Thursday 27 September 2012

حدیث کا علم، تاریخ، موضوع، ضرورت

 حدیث کی لغوی تعریف
 حدیث کےمعنی بات اور گفتگو کے ہیں،علامہ جوہری صحاح میں لکھتے ہیں:

‘‘اَلْحَدِیْثُ الْکَلَامُ قَلِیْلُہُ وَکَثِیْرُہُ ’’۔

حدیث بات کو کہتے ہیں خواہ  وہ مختصر ہو یا مفصل۔

حدیث کی اصطلاحی تعریف
حضور کےاقوال ،افعال اور تقریرات کے مجموعہ کو حدیث کہتے ہیں،اقوال سے مراد آپ کی زبان مبارک سے نکلےہوئے کلمات ہیں،افعال سے مراد آپﷺ کے اعضاءسے ظاہر شدہ اعمال ہیں اور تقریر سے مراد: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےکسی صحابی نے کچھ کیا یا کہااور آپ نے اس پر سکوت فرمایا نکیر نہ کی اور اس سے یہی سمجھا گیاکہ اس عمل یا قول کی حضور نے تصدیق فرمادی ہے تو اسی تصدیق کو ‘‘تقریر’’ confirmationکہتے ہیں اور آپ کی یہ تصدیق تقریری صورت کہلاتی ہے۔

حدیث کی حیثیت قرآن کریم میں
شریعتِ اسلامیہ کی اساس اور بنیاد قرآن اور سنتِ رسول اللہ ہے ؛چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بحیثیتِ مطاع (یعنی جس کی اطاعت کی جائے) پیش کیا ہے، فرمانِ باری ہے:

(۱)‘‘یَاأَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُو اللہَ وَأَطِیْعُوالرَّسُوْلَ وَلَاتُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ’’۔                

  (محمد:۳۳)

اے ایمان والو اللہ  کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی طرح حضور کے اقوال، افعال اور تقریرات کی بھی اتباع کرنا ضروری ہے ،اللہ تعالیٰ نے مستقل طور سے اس کا حکم دیا ہے۔


 (۲)نیز ارشاد خدا وندی ہے:‘‘وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ’’۔    
    

(النحل:۴۴)

اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُن باتوں کی واضح تشریح کردو جو اُن کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کی جو ذمہ داری لی ہے اس کی تکمیل رسول اللہ کریں گے، آپ کا بیان اللہ ہی کا بیان ہوگا اور یہ بات اسی وقت ممکن ہے کہ آپ نے قرآن کی تبیین وتشریح وحی کے ذریعہ فرمائی ہو ورنہ اس کو اللہ کا بیان کیسے کہہ سکتے ہیں۔
(۳)ایک اور جگہ ارشاد ہے‘‘وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیo إِنْ ھُوَإِلَّاوَحْیٌ یُوْحَی‘‘۔

(النجم:۳،۴)

اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے،یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے ۔
(۴)نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے:‘‘وَمَاآتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا’’۔

(الحشر:۷)

رسول تم کو جو کچھ دیں وہ لے لو اور جس چیز سے تم کو روک دیں رک جاؤ۔
ان دونوں آیتوں میں واضح طور پر حدیث کا مقام معلوم ہورہا ہے کہ اللہ تعالی نے  حضور اکرم  کے ارشادات کو  وحی الہٰی سے تعبیر فرمایا  اور امت کو حکم دیا کہ حضور اکرم  جس بات کا حکم دیں اس کو اختیار کرو اور جس بات سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
احادیث میں حدیثِ رسول کی حیثیت
 (۱)آپ کی ارشاد ہے:"أَلَاإِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔   

(ابوداؤد، باب فی لزوم السنۃ، حدیث نمبر:۳۹۸۸)

خبردار رہو کہ مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل بھی دیا گیا ہے۔
حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ حضور  نے فرمایا :
 (۲)حدیث کے حفظ اور یادداشت کی ترغیب دیتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَه۔

(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰ شاملہ،موقع الاسلام)

اللہ تعالی اس شخص کو تازگی بخشیں جس نے  ہم سے کو ئی حدیث سنی  اسے یاد رکھا؛ یہاں تک کہ اسے کسی دوسرے تک پہنچایا۔
(۳)ایک اور حدیث میں ہے:فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ

(مسلم، بَاب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ،حدیث نمبر:۳۱۸۰،شاملہ، موقع الاسلام)

جو حاضر ہے وہ اسے غائب تک پہنچادے۔
خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت  نے متنبہ فرمایا کہ آپ کی یہ حدیث آج صرف اسی اجتماع  کے لیے نہیں یہ کل انسانوں کے لیے راہ ہدایت ہے جو آج موجود ہیں اور سن رہے ہیں وہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچادیں۔
علاوہ ازیں ایک حدیث میں ہے:
(۴)‘‘كان جبريل عليه السلام ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسنة كماينزل عليه بالقرآن، ويعلمه إياها كمايعلمه القرآن’’۔

(مراسیل ابوداؤد، باب فی البدع، حدیث نمبر:۵۰۷)

حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنتوں کا علم لے کر ایسے ہی نازل ہوتے تھے جیسے قرآن آپ پر لےکرنازل ہوتے تھےاور اس کو ایسے ہی سکھاتے تھے جیسے قرآن کو سکھاتے تھے۔
ان میں واضح طور پر یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ حدیثیں بھی قرآن کی طرح وحی ہیں،
احکامِ اسلامیہ پر عمل کے لیےحدیث کی ضرورت
اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے اور  قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھنے کےلیےاحادیث کا علم ضروری ہے ، اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں  اسی ۸۰/سے زیادہ جگہوں میں نماز کا حکم دیا گیا، کہیں ‘‘اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃ’’(نماز قائم کرو) کہا گیا ہے تو کہیں‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلَوۃ’’ (نماز کو قائم کرتے ہیں)کہا گیا ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ نماز کس چیز کا نام ہے؟قیام،رکوع،سجدہ وغیرہ کس طرح کیا جاتا ہے،اس کی ترکیب کیا ہے ؟ قرآن کریم میں کہیں یہ بات بیان نہیں کی گئی ہے؛ البتہ قرآن میں نماز کے ارکان کا مختلف الفاظ سے مختلف جگہ تذکرہ آیا ہے، نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکے تمام ارکان کو جمع کرکے اس کوادا کرنے کا طریقہ بتایا ؛ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے فرائض، واجبات، سنن، مستحبات، آداب، مکروہات اور ممنوعات ہرایک کو تفصیل سے بیان کیا؛ اسی طرح نماز مسجد میں قائم کرنے کا حکم دیا ؛تاکہ نماز کا اہتمام ہو اور اذان وجماعت کا نظام بنایا، امام ومؤذن کے احکام بیان کئے اور پانچوں نمازوں کے اوقات متعین کئے اور ان اوقات کے اوّل وآخر کو بیان کیا؛ غرض تقریباً دوہزار حدیثیں ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ’’ کی تفسیر کرتی ہیں ان دوہزار احادیث کو اگر ‘‘یُقِیْمُوْنَ الصّلٰوۃ’’ کے ساتھ نہ لکھا جائے تو اقامتِ صلوٰۃ کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی، اور صرف نماز ہی نہیں؛ بلکہ اسلام کے تمام تفصیلی احکامات کا علم احادیث ہی سے مکمل ہوتا ہے۔
حدیث پڑھنے کا فائدہ
حدیث پڑھنے والا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک نورانی سلسلہ قائم ہوجاتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بار بار درود شریف پڑھنے کی توفیق ملتی ہے، جو سعادتِ دارین کا باعث ہے جس کے بے شمار فوائد ہیں، اس طرح علم حدیث کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اس سے زندگی میں نبوی طریقوں پر عمل پیرا ہونا آسان ہوجاتا ہے جس کا اللہ نے قرآن میں ‘‘اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ’’(رسول کی اطاعت کرو)کے ذریعہ حکم دیا ہے، جب کسی ذاتِ بابرکت کے حالات کا عرفان ہوتا ہے تو اس کی تعلیمات پر چلنا اور احکامات کو بجالاناآسان ہوجاتا ہے،حدیث پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والا حضور  کی اس دعا میں شامل ہوجاتا ہے: اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔
تدوینِ حدیث
حدیث کی عظمت وفضیلت اور زندگی کے ہرشعبہ میں اس کی ضرورت کے پیشِ نظر حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا اہتمام زمانۂ رسالت ہی سے کیا گیا؛ چنانچہ احادیث کی تحریر سے قطعِ نظرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے علم حدیث کے اصول اور حفظ وضبط کے لیے اللہ کی عطا کردہ غیرمعمولی حافظہ کی تیزی اور ذہن کی سلامتی کا سہارا لیا۔
حفاظتِ حدیث کے طریقے
عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حفاظتِ حدیث کے لیے تین طریقے (حفظِ روایت، تعامل اور تحریر وکتابت) اپنائے گئے تھے جو یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔
حفظِ روایت
حفاظتِ حدیث کا پہلا طریقہ احادیث کو یاد کرنا ہے اور یہ طریقہ اس دور کے لحاظ سے انتہائی قابل اعتماد تھا، اہلِ عرب کو اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی حافظے عطا فرمائے تھے، وہ صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اپنے گھوڑوں تک کے نسب نامے ازبر یاد کرلیا کرتے تھے، ایک ایک شخص کو ہزاروں اشعار حفظ ہوتے تھے ،یہی نہیں بلکہ؛یہ حضرات بسااوقات کسی بات کو صرف ایک بار سن کر یادیکھ کر پوری طرح یاد کرلیتے تھے، تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے سامنے عمر بن ابی ربیعہ شاعر آیا اور ستر اشعار کا ایک طویل قصیدہ پڑھ گیا، شاعر کے جانے کے بعد ایک شعر کے متعلق گفتگو چلی، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مصرعہ اس نے یوں پڑھا تھا، جو مخاطب تھا اس نے پوچھا کہ تم کو پہلی دفعہ میں کیا پورا مصرعہ یاد رہ گیا؟ بولے کہو تو پورے ستر شعر سنادوں اور سنادیا۔
علماء اسلام کا خیال ہے کہ علاوہ اس کے کہ عرب کا حافظہ قدرتی طور پر غیرمعمولی تھا یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قرآن مجید کے متعلق جس نے ‘‘وَإِنَّالَہُ لَحَافِظُوْنَ’’ کا اعلان کیا تھا اسی نے قرآن کی عملی شکل یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی حفاظت جن کے سپرد کی تھی ان کے حافظوں کو غیبی تائیدوں کے ذریعہ سے بھی کچھ غیرمعمولی طور پر قوی تر کردیا تھا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کو محفوظ کرنااپنے لیے راہِ نجات سمجھتےتھے، خاص طور پر جب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ان کے سامنے آچکا تھا:
‘‘نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فحفظھا ووعاھا واداھا کماسمع’’۔

(ترمذی، باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع، حدیث نمبر:۲۵۲۸۔ ابن ماجہ، باب من بلغ علی، حدیث نمبر:۲۲۶۔ مسنداحمد، حدیث جبیر بن مطعم، حدیث نمبر:۱۶۷۸۴۔ مسند شافعی، فدب حامل فقہ غیرفقیہ، حدیث نمبر:۱۱۱۵)

اللہ اس بندہ کو آسودہ حال رکھے جس نے میری بات(حدیث) سن کر یاد کیا پھر اسے اسی طرح دوسروں تک پہونچایا۔
طریقۂ تعامل
حفاظتِ حدیث کا ایک اور طریقہ جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اختیار کیا تھا وہ تعامل تھا ؛یعنی صحابۂ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال پر بجنسھا عمل کرکے اسے یاد کرتے تھے، ترمذی شریف اور دیگر حدیث کی کتابوں میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ انھوں نے کوئی عمل کیا اور اس کے بعد فرمایا: ‘‘ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّیَ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’ بلاشبہ یہ طریقہ بھی نہایت قابلِ اعتماد ہے اس لیے کہ انسان جس بات پر خود عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ ذہن میں اچھی طرح راسخ ہوجاتی ہے۔
طریقۂ کتابت
حدیث کی حفاظت کتابت وتحریر کے ذریعہ سے بھی کی گئی ہے، تاریخی طور پر کتابتِ حدیث کو چار مراحل پر تقسیم کیا جاتا ہے:
(۱)متفرق طور سے احادیث کو قلمبند کرنا۔
(۲)کسی ایک شخصی صحیفہ میں احادیث کو جمع کرنا جس کی حیثیت ذاتی یاد داشت کی ہو۔
(۳)احادیث کو کتابی صورت میں بغیر تبویب(ابواب) کے جمع کرنا۔
(۴)احادیث کو کتابی شکل میں تبویب (ابواب)کے ساتھ جمع کرنا۔
عہدِرسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابت کی پہلی دوقسمیں اچھی طرح رائج ہوچکی تھیں، منکرینِ حدیث عہدِرسالت میں کتابتِ حدیث کو تسلیم نہیں کرتے اور مسلم وغیرہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘لَاتَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَمَنْ کتب عنی غَیْرَالْقُرْآن فَلْیَمْحُہٗ’’ منکرینِ حدیث کا یہ کہنا ہے کہ حضور کا کتابتِ حدیث سے منع فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس دور میں حدیثیں نہیں لکھی گئیں؛ نیزاس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ احادیث حجت نہیں؛ ورنہ آپ انھیں اہتمام کے ساتھ قلمبند فرماتے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کتابتِ حدیث کی یہ ممانعت ابتداء اسلام میں تھی۔
ذیل میں ہم کتابتِ حدیث سے ممانعت کی وجوہ اور اس کے متعلق اعتراضات کے جوابات پیش کررہے ہیں،کاتبین کی سہولت کے باوجود عمومی طور پر حدیث کی کتابت اور تدوین کی جانب توجہ نہ دینے کے درجِ ذیل اسباب ہیں:
(۱)اپنے فطری قوتِ حافظہ کی حفاظت مقصود تھی؛ کیونکہ قیدِ تحریر میں آجانے کے بعد یادداشت کے بجائے نوشتہ پر اعتماد ہوجاتا۔
(۲)قرآن کریم کے لفظ اور معنی دونوں کی حفاظت مقدم اور ضروری تھی اس لیے لکھنے کا اہتمام کیا گیا ،جب کہ حدیث کی روایت بالمعنی بھی جائز تھی؛ اس لیے حدیث کے نہ لکھے جانے میں کوئی نقصان نہیں تھا۔
(۳)عام مسلمانوں کے اعتبار سے یہ اندیشہ تھا کہ قرآن اور غیرقرآن یعنی حدیث ایک ہی چمڑے یاہڈی پر لکھنے کی وجہ سے خلط ملط ہوسکتے ہیں؛ اس لیے احتیاطی طور پر رسول اللہنے قرآن کریم کے علاوہ احادیث نبویہ کو لکھنے سے منع فرمایا؛ چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث جس میں کتابتِ حدیث سے ممانعت فرمائی گئی اسی مصلحت پر مبنی ہے۔
(۴)ابتداءِ اسلام میں تحریرِ حدیث کی ممانعت تھی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عوارضات کے ختم ہونے کے بعد تحریرِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی جس کے متعلق درجِ ذیل احادیث سے تائید ہوتی ہے:
(۱)حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا اسے محفوظ رکھنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا ،قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا کہ تم ہربات رسول اللہ سے لکھ لیا کرتے ہو؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں ،ان پر بھی خوشی اور غصہ دونوں حالتیں طاری ہوتی ہیں؛ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور رسول اللہ کے پاس جاکر یہ بات میں نے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشتِ مبارک سے اپنے دہنِ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
‘‘اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَايَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّاحَقٌّ’’۔

(ابوداؤد،بَاب فِي كِتَابِ الْعِلْمِ حدیث نمبر:۳۱۶۱)

تم لکھتے رہو؛ کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق بات ہی کا صدور ہوتا ہے۔
(۲)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ حدیثوں کا جامع کوئی نہیں ہے سوائے عبداللہ بن عمرو کے؛ کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔

(بخاری شریف، کتاب العلم، باب کتابۃ العلم:۱/۲۲)

(۳)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ ایک انصاری شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ’’ (یعنی اسے لکھ لو)۔

(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِيهِ، حدیث نمبر:۲۵۹۰)

اس قسم کی احادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ کتابتِ حدیث کی ممانعت کسی امرِعارض کی بناپر تھی اور جب وہ عارض مرتفع ہوگیا تواس کی اجازت؛ بلکہ حکم دیا گیا؛ اسی لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کے دور میں حدیث کے کئی مجموعے (جو ذاتی نوعیت کے تھے) تیار ہوچکے تھے، جیسے صحیفۂ صادقہ، صحیفۂ علی، کتاب الصدقہ، صحفِ انس بن مالک، صحیفۂ سمرہ بن جندب، صحیفۂ سعد بن عبادہ اور صحیفۂ ہمام بن منبہ رضی اللہ عنہم، یہ صحیفے اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ میں کتابتِ حدیث کا طریقہ خوب اچھی طرح رائج ہوچکا تھا؛ لیکن اتنی بات ضروری ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں قرآن کی طرح تدوین واشاعتِ حدیث کا اہتمام نہیں ہوا؛ لیکن حضور کی زندگی عہدِ صحابہ میں بجائے ایک نسخہ کے ہزاروں نسخوں کی صورت میں موجود ہوچکی تھی اس اعتبار سے تدوینِ حدیث کی ایک صورت خود صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی تھی۔
مدوّنِ اوّل
 سب سے پہلے حدیث کی تدوین اور اس کو کتابی شکل میں جمع کرنے کا حکومت کی جانب سےحکم حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ(۱۰۱ھ) نے دیا ہے، آپ کے مبارک دور میں احادیث کی باضابطہ تدوین کی تحریک پیدا ہوئی ہے، اس لیے کہ اب قرآن کریم سے احادیث کے اختلاط والتباس کا اندیشہ نہ تھا، صحیح بخاری میں ہے۔

(۱)َكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ انْظُرْ مَا كَانَ مِنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْهُ فَإِنِّي خِفْتُ دُرُوسَ الْعِلْمِ وَذَهَابَ الْعُلَمَاءِ..الخ

(بخاری،باب کیف یقبض العلم،۱۷۵/۱)

 حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ آنحضرت کی احادیث پر نظر رکھیں اورانہیں لکھ لیں؛کیونکہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے اٹھ جانے کا ڈر ہے
الغرض اس طرح تدوینِ حدیث کے اس اہم کام کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں پہلی ہجری کے آخر میں حدیث کی بہت سی کتابیں وجود میں آگئی تھیں، جیسے: کتب ابی بکر، رسالہ سالم بن عبداللہ فی الصدقات، دفاتر الزھری، کتاب السنن لمکحول، ابواب الشعبی۔
یہ حدیث کی کتابوں میں تبویب کی ابتداء تھی، دوسری صدی ہجری میں تدوینِ حدیث کا یہ کام نہایت تیزی اور قوت کے ساتھ شروع ہوا؛ چنانچہ اس دور میں حدیث کی لکھی گئی کتابوں کی تعداد بیس سے بھی زیادہ ہے جن میں سے چند مشہور کتابیں یہ ہیں:
کتاب الاثار لابی حنیفہ، المؤطا للامام مالک، جامع معمربن راشد، جامع سفیان الثوری، السنن لابن جریج، السنن لوکیع بن الجراح اور کتاب الزہد لعبداللہ بن المبارک، وغیرہ۔
تدوینِ حدیث کا کام تیسری صدی ہجری میں اپنے شباب کو پہونچ گیا جس کے نتیجہ میں اسانید طویل ہوگئیں، ایک حدیث کو متعدد طرق سے روایت کیا گیا؛ نیزشیوعِ علم کی بنا پر فن حدیث پر لکھی گئی کتابوں کو نئی تبویب اور نئے انداز سے ترتیب دیا گیا اس طرح حدیث کی کتابوں کی بیس سے زیادہ قسمیں ہوگئیں پھر اسماء الرجال کے علم نے باقاعدہ صورت اختیار کرلی اور اس پر بھی متعدد کتابیں لکھی گئیں؛ الغرض اسی دور میں صحاحِ ستہ کی بھی تالیف ہوئی جس سے آج تک امت مستفید ہورہی ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حدیث کی حفاظت وصیانت اور کتابت کا آغاز زمانۂ رسالت ہی سے ہوگیا تھا اور حدیث کی حفاظت کے لیے حفظِ روایت، طریقۂ تعامل اور تحریر سے کام لیا گیا،اور تیسری صدی ہجری تک حدیثوں کوپورے طور پرمدون کردیا گیا۔
سنت اور حدیث میں فرق
سنت کا لفظ عمل متوارث پر آتا ہے اس میں نسخ کا کوئی احتمال نہیں رہتا،حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہےکبھی منسوخ ؛مگر سنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی، سنت ہے ہی وہ جس میں توارث ہواور تسلسلِ تعامل ہو،حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح، یہ صحت وضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے،ایک علمی درجہ کی بات ہے، بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے.

(اٰثار الحدیث:۶۲)

حدیث میں درجہ بندی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
فتوحات کی کثرت کی بنا پر جب مختلف قبیلوں اور دور دراز علاقوں میں اسلام پھیلنے لگا تو حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مختلف جگہوں میں قیام پذیر ہوگئے، اس طرح مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ علم حدیث کے حامل کبارِ صحابہ اس دنیا سے پردہ فرمانے لگے جس کے نتیجہ میں علمِ حدیث کے حاملین کی کمی ہونے لگی، دھیرے دھیرے حق کے خلاف باطل سرابھارنے لگا ،لوگ اپنے اپنے مقاصد کے لیے حدیثیں اپنی طرف سے بناکرحضور اکرم ﷺ کی طرف اس کی نسبت کرنے لگے،مثلاً بددین لوگوں نے اپنے عقائد کے تائید میں،سیاسی گروہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے پیشوا کی فضیلت اور مخالفین کی مذمت میں،بادشاہوں کو خوش کرنے کی لیےاورغیر محتاط مقررین اپنی تقریر میں رنگ جمانے کے لیے حدیثیں گڑھنےلگے،تو ان نازک حالات کے پیشِ نظر علماءِ وقت نے حدیث کی تدوین نیز اسے کتابی شکل میں لانے کی ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچہ علماء اور طالبینِ حدیث اس کام کے لیے کمربستہ ہوگئے، انہوں نے  حدیث کی حفاظت کی اہمیت کے پیش نظر دوردراز کے متعدد اسفار کئے، اس وقت محدثین کرام علمِ حدیث کی خدمت کو شب بیداری سے افضل سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اس اہم کام کے لیے صرف کردیا،اور من گھڑت روایتیں پیش کرنے والے راویوں کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیا،صحیح اور موضوع روایتوں کو الگ الگ کردیا،صحیح اور ضعیف احادیث کی پہچان کے لیے اصول مقرر کیے،جس کو حدیث کا علم کہتے ہیں ،ان علوم کو جانے بغیر کوئی شخص احادیث میں کلام نہیں کرسکتا۔
موجودہ زمانے میں احادیث پرصحیح یا ضعیف کا حکم لگانا
موجودہ زمانے میں کسی حدیث کو علم حدیث میں مہارت کے بغیرصحیح یا ضعیف ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ،اس لیے کہ کتابوں میں نقل کرنے سے پہلے ائمہ جرح وتعدیل راویوں کی پوری چھان بین کرتےتھے، ان کی صفات باوثوق ذریعے سے معلوم کرتے،اور علم حدیث کے تمام شرائط پر اس راوی اورروایت کو پرکھا اورجانچا جاتا تھا،اس کے بعد حدیث کا درجہ متعین کیا جاتا تھا،الغرض!ماہرین علم حدیث نے مجموعی طور پر جس حدیث کو ضعیف یا صحیح لکھا ہے ،موجودہ زمانہ میں اسی حدیث کو ضعیف یا صحیح کہا جاسکتا ہے-
البتہ جن احادیث کے بارے میں صحت وضعف کا پتہ نہ چل سکے اور باوجود تلاش وجستجو کے کسی کی کوئی تصریح اس حدیث کے متعلق نے مل سکے تو پھر کتب اسماء رجال سے ہر راوی کے متعلق جملہ آراء کو جمع کیا جائے اور معتدل وحقیقت پسندانہ تبصرہ کرنے والوں کی رائے کو اہمیت دی جائے اور اس کی روشنی میں کسی حدیث کے بارے میں صحت وضعف کا فیصلہ کیا جائے ؛یہی محتاط طریقہ ہے،بلا تحقیق وجستجو کے کسی حدیث پر حکم لگانا نہایت غلط طریقہ ہے۔
علوم حدیث
مجموعی طور پر علم حدیث کی درج ذیل قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔
۱۔ نقل حدیث کی کیفیت و صورت ۔ نیز یہ کہ وہ کس کا فعل وتقریر ہے ۔
۲۔نقل حدیث کے شرائط۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ نقل کی کیا کیفیت رہی ۔
۳۔ اقسام حدیث باعتبار سند و متن ۔
۴۔احکام اقسام حدیث ۔
۵۔احوال راویان حدیث ۔
۶۔ شرائط راویان حدیث ۔
۷۔ مصنفات حدیث ۔
۸۔اصطلاحات فن ۔
راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی قسمیں
حدیث نقل کرنے والے کو راوی کہتے ہیں،اس  لحاظ سے حدیث کی چار قسمیں ہیں،متواتر،مشہور،غریب،عزیز۔
متواتر:وہ حدیث ہے جس کو رسول اللہ  سے آج تک اتنی بڑی جماعت نقل کرتی آئی ہو کہ عادتاً ان کا جھوٹ پر متفق ہوجانا ناقابل تصور ہو۔
مشہور:وہ حد یث  ہے جس کو ہر زمانے میں تین یا اس سے زیادہ راویوں نے نقل کیا ہو،اگر سلسلہ سند میں کہیں بھی راویوں کی تعداد کسی زمانے میں تین سے کم ہوگئی ہو تو خبر مشہور باقی نہیں رہے گی۔
عزیز:وہ حدیث ہے جس کی روایت کرنے والے کسی زمانے میں دو سے کم نہ ہوں۔
غریب:وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ سند میں کسی زمانے میں بھی راوی کی تعداد صرف ایک رہ گئی ہو،حدیث غریب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ غیر معتبر ہوتی ہے؛ بلکہ حدیث غریب کبھی صحیح کبھی حسن اور کبھی ضعیف کے درجے کی ہوتی ہے۔
مقبول حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیں
مقبول یعنی وہ حدیث جس کی رسول اللہ  کی طرف نسبت کا درست ہونا راجح ہو،اس کی چار قسمیں ہیں،صحیح لذاتہ،صحیح لغیرہ،حسن لذاتہ،حسن لغیرہ۔
 صحیح لذاتہ:وہ حدیث ہےجس کو عادل اور قوی الحفظ راویوں نے اس طرح نقل کیا ہو کہ سند میں کہیں انقطاع نہ ہو اور وہ علت اور شذوذ سے محفوظ ہو۔
(عادل سے مراد جو گناہوں اور دنائت کی باتوں سے بچتا ہو،قوی الحفظ وہ ہے جو سنی ہوئی بات کو بغیر کمی بیشی کے محفوظ رکھ سکتا ہواصطلاح میں اس کو ضبط کہتے ہیں،علت روایت میں پائی جانے والی ایسی پوشیدہ کمزوری کو کہتے ہیں جس پر اہل فن ہی واقف ہوسکیں،شذوذ کا مطلب یہ ہے کہ راوی نے سند یا حدیث کے مضمون میں اپنے سے بہتر راوی کی مخالفت کی ہو)۔
صحیح لغیرہ:وہ حدیث ہےجس کا راوی ضبط میں تھوڑا کمزور ہو؛لیکن دوسری کئی سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے  صحیح کے درجے میں آجائے۔
حسن لذاتہ:وہ حدیث ہے جس کا راوی عادل ہو؛ لیکن ضبط میں کچھ کم ہواور اس میں شذوذ و علت پائی جائے۔
حسن لغیرہ:وہ حدیث ہے جس کی سند میں کوئی راوی عدل یا ضبط کے اعتبار سے کمزور ہو ؛لیکن کثرت طرق کی وجہ سے اس کی تلافی ہوجائے۔
ضعیف حدیث کی پہچان اور اس کی قسمیں
حدیث ضعیف:وہ حدیث ہے جس کی سند میں اتصال نہ ہو یا راوی عادل نہ ہو یا راوی کا حافظہ بہتر اور قابل اعتماد نہ ہو،حدیث ضعیف کی بہت قسمیں ہیں،بنیادی طور پر دو اسباب کی وجہ سے حدیث ضعیف کہلاتی ہے(۱)سند میں کسی مقام پرراوی کا چھوٹ جانا(۲)حدیث کے راویوں میں جن اوصاف کا پایاجانا ضروری ہے وہ نہ پائے جائیں۔
چند اصطلاحات ِحدیث
  حضور سے جو چیز منقول ہوا سے‘‘حدیث مرفوع’’اور جو صحابی سے منقول ہو اسے ‘‘حدیث موقوف’’ اور جو تابعی سے منقول ہواسے‘‘حدیث مقطوع’’ کہتے ہیں ، حدیث کے ناقل کو ‘‘راوی’’اور حدیث کو‘‘روایت’’ کہتے ہیں اور ناقلین کے نام کے مجموعہ کو‘‘سند’’ اور اصل مضمون کو ‘‘متن’’ کہتے ہیں۔
کتب احادیث کی چند قسمیں
صحیح:وہ کتب حدیث ہیں جن میں مؤلف نے صحیح احادیث کے نقل کرنے کا اہتمام کیا ہو،جیسے مؤطا امام مالک ، بخاری،مسلم،ترمذی،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان،ان کتابوں میں مؤلفین نے اپنی دانست میں صحیح وحسن روایات کو نقل کرنے کا اہتمام کیا ہے اور اگر کہیں کسی مصلحت سے قصداً ضعیف روایت نقل کی ہیں تو ان کا ضعف بھی ظاہر کردیا ہے۔
جامع:وہ کتابیں جن میں آٹھ قسم کی مضامین ہوں ‘‘عقائد، احکام، رقاق، آداب، تفسیر، سیر،مناقب،فتن’’بخاری اور ترمذی بحیثیت جامع زیادہ ممتاز ہیں۔
سنن:وہ کتب جن میں فقہی ترتیب سے روایات جمع کی گئی ہوں،جیسے ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ۔
مصنف:ایسی کتابیں جو فقہی ترتیب پر مرتب کی جاتی ہیں؛ مگر ان میں احادیث مرفوعہ کے ساتھ صحابہ وتابعین کے فتاویٰ بھی مذکور ہوں ،جیسے مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ۔
مسند: وہ کتابیں ہیں جن میں ہر صحابی کی مرویات کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہو جیسے مسند احمد بن حنبل وغیرہ۔
معجم:جس میں ایک استاذ کی مرویات کو راوی نے جمع کیا ہو جیسے طبرانی کی معجم وغیرہ۔( حدیث کا یہ ایک مختصر تعارف تھا اس عنوان کے تحت تمام تفصیلات آگےملاحظہ فرمائیں)

 ================================================

حدیث اور تاریخ میں فرق:

کسی زمانہ کے حالات جب قلمبند کیے جاتے ہیں تو یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ہر قسم کی بازاری افواہیں قلمبند کرلی جاتیں ہیں۔ جن کے راویوں کا نام ونشان تک معلوم نہیں ہوتا۔ ان افواہوں سے وہ واقعات انتخاب کرلیے جاتے ہیں جو قرائن وقیاسات کے مطابق ہوتے ہیں۔ تھوڑے زمانہ بعد(یعنی کتابی شکل اختیار کرنے کے بعد) یہی مجموعہ ایک دلچسپ تاریخی کتاب بن جاتی ہے۔چنانچہ اس وقت ہمارے پاس ماضی کی تاریخوں کا جوذخیرہ خواہ وہ روم ہویایونان، چین ہویاایران ان قدیم اقوام کی تاریخ جن ذرائع سے مرتب ہوتی ہے، اس میں بہت کم کوئی واقعہ ایسا مل سکتا ہے، جس کوخود اس کے شاھدوں نے مرتب کیا ہو، اتفاقاً اگراس بات کا پتہ چل بھی جائے تواس کا پتہ چلانا قطعاً دشوار؛ بلکہ شاید ناممکن ہے کہ ضبط واتقان، سیرت وکریکٹر کے لحاظ سے ان کا کیا درجہ تھا۔
اب اگر اس طرح لکھی ہوئی تاریخ کی ہم آہنگی میں کوئی قلمی نوشتہ بھی مل جائے توپھر تو اس تاریخ کے مستند ہونے کے کیا کہنے۔ یہ قلمی نسخہ جتنا زیادہ پرانا اور دیمک خوردہ ہوگا، اسی نسبت سے وہ ایک قیمت ستاویز قرار پائے گا۔ حالانکہ اس کا راوی مجہول الحال (جس کے حالات زندگی ہی کس کو معلوم نہیں) اور نہ معلوم کس قسم کے کردار کا مالک ہوتاہے۔ آج کل تو لوگوں نے ایسی قیمتی ستاویزات کے حصول کے لیے کئی مصنوعی طریقے بھی دریافت کرلیے ہیں۔پھر اگر کہیں سے پتھر یا دھات پر کوئی تحریر زمین میں دفن شدہ مل جائے۔ تو اس کی وقعت وحی الہیٰ سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ گویا اس کا تحریر کنندہ ہر طرح کے عیوب اور غلطیوں سے پاک صاف تھا۔ تاہم چونکہ ایسے کتبوں کی آج کل وقعت بہت بڑھ گئی ہے۔ لہٰذا ایسی تحریریں بھی خود ہی اس وقت کے رسم الخط میں لکھ کر کسی دور افتادہ مقام پر گاڑھ دی جاتی ہیں اور کچھ مدت بعد نکال کر انھیں دنیا کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے۔تاریخ کے میدان میں جو چیز فی الواقع کچھ اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ خود نوشتہ سوانح حیات(autobigrophy) ہو۔ لیکن اس میں بھی انسانی عواطف، جانبداری اور”ملادرمدح خود می گوید”( ملاں اپنی تعریف آپ ہی کر رہا ہے) کے فطری رجحانات سے کون انکار کرسکتا ہے؟ بس یہ ہے تاریخ کی کل کائنات۔ جس کی تصنیف وتدوین کے لیے تمام حکومتیں اپنے وسیع ذرائع استعمال کرتی اور کروڑہا روپے خرچ کررہی ہیں۔

دوسری طرف حدیث جوصرف مسلمانوں ہی کی تاریخ نہیں ہےبلکہ انسانیت کے ایک عظیم انقلابی عہد آفریں دور کا ایک ایسا مکمل تاریخی مرقع ہے جسے ٹھیک حقیقی اور اصلی شکل وصورت بلکہ ہرخط وخال کی حفاظت میں لاکھوں ہی نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کی وہ ساری کوششیں اور تدبیریں صرف ہوئی ہیں جوکسی واقعے کے متعلق آدمی کا دماغ سوچ سکتا ہے۔ دنیا کی اسی تاریخ کے ایک عظیم الشان، حیرت انگیز اور انقلابی حصہ کا نام سچ پوچھئے توحدیث ہے۔

تاریخی ذخائر سے حدیث کے امتیازات:
1. اس وقت تاریخ کے جوعام ذخیرے ہیں عموماً ان کا تعلق کسی قوم کی حکومت، کسی عظیم الشان جنگ یا اسی قسم کی پراگندہ گوناگوں اور منتشر چیزوں سے ہوتا ہے جن کا احاطہ ممکن نہیں، بخلاف اس کے حدیث اس تاریخ کا نام ہے جس کا تعلق براہِ راست ایک خاص شخصی وجود، یعنی سرورِکائناتﷺ کی ذاتِ اقدس سے ہے، ایک قوم، ایک ملک، ایک حکومت، ایک جنگ کے تمام اطراف وجوانب کوصحیح طور سے سمیٹ کربیان کرنا ایک طرف اور ایک واحد شخص کی زندگی کے واقعات کو بیان کرنا ۔ خوداندازہ کیا جاسکتا ہے کہ احاطہ وتدوین کے اعتبار سے دونوں کی آسانی ودشواری میں کیا کوئی نسبت ہے، پہلی صورت میں کوتاہیوں، غلط فہمیوں کے جتنے قوی اندیشے ہیں، یقیناً دوسری صورت میں صحت وواقعیت کی اسی قدر عقلاً توقع کی جاسکتی ہے۔

2. دوسرا امتیاز جوپہلے سے بہت زیادہ اہم ہے وہ محمدرسول اللہﷺ اور ان کے مورخوں یعنی صحابہ کرامؓ کا باہم تعلق ہے۔ بلاشبہ اس وقت ہمارے سامنے مختلف اقوام وممالک، سلاطین اور حکومتوں کی تاریخیں ہیں۔ لیکن جن مورخوں کے ذریعہ سے یہ تاریخیں ہم تک پہنچی ہیں کہاں ان میں کسی تاریخ کااپنے مؤرخ یامؤرخین سے وہ تعلق تھا جو صحابہ کا حضوراکرمﷺ کے ساتھ تھا؟ پہلے تو مشکل ہی سے آج کوئی ایسا تاریخی حصہ ایسا ہمارے پاس نکل سکتا ہے جس کے مؤرخین خود ان واقعات کے عینی شاھد ہوں۔جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا عموماً ان تاریخوں کی تدوین یوں ہوتی ہے کہ ابتداء میں مبہم، مجہول الحال افواہوں، کہانیوں کی صورت میں واقعات اِدھر اُدھر بکھرے رہے، پھرجب ان میں سے کسی کوشوق ہوا تواس نے ان ہی افواہوں کوقلمبند کرنا شروع کیا ہے، پھرخود اس مؤرخ ہی نے یااس کے بعد والوں نے قرائن وقیاسات سے جہاں تک ممکن ہوا جس حصہ کوچاہا باقی رکھا، جسے چاہا حذف کردیا۔ پھرجوں جوں ان قلمبند شدہ واقعات پرزمانہ گذرتا گیا اوراق میں زیادہ بوسیدگی پیدا ہوئی، کیڑوں کی خوراک سے بچ کر جوحصہ باقی رہا پچھلی نسلوں کے لیے وہی تاریخی وثیقہ بن گیا۔ اسی لیے آج مطبوعہ کتابوں سے زیادہ بھروسہ قلمی کتابوں پرکیا جاتا ہے اور سنگی، برنجی یاآہنی تختیوں کا کوئی ذخیرہ اگرکسی مورخ کومل گیا تووہی چیز جوہمارے جیسے انسانوں نے کسی زمانہ میں لکھ کر زمین میں گاڑی تھی؛ بلکہ ہم تواپنے معاصرین کوتوایک حد تک جانتے بھی ہیں؛ لیکن ان کے لکھنے والوں کا توکچھ پتہ نہیں ہوتا۔۔مگروہ معصوم فرشتوں کے بیان کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔
کچھ بھی ہو کسی کی تاریخ ہو ان کے مؤرخوں کوان واقعات سے یاصاحب واقعات سے قطعاً وہ تعلق نہیں تھا اور نہ ہوسکتا ہے، جوصحابہ کرام کونبی کریمﷺ کے ساتھ تھا، وہ اپنے ماں باپ، بیوی، بچوں؛ بلکہ اپنی جانوں سے بھی زیادہ حضورِاکرمﷺ اور آپ کی زندگی کوعزیز رکھتے تھے، وہ سب کچھ آپ پرقربان کرنے کے لیے تیار تھے؛ گویا ایک قسم کے عشق وسرمستی کے نشہ میں مخمور تھے؛ یقیناً یہ ایسا امتیاز ہے جو کسی تاریخی واقعہ کواپنے مؤرخین کے ساتھ حاصل نہیں، آخر دنیا کی ایسی کونسی تاریخ ہے جس کے بیان کرنے والے مؤرخین اس تاریخ سے ایسا والہانہ تعلق رکھتے ہیں کہ بیان کرتے جاتے ہوں اور روتے بھی جاتے ہوں، کانپتےبھی جاتے ہوں، عبداللہ بن مسعودؓ کے متعلق ان کے دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ وہ حضوراکرمﷺ کی طرف منسوب کرکے بہت کم احادیث بیان کرتے؛ لیکن اگرکبھی زبان پرحضورِاکرمﷺ کا نام آگیا، راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد:ترجمہ:کانپنے لگتے اور ان کے کپڑوں میں تھرتھری پیدا ہوجاتی، گردن کی رگیں پھول جاتی تھیں، آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتیں۔ (مسنداحمد:۷/۱۱۵، مؤسسۃ الرسالۃ بیرو، الطبعۃ الثانیۃ)اس قسم کے واقعات حضرت ابوذرؓ اور حضرت ابوھریرہ کے ذکر میں بھی ملتے ہیں۔
عروہ بن مسعود ثقفی جواس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کوصحابہ کرامؓ کے حضورِاکرمﷺ کے ساتھ اس نشۂ محبت کی خبراپنے کفر کے زمانہ میں یوں دیتے ہیں: ترجمہ:لوگو! خدا کی قسم! مجھے بادشاہوں کے دربار میں بھی بازیابی کا موقع ملا ہے، قیصر (روم) کسریٰ (ایران) نجاشی (ابی سینا) کے سامنے حاضر ہوا ہوں، قسم خدا کی! میں نے کسی بادشاہ کونہیں دیکھا جس کی لوگ اتنی عظمت کرتے ہوں جتنی محمد کے ساتھی محمد کی کرتے ہیں؛ قسم خدا کی! جب بلغم تھوکتے ہیں تونہیں گرتا ہے وہ لیکن ان کے ساتھیوں میں سے کسی آدمی کے ہاتھ میں؛ پھروہ اپنے چہرہ اور اپنے بدن پراسے مل لیتا ہے (محمد) جب کسی بات کا انہیں حکم دیتے ہیں، اس کی تعمیل کی طرف وہ جھپٹ پڑتے ہیں، جب محمدوضو کرتے ہیں تواس وقت ان کے وضو کے پانی پرآپس میں الجھ پڑتے ہیں، جب محمدبات کرتے ہیں توان کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں، محمدکونگاہ بھرکر ان کی عظمت کی وجہ سے وہ نہیں دیکھ سکتے۔ (بخاری، كِتَاب الشُّرُوطِ،بَاب الشُّرُوطِ فِي الْجِهَادِ وَالْمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ،حدیث نمبر:۲۵۲۹، شاملہ، موقع الإسلام)
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس تاریخ کواس کے مورخوں میں محبوبیت کا یہ مقام حاصل ہو وہ کس قدر محفوظ ومامون ہوسکتی ہے۔۔!

3. علاوہ مذکورہ بالا تعلقات کے ان براہِ راست مؤرخوں یاچشم دیدراویوں اور گواہوں نے حضوراکرمﷺ کے دستِ مبارک پربیعت ہی اس بات پرکی تھی کہ تاریخ کے اس عجیب وغریب واقعہ کے ہرہرجزو، ایک ایک خط وخال کے زندہ نقوش اپنے اندر پیدا کریں گے۔ انہوں نے جس قرآن کو خدا کی شریعت اور قدرت کا قانون یقین کرکے مانا تھا اس میں بار بار مطالبہ کیا گیا تھا کہ تم میں سے ہرایک کی زندگی کا نصب العین صرف یہی ہونا چاہیے کہ جوکچھ محمدرسول اللہﷺ فرماتے ہیں اسے سنو، محمدرسول اللہﷺ جوکچھ کرتے ہیں ان کی ہرہرادا پرنگاہ رکھو اور ٹھیک من وعن جس طرح ان کوجوکچھ کرتے ہوئے دیکھتے ہو تم بھی اس کام کواسی طرح انجام دینے کی کوشش کرو۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔ (الاحزاب:۲۱)
مزید صرف رسول اللہﷺ کے اقوال واعمال کی اطاعت واتباع ہی ان بزرگوں کے لیے ضروری نہ تھی؛ بلکہ یہ بھی کہ جوکچھ انہوں نے دیکھا ہے وہ دوسروں تک مسلسل پہنچاتے چلے جائیں ہرحاضر،غائب اورہرپہلا پچھلوں کوان کی طرف بلاتا جائے۔ منی کا میدان ہے، خیف کی مسجد ہے، ایک لاکھ سے اوپرحضوراکرمﷺ پرایمان لانے والوں کا مجمع ہے، سب کومخاطب کرکے فرمایا جاتا ہے:ترجمہ:تروتازہ رکھے اللہ اس بندے کوجس نے میری بات سنی؛ پھراسے یادرکھا اور جس نے نہیں سنا ہے اس تک انہیں پہنچایا۔ (مسنداحمدبن حنبل، حَدِيثُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ،حدیث نمبر:۱۶۷۸۴، شاملہ، الناشر:مؤسسۃ قرطبۃ، القاھرۃ)
یہی منی کا میدان ہے، حجۃ الوداع کے تاریخی خطبہ میں اعلان فرمایا جاتا ہے:ترجمہ:میں تم میں دوچیزیں چھوڑتا ہوں جن کے بعد تم پھرگمراہ نہیں ہوسکتے (ایک تو) اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت، یہ دونوں باہم ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک کہ حوضِ (کوثر) پرمیرے سامنے ہوجائیں۔ (مستدرک حاکم، کتاب العلم، حدیث نمبر:۳۱۹، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الاولی)پھراس خطبہ کے اختتام پرفرمایا:أَلَالِيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ۔ ترجمہ:چاہئے کہ جوحاضر ہے وہ غائب کو پہنچائے۔(بخاری،كِتَاب الْمَغَازِي،بَاب حَجَّةِ الْوَدَاعِ،حدیث نمبر:۴۰۵۴،شاملہ، موقع الإسلام)
نہ صرف آپﷺ عام مجامع میں یہ اعلان کرتے تھے؛ بلکہ ملک کے مختلف اطراف سے وقتا فوقتا جووفود دربارِ نبوت میں حاضر ہواکرتے تھے، عموماً ان کوایسی جگہ ٹھہرایا جاتا تھا جہاں سے اس واقعہ کے معائنہ اور مشاہدہ کا ان کوکافی موقع مل سکتا ہو جس کے وہ مؤرخ بنائے جاتے تھے؛ پھرجوکچھ سنانا اور دکھانا مقصود ہوتا وہ سنایا اور دکھایا جاتا تھا، آخر میں رخصت کرتے ہوئے حکم دیا جاتا؛ جیسا کہ بخاری میں ہے:ترجمہ:ان باتوں کویادرکھو اور جولوگ تمہارے پیچھے ہیں انہیں اس سے مطلع کرتے رہنا۔ (بخاری، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب أَدَاءُ الْخُمُسِ مِنْ الْإِيمَانِ،حدیث نمبر:۵۱، شاملہ، موقع الإسلام)
ان تمام امور کے ساتھ اس کوبھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ جس ذاتِ گرامی کے ہرقول کووہ خدا کی بات اور خدا کا حکم سمجھتے تھے، اسی نے باربار بکثرت انکو اس بات سے بھی خبردار کردیا تھا کہ مشہور حدیث جو مجھ پر قصداً جھوٹ باندھے گا چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تیار کرلے) ۔(بخاری، كِتَاب الْجَنَائِزِ، بَاب مَايُكْرَهُ مِنْ النِّيَاحَةِ عَلَى الْمَيِّتِ ،حدیث نمبر:۱۲۰۹، شاملہ، موقع الإسلام)
یہ تہدیدی خوف ان پراس قدرطاری تھا کہ جس قدر صحابیوں سے یہ روایت نقل کی گئی ہے بہت کم حدیثیں اس قدر کثیرتعداد صحابہ سے مروی ہوں گی۔ پھر جس قسم کے ایمان وایقان سے وہ معمور تھے وہ اس کے ساتھ اس قسم کی غلط بیانی اور دروغ گوئی سے کیسے کام لے سکتے تھے، جب وہ یہ جانتے تھے کہ حضوراکرمﷺ کی طرف کسی چیز کی نسبت درحقیقت خدا کی جانب اس چیز کی نسبت کرنا ہے؛ یہی وجہ تھی کہ بعض صحابہ جب یہ حدیث بیان کرنے کے لیے بیٹھتے تھے تواس سے پہلے وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ والی حدیث ضرور پڑھ لیتے؛ تاکہ اپنی نازک تاریخی ذمہ داری کا احساس انھیں تازہ ہوجائے، ذخیرۂ حدیث کے سب سے بڑے راوی حضرت ابوھریرہؓ کا یہ دوامی معمول تھا کہ اپنی حدیث جس وقت بیان کرنی شروع کرتے توکہتے: فرمایا رسولِ صادق ومصدوق ابوالقاسمﷺ نے جس نے مجھ پرقصداً جھوٹ باندھا چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تیار کرے۔ (الاصابہ، حرف الیاء، القسم لأول:۳/۴۲۱، شاملہ، موقع الوراق)
اس وعیدِ شدید نے صحابہ کرام اور مابعد کے علماء حدیث کونقل روایت میں ایسا محتاط بنادیا کہ جب تک نہایت کڑی تنقید وتحقیق کے ساتھ کسی حدیث کا ثبوت نہ ملے اس کوآپ کی طرف منسوب کرنے سے گریز کیا۔

4. یہ بھی ملحوظ رہے کہ آپﷺ جوکچھ صحابہ کوسناتے یاکرتے دکھاتے تھے اس کے متعلق صرف یہ حکم نہ تھاکہ تم بھی ان کویاد رکھنا یاکرنا؛ بلکہ اس کی باضابطہ نگرانی فرماتے تھے کہ اس حکم کی کس حد تک تعمیل کی جاتی ہے، اس تعلق سے حضوراکرمﷺ کی نگرانی کا کیا حال تھا، اس کا اندازہ آپ کواس سے ہوسکتا ہے کہ ایک معمولی بات یعنی ایک صحابی کویہ بتاتے ہوئے کہ جب سونے لگوتویہ دعا پڑھ کر سویا کرو، حضوراکرمﷺ نے خود سے بتانے کے بعد فرمایا: اچھا میں نے کہا، تم اسے دہراؤ، صحابی نے آخری فقرہ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ (ایمان لایا میں اس کتاب پرجو تونے اتاری اور اس نبی پر جسے تونے بھیجا) میں نَبِيِّكَ کے لفظ کووَرَسُولِكَ کے لفظ سے بدل دیا۔ (بخاری،كِتَاب الْوُضُوءِ،بَاب فَضْلِ مَنْ بَاتَ عَلَى الْوُضُوءِ ،حدیث نمبر:۲۳۹، شاملہ، موقع الإسلام)تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں؛ لیکن حضورﷺ نے ان کو وہی الفاظ کہنے کی تلقین فرمائی جوآپ نے کہا تھا؛ حالانکہ سونے کی دعا کی حیثیت ان شرعی حقائق وقوانین کی نہیں جوفرائض وواجبات کے ذیل میں آتے ہوں؛ لیکن ایک ایک لفظ کے بارے میں حضوراکرمﷺ کی یہ نگرانی تھی۔
حضوراکرمﷺ کی یہ دوامی عادات مبارکہ تھی کہ:جب حضورﷺ کوئی بات کرتے تواس کوتین دفعہ دہراتے۔ (بخاری،كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب مَنْ أَعَادَ الْحَدِيثَ ثَلَاثًا لِيُفْهَمَ عَنْهُ،حدیث نمبر:۹۳، شاملہ، موقع الإسلام)غالباً یہ اسی وجہ سے فرماتے تھے کہ الفاظ کے سننے میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ ہو۔آپﷺ نے اپنی حیات کی ہرہرخبر کی حفاظت کے لیے اپنے مورخین کی یوں نگرانی کی تھی، آپ نے ان کے ہرمعاملہ میں رہنمائی ورہبری کی، کیا دنیا کی کوئی تاریخ بھی موجود ہے جس نے اپنے مورخین کی اور راویوں کے بیان وادا کی خودنگرانی کی ہو اور اس قدر سخت نگرانی کی ہو۔اس لیے تاریخی واقعات وروایات کوکسی حال میں وہ درجہ حاصل نہیں ہوسکتا جوروایاتِ حدیث کوحاصل ہے۔

5. پھر بعد میں محدثین نے ان احادیث کی بھی جانچ پڑتال کا ایک فن “اسماء الرجال “کا فن ایجاد کیا جسمیں راوی کے تمام ضروری حالات مثلاً، پیدائش وفات، تعلیم کب اور کس سے حاصل کی، شاگرد کون تھے، ناقدین کیا رائے تھی وغیرہ ذالک سب اس میں موجود ہیں ۔ اسی فن اسماء الرجال کے بارے میں ڈاکٹر اسپرنگر جیسے متعصب یورپین کو بھی یہ لکھنا پڑا کہ “کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری، نہ آج موجود ہے، جس نے مسلمانوں کی طرح “اسماء الرجال “کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو ،جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہوسکتا ہو۔”( خطبات مدراس صفحہ ۴۲)

6. فن حدیث تاریخی تنقید ہی کا دوسرا نام ہے۔ پہلی صدی سے آج تک اس فن میں یہی تنقید ہوتی رہی ہے اور کوئی فقیہ یا محدث اس بات کا قائل نہیں رہا ہے کہ عبادات ہوں یا معاملات، کسی مسئلے کے متعلق بھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے نسبت دی جانے والی کسی روایت کو تاریخی تنقید کے بغیر حجت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ جدید زمانے کی بہتر سے بہتر تاریخی تنقید کو بھی مشکل ہی سے اس پر اضافہ و ترقی کہا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ محدثین کے اصول تنقید اپنے اندر ایسی نزاکتیں اور باریکیاں رکھتے ہیں جن تک موجودہ دور کے ناقدین تاریخ کا ذہن بھی ابھی تک نہیں پہنچا ہے۔ دنیا میں صرف محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت و سیرت اور ان کے دور کی تاریخ کا ریکارڈ ہی ایسا ہے جو اس کڑی تنقید کے معیاروں پر کسا جانا برداشت کر سکتا تھا جو محدثین نے اختیار کی ہے، ورنہ آج تک دنیا کے کسی انسان اور کسی دور کی تاریخ بھی ایسے ذرائع سے محفوظ نہیں رہی ہے کہ ان سخت معیاروں کے آگے ٹھہر سکے اور اس کو قابلِ تسلیم تاریخی ریکارڈ مانا جا سکے۔
یہ تاریخی تنقید کا ایک وسیع علم انتہائی باریک بینی کے ساتھ صرف اس مقصد کے لیے مدون ہو گیا کہ اس ایک فرد فرید کی طرف جو بات بھی منسوب ہو، اسے ہر پہلو سے جانچ پڑتال کر کے صحت کا اطمینان کر لیا جائے۔ کیا دنیا کی پوری تاریخ میں کوئی اور مثال بھی ایسی ملتی ہے کسی ایک شخص کے حالات محفوظ کرنے کے لیے انسانی ہاتھوں سے یہ اہتمام عمل میں آیا ہو؟ اگر نہیں ملتی اور نہیں مل سکتی، تو کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ اس اہتمام کے پیچھے بھی وہی خدائی تدبیر کارفرما ہے جو قرآن کی حفاظت میں کارفرما رہی ہے؟
 ================================================

حدیث وسنت.



حدیث کے بارے میں کسی خاص موضوع پر بحث(Discussion)کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ حدیث کسے کہتے ہیں اور اس سے کیا مراد ہے،اس کے لفظی معنی کیا ہیں،دور اول میں اس سے کیا مراد لی جاتی تھی،دور آخر میں اس کے اصطلاحی معنی کیا رہے ہیں اور علومِ اسلامی میں حدیث کو  ہر دور میں کیا اہمیت حاصل رہی ہے؟

حدیث کی اہمیت

قانونِ اسلامی کے مآخذ کی حیثیت سے لفظِ حدیث علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، اسلام میں اسے ہمیشہ اساسی اہمیت حاصل رہی ہے اور اس موضوع پر دور قدیم اور دور جدیدمیں خاصا کام ہوا ہے، کام کی وسعت اور تالیفات کی کثرت پتہ دیتی ہے کہ علومِ اسلامی میں حدیث کی طرف ہی رجوع کیا جاتا ہے اور فقہ کی سند حدیث سے ہی لی جاتی ہے اور حق یہ ہے کہ اسے جانے بغیر اسلام کا کوئی موضوع مکمل نہیں ہوتا۔

حدیث سے مراد

حضورؐ کی تعلیمات (قولی،فعلی اور تقریری)از روئے بیان کے ہوں تو حدیث ہے اور از روئے عمل کے ہوں تو سنت کہلاتی ہیں۔
(تقریری:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےکسی صحابی نے کچھ کیا یا کہااور آپ نے اس پرسکوت فرمایا نکیر نہ کی اور اس سے یہی سمجھا گیاکہ اس عمل یا قول کی حضورﷺ   نے تصدیق فرمادی ہے تواسی تصدیق کو "تقریر" confirmationکہتے ہیں اور آپ کی یہ تصدیق تقریری صورت کہلاتی ہے،یہ تقریری حدیث ہے)
حدیث میں بیان کی نسبت غالب ہے اور سنت میں عمل کی نسبت غالب ہے، صحابہ کرامؓ جب اس طریق کی نشاندہی کرتے تھے جس پر حضور اکرم   نے انہیں قائم کیا تو کہتے تھے:

"سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ  "۔

(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ،حدیث نمبر:۴۱۵)

ترجمہ: حضورؐ نے اس امر کو ہمارے لیے راہ عمل بنایا ہے۔

اور جب وہ حضور   کی بات کو نقل کرتے تو کہتے تھے :

"حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔ 

(بخاری، بَاب رَفْعِ الْأَمَانَةِ،حدیث نمبر:۶۰۱۶)        

حضورؐ نے اسے ہمارے لیے بیان کیا۔

پس حدیث حضور اکرم   کی تعلیمات کا بیان ہوا،سنت میں نسبت عمل اور حدیث میں نسبت بیان ممتاز رہی۔

(تنویرالحوالک:۱/۴")



حدیث وقدیم کا فرق

عربی میں لفظ حدیث قدیم کے مقابلہ میں بھی ہے،قدیم پُرانے کو کہتے ہیں، اسلامی عقیدے میں قرآن پاک کلام الہٰی ہے جو اللہ تعالی کی صفت ہے اور کلام قدیم ہے یہ مخلوقCREATEDنہیں،لیکن حضور اکرم   کا کلام حدیث ہے قدیم نہیں، آپ   بھی اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں، آپ کی ذات حادث ہے قدیم نہیں،ذات قدیم کا کلام قدیم ہوگا اور ذات حادث کے کلام کو حدیث کہتے ہیں، قرآن پاک کا غیر مخلوق ہونا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے،سو ضروری تھا کہ  علم اسلامی کا دوسرا سر چشمہ حدیث کہلائے، تاکہ کلامِ خالق اور کلام ِمخلوق میں اصولی فرق عنوان میں بھی باقی رہے۔
حافظ شمس الدین البخاری لکھتے ہیں:

"والحدیث لغۃ ضد القدیم واصطلاحا ما اضیف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم قولا لہ اوفعلا اوتقریرا اوصنعۃ حتی الحرکات والسکنات"۔

(فتح المغيث شرح ألفية الحديث:۱/۱۰،شاملہ، الناشر: دارالكتب العلمية،لبنان)

اور حدیث لغت میں لفظ قدیم کی ضد ہے اور اصطلاحاً اس سے ہروہ بات مراد ہے جسے حضور   کی طرف نسبت کیا گیا ہو، قول سے یافعل سے یا اس کی توثیق سے یا صورت سے؛ یہاں تک کہ حرکات وسکنات سے۔

مسلمان کلام قدیم اور کلام حدیث دونوں پر ایمان رکھتے ہیں  اور دونوں کو دین میں حجت اور سند سمجھتے ہیں، ان دونوں ماخذوں کی اصل اللہ رب العزت کی ذات ہے، حضور اکرم   نے اللہ تعالی کے نام سے جو کتاب پیش کی وہ قرآن کریم اور کلام قدیم ہے اور اللہ تعالی کی جس ہدایت کو آپ نے اپنے الفاظ یا عمل سے ظاہر فرمایا اسے حدیث کہتے ہیں۔

لفظ حدیث کی قرآنی اصل

اللہ تعالیٰ نے آنحضرت  پرقرآنی احکام کی تشکیل کے لیے جوراہیں کھولیں، حضور اکرم   نے انہیں امت کے لیے بیان فرمادیا، قرآن کریم آپ کے اس بیان کولفظ حدیث سے پیش کرتا ہے:

"وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ"۔                

  (الضحٰی:۱۱)

ترجمہ:سو آپ اپنے رب کی نعمت کو آگے بیان کریں۔

اس بیان کرنے کو قرآن کریم نے "حدّث "کے لفظ سے پیش کیا ہے، حدیث کی یہی قرآنی اصل ہے ۔

(تفصیل کے لیے دیکھیے:علامہ عثمانی کی فتح الملہم)

قرآن کریم نے اس ہدایت ربانی اور نعمت یزدانی کے آگے پہنچانے کو "فَحَدِّثْ" کے لفظ سے بیان کیا ہے، جس کے معنی ہیں TRANSMIT IT TO OTHERS آپ اسے دوسروں سے بیان کریں،اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضور اکرم   کو تلاوت اور تعلیمِ قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث بیان کرنے کا بھی حکم ہوا تھا، ارشاد ہوا کہ جو نعمت اللہ تعالی نے آپ پر کھولی ہے، اسے آپ آگے روایت فرمادیں،شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی یہاں لکھتے ہیں :شاید آپ کے ارشاد وغیرہ کو جو حدیث کہا جاتا ہے  وہ اسی لفظ "فَحَدِّثْ" سے لیا گیا ہو۔          

(فتح الملہم، مقدمہ الحدیث والخبر والاثر:۱/۵)


لفظ حدیث قبل از اسلام



حدیث کے معنی بات کے ہیں او ران معنی میں یہ لفظ قبل از اسلام عام استعمال ہوتا تھا؛ بلکہ اب تک یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں بھی شائع اور رائج ہے؛ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ یہ لفظ انہی باتوں کے مناسب رہا ہے جن کی یاد باقی رہنے کے لائق سمجھی جائے،آئی اور گئی بات اس لفظ کا مورد نہیں رہی ؛یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں کی باتوں کو اس لفظ سے خاص مناسبت رہی ہے، ان کی باتیں باقیات اور آئندہ یاد رکھنے کے لائق ہوتی ہیں، قرآن کریم نے پہلے پیغمبروں کی باتوں کو بھی اسی نام سے ذکر کیا ہے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے مہمانوں کی صورت میں آئے اور قوم لوط پر عذاب لانے کی خبر دی،قرآن کریم حضرت ابراہیمؑ کے مہمانوں کی اس بات کو ان الفاظ میں نقل کرتا ہے:

"ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ"۔       


(الذاریات:۲۴)


ترجمہ:کیا پہنچی تجھ کو حدیث(بات)ابراہیم کے مہمانوں کی جوعزت والے تھے۔


قرآن کریم کے الفاظ "ہَلْ اَتٰکَ حَدِيثُ(الغاشیہ:۱) "ترجمہ:کیا تیرے پاس پہنچی ہے بات" میں یہ ارشاد بھی پایا جاتا ہے کہ حدیث پہلوں سے پچھلوں کو پہنچنی چاہیے اور جو باتیں اس لائق ہوں کہ پہلوں سےپچھلوں کو پہنچیں، لفظ حدیث ان کے لیے مناسب رہنمائی کرتا ہے،قرآن کریم حضرت موسی علیہ  السلام کی بات بھی یوں نقل کرتا ہے:

"ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰى"۔          

(النازعات:۱۵)

ترجمہ:کیا پہنچی تجھ کو حدیث(بات) موسی  علیہ السلام کی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فرمایا کہ آپ اپنے پروردگار کے احسانات کو بیان کرتے رہیں۔                  

(الضحٰی:۱۱)



لفظ حدیث بعد از اسلام


اللہ تعالی نے اپنے آخری پیغمبرکو جن امیین میں بھیجا،انہوں نے حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد آقا ومولی کی ہر بات اور ادا کواسی قومی مزاج کے ساتھ یاد رکھا جو صدیوں کی تاریخ میں ان میں راسخ ہوچکاتھا،نئے حالات اور نئے تقاضوں سے علم کا ایک نیا باب شروع ہوا ؛یہی علم حدیث ہے جس میں قرآنی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربوں کے اس قومی مزاج کو بھی کافی دخل ہے جو عرب میں قبل از اسلام موجود تھا،حضور اکرم   ایک ایسے ملک میں مبعوث ہوئے جہاں آپ کی تعلیمات اور شریعت علم کی باقاعدہ  تدوین سے پہلے پورے اہتمام اور فکر سے زبانی نقل وروایت میں محفوظ رکھی جاسکیں،اس سے پہلے دور میں گو حدیث لکھنے کا آغاز ہوچکا  تھا؛لیکن زبانی روایت کا بہر حال غلبہ تھا،حدیث اس زبانی روایت کو ہی کہتے ہیں، جس کا موضوع آنحضرت   اور ان کے رفقاء کی زندگی تھی۔


دور اول میں حدیث سے مراد

اسلام کے پہلے دور میں حدیث کا لفظ حضور   کی تعلیمات کے لیے عام استعمال ہوتا تھا، قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث کے الفاظ بھی دینی سر چشمہ ہدایت کے طور پر عام رائج تھے۔
(۱)آنحضرت   نے خود بھی اپنی تعلیمات کے لیے لفظ حدیث استعمال فرمایا۔
(۲)آپ کے سامنے بھی یہ الفاظ ان معنوں میں استعمال ہوتے رہے۔
(۳)صحابہ کرام بھی اسے ان معنوں میں استعمال کرتے رہے۔
(۴)تابعین اور ائمہ مجتہدین کے ہاں بھی اس لفظ کا استعمال عام رہا اور ان تمام امور پر قرن اول کی قوی شہادتیں موجود ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث سر چشمہ ہدایت کے طور پر کسی دور متاخر کی ایجاد نہیں، یہ لفظ اسلام کے دور اول میں اپنی اسی دینی دلالت کے ساتھ پوری طرح شائع اور موجود رہا ہے۔

لفظ حدیث حضورﷺ کی زبان مبارک میں

(۱)آنحضرت   نے ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے فرمایا:

"لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لَا يَسْأَلُنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيث"۔  

(بخاری،بَاب الْحِرْصِ عَلَى الْحَدِيثِ،حدیث نمبر:۹۷، شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:اے ابو ہریرہؓ بے شک میرا گمان یہی تھا کہ کوئی شخص تم سے پہلے مجھے اس حدیث کے بارے میں نہ پوچھے گا؛ کیونکہ تمہاری حدیث کی طرف رغبت کو میں جانتا تھا۔
اس حدیث میں حضور   نے اپنے ارشاد کو لفظ حدیث سے بیان فرمایاہے، آپ کا انداز بیان بتلارہا ہے کہ ان دنوں یہ لفظ اپنے ان معنوں میں عام استعمال ہوتا تھا،حضرت ابو ھریرہؓ  کی طلب اور حرص بھی یہ بتلاتی ہےکہ حدیث ان دنوں قانون اسلامی کے ماخذ اوردین کا سر چشمۂ علم ہونے کی حیثیت سےمسلم تھی اور صحابہ کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ پوری محنت سےاس کی حفاظت کی جائے، اسے اچھی طرح سمجھا جائے اور یاد رکھا جائے، حدیث کی یہ اہمیت پیش نظر نہ ہوتی تو صحابہ  حدیث کی طلب اور اسے یاد رکھنے کی فکر میں یہ اندازاختیار نہ کرتے۔
(۲)حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور   نے فرمایا :

"نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَه"۔

(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰ شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:اللہ تعالی اس شخص کو تازگی بخشیں جس نے ہم سے کو ئی حدیث سنی  اسے یاد رکھا؛ یہاں تک کہ اسے کسی دوسرے تک پہنچایا۔

اس ارشاد میں بھی حضور   نے اپنی بات کو لفظ حدیث سے ذکر فرمایا ہے اور اس کی حفاظت کرنے اور اسے آگے پہنچانے کی ترغیب دی ہے ۔
(۳)حضور اکرم   نے یہ بھی فرمایا :

" مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ"۔

(مسلم،بَاب وُجُوبِ الرِّوَايَةِ عَنْ الثِّقَات،حدیث نمبر:۱، شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:جس نے میرے نام سے کوئی حدیث روایت کی اور اسے پتہ ہو کہ یہ جھوٹ ہے (یعنی وہ بات میں نے نہ کہی ہو)تو وہ ایک جھوٹ بولنے والا آدمی ہے۔

اس روایت میں بھی حضور   نے اپنی بات کولفظ حدیث سے ذکر فرمایا اور یہ بھی بتلایا کہ کوئی شخص گو خود مجھ پر کوئی جھوٹ باندھے لیکن کسی شخص کے باندھے جھوٹ (موضوع روایت)کو میرے نام سے روایت کرے تو اسے اس لیے نظر انداز نہ کیا جائے گا کہ دروغ بر گردن راوی؛بلکہ وہ بھی جھوٹ باندھنے والوں میں سے ایک شمار ہوگا اور اسے وہی گناہ ہوگا جو مجھ پر جھوٹ باندھنے کا گناہ ہے، جولوگ اس جھوٹ کو آگے لے جائیں وہ سب کاذبین (جھوٹے)شمار ہوں گے؛ بہر حال اس روایت میں حضور   نے اپنی بات کوجوآگے بیان ہوگی لفظ حدیث سے ذکر کیا ہے۔

لفظ حدیث حضورؐ کے سامنے صحابہؓ کی زبان سے

(۱)حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ ایک خاتون حضور اکرم    کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کی:

"ذَهَبَ الرِّجَالُ بِحَدِيثِكَ فَاجْعَلْ لَنَا مِنْ نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ تُعَلِّمُنَا مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّه"۔

(بخاری،بَاب تَعْلِيمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّتَهُ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ،حدیث نمبر:۶۷۶۶،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:مرد تو آپ کی حدیثیں لے جاتے ہیں،آپ ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر فرمادیں ہم آپ کے پاس اس دن آیا کریں اور اللہ تعالی نے جو آپ کو بتلایا ہے آپ ہمیں بھی پڑھادیا کریں۔

اس روایت سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ اس وقت حضور   کی تعلیمات اور آپ کے ارشادات کو حدیث کہا جاتا تھا،وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کا سر چشمہ اللہ کی ذات ہے، آپ جو کچھ فرماتے اللہ تعالی کے بتلانے سے بتلاتے اور یہ بات صحابہ کرام کے ہاں تسلیم شدہ تھی، حضور   حدیث میں وہی رہنمائی پیش فرماتے، جو اللہ تعالی کی طرف سے  آپ کے قلب میں القاء کی جاتی، حدیث میں بھی ربانی ہدایت divine lement شامل تھی۔
(۲)حضرت ابو ھریرہ ؓ نے حضور اکرم   کے سامنے عرض کیا:

"إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ قَالَ ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ قَالَ فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ ضُمَّهُ فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ "۔

(بخاری،بَاب حِفْظِ الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۱۱۶، شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:میں آپ سے بہت حدیثیں سنتا ہوں جنہیں بھول جاتا ہوں،اس پر آپ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ میں نے پھیلادی،آپ نے ہاتھوں سے اس میں کوئی چیز ڈالی اور فرمایا اسے لپیٹ لو، میں نے اسے لپیٹ لیا اس کے بعد میں کبھی نہیں بھولا۔

ان روایات میں حضور پاک   کے ارشادات کے لیے صریح طور پر حدیث کا لفظ ملتا ہے۔
(۳)ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ ؓ کہتی ہیں کہ ہم حضور   کی باتیں آپس میں کرتی تھیں اسے آپ نے حدیث سے ذکر کیا اورحضور   کےسامنے بھی اسے اسی طرح بیان کیا:

"إِنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّكَ نَاكِحٌ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لَوْ لَمْ أَنْكِحْ أُمَّ سَلَمَةَ مَا حَلَّتْ لِي إِنَّ أَبَاهَا أَخِي مِنْ الرَّضَاعَةِ "۔

ترجمہ:ہم آپس میں باتیں کررہی تھیں کہ آپ ابو سلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے والے ہیں، حضورﷺ   نے فرمایا:کیامیں اس سے اس کے باوجود نکاح کرسکتا ہوں کہ (ان کی ماں) ام سلمہ میرے نکاح میں پہلے ہی سے موجود ہے؟اگرمیں ام سلمہؓ سے نکاح نہ کیے ہوتاجب بھی وہ(درہ) میرے لیے حلال نہیں تھی ؛کیونکہ اس کےوالد( ابو سلمہ) میرے رضاعی  بھائی تھے، (یعنی اس جہت سے درہ میری بھتیجی ٹھہرتی ہے اور اس سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے)۔

ذخیرۂ حدیث میں اس قسم کی متعدد روایات ملتی ہیں،ان سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام حضور   کے سامنے آپ کے ارشادات کو حدیث کہتے تھے، انہیں یاد رکھتے انہیں آگے روایت کرتے اور آپ   کے بعد بھی آپ کی تعلیمات اور آپ کی روایات کو حدیث ہی کہتے رہے اوراس کی روایت میں پوری فکر او راحتیاط کی تلقین کرتے رہے۔

لفظ حدیث حضورﷺ کے بعد صحابہؓ کی زبان سے

حضرت انس بن مالک ؓ (۹۳ھ)روایت حدیث میں اپنے زیادہ محتاط ہونے کی وجہ بیان فرماتے ہیں:

"إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔

(بخاری، بَاب إِثْمِ مَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۱۰۵،شاملہ، مواقع الاسلام)

ترجمہ:یہ بات مجھے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے روکتی ہے کہ حضور   نے فرمایا تھا: جس نے مجھ پر کوئی جھوٹ باندھا اسے چاہیے  کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔



دور آخر میں لفظ حدیث سے مراد

جب علم حدیث کتابوں اور تحریرات میں مدون ہوگیا تو اسے زبانی یاد رکھنے اور اس کی نقل وروایت میں اس محنت کی ضرورت نہ رہی جو اس علم کی باقاعدہ تدوین سے پہلے دینی اور علمی نقطۂ نظر سے بہت ضروری تھی ؛لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ زبانی نقل وروایت کی اصولی حیثیت باقی نہ رہی تھی ؛بلکہ یہ حقیقت ہے کہ یہ تحریرات حدیث اپنے پورے تحفظ کے ساتھ ساتھ زندہ استادوں سے زندہ شاگردوں تک منتقل ہوتی تھیں اور دین قیم کا علمی ذخیرہ بیان وروایت کی پوری شان اور حفظ وضبط کے پورے اہتمام کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ہے؛لیکن حالات کی اس فطری گردش اور تحریرات حدیث کی اس اصولی سہولت نے محض زبانی یادداشت کو پیچھے چھوڑ دیا  اور پھر ایک ایسا دور آیا کہ حدیث سے مراد یہی تحریرات،حدیث documentary evidenceمراد لی جانے لگیں اور پھر اسلامی قانونی بحثوں legal decisionsمیں یہی تحریرات بطور حجت وسند کافی سمجھی جانے لگیں اور یہ ضرورت نہ رہی کہ ان کے ساتھ زبانی تحدیث کا پہلو بھی شامل رہے یہ دور آخر کی اصطلاح ہے کہ حدیث سے حدیث کے علاوہ تحریرات حدیث بھی مراد لی جانے لگیں، حدیث کا دور اول اور دور آخر کا یہ تعارف آپ کے سامنے ہے۔

اصطلاح میں ایک فرق

ملحوظ رہے کہ "علماء اصول فقہ" حدیث کو حضور   کے اقوال، افعال اور آپ کی تقریرمیں محدود سمجھتے ہیں،آپ کے ان حالات کو جو شریعت اور قانون کا عنوان نہیں بنتے(جیسے آپ کا حلیہ مبارک،ولادت اور وفات کے واقعات "وغیرہا من الامورالغیر الاختیاریۃ") حدیث کے تحت داخل نہیں کرتے؛ لیکن یہ صرف علماءاصول کا موقف ہے، محدثین کے ہاں یہ سب امور بھی حدیث کے تحت داخل ہیں اور وہ انہیں باقاعدہ روایت کرتے ہیں، علامہ طاہر بن صالح الجزائری نے "توجیہ النظر فی اصول الاثر" میں اس پرتنبیہ کی ہے۔

چند اور متقارب الفاظ

ابتدائی دور میں حدیث کے لیے اثر اور خبر کے الفاظ بھی لے آتے تھے؛ لیکن بعد میں ان میں بھی کچھ فرق کیا جانے لگا، بعض علماء حضور   کی بات کے لیے حدیث کا لفظ اور صحابہ کی بات کے لیے اثر کا لفظ استعمال کرتے تھے، امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں یہی طریق اختیار کیا ہے؛ لیکن امام طحاوی شرح معانی الآثار اور مشکل الآثار میں اثر کا لفظ آنحضرت   کی تعلیمات اور صحابہ کی روایات کے لیے بھی برابر استعمال کرتے تھے، علامہ نووی لکھتے ہیں کہ جمہور علماء کے نزدیک حدیث اور اثر میں کوئی فرق نہیں  ہے۔

(شرح مسلم النووی:۱/۹۳)


لفظ سنت کا استعمال

حدیث اپنے عمل کے پہلو سے سنت sunnath کہلاتی ہےاور یہ اطلاق ہر مکتب ِفکرمیں عام رہا ہے،  سنت کے لفظی معنی راہ عمل کے ہیں اسے واضحہ(شاہراہ)بھی کہا گیا ہے۔

"أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ سُنَّتْ لَكُمْ السُّنَنُ وَفُرِضَتْ لَكُمْ الْفَرَائِضُ وَتُرِكْتُمْ عَلَى الْوَاضِحَةِ"۔

(مؤطاامام مالک، باب ماجاء في الرجم، حدیث نمبر:۱۲۹۷،شاملہ،موقع الاسلام)

حضور   نے اپنے طریق عمل کے لیے خود بھی لفظ سنت استعمال کیا ہے۔

حضورﷺ کی زبان مبارک سے

(۱)حضرت انس بن مالکؓ(۹۳ھ)کہتے ہیں کہ حضور اکرم   نے فرمایا :

"اَصُوْمُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي"۔

(بخاری،بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ، حدیث نمبر:۴۶۷۵،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:میں روزے رکھتا اور چھوڑتا بھی ہوں،تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور نکاح بھی کیے ہیں، جو میری سنت سے منہ پھیرے وہ مجھ سے نہیں۔

اس حدیث  میں آپ   نے اپنے طریق کو سنت کے لفظ سے بیان فرمایا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ سنت اس لیے ہے کہ امت کے لیے نمونہ ہو اور وہ اسے سند سمجھیں، جو آپ کے طریقے سے منہ پھیرے اور اسے اپنے لیے سند نہ سمجھے وہ آپ کی جماعت میں سے نہیں ہے۔
(۲)ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ:

"اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ فَجَاءَهُ فَقَالَ يَا عُثْمَانُ أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِي قَالَ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَكِنْ سُنَّتَكَ أَطْلُبُ قَالَ فَإِنِّي أَنَامُ وَأُصَلِّي وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ،الخ"۔

(ابو داؤد،بَاب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنْ الْقَصْدِ فِي الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۱۱۶۲،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:نبی   نے کسی کو حضرت عثمان بن مظعون کو بلانے کے لیے بھیجا، حضرت عثمانؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے کہا اے عثمان! کیا تم میری سنت سے ہٹنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں! خدا کی قسم  اے اللہ کے رسول ؛بلکہ میں آپ کی سنت کا طلب گار ہوں، آپ نے فرمایا:میں سوتا بھی ہوں اور نماز کے لیے جاگتا ہوں،روزے بھی رکھتا ہوں اور انہیں چھوڑتا بھی ہوں ۔

حضور اکرم   نے حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کو فرمایا:

"مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْأُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَاتُرْضِي اللَّهَ وَرَسُولَهُ كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَايَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا"۔

(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ،حدیث نمبر:۲۶۰۱،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:جس نے میری کوئی سنت زندہ کی جو میرے بعد چھوڑدی گئی ہو تو اسے ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی ہو اورجس نے کوئی غلط راہ نکالی جس پر اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی موجود نہیں تو اسے ان تمام لوگوں کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان کے بوجھ میں کمی آئے۔

اس حدیث میں دین کی فروعی باتوں کو بھی سنت کہا ہے اور انہیں زندہ رکھنے کی تلقین کی ہے،دین اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے اصول ہمیشہ زندہ رہنے چاہئیں، ان پر کبھی موت نہیں آسکتی، اسلام کا تاریخ کے ہر دور میں قائم وباقی رہنا ضروری ہے  اور یہی اس کی مسلسل زندگی ہے ایک فرع دب گئی تو دوسری ضرور زندہ ہوگی یہ نہیں ہوسکتا کہ اصول کی تمام کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جائیں، ہاں! یہ ہوسکتا ہے کہ ایک فرع دبنے لگے اور اس پر عمل ترک ہوجائے ؛لیکن اسے پھر سے زندہ کرنے کا اسلام میں پورا اہتمام کیا جائے گا، حضور   کی ہدایت اسے پھر سے زندہ کرنے کی ایک بڑی بشارت ہے، ناممکن ہے کہ کل مسلمان کسی سنت سے ناآشنا رہیں، امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

"فنعلم أن المسلمين كلهم لا يجهلون سنة"۔       

  (کتاب الام:۷/۳۰۵،شاملہ،موقع یعسوب)

ترجمہ:ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ سارے کے سارے مسلمان کبھی بھی سنت سے ناآشنا نہیں رہ سکتے۔



سنت کی نسبت دوسرے صحابہؓ کی طرف

آپ  کو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ایک عمل کی اطلاع ملی،آپ نے اسے ان الفاظ میں پروانۂ منظوری دیا:

"إن ابن مسعود سن لكم سنة فاستنوا بها"۔

(مصنف عبدالزاق:۲/۲۲۹،شاملہ،موقع یعسوب)

ترجمہ:بیشک ابن مسعودؓ نے تمہارے لیے ایک سنت قائم کی ہے، تم اس پر چلو۔

ایک دفعہ حضرت معاذ بن جبلؓ کے ایک عمل کے بارے میں فرمایا:

"إِنَّ مُعَاذًا قَدْ سَنَّ لَكُمْ سُنَّةً كَذَلِكَ فَافْعَلُوا"۔

(ابو داؤد،بَاب كَيْفَ الْأَذَانُ،حدیث نمبر:۴۲۶شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:بےشک معاذ نے تمہارے لیے ایک سنت قائم کردی ہے، اسی طرح تم اس پر عمل کرو۔

اس قسم کی روایات میں آنحضرت   نے صحیح طور پر لفظ سنت دوسرے صحابہ کے لیےاستعمال کیا ہے؛ پھر صحابہ کرامؓ بھی اکابر صحابہ کے عمل وفیصلےپر سنت کا لفظ بولتے تھے۔

لفظ سنت کا استعمال صحابہؓ کی زبان سے

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آنحضرت   کے طور وطریق اور قول وعمل کو اپنے لیے سنت اور راہ عمل سمجھتے تھے، ان کے ہاں حضور   کی پیروی صرف ان کے امیر سلطنت ہونے کی حیثیت سے ہوتی تو حضور   کے بعد آپ کے طریق کو اپنے لیے سند اورسنت نہ سمجھتے،صحابہ نے تو اکابر صحابہ کرام کے عمل کے لیے بھی لفظ سنت استعمال کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی شخصیتوں سے کون واقف نہیں،حضرت عمرؓ نے کوفہ میں چھاؤنی قائم کی تو وہاں عام آبادی نے بھی جگہ پائی؛ پھر آپ  نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو وہاں معلم بناکر بھیجا اور آپ نے وہاں ایک عظیم درسگاہ قائم کی؛ پھر حضرت علی ؓبھی اپنے عہد خلافت میں وہاں جاکر آباد ہوئے، ان دونوں کہ ہاں لفظ سنت انہی معنوں میں رائج  اور مستعمل تھا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ایک موقع پر فرماتے ہیں :

"وَلَوْأَنَّكُمْ صَلَّيْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ كَمَا يُصَلِّي هَذَا الْمُتَخَلِّفُ فِي بَيْتِهِ لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ وَلَوْتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَلْتُمْ"۔

(مسلم،بَاب صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى،حدیث نمبر:۱۰۴۶،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:اور اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کروجیسا کہ یہ پیچھے رہ جانے والا کررہا ہے تو تم اپنے نبی کی سنت چھوڑدوگے اور اگر تم نے اپنے نبی کی سنت چھوڑدی تو تم گمراہ ہوجاؤگے۔



حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ کے عمل کے لیے سنت کا لفظ

حصین بن المنذرابو ساسان کہتے ہیں کہ جب ولید کو حد مارنے کے لیے حضرت عثمان ؓ کے پاس لایا گیا تو وہاں میں موجود تھا، آپؓ نے حضرت علی مرتضیؓ کو حکم دیا کہ ولید کو کوڑے لگائیں، انہوں نے اپنے بیٹے حضرت حسن سے کہا کہ وہ کوڑے لگائیں؛انہوں نے عذر کیا تو پھر آپ ؓنے عبداللہ بن جعفرؓ سے کہا کہ وہ ولید پر حد جاری کریں، حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کوڑے لگاتے جاتے تھے اور حضرت علی گنتے جاتے تھے جب چالیس ہوئے تو حضرت علی ؓ نے فرمایا بس !یہیں تک اور فرمایا:

"جَلَدَ النَّبِيُّ   أَرْبَعِينَ وَجَلَدَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ وَعُمَرُ ثَمَانِينَ وَكُلٌّ سُنَّةٌ"۔

(مسلم،بَاب حَدِّ الْخَمْرِ،حدیث نمبر:۳۲۲۰،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:آنحضرت   نے (شراب پینے والے پر)چالیس کوڑوں کا حکم فرمایا، حضرت ابوبکرؓ بھی چالیس کوڑوں کا ہی حکم دیتے رہے،حضرت عمرؓ نے اسی کوڑوں کا حکم دیا اور ان میں سے ہرایک حکم سنت شمار ہوگا۔

اس روایت میں جہاں اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت تک حضرت علی ؓ خلفاءثلٰثہ کے ساتھ امور سلطنت میں برابر شریک رہتے تھے اور حضرت عمرؓ کے عمل کو سنت تک کا درجہ دیتے تھے وہاں اس بات کی بھی پوری تائید ملتی ہے کہ لفظ سنت اس دورمیں اکابر صحابہ کے عمل تک کو بھی شامل تھا۔

خلفائے راشدین کے عمل کے لیے سنت کا لفظ

آنحضرت   نے اپنی زبان مبارک سے بھی خلفائے راشدین کے عمل پر لفظ سنت کا اطلاق فرمایا ہے،حضرت عرباض بن ساریہؓ(۷۵ھ) کی روایت میں حضور اکرم   کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ:

"فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ"۔

(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ،حدیث نمبر:۲۶۰۰،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:سو جو تم میں سے یہ زمانہ پائے اسے لازم ہے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے۔

امت میں خلفائے راشدین کے عمل کے لیے سنت کا لفظ عام شائع وذائع ہے اور امت اپنے قانونی ابواب میں ہمیشہ سے سند تسلیم کرتی آئی ہے۔

سنت اور حدیث میں فرق

سنت کا لفظ ایسے عمل متوارث پر بھی بولا جاتا ہے جس میں نسخ کا کوئی احتمال نہ ہو،حدیث کبھی ناسخ ہوتی ہےکبھی منسوخ؛ مگرسنت کبھی منسوخ نہیں ہوتی، سنت ہے ہی وہ جس میں توارث ہواور تسلسلِ تعامل ہو،حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے کبھی صحیح، یہ صحت وضعف کا فرق ایک علمی مرتبہ ہے،ایک علمی درجہ کی بات ہے، بخلاف سنت کے کہ اس میں ہمیشہ عمل نمایاں رہتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مسلک کے لحاظ سے اپنی نسبت ہمیشہ سنت کی طرف کی ہےاور اہل سنت کہلاتے ہیں،  حدیث کی طرف جن کی نسبت ہوئی اس سے ان کا محض ایک علمی تعارف ہوتا رہتا ہے اور اس سے مراد محدثین سمجھے گئے ہیں، مسلکاً یہ حضرات اہلسنت شمار ہوتے تھے۔


تاریخِ حدیث


ماخذ علمی ہونے کی حیثیت سے

تاریخ حدیث سے مراد آنحضرت   اور آپ کے اصحاب کرام کی تعلیمات اور ان کی نقل وروایت پر بحث نہیں نہ ان کی تدوین اور ان کے قواعد زیر بحث ہیں، بلکہ صرف یہ بتلانا ہے کہ ماخذ علمی ہونے کی حیثیت سے اس کی تاریخ کب سے چلی آرہی ہے، حدیث آنحضرت   کے الفاظ میں ہو یا اعمال میں یا آپ کے اصحاب میں، جہاں تک اسے پیچھے لایا جاسکے وہیں سے حدیث کی تاریخ شروع ہوتی ہے،قبل اس کے کہ ہم حضور   کی نسبت سے بات شروع کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے امم سابقہ میں اس کی تلاش کریں کہ کیا ان ادوار میں بھی کتاب ِالہٰی کے ساتھ ساتھ کوئی اور ماخذ علمی کار فرما رہا ہے، سو یہاں حدیث سے مراد تحریرات ِحدیث اس فن کا نہیں یہ تو تدوینِ حدیث کا موضوع ہے؛ یہاں ہمیں حدیث پر حضور   کی تعلیمات کی حیثیث سے غور کرنا ہے کہ ماخذ علمی کی حیثیت سے اس کی تاریخ  کب سے ہے:

نبوت اور حدیث کی تاریخ

حدیث کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی بعثت انبیاء کی تاریخ،امتوں کو حدیث کے ذریعہ ہی آسمانی کتاب ملتی رہی اور اس امت کوبھی آنحضرت   کے واسطے سے قرآن ملا، قرآن اور حدیث جمع ہوئے تو اسلام کے اس  دورِ آخر کا آغاز ہوگیا،آنحضرت   پرپہلی وحی("اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ" العلق:۳۰) غارِ حرا میں نازل ہوئی تو آپ نے اس کی خبر ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ اور ورقہ بن نوفل کو دی، یہ حدیث کا آغاز تھا، امام بخاری(۲۵۶ھ)نے صحیح بخاری کا آغاز اسی باب سے کیا ہے"كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم"یعنی حضور   پر وحی کا آغاز کیسے ہوا،یہ وحی کا پہلا دن تھا، سو یہ بات بالکل صحیح تاریخی ہے کہ حدیث اور بعثت کی تاریخ ایک ہے، ایک ساتھ دونوں  شروع ہوئیں،امام بخاری نے بھی اس سے تنبیہ فرمادی  کہ جو بعثت کی تاریخ ہے وہی حدیث کا نقطۂ آغاز ہے،آنحضرت   کے عہد میں اسلام کی جو تشکیل ہوئی اس کے آثار حدیث کا سرمایہ ہے، یہ آثار روایت میں ہوں یاعمل میں یا آپ کے اصحاب کرام کی فکر وادا میں،ہر پہلو سے ان کا مبدا وتاریخ حسی ہے اور یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ حدیث کا آغاز کسی اندھیرے میں نہیں ہوا، اس کے ہر پہلو میں تسلسل اور اتصال قائم ہے روایت میں سند سے تسلسل پیدا ہوتا ہے اورامت میں تعامل سے سند چلتی ہے  اور یہی علم الاٰثار ہے۔

آنحضرت ﷺسے پہلے کا علم الآثار

پیغمبرانہ تاریخ میں علم الکتاب اور علم الآثار ہمیشہ سے علم کےدو ماخذ رہے ہیں، قرآن کریم میں بھی ان دونوں کا ذکر واضح طور پرموجود ہے  حضور   کی بعثت سے پہلے جو ملتیں دنیا میں موجو تھیں وہ کسی نہ کسی گزشتہ پیغمبر سے انتساب رکھتی تھیں؛ مگر الحاد کا زہر اورتاویل کا فتنہ ان میں بہت تیزی سے سرایت کرچکا تھا، حضور   نے جب اپنی دعوت پیش کی او رانہیں حقیقی اسلام کی طرف بلایا توانہوں نے اپنے موقف پر اصرار کیا اور اس  کوچھوڑنےکے لیے کچھ بھی تیار نہ ہوئے، آنحضرت   نے اس سے ان کے اس موقف کی سند پوچھی اور اس میں ان دونوں علمی ماخذ کا ذکر فرمایا کہ علم الکتاب اور علم الآثار میں کوئی سند بھی تمہارے پاس ہو تو اپنے عقائد واعمال کے ثبوت میں اسے پیش کرو :

"اِیْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ"۔

(الاحقاف:۴)

ترجمہ:میرے پاس کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اس قرآن سے پہلے کی ہو یا پھر کوئی روایت جس کی بنیاد علم پرہو؛ اگر تم واقعی سچے ہو۔

اس روایت عن الانبیاء کو ہی  سلسلہ حدیث کہتے ہیں، اسے ہی اسناد الحدیث سے تعبیر کرتے ہیں، حضرت مطر الوراق (۱۲۵ھ) کہتے ہیں: اللہ تعالی کے اس ارشاد"أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ" سے مراد اسنادلحدیث ہے۔            

(فتح المغیث، اقسام العالی من السند والنازل:۳/۴)

معلوم ہوا کے پہلے انبیاء کی تعلیمات میں بھی آسمانی کتابوں کے ساتھ ساتھ ان کی احادیث چلتی تھیں،یہ علیحدہ بات ہے کہ نہ ان کی آسمانی کتابیں محفوظ رہیں،نہ ان کی احادیث کا سلسلہ متصل رہا؛لیکن اس بات کے تسلیم کرنے سے چارہ نہیں کہ ان کے دائرہ ٔاثر میں ان کی حدیث بھی پہنچتی تھی،ان میں سے بعض کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بھی نقل فرمایا، اللہ تعالی نے حضور  کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: "هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى" (النازعات:۱۵) ترجمہ:کیا پہنچی ہے آپ تک موسی علیہ السلام کی حدیث۔

آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کے آثار


حضور اکرم   کے آثار وہدایت جب الفاظ میں، اعمال میں اور انسانی افراد میں ڈھلتے ہیں تو حدیث،سنت اور عمل صحابہ کہلاتے ہیں،حدیث کا آغاز وحی کے ساتھ ہوا، سنت ِوحی سے قانون بنا اور صحابہ حدیث نبوی سے مقتدا ٹھہرے اور انہوں نے حضور   سے ہی تعلیم وتزکیہ کی دولت پائی، حضور   کا علم الآثار ان تینوں وسائط سے قائم ہوا، آج دین اسلام انہی آثار کا نام ہے جو قرآن وحدیث اور عمل صحابہ کے نام سے امت میں سند سمجھا جاتا ہے۔

فرائض ِرسالت کا قرآنی فیصلہ


اللہ تعالی نے آنحضرت   کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

"يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ"۔       

(ال عمران:۱۶۴)

ترجمہ:ان کے سامنے اللہ کی آیتوں  کی تلاوت کرے،انہیں پاک صاف بنائےاور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے۔

یہ حضور   کی تین اہم ذمہ داریوں کا بیان ہے" يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ"سے مراد حضور   کا امت تک قرآن پہنچانا ہے "وَيُزَكِّيهِمْ" سے مراد تزکیہ وتربیت سے ایک مثالی جماعت قائم کرنا ہے"وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ" سے مراد قرآن کریم کی روشنی میں حدیث اور سنت کی تعلیم دینا ہے،یہ آپ کا علم الآثار ہے، آپ کی تعلیمات قدسیہ افراد میں اگر کہیں نظر آئیں تووہ صحابہ کرامؓ ہیں اور اعمال میں ملیں تو وہ احادیث وآثار ہیں۔

روایت الفاظ سے بھی اور اعمال سے بھی

حضور    کی تعلیمات الفاظ میں بھی روایت ہوتی رہیں اور اعمال میں بھی پھیلتی رہیں، آپ کے اعمال طیبہ آپ کے صحابہ پربکمال تابانی سایہ فگن تھے، صحابہؓ نے آپ سے تزکیہ کی دولت پاکر آپ کی تعلیمات کو اس طرح اپنے اندر سمولیا کہ پوری دنیا کے لیے آسمان ہدایت کے ستارے بن چکے تھے، آپ   کے اعمالِ طیبہ کا چاند پوری شان اور قوت وبرہان سے چمک رہا تھا، نور عرفان کی تجلیات ہرطرف جلوہ ریز تھیں اور صحابہ اسی چاند کے گرد ہالہ بنے ہوئے تھے، یہاں تک کہ تابعین کی ایک جماعت اس کام کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی ، تابعین صحابہ کے نقش قدم پر چلےتھے اور یہ حضرات تابعین تب ہی تھے کہ صحابہ متبوعین تھے، پہلوں کا مقتدی بنے بغیر اگلوں کا مقتدا بننے کی کوشش کرنا اسلام کے دین مسلسل ہونے کے خلاف ایک نئی راہ ہے        ؎
مبتدی کوئی ہو یا کہ ہو منتہی
کہتے ہیں دوستو !ماعرفنا سبھی
اس حقیقت سے واقف ہیں اہل نظر
مقتدا وہ نہیں جو نہیں مقتدی
قرآن کریم نے بھی ہمیں یہ دعا سکھلائی ہے کہ ہم پہلوں کے نقش قدم بنیں، قرآن کریم کا تقاضاہے کہ پوری امت آپس میں جڑی رہے اور اس کی تمام کڑیوں میں ایک مضبوط رابطہ ہو، عباد الرحمن کی یہ دعا قرآن کریم میں اس طرح مذکور ہے"وَّاجْعَلْنَالِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا" (الفرقان:۷۴) اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنادے، اس دعا میں اس آرزو کا اظہار ہے کہ بعد میں آنے والے ہمارے نقش پا پر چلتے آئیں اور یہ تبھی درست رہ سکتا ہے کہ ہم بھی اپنے سے پہلوں کے نقش پر رہیں اس طرح مابعد کی امت اپنے ماقبل سے مسلسل رہے، حضرت امام بخاریؒ نے اس آیت کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں :

" أَيِمَّةً نَقْتَدِي بِمَنْ قَبْلَنَا وَيَقْتَدِي بِنَا مَنْ بَعْدَنَا"۔

(بخاری، بَاب الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:۲۲/۲۴۳،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:اے اللہ ہمیں ایسا پیشوا بنا کہ ہم تو اپنے سے پہلوں کے نقش قدم پر رہیں اور ہمارے بعد میں آنے والے ہمارے نقش پا پر چلیں۔

اس دعا میں یہ بتلایا گیا ہے کہ امت ایک مسلسل کارواں ہے  جس میں پچھلے آنے والوں کا پہلوں سے متصل رہنا ضروری ہے، اس دعا کا پہلا مصداق حضور    کے صحابہ تھے ان کا دین حضور    سے مسلسل تھا اور آئندہ آنے والوں کے لیے سند تھا اور انہی سے اسلام کی شاہراہ مسلسل قائم ہوئی،آنحضرت    نے صحابہ کو بتلادیا تھا:

" إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَع"۔

(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الِاسْتِيصَاءِ بِمَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ،حدیث نمبر:۲۵۷۴،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:بے شک لوگ تمہارے پیچھے چلیں گے۔

 آپ    اپنے صحابہ کرام کو یہ بتلارہے تھے کہ تمہارے اعمال کے ذریعہ میری بات آگے چلے گی۔
قرآن کریم نے"وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ" کہہ کر صحابہ رضی اللہ عنہم کو علم کی سند دی تو "وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا" کہہ کر اسے عملاً آثار بنادیا، امت مسلمہ کی یہ دعائے اقتداء اسی علم الآثار کا محور ہے"إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَع" اسی کی نبوی تفسیر ہے، الفاظ سے سند لینا چنداں مشکل نہیں ؛مگر تعامل میں اس کی تلاش بے شک ایک بڑی کاوش ہے۔
جب تک دین کے لیے ہمتیں بیدار رہیں، دین اعمال سے پھیلتا رہا اور امت میں تسلسل رہا، ہر طرف خیر رہی، طولاً وعرضاً اتحاد رہا، امیرالمؤمنین سیدنا حضرت عمر ؓ نے صحابہ کو ان کی اس حیثیت سے پوری طرح خبر دار کردیا تھا، آپ ؓنے انہیں ان الفاظ میں اس طرف متوجہ فرمایا:

"إنكم أيهاالرهط أئمة يقتدي بكم الناس"۔

(موطا مالک، باب لبس الثياب المصبغة في الإحرام،حدیث نمبر:۶۲۶،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:اے لوگو تم ائمہ کرام ہو، لوگ تمہاری اقتداء کو آئیں گے۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ(۵۵ھ)نے ایک سوال کے جواب میں اپنی (جماعت صحابہ کی)اس قائدانہ حیثیت کا علی الاعلان اظہار فرمایا:

"إناأئمة يقتدى بنا"۔                     

(مصنف عبدالرزاق:۲/۳۶۷،شاملہ،موقع یعسوب)

ترجمہ:ہم صحابہ پیشوا ہیں، ہماری اقتداء آگے چلے گی۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ اس مقدس قافلہ کے پیچھے چلتے آئے،تابعین کہلائے"وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ" (توبہ:۱۰۰) کے باعث انہیں بھی "رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ" کا تمغہ ملا، حضرت امام مالکؒ سیدنا حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ(۱۰۰ھ)سے روایت کرتے ہیں:

"سنَّ رسولُ الله    وولاةُ الأمر من بعده سُنناً،  الأخذُ بها اعتصامٌ بكتابِ الله،  وقوَّةٌ على دين الله،  ليس لأحدٍ تبديلُها،  ولا تغييرُها، ولا النظرُ في أمرٍ خالفَها،  مَنِ اهتدى بها،  فهوالمهتدی،  ومن استنصر بها، فهو منصور،  ومن تركها واتَّبع غيرَ سبيل المؤمنين،  ولاَّه اللهُ ماتولَّى، وأصلاه جهنَّم،  وساءت مصيراً۔

(جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلی،الحدیث الثامن والعشرون،شاملہ،موقع صید الفوائد)

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے ولاۃ الامر نے ان سنتوں کو قائم فرمایا، جنھیں لینا اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامنا  ہے اور اللہ کے دین کوتقویت پہونچانا ہے کسی کو اس کے بدلنے اوراس میں ترمیم کرنے کا حق نہیں اور نہ اس کے برعکس کسی اور طرف دھیان کرنے کا حق ہے، جس نے ان سنتوں سے ہدایت ڈھونڈی اس نے ہدایت پالی اور جس نے ان سے نصرت چاہی وہ نصرت پاگیا اور جس نے انہیں نظر انداز کردیا اور ان مؤمنین کے سوا کسی اور راہ پر چلا اللہ تعالی اسے اسی طرف پھیردیتے ہیں جدھر وہ پھرا اور اسے جہنم میں پہنچادیتے ہیں اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔

حضرت عباد بن عباد الشامی دین مسلسل کی ترتیب یوں ذکر فرماتے ہیں:

"فَكَانَ الْقُرْآنُ إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِ    وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ    إِمَاماً لأَصْحَابِهِ،  وَكَانَ أَصْحَابُهُ أَئِمَّةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ۔

(دارمی، باب رِسَالَةِ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ الْخَوَّاصِ الشَّامِى:۲/۲۳۲،شاملہ،موقع وزارۃ الاوقاف، المصریہ)

ترجمہ:قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امام تھا اور حضور   صحابہ کے امام تھے اور آپ کے صحابہ بعد میں آنے والے لوگوں کے امام ہیں ۔

یہ امامت مسلسل تب ہی رہ سکتی ہے کہ اگلے (بعد میں آنے والے) پچھلوں (پہلے زمانہ کے لوگوں) کے پیچھے چلیں اور ان کے بعد آنے والے پھر ان کے پیچھے چلیں صحابہ کے بعد ائمہ دین بھی اگلے آنے والوں کے پیشوا اور مقتدا ہیں اور امت مجتہدین کی اقتداء اورپیروی سے ہی اپنے تسلسل میں آگے چلتی رہی ہے۔
حضرت امام اوزاعیؒ(۱۵۷ھ)ایک موقع پر ذکر فرماتے ہیں:

"كنا قبل اليوم نضحك ونلعب، أما إذا صرنا أئمة يقتدى بنا فلا نرى أن يسعنا ذلك، وينبغي أن نتحفظ"۔

(البدایۃ والنہایۃ:۱۱/۱۲۸،شاملہ،موقع یعسوب)

ترجمہ:پہلے تو ہمارا وقت کھیل کود میں گزرا ؛لیکن جب ہم امام بن گئے اور ہماری پیروی کی جانے لگی تو ہمارے لیے اب زیبا نہیں اور ہمیں چاہیے کے ہم بچ کر رہیں۔

اس بیان سےیہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت امت میں ائمہ دین کی پیروی جاری ہوچکی تھی، اس کا ائمہ کو بھی علم تھا اور اس سے وہ اپنے علم وعمل میں اور محتاط ہوکر چلتے تھے،اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورؐ کے بعد پیروی صرف صحابہؓ کی ہی نہیں ان کے بعد آنے والے علماء وقت بھی لوگوں کا مرجع اور ان کے پیشوا ہیں،حضرت امام مالک(۱۷۹ھ)کا مسلک اس باب میں کیا تھا اس جزئیہ میں دیکھیے:

"الاجتماعُ بكرة بعدَ صلاة الفجر لقراءة القرآن بدعةٌ،  ماكان أصحابُ رسول اللّٰه   ،  ولا العلماء بعدَهم على هذا۔

(جامع العلوم والحکم،الحدیث السادس والثلاثون:۳۶/۲۵،شاملہ،موقع صید الفوائد)

ترجمہ:صبح کی نماز کے بعد مخصوص اجتماعی شکل میں قرآن پڑھنا ایک نئی راہ ہے، حضور اکرم    کے صحابہ اور بعد کے علماء کا یہ طریقہ نہ تھا ۔

اس وقت ہمیں یہاں اس مسئلہ سے بحث نہیں ہے، صرف یہ بتلانا پیش نظر ہے کہ صحابہ کے بعد اس وقت کے اعیان علم کا عمل بھی اگلے آنے والوں کے لیے توجہ کے لائق ہے اور جو بات اس دین مسلسل میں نہیں ملتی وہ دین نہیں ہے۔

علم الآثار اور علم الکتاب

قرآن کریم نے دینی علم کا ماخذ(۱)علم الکتاب اور(۲)علم الآثار ٹھہرائے ہیں، ان دو کا آپس میں ربط کیا ہے ؟علم الآثار کی علم الکتاب سے کیا نسبت ہے اور علم الآثار کی اپنی کیا حیثیت ہے ؟اس سلسلہ میں پیش نظر رہے کہ ان میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔
مادی ظلمتوں سے کتاب اللہ کا نور ٹکراتا ہے  تو علم الآثار علم الکتاب کی اس طرح حفاظت کرتا ہے  کہ اس کا کوئی پہلو اپنے معنی ومراد سے دور نہیں کیا جاسکتا، جونہی کسی نے کتاب اللہ کے معنی مراد کو بدلنے کی کوشش کی  علم الآثار  نے ہر تاویل باطل کو تار تار کردیا، جس طرح فضائی فوج بری فوج پر حفاظت کا سایہ رکھتی ہے مجال ہے کہ دشمن کی فضائیہ اس پر اوپر سے حملہ آور ہو، اس طرح علم الآثار علم الکتاب کی حفاظت کرتا ہے، مجال ہے کہ علم الآثار کے ہوتے ہوئے  علم الکتاب سے اس کی مرادات چھینی جاسکیں، علم الآثار سے علم الکتاب کے نہ صرف معنی ومفہوم کی وضاحت ہوتی ہے بلکہ قرآن کے عمومات کی تخصیص اور مجملات کی تفصیل بھی اس سے ملتی ہے اورعلم الآثار کے بغیر علم الکتاب کے عملی خاکے میں رنگ نہیں آتا ۔
اثر عربی میں نقش قدم کو کہتے ہیں، آثار اس کی جمع ہے،پیغمبروں کے نقش قدم پر ان کے صحابہ چلے اور اپنے نقش پا تابعین کے لیے چھوڑے؛ انہوں نے ان سے زندگی کی عملی راہ پائی، ان رابطوں سے جو علم مرتب ہوا وہی علم الآثار ہے، پیغمبرانہ تاریخ میں علم کے یہی دو ماخد تھے، جن کی پیروی ہدایت الہٰی سمجھی جاتی تھی اور انہی ماخذوں کا حضور   نے اپنے مخالفین سے مطالبہ کیا تھا:

"اِیْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ"۔ 

(الاحقاف:۴)

ترجمہ:میرے پاس کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اس قرآن سے پہلے کی ہو یا پھر کوئی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو،اگر تم واقعی سچے ہو۔

ان تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ تاریخ حدیث تاریخ نبوت کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے، حضور اکرم   کی حدیث اوررسالت کی بھی ایک ہی وقت سے ابتداء ہوئی گو علم الہٰی میں آپ بہت  پہلے سے نبی تھے، حدیث کے معنی زبانی بات کے ہیں، حیوان ناطق کی تاریخ میں اظہار خیال کا اولین ذریعہ یہی نطق وبیان تھا اور اسی سے انسان اپنے ابنائے جنس میں ممتاز ہوا اور حیوان ناطق نام پایا، اللہ تعالی نےانسان کو پیدا کیا اور بولنا سکھایا:

"خَلَقَ الْإِنْسَانَ،  عَلَّمَهُ الْبَيَانَ"۔              

(الرحمن:۴،۳)

ترجمہ:پیدا کیا انسان کو اور سکھایا اسے بولنا۔

انسانی تاریخ میں علم کا فطری ذریعہ حدیث (زبانی بات)تھی تو دین فطرت میں بھی علم کا ذریعہ حدیث (حضور   کی بات) ہی قرار پائی؛ اسی سے قرآن کریم  کا تعارف ہوا اور اسی سے دور اول کے معیاری انسانوں نے تزکیہ وترتیب کی دولت پائی، حدیث نہ ہوتی تونہ قرآن سمجھ میں آتا، نہ جماعت صحابہ تیار ہوتی۔

حدیث کی زبانی روایت

علم حدیث زندہ انسانوں سے زندہ انسانوں تک منتقل ہوا، آنحضرت   نے حجۃ الوداع کے موقع پر تاریخی خطبہ دیا اور بہت سے احکام ارشاد فرمائے، امت کو ایک دستورزندگی دیا :

" فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ "۔

(مسلم، بَاب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ،حدیث نمبر:۳۱۸۰،شاملہ، موقع الاسلام)

ترجمہ:جو حاضر ہے وہ اسے غائب تک پہنچادے۔

اس میں آنحضرت   نے متنبہ فرمایا کہ آپ کی یہ حدیث آج صرف اسی اجتماع  کے لیے نہیں یہ کل انسانوں کے لیے راہ ہدایت ہے جو آج موجود ہیں اور سن رہے ہیں وہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچادیں، سو ان احکام کی تبلیغ صرف میدان عرفات کے حاضرین اور غائبین تک محدود نہ رہی؛ بلکہ ہر مجلس علم کا شاہد اسے اس مجلس کے غائب تک پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرا،حجۃ الوداع کا یہ خطبہ آخری الہٰی رہنما کا آخری دینی چارٹر تھا اور اس کا آخری پیغام روایت حدیث ہی کی تاکید تھی، سلسلہ روایت کو آگے جاری رکھنا  یہ اسلامی زندگی کا منشور ٹھہرا ؛چنانچہ یہ سلسلہ پوری محنت  وخلوص اور شوق ومحبت سے جاری رہا اور حدیث اپنی تاریخ میں ہمیشہ زندہ انسانوں میں روایت ہوتی رہی اور زندہ انسانوں سے زندہ انسانوں تک منتقل ہوتی رہی،  یہ صحیح ہے کہ محدثین اپنی یادداشت کے لیے  تحریرات سے بھی مدد لیتے تھے؛  لیکن حدیث پھر بھی صیغۂ تحدیث سے ہی روایت ہوتی تھی،  تحریرات بھی ہوں تو ان کے آگے تصدیقات ثبت ہوتیں، علمِ حدیث کے یہ انسان آج تک مسلسل چلے آرہے ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنی سند زندہ اساتذوں کے واسطے سے مؤلفین کتب حدیث تک  اور پھر ان محدثین کے واسطے سے حضور    اور آپ کے اصحاب کرام تک پہنچائی ہے اور اب تک روایت حدیث کی یہ اجازت برابر چلی آتی ہے۔

علم الآثار کا درس ومذاکرات

اس زمانے میں جب کہ علم کتابوں اور تحریروں میں مدون ہوگیا ہے،زبانی بات چیت کی سند ونقل بہت کم رہ گئی ہے؛لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ زبانی بات چیت کی  اصولی حیثیت باقی نہیں رہی،یہ حقیقت ہے کہ بیان واقعات میں اولین درجہ زبانی بات کا ہی ہے؛ پھر ضرورت اور تقاضے کے مطابق اسے تحریر کا لباس پہنادیا جاتا ہے، تحریر بمقابلہ تقریر ثانوی حیثیت رکھتی ہے، کوئی صاحب علم انسان کی تعریف حیوان ناطق کے بجائے حیوان ادیب ہر گز پسند نہ کریں گے، علم میں جو پختگی آمنے سامنے کے درس وتدریس اور زبانی مذاکرات سے آتی ہے وہ تحریر کی راہ سے نہیں آتی، تحریر کی غلطی پر صاحب تحریر کو بعض اوقات برسوں تک پتہ نہیں چلتا۔
یہی وجہ ہے اس امت میں علم ہمیشہ انہی علماء  کا پختہ سمجھا گیا جو علماء کے  سامنے بیٹھ کر اور علماء کی مجلسوں میں شریک ہوکر اکتساب علم کرتے رہے ہیں، حیوان ادیب کتنا ہی بڑھ جائے حیوان ناطق کے برابر نہیں ہوسکتا، تحریر ہمیشہ دوسرے درجے کا علمی فائدہ بخشتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ تحریری نقوش میں تغیر وتبدل اور مغالطہ اس سرعت سے نہیں آتا جتنا زبانی بات چیت میں آسکتا ہے؛ لیکن اس مشکل کا حل تحقیق واقعات میں صدق ودیانت اور نقل وروایت کے ضابطوں کی پابندی ہے، نہ کہ زبانی بات کے اصولی وزن کو ہی گرادیا جائے اور حیوان ادیب کے گرد ڈیرے ڈال دیے جائیں، لٹریچر زبانی تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ رہے اور معاون کے درجے میں رہے تواس سے بے شک ہزاروں فوائد حاصل ہوسکتے ہیں ۔
یاد رکھئے! کہ نقل واقعات میں سب سے اونچا درجہ شہادت کا ہے، جس سے عدالتیں فصل خصومات اور مقدموں کے فیصلے کرتی ہیں اور انسانی حقوق کے فیصلے کیے جاتے ہیں، وہاں اصولی حیثیت زبانی بیان کی ہوتی ہے کوئی تحریر پیش ہوتو اس پر بھی زبانی شہادت گزاری جاتی ہے، کسی عدالتی فیصلے میں صدر مملکت کا بیان بھی مطلوب ہو تو اسے بھی اصالۃ خود حاضر ہونا پڑتا ہے اور اس کی کوئی تحریر یا خط اس سلسلے میں کافی نہیں سمجھے جاتے،تحریر کا درجہ تاریخ انسانی میں تقریر سے ہمیشہ سے دوسرا رہا ہے۔

علم کتاب سے پہلے زبانی پیمانوں میں

آج جب علم مدون ہوچکا ہے اور تحقیقی مسائل میں ہماری نظریں ہمیشہ کتابوں کے گرد گھومتی ہیں تو اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ تدوین علم سے پہلے کے ادوار علم سے خالی تھے، تدوین علم کے الفاظ بتارہے ہیں کہ علم پہلے سے چلا آرہا ہے، جس کی کتابی صورت اس تدوین علم سے شروع ہوئی ؛پس یہ بات کہ حدیث کے معنی زبانی بات کے ہیں، اس کی تاریخی حیثیت اور اعتماد میں حارج نہیں، حدیث کی زبانی نقل وروایت حدیث کی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے، قرآن کریم کا پیرایہ اول بھی زبانی تھا، اس نے تحریر کی صورت بعد میں اختیار کی، حضور  اپنے صحابہ سے لکھواتے رہتے اور اس کے مختلف اجزاء حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے زمانے میں یکجا کتابی صورت میں جمع ہوئے، اسی طرح حدیث کا پیرایہ اول بھی زبانی تھا، صحابہ کی تحریرات محض اجزاء کی شکل میں تھیں،پھر اس کی باقاعدہ تدوین ہوئی اور یہ علم کتابوں میں منتقل ہوا اور پھر یہ وقت آیا کہ ان تحریرات کو حدیث کہا جانے لگا یہ دور آخر کی اصطلاح ہے، اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر علم کی ابتداء پہلے زبانی نقل وبیان کی ہوتی ہے؛پھر کہیں اسے تحریر میں لایا جاتا ہے ۔

نقل وروایت میں عربوں کا قومی مزاج

آنحضرت   کی بعثت سے بہت پہلےاللہ تعالی نے نقل روایت اور پچھلی باتوں کو آگے نقل کرنا عربوں کے قومی مزاج میں داخل کر رکھا تھا،قومی برتری کے احساس تفوق،شعر وسخن کی دلدادگی اور انساب وقبائل کے تذکروں کی وجہ سے اس زبانی بیان علم اورضبط روایت کو بہت اہمیت حاصل تھی،جب عرب اسلام میں داخل ہوئے  تو نقل روایت کا وہ قدیم تاریخی اہتمام اپنے آقا کی تعلیمات قدسیہ کی نقل وروایت میں جذب ہوگیا اورر وایات کے حفظ وضبط میں یہ فطری محنت اس وقت تک بڑی آب وتاب سے قائم رہی جب تک تحریرات حدیث باقاعدہ تدوین کے دورمیں داخل نہ ہوگئیں۔
پہلے پیغمبروں کا علم الآثار ان پیغمبروں سے کچھ آگے چلا،لیکن حضورخاتم النبیین  کے اٰثار رسالت اپنی کامل ترین صورت میں دنیا میں پھیلے اور آگے بڑھے اور تاریخ کے ہر دور میں  انسانی زندگی کو روشنی بخشتے رہے، پہلے پیغمبروں سے ان کی شریعت کی ابدی حفاظت کا وعدہ نہ تھا؛ کیونکہ نیا پیغمبر انہیں نئے سرے سے الہٰی قانون بتلاسکتا تھا؛ لیکن حضور   کے بعد کسی نئے نبی کو نہ آنا تھا؛ اس لیے اللہ تعالی نے آپ کے دین کی ابدی حفاظت کا وعدہ فرمایا۔

دربار رسالت میں حدیث کا فیضان

حضور   کی ذات گرامی حدیث کا موضوع تھی اور آپ کی ہر مجلس سے حدیث کا فیضان جاری تھا، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے،سوتے جاگتے آپ کی ہر ادا امت کے لیے اسوہ ونمونہ تھی اور آپ کے ہر ارشاد وہدایت سے  صحابہ کو زندگی کا درس ملتا تھا، مرد بھی اس فیضانِ حدیث سےجھولیاں بھرتے اور عورتیں بھی دربار رسالت کا درس لیتی تھیں۔

حضرت ابو سعید خدریؓ(۷۴ھ)کہتے ہیں کہ ایک خاتون حضور   کی خدمت میں حاضر ہوئی اوراس نے عرض کیا:

"ذَهَبَ الرِّجَالُ بِحَدِيثِكَ فَاجْعَلْ لَنَا مِنْ نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ تُعَلِّمُنَا مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ"۔

(بخاری،بَاب تَعْلِيمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۶۷۶۶،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:مرد تو آپ کی حدیثیں لے جاتے ہیں، آپ ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر کردیں، ہم آپ کے پاس آئیں اور آپ ہمیں پڑھادیں۔

اس روایت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جس طرح صحابہ کرام دربار رسالت سے فیض پاتے رہے صحابیات بھی اسی ذوق ایمانی  سے حدیث کی طلب گار ہوتی تھیں ورنہ ان کے لیے علیحدہ دن مقرر کرنے کوئی ضرورت نہ تھی اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عہد اول میں ہی عورتوں میں نقل روایت کا سلسلہ قائم ہوچکاتھا،ان دنوں عورتوں تک کو یہ بات معلوم تھی کہ حدیث کا سر چشمہ بھی تعلیم الہٰی ہے۔
بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح علم دین رجال امت میں سند سے جاری ہوا عورتوں میں بھی حدیث کی روایت اسی قوت علم اور اہتمام عمل سے جاری ہوئی  اور آج تک خواتین امت میں دین کی یہ محنت کسی نہ کسی صورت میں چلی آرہی ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ کا مرکزی کردار

حضور اکرم   کی جس طرح بیرونی زندگی امت کے لیے اسوہ حسنہ تھی،اسی طرح آپ کے گھر کی زندگی بھی امت کے لیے لازمی مشعل ہدایت تھی، سو حکمت الہٰی میں تقاضا ہوا کہ حضور   کے گھر میں حفظ روایت اور ثقاہت علم کے ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ آپ کے گھر کی زندگی بھی پوری امت کے سامنے روشن ہوجائے، اللہ تعالی کے یہاں اس عظیم خدمت کے لیے حضرت عائشہ صدیقہؓ کا انتخاب ہوا اور وہ نہایت کم عمری میں ام المؤمنین کی منزلت رفیعہ پر مسند نشین ہوئیں، اس عمر میں ان کا حرم نبوی میں آنا اسی خدمت حدیث اور حفظ روایت کے لیے تھا، آپؓ سے جہاں صحابہ کرام کے جم غفیر نے علم کی دولت لی،حضرت عمرہ(۱۰۳ھ)روایت حدیث میں آپ کی جانشین ٹھہریں۔

تین علمی مراکز

(۱)حجاز                (۲)عراق                (۳)شام
حجاز: مرکز اسلام مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ اسی سر زمین میں ہیں، آیات الہٰی اور فرامین نبوی سب سے پہلے اسی سر زمین میں اترے، مدینہ منورہ کی سب سے بڑی درسگاہ حضرت امام مالک کا حلقہ درس تھا، مکہ مکرمہ میں بھی بڑے علمی حلقے تھے۔
عراق:حضرت عمرؓ کے وقت میں کوفہ اسلامی چھاؤنی بنا، بڑے بڑے فضلاء صحابہ وہاں آباد ہوئے،امام ابو حنیفہؒ (۱۵۰ھ) اورامام سفیان ثوری(۱۶۱ھ)کی درسگاہیں اسی سر زمین میں تھیں،امام نووی کوفہ کے بارے میں لکھتے ہیں: "دارالفضل ومحل الفضلاء"۔                

(شرح صحیح مسلم:۱/۱۸۵)

شام: یہ سر زمین جلیل القدر صحابی حضرت ابو درداء(۳۲ھ)کا مرکز درس تھی، بلند پایہ فقیہ حضرت امیر معاویہؓ کا مرکز حکومت بھی یہی علاقہ تھا،امام اوزاعی (۱۵۷ھ)اس علاقہ کے بڑے مجتہد تھے برسوں ان دیار میں ان کی تقلید جاری رہی۔
پہلی قوموں کو  پہلے انبیاء سے علم کتاب اور علم اٰثار دو ماخذ نہ ملے ہوتے تو حضورخاتم النبیین   ان قوموں کی گمراہی ان لفظوں میں بیان نہ کرتے:

" إِنَّهُمْ كَذَبُوا عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ كَمَا حَرَّفُوا كِتَابَهُمْ"۔

(مسند احمد،حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَىؓ:۱۸۵۹۱،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:انہوں نے جیسا کہ اپنی الہامی کتابوں کو بدلااپنے انبیاء پر بھی وہ باتیں لگائیں جو انہوں نے نہ کہی تھیں۔

اس حدیث میں پہلے انہیں اللہ کی کتاب بدلنے کا مجرم بتلایا ہے؛ پھر انہیں  احادیث بدلنے اور موضوع روایات کو پیغمبروں کے نام سے بیان کرنے کا قصور وار ٹھہرایا،یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ پہلے پیغمبروں کی صحیح احادیث ان قوموں کے لیے حجت ہوں اور ان نفوس قدسیہ کے نام سے غلط باتیں وضع کرنا حرام ہو،محدثین اسی لیے احادیث کی چھان بین کرتے ہیں تاکہ پیغمبروں کے نام سے کوئی غلط بات راہ نہ پائے، حضور خاتم النبیین  کے دورمیں بھی صراط مستقیم کی تشخیص یہی رہی کہ اس کی اساس اللہ کی آیات اور پیغمبروں  کی ذات پر ہو،پیغمبر کی ذات کو نکال دینے سے وہ صراط مستقیم ہی کیا رہے گا۔

"وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنْتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيم"۔               

(اٰل عمران:۱۰۱)

ترجمہ:اور تم کس طرح کفر کرسکتے ہو جب کہ تم میں اللہ کی آیات بھی تلاوت کی جارہی ہیں اور تم میں اللہ کے رسول بھی موجود ہیں اور جو اللہ تعالی کا سہارا لے گا وہ صراط مستقیم پاگیا۔

آنحضرت   کے بعد آپ کی تعلیمات کا بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لیےموجود ہونا حضور  کے وجود باوجود کا ہی فیض ہے،جب تک اللہ کی کتاب سے تمسک رہے اور حضور   کی تعلیمات پر عمل ہو انسان کبھی کفر کی سرحد پر نہیں آتا، وہ کتاب وسنت سے صراط مستقیم کی دولت پاچکا ہوتا ہے۔


آیات ورُسُل میں کسی کا انکار نہ ہو

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کافروں کے کفر کی ایک یہ وجہ بیان فرمائی ہے :

"ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا"۔    

(الکہف:۱۰۶)

ترجمہ:کیونکہ انہوں نے کفر کی روش اختیار کی تھی اور میری آیتوں اور میرے پیغمبروں کا مذاق بنایا تھا۔

ان کا جرم صرف انکار رسالت ہوتو اتنی بات کافی تھی کہ وہ وحی خدا وندی سے استہزاء کرتے تھے یہ جو فرمایا کہ انہوں نے رسولوں سے بھی استھزا کیا،اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی وحی اور رسولوں کی باتیں شروع سے مدار ایمان رہی ہیں اور کافران دونوں سے استہزاء کرتے رہے،بنی نوع انسان سے شروع سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ وحی خداوندی کے ساتھ رسولوں کی باتیں اپنائیں،کسی کا انکار نہ کریں، رسولوں کو وحی خدا وندی سے کسی طرح جدا نہیں کیا جاسکتا،حدیث رسول اسی وقت سے حجت چلی آرہی ہے جب سے انسان وحی خدا وندی سے متعارف ہوا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تصدیق رسول تصدیق آیات پر بھی مقدم ہے، جب تک رسول کی تصدیق نہ ہو  اس کے بیان پر آیات الہٰی کو آیات الہٰی نہیں مانا جاسکتا، امتیں پیغمبرکو پہلے مانتی رہی ہیں  اور پھر اس کے کہنے پر ہر اس بات کو تسلیم کرتی رہی جو وہ خدا کی طرف سے لاتے رہے ، ہاں درجہ میں کتاب الہٰی اول ہے اور حدیث اسلام کا دوسرا علمی ماخذ ہے؛ لیکن تاریخ کا لحاظ رکھا گیا ہے اور آیات کو رسل پر مقدم کیا گیا ہے۔

انبیاء سابقین کا اللہ تعالی سے شرف ہمکلامی

قرآن کریم میں متعدد ایسے شواہد ملتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے کتب وصواحف کے علاوہ بھی انبیاء سے کلام فرمایا ہے،یہ ہمکلامی ان صحیفوں یا کتابوں تک محدود نہ تھی مبدا فیض سے ان کی اپنی رہنمائی کے لیے بھی انوار آتے تھے،کتب حدیث میں بھی ایسے وقائع موجود ہیں کہ اللہ تعالی پچھلے نبیوں سے ہمکلام ہوئے،ہمیں اس باب کی آنحضرت   نے خبر دی ہے، حضور  کو ان خبروں کا کیسے پتہ چلا یہ آپ خود سوچیں،یہ حضور   کی بھی وحی غیر متلو ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی

"عن أنس بن مالك رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال أوحى الله تعالى لى آدم عليه السلام أن يا آدم حج هذا البيت قبل أن يحدث بك حدث الموت ..الخ"۔


(الترغیب والترھیب، كتاب الحج الترغيب في الحج والعمرة،حدیث نمبر:۱۷۰۴، شاملہ،الناشر:دار الكتب العلمية،بيروت)

ترجمہ:اللہ تعالی نے آدمؑ کی طرف وحی کی اور حج بیت اللہ شریف کا حکم دیا فرمایا: اس گھر کا قصد کریں قبل اس کے کہ تمہاری موت کا وقت آئے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف وحی

"أوْحَى الله إلى ابْرَاهِيمَ يا خَلِيلي حَسّنْ خُلُقكَ ولوْ مَعَ الكفَّارِ تَدخلْ مَدَاخِلَ الأبْرارِ فإنّ كَلِمَتِي سَبَقَتْ لِمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ أنْ أُظِلَّهُ في عَرْشِي وأنْ أُسْكِنَهُ حَظِيرَةَ قَدسي وأن أدْنِيَهُ مِنْ جِوارِي"۔

(الفتح الکبیر فی ضم الزیادۃ الی جامع الصغیر،حدیث نمبر:۴۶۱۸،حرف الھمزہ،شاملہ،دارالنشر:دارالفكر،بيروت،لبنان)

ترجمہ:اللہ تعالی نے ابراھیمؑ کی طرف وحی کی کہ اخلاق اچھے رکھنا خواہ کفار سے ہی معاملہ کیوں نہ ہو؛ اس طرح نیک لوگوں میں شمار ہوگے، میری بات طے ہوچکی کہ جس کے اخلاق اچھے ہوں گے اسے عرش تلے سایہ دوں گا، اپنے حظیر قدس میں اسے رہنے کی جگہ دوں گا اور اپنے قریب میں اسے جگہ دونگا۔

یہ سب احکام دینی نوع کے ہیں جو مختلف ابنیاء کو وحی کیے گئے، یہ کتاب نہیں جس پر شریعت قائم ہوتی ہے، یہ کتاب کے علاوہ آنے والی وحی ہے، اس میں نئے احکام ہوں یا پہلے احکام کی ہی تائید، یہ وحی تشریعی ہے، اس سے حاصل ہوا علم مذہبی نوع کا ہوتا ہے ، اس کے مقابل وحی تکوین ہے، جس کے لیے انسان ہونا بھی شرط نہیں جانوروں تک کو ہوسکتی ہے :

"وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ"۔

(النحل:۶۸)

ترجمہ:اورتمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ :تو پہاڑوں میں اور درختوں میں اور لوگ جو چھتریاں اٹھاتے ہیں ان میں اپنے گھر بنا۔

یہ وحی تکوین جو اس مکھی کو ہوئی اس میں دین وشریعت کا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا، تکوین کی ایک بات کہی گئی تھی، موسیؑ کی والدہ کو جو وحی کی گئی تھی وہ بھی انتظامی امور کی تھی،  مذہبی نوع کی نہ تھی، نبی وہ ہے جس کی طرف احکام کی وحی آئے، وہ نئے ہوں یا پرانے وہ ان کی تبلیغ کا مامور ہو، موسی علیہ السلام کی والدہ کو ہونے والی وحی مذہبی نوع کی نہ تھی، صرف یہ حکم تھا کہ بچے کو صندوق میں ڈالدے:

"إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّكَ مَا يُوحَى،أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمّ"۔

(طٰہٰ:۳۹)

ترجمہ:جب ہم نے تمہاری ماں سے وحی کے ذریعےوہ بات کہی تھی  جو اب وحی کے ذریعے (تمھیں) بتائی جارہی ہے،کہ اس بچے کو صندوق میں رکھو،پھر اس صندوق کو دریا میں ڈال دو۔

اس سے پتہ چلا کہ وحی کا آنا پیغمبروں سے خاص نہیں، پیغمبروں کو جو وحی آتی ہے اس کی قانونی حیثیت ہے، وہ دینی  نوعیت کی ہوتی ہے اس کا ماننا دوسروں پر بھی فرض ہوتا ہے اور جو وحی تکوین ہو وہ غیر پیغمبروں کو بھی ہوسکتی ہے؛ پھر وحی تشریعی کی بھی دو قسمیں ہیں  ایک وہ جو نئی شریعت کی حامل ہو اور دوسری وہ جو اسی شریعت کو اپنائے جو پہلے سے چلی آرہی ہے، وحی تشریعی کے مقابل وحی غیر تشریعی نہیں وحی تکوینی ہے۔


موضوعِ حدیث


حدیث کا موضوع آپؐ کی ذاتِ گرامی ہے

حدیث کا موضوع اور مرکزآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے،آپ عبداللہ کے بیٹے یا عبدالمطلب کے پوتے ہونے کی حیثیت سے اس کی موضوع نہیں ؛بلکہ اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے حدیث کا موضوع ہیں، آپ   کے صحابہؓ اس کے موضوع بنے تو وہ بھی اس لیے کہ وہ آپ کے صحابی تھے،پس حدیث وہ نعمت خدا وندی ہے جو اللہ رب العزت نے آپ کے سینے میں اتاری اور آپ نے اسے بحکم خدا وندی آگے دوسروں تک پہنچایا، قرآن کریم میں ہے:

"وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ"۔                 

(الضحٰی:۱۱)

ترجمہ:سو آپ اپنے رب کا احسان آگے(حدّث) بیان کرتے رہیں۔

حضورؐ کو حکم ہوا کہ آپ اس نعمت الہٰی کو آگے بیان کرتے رہیں جو اللہ نے آپ کو عطا فرمائی،یہ نعمت ہے اسی لیے آگے جاکر حدیث بنے،حدّث کے معنی حدیث بیان کرنے کے ہیں، یہ بیان کرنا گو لغۃ زبانی بیان کرنے کا نام ہے ؛لیکن حضورؐ کے اعمال اور طریقے بھی اس نعمت کا عملی بیان ہیں، آپ زبان سے بیان کریں یا عمل سے آپ کی ہر بات اورآپ کی ہر ادا امت کے لیے اللہ تعالی کی نعمت اور کل کائنات کے لیے اللہ کی رحمت ہے، حضورؐ کا وجود مسعود تمام جہانوں کے لیے رحمت ہے اور آپ کی حدیث ہر ظلمت میں ایک اُجالا ہے۔

تعلیم رسالت کے تین عنوان

حدیث کا موضوع آنحضرت   کی ذات گرامی اور اس نسبت سے صحابہ کرامؓ کی ذات قدسیہ میں آنحضرت   کے ارشادات، اعمال اور آپ کے سامنے کیے گئے اعمال(جن پر آپ نے کوئی اعتراض نہ کیا ہواور انہیں اپنے سکوت سے منظوری بخشی ہو)سب حدیث کا موضوع ہیں(sayings/actions/approvals)۔
یہ تینوں ارشادات،اعمال اور منظور کردہ امور حدیث کا سرمایہ ہیں علم حدیث میں انہی امور سے بحث ہوتی ہے کہ آپ نے کیا فرمایا:کونسا کام کیا اور آپ نے اپنے مشاہدہ اور سکوت سے کس کس بات کو منظوری بخشی، اللہ کے پیغمبرکی آنکھ جس کام کو ہوتا دیکھ لے وہ آپ کے سکوت سے بھی دوسروں کے لیے سند بن جاتا ہے ؛یہی وجہ ہے کہ صحابہ حضور   کے دور میں کیے گئے اعمال کو آگے اس طرح روایت کرتے تھے گویا یہ سب تعلیم رسالت ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حضور   کی اس منظوری سے وہ حضور   کی ہی تعلیمات سمجھے جاتے ہیں، امام نووی(۶۷۶ھ)مقدمہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں۔
"وان اضافہ فقال کنا نفعل فی حیاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او فی زمنہ اووھو فینا او بین اظھرنا او نحو ذلک فھو مرفوع وھذا ھوالمذھب الصحیح"۔

(مقدمہ شرح مسلم:۱۷)

ترجمہ:اور صحابی نے اگر وہ بات آگے نسبت کردی کہ ہم حضور   کی زندگی یا آپ کے وقت میں اس طرح کرتے تھے یا ہم نے ایسا کیا اور آپ ہم میں تھے یا ہمارے سامنے تھے یا اسی طرح کی کوئی اور تعبیر اختیار کریں تو یہ بات مرفوع حدیث کے حکم میں ہوگی اور یہی مذہب صحیح ہے۔

تقریری حدیث کی ایک مثال

حضور اکرم   نے رمضان شریف میں تین رات تراویح کی نماز پڑھائی اور پھر تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے، آپ  نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ آپ کے دائمی عمل سے کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہوجائے، ان تینوں راتوں کے بعد صحابہ کرام مسجد میں مختلف اور متفرق جماعتوں میں تراویح کی نماز پڑھتے رہے اور اس کی حضور   کو اطلاع بھی ہوئی،آپ نے اس پر کوئی اعتراض نہ فرمایا؛ بلکہ اس کی تصویب فرمائی، مسجد میں حضرت ابی بن کعبؓ تراویح پڑھارہے تھے، آپ نے دیکھا تو فرمایا :
"أَصَابُوا وَنِعْمَ مَا صَنَعُوا"۔

(ابو داؤد، بَاب فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۱۱۶۹،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:صحیح بات کو پہنچے اور بہت اچھا ہےجو انہوں نے کیا۔

آپ کی اس تقریر وتوثیق سے مسجدوں کی تراویح با جماعت اب تک بطور سنت ادا ہورہی ہے،تراویح کی نسبت حضرت عمرؓ کی طرف بس اتنی ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو متفرق جماعتوں سے ہٹا کر ایک بڑی جماعت کردیا تھا۔

(بخاری،بَاب فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۱۸۷۱،شاملہ،موقع الاسلام)

 اور یہ بھی اس وقت کیا جب اس نماز کے فرض ہونے کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہا تھا،مسلمانوں میں تراویح کی جماعت اس تقریر نبوی سے اب تک شائع ورائج ہے، اس قسم کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ حضور   کی قولی اور فعلی احادیث کے ساتھ ساتھ آپ کی تقریری احادیث بھی علم حدیث کا ایک بڑا سرمایہ سمجھی گئیں،آپ زبان مبارک سے تائید فرمادیں یہ تو ایک طرف رہا، آپ کی نظر مبارک پڑ جائے اور آپ خاموش رہیں تو اسے بھی آپ کی منظوری سمجھا جائے گا، جس کی نظراعمال میں یہ تاثیر بخشے اس قلب کا فیض کس قدر عام ہوگا، پھر یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ  کے ہوتے ہوئے امت پر کوئی عذاب آئے:

"وَمَاکَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ"۔          

(الانفال:۳۳)

ترجمہ:اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو۔

صحابہؓ کے اعمال حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ترجمان

آپ کی تعلیمات قدسیہ قولی ہوں یا فعلی یا تقریری(جن کی آپ نے اپنے سکوت سے منظوری دی ہو)صحابہ کرام کی زبان سے آگے بیان ہوں یا ان کے عمل سے یہ دونوں طریقے نعمت حدیث کو آگے پہنچانے میں برابر کے کار فرما رہے ہیں وہ کبھی نام لے کر کہتے تھے کہ ہم حضور   کا سا علم تمہیں کرکے دکھائیں؟اور پھر صحابہ کا عمل سامنے آتا..کبھی وہ یوں کہتے کہ ہم حضور اکرم   کے عہد میں ایسا کیا کرتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا  کہ صحابہ کے اپنے دینی اعمال ہی حضور   کی تعلیمات کا نشان سمجھے جاتے تھے اور یہ وہ کام تھے جن میں کسی اجتہاد کی گنجائش نہ ہوتی تھی اور یہ سمجھا جاتا کہ یہ حضور   کی ہی تعلیم ہے جوصحابہؓ کے اعمال میں جلوہ گر ہے، پہلی صورت کی مثال: جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود(۳۲ھ) کا وہ ارشاد ہے جوانہوں نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

"أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى"۔

(ترمذی،بَاب مَاجَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّافِي أَوَّلِ مَرَّةٍ،حدیث نمبر:۲۳۸،شاملہ،موقع الاسلام)

یاد رہے کہ یہ نماز کی شکل وصورت میں مشابہت بتلانی مقصود تھی، مقام نماز اور اس کی روحانی کیفیت میں غیر نبی کی نماز، نبی کی نماز کو نہیں پہنچ سکتی،مخالفین صحابہ اگر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ پر الزام لگادیں کہ دیکھو وہ اپنی نماز کو حضور   کی نماز کے برابر کہہ رہے ہیں اور یہ بے ادبی اور گستاخی ہے تو ان کی خدمت میں عرض کیا جائے گا کہ قائل کی مراد سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، قائل کی مراد سمجھے بغیر اس پر بے ادبی کا فتوی لگادینا علماء سوء کا طریق ہے، اہل حق اس سے احتراز کرتے رہے ہیں ؛یونہی کسی کو بے ادب اور گستاخ کہہ دینا شرارت کے سوا کچھ نہیں، حضرت ابو ہریرہؓ نے بھی اسی طرح ایک دفعہ اپنی نماز کو حضور   کی نماز کا نمونہ بتلایا،حضرت امام شافعیؒ روایت کرتے ہیں:

"أن أبا هريرة رضي الله عنه كان يصلي بهم فيكبر كلما خفض ورفع، فإذا انصرف قال : والله إني لأشبهكم صلاة برسول الله صلى الله عليه وسلم"۔

(مسندالشافعی،حدیث نمبر:۱۴۴،جز۱/۱۴۷،شاملہ،موقع جامع الحدیث)

ترجمہ:حضرت ابو ھریرہؓ انہیں نمازیں پڑھارہے تھے،جب بھی آپ جھکتے اور اٹھتے "اللہُ أَکْبَرْ" کہتے جب نماز پوری کرچکے تو فرمایا میں تمھیں حضور   کی سی نماز بتلارہا ہوں۔

کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابو ھریرہؓ کی نمازاپنے مقام اور کیفیت میں حضور  کی سی نماز تھی اور کیا کسی نے اس روایت کی بنا پر حضرت ابو ھریرہؓ پر کوئی حضور  کی بے ادبی کا فتوی لگایا؟۔
میمون المکی ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس گئے اور آپؓ سے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی نماز کا ذکر کیا، حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا:

"إِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ   فَاقْتَدِ بِصَلَاةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْر"۔

(ابوداؤد،بَاب افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۶۳۰،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:اگر تم چاہتے ہو کہ حضور  کی نماز کو عملاً دیکھوتو عبداللہ بن زبیر کی نماز کی اقتداء کرو۔

یہاں یہ نقطہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حضور   کی اتباع صحابہ کی اقتداء سے ہی امت میں جاری ہوئی ہے،صحابی آنحضرت   سے جتنے قدیم الصحبت ہواور جتنا کثیر الصحبت ہو اتنا ہی وہ حضور   کے عمل کا زیادہ نمونہ سمجھا جائےگا،اس کے علاوہ کوئی حضور  کے بارے میں کسی علم کا دعوی کرے تو وہ آنحضرت   سے روایت لائے گا، حضرت ابو حمید الساعدیؓ(۶۲ھ)ایک دفعہ دس صحابہ میں بیٹھے تھے،ان میں ابو قتادہ ربعی بھی تھے؛ انہوں نے کہا : "أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" (میں حضور   کی نمازکو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں)آپ نے جو کہا اسے امام ترمذی کی روایت سے سنیے:
"قَالُوا مَا كُنْتَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً وَلَا أَكْثَرَنَا لَهُ إِتْيَانًا قَالَ بَلَى قَالُوا فَاعْرِضْ فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا"۔

(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي وَصْفِ الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۲۸۰،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:صحابہ نے کہا آپ حضور   کی صحبت میں ہم سے پہلے کے تو نہیں،نہ آپ کا حضور کے پاس حاضر ہونا ہم سے زیادہ تھا،انہوں نے کہا کیوں نہیں،اس پر دوسرے صحابہ نے فرمایا اچھا بیان کیجیے،پھر آپ نے کہا کہ حضور   جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے  ہوتے تھے..الخ۔

صحابہؓ کے عمل سے حدیث نبوی کی تخصیص

جہاں تک تیسری صورت حال کا تعلق ہے محدثین صحابہ کرام کے ارشادات  سے حضوراکرم   کے ارشادات میں تخصیص تک روا رکھتے رہے ہیں،صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہؓ(۷۴ھ) نے فرمایا:

"مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ"۔

(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ،حدیث نمبر:۲۸۸،شاملہ، موقع الاسلام)

ترجمہ:جس نے ایک رکعت بغیر سورۂ فاتحہ کے پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی،مگر جب کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔

حضور اکرم   کے ارشاد: "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَاب" میں یہ استثناء "مگرجب کہ وہ امام کے پیچھے ہو" عام روایات میں موجود نہ تھا،مگر حضرت امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) نے جو امام بخاری وامام مسلم دونوں کے جلیل القدر استاد اور شیخ ہیں اور حدیث اور فقہ کے جامع امام ہیں؛ انہوں نے  صحابی رسول   کے اس فیصلے سے حضوراکرم  کی اس حدیث کا معنی بتلاتے ہوئے صحابی کے قول سے حدیث نبوی کی تخصیص کی، امام ترمذی لکھتے ہیں:

"وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَقَالَ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَيْثُ قَالَ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ أَنَّ هَذَا إِذَا كَانَ وَحْدَه "۔

(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ،حدیث نمر:۲۸۷،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ حضور   کے اس ارشاد کہ جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی کا معنی یہ ہے کہ جب وہ اکیلاہو یعنی جماعت سے نہیں اکیلے نماز پڑھ رہا ہو اور امام احمد نے اس پرحضرت جابر بن عبداللہؓ کی مذکورہ روایت سے استدلال کیا،امام احمد کہتے ہیں کہ یہ صاحب (جابر بن عبداللہؓ)حضور   کے صحابہؓ میں سے ہیں اور انہوں نے حضور   کے ارشاد:"لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" کامطلب یہ سمجھا ہے کہ جب کوئی اکیلے نماز پڑھے(یعنی امام کے پیچھے نماز پڑھنا اس میں مراد نہیں ہے)تو بدون فاتحہ اس کی نماز نہیں ہوتی۔

اس وقت اس مسئلہ سے بحث پیش نظر نہیں نہ یہاں ائمہ مجتہدین کے اختلاف مسالک پر گفتگو ہورہی ہے،یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ اکابرمحدثین نے صحابہ ؓکے اقوال واعمال کو حضور   کی احادیث کی شرح کرنے میں کتنی اہمیت دی ہے اور حق یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اپنے قول وعمل میں حضور    کے ہی ترجمان سمجھے جاتے تھے،ان کے تمام دینی ارشادات اور اعمال حضور   کی ہی تعلیمات  قدسیہ کا نشان تھے، جو عملی اختلاف صحابہ میں راہ پاگیا آگے امت کے لیے سند بن گیا، جس طریقہ پر بھی کسی صحابی کا عمل مل گیا اسے اب کسی طرح گمراہی قرار نہ دیا جائے گا؛ اسے باطل کہنا صرف اہل باطل کا ہی نصیب ہوگا، ان حضرات کے جملہ دینی اعمال کسی نہ کسی شکل میں حضور   سے ہی استناد رکھتے ہیں، حافظ ابن تیمیہؒ نے ائمہ کے مختلف فیہ مسائل کو صحابہ کے اعمال سے مسند بتلایا ہے اور سلف کے اختلاف کو امت کے لیے وسعت عمل کی راہیں فرمایا ہے،آپ اپنے رسالہ "سنت الجمعہ" میں لکھتے ہیں:

"فإن السلف فعلوا هذا، وهذا، وكان كلا الفعلين مشهورا بينهم، كانوا يصلون على الجنازة بقراءة وغير قراءة، كما كانوا يصلون تارة بالجهر بالبسملة، وتارة بغير جهر بها، وتارة باستفتاح، وتارة بغير استفتاح، وتارة برفع اليدين في المواطن الثلاثة، وتارة بغير رفع اليدين، وتارة، يسلمون تسليمتين، وتارة تسليمة واحدة، وتارة يقرؤون خلف الإمام بالسر، وتارة لا يقرؤون . وتارة يكبرون على الجنازة أربعا، وتارة خمسا، وتارة سبعا . كان فيهم من يفعل هذا،وفيهم من يفعل هذا ، كل هذا ثابت عن الصحابة"۔                

(رسالہ "سنت الجمعہ" لابن تیمیہ:۲/۳۲،شاملہ)

سلف صالحین نے دونوں طرح کیا ہے  اور دونوں فعل ان میں مشہور ومعروف رہے ہیں، بعض سلف نماز جنازہ میں قرأت کرتے تھے جیسے کبھی بسم اللہ نماز میں اونچی پڑھ لیتے تھے اور کبھی بسم اللہ بغیر جہر کے پڑھتے تھے،کبھی افتتاح والی دعا پڑھ لیتے اور کبھی نہ پڑھتے، کبھی رکوع کو جاتے، رکوع سے اٹھتے اور تیسری رکعت شروع کرتے وقت رفع یدین کرلیااور کبھی ان تینوں موقعوں پر رفع یدین نہ کرتے،نماز پوری ہونے پر کبھی دونوں طرف سلام پھیرتے کبھی ایک طرف، کبھی امام کے پیچھے قرأت (فاتحہ اور سورت)کرلیتے اورکبھی نہ کرتے، نماز جنازہ پر کبھی سات تکبیریں کہتے اور کبھی چار،سلف میں ان میں سے ہر طریقے پر عمل کرنے والے تھے اور یہ سب اقسام عمل صحابہ سے ثابت ہیں۔

صحابہؓ کے اعمال سے علم حدیث میں وسعت

یہ وہ اعمال ہیں جو صحابہ کی روز مرہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، جب ان میں صحابہ کرام مختلف العمل رہے اور ہر طریق عمل اپنی اپنی جگہ قائم رہا توبغیر اس کے متصور نہیں کہ ان حضرات نے خود حضور   کو ان مختلف مواقع میں مختلف طریقوں پر عمل کرتے دیکھا ہو پھر جوں جوں آپ کی آخری زندگی کے طریقے ان کی نگاہوں میں ممتاز اور راجح ہوتے چلے گئے اپنی اپنی تحقیق اور ترجیح کے وجوہ ان کے سامنے روشن ہوتے چلےگئے؛ یہاں تک کہ ان اختلاف  نے ائمہ اربعہ کی تحقیقات میں راجح اور مرجوح کی صورتیں اختیار کرلیں؛تاہم اس اقرار سے چارہ نہیں کہ علم حدیث میں اعمال صحابہ سے بھی تفصیلی بحث ہوتی ہے یہ حضرات تزکیہ صفات میں بھی حضور   کی محنت کے مظہر ہیں، ضروری ہے کہ یہ بھی حدیث کا موضوع  سمجھے جائیں،صحابہ کے عمل کو علم حدیث میں اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اگر صحابی خود آنحضرت  سے ایک روایت نقل کرے اور اس کا اپنا عمل اس کے خلاف ہوتو اس عمل سے اس حدیث کے نسخ پر یا اس کے عمومی حجت نہ ہونے پر استدلال کیا جاسکے گا، اس میں محدثین کی راہیں گو مختلف رہی ہیں،تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صحابہ کے اپنے اعمال وفتاوے کو علم حدیث میں بہت اہمیت حاصل ہے اور یہ حضرات بھی حدیث کا ایک اہم موضوع رہے ہیں۔

صحابیؓ کے فتوے سے ان کی روایت کی تحقیق

حضرت ابو ھریرہؓ حضورؐ سے روایت  کرتے ہیں کہ:جب کتا تم میں سے کسی کے برتن کو منہ لگادے تو اسے سات دفعہ دھونا چاہیے۔

(مسلم،بَاب حُكْمِ وُلُوغِ الْكَلْبِ،حدیث نمبر:۴۱۸،شاملہ،موقع الاسلام)

مگر جب حضرت ابو ھریرہؓ نے خود تین دفعہ دھونے کا فتوی دیا تو اس سے یہی سمجھا گیا  کہ سات دفعہ دھونے سے محض تاکید مراد تھی اور پاک ہونے کا تقاضا تین دفعہ دھونے سے پورا ہوجاتا ہے(شرح معانی الآثار،باب سور الکلب:۱/۲۳،شاملہ) اور عربی اسلوب میں بے شک اس طرز تاکید کی گنجائش موجود ہے۔                                

(حضرت شاہ صاحب کی عبارت "حجۃ اللہ" میں نہیں ملی)


صحابہ ؓ اور عام راویوں میں فرق

ایک صحابی بھی حضور  سے روایت کررہا ہوتو یہ درست نہیں کہ انسان اس کی تائید میں اور صحابہؓ سے پوچھتا پھرے، عمل کے لیے یہی کافی ہے،صحابہ عام ثقہ راویوں کی طرح نہیں کہ کثرت روات سے روایت میں اور قوت آجائے،ورنہ حضرت عمرؓ حضرت سعدؓ سے روایت کے بعداس کی مزید تحقیق سے نہ روکتے،علم جس قدر پختہ ہواس میں کوئی حرج نہ تھا، معلوم ہوتا ہے کہ صحابی کا حضور   سے کسی بات کو نقل کردینا علم کاوہ نقطۂ عروج ہے کہ اب اس کے بعد کوئی خلجان باقی نہیں رہتا، حضرت عمرؓ نے فرمایا:
"إِذَا حَدَّثَكَ شَيْئًا سَعْدٌ عَنْ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا تَسْأَلْ عَنْهُ غَيْرَه"۔

(بخاری،بَاب الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ،حدیث نمبر:۱۹۵،شاملہ،موقع الاسلام)

ترجمہ:جب سعد تمہارے سامنے حضور   کی کوئی حدیث نقل کرے تو اس کے بارےمیں کسی اور سے نہ پوچھو۔

پھر یہ بھی ہے کہ عام راوی کی وہی روایت معتبرہے جو مروی عنہ (جس سے روایت لی جارہی ہے)سے متصل ہو؛ لیکن صحابی رسولؐ کے بارے میں  اس واقعہ کی خبر دے جس میں وہ خود موجود نہ تھے تو بھی یہ روایت محدثین کے نزدیک معتبر اور لائق قبول ہوگی، صحابی کی مرسل روایت کو قبول کیا جائے گا، صحابہ کی مرویات میں یہ سوال نہیں کیا جا تا کہ انہوں نے اس دور کی روایت جسے انہوں نےنہیں پایا کس سے لی ہے، صحیح بخاری کے شروع میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ(۵۷ھ)سے مروی ہے کہ آنحضرتؐ پروحی کا آغاز کیسے ہوا ؛حالانکہ آغاز وحی پر وہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں،بایں ہمہ وہ حدیث مقبول ومعتبر سمجھی گئی اور بے شک یہ صحیح ہے، کسی صحابی یا صحابیہ سے نہیں ہوسکتا کہ وہ حضور   کے بارے میں کوئی بات خلاف واقعہ کہیں، سو ان کے لیے ضروری نہیں کہ ان کی روایت متصل ہو، ان کا مقام اسلام میں  عام راویوں سے بہت اونچا ہے اللہ تعالی نے تقوی ان کی ذوات کےلیے لازم کردیا تھا اور وہ بے شک اس کے اہل تھے، محدثین کے ہاں وہ سارے کے سارے عدول ہیں، تحقیق روایت میں جہاں اور راویوں کے بارے میں جرح وتعدیل کی بحث چلتی ہے صحابہ کے بارے میں یہ بحث نہیں چلتی؛ یہاں اس کی گنجائش نہیں؛ یہاں تعدیل ہی تعدیل ہے جرح کو اس میں راہ نہیں۔
صحابہ کی مرسل روایات بھی مقبول ہیں اور قانونی طور پر حجت ہیں اور ان ائمہ حدیث کے ہاں بھی معتبر ہیں جو دوسرے راویوں کی مرسل روایات سے حجت نہیں پکڑتے، صحابہ کرام سے نہ اتصال روایت کا مطالبہ ہے نہ ان کی تعدیل کی کہیں تلاش ہے۔

(مزید تصیل کے لیے دیکھیے:مقدمہ شرح مسلم)



صحابہ ؓ اور دوسرے راویوں میں فرق

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دوسرے راویوں کے لیے جرح وتعدیل کی میزان ہے تو صحابہ اس قاعدہ سے کیوں نکل گئے؟نہ ان سے اتصال روایت کے مطالبہ ہے نہ ان پر جرح کی اجازت ہے نہ ان کی روایت کسی اور تائیدکی محتاج ہے کیا یہ حضرات عام بشری کمزوریوں سے بالا تھے کہ ان میں اور عام راویوں میں اتنا بڑا فاصلہ پیدا ہوگیا  اتنا بڑا فرق آخر کیسے قائم ہوگیا؟۔
واقعہ ہے کہ صحابہ کی بشریت سے انکار نہیں، ان میں بشری احساسات بھی تھے اور بشری نفوس بھی تھے؛ لیکن ان کے دلوں کی پاکیزگی پر کتاب اللہ کی کھلی شہادت موجود ہے، ان کی طہارت قلبی پر قسم کھائی جاسکتی ہے، سو وہ ان بشری کمزوریوں سے یقیناً بالا تھے جو سچ اور جھوٹ حق اور باطل امانت اور خیانت میں فرق نہ کرسکیں، ان کے نفوس بشریہ کا اقرار اسی صورت میں لائق ذکر ہے کہ ساتھ ہی ان کی طہارت قلبی کا اعتراف ہو، ایک ایسے ہی مبحث سے حضرت ملا علی قاری کو گزرنا پڑا تو فرمایا:

"اعلم ان الصحابۃ مع نزاھۃ بواطنھم وطہارۃ قلوبھم کانوا بشرا کانت لھم نفوس والمنفوس صفات تظہر فقد کانت نفوسھم تظہر بصفۃ وقلوبھم منکرۃ لذلک لیرجعون الی حکم قلوبھم وینکرون ماکان عن نفوسھم"۔       

(شرح فقہ اکبر:۸۲)

اسلام میں اصل الاصول قرآن پاک کی ہدایات ہیں، قرآن کریم میں ہے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت آنحضرت   کی ایک ذمہ داری ٹھہرائی تھی اور ان کے باطن کو پاک کرنا آپ کے فرائض رسالت میں شمار کیا تھا تو اب ان کی طہارت قلبی کا اقرار نہ کرنا دوسرے لفظوں میں یہ کفری بات کہنا ہے کہ آنحضرت   اپنے فرائض رسالت کو ادا نہ کرسکے اور آپ نے صحابہ کو عمومی پاکیزگی نہ بخشی یہ سراسر الحاد ہے، اس میں اخص صحابہ ہی مراد نہ تھے، جیسے حضرت ابو بکر اور حضرت علی المرتضی ان حضرات پر تو کفر کا ایک لمحہ بھی نہ گزرا تھا، اللہ تعالی نے تو ان لوگوں کا تزکیہ (دلوں کو پاک کرنا)آپ کے ذمہ لگایا تھا جو پہلے کھلی گمراہی میں تھے، قرآن کریم میں آپ کے فرض رسالت زیادہ تر انہی لوگوں سے متعلق ہیں جو پہلے کفر میں مبتلا تھے۔

"وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ"۔          

(ال عمران:۱۶۴)

ترجمہ:اور بے شک اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔

آنحضرت   نے اپنے فرائض رسالت اس خوبی سے سر انجام دئیے کہ آپ کا ایک صحابی بھی ایسا نہ تھا جو عمداً جھوٹ بولتا ہو اور غیر ثقہ ہو، شیخ الاسلام علامہ بدرالدین عینیؒ لکھتے ہیں "لیس فی الصحابۃ من یکذب وغیر ثقۃ" (عمدۃ القاری:۲/۱۰۵)صحابہ میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو جھوٹ بولتا ہو اور ثقہ نہ ہو، یہ کسی عالم یا مجتہد کی بات نہیں، خود اللہ تعالی نے ان صحابہؓ کے باطن کی خبر دی تھی اور یہاں تک فرمایا کہ بے شک وہ اس کے اہل تھے:

"وَاَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰى وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِہَا وَاَہْلَہَا"۔

(الفتح:۲۶)

ترجمہ:اور قائم رکھا اللہ نے انہیں تقوی کی بات پر اور حق یہ ہے کہ وہ اس کے لائق تھے اوراس کے اہل تھے۔

یہ قرآن پاک کی شہادت ہے جس میں کسی قسم کا شک نہیں کیا جاسکتا جو شخص عام صحابہ کے بارے میں کلمہ تقوی لازم ہونے کا قائل نہ ہواور ان کی اہلیت میں اس لیے شک کرے کہ وہ پہلے کھلی گمراہی میں تھے وہ صریح طور پر منکر قرآن ہے، حدیث میں کلمۃ التقوی کی تفسیر لاالہ الاللہسے کی گئی ہے؛ سو تقوے اور طہارت کی بنیاد یہی کلمہ ہے جس کو اٹھانے اور اس کا حق ادا کرنے کے لیے  اللہ تعالی نے اصحاب رسول کو چن لیا تھا اور بلا شبہ اللہ کے علم میں وہی اس کے مستحق اور اہل تھے، اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی شخصیات کریمہ کو اس طرح اخلاق فاضلہ سے جلا بخشی تھی کہ کفر گناہ اور نافرمانی سے انہیں طبعاً متنفرکردیا تھا اور ایمان کو ان کے دلوں کی طلب اور زینت بنادیا تھا،اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو خطاب کرتے ہوئےفرمایا:

"وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ"۔

(الحجرات:۷)

ترجمہ:لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈالدی ہے اور اسے تمہارے  دلوں میں پرکشش بنادیا ہے اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں  اور نافرمانی کی نفرت بٹھادی ہے۔

صحابہؓ سب کے سب عادل ہیں کسی پر جرح نہیں

قرآن کریم نے جب صحابہ کے باطن کی خبر دی کہ وہ سب دولتِ ایمان پاچکے تھے تو وہ سب تزکیہ وتعدیل پر فائز سمجھے جائیں گے، ان شخصیات کریمہ میں جرح کوقطعاً راہ نہ ہوگی،وہ سب کے سب عادل قرار پائیں گے،جب دوسرے راویوں کے لیے جرح وتعدیل کی میزان قائم کی جائے گی تو اس مقدس گروہ کو اس سے مستثنی رکھا جائے گا اور وہ ہر لحاظ سے قابل اعتماد سمجھے جائیں گے ان کے دلوں میں ایمان لکھا جاچکا،قرآن کریم میں ہے:

"اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ"۔                  

(المجادلہ:۲۲)

ترجمہ:یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ ایمان لکھ چکا۔

خطیب بغدای(۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:

"ان عدالۃ الصحابۃ ثابتۃ معلومۃ بتعدیل اللہ لھم واخبارہ عن طھارتھم واختیارہ لھم فی نص القرآن"۔          

(الکفایہ:۴۶)

ترجمہ:صحابہ کا عادل ہونا یقینی طور پر ثابت ہے اللہ تعالی نے ان کی تعدیل کی اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کی خبر دی ہے اور انہیں نص قرآن کے مطابق اس نے (اپنے نبی کی صحبت کے لیے)چن لیا  تھا۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے

(الکفایہ:۴۶۔اسد الغابۃ:۱/۱،شاملہ،موقع الوراق۔کتاب التمہید:۳/۲۰۰)



شریعت وطبیعت میں مطابقت

اللہ تعالی  جن لوگوں کو گناہ سے طبعاً متنفر کردیتے ہیں تو پھر شریعت ان کی طبیعت ہوجاتی ہے ان کے لیے پھر ممکن نہیں رہتا کہ وہ اپنے ارادہ سے اپنے آقا ومولی کے ذمہ روایۃ یا عملاً کوئی ایسی بات لگائیں جو آپ نے نہ کہی ہو اور  نہ کی ہو اور اسلام میں اسلام کے نام سے کوئی ایسی بات داخل کریں جو اسلام نے نہ بتائی ہو، گناہ کے لیے بد نیتی ضروری ہے، جب تک نیت بری نہ ہو گناہ نہیں ہوسکتا، اللہ تعالی نے حضور   کے فیض صحبت اور تزکیہ باطن سے ان حضرات قدسیہ کے دلوں سے بد نیتی کا پہلو مٹادیا تھا، ان سے کوئی خطاسر زد ہو بھی تو بد نیتی کے بغیر ہوگی اور اسے خطاء اجتہادی سمجھا جائے گا اور اس پر بھی یہ حضرات ایک اجر پائیں گے؛ جہاں تک صحابہ کے اخلاص وعمل کا تعلق ہے  اسے حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کے الفاظ میں مطالعہ کیجیے:

ہر شخص جو ان کی زندگی کا مطالعہ کرے گا بے اختیار تصدیق کرے گا کہ انہوں نے راہ حق کی مصیبتیں صرف جھیلی ہی نہیں ؛بلکہ دل کی پوری خوشحالی اور روح کے کامل سرور کے ساتھ اپنی زندگیاں ان میں بسر کرڈالیں، ان میں جو لوگ اول دعوت میں ایمان لائے تھے ان پر شب وروز کی جانکاہیوں اورقربانیوں کے پورے تئیس برس گزر گئے؛ لیکن اس تمام مدت میں کہیں سے بھی یہ بات دکھائی  نہیں دیتی کہ مصیبتوں کی کڑواہٹ ان کے چہروں  پر کبھی کھلی ہو، انہوں نے مال وعلائق کی ہر قربانی اس جوش ومسرت کے ساتھ کی گویا دنیا وجہاں کی خوشیاں اور راحتیں ان کے لیے فراہم ہوگئی ہیں اور جان کی قربانیوں کا وقت آیا تو اس طرح خوشی  خوشی گردنیں کٹوادیں گویا زندگی کی سب سے بڑی خوشی زندگی میں نہیں موت میں تھی۔

اس تفصیل سے یہ بات از خود واضح ہوجاتی ہے کہ ان حضرات کی زندگیوں میں کس طرح تعلیم نبوت اتری تھی، ان کے سینے علم نبوی سے خوشحال اور ان کے قلوب تزکیہ کی دولت سے مالا مال تھے، ان کی کوئی بات منشائے رسالت پر نہ بھی ڈھلی ہو تو بھی اس پراجتہاد کا ایک اجر مرتب ہے،اس پر حکم معصیت نہیں آتا؛ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کے کسی عمل پر بدعت کا اطلاق نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ بدعت اور سنت کے نام پر کبھی ان میں کوئی باہمی فرقہ بندی قائم نہ ہوئی تھی۔

صحابہؓ کے اعمال پر بدعت کا اطلاق نہیں

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ(۱۰۵۲ھ)لکھتے ہیں کے خلفائے راشدین کوئی بات اپنے اجتہاد اور قیاس سے بتائیں اور اس پر کوئی صریح نص ان کے پاس نہ ہو تو بھی اس پر بدعت کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا اور ان کی اس بات کو موافق سنت ہی سمجھا جائے گا:

پس ہرچہ خلفائے راشدین بداں حکم کردہ باشند....اطلاق بدعت برآں نتواں کرد۔

(اشعۃ اللمعات:۱/۱۲۰)

حضرت شیخ کا یہ فیصلہ اہل سنت والجماعت کے اس بنیادی اصول کے تحت ہے کہ بدعت کی حدیں صحابہ کے بعد سے شروع ہوتی ہیں حافظ بن کثیرؒ(۷۷۴ھ)لکھتے ہیں:

"وأماأهل السنةوالجماعة فيقولون في كل فعل وقول لم يثبت عن الصحابة: هوبدعة؛ لأنه لو كان خيرا لسبقونا إليه، لأنهم لم يتركوا خصلة من خصال الخير إلا وقد بادروا إليها"۔

(تفسیر ابن کثیر۔تفسیر الاحقاف:۱۱،شاملہ)

ترجمہ:اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ہر وہ قول وفعل جو حضور   کے صحابہ سے ثابت نہ ہو بدعت ہے کیوں کہ اس(دینی کام)میں کوئی خیر ہوتی تو صحابہ کرام ہم سے پہلے اس کام کی طرف رخ کرتے انہوں نے نیکی کی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف دوڑتے تھے۔

صحابہ کرام خود بھی اس بات کو جانتے تھے کہ ان کی نیکی کا ہر عمل شرعی سند رکھتا ہے وہ نصاً ہو یااجتہاداً سب کے سب قولاً اورعملاًترجمان شریعت تھے، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ(۳۶ھ)فرماتے ہیں:

"کل عبادۃ لم یتعبد ھااصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا"۔

(الاعتصام:۱/۵۴)

ترجمہ:دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔

بدعت کا مبدا ہویٰ اور نفسانی خواہشات ہوتی ہیں؛ سو جن حضرات کے دل تزکیہ وطہارت کی دولت پاچکے تھے ان سے بدعت کا صدور قریب قریب ناممکن ہوگیا تھا، یہ صحیح ہے کہ وہ انسان تھے اور نفوس انسانی رکھتے تھے؛ لیکن حضور   کی نظر کامل سے تزکیہ قلب کا فیض اس قدر لے چکے تھے کہ دوسرے رواۃ حدیث کی طرح ان پر جرح کی اجازت نہ ہوگی،جرح کا منشاءعدم رضا ہے، سوجن سے خدا راضی ہوچکا اور وہ خدا سے راضی ہوچکے ان پر جرح کیسے ہوسکے، ان پر جرح تو خدا سے عدم رضا کا اظہار ہوا(معاذاللہ)سو! ان حضرات قدسی صفات پر نہ جرح کی اجازت ہے نہ ان سے اتصال سند کا مطالبہ ہے اوروں کی روایت کثرت رواۃ سے قوت پائے گی ؛یہاں ایک صحا بی بھی کوئی بات کہہ دے تو اب اور کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں، یہاں تک کہ اپنے ہر مسئلہ میں کسی ایک صحابی کو مرکز علم بنالیا جائے اور ہر مسئلے میں اس کی طرف رجوع کیا جائے تو یہ بالکل درست ہوگا۔

ہر مسئلہ میں ایک ہی صحابی کی طرف رجوع کرنا

نقل روایت میں تو ایک صحابی کے بعد کسی دوسرے صحابی سے مزید تحقیق کی ضرورت نہیں رہتی اس لیے کہ صحابہ سب کے سب عادل اور ثقہ ہیں؛ لیکن اخذ مسائل میں مجتہدین صحابہ کو عام صحابہ پر تفوق اور امتیاز ضرور حاصل تھا، ایک کے بعد دوسرے سے مسئلہ پوچھا جاسکتا تھا لیکن اکابراہل علم میں سے کسی ایک بزرگ کو مرکز علم بنانا اور ہر مسئلہ میں ان کی طرف رجوع کرنا بھی بالکل درست سمجھا جاتا تھا، حضرت ابو موسی اشعریؓ(۵۲ھ)سے وراثت کا ایک مسئلہ پوچھاگیا اور پھر وہی مسئلہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا جواب حضرت ابو موسی اشعریؓ کے جواب سے مختلف تھا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس اس باب میں صریح حدیث نبوی موجودتھی،حضرت ابو موسی اشعری کا جواب ان کے اجتہاد پر مبنی تھا،مجتہد کبھی مخطی ہوتا ہے اور کبھی مصیب،تاہم یہ صحیح ہے کہ نص کے مقابلے میں اجتہاد کی اجازت نہیں، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو حضرت ابو موسی اشعریؓ کا جواب بتلایا گیا تو آپ نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ گمراہ ہوئے اپنے بارے میں فرمایا: اگر میں بھی یہی جواب دوں تو بےشک میں گمراہ ہوں گا(کیونکہ میرے پاس تو اس باب میں نص حدیث موجود ہے، نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کو کیا راہ)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ جواب جب حضرت ابو موسی اشعریؓ کو بتلایا گیا تو آپ نے فرمایا:

"لَاتَسْأَلُونِي مَادَامَ هَذَا الْحَبْرُ فِيكُم"۔

(بخاری،بَاب مِيرَاثِ ابْنَةِ الِابْنِ مَعَ بِنْتٍ،حدیث نمبر:۶۲۳۹،شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:جب تک یہ بڑے عالم تم میں موجود ہیں تو مجھ سے کوئی مسئلہ نہ پوچھا کرو۔

سبحان اللہ کیا شانِ عقیدت تھی، حضرت ابو موسی اشعریؓ نے یہاں "ھذا لحبر" کہا ہے"ھذا الصحابی" نہیں کہا معلوم ہوا کہ ہر مسئلہ میں کسی ایک مرکز کی طرف رجوع کرنا ان کی منزلت علمی کی وجہ سے تھا، منزلت صحابیت کی وجہ سے نہیں، صحابی کے علاوہ سبھی اگر کوئی بزرگ اپنے علم وتفقہ میں ممتاز ہوں تو ہر مسئلے میں ان کی طرف رجوع ہوسکتا ہے اور علمی امتیاز میں تو صحابی بھی بے شک ایک دوسرے سے مختلف تھے، ہاں یہ بات صحیح ہے کہ ہر صحابی اپنی ذات میں علم کی اتنی روشنی اور دل میں اتنی پاکیزگی پاچکا تھا کہ ان کا کوئی دینی مسئلہ اور کوئی علمی موقف ہوائے نفسانی پر مبنی نہ ہوسکتا تھا اور عام افراد امت ان میں سے کسی کی پیروی بھی کرلیں تو یہ اتباع منیبین ہی تھی کہ سب انابت الی اللہ، حسن نیت اور تزکیہ قلب کی دولت سے مالا مال تھے، حضور   سے ان کی نسبت اتنی گہری تھی کہ اور سب نسبتیں اس پر قربان ہوچکی تھیں۔

مقام صحابہ ؓ تاریخ کے آئینہ میں

محبت ایمان کی اس آزمائش میں صحابہ کرامؓ جس طرح پورے اترے اس کی شہادت تاریخ نے محفوظ کرلی ہے اور وہ محتاج بیان نہیں،بلاشائبہ ومبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اوراپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا،جیسا کہ صحابہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے راہ حق میں کیا، انہوں نے اس محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کردیا جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اس کی راہ سے سب کچھ پایاجو انسانوں کی کوئی جماعت  پاسکتی ہے۔

(ترجمان القرآن:۲)

ان صحرانشینوں کے ایمانی کردار کا نقشہ کتنی ہی احتیاط اورفکری گہرائی سے کیوں نہ کھینچا جائے، عام انسانی سطح اس ایمان افروز نظارے کا تصور بھی نہیں کرسکتی،اقبال مرحوم نے بجا کہا تھا۔
غرض میں کیا کہوں تم سے کہ وہ صحرا نشین کیا تھے
جہاں گیرو جہاں دار وجہابان و جہاں آراء
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا

یہ اتنی بڑی سچائی ہے کہ اس کے اُوپر اور کوئی نقطہ یقین نہیں، صحابہ کرام کو اسلام میں وہ مقام حاصل ہے جو عام افراد امت کونہیں اور اس حیثیت سے ان حضرات کے اقوال و اعمال بھی حدیث کا موضوع بن جاتے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ ان میں بھی حضورؓ کے اقوال و اعمال کی ہی جھلک ہے اوریہ حضرات اسی شمع رسالت سے مستنیر ہیں،ان حضرات کی تنقیص کسی پہلو سے بھی جائز نہیں،حافظ ابوزرعہ(۸۲۲ھ) کہتے ہیں۔

"إذارأيت الرجل ينتقص أحدًا من أصحاب رسول الله  فاعلم أنه زنديق، وذلك أن الرسول   عندنا حق والقرآن حق، وإنماأدى إلينا هذا القرآن والسنن أصحاب رسول الله، وإنما يريدون أن يجرحوا شهودنا ليبطلوا الكتاب والسنة، والجرح بهم أولى وهم زنادقة"۔

(تاریخ ابی زرعہ دمشقی:۱/۴۱۲)

ترجمہ:اورجب توکسی کوحضور   کے صحابہ میں سے کسی کی برائی کرتے دیکھے تو جان لے کہ وہ زندیق ہے اور یہ اس لیے کہ حضور پاک   برحق ہیں اورقرآن کریم بھی برحق ہے اور ہمیں قرآن اور سنن صحابہ کرام ہی نے پہنچائے ہیں، صحابہؓ کی عیب جوئی کرنے والے چاہتے ہیں کہ ہمارے گواہوں(صحابہ) کو مجروح کردیں؛ تاکہ کتاب و سنت کو باطل کیا جاسکے،جرح کے لائق وہ خود ہیں اوریہ لوگ زندیق ہیں۔



صحابہؓ کے بھی اعمال حدیث کا موضوع ہیں

صحابہ کرامؓ کے اقوال و اعمال بھی بایں جہت کہ یہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تر بیت یافتہ تھے اورآپ کے فیض صحبت سے تزکیہ کی دولت پائے ہوئے تھے،ان کے افعال و اقوال میں حضور   کی تعلیم قدسی کی ہی جھلک تھی اوران سے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا تسلسل قائم ہوا ہے حدیث کا موضوع ہیں۔
سو علم حدیث وہ علم ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات واعمال کے ساتھ ساتھ آپ کے اصحاب کرام کے اقوال و اعمال سے بھی بحث کی جاتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ اس میں سنت قائمہ کیا ہے؟ حدیث کی تقریبا سب کتابوں میں ان نفوس قدسیہ کے فضائل مناقب کے مستقل ابواب ہیں اور انہیں چھوڑ کر دین میں چلنے کی کوئی راہ نہیں۔
محدثین کرام کتب حدیث میں صرف مرفوع حدیثیں(وہ حدیثیں جو حضور تک پہنچتی ہوں) ہی نہیں لکھتے،بلکہ ان میں ایک بڑا ذخیرہ ان روایات کا بھی ہوتا ہے جن میں صحابہ کے اقوال و اعمال مروی ہوں اور یہ سلسلہ روایات مرفوع احادیث کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اورانہی کی شرح ساتھ ساتھ کرتا ہے، امام زہری(۱۲۴ھ) اورصالح بن کیسان (۱۴۰ھ) حدیث کی طالب علمی میں اکٹھے رہے اوردونوں نے جمع احادیث پر کمر باندھی، جب دونوں مرفوع روایات لکھ توچکے آپس میں مشورہ کیا، صحابہؓ کے اقوال و اعمال بھی ساتھ لکھے جائیں یا نہ؟ صالح بن کیسانؒ نے کہا کہ وہ سنت نہیں ہیں، مگر بعد میں انہیں احساس ہوا کہ ان کی بات درست نہ تھی،پھر انہوں نے برملا کہا کہ:

"اجتمعت أنا وابن شهاب ونحن نطلب العلم،  فاجتمعنا على أن نكتب السنن،  فكتبنا كل شئ سمعناه عن النبي  ،  ثم قال نکتب أيضا ما جاء عن أصحابه،  فقلت : لا،  ليس بسنة،  وقال هو : بلى هو سنة،  فكتب ولم أكتب،  فأنجح وضيعت"۔

(مصنف عبدالرزاق،۱۱،:۲۵۸،بریکٹ کے الفاظ ہم نے شرح السنہ للبغوی،۱،:۲۹۶ سے لیکر المصنف کے متن کی تصحیح کی ہے، متن میں یہاں ثم کتبنا ایضا کے الفاظ کسی طرح صحیح نہیں فلیتنبہ)

ترجمہ: میں اورابن شہاب زہری اکٹھے پڑہتے تھے، ہم نے باہمی اتفاق کیا کہ حدیثیں لکھیں،ہم نے ہر چیز جو حضور  کے بارے میں سنی تھی لکھ ڈالی پھر ہم نے چاہا کہ وہ کچھ بھی لکھیں جو آپ کے صحابہ کے بارے میں روایت ہوا ہے میں نے کہا نہیں (ہم انہیں نہ لکھیں) یہ سنت نہیں ہیں اور انہوں نے (امام زہری نے) کہا کیوں نہیں وہ بھی سنت ہیں، سوانہوں نے لکھا اور میں نے نہ لکھا وہ کامیاب رہے اور میں ضائع ہوگیا۔

معلوم ہوا کہ ہر وہ عالم جو صحابہ سے منہ موڑے گا، انہیں دین کا سرمایہ علم نہ سمجھے گا اوران کے عمل کو سنت اسلام تسلیم نہ کرے گا وہ ضائع ہوگا اور دین مسلسل میں اس کے لیے جگہ نہ ہوگی، امام زہری(۱۲۴ھ) ہی نہیں علامہ شعبی (۱۰۳ھ) بھی کہتے ہیں کہ صحابہؓ حدیث کا موضوع ہیں انہیں عام لوگوں کی طرح نہ سمجھنا چاہئے، دوسروں کی بات آپ مانیں یا نہ مانیں، لیکن صحابہ کی بات ہمیشہ لینی چاہئے یہ سرمایہ علم ہیں اوران کی ہربات لائق اخذ ہے۔                         

(دیکھئے: الکفایہ خطیب بغدادی:۴۹)

بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ صحابہ کرام کے اقوال و اعمال بھی حدیث کا موضوع ہیں،صحیح بخاری اورصحیح مسلم کو ہی دیکھ لیجئے، ان میں صحابہ کی روایات کس قدر پائی جاتی ہیں،موطاامام مالک سے لے کر مستدرک حاکم اورسنن بیہقی تک کودیکھئے ہر کتاب میں صحابہ و تابعین کے ارشادات اور فتاوے بکثرت ملیں گے،انہیں دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ امام زہریؒ واقعی کامیاب رہے اور جنہوں نے صحابہ کی روایات کو حدیث کا موضوع نہ سمجھا ان کی محنتیں ضائع گئیں اور حق یہ ہے کہ علم حدیث کا موضوع صحابہ کی زندگیوں کو بھی شامل ہے اوران کے تعامل کو معلوم کئے بغیر حدیث کی معرفت واقعی بہت مشکل ہے، یہی اکابر امت ہیں کہ جب تک علم ان سے ملے گا، اس میں خیر ہے اورجب لوگ اپنے جیسوں سے علم لینے لگیں تو اس میں ہلاکت ہوگی، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ(۳۲ھ) فرماتے ہیں:

"يزال الناس صالحين متماسكين ما أتاهم العلم من أصحاب محمد   ومن أكابرهم،  فإذا أتاهم من أصاغرهم هلكوا"۔          

(المصنف عبدالرزاق،۱۱،:۱۴۶)

ترجمہ: جب تک علم اصحاب رسول سے اوراپنے بڑوں سے آتا رہے لوگ نیک اورمضبوط رہیں گے اور جب لوگوں کو علم ان کے اصاغر سے ملنے لگے (جواوپر سے علم لینے والے نہیں اپنے طورپر سوچنے والے اہل اہواء ہیں وہ) ہلاک ہونگے۔

حضرت عبداللہ بن مبارکؓ فرماتے ہیں کہ یہاں اصاغر سے مراد اہل بدعت ہیں، سو اصاغر ہم میں اضافت عام لوگوں کی طرف ہے، اصحاب محمد کی طرف نہیں، حضرت امام اوزاعی(۷۵۱ھ) نے بقیہ بن ولید کو نہایت واضح الفاظ میں کہا تھا کہ جو چیز صحابہ سے منقول نہ ہو وہ علم ہی نہیں:

"یابقیۃ العلم ماجاء عن اصحاب محمد   وما لم یجی عن اصحاب محمد فلیس علم"۔

(جامع بیان العلم وفضلہ للقرطبی، باب معرفۃ اصول العلم وحقیقتہ:۲/۶۵)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی منزلت وعظمت صحابہ میں محتاج بیان نہیں،آپ اکابر اہل علم سے ہیں جن کا قول و عمل اسلام میں سند سمجھا جاتا ہے، آپ کھل کر کہتے ہیں کہ حضورؓ کے بعد اگر کوئی قابل اقتداء ہے تو وہ اصحاب رسول ہیں، ان کا علم گہرا تھا،وہ تکلف سے کوسوں دور تھے اوران کے دل نیک تھے،اللہ تعالی نے انہیں اپنے نبی پاک کی صحبت کے لیے چن لیا تھا۔

"من كان مستنا فليسن بمن قد مات فإن الحي لا تؤمن عليه الفتنة، أولئك أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا أفضل هذه الأمة أبرها قلوبا وأعمقها علما وأقلها تكلفا اختارهم الله لصحبة نبيه ولإقامة دينه فاعرفوا لهم فضلهم واتبعوهم على آثارهم وتمسكوا بما استطعتم من أخلاقهم وسيرهم فإنهم كانوا على الهدى المستقيم، رواه رزين"۔

(مشکاۃ،:۳۲،دہلی،حدیث نمبر:۱۹۳،شاملہ،المكتب الإسلامي، بيروت)

ترجمہ: جو شخص کسی کی پیروی کرنا چاہے اسے فوت شدگان کی پیروی کرنا چاہئے،کیونکہ زندہ کوفتنے سے محفوظ نہیں سمجھا جاسکتا،وہ فوت شدگان اصحاب رسول ہیں جو اس امت کا بہترین طبقہ تھے،ان کے دل نیک تھے ان کا علم گہرا تھا،تکلف سے بہت دور تھے،اللہ نے انہیں اپنے نبی کی صحبت کے لیے اور اس کے دین کی اقامت کے لیے چن لیا تھا ان کے فضل کو پہچانوان کے نقش پاکی پیروی کرو، جہاں تک ہوسکے ان کے اخلاق اوران کی عادات سے سند پکڑو، بے شک وہ سیدھی راہ پر تھے۔

امام بغوی نے شرح السنہ میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں:

"اختارھم اللہ لصحبۃ نبیہ ونقل دینہ فتشبھواباخلافھم وطرائقھم فہم کانوا علی الھدی المستقیم"۔                   

(شرح السنہ:۱/۲۱۴)

ترجمہ: چن لیا اللہ تعالی نے ان کو اپنے نبی کی مصاحبت کے لیے اور آپ کے دین کو آگے پہنچانے کے لیے سو ان کے اخلاق اور طریقوں کو اپناؤ وہ سب راہ مستقیم پر تھے۔

حضرت حسن بصری(۱۱۰ھ) نے تو اسے قسم کھا کر بیان کیا ہے اور انہی کے عمل کو صراط مستقیم ٹھہرایا ہے۔

"فتشبھوا باخلاقھم وطرائقہم فانھم ورب الکعبۃ علی الصراط المستقیم"۔

(فتح الملہم،۱،:۴۸)

ترجمہ:ان کے اخلاق اورعادتوں کو اپناؤ، رب کعبہ کی قسم صحابہ سب صراط مستقیم پر تھے۔

پھر فرماتے ہیں:

"ماحدثوك عن أصحاب رسول الله   فخذ به،  وما قالوا برأيهم قبل عليه"۔

(مصنف عبدالرزاق:۲/۲۵۶،حدیث نمبر:۲۰۴۷۶، موقع يعسوب)

ترجمہ: علماء جو باتیں تمہارے پاس اصحاب رسول سے روایت کریں انہیں تو لے لو اور جو بات وہ اپنی رائے سے کہیں سو اس کو جانے دو۔

اپنی رائے سے مرادیہ ہے کہ ان کی وہ بات جو قرآن و حدیث یا آثار صحابہ سے مستنبط نہ ہو وہ ان کی اپنی رائے ہوگی،ان کا قرآن وحدیث کی روشنی میں ایک اجتہاد ہوگا، اس سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے،لیکن اس کے بارے میں قیل علیہ کے سے سخت الفاظ نہیں کہے جاسکتے، سو رائے سے یہاں مراد محض رائے ہے اس سے کسی طرح اجتہادِ مجتہد مراد نہیں۔
یہ صحابہ کے کسی معتقد یا کسی عام امتی کی رائے نہیں، ایک جلیل القدر صحابی کی ہے، جو خود علم کی دولت سے مالا مال تھے، وہ یہاں صحابہ کرام کے صرف اخلاص و ایثار کی تعریف نہیں کررہے ؛بلکہ ان کے گہرے علم کی شہادت دے رہے ہیں، ایک اتنے بڑے عالم سے ان کے علم کی شہادت جمیع صحابہ کی علمی گہرائی اورفکری گیرائی کا پتہ دیتی ہے اور یہ تعریف بھی صرف خلفائے راشدین یا چنداکابر صحابہ کی ہی نہیں، بلکہ علی الاطلاق عام اصحاب رسول کی بیان ہورہی ہے اور اس میں انہیں مقتداء ٹھہرایا جارہا ہے، یہ صورت عمل اور انداز فکر خود پتہ دے رہا ہے کہ صحابہ کرام کو اسلام میں اس وقت بھی وہ درجہ حاصل تھا جو عام افراد امت میں کسی بڑے سے بڑے عالم اورکسی بڑے سے بڑے ولی کو حاصل نہیں اور یہ صحیح ہے کہ وہ سب صراط مستقیم کے عملی نمونے تھے۔
حضرت حسن بصری(۱۱۰ھ) نے تو اسے قسم کھاکر بیان کیا ہے اور صحابہ کے عمل کو ہی صراط مستقیم قرار دیا ہے،یہ قریب قریب وہی مضمون ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے،صحابہ پراپنی حیثیت کچھ اس طرح واضح تھی کہ وہ برملا لوگوں کو اپنے نقش پاپر آنے کی دعوت دیتے تھے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک اورموقع پر فرمایا:

"اتبعوااثارناولاتبتدعوافقد کفیتم"۔                  

(الاعتصام للشاطبی:۱/۵۴)

ترجمہ:تم ہم صحابہ کے نقش قدم پر چلتے رہو، نئی نئی باتیں نہ نکالو، ہماری پیروی تمہارے لیے کافی ہے۔

آپ نے اس میں صحابہ کے آثار کو پوری امت کے لیے نمونہ کہا ہے اور اس پر بھی متنبہ فرمایا کہ بدعت کی حد صحابہ کے بعد سے شروع ہوتی ہے، حضور   کے بعد پیدا ہونے والی ہر دینی ضرورت صحابہ کے علم کفایت کے سائے میں تمہارے لیے کافی نمونہ ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی صحابہ کرام کو فرمادیا تھا کہ لوگ تمہارے مقتدی ہوں گے دنیا کے مختلف کناروں سے تم سے دین لینے آئیں گے، حضرت ابو سعید الخدریؓ(۷۴ھ) کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرَضِينَ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ"۔

(جامع ترمذی:۲/۲۷۱،حدیث نمبر:۲۵۷۴، موقع الإسلام)

ترجمہ:بے شک (بعد میں آنے والے) لوگ تمہارے پیرو ہوں گے وہ دنیا کے کناروں سے تمہارے پاس پہنچیں گے تاکہ دین میں (اپنے لیے ) کچھ سمجھ پیدا کرلیں۔

اس میں یہ نہیں فرمایا کہ وہ میری روایات لینے کے لیے تمہارے پاس پہنچیں گے، بلکہ"يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ" فرمایا کہ وہ دین کی سمجھ لینے کے لیے تمہارے پاس پہنچیں گے، اس سے معلوم ہوا کہ امت کے لیے فہم صحابہ حجت اورسند ہے اور بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ان کی پیروی اوران کے پاس دین سیکھنے کے لیے آنا اور ان سے دین سمجھنا لازم و ضروری ہے، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

"فیہ ان الصحابۃ متبوعون یجب علی الناس متابعتھم والایتان علیہم لطلب العلم"۔

(لمعات التنقیح:۱/۲۷۱)

ترجمہ:اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ مقتدا اورپیشوا ہیں لوگوں پر ان کی پیروی کرنا اورطلب علم کے لیے ان کے پاس آنا واجب ہے۔

یہ نہ سمجھا جائے کہ صحابہ صرف اپنے تابعین کے لیے ہی متبوعون ہیں اوران کی پیروی صرف ان کے دورحیات میں ہی ہوگی، نہیں ہرگز نہیں؛ بلکہ ان کی پیروی ان کے بعد بھی جاری رہے گی اورامت ان کے عہد میں بھی اوران کے بعد بھی ہمیشہ ان کو اپنا مقتدا اور پیشوا سمجھے گی،حضرت امام نوویؒ (۶۷۶ھ) لکھتے ہیں:

"انہم ائمۃ الاعلام وقادۃ الاسلام ویقتدی بھم فی عصرھم وبعدھم"۔

(شرح صحیح مسلم للنووی:۱/۳۸۶)

ترجمہ:بے شک یہ حضرات (صحابہ کرام) مرکزی پیشوا ہیں اور یہی حضرات قافلہ اسلام کے قائد ہیں ان کی پیروی ان کے اپنے وقتوں میں بھی تھی اوران کے بعد بھی جاری رہے گی۔

امام نویؒ نے "یقتدی بہم" کی یہ تعبیر اپنی طرف سے نہیں کی، اکابر صحابہ سے لی ہے، صحابہ میں صرف ایک بزرگ تھے جن کا علمی مرتبہ اور مقام عرفان حضرت فاروق اعظم سے بھی اونچا تھا، وہ کون تھے؟حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،اب دیکھئے حضرت عمرؓ اپنی نسبت ان سے کس طرح قائم کرتے ہیں، آپ انہیں "یقتدی بہم" کے تحت ہمیشہ اپنا پیشوا سمجھتے تھے(مسند امام احمد:۳/۴۱۰) حضور   کی پیروی کے ساتھ آپ کی پیروی کو بھی لازمی سمجھتے رہے،حضرت ابووائل کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:

"هُمَا الْمَرْءَانِ أَقْتَدِي بِهِمَا"۔                 

(بخاری:۹/۱۱۴،حدیث نمبر:۱۴۹۱، موقع الإسلام)

ترجمہ:یہ وہ دو مرد ہیں جن کی پیروی میں کرتا ہوں۔

یہ آپ اپنے لیے کہہ رہے تھے،باقی احادامت کے لیے آپ نے کل صحابہ کرام کو پیشوا ٹھہرایا ہے،ایک دفعہ آپ نے طلحہ بن عبیداللہ پر حالت احرام میں رنگ دار چادر دیکھی،طلحہ نے کہا جناب اس رنگ میں خوشبو نہیں، عام لوگوں کے لیے اس میں مغالطے کا اندیشہ تھا، اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت طلحہ کو مخاطب کرکے کہا:

"إِنَّكُمْ أَيُّهَا الرَّهْطُ أَئِمَّةٌ يَقْتَدِي بِكُمْ النَّاسُ"۔

(موطا امام مالک:۱۳۲،کتاب الحج،حدیث نمبر:۶۲۶)

ترجمہ: اے لوگو! تم امام ہو، لوگ تمہاری پیروی کریں گے۔

ایک اور موقعہ پرفرمایا:

"إنَّكُمْ مَعْشَرَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ مَتَى تَخْتَلِفُونَ تَخْتَلِفُ النَّاسُ بَعْدَكُمْ وَالنَّاسُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيَّةِ،  فَأَجْمِعُوا عَلَى شَيْءٍ يَجْمَعُ عَلَيْهِ مَنْ بَعْدَكُمْ"۔

(فتح القدیر لابن الہمام:۲/۱۲۳)

ترجمہ: بیشک تم حضور کے صحابہ ہو جب تم اختلاف میں پڑوگے تو تمہارے بعد اور اختلاف کرنے لگیں گے، لوگ ابھی ابھی جاہلیت سے نکلے ہیں، تم ایک بات پر جمع ہوکر رہو، بعدوالے بھی اس پر جمع رہیں گے۔

حضرت حذیفہ بن الیمان نے مدائن میں ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا تو باوجود یکہ اہل کتاب  سےنکاح حلال تھا، حضرت عمرؓنے انہیں حکم دیا کہ وہ فورا اسے طلاق دے دیں، اس کےوجہ آپ نے یہ فرمائی کہ صحابی کی حیثیت چونکہ مقتدا کی ہے، اس لیے اندیشہ ہے کہ اور مسلمان بھی اس راہ پر نہ چل پڑیں،آپ نے انہیں لکھا:

"اعزم علیک ان لا تضع کتابی حتی تخلی سبیلھا فانی اخاف ان یقتدیک المسلمون فیختا روانساء اھل الذمہ لجمالھن"۔                

(کتاب الآثارامام محمد:۵۶)

ترجمہ:میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط رکھنے سے پہلے پہلے اس عورت کو فارغ کردو، مجھے ڈر ہے کہ مسلمان تمہاری پیروی کریں اور اہل ذمہ کی عورتوں کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے پسند کرنے لگیں۔

اسلام میں صحابہ کی مقتداء والی حیثیت ہمیشہ سے مسلم رہی ہے،حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو ایک خاص قسم کے موزے پہنے دیکھا، آپؓ نے فرمایا:

"عزمت علیک ان لا نزعتہا فانی اخاف ان ینظر الناس الیک فیقتدون بک"۔

(مسنداحمد، حدیث عبدالرحمن بن عوف، حدیث نمبر:۱۶۶۸)

ترجمہ:میں تمھیں قسم دیتا ہوں کہ انہیں ابھی اتار دو مجھے ڈر ہے کہ لوگ تمہیں اس طرح دیکھیں اور تمہاری پیروی کرنے لگیں۔

صحابہ کی مقتدا ہونے والی حیثیت مسلم نہ ہوتی تو بار پیروی کرنے والے پر آتا، صحابہ کو اتنا محتاط چلنے کا حکم نہ ہوتا، حضرت فاروق اعظمؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو جب کوفہ بھیجا تو ان کے ساتھ حضرت عمار بن یاسرؓ بھی تھے، دونوں کی عبقری شخصیت صحابہ میں خوب معروف تھی، حضرت فاروق اعظمؓ نے سب اہل کوفہ کو ان کی اقتداء کا حکم دیا۔

"فاقتدوا بهما واسمعوا،من قولھما قد آثرتكم بعبد الله بن مسعود على نفسي"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۴،موقع يعسوب)

ترجمہ: تم ان دونوں کی اتباع کرو اوران کی بات مانو اور بے شک میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ نعہ کو تمہارے ہاں بھیج کر تمہیں اپنی ذات پر ترجیح دی ہے۔

صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ اتباع تابعین میں جاری رہی اور ہر ہر روایت پر کوئی نہ کوئی صحابی ضرور عامل رہا اور اس طرح جملہ احادیث تابعین میں پھیلتی چلی گئیں اورصحابہ کی مقتدا والی پوزیشن تابعین اور تبع تابعین میں مسلم رہی،حافظ ابن حجرعسقلانی فرماتے ہیں کہ تعلیم شریعت رہتی دنیا تک اس تسلسل سے رہنی چاہئے۔

"تَعَلَّمُوا مِنِّي أَحْكَامَ اَلشَّرِيعَةِ وَلْيَتَعَلَّمْ مِنْكُمْ اَلتَّابِعُونَ بَعْدكُمْ وَكَذَلِكَ أَتْبَاعهمْ إِلَى اِنْقِرَاض الدُّنْيَا"۔                       

(فتح الباری:۲/۱۷۱)

ترجمہ: تم مجھ (حضور) سے احکام شریعت سیکھو تم سے تابعین اور اسی طرح تبع تابعین ان سے سکھیں یہاں تک کہ دنیا اپنے آخر کو جا پہنچے۔

حضرت سالم بن عبداللہ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد سے قراۃ خلف الامام (امام کے پیچھے قرآن پڑھے یا نہ) کا مسئلہ پوچھا آپ نے فرمایا:

"إن تركت فقد تركه ناس يقتدى بهم وإن قرأت فقد قرأه ناس يقتدى بهم"۔

(موطا امام محمد:۹۶،حدیث نمبر:۱۱۹، دارالقلم،دمشق)

ترجمہ:اگر قرأۃ خلف الامام کو چھوڑدو تو بیشک اسے ان لوگوں نے ترک کیا جو امت کے مقتدا تھے (یعنی صحابہ کرامؓ) اور تم پڑھ لو بیشک اسے ان لوگوں نے پڑھا ہے جن کی امت میں پیروی کی جارہی ہے۔

تابعین میں اس پیرایہ میں صحابہ کا ذکر ان کی مقتدا والی حیثیت کو واضح کرتا ہے؛ انہی سے سنت اسلام جاری ہوئی اوروہ اس کے اہل تھے،حضرت سعدبن ابی وقاصؓ(۵۵ھ) جب گھر میں نماز پڑھتے تو نماز لمبی کرتے،رکوع وسجود طویل کرتے اورجب مسجد میں نماز پڑہتے توجلدی کرتے، آپ کے بیٹے حضرت مصعب نے اس کی وجہ پوچھی،آپ نے فرمایا:

"یا بنی انا ائمۃ یقتدی بنا"۔       

(المصنف عبدالرزاق:۲/۳۶۷۔ مجمع الزواید للہثیمی:۱/۱۸۲)

ترجمہ: اے میرے بیٹے بے شک ہم صحابہ ائمہ ہیں ہماری پیروی(امت میں) کی جاتی رہے گی۔

صحابہؓ کے عمل کے لیے لفظ سنت کا اطلاق

حصین بن المنذر ابوساسان کہتے ہیں کہ میں حضرت عثمانؓ کے پاس موجود تھا،جب ولید کو حد مارنے کے لیے لایا گیا، آپ نے حضرت علی المرتضیٰؓ کو حکم دیا کہ وہ ولید کو کوڑے لگائیں،آپ ؓ نے اپنے بیٹے حضرت حسنؓ سے کہا کہ وہ لگائیں، انہوں نے عذر کیا تو آپ ؓ نے حضرت عبداللہ بن جعفرؓ (۸۰ھ ) سے کہا کہ ولید پر سزا جاری کریں وہ کوڑے لگاتے جاتے تھے اور حضرت علیؓ گنتے جاتے تھے،جب چالیس ہوگئے تو آپ ؓ نے فرمایا: بس! یہیں تک، اس کے بعد آپ ؓ نے (حضرت علیؓ نے) کہا:

"جَلَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ وَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ وَعُمَرُ ثَمَانِينَ وَكُلٌّ سُنَّةٌ"۔

(صحیح مسلم:۲/۷۲۔سنن ابی داؤد:۲/۲۶۰۔سنن ابن ماجہ:۱۸۸)

ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس کوڑوں کی سزادی حضرت ابوبکرؓ نے بھی چالیس کوڑے ہی لگوائے، حضرت عمرؓ نے اسی کوڑے لگوائے اوران میں سے ہر عمل اپنی جگہ سنت ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی اکابر صحابہ کے عمل کے لیے سنت کا لفظ استعمال ہوتا تھا اوریہ بات ان حضرات تزکیہ صفات میں عام تھی کہ صحابہ کا عمل بھی سنت میں شامل ہے اور یہ کہ امت میں ان کی پیروی کی جاتی رہے گی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سنت کا لفظ اس وسیع معنی میں استعمال کیا ہے،اپنی سنت کے ساتھ خلفاء راشدین کے عمل کوبھی سنت ٹھہرایا ہے،آپ نے فرمایا:

"فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ"۔

(جامع ترمذی:۲/۹۲۔سنن دارمی:۲۶۔حدیث نمبر:۲۶۰۰، موقع الإسلام)

ترجمہ: سو تم میں سے جو شخص اس وقت کو پائے سو اسے چاہئیے کہ میری سنت اورخلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے۔

یہ نہ سمجھا جائے کہ ان حضرات قدسی صفات کی یہ پیروی ازجہت خلافت تھی کہ اولوالامر کی پیروی مسلمانوں پرلازم ہے، نہیں آپ کا ان حضرات کے عمل کوسنت قرار دینا ازجہت صحابیت اور فیضِ رسالت سے براہِ راست تزکیۂ پائے ہوئے ہونے کی حیثیت سے تھا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ توخلیفہ نہ تھے، آپ نے توان کے بارے میں بھی پیروی کا حکم فرمایا، عبدالرزاق روایت کرتے ہیں:

 "کان الناس لایاتمون بامام اذاکان لہ وترولھم شفع وھو جالس یجلسون وھو قائم حتی صلی ابن مسعود وراء النبی صلی اللہ علیہ وسلم قائما فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان ابن مسعود سن لکم سنۃ فاستنوابھا"۔         

(المصنف:۲/۲۲۹۔فتح القدیر لابن الہمام:۲/۱۲۵)

(اس حدیث کی شرح کسی شارح نے کی ہو ایسا نہیں ملا یہ حدیث مصنف عبدالرزاق میں ہے)

ترجمہ: جب لوگوں کی دو رکعت رہتی ہوں اور امام کی ایک اور وہ بیٹھا ہو تو یہ برابر بیٹھے رہتے اورامام کھڑے ہوکر اپنی رکعت پوری کرلیتا اور یہ پھر بھی بیٹھے رہتے یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے حضورؓ کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پوری کی حضور نے اس پرفرمایا بیشک ابن مسعودؓ نے تمہارے لیے ایک طریقہ واضح کیا ہے اس کی پیروی کرتے رہنا۔

علامہ ابن ہمام حضرت معاذ بن جبلؓ (۱۸  ھ) کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

"قد سن لکم معاذ فاقتدوابہ"۔               

(ایضا)

ترجمہ:معاذ نے تمہارے لیے اسے سنت قائم کیا ہے سو تم اس کی پیروی کرو۔

حافظ ابن رجب حنبلی (۷۹۵  ھ) لکھتے ہیں:

"والسُّنة هي الطريقة المسلوكةُ،  فيشمل ذلك التمسُّك بما كان عليه هو وخلفاؤه الرَّاشدونَ مِنَ الاعتقادات والأعمال والأقوال،  وهذه هي السُّنةُ الكاملةُ"۔

(جامع العلوم:۱۹۱، موقع صيد الفوائد)

ترجمہ: اورسنت وہ راستہ ہے جس پر چلاجائے اوراس طریقے کو جس پر حضور  اورخلفائے راشدینؓ چلتے رہے پکڑنے کا نام ہے عقائد میں اعمال میں بھی اور اقوال میں بھی یہی سنت کاملہ ہے۔

جو لوگ دنیا میں دین قائم کرنے کے لیے چنے جاچکے ہوں اورانہیں خدا تعالی نے آخری نبی کی صحبت قدسیہ کے لیے پیدا کیا ہوجودین کوآگے پہونچانے کے امین نبوی ہوں توہدایت اگران کے نقش پاسے نہ ملے گی تو اور کہاں سے ملے گی، سو ان کے نقش پاکی پیروی آئندہ ہر فرد امت پر لازم ٹھہری اوریہی لوگ حضور  کے بعد صراط مستقیم کے عملی سالار تھے،حضرت عباد بن عباد الخواص الشامی لکھتے ہیں:

"وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ   إِمَاماً لأَصْحَابِهِ،  وَكَانَ أَصْحَابُهُ أَئِمَّةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ"۔

 (سنن دارمی:۲/۲۳۲،شاملہ)

ترجمہ: حضور اپنے صحابہ کے امام تھے اورآپ کے صحابہ اپنے بعد میں آنے والے لوگوں کے امام تھے۔

امام ابن شہاب الزہری (۱۲۴  ھ) نے صالح بن کیسان کو صاف کہہ دیا تھا:

"نکتب ماجاء عن اصحابہ فانہ سنۃ"۔            

(تاریخ ابی الذرعۃ الدمشقی:۱/۲۱۴)

ترجمہ: ہم صحابہ سے کی گئی مرویات بھی لکھیں گے؛ کیونکہ وہ بھی سنت ہیں۔



صحابہ کرام ؓ کی فیصلہ کن حیثیت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اورآپ کے کسی عمل کی مرویات میں کسی قسم کا اختلاف ہو تو صحابہ کرام کے عمل کوفیصلہ کن حیثیت حاصل ہوتی ہے،صحابہ موضوع حدیث سے خارج کردیئے جائیں تو علم حدیث کا سمجھنا سمجھانا بہت مشکل ہوجاتا ہے،صحابہ وہ روشنی کے مینار ہیں،جن کے سایہ میں حدیث کا مطالعہ نتیجہ خیزی پیدا کرتا ہے اور واقعی انہیں اس باب میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے،امام السنن حضرت امام ابوداؤد السجستانی (۲۷۵ ھ) لکھتے ہیں:

"قَالَ أَبُو دَاوُد إِذَا تَنَازَعَ الْخَبَرَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُظِرَ إِلَى مَاعَمِلَ بِهِ أَصْحَابُهُ مِنْ بَعْدِهِ"۔              

(سنن ابی داؤد:۱/۳۷۶، مع البذل،حدیث نمبر:۶۱۸، موقع الإسلام)

ترجمہ: جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی موضوع پر دو مختلف روایتیں ملیں تو انہیں حل کرنے کے لیے یہ دیکھا جائے گا کہ آپ کے صحابہ نے آپ کے بعد کیا عمل کیا ہے۔

اس سے واضح طورپر پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے موضوع میں صحابہ بھی داخل ہیں اور ان کے اقوال واعمال کے بغیر مشکلات حدیث کو حل نہیں کیا جاسکتا،یہ انہی کے اعمال ہیں جن کی روشنی میں تعلیم نبوت کی تفہیم ہوتی ہے۔
حافظ ابوبکرجصاص رازی (۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:

"إذكان متى روي عن النبي عليه السلام خبران متضادان وظهر عمل السلف بأحدهما كان الذي ظهر عمل السلف به أولى بالإثبات"۔  

(احکام القرآن:۱/۱۷، طبع:۱۳۴۱ھ)

ترجمہ:جب حضور   سے دوحدیثیں اس طرح کی مروی ہوں جوآپس میں ٹکراتی ہوں اور سلف کا عمل ان میں سے کسی ایک پرہوتو سنتِ قائمہ وہ ہوگی جس پر سلف کا عمل ہو۔

حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ) حضرت امام محمدؒ (۱۸۹ھ) سے روایت کرتے ہیں:

"روى محمد بن الحسن عن مالك بن أنس أنه قال إذا جاء عن النبي  حديثان مختلفان وبلغنا أن أبا بكر وعمر عملا بأحد الحديثين وتركا الآخر كان في ذلك دلالة أن الحق فيما عملا به"۔

               (التمہید:۳/۳۵۳)

ترجمہ:آنحضرت   سے جب دومختلف حدیثیں مروی ہوں اور ہمیں یہ بات پہنچے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے ایک پر عمل کیا ہے اور دوسری کوچھوڑدیا ہے تواس سے پتہ چلے گا کہ حق وہ ہے جس پر ان کا عمل ہوا۔

امام طحاویؒ (۳۲۱ھ) لکھتے ہیں: اختلافِ آثار میں عمل امضار کا اعتبار کیا جائے گا، جس بات پر پچھلوں کا عمل پایا جائے اسے پہلی بات کا ناسخ سمجھا جائے گا، آپ لکھتے ہیں:

"فلما تضادت الآثار في ذلك، وجب أن ننظر إلى ماعليه عمل المسلمين، الذي قد جرت عليه عاداتهم، فيعمل على ذلك، ويكون ناسخا لماخالفه"۔          

(طحاوی:۱/۳۴۱)

امام زہریؒ نے ایک دفعہ دومتعارض حدیثیں روایت کرکے ایک حدیث جوناسخ قرار دے دیا؛ لیکن خلفائے راشدین کا عمل دوسری روایت پر تھا، اس پرمحدثین بلکہ امام زہری کے شاگرد اُن پرجن الفاظ میں برسے وہ بھی دیکھ لیجئے، حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:

"وهذا مماغلط فيه الزهري مع سعة علمه وقد ناظره أصحابه في ذلك فقالوا كيف يذهب الناسخ على أبي بكر وعمر وعثمان وعلي وهم الخلفاء الراشدون"۔       

(التمہید:۳۳۲)

ترجمہ:امام زہریؒ نے اس وسعت علمی کے باوجود یہاں غلطی ہے آپ کے اصحاب نے ان سے اس باب میں مناظرہ کیا ہے وہ کہتے ہیں یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ان حضرات کوناسخ کا پتہ نہ چلے وہ خلفائے راشدین ہوں۔

صحابہ کرام کی پیشوا ہونے کی حیثیت Authoritative Status   اہل حق میں ہمیشہ مسلم رہی ہے، امام اعظم اورامام احمد تو ان کی پیروی کو واجب قرار دیتے ہیں، یہی حضرات قافلہ اسلام کا ہر اول دستہ تھے،ان کے بعد آنے والے اسی لیے توتا بعین تھے کہ یہ حضرات متبوعین تھے،اگر ان کی پیروی جاری نہ ہونی ہوتی تو اس امت کی دوسری صف کبھی تابعین کا اعزاز نہ پاتی، جلیل القدر تابعی خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز (۱۰۰ھ) صحابہؓ کی دینی بصیرت کا ان پر شکوہ الفاظ میں ذکر کرتے ہیں:

"فَارْضَ لِنَفْسِكَ مَارَضِيَ بِهِ الْقَوْمُ لِأَنْفُسِهِمْ فَإِنَّهُمْ عَلَى عِلْمٍ وَقَفُوا وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ كَفُّوا وَهُمْ عَلَى كَشْفِ الْأُمُورِ كَانُوا أَقْوَى وَبِفَضْلِ مَاكَانُوا فِيهِ أَوْلَى فَإِنْ كَانَ الْهُدَى مَاأَنْتُمْ عَلَيْهِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَيْهِ"۔

(ابوداؤد، كِتَاب السُّنَّةِ،بَاب لُزُومِ السُّنَّةِ،حدیث نمبر:۳۹۹۶، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:تم اپنے لیے وہی (عقیدہ اور عمل) پسند کرو جوصحابہؓ نے اپنے لیے پسند کیا تھا، وہ علم پر پوری طرح جمے تھے اور دین پر گہری نظر رکھتے تھے اور علم وفضل میں وہ تم سے بہت آگے تھے؛ اگرتم یہ سمجھے بیٹھے ہوکہ تم (ان سے ہٹ کر) راہِ راست پر ہوتوتم اس کے مدعی ہوکر دین میں تم ان سے آگے نکل گئے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کی پوری کوشش تھی کہ امت کسی مرحلے پر بے مہارنہ رہے، شاہراہ اسلام کے ان پیشواؤں کو پیشوا ہی سمجھنا چاہئے،اقبال نے قوم کو قطار میں دیکھنا چاہاتو اس نے بھی کہا ؎
من کجا نغمہ کجا ساز سخن بہانہ ایست
سوئے قطارمے کشم ناقہ بے زمام را
حضرت عمربن عبدالعزیز کی یہ نصیحت کہ اپنے لیے وہی عقیدہ اورعمل پسند کرو جو صحابہ نے اپنے لیے کیا تھا کہاں ہے؟ سنن ابوداؤد جیسی حدیث کی مرکزی کتابوں میں اس قسم کی نصیحتوں کا ہونا پتہ دیتا ہے کہ صحابہ کی شخصیات کریمہ بے شک علم حدیث کا موضوع ہیں اوران کے اعمال واقوال کو جانے بغیر تعلیمات رسالت کو ان کے صحیح پیمانے میں اتارنا کسی طرح ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ حدیث کی تقریبا ہر کتاب میں صحابہ کے اعمال واقوال کو قرار واقعی جگہ دی گئی ہے اورحق یہ ہے کہ ان کا اتفاق واجماع ہی علم صحیح اور حجت ثابتہ ہے۔           

( تفصیل کیلیے دیکھئے: التمہید:۴/۲۶۷)


موضوع حدیث کا تیسرا اہم پہلو

یہ بات ہمارے سامنے  آچکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ارشادات و اعمال اورآپ کی نظر کردہ تمام جزئیات جن پر آپ نے کوئی اعتراض نہ فرمایا اورانہیں اپنے سکوت سے منظوری دی اورآپ کے صحابہ کرام کے تمام اقوال و اعمال جو تعلیمات رسالت مآب کے ترجمان ٹھہرے سب حدیث کا موضوع ہیں اور صحاح ستہ اور دیگر معتمد کتب حدیث صحابہ کی ہزاروں مرویات وجزئیات کو اپنے دامن میں لیے کھلی شہادت دے رہی ہیں کہ صحابہ کرامؓ بھی علم حدیث کا ایک بڑا اہم موضوع ہیں اورانہیں جانے اورسمجھے بغیر علم حدیث سے صحیح استفادہ کسی طرح ممکن نہیں؛ لیکن اب ہم اس سے ذرا آگے بڑھتےہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ محدثین کرام نے فن حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مرویات کے بعد تعامل امت کوبھی خصوصی اہمیت دی ہے اور انہوں نے یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ ان مرویات حدیث کو امت نے کس طرح اپنے پیمانہ عمل میں اتارا اور کس طرح ان سے امت میں سنن جاری ہوئیں۔

موضوع ِحدیث میں تعامل امت پر نظر

جامع ترمذی کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ امام ترمذی حدیث کی روایت کے ساتھ ساتھ امت کے تعامل پر بھی پوری نظر رکھتے ہیں اور اہل علم کے مختلف مسالک سے بحث کرتے ہیں اوران کے حوالے بھی دیتے ہیں، ان کا موقف یہ ہے کہ سنت صرف روایت سے ثابت نہیں ہوتی، اس کے ساتھ امت کا تعامل بھی ضروری ہے کوئی حدیث سند کے لحاظ سے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو؛ اگر اس پر امت کا عمل نہیں تو اس کی حجیت قطعی نہ رہے گی، زیادہ گمان یہی ہوگا کہ وہ عمل منسوخ ہوچکا، محدثین حدیث کی حفاظت پر اس کے معمول بہ ہونے سے بھی استدلال کرتے رہے ہیں، امام وکیع نے اسمعیل ابن ابراہیم مہاجر سے نقل کیا ہے:

"کان یستعان علی حفظ الحدیث بالعمل بہ"۔

(تاریخ ابی زرعہ الدمشقی:۱/۳۱۱)

ترجمہ: حفظ حدیث میں اس کے عمل سے بھی مدد لی جاتی تھی (یعنی یہ کہ اس پر عمل بھی ہو)۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے معمول بہ ہونے کا اس کی صحت اورمقبولیت پر بہت اثر رہا اورمحدثین کو ایسی روایات بہت کھٹکتی رہی ہیں جو معمول بہ نہ رہی ہوں، امام ترمذی ایک مقام پر لکھتے ہیں:

"جَمِيعُ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ الْحَدِيثِ فَهُوَ مَعْمُولٌ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَاخَلَا حَدِيثَيْنِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ وَحَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجلدوهُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ"۔

(جامع ترمذی، کتاب العلل:۶۲۶/۲، موقع الإسلام)

ترجمہ: جو کچھ اس کتاب میں ہے اس پر (کسی نہ کسی حلقے میں) عمل ضرور رہا ہے اوراس کے مطابق اہل علم کی ایک جماعت نے فیصلہ کیا ہے سوائے ان دو حدیثوں کے ایک حدیث حضرت ابن عباسؓ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خوف، سفر اوربارش کے کسی عذر کے بغیر مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر یکجا اورمغرب اور عشاء اکٹھی پڑھی ہیں، اور دوسری حضور   کی یہ حدیث کہ جب کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور چوتھی دفعہ پئے تو اس کوقتل کردو۔

یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے لائق استدلال ہیں، لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ ائمہ دین میں کسی نے ان کے ظاہر پر عمل نہیں کیا، بلکہ اس کے ترک پراہل علم کا اجماع رہا ہے۔
 ائمہ مجتہدین اوران کے تمسکات کو علم حدیث کے موضوع میں شامل نہ کیا جائے تو بڑی مشکلات پیدا ہو جائیں گی، صحت حدیث کا مدار صرف سند پر نہیں،  اہل علم کے عمل سے بھی حدیث قوی ہوجاتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اکثراوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے؛ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی صحت عمل پر بھی متفرع ہوتی ہے۔
مشہور غیر مقلد عالم مولانا عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں:

اکثر اوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے اورصحت روایت اصول کی رو سے شروط معتبرہ مجوزہ ائمہ جرح و تعدیل کے ساتھ ہوتی ہے اور بعض دفعہ صحت عمل پر متفرع ہوتی ہے، صورت اول عام ہے،صورت دوم خاص ہے اور اس کی تصریح محققین نے کردی ہے، امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں لکھتے ہیں:

"ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقد صرح غیر واحد بان من دلیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علی مثلہ"۔

(تنزیہ الشریعۃ للکنانی/۱۲۰)       

ترجمہ:اہل علم کے قول اورتعامل کے ساتھ حدیث ضعیف، ضعف سے نکل کر صحیح اورقابل عمل ہوجاتی ہے؛ اگرچہ اس کی اسناد لائق اعتماد نہ ہو، بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے۔

بعض فضلائے امت و امناء ملت میں اس صورت دوم کے اپنے موضع میں پائے جانے کی وجہ سے بعض کوتاہ اندیش جاہل اپنی کج فہمی کی وجہ سے ان پر اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں مولوی حدیث کا تارک ہے۔

(الانصاف لرفع الاختلاف:۷۷۶،مطبوعہ:۱۹۱۰ ء، مطبع: رفاہ عام اسٹیم پریس، لاہور)

حافظ ابن صلاح مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ جب ہم کسی حدیث کو صحیح قرار دیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیث یقینا صحیح ہے اوراس کی صحت درجہ علم تک پہنچتی ہے؛ بلکہ اس حکم صحت سے مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس میں صحیح کی وہ فنی شرائط موجود ہیں جو محدثین کے یہاں صحت حدیث کے لیے درکار ہیں،لہذا گمان یہی ہے کہ وہ حدیث صحیح ہوگی، اسی طرح ضعیف کا مطلب بھی یہ نہیں کہ یقینی طورپروہ خلاف واقعہ ہے، ہوسکتا ہے کہ نفس الامر میں صحیح ہو؛ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کا تعامل اس کی فنی کمزوریوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔

محدثین کرام کی تاریخ پر گہری نظر

محدثین کرام حدیث کے ناسخ و منسوخ کو جاننے،صحابہ کے اختلاف کو پہچاننے اور راویوں کے اتصال وانقطاع کو سمجھنے کے لیے تاریخ میں پوری دلچسپی لیتے رہے ہیں، امام بخاری کی التاریخ الکبیران کے ذوق تاریخ کی ایک کھلی شہادت ہے،حافظ ابن جریر(۳۱۰ ھ) بڑے مفسر اورمحدث تھے،ان کی تاریخ طبری سے کون واقف نہیں، حافظ ابن کثیر(۷۷۴ھ) بڑے محدث اور مفسر تھے، ان کی عظیم وضخیم کتاب البدایہ والنہایہ کس حلقہ علم سے مخفی ہے؟ اگر غور کیا جائے توحقیقت  کوتسلیم  کئے بغیر چارہ نہیں کہ محدثین نے ہی مسلمانوں میں ذوق تاریخ پیدا کیا، اور وہ اس فن کے اولین سالار تھے۔یہ انہیں کی کاوشیں ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو علم تاریخ میں دوسری قوموں کا امام بنادیا، اوراقوام عالم نے مسلمانوں سے ہی تاریخ لکھنی سیکھی، تاریخ نویسی پر سب سے پہلے حضرت امیر معاویہؓ نے توجہ فرمائی تھی اورانہی سے اس فن کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
محدثین کے پیش نظر صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کی شخصیات ہی نہ تھی،ان کے اعمال ووقائع کے مختلف ادوار بھی ان کے سامنے ہوتے تھے،حضرت امام بخاریؒ نے اس بحث میں کہ اگر امام بوجہ بیماری بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدیوں کو کیا کرنا چاہئے،یہ اصول بیان کیا ہے کہ اس میں آپ کے آخری عمل کو دیکھا جائے گا، امام بخاری اس مسئلہ کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے پہلے وہ روایات لائےہیں، جن میں مقتدیوں کو بیٹھنے کا حکم دیا گیا ہے؛ پھر لکھتے ہیں:

"ثُمَّ صَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا وَالنَّاسُ خَلْفَهُ قِيَامًا لَمْ يَأْمُرْهُمْ بِالْقُعُودِ وَإِنَّمَا يُؤْخَذُ بِالْآخِرِ فَالْآخِرِ مِنْ فِعْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔

(صحیح بخاری:۱/۹۶،حدیث نمبر:۶۴۸)

ترجمہ: حضورؐ اس کے بعد بیٹھ کر نماز پڑھی، لوگ آپ کےپیچھے کھڑے رہے، آپ نے ان کوبیٹھنے کا حکم نہیں دیا اور بات یہ ہے کہ حضورؐ کا آخری عمل ہے اور جو آخری عمل ہو اس کو لیا جائے گا۔

اس روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امام بخاریؒ حضورؓ کی اس تقریری حدیث سے آپ کی پہلی قولی حدیث کو منسوخ سمجھ رہے ہیں، قولی حدیث کا تقریری حدیث سے منسوخ ہونا یہاں سے ثابت ہے۔

حدیث کے مختلف موضوع

یہ بات آپ کے سامنے آچکی ہے کہ حدیث کا موضوع، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اورصحابہ کرامؓ کی شخصیات کریمہ ہیں اور یہ بات بھی آپ پر پوری طرح روشن ہوئی کہ ان حضرات کے مختلف مواقف کو سمجھنے کے لیے ان کی مرویات کے مختلف ادوار کا تاریخی مطالعہ اورمختلف علمی حلقوں میں ان کے زیر عمل آنے اورمختلف ائمہ کے تعامل پر نظر کرنا بہت ضروری ہے اوریہ محدثین کا ہمیشہ موضوع رہا ہے، اب یہ بات بھی جان لیجئے کہ حدیث کا موضوع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام ؓ کے صرف تعبدی امور اور سنن ہی نہیں، علم حدیث ان کی انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مشتمل ہے،محدثین نے انسانی زندگی کے تمام دوائر،عقائد وافکار، اعمال وعبادات، تقویٰ واحسان،اخلاق، معاملات اوروقائع و سیرپر محنت کی ہے اوران تمام ابواب زندگی میں امت کو حضور   اورصحابہ کرامؓ کی تعلیمات قدسیہ سے جلا بخشی ہے،پچھلوں کو پہلوں سے وابستہ رکھنے کے لیے کتب حدیث میں کتاب التفسیر جیسے ابواب بھی قائم کئے ہیں، جگہ جگہ قرآن کریم کی آیات سے احادیث پر باب باندھے ہیں، اورعملا بتایا ہے کہ حدیث کا موضوع قرآن کریم کی عملی تفصیل اور امت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرامؓ کی زندگیوں کی ایک معیاری تشکیل ہے۔
اسلامی زندگی کی تشکیل میں صحابہؓ کے عمل کو سنت کہنا اورپچھلوں کے لیے اسے لازم کرنا فقہاء محدثین کے ہاں عام رہا ہے، حضور   کا ارشاد: ان ابن مس   ود سن لکم سنۃ فاستنوا بھا"(مصنف عبدالرزاق، باب اللذی یکون لہ وترہ وللامام شفع، حدیث نمبر:۳۱۷۶، المکتبۃ الاسلامی، بیروت) آپ سن آئے ہیں "قد سن لکم معاذ فاقتدوابہ" (المعجم الکبیر، باب معاذ بن جبل الانصاری، حدیث نمبر:۱۷۰۲۸، صفحہ نمبر:۲۰/۱۳۴۔ مسنداحمد، حدیث نمبر:۲۲۱۷۷، صفحہ نمبر:۵/۲۴۶، شاملہ) بھی آپ سن چکے، اب حضرت سعید بن المسیبؓ (۹۳ھ ) کی تصریح بھی ملاحظہ فرمائیں،ایک مسئلہ جو کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ سے منقول تھا، اس کے بارے میں فرماتے ہیں،انہ السنۃ (یہ سنت ہے) علامہ سرخسی (۴۹۰ھ) لکھتے ہیں "انہ السنۃ" یعنی سنۃ زید بن ثابت۔                     

(المبسوط:۲۲/۷۹)

ایک شخص نے آپ سے مسئلہ پوچھا،آپ نے دریافت کیا آیا وہ عراق سے ہے،(یعنی کچھ پڑھا لکھا ہے؟) اس نے کہا نہیں، میں ایک ناواقف طالب علم ہوں،آپ نے بتلایا سنت یوں ہی چلی آرہی ہے،آپ نے اسے حضرت زید بن ثابتؓ سے لیا ہے۔

"أَعِرَاقِيٌّ أَنْتَ ؟ قَالَ : لَا بَلْ جَاهِلٌ مُتَعَلِّمٌ قَالَ هَكَذَا السُّنَّةُ أَرَادَ سُنَّةَ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ"

(الجوہرۃ النیرۃ:۲/۲۱۵۔شاملۃ:۸/۵)

ایسا ایک واقعہ نہیں،تاریخ وحدیث میں ایسے بے شماروقائع ملتے ہیں جہاں صحابہ کرام کے اعمال اورفیصلوں کو امت میں سنت کی جگہ دی گئی، سو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حدیث کا موضوع حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اورصحابہ ؓ کی شخصیات کریمہ اوران کے ساتھ ان کی زندگیوں کے تمام دوائر اوران کے تمام ادوار بھی اس فن کا موضوع سمجھے گئے ہیں۔
حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالی عنہ (۹۷ھ )کون ہیں؟ تابعی کبیر جنہیں تابعین میں تقریبا وہی درجہ حاصل ہے جوصحابہؓ میں حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کو، فرق یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کا تمام صحابہ سے افضل ہونا ایک قطعی اوراجماعی بات ہے جسے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق حاصل تھی اورحضرت سعید بن المسیب کی تابعین پر فضیلت اس وقت کے کچھ اکابر کا نظریہ تھا، اس فضل و کمال کے ساتھ آپ کا حضرت زید کے عمل کو سنت کہنا اسلام کے ایک اصول کا پتہ دیتا ہے۔
پھر حضرت سعید بن المسیبؓ نے اپنے اس موقف پر کوئی دلیل پیش نہیں کی، اتنا اطمینان فرمایا کہ سائل کوئی عالم تو نہیں؟ غیر عالم کے لیے یہی ہے کہ جب اسے کسی صحابی کی کوئی بات ملے وہ اس پر اعتماد کرتے ہوئے اسے اپنالے اور دلائل کی بحث میں نہ پڑے، دلیل سے بحث علماء کا کام ہے، اسلام میں سنت اسی سے قائم ہوئی ہے کہ جہاں کوئی ستارہ چمکا تابعین اتباع کرتے ہوئے اس کی روشنی میں چلنے لگے، یہ تو ہے کہ کوئی ستارہ زیادہ چمکا اورکوئی کم ؛لیکن ملے گی اس سے ہمیشہ روشنی اندھیرا کبھی نہ ملے گا۔

ایک قابل غور بات

حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ نے یہاں عالم کے لیے عالم کا لفظ نہیں عراقی کا لفظ استعمال کیا ہے "اعراقی انت" اورعراقی اورطالب علم کو ایک دوسرےکے مقابل جگہ دی ہے، معلوم ہوا ان دنوں عراق علم کا ایک بڑا مرکز تھا اور وہاں پورے عالم عرب کی نادرہ روز گار ہستیاں آباد تھیں، جنہیں بجا طور پر علم اسلام کا نمائندہ کہا جاسکتا ہے، امام ابو حنیفہؓ، امام سفیان ثوری،امام ابو یوسف، امام سفیان بن عینیہ، امام محمد بن حسن اورعبداللہ بن مبارک جیسے فضلا اسی جگہ سے اٹھے تھے، یہ وہی سرزمین ہے جہاں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اورحضرت حسن بصری جیسے اکابر پہلے سے علم کی شجرکاری کرچکے، اس پورے ماحول میں صحابہؓ کے عمل کو حجت سمجھا جاتا تھا اور جہاں کسی صحابی سے کوئی عمل ثابت ہوا اس سے سنت اسلام قائم ہوتی تھی۔
کسے معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں ہے ؛مگر چونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اس کے ذریعہ دعا کرنا جائز سمجھتے تھے، آپ نے اسے سنت قرار دیا اورسنت کا معنی اس ماحول میں یہی سمجھا گیا کہ ایک ایسی راہ ہے جس پر پہلے چلا جاچکا ہے، سنت کا لفظ طریقہ، سلوک فی الدین کے معنی میں عام تھا اور مسلمانوں کے لیے کسی طرح ممکن نہ تھا کہ کسی صحابی سے انہیں کوئی بات پہنچے اور وہ اسے ٹھکرادیں، الا یہ کہ کسی دوسرے بزرگ صحابی کا قول دوسری طرف ہو، عمل صحابہ ان کے لیے اس پہلو سے ایک روشن حجت تھی۔

ضرورتِ حدیث



حدیث شریف کی ضرورت کا احساس

کسی چیز کی ضرورت کا احساس اپنے موجود سرمائے کو سامنے رکھنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے،جب تک یہ معلوم نہ  ہوکہ ہمارے پاس کیا کچھ ہے ہم کسی اورچیز کے ضرورت مند نہیں ہوسکتے،حدیث کی ضرورت اسی صورت میں محسوس ہوگی کہ علم کا موجود سرمایہ ہمارے سامنے واضح ہو اوروہ ہماری ضروریات پوری نہ کرسکے،ضرورت حدیث پر بحث کرنے سے پہلے ہمیں اپنے موجود علمی سرمائے کو دیکھنا چاہئے اوراپنی موجودہ صورت حال کا پوری طرح جائزہ لینا چاہئے۔

ہمارا موجود علمی سرمایہ


ہم اس لحاظ سے اس موضوع پر غور کررہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے پاس اللہ تعالی کی آخری کتاب قرآن مجید موجود ہے، یہ پوری کتاب محفوظ اورزندگی کی ہر ضرورت میں رہنمائی بخشنے والی ہے ہمارا موجود سرمایہ علم یہی ہے، اس کے ہوتے ہوئے ہمیں اور کسی چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں خود قرآن کریم میں ہی غور کرنا چاہئے کہ اس کے مطالعہ سے کوئی اور احساس ضرورت ابھرتا ہے،اگر یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے تو پھر یہ اگلا مرحلہ ہے کہ اسے کس طرح پورا کیا جائے؟ حدیث سے یا رائے سے یا کسی کے مشورے سے؟ ہم ابھی پہلے مرحلے میں ہیں کہ قرآن کریم کے ہوتے ہوئے کیا کسی اور چیز کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟
اس کے جواب میں یہ چار عنوان بہت اہم ہیں.
(۱)قرآن کریم کے مسائل.
(۲)زندگی کے مسائل .
(۳)قرآن کی جامعیت.
(۴)قرآن کریم کی دعوت؛
اگر ہم ان پر غور کرلیں،تو پھر اس کا جواب کہ قرآن کریم کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت بھی ہے یا نہیں ہمارے لیے بہت آسان ہوجائے گا۔

قرآن کریم کے مسائل

قرآن کریم نے کچھ احکام نہایت وضاحت اورصراحت سے بیان کئے ہیں جیسے قانون وراثت، قانون شہادت، قانون حدود، ایمانیات اوراخلاقیات؛ مگر کچھ احکام ایسے بھی ہیں اور یہ بہت سے ہیں جنہیں قرآن کریم نے مجمل طور پر بیان کیا ہے،قرآن کریم میں ان کی پوری کیفیت ادا نہیں ملتی؛ پھر قرآن پاک میں کچھ ایسے اشارات ہیں جن کی تفصیل اس میں نہیں ہے اور پھر کچھ مشکلات ہیں جن کی وضاحت کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے اور پھر اصول قرآنی کی ایسی توسیعات بھی ہیں جن کی پوری جزئیات کا بیان یہاں نہیں ملتا اورنہ یہ عملاً ممکن ہے۔

زندگی کے مسائل

پھر زندگی کے کچھ مسائل ایسے ہیں کہ قرآن کریم میں ان کے بارے میں کوئی تصریح نہیں ملتی جیسے۔
(۱)پانی کے پاک اورناپاک ہونے کے مسائل۔
(۲)کون سی بیع درست ہے اور کون سی نہیں اور یہ کہ کس کس بیع میں سود کی جھلک پائی جاتی ہے۔
(۳)بیع جنس بالجنس کی کیا صورت ہے۔
(۴) جو جرائم حدود کے تحت نہیں آتے ان کی سزا کیا ہے۔
(۵)زمینوں کے مسائل میں مضارعت کے احکام وغیرہ۔
(۶)مساجد کے تفصیلی شرعی احکام۔
(۷)مختار نامہ کے ذریعہ نکاح کی صورتیں وغیرھا۔
ان جیسے زندگی کے ہزاروں مسائل ہیں جو ہمیں قرآن کریم میں واضح طورپر نہیں ملتے؛لیکن انسانی زندگی ان ابواب میں راہنمائی تلاش کرتی ہے اوران ضرورات میں بھی دینی حل ڈھونڈتی ہے۔

قرآن کریم کی جامعیت کا دعویٰ

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ہدایت انسانی کے پورے نقشے پھیلادیئے ہیں، یہ کتاب خداکی آخری کتاب ہے اوراس میں ہر انسانی ضرورت کا حل موجود ہے۔

"وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ"۔

(النحل:۸۹)

ترجمہ: اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری جو ہر چیز کا کھلا بیان ہے ہدایت اوررحمت ہے اورماننے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔

ہر چیز کے کھلے بیان کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تمام علوم ہدایت، اصول دین اور فلاح دارین سے متعلق ضروری امور  کا نہایت مکمل اورواضح بیان ہے،یہاں کتاب اللہ، اسوۂ رسول اور اطاعت رسول کی راہ سے تمام ہدایات نبویہ کو بھی شامل ہے اوراس عموم سے احادیث میں کتاب اللہ کی مرکزی حیثیت اسی طرح مذکور ہے: حضرت جابر بن عبداللہ الانصاری(۷۴ھ) کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:

"وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنْ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابُ اللَّهِ"۔

(مسلم،  بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:۲۱۳۷، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: اور میں تم میں وہ چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے تھام لیا تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے وہ چیز کتاب اللہ ہے۔

حضرت علیؓ بھی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ وَهُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ مَنْ تَرَكَهُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَهُ اللَّهُ وَمَنْ ابْتَغَى الْهُدَى فِي غَيْرِهِ أَضَلَّهُ اللَّهُ وَهُوَ حَبْلُ اللَّهِ الْمَتِينُ وَهُوَالذِّكْرُ الْحَكِيمُ وَهُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ هُوَ الَّذِي لَا تَزِيغُ بِهِ الْأَهْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِهِ الْأَلْسِنَةُ وَلَايَشْبَعُ مِنْهُ الْعُلَمَاءُ وَلَا يَخْلَقُ عَلَى كَثْرَةِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ"۔

(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْقُرْآنِ،حدیث نمبر:۲۸۳۱،شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: قرآن کریم میں پہلی داستانیں بھی ہیں اور آئندہ کی خبریں بھی ہیں اور حال کے احکام بھی ہیں، یہ فیصلہ کن چیز ہے، مذاق کی چیزنہیں،جو متکبر اسے ترک کرے گا اللہ اسے توڑے گا اورجو اس کے سوا کسی اورچیز میں ہدایت ڈھونڈے اللہ اسے راہ سے بھٹکادیں گے،قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے؛ یہی ذکر حکیم اور یہی صراط مستقیم ہے، اس کے ساتھ طبائع کجروی میں نہیں جاتیں اور زبانیں  ملتبس نہیں ہوتیں، علماء کواس سے سیری نہیں ہوتی اور بار بار مراجعت سے یہ پرانا نہیں ہوتا اوراس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے۔

حضرت زید بن ارقم(۶۷ھ) بھی روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"إني تارك فيكم كتاب الله هو حبل الله من اتبعه كان على الهدى ومن تركه كان على الضلالة"۔         

(صحیح ابن حبان،باب ذكر إثبات الهدى لمن اتبع،حدیث نمبر۱۲۳،شاملہ)

ترجمہ: میں تم میں کتاب اللہ چھوڑے جارہاہوں، وہ اللہ کی رسی ہے جو اس کی پیروی کرے گا ہدایت پر ہوگا اورجو اسے چھوڑے گا گمراہی پر رہے گا۔

قرآن کریم کی مذکورہ بالاآیت اور یہ روایات بتارہی ہیں کہ قرآن کریم نہایت جامع اور مکمل کتاب ہے اور اس میں ہر انسانی ضرورت کا پورا پورا حل موجود ہے،قرآن کریم کی جامعیت کا یہ دعویٰ کہاں تک حالات سے ہم آہنگ ہے؟اورزندگی کے تمام مسائل کیا اپنی پوری تفصیل کے ساتھ ہمیں اس میں ملتے ہیں یا نہیں؟ اس پر ذرا اور غور کیجئے، یہ حقیقت ہے اور اس کے تسلیم کرنے سے چارہ نہیں کہ بہت سے قرآنی احکام ایسے مجمل ہیں کہ جب تک اور کوئی ماخذ علم ان کی تفصیل نہ کرے ان کی عملی تشکیل نہیں ہوسکتی اور زندگی کے لا تعداد مسائل ایسے بھی ہیں جن کے متعلق واضح جزئی ہمیں قرآن کریم میں نہیں ملتی،پس قرآن کریم کی جامعیت کی تشریح ایسی ہونی چاہئے جس سے یہ دعویٰ واقعات سے ہم آہنگ بھی ہوسکے۔

قرآن کریم کی جامعیت کا مفہوم

کسی نے قرآن کریم کی جامعیت کا یہ مفہوم نہیں لیا کہ اس کی کسی آیت میں کوئی اجمال(Brevity) یا کسی بیان میں کوئی تقیید (Particularisation) نہیں اس نے ہر باب کی غیر متنا ہی جزئیات کا احاطہ کرلیا ہے اور ہر حکم کی تمام حدود اور تفصیلات (Details) اس نے بیان کردی ہیں نہ یہ کسی کا دعویٰ ہے نہ اس کا کوئی قائل ہے،اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہم سوائے اس چیز کے جو قرآن میں ملے اور کسی چیز کو قبول نہ کریں گے تو اس کے کافر ہونے میں کوئی شبہ نہیں، حافظ ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں:

"لوأن امرأ قال: لانأخذ إلا ما وجدنا في القرآن لكان كافرا بإجماع الامة"۔

(الاحکام فی اصول الاحکام:۲/۲۰۰)

ترجمہ: اگر کسی شخص نے کہا کہ صرف وہی چیز لیں گے جسے ہم قرآن میں پالیں تو وہ شخص بالاتفاق کافر ٹھہرے گا۔

قرآن کریم کی جامعیت کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں تمام انسانی ضرورتوں کا حل ملتا ہے اور لا تعداد جزئیات کے احکام کے اصول وکلیات اورضوابط کی شکل میں اس میں موجود ہیں، علامہ شاطبیؒ (۷۹۰ ھ) لکھتے ہیں:

"فالقرآن على اختصاره جامع ولايكون جامعا إلاوالمجموع فيه أمور كليات"۔

(الموافقات:۳/۱۳۲)

ترجمہ: قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود ایک جامع کتاب ہے اور یہ جامعیت تبھی درست ہوسکتی ہے کہ اس میں کلیات کا بیان ہو۔

محدث جلیل حضرت مولانا بدر عالم مدنیؒ لکھتے ہیں:

"اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ خدا شناسی اورآداب عبدیت کے تمام اصولوں پر حاوی ہے، جیسا کہ جہاں بانی کے ایک ایک نکتہ ایک ایک شوشہ کے لیے مکمل آئین ہے، ایک چوب خشک اس پر عمل کرکے عارف کامل ہوسکتا ہے اورایک فقیر بے نوا اس کے اتباع کی بدولت تاج شاہانہ پہن سکتا ہے؛پھر شاہی اور گدائی کے یہ عمیق اور دقیق اصول اس نے ایسے جامع اور سادے الفاظ میں قائم کئے ہیں کہ دین کے مختلف زمانوں کی مختلف ضروریات میں سے کبھی کوئی ایسی ضرورت پیش نہیں آسکتی جس کے متعلق قرآن کریم کے ان الفاظ میں پوری روشنی نہ ملے"۔             

(ترجمان السنہ:۱/۱۱۱)

پس جب قرآن پاک میں ایسے اصول و کلیات ہیں جن کے تحت لا تعداد جزئیات کا فیصلہ قرآن کریم کی جامعیت کی تصدیق کرے تو یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ ان مواقع پر قرآن کریم کی اصولی دعوت کیا ہے؟ اس ضرورت میں وہ ہمیں کدھر لے جاتا ہے؟

قرآن کریم کی دعوت

قرآن کریم نے اپنے احکام وارشاد کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شخصیت کا تعارف بھی کرایا ہے اوراس کو اپنے ساتھ لازم کیا ہے، قرآن کریم مسلمانوں کو اس کے عمل سے اسوۂ حسنہ کی دعوت دیتا ہے، یہ ایک ایسی اصل عظیم ہے جس کے تحت ہزاروں مجملات کی تفصیل اور لاکھوں جزئیات کا حل مل جاتا ہے،قرآن کریم کی اس دعوت کے تحت اس اسوہ حسنہ کی تعمیل عین قرآن پاک کی تعمیل شمار ہوگی،یہ کلیدی آیات ہیں جن کے تحت لا تعداد مسائل حل ہوجاتے ہیں۔

قرآن کریم کی کلیدی آیات

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں چند ایسی کلیدی آیات نازل فرمادیں جن کے تحت حدیث کی ہر جزئی قرآن پاک کا حکم بن جاتی ہے، چند آیات ملاحظہ کیجئے۔

(۱)"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔             

(الاحزاب:۲۱)

ترجمہ: بے شک تمہارے لیے رسول اللہ   کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے۔

پس چاہئے کہ ہر معاملہ ہر ایک حرکت و سکون اور نشست و برخاست میں اس ذات گرامی کے نقش قدم پر چلیں۔

(۲)"وَمَاآتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَانَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا"۔    

(الحشر:۷)

 ترجمہ:اوراللہ کا رسول جو تمہیں دے لو اورجس سے منع کرے اس کو چھوڑدو۔

یہ آیت اپنے عموم میں پیغمبر خدا کے ہر فیصلے اورہر نہی کو حاوی ہے اورحضورؓ کے صحابہ ایسے بہت سے موقعوں پر اس آیت سے استدلال کرتے رہے ہیں۔

(۳)"یَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ"۔    

(النساء:۵۹)

ترجمہ: اے ایمان والوحکم مانو اللہ کا اورحکم مانو(اس کے) رسول کا۔

قرآن کریم کی اس دعوت کے تحت رسول اللہ   کی پیروی کرنے والا خود خدا تعالی کے حکم ہی کی پیروی کررہا ہے۔

(۴)"مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"۔             

(النساء:۸۰)

ترجمہ: جو اللہ کے رسول کی اطاعت کرتا ہے پس بیشک وہ اللہ کی اطاعت کرچکا۔

یہاں رسول کی اطاعت صیغہ مضارع (Present) سے بیان فرمائی جو رہتی دنیا تک جاری رہے گی اوراللہ کے اطاعت کو ماضی (Past) سے تعبیر فرمایا کہ مومن ایمان لانے کے ساتھ ہی اسی اصول کو تسلیم کرچکا تھا کہ زندگی کی ہر ضرورت میں رسول کی اطاعت کی جائے گی اوراسی کے تحت وہ اطاعت رسول کررہا ہے، یہ وہ کلیدی آیات (Key Verses)  ہیں جن کے تحت جمیع جزئیات حدیث آجاتی ہیں اورقرآن کریم جمیع تعلیمات رسول پر حاوی قرار پاتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت عمران بن حصینؓ (۵۲ھ) کے ہاں علمی مذاکرہ ہورہا تھا کہ ایک شخص نے کہا "لاتحدثوا الابما فی القرآن" (قرآن کے سوا اوربات نہ کیجئے) حضرت عمرانؓ نے اسے کہا کہ:

"تو احمق ہے، کیا قرآن میں ہے کہ ظہر اور عصر کی چار رکعتیں ہیں اوران میں قرآن جہری نہیں؟ مغرب کی تین رکعتیں ہیں پہلی دو میں قرات جہری ہے اور تیسری میں آہستہ؟ عشاء کی چار رکعتیں ہیں دو میں قرات جہری ہے اور دو میں آہستہ؟ کیا یہ قرآن میں ہے"۔  

(المصنف عبد الرزاق:۱۱/۲۵۵)

خطیب بغدادی (۴۶۳ ھ) روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اسے یہ بھی کہا:

"اگر تم اور تمہارے ساتھی واقعی صرف قرآن پر ہی اعتماد کرتے نہیں توکیا تمہیں قرآن میں ملتا ہے کہ ظہر، عصر اور مغرب کی چار چار اور تین (فرض) رکعت ہیں اور یہ کہ(سورت فاتحہ کے بعد) صرف پہلی دو رکعتوں میں قرآن کریم پڑھا جاتا ہے ؟ کیا تمہیں قرآن کریم میں ملتا ہے طواف کعبہ کے سات چکر ہیں؟ اوریہ کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی ضروری ہے"۔       

(الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۵)

حضرت عمران بن حصینؓ نے یہاں ایک نہایت اہم اصول کی طرف توجہ دلائی ہے، عمل رسالت صرف نماز اوراس کی رکعات یا حج اور اس کے اشواط کا ہی بیان نہیں، پورا دائرہ شریعت عمل رسالت کے گرد گھومتا ہے،صحابہ کرام کے سامنے راہ عمل صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کرتے یا فرماتے صحابہ اس راہ پر چل پڑتے، کبھی کسی نے آپ سے نہ پوچھا تھا کہ اس باب میں اللہ کا حکم کیا ہے، ان کا پختہ عقیدہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی قرآنی اجمال کی تفصیل ہے (مرقات:۱/۲۴۰) آپ زندگی کے ہر قدم میں الہٰی حفاظت کے سائے میں ہیں، آپ کے عمل کی اگر کوئی شرعی حیثیت نہ ہو تو سینکڑوں اجمالات ِقرآن عملاً معطل ہوکر رہ جاتے ہیں۔

قرآن پاک اورحدیث کا ربط

یہ بالکل صحیح ہے اوراس پر سب کا اتفاق ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی شریعت اسلام کو عملی تشکیل دی ہے اور یہ صحیح ہے کہ آپ کی حیات طیبہ ہی اسوہ حسنہ قرار پائی ہے،آپ نےمجملات قرآن کی تفصیل کی اورآپ نے ہی اس کے عمومات کی تخصیص فرمائی،قرآن پاک اورحدیث پاک ساتھ ساتھ چلتے رہے اوراسلام عملی صورت میں پہلوں سے پچھلوں کو ملتا رہا،جب کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم جامع اور مکمل کتاب ہے تو اس سے یہی مراد ہوتی تھی کہ اس میں تمام اصول کلیہ موجود ہیں،خطیب بغدادی(۴۶۳ھ) نے الکفایہ فی علوم الروایہ کے دوسرے باب کا عنوان یہ قائم کیا ہے:

"باب تخیصص السنن لعموم محکم القرآن وذکر الحاجد فی المجمل الی التفسیر والبیان"۔

حافظ ابن قیم (۷۵۱ھ) نے اعلام الموقین  کی تیسری جلد میں اس پر، ۴۷۹/ سے ۵۶۸/ تک تقریباً ایک سو صفحات کے قریب بحث کی ہے اور حضور صلی  اللہ علیہ وسلم کی متعدد تشریحات اورتوضیحات بیان کی ہیں جو آپ نے اس قسم کے قرآنی احکامات کے بیان میں صحابہ کے سوال پر ارشاد فرمائیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ قرآن کریم کی مرادات واضح فرماتے تھے اورحضور   کے بیانِ قرآن کا ایک یہ بھی قاعدہ اور اصول تھا۔

ایک سوال اوراس کا جواب

قرآن کریم کی جامعیت بے شک کلیات میں ہے اور انہی کلیات میں اطاعتِ رسول اور اسوہ حسنہ کی کلیدی آیات بھی ہیں،جن کے تحت لاکھوں جزئیات مل جاتی ہیں اور قرآن پاک کی جامعیت بھی قائم رہتی ہے؛لیکن ہزاروں جزئیات اور باقی رہتی ہیں،یا نئی پیدا ہوجاتی ہیں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات واضح طور پر نہیں ملتیں، سوال یہ ہے کہ زندگی کے یہ مسائل کیسے حل ہوں گے؟ اوران پیش آمدہ جزئیات میں قرآن پاک کی جامعیت اورپیغمبر خدا کی افادیت کہاں تک زندگی کا ساتھ دے سکتی ہے۔
ظاہر ہے کہ قرآن پاک کی ان کلیدی آیات میں جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو قرآن کریم کے ساتھ جزو لازم ٹھہراتی ہیں، ایک آیت ایسی بھی ہے جو اطاعت کے لیے ایک اور طبقے کو بھی پیش کرتی ہے اس آیت کو پہلے ہم مختصرا ًپیش کرچکے ہیں، اب اسے ذرا تفصیل سے پیش کیا جاتا ہے، قال اللہ تعالی:

"أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"۔                 

(النساء:۵۹)

ترجمہ: حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو (اس کے) رسول کا اوران کا جو تم میں سے اولی الامر ہوں (جس بات میں ان کا حکم چل سکے)۔

جس طرح انتظامی امور میں اولی الامر حکام ہیں جو تم میں سے ہوں، علمی امور میں فقہاء و مجتہدین ہیں جو مسائل غیر منصوصہ کومسائل منصوصہ کی طرف لوٹا کر ان کا حکم استنباط کرتے ہیں، وہ کتاب و سنت کے اصول کلیہ دریافت کرلیتے ہیں اور شریعت کے مغز کوپاجاتے ہیں اورپھر ان کے تحت ہر اس مسئلے کو حل کرلیتے ہیں، جس پر شریعت میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی، اسی طرح وہ مسائل منصوصہ جن میں بظاہر تعارض معلوم ہو اور ان میں تقدیم و تاخیر زمانی بھی معلوم نہ ہو کہ انہیں نسخ پر محمول کرسکیں،انہیں بھی یہ حضرات اپنے اجتہاد سے حل کرتے ہیں، سو یہ آیت ایک کلیدی آیت ہے،جس کی رو سے مجتہدین کے استنباط کو وہ جملہ مسائل قرآن کریم کے تحت آگئے اور قرآن کریم کا دعویٰ جامعیت اپنی جگہ قائم رہا،حافظ ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں کہ یہاں حکام اور فقہاء مجتہدین دونوں مراد ہوسکتے ہیں، کیوں کہ اولوالامر کے الفاظ ان سب کو شامل ہیں۔

(احکام القرآن:۲/۲۱۰،ویجوزان یکونوا جمیعا مراد ین بالآیۃ لان الاسم یتنا ولہم جمیعا)



بعض کلیدی احادیث


آنحضرت   کی بعض احادیث بھی کلیدی درجہ رکھتی ہیں،ایک حدیث ہدیہ قارئین ہے، جس سے حضور اکرم   کے بعد خلفائے راشدین کی پیروی کی راہ کھلتی ہے، حضرت عرباض بن ساریہؓ (۷۵ھ) کہتے ہیں کہ حضور اکرم   نے فرمایا:

"فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ فَتَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ"۔

(مسند احمد،باب حَدِيثُ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۱۶۵۲۲)

ترجمہ: تم پر میری سنت کی پیروی کے ساتھ خلفاء راشدین کی سنت کی پیر وی بھی لازم ہے اس سے تمسک کرو اورانہیں اچھی طرح دانتوں سے پکڑلو۔

قرآن کریم کی مذکورہ بالا کلیدی آیت اوراس کلیدی حدیث نے ان لاکھوں جزئیات کے حل کی راہ کھول دی اورصحابہ کرامؓ اور ائمہ مجتہدینؒ کی تعلیمات کے چشمے خود کتاب و سنت سے جاری ہوتے ملے، اسلامی علم و دانش کا یہ وہ تسلسل ہے جس سے قرآن پاک کی جامعیت اورپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی افادیت اپنی پوری شان سے ابھرتی نظر آتی ہے، قرآن و سنت میں فقہ و اجتہاد کی راہیں نہ کھلیں تو مسائل غیر منصوصہ (جن کے بارے میں قرآن پاک اورحضور   کے اپنے ارشادات میں واضح تعلیم نہیں ملتی) کے باب میں اسلام کے کامل ضابطہ حیات ہونے کا دعویٰ پادر ہوا ہوجاتا ہے۔

اسلام کے کامل ضابطہ حیات ہونے کی علمی راہ

حضور   کے صحابہ نے فقہ و اجتہاد کی راہ سے اسلامی تعلیمات کے دریا بہائے اور اجتہاد کے اسی چشمہ صافی سے لاکھوں کو سیراب کیا، ہر پیش آمدہ ضرورت پر ان کے اہل الرائےحضرات نے اپنی رائے پیش کی، سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) نے ہدایت فرمائی۔

"فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ"۔

(سنن نسائی،باب الْحُكْمُ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۵۳۰۲)

ترجمہ: جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ آئے تو کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے؛ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کیا جائے، اگر وہ فیصلہ کتاب و سنت میں نہ ملے تو پھر بزرگوں (اکابر صحابہ کرامؓ) کے فیصلوں کو لیا جائے اور اگر کوئی ایسا معاملہ آجائے جو ان بزرگوں کے فیصلوں میں بھی نہ ملے تو (اجتہاد کی اہلیت رکھنے والا) اپنی علمی رائے سے اجتہاد کرے۔

چنانچہ ترجمان القرآن حضرت ابن عباسؓ (۶۸ھ) قرآن و حدیث کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے فیصلوں سے ہی فتویٰ دیتے تھے (منہاج السنۃ:۳/۲۱۳) اگر وہاں بھی نہ ملتا پھر اجتہاد کرتے (سنن دارمی :۳۴) اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ قرآن پاک کی جامعیت امور کلیہ میں ہیں اور انہی کلیات میں سے ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت لازمی کی جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کلیدی احادیث آئندہ رہنمائی کے لیے صحابہ کو پیش کرتی ہیں اور ضرورت آمدہ پر اجتہاد کی راہیں کھولتی ہیں اور یہ ساری شاہراہ قرآن پاک کے چشمہ فیض سے ہی مستفیض اوراسی منبع نور سے مستنیر ہے،حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ) فرماتے ہیں:

"انزل اللہ کتابہ وترک فیہ موضعا لسنۃ نبیہ وسن نبیہ السنن وترک فیہ موضعا للرای والقیاس"۔

ترجمہ: اللہ تعالی نے قرآن نازل فرمایا اوراس میں اپنے نبی کی سنت کے لیے جگہ رہنے دی اور حضور نے سنن قائم کیں اوران میں رائے اور اجتہاد کے لیے گنجائش رکھی۔

امام مالکؒ کے ساتھ ساتھ امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) کی رائے بھی سن لیجئے:

"جمیع ما تقول الائمۃ شرح للسنۃ و جمیع السنۃ شرح للقران"۔

(الاتقان للسیوطی، النوع الخامس والستون، فی علوم المستنبطۃ:۴/۲۸)

ترجمہ: ائمہ کرام جو کچھ کہتے ہیں وہ سنت کا بیان ہے اور ساری سنت قرآن پاک کی تشریح ہے۔

جامعیت قرآن کے سلسلے میں یہ ایک سوال کا جواب تھا، اصل موضوع زیر بحث نہ تھا کہ قرآن پاک کے احکامات کچھ اس طرح کے ہیں کہ جب تک قرآن پاک کے ساتھ کوئی اور جزو لازم اور علم کا ماخذآگے نہ لایا جائے ان احکامات پر عمل نہیں ہوسکتا۔

مجملات قرآنی میں حدیث کی ضرورت

(۱)"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ"۔                  

(البقرۃ:۴۲)

نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو نمازوں کی رکعات ترتیب، کیفیت ادا اور وسعت وقت یہ وہ مباحث ہیں جو قرآن کریم میں نہیں ملتے،زکوٰۃ کن کن چیزوں میں ہے سالانہ ہے، یا ماہانہ،اس کا نصاب اور مقدار کیا ہے؟ یہ تفصیل قرآن کریم میں نہیں ملتی؛ حالانکہ ان تفصیلات کے بغیر ان قرآنی حکموں پر عمل نہیں ہوسکتا۔

(۲)"وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ"۔             

(الحج:۲۹)

اور طواف کریں اس قدیم گھر کا طواف کے چکر سات ہیں یا کم و بیش؟ طواف حجر اسود کے کونے سے شروع ہوگا یا رکن عراقی وشامی یا یمانی سے؟ یہ تفصیل قرآن کریم میں نہیں ملتی، صفا و مروہ کے درمیان سعی کتنی دفعہ ہے؟ سعی کی ابتداء کوہِ صفا سے ہے یا کوہِ مروہ سے طواف پہلے کیا جائے گا یا سعی پہلے کرنا ہوگی؟ ان تفصیلات کے جانے بغیر ان احکام قرآنی کی عملی تشکیل نہیں ہوسکتی۔

(۳)"کُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا"۔   

(البقرۃ:۱۶۸)

".......وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ"۔              

(الاعراف:۳۲)

قرآن کریم نے حلال طیبات کو جائز قرار دیا اورخبائث اور ناپاک چیزوں کو حرام کہا، اب یہ موضوع کہ درندے اورشکاری پرندے طیبات میں داخل ہیں یا خبائث میں یہ تفصیل قرآن پاک میں نہیں ملتی،حدیث میں ارشاد ہے کہ "ذی ناب من السباع" کچلیوں والے درندے اور "ذی مخلب من الطیر" پنچوں سے کھانے والے پرندے مسلمان کے پاکیزہ رزق میں داخل نہیں۔

(۴)"أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ"۔                          

(المائدہ:۹۶)

حلال کیا گیا تمہارے لیے دریائی شکار؛لیکن یہ بات کہ مچھلی کو پکڑنے کےبعد اس کو ذبح کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں،قرآن کریم میں اس کی وضاحت نہیں ملتی،حدیث میں ہے کہ دریا کے شکار کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں،سمک طافی(مری مچھلی جو تیر کر اوپر آجائے) کو حدیث میں ناجائز بتلایا گیا ہے،قرآن پاک نے خون کو مطلقا حرام کہا تھا،حدیث نے تفصیل کی اوربتایا کہ کلیجی اور تلی (کی صورت میں جما ہوا خون) حلال ہے۔

(۵)"وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ"۔ 

(المائدہ:۴)

ترجمہ: اور جو سدھاؤ شکاری جانور شکار پر دوڑانے کو سکھاتے ہو تم انہیں جو اللہ نے تم کو سکھایا۔

اس آیت سے پتہ چلا کہ وہ کتا جو سکھایا ہوا نہ ہو اس کا پکڑا ہوا اور مارا ہوا شکار حرام ہے؛ لیکن شکاری کتا اگر اپنے شکار کو خود کھانے لگے تو اس کا حکم قرآن کریم میں نہیں ملتا، حدیث میں بتلایا گیا کہ یہ شکار کھانا جائز نہیں،کتے کا کھانا بتلارہا ہے کہ اس کی تعلیم صحیح نہیں ہوئی اوروہ کلب معلم ثابت نہیں ہوا ہے۔
ان جیسے اور سینکڑوں مسائل ہیں جن کی عملی تشکیل اور تفصیل قرآن پاک میں نہیں ملتی، ان موضوعات میں قرآن پاک کے ساتھ جب تک کوئی اور چیز شامل نہ کی جائے قرآن پاک کے یہ مجمل احکام منت پذیر عمل نہیں ہوسکتے۔
اس جزو لازم کی ضرورت سبھی نے محسوس کی ہے، کسی نے اس ضرورت کو حدیث سے پورا کیا، کسی نے اپنی رائے سے اور کسی نے قانون ساز اسمبلی کو اختیار دے کر اس خلاء کو پورا کرنے کی کوشش کی، تاہم اس احساس ضرورت میں سب متفق رہے کہ جب تک قرآن کریم کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملائی جائے،ان مجملاتِ قرآنی کی عملی تشکیل ممکن نہیں۔

محتملاتِ قرآنی میں حدیث کی ضرورت

قرآن پاک میں جو امور مذکور ہیں ان میں بھی بہت سے ایسے مقامات بھی ہیں جہاں آیات قرآنی کئی کئی وجوہ کی محتمل ہیں، ان کی تعیین بھی بدون اس جزولازم کے کسی طرح قطعی واضح اورآسان نہیں اور اس پہلو پر بھی ہر مکتب خیال کی شہادت موجود ہے، سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"إِنَّهُ سَيَأْتِى نَاسٌ يُجَادِلُونَكُمْ بِشُبُهَاتِ الْقُرْآنِ فَخُذُوهُمْ بِالسُّنَنِ، فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ"۔

(سنن الدارمی،باب التورع عن الجواب فیما،حدیث نمبر:۱۲۱)

ترجمہ: بیشک تمہارے پاس کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جو قرآنی شبہات پیش کر کے تم سے جھگڑنے لگیں گے، ایسے وقت میں تم سنتوں سے تمسک کرنا؛ کیونکہ اصحاب سنن ہی کتاب اللہ کو زیادہ جانتے ہیں۔

قرآن کریم کی آیات جہاں کئی کئی وجوہ کی محتمل ہوں وہاں ان کا حل پائے بغیر ہم دین کی پوری سمجھ پا نہیں سکتے۔
شریف رضی حضرت علی المرتضیٰؓ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؓ نے جب حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو خوارج کے مناظرہ پر بھیجا تو نصیحت فرمائی کہ قرآن کریم سے براہ راست استدلال نہ کرنا۔

"ومن وصیۃ لہ علیہ السلام لعبداللہ بن عباس لما بعثہ لا احتجاج الی الخوارج لاتخاصمھم بالقران فان القران حمال ذووجوہ تقول ویقولون ولکن حاججھم بالسنۃ خانہم لن یجحدوا عنہا محیصا"۔

(نہج البلاغہ:۳/۱۵۰۰)

جو لوگ اس ضرورت کو حدیث سے پورا کرنا نہیں چاہتے وہ اس ضرورت کا حل مرکز ملت اور قوم کی پنچایت تجویز کرتے ہیں،گویہ بات غلط ہے ؛لیکن اس میں بھی اس بات کا اقرار ہے کہ قرآن پاک کے ساتھ ایک جز و لازم کی بہرحال ضرورت باقی تھی، جسے وہ اب اس طرح پورا کررہے ہیں۔

اسمبلی کو یہ حق دینے کے خطرناک نتائج

مسلمان دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں،کوئی خلافتی نظام ان سب پر حاوی نہیں، ہر ملک کی اپنی اسمبلی یا مجلس منتظمہ ہے،قرآن مجملات کی تفصیل اورقرآنی روشنی میں اجتہاد اگر ان اسمبلیوں کے سپرد ہوجائے تو ظاہر ہے کہ ہر ملک کی اسمبلی کے لوگ اسے اپنے اپنے ذوق کے مطابق طے کریں گے اور دین کی عملی راہیں ہر ملک میں جدا جدا قرار پائیں گی، مسلمان ایک ملت واحدہ کی حیثیت سے اپنا وجود کھودیں گے،قرآن پاک کا محض نام انہیں یکجا نہ رکھ سکے گا اور یہ امور کلیہ جب مختلف ملکوں میں مختلف تفصیل پائیں گے تو ان کا ایک عنوان محض برائےنام ہوگا، راہ ہر ایک کی جدا ہوگی اور علم ودین کے نام پر ایسی انار کی Anarchiپھیلے گی کہ اس سے بڑا حملہ شاید ہی کبھی اسلام پر ہوا ہو۔
پھر ایک ایک ملک میں بھی وقت کے اختلاف اورزمانے کے انقلاب سے مرکز ملی کی آراء مختلف ہوتی رہیں گی،قرآن پاک کی ایک آیت کی مراد کسی دور میں کچھ اور کسی دور میں کچھ طئے ہوگی، ہرنیا مجتہد اس پر ایک نئی مشق کرے گا اور پھر ووٹوں سے اس کی مراد کا فیصلہ ہواکرے گا، ہر نئی نسل پہلوں پر اعتماد ختم کرے گی اور ملت کے تاریخی رشتے اس خطرناک تجویز میں بالکل گم ہوکر رہ جائیں گے اوراس کا لازمی نتیجہ ہوگا کہ اسلام ایک مسلسل شاہراہ عمل ثابت نہ ہوگا۔

پیغمبرﷺ کی مرکزی حیثیت

یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جو مسلمانوں کو خواہ وہ کسی ملک کے ہوں، کسی دور کے ہوں، کسی نسل کے ہوں، کسی رنگ کے ہوں اور کسی طبقے کے ہوں ایک لڑی میں پروتی ہے،یہ حدیث کا فیضان ہے کہ ہندوستان، انڈونیشیا، ترکی، مصر، شام، انگلستان، افغانستان، جرمنی اورامریکہ کے رہنے والے سب مسلمان ایک طرح نماز پڑھتے ہیں، ایک طرح روزے رکھتے ہیں،سب ایک نصاب سے زکوٰۃ دیتے ہیں، نکاح و طلاق اورپیدائش واموات میں سب ایک ہی راہ پر چلتے ہیں، مادیت کے اس دور میں یہ تو ہو رہا ہے کہ کئی لوگ عملاً مذہب سے دور چلے گئے؛ لیکن اگر کوئی دین کی طرف رجوع کرے اوراس پر عمل کرنا چاہے تو راہ وہی ملے گی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہؓ نے قائم کی اوراس راہ کے چراغ وہی ہوں گے،جو حضور اکرم  نے روشن کئے، تاریخ میں نہیں ملتا کہ ان نجوم ہدایت کے بغیر کسی طبقے یا فردنے اسلام کی کوئی راہ عمل طے کی ہو۔
جو لوگ قرآن پاک کے ساتھ مرکز ملت کے فیصلوں کو جزو لازم ٹھہراتے ہیں اور وہ اس طرح قرآنی مجملات کی تشکیل چاہتے ہیں، ان کی یہ رائے محض ایک نظری درجے میں ہے جس نے اسلام کی پوری تاریخ میں کبھی حقیقت واقعہ کا لباس نہیں پہنا اور نہ تاریخ کے کسی دور میں کبھی اس طرح قرآنی معاشرے کی تشکیل ہوئی ہے، اس کی تائید مزید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس تجویز کےحامیوں نے اسے اشاعت اسلام کے عنوان سے نہیں، ہمیشہ طلوع اسلام کے نام سے پیش کیا ہے،جو اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے طلوع ہوا تھا، اس میں قرآن کریم کے ساتھ جزو لازم حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اورصحابہ کرام کی عملی راہیں تھیں اور اب اسلام کے نئے طلوع میں یہ تجویز ہے، کہ قرآن کریم کے ساتھ مرکز ملت کو جزولازم ٹھہرایا جائے اور حدیث سے جان چھڑا لی جائے۔
یہ نئی تجویز محض نظری بات ہے، اس نئے تخیل سے اسلام کی چودہ سو سالہ عملی تاریخ کو چھوڑا نہیں جاسکتا، جب اسلام کے سنہری زمانے Golden Age (خلافت راشدہ) میں بھی حدیث ہی قرآن کے ساتھ جزو لازم تھی تو آج کے بے عمل دور میں وہ کون سانیا چراغ ہوگا جو قوم میں زندگی کی حرارت پیدا کرسکے گا۔

اشارات قرآنی میں حدیث کی ضرورت

مجملاتِ قرآنی ہی نہیں جن کے لیے حدیث کے جزو لازم کی ضرورت ہے،قرآن کریم میں ایسے اشارات بھی ملتے ہیں جنھیں روایات کو ساتھ ملائے بغیر سمجھنا بہت مشکل ہے ؛پھر یہ اشارات کبھی عدد ی صورت میں ہوتے ہیں کبھی واقعاتی صورت میں اور ہر جگہ اس کی وضاحت ضروری ہے۔

عددی اشارات

(۱)"وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى"۔      

(یٰسن:۲۰)

اس آیت میں وہ ایک شخص کون تھا جو کسی دور مقام سے دوڑتا ہوا آیا تھا؟ قرآن میں اس کی طرف اشارہ ہے؛ مگراس کا نام وپتہ کہیں نہیں ملتا۔

(۲)"ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ"۔                   

(التوبہ:۴۰)

اس آیت میں دو کون تھے جن میں سے ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے، نام کہاں ہیں؟۔

(۳)"وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا"۔            

(التوبہ:۱۸)

اس آیت میں تین کون تھے جن پر زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ کردی گئی تھی۔

(۴)"مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ"۔                     

(التوبہ:۳۶)

اس آیت میں چار مہینے کون سے تھے جن میں لڑائی لڑنا عہد جاہلیت میں ممنوع تھا؟ ان حرمت کے مہینوں کے نام کیا ہیں؟۔

(۵)"خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ"۔                

(الکہف:۲۲)

اس آیت میں پانچ کون تھے جن میں چھٹا ان کا کتا تھا؟۔

(۶)"سِتَّةِ أَيَّامٍ"۔                                

(الاعراف:۵۴)

اس آیت میں چھ دن کون سے تھے جن کے بعد رب العزت نے عرش پر اجلال فرمایا۔

(۷)"وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ"۔                    

(البقرۃ:۱۹۶)

اس آیت میں سات روزے کس ترتیب سے عمل میں آئیں گے؟ اور رجعتم سے مراد مطلق واپسی ہوگی یا گھر کو واپسی۔

(۸)"يَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ"۔     

(الحاقہ:۱۷)

اس آیت میں آٹھ فرشتے کون ہیں جو حشر کے دن عرش باری تعالی اٹھائیں گے۔

(۹)"فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ"۔                        

(النمل:۴۸)

اس آیت میں نو قبیلے کون سے تھے؟۔

(۱۰)"فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ"۔                      

(ھود:۱۳)

اس آیت میں دس سورتیں کون سی تھیں جن کے مثل انہیں دس سورتیں لانے کا چیلنج دیا گیا تھا۔

(۱۱)"إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا"۔                

(یوسف:۴)

اس آیت میں گیارہ ستارے کون تھے۔

(۱۲)"وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا"۔

(المائدہ:۱۲)

اس آیت میں بارہ نقیب کون تھے،جو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل میں اٹھائے تھے۔

واقعاتی اشارات

(۱)"فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ"۔          

(البقرۃ:۵۹)

اس آیت میں صورت واقعہ کیا تھی، ان لوگوں نے کون سی بات بدلی تھی اورکس بات کے عوض؟

(۲)"وَإِذْأَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا"۔              

(التحریم:۳)

اس آیت میں وہ حدیث پیغمبر کیا تھی جو آپ نے اپنی کسی بیوی کو بطور راز کہی تھی؟

(۳)"مَاقَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْتَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا"۔

(الحشر:۵)

اس آیت میں کن درختوں کے کاٹنے اورکن کو اپنی بنیادوں پر چھوڑنے کا واقعہ یہاں مذکور ہے۔

(۴)"عَبَسَ وَتَوَلَّى،  أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى"۔                      

(عبس:۱)

اس آیت میں وہ کون تھا جس کی پیشانی پر ایک نابینا خادم کے چلے آنے سے بل آگئے؟ اس نے تیور چڑھالی اورمنہ موڑلیا کہ اس کے پاس نابینا آیا، تیور کس نے چڑھائی؟ نابینا کون تھا اور یہ واقعہ کیا تھا؟۔

(۵)"إِذْهُمَا فِي الْغَارِ إِذْيَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا"۔               

(التوبہ:۴۰)

ترجمہ:جس وقت وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا تو غم نہ کر بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

غار میں کون سب تھے؟ کب کا واقعہ ہے؟ کون سے غار کی بات ہے؟۔

(۶)"إِذْأَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنْكُمْ"۔

(الانفال:۴۲)

جس وقت تم تھے ورلے کنارے پر اور وہ پرلے کنارے پر اور قافلہ نیچے اتر گیا تھا تم سے۔

(۷)"وَإِذْيَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ"۔

(الانفال:۷)

ترجمہ:اورجس وقت وعدہ کررہا تھا تم سے خدا دو جماعتوں میں سے ایک کا کہ وہ تمہارے ہاتھ لگے گی اور تم چاہتے تھے کہ جس میں کانٹا نہ لگے وہ تم کو ملے۔

اس قسم کے اشارات روایات کو ساتھ ملائے بغیر نہ سمجھے جاسکتے ہیں اورنہ سمجھائے جاسکتے ہیں۔

مشکلات قرآنی میں حدیث کی ضرورت

قرآن پاک اپنی اصولی دعوت میں بہت آسان ہے، اس میں نصیحت کے ابواب ایسے پیرائے میں لائے گئے ہیں کہ جو شخص بھی دل رکھتا ہو اورکان دھرے،اس سے اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

"وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ"۔                  

(القمر:۱۷)

ترجمہ: اور بیشک ہم نے قرآن نصیحت لینے کے لیے آسان کردیا ہے سو ہےکوئی سمجھنے والا؟۔

"إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ"۔

(ق:۳۷)

ترجمہ: بے شک اس میں نصیحت ہے ہر اس شخص کے لیے جس کے پاس دل ہو یا وہ کان لگا سکے اور گواہی دے سکے۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم میں حقائق غامضہ موجود نہیں ہیں۔
اس کتاب الہٰی میں حقائق کا سمندر موجیں ماررہا ہے، بڑے بڑے فضلاء اس سے موتی چنتے رہے اورچن رہے ہیں،لیکن اس کی اتھاہ گہرائیوں پر از خود کوئی قابونہیں پاسکتا، صحابہ کرامؓ جن کے سامنے قرآن نازل ہوا تھا اوران کی اپنی زبان بھی عربی تھی، حضور   کے فیض تربیت سے ان کے قلوب تزکیہ اورتصفیہ پاچکے تھے؛پھر بھی انہوں نے بعض آیات قرآنی کے سمجھنے میں دقت محسوس کی اورجب تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت نہ فرمائی وہ آیات ان کے لیے آسان نہ ہوسکیں،قرآن کریم کے ساتھ حدیث ایک جز ولازم کے طورپر ہمیشہ کار فرما اورہدایت پیرا رہی ہے۔

(۱)"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ"۔

(الانعام:۸۲)

ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمانوں میں کوئی ظلم شامل نہ کیا ہو، وہ لوگ ہیں جنہیں ہمیشہ کا امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۴ھ) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ سہم گئے اورانہوں نے حضورؐ سے عرض کیا۔

"وَاینا لم یظلم؟"۔          

ترجمہ:ہم میں سے کس نے ظلم نہ کیا۔

اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے، جیسا کہ ارشاد ہے"إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ "۔

(بخاری،باب ظلم دون ظلم،حدیث نمبر:۳۱)

اس حدیث سے قرآن پاک کی یہ آیت حل ہوگئی اورصحابہ کرامؓ کے دل مطمئن ہو گئے اوران کا تردد جاتا رہا، مراد آیت کی یہ ہے کہ جو شخص ایمان لائے اورپھر اس میں اللہ تعالی کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے،وہ عذاب سے مامون اورہدایت یافتہ ہے۔

(معارف القرآن:۳/۳۸۷)

(۲)"وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"۔

(التوبہ:۳۴)

ترجمہ: اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کئے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کردیتے،آپ ان کو دردناک عذاب کی خبر دیجئے۔

حضرت امیر معاویہؓ نے فرمایا کہ یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں اہل کتاب کے بارے میں ہے،حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا کہ نہیں ہمارے اوران کے دونوں کے بارے میں ہے۔           

(بخاری:۶/۸۲)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا:

"هَذَا قَبْلَ أَنْ تُنْزَلَ الزَّكَاةُ فَلَمَّا أُنْزِلَتْ جَعَلَهَا اللَّهُ طُهْرًا لِلْأَمْوَالِ"۔

(بخاری،بَاب مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ،حدیث نمبر:۱۳۱۶)

ترجمہ:یہ صورت اس پہلے دور سے متعلق ہے جب کہ زکوۃ کا حکم نہیں اترا تھا جب زکوٰۃ کا حکم آگیا تو خدا تعالی نے اسے (زکوٰۃ کو) سارے مال کی پاکیز گی کا سبب بنادیا۔

سو حدیث نے فرمایا کہ یہاں جمع کرنے کا معنی یہ ہے کہ اس کی زکوٰۃ نہ دی جائے، زکوٰۃ دینے سے وہ اکتناز (مال جمع رکھنا) کے ذیل میں نہیں آتا، اب اس کا مال پاک ہوچکا ہے۔
صحابی رسول   حضرت عمربن الخطابؓ کہتے ہیں کہ میں نے خود حضوراکرم  سے اس بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا:

"إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَفْرِضْ الزَّكَاةَ إِلَّالِيُطَيِّبَ مَابَقِيَ مِنْ أَمْوَالِكُمْ"۔

(ابو داؤد،باب فی حقوق المال، حدیث نمبر:۱۴۱۷)

ترجمہ: اللہ تعالی نے زکوٰۃ اس لیے فرض کی ہے کہ اس سے تمہارے باقی اموال پاک کردیئے جائیں۔

اسلام میں اگر کسی صورت میں بھی مال جمع کرنے کی اجازت نہ ہوتی تو شریعت محمدی میں مال کی زکوٰۃ اورمیراث کی تقسیم کا قانون نہ ہوسکتا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشاد سے صحابہؓ کے دل مطمئن ہوگئے اوران کا تردد جاتا رہا۔
روزے کی ابتداء کس وقت سے ہوتی ہے، اس کے لیے قرآن پاک میں ارشاد ہوا:

(۲)"وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ"۔

(البقرۃ:۱۸۷)

ترجمہ: اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمھیں فرق معلوم ہونے لگے۔

حضرت عدی بن حاتمؓ (۶۷ھ) نے سفید اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتداء کرلیا کریں، حضرت سہل بن سعدؓ (۹۸۱ھ) کہتے ہیں:

"وَكَانَ رِجَالٌ إِذَاأَرَادُوا الصَّوْمَ رَبَطَ أَحَدُهُمْ فِي رِجْلَيْهِ الْخَيْطَ الْأَبْيَضَ وَالْخَيْطَ الْأَسْوَدَ وَلَا يَزَالُ يَأْكُلُ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُ رُؤْيَتُهُمَا"۔

(بخاری،باب قولہ وکلوا واشربوا حتی یتبین،حدیث نمبر:۴۱۵۱)

ترجمہ: کچھ لوگ جنہوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس میں ممتاز نہ ہوجائیں۔

اس سے پتہ چلا کہ صرف عدی بن حاتمؓ ہی نہ تھے جو یہاں مراد قرآنی نہ سمجھ پائے ؛بلکہ اور بھی کئی لوگ تھے جنہوں نے سفید اور سیاہ دھاگوں کو ان کے ظاہر پر رکھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عدی بن حاتمؓ کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیاہی ہے۔
اللہ تعالی نے اس کے بعد من الفجر کے الفاظ نازل فرمائے، بخاری شریف میں ہے:

"فَأَنْزَلَ اللَّهُ بَعْدَهُ {مِنْ الْفَجْرِ}"۔ 

(بخاری، بَاب أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَام،حدیث نمبر:۴۱۵۱)

اس سے سب سمجھ گئے کہ یہاں دن اور رات کا ایک دوسرے سے ممتاز ہونا مراد ہے۔
اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حضور   نے جس طرح اس آیت کی وضاحت فرمائی وہی مراد ربانی تھی اور بعد کی وحی قرآنی نے واضح طور پر وہی بات کہی جو آپ نے پہلے بطور تفسیر کہی تھی وہاں یہ بھی پتہ چلا کہ قرآن پاک اگر پیغمبر پر نازل نہ ہوتا کہیں دھرامل جاتا تو اس کے کئی مقامات عربوں میں بھی اپنے معنی مراد کے ساتھ واضح نہ ہوتے۔


توسیعات قرآن میں حدیث کی ضرورت

قرآن پاک کی بعض آیات میں کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں،جب یہ دریافت ہوجائیں تو ان کا پھیلاؤ اپنی لپیٹ میں کچھ اورجزئیات کو بھی لے آتا ہے، یہ ساری ذمہ داری مجتہدین پر نہیں چھوڑی گئی ؛بلکہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض قرآنی اصول کی توسیعات فرمائی، قرآنی توسیعات میں حدیث کی رہنمائی یقین کا فائدہ بخشتی ہے۔

(۱)"أَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّامَاقَدْ سَلَفَ"۔                

  (النساء:۲۳)

ترجمہ: اوریہ حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرو، ہاں جو پہلے ہوچکا، ہوچکا۔

ایک شخص کے نکاح میں جمع ہوکر دو بہنوں میں کھچاؤ پیدا ہونے کا قوی مظنہ تھا،قرآن کریم کے اس حکم میں یہ حکمت تھی کہ وہ صلہ رحمی جو بہنوں میں ہونی چاہئے پامال نہ ہو اور ایک خاندان (بیوی کے خاندان) سے دو متقابل رشتے قائم نہ ہو اورنہ باہم مودت پامال ہو۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصل شرعی کی پوری حفاظت فرمائی اوراس علت کو پھوپھی بھتیجی اورخالہ بھانجی تک پھیلادیا کہ یہ بھی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتیں، آپ نے اس قرآنی اصل "أَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ" کی توسیع فرمادی،محدث ابن حبان (۳۵۴ھ) روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"انکن اذا فعلتن ذلک قطعتن ارحامکن"۔        

(نیل الاوطار:۶/۱۵۷)

ترجمہ: اگر تم نے ایسا کیا تو تم نے قطع رحمی کی۔

قرآنی اصل کی توسیع میں حدیث کا فیصلہ قطعی اور یقینی ہوتا ہے،مجتہد اصل حکم دریافت کرکے اسے کتنی ہی جزئیات پر پھیلائے، ظنیت پھر بھی قائم رہتی ہے،حدیث صریح والی قطعیت اس میں نہیں آتی قرآنی احکام کی توسیع میں صرف حدیث قطعی ہے۔
(۲)شریعت اسلامی میں نسب و صہر کے رشتوں کے ساتھ دودھ کے رشتے حرام کئے گئے ہیں،ان سے نکاح جائز نہیں، قرآن کریم میں ہے:

"وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ"۔             

(النساء:۲۳)

ترجمہ: تمہاری دودھ کی مائیں اور بہنیں بھی تم پر حرام کی گئی ہیں،یعنی تم ان سے نکاح نہیں کرسکتے۔

قرآن کریم نے دودھ کے رشتوں میں صرف ماں اور بہن کا ذکر کیا ہے،اس قرآنی اصل کی توسیع میں رضاعی خالہ اور رضاعی پھوپھی بھی آجاتی ہیں، حدیث نے اسے بیان کرکے قرآنی اصول کو پھیلادیا اورایک بڑی ضرورت پوری کردی، رضاعی حرمت کا تعلق صرف اس دودھ پلانے والی ہی سے نہیں رہے گا؛ بلکہ اس کا خاوند بھی دودھ کے رشتے میں باپ تسلیم کیا جائے گا اور اس کے لیے یہ دودھ پینے والی بچی حکماً بیٹی ہوگی، اس قسم کے مسائل جو اصول و علل پر مبنی ہوں اپنی توسیع میں کئی جزئیات کو شامل ہوتے ہیں، ان توسیعات قرآنی میں حدیث کی اشد ضرورت ہے۔
(۳)قرآن کریم نے سود کی حرمت بیان کی،اس حکم کے تحت اور کئی کاروبار بھی آتے تھے، حدیث نے اس حکم کی علت کو پھیلادیا،قرآن کریم نے تو اتنا فرمایا:

"وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا"۔             

(البقرۃ:۲۷۵)

ترجمہ: اللہ تعالی نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔

یہ سود کی حرمت کا بیان ہے،لیکن اس حکم کی علت اورحرمت اپنی لپیٹ میں کئی تجارتوں کو بھی شامل تھی،حضوراکرم   نے سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک چھ چھ چیزوں کی بیع و شراء میں حکم دیا کہ اگر ان کا باہمی تبادلہ کیا جائے تو برابر سرابر اورنقد دست بدست ہونا چاہئے، ان میں ادھار کیا گیا یا مقدار میں کمی بیشی کی گئی تو وہ بھی سود ہوجائے گا، آنحضرت  نے درخت پر لگے پھلوں اورٹوٹے پھولوں کے مابین اورکئے ہوئے صاف غلے اورکھڑی فصلوں کے باہمی سودے کو بھی سود میں داخل کیا ؛کیوں کہ ان میں صورتوں میں کمی بیشی کا امکان بہر صورت موجود رہتا تھا، قرآن کریم میں جس سود کا ذکر ہے اس سے جلی طور پر وہی سود مراد ہے جو قرض پر لیا جاتا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ایک دوسری قسم کے سود کا علم ہوا جو عنواناً سود نہ تھا، لیکن اس میں سود کی اصل لپٹی تھی،امام طحاویؒ (۳۲۱ھ) لکھتے ہیں:

"اس سود کے حرام ہونے پر بھی حضور   کی متواتر احادیث وارد ہیں،اس قسم کے سود کی تفصیل پہلے موجود نہ تھی،اس لیے صحابہ کرامؓ کو اشکال ہوا اور فقہاء کے بھی اختلاف ہوئے"۔

(شرح معانی آلاثار:۲/۲۳۲)

جاہلیت میں سود کا لفظ پورا متعارف تھا اور اس سے وہ زیادتی مراد تھی جو قرض ادھار پر لی جاتی تھی، حدیث نے اس کی علت اورسبب کی نشاندہی بھی کردی اورجس جس بیع و شراء میں اس کا اثر آتا تھا اسے بھی حرام قرار دے دیا،حدیث قرآنی اصل کی توسیع میں بنیادی کام کرتی ہے اوراس سے مسئلہ میں قطیعت بھی آجاتی ہے جو صرف اجتہاد و مجتہد سے نہیں آتی۔
اس ساری بحث (Discussion) کا حاصل یہ ہے کہ قرآن پاک کے لیے ایک ایسے جز ولازم کی ضرورت ہے جو اس کے مجملات کی عملی تشکیل کرے،اشارات کی تفصیل کرے،مشکلات کی توضیح کرے،اصول و علل کی توسیع کرے اور زندگی کے ان ہزار ہا مسائل کو جو قرآن پاک میں منصوص نہیں،ایسا استناد مہیا کرے جس کے تحت ہزاروں جزئیات قرآن پاک کے تحت جمع ہوجائیں اوران کا واضح اورکامیاب حل سامنے آجائے اور قرآن پاک کی شان جامعیت اپنی جگہ قائم رہے۔
حضور اکرم صلی   کی ذات گرامی نے اپنی حدیث/ سنت اورقرآنی معاشرے کے پاکیزہ افراد صحابہ کرامؓ کے ذریعہ اسلام کووہ استناد مہیا کیا کہ اس میں ہر ضرورت کا حل ہر سوال کا جواب، ہرالجھن کا سلجھاؤ ملا اورہر اضطراب کو شفاء ملی،آنحضرت    کی بعثت کا مقصد قرآن پاک پہچانا ہی نہ تھا، کتاب الہٰی کی تعلیم بھی تھی اوراللہ تعالی کی نگرانی میں ایک قرآنی معاشرے کی تشکیل بھی تھی، آپ نے قرآن وحکمت کی تعلیم اورصحابہؓ کے تزکیہ باطن سے ایک اچھا معاشرہ بھی تشکیل دیا،آپ نے زندگی کے لا تعداد مسائل کو ایسا استناد بخشا کہ ہم زندگی کے کسی گوشے میں بھی اپنے آپ کو تشنہ کام نہیں پاتے،یوں کہیے حدیث علم کے ہر باب میں ہمیں شفا بخشتی ہے۔

حدیث نبوی دین میں حرفِ آخر ہے

حدیث نبوی ہر صاحب بصیرت انسان کے لیے دین کا حرف آخر ہے،یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم شریعت کا اول علمی ماخذ ہے؛ لیکن قرآن کریم کی کسی آیت میں اگر مفہوم کا کہیں اختلاف ہو اوروہاں دورائیں قائم ہوسکتی ہوں اور نبوت کسی ایک معنی کی تعیین کردے تو حرف آخر پھر کس کی بات ہوگی؟ صحابہ کرام کسی آیت کی تشریح میں مختلف ہوں تو جس کی بات بھی لے لی جائے، اس میں ہدایت ہے، کسی کی بات حرفِ آخر نہیں؛ لیکن جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک معنی کی تعیین کردیں تو پھر اورکسی سے پوچھنے کا کسی کو حق نہیں، آپ کی بات دین میں حرف آخر ہے، قرآن پاک میں بیان قرآن کا حق آپ کوہی دیا گیا ہے۔

"وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ"۔

(النحل:۴۴)

ترجمہ:اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُن باتوں کی واضح تشریح کردو جو اُن کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔

ایک صورت استثناء

ہاں اگر کسی کو کسی حدیث کے حدیث ہونے میں ہی شک ہو یا اس کے مفہوم میں کوئی تردد ہو اور وہ بایں جہت اس کا انکار کردے کہ یہ ارشادنبوت نہیں تو وہ حدیث بے شک اس کے لیے حرف آخر نہ ہوگی؛لیکن اگر اسے حدیث نبوی مانا جائے اوریہ واضح ہو کہ یہ واقعی ارشاد نبوت ہے، تو پھر اس کے انکار کی کسی کو گنجائش نہیں، حدیث نبوی بلاشبہ دین میں حرف آخر تسلیم ہونی چاہئے، عامی اگر کسی حدیث کا انکار کرے اورکہے جب تک میں اپنےکسی معتمد عالم سے نہ پوچھ لوں اور اس حدیث اوراس کی دلالت کے بارے میں تسلی نہ کرلوں اسے قبول نہ کروں گا تو یہ انکار حدیث شمار نہ ہوگا، اسے ایک علمی اختلاف سمجھا جائے گا۔


اسلام میں حدیثِ پاک کا مقام ومرتبہ


اللہ تعالی کی وحی صرف قرآن کی صورت میں اترتی رہی اور وہ الفاظ قرآن میں منحصر تھی یا قرآن کریم کے علاوہ بھی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم دین کی کوئی بات کہتے تو اس میں اذن خداوندی شامل ہوتا تھا اوراس کے لیے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تھی اورآپ اسی روشنی میں ہی قرآنی وحی کی عملی تشکیل فرماتےرہے ۔
اس میں شک نہیں کہ حدیث شرح قرآن ہے اور یہ وہ رشنی ہے، جس سے کتاب اللہ کی علمی نقوش ہر سو پوری تابانی سے پھیلتے رہے اوراسی سے قرآنی نقوش میں نصیحت کی شان ابھرتی تھی اور عمل میں یقین کی شان واضح ہوتی تھی، قرآن پاک ادب اوربلاغت میں انتہائی بلند ی پر واقع ہوا ہے، ظاہر ہے کہ اس انداز بیان میں علم و معرفت کے کئی چشمے پھوٹتے ہیں اورایک ایک بات میں کئی کئی پہلو نکلتے ہیں، یہ حدیث ہے جس سے قرآن کے کسی حکم میں قطعیت اوریقین کی شان آتی ہے،اس فہم اور تعامل کو اس سے جدا کرلیا جائے،تو پھر ہرباب میں تاویل کے ہزاروں باب کھل جائیں گے اورامت کسی نقطہ یقین پر جمع نہ ہوسکے گی، نصوص کتاب و سنت فہم امت کے ساتھ آگے بڑہتی آئی ہیں۔

علم الکتاب اورعلم الآثار دونوں کا مبدا ذات الہٰی ہے

علم الکتاب اور علم الآثار ہمیشہ سےپیغمبرانہ تعلیم کے دو ماخذ رہے ہیں؛ جس طرح علم الکتاب کا مبدا اللہ تعالی کی ذات ہے اسی طرح علم الآثار کا مبدا بھی اللہ رب العزت کی ہی ذات ہے اور جس طرح علم الکتاب معصوم ہے،یعنی خدائی حفاظت میں ہے کہ اس میں آگے پیچھے کسی طرف سے باطل کو راہ نہیں، اسی طرح علم الآثار بھی محفوظ ہے اوربغیر اس کے قرآن کریم کا محفوظ ہونا بے معنی رہ جاتا ہے، اس وعدہ حفاظت کے تحت یہ نہیں ہوسکتا کہ دین کی کسی بات کو غلطی ہر طرف سے گھیر لے اوراس کا حاصل کلیۃً بدل جائےیا مٹ جائے، اگر ایک طرف سے اس میں غلطی راہ پکڑتی ہے تو دوسری طرف سے اس پر پوری گرفت بھی ہوجاتی ہے اور دین میں داخل ہونے والی ہر نئی بات پر موأخذہ بھی ہوتا رہتا ہے اورساتھ ساتھ ہی اس کا انسداد بھی ہوتا رہتا ہے، علماءسو جب بھی دین کو بدلنے لگتے ہیں تو علماء حق فوراً ان کو ٹوکنے کھڑے ہوجاتے ہیں،یوں سمجھئے کہ وہ اس وقت دین کی حفاظت کے ارادہ الہٰیۃ کے لیے بمنزلہ آلہ اوراسباب کے استعمال ہوجاتے ہیں، سو دین مجموعی طورپر معصوم رہتا ہے، بے شک اس کی مجموعی حفاظت کا ہم سے وعدہ کیا گیا ہے اورہم اللہ تعالی کے اسی وعدہ پر ہیں، اللہ تعالی ہر ضرورت کے وقت اس وعدہ کو پورا فرماتے ہیں: "إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ" میں قرآن کریم کو لفظ ذکر سے یاد کرنے کی ایک یہ بھی حکمت تھی کہ یہ حفاظت صرف لفظا نہیں ذکراً بھی موعود ہے اور کتاب ا لہٰی لفظاً ومعنیً ہرپہلو سے محفوظ ہے۔

حدیث کا ماخذ الہٰی ہدایت ہے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ماخذ" الہٰی ہدایت" Divine quidance ہے، اللہ تعالی نے قرآن کریم کے علاوہ بھی آپ کی فکرو نظر کو قدسی جلا بخشی تھی اورآپ کے اعمال میں بھی اپنی وحی اتاری تھی، جس طرح علم الکتاب معصوم ہے، اسی طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی معصوم ہے،علم الکتاب میں الفاظ و معنی دونوں معصوم ہیں، علم الآثار میں صرف معنی مراد محفوظ ہیں،الفاظ کی حفاظت اس میں لازمی نہیں، روایت بالمعنی سے بھی الہٰی حفاظت کا یہ وعدہ پورا ہوجاتا ہے، ہمارے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرات صحابہ کرامؓ کی قوی شہادتیں موجود ہیں، جن سے یہ بات ثابت Bestablishedہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی قرآن پاک کے علاوہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی وحی سے بارہا نواز تے رہے،اسی وحی غیر متلو (وہ وحی جس کی تلاوت جاری نہیں ہوئی ) کو ہم حدیث کہتے ہیں۔

حدیث کے الہامی ہونے پر قرآن پاک کی پہلی شہادت

قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی قرآن کے علاوہ بھی کلام فرماتے تھے اور بارہا آپ پر وحی غیر متلو Revelation unworded  (وہ وحی جس کی تلاوت نہیں صرف حکم صادر ہوتا ہو) اترتی تھی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی ایک زوجہ محترمہ سے پردے میں ایک بات کہی اور تاکید کی کہ وہ اسے کسی دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کریں؛ لیکن ہوا یہ کہ ان سے اس پر قابو نہ رہ سکا اورانہوں نے اسے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ذکر کردیا، اللہ تعالی نے آپ کو خبر دے دی کہ آپ کی زوجہ نے دوسری بی بی سے وہ بات کردی ہے،قرآن کریم آپ کی اس بیوی کے دوسری بیوی سے بات کرنے کی یوں خبر دیتا ہے۔

"وَإِذْأَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ"۔

  (التحریم:۳)

ترجمہ: اورجب نبی نے اپنی کسی بی بی سے ایک حدیث پر دے میں کہی تھی پھر جب اس نے (دوسری بی بی سے )اس کی خبر کردی اوراللہ تعالی نے آپ پر اسے ظاہر کردیا تو آپ نے اس میں سے کچھ بات جتلادی اورکچھ سے درگزرفرمایا،پھر جب آپ نے وہ بات، اس بی بی کو جتلائی تو اسنے پوچھا آپ کوکس نے یہ بات بتلائی ہے؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے۔

اللہ،علیم خبیر نے جو خبردی تھی وہ وحی غیر متلو تھی، یہ وحی خدا وندی قرآن کریم میں نہیں ملتی؛ لیکن اس کی طرف صرف یہاں حوالہ Refernece موجود ہے؛ لیکن جس وحی کی یہاں حکایت ہے وہ قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں۔
قرآن کریم کی اس آیت سے پتہ چلا کہ اللہ تعالی علیم و خبیر وحی قرآنی کے سوا بھی آپ سے کلام فرماتے تھے اورآپ کو کئی باتوں کی اس طرح خبر دیتے تھے کہ وہ بات ہمیں قرآن کریم میں مذکور نہیں ملتی، اس وحی غیر متلو کے لیے اس وحی متلو(وہ وحی جس کی تلاوت کی جائے یعنی قرآن کریم) میں کئی جگہ حوالہ Reference ملتا ہے ؛مگر محکی عنہ (جس بات کی طرف حوالہ دیا جارہا ہے وہ بات) قرآن کریم میں نہیں ملتی،حکایت میں موجود ہو اور محکی عنہ قرآن میں مذکور نہ ہو، اس کی یہی صورت ہوسکتی ہے کہ وحی متلو(قرآن) کے ساتھ ساتھ سلسلہ وحی غیر متلو (حدیث) کا بھی پورا پورا اقرار کیا جائے۔

دوسری شہادت

پھر یہ صرف اخبار (خبروں) میں ہی نہیں،احکام (کرنے والے کاموں) میں بھی بہت سے ایسے حکم نازل ہوئے جن کی وحی متلورہی ہے،مدینہ منورہ کے مشرقی جانب چند میل کے فاصلے پر بنو نضیر (یہود) آباد تھے۔
(یہ لوگ یہاں کے رہنے والے نہ تھے لیکن ان کے بزرگوں نے سنا تھا کہ پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم اس علاقے میں تشریف لائیں گے تو وہ ان پر ایمان لانے اوران کی نصرت و اعانت کے ارادے سے یہاں آکر آباد ہوگئے تھے پھر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو افسوس کہ ان کی اولاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش ہوگئی، ارض عرب ان کا وطن نہ پہلے تھا نہ بعدمیں رہا بلکہ ایک وقت آیا کہ کل یہود جزیرہ عرب سے نکال دیئے گئے،لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام فی اخرحیاتہ،اخرجوا الیھود من جزیرۃ العرب
انہوں نے مسلمانوں سے عہد شکنی کی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کا ارادہ فرمایا: یہ لوگ اپنے مضبوط قلعوں میں جابیٹھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی کہ ان کے درخت کاٹے جائیں اورباغ اجاڑے جائیں؛ تاکہ یہ لوگ بے چین ہوکر قلعوں کے دروازے کھول دیں اورحالات کے چہرے سے نقاب اُٹھ جائے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جنگ کی نوبت نہ آئی اور یہ لوگ وہاں سے خیبر کی طرف نکال دیئے گئے،قرآن کریم میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے:

"مَاقَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْتَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ"۔  

(الحشر:۵)

ترجمہ: اور(اس دن) جو کاٹ ڈالے تم نے کھجور کے درخت یا انہیں اپنی جڑوں پر کھڑے رہنے دیا سو (یہ سب) اللہ کے حکم سے تھا۔

قرآن کریم میں اللہ کا یہ حکم کہیں نہیں ملتاکہ"یہ درخت کاٹ دیئے جائیں اوریہ رہنے دیئے جائیں، لیکن اس حکم کا حوالہ قرآن کریم میں بے شک موجود ہے، وہ حکم خدا وندی جس کے تحت درختوں کے کاٹنے کا یہ عمل کیا گیا تھا وحی غیر متلو (جس کی تلاوت جاری نہیں ہوئی) تھی جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں القاء ہوئی تھی، بظاہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان درختوں کے کاٹنے کا حکم فرمارہے تھے،لیکن قرآن کریم کی رو سے آپ کی یہ حدیث حقیقۃ اذن الہٰی تھا اوریہ خدا کا حکم تھا جو وحی غیر متلو کی صورت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا تھا،قرآن کریم یہاں اسے ہی اذن الہٰی کہہ رہا ہے،قرآن کریم سچ کہتا ہے۔

"هَذَا كِتَابُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِّ"۔ 

(الجاثیہ:۲۹)

ترجمہ: یہ ہماری کتاب جو تم پر حق بولتی ہے۔

یہاں کتاب سے مراد اعمالنا مے ہیں جو ٹھیک ٹھیک لکھے جارہے ہیں،ہاں عموم الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ خدائی دفتر میں غلطی راہ نہیں پاتی؛ سو!ہم یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ حضور  کا یہ عمل بے شک اذن الہٰی سے تھا، قرآن کریم کی اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے وحی قرآن کے علاوہ بھی آپ سے بارہا کلام فرمایا ہے اورآپ پر احکام اتارے ہیں،یہی حدیث ہے اوراسے ہی وحی غیر متلو کہتے ہیں،خدا تعالی کی یہ وحی غیرمتلو (Unworded Revelation) ہے جو تلاوت میں نہیں آتی اور حکم میں پھیلتی ہے۔

تیسری شہادت

قرآن کریم کی یہ موجودہ ترتیب رسولی ہے نزولی نہیں،ترتیب نزولی اور ترتیب رسولی میں فرق ملحوظ رکھئے،آنحضرت   پرغارِ حرا میں جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی وہ"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ"  (العلق:۱) تھی لیکن موجودہ ترتیب میں "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" کے بعد "أَلْحَمْدُ الِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ" سب سے پہلی آیت ہے،حضوراکرم   پر جب کوئی آیت اتر تی تو آپ   صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوہدایت دیتے کہ اسے فلاں فلاں سورت میں لکھ دو۔                  

(ترمذی:۲/۳۶۸،لکھنو)

سورتوں میں آیات کہاں کہاں لکھی جائیں یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں ہوتا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں میں قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو اسی ترتیب سے پڑہتے، جو قرآن پاک کی موجودہ ترتیب ہے (سنن ابی داؤد:۱/۱۲۷) اوراسی ترتیب سے ہر سال حضرت جبرئیل امینؑ رمضان میں آپ   کے ساتھ قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔
قران کریم کی جمع وترتیب میں اتنی اہم تبدیلی کس کے حکم سے ہوئی؟ کیا حضور   پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے اس میں کسی تبدیلی کے مجاز تھے؟ ہر گز نہیں قرآن کریم میں ہے:

"قَالَ الَّذِينَ لَايَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْبَدِّلْهُ قُلْ مَايَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّامَايُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ،  قُلْ لَوْشَاءَ اللَّهُ مَاتَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَاأَدْرَاكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَاتَعْقِلُونَ،  فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْكَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَايُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ"۔              

(یونس:۱۵،۱۷)

ترجمہ: ان لوگوں نے جو ہم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے(پیغمبر سے) کہا کہ کوئی اور قرآن لے آو، یا اسے کچھ تبدیل کردیں، اے پیغمبر !آپ کہہ دیجئے میرے اختیار میں نہیں کہ میں اسے بدل ڈالوں، میں تو وہی کچھ کرتا ہوں جو مجھے حکمدیا جاتا ہے، میں ڈرتا ہوں اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں بڑے دن کے عذاب سے، آپ کہہ دیجئے کہ اگراللہ تعالی نہ چاہتے تو میں اسے تمہارے سامنے تلاوت نہ کرتا اور نہ وہ تم کو خبر کرتا، میں رہ چکا ہوں تم میں ایک عمر اس سے پہلے، کیا تم نہیں سوچتے؛ پھراس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر بہتان باندھے یا اس کی آیتوں کوجھٹلائے، بے شک مجرم کبھی فلاح نہیں پاتے۔

قرآن کریم نے بتلایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہ تھا، آپ نے جو کچھ کیا وہ وحی خدا وندی کے تحت تھا، کتاب کی ترتیب کو بدل دینا بہت اہم بات ہے، کوئی جزوی بات نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کیا جاسکے، کسی تحریر اورکتاب کی ترتیب اس تحریر یا کتاب کی ذات ہوتی ہے، سویقین کیجئے کہ آپ نے قرآن پاک کی ترتیب میں جو عمل اختیار کیا وہ سب وحی خدا وندی کے تحت تھا، آپ کی تلاوت (جس ترتیب سے واقع ہوئی) وہ سب اللہ تعالی کے حکم سے تھی اوراللہ تعالی نے ہی آپ کو اس دوسری ترتیب اختیار کرنے کا حکم دے رکھا تھا ورنہ قرآن کریم کی تلاوت اور ترتیب میں آپ اگر اپنی طرف سے کوئی تبدیلی کردیں تو یہ یقیناً کتاب الہٰی میں تبدیلی ہوگی اوریہ اللہ تعالی پر ایک افتراء ہوگا(معاذ اللہ) یہ اسی طرح حکم الہٰی کو ٹھکرانا ہے، جیسے وحی خدا وندی کوجھٹلادینا اورنہ ماننا ہے۔
اب  سوال یہ ہے کہ وہ حکم خداوندی جس کے تحت ترتیب کی یہ تبدیلی عمل میں آئی قرآن کریم میں کہا ں ہے؟ یہ وحی غیر متلو ہمیں قرآن پاک میں نہیں ملتی تو ہم یقین کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کے علاوہ بھی وحی آتی رہی گو اس وحی کی تلاوت جاری نہ ہوئی ہو صرف حکم پھیلا ہو، یہی حدیث ہے اوراگر اس وحی غیر متلو کو نہ مانا جائے جس کے تحت قرآن پاک ترتیب نزولی میں نہیں ترتیب رسول سے جمع ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ معاذ اللہ آپ نے اپنی مرضی سے قرآن کریم میں تبدیلی کردی (استغفر اللہ العظیم) حکم الہٰی میں تبدیلی کرنے والے یا اسے نہ ماننے والے سب برابر کے مجرم ہیں، مفتری علی اللہ اورمکذب بآیات اللہ کبھی فلاح نہیں پاتے قرآن کریم میں ہے:

"فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ"۔

(یونس:۱۷)

ترجمہ: اوراس سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے جس نے اللہ تعالی پر کوئی جھوٹ باندھایا اس نے اس کی آیات کو جھٹلایا، بیشک مجرم کبھی فلاح نہیں پاتے۔

جب یہ معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو اس کی نزولی ترتیب سے مختلف ترتیب پر جمع کرایا اورتلاوت کیا ہے اوراس کی یہ شہادت ہمیں قرآن کریم سے ہی مل گئی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں کسی طرح کی تبدیلی کا اختیار نہ تھا، اوریہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ آپ کا ہر اقدام وحی خدا وندی کے تابع ہوتا تھا، تو یہ بات از خود ثابت ہوگئی کہ حضور اکرم   کاموجودہ ترتیب کو اختیار کرنا وحی خدا وندی سے ہی تھا، آپ   قرآن کی آیات لکھوانے کے لیے صحابہ کرامؓ کو جو حکم دیتے تھے وہ سب وحی الہٰی کی ترتیب ہوتی تھی، ترتیب نزولی کے بعد یہ ترتیب رسولی سب اللہ کے حکم سے ہی عمل میں آئی ہے اورقرآن کریم اس ترتیب سے لوح میں محفوظ ہے۔
پھر غور کیجئے کہ وہ حکم الہٰی کہ قرآن کریم اس ترتیب سے جمع کیا جائے قرآن کریم میں کہاں ہے؟ اگر کہیں نہیں ملتا تو اس سے ثابت ہوتا ہے اللہ تعالی نے قرآن کریم کے علاوہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی ہے، یہ وحی غیر متلو تھی، سو مذکورۃ الصدرآیات حدیث کے الہامی ہونے پر قرآن کریم کی کھلی شہادت پیش کررہی ہیں۔

چوتھی شہادت


قرآنِ کریم میں ہے:

"وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَالَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا"۔

(النساء:۱۱۳)

ترجمہ:اوراللہ تعالیٰ نے اُتاری آپ پر کتاب اور حکمت اور آپ کوسکھایا وہ جوآپ نہیں جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا آپ پربڑا فضل ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضوراکرم   پردوچیزوں کا اُترنا بیان کیا ہے، کتاب کا لفظ تواپنی جگہ صریح ہے، حکمت کے معنی محکم اور پختہ بات کے ہیں، قرآن کریم کے بعد حضوراکرم   سے زیادہ اور کس کی بات پختہ ہوسکتی ہے، جب اس کا مبدأ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہواور اسی نے آپ پر اسے اتارا ہو تواس کے دین ہونے میں کس کوشبہ ہوسکتا ہے، قرآن پاک کے ساتھ ساتھ یہ دوسری وحی ہے جواللہ تعالیٰ نے آپ پراتاری اس وحی کویہاں حکمت کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے اور یہ وحی قرآن پاک کے علاوہ ہے۔
امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی اس آیت میں حکمت سے مراد حضور اکرم   کی سنت ہے۔

(کتاب الام:۷/۲۵۱)

حافظ ابنِ قیمؒ (۷۵۱ھ) بیان کرتے ہیں کہ اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن کریم اور حکمت سے مراد سنت ہے۔

(کتاب الروح:۱۱۹)

پس قرآن کریم میں کتاب اور سنت دونوں کا خدا کی طرف سے اترا ہونا صریح طور پر مذکور ہے اور اس سے یہ بات وضاحت سے ثابت ہوتی ہے کہ حدیث بھی وحی الہٰی ہے؛ گووحی غیرمتلو ہو، یعنی ایسی وحی جس کی امت میں تلاوت جاری نہ ہوئی صرف اس کے احکام نافذ ہوئے، ظاہر ہے کہ اس صور تمیں یہ بھی دین کا ایک پورا علمی ماخذ ہے۔
پچھلے صحیفوں (کتابِ مقدس استثناء) میں جب سے یہ خبر چلی اارہی تھی کہ اللہ تعالیٰ بنواسرائیل کے بھائیوں میں سے، یعنی بنواسماعیل میں سے ایک پیغمبر اٹھائیں گے توساتھ ساتھ یہ بات بھی چلی آئی ہے کہ وہ پیغمبر لوگوں کوکتاب اور حکمت دونوں کی تعلیم دے گا اورحضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بنائے کعبہ کے وقت کی دُعا بھی اس کی کھلی شہادت ہے:

"رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ"

            (البقرۃ:۱۲۹)

ترجمہ:اے رب! ہمارے اور بھیج ان میں ایک پیغمبر انہی میں سے جوپڑھے ان پر تیری آیات اور سکھلائے ان کوکتاب اور حکمت اور پاک کردے ان کو، بے شک توہی غالب حکمت والا ہے۔

جب آنحضرت   تشریف لائے اور اعلانِ نبوت فرمایا تویہ بھی فرمایا کہ "میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دُعا ہوں اوراپنے بھائی عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں" اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بھی تصریح فرمائی کہ آپ اس لیئے بھیجے گئے ہیں کہ لوگوں کوآیاتِ الہٰی سنائیں اس کے ساتھ ساتھ جہاں آپ ایک امت بنائیں وہاں آپ ایمان والوں کوکتاب اور حکمت کی تعلیم بھی دیں، حکمت کی تعلیم دینے کا حکم خدائی تبھی ہوسکتا ہے کہ حکمت آپ کے سینہ مبارکہ پرخدا نے ہی اتاری ہو اور وہ حکمت بھی وحی خداوندی ہی ہو؛ گوغیرمتلو ہے قرآن کریم میں ہے:

"لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْبَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ"

(آل عمران:۱۶۴)

ترجمہ: بے شک احسان کیا اللہ نے مؤمنوں پرجب اس نے بھیجا ان میں ایک پیغمبر انہی میں سے، وہ پڑہتا ہے ان پر اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے انہیں اور سکھلاتا ہے انہیں قرآن اور حکمت اور بے شک تھے اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں۔

سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران کی یہ آیات سورۂ نساء کی اس آیت کی تمہید ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت   پرکتاب وحکمت دونوں نازل فرمائی ہیں اور یہ سنت وحدیث کے وحیٔ خداوندی ہونے پرقرآن کریم کی ایک کھلی شہادت ہے۔

پانچویں شہادت

"يَسْأَلُونَكَ مَاذَاأُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَاعَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ"۔                    

   (المائدہ:۴)

ترجمہ:لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کونسی چیزیں حلال ہیں؟ کہہ دو کہ تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور جن شکاری جانوروں کوتم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سکھا سکھا کر (شکار کے لیے) سدھالیا ہو، وہ جس جانور کو(شکار کرکے) تمہارے لیے روک رکھیں، اس میں سے تم کھاسکتے ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔

(توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۱/۳۲۵، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی)

سورۃ المائدہ نزول میں آخری سورتوں میں سے ہے؛ یہاں "مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ" میں ایک ایسی تعلیم کی حکایت کی گئی ہے جواس سے پہلے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کودے چکے ہیں، وہ تعلیم کیا تھا؟ شکاری کتا سدھانے کے آداب کہ (۱)کتا خود چھوڑا گیا ہو (۲)خدا کا نام لے کر چھوڑا گیا ہو (۳)وہ اپنے کھانے کے لیئے منہ نہ ڈالے (۴)وہ شکار کوزخم بھی کرے (یہ شرط لفظِ جرح سے ماخوذ ہے) یہ تعلیم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کس نے دے رکھی تھی؟ قرآنِ کریم میں کیا یہ تعلیم موجود ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کیا اسے "عَلَّمَكُمُ اللَّهُ" کہہ کر ماضی میں ذکر نہیں کیا؟ آگے اس تعلیم کودہرایا گیا ہے؛ یوں سمجھئے جس وحی غیرمتلو کی "مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ" میں حکایت تھی، اس محکی عنہ کوآگے وحی متلو میں دہرایا گیا ہے "فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ" میں اسی کا اعادہ ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وحی غیرمتلو کوکبھی وحی متلو بھی دہرادیتی ہے، حدیث تعلیم خداوندی پر مبنی نہ ہو تو"مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ" کا محکی عنہ تواس سے پہلے قرآن کریم میں کہیں موجود نہ تھا۔

چھٹی شہادت

"وَإِذْيَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ"۔         

(الانفال:۷)

ترجمہ:اور وہ وقت یاد کروجب اللہ تم سے یہ وعدہ کررہا تھا کہ دوگروہوں میں سے کوئی ایک تمہارا ہوگا اور تمہاری خواہش تھی کہ جس گروہ میں (خطرے کا) کوئی کانٹا نہیں تھا، وہ تمھیں ملے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے اَحکام سے حق کوحق کردِکھائے اورکافروں کی جڑکاٹ ڈالے۔

(توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۱/۵۲۴، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی)

یہ دوجماعتیں کون سی تھیں؟ ایک وہ عظیم تجارتی قافلہ جومکہ سے گیا تھا اور مالِ تجارت لے کر آرہا تھا، دوسری جواس قافلے کی مدد کے لیئے مسلح ہوکر مکہ سے نکلی تھی یہ پرشوکت جماعت تھی مسلمان چاہتے تھے کہ مشرکین کی ان دوجماعتوں میں سے پہلے انہیں بن شوکت والے طائفہ سے واسطہ پڑے، یہ سب بیان جنگ بدر سے متعلق ہے۔
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک صریح وعدے کا ذکر کیا جارہا ہے وہ وعدہ قرآن کریم میں کہاں ہے اور کیا تھا؟ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اس وعدے کا کہیں ذکر نہیں ملتا؛ مگرقرآنِ کریم میں اس کی طرف حوالہ (Reference) ضرور موجود ہے، وہ وعدہ وحی غیرمتلو کے ذریعہ ہوا تھا اور حضور اکرم   نے صحابہؓ کواس کی خبر دی تھی، جب وہ وعدہ قرآن کریم میں کہیں موجود نہیں توہم یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ حضورِ اکرم   پرقرآن کریم کے علاوہ بھی وحی آتی رہی؛ اسی وحی غیرمتلو کوحدیث کہتے ہیں۔

ساتویں شہادت

"وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّالِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ"۔

(البقرۃ:۱۴۳)

ترجمہ:اور جس قبلے پر تم پہلے کاربند تھے، اُسے ہم نے کسی اور وجہ سے نہیں؛ بلکہ صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کا حکم مانتا ہے اور کون اُلٹے پاؤں پھرجاتا ہے۔

(توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۱/۱۰۱، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی)

حضوراکرم   کا پہلا قبلہ بیت المقدس تھا، خانہ کعبہ کے قبلہ بننے سے پہلے آپ   بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ   کوپہلے اُس قبلے پررکھا (بیت المقدس پر) اور پھراس قبلے پرلائے (خانہ کعبہ المسجد الحرام پر) تاکہ رسول کے ساتھ بدلنےوالے رسول سے بدلنے والوں سے ممتاز ہوجائیں اور مؤمن ومنافق میں امتیاز ہوجائے۔
حضور   دوسرے قبلہ (المسجد الحرام) کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں یہ حکم توقرآن حکیم میں واضح طور پر موجود ہے؛ لیکن آپ   کوپہلے بیت المقدس کے قبلہ پررکھنے کا حکم قرآن کریم میں کہیں نہیں ملتا "جَعَلْنَا" کے لفظ میں جس وحی خداوندی کی خبردی گئی ہے (کہ ہم نے اس لیئے آپ کواس قبلہ پررکھا تھا) قرآن کریم میں وہ مذکور نہیں ہے اس کی حکایت ہے؛ مگرمحکی عنہ نہیں ملتا، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس پہلے قبلہ پرہونے کواپنی طرف منسوب کیا ہے؛ سولامحالہ اس سلسلے میں آپ کی طرف وحی آئی، جب وہ وحی قرآنِ پاک میں مذکور نہیں تواس یقین سے چارہ نہیں کہ آپ پرقرآنِ کریم کے علاوہ بھی وحی آتی رہی، اسی وحی کووحی غیرمتلو کہتے ہیں۔

آٹھویں شہادت


"سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَاانْطَلَقْتُمْ إِلَى مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ قُلْ لَنْ تَتَّبِعُونَا كَذَلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِنْ قَبْلُ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا بَلْ كَانُوا لَايَفْقَهُونَ إِلَّاقَلِيلًا"۔                

     (الفتح:۱۵)

ترجمہ:(مسلمانو!) جب تم غنیمت کے مال لینے کے لیے چلوگے تویہ (حدیبیہ کے سفر سے) پیچھے رہنے والے تم سے کہیں گے کہ "ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو" وہ چاہیں گے کہ اللہ کی بات کوبدل دیں، تم کہہ دینا کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے، اللہ نے پہلے سے یوں ہی فرمارکھا ہے، اس پر وہ کہیں گے کہ "دراصل آپ لوگ ہم سے حسد رکھتے ہیں" نہیں! بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی ایسے ہیں کہ بہت کم بات سمجھتے ہیں۔

(توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۳/۱۵۶۷، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی)

حدیبیہ سے واپس ہوکر حضوراکرم   کوخیبر پرچڑھائی کرنے کا حکم ہوا، جہاں عہد توڑنے والے یہود آباد تھے، حق تعالیٰ نے آنحضرت  کوخبر دی کہ وہ لوگ جوحدیبیہ نہیں گئے تھے اب خیبر کے معرکے میں تمہارے ساتھ چلنے کوکہیں گے؛ کیونکہ وہاں خطرہ کم اور غنیمت کی امید زیادہ ہے، اللہ تعالیٰ نے آنحضرت   سے کہا: آپ فرمادیں کہ تمہاری اس استدعا سے پیشتر اللہ ہم کوبتلاچکا ہے، اب تم اس سفر میں ہمارے ساتھ نہ جاؤ گے۔
یہ حکم کہ غزوۂ خیبر میں اہلِ حدیبیہ کے سوا کوئی نہ جائے، قرآن کریم میں کہاں ہے؟ اس حکم کی حکایت کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی یہ بتلایا تھا بے شک قرآن مجید میں موجود ہے؛ لیکن محکی عنہ قرآن کریم میں مذکور نہیں، حضرت تھانویؒ لکھتے ہیں:

"یہ حکم خداوندی بظاہر قرآن مجید میں مذکور نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم وحی غیرمتلو کے ذریعہ آپ کوملا تھا، جواحادیث کے ذریعہ بیان کی جاتی ہے"۔   

   (تفسیرمعارف القرآن:۸/۷۳)



نویں شہادت

"إِنَّاأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَاأَرَاكَ اللَّهُ وَلَاتَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا"۔            

(النساء:۱۰۵)

ترجمہ:بیشک ہم نے حق پرمشتمل کتاب تم پر اس لیے اُتاری ہے؛ تاکہ تم لوگوں کے درمیان اس طریقے کے مطابق فیصلہ کرو جواللہ نے تم کوسمجھادیا ہے اور تم خیانت کرنے والوں کے طرف دار نہ بنو۔

(توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۲/۲۹۴، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی)

ایک مقدمے میں ایک مسلمان نے اپنا جرم ایک یہودی کے ذمہ لگانا چاہا، وہ یہودی اس سے بری تھا، اس مسلمان کے ساتھیوں نے ایسے حالات پیدا کردیئے اور کیس کچھ اس طرح پیش کیا کہ چوری اس یہودی پر ثابت ہورہی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر برحق کوحقیقتِ حال پر مطلع فرمایا کہ چور وہ مسلمان ہے، یہودی نہیں، وہ وحیِ خداوندی کہ یہودی چور نہیں، قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں؛ مگراس کا اقرار "بِمَاأَرَاكَ اللَّهُ" (جودکھادیا اللہ نے آپ کو) قرآنِ پاک میں صاف طور پر موجود ہے، یہ وہ وحی غیرمتلو ہے جس کے ذریعہ حضور   کوحقیقتِ حال پرمطلع کیا گیا تھا، اسے یہاں اِراءتِ ربانی سے تعبیر فرمایا، جووحی غیرمتلو کی لطیف ترین صورت ہے۔
خیبر کی بستی میں ایک مسلمان قتل ہواپایا گیا، قاتل کا پتہ نہیں چلتا تھا، حضور   نے وہاں کے یہودیوں کواظہار وجوہ کا نوٹس دیا، یہودیوں نے کہا کہ ایک ایسا ہی واقعہ بنواسرائیل میں پیش آیا تھا تواللہ تعالیٰ نے ان پر ایک حکم اُتارا تھا، آپ بھی اگرخدا کے نبی ہیں تووہی حکم جاری کردیں، آنحضرت   نے جوجواب لکھا وہ یہ ہے:

"أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَرَانِي أَنْ أَخْتَارَ سبْعِیْنَ رَجُلًا فَيَحْلِفُونَ بِاَللَّهِ مَاقَتَلْنَاهُ وَلَانَعْلِمْ لَهُ قَاتِلًا ثُمَّ یَرُدُّوْنَ الدَّیْۃَ"۔                        

(فتح القدیر، لابن الہمام:۸/۳۸۷)

ترجمہ:بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ میں تم میں سے ستر آدمیوں کوچن لوں، وہ قسم کھائیں کہ ہم نے قتل نہیں کیا اور ہمیں اس کے قاتل کا بھی علم نہیں؛ پھروہ سب مل کر اس کی دیت ادا کریں۔

اس روایت میں اس اللہ کے بتلانے کو "أَرَانِیْ" سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ وہی تعبیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں "بِمَاأرَاکَ اللہ" کے الفاظ میں ذکر کی ہے سو! "أَرَانِیْ" میں بھی اسی وحی غیرمتلو کا ذکر ہے جس کے توسط سے حضوراکرم   کوبغیروحی قرآنی حقیقتِ حال سے مطلع کیا گیا۔

دسویں شہادت

"وَالَّذِیْنَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌo لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ"۔

(المعارج:۲۵،۲۴)

ترجمہ:اور جن کے مال ودولت میں ایک متعین حق ہےoسوالی اور بے سوالی کا۔

(توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۳/۱۸۰۱، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی)

قرآنِ کریم نے یہ بات نہیں بتلائی کہ زکوٰۃ کس شرح سے فر ض ہوگی اور کب فرض ہوگی ہرماہ پر یاسال گزرنے پر، اس کا مصرف توبیان کردیا کہ سائل اور محروم قسم کے لوگ ہوں گے؛ لیکن کتنا مال ہوگا جب یہ لازم ٹھہرے گی اور کس کس قسم کے مال پر واجب ہوگی یہ سب باتیں قرآنِ کریم میں کہیں مذکور نہیں۔
سوال یہ ہے کہ قرآن کریم نے اسے "حق معلوم" کیسے فرمادیا، معلوم اسےکہتے ہیں جوبات جانی گئی ہو؛ ہرجانی بات کے لیئے جاننے والا یاجاننے والے چاہئیں؛ ہرمعلوم کے لیئے کسی عالم کا وجود لازمی ہے؛ ورنہ اسے معلوم نہ کہا جاسکے گا؛ اگراس کا جاننے والا صرف اللہہی تھا تومخلوق کے لیئے اس میں کیا ہدایت ہوگی؟ وہ اپنے اموال کوکس شرح سے کتنا وقت گزرنے پرسائلین اور محرومین کودیا کریں؟ سو یہ جواب قطعاً درست نہیں کہ یہ ایسا امرمعلوم تھا، جس کے عالم صرف رب العزت ہی تھے۔
صحیح بات یہ ہے کہ یہ سب تفصیلات اللہ تعالیٰ نے وحی غیرمتلو (Unwarded Revelation) سے حضوراکرم   کوبتلادی تھیں اور آپ نے آگے صحابہؓ کوفرمادی تھیں، حق کیا ہے؟ کتنا ہے؟ اور کب ہے؟ یہ سب کومعلوم ہوچکا تھا، قرآن پاک کی اس آیت میں اسی حق معلوم کی حکایت ہے، حکایت وحی متلو میں ہورہی ہے اور محکی عنہ وحی غیرمتلو میں معلوم ہوا تھا، حدیث کے الہامی ہونے پر قرآن کریم کی یہ ناقابل انکار شہادت بتلارہی ہے کہ آنحضرت  سے اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی وحی قرآن کے علاوہ بھی ہوتی تھی۔
"تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ" قرآنِ پاک کی ان دس شہادتوں کے بعد وحی غیرمتلو کی شہادت اب آنحضرت  کی زبانِ مبارک سے آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔

وحی حدیث پر آنحضرتﷺ کی شہادت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی باتیں بتاتے ہوئے بارہا ایسی وحی کا ذکر فرمایا ہے جو ہمیں قرآن کریم میں نہیں ملتی، اس قسم کی روایات اس کثرت سے ملتی ہیں کہ ان کی قدر مشترک تواتر کے درجے میں ہے اور قطعیت کا فائدہ بخشتی ہے اوریہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالی آپ کے قلب اطہر پر وہ وحی بھی اتارتے تھے،جو باقاعدہ تلاوت کا درجہ نہ پاتی تھی اوراس کے باوجود وہ وحی خداوندی ہی سمجھی جاتی تھی وہ الفاظ میں ہمارے سامنے نہیں آئی، اس وحی کو وحی غیر متلو Unwarded revelation کہتے ہیں قرونِ ثلثہ جن کے خیر ہونے کی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، ان میں کسی ممتاز علمی شخصیت نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و شریعت کے طورپر بات کہی اوراس میں وحی والہام Divine ispiration  کا دخل نہ تھا،بلکہ ہر ایک کا عقیدہ یہی رہا کہ اس میں وحی کا عنصر ضرور شامل ہے،قرآنی وحی وحی متلو ہے اور حدیث نبوی وحی غیر متلو اورہر دو کا مصدر ومنبع اللہ رب العزت کی ذات ہی ہے۔
حدیث کی تقریبا ًہر کتاب میں اس پر واضح شہادتیں موجود ہیں، یہ روایات اور شہادات اتنے مختلف ابواب اورمختلف وقائع کے ذیل میں ملتی ہیں کہ انہیں کسی سازش یا کسی وضع انسانی کا نتیجہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ چند انسانوں نے کسی اسکیم کے تحت حدیث کے بارے میں یہ تصور پیدا کردیا ہو، ہر طبقہ فکر اور ہر فقہی مسلک کا اس پر متفق ہونا اور پھر ذخیرہ ٔحدیث میں اس پر لاتعداد شواہد ملنا اس اصولی نظریئے کی قطعیت کا پتہ دیتا ہے اورتو اور شیعہ محدثین جو جمہور اہل اسلام سے بالکل ہی علیحدہ راہ پر چلے ان کے ہاں بھی بے شمار روایات اس قسم کی ملتی ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتاری اور وہ وحی غیر متلورہی اوراب اسے وحی حدیث کہتے ہیں باوجود اتنے اصولی اختلافات کے اس ایک نقطہ پر ایک رائے ہونا اس موضوع کی اصولی اور قطعی حیثیت کا پتہ دیتا ہے اس وقت اس قسم کی روایات کے استقصاء کی تو گنجائش نہیں؛ البتہ چند نظائر یہاں پیش کی جاتی ہیں، ان میں وہ احادیث بھی ہوں گی جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انہی احادیث کے لیے وحی وانباء کے الفاظ استعمال کئے ہیں ان میں بعض میں جبرئیل امین کے آنے کی بھی تصریح ہے، بعض میں ان کے لیے امر الہٰی اور امر ربی جیسی تعبیرات ہیں اور کہیں کہیں ان کا براہ راست اللہ رب العزت کے نام سے مذکور ہونا اس وحی خدا وندی کا پتہ دے رہا ہے، اسے ہم وحی غیر متلو کہتے ہیں جس کی تلاوت الفاظ کی پابندی سے امت میں جاری نہ ہوئی، اس بات کے ثبوت میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی غیر متلو بھی ہوتی رہی ائمہ اربعہ، جملہ اکابر محدثین، ائمہ تفسیر اور فقہائے کرام کا اتفاق ہے،بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ بات اسلام میں متواتر طور سے ثابت ہے گو تو اتر قدر مشترک کے درجہ میں ہو، اب ہم اس پر چند شواہد پیش کرتے ہیں۔

امام اعظم ابوحنیفہؒ (۱۵۰ھ) کی شہادت

"عن أبي حنيفة،  عن طاوس،  عن ابن عباس أو غيره من أصحاب النبي    قال  أوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يسجد على سبعة أعظم"۔

(مسند امام حنیفہ،باب اوحی الی رسول اللہ  ،حدیث نمبر:۱۶۹)

ترجمہ: حضرت ابن عباسؓ اورکسی اورصحابی سے مروی ہے کہ حضور   پر وحی کی گئی کہ آپ سجدہ کریں سات ہڈیوں پر۔

یہ وحی قرآن کریم میں موجود نہیں۔

امام مالکؒ (۱۷۹ھ) کی شہادت

"أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّانَجِدُ صَلَاةَ الْخَوْفِ وَصَلَاةَ الْحَضَرِ فِي الْقُرْآنِ وَلَانَجِدُ صَلَاةَ السَّفَرِ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ يَاابْنَ أَخِي إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا  وَلَانَعْلَمُ شَيْئًا فَإِنَّمَا نَفْعَلُ كَمَا رَأَيْنَاهُ يَفْعَلُ ....  عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ   أَنَّهَاقَالَتْ فُرِضَتْ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ وَزِيدَ فِي صَلَاةِ الْحَضَرِ"۔

(موطا امام مالک،باب قصر الصلاۃ فی السفر،حدیث نمبر:۳۰۳،۳۰۴)

ترجمہ:آل خالد بن اسید میں سے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا، ہم صلوٰۃ الخوف اورصلوٰۃ الحضر کا ذکر تو قرآن کریم میں دیکھتے ہیں؛ لیکن صلوٰۃ السفر کا کہیں ذکر نہیں پاتے، آپ نے فرمایا: ہم تو کچھ نہ جانتے تھے، ہم تو وہی کچھ کرتے ہیں جو ہم نے حضور   کو کرتے دیکھا، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں پہلے نماز حضر و سفر میں دو دو رکعت ہی فرض ہوئی تھی، پھر سفر کی نماز تو وہی رہی اورحضر کی نماز بڑھادی گئی۔

 ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضرت عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ جیسے اکابر اصحاب رسول حضور   کے عمل کو وحی خداوندی ہی سمجھتے تھے۔

امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) کی شہادت

ابن جریج کہتے ہیں کہ ابن طاؤس سے مروی ہے کہ ان کے باپ کے پاس عقول کے موضوع پر ایک کتاب تھی،جو حضور   پر وحی کے طورپر نازل ہوئی تھی اس میں صدقہ و عقول کا بیان تھا۔

"عن ابن طاوس،  عن أبيه،  أن عنده كتابا من العقول  نزل به الوحي، وما فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم من صدقة وعقول فإنما نزل به الوحي،  وقيل : لم يبين رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا قط إلا بوحي من الله،  فمن الوحي ما يتلى،  ومنه ما يكون وحيا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيستن به"۔

(مسند امام شافعی،باب ان عندہ کتاب العقول نزل بہ،حدیث نمبر:۱۱۸۵)

ترجمہ:ابنِ طاؤس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے پاس عقول کے بارے میں ایک کتاب تھی جووحی کے طور پر اُتری تھی، آنحضرت   نے جوصدقات یابدلے کی رقوم فرض ٹھہرائیں وہ سب وحی سے تھا اور یہ بات کہی گئی ہے کہ حضور   نے کوئی بات بھی وحی الہٰی کے بغیر بیان نہیں فرمائی سووہ بھی وحی ہے، جوحضور   کی سنت کی صورت اختیار کرتی رہی ہے۔

امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) کی شہادت

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْوِيهِ عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّهُ قَالَ أَنَا خَيْرُ الشُّرَكَاءِ فَمَنْ عَمِلَ عَمَلًا فَأَشْرَكَ فِيهِ غَيْرِي فَأَنَا بَرِيءٌ مِنْهُ"۔

(مسند احمد،باب مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:۷۶۵۸)

ترجمہ: ابو ہریرہؓ سے مروی ہے نبی کریم   اپنے رب عزوجل سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے فرمایا میں سب سے زیادہ بہتر شریک ہوں(جسے اپنے عمل میں شریک کیا جاسکتا ہے) سو جس نے کوئی کام کیا اور اس میں میرے سوا کسی اور کو شامل کیا تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِي الْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي"۔

(مسند احمد،باب مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:۸۱۰۱)

ترجمہ: ابو ہریرہؓ سے مروی ہے وہ کہتےہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالی کہیں گے :کہاں ہیں وہ جو میرے جلال پر شیدا تھے،آج میں ان کو اپنے سایہ (رحمت) میں جگہ دوں گا، جب کہ میرے سایہ(رحمت) کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ كَذَّبَنِي عَبْدِي وَلَمْ يَكُنْ لَهُ لِيُكَذِّبَنِي"۔               

(مسند احمد،باب مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:۸۲۵۶)

ترجمہ: ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا، مجھے میرے بندے نے جھٹلادیا اوراسے اس کا حق نہ تھا کہ میری بات جھٹلائے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی غیر متلو کی آمد میں صرف وحی کے الفاظ ہی نہیں ملتے، کئی روایات میں جبرئیل امین کی آمد بھی صریح طور پر مذکور ہے،اس قسم کی روایات بھی درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں اورتقریبا ًہر مجتہد اورمحدث کے ہاں اس کی شہادتیں ملتی ہیں اور یہ بات انتہائی پختہ اورصحیح ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی غیر متلو(وحی حدیث) بھی لاتے رہے، اس پر ہم چند شہادتیں پیش کرتے ہیں۔

وحی غیر متلو میں حضرت جبرئیل امین کی آمد




آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی غیر متلو کی آمد میں صرف وحی کے الفاظ ہی نہیں ملتے، کئی روایات میں جبرئیل امین کی آمد بھی صریح طور پر مذکور ہے،اس قسم کی روایات بھی درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں اورتقریبا ًہر مجتہد اورمحدث کے ہاں اس کی شہادتیں ملتی ہیں اور یہ بات انتہائی پختہ اورصحیح ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی غیر متلو(وحی حدیث) بھی لاتے رہے، اس پر ہم چند شہادتیں پیش کرتے ہیں۔

امام ابو حنیفہؒ (۱۵۰ھ) کی شہادت

"عن عبد اللہ بن مسعودؓ قال جاء جبريل إلى النبي   في صورة شاب عليه ثياب بياض فقال السلام عليك يارسول الله قال رسول الله  وعليك السلام..... فقال ذلک جبریل علیہ السلام جاءکم یعلمکم معالم دینکم"۔

(مسند امام اعظم ابی حنیفہ:۳۲)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل ایک جوان مرد کی صورت میں حاضر ہوئے اور کہا السلام علیک یا رسول اللہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،وعلیک السلام (اورتجھ پر بھی سلام ہو)..... حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبرئیل تھے جو تمہارے پاس اس لیے آئے تھے کہ تمھیں دین کے معالم (ضروری نشانوں کی ) تعلیم دیں۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کردہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وحی غیر متلو میں بھی حضرت جبریل کی آمد ہوتی تھی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی حدیث بھی حضرت جبریل ہی لاتے تھے اورآ پ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر یہ وحی لے کر اتر تے تھے؛ یہی وحی پھر سنت کی صورت میں پھیلتی تھی۔
اسی طرح کی اور بھی بہت ساری شہادتیں ہیں جو آپ مندرجہ ذیل کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

(موطا امام مالک:۲۲۴/۱۔ موطا امام مالک:۱۷۳۔ موطا امام محمد:۱۹۸۔ مسند الشافعی:۱۲۳۔ موطا امام محمد:۳۹۱۔ مسندالشافعی:۷۱)

نیزذخیرۂ احادیث میں ایسی روایات بہت ہیں جن میں حضور   نے اللہ رب العزت کا نام لیکر کوئی بات کہی اور وہ بات ہم درجۂ تلاوت میں نہیںپاتے، اس غیرمتلو کلامِ الہٰی پرمحدثین رحمہم اللہ اجمعین کی بے شمار شہادتیں موجود ہیں، مثلاً:

"عن النبي صلى الله عليه و سلم قال إن الله يقول يا ابن آدم إنك إذا ذكرتني شكرتني وإذا نسيتني كفرتني  رواه الطبراني في الأوسط "۔

(الترغیب والترھیب،باب کتاب الذکر والدعاء،حدیث نمبر:۲۳۱۴)

ترجمہ :نبی کریم   سے مروی ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں: اے ابن آدم جب تونے مجھے یاد کیا تونے میرا شکر ادا کیا اورجب تو نے مجھے بھلادیا تو تونے ناشکری کی۔

ابن ابی شیبہ(۲۳۵ھ)، دارمی (۲۵۵ھ)، حافظ البزار (۲۹۲ھ)، ابو یعلیٰ (۳۰۷ھ)، حافظ ابو الشیخ (۳۶۹ھ)، ابن حبان (۳۵۴ھ)، حاکم (۴۰۵ھ)، البیہقی (۴۵۸ھ)، ابو نعیم اصفہانی (۴۳۰ھ) اور ابوالحسن رزین (۵۲۵ھ) کی ایسی روایات جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالی کا نام لے اس کی باتیں کہیں سینکڑوں تک پہنچی ہیں اور محدثین نے ایسی روایات کو ایسی کثرت اوراعتماد سے نقل کیا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ اللہ رب العزت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی متلو کے علاوہ بھی بارہا ہمکلام ہوئے؛ سو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کا نام لے کر کوئی دین کی بات بتائیں یا اس کا نام لیے بغیر کوئی دینی ارشاد فرمائیں، یاکوئی حقیقت کھولیں، کوئی امرارشاد فرمائیں یا نہی،آپ کی ہر بات کا مبدا فیض اللہ رب العزت کی ذات ہے اوروہی منبع فیض ہے، جس سے رشد رسالت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔

ایک اہم سوال اوراس کا جواب

اس وحی غیر متلو میں کیا او امرونواہی کا سلسلہ بھی تھا یا ان میں فقط دین کی اسرا رورموز اورقرآن کریم کی تائید و تفصیل ہی کی اشاعت رہی؟ جواب اثبات میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی اسی وحی غیر متلو سے بھی تر تیب پاتے تھے،وحی غیر متلو کے لیے کئی جگہ امرنی ربی (مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے) وغیرہ کے الفاظ ملتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ حکم خدا حکم خدا ہے؛ خواہ اس کی تلاوت جاری ہو،خواہ اس کا فقط حکم چلے۔

امرنی ربی وغیرہ کے الفاظ

(۱)"عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ فِي خُطْبَتِهِ أَلَا إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِي يَوْمِي هَذَا"۔

(صحیح مسلم،باب الصفات التی یعرف بھا فی الدنیا،حدیث نمبر:۵۱۰۹)

ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا،مطلع رہو مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس بات کی خبر دوں جس سے تم ناواقف تھے، مجھے آج میرے رب نے وہ باتیں بتائی ہیں۔

(۲)"عَنْ أَنَسٍ يَعْنِي ابْنَ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَأَدْخَلَهُ تَحْتَ حَنَكِهِ فَخَلَّلَ بِهِ لِحْيَتَهُ وَقَالَ هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي "۔

(سنن ابی داود،باب تخلیل اللحیۃ،حدیث نمبر:۱۲۴)

ترجمہ: حضور جب وضو فرماتے تو پانی کا ایک چلو لیتے، اسے اپنی ٹھوڑی کے نیچے لاکر اس سے ڈاڑھی کا خلال کرتے،آپ نے فرمایا: مجھے اس طرح کرنے کا میرے رب نے حکم دیا ہے۔

(۳)"عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ بِمَحْقِ الْمَعَازِفِ وَالْمَزَامِيرِ وَالْأَوْثَانِ وَالصُّلُبِ وَأَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ"۔

(مسنداحمد،باب حدیث ابی امامۃ الباھلی الصدی،حدیث نمبر:۲۱۲۷۵)

ترجمہ: مجھے میرے رب نے گانے بجانے کی چیزوں،آلات ساز، بتوں،صلیبوں اورجاہلیت کی باتوں کو مٹانے کا حکم دیا ہے۔

اور بھی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ اللہ رب العزت وحی متلو (قرآن کریم) کے علاوہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمکلام ہوئے،آپ نے خدا وند تعالی سے صرف قرآن کریم ہی نقل نہیں کیا، آپ نے خدا تعالی کی طرف سے بہت سی احادیث بھی بیان کیں،آپ خود ارشاد فرماتے ہیں:

"إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ اللَّهِ شَيْئًا فَخُذُوا بِهِ فَإِنِّي لَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"۔

(مسلم،باب وجب امتثال ما قالہ شرعادون،حدیث نمبر:۴۳۵۶)

ترجمہ: جب میں تمہارے سامنے خدا سے کوئی بات (حدیث) نقل کروں تو اسے لے لیا کرو، میں خدائے عزوجل پر کوئی غلط بات نہیں کہتا۔

آپ کو طبعاً اگر کوئی چیز ناپسند ہوئی آپ نے اس سے اجتناب فرمایا تو صاف کہا میرا یہ طبعی تقاضاہے خدا کے دین میں یہ حرام نہیں ہے،آپ نے ارشاد فرمایا

"أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَيْسَ بِي تَحْرِيمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لِي وَلَكِنَّهَا شَجَرَةٌ أَكْرَهُ رِيحَهَااوکما قال"۔

(صحیح مسلم،باب نھی من اکل ثوما اوبصلا ،حدیث نمبر:۸۷۷)

ترجمہ :اے لوگو!مجھے اس چیز کے حرام کرنے کا اختیار نہیں جسے اللہ نے حلال کیا ہے لیکن یہ ایک ایسی سبزی ہے جس کی بو مجھے ناپسند ہے (اس لیے میں اسے نہیں کھاتا)۔

اس حدیث میں آپ نے خدا کی بات لفظ حدیث (حدثتکم) سے نقل کی ہے؛ سو اس میں کوئی شک نہیں کی حدیث کا مبدا بھی اللہ رب العزت ہیں اور اس سے حضور   کی زبان اور عمل پر یہ فیضان جاری ہوا ہے۔



اخبارالحدیث



حدیث کا منبع و مصدر

قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اوراس کا منبع ومصدر ذات الہٰی ہے، حدیث شریف وحی متلو(جس کی پہلے سے تلاوت ہوئی ہو) تونہیں؛ لیکن یہ بات اپنی جگہ صحیح اور قطعی ہے کہ اس کا منبع و مصدر بھی اللہ رب العزت ہی کی ذات ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ ارشادات میں القاءربانی (Divine Revelation)  کار فرما رہا ہے اورآپ   جب بھی دین کی کوئی بات کہتے وہ خدا کی طرف سے ہی تھی،وحی متلو (قرآن پاک) ہو یا وحی غیر متلو(حدیث شریف) دونوں خدا کی طرف سے ہیں اوراللہ ہی کے اذن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نطق و عمل وجود پاتا رہا، دین کے باب میں آپ جو کچھ فرماتے یا کرتے اس کے پیچھے ہدایت ربانی اور نور آسمانی کار فرما رہتے اور وہی روشنی آپ کے بعد قیامت تک کے لیے جملہ انسانی قافلوں کی رہنماہے، نبوت ملنی ختم ہوچکی ہے اور نزول جبریل بہ پیرایہ رسالت ہمیشہ کے لیے بند ہے۔

نبی کے لفظی معنی

نبی، نَبْوَۃ، نَبَاوَۃ اور نُبُوَّۃ سے مشتق ہے جس کے معنی بلند و بالا کے ہیں،نبی قوم میں سے سب سے اونچے درجے کا فرد ہوتا ہے، درجہ و مقام اور عظمت و شان میں کوئی اس کے برابر نہیں ہوتا، اس لیے اسے نبی کہتے ہیں، البتہ اسے نبی ء کہا جائے تو یہ نباء (بمعنی خبر) سے مشتق ہوگا یعنی خبریں پانے والا، سو جو شخص خدا تعالی کی طرف سے خبریں پائے اوران خبروں میں قطع و یقین ہو، ظن و تخمین نہ ہو تو اس خبر یافتہ کو نبی (مہموز اللام) کہیں گے،ملا علی قاریؒ کی رائے میں نبی کو ہمزہ سے بولنا زیادہ اچھا ہے، لانہ مخبر من جھۃ اللہ تعالی بمالا یخبر بہ غریہ، کیونکہ نبی کو حق تعالی کی جانب سے ان چیزوں کی خبر دیجاتی ہے جن کی خبر اوروں کو نہیں دیجاتی،بعض روایات میں اس کے مہموز ہونے پر انکار ہے، سو پہلے معنی زیادہ مناسب ہیں ۔

انبیاء ؑکی خبروں میں سچائی کا پہلو

جملہ انبیاء کرام اللہ تعالی سے حسب ضرورت ومصلحت غیب کی خبریں پاتے رہے اور یہ وہ خبریں ہوتی تھیں جن تک عام انسانی حواس رسائی نہ پاسکتے تھے اور بیشک یہ وہ بات ہے جس میں نبی دوسرے انسانوں سے ممتاز ہوتا ہے اوراس میں نبوت کا اعجاز ہے،دیگر خصائص اس کے علاوہ ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبی اسرائیل کے سامنے چند عملی معجزے دکھائے تو غیبی خبریں دینے کا یہ علمی معجزہ بھی پیش کیا۔

"وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ"۔

(آل عمران:۴۹)

اور میں بتلادیتا ہوں تمہیں جو تم کھا کر آتے ہو اورجو اپنے گھروں میں رکھ آتے ہو، اس میں تمہارے لیے ( میرے خدا کی طرف سے ہونے کا پورا نشان ہے اگر تم یقین رکھتے ہو۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:

یعنی بعض مغیبات ماضیہ و مستقبلہ پر تم کو مطلع کرتا ہوں عملی معجزات کے بعد ایک علمی معجزہ کا ذکر کردیا۔       

                           (تفسیرعثمانی:۷۳)

انبیاء کرام کو غیبی خبروں سے نوازنا ہمیشہ سے سنت الہٰی رہی ہے، نبوت کا اعجاز ہے کہ نبی غائبات کی یقینی خبردیں اوروہ بالکل اسی طرح واقع ہو جیسا کہ انہوں نے بتایا ہو، امام مالکؒ نے موطا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی اس قسم کا دعویٰ کیا ہے کہ آپ نے جس بات کی خبر دی واقعہ اسی کے مطابق ظہور میں آیا۔

"بَابُ مَااکَرَْمَہُ اللہُ تَعَالٰی بِاَخْبَارِ الْمُغِیْبَاتِ فَکَان کَمَااَخْبَرَ"۔

(یہ عبارت مؤطا کے جونسخے ہمارے پاس ہے اس میں نہیں ملی)

یہ باب اس بارے میں ہے کہ اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غیبی خبروں سے عزت بخشی اور واقعہ اسی طرح ہوا جس طرح اس کے ہونے کی آپ   نے خبردی تھی۔

پھر امام مالکؒ نے اس میں احادیث پیش کی ہیں اور بتایا ہے کہ آپ   نے جو کچھ فرمایا تھا واقعات نے ان کی عملی تصدیق کردی، انبیاء کی خبروں میں سچائی کا ہونا ساری امت میں مجمع علیہ ہے، محدثِ شہیر حضرت مولانا انورشاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں:

"والحاصل أن الأمة إذاأجمعتْ على صِدق أخبار الأنبياء عليهم السلام، فخلافُه بنوعٍ من الحيل، والتمسك بالمحتَمَلات كفرٌ بحتٌ"۔

(فیض الباری،باب فیض الباری شرح صحیح البخاری:۴/۱۴۲)

حاصل یہ ہے کہ جب تمام امت انبیاء کی خبروں کی سچائی اوراجماع کرچکی ہے تو اس کا خلاف کسی نوعیت سے ہو کسی حیلہ سے اور کسی احتمال سے تمسک کرتے ہوئےہوایک واضح کفر ہے۔


علم غیب اور اظہار غیب میں فرق

عالم الغیب صرف خدا کی ذات ہے وہ اپنے غیب کا اظہار قطعی درجے میں اپنے رسولوں پر ہی کرتے ہیں، وہ اظہار غیب سے سرفراز ہوتے ہیں، یہ علم غیب نہیں اظہار غیب ہوتا ہے،عالم الغیب صرف خدا کی ذات ہے، علم غیب اسی کے پاس ہے اور وہی اپنے مقربین پر غیب ظاہر فرماتا ہے:

"عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا،  إِلَّامَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ"۔  

    (الجن:۲۶،۲۷)

ترجمہ:جاننے والا بھید کا سو نہیں خبر دیتا اپنے بھید کی کسی کو مگر جو پسند کرلیا کسی رسول کو۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ بھی لکھتے ہیں:

"پس مطلع نمی کند بر غیب خاص خود ہچکس رامگر کسے راکہ پسندمے کند وآں کس رسول باشد خواہ از جنس ملک و خواہ از جنس بشر مثل حضرت محمد مصطفیٰ علیہ السلام اورا اظہار بعضے از غیوب خاصہ خود مے فرماید"۔                           

(تفسیر عزیزی، پارہ:۲۹، صفحہ:۱۷۳)

ترجمہ:پس حق تعالی شانہ اپنے غیب خاص پر اپنے پسندیدہ بندوں کے سوا کسی کو مطلع نہیں فرماتا اور وہ پسندیدہ بندے اس کے رسول ہیں،خواہ جنس ملائک سے ہوں خواہ جنس بشرسے،جیسا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اللہ تعالی اپنے ان خاص بندوں پر بعض مغیباتِ خاصہ ظاہر فرماتے ہیں۔

حضرت مولانا انورشاہ صاحب کشمیریؒ فرماتے ہیں کہ یہ استثناء منقطع ہے اور"من ارتضیٰ من رسول" سے لے کر سارا جملہ مستثنیٰ ہے:

"والمعنى: أن الاطِّلاعَ بهذه الصفة يَخْتَصُّ بالأنبياء عليهم السَّلام، والمرادُ منها القطع، فالاطِّلاعُ على سبيل القطع من خواص الأنبياء"۔

(باب فیض الباری شرح صحیح البخاری:۳۷۵/۷)

خلاصہ یہ ہے کہ بایں طور اطلاع حضرات انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہے اوراس سے مراد قطع و یقین ہے؛ پس! یقینی اطلاع خواص انبیاء میں سے ہی ہوگی۔

علم غیب خود جاننے ہی کو کہتے ہیں

مخلوق پر کوئی غیب کی بات کھلے تو کوئی عاقل اسے علم غیب نہیں کہتا، اسے اس کے سبب نسبت کرتے ہیں، ہرشخص یہی سمجھے گا کہ خدا کے بتلانے سے ایسا ہوا ہے، علم غیب اپنے علم کو کہتے ہیں جو بات عالم بالا سے لوح قلب پر اترے اسے علم غیب نہیں کہتے، وہ اس کا محض ایک عکس ہوتا ہے، حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

وجدان صریح بتلاتا ہے کہ بندہ کتنی روحانی ترقی کیوں نہ کرجائے بندہ ہی رہتا ہے اور رب اپنے بندوں کے کتنا قریب کیوں نہ ہوجائے وہ رب ہی رہے گا، بندہ واجب الوجود کی صفات یا وجوب کی صفات لازمہ سے کبھی متصف نہیں ہوتا، علم غیب وہ جانتا ہے جو از خود ہوکسی دوسرے کے بتلانے سے نہ ہو؛ ورنہ انبیاء واولیاء یقیناً ایسی بہت سی باتیں جانتے ہیں جو دوسرے عام لوگوں کی رسائی  میں نہ ہوں۔

(تفہیماتِ الہٰیہ:۱/۲۴۵)

پتہ چلا کہ غیب کی بات معلوم ہونے میں اگر کوئی اس کا بتلانے والا ہو تو اسے علم غیب نہیں کہتے نہ علم غیب کی کوئی عطائی قسم ہے؛ بلکہ اسے خبر غیب کہا جائے گا،اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے ارشاد فرماتے ہیں:

"ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ  "۔               

(آل عمران:۴۴)

ترجمہ:یہ خبریں ہیں غیب کی ہم بھیجتے ہیں تیرے پاس۔

جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی صرف خبر غیب ہے علم غیب نہیں تو اور کون ہے جو علم غیب کا دعویٰ کرے،علم غیب صرف خدا کیلیےہے جو ہر بات کو خود جانے، اس تفصیل سے علم غیب کے معنی معلوم ہوگئے کہ وہ اپنے طور پر کسی غیب کی بات کو جانتا ہے؛ سو کسی مخلوق کے لیے خواہ پیغمبر ہو یا کوئی فرشتہ یا کوئی جن علم غیب کا دعویٰ بالکل غلط ہوگا، علم کا لفظ جب غیب کی طرف مضاف ہو تو یہ اسی علم کے لیے آتا ہے جو اپنا ہو کسی کا عطا کردہ نہ ہو، حضرت علامہ ابن عابدینؒ الشامی لکھتے ہیں:

بیشک انبیاء واولیا کا علم خدا تعالی کے بتلانے سے ہوتا ہے اورہمیں جو علم ہوتا ہے وہ انبیاء و اولیا کے بتلانے سے ہوتا ہے اور یہ علم اس علم خداوندی سے مختلف ہے جس کے ساتھ صرف ذات باری تعالی متصف ہے،خدا تعالی کا علم اس کی ان صفات قدیمہ ازلیہ دائمہ و ابدیہ میں سے ایک صفت ہے جو تغیر اور علامات حدوث سے منزہ ہے اورکسی کی شرکت اور نقصِ انقسام سے بھی پاک ہے وہ علم واحد ہے جس سے خدا تعالی تمام معلومات کلیہ و جزئیہ ماضیہ و مستقبلہ کو جانتا ہے، نہ وہ بدیہی ہے نہ نظری اورنہ حادث،بخلاف تمام مخلوق کے علم کے کہ وہ بدیہی و نظری اورحادث ہے، جب یہ بات ثابت ہوگئی تو خدا تعالی کا علم مذکور جس کے ساتھ وہ لائق ستائش ہے اور جس کی مذکورہ دو آیتوں میں خبر دی گئی ہے ایسا ہے کہ اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں،سو غیب صرف خدا تعالی ہی جانتا ہے، خدا تعالی کے علاوہ اگر بعض حضرات نے غیبی باتیں جانیں تو وہ خدا تعالی کے بتلانے اوراطلاع دینے سے جانیں۔

(مجموعہ رسالہ ابن عابدین شامیؒ،۲، ۳۱۳، ان اللہ سبحانہ تعالی منفرد بعلم الغیب المطلق وانما یطلع رسلہ علی بعض غیبہ المتعلقۃ بالرسالۃ اطلا عاجلیا واضحالاشک فیہ بالوحی الصریح:۳۱۴)

اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ علم غیب رکھتے ہیں؛ کیونکہ یہ ان کی کوئی ایسی صفت نہیں جس سے وہ مستقل طور پر کسی چیز کوجان لیا کریں اور یہ بات بھی ہے کہ انہوں نے اسے خود نہیں جانا؛ بلکہ انہیں یہ باتیں بتلائی گئی ہیں۔
علامہ شامی کے اس بیان کے بعد کسی اور وضاحت کی ضرورت نہیں رہ جاتی، فقہاء کی بات آپ کے سامنے آچکی، اب آئیے کتب عقائد میں دیکھئے: "شرح عقائد نسفی" کی مشہور شرح"النبر اس" میں ہے:

اورتحقیق یہ ہے کہ غیب وہ ہے جو ہمارے حواس اورعلم بدیہی اورنظری سے غائب ہو،بیشک قرآن نے اللہ تعالی کے علاوہ سب سے اس علم غیب کی نفی کی ہے، پس جو دعویٰ کرے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے تو وہ کافر ہوجائیگا اور جوایسے شخص کی تصدیق کرے وہ بھی کافر ہوجائے گا باقی جو علم حواس خمسہ میں سے کسی حاسہ (دیکھ کر یا سن کر یا چھو کر یا سونگھ کر یا چکھ کر) یا ہدایت سے یا کسی دلیل سے حاصل ہو وہ غیب نہیں کہلاتا اور نہ محققین کے نزدیک ایسے علم کا دعویٰ کرنا کفر ہے اور نہ ایسے دعویٰ کی (یقینی امور میں یقین کے ساتھ اورظنی امور میں ظن کے ساتھ) تصدیق کرنا کفر ہے، اس تحقیق سے ان امور سے متعلق اشکال رفع ہوگیا جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ علم غیب میں سے ہیں؛ حالانکہ وہ علم غیب میں سے نہیں، اس لیے کہ وہ سمع وبصر یا دلیل سے حاصل ہوئے ہیں،انہی امور میں سے اخبار انبیاء بھی ہیں، انبیاء علیہم السلام کی خبر یں وحی سے مستفاد ہوتی ہیں یا نبیوں میں علم ضروری پیدا کردیا جاتا ہے یا ان کے حواس پر حقائق کائنات کا انکشاف ہوتا ہے۔    

(النبراس علی شرح العقائد:۵۷۴)

معلوم ہوا کہ انبیاء کرام اور اولیاء عظام سے جو بھی خبریں منقول ہیں وہ سب اللہ کے بتلانے سے تھیں اور یہ بھی نہ تھا کہ اللہ تعالی اپنے کسی مقرب بندے پر ایک ہی دفعہ غیب کے جملہ دروازے کھول دے کہ آئندہ اسے غیب کی بات جاننے میں کسی ذریعہ علم کا احتیاج نہ رہے ؛بلکہ مختلف موقعوں پرحسب ضرورت اور بتقاضائے مصلحت انہیں کچھ نہ کچھ اطلاع بخشی جاتی تھی،خود حضور   ہی کودیکھئے تئیس ۲۳/ سال میں وحی قرآن "نجماً نجماً" اترتی رہی اوراس طرح وحی قرآنی کی تکمیل فرمائی گئی بالتدریج یہ سلسلہ وحی جاری رہا۔



کشف سے بھی غیبی امور کھلتے ہیں

پھر ایسے غیوب بھی تھے جن پر وحی کے ذریعہ نہیں کشف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع بخشی گئی، غزوہ موتہ میں اپنے تین جرنیلوں کی شہادت آپ   نے کشف میں ہی دیکھی اورصحابہؓ کو اس کی اطلاع دیدی اورفوج ظفر موج کے واپس آنے پر پھراس کی عملی تصدیق بھی ہوگئی، صحیح بخاری میں آپ کا یہ اطلاع دینا بڑی صراحت سے مذکور ہے، کشف کی یہ صورت صرف انبیاء سے ہی خاص نہ تھی مختلف اولیاء کو بھی کشف رحمانی سے نوازا گیا، حجۃ الاسلام امام غزالیؒ (م ۵۰۵ھ) فرماتے ہیں:
اور یہ کشف حضرات صحابہؓ وتابعینؓ اوران کے بعد کے لوگوں میں بھی ہوا ہے، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہؓ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تیرے دو بھائی اوردو بہنیں ہیں اور حال یہ تھا کہ اس وقت آپ کی بیوی حاملہ تھی (بعد میں ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی) آپ کو قبل از ولادت علم ہوگیا کہ بیٹی پیدا ہوگی، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ فرمایا اے ساریہ پہاڑ کی طرف توجہ کر جب آپ پر منکشف ہوا کہ دشمن حملہ آور ہے تو آپ نے حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کوڈرایا؛ کیونکہ آپ جان چکے تھے پھر آپ کی آواز کا حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ تک پہنچ جانا آپکی کرامات عظیمہ میں سے ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور   کے بعد وحی ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں؛ لیکن بصیرت، فراست صادقہ اوربرھان رہےگی۔                 

(احیاء علوم الدین:۳/۲۳،۲۴)



غیب کی ہر اطلاع تعلیم الہٰی سے ہی ہوگی


اس میں کلام نہیں کہ اللہ تعالی اپنے مقربین کو وہ انبیاء کرام ہوں یا اولیاء عظام وحی، الہام یاکشف سے غیبی امور پر اطلاع بخشتے ہیں، کوئی ان میں سے کسی غیبی بات کو از خود نہیں جان سکتا نہ کسی کے پاس غیب جاننے کی کوئی کنجی ہے کہ جب چاہے از خود غیب کی بات جان لے۔
تعلیم الہٰی جملہ مواقع ضرورت میں کارفرمارہتی ہے، مولانا اسمعیل حقی نے بجا لکھا ہے۔

"وماروي عن الأنبياء والأولياء من الأخبار عن الغيوب فبتعليم الله تعالى إمابطريق الوحي أوبطريق الإلهام والكشف"۔

(تفسیر روح البیان،باب سورۃ لقمان:۷۹/۷)

ترجمہ:انبیاء کرام واولیا عظام سے جو بعض غیبی خبریں مروی ہیں خدا تعالی ان کی وحی یا الہام یا کشف کے ذریعہ تعلیم فرماتے ہیں۔



حضور پیغمبرﷺکی اخبار غیبیہ

جب جملہ انبیاء کرام اور اولیا اللہ خبر خداوندی سے ہزاروں غیوب پر اطلاع پاتے رہے تو ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پیغمبروں اورولیوں کے سردار ہیں،اللہ تعالی نے لاکھوں کروڑوں غیوب پر اطلاع  دی ، اس باب میں علماء دیوبند کا عقیدہ خصوصیت سے لائق توجہ ہے، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ (م ۱۲۹۷ھ) ایک مقام پر لکھتے ہیں:

رسول اللہ   کا یہ ارشاد کہ" علمت علم الاولین والآخرین"بشرط فہم اسی جانب مشیر ہے شرح اس معمہ کی یہ ہے کہ اس ارشاد سے ہر خاص و عام کو یہ بات واضح ہے کہ علوم اولین مثلا اور ہیں اور علوم آخرین اور؛ لیکن یہ سب علوم رسول اللہ  میں مجتمع ہیں، سو جیسے علم سمع اور ہے علم بصر اور، پر بایں ہمہ قوت عاقلہ اور نفس ناطقہ میں یہ سب علوم مجتمع ہیں، ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی انبیاء کو سمجھئے۔                       

(تحذیر الناس:۶)

رئیس المحدثین امام ا لعصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے بھی فرمایا:

"فاعلم أنَّ الله سبحانه منّ على نبيه صلى الله عليه وسلّم بأَلْف أَلْف غُيوب، لا يدري قَدْرَها إلاَّ هو"۔

(فیض الباری شرح صحیح البخاری:۴/۲۵۸)

ترجمہ:سوجان لو کہ اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر لاکھوں کروڑوں مغیبات ظاہر کرکے احسان فرمایا جن کی صحیح تعداد اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

اور فرماتے ہیں کہ کسی پیغمبر کو اتنے علوم نہ بخشے گئے جتنے آپ  کو عطا فرمائے گئے اوریہ کہ آپ کا علم مبارک اولین وآخرین سے زائد اورفائق تھا۔

"أن النبيَّ صلى الله عليه وسلّم قد بلغ من عِلْمه مبلغًا لم يَبْلُغْه نبيُّ"۔

(فیض الباری شرح صحیح البخاری، حدیث نمبر:۳۰۵۷، شاملہ،القسم:شروح الحدیث)

حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی سابق نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند اپنے ایک قصیدہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھتےہیں                 ؎
کم غیوبا بعدہ انبأ بھا
تحتوی البشریٰ وانباء الوھل

(لامیۃ المعجزات)

متعدد اخبار غیبہ ہیں جن کی خبر آپ نے دی اوروہ آپ کے بعد ظہور پذیر ہوئیں، یہ بشارت اورخوفناک باتوں ہر دو طرح کی باتوں پر مشتمل تھیں۔
شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"اکوان غیبہ کی کلیات واصول کا علم حق تعالی نے اپنے ساتھ مختص رکھا، ہاں جزئیات منتشرہ پربہت سے لوگوں کو حسب تعداد اطلاع دی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سےبھی اتنا وافر اور عظیم الشان حصہ ملا جس کا کوئی اندازہ نہیں ہوسکتا"۔          

(تفسیرعثمانی اوا خرسورہ لقمان)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باعلام الہٰی جن غیبی امور کی خبردی واقعات نے ان خبروں کی عملی تصدیق کردی،جب خبر واقع کے بالکل مطابق نکلے تو اس سے یقین ہوجاتا ہے کہ ان خبروں  کے پیچھے بیشک اطلاع خداوندی کارفرما ہے ؛کیونکہ وہی ایک ذات ہے جو عالم الغیب ہے اورغیب کی چابیاں سب اسی کے پاس ہیں،قرآن حکیم میں ہے:

"وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ"۔

(الانعام:۵۹)

اوراللہ ہی کے پاس ہیں خزانے کے تمام مخفی اشیاء کے ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالی کے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ دریا میں ہے اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اورنہ کوئی تر اور خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین (لوح محفوظ) میں (مرقوم) ہے۔




جس پر غیب کھلے اس کا مقام


سواب جو شخص غیب کی خبریں بتلائے اور واقعات اس کی تصدیق کردیں تو یقین کیجئے کہ اس کے پیچھے علم غیب رکھنے والا (خدا تعالی) کارفرما ہے، جو وحی جلی سے یا وحی خفی سے یاکشف سے اسے غیب کی خبریں پہنچارہا ہے،اگراس میں تحدی ہے اپنی سچائی کا دعویٰ ہے تو اس میں نبوت کا پہلو کارفرما ہوگا، کسی ولی پر کوئی غیب کی بات کھلے تو اس کے ساتھ تحدی اور دعویٰ نہیں ہوتا۔


احادیث میں اخبار غیبیہ

ہم جب اس پہلو سے احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں اخبار غیبیہ کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ ہاتھ لگتا ہے اوران میں وہ روایات بھی ملتی ہیں جن میں غیبی خبریں لپٹی تھیں اور تاریخ نے ان کی تصدیق کردی، وہ سب باتیں اسی طرح پوری ہوئیں جس طرح ان کی قبل ازوقوع خبردی گئی تھی۔
سوحدیث اگر ایک عام انسانی رہنمائی ہوتی یا محض ایک دور کی تاریخ ہوتی کہ اس میں ایک مرکز ملت کچھ وقت کے لیے قرآنی ہدایت کو عملا ًنافذ کرےاور اس میں آسمانی رہنمائی اور حفاظت ربانی کا عنصر شامل نہ ہوتا تو احادیث میں وہ غیبی خبریں ہر گز نہ ہوتیں جن تک رسائی عام انسانی سطح سے بالا تھی، ایسی حدیثیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ حدیث ایک حجتِ خداوندی ہے، ایک وحی الہٰی ہے جو غیر متلوصورت میں ظہور میں آئی، آپ   نے جو کچھ فرمایا ہو کررہا اورجواب تک نہیں ہوا وہ بھی ہوکر رہے گا۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاعات غیبی صرف قرآنی وحی کے ذریعہ ہی نہ ملتی تھیں ؛بلکہ اس کے علاوہ وحی غیر متلو سے بھی آپ کے قلب مبارک پر اخبار غیبیہ کا القاہوتاتھا اور بہت سے امور مستقبلہ اپنی کسی نہ کسی شکل میں آپ   کے لوحۂ قلب پر انطباع پذیر ہوتے تھے، آپ ان اخبار و مشاہدات کی خبریں دیتے اورصحابہ کرامؓ کا یقین اورجاگ اٹھتا کہ حدیث کا منبع و مصدر بھی یقینا اللہ رب العزت کی ہی ذات ہے اور وہی عالم الغیب والشہادہ ہے جواپنے مقربین کو مختلف مواقع پر حسب ضرورت اوربمقتضائے مصلحت غیبی امور پر اطلاع بخشتا ہے۔
ذیل میں ان اخبار حدیث کا ذکر ہے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی آنے والے واقعہ کی خبردی اورپھر ایسا ہو کے رہا، اس قسم کی احادیث یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ آپ   کے پیچھے افاضہ الہٰی کار فرما ہے۔

اخبارِ غیبیہ کس طرح دلیل نبوت ہیں



اپنی طرف سے کوئی شخص غیبی خبر  وضع نہیں کرسکتا جو عملاً پوری ہوکر رہے، یہ صرف انبیاء کرام ؑ ہیں جن پر لاکھوں کروڑوں غیوب کھولے جاتے ہیں وہ پس پردہ کے واقعات کی خبردیتے ہیں اور وہ بات بالکل صحیح نکلتی ہے،مومن اسے دلیل نبوت سمجھتا ہے اورنادان اس سے انبیاء کو غیب دان سمجھنے لگتا ہے، مومن کی شان ہے کہ خبر غیب اور علم غیب میں ہمیشہ فرق کرتا ہے، انبیاء کی اخبار غیبیہ بھی تسلیم کرتا ہے اور عقیدہ توحید کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔

حدیث بیشک برحق ہے

خلاصۃ یہ کہ حدیث بے شک برحق ہے، تاریخ نبوت بتلاتی ہے کہ انبیاء کرام کے پیچھے افاضہ الہٰی پوری عصمت سے کارفرمارہا ہے، حدیثیں لوگوں نے فرضی بھی گھڑیں تو اللہ تعالی نے حدیث کی حفاظت کے لیے ایسے نقاد ائمہ فن پیدا کئے جنہوں نے ہر صحیح و سقیم کو پرکھا اور فن حدیث کو نکھار کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دکھلایا، خدا کا شکر ہے کہ آج علماء کے سامنے ذخیرہ حدیث اسی علمی حفاظت اورفنی صیانت کے ساتھ موجود ہے۔
قواعد حدیث مرتب ہیں، اسماء الرجال کے ذخیرے موجود ہیں، شروح لکھی جاچکی ہیں اور آج تک کسی قوم نے اپنے پیغمبر کے اقوال وافعال کے گرداخذوروایت اورفہم ودرایت کے وہ پہرے نہیں دیئے جن سے آج تاریخ اسلام بجا طورپر مالا مال ہے۔

غیب کی خبروں سے جزئیات مراد ہیں

انبیاء کرام جب کبھی کوئی غیب کی بات بتلادیں تو یہ سب اخبار جزئیات ہی ہوں گی، اخبار بالمغیبات سے جملہ مغیبات مراد نہیں۔
اللہ رب العزت کسی مصلحت سے کسی غیب خاص پر کسی کو مطلع کردیں اس میں کوئی حرج نہیں، موجبہ کلیہ کے درجہ میں سے کوئی مخلوق غیب نہیں جانتی، غیب کی کنجیاں سب اللہ رب العزت کے پاس ہیں۔

"وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ"۔   

(الانعام:۵۹)

ترجمہ:اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں،جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

اورقیامت کے بارے میں خاص طور پر فرمایا:

"يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَااِلَاھُو"۔  

(الاعراف:۱۸۷)

ترجمہ:(اے رسول!)لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب برپا ہوگی؟کہدو کہ اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے،وہی اسے اپنے وقت پر کھول کر دکھائےگا، کوئی اور نہیں۔

سو یہ بات صحیح ہے کہ قیامت کا علم ان جزئیات  میں سے نہیں جس پر اللہ تعالی نے کسی کو اطلاع بخشی ہو یہ وہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی۔
حضرت امام شافعیؒ (م ۲۰۴ ھ) فرماتے ہیں:

"وَأَنَّهُ حَجَبَ عَنْ نَبِيِّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  عِلْمَ السَّاعَةِ"۔

(احکام القرآن للامام الشافعیؒ، باب قولہ تعالی: من کفر باللہ:۲۰۰/۱، مطبوعہ: دارالکتب العلمیہ بیروت)

بیشک اللہ تعالی نے قیامت کا علم (کہ کب آئے گی) اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پردےمیں رکھا ہے۔

ائمہ اربعہ میں سے کسی نے بھی امام شافعیؒ کے اس عقیدہ سے اختلاف نہیں کیا، غیب کی خبریں اولیاء کرام کو بھی ملتی ہیں، ہم کہہ رہے تھے کہ اللہ تعالی انبیاء کو بھی غیبی خبروں سے نوازتے ہیں،لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اولیاء اللہ کو بھی بعض اوقات غیبی امور سے اطلاع دی جاتی ہے، البتہ ان خبروں میں خدائی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی اوران کے خبردینے پر قطع ویقین مرتب نہیں ہوتا جب تک کہ وہ بات واقع نہ ہوجائے، یہ صرف انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی شان ہے کہ وہ غیب کی کسی بات سے اطلاع دیں تو وہ قطع ویقین کی حامل ہو، خدا تعالی جب انہیں کسی غیب پر مطلع فرماتے ہیں، تو اس اطلاع دینے پر خدائی حفاظت سایہ فگن ہوتی ہے ناممکن ہے کہ اس میں آگے پیچھے کسی طرف سے دخل شیطانی ہو، یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا کہ نبی کی خبر غلط نکلے، خدا سے اس درجے کی خبر پانا ہر کسی کے بس میں نہیں، انبیاء پوری قوم میں اس باب میں ممتاز ہوتے ہیں،اللہ تعالی کی شان نہیں کہ ہر کسی سے اپنے احکام کہے وہ اپنی بات کہنے اوراپنے کلام کے لیے خاص افراد کو چنتا ہے وہ افراد اپنے ماحول میں فرد اورممتاز ہوتےہیں اور وہی جانتا ہے کہ اپنا پیغام کہاں اتارے اورکون اس امانت کے لائق ہوسکے گا:

"اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ "۔

(الانعام:۱۲۴)

ترجمہ:اللہ خوب جانتا ہے اس موقع کو کہ جہاں بھیجے اپنا پیغام۔



علم غیب خاصہ باری تعالیٰ ہے

اللہ رب العزت جن برگزیدہ افراد کو بزرگی بخشتے ہیں اورانہیں اپنے غیوب پر بھی اطلاع بخشتے ہیں،وہ صرف انبیاء ہیں جنہیں اس انداز میں امور غیبیہ پر اطلاع دی جاتی ہے کہ اس میں قطع ویقین کی ضمانت ہو،ہاں علم غیب بیشک خاصہ باری تعالی ہے کسی مخلوق کو علم غیب حاصل نہیں،نہ کسی انسان کو شان ہے، کہ جب چاہے غیب کی بات معلوم کرلے جب ضرورت ہو ضرورتمند خدا کے ہی محتاج ہوں گے،اتنی بات صحیح ہے کہ اللہ تعالی اپنے مقربین خاص کو اطلاع علی الغیب کی شان سے نوازتے ہیں۔

"وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ"۔

(آل عمران:۱۷۹)

اور اللہ نہیں ہے کہ تم کو خبردے غیب کی؛ لیکن اللہ چھانٹ لیتا ہے اپنے رسولوں میں جس کو چاہے۔

یہاں حرف لٰکِنّ سے استدراک فرمایا، یہ  اس بات کی صراحت ہے کہ استثنا منقطع ہے، اس مضمون کو کسی دوسرے مقام پر اگر الا کہہ کر بیان کیا جائے تو وہاں بھی اس آیت کی روشنی میں ہم استثنا منقطع ہی مراد لیں گے، اللہ تعالی اپنے کسی کسی برگزیدہ بندے کو کسی غیبی بات پر اطلاع بخشیں  اور وہ اس کا اظہار عام کردے بلکہ تحدی سے کہے کہ ایسا ہی ہوگا اورپھر وہ خبر بھی واقع کے بالکل مطابق اترے،واقعات اسی طرح ظہور پذیر ہوں جس طرح اس نے کہا تھا تو اس قسم کی خبروں سے یقین اور پختہ ہو جاتا ہے کہ یہ (پیغمبرؑ) اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا تھا؛ بلکہ اس کے پیچھے آسمانی شہادت کار فرما تھی، اسے وحی کہیں یا الہام لیکن اس کا موافق واقع نکلنا بتلاتا ہے کہ اطلاع واقعی اس ذات پاک کی طرف سے تھی جس کے قبضہ قدرت اوردست تصرف سے کوئی فرد اور کوئی جگہ اور کوئی وقت خارج نہیں، ان برگزیدہ بندوں میں سب کے سردار اورقافلہ سالار جناب محمد رسول اللہ   تھے، اللہ تعالی نے آپ پر اولین وآخرین کے علوم کھولے اور کروڑوں غیبوں پر آپ   کو اطلاع بخشی اور پھر آپ   نے بھی ان غیوب کے بارے میں تنگدلی سے کام نہ لیا، جو ملتا گیا آگے دیتے گئے، قرآن کریم میں ہے:

"وَمَاهُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ"۔ 

(التکویر:۲۴)

ترجمہ:اوریہ غیب کی بات بتانے میں بخیل نہیں۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ رب العزت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی غیب کی بات بتائیں اور حضور   اسے اپنے صحابہؓ سے بھی مخفی رکھیں، وہ علم ہی کیا جس کا آگے تعدیہ نہ ہو۔
یہاں کچھ اس قسم کی روایات کا مطالعہ کیجئے جن کی تصدیق واقعات نے کی، ان اخبار الحدیث کی روشنی میں یقین کیجئے کہ حدیث کا منبع و مصدر بھی بے شک خدا ہی کی ذات ہے اب کوئی شخص نہ کہے کہ حدیث میں خدائی حجت نہیں ہے۔
حدیث کا سب سے پہلا باقاعدہ مرتب مجموعہ موطا امام مالک ہے، پہلے اسی کی شہادت لیجئے پھر صحیح بخاری اور مسلم سے چند نظائر پیش کی جائیں گی اورپھر عام کتب حدیث سے چند روایات اخبار الحدیث کے طورپر پیش ہوں گی۔




No comments:

Post a Comment