Monday, 10 September 2012

فن اسماء الرجال


اسماء الرجال کا امتیاز:
یہ وہ علم ہے جس کے موجد خالصۃ مسلمان ہیں اور دوسری کوئی قوم اپنے مذہبی علمی حلقوں میں اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی، مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر اسپینگر ’’الاصابہ فی احوال الصحابہ‘‘ کے ۱۸۸۱ء کے ایڈیشن کے دیباچہ میں لکھتا ہے:
کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری اورنہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو جس کی بدولت پانچ لاکھ مسلمانوں کا حال معلوم ہوسکتا ہے۔
***
علم اسماء الرجال کی ضرورت:
مولانا عبدالقیوم جونپوریؒ اس فن کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ تحقیق کی جائے کہ جو حضرات سلسلہ روایت میں ہیں وہ کون لوگ تھے، کیسے تھے، ان کے مشاغل کیا تھے، ان کا چال چلن کیسا تھا، سمجھ بوجھ کیسی تھی، سطحی الذھن تھے، یا نکتہ رس عالم تھے، یا جاہل، کس تخیل اور کس مشرب کے تھے، سن پیدائش اور سن وفات کیا تھا؟ شیوخ کون تھے؟ تاکہ ان کے ذریعہ سے حدیث کی صحت، سقم دریافت کی جاسکے، ان جزئی باتوں کا دریافت کرنا اوران کا پتہ لگانا سخت مشکل تھا ؛لیکن محدثین نے اپنی عمریں اس کام میں صرف کیں اورایک شہر کے راویوں سے ان کے متعلق ہر قسم کے حالات دریافت کیے، انہیں تحقیقات کے ذریعہ سے اسماء الرجال کا ایک عظیم الشان فن ایجاد ہوگیا ہے،جس کے ایجاد کا شرف مسلمانوں کو حاصل ہوا ؛لیکن مجھے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ جو کتابیں اسماء الرجال میں لکھی گئی ہیں عام اس سے کہ وہ متقدمین کی ہوں یا متاخرین کی ان میں تعصبات مذہبی کے علاوہ ذاتی مناقشات اور فروعی اور سیاسی اختلافات اورہم عصری نوک جھونک کی بنا پر لوگوں کی جرح کی گئی ہے، بعض حضرات نے تو ایسے امور کو بھی جرح کا باعث قرار دے دیا کہ جو نہ شرعی اورنہ اخلاقی اورنہ عرفی حیثیت سے قابل اعتراض ہیں، جیسے کھنکار کر تھوکنا یا سیروسیاحت میں گھوڑے دوڑانا یا مطلقا خوش طبعی یا مطلقا نو عمری یا قلت روایت یا مسائل فقہیہ یا دیگر علوم میں مشغولیت وغیرہ، یہاں تک کہ علامہ ذہبی (۷۴۷ھ) کا دامن بھی اس سے پاک نہیں ہے، البتہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (۸۵۲ھ) نے اس فن میں جو کتابیں لکھی ہیں وہ ایک بڑی حد تک افراط و تفریط سے پاک ہیں، لہذا ان کتابوں کے مطالعہ کے وقت یہ یادرکھنا چائیے کہ جو جرحیں امور متذکرہ بالا کے ماتحت کی گئی ہیں وہ عقلاً میرے نزدیک قابل التفات نہیں ہیں، تنقید رجال کے اصول جنہوں نے سب سے پہلے قائم کیئے وہ شعبہ بن الحجاج (۱۶۰ھ) ہیں جو جرح و تعدیل کے امام کہلاتے ہیں (لیکن ان سے بھی بعض دفعہ تشدد ہوجاتا ہے)۔
مختصر یہ ؛کہ حدیث کی صحت و سقم دریافت کرنے کے لیے اصول حدیث کی اس قدر ضرورت تھی کہ اگر کوئی محدث اس علم سے غافل ہوتا تو اس کو بڑی دقتوں کا سامنا پیش آتا، خصوصاً اس وقت جب کہ فتن کے دروازے کھل گئے، بدعات کا شیوع ہوا، سیاسی انتشار کے علاوہ الحادو زندقہ نے زور پکڑا، عقائد میں فرقہ بندی شروع ہوگئی اورہر شخص اپنے خیالات کی تائید میں حدیثیں پیش کرنے لگا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رطب ویابس حدیثیں ان مجموعوں میں شامل ہوگئیں، جن کے جانچنے پر کہنے کے لیے اصول کی سخت ضرورت پیش آئی؛ چنانچہ علامہ ابن سیرینؒ سے میزان الاعتدال میں منقول ہے کہ اسناد کے جانچنے کی ضرورت واقعات فتن کے بعد ہوئی،سب سے پہلے اس موضوع پر بقول حافظ ابن حجر عسقلانی اورقاضی ابومحمد الرامہرمزی( ۳۶۰ھ) نے قلم اٹھایا اوراصول حدیث میں ایک کتاب لکھی جس کا نام المحدث الفاصل ہے،لیکن یہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچی اور دوسرے حاکم ابو عبداللہ النیشا پوری نے خامہ فرسائی کی؛ مگر ان کی کتاب غیر مرتب رہی،اس کے بعد ابو نعیم اصفہانی(۴۳۰ھ) نے حاکم کی کتاب کو پیش نظر رکھ کر اس میں بہت سے اضافے کیے؛ مگر وہ تشنہ کام رہی اوروہ بعد کے آنے والوں کے لیے کام چھوڑ گئے پھر خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) میں پیدا ہوئے جنہوں نے قوانین روایت میں ایک کتاب لکھی جس کا نام الکفایہ ہے اور طریق روایت میں دوسری کتاب لکھی جس کا نام "الجامع لآداب الشیخ والسامع" ہے؛بلکہ فنون حدیث میں کوئی فن نہیں چھوڑا کہ جس میں انہوں نے کوئی مستقل کتاب نہ لکھی ہو۔
لیکن ہم یہ ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ خطیب سے بھی بعض امور میں سخت فروگذاشتیں ہوئی ہیں، اگر ان میں تعصب کا پہلو کار فرما نہ ہوتا تو وہ بے شک جلالت قدر کے آسمان پر مثل آفتاب تھے۔

***
علم رجال کے اہم مباحث:
اس کے اہم مباحث یہ ہیں:
(۱)اسلام میں تنقید و تبصرے کا درجہ کیا ہے؟۔
(۲)علم اسناد کی دینی حیثیت کیا ہے؟۔
(۳)فن اسماء الرجال کی تدوین کیسے ہوئی؟۔
(۴)علم حدیث کے لیے فن کا ساتھ ساتھ رہنا کیا ضروری ہے؟۔
(۵)جرح و تعدیل سے کیا مراد ہے؟۔
(۶)جرح و تعدیل کے عام الفاظ کیا کیا ہیں؟۔
(۷)جرح و تعدیل کے بڑے بڑے امام کون تھے؟۔
(۸)اسماء الرجال میں کن کن کتابوں پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟۔
(۹)حدیث کے طلبہ اس فن سے کیسے استفادہ کریں؟۔

***
(۱)اسلام میں تنقید و تبصرہ
پہلا اہم موضوع یہ ہے کہ اسلام میں تنقید و تبصرہ کا کیا حکم ہے؟شیخ الحدیث حضرت مولانا سید بدر عالم مدنیؒ نے اس پر بہت مفید بحث لکھی ہے:
خبرواحد کی حجیت کے سلسلہ میں یہاں دو غلط فہمیاں اور بھی ہیں، ایک یہ کہ محدثین کا گروہ محض ایک جامد گروہ ہے جسے فن روایت سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا، وہ دقیانوسی خبروں کو آنکھ میچ کر مان لینا علم اور دین سمجھتا ہے اور نقد و تبصرہ کو بددینی تصور کرتا ہے،دوم یہ کہ ادیان سماویہ کا مبنی صرف روایت پر ہے، درایت کو یہاں کوئی دخل نہیں دراصل پہلی غلط فہمی بھی اسی کی ایک فرع ہے، ان دو غلط فہمیوں کی وجہ سے بعض ناواقف توحدیث کا رتبہ تاریخ سے بھی کمتر تصور کرتے ہیں۔

***
بنی اسرائیل میں فن روایت کا فقدان
بنو اسرائیل میں اعتدال کلیۃ مفقود تھا،جب وہ تحقیق پر آتے تو کوہ طورپر کلام باری بلاواسطہ سن کر بھی سو طرح کے شبہات نکالنے لگتے اورجب تقلید کرنے پر آمادہ ہوتے تو جوان کے احبا رو رہبان ان کے سامنے ڈالتے اسے اندھوں کی طرح مٹکنے کے لیے تیار ہوجاتے؛ غرض نقد وتبصرہ اور فہم و فکر کی ان میں کوئی استعداد نہ تھی، حضرت الشیخ مولانا بدر عالم مدنی مذکورہ بالاتبصرہ کے بعد لکھتے ہیں:
روایت اور درایت کے اس غیر متوازن دور میں اسلام آیا اوراس نے ان دونوں کا توازن قائم کرکے صحیح تنقید کی راہ دکھلائی اوراس کے لیے ایک ایسا معتدل آئین مرتب فرمایا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط، اس نے بتایا کہ ہر کان پڑی خبر کی طرف دوڑ پڑنا بھی غلط ہے اور تحقیق و تفتیش کے سلسلہ میں بد گمانی کی حد تک پہنچ جانا بھی غلو اور وہم پرستی ہے، انسان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بے اعتمادی کی حالت میں آنکھ میچ کر تغلیط اور اعتماد کی صورت میں بے دلیل تصدیق کرلیا کرتا ہے،مگر قرآن نے یہاں دوست دشمن اپنے اور پرائے کا فرق ختم کرکے سب کے لیے یکساں تحقیق و تبیین کا قانون مقرر کردیا ہے۔
قرآن نے یہ تعلیم دی کہ ہر خبرکی تحقیق و تبیین کرلیا جائے کہ وہ خواہ فاسق شخص ہی کی خبر کیوں نہ ہو،ہر چند کہ فاسق آدمی کی خبر رد کردینے میں بھی مضائقہ نہیں تھا مگر قرآن کسی خبر کارد کرنا بھی پسند نہیں کرتا، فاسق آدمی بھی صحیح خبر دے سکتا ہے، پس اس کی ہر خبر کارد کردینا بھی قرین مصلحت اورطور انصاف نہیں ہے۔
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَافَعَلْتُمْ نَادِمِينَ"۔
(الحجرات:۶)
ترجمہ: اے ایمان والو جب کوئی فاسق شخص تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آیا کرے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بے تحقیق کسی قوم پر حملہ کردو بعد میں اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔
دوسری طرف اس نے تجسس اور بدظنی کی بھی ممانعت فرمائی؛کہ ایسی تحقیق سے بھی نظام عالم برباد ہوتا ہے۔
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَاتَجَسَّسُوا۔
(الحجرات:۱۲)
ترجمہ: اے ایمان والو بہت سی بدگمانیوں سے بچا کرو؛ کیونکہ بعض بد گمانی گناہ کی حد تک ہوتی ہیں اور تجسس اورڈھونڈ کر لوگوں کے عیب بھی تلاش کرنے کی خصلت مت اختیار کرو۔

***
ہرچیز کی تحقیق کے لیے اس کی اہلیت چاہئے
ہر خبر کی تفتیش کا سلیقہ ہر انسان نہیں رکھتا، بعض خبریں ایسی ہوتی ہیں ؛کہ ان کی تفتیش خاص افراد ہی کرسکتے ہیں،یہ تفتیش کے محکمہ جات کی طرف اشارہ ہے،ہر خبر کی تحقیق کے لیے اس کے مناسب اہلیت درکار ہے۔
"وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْرَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ "۔ 
(النساء:۸۴)
ترجمہ: جب ان کے پاس کوئی امن یاڈر کی کوئی خبر آتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں، اگراس کو رسول یا اپنے علماء وحکام تک پہنچادیتے تو جو ان میں ملکہ استنباط رکھنے والے شخص تھے وہ اس کوپورے طورپر معلوم کرلیتے۔
روایتی پہلو میں جو چیز سب سے زیادہ حائل ہوسکتی ہے وہ مخبر اور شاہدوں کا بیان ہے؛ اس لیے ان کویہ تعلیم دی گئی ؛کہ اپنے بیان اور گواہی میں پوری احتیاط سے کام لیں، جھوٹ یا طرفداری کا شائبہ نہ آنے پائے؛ اس لیے جھوٹ بولنے یا ایک دوسرے پر جھوٹا الزام لگانے کی اتنی مذمت کی گئی کہ اس سے بد تر سوسائٹی کا کوئی عیب نہ رہا۔
ان بنیادی اصول کی روشنی میں مذہب اسلام جتنی ترقی کرتا رہا،اسی قدراس کے بنیادی تنقید کے اصول بھی ساتھ ساتھ ترقی کرتے رہے؛ حتی کہ اسناد، جرح و تعدیل، احوال روات ہر ایک کے لیے جدا جدا مستقل فن مرتب ہوگئے، علامہ جزائری نے "تو جیہ النظر" میں حدیث کے سلسلہ میں ۵۲ قسم کے علوم بالتفصیل بیان فرمائے ہیں جن کے مطالعہ کے بعد احادیث کے مفید یقین ہونے میں ایک منٹ کے لیے بھی شبہ کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔

***
(۲)علم اسناد کی دینی حیثیت
حدیث کا متن Text حدیث کی سند Chain of Transitters پر موقوف ہے، سند صحیح متصل سے کوئی بات ثابت ہوجائے تو اس کی تمام ذمہ داریاں لازم آجاتی ہیں، حدیث اگر حجت ہے اوراس پر عمل واجب ہے تو اس کی سند معلوم کرنا اوراسکے راویوں کی جانچ پڑتال کرنا سب علم دین قرار پائے گا،یادرکھئے واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے، قرآن کریم میں ہے:
"إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا"۔ 
(الحجرات:۶)
ترجمہ: اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی رو سے راوی کی بات کی تحقیق کرنا ایک عظیم دینی ذمہ داری ہے جو سامع پر عائد ہوتی ہے،سو اسناد کوپہچاننا اورراویوں کو جاننا خود دین ہوگا، امام ابن سیرینؒ (۱۱۰ھ) فرماتے ہیں:
"إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ"۔
(مقدمہ مسلم،باب حدثنا حسن بن الربیع حدثنا حماد:۱/۳۳)
ترجمہ: بے شک یہ علم دین ہے سو دیکھ لیا کرو کہ کن لوگوں سے تم اپنا دین اخذ کررہے ہو، امام نووی نے اس پر یہ باب باندھا ہے۔
"بَاب بَيَانِ أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنْ الدِّينِ وَأَنَّ الرِّوَايَةَ لَا تَكُونُ إِلَّا عَنْ الثِّقَاتِ وَأَنَّ جَرْحَ الرُّوَاةِ بِمَا هُوَ فِيهِمْ جَائِزٌ بَلْ وَاجِبٌ"۔ 
(مسلم،باب بیان ان الاسناد من الدین:۱/۳۲)
ترجمہ: سند لانادین میں سے ہے، روایت ثقہ راویوں سے ہو، راویوں پر اس پہلو سے جرح کرنا جوان میں ہو جائز ہے ؛بلکہ یہ واجب ہے۔
علم اسناد کی یہاں تک اہمیت ہوگئی کہ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ (۱۵۶ھ) نے اس کا سیکھنا دین قرار دیا،آپ فرماتے ہیں:
"الْإِسْنَادُ مِنْ الدِّينِ وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ"۔
(مقدمہ مسلم،باب وحدثنی محمد بن عبداللہ بن:۱/۳۸)
ترجمہ: علم اسناد بھی دین کا ہی ایک حصہ ہے اوراگرسند ضروری نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہے کہہ سکتا تھا۔
قبول روایت کا معیار آپ کے ہاں اتنا وقیع تھا ؛کہ جو شخص سلف (پہلے بزرگوں ) کو برا بھلا کہے،اس کی روایت نہ لینے کا حکم فرماتے تھے، ایک جگہ فرماتے ہیں:
"دَعُوا حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ"۔
(مقدمہ مسلم،باب وحدثنی محمد بن عبداللہ بن:۱/۳۸)
ترجمہ: عمرو بن ثابت کی روایت چھوڑدو وہ تو سلف صالحین کو برا کہتا تھا۔
حافظ شمس الدین سخاوی(۹۰۲ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں:
راویوں کی تاریخ اوران کی وفات کے سنین کا جاننا دین کا ایک عظیم الوقعت فن ہے،مسلمان قدیم سے اس سے کام لیتے آئے ہیں،اس سے استغنا نہیں برتا جاسکتا نہ اس سے زیادہ کوئی اور موضوع اہم ہوسکتا ہے، خصوصا اس کی قدر اعظم سے اور وہ راویوں کے حالات کو کھولنا اوران کے حالات کی ان کے ماضی، حال اور استقبال کے ساتھ تفتیش کرنا ہے، اعتقادی ابواب اور فقہی مسائل اس کلام سے ماخوذہیں جو ضلالت سے بچ کر ہدایت دے اور گمراہی اوراندھا پن سے ہٹا کر راہ دکھائے۔
(فتح المغیث، باب تواریخ الرواۃ والوفیات:۳۱۰/۳)

***
.ایک سوال اوراس کا جواب
مشہور ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا: "انظر الی ماقال ولا تنظر الی من قال" (اسے دیکھو! جوکسی نے کہا ہے، یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا ہے) معلوم ہوا کہ ہمیں متن سے غرض ہونی چاہئے سند سے نہیں؟۔
اگریہ بات حضرت علیؓ سے ثابت بھی ہو تو اس کا موضوع دانائی اورحکمت کی باتیں ہیں،قانون اور تاریخ کی باتیں نہیں،حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے،جہاں بھی ملے اس نے اپنی متاع پالی،وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے،جو شخص کوئی بات نقل کرے یا کوئی قانون بیان کرے تو اسے بغیر جانے کہ کون کہہ رہا ہے لے نہیں لیا جاتا؛ بلکہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ شخص کہاں سے نقل کررہا ہے اور یہ کہ وہ خود کیسا شخص ہے،دیانت دارہے یانہ؟ کس حکومت کا نمائندہ اور کس قانون کا ترجمان ہے؛ اگر اس کے پاس اس بات کی جو وہ کہہ رہا ہے سند نہ ہو تو اس کا کوئی اعلان ہر گز قابل قبول نہ ہوگا ۔
شریعت بھی قانونِ الہٰی ہے اوریہ نقل سے ہی پہچانی جاتی ہے،البتہ اس کے بعض پہلو استنباط سے کھلتے ہیں، شریعت کسی تجربے اور حکمت سے مرتب نہیں ہوتی،نہ یہ کبھی حکمت عملی کے نام سے ترتیب پاتی ہے،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امت نے اتفاق کیا ہے کہ وہ معرفت شریعت میں سلف پر اعتماد کریں، تابعینؓ نے صحابہؓ پر تبع تابعینؓ نے تابعینؓ پر اور اسی طرح ہر طبقہ کے علماء نے اپنے سے پہلوں پر اعتماد کیا ہے اور عقل اس کی تحسین پر دلالت کرتی ہے؛ اس لیے کہ شریعت نقل اوراستنباط سے ہی پہچانی جاتی ہے اور نقل بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتی؛کہ ہر طبقہ اسے اپنے پہلوں سے اتصال کے ساتھ لیتا رہے۔
(عقد الجید:۵۴،مترجم طبع: کراچی)
پس! علم شریعت کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بات کہاں سے آرہی ہے،اس کا ماخذ کیا ہے؟ بات کہاں سے ہے اوراسے آگے روایت کرنے والے کس قوم کے لوگ ہیں؟ کیا ان پر اعتماد کرکے آخرت کی تمام زندگی ان لوگوں کی نقل و روایت کے سپرد کی جاسکتی ہے؟ دنیوی امور کے کسی اہم فیصلے سے یہ فیصلہ کہیں زیادہ اہم ہے۔








فن اسماء الرجال کی اہمیت

علمی دنیا کا اس پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں نے اپنے نبی علیہ الصلوٰة والسلام کی حیات طیبہ ہی نہیں، بلکہ ہر اس شخص کے حالات کی، جس کا ادنیٰ سا تعلق بھی آپ ﷺ کی ذات مبارک سے تھا، جس طرح حفاظت کی، وہ انسان تاریخ کا ایک عجوبہ ہے۔

روایت حدیث
جن لوگوں نے رسول الله ﷺ کے اقوال وافعال اور احوال کو روایت کیا، جن میں صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم، تابعین وتبع تابعین رحمہم الله تعالیٰ او راس میں چوتھی صدی ہجری تک کے راویانِ احادیث وآثار داخل ہیں۔ ان کے مجموعہٴ احوال کا نام ” فنِ اسماء الرجال“ ہے۔ جب حدیث وسنت کی تدوین ہو چکی ، تو ان رواة حدیث کے حالات بھی قلم بند کیے گئے ، اس میں حسبِ ذیل باتوں کا خیال رکھا گیا، ہر راوی کا نام، اس کی کنیت، اس کا لقب، کہاں کے رہنے والے تھے؟ ان کے آباء واجداد کون تھے؟ کس مزاج وطبیعت کے تھے حافظہ کیسا تھا؟ تقوی اور دیانت کے لحاظ سے کیا معیار تھا؟کن اساتذہ اور شیوخ سے علم حاصل کیا تھا؟ طلب علم کے سلسلے میں کہاں کہاں کا سفر کیا؟ 11 کن لوگوں نے ان سے علم حاصل کیا؟ غرض ان ہزار ہاہزار راویانِ حدیث کے بارے میں تحقیق وتفتیش کا اتنا زبردست ریکارڈ جمع کیا گیا کہ دنیائے قدیم و جدید کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں، ڈاکٹر اسپنگر نے، جس کی اسلام دشمنی مشہور ہے، ”الاصابة فی معرفة الصحابة“ کے انگریزی مقدمہ میں لکھا ہے :

”کوئی قوم نہ دنیا میں ایسی گزری، نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال جیسا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو ، جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصیتوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے۔“

صرف طبقہ اوّل کے راویانِ حدیث، یعنی صحابہٴ کرام کی تعداد رسول الله ﷺ کے آخری دورِ حیات میں ایک لاکھ سے زائد تھی ، اگرچہ ان کتابوں میں جو صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کے تذکرہ میں لکھی گئیں ہیں ان میں تقریباً دس ہزار کا تذکرہ ملتا ہے ، جیساکہ حافظ سیوطی رحمہ الله تعالیٰ نے لکھا ہے :

”یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے ہر ایک نے آں حضرت ﷺ کے اقوال وافعال اور واقعات کا کچھ نہ کچھ حصہ دوسروں تک پہنچایا، یعنی انہوں نے راویت حدیث کی خدمت انجام دی۔“

احادیث نبویہ کی حفاظت کے لیے یہ مسلمانوں کا وہ کارنامہ ہے کہ دوسری قومیں اپنی مذہبی روایات کے ثبوت وحفاظت کے لیے آج بھی اس سے نا آشنا ہیں ۔

احادیث میں نبی اکرم ﷺ نے اس کی خبر دی ہے کہ کچھ لوگ تمہارے پاس ایسے آئیں گے جو مجھ سے منسوب کرکے تمہیں حدیث سنائیں گے، لیکن وہ احادیث جھوٹی ہوں گی ، چناں چہ مقدمہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ نے یہ حدیث مرفوع نقل کی ہے”انہ سیکون فی آخر امتی اناس یحدثونکم مالم تسمعوا، انتم ولا آباء کم، فایاکم وایاھم“ کہ آخری زمانہ میں میر ی امت کے کچھ لوگ تمہیں ایسی حدیثیں سنائیں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی او رنہ تمہارے آباء واجداد نے تم اپنے آپ کو ان سے بچاؤ۔

حضرت ابوہریرہؓ ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ ”قال رسول الله ﷺ: یکون فی آخر الزمان دجالون کذابون یاتونکم من الاحادیث بمالم تسمعوا، انتم ولا آباء کم فایاکم وایاھم، لا یضلونکم ولا یفتنونکم“․

اس حدیث کا مفہوم بھی وہی ہے کہ کچھ دجال وکذاب تمہارے پاس آکر ایسی حدیثیں سنائیں گے جو تم نے اور تمہارے آباء واجداد نے نہیں سنی ہوں گی، تم اپنے آپ کو ان سے محفوظ رکھو، کہیں تمہیں گمراہ کرکے فتنہ میں مبتلا نہ کر دیں۔

حضرت عبدالله بن مسعودؓ کی روایت میں ہے کہ:”ان فی البحر شیاطین مسجونة اوثقھا سلیمان یوشک ان تخرج فتقرأ علی الناس قرانا“․

حضرت سلیمان علیہ السلام نے کچھ شیاطین کو دریا میں قید کر دیا تھا، عنقریب وہ نکلیں گے اور لوگوں کو کچھ پڑھ کر سنائیں گے اور یہ روایت تو متواتر سندوں سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ ”من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار“ جو شخص جان بوجھ کر جھوٹ بولے تو وہ خود اپنا ٹھکانہ آگ میں مقرر کر دے ۔

ان روایات پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ الله تعالیٰ کی جانب سے نبی اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع مل چکی تھی کہ کچھ لوگ آپ کے اوپر جھوٹ بولیں گے، آپ نے پہلے اپنی امت کو اس کی اطلاع بھی دی اور اس کے متعلق وعید بھی بیان فرمائی، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جیسے ایک عام آدمی یہ برداشت نہیں کرتا کہ اس پر جھوٹ بولا جائے تو نبی اکرم ﷺ ،جو الله تعالیٰ کے پیغمبر ہیں اور آپ ﷺ کا ہر قول وعمل دوسرے لوگوں کے اقوال واعمال کے لیے کسوٹی اور قانون کا درجہ رکھتا ہے وہ اس کو کیسے یہ برداشت کرسکتے ہیں کہ آپ پر جھوٹ بولا جائے؟! اس لیے بحیثیت ایک امتی اور دین کی حفاظت کرنے والے کے، ہم پر لازم ہے کہ جو احادیث آپ ﷺ کی طرف منسوب کی جائیں ہم اس کی تفتیش کریں کہ کہیں کوئی ایسی بات آپ ﷺ کی طرف منسوب نہ ہو اورکہیں ایسی بات پر ہم شریعت واحکام کی بنیاد نہ رکھ دیں جو یقینا آپ ﷺ نے ارشاد نہ فرمائی ہو اور غلط طور پر آپ ﷺ کی طرف منسوب کی گئی ہو اور ظاہر ہے کہ اس تفحص وتلاش کے لیے علم اسماء الرجال کے علاوہ او رکوئی ذریعہ نہیں، یہ وہ ذریعہ ہے کہ جس کو استعمال کرتے ہوئے ہم سچ اورجھوٹ میں امتیاز کرسکیں۔ نیز اس فن کی اہمیت کے سلسلے میں علامہ سخاوی رحمہ الله تعالیٰ نے لکھا ہے کہ:

” وھو فن عظیم الوقع من الدین، قدیم النفع للمسلمین، لا یستغنی عنہ، ولا یغتنی باعم منہ، خصوصاً ما ھو القصد الاعظم منہ، وھو البحث من الرواة، والفحص عن احوالھم فی ابتدائھم وحالھم واستقبالھم، لان الاحکام الاعتقادیة والمسائل الفقھیة ماخوذة من کلام الھادی من الضلالة والمبصر من العمی والجھالة، والنقلة لذلک ھم الوسائط بیننا وبینہ والروابط فی تحقیق ما اوجبہ وسنہ، فکان التعریف بھم من الواجبات، والتشرف بتراجمھم من المھمات، ولذا قام بہ فی القدیم والحدیث اھل الحدیث، بل نجوم الھدی ورجوم العدی ووضعوا التاریخ المشتمل علی ماذکرنا، مع ضمھم لہ الضبط لوقت کل من السماع وقدوم المحدث البلد الفلانی فی رحلة الطالب وما أشبھہ“․

یہ فن دین میں بہت اونچا مقام رکھتا ہے اور مسلمانوں کے لیے اس میں عظیم فوائد ہیں، اس فن سے کوئی مستغنی نہیں ہوسکتا ہے اور نہ اس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا عام فن اختیار کر سکتا ہے، خاص کر اس فن تاریخ کاجو مقصد اعظم ہے وہ رواة حدیث کے متعلق بحث وتفتیش اور ان کے ابتدائی اور حال ومستقبل کے حالات سے واقفیت ہے، کیوں کہ تمام مسائل اعتقادیہ اورفقہیہ اس ذات بابرکات کے کلام سے ماخوذ ہیں جو ہادی اور جہالت کے اندھیروں سے ہدایت وشریعت کی روشنی کی طرف لانے والے تھے اور ظاہرہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان رابطہ ان ہی رواة کے ذریعے ہے اور آپ کے واجبات وسنن کی تحقیق وعلم ہم ان ہی کے ذریعے حاصل کرسکتے ہیں اس لیے ان کے احوال وواقعات معلوم کرنا واجبات دین میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے محدثین نے اس طرف توجہ فرمائی او ران روایات حدیث کے متعلق وہ تاریخیں لکھیں، جوان کے احوال او رتاریخ پیدائش وتاریخ وفات او ران کے ضبط اور سن سماع اور حالات علمیہ جیسے اہم مسائل پر مشتمل ہیں۔

ڈاکٹر عجاج الخطیب اپنی کتاب اصول الحدیث میں لکھتے ہیں کہ:

”علم رجال الحدیث ذالک لان علم الحدیث یتناول دراسة السند والمتن ورجال السند ھم رواة الحدیث، فھم موضوع علم الرجال، الذی یکون احد جانبی الحدیث، فلا غرو حینئذ من ان یھتم علماء المسلمین بھذا العلم اھتماما کبیراً“․

رجال حدیث کا علم علوم حدیث کے اہم علوم میں سے ہے، اس لیے کہ علم حدیث میں متن وسند سے بحث ہوتی ہے اور سند میں مذکور لوگ ہی رجال حدیث کہلاتے ہیں ، اسی لیے مسلمان علماء نے اس علم کا بہت اہتمام کیا ہے ۔

متقدمین ومتاخرین کی ان عبارتوں سے علم اسماء رجال کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، بلکہ بقول علامہ سخاوی رحمہ الله تعالیٰ یہ ان علوم میں سے ہے کہ جن کا جاننا علم حدیث وفقہ سے تعلق رکھنے والوں کے لیے واجب ہے، اسی بنا پر اس علم کی معرفت وحصول بہت ضروری ہے، اب ہم اس کی تعریف وموضوع ا وراس کی تدوین کو اختصار کے ساتھ بیان کریں گے ۔

آغاز علم اسماء رجال
ابن عدی رحمہ الله تعالیٰ او رعلامہ سخاوی رحمہ الله تعالیٰ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علم کی ابتدا بھی صحابہ کے وقت سے ہوئی، چناں چہ ڈاکٹر موفق بن عبدالله بن عبدالقادر نے دارقطنی کی کتاب الضعفاء والمتروکون کے مقدمہ میں لکھاہے کہ:” وبدأ التحری فی اخذ السنة فی وقت مبکر منذ عہد ابی بکر وعمر رضی الله عنہما، ثم استمر التفتیش عن احوال الرجال وازداد، فتکلم عدد من التابعین فی الجرح والتعدیل“․

یعنی سنت اور احادیث کے قبول کرنے میں تحری اور تفتیش کی ابتدا حضرت ابوبکر وعمر رضی الله عنھما کے دور سے ہوئی تھی، پھرتابعین کے دور میں اس میں ترقی ہوئی۔

امام ذہبی رحمہ الله تعالیٰ نے بھی تذکرة الحفاظ میں حضرت ابوبکرکے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ”وکان اول من احتاط فی قبول الاخبار“․

اس کے ثبوت میں امام ذہبی رحمہ الله تعالیٰ نے دادی کی میراث کا وہ واقعہ پیش کیا ہے، جو موطا امام مالک او رالکفایة میں منقول ہے۔

حضرت عمرؓ کے تذکرے میں بھی ذہبی نے لکھا ہے کہ ”وھو الذی سن للمحدثین التثبت فی النقل وربما کان یتوقف فی خبر الواحد اذا ارتاب“ یعنی حضرت عمرؓہ وہ ہستی ہیں کہ جنہوں نے محدثین کے لیے نقل روایت میں تثبت کا راستہ اختیار کیا ( اور آنے والے محدثین کو اس کی تلقین کی آپ کبھی کبھی شک کی وجہ سے خبر واحد کے قبول کرنے میں توقف کیاکرتے تھے۔

فتنہ کا آغاز
حضرت عثمانؓ کے اخیر دور خلافت میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے جن کی وجہ سے اسلام کے خلاف ایک عجیب وغریب تحریک شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا بانی عبدالله بن سبا یہودی تھا، جو اپنے مسلمان ہونے کا اظہار بھی کر تا تھا ، اس کا خاص نصب العین یہ تھا کہ لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم میں سے نہ تو کوئی اپنے نبی کریم ﷺ کا سچا دوست تھا اور نہ ہی ( معاذ الله) آپ ﷺ سے انہیں کوئی عقیدت تھی ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ جماعتِ صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم سے اگر اعتماد اٹھ جائے تو سارا دین ہی مسمار ہو کر رہ جائے گا، اس فتنے نے زور پکڑا،بالآخر اسی کے نتیجہ میں حضرت عثمانؓ شہید ہوئے ، حضرت علیؓ کے دورِ خلافت میں مسلمان خانہ جنگیوں میں مبتلا ہو گئے۔ موقع پاکریہ سبائی جماعت حضرت علیؓ کی فوج میں گھل مل گئی۔

مؤرخین کا اتفاق ہے کہ جنگ ”جمل“ کا واقعہ بالکل پیش نہ آتا… اگر یہ سبائی جماعت صلح کو جنگ سے بدلنے میں کامیاب نہ ہوئی ہوتی، جنگ ”جمل“ کے بعد صفین وغیرہ کی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر یہ سبائی جماعت اپنے خیالات اور بے سروپا روایات پھیلاتی رہی۔

اسی بات کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں ”اول من کذب عبدالله بن سبا“ (روایات کے سلسلہ میں جس شخص نے سب سے پہلے جھوٹ چلایا، وہ عبدالله بن سبا تھا) یعنی اس نے سب سے پہلے جھوٹی حدیثوں کو پھیلانے کی کوشش کی ، بالآخر حضرت علیؓ اس سازش سے جب واقف ہوئے تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا:” ومالی ولھذا الخبیث الاسود“

کہ اس سیاہ کالے خبیث سے مجھے کیا علاقہ؟

او راعلان عام کر دیا کہ جو اس طرح کی باتیں کرے گا اس کو سخت سزا دی جائے گی ، بالآخر حضرت علیؓ نے اس جماعت سے داروگیر میں سختی سے کام لیا۔

اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:” قد احرقھم علیؓ فی خلافتہ“․

کہ ان لوگوں کو حضرت علیؓ نے اپنی خلافت کے زمانے میں آگ میں ڈلوادیا۔

فی الواقع یہ لوگ حضرت علیؓ کے خدا ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے۔

مگر اس جماعت کے نمائندے کوفہ، بصرہ، شام، مصر وحجاز ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے، اس لیے حضرت علیؓ نے پوری قوت سے اس فتنے کو دبایا اور لوگوں کو اس جماعت کی سازش سے آگاہ کیا۔ حضرت علیؓ نے اس کے بارے میں فرمایا:” قاتلھم الله ای عصابة بیضاء سودوا، وای حدیث من حدیث رسول الله ﷺ افسدو!!․“

کہ خدا انہیں ہلاک کرے ، کتنی روشن جماعت کو انہوں نے سیاہ کیااور رسول الله ﷺکی کتنی حدیثوں کو انہوں نے بگاڑا۔

حافظ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

”دورِ صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم میں بعد کے ادوار کے مقابلے میں بہت کم فتنے تھے ، لیکن جتنا زمانہ عہد نبوت سے دور ہوتا گیا ، اختلاف وگروہ بندی کی کثرت ہوتی چلی گئی، حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں کوئی بدعت کھل کر سامنے نہیں آئی، مگر ان کی شہادت کے بعد لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے اور دو مقابل کی بدعتوں کا ظہور ہوا، ایک خوارج کی بدعت، جو (معاذ الله) حضرت علیؓ کی تکفیر کرتے تھے اور دوسری روافض کی بدعت، جو حضرت علیؓ کی امامت اور عصمت کے مدعی تھے، بلکہ روافض میں سے بعض ان کی نبوت کے اور بعض الوہیت تک کے قائل تھے۔

سب سے زیادہ وضع حدیث کا کام روافض نے کیا ہے۔

فتنہ کے آغاز کے بعد روایت حدیث میں احتیاط
صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم اور تابعین عظام رحمہم الله تعالیٰ نے پوری قوت سے اس فتنہ کی بیخ کنی کی کوشش کی ، سبائی جماعت جو جھوٹی حدیثوں کو پھیلانے کے لیے کوشاں تھی ، چوں کہ اس کا علم حضرت علیؓ کو بھی ہو گیا تھا، اس لیے اس فتنہ کے رونما ہونے کے بعد حضرت علیؓ نے صحیح وغلط کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لیے ایک عمومی ضابطہ بیان فرمایا، جس کو علامہ ذہبی نے نقل کیا ہے: ”حدثوا الناس بما یعرفون، ودعوا ماینکرون الخ“

کہ لوگوں سے انہیں باتوں کو بیان کرو جنہیں وہ جانتے ہوں اور جن سے وہ آشنا نہ ہوں، ان کو بیان نہ کرو۔

حافظ ذہبی رحمہ الله تعالیٰ اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

”حدیثوں کے پرکھنے کے لیے یہ ایک معیار وکسوٹی ہے کہ منکر وواہی احادیث کے بیان کرنے سے باز رہا جائے ۔ خواہ فضائل سے متعلق ہوں یا عقائد ورقاق سے اور اس سے واقفیت رجال کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں۔“

الله تعالیٰ نے اس دین کو قیامت تک اپنی اصلی وصحیح صورت میں باقی رکھنے کا فیصلہ فرمایا ہے او راس کا بھی کہ اس کے نبی کریم ﷺ کا کلام اہل اہواوملحدین کی دست برد سے محفوظ رہے ۔ اس لیے امت میں ایسے لوگوں کو اس کی حفاظت کے لیے پیدا فرمایا جنہوں نے حق وباطل، صحیح وموضوع میں تفریق قائم کی۔ صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم وتابعین رحمہم الله تعالیٰ اور بعد کے ائمہ نے عہد صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم سے تدوین سنت کے زمانہ تک جو کوششیں صرف کی ہیں، انہیں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔

بہرحال فتنہ سبائیہ کے بعد علمائے امت نے روایت حدیث کے سلسلے میں خصوصیت سے رجال کی تحقیق اور اسناد کا خصوصی التزام کیا۔

اسناد کا اہتمام اور رجال کی چھان بین
فتنہ کے رونما ہونے کے بعد روایان حدیث کے حالات معلوم کرنے کی بھی ضرورت پڑی۔ محمد بن سیرین رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:

”لم یکونوا یسالون عن الاسناد، فلما وقعت الفتنة، قالوا: سموا لنا رجالکم، فینظر الی اھل السنة فیؤخذ حدیثھم، وینظر الی اھل البدع فلا یؤخذ حدیثھم“․

کہ لوگوں سے پہلے اسناد کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا تھا، لیکن جب فتنہ پھیلا تو حدیث بیان کرنے والوں سے یہ کہا جانے لگا کہ اپنے راویوں کے نام بتاؤ۔ اگر وہ اہل سنت میں سے ہیں تو ان کی روایات قبول کی جائیں گی اور اگر وہ اہل بدعت میں سے ہیں تو ان کی روایات قبول نہیں کی جائیں گی۔

صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم وتابعین جس صدق وامانت اوراخلاص کے مقام پر تھے ، اس کی بنا پر ہر وقت اسناد کا اہتمام نہیں رکھتے تھے ، کبھی سند کے ساتھ حدیثوں کو نقل کرتے اور کبھی ترک کر دیتے تھے، جیسے حضرت علیؓ نے حضرت براء بن عازبؓ سے یہ حدیث بیان کی :

”عن فاطمة اخبرتہ ان رسول الله ﷺ امرھا ان تحل فحلت، ونضحت البیت بنضوح“․

حضرت ابوایوب انصاریؓ حضرت ابوہریرہؓ کے واسطے سے رسول الله ﷺ کے ارشادات کو نقل کرتے تھے ، جن کو وہ براہ راست نہیں سن سکے تھے۔ (جاری)

صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم بھی آپس میں ایک دوسرے کے واسطے سے احادیث کو روایت کیا کرتے تھے۔ نیز عربوں کی خصوصیات میں سے تھا کہ وہ اکثر زمانہٴ جاہلیت میں بھی اشعار وحکایات کو سند کے ساتھ نقل کرتے تھے۔

اس لیے احادیث کو بھی صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم وتابعین رحمہم الله تعالیٰ عام طور پر اسناد کے ساتھ ہی بیان کرتے او رکبھی ترک بھی کر دیا کرتے تھے، مگر اس فتنہ کے شروع ہونے کے بعد اس کا خصوصیت سے التزام کیا جانے گا۔

امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما کے متعلق یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ:” بشیر بن کعب عدوی ابن عباس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول الله ﷺ کی طرف منسوب کرکے کچھ حدیثیں بیان کرنے لگے، مگر حضرت ابن عباسؓ کا یہ حال تھا کہ:” لا یاذن لحدیثہ ولا ینظر الیہ․“

ترجمہ:” ابن عباس نہ ان کی حدثیوں کی طرف کان لگاتے تھے اور نہ کوئی توجہ فرماتے تھے۔“

بشیر کو تعجب ہوا۔ اس پر حضرت ابن عباسؓ نے بشیر کے سامنے اس کی وجہ ان الفاظ میں بیان کی:”انا کنا اذا سمعنا رجلا یقول: ”قال رسول الله ﷺ“ ابتدرتہ ابصارُنا واصغینا الیہ اٰذاننا فلما رکب الناس الصعب والذلول لم نأخذ من الناس الا ما نعرف“․

ترجمہ: ” ایک زمانہ ہم پر ایسا گزرا ہے کہ جب ہم سنتے کہ کوئی آدمی قال رسول الله ﷺ کہہ رہا ہے تو ہماری نگاہیں فوراً اس کی طرف اٹھ جاتی تھیں اور ہم ہمہ تن گوش ہو کر اس کی بات کو سنتے تھے، پھر جب لوگ ہر سرکش (اونٹ) اور غیر سرکش پر سوار ہونے لگے ( یعنی غلط و صحیح میں تمیز جاتی رہی، رطب ویابس ہر طرح کی باتیں بیان کرنے لگے) تو اب ہم صرف انہیں حدیثوں کو قبول کرتے ہیں جنہیں ہم خود جانتے ہیں۔“

حضرت ابن عباسؓ کے قول کی شرح مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے ان الفاظ میں کی ہے: ”ای ما یوافق المعروف او نعرف امارات الصحة وسمات الصدق“․

ترجمہ:” یعنی جو جانی پہچانی ہوئی روایتوں کے موافق ہوں یا ان میں صحت کی نشانیاں اور سچائی کی علامتیں پائی جائیں۔“

ابن عباسؓ کے اس بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ظہور فتنہ اور روایت میں تساہل کے بعد عام طور پر صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم نے روایت کے بیان کرنے اور دوسروں سے سننے میں حزم واحتیاط اور تحقیق کی روش اختیار کر لی تھی، تاکہ کذب علی النبی ﷺ کے فتنے کا پوری طرح سد باب ہو جائے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کے تلامذہ، یعنی تابعین جنہوں نے اپنے اساتذہ سے روایتیں کی ہیں ، اسی اصول کی پابندی کرنے لگے۔

محمد بن سیرینؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”ھذا الحدیث دین فانظروا عمن تأخذون دینکم“․

ترجمہ: یہ حدیث دین ہے ، پس خوب غور کر لو ان لوگوں کے بارے میں جن سے تم دین حاصل کر رہے ہو۔“

شعبی نے ربیع بن خثیمؒ سے روایت کی کہ ربیع نے روایت بیان کی:”من قال لا الہ الا الله وحدہ لا شریک لہ الخ“ امام شعبیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ربیع بن خثیم سے دریافت کیا کہ آپ سے اس حدیث کو کس نے بیان کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ عمروبن میمون اودی نے، اس کے بعد میری ملاقات عمرو بن میمون اودی سے ہوئی، میں نے عرض کیا کہ آپ سے کس نے اس حدیث کو بیان کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے ، پھر میری ملاقات ابن ابی لیلیٰ سے بھی ہوئی ، تو میں نے دریافت کیا کہ آپ سے کس نے اس حدیث کو بیان کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا حضرت ابوایوب انصاریؓ نے جو رسول الله ﷺ کے صحابی ہیں۔

ان کے بار ے میں حضرت یحییٰ بن سعیدؓ فرماتے ہیں: ”وھذا اول من فتش عن الاسناد“․

ترجمہ: ”یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسناد کے بارے میں تحقیق وتفتیش سے کام لیا۔“

تابعین اور تبع تابعین اکثر باہم احادیث کا مذاکرہ بھی کرتے تھے اور یہ حضرات صرف ان ہی حدیثوں کو قبول کرتے تھے جو جانی وپہچانی ہوتی ہوں اور ان کو ترک کر دیتے جو نہیں پہچانی جاتی تھیں۔ امام اوزاعی فرماتے ہیں:” ہم حدیث کو سنتے تھے او راس کو اپنے اصحاب کے سامنے اس طرح پیش کرتے تھے جیسے کھوٹے درہم کو صراف کے سامنے پیش کرتے ہیں، جن کو وہ حضرات پہچانتے تھے ، انہیں قبول کرتے، ورنہ ترک کر دیتے تھے ۔“

اعمش کہتے ہیں:

”ابراہیم نخعی حدیث کے صراف تھے، میں بہت سے لوگوں سے حدیثوں کو سنتا، پھر ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان روایات کو ان کے سامنے پیش کرتا، چناں چہ زید بن وہب وغیرہ کے یہاں مہینے میں ایک دو مرتبہ حدیث کے سلسلے میں حاضری ہوتی اور ابراہیم نخعی کی خدمت میں حاضری سے مشکل ہی سے ناغہ ہو تا۔“

اسماء الرجال کی تعریف
ڈاکٹر ادیب صالح نے علم اسماء الرجال کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ : ”وھو علم یقوم علی مابہ تعرف احوال رواة الحدیث من حیث کونھم رواة الحدیث“ یہ وہ علم ہے کہ جو راویان حدیث کے احوال سے صرف ان کے راوی ہونے کی حیثیت سے بحث کرتا ہے۔ اس تعریف میں ”من حیث کونھم رواة الحدیث“ کی قید اس لیے لگائی گئی، ہر انسان کے بحیثیت انسان بہت سے احوال ہوتے ہیں، لیکن علم اسماء الرجال میں اس کے فقط ان احوال سے بحث ہوتی ہے کہ جن احوال سے اس کے راوی حدیث ہونے کی حیثیت سے بحث کرنا ضروری ہوتا ہے او رجن احوال سے حدیث کی صحت وسقم اور اس کے مراتب کی تعیین کا تعلق ہوتا ہے۔

علامہ سخاوی نے اسماء الرجال کی تعریف اس طرح کی ہے کہ ”التعریف بالوقت التی تضبط بہ الاحوال فی الموالید والوفیات، ویلتحق بہ ما یتفق من الحوادث والوقائع التی ینشأ عنھا معان حسنة من تعدیل وتجریح ونحو ذلک“․

یعنی اس وقت کی معرفت کا نام تاریخ ہے کہ جس کے ساتھ احوال ضبط کیے جاتے ہیں پیدائش ووفات کے اعتبار سے اس کے ملحقات میں سے وہ واقعات بھی ہیں کہ جس سے کسی تعریف یا تنقیص یا دوسرے احوال معلوم کیے جاتے ہیں۔

یہ وہ علم ہے کہ جو جرح وتعدیل کے مخصوص الفاظ وضوابط کے ساتھ راویانِ حدیث کے احوال اوراُن کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے اور سن پیدائش وسنِ وفات اور رحلات واسفار علمیہ او رعلم حدیث میں اُن کے مقام ومراتب سے بحث کرتا ہے۔

اسماء الرجال کا موضوع
اس علم کا موضوع جس سے اس علم میں بحث کی جاتی ہے وہ راویان حدیث کے وہ احوال ہیں جس سے حدیث کے صحت وسقم پر کچھ اثر پڑتا ہو، چناں چہ ڈاکٹر صباغ اپنی کتاب ”الحدیث النبوی مصطلحاتہ وبلاغتہ وکتبہ“ میں لکھتے ہیں کہ ”وموضوعہ البحث فی رواة الحدیث وتاریخھم وکل ما یتعلق بشؤونھم ونشأتھم وشیوخھم وتلامذتھم ورحلاتھم، ومن اجتمعوا بہ، او من لم یجتمعوا بہ، من اھل عصرھم ومرکزھم العلمی فی عصرھم وعاداتھم وطبائعھم واخلاقھم وشھادة عارفیھم لھم، او علیھم وسائر مالہ صلة بتکوین الثقة علیھم جرحا او تعدیلاً․“

اس علم کا موضوع راویان حدیث کے احوال اوران کی تاریخ واساتذہ، تلامذہ، اسفار علمیہ، عادات واخلاق وطبائع اور ہر اس وصف سے بحث کرنا ہے کہ جس کا ان کی ثقاہت یا مجروح وعادل ہونے سے تعلق ہو ۔ غرضے کہ اس علم کا موضوع بڑا وسیع ہے او ران تمام جہات پر محیط ہے کہ جن کا راویان حدیث سے راوی حدیث ہونے کی حیثیت سے کوئی ادنی تعلق ہو ۔ چناں چہ ڈاکٹر عجاج الخطیب اپنی کتاب اصول حدیث میں لکھتے ہیں ۔”فھو یتناول ببیان احوال الرواة وبذکر تاریخ ولادة الراوی ووفاتہ وشیوخہ وتاریخ سماعہ منہم ومن روی عنہ وبلادھم ومواطنھم ورحلات الراوی وتاریخ قدومہ الی البلدان المختلفة وسماعہ من بعض الشیوخ قبل الاختلاط ام بعدہ وغیر ذلک مما لہ صلة بامور الحدیث“․

کہ یہ علم اسمائے رجال یا تاریخ رجال راویان حدیث کے تمام احوال پر مشتمل ہوا کرتا ہے۔ اس میں راوی کی تاریخ پیدائش ووفات، اس کے اساتذہ اور تلامذہ اور راوی کے شہر ووطن ،اسفار علمیہ اور مقامات سفر، ان اسفار میں کس سے ملاقات ہوئی اور کس سے نہیں ہوئی، کس استاذ سے اختلاط سے پہلے سنا اور کس سے اختلاط کے بعد، غرض کہ راوی کے ان تمام احوال سے اس علم میں بحث کی جاتی ہے کہ جن کا امور حدیث سے کوئی معمولی تعلق ہو۔

اسم الرجال کی غرض وغایت
اس علم کی غرض وغایت یہ ہے کہ راویان حدیث کے احوال سے واقفیت حاصل کی جائے تاکہ اس کے ذریعے سے احادیث کی پہچان کی جائے اور صحیح اور غیر صحیح میں تمیز کی جائے کیوں کہ ان احادیث پر ہمارے دین کے بہت سے اعمال اعتقاد یہ وفقہیہ کا دار ومدار ہے، اس کے علم کے بعد احادیث صحیحہ پر دین او راحکام دین کی بنیاد رکھی جائے او ران لوگوں کی احادیث کو رد کر دیا جائے کہ جو قابل اعتماد نہ ہوں، یہ تمیز وتفتیش اگر نہ کی جائے تو دین میں بعض ایسی باتیں بھی داخل ہو جائیں گی جو بے اصل ہوں گی اور اس کے نتیجے میں دین کے اندر خلط واختلاط پیدا ہو گا اور سارا کا سارا دین بگڑ جائے گا۔

تاریخ اسم الرجال
یہ ان اہم علوم میں سے ہے کہ جو علم حدیث کے نصف حصے پر مشتمل ہے ،کیوں کہ حدیث کے دو حصے ہوتے ہیں، ایک وہ جس کو سند کہتے ہیں، جس کی تعریف حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ عسقلانی نے شرح نخبة الفکر میں ”طریق المتن“ سے کی ہے اور دوسرا حصہ وہ ہے جو متن کہلاتا ہے ، علم اسماء الرجال کا تعلق سند سے ہوتا ہے اور اس کی صحت اور عدم صحت کے اعتبار سے پھر متن سے بھی تعلق ہوتا ہے، گویا پورے علم حدیث سے اس کا تعلق ہے، اس لیے اس کی اہمیت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے اسی لیے تو بڑے بڑے محدثین نے اس علم میں اپنی عمریں صرف کیں اور امت کے سامنے راویان حدیث کے حالات پر مشتمل وہ کتابیں پیش کیں کہ جس سے کوئی بھی علم حدیث سے تعلق رکھنے والا مستغنی نہیں ہوسکتا ہے۔

اس لیے امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب الجرح والتعدیل کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ:

”وجب الفحص عن الناقلة والبحث عن احوالھم واثبات الذین عرفناھم بشرائط العدالة والتثبت فی الروایة، مما یقتضیہ حکم العدالة فی نقل الحدیث وروایتہ بان یکونوا اُمناء فی انفسھم، علماء بدینھم، اھل ورع وتقوی وحفظ للحدیث واتقان وتثبت فیہ وان یکونوا اھل تمییز وتحصیل لا یشوبھم کثیر من الفضلات، ولا تغلب علیہم الاوھام فیما قد حفظوہ ووعوہ․“

یعنی روایت کرنے میں واجب ہے کہ اہل تثبت اور عادل راویوں کو تلاش کیا جائے او ران کی روایت کو ثابت کیا جائے، جو عادل او رامین اور اہل تقوی ہوں اور ان پر اوہام وغفلت کاغلبہ نہ ہو، جو کچھ سنا وہ اچھی طرح یاد ہو ۔

انہی علمائے جرح وتعدیل کے متعلق ڈاکٹر محمد الصباغ نے اپنی کتاب الحدیث النبوی میں لکھا ہے کہ:”لقد کان موقفھم منھا الموقف الاسلامی السلیم، فلم یقبلوھا کلھا، لانھم لو فعلوا ذالک لحرفوا دین الله، ففیھا المکذوب، ولم یترکوھا کلھا، لانھم لو فعلوا ذالک لضیعوا دین الله، ولکنھم شمروا عن ساقی الجدوصرفوا فی سبیل ذلک کل اوقاتھم، لقد تتبعوا احوال الرواة التی تساعد علی عملیة النقد، وتمییز الطیب من الخبیث، ودونوا فی ذالک المدونات واحصوا فیھا بالنسبة الی کل راوٍ متی ولد؟ ومتی شرع فی الطلب؟ ومتی سمع؟ وکیف سمع؟ ومع من سمع وھل رحل والی این؟ وذکروا شیوخہ الذین یحدث عنھم وبلدانھم ووفیاتھم، وفصلوا القول فی احوال الشخص الواحد تفصیلا یدل علی التتبع الدقیق لکل حوادث حیاتہ، فقد یقبلون روایة شخص فی اول حیاتہ ویردونھا فی آخرھا، لانہ اختلط، او یقبلون عند ما یروی عن ابناء بلدہ، لانہ یعرفھم، ویردون روایتہ عندما یروی عن الاخرین، لقلة معرفتہ بھم․“

یعنی علمائے اسلام نے علم اسمائے رجال میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ بالکل صحیح اور اسلامی موقف ہے، کیوں کہ ان حضرات نے نہ تو تمام راویوں کی روایتوں کو قبول کیا، اس لیے کہ اس سے دین میں تحریف کا راستہ کھلتا اور نہ سب کی روایتوں کو ترک کیا کہ اس سے دین کا بہت سا حصہ ضائع ہو جاتا، بلکہ ان حضرات نے اس راہ میں تکالیف او رمشقتیں برداشت کرکے اپنے تمام اوقات صرف کیے اور راویانِ حدیث کے احوال کا علم حاصل کیا، جو ان کے لیے صحیح اور غیر صحیح کی تمیز ونقد میں معاون ثابت ہوئی، اس سلسلے میں ان حضرات نے کتابیں لکھی اور ہر راوی کے حالات کا ازاول تا آخر پورا احصاء کیا کہ کب پیدا ہوا تھا؟ کب اس نے طلب حدیث کی ابتدا کی کب سنا؟ کیسے سنا؟ کس کے ساتھ سنا؟ کب سفر کیا؟ اور کہاں کا سفر اختیار کیا ؟ اس طرح ان کے اساتذہ کا ذکر، ان کے علاقوں کا ذکر او رتاریخ وفات کا ذکر کیا اور بعض راویوں کے حالات میں تو ان کی زندگی کے جزئی حالات بھی خوب تحقیق وتدقیق سے تلاش کیے او ران کی زندگی کے تمام حوادث ذکر کر دیے ہیں۔

طبقات علمائے اسماء الرجال
اس موضوع پر سب سے پہلے ابن عدی نے الکامل میں لکھا اور صحابہ، تابعین اور تبع وتابعین کے بعد اپنے زمانے تک ان علماء کا نام لکھا ہے کہ جن سے راویان جرح وتعدیل کے متعلق اقوال منقول ہیں یا جنہوں نے اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں، ان کے بعد پھر امام ذہبی رحمہ الله تعالیٰ نے اس پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، جس کا نام ”من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل“ ہے،جو شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تحقیق کے ساتھ مطبوعہ ہے۔ اس رسالہ میں انہو ں نے بائیس طبقات قائم کیے ہیں اور سات سو پندرہ علماء کا ذکر کیا ہے۔

اس کے بعد علامہ سخاویؒ نے ”المتکلمون فی الرجال“ کے عنوان سے ان کو ”اعلان بالتوبیخ“ اور ”فتح المغیث“ میں 26 طبقات میں ذکر کیا ہے، لیکن کچھ تلخیص بھی کی ،اپنے زمانے تک انہوں نے دو سو دس اشخاص کے نام ذکر کیے۔


No comments:

Post a Comment