اصولِ محدثین :
ضعیف حدیث "تلقی بالقبول" کے سبب صحیح کا حکم رکھتی ہے۔
مسائل کا ایک اہم مآخذ (علماء کا) ’’اجماع‘‘، ’’تلقی بالقبول‘‘ یا ’’تعاملِ امت‘‘ ہے، اور اس پر محدثین کی تائید:
قرآن وسنّت کے احکام میں "نسخ" کا احتمال ہوتا ہے کہ وہ منسوخ ہے یا نہیں ہے.
[کما قال امام الغزالی رح - المستصفى مع مسلم الثبوت: ٣/٣٩٢؛ و کما قال امام ابن_تیمیہ رح - مجموع الفتاویٰ: ٢٨/١١٢]
جیسے قرآن میں ارشاد ہے :
مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (٢/البقرہ:١٠٦)
"جو بھی کوئی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں، یا اسے (ذہنوں سے) بھلا دیتے ہیں، تو ہم لے آتے ہیں اس سے کوئی بہتر آیت، یا اسی جیسی، بیشک اللہ ہرچیز پر پوری قدرت رکھتا ہے".(اس آیت کی تفسیر ضرور پڑھیے)
مگر "اجماع" میں نسخ کا احتمال نہیں ہوتا اور اجماع معصوم ہوتا ہے.
[تفسیر ابن کثیر: سورہ النساء، آیت:١١٥]
[تفسیر ابن کثیر: سورہ النساء، آیت:١١٥]
صحيح البخاري » كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ » بَاب قَوْلِهِ تَعَالَى وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا (البقرہ :١٤٣) وَمَا أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ
ترجمہ:
صحیح بخاری:جلد سوم: کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان : اللہ تعالیٰ کا قول کہ ہم نے اسی طرح تم کو بیچ کی امت بنایا۔(البقرہ:١٤٣) اور اس کے متعلق کہ رسول الله ﷺ نے جماعت کو لازم پکڑنے کا حکم فرمایا اور آپ ﷺ کی مراد جماعت سے اہلِ علم کی جماعت تھی.
[فتح الباری، لامام ابنِ حجر: ١٣/٣١٢]
اور (اسی طرح) امام نوویؒ اپنے شیخ حافظ ابو عمروؒ سے مروی ہیں:
"وَالْأمة فِي إجماعها معصومة من الْخَطَأ"
ترجمہ:
امت اجماع میں خطاء سے معصوم ہوا کرتی ہے.
[صيانة صحيح مسلم: ص85، مقدمة ابن الصلاح: ص28، شرح النووي على مسلم:1/ 19]
اور مشھور ائمہ_محدثینؒ جیسے شافعیؒ، بخاریؒ، ترمذیؒ، سیوطیؒ، سخاویؒ، شوکانیؒ وغیرہ (رحمہ الله علیھم اجمعین) نے اس اصول کا تعین کیا ہے کہ عملی طریقوں کا انحصار (دارومدار) تعامل_امت (اتفاق-و-اجماع سے امت کے جاری عمل پر) ہے. جب امت کا عمل کسی حدیث پر جاری ہو، اگرچہ وہ ضعیف ہو،تو اس کی سند پر بحث کی ضرورت نہیں.یعنی جس ضعیف حدیث پر بھی تعاملِ امت (اتفاق-و-اجماع سے امت کا جاری عمل) ہو، تو اس حدیث کو مانا جائیگا، اگرچہ ضعیف ہو.
صحیح روایت سے زیادہ تعاملِ امت قطعی (حجت) ہے:
سنت صرف روایت سے ثابت نہیں ہوتی، اس کے ساتھ امت کا تعامل بھی ضروری ہے کوئی حدیث سند کے لحاظ سے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو؛ اگر اس پر امت کا عمل نہیں تو اس کی حجیت قطعی نہ رہے گی، زیادہ گمان یہی ہوگا کہ وہ عمل منسوخ ہوچکا، محدثین حدیث کی حفاظت پر اس کے معمول بہ(یعنی اس پر عمل جاری) ہونے سے بھی استدلال کرتے رہے ہیں، امام وکیعؒ نے اسمعیل ابن ابراہیمؒ مہاجر سے نقل کیا ہے:
"كَانَ يُسْتَعَانُ عَلَى حِفْظِ الْحَدِيثِ بِالْعَمَلِ بِهِ."۔
"كَانَ يُسْتَعَانُ عَلَى حِفْظِ الْحَدِيثِ بِالْعَمَلِ بِهِ."۔
[تاريخ أبي زرعة الدمشقي: ص311]
ترجمہ: حفظِ حدیث میں اس کے عمل سے بھی مدد لی جاتی تھی۔
(یعنی یہ کہ اس پر عمل بھی ہو)۔
(یعنی یہ کہ اس پر عمل بھی ہو)۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے معمول بِہ(یعنی اس پر عمل جاری) ہونے کا اس کی صحت اورمقبولیت پر بہت اثر رہا اور محدثین کو ایسی روایات بہت کھٹکتی رہی ہیں جو معمول بِہ(یعنی اس پر عمل جاری) نہ رہی ہوں۔
امام ترمذیؒ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
"جَمِيعُ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ الْحَدِيثِ فَهُوَ مَعْمُولٌ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَاخَلَا حَدِيثَيْنِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ وَحَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجلدوهُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ"۔
(جامع ترمذی، کتاب العلل:۶۲۶/۲، موقع الإسلام)
ترجمہ: جو کچھ اس کتاب میں ہے اس پر (کسی نہ کسی حلقے میں) عمل ضرور رہا ہے اوراس کے مطابق اہل علم کی ایک جماعت نے فیصلہ کیا ہے سوائے ان دو حدیثوں کے ایک حدیث حضرت ابن عباسؓ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خوف، سفر اوربارش کے کسی عذر کے بغیر مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر یکجا اورمغرب اور عشاء اکٹھی پڑھی ہیں، اور دوسری حضورﷺ کی یہ حدیث کہ جب کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور چوتھی دفعہ پئے تو اس کوقتل کردو۔
یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے لائق استدلال ہیں، لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ ائمہ دین میں کسی نے ان کے ظاہر پر عمل نہیں کیا، بلکہ اس کے ترک پراہل علم کا اجماع رہا ہے۔
==========================
قال ابن عبد البر في الاستذكار لما حكي عن الترمذي ان البخاري صحح حديث البحر "هو الطهور ماؤه" و أهل الحديث لا يصححون مثل اسناده لكن الحديث عندي صحيح لان العلماء تلقوه بالقبول.
علامة ابن عبد البر "الاستذكار" میں یہ بات امام ترمذیؒ سے نقل کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ امام بخاریؒ (اس) حدیثِ بحر "ھو الطھور ماؤه" کو صحیح کہتے ہیں، حالانکہ محدثین اس جیسی سند (والی حدیث) کو صحیح نہیں کہتے لیکن حدیث میرے (یعنی امام ابن عبدالبرؒ کے) نزدیک صحیح ہے۔
[تدريب الراوي : ٢٩]
[تدريب الراوي : ٢٩]
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (شافعی) نے فرمایا:
من جملة صفات القبول التي لم يتعرض لها شيخنا (يعني العراقي) أن يتفق العلماء على العمل بمدلول حديث فإنه يقبل ويجب العمل به.
قال: وقد صرح بذلك جماعة من أئمة الأصول
ترجمہ:
...منجملہ (صحتِ حدیث کی) صفاتِ قبولیت میں سے ایک وہ بھی جس کی طرف ہمارے شیخ یعنی زین الدین العراقیؒ نے تعرض کیا ہے وہ یہ ہے کہ علماء مدلولِ حدیث پر عمل کرنے میں متفق ہوجائیں، پس اس حدیث کو قبول کرلیا جائےگا، یہاں تک کہ اس پر عمل واجب ہوگا، اس بات کی تصریح کی ہے علماءِ اصول کی ایک جماعت نے.
[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر:1/ 78(1/ 494)]
[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر:1/ 78(1/ 494)]
--------------------------------
تقریباً 200 کتب کے مصنف مصنف محدث، فقیہ، اصولی، مؤرخ علامہ سخاویؒ لکھتے ہیں:
علامہ سخاویؒ (م902ھ) اور امام ابن حجر عسقلانیؒ (م852ھ) نے فرمایا:
إِذَا تَلَقَّتِ الْأُمَّةُ الضَّعِيفَ بِالْقَبُولِ يُعْمَلُ بِهِ عَلَى الصَّحِيحِ، حَتَّى إِنَّهُ يُنَزَّلُ مَنْزِلَةَ الْمُتَوَاتِرِ فِي أَنَّهُ يَنْسَخُ الْمَقْطُوعَ بِهِ ; وَلِهَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ - فِي حَدِيثِ: «لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ» : إِنَّهُ لَا يُثْبِتُهُ أَهْلُ الْحَدِيثِ، وَلَكِنَّ الْعَامَّةَ تَلَقَّتْهُ بِالْقَبُولِ، وَعَمِلُوا بِهِ حَتَّى جَعَلُوهُ نَاسِخًا لِآيَةِ الْوَصِيَّةِ لَهُ
ترجمہ :
جب امت حدیثِ ضعیف کو قبول کرلے تو صحیح یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاۓ ، یہاں تک کہ وہ یقینی اور قطعی حدیث کو منسوخ کرنے میں ((متواتر حدیث کے رتبہ میں سمجھی جاۓ گی))، اور اسی وجہ سے امام شافعیؒ نے حدیث : ’’لاوصية لوارث‘‘ کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس کو حدیث کے علم والے (یعنی علماۓ حدیث) ((ثابت نہیں)) کہتے ہیں، لیکن عامہ علماء نے اس کو قبول کرلیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کو آیتِ وصیت کا ناسخ قرار دیا ہے.
[فتح المغيث بشعره ألفية الحديث: ص # ١٢٠(1/ 350) ،
[فتح المغيث بشعره ألفية الحديث: ص # ١٢٠(1/ 350) ،
التلخيص الحبير:1/ 11، دار الكتب العلمية
[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٢/٧٤ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦]
-----------------------------
شهرة الحديث بالمدينة تغني عن صحة سنده.
[العواصم والقواصم:2/298، بذل المجهود:8/165، مجلة مجمع الفقه الإسلامي:11/22]
امام مالک کیلئے مدینہ والوں کا عمل دلیلِ شرعی تھا۔
[تاریخ(امام)ابن خلدون:1/418، مقدمہ]
دلائل:
مدینہ والوں (علم وایمان میں) فضیلت:
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
يوشِكُ أن يَضربَ النَّاسُ أَكْبادَ الإبلِ يطلُبونَ العلمَ فلا يجدونَ أحدًا أعلمَ مِن عالِمِ المدينةِ.
ترجمہ:
عنقریب لوگ تلاشِ علم میں اونٹوں پر سوار ہو کر نکلیں گے،بس مدینہ کے عالم(امام مالک)سے زیادہ کسی کو علم میں نہیں پائیں گے۔
[سنن الترمذي: ابواب العلم، باب في عالم المدينة، حديث#2680]
إنَّ الإيمَانَ لِيأْرِزُ إلَى الْمَدِيْنَةِ ، كَمَا تأْرِزُ الحيةُ إلى جُحرِها.
ترجمہ:
ایمان(اسلام)سمٹ کر اس طرح مدینہ میں آۓ گا جس طرح سے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔
[صحیح البخاري:كتاب فضائل المدينة، باب الإيمان يأرز الى المدينة، حديث#1876]
لَا تَقُوْمِ السَّاعَةُ حَتّٰى تَنْفٍيَ الْمَدِيْنَةُ شِرَارَهَا كَمَا يَنْفِي الْكِيْرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ.
قیامت قائم نہیں ہوگی تاآنکہ مدینہ بدکار لوگوں کو دور کردے جس طرح بھٹی فولاد(لوہے) کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
[صحیح مسلم: كتاب الحج، باب المدينة تنفي شرارها، حديث#1381]
امام بخاریؒ صحیح بخاری میں پورا باب نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ العِلْمِ، وَمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الحَرَمَانِ مَكَّةُ، وَالمَدِينَةُ، وَمَا كَانَ بِهَا مِنْ مَشَاهِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمُهَاجِرِينَ، وَالأَنْصَارِ، وَمُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمِنْبَرِ وَالقَبْرِ‘‘۔
ترجمہ:
ترجمہ:
’’باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم والوں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان، اور مدینہ میں جو نبی ﷺ اور مہاجرین انصار کے متبرک مقامات ہیں اور نبی ﷺ کے نمازگاہ اور منبر اور قبر کا بیان‘‘۔
[صحیح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، ج۹، ص۲۷۹]
امام مالکؒ نے اہلِ مدینہ کا اجماع بھی حجت قراردیا ہے۔ امام بخاریؒ کے کلام سے یہ نکلتا ہے کہ اہلِ مکہ اور اہلِ مدینہ دونوں کا اجماع بھی حجت ہے، امام بخاریؒ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہلِ مدینہ اور اہلِ مکہ کا اجماع حجت ہے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کے وقت اس جانب کو ترجیح ہوگی جس پر اہل مکہ اور مدینہ اتفاق کریں‘‘۔
[فتح الباری شرح صحيح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، قَوْلُهُ بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ،ج۱۲، ص۳۰۶]
[فتح الباری شرح صحيح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، قَوْلُهُ بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ،ج۱۲، ص۳۰۶]
-----------------------------
علامة ابن مرعي ألشبرخيتي المالكيؒ
ومحل كونه لايعمل بالضعيف في الأحكام ما لم يكن تلقته الناس بالقبول فان كان كذلك تعين وصار حجة يعمل به في الاحكام وغيرها.[شرح الأربعين النووي: ص179]
ترجمہ:
اس بات کا محل کہ ضعیف حدیث پر احکام میں عمل نہیں کیا جاتا یہ ہے کہ اس کو تلقی بلقبول حاصل نہ ہو، اگر اسے تلقی بلقبول حاصل ہوجاۓ تو وہ حدیث متعین ہوجاۓ گی اور حجت ہوجاۓ گی اور احکام وغیرہ میں اس پر عمل کیا جاۓ گا.
خلاصہ :
معلوم ہوا کہ جب کسی حدیث پر امت، ائمہ_اسلام کی پیروی میں قبول کرتے اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہو تو وہ روایت (سنداً) غیر ثابت ہوکر بھی مقبول ہوتی ہے. تو جو روایت ثابت ہو مگر ضعیف (حفظ/عمل میں کمزور راوی) ہو تو اس کے قبول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں. کیونکہ امت اعمالِ دین "دیکھ دیکھ کر" سیکھتی چلی آئی ہے، اور یہ حکم خود حدیثِ نبوی ﷺ میں ہے کہ: نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتے دیکھتے ہو.(بخاری)
-----------------------------
تقریباً 600 کتب کے مصنف علامہ جلال الدین السیوطیؒ (الشافعی) (م911ھ) لکھتے ہیں:
"قال بعضھم يحكم للحديث بالصحة إذا تلقاه الناس بالقبول وإن لم يكن له أسناد صحيح.[تدريب الراوي: صفحة # ٢٩]
ترجمہ:
بعض محدثین فرماتے ہیں کہ حدیث پر صحت (صحیح ہونے) کا حکم لگا دیا جاۓ گا جب امت نے اسے قبول کرلیا ہو اگرچہ اس کی سند صحیح نہ بھی ہو.
المقبول ما تلقاه العلماء بالقبول وإن لم يكن له أسناد صحيح،
[شرح نظم الدرر المسمى بالبحر الذي ذخر]
[شرح نظم الدرر المسمى بالبحر الذي ذخر]
ترجمہ:
مقبول وہ حدیث ہے جسے علماء قبول کرلیں اگرچہ اس کی سند صحیح نہ بھی ہو.
[من أصول الفقه على منهج أهل الحديث: ص221]
قَالَ ابْنُ السَّمْعَانِيِّ، وَقَوْمٌ: يَدُلُّ، لِتَضَمُّنِهِ تَلَقِّيهِمْ لَهُ بِالْقَبُولِ.
ترجمہ:
ابن سمعانيؒ اور ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ حدیث کے موافق اجماع کا ہونا یہ حدیث کی صحت پر دلالت کرتا ہے اس حدیث کے اس بات کو متضمن ہونے کی وجہ سے کہ اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے.
[تدريب الراوي : ١٧٢(1/ 371)]
وَصَحَّحَ الْآمِدِيُّ وَغَيْرُهُ مِنَ الْأُصُولِيِّينَ أَنَّهُ حُكِمَ بِذَلِكَ.
ترجمہ:
(عالم کا کسی حدیث پر عمل یا دلیل لیتے فتویٰ دینے کی وجہ سے) آمدیؒ اور ان کے علاوہ دیگر اصولیین نے اس بات کو صحیح قرار دیا ہے کہ اس حدیث پر صحت کا حکم لگایا جاۓ گا.
[تدريب الراوي: ١٧١(1/ 370)]
وَقَالَ (ابن عبدالبر) فِي التَّمْهِيدِ: رَوَى جَابِرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الدِّينَارُ أَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ قِيرَاطًا» ، قَالَ: وَفِي قَوْلِ جَمَاعَةِ الْعُلَمَاءِ وَإِجْمَاعِ النَّاسِ عَلَى مَعْنَاهُ غِنًى عَنِ الْإِسْنَادِ فِيهِ.
ترجمہ:
ابن عبدالبر ’’التمہید‘‘ میں فرماتے ہیں کہ حضرت جابرؓ نے نبی ﷺ سے روایت کی ’’دینار چوبیس قیراط کا ہے‘‘۔ فرمایا: جماعتِ علماء کا قول اور لوگوں کا اس کے معنیٰ پر اجماع اس کی سند سے مستغنی کردیتا ہے.
[تدريب الراوي: ٢٩ (1/ 66)، النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي:1/ 109، الأحكام الوسطى:2/ 176، التمهيد - ابن عبد البر:12/ 512]
----------------------------
اہلِ ظواہر کے پیشوا قاضی شوکانی (غیر مقلد) لکھتے ہیں:
ثُمَّ حَكَمَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ مَعَ ذَلِكَ بِصِحَّتِهِ لِتَلَقِّي الْعُلَمَاءِ لَهُ بِالْقَبُولِ فَرَدَّهُ مِنْ حَيْثُ الْإِسْنَادُ وَقَبِلَهُ مِنْ حَيْثُ الْمَعْنَى وَقَدْ حَكَمَ بِصِحَّةِ جُمْلَةٍ مِنْ الْأَحَادِيثِ لَا تَبْلُغُ دَرَجَةَ هَذَا وَلَا تُقَارِبُهُ.
ترجمہ:
پھر ابن عبدالبرؒ نے باوجود (ضعف سند کے) اس کی صحت (صحیح ہونے) کا حکم لگایا ہے، علماء کے اس کو قبول کرلینے کی وجہ سے، پس رد کیا ہے اس کو سند کے اعتبار سے اور قبول کیا ہے اس کو معنا(مضمون) کے اعتبار سے، اور حکم لگایا ہے ایسی بعض احادیث پر جو اس درجہ تک نہیں پہنچتی بلکہ اس کے قریب بھی نہیں پہنچتیں.
[نيل الأوطار:1/ 28، البناية شرح الهداية:1/ 355، التلخيص الحبير(ط العلمية):1/118]
اتفق أهل الحديث على ضعف هذه الزيادة لكن قد وقع الإجماع على مضمونها.
ترجمہ:
محدثین اس زیادتی (اضافہ) کہ ضعف (کمزوری) پر متفق ہیں لیکن اس کے مضمون (معنا) پر اجماع منعقد ہے.
امام ابنِ تیمیہؒ (الحنبلی) (المتوفي ٧٤٨ھ):
هذا حَدِيثٌ صَحِيحٌ مُتَّفَقٌ عَلَى صِحَّتِهِ؛ تَلَقَّتْهُ الْأُمَّةُ بِالْقَبُولِ وَالتَّصْدِيقِ مَعَ أَنَّهُ مِنْ غَرَائِبِ الصَّحِيحِ.
ترجمہ:
یہ حدیث (صحیح بخاری کی "انما الاعمال بالنیات") صحیح ہے (کیونکہ) اس کی صحت پر اتفاق ہے، امت نے اسے قبول کیا ہے اور تصدیق کی ہے، باوجود اس کے کہ وہ صحیح (بخاری) کی غریب حدیث میں سے ہے.
[فتاوى إبن تيمية: ١٨/٢٤٨، مجموع الفتاوى:18/ 247]
---------------------------
امام الخطیب البغدادیؒ (م463ھ)،
امام ابن الملقنؒ (م804ھ)،
اور علامہ ابن القیم الجوزیؒ (الحنبلی) (م451ھ) لکھتے ہیں:
أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ قَدْ نَقَلُوهُ وَاحْتَجُّوا بِهِ، فَوَقَفْنَا بِذَلِكَ عَلَى صِحَّتِهِ عِنْدَهُمْ، كَمَا وَقَفْنَا عَلَى صِحَّةِ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ» ، وَقَوْلِهِ فِي الْبَحْرِ «، هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ» ، وَقَوْلِهِ: «إذَا اخْتَلَفَ الْمُتَبَايِعَانِ فِي الثَّمَنِ وَالسِّلْعَةُ قَائِمَةٌ تَحَالَفَا وَتَرَادَّا الْبَيْعَ» ، وَقَوْلِهِ: «الدِّيَةُ عَلَى الْعَاقِلَةِ» ، وَإِنْ كَانَتْ هَذِهِ الْأَحَادِيثُ لَا تَثْبُتُ مِنْ جِهَةِ الْإِسْنَادِ، وَلَكِنْ لَمَّا تَلَقَّتْهَا الْكَافَّةُ عَنْ الْكَافَّةِ غَنُوا بِصِحَّتِهَا عِنْدَهُمْ عَنْ طَلَبِ الْإِسْنَادِ لَهَا، فَكَذَلِكَ حَدِيثُ مُعَاذٍ لَمَّا احْتَجُّوا بِهِ جَمِيعًا غَنُوا عَنْ طَلَبِ الْإِسْنَادِ لَهُ۔
ترجمہ:
مزید یہ کہ اہلِ علم نے اسے نقل کیا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے۔ پس علم ہوگیا ہمیں اس بات کا کہ یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ہے. جیسا کہ ہمیں معلوم ہوا رسول الله ﷺ کے قول "لاوصية لوارث"، اور آپ ﷺ کے فرمان سمندر کے بارے میں "هو الطهور ماؤه و الحل الميتة"، اور آپ ﷺ کے فرمان "إذا إختلف المتبايعان في الثمن والسلعة قائمة فحالفا وتر ادا البيع" اور آپ ﷺ کے فرمان "الدية على العاقلة" کی صحت کا. اگرچہ یہ احادیث (صحیح) سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے لیکن اس کو (ہر دور میں علماءِ امت کی) جماعت نے جماعت سے قبول کیا تو مستغنی کردیا ہے اس کی صحت کو اس کی سند طلب کرنے سے، اسی طرح حدیثِ معاذؓ ہے، جب دلیل پکڑی ہے تمام نے اس سے تو اس کی سند کو طلب کرنے سے مستغنی(بے-پرواہ/غیر-لازم) کردیا ہے۔
[تذكرة المحتاج إلى أحاديث المنهاج (ابن الملقن) : ص109
الفقيه والمتفقه - الخطيب البغداديؒ : 1/ 471 ،الناشر: دار ابن الجوزي - السعودية
أعلام الموقعين:١/١٥٥، مطبوعه مكة المكرمة]
--------------------------------
علامہ ابن أبي العز الحنفيؒ (م792ھ) اور الشاطبيؒ (م790ھ) لکھتے ہیں:
وخبر الواحد إذا تلقته الأمة بالقبول، عملاً به، وتصديقاً له، يفيد العلم اليقيني عند جماهير الأمة، وهو أحد مسمى التواتر، ولم يكن بين سلف الأمة في ذلك نزاع.
ترجمہ:
اور خبرِ واحد کو جب امت قبول کرلے اس کی تصیدق اور اس پر عمل کرتے ہوۓ تو جمہور علماءِ امت کے نزدیک علمِ یقینی کا فائدہ دیتی ہے اور یہ بھی متواتر کی ایک قسم ہے۔ اسلافِ امت میں اس بارے میں کوئی نزاع نہیں.
[شرح عقيدة الطحاوية: ص٣٥٥، دار السلام]
الاعتصام للشاطبي (مقدمہ) : ص58، دار ابن الجوزي
------------------------------
أَنَّ خَبَرَ الْوَاحِدِ إذَا تَلَقَّاهُ النَّاسُ بِالْقَبُولِ صَارَ بِمَنْزِلَةِ التَّوَاتُر۔
[الفصول في الأصول-الجصاص (م٣٧٠ھ) : 1/ 183، الناشر: وزارة الأوقاف الكويتية]
------------------------------
فقہ حنفی کے عظیم محدث محقق، فقیہ، اصولی شیخ زاہد بن الحسن الکوثری رح لکھتے ہیں:
واحتجاج الأئمة بحديث تصحيح له منهم بل جمهور أهل العلم من جميع الطوائف على ان خبر الواحد إذا تلقته الأمة تصديقا له أو عملا به يوجب العلم.
ترجمہ:
ائمہ کا بطورِ دلیل کسی حدیث کو لے لینا یہ ان کی طرف سے اس حدیث کو صحیح قرار دینا ہوگا، بلکہ تمام جماعتوں کے جمہور اہلِ علم اس اصول پر ہیں کہ خبرِ واحد کو امت جب اس کی تصدیق کرتے ہوۓ قبول کرلے تو یہ علمِ یقینی کا فائدہ دیتی ہے.
[مقالات الكوثري:٧٠]
-----------------------------
الحاصل:
(١) جس حدیث کو امت قبول کرلے یا اس پر کسی مسئلہ یا عقیدہ کی بنیاد رکھ لے، وہ حدیث صحیح کے درجہ سے متواتر کے درجہ میں ہوتی ہے اس کی سند پر بحث کرنا اصول_محدثین کے خلاف ہے.
(٢) اگر کئی اخبار آحاد (واحد کی جمع) ہوں، ان سے ایک معنی "مشترک" طور پر سمجھ میں آتا ہو، تو اس بات کو تواتر_معنوی حاصل ہوگا.
(٣) تواتر کی تمام اقسام یقین کا فائدہ دیتی ہیں.
(٤) اگر اخبار آحاد پر فردا فردا اعتراضات ہوں لیکن ان سے ثابت ہونے والے مفہوم پر وہ اعتراض وارد نہیں ہوگا، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات تواتر_معنوی سے ثابت ہے، ان کی بعض روایات پر جرح اس اصل مسئلہ کے ثبوت میں کوئی نقصان نہیں پہنچاۓ گی، بلکہ ایسی روایات پر جرح کرنا ہی بے-فائدہ اور بے-کار ہوگا اور ایک اتفاقی مسئلہ کو مشکوک بنانے کی سعی لاحاصل ہوگی.
(٥) اجماع اسناد سے قوی ہے یعنی جس بات پر اجماع ہوجاۓ اس کی روایات کی جانچ پرکھ کی ضرورت نہیں.
موجودہ زمانہ میں اکثر حضرات ان اصولوں سے ناواقف ہیں، اس لئے وہ ہر حدیث کو سند کے اعتبار سے پرکھنا شروع کردیتے ہیں اور (مسلمانوں کی جماعت سے دور) گمراہی کے گڑھے میں جاگرتے ہیں. منکرین_حیات انبیاء (علیہ السلام) نے مسئلہ_حیات کا انکار اسی وجہ سے کیا ہے، حالانکہ احادیث_حیات تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں.
إن من جملة ما تواتر عن النبي صلي الله عليه وسلم حياة الانبياء في قبورهم".[نظم المتناثر من أحاديث المتواتر]
ترجمہ: جو روایات نبی (صلی الله علیہ وسلم) سے متواتر ہیں ان میں انبیاء (علیھم السلام) کا قبروں میں زندہ ہونا بھی ہے.
---------------------------
600 کے قریب کتب کے مصنف علامہ جلال الدین السیوطیؒ (الشافعی) (م911ھ) لکھتے ہیں:
حياة النبي (ﷺ) في قبره هو وسائر الانبياء معلومة عندنا علما قطعيا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت له الأخبار الدالة على ذلك.
ترجمہ:
نبی اقدس ﷺ کی اور دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کی قبر میں حیات ہونا ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے، اس لئے کہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور اس مسئلہ پر اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی روایات ہمارے نزدیک متواتر ہیں.
[الحاوي للفتاوى: ٢/١٣٩]
اور علامہ ابن القیمؒ نے "کتاب الروح" میں ابو عبدالله قرطبیؒ سے بھی اسی طرح کی بات نقل کی ہے کہ ان کے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی روایات ہمارے نزدیک متواتر ہیں.
چونکہ احادیث حیات الانبیاء (علیھم السلام) کو تواتر حاصل ہے، اس لئے اس کا انکار کرنے والا اہلِ سنّت والجماعت سے خارج (بدعتی) ہے، اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے.
=====================================
An Important Source of Solvation Problems is IJMA(Consensus) & Support of Famous Muhaddiseen on it:
Because the orders of The Holy Quran & Ahadith have the probability of cancellations(changes)[Quran - 2:106],
but the Consensus(IJMA) is safe from cancellations, so [The Consensus is Masoom(innocent)-Tafsir_Ibn_Kasir]=[Bukhari Book - Al-Aitesam, Chapter Saying Allah "Thus We made you a middle nation (Qur'an 2: 143) and the Prophet's saying: Company must hold "and they are great Scholars" Fatahul-Baari,Imam Ibn_Hjr: 13/312,
& Imam Nawawi reports from His Teacher Skaikh Hafiz Abu Amr: (Muslim) Nation is is innocent of fualt in the aggregate(consensus). (Shirah Muslim, Nawawi: Muqadma, page # 14)
&
The Famous Scholar of Hadith (Aimma-tul-Hadidh) Like Shafai, Bukhari, Tirmidhi, Suyuti, Sakhwi, Shokani (Rahimahullaah) etc. have been determined this principle that Practical methods depends upon NATIONAL PRACTICAL CONSESUS (Ta'amul-al-Ummah). when the Nation (Ummah) is on-going / following any Hadith (although Dhaeef), No need to decuss its SANAD(suppor/Authority).
[Al-Mujam-al-Saghir-li-Tabrani, 2/177-199, Al-Tuhfatul-Mardhiyyah-fi-Hall-Mu
shkilaat-ul-Hadithiyyah]
http://www.scribd.com/doc/82975955/Tohfat-ul-Mardhiya-ansari
http://www.youtube.com/watch?v=WxcFPDtmeHU
http://islamicbookslibrary.wordpress.com/?s=ijma
http://www.archive.org/stream/MujamTabaraniSaghir/mst2#page/n176/mode/2up
No comments:
Post a Comment