(1)حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
ترجمہ:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:
(2)
جَرِيرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالسَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ.
ترجمہ:
حضرت جریر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کی شہادت پر کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے اور (اپنے مقررہ امیر کی بات) سننے اور اس کی اطاعت کرنے پر اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی بیعت کی تھی۔
(3)حضرت براء بن عازب ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْمُسْلِمُ إِذَا سُئِلَ فِي الْقَبْرِ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ (سورة إبراهيم آية 27).
ترجمہ:
مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوگا تو وہ گواہی دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ایمان والوں کی اس پکی بات (کی برکت) سے مضبوط رکھتا ہے، دنیوی زندگی میں (بھی) اور آخرت میں (بھی)(سورة إبراهيم آية 27) کا یہی مطلب ہے۔
[صحيح البخاری - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 4699]
(4)حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ:
بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ، فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ.
ترجمہ:
نبی ﷺ نے کچھ سوار نجد کی طرف بھیجے (جو تعداد میں تیس تھے) یہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا پکڑ کر لائے۔ انہوں نے اسے مسجد کے ایک ستون میں باندھ دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ اور (تیسرے روز ثمامہ کی نیک طبیعت دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ (رہائی کے بعد) وہ مسجد نبوی سے قریب ایک کھجور کے باغ تک گئے۔ اور وہاں غسل کیا۔ پھر مسجد میں داخل ہوئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔
[صحيح البخاری - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 462]
(5)حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ:
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: يَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلَاثًا، قَالَ: مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا، قَالَ: إِذًا يَتَّكِلُوا، وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا.
ترجمہ:
(ایک مرتبہ) معاذ بن جبلؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھے، آپ ﷺ نے فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے (دوبارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے (سہ بارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول، تین بار ایسا ہوا۔ (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے (سچے) رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو (دوزخ کی) آگ پر حرام کردیتا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہوجائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اگر تم یہ خبر سناؤ گے) تو لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (اور عمل چھوڑ دیں گے) معاذ ؓ نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔ [صحيح البخاری:128، صحيح مسلم:148]
(6)حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ: إِنَّكَ سَتَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَإِذَا جِئْتَهُمْ، فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ طَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: طَوَّعَتْ طَاعَتْ، وَأَطَاعَتْ لُغَةٌ طِعْتُ، وَطُعْتُ، وَأَطَعْتُ.
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا (حاکم بنا کر بھیجتے وقت انہیں) ہدایت فرمائی تھی کہ تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب یہودی اور نصرانی وغیرہ میں سے ہیں۔ اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں اس کی دعوت دو کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اگر اس میں وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے روزانہ ان پر پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، جب یہ بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ کو بھی فرض کیا ہے، جو ان کے مالدار لوگوں سے لی جائے گی اور انہیں کے غریبوں میں تقسیم کردی جائے گی۔ جب یہ بھی مان جائیں تو (پھر زکوٰۃ وصول کرتے وقت) ان کا سب سے عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی آہ سے ہر وقت ڈرتے رہنا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔ ابوعبداللہ امام بخاری (رح) نے کہا کہ سورة المائدہ میں جو طوعت کا لفظ آیا ہے اس کا وہی معنی ہے جو طاعت اور أطاعت کا ہے جیسے کہتے ہیں طعت وطعت وأطعت. سب کا معنی ایک ہی ہے۔ [صحيح البخاری:4347-1496، سنن النسائى:2437]
تخریج:
شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله [صحيح البخاري:1395، صحيح مسلم:121، جامع الترمذي:625، سنن أبي داود:1584، سنن النسائى:2523، سنن ابن ماجه:1783]
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ: إِنَّكَ سَتَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَإِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ.
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے معاذ ؓ کو جب یمن بھیجا ‘ تو ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے (سچے) رسول ہیں۔ وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینا ضروری قرار دیا ہے ‘ یہ ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری بات مان لیں تو ان کے اچھے مال لینے سے بچو اور مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
[صحيح البخاری - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 1496]
عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، قَالَ: كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَبَيْنَ النَّاسِ، فَقَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنِ الْوَفْدُ أَوْ مَنِ الْقَوْمُ، قَالُوا: رَبِيعَةُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى، قَالُوا: إِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، وَلَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نُخْبِرُ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا نَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ، فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ، قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَتُعْطُوا الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ، وَنَهَاهُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ. قَالَ شُعْبَةُ: رُبَّمَا قَالَ النَّقِيرِ، وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ، قَالَ: احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ.
ترجمہ:
ابوجمرہ نے بیان کیا کہ میں حضرت ابن عباس ؓ اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا (ایک مرتبہ) ابن عباس ؓ نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان (کے لوگ ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو (آنا) یا مبارک ہو اس وفد کو (جو کبھی) نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو (اس کے بعد) انہوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ ﷺ کے پاس آئے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ (پڑتا) ہے (اس کے خوف کی وجہ سے) ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام میں نہیں آسکتے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسی (قطعی) بات بتلا دیجیئے کہ جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو خبر دے دیں۔ (اور) اس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں۔ تو آپ ﷺ نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے روک دیا۔ اول انہیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں۔ (پھر) فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا (ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ) اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ( ﷺ ) اللہ کے (سچے) رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور چار چیزوں سے منع فرمایا، دباء، حنتم، اور مزفت کے استعمال سے۔ اور (چوتھی چیز کے بارے میں) شعبہ کہتے ہیں کہ ابوجمرہ بسا اوقات نقير کہتے تھے اور بسا اوقات مقير۔ (اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو۔ [صحيح البخاری - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 87]
دیگر احادیثِ شھاتین کے فضائل:
> عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: "انْهَضُوا بِنَا نَعُودُ جَارَنَا الْيَهُودِيَّ، قَالَ: فَدَخَلَ عَلَيْهِ، فَوَجَدَهُ فِي الْمَوْتِ، ثُمَّ قَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله، وَأَنِّي رَسُولُ الله؟ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ، فَلَمْ يُكَلِّمْهُ أَبُوهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ، فَقَالَ لَهُ أَبُوهُ: اشْهَدْ لَهُ، فَقَالَ الْفَتَى: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ محمدا رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَ بِي نَسَمَةً مِنَ النَّارِ "، وَفِي رِوَايَةٍ، أَنَّهُ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ لِأَصْحَابِهِ: انْهَضُوا بِنَا نَعُودُ جَارَنَا الْيَهُودِيَّ، قَالَ: فَوَجَدَهُ فِي الْمَوْتِ، فَقَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ: فَنَظَرَ الرَّجُلُ إِلَى أَبِيهِ، قَالَ: فَأَعَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَصَفَ الْحَدِيثَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ إِلَى آخِرِهِ عَلَى هَذِهِ الْهَيْئَةِ إِلى قَوْلِهِ: فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَ بِي نَسَمَةً مِنَ النَّارِ
ترجمہ:
> حضرت علقمہ، حضرت ابن بریدہ سے، اور وہ اپنے والد (حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: "اٹھو، ہم اپنے یہودی پڑوسی کی عیادت (بیمارپُرسی) کے لیے چلیں۔" راوی کہتے ہیں: پھر آپ اس کے پاس داخل ہوئے تو اسے موت کی حالت میں پایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (مریض) سے فرمایا: "کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟" اس (مریض) نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، لیکن اس کے باپ نے اس سے کچھ نہ کہا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دوبارہ فرمایا: "کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟" اس نے پھر اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ اس پر اس کے باپ نے اس سے کہا: "اس (کی بات) کی گواہی دے دو۔" چنانچہ وہ نوجوان بولا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یقیناً محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔" اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے ذریعے ایک جان کو آگ (جہنم) سے نجات دلائی۔"
> اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ سے فرمایا: "اٹھو، ہم اپنے یہودی پڑوسی کی عیادت کے لیے چلیں۔" راوی کہتے ہیں: آپ نے اسے موت کی حالت میں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں؟" اس نے کہا: "ہاں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟" راوی کہتے ہیں: اس آدمی (مریض) نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ راوی کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سوال) دہرایا۔ راوی نے پوری حدیث کو تین مرتبہ اسی طرح بیان کیا یہاں تک کہ اس (مریض) نے کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔" اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے ذریعے ایک جان کو آگ (جہنم) سے نجات دلائی۔"
[مسند ابي حنيفة رواية الحصكفي: حدیث نمبر 4]
---
تفصیلی تشریح:
اس حدیث مبارکہ میں بہت سے اہم اسلامی تعلیمات، اخلاقی اصول اور عقائد کے پہلو پوشیدہ ہیں۔ ذیل میں ان کی تفصیلی وضاحت عقلی دلائل، نقلی حوالہ جات (قرآن و سنت) اور معاشرتی پہلوؤں سے پیش کی جاتی ہے:
1. پڑوسی کے حقوق کی عظمت (حق الجوار):
* نقلی پہلو: حدیث کا مرکزی واقعہ ہی پڑوسی کے حق کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے یہودی پڑوسی کی عیادت کے لیے خود تشریف لے گئے، حالانکہ وہ آپ کے دشمن مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ عمل قرآن کی اس آیت کی عملی تفسیر ہے: "اللَّهُ لَا يَنْهَاكُمْ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ" (الممتحنہ: 8) - "اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔" متعدد احادیث میں پڑوسی کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے، جیسے: "جبریل (علیہ السلام) مجھے پڑوسی کے بارے میں اتنی تاکید کرتے رہے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔" (بخاری و مسلم)
* عقلی پہلو: معاشرے کی سلامتی، امن اور باہمی تعاون کا دارومدار پڑوسیوں کے درمیان اچھے تعلقات پر ہوتا ہے۔ پڑوسی قریب ہوتا ہے، اس کی مصیبت میں فوری مدد کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ حسن سلوک پورے محلے کے ماحول کو خوشگوار بناتا ہے۔ یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے کہ قریبی لوگوں سے ہمدردی کی جائے۔
* تشریح: اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پڑوسی کا حق مذہب، نسل یا قومیت سے بالاتر ہے۔ بیمارپُرسی، تعزیت اور ضرورت کے وقت مدد کرنا انسانیت کا بنیادی تقاضا اور اسلام کا حکم ہے۔
2. موقع شناسی اور دعوتِ دین کی حکمت (الدعوة بالحکمة):
* نقلی پہلو: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت جب یہودی نوجوان کو عیادت کے لیے ملنے گئے تو اس موقع کو اسے اسلام کی دعوت دینے کے لیے استعمال کیا۔ قرآن مجید میں دعوت دین کا طریقہ بتایا گیا ہے: "ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ" (النحل: 125) - "اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کرو۔" موت کا وقت ایسا نازک موقع ہے جب انسان دنیا کی بے ثباتی کو محسوس کرتا ہے اور قلب میں نرمی ہوتی ہے۔
* عقلی پہلو: کسی بھی پیغام کی تاثیر اس وقت بڑھ جاتی ہے جب سننے والا ذہنی اور جذباتی طور پر تیار ہو۔ موت کا منظر انسان کو آخرت پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے، اس لیے اس موقع پر ایمان کی دعوت زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ حکمت عملی اور نفسیاتی بصیرت پر مبنی ہے۔
* تشریح: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتاتا ہے کہ دعوت دین صرف منبر یا مدرسہ تک محدود نہیں، بلکہ ہر مناسب موقع کو غنیمت جاننا چاہیے، خاص طور پر جب کسی کی زندگی خطرے میں ہو اور اس کا دل نرم ہو۔
3. موت کے وقت اسلام قبول کرنے کا جواز:
* نقلی پہلو: اس حدیث سے واضح ثبوت ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص موت کے وقت توبہ کرے یا اسلام قبول کرے، تو اس کا یہ عمل مقبول ہے اور وہ جہنم سے نجات پا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کا ایمان خلوص کے ساتھ ہو۔ قرآن میں ہے: "إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا" (الزمر: 53) - "بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔" (توبہ کی شرط کے ساتھ)۔ دوسری جگہ فرمایا: "وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ" (النساء: 18) - "اور توبہ ان لوگوں کے لیے نہیں جو برے کام کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آ پہنچتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں۔" اس آیت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ موت کے واضح نشانات (سکرات الموت) کے بعد کی توبہ قبول نہیں، لیکن اس سے پہلے جب انسان ہوش میں ہو، اس کی توبہ یا ایمان قبول ہو سکتا ہے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔
* عقلی پہلو: اگر موت کے وقت توبہ یا ایمان کو بالکل ہی بے اثر مان لیا جائے تو لوگ زندگی بھر گناہ کرتے رہیں اور پھر آخری وقت توبہ کا سوچیں بھی نہیں، جس سے معاشرے میں فساد پھیلے گا۔ اس کے برعکس، موت کے وقت ایمان لانے کا امکان انسان کو ہمیشہ نیکی کی طرف مائل رکھتا ہے۔
* تشریح: یہودی نوجوان نے جب کلمہ شہادت پڑھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اسے جہنم سے نجات یافتہ قرار دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آخری وقت تک دعوت حق اور توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔
4. رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کا مقامِ رحمت:
* نقلی پہلو: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَ بِي نَسَمَةً مِنَ النَّارِ" آپ کی رسالت کی عظیم شہادت ہے۔ قرآن میں آپ کے لیے فرمایا گیا: "وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ" (الانبیاء: 107) - "اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور وجودِ مبارک ہی وہ ذریعہ ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ لوگوں کو گمراہی اور جہنم سے نجات دیتا ہے۔
* عقلی پہلو: اس واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر مسلم پڑوسی کی فکر کرنا، اس کی عیادت کے لیے جانا، اسے موت کے وقت ایمان کی دعوت دینا اور پھر اس کے ایمان لانے پر خوشی کا اظہار کرنا - یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت للعالمین ہونے کی واضح عقلی دلیل ہے۔ آپ کا مقصد ہر انسان کی دنیوی اور اخروی بھلائی تھی۔
* تشریح: اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام اور آپ کی دعوت کے عالمگیر ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکر ادا کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو اپنی ذاتی کامیابی پر نہیں، بلکہ کسی بندے کی ہدایت اور نجات پر خوشی ہوتی تھی، جو آپ کی عظیم الشان رحمت کا مظہر ہے۔
5. والدین کے مشورے کی اہمیت اور اولاد پر والدین کے اثرات:
* نقلی و عقلی پہلو: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوان سے ایمان کی گواہی طلب کی تو وہ بار بار اپنے باپ کی طرف دیکھتا رہا۔ آخرکار باپ نے اسے مشورہ دیا کہ وہ گواہی دے دے، جس کے بعد نوجوان نے فوراً کلمہ پڑھ لیا۔ یہ والدین کے مشورے اور ان کی رضامندی کی اولاد کے لیے اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ قرآن مجید میں والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا گیا ہے (البقرۃ: 83، الاسراء: 23-24)۔ اگرچہ والدین کا حکم اگر شرک پر مبنی ہو تو اس کی اطاعت نہیں (لقمان: 15)، لیکن یہاں باپ نے بیٹے کو حق بات کی گواہی دینے کا مشورہ دیا، جو ایمان کا تقاضا تھا۔ یہ والدین کے مثبت اثرات اور ان کے مشورے پر اولاد کے اعتماد کی مثال ہے۔
* تشریح: اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اولاد کو حق کی تائید اور نیکی کے کاموں کی ترغیب دیں، خاص طور مشکل وقت میں۔
6. کلمہ طیبہ (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کی اہمیت:
* نقلی پہلو: نجات کا دارومدار صرف اور صرف کلمہ شہادت پر تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی گواہی طلب کی اور اسی کو قبولیت ایمان اور نجات کا سبب قرار دیا۔ قرآن میں ہے: "فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ" (محمد: 19)۔ احادیث میں کلمہ طیبہ کو جنت کی کنجی کہا گیا ہے۔
* عقلی پہلو: کلمہ شہادت اسلام کے بنیادی عقیدے (توحید و رسالت) کا جامع اظہار ہے۔ اس کی گواہی دینے کا مطلب اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دل سے تسلیم کرنا اور اس پر عمل کرنے کا عہد کرنا ہے۔ یہی ایمان کی بنیاد ہے جس پر اعمال کی قبولیت کا انحصار ہے۔
* تشریح: یہودی نوجوان کے لیے جہنم سے نجات کا واحد ذریعہ اس کلمہ کا اقرار تھا، جس سے اس کی اہمیت اور مرکزی حیثیت واضح ہوتی ہے۔
7. اللہ تعالیٰ کی نجات دہندگی پر شکرگزاری:
* نقلی پہلو: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نوجوان کا ایمان قبول کیا تو فرمایا: *"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَ بِي نَسَمَةً مِنَ النَّارِ"*۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ہے، اس بات پر کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے رسول کے ذریعے ایک بندے کو ہدایت اور نجات عطا فرمائی۔ شکرگزاری ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔
* عقلی پہلو: کسی کی ہدایت اور نجات دراصل اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذریعے (بِي) کا لفظ استعمال کر کے اپنے مقامِ رسالت کو ظاہر کیا، لیکن ساتھ ہی پوری حمد و ثنا اللہ ہی کے لیے مختص کی، کیونکہ ہدایت دینے والا حقیقتاً اللہ ہی ہے۔ یہ اللہ کی توحید اور اس کے فضل کا اعتراف ہے۔
* تشریح: یہ عمل ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی کی ہدایت یا کسی بھی نعمت پر خوشی کا اظہار اللہ کی حمد و شکر کے ساتھ کرنا چاہیے، کیونکہ ہر خیر کا سرچشمہ وہی ہے۔
خلاصہ کلام:
یہ حدیث مبارکہ درج ذیل اہم اسلامی تعلیمات کی حامل ہے:
1. پڑوسی کا حق: مذہب و ملت سے بالاتر ہو کر پڑوسی کی خدمت، عیادت اور خیر خواہی۔
2. حکمتِ دعوت: موقع کی مناسبت سے، نرمی اور حکمت کے ساتھ دعوتِ دین دینا۔
3. موت کے وقت توبہ و ایمان: موت کے وقت تک توبہ اور ایمان کے دروازے کا کھلا ہونا اور اس کی قبولیت۔
4. رسالت محمدیہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہی لوگوں کو جہنم سے نجات ملتی ہے، آپ رحمت للعالمین ہیں۔
5. کلمہ طیبہ کی اہمیت: نجات صرف کلمہ شہادت (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کے اقرار و ایمان پر موقوف ہے۔
6. والدین کا اثر: والدین کا مثبت مشورہ اولاد پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔
7. اللہ کی حمد و شکر: کسی کی ہدایت یا نعمت پر اللہ تعالیٰ کی حمد و شکر ادا کرنا۔
اس حدیث سے ہمیں انسانیت، رحم دلی، موقع شناسی، دعوتِ دین کی ذمہ داری، اللہ کی رحمت پر یقین اور شکرگزاری کا جامع سبق ملتا ہے۔
(2)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: والله مَا جِئْتُكَ حَتَّى حَلَفْتُ بِعَدَدِ أَصَابِعِي هَذِهِ أَلَّا أَتَّبِعَكَ وَلَا أَتَّبِعَ دِينَكَ، وَإِنِّي أَتَيْتُ امْرَأً لَا أَعْقِلُ شَيْئًا إِلَّا مَا عَلَّمَنِي اللَّهُ ورسوله، وَإِنِّي أَسْأَلُكَ بالله بِمَا بَعَثَكَ رَبُّكَ إِلَيْنَا؟ فَقَالَ: «اجْلِسْ» ثُمَّ قَالَ: «بِالْإِسْلَامِ ثُمَّ بِالْإِسْلَامِ» ، فَقُلْتُ: مَا آيَةُ الْإِسْلَامِ؟ فَقَالَ: «تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله، وَأَنَّ محمدا رسوله، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتُفَارِقُ الشِّرْكَ، وَأَنَّ كُلَّ مُسْلِمٍ عَنْ مُسْلِمٍ مُحَرَّمٌ، أَخَوَانِ نَصِيرَانِ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْ مُشْرِكٍ أَشْرَكَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ عَمَلًا، إِنَّ رَبِّي دَاعِيَّ وَسَائِلِي: هَلْ بَلَّغْتُ عِبَادَهُ، فَلْيُبَلِّغْ شَاهِدُكُمْ غَائِبَكُمْ، وَإِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ مُفَدَّمٌ عَلَى أَفْوَاهِكُمْ بِالْفِدَامِ، فَأَوَّلُ مَا يُنْبِئُ عَنِ أَحَدِكُمْ فَخِذُهُ وَكَفُّهُ» قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ، فَهَذَا دِينُنَا؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَأَيْنَمَا تُحْسِنْ يَكْفِكَ، وَإِنَّكُمْ تُحْشَرُونَ عَلَى وُجُوهِكُمْ وَعَلَى أَقْدَامِكُمْ وَرُكْبَانًا»
---
ترجمہ:
حضرت بہز بن حکیم بن معاویہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (حضرت معاویہ بن حَیدَہ القُشَیری رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: "اللہ کی قسم! میں آپ کے پاس اس وقت تک نہیں آیا جب تک کہ میں نے اپنی ان انگلیوں کی گنتی (تعداد) کی قسم نہیں کھا لی کہ میں نہ آپ کی اتباع کروں گا اور نہ آپ کے دین کی۔ اور میں (اب) ایک ایسے شخص (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آیا ہوں جو (اپنے علم میں) کسی چیز کو نہیں جانتا سوائے اس کے جو اللہ اور اس کا رسول مجھے سکھائیں۔ اور میں آپ سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ کو آپ کے رب نے ہماری طرف کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: **"بیٹھ جاؤ"**۔ پھر فرمایا: **"اسلام کے ساتھ، پھر اسلام کے ساتھ"**۔ میں نے عرض کیا: اسلام کی علامت (نشانی) کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: **"تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یقیناً محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور تم نماز قائم کرو، اور زکٰوۃ ادا کرو، اور شرک کو بالکل چھوڑ دو، اور یہ کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے حرمت والا (محترم) ہے، (وہ) دو بھائی ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا جس نے اسلام لانے کے بعد شرک کیا ہو۔ بے شک میرا رب مجھے بلائے گا اور مجھ سے پوچھے گا: کیا تو نے میرے بندوں تک (میرا پیغام) پہنچا دیا؟ پس تم میں سے جو موجود ہو وہ جو غائب ہو اس تک (یہ پیغام) پہنچا دے۔ اور تمہیں (قیامت میں) بُلایا جائے گا 'مُفَدَّم' (گلے میں پٹی ڈالے ہوئے)، اپنے منہوں پر 'فِدَام' (گلے کا پٹہ) ڈالے ہوئے۔ پس سب سے پہلے تم میں سے کسی کے بارے میں اس کی ران اور اس کا ہاتھ گواہی دے گا۔"** راوی (حضرت معاویہ بن حیدہ) کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا یہی ہمارا دین ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: **"ہاں، اور جہاں کہیں بھی تم نیکی کرو گے وہ تمہارے لیے کافی ہو گی۔ اور تم (قیامت کے دن) اپنے چہروں کے بل، اپنے پیروں کے بل اور سوار ہو کر (مختلف حالات میں) اٹھائے جاؤ گے۔"*
[جامع معمر بن راشد: حدیث نمبر 20115]
---
تشریح:
یہ حدیث مبارکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات، اس کے ارکان، مسلمانوں کے باہمی تعلقات، ارتداد کی سزا اور قیامت کے مناظر کو جامع انداز میں بیان کرتی ہے۔ ذیل میں اس کی تفصیلی وضاحت عقلی دلائل، نقلی حوالہ جات (قرآن و سنت) اور معاشرتی پہلوؤں سے پیش کی جاتی ہے:
1. *حق کی تلاش میں سچائی اور انکساری:*
* *نقلی پہلو:* حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کا اپنی پہلی قسم ("میں آپ کی اتباع نہیں کروں گا") کے باوجود حق کو جاننے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا، اور پھر اپنے علم کی کمی کا اعتراف کرنا ("میں کسی چیز کو نہیں جانتا سوائے اس کے جو اللہ اور اس کا رسول مجھے سکھائیں") اور اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرنا، حق کی جستجو میں سچائی اور انکساری کی عمدہ مثال ہے۔ قرآن میں فرمایا: *"فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ"* (النحل:43، الانبیاء:7) - "پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لیا کرو۔"
* *عقلی پہلو:* علم حاصل کرنے کا پہلا قدم اپنی جہالت کا اعتراف اور سیکھنے کی لگن ہے۔ ضد اور تکبر انسان کو حق سے دور کرتے ہیں۔ حضرت معاویہ کا انداز بتاتا ہے کہ حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور سوال کرنے میں کوئی عار نہیں۔
* *تشریح:* یہ واقعہ ہمیں تعصب چھوڑ کر علم اور ہدایت کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
2. *اسلام کا جامع تصور اور اس کے ارکان (بنیادی نشانیاں):*
* *نقلی پہلو:* نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی بنیادوں کو واضح طور پر بیان فرمایا:
* *کلمہ شہادت (عقیدہ):* *"تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله، وَأَنَّ محمدا رسوله"* - یہ ایمان کی بنیاد ہے۔ قرآن میں فرمایا: *"فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ"* (محمد:19)۔
* *نماز (عبادت):* *"وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ"* - نماز دین کا ستون ہے۔ قرآن میں بار بار نماز قائم کرنے کا حکم ہے، جیسے: *"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ"* (البقرہ:43)۔
* *زکٰوۃ (معاشرتی فلاح):* *"وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ"* - یہ مال کی پاکی اور غریبوں کا حق ہے۔ قرآن میں فرمایا: *"وَآتُوا الزَّكَاةَ"* (البقرہ:43)۔
* *شرک سے اجتناب (توحید کی حفاظت):* *"وَتُفَارِقُ الشِّرْكَ"* - شرک ناقابل معافی گناہ ہے۔ قرآن میں فرمایا: *"إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ"* (النساء:48)۔
* *عقلی پہلو:* یہ چاروں ارکان انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں (عقیدہ، عبادت، معاشرتی ذمہ داری، اور خالص توحید) کو مکمل طور پر احاطہ کرتے ہیں۔ عقیدہ دل کی غذا، نماز روح کی تربیت، زکٰوۃ معاشرتی انصاف، اور شرک سے اجتناب توحید کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ ایک متوازن اور فطری نظام حیات ہے۔
* *تشریح:* یہ اسلام کی مختصر ترین اور جامع ترین تعریف ہے، جو اسے دیگر نظام ہائے حیات سے ممتاز کرتی ہے۔
3. *مسلمانوں کے باہمی تعلقات: اخوت، حرمت اور نصرت:*
* *نقلی پہلو:* *"وَأَنَّ كُلَّ مُسْلِمٍ عَنْ مُسْلِمٍ مُحَرَّمٌ، أَخَوَانِ نَصِيرَانِ"* - (ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے حرمت والا (محترم) ہے، (وہ) دو بھائی ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔)
* قرآن میں فرمایا: *"إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ"* (الحجرات:10) - "بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔"
* نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: *"المُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ"* (بخاری، مسلم) - "مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے (دشمن کے حوالے) کرتا ہے۔"
* *عقلی پہلو:* یہ تصور قبیلہ، نسل، رنگ اور علاقے سے بالاتر ہو کر تمام مسلمانوں کو ایک عالمگیر برادری (امت) میں پرو دیتا ہے۔ باہمی احترام (حرمت)، بھائی چارہ (اخوت) اور مدد (نصرت) کا یہ رشتہ معاشرے میں امن، تعاون اور مضبوطی پیدا کرتا ہے، جو کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔
* *تشریح:* یہ اسلامی معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ ہے جو نسلی تعصبات کو ختم کرکے اخوت کی بنیاد پر رشتے قائم کرتا ہے۔
4. *ارتداد کی سنگینی اور عمل کی قبولیت کی شرط (ایمان):*
* *نقلی پہلو:* *"لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْ مُشْرِكٍ أَشْرَكَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ عَمَلًا"* - (اللہ تعالیٰ کسی مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا جس نے اسلام لانے کے بعد شرک کیا ہو۔)
* قرآن میں ارتداد پر وعید: *"وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"* (البقرہ:217) - "اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے پھر وہ مر جائے درآنحالیکہ کافر ہو، تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہو گئے۔"
* ایمان کے بغیر عمل کی بے حاصلی: *"وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا"* (الفرقان:23) - "اور ہم اس کی طرف بڑھیں گے جو کچھ انہوں نے عمل کیا ہو گا، پس ہم اسے اڑتی ہوئی خاک بنا دیں گے۔"
* *عقلی پہلو:* ایمان عمل کی قبولیت کی بنیادی شرط ہے۔ جو شخص اسلام قبول کرنے کے بعد پھر شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے، وہ اپنے پہلے تمام اعمال کو باطل کر دیتا ہے، کیونکہ اس کا بنیادی عقیدہ ہی فاسد ہو گیا۔ یہ عقیدے کی اہمیت اور اس کی حفاظت کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
* *تشریح:* یہ ارتداد کی شدید مذمت اور ایمان و توحید کی حفاظت کی تاکید ہے۔
5. *رسالت کا فریضہِ تبلیغ اور امت کی ذمہ داری (تبلیغِ دین):*
* *نقلی پہلو:* *"إِنَّ رَبِّي دَاعِيَّ وَسَائِلِي: هَلْ بَلَّغْتُ عِبَادَهُ، فَلْيُبَلِّغْ شَاهِدُكُمْ غَائِبَكُمْ"* - (بے شک میرا رب مجھے بلائے گا اور مجھ سے پوچھے گا: کیا تو نے میرے بندوں تک (میرا پیغام) پہنچا دیا؟ پس تم میں سے جو موجود ہو وہ جو غائب ہو اس تک (یہ پیغام) پہنچا دے۔)
* قرآن میں تبلیغ کا حکم: *"يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ"* (المائدہ:67)۔
* امت کی ذمہ داری: *"وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ"* (آل عمران:104) - "اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے۔"
* *عقلی پہلو:* یہ بات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاص اور آپ پر عائد ذمہ داری کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ امت مسلمہ کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ دین کا علم پہنچانا صرف انبیاء کا ہی نہیں، بلکہ ہر مسلمان کا فرض ہے، خاص طور پر موجودہ لوگوں کا فرض ہے کہ وہ غیر حاضر لوگوں (اگلی نسلوں، دور دراز علاقوں) تک یہ علم پہنچائیں۔ علم کی نشرو اشاعت معاشرے کی ترقی اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔
* *تشریح:* یہ حدیث تبلیغ دین کی اہمیت اور اس کی ذمہ داری ہر دور کے مسلمانوں پر عائد ہونے کی واضح دلیل ہے۔
6. *قیامت کے مناظر اور حساب کی سختی:*
* *نقلی پہلو:*
* *"وَإِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ مُفَدَّمٌ عَلَى أَفْوَاهِكُمْ بِالْفِدَامِ"*: قیامت میں لوگوں کو ذلت کے ساتھ بلایا جائے گا، منہ پر پٹی (فدام) بندھی ہوئی ہوگی، جو اس دن کی ہولناکی اور رسوائی کی علامت ہے۔ قرآن میں فرمایا: *"يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا"* (الطور:13) - "جس دن وہ جہنم کی آگ کی طرف دھکیلے جائیں گے دھکیل کر۔"
* *"فَأَوَّلُ مَا يُنْبِئُ عَنِ أَحَدِكُمْ فَخِذُهُ وَكَفُّهُ"*: سب سے پہلے انسان کے اپنے اعضاء (ران، ہاتھ) اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ قرآن میں فرمایا: *"يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ"* (النور:24) - "جس دن ان کی اپنی زبانیں، اپنے ہاتھ اور اپنے پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے جو کچھ وہ کرتے تھے۔"
* *"وَإِنَّكُمْ تُحْشَرُونَ عَلَى وُجُوهِكُمْ وَعَلَى أَقْدَامِكُمْ وَرُكْبَانًا"*: لوگوں کو مختلف حالتوں میں (منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے، پیروں کے بل چلتے ہوئے، سوار ہو کر) اٹھایا جائے گا، جو ان کے اعمال کے درجات کی علامت ہے۔ قرآن میں فرمایا: *"وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا"* (الاسراء:97) - "اور ہم انہیں قیامت کے دن منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے اندھے، گونگے، بہرے (حالت میں) اٹھائیں گے۔"
* *عقلی پہلو:* یہ تصورات انسان کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اعمال کا محاسبہ خود کرے۔ یہ خوفِ الٰہی اور آخرت کی جوابدہی کا احساس پیدا کرتا ہے، جو انسان کو گناہوں سے باز رکھنے اور نیکی کی ترغیب دینے کا ایک مؤثر عقلی ذریعہ ہے۔
* *تشریح:* یہ قیامت کی ہولناکیوں کی ایک جھلک ہے جو ایمان بالآخرت کو مضبوط کرتی ہے اور عمل صالح پر ابھارتی ہے۔
7. *دین کی آسانی، نیکی کی وسعت اور کفایت:*
* *نقلی پہلو:* *"نَعَمْ، وَأَيْنَمَا تُحْسِنْ يَكْفِكَ"* - (ہاں (یہی تمہارا دین ہے)، اور جہاں کہیں بھی تم نیکی کرو گے وہ تمہارے لیے کافی ہو گی۔)
* قرآن میں دین کی آسانی: *"يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ"* (البقرہ:185) - "اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے، تمہارے ساتھ دشواری نہیں چاہتا۔"
* نیکی کا عام تصور: *"فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ"* (الزلزال:7) - "پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔"
* *عقلی پہلو:* اسلام کا دائرہ کار وسیع ہے۔ ہر جگہ، ہر حال میں کی گئی ہر قسم کی نیکی (چھوٹی ہو یا بڑی، عبادت ہو یا معاملات) انسان کے لیے نفع بخش اور کافی ہے۔ یہ تصور انسان کو مایوسی سے بچاتا اور ہر حال میں نیکی کی ترغیب دیتا ہے۔
* *تشریح:* یہ جملہ اسلام کے آسان، فطری اور ہمہ گیر ہونے کی دلیل ہے۔ نیکی صرف مسجد یا مخصوص عبادات تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر مقام پر پھیلی ہوئی ہے۔
*خلاصہ کلام:*
یہ حدیث مبارکہ درج ذیل اہم اسلامی تعلیمات کی جامع تشریح پیش کرتی ہے:
1. *حق طلبی اور انکساری:* علم حاصل کرنے کا صحیح ادب اور راستہ۔
2. *اسلام کے بنیادی ارکان:* کلمہ شہادت، نماز، زکٰوۃ اور شرک سے اجتناب۔
3. *مسلمانوں کے باہمی حقوق:* اخوت، حرمت اور نصرت کا عالمگیر رشتہ۔
4. *ارتداد کی مذمت:* ایمان کے بعد شرک کرنے والے کے اعمال کی بربادی۔
5. *تبلیغِ دین کی ذمہ داری:* رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ اور امت کی ذمہ داری (شاہد کا غائب تک پہنچانا)۔
6. *قیامت کے ہولناک مناظر:* ذلت کے ساتھ بلائے جانا، اعضاء کی گواہی، مختلف حالتوں میں حشر۔
7. *دین کی آسانی اور نیکی کی وسعت:* ہر جگہ کی گئی نیکی انسان کے لیے نفع بخش اور کافی ہے۔
یہ حدیث اسلام کو ایک مکمل اور متوازن نظام حیات کے طور پر پیش کرتی ہے، جو عقیدہ، عبادت، معاشرت، آخرت کے عقیدے اور تبلیغ کی ذمہ داری کو یکجا کرتا ہے۔ یہ انسان کو اپنے رب، اپنے نبی، اپنے بھائی مسلمانوں اور اپنے اعمال کے بارے میں بیدار کرتی ہے۔
حدیث(3)
مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ الله بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ؛ أَنَّهُ قَالَ: بَيْنَمَا رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم جَالِسٌ بَيْنَ ظَهْرَيْ النَّاسِ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَسَارَّهُ. فَلَمْ يُدْرَ مَا سَارَّهُ بِهِ، حَتَّى جَهَرَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم. فَإِذَا هُوَ يَسْتَأْذِنُهُ فِي قَتْلِ رَجُلٍ مِنَ الْمُنَافِقِينَ.
فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ، حِينَ جَهَرَ: «أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنَّ لاَإِلَهَ إِلاَّ الله، وَأَنَّ محمدا رَسُولُ الله،؟»
فقال الرَّجُلُ: بَلَى. وَلاَ شَهَادَةَ لَهُ.
فَقَالَ رَسُولُ الله: «أَلَيْسَ يُصَلِّي»؟
قَالَ: بَلَى. وَلاَ صَلاَةَ لَهُ.
فَقَالَ : «أُولَئِكَ الَّذِينَ نَهَانِي اللهُ عَنْهُمْ ».
ترجمہ:
مالک، ابن شہاب، عطاء بن یزید لیثی، عبیداللہ بن عدی بن الخیار سے روایت کرتے ہیں کہ:
ایک دن رسول اللہ ﷺ لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک شخص (عتبان بن مالک الانصاری) آپ کے پاس آیا اور سرگوشی کی۔ لوگوں کو پتہ نہ چلا کہ اس نے کیا کہا، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے بلند آواز میں فرمایا۔ معلوم ہوا کہ وہ ایک منافق (مالک بن الدخیشم) کے قتل کی اجازت مانگ رہا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"کیا وہ اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں؟"
اس شخص نے کہا: "جی ہاں (وہ کہتا تو ہے)، لیکن اس کی گواہی (دل سے نہیں)۔"
رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: "کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟"
اس نے جواب دیا: "پڑھتا ہے، لیکن اس کی نماز (ریاکاری ہے)۔"
تب آپ ﷺ نے فرمایا: "یہی وہ لوگ ہیں جن کے قتل سے اللہ نے مجھے منع فرمایا ہے۔"
[مؤطا مالك-الأعظمي:592/ 182، مؤطا مالك-الباقي:84، مؤطا مالك-الزهري:569]
---
تشریح:
1. منافق کی تعریف اور شرعی حیثیت:
- نقلی پہلو:
- قرآن میں منافقوں کی واضح علامات بیان کی گئی ہیں: "وَاِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی" (النساء: 142)۔ یعنی وہ نماز میں سستی دکھاتے ہیں۔
- حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: "منافق کی علامت یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولے، وعدہ خلافی کرے اور امانت میں خیانت کرے" (بخاری: 33)۔ اس حدیث میں مذکور منافق ظاہری طور پر نماز پڑھتا اور کلمہ پڑھتا تھا، لیکن اس کا ایمان حقیقی نہ تھا۔
- عقلی پہلو:
- معاشرتی امن کے لیے ضروری ہے کہ ظاہری شہادتوں (جیسے کلمہ و نماز) کو بنیاد بنایا جائے، کیونکہ باطن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اگر ہر شخص کو اپنے شک کی بنیاد پر قتل کرنے کی اجازت دے دی جائے تو معاشرے میں فساد پھیل جائے گا۔
2. ظاہری اعمال کی حرمت کا اصول:
- نقلی پہلو:
- آپ ﷺ نے دو بنیادی شرائط پر زور دیا: "شہادتین کا اقرار" اور "نماز کی ادائیگی"۔ یہ دونوں شرائط اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام میں ظاہری عمل کو ترجیح دی جاتی ہے۔
- قرآن میں ارشاد ہے: "فَاِنۡ تَابُوۡا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ" (التوبہ: 5)۔ یعنی اگر توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکٰوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو۔
- عقلی پہلو:
- کسی کے باطن کا فیصلہ کرنا انسانی عقل کے دائرے سے باہر ہے۔ اس لیے شریعت نے ظاہری اعمال کو معیار بنایا تاکہ انصاف کا نظام قائم رہے۔ امام زرقانی (شرح الموطأ) کے مطابق: "رسول اللہ ﷺ نے اسے اس لیے روکا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ آپ اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کراتے ہیں"۔
3. قتل کی ممانعت کی حکمتیں:
- نقلی پہلو:
- حدیث کے الفاظ: "أُولَئِكَ الَّذِينَ نَهَانِي اللهُ عَنْهُمْ" سے واضح ہے کہ اللہ نے ان کے قتل سے منع فرمایا ہے۔
- امام مالک کے شاگرد محمد بن حسن کا قول: "یہ حدیث اہل بدعت کے قتل کے حوالے سے سحنون کے موقف کی تردید کرتی ہے" ۔
- عقلی پہلو:
- نفاق کا علاج قتل نہیں بلکہ تعلیم و تربیت ہے۔ اگر منافق کو زندہ رہنے دیا جائے تو ممکن ہے وہ ہدایت پا جائے، جبکہ قتل اس موقع کو سلب کر لیتا ہے۔
- سماجی مصلحت: منافق اگر ظاہراً اسلامی رسوم ادا کر رہا ہے تو اسے قتل کرنے سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلے گا۔
4. حدیث سے اخذ شدہ فقہی احکام:
- نقلی پہلو:
- امام شافعی اس حدیث کو استدلال کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ جو شخص کلمہ پڑھے اور نماز ادا کرے، اس کا خون حرام ہے (الام للشافعی)۔
- امام ابو حنیفہ کے نزدیک: ظاہری اسلام کو ترجیح دی جاتی ہے، چاہے باطن میں کچھ بھی ہو (بدائع الصنائع)۔
- عقلی پہلو:
- فقہی قاعدہ: "الحُكْمُ عَلَى الظَّاهِرِ وَاللَّهُ يَتَوَلَّى السَّرَائِرَ" (فیصلہ ظاہر پر ہوتا ہے، باطن کا علم اللہ کے پاس ہے)۔ اس کی خلاف ورزی انفرادی تشدد کو جنم دے سکتی ہے۔
5. دورِ حاضر کے لیے پیغام:
- نفاق کا جدید تصور: آج کل منافقت کا مظاہرہ ریاستی سطح پر (جاسوسی)، معاشی (کرپشن) یا سماجی (منافقت) شکل میں ہوتا ہے۔ حدیث ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ ایسے لوگوں کا علاج قتل یا تشدد نہیں، بلکہ ان کی اصلاح کے مواقع فراہم کرنا ہے۔
- اقلیتوں کے حقوق: جو لوگ ظاہراً اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہیں، انہیں تحفظ دیا جائے، چاہے ان کے عقائد میں کمزوری کیوں نہ ہو۔
6. مناقشہ اور اعتراضات کا جواب:
- اعتراض: "کیا منافق کو سزا نہیں ملنی چاہیے؟"
- جواب: منافق اگر مسلمانوں کے خلاف جنگ یا تخریب کاری میں ملوث ہو تو اسے سزا دی جا سکتی ہے (جیسے بنو قریظہ کے ساتھی)۔ لیکن صرف نفاق کی بناء پر قتل جائز نہیں۔
- اعتراض: "نماز پڑھنے والا منافق کون ہوتا ہے؟"
- جواب: وہ شخص جو دل سے ایمان نہ رکھتا ہو لیکن خوف، مفاد یا ریاکاری کی وجہ سے نماز پڑھے۔ ایسے شخص کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ کرے گا۔
خلاصہ اور سبق:
1. ظاہر کو معیار بنانا: اسلام میں کلمہ و نماز جیسے ظاہری اعمال کو ترجیح دی گئی ہے، کیونکہ باطن کا علم اللہ ہی رکھتا ہے۔
2. انسانی جان کی حرمت: منافق ہونے کے صرف شک میں کسی کو قتل کرنا حرام ہے، جب تک وہ کھلم کھلا جنگ یا فساد میں ملوث نہ ہو۔
3. معاشرتی حکمت: نفاق کا علاج تشدد نہیں، بلکہ تعلیم و تبلیغ ہے۔
4. دورِ جدید کی تطبیق: ریاستی نظام میں ہر اس شخص کو تحفظ حاصل ہو جو ظاہراً اسلام کے اصولوں پر عمل کرتا ہو۔
"یہ حدیث اسلامی معاشرے میں رواداری، عدل اور انسانی جان کی حرمت کا سنگِ میل ہے۔" — امام زرقانی (شرح الموطأ)
حدیث(4)
مَالِكٌ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ الله بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ؛ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم بِجَارِيَةٍ لَهُ سَوْدَاءَ. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ عَلَيَّ رَقَبَةً مُؤْمِنَةً. فَإِنْ كُنْتَ تَرَاهَا مُؤْمِنَةً أَعْتَقْتُهَا.
فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «أَتَشْهَدِينَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله؟».
فقالت: نَعَمْ.
قَالَ: «أَفَتَشْهَدِينَ أَنَّ محمدا رَسُولُ الله؟». -
قَالَتْ: نَعَمْ.
قَالَ: «أَتُوقِنِينَ بِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ؟».
قَالَتْ: نَعَمْ.
قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «أَعْتِقْهَا».
_________
ترجمہ:
مالک، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں۔
ایک انصاری شخص اپنی سیاہ فام لونڈی کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: "یا رسول اللہ! مجھ پر ایک مومن غلام آزاد کرنا واجب ہے۔ اگر آپ اس لونڈی کو مومنہ سمجھیں تو میں اسے آزاد کر دوں۔"
آپ ﷺ نے لونڈی سے پوچھا: "کیا تو اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟"
لونڈی نے کہا: "جی ہاں۔"
آپ ﷺ نے پوچھا: "کیا تو اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں؟"
لونڈی نے کہا: "جی ہاں۔"
آپ ﷺ نے پوچھا: "کیا تو موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین رکھتی ہے؟"
لونڈی نے کہا: "جی ہاں۔"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اسے آزاد کر دو۔"
حوالہ
[مؤطا مالك-الأعظمي:2876/ 616 ، مؤطا مالك-الباقي:84، مؤطا مالك-الزهري:569]
---
تشریح:
1. ایمان کے بنیادی ارکان کی تصدیق:
- نقلی پہلو:
- حدیث میں ایمان کے تین بنیادی ارکان بیان ہوئے: توحید (لا إله إلا الله)، رسالت (محمدٌ رسول الله)، اور آخرت (البعث بعد الموت)۔
- قرآن میں ان ارکان کی توثیق:
- توحید: "شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ" (آل عمران: 18)۔
- رسالت: "مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ" (الفتح: 29)۔
- آخرت: "وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا" (الحج: 7)۔
- نبی ﷺ کا فرمان: "الإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر" (صحیح بخاری: 50)۔
- عقلی پہلو:
- یہ تینوں ارکان عقلی استدلال کی بنیاد پر قائم ہیں: توحید کائنات کے نظم سے ثابت ہوتی ہے، رسالت تاریخی شواہد سے جڑی ہے، اور آخرت انصاف کے فطری تقاضے کو پورا کرتی ہے۔
- لونڈی کا واضح جواب ظاہر کرتا ہے کہ ایمان کا انحصار رنگ، نسل یا سماجی حیثیت پر نہیں، بلکہ قلبی یقین اور اقرار پر ہے۔
2. غلامی سے آزادی کا شرعی معیار:
- نقلی پہلو:
- حدیث میں "رقبة مؤمنة" (مومن غلام/لونڈی) کی اصطلاح قرآن کے حکم "فَكُّ رَقَبَةٍ" (البلد: 13) کی عملی تفسیر ہے۔
- امام شافعی کے مطابق: ایمان کی شرط غلامی سے آزادی کے واجب ہونے کی بنیاد ہے (الأم للشافعی، ج 3، ص 291)۔
- عقلی پہلو:
- غلامی ایک سماجی لعنت تھی، جسے اسلام نے مرحلہ وار ختم کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ ایمان کو آزادی کی شرط بنانا درحقیقت "انسانی وقار" اور "روحانی مساوات" کا اعلان تھا ۔
3. عقل و فہم کی شرط کا عدم ذکر:
- نقلی پہلو:
- نبی ﷺ نے لونڈی سے علم یا تفصیلی عقائد نہیں پوچھے، بلکہ بنیادی ایمانیات پر اکتفا کیا۔ یہ اس اصول کی دلیل ہے کہ "أَيسرُ الإيمان" (ایمان کی سب سے آسان شکل) قابل قبول ہے۔
- حدیث: "الإيمان بضع وسبعون شعبة، أعلاها قول لا إله إلا الله" (صحیح مسلم: 35)۔
- عقلی پہلو:
- اگر ایمان کے لیے علم کی شرط لگائی جاتی تو کم تعلیم یافتہ افراد محروم رہ جاتے۔ اسلام نے ایمان کو "فطری اور قابل رسائی" بنایا تاکہ ہر سطح کا فرد اسے اپنا سکے ۔
4. نسلی و سماجی امتیاز کی نفی:
- نقلی پہلو:
- لونڈی کا سیاہ فام ہونا اور غلام ہونا اس حدیث کا مرکزی نقطہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے ایمان کو قبول کر کے یہ پیغام دیا کہ "لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ إِلَّا بِالتَّقْوَى" (احمد:23489)۔
- قرآن: "إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ" (الحجرات: 13)۔
- عقلی پہلو:
- 7ویں صدی کے عرب میں غلاموں کو حقیر سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے انہیں "انسانی حقوق" دیے اور ثابت کیا کہ معاشرتی مرتبہ ایمان و تقویٰ سے طے ہوتا ہے، نہ کہ پیدائش سے ۔
5. آخرت پر یقین کی اہمیت:
- نقلی پہلو:
- نبی ﷺ نے تیسرا سوال "أَتُوقِنِينَ بِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ؟" پوچھا، جو ایمان کے تکمیلی رکن کی نشاندہی کرتا ہے۔
- قرآن میں 1,500 سے زائد آیات آخرت کے احوال بیان کرتی ہیں، جیسے: "ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ" (المؤمنون: 15-16)۔
- عقلی پہلو:
- آخرت کا یقین انسان کو "ذمہ دارانہ زندگی" گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔ موت کے بعد جواب دہی کا تصور معاشرے میں اخلاقیات کو برقرار رکھنے کا عقلی ذریعہ ہے ۔
6. عمل کی بجائے نیت کی اہمیت:
- نقلی پہلو:
- انصاری شخص نے لونڈی کو آزاد کرنے کی شرط "إِنْ كُنْتَ تَرَاهَا مُؤْمِنَةً" لگائی، جسے نبی ﷺ نے اس کے اقرار پر قبول کر لیا۔ یہ "الحكم على الظاهر" (ظاہر پر فیصلہ) کے اصول کی عملی مثال ہے۔
- حدیث: "إنما الأعمال بالنيات" (صحیح بخاری: 1) ۔
- عقلی پہلو:
- باطن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے، اس لیے شریعت ظاہری شہادت کو معیار بناتی ہے۔ یہ سماجی انصاف کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی شخص محض شک کی بنیاد پر سزا یا محرومی کا شکار نہ ہو۔
---
خلاصہ اور دورِ حاضر کے لیے رہنما اصول:
1. انسانی مساوات: ایمان کی بنیاد پر تمام انسان برابر ہیں۔ رنگ، نسل یا سماجی حیثیت امتیاز کی بنیاد نہیں ۔
2. ایمان کی رسائی: ایمان کے لیے کم از کم شرائط (شہادتین + آخرت پر یقین) ہر فرد کے لیے قابل حصول ہیں۔
3. آزادی کا مقصد: غلامی سے آزادی کو عبادت سے جوڑ کر اسلام نے "انسانی وقار" کو مرکزیت دی۔
4. ظاہر پر فیصلہ: نفاذِ شریعت میں باطنی شکوک کی بجائے ظاہری شہادت معیار ہے۔
5. عقلی مطابقت: ایمان کے ارکان فطری عقل کے مطابق ہیں، جسے قرآن بار بار "أَفَلَا تَعْقِلُونَ" کہہ کر ابھارتا ہے ۔
"یہ حدیث اسلام کے انقلابی پیغام کی عملی تفسیر ہے: ایمان انسان کو غلامی سے آزاد کرتا ہے، اور سیاہ فام لونڈی کا درجہ شہادتِ حق سے بلند ہو جاتا ہے۔" — امام زرقانی (شرح الموطأ)
حدیث(5):
أَخْبَرَكُمْ أَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَوَيْهِ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ: فَحَدَّثَنَاهُ الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رِفَاعَةَ الْجُهَنِيِّ - وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُبَارَكِ - قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْكَدِيدِ - أَوْ قَالَ: بِقَدِيدٍ - جَعَلَ رِجَالٌ مِنَّا يَسْتَأْذِنُونَ عَلَى أَهْلِيهِمْ فَيُأْذَنُ لَهُمْ، وَحَمِدَ اللَّهَ - وَقَالَ ابْنُ صَاعِدٍ فِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ: وَأَثْنَى عَلَيْهِ - وَقَالَ خَيْرًا، وَقَالَ: §«أَشْهَدُ عِنْدَ اللَّهِ لَا يَمُوتُ عَبْدٌ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ محمدا رَسُولُ اللَّهِ صَادِقًا مِنْ قَلْبِهِ، ثُمَّ سَدَّدَ، إِلَّا سُلِكَ بِهِ فِي الْجَنَّةِ، وَقَدْ وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ، وَلَا عَذَابَ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَدْخُلُوهَا حَتَّى تَبَوَّءُوا أَنْتُمْ، وَمَنْ صَلَحَ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ، وَذُرِّيَّاتِكُمْ مَسَاكِنَ فِي الْجَنَّةِ»
ترجمہ:
(سند:) ابو عمر بن حیویہ ← یحییٰ ← حسین بن الحسن، یعقوب بن ابراہیم، زیاد بن ایوب ← اسماعیل بن ابراہیم ← ہشام دستوائی ← یحییٰ بن ابی کثیر ← ہلال بن ابی میمونہ ← عطاء بن یسار ← رفاعہ الجہنی۔
(متن)
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر میں) چل رہے تھے۔ جب ہم "الکدید" (یا "قدید") نامی مقام پر پہنچے، تو کچھ اصحاب نے اپنے گھر والوں سے ملن کی اجازت چاہی۔ آپ نے انہیں اجازت دی، پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا:
"میں اللہ کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ جو بندہ دل کی گہرائیوں سے سچے ایمان کے ساتھ 'لا إله إلا الله' اور 'محمدٌ رسول الله' کی گواہی دیتا ہوا مرے گا، اسے ضرور جنت کی راہ دکھائی جائے گی۔ میرے رب نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب و عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ تم، تمہاری نیک بیویاں اور اولادیں جنت میں اپنے گھروں کو آباد کرنے تک وہ (ستر ہزار) جنت میں داخل نہ ہوں گے۔"
[الزهد والرقائق لإبن المبارك: حدیث نمبر 919]
---
تشریح:
1. توحید و رسالت پر ایمان کی شرطِ نجات:
- نقلی پہلو:
- حدیث میں "يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ محمدا رَسُولُ اللَّهِ صَادِقًا مِنْ قَلْبِهِ" (دل سے سچا ایمان) نجات کی بنیادی شرط ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے: "وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ" (لقمان: 22)۔
- رسول اللہ ﷺ کا فرمان: "مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ" (صحیح مسلم: 26) ۔
- عقلی پہلو:
- دل کا سچا ایمان انسان کو نفاق، ریاکاری اور گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ داخلی پاکیزگی کا معیار ہے جس کے بغیر ظاہری اعمال بے اثر ہیں۔
2. بلا حساب جنت میں داخلے کا وعدہ:
- نقلی پہلو:
- "سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ" کی تفصیل احادیث میں ملتی ہے۔ صحیح بخاری (حدیث: 5705) میں یہ گروہ "الذین لا یسترقون ولا یکتوون ولا یتطیرون، وعلى ربهم یتوکلون" (جنہیں جھاڑ پھونک نہیں کراتے، نہ داغ لگواتے، نہ بدشگونی لیتے، اور صرف اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں) کے طور پر بیان ہوا ہے۔
- قرآن میں بھی بغیر حساب جزا کا ذکر: "فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ" (غافر: 40)۔
- عقلی پہلو:
- یہ وعدہ انسانی نفسیات کو "امید اور عمل کی ترغیب" دیتا ہے۔ حساب سے آزادی کا تصور اعلیٰ درجے کی روحانی پاکیزگی کی علامت ہے، جو توحید پر کامل یقین سے پیدا ہوتی ہے۔
3. خاندان کی نیکی پر شفاعت کی امید:
- نقلی پہلو:
- "وَمَنْ صَلَحَ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ، وَذُرِّيَّاتِكُمْ" کا ذکر اس اصول کی طرف اشارہ ہے کہ نیک لوگ اپنے اہل خانہ کی شفاعت کر سکیں گے۔ قرآن میں فرمایا: "وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ" (الطور: 21)۔
- حدیث: "إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: صَدَقَةٌ جَارِيَةٌ، أَوْ عِلْمٌ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٌ صَالِحٌ" (صحیح مسلم: 1631)۔
- عقلی پہلو:
- خاندانی رشتوں کی نیکی سے وابستگی معاشرے میں "اخلاقی ذمہ داری" کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ اولاد کی تربیت اور بیوی کے ساتھ نیک سلوک آخرت میں اجتماعی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
4. حدیث کی شرعی حیثیت اور اس کا مقام:
- نقلی پہلو:
- قرآن حدیث کو "حکمت" قرار دیتا ہے: "وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ" (النساء: 113)۔ فقہا کے نزدیک یہ شریعت کا دوسرا بنیادی ماخذ ہے ۔
- ارشادِ الٰہی: "وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ" (النجم: 3-4) ۔
- عقلی پہلو:
- حدیث قرآن کی عملی تفسیر ہے۔ مثلاً اس حدیث میں "دل سے سچا ایمان" کی شرط قرآن کے "إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ" (الشعراء: 89) کی توضیح کرتی ہے۔
5. دورِ حاضر کے لیے رہنما اصول:
- ایمان کی تجدید: ہر مسلمان کو روزانہ کلمہ شہادت کو "صادقاً من قلبه" (دل کی گہرائیوں سے) دہرانا چاہیے۔
- خاندانی تربیت: اولاد اور اہل خانہ کو توحید و سنت پر پرورش دینا آخرت میں نجات کا سبب بن سکتا ہے۔
- معاشرتی امید: "ستر ہزار" کا عدد امت کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اللہ کی رحمت انسانوں کے گناہوں سے کہیں وسیع تر ہے۔
خلاصہ اور سبق:
1. ایمانِ خالص: نجات کے لیے ظاہری اقرار کے ساتھ دل کا سچا یقین ضروری ہے۔
2. بشارتِ رحمت: بغیر حساب جنت میں داخلہ اللہ کے خاص فضل کی علامت ہے، جس کا حصول توکل اور توحید سے وابستگی پر منحصر ہے۔
3. خاندانی ذمہ داری: نیک اولاد اور اہل خانہ کی تربیت آخرت میں شفاعت کا ذریعہ بنتی ہے۔
4. حدیث کا مرتبہ: یہ وحی الٰہی ہے اور قرآن ہی کی عملی تشریح۔
"یہ حدیث مومن کے دل میں امید کی شمع روشن کرتی ہے کہ اللہ کا فضل اس کے گناہوں پر غالب آسکتا ہے، بشرطیکہ وہ ایمان کو سچائی سے تھام لے۔" — ابن المبارک (الزہد والرقائق)۔
حدیث(6)
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ عَرَابَةَ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْكَدِيدِ أَوْ قَالَ: بِقُدَيْدٍ جَعَلَ رِجَالٌ مِنَّا يَسْتَأْذِنُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ فَيَأْذَنُ لَهُمْ فَحَمِدَ اللَّهَ وَقَالَ خَيْرًا ثُمَّ قَالَ: «مَا بَالُ شِقِّ الشَّجَرَةِ الَّتِي تَلِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْغَضَ إِلَيْكُمْ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ» فَلَمْ تَرَ عِنْدَ ذَلِكَ مِنَ الْقَوْمِ إِلَّا بَاكِيًا فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ الله، إِنَّ الَّذِيَ يَسْتَأْذِنُكَ بَعْدَ هَذَا لَسَفِيهٌ قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ وَقَالَ خَيْرًا وَقَالَ: «أَشْهَدُ عِنْدَ اللَّهِ لَا يَمُوتُ عَبْدٌ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ محمدا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ ثُمَّ يُسَدِّدُ إِلَّا سَلَكَ فِي الْجَنَّةِ» وَقَالَ: «وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَدْخُلُوهَا حَتَّى تَبَوَّءُوا أَنْتُمْ وَمَنْ صَلُحَ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَذَرَارِيِّكُمْ مَسَاكِنَ فِي الْجَنَّةِ»
ترجمہ:
(سند:) یونس ← ابو داؤد ← ہشام دستوائی ← یحییٰ بن ابی کثیر ← ہلال بن ابی میمونہ ← عطاء بن یسار ← رفاعہ بن عرابہ الجہنی۔
(متن:)
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ جب ہم "الکدید" یا "قدید" نامی مقام پر پہنچے، تو کچھ اصحاب نے اپنے گھر والوں سے ملن کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے اجازت دی، پھر اللہ کی حمد بیان کی اور فرمایا:
> "اس درخت کے اُس حصے کا کیا حال ہے جو میرے قریب ہے؟ تم کیوں اُسے دوسرے حصے سے زیادہ ناپسند کرتے ہو؟"
یہ سن کر سب صحابہ رونے لگے۔ ایک شخص بولا: "یا رسول اللہ! اب آپ سے اجازت مانگنے والا کوئی بے وقوف ہی ہوگا۔"
آپ ﷺ نے پھر اللہ کی حمد کی اور فرمایا:
> "میں اللہ کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ جو بندہ دل کی گہرائیوں سے سچے ایمان کے ساتھ 'لا إله إلا الله' اور 'محمدٌ رسول الله' کی گواہی دے، پھر راستے پر قائم رہے، وہ یقیناً جنت میں داخل ہوگا۔ میرے رب نے مجھے وعدہ دیا کہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب و عذاب جنت میں جائیں گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ تم، تمہاری نیک بیویاں اور اولادیں جنت میں اپنے گھر آباد کرنے تک وہ (ستر ہزار) داخل نہ ہوں گے۔"
[مسند ابي داؤد الطيالسي: حدیث نمبر 1387]
---
تشریح:
1. سند کی تحقیق اور حدیث کی حیثیت:
- سند کا تجزیہ:
- تمام راوی ثقہ اور معتبر ہیں، جن میں ہشام دستوائی (امام بخاری کے استاد) اور یحییٰ بن ابی کثیر (صحاح ستہ کے راوی) شامل ہیں ۔
- رفاعہ الجہنی صحابی ہیں، جس سے حدیث کی سند قوی ہے۔
- شرعی حیثیت:
- قرآن میں ارشاد: "وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ" (النجم: 3-4) — "نبی اپنی خواہش سے نہیں بولتے، یہ تو وحی ہوتی ہے"۔
- اس حدیث کا مرکزی پیغام (سچے ایمان والوں کی جنت میں داخلگی) قرآن کی آیات "وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا" (البقرہ: 25) اور "إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" (البینہ: 7) کی تائید کرتا ہے۔
2. سچے ایمان کی شرائط اور اس کی علامتیں:
- نقلی پہلو:
- "يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ... صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ": دل کی گہرائیوں سے سچا اقرار۔
- قرآن: "إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ" (الشعراء: 89) — "صرف وہی نجات پائے گا جو اللہ کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے"۔
- "ثُمَّ يُسَدِّدُ": راستے پر استقامت۔
- حدیث: "قُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ" (صحیح مسلم) — "کہو: میں اللہ پر ایمان لایا، پھر سیدھے رہو"۔
- عقلی پہلو:
- سچا ایمان انسان کو ریاکاری، نفاق اور اخلاقی بے راہ روی سے بچاتا ہے۔ استقامت معاشرے میں اتحاد اور ذمہ داری کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔
3. *بلا حساب جنت میں داخلے کا وعدہ:*
- نقلی پہلو:
- "سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ": یہ گروہ "الذین لا یسترقون ولا یکتوون..." (صحیح بخاری: 5705) کے مطابق وہ ہیں جو جھاڑ پھونک، بدشگونی اور داغ لگوانے سے پرہیز کرتے ہیں، اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
- قرآن: "فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ"(غافر: 40)۔
- عقلی پہلو:
- یہ وعدہ امید اور عمل کی ترغیب دیتا ہے۔ بغیر حساب جزا پانا انسانی نفسیات میں اللہ کی رحمت کی وسعت کا یقین پیدا کرتا ہے، جو گناہوں سے مایوسی کو ختم کرتا ہے۔
4. خاندان کی نیکی اور اجتماعی نجات:
- نقلی پہلو:
- "حَتَّى تَبَوَّءُوا... مَنْ صَلُحَ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَذَرَارِيِّكُمْ": نیک بیویوں اور اولاد کا جنت میں شامل ہونا۔
- قرآن: "وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ" (الطور: 21) — "جو ایمان لائے اور جن کی اولاد ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کرے گی، ہم ان کی اولاد کو ان سے ملا دیں گے" ۔
- حدیث: "إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِن ثَلَاثَةٍ... وَوَلَدٍ صَالِحٍ" (صحیح مسلم: 1631) — نیک اولاد کا عمل والدین کے لیے جاری رہتا ہے۔
- عقلی پہلو:
- خاندانی رشتوں کی نیکی معاشرتی استحکام کی بنیاد ہے۔ اولاد کی تربیت اور بیوی کے ساتھ اچھا سلوک آخرت میں اجتماعی کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔
5. دورِ حاضر کے لیے رہنما اصول:
- ایمان کی تجدید: روزانہ کلمہ شہادت کو "صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ" (دل کی گہرائیوں سے) دہرائیں۔
- خاندانی تربیت: اولاد کو توحید اور استقامت سکھائیں، کیونکہ ان کی نیکی آپ کی جنت میں بلندی کا سبب بنے گی۔
- امید کا پیغام: "ستر ہزار" کا عدد بتاتا ہے کہ اللہ کی رحمت گناہوں سے بڑی ہے۔ حساب کے بغیر جنت کا وعدہ مایوس کن حالات میں امید کی کرن ہے۔
خلاصہ اور سبق:
1. سچا ایمان: نجات کے لیے دل کا سچا اقرار اور راستے پر استقامت ضروری ہے۔
2. رحمتِ الٰہی: بغیر حساب جنت میں داخلہ اللہ کے خاص فضل کی علامت ہے، جو توحید پر کامل یقین سے ملتا ہے۔
3. خاندانی ذمہ داری: نیک اولاد اور اہل خانہ کی تربیت آخرت میں اجتماعی نجات کا ذریعہ ہے۔
4. حدیث کا مقام: یہ وحی الٰہی ہے اور قرآن ہی کی عملی تشریح ۔
> "یہ حدیث مومن کے دل میں امید کی شمع روشن کرتی ہے: سچا ایمان اور استقامت انسان کو جنت کے دروازے تک پہنچا دیتی ہے، اور اللہ کا فضل باقی راستہ طے کر دیتا ہے۔" — ابن المبارک (الزہد والرقائق)۔
حدیث(7)
حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ نَصْرِ بْنِ عِمْرَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ لَمَّا قَدِمُوا عَلَى رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنِ الْقَوْمُ؟» قَالُوا: مِنْ رَبِيعَةَ قَالَ: «مَرْحَبًا بِالْوَفْدِ غَيْرِ الْخَزَايَا وَلَا النَّدَامَى» فَقَالُوا: يَا رَسُولَ الله، إِنَّا حَيٌّ مِنْ رَبِيعَةَ، وَإِنَّا نَأْتِيكَ مِنْ شُقَّةٍ بَعِيدَةٍ، وَإِنَّهُ يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ، وَإِنَّا لَا نَصِلُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي شَهْرٍ حَرَامٍ، فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ نَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا وَنَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " §آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، آمُرُكُمْ بِالْإِيمَانِ بالله وَحْدَهُ، أَتَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بالله؟ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ محمدا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمَغَانِمِ الْخُمُسَ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنِ الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالنَّقِيرِ، وَالْمُزَفَّتِ " وَرُبَّمَا قَالَ: «الْمُقَيَّرِ، فَاحْفَظُوهُنَّ، وَادْعُوا إِلَيْهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ»
ترجمہ:
(سند:)
یونس ← ابو داؤد ← شعبہ ← ابو جمرہ نصر بن عمران ← ابن عباس رضی اللہ عنہما۔
(متن:)
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جب عبدالقیس قبیلے کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ ﷺ نے پوچھا: "تم کون ہو؟" انہوں نے کہا: "ربیعہ قبیلے سے۔" آپ ﷺ نے فرمایا: "خوش آمدید! نہ رسوا ہونے والے وفد، نہ پچھتانے والے!"
انہوں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! ہم ربیعہ کی ایک شاخ ہیں، آپ تک پہنچنے میں ہمیں دور دراز راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے اور آپ کے درمیان کفارِ مُضَر کا قبیلہ حائل ہے، اس لیے ہم صرف حرمت والے مہینوں میں آپ کے پاس آ سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی جامع حکم دیجیے جسے ہم اپنے پیچھے رہ جانے والوں تک پہنچائیں اور جس کے ذریعے جنت میں داخل ہو سکیں۔"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار سے منع کرتا ہوں:
> حکم یہ ہے:
> 1. اللہ پر ایمان لاؤ۔ کیا جانتے ہو کہ اللہ پر ایمان کیا ہے؟ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں۔
> 2. نماز قائم کرو۔
> 3. زکٰوۃ ادا کرو۔
> 4. رمضان کے روزے رکھو، اور مالِ غنیمت سے خمس (پانچواں حصہ) دو۔
> اور تمہیں ان چیزوں سے منع کرتا ہوں:
> 1. کدو کے بنے برتن (الدُّبَّاء)
> 2. سبز شیشے کے برتن (الْحَنْتَم)
> 3. کھجور کی لکڑی کے بنے برتن (النَّقِير)
> 4. رال یا گوند لگے ہوئے برتن (الْمُزَفَّت)
آپ ﷺ نے بعض روایات میں "المُقَيَّر" (تیل لگے برتن) کا لفظ بھی فرمایا۔ پھر تاکید کی: "ان باتوں کو یاد رکھو اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں تک پہنچا دو۔"
[مسند ابي داؤد الطيالسي: حدیث نمبر 2870]
---
تشریح:
1. تاریخی پس منظر اور وفدِ عبدالقیس کی اہمیت:
- نقلی پہلو:
عبدالقیس کا وفد بحرین سے مدینہ آیا، جو کفارِ مُضَر کے علاقے سے گزر کر صرف حرمت والے مہینوں میں سفر کر سکتا تھا۔ ان کا سوال دین کی بنیادی تعلیمات جاننے کے لیے تھا، جو ان کی دور دراز رہائش اور محدود رسائی کی وجہ سے انتہائی عملی تھا۔ قرآن میں اسی طرح کے سوالوں کی ترغیب دی گئی: "فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ" (النحل: 43)۔
- عقلی پہلو:
یہ واقعہ اسلام کے "مرحلہ وار تعلیم" (Gradual Pedagogy) کی عکاسی کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے پیچیدہ احکام کی بجائے بنیادی ارکان پر توجہ مرکوز کی، جو نئے مسلمانوں کے لیے سہل اور قابل عمل تھے۔
2. چار ارکانِ ایمان و عمل کی تشریح:
- شہادتِ توحید و رسالت:
- نقلی پہلو: کلمہ شہادت ایمان کی بنیاد ہے۔ قرآن میں ارشاد: "شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ" (آل عمران: 18)۔
- عقلی پہلو: توحید کا اقرار انسان کو شرک کی آلائشوں سے پاک کرتا ہے اور اجتماعی یکجہتی کا ذریعہ بنتا ہے۔
- نماز:
- نقلی پہلو: "وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ" (البقرہ: 43)۔ حدیث: "نماز دین کا ستون ہے" (ترمذی:2616)۔
- عقلی پہلو: نماز انسانی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرتی اور روزانہ پانچ بار اللہ سے تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔
- زکٰوۃ:
- نقلی پہلو: "وَآتُوا الزَّكَاةَ" (البقرہ: 43)۔ زکٰوۃ مال کی پاکی کا ذریعہ ہے۔
- عقلی پہلو: یہ معاشرتی انصاف کو یقینی بناتی ہے، جس سے غربت کم ہوتی اور دولت کی منصفانہ تقسیم ہوتی ہے۔
- روزہ اور خمس:
- نقلی پہلو: "كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ" (البقرہ: 183)۔ مالِ غنیمت کا خمس دینا قرآن کے حکم "وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ" (الأنفال: 41) کی عملی تفسیر ہے۔
- عقلی پہلو: روزہ نفس کی تربیت کرتا ہے، جبکہ خمس ریاستی خزانے کو مستحکم کرتا ہے.
3. چار ممنوعات کی حکمتیں:
- ممنوعہ برتنوں کی اقسام:
- الدُّبَّاء: کدو کے بنے برتن — ان میں شراب جلد خراب ہوتی۔
- الْحَنْتَم: سبز شیشے کے برتن — دولت کی نمائش اور نجاست جذب کرنے کا خطرہ۔
- النَّقِير: کھجور کی لکڑی کے برتن — سوراخ ہونے کی وجہ سے ناپاکی جمع ہوتی۔
- الْمُزَفَّت: رال لگے برتن — شراب کو خوشبودار بنانے کے لیے استعمال ہوتے۔
- نقلی پہلو: شراب کی حرمت قرآن میں واضح: "إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ... رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ" (المائدہ: 90)۔
- عقلی پہلو: یہ ممانعت دراصل "ذرائع کی حرمت" (Blocking the Means to Evil) کے اصول پر مبنی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان برتنوں سے منع کیا کیونکہ وہ شراب نوشی کی علامت تھے اور ان کے استعمال سے برائی کو فروغ ملتا تھا۔ یہ حکمت جدید دور میں بھی قابل اطلاق ہے، جہاں نشہ آور اشیاء کے اشتہارات یا برانڈز کو فروغ دینے والی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے .
4. حدیث سے اخذ شدہ فقہی اصول:
- دین میں تدریج:
رسول اللہ ﷺ نے نئے مسلمانوں کو یکبارگی تمام احکام نہ سنا کر بنیادی باتوں پر توجہ دلائی، جو *"تدریج فی التشریع"* (Gradual Legislation) کی عملی مثال ہے۔ یہ اصول قرآن کے نزول میں بھی واضح ہے۔
- وسائلِ حرام کی ممانعت:
جس طرح ممنوعہ برتن شراب نوشی کا ذریعہ تھے، اسی طرح آج بھی ہر وہ چیز حرام ہے جو حرام کی طرف لے جائے، جیسے سودی لین دین کے اوزار یا فحش مواد کی تشہیر۔
- علم کی ترسیل:
"فَاحْفَظُوهُنَّ، وَادْعُوا إِلَيْهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ" کا حکم علم کے تسلسل اور دوسروں تک پہنچانے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ حدیث جبریل میں بھی یہی اصول ملتا ہے: "هذا جبريل أتاكم يعلمكم دينكم" .
5. دورِ حاضر کے لیے رہنما اصول:
- دعوتِ دین کی حکمت:
عبدالقیس کے وفد کو دی گئی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت میں سادگی، واضح ہدایات اور عملی اقدامات پر زور دینا چاہیے۔
- شراب سے مکمل اجتناب:
ممنوعہ برتنوں کی ممانعت دراصل شراب کے تمام ذرائع کو بند کرنے کی ترغیب ہے۔ آج بھی اس کی عصری تطبیق نشہ آور مشروبات، منشیات اور ان سے وابستہ ثقافت سے دوری میں ہونی چاہیے۔
- اجتماعی ذمہ داری:
حدیث کا اختتامی جملہ "ادْعُوا إِلَيْهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ" ہر مسلمان پر علم پھیلانے کی ذمہ داری عائد کرتا ہے، جو قرآن کے حکم *"وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ"* (آل عمران: 104) کی تکمیل ہے .
*خلاصہ اور سبق:*
1. *بنیادیات پر توجہ:* ایمان، نماز، زکٰوۃ، روزہ اور خمس دین کے بنیادی ستون ہیں، جنہیں ہمیشہ ترجیح دینی چاہیے۔
2. *ذرائعِ شر سے بچاؤ:* حرام تک پہنچانے والے ہر وسیلہ سے اجتناب کرنا چاہیے، خواہ وہ مادی ہو یا ثقافتی۔
3. *علم کی ترسیل:* دین کی تعلیمات کو نسل در نسل منتقل کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
4. *حکمتِ تشریع:* اسلام میں احکام کی تدریج اور عملیت پسندی ہر دور کے مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔
> *"یہ حدیث اسلام کی جامعیت، عملیت اور حکمت کی شاندار عکاسی کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مختصر الفاظ میں وہ اصول بیان کیے جو پوری امت کے لیے رہنما ہیں۔"* — امام زرقانی (شرح الموطأ)۔
Excellent bhai sb.....jazakallah khiaraan
ReplyDelete