Friday, 12 October 2012

متونِ حدیث، اقسامِ حدیث، قواعد الحدیث



متونِ حدیث


متن حدیثــــــ ایک تعارفِ اجمالی



متن عربی میں پشت Bone of contention کوکہتے ہیں متون اس کی جمع ہے، پشت پر بدن کا جملہ وزن آتا ہے اور یہی حصہ اس کا پوری طرح متحمل ہوتا ہے، حدیث کے جملہ اُصول وفروع اور قواعد وکلیات بھی متن حدیث کے گرد ہی گھومتے ہیں، راویوں کی سند متن تک پہنچتی ہے، شروح اسی متن کوکھولتی ہیں اور ترجمہ اسی کودوسری زبان کا لباس پہناتے ہیں، جو کتابیں متونِ حدیث کو اپنے دامن میں لیئے ہوئے ہیں اُن کا تعارف اس مقالہ میں پیش کیا جائیگا، ان میں وہ کتابیں بھی ہوں گی جو متن کو سند کے ساتھ پیش کرتی ہیں، جیسے صحیح البخاری اور صحیح مسلم اور وہ بھی ہوں گی جومتن لاکر اس کی تخریج کردیتی ہیں، جیسے مشکوٰۃ وغیرہ، ضرورت کے پیشِ نظر چند اُن کتابوں کا ذکر بھی ہوگا جوراویوں کے حالات بتائیں اور آخر میں چند ان کتابوں کا ذکر بھی کیا جائے گا جومستقلاً بے سند اور موضوع روایات پر لکھی گئیں..... جہاں تک اصل کتابوں کا تعلق ہے ان میں بھی اس سے بحث نہیں ہوگی کہ یہ کب لکھی گئیں اور اس فن کی تدوین کیسے ہوئی؟ یہ مباحث کچھ تاریخ حدیث میں اور کچھ تدوینِ حدیث سے متعلق ہیں؛ یہاں صرف یہ بتلانا ہے کہ ان دنوں متونِ حدیث کی کون کون سی کتابیں علماء عوام میں مستند طریقہ سے چلی آرہی ہیں اور یہ کتابیں چھپی ہیں اور مل سکتی ہیں..... اس فن کی جملہ مطبوعہ کتابوں کا احاطہ کرنا مقصود نہیں، اس بات کے متلاشی حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی کتاب بُستان المحدثین یاجرمن مستشرق بروکلمن کی کتاب کی مراجعت فرمائیں۔

صحیفہ حضرت ہمام بن منبہ (۱۱۰ھ)


حدیث کی قدیم ترین کتاب جواس وقت ہماری رسائی میں ہے صحیفہ ہمام بن منبہ ہے، ہمام بن منبہؒ حافظ الامت سیدنا حضرت ابوہریرہؓ کے شاگرد تھے، صحیفہ ہمام بن منبہؒ (۱۱۰ھ) میں ۱۳۸ حدیثیں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے لکھی ہیں..... یہ نہ سمجھا جائے کہ حضرت ہمامؒ کوکل ۱۳۸/احادیث ہی یاد تھیں..... نہیں آپ نے اور اساتذہ سے بھی بہت سی روایات سنیں ان دوسرے اساتذہ سے سنی روایات اس میں شامل نہیں نہ حضرت ابوہریرہؓ سے سنی کل روایات کا اس میں احاطہ ہے، حضرت ہمامؒ نے جب یہ صحیفہ مرتب کیا، ان دنوں فنِ تدوین اپنی بالکل ابتدائی منزل میں تھی، یہ مجموعے محض یادداشت کے طور پر لکھے گئے تھے، صحیفہ ابن ہمام ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کے تحقیقی کام کے ساتھ حیدرآباد دکن سے سنہ ۱۹۵۵ھ میں شائع ہوا ہے، مولانا حبیب اللہ صاحب حیدرآبادی نے اس کا اُردو ترجمہ کیا ہے، جوشائع ہوچکا ہے، تیرہ صدیوں تک یہ کتاب مخطوطات میں ہی رہی، اس سے بہت پہلے مسند امام احمد مصر میں چھپ چکی تھی، اس میں مرویاتِ ابی ہریرہؓ ایک مستقل مسند ہے، مسند امام احمد کی جلددوم میں صحیفہ ہمام بن منبہ کی کل احادیث مرویات ابی ہریرہؓ میں موجود ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ قدماء حدیث کس احتیاط سے جمع کی کہ تیرہ صدیوں بعد آنے والا مجموعہ صدیوں بعد شائع ہونے والے کتابوں سے ہوبہو اور حرف بحرف مطابق نکلا، اس وقت متن حدیث کی قدیم ترین کتاب جسے ہم دیکھ سکتے ہیں یہی ہے۔

اس لنک پر کلک کرتے مفت ڈاؤن لوڈ کریں

حدیث کی دس پہلی کتابیں


پہلے ان دس کتابوں سے تعارف کیجئے جوصحاحِ ستہ کے وجود میں آنے سے پہلے لکھی جاچکی تھیں اور علماء متقدمین ومتأخرین ان کے حوالوں سے رداً یاقبولاً بحث کرتے آئے ہیں اور ان کی اصلیت Anthenticity کسی دور میں مخدوش نہیں سمجھی گئی۔

(۱) مسندامام ابی حنیفہؒ (۱۵۰ھ)


امام اعظم ابوحنیفہؒ کا موضوع زیادہ ترفقہ تھا حدیث نہیں؛ تاہم آپ ضمناً احادیث بھی روایت کرتے جاتے تھے، جنھیں آپ کے شاگرد آپ سے روایت کردیتے تھے، مختلف علماء نے آپ سے روایت شدہ احادیث کو جمع کیا ہے، علامہ خوارزمی (۶۶۵ھ) نے ان کے پندرہ جمع شدہ مجموعے مسانید ابی حنیفہ کے نام سے مرتب کیئے ہیں، ان مجموعوں کوامام صاحبؒ سے براہِ راست نقل کرنے والے امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ، امام صاحبؒ کے صاحبزادے حمادؒ اور امام حسن بن زیادؒ ہیں، ان میں سب سے بہتر مجموعہ محدث جلیل موسیٰ بن زکریا حنفی کا ہے، اسے ہی مسندابی حنیفہ کہا جاتا ہے، یہ کتاب مصر، ہندوستان اور پاکستان میں بارہا چھپ چکی ہے۔
محدثِ کبیر ملاعلی قاریؒ نے مسندالانام فی شرح الامام کے نام سے اس کی شرح لکھی جو سنہ ۱۸۸۹ء میں مطبع محمدی لاہور نے شائع کی تھی، یہ کتاب مولانا محمدحسن سنبھلی کے حاشیہ کے ساتھ اصح المطابع لکھنؤ سے سنہ ۱۳۰۹ھ میں شائع ہوئی۔



(۲) مؤطا امام مالکؒ (۱۷۹ھ)


مؤطا لفظ توطیہ سے ہے، توطیہ کے معنی روندنے، تیار کرنے اور آسان کرنے کے ہیں، امام مالکؒ نے اسے مرتب کرکے ستر فقہاء کے سامنے پیش کیا، سب نے اس سے اتفاق کیا، اسی وجہ سے اس اتفاق شدہ مجموعہ کو مؤطا کہا گیا، امام مالکؒ نے اسے فقہاء کے سامنے کیوں پیش کیا؟ محدثین کے سامنے کیوں نہیں؟ ملحوظ رہے کہ ان دنوں فقہاء ہی حدیث کے اصل امین سمجھے جاتے تھے اور یہی لوگ مراداتِ حدیث کوزیادہ جاننے والے مانے جاتے تھے۔
امام مالکؒ کا موضوع چونکہ زیادہ ترفقہ تھا، اس لیئے آپ نے اس میں سند کے اتصال کی بجائے تعامل امت کوزیادہ اہمیت دی ہے، آپ اس میں اقوالِ صحابہؓ اور تابعینؒ بھی لے آئے ہیں، آپ کے ہاں سنت وہی ہے جس پر اُمت میں تسلسل سے عمل ہوتا آیا ہو، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"مز جہ باقوال الصحابۃ وفتاویٰ التابعین ومن بعدھم"۔ 

(مقدمہ فتح الباری:۴)

ترجمہ: آپ نے صحابہ کے اقوال اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کے فتاوے اس میں شامل کیئے ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اسے فقہ کی کتاب شمار کرتے ہیں (مسوی عربی شرح موطا:۴) جہاں تک اس کی اسانید کا تعلق ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

"لیس فیہ مرسل ولامنقطع الاوقداتصل السند بہ من طرق اخریٰ"۔

(حجۃ اللہ البالغہ:۱/۱۳۳)

ترجمہ: اس میں کوئی مرسل اور منقطع روایت ایسی نہیں جودوسرے طرق سے متصل نہ ہوچکی ہو۔

مؤطاامام مالک میں ۸۲۲/روایات مرفوع ہیں، جوحضور   تک پہنچتی ہیں ان میں سے بھی ۲۴۴/مرسل ہیں، جوتابعینؒ کی روایت سے حضور   تک پہنچی ہیں، انہیں محدثین کی اصطلاح میں مرسل کہتے ہیں، اس دور میں مرسل احادیث لائقِ قبول سمجھی جاتی تھیں، جب تک جھوٹ اور فتنوں کا دور شروع نہیں ہوا، امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ جیسے اکابر مرسل روایات کوبلاتردد قبول کرتے رہے، امام مالکؒ سے مؤطا کے سولہ نسخے آگے چلے، جن میں صحیح ترین نسخہ امام یحییٰ بن یحییٰ مصمودی اندلسی کا ہے، مؤطا مالک ان دنوں اسے ہی کہتے ہیں، بڑے بڑے متبحر علماء نے اس کی شروح اور حواشی لکھے ہیں، حضرت امام شافعیؒ نے لکھا ہے:

"ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک"۔

(تزئین المالک:۷۳)

ترجمہ:تختۂ زمین پر کوئی کتاب قرآن کریم کے بعد مؤطا سے زیادہ صحیح نہیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم وجود میں نہ آئی تھیں اور صحتِ سند کے لحاظ سے مؤطا مالک اپنی مثال آپ تھی، اس کی کوئی روایت جرح راوی کی وجہ سے ضعیف نہیں، امام مالکؒ سے ایک ہزار کے قریب علماء نے مؤطا لکھی۔

(بستان المحدثین اردو ترجمہ:۲۲، مطبع: کراچی)




(۳) کتاب الآثار امام ابویوسفؒ (۱۸۲ھ)


گوآپ حدیث کے امام تھے؛ مگرآپ کا موضوع بھی فقہ تھا، آپ نے احادیث بھی بہت روایت کی ہیں، زیادہ روایات امام ابوحنیفہؒ سے لیتے ہیں، کتاب الآثار فقہی طرز میں آپ کی روایات کا ایک مجموعہ ہے، امام یحییٰ بن معینؒ (۲۳۳ھ) لکھتے ہیں:

"کان ابویوسف القاضی یمیل الی اصحاب الحدیث وکتبت عنہ"۔

(کتاب التاریخ یحییٰ بن معین:۲/۶۸۰، طبع: سنہ ۱۳۹۹ھ، مکۃ المکرمۃ)

ترجمہ: امام ابویوسفؒ محدثین کی طرف زیادہ مائل تھے اور آپ کی روایات لکھی جاتی تھیں۔

امام ابویوسفؒ کی اس کتاب کومطبع احیاء المعارف النعمانیہ نے ۱۳۵۵ھ میں شائع کیا ہے۔


(۴) کتاب الآثار امام محمدؒ (۱۸۹ھ)



مصر اور ہندوستان میں بارہا چھپ چکی ہے، اس کی متعدد شرحیں بھی لکھی گئیں جن میں سے بہترین شرح مفتی دارلعلوم دیوبند مفتی مہدی حسن صاحب کی ہے جو تین جلدوں میں ہے، کتاب الآثار امام محمد کا عربی متن پہلے مطبع اسلامیہ نے سنہ ۱۳۲۹ھ میں شائع کیا تھا۔

(۵) مؤطاامام محمدؒ (۱۸۹ھ)


امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی وفات کے بعد حضرت امام مالکؒ سے مؤطا سنی اور پھر آپ نے خود ایک مؤطا ترتیب دی، جس میں زیادہ روایات امام مالکؒ سے لی ہیں، مؤطا امام محمدؒ بھی درسی کتاب ہے، ہندوستان، پاکستان، ترکی اور افغانستان کے مدارس حدیث میں پڑھائی جاتی ہے، اس کا اُردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے، اس میں مرویات آپ کی ہیں؛ مگرتبویب آپ کے شاگردوں میں سے کسی نے کی ہے "ھکذا سمعت من بعض الثقات"۔


(۶) مسندامام شافعیؒ (۲۰۴ھ)



آپ کا زیادہ ترموضوع فقہ تھا؛ مگرآپ اس کے ضمن میں احادیث بھی روایت کرتے تھے، آپ کے دور میں فتنے بہت اُبھر آئے تھے اور جھوٹ عام ہوچکا تھا، اس لیئے آپ نے راویوں کی جانچ پڑتال پر بہت زور دیا اور تعامل امت کی نسبت صحت سند کواپنا مآخذ بنایا، آپ نے یہ مسندخودترتیب نہیں دی، اس کے مرتب ابوالعباس محمدبن یعقوب الاصم (۶۴۶ھ) ہیں، یہ مسند امام شافعیؒ سے امام مزنیؒ نے اور امام مزنیؒ سے امام طحاویؒ (۳۲۱ھ)نے بھی روایت کی ہے، اس کی بھی کئی شروح لکھی گئیں جن میں مجدالدین ابن اثیرالجزریؒ (۶۰۶ھ)اور امام سیوطیؒ کی شرحیں زیادہ معروف ہیں۔


(۷) المصنف لعبدالرزاق بن ہمامؒ (۲۱۱ھ)


عبدالرزاقؒ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد تھے، المصنف گیارہ جلدوں میں بیروت سے شائع ہوئی ہے، حاشیہ پر تحقیقی کام دیوبند کے مشہور محدث مولانا حبیب الرحمن اعظمی مدظلہٗ نے کیا ہے، پہلے دور کی کتابوں کی طرح اس میں صحابہؓ اور تابعینؒ کے فتاوےٰ بھی بہت ہیں اور مؤلف متصل ومرسل ہرطرح کی روایات لے آئے ہیں، ان دنوں محدثین تعاملِ امت پر فکری نظر رکھتے تھے۔


(۸) مسندابی داؤد الطیالسیؒ (۲۲۴ھ)


دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن نے سنہ ۱۳۳۲ھ میں اسے شائع کیا ہے، مسند کی ترتیب پر ہے، صحابہؓ کی مرویات علیٰحدہ علیٰحدہ ہیں، اب ابواب فقہ کی ترتیب سے بھی چھپ گئی ہے، اس میں بعض ایسی احادیث ہیں جواور کتابوں میں نہیں ملتیں، اس پہلو سے یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے۔


(۹) المصنف لابن ابی شیبہؒ (۲۳۵ھ)


پورا نام الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار ہے، مؤلف امام حافظ ابوبکر عبداللہ بن محمدبن ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ ہیں، مولانا ابوالوفاء، افغانی رئیس مجلس علمی بدائرۃ المعارف العثمانیہ کے تحقیقی کام کے ساتھ تیسری جلد تک چھپ چکی ہے، تیسری جلد کتاب الجنائز پر مکمل ہوئی اور سنہ ۱۳۳۸ھ میں چھپی..... پھر یہ سلسلہ رُک گیا اب نئے سرے سے حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے تحقیقی حاشیہ کے ساتھ کاملاً چھپ رہی ہے، اس کا اہتمام فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب خلیفہ مجاز حضرت الشیخ مولانا محمدزکریا صاحب محدث سہانپوری کررہے ہیں، بحمدللہ اب یہ چھپ چکی ہے اور دیگر علماء نے بھی اس پر تحقیقی کام کیا ہے، جس میں شیخ عوامہ کا کام سب سے فائق ہے۔


(۱۰) مسندامام احمد بن حنبل الشیبانیؒ (۲۴۱ھ)


مسند احمد کی موجودہ ترتیب آپ کے صاحبزادے عبداللہ کی ہے، قاضی شوکانی لکھتے ہیں: امام احمدؒ نے جس روایت پر سکوت اختیار کیا ہے اور اس پر جرح نہیں کی وہ لائق احتجاج ہے (نیل الاوطار:۱/۱۳) اس سے اس مسند کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے، حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ مسنداحمد کی شرط روایت ابوداؤد کی ان شرائط سے قوی ہے جوانھوں نے اپنی سنن میں اختیار کی ہیں، امام ابوداؤدؒ (۲۷۵ھ) لکھتے ہیں:

"وماالم اذکر فیہ شیئا فھو صالح وبعضھا اصح من بعض"۔   

(مقدمہ سنن ابی داؤد:۶)

ترجمہ: اور جس راوی کے بارے میں میں نے کچھ نہیں لکھا وہ اس لائق ہے کہ اس سے حجت پکڑی جائے۔

علامہ ابن الجوزیؒ اور حافظ عراقیؒ نے مسنداحمد کی ۳۸/روایات کوموضوع قرار دیا ہے، حافظ ابنِ حجرعسقلانیؒ نے ان میں ۹/روایات کا پورا دفاع کیا ہے اور اس پر ایک مستقل کتاب ("القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد" اس کا نا م ہے) لکھی ہے، جو حیدرآباد دکن سے شائع ہوچکی ہے، چودہ روایات کا جواب حافظ جلال الدین سیوطیؒ نے "الذیل الممہد" میں دیا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہولیؒ نے مسندامام احمد کوطبقۂ ثانیہ کی کتابوں میں جگہ دی ہے، حافظ سراج الدین عمر بن علی ابن الملقن (۸۰۴ھ) نے مسنداحمد کا ایک اختصار بھی کیا ہے اور علامہ ابوالحسن سندھیؒ (۱۲۳۹ھ) نے مسنداحمد کی ایک شرح بھی لکھی ہے، شیخ احمدبن عبدالرحمن البناء نے اسے فقہی ابواب پر مرتب کیا اور شیخ احمد شاکر نے اس پر تحقیقی کام کیا ہے، اس کا نام الفتح الربانی من مسنداحمد بن حنبل شیبانی ہے یہ ۲۲/جلدوں میں ہے سنہ۱۳۵۳ھ میں پہلی جلد شائع ہوئی سنہ ۱۳۷۷ھ میں آخری جلد مطبع غوریہ مصر سے شائع ہوئی۔
پہلے دور کے یہ دس نمونے مختلف قسموں پر جمع ہوئے ہیں، اس دور کی اور بھی بہت کتابیں تھیں، جواس وقت ہماری رسائی میں نہیں؛ لیکن ان کے حوالے شروح حدیث میں عام ملتے ہیں اور ان کے مخطوطات بھی کہیں کہیں موجود ہیں، ان کے تعارف کا عملاً کوئی فائدہ نہیں، صرف چند نام پڑھ لیجئے:
سنن مکحول الدمشقی (۱۱۶ھ)، سنن ابن جریج المکی (۱۵۰ھ)، جامع معمر بن راشد (۱۵۳ھ)، جامع سفیان الثوری (۱۶۱ھ)، مسنداحمد بن عمروالبزار (۱۶۷ھ)، مسندوکیع بن الجراح (۱۹۷ھ)، مسندابن الجارود الطیالسی (۲۰۴ھ)، مسندالفریابی (۲۱۲ھ)، مسندابی عبید قاسم بن سلام (۲۲۴ھ) مسندابن المدینی (۲۳۴ھ)، مسنداسحٰق بن راہویہ (۲۳۸ھ)، خدا کرے یہ مجموعے بھی شائع ہوجائیں ان سے باب حدیث میں نئی تحقیقات کا اضافہ ہوگا؛ بحمدللہ یہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور نٹ پربھی دستیاب ہیں، ڈیجیٹل لائبریری سے فائدہ اٹھانے والے تواس سے خوب فائدہ اٹھارہے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ اس دور کے آخر میں تالیف حدیث اپنے فنی کمال کوپہنچ گئی اور محدثین نے وہ گراں قدر مجموعے مرتب کیئے کہ خود فن ان پر ناز کرنے لگا، صحیح بخاری اور صحیح مسلم اسی دورِ آخر کی تالیفات ہیں۔


صحاحِ ستہ کا دورِ تدوین وتالیف



مسلمانوں میں حدیث کی چھ کتابیں انتہائی معتمد سمجھی گئی ہیں، انہیں صحاحِ ستہ کہتے ہیں ان میں پہلی دوکتابیں توکل کی کل صحیحین ہیں اور دوسری چار کتابیں سنن کہلاتی ہیں، یہ سنن اربعہ بیشتر صحیح روایات پر مشتمل ہیں، فن حدیث میں یہ چھ کتابیں انتہائی لائقِ اعتماد سمجھی جاتی ہیں، مشہور مستشرق نکلسن انہیں اسلام کی Canonical Books لکھتا ہے، یہ کتابیں تدوین حدیث کے دوسرے دور سے تعلق رکھتی ہیں۔

(۱) صحیح بخاری


امام محمدبن اسماعیلؒ (۲۵۶ھ) کی اس کتاب کا پورا نام "الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ وسننہ وایامہ" ہے اس نام میں مسند اپنے اصطلاحی معنوں میں نہیں، اسے الجامع الصحیح بھی کہتے ہیں؛ کیونکہ فن حدیث کے آٹھوں ابواب (کتاب) اس میں جمع ہیں، امام بخاریؒ نے صحتِ سند، فقہ حدیث اور تحریر تراجم میں حدیث کا وہ عدیم النظیر مجموعہ تیار کیا ہے کہ اسے بجاطور پر اسلام کا اعجاز سمجھنا چاہیے، اہلِ فن اسے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ قرار دیتے ہیں۔
امام بخاریؒ تقطیع حدیث (حدیث کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے اس کے اجزاء کو علیٰحدہ علیٰحدہ روایت کرنا) کے قائل تھے، وہ حدیث کے مختلف اجزاء کومختلف ابواب میں لاتے ہیں، امام صاحبؒ کا ترجمۃ الباب Chapter Heading امام صاحبؒ کا فقہی نظریہ ہوتا ہے، جوان کے خیال میں اس حدیث میں لپٹا ہوتا ہے، جملہ فقہ بخاری فی تراجمہ علمائے حدیث میں بہت معروف ہے، ان فقہی تراجم کے باعث امام صاحبؒ کوبعض روایات بار بار بھی روایت کرنی پڑی ہیں، صحیح بخاری کی کل مرویات ۷۲۷۵/ہیں، مکررات کو حذف کرکے چار ہزار کے قریب رہ جاتی ہیں؛ پھرساری روایات مرفوع (جوحضور   تک پہنچتی ہوں) نہیں ہیں، موقوف روایات (صحابہؓ کی روایات) اور تابعین کبار کے بہت سے اقوال بھی اس میں ملتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاریؒ حدیثِ رسول کے بعد اپنے آپ کوآزاد نہیں سمجھتے؛ بلکہ ان کی فکر انہیں اسلاف کی طرف متوجہ کرتی ہے، وہ صحابہؓ اور تابعینؒ سے مستغنی رہ کر نہ چلتے تھے، صحابہؓ اور دیگر ائمہؒ کی طرف بھی رجوع کرتے ہیں، علامہ سیدمحمدمرتضیٰ الحسینی زبیدی (۱۲۰۵ھ) نے صحیح بخاری کی اسانید اورمکررات حذف کرکے تجرید بخاری مرتب کی، یہ تجرید بھی اپنی جگہ بہت متداول ہے۔


(۲) صحیح مسلم


امام مسلمؒ (۲۶۱ھ) نے فنِ حدیث میں صحتِ سند، حسن صناعت اور مسلکِ محدثین کے التزام سے ایسی کتاب ترتیب دی ہے کہ کتبِ حدیث میں اس کی نظیرنہیں، اس پہلو سے یہ صحیح بخاری سے بھی فائق ہے، ابواب امام مسلمؒ کے لکھے ہوئے نہیں؛ یہی وجہ ہے کہ آپ حدیث پوری روایت کرتے ہیں، جس میں کئی کئی مضامین ہوتے ہیں، آپ امام بخاریؒ کی طرح تقطیع حدیث (حدیث کوٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے متعلقہ موضوعات میں لانا) نہیں کرتے، صحیح مسلم کی احادیث مکررات حذف کرنے کے بعد چار ہزار رہ جاتی ہیں، حافظ ابوعوانہ الاسفرائنی (۳۱۶ھ) نے صحیح مسلم پر استخراج کرکے مسند ابی عوانہ مرتب کی ہے، جوصحیح مسلم کی شرطوں پر مزید احادیث ہیں، حافظ منذریؒ (۶۵۶ھ) نے تجرید الصحیح کے نام سے اس کی تجرید کی ہے، محمدبن احمد بن محمدالغرناطی (۷۴۱ھ) نے تہذیب الصحیح کے نام سے اس کا ایک اختصار کیا ہے، علمائے حدیث نے صحیح مسلم کی کئی شرحیں لکھی ہیں:
اس دور میں جس کے پیشرو حضرت امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ ہوئے اور بھی کئی بلند پایہ اہلِ فن اُٹھے جنھوں نے اپنے گراں قدر مجموعھائے حدیث سے اس فن کوتکمیل بخشی، ان میں یہ تین کتابیں چوٹی کی کتابیں ہیں اور بعض فنی اعتبارات سے ان کی بھی نظیر نہیں ملتی (۱) سنن ابی داؤدؒ (۲۷۵ھ) (۲) جامع ترمذی (۲۷۹) (۳) سنن نسائی (۳۰۳ھ)۔


(۱) سنن ابی داؤد (۲۷۵ھ)


فقہی اعتبار سے بہت بلندپایہ کتاب ہے، ایک مجتہد تہذیب شریعت اور تدوین فقہ میں جن احادیث کا محتاج ہوسکتا ہے وہ سب اس سنن میں موجود ہیں اسے ادق الکتب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے، صحیح بخاری اصح ہونے میں اس سے اوّل ہے؛ مگرادق ہونے میں اس کا نام آگے ہے، حافظ منذریؒ نے اس کی بھی تلخیص کی ہے، کتب حدیث میں یہ سب سے پہلی کتاب ہے جس کی شرح سب سے پہلے لکھی گئی، حافظ احمد بن محمدامام ابوسلیمان الخطابی (۳۸۸ھ) نے معالم السنن کے نام سے اس کی شرح لکھی جوبارہا چھپ چکی ہے۔
امام ابوداؤد کی کتاب مراسیل ابی داؤد مرسلات پر پہلا مرتب مجموعہ ہے، بعض اہل مطابع نے اسے سنن کے آخر میں شامل کردیا ہے، امام ابوداؤد حنبلی المسلک تھے، امام احمد کی طرح احادیث صحابہؓ کو بہت اہمیت دیتے تھے اور مرفوع احادیث کے اختلاف میں عملِ صحابہ کوحجت سمجھتے تھے، امام ابوحنیفہؒ کو بھی امام تسلیم کرتے تھے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"قال ابوداؤد رحمہ اللہ ان اباحنیفۃ کان اماماً"۔           

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۰)

ترجمہ:ابوداؤد نے کہا، بے شک ابوحنیفہؒ امام تھے۔

سنن ابی داؤد کی مرویات ساڑے چارہزار کے قریب ہیں۔


(۲) جامع ترمذی (۲۷۹ھ)


اِس کتاب کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ امام ترمذی ہرحدیث کے آخر میں اس کی سند کے بارے میں صحیح، حسن یاضعیف ہونے کا حکم لگاتے ہیں اور طلبہ حدیث کومدارجِ حدیث معلوم کرنے میں اس سے بہت مدد ملتی ہے؛ پھرآپ آخرابواب میں مذاہب فقہاء بھی بیان کرتے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان دنوں فہم حدیث میں مذاہب فقہاء کوکس درجہ اہمیت حاصل تھی اور محدثین بیان حدیث میں فقہاء کی آراء بیان کرنے میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے۔
آپ اس کتاب میں ہرمسلک کی روایات کو لاتے ہیں، اس سے شریعت کی وسعتِ نظر اور سنن کی وسعتِ عمل کاپورا نقشہ پوری حکمت سے کھچا نظر آتا ہے، آپ نے اس میں امام بخاریؒ کی طرح جمیع ابوابِ حدیث کوروایت کیا ہے، اس لیئے سنن ترمذی کوجامع ترمذی کہا جاتا ہے؛ ورنہ اپنی نوع میں یہ سنن کی طرز پر مرتب ہے، امام نجم الدین سلیمان بن عبدالقوی الطوفی (۷۱۰ھ) نے مختصر جامع ترمذی کے نام سے اس کا ایک اختصار کیا ہے، جامع ترمذی کی کئی شروح لکھی گئی ہیں، جوعلماء میں متداول ہیں۔


(۳) سنن نسائی (۳۰۳ھ)


صحتِ سند میں صحیحین کے بعد اسی کا درجہ ہے، سند حدیث کی علل پر امام نسائی کی نظر امام ابوداؤد اور امام ترمذیؒ سے بھی گہری ہے، آپ اِس باب میں امام ابوزرعہ اور امام بخاریؒ کے طبقہ کے معلوم ہوتے ہیں...... سنن نسائی جومدارس میں پڑھائی جاتی ہے اس کا اصل نام "المجتبیٰ من سنن النسائی" ہے، امام نسائی نے سنن نسائی کا یہ خوداختصار کیا ہے، امام نسائی کی سنن کبریٰ مخطوطات کی شکل میں کئی کتب خانوں میں موجود ہے، بعض علماءدیوبند اس پر تحقیقی کام کررہے ہیں اس کی اشاعت سے علمِ حدیث میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا، بحمدللہ یہ کتاب بھی شائع ہوچکی ہے اور نٹ پر بھی دستیاب ہے، امام نسائی نے المجتبیٰ میں احادیث کی تبویب امام بخاریؒ کی طرز پر کی ہے اور کوشش کی ہے کہ تراجم ابواب میں مضمونِ حدیث کی طرف پورا اشارہ ہوجائے۔
نواب صدیق حسن خان صاحب نے آپ کوشافعی المسلک لکھا ہے (ابجدالعلوم:۸۱۰) مگر مولانا انورشاہ صاحب محدث کشمیریؒ آپ کو حنبلی المسلک بتاتے ہیں (العرف الشذی) سنن نسائی پر بھی شروح وحواشی کا بہت کام ہوا ہے اور متونِ حدیث میں اسے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے ساتھ مل کر یہ تین کتابیں صحاحِ ستہ کی اصل ہیں، مؤطا امام مالکؒ یاسنن دارمی یاسنن ابنِ ماجہ کوساتھ ملاکر انہیں صحاح ستہ کہتے ہیں۔
مؤطا امام مالکؒ کا ذکر دورِ اوّل کی دس کتابوں میں ہوچکا ہے، سنن دارمی ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی سمرقندی (۲۵۵ھ) کی تالیف ہے، امام بخاریؒ کے ہم عصر ہیں، آپ سے امام مسلم، ابوداؤد اور ترمذی نے بھی روایات لی ہیں، سنن دارمی پہلے ہندوستان میں مطبع نظامی کان پور میں سنہ ۱۲۹۳ھ میں چھپی، اب مصر میں بھی بارہا چھپ چکی ہے، دوجلدوں میں ہے اور اس کا اُردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے،


(۳) سنن ابن ماجہ (۲۷۳٢ھ)

سنن ابنِ ماجہ (۲۷۳ھ) ابوعبداللہ محمدبن یزید بن ماجہ قزوینی کی تالیف ہے، آپ نے امام مالکؒ کے کئی شاگردوں سے حدیث سنی، سنن ابنِ ماجہ اپنی وسعت اور جامعیت سے اس لائق ہے کہ اسے صحاح ستہ کی چھٹی کتاب سمجھا جائے، علمائے حدیث نے اس پر بھی بہت کام کیا ہے اور اس کے بسیط حواشی لکھے ہیں، مولانا عبدالرشید نعمانی کی کتاب "ماتمس الیہ الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجہ" اس باب میں ایک نہایت مفید مقدمہ علم حدیث ہے۔


صحاحِ ستہ کے بعد کے متداول مجموعے


صحاحِ ستہ کے بعد جن کتابوں کوزیادہ شہرت حاصل ہوئی اور وہ علماء کودستیاب ہیں، یہ ہیں:


(۱) شرح معانی الآثار امام طحاویؒ (۳۲۱ھ)



اپنے طرز کی نہایت عجیب کتاب ہے، کتبِ حدیث میں اس کی مثل نہیں، درسی کتاب ہے دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث میں پڑھائی جاتی ہے، افسوس کہ اس کی طباعت میں بہت کم محنت کی گئی ہے، موجودہ مطبوعہ نسخوں میں تقریباً ہرصفحے میں کوئی نہ کوئی غلطی موجود ملتی ہے، مظاہرالعلوم سہارنپور کے مولانا محمدایوب صاحب نے اس سلسلہ میں بہت محنت کی ہے اور "تصحیح الاغلاط الکتابیہ الواقعہ فی النسخ الطحاویہ" دوضخیم جلدوں میں شائع کی ہے، یہ کتاب مکتبہ اشاعت العلوم، سہانپور سے ملتی ہے، علامہ عینی جیسے بلند پایہ محدثین نے شرح معانی الآثار کی شرح کئی ضخیم جلدوں میں لکھی ہیں۔



(۲) مشکل الآثار امام طحاویؒ (۳۲۱ھ)


امام طحاویؒ نے اس میں مشکل اور ظاہراً متعارض احادیث پر بہت فاضلانہ بحث کی ہے، افسوس کہ یہ پوری شائع نہیں ہوئی، حیدرآباد دکن سے اس کی چار جلدیں شائع ہوئی ہیں اور یہ پوری کتاب کا تقریباً نصف ہیں، امام طحاویؒ نے اس کا ایک اختصار بھی کیا ہے، جسے قاضی جمال الدین یوسف بن موسیٰ نے "المعتصر من المختصر من مشکل الآثار"کے نام سے مرتب کیا ہے یہ المعتصر سنہ ۱۳۱۲ھ میں حیدرآباد دکن سے پہلی مرتبہ شائع ہوئی ہے؛ پھریہ مصر سے بھی شائع ہوچکی ہے۔



(۳) المعجم الکبیر للطبرانی (۳۶۰ھ)


حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی (۳۶۰ھ) نے حدیث کے تین مجموعے قلمبند کیئے، ان میں سے سب سے بڑا مجموعہ یہ ہے، المعجم الصغیر للطبرانی مطبع انصاری دہلی میں سنہ ۱۳۱۱ھ میں چھپی تھی، المعجم الکبیر کا ایک مخطوطہ کسی زمانہ میں جامع عباسیہ بہاولپور کی لائبریری میں موجود تھا۔


(۴) سنن دارِقطنی (۳۸۵ھ)



ابوالحسن علی بن عمردارِقطنی بغداد کے محلہ دارِقطن کے رہنے والے تھے، عللِ احادیث میں اپنے وقت کے امام اور منتہیٰ تھے، اسماء الرجال میں کہیں کہیں تعصب کی رو میں بہہ نکلے ہیں، بہت سے علماء نے اس کتاب پر قابلِ قدر حواشی لکھے ہیں، کتاب میں بہت سی منکر شاذ ضعیف اور موضوع روایات موجود ہیں؛ تاہم کئی پہلوؤں سے کتاب مفید ہے۔

(۵) مستدرک حاکم(۴۰۵ھ)



چار ضخیم جلدوں میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ساتھ ساتھ حافظ شمس الدین الذہبیؒ کی کتاب تلخیص المستدرک بھی ہے، حافظ ذہبی اسانید پر ساتھ ساتھ کلام کرتے جاتے ہیں، حاکم نے اپنے زعم میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر اسی کتاب میں استدراک کیا ہے؛ اسی لیئے اسے مستدرک علی الصحیحین کہتے ہیں۔

(۶) سنن کبریٰ للبیہقی (۴۵۸ھ)



ابوبکراحمد بن الحسین البیہقی کی کتاب سنن کبریٰ دس ضخیم جلدوں میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ساتھ ساتھ علامہ علاؤ الدین الماردینی الترکمانی الحنفی کی کتاب الجوہر النقی فی الرد علی البیہقی بھی ہے، اس میں علامہ ترکمانی حنفیہ کی طرف سے امام بیہقی کوساتھ ساتھ جواب دیتے جاتے ہیں، امام بلند پایہ شافعی المذہب فقیہہ تھے۔

(۷) معرفۃ السنن والآثار للبیہقی (۴۵۸ھ)



دوجلدوں میں مصر سے شائع ہوئی ہے، اپنے طرز کی نادرکتاب ہے، امام بیہقی نے اس میں کہیں کہیں امامِ طحاوی کے طرز پر چلنے کی کوشش کی ہے؛ لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے، ویسے یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے، امام بیہقیؒ کی شعب الایمان جس سے صاحب مشکوٰۃ نے روایات لی ہیں، اس کے علاوہ ہے۔


(۸) کتاب التمہید لابن عبدالبر المالکیؒ (۴۶۵ھ)


امام ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں اور الاستیعاب میں اپنی سند سے بہت روایات کی ہیں؛ لیکن "کتاب التمہید لمافی الموطا من المعانی والاسانید" اپنے موضوع میں نہایت فاضلانہ مجموعہ حدیث ہے، مراکش کے محکمہ شئوون اسلامی نے اسے تحقیقی کام کے ساتھ بیس جلدوں میں شائع کیا ہے، امام ابنِ عبدالبر نے "تجرید التمھیدی" کے نام سے اس کی ایک تلخیص کی ہے، جودوجلدوں میں چھپ چکی ہے۔


(۹) نوادرالاصول فی معرفۃ اقوال الرسول


یہ ابوعبداللہ محمدالحکیم الترمذیؒ کی تالیف ہے، جوحاشیہ مرقات الوصول کے ساتھ بیروت سے شائع ہوئی ہے، حکیم ترمذی اپنے وقت کے قطب تھے۔         


(۱۰) حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصفہانی (۴۳۰ھ)


خطیب تبریزی اکمال میں لکھتے ہیں:

"هومن مشائخ الحديث الثقات المعول بحديثهم المرجوع إلى قولهم كبير القدر"۔

ترجمہ:ثقہ مشائخِ حدیث میں سے ہیں، جن کی روایت اور ان کے قول کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

ان کتابوں کے علاوہ اس دور کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں جن کا شمار معتبر کتابوں میں ہوتا ہے، یہ چونکہ زیادہ متداول نہیں، اس لیئے ان کی روایات بدوں تحقیق اسناد نہ لینی چاہئیں، اِن میں یہ کتابیں زیادہ معروف ہیں:
مسند ابی یعلی(۳۰۷ھ)، صحیح ابنِ خزیمہ ج(۳۱۱ھ)، صحیح ابنِ حبان (۳۵۴ھ)، عمل الیوم واللیلۃ حافظ ابوبکر احمد بن اسحاق المعروف بابن السنی (۳۶۳ھ)، تہذیب الآثار لابن جریر الطبری (۳۱۰ھ)، مسندابی بکر عبداللہ بن الزبیر الحمیدی (۲۱۹ھ)، مسندابن بزار (۲۹۲ھ)، منتقی ابن الجارود (۳۰۷ھ)، المحلی لابن حزم (۴۵۷ھ)۔

اس لنک پر کلک کرتے مفت ڈاؤن لوڈ کریں

بیان کتب حدیث


کتبِ حدیث مختلف وضع وترتیب سے لکھی گئی ہیں، اس لیئے یہ مختلف الانواع ہیں، جوترتیب سب سے زیادہ عمل میں آئی وہ سنن کی ترتیب ہے، اس کے بعدجس ترتیب نے راہ پائی وہ مسند ہے جو جاذبیت اور مقبولیت لفظ صحیح میں ہے، اس پہلو سے یہ سب سے مقدم ہے۔


(۱) مؤطا


جس کتاب کومؤلف نے دوسرے علماء کے سامنے پیس کیا ہو اور انہو ںنے اس پر اتفاق فرمایا ہو، اسے مؤطا کہتے ہیں، جیسے مؤطا ابنِ ابی ذئبؒ (۱۵۹ھ)، مؤطا امام مالکؒ (۱۷۹ھ)، مؤطاامام محمدؒ (۱۸۹ھ) وغیرہ۔



(۲) الصحیح


یہ وہ کتابیں ہیں جن میں اُن کے مؤلفین نے اپنے خیال میں صرف صحیح احادیث لانے کا التزام کیا ہو، جیسے صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابنِ خزیمہ، صحیح ابنِ حبان وغیرہ۔



(۳) المصنف


جن میں روایات محض جمع کرنے کے اِرادے سے لکھی گئی ہوں، جیسے المصنف لعبدالرزاق (۲۱۱ھ)، المصنف لابنِ ابی شیبۃ (۲۳۵ھ) یہ دونوں مصنف چھپ چکے ہیں۔


(۴) الجامع


جامع وہ کتاب ہے جس میں تفسیر، عقائد، آداب، احکام، مناقب، سیر، فتن، علاماتِ قیامت وغیرہ ہرقسم کے مسائل کی احادیث مندرج ہوں، جیسے صحیح البخاری، کتبِ سنن میں صرف سنن ترمذی ہے، جو اِن تمام ابواب پر مشتمل ہے اور اسے جامع ترمذی کہا جاتا ہے۔


(۵) السنن


یہ وہ کتابیں ہیں جوفقہی ابواب یااحکام کی ترتیب سے لکھی گئیں، جیسے سنن دارمی (۲۵۵ھ)، سنن ابی داؤد (۲۷۵ھ)، سنن ترمذی (۲۷۹ھ)، سنن نسائی (۳۰۳ھ)، سنن ابنِ ماجہ (۲۷۳ھ)، سنن دارِقطنی (۳۸۵ھ)، سنن بیہقی (۴۵۸ھ) وغیرہ۔


(۶) المسند


یہ وہ کتابیں ہیں جوصحابہ کرامؓ کی مرویات کی ترتیب سے لکھی گئیں، جیسے مسند امام اعظمؒ (۱۵۰ھ)، مسند امام شافعیؒ (۲۰۴ھ)، مسند امام احمد (۲۴۱ھ)، مسند حمیدی (۲۱۹ھ) اور مسندابی یعلیٰ (۳۔۷ھ)۔


(۷) المعجم


یہ وہ کتابیں ہیں، جنھیں مؤلفین نے اپنے شیوخ کی ترتیب سے تالیف کیا، جیسے معجم طبرانی (۳۶۰ھ)، معجم الحافظ ابی بکر احمد بن ابراہیم الجرجانی (۳۷۱ھ) وغیرہ۔


(۸) المستدرک


امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے صحیح احادیث کے لیئے جوشرطیں لگائی تھیں، شیخین کے بعد ان شرطوں پر کچھ اور حدیثیں بھی ملیں، اس پہلو سے اِن رہ گئی حدیثوں کی تلاش پچھلےکام پر ایک استدراک ہے، مستدرک حاکم (۴۰۵ھ)، مستدرک الحافظ ابی ذر (۴۳۴ھ) اسی اُصول پر مرتب ہوئیں۔


(۹) المستخرج


دوسرے محدثین کے جمع کردہ مجموعہ حدیث کواپنی سندوں سے دریافت کرنا اور اس کے مطابق انہیں روایت کرنا تالیف حدیث کی ایک نئی محنت ہے، یہ عمل استخراج کہلاتا ہے، حافظ ابوعوانہ (۳۱۶ھ) نے صحیح مسلم پر مستخرج لکھی، اسی کا نام مسند ابی عوانہ ہے، جوحیدرآباد سے چھپ چکی ہے؛ اِسی طرح اس عنوان اور طرز پر مستخرج ابنِ رجاء الاسفرائنی (۲۸۶ھ); مستخرج ابن حمدان (۳۲۱ھ) لکھی گئی، المنتقی لابن الجارود (۳۰۷ھ) صحیح ابنِ خزیمہ پر استخراج کی گئی ہے۔


(۱۰) جو کتابیں اپنے موضوع سے موسوم ہوئیں


ابنِ سلام (۲۲۴ھ) کی کتاب الاموال..... امام احمد (۲۴۱ھ) کی کتاب الزہد..... امام بخاریؒ (۲۵۶ھ) کی جزء القرأۃ اور جزء رفع الیدین..... امام ابوداؤد (۲۷۵ھ) کی مراسیل..... ابنِ قتیبہ (۲۷۶ھ) کی کتاب تاویل مختلف الحدیث..... امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) کی شمائل..... امام نسائی (۳۰۳ھ) کی مناقب علی، کتاب السنہ لابی بکر الخلال البغدادی (۳۱۱ھ)..... مشکل الآثار امام طحاوی (۳۲۱ھ)..... عمل الیوم واللیلۃ للحافظ ابی بکر احمد بن اسحاق المعروف بابن السنی (۳۶۳ھ)..... کتاب الیقین للحافظ ابن ابی الدنیا (۲۸۱ھ)، کتاب السنہ لابن حبان (۳۶۹ھ)، کتاب الاسخیاء للدارقطنی (۳۸۵ھ)، کتاب السنہ لابن مندہ العبدی (۳۹۴ھ)، امام بیہقیؒ (۴۵۸ھ) کی کتاب الاسماء والصفات اور شعب الایمان اس نوع کی اہم کتابیں ہیں۔
ملحوظ رہے کہ کئی محدثین نے مختلف اصناف پر حدیثیں جمع کی ہیں، اس لیئے ان کے نام اگرمختلف انواع کتب کے تحت بار بار آئیں توتعجب نہ ہونا چاہیے؛ پھرایسا بھی ہے کہ ایک کتاب مختلف اعتبارات سے مختلف ناموں سے موسوم ہو، جیسے صحیح بخاری اس نام سے بھی معروف ہے اور اسے جامع بخاری بھی کہا جاتا ہے، جامع ترمذی سنن ترمذی کے نام سے بھی معروف ہے، ہم نے ان انواعِ کتب میں چند معروف کتابوں کا ذکر کرکے اِن مختلف اقسامِ تالیف کا ایک مختصر اور اجمالی تعارف کرادیا ہے۔
یہ صحیح نہیں کہ یہ کتابیں ان اقسام کے اصولی ناموں کے خلاف اب دوسرے ناموں سے موسوم کی جانے لگی ہیں، جیسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے ناموں سے مثال لے کر کئی نادان سنن دارِقطنی، سنن بیہقی کو صحیح دارِ قطنی اور صحیح بیہقی کہنے لگے ہیں یاکوئی شخص سنن نسائی اور سنن ابنِ ماجہ کومسندنسائی اور معجم ابنِ ماجہ کہنے لگے، اس فن کوجاننے والے کبھی ایسی بات نہیں کرتے، مرزا غلام احمد قادیانی نے سنن دارِقطنی کوکئی جگہ صحیح دارِقطنی لکھا ہے، یہ مرزا صاحب کی فنِ حدیث میں علمی قابلیت کاایک جلی نمونہ ہے۔
کتبِ حدیث کی مختلف قسموں کاذکر یہاں ضمنا آیا ہے، ان مختلف ناموں کی تفصیل اس لیئے ضروری تھی کہ مختلف محدثین کے ناموں کے ساتھ ان کے جمع کردہ ذخیرہ حدیث کا اُصولی نام سامنے آجائے، یہ تفصیل اسی لیے کی گئی ہے، اصل موضوع کلام متونِ حدیث کا تعارف ہے، اب تک ہم پچپن کتبِ حدیث کا ذکر کرچکے ہیں، دس کتابیں پہلے دور کی اور پندرہ اس سنہری دور کی جس میں فن تالیف حدیث اپنے کمال کو پہنچ چکا تھا، اس دور کا آغاز امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ جیسے ائمہ فن سے ہوتا ہے، امام نسائیؒ (۳۰۳ھ) کے بعد صحتِ اسناد کی محنت پھرکمزور پڑگئی تھی، صحاحِ ستہ کا نام چھ کتابوں تک محدود ہوکر رہ گیا؛ تاہم اس سے انکار نہیں کہ بعد کے آنے والے ائمہ حدیث نے بھی وہ گرانقدر ضخیم مجموع ہائے حدیث مرتب کئے کہ ان کے اعتبارات ومتابعات اور شواہد وزوائد فن کی تحقیق وتنقیح میں مزید نکھار کاموجب ہوئے ہیں اور ان میں کئی ایسی صحاح (صحیح حدیثیں) بھی آگئیں جوپہلے مجموعوں میں نہ تھیں، ان کتابوں کی تالیف سے سلسلۂ تالیفِ حدیث مکمل ہوا، آئندہ کے لیئے صرف یہ محنت باقی رہی کہ ان کتابوں کی مدد سے استخراج اور انتخاب کا سلسلہ آگے چلے۔
محدثِ کبیر حضرت مولانا خیر محمدصاحب جالندھری نے اصولِ حدیث پرایک مختصر رسالہ خیرالاصول کے نام سے لکھا ہے، اس میں آپ نے کتبِ حدیث کی تقسیم اس طرح کی ہے کہ حدیث کی کتابیں وضع وترتیب مسائل کے اعتبار سے نوقسم پر ہیں:


(۱)جامع .
(۲)سنن.
(۳)مسند .
(۴)معجم.
(۵)جزء.
(۶)مفرد .
(۷)غریب.
(۸)مستخرج.
(۹)مستدرک۔

(۱) جامع


وہ کتاب ہے جس میں تفسیر، عقائد، آداب، احکام، مناقب، سیر، فتن، علاماتِ قیامت وغیرہا ہرقسم کے مسائل کی احادیث مندرج ہوں، کماقیل        ؎
سیر آداب وتفسیر وعقائد
فتن احکام واشراط ومناقب
جیسے بخاری وترمذی۔

(۲) سُنن


وہ کتاب ہے جس میں احکام کی احادیث، ابواب فقہ کی ترتیب کے موافق بیان ہوں، جیسے سنن ابی داؤد وسنن نسائی، وسنن ابنِ ماجہ۔

(۳) مسند


وہ کتاب ہے جس میں صحابہ کرامؓ کی ترتیب رتبی یاترتیب حروف ہجا یاتقدم وتأخر اسلامی کے لحاظ سے احادیث مذکور ہوں، جیسے مسند احمد ومسند دارمی۔


(۴) معجم


وہ کتاب ہے جس کے اندر وضع احادیث میں ترتیب اساتذہ کا لحاظ رکھا گیا ہو، جیسے معجم طبرانی۔

(۵) جزء


وہ کتاب ہےجس میں صرف ایک مسئلہ کی احادیث یک جا جمع ہوں،جیسےجزءالقرأۃ وجزء رفع الیدین للبخاری وجزء القرأۃ للبیہقی۔

(۶) مفرد


وہ کتاب ہے جس میں صرف ایک شخص کی کل مرویات ذکر ہوں۔

(۷) غریب


وہ کتاب ہے جس میں ایک محدث کے مفردات جو کسی شیخ سے ہوں وہ ذکر ہوں۔           

    (عجالہ نافعہ:۱۴، العرف الشذی)


(۸) مستخرج


وہ کتاب ہے جس میں دوسری کتاب کی حدیثوں کی زائد سندوں کا استخراج کیا گیا ہو، جیسے مستخرج ابی عوانہ۔

(۹) مستدرک


وہ کتاب ہے جس میں دوسری کتاب کی شرط کے موافق اس کی رہی ہوئی حدیثوں کوپورا کردیا گیا ہو، جیسے مستدرک حاکم۔

دوسری تقسیم


کتبِ حدیث مقبول وغیرمقبول ہونے کے اعتبار سے پانچ قسم پر ہیں:
پہلی قسم وہ کتابیں ہیں جن میں سب حدیثیں صحیح ہیں، جیسے (۱)مؤطا امام مالکؒ (۲)صحیح بخاری (۳)صحیح مسلم (۴)صحیح ابنِ حبانؒ (۵)صحیح حاکم (۶)مختارۂ ضیاء مقدسی (۷)صحیح ابنِ خزیمہ (۸)صحیح ابی عوانہ (۹)صحیح ابنِ سکن (۱۰)منتقی ابن جارود۔
دوسری قسم وہ کتابیں ہیں جن میں احادیث صحیح وحسن وضعیف ہرطرح کی ہیں مگر سب قابلِ احتجاج ہیں؛ کیونکہ ان میں جوحدیثیں ضعیف ہیں وہ بھی حسن کے قریب ہیں جیسے (۱)سنن ابوداؤد (۲)جامع ترمذی (۳)سنن نسائی (۴)مسندِاحمد۔
تیسری قسم وہ کتابیں ہیں جن میں حسن، صالح، منکر ہرنوع کی حدیثیں ہیں، جیسے (۱)سنن ابنِ ماجہ (۲)مسندطیالسی (۳)زیادات امام احمد بن حنبل (۴)مسندعبدالرزاق (۵)مسندسعید بن منصور (۶)مسندابی بکر بن ابی شیبہ (۷)مسند ابی یعلیٰ موصلی (۸)مسندبزار (۹)مسندابن جریر (۱۰)تہذیب ابن جریر (۱۱)تفسیرابن جریر (۱۲)تاریخ ابن مردویہ (۱۳)تفسیر ابن مردویہ (۱۴)طبرانی کے معجم کبیر (۱۵)معجم صغیر (۱۶)معجم اوسط (۱۷)سنن دارِقطنی (۱۸)غرائب دارِ قطنی (۱۹)حلیہ ابی نعیم (۲۰)سنن بیہقی (۲۱)شعب الایمان بیہقی۔
چوتھی قسم وہ کتابیں ہیں جن میں سب حدیثیں ضعیف ہیں، الا ماشاء اللہ، جیسے (۱)نوادرالاصول حکیم ترمذی (۲)تاریخ الخلفاء (۳)تاریخ ابنِ نجار (۴)مسندالفردوس دیلمی (۵)کتاب الضعفاء عقیلی (۶)کامل ابن عدی (۷)تاریخ خطیب بغدادی (۸)تاریخ ابنِ عساکر۔
پانچویں قسم وہ کتابیں ہیں جن سے موضوع حدیثیں معلوم ہوتی ہیں، جیسے موضوعات ابنِ جوزی، موضوعات شیخ محمدطاہرنہروانی وغیرہ ("رسالہ فیما یجب حفظہ للناظر" مؤلفہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ)۔


تالیف کتبِ حدیث ایک اور عنوان سے


سندکے ساتھ حدیثیں جمع کرنا صرف اسی دور تک تھا کہ حدیث کے یہ مسانید (سندوالے مجموعے) مرتب نہ ہوئے تھے یاکچھ مرتب ہوگئے تھے مگر کچھ احادیث رہ گئی تھیں، جوسند سے روایت ہوتی تھیں؛ مگران مجموعوں میں نہ آئی تھیں، پانچویں صدی ہجری تک یہ سلسلہ چلتا رہا، اس کے بعد اپنی سند سے روایت کرنے کا سلسلہ بند ہوگیا اور آئندہ انہی مجموع ہائے حدیث کی سند چلنے لگی، اب اس نئے دور میں تخریج اور انتخاب ہی وہ دو موضوع تھے، جن پر مزید جمع وتدوین کا کام ہوسکتا تھا یاسلسلہ شروح تھا جن پر محدثین قلم اُٹھاسکتے تھے، تاہم یہ صحیح ہے کہ اب تالیفِ حدیث کی محنت آئندہ ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔

حدیث کی تخریج پر مبنی کتابیں


امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) کی کتاب جامع ترمذی نے محدثین کوپہلی دفعہ فن تخریج سے آشنا کیا، یہ کتاب ایسے نفیس طرز پر جمع کی گئی کہ اس سے ایک نیا فن وجود میں آیا، امام ترمذیؒ ایک حدیث کوروایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وفی الباب عن..... کہ اس موضوع پر فلاں فلاں صحابی سے بھی روایت موجود ہے، وہ روایات کہاں کہاں ہیں؟ امام ترمذیؒ نے ان کی نشاندہی نہیں کی، ان روایات کو دوسری سندوالی کتابوں سے ڈھونڈ نکالنا ان روایات کی تخریج کہلاتا ہے، امام بخاری نے بھی الصحیح میں کئی روایات تعلیقاً بیان کی ہیں، انہیں پوری سند سے معلوم کرنا اور موصولاً لانا یہ بھی ایک قسم کی تخریج ہے، جومحدثین شارحین نے کی ہے، صحیح بخاری کی نسبت جامع ترمذی کا موضوع، وفی الباب..... ایک وسیع میدان تحقیق ہے اور اس تخریج پر مستقل کتابیں لکھی گئیں ہیں، جیسے "لب الباب فیما یقول الترمذی وفی الباب"۔
کتب حدیث کے علاوہ دیگر فنون کی کتابوں میں بھی حدیثیں کچھ اس طرح مروی ملتی ہیں کہ ان کی سندیا ان کے مخرج (روایت کرنے والے محدث) کا نام وہاں مذکور نہیں، ان کتابوں کی اہمیت اور ان کے وسیع حلقہ اشاعت کے پیشِ نظرمحدثین ان روایات کی تخریج کے بھی درپے ہوئے اور اس سلسلہ تخریج میں بعض ایسی نفیس کتابیں مرتب ہوئیں کہ فن ان پر خود بھی ناز کرنے لگا۔
پانچویں چھٹی صدی کی جن کتابوں پر تخریج کی یہ محنت ہوئی، حسبِ موضوع ان میں سے بعض کے نام سنیئے:

فن فقہ میں


علامہ برہان الدین المرغینائی (۵۹۳ھ) کی کتاب ہدایہ فقہ حنفی کی مرکزی کتاب ہے، اس میں بہت سی حدیثیں بھی مذکور ہوئیں، مصنف نے انہیں محدثین کے طریق پر نہیں اپنے انداز میں ذکر کیا ہے، کہیں اشارہ ہے، کہیں اختصار ہے، کہیں روایت بالمعنی ہے؛ تاہم یہ صحیح ہے کہ کتاب کی اہمیت کے پیشِ نظر ان احادیث کی تخریج ضروری تھی۔
(۱)حافظ جمال الدین الزیلعیؒ (۷۶۲ھ) نے "نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ" کے نام سے چار جلدوں میں ایک نہایت گرانقدر حدیثی تالیف پیش کی ہے، علمائے دیوبند نے اس پر"حاشیہ بغیۃ الالمعی فی تخریج الزیلعی" کے نام سے لکھا ہے، یہ کتاب مصر سے بڑی آب وتاب سے شائع ہوئی ہے، پہلے مطبع علوی لکھنؤ سے ۱۳۰۱ھ میں شائع ہوئی تھی، کتاب کی عظمت شان کے لیئے یہی کافی ہے کہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر محدث نے نصب الرایہ کی تلخیص الدرایہ کے نام سے کی ہے اور وہ بھی چھپ چکی ہے۔
(۲)امام ابوالقاسم الرافعی (۶۲۳ھ) کی کتاب الوجیز کی تخریج حافظ ابنِ حجرعسقلانیؒ نے "التلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر" کے نام سے کی ہے، یہ چار جلدوں میں قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔

فن تفسیر میں


علامہ زمخشریؒ (۵۳۸ھ) نے تفسیرکشاف میں جوحدیثیں لکھی ہیں، ان کی بھی محدثین نے تخریج کی ہے، قاضی بیضاویؒ (۶۸۵ھ) کی نقل کردہ احادیث کی بھی تخریج کی گئی ہے۔


فن اخلاق میں


امام غزالیؒ (۵۰۵ھ) کی کتاب احیاء علوم الدین میں ہزاروں روایات ہیں، سندیاحوالہ امام غزالی ذکر نہیں فرماتے، حافظ زین الدین العراقی (۸۰۶ھ) نے اس کتاب پر تحقیقی کام کیا ہے اور ان روایات کی تخریج کی ہے، اس کا نام "المغنی من الاسفار فی تخریج مافی الاحیاء من الاخبار" ہے، احیاء العلوم کے حاشیہ پر چھپ چکی ہے۔


انتخاب پر مبنی (بلا سند) حدیث کی کتابیں


محدثین نے سندوالی کتابوں کے حوالہ سے انتخاب پر مبنی حدیث کے کچھ نئے مجموعے بھی تیار کیئے، ان مجموعوں میں سند نہیں دی گئی، حدیث کے آخر میں تخریج کردی گئی ہے؛ تاکہ بوقت اختلاف اس مسند (سندوالی) کتاب کی طرف رجوع کیا جاسکے، اس صنف میں مندرجہ ذیل کتابیں زیادہ معروف ہوں۔


(۱) شرح السنّہ للبغوی (۵۱۶ھ)


ابومحمدالحسین بن مسعود البغوی خراسان کے قریب ایک موضع "بغ" کے رہنے والے تھے، معالم التنزیل آپ کی ہی تفسیر ہے، آپ نے محدثین کے المصنف کے طرز پر احادیث جمع کی ہیں، آپ امام بخاریؒ کے عناوین ابواب سے بہت اقتباس لیتے ہیں، آٹھ ضخیم جلدوں میں چھپی ہے۔


(۲) مشارق الانوار قاضی عیاض (۵۴۴ھ)


مطبع مولویہ فلس نے سنہ۱۳۲۸ھ میں دوجلدوں میں شائع کی ہے، اس کی علامہ عبداللطیف بن عبدالعزیز جو ابن الملک کے نام سے معروف ہیں، "مبارق الازہار" کے نام سے ایک شرح لکھی ہے، جسے مطبع خیریہ مصر نے شائع کیا ہے۔


(۳) جامع الاُصول من احادیث الرسول


لابی السعادات مبارک بن محمد (۶۰۶ھ) ابن اثیر الجزری کی یہ کتاب بیروت سے ۲۱/ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔


(۴) مشارق الانوار للشیخ حسن الصغانی (۶۵۰ھ)



یہ آنحضرت   کی قولی احادیث کا ایک گرانقدر مجموعہ ہے، مؤلف نے موضوع روایات کی نشاندہی کے لیےبھی ایک مجموعہ "موضوعات حسن صغانی" نام سے بھی لکھا ہے، نقد احادیث میں آپ بہت سخت تھے، موضوعات ابن جوزی (۵۹۷ھ) آپ کے سامنے تھی، ملا علی قاری نے بھی موضوعات صغانی کے بہت حوالے دیئے ہیں۔

(۵) الترغیب والترہیب من الحدیث الشریف


للحافظ ابی محمدزکی الدین عبدالعظیم المنذری (۶۵۶ھ) بیروت میں چھپی ہے، پہلے ازہر مصر سے بھی شائع ہوچکی ہے، ترغیب وترہیب کی احادیث کومؤلف نے بڑی محنت سے جمع کیا ہے۔


(۶) ریاض الصالحین للنووی (۶۷۶ھ)


ابوزکریا محی الدین یحییٰ بن شرف النووی شارح صحیح مسلم، دمشق کے قریہ نوی کے رہنے والے تھے، شافعی المسلک تھے، آپ نے فقہ شافعی پر بھی کئی کتابیں لکھی ہیں، ریاض الصالحین اصلاح معاشرہ اور تہذیب اخلاق کے لیئے نہایت بلند پایہ کتاب ہے، بارہا چھپ چکی ہے۔



(۷) اربعین نووی



آپ نے اربعین کے نام سے بھی ایک مجموعہ حدیث لکھا ہے جس کی نامور علماء حدیث نے شروح لکھی ہیں، ابن دقیق العید (۷۰۲ھ) کی شرح مطبع منیریہ مصر نے ابن حجر ہیثمی کی شرح مطبع بولاق نے بڑی آب وتاب سے شائع کی ہے۔

(۸) احکام الاحکام شرح عمدۃ الاحکام


للحافظ تقی الدین المعروف بابن دقیق العید (۷۰۲ھ) چارضخیم جلدوں میں سنہ ۱۳۴۲ھ میں شائع ہوئی۔


(۹) المنتقی الاخبار


مشہور محدث حافظ ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ) کے دادا احمد ابن تیمیہؒ (۶۲۱ھ) کی تالیف ہے، قاضی شوکانیؒ (۱۲۵۰ھ) کی "نیل الاوطار" اسی منتقی کی شرح ہے، جوآٹھ جلدوں میں مصر سے سنہ ۱۲۹۸ھ میں شائع ہوئی، مؤطا کی شرح المنتقی جوقاضی ابوالولید الباجی نے لکھی اور سات جلدوں میں چھپی یہ اور کتاب ہے۔


(۱۰) مشکوٰۃ للخطیب التبریزی (۷۴۳ھ)


یہ امام بغوی کی کتاب مصابیح السنہ کے اصول پر ایک عجیب اور بہت مفید گلدستۂ احادیث ہے، نامور علماء نے اس کی شروح لکھیں جیسے علامہ طیبی الشافعی، علامہ توربشتی الحنفی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی (لمعات التنقیح آٹھ جلدوں میں ہے) ملاعلی قاری (مرقات المفاتیح، یہ دس ضخیم جلدوں میں ہے) اور شیخ الحدیث مولانا محمدادریس کاندھلوی (التعلیق الصبیح سات جلدوں میں ہے) کی شروح بہت معروف ہیں، شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے "اشعۃ اللمعات" کے نام سے اس کی ایک فارسی شرح بھی لکھی ہے، حضرت شاہ محمداسحاق محدث دہلویؒ کے شاگرد علامہ قطب الدین نے مظاہر حق کے نام سے اس کی ایک مبسوط اردو شرح لکھی ہے، جوبرصغیر ہندوپاک میں بہت متداول ہے۔



(۱۱) زادالمعاد للحافظ ابن قیم (۷۵۱ھ)


مکتبہ حسینیہ مصر نے چار جلدوں میں شائع کیا، اس میں احادیث آنحضرت   کی سیرت وعادت کی ترتیب سے جمع کی گئی ہیں، وسیع ذخیرہ احادیث کا عجیب جامع اختصار ہے۔



(۱۲) مجمع الزوائد ومنبع الفوائد


للحافظ علی بن ابی بکر بن سلیمان الہیثمی (۸۰۷ھ) مطبع انصار دہلی نے سنہ ۱۳۰۸ھ میں اور مطبع قدسی مصر نے سنہ ۱۳۵۲ھ میں دس ضخیم جلدوں میں شائع کی ہے۔


(۱۳) بلوغ المرام


للحافظ ابن حجرالعسقلانی (۸۵۲ھ) فقہ شافعی کی تائید میں احادیث احکام اس میں جمع کی گئی ہیں، بلوغ المرام کی آگے کئی شرحیں لکھیں گئی ہیں، جن میں "سبل السلام" سب سے زیادہ مشہور ہے، حنفیہ کی آثار السنن اسی انداز پر فقہ حنفی کی تائید میں مرتب کی گئی ہے۔


(۱۴) الجامع الصغیر


امام جلال الدین السیوطیؒ (۹۱۱ھ) اسے حروفِ تہجی سے حدیث کے ابتدائی الفاظ پر مرتب کیا گیا ہے، حدیث تلاش کرنے میں بہت مفید کتاب ہے، یہ کنزالحقائق کے حاشیہ پر بھی شائع ہوئی ہے، علامہ علی بن شیخ احمد العزیزی نے سنہ ۱۰۴۵ھ میں "السراج المنیر" کے نام سے اس کی ایک مبسوط شرح لکھی ہے، جو سنہ ۱۳۱۲ھ میں مصر سے شائع ہوئی، ایک شرح "فیض القدیر" علامہ عبدالرؤف المنادی نے بھی لکھی ہے، جو سنہ ۱۳۵۶ھ میں مصر سے شائع ہوئی، یہ شروح ذخیرۂ حدیث کی بہت مفید کلیدی کتابیں ہیں۔



(۱۵) تیسیرالوصول الی جامع الاصول من حدیث الرسول


مشہور محدث عبدالرحمن بن علی الشیبانی (۹۴۴ھ) جوابن الربیع کے نام سے معروف ہیں یہ ان کی تالیف ہے، مطبع جمالیہ مصر نے سنہ ۱۳۳۰ھ میں اسے طبع کیا ہے۔



(۱۶) کنزالعمال من سنن الاقوال والافعال


للشیخ علی المتقی (۹۷۵ھ) آٹھ ضخیم جلدوں میں ہے،
حیدرآباد دکن سے سنہ ۱۳۱۲ھ میں طبع ہوئی۔





(۱۷) فتح الرحمن فی اثبات مذہب النعمان


المعروف انوار السنۃ لروادالجنہ للشیخ عبدالحق محدث دہلویؒ (۱۰۵۲ھ) مکتبہ حسامیہ دیوبند سے مفتی نظام الدین صاحبؒ نے اسے چار جلدوں میں طبع کیا ہے۔


(۱۸) جمع الفوائد من جامع الاصول ومجمع الزوائد


للامام محمد بن محمدبن سلیمان الرودانی المغربی (۱۰۹۴ھ) دوضخیم جلدوں میں ہے، مطبع خیریہ میرٹھ نے سنہ ۱۳۴۵ھ میں اسے شائع کیا؛ پھرمصر میں بھی طبع ہوئی ہے۔


(۱۹) عقود الجواہر المنیفہ


للسید محمد مرتضی الحسینی الزبیدی (۱۲۰۵ھ) اسے مطبع وطنیہ بثغرالاسکندریہ نے دوجلدوں میں سنہ ۱۲۹۲ھ میں شائع کیا۔


(۲۰) آثار السنن مع التعلیق الحسن


للمحدث محمدبن علی النیموی (۱۳۲۲ھ) آپ مولانا عبدالحیی (۱۳۰۷ھ) کے شاگرد تھے، عظیم آباد کے مطبع احسن المطابع نے سنہ ۱۳۱۹ھ میں اسے شائع کیا ہے۔


(۲۱) التاج الجامع للاصول من احادیث الرسول


ازہرکے ممتاز محدث شیخ منصور علی ناصف کی پانچ ضخیم جلدوں میں نہایت بلند پایہ تالیف ہے، مطبع عیسی البابی (مصر) نے سنہ ۱۳۴۵ھ میں اسے شائع کیا ہے۔



(۲۲) زحاجۃ المصابیح


مولانا السید مظفر حسین حیدرآبادی نے چار جلدوں میں تالیف کی، تاج پریس حیدرآباد سے شائع ہوئی، جلد اوّل ۵۹۰/باب الاعتکاف تک، جلد دوم باب النذور صفحہ نمبر:۶۰۹/تک، جلد سوم کتاب الرؤیا صفحہ نمبر:۴۶۴/تک، جلد چہارم آخر کتاب صفحہ نمبر:۴۱۴/تک یہ کتاب اس لائق ہے کہ مشکوٰۃ کا بدل ہوسکے۔


(۲۳) اعلاء السنن


للشیخ ظفر احمد العثمانی بیس ضخیم جلدوں میں ہے، مذہب احناف کی احادیث اس میں بہت تحقیق سے جمع کی گئی ہیں، یہ کتاب حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی سرپرستی میں لکھی گئی ہے اور علم حدیث میں عصرِ حاضر کا شاہکار ہے۔


(۲۴) ترجمان السنہ للمحدیث الکبیر بدرعالم میرٹھی ثم المدنی


کتاب باعتبار متن عربی میں ہے، ہرحدیث کی تخریج موجود ہے، اُردوترجمہ اور تشریحی نوٹ ساتھ ساتھ ہیں، پہلے ۲۷۲/صفحات کا مبسوط مقدمہ ہے جوحدیث افتراقِ امت کی صحت ودلالت، اختلاف کی توضیح اسباب اختلاف وتفریق، فرقہ ناجیہ کی تحقیق، حجیت حدیث، اسوۂ رسول اور کتاب اللہ، احادیث رسول کے بیان قرآن ہونے اور ظن وعلم کے مفہوم پر ایک نہایت گرانقدر علمی ذخیرہ ہے، مؤلف نے ترتیب مسند احمد کی تبویب جدید (الفتح الربانی) سے لی ہے، یہ کتاب دس جلدوں تک جاتی مگر افسوس کہ ابھی چار ضخیم جلدیں مکمل ہوئی تھیں کہ مؤلف اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے رحمہ اللہ ورحمۃ واسعۃ۔



(۲۵) معارف الحدیث مولانا محمدمنظور نعمانی ؒ


احادیث کا نیا اور نرالا انتخاب ہے، متون احادیث اصل عربی میں ہیں، ترجمہ اُردو میں ہے سات ضخیم جلدوں میں یہ عظیم ذخیرہ مرتب ہوا ہے، زیادہ تراحادیث وہ ہیں جوعام زندگی اور اس کے حالات سے تعلق رکھتی ہیں، اس وجہ سے جدید تعلیم یافتہ طبقے پر اس کے گہرے اثرات ہیں، غیرمستند روایات سے محفوظ ہے، حضوراکرم   کا ارشاد ہے، جس نے جان بوجھ کر مجھ پر کوئی جھوٹ باندھا یامیرے نام پر کوئی ایسی بات کہی جومیں نے نہ کہی ہو تواسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔



موضوع احادیث کی نشاندہی پرمستند کتابیں





علمائے اسلام نے اس باب میں بھی کافی محنت کی ہے اور نقل وضبط اور نقد وتبصرہ سے بہت سی وضعی روایات کی نشاندہی کی ہے، علامہ ابوالفضل محمدبن طاہر بن علی بن احمد المقدسی (۵۰۷ھ) کی  تذکرۃ الموضوعات، علامہ ابوالفرج عبدالرحمن بن الجوزی (۵۹۷ھ) کی موضوعات.... علامۃ حسن الصغانی (۶۵۰ھ) کی موضوعات حسن الصغانی، شیخ سراج الدین عمر بن علی القزوینی (۸۰۴ھ) کی موضوعات، المصابیح.... علامہ سیوطیؒ (۹۱۱ھ) کی اللالی المصنوعہ.... علامہ محمدطاہر پٹنی (۹۸۶ھ) کی تذکرۃ الموضوعات اور قانون الموضوعات..... ملا علی قاری (۱۰۱۴ھ) کی موضوعاتِ کبیر اور اللالی المصنوع علامہ شوکانی (۱۲۵۰ھ) کی الفوائد المجموعہ، ابوالحسنات علامہ عبدالحیی لکھنوی کی "الآثار المرفوعہ فی الاحادیث الموضوعہ" کے ساتھ ساتھ آپ کو احیاء العلوم کی حافظ زین الدین عراقی (۸۰۶ھ) کی تخریج اور منارالسبیل کی شیخ البانی کی تخریج "اِرواء الغلیل فی تخریج احادیث منارالسبیل" جیسی کتابوں سے بھی اس سلسلہ میں بہت مواد ملے گا، شیخ البانی کی یہ تالیف سنہ ۱۳۹۹ھ میں دس جلدوں میں طبع ہے، افسوس کہ اس علمی چھان بین اور جانچ پڑتال کے باوجود ایسے قصہ گو واعظین اور ذاکرین کی کمی نہیں جو اپنی خطابت اور تقریر کووضعی ڈراموں میں پیش کرکے اپنے سامعین سے خراج تحسین لیتے ہیں اور وہ عوام بھی اس طرف اس لیے لپکتے ہیں کہ انہیں اس کاروائی میں ڈرامے کا سا لطف آتا ہے؛ ہاں اس پر ہم مطمئن ہیں کہ اہلِ علم نے ان وضعی روایات پر مستقل کتابیں لکھ کر اپنی ذمہ داری ادا کردی ہے۔


اقسامِ حدیث


حدیث میں کوئی تقسیم قرن اوّل میں نہ تھی


حدیث وہ آسمانی روشنی Divine guidance ہے جوحضوراکرم   کے قلب مبارک میں بنی نوعِ انسان کی ہدایت کے لیے ودیعت کی گئی، اس کا مصدر ذات الہٰی تھی، آنحضرت   نے اسے اپنے الفاظ Words اپنے عمل Actions یااپنی تائید Confirmation سے آگے پھیلایا۔
آنحضرت   نے اپنی زبانِ مبارک سے حدیث کی کسی طرح تقسیم نہیں کی؛ نہ آپ کے صحابہ نے آپ کی تعلیم کوکسی تقسیم میں اُتارا؛ تاہم اس پہلے دور میں یہ بات مسلمانوں میں مسلم تھی کہ حضور   کی جملہ تعلیمات خواہ وہ کسی قسم کے تحت آتی ہوں، سب الہٰی ہدایت ہیں اور سب ضیاءِ رسالت سے مستنیر اور جملہ عالم کے لیئے جلوہ فگن اور فیض رساں ہیں۔
تعلیماتِ محمدیہ   کے بحرِذخار میں جس سے کوئی پیاسا آج تک واپس نہیں لوٹا، علماء اُصول اُترے اور سہولت فہم کے لیئے انہوں نے ان کے انواع واقسام پر غور کیا؛ پھر اسناد Chain of transmitters کے کچھ حالات بھی ان کے سامنے آئے تو انہوں نے مختلف جہات سے اس الہٰی ہدایت کا استقراء فرمایا اور علماء کے لیے مختلف اقسام حدیث تعیین کردیں، یہ اقسام حضوراکرم  اور صحابہ کرامؓ کی تقسیم سے نہیں ائمہ فن کی تقسیم اور تفصیل سے طے ہوئیں ہیں۔



ہرفن میں اُس کے ماہرین پر اعتماد


کوئی شخص کسی فن میں جب تک مجتہد نہ ہو، اسے اس فن کے ماہرین کی پیروی کرنی پڑتی ہے، شرائط اجتہاد پورا کیئے بغیر خود مجتہد بن جاناچشمۂ تحقیق کوگدلاکرنا ہے، حدیث کے متن Text اور اسناد Chainکے مختلف پہلوؤں پر علماء حدیث جب گفتگو کرتے ہیں توائمہ فن کی پیروی کرتے ہوئے بات کرتے ہیں، اس فن میں ائمہ اور مجتہدین وہی حضرات ہیں؛ جنھوں نے اس فن پر اُصولی گفتگو کی، ان اصولوں کوقرآن وحدیث سے استنباط کیا، ان پر علمی بحثیں کیں، اختلافات پیدا کیئے اور حل کیئے اور علماءامت نے اس باب میں انہیں امام اور مقتداء تسلیم کیا؛ ہراصطلاح، قسم حدیث اور اس کے حکم کے بارے میں ہرشخص درست اور نادرست کی بحث شروع کردے توہرعنوان اور پھرہرقسم خود مستقل موضوع بن جائیں گے اور اصل بات ان ضمنی مباحث میں کھوجائے گی؛ سوضروری ہے کہ قواعدِ حدیث بطورِ اصول مسلمہ قبول کرلیئے جائیں، زندگی کے ہرباب میں اہلِ فن کی تقلید ہوتی چلی آئی ہے، کسی امام فن کی بات کو اس اعتماد پرقبول کرلینا کہ وہ اصول کے مطابق بتلارہا ہے اور اسکی دلیل کی بحث میں نہ پڑنا غیرمجتہد کی اساس عمل ہے، جس پر وہ ہردائرہ زندگی میں عمل کرتا ہے، علمائے حدیث جب کسی حدیث پر گفتگو کرتے ہیں توان قواعد پر اعتماد کرکے چلتے ہیں جومحدثین نے فنِ حدیث میں مجتہدانہ کاوشوں سے قائم کیئے ہوئے ہیں اور ان پر فنی بحث اپنے وقت میں کافی ووافی ہوچکی ہے، اس تجربہ اور معرفت کے نتیجہ میں احادیث مختلف قسموں میں تقسیم ہوئی ہیں، حدیث کا تعلق چونکہ زیادہ تراعمال، ان کے مسائل اور پھرفضائل سے ہے، اس لیئے حدیثیں ہرباب کی مناسبت اور ضرورت کے مطابق مختلف پیمانوں میں قبول ہوتی رہی ہیں، صرف عقائد ایسا موضوع تھا جس میں قطعی دلائل کی ضرورت تھی؛ سویہ مختلف وجوہ اقسام حدیث کے زیادہ پھیلاؤ کا موجب ہوئے اور مختلف جہات سے حدیث کی مختلف قسمیں سامنے آئیں۔ 



تقسیم حدیث کے مختلف اعتبارات


متن کے لحاظ سے علماء اسے باعتبار متکلم، باعتبارِ علم، باعتبار نوع، باعتبار مضمون مختلف قسموں میں تقسیم کرتے ہیں اور سند ورواۃ کے لحاظ سے وہ حدیث کی اور قسمیں بتلاتے ہیں؛ پھرحدیث کے لائق قبول نہ ہونے کے اعتبار سے بھی اس کی کچھ اقسام ہیں اور اس سلسلے میں ہرباب کی کچھ تفصیل ہے، ابتدائی تعارف کے لیے ہم ان مختلف اقسام کوان عنوانوں کے ذیل میں بیان کرتے ہیں، مضمون خشک صحیح لیکن توجہ کا مستحق ضرور ہے اور غور کیا جائے تواس کے تحت بھی علوم کی بہت نہریں بہتی ملیں گی۔


تقسیم حدیث


(۱)باعتبارِ علم                            خبر متواتر، خبرمشہور، خبرعزیز، خبرواحد۔
(۲)باعتبارِرواۃ                            صحیح، حسن، ضعیف۔
(۳)باعتبارِ نوع                            قولی، فعلی، تقریری۔
(۴)باعتبارِمتن                             حدیثِ قدسی، حدیثِ مرفوع، حدیثِ موقوف۔
(۵)باعتبارِ سند                            متصل، مرسل، منقطع، معلق۔
(۶)باعتبارِ علّت                           منکر، شاذ اور معلول۔
(۷)باعتبارِ موضوع                      حدیث شرعی اور حدیث دنیوی۔
پیشتر اس کے کہ ہم ان مختلف اقسام پر بحث کریں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ایک اصولی مسئلے پر گفتگو ہوجائے، یہ ایک نہایت اہم بحث ہے۔
تقسیم حدیث باعتبارِ علم کا عنوان آپ کے سامنے آچکا ہے، کسی خبر سے آپ کوکس درجے کا علم حاصل ہورہا ہے یہ اس کا موضوع ہے؛ اگرآپ کواس خبر سے علم یقین حاصل ہورہا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ اس کے خلاف ظاہر ہوتویہ درجہ علم اور ہوگا اور اگراس خبر کے باوجود کسی درجے میں ظنیت رہی توظاہر ہے کہ اس سے علم یقین حاصل نہ ہوا اور یہ خبر مفید علم یقین نہ رہی؛ پھراس میں بھی تفصیل ہوگی کہ ظنیت کس درجے میں ہے؟ پھراس میں سے بھی ہرایک کے احکام مختلف ہوں گے۔


عقائد کے باب میں حدیث سے تمسک


اسلام میں سب سے زیادہ اہم بات عقائد کی ہے، عقائد کے گردہی شریعت کا پورا دائرہ کھینچتا ہے، عقائد صحیح ہوں تواعمالِ صالحہ بھی قبولیت پائیں گے؛ ورنہ ہوسکتا ہے کہ کسی عمل کاکوئی وزن نہ ٹھہرے۔
جس قدر موضوع اہم ہو اس کے مناسب اس کے لیے مضبوط ترین دلائل کی ضرورت ہوگی، عقائد کے باب میں حدیث سے تمسک صرف اسی صورت میں ہوسکے گا کہ وہ کم از کم خبر عزیز کے درجہ میں ہو، خبرواحد سے اگرکوئی عقیدہ بنے گاتواسی درجہ کا کہ اس کا منکر کافر نہ ٹھہرے، عقائد قطعیہ کے لیئے دلائل بھی قطعی درکار ہوتے ہیں، اسلام کے بنیادی عقائد وہی ہوسکتے ہیں جویاقرآن کریم سے قطعی الدلالت طریق سے ثابت ہوں یاکوئی حدیث متواتر انہیں ایسی دلالت اور وضاحت سے پیش کرے جس میں کسی دوسرے معنی کودخل نہ ہو؛ گویہ تواتر لفظی نہ ہو، معنوی ہو، اس تواتر کے انکار کی بھی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں، محدثِ کبیر ملاعلی القاری لکھتے ہیں:

"ولایخفی ان المعتبر فی العقائد ھوالادلۃ الیقینیۃ والاحادیث الاحاد لوثبتت انماتکون ظنیۃ اللہم الااذاتعددت طرقہ بحیث صار متواتراً معنویا فحینئذ قدیکون قطعیا"۔

(شح فقہ اکبر:۱۲۲، مجتبائی)

ترجمہ: اور مخفی نہ رہے کہ عقائد کے لیئے اعتبار دلائل یقینیہ کا ہی ہوتا ہے اور احادیث احاد اگرصحیح ثابت بھی ہوجائیں توظنی ہی رہیں گی، ہاں اگرایک مضمون متعدد احادیث (یاکثرتِ طرق) سے ثابت ہوکہ متواتر معنوی ہوجائے تواس صورت میں یہ دلیل بھی قطعی ٹھہرے گی۔

اب حدیث کی مختلف قسموں کا بیان لیجئے:
یہ بات پہلے آچکی ہے کہ علم دلائل یقینیہ سے پیدا ہوتا ہے، اس کے لیئے ظنی امور کافی نہیں ہوسکتے، اس بات کے لیئے کہ کوئی خبرعلم ویقین تک پہنچے اور اس کا انکار ممکن نہ رہے دلیل متواتر کی ضرورت ہوتی ہے، سوسب سے پہلے حدیث متواتر کا درجہ ہے اور یہاں پہلے اسی کی تعریف کی جاتی ہے۔


حدیثِ متواتر


متواتر وہ حدیث ہے جس کوابتداء سند سے لے کر آحرسند تک ہرزمانہ میں اتنے لوگوں نے بیان کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃ محال نظرآئے اور سند کی انتہا ایسی چیز پر ہو جس کا تعلق محسوسات سے ہو، نظر وفکر سے علم یقینی حاصل نہیں ہوتا ہے یہ حدیث متواتر سے حاصل ہوتا ہے، قرآن پاک بھی تواتر سے امت تک پہنچا ہے اور علم یقین کا درجہ رکھتا ہے۔
قرآن پاک کی ایک ایک آیت حضوراکرم   سے تواتر کے ساتھ منقول ہے، یہ بات کہ موجودہ قرآن وہی کتاب ہے جوحضور   نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی قطع ویقین سے ثابت ہے جوموجودہ قرآن کا منکر ہے وہ حضور   کی رسالت کا ہی منکر ہے، یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص موجودہ قرآن میں توشک کرے اورکسی اور قرآن کا منتظر رہے اور پھر وہ حضور   کو بھی سچا پیغمبر مانتا ہو جو یہ کہے کہ قرآن کریم میں معاذ اللہ عام انسانی ہاتھوں نے کمی کرڈالی ہے اور قرآن کریم میں کمی بیشی کردی گئی ہے وہ کیسے مسلمان ہوسکتا ہے؟ قرآن کریم متواتر طبقاتی ہے، ہرطبقہ امت نے اسے اپنے سے پہلے طبقے سے اسی طرح قبول کیا ہے، اب اس میں کسی شک وتردد کی گنجائش نہیں ہے، جواس میں شک کرتا ہے وہ اسلام میں ہی شک کرتا ہے، اس کتاب کے"وہ کتاب" ہونے میں کوئی شک نہیں، جوآخری زمانہ کے لیے دستاویز ہدایت تھی، خود قرآن پاک میں ہی ہے "ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَرَيْبَ فِيهِ" (البقرۃ:۲) وہ کتاب نہیں کوئی شک اس میں، آنحضرت   سے جوحدیثیں تواتر کے ساتھ منقول ہیں، ان کی تکذیب بھی حضور   کی تکذیب ہے، سوحدیث متواتر سے ثابت ہونے والے جملہ امور پرایمان لانا ضروری ہے اور ان میں سے کسی کا انکار کفر ہے، اُن میں سے کسی ایک کا انکار بھی کردیا جائے توانسان مسلمان نہیں رہتا، ایمان حضور   کوآپ کی جملہ تعلیمات میں سچا ماننے کا نام ہے، ایمان کے لیے آپ کی سب تعلیمات کوماننے کی قید ہے، کفر کے لیے کسی ایک کا انکار بھی کافی ہے۔


تواتر کی مختلف قسمیں


تواتر کی دوقسمیں ہیں:        (۱)تواتر لفظی (۲)تواتر معنوی۔
تواتر لفظی بہت کم احادیث میں ہے، ہاں اگرحدیثوں کے الفاظ مختلف ہوں؛ لیکن ان سب میں بات ایک ہی کہی گئی ہوتواس قدر مشترک کاتواتر بھی بہرحال قائم اور ثابت ہوگا، یہ تواترمعنوی ہے، کافی حدیثی مواد تواترمعنوی کے درجے کو پہنچتا ہے:

"حدیث متواتر کے بکثرت موجود ہونے کی روشن دلیل یہ ہے کہ کتبِ احادیث جوعلماء مصر میں متداول ہیں ان کا انتساب جن مصنفین کی طرف کیا جاتا ہے یہ نسبت ایک یقینی امر ہے پس اگر یہ مصنفین انہی کتابوں میں متفق ہوکر ایک حدیث کواتنے رواۃ سے روایت کریں جن کا جھوٹ پر اتفاق عادۃ ناممکن ہوتوبلاشک یہ حدیث متواتر ہوگی اور قائل کی طرف اس کا انتساب مفید علم یقینی ہوگا اور یہ بات ظاہر ہے کہ اس قسم کی حدیثیں کتبِ مشاہیر میں بکثرت موجود ہیں"۔

(شرح اردو قال ابوداؤد:۱/۳۷، مطبوعہ: دیوبند)


حدیث لانبی بعدی


حضوراکرمﷺ نے قصر نبوت کے ذکر میں بھی (مسلم:۲/۲۴۸۔ صحیح بخاری:۱/۵۰۱۔ مسنداحمد:۲/۴۹۸۔ جامع ترمذی:۲/۵۴۴) انبیاء بنی اسرائیل کے ذکر میں بھی (صحیح بخاری:۱/۴۹۰۔ صحیح مسلم:۲/۱۲۶۔ مسنداحمد:۲/۲۹۷)تیس دجالوں کی پیشگوئی میں بھی (جامع ترمذی:۲/۱۱۲) دیگرانبیاء کرام پر اپنے خصائص بیان کرتے ہوئے بھی (صحیح مسلم:۲/، صحیح بخاری) مبشرات خواب کے جاری رہنے کے ذکر میں بھی (صحیح بخاری:۲/۱۰۳۵۔ فتح الباری:۲/۳۳۲) حضرت علیؓ کوہارونِ امت کہتے ہوئے بھی عیسی بن مریم کی دوبارہ تشریف آواری کی خبردیتے ہوئے بھی اور دیگر کئی مواقع پر بھی یہ بات کہی کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا "لانبی بعدی" اب اس حدیث کا انکارکفر نہیں تواور کیا ہوگا؟ یہ حدیث ان پہلوؤں سے یقینا درجہ تواتر کو پہنچ چکی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ "لانبی بعدی" کے کلمات لفظًا بھی متواتر ہیں۔ 



حدیث نزول عیسیٰ بن مریم


آنحضرت   نے مختلف موقعوں پر حضرت عیسیٰ بن مریم کے نزول کی خبردی تھی، یہ صرف کسی ایک موقع پر کہی گئی بات کاحاصل نہیں؛ بلکہ متعدد روایات کی قدر مشترک ہے، سویہ حدیث بھی متواتر معنوی ہے، علامہ حافظ ابن کثیر (۷۷۴ھ) لکھتے ہیں:

"وقد تواترت الاحادیث عن رسول اللہ   انہ اخبر بنزول عیسی علیہ السلام قبل یوم القیامۃ اماماً عادلاً وحکماً مقسطا"۔                    

(ابنِ کثیر:۴/۱۳۲)

ترجمہ: آنحضرت   سے احادیث تواتر کے ساتھ منقول ہیں، آپ نے خبردی کہ حضرت عیسیٰؑ قیامت سے پہلے نازل ہوں گے امام عادل کی حیثیت سے اور انصاف کرنیوالے حکم کے طور پر۔

"والاجماع علی انہ حی فی السماء وینزل یقتل الدجال ویوید الدین"۔   

(الوجیز)

اور اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت عیسیؑ آسمان پر زندہ ہیں وہ اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے اور دین کو مؤید کریں گے۔
علامہ عبدالعزیز فرہاروی شرح عقائد کی شرح میں لکھتے ہیں:

"والاحادیث فی ذلک کثیرۃ متواترۃ المعنی"۔             

(نبراس:۳۵۱، مطبوعہ:ملتان)

اور اس باب میں متواترہ المعنی احادیث بکثرت ہیں۔
اور ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:

"ان حیاۃ عیسی ثابت بالاحادیث المتواترۃ"۔               

(نبراس:۴۸۵، مطبوعہ:ملتان)

ترجمہ: بیشک حیاتِ مسیح احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے۔

حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی اس پر ائمہ حدیث وتفسیر کا اتفاق نقل کیا ہے:

"وامارفع عیسیٰ فاتفق اصحاب الاخبار والتفسیر علی انہ رفع ببدنہ حیا"۔

(التلخیص الجیر:۳/۲۱۴، اِس سے پہلے بھی یہ لفظ لکھے ہیں: "ورفع عیسی علیہ السلام الی السماء ورفع ببدنہ حیا" سے "رفع الی السماء" ہی مراد ہے، جوبدن سے ہوا)

ترجمہ: اصحاب حدیث وتفسیر کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنے جسم سمیت زندہ اُٹھائے گئے تھے۔

صحیح مسلم کی شرح "اکمال المعلم" میں بھی حدیث نزول عیسیؑ کومتواتر مانا گیا ہے۔

"اذلا بدّ من نزولہ لتواترالاحادیث بذلک"۔                 

کمال المعلم:۱/۲۶۵)

محدثِ جلیل علامہ طاہر پٹنی لفظ حکم کے تحت لکھتے ہیں:

"ویجئی آخرالزمان لتواتر خبرالنزول"۔         

  (مجمع البحار:۱/۲۸۶)



قطعی الثبوت کی دلالت


جواُمور شریعت میں قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہیں اگر ان کی اپنے مدعا پر دلالت بھی قطعی ہے تووہ امور قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہوں گے اور ان کا منکر یقینا کافر ہوگا؛ لیکن قطعی الثبوت امور کی اپنے مدعا پر دلالت اگرظنی ہو اور اس میں کسی اور معنی کی بھی گنجائش ہوتو اس صورت میں یہ دلیل قطعی بھی مفید ظن رہے گی، یہ معاملہ صرف حدیث متواتر تک محدود نہیں، قرآن کریم کے احکام میں بھی باعتبار معنی اگر کہیں اختلاف کی گنجائش ہوتو اس میں بھی صحیح بات کا منکر صرف گمراہ کہا جائے گا اسے کافر نہ کہہ سکیں گے؛ کیونکہ اس قطعی الثبوت بات کی دلالت میں ظنیت آگئی ہے، جس سے حکم بدل گیا ہے۔
دلالت میں قطعیت تواتر معنی سے بھی آجاتی ہے اور کبھی امت کا اجماع بھی اس کے معنی کوقطعی کردیتا ہے، علامہ شاطبیؒ نے اس موضوع پر ایک نہایت نفیس بحث کی ہے، لکھتے ہیں:

"وإنماالأدلة المعتبرة هناالمستقرأة من جملة أدلة ظنية تضافرت على معنى واحد حتى أفادت فيه القطع فإن للإجتماع من القوة ماليس للإفتراق ولأجله أفاد التواتر القطع وهذا نوع منه فإذا حصل من استقراء أدلة المسألة مجموع يفيد العلم فهو الدليل المطلوب وهوشبيه بالتواتر المعنوي"۔

   (الموافقات:۱/۳۶)

ترجمہ:جن دلائل کا یہاں اعتبار ہے وہ اس طرح کے ہیں کہ کچھ ادلہ ظنیہ کے استقراء سے ایک معنی واحد پر آجمع ہوئے ہیں؛ یہاں تک کہ ان میں قطعیت آگئی ہے، دلائل کے ایک موضوع پر مل جانے سے ان میں وہ قوت آجاتی ہے جوان کے علیحدہ علیحدہ ہونے میں نہ تھی اور اسی لیے تواتر بھی قطعیت کا فائدہ بخشتا ہے اور یہ بھی اسی کی ایک قسم ہے، جب کسی مسئلہ کے دلائل کا استقراء کرتے ہوئے ایسا مجموع حاصل ہوجائے جویقین کافائدہ دے تووہ دلیل اس باب میں مطلوب ہے اور یہ تواتر معنوی کی ہی طرح ہے۔

دلائل اپنے اپنے مقام پر گواخبار احاد ہوں؛ لیکن ان کا مجموعی مفاد ضرور یقین کا فائدہ بخشتا ہے، مثلاً:
(۱)آنحضرت   نے خبر دی کہ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ بن مریمؑ دوبارہ تشریف لائیں گے، یہ بات اپنی جگہ واضح تھی، عیسیٰ بن مریم کے تشخص میں امت میں کبھی کوئی اختلاف پیدا نہ ہوا تھا؛ بلکہ حضور   نے یہ وضاحت بھی فرمادی تھی کہ وہی عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے جومجھ سے پہلے آئے تھے اور میرے اور اُن کے مابین کوئی نبی نہیں گزرا، حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضور   نے فرمایا:

"لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ يَعْنِي عِيسَى وَإِنَّهُ نَازِلٌ"۔

(ابوداؤد، كِتَاب الْمَلَاحِمِ،بَاب خُرُوجِ الدَّجَّالِ،حدیث نمبر:۳۷۶۶، شاملہ، موقع الإسلام)

"وأجمعت الأمة على ماتضمنه الحديث المتواتر من: أن عيسى في السماء حي، وأنه ينزل في آخر الزمان"۔    

         (البحرالمحیط:۲/۴۷۳)

اس سے پتہ چلا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کے آنے کی خبر جس طرح تواترِ معنوی سے یقینی درجہ رکھتی ہے، اس کی دلالت بھی اپنے مدعا پر اسی طرح واضح اور قطعی ہے؛ جہاں تک حدیث لانبی بعدی کی دلالت کا تعلق ہے، قاضی عیاضؒ (۵۴۴ھ) کا بیان اس باب میں بہت واضح ہے:

"لأنه أخبر النبي   أنه خاتم النبيين لانبي بعده و أخبر عن الله تعالى أنه خاتم النبيين وأنه أرسل كافة للناس وأجمعت الأمة على حمل هذا الكلام على ظاهره وأن مفهومه المراد منه دون تأويل ولاتخصيص فلاشك في كفر هؤلاء الطوائف كلها قطعا إجماعا وسمعا"۔

(الشفاء:۳۶۲)

ترجمہ:امت نے اس لفظ خاتم النبیین اور آنحضرت  کے احوال وقرائن سے یہی سمجھایا ہے کہ آپ کے بعدنہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول، اس مسئلہ ختم نبوت میں نہ کسی تاویل کی گنجائش ہے اور نہ کسی قسم کی تخصیص ہے۔

یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس طرح کاتواتر اور یقین توچند امور کوہی حاصل ہوگا، ان کے ماسوا جوامور ہیں وہ توسب ظنی ہوں گے؛ پھراُن کا اعتبار کیسے کیا جائے؛ جواباً عرض ہے کہ اصول دین توواقعی سب قطعی ہونے چاہئیں اور یہ صحیح ہے کہ اسلام کے سب اصول دلائلِ قطعیہ یقینہ سے ثابت ہیں؛ لیکن فروع میں اگرکہیں باعتبار ثبوت یاباعتبار دلالت ظنیت آجائے تواس سے کوئی نقصان نہیں ہے۔


فروع میں ظنیت آجائے توحرج نہیں


محدثِ کبیر حضرت مولانا بدرِعالم میرٹھی ثم المدنی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"فروع میں اگرظنیت ہوتوکوئی مضائقہ نہیں ہے، اس کی مثال بالکل قانونی دفعات کی سمجھے، قانون کے الفاظ اپنے اجمال کے ساتھ قطعی ہوتے ہیں اور اس کی ضمنی دفعات وتشریحات بسااوقات ظنی ہوتے ہیں، اس لیے ان میں ہرعدالت کواختلاف کرنے کی گنجائش مل جاتی ہے، امام شاطبی نے مقدمات کتاب کے پہلے مقدمہ میں اس موضوع پر مفصل بحث کی ہے؛ پس فروعی مسائل کے ظنی ہونے میں کوئی اشکال نہیں، نہ ان مسائل کے تسلیم کرنے سے دین کی بنیاد کاظنی ہونا ثابت ہوتا ہے"۔

(ترجمان السنۃ:۱/۱۸۵)

حدیث کے ظنی الثبوت ہونے پر تشویش کرنے والوں کوسوچنا چاہئے کہ قرآن کا ایک ایک حرف اگرچہ متواتر ہے؛ لیکن اس کے باوجود جومسائل اس سے مستنبط ہوتے ہیں ان میں سے ایک ایک کے قطعی اور یقینی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، بہت سے مسائل ایسے ہوں گے جوگوقرآن سے مستنبط ہوں؛ لیکن ان کی دلالت اپنےمدلول پر ظنی ہو تواگر احتمال ظنی سے حدیث چھوڑی جاسکے گی توکیا اسی راہ سے قرآن کے بہت سے مسائل بھی پادر ہوا نہ ہوجائیں گے، فرق رہ جائے گا توصرف یہی کہ حدیث میں ظن ثبوت سے آرہا ہے اور ان قرآنی احکام میں دلالت کی راہ سے، باقی رہا نتیجہ سو وہ صاف ہے، علامہ شاطبیؒ (۷۹۰ھ) فرماتے ہیں:

"کسی متواتر کا قطعیت کومفید ہونا، اس پر موقوف ہے کہ اس کے جمیع مقدمات بھی متواتر ہوں؛ لیکن اگراس کے مقدمات ظنی ہیں تووہ پھر ظن ہی کومفید ہوگا، مثلاً ہرکلام کا سمجھنا لغت اور نحویوں کی رائے پر بھی موقوف ہے؛ پس اگر کسی مسئلہ نحوی میں نحویوں کی رائے مختلف ہے یاکسی لغت میں اہل لغت کا اختلاف ہے تواس اختلاف کا اثر اس متواتر کلام کے مفہوم پر بھی ضرور پڑتا؛ کیونکہ جن امور پر اس کلام کے مفہوم کاسمجھنا موقوف ہے جب وہی ظنی ہیں توپھر اس کلام کومفید قطع کیسے سمجھا جاسکتا ہے"۔

(الموافقات:۱/۳۵)

ہاں جہاں ثبوت اور دلالت دونوں قطعی ہوجائیں تو ان متواترات دین کا انکار کہیں نہیں کیا جاسکتا، نہ تواتراسناد کا نہ تواتر معنی کا، نہ تواتر طبقہ کا، نہ عمل طبقہ کا، نہ توارث وتعامل کا، نہ تواتر قدرمشترک کا، کسی تواتر سے ثابت ہونے والے کسی دینی مسئلے کا انکار جائز نہیں، ہاں تواتر قدر مشترک سے ثابت ہونے والے مسئلے میں ضرور کچھ تفصیل کی گنجائش ہے کہ اگرمسئلہ نظری ہوتوہوسکتا ہے کہ اس کا انکار کفر نہ ہو؛ لیکن اگرمسئلہ بدیہی ہے تووہ اپنے مفہوم میں عام فہم ہے سو اس کا منکر کافر ٹھہرے گا، حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ فرماتے ہیں:

"والتواتر عندي أيضاً على أربعة أقسام: أحدها: تواتر الإسناد..... وهذا التواتر تواتر المحدثين، والثاني: تواتر الطبقة..... وهذا تواتر الفقهاء، تواتر التعامل..... وهذا التواتر قريب من التواتر الثاني، ومثال هذا التواتر العمل برفع اليدين عند الركوع وتركه فإنه عمل به غير واحد في القرون الثلاثة والرابع: تواتر القدر المشترك..... وحكم الثلاثة الأول تكفير جاحده وأماالرابع: فإن كان ضرورياً فكذلك، وإن كان نظرياً فلا"۔

(ترجمان السنۃ:۱/۱۸۴)

ترجمہ: اورمیرے نزدیک تواتر کی بھی چار قسمیں ہیں (۱)تواتر اسناد اسے تواتر محدثین بھی کہتے ہیں، تواتر طبقہ اسے تواتر فقہا کہتے ہیں (۲)تواتر تعامل اور (۴)تواتر قدر مشترک پہلے تین تواتر ایسے ہیں کہ انکا منکر کافر ٹھہرتا ہے، چوتھے تواتر کا موضوع اگرضروریات کے درجےمیں ہے تووہ بھی اسی حکم میں ہے اوراگر نظری درجے کا ہے تواس کے منکر کوکافر نہ کہا جائیگا۔


تواتر کی ایک قسم تواترسکوتی

مقدمہ مظاہر حق میں تواترکی بحث میں ایک قسم تواتر سکوتی بھی بتلائی گئی ہے کہ ایک شخص نے ایک بات نقل کی اور دیگر حضرات نے اس پر سکوت کیا اور پھروہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ تواتر کے درجے میں آگئی، احقر کے نزدیک اس میں یہ احتمال باقی رہے گا کہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اس پر اس لیئے سکوت کیا ہو کہ وہ خبرواحد کولائق قبول سمجھتے تھے اور خبرواحد کے طور پر ہی اسے آگے مشہور کردیا ہو، پہلے مرحلے میں وہ خبرواحد ہی رہے گی، اس صورت میں اس میں تواتر کا دعویٰ نہ کیا جاسکے گا۔
الحاصل حدیث باعتبار علم دوقسموں پر منقسم ہے:
اوّل حدیث متواتر، دوم اخبار احاد اور اخبارِ احاد پھرآگے ان تین قسموں میں منقسم ہوجائیں گی:
(۱)حدیث مشہور
(۲)حدیث عزیز
(۳)حدیث غریب۔
حدیث متواتر کے مقابل حدیث احاد ہے، اسے خبرواحد بھی کہتے ہیں، جس کی اعلی ترین قسم حدیث مشہور ہے، حدیث متواتر پر گفتگو گزرچکی ہے، اب حدیث مشہور، حدیث عزیز اور حدیث غریب کی کچھ تفصیل لیجئے:


حدیثِ مشہور




حدیثِ مشہور وہ حدیث ہے جس کے راوی ابتداء سند سے لے کر آخر سند تک دوسے زیادہ ہوں؛ لیکن تواتر کو نہ پہنچتے ہوں اور اس حدیث کی محدثین میں شہرت ہوئی ہو، اس سے ایسا علم پیدا ہوتا ہے جس سے حدیث کی سچائی پر اطمینانِ قلبی حاصل ہوجاتا ہے؛ لیکن اسے قطع ویقین کا وہ درجہ حاصل نہیں ہوتاکہ اس کے منکرکو کافر کہا جاسکے، قطع ویقین صرف حدیث متواتر میں ہوتا ہے، محدثین بعض اوقات اس حدیث کوبھی مشہور کہہ دیتے ہیں جوصرف آخرسند کے لحاظ سے متواتر ہو؛ تاہم وہ بھی خبرِواحد ہی ہوتی ہے، جیسے حدیث "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ"جوحضوراکرمﷺ سے صرف حضرت عمرؓ نے اور ان سے حضرت علقمہؓ نے اور ان سے صرف حضرت محمدبن ابراہیم تیمیؒ نے اور صرف یحییٰ بن سعیدؒ نے روایت کی ہے؛ لیکن اس کے بعد اسے راویوں کی کثیر تعداد نے ہردور میں متواتر بنادیا؛ سویہ ایک ایسی حدیث ہے جوآخر سند کے لحاظ سے مشہور کہی گئی ہے، علماء اصول کے ہاں حدیث مشہور خبرواحد نہیں، وہ اسے متواتر اور خبرواحد کے درمیان کی ایک منزل قرار دیتے ہیں (علماء کے نزدیک حدیث مشہور وہ ہے جس کے راوی پہلے طبقہ (یعنی طبقۂ صحابہؓ) میں حدِتواتر کونہ پہنچے ہوں؛ لیکن دوسرے اور تیسرے طبقے (تابعین اور تبع تابعین) میں اسے اتنے راویوں نے روایت کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر اکٹھا ہونا عادتًا محال ہو، یہ تین طبقے (قرون ثلاثہ) مشہود لہا بالخیر ہیں، جن کے خیر ہونے کی حدیث میں شہادت دی گئی ہے، اِن طبقوں میں سے دوکے ہاں اسے تواتر کی سی شہرت حاصل ہوگئی؛ سوحدیثِ مشہور ان حضرات کے ہاں خبرِواحد سے کچھ اوپر ہے اسے یہ خبرِواحد نہیں کہتے، علماء اصول خبرِ واحد سے قرآن کریم کے کسی عام حکم کوخاص نہیں کرتے؛ لیکن حدیث مشہور سے ان کے ہاں عام کی تخصیص جائز ہے، محدثین کے ہاں حدیث مشہور بھی خبرواحد کی ہی ایک قسم ہے) اور یہ ان کی اپنی اصطلاح ہے"ولامشاحۃ فی الاصطلاح"۔ 



حدیثِ عزیز

حدیثِ عزیز وہ حدیث جس کے راوی ابتداء سند سے لے کرآخر تک دوسے کم نہ ہوں (کسی جگہ دوسے زائد ہوجائیں توبھی حدیث عزیز ہی رہے گی) جیسے حدیث:

"لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ"۔

(مسلم، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب وُجُوبِ مَحَبَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْ،حدیث نمبر:۶۳، شاملہ، موقع الإاسلام)

اس حدیث کوحضوراکرم   سے دوصحابیوں نے ان میں سے ہرایک سے دوتابعیوں نے اور پھر ان سے دوتبع تابعیوں نے روایت کیا ہے، اس تعددرواۃ سے روایت بڑی قوی ہوجاتی ہے؛ لیکن اس سند سے بھی ایسا قطع ویقین حاصل نہیں ہوتا کہ اس کے منکرکوکافر کہا جاسکے، حنفیہ کے ہاں حدیث وتر اسی درجہ میں ہے کہ اس پر عمل توفرض کے درجہ میں ہے؛ لیکن اس کا منکر کافر نہیں۔
حضرت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"واعلم أن الفرض نوعان: فرض عملا وعلما، وفرض عملا فقط، فالأول كالصلوات الخمس فإنها فرض من جهة العمل لايحل تركها..... وفرض من جهة العلم والاعتقاد؛ بمعنى أنه يفترض عليه اعتقادها حتى يكفر بإنكارها والثاني كالوتر لأنه فرض عملا كماذكرناه وليس بفرض علما: أي لايفترض اعتقاده، حتى إنه لايكفر منكره لظنية دليله وشبهة الاختلاف فيه، ولذا يسمى واجبا"۔            

(ردالمحتار:۱/۶۲۱)

ترجمہ: یہ جانو کہ فرض کی دوقسمیں ہیں، ایک جوعلماً اور عملاً ہردوپہلوؤں سے فرض ٹھہرے اور دوسرا وہ جوصرف عملاً فرض ہواعتقاداً فرض نہ ہو...... پہلے فرض کی مثال نمازِ پنجگانہ ہے وہ عمل کی طرف سے بھی فرض ہے کہ اسے چھوڑنا حلال نہیں اور علم کی روسے بھی فرض ہے کہ اس کی فرضیت کا اعتقاد رکھنا بھی فرض ہے؛ یہاں تک کہ اس کا انکار کفر ہے اور دوسری قسم کی مثال میں وترکولیجئے، وہ عملاً فرض ہے علماً فرض نہیں، اس کا اعتقاد فرض نہیں ٹھہرتا؛ یہاں تک کہ اس کے منکر کی تکفیر نہ کی جاسکے گی؛ کیونکہ اس کا ثبوت دلیل ظنی سے ہے اور اس میں شبہ اختلاف بھی ہے اور اس لیئے اسے فرض نہیں کہتے، واجب کہتے ہیں ۔

حدیث عزیز "لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ"..... الحدیث اس طرح مروی ہے:
آنحضرت   سے حضرت انسؓ اور حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کیا؛ پھرحضرتِ انسؓ سے حضرت قتادہ (تابعیؒ) اور عبدالعزیز صہیب (تابعیؒ) نے روایت کیا؛ پھر حضرت قتادہ (تابعیؒ) سے شعبہ اور سعید نے روایت کیا اور عبدالعزیز صہیب (تابعیؒ) سے اسماعیل بن علیہ اور عبدالوارث نے روایت کیا؛ پھراوپر سے حضرت ابوہریرہؓ سے اعرج نے روایت کی اور اعرج سے ابوالزناد نے روایت کیا۔


حدیثِ غریب


وہ خبرِواحد ہے جس کی سند کسی مقام پر صرف ایک ہی راوی سے چلی ہو، مثلاً کسی صحابی سے ایک ہی تابعی نے روایت کیا ہو؛ گواس کے بعد پھر تفرد نہ رہا ہو، جیسے بخاری کی یہ روایت ہے:

"الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَفْضَلُهَا لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأذَی عَنْ الطَّرِيقِ"۔

اسے حضرت ابوہریرہؓ سے صرف ابوصالح تابعیؒ نے روایت کیا ہے اور ابوصالح سے حضرت عبداللہ بن دینار نے اس طرح کی حدیث غریب کوفرد بھی کہتے ہیں۔


حدیث غریب کی قسمیں


حدیث غریب کوفرد بھی کہتے ہیں پھرفرد کی دوقسمیں ہیں، فردِ مطلق، فرد نسبی، مذکورہ بالا مثال فردِ مطلق کی ہے، فردِ نسبی یہ ہے کہ صحابی سے تومتعدد تابعی روایت کریں؛ لیکن اس کے بعد راوی کہیں ایک ہی رہ جائے؛ پھرفرد نسبی کی آخربہت سی قسمیں ہیں؛ کبھی تفرد کسی ایک علاقے کے محدثین کے لحاظ سے ہوتا ہے، جیسے اہلِ مدینہ، اہلِ مکہ، اہلِ بصرہ، اہلِ کوفہ وغیرہ کے رواۃ کرام کہ ایک علاقے کاایک ہی راوی اسے روایت کرے۔
فرد اور غریب دونوں ہم معنی لفظ ہیں؛ مگرمحدثین عام طور پر فرد مطلق کوفرد اور فردِ نسبی کوغریب کہتے ہیں، ان کے ہاں یہ بات عجیب ہے کہ زمانہ تابعین میں تواس حدیث کو زیادہ راوی روایت کریں اور آگے کسی دور میں اس کاراوی ایک رہ جائے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسی حدیث غریب ہونے کے باوجود صحیح ہی رہتی ہے، بشرطیکہ سند کا اتصال قائم ہو اور رواۃ کمزور نہ ہوں؛ سوکسی حدیث کا غریب ہونا اس کی صحت کے منافی نہیں ہے۔


حدیث کا غریب ہونا اس کی صحت کے منافی نہیں


یادرکھیئے حدیث کا غریب ہونا اس کی صحت کے منافی نہیں، حدیث غریب حدیث صحیح کی ہی ایک قسم ہے، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ مقدمہ مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:

"الحديث الصحيح إن كان راويه واحدا يسمى غريبا وإن كان اثنين يسمى عزيزا وإن كانوا أكثر يسمى مشهورا ومستفيضا وإن بلغت رواته في الكثرة إلى أن يستحيل في العادة تواطؤهم على الكذب يسمى متواترا ويسمى الغريب فردا أيضا..... وعلم مماذكر أن الغرابة لاتنافي الصحة ويجوز أن يكون الحديث صحيحا غريبا بأن يكون كل واحد من رجاله ثقة"۔

(مقدمہ مشکوٰۃ:۶، دہلی، وقدیقع بمعنی الشاذ)

ترجمہ: حدیث صحیح کاراوی اگرایک ہی ہوتو اسے غریب کہیں گے، دوہوں توبھی اسے عزیز کہیں گے اور اگرراوی دوسے زیادہ ہوں تواسے مشہور اور مستفیض کہیں گے اور اگراسکے راوی کثرت میں اس درجے تک پہنچیں کہ عادۃ ان کا جھوٹ پر اتفاق کرلینا محال ٹھہرے تواسے متواتر کہیں گے، حدیث غریب کوفرد بھی کہتے ہیں (اکیلی) اور اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی حدیث کا غریب ہونا اس کے صحیح ہونے کے منافی نہیں اور ہوسکتا ہے کہ ایک حدیث صحیح بھی ہو اور غریب بھی کہ راوی تواس کے ایک ایک ہی ہوں لیکن سب ثقہ ہوں۔

امام ترمذیؒ نے کتاب العلل میں حدیث غریب پر بحث کی ہے، جن وجوہ غرابت کا آپ نے ذکر کیا ہے (کتاب العلل:۶۴۰، لکھنؤ) وہ حدیث صحیح میں بھی ہوسکتے ہیں، حدیث کی یہ مختلف قسمیں مختلف درجوں کا علم بخشتی ہیں، حدیث متواتر سے اس یقینی درجے کا علم حاصل ہوتا ہے کہ اس کا منکر بے شک کافر ٹھہرتا ہے، حدیث احاد مشہور کے درجہ تک پہنچے تواس کا منکرسخت گمراہ قرار پائے گا، سند کی قلت وکثرت کے باعث ان روایات سے جس درجے کا ثبوت ملے گا اس سے علم کے مختلف درجات قائم ہوں گے، اخبار احاد کتنی ہی کیوں نہ ہوں ان سے حاصل شدہ علم علم ظنی ہی شمار ہوگا؛ لیکن یہ ظن اس درجے میں نہیں کہ اسے یونہی ٹھکرادیا جائے، اس سے جوعلم حاصل ہوتا ہے اپنی جگہ عمل کے لیئے کافی ہے اورخبرِواحد اگرصحیح ہوتوسوائے گمراہ کے اس کا کوئی منکر نہ ہوگا۔


خبرِواحد کے مختلف مراتب


یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ وہ حدیث جس پر سب کا اتفاق ہو اور وہ جوکسی خاص مسئلہ کے متعلق صرف ایک راوی سے روایت کی گئی ہو اور اس میں مختلف تاویلوں کی گنجائش بھی ہو، دونوں برابر نہیں ہوسکتیں، پہلی حدیث کا تسلیم کرنا بلاشبہ قطعی ہے؛ اگرکوئی اس کا منکر ہوتو اس سے توبہ کرائی جائے؛ لیکن دوسری قسم کی حدیث اس درجہ میں قوی نہیں کہ اگر اس حدیث میں کوئی شک کرے تواس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے؛ تاہم عمل کرنا اس پر بھی لازم ہوگا؛ گواس میں کسی وجہ ترجیح کواختیار کیا جائے، جب تک کہ اسباب ترک میں سے کوئی سبب پایا نہ جائے اسے چھوڑنا درست نہ ہوگا؛ جیسا کہ شاہدوں کے بیان پر فیصلہ کردیا جاتا ہے؛ حالانکہ یہاں بھی غلطی اور شکوک کا احتمال رہتا ہے؛ لیکن پھربھی جب تک کہ تحقیق نہ ہو ان کے ظاہر حال پر ہی عمل کیا جاتا ہے۔ 



خبرِواحد پر عمل نہ کرنے کی چند صورتیں

ہاں یہ ممکن ہے کہ اگرکسی کے پاس خبرِواحد پہنچی ہوتو اس نے اس پر اس لیئے عمل نہ کیا ہو کہ اس کے نزدیک وہ خبرواحدصحت کونہ پہنچی ہو یاوہ حدیث دومعنوں کومحتمل ہو اور اس نے دوسرے معنی پر عمل کرلیا ہو یااس کے معارض اس سے زیادہ صحیح حدیث اس کے پاس موجود نہ ہو؛ ہرگز کسی کے لیئے خبرِواحد کاترک کرنا جائز نہیں۔ (ترجمان السنۃ:۱/۱۷۶)
خبرِواحد کے حجت ہونے پر حضرت امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں بہت ٹھوس دلائل دیئے ہیں  حضرت مولانا بدرعالم مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمان السنۃ جلد اوّل میں اس پر گراں قدر بحث کی ہے خبرِمتواتر اور خبرِواحد کی یہ بحث یاحدیث مشہور، حدیث عزیز اور حدیث غریب کا تقابل یہ سب ثبوت روایت کی مختلف شئوون ہیں، حدیث کی یہ اقسام باعتبار علم ہیں کہ راویوں کی تعداد کے لحاظ سے کس طرح علم کے مختلف درجے قائم ہوئے، اس میں راویوں کی ذات سے بحث نہ تھی، صرف ان کی تعداد پیشِ نظر تھی؛ اگران راویوں کی ذات سے بحث کی جائے اور ان کی صفات صدق وضبط وغیرہ کودیکھا جائے توحدیث کی اور اقسام پیدا ہوں گی، ہم انہیں ایک دوسرے عنوان سے ذکر کرتے ہیں۔


(۲) حدیث کی تقسیم باعتبار روات


حدیث صحیح، حدیث حسن اور حدیث ضعیف میں سے ہرایک کی دودوقسمیں ہیں، پہلے ان کے نام سمجھ لیجئے؛ پھرہرایک کی تعریف عرض خدمت ہوگی:
حدیث کی تین قسمیں ہیں:
(۱)صحیح
(۲)حسن
(۳)ضعیف؛ پھرصحیح کی دوقسمیں ہیں (۱)صحیح لذاتہ (۲)صحیح لغیرہ؛
  پھر حسن کی دوقسمیں ہیں (۱)حسن لذاتہ (۲)حسن لغیرہ؛
پھر ضعیف کی دوقسمیں ہیں (۱)قوی بتعدد طرق (۲)ضعیف متروک۔


حدیث صحیح


ان میں سے پہلی پانچ قسم کی حدیثیں مقبول ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ حدیث صحیح لذاتہ ہے، یہ وہ حدیث ہے جس کے تمام راوی عادل (جھوٹ اور منہیاتِ شرعیہ سے بچے ہوئے) اور تام الضبط (قوی یاد داشت والے) (یہ ضبط صرف زبانی یادداشت سے بھی ہوتا ہے اور کبھی کتاب کی مدد سے بھی ہوتا ہے، پہلے ضبط کوضبطِ صدر اور دوسرے کو ضبطِ کتاب کہتے ہیں) ہوں اور سند میں اتصال ہوکہ ہرراوی دوسرے راوی سے ملا ہو اور اس حدیث کے خلاف کسی لفظ میں کوئی اور راوی مخالفت کرنے والا نہ ہو۔


حدیث صحیح لغیرہ


یہ وہ حدیث ہے جس میں سب شرطیں صحیح لذاتہ کی پائی جاتی ہوں، علاوہ اس کے کہ کسی راوی کا حافظہ اتنا پختہ نہ ہو جتنا کہ صحیح لذاتہ کے راوی کا ہوتا ہے؛ مگراس کمی کوتعددِ طرق نے پورا کردیا ہو، دوسرے لفظوں میں اس کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ صحیح لغیرہ وہ حدیث ہے جس کوراوی عادل خفیف الضبط (جس کے ضبط اور یادداشت میں کچھ کمزوری ہو) نے بسند متصل روایت کیا ہو اور وہ حدیث نہ معلل ہو نہ شاذ اور اس کی سندیں بھی متعدد ہوں، راوی کے تام الضبط نہ ہونے کی وجہ سے یہ صحیح لذاتہ نہیں؛ لیکن اس کمی کو چونکہ تعدد طرق نے پورا کردیا ہے، اس لیئے وہ حدیث صحیح لغیرہ ٹھہرے گی۔ 



حسن لذاتہ

یہ وہ حدیث ہے جس کے تمام راوی عادل وضابط توہوں؛ لیکن کوئی راوی خفیف الضبط ہواور سند میں کسی جگہ سے کوئی راوی جھوٹا نہ ہو اور حدیث معلل اور شاذ نہ ہو..... حدیث صحیح لغیرہ اور حسن لذاتہ کی تعریفوں سے آپ کومعلوم ہوگیا ہوگا کہ اگرحدیث حسن لذاتہ میں ضبط کی کمی دیگرسندوں کی تائید سے پوری کردی جائے تووہی حدیث جوحسن لذاتہ تھی صحیح لغیرہ ہوجائے گی، بعض حدیثوں کی کتابوں میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ ایک ہی حدیث کوحسن صحیح لکھا ہے تواس کا یہی مطلب ہے کہ یہ حدیث اگرچہ حسن لذاتہ ہے؛ لیکن دوسری سندوں کی تائید سے یہ صحیح لغیرہ کے درجہ کوپہنچ گئی ہے، حدیث حسن کی اصطلاح امام ترمذیؒ کے ہاں بہت ملتی ہے؛ سو اسے مستقل طور پر جاننا چاہیے کہ ان کے ہاں اس کا کیا مطلب ہے، آپ لکھتے ہیں:

"وَمَاذَكَرْنَا فِي هَذَا الْكِتَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ فَإِنَّمَا أَرَدْنَا بِهِ حُسْنَ إِسْنَادِهِ عِنْدَنَا كُلُّ حَدِيثٍ يُرْوَى لَايَكُونُ فِي إِسْنَادِهِ مَنْ يُتَّهَمُ بِالْكَذِبِ وَلَايَكُونُ الْحَدِيثُ شَاذًّا وَيُرْوَى مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ نَحْوَ ذَاكَ فَهُوَ عِنْدَنَا حَدِيثٌ حَسَنٌ"۔       

    (ترمذی، كِتَاب الْعِلَلِ:۲/۶۲۶)

ترجمہ: ہم نے اس کتاب میں جہاں کسی حدیث کوحسن کہا ہے تواس سے ہماری مراد اس کا سند کے اعتبار سے حسن ہونا ہے.... اور ہرحدیث جومروی ہو اور اس کی سند میں کوئی راوی ایسا نہ ہوجومہتم بالکذب ہے (جس پر جھوٹ کا الزام نہ ہو) اور نہ وہ حدیث شاذ ہوکہ (دوسرے راوی اس شیخ سے اسے روایت نہ کرتے ہوں) اور وہ صرف ایک طریق سے مروی نہ ہو (کئی طریقوں سے اس کی روایت ہوئی ہو) توہمارے ہاں اسے حسن کہیں گے۔



حسن غریب


دیکھئے اس کے تمام راوی عادل اور ضابط ہیں؛ لیکن تعدد طرق سے مروی ہو یہ اس میں شرط نہیں ہے؛ پس اس اعتبار سے حسن اور غریب کہ جس میں راوی کاتفرد بھی ہو کوئی منافات نہیں ہے، اس لیئے امام ترمذی نے روایت کے حسن ہونے اور غریب ہونے کوکئی سندوں میں جمع بھی کردیا ہے، جن کے تمام راوی عادل وضابط توہیں؛ لیکن کسی مقام پر ان کے نزدیک تفرد آگیا ہے؛ سوایسی حدیث ان کے ہاں حدیث صحیح غریب یاحسن غریب ہوگی۔ 



حسن لغیرہ


یہ وہ حدیث ہے جس کی قبولیت میں تردد ہو، جیسے کوئی راوی مستوراور مجہول الحال ہو؛ لیکن دوسری سندوں سے اس کوتقویت حاصل ہوگئی، یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہوتی ہے؛ لیکن دوسری سندوں کی تائید سے قابلِ عمل اور لائقِ استدلال ہوجاتی ہے، امام نوویؒ (۶۷۶ھ) نے شرح مہذب میں اور سیدنا ملاعلی قاری (۱۰۱۴ھ) نے اس سے استدلال کرنے کی تائید فرمائی ہے، جیسے حدیث "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلَیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ" کی بعض روایتوں میں "وَمُسلِمَۃ" کا اضافہ ہے، اس حدیث کے بیان کرنے والے امام ابن ماجہؒ (۲۷۵ھ)، امام بیہقیؒ (۴۵۸ھ) اور امام طبرانیؒ (۲۶۰) وغیرہ ہیں اور حضراتِ صحابہ میں اس کے روایت کرنے والے حضرت ابوایوب انصاریؓ (۵۱ھ) ابی بن کعبؓ (۱۹ھ)، حذیفہؓ (۳۵ھ)، سلمان فارسیؓ (۴۵ھ)، ابوہریرہؓ (۵۷ھ) حضرت عائشہ صدیقہؓ (۵۷ھ)، حضرت انسؓ (۹۳ھ) وغیرہم ہیں اور پھر حضرت انسؓ سے روایت کرنے والے بیس تابعیؒ ہیں؛ لیکن نہایت تعجب کی بات ہے کہ محدثین اس پر متفق ہیں کہ اس کی تمام سندیں ضعیف ہیں، بایں ہمہ دیکھئے کہ اس حدیث کے تعددِ طرق کودیکھ کر حافظ سیوطیؒ (۹۱۱ھ) نے اس کواحادیثِ متواترہ میں شمار کیا ہے؛ یوں سمجھئے کہ یہ تواتر کی ایک اور قسم سامنے آگئی؛ گوباعتبارِ علم ہم اسے متواتر نہیں کہہ سکتے؛ لیکن یہ بھی نہیں کہ عمل کے لیے یہ محض ضعیف ہی ہے۔ 




حدیثِ ضعیف (قوی بتعدد طرق)


وہ حدیث ضعیف ہے جس کی سند موجود ہو (یعنی موضوع اور من گھڑت نہ ہو) لیکن اس کے راوی باعتبار یادداشت یاعدالت کے کمزور ہوں؛ لیکن اگراسے دوسری سندوں سے تائید حاصل ہوتو یہ قبول کی جاسکتی ہے؛ یہی نہیں کہ صرف فضائل اعمال میں انہیں لے لیا جائے گا بلکہ ان سے بعض حالات میں استخراج مسائل بھی کیا جاسکتا ہے، قیاس استنباطِ مسائل کے لیئے ہی ہوتا ہے، امام ابوحنیفہؒ ضعیف حدیث کوقیاس پر ترجیح دیتے تھے، حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے بھی ایسا ہی منقول ہے، ظاہر ہے کہ یہ بات احکام میں ہی چل سکتی ہے فضائل میں نہیں؛ سواس بات سے چارہ نہیں کہ حدیث ضعیف کا بھی اپنا ایک وزن ہے، یہ من گھڑت نہیں ہوتی۔


حدیثِ ضعیف کی ترجیح محض قیاس پر

حافظ ابنِ حزمؒ (۴۵۷ھ) لکھتے ہیں:

"جمیع اصحاب ابی حنیفۃ مجمعون علی ان مذہب ابی حنیفۃ ان ضعیف الحدیث اولی عندنا من القیاس والراوی"۔               

  (ابطال الرائی والقیاس والاستحسان:۶۸)

ترجمہ: امام ابوحنیفہؒ کے تمام شاگرد اس پر متفق ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ کا طریقہ یہی تھا کہ آپ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دیتے تھے۔

حافظ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ حنبلی (۷۵۱ھ) لکھتے ہیں:

"واصحاب ابی حنیفۃ مجمعون علی ان مذہب ابی حنیفۃ ان ضعیف الحدیث عندہٗ اولیٰ من القیاس والرای وعلی ذلک بنی مذھبہ...... فتقدیم الحدیث الضعیف واٰثار الصحابۃ علی القیاس والرای قولہ وقول الامام احمد"۔              

(اعلام الموقعین:۱/۸۸)

ترجمہ: امام ابوحنیفہ کے سب شاگرد اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ آپ کے ہاں حدیث ضعیف قیاس اور رای پر مقدم تھی اور آپ نے اسی پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے.... سوحدیث ضعیف اور آثار صحابہ کوقیاس پر مقدم کرنا امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ دونوں کا فیصلہ ہے۔

حضرت امام ابوحنیفہؒ (۱۵۰ھ) کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے کہ وہ حدیث کے بجائے قیاس سے زیادہ کام لیتے تھے یہ درست نہیں، جب وہ حدیثِ ضعیف کو بھی قیاس پر مقدم کرتے ہیں تویہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ صحیح حدیث کو چھوڑ کر قیاس کومقدم کرتے ہوں


ضعیف حدیث حسن لغیرہ تک

ضعیف حدیث کی سندیں گووہ اپنی جگہ ضعیف ہوں؛ لیکن اس کے راویوں کا اگران پہلے راویوں سے مل کر روایت کرنے کا مظنہ نہ ہو تواس تعدد طرق سے حدیث ضعیف قوی ہوکر حسن لغیرہ تک پہنچ جائے گی؛ لیکن اس کا فیصلہ حاذق محدثین ہی کرسکتے ہیں، نہ کہ ہرایک کواس کا حق دیا جائے نہ ہرایک اس کا اہل ہے قال اللہ تعالیٰ:

"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا"۔  

  (النساء:۵۸)

اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ امانتوں کوان کے اہل لوگوں کے سپردکرو۔

حدیث "أصْحَابِیْ کَالنجوم" محدثین کے ہاں اسی طریق سے لائقِ قبول سمجھی گئی ہے، وہب  بن جریر اپنے والد سے وہ اعمش سے وہ حضرت ابوصالح سے وہ حضرت ابوہریرہؓ سے اور وہ حضور اکرم  سے اس طرح روایت کرتے ہیں:

"أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ من اقْتَدَى بِشَيْء مِنْهَا اهْتَدَى"۔

(مشکوٰۃ:۵۵۴، پر بھی یہ مختلف الفاظ سے موجود ہے، محدث گنگوہیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حسن لغیرہ تک پہنچ جاتی ہے)

ترجمہ: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جوان میں سے کسی کی پیروی کرگیا ہدایت پالی۔



علم کی آفتوں میں سے سے بڑی آفت

ضعیف حدیث سے عقائد کا ثابت کرنا علم کے لیئے ایک بہت  بڑی آفت ہے علم سے ناآشنا لوگ ضعیف روایات سے عقائد کا اثبات کرتے ہیں، چند مثالیں لیجئے:
(۱)بعض لوگ اس حدیث سے آپ کا علم محیط یاآپ کا ہرچیز کوناظر ہونا اس سے ثابت کرتے ہیں کہ حضور   نے فرمایا:

"كأني أنظر إلى كفي هذه"۔      

  (یارسول اللہ:۱/۸، شاملہ،القسم: الأخلاق والآداب والرقائق)

ترجمہ:میں پوری دنیاکواس طرح دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کودیکھ رہا ہوں۔

اس قسم کی ضعیف احادیث پر عقائد کی بنیاد رکھنا قابلِ رحم، علمی بے بسی ہے


حدیثِ ضعیف (متروک)


ضروری نہیں کہ ضعیف حدیث کثرتِ طرق سے ہمیشہ قوی ہوجائے، بعض اوقات روایت کثرت طرق سے اور زیادہ ضعیف ہوتی جاتی ہے طالبِ حق سوچتا ہے کہ اسے باوجود اپنے مضمون کے اہم ہونے اور کثرتِ طرق سے مروی ہونے کے صحیح سند آخرکیوں میسر نہ آئی؟ اتنے طرق سے منقول ہوئی؛ مگرہرطریق سند کمزور ہی رہا، سویہ روایت محض اتفاقی ضعیف نہیں ہوگی؛ بلکہ حقیقۃً ہی کمزور ہوگی، اس صورت میں جوں جوں طرق بڑھتے جائیں گے ضعف اور نمایاں ہوتا جائے گا اور یہ بات ماہر محدثین اور حاذق اساتذہ ہی جان سکتے ہیں، حافظ زیلعیؒ (۷۶۴ھ) ایک مقام پر لکھتے ہیں:

"وَكَمْ مِنْ حَدِيثٍ كَثُرَتْ رُوَاتُهُ وَتَعَدَّدَتْ طُرُقُهُ، وَهُوَحَدِيثٌ ضَعِيفٌ؟ كَحَدِيثِ: الطَّيْر، وَحَدِيثِ الْحَاجِمِ وَالْمَحْجُومِ وَحَدِيثِ: مَنْ كُنْت مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، بَلْ قَدْ لَايُزِيدُ الْحَدِيثَ كَثْرَةُ الطُّرُقِ إلَّاضَعْفًا"۔                 

   (نصب الرایہ:۱/۳۶۰)

ترجمہ: کتنی ہی حدیثیں ہیں جن کے راوی بہت ہیں اور ان کے طریق سند بھی متعدد ہیں پھر بھی وہ حدیث ضعیف رہی ہے جسے حدیث طیر، حدیثِ حاجم (کہ پچھنہ لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے) اور حدیث"من کنت مولاہ فعلی مولاہ" بلکہ بعض اوقات کثرتِ طرق سے ضعف اور بڑھتا جاتا ہے۔

ابنِ صلاحؒ (۶۴۳ھ)اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی ضعیف حدیث کوبیان کرنے کاارادہ کرے تواس کی نسبت رسول اللہ   کی جانب الفاظ جاذمہ (قطع ویقین کے سے الفاظ) سے نہ کرے یوں نہ کہے "قَالَ رَسُوْلُ اللہِ کَذَا وَمَاأَشْبَہُ ذَلِکَ" (مقدمہ ابن صلاح)بلکہ یوں کہے "رُوِيَ عَنْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهٗ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا وَكَذَا" یایوں کہے "بَلَغْنَا عَنْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهٗ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا وَكَذَا وَمِثَالُ ذَلِکَ" اوریہی حکم ان حدیثوں کے بارے میں ہے جن کی صحت وضعف میں شک ہو۔
علماء نے صرف پندونصیحت، بیان قصص اور فضائل اعمال کے مواقع پر احادیث ضعیف کے بیان کرنے کو بلااس کے ضعف بیان کیئے جائز رکھا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ کتبِ سیر میں آپ کواحادیثِ ضعیفہ بغیر تصریح کے بہت ملیں گی بخلاف احادیثِ موضوعہ کے کہ ان کا بیان کرنا حرام ہے، انہیں بیان کرنا کسی موقع پر درست نہیں؛ سواس کے کہ ان کے موضوع ہونے کوبیان کرے؛ سوموضوع حدیث کا بیان کرنا اور اسے لوگوں میں رائج کرنا بالکل حرام ہے، حضور  پر افتراء اور بہتان ہے، حضور   نے فرمایا:

"مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"۔

(مشکوٰۃ، كتاب العلم،الفصل الأول،حدیث نمبر:۱۹۸، شاملہ، الناشر:المكتب الإسلامي،بيروت۔ بخاری، حدیث نمبر:۱۲۰۹، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: جس نے جان بوجھ کرمجھ پر بہتان باندھا اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم بنالے۔



موضوع حدیث


وہ روایت جوپیغمبر   کے نام پر خود وضع کی گئی ہو یاصحابہ کرامؓ کے نام پر گھڑی گئی ہو موضوع روایت کہلاتی ہے، اس کی بالکل سند نہیں ہوتی؛ اگراس کی کوئی سند بھی وضع کرلے توبھی اس کا موضوع ہونا کسی دوسرے پہلو سے کھل جائے گا، سند ہوبھی تواس میں وضاع اور کذاب قسم کے راویوں سے اس کا من گھڑت ہونا معلوم ہوجاتا ہے۔


موضوع احادیث کے بارے میں اہم کتابیں


علماءِ اسلام نے جہاں حدیث کی مختلف پہلوؤں سے خدمت کی ہے، وہاں انہوں نے موضوع روایات کی نشاندہی بھی پوری محنت سے کی ہے، یہ صحیح ہے کہ تمام بڑے بڑے محدثین نے علم پیغمبر کے گرد حفاظت کے پہرے دیئے ہیں اور ایسے حضرات بھی سامنے آئے ہیں؛ جنہوں نے موضوع روایات کی نشاندہی میں مستقل کتب تصنیف فرمائی ہیں۔


تذکرۃ الموضوعات


"لابی الفضل محمد بن طاہر بن علی بن احمد المقدسی المعروف بابن القیسروانی "(۵۰۷ھ)۔
ان کے بعد اس باب میں اولیت کا شرف علامہ ابوالفرج عبدالرحمن بن جوزیؒ (۵۹۷ھ) کوحاصل ہے آپ سے اگرکہیں تشدد اور سختی بھی ہوگئی ہے کہ بعض حدیثوں کوبھی موضوعات میں رکھ دیا تواس کی اصلاح کے لیئے امام سیوطیؒ (۹۱۱ھ) نے تعقبات علی الموضوعات تحریر فرمائی ہے، جولائقِ مطالعہ ہے۔


(۱) موضوعات ابن جوزیؒ (۵۹۷ھ)


بے شک اس کتاب کواولیت کا شرف حاصل ہے؛ مگرچونکہ یہ اس فن کی پہلی محنت ہے؛ اس لیئے آپ سے اس میں کئی فروگذاشتیں ہوئی ہیں؛ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ آپ نے اس باب میں ایک بڑا علمی مواد فراہم کیاہے۔
حافظ ابنِ صلاحؒ لکھتے ہیں کہ ابنِ جوزیؒ حدیث کوموضوع قرار دینے میں بہت جلد باز ثابت ہوئے ہیں، آپ نے اس میں بہت سی ضعیف حدیثوں کوبھی موضوع کہہ دیا ہے؛ حالانکہ ایسا نہ ہونا چاہیے تھا؛ یہی نہیں؛ بلکہ کچھ حسن اور صحیح حدیثیں بھی آپ نے موضوعات میں شمار کرڈالیں اور محدثین نے ان پر پھرتعقبات لکھے ہیں۔


(۲) موضوعات حضرت شیخ حسن الصنعانی (۶۵۰ھ)


حضرت علامہ حسن صنعانی (لاہوریؒ) صاحب مشارق الانوار نقد حدیث میں بہت سخت تھے، ان کے سامنے ابنِ جوزیؒ کی موضوعات نشان راہ تھی، آپ نے اپنی طرف سے بھی اس باب میں گرانقدر معلومات مہیا کیئے ہیں، بعد کے آنے والے مؤلفین نے اس باب میں آپ کی کتاب سے بہت استفادہ کیا ہے۔


(۳) موضوعات المصابیح


حضرت شیخ سراج الدین عمر بن علی القروینی (۸۰۴ھ) کی تصنیف ہے اور بہت نایاب ہے۔


(۴) اللالی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ


یہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطیؒ (۹۱۱ھ) کی تصنیف ہے، آپ نے اس کے علاوہ کتاب الذیل اور کتاب الوجیز بھی اس باب میں تحریر فرمائی ہیں، جوقابل مطالعہ ہیں۔


(۵) تذکرۃ الموضوعات اور قانون الموضوعات


تذکرۃ الموضوعات اور قانون الموضوعات کے مصنف حضرت علامہ محمدطاہر پٹنی صاحب مجمع البحار (۹۸۶ھ) لغت حدیث کے جلیل القدر امام تھے، آپ کی کتابیں تذکرۃ الموضوعات اور قانون الموضوعات جو ۲۲۹/صفحات اور ۸۰/صفحات پر مشتمل ہیں، اس باب کی بہت مفید کتابیں ہیں۔


(۶) موضوعات کبیر اور اللالی المصنوع فی الحدیث الموضوع


موضوعات کبیر محدث ِجلیل حضرت ملا علی قاریؒ (۱۰۱۴ھ) کی تالیف ہے، یہ اس باب میں بہت جامع اور مرکزی کتاب ہے، اللالی المصنوع اس کے بعد کے درجے میں ہے۔


(۷) الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ


یہ علامہ شوکانیؒ (۱۲۵۰ھ) کی تالیف ہے، اس میں آپ ابنِ جوزیؒ کی راہ پر چلے ہیں اور بہت سختی کی ہے، کئی ضعیف اور حسن حدیثیں بھی موضوع ٹھہرادی ہیں۔


(۸) الآثارالمرفوعہ فی الاحادیث الموضوعہ


یہ حضرت مولانا عبدالحیی لکھنویؒ (۱۴۰۷ھ) کی تالیف ہے۔
ان تمام کوششوں کے باوجود اہلِ باطل موضوع حدیثوں کی روایت سے رُکے نہیں وہ اس کی برابر اشاعت کرتے رہتے ہیں، اپنے عقائدِ فاسدہ کواستناد مہیا کرنے کے لیئے وہ اپنے حلقوں میں ان کا برابرچرچا کرتے ہیں، قرآنِ کریم میں اہلِ باطل کا یہ عمل بھی مذکور ہے:

"فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ"۔

(آل عمران:۷)

ترجمہ:اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیتوں کی تاویلات تلاش کریں

متشابہات کے الفاظ توپھر بھی صحیح ہوتے ہیں صرف مرادات میں تشابہ ہوتا ہے اور موضوع روایات کاتووجود ہی باطل ہے، جب متشابہات سے استدلال جائز نہیں ہے توموضوع روایات سے اپنے مسلک کی گاڑی چلانا یہ کون ساجائز فعل ہوگا، ہم یہاں فائدہ عام کے لیئے چند روایات بھی ذکر کرتے ہیں، جن کی کوئی سند نہیں، نہ صحیح، نہ حسن، نہ ضعیف، ان سے آپ اندازہ کرسکیں گے کہ حدیث کے باب میں کس قدر بے احتیاطی ہماری صفوں میں گھس آئی ہے۔

(۱)"اذاجاءکم الحدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ"

جب تمہارے پاس کوئی حدیث آئے تواسے قرآن کریم پر پیش کرو، اس کے موافق ہو تولے لو؛ ورنہ رد کردو۔

علامہ خطابی (۳۸۸ھ) فرماتے ہیں "لااصل لہ" اس کی کوئی اصل نہیں، امام یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں "وضعتہ الزنادقۃ" (معالم السنن للخطابی:۴/۲۹۹، لاحاجۃ بالحدیث ان یعرض علی کتاب فانہ مہما ثبت عن رسول اللہ کان حجۃ بنفسہ)اسےزندیقوں نے وضع کیا ہے، حضور   سے جب کوئی بات ثابت ہوجائے وہ خود سند ہے اور حجت ہے اسے قرآنِ کریم پر پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے، حضور   سے قرآن کریم کے خلاف کوئی بات صادر ہو یہ ناممکن ہے۔

(۲)"علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل"

ترجمہ:میری امت کے علماء ایسے ہیں جیسے بنی اسرائیل کے ابنیاء

بنواسرائیل میں جو نبی بھی آئے وہ سب غیرتشریعی نبی تھے اور ان کی شریعت تورات تھی (المائدہ:۴۴) اس روایت میں علماء امت کوان سے تشبیہ دی گئی ہے یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت کے علماء میں کوئی غیرتشریعی نبی بھی نہ ہو؛ کیونکہ مشبہ اور مشبہ بہ میں تغائر ضروری ہے، اس حدیث کے مضمون میں کلام نہیں؛ لیکن من حیث الثبوت یہ  بے اصل ہے، دسویں صدی کے مجدد ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں:

"اما حدیث علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل فقد صرح الحفاظ کالزرکشی والعسقلانی والد میری والسیوطی انہ لااصل لہ"۔  

  (مرقات شرح مشکوٰۃ طبع قدیم:۵/۵۶۴،مصر)

بہر حال حدیث:علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل،جس کے متعلق حفاظ نے صراحت کی ہے  جیسے زرکشی ، عسقلانی ،دمیری اور سیوطی نے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

ملا علی قاری نے پہلے اس پر امام سیوطیؒ کا سکوت نقل کیا تھا (موضوعاتِ کبیر:۴۸، مطبوع:دہلی) اس پر بہت سے صوفی مزاج علماء اسے نقل کرتے رہے پھر ملاعلی قاریؒ کواس پر امام سیوطیؒ کا بھی انکار مل گیا؛ سواب اسے کسی عقیدہ کے ثبوت میں پیش نہیں کیاجاسکتا۔
(۳)"من تکلم بکلام الدنیا فی المسجد احبط اللہ اعمالہ اربعین سنۃ" جس نے مسجد میں دنیا کی کوئی بات کی اللہ اس کے چالیس سال کے اعمال ضائع کردیتا ہے، علامہ صنعانی (۶۵۰ھ) فرماتے ہیں کہ یہ موضوع ہے ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں "وھو کذالک لانہ باطل منبی ومعنی"۔            

(موضوعاتِ کبیر:۴۸، مطبوع:دہلی)

(۴)"حدیث لانبی بعدی" کتنی مشہور متواتر اور واضح المعنی ہے مگر محمد بن سعید شامی نے اسے حضرت انس بن مالک کی روایت بناکر حضور   کے نام پر یہ حدیث وضع کردی"اناخاتم النبین لانبی بعدی الا ان یشاء اللہ" میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں؛ مگریہ کہ جواللہ چاہے، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"فوضع ہذا الاستثناء لماکان یدعوالیہ من الالحاد والزندقۃ ویدعی النبوۃ"۔

(فتح الملہم:۱/۶۵)

(۵)"لوکان موسیٰ وعیسیٰ حیّین ماوسعھما الااتباعی" حدیث میں صرف موسیٰ کا نام تھا (اگرموسیٰ زندہ ہوتے توانہیں بھی میری پیروی سے چارہ نہ ہوتا) حضرت عیسیٰ کوفوت شدہ ثابت کرنے کے لیے یہ نام بھی ساتھ بڑھادیا گیا، شیخ الاسلام علامہ عثمانی لکھتے ہیں اس کی سند کا کتبِ حدیث میں کہیں پتہ نہیں۔                 

    (فوائد القرآن:۳۹۸، سورۂ مریم، پارہ:۱۶)

(۶)سبائی کہتے ہیں حضور   نے صحابہ کی موجودگی میں حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا: "ہٰذا وصیی واخی الخلیفۃ من بعدی فاسمعوا لہ واطیعوہ" ملاعلی قاریؒ اس کے بارے میں صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں "فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ" (البقرۃ:۸۹) (موضوعاتِ کبیر:۹۴) حافظِ ابنِ کثیرؒ (۷۷۴ھ) "وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ" (الشعراء:۲۱۴) کے تحت لکھتے ہیں: (تفسیرابن کثیر:۳/۳۵۰، وکذلک صرح المدراسی فی کشف الاحوال، میزان الاعتدال:۳/۳۵۱) یہ روایت کہ اس آیت کے نازل ہونے پر حضور  نے حضرت علی کی گردن پر ہاتھ رکھا اور فرمایا یہ میرا بھائی ہے اس کی سنو اور اس کی اطاعت کرو، اس میں عبدالغفار بن قاسم کذاب تنہا ہے/ علی بن المدینی نے اسے وضع حدیث سے متہم قرار دیا ہے: "متروک کذابِ شیعی اتھمہ علی بن المدینی وغیرہ بوضع الحدیث"۔
(۷)"موتوا قبل ان تموتوا" کتنی مشہور روایت ہے ملاعلی قاری حافظ ابن حجر عسقلانی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ حدیث کہیں ثابت نہیں۔              

(موضوعات:۷۵)

(۸)حسن پرستوں نے اپنے ذوق کوتسکین دینے کے لیے یہ حدیث گھڑلی ہے "النظر الی الوجہ الجمیل عبادۃ" خوبصورت چہروں کو دیکھنا عبادت ہے۔
حافظ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں: "ھٰذا کذب باطل علی رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لویروہ احد باسناد صحیح بل ھو من الموضوعات"۔            

   (موضوعات:۷۷)

(۹)فرض نمازوں کے بعد جودعا مانگتے ہیں اس میں یہ الفاظ "والیک یرجع السلام حینا ربنا بالسلام" حدیث میں اضافہ کئے گئے ہیں معلوم نہیں کس نے یہ جملے حدیث میں ڈال دیئے ہیں، ملا علی قاری لکھتے ہیں "فلااصل لہ" (موضوعات:۸۹) اس حدیث کی کوئی اصل نہیں، حدیث اپنی جگہ موجود ہو اور کچھ الفاظ زیادہ کردیئے جائیں یہ روایت ان کی مثال ہے بعض علماء نے الفاظ تبدیل کررکھے ہیں حدیث میں تھا "اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنوراللہ" (جامع صغیر:۱/۹) انہوں نے بدل کر "من نوراللہ" بنادیا (ملفوظات:۱/۱۰۸) حضور   کی خدمت میں ایک شخص پیتل کی انگوٹھی پہنے حاضرہوا آپ نے اسے کہا:

"مَالِي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الْأَصْنَامِ"۔

(ابوداؤد، كِتَاب الْخَاتَمِ،بَاب مَاجَاءَ فِي خَاتَمِ الْحَدِيدِ،حدیث نمبر:۳۶۸۷، شاملہ، موقع الإاسلام)

ترجمہ:میں تجھ میں بتوں کی ہوا کیا محسوس کررہا ہوں۔

اسے یوں بدلا "مَالِیْ اَرَفِیْ یَدک حلیۃ الاصنام" (ملفوظات:۳/۲) تیرے ہاتھ میں بتوں کا زیور کیوں دیکھ رہا ہوں۔
اگرکوئی شخص کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بھول جائے توکھانے کے دوران "بِسْمِ اللہِ فِیْ أَوَّلہ وآخرہ" پڑھ لے ان صاحب نے یہاں بھی لفظ فی کو علی سے بدل دیا؛ حالانکہ حدیث میں یہ الفاظ نہ تھے؛ انہوں نے اُسے یوں بنادیا "بسم اللہ علیہ اولہ وآخرہ" (ملفوظات:۲/۹۵)استغفراللہ۔
وضع حدیث کا کام صدیوں سے رکا ہوا تھا مرزا غلام احمد نے پھر سے اسے زندہ کیا اور لکھا، احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ مسیح موعود صدی کے سرپر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا (ضمیمہ براہین احمد:۵/۱۸۸) اس شخص سے منحرف مت جاؤ جس کا آنا اس صدی پر صدی کے مناسب حال ضروری تھا اور جس کی ابتداء سے نبی کریم   نے خبر دی تھی۔     

   (دافع الوساوس:۲۵۲)

آنحضرتؐ زندگی بھرچودھویں صدی کا لفظ اپنی زبان پر نہیں لائے نہ کبھی کہا کہ قیامت چودھویں صدی کے ختم پر آئے گی، مرزا غلام احمد نے خود ہی یہ بات تجویز کی اور خود ہی اس کی علامات پورا کرنے کے لیے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کردیا اور چودھویں صدی کی روایات گھڑی اور اسے حضور اکرم   کے ذمہ لگادیا اور پھریہ روایات بھی گھڑی کہ مسیح موعود تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا:

"بل ھو امامکم منکم"۔           

  (ازالہ اوہام:۱/۲۳)

"بَلْ ھُوَ" کے الفاظ کتبِ احادیث میں کہیں نہیں ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ خود گھڑے ہیں، معلوم ہوا اہلِ باطل وضع احادیث کا سلسلہ اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں، حدیث کے اصل الفاظ یہ تھے:

"كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَانَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ"۔

(مسلم،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۲۲، شاملہ، موقع الإاسلام)

ترجمہ: تمہارا کیا حال ہوگا جب ابنِ مریم تم میں اتریں گے اور اس وقت تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیثیں وضع کرنے والے اعتراض کے تحت حدیثیں گھڑتے تھے اور باطل فرقوں کا یہ عام طریقہ رہا ہے۔














قواعدالحدیث



بات کی قبولیت کے فطری اصول



حدیث قبول کیسے کی گئی؟ وہ کون سے اصول تھے جن پر حدیث قبول کی جاتی رہی؟ جوکچھ کسی نے کہہ دیا بس لے لیا جاتا رہا یاروایت قبول کرنے کے لیے واقعی کچھ اصول کارفرمارہے؟ اور کہاں کہاں ان قواعد میں نرمی اختیار کرنے کی گنجائش رہی؟ اس نرمی کا تدارک پھرکس طرح قرائن سے کیا جاتا رہا؟ پھر ایسے بھی کئی مواقع تھےکہ روایت اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود لکھ لی گئی؛ کیونکہ ہوسکتا تھا کہ آئندہ اس کے بارے میں کوئی اور بات کھلے اور یہ کمزور روایت اس بات کے قرائن میں شمار ہوجائے یاکہیں اس سے اعتبار کا کام لیا جائے؛ گواحتجاج نہ کیا جائے؛ بہرحال یہ ایک نہایت عمیق موضوع ہے، جس کی گہرائی میں وہی لوگ جاسکتے ہیں جنہو ںنے حدیث پڑھنے پڑھانے میں زندگیاں صرف کی ہوں، ان حاذقین کا ذوق بولتا ہے کہ بات کہاں قابل اعتماد ہے اور کہاں اس کے اعتماد میں جھول ہے اور ہے تووہ کتنا ہے، قواعد کا سرسری مطالعہ یااصولِ حدیث کی چند کتابوں کا پیشِ نظر ہونا اس فن کی پیراکی کے لیے کافی نہیں۔
اس وقت ہمیں اس فن کی گہرائی میں اُترنا نہیں، صرف اس موضوع کا کچھ تعارف کراناہے، اس میں اس فن کا کچھ تاریخی تجزیہ بھی ہوجائے گا اور یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ فنِ روایتScience of transmission وہ نیاباب علم ہے جس سے دنیا قبل ازاسلام ناآشنا تھی، فنِ تاریخ اور فنِ روایت کومسلمانوں نے جوتازگی اور پختگی بخشی، اس کی مثال اقوامِ عالم اور مللِ سابقہ میں کہیں نہ ملے گی، محدث نے حدیث کویونہی جمع نہیں کرلیا کہ جوکچھ کسی نے کہہ دیا اُنہوں نے سن لیا قبول کرلیا اور لکھ لیا، ان کے سامنے روایت قبول کرنے اور اسے آگے نقل کرنے کے کچھ قواعد تھے اور ان قواعد کے ساتھ روایات پر رداً یاقبولاً بحث ہوتی تھی، جتنا کوئی باب نکھرتا جاتا اس کے بارے میں پختگی اور وثوق بڑھتا جاتا اور سند کے مراتب بدلتے جاتے؛ یہاں تک کہ بعض روایات متواتر ہوجاتیں، قوت سند کے انہی مراتب سے احادیث کی مختلف قسمیں ہوتی گئیں اور اس دور میں جوکمزور روایتیں قبول کی گئیں وہ بدستور ان کمزوریوں کی حامل رہیں، انہی اسانید کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا اور انہیں بالکل نظرانداز اس لیے نہ کیا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی آنے والا محقق اس باب میں کوئی اور انکشاف کرے اور یہ روایت کسی دوسری روایت یاتعامل کی تائید بن جائے، ایک رائے یاچندآراء کے ساتھ علم کے کسی گوشے کوکلیۃ دفن کردینا قرین مصلحت نہ تھا۔
اسلام دینِ فطرت ہے اس کے اُصول فطرت کے پیمانوں میں ڈھلتے اور اُبھرتے ہیں، حدیث قبول کرنے میں بنیادی اصول تقریباً وہی ہیں، جوفطری تقاضوں کے مطابق کسی بات کوقبول کرنے یانہ کرنے کے ہوسکتے ہیں؛ لیکن ان کا تعین ہرشخص کی اپنی فطرت پر موقوف نہیں؛ اہلِ فن کے تجربات اور فیصلوں سے ہی ہوتا آیا ہے۔



بات کے لائق قبول ہونے کے عقلی تقاضے



کسی بات کے لائق قبول ہونے کے لیے بہت سی باتوں کوپیشِ نظر رکھا جاتا ہے لیکن ان سب وجوہ کا اجمال دوباتوں میں لپٹا ہوا ہے، اوّل یہ کہ بیان کرنے والے کی یادداشت اچھی ہو وہ قوی حفظ رکھتا ہو، دوم یہ کہ دیانت دار ہو، مخلصانہ سچائی پر رہتا ہو، یہ قوی حفظ Strong Memory اور مخلصانہ سچائی Sincere Righteousness ہی وہ بنیادی اُصول ہیں جن پر فن حدیث میں تعدیل کی چکی گھومتی ہے، آگے جوکچھ ہے وہ انہی اُصولوں کی تفصیل ہے، مثلاً یہ کہ (۱)راوی کمزور نہ ہو (۲)جاناپہچانا اور معروف ہو، مجہول نہ ہو (۳)اس کی روایت کا کہیں انکار نہ کیا گیا ہو منکر نہ ہو (۴)دیانت اور نیکی سے آراستہ ہو، جھوٹ بولنے والا نہ ہو (۵)ہرکس وناکس کواعتماد میں نہ لے، علم ذمہ دارلوگوں کے سپرد کرے اور انہی میں رہے؛ وغیرذلک؛ اب ہم انہیں یہاں ذراتفصیل سے ذکر کرتے ہیں:



(۱) راوی کمزور نہ ہو


اس سے مراد یہ ہے کہ اس میں بات سننے کی، یادرکھنے کی، اور آگے نقل کرنے کی قوت موجود ہو، اتنا قوی نہ ہوگا توکمزور شمار ہوگا، سمجھنے میں پوری گہرائی مطلوب نہیں، اصولی درجے میں سمجھنے کی اہلیت کافی ہے، حضور   فرماتے ہیں کہ کئی روایت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں جوخود بات کی تہہ تک نہیں پہنچتے؛ لیکن جن کے پاس روایت کرتے ہیں وہ ان سے زیادہ اس بات کوپالیتے ہیں؛ سوراوی کمزور نہ ہونے سے مراد سننے، یادرکھنے اور روایت کرنے میں کمزور نہ ہونا ہے، سمجھنے میں فقیہ ہونا ضروری نہیں۔



(۲)راوی جانا پہچانا ہو


جن سے روایت لے رہا ہے اور جن کوروایت دے رہا ہے ان میں جانا پہچانا ہو اور راویوں میں قابلِ اعتماد سمجھا جائے، اس کی روایت اس شخص کی روایت سے کہیں زیادہ لائقِ اعتماد ہوگی، جس نے ان سے روایت سنی اور اسے اپنے شیخ کے ہاں کبھی اُٹھنے بیٹھنے کا اور موقع نہ ملا؛ گویہ راوی اپنی جگہ سچا ہو؛ مگراس سے وہ راوی جوسچا بھی ہو اور اپنے شیخ کی مجلس میں اچھی جگہ پائے ہوئے ہو زیادہ قابلِ اعتماد سمجھا جائے گا۔


(۳) اس کی روایت کا کہیں انکار نہ کیا گیا ہو


اورلوگ جنہوں نے وہ بات سنی تھی ان کا اس سے اتفاق رہا ہو؛ کسی نے اس کی بات سے انکار نہ کیا ہو، ایک شخص سے چار آدمی ایک بات سن کرگئے ان میں سے ایک اس بات کواسی طرح روایت کرتا ہے کہ باقی تین اس سے اتفاق نہیں کرتے تووہ شخص شاذ کا راوی یامنکرالروایۃ سمجھا جائے گا کہ اس کی روایت کا انکار ثابت ہوچکا، قبولیت کے یے ضروری ہے کہ اس کی بات پر کہیں انکار نہ کیا گیا ہو، وہ ہمیشہ کے لیے اپنی بات میں مطاع to be obeyed اور قابلِ قبول رہے۔



(۴) راوی دیانت دار اور راستباز ہو فاسق نہ ہو


غلط کار Wicked نہ ہو، امین ہو..... فسق سے مراد فسق فی العمل ہے، فاسق کی روایت کمزور ہوگی اور مزید تبیین کی محتاج ہوگی، رہا فسق فی القول توایسا کذاب راوی لائقِ تذکرہ ہی نہیں، نہ اس کی روایت کسی درجہ میں لائقِ قبول ہوگی۔


(۵) عام مجلسی نہ ہو


ہرکس وناکس سے بات کہنے والا نہ ہو، ایسا کرنے والا بسااوقات خود بھی اس زمرے میں آجاتا ہے، صحیح پختہ راوی وہ ہے جوانہی سے روایت کرے جوحفظ وضبط میں پختہ ہو اور امانت ودیانت کے اہل ہوں اور اُنہی کوروایت کرے جواس کی بات میں کمی بیشی کرنے والے نہ ہوں، ایسا شخص اگرکبھی غیرمعروف کسی شخص سے بھی روایت لے لے تواس کی اس عام عادت کے سبب اس غیرمعروف راوی کی بھی جہالۃالعین اٹھ جائے گی۔
نقل وروایت ان فطری اُصولوں سے آگے چلے توبات نہایت پختہ اور لائقِ قبول ہوجاتی ہے اور جہاں یہ سب باتیں جمع ہوجائیں تودل اس روایت کی صداقت کی گواہی دینے لگتا ہے اور اس میں کوئی تردد باقی نہیں رہتا، قبول روایت کے یہی فطری طریقے ہیں اور دین فطرت بے شک انہی اُصولوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔



بات کے لائق اعتماد ہونے کا قرآنی نظریہ



قرآن کریم میں براہِ راست تواس پر بحث نہیں ملتی کہ نقل وروایت کن اصولوں سے لائق اعتماد بنتی ہے؛ لیکن حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی باتیں آگے حضورِاکرم  تک نقل کیں، توقرآن کریم نے اس باب میں حضرت جبرئیل کی چندصفات کا خصوصی ذکر فرمایا، یہ صفات ایک راوی کی حیثیت سے ہمارے لیے رہنمائے اُصول ہیں، جبرئیل امین بے شک معصوم ہیں، ان سے نقل روایت میں کسی غلطی کا احتمال نہیں؛ لیکن امت کونقل روایت کے رہنمائے اُصول دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی ان صفات کا بھی ذکر فرمادیا:

"عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىo ذُومِرَّةٍ فَاسْتَوَىo وَهُوَبِالْأُفُقِ الْأَعْلَى"۔    

    (النجم:۵،۷)

ترجمہ:سکھایا اسے سخت قوتوں والے نے، زور آورطاقت ور نے؛ پھرسامنے سیدھا بیٹھا اور وہ آسمان کے اُونچے کنارے پر تھا۔

پھرسورۂ تکویر میں اللہ رب العزت نے جبرئیل امین کی صفات کے ساتھ اگلے راوی جناب رسالت مآب   کا بھی آپ سے اتصال بیان فرمایا، آپ کی قوی ذہنی قوت بیان کی اور دونوں کے مابین اتصال اور ملاقات کا اثبات فرمایا؛ یوں کہئے قرآن کریم نے ان صفات میں روایت کے تقریباً تمام رہنما اصول بیان کردیئے۔

"إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍo ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍo مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍo وَمَاصَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍo وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِo"۔ 

      (التکویر:۱۹۔۲۳)

ترجمہ:بے شک یہ بات ہے ایک معزز بھیجے ہوئے کی (یعنی جبرئیل امین کی) جوقوت والا، عرش کے مالک کے پاس مجلس پانے والا ہے، سب کا مانا ہوا ہے اور پھروہاں اعتماد یافتہ ہے اور اس نے دیکھا ہے اسے (اس فرشتہ کو) آسمان کے کھلے کنارے کے پاس۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"قرآن کریم جواللہ کےپاس سے ہم تک پہنچا ہے، اس میں دوواسطے ہیں، ایک وحی لانے والا فرشتہ (جبرئیل علیہ السلام) اور دوسرا واسطہ جناب پیغمبرعربی  ، دونوں کی صفات وہ ہیں جن کے معلوم ہونے کے بعد کسی قسم کا شک وشبہ قرآن کے صادق اور مُنَزَّلْ مِنَ اللہِ ہونے میں نہیں رہتا کسی روایت کے صحیح تسلیم کرنے کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ راوی وہ ہوتا ہے جواعلیٰ درجہ کا ثقہ، عادل، ضابطہ، حافظہ اور امانت دار ہو، جس سے روایت کرے اس کے پاس عزت وحرمت سے رہتا ہو، بڑے بڑے معتبر ثقات اس کی امانت وغیرہ پر کلی اعتماد رکھتے ہوں اور اسی لیے اس کی بات بے چوں وچرا مانتے ہوں، یہ تمام صفات جبرئیل میں موجود ہیں"۔             

(تفسیر عثمانی:۷۶۲)



رسول ملکی کا اعتبار وثقاہت



وہ کریم ہیں جن کے لیے اعلیٰ نہایت متقی اور پاکباز ہونا لازم ہے، بڑی قوت والے ہیں، جس میں اشارہ ہے کہ حفظ وضبط اور بیان کی قوت بھی کامل ہے، اللہ کے ہاں اُن کا بڑا درجہ ہے، سب فرشتوں سے زیادہ بارگاہِ ربوبیت میں قرب اور رسائی حاصل ہے، آسمانوں کے فرشتے ان کی بات مانتے اور کا حکم تسلیم کرتے ہیں؛ کیونکہ ان کے امین اور معتبر ہونے میں کسی کوشک نہیں۔



رسول ملکی کے بعد رسول بشری کی ثقاہت



یہ تورسول ملکی کا حال تھا، اب رسولِ بشری کا حل سن لیجئے، بعثت سے پہلے چالیس سال تک وہ تمہارے اور تم ان کے ساتھ رہے، اتنی طویل مدت تک تم نے اس کے تمام کھلے چھپے احوال کا تجزیہ کیا؛ کبھی ایک مرتبہ اس میں جھوٹ، فریب  یادیوانہ پن کی بات نہ دیکھی ہمیشہ  اس کے صدق وامانت اور عقل ودانائی کے معترف رہے، اب بلاوجہ اُسے جھوٹا یادیوانہ کیونکر کہہ سکتے ہو، کیا یہ وہی تمہارا رفیق نہیں ہے جس کی رتی رتی احوال کا تم پہلے سے تجربہ رکھتے ہو؟ اب اس کودیوانہ کہنا بجزدیوانگی کے کچھ نہیں، مشرقی کنارہ کے پاس آپ نے (جبرئیل کو)اس کی اصل صورت میں صاف صاف دیکھا، اس لیئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ شاید دیکھنے یاپہچاننے میں کچھ اشتباہ والتباس ہوگیا ہوگا، جب جھوٹ، دیوانگی تخیل وتوہم اور کہانت وغیرہ کے سب احتمالات مرفوع ہوئے توبجز صدق وحق کے اور کیا باقی رہا؛ پھراب اس روشن اور صاف راستہ کوچھوڑ کرکدھر بہکے جارہے ہو۔                     

(تفسیرعثمانی:۷۶۲)

قرآن کریم کی ان آیات میں نقل وروایت اور اس کے اعتماد وثقاہت کے جملہ اصول ملتے ہیں، قرآن کریم نے جس انداز میں انہیں بیان کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب اُصول فطرت ہیں جن سے کسی بات کی نقل وروایت میں اعتماد پیدا ہوتا ہے، بات کے لائق اعتماد ہونے کے تمام عقلی تقاضے ان قرآنی آیات میں لپٹے ہوئے ہیں؛ تاہم یہ صحیح ہے کہ اصولی درجے میں عدالت اور ضبط ہی وہ صفات ہیں جن کی تفصیلات آگے اُصول روایت بن کر پھیلیں اور مختلف پیرایوں میں راویوں اور ان کے باہمی تعلق سے آگے چلتی رہیں۔



راوی کے بنیادی اوصاف



راوی کے بنیادی اوصاف یہی ہیں کہ اس کی ذات کے بارے میں اعتماد ہوکہ وہ یاد رکھنے میں لائق وثوق ہے، اس کا ضبط قابل اعتماد ہے اور اس کی دیانت داری (امانت) پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمدطیب صاحبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند نے راوی کے اوصاف پر ایک نہایت جامع اور وجیز (وجیز کہتے ہیں جلدی سے سمجھ میں آنے والےمختصر کلام کو) بحث تحریرفرمائی ہے؛ لکھتے ہیں:

"راوی کے وہ تمام اوصاف جوبلحاظ روایت اس کی قبولیت کا معیار بن سکتے ہیں دواصولی صفات کی طرف راجع ہوتے ہیں، عدالت اور ضبط؛ اگرروایت کے راوی عادل ہوں جن میں عدالت کا فقدان یانقصان نہ ہو اور ادھر وہ ضابط ہوں جن میں حفظ وضبط اور تیقظ وبیداری کانقصان وفقدان نہ ہو اور قلت عدالت وضبط سے جوکمزوریاں راوی کولاحق ہوتی ہیں ان سے راوی پاک ہوں اور ساتھ ہی سندمسلسل اور متصل ہو تووہ روایت صحیح لذاتہ کہلائے گی، جواوصاف راوی کے لحاظ سے روایت کااعلی مرتبہ ہے؛ کیونکہ اس میں عدالت وضبط مکمل طریق پر موجود ہے، جوراویوں کوثقہ اور معتبر ثابت کرتا ہے؛ اس لیے اس دائرہ میں حدیث کی یہ قسم بنیادی اور اساسی کہلائے گی، اس کے بعدجوقسم بھی پیدا ہوگی وہ ان اوصاف کی کمی بیشی اور نقصان یافقدان سے پیدا ہوگی، اس لیے وہ اسی خبر کی فرع کہلائے گی، مثلاً اگرراوی ساقط العدالت ہوتو اس نقصانِ عدالت یافقدانِ عدالت سے پانچ اُصولی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں؛ جنھیں مطاعن حدیث کہا جاتا ہے:

(۱)کذب (۲)تہمت کذب (۳)فسق (۴)جہالت (۵)بدعت: یعنی راوی کاذب ہویاکذب کی تہمت لیئے ہوئے ہو یافاسق ہو یاجاہل ونادان ہو یابدعتی ہو توکہا جائے گا کہ وہ عادل نہیں، اس لیے اس کی روایت کا کوئی اعتبار نہیں؛ اسی طرح اگرراوی ضابط نہ ہوتو اس نقصان حفظ یافقدانِ حافظہ سے بھی پانچ ہی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں جوروایت کوبے اعتبار بنادیتی ہیں:

(۱)فرطِ غفلت (۲)کثرتِ غلط (۳)مخالفتِ ثقات (۴)وہم (۵)سوء حفظ: یعنی راوی غفلت شعار اورلااُبالی ہو، جس میں تیقظ اور احتیاط اور بیدار مغزی نہ ہو یاکثیرالاغلاط ہو یاثقہ لوگوں سے الگ نئی اور مخالف بات کہتا ہو یاوہمی ہو اسے خود ہی اپنی روایت میں شبہ پڑجاتا ہو یاحافظہ خراب ہو، بات بھول جاتا ہو توکہا جائے گا کہ یہ راوی ضبط وحفظ میں مضبوط نہیں، اس لیے اس کی روایت کا کچھ اعتبار نہیں؛ لیکن اس نقصانِ عدالت وضبط یاان دس مطاعن کے درجات ومراتب ہیں؛ اگران صفاتِ عدل وضبط میں کوئی معمولی سی کمی ہو؛ مگرروایت کے اور طریقوں اور سندوں کی کثرت سے ان کی کمزوریوں کی تلافی ہوجائے تواس حدیث کوصحیح لغیرہ کہیں گے؛ اگریہ تلافی اور جبر نقصان نہ ہو اور وہ معمولی کمزوریاں بدستور قائم رہ جائیں توحدیث حسن لذاتہ کہلائے گی؛ اگراس حالت میں بھی کثرتِ طرق سے تلافیٔ نقصان ہوجائے توحدیث حسن لغیرہ کہلائے گی اور اسی نسبت سے اُن کے اعتبار اور حجیت کا درجہ قائم ہوگا؛ پس اوصاف رواۃ کے لحاظ سے حدیث کی چار اساسی قسمیں نکل آئیں:

(۱)صحیح لذاتہ (۲)صحیح لغیرہ (۳)حسن لذاتہ (۴)حسن لغیرہ اور ان میں بھی بنیادی قسم صرف صحیح لذاتہ ہے جواپنے دائرہ میں سب سے اُونچی قسم ہے"۔

(فضل الباری، مولانا شبیراحمدعثمانیؒ:۱/۹۸۔ مقدمہ ، از مولانا قاری محمدطیب صاحبؒ)

بہرِحال وہ قواعد جن پر حدیث قبول کی گئی ہے کچھ یونہی مرتب نہیں ہوگئے؛ بلکہ ان میں قرآن کریم اور اُصولِ فطرت پوری ثقاہت سے کار فرما رہے ہیں، یہی قواعد محدثین کی اساس تھے اور انہیں پرعلم حدیث کا ذخیرہ ترتیب پاتا رہا اور اہلِ فن میں قبول بھی ہوتا گیا۔
آنحضرت   کے صحابہؓ نے بھی اس پر زور دیا کہ راوی کے بارے میں دیکھا جائے کہ اس کا ضبط اپنے اوپر کتنا ہے اور اسکی دیانت وامانت کیسی ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو (۶۷ھ) بیان کررہے تھے کہ آخری زمانہ میں شَر پھیل جائےگا، آپ سے پوچھا گیا کہ اس دور میں ہم حدیثِ رسول   کے بارے میں کیا کریں؟ آپ نے فرمایا:

"مااخذتموہ عمن تأمنونہ علی نفسہ ودینہ فاعقلوہ وعلیکم بالقرآن فتعلموہ وعلّموہ ابناءکم فانکم عنہ تسئلون وبہ تجزون وکفی بہ واعظاً لمن عقل"۔

(المحرر الوجیز للقاضی عبدالحق الاندلسی(۵۴۸ھ):۱/۱۱)

ترجمہ: جوحدیث تم اس راوی سے لوجسے تم اپنے میں سنبھلے پاؤ اور اسے دیانتدار سمجھوتواس کا اعتبار کرلو اور قرآن کولازم پکڑو، اسے سیکھو اور اپنے بچوں کوسکھاؤ اوراس کے بارے میں تم  قیامت کے دن پوچھے جاؤ گے اور اسی پر تمھیں جزا ملے گی اور سمجھ دار کے لیے اسی میں کافی مصلحت ہے۔

اس سے پتہ چلا کہ قبول روایت میں اصل الاصول یہی ہے کہ راوی کی ذات اور دیانت دونوں قابلِ بھروسہ ہوں، نہ اتنا کمزور ہو کہ یاد نہ رکھ سکے نہ اتنا عام کہ اس کی دیانت مشتبہ ہو، روایت کے لائق اعتماد نہ ہونے پر بحث کرتے ہوئے علامہ محمدبن جریر طبری (۳۱۰ھ) نے بھی صفاتِ جبرئیل کا ذکر کیا ہے:

جبرئیل اللہ تعالیٰ کے ہاں، اس کے پیغام میں اس کی روایت کرنے میں اور ان تمام کاموں میں جوان کے سپرد کیے گئے لائقِ اعتماد ہیں۔

چھٹی صدی کے مشہور شیعی مفسرالطبرسی (۵۴۸ھ) نے بھی حضرت جبرئیل علیہ السلام کے صاحب قوت ہونے پر بحث کرتے ہوئے اصول روایت میں جبرئیلی صفات سے استدلال کیا ہے۔                

  (تفسیرابن جریر:۳۰/۵۱۔ مجمع البیان:۵/۴۴۶)

یہ صفات راوی کا اصولی بیان ہے؛ چونکہ ان تمام مواقع میں حضرت جبرئیل امین اور حضور نبیٔ کریم   کے ہی راویت لینے اور دینے کا تذکرہ ہے، اس لیئے ان تمام مواقع پر خدائی حفاظت اور شانِ عصمت بھی کارفرما ہے اور ان کی روایت اپنی ہرادا میں غلطی اوربھول سے پاک ہے؛ لیکن جہاں تک دوسرے ثقہ راویوں کاتعلق ہے ان سے بعض اوقات غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں جن کا جبر دوسرے راویوں کی روایت سے کرلیا جاتا ہے اور یہ بات اہلِ فن کے نزدیک ان کی ثقاہت کوکمزور نہیں کرتی، حضرت مولانا سیدانور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں:

"ومن ظن ان الثقات براء من الاغلاط فلم یسلک سبیل السداد وانما المعصوم من عصمہ اللہ والجاھل لایفرق بین اغلاط الرواۃ وبین اخبار الانبیاء علیہم السلام فیحمل خبطھم واغلاطہم علی رقاب الرسل علیہم الصلوٰۃ والسلام مااضلہ ومااجھلہ"۔     

     (فیض الباری:۴/۸۶)

ترجمہ:اورجس نے یہ گمان کیا کہ ثقہ راوی غلطیوں سے کلیۃً مبراہیں، وہ صحیح رستے پر نہیں چلا، معصوم وہی ہے جسے الہٰی عصمت حاصل ہو، جاہل لوگ راویوں کی غلطیوں اور انبیاءکرام کی خبروں میں فرق نہیں کرتے، راویوں کے وہم اور اغلاط پیغمبروں کے ذمہ لگادیتے ہیں، کتنی بڑی گمراہی اور کتنی بڑی جہالت ہے۔

صفاتِ جبرئیلی کے ذکر میں صرف اُصول اعتماد مذکور ہیں، اللہ رب العزت سے ایک ہی خبرلانے والا اور اس سے ایک ہی خبر لینے والا تھا؛ سویہاں خبرِواحد کی بحث نہ تھی، جبرئیل امین اور حضورسیدالمرسلین   دونوں معصوم تھے، جہاں تثبت اور عصمت پوری قوت اورتحدّی سے کارفرما ہوں، وہاں خبرِواحد اور خبرِ متواتر دونوں برابر ہیں، ایک معصوم کی بات بھی یقین کا فائدہ دیتی ہے، دومعصوموں کی بات بھی اسی یقین کوقائم کرتی ہے اور دوسے زیادہ معصوموں کی بات بھی اسی یقین تک پہنچاتی ہے؛ سوخدائی حفاظت کے ساتھ خبرِواحد اور خبرِمتواتر دونوں میں کوئی فرق نہیں رہتا، ہاں!جہاں خدائی حفاظت کا وعدہ نہ ہو، وہاں کثرۃِ رواۃ سے روایت بے شک پختہ ہوجاتی ہے، قرآنِ کریم نے خبرِواحد کی قبولیت کا ایک دوسری جگہ ذکر فرمایا ہے اور شرط لگائی ہے کہ راوی فسق سے مجروح نہ ہو اوراگر ایسی جرح موجود ہوپھربھی روایت کلیۃً رد کرنے کے لائق نہیں؛ بلکہ اور ذرائع اور قرائن سے اس کی تحقیق کرلی جائے۔



فسق راوی اورمظنہ جہالت




قرآن کریم میں ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَافَعَلْتُمْ نَادِمِينَ"۔ 

  (الحجرات:۶)

ترجمہ:اے ایمان والو! اگرکوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبرلے کر آئے توتحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہوکہ کسی قوم پر نادانی سے جاپڑا اور کل اپنے کیئے پر پچھتانے لگو۔

قرآن کریم کی اس آیت سے تین اہم باتیں معلوم ہوئیں:
(۱)ایک یہ کہ فاسق کی روایت از خود حجت نہیں۔
(۲)دوسرے یہ کہ فاسق کی روایت کلیۃً واجب الرد بھی نہیں؛ بلکہ مزید لائقِ تحقیق ہے۔
(۳)تیسرے یہ کہ خبرِواحد قابلِ قبول ہے؛ بشرطیکہ اسے نقل کرنے والا فاسق نہ ہو، یہ تب اگرمفہوم مخالف کا اعتبار کیا جائے؛ اگرخبرِواحد معتبر نہ ہوتی تووجہ تبین صرف فسق نہ ہوتا، راوی کا ایک ہونا بھی مزید تائید کا محتاج ہوتا۔
اس آیت کی رُو سے کسی خبر کے بارے میں دوباتیں موجب جرح ہیں: (۱)راوی کا فسق (۲)صورتِ واقعہ سے بے خبری، جہاں راوی کی دیانت اور اصل بات کی یاد (حفظ وثبت) قائم ہو وہاں خبر جرح سے محفوظ اور قابلِ قبول سمجھی جائے گی، محدثین کرام کے نزدیک روایت کی تحقیق اور پڑتال کے انداز بہت ہیں؛ لیکن ان سب کا اجمال یہ ہے کہ حدیث روایت کرنے والا راوی مخلصانہ دیانت Sincere righteousness اور اچھی یادداشت Strong Memory رکھتا ہو، جہاں حافظہ کمزور ہوگا یادداشت مشتبہ ہوگی، روایت کمزور پڑتی جائے گی۔
آیتِ مذکورہ بالا اگرچہ ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے؛ لیکن اس کا حکم عام ہے اور حدیث قبول کرنے کے بارے میں محدثین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ فاسق کی روایت قابلِ قبول نہیں؛ مزیدتحقیق سے اسے قبول کرلیا جائے تویہ امردیگر ہے، حضرت امام مسلمؒ اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

"أَنَّ الْوَاجِبَ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ عَرَفَ التَّمْيِيزَ بَيْنَ صَحِيحِ الرِّوَايَاتِ وَسَقِيمِهَا..... وَأَنْ يَتَّقِيَ مِنْهَا مَاكَانَ مِنْهَا عَنْ أَهْلِ التُّهَمِ وَالْمُعَانِدِينَ مِنْ أَهْلِ الْبِدَعِ وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الَّذِي قُلْنَا مِنْ هَذَا هُوَ اللَّازِمُ دُونَ مَاخَالَفَهُ قَوْلُ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا}..... أَنَّ خَبَرَ الْفَاسِقِ سَاقِطٌ غَيْرُ مَقْبُولٍ"۔          

  (مقدمہ صحیح مسلم:۱/۶)

ترجمہ: ہرایک کے ذمہ واجب ہے جوصحیح اور کمزور روایات میں فرق جان سکے کہ..... اور جوبات اہلِ تہمت اور معاند اہلِ بدعت سے مروی ہو اس سے بچے اور جس چیز کوہم نے اوروں کے موقف کے خلاف لازم ٹھہرایا ہے اس پر دلیل اللہ تبارک وتعالی کا یہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! اگرتمہارے پاس کوئی فاسق ایک روایت لے کر آئے تواس کی تحقیق کرلیا کرو..... بے شک فاسق کی خبرازخود ساقط اور غیرمقبول ہے۔

امام بخاریؒ "باب ماجاء فی اجازۃ الخبرالواحد الصدوق" میں لکھتے ہیں:

"وقولہ تعالیٰ ان جاءکم فاسق بنبا فتبینوا وکیف بعث النبی امرأہ واحدًا بعد واحد"۔

(صحیح بخاری:۹/۱۰۷)

ترجمہ: اورقول خداوندی ہے؛ اگرتمہارے پاس کوئی فاسق ایک خبرلے کر آئے تواسے تحقیق کرلیا کرو اور حضور   نے اپنے امیرکس طرح ایک کے بعد ایک بھیجے۔

نوٹ:ایک شخص کی روایت اگرلائقِ قبول نہ ہوتی توحضور   کبھی ایک ایک شخص کواپنے احکام دے کر کہیں نہ بھیجتے اور نہ ایک فاسق کی خبر پر مزید تحقیق کی ضرورت سمجھی جاتی، شیعہ محدثین نے بھی حدیث کے بارے میں اس آیت سے استدلال کیا ہے، ملاتقی مجلسی (۱۰۷۰ھ) "من لایحضرہ الفقیہہ” کی شرح "لوامع صاحبقرانی المسمّٰی بہ شرح الفقیہ” میں لکھتے ہیں:

"اس سے واضح ہے کہ شخص واحد کی خبراس کے فاسق ہونے کے باوجود بھی معتبر اور حجت ہونے کی شان رکھتی ہے؛ بشرطیکہ تحقیق میں آجائے اور حجت بھی ایسے اہم معاملات میں جن کے بگڑ جانے کی صورت میں ندامت اُٹھانی پڑے جوکسی اہم اور بڑے ہی معاملہ کی شان ہوتی ہے، حاصل یہ نکلا کہ شخص واحد کی خبر بھی قرآنی اُصول پر قابلِ رد یاغیر معتبر نہیں؛ بلکہ تبیین وتحقیق کے بعدمعتبر اور بڑے بڑے معاملات میں حجت ہوتی ہے، جس پر دیانتًا معاملہ کا فیصلہ ہوجاتا ہے، روکا اگرگیا ہے توقبل ازتحقیق اس پر عمل کرنے سے نہ کہ مطلقاً؛ ورنہ یوں کہا جاتاکہ فاسق اگرکوئی خبرلائے توہرگزاس کی بات کا اعتبار مت کرو؛ ورنہ یہ کہ تحقیق کے بعد اسے مان لو اور معتبر سمجھو؛ پس تحقیق کی شرط اس لیے لگائی کہ خبردہندہ اور روایت کنندہ کے فسق وفجور سے اس کی خبر میں جوبےاعتباری کی گنجائش پیدا ہوگئی تھی وہ ختم ہوجائے اور خبرقابلِ اعتبار ہو جائے؛ مگرخبربہرحال وہ ایک ہی کی رہے گی، اس لیے صاف ثابت ہوا کہ ایک کی روایت معتبر اور معاملات میں حجت ہے، اب اگر خبردینے والا فرد فاسق بھی نہ ہو؛ بلکہ غیرمجروح ہو جیسے رَجُل یَّسْعٰی کی خبر تووہ بلاتبیین بھی اس اُصول سے قابلِ قبول بن سکتی ہے اور اگرراوی غیرمجروح ہونے کے ساتھ عادل ومتقی متدین اور امین ہو، جیسے ملائکہ وانبیاء اور صلحاء تواس اُصول پر اس کی بلاواسطہ خبرکومعتبر ماننے کے لیے قطعا تبیین وتحقیق کی ضرورت نہیں رہنی چاہیے؛ لیکن اگروسائط کی وجہ سے اس پر بھی تحقیق وتبیین کرلی جائے توپھر تویہ خبربطریق اولیٰ واجب الاعتبار بن جائے گی؛ مگربہرصورت رہے گی خبر فرد ہی؛ اس لیے خبرفرد جسے خبرغریب بھی کہتے ہیں قرآن کی رو سے معتبر اور حجت ثابت ہوگئی؛ گواس کی حجیت درجۂ ظن ہی کی حد تک ہوکر ظنیات بھی شرعاً حجت اور معاملات میں قانوناً مؤثر ہوتے ہیں؛ کیونکہ ظنیات کے معنی وہمیات کے نہیں؛ بلکہ صرف اس کے ہیں کہ خبر پر وثوق واعتماد کے ساتھ جانب مخالف کا احتمال بھی باقی رہے نہ یہ کہ اصل خبر بے اعتبار اور قابلِ رد ہوجائے؛ البتہ اس کے ساتھ اس راوی واحد کی جوثقہ اور عادل ہے تحقیق بھی کرلی جاے، یعنی اس خبر کے متابعات، مؤیدات اور شواہد وقرائن بھی فراہم ہوجائیں توپھراس خبرفرد سے ظن اس حد تک بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یقین کی سرحد سے جاملے اور ایسی خبراگرقطعیت کے ساتھ درجۂ یقین تک نہ پہنچے گی توشبۂ یقین تک ضرور پہنچ جائے گی، جس کا نام اصطلاح میں غلبۂ ظن ہے؛ سوایسی خبراصول وآئین کی رو سے نہ رد کی جاسکتی ہے نہ غیرمعتبر ٹھہرائی جاسکتی؛ بلکہ بعد تبیین اُسے معتبر قرار دیتا ہے توایک ثقہ اور عال کی خبر کواس قرآنی اصول کی روشنی میں کیسے ردکیا جاسکتا ہے؟ اس لیے خبر فرد اور اس کی حجیت کا ثبوت آیاتِ بالا سے بہت کافی وضاحت کے ساتھ ہوجاتا ہے"۔

(مقدمہ فضل الباری:۱/۹۶)



خبرواحد کے لائق قبول ہونے میں قرآنی موقف



قرآن کریم کی یہ آیت کہ فاسق کی روایت بغیر مزید تحقیق کے قابلِ قبول نہیں، بتلاتی ہے کہ اگروہ راوی فاسق نہ ہوتا تواس کی روایت لائق قبول تھی، اسلام میں اگرخبرواحد کا اعتبار نہ ہوتا توقرآن کریم فاسق کی روایت کوصرف فسق کی بناء پررد نہ کرتا، خبرواحد کی بناء پر بھی رد کرتا، خبرواحد کے لائق قبول ہونے پر امام بخاریؒ (۲۵۶ھ) نے قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئے اس آیت کوبھی پیش کیا ہے، آپ لکھتے ہیں:

 "بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الْأَذَانِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالْأَحْكَامِ وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَارَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ} وَيُسَمَّى الرَّجُلُ طَائِفَةً لِقَوْلِهِ تَعَالَى {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا} فَلَوْ اقْتَتَلَ رَجُلَانِ دَخَلَ فِي مَعْنَى الْآيَةِ وَقَوْلُهُ تَعَالَى {إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا} وَكَيْفَ بَعَثَ النَّبِيُّ   أُمَرَاءَهُ وَاحِدًا بَعْدَ وَاحِدٍ فَإِنْ سَهَا أَحَدٌ مِنْهُمْ رُدَّ إِلَى السُّنَّةِ"۔

(صحیح بخاری،كِتَاب أَخْبَارِالْآحَادِ،بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ:صفحہ نمبر:۲۲/۲۰۶، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: ایک سچے راوی کی خبراذان، نماز، روزہ اور فرائض واحکام کے بارے میں جائز ہونے کے باب میں جوکچھ آیا ہے اللہ تعالی کا فرمان کہ ہرفرقہ سے کیوں نہ ایک طائفہ نکلا کہ وہ دین میں تفقہ حاصل کرتے اور واپس لوٹ کر اپنی قوم کوڈراتے؛ تاکہ وہ بچ جاتے، ایک آدمی کوبھی طائفہ کہہ دیتے ہیں خدا تعالیٰ کا فرمانا ہے اگرمؤمنوں کے دوطائفے آپس میں لڑیں تواگر دوشخص بھی آپس میں لڑیں گے تووہ اس آیت کے تحت آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے؛ اگرتمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبرلے کر آئے تواس کی تحقیق کرلیا کرو اور حضور   نے کیسے اپنے امراء ایک ایک کرکے بھیجے، ان میں سے اگر کوئی بھول جائے توبات سنت کی طرف لوٹائی جائے گی۔




خبرِواحد کے لائق قبول ہونے پر نبوی موقف



آنحضرت   نے جواسلامی معاشرہ ترتیب دیا اس میں خبرواحد کی بناء پر بہت احکام چلتے تھے، دینی اطلاعات میں فرائض تک کا اعلان خبرِواحد سے کافی سمجھاجاتا اور اس پر اس پہلو سے کہیں نکیر نہ سنی گئی:

(۱)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ إِذْجَاءَهُمْ آتٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْكَعْبَةِ"۔

(بخاری،كِتَاب أَخْبَارِالْآحَادِ،بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِالْوَاحِدِ،حدیث نمبر:۶۷۱۰، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ لوگ صبح کی نماز کے لیے مسجد قباء میں تھے کہ اُن کےپاس ایک آنے والا آیااس نے کہا کہ آج رات حضورؐ پرحکم قرآنی اُترا ہے کہ آپ نماز میں کعبہ کی طرف رُخ کیا کریں؛ سوتم کعبہ کوہی قبلہ بناؤ ان لوگوں کے رُخ شام کی طرف تھے؛ سوسب کعبہ کی طرف گھوم گئے۔

نماز دین کا ستون ہے، صحابہ کرام اگر اس میں ایک خبرلانے والے پر اعتماد کرکے اپنا قبلہ بدل سکتے ہیں توظاہر ہے کہ اس معاشرہ میں خبرِواحد بشرطیکہ خبرلانے والا ثقہ عادل اور قابلِ اعتماد ہوتو کتنا قانونی اور اخلاقی وزن ہوگا، اس پر آپ خود ہی غور فرمالیں۔

(۲) "عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَهْلِ نَجْرَانَ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ فَاسْتَشْرَفَ لَهَا أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ"۔

(بخاری،كِتَاب أَخْبَارِالْآحَادِ،بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِالْوَاحِدِ،حدیث نمبر:۶۷۱۳، شاملہ، موقع الإسلام)

حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم   نے اہلِ نجران کوفرمایا میں تمہاری طرف ایک پورے امین شخص کوبھیجوں گا، سب صحابہ سراُٹھاکر دیکھنے لگے (کہ آپ کس کو بھیجتے ہیں اور کون ایسا امین ہے جوحق امانت کا پورا حامل ہو) سوآپ نے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔

اہلِ نجران کے سامنے اگرایک شخص اسلام کی آواز لگاسکتا تھا اور وہ ساری قوم اس کی مکلف ہوسکتی ہے کہ اس ایک کی بتائی ہوئی دینی رہنمائی کواسلام اور حضور   کی تعلیم سمجھے توخبرواحد کے لائق قبول ہونے میں کسی کوکیا شک ہوسکتا ہے، حضور   نے اہلِ نجران کواس راوی کی صفات بیان کرتے ہوئے جوان کے ہاں دین کوروایت کرے گا، خبردی کہ وہ راوی امین ہوگا، اس سے پتہ چلتا ہےکہ امین راوی کی بنیادی صفت ہے، حافظے کے پہلو سے بھی وہ امین ہو، اس سے کوئی بات رہ نہ جائے اور دیانت کے پہلو سے بھی وہ امین ہوکوئی غلط بات نہ کہہ سکے۔

(۳)"عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَكَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِذَاغَابَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدْتُهُ أَتَيْتُهُ بِمَا يَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِذَاغِبْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدَهُ أَتَانِي بِمَايَكُونُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔

(بخاری،كِتَاب أَخْبَارِالْآحَادِ،بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِالْوَاحِدِ،حدیث نمبر:۶۷۱۵، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری جب کبھی حضور   کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکتے توانہیں حضور   کی باتیں میں بتادیا کرتا تھا اور جب کبھی میں حضور   سے غائب ہوتا اور وہ انصاری حاضر ہوتے تووہ مجھے حضور   کی باتیں بتادیا کرتے تھے۔

یہ آنحضرت   کے دوصحابی جب ایک دوسرے کے سامنے حضور   کی وہ تعلیمات نقل کرتے جواُس ایک نے حضور   سے سنی ہوتیں تواسے سن کر اسے پوری طرح قبول کرلیتے، کیا یہ اس اَمر کی کھلی شہادت نہیں کہ حضور   نے جواسلامی معاشرہ قائم کیا تھا اس میں خبرِواحد بلاتردد لائقِ قبول سمجھی جاتی تھی، صرف یہی دیکھا جاتا تھا کہ خبرِواحد لانے والا وہ شخص کس درجہ کا ثقہ اور امین ہے۔
قواعدِ حدیث کے اصولِ اعتماد جس طرح قرآنی آیات میں دلالت اور اشارت سے لپٹے ہوئے ملے تھے، انہیں ہم نے نبوی موقف میں بھی نہایت واضح طور پر موجود پایا، خبر دینے والا ثقہ اور امین ہوتوخبر واحد بلاتردد قبول کی جائے گی، اب صرف ایک بات لائقِ غور رہ جاتی ہے کہ نقل روایت میں الفاظ کی پابندی ضروری ہے یاروایت بالمعنی بھی کفایت کرسکتی ہے۔



روایت بالمعنی کے لائق قبول ہونے میں قرآنی موقف



تاریخِ مذاہب کا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت آدم وحوا علیہما السلام نے شجرِممنوعہ کا پھل چکھا تواللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا کہ دونوں نیچے اُترجاؤ، یہ واقعہ قرآنِ کریم میں کئی طرح سے منقول ہے:

(۱)"قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَايَضِلُّ وَلَايَشْقَى"۔                       

     (طٰہٰ:۱۲۳)

ترجمہ: خدا نے کہا تم دونوں اکٹھے اس سے نیچے اترو کہ ایک کا دشمن ایک ہوگا؛ پھراگرتمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے توجواس کا اتباع کرے گا تووہ نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں شقی ہوگا۔

(۲)"قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ"۔

(الاعراف:۲۴)

ترجمہ:خدا نے کہا تم سب نیچے اُترو ایک دوسرے کے تم دشمن ہوگئے اور تمہارے لیئے زمین میں ٹھکانہ اور رہنا ہے ایک وقت تک۔

(۳)"قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَاخَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ"۔          

          (البقرۃ:۳۸)

ترجمہ: ہم نے کہا اُترجاؤ جنت سے سب کے سب سوپھراگرآئے تمہارے پاس میری طرف سے پیغام ہدایت توجس نے میری پیروی کی اُن پر کوئی خوف نہ ہوگا نہ وہغمگین ہوں گے۔

یہ ایک ہی واقعہ کی تین مختلف تعبیریں ہیں، رب العزت نے جب یہ بات کہی ہوگی توظاہر ہے کہ ایک بات کہی ہوگی اور باقی تعبیرات اس بات کی روایت بالمعنی ہوں گی، روایت بالمعنی اگر جائز نہ ہوتی توقرآن کریم ایک بات کومختلف تعبیرات میں پیش نہ کرتا، رب العزت نے جب فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کوسجدہ کروتویاتو کہا ہوگا "اسْجُدُوالِآدَمَ"(البقرۃ:۳۴)یاکہا ہوگا"فَقَعُوالَهُ سَاجِدِينَ" (الحجر:۲۹)ظاہر ہے کہ ان دومیں ایک تعبیر ضرور روایت بالمعنی بنے گی، علامہ محمود آلوسیؒ نے بھی ان آیات سے روایت بالمعنی کا اشارہ کیا ہے۔

(دیکھئے، رُوحُ المعانی:۱/۲۳۶۔ رُوحُ المعانی:۸/۸۹)



قبولیتِ روایت میں اصل الاُصول اعتماد ہے



قرآن کریم کی رُو سے فاسق کی خبر بھی مطلقاً رد نہیں؛ بلکہ اس کی مزید تحقیق کی جائے گی، دوسرے ذرائع اور قرائن سے اس کی تحقیق ہوجائے تواسے بھی قبول کیا جاے گا، بات کے لائقِ اعتماد ہونے میں نبوی موقف بھی آپ کے سامنے آچکا؛ اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ قبولیتِ روایت میں اصل الاصول اعتماد اور وثوق ہے، جب یہ حاصل ہوجاے تویہی مدارِ عمل ہے، نہ خبر کا ایک راوی سے ہونا اس میں رُکاوٹ بن سکتا ہے نہ روایت کا بالمعنی مروی ہونا اس میں سبب قدح ہوسکتا ہے؛ یہاں تک کہ بعض صورتوں میں سند کا متصل ہونا بھی ضروری نہیں، نچلاراوی اگرکوئیمسلّم علمی شخصیت ہو اور روایت استدلال میں پیش کی جارہی ہوتو یہ مرسل روایتInterrupted report بھی اعتماد وثوق پر قبول کی جاسکتی ہے۔
صحابہ کرامؓ کے پاس حضورؐ کی کوئی بات پہنچتی توگواس کا حضورؐ سے براہِ راست نقل کرنے والا نہ بھی ملتا وہ اُس کی تحقیق میں برابر لگ جاتے اگراتصالِ روایت نہ ملتا اور ایسے قرائن میسر آجاتے (مثلاً مختلف تابعینِ کرام جو مختلف شہروں میں رہتے ہوں اور آپس میں ملاقات نہ ہوئی ہو دین کے کسی موضوع میں ایک ہی بات کہیں توظاہر ہے کہ وہ بات انہوں نے مختلف صحابہ کرامؓ سے لی ہوگی اور اگر اس میں اجتہاد کا پہلو نہ ہوتو اسے بحالات، حضور   کی بات ہی سمجھا جائے گا) جن سے پتہ چل جاتا کہ یہ روایت حضور   کی ہے تووہ اس کوقابلِ قبول سمجھتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے اور روایت کا متصل نہ ہونا اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتا تھا، حضرت عمرؓ کوبتایا گیا کہ حضور   کا ارشاد ہے کہ حجاز میں دودین جمع نہیں ہوسکتے، بیان کرنے والا صحابی تھا یاتابعی، بصورتِ اولیٰ صحابی نے خود حضور   سے یہ بات سنی تھی یاکسی اور نے اس کے سامنے یہ روایت نقل کی تھی، ان تمام امور میں یہ خبر مجہولUnknown تھی، حضرت عمرؓ نے اس پر مزید تحقیق اور تفحص فرمایا؛ یہاں تک کہ آپ کواس پر وثوق واعتماد حاصل ہوگیا اور آپ نے اس پر عمل فرمایا، محدث شہیرعبدالرزاق الصنعانی (۲۱۱ھ) کہتے ہیں:

"اخبران النبی   قال فی وجعہ الذی مات فیہ لایجتمع بارض الحجاز دینان ففحص عن ذلک حتی وجد علیہ التثبت"۔             

     (المصنف لعبدالرزاق:۴/۱۲۶)

حضرت عمرؓ کوبتایا گیا کہ حضوراکرم   نے اپنے اس مرض میں جس میں وفات پائی تھی کہا تھا کہ اس زمین حجاز میں دودین جمع نہ ہونے پائیں (یہ مرکزِ اسلام ہے جہاں صرف اسلام ہی رہے گا) آپ نے اس کی تحقیق فرمائی اور اس پر تثبت پالیا (کہ یہ واقعی صحیح خبر تھی)۔

وہ صحابی کون تھے جنہوں نے حضور   سے یہ بات سنی تھی ان کا نام نہیں ملا، امام مالکؒ نے مؤطا میں اسے امام زہریؒ (۱۲۴ھ) سے روایت کیا ہے کہ حضور   نے یہ فرمایا تھا، صحابی کا نام درمیان میں نہیں ملتا؛ مگرچونکہ اور ذرائع سے اس کی تحقیق ہوگئی اور وہ تحقیق بھی خود حضرت عمرؓ نے ہی فرمائی تھی، اس لیئے اس روایت کومحض اس لیئے قبول کرلیا گیا کہ اس پر دوسرے ذرائع سے تثبت ووثوق حاصل ہوچکا ہے، معلوم ہوا کہ ان دنوں اصل"سندکااتصال " نہیں تھا، قبولیت روایت میں اصل الاصول اعتماد تھا، جب یہ حاصل ہوجائے توروایت قابلِ عمل ہوجاتی تھی اور اسی پر حضرت عمرؓ نے یہودیوں کاخیبر سے اخراج کیا تھا(مؤطا امام مالکؒ:۲۶۰) امام محمدؒ (۱۸۹ھ) اس حدیث کواس طرح نقل کرتے ہیں:

"بلغنا عن النبی   انہ لایبقیٰ دینان فی جزیرۃ العرب فاخرج عمر من لم یکن مسلماً من جزیرۃ العرب لہٰذا الحدیث"۔            

(موطا امام محمد:۳۷۳)

ترجمہ: ہمیں حضور   سے یہ بات پہنچی ہے آپ نے فرمایا کہ جزیرۃ العرب میں دودین باقی نہ رہ سکیں گے حضرت عمرؓ نے اس حدیث کی وجہ سے ہراس شخص کوجومسلمان نہ تھا جزیرۂ عرب میں نہ رہنے دیا۔

یہاں پر حضرت عمرؓ نے سند کا اتصال نہیں دیکھا؛ بلکہ قرائن وذرائع سے اس کی تحقیق فرمائی جب ثابت ہوگیا کہ آنحضرت   کا ارشاد یہ ہے توآپ نے اس پر عملی قدم اُٹھایا اور یہودیوں کا اخراج فرمایا، پتہ چلا کہ کبھی قرائن بھی ایسے باوثوق ہوتے تھے کہ انکار کی گنجائش نہیں ہوتی، حضرت عمرؓ کے اس طریقِ کار پر کسی صحابی نے جرح نہیں کی، نہ آپ پر کسی نے کوئی اُنگلی اُٹھائی؛ بلکہ آپ کی اس تحقیق کے بعد سارے صحابہؓ اس پر متفق ہوگئے کہ حضور  کی تعلیم یہی ہے۔



کل صحابہ ؓ اجمعین عادل اور لائقِ اعتماد



قبولیتِ روایت میں اعتماد یہاں تک دخیل رہا کہ نقل وروایت میں "کل صحابہ عادل اور لائق اعتماد" مانے گئے "الصحابۃ کلھم عدول" آپ نے سنا ہوگا، سب صحابہ ایک دوسرے کے نزدیک ثقہ اور دیانت دار تھے، کوئی کسی کے ہاں جھوٹا نہ تھا، صحابہ کرام سب کے سب عادل تھے؛آپس میں ان کے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں، مسائل میں بھی کتنے ہی اختلاف واقع ہوچکے ہوں، فقہی موقف بھی جدا جدا ہوچکے ہوں؛ مگرآنحضرت   کی بات نقل کرنے میں سب کے سب ثقہ اور قابلِ اعتماد سمجھے جاتے تھے، حضور   پرکوئی صحابی جھوٹ کہے اس کا اُن کے ہاں تصور بھی نہ ہوسکتا تھا، حافظ ابن عبدالبر مالکی (۴۶۳ھ) حضرت امام مزنی سے حدیث اصحابی کالنجوم نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وھذا یبین لک ان قول النبی  اصحابی کالنجوم ھوعلی مافسرہ المزنی وغیرہ من اہل النظران ذلک فی النقل لان جمیعہم ثقات مامونون عدل رضی فواجب قبول مانقل کل واحد منہم وشھدبہ علی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم"۔ 

(التمہید:۴/۲۶۳)

ترجمہ: یہ بات تمھیں بتلاتی ہے کہ حضور   کا فرمان کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جیسا کہ اہلِ نظر میں سے امام مزنی نے اس کی تشریح کی ہے یہ ہے کہ یہ بات حضور  سے نقل کرنے میں ہے کیونکہ سب کے سب صحابہؓ ثقہ امین اور عادل ہیں، سوہرایک سے جونقل پہنچی اور جس نے جوشہادت بھی اپنے نبی کے بارے میں دی اس کاقبول کرنا واجب ہے۔




ایک شبہ کا ازالہ



بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ بھی ایک دوسرے پرجھوٹ کی چوٹ کرجاتے تھے، یہ صحیح نہیں، عربی میں لفظ کذب صرف جھوٹ کے معنی میں نہیں، بعض دفعہ خلافِ واقع بات کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے؛ مگراُردو میں یہ لفظ صرف جھوٹ کے معنوں میں آتا ہے، صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کی بات کواگر کبھی خلافِ واقع کہتے تھے بھی تواس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ فلاں صحابی کی بات صحیح نہیں (انہیں غلطی واقع ہورہی ہے) یہ نہیں کہ وہ صحابی (معاذ اللہ) جھوٹ بول رہے ہیں، صحابہ کرامؓ سے اس قسم کی بات عادۃ ہرگز ممکن نہ تھی، مشہور محدث علامہ خطابی (۳۸۸ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں:

"قولہ کذب ابومحمد یرید اخطأ ولم یرد بہ تعمد الکذب الذی ھو عند الصدق"۔

(معالم السنن للخطابی:۱/۱۳۴)

ترجمہ: اسکا کہنا کہ ابومحمدنے کذب (غلط) کہا، اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے غلطی کی کہنے والے کی مراد یہ نہیں کہ اس نے جھوٹ بولا جوسچ کی ضد ہوتی ہے۔

پھرایک صحابی کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ھورجل من الانصار لہ صحبۃ والکذب علیہ فی الاخبار غیرجائز والعرب تضع الکذب موضع الخطأ فی کلامہا فنقول کذب سمعی وکذب بصری ای زل ولم یدرک مارأی وماسمع"۔          

(معالم السنن للخطابی:۱/۱۳۵)

ترجمہ:وہ انصاری صحابی ہیں ان پر خبر میں جھوٹ بولنے کا الزام جائز نہیں، عرب بات میں غلطی کرنے پر بھی کذب کا لفظ بولتے ہیں، مثلاً کہتے ہیں میرے کان نے (کذب) غلطی کی، میری آنکھ نے (کذب) غلطی کی یعنی وہ پھسل گئی اور جودیکھا اور سنا اسے نہ سمجھ سکا۔

اس محاورے کی تائید ایک واقعہ سے بھی ہوتی ہے، حضرت عبداللہ بن سلامؓ اورحضرت کعب احبارؓ کے مابین اختلاف ہوا کہ وہ گھڑی جس میں دُعا لازماً قبول ہوتی ہے سال میں ایک دفعہ آتی ہے یاہفتہ وار؟ حضرت عبداللہ بن سلامؓ حضور   سے نقل کررہے تھے کہ وہ گھڑی ہرجمعہ آتی ہے، حضرت کعبؓ کہہ رہے تھے کہ نہیں سال میں ایک دفعہ آتی ہے، امام نسائی (۳۰۳ھ) روایت کرتے ہیں کہ:

"قَالَ كَعْبٌ ذَلِكَ يَوْمٌ فِي كُلِّ سَنَةٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ كَذَبَ كَعْبٌ قُلْتُ ثُمَّ قَرَأَ كَعْبٌ فَقَالَ صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔

(سنن النسائی،كِتَاب الْجُمْعَةِ، بَابُ ذِكْرُ السَّاعَةِ الَّتِي يُسْتَجَابُ فِيهَا الدُّعَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ،حدیث نمبر:۱۴۱۳، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:کعب نے کہا وہ گھڑی سال میں ایک دفعہ آتی ہے، عبداللہ بن سلام کہنے لگے کعب کی زبان سے جھوٹ نکل گیا؛ پھرکعب نے تورات پڑھی اور کہا کہ حضورِپاک   نے سچ فرمایا۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام کا کذب کعبؓ کہنا ان پر جھوٹ کی چوٹ کرنا نہیں تھا؛ نہ یہ مطلب تھا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں، ان کی مراد صرف یہ تھی کہ کعبؓ غلط کہہ رہے ہیں؛ چنانچہ کعبؓ نے جب تورات مطالعہ کی تواپنی غلطی تسلیم کرلی اور کہا "صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" حضور   نے سچ کہا۔



عدالتِ صحابہ ؓ اجمعین کی نرالی شان



صحابہ عام ثقہ روات کی طرح نہیں؛ دیگرراوی گوکتنے ہی ثقہ ہوں کثرتِ روات سے اُن کی روایت میں قوت ضرور آتی ہے؛ لیکن صحابی ایک بھی حضور   سے روایت کردے تواب مناسب نہیں کہ اس کی تائید میں اور صحابہ سے بھی مزید تحقیق کی جائے اس کا مطلب تویہ ہوگا کہ اس تحقیق کرنے والے نے صحابی کوناقل ہی سمجھا خود سند نہ سمجھا؛ ورنہ اس کے بعد وہ ایک صحابی سے سن کردوسرے کسی اور راوی کی تلاش نہ کرتا، صحابہؓ سے اس کی تائید لینا اگرروایت میں قوت پیدا کرتا توامیرالمؤمنین حضرت عمرؓ حضرت سعدؓ سے مروی روایت کے بعد اس کی مزید تحقیق سے نہ روکتے، علم جس قدر پختہ ہو اس میں کیا حرج تھا، معلوم ہوا صحابیؓ کا حضور   سے کسی بات کونقل کردینا علم کا وہ نقطۂ عروج ہے کہ اب اس کے بعد کوئی خلجان باقی نہ رہنا چاہئے، حضرت عمرؓ نے فرمایا:

"إِذَاحَدَّثَكَ شَيْئًا سَعْدٌ عَنْ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا تَسْأَلْ عَنْهُ غَيْرَهُ"۔

(بخاری،كِتَاب الْوُضُوءِ، بَاب الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ،حدیث نمبر:۱۹۵، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: جب سعدتمہارے پاس حضور   کی کوئی بات نقل کریں تواس کے بارے میں کسی اور سے نہ پوچھنا۔




مرسلاتِ صحابہ ؓ اجمعین پر اعتماد



ائمہ اربعہ میں گواختلاف ہے کہ روایتِ مرسل جس میں تابعی حضور   سے براہِ راست روایت کرے قبول کی جائے یانہ؟ امام اعظم ابوحنیفہ النعمانؒ اور امام مالکؒ ثقہ تابعی کی مرسل کوقبول کرتے ہیں اور امام شافعیؒ وامام بخاریؒ اسے قبول نہیں کرتے؛ لیکن اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ صحابہ کی مرسل سب کی سب قبول ہیں۔
صحابہ کی مرسلات سے وہ روایات مراد ہیں جن میں صحابی حضور  سے اس دور کی روایت نقل کرے جب وہ اس دور میں مسلمان نہ ہوا تھا یاحضور   کے ہاں موجود نہ تھا، ظاہر ہے کہ اس نے وہ بات کسی اور صحابی سے جووہاں موقع پر موجود ہوگا سنی ہوگی اور اب وہ اس کا نام ذکر نہیں کررہا ہے یااس نے اسے حضور   سے سنا ہوگا اور اب وہ اسے حضور   کے نام سے روایت نہیں کررہا اس دور کی بات کواپنی طرف سے روایت کررہا ہے، صحابہؓ کی یہ مرسلات بالاتفاق مقبول ہیں، درمیانے راوی کی تلاش اس وقت ہوتی ہے جب اس کی ثقاہت معلوم کرنی ضروری ہو، صحابہؓ چونکہ کلہم ثقہ اور عادل ہیں اس لیے ان میں سے کسی کا معلوم نہ ہونا قبولیتِ روایت میں قادح نہیں ہوسکتا، مثلاً صحیح بخاری کی دوسری روایت اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے آپ اس میں یہ بیان کرتی ہیں کہ حضور   پر وحی کا آغاز کیسے ہوا؟ ظاہر ہے کہ اس وقت تک حضرت عائشہ کی پیدائش بھی نہ ہوئی تھی اور وہ دور آپؓ کا دیکھا ہوا نہ تھا آپؓ نےیہ حالات وواقعات کسی اور صحابی سے یاخود حضور   سے سنے ہوں گے؛ مگرآپ اس واسطۂ روایت کو ذکر نہیں کررہی ہیں، یہ مرسل روایت حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ثقاہت اور جلالتِ شان کے پیشِ نظر کسی طرح بھی رد نہ کی جائے گی، صحابہ کی مرسلات توان ائمہ کے نزدیک بھی معتبر اور لائقِ اعتماد ہیں جواوروں کی مرسل روایات کو قبول نہیں کرتے، امام نوویؒ مقدمہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں:

"وامامرسل الصحابی وھوروایۃ مالم یدرکہ اویحضرہ کقول عائشۃ رضی اللہ عنہا اول مابدیٔ بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فمذہب الشافعی والجماھیر انہ یحتج بہ وقال الاستاذ الامام ابواسحاق الاسفراینی الشافعی انہ لایحتج بہ الاان یقول انہ لایروی الاعن صحابی والصواب الاول"۔   

   (مقدمہ صحیح مسلم للنووی:۱۷، طبع ہند)

ترجمہ:اوررہا معاملہ مرسلاتِ صحابہ کا اور وہ ایسی روایات ہیں جن کا زمانہ اس راوی نے نہ پایا ہو یازمانہ پایا ہومگراس مجلس میں اس نے حاضری نہ پائی ہو توامام شافعی اور جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑی جاسکتی ہے؛ البتہ امام ابواسحاق اسفرائنی کہتے ہیں اس قسم کی روایات سے استناد صحیح نہیں، ہاں اگر وہ کہے کہ وہ صحابی، صحابی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں لیتا توپھر اسے اُن کے ہاں بھی قبول کیا جاسکے گا اور صحیح بات پہلی ہے (کہ مرسلاتِ صحابہ مطلقاً لائقِ قبول ہیں)۔

آپ ایک دوسرے مقام پر ایک حدیث کی بحث میں لکھتے ہیں:

"ھذا الحدیث من مراسیل الصحابۃ وہوحجۃ عندالجماھیر"۔

(شرح مسلم للنووی:۲/۲۸۴)

ترجمہ: یہ حدیث صحابہؓ کی مرسل روایات میں سے ہے اور وہ جمہور علماءِ اسلام کے نزدیک حجت ہے۔

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک بحث میں لکھتے ہیں:

"ویستفاد من الحکم بصحۃ ماکان ذلک سبیلہ صحۃ الاحتجاج بمراسیل الصحابۃ"۔

(فتح الباری،باب قول المحدث حدثنا وأخبرنا وأنبأنا:۱/۱۴۴، شاملہ،الناشر: دار المعرفة،بيروت،۱۳۷۹)

ترجمہ: اس طرح کی باتوں پر صحیح کا حکم لگانے سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ صحابہ کی مرسل روایات سے حجت پکڑنا قانونی طور پر صحیح ہے۔

اس تفصیل سے یہ بات اور واضح ہوجاتی ہے کہ پہلے دور میں قبولیت روایت کا مدار اعتماد اور وثوق پر ہی رہا ہے، روایت کا متصل ہونا ضروری نہ تھا، صحابہ کرام کا عادل اور ثقہ ہونا یقینی اور قطعی دلائل سے معلوم تھا تواب ان کی مرسلات بھی حجت سمجھی گئیں، اللہ تعالیٰ نے جب اُن کی عدالت پر مہر کردی تواب اس کی کیا ضرورت ہے کہ ائمہ حدیث میں سے کوئی ان کی تعدیل کرے، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں:

"ان عدالۃ الصحابۃ ثابتۃ معلومۃ بتعدیل اللہ لھم.... فلایحتاج احدمنہم مع تعدیل اللہ لہم المطلع علی بواطنہم الی تعدیل احد من الخلق لہ"۔       

(الکفایہ فی علوم الروایہ:۴۸،۴۶)

ترجمہ: صحابہ کی عدالت اللہ کی تعدیل سے معلوم اور ثابت ہے؛ سوصحابہ میں سے کوئی بھی کیوں نہ ہو وہ کسی کی تعدیل کا محتاج نہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی تعدیل حاصل ہے جوان کے بواطن امور پر پوری طرح مطلع ہے اور انہیں عادل قرار دے رہا ہے۔

صحابہ کے اسی عمومی اعتماد کا اثر دوسرے صحابہ میں بھی تھا، علمی حلقوں میں اعتماد عام تھا، علمی حلقے سب اعتماد پر چلتے تھے، اس دور میں اسناد پر زیادہ زور نہ تھا، خیراور صدق عام تھی، اسنادی مباحث، ہردوراویوں کے مابین فاصلے اور رابطے اور روایت میں اتصال وارسال کی بحثیں اس وقت چلیں جب امت میں فتنے پیدا ہوئے، جھوٹ عام ہونے لگا؛ سوضروری ہوا کہ اس وقت کے ائمہ حدیث اس سلسلہ میں کوئی قدم اُٹھائیں اور حق یہ ہے کہ اس وقت دینی سرمائے کے تحفظ کے لیے ایسے اقدامات ضروری تھے، امام ابنِ سیرینؒ (۱۱۰ھ) ایک جگہ فرماتے ہیں:

"عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ لَمْ يَكُونُوا يَسْأَلُونَ عَنْ الْإِسْنَادِ فَلَمَّا وَقَعَتْ الْفِتْنَةُ قَالُوا سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ فَلَا يُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ"۔

(مسلم،مُقَدِّمَةٌ،حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ:۱/۱۱)

ترجمہ: امام سیرین سے روایت ہے کہ پہلے دور میں لوگ سند کے بارے میں اتنے فکرمند نہ ہوتے تھے؛ لیکن جب فتنے اُٹھے توعلماء کہنے لگے اپنی روایت کے راوی سامنے لاؤ تاکہ اہلِ سنت اور اہلِ بدعت کی پرکھ ہو، اہلِ سنت کی حدیثیں لے لی جائیں اور اہلِ بدعت کی روایات سے پرہیز کی جائے۔

حضرت امام شافعیؒ اس نئے دور کے مجدد سمجھے جاتے ہیں؛ جنھوں نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا اور آئندہ کے لیے تحقیق حدیث کی اساس صحت سند کوقرار دیا اور راویوں کی جرح وتعدیل اور اتصال رواۃ اس نئے دور کا بڑا موضوع قرار پایا..... اس درجہ کی پڑتال کی ضرورت دورِ اوّل میں کبھی محسوس نہ ہوئی تھی۔



قبول مرسل میں ائمہ اربعہ کا اختلاف



اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ قبولِ مرسل میں امام شافعیؒ اور امام بخاریؒ کا امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ سے اختلاف دراصل اصول کا اختلاف نہ تھا، حالات کا اختلاف تھا، قبولِ روایت میں اعتماد کوسب ائمہ کے ہاں اصولی درجہ حاصل رہا ہے، جب تک امت میں صداقت اوردیانت غالب تھے؛ گوفتنے پیدا ہوچکے تھے روایات اعتماد پربھی قبول کی جاتی تھیں، جب وہ حالات نہ رہے، فتنوں کا تخم حنظل درخت بن گیا توبعد کے ائمہؒ صحت اسناد اور اتصال رواۃ پر توجہ تیز کردی، اس حد فاصل پر امام شافعیؒ نے مجددانہ کردار ادا کیا، فجزاہ اللہ جزاًء حسناً۔
اس سے یہ بھی پتہ چل گیاکہ پہلے دور کی کتبِ حدیث جیسے مؤطا امام مالک، موطا امام محمد، مصنف عبدالرزاق وغیرہ میں اسانید اس پیرایہ بیان اور اہمیتِ شان سے نہیں ملتیں جس انداز میں ہم انہیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں پاتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے دور میں اعتماد غالب تھا، صحابہؓ کی مرسلات جس اصول پر قبول ہوتی تھیں وہ اصول اعتماد اگر کہیں بعد میں بھی کسی بزرگ پرراہ پاگیا تواس کی مرسلات بھی قابلِ قبول سمجھی گئیں، مرسلات حسن، مرسلات ابراہیم، مرسلات زہری وغیرہ پر محدثین نے مستقل آراء قائم کی ہیں، تاہم یہ صحیح ہے کہ جونہی اعتماد میں کمی آنے لگی، محدثین کرام صحت سند اور اتصال رواۃ پر زیادہ زور دینے لگے، حضرت امام شافعی ان دونوں طریقوں کی حدفاصل سمجھے جاتے ہیں اور بعد کے دور کے محدثین پھرتقریباً سب اسی راہ پر چلے، فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔
آپ نے قبولیت روایت میں اس وقت کے حالات کے مناسب صحت اسناد اور اتصال رواۃ پر بہت زور دیا، اختلاف الحدیث کے نام سے آپ نے اس موضوع پر ایک کتاب قلمبند فرمائی اور حق یہ ہے کہ آپ نے فن حدیث کا رُخ اسناد کی طرف موڑ دیا، یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ اس میں ہروقت کی ضرورت کے مطابق اصحاب کردار پیدا ہوئے، جنہوں نے وقت کی ضرورتوں کے تحت تحقیقات کے دہانے کا رُخ صحیح سمت کی طرف کردیا۔
اس سے یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ پہلے دور میں اسانید قائم نہ تھیں اور حدیث پوری سند سے روایت نہ ہوتی تھی، احادیث کا سلسلہ پوری اسنادی شان سے قائم تھا اور محدثین صحیح وضعیف میں برابرفرق کرتے تھے، احادیث کواسانید بعد میں فراہم نہیں کی گئیں، جب سے احادیث چلی آرہی ہیں؛ اسی وقت سے سلسلہ اسانید بھی چلا آرہا ہے، ہمارے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ پہلے دور میں روایت کی قبولیت میں سند کا اتصال زیا دہ ضروری نہیں سمجھا گیا عمومی اعتماد بہت حد تک کارفرمار ہا ہے تاہم یہ صحیح ہے کہ سند کی ضرورت اور اہمیت اپنی جگہ موجود تھی۔



عمل راوی کے اختلاف سے اعتماد روایت میں کمی



قبولیت روایت میں اعتماد کواتنی اُصولی حیثیت حاصل رہی ہے کہ اگرکوئی حدیث ثقہ راویوں سے بھی منقول ہوتمام راویوں میں اتصال بھی پایا جاتا ہو، صیغہ تحدیث بھی ہرجگہ موجود ہو عن کا مظنہ کہیں نہ ہو، روایت اصولی طور پر بالکل صحیح ہومگر اس صحابی کا اپنا عمل اس روایت کے خلاف ہوتوفوراً شبہ اُٹھے گا کہ شاید یہ حدیث منسوخ العمل ہو یااس زمانے سے تعلق رکھتی ہو، جب شریعت تکمیل کے تدریجی مراحل طے کررہی تھی بعض احکام منسوخ ہوجاتے تھے اور اُن کی جگہ نئے آجاتے تھے۔
پہلے دور کی کوئی بات ثقہ راویوں سے منقول ہو وہ صحیح توہوگی؛ لیکن بعد کے احکام کی روشنی میں حجت اور لائقِ عمل نہ سمجھی جائے گی؛ اسی طرح اگر کسی صحابی کا اپنا عمل اس کی اپنی روایت کے خلاف ہوتوظاہر ہے کہ صحت اسناد کے باوجود اعتماد روایت میں کچھ کمی ضرور آئے گی اس وقت اس اصول پر بحث کرنا مقصود نہیں، یہاں بتلانا صرف یہ ہے کہ قبولیت روایت میں اصل الاصول ہمیشہ اعتماد رہا ہے اور اسے کسی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، حافظ ابنِ حجرعسقلانیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں:

"راوی الحدیث اعرف بالمراد بہ من غیرہ ولاسیما الصحابی المجتہد"۔

(فتح الباری جلد:۱/۴۴۵)

ترجمہ: حدیث کا راوی اس کی مراد کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے، خصوصاً جب کہ وہ صحابی مجتہد ہو۔




کوئی بات نقل میں رہ جائے توموجبِ قدح نہیں



صحابہ کرامؓ حضور   سے جب کوئی حدیث نقل کرتے توبعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ بعض مضامین حدیث روایت کردیتے اور کچھ باتیں رہ بھی جاتیں جودوسرے صحابہؓ کے ہاں یاانہی صحابہ کی کے کسی دوسری روایت میں مل جاتیں، یہ بعض مضامین کا رہ جانا اس پہلو سے کبھی نہ ہوا تھا کہ وہ بعض اجزاء باقی حدیث کے معنی پر اثرانداز ہوں؛ بلکہ ہرحصہ مضمون اپنی جگہ مستقل حیثیت سے روایت ہوتا تھا؛ سوائمہ حدیث اس پر متفق رہے ہیں کہ روایت حدیث میں کسی بات کا نقل سے رہ جانا باقی روایت میں موجب قدح نہیں ہے، امام زہریؒ (۱۲۴ھ) حدیث افک کے واحد راوی ہیں، جومختلف تابعین کرامؒ سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حدیث نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:

"کلہم حدثنی طائفۃ من حدیثھا"۔

(صحیح مسلم:۲/۳۶۴)

کہ ان راویوں نے حدیث افک کے کسی حصہ کومیرے سامنے بیان کیا ہے۔

امام زہری تصریح نہیں کرتے کہ کون ساحصہ کن راویوں نے بیان کیا ہے لیکن یہ راوی چونکہ سب کے سب ثقہ ہیں، اس لیے یہ جانے بغیر کہ کس کس راوی نے کیا کیا کہا ہے، پوری حدیث بالاتفاق قبول کرلی گئی ہے اور ساری حدیث صحیح تسلیم کرلی گئی ہے، امام نوویؒ (۶۷۶ھ) اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
یہ طریقہ جوزہری نے جمع حدیث میں اختیار کیا ہے جائز ہے ممنوع نہیں اور اس میں کوئی ناپسندیدگی نہیں یہ بیان ہوچکا ہے کہ حدیث کا کچھ حصہ ان میں سے کسی سے ہے اور کچھ حصہ دوسروں سے ہے اور یہ چاروں تابعین حفاظ حدیث اور اپنے فن کے امام ہیں؛ اگراس میں کچھ تردد رہا ہے کہ یہ لفظ اس راوی کی روایت سے ہے یااس راوی کی روایت سے، تواس میں کوئی حرج نہیں اس سے احتجاج جائز ہے؛ کیونکہ وہ دونوں ثقہ ہیں اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگرایک شخص کہے مجھے یہ حدیث زید نے بتائی یاعمرو نے اور وہ دونوں ثقہ ہیں، مخاطب کے ہاں معروف ہیں تواس سے حجت پکڑنا اور احتجاج کرنا جائز ہے۔

(شرح مسلم للنووی:۲/۳۶۴)



افقہ راویوں کی روایت کوترجیح



محدثین میں اس پر بھی کلام رہا ہے کہ روایت کی ترجیح راویوں کی قوتِ حفظ پر ہونی چاہئے یااس میں اِن کی فقاہت بھی ترجیح ہوسکتی ہے، ایک شخص حفظ ویادداشت میں زیادہ معروف ہے اور دوسرا علم ودانش میں گہرائی رکھتا ہے توکس کی روایت اُن میں سے زیادہ لائقِ ترجیح ہوگی؟ محدثین میں روایت بالمعنی کا رواج نہ ہوتا توظاہر ہے کہ ترجیح قوتِ حفظ کی بناء پر ہوتی؛ لیکن روایت بالمعنی کا شیوع اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ راوی جتنا گہرا عالم اور فقیہہ ہوگا اتنا ہی بات کے مغز کوزیادہ پائے گا اور یہ نہ ہوگا کہ وہ روایت بالمعنی کی صورت میں بات اور کچھ کہہ جائے، آنحضرت   نے فرمایا:

"نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَاسَمِعَ فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ"۔

(ترمذی،كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَاجَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۱، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس شخص کوسرسبز کرے جس نے ہماری کوئی حدیث سنی اور اسے اسی طرح آگے پہنچادیا جیسا کہ اس نے سنا تھا؛ کیونکہ آگے سننے والے کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جواسے اس سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھ سکیں۔

اوعیٰ (زیادہ حفاظت کرنے والا) سے مراد اسے زیادہ سمجھنے والا ہے، جتنا راوی فقیہہ ہوگا اتنا ہی وہ اس مضمون کوزیادہ سنبھالنے والا ہوگا اور اس کی تائید حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) کی ہی ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے کہ حضور   نے فرمایا:

"فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ"۔

(ترمذی،كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَاجَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:ایسے کئی حامل فقہ ہیں جواس بات کواس شخص تک لے جائیں جوان سے زیادہ اس بات کو سمجھتے ہوں ۔

معلوم ہوا کہ جتنا کوئی راوی زیادہ فقیہہ ہوگا اتنا ہی مقصدِ حدیث کو زیادہ پانے والا ہوگا، امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) حدیث کی فقہ کواس کے حفظ سے زیادہ اہم سمجھتے تھے، امام علی بن المدینیؒ (۲۴۳ھ) بھی فقہ حدیث کوہی سب سے اشرف علم شمار کرتے تھے، حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں:

"قال احمد بن حنبل معرفۃ الحدیث والفقہ فیہ احب الی من حفظہ وقال علی بن المدینی اشرف العلم الفقہ فی متون الاحادیث ومعرفۃ احوال الرواۃ"۔ 

(منہاج السنۃ:۴/۱۱۵)

ترجمہ: امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں حدیث اور فقہ کی معرفت مجھے اس کے حفظ سے بھی زیادہ عزیز ہے، امام علی بن المدینی کہتے ہیں سب سے اشرف علم متون حدیث اور احوال رواۃ کی معرفت میں فقہ کوکارفرماکرنا ہے۔

غورکیجئے ان ائمہ فن نے فقہ اور حدیث کے معنی ومضمون کوکس قدراہمیت دی ہے، امام ابوحنیفہؒ اس بات کےپرجوش حامی تھے کہ مدارِ ترجیح راویوں کی فقاہت ہونی چاہئے، جتنا کوئی راوی زیادہ افقہ ہوگا اتنی ہی اس کی روایت کوترجیح ہوگی، امام اہل شام امام اوزاعیؒ (۱۵۷ھ) سے امام ابوحنیفہؒ (۱۵۰ھ) کی رفع الیدین عندالرکوع کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی، توامام  اوزاعیؒ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ حدیث پڑھی:

"حدثنی الزھری عن سالم عن ابیہ عبداللہ بن عمر بن الخطاب ان رسول اللہ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا اِفْتَتَحَ اَلصَّلَاةَ وعند الرکوع وعندالرفع منہ"۔

ترجمہ: زہری نے مجھے سالم سے انہوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے یہ حدیث سنائی کہ حضور  نماز شروع کرتے وقت اپنے کندھوں کے برابر رفع یدین کرتے اور رکوع کے وقت بھی اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی۔

اس پر حضرت امام ابوحنیفہؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی یہ حدیث پڑھ دی:

"حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ {أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَايَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّاعِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ ثُمَّ لَايَعُودُ لِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ"۔

(فتح القدیر لکمال بن الھمام، كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ،بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ:۲/۱۰۰، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: حماد نے ابراہیم نخعی سے انہوں نے حضرت علقمہ اور اسود سے اور ان دونوں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے یہ حدیث سنائی کہ نبی کریم صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے کسی دوسرے مقام پر رفع یدین نہ کرتے تھے۔

اِس پر امام اوزاعیؒ نے کہا:

"أُحَدِّثُكَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ وَتَقُولُ حَدَّثَنِي حَمَّادٌ عَنْ إبْرَاهِيمَ؟"۔

ترجمہ: میں تمھیں زہری سے وہ سالم سے وہ عبداللہ بن عمر سے حدیث سنارہا ہوں اور تم مجھے حماد سے اور وہ ابراہیم سے حدیث سنارہے ہو؟

اِس کے جواب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا:

"كَانَ حَمَّادٌ أَفْقَهَ مِنْ الزُّهْرِيِّ، وَكَانَ إبْرَاهِيمُ أَفْقَهَ مِنْ سَالِمٍ، وَعَلْقَمَةُ لَيْسَ بِدُونٍ مِنْ ابْنِ عُمَرَ فِي الْفِقْهِ، وَإِنْ كَانَتْ لِابْنِ عُمَرَ صُحْبَةٌ وَعَبْدِ اللہِ ھُوَعَبْدِ اللہِ"۔

(فتح القدیر لکمال بن الھمام، كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ،بَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ:۲/۱۰۰، شاملہ، موقع الإسلام۔ دیکھئے مسندالانام فی شرح مسندالامام:۲۰/۱۹، مطبع: محمدی لاہور)

ترجمہ: حضرت حماد امام زہری سے زیادہ فقیہہ تھے، حضرت ابراہیم نخعی حضرت سالم سے زیادہ فقیہہ تھے اور علقمہ فقہ میں حضرت ابن عمر سے کم نہیں؛ اگرچہ حضرت ابن عمرکوصحابیت کا جوشرف حاصل ہے وہ علقمہ کونہیں، باقی رہے حضرت عبداللہ بن مسعود تووہ عبداللہ بن مسعود ہیں۔




ثقہ راوی ضعف عمر کے باعث اگریاد نہ رکھ سکے



قبول روایت میں جب اصل الاصول اعتماد ہے توپیرانہ سالی میں جب حافظہ قوی نہ رہے توثقہ راویوں کی اس دور کی روایت پھر سے زیرِبحث آجائے گی، محدثین فن حدیث میں اس درجہ محتاط رہے ہیں کہ انہوں نے ثقہ راویوں کی روایات میں بھی اوّل دور اور آخری دور کوملحوظ رکھا ہے اور تواور صحابہ کرامؓ بھی اس عمر میں روایت نقل کرنے سے جہاں تک ہوسکے احترام کرتے تھے، حضرت زید بن ارقمؓ (۶۶ھ) اپنے اس دور کا یوں ذکر کرتے ہیں:

"وَاللَّهِ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي وَقَدُمَ عَهْدِي وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوا وَمَالَافَلَاتُكَلِّفُونِيهِ"۔

(مسلم،كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،حدیث نمبر:۴۴۲۵، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:اے بھتیجے میں اب بوڑھا ہوچکا ہوں اور میرا وقت آپہنچا ہے اور بعض باتیں جوحضور   کی مجھے یاد تھیں بھول چکا ہوں؛ سومیں جوخود بیان کروں وہ تولے لیا کرو اور ازخود مجھ سے نہ پوچھا کرو، مجھے روایت کرنے کی تکلیف نہ دو۔




تصحیح روایت میں محدثین پر اعتماد



محدثین میں حدیث کی تصحیح کے دونوں طریقے رائج رہے ہیں:
(۱)راویوں کی ثقاہت ان کے باہمی اتصال اور شذوذونکارت سے سلامتی معلوم کرکے بھی کسی حدیث کوصحیح کہہ سکتے ہیں۔
(۲)کبھی ان تفصیلات میں جائے بغیر اکابر علمائے فن کی تصحیح پر اعتماد کرکے بھی کسی حدیث کوصحیح کہا جاسکتا ہے۔
قبولیت روایت میں اصل الاصول اعتماد ٹھہرا توجس طرح سے بھی یہ اعتماد حاصلہوسکے روایت قابلِ قبول ہوجاتی ہے۔
ہرفن میں اکابرِ فن کی تقلید کی جاتی ہے، اس سے انسان اسی وقت نکلتا ہے جب خود براہِ راست راویوں کی جانچ پڑتال کرسکے اور اس کی جملہ طرق پر نظر ہوسکے، اس کے بغیراعتماد سے چارہ نہیں، اس اعتماد کوبھی علم کی ہی ایک شان سمجھنا چاہیے، تقلید سے مراد دوسرے کے علم پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی دلیل مانگے بغیر اس کی بات کوقبول کرنا ہے، جس بات میں خود مضبوط علم حاصل نہ ہو تقلید سے چارہ نہیں، ہاں جب کسی بات کی براہِ راست تحقیق ہوجائے اور اس میں کوئی شک اور دغدغہ نہ رہے توپھرتقلید درست نہیں؛ لیکن جب تک راویوں کا پورا علم خود حاصل نہ ہو محدثین کرام جوائمہ فن ہیں ان کی تصحیح اور ان کی تضعیف سے بھی علماءِ حدیث کسی روایت کوصحیح یاضعیف کہہ سکتے ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن مہدیؒ (۱۹۸ھ) جرح وتعدیل کے جلیل القدر امام ہیں، آپ اس اعتماد کے یہاں تک قائل تھے کہ اسے الہام کا درجہ دیتے تھے، جس طرح الہام کی خارج میں کوئی دلیل نہیں ہوتی، ایک وجدان ہے جواندر ہی اندر بولتا رہتا ہے؛ اسی طرح محدثین کرام کوفن کے کمال سے جوذوق ووجدان ملتا ہے اس پر وہ بعض حدیثوں کوراویوں کی ثقاہت اور سند کے اتصال کے باوجود قبول نہیں کرتے، حضرت عبدالرحمن بن مہدیؒ (۱۹۸ھ) کہتے ہیں:

"ومعرفۃ الحدیث الھام فلوقلت للعالم لعلل الحدیث من این قلت ھذا؟ لم یکن لہ حجۃ"۔          

   (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم:۱۱۳)

ترجمہ: حدیث کی معرفت ایک الہامی چیز ہے جودل میں اُترتی ہے؛ اگرمیں علل حدیث کے کسی عالم سے کہوں کہ تم یہ بات کہاں سے کہہ رہے ہوتواس کے پاس اس کا جواب نہ ہوگا۔

حافظ شمس الدین الذہبیؒ لکھتے ہیں:

"اذالعمدةُ في زمانِنا ليسَ على الرواةِ بل على المحدِّثينَ والمقيِّدينَ والذين عُرِفَتْ عدالتُهم وصدقُهم في ضَبْطِ أسماءِ السَّامِعِيْنَ"۔          

    (میزان الاعتدال:۱/۴)

ترجمہ:ہمارے پاس اس دور میں (تحقیق حدیث میں) اعتماد راویوں پر نہیں کیاجاسکتا؛ بلکہ محدثین اور اساتذہ پر ہے اور ان لوگوں پر جن کی عدالت اور سچائی راویانِ حدیث کے ناموں کویادرکھنے میں جانی پہچانی جاچکی ہے۔

جب تک راویانِ حدیث اپنی سند سے حدیثیں روایت کرتے رہےتحقیق حدیث کا طریق راویوں کی جانچ پڑتال ہی رہا؛ لیکن جب سندوالی کتابیں مدون ہوچکیں اور اس جمع شدہ ذخیرے سے ہی حدیث آگے چلی تواس دور میں علیحدہ علیحدہ راویوں کی جانچ پڑتال کے ساتھ حاذق محدثین کی تحقیق اور اکابراساتذہ فن کا ذوق بھی ساتھ Instinct چلنے لگے تواب راویوں کی بجائے اساتذہ فن کے فیصلوں پراعتماد کے بغیر آگے نہیں چل سکتے؛ یہاں اہلِ فن کی تقلید سے چارہ نہیں، ہرشخص کا ذوق اس درجے میں پختہ نہیں ہوتا کہ محض راویوں کے حالات جان کرپوری سندع اور پوری حدیث پر وہ کوئی حکم لگاسکے، حافظ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:

"ان الجرح انما جرز فی الصدرالاول حیث کان الحدیث یوخذ من صدور الاحبار لامن بطون الاسفار فاحتیج الیہ ضرورۃ للذب من الاثارومعرفۃ القبول والمردود من الحدیث والاخبار واماالآن فالعمدۃ علی الکتب المدونۃ"۔

(الکادی فی تاریخ السخاوی کما فی الرفع والتکمیل:۵۰)

ترجمہ:راویوں پرجرح کرنا پہلے دور میں اس لیئے جائز رہا کہ حدیث علماء کے سینوں سے لی جاتی تھی نہ کہ کتابوں کے اوراق سے؛ سواس کی ضرورت رہی تاکہ آثار کی حفاظت کی جاسکے اور احادیث واخبار میں مقبول ومردود کو پہچانا جاسکے؛ لیکن اب اعتماد کتب مدونہ پر ہونا چاہیے۔

امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) کی کتاب "کتاب العلل" ومعرفۃ الحدیث، امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) کی "کتاب العلل" اور ابن ابی حاتم کی "کتاب الجرح والتعدیل" اس سلسلہ کی بہت مفید کتابیں ہیں اور امام احمدؒ کی یہ کتاب انقرہ سے اور ابن ابی حاتم کی یہ کتاب حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ایک موضوع پر دوحدیثیں مروی ہوں راوی ہردوکے ثقہ ہوں اور اتصالِ رواۃ بھی اپنی جگہ قائم ہواور سند صحیح ہے توایسے موقعوں پر محدثین علل روایت میں چلے جاتے ہیں، علت کا پالینا ایک بڑی علمی مرتبہ ہے، عبدالرحمن بن مہدی اس کوالہامِ الہٰی سے تعبیر کرتے تھے؛ پھربھی کوئی حل نہ ملے توترجیح وتطبیق کی راہ لینے سے چارہ نہیں۔



ترجیح وتطبیق میں ائمہ کے مختلف اسلوب



شریعت تدریجا تکمیل کوپہنچی ہے؛ کئی امور جوپہلے جائز یاناجائز تھے بعد میں ناجائز اور جائز قرار پائے سواگر کسی موضوع پر متضاد روایات ملیں توپہلے جوبات ذہن میں آتی ہےیہ ہے کہ دونوں میں سے ایک حکم پہلے دَور کا ہوگا جواب منسوخ ہوچکا، یہ اس صورت میں ہے کہ دونوں کی تاریخ معلوم ہوسکے اور اگر عقلاً دونوں میں سے کسی کوآگے پیچھے کیا جائے تویہ نسخ اجتہادی ترجیح کے بعد لائقِ غور ہوگا۔
نسخ کی بات نہ کھلے توپھر راجح کو دیکھا جائے وجوہ ترجیح سامنے آنے سے ایک بات خود بخود کمزور دکھائی دینے لگے گی ترجیح نہ دے سکیں تونسخ اجتہادی سے کام لیں اس کے بعد تطبیق کی راہ ہے کہ ہرایک کوجدامحمل پر محمول کیا جائے پھربھی بات نہ بنے تودونوں کو رہنے دیا جائے اور تساقط پر فیصلہ کرلیا جائے حنفیہ کے ہاں پہلے نسخ پھر ترجیح پھرتطبیق اور پھر تساقط کی ترتیب ہے، شافعیہ کے ہاں پہلے تطبیق پھرترجیح پھرنسخ اور پھرتساقط کا عمل ہوگا:

"واذاتعارض الحدیثان ففی کتب الشافعیہ یعمل بالتطبیق ثم بالترجیح ثم  بالنسخ ثم بالتساقط وفی کتبنا یوخذا ولابالنسخ ثم بالترجیح ثم بالتطبیق ثم  بالتساقط"۔

(العرف الشذی:۴۳، وکذا فی مقدمۃ فیض الباری)



متون واسانید



حدیث کی سب بڑی بڑی کتابیں صحاحِ ستہ ہوں یامسنداحمد، المصنف لعبدالرزاق، المصنف لابن ابی شیبہ، شرح معانی آثار ومشکل الآثار للطحاوی، مستدرک حاکم، سنن کبریٰ بیہقی، وغیرہ اور دیگر کئی سنن ومسانید اور معاجم وغیرہ صرف احادیث Text پر مشتمل نہیں، ان  کی اسانیدChain of transmitters کوبھی ساتھ لیئے ہوئے ہیں، صاحب کتاب اپنے سے لے کر اُوپر تک راویوں کا ایک سلسلہ بیان کرتا ہے اور کہتا ہےان رواۃ کے ذریعہ یہ حدیث مجھ تک پہنچی ہے، اس سند سے گزرنے کے بعد ہی اصل حدیث تک رسائی پاتے ہیں؛ اگریہ نقل کرنے والے ثقہ اور معتمد علیہ ہوں توحدیث لائقِ اعتمادہوجاتی ہے اور یہ کمزور ہوں تو روایت کمزور ٹھہرتی ہے۔
راویوں کا نام دینے میں ایک یہ حکمت بھی تھی کہ جن لوگوں پر ان راویوں کے حالات زیادہ کھلے ہوں اُن کے لیے ان راویوں کی مزید جانچ پڑتال کا دروازہ کھلا رہے ہوسکتا ہے کہ کسی راوی حدیث کے حالات خود صاحبِ کتاب پر نہ کھلے ہوں یاکھلے ہوں مگر کچھ پہلو مخفی رہ گئے ہوں اور وہ کسی اور شخص پر کھل جائیں جسے اس سے کسی جہت سے بھی واسطہ پڑا ہو۔



جرح وتعدیل



رواۃِ حدیث کے حالات کوجاننا اور انہیں جان کر ان کی روایات کوقبول کرنا یانہ کرنا ضروری ہے؛ چونکہ ان کی روایت سے دین میں ایک چیز ثابت ہوگئی، اس لیئے ضروری ہے کہ وہ خود قابلِ اعتماد ہوں؛ ورنہ شریعت میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا ایک بڑا خطرناک اقدام ہوگا اس اہم شرعی ضرورت کے لیے راوی کے عیب معلوم کرنااور انہیں آگے بیان کرنا اس غیبت میں شمار نہ ہوگا جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے، راویوں کے نقائص بیان کرنا جرح کہلاتا ہے اور ان کی صفائی پیش کرنے کوتعدیل کہتے ہیں؛ کسی راوی پر جرح کرنے والے کون کون ہیں اور ان کے پاس وجوہِ جرح کیا کیا ہیں؟ اور تعدیل کرنے والے کون کون سے ہیں؟ وہ کس مرتبے کے لوگ ہیں؟ یہ وہ اُمور ہیں جن سے جرح وتعدیل میں بحث ہوتی ہے۔
معلوم رہے کہ جس طرح پہلے دور میں ایک ایک راوی کی پڑتال کی جاتی تھی اس دور میں اب اس درجے کی محنت ضروری نہیں رہی؛ اب ہم ائمہ فن پر اعتماد کرتے ہوئے بھی کسی حدیث کا صحیح حکم معلوم کرسکتے ہیں۔



ائمۂ جرح وتعدیل



وہ محدثین کرام جنھوں نے راویوں کے حالات جاننے اور ان کے مراتب پہچاننے میں وقت لگایا اور تحقیق حدیث میں تحقیق رواۃ ان کا خاص فن ٹھہرا، انہیں ائمہ جرح وتعدیل کہا جاتا ہے، راویوں کے حالات میں زیادہ ترجن اماموں کے نام آتے ہیں ان میں یہ حضرات زیادہ معروف ہیں، امام شعبہ (۱۶۰ھ)، امام وکیع (۱۹۷ھ)، عبدالرحمن بن مہدی (۱۹۸ھ)، سفیان (۱۹۸ھ)، یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ)، یحییٰ بن معین (۲۳۳ھ)، علی بن المدینی (۲۳۴ھ)، امام نسائی (۳۰۳ھ)۔



الفاظ الجرح والتعدیل



محدثین میں راویوں کی جرح وتعدیل کے لیئے مختلف الفاظ رائج تھے اور ان الفاظ سے ہی ہرایک کے جرح کا وزن معلوم ہوتا تھا، جس درجے میں کوئی راوی کمزور ہواس کے مطابق ہی اس کے لیے جرح کے الفاظ آتے ہیں، پہلے ہم الفاظ تعدیل ایک تدریج سے نقل کرتے ہیں؛ پھرالفاظ جرح ایک تدریج سے پیش کریں گے، جرح وتعدیل میں ائمہ کے اختلافات بھی ہیں؛ سوان سے استفادہ اس فن کوجاننے سے ہی ہوسکتا ہے۔



تعدیل کے مختلف درجات



(۱)ثبتٌ حجۃٌ، ثبتٌ حافظٌ، ثبتٌ متقنٌ، ثقۃ ثقۃ۔
         (۲)ثقۃ، ثبت۔
(۳)صدوقٌ، لابأس بہ۔
(۴)محلہ الصدق، جیدالحدیث، صالح الحدیث۔



جرح کے مختلف درجات



(۱)دجال، کذاب، وضاع، یضع الحدیث۔
(۲)متہم بالکذب۔
(۳)متروک، لیس بالثقۃ، سکتواعنہ، ذاہب الحدیث، فیہ نظر۔
(۴)ضعیف جداً، ضعفوہ، واہٍ۔
(۵)لیس بالقوی، ضعیف، لیس بحجۃ، لیس بذاک، لین، سیٔ الحفظ، لایحتج بہ۔
ان درجات میں پہلے اعلیٰ درجے کی تعدیل اور سخت درجے کی جرح ہے؛ پھرآہستہ آہستہ ان میں تدریجی کمزوری آتی گئی ہے، جس راوی کے بارے میں دونوں طرف سے (تعدیل اور جرح دونوں کے) الفاظ وارد ہوں توجرح وتعدیل دونوں کوسامنے لانا چاہئے، حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (۷۷۴ھ) فرماتے ہیں:

"ظلم لاخیک ان تذکراسوأ ماتعلم وتکتم خیرہ"۔

(البدایہ والنہایہ:۹/۲۷۵)

ترجمہ: تیرے بھائی پر یہ تیرا ظلم ہوگا کہ اس کی کوئی بری بات جسے توجانتا ہو اُسے توذکر کرے اور اس کی اچھی بات جوتجھے معلوم ہو اسے توچھپالے۔




لم یصح میں وضع نہیں



اگرکسی حدیث کے بارے میں لم یصح کے الفاظ وارد ہوں تواس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث ضعیف یاموضوع ہے ہوسکتا ہے حسن ہو یاضعیف ہو، من گھڑت (موضوع) نہ ہو، حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (۸۵۲ھ) لکھتے ہیں:

"لایلزم من کون الحدیث لم یصح ان یکون موضوعاً"۔

(القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد:۲۹)

ترجمہ: کسی حدیث کے بارے میں لم یصح (یہ حدیث ثابت نہیں ہوئی) کہنے سے لازم نہیں آتاکہ وہ حدیث موضوع ہو۔

"ان قول السخاوی لایصح لاینافی الضعف والحسن"۔

(تذکرۃ الموضوعات:۸۲)

ترجمہ: سخاوی کا یہ کہنا کہ یہ حدیث صحیح نہیں، اس حدیث کے ضعیف یاحسن ہونے کے منافی نہیں۔

ہاں ایسی کتاب جس میں موضوع روایات کا بیان ہو اس میں لم یصح کے الفاظ واقعی اس کے حسن اور ضعیف ہونے کی بھی نفی کردیتے ہیں، لم یصح کے بعد اگر اس کا کسی درجے میں اثبات نہ ہو تواس کا مطلب واقعی یہ ہوتا ہے کہ وہ روایت موضوع ہو۔



جرح وہی لائقِ قبول ہے جس کا سبب معلوم ہو



کسی کے بارے میں نیک گمان کرنے کے لیئے دلیل کی ضرورت نہیں؛ لیکن بدگمانی کے لیئے دلیل ہونا لازمی ہے، بغیر دلیل کے کسی مسلمان کوبرا سمجھنا یاناقابلِ شہادت سمجھنا گناہ ہے، جس راوی پر جرح کی گئی ہو اور اس جرح کا سبب بھی معلوم ہو اور وہ راوی واقعی اس سبب کا مورد ہوتووہ جرح معتبر ہوگی اور ایسے راوی کی روایت مسترد کی جاسکے گی، ملا علی قاری علیہ رحمۃ لکھتے ہیں:

"التجریح لایقبل مالم یبین وجھہ بخلاف التعدیل فانہ یکفی فیہ ان یقول عدل اوثقۃ مثلاً"۔

ترجمہ:وہ جرح جس کی وجہ واضح نہ ہولائقِ قبول نہیں، بخلاف تعدیل کے کہ اس میں راوی کوعادل یاثقہ جیسے الفاظ سے ذکر کردینا ہی کافی ہے۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے کتنے راوی ہیں جن پر جرح کی گئی ہے، جیسے عکرمہ مولیٰ بن عباس، اسماعیل بن ابی اویس، عاصم بن علی، عمروبن مرزوق، سوید بن سعید وغیرہم؟ مگرچونکہ وہ جرح مفسر اور مبین السبب نہ تھی، اس لیئے شیخین نے اسے قبول نہیں کیا، حافظ ابن صلاح (۶۴۳ھ) لکھتے ہیں:

"وَھٰکذا فعل ابوداؤد السجستانی وذلک دال علی انہم ذھبوا الی ان الجرح لایثبت الا اذا فسرسببہ"۔   

  (فتح الملہم:۱/۶۸)

ترجمہ: ابوداؤد السجستانی نے بھی ایسا ہی کیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ محدثین اسی طرف گئے ہیں کہ جب تک سبب جرح کی تفصیل نہ کی جائے جرح ہرگز ثابت نہیں ہوتی۔

امام نوویؒ (۶۷۶ھ) لکھتے ہیں:

"لایقبل الجرح الامفسراً مبین السبب"۔  

(تقریب نووی:۲۰۲، مع التدریب)

ترجمہ:جرح لائق قبول نہیں جب تک کہ اس کی تشریح واضح نہ ہو اور سبب جرح واضح نہ ہو۔

حافظ ابن ہمام الاسکندری (۸۶۱ھ) جن کے بارے میں فقہاء لکھتے ہیں کہ وہ اجتہاد کے درجہ پر پہنچے ہوئے تھے، لکھتے ہیں:

"اکثرالفقہاء ..... ومنہم الحنفیۃ...... والمحدثین علی انہ لایقبل الجرح الامبینا لاالتعدیل"۔         

          (ردالمحتار:۳/)

ترجمہ:اکثر فقہاء اور ان میں حنفیہ بھی ہیں اور محدثین سب اسی کے قائل ہیں کہ جرح جب تک واضح نہ ہو لائقِ قبول نہیں، تعدیل کے بارے میں یہ قید نہیں ہے۔

یہ صحیح ہے کہ تعدیل کے لیئے سبب کی ضرورت نہیں؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ تعدیل کرنے والا کوئی عام آدمی نہ ہو، اس باب میں عالم معرفت رکھنے والا منصف اور ناصح قسم کا آدمی ہونا چاہیے، بحرالعلوم (۱۲۲۵ھ) مسلم الثبوت کی شرح میں رقم طراز ہیں:

"لابد للمزكي أن يكون عدلا عارفا بأسباب الجرح والتعديل وأن يكون منصفا ناصحا"۔

(فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت:۳/۳۲۸)

ترجمہ: تزکیہ اور تعدیل کے مدعی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عادل ہو اسباب جرح وتعدیل کو جاننے والا ہو اور انصاف پسند اور خیرخواہ قسم کا آدمی ہو۔

حافظ بدرالدین العینی (۸۵۵ھ) شرح ہدایہ میں لکھتے ہیں:

"الجرح المبھم غیرمقبول عند الحذاق من الاصولیین"۔          

  (البنایہ:)

ترجمہ:جرح مبہم سمجھ دار علمائے اصول کے ہاں مقبول نہیں۔

یاد رہے کہ جرح کی وجوہ وہیں تلاش کی جائیں گی جہاں اس کے مقابلے میں کوئی تعدیل موجود ہو لیکن جس راوی کے بارے میں کوئی تعدیل نہ ملے تواس کے بارے میں جرح مبہم بھی قبول کرلی جائے گی اور جارح سے سبب کا مطالبہ نہ کیا جائے گا، حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"اذااختلف العلماء في جرح رجل وتعديله فالصواب التفصيل فان كان الجرح والحالة هذه مفسرا قبل والاعمل بالتعديل فاما من جهل ولم يعلم فيه سوى قول امام من ائمة الحديث انه ضعيف اومتروك ونحو ذلك فان القول قوله ولانطالبه بتفسير ذلك"۔

(الرفع والتكميل في الجرح والتعديل:۱/۱۱۹، شاملہ،المؤلف:أبوالحسنات محمدعبدالحي اللكنوي الهندي،الناشر:مكتب المطبوعات الإسلامية،حلب)

ترجمہ: علماء جب کسی شخص کی جرح وتعدیل کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہوں توصحیح راہ یہ ہوگی کہ اس کی تفصیل کی جائے؛ اگرجرح کی وجہ معلوم ہوتواسے قبول کیا جائے گا بصورتِ دیگر تعدیل پر عمل ہوگا، ہاں جوراوی مجہول ہو اور اس کے بارے میں کسی امام حدیث کے اس قول کے سوا کہ وہ ضیعف ہے یامتروک ہے یااسی قسم کا اور کوئی لفظ ہو کوئی اور بات معلوم نہ ہو تو اس امام حدیث کی بات لائق تسلیم ہوگی اور ہم اس سے وجہ جرح کا مطالبہ نہ کریں گے۔

حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ ابوعبداللہ المروزی سے نقل کرتے ہیں:

ترجمہ: ہرشخص جس کی عدالت اہل علم کے اس سے روایت لینے سے ثابت ہو اور وہ اس سے حدیث روایت کرتے ہوں تواس کے بارے میں کسی کی جرح قبول نہ کی جائے گی جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس کی وجہ جرح مخفی رہی تھی، صرف یہ کہنا کہ فلاں شخص کذاب ہے تواس سے جرح ثابت نہیں ہوتی، جب تک کہ دعویٰ جرح واضح نہ ہو۔

(التمہید:۳/۳۳،۳۴)



جرح تعدیل پر مقدم ہے



تعدیل کے لیئے بے شک نیک گمان کافی ہے؛ لیکن جرح کے لیے سبب اور دلیل کا ساتھ ہونا ضروری ہے، ظاہر ہے کہ اس صورت میں جارح (جرح کرنے والے) کے پاس معلومات زیادہ ہوں گے؛ اگروہ معلومات صحیح ہیں توجرح تعدیل پر مقدم ہوگی، جرح کے وجوہ اگرمعقول ہیں تواسے ہرصورت میں تعدیل پر مقدم کیا جائے گا؛ گومعدلین کی تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو؛ اکثریت کی تعدیل سے وجوہ جرح غلط نہیں ہوجاتے؛ گوان کا مدعی ایک ہی ہو، بشرطیکہ اس کے پاس اس کی دلیل یاسبب موجود ہو۔
امام فخرالدین رازیؒ (۶۰۶ھ)، حافظ ابن صلاح (۶۴۳ھ)، علامہ آمدی اور علامہ ابن حاجب کی یہی رائے ہے کہ جرح تعدیل پر مقدم ہے؛ لیکن اگرجرح اس امام یامحدث سے منقول ہوجوعلماء فن کے ہاں جرح کرنے میں متشدد اور متعنت سمجھے جاتے ہوں توفقط ان کی جرح سے ہم کسی راوی کومجروح نہ کرسکیں گے؛ ضروری ہوگا کہ کوئی اور جارح بھی اس کا ہمنوا ہو اور ان جارحین کے پاس اس کا کوئی واقعی سبب موجود ہو؛ کبھی جرح مفسر پر بھی تعدیل مقدم ہوجاتی ہے، مثلاً یہ کہ جارح خود اس بات میں مجروح ہو یااس وجہ سے کہ وہ جرح دوسرے وجوہ سے رد ہوچکی ہے، اس صورت میں تعدیل مقدم سمجھی جائے گی۔



متشدد کی جرح اکیلےکافی نہیں



جن ائمہ کا جرح کرنے میں تشدد، تعنت ہو ان کی تعدیل وتوثیق بہت وزن رکھتی ہے؛ لیکن ان کی جرح زیادہ وزن نہیں رکھتی ہے؛ سوکسی راوی پر محض ان کی جرح سے فیصلہ ضعف نہ کرلیا جائے، متشدد کی جرح اکیلے کافی نہیں ہوتی، جس راوی پر کسی متشدد کی جرح ہو اس کی جرح کا حال دوسرے ائمہ سے معلوم کرنا چاہیے۔
ناقدین کے پہلے طبقے میں شعبہ (۱۶۰ھ) اور سفیان الثوریؒ (۱۶۱ھ) کو لیجئے، شعبہ گو امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں؛ مگرجرح میں ذراسخت ہیں؛ پھریحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ) اور عبدالرحمن بن مہدی (۱۹۸ھ) کو لیجئے، یحییٰ میں سختی اور تشدد ملے گا؛ پھریحییٰ بن معین (۲۳۳ھ) اور امام احمد (۲۴۱ھ) کو لیجئے جو سختی یحییٰ بن معین کرتے ہیں امام احمد نہیں کرتے؛ پھرامام نسائی (۳۰۳ھ) اور ابن حبان (۳۵۴ھ) کو دیکھئے، امام نسائی ذراسخت معلوم ہوں گے ابوحاتم رازی اور امام بخاری (۲۵۶ھ) میں ابوحاتم متشدد دکھائی دیں گے، ائمہ فن اسماء الرجال کی بحث میں راویوں کا حال لکھتے ہیں تو کہیں کہیں متشددین کی سختی کا ذکر بھی کرجاتے ہیں، اس لیے صرف کسی راوی پر جرح کا نام سن کر اسے ناقابل اعتماد نہ سمجھنے لگ جائیں جب تک تحقیق نہ کرلیں کہ جارحین کون کون ہیں اور کتنے ہیں، اسبابِ جرح واضح ہیں یا نہیں اور یہ کہ کہیں کوئی متشدد جارح تونہیں، ائمہ رجال کتبِ رجال میں کئی جگہ اس تشدد کا ذکر کرجاتے ہیں۔
امام نسائی (۳۰۳ھ) نے حارث اعور سے استناد کیا، جسے بعض ائمہ ضعیف کہہ چکے تھے توامام نسائی کے اس احتجاج کومحض اس لیئے اہمیت دی گئی کہ آپ جرح میں سخت واقع ہوئے تھے؛ سواس روش کے محدثین جس سے روایت لیں اس کا کسی درجے میں اعتبار ضرور ہونا چاہئے، حافظ ابنِ حجر عسقلانی حارث اعور کے بارے میں لکھتے ہیں:

"والنسائی مع تعنتہ فی الرجال فقد احتج بہ"۔             

(تہذیب التہذیب:۲/۱۴۷)

ترجمہ:امام نسائی نے رجال میں اپنی سختی کے باوجود اس راوی سے احتجاج کیا ہے،اس کی روایت قبول کی ہے۔

حافظ عسقلانی اپنے رسالہ بذل الماعون فی فضل الطاعون میں بھی ایک راوی کے بارے میں جسے امام نسائی اور ابوحاتم نے ثقہ کہا تھا اور کئی دوسروں نے ضعیف کہا، لکھتے ہیں:

"توثیق النسائی وابی حاتم مع تشددھما"۔

امام نسائی اور ابوحاتم کی توثیق ان دونوں کے متشدد ہونے کی وجہ سے
ابوحاتم کے متشدد ہونے کا آپ نے مقدمہ فتح الباری میں بھی ذکر کیا ہے۔

(مقدمہ فتح الباری:۲/۱۶۲)

ابوحاتم نے توامام بخاریؒ پر بھی جرح کردی ہے۔
ابنِ حبان کے تشدد فی الرجال کا ذکر بھی سنیئے، حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ وہ ثقہ راویوں پر بھی جرح کرجاتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ کیا کہہ رہے ہیں؛ سواگرجرح کا لفظ دیکھتے ہی راوی سے جان چھڑالی جائے توپھرآخرکون بچے گا؟ حافظ عسقلانی لکھتے ہیں:                 "ابن حبان ربما جرح الثقۃ حتی کانہ لایدری مایخرج من رأسہ"۔

(القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد:۳۳۔ افرط ابن حبان ، مقدمہ فتح الباری:۲/۱۲۹)

ترجمہ:ابنِ حبان کئی دفعہ ثقہ راویوں پر بھی جرح کرجاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کا ذہن کدھر جارہا ہے۔

حافظ ذہبیؒ بھی ابنِ حبان کے بارے میں کہتے ہیں "مااسرف واجترأ" (میزان الاعتدال:۱/۴۳۶)ابن حبان نے بہت زیادتی کی ہے اور بڑی جسارت کی ہے کہ ثقہ راویوں کوبھی ضعیف کہہ دیا، ایک اور جگہ پر کہتے ہیں "تقعقع کعادتہ"

(میزان الاعتدال:۲/۱۸۵)۔

شعبہ امیرالمؤمنین فی الحدیث مانے جاتے ہیں؛ لیکن قبولِ روایت میں اُن کی سختی دیکھئے، آپ سے پوچھا گیا کہ تم فلاں راوی کی روایت کیوں نہیں لیتے؟ آپ نے کہا "رأیتہ یرکض علی برذون" میں نے اسے ترکی گھوڑے دوڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔
آپ منہال بن عمرو کے ہاں گئے، وہاں سے کوئی ساز کی آواز سنی، وہیں سے واپس آگئے اور صورتِ واقعہ کی کوئی تفصیل نہ پوچھی۔
حکم بن عتیبہ سے پوچھا گیا کہ تم زاذان سے روایت کیوں نہیں لیتے؟ توانہوں نے کہا "کان کثیرالکلام" وہ باتیں بہت کرتے تھے۔
حافظ جریر بن عبدالحمید الضبی الکوفی نے سماک بن حرب کوکھڑے ہوکر پیشاب کرتے دیکھا تواس سے روایت چھوڑ دی۔

(دیکھئے، الکفایہ فی علوم الروایہ، للخطیب البغدادی:۱۰۔ لغایت:۱۱۴)

اب سوچئے اور غور کیجئے کیا یہ وجوہ جرح ہیں؟ جن کے باعث اتنے بڑے بڑے اماموں نے ان راویوں کوچھوڑ دیا؛ اگراس قسم کی جروح سے راوی چھوڑے جاسکتے ہیں؛ توپھر آخربچے گا کون؟ یہ سختی سب کے ہاں نہ تھی، اس لیے محض جرح دیکھ کر ہی نہ اچھل پڑیں، سمجھنے کی کوشش کریں کہ جرح کی وجہ کوئی شرعی پہلو ہے یاصرف شدت احتیاط ہےاور پھریادر کھیں کہ متشدد کی جرح اکیلے کافی نہیں ہے۔
یہ مختصرقواعدِ حدیث ہروقت ذہن میں رہنے چاہئیں، انسانی بساط اور عام بشری سوچ کے تحت جواحتیاطی تدابیر ہوسکتی تھیں وہ محدثین کرام نے طے کیں اور یہ اصول بھی تقریباً استقرائی ہیں جوائمہ فن نے قواعدِ شریعت کی روشنی میں طے کیئے ہیں، ان میں کئی پہلو اختلافی بھی ہیں، جن میں ائمہ کی رائے مختلف رہی ہے؛ لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تنقید کے بنیادی اصولوں میں سب ائمہ فن متفق رہے ہیں؛ بلکہ بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں نے تحقیق روایات اور تنقیح اسناد میں دنیا کو ایک نئے علم سے آشنا کیا اور وہ اصول بتائے جن کی روشنی میں پچھلے پہلووں کی باتوں کے جائز طور پر وارث ہوسکیں اور اُن کی صحت پر پوری طرح سے اعتماد کیا جاسکے۔



قواعدِ حدیث کی مستند کتابیں



ان دنوں اس موضوع پر زیادہ متداول کتابیں "مقدمہ ابن صلاح" اور "شرح نخبۃ الفکر"سمجھی جاتی ہیں، اصولِ حدیث کے یہ وہ متون ہیں جن پر آئندہ شرحیں لکھی گئیں، ابن صلاح نے سنہ ۶۴۳ھ میں وفات پائی، مؤخرالذکر کتاب نخبۃ الفکر اور اس کی شرح حافظ ابن حجر عسقلانی سنہ ۸۵۲ھ کی تالیف ہیں، شرح نخبۃ الفکر کی ملاعلی قاریؒ (۱۰۱۴ھ) نے بھی شرح لکھی ہے، جوشرح الشرح کے نام سے معروف ومشہور ہے۔
قدماء میں علی بن المدینیؒ (۲۳۴ھ)، امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) اور امام مسلمؒ (۲۶۳ھ) نے اس طرف توجہ فرمائی، امام احمدؒ نے اس پر کتاب العلل ومعرفۃ الحدیث تالیف فرمائی، امام مسلمؒ نے صحیح مسلم میں فن حدیث پر ایک عظیم مقدمہ تحریر فرمایا؛ پھرامام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) نے کتاب العلل لکھ کر اس موضوع میں گرانقدر اضافہ کیا، حافظ ابن رجب حنبلیؒ (۷۹۵ھ) نے کتاب العلل کی عظیم شرح تحریر کی، ابومحمدعبدالرحمن بن ابی حاتم الرازیؒ (۳۲۷ھ) نے کتاب الجرح والتعدیل لکھی جوحیدرآبادسے نوجلدوں میں شائع ہوئی ہے، دارِقطنیؒ (۳۸۵ھ) نے بھی کتاب العلل لکھی، آپ خود اسے مکمل نہ کرسکے، آپ کے شاگرد ابوبکر البرقانی نے اُسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا، حافظ شمس الدین سخاویؒ (۹۰۲ھ) نے اس کی ایک تلخیص لکھی جس کا نام "بلوغ الامل بتلخیص کتاب الدارِقطنی فی العلل" پھر خطابیؒ (۳۸۸ھ)، ابن حزم (۴۵۷ھ)، خطیب بغدادیؒ (۴۱۳ھ)، حافظ ابن عبدالبرؒ (۴۶۳ھ) اور امام بغویؒ (۵۱۶ھ)، عبدالرحمن بن الجوزیؒ (۵۹۷ھ) نے اپنی تصنیفات میں اصولِ حدیث پرگرانقدر تنقیحات کیں؛ یہاں تک کہ چھٹی صدی ہجری میں یہ فن ایک جامع شکل میں مرتب ہوگیا اور حافظ ابنِ صلاح (۶۴۳ھ) نے اس فن میں مقدمہ ابنِ صلاح لکھ کر اہلِ علم سے اپنا لوہا منوایا، اس کتاب کی مرکزی حیثیت آج تک مسلم چلی آرہی ہے۔
پھرآٹھویں صدی ہجری میں حافظ ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ)، ابن قیم جوزیؒ (۷۵۱ھ)، خطیب تبریزی صاحب مشکوٰۃ (۷۴۳ھ)، حافظ جمال الدین زیلعیؒ (۷۶۲ھ) اور حافظ ابن کثیرؒ (۷۷۴ھ) نے اس موضوع پر بیش بہا کام کیا، علامہ جرجانی رحمۃ اللہ علیہ (۸۱۶ھ) نے مختصراً البحرجانی لکھ کر اس باب میں حجت پوری کردی؛ پھرحافظ ذہبیؒ (۸۴۸ھ)، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (۸۵۲ھ)، حافظ بدرالدین عینیؒ (۸۵۵ھ)، حافظ ابنِ ہمام اسکندریؒ (۸۶۱ھ) اپنے دور میں اس فن کے امام تھے؛ لیکن جومقبولیت اور شہرت حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح نخبۃ الفکر کو ہوئی وہ ایک الہٰی مقبولیت کا نشان ہے، دنیا کے تمام مدارسِ حدیث میں یہ کتاب داخلِ نصاب ہے اور متعدد علمائے کرام نے اس کی شروح لکھی ہیں، برصغیر ہندوپاک میں بھی اس موضوع پرشیخ عبدالحق محدث دہلویؒ (۱۰۵۲ھ) کا رسالہ جولمعات التنقیح کے شروع میں ہے مولانا عبدالحیی لکھنویؒ (۱۳۰۴ھ) کی کتاب الجرح والتکمیل اور مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی قواعد علم الحدیث اس فن کی مستقل کتابیں ہیں۔








قاعدہ_قبولیت_ضعیف حدیث:
علماء نے ان کو اگرچہ ضعیف کہا لیکن اصول_حدیث میں یہ مقرر ہے کہ جب ایسی (یعنی ضعیف) حدیث کے طرق کثیرہ ہوں تو وہ حسن بلکہ صحیح ہوجاتی ہے. (فتاویٰ علماء حدیث : ٧/٧٠ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)

کسی محدث کا اپنی کتاب_حدیث میں کسی حدیث پر سکوت (صحت_حدیث پر کلام نہ) کرنا، اس اہل_حدیث (محدث) کے نزدیک اس حدیث کا قابل_حجت ہونا ہے:
امام ابو داود نے کہا : جس حدیث پر کہ میں اپنی کتاب میں سکوت کروں تو وہ احتجاج (حجت و دلیل ہونے) کی صلاحیت رکھتی ہے...(فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)

خیر القرون (بہترین زمانہ : صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کے ٢٢٠ھ تک) میں جس ضعیف حدیث پر عمل ہوتا ہو، وہ مقبول ہے:
علاوہ ازیں ضعیف حدیث جبکہ قرون مشہود لھا بالخیر میں معمول بھ ہو، وہ امت کے ہاں مقبول ہے. (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)

مقبول ضعیف احادیث : 
(وہ ہیں) جو اسناد کی حیثیت سے مردود ، معنا کے لحاظ سے مقبول ہیں (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٣ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)

تلقی بالقبول:
چونکہ علماء نے اس کو قبول کیا ہے، سو اس حدیث کو اسناد کے لحاظ سے مردود اور معنا کے حثیت سے قبول کیا ہے. (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٣)
شوکانی نے کہا اہل_حدیث اس زیادت کے ضعف پر اتفاق کر چکے ہیں، لیکن اس کے مضمون میں اجماع واقع ہوچکا ہے. (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٣)
علامہ سخاوی رح نے "شرح الفیہ" میں کہا ہے کہ جب امت حدیث_ضعیف کو قبول کرلے تو صحیح یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاۓ ، یہاں تک کہ وہ یقینی اور قطعی حدیث کو منسوخ کرنے میں متواتر حدیث کے رتبہ (درجہ) میں سمجھی جاۓ گی ، اور اسی وجہ سے امام شافعی رح نے (ضعیف) حدیث : "لاوصية لوارث" کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس کو اہل_حدیث ثابت نہیں کہتے لیکن عامه علماء نے اس کو قبول کرلیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کو آیت_وصیت کا ناسخ قرار دیا ہے. (فتاویٰ علماۓ_حدیث : ٢/٧٤ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)

اقوال_صحابہ حجت ہیں:
کیوں کر ان کا قول حجت نہ ہو باوجود یہ کہ ہمارے پروردگار کے رسول نے ہم کو ان کی تابعداری کا حکم فرمایا اور ہمارے خالق نے اپنی رضامندگی کا وعدہ ان کی پیروی پر ہی دیا ہے. (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٧ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦) میری سنت اور خلفاۓ راشدین کی سنّت ، دو شخص جو میرے بعد ہونگے ، ابو بکر و عمر ، کی اقتدا کرنا.


















1 comment: