Sunday, 9 December 2012

رجال الحدیث


رجال الحدیث


تذکرۂ رجال الحدیث سے مراد



یہ ان مردان باوفا کا تذکرہ ہے جن کی وجہ سے حدیث پہلوں سے پچھلوں تک پہنچی، ان میں ائمہ حدیث بھی شامل ہیں اور عام رواۃ حدیث بھی،جہاں تک نقل وروایت کا تعلق ہے،اس میں سبھی اہل خبر عامی ہوں یا خاصی، امام ہوں یا سامع اپنی اپنی بساط کے مطابق آگے بڑھے؛ یہاں ان رجال حدیث کا تذکرہ ہے جن کی وجہ سے علمی دنیا ایک نئے فن سے آشنا ہوئی، یہ فن علم اسماء الرجال کہلایا۔
آنحضرت   نے اپنے سب صحابہ کو رجال الحدیث بنایا ہے، آپ انہیں ارشاد فرماچکے تھے،بلغواعنی ولوایۃ (مشکوٰۃ:۳۲، عن البخاری ومسلم) تم مجھ سے باتیں آگے پہنچاتے رہو؛ گوایک ہی بات کیوں نہ ہو، اس ارشاد رسالت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔
(۱)حضور   کی نظر میں ہر ایک صحابی نقل روایت کا اہل تھا،صادق اورامین تھا۔
(۲)ہرہر صحابی حضور   کی احادیث آگے پہنچانے کا ذمہ دار تھا۔
تاہم جو صحابہؓ اس محنت میں آگے نکل گئے وہ دور اول کے رجال الحدیث کہلائیں گے۔



صف اول کے رجال الحدیث

یوں تو سب صحابہ کرام ؓ رجال الحدیث ہیں؛لیکن یہ آٹھ حضرات ان میں سر فہرست ہیں،ان کی روایات سب سے زیادہ ہیں۔
(۱)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) آپ سے تقریبا ۸۴۸ احادیث مروی ہیں۔
(۲)ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ  (۵۸ھ) آپ سے تقریبا"۲۲۱۰"احادیث مروی ہیں۔
(۳)حضرت ابو ہریرہؓ   (۵۹ھ) آپ سے تقریبا "۵۳۷۴" احادیث مروی ہیں۔
(۴)حضرت عبداللہ بن عباسؓ  (۶۸ھ) آپ سے تقریبا "۱۶۶۰ "احادیث مروی ہیں۔
(۵)حضرت عبداللہ بن عمروؓ (۷۳ھ) آپ سے تقریبا"۲۶۳۰"احادیث مروی ہیں۔
(۶)حضرت ابو سعید خدریؓ  (۷۴ھ) آپ سے تقریبا"۱۱۷۰"احادیث مروی ہیں۔
(۷)حضرت جابر بن عبداللہ (انصاریؓ) (۷۸ھ) آپ سے تقریبا"۱۵۴۰"احادیث مروی ہیں۔
(۸)حضرت انس بن مالک ؓ  (۹۳ھ) آپ سے تقریبا"۲۲۶۶"احادیث مروی ہیں۔
ان کے بعد جن صحابہؓ سے زیادہ روایات ہیں ان میں حضرت ابوالدرداء(۳۲ھ) حضرت عبداللہ بن عمرؓ (۷۳ھ) سمرہ بن جندبؓ (۵۹ھ) عبادہ بن صامتؓ (۳۴ھ) عبدالرحمن بن عوفؓ (۳۲ھ) معاذ بن جبلؓ (۱۸ھ) ابو موسیٰ اشعریؓ (۵۲ھ) حضرت علیؓ (۴۰ھ) حضرت امیر معاویہؓ (۶۰ھ) حضرت ابو ذر غفاریؓ (۳۲ھ) اورحضرت عثمان ذوالنورینؓ (۳۵ھ) سرفہرست ہیں۔
علمی حیثیت سے جو صحابہؓ اس دور میں زیادہ ممتاز رہے وہ مشہور فقیہ تابعی حضرت مکحولؒ (۱۰۱ھ) کے بیان کے مطابق یہ حضرات تھے۔

"عن مسروق قال: شاممت أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، فوجدت علمهم انتهى إلى ستة: عمر، وعلي، وعبد الله، ومعاذ، وأبي الدرداء، وزيد بن ثابت"۔

(تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی،باب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۹۶/۱)

ترجمہ: میں نے حضور اکرمؐ کے اصحابؓ کا بہت قریب سے مطالعہ کیا ہے، میں نے ان کا علم چھ افراد میں منتہی ہوتے پایا، عمرؓ، علیؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، معاذؓ، ابوالدرداءؓ اورزید بن ثابت رضی اللہ عنہم ہیں۔



دورثانی کے رجال الحدیث


تابعین کرام میں جو حضرات اس میدان میں زیادہ پیش پیش رہے،حضرت امام شافعیؒ کے ایک بیان میں ان کا ذکر مختلف شہروں کے اعتبار سے اس طرح ملتا ہے، یہ بحث امام شافعیؒ نے خبر واحد کی حجیت کے ذیل میں لکھی ہے:

میں نے مدینہ منورہ و مکہ، یمن و شام و کوفہ کے حضرات ذیل کو دیکھا کہ وہ آنحضرت   کے ایک صحابی سے روایت کرتے تھے اور صرف اس ایک صحابی کی حدیث سے ایک سنت ثابت ہوجاتی تھی، اہل مدینہ کے چند نام یہ ہیں محمد بن جبیرؓ، نافع بن جبیرؓ، یزید بن طلحہؓ، نافع بن عجیرؓ، ابوسلمہ بن عبدالرحمنؓ، حمید بن عبدالرحمنؓ، خارجہ بن یزیدؓ، عبدالرحمن بن کعبؓ، عبداللہ بن ابی قتادہؓ، سلیمان بن یسارؓ، عطاء بن یسارؓ وغیرہم اور اہل مکہ کے چند اسماء حسب ذیل ہیں:

عطاء، طاؤس، مجاہد، ابن ابی ملیکہ، عکرمہ بن خالد، عبید اللہ بن ابی یزید، عبداللہ بن باباہ، ابن ابی عمار، محمد بن منکدر وغیرہم اوراسی طرح یمن میں وہب بن منبہ اور شام میں مکحول اور بصرہ میں عبدالرحمن بن غنم، حسن اورمحمد بن سیرین کوفہ میں اسود، علقمہ اور شعبی۔

غرض تمام بلاد اسلامیہ اسی پر تھے ؛کہ خبر واحد حجت ہے؛ اگر بالفرض کسی خاص مسئلہ کے متعلق کسی کے لیے یہ کہنا جائز ہوتا کہ اس پر مسلمانوں کا ہمیشہ اجماع رہا ہے تو خبر واحد کی حجیت کے متعلق بھی میں یہ لفظ کہہ دیتا؛ مگر احتیاط کے خلاف سمجھ کر اتنا پھر بھی کہتا ہوں کہ میرے علم میں فقہاء مسلمین میں سے کسی کا اس میں اختلاف نہیں ہے۔          

(ترجمان السنہ:۱/۱۷۶)

ان کے علاوہ بھی اس دور کی عظیم تعداد ہے جن سے ہزاروں روایات آگے چلیں، یہ سب حضرات رجال الحدیث تھے، جن کی سندیں آگے چلیں، جہاں تک فقہ حدیث اور علم کا تعلق ہے علامہ شعبی(۱۰۳ھ) فرماتے ہیں ؛کہ صحابہ کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والا کوئی نہ تھا، حضرت ابو زعۃ الدمشقی لکھتے ہیں:

میں نے علامہ شعبی کو کہتے سنا کہ آنحضرت   کے صحابہ کے بعد کوئی طبقہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے اصحاب سے زیادہ فقہیہ نہیں تھا۔

(تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی،باب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۱/۹۶)

امام ابو حنیفہؒ اس دور کے اکابر مجتہدین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"فاذا انتھی الامر وجاء الامر الی ابراھیم والشعبی وابن سیرین والحسن وعطاء وسعید بن المسیب وعدد رجالافقوم اجتھدوا فاجتھد کما اجتھدوا"۔

(تاریخ یحییٰ بن معین:۲/۶۰۸،طبع: سنہ۱۳۹۹ھ ،مکہ مکرمہ)

ترجمہ: جب معاملہ ابراہیم نخعی،علامہ شعبی، امام محمد بن سیرین حسن بصری، حضرت عطاء بن ابی رباح اور،حضرت سعید بن المسیب تک پہنچے اورآپ نے کئی اور بھی نام لیے تو یہ وہ لوگ تھے جو مجتہد تھے سو میں بھی اجتہاد سے کام لیتا ہوں جیسا کہ یہ اجتہاد سے کام لیتے تھے۔

یہ حضرات اپنے دور کے ائمہ علم تھے، رجال الحدیث ان کے علاوہ ہزاروں وہ لوگ بھی تھے جو مجتہدین کے درجہ کے نہ تھے؛لیکن رواۃ حدیث میں خاصے معروف تھے،یہاں تک کہ آگے تبع تابعین میں ہزاروں رجال حدیث میدان علم میں آگئے، یہی تین طبقے تھے جن کے اہل ہونے کی خود لسان شریعت نے خبر دی تھی "خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم" ان خیر القرون کے بعد رجال حدیث محض زبانوں پر نہ رہے، کتابوں میں آنے لگے اور حدیث کی کتابیں متون احادیث اوران کی اسانید کے ساتھ مرتب ہونے لگیں، اس دور میں صداقت وثقافت غالب تھی اور رجال الحدیث کی باضابطہ جانچ پڑتال کی چنداں ضرورت نہ پڑتی تھی؛ لیکن جب فتنے پھیلنے شروع ہوئے اور بدعات کا شیوع ہواتو اسا نید پر باقاعدہ نظر کی ضرورت سمجھی گئی،یہاں تک کہ آگے چل کر اسماء الرجال کا علم ایک مستقل فن کی شکل اختیار کرگیا۔

اسماء الرجال کا امتیاز

یہ وہ علم ہے جس کے موجد خالصۃ مسلمان ہیں اوردوسری کوئی قوم اپنےمذہبی علمی حلقوں میں اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی، مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر اسپینگر الاصابہ فی احوال الصحابہ کے ۱۸۸۱ء کے ایڈیشن کے دیباچہ میں لکھتا ہے:

کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری اورنہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو جس کی بدولت پانچ لاکھ مسلمانوں کا حال معلوم ہوسکتاہے۔




علم اسماء الرجال کی ضرورت


مولانا عبدالقیوم جونپوری اس فن کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ تحقیق کی جائے کہ جو حضرات سلسلہ روایت میں ہیں وہ کون لوگ تھے، کیسے تھے، ان کے مشاغل کیا تھے، ان کا چال چلن کیسا تھا، سمجھ بوجھ کیسی تھی، سطحی الذھن تھے، یا نکتہ رس عالم تھے، یا جاہل، کس تخیل اور کس مشرب کے تھے، سن پیدائش اور سن وفات کیا تھا؟ شیوخ کون تھے؟ تاکہ ان کے ذریعہ سے حدیث کی صحت، سقم دریافت کی جاسکے، ان جزئی باتوں کا دریافت کرنا اوران کا پتہ لگانا سخت مشکل تھا ؛لیکن محدثین نے اپنی عمریں اس کام میں صرف کیں اورایک شہر کے راویوں سے ان کے متعلق ہر قسم کے حالات دریافت کیے، انہیں تحقیقات کے ذریعہ سے اسماء الرجال کا ایک عظیم الشان فن ایجاد ہوگیا ہے،جس کے ایجاد کا شرف مسلمانوں کو حاصل ہوا ؛لیکن مجھے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ جو کتابیں اسماء الرجال میں لکھی گئی ہیں عام اس سے کہ وہ متقدمین کی ہوں یا متاخرین کی ان میں تعصبات مذہبی کے علاوہ ذاتی مناقشات اور فروعی اور سیاسی اختلافات اورہم عصری نوک جھونک کی بنا پر لوگوں کی جرح کی گئی ہے، بعض حضرات نے تو ایسے امور کو بھی جرح کا باعث قرار دے دیا کہ جو نہ شرعی اورنہ اخلاقی اورنہ عرفی حیثیت سے قابل اعتراض ہیں، جیسے کھنکار کر تھوکنا یا سیروسیاحت میں گھوڑے دوڑانا یا مطلقا خوش طبعی یا مطلقا نو عمری یا قلت روایت یا مسائل فقہیہ یا دیگر علوم میں مشغولیت وغیرہ، یہاں تک کہ علامہ ذہبی (۷۴۷ھ) کا دامن بھی اس سے پاک  نہیں ہے، البتہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (۸۵۲ھ) نے اس فن میں جو کتابیں لکھی ہیں وہ ایک بڑی حد تک افراط و تفریط سے پاک ہیں، لہذا ان کتابوں کے مطالعہ کے وقت یہ یادرکھنا چائیے کہ جو جرحیں امور متذکرہ بالا کے ماتحت کی گئی ہیں وہ عقلاً میرے نزدیک قابل التفات نہیں ہیں، تنقید رجال کے اصول جنہوں نے سب سے پہلے قائم کیئے وہ شعبہ بن الحجاج (۱۶۰ھ) ہیں جو جرح و تعدیل کے امام کہلاتے ہیں (لیکن ان سے بھی بعض دفعہ تشدد ہوجاتا ہے)۔
مختصر یہ ؛کہ حدیث کی صحت و سقم دریافت کرنے کے لیے اصول حدیث کی اس قدر ضرورت تھی کہ اگر کوئی محدث اس علم سے غافل ہوتا تو اس کو بڑی دقتوں کا سامنا پیش آتا، خصوصاً اس وقت جب کہ فتن کے دروازے کھل گئے، بدعات کا شیوع ہوا، سیاسی انتشار کے علاوہ الحادو زندقہ نے زور پکڑا، عقائد میں فرقہ بندی شروع ہوگئی اورہر شخص اپنے خیالات کی تائید میں حدیثیں پیش کرنے لگا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رطب ویابس حدیثیں ان مجموعوں میں شامل ہوگئیں، جن کے جانچنے پر کہنے کے لیے اصول کی سخت ضرورت پیش آئی؛ چنانچہ علامہ ابن سیرینؒ سے میزان الاعتدال میں منقول ہے کہ اسناد کے جانچنے کی ضرورت واقعات فتن کے بعد ہوئی،سب سے پہلے اس موضوع پر بقول حافظ ابن حجر عسقلانی اورقاضی ابومحمد الرامہرمزی( ۳۶۰ھ) نے قلم اٹھایا اور اصول حدیث میں ایک کتاب لکھی جس کا نام المحدث الفاصل ہے،لیکن یہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچی اور دوسرے حاکم ابو عبداللہ النیشا پوری نے خامہ فرسائی کی؛ مگر ان کی کتاب غیر مرتب رہی،اس کے بعد ابو نعیم اصفہانی(۴۳۰ھ) نے حاکم کی کتاب کو پیش نظر رکھ کر اس میں بہت سے اضافے کیے؛ مگر وہ تشنہ کام رہی اوروہ بعد کے آنے والوں کے لیے کام چھوڑ گئے پھر خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) میں پیدا ہوئے جنہوں نے قوانین روایت میں ایک کتاب لکھی جس کا نام الکفایہ ہے اور طریق روایت میں دوسری کتاب لکھی جس کا نام "الجامع لآداب الشیخ والسامع" ہے؛بلکہ فنون حدیث میں کوئی فن نہیں چھوڑا کہ جس میں انہوں نے کوئی مستقل کتاب نہ لکھی ہو۔
لیکن ہم یہ ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ خطیب سے بھی بعض امور میں سخت فروگذاشتیں ہوئی ہیں، اگر ان میں تعصب کا پہلو کار فرما نہ ہوتا تو وہ بے شک جلالت قدر کے آسمان پر مثل آفتاب تھے۔

علم رجال کے اہم مباحث

اس کے اہم مباحث یہ ہیں:
(۱)اسلام میں تنقید و تبصرے کا درجہ کیا ہے؟۔
(۲)علم اسناد کی دینی حیثیت کیا ہے؟۔
(۳)فن اسماء الرجال کی تدوین کیسے ہوئی؟۔
(۴)علم حدیث کے لیے فن کا ساتھ ساتھ رہنا کیا ضروری ہے؟۔
(۵)جرح و تعدیل سے کیا مراد ہے؟۔
(۶)جرح و تعدیل کے عام الفاظ کیا کیا ہیں؟۔
(۷)جرح و تعدیل کے بڑے بڑے امام کون تھے؟۔
(۸)اسماء الرجال میں کن کن کتابوں پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟۔
(۹)حدیث کے طلبہ اس فن سے کیسے استفادہ کریں؟۔

(۱)اسلام میں تنقید و تبصرہ

پہلا اہم موضوع یہ ہے کہ اسلام میں تنقید و تبصرہ کا کیا حکم ہے؟شیخ الحدیث حضرت مولانا سید بدر عالم مدنیؒ نے اس پر بہت مفید بحث لکھی ہے:

خبرواحد کی حجیت کے سلسلہ میں یہاں دو غلط فہمیاں اور بھی ہیں، ایک یہ کہ محدثین کا گروہ محض ایک جامد گروہ ہے جسے فن روایت سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا، وہ دقیانوسی خبروں کو آنکھ میچ کر مان لینا علم اور دین سمجھتا ہے اور نقد و تبصرہ کو بددینی تصور کرتا ہے،دوم یہ کہ ادیان سماویہ کا مبنی صرف روایت پر ہے، درایت کو یہاں کوئی دخل نہیں دراصل پہلی غلط فہمی بھی اسی کی ایک فرع ہے، ان دو غلط فہمیوں کی وجہ سے بعض ناواقف توحدیث کا رتبہ تاریخ سے بھی کمتر تصور کرتے ہیں۔




بنی اسرائیل میں فن روایت کا فقدان


بنو اسرائیل میں اعتدال کلیۃ مفقود تھا،جب وہ تحقیق پر آتے تو کوہ طورپر کلام باری بلاواسطہ سن کر بھی سو طرح کے شبہات نکالنے لگتے اورجب تقلید کرنے پر آمادہ ہوتے تو جوان کے احبا رو رہبان ان کے سامنے ڈالتے اسے اندھوں کی طرح مٹکنے کے لیے تیار ہوجاتے؛ غرض نقد وتبصرہ اور فہم و فکر کی ان میں کوئی استعداد نہ تھی، حضرت الشیخ مولانا بدر عالم مدنی مذکورہ بالاتبصرہ کے بعد لکھتے ہیں:

روایت اور درایت کے اس غیر متوازن دور میں اسلام آیا اوراس نے ان دونوں کا توازن قائم کرکے صحیح تنقید کی راہ دکھلائی اوراس کے لیے ایک ایسا معتدل آئین مرتب فرمایا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط، اس نے بتایا کہ ہر کان پڑی خبر کی طرف دوڑ پڑنا بھی غلط ہے اور تحقیق و تفتیش کے سلسلہ میں بد گمانی کی حد تک پہنچ جانا بھی غلو اور وہم پرستی ہے، انسان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بے اعتمادی کی حالت میں آنکھ میچ کر تغلیط اور اعتماد کی صورت میں بے دلیل تصدیق کرلیا کرتا ہے،مگر قرآن نے یہاں دوست دشمن اپنے اور پرائے کا فرق ختم کرکے سب کے لیے یکساں تحقیق و تبیین کا قانون مقرر کردیا ہے۔

قرآن نے یہ تعلیم دی کہ ہر خبرکی تحقیق و تبیین کرلیا جائے کہ وہ خواہ فاسق شخص ہی کی خبر کیوں نہ ہو،ہر چند کہ فاسق آدمی کی خبر رد کردینے میں بھی مضائقہ نہیں تھا مگر قرآن کسی خبر کارد کرنا بھی پسند نہیں کرتا، فاسق آدمی بھی صحیح خبر دے سکتا ہے، پس اس کی ہر خبر کارد کردینا بھی قرین مصلحت اورطور انصاف نہیں ہے۔

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَافَعَلْتُمْ نَادِمِينَ"۔

(الحجرات:۶)

ترجمہ: اے ایمان والو جب کوئی فاسق شخص تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آیا کرے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بے تحقیق کسی قوم پر حملہ کردو بعد میں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔

دوسری طرف اس نے تجسس اور بدظنی کی بھی ممانعت فرمائی؛کہ ایسی تحقیق سے بھی نظام عالم برباد ہوتا ہے۔

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَاتَجَسَّسُوا۔

(الحجرات:۱۲)

ترجمہ: اے ایمان والو بہت سی بدگمانیوں سے بچا کرو؛ کیونکہ بعض بد گمانی گناہ کی حد تک ہوتی ہیں اور تجسس اورڈھونڈ کر لوگوں کے عیب بھی تلاش کرنے کی خصلت مت اختیار کرو۔



ہرچیز کی تحقیق کے لیے اس کی اہلیت چاہئے


ہر خبر کی تفتیش کا سلیقہ ہر انسان نہیں رکھتا، بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں ؛کہ ان کی تفتیش خاص افراد ہی کرسکتے ہیں،یہ تفتیش کے محکمہ جات کی طرف اشارہ ہے،ہر خبر کی تحقیق کے لیے اس کے مناسب اہلیت درکار ہے۔

"وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْرَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ "۔            

(النساء:۸۴)

ترجمہ: جب ان کے پاس کوئی امن یاڈر کی کوئی خبر آتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں، اگراس کو رسول یا اپنے علماء وحکام تک پہنچادیتے تو جو ان میں ملکہ استنباط رکھنے والے شخص تھے وہ اس کوپورے طورپر معلوم کرلیتے۔

روایتی پہلو میں جو چیز سب سے زیادہ حائل ہوسکتی ہے وہ مخبر اور شاہدوں کا بیان ہے؛ اس لیے ان کویہ تعلیم دی گئی ؛کہ اپنے بیان اور گواہی میں پوری احتیاط سے کام لیں، جھوٹ یا طرفداری کا شائبہ نہ آنے پائے؛ اس لیے جھوٹ بولنے یا ایک دوسرے پر جھوٹا الزام لگانے کی اتنی مذمت کی گئی کہ اس سے بد تر سوسائٹی کا کوئی عیب نہ رہا۔
ان بنیادی اصول کی روشنی میں مذہب اسلام جتنی ترقی کرتا رہا،اسی قدراس کے بنیادی تنقید کے اصول بھی ساتھ ساتھ ترقی کرتے رہے؛ حتی کہ اسناد، جرح و تعدیل، احوال روات ہر ایک کے لیے جدا جدا مستقل فن مرتب ہوگئے، علامہ جزائری نے "تو جیہ النظر" میں حدیث کے سلسلہ میں ۵۲ قسم کے علوم بالتفصیل بیان فرمائے ہیں جن کے مطالعہ کے بعد احادیث کے مفید یقین ہونے میں ایک منٹ کے لیے بھی شبہ کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔

(۲)علم اسناد کی دینی حیثیت

حدیث کا متن Text حدیث کی سند Chain of Transitters پر موقوف ہے، سند صحیح متصل سے کوئی بات ثابت ہوجائے تو اس کی تمام ذمہ داریاں لازم آجاتی ہیں، حدیث اگر حجت ہے اوراس پر عمل واجب ہے تو اس کی سند معلوم کرنا اوراسکے راویوں کی جانچ پڑتال کرنا سب علم دین قرار پائے گا،یادرکھئے واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے، قرآن کریم میں ہے:

"إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا"۔          

(الحجرات:۶)

ترجمہ: اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی رو سے راوی کی بات کی تحقیق کرنا ایک عظیم دینی ذمہ داری ہے جو سامع پر عائد ہوتی ہے،سو اسناد کوپہچاننا اورراویوں کو جاننا خود دین ہوگا، امام ابن سیرینؒ (۱۱۰ھ) فرماتے ہیں:

"إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ"۔

(مقدمہ مسلم،باب حدثنا حسن بن الربیع حدثنا حماد:۱/۳۳)

ترجمہ: بے شک یہ علم دین ہے سو دیکھ لیا کرو کہ کن لوگوں سے تم اپنا دین اخذ کررہے ہو، امام نووی نے اس پر یہ باب باندھا ہے۔

"بَاب بَيَانِ أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنْ الدِّينِ وَأَنَّ الرِّوَايَةَ لَا تَكُونُ إِلَّا عَنْ الثِّقَاتِ وَأَنَّ جَرْحَ الرُّوَاةِ بِمَا هُوَ فِيهِمْ جَائِزٌ بَلْ وَاجِبٌ"۔           

(مسلم،باب بیان ان الاسناد من الدین:۱/۳۲)

ترجمہ: سند لانادین میں سے ہے، روایت ثقہ راویوں سے ہو، راویوں پر اس پہلو سے جرح کرنا جوان میں ہو جائز ہے ؛بلکہ یہ واجب ہے۔

علم اسناد کی یہاں تک اہمیت ہوگئی کہ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ (۱۵۶ھ) نے اس کا سیکھنا دین قرار دیا،آپ فرماتے ہیں:

"الْإِسْنَادُ مِنْ الدِّينِ وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ"۔

(مقدمہ مسلم،باب وحدثنی محمد بن عبداللہ بن:۱/۳۸)

ترجمہ: علم اسناد بھی دین کا ہی ایک حصہ ہے اوراگرسند ضروری نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہے کہہ سکتا تھا۔

قبول روایت کا معیار آپ کے ہاں اتنا وقیع تھا ؛کہ جو شخص سلف (پہلے بزرگوں ) کو برا بھلا کہے،اس کی روایت نہ لینے کا حکم فرماتے تھے، ایک جگہ فرماتے ہیں:

"دَعُوا حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ"۔

(مقدمہ مسلم،باب وحدثنی محمد بن عبداللہ بن:۱/۳۸)

ترجمہ: عمرو بن ثابت کی روایت چھوڑدو وہ تو سلف صالحین کو برا کہتا تھا۔

حافظ شمس الدین سخاوی(۹۰۲ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں:

راویوں کی تاریخ اوران کی وفات کے سنین کا جاننا دین کا ایک عظیم الوقعت فن ہے،مسلمان قدیم سے اس سے کام لیتے آئے ہیں،اس سے استغنا نہیں برتا جاسکتا نہ اس سے زیادہ کوئی اور موضوع اہم ہوسکتا ہے، خصوصا اس کی قدر اعظم سے اور وہ راویوں کے حالات کو کھولنا اوران کے حالات کی ان کے ماضی، حال اور استقبال کے ساتھ تفتیش کرنا ہے، اعتقادی ابواب اور فقہی مسائل اس کلام سے ماخوذہیں جو ضلالت سے بچ کر ہدایت دے اور گمراہی اوراندھا پن سے ہٹا کر راہ دکھائے۔

(فتح المغیث، باب تواریخ الرواۃ والوفیات:۳۱۰/۳)


.ایک سوال اوراس کا جواب

مشہور ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا: "انظر الی ماقال ولا تنظر الی من قال" (اسے دیکھو! جوکسی نے کہا ہے، یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا ہے) معلوم ہوا کہ ہمیں متن سے غرض ہونی چاہئے سند سے نہیں؟۔
اگریہ بات حضرت علیؓ سے ثابت بھی ہو تو اس کا موضوع دانائی اورحکمت کی باتیں ہیں،قانون اور تاریخ کی باتیں نہیں،حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے،جہاں بھی ملے اس نے اپنی متاع پالی،وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے،جو شخص کوئی بات نقل کرے یا کوئی قانون بیان کرے تو اسے بغیر جانے کہ کون کہہ رہا ہے لے نہیں لیا جاتا؛ بلکہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ شخص کہاں سے نقل کررہا ہے اور یہ کہ وہ خود کیسا شخص ہے،دیانت دارہے یانہ؟ کس حکومت کا نمائندہ اور کس قانون کا ترجمان ہے؛ اگر اس کے پاس اس بات کی جو وہ کہہ رہا ہے سند نہ ہو تو اس کا کوئی اعلان ہر گز قابل قبول نہ ہوگا ۔
شریعت بھی قانونِ الہٰی ہے اوریہ نقل سے ہی پہچانی جاتی ہے،البتہ اس کے بعض پہلو استنباط سے کھلتے ہیں، شریعت کسی تجربے اور حکمت سے مرتب نہیں ہوتی،نہ یہ کبھی حکمت عملی کے نام سے ترتیب پاتی ہے،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

امت نے اتفاق کیا ہے کہ وہ معرفت شریعت میں سلف پر اعتماد کریں، تابعینؓ نے صحابہؓ پر تبع تابعینؓ نے تابعینؓ پر اور اسی طرح ہر طبقہ کے علماء نے اپنے سے پہلوں پر اعتماد کیا ہے اور عقل اس کی تحسین پر دلالت کرتی ہے؛ اس لیے کہ شریعت نقل اوراستنباط سے ہی پہچانی جاتی ہے اور نقل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتی؛کہ ہر طبقہ اسے اپنے پہلوں سے اتصال کے ساتھ لیتا رہے۔

(عقد الجید:۵۴،مترجم طبع: کراچی)

پس! علم شریعت کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بات کہاں سے آرہی ہے،اس کا ماخذ کیا ہے؟ بات کہاں سے ہے اوراسے آگے روایت کرنے والے کس قوم کے لوگ ہیں؟ کیا ان پر اعتماد کرکے آخرت کی تمام زندگی ان لوگوں کی نقل و روایت کے سپرد کی جاسکتی ہے؟ دنیوی امور کے کسی اہم فیصلے سے یہ فیصلہ کہیں زیادہ اہم ہے۔

اکرام مومن کی شرعی حیثیت

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان جو بھی خبر دے اکرام مومن کے طور پر اسے قبول کرلینا چاہئے، جانچ پڑتال نہ کی جائے کہ خبر دینے والا کیساہے، یہ صحیح نہیں، اکرام مومن کا مفہوم یہ ہے؛کہ مسلمان کی طرف سے کسی مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو پر کوئی حرف نہ آئے اوروہ اس کے ساتھ عزت اور مروت کا برتاؤ کرے؛لیکن یہ بات اپنی جگہ صحیح اورمسلم ہے ؛کہ دین کا تحفظ اوراکرام ایک مومن کے اکرام سے کہیں زیادہ ہے، اگر کوئی مسلمان حضور   کی کوئی بات آگے نقل کرے تو چونکہ اس دوسرے شخص نے اس بات کو دین اور شریعت سمجھ کر زندگی بھر اپنا تا ہے اور اپنے بعد والوں کے لیے بھی اسے سند بناتا ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ اس کی نقل وروایت میں اچھی طرح جانچ پڑتال کرلے، اب راویوں کے حالات معلوم کرنا اوران کی صحت و سقم کو پہچاننا اکرام مومن کے شرعی تقاضے کے خلاف ہر گز نہیں ہے،اس باب میں اگر کسی مسلمان کی برائی اس کی عدم موجود گی میں کی جائے تو وہ شرعی غیبت نہ ہوگی، دین کی حفاظت کے لیے ایک قدم ہوگا۔

مؤمن کے بارے میں گمان رکھنے کا مفہوم

"ظنوا بالمؤمنین خیرا" (مؤمن کے بارے میں نیک گمان ہونا چاہئے) مشہور مقولہ حکمت ہے، اس کا موضوع اس کی اپنی ذات ہے، اس کی نقل وروایت نہیں،دین کا معاملہ اس سے کہیں اونچا ہے ؛کہ اسے محض نیک گمان کے سہارے قائم کرلیا جائے،اس باب میں اگر کسی گمان کو اہمیت دی جاسکتی ہے تو وہ صرف اہل فن کا گمان اور اعتماد ہے؛ انہوں نے کسی شخص کی روایت قبول کرلی ہو،(اسے صرف روایت نہ کیا ہو قبول بھی کرلیا ہو) توآپ ان پر نیک گمان کرتے ہوئے اسے قبول کرسکتے  ہیں؛ لیکن اگر کسی طرح اس کی غلطی ظاہر ہوگئی، تو پھر اس نیک گمان سے دستبردار ہوجانا چاہئے،ہاں مومن کی کوئی اپنی بات جس کا تعلق اس کی ذات سے ہو دین سے یا دوسروں سے نہ ہو، تو دوسرے مسلمانوں کی پوری کوشش ہونی چاہئے کہ اس پر نیک گمان کریں اوراس کے وہی معنی مرادلیں جو اچھائی پر محمول ہوں،اس کی بات کی ایسی مراد نہ لیں جو ایک مسلمان سے توقع نہ کی جاسکتی ہو۔

"فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"۔     

(الزمر:۱۸)

ترجمہ: آپ خوشخبری دیں ان لوگوں کو جو سنتے ہیں بات پھر چلتے ہیں اس (پہلو) پر جو جو سب سے اچھا دکھائی دے احسن ہو۔

حضوراکرم   نے بھی فرمایا:

"فَظُنُّوا بِهِ الَّذِى هُوَ أَهْيَأُ وَالَّذِى هُوَ أَهْدَى وَالَّذِى هُوَ أَتْقَى"۔

(سنن الدارمی،باب تاویل حدیث النبی،حدیث نمبر:۶۰۲)

ترجمہ :سو! اس کی نسبت گمان کرو جو زیادہ مناسب ہو،ہدایت کے زیادہ قریب ہو اورزیادہ خوف خدا پر مبنی ہو۔




(۳)فن اسماء الرجال کی تدوین کیسے ہوئی؟


ضرورت ایجاد کی ماں ہے،حدیث کے راوی جب تک صحابہ کرامؓ تھے،اس فن کی کوئی ضرورت نہ تھی، وہ سب کے سب عادل، انصاف پسند اور محتاط تھے (لان الصحابۃ عدول ونقلہم صحیح فلاوجہ للخلاف۔ مرقات:۵/۱۷) کبارِ تابعین بھی اپنے علم وتقویٰ کی روشنی میں ہر جگہ لائق قبول سمجھے جاتے تھے، جب فتنے پھیلے اور بدعات شروع ہوئیں تو ضرورت محسوس ہوئی کہ راویوں کی جانچ پڑتال کی جائے، فتنے سب سے پہلے کوفہ اور بصرہ سے اُٹھے، اس لیے علم کی تدوین و تنقیح پہلے یہیں ہونی ضروری تھی، کوفہ میں دو علمی مرکز تھے (۱)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) کا اور (۲)حضرت علی کرم اللہ وجہہ (۴۰ھ) کا، حضرت علیؓ کے خلیفہ بنتے ہی مسلمانوں کا سیاسی اختلاف عراق میں اُمڈ آیا اوراس راستے سے حضرت علی ؓ کے حلقے میں بہت سے غلط لوگ آشامل ہوئے،حضرت علیؓ کی زندگی میں وہ ان اختلافات کو دینی اختلاف نہ بناسکے؛ لیکن آپ کے بعد انہوں نے حضرت علی ؓ کے نام سے بہت سی غلط باتیں کہنی شروع کردیں؛ اس ورطۂ شبہات میں انہوں نے دین کا بنیادی تصور تک بدل ڈالا، یہ اسلام میں فرقہ بندی کی طرف پہلا قدم تھا،اہل حق کے لیے اب صرف ایک ہی سلامتی کی راہ تھی؛کہ حضرت علیؓ کی وہی روایات قابل اعتماد سمجھی جائیں جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں کے واسطہ سے آئیں ؛کیونکہ کوفہ میں یہی ایک علمی حلقہ تھا جو بیرونی حکمت سے محفوظ اور بچا رہا تھا اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے یہ شاگرد حضرت علیؓ کے حلقہ درس میں بھی گاہے بگاہے حاضر ہوتے رہے تھے،حضرت مغیرہ بن شعبہؓ (۵۰ھ) جو کوفہ میں رہے ہیں فرماتے ہیں:

"لَمْ يَكُنْ يَصْدُقُ عَلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الْحَدِيثِ عَنْهُ إِلَّا مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ"۔                 

(مقدمہ مسلم،حدثنا علی بن خشرم اخبرنا ابو:۱/۳۱)

ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وہی روایات لائق قبول، سمجھی جاتی تھیں جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں سے منقول ہوں۔

حضرت ابو اسحٰق السبیعی (۱۲۹ھ) کہتے ہیں کہ بدعات کے ان شیوع پر خود حضرت علیؓ کے شاگردوں میں سے ایک نے کہا کہ ان لوگوں (بدعتیوں) کو خدا غارت کرے انہوں نے کتنا علم (حضرت علیؓ کا) ضائع کردیا ہے۔

امام ابن سیرینؒ (۱۱۰ھ) کہتے ہیں کہ جب یہ فتنے اٹھے تو علماء نے طے کیا:

"سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ فَلَا يُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ"۔            

(مسلم،باب حدثنا ابو جعفر محمد بن الصباح:۱/۳۴)

ترجمہ: اپنے روات حدیث کے نام بتاؤ، دیکھا جائے گا کہ اہل سنت کون ہیں؛ انہی کی روایات لی جائیں گی، اہلِ بدعت کا بھی پتہ لگایا جائے گا اوران کی احادیث نہ لی جائیں گی۔

یہ صحیح ہے کہ عراق کی سرزمین پہلے فتنوں کی آماجگاہ بنی، کوفہ کے بعد بصرہ عراق کا دوسرا بڑا شہرتھا کوفہ سے تشیع اُٹھا تو بصرہ سے انکار قدر کی صدا اٹھی۔

"عن یحییٰ بن یعمر قال کان اول من قال فی القدر بالبصرہ معبد الجھنی"۔

ترجمہ: سب سے پہلے بصرہ میں جس نے عقیدہ قدر میں بات چیت کی وہ معبد جہنی تھا۔

یحییٰ بن یعمر اورحمید بن عبدالرحمن حمیری حج کے موقع پر حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے ملے اور ان لوگوں کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا:

"فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ وَأَنَّهُمْ بُرَآءُ مِنِّي وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ"۔

(مسلم،باببیان الایمان والاسلام والاحسان:۱/۸۷)

ترجمہ :جب تم ان لوگوں سے ملو تو انہیں کہہ دو کہ میں ان سے لا تعلق ہوں اور وہ مجھے سے لا تعلق ہیں، میں بقسم کہتا ہوں کہ اگر یہ احد کے برابر سونا خیرات کریں اسے اللہ تعالی ان سے قبول نہ کریگا، جب تک کہ وہ تقدیر پرایمان نہ لائیں۔

اس سے پتہ چلا کہ ان دنوں صحابہ کی بات اہل حق کے ہاں حجت سمجھی جاتی تھی؛ تبھی تو یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمن نے صحابی رسول سے اس بارے میں پوچھنے کا فیصلہ کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا جواب بھی اسی طرف رہنمائی کررہا ہے کہ صحابہ جس سے لا تعلق ہوں وہ اس کے اہل باطل ہونے کا ایک کھلا نشان ہے اور یہ کہ صرف اہل باطل ہی صحابہ سے بے تعلق رہتے ہیں، اہل حق ہمیشہ ان کی پیروی کرتے آئے ہیں۔
علم اسماء الرجال کا احساس یہیں سے پیدا ہوا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ (۶۸ھ) حضرت علیؓ کی بہت سی مرویات کے بارے میں کہہ چکے تھے کہ یہ بات حضرت علیؓ نے کبھی نہ کہی ہوگی، امام مسلم لکھتے ہیں:

"فَدَعَا بِقَضَاءِ عَلِيٍّ فَجَعَلَ يَكْتُبُ مِنْهُ أَشْيَاءَ وَيَمُرُّ بِهِ الشَّيْءُ فَيَقُولُ وَاللَّهِ مَا قَضَى بِهَذَا عَلِيٌّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ ضَلَّ"۔

(مقدمہ مسلم، باب حدثنا بن عمرو الضبی حدثنا:۱/۲۸)

ترجمہ :آپ نے حضرت علیؓ کے فیصلے منگوائے، ان سے کچھ باتیں نقل بھی فرمائیں اور ایسی چیزیں بھی آپ کے سامنے سے گزریں کہ آپ نے فرمایا: یہ بات حضرت علیؓ نے کبھی نہ کہی ہوگی، مگریہ کہ آپ راہ سے اترجائیں۔

امام ترمذیؒ (م۲۷۹ھ) لھتے ہیں: تابعین میں کئی ائمہ گزرے؛ جنہوں نے اسماء الرجال (راویان حدیث) میں کلام کیا، ان میں حسن بصری (۱۱۰ھ) اورطاؤس (۱۰۵ھ) نے معبد جہنی میں کلام کیا، سعید بن جبیر (۹۵ھ) نے طلق بن حبیب میں کلام کیا، ابراہیم نخعی (۹۵ھ) اور عامر الشعبی (۱۰۳ھ) نے حارث الاعور میں کلام کیا؛اسی طرح ایوب سختیانی، عبداللہ بن عون، سلیمان تیمی، شعبہ بن حجاج، سفیان الثوری، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، یحییٰ بن سعید القطان،  وکیع بن الجراح اور عبدالرحمن بن المہدی جیسے اہل علم نے بھی رجال میں کلام کیا ہے اور کمزور راویوں کی تضعیف کی ہے؛ انہیں اس بات پر اللہ بہتر جانتا ہے،مسلمانوں کے خیر خواہی کے جذبہ نے آمادہ کیا یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کی غرض لوگوں پر طعن کرنا اوران کی غیبت کرنا تھا، ہمارے نزدیک ان کی غرض ان راویوں کا ضعف بیان کرنا تھا؛ تاکہ وہ پہچانے جائیں، بعض وہ راوی جن کی تضعیف کی گئی بدعتی تھے، بعض ان میں سے متہم فی الحدیث تھے،بعض بھولنے والے تھے اور کثرت سے غلطی کرنے والے تھے؛ سوان ائمہ نے چاہا کہ ان کے احوال بیان کردیئے جائیں اور اس سے دین کی خیر خواہی ملحوظ نظر تھی اور دین میں ثابت قدمی پیش نظر تھی، حقوق واموال کے بارے میں شہادت دینے سے دین کے بارے میں شہادت دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔              

(کتاب العلل:۲/۲۳۵)

طلق بن حبیب میں امام ابو حنیفہؒ نے بھی کلام کیا ہے کہ وہ تقدیر کا قائل نہ تھا (الجواہر المضیہ:۱/۳۰) زید بن عیاش کے بارے میں کہا وہ مجہول ہے (تہذیب التہذیب:۲/۳۲۴) جابر جعفی (۱۲۸ھ) کے بارے میں کہا کہ میں نے اس سے زیادہ جھوٹا کسی کو نہیں پایا (تہذیب التہذیب) سویہ صحیح ہے کہ ائمہ کرام نے راویوں کی جانچ پڑتال کو تحفظ دین کی خاطر جائز کہا ہے، نہ اسے غیبت سمجھا گیا، نہ اکرام مومن کے خلاف، یہ صرف تحفظ دین کا جذبہ تھا جو ان سے راویوں کی جانچ پڑتال کراتا رہا اور اس سے دین کی پوری حفاظت ہوتی رہی۔

علم اسماء الرجال کی مشکل



اس علم میں یاداشت اورضبط ہی ضبط ہے،جن علوم میں قیاس اور روایت کو کچھ بھی دخل ہو یا اس میں کچھ ترتیب خود کارفرما ہوکہ اس کے ماقبل یا ما بعد سے کچھ اندازہ ہوجائے وہ علوم اپنےعلماء کے لیے اس جہت سے کچھ سہل ہوجاتے ہیں؛لیکن یہاں تو حفظ ہی حفظ ہے اور معرفت طبقات ہے، سو!نا موں پر ضبط بہت اہتمام سے ہونا چاہئے اس میں ذرا بھی اندازے سے کام نہیں لیا جاسکتا، نہ انہیں اپنے اول اور آخر کی ترتیب سے کہیں معین کیا جاسکتا ہے، ابو اسحق ابراہیم بن عبداللہ النجیرمی فرماتے ہیں:

"اولی الاشیاء بالضبط اسماء الناس لانہ شئی لایدخلہ القیاس ولاقبلہ شئ ولا بعدہ شی یدل علیہ"۔                      

(تہذیب التہذیب)

ترجمہ: سب سے زیادہ جس چیز پر ضبط ہونا چاہئے وہ (حدیث روایت کرنے والے) لوگوں کے نام ہیں؛ کیونکہ کوئی ایسی چیز نہیں جس میں قیاس کام کرسکے اورنہ ان سے پہلے اورنہ ان کے بعد کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جو اس کا پتہ دے سکے۔

حافظ ذہبی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ طبقہ تابعین (صحابہ کے بعد جو لوگ ان کی پیروی میں چلے) میں انتہائی چھان بین کے باوجود مجھے ایک راوی بھی جھوٹا اورکاذب نہیں مل سکا،غلطی لگ جانا اوربات ہے، حافظے کا ضعف امردیگر ہے؛ لیکن جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اس حد تک اس طبقے میں کوئی مجروح نہ تھا، کذب اپنی نمایاں صورت میں بعد میں نمودار ہوا ہے،تابعین اسی لیے تابعین تھے کہ صحابہ ان کے متبوعین تھے، جوصحابہؓ کے نقش پاسے راہ تلاش نہ کرے وہ تابعین میں سے کیسے ہوسکتا ہے، حضرت علی مرتضیٰ  کے ارد گرد رہنے والے لوگ اگر ان پر جھوٹ باندھتے رہے تو وہ سبائی منافقین تھے، تابعین ہر گز نہ تھے، وہ تابعین بغیر اتباع ہر گز نہ ہوسکتے تھے۔

اسماء الرجال میں پہلے لکھنے والے

حضرت علی بن المدینی (۲۳۴ھ) نے کتاب العلل میں،امام احمد بن حنبل (۲۴۱ھ) نے کتاب العلل ومعرفۃ الرجال میں،امام بخاری (۲۵۶ھ) نے تاریخ میں، امام مسلم (۲۶۱ھ) نے مقدمہ صحیح مسلم میں، امام ترمذی (۲۷۹ھ) نے کتاب العلل میں، امام نسائی (۳۰۳ھ) نے کتاب الضعفاء المتروکین میں، ابومحمد عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی (۳۲۷ھ) نے کتاب الجرح والتعدیل میں، دارقطنی (۲۸۵ھ) نے اپنی کتاب العلل میں اور امام طحاوی (۳۲۱ھ) نے رجال پر بہت مفید بحثیں کی ہیں۔
ائمہ حدیث نے ایک ایک صحابی کے اصحاب کا جائز لیا، سب سے زیادہ کون کن کے قریب رہے، ان کو پہچانا؛ اسی نسبت علم سے وہ حضرات فقہیہ سمجھے گئے اور اسی نسبت سے ان کے فیصلے حجت سمجھے گئے،یہ حضرات اپنے ضبط، تثبت اورفقہ و روایت میں اگلے لوگوں کے لیے امام ٹھہرے،  حضرت امام طحاوی (۳۲۱ھ) باب نکاح المحرم میں حضرت عبداللہ بن عباس کے شاگردوں کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں۔

"واثبت اصحاب عبداللہ بن عباس سعید بن جبیر وعطاء وطاؤس ومجاہد وعکرمہ وجابربن زید وھؤلاء کلھم ائمۃ فقہاء و یحتج بروایاتہم وارائہم "۔

ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عباس کے شاگردوں میں سعید بن جبیر، عطاء، طاؤس، مجاہد، عکرمہ اورجابر بن زید سب سے زیادہ تثبت والے ہیں اوریہ سب امام اورفقہا ہیں کہ ان کی روایت بھی مستند سمجھی جاتی ہے اوران کے فقہی فیصلے بھی حجت مانے جاتے ہیں۔

پھر جن لوگوں نے آگے ان سے دین نقل کیا وہ بھی اسی طرح معروف ہوئے، ان میں عمروبن دینار، ایوب السنحتیانی اور عبداللہ بن ابی نجیح وغیرہم ہیں اوریہ سب ایسے امام تھے کہ روایت میں مقتدا ٹھہرے۔

(شرح معانی الاثار،باب نکاح المحرم:۳/۳۵۴)

محدثین کی سلسلہ رواۃ پر کس درجے کی کڑی نظر رہی ہے اور وہ ہر دوراویوں کے درمیان کس کس درجے کے تعلق ورابطے کے جو یار ہے،امام طحاوی کا یہ بیان اس پر شاہد ناطق ہے کون صاحب علم ہے جومحدثین کی ان خدمات کا انکار کرسکے۔
امام احمد کی کتاب کتاب العلل و معرفۃ الرجال انقرہ سے چھپ چکی ہے۔ دو جلدوں میں ہے، ابن ابی حاتم الرازی کی کتاب الجرح والتعدیل نوجلدوں میں ہے، حیدرآباد دکن سے شائع ہوچکی ہے، یہ اساسی طورپر امام احمد کی کتاب کو بھی ساتھ لیے ہوئے ہے،دارقطنی اپنی کتاب کو مکمل نہ کرپائے تھے کہ وفات پائی اسے ان کے شاگرد ابوبکر الخوارزمی البرقانی (۴۲۵ھ) نے مکمل کیا، شمس الدین سخاوی(۹۰۲ھ) نے اس کی ایک تلخیص مرتب کی ہے جس کا نام بلوغ الامل بتلخیص کتاب دار قطنی فی العلل ہے،ان کتابوں میں رجال کے علاوہ علل حدیث پر بھی بہت مفید مباحث موجود ہیں، اس سے اگلے دور میں وہ کتابیں لکھی گئیں جن میں اسماء الرجال ہی مستقل موضوع بنا ہے، ان میں راویوں کے حالات اوران کے طبقات کا ذکر ہے اور ساتھ ہی راویوں کی جرح و تعدیل سے بھی بحث کی گئی ہے۔

(۴)علم حدیث اور علم رجال

احادیث جمع کرنے والے ائمہ حدیث اپنی پوری احتیاط اورضبط وعدالت کے باوجود آخر تھے تو انسان ہی؛ انہوں نے نہ چاہا کہ دین پیغمبر کی پوری ذمہ داری اپنے سرلیں؛ انہوں نے جو روایتیں لکھیں انہیں انہوں نے ان اساتذہ کا نام لے کر روایت کیا جن سے انہوں نے وہ روایات سنی تھیں اور پھر ان کی سند بھی پیش کردی جس سے وہ اس بات کو حضور   یا صحابہ کرام تک پہنچاتے رہے۔
جب حدیث کے ذکر میں سند ساتھ آنے لگی تو ضروری تھاکہ پڑھنے والوں پر ان راویوں کا حال بھی کھلا ہو جو اس حدیث کو آگے لانے کی ذمہ داری لیےہوئے ہیں، سو حدیث کے لیے جس طرح متن کو جاننا ضروری ہے،سند کو پہچاننا بھی ضروری ہے کہ اسماء الرجال کے علم کے بغیر علم حدیث میں کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا،امام علی بن المدینی(۲۳۴ھ) کہتے ہیں:

"الفقہ فی معانی الحدیث نصف العلم و معرفۃ الرجال نصف العلم"۔

(مقدمہ خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۴)

ترجمہ :معانی حدیث میں غور کرنا نصف علم ہے تو معرفت رجال بھی نصف علم ہے۔

(۵)راویوں کی جرح وتعدیل سے کیا مراد ہے؟

راویوں کے حالات قابل اعتراض ہوں تو وہ روایت مجروح ہوجاتی ہے،جن الفاظ سے وہ اعتراضات سامنے آئیں وہ الفاظ جرح سمجھے جاتے ہیں اور جو الفاظ ان کی اچھی اور لائق اعتماد پوزیشن بتلائیں انہیں تعدیل کہا جاتا ہے۔
جرح کے معنی زخم کرنے کے ہیں، جراح اپریشن کرنے والے کو کہاجاتا ہے، تعدیل کا لفظ عدل سے ہے جو روایت کے معیار پرپورا اترنے کی خبر دیتا ہے اور برابر کے معنی میں ہے، جرح و تعدیل سے راویوں کے حالات پہچانے جاتے ہیں، راویوں کو پہچاننے میں سستی برتی جائے اوران کی جانچ پڑتال پر محنت نہ کی جائے تو پورے دین کے بگڑنے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔
دین کی عظمت تقاضا کرتی ہے کہ اس کا کوئی مسئلہ پوری تحقیق و تنقیح اور پوری احتیاط کے بعد ہی طے ہونا چاہئے۔

(۶)جرح و تعدیل کے عام الفاظ

یوں تو الفاظ جرح و تعدیل بہت ہیں، انہیں اصطلاحات سے دور رہ کر عام الفاظ میں بھی ذکر کیا جاسکتا ہے؛ تاہم اس باب میں جو الفاظ اب تک زیادہ مشہور ہوئے وہ یہ ہیں؛ پھر ان الفاظ کے بارے میں بھی بعض ائمہ کے استعمالات مختلف ہیں،لیکن موضوع کے عمومی تعارف کے لیے ہم انہی الفاظ پر اکتفا کریں گے۔

الفاظ تعدیل

ثبت حجت:
اُونچے درجہ پرفائز ہے؛ یہاں تک کہ دوسروں کے لیے سند ہے۔
ثبت حافظ :
اونچے درجہ پرفائز ہے، خوب یادرکھنے والا ہے۔
ثبت متقن :
اونچے درجہ پرفائز ہے اور بہت مضبوط ہے۔
ثقہ ثقہ :
اونچے درجہ پرفائز ہے؛ یہاں بہت ہی قابل اعتماد ہے۔
ثقہ:             
قابل وثوق اور قابل اعتماد ہے۔
ثبت:            
اکھڑنے والا نہیں اونچے مقام پر فائز ہے۔
صدوق:          
بہت سچا ہے۔
لاباس بہ:                  
اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
محلہ الصدق:      
سچائی والا ہے۔
جید الحدیث:      
حدیث روایت کرنے میں بہت اچھا ہے۔
صالح الحدیث:    
روایت میں اچھا ہے۔

الفاظ جرح

دجال:           
سخت دھوکے بازہے،دجل حق اورباطل کے ملانے کو کہتے ہیں۔
کذاب:          
بہت جھوٹا ہے (یا غلط بات کہنے والا ہے)
وضاع:           
حدیثیں گھڑنے والا ہے۔
یضع الحدیث:      
حدیث گھڑتا ہے۔
متہم بالکذب:    
غلط بیانی سے متہم ہے۔
متروک:         
لائق ترک سمجھا گیا ہے۔
لیس بثقۃ:       
قابل بھروسہ نہیں ہے۔
سکتو اعنہ:      
اس کے بارے میں خاموش ہیں۔
ذاہب الحدیث:   
حدیث ضائع کرنے والا ہے۔
فیہ نظر:           
اس میں غور کی ضرورت ہے۔
ضعیف جدا:      
  بہت ہی کمزور ہے۔
ضعفوا:          
اس کو کمزور ٹھہرایا ہے۔
واہ:              
فضول ہے، کمزور ہے۔
لیس بالقوی:     
  روایت میں پختہ نہیں۔
ضعیف:          
روایت میں کمزورہے۔
لیس بحجۃ:     
حجت کے درجہ میں نہیں۔
لیس بذاک:      
ٹھیک نہیں ہے۔
لین:            
  یاداشت میں نرم ہے۔
سئی الحفظ:    
یاداشت اچھی نہیں۔
لایحتج بہ:      
لائق حجت نہیں۔

جرح و تعدیل کے بڑے بڑے امام

یوں تو بڑے بڑے محدثین نے مختلف راویوں پر بحث کی ہے، امام ابو حنیفہؓ نے بھی جابر جعفی پر جرح کی ہے؛لیکن جو حضرات اس موضوع میں زیادہ معروف ہوئے،انہیں جرح و تعدیل کے امام کہیں تو بہت مناسب ہوگا، یہ حضرات اس باب میں بہت معروف رہےہیں۔
(۱)امیر المومنین فی الحدیث شعبہ (۱۶۰ھ)                 (۵)علی بن المدینی (۲۳۴ھ)
(۲)یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ)                        (۶)امام احمد بن حنبل (۲۳۴ھ)
(۳)عبدالرحمن بن مہدی (۱۹۸ھ)                        (۷)امام نسائی (۳۰۳ھ)
(۴)یحییٰ بن معین (۲۲۳ھ)                              (۸)دارقطنی (۳۸۵ھ)
ان حضرات نے جرح و تعدیل کے قوانین وضع کئے، رواۃ حدیث کے درجات معلوم کئے اورایک لاکھ کے قریب اشخاص کے حالات زندگی چھان مارے، یہی وہ حضرات ہیں جو علم نبی کو نکھار  لائے، علماء اسلام کاایسا عظیم علمی کارنامہ ہے، کہ اقوام عالم میں اس کی نظیر نہیں ملتی مولانا حالی نے اسی لیے کہا تھا۔
گروہ    ایک   جو  یا تھا  علم  نبی کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا

لگایا پتہ جس نے ہر مفتری کا
کیا   قافیہ     تنگ   ہر  مدعی   کا
کیئے جرح و تعدیل کے وضع قانون
نہ     چلنے    دیا   کوئی باطل   کا   افسوں
اسی دھن میں آساں کیا ہر سفر کو
سنا  خازن علم  دیں جس بشر کو

اسی شوق میں طے کیا بحرو برکو
لیا  اس سے جاکر خبر اور اثر کو
پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پہ رکھ کر
دیا   اور کو خود  مزہ  اس کا   چکھ  کر
ان حضرات کی محنتیں اب ہمارے سامنے فن رجال کی مستقل کتابوں کی صورت میں بڑی وسعت سے موجود ہیں،ان میں سب سے زیادہ مرکزی حیثیت امام یحییٰ بن معین کی ہے۔

(۱)"وقال احمد بن حنبل: يحيى بن معين اعلمنا بالرجال"۔

(تذکرۃ:۲/۴۳۰)

(۲)"صار علما يقتدى به في الاخبار واماما يرجع إليه في الآثار"۔

(تھذیب التھذیب،باب حرف الیاء:۱۱/۲۵۲)

(۳)"حدثني من لم تطلع الشمس على أكبر منه"۔

(تاریخ بغداد،باب ذکرمن اسمہ یحیی:۶/۲۵۱)

اور ان میں سب سے کمزور امام دار قطنی ہیں،جو مخصوص فکر اور تعصب کے باعث بہت سے صحیح راویوں کو بھی ضعیف کہہ جاتے ہیں، علامہ بدرالدین العینی نے اس کی تصریح کی ہے:

"وقد روى في سننه أحاديث سقيمة ومعلولة ومنكرة وغريبة وموضوعة"۔

(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،باب وجوب القراءۃ للامام:۹/۱۳۵)

کتب اسماء الرجال

پہلے دور کی اسماء الرجال کی کتابیں راویوں کے نہایت مختصر حالات کو لیے ہوئے تھیں، ابن عدی(۳۶۵ھ) اور ابو نعیم اصفہانی (۴۳۰ھ)نے سب سے پہلے معلومات زیادہ حاصل کرنے کی طرف توجہ کی، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ابن عبدالبر(۴۶۲ھ) اورابن عساکرد مشقی (۵۷۱ھ) نے ضخیم جلدوں میں بغداد اور دمشق کی تاریخیں لکھیں تو ان  میں تقریبا سب اعیان ورجال کے تذکرے آگئے ہیں۔
جہاں تک فنی حیثیت کا تعلق ہے، سب سے پہلے حافظ عبدالغنی المقدسی (۶۰۰ھ) نے اس پر قلم اٹھایا اورالکمال فی اسماء الرجال لکھی،یہ اس باب میں سنگ میل کا حکم رکھتی ہے، بعد کے آنے والے مصنفین رجال نے اسی پر آگے محنتیں کیں، اضافے کیے،تلخیصات کیں، ترتیبیں بدلیں،لیکن حق یہ ہے کہ اس کتاب کی مرکزی حیثیت سے کوئی نیا لکھنے والا مستغنی نہیں رہ سکا، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
اب ہم علم رجال پر لکھی گئی چند اہم کتابوں کا یہاں ذکر کرتے ہیں، زیادہ تر یہ وہی کتابیں ہیں جن سے ہمارے طلبہ کسی نہ کسی درجے میں پہلے سے مانوس ہیں۔
(۱)رجال                              یحییٰ بن سعید الفطان         (۱۹۸ھ)
(۲)طبقات ابن سعد                   ابن سعد                     (۲۳۰ھ)
(۳)معرفۃ الرجال                     امام احمد بن حنبل             (۲۴۱ھ)
(۴)تاریخ                                امام بخاری                   (۲۵۶ھ)
نقد رجال کے یہ ابتدائی نقوش تھے،آگے ان میں کچھ وسعت پیدا ہوئی،اس دوسرے دور میں پانچ کتابیں زیادہ معروف ہوئیں۔
۱۔       کامل              ابن عدی                     (۳۶۵ھ)
۲۔تاریخ نیشاپور             ابونعیم اصفہانی                (۴۳۰ھ)
۳۔تاریخ بغداد               خطیب بغدادی               (۴۶۳ھ) ۱۴ جلدوں میں ہے۔
۴۔الاستیعاب                ابن عبدالبرمالکی              (۴۶۴ھ)
۵۔تاریخ دمشق              ابن عساکر                   (۵۷۱ھ) ۸جلدوں میں ہے۔
ان کتابوں کی زیادہ حیثیت تاریخ کی ہے،گوان میں بہت سے رجال حدیث کا ذکر مل جاتا ہے، اس کے بعد علم اسماء الرجال ایک مستقل فن کی حیثیت میں مرتب ہوا، اس باب میں حافظ عبدالغنی المقدسی (۶۰۰ھ) سرفہرست ہیں۔
۱۔حافظ عبدالغنی المقدسی دمشق کے رہنے والے تھے اورحنبلی المسلک تھے،آپ نے الکمال فی اسماء الرجال لکھی اورانہی کے نقوش وخطوط پر آگے کام ہوتا رہا۔انہوں نے ابتدائی اینٹیں چنیں اور آگے آنے والوں نے ان پر دیواریں کھڑی کیں۔
۲۔آپ کے بعدحافظ جمال الدین ابوالحجاج یوسف بن عبدالرحمن المزی (۷۴۲ھ)آئے اورانہوں نے الکمال کو پھر سے بارہ جلدوں میں مرتب کیا اور اس کا نام تہذیب الکمال رکھا، آپ بھی دمشق کے رہنے والے تھے،لیکن مسلکا شافعی تھے،آپ نے اس میں اوراہل فن سے بھی معلومات جمع فرمائیں۔
۳۔پھر حافظ المزی کے شاگرد جناب حافظ شمس الدین ذہبی(۸۴۸ھ)اٹھے اورانہوں نے"تہذیب الکمال" کو مختصر کرکے "تذہیب التہذیب" لکھی،اس کے علاوہ "میزان الاعتدال"اور"سیر اعلام النبلاء" اور"تذکرۃ الحفاظ" جیسی بلند پا یہ کتابیں بھی لکھیں، جو اپنے فن پر وقت کی لاجواب کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔
۴۔پھر شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے تذہیب التہذیب کو اپنے انداز میں مختصر کیا اور تہذیب التہذیب (تہذیب التہذیب پر نظر ثانی کی بہت ضرورت ہے،پہلی دفعہ حیدرآباد سے شائع ہوئی تھی،افسوس کہ اس پر کسی نے تحقیقی کام نہیں کیا بہت سے اغلاط اس میں پائے جاتے ہیں) لکھی جو بارہ جلدوں میں ہے پھر خود ہی اس کا خلاصہ تقریب التہذیب کے نام سے لکھا؛ اس کے علاوہ آپ نے لسان المیزان بھی لکھی جو چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے۔
۵۔پھر شیخ الاسلام حضرت علامہ بدرالدین عینی نے(۸۵۵ھ) معانی الاخبارمن رجال شرح معانی الآثار لکھی،(محدث جلیل مولانا محمد ایوب مظاہری نے تراجم الاحبار من رجال شرح معانی الآثار چارضخیم جلدوں میں لکھ کر علمی دنیا پر بڑا احسان کیا ہے علم اسماء الرجال کی یہ وہ خدمت ہے جس کی نظیرپاک وہند میں اس عہد میں نہیں ملتی،مکتبہ اشاعت العلوم سہارن پورنے اسے شائع کیا ہے) اورطحاوی کے رجال جمع کئے، تلخیص کشف الاستار کے نام سے بھی علامہ ہاشم سندھی نے لکھی ہے جو دیوبند سے شائع ہوچکی ہے۔
(۶)ان کےبعد حافظ صفی الدین ؒخزرجی (۹۲۳ھ) نے خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال لکھی، یہ کتاب مطبع کبری بولاق سے (۱۳۰۱ھ) میں شائع ہوئی۔
ہمارے دور میں علمائے اہلسنت کے ہاں تحقیق رجال میں زیادہ تر یہی کتابیں رائج ہیں، ان کے علاوہ کچھ اور کتابیں بھی ہیں جو گو خاص اسماء الرجال کے فن پر نہیں لکھی گئیں،لیکن ان میں رجال حدیث کی بڑی تحقیقات مل جاتی ہیں،جیسے نصب الرایہ حافظ جمال الدین الزیلعی (۷۴۳ھ)۔

ضبط الاسماء

اسماء الرجال میں ضبط اسماء ایک نہایت دقیق راہ ہے، محدثین نے اس فن پر مستقل کتابیں لکھی ہیں اور الاسماء والکنیٰ کی فہرستیں مرتب کی ہیں،اس راہ کی مشکلات اساتذہ فن کے سماع کے بغیر مشکل سے حل ہوتی ہیں،تاہم چند قواعد معروض ہیں؛ تاکہ طلبہ اس باب میں بھی کچھ جھانک سکیں، پہلے دور میں عربی نقطوں کے بغیر لکھی جاتی تھی، ان کے صرف اشارات ہوتےتھے،اس جہت سے ضبط اسماء میں بہت مشکلات محسوس کی جاتی تھیں،اب نقطوں کی وجہ سے کچھ آسانی ہوگئی ہے؛ تاہم نمونہ کے طور پر چند قواعد بیان کئے جاتے ہیں اس انداز میں اور اسماء بھی پوری طرح ضبط ہوسکتے ہیں، ہم یہاں صرف پچیس ضبط اسماء ذکر کرتے ہیں:
۱۔لفظ عیسی: کبھی عیشی بھی پڑھاجاتا ہے،اس وقت اس کی نسبت عیش کی طرف ہوتی ہے،اگریہ بصریوں کی سند میں آئے تو اسے عیشی پڑھاجائے، کوفیوں کی سند میں آئے تو عیسیٰ بطور علم پڑھاجائے گا، شامیوں کی سند میں آئے تو لفظ عنسی ہوتا ہے، جہاں تصحیف لفظی ہوچکی ہو،وہاں ہر طرح پڑھنا روا ہوگا، جیسے عیسی بن عیسی الحباط، دوسرا نام مسلم حباط ہے،اسے حناط بھی پڑھا گیا ہے اور حباط پتے اور کانٹے بیچنے والا ہے،حناط گندم کا تاجر اورخیاط سینے والے کو کہتے ہیں،لکھنے میں یہ الفاظ متقارب ہیں۔
۲۔لفظ سلام جہاں بھی آئے اسے تشدید کے ساتھ سلاّم پڑھیں گے، اس میں صرف پانچ استثناء ہیں؛ جہاں تخفیف لازم ہے:
(۱)حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ (۲)محمد بن سلام بیکندی۔
(۳)سلام بن محمد المقدسی (۴)عبدالوہاب بن سلام(مغربی) (۵)سلام بن ابی الحقیق۔
۳۔عمارہ ہمیشہ پیش (ضمہ) سے پڑھیں البتہ ابی بن عمارہ میں عین زیر(کسرہ) سے پڑھیں۔
۴۔کریز کا نام آئے تو قبیلہ معلوم کرو،اگر خزاعی ہے تو کریز (بالفتح) پڑھیں گے، عبشمیہے تو کریز ضمہ کے ساتھ(بطور تصغیر) پڑھیں۔
۵۔حزام کا لفظ ہو،اگر قریش میں سے ہو تو حزام پڑھاجائے گا، اگر انصاری ہے تو اسے حرام پڑھیں گے۔
۶۔عسل میں عین زیر (کسرہ) کے ساتھ پڑھی جائے گی،ہاں عسل زکوان میں عین اور سین زبر سے پڑھیں  گے۔
۷۔کبھی لفظ غنام اور عثام ایک جیسے لکھے ملتے ہیں، دونوں میں پہلا حرف مفتوح اور دوسرا مشدد ہوگا، عشام بن علی عامرکوفی کا نام ہے۔
۸۔اگر لفظ قمیراء آئے تو یہ تصغیر سے پڑھاجائے گا،اگر قمیر کا لفظ کسی عورت کے لیے ہو تو اسے طویل کے وزن سے پڑھیں گے۔
۹۔مسورنام مضرب کے وزن پر ہے،دونام اس قاعدہ سے باہر ہیں اسے مُفَعَّلْ کے وزن پر پڑھیں گے۔
(۱)مسوربن یزید (صحابی) (۲)مسوربن عبدالملک
۱۰۔براء بن عازب میں براء تخفیف سے ہے،تشدید سے نہیں،لفظ براء جہاں بھی ہو اسی طرح پڑھا جائے؛ سوائے دو جگہ کے (۱)براء ابوالعالیہ (۲)براء ابوالمعشری،یہاں دونوں جگہ تشدید سے پڑھیں گے۔
۱۱۔جریر لکھنے میں حریز سے متشابہ ہوگا، کوفہ کے حُریز بن عثمان رجی اورحُریز عبداللہ بن حسین کے سوا یہ لفظ "جریر"جیم اور راء سے ہی پڑھاجائے گا۔
۱۲۔حارثہ میں حاکی زبراورراء کی زیر ہے، جب نقطے نہ ہوں تو جاریہ بھی اس سے متشابہ ہوگا : (۱)جاریہ بن فدا  (۲)یزید بن جاریہ۔  (۳)اسید بن جاریہ  (۴) علاء بن جاریہ،انہیں حارثہ نہ پڑھا جائے گا۔
۱۳۔خراش میں خاء ہے،ربعی بن حراش میں حاء ہے۔
۱۴۔حصین جہاں بھی ہو تصغیر سے پڑھیں،سوائے ایک راوی عثمان نام کے اسے ابوحصین (بروزن طویل) پڑھیں گے،حصین بن منذر دوسرا راوی ہے جس کے نام میں حاء زبر سے ہے۔
۱۵۔ حازم سے خاذم نام ملتا جلتا ہے،ابو معاویہ کے ساتھ یہ نام آئے تو خاذم ہے۔ یہ اعمش کوفی کے شاگرد تھے۔
۱۶۔ حبان پانچ مقامات پر حاء کی زبر اور باء کی تشدید سے ہے (۱)حبان بن منقذ (۲)یحییٰ بن حبان  (۳)حبان واسع کا دادا حبان (۴)حبان بن ہلال  (۵)حبان واسع، تین جگہ حبان کسرہ سے پڑھیں : (۱)حبان بن موسی  (۲)حبان بن عرفہ  (۳)حبان عطبہ۔
۱۷۔حبیب کو تین جگہ تصغیر سے پڑھیں: (۱)حبیب بن عدی۔ (۲)حبیب عبدالرحمن۔ (۳)حبیب عبداللہ۔
۱۸۔حکیم دو جگہ تصغیر سے پڑھا گیا ہے: (۱)ازیق بن حکیم۔ (۲)حکیم بن عبداللہ۔
اس کے سوا اسے جہاں پڑھیں حکیم بروزن طویل پڑھیں گے۔
۱۹۔زبید اور ریید بغیر نقطے کے لکھے جائیں تو ایک جیسے ہیں،صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں یہ لفظ آئے تو تصغیر کے طورپر زبید پڑھاجائے گا،ہاں موطا امام مالکؒ میں اسے زید کی تصغیر کے طور پر زیید پڑھیں گے۔
۲۰۔سلیم کو تصغیر کے ساتھ سُلیم پڑھاجائے؛لیکن سلیم بن حبان میں سلیم طویل کے وزن پر ہے۔ سلم میں لام ہمیشہ ساکن پڑھاجائے گا۔
۲۱۔قاضی شریح کا نام کس نے نہ سنا ہوگا،یہ شین کی پیش کے ساتھ ہے اور تیسرا صرف حاء ہے لیکن تین ناموں میں حاء نہیں جیم ہے،سریج بن یونس، سریج بن نعمان اور ابو سریج میں۔
۲۲۔سلمان فارسی،سلمان بن عامر،عبدالرحمان بن سلمان،سلمان اغر،سلمان ابو حازم، رجاء بن سلمان کے علاوہ یہ لفظ سلیمان ہے: حماد بن ابی سلیمان کوفہ کے مشہوراستادہیں۔
۲۳۔سلمہ کا نام جہاں ہوگا، سین اور لام دونوں پر زبر آئے گی مگر عمر بن سلمہ جرمی میں لام کے نیچے زیر پڑھیں گے، انصار کے قبیلہ بنو سلمہ میں بھی سین کے زیر کے ساتھ ہوگا۔
۲۴۔ عبیدہ تصغیر کے وزن پر ہوگا؛ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد عبیدہ، عبیدہ بن حمید،عبیدہ بن سفیان اور عامر بن عبیدہ باہلی میں یہ تصغیر کے ساتھ نہ پڑھا جائے گا۔
۲۵۔حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی سے کون واقف نہیں،اس میں عبادہ عین کی پیش (ضمہ)کے ساتھ ہے، یہ لفظ جہاں بھی آئے گا، عین کی پیش او رباء کی تخفیف سے آئیگا (تشدید سے نہیں) ہاں محمد بن عبادہ میں عین زبر کے ساتھ پڑھی جائے گی، عباد اکیلا ہو تو عین کی زبر اور باء کی تشدید ہوگی،صرف قیس بن عباد میں عین پیش کے ساتھ اور باء تخفیف سے ہے، عبد جہاں ہوگا عین کی زبر ہوگی اور باء ساکن ہوگی،البتہ عامر بن عبدہ اورنخالہ بن عبد میں عین اور بازبر سے ہیں۔
۲۶۔عقیل کا لفظ جہاں بھی ہو طویل کے وزن میں پڑھا جائے،ہاں امام زہری کے شاگر عقیل بن خالد اور یحییٰ بن عقیل میں سے تصغیر کے ساتھ پڑھیں گے، عقیل ایک قبیلہ کا نام بھی ہے، ان تین کے سوا اسے صفت مشبہ کے وزن پر پڑھاجائے گا۔




No comments:

Post a Comment