللہ چاہے پھر پھونکی جائے دوسری بار تو فورًا وہ کھڑے ہو جائیں ہر طرف دیکھتے [۸۴]
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں۔ ایک بار نفخہ صور ہے عالم کے فنا کا، دوسرا ہے زندہ ہونے کا، یہ تیسرا بعد حشر کے ہے بیہوشی کا، چوتھا خبردار ہونے کا، اسکے بعد اللہ کے سامنے سب کی پیشی ہو گی"۔ اور تبغیر یسیر۔ لیکن اکثر علمائے محققین کے نزدیک کل دو مرتبہ نفخہ صور ہو گا۔ پہلی مرتبہ میں سب کے ہوش اڑ جائیں گے۔ پھر زندے تو مردہ ہو جائیں گے اور جو مر چکے تھے ان کی ارواح پر بیہوشی کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ بعدہٗ دوسرا نفخہ ہو گا جس سے مردوں کی ارواح ابدان کی طرف واپس آ جائیں گی اور بیہوشوں کو افاقہ ہو گا۔ اس وقت محشر کے عجیب و غریب منظر کر حیرت زدہ ہو کر تکتے رہیں گے۔ پھر خداوند قدوس کی پیشی میں تیزی کے ساتھ حاضر کئے جائیں گے۔ (تنبیہ) { اَلَّا مَنْ شاءَ اللہ} سے بعض نے جبریل، میکائیل اسرافیل اور ملک الموت مراد لئے ہیں۔ بعض نے ان کے ساتھ حملۃ العرش کو بھی شامل کیا ہے ۔بعض کےنزدیک انبیاء و شہدأ مراد ہیں واللہ اعلم۔ بہرحال یہ استثناء اس نفخہ کے وقت ہو گا۔ اس کے بعد ممکن ہے ان پر بھی فنا طاری کر دی جائے۔ { لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمُ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّار } (المؤمن رکوع۲)۔

غافِرِ الذَّنبِ وَقابِلِ التَّوبِ شَديدِ العِقابِ ذِى الطَّولِ ۖ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ إِلَيهِ المَصيرُ {40:3}
گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا [۱] سخت عذاب دینے والا مقدور والا [۲] کسی کی بندگی نہیں سوائے اسکے اسی کی طرف پھر جانا ہے [۳]
یعنی توبہ قبول کر کے گناہوں سے ایسا پاک و صاف کر دیتا ہے گویا کبھی گناہ کیا ہی نہ تھا۔ اور مزید برآں تو بہ کو مستقل طاعت قرار دیکر اس پر اجر عنایت فرماتا ہے۔
یعنی بیحد قدرت و وسعت اور غنا والا جو بندوں پرانعام و احسان کی بارشیں کرتا رہتا ہے۔
جہاں پہنچ کر ہر ایک کو اپنے کیے کا بدلہ ملے گا۔

ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ فَأَنّىٰ تُؤفَكونَ {40:62}
اور اللہ ہے تمہارا رب ہر چیز بنانے والا کسی کی بندگی نہیں اسکے سوائے پھر کہاں سے پھرے جاتے ہو [۸۴]
یعنی رات دن کی سب نعمتیں اسکی طرف سے مانتے ہو، تو بندگی بھی صرف اسی کی ہونی چاہئے اس مقام پر پہنچ کر تم کہاں بھٹک جاتے ہو کہ مالکِ حقیقی تو کوئی ہو اور بندگی کسی کی کیجائے۔

هُوَ الحَىُّ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ فَادعوهُ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ ۗ الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العٰلَمينَ {40:65}
وہ ہے زندہ رہنے والا [۸۷] کسی کی بندگی نہیں اسکے سوائے سو اس کو پکارو خالص کر کر اس کی بندگی سب خوبی اللہ کو جو رب ہے سارے جہان کا [۸۸]
کمالات اور خوبیاں سب وجود حیات کے تابع ہیں۔ جو حیّ علی الاطلاق ہے وہ ہی عبادت کا مستحق اور تمام کمالات اور خوبیوں کا مالک ہو گا۔ اسی لئے { ھُوَالْحَیّ } کے بعد { اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } فرمایا ۔ جیسا کہ پہلی آیت میں نعمتوں کا ذکر کر کے { فَتَبَارَکَ اللہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ } فرمایا تھا۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ { لَااِلٰہَ اِلَّا اللہَ } کے بعد { اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } کہنا چاہیئے۔ اس کا ماخذ یہ ہی آیت ہے۔
جس پر کسی حیثیت سے کبھی فنا اور موت طاری نہیں ہوئی، نہ ہو سکتی ہے۔ اور ظاہر ہے جب اسکی حیات ذاتی ہوئی تو تمام لوزام حیات بھی ذاتی ہوں گے۔

الرُّسُلُ مِن بَينِ أَيديهِم وَمِن خَلفِهِم أَلّا تَعبُدوا إِلَّا اللَّهَ ۖ قالوا لَو شاءَ رَبُّنا لَأَنزَلَ مَلٰئِكَةً فَإِنّا بِما أُرسِلتُم بِهِ كٰفِرونَ {41:14}
جب آئے انکے پاس رسول آگے سے اور پیچھے سے [۱۹] کہ نہ پوجو کسی کو سوائے اللہ کے کہنے لگے اگر ہمارا رب چاہتا تو بھیجتا فرشتے سو ہم تمہارا لایا ہوا نہیں مانتے [۲۰]
یعنی اللہ کا رسول بشر کیسے ہو سکتا ہے ۔ اگر اللہ کو واقعی رسول بھیجنا تھا تو آسمان سے کسی فرشتہ کو بھیجتا۔ بہرحال تم اپنے زعم کے موافق جو باتیں اللہ کی طرف سے لائے ہو ہم ان کے ماننے کے لئے تیار نہیں۔
یعنی ہر طرف سے۔ شاید بہت رسول آئے ہوں گے مگر مشہور یہ ہی دو رسول ہیں۔ حضرت ہود اور حضرت صالح علی نبینا و علیہما الصلوٰۃ والسلام۔ اور یا { مِنْ بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ } سے مراد یہ ہو کہ ان کو ماضی اور مستقبل کی باتیں سمجھاتے ہوئے آئے۔ کوئی جہت اور کوئی پہلو نصیحت و فہمائش کا نہیں چھوڑا۔

إِلَيهِ يُرَدُّ عِلمُ السّاعَةِ ۚ وَما تَخرُجُ مِن ثَمَرٰتٍ مِن أَكمامِها وَما تَحمِلُ مِن أُنثىٰ وَلا تَضَعُ إِلّا بِعِلمِهِ ۚ وَيَومَ يُناديهِم أَينَ شُرَكاءى قالوا ءاذَنّٰكَ ما مِنّا مِن شَهيدٍ {41:47}
اُسی کی طرف حوالہ ہے قیامت کی خبر کا [۶۷] اور نہیں نکلتے کوئی میوے اپنے غلاف سے اور نہیں رہتا حمل کسی مادہ کو اور نہ وہ جنے کہ جسکی اسکو خبر نہیں [۶۸] اور جس دن انکو پکارے گا کہاں ہیں میرےشریک [۶۹] بولیں گے ہم نے تجھ کو کہہ سنایا ہم میں کوئی اس کا اقرار نہیں کرتا [۷۰]
یعنی ہم تو آپ سے صاف عرض کر چکے کہ ہم میں کوئی اقبالی مجرم نہیں جو اس جرم (شرک) کا اعتراف کرنے کو تیار ہو۔ (گویا اس وقت نہایت دیدہ دلیری سے جھوٹ بول کر واقعہ کا انکار کرنے لگیں گے)۔ اور بعض نے شہید کو بمعنی شاہد لے کر یہ مطلب لیا ہے کہ اس وقت ہم میں سے کوئی ان شرکاء کو یہاں نہیں دیکھتا۔
یعنی جنکو میری خدائی میں شریک ٹھہراتے تھے اب بلاؤ نا، وہ کہاں ہیں۔
یعنی علم الٰہی ہر چیز کو محیط ہے۔ کوئی کھجور اپنے گابھے سے، اور کوئی دانہ اپنے خوشہ سے اور کوئی میوا یا پھل اپنے غلاف سے باہر نہیں آتا جسکی خبر اللہ کو نہ ہو۔ نیز کسی عورت یا کسی مادہ (جانور) کے پیٹ میں جو بچہ موجود ہے اور جو چیز وہ جن رہی ہے سب کچھ اللہ کے علم سے ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کی موجودہ دنیا کے نتیجہ کے طور پر جو آخرت کا ظہور اور قیامت کا وقوع ہونے والا ہے اس کا وقت بھی اللہ ہی کو معلوم کے کہ کب آئے گا۔ کوئی انسان یا فرشتہ اسکی خبر نہیں رکھتا۔ اور نہ اسکو خبر رکھنے کی ضرورت۔ ضرورت اس کی ہے کہ آدمی قیامت کی خبر پر اللہ کے فرمانے کے موافق یقین رکھے اور اس دن کی فکر کرے جب کوئی شریک کام نہ آئے گا اور کہیں مخلص نہ ملے گا۔
یعنی اس کو خبر ہے کہ قیامت کب آئے گی۔ بڑے سے بڑا نبی اور فرشتہ بھی اس کے وقت کی تعیین نہیں کر سکتا۔ جس سے دریافت کرو گے یہی کہے گا { مَااْلمَسْئولُ عَنْھَا بِاَ عْلَمَ السَّائِل }۔

وَلا يَملِكُ الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِهِ الشَّفٰعَةَ إِلّا مَن شَهِدَ بِالحَقِّ وَهُم يَعلَمونَ {43:86}
اور اختیار نہیں رکھتے وہ لوگ جنکو یہ پکارتے ہیں سفارش کا مگر جس نے گواہی دی سچی اور انکو خبر تھی [۸۳]
یعنی اتنی سفارش کر سکتے ہیں کہ جس نے انکے علم کے موافق کلمہ اسلام کہا اس کی گواہی دیں۔ بغیر کلمہ اسلام کسی کے حق میں ایک حرف سفارش کا نہیں کہہ سکتے اور اتنی سفارش بھی صالحین کریں گے جو سچائی کو جانتے اور اسکو زبان و دل سے مانتے ہیں دوسروں کو اجازت نہیں۔

لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ يُحيۦ وَيُميتُ ۖ رَبُّكُم وَرَبُّ ءابائِكُمُ الأَوَّلينَ {44:8}
کسی کی بندگی نہیں سوائے اسکے جلاتا ہے اور مارتا ہے رب تمہارا اور رب تمہارے اگلے باپ دادوں کا [۷]
یعنی جس کے قبضہ میں مارنا جِلانا اور وجود و عدم کی باگ ہو۔ اور سب اولین و آخرین جس کے زیر تربیت ہوں۔ کیا اسکے سوا دوسرے کی بندگی جائز ہو سکتی ہے؟ یہ ایک ایسی صاف حقیقت ہے جس میں شک و شبہ کی قطعًا گنجائش نہیں۔


يَومَ لا يُغنى مَولًى عَن مَولًى شَيـًٔا وَلا هُم يُنصَرونَ {44:41}

جس دن کام نہ آئے کوئی رفیق کسی رفیق کے کچھ بھی اور نہ اُنکو مدد پہنچے [۳۳]

یعنی نہ کسی اور طرف سے مدد پہنچ سکے گی۔
إِلّا مَن رَحِمَ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ العَزيزُ الرَّحيمُ {44:42}
مگر جس پر رحم کرے اللہ بیشک وہی ہے زبردست رحم والا [۳۴]
یعنی بس جس پر اللہ کی رحمت ہو جائے وہ ہی بچے گا۔ کما ورد فی الحدیث { اِلَّا اَنْ یَّتَغممَّدَنِیَ اللہُ بِرَحْمَتِہٖ }۔

وَاذكُر أَخا عادٍ إِذ أَنذَرَ قَومَهُ بِالأَحقافِ وَقَد خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَمِن خَلفِهِ أَلّا تَعبُدوا إِلَّا اللَّهَ إِنّى أَخافُ عَلَيكُم عَذابَ يَومٍ عَظيمٍ {46:21}
اور یاد کر عاد کے بھائی کو [۳۶] جب ڈرایا اپنی قوم کو احقاف میں [۳۷] اور گذر چکے تھے دڑانے والے اسکے آگے سے اور پیچھے سے کہ بندگی نہ کرو کسی کی اللہ کے سوائے میں ڈرتا ہوں تم پر آفت سے ایک بڑے دن کی [۳۸]
یعنی ہودؑ سے پہلے اور پیچھے بہت ڈرانے والے آئے سب نے وہ ہی کہا جو حضرت ہودؑ نے کہا تھا یعنی ایک اللہ کی بندگی کرو اور کفر و معصیت کے برے انجام سے ڈرو۔ ممکن ہے قوم عاد میں بھی حضرت ہودؑ کے علاوہ اور نذیر آئے ہوں۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
مؤلف "ارض القرآن" "بلاد الاحقاف" کے تحت میں لکھتا ہے "یمامہ، عمان، بحرین، حضر موت اور مغربی یمن کے بیچ میں جو صحرائے اعظم "الدہنا" یا "ربع خالی" کے نام سے واقع ہے گو وہ آبادی کے قابل نہیں، لیکن اسکے اطراف میں کہیں کہیں آبادی کے لائق تھوڑی تھوڑی زمین ہے خصوصًا اس حصہ میں جو حضر موت سے نجران تک پھیلا ہوا ہے۔ گو اس وقت وہ بھی آباد نہیں تاہم عہد قدیم میں اسی حضر موت اور نجران کے درمیان حصہ میں "عادِ ارم" کا مشہور قبیلہ آباد تھا جسکو اللہ نے اسکی نافرمانی کی پاداش میں نیست و نابود کر دیا"۔
یعنی حضرت ہودؑ جو "عاد" کے قومی بھائی تھے۔

وَكَم مِن مَلَكٍ فِى السَّمٰوٰتِ لا تُغنى شَفٰعَتُهُم شَيـًٔا إِلّا مِن بَعدِ أَن يَأذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشاءُ وَيَرضىٰ {53:26}
اور بہت فرشتے ہیں آسمانوں میں کچھ کام نہیں آتی اُنکی سفارش مگر جب حکم دے اللہ جسکے واسطے چاہے اور پسند کرے [۱۸]
یعنی ان بتوں کی تو حقیقت کیا ہے آسمان کے رہنے والے مقرب فرشتوں کی سفارش بھی کچھ کام نہیں دے سکتی۔ ہاں اللہ ہی جس کے حق میں سفارش کرنے کا حکم دے اور اس سے راضی ہو تو وہاں سفارش بیشک کام دے گی۔ ظاہر ہے کہ اس نے نہ بتوں کو سفارش کا حکم دیا اور نہ وہ کفار سے راضی ہے۔

يٰمَعشَرَ الجِنِّ وَالإِنسِ إِنِ استَطَعتُم أَن تَنفُذوا مِن أَقطارِ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ فَانفُذوا ۚ لا تَنفُذونَ إِلّا بِسُلطٰنٍ {55:33}
اور گروہ جنوں کے اور انسانوں کے اگر تم سے ہو سکے کہ نکل بھاگو آسمانوں اور زمین کے کناروں سے تو نکل بھاگو نہیں نکل سکنے کے بدون سند کے [۱۶]
یعنی اللہ کی حکومت سے کوئی چاہے کہ نکل بھاگے تو بدون قوت اور غلبہ کے کیسے بھاگ سکتا ہے کیا اللہ سے زیادہ کوئی قوی اور زور آور ہے؟ پھر نکل کر جائے گا کہاں، دوسری قلمرو کونسی ہے جہاں پناہ لے گا۔ نیز دنیا کی معمولی حکومتیں بدون سند اور پروانہ راہداری کے اپنی قلمرو سے نکلنے نہیں دیتیں تو اللہ بدون سند کے کیوں نکلنے دیگا۔

ما أَصابَ مِن مُصيبَةٍ فِى الأَرضِ وَلا فى أَنفُسِكُم إِلّا فى كِتٰبٍ مِن قَبلِ أَن نَبرَأَها ۚ إِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرٌ {57:22}
کوئی مصیبت ملک پر اور خود تم پر نہیں پڑتی مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے۔ (اور) یہ (کام) اللہ کو آسان ہے
یعنی اللہ کو ہرچیز کا علم ذاتی ہے کچھ محنت سے حاصل کرنا نہیں پڑا۔ پھر اپنے علم محیط کے موافق تمام واقعات و حوادث کو قبل از وقوع کتاب (لوح محفوظ) میں درج کر دینا اسکے لئے کیا مشکل ہے۔
ملک میں جو عام آفت آئے مثلًا قحط، زلزلہ وغیرہ اور خود تم کو جو مصیبت لاحق ہو مثلًا مرض وغیرہ وہ سب اللہ کے علم میں قدیم سے طے شدہ ہے اور لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے۔ اسی کے موافق دنیا میں ظہور ہو کر رہے گا ایک ذرہ بھر کم و بیش یا پس و پیش نہیں ہو سکتا۔

إِنَّمَا النَّجوىٰ مِنَ الشَّيطٰنِ لِيَحزُنَ الَّذينَ ءامَنوا وَلَيسَ بِضارِّهِم شَيـًٔا إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ {58:10}
کافروں کی) سرگوشیاں تو شیطان (کی حرکات) سے ہیں (جو) اس لئے (کی جاتی ہیں) کہ مومن (ان سے) غمناک ہوں مگر اللہ کے حکم کے سوا ان سے انہیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ تو مومنو کو چاہیئے کہ اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں
یعنی منافقین کی کانا پھوسی (سرگوشی) اسی غرض سے تھی کہ ذرا مسلمان رنجیدہ اور دلگیر ہوں اور گھبرا جائیں کہ نہ معلوم یہ لوگ ہماری نسبت کیا منصوبے سوچ رہے ہوں گے۔ یہ کام شیطان ان سے کرا رہا تھا۔ مگر مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ شیطان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس کے قبضہ میں کیا چیز ہے۔ نفع نقصان سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا حکم نہ ہو تو کتنے ہی مشورے کرلیں اور منصوبے گانٹھ لیں، تمہارا بال بینکا نہ ہوگا۔ لہٰذا تم کو غمگین و دلگیر ہونے کے بجائے اپنے اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیئے۔ (تنبیہ) احادیث میں ممانعت آئی ہے کہ مجلس میں ایک آدمی کو چھوڑ کر دو شخص کانا پھوسی کرنے لگیں۔ کیونکہ وہ تیسرا غمگین ہو گا۔ یہ مسئلہ بھی ایک طرح آیۃ ھٰذا کے تحت میں داخل ہوسکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں۔ "مجلس میں دو شخص کان میں بات کریں تو دیکھنے والے کو غم ہو کہ مجھ سے کیا حرکت ہوئی جو یہ چھپ کر کہتے ہیں"۔

هُوَ اللَّهُ الَّذى لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ عٰلِمُ الغَيبِ وَالشَّهٰدَةِ ۖ هُوَ الرَّحمٰنُ الرَّحيمُ {59:22}
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

هُوَ اللَّهُ الَّذى لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ المَلِكُ القُدّوسُ السَّلٰمُ المُؤمِنُ المُهَيمِنُ العَزيزُ الجَبّارُ المُتَكَبِّرُ ۚ سُبحٰنَ اللَّهِ عَمّا يُشرِكونَ {59:23}
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی) پاک ذات (ہر عیب سے) سلامتی امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ اللہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے
یعنی اس کی ذات و صفات اور افعال میں کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔
"مومن " کا ترجمہ "امان دینے والا" کیا ہے۔ اور بعض مفسّرین کے نزدیک "مصدق" کے معنی ہیں یعنی اپنی اور اپنے پیغمبروں کی قولًا و فعلًا تصدیق کرنے والا۔ یا مومنین کے ایمان پر مہر تصدیق ثبت کرنے والا۔
یعنی سب نقائص اور کمزوریوں سے پاک، اور سب عیوب و آفات سے سالم، نہ کوئی برائی اس کی بارگاہ تک پہنچی نہ پہنچے۔

اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ {64:13}
اللہ (جو معبود برحق ہے) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو مومنوں کو چاہیئے کہ اللہ ہی پر بھروسا رکھیں
یعنی معبود اور مستعان تنہا اسی کی ذات ہے۔ نہ کسی اور کی بندگی نہ کوئی دوسرا بھروسہ کے لائق۔


قُل إِنَّما أَدعوا رَبّى وَلا أُشرِكُ بِهِ أَحَدًا {72:20}

کہہ دو کہ میں تو اپنے پروردگار ہی کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا

یعنی کفار سے کہہ دیجئے کہ تم مخالفت کی راہ سے بھیڑ کیوں کرتے ہو، کونسی بات ایسی ہے جس پر تمہاری خفگی ہے۔ میں کوئی بری اور نامعقول بات تو نہیں کہتا۔ صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کاشریک کسی کو نہیں سمجھتا۔ تو اس میں لڑنے جھگڑنے کی کون سی بات ہے اور اگر تم سب مل کر مجھ پر ہجوم کرنا چاہتے ہو تو یاد رکھومیرا بھرووسہ اکیلے اسی اللہ پر ہے جو ہر قسم کے شرک سے پاک اور بے نیاز ہے۔
قُل إِنّى لا أَملِكُ لَكُم ضَرًّا وَلا رَشَدًا {72:21}
(یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا
یعنی میرے اختیار میں نہیں کہ تم کو بھی راہ پر لے آؤں۔ اور نہ آؤ تو کچھ نقصان پہنچا دوں سب بھلائی برائی اور سودوزیاں اسی خدائے واحد کے قبضہ میں ہے۔
قُل إِنّى لَن يُجيرَنى مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَن أَجِدَ مِن دونِهِ مُلتَحَدًا {72:22}
(یہ بھی) کہہ دو کہ اللہ (کے عذاب) سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ اور میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ نہیں دیکھتا
یعنی تم کو نفع نقصان پہنچانا تو کجا، اپنا نفع و ضرر میرے قبضہ میں نہیں۔ اگر بالفرض میں اپنے فرائض میں تقصیر کروں تو کوئی شخص نہیں جو مجھ کو اللہ کے ہاتھ سے بچا لے اور کوئی جگہ نہیں جہاں بھاگ کر پناہ حاصل کر سکوں۔


عٰلِمُ الغَيبِ فَلا يُظهِرُ عَلىٰ غَيبِهِ أَحَدًا {72:26}

غیب (کی بات) جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا
إِلّا مَنِ ارتَضىٰ مِن رَسولٍ فَإِنَّهُ يَسلُكُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَمِن خَلفِهِ رَصَدًا {72:27}
ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس (کو غیب کی باتیں بتا دیتا اور اس) کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے
یعنی اپنے بھید کی پوری خبر کسی کو نہیں دیتا۔ ہاں رسولوں کو جس قدر ان کی شان و منصب کے لائق ہو بذریعہ وحی خبر دیتا ہے۔ اس وحی کے ساتھ فرشتوں کے پہرے اور چوکیاں رکھی جاتی ہیں کہ کسی طرف سے شیطان اس میں دخل کرنے نہ پائے۔ اور رسول کا اپنا نفس بھی غلط نہ سمجھے۔ یہی معنی ہیں اس بات کے کہ پیغمبروں کو (اپنے علوم و اخبار میں) عصمت حاصل ہے، اوروں کو نہیں۔ انبیاء کی معلومات میں شک و شبہ کی قطعًا گنجائش نہیں ہوتی۔ دوسروں کی معلومات میں کئ طرح کے احتمال ہیں۔ اسی لئے محقیقن صوفیہؒ نے فرمایا ہے کہ ولی اپنے کشف کو قرآن و سنت پر عرض کر کے دیکھے اگر ان کے مخالف نہ ہو تو غنیمت سمجھے۔ ورنہ بے تکلف رد کر دے۔ (تنبیہ) اس آیت کی نظیر آلِ عمران میں ہے۔ { وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء } اور کئ سورتوں میں علم غیب کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے وہیں ہم فوائد میں اس پر مفصل کلام کر چکے ہیں۔فلیراجع۔

رَبُّ المَشرِقِ وَالمَغرِبِ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ فَاتَّخِذهُ وَكيلًا {73:9}
مشرق اور مغرب کا مالک (ہے اور) اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز بناؤ
یعنی بندگی بھی اسی کی اور توکّل بھی اسی پر ہونا چاہیئے۔ جب وہ وکیل و کار ساز ہو تو دوسروں سے کٹ جانے اور الگ ہونے کی کیا پروا ہے۔
مشرق دن کا اور مغرب رات کا نشان ہے گویا اشارہ کر دیا کہ دن اور رات دونوں کو اسی مالک مشرق و مغرب کی یاد اور رضاجوئی میں لگانا چاہیئے۔

يَومَ يَقومُ الرّوحُ وَالمَلٰئِكَةُ صَفًّا ۖ لا يَتَكَلَّمونَ إِلّا مَن أَذِنَ لَهُ الرَّحمٰنُ وَقالَ صَوابًا {78:38}
جس دن روح (الامین) اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے تو کوئی بول نہ سکے گا مگر جس کو (خدائے رحمٰن) اجازت بخشے اور اس نے بات بھی درست کہی ہو
یعنی اس کے دربار میں جو بولے گا اس کے حکم سے بولے گا اور بات بھی وہ ہے کہے گا جو ٹھیک اور معقول ہو مثلًا کسی غیر مستحق کی سفارش نہ کرے گا۔ مستحق سفارش کے وہ ہی ہیں جنہوں نے دنیا میں سب باتوں سے زیادہ سچّی اور ٹھیک بات کہی تھی یعنی لاالہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ۔
روح فرمایا جانداروں کو یا "رُوح القدس" (جبریل) مراد ہوں اور بعض مفسرین کے نزدیک وہ رُوح اعظم مراد ہے جس سے بیشمار روحوں کا انشعاب ہوا ہے۔ واللہ اعلم۔

بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ قُل يٰأَيُّهَا الكٰفِرونَ {109:1}
تو کہہ اے منکرو [۱]
چند رؤساء قریش نے کہا کہ اے محمد! (ﷺ)( آؤہم تم صلح کرلیں) کہ ایک سال تک آپ ہمارے معبودوں کی پرستش کیا کریں، پھر دوسرے سال ہم آپ کے معبود کو پوجیں۔ اس طرح دونوں فریق کو ہر ایک کے دین سے کچھ کچھ حصہ مل جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا الله کی پناہ! کہ میں اس کے ساتھ (ایک لمحہ کے لئے بھی) کسی کو شریک ٹھہراؤں۔ کہنے لگے اچھا تم ہمارے بعض معبودوں کو مان لو۔ (ان کی مذمت نہ کرو) ہم تمہاری تصدیق کریں گے اور تمہارے معبود کو پوجیں گے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی، اور آپ ﷺ نے ان کے مجمع میں پڑھ کر سنائی۔ جس کا خلاصہ مشرکین کے طوروطریق سے کلی بیزاری کا اظہار اور انقطاع تعلقات کا اعلان کرتا ہے۔ بھلا انبیاء علیہم السّلام جن کا پہلا کام شرک کی جڑیں کاٹنا ہے، ایسی ناپاک اور گندی صلح پر کب راضی ہوسکتے ہیں۔ فی الحقیقت اللہ کے معبود ہونے میں تو کسی مذہب والے کو اختلاف ہی نہیں۔ خود مشرکین اس کا قرار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم بتوں کی پرستش بھی اسی لئے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے نزدیک کر دینگے { مَانَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفٰی } (زمر رکوع۱) اختلاف جو کچھ ہے غیر اللہ کی پرستش میں ہے لہٰذا صلح کی جو صورت قریش نے پیش کی تھی اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ وہ تو برابر اپنی روش پر قائم رہیں یعنی اللہ اور غیر اللہ دونوں کی پرستش کیا کریں اور آپ ﷺ اپنے مسلک توحید سے دستبردار ہو جائیں۔ اس گفتگوئے مصالحت کو ختم کرنے کے لئے یہ سورت اتاری گئ۔

لا أَعبُدُ ما تَعبُدونَ {109:2}
میں نہیں پوجتا جسکو تم پوجتے ہو

وَلا أَنتُم عٰبِدونَ ما أَعبُدُ {109:3}
اور نہ تم پوجو جسکو میں پوجوں [۲]
یعنی الله کے سوا جو معبود تم نے بنا رکھے ہیں میں فی الحال ان کو نہیں پوج رہا اور نہ تم اس احد وصمد الله کو بلا شرکت غیرے پوجتے ہو۔ جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔

وَلا أَنا۠ عابِدٌ ما عَبَدتُم {109:4}
اور نہ مجھ کو پوجنا ہے اُس کا جسکو تم نے پوجا

وَلا أَنتُم عٰبِدونَ ما أَعبُدُ {109:5}
اور نہ تم کو پوجنا ہے اُس کا جس کو میں پوجوں [۳]
یعنی آئندہ بھی میں تمہارے معبودوں کو کبھی پوجنے والا نہیں اور نہ تم میرے معبود واحد کی بلا شرکت غیرے پرستش کرنے والے ہو۔ مطلب یہ ہے کہ میں موحد ہو کر شرک نہیں کرسکتا نہ اب نہ آئندہ اور تم مشرک رہ کر موحد نہیں قرار دیے جاسکتے، نہ اب نہ آئندہ اس تقریر کے موافق آیتوں میں تکرار نہیں رہی۔(تنبیہ) اس آیت میں تکرار کی توضیح: بعض علماء نے یہاں تکرار کو تاکید پر حمل کیا ہے اور بعض نے پہلے دو جملوں میں حال و استقبال کی نفی اور اخیر کے دو جملوں میں ماضی کی نفی مراد لی ہے کما صرح بہ الزمخشری۔ اور بعض نے پہلے جملوں میں حال کا اور اخیر کے جملوں میں استقبال کا ارادہ کیا ہے۔ کمایظہر من الترجمہ۔ لیکن بعض محققین نے پہلے دو جملوں میں "ما" کو موصولہ اور دوسرے دونوں جملوں میں "ما" کو مصدریہ لے کریوں تقریر کی ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان نہ معبود میں اشتراک ہے نہ طریق عبادت میں تم بتوں کو پوجتے ہو، وہ میرے معبود نہیں، میں اس الله کو پوجتا ہوں جس کی شان و صفت میں کوئی شریک نہ ہوسکے، ایسا الله تمہارا معبود نہیں۔ علیٰ ہذاالقیاس تم جس طرح عبادت کرتے ہو، مثلًا ننگے ہو کر کعبہ کے گرد ناچنے لگے یا ذکر اللہ کی جگہ سیٹیاں اور تالیاں بجانے لگے، میں اس طرح کی عبادت کرنے والا نہیں اور میں جس شان سے اللہ کی عبادت بجالاتا ہوں تم کو اس کی توفیق نہیں۔ لہٰذا میرا اور تمہارا راستہ بالکل الگ الگ ہے۔ اور احقر کے خیال میں یوں آتا ہے کہ پہلےجملے کو حال و استقبال کی نفی کے لئے رکھا جائے۔ یعنی میں اب یا آئندہ تمہارے معبودوں کی پرستش نہیں کرسکتا جیسا کہ تم مجھ سے چاہتےہو۔ اور { وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّاعَبَدْتُّمْ } کا مطلب (بقول حافط ابن تیمیہؒ) یہ لیا جائے کہ (جب میں الله کا رسول ہوں تو، میری شان یہ نہیں اور نہ کسی وقت مجھ سے ممکن ہے (بامکان شرعی) کہ شرک کا ارتکاب کروں۔ حتّٰی کہ گزشتہ زمانہ میں نزول وحی سے پہلے بھی جب تم سب پتھروں اور درختوں کو پوج رہے تھے، میں نے کسی غیراللہ کی پرستش نہیں کی۔ پھر اب اللہ کی طرف سے نور وحی اور بینات و ہدیٰ وغیرہ آنے کے بعد کہاں ممکن ہے کہ شرکیات میں تمہارا ہمنوا ہو جاؤں۔ شاید اسی لئے یہاں { وَلَآ اَنَا عَابِدٌ } میں جملہ اسمیہ اور { مَّاعَبَدْتُّمْ } میں صیغہ ماضی کا عنوان اختیار فرمایا۔ رہا کفار کا حال اس کا بیان دونوں مرتبہ ایک ہی عنوان سے فرمایا { وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ } یعنی تم لوگ تو اپنی سوء استعداد اور انتہائی بدبختی سے اس لائق نہیں کہ کسی وقت اور کسی حال میں خدائے واحد کی بلاشرکت غیرے پرستش کرنے والے بنو۔ حتّٰی کہ عین گفتگوئے صلح کے وقت بھی شرک کا دم چھلا ساتھ لگائے رکھتے ہو۔ اور ایک جگہ { مَاتَعْبُدُوْنَ } بصیغہ مضارع اور دوسری جگہ { مَّاعَبَدْتُّمْ } بصیغہ ماضی لانے میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ ان کے معبود ہر روز بدلتے رہتے ہیں جو چیز عجیب سی نظر آئی یا کوئی خوبصورت سا پتھر نظر پڑا اس کو اٹھا کر معبود بنا لیا۔ اور پہلے کو رخصت کیا۔ پھر ہر موسم کا اور ہرکام کا جدا معبود ہے، ایک سفر کا، ایک حضر کا، کوئی روٹی دینے والا، کوئی اولاد دینے والا، وقس علٰی ہذا۔ حافظ شمس الدین ابن قیمؒ نے بدائع الفوائد میں اس سورت کے لطائف و مزا یا پر بہت نفیس کلام کیا ہے جس کو معارف قرآنی کا شوق ہو۔ اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے۔

لَكُم دينُكُم وَلِىَ دينِ {109:6}
تم کو تمہاری راہ اور مجھ کو میری راہ [۴]
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں " یعنی تم نے جو ضد باندھی اب سمجھانا کیا فائدہ کرے گا جب تک اللہ فیصلہ کرے"۔ اب ہم تم سے بکلی بیزار ہو کر اسی فیصلہ کے منتظر ہیں۔ اور جو دین قویم اللہ نے ہم کو مرحمت فرمایا ہے اس پر نہایت خوش ہیں تم نے اپنے لئے بدبختی سے جو روش پسند کی وہ تمہیں مبارک رہے۔ ہر ایک فریق کو اس کی راہ روش کا نتیجہ مل رہے گا۔

******************************************

إِنَّ هٰذا لَهُوَ القَصَصُ الحَقُّ ۚ وَما مِن إِلٰهٍ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ العَزيزُ الحَكيمُ {3:62}
بیشک یہی ہے بیان سچا اور کسی کی بندگی نہیں ہے سوا اللہ کے [۹۶] اور اللہ جو ہے وہی ہے زبردست حکمت والا [۹۷]
اپنی زبردست قدرت و حکمت سے جھوٹے اور سچے کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جو اس کے حسب حال ہو۔
دعوت مباہلہ کے ساتھ بتلا دیا کہ مباہلہ اس پر کیا جاتا تھا کہ جو کچھ حضرت مسیحؑ کے متعلق قرآن میں بیان ہوا وہ ہی سچا بیان ہے اور خدا کی بارگاہ ہر قسم کے شرک اور باپ بیٹے وغیرہ کے تعلقات سے پاک ہے۔

هُوَ الَّذى أَنزَلَ عَلَيكَ الكِتٰبَ مِنهُ ءايٰتٌ مُحكَمٰتٌ هُنَّ أُمُّ الكِتٰبِ وَأُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذينَ فى قُلوبِهِم زَيغٌ فَيَتَّبِعونَ ما تَشٰبَهَ مِنهُ ابتِغاءَ الفِتنَةِ وَابتِغاءَ تَأويلِهِ ۗ وَما يَعلَمُ تَأويلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرّٰسِخونَ فِى العِلمِ يَقولونَ ءامَنّا بِهِ كُلٌّ مِن عِندِ رَبِّنا ۗ وَما يَذَّكَّرُ إِلّا أُولُوا الأَلبٰبِ {3:7}
وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں
نصاریٰ نجران نے تمام دلائل سے عاجز ہو کر بطور معارضہ کہا تھا کہ آخر آپ حضرت مسیحؑ کو "کلمۃ اللہ" اور "روح اللہ" مانتے ہیں۔ بس ہمارے اثبات مدعا کے لئے یہ الفاظ کافی ہیں۔ یہاں اس کا تحقیقی جواب ایک عام اصول اور ضابطہ کی صورت میں دیا۔ جس کے سمجھ لینے کے بعد ہزاروں نزاعات و مناقشات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس کو یوں سمجھو کہ قرآن کریم بلکہ تمام کتب الہٰیہ میں دو قسم کی آیات پائی جاتی ہیں ایک وہ جن کی مراد معلوم و متعین ہو، خواہ اس لئے کہ لغت و ترکیب وغیرہ کے لحاظ سے الفاظ میں کوئی ابہام و اجمال نہیں نہ عبارت کئ معنی کا احتمال رکھتی ہے نہ جو مدلول سمجھا گیا وہ عام قواعد مسلمہ کے مخالف ہے۔ اور یا اس لئے کہ عبارت و الفاظ میں گو لغۃً کئ معنی کا احتمال ہو سکتا تھا، لیکن شارع کی نصوص مستفیضہ یا اجماع معصوم یا مذہب کے عام اصول مسلمہ سے قطعًا متعین ہو چکا کہ متکلم کی مراد وہ معنی نہیں، یہ ہے۔ ایسی آیات کو محکمات کہتے ہیں اور فی الحقیقت کتاب کی ساری تعلیمات کی جڑ اور اصل اصول یہ ہی آیات ہوتی ہیں۔ دوسری قسم آیات کی "متشابہات" کہلاتی ہیں۔ یعنی جن کی مراد معلوم و متعین کرنے میں کچھ اشتباہ و التباس واقع ہو جائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس دوسری قسم کی آیات کو پہلی قسم کی طرف راجع کر کے دیکھنا چاہیئے۔ جو معنی اس کے خلاف پڑیں ان کی قطعًا نفی کی جائے اور متکلم کی مراد وہ سمجھی جائے جو "آیات محکمات" کے مخالف نہ ہو۔ اگر باوجود اجتہاد وسعی بلیغ کے متکلم کی مراد کی پوری پوری تعین نہ کر سکیں تو دعویٰ ہمہ دانی کر کے ہم کو حد سے گذرنا نہیں چاہیئے۔ جہاں قلت علم اور قصور استعداد کی وجہ سے بہت سے حقائق پر ہم دسترس نہیں پا سکتے اس کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیں۔ مگر زنہار ایسی تاویلات اور ہیر پھیر نہ کریں جو مذہب کے اصول مسلمہ اور آیات محکمہ کے خلاف ہوں مثلًا قرآن حکیم نے مسیحؑ کی نسبت تصریح کر دی { اِنْ ھُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ } یا { اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ } یا { ذٰالِکَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ مَا کَانَ لِلہِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ سُبْحٰنَہٗ } اور جا بجا ان کہ الوہیت و انبیت کا رد کیا۔ اب ایک شخص ان سب محکمات سے آنکھیں بند کر کے { کَلِمَتُہٗ اَلْقٰھَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْہُ } وغیرہ متشابہات کو لے دوڑے اور اس کے وہ معنی چھوڑ کر جو محکمات کے موافق ہوں، ایسے سطحی معنی لینے لگے جو کتاب کی عام تصریحات اور متواتر بیانات کے منافی ہوں یہ کجروی اور ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہوگی۔ بعض قاسی القلب تو چاہتے ہیں کہ اس طرح مغالطہ دے کر لوگوں کو گمراہی میں پھنسا دیں اور بعض کمزور عقیدہ والے ڈھلمل یقین ایسے متشابہات سے اپنی رائے و ہوا کے مطابق کھینچ تان کر مطلب نکالنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کا صحیح مطلب صرف اللہ ہی کو معلوم ہے وہ ہی اپنے کرم سے جس کو جس قدر حصہ پر آگاہ کرنا چاہے کر دیتا ہے۔ جو لوگ مضبوط علم رکھتے ہیں وہ محکمات و متشابہات سب کو حق جانتے ہیں انہیں یقین ہے کہ دونوں قسم کی آیات ایک ہی سرچشمہ سے آئی ہیں جن میں تناقض و تہافت کا امکان نہیں۔ اسی لئے وہ متشابہات کو محکمات کی طرف لوٹا کر مطلب سمجھتے ہیں۔ اور جو حصہ ان کے دائرہ فہم سے باہر ہوتا ہے اسے اللہ پر چھوڑتے ہیں کہ وہ ہی بہتر جانے ہم کو ایمان سے کام ہے (تنبیہ) بندہ کے نزدیک اس آیت کا مضمون "سورہ حج" کی آیت { وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰی } الیٰ آخرہا کے مضمون سے بیحد مشابہ ہے جسے ان شاء اللہ اس کے موقع پر بیان کیا جائے گا۔

وَالَّذينَ إِذا فَعَلوا فٰحِشَةً أَو ظَلَموا أَنفُسَهُم ذَكَرُوا اللَّهَ فَاستَغفَروا لِذُنوبِهِم وَمَن يَغفِرُ الذُّنوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَم يُصِرّوا عَلىٰ ما فَعَلوا وَهُم يَعلَمونَ {3:135}
اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے
یعنی کھلم کھلا کوئی بےحیائی کا کام کر گذریں جس کا اثر دوسروں تک متعدی ہو یا کسی اور بری حرکت کے مرتکب ہو جائیں جس کا ضرر ان ہی کی ذات تک محدود رہے۔
  
وَما كانَ لِنَفسٍ أَن تَموتَ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ كِتٰبًا مُؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِد ثَوابَ الدُّنيا نُؤتِهِ مِنها وَمَن يُرِد ثَوابَ الءاخِرَةِ نُؤتِهِ مِنها ۚ وَسَنَجزِى الشّٰكِرينَ {3:145}
اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مر جائے (اس نے موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے اور جو شخص دنیا میں (اپنے اعمال کا) بدلہ چاہے اس کو ہم یہیں بدلہ دے دیں گے اور جو آخرت میں طالبِ ثواب ہو اس کو وہاں اجر عطا کریں گے اور ہم شکر گزاروں کو عنقریب (بہت اچھا) صلہ دیں گے
یعنی جو لوگ اس دین پر ثابت قدم رہیں گے ان کو دین بھی ملے گا اور دنیا بھی ۔ لیکن جو کوئی اس نعمت کی قدر جانے (کذا فی الموضح)
یعنی اس کو آخرت میں یقینًا بدلہ ملے گا۔ اس آیت کے پہلے جملہ میں ان لوگوں پر تعرض ہے جنہوں نے مال غنیمت کی طمع میں عدول حکمی کی۔ اور دوسرے میں ان کا ذکر ہے جو برابر فرمانبرداری پر ثابت قدم رہے۔
یعنی اگر چاہیں { کَمَا قَالَ عَجَّلْنَالَہٗ فِیْھَامَانِشَاءُ لِمَنْ یُّرِیْدُ } (بنی اسرائیل رکوع ۲)
جب کوئی شخص بدون حکم الہٰی کے نہیں مر سکتاخواہ کتنے ہی اسباب موت کے جمع ہوں اور ہر ایک کی موت وقت مقدر پر آنی ضرور ہے خواہ بیماری سے ہو یا قتل سے یا کسی اور سبب سے تو خدا پر توکل کرنے والوں کو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے اور نہ کسی بڑے یا چھوٹے کی موت کو سن کر مایوس و بد دل ہو کر بیٹھ رہنا چاہئے۔

لَقَد كَفَرَ الَّذينَ قالوا إِنَّ اللَّهَ ثالِثُ ثَلٰثَةٍ ۘ وَما مِن إِلٰهٍ إِلّا إِلٰهٌ وٰحِدٌ ۚ وَإِن لَم يَنتَهوا عَمّا يَقولونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذينَ كَفَروا مِنهُم عَذابٌ أَليمٌ {5:73}
وہ لوگ (بھی) کافر ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تین میں کا تیسرا ہے حالانکہ اس معبود یکتا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اگر یہ لوگ ایسے اقوال (وعقائد) سے باز نہیں آئیں گے تو ان میں جو کافر ہوئے ہیں وہ تکلیف دینے والا عذاب پائیں گے
یعنی حضرت مسیحؑ، روح القدس اور اللہ، یا مسیحؑ، مریم اور اللہ تینوں خدا ہیں (الیعاذ باللہ) ان میں کا ایک حصہ دار اللہ ہوا۔ پھر وہ تینوں ایک اور وہ ایک تین ہیں۔ عیسائیوں کا عام عقیدہ یہ ہی ہے اور اس خلاف عقل و بداہت عقیدہ کو عجیب گول مول اور پیچدار عبارتوں سے ادا کرتے ہیں اور جب کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تو اس کو ایک ماوراء العقل حقیقت قرار دیتے ہیں۔ سچ ہے { لَن یصلح العَطَّارُ مَاَ افْسَدَہٗ الدَّھر }

وَلَو أَنَّنا نَزَّلنا إِلَيهِمُ المَلٰئِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ المَوتىٰ وَحَشَرنا عَلَيهِم كُلَّ شَيءٍ قُبُلًا ما كانوا لِيُؤمِنوا إِلّا أَن يَشاءَ اللَّهُ وَلٰكِنَّ أَكثَرَهُم يَجهَلونَ {6:111}
اور اگر ہم اتاریں ان پر فرشتے اور باتیں کریں ان سے مردے اور زندہ کر دیں ہم ہر چیز کو ان کےسامنے تو بھی یہ لوگ ہرگز ایمان لانےوالے نہیں مگر یہ کہ چاہے اللہ لیکن ان میں اکثر جاہل ہیں [۱۵۵]
یعنی اگر ان کی فرمائش کے موافق بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فرض کیجئے آسمان سے فرشتے اتر کر آپ کی تصدیق کریں اور مردے قبروں سے اٹھ کر ان سے باتیں کرنے لگیں اور تمام امتیں جو گذر چکی ہیں دوبارہ زندہ کر کے ان کے سامنے لا کھڑی کی جائیں تب بھی سوء استبداد اور تعنت و عناد کی وجہ سے یہ لوگ حق کو ماننے والے نہیں۔ بیشک اگر خدا چاہے تو زبردستی منوا سکتا ہے۔ لکین ایسا چاہنا اس کی حکمت اور تکوینی نظام کے خلاف ہے جس کو ان میں سے اکثر لوگ اپنے جہل کی وجہ سے نہیں سمجھتے۔ اس کی تشریح پچھلے فوائد میں گذر چکی۔

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ۖ يُدَبِّرُ الأَمرَ ۖ ما مِن شَفيعٍ إِلّا مِن بَعدِ إِذنِهِ ۚ ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم فَاعبُدوهُ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {10:3}
تحقیق تمہارا رب اللہ ہے جس نے بنائے آسمان اور زمین چھ دن میں [۴] پھر قائم ہوا عرش پر [۵] تدبیر کرتا ہے کام کی [۶] کوئی سفارش نہیں کر سکتا مگر اس کی اجازت کے بعد [۷] وہ اللہ ہے رب تمہارا سو اسکی بندگی کرو کیا تم دھیان نہیں کرتے [۸]
یعنی دھیان کرو کہ ایسے رب کے سوا جس کی صفات اوپر بیان ہوئیں دوسرا کون ہے جس کی بندگی اور پرستش کی جا سکے۔ پھر تم کو کیسے جرأت ہوتی ہے کہ اس خالق و مالک شہنشاہ مطلق اور حکیم برحق کے پیغاموں اور پیغامبروں کو محض اوہام و ظنون کی بنا پر جھٹلانے لگو۔
یعنی شریک اور حصہ دار تو اس کی خدائی میں کیا ہوتا ، سفارش کے لئے بھی اس کی اجازت کے بدون لب نہیں ہلا سکتا۔
یعنی مخلوق کے تمام کاموں کی تدبیر و انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے۔
سورہ اعراف کے ساتویں رکوع کے شروع میں اسی طرح کی آیت گذر چکی۔ اس کا فائدہ ملاحظہ کیا جائے۔
یعنی اتنے وقت میں جو چھ دن کے برابر تھا اور ایک دن ابن عباس کی تفسیر کے موافق ایک ہزار سال کا لیا جائے گا۔ گویا چھ ہزار سال میں زمین و آسمان وغیرہ تیار ہوئے ۔ بلاشبہ حق تعالیٰ قادر تھا کہ آن واحد میں ساری مخلوق کو پیدا کر دیتا۔ لیکن حکمت اسی کو مقتضی ہوئی کی تدریجًا پیدا کیا جائے۔ شاید بندوں کو سبق دینا ہو کہ قدرت کے باوجود ہر کام سوچ سمجھ کر تأنی اور متانت سےکیا کریں۔ نیز تدریجی تخلیق کی بہ نسبت دفعۃً پیدا کرنے کے اس بات کا زیادہ اظہار ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ فاعل بالاضطرار نہیں ۔ بلکہ ہر چیز کا وجود بالکلیہ اس کی مشیت و اختیار سے وابستہ ہے جب چاہے جس طرح چاہے پیدا کرے۔

وَما كانَ لِنَفسٍ أَن تُؤمِنَ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ وَيَجعَلُ الرِّجسَ عَلَى الَّذينَ لا يَعقِلونَ {10:100}
اور کسی سے نہیں ہو سکتا کہ ایمان لائے مگر اللہ کے حکم سے اور وہ ڈالتا ہے گندگی ان پر جو نہیں سوچتے [۱۳۵]
خدا کی مشیت و توفیق اور حکم تکوینی کے بدون کوئی ایمان نہیں لا سکتا۔ اور یہ حکم و توفیق ان ہی کے حق میں ہوتی ہے جو خدا کے نشانات میں غور کریں ۔ اور عقل و فہم سے کام لیں۔ جو لوگ سوچنے سمجھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے انہیں خدا تعالیٰ کفر و شرک کی گندگی میں پڑا رہنے دیتا ہے۔

وَما مِن دابَّةٍ فِى الأَرضِ إِلّا عَلَى اللَّهِ رِزقُها وَيَعلَمُ مُستَقَرَّها وَمُستَودَعَها ۚ كُلٌّ فى كِتٰبٍ مُبينٍ {11:6}
اور کوئی نہیں ہے چلنے والا زمین پر مگر اللہ پر ہے اس کی روزی [۸] اور جانتا ہے جہاں وہ ٹھہرتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے [۹] سب کچھ موجود ہے کھلی کتاب میں [۱۰]
یعنی لوح محفوظ میں جو صحیفہ علم الہٰی ہے پھر علم الہٰی میں ہر چیز کیسے موجود نہ ہو گی۔
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "مستقر (جہاں ٹھہرتا ہے) بہشت و دوزخ اور مستودع (جہاں سونپا جاتا ہے) اس کی قبر ہے ۔ پہلے { وَمَامِنْ دَ آبَّۃٍ } الخ میں دنیوی زندگی کا بیان تھا۔ یہاں برزخ اور آخرت کا بیان ہوا مطلب یہ ہوا کہ خدا ابتداء سے انتہاء تک تمہاری ہستی کے تمام درجات کا علم رکھتا ہے۔ "مستقر" و "مستودع" کی تعین میں مفسرین کے بہت اقوال ہیں پہلے سورہ انعام میں بھی ہم کچھ لکھ چکے ہیں۔ ابن کثیر نے کہا کہ زمین میں جہاں تک چلے پھرے اس کے منتہائے سیر کو مستقر اور پھر پھرا کر جس ٹھکانے پر آئے اسے مستودع کہتے ہیں۔ ابن عباس کے نزدیک اس زندگی میں جہاں رہے وہ مستقر اور موت کے بعد جہاں دفن کیا جائے وہ مستودع ہے ۔ مجاہد نے مستقر سے رحم مادر اور مستودع سے صلب پدر مراد لی ہے۔ عطاء نے اس کے عکس کا دعویٰ کیا ۔ بعض متفلسفین کا خیال ہے کہ زمین میں حیوانات کا جو مسکن بالفعل ہے اسے مستقر اور وجود (فعلی سے پہلے جن مواد و مقار میں رہ کر آئے انہیں مستودع کہا گیا ہے۔ یعنی حق تعالیٰ ان تمام مختلف مواد اور اطوار و ادوار کا عالم ہے جن میں سے کوئی حیوان گذر کر اپنی موجود ہیئت کذائی تک پہنچا ہے۔ وہ ہی اپنے علم محیط سے ہر مرتبہ وجود میں اس کی استعداد کے مناسب وجود و کمالات وجود فائض کرتا ہے۔
پہلے علم الہٰی کی وسعت بیان ہوٹی تھی۔ یہ اسی مضمون کا تکملہ ہے۔ یعنی زمین پر چلنے والا ہر جاندار جسے رزق کی احتیاج لاحق ہو ،اس کو روزی پہنچانا خدا نے محض اپنے فضل سے اپنے ذمہ لازم کر لیا ہے ۔ جس قدر روزی جس کے لئے مقدر ہے یقینًا پہنچ کر رہے گی۔ جو وسائل و اسباب بندہ اختیار کرتا ہے ، وہ روزی پہنچے کے دروازے ہیں ۔ اگر آدمی کی نظر اسباب و تدابیر اختیار کرتے وقت مسبب الاسباب پر ہو ، تو یہ توکل کے منافی نہیں۔ البتہ خدا کی قدرت کو ان اسباب عادیہ میں محصور و مقید نہ سمجھا جائے ۔ وہ گاہ بگاہ سلسلہ اسباب کو چھوڑ کر بھی روزی پہنچاتا یا اور کوئی کام کر دیتا ہے۔ بہرحال جب تمام جانداروں کی حسب استعداد غذا اور معاش مہیا کرنا حق تعالیٰ کا کام ہے تو ضروری ہے کہ اس کاعلم ان سب پر محیط ہو۔ ورنہ ان کی روزی کی خبر گیری کیسے کر سکے گا۔

إِنّى تَوَكَّلتُ عَلَى اللَّهِ رَبّى وَرَبِّكُم ۚ ما مِن دابَّةٍ إِلّا هُوَ ءاخِذٌ بِناصِيَتِها ۚ إِنَّ رَبّى عَلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {11:56}
میں نے بھروسہ کیا اللہ پر جو رب ہے میرا اور تمہارا کوئی نہیں زمین پر پاؤں دھرنے والا مگر اللہ کے ہاتھ میں ہے چوٹی اسکی بیشک میرا رب ہے سیدھی راہ پر [۷۹]
یعنی وہ بیچاری پتھر کی مورتیں تو مجھے کیا گزند پہنچا سکتیں ، تم سب جو بڑے شہ زور ، تنومند اور طاقتور نظر آتے ہو اپنے دیوتاؤں کی فوج میں بھرتی ہو کر اور مجھ جیسے یکہ و تنہا پر پوری قوت سے بیک وقت ناگہاں حملہ کر کے بھی میرا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ سنو میں خدا کو گواہ بنا کر اعلان کرتا ہوں اور تم سب بھی اس پر گواہ رہو کہ میں تمہارے جھوٹے دیوتاؤں سے قطعًا بیزا ہوں۔ تم سب جمع ہو کر جو برائی مجھے پہنچا سکتے ہو پہنچاؤ۔ نہ ذرا کوتاہی کرو نہ ایک منٹ کی مجھے مہلت دو۔ اور خوب سمجھ لو کہ میرا بھروسہ خدائے وحدہٗ لا شریک لٰہ پر ہے جو میرا رب ہے اور وہ ہی تمہارا بھی مالک و حاکم ہے۔ گو بدفہمی سے تم نہیں سمجھتے۔ نہ صرف میں اور تم بلکہ ہر چھوٹی بڑی چیز جو زمین پر چلتی ہے خالص اس کے قبضہ اور تصرف میں ہے گویا ان کےسر کے بال اس کے ہاتھ میں ہیں جدھر چاہے پکڑ کر کھینچے اور پھیر دے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے قبضہ و اختیار سے نکل کر بھاگ جائے ۔ نہ ظالم اس کی گرفت سے چھوٹ سکتے ہیں نہ سچے اس کی پناہ میں رہ کر رسوا ہو سکتے ہیں۔ بلاشبہ میرا پروردگار عدل و انصاف کی سیدھی راہ پر ہے۔ اس کے یہاں نہ ظلم ہے نہ بے موقع انعام ، اپنے بندوں کو نیکی اور خیر کی جو سیدھی راہ اس نے بتلائی ، بیشک اسی پر چلنے سے وہ ملتا ہے اور اس پر چلنے والوں کی حفاظت کرنے کے لئے خود ہر وقت وہاں موجود ہے۔

قالَ يٰقَومِ أَرَءَيتُم إِن كُنتُ عَلىٰ بَيِّنَةٍ مِن رَبّى وَرَزَقَنى مِنهُ رِزقًا حَسَنًا ۚ وَما أُريدُ أَن أُخالِفَكُم إِلىٰ ما أَنهىٰكُم عَنهُ ۚ إِن أُريدُ إِلَّا الإِصلٰحَ مَا استَطَعتُ ۚ وَما تَوفيقى إِلّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيهِ تَوَكَّلتُ وَإِلَيهِ أُنيبُ {11:88}
بولا اے قوم دیکھو تو اگر مجھ کو سمجھ آ گئ اپنے رب کی طرف سے اور اس نے روزی دی مجھ کو نیک روزی [۱۲۴] اور میں یہ نہیں چاہتا کہ بعد کو خود کروں وہ کام جو تم سے چھڑاؤں [۱۲۵] میں تو چاہتا ہوں سنوارنا جہاں تک ہو سکے اور بن آنا (توفیق کا ملنا) ہے اللہ ہی کی مدد سے اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے [۱۲۶]
میری تمام تر کوشش یہ ہے کہ تمہاری دینی و دنیوی حالت درست ہو جائے ۔ موجودہ ردی حالت سے نکل کر بام ایمان و عرفان پر چڑھنے کی کوشش کرو۔ اس مقصد اصلاح کےےسوا دوسرا مقصد نہیں، جسے میں اپنے مقدور و استطاعت کے موافق کسی حال نہیں چھوڑ سکتا ، باقی یہ کہ میری بات بن آئے اور اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاؤں ، یہ سب خداوند قدوس کے قبضہ میں ہے۔ اسی کی امداد و توفیق سے سب کام انجام پا سکتے ہیں ، میرا بھروسہ اسی پر ہے اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
یعنی جن بری باتوں سے تم کو روکتا ہوں میری یہ خواہش نہیں کہ تم سے علیحدہ ہو کر خود ان کا ارتکاب کروں مثلاً تمہیں تارک الدنیا بناؤں اور خود دنیا سمیٹ کر گھر میں بھر لوں، نہیں جو نصیحت تم کو کرتا ہوں میں تم سے پہلے اس کا پابند ہوں ، تم یہ الزام مجھ پر نہیں رکھ سکتے کہ میری نصیحت کسی خود غرضی اور ہوا پرستی پر محمول ہے۔
یا تو ظاہری روزی مراد ہے یعنی ماپ تول میں کمی بیشی کئے بدون حلال و طیب طریق سے روزی مرحمت فرمائی یا باطنی روزی یعنی علم و حکمت اور نبوت عطاء کی ، خلاصہ یہ ہے کہ اگر حق تعالیٰ نے مجھ کو فہم و بصیرت دے کر وہ صاف راستہ دکھلا دیا جو تم کو نظر نہیں آتا اور اس دولت سے مالا مال کیا جس سے تمہیں حصہ نہیں ملا ، تو کیا اس کا حق یہ ہے کہ میں "معاذ اللہ" تمہاری طرح اندھا بن جاؤں اور خدا کے احکام سے روگردانی کرنے لگوں، یا تمہارے استہزاء و تمسخر سے گھبرا کر نصیحت کرنا اور سمجھانا چھوڑ دوں ؟ ہر گز نہیں۔

خٰلِدينَ فيها ما دامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالأَرضُ إِلّا ما شاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعّالٌ لِما يُريدُ {11:107}
ہمیشہ رہیں اس میں جب تک رہے آسمان اور زمین مگر جو چاہے تیرا رب بیشک تیرا رب کر ڈالتا ہے جو چاہے

وَأَمَّا الَّذينَ سُعِدوا فَفِى الجَنَّةِ خٰلِدينَ فيها ما دامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالأَرضُ إِلّا ما شاءَ رَبُّكَ ۖ عَطاءً غَيرَ مَجذوذٍ {11:108}
اور جو لوگ نیک بخت ہیں سو جنت میں ہیں ہمیشہ رہیں اس میں جب تک رہے آسمان اور زمین مگر جو چاہے تیرا رب بخشش ہے بے انتہا [۱۴۸]
ان آیات کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ جس قدر مدت آسمان و زمین دنیا میں باقی رہے اتنی مدت تک اشقیا دوزخ میں اور سعداء جنت میں رہیں گے۔ مگر جو اور زیادہ چاہے تیرا رب وہ اسی کو معلوم ہے۔ کیونکہ ہم جب طویل سے طویل زمانہ کا تصور کرتے ہیں تو اپنے ماحول کے اعتبار سے بڑی مدت یہ ہی خیال میں آتی ہے۔ اسی لئے { مَادَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ } وغیرہ الفاظ محاورات عرب میں دوام کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے بولے جاتے ہیں۔ باقی دوام و ابدیت کا اصلی مدلول جسے لامحدود زمانہ کہنا چاہئے وہ حق تعالیٰ ہی کے علم غیر متناہی کے ساتھ مختص ہے جس کو { مَاشَاءَ رَبُّکَ } سے ادا کیا۔ دوسرے معنی آیات کے یہ ہو سکتے ہیں کہ لفظ { مَادَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ } کو کنایہ دوام سے مانا جائے۔ یا آسمان و زمین سے آخرت کا زمین و آسمان مراد لیا جائے۔ جیسے فرمایا { یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰت } (ابراھیم رکوع۷) مطلب یہ ہوا کہ اشقیاء دوزخ اور سعداء جنت میں اس وقت تک رہیں گے جب تک آخرت کے زمین و آسمان باقی رہیں ، یعنی ہمیشہ مگر جو چاہے تیرا رب تو موقوف کر دے ہاں ہمیشہ نہ رہنے دے۔ کیونکہ جنتیوں اور دوزخیوں کا خلود بھی اسی کی مشیت و اختیار سے ہے لیکن وہ چاہ چکا کہ کفار و مشرکین کا عذاب اور اہل جنت کا ثواب کبھی موقوف نہ ہو گا۔ چنانچہ فرمایا ۔ { وَمَاھُمْ بِخَارِجِیْنَ مِنَ النَّارِ } (بقرہ رکوع۲۰) اور { یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَاھُمْ بِخَارِجِیْنَ مِنْھَا } (مائدہ رکوع۶) اور { لَایُخَفَّفُ عَنْھُمُ العَذَابُ وَلَا ھُمْ یُنْظَرُوْنَ } (بقرہ رکوع۱۹) اور { اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ } (نساء رکوع۱۸) اسی پر تمام اہل اسلام کا اجماع رہا ہے۔ اور ہمارے زمانہ کے بعض نام نہاد مفسرین نے جو کچھ اس کے خلاف چیزیں پیش کی ہیں وہ یا روایت ضعیفہ و موضوعہ ہیں یا اقوال غریبہ ماولہ۔ یا بعض آیات و احادیث ہیں جن کا مطلب کوتاہ نظری یا بدفہمی سے غلط سمجھ لیا گیا ہے ۔ اگر خدا کی توفیق سے مستقل تفسیر لکھنے کی نوبت آئی، اس میں مفصل کلام کیا جائے گا۔ اختصار کی وجہ سے یہاں گنجائش نہیں، رہا عصاۃ موحدین کا مسئلہ یعنی جو مسلمان گناہوں کی بدولت دوزخ میں ڈالے جائیں گے (العیاذ باللہ) ان کے متعلق احادیث صحیہ نے ہم کو خدا کی مشیت پر مطلع کر دیا ہے کہ ایک دن ضرور ان کو نکال کر جنت میں پنچائیں گے ۔ جہاں سے کسی جنتی کو کبھی نکلنا نہیں۔ شاید اسی لحاظ سے جنتیوں کے ذکر میں { عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ } اور اشقیاء کے ذکر میں { اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ } ارشاد ہوا۔ تا معلوم ہو جائے کہ بعض اشقیاء دوزخ سے نکالے جائیں گے مگر سعید کوئی جنت سے خارج نہ کیا جائے گا۔ (تنبیہ) { اِلَّا مَاشَآءَ رَبُّکَ } سے متنبہ فرما دیا کہ خدا کے ہمیشہ رہنے اور مخلوق کے ہمیشہ رہنے میں فرق ہے کسی مخلوق کا ہمیشہ رہنا ۔ بہمہ وجوہ خدا کی مشیت پر موقوف ہے ۔ وہ جب چاہے فنا کر سکتا ہے ۔ نیز یہ جتلا دیا کہ جزاء و سزاء دینا اس کے اختیار و مشیت کے تابع ہے "آریہ سماج" وغیرہ کے عقیدہ کے موافق وہ اس پر مجبور نہیں۔

وَما أُبَرِّئُ نَفسى ۚ إِنَّ النَّفسَ لَأَمّارَةٌ بِالسّوءِ إِلّا ما رَحِمَ رَبّى ۚ إِنَّ رَبّى غَفورٌ رَحيمٌ {12:53}
اور میں پاک نہیں کہتا اپنے جی کو بیشک جی تو سکھلاتا ہے برائی مگر جو رحم کر دیا میرے رب نے بیشک میرا رب بخشنے والا ہے مہربان [۷۸]
چونکہ حضرت یوسفؑ نے اپنی براءت پر بہت زیادہ زور دیا۔ ممکن تھا کوئی سطحی آدمی اس سے فخر و ناز اور غرور اعجاب کا شبہ کرنے لگتا اس لئے اپنی نزاہت کی حقیقت کھول دی کہ میں کوئی شیخی نہیں مارتا نہ پاک صاف رہنے میں اپنے نفس پر بھروسہ کر سکتا ہوں ۔ محض خدا کی رحمت و اعانت ہے جو کسی نفس کو برائی سے روکتی ہے ۔ یہ ہی رحمت خصوصی عصمت انبیاء علیہم السلام کی کفیل و ضامن ہے ۔ ورنہ نفس انسانی کا کام عمومًا برائی کی ترغیب دینا تھا۔ خدا تعالیٰ کی خصوصی توفیق و دستگیری نہ ہوتی تو میرا نفس بھی دوسرے نفوس بشریہ کی طرح ہوتا { اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ } سے اشارہ کر دیا کہ نفس امارہ جب توبہ کر کے "لوامہ" بن جائے تو خدا اس کی پچھلی تقصیرات معاف فرما دیتا ہے۔ بلکہ رفتہ رفتہ اپنی مہربانی سے "نفس مطمئنہ" کے درجہ تک پہنچا دیتا ہے۔ (تنبیہ) حافظ ابن تیمیہ اور ابن کثیر { ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ } سے {غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ } تک زلیخا کا مقولہ قرار دیا ہے یعنی زلیخا نے { اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ } کا اقرار کر کے کہا کہ اس اقرار و اعتراف سےعزیز کو یہ معلوم کرانا ہے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے کوئی بڑی خیانت نہیں کی۔ بیشک یوسفؑ کو پھسلانا چاہا تھا۔ مگر میری مراودت ان پر کارگر نہیں ہوئی۔ اگر میں نے مزید خیانت کی ہوتی تو ضرور اس کا پردہ فاش ہو کر رہتا۔ کیونکہ خدا خائنوں کے مکرو فریب کو چلنے نہیں دیتا۔ ہاں میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی ، جتنی غلطی مجھ سے ہوئی اس کا اقرار کر رہی ہوں دوسرے آدمیوں کی طرح نفس کی شرارتوں سے میں بھی پاک نہیں۔ ان سے تو یوسفؑ جیسا پاکباز انسان ہی محفوظ رہ سکتا ہے۔ جس پر خدا کی خاص مہربانی اور رحمت ہے۔ ابو حیان نے بھی اس کو زلیخا کا مقولہ قرار دیا ہے۔ لیکن { لِیَعْلَمَ } اور { لَمْ اَخُنْہُ } کی ضمیریں بجائے عزیز کے یوسفؑ کی طرف راجع کی ہیں۔ یعنی اپنی خطا کا صاف اقرار اس لئے کرتی ہوں کہ یوسفؑ کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں کوئی غلط بات نہیں کہی نہ اپنے جرم کو ان کی طرف منسوب کیا ۔ واللہ اعلم۔

فَبَدَأَ بِأَوعِيَتِهِم قَبلَ وِعاءِ أَخيهِ ثُمَّ استَخرَجَها مِن وِعاءِ أَخيهِ ۚ كَذٰلِكَ كِدنا لِيوسُفَ ۖ ما كانَ لِيَأخُذَ أَخاهُ فى دينِ المَلِكِ إِلّا أَن يَشاءَ اللَّهُ ۚ نَرفَعُ دَرَجٰتٍ مَن نَشاءُ ۗ وَفَوقَ كُلِّ ذى عِلمٍ عَليمٌ {12:76}
پھر شروع کیں یوسف نے انکی خرجیاں دیکھنی اپنے بھائی کی خرجی سے پہلے آخر کو وہ برتن نکالا اپنے بھائی کی خرجی سے[۱۰۴] یوں داؤ بتا دیا ہم نے یوسف کو [۱۰۵] وہ ہر گز نہ لے سکتا تھا اپنے بھائی کو دین (قانون) میں اس بادشاہ کے مگر جو چاہے اللہ [۱۰۶] ہم درجے بلند کرتے ہیں جس کے چاہیں [۱۰۷] اور ہر جاننے والے سے اوپر ہے ایک جاننے والا [۱۰۸]
یعنی دنیا میں ایک آدمی سے زیادہ دوسرا دوسرے سے زیادہ تیسرا جاننے والا ہے مگر سب جاننے والوں کے اوپر ایک جاننے والا اور ہے جسے "عالم الغیب والشہادہ" کہتے ہیں ۔ (تنبیہ) واضح ہو کہ اس تمام واقعہ میں حضرت یوسفؑ کی زبان سے کوئی لفظ خلاف واقع نہیں نکلا۔ نہ کوئی حرکت خلاف شرع ہوئی زیادہ سے زیادہ انہوں نے توریہ کیا۔ "توریہ" کا مطلب ہے ایسی بات کہنا یا کرنا جس سے دیکھنے سننے والے کے ذہن میں ایک ظاہری اور قریبی مطلب آئے ، لیکن متکلم کی مراد دوسری ہو جو ظاہری مطلب سے بعید ہے۔ اگر یہ "توریہ" کسی نیک اور محمود مقصد کے لئے کیا جائے تو اس کے جائز بلکہ محمود ہونے میں شبہ نہیں ۔ اور کسی مذموم و قبیح غرض کے لئے ہو تو وہ "توریہ" نہیں ، دھوکہ اور فریب ہے۔ یہاں حق تعالیٰ کو منظور تھا کہ یعقوبؑ کے ابتلاء و امتحان کی تکمیل کر دی جائے۔ یوسفؑ کے بعد بنیامین بھی ان سے جدا ہوں۔ ادھر مدت کے بچھڑے ہوئے دو عینی بھائی آپس میں مل کر رہیں۔ یوسفؑ کو امتحان کی گھاٹیوں سے نکالنے کے بعد اول علاقی بھائیوں پھر عینی بھائی پھر والد برزگوار اور سب کنبہ سے بتدریج ملائیں۔ دوسری طرف برادران یوسفؑ سے جو غلطیاں ہوئی تھیں کچھ ٹھوکریں کھا کر وہ بھی عفو و رحم کے دروازہ پر پہنچ جائیں۔ اور نہ معلوم کیا کیا حکمتیں ہو ں گی جن کی وجہ سے یوسفؑ کو تھوڑا سا "توریہ" کرنے کی ہدایت ہوئی۔ انہوں نے پیالہ اپنے بھائی کے اسباب میں رکھا۔ پھر نہ کسی پر اس کی چوری کا الزام لگایا نہ یہ کہا کہ ہم فلاں کو چوری کی سزا میں پکڑتے ہیں۔ صورتیں ایسی پیدا ہوتی چلی گئیں جن سے آخر میں بنیامین کے لئے اپنے بھائی کے پاس عزت و راحت کے ساتھ رہنے کی سبیل نکل آئی ۔ مصلحۃً بعض ایسے الفاظ بیشک استعمال کئے جن کے معنی متبادر مردانہ تھے یا بعض چیزوں پر سکوت کیا جن کی نسبت اگر کچھ بولتے تو راز فاش ہو کر اصل مقصد فوت ہو جاتا۔ واللہ اعلم۔
یعنی جسے چاہیں حکمت و تدبیر سکھلائیں۔ یا اپنی تدبیر لطیف سے سر بلند کریں۔ دیکھو وہ ہی لوگ جنہوں نے باپ کی چوری سے یوسفؑ کو چند درہم میں بیچ ڈالا تھا آج یوسفؑ کے سامنے چوروں کی حیثیت میں کھڑے ہیں۔ شاید اس طرح ان کی پچھلی غلطیوں کا کفارہ کرنا ہو گا۔
یعنی بھائیوں کی زبان سے آپ ہی نکلا کہ جس کے پاس مال نکلے غلام بنا لو۔ اس پر پکڑے گئے ورنہ حکومت مصر کا قانون یہ نہ تھا۔ اگر ایسی تدبیر نہ کی جاتی کہ وہ خود اپنے اقرار میں بندھ جائیں تو ملکی قانون کے موافق کوئی صورت بنیامین کو روک لینے کی نہ تھی۔
یا یوں تدبیر کی ہم نے یوسفؑ کے لئے۔
یعنی اس گفتگو کے بعد محافظین ان کو "عزیز مصر" (یوسفؑ) کے پاس لے گئے اور سب ماجرا کہہ سنایا۔ انہوں نے تفتیش کا حکم دیا۔ پہلے دوسرے بھائیوں کی خرجیاں (زنبیلیں اور بیگ وغیرہ) دیکھے گئے ، پیالہ برآمد نہ ہوا۔ اخیر میں بنیامین کے اسباب کی تلاشی ہوئی ، چنانچہ پیالہ اس میں سے نکل آیا۔

وَلَقَد أَرسَلنا رُسُلًا مِن قَبلِكَ وَجَعَلنا لَهُم أَزوٰجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَما كانَ لِرَسولٍ أَن يَأتِىَ بِـٔايَةٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ {13:38}
اور بھیج چکے ہیں ہم کتنے رسول تجھ سے پہلے اور ہم نے دی تھیں انکو جو روئیں اور اولاد اور نہیں ہوا کسی رسول سے کہ وہ لے آئے کوئی نشانی مگر اللہ کے اذن سے ہر ایک وعدہ ہے لکھا ہوا [۷۵]
یعنی پیغمبر عربی ﷺ کو نئی کتاب اور نئے احکام دے کر بھیجنا کیا اچنھبے کی بات ہو گئ جو اتنی حجتیں نکالی جاتی ہیں آخر ان سے پہلے بھی ہم نے جو پیغمبر بھیجے وہ آسمان کے فرشتے نہ تھے اسی دنیا کے رہنے والےآدمی تھے ۔ جو کھانا کھاتے اپنی ضروریات اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے اور بیوی بچے رکھتے تھے ۔ ان میں کسی کو یہ قدرت نہ تھی کہ لوگ جو نشانی مانگتے ضرور دکھلا دیتا، بلکہ موجودہ پیغمبر کی طرح ہر چیز میں خدائی اذن کے منتظر رہتے تھے۔ وہ ہی نشان دکھاتے اور وہ ہی احکام سناتے تھے جس کا اذن خدا کے یہاں سے ہوتا۔ خدائی اذن کا حال یہ ہے کہ اس کے یہاں ہر زمانہ اور ہر قرن کے مناسب جداگانہ حکم لکھا ہوا ہے اور ایک وعدہ ٹھہرا ہوا ہے جس کو نہ کوئی نبی بدل سکتا ہے نہ فرشتہ ۔ پھر جب ہر ایک پیغمبر اپنے زمانہ کے مناسب احکام لائے اور اپنی صداقت کے نشان دکھانے میں پبلک کی خواہشات کے پابند نہیں رہے نہ اپنے کو حوائج بشریہ اور تعلقات معاشرت سے پاک اور برتر ظاہر کیا تو ان ہی چیزوں کا محمد رسول اللہ ﷺ میں پایا جانا انکار نبوت کی دلیل کیسے بن سکتی ہے۔
   
قالَت لَهُم رُسُلُهُم إِن نَحنُ إِلّا بَشَرٌ مِثلُكُم وَلٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلىٰ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ ۖ وَما كانَ لَنا أَن نَأتِيَكُم بِسُلطٰنٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ {14:11}
ان کو کہا ان کے رسولوں نے ہم تو یہی آدمی ہیں جیسےتم لیکن اللہ احسان کرتا ہے اپنے بندوں میں جس پر چاہے [۱۹] اور ہمارا کام نہیں کہ لے آئیں تمہارے پاس سند مگر اللہ کے حکم سے اور اللہ پر بھروسہ چاہئے ایمان والوں کو [۲۰]
یعنی اب رہا سند اور سرٹیفیکٹ لانے کا قصہ ، سو خدا کے حکم سے ہم پہلے اپنی نبوت کی سند اور روشن نشانیاں دکھلا چکے ہیں ۔ کما قال { جَاءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ } جو آدمی ماننا چاہے اس کے اطمینان کےلئے وہ کافی سے زیادہ ہیں۔ باقی تمہاری فرمائشیں پوری کرنا ، تو یہ چیز ہمارے قبضہ میں نہیں۔ نہ ہماری تصدیق عقلاً اس پر موقوف ہے۔ خدا تعالیٰ اپنی حکمت کےموافق جو سند اور نشان چاہے ، تم کو دکھلائے گا۔ فرمائشی نشانات دیکھنے سے ایمان نہیں آتا، اللہ کےدینے سے آتا ہے ۔ لہذا ایک ایماندار کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ اگر تم نہ مانو گے اور ہماری عداوت و ایذاء رسانی پر تیار ہو گے ، تو ہمارا بھروسہ اسی خدا کی مہربانی اور امداد پر رہے گا۔
یعنی تمہارا یہ کہنا درست ہے کہ ہم نہ فرشتے ہیں نہ کوئی اور مخلوق بلکہ نفس بشریت میں تم ہی جیسے ہیں لیکن نوع بشر کے افراد میں احوال و مدارج کے اعتبار سے کیا زمین و آسمان کا تفاوت نہیں آخر اتنا تو تم بھی مشاہدہ کرتے ہو کہ حق تعالیٰ نے جسمانی ، دماغی ، اخلاقی اور معاشی حالات کے اعتبار سے بعض انسانوں کو بعض پر کس قدر فضیلت دی ہے۔ پھر اگر یہ کہا جائے کہ خدا نے اپنے بعض بندوں کو ان کی فطری قابلیت اور اعلیٰ ملکات کی بدولت روحانی کمال اور باطنی قرب کے اس بلند مقام پر پہنچا دیا جسے "مقام نبوت" یا "منصب رسالت" کہتےتو اس میں کیا اشکال و استبعاد ہے ؟ بہرحال دعوئے نبوت سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم اپنی نسبت بشر کے سوا کوئی دوسری نوع ہونے کا دعوےٰ رکھتے ہیں ۔ ہاں اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے بعض پر ایک خصوصی احسان فرماتا ہے جو دوسروں پر نہیں ہوتا۔

أَلَم يَرَوا إِلَى الطَّيرِ مُسَخَّرٰتٍ فى جَوِّ السَّماءِ ما يُمسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ۗ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يُؤمِنونَ {16:79}
کیا نہیں دیکھے اڑتے جانور حکم کے باندھے ہوئے آسمان کی ہوا میں کوئی نہیں تھام رہا ان کو سوائے اللہ کے [۱۲۷] اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کو جو یقین لاتے ہیں [۱۲۸]
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی ایمان لانے میں بعضے اٹکتے ہیں ، معاش کی فکر سے ، سو فرمایا کہ ماں کے پیٹ سے کوئی کچھ نہیں لاتا۔ کمائی کے اساب کہ آنکھ ، کان ، دل وغیرہ ہیں ، اللہ ہی دیتا ہے اور اڑتے جانور ادھر میں آخر کس کے بھروسہ رہتے ہیں۔
یعنی جیسے آدمی کو اس کے مناسب قویٰ عنایت فرمائے ، پرندوں میں ان کے حالات کے مناسب فطری قوتیں ودعیت کیں ، ہر ایک پرندہ اپنی اڑان میں قانون قدرت کا تابع اور خدا تعالیٰ کے تکوینی احکام سے وابستہ ہے۔ اسے کسی درسگاہ میں اڑنے کی تعلیم نہیں دی گئ ، قدرت نے اس کے پر اور بازو اور دم وغیرہ کی ساخت ایسی بنائی ہے کہ نہایت آسانی سے آسمانی فضا میں اڑتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ ان کا جسم ثقیل ہوائے لطیف کو چیر پھاڑ کر بے اختیار نیچے آ پڑے ۔ یا زمین کی عظیم الشان کشش انہیں اپنی طرف کھینچ لے اور طیران سے منع کر دے کیا خدا کے سوا کسی اور کا ہاتھ ہے جس نے ان کو بے تکلف فضائے آسمانی میں روک رکھا ہے۔

وَاصبِر وَما صَبرُكَ إِلّا بِاللَّهِ ۚ وَلا تَحزَن عَلَيهِم وَلا تَكُ فى ضَيقٍ مِمّا يَمكُرونَ {16:127}
اور تو صبر کر اور تجھ سے صبر ہو سکے اللہ ہی کی مدد سے اور ان پر غم نہ کھا اور تنگ مت ہو ان کے فریب سے [۲۰۲]
یعنی مظالم و شدائد پر صبر کنا ، سہل کام نہیں ۔ خدا ہی مدد فرمائے تو ہو سکتا ہے کہ آدمی ظلم سہتا رہے اور اف نہ کرے۔

قالَ لَقَد عَلِمتَ ما أَنزَلَ هٰؤُلاءِ إِلّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ بَصائِرَ وَإِنّى لَأَظُنُّكَ يٰفِرعَونُ مَثبورًا {17:102}
بولا تو جان چکا ہے کہ یہ چیزیں کسی نے نہیں اتاریں مگر آسمان اور زمین کے مالک نے سجھانے کو اور میری اٹکل میں فرعون تو غارت ہوا چاہتا ہے [۱۵۵]
یعنی گو زبان سے انکار کرتا ہے مگر تیرا دل خوب جانتا ہے کہ یہ عظیم الشان نشان تیری آنکھیں کھولنے کے لئے اسی خدائے قادر و توانا نے دکھلائے ہیں جو آسمان و زمین کا سچا مالک ہے اب جو شخص جان بوجھ کر محض ظلم و تکبر کی راہ سے حق کا انکار کرے اس کی نسبت بجز اس کے کیا خیال کیا جا سکتا ہے کہ تباہی کی گھڑی اس کے سر پر آ پہنچی۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ "ایمان" جاننے کا نام نہیں ، ماننے کا نام ہے۔ { وَجَحَدُوْا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتْھَا اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَ عُلُوًّا } (النمل رکوع۱)۔

وَإِذِ اعتَزَلتُموهُم وَما يَعبُدونَ إِلَّا اللَّهَ فَأوۥا إِلَى الكَهفِ يَنشُر لَكُم رَبُّكُم مِن رَحمَتِهِ وَيُهَيِّئ لَكُم مِن أَمرِكُم مِرفَقًا {18:16}
اور جب تم نے کنارہ کر لیا ان سے اور جن کو وہ پوجتے ہیں اللہ کےسوائے تو اب جا بیٹھو اس کھوہ میں پھیلا دے تم پر رب تمہار ا کچھ اپنی رحمت سے اور بنا دیوے تمہارے واسطے تمہارے کام میں آرام [۱۶]
یعنی جب مشرکین کے دین سے ہم علیحدہ ہیں تو ظاہری طور پر بھی ان سے علیحدہ رہنا چاہئے اور جب ان کے باطل معبودوں سے کنارہ کیا تو ہر طرف سے ٹوٹ کر تنہا اپنے معبود کی طرف جھکنا اور اسی سے رحمت و تلطف کا امیدوار رہنا چاہئے۔ آپس میں یہ مشورہ کر کے پہاڑ کی کھوہ میں جا بیٹھے۔

وَلَولا إِذ دَخَلتَ جَنَّتَكَ قُلتَ ما شاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلّا بِاللَّهِ ۚ إِن تَرَنِ أَنا۠ أَقَلَّ مِنكَ مالًا وَوَلَدًا {18:39}
اور جب تو آتا تھا اپنے باغ میں کیوں نہ کہا تو نے جو چاہے اللہ سو ہو طاقت نہیں مگر جو دے اللہ [۴۹] اگر تو دیکھتا ہے مجھ کو کہ میں کم ہوں تجھ سے مال اور اولاد میں
یعنی مال تو اللہ کی نعمت ہے ۔اس پر اترانے اور کفر بکنے سے آفت آتی ہے چاہئے تھا کہ باغ میں داخل ہوتے وقت { مَااَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ ھٰذِہٖ اَبَدًا } کی جگہ { مَاشَآءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ } کہتا۔ یعنی خدا جو چاہے عطا فرمائے ، ہم میں جو کچھ زور و قوت ہے اسی کی امداد و اعانت سے ہے ۔ وہ چاہے تو ایک دم میں سلب کر لے روایات میں ہے کہ جب آدمی کو اپنے گھر بار میں آسودگی نظر آئے تو یہ ہی لفظ کہے ۔ { مَاشَآءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ }۔

وَما نَتَنَزَّلُ إِلّا بِأَمرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ ما بَينَ أَيدينا وَما خَلفَنا وَما بَينَ ذٰلِكَ ۚ وَما كانَ رَبُّكَ نَسِيًّا {19:64}
اور ہم نہیں اترتے مگر حکم سے تیرے رب کے اُسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے اور جو اسکے بیچ میں ہے اور تیرا رب نہیں ہے بھولنے والا [۷۸]
ایک مرتبہ جبریلؑ کئ روز تک نہ آئے ۔ آپ منقبض تھے ، کفار نےکہنا شروع کیا کہ محمد ﷺ کو اس کے رب نے خفا ہو کر چھوڑ دیا ہے ۔ اس طعن سے اور آپ زیادہ دلگیر ہوئے۔ آخر جبریل تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے اتنے روز تک نہ آنے کا سبب پوچھا۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا { مَا یَمْنَعُکَ اَنْ تَزُوْرَنَا اَکْثَرَ مِمَّا تَزُوْرَنَا } (جتنا تم آتے ہو اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے ؟) اللہ تعالیٰ نے جبریلؑ کو سکھلایا کہ جواب میں یوں کہو { وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِامْرِ رَبِّکَ } الخ یہ کلام ہوا اللہ کا جبریل کی طرف سے ۔ جیسا { اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ } میں ہم کو سکھلایا ہے حاصل جواب یہ ہے کہ ہم خالص عبد مامور ہیں ، بدون حکم الہٰی ایک پر نہیں ہلا سکتے۔ ہمارا چڑھنا اترنا سب اس کے حکم و اذن کے تابع ہے وہ جس وقت اپنی حکمت کاملہ سے مناسب جانے ہم کو نیچے اترنے کا حکم دے، کیونکہ ہر زمانہ (ماضی ، مستقبل ، حال) اور ہر مکان (آسمان زمین اور ان کے درمیان کا علم اسی کو ہے اور وہی ہر چیز کا مالک و قابض ہے ۔ وہ ہی جانتا ہے کہ فرشتہ کو پیغمبر کے پاس کس وقت بھیجنا چاہئے۔ مقرب ترین فرشتہ اور معظم ترین پیغمبر کو بھی اختیار نہیں کہ جب چاہے کہیں چلا جائے یا کسی کو اپنے پاس بلا لے۔ خدا کا ہر کام بر محل اور بر وقت ہے۔ بھول چوک یا نسیان غفلت کی اس کی بارگاہ میں رسائی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جبریلؑ کا جلد یا بدیر آنا بھی اسی کی حکمت و مصلحت کے تابع ہے (تنبیہ اول) ہمارے آگے پیچھے "کہا آسمان و زمین کو اترتے ہوئے زمین آگے ، آسمان پیچھے ، چڑھتے ہوئے وہ پیچھے یہ آگے ، اور اگر " آگے پیچھے" سے تقدم و تاخر زمانی مراد ہو تو زمانہ مستقبل آگے آنے والا اور زمانہ ماضی پیچھے گذر چکا ہے اور زمانہ حال دونوں کے بیچ میں واقع ہے (تنبیہ دوم) پہلے فرمایا تھا کہ جنت کے وارث اتقیا (خدا سے ڈرنے والے پرہیزگار) ہیں۔ اس آیت میں بتلا دیا کہ ڈرنے کےلائق وہ ہی ذات ہو سکتی ہے جس کے قبضہ میں تمام زمان و مکان ہیں۔ اور جس کے حکم و اجازت کے بدون بڑے سے بڑا فرشتہ بھی پر نہیں ہلا سکتا ۔ انسان کو چاہئے اگر وہ جنت کی میراث لینا چاہتا ہے تو فرشتوں کی طرح حکم الہٰی کا مطیع و منقاد بن جائے۔ اور ادھر بھی اشارہ ہو گیا کہ جو خدا اپنے مخلص بندوں کو یہاں نہیں بھولتا ، وہاں بھی نہیں بھولے گا ضرور جنت میں پہنچا کر چھوڑے گا۔ ہاں ہر چیز کا ایک وقت ہے ۔ جنت میں ہر ایک کا نزول بھی اپنے اپنے وقت پر ہو گا ۔ اور جیسے یہاں پیغمبر کے پاس فرشتے حکم الہٰی کے موافق وقت معین پر آتے ہیں ، جنت میں جنتیوں کی غذا روحانی و جسمانی بھی صبح و شام اوقات مقرر پر آئےگی۔


وَما يَنبَغى لِلرَّحمٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا {19:92}

اور نہیں پھبتا رحمٰن کو کہ رکھے اولاد [۱۰۴]

اسکی شان تقدیس و تنزیہہ اور کمال غناء کے منافی ہے کہ وہ کسی کو اولاد بنائے ۔ نصاریٰ جس غرض کے لئے اولاد کے قائل ہو ئے ہیں یعنی کفارہ کا مسئلہ ، خدا تعالیٰ کو "رحمٰن" مان کر اس کی ضرورت نہیں رہتی۔
إِن كُلُّ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ إِلّا ءاتِى الرَّحمٰنِ عَبدًا {19:93}
کوئی نہیں آسمان اور زمین میں جو نہ آئے رحمٰن کا بندہ ہو کر [۱۰۵]
یعنی سب خدا کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں اور بندے ہی بن کر اس کے سامنے حاضر ہوں گے پھر بندہ بیٹا کیسے ہو سکتا ہے ؟ اور جس کے سب محکوم و محتاج ہوں اسے بیٹا بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

وَما كُنتَ تَرجوا أَن يُلقىٰ إِلَيكَ الكِتٰبُ إِلّا رَحمَةً مِن رَبِّكَ ۖ فَلا تَكونَنَّ ظَهيرًا لِلكٰفِرينَ {28:86}
اور تو توقع نہ رکھتا تھا کہ اتاری جائے تجھ پر کتاب مگر مہربانی سے تیرے رب کی [۱۲۴] سو تو مت ہو مددگار کافروں کا [۱۲۵]
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں یعنی اپنی قوم کو اپنا نہ سمجھ جنہوں نے تجھ سے یہ بدی کی (کہ وطن چھوڑنے پر مجبور کیا) اب جو تیرا ساتھ دے وہ ہی اپنا ہے۔
یعنی آپ پہلے سے کچھ پیغمبری کے انتظار میں نہ تھے، محض رحمت و موہبت الہٰیہ ہے جو حق تعالیٰ نے پیغمبری اور وحی سے سرفراز فرمایا۔ وہ ہی اپنی مہربانی اور رحمت سے دنیا و آخرت میں کامیاب فرمائے گا۔ لہذا اسی کی امداد پر ہمیشہ بھروسہ رکھئے۔

قُل إِنَّما أَنا۠ مُنذِرٌ ۖ وَما مِن إِلٰهٍ إِلَّا اللَّهُ الوٰحِدُ القَهّارُ {38:65}
تو کہہ میں تو یہی ہوں ڈر سنا دینے والا حاکم کوئی نہیں مگر اللہ اکیلا دباؤ والا

وَلَقَد أَرسَلنا رُسُلًا مِن قَبلِكَ مِنهُم مَن قَصَصنا عَلَيكَ وَمِنهُم مَن لَم نَقصُص عَلَيكَ ۗ وَما كانَ لِرَسولٍ أَن يَأتِىَ بِـٔايَةٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ فَإِذا جاءَ أَمرُ اللَّهِ قُضِىَ بِالحَقِّ وَخَسِرَ هُنالِكَ المُبطِلونَ {40:78}
اور ہم نے بھیجے ہیں رسول تجھ سے پہلے بعضے ان میں وہ ہیں کہ سنایا ہم نے تجھکو ان کا احوال اور بعضے ہیں کہ نہیں سنایا [۱۰۵] اور کسی رسول کو مقدور نہ تھا کہ لے آتا کوئی نشانی مگر اللہ کے حکم سے [۱۰۶] پھر جب آیا حکم اللہ کا فیصلہ ہو گیا انصاف سے اور ٹوٹے میں پڑے اس جگہ جھوٹے [۱۰۷]
یعنی جس وقت اللہ کا حکم پہنچتا ہے رسولوں اور ان کی قوموں کے درمیان منصفانہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اس وقت رسول سرخرو اور کامیاب ہو تے ہیں۔ اور باطل پرستوں کے حصہ میں ذلت و خسران کے سوا کچھ نہیں آتا۔
یعنی اللہ کے سامنے سب عاجز ہیں رسولوں کویہ بھی اختیار نہیں کہ جو معجزہ چاہیں دکھلا دیا کریں، صرف وہ ہی نشانات دکھلا سکتے ہیں جس کی اجازت حق تعالیٰ کی طرف سے ہو۔
یعنی بعض کا تفصیلی حال تجھ سے بیان کیا، بعض کا نہیں کیا۔ (اور ممکن ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ان کا بھی مفصل حال بیان کر دیا ہو) بہرحال جن کے نام معلوم ہیں ان پر تفصیلًا اور جن کے نام وغیرہ معلوم نہیں ان پر اجمالًا ایمان لانا ضروری ہے۔ { لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُسُلِہ ٖ}۔

وَقالوا ما هِىَ إِلّا حَياتُنَا الدُّنيا نَموتُ وَنَحيا وَما يُهلِكُنا إِلَّا الدَّهرُ ۚ وَما لَهُم بِذٰلِكَ مِن عِلمٍ ۖ إِن هُم إِلّا يَظُنّونَ {45:24}
اور کہتے ہیں اورکچھ نہیں بس یہی ہے ہمارا جینا دنیا کا ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم جو مرتے ہیں سو زمانہ سے [۳۰] اور انکو کچھ خبر نہیں اسکی محض اٹکلیں دوڑاتے ہیں [۳۱]
یعنی زمانہ نام ہے دہر کا۔ وہ کچھ کام کرنے والا نہیں کیونکہ نہ اس میں حِسّ ہے نہ شعور نہ ارادہ، لا محالہ وہ کسی اور چیز کو کہتے ہوں گے جو معلوم نہیں ہوتی۔ لیکن دنیا میں اس کا تصرف چلتا ہے۔ پھر اللہ ہی کو کیوں نہ کہیں جس کا وجود اور متصرف علی الاطلاق ہونا دلائل فطریہ اور براہین عقلیہ و نقلیہ سے ثابت ہو چکا ہے۔ اور زمانہ کا الٹ پھیر اور رات دن کا ادل بدل کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ زمانے کو برا نہ کہو: اس معنی سے حدیث میں بتلایا گیا کہ دہر اللہ ہے اس کو برا نہ کہنا چاہئے۔ کیونکہ جب آدمی دہر کو برا کہتا ہے، اسی نیت سے کہتا ہے کہ حوادثِ دہر اسکی طرف منسوب ہیں حالانکہ تمام حوادث دہر اللہ کے ارادے اور مشیت سے ہیں تو دہر کی برائی کرنے سے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی ہوتی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
یعنی اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی دوسری زندگی نہیں بس یہ ہی ایک جہان ہے جس میں ہمارا مرنا اور جینا ہے۔ جیسے بارش ہونے پر سبزہ زمین سے اگا، خشکی ہوئی تو سوکھ کر ختم ہو گیا۔ یہ ہی حال آدمی کا سمجھو، ایک وقت آتا ہے پیدا ہوتا ہے۔ پھر معین وقت تک زندہ رہتا ہے، آخر زمانہ کا چکر اسے ختم کر دیتا ہے یہ ہی سلسلہ موت و حیات کا دنیا میں چلتا رہتا ہے۔ آگے کچھ نہیں۔

وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ {51:56}
اور میں نے جو بنائے جن اور آدمی سو اپنی بندگی کو [۴۱]
یعنی ان کے پیدا کرنے سے شرعاً بندگی مطلوب ہے۔ اسی لئے ان میں خلقۃً ایسی استعداد رکھی ہے کہ چاہیں تو اپنے اختیار سے بندگی کی راہ پر چل سکیں یوں ارادہ کونیّہ قدریّہ کے اعتبار سے تو ہرچیز اس کے حکم تکوینی کے سامنے عاجز اور بے بس ہے۔ لیکن ایک وقت آئیگا جب سب بندے اپنے ارادہ سے تخلیق عالم کی اس غرض شرعی کو پورا کرینگے۔ بہرحال آپ سمجھاتے رہیئے کہ سمجھانے ہی سے یہ مطلوب شرعی حاصل ہوسکتا ہے۔

قَد كانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إِبرٰهيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَءٰؤُا۟ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَرنا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَدٰوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ إِلّا قَولَ إِبرٰهيمَ لِأَبيهِ لَأَستَغفِرَنَّ لَكَ وَما أَملِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن شَيءٍ ۖ رَبَّنا عَلَيكَ تَوَكَّلنا وَإِلَيكَ أَنَبنا وَإِلَيكَ المَصيرُ {60:4}
تمہیں ابراہیم اور ان کے رفقاء کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں) سے جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو بےتعلق ہیں (اور) تمہارے (معبودوں کے کبھی) قائل نہیں (ہوسکتے) اور جب تک تم خدائے واحد اور ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی۔ ہاں ابراہیمؑ نے اپنے باپ سے یہ (ضرور) کہا کہ میں آپ کے لئے مغفرت مانگوں گا اور اللہ کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پروردگار تجھ ہی پر ہمارا بھروسہ ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیرے ہی حضور میں (ہمیں) لوٹ کر آنا ہے
یعنی سب کو چھوڑ کر تجھ پر بھروسہ کیا اور قوم سے ٹوٹ کر تیری طرف رجوع ہوئے اور خوب جانتے ہیں کہ سب کو پھر کر تیری ہی طرف آنا ہے۔
یعنی صرف دعا ہی کرسکتا ہوں کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ خدا جو کچھ پہنچانا چاہے۔ اسے میں نہیں روک سکتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں " یعنی ابراہیمؑ نے ہجرت کی پھر اپنی قوم کی طرف منہ نہیں کیا۔ تم بھی وہی کرو۔ ایک ابراہیمؑ نے دعا چاہی تھی، باپ کے واسطے۔ جب تک معلوم نہ تھا۔ تم کو معلوم ہو چکا۔ لہٰذا تم کافر کی بخشش نہ مانگو"۔ (تنبیہ) باپ کے حق میں ابراہیمؑ کے استغفار کا قصہ سورۃ "براءۃ" میں گزر چکا۔ آیت { وماکان استغفار ابراھیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایّاہ } الخ کے فوائد میں دیکھ لیا جائے۔
یعنی یہ دشمنی اور بیر اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب تم شرک چھوڑ کر اسی ایک آقا کے غلام بن جاؤ جس کے ہم ہیں۔
یعنی تم اللہ سے منکر ہو۔ اور اس کے احکام کی پروا نہیں کرتے۔ ہم تمہارے طریقہ سے منکر ہیں۔ اور ذرّہ برابر تمہاری پروا نہیں کرتے۔
یعنی جو لوگ مسلمان ہو کر ابراہیمؑ کے ساتھ ہوتے گئے اپنے اپنے وقت پر سب نے قولًا یا فعلًا اسی علیحدگی اور بیزاری کا اعلان کیا۔

ما أَصابَ مِن مُصيبَةٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤمِن بِاللَّهِ يَهدِ قَلبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمٌ {64:11}
کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر خدا کے حکم سے۔ اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ اور خدا ہر چیز سے باخبر ہے
یعنی جو تکلیف و مصیبت اس نے بھیجی عین علم و حکمت سے بھیجی۔ اور وہی جانتا ہے کہ کون تم میں سے واقعی صبر و استقامت اور تسلیم و رضا کی راہ پر چلا۔ اور کس کا دل کن احوال و کیفیات کا مورد بننے کے قابل ہے۔
دنیا میں کوئی مصیبت اور سختی اللہ کی مشیت و ارادہ کے بدون نہیں پہنچتی۔ مومن کو جب اس بات کا یقین ہے تو اس پر غمگین اور بددل ہونے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ بہر صورت مالک حقیقی کے فیصلہ پر راضی رہنا چاہیئے اور یوں کہنا چاہیئے ؎ نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت سرِ دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی اس طرح اللہ تعالیٰ مومن کے دل کو صبر و تسلیم کی راہ بتلادیتا ہے جس کے بعد عرفان و ایقان کی عجیب و غریب راہیں کھلتی ہیں۔ اور باطنی ترقیات اور قلبی کیفیات کا دروازہ مفتوح ہوتا ہے۔

أَوَلَم يَرَوا إِلَى الطَّيرِ فَوقَهُم صٰفّٰتٍ وَيَقبِضنَ ۚ ما يُمسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحمٰنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ بَصيرٌ {67:19}
کیا انہوں نے اپنے سروں پر اڑتے ہوئے جانوروں کو نہیں دیکھا جو پروں کو پھیلائے رہتے ہیں اور ان کو سکیڑ بھی لیتے ہیں۔ اللہ کے سوا انہیں کوئی تھام نہیں سکتا۔ بےشک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے
پہلے آسمان وزمین کا ذکر ہوا تھا۔ یہاں درمیانی چیز کا ذکر ہے یعنی خدا کی قدرت دیکھو پرندے زمین و آسمان کے درمیان کبھی پر کھول کر اور کبھی بازو سمیٹے ہوئے کس طرح اُڑتے رہتے ہیں۔ اور باوجود جسم ثقیل مائل الی المرکز ہونے کے نیچے نہیں گر پڑتے نہ زمین کی قوت جاذبہ اس ذرا سے پرندے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ بتلاؤ رحمٰن کے سوا کس کا ہاتھ ہے جس نے انہیں فضا میں تھام رکھا ہے۔ بیشک رحمٰن نے اپنی رحمت وحکمت سے ان کی ساخت ایسی بنائی اور اس میں وہ قوت رکھی جس سے وہ بے تکلف ہوا میں گھنٹوں ٹھہر سکیں۔ وہ ہی ہر چیز کی استعداد کو جانتا اور تمام مخلوق کو اپنی نگاہ میں رکھتا ہے۔ شاید پرندوں کی مثال بیان کرنے سے یہاں اس طرف بھی اشارہ ہو کہ اللہ آسمان سے عذاب بھیجنے پر قادر ہے اور کفار اپنے کفر و شرارت سے اسکے مستحق بھی ہیں۔ لیکن جس طرح رحمٰن کی رحمت نے پرندوں کو ہوا میں روک رکھا ہے، عذاب بھی اسی کی رحمت سے رُکا ہوا ہے۔

وَما جَعَلنا أَصحٰبَ النّارِ إِلّا مَلٰئِكَةً ۙ وَما جَعَلنا عِدَّتَهُم إِلّا فِتنَةً لِلَّذينَ كَفَروا لِيَستَيقِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتٰبَ وَيَزدادَ الَّذينَ ءامَنوا إيمٰنًا ۙ وَلا يَرتابَ الَّذينَ أوتُوا الكِتٰبَ وَالمُؤمِنونَ ۙ وَلِيَقولَ الَّذينَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ وَالكٰفِرونَ ماذا أَرادَ اللَّهُ بِهٰذا مَثَلًا ۚ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشاءُ وَيَهدى مَن يَشاءُ ۚ وَما يَعلَمُ جُنودَ رَبِّكَ إِلّا هُوَ ۚ وَما هِىَ إِلّا ذِكرىٰ لِلبَشَرِ {74:31}
اور ہم نے دوزخ کے داروغہ فرشتے بنائے ہیں۔ اور ان کا شمار کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کیا ہے (اور) اس لئے کہ اہل کتاب یقین کریں اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو اور اہل کتاب اور مومن شک نہ لائیں۔ اور اس لئے کہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے اور (جو) کافر (ہیں) کہیں کہ اس مثال (کے بیان کرنے) سے اللہ کا مقصد کیا ہے؟ اسی طرح اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور تمہارے پروردگار کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ تو بنی آدم کے لئے نصیحت ہے
اہل کتاب کو پہلے سے یہ عدد معلوم ہوگا جیسا کہ ترمذی کی ایک روایت میں ہے یا کم از کم کتب سماویہ کے ذریعہ اتنا تو جانتے تھے کہ فرشتوں میں کس قدر طاقت ہے۔ انیس بھی تھوڑے نہیں۔ اور یہ کہ انواعِ تعذیب کے اعتبار سے مختلف فرشتے دوزخ پر مامور ہونے چاہئیں یہ کام تنہا ایک کا نہیں بہر حال اس بیان سے اہل کتاب کے دلوں میں قرآن کی حقیت کا یقین پیدا ہوگا۔ اور یہ دیکھ کر مومنین کا ایمان بڑھے گا اور ان دونوں جماعتوں کو قرآن کے بیان میں کوئی شک و تردد نہیں رہیگا۔ نہ مشرکین کے استہزاء و تمسخر سے وہ کچھ دھوکا کھائیں گے۔
یعنی کافروں کو عذاب دینے کے لئے انیس کی گنتی خاص حکمت سے رکھی ہے جس کی طرف { عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَرَ } کے فائدہ میں اشارہ کیا جاچکا ہے اور اس گنتی کے بیان کرنے میں منکروں کی جانچ ہے۔ دیکھتے ہیں کہ کون اس کو سن کر ڈرتا ہے اور کون ہنسی مذاق اڑاتا ہے۔
انیس کا عدد سن کر مشرکین ٹھٹھا کرنے لگے کہ ہم ہزاروں ہیں۔ انیس ہمارا کیا کر لیں گے۔ بہت ہوا ہم میں سے دس دس ان کے ایک ایک کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں گے۔ ایک پہلوان بولا کہ سترہ کو تو میں اکیلا کافی ہوں، دو کا تم مل کر تیا پانچا کر لینا۔ اس پر یہ آیت اتری۔ یعنی وہ انیس تو ہیں مگر آدمی نہیں فرشتہ ہیں۔ جن کی قوت کا یہ حال ہے کہ ایک فرشتہ نے قوم لُوط کی ساری بستی کو ایک بازو پر اٹھا کر پٹک دیا تھا۔
یعنی دوزخ کا ذکر صرف عبرت و نصیحت کے لئے ہے کہ اس کا حال سن کر لوگ غضب الہٰی سے ڈریں اور نافرمانی سے باز آئیں۔
یعنی اللہ کے بیشمار لشکروں کی تعداد اسی کو معلوم ہے۔ انیس تو صرف کارکنان جہنم کے افسر بتلائے ہیں۔
یعنی ایک ہی چیز سے بداستعداد آدمی گمراہ ہوجاتا ہے اور سلیم الطبع راہ پالیتا ہے جسے ماننا مقصود نہ ہو وہ کام کی بات کو ہنسی مذاق میں اڑا دیتا ہے اور جس کے دل میں خوف خدا اور نور توفیق ہو اس کے ایمان و یقین میں ترقی ہوتی ہے۔
یعنی انیس کے بیان سے کیا غرض تھی۔ بھلا ایسی بے تکی اور غیر موزوں بات کو کون مان سکتا ہے۔ (العیاذ باللہ)۔
{ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ } سے منافقین یا ضعیف الایمان مراد ہیں اور { الْکٰفِرُوْنَ } سے کھلے ہوئے منکر۔

وَما يَذكُرونَ إِلّا أَن يَشاءَ اللَّهُ ۚ هُوَ أَهلُ التَّقوىٰ وَأَهلُ المَغفِرَةِ {74:56}
اور یاد بھی تب ہی رکھیں گے جب اللہ چاہے۔ وہی ڈرنے کے لائق اور بخشش کا مالک ہے
یعنی آدمی کتنا ہی گناہ کرے۔ لیکن پھر جب تقویٰ کی راہ چلے گا اور اس سے ڈرے گا، وہ اس کے سب گناہ بخش دے گا، اور اس کی توبہ کو قبول کریگا۔ انس ابن مالکؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس مقام پر بطور حاشیہ منہیہ کے، ایک عبارت اس آیت کی تلاوت کے بعد نقل فرمائی۔ جس کے الفاظ یہ ہیں { قال ربکم عزّوجلّ انا اھلٌ ان اتقٰی فلایشرک بی شیٌ فاذااتقانی العبد فانا اھل ان اغفرلہ } یعنی میں اس کے لائق ہوں کہ بندہ مجھ سے ڈرے اور میرے ساتھ کسی کو کسی کام میں شریک نہ کرے، پھر جب بندہ مجھ سے ڈرا (اور شرک سے پاک ہوا) تو میری شان یہ ہے کہ میں اس کے گناہوں کو بخش دوں"۔ حق تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے ہم کو توحید و ایمان پر ہمیشہ قائم رکھے۔ اور اپنی مہربانی سے ہمارے گناہ معاف فرمائے۔آمین۔ تم سورۃ المدثر وللہ الحمد والمنہ۔
اور اللہ کا چاہنا نہ چاہنا سب حکمتوں پر مبنی ہے۔ جن کا احاطہ کوئی بشر نہیں کرسکتا۔ وہی ہر شخص کی استعداد و لیاقت کو کماحقہ جانتا ہے۔ اور اس کے موافق معاملہ کرتا ہے۔

وَما تَشاءونَ إِلّا أَن يَشاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليمًا حَكيمًا {76:30}
اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو اللہ کو منظور ہو۔ بےشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے
یعنی تمہارا چاہنا بھی اللہ کے چاہے بدون نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بندہ کی مشیت اللہ کی مشیت کے تابع ہے وہ جانتا ہے کہ کس کی استعداد و قابلیت کس قسم کی ہے اسی کے موافق اس کی مشیت کام کرتی ہے۔ پھر وہ جس کو اپنی مشیت سے راہ راست پر لائے، اور جس کو گمراہی میں پڑا چھوڑدے عین صواب وحکمت ہے۔

وَما تَشاءونَ إِلّا أَن يَشاءَ اللَّهُ رَبُّ العٰلَمينَ {81:29}
اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو خدائے رب العالمین چاہے
یعنی فی نفسہ قرآن نصیحت ہے لیکن اس کی تاثیر مشیت الہٰی پر موقوف ہے جو بعض لوگوں کے لئے متعلق ہوتی ہے اور بعض کے لئے کسی حکمت سے ان کے سوء استعداد کی بناء پر متعلق نہیں ہوتی۔


سَنُقرِئُكَ فَلا تَنسىٰ {87:6}

ہم تمہیں پڑھا دیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے
إِلّا ما شاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ يَعلَمُ الجَهرَ وَما يَخفىٰ {87:7}
مگر جو اللہ چاہے۔ وہ کھلی بات کو بھی جانتا ہے اور چھپی کو بھی
یعنی وہ تمہاری مخفی استعداد اور ظاہر اعمال و احوال کو جانتا ہے اسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا نیز یہ شبہ نہ کیا جائے کہ جو آیات ایک مرتبہ نازل کر دی گئیں، پھر ان کو منسوخ کرنے اور بھلا دینے کے کیا معنی۔ اس کی حکمتوں کا احاطہ کرنا اسی کی شان ہے جو تمام کھلی چھپی چیزوں کا جاننے والا ہے اسی کو معلوم ہے کہ کونسی چیز ہمیشہ باقی رہنی چاہئے اور کس کو ایک مخصوص مدت کے بعد اُٹھا لینا چاہئیے کیونکہ اب اس کا باقی رہنا ضروری نہیں ہے۔
یعنی جس طرح ہم نے تربیت سے ہر چیز کو بتدریج اس کے کمال مطلوب تک پہنچایا ہے تم کو بھی آہستہ آہستہ کامل قرآن پڑھا دینگے اور ایسا یاد کرا دیں گے کہ اس کا کوئی حصّہ بھولنے نہ پاؤ گے بجز ان آیتوں کا جن کا بالکل بھلا دینا ہی مقصود ہو گا کہ وہ بھی ایک قسم نسخ کی ہے۔


وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ وَيُقيمُوا الصَّلوٰةَ وَيُؤتُوا الزَّكوٰةَ ۚ وَذٰلِكَ دينُ القَيِّمَةِ {98:5}
اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں (اور) یکسو ہو کر اورنماز پڑھیں اور زکوٰة دیں اور یہی سچا دین ہے
یعنی یہ چیزیں ہر دین میں پسند یدہ رہی ہیں، انہی کی تفصیل یہ پیغمبر کرتا ہے۔ پھر خدا جانے ایسی پاکیزہ تعلیم سے کیوں وحشت کھاتے ہیں۔
یعنی ہر قسم کے باطل اور جھوٹ سے علیحدہ ہو کر خالص خدائے واحد کی بندگی کریں اور ابراہیم حنیف کی طرح سب طرف سے ٹوٹ کر اسی ایک مالک کے غلام بن جائیں۔ تشریع وتکوین کے کسی شعبہ میں کسی دوسرے کو خود مختار نہ سمجھیں۔


أَلا لِلَّهِ الدّينُ الخالِصُ ۚ وَالَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ما نَعبُدُهُم إِلّا لِيُقَرِّبونا إِلَى اللَّهِ زُلفىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحكُمُ بَينَهُم فى ما هُم فيهِ يَختَلِفونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لا يَهدى مَن هُوَ كٰذِبٌ كَفّارٌ {39:3}
سنتا ہے اللہ ہی کیلئے ہے بندگی خالص [۲] اور جنہوں نے پکڑ رکھے ہیں اس سے ورے حمایتی کہ ہم تو ان کو پوجتے ہیں اس واسطے کہ ہم کو پہنچا دیں اللہ کی طرف قریب کے درجہ میں بیشک اللہ فیصلہ کر دے گا ان میں جس چیز میں وہ جھگڑ رہے ہیں [۳] البتہ اللہ راہ نہیں دیتا اسکو جو ہو جھوٹا حق نہ ماننے والا [۴]
یعنی جس نے دل میں یہ ہی ٹھان لی کہ کبھی سچی بات کو نہ مانوں گا، جھوٹ اور حق ہی پر ہمیشہ اڑا رہوں گا۔ منعم حقیقی کو چھوڑ کر جھوٹے محسنوں ہی کی بندگی کروں گا۔ اللہ کی عادت ہے کہ ایسے بد باطن کو فوز و کامیابی کی راہ نہیں دیتا۔
عمومًا مشرک لوگ یہ ہی کہا کرتے ہیں کہ ان چھوٹے خداؤں اور دیوتاؤں کی پرستش کر کے ہم بڑے خدا سے نزدیک ہو جائیں گے۔ اور وہ ہم پر مہربانی کرے گا جس سے ہمارے کام بن جائیں گے اس کا جواب دیا کہ ان لچر پوچ حیلوں سے توحید خالص میں جو جھگڑے ڈال رہے ہو اور اہل حق سے اختلاف کر رہے ہو اس کا عملی فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگے چل کر ہو جائے گا۔
یعنی حسب معمول اللہ کی بندگی کرتے رہئے جو شوائب شرک و ریاء وغیرہ سے پاک ہو۔ اسی کی طرف قولًا و فعلًا لوگوں کو دعوت دیجئے اور اعلان کر دیجئے کہ اللہ اسی کی بندگی قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لئے ہو عمل خالی از اخلاص کی اللہ کے ہاں کچھ پوچھ نہیں۔


وَمَن يَهدِ اللَّهُ فَهُوَ المُهتَدِ ۖ وَمَن يُضلِل فَلَن تَجِدَ لَهُم أَولِياءَ مِن دونِهِ ۖ وَنَحشُرُهُم يَومَ القِيٰمَةِ عَلىٰ وُجوهِهِم عُميًا وَبُكمًا وَصُمًّا ۖ مَأوىٰهُم جَهَنَّمُ ۖ كُلَّما خَبَت زِدنٰهُم سَعيرًا {17:97}
اور جس کو راہ دکھلائے اللہ وہی ہے راہ پانے والا اور جس کو بھٹکائے پھر تو نہ پائے انکے واسطے کوئی رفیق اللہ کے سوائے [۱۴۵] اور اٹھائیں گے ہم انکو دن قیامت کے چلیں گے منہ کے بل اندھے اور گونگے اور بہرے [۱۴۶] ٹھکانا ان کو دوزخ ہے جب لگے گی بجھنے اور بھڑکا دیں گے ان پر [۱۴۷]
یعنی عذاب معین اندازہ سے کم نہیں ہونے دیں گے۔ اگر بدن جل کر تکلیف میں کمی ہونے لگے گی تو پھر نئے چمڑے چڑھا دیے جائیں گے۔ { کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنَاھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا } (نساء رکوع۸)۔
یہ قیامت کے بعض مواطن میں ہو گا کہ کافر منہ کے بل اندھے گونگے کر کے چلائے جائیں گے ۔ حدیث میں ہے صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! منہ کے بل کس طرح چلیں گے فرمایا جس نے آدمی کو پاؤں سے چلایا وہ قادر ہے کہ سر سے چلا دے۔ باقی فرشتوں کا جہنمیوں کو منہ کے بل گھسیٹنا ، وہ دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہو گا۔ { یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ } (القمر رکوع۳)۔
یعنی خدا کی توفیق و دستگیری ہی سے آدمی راہ حق پر چل کر منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے جس کی بدبختی اور تعنت کی وجہ سے خدا دستگیری نہ فرمائے اسے کون ہے جو ٹھیک راستہ پر لگا سکے۔


بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ قُل هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ {112:1}
تو کہہ وہ اللہ ایک ہے [۱]
یعنی جو لوگ اللہ کی نسبت پوچھتے ہیں کہ وہ کیسا ہے، ان سے کہہ دیجیئے کہ وہ ایک ہے۔ جس کی ذات میں کسی قسم کے تعدد و تکثر اور دوئی کی گنجائش نہیں۔ نہ اسکا کوئی مقابل، نہ مشابہ، اس میں مجوس کے عقیدہ کا رد ہوگیا۔ جو کہتے ہیں کہ خالق دو ہیں۔ خیر کا خالق "یزداں" اور شر کا "ہرمن" نیز ہنود کی تردید ہوئی جو تینتیس کروڑ دیوتاؤں کو خدائی میں حصہ دار ٹھہراتے ہیں۔

اللَّهُ الصَّمَدُ {112:2}
اللہ بے نیاز ہے [۲]
"صمد" کی تفسیر کئ طرح کی گئ ہے۔ طبرانی ان سب کو نقل کرکے فرماتے ہیں { وکلّ ھٰذہٖ صحیحۃ وھی صفات ربنا عزوجل ھوالّذی یصمد الیہ فی الحوائج وھو الذی قدانتھٰی سؤددہٗ وھو الصمد الذی لاجوف لہ ولا یاکل ولایشرب وھوالباقی بعد خلقہ } (ابن کثیرؒ) (یہ سب معانی صحیح ہیں اور یہ سب ہمارے رب کی صفات ہیں۔ وہ ہی ہے جس کی طرف تمام حاجات میں رجوع کیا جاتا ہے یعنی سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اور وہ ہی ہے جس کی بزرگی اور فوقیت تمام کمالات اور خوبیوں میں انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اور وہ ہی ہے جو کھانے پینے کی خواہشات سے پاک ہے۔ اور وہ ہی ہے جو خلقت کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہنے والا ہے) اللہ تعالیٰ کی صفت صمدیت سے ان جاہلوں پر رد ہوا جو کسی غیر اللہ کو کسی درجہ میں مستقل اختیار رکھنے والا سمجھتے ہوں نیز آریوں کے عقیدہ مادہ و روح کی تردید بھی ہوئی۔ کیونکہ ان کے اصول کے موافق اللہ تو عالم بنانے میں ان دونوں کا محتاج ہے اور یہ دونوں اپنے وجود میں اللہ کے محتاج نہیں (العیاذ باللہ)۔

لَم يَلِد وَلَم يولَد {112:3}
نہ کسی کو جنا نہ کسی سے جنا [۳]
یعنی نہ کوئی اس کی اولاد، نہ وہ کسی کی اولاد، اس میں ان لوگوں کا رد ہوا جو حضرت مسیحؑ کو یا حضرت عزیرؑ کو خدا کا بیٹا اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں۔ نیز جو لوگ مسیحؑ کو یا کسی بشر کو خدا مانتے ہیں ان کی تردید { لَمْ یُوْلَدْ } میں کر دی گئ۔ یعنی خدا کی شان یہ ہے کہ اس کو کسی نے جنا نہ ہو۔ اور ظاہر ہے حضرت مسیحؑ ایک پاکباز عورت کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ پھر وہ خدا کس طرح ہو سکتے ہیں۔

وَلَم يَكُن لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ {112:4}
اور نہیں اُس کے جوڑ کا کوئی [۴]
جب اس کے جوڑ کا کوئی نہیں تو جو رویا بیٹا کہاں سے ہو۔ اس جملہ میں ان اقوام کا رد ہوگیا جو اللہ کی کسی صفت میں کسی مخلوق کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہیں۔ حتّٰی کہ بعض گستاخ تو اس سے بڑھ کر صفات دوسروں میں ثابت کر دیتے ہیں۔ یہود کی کتابیں اٹھا کر دیکھو ایک دنگل میں خدا کی کشتی یعقوبؑ سے ہو رہی ہے اور یعقوبؑ خدا کو پچھاڑ دیتے ہیں۔(العیاذ باللہ) { کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا }۔ { اِنّی اسالک یا اللہ لواحد الاحد الصمد الذی لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوًا احد ان تغفرلی ذنوبی انک انت الغفورالرحیم }۔

اللہ کا تعارف-معرفت:-
اللہ کی صفات-خوبیوں سے حاصل کرنا۔
۔۔۔۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
ترجمہ:
۔۔۔۔۔ اور جان لو کہ اللہ ساتھ ہے پرہیزگاروں کے۔
[سورۃ البقرۃ:194]

۔۔۔۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ:
۔۔۔۔ اور جان لو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔
[سورۃ البقرۃ:196]

۔۔۔۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
ترجمہ:
۔۔۔۔ اور جان لو کہ تم اسی کی طرف جمع کیے جاؤگے۔
[سورۃ البقرۃ:203]

۔۔۔۔ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
ترجمہ:
۔۔۔۔۔ تو جان لو کہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:209]

۔۔۔۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
ترجمہ:
۔۔۔۔ اور تم جان لو کہ تم سب ملنے والے ہو اس سے اور آپ خوشخبری دیں مومنین کو۔
[سورۃ البقرۃ:223]

۔۔۔۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
ترجمہ:
۔۔۔۔۔ اور جان لو کہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:231]

۔۔۔۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
ترجمہ:
۔۔۔۔۔ اور جان لو کہ اللہ اسے جو تم کرتے ہو دیکھنے والا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:233]

۔۔۔۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ
ترجمہ:
۔۔۔۔۔ اور جان لو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہاری دلوں میں سو ڈرو اس سے اور جان لو کہ اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے(ڈرنے والوں کیلئے)۔
[سورۃ البقرۃ:235]

۔۔۔۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ:
۔۔۔۔۔ اور جان لو کہ اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:244]

۔۔۔۔ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
ترجمہ:
۔۔۔۔۔ میں جان گیا کہ اللہ ہر چیز پر قدرت والا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:259]

2 comments:

  1. Replies
    1. uammuzaffar@gmail.com
      https://www.facebook.com/uzairmemonhyderabadi

      Delete