اصطلاحی مفہوم
یہ عنوان غریب (نادر قسم کا) ہے،حدیث کی غرابت الفاظ و معانی کے اعتبار سے ہے، اسناد کے پہلو سے نہیں،غرابت وطن سے دوری کا نام ہے، غریب مسافر کو کہتے ہیں، جو مضمون ظاہر الفاظ سے دور یا فہم عام سے بالاہو وہ غریب ہے، عجیب ہے، اس کی غرابت اسی پہلو سے ہے اور یہ کوئی کمزوری کی بات نہیں نہ یہ کوئی جرح کی بات ہے،اس کا سندا غریب ہونے سے کوئی تعلق نہیں، حدیث اسناد کے پہلو سے غریب ہو تو اس پر اصول حدیث کے تحت بحث کی جاتی ہے،لغت، ادب اوراسالیب عرب کے تحت نہیں، سو حدیث غریب اور غریب الحدیث میں فرق ہے۔
حدیث غریب
حدیث صحیح کی وہ قسم ہے جس کا "سند کے کسی مرحلے میں"راوی صرف ایک ہو،یہ درجہ حدیث عزیز اورحدیث متواتر کے مقابل ہے، درجہ میں اول حدیث متواتر ہے،پھر حدیث عزیز اورپھر حدیث غریب، حدیث کاغریب ہونا اس کی صحت کے منافی نہیں، اصول حدیث کی کتابوں میں ہے: "ان الغرابۃ لاتنافی الصحۃ" حدیث کا غریب ہونا صحت کے منافی نہیں ۔
ہاں غریب کا لفظ کبھی شاذ کےمعنوں میں بھی آجاتا ہے،اس صورت میں حدیث غریب کی سند پر بحث ہوسکتی ہے، اس پہلو سے بھی حدیث غریب درجہ صحت سے نہیں نکلتی، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رسالہ اصول حدیث میں لکھتے ہیں:
"فالشذوذ بھذا المعنی لاینا فی الصحۃ کالغرابۃ"۔
اللہ تعالی نے قلم کو پیدا کیا، اس قلم نے تمام قدریں لکھیں، جو کچھ ہوا یا ہونے والا تھا سب"ماکان ومایکون" اس نے لکھ دیا، اس حدیث پر امام ترمذی لکھتے ہیں: ھذاحدیث غریب اسنادا معلوم ہوا غرابت کبھی الفاظ اورمتن کے پہلو سے بھی ہوتی ہے،مولانا سید عمیم الاحسان لکھتے ہیں:
"الغرابۃ کما تکون فی السند کذلک تکون فی المتن"۔
ترجمہ: غرابت جس طرح کبھی (حدیث کی)سند میں ہوتی ہے کبھی متن میں بھی ہوتی ہے۔
غریب الحدیث
علامہ خطابی (۳۸۸ھ) لکھتے ہیں:
"الغريب من الكلام إنماهوالغامضُ البعيدُ من الفهمِ"۔
(شذرات الذهب دراسة في البلاغة القرآنية:۲۱، مولف: محمود توفيق محمد سعد)
ترجمہ:وہ بات غریب (بہت عجیب اورنادر)ہوتی ہے جو گہری اورفہم عام سے اونچی ہو۔
الفاظ اور بات کی غرابت سے مراد وہ دقیق الفاظ اوراونچے مضامین ہیں جن کا سمجھنا آسان نہ ہو، ایسے غریب الفاظ اورنادر مضامین پر محدثین نے جس فن میں گفتگو کی ہے اسے غریب الحدیث کہتے ہیں، بعض محدثین کا ذوق ایسے مضامین اور الفاظ کی تلاش رہا ہے جو اپنی ندرت اورغرابت میں ہر ایک کی رسائی میں نہ ہوں، اس باب میں صرف وہی علماء فن آگے بڑھ سکے جن کو طلب حدیث میں خصوصی شغف اورخاص انہماک رہا، حافظ اسمعیل عبداللہ بن محمد الاصبہانی(۳۹۶ھ)غریب الحدیث کی طلب اور روایت میں خاص ذوق رکھتے تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
"یروی الغریب من المحدثین فیبا لغ قال لی مرۃ ھذا الشان شان من لیس لہ شان سوی ھذا الشان یعنی طلب الحدیث"۔
(تذکرۃالحفاظ:۳/۳۷۷)
ترجمہ: آپ محدثین سے غریب الحدیث روایت کرتے اورآپ کی توجہ اس باب میں بہت زیادہ رہتی (راوی کہتا ہے) ایک دفعہ آپ نے مجھے کہا غریب(نادر الفاظ اورمعانی کی)احادیث کولینا صرف انہی لوگوں کا کام ہے جن کو اس حال سے سوا کسی اورحال سے غرض نہ ہو،ہر وقت طلب حدیث ان کا کام ہو۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ غریب الحدیث کی تلاش اورروایت کسی کمزوری کی بات نہیں ؛بلکہ یہ وہ باب کمال ہے جو اس فن کے متوالوں کو ہی نصیب ہوتا ہے اوراس کا ذوق وہ شان علم ہے جو اس فن کے اونچے علماء کو ہی میسر آتاہے۔
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا ذوقِ حدیث اس قسم کی روایات کا خاصا متلاشی رہتا تھا اور آپ پھران رویات کی تشریح اور تفصیل میں بہت اُونچی پرواز کرتے "سات زمینوں میں سات آدم آئے" یہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک اثر ہے۔
(مستدرک حاکم:۲/۴۹۳)
جواپنے معنی اور مفہوم میں بہت دقیق ہے، آپ نے اس پر ایک کتاب "تحذیرالناس من انکارِاثرابن عباس" لکھی، حدیث عما (مشکوٰۃ:۵۱۰) ایک نہایت دقیق اور غامض روایت ہے، آپ نے اس پر ایک مستقل رسالہ رقم فرمایا، چند اور روایات پربھی بحث کی ہے، علماء نے حدیث کے مشکل الفاظ پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، انہیں بالمعنی الاخص لغات حدیث بھی کہا جاسکتا ہے، قرآن کریم کے غریب الفاظ پر بھی علماء نے بحث کی ہے، معلوم رہے کہ غرابت الفاظ، فصاحت کلمہ یافصاحت کلام کے خلاف نہیں اور افصح العرب والعجم کی زبانِ مبارک سے غریب الحدیث کا صدور ان کی اس شان کے منافی نہ تھا، صحیح بخاری کی حدیث "ا م ز ر ع" اس کی وافی مثال ہے۔
جن قدماء نے غریب الحدیث پر خاص توجہ کی ان میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔نضر بن الشمیل (۲۰۴ھ)
۲۔قطرب (۲۰۶ھ)
۳۔ابوعبیدہ معمر بن المثنیٰ (۲۰۸ھ)
۴۔اصمعی (۲۱۸ھ)
غریب الحدیث پر لکھی گئی یہ کتابیں بہت اہم ہیں:
(۱)غریب الحدیث لابی عبید قاسم بن سلام (۲۲۴ھ)، ابوعبیدہ ہرات کے رہنے والے ہیں، اسحاق بن راہویہ (۲۳۸ھ) اور امام احمد (۲۴۱ھ) کے ہمعصر تھے، اسلامی معاشیات پر "کتاب الاموال" انہی کی تالیف ہے۔
(۲)غریب الحدیث لابن قتیبہ الدینوری (۲۷۶ھ)۔
(۳)غریب الحدیث لابی سلیمان الخطابی (۳۸۸ھ)۔
یہ تین کتابیں اس فن کی امہات سمجھی جاتی ہیں، یہ بڑی کتابیں نہیں رسائل سے ہیں لیکن اپنی نوع کے لحاظ سے بہت اہم ہیں؛ پھرہرات کے ایک مقتدر عالم جوابوسلیمان الخطابی اور ابومنصور ازہری کے شاگرد ہیں، ابوعبیداحمد بن محمد (۴۰۱ھ) نے غریب القرآن والحدیث کے موضوع پر"کتاب الغریبین" لکھی، آپ نے مقدمہ میں لکھا ہے:
"فان اللغۃ العربیۃ انما یحتاج الیہا لمعرفۃ غریبی القرآن والحدیث.... والکتب المولفۃ فیہا جمۃ وافرۃ"۔
ترجمہ:قرآن اور حدیث کے غریب الفاط کوجاننے کے لیے لغتِ عربی کی ضرورت پڑتی ہے.... اس باب میں بہت کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
یہ کتاب اپنے موضوع پربہت معروف ہوئی، علامہ ابوموسیٰ المدینی (۵۸۱ھ) نے اس کا ایک قابل قدر تکملہ لکھا ہے، اس کے بعد اس موضوع پر یہ کتابیں معروف ہوئیں:
الفائق، علامہ محمود زمخشری (۵۳۸ھ) تفسیرِ کشاف انہی کی تالیف ہے، علومِ عربیہ میں امام فن سمجھے جاتے ہیں، فائق کا معنی ہے فوقیت سے جانے والا..... سو یہ کتاب واقعی اسم بامسمیّٰ ہے، اس نے غریب الحدیث کی ہرمشکل آسان کردی ہے، علامہ ابنِ اثیر جزری (۶۰۶ھ) جنھوں نے خود اس موضوع پرایک ضخیم کتاب لکھی ہے، الفائق کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ولقد صادف ھذا الاسم المسمی وکشف من غریب الحدیث کل معی"۔
النہایہ
پورا نام "النہایہ فی غریب الحدیث والاثر" ہے، مولف مجدالدین مبارک بن محمدعبدالکریم ابن اثیر الجزری (۶۰۶ھ) ہیں، ان کی کنیت ابوالسعادات ہے "جامع الاصول من احادیث الرسول" ۱۲/جلدوں میں انہی کی تالیف ہے، ان کے بھائی عزالدین ابن اثیر تاریخ کی مشہور کتاب "کامل ابنِ اثیر"کے مؤلف ہیں، ابوالسعادات مجدالدین نے مسند امام شافعی کی بھی مبسوط لکھی ہے، علم تفسیر میں آپ نے "الانصاف فی الجمع بین الکشف والکشاف" لکھی، اس میں آپ نے علامہ ثعلبی اور علامہ زمخشری کی کتابوں کوجمع کردیا ہے، آپ حدیث، تفسیر، فقہ، ادب عربی اور علم اصول کے جلیل القدر امام تھے، النہایہ پانچ ضخیم جلدوں میں ہے اور عام ملتی ہے، خطیب تبریزی لکھتے ہیں:
"کان عالماً محدثا لغویا روی عن خلق من ائمۃ الکبار کان بالجزیرۃ وانتقل الی الموصل سنۃ خمس وستین وخمس مائۃ (۵۶۵ھ) ولم یزل بھا الی ان قدم بغداد"۔
(الاکمال:۶۳۲)
ترجمہ:آپ بڑے عالم، محدث اور ماہرلغت تھے، کثیر تعداد بڑے بڑے ائمہ سے حدیث روایت کی ہے، جزیرہ کے رہنے والے تھے؛ پھر سنہ۵۶۵ھ میں موصل چلے گئے اور بغداد روانہ ہونے تک وہیں رہے۔
حافظ ابنِ کثیر (البدایہ والنہایہ:۱۳/۵۴) اور ابنِ خلکان (وخیات الاعیان:۳/۳۸۹) ان کی عبقریت اور علمی بصیرت کے پورے معترف ہیں، آپ کی کتاب النہایہ لغتِ حدیث اور غریب الحدیث میں سند سمجھی جاتی ہے۔
مجمع البحار
"مجمع بحار الانوار" علامہ طاہرالفتنی الگجراتی (۹۸۶ھ) کی تالیف ہے، بڑی تقطیع کی تین ضخیم جلدوں میں طبع ہوئی، لغتِ حدیث میں مسند سمجھی جاتی ہے، غریب الحدیث پر اس میں کافی مواد ملتا ہے، برصغیر پاک وہند کی علمی دُنیا اس کتاب پر جتنا فخر کرے کم ہے، مؤلف مضمون کی غرابت پربھی پوری نظر رکھتے ہیں، مثلاً جریر بن حازم تابعی (۱۷۵ھ) نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے یہ روایت نقل کی تھی، جوظاہری سطح پر بہت عجیب مضمون بیان کرتی ہے:
"قُولُوْا: خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَلاَتَقُوْلُوْا:لاَنَبِيَّ بَعْدِیْ"۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:۹/۲۱۰)
مجمع البحار میں اس کی غرابت ساتھ ہی حل کردی گئی ہے "ھٰذَا نَاظِرٌ إِلیٰ نُزُوْلِ عِیْسَیٰ" (تکملہ مجمع البحار:۸۵) یعنی یہ بات نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے پیشِ نظر کہی گئی ہے، تذکرۃ الموضوعات بھی اسی مؤلف کی تالیف ہے، حدیث اور ادب عربی کے مسلم امام ہیں یہ اور النہایہ غریب الحدیث کے موضوع کا علمی سرمایہ ہے۔
اسراراللغہ الملقب بہ وحید اللغات
علامہ وحیدالزمان (۱۳۳۸ھ) اس کے مؤلف ہیں اُردو میں لغتِ حدیث پر یہ پہلی کتاب ہے، چھ ضخیم جلدوں میں ہے، مولانا وحیدالزمان مسلکاً غیرمقلد تھے، نہایت افسوس ہے کہ آپ نے حل لغات کے سائے میں کہیں کہیں ملحدانہ عقائد بھی سمودیئے ہیں، مثلاً مادہ "عجز" کے تحت لکھتے ہیں:
"حضرت علیؓ اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی"۔
یہ صحیح نہیں یہ توشیعہ عقیدہ ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آنحضرتﷺ توآخری وقت میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کواپنی جگہ امام بنائیں اور حضرت علیؓ اپنے آپ کوان سے زیادہ مستحق سمجھیں، یہ بات باور کرنے کے لائق نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سوچ کھلم کھلا منشاءِ رسالت کے خلاف کیسے ہوسکتی ہے؟ مولانا وحیدالزمان اہلحدیث تھے، افسوس کہ وہ شیعہ نظریات کا شکار بھی ہوگئے ہیں، آزادروی کا یہ پہلا پھل ہے جوانہوں نے چکھا، حضرت امیرمعاویہؓ کے بارے میں "مادہ عز" کے تحت لکھتے ہیں:
"ان کی نسبت کلماتِ تعظیم مثل حضرت ورضی اللہ عنہ سخت دلیری اور بیباکی ہے"۔
اہل السنۃ والجماعت کے ہاں تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں، شیعہ ہرسال محرم میں سوگ مناتے ہیں، مولوی وحیدالزماں صاحب بھی یہی عقیدہ رکھتے تھے "مادہ عود" کے تحت لکھتے ہیں:
"یہ مہینہ خوشی کا مہینہ نہیں رہا..... محرم کا مہینہ شہادت کی وجہ سے غم کا مہینہ ہوگیا ہے"۔
"مادۂ عثم" کے تحت لکھتے ہیں:
"شیخین کواکثراہلِ سنت حضرت علیؓ سے افضل کہتے ہیں اور مجھ کواس امرپر بھی کوئی دلیل قطعی نہیں ملتی، نہ یہ مسئلہ کچھ اصولِ دین اور ارکانِ دین سے ہے، زبردستی اس کومتکلمین نے عقائد میں داخل کردیا ہے"۔
مولانا وحیدالزمان کی یہ بات صحیح نہیں، اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوا تھا، امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"افضلیت شیخین باجماع صحابہ وتابعین ثابت شدہ است چنانچہ نقل کردہ اند آں را اکابرائمہ کہ یکے ازایشاں امام شافعی است، شیخ ابوالحسن اشعری کہ رئیس اہلسنت است مے فرماید کہ افضلیت شیخین برباقی قطعی است، انکارنکند مگرجاہل یامتعصب"۔
(مکتومات دفتر:۲۔ مکتوب:۶۷،صفحہ:۱۳۰، لکھنؤ)
مولانا وحیدالزماں کے شیعہ نظریات کی وجہ سے کچھ علمائے حدیث بھی ان کے خلاف ہوگئے، مولانا "مادہ شر" کے تحت لکھتے ہیں:
"مجھ کومیرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم نے یہ کتاب "ہدیہ المہدی" تالیف کی ہے اہلحدیث کا ایک بڑا گروہ..... تم سے بددل ہوگئے ہیں اور عامہ اہلحدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا، میں نے ان کوجواب دیا، الحمد للہ کوئی مجھ سے اعتقاد نہ رکھے، نہ میرا مرید ہو..... مجھ کوپیشوا اور مقتدا جانے، نہ میرا ہاتھ چومے، نہ میری تعظیم وتکریم کرے، میں مولویت اور مشائخیت کی روٹی نہیں کھاتا"۔
آپ نے مادہ شعب کے تحت اہلحدیث پرکڑی تنقید کی ہے اور مادہ شر میں انہیں قاضی شوکانی (۱۲۵۰ھ) کا مقلد قرار دیا ہے، ان کے ہاں اہلحدیث غیرمقلد نہیں ہیں؛ بلکہ ابنِ تیمیہ، ابنِ قیم اور قاضی شوکانی کے مقلد ہیں۔
یہ چند مثالیں ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ وحیداللغات صرف لغات پر مشتمل نہیں ہے، اس میں مؤلف نے جگہ جگہ اپنے نظریات بھی سمودیئے ہیں، ہاں اس میں لغتِ حدیث پربڑی سیرحاصل بحث ملتی ہے، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
پہلے اس کتاب کا نام "انواراللغۃ" تھا، اس کی پانچ جلدیں مطبع احمدی لاہور نے شائع کی تھیں اس وقت کتاب ۲۸/حصوں میں تھی، مؤلف خود لکھتے ہیں:
"انواراللغۃ، جوجامع لغات احادیث مع احادیث فریقین یعنی امامیہ، واہلسنت ہے، بڑی محنت اورجانفشانی سے تالیف کی"۔
آپ نے پھراس کا نام "اسراراللغۃ" رکھا، اب بھی یہی نام ہے، اس کا لقب وحیداللغات ہے جواصح المطابع کے نئے ایڈیشن میں ۲۴/جلدں میں شائع ہوئی ہے، چھ مجلدات میں یہ ۲۴/جلدیں ملتی ہیں، آغاز میں لکھا ہے کہ آپ نے اس کی تالیف میں مندرجہ ذیل کتابیں کتابوں سے مدد لی ہے:
نہایہ ابن اثیر، مجمع البحار، قاموس المحیط، صحاح جوہری، محیط المحیط، منتہی الارب، مجمع البحرین، الدرالنشیرالغریبین، الفائق المغرب لسان العرب وغیرہ.... شیعہ کتابوں میں سے مجمع البحرین، مطلع النیرین مؤلفہ فخرالدین الطویحی (۱۸۵ھ) سے استفادہ کیا ہے، کہیں کہیں مولانا نے اہلِ لغت پربھی گرفت کی ہے؛ لیکن جہاں تک ہم ان مواقع پر غور کرسکے ہیں وہاں غلطی خود مولانا کی اپنی ہوتی ہے، غرائب لغات میں مولانا نے نہایہ اور مجمع بحار الانوار کے تقریباً تمام کے تمام مباحث لے لیے ہیں اور یہ حدیث کی ایک بڑی خدمت ہے کہ یہ مطولات وحیداللغات کی شکل میں اردو میں آگئی ہیں۔
مولانا وحیدالزماں کی یہ بداعتقادی ان سے استفادہ کرنے میں حارج نہیں ہونا چاہیے، علم حدیث میں کمال اور بات ہے اور لغت میں دسترس اور محنت دوسری بات ہے، اس ضرورت میں توعفان بن مسلم (۱۲۰ھ) جیسے محدثین بھی اخفش کے پاس آتے جاتے تھے اور ان سے اعراب کی اصلاح لے لیتے، امام اوزاعی (۱۵۷ھ) جیسے مجتہد بھی لحن کی صورت میں ان اہلِ فن سے رجوع کرتے ابوحاتم کہتے ہیں:
"كان عفان بن مسلم يجيء الى الأخفش وإلى أصحاب النحو يعرض عليهم الحديث يعربه فقال له الأخفش عليك بهذا يعنين"۔
(الكفاية في علم الرواية:۲۵۵، المؤلف: أحمد بن علي بن ثابت أبوبكر الخطيب البغدادي)
ترجمہ:عفان بن مسلم اخفش اور دوسرے نحویوں کے پاس آتے تھے اور انہیں احادیث دکھلاتے کہ وہ ان کے اعراب پڑھ دیں، اخفش انہیں کہتے ایسا ضرور کرلیا کریں ان کی مراد یہ ہوتی کہ یہ کام (اعراب کی درستگی) مجھی سے ہوتا ہے۔
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ (۱۵۷ھ) کہتے ہیں:
"إذاسمعتم عني الحديث فاعرضوه على أصحاب العربية ثم أحكموه"۔
(الكفاية في علم الرواية:۲۵۵، المؤلف: أحمد بن علي بن ثابت أبوبكر الخطيب البغدادي)
ترجمہ:جب مجھ سے کوئی حدیث سنوتواسے علماء عربیت کودکھلالیا کرو؛ پھراس پر فیصلہ کرو۔
خطیب بغدادی نے یہ روایت اس باب کے تحت نقل کی ہیں:
"باب القول في المحدث يجد في أصل كتابه كلمة من غريب اللغة"۔
(الكفاية في علم الرواية:۲۵۵، المؤلف: أحمد بن علي بن ثابت أبوبكر الخطيب البغدادي)
ترجمہ:یہ باب محدثین کی اس بات میں ہے جب انہیں اپنی تحریرات حدیث میں غریب لغت کے کلمات ملیں تووہ کیا کریں۔
اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ علمائے حدیث غریب الحدیث او رکلمات کی غرابت میں ہمیشہ اس فن والوں کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں، لغت پر محنت کرنے والوں کے لیے ضروری نہیں کہ وہ صحیح العقیدہ ہوں یایہ کہ فن حدیث میں ماہر بھی ہوں۔
اِس پہلو سے "اسراراللغۃ الملقب بہ وحیداللغات" اس لائق ہے کہ اس سے استفادہ کیا جائے، مولانا وحیدالزماں گوعلمائے عربیت میں سے نہ تھے؛ لیکن "النہایہ" پوری کی پوری نقل کردینے میں ان کی محنت کچھ کم لائقِ تحقین نہیں ہے..... ہاں ان کے بعض ناشرین نے ترجمہ صحیح مسلم میں صحیح مسلم کے جویہ الفاظ نکال دیئے ہیں ہم اس پرافسوس کیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
صحیح مسلم کی اس حدیث سے کون واقف نہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ" اس حدیث کوامام مسلم اپنے استاد اسحاق بن ابراہیم اور عبد بن حمید سے، اسطرح نقل کرتے ہیں کہ دونوں نے عبدالرزاق سے، انہوں نے معمر سے، انہوں نے زھری سے، زھری نے محمود بن الربیع سے اور انہوں نے حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے اسے اس طرح روایت کیا کہ حضورؐ نے فرمایا:
"جس نے سورۂ فاتحہ اور اس سے آگے نہ پڑھا اس کی نماز نہ ہوگی"۔
(مسلم، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ وَإِنَّهُ إِذَالَمْ يُحْسِنْ الْفَاتِحَةَ،حدیث نمبر:۵۹۷،شاملہ، موقع الإسلام)
حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "أُمِرْنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَاتَيَسَّرَ"(ابوداؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ،حدیث نمبر:۶۹۵، شاملہ، موقع الإسلام) ہمیں حضورﷺ کا حکم ہے کہ سورۂ فاتحہ اور کوئی حصہ قرآن جوآسانی سے لے سکیں پڑھیں، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضورﷺ نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کوحکم دیا کہ منادی کردیں:
"لَاصَلَاةَ إِلَّابِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَمَازَادَ"۔
(مسنداحمدبن حنبل،مسند أبي هريرة رضي الله عنه،حدیث نمبر:۹۵۲۵،شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ: سورۂ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ اور حصہ قرآن پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
صحیح مسلم کے اردو ترجمہ سے فصاعداً کے الفاظ کونکال دینا یہ بعض متعصب ناشرین کی حرکت معلوم ہوتی ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مولانا وحیدالزماں کی تراجم حدیث کی خدمت کا بھی انکار کردیں، وحیداللغات ان کی لائق داد محنت ہے اس کا مطالعہ النہایہ اور مجمع بحار الانوار جیسی ضخیم کتابوں سے مستغنی کردیتا؛ مؤلف ان حضرات کی ساری کاوش کواپنے لفظوں میں نقل کردیتے ہیں ان کی اپنی کوئی علیحدہ محنت نہیں ہے، مولانا وحیدالزماں کچھ شیعہ عقائد بھی رکھتے تھے؛ لیکن انکا یہ موقف کوئی دھوکہ نہ تھا اہلحدیث باصطلاح جدید کسی ایک منضبط ضابطہ عقائد اور لائحہ عمل پرجمع ہونے والوں کا نام نہیں ہرایک کی اپنی اپنی سوچ اور اپنی (تحقیق) ہے، ان میں صرف ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ترکِ تقلید اور اس میں بھی ان کے دوطبقے ہیں ایک وہ جوتقلیدکوگناہ سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ جومذاہب اربعہ کوحق سمجھتے ہیں؛ لیکن تقلید کوضروری نہیں سمجھتے، جماعت اہلحدیث کا غزنوی مکتب فکر اس دوسرے طبقے میں سے ہے۔
No comments:
Post a Comment