Tuesday 24 June 2014

استغفار اور توبہ کے معنیٰ، فرق، فضائل، آداب ، شرائط اور چہل حدیث




استغفار کے قرآنی فضائل: 


القرآن:
پھر میں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ (1)وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا۔ اور تمہاری مدد کرے گا (2) مال اور (3) بیٹوں کے ذریعے (4) اور تمہیں باغ عطا کرے گا اور (5) ان میں تمہارے لئے نہریں بہا دے گا۔
[سورۃ نوح:10-12]

اللہ کی نعمتیں برسیں گی:

یعنی ایمان و استغفار کی برکت سے قحط و خشک سالی (جس میں وہ برسوں سے مبتلا تھے) دور ہو جائیگی اور اللہ تعالیٰ دھواں دھار برسنے والا بادل بھیج دے گا جس سے کھیت اور باغ خوب سیراب ہونگے۔ غلّے، پھل، میوہ کی افراط ہو گی، مواشی وغیرہ فربہ ہو جائیں گے، دودھ گھی بڑھ جائے گا یعنی مالی اور بدنی ، روحانی و ایمانی قوت کا اضافہ کر دیا جائے گا اور عورتیں جو کفر و معصیت کی شامت سے بانجھ ہو رہی ہیں اولاد ذکور(نرینہ) جننے لگیں گی۔ غرض آخرت کے ساتھ دنیا کے عیش و بہار سے بھی وافر حصہ دیا جائے گا۔ بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس کی اطاعت سے مجرموں کی طرح روگردانی نہ کرو۔
(تنبیہ)
نمازِ استسقاء کی اصل رُوح:
امام ابوحنیفہؒ نے اس آیت سے یہ نکالا ہے کہ استسقاء کی اصل حقیقت اور روح استغفار وانابت ہے اور نماز اس کی کامل ترین صورت ہے، جو سنت صحیحہ سے ثابت ہوئی۔







استغفار اور توبہ کے قرآنی فضائل: 


القرآن:
اے قوم! اپنے پروردگار سے (پہلے دعائے) بخشش مانگو پھر اسکے آگے توبہ (یعنی لوٹ کر آیا) بھی کرو وہ تم پر (1) آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا اور تمہاری (2) طاقت پر (3)طاقت بڑھائے گا۔ اور دیکھو گناہگار بن کر روگردانی نہ کرو۔
[سورۃ ھود:52]
نوٹ:
استغفار اور توبہ میں فرق:
استغفار کے علاؤہ توبہ کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ:
(1)استغفار کے معنیٰ بخشش مانگنا ہے، اور توبہ کے معنیٰ واپس لوٹنا۔رجوع کرنا ہے۔
(2)استغفار ماضی کیلئے ہے، اور توبہ مستقبل کیلئے۔
(3)استغفار دعا ہے، اور توبہ عہد-وعدہ ہے۔
(4)استغفار گناہ کیلئے ہے، جبکہ توبہ گناہگاری چھوڑنے کے علاؤہ بغیرگناہ صرف نیکوکاری کی طرف لوٹتے رہنے کیلئے بھی ہے۔
(5)استغفار صرف زبان کا عمل ہے، جبکہ توبہ دل میں ندامت و شرمندگی، زبان سے اعترافِ خطا کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا عہد کرنے، اور جسم سے قضاؤں کی کوشش، شرعی سزا خود لینے اور مال سے کفارہ وفدیہ دینے کا عمل ہے۔


التوب
(ن) کے معنیٰ گناہ کے باحسن وجوہ ترک کرنے کے ہیں، اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے۔
کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں:
(1)پہلی صورت:
یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں۔
(2)دوسری صورت:
یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے۔
(3)تیسری صورت:
یہ ہے کہ اعترافِ جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے۔ افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں، اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے، اور اس آخری صورت کو توبہ کہا جاتا ہے مگر
شرعاً توبہ
جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے۔ اگر ان گناہوں کی تلافی(قضا،کفارہ،فدیہ وغیرہ) ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے۔ پس توبہ کی یہ چار شرطیں ہیں، جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں۔
[مفردات القرآن-امام الراغب« سورۃ النساء:17]


توبہ کے معنیٰ اور تعریف:
توبہ کا معنیٰ عود و رجوع یعنی لوٹنا اور واپس ہونا ہے۔ جب اس لفظ کی نسبت کسی بندے کی طرف ہوتی ہے، تو اس وقت اس کا معنیٰ اپنے گناہ وخطا کو چھوڑدینا اور اپنے کیے ہوئے پر نادم وپشیماں ہونا ہوتا ہے۔
توبہ کی اصطلاحی تعریف کے حوالے سے علامہ آلوسیؒ (۱۸۰۲-۱۸۵۴ء) فرماتے ہیں:
’’النَّدَمُ وَالإِقْلاَعُ عَنِ الْمَـعْصِيَۃِ مِنْ حَيْثُ ہِيَ مَعْصِيَۃٌ، لا؛ لِأنَّ فِيْہَا ضَرَرًا لِبَدَنِہٖ وَمَالِہٖ، وَالْعَزْمُ عَلَی عَدَمِ الْعَوْدِ إِلَيْہَا إِذَا قَدَرَ.‘‘

ترجمہ:
’’بندہ اپنے گناہوں سے باز آجائے اور اپنے کیے ہوئے پر نادم وپشیماں ہو اور گناہ سے یہ توبہ اس وجہ سے ہو کہ وہ گناہ ہے؛ اس لیے نہ ہو کہ اس میں کوئی جانی ومالی نقصان ہے، اور یہ عزم وارادہ کرے کہ حتی المقدور دوبارہ یہ گناہ نہیں کرے گا۔‘
[تفیسر روح المعانی،ج: ۲۸، ص:۱۵۸،.سورة.الفجر:23]







آدابِ بندگی (حقوق اللہ):
(1)عبادات یا نافرمانیوں کا نفع نقصان ہمیں ہی پہنچتا ہے، (2)کوئی بھی اللہ کو کچھ بھی کوئی نفع نقصان ہرگز نہیں پہنچا سکتا، (3)لہٰذا استغفار وتوبہ کی عادت بنائیں (4)جھوٹے عذر نہ تراشیں۔

(1)حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ العَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِيئَةً نُكِتَتْ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ، فَإِذَا هُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُهُ، وَإِنْ عَادَ زِيدَ فِيهَا حَتَّى تَعْلُوَ قَلْبَهُ، وَهُوَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ» {كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ} [سورة المطففين: 14].
ترجمہ:
’’بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہوجاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ «ران» ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت میں کیا ہے: «یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے۔» [سورۃ المطففین: 14] ۔
[السنن ترمذي » کتاب تفسير القرآن، رقم: 3334]
دل کے پتھر ہونے کی وجہ:- گناہ ہیں
گناہ اور پتھردلی کا علاج:- استغفار اور توبہ ہے۔
[تفسير الماتريدي، تفسير القرطبي، الدر المنثور » ‌‌سُورَةُ الْمُطَفِّفِينَ:آية 14]






(2)عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا رَوَى ، عَنِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ، أَنَّهُ قَالَ: " يَا عِبَادِي : إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا ، فَلَا تَظَالَمُوا ، يَا عِبَادِي : كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ ، فَاسْتَهْدُونِي أَهْدِكُمْ ، يَا عِبَادِي : كُلُّكُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ ، فَاسْتَطْعِمُونِي أُطْعِمْكُمْ ، يَا عِبَادِي : كُلُّكُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ ، فَاسْتَكْسُونِي أَكْسُكُمْ ، يَا عِبَادِي : إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ، فَاسْتَغْفِرُونِي أَغْفِرْ لَكُمْ ، يَا عِبَادِي : إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّي ، فَتَضُرُّونِي وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِي ، فَتَنْفَعُونِي ، يَا عِبَادِي : لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ ، كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ ، مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا ، يَا عِبَادِي : لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ ، كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ ، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا ، يَا عِبَادِي : لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ ، قَامُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ ، فَسَأَلُونِي فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَّا عِنْدِي ، إِلَّا كَمَا يَنْقُصُ الْمِخْيَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ ، يَا عِبَادِي : إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أُحْصِيهَا لَكُمْ ، ثُمَّ أُوَفِّيكُمْ إِيَّاهَا فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ ، وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ ".
ترجمہ:
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے روایت ہے اللہ عزوجل نے فرمایا:
(1)اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے، پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو! (2)اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو، سوائے اس کے کہ جسے میں ہدایت دوں، تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا، (3)اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں کھلاؤں، پس تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا، (4)اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے کہ جسے میں پہناؤں، پس تم مجھ سے لباس مانگو تو میں تمہیں لباس پہناؤں گا، (5)اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں سارے گناہوں کو بخشتا ہوں، پس تم مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخش دوں گا، (6)اے میرے بندو! تم مجھے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی ہرگز مجھے نفع پہنچا سکتے ہو، (7)اے میرے بندو! اگر تم سب اولین و آخریں اور جن و انس اس آدمی کے دل کی طرح ہو جاؤ جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہو تو بھی تم میری سلطنت میں کچھ بھی اضافہ نہیں کر سکتے، (8)اے میرے بندو!اگر سب اولین اور آخرین اور جن و انس اس ایک آدمی کی طرح ہو جاؤ کہ جو سب سے زیادہ بدکار ہے تو پھر بھی تم میری سلطنت میں کچھ کمی نہیں کر سکتے، (9)اے میرے بندو! اگر تم سب اولین اور آخرین اور جن اور انس ایک صاف چٹیل میدان میں کھڑے ہو کر مجھ سے مانگنے لگو اور میں ہر انسان کو جو وہ مجھ سے مانگے عطا کر دوں تو پھر بھی میرے خزانوں میں اس قدر بھی کیک نہیں ہوگی جتنی کہ سمندر میں سوئی ڈال کر نکالنے سے، (10)اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں تمہارے لئے اکٹھا کر رہا ہوں، پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا، پس جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو بہتر بدلہ نہ پائے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔ سعد فرماتے ہیں کہ ابوادریس خولانی جب یہ حدیث بیان کرتے تھے تو اپنے گھٹنوں کے بل جھک جاتے تھے۔
[تفسير القرطبي» سورة آل عمران: آية 176][هُودٍ: 57]




عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، يَقُولُ: ‌يَا ‌عِبَادِي كُلُّكُمْ مُذْنِبٌ، إِلَّا مَنْ عَافَيْتُ، فَسَلُونِي الْمَغْفِرَةَ فَأَغْفِرَ لَكُمْ، وَمَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ أَنِّي ذُو قُدْرَةٍ عَلَى الْمَغْفِرَةِ، فَاسْتَغْفَرَنِي بِقُدْرَتِي غَفَرْتُ لَهُ، وَكُلُّكُمْ ضَالٌّ، إِلَّا مَنْ هَدَيْتُ، فَسَلُونِي الْهُدَى أَهْدِكُمْ، وَكُلُّكُمْ فَقِيرٌ، إِلَّا مَنْ أَغْنَيْتُ، فَسَلُونِي أَرْزُقْكُمْ، وَلَوْ أَنَّ حَيَّكُمْ، وَمَيِّتَكُمْ، وَأَوَّلَكُمْ، وَآخِرَكُمْ، وَرَطْبَكُمْ، وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا، فَكَانُوا عَلَى قَلْبِ أَتْقَى عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي، لَمْ يَزِدْ فِي مُلْكِي جَنَاحُ بَعُوضَةٍ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا فَكَانُوا عَلَى قَلْبِ أَشْقَى عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي، لَمْ يَنْقُصْ مِنْ مُلْكِي جَنَاحُ بَعُوضَةٍ، وَلَوْ أَنَّ حَيَّكُمْ، وَمَيِّتَكُمْ، وَأَوَّلَكُمْ، وَآخِرَكُمْ، وَرَطْبَكُمْ، وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا، فَسَأَلَ كُلُّ سَائِلٍ مِنْهُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِيَّتُهُ، مَا نَقَصَ مِنْ مُلْكِي، إِلَّا كَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ مَرَّ بِشَفَةِ الْبَحْرِ، فَغَمَسَ فِيهَا إِبْرَةً، ثُمَّ نَزَعَهَا، ذَلِكَ بِأَنِّي جَوَادٌ مَاجِدٌ، عَطَائِي كَلَامٌ، إِذَا أَرَدْتُ شَيْئًا، فَإِنَّمَا أَقُولُ لَهُ: كُنْ فَيَكُونُ "
ترجمہ:
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
اے میرے بندو! تم سب گناہ گار ہو سوائے اس کے جس کو میں بچائے رکھوں، تو تم مجھ سے مغفرت طلب کرو، میں تمہیں معاف کر دوں گا، اور تم میں سے جو جانتا ہے کہ میں مغفرت کی قدرت رکھتا ہوں اور وہ میری قدرت کی وجہ سے معافی چاہتا ہے تو میں اسے معاف کردیتا ہوں، تم سب کے سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، تم مجھ ہی سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا، تم سب کے سب محتاج ہو سوائے اس کے جس کو میں غنی (مالدار) کر دوں، تم مجھ ہی سے مانگو میں تمہیں روزی دوں گا، اور اگر تمہارے زندہ و مردہ، اول و آخر اور خشک و تر سب جمع ہوجائیں، اور میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار شخص کی طرح ہوجائیں تو میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہ ہوگا، اور اگر یہ سب مل کر میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ بدبخت کی طرح ہوجائیں تو میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہ ہوگی، اور اگر تمہارے زندہ و مردہ، اول و آخر اور خشک و تر سب جمع ہوجائیں، اور ان میں سے ہر ایک مجھ سے اتنا مانگے جہاں تک اس کی آرزوئیں پہنچیں، تو میری سلطنت میں کوئی فرق واقع نہ ہوگا، مگر اس قدر جیسے تم میں سے کوئی سمندر کے کنارے پر سے گزرے اور اس میں ایک سوئی ڈبو کر نکال لے، یہ اس وجہ سے ہے کہ میں سخی ہوں، بزرگ ہوں، میرا دینا صرف کہہ دینا ہے، میں کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تو کہتا ہوں ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔
[سنن ابن ماجه:4257، سنن الترمذي:2495]
[تفسير القرطبي» سورة آل عمران (3): آية 176][سورۃ هُودٍ: 57]






حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ کہتا ہے: اے آدم کے بیٹے! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا، چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں، مجھے کسی بات کی پرواہ و ڈر نہیں ہے، اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کسی بات کی پرواہ نہ ہوگی۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھر مجھ سے (مغفرت طلب کرنے کے لیے) ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آؤں گا (اور تجھے بخش دوں گا)۔
[سنن الترمذي:3540]





يَا مَنْ ‌لَا ‌تَضُرُّهُ ‌الذُّنُوبُ وَلَا تَنْقُصُهُ الْمَغْفِرَةُ، اغْفِرْ لِي مَالَا يَضُرُّكَ، وَأَعْطِنِي مَالَا يَنْقُصُكَ، إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ۔
ترجمہ:
اے وہ (بےنیاز ذات)! بندوں کے گناہ جس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے اور ان کو بخش دینا جس کے یہاں کوئی نقص وکمی نہیں کرتا، میرے ان گناہوں کو آپ معاف فرمادیجیے کہ ان سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، اور جس چیز کے دینے سے آپ کے خزانہ میں کمی نہیں آتی وہ مغفرت کا خزانہ مجھے دے دیجئے۔ بےشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بےانتہا بخشش کی خُوگَر(عادی) ہے۔
[الفرج بعد الشدة لابن أبي الدنيا(م281ھ) » حدیث نمبر 70][شعب الإيمان-البيهقي:7305(6923)][ترتيب الأمالي الخميسية للشجري(م499ھ) » حدیث نمبر 1049][الفردوس بمأثور الخطاب-الديلمي:1913][الترغيب والترهيب-الأصبهاني(م535ھ) » حدیث نمبر 1273][جزء ابن طبرزد(م607ھ) » حدیث نمبر 1][المسلسلات من الأحاديث والآثار-أبو الربيع الكلاعي (م634ھ) » ص79][العدة للكرب والشدة لضياء الدين المقدسي(م643ھ) » ص109][مناقب الأسد الغالب علي بن أبي طالب لابن الجزري(م833ھ) » حدیث نمبر 56+57+59]


اللَّهُمَّ مَغْفِرَتِكَ أَوْسَعُ مِنْ ذُنُوبِي وَرَحْمَتَكَ أَرْجَى عِنْدِي مِنْ عَمَلِي۔
ترجمہ:
اے الله! تیری بخشش زیادہ پھیلی ہوئی ہے ہمارے گناہوں سے، اور تیری رحمت پر مجھے زیادہ امید ہے میرے عمل سے۔
[حاكم:1994]
تفسیر روح البيان=سورة الانعام:54
التفسير المظهري=سورة النساء:17










بہترین گناگار کون؟
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ»
ترجمہ:
ساری آدم کی اولاد بہت زیادہ خطاکار ہے، اور بہترین خطاکار (وہ ہیں جو) بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں۔
[ترمذی:2499، ابنِ ماجہ:4251، حاکم:7617]



اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
۔۔۔ بیشک اللہ کو محبوب ہیں توبہ کرنے والے بھی اور پسند آتے ہیں (گندگی وبرائی سے) پاک رہنے والے بھی۔
[قرآن، سورۃ البقرۃ:222]



رب العالمین کی رحمت کی عظمت
توبہ کرنے کی حوصلہ افزائی اور پر رب کی خوشی کی شدت:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« لَلَّهُ ‌أَشَدُّ ‌فَرَحًا ‌بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْ أَحَدِكُمْ بِضَالَّتِهِ إِذَا وَجَدَهَا.»
اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش(راضی) ہوتا ہے جس کا اونٹ مایوسی کے بعد اسے اچانک مل گیا ہو حالانکہ وہ کسی چٹیل میدان میں گم ہو گیا تھا۔
[صحیح مسلم:2675]



خادمِ رسول حضرت انس بن مالک انصاریؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ مِنْ رَجُلٍ فِي أَرْضٍ دَوِّيَّةٍ مَهْلَكَةٍ، مَعَهُ رَاحِلَتُهُ عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَنَامَ فَاسْتَيْقَظَ، وَقَدْ ذَهَبَتْ، فَطَلَبَهَا حَتَّى أَدْرَكَهُ الْعَطَشُ، ثُمَّ قَالَ: أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِيَ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ، فَأَنَامُ حَتَّى أَمُوتَ فَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى سَاعِدِهِ لِيَمُوتَ، فَاسْتَيْقَظَ وَعِنْدَهُ رَاحِلَتُهُ، وَعَلَيْهَا زَادُهُ وَطَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَاللهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ مِنْ هَذَا بِرَاحِلَتِهِ وَزَادِهِ .»
یقیناً جب اللہ کا کوئی بندہ اس کی طرف لوٹ آتا ہے تو اس کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو اس وقت ہوتی ہے کہ وہ بیاباں جنگل میں اپنی سواری پر تھا اور سواری اس سے گم ہو جائے حالانکہ اس کا کھانا اور پینا اسی پر تھا تو وہ سواری سے ناامید ہو کر ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سایہ میں لیٹ گیا کہ اب سواری نہیں ملے گی، وہ ابھی اپنی اسی حالت میں تھا کہ اپنی سواری کو اپنے پاس کھڑی ہوئی پاتا ہے تو وہ اس کی مہار پکڑ لیتا ہے پھر شدتِ مسرت میں مدہوش ہو کر کہہ جاتا ہے : اے میرے اللہ! تو میرا بندہ ، میں تیرا اللہ! یعنی بے پایاں خوشی کی بنا پر الفاظ الٹ کر دئیے۔
[صحیح مسلم :2747]
اس بات کی دلیل کہ اگر دعا کرنے والا دعا کے ساتھ پکارے جبکہ اسے یقین ہو کہ اس کی قبولیت ہوگی اور اس کا اللہ کے بارے میں اچھا گمان ہے تو اسے یقین رکھنا چاہئے کہ وہ اسے رد نہیں کرے گا۔
[مستخرج أبي عوانة:12010-12022]
عقل اور نقل کی کشمکش کو دفع کرنا۔
[درء تعارض العقل والنقل-ابن تيمية: 2 /125]
بات کرنے والے کے ارادے(دل) کو دیکھنا۔ (زبان کی جلدبازی سے کفریہ کلمات بھی قابلِ درگذر ہے، بےاختیار ہونے پر پکڑ نہیں)
[الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة-ابن القيم:1 /42]
اللہ بندہ کے ساتھ ویسا معاملہ کرتا ہے جیساکہ وہ اس پر گمان رکھتا ہے۔
[الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة-ابن القيم: 2 /1035]
بیماروں کی شفا :- فیصلہ، تقدیر، حکمت اور وجوہات کے معاملہ میں
توبہ کرنے والوں سے اللہ کی محبت
[شفاء العليل في مسائل القضاء والقدر والحكمة والتعليل: 1/ 379 - ط عطاءات العلم]

القرآن:
اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، اور گناہوں کو معاف کرتا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اس کا پورا علم رکھتا ہے۔
[سورۃ الشوریٰ:25][تفسير ابن أبي حاتم:18478]







‌‌گناہوں سے توبہ کی قبولیت، خواہ گناہ بار بار ہوتے رہیں۔
سیدنا ابو موسی عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
اللہ عزوجل ، رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کر لے، اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے۔ [یہ سلسلہ روزانہ چلتا رہے گا] حتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔
[صحیح مسلم :2759]

اللہ بلند وبزرگ کے ہاتھ اور اس کے پھیلاتے (بُلاتے-انتظار کرتے) رہنے کا ثبوت
[التوحيد لابن خزيمة:1 /176]

اس واضح خبر کا بیان کہ بندہ گناہ کرے پھر استغفار کرے پھر گناہ کرے اور پھر استغفار کرے پھر گناہ کرے اور پھر استغفار کرے تو بھی اس کو بخش دیا جائے گا
اور
یہ کہ جو شخص دن میں گناہ کرے اور رات کو اس سے توبہ کرے، یا رات کو گناہ کرتا ہے اور دن کو اس سے توبہ کرتا ہے۔ جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو خدا اسے معاف کرے۔
[مستخرج أبي عوانة:12059]

بابرکت اور بلند ہمارے رب کی شان کا بیان، اور اس کا حکم اور اس کا فیصلہ
[العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني: 2 /432]

ہر گناہ سے توبہ کرنے میں جلدی کرنا اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگنا۔
[الآداب للبيهقي:846]

اللہ کا خوبصورت نام اور خوبی (الباسط - فراخی وکشادگی والا)۔
[الأسماء والصفات - البيهقي:699]

رحمتَ الٰہی کی وسعت
[الجمع بين الصحيحين لعبد الحق-الإشبيلي:4786]

اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنا کہ ماں اپنے بچے پر
[مختصر صحيح مسلم للمنذري ت الألباني:1921]

امام ابن مندہؒ(م395ھ) نے فرقہ جہمیہ کے رد میں اس حدیث سے اللہ پاک کی صفت ہاتھ پھیلانے پر دلیل پکڑتے لکھا ہے کہ:
‌‌رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ باتوں کا ذکر، جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے معنیٰ پر دلالت کرتا ہے: اور یہودی کہتے ہیں کہ : اللہ کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں ہاتھ تو خود ان کے بندھے ہوئے ہیں اور جو بات انہوں نے کہی ہے اس کی وجہ سے ان پر لعنت الگ پڑی ہے، ورنہ اللہ کے دونوں ہاتھ پوری طرح کشادہ ہیں۔(سورۃ المائدة:64)
[الرد على الجهمية لابن منده - مجلة الجامعة الإسلامية: صفحہ 217]
[التوحيد لابن منده:551 - ت الوهيبي والغصن]

توبہ سے ہر گناہ کا علاج
[شعب الإيمان -البيهقي:7075]

مغرب سے سورج نکلنے (قیامت) تک توبہ قبول ہونے کا بیان۔
[]

القرآن:
اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، اور گناہوں کو معاف کرتا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اس کا پورا علم رکھتا ہے۔
[سورۃ الشوریٰ:25]
[تفسير الخازن:4 /98]




بخشش مانگنے کی فضیلت اور بخشش نہ مانگنے کا نقصان:
عَنْ ‌أَبِي أَيُّوبَ ۔۔۔۔ « سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَوْلَا أَنَّكُمْ تُذْنِبُونَ لَخَلَقَ اللهُ خَلْقًا ‌يُذْنِبُونَ، ‌يَغْفِرُ ‌لَهُمْ .»
ترجمہ:
حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ ۔۔۔۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے: اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق پیدا فرماتا جو گناہ کرتی اور اللہ انہیں معاف فرماتا۔
[صحيح مسلم:2748(6963)]

« لَوْ أَنَّكُمْ لَمْ تَكُنْ لَكُمْ ذُنُوبٌ يَغْفِرُهَا اللهُ لَكُمْ، لَجَاءَ اللهُ بِقَوْمٍ لَهُمْ ذُنُوبٌ يَغْفِرُهَا لَهُمْ .»
ترجمہ:
اگر تمہارے بخشنے کے لئے تمہارے پاس گناہ نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم لے آتا جن کے گناہ ہوتے اور ان کے گناہوں کو معاف کیا جاتا۔
[صحيح مسلم:2748(6964)]

عَنْ ‌أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللهَ، فَيَغْفِرُ لَهُمْ .»
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تمہیں لے جاتا اور ایسی قوم لے آتا جو گناہ کرتے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے تو اللہ انہیں معاف فرما دیتا۔
[صحيح مسلم:6965(2748)، مسند أحمد:8082، الجامع - معمر بن راشد:20271، المصنف - عبد الرزاق - ط التأصيل الثانية:21340]
[تفسير القرطبي، تفسير الخازن، تفسير ابن كثير » سورۃ آل عمران: آیۃ135]

حَدَّثَنا أَخْشَنُ السَّدُوسِيُّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ - أَوْ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ - ‌لَوْ ‌أَخْطَأْتُمْ ‌حَتَّى ‌تَمْلَأَ خَطَايَاكُمْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ثُمَّ اسْتَغْفَرْتُمُ اللهَ لَغَفَرَ لَكُمْ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ - أَوْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ - لَوْ لَمْ تُخْطِئُوا لَجَاءَ اللهُ بِقَوْمٍ يُخْطِئُونَ، ثُمَّ يَسْتَغْفِرُونَ اللهَ، فَيَغْفِرُ لَهُمْ۔
ترجمہ:

اخشم سدوی کہتے ہیں: میں سیدنا انس بن مالکؓ کے پاس گیا، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یا یوں فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! اگر تم گناہ کرتے رہو، حتیٰ کہ تمہاری خطائیں زمین و آسمان کے درمیان خلا کو بھر دیں، پھر تم ﷲ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو تو وہ تمہیں بخش دے گا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! یا یوں فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم لوگوں نے گناہ نہ کئے تو اللہ تعالیٰ (‏‏‏‏تم کو فنا کر کے) ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو خطائیں کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں گے اور وہ ان کو بخش دے گا۔

[مسند أحمد:13493، مسند أبي يعلى:4226، الأحاديث المختارة:1544+1545، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌1951]

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کبھی کوئی بےحیائی کا کام کر بھی بیٹھتے ہیں یا (کسی اور طرح) اپنی جان پر ظلم کر گزرتے ہیں تو فورا اللہ کو یاد کرتے ہیں کہ اور اس کے نتیجے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا ہے بھی کون جو گناہوں کی معافی دے ؟ اور (بغیر استغفار وبخشش مانگے) یہ اپنے کیے پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے۔
[سورۃ آل عمران:135]



عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَتَمَنَّيَنَّ أَقْوَامٌ لَوْ أَكْثَرُوا مِنَ السَّيِّئَاتِ» قَالُوا: بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «الَّذِينَ بَدَّلَ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ»
ترجمہ:
حضرت  ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: كچھ قومیں خواہش كریں گی كہ كاش وہ بہت زیادہ برے عمل كرتے۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ كے رسول ﷺ! كس وجہ سے؟ آپ ﷺ ‌نے فرمایا: وہ لوگ جن كی برائیاں اللہ تعالیٰ نیكیوں میں بدل دے گا۔
[المستدرك للحاکم » كتاب التوبة و الإنابة، حدیث نمبر 7643]
سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌3053

القرآن:
ہاں مگر جو کوئی توبہ کرلے، ایمان لے آئے، اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ نمبر 25 الفرقان، آیت نمبر 70]

تفسیر:
یعنی حالت کفر میں انہوں نے جو برے کام کیے تھے، وہ ان کے نامہ اعمال سے مٹا دئیے جائیں گے، اور اسلام لا کر جو نیک عمل کیے ہوں گے وہ ان کی جگہ لے لیں گے۔




حضرت  ابوہریرہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک بندے نے بہت گناہ کئے اور کہا: اے میرے رب! میں تیرا ہی گنہگار بندہ ہوں تو مجھے بخش دے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا پھر بندہ رکا رہا جتنا اللہ نے چاہا اور پھر اس نے گناہ کیا اور عرض کیا: اے میرے رب! میں نے دوبارہ گناہ کرلیا، اسے بھی بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور اس کے بدلے میں سزا بھی دیتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ نے چاہا بندہ گناہ سے رکا رہا اور پھر اس نے گناہ کیا اور اللہ کے حضور میں عرض کیا: اے میرے رب! میں نے گناہ پھر کرلیا ہے تو مجھے بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ورنہ اس کی وجہ سی سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ تین مرتبہ، پس اب جو چاہے عمل کرے۔
[صحيح البخاري:7507، صحيح مسلم:2758، صحيح ابن حبان:622]

القرآن:
بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر گناہ کی جس کے لیے چاہتا ہے بخشش کردیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے وہ ایسا بہتان باندھتا ہے جو بڑا زبردست گناہ ہے۔
[سورۃ النساء:48]
۔۔۔اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے، وہ راہ راست سے بھٹک کر بہت دور جا گرتا ہے۔
[سورۃ النساء:116]
تشریح :
یعنی شرک سے کم کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کرکے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرے اور توحید پر ایمان لے آئے۔




الله پر ایمان» رحمان پر حُسنِ گمان۔
*آدابِ بخشش» اچھے سے بخشش مانگنا۔*
ایک دیہاتی نے حضرت علی سے اپنی شکایت کی کہ وہ تنگ حالی، مال کی کمی اور اولاد کی کثرت میں مبتلا ہے۔
تو آپ نے اس سے فرمایا:
تو لازم کرلے بخشش مانگنے کو۔(یعنی کثرت سے استغفار کی عادت بنالے) کیونکہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے:
*۔۔۔اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، یقین جانو وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔ اور تمہارے مال اور اولاد بڑھا دے گا، اور تمہارے لیے باغات پیدا کرے گا، اور تمہاری خاطر نہریں مہیا کردے گا۔*

[سورۃ نوح:10-12]

پھر وہ آپ کے پاس واپس آیا اور کہا کہ اے امیر المومنین! میں نے الله سے بہت کثرت سے بخشش مانگی ہے، اور میں جس حالت میں ہوں اس سے مجھے کوئی راحت نظر نہیں آتی۔
آپ نے فرمایا:
شاید تم نے اچھے سے معافی نہیں مانگی۔
اس نے کہا:
مجھے سکھا دیجئے۔
آپ نے فرمایا:
(پہلے گناہوں سے بچنے کی) اپنی نیت خالص کر اور اپنے رب کی اطاعت کر اور (پھر یوں) کہہ:
اے اللہ! میں معافی مانگتا ہوں ہر اس گناہ کی جس پر میرا جسم قادر ہوا آپ کی دی ہوی عافیت(صحت وسلامتی)کی وجہ سے، اور میری طاقت کی رسائی ہوئی اس گناہ پر آپ کی نعمت کی فراوانی کی وجہ سے، اور میرا ہاتھ لپکا اس گناہ کی طرف آپ کی دی ہوئی وسعتِ رزق کی وجہ سے، اور میں لوگوں سے چھپا رہا آپ کی پردہ پوشی کی وجہ سے، اور جب گناہ کرتے وقت آپ کا خوف آیا بھی تو آپ کی امان پر بھروسہ کیا، اور میں نے اعتماد کیا آپ کی گرفت سے بچنے کے لیے آپ کی بردباری(جلد سزا نہ دینے) پر، اور اس طرح میں نے (خودساختہ)بھروسہ کیا آپ کی ذات کے کرم اور معافی پر۔

[کتاب-الفرج بعد الشدة للتنوخي(م384ھ):ج1/ص143]
[جامع الاحاديث-للسيوطي:32301]
[كنز العمال-المتقي الهندي:3966]
-
[المجالسة وجواهر العلم-الدِّينَوري:675]



سچی توبہ کا حکم:
الله پاک نے ارشاد فرمایا:
اے ایمان والو! توبہ کرو الله کی طرف سچی توبہ۔۔۔
[سورۃ التحریم:8]
یعنی
گناہ کرنے سے مومن کافر نہیں ہوجاتا جب تک کہ گناہ کو غلط اور برا مانتا رہے گا۔




جھوٹی توبہ کیا ہے؟
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول الله ﷺ کی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے کہا:
اے الله! میں بخشش مانگتا ہوں آپ سے اور لوٹتا ہوں آپ کی طرف ۔۔۔ پھر اس نے تکبیر کہی(یعنی الله سب سے بڑا ہے۔۔۔کہا)، پھر جب وہ فارغ ہوا اپنی نماز سے تو فرمایا اسے حضرت علیؓ نے کہ او(بھائی)! یہ زبان کی جلدبازی سے بخشش مانگنا جھوٹوں کی توبہ ہے، لہٰذا تیری توبہ تو محتاج ہے (سچی) توبہ کی، تو اس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! پھر توبہ(کا صحیح طریقہ)کیا ہے؟ تو آپؓ نے فرمایا:
توبہ نام، 6 اشیاء پر واقع ہوتی ہے۔
(1)ماضی کے گناہوں پر ندامت، (2)اور ضایع شدہ فرائض کا لوٹانا....یعنی قضاء کرنا، (3)اور جو(حقوق کی ادائیگی میں)ظلم کئے انہیں لوٹانا
﴿اور حل کرنا جھگڑوں کو، اور عزم کرنا کہ وہ(گناہ۔وگمراہی پر) نہ لوٹنے گا﴾
(5)اور نفس کو(نفلی)فرمانبرداری میں لگانا جیسے نافرمانی میں(راتیں)بِتائیں، اور نفس کو فرمانبرداری کی مٹھاس چکھانا جیسے نافرمانی کی لذت چکھائی، (6)اور(نافرمانی کے)ہر ہنسنے کے بدلے میں(الله  حضور معافی مانگتے)رونا۔
حوالہ جات:
[امام-الطيبي(م743ھ)، کتاب-فتوح الغيب في الكشف عن قناع الريب: ج15/ ص512 تفسیر سورۃ التحریم:آیۃ8]
[إسماعيل حقي(م1127ھ)، تفسیر روح البيان»ج10/ص61، سورۃ التحریم:8]
[تفسيرامام)الزمخشري(م538ھ)» ج4/ص569 سورۃ التحریم:8]

‏[امام الرازي(م606ھ)، تفسیر الکبیر=مفاتیح الغیب»ج27/ص597-سورۃ الشوری:25]
[تفسیر الثعلبي(م427ھ)» حدیث#2616، سورۃ الشوری:25]





حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
اَلْاِسْتِغْفَارُ مِنْ غَيْرِ إِقْـلَاعٍ هُوَ تَوْبَةُ الْکَاذِبِيْنَ.
’’گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے‘‘۔
[قشيري، الرسالة: 95]

اللہ کس کیلئے غفور الرحیم ہے؟
القرآن:
اور جنہوں نے برے عمل کیے پھر(1)توبہ کی اور(2)ایمان لاۓ تو بےشک تمہارا رب ان باتوں کے بعد یقینا غفور الرحیم ہے۔
[الاعراف:153]
پھر بھی تمہارا رب ایسا ہے کہ جن لوگوں نے نادانی میں برائی کا ارتکاب کرلیا اور اس کے بعد (1)توبہ کرلی، اور (2)اپنی اصلاح کرلی تو بےشک تمہارا رب ان باتوں کے بعد یقینا غفور الرحیم ہے۔
[النحل:119]
پھر یقین جانو تمہارے پروردگار کا معاملہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے فتنے(ظلم) میں مبتلا ہونے کے بعد (1)ہجرت کی، (2)پھر جہاد کیا (3)اور صبر سے کام لیا تو ان باتوں کے بعد تمہارا پروردگار یقینا بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[النحل:110]

الله کس کیلئے غفار ہے؟
القرآن:
اور میں بےشک بڑا بخشنے والا ہوں اس کیلیے جو {1}توبہ(یعنی گناہ چھوڑکر دل کی ندامت سے معافی مانگتے رجوع)کرے، {2}اور ایمان(یعنی ضروری علم دین سیکھتے اس پر یقین)لائے، {3}اور نیک عمل کرے، {4}پھر ھدایت پر(موت تک قائم)رہے.
[سورة طٰهٰ:82]





توبہ کے متعلق تمہید باندھتے امام نوویؒ(م676ھ) فرماتے ہیں کہ:
علماء نے کہا ہے کہ توبہ گناہ سے واجب ہے، اگر گناہ کا معاملہ اللہ تعا لی اوربندے ہی کے در میان ہے، کسی دوسرے بندے کے متعلق نہیں تو ایسے گناہ کیلئے توبہ کی تین شرطیں ہیں:
( 1) گناہ سے کنارہ کشی کرے.
( 2) اس پر نادم ہو.
( 3) پختہ عزم وارادہ کرے کہ آئندہ یہ گناہ کبھی نہیں کرے گا.
اگر ان میں سے ایک شرط بھی کم ہوئی تو توبہ صحیح نہیں ہوگی.
اور اگرگناہ کا تعلق کسی دوسرے آدمی سے ہو تو پھر اسکی توبہ کے لیے چار شرطیں ہیں، تین تو پہلی جو بیان کی گئی ہیں. اور چوتھی یہ کہ صاحب حق کا حق ادا کرے، اگر کسی کا مال وغیرہ ہو تو اسے ادا کرے، اگر کسی پر تہمت لگائی ہو تو پھر اسکی حد اپنے اوپر لگوائے یا پھر اس سے معافی مانگے اور اگر غیبت کی ہو تو اسے اس سے معاف کرائے .
اور یہ ضروری ہے کہ وہ تمام گناہوں سے توبہ کرے، اگر وہ شخص بعض گناہوں سے توبہ کرے تو اہل حق کے نزدیک اس گناہ کے متعلق اسکی توبہ صحیح ہوگی اور جن سے توبہ نہیں کی ہوگی وہ گناہ اس کے ذمے باقی ہوگا. وجوب توبہ پر کتاب وسنت کے بےشمار دلائل اور امت کا اجماع ہے.

اللہ تعالی نے فرمایا:
" اے مومنو ! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ"
اور فرمایا:
" اور یہ کہ تم اپنے رب کی طرف استغفار کرو ' پھر اسکی طرف رجوع کرو"
[سورة النور :31]
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
" اے مومنو ! اللہ تعالی کی طرف خالص توبہ کرو. "
[سورة التحریم :8]
پس ایسے لوگوں کی خطائیں نیکیوں میں تبدیل کردے گا اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے." اور یہ مقام مغفرت ہے۔
[سورة الفرقان:70]
" پس آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلما ت سیکھ لیے اور اللہ تعالی نے انکی توبہ قبول فرمائی ' بےشک وہی توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے ".
[سورة البقرہ : 37]

جد ِ انبیاء ابراہیم علیہ السلام نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا اور فرمایا :
"اے ہمارے رب ! ہمیں اپنا فرمانبردار بنالے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہما ری توبہ قبول فرما ' تو توبہ قبول فرما نے والا رحم وکرم کرنے والا ہے"۔
[سورة البقرة : 128]

حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں ہے :
" پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا : بے شک آپکی ذات منزہ ہے ' میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا ہوں ."
[سورة الا عراف : 143]
"اور اگر تم دونوں اللہ تعالی کے آگے توبہ کرو ( تو بہترہے کیونکہ) تمہا رے دل کج ہوگئے ہیں "۔
[سورةالتحریم : 4]
" اے مومنو ! تم سب اللہ تعالی کی طرف رجوع کرو تا کہ تم کامیا ب ہو سکو "
[سورة النور : 31]
" وہ جنہوں نے توبہ کی اور اپنی حالت کو در ست کیا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑااور خاص اللہ کے فر ما نبر دار ہو گئے تو ایسے لوگ مو منو ں کے زمرے میں ہو ں گے اور عنقریب اللہ تعالی مومنوں کو بڑا ثواب دے گا۔"
[سورة النساء:146]

الله پاک نے ارشاد فرمایا:
اور یقینا میں بہت بخشنے والا ہوں اس شخص کے لیے جو (1)توبہ کرے، (2)ایمان لائے، (3)اور نیک عمل کرے، (4)پھر سیدھے راستے پر قائم (رہنے کی کوشش کرتا) رہے۔
[سورۃ طٰہٰ:82]

مختلف قسم کے گناہوں کی مختلف قسم کی توبہ:
(1) صغیرہ گناہ، نیکیاں کرنے سے مِٹادیئے جاتے ہیں:
القرآن:
﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ ‌يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾
﴿یقینا نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں﴾ 
[سورۃ ھود:114]

انمول نبوی نصیحت

حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ ، عَنِ أَشْيَاخِهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَوْصِنِي ، قَالَ :" إِذَا عَمِلْتَ سَيِّئَةً فَأَتْبِعْهَا حَسَنَةً تَمْحُهَا " ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَمِنْ الْحَسَنَاتِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ؟ قَالَ : " هِيَ أَفْضَلُ الْحَسَنَاتِ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ... رقم الحديث: 20959(20974)21487]

حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺ مجھے کوئی وصیت فرمائیے ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر تم سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کے بعد کوئی نیکی کر لیا کرو جو اس گناہ کو مٹا دے میں نے عرض کیا کہ ((لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ یعنی نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے)) کہنا نیکیوں میں شامل ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ تو سب سے افضل نیکی ہے۔
[خلاصة حكم المحدث : صحيح | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الترغيب:3162
خلاصة حكم المحدث : حسن | المحدث : ابن حجر العسقلاني | المصدر : الأمالي المطلقة: 129]

حضرت معاذؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
۔۔۔۔۔وَإِذَاعَمِلْتَ سَيِّئَةً فَاعْمَلْ بِجَنْبِهَا حَسَنَةً: السِّرُّ بِالسِّرِّ، ‌وَالْعَلَانِيَةُ ‌بِالْعَلَانِيَةِ۔
ترجمہ:
۔۔۔۔۔اور جب تم کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھو تو اُس کے بعد کوئی نیکی بھی کرلو؛ خفیہ گناہ کے بعد خفیہ نیکی، اور اعلانیہ گناہ کے بعد اعلانیہ نیکی۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة: حدیث نمبر: ‌‌1475+‌‌3320، المعجم الكبير للطبراني:374، المسند للشاشي:1400]



 





































(2)کبیرہ گناہوں سے بچنے پر بھی صغیرہ گناہ 
مِٹادیئے جاتے ہیں:
القرآن:
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے۔۔۔
[سورۃ النساء:31]

(3)وہ "کبیرہ-اعلانیہ" گناہ جو بغیر توبہ معاف نہیں ہوتے۔
جیسے:
ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا
[سورۃ آل عمران:90]
زنا وبدکاری کرنا اور توبہ کرنے کو ٹالنا
[سورۃ النساء:17-18]
نماز ضایع کرنا اور (منع کردہ)خواہشات پر چلنا
[سورۃ مریم:59-60]
زکوٰۃ نہ دینا
[سورۃ التوبۃ:11-5]
پاکیزہ رزق نہ کھانا اور سرکشی کرنا
[سورۃ طٰہٰ:80-81]
الله کے حرام کو حلال یا حلال کو حرام قرار دینا
[سورۃ النحل:114-119]
پاکدامن عورتوں پر الزام لگانا
[سورۃ النور:4-5]
غیرالله کو(غائبانہ مدد کیلئے)پکارنے کا شرک کرنا
[سورۃ القصص:64-67]
ناحق قتل کرنا، زنا کرنا
[سورۃ الفرقان:68-70]
وغیرہ (یعنی اور اس کے علاؤہ برائیاں بھی)
[قرآنی حوالہ» سورۃ الاعراف:153، سورۃ التحریم:8]



(4)اور بعض گناہ، ایسے ہیں جو انسان کے تمام اعمالِ حسنہ پر پانی پھیردیتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا:
جیسے:
مرتد ہوجانا اور اسی کفر کی حالت میں مرنا۔
[سورۃ البقرۃ:214]
آیاتِ الٰہی کا انکار کرنا، انبیاء کو اور انصاف کی تلقین کرنے والوں کو ناحق قتل کرنا
[سورۃ آل عمران:21-22]
آخرت کی ملاقات کا انکار کرنا
[سورۃ الاعراف:147]
شرک کرنا
[سورۃ التوبہ:17، الکھف:102-105]





توبہ یعنی ہدایت کی طرف لوٹنا۔۔۔۔۔آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرنا۔

(1)ایمان لانا۔۔۔یعنی گناہ کو گناہ ماننا۔
[حوالہ سورۃ مریم:60، طٰہٰ:82، الفرقان:70، القصص:67]
کیونکہ اس کے بغیر ندامت وشرمندگی ممکن نہیں۔ اور نبی ﷺ نے فرمایا: ندامت توبہ (کی روح) ہے۔[سنن ابن ماجه:4252]

(2)نیک عمل کرنا۔
[حوالہ سورۃ الفرقان:71]

(3)فدیہ دینا۔
[حوالہ سورۃ البقرۃ:184-194، النساء:92]
کفارہ ادا کرنا۔
[حوالہ سورۃ المائدۃ:45-89-95، المجادلۃ:4]

(4)اصلاح کرنا۔
[حوالہ سورۃ البقرۃ:160،آل عمران:89، النساء:16-146]


دل کے گناہ کا، دل سے کفارہ:
حقوق اللہ - اللہ کی حکم کو ہلکا سمجھتے گناہ کرنے - کا کفارہ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَبْدَ لَيُذْنِبُ ذَنْبًا، فَإِذَا ذَكَرَهُ أَحْزَنَهُ مَا صَنَعَ، فَإِذَا ‌نَظَرَ ‌اللَّهُ ‌إِلَيْهِ قَدْ أَحْزَنَهُ مَا صَنَعَ غَفَرَ لَهُ»۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےشک بندہ سے گناہ ہوتا ہے، پھر اگر اسے یاد آ جائے تو وہ اپنے کیے پر رنجیدہ ہوتا ہے، تو جب اللہ اسے اپنے کیے پر غمگین دیکھتا ہے تو اس کو بخش دیتا ہے۔
[المعجم الأوسط للطبراني:2139]


شاعری کی دنیا میں غالب کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مجرم اور گنہگاروں کے بارے میں ان کا ایک مشہور شعر ہے:

کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب

شر م  تم   کو   مگر  نہیں  آ  تی

مولانا شاہ محمد احمد الٰہ آبادی فرماتے تھے کہ غالب نے امت کو مایوس کردیا، کیوں کہ جو گنہگار بندے ہیں وہ بقول غالب اس لائق نہیں کہ کعبہ جائیں اوراللہ کے گھر کی زیارت کریں، ایسی مقدس جگہ جاتے ہوئے خطا کاروں اور عاصیوں کو شرم آنی چاہیے کہ ہم گناہوں میں ملوث ہیں کس منہ سے کعبہ جائیں، مولانا فرماتے تھے کہ یہ شعر قرآن و حدیث کے اعتبار سے اصلاح کے قابل ہے اور میں نے اس شعر کی اس طرح اصلاح کی ہے۔

میں اسی منہ سے جاؤں گا

شرم کو خاک میں ملاؤں گا

ان کو رو رو کے میں مناؤں گا

اپنی بگڑی کو یوں بناؤں گا

(حقوق النساء، از مولانا اختر پاکستانی، ص: ۲۰)


جسمانی اعمال کا کفارہ جسمانی عبادات واعمال:
حضرت ابو امامہ باہلیؓ اور (حضرت ابوھریرہؓ) سے روایت ہے کہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا::
«تَكْفِيرُ كُلِّ لِحَاءٍ رَكْعَتَانِ»۔
ترجمہ:
کفارہ  ہر بحث وتکرار کا دو رکعت(نماز) ہے۔
[المعجم الكبير للطبراني:7651، مسند الشاميين للطبراني:1314، (معجم ابن الأعرابي:1811، فوائد تمام:939، المصنف - ابن أبي شيبة:7859(7649)]



سچی توبہ کی مثالیں:
حضرت بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ماعز بن مالک ؓ ، نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے پاک کر دیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’تجھ پر افسوس ہے ، واپس جاؤ اور اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کے حضور توبہ کرو۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، وہ تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے پاک کر دیں ، نبی ﷺ نے پھر اسی طرح فرمایا حتی کہ جب اس نے چوتھی مرتبہ وہی جملہ کہا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا : ’’میں کس چیز سے تمہیں پاک کر دوں؟‘‘ اس نے عرض کیا : زنا (کے گناہ) سے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’کیا اسے جنون ہے؟‘‘(تاکہ اس عذر کے سبب اس کے اقرار اور سزا کو ٹالا جاسکے) آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ اسے جنون نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’کیا اس نے شراب پی ہے؟‘‘ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے اس کے منہ سے شراب کی بُو سونگھی تو اس نے اس سے شراب کی بُو نہ پائی پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’کیا تم نے زنا کیا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا ، جی ہاں ، آپ ﷺ نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اسے رجم کیا گیا ، اس کے بعد صحابہ دو یا تین دن (اس معاملہ میں) خاموش رہے پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: ’’ماعز بن مالک کے بارے میں مغفرت طلب کرو۔ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے ایک امت(گروہ) کے درمیان تقسیم کر دی جائے تو وہ ان کے لیے کافی ہو جائے ۔‘‘
[السنن الكبرى - النسائي:7125، مستخرج أبي عوانة:6292، المعجم الأوسط:4843]
پھر قبیلہ غامد کی شاخ ازد سے ایک عورت آئی تو اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول! مجھے پاک کر دیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’تجھ پر افسوس ہے چلی جاؤ، اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اللہ کے حضور توبہ کرو۔‘‘ اس نے عرض کیا: آپ مجھے ویسے ہی واپس کرنا چاہتے ہیں ، جیسے آپ نے ماعز بن مالک کو واپس کر دیا تھا ، میں تو زنا سے حاملہ ہو چکی ہوں ، آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا: ’’تو (حاملہ) ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا : جی ہاں ، آپ ﷺ نے اسے فرمایا : ’’وضع حمل تک صبر کر۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، انصار میں سے ایک آدمی نے اس کی کفالت کی ، حتی کہ اس نے بچے کو جنم دیا تو وہ (انصاری) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا ، غامدیہ نے بچے کو جنم دے دیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تب ہم اسے رجم نہیں کریں گے ، اور ہم اس کے چھوٹے سے بچے کو چھوڑ دیں جبکہ اس کی رضاعت کا انتظام کرنے والا بھی کوئی نہیں؟‘‘ پھر انصار میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا ، اللہ کے نبی ! اس کی رضاعت میرے ذمہ ہے ، راوی بیان کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے اسے رجم کیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے اسے فرمایا: ’’تم جاؤ حتی کہ تم بچے کو جنم دو۔‘‘ جب اس نے بچے کو جنم دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’چلی جاؤ اور اسے دودھ چھڑانے کی مدت تک اسے دودھ پلاؤ۔‘‘ جب اس نے اس کا دودھ چھڑایا تو وہ بچے کو لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا ، اس نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! یہ دیکھیں میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اور یہ کھانا کھانے لگا ہے ، آپ ﷺ نے بچہ کسی مسلمان شخص کے حوالے کیا ، پھر اس کے متعلق حکم فرمایا تو اس کے سینے کے برابر گڑھا کھودا گیا ، اور آپ ﷺ نے لوگوں کو حکم فرمایا تو انہوں نے اسے رجم کیا۔ خالد بن ولید ؓ ایک پتھر لے کر آئے اور اس کے سر پر مارا جس سے خون کا چھینٹا ان کے چہرے پر پڑا تو انہوں نے اسے بُرا بھلا کہا ، جس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’خالد ! ٹھہرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے ایسی توبہ کی ہے، کہ اگر محصول لینے والا ایسی توبہ کرے تو اس کی بھی مغفرت ہو جائے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اس کے متعلق حکم فرمایا اور اس کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی اور اسے دفن کر دیا گیا۔
[صحيح مسلم:1695، سنن أبي داود:4442]
[تفسیر سورۃ النور:4-5]

حضرت وائل بن حجر کندی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے نکلی، اسے ایک آدمی ملا، اس نے عورت کو ڈھانپ لیا اور اس سے اپنی حاجت پوری کی (یعنی اس سے زبردستی زنا کیا) ، وہ عورت چیخنے لگی اور وہ چلا گیا، پھر اس کے پاس سے ایک (دوسرا) آدمی گزرا تو یہ عورت بولی: اس (دوسرے) آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے، اور اس کے پاس سے مہاجرین کی بھی ایک جماعت گزری تو یہ عورت بولی: اس آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے، (یہ سن کر) وہ لوگ گئے اور جا کر انہوں نے اس آدمی کو پکڑ لیا جس کے بارے میں اس عورت نے گمان کیا تھا کہ اسی نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے اور اسے اس عورت کے پاس لائے، وہ بولی: ہاں، وہ یہی ہے، پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے، چناچہ جب آپ ﷺ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، تو اس عورت کے ساتھ زنا کرنے والا کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کے ساتھ زنا کرنے والا میں ہوں، پھر آپ ﷺ نے اس عورت سے فرمایا: تو جا اللہ نے تیری بخشش کردی ہے، اور آپ ﷺ نے اس آدمی کو (جو قصوروار نہیں تھا) اچھی بات کہی، اور جس آدمی نے زنا کیا تھا اس کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا: اسے رجم کرو ، آپ نے یہ بھی فرمایا: اس (زانی) نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ والے اس طرح توبہ کرلیں تو ان سب کی توبہ قبول ہوجائے۔
[سنن أبي داود:4379، سنن الترمذي:1454]




کسی گناہ کی توبہ چھ(6) گھنٹوں کے اندر کرنا:
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ صَاحِبَ الشِّمَالِ لَيَرْفَعُ الْقَلَمَ سِتَّ سَاعَاتٍ عَنِ الْعَبْدِ الْمُسْلِمِ الْمُخْطِئِ أَوِ الْمُسِيءِ ، فَإِنْ نَدِمَ وَاسْتَغْفَرَ اللَّهَ مِنْهَا أَلْقَاهَا ، وَإِلا كُتِبَتْ وَاحِدَةً " .
ترجمہ:
بائیں طرف والا (یعنی گناہ لکھنے والا فرشتہ)گناہ کرنے والے مسلمان (کا گھنٹہ لکھنے) سے چھ(6)گھنٹے تک قلم اٹھائے رکھتا ہے، اگر وہ (گناہگار شخص اس دوران) اپنے کئے پر نادم ہوجائے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرلے تو وہ فرشتہ گناہ نہیں لکھتا، اگر توبہ نہ کرے تو (ایک گناہ کے بدلے) ایک گناہ لکھ لیتا ہے۔
[المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ » صُدَيُّ بْنُ الْعَجْلانِ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ... رقم الحديث: 7663(7765)]

خلاصة حكم المحدث : حسن
 المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الجامع: 2097 | السلسلة الصحيحة: 1209

احادیث مبارکہ میں "ساعة" کے الفاظ بکثرت آئے ہیں, ایک روایت میں آتا ہے کہ جمعہ کے دن اور رات میں 24 ساعتیں ہیں، لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، ایک صحیح روایت میں آتا ہے کہ جمعہ کے دن 12 ساعات ہیں۔ محدثین کا فرمانا ہے کہ دن کا دورانیہ سردی اور گرمی کی وجہ سے چھوٹا اور بڑا ہوتا رہتا ہےاور اس زمانے میں گھڑیاں نہیں ہوتی تھیں، اس لیے [ساعة] سے ہمارے عرف میں معروف 60 منٹ کا گھنٹہ مراد نہیں بلکہ اسی کے قریب قریب وقت مراد ہے۔۔ صحابہ، تابعین اور سلف صالحین کے زمانے میں بھی دن اور رات کے دورانیے کے چوبیسویں حصے کو [ساعة] سے تعبیر کیا جاتا تھا ۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب

اعمال لکھنے والے معزز فرشتے»کراماً کاتبین۔
القرآن:
اس وقت بھی جب (اعمال کو) لکھنے والے دو فرشتے لکھ رہے ہوتے ہیں۔ (6) ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے۔
[سورۃ نمبر 50 ق، آیت نمبر 17]
وہ معزز لکھنے والے۔ جو تمہارے سارے کاموں کو جانتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 82 الإنفطار، آیت نمبر 11-12]
تفسیر:
(6)یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کے تمام اچھے برے کاموں کو ریکارڈ کرنے کے لئے دو فرشتے مقرر فرمارکھے ہیں جوہر وقت اسکے دائیں اور بائیں موجود ہوتے ہیں، لیکن یہ انتظام صرف اس لئے کیا گیا ہے تاکہ انسان کے اعمال نامے کو قیامت کے دن خود اس کے سامنے حجت کے طور پر پیش کیا جاسکے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے اعمال جاننے کے لئے کسی اور کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ ہر انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات تک سے خوب واقف ہے، اور انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔
[حوالہ سورۃ ق: آیت#16]
































الله پر ایمان» رحمان پر حُسنِ گمان۔
آدابِ بخشش» ہم کیسے بخشش مانگیں؟(1)
القرآن:
اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اپنا مکمل فرمانبردار(یعنی مسلمان) بنا لے، اور ہماری نسل سے بھی ایسی امت پیدا کر جو تیری پوری فرمانبردار(مسلمان) ہو، اور ہم کو ہماری عبادتوں کے طریقے(آداب) سکھا دے، اور ہماری توبہ(یعنی ندامت سے لوٹنے کو) قبول فرما لے۔ بیشک صرف تو ہی (ہر بار)توبہ قبول کرنے والا (اور بغیرمانگے-بغیرقابلیت) بڑا رحم(نرمی)کرنے والا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 128]


القرآن:
اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے۔
[سورۃ نمبر 51 الذاريات، آیت نمبر 18]


تفسیر:
7: یعنی رات کا بڑا حصہ عبادت میں گذارنے کے بعد بھی وہ اپنے اس عمل پر مغرور نہیں ہوتے، بلکہ سحری کے وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے استغفار کرتے ہیں کہ نہ جانے ہماری عبادت میں کون کون سی کوتاہیاں رہ گئی ہوں جن کی وجہ سے وہ عبادت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لائق نہ ہو، اس لیے آخر میں استغفار کرتے ہیں۔


*******************************

چہل حدیث کی فضیلت:

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَعَلَّمَ أَرْبَعِينَ حَدِيثًا مِنْ أَمْرِ دِينِهِ بَعَثَهُ اللَّهُ فِي زُمْرَةِ الْفُقَهَاءِ وَالْعُلَمَاءِ " .
ترجمہ :
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے ارشاد فرمایا : جو سیکھے چالیس (40) احادیث احکام دین (میں) سے ، اسے اٹھاۓ گا الله فقہاء و علماء کی جماعت (میں) سے۔
[الأربعون حديثا للآجري:45]
، 

********************************
چہل حدیثِ استغفار بترتیب کنز العمال:


1 - عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الاسْتِغْفَارُ فِي الصَّحِيفَةِ " ، يَعْنِي يَتَلأْلأُ نُورًا .
ترجمہ :
استغفار صحیفہ (نامہ اعمال) میں نور بن کر چمکتا رہتا ہے.
[الفردوس بمأثور الخطاب-الديلمي:429، الترغيب والترهيب-الأصبهاني:220، جامع الأحاديث-السيوطي:10134]







2 - عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ أَحَبَّ أَنْ تَسُرَّهُ صَحِيفَتُهُ ، فَلْيُكْثِرْ فِيهَا مِنَ الاسْتِغْفَارِ " .
ترجمہ :
جس کی منشا و خواہش ہو کہ اس کا نامہ اعمال اس کے لئے خوش گوار ثابت ہو تو اس کو چاہئے کہ اس میں استغفار کی کثرت کرے.
[المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 8322 ، خلاصة حكم المحدث: حسن
المحدث: الألباني المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 5955 ، خلاصة حكم المحدث: صحيح]

تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1من أحب أن تسره صحيفته فليكثر فيها من الاستغفارزبير بن العوامالأحاديث المختارة827---الضياء المقدسي643
2من أحب أن تسره صحيفته فليكثر فيها من الاستغفارزبير بن العوامالمعجم الأوسط للطبراني857839سليمان بن أحمد الطبراني360
3من أحب أن تسره صحيفته فليكثر فيها من الاستغفارزبير بن العوامالأمالي المطلقة لابن حجر2261 : 248ابن حجر العسقلاني852
4من أحب أن تسره صحيفته فليكثر فيها من الاستغفارزبير بن العوامشعب الإيمان للبيهقي619648البيهقي458
5من أحب أن تسره صحيفته فليكثر فيها من الاستغفارزبير بن العوامالدعاء للطبراني16801787سليمان بن أحمد الطبراني360




3 - عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ قَالَ دُبُرَ كُلِّ صَلاةٍ : أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ، وَأَتُوبُ إِلَيْهِ ، غُفِرَ لَهُ ، وَإِنْ كَانَ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ " ، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، إِلا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُخْتَارِ الْبَصْرِيُّ ، وَلا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، إِلا عَمْرُو بْنُ فَرْقَدٍ ، تَفَرَّدَ بِهِ عَلِيُّ بْنُ حُمَيْدٍ .
ترجمہ :
جس نے ہر فرض نماز کے بعد الله سے یوں استغفار کیا : ((  أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ )) یعنی میں الله سے اپنے گناہوں کی بخشش کا طلبگار ہوں ، جس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں ، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے ، ہر شے اسی کے دم سے قائم ہے اور میں اسی کی طرف رجوع و توبہ تائب ہوتا ہوں. تو اس کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے خواہ جنگ سے بھاگنے کا گناہ کیوں نہ ہو.

تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1من استغفر الله في دبر كل صلاة ثلاث مرات فقال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفرت له ذنوبه وإن كان فر من الزحفبراء بن عازبالمطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر563562ابن حجر العسقلاني852
2من استغفر الله في دبر كل صلاة ثلاث مرات فقال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفرت له ذنوبه وإن كان فر من الزحفبراء بن عازبإتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة15942027البوصيري840
3من استغفر الله دبر كل صلاة ثلاث مرات فقال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيومبراء بن عازبإتحاف المهرة2090---ابن حجر العسقلاني852
4من قال دبر كل صلاة أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحفبراء بن عازبالمعجم الصغير للطبراني84126سليمان بن أحمد الطبراني360
5من قال دبر كل صلاة أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وإن فر من الزحفبراء بن عازبالمعجم الأوسط للطبراني79387738سليمان بن أحمد الطبراني360
6من قال دبر كل صلاة أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحفبراء بن عازبموضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب13542 : 308الخطيب البغدادي463
7من استغفر الله في دبر كل صلاة ثلاث مرات فقال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر الله ذنوبه وإن كان قد فر من الزحفبراء بن عازبعمل اليوم والليلة لابن السني136138ابن السني364




4 -  عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، تَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنِ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً ، لَمْ يُكْتَبْ فِي يَوْمِهِ مِنَ الْغَافِلِينَ ، وَمَنِ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ سَبْعِينَ مَرَّةً ، لَمْ يُكْتَبْ فِي لَيْلَتِهِ مِنَ الْغَافِلِينَ " .
ترجمہ :
جس نے ہر روز ستر (70) بار الله سے استغفار کیا ، اس کو جھوٹے لوگوں میں سے نہ لکھا جاۓ گا . اور جس نے ہر رات ستر (70) بار الله سے استغفار کیا ، اس کو غافلين میں شمار نہ کیا جاۓ گا . 



المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم:8418 ، خلاصة حكم المحدث: ضعيف











5عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَنِ اسْتَغْفَرَ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ حَسَنَةً " .
ترجمہ :
جس نے مومن مرد و عورت کے لئے استغفار کیا ، اس کے لئے ہر مومن مرد و عورت کے بدلے ایک ایک نیکی لکھی جاۓ گی۔
المحدث: الهيثمي المصدر: مجمع الزوائدكِتَابُ التَّوْبَةِ ، بَابُ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ - الصفحة أو الرقم: 10/213(17598)







مستجاب الدعوات بننے کا وظیفہ:

6 - «مَنِ اسْتَغْفَرَ لِلْمُؤْمِنِينَ ‌وَالْمُؤْمِنَاتِ ‌كُلَّ ‌يَوْمٍ ‌سَبْعًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً، أَوْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً - أَحَدَ الْعَدَدَيْنِ - كَانَ مِنَ الَّذِينَ يُسْتَجَابُ لَهُمْ، وَيُرْزَقُ بِهِمْ أَهْلُ الْأَرْضِ»
ترجمہ 
جس نے مومن مرد و عورت کے لئے ہر روز ستائیس (27) بار الله سے استغفار کیا ، اس کو مستجاب الدعوات (وہ جس کی دعائیں قبول ہوں) میں لکھا جاۓ گا ، اور ان کے طفیل زمین والوں کو رزق رسانی ہوتی ہے.
[جامع المسانيد والسنن-ابن كثير (٧٧٤):12126، جامع الأحاديث-السيوطي:45706]
[مجمع الزوائد ، الهيثمي: 17600 الراوي: أبو الدرداء المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 8420 ،  خلاصة حكم المحدث: ضعيف]










7 - أَخْبَرَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ مُصْعَبٍ الْقُرَشِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ أَكْثَرَ مِنَ الاسْتِغْفَارِ جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا ، وَمِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا ، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ " .
ترجمہ:
جس نے استغفار کی کثرت کی ﴿اور دوسری روایت میں ہے : جس نے لازم (پابند) کیا بخشش مانگتے رہنے کو﴾ ، الله تعالیٰ اس کے لئے ہر مشکل آسان فرمادیں گے اور ہر تنگی سے نجات کا راستہ فراہم فرمائیں گے اور اس کو ایسی ایسی جگہ سے روزی پہنچے گی جہاں اس کا وہم و گمان تک نہ جاۓ گا.
تفسير القرطبي = سورة الطلاق:3



8 - حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " وَاللَّهِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً " .
ترجمہ :
الله کی قسم ! میں ہر روز ستر سے زیادہ مرتبہ بارگاہ الہی میں استغفار کرتا اور  اسکی طرف لوٹتا(توبہ کرتا) رہتا ہوں.
تفسير الخازن=سورة الشورى:25
تفسير ابن كثير=سورة محمد آية 19








9 - سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ , يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ : " الاسْتِغْفَارُ مَمْحَاةٌ لِلذُّنُوبِ " .
ترجمہ:
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
استغفار گناہوں کو مٹادینے والا ہے.
[صفوة التصوف » كِتَابُ الْمُجَارَاةِ وَالاسْتِغْفَارِ » أَبْوَابُ الاسْتِغْفَارِ ... رقم الحديث: 441]

المحدث: الألباني المصدر: ضعيف الجامع - الصفحة أو الرقم: 2278 ، خلاصة حكم المحدث: ضعيف جداً
تفسير الماوردي، تفسير القرطبي =  سورة نوح (71): الآيات 10 الى 12


10 - أَخْبَرَنِي أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مِهْرَانَ ، ثنا أَبِي ، ثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ السَّرْحِيُّ ، ثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ دَرَّاجٍ ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآَلِهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ الشَّيْطَانَ قَالَ : وَعِزَّتِكَ يَا رَبِّ ، لا أَبْرَحُ أُغْوِي عِبَادَكَ ، مَا دَامَتْ أَرْوَاحُهُمْ فِي أَجْسَادِهِمْ ، فَقَالَ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى : وَعِزَّتِي وَجَلالِي ، لا أَزَالُ أَغْفِرُ لَهُمْ ، مَا اسْتَغْفَرُونِي " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ .
ترجمہ:
شیطان نے کہا : تیری عزت کی قسم ، اے رب ! میں تیرے بندوں کو جب تک روح ان کے جسموں میں موجود ہے ، بہکاتا رہوں گا . رب تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : میری عزت اور میرے جلال کی قسم ! میں بھی انھیں بخشتا رہوں گا، جب تک وہ استغفار (گناہوں سے بخشش) کرتے رہیں گے. 

[المستدرك على الصحيحين » كِتَابُ التَّوْبَةِ وَالإِنَابَةِ » (4 : 256رقم الحديث: 7738]

خلاصة حكم المحدث: [حسن كما قال في المقدمة]
[المحدث: ابن حجر العسقلاني المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 2/449]

خلاصة حكم المحدث: صحيح
[المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 2025]

خلاصة حكم المحدث : [أشار في المقدمة إلى صحته]
المحدث : أحمد شاكر المصدر : عمدة التفسير من تفسير ابن كثير الصفحة أو الرقم: 1/417[

المحدث : الألباني
المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 1650 خلاصة حكم المحدث : حسن
المصدر : صحيح الترغيب الصفحة أو الرقم: 1617 خلاصة حكم المحدث : حسن لغيره
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 1/212 خلاصة حكم المحدث : علة هذه الزيادة [وارتفاع مكاني] عندي من ابن لهيعة وهي من تخاليطه






وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ ۚ وَلَو أَنَّهُم إِذ ظَلَموا أَنفُسَهُم جاءوكَ فَاستَغفَرُوا اللَّهَ وَاستَغفَرَ لَهُمُ الرَّسولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوّابًا رَحيمًا {4:64}
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے اور اگر وہ لوگ جس وقت انہوں نے اپنا برا کیا تھا آتے تیرے پاس پھر اللہ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کو بخشواتا تو البتہ اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان
And not an apostle We have sent but to be obeyed by Allah's command. And if they, when they had wronged their souls, had come unto thee and begged forgiveness of Allah, and the apostle had begged forgiveness for them they would surely have found Allah Relentant, Merciful.
یعنی اللہ تعالیٰ جس رسول کو اپنے بندوں کی طرف بھیجتا ہے سو اسی غرض کے لئے بھیجتا ہے کہ اللہ کے حکم کے موافق بندے ان کے کہنے کومانیں تو اب ضرور تھا کہ یہ لوگ رسول کے ارشاد کو بلاتامل پہلے ہی سے دل و جان سے تسلیم کرتے اور اگر گناہ اور برا کرنے کے بعد بھی متنبہ ہو جاتے اور اللہ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کی معافی کی دعا کرتا تو پھر بھی حق تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لیتا مگر انہوں نے تو یہ غضب کیا کہ اول تو رسول اللہ  کے حکم سے جو بعینہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا ہٹے اور بچے پھر جب اس کا وبال ان پر پڑا تو اب بھی متنبہ اور تائب نہ ہوئے بلکہ لگےجھوٹی قسمیں کھانے اور تاویلیں گھڑنے پھر ایسوں کی مغفرت ہو تو کیونکر ہو۔





وَمَن يَعمَل سوءًا أَو يَظلِم نَفسَهُ ثُمَّ يَستَغفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفورًا رَحيمًا {4:110}
اور جو کوئی کرے گناہ یا اپنا برا کرے پھر اللہ سے بخشوا دے تو پاوے اللہ کو بخشنے والا مہربان
And whosoever worketh an ill or wrongeth his own soul, and thereafter beggeth forgiveness of Allah shall find Allah Forgiving, Merciful.
سوء اور ظلم سے بڑے اور چھوٹے گناہ مراد ہیں یا سوء سے وہ گناہ مراد ہے جس سے دوسرے کو درد پہنچے جیسے کسی پر تہمت لگانی اور ظلم وہ ہے کہ اس کی خرابی اپنے ہی نفس تک رہے یعنی گناہ کیسا ہی ہو اس کا علاج استغفار اور توبہ ہے توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ البتہ معاف فرما دیتا ہے اگر آدمیوں نے جان بوجھ کر فریب سے کسی مجرم کی برأت ثابت کر دی یا غلطی سے مجرم کو بےقصور سمجھ گئے تو اس سے اس کے جرم میں تخفیف بھی نہیں ہو سکتی البتہ توبہ سے بالکل معاف ہو سکتا ہے اس میں اس چور اور اس کے سب طرفداروں کو جو دیدہ و دانستہ طرفدار بنے ہوں یا غلطی سے سبھی کو توبہ اور استغفار کا ارشاد ہو گیا اور اشارہ لطیف اس طرف بھی ہو گیا کہ اب بھی اگر کوئی اپنی بات پر جما رہے گا اور توبہ نہ کرے گا تو اللہ کی بخشش اور اس کی رحمت سے محروم ہو گا۔



11 - (حديث قدسي) قَالَ : إِنَّ رَبَّكَ لَيَعْجَبُ مِنْ عَبْدِهِ إِذَا قَالَ : رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرُكَ " ، وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ .
ترجمہ :
پروردگار بندے پر (از راہِ رحمت و محبّت) تعجب فرماتا ہے ، جب وہ کہتا ہے : اے پروردگار! میرے گناہ بخش دے ، بےشک تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں.




12 - حَدَّثَنَا طَاهِرُ بْنُ عَلِيٍّ الطَّبَرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ سَلَمَةَ الطَّبَرَانِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ أَنَسٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ لِلْقُلُوبِ صَدَأً كَصَدَأِ الْحَدِيدِ وَجَلاؤُهَا الاسْتِغْفَارُ " ، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، إِلا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، تَفَرَّدَ بِهِ إِبْرَاهِيمُ .

ترجمہ :
دل بھی لوہے کی مانند زنگ آلود ہوجاتے ہیں ، ان کی جلاء استغفار ہے.

المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 2389 ، خلاصة حكم المحدث: ضعيف

المحدث: الألباني المصدر: ضعيف الترغيب - الصفحة أو الرقم: 1004 ، خلاصة حكم المحدث: ضعيف








13 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ جَمِيعًا ، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ الْأَغَرِّ الْمُزَنِيِّ ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّهُ لَيُغَانُ عَلَى قَلْبِي وَإِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ " .

ترجمہ :
میرے دل پر بھی (خیالات و خواھشات کا) پردہ سا آجاتا ہے ، اور میں ایک دن میں سو سے زائد بار استغفار کرتا ہوں.




دوسری روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ، ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ ، مِائَةَ مَرَّةٍ " .
[شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الْكَرَاهَةِ » بَابُ الرَّجُلِ يَقُولُ : أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ ... رقم الحديث: 4605]

ترجمہ :
اے لوگو ! استغفار (بخشش مانگا) کرو اپنے رب سے ، پھر لوٹ آؤ (توبہ کرو) اس کی طرف ، بس قسم الله کی! میں بھی یقیناً الله سے استغفار اور توبہ کرتا رہتا ہوں اس کی طرف دن میں سو (100) بار.






دوسری روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ (سورة محمد آية 19) ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةً "۔
ترجمہ:
بےشک میں بھی الله سے استغفار (بخشش مانگتا) رہتا ہوں دن میں ستر (70) بار.



اور بعض روایات میں یہ مروی ہے :
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " وَاللَّهِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً ".
ترجمہ:
قسم الله کی بیشک میں بھی یقیناً بخشش الله کی مانگتا رہتا ہوں اور میں توبہ (رجوع) کرتا رہتا ہوں اس کی طرف دن میں ستر (70) بار سے بھی زیادہ.




أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ أَبِي الْحَرِّ الْكِنْدِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ جُلُوسٌ ، فَقَالَ : " مَا أَصْبَحْتُ غَدَاةً قَطُّ إِلا اسْتَغْفَرْتُ اللَّهَ فِيهَا مِائَةَ مَرَّةٍ " .

ترجمہ :
نہیں میں نے کوئی صبح بسر کی ، جس میں الله سے استغفار نہ کی ہو سو (100) بار.


کس طرح ؟ کن الفاظ میں ؟؟؟
 اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا ، وَارْحَمْنَا ، وَتُبْ عَلَيْنَا ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ " .
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ [رقم الحديث: 9857]
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ، وَارْحَمْنِي ، وَتُبْ عَلَيَّ ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ [رقم الحديث: 9856]
رَبِّ اغْفِرْ لِي ، وَتُبْ عَلَيَّ ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ . [رقم الحديث: 9855]


14 - إِن اسْتَطعْتُمْ أنْ ‌تُكْثِرُوا ‌مِنَ ‌الاسْتِغْفَارِ ‌فافْعَلُوا فإنّهُ ليسَ شيْءٌ أنْجَحَ عندَ اللَّهِ تَعَالَى وَلَا أحَبَّ إليهِ منهُ۔
ترجمہ:
اگر تم استغفار کی کثرت کر سکتے ہو تو دریغ نہ کرو، کیونکہ کوئی شے نہیں اس سے بڑھ کر نجات دھندہ الله کے پاس اور نہ ہی سب سے زیادہ محبوب اس کی طرف اس (شے) سے۔
الراوي: أبو الدرداء المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 2659 ، خلاصة حكم المحدث: ضعيف]
تفسیر الدر المنثور:(4/58)سورۃ الانفال:32




عذاب سے نجات وکامیابی کا نسخہ:

15 - حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ أَمَانَيْنِ لِأُمَّتِي وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ [سورة الأنفال آية 33] فَإِذَا مَضَيْتُ تَرَكْتُ فِيهِمُ الِاسْتِغْفَارَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ " .
ترجمہ :
نازل کی ہیں الله نے دو امان میری امّت کے لئے : "(اے نبی!) جب تک آپ ان میں موجود ہیں الله ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا اور جب تک وہ (اپنے گناہوں پر) استغفار کرتے رہیں گے تب بھی الله انھیں عذاب میں مبتلا نہ کرے گا".[سورة الأنفال آية 33] سو جب میں گزر جاؤں گا تو قیامت تک کے لئے عذاب الہی سے امن کے واسطے تمہارے اندر استغفار (یعنی بخشش مانگنے کا طریقہ و تعلیم) چھوڑ جاؤں گا۔



القرآن:
کیا کرے گا اللہ تمہیں عذاب دیکر، اگر تم شکر کرو، اور ایمان لاؤ؟ اور ہے اللہ قدردان خوب جاننے والا۔
[سورۃ النساء:147]
تشریح:
(1)اس قدر نرم الفاظ ، عظیم اللہ کی طرف سے، جو ہر چیز کا خالق، مالک، رب، سب جاننے والا، مکمل قدرت والا، ہر کام بنانے والا ، سب پر رحم کرنے والا ہے۔ اس ذات کی عظمت ومنزلت جاننے-پہچاننے سے ہی شکر اور ایمان میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔
(2)شکر کے معنیٰ کسی (انعام واحسان کرنے والے کی) نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں۔ شکر کی ضد کفر(انکار) ہے۔ جس کے معنیٰ نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں۔
شکر کی تین اقسام ہیں:
شکر قلبی، یعنی نعمت کا تصور کرنا۔
شکر لسانی، یعنی زبان سے انعام واحسان کرنے والے کی تعریف کرنا۔
شکر بالجوارح یعنی نعمت کی مکافات کرنا(بدلہ دینا) صلاحیت واستعداد کے مطابق۔




16 - حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَهُ : " أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى سَيِّدِ الِاسْتِغْفَارِ ؟ اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ وَأَبُوءُ إِلَيْكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ ، وَأَعْتَرِفُ بِذُنُوبِي ، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ، لَا يَقُولُهَا أَحَدُكُمْ حِينَ يُمْسِي فَيَأْتِي عَلَيْهِ قَدَرٌ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ، وَلَا يَقُولُهَا حِينَ يُصْبِحُ فَيَأْتِي عَلَيْهِ قَدَرٌ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ " ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَابْنِ عُمَرَ ، وَابْنِ مَسْعُودٍ ، وَابْنِ أَبْزَى ، وَبُرَيْدَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ .
(وفي رواية) وَمَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ " .
(وفي رواية النسائي) وَإِنْ قَالَهَا حِينَ يُمْسِي مُوقِنًا بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ.

ترجمہ:
کیا میں تجھے سید الاستغفار (دعاۓ بخشش کا سردار) نہ بتاؤں؟ (وہ یہ ہے کہ) :
"اے الله! تو ہی میرا رب ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو نے ہی مجھے پیدا کیا ، میں تیرا بندہ ہوں ، اپنی ہمّت و وسعت کے بقدر تیرے ساتھ کئے ہوۓ عہد و پیمان پر کاربند ہوں ، میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کاموں کے شر سے ، میں اقرار کرتا ہوں تیری نعمتوں کا مجھ پر ، اور میں اقرار کرتا ہوں اپنے گناہوں کا بھی ، بس مجھے بخش دے، یقیناً نہیں ہے کوئی گناہوں کو بخشنے والا تیرے سوا".
جو بندہ شام کو یہ کہتا ہے اور پھر صبح سے قبل اس کی موت آجاتی ہے تو اس کے لئے جنّت واجب ہوجاتی ہے.
ترجمہ :
(ایک اور روایت میں آیا ہے) جس نے دن کے وقت اس کلمہ کو دل کے یقین کے ساتھ کہا اور پھر شام سے قبل موت نے آلیا تو وہ اہل جنّت میں شمار ہوگا.
ترجمہ :
(نسائی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ) اور جس نے ان کلمات کو رات کے وقت دل کے یقین کے ساتھ کہا اور صبح سے قبل موت نے آلیا تو وہ اہل جنّت میں شمار ہوگا.






17 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ إِذَا قُلْتَهُنَّ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَإِنْ كُنْتَ مَغْفُورًا لَكَ ؟ قَالَ : قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ " . قَالَ عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ : وَأَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، بِمِثْلِ ذَلِكَ ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ فِي آخِرِهَا : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ .
ورواه الخطيب بلفظ :  إِنْ أَنْتَ قُلْتَهُنَّ وَعَلَيْكَ مِثْلُ عَدَدِ الذَّرِّ خَطَايَا غَفَرَ اللَّهُ لَكَ ؟

ترجمہ :
کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں کہ جب تم ان کو کہو گے تو الله تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمادیں گے ، خواہ پہلے ہو چکی ہو؟ کہو :
"الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو عالی شان اور عظیم ہے ، الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو بردبار اور کریم ہے ، الله کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو ہر عیب سے پاک آسمانوں کا رب اور عرش عظیم کا رب ہے. اور تمام تعریفیں اس الله کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے".
اور اسے روایت کیا ہے امام خطیب نے بھی ان الفاظ کے ساتھ :
اگر تم ان کو کہو گے اور تم پر ذرات کے برابر خطائیں ہوں گی تب بھی الله بخش دے گا تمہیں.





18 - خيْرُ الدُّعاءِ الاستغفَارُ۔
ترجمہ :
بہترین دعا استغفار ہے۔
[الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4006 ، خلاصة حكم المحدث: صحيح]










19 - 
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَيْرُ أُمَّتِي الَّذِينَ إِذَا أَسَاءُوا اسْتَغْفِرُوا ، وَإِذَا أَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا ، وَإِذَا سَافَرُوا قَصَّرُوا وَأَفْطَرُوا " . لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ إِلا ابْنُ لَهِيعَةَ ، تَفَرَّدَ بِهِ : عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى بْنِ مَعْبَدٍ الْمُرَادِيُّ .
ترجمہ :
میری امّت کے بہترین افراد وہ ہیں کہ جب ان سے برائی سرزد ہوجاتی ہے تو استغفار کرلیتے ہیں اور جب ان سے کوئی نیکی کا کام انجام پاجاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں، اور جب سفر پر گامزن ہوتے ہیں تو الله کی رخصت قبول کرتے ہوۓ نماز میں قصر اور روزوں میں افطار کرتے ہیں.


خلاصة حكم المحدث:
(1) ضعيف. رواه الطبراني في: "الأوسط". كما في "مجمع البحرين" (921) من طريق ابن لهيعة، عن أبي الزبير، عن جابر، به. وقال: لم يروه عن أبي الزبير، إلا ابن لهيعة. وقال الهيثمي في "المجمع" (2/157): "فيه ابن لهيعة، وفيه كلام". قلت: بل هو ضعيف، وأيضا أبو الزبير مدلس، وقد عنعنه.
(2) حسن مع شواهده







20 -  سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُسْرٍ ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي كِتَابِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا " .
ترجمہ :
خوش خبری ہے (کیا ہی خوشی کا مقام ہوگا) اس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں کثرت سے استغفار پاۓ۔






21 - لِكلِّ داءٍ دواءٌ ودواءُ الذُّنوبِ الاستغفارُ.
ترجمہ :
ہر مرض کی دوا ہے اور گناہوں کی دوا استغفار ہے.
[الراوي: علي بن أبي طالب المحدث: السيوطي المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم:7307 ،، خلاصة حكم المحدث: ضعيف]





22 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اسْتَغْفِرُوا ، فَاسْتَغْفَرُوا ، فَقَالَ : أَكْمِلُوا سَبْعِينَ مَرَّةً ، فَأَكْمَلْنَاهَا ، فَقَالَ : مَنِ اسْتَغْفَرَ سَبْعِينَ مَرَّةً ، غَفَرَ اللَّهُ لَهُ سَبْعمِائَةَ ذَنْبٍ ، وَقَدْ خَابَ عَبْدٌ وَخَسِرَ ، أَذْنَبَ فِي كُلِّ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعمِائَةِ ذَنْبٍ " .
ترجمہ :
کوئی بندہ یا بندی ہر دن الله سے ستر بار استغفار نہیں کرتے ، مگر الله تعالیٰ اس کے لیے سات سو (٧٠٠) گناہ معاف فرما دیتے ہیں. اور خائب و خاسر ہو وہ بندہ جو دن یا رات میں سات سو سے بھی زیادہ گناہ کرتا ہو.






23 - عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ فَيَقُولُ رَبِّ اغْفِرْ لِي ثَلاثَ مَرَّاتٍ ، إِلا غُفِرَ لَهُ قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ " .
ترجمہ :
جو بندہ حالت سجدہ میں تین مرتبہ کہتا ہے: رَبِّ اغْفِرْ لِي (یعنی میرے رب مجھے بخش دے) ، تو اس کے سر اٹھانے سے قبل ہی اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔






24 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَلا أَدُلُّكُمْ عَلَى دَائِكُمْ وَدَوَائِكُمْ ، أَلا إِنَّ دَاءَكُمُ الذُّنُوبُ ، وَدَوَاؤُكُمُ الاسْتِغْفَارُ " .
ترجمہ :
کیا میں تمہیں تمہارا مرض اور اس کی دوا نہ بتاؤں؟ تمہارا مرض گناہ ہے اور تمہاری دوا استغفار ہے۔
[شعب الإيمان للبيهقي » السَّابِعُ وَالأَرْبَعُونَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ ... رقم الحديث: 6644]
الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم:2/384





25 - نْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ أَمَانَيْنِ لِأُمَّتِي وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ [سورة الأنفال آية 33] وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ [سورة الأنفال آية 33] فَإِذَا مَضَيْتُ تَرَكْتُ فِيهِمُ الِاسْتِغْفَارَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ " ، هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُهَاجِرٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ .
ترجمہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری اُمت کے لیے دو امانیں نازل فرمائیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ: ”اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب نہیں کہ وہ انہیں عذاب دے اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں“۔ اور دوسری امان‘ یہ ارشاد کہ ”اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے اس حال میں کہ وہ استغفار کررہے ہوں“[سورة الأنفال آية 33]۔ جب میں چلا جاﺅں گا تو اُمت میں قیامت تک استغفار کی پناہ کو چھوڑدوں گا۔بندہ اس وقت تک عذاب الٰہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ اللہ سے استغفار کرتا رہے۔






26 - حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبِ بْنِ عَطِيَّةَ قَالَ : ثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا يَزَالُ الْعَبْدُ آمِنًا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مَا اسْتَغْفَرَ اللَّهَ " .
ترجمہ:
بندہ اس وقت تک عذاب الٰہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ اللہ سے استغفار کرتا رہے۔
تخريج الحديث
 م
 طرف الحديث
الصحابي
اسم الكتاب
أفق
العزو
المصنف
سنة الوفاة
1
فضالة بن عبيد
مسند أحمد بن حنبل
23322
23433
أحمد بن حنبل
241
2
فضالة بن عبيد
الكني والأسماء للدولابي
603
475
أبو بشر الدولابي
310
3
فضالة بن عبيد
تاريخ دمشق لابن عساكر
58729
---
ابن عساكر الدمشقي
571




27 - عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَدَاءُ الْحُقُوقِ ، وَحِفْظُ الأَمَانَاتِ ، دِينِي وَدِينُ النَّبِيِّينَ مِنْ قَبْلِي ، وَقَدْ أُعْطِيتُمْ مَا لَمْ يُعْطَ أَحَدٌ مِنَ الأُمَمِ ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَعَلَ قُرْبَانَكُمُ الاسْتِغْفَارَ ، وَجَعَلَ صَلاتَكُمُ الْخَمْسَ بِالأَذَانِ وَالإِقَامَةِ ، وَلَمْ تُصَلِّهَا أُمَّةٌ قَبْلَكُمْ ، فَحَافِظُوا عَلَى صَلَوَاتِكُمْ ، وَأَيُّ عَبْدٍ صَلَّى الْفَرِيضَةَ ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ عَشْرَ مَرَّاتٍ ، لَمْ يَقُمْ مِنْ مَقَامِهِ حَتَّى تُغْفَرَ لَهُ ذُنُوبُهُ وَلَوْ كَانَتْ مثل رَمْلِ عَالِجٍ وَجِبَالِ تُهَامَةَ " .
ترجمہ:
حقوق کی ادائیگی اور امانتوں کی حفاظت میرا اور مجھ سے قبل انبیاء کا قرض رہا ہے ، اور تم کو وہ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو تم سے قبل کسی امّت کو نہیں عطا کی گئیں ، الله تعالیٰ نے تمہارے لیے استغفار کو قرب کا ذریعہ بنایا ہے ، اور تمہاری پانچ (5) نمازوں کو آذان و اقامت کے ساتھ بنایا ہے ، تم سے پہلے کسی امّت نے ان کو نہیں پڑھا ، سو اپنی نمازوں پر محافظت کرو ، اور جو بندہ فرض نمازوں کے بعد دس (10) بار استغفار کرے گا تو اس کے اپنی جگہ سے کھڑے ہونے سے قبل اس کے گناہوں کو بخش دیا جاے گا، خواہ وہ ریت کے ذرات سے اور تہامہ کے پہاڑوں سے بھی زیادہ ہوں.




28 - أخبرنا أبو القاسم علي بن إبراهيم ، أَنْبَأَنَا أَبُو الْحَسَنِ رَشَأُ بْنُ نَظِيفٍ ، أَنْبَأَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِلابِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّلْتِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ ، حَدَّثَنَا دِينَارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا قَالَ الْعَبْدُ : أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ غُفِرَ لَهُ وَإِنْ كَانَ مُولِّيًا مِنَ الزَّحْفِ . لَمْ يَذْكُرْهُ الْخَطِيبُ فِي تَارِيخِهِ .
ترجمہ :
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی بندہ (الله سے یوں استغفار) کہتا ہے :
" میں (عظیم) الله سے اپنے گناہوں کی بخشش کا طلبگار ہوں ، جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے ، اور ہر شے اس کے دم سے قائم ہے ، اور میں اسی کی طرف توبہ تائب ہوتا ہوں "
تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے خواہ جنگ سے بھاگنے کا گناہ کیوں نہ ہو۔

[تاريخ دمشق لابن عساكر » حرف الميم » ذكر من اسمه مُحَمَّد » مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّلْتِ ... رقم الحديث: 54695]




(حضرت ابن مسعودؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ)
تین بار کہے
(حضرت معاذ بن جبلؓ کی روایت میں ہے کہ)
فجر کے تین بار اور عصر کے بعد تین بار کہے،
(حضرت ابو سعید الخدریؓ یعنی سعد بن مالكؓ کی روایت میں ہے کہ)
پانچ بار کہے تو اسے بخش دیا گیا اگرچہ اس کے گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں.
(حضرت ابو سعید الخدریؓ یعنی سعد بن مالكؓ کی دوسری روایت میں ہے کہ)
اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے ، خواہ ریت کے ذرات اور سمندر کے کوڑے (گندگی) اور آسمانوں کے ستاروں کے برابر  ہوں.
(روایت حضرت علیؓ میں ہے کہ )
جس نے کہا : " میں الله سے اپنے گناہوں کی بخشش کا طلبگار ہوں ، جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے ، اور ہر شے اس کے دم سے قائم ہے ، اور میں اسی کی طرف رجوع (توبہ تائب) ہوتا ہوں " ، پھر مرگیا ، الله بخش دے گا اس کے گناہوں کو ، اگرچہ وہ ہوں سمندر کی جھاگ کے برابر ، اور ریت کے ذرات کے.

الشواهد
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1من قال أستغفر الله العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحفزيدجامع الترمذي35303577محمد بن عيسى الترمذي256
2من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وإن كان قد فر من الزحفزيد بن بولاسنن أبي داود12991517أبو داود السجستاني275
3من قال أستغفر الله العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه ثلاثا غفرت له ذنوبه وإن كان فارا من الزحفعبد الله بن مسعودالمستدرك على الصحيحين18161 : 511الحاكم النيسابوري405
4من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه ثلاثا غفرت ذنوبه وإن كان فارا من الزحفعبد الله بن مسعودالمستدرك على الصحيحين24792 : 117الحاكم النيسابوري405
5من قال أستغفر الله العظيم الذي لا إله إلا هو وأتوب إليه ثم مات غفر الله ذنوبه ولو كانت مثل زبد البحر ورمل عالجعلي بن أبي طالبمسند زيد6661 : 373زيد بن علي بن الحسين122
6من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه ثلاثا غفرت له ذنوبه وإن كان فارا من الزحفلم يذكر المصنف اسمهإتحاف المهرة12490---ابن حجر العسقلاني852
7من قال أستغفر الله العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه خمس مرات غفر له وإن كان عليه مثل زبد البحرسعد بن مالكمصنف ابن أبي شيبة2887229933ابن ابي شيبة235
8من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه خمس مرات غفر له وإن كانت ذنوبه مثل زبد البحرسعد بن مالكمصنف ابن أبي شيبة3439136078ابن ابي شيبة235
9من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو وأتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحفزيد بن بولاالمعجم الكبير للطبراني45334670سليمان بن أحمد الطبراني360
10من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا الله الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وإن كان موليا من الصفأنس بن مالكمعجم ابن الأعرابي784782ابن الأعرابي340
11من قال بعد الفجر ثلاث مرات وبعد العصر ثلاث مرات أستغفر الله الذي لا إله إلا هو وأتوب إليه غفرت ذنوبه وإن كانت مثل زبد البحرمعاذ بن جبلفوائد تمام الرازي10031084تمام بن محمد الرازي414
12من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه ثلاث مرات غفر له وإن فر من الزحفعبد الرحمن بن صخرحديث أبي الحسين بن المظفر14---محمد بن المظفر410
13من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحفزيد بن بولاالأسماء والصفات للبيهقي7575البيهقي458
14من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم غفر له وإن كان فر من الزحفزيد بن بولاالأسماء والصفات للبيهقي216211البيهقي458
15من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحفزيد بن بولاالطبقات الكبرى لابن سعد84507 : 33محمد بن سعد الزهري230
16من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه ثلاث مرات غفر له وإن فر من الزحفعبد الرحمن بن صخرأخبار أصبهان لأبي نعيم10311 : 356أبو نعيم الأصبهاني430
17من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو وأتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحفزيد بن بولامعرفة الصحابة لأبي نعيم26322883أبو نعيم الأصبهاني430
18إذا قال العبد استغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وان كان موليا في الصفأنس بن مالكتاريخ بغداد للخطيب البغدادي28529 : 356الخطيب البغدادي463
19من قال أستغفر الله العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر الله له وإن كان فر من الزحفزيد بن بولاتاريخ دمشق لابن عساكر2814---ابن عساكر الدمشقي571
20من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحفزيد بن بولاتاريخ دمشق لابن عساكر28154 : 265ابن عساكر الدمشقي571
21من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه ثلاثا غفر له ذنوبه ولو كانت عدد رمل عالج وغثاء البحر وعدد نجوم السماءسعد بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر5465951 : 86ابن عساكر الدمشقي571
22إذا قال العبد أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر الله له وإن كان موليا من الزحفأنس بن مالكتاريخ دمشق لابن عساكر54695---ابن عساكر الدمشقي571
23من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحفزيد بن بولاأسد الغابة472---علي بن الأثير630
24من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو وأتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحفزيد بن بولاتهذيب الكمال للمزي239---يوسف المزي742
25من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفر له وإن كان فر من الزحفزيد بن بولاالسفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة1573---ابن أبي خيثمة279
26من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه ثلاث مرات غفر الله له ولو كان فر من الزحفعبد الرحمن بن صخرالزهد لهناد بن السري9202 : 461هناد بن السري243
27من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه عشر مرات غفرت له ذنوبه ولو كان مثل زبد البحرموضع إرسالالزهد لهناد بن السري925924هناد بن السري243
28من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه خرج من ذنوبه كما تخرج الحية من جلدهاخالد بن زيدالدعاء للطبراني16761783سليمان بن أحمد الطبراني360
29من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه كفرت عنه ذنوبه وإن كانت مثل عدد النجوم وزبد البحر ورمل عالجسعد بن مالكالدعاء للطبراني16771784سليمان بن أحمد الطبراني360
30من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه غفرت ذنوبه وإن كانت مثل رمل عالج وإن كانت كعدد نجوم السماءسعد بن مالكالدعاء للطبراني16781785سليمان بن أحمد الطبراني360
31من قال بعد الفجر ثلاث مرات وبعد العصر ثلاث مرات أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه كفرت عنه ذنوبه وإن كانت مثل زبد البحرمعاذ بن جبلعمل اليوم والليلة لابن السني126127ابن السني364
32من قال أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه ثلاثا غفرت ذنوبه وإن كان فارا من الزحفعبد الله بن مسعودالدعوات الكبير للبيهقي134132البيهقي458




29 - إن العبد ليقول يا رب اغفر لي وقد أذنب فتقول الملائكة يا رب إنه ليس لذلك بأهل قال الله تبارك وتعالى: لكني أهل أن أغفر له.
ترجمہ:
بندہ سے گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو کہتا ہے : اے پروردگار ! مجھے بخش دے . تو فرشتے کہتے ہیں : اے پروردگار ! اسے یہ (گناہ) زیب نہیں دیتا. (اس کے بخشش مانگنے کے سبب) پروردگار فرماتا ہے : لیکن مجھے یہ زیب دیتا ہے کہ میں اس کی بخشش کردوں.
[کنز العمال:٢٠٩٧]
(رواه الحكيم عن أنس، سنده ضعيف ؛ جامع الأحاديث القدسية- قسم الضعيف والموضوع : 1125)



لیکن دوسری روایت میں حدیث ان الفاظ سے ہے:

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔ وہی(اللہ) اس بات کا اہل ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور وہی اس کا اہل ہے کہ لوگوں کی مغفرت کرے۔﴿سورۃ المدثر:56﴾ پھر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہمارا پروردگار ارشاد فرماتا ہے: میں سب سے زیادہ اس بات کا حق دار ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے جو شخص مجھ سے ڈرے گا تو میں اس بات کا زیادہ حق دار ہوں کہ میں اس کو بخش دوں۔
[سنن الدارمي:2642]


حضرت انس بن مالک ؓ رسول اللہ ﷺ سے اس آیت (هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَاَهْلُ الْمَغْفِرَةِ) [سورۃ المدثر : 56] (وہی ہے جس سے ڈرنا چاہیے اور وہی ہے بخشنے کے لائق) کی تفسیر نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس لائق ہوں کہ بندے مجھ سے ڈریں پس جو مجھ سے ڈرا اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا تو میں اس کا اہل ہوں کہ اسے معاف کر دوں۔ 
[جامع الترمذي:3328]





حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سورت پڑھی (هُوَ أَهْلُ التَّقْوَی وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ) پھر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس قابل ہوں کہ اس بات سے بچو کہ میرے ساتھ کسی کو شریک کرو اور پھر جو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے تو میں اس لائق ہوں کہ اس کو نجات دے دوں۔ (جہنم سے)۔ ترجمہ بعینہ گزر چکا۔
[سنن ابن ماجه:4299]






30 - عن أبي هريرة‏ قال ... من استغفر إذا وجبت الشمس سبعين مرة غفر الله له سبعمائة ذنب ولا يذنب مؤمن إن شاء الله في يومه وليلته سبعمائة ذنب‏۔
ترجمہ :
جو بندہ غروب مغرب کے وقت ستر بار استغفار کرلے ، تو الله تعالیٰ اس کے سات سو (700) گناہ معاف فرمادیتے ہیں ، اور ان شاء الله کوئی بندہ دن و رات میں سات سو (700) سے سے زیادہ گناہ نہ کرتا ہوگا۔
‏[جامع الأحاديث-السيوطي:45700،    رواه الديلمي، كنز العمال: 2099 (1/481‏) ]




31 - حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ , عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ , عَنْ ابْنِ مَعْقِلٍ , قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَى عَبْدِ اللَّهِ (بن مسعود), فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " النَّدَمُ تَوْبَةٌ "
ترجمہ:
حضرت ابن مسعودؓ، رسول الله ﷺ سے مروی ہیں کہ: ندامت توبہ (کی بنیاد و اصل) ہے.
[سنن ابن ماجه » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب ذِكْرِ التَّوْبَةِ ... رقم الحديث: 4252]
یعنی جس معافی میں ندامت و پچھتاوا نہ ہو ، اگرچہ زبانی معافی کے الفاظ  رٹتا رہے، وہ (سچی) توبہ نہیں۔





حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، قَالَ : قَرَأْتُ عَلَى أَبِي : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْهَجَرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " التَّوْبَةُ مِنَ الذَّنْبِ أَنْ يَتُوبَ مِنْهُ ، ثُمَّ لَا يَعُودَ فِيهِ " .
ترجمہ:
حضرت عبدالله بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا : گناہوں سے توبہ یہ ہے کہ دوبارہ اس (گناہ) کو نہ کرے.
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ ... رقم الحديث: 4118]
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1التوبة من الذنب أن يتوب منه ثم لا يعود فيهعبد الله بن مسعودمسند أحمد بن حنبل41184252أحمد بن حنبل241
2التوبة من الذنب أن يتوب الرجل من الذنب ثم لا يعود إليهلم يذكر المصنف اسمهإتحاف المهرة12495---ابن حجر العسقلاني852
3التوبة من الذنب أن يتوب منه ثم لا يعود فيهلم يذكر المصنف اسمهإتحاف المهرة12498---ابن حجر العسقلاني852
4التوبة من الذنب أن يتوب العبد ثم لا يعودعبد الله بن مسعودجزء فيه ستة مجالس من أمالي ابن البختري119120أبو جعفر بن البختري339
5التوبة من الذنب ألا يعود إليه أبداعبد الله بن مسعودشعب الإيمان للبيهقي65387027البيهقي458
6التوبة من الذنب أن يتوب الرجل من الذنب ثم لا يعود إليهعبد الله بن مسعودشرح معاني الآثار للطحاوي46014613الطحاوي321

اور حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ : توبہ نصوح (سچی پکی) یہ ہے کہ بندہ توبہ کرے برے عمل سے پھر دوبارہ اس (گناہ) کو نہ کرے ہمیشہ.








32 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ , حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ , عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ " .
ترجمہ:
حضرت ابن مسعودؓ، رسول الله ﷺ سے مروی ہیں کہ: گناہوں سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے والے کی طرح ہے. 
[سنن ابن ماجه » كِتَاب الزُّهْدِ » بَاب ذِكْرِ التَّوْبَةِ ... رقم الحديث: 4248]





القرآن :
۔۔۔۔ بیشک اللہ کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور پسند آتے ہیں گندگی سے بچنے والے۔
[سورۃ البقرہ : ۲۲۲]




33 - حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . ح وحَدَّثَنَا هُدْبَةُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اللَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ سَقَطَ عَلَى بَعِيرِهِ وَقَدْ أَضَلَّهُ فِي أَرْضِ فَلَاةٍ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب التَّوْبَةِ ... رقم الحديث: 5861]
وفي رواية :
لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ ، فَلَاةٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ ، فَأَيِسَ مِنْهَا ، فَأَتَى شَجَرَةً فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ ، إِذَا هُوَ بِهَا قَائِمَةً عِنْدَهُ فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا " ، ثُمَّ قَالَ : " مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب التَّوْبَةِ » بَاب فِي الْحَضِّ عَلَى التَّوْبَةِ وَالْفَرَحِ بِهَا ... رقم الحديث: 4938]
ترجمہ:
حضرت ابو حمزہ انس بن مالک انصاریؓ، رسول اللہ ﷺ کے خادم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے کسی جنگل میں اپنا اونٹ گم کردیا ہو اور پھر اس نے اسے پا لیا ہو.
اور مسلم کی ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
"اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے جب وہ اس کی طرف توبہ کرتا ہے ' اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی جنگل میں اپنی سواری پر سوار ہو کہ اچانک وہ سواری اس سے چھوٹ جائے اور اس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو' وہ اس سے مایوس ہو کر کسی درخت کے سائے تلے آ کر لیٹ جائے جبکہ وہ اپنی سواری سے (مکمل طور پر) مایوس ہو چکا ہو کہ اتنے میں اچانک سواری اس کے سامنے آکھڑی ہو اور وہ اس کی مہار تھام کر خوشی کی شدت میں (جلدبازی سے بلا اختیار) کہہ دے : اے اللہ ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں . شدت فرحت کی وجہ سے اس سے غلطی ہوجائے."


القرآن :
جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی تو کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کا م نہیں آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو. 
[سورة الانعام : 158]




34 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا".
ترجمہ:
حضرت ابو موسی عبداللہ بن قیس اشعریؓ سے روایت ہے کہ بنی ﷺ نے فرمایا : " بےشک اللہ تعالی رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کے وقت برائی کرنے والا توبہ کرلے اور وہ دن کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کے وقت برائی کرنے والا توبہ کرلے (یہ سلسلہ جاری رہتا ہے) حتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے ."





35 - قَالَ زِرٌّ : فَمَا بَرِحَ يُحَدِّثُنِي حَتَّى حَدَّثَنِي أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ بِالْمَغْرِبِ بَابًا عَرْضُهُ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا لِلتَّوْبَةِ ، لَا يُغْلَقُ حَتَّى تَطْلُعِ الشَّمْسُ مِنْ قِبَلِهِ ، وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ : يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا [سورة الأنعام آية 158] الْآيَةَ " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ .
ترجمہ:
حضرت  زر کہتے ہیں: وہ مجھ سے حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ اللہ نے مغرب میں توبہ کا ایک دروازہ بنایا ہے جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت ہے، وہ بند نہ کیا جائے گا یہاں تک کہ سورج ادھر سے نکلنے لگے (یعنی قیامت تک) اور اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: «جس دن کہ تیرے رب کی بعض آیات کا ظہور ہوگا اس وقت کسی شخص کو اس کا ایمان کام نہ دے گا۔»[سورة الأنعام آية 158]





36 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ " .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کرلے گا تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرمالے گا . 
[مسلم:2703]

ظالم  ابھی ہے فرصتِ توبہ نہ دیر کر
وہ بھی گِرا نہیں جو گرا پھر سنبھل گیا



اللہ تعالی صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آجائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالی بھی ان کی توبہ قبول کرتا ہے' اللہ تعا لی بڑے علم والا حکمت والا ہے۔

[سورہ النسا ء:17]
امام تفسیر مجاہد نے فرمایا:
"كُلُّ عَامِلٍ بِمَعْصِيَةِ اللَّهِ فَهُوَ ‌جَاهِلٌ ‌حِينَ ‌عَمِلَهَا"
”یعنی جو شخص کسی کام میں اللہ تعالی کی نافرمانی کر رہا ہے وہ یہ کام کرتے ہوئے جاہل ہی ہے۔“ 
[تفسير ابن كثير، سورۃ النساء، آیۃ 17]
پس جس نے موت سے پہلے توبہ کرلی تو گویا اس نے جلد توبہ کرلی۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے فر مایا :
انکی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جا ئیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پا س مو ت آجائے توکہہ دے کہ میں نے اب تو بہ کی اور ان کی بھی تو بہ قبول نہیں جو کفر ہی پر مر جا ئیں ' یہی لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے المنا ک عذاب تیا ر کر رکھا ہے ."
[سورة النساء :18]
اور ہم نے نبی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے سا تھ ظلم وزیادتی کے ارادے سے چلا یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لا تا ہوں اس پر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں (جواب دیا گیا) اب ایمان لاتا ہے؟ پہلے سرکشی کرتا اور مفسدوں میں داخل رہا َ؟ سو آج ہم تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں.
[سورة یونس : 90-92]





37 - عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ ".
ترجمہ:
حضرت ابو عبد الرحمن بن عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "یقینا اللہ عزوجل بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرما لیتا ہے جب تک وہ حالتِ نزع کو نہ پہنچ جائے " .
[ترمذی:3537 ، حدیث حسن ہے]
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب فِي فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ وَمَا ... رقم الحديث: 3537]


ظالم  ابھی ہے فرصتِ توبہ نہ دیر کر
وہ بھی گِرا نہیں جو گرا پھر سنبھل گیا







38 - عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا ، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ ، فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ فَأَتَاهُ ، فَقَالَ : إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا ، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ ؟ ، فَقَالَ : لَا ، فَقَتَلَهُ ، فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً ، ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ ، فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ ، فَقَالَ : إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ ، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ ؟ ، فَقَالَ : نَعَمْ ، وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا ، فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاعْبُدِ اللَّهَ مَعَهُمْ ، وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ ، فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ ، فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ : جَاءَ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِهِ إِلَى اللَّهِ ، وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ : إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ ، فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِي صُورَةِ آدَمِيٍّ ، فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ ، فَقَالَ : قِيسُوا مَا بَيْنَ الْأَرْضَيْنِ ، فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ ، فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ ، فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ ".

[صحيح مسلم » كِتَاب التَّوْبَةِ » بَاب قَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاتِلِ وَإِنْ كَثُرَ قَتْلُهُ ... رقم الحديث: 4972]
وفي رواية في الصحيح :
وَكَانَ إِلَى الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ ، فَجُعِلَ مِنْ أَهْلِهَا ".
[مسند أبي يعلى الموصلي » مِنْ مُسْنَدِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ... رقم الحديث: 1020]
وفي رواية :
وَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِي ، وَقَالَ : قِيسُوا مَا بَيْنَهُمَا فَوُجِدَ إِلَى هَذِهِ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ فَغُفِرَ لَهُ ".
[صحيح البخاري » كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ » بَاب حَدِيثُ الْغَارِ ... رقم الحديث: 3235]
وفي رواية :

ترجمہ:

حضرت ابو سعید (سعد بن مالک بن سنان) خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جس نے ننانوے قتل کیے تھے ‘ پس اس نے زمین پر موجود سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک راہب (پادری) کے بارے بتایا گیا ‘ پس وہ اس کے پاس آیا اور بتایا کہ اس (میں) نے ننانوے آدمی قتل کیے ہیں، کیا اسکی توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ اس (راہب) نے کہا : نہیں ‘ پس اس نے اسے بھی قتل کردیا اور اس طرح اس نے سو آدمیوں کے قتل کی تعداد کو مکمل کیا. اس نے پھر کسی بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک عالم کے بارے میں بتایا گیا ‘ وہ اس کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس نے سو آدمی قتل کیے ہیں ‘ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس (عالم) نے کہا : ہاں ! اور کون ہے جو اس کے اور اسکی توبہ کے درمیان حائل ہو؟ ایسے کرو تم فلاں جگہ چلے جاؤ کیونکہ وہاں کے لوگ خالص اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں ‘ پس تم بھی ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرو اور سنو اپنی زمین کی طرف واپس نہ آنا ‘ کیو نکہ وہ برائی کی زمین ہے. پس وہ اس (بستی) کی طرف روانہ ہو پڑا ‘ ابھی آدھا سفر ہی طے کیا تھا کہ اسے موت آگئی (اب اس کی روح قبض کرنے کیلئے) رحمت اور عذاب کے فرشتے آگئے اور دونوں کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا. رحمت کے فرشتوں نے کہا : وہ تائب ہوکر آیا تھا اور اللہ کی طرف دل کی توجہ سے آیا تھا ( ہم اسکی روح قبض کریں گے ). عذاب کے فرشتوں نے کہا : اس نے کبھی نیکی وبھلائی کا کام کیا ہی نہیں (لہذا یہ جہنمی ہے). پس ایک فرشتہ آدمی کی شکل میں ان کے پا س آیا تو انہوں نے اسے اپنے درمیان حکم (فیصل) بنا لیا‘ اس نے کہا : دونوں زمینوں کی درمیانی مسافت کی پیمائش کرو ‘ وہ ان دونوں میں سے جس کے قریب ہوگا وہی اس کا حکم ہوگا. پس انھوں نے اسے ناپا تو اس کو اس زمین کے زیادہ قریب پایا جس طرف جانے کا اس نے ارادہ کیا تھا. لہذا رحمت کے فرشتوں نے اس کی روح کو قبض کرلیا. “
نیز صحیح ہی کی ایک اور  روایت میں ہے:
” وہ نیک لوگوں کی بستی کی طرف ایک بالشت قریب تھا، لہذا اسے اس بستی کے نیک لوگوں میں سے کر دیا گیا. “
ایک اور روایت میں سے ہے:
” اللہ تعالی نے اس زمین کو (جہاں سے وہ آرہا تھا) کہا کہ دور ہوجا اور اس زمین کو (جس طرف جا رہا تھا) کہا کہ قریب ہوجا اور پھر فرمایا کہ ان دونوں زمینوں کی درمیانی مسافت کو ناپو ‘ (جب انھوں نے ناپا) تو انھوں نے اسے نیک لوگوں کی بستی کی طرف ایک بالشت قریب پایا تو اسے بخش دیا گیا“.
ایک اور روایت میں ہے:
” وہ اپنے سینے کے سہارے سَرک کر دوسری طرف ہو گیا. “





توبہ شکن کی معافی:

قُل يٰعِبادِىَ الَّذينَ أَسرَفوا عَلىٰ أَنفُسِهِم لا تَقنَطوا مِن رَحمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغفِرُ الذُّنوبَ جَميعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الغَفورُ الرَّحيمُ {39:53}
(اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے الله کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ الله تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے.

یہ آیت ارحم الراحمین کی رحمت بے پایاں اور عفو و درگذر کی شان عظیم کا اعلان کرتی ہے اور سخت سے سخت مایوس العلاج مریضوں کے حق میں اکسیر شفا کا حکم رکھتی ہے۔ مشرک، ملحد، زندیق، مرتد، یہودی، نصرانی، مجوسی، بدعتی، بدمعاش، فاسق، فاجر کوئی ہو آیت ہذا کو سننے کے بعد خدا کی رحمت سے بالکلیہ مایوس ہو جانے اور آس توڑ کر بیٹھ جانے کی اس کے لئے کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ اللہ جس کے چاہے سب گناہ معاف کر سکتا ہے کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا۔ پھر بندہ ناامید کیوں ہو ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے دوسرے اعلانات میں تصریح کر دی گئ کہ کفر و شرک کا جرم بدون توبہ کے معاف نہیں کرے گا۔ لہذا { اِنَّ اللہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا } کو { لِمَنْ یشاُء} کے ساتھ مقید سمجھنا ضروری ہے کما قال تعالیٰ { اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُمَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ } (نساء رکوع۱۸) اس تقلید سے یہ لازم نہیں آتا کہ بدون توبہ کے اللہ تعالیٰ کوئی چھوٹا بڑا قصور معاف ہی نہ کر سکے اور نہ یہ مطلب ہوا کہ کسی جرم کے لئے توبہ کی ضرورت ہی نہیں بدون توبہ کے سب گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ قید صرف مشیت کی ہے اور مشیت کے متعلق دوسری آیات میں بتلا دیا گیا کہ وہ کفر و شرک سے بدون توبہ کے متعلق نہ ہو گی۔ چنانچہ آیہ ہذا کی شان نزول بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت کے فائدے سے معلوم ہو گا۔




39 - عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : جَاءَ حَبِيبُ بْنُ الْحَارِثِ ، إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ،إِنِّي رَجُلٌ مِقْرَافٌ لِلذُّنُوبِ ، قَالَ : " فَتُبْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَا حَبِيبُ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي أَتُوبُ ، ثُمَّ أَعُودُ ، قَالَ : فَكُلَّمَا أَذْنَبْتَ ، فَتُبْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِذًا تَكْثُرُ ذُنُوبِي ، قَالَ : فَعَفْوُ اللَّهِ أَكْثَرُ مِنْ ذُنُوبِكَ يَا حَبِيبُ بْنُ الْحَارِثِ " .

ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ حضرت جبیر بن حارثؓ رسول الله ﷺ کے پاس آۓ اور کہنے لگے: اے الله کے رسول! میں بڑا گناہ گار ہوں، بار بار (توبہ توڑنے اور) گناہ کرنے والا آدمی ہوں، میں توبہ کرتا ہوں پھر دوبارہ گناہ کرتا ہوں، پھر توبہ کرتا ہوں پھر گناہ کرتا ہوں. رسول الله ﷺ نے فرمایا : اے حَبِيبُ بْنُ الْحَارِثِ! الله کا معاف کرنا تیرے گناہوں سے زیادہ ہے.
[الدعاء للطبراني » باب : قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ... رقم الحديث: 1699]
(یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کی تائید آگے کی حدیث سے ہوجاتی ہے)





گناہوں کا یقینی علاج ہر بار بخشش مانگنا:

عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، " إِنِّي أُذْنِبُ , قَالَ : اسْتَغْفِرْ , قَالَ : فَأَسْتَغْفِرُ وَأَعُودُ ، قَالَ : فَإِذَا عُدْتَ فَاسْتَغْفِرْ ، قَالَ : وَأَسْتَغْفِرُ ثُمَّ أَعُودُ ، قَالَ : فَإِذَا عُدْتُ فَعُدْ فِي الثَّالِثَةِ ، وَالرَّابِعَةِ حَتَّى يَكُونَ الشَّيْطَانُ هُوَ الْمَحْسُورَ.

ترجمہ:حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے الله کے رسول ! میں نے گناہ کرلیا ہے. آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے رب سے استغفار کرلو. اس نے کہا: میں استغفار کرتا ہوں اس کے بعد پھر دوبارہ میں گناہ کر بیٹھتا ہوں. آپ ﷺ نے فرمایا: جب تو دوبارہ گناہ کرے تو پھر استغفار کر. اس شخص نے کہا: پھر میں گناہ کر بیٹھتا ہوں. آپ ﷺ نے فرمایا: پھر استغفار کر. (راوی کو شبہ میں کہتا ہے کہ) تین بار یا چار بار یہی فرمایا. (اپنے رب سے استغفار کر) حتیٰ کہ شیطان ناکام و نامراد ہوجاۓ.
[التوبة لابن أبي الدنيا » رقم الحديث: 59]
(یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کی تائید آگے کی حدیث سے ہوجاتی ہے)


القرآن:
اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کبھی کوئی بےحیائی کا کام کر بھی بیٹھتے ہیں یا (کسی اور طرح) اپنی جان پر ظلم کر گزرتے ہیں تو فورا اللہ کو یاد کرتے ہیں کہ اور اس کے نتیجے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا ہے بھی کون جو گناہوں کی معافی دے؟ اور یہ اپنے کیے پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے۔
[سورۃ آل عمران:135]
اور جو شخص کوئی برائی کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے، پھر اللہ سے معافی مانگ لے تو وہ اللہ کو بہت بخشنے والا، بڑا مہربان پائے گا۔
[سورۃ النساء:110]






40 - حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ وَاقِدٍ ، عَنْ أَبِي نُصَيْرَةَ ، عَنْ مَوْلًى لِأَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا أَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ وَلَوْ فَعَلَهُ فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةً " 

ترجمہ:
حضرت ابو بکرؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ شخص (گناہوں پر) اصرار کرنے (اڑنے/جمے رہنے) والا نہیں (رہے گا) جو بخشش مانگتا رہتا ہے.
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ... رقم الحديث: 3559]
خلاصة حكم المحدث : حسن
[تفسير القرآن، لابن كثير: الصفحة أو الرقم: 2/106، فتح الباري لابن حجر الصفحة أو الرقم: 1/137،  عمدة القاري، للعيني: الصفحة أو الرقم: 1/431،  تخريج الكشاف للزيلعي: الصفحة أو الرقم: 1/227، الآداب الشرعية لابن مفلح: الصفحة أو الرقم: 1/118]

جو  ناکام  ہوتا  رہے  عمر بھر بھی

بہرحال کوشش تو عاشق نہ چھوڑے

یہ  رشتہ  محبت  کا  قائم  ہی  رکھے

جو  سو بار  ٹوٹے  تو  سو بار جوڑے




عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا صَغِيرَةَ مَعَ إِصْرَارٍ ، وَلا كَبِيرَةَ مَعَ اسْتِغْفَارٍ " .

ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں رہتا (کوئی گناہ) صغیرہ (اس گناہ پر) اصرار (یعنی جمے /اڑے رہنے) کے ساتھ، اور نہیں رہتا (کوئی گناہ) کبیرہ (اس پر) بخشش مانگتے رہنے کے ساتھ.



أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ ، وَأَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْفَارِسِيُّ ، قَالا : أَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ ، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ ، نايَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ حُيَيٍّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ : " أُنْزِلَتْ إِذَا زُلْزِلَتِ الأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ قَاعِدٌ ، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا يُبْكِيكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ؟ فَقَالَ : أَبْكَانِي هَذِهِ السُّورَةُ . فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَوْ أَنَّكُمْ لا تُخْطِئُونَ وَلا تُذْنِبُونَ فَيُغْفَرُ لَكُمْ ، لَخَلَقَ اللَّهُ أُمَّةً مِنْ بَعْدِكُمْ يُخْطِئُونَ وَيُذْنِبُونَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ " .
[شعب الإيمان للبيهقي » السَّابِعُ وَالأَرْبَعُونَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ ... رقم الحديث: 6599]




حدیثِ قدسی:
وحكي أن الله تعالى أوحى إلى داود عليه السلام أن أنين ‌المذنبين ‌أحب ‌إلي من صراخ الصديقين
ترجمہ:
اللہ تعالی نے وحی بھیجی داؤد علیہ السلام پر کہ گنہگاروں کی آہیں مجھے سچوں کے رونے سے زیادہ محبوب ہیں۔
[تفسير التستري: ص53، سورة النساء (4) : آية 17]
[شعب الإيمان-البيهقي ط الرشد: حدیث نمبر 6864]

من صراخ العابدين۔۔۔۔۔عبادت گذاروں کے رونے سے زیادہ
[لطائف الإشارات = تفسير القشيري: سورة سبإ (34) : الآيات 10 الى 11]

مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِينَ ۔۔۔۔۔۔ تسبیح کہنے والوں کی آوازوں سے زیادہ
[اللطائف-ابن الجوزي: ص19][تفسير الرازي:2/ 441 سورة البقرة (2) : آية 34][مجموع الفتاوى-ابن تيمية:4/ 379][مدارج السالكين -ابن القيم:1/ 195]

آئندہ گناہوں سے بچنے کے لیے قرآن و حدیث کی روشنی میں بزرگوں کی بتائی ہوئی کچھ تدابیر ہیں جنہیں اختیار کرنے سے گناہوں سے بچنا انتہائی آسان ہوجاتا ہے:

1۔   سچی توبہ کرنے کے بعد پچھلے گناہ کو یاد نہ کریں، اور نہ ہی کسی سے اس کا تذکرہ کریں۔

2۔   جس عورت کے ساتھ گناہ میں مبتلا ہوئے، اس عورت سے دوبارہ  ملنے، اسے دیکھنے یا اس سے بات چیت کرنے سے مکمل اجتناب کریں، بلکہ اس عورت کے تصور سے بھی اپنے دل و دماغ کو بچائیں۔

3۔   کسی نیک اور سچے اللہ والے کی صحبت اختیار کریں، ان کی مجالس اور بیانات میں آنا جانا رکھیں اور ان سے اپنے روحانی امراض اور گناہوں کی اصلاح کرواتے رہیں۔

4۔   برے دوستوں، بری صحبت اور گناہوں والے ماحول سے اپنے آپ کو بچائیں۔

5۔   گھر کو زنا کی دعوت دینے والے آلات؛ ٹی وی، کیبل، فلموں وغیرہ سے پاک کریں۔

6۔   اگر نوکری یا کاروبار وغیرہ کی ضرورت کی وجہ سے اسمارٹ فون یا کمپیوٹر وغیرہ استعمال کرتے ہوں تو ان چیزوں کو تنہائی میں ہرگز استعمال نہ کریں، بلکہ گھر یا آفس میں سب کی نظروں کے سامنے استعمال کریں۔

7۔   اپنے بیوی بچوں پر بھی دین کی محنت کریں، اور انہیں نیک ماحول فراہم کریں اور دینی باتوں، خصوصاً شرعی پردہ کی ترغیب دیتے رہیں اور خود بھی شرعی پردے کی پابندی کریں۔

8۔   گھر میں، باہر، دفاتر وغیرہ میں نامحرم عورتوں، خصوصًا رشتہ دار نامحرم عورتوں (بھابھی، سالی، ممانی، چچی، تائی، خالہ زاد، ماموں زاد، چچا زاد، تایا زاد، پھوپھی زاد وغیرہ) سے نظروں کی مکمل حفاظت کریں اور نامحرم عورتوں کے ساتھ تنہائی میں ہرگز نہ رہیں، حدیث میں آتا ہے کہ جہاں کوئی مرد و عورت تنہا ہوتے ہیں تو وہاں ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔

9۔   روزانہ نمازِ حاجت پڑھ کر اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیے خوب گڑگڑا کر دعا کریں، رونے کی کوشش کریں اور اگر رونا نہ آئے تو رونے والی شکل بنا کر دعا کریں۔

10۔   جب بھی کسی گناہ کا خیال دل میں آئے تو یہ تصور کریں کہ اللہ میرے ساتھ ہے اور اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، اور وہ مجھے عذاب دینے اور دنیا و آخرت میں سزا دینے پر قادر ہے، اگر خدانخواستہ گناہ ہوگیا تو دنیا میں بھی رسوائی ہوگی اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم اور تمام مخلوق کے سامنے بھی رسوائی ہوگی۔

11۔   جب بھی وضو کریں تو اچھی طرح سنتوں و آداب کے اہتمام سے وضو کریں اور وضو کے بعد یہ مسنون دعا پڑھا کریں:

’’أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَ اجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ‘‘

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور پھر یہ دعا پڑھے تو اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھل جائیں گے، وہ جس سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔‘‘ (ترمذی)

12۔ تمام فرض نمازوں کے باجماعت اہتمام کے ساتھ کثرت سے درج ذیل دعاؤں میں سے کوئی دعا پڑھ لیا کریں، یا ساری دعائیں ایک ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں، اور مختلف دعاؤں کو مختلف اوقات میں بھی پڑھ سکتے ہیں:

’’رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ‘‘ [الأعراف:23]

ترجمہ: ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا (کہ پوری احتیاط اور تامل سے کام نہ لیا) اور اگر آپ ہماری مغفرت نہ کریں گے اور ہم پر رحم نہ کریں گے تو واقعی ہمارا بڑا نقصان ہوجائے گا۔‘‘ (بیان القرآن)

’’اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَ التُّقَى وَ الْعَفَافَ وَ الْغِنَى‘‘

ترجمہ: ’’یا اللہ! میں مانگتا ہوں تجھ سے ہدایت اور پرہیزگاری اور پارسائی اور سیرچشمی۔‘‘ (مسلم)

’’يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ، أَصْلِحْ لِيْ شَأْنِيْ كُلَّهُ، وَ لَا تَكِلْنِيْ إِلَى نَفْسِيْ طَرْفَةَ عَيْنٍ‘‘

ترجمہ: ’’یاحی یاقیوم! میں تیری رحمت کے واسطہ سے تجھ سے فریاد کرتا ہوں کہ میرے سارے حال کو درست کردے اور مجھے میرے نفس کی طرف ایک لمحہ کے لیے بھی نہ سونپ۔‘‘ (السنن الکبریٰ للنسائی)

’’اَللَّهُمَّ قِنِيْ شَرَّ نَفْسِيْ وَ اعْزِمْ لِيْ عَلَى رُشْدِ أَمْرِيْ‘‘

ترجمہ: ’’یا اللہ! مجھے میرے نفس کی برائی سے محفوظ رکھ، اور  مجھے میرے امور کی اصلاح کی ہمت دے۔‘‘ (السنن الکبریٰ للنسائی)

’’اَللَّهُمَّ ارْحَمْنِيْ بِتَرْكِ الْمَعَاصِيْ أَبَدًا مَّا أَبْقَيْتَنِيْ‘‘

ترجمہ: ’’یا اللہ! جب تک آپ  مجھے زندہ رکھیں مجھ پر وہ رحم فرمائیے جس سے میں گناہوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں۔‘‘ (ترمذی)

’’اَللَّهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِيْ مِنَ النِّفَاقِ وَ عَمَلِيْ مِنَ الرِّيَاءِ وَ لِسَانِيْ مِنَ الْكَذِبِ وَ عَيْنِيْ مِنَ الْخِيَانَةِ ، فَإِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَ مَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ‘‘

ترجمہ: ’’یا اللہ! میرے دل کو نفاق سے پاک کردے، اور میرے عمل کو ریا سے، اور میری زبان کو جھوٹ سے، اور میری آنکھ کو خیانت سے، تجھ پر تو روشن ہیں آنکھوں کی چوریاں بھی، اور جو کچھ دل چھپائے رکھتے ہیں وہ بھی۔‘‘ (الدعوات الکبیر للبیہقی)

’’اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِيْ أَخْشَاكَ كَأَنِّيْ أَرَاكَ أَبَدًا حَتَّى أَلْقَاكَ ، وَ أَسْعِدْنِيْ بِتَقْوَاكَ ، وَ لَا تُشْقِنِيْ بِمَعْصِيَتِكَ‘‘

ترجمہ: ’’یا اللہ! مجھے ایسا کردے کہ میں تجھ سے اس طرح ڈرا کروں کہ گویا میں ہر وقت تجھے دیکھتا رہتا ہوں یہاں تک کہ تجھ سے آملوں، اور مجھے تقویٰ سے سعادت دے، اور مجھے شقی (بدبخت) نہ بنا اپنی معصیت سے۔‘‘ (الدعاء للطبرانی)

’’اَللَّهُمَّ حَصِّنْ فَرْجِيْ وَ يَسِّرْ لِيْ أَمْرِيْ‘‘

ترجمہ: ’’یا اللہ! میری شرم گاہ کو محفوظ کردے، اور مجھ پر میرے کام آسان کردے۔‘‘

(مناجات مقبول، الحزب الاعظم للقاری)

’’اَللَّهُمَّ لَا تُخْزِنِيْ فَإِنَّكَ بِيْ عَالِمٌ وَ لَا تُعَذِّبْنِيْ فَإِنَّكَ عَلَيَّ قَادِرٌ‘‘

ترجمہ: ’’یا اللہ! مجھے رسوا نہ کرنا، بے شک تو مجھے خوب جانتا ہے، اور مجھ پر عذاب نہ کرنا، بے شک تو مجھ پر ہر طرح قدرت رکھتا ہے۔‘‘

(کنز العمال)


مرنے سے پہلے زندگی بھر کے بغیرمانگے عطا کئے گئے اللہ کے انعامات کا شکر ادا کرلو۔۔۔بےشک جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت(رضا) ہی سے ہوگا، لیکن اعمال ہی (1)قیامت کے حساب، (2)جہنم کے عذاب اور (3)جنت میں دائمی غربت اور ندامت سے بچائیں گے۔


No comments:

Post a Comment