حدیث کی تعریف:
جو حدیث(یعنی نبی، صحابی یا تابعی کی خبر) "سند" کے ساتھ مروی ومنقول ہو۔
ہم سے حدیث بیان کی(1)علی بن جعد نے کہ ہمیں خبر دی(2)شعبہ نے کہ مجھے خبر دی(3)منصور نے کہ میں نے سنا(4)ربعی بن حراش کو یہ کہتے کہ میں نے سنا حضرت علیؓ کو یہ کہتے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مت جھوٹ بولو مجھ پر کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ دوزخ میں داخل ہوگا.
[صحیح بخاري: کتاب العلم، حدیث#104]
تحقیق کی ضرورت:
مؤمنو! جب آۓ تمہارے پاس فاسق خبر لیکر تو تحقیق کرلیا کرو...
[سورة الحجرات:6]
جس خبر کے ہر دور میں، خود دیکھ یا سن کر نقل کرنے والے، مسلسل گواہوں کی ایسی بڑی تعداد، جن کا جھوٹ یا غلطی پر اتفاق کرنا عادۃََ محال سمجھا جائے۔ایسی(سورج وچاند کی طرح متواتر قرآن وحدیث کی)خبروں کا منکر، بغیر شہادت کے اپنے اصلی والد کو کیسے جانتے رہے ہوں گے؟؟؟
طبقاتِ کتب حدیث اور
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ
اس زمانہ میں احکام اور حدیثِ نبوی کو جاننے کے لیے بجز اس کے کوئی راہ نہیں کہ فن حدیث میں لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ آج ایسی کوئی روایت موجود نہیں، جو قابلِ اعتماد ہو اور وہ حدیث کی کتابوں میں نہ آگئی ہو؛ اس لیے اب معرفتِ حدیث کا مدار کتبِ حدیث پر ہے، کتبِ حدیث مختلف مراتب کی ہیں، سب ایک درجہ اورایک مرتبہ کی نہیں؛ بلکہ حدیثیں جمع کرنے والوں میں بعض کا مقصد صرف صحیح حدیثوں کا انتخاب تھا، جیسے صحیح بخاری وصحیح مسلم اور بعض کا مقصد حدیث کے ساتھ مستدلاتِ فقہاء کو جمع کرنا تھا، جیسے سنن ترمذی اور بعض کا مقصد جملہ روایات کو جمع کرنا تھا، خواہ وہ کیسی بھی ہوں، جیسے مسند ابویعلی، مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ۔ ایسی صورت میں ان احادیث سے مسئلہ مسائل اخذ کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہوجاتا ہے کہ کون سی کتاب کس پایہ کی ہے اور اس پر اعتماد کس حد تک کیا جاسکتا ہے۔ یعنی مسئلہ مسائل صرف صحیح اور حسن درجہ کی روایات سے معلوم کیے جاسکتے ہیں؛ جب کہ فضائل ووعظ ونصیحت اور ترغیب وترہیب کے لیے ان روایات کو بھی بیان کیا جاسکتا ہے جو از قبیلِ ضعیف ہیں؛ جب کہ موضوع روایت کو کسی بھی دینی مقصد کے لیے بیان کرنا جائز نہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے کتبِ حدیث کو صحت وشہرت کی بنیاد پر چار طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں طبقہٴ اولیٰ کی وہ کتاب ہے جس میں صحت وشہرت دونوں باتیں کامل طورپر پائی جائیں اور ان دو صفات میں جتنی کمی ہوگی، اس کتاب کا مقام ومرتبہ بھی اسی مناسبت سے فروتر ہوگا اوراگر یہ دونوں باتیں کسی کتاب میں بالکل نہ ہوں تو وہ کتاب قابلِ اعتبار نہیں۔
صحت:
صحت کا مطلب یہ ہے کہ کتاب میں درج روایات اعلیٰ درجے کی ہوں، مقلوب، شاذ اور ضعیف روایات کو کتاب میں جگہ نہ دی گئی ہو اور اگر کوئی روایت ہوبھی تو اس کا حال بیان کردیاگیا ہو۔ ان میں سب سے پہلے متواترروایات ہیں، جن کو امت نے قبول کیاہو اور ان پر عمل بھی کیاہو۔ متواتر کی دو قسمیں ہیں: (۱) لفظاً جیسے پورا قرآن تواترِ لفظی ہے۔ اسی طرح احادیث کا بھی ایک حصہ تواتر سے ثابت ہے، گوکہ وہ بہت کم ہے، ایسی روایات کی تعداد علامہ سیوطی کے مطابق ۱۱۲ ہے، جیسے یہ روایت کہ تم عنقریب اپنے رب کو دیکھوگے، جس طرح چاند کو دیکھتے ہو کہ اس کے دیکھنے میں کوئی بھیڑ نہیں کرتے۔ (۲) متواتر کی دوسری قسم معناً ہے، جیسے طہارت، نماز، زکوٰة اورحج، بیع وشراء، نکاح اور غزوات کے بہت سے احکام معناً متواتر ہیں۔ ان مسائل میں اسلامی فرقوں میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔
متواتر کے بعد غیرمتواتر وآحاد کا درجہ ہے، یہ بہت بڑی تعداد میں ہیں اور مختلف درجات کی ہیں۔ ان میں اعلیٰ درجہ مستفیض (مشہور) روایات کا ہے۔ مستفیض وہ حدیث کہلاتی ہے جس کو آں حضرت … سے تین یا زیادہ صحابہ نے روایت کیا ہو، پھر پانچویں طبقہ تک رواة برابر بڑھتے رہے ہوں۔ ذخیرئہ حدیث میں مستفیض روایات بہت ہیں اورانھیں پرفقہ کے اہم مسائل کی بنیاد قائم ہے۔
اس کے بعد ان احادیث کا درجہ ہے جن کو حفاظِ حدیث اور اکابر محدثین نے صحیح یا حسن تسلیم کیا ہو اور وہ کوئی ایسا متروک قول نہ ہو جس کو امت میں سے کسی نے نہ لیاہو۔ پھر ان احادیث کا مرتبہ ہے جو متکلم فیہ ہیں۔ یعنی ان کی سند کو بعض محدثین نے قبول کیا ہو اور بعض نے قبول نہیں کیا۔ یہ روایات اگر شواہد ومتابعات کے ساتھ، یا اکثر اہلِ علم کے قول کے ساتھ، یا عقلِ صریح - یعنی اجتہاد- کی موافقت کے ساتھ موٴیّد ہوں تو ان پر عمل واجب ہے۔
ساقط الاعتبار روایات:
یعنی موضوع، منقطع، مقلوب الاسناد، مقلوب المتن یا مجہول رُوات کی روایات۔ یہ سب روایات مردود ہیں، ان کو قبول کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
شہرت:
شہرت کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب میں درج روایات ایسی ہوں جو مصنف کی کتاب کی تصنیف سے پہلے اور بعد میں محدثین کی زبانوں پر دائر وسائر رہی ہوں اوراپنی جوامع ومسانید میں درج کیا ہو اور ان کی روایت وحفاظت میں مشغول رہے ہوں۔ ان روایات کی مبہم باتوں کی وضاحت کی ہو اوراس کے مشکل کلمات کے معانی بیان کیے گئے ہوں۔ اس کی پیچیدہ عبارتوں کی ترکیب کی ہو۔ ان حدیثوں کی تخریج کی ہو اور ان سے مسائل مستنبط کیے ہوں۔ راویوں کے حالات کی تفتیش ہر زمانہ میں ہوتی رہی ہو اور مصنف سے پہلے اور بعد میں بھی ناقدینِ حدیث نے ان روایات میں مصنف کی رائے میں موافقت کی ہو اور ان روایات کی صحت کا فیصلہ کیا ہو اور انھوں نے مدح وتوصیف کے ساتھ اس کتاب کا استقبال کیا ہو اور فقہاء برابر اس کی حدیثوں سے مسائل کا استخراج کرتے رہے ہوں اور محدثین نے اس کتاب پر بھروسہ کیا ہو اور عوام بھی ان روایات کی عقیدت اور تعظیم سے خالی نہ ہوں۔
جب یہ دونوں باتیں - صحت وشہرت - کسی کتاب میں کامل طور پر جمع ہوجائیں تو وہ کتاب طبقہٴ اولیٰ میں شمار ہوں گی اور ان میں جتنی کمی ہوگی مقام ومرتبہ بھی ان کا اتنافروتر ہوگا اوراگر یہ دونوں باتیں کسی کتاب میں بالکل نہ پائی جائیں تو وہ کتاب قابلِ اعتبار نہیں۔
شرائطِ صحت وشہرت کی کسوٹی پر پوری اترنے والی حضرت شاہ ولی اللہ کے نزدیک طبقہٴ اولیٰ کی کتابیں تین ہیں ان میں پہلے مقام پر موطا امام مالک ہے۔ اس کے بعد امام بخاری ومسلم کی صحاح ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:
”قد اتفق اہل الحدیث علی ان جمیع ما فیہ صحیح علی رایٴ مالک ومن وافقہ، واما علی رایٴ غیرہ فلیس فیہ مرسل ولا منقطع الّا وقد اتصل السند بہ من طرق أخریٰ فلا جرم أنھا صحیحة من ھٰذا الوجہ“(۱)
(محدثین نے اس بات پر اتفاق کیاہے کہ وہ تمام روایات جو موطا میں ہیں، صحیح ہیں۔ امام مالک اور ان کے موافقین کی رائے کے مطابق تو یہ بات ظاہر ہے اور دوسرے حضرات کی رائے کے مطابق اس طرح صحیح ہیں کہ اس کی تمام مرسل ومنقطع روایات دوسری سندوں سے متصل ہوگئی ہیں؛ لہٰذا وہ بھی صحیح ہیں۔)
اس کی تفصیل یہ ہے کہ موطا میں تین طرح کی روایات ہیں:(۱) مسند (۲) مرسل (۳) بلاغات۔ متقدمین مسند کے سوا سب کو مرسل کہتے ہیں اور مرسل روایات کی حجیت میں اختلاف ہے۔ امام مالک اوران کے زمانہ کے دوسرے ائمہ، جیسے حسن بصری، سفیان بن عیینہ اور امام ابوحنیفہ حجت مانتے ہیں۔ حسن بصری سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں: ”اذا اجتمع اربعة من الصحابة علی حدیث ارسلتہ“(۲) (جب صحابہ میں چار لوگ کسی حدیث پر جمع ہوجائیں تو اسے مرسل رکھتاہوں)۔
حسن بصری ہی سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب میں تم سے کہوں کہ مجھ سے بیان کیا فلاں نے تو وہ حدیث ہے اور کچھ نہیں اور جب میں کہوں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو میں نے اسے ۷۰ یا اس سے زیادہ لوگوں سے سنا ہے۔(۳)
اس طرح دوسری صدی ہجری کے اواخر تک تمام ائمہ متفقہ طورپر مرسل روایات کو قبول کرتے تھے۔ حافظ بلقینی نے فرمایا:
”ان التابعین أجمعوا بأمرھم علی قبول المراسیلِ ولم یأت عنھم انکارہ ولا عن أحد من الأئمة بعدھم الی رأس المئین“(۴)
(تمام تابعین متفقہ طور پر مرسل روایات کو قبول کرتے تھے؛ بلکہ تابعین کے بعد بھی دوسری صدی ہجری تک ائمہ میں سے کسی کی طرف سے مراسیل قبول کرنے سے انکار ثابت نہیں)
مرسل روایات کو ضعیف اور ناقابلِ احتجاج قرار دینے والوں میں سب سے پہلے امام شافعی ہیں(۵)، اس کے بعد تمام محدثین کا اس سے ترکِ احتجاج پر اتفاق ہوگیا؛ لیکن دوسری صدی کے اختتام سے پہلے پہلے تمام ائمہ ومحدثین مرسل روایات کو قبول کرتے تھے، خود امام شافعی کبارِ تابعین کی مراسلات کو قبول کرتے تھے، بشرطے کہ ان کی تائید دوسری حدیث وسند سے ہوجاتی۔ جہاں تک موطا میں درج مرسل روایات اوراس کی صحت کی بات ہے ، خود امام شافعی سے منقول ہے، انھوں نے فرمایا: ”أصحُّ الکتاب بعد کتاب اللہ موطا امام مالک“(۶) (کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب موطا مالک ہے)
موطا کی تمام مرسل روایات کی سندیں چونکہ دوسری کتابوں میں پائی جاتی ہیں؛ اس لیے اس پر صحیح کا اطلاق درست ہے۔ امام زرقانی لکھتے ہیں:
”ما من مرسل فی الموطا الاّ ولہ عاضد أو عواضد فالصواب اطلاق الموطا صحیح لا یستثنیٰ منہ شيء وقد صنف ابن عبد البر کتابا فی وصل ما فی الموطا من المرسل والمنقطع والمعضل قال وجمیع ما فیہ من قولہ بلغنی ومن قولہ عن الثقة عندہ مما لم یسندہ أحد وستون کلھا مسند من غیر طریق مالک الاّ أربعة“(۷)
(موطا میں کوئی روایت مرسل نہیں؛ مگر اس کی تائیں کرنے والے اور معاون حدیث موجود ہے؛ لہٰذا بلا استثناء موطا پر صحیح کا اطلاق درست ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے ایک کتاب تصنیف کی جس میں موطا کی تمام مرسل، منقطع اور معضل روایات کی سندیں بیان کی ہیں اور فرمایا کہ موطا میں امام مالک نے جس قدر ”بلغنی“ اور ”عن الثقة“ کہہ کر روایات بیان کی ہیں اور ان کی سندیں نہیں بیان کیں وہ کل ۶۱ ہیں، جن میں سوائے چار کے تمام روایات امام مالک کے علاوہ دوسرے طرق سے مسند ہیں)
حضرت شاہ صاحب نے المصفّٰی (فارسی شرح موطا) میں ان چار کے بارے میں فرمایاکہ گرچہ ان الفاظ سے ثابت نہیں، تاہم ان کے معنی صحیح ہیں۔
حضرت شاہ صاحب نے موطا کی افضلیت ثابت کرنے کے لیے کئی ٹھوس دلائل دیے ہیں: ایک یہ کہ موطا کی احادیث کی اسناد میں راویوں کی تعداد سب سے کم ہے۔ وہ تین چار سے زیادہ نہیں۔ دوم یہ کہ اس کے بیشتر راوی (۹۵ راویوں میں ماسوا چھ کے تمام کے تمام راوی) مدنی ہیں، جو سب کے سب معروف ومشہور ہیں۔ ان راویوں میں سب سے زیادہ روایات امام مالک نے حضرت نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر سے نقل کی ہیں۔ محدثین کے یہاں یہ سند اصح الاسانید یا سلسلة الذہب کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت نافع کے علاوہ دوسرے راویوں میں زیادہ تر ایسے راوی ہیں، جو حضرت عمر کے قضایا اور فتاویٰ کے سب سے بڑے عالم تھے، جن پر مذاہبِ فقہ کا دارومدار ہے۔ موطا نہ صرف ان فقہاء کرام کا عظیم ذخیرہ ہے؛ بلکہ دوسرے محدث وفقیہ صحابہٴ کرام وتابعین کے فتاویٰ کا مخزن بھی، موسمِ حج ہو یا اس کے سوا، ہر زمانے میں تمام ممالک سے علماء ومحدثین مدینہ منورہ آتے تھے اور وہاں کے علماء سے اکتسابِ فیض کرتے تھے۔ اس زمانہ میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ جو علوم علماء واہلِ مدینہ کے پاس ہیں وہ منقح ہیں، جو دوسرے شہر اور علماء کے پاس نہیں۔ امام مالک نے اسی شہر ’روح البلاد‘ میں رہ کر ہی موطا کی تالیف کی۔
اس کے علاوہ موطا کی اور بھی خوبیاں ہیں، مثلاً یہ کہ اس کی تمام روایات عمل اہل مدینہ کی ترجمان ہیں؛ کیونکہ قبولیت حدیث کے لیے امام مالک کے یہاں یہ ضروری تھا کہ وہ جمہور اہل مدینہ کے عمل کے خلاف نہ ہو۔ محمد ابوزہو لکھتے ہیں: ”فاشترط الامام مالک فی قبول خبر الواحد أن لا یعمل علی خلافہ الجمھور والجم الغفیر من أھل المدینة“(۹) (خبرواحد کی قبولیت کے لیے امام مالک نے یہ شرط رکھی کہ وہ جم غفیر اور جمہور اہلِ مدینہ کے عمل کے خلاف نہ ہو)۔
خبرواحد اور عمل اہلِ مدینہ میں تعارض کے وقت وہ اہلِ مدینہ کے عمل کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مدینہ کا عمل جو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وراثتاً ملا ہے، وہ خبرِواحد کے مقابلہ میں زیادہ مستند ہے؛ چنانچہ انھوں نے شیخ لیث کے نام رسالہ میں عمل اہل مدینہ کو خبر واحد پر مقدم رکھنے کو جائز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ اہلِ مدینہ کی اتباع کرتے ہیں، مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی اور مدینہ میں قرآن نازل ہوا۔ یہاں اللہ نے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کہا۔ رسول اللہ… صحابہ کے سامنے تھے، آپ حکم دیتے تھے وہ اس پر عمل کرتے تھے، آپ انھیں سکھاتے تھے وہ اس کا اتباع کرتے تھے۔ یہاں تک کہ حضور کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد امت میں ابوبکر وعمر وعثمان، جیسے صاحب امر ہوئے جن کی لوگوں نے اتباع کی۔ ان کے بعد تابعین بھی اسی راہ پر چلے اور انھیں سنتوں کی پیروی کرتے رہے۔ مدینہ میں جس بات پر لوگوں کا عمل ہوتا تھا اس پر کسی کو اختلاف کرتے ہم نے نہیں پایا تو اسی سے الگ ہونا اوراس کے خلاف ہونا جائز نہیں۔(۱۰)
اسی بنیاد پر امام مالک نے حدیث کی تحقیق کا معیار عمل اہل مدینہ کو قرار دیا۔ ان کے نزدیک اہل مدینہ کا عمل اور ان کی رائے مشہور سنت کی حیثیت رکھتی ہے اور مشہور سنت خبرواحد پر ہمیشہ مقدم ہوتی ہے؛ اس لیے امام مالک خبرِ واحد پر عمل اہل مدینہ کو مقدم رکھتے تھے۔
امام مالک کے شیخ ربیعہ کا بھی یہی مسلک تھا، وہ کہتے تھے کہ ہزار ہزار سے نقل کریں یہ بہتر ہے اس سے کہ ایک ایک سے نقل کرے۔(۱۱)
موطا لکھنے سے امام مالک کی غرض ان حدیثوں کو جمع کرنا نہیں تھا، جن کے راوی ثقہ ہوں، جیساکہ کتبِ صحاح کے مصنّفین نے التزام کیا؛ بلکہ ان روایات کو جمع کرنا تھا، جن پر اہل مدینہ کا عمل اوراجماع تھا؛ اسی لیے (غالباً) انھوں نے موطا میں اسناد کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی؛ کیونکہ یہ روایات جم غفیر اور جمہور اہل مدینہ کے عمل کی ترجمان ہیں، ان کا راوی اِکّا دُکّا نہیں؛ بلکہ ہزاروں ہیں۔ دوسری چیز یہ کہ التزام سند کے سوا راویوں کی تحقیق کے تمام علوم، مثلاً علم تاریخ رواة، فنِ جرح وتعدیل اور علم مصطلح الحدیث سب بعد میں ایجاد ہوئے، جن کی مدد سے راویوں کی جانچ و پرکھ ہوئی اور موطا ان اصولوں کے وضع کیے جانے سے پہلے لکھی جاچکی تھی۔
حضرت شاہ صاحب نے موطا کو صحیح بخاری و مسلم پر اس لیے بھی فوقیت دی ہے کہ انھوں نے اسے تمام کتبِ حدیث کی اصل واساس قرار دیا ہے اور بعد کی تمام کتابوں کو اس کی شروح وتکملے اور مستخرجات مانا ہے۔ جمہور محدثین نے اس کی روایات کو صحیح تو تسلیم کیا ہے؛ لیکن اس میں موجود مرسل اور منقطع روایات کی بنیاد پر صحاح ستہ میں اسے شامل نہیں کیا ہے؛ حالانکہ اس کی تمام روایات متن کے اعتبار سے تمام کتبِ حدیث میں سب سے اعلیٰ ہیں۔ آج تک اس کی ایک بھی روایت پر کسی نے موضوع ہونے کا شبہ تک نہیں کیا؛ جب کہ صحاح ستہ کی ایک معتدبہ روایات پر غیرصحیح؛ بلکہ موضوع ہونے کا الزام جائز ٹھہرایا ہے۔ حضرت شاہ صاحب کے نزدیک ”صحت“ کا مطلب محض سنداً نہیں؛ بلکہ متنا ً اور درایتاً بھی ہے؛ اس لیے انھوں نے موطا کو تمام کتبِ حدیث میں پہلے درجہ پر رکھا اوراس میں وہ حق بجانب ہیں۔
موطا امام مالک سے بلاواسطہ ایک ہزار سے زاید اشخاص نے روایت کیا، ان میں بعض فائق فقہاء ہیں، جیسے امام شافعی(م۲۰۴ھ)، امام محمد بن الحسن شیبانی (م۱۸۹ھ)۔ (امام شیبانی نے امام مالک سے موطا پڑھ کر اس کو مرتب کیا ہے اوراس میں اضافہ بھی کیا ہے، جو موطا محمد کے نام سے معروف ہے۔ درحقیقت وہ موطا امام مالک ہی ہے۔) عبد اللہ بن وہب مصری (م۱۹۷ھ) عبدالرحمن بن القاسم مصری (م۱۹۱ھ) اور بعض اونچے درجے کے محدث ہیں، جیسے یحییٰ بن سعید القطان، عبدالرحمن بن مہدی، عبدالرزاق صنعانی (صاحب مصنَّف عبدالرزاق) اور بعض بادشاہ اور امراء ہیں، جیسے خلیفہ ہارون رشید اوراس کے دو بیٹے امین ومامون۔
موطا کی شہرت خود امام مالک کی زندگی ہی میں اسلامی مملکت کے کونے کونے میں پھیل چکی تھی اور مابعد زمانوں میں اس کی شہرت میں اضافہ ہی ہوتا رہا؛ یہاں تک کہ اسلامی دنیا کے سب ہی مجتہدین نے اس پر اپنے مذہب کی عمارت تعمیر کی۔ علماء اسلام برابر موطا کی حدیثوں کی تخریج،اس کے متابعات وشواہد کا تذکرہ،اس کے نامانوس الفاظ کی تشریح، اس کے مبہم امور کا انضباط، اس کی حدیثوں سے مسائل کا استنباط اور اس کے راویوں کے حالات کی تفتیش کرتے رہے اور یہ سب کام اس درجہ تک ہوتا رہا کہ اس کے بعد کوئی درجہ نہیں۔
صحیحین:
صحیحین حدیث کے صفِ اوّل کی کتب ہونے میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ ان کی مرفوع ومتصل روایتیں قطعی طور پر صحیح ہیں؛ مگر امام دارقطنی، ابومسعود دمشقی اور ابوعلی غسانی نے صحیحین کی ایک سو دس روایات پر نقد کیا ہے اور ان کو غیرصحیح بتایا ہے۔ حافظ ابن صلاح نے اس استثناء کو تسلیم کیا ہے، انھوں نے فرمایا کہ بخاری ومسلم پر جو مواخذہ یا قدح، معتمد حفاظ حدیث مانند دارقطنی وغیرہ کی طرف سے وارد ہے، وہ ہمارے فیصلہٴ سابق سے مستثنیٰ ہے(۱۲)؛ کیوں کہ اتنے حصے کی تلقی بالقبول پر اجماع نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ جو صحیحین کی روایات کی بے قدری کرتا ہے اور ان کو ہیچ سمجھتا ہے وہ مبتدع (گمراہ) ہے۔(۱۳)
دوسرے طبقے کی تین کتابیں:
اس کے بعد کچھ دوسری کتابیں ہیں، جو موطا اور صحیحین کے مرتبہ تک تو نہیں پہنچتیں؛ مگر وہ ان سے متصل اور پیچھے پیچھے ہیں۔ ان کے مصنف اعتماد، عدالت، حفظ اور علومِ حدیث میں تبحر میں معروف ہیں۔ انھوں نے اپنی کتابوں کے لیے جو شرائط (صحت واتصال) طے کی تھیں، ان میں سہل انگاری سے کام نہیں لیا۔ بعد والوں نے ان کی کتابوں کا قبولیت کے ساتھ استقبال کیا ہے اور ہر زمانہ میں محدثین وفقہاء نے ان کے ساتھ اعتناء برتا ہے اور وہ کتابیں لوگوں کے درمیان مشہور ہوئیں اور علماء نے ان کتابوں کے ساتھ تعلق رکھا۔ کسی نے ان کے نامانوس الفاظ کی تشریح کی ہے، کسی نے ان کے رجال کا تتبع کیا ہے اور کسی نے ان کی حدیثوں سے مسائل مستنبط کیے ہیں اور ان روایات پر عام طور پر علومِ دینیہ کا مدار ہے، جیسے امام ابوداؤد (م۲۷۵ھ) کی سنن، امام ابوعیسیٰ ترمذی (م۲۷۹ھ) کی جامع (سنن ترمذی) اور امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی (م۳۰۳ھ) کی مجتبیٰ جس کو سنن صغریٰ اور مطلق سنن بھی کہتے ہیں۔
چھٹی صدی ہجری کے محدث رزین بن معاویہ عبدری سرقُسطی (م۵۳۵ھ) نے طبقہٴ دوم کی یہ تین کتابیں اور طبقہٴ اولیٰ کی ماقبل مذکور تین کتابیں تجرید الصحاح الستہ میں ان کی حدیثوں کی اسناد حذف کرکے جمع کیا ہے۔ ان کے بعد ابن الاثیر جزری (م۶۰۶ھ) نے مذکورہ تجرید کی تہذیب و ترتیب کی ، جس کا نام جامع الاصول لاحادیث الرسول رکھا، جو مطبوعہ اور متداول ہے۔
امام احمد کی مسند کو بھی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اسی طبقہ سے منسلک کیاہے۔ آپ لکھتے ہیں:
”وکان مسند أحمد یکون من جملة ھذہ الطبقة․ فان الامام أحمد جعلہ أصلاً یعرف بہ الصحیح من السقیم قال ما لیس فیہ فلا تقبلوہ“(۱۴)
(اور قریب ہے کہ مسند احمد کہ ہو وہ من جملہ اس طبقہ کی کتابوں کے بے شک امام احمد نے اس کتاب کو ایسی اصل (کسوٹی) بتایا ہے جس کے ذریعہ صحیح وسقیم روایات کو جانا جاسکتا ہے) آپ نے فرمایا کہ جو مسند میں نہیں ہے، اس کو قبول نہ کرو (یعنی صحیح روایات سب مسند میں جمع ہیں اور جو اس سے باہر ہیں وہ صحیح نہیں)؛ مگر اطلاق کے ساتھ امام احمد کی یہ بات علماء نے قبول نہیں کی)۔
کیونکہ مسند احمد ذخیرہٴ حدیث کی مسند روایات کا بہت بڑا مجموعہ سہی؛ لیکن تمام روایات کا استیعاب نہیں؛ اس لیے کہ اس میں بہت سی روایات امام احمد سے نقل کرنے میں چھوٹ گئیں، مثلاً ترجمہ حضرت عائشہ میں قصہٴ ام ذرع والی حدیث اس میں نہیں۔ اسی طرح بقول علامہ سیوطی: تقریباً مختلف صحابہ کی دو سو روایات مسند میں درج ہونے سے رہ گئیں، جن سے صحیح بخاری اور مسلم میں حدیثیں منقول ہیں(۱۵)۔ ہوسکتا ہے، یہ روایات انھیں دستیاب نہ ہوسکی ہوں اور وہ بعد کے ائمہ مثلاً بخاری ومسلم کو دستیاب ہوگئیں۔ بہرحال اس سے مسند میں درج روایات کی صحت پر فرق نہیں پڑتا۔ اور نہ ہی امام احمد کے دعویٰ کو سامنے رکھ کر اسے یہ درجہ دیا گیا؛ بلکہ یہ درجہ اس میں درج روایات کی صحت و شہرت کی بنیادپر عطا کیا۔
دوسری بات یہ کہ مسند احمد طبقہٴ دوم میں براہِ راست نہ ہوکر اس کے ”قریب“ہے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ مسانید میں احادیث کی تخریج میں ہر صحابی کی تمام روایات کو بلا ترتیبِ عنوان ایک جگہ جمع کردیا جاتاہے۔ اس میں صرف صحیح روایات کوجمع کرنے پر اکتفا نہیں کیاجاتا۔ حافظ ابن صلاح مسانید میں درج روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”فَھٰذِہ عَادَتُھُمْ فِیْھَا أنْ یَخْرُجُوا فِيْ مُسْنَدِ کُلِّ صَحَابِيٍ مَا رَوَوْہُ مِنْ حَدِیْثِہ غَیْرِ لَتَقَیِّدِیْنَ فِأنْ یَکُوْنَ حَدِیْثًا مُحْتَجًّا بِہ “(۱۶)
(مسند میں احادیث کی تخریج کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں ہر صحابی کی تمام روایات کو ایک جگہ جمع کردیا جاتا ہے۔ اس میں اس بات کی قید نہیں ہوتی کہ تمام احادیث قابلِ احتجاج ہوں)۔
مسانید اور فقہی ابواب کے مطابق ترتیب دی جانے والی کتابوں میں جو فرق ہے، اس کو واضح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فرمایا:
”وضع التصنیف للحدیث علی الأبواب أن یقتصر فیہ علی ما یصلح للاحتجاج أو الاستشھاد بخلاف من رتب علی المسانید فان أصل رفعہ“(۱۷)
(ابواب کی ترتیب پر تصنیفات (جوامع) میں صرف انھیں روایات کو جمع کیاجاتاہے، جو احتجاج اور استشہاد کی صلاحیت رکھتی ہوں، بخلاف مسانید کے جن کے لکھنے کا مقصد صرف جمعِ حدیث ہوتا ہے)۔
اسی وجہ سے شیخ طاہر الجزائری لکھتے ہیں:
”أما کتب المسانید دون کتب السنن فی الرتبہ“(۱۸)
(کتب مسانید مرتبہ میں کتبِ سنن سے کم تر ہوتی ہیں)۔
لیکن مسانید میں مسند احمد سب سے افضل ہے، اس کی روایات دوسری تمام مسانید کے مقابلہ میں صحیح تر ہیں۔ امام شوکانی نے اسے ان تمام کتابوں میں اصح بتایا ہے، جن کتب (مسانید) میں روایات راوی کی بنیاد پر جمع کی جاتی ہیں۔(۱۹)
علامہ سیوطی نے مام ہیثمی (م۸۰۷ھ) کے واسطے سے فرمایا: مسند أحمد أصح صحیحا من غیرہ(۲۰) (مسند احمد تمام مسانید میں سب سے صحیح ہے)۔
حاصل یہ کہ مسند احمد طبقہٴ دوم میں چوتھی اور من جملہ کتبِ حدیث میں چھٹی مستند ترین کتاب ہے؛ اسی لیے یہ ہرزمانے کے محدثین کے لیے قابلِ اعتماد ومرجع رہی ہے۔
سنن ابن ماجہ:
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے سنن ابن ماجہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، طبقاتِ کتب حدیث بیان کرتے ہوئے، اس کا ذکر نہ طبقہٴ دوم میں کیا اور نہ سوم وچہارم میں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں موجودضعیف روایات کی کثرت کی وجہ سے امام ولی اللہ نے اسے طبقہٴ دوم کی کتب میں شامل نہیں کیا۔
روایات سنن ابن ماجہ کی نوعیت:
سنن ابن ماجہ میں ایک بڑی تعداد ان روایات کی ہے، جو کتبِ خمسہ (صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ترمذی) میں نہیں پائی جاتیں۔ امام ابن ماجہ ان احادیث کی روایت میں منفرد ہیں۔ ان میں بہت سی ضعیف الاسناد احادیث بھی ہیں۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا: ”وفیہ احادیث کثیرة منکرة“(۲۱)(اس میں منکر روایات بہ کثرت ہیں)۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن ماجہ نے کتاب مرتب کرکے ابوزرعہ پر پیش کی۔ انھوں نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ شاید اس میں تیس سے زیادہ ایسی حدیثیں نہیں، جن کی اسناد میں ضعف ہے، سیراعلام النبلاء میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ابوزرعہ کا قول کہ اس میں تیس سے زیادہ ضعیف حدیثیں نہیں، اگر یہ قول صحیح ہے تو اس سے مراد تیس ایسی حدیثیں ہیں جو مردود (المطرحہ الساقطہ) ہیں؛ لیکن ایسی روایات جو احتجاج کے قابل نہیں، وہ ہزار کے قریب ہیں۔ آگے لکھتے ہیں کہ امام ابن ماجہ حافظ الحدیث، بہترین ناقد حدیث، صادق القول اور وسیع العلم ہیں۔ ان کی کتاب سنن کے مرتبہ سے کم تر ہے؛ اس لیے کہ اس میں منکر اور کچھ موضوع روایتیں بھی ہیں۔(۲۲)
سنن ابن ماجہ کی ۴ہزار روایات میں سے ایک بڑی تعداد (ہزار کے قریب) روایت ناقابلِ استدلال ہونے کی وجہ سے یہ جملہ مشہور ہوا ”کل ما انفرد بہ ابن ماجہ فہو ضعیف“ (ہر وہ روایت جسے امام ماجہ بیان کرنے میں منفرد ہوں وہ ضعیف ہے)؛ لیکن اس جملہ میں حقیقت سے زیادہ مبالغہ سے کام لیاگیا ہے۔ حافظ ابن حجر اس جملہ پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”لیس الأمر فی ذلک علی اطلاقہ فاستقرائی وفی الجملة ففیہ أحادیث کثیرة منکرة“(۲۳) (میرے استقراء وعلم کے مطابق یہ حکم علی الاطلاق درست نہیں، تاہم اس سے انکار نہیں کہ اس میں منکر احادیث کی تعداد زیادہ ہے)۔ علامہ ابن جوزی نے اس کی تیس روایات کو موضوع کہاہے۔
ابن ماجہ میں بڑی تعداد میں روایات کا ضعیف ہونا اور علامہ ابن جوزی اور حافظ ذہبی اور دوسرے ائمہ کی طرف سے اس کی ایک معتدبہ روایات پر موضوع ہونے کے الزام کے پیش نظر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اسے دوسرے طبقہ کی کتب میں شامل نہیں گردانا۔ حافظ ذہبی نے یہ بات صاف طور پر بیان کی کہ اس کا مرتبہ سنن (ابوداؤد، نسائی اور ترمذی) سے کم تر ہے(۲۴)۔ یہی رائے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی بھی ہے اور صحیح ہے؛ کیونکہ کتبِ خمسہ میں کوئی بھی ایسی کتاب نہیں، جس میں اتنی بڑی تعداد میں روایات ضعیف ہوں۔
ابن ماجہ اور صحاح ستہ:
چوتھی صدی ہجری کے وسط میں موجودہ کتبِ ستہ یا صحاحِ ستہ کے تصور کی طرح کتبِ اربعہ کا تصور پیدا ہوا، جس میں صرف صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی تھیں۔ حافظ ابن السکن اور حافظ مندہ نے فقط اِنھیں چارکتابوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے(۲۵)۔ یہ ائمہٴ سنن ترمذی اور ابن ماجہ کو اس پایہ کی کتب نہیں تسلیم کرتے تھے، بعد میں حافظ ابوطاہر سلفی نے پانچویں صدی ہجری میں سنن/جامع ترمذی کو بھی مذکورہ کتبِ اربعہ کے ساتھ ملحق کیا۔ اسی دوران محمد بن طاہر مقدسی (م۵۰۷ھ) نے سنن ابن ماجہ کو بھی کتبِ اربعہ سے ملحق کرنے کی کوشش کی؛ لیکن امام حازمی (۵۸۴ھ) اور ابن جوزی (م۵۹۷ھ) جیسے ائمہ نے اس سے اتفاق نہیں کیا؛ لیکن ترمذی کو کتبِ خمسہ کی حیثیت سے تسلیم کرلیاگیا۔ اس کے بعد حافظ عبدالغنی (م۶۰۰ھ) نے اس کی حسنِ ترتیب اور فقہی ابواب کی منفعت کی بنیاد پر ابن ماجہ کو اصولِ خمسہ سے ملحق کرنے کی کوشش کی جو کامیاب رہی۔ اس کے بعد ابن النجار (م۶۴۳ھ) ابن تیمیہ (م۶۵۲ھ)، امام جزری (م۷۱۱ھ) اوراکثر اہل علم نے ابن ماجہ کو کتبِ ستہ کی حیثیت سے قبول کرلیا؛ لیکن اسی زمانے کے شیخ ابن صلاح (م۶۴۳ھ)، امام نووی(م۶۷۶ھ) اور ابن خلدون (۸۰۸ھ) نے ابن ماجہ کو چھٹی کتاب کی حیثیت سے کبھی نہیں تسلیم کیا۔ یہ ائمہ اور امام حازمی اور علامہ ابن جوزی صرف اصولِ خمسہ ہی کا ذکر کرتے ہیں۔
جس دوران ابن ماجہ کو کتبِ ستہ میں شامل کرنے کی پہلی کوشش کی گئی، اس وقت علامہ رزین مالکی نے (م۵۲۵ھ) التجرید للصحاح والسنن میں اور ابن الاثیر جزری (م۶۰۶ھ) نے جامع الاصول میں ودیگر علماء مغرب نے موطا کو کتب ستہ میں شامل تسلیم کرلیا(۲۷)۔ اس کے بعد یہ امر طے ہوگیاکہ علماء مغرب کے نزدیک موطا اور بقیہ سہ جانب ائمہ کے یہاں ابن ماجہ شامل صحاح ستہ ہے۔
ابن ماجہ حسن ترتیب اور اختصار میں بے نظیر ہے۔ اس کتاب کو جس چیز نے عوام وخواص میں پذیرائی اور قبولیت عطا کی وہ اس کا شاندار اسلوب اور روایات کا حسنِ انتخاب ہے۔ ابواب کی فقہی ترتیب سے مسائل کا واضح استنباط اور تراجمِ ابواب کی احادیث سے بغیر کسی پیچیدگی اور الجھن کے مطابقت نے سننِ ابن ماجہ کے حسن کو نکھاراہے۔ اس کی ایک اہم انفرادیت اور خصوصیت یہ ہے کہ امام ابن ماجہ اپنی سنن میں کوئی حدیث مکرر نہیں لائے ہیں۔ یہ وہ خوبی ہے جو بقیہ کتبِ اصول کی کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ سنن ابن ماجہ میں دیگر کتب سنن کی بہ نسبت بہت زیادہ اختصار سے کام لیاگیا ہے، اس کے باوجود یہ کتاب ضروری مسائل اور احکام کی جامع ہے۔ زیادہ تر اس کتاب میں مسائل اوراحکام سے متعلق احادیث ہیں۔ فضائل ومناقب کی روایات اس کتاب میں نہیں ہیں۔ ابن ماجہ کی ان ہی فنی خصوصیات کے پیش نظر درس وتدریس کے طلبا اور عام قارئین کے لیے مفید سمجھتے ہوئے ائمہٴ حدیث نے اسے کتبِ ستہ سے ملحق کیا ورنہ نفس روایات اور اس کے رواة کا حال دیکھتے ہوئے سننِ دارمی اور دسری کتب، جیسے صحیح ابن حبان، دارقطنی اور کئی دیگر کتب ابن ماجہ سے برتر ہیں؛ لیکن ان کتب کو وہ قبول عام حاصل نہ ہوسکا جو سنن ابن ماجہ کو نصیب ہوا۔ علامہ سخاوی حافظ علائی (م۷۷۱ھ) کے واسطے سے فرماتے ہیں: ”ینبغی أن یکون کتاب الدارمی سادسہا للخمسة بدلہ فانہ قلیل الرجال الضعفاء نادر الأحادیث المنکرة والشاذة“(۲۸) (کتب ستہ میں سنن ابن ماجہ کے بدلے سنن دارمی زیادہ مناسب ہے؛ اس لیے کہ سننِ دارمی میں ضعیف روایات کم ہیں اور منکر وشاذ روایات بھی نادر ہیں)۔
اسی طرح علامہ سیوطی نے فرمایاکہ دارمی کی کتاب مرتبہ میں سنن اربعہ سے کم نہیں؛ بلکہ اگر اس کو کتب خمسہ سے ملحق کیا جائے تو ابن ماجہ کی بہ نسبت یہ اولیٰ ہے؛ کیونکہ وہ سنن ابن ماجہ سے کہیں فائق ہے۔(۲۹)
تیسرے طبقے کی کتب حدیث:
اس طبقہ میں حضرت شاہ صاحب نے حدیث کی ان کتابوں کو شامل کیا جو بخاری ومسلم سے پہلے یا ان کے زمانہ میں یا ان کے بعد لکھی گئیں، جن میں صحیح، حسن، ضعیف، معروف، غریب، شاذ، منکر، ثابت، مقلوب سبھی طرح کی حدیثیں مندرج ہیں اوران کو علماء کے درمیان بہت زیادہ شہرت حاصل نہیں ہوئی، گرچہ وہ بالکل انجانی بھی نہیں رہیں۔ اور جن روایات کے ساتھ وہ کتابیں منفرد ہیں وہ فقہاء کے درمیان بہت زیادہ متداول بھی نہیں رہیں اور محدثین نے ان روایات کی صحت وسقم کے بارے میں بہت زیادہ تفحص بھی نہیں کیا۔ ان میں بعض وہ ہیں،جن کے غریب کلمات کی شرح کرکے کسی عالم لغت نے اور ان کی روایات کو سلف کے مذاہب کے ساتھ تطبیق دے کر کسی فقیہ نے اور ان کے مبہمات کی وضاحت کرکے کسی محدث نے اور اس کے رجال کے ناموں کا تذکرہ کرکے کسی مورخ نے کوئی خدمت نہیں کی؛ گوکہ زمانہ مابعد میں ان کی خدمت کی گئی؛ مگر متقدمین نے ان کو درخور اعتناء نہیں سمجھا؛ لہٰذا وہ کتابیں پوشیدگی اور گمنامی میں رہیں، جسے ابو یعلی موصلی (م۳۰۷ھ) کا مسند جو مطبوعہ ہے، عبدالرزاق بن ہمام (م۲۱۱ھ) کی مصنف جو محدث عصر مولانا حبیب الرحمن اعظمیکی تعلیقات کے ساتھ مطبوعہ ہے، ابوبکر عبداللہ بن محمد، معروف بابن ابی شیبہ واسطی (م۲۳۴ھ) کا مصنف جو طبع ہوچکا ہے، عبدبن حمید کسی (م۲۴۹ھ) کا مسند، ابوداؤد سلیمان بن ابوداؤد طیالسی (م۲۰۳ھ) کا مسند جو مطبوعہ ہے؛ مگر یہ مسند خود ابوداؤد کا ترتیب دیا ہوا نہیں؛ بلکہ بعد میں کسی نے ان کی بعض مسموعات کو جمع کیاہے، احمد بن حسین البیہقی (م۴۵۸ھ) کی کتابیں ”السنن الکبریٰ“ دس جلدوں میں ہے، الجامع المصنف فی شعب الایمان جو صرف شعب الایمان بھی کہلاتی ہے، مطبوعہ ہے۔ معرفة السنن والآثار، دلائل النبوة (مطبوعہ)، الاسماء والصفات (مطبوعہ)، القرأة خلف الامام (مطبوعہ)، ابوجعفر احمد بن محمد الطحاوی (م۳۲۱ھ) کی کتابیں: شرح معانی الآثار المختلفة المرویہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الاحکام، جو معانی الآثار کے نام سے مشہور ہے (مطبوعہ)، بین مشکل الآثار (مطبوعہ)، سلیمان بن احمد طبرانی (م۳۶۰ھ) کی کتابیں: جیسے المعجم الکبیر (مطبوعہ)، المعجم الصغیر (مطبوعہ)، المعجم الوسیط (غیرمطبوعہ)۔
ان حضرات کا مقصد ان تمام روایات کو جمع کرنا تھا، جو انھیں دستیاب ہوجائیں، تلخیص وتہذیب اور قابلِ عمل روایات کا انتخاب ان کا مقصد نہیں تھا، یہ کام انھوں نے بعد والوں کے لیے چھوڑا۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ چونکہ حدیثوں کے ساتھ ان کی سند بیان کردی گئی ہیں، متاخرین سند دیکھ کر ان روایات کا معیار خود متعین کرلیں گے؛ لیکن فی الواقع ایسا ہوا نہیں۔ بعد والوں نے ان کتب کے مصنّفین کی شان وجلالت دیکھ کر ان کی کتابوں پر اسی حالت میں بھروسہ کرلیا۔
چوتھے طبقے کی کتابیں:
ذخیرہٴ حدیث میں کچھ وہ کتابیں ہیں جن کے مصنّفین نے صدیاں بیت جانے کے بعد ان روایات کو جمع کرنے کا قصد کیا، جو پہلے دو طبقوں کی کتابوں میں نہیں تھیں۔ وہ روایات جوامع اور مسانید میں مخفی تھیں۔ ان حضرات نے ان روایات کی شان بلند کی، یہ سات قسم کی روایات ہیں:
۱- ایسے روایوں کی روایتیں جن کو محدثین نے نہیں لکھا، جیسے بے احتیاط بولنے والے واعظین، گمراہ فرقوں کے لوگ اور روایت حدیث میں کمزور رُوات۔
۲- صحابہ وتابعین کے آثار یعنی موقوف اور مقطوح روایات۔
۳- حکماء اور واعظوں کی باتیں، جن کو راویوں نے سہواً یا عمداً مرفوع روایات کے ساتھ خلط ملط کردیا۔
۴- اسرائیلی روایات۔
۵- قرآن وحدیث کے احتمالی مطالب۔ کچھ نیک لوگوں نے جو روایت کی باریکیوں کو نہیں جانتے تھے، ان کو بالمعنی روایت کیا اور ان کو مرفوع روایت بنادیا۔
۶- قرآن وحدیث کے ارشادات سے سمجھی ہوئی باتیں جن کو رُوات نے مستقل بالذات حدیثیں بنادیا۔
۷- مختلف حدیثوں کے متفرق جملے جن کو ملاکر ایک سیاق کی حدیث بنادیاگیا۔
یہ روایات عام طور پر درج ذیل کتابوں میں پائی جاتی ہیں:
(۱) ابوحاتم محمد بن حبّان بُستی (م۳۵۴ھ) کی کتاب الضعفاء والمجروحین۔
(۲) ابواحمد عبداللہ بن عدی جرجانی (م۳۶۵ھ) کی الکامل فی الضعفاء والمتروکین (اس کتاب میں ہر متکلم فیہ راوی کا تذکرہ کیا ہے، اگرچہ وہ صحیحین کا راوی ہو)۔
(۳) خطیب بغدادی، ابوبکر احمد بن علی (م۵۶۳ھ) کی کتابیں مثلاً تاریخ بغداد (اس کتاب میں احادیث کا کافی ذخیرہ ہے)۔
الکفایة فی علم الروایة (اصول حدیث میں)، اقتضاء العلم العمل، موضح احکام الجمع والتفریق، الفوائد المنتخبة اورالجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع۔
(۴) حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی (م۴۳۰ھ) کی کتابیں، مثلاً حلیة الاولیاء، طبقات الاصفیاء اور دلائل النبوة ومعرفة الصحابہ۔
(۵) ابواسحاق جوزجانی احمد بن عبداللہ محمد شام (م۲۵۹ھ) کی کتابیں، جیسے کتاب فی الجرح والتعدیل اور کتاب الصغفاء۔
(۶) ابوالقاسم ابن عساکر علی بن الحسن دمشقی (م۵۷۱ھ) کی کتابیں، مثلاً: تاریخ دمسق الکبیر، جس کی شیخ عبدالقادر بدران نے تلخیص کی ہے، جو تہذیب تاریخ ابن العساکر کے نام سے طبع ہوئی ہے۔
(۷) ابن النجار محمد بن محمود بغدادی (م۶۴۳ھ) کی کتابیں، جیسے: الدرة الثمینة فی اخبار المدینة اور الکمال فی معرفة الرجال۔
(۸) الدیلمی شیرویہ بن شہردار (م۵۰۹ھ) کی کتاب فردوس الاخبار۔ جس کا اختصار ان کے صاحب زادے شہردار بن شیرویہ (م۵۵۸ھ) نے کیاہے، جس کا نام مسند الدیلمی ہے۔
(۹) قاضی القضاة ابوالموید محمد بن محمود خوارزمی (م۶۵۵ھ) کی کتاب جامع مسانید الامام ابی حنیفہ کو بھی اسی طبقہ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس میں امام اعظم کی پندرہ مسانید کو جمع کیاگیا ہے۔
اس طبقہ (چہارم) کی کتابیں علامہ ابن الجوزی عبدالرحمن بن علی (م۵۹۷ھ) کی کتاب الموضوعات وغیرہ ہیں۔ یعنی زیادہ تر انھیں کتابوں کی روایات پر انھوں نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔
چاروں طبقات کی کتابوں کے احکام:
پہلے اور دوسرے طبقہ کی کتابوں کے بارے میں حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انھیں کتب پر محدثین کا اعتماد ہے اور انھیں پر قناعت کرتے ہیں۔(۳۰)
تیسرے طبقے کی کتابوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کتب سے قابلِ عمل روایات وہی حضرات منتخب کرسکتے ہیں، جو حاذق وناقد ہیں، جن کو راویوں کے حالات اور اسانید کی خرابیاں معلوم ہیں۔ اور کبھی کبھار اس طبقہ کی روایات شواہد ومتابعات کے لیے بھی قبول کی جاتی ہیں؛ جب کہ چوتھے درجے کی روایت سے شغل رکھنا، ان کو جمع کرنا اور ان سے مسائل مستنبط کرنا متاخرین کا ایک طرح کا غلو اور تعمق ہے۔ روافض اور معتزلہ اور ان جیسے دیگر فرق سے وابستہ لوگوں کو انھیں کتابوں سے مواد ہاتھ آتا ہے؛ جب کہ اس طبقہ کی کتابوں میں درج روایات سے علمی سطح پر استدلال درست نہیں چہ جائے کہ ان سے عقائد اخذ کیے جائیں، جیساکہ گمراہ فرقوں نے کیا۔(۳۱)
اس کے بعد حضرت شاہ صاحب نے ایک پانچواں طبقہ بھی بیان کیاہے، فرماتے ہیں کہ اس طبقہ کی کتابیں دراصل حدیث کی کتابیں نہیں؛ بلکہ فقہ یا تاریخ کی کتابیں ہیں یا صوفیاء کے ملفوظات یا دیگر موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ شاہ صاحب نے ان کتابوں کے لیے اک پانچواں طبقہ علاحدہ قائم کیا ہے، فرماتے ہیں کہ پانچویں درجہ میں وہ روایتیں ہیں جو فقہاء، صوفیاء، مورخین اور اس قسم کے دوسرے حضرات جیسے واعظین ومبلغین کی زبانوں پر معروف ہیں؛ مگر مذکورہ چار طبقات کی کتابوں میں ان کی کوئی اصل نہیں پائی جاتی۔ اس طبقہ میں بعض روایتیں وہ بھی ہیں جو بے حیا لوگوں نے دین میں داخل کردی ہیں، جو عربی زبان جانتے تھے؛ اسی لیے اچھے مضمون پر مشتمل کوئی بلیغ فقرہ بناکر حدیث کے نام سے چلتا کرتے تھے۔ وہ کلامِ نبوت کے مشابہ ہوتا ہے؛ اسی لیے آسانی سے اس کو حدیث باور کرلیا جاتا ہے۔ پھر وہ بددین مزید چالاکی یہ کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ قوی سند جوڑدیتے ہیں، جس پر جرح ممکن نہیں ہوتی۔ ان لوگوں کی یہ حرکت دین میں بڑا فتنہ ہے؛ مگر نقادِ حدیث ان روایات کو متابعات اور شواہد کے ساتھ ملاتے ہیں تو ان روایات کی اصلیت سامنے آجاتی ہے۔(۳۲)
***
حواشی ومراجع:
(۱) حجة اللہ البالغہ، ۱/۱۳۳، ادارة الطباعة المنیریة، ۱۳۵۲ھ۔ اس مقالہ میں مفتی سعید احمد پالن پوری دام ظلہ (شیخ الحدیث و صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند) کی ”رحمة اللہ الواسعہ شرح حجة اللہ البالغہ“ جلد ۲ سے حضرت شاہ ولی اللہ کی عبارت کا مفہوم اور اس کی شرح وغیرہ میں مدد لی گئی ہے۔
(۲) مالک حیاتہ وعصرہ وآراء ہ وفقہہ، ۲۹۶، ابوزہرہ، قاہرہ، ۱۳۶۳ھ۔
(۳) ایضاً۔
(۴) محاسن الاصطلاح وتضمین کتاب ابن صلاح، ص۱۴۱، سراج الدین بلقینی، دارالکتب، مصر ۱۹۷۴/۔
(۵) مقدمہ ابن صلاح، ص۱۳۶۔
(۶) تذکرة الحفاظ ۱/۲۰۸، ابوعبداللہ شمس الدین الذہبی، حیدرآباد ۱۳۳۵ھ۔
(۷) شرح الزرقانی علی صحیح الموطا، ص۹، محمد زرقانی، مصر۔
(۸) مصفی ۱/۷۔
(۹) الحدیث والمحدثون، ص۲۸۱، محمد محمد ابوزہو، مصر ۱۳۷۸ھ۔
(۱۰) مالک حیاتہ، ص۱۲۲۔
(۱۱) ایضاً۔
(۱۲) مقدمہ ابن صلاح، ص۱۰۱۔
(۱۳) حجة اللہ البالغہ ۱/۱۳۴۔
(۱۴) ایضاً۔
(۱۵) تدریب الراوی، ۱/۷۳، جلال الدین سیوطی، پاکستان ۱۳۷۹ھ۔
(۱۶) مقدمہ ابن صلاح، ص۱۱۲۔
(۱۷) تعجیل المنفعہ، ص۳، حافظ ابن حجر عسقلانی، حیدرآباد ۱۳۲۷ھ۔
(۱۸) توجیہ النظر، ص۵۳، طاہر بن صالح بن احمد الجزائری، مصر ۱۳۲۸ھ۔
(۱۹) نیل الاوطار، ۱/۱۰، محمد بن علی الشوکانی، مصر، مطبع بولاق۔
(۲۰) تدریب الراوی ۱/۱۷۲۔
(۲۱) تہذیب التہذیب ۹/۵۳۱، حافظ ابن حجر عسقلانی، حیدرآباد ۱۳۲۶ھ۔
(۲۲) سیراعلام النبلاء، ترجمہ امام ابن ماجہ محمد بن یزید، شمس الدین الذہبی، قاہرہ ۱۹۶۱/۔
ایضاً، دیکھیے تذکرة الحفاظ ۲/۱۵۹، شروط الائمة الستة، ص۷۲ پر ابوذرعہ الرازی فرماتے ہیں: طالعت کتاب ابی عبد اللّٰہ فلم اجد فیہ الاقدر یسیر مما فیہ شيء․
(۲۳) تہذیب التہذیب ۹/۵۳۱۔
(۲۴) سیر اعلام النبلاء، ترجمہ امام ابن ماجہ، محمد بن یزید۔
(۲۵) شروط الائمہ الستة، ص۷۱۔
(۲۶) Gold Aihar, Muslim Studies, P.240. V-2. Oxford, London, 1971
(۲۷) مقدمہ ابن صلاح، ص۱۱۲، فتح المغیث، ص۳۳، شمس الدین محمد السخاوی، مطبع انوارمحمدی ۱۳۰۳ھ۔
(۲۸) فتح المغیث، ص۳۳۱۔
(۲۹) تدریب الراوی ۱/۱۷۴۔
(۳۰) حجة اللہ البالغہ ۱/۱۳۵۔
(۳۱) ایضاً۔
(۳۲) ایضاً۔
***
------------------------------------
صحیح غریب احادیث سے استدلال کا تحقیقی جائزہ»
کون سی صحیح حدیث ایمانیات اور عقائد اور حلال و حرام کے احکامات میں دلیل نہیں بن سکتی؟
احادیث کی کئی قسمیں ہیں اس لیے ان کے احکام بھی مختلف ہیں۔
حدیثِ متواتر:
ایسی روایات جس کو کافی تعداد میں صحابہ نے نقل کیا ہو اور ان سے اسی طرح مسلسل کافی لوگ لوگ نقل کرتے جائیں ایسی روایات بلا شک و شبہ آیت قرانی کی طرح قابل استدلال ہیں ان سے حلال و حرام اور ایمانیات اور عقائد سمیت جملہ احکام و امور ثابت ہوں گے
باقی روایات کو خبر واحد کہا جاتا ہے جن کی تین اقسام ہیں
غریب خبر واحد:
وہ روایت جو صرف ایک صحابی سے منقول ہو اور ایک لاکھ صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی اس کی تصدیق نہ کی ہو۔
عزیز خبر واحد:
وہ روایت جس کی سند کے آغاز میں دو راوی ہوں، بعد میں چاہے جتنے بھی زیادہ ہو جائیں۔
مشہور خبر واحد:
وہ روایت جس کے آغاز میں کم از کم تین راوی ہوں، اور ہر دور میں تین راوی موجود رہیں۔
*خبرِواحد سے استدلال کے قواعد:*
(1)مشہور خبر واحد روایات سے استدلال بغیر کسی شک و شبہ کے جائز ہے اور اس سے احکامِ شریعہ اور عقائد و ایمانیات میں دلائل فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
(2)عزیز خبر واحد روایات سے احکامات میں قابلِ استدلال ہیں اور ان روایات سے سنت ، مستحب امور ، مکروہات اور ناپسندیدہ امور ثابت ہونگے ۔ البتہ عقائد اور ایمانیات میں ان سے استدلال ظنی ہوگا۔
(3)غریب خبر واحد رویات سے استدلال کرنا تعلیماتِ قرآن کی رو سے منع ہے ۔ کیونکہ قرآن کریم نے ثبوت دعوی کے لیے دو گواہوں کی شہادت کا ذکر کیا ہے جسے نصابِ شہادت کہا جاتا ہے۔ عام امور میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کافی ہے۔ جبکہ زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہے۔
*قرآنی نصابِ شہادت:*
اگر زنا کے ثبوت کے لیے نصابِ شہادت پورا نہ ہو، تو تین افراد کی گواہی پر حدِ قذف لگائی جائے گی اور گواہی دینے والے ہمیشہ کے لیے گواہی کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ البتہ عام معاملات میں دعوی کے ثبوت کے لیے بھی دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، اور ایک فرد کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہوتی اور دعوی ثابت نہیں ہوگا۔
دینی معاملات اور شرعی مسائل کی حیثیت ان دنیاوی امور سے کمتر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اگر کوئی روایت صرف ایک صحابی سے نقل ہو اور تقریبا سوا لاکھ صحابہ میں سے کسی بھی دوسرے صحابی سے اس کے ثبوت میں کوئی شہادت نہ ملے تو اس روایت سے استدلال کرنا درست نہیں۔
اگر صرف ایک ہی راوی والی روایات سے استدلال شروع کردیا جائے تو کافی مضحکہ خیز قسم کی روایات بھی دکھائی دیتی ہیں جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بنتا ،بلکہ بے کافی ساری روایات قرانی احکامات اور اصول اسلام سے یکسر متعارض ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابتدائی دور میں کافروں کی ایک کافی بڑی تعداد منافقین کی شکل میں مسلمانوں کی صفوں میں بطور دشمن موجود رہی اور انہوں نے اپنے مشن اور زندگی کے نصب العین کے طور پر حتی الامکان مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کی آخر دم تک بھرپور کوششین جاری رکھیں اور اسی سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ کی جانب من گھڑت باتیں منسوب کرنا ان کے لیے کوئی معیوب کام نہیں تھا
زمانہ نبوت میں کی شاید صحابہ کو اتنی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ کسی بھی غلطی پر فورا بذریعہ وحی اس کی اصلاح کردی جاتی تھی اس لیے انہیں تحقیق کی چندان ضرورت ہی نہ تھی۔
مزید برآن صحابہ کرام بھی اسی معاشرے میں اپنے حواس خمسہ –بلکہ ان کی چھٹی حس ہماری والی سے زیادہ حساس تھی -سمیت موجود تھے ان کے لیے اپنی بصارت اور بصیرت سے واقعات اور حالات سے مخلص مسلمانوں کی پہچان آسان تھی ان کو بہت سی باتوں کا ادراک ہوسکتا تھا جن سے بعد کی امت محروم ہے۔
اس لیے اس دور میں اگرچہ کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہوں گے جن میں کسی ایک صحابی کی بات پر کچھ لوگوں نے عمل شروع کردیا ہو مگر اس سے غریب خبر واحد روایات کی حجیت پر استدلال کرنا پھر بھی اسلامی اصول *” تبدیلی حالات سے شرعی احکام کی تبدیلی”* کی خلاف ورزی ہی ہوگا۔
روایات کے قبول کا قرآنی اصول»
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک اصول بیان کیا ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَكُمۡ فَاسِقٌ ۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِيۡبُوۡا قَوۡمًا ۢ بِجَهَالَةٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰى مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔
[سورۃ نمبر 49 الحجرات،آیت نمبر 6]
اس ایت میں لفظ "فاسق" ہے جس کا ایک معنیٰ تو وہ ہے جو لغت میں بیان کیا جاتا ہے یعنی گنہگار یا غلط کام کرنے والا لیکن یہاں یہ لغوی معنی یہاں مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہاں مخاطب ایک صحابی ہیں جنہوں نے ایک مخصوص واقعے میں کوئی فسق یا گناہ کا کام ہی نہیں کیاتھا بلکہ انہوں نے اپنے فہم کے مطابق استدلال کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک وہ بات پہنچائی مگر ان کے پاس کسی قسم کی شہادت نہ تھی اس بلا شہادت بات کے نقل کرنے کو اللہ تبارک و تعالی نے فسق کے لفظ سے بیان کیا گویا فسق کا دوسرا معنی جو کہ اللہ تعالی کی کلام کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ” کوئی ایسی بات کرنا جس کی شہادت موجود نہ ہو” اس کو بھی فسق کہا جائے گا اور ایسا کرنے والے کو فاسق کہا جائے گا لیکن اس صورت میں اس کا معنی گنہگار اور خطا کار ہرگز نہیں ہوگا۔
چونکہ خالق کائنات کا کلام زیادہ مستند ہے و اور یہی فائنل اتھارٹی ہوگااور یہاں فاسق کا لفظ ایسے ادمی کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو کہ پکے ، سچے اور مخلص مسلمان تھے اور وہ قطعا فاسق کی لغوی عام تعریف کے مطابق نہیں تھے اس لیے یہاں موقع محل کی مناسبت اور کلام کے سیاق اور سباق کی مناسبت سے ایت کا ترجمہ یہ ہوگا:
”اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کوئی بلا شہادت خبر بیان کرنے والا کوئی بات بتائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو تاکہ تم ناواقفی کی وجہ سے کسی قوم پر حملہ نہ کر بیٹھو جس کے بعد تم کو ندامت اٹھانی پڑے”۔
[سورۃ الحجرات:6]
اس ایت کی رو سے غریب خبر واحد سے استدلال تو جائز ہی نہیں بنتا کیونکہ اللہ تعالی کا قران میں حکم ہے کہ بلا شہادت بات کی خوب تحقیق کر لیا کرو اور یہاں دوسری گواہی اور شہادت موجود ہی نہیں اور بغیر ثبوت کے کسی روایت کو قابل استدلال قرار دینا اس قرانی ایت کا یک گونہ انکار ہے اور قران کریم کی اس ایت کے مقابل ایک فرد واحد کی بلا شہادت و ثبوت روایت کو ترجیح اور فوقیت دینا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہو سکتی
اس بات سے انکار نہیں بعض اوقات خبر واحد کسی عظیم صحابی کی روایت بھی ہو سکتی ہے جو سو فیصد سچ بھی ہو لیکن پھر بھی اس کو تحقیق کرنے کے قرانی حکم کے سامنے خود کو سرنگوں کرنا پڑے گا جیسا کہ اگر تین انتہائی عادل، شریف اور نیک ادمی کسی مرد اور عورت کی بدکاری کی گواہی دیں تو قرانی اصول کے مطابق ان تینوں پر حد قذف لگے گی اگرچہ وہ اپنی جگہ سچے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے:
۔۔۔۔فَاِذۡ لَمۡ يَاۡتُوۡا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓئِكَ عِنۡدَ اللّٰهِ هُمُ الۡـكٰذِبُوۡنَ ۞
ترجمہ:
...اگر وہ پوری گواہی پیش نہ کر سکے تو وہ اللہ کے ہاں جھوٹے ہیں۔
[سورۃ النور:13]
اسی طرح ایک عالم اور فقیہ صحابی کی غریب خبر واحد بھی قابل استدلال نہیں ہوگی کیونکہ وہ معیار شہادت پر پوری نہیں اتر رہی
*غریب(خبرواحد) روایات کا نقصان»*
محدثین کرام نے احادیث کو جمع کرتے وقت اس کی سند کا تو خیال کیا ، الفاظ متن کی باریکیوں کو بھی مد نظر رکھا ، لیکن ان محدثین کرام نے اپنی کتب میں غریب روایات کو بھی شامل کردیا ہے جس کی وجہ سے ایسی روایات بھی کتب حدیث میں موجود ہیں جو بظاہر قران سے متعارض ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان سے انتہائی کمتر درجہ کی ہیں جس پر محدثین کرام کو بعض اوقات ایسی تاویلات اور تطبیقات کرنےپڑیں جن عقل سلیم تسلیم کرنے سے انکاری ہیں
اگر ایسی غریب روایات کو جمع کیا جائے جن کی تاویلات اور تطبیقات میں محدثین کو انتہائی رکیک قسم کی کوششیں کرنی پڑی ہیں تو ایک کافی بڑا ذخیرہ جمع ہو سکتا ہے حالانکہ ایسی کوششیں ہی فضول ہیں کیونکہ جو روایت اسلامی اصول و ضوابط سے ثابت ہی نہیں اس کو تسلیم کرنا ،تاویل کرنا اور بعض اوقات ایسی روایات کی وجہ سے آیات قرانی کی تشریح اور تخصیص کردینا ہی درست نہیں ہے۔
اور ایسی ہی روایات معاندین اور مخالفین اسلام کا اسلام کے خلاف ایک مضبوط اوزار اور ہتھیار ہیں جس کے ذریعے وہ اسلام کی طرف امادہ ہونے والوں کو برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ اسلامی قانون کے تحت وہ ثابت ہی نہیں اگرچہ سند میں بڑے مشہور نام بھی ہوں وہ حضرت علی سے بڑے نہیں ہوسکتے جن کا دعوی قاضی شریح نے اس بنیاد پر مسترد کردیا تھا کہ ان کے دعویٰ کے ثبوت میں دو گواہ موجود نہیں تھے اور حضرت علی نے اسے تسلیم کرلیا تھا۔
واللہ اعلم بالصواب
اصول :
امام ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
وَقَدْ احْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَحْمَدُ وَابْنُ الْمُنْذِرِ وَفِي جَزْمِهِمَا بِذَلِكَ دَلِيلٌ عَلَى صِحَّتِهِ عِنْدَهُمَا.
ترجمہ:
[التلخيص الحبير:2/327، دار الكتب العلمية؛ الاستذكار:8 /198-199؛ التلخيص الحبير:2/285،قرطبة - مصر؛ سبل الهدى والرشاد:10/487؛ إرواء الغليل للالبانی:3/162(701)]
ترجمہ :جس نے قصداً ہماری جانب جھوٹی بات منسوب کی ؛وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔(بخاری ،ترمذی )
امام بخاری،امام مسلم ،امام نسائی، امام ترمذی اور امام ابوداؤد وغیرہ تمام محدثین اپنی کتابوں میں ضعیف احادیث کو جگہ دیتے ہیں۔امام بخاری ”بخاری شریف“ میں نہ سہی؛ مگر اپنی دیگر کتابوں میں ضعیف احادیث ذکر کرتے ہیں۔
یہ انتہائی جہالت کی بات ہے؛ورنہ جن حضرات کو علم حدیث کی ”ہوا “ بھی لگی ہے ؛وہ جانتے ہیں کہ احادیث کی صرف دو ہی قسمیں :صحیح اورضعیف نہیں ؛بلکہ اس کی متعدد اقسام ،مثلا: صحیح ،صحیح لغیرہ ؛حسن ،حسن لغیرہ وغیرہ ہیں۔اوروہ یہ بھی جانتے ہیں کہ امام بخاری اور امام مسلم نے چوں کہ التزام کررکھا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف انہی راوایات کو جگہ دیں گے ؛ جوان قسموں میں سے اول درجے کی ہوں گی۔ بقیہ قسمیں بخاری اورمسلم میں جگہ نہیں پاسکیں ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیثیں منکرہیں ۔بات یہ ہے کہ محدثین کو جو روایات پہنچیں؛ان کو انھوں نے جانچا ،ان کے اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے درمیان جتنے لوگ اس روایت کو نقل کرنے میں واسطہ بنتے ؛ ان کے احوال زندگی،ان کے قوت حفظ ،مہارت ،ضبط اور عدالت وغیرہ کو جانچنے کے بعد اس حدیث پر صحیح ،حسن ،صحیح لغیرہ یا حسن لغیرہ اورضعیف وغیرہ کا حکم لگادیا ۔اگر روایت سب سے اعلی درجہ کی ہوتی ہے ؛تو اس کو صحیح کہہ دیتے، اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی نظر آتی تو اس کو حسن وغیرہ کہہ دیتے،بعض مرتبہ تمام شرائط پائی جاتیں؛مگر اس کو محض اپنے خاص ذوق(علة خفیہ)کی وجہ سے چھوڑ دیتے۔ہاں! اگر اس روایت کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ جھوٹی ہے تو اس کو منکراور موضوع قرار دیتے اوراسے اپنی کتابوں میں نقل ہی نہ کرتے ۔ موضوعا ت کی کتابیں الگ سے لکھی گئی ہیں؛تاکہ کسی موضوع روایت کے بارے میں تحقیق کرنی ہوتو اس کتاب میں اس کی تفصیل مل جائے۔مگر یہ سارے فیصلے اجتہادی ہوا کرتے ہیں؛ان میں غلطی بھی ہوسکتی ہے۔یہ با ت نہیں ہے کہ امام بخاری اورامام مسلم رحمة اللہ علیھما نے جن روایتوں کو ترک کردیا ہے ؛وہ صحیح نہیں ہوسکتی ہیں،یا جن کواختیار کیا ہے وہ ہراعتبار سے صحیح ہی ہیں۔کیوں کہ ان حضرات کی بیسیوں روایات پر محدثین نے کلام کیا ہے ؛بلکہ بعض کو توشاذ بھی کہا ہے ۔ مثلا:بخاری کی وہ روایت جس میں واقعہ” افک“ کے تعلق سے حضرت سعد بن معاذرضی اللہ عنہ کانام آیا ہے۔ ایسے ہی امام مسلم کی وہ روایت جس میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکے نکاح کے تعلق سے حضرت سفیان کانام آیا ہے ۔ جن روایات کو ان حضرات نے ترک کیا ہے ؛ان کے لیے بھی ضروری نہیں کہ وہ صحیح نہ ہوں؛چوں کہ بہت ساری ایسی روایات ہیں؛جو ان دونوں اماموں کی شرائط پرمکمل اترتی تھیں؛مگر ان حضرات نے اپنے خاص ذوق(علة خفیہ) کی وجہ سے ان کو ترک کردیا ۔چناں چہ بعد میں”امام حاکم نیساپوری“ نے انہی روایات کو جمع کرکے ” مستدرک حاکم “ تصنیف فرمائی؛ اسی وجہ سے مستدک حاکم کی روایات کو” صحیح علی شرط الشیخین“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ بارہا ایساہوتا ہے کہ ایک محدث ایک حدیث پر صحیح ہونے کا حکم لگاتاہے تو دوسرا اسی حدیث پرحسن ہونے کا حکم لگادیتا ہے ،کسی حدیث پر ایک محدث صحت کا حکم لگاتا ہے تو دوسرا اسی پرضعف کا حکم لگا دیتا ہے۔اسی وجہ سے امام بخاری اور امام مسلم نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ تمام صحیح احادیث ان کی کتاب میں آگئی ہیں،یا ان کی کتاب کے علاوہ صحیح روایات کہیں اور نہیں ہیں۔
مگر احکام شرعیہ اور حرام وحلال کا فیصلہ کرنے کے لیے احادیث کا صرف صحیح ہونا کافی نہیں ہے ۔بلکہ حدیث کا صحیح اورحسن ہونا؛احکام شرعیہ کی راہ میں ابتدائی مرحلہ کی چیز ہے۔چوں کہ روایت کتنی بھی مضبوط ہو؛ مگر اس پر عمل ہونا ضروری نہیں ،مثلاً : وُضُوءُ مِمَّا مَسَّتِ النَّار․ یعنی آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹنے کی روایت بہت ہی مضبوط ہے؛ایسے ہی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے والی روایت بہت ہی اعلی درجے کی ہے ؛ مگر ان پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔چوں کہ روایات کا محض صحیح اور مضبوط ہونا ہی عمل کے لیے کافی نہیں ۔عمل کے باب میں اصل چیز ان روایات کی گہرائی میں جاکر ان کی صحیح سمجھ حاصل کرنا ہے۔اوراسی گیرائی و گہرائی کو” فقہ“ سے تعبیر کیاجاتاہے۔ شریعت اسلامی میں یہی درجہ مطلوب ہے ۔فقہ کہتے ہیں دینی سمجھ کو ۔یہ ایسا فن ہے جس میں صحابہ کرام کے مابین بھی باہم فرق مراتب تھا،چناں چہ صحابہ میں بھی اختلافات ہوئے اور کہناچاہیے کہ ائمہ اربعہ کے اکثر اختلافات کی بنیاد صحابہ کے اختلافات ہی ہیں؛اور وہ غلط بھی نہیں،چناں چہ حضرت عون بن عبد اللہ تابعی فرما تے ہیں مجھے یہ بات ناپسندنہیں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف نہ ہوتا اس لیے کہ اگروہ حضرات کسی چیز پر مجتمع ہوں اورپھر کوئی شخص ان کے خلاف کرے تو وہ تارک سنت ہے اوراگر اختلاف ہو،پھر کوئی شخص ان میں سے کسی کے بھی قول کے مطابق عمل کرے تو وہ حدود سنت سے نہیں نکلا۔ (دارمی)
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فرمایا:
«مَا يَسُرُّنِي لَوْ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَخْتَلِفُوا , لِأَنَّهُ لَوْ لَمْ يَخْتَلِفُوا لَمْ تَكُنْ رُخْصَةً»
[الإبانة الكبرى لابن بطة:2/565 - کتاب الاول:الایمان - المجلد الثانی - بَابُ التَّحْذِيرِ مِنِ اسْتِمَاعِ كَلَامِ قَوْمٍ يُرِيدُونَ نَقْضَ الْإِسْلَامِ۔۔۔رقم الحدیث:703]
ترجمہ:مجھے یہ بات پسند نہیں کہ صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا؛ کیوں کہ اگر صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا تو رخصتیں نہ ہوتیں۔
(زرقانی علی المواہب بحوالہ اعتدال فی مراتب الرجال)۔
حضرت عبد اللہ بن المبارکؒ فرمایا کرتے تھے:
قرآن وحدیث کے مقابلے میں،ایسے ہی صحابہ کے اجماعی قول کے مقابلے میں نہ کسی کا قول معتبر ہے نہ رائے ۔ہاں جہاں صحابہ میں اختلاف ہے؛ اس میں ہم اس چیز کو اختیار کریں گے۔ جو قرآن وحدیث کے زیادہ قریب ہوگی۔
(اعتدال فی مراتب الرجال )
اگر احکام شرعیہ کے لیے صرف حدیث کا صحیح ہونا ہی کافی ہوتا۔ تو صحابہ میں اختلاف کیوں ہوتا؛ان کے حق میں تو تمام روایات صحیح سے بھی بڑھ کر قطعی یعنی قرآن کے ہم پلہ تھیں۔انھوں نے احادیث کو اپنے کانوں سے جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا، صحابہ میں سب سے زیادہ حدیث روایت کرنے والے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں؛مگرفتاوی حضرت عمروحضرت علی رضی اللہ عنہما وغیرہ کے چلتے تھے ۔وجہ اس کی یہی ہے کہ احکام شرعیہ کے لیے صرف نصوص کافی نہیں ؛بلکہ اس کے لیے ”تفقہ“اوردینی سمجھ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :﴿فَلَولاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْہُمْ طَائِفَةٌ لِیَتَفَقَّہُوافِی الدِّیْنِ ﴾․
ترجمہ :کیوں نہیں نکلی ہرگروہ میں سے ایک جماعت کہ وہ دین میں سمجھ پیداکرے اور قوم کے لوگوں کوجب لوٹ کر آئیں؛ تو ان کوبا خبرکرے، تاکہ وہ لوگ بچیں(قرآن)۔
اسی فقہ کے بارے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :رُبَّ مُبَلَّغٍ اَوعٰی مِنْ سَامِعٍ ۔ترجمہ :جن لوگوں کو حدیث پہنچائی جاتی ہے ؛ان میں بہت سے ایسے ہیں؛جو حدیث کوسننے والوں سے زیادہ حفاظت کرنے والے ہیں۔(مسند احمد ،ابوداؤد،ترمذی ،ابن ماجہ)اسی ملکہ کے بار ے میں حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:رُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیْرُ فَقِیْہٍ :یعنی بہت سے لوگ جو (حدیث جس میں) فقہ( کا خزانہ ہے،اس)کے حامل ہیں(مگر)وہ (خود)غیر فقیہ ہیں۔ (ترمذی ) اسی ملکہ کی وجہ سے حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایاتھا :معاذمیرے صحابہ میں سب سے زیادہ حرام وحلال کو جاننے والے ہیں۔(ترمذی)اگر صرف حدیث کا مضبوط ہونا ہی کافی ہوتا ،جیسا کہ یہ دین کے نادان دوست سمجھ رہے ہیں؛تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم یہ کہتے : جس نے سب سے زیادہ مجھ سے حدیثیں سنیں ہیں؛ وہی سب سے بڑا احکام شرعیہ کا جاننے والا ہے۔چوں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے براہ راست (ڈائرکٹ) حدیث سنی ؛اس کے حق میں وہ حدیث قرآن کے برابرہے۔چوں کہ وہ بالکل قطعی اوریقینی ہے ۔وہاں کسی صحیح اور ضعیف کا احتمال ہی نہیں۔
اہل علم جانتے ہیں کہ صرف احادیث کا مضبوط ہوناہی عمل کے لیے کافی نہیں؛انہی وجوہات کی بنا پرغیر مجتہد محدثین احکام شرعیہ نہیں نکالاکرتے تھے؛بلکہ وہ خودبھی فقہاء ہی کی اتباع کرتے تھے۔ مشہورمحدث حضرت امام شعبی کا مقولہ مشہور ہے :نَحْنُ الصَّیَادِلَہْ وَأنْتُمُ الْأطِبَّاءُ․
ترجمہ :ہم محدثین تو دواخانہ والے ہیں،ڈاکٹر تو آپ(فقہاء ) حضرات ہیں۔ امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کے طرز کو دیکھیے!حضرت اپنی سنن”ترمذی “ میں جہاں حدیث کے صحیح اورحسن وضعیف وغیرہ ہونے کا حکم لگاتے ہیں ؛تووہاں محدثین اصولیین کے اقوال نقل کرتے ہیں؛لیکن جہاں احکام شرعیہ ،حرام اورحلال کو بیان کرتے ہیں،وہاں فقہاء ہی کے اقوال نقل کرتے ہیں۔ایک جگہ” امام ترمذی“ فقہائے عظام کے مسالک نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:کَذَالِکَ قَالَ الْفُقَہَاءُ وَہُمْ اَعْلَمُ بِمَعَانِی الْأحَادِیْثِ․
ترجمہ:فقہاء نے ایسا ہی کہاہے اوروہی لوگ حدیث کے مطلب کوزیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ (ترمذی باب ماجاء فی غسل ا لمیت)
اکثرمحدثین خود بھی مقلد تھے ،چناں چہ مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن بھوپالی صاحب امام بخاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: وہ شافعی المسلک تھے۔(ابجد العلوم 810)اسی طرح امام مسلم رحمة اللہ کے بارے میں بھی نواب صاحب نے شافعی المسلک ہونا ذکر کیا ہے۔ (الحطہ98) وجہ بالکل ظاہر ہے کہ احادیث کے مابین تطبیق دینا اور ان سے احکام شرعیہ نکالنا ؛اس کے لیے حدیث کا صحیح اور حسن ہونا ہی کا فی نہیں، بلکہ اس کے لیے اور بھی بہت سی دیگر چیزیں درکا ر ہوتی ہیں۔
احکام شریعت کے لیے جودیگرچیزیں درکار ہیں؛ان میں سب سے اہم چیز صحابہ کے آثار ہیں ۔ احکام اسلام اور شریعت محمدی میں صحابہ کے آثار فیصلہ کن چیز ہواکرتے ہیں ۔چناں چہ حضرت ابراہیم نخعی (96ھ)،جو خود بھی صحابہ کے شاگر د ہیں،فرماتے ہیں:اگر صحابہ کو دیکھ لیتا کہ وہ کلائی تک وضو کرتے ہیں؛ تو میں عمل اس پر کرتا؛ جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھتا اور قرآن میں جو آیاہے:﴿الی المرافق﴾․ یعنی وضو میں کہنیوں تک ہاتھ دھوؤ(مائدہ)تو اس کو ایسے ہی پڑھتا ؛جیساکہ قرآن میں ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ صحابہ پرترک سنت کی تہمت نہیں لگا ئی جاسکتی ،وہ اہل علم تھے اور تمام مخلوق میں سب زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے خواہاں اور مشتاق تھے۔ ان کے عمل کے بارے میں کسی قسم کا شک وہی کرسکتا ہے ؛جس کو اپنے دین میں شبہ ہو۔ (الحجہ فی بیان المحجہ 2/401)
حضرت عمر بن عبد العزیر رحمة اللہ علیہ (جن کو جامع احادیث کہاجاسکتا ہے؛یعنی احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلوة والسلام کو کتابی شکل میں جمع کرانے اوراس کے لیے سرکاری طور پر کام شروع کرانے کا سہرا آپ ہی کے سرجاتا ہے ۔) صحابہ کی اتباع کی بابت اپنے ایک خط (جسے امام ابوداؤد نے بھی نقل کیا ہے،اس ) میں فرماتے ہیں :
فَمَا دُوْنَہُمْ مِنْ مُقَصِّرٍ وَمَا فَوقَہُمْ مِنْ مُحَسِّرٍ، وَمَنْ قَصَرَ دُوْنَہُمْ فَجَفُوا، أوْ طَمَحَ عَنْہُمْ أقْوَامٌ فَغَلُوا، وَإنَّہُمْ بَیْنَ ذٰلِکَ لَعَلٰی ہُدًی مُسْتَقِیْمٌ ․
ترجمہ :صحابہ کی اتباع نہ کرنا (دین میں) کمی اورتقصیر ہے ۔اور ان سے آگے بڑھنا (دین میں)زیادتی اورتکان ہے۔ایک جماعت نے(ان کی اتباع نہیں کی ؛بلکہ) ان سے کوتاہی کی ،تو اس نے ظلم کیا اوردوسری ان سے آگے بڑھ گئی تو انھوں نے غلو کیا ،صحابہ کرام اسی افراط وتفریط کے درمیا ن سیدھی راہ پر تھے۔ (الاعتدال فی مراتب الرجال)
حضرت ابو زید قیروانی مالکی (متوفی :386ھ)نے اپنی کتا ب ”الجامع“ میں” اہل سنت والجماعت“ کے عقائد اور ان کے طریق کا ر کوا س طرح بیان کیا ہے :
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سنتو ں کے بارے میں یہ بات مسلم ہے کہ نہ اس کا مقابلہ رائے سے ہوگا اور نہ قیاس سے۔ اور سلف صالحین(صحابہ ) نے جہاں تاویل کی ہے ؛ہم بھی تاویل کریں گے اور جس پر عمل در آمد کیا؛ ا س پرہم بھی عمل کریں گے اور جس پر عمل نہیں کیا ؛اس پر ہم بھی عمل نہیں کریں گے اور جہاں انھوں نے توقف اختیار کیا ؛ہمارے لیے بھی توقف کی گنجائش ہے اور جہاں انھوں نے کچھ بیان کیا ہے ؛ہم اس کی اتباع کریں گے، اور جو استنباط کیا ہے؛ اس کی اقتدا کریں گے اور جہاں انھوں نے تاویل میں اختلاف کیا ہے؛ تو ہم ان کی جماعت سے نہ نکلیں گے ۔(الجامع)
امام احمد ابن حنبل فرماتے ہیں:ہمارے نزدیک سنت کے اصول وہ ہیں ؛جن پر حضرات صحابہ کرام تھے ۔(فتاوی ابن تیمیہ 4/155)
حاصل کلام یہ کہ احادیث کا صرف صحیح اور مضبوط ہونا ہی عمل کے لیے کافی نہیں ہے ؛بلکہ اس کے لیے اوربھی بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔
اوراگربالفرض تسلیم کرلیا جائے کہ جو روایت زیادہ مضبوط ہو؛اس پر عمل کیا جائے اور اس کے بالمقابل جو کمزور ہو ؛اس کو ترک کردیا جائے ؛تب تو دین کا جنازہ نکل جائے گا۔ چوں کہ سندکے اعتبار سے سب سے مضبوط ترین روایت ”قرآن کریم“ کی ہے ؛جو معناً اور لفظاً دونوں اعتبار سے متواتر ہے ، ذخیرہ احادیث کی کوئی بھی روایت سند کی مضبوطی و قوت میں اس کا مقابل نہیں ہوسکتی ۔قرآن مجید بہرصورت ”حدیث“ کے مقابلے میں مضبوط ہے۔اب اگر کسی جگہ قرآن وحدیث میں بظاہرتعارض نظرآئے ،یعنی قرآن سے ایک حکم نکل رہا ہو؛جب کہ حدیث سے اس حکم کے بالکل خلاف دوسرا حکم نکل رہا ہو؛تو کیا محض اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ اپنے مدمقابل کے سامنے کمزورہے ؟اگر یہی اصول تسلیم کرلیا جائے ؛تو ان احادیث کے ساتھ آپ کیا کریں گے،جس میں حضور صلی الله علیہ وسلم کو خصوصی طورپر چار سے زائد شادیوں کی اجازت تھی۔چوں کہ قرآن کریم جو حدیث کے بالمقابل مضبوط ہے ؛اس کا تو حکم یہ ہے :﴿فَانْکِحُوا مَاطَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنٰی وَثُلاَثَ وَرُبَاع﴾.
یعنی بیک وقت صرف چارعورتوں سے ہی شادی کرسکتے ہو(اس سے زیادہ نہیں)-(سورہ نساء آیت نمبر 3)۔کیا حضور صلی الله علیہ وسلم کو آپ بھی یہود ونصاری کی طرح اپنے طعن وتشنیع کا نشانہ بناؤگے ؟۔ نعوذ با للہ من ذلک!
اسی طرح احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن شفاعت ہوگی ؛جب کہ قرآن کہتا ہے : ﴿لَابَیْعٌ وَلاَخُلَّةٌ وَلَاشَفَاعَةٌ ﴾(سورہ بقرہ آیت نمبر 254) یعنی قیامت کے دن شفاعت نہیں ہو گی ؛تو کیا محض اس وجہ سے شفاعت کی احادیث کا انکار کردیا جائے گا کہ وہ قرآن کے مقابلے میں سنداًکمزورہیں۔ ایسے ہی حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:لَانُورِثُ مَاتَرَکْنَاہ صَدَقَةٌ(ہم(انبیاء وارث نہیں بناتے ؛ہمارا جو کچھ ترکہ ہوتا ہے ؛وہ صدقہ ہوتا ہے۔) جب کہ قرآن کہتا ہے:﴿یُوصِیْکُمُ اللّٰہُ فِی أوْلَادَکُمْ﴾․
ترجمہ: اللہ تعالی تم کو حکم دیتاہے تمہاری اولاد(کی میراث)کے باب میں۔(سورہ نساء)یعنی ہربچے کا حصہ منجانب اللہ متعین ہے ؛ماں باپ اس کے حصے کو ختم نہیں کرسکتے ۔تو کیا اس حدیث کو محض اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ اپنے مقابل والی آیت کے مقابلے میں سنداًکمزور ہے ۔ایسے ہی احادیث میں آتا ہے کہ ایک وضو سے متعدد نمازیں ہوجاتی ہیں،جب کہ قرآن کہتاہے :﴿إذَاقُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ ﴾․یعنی نماز کے لیے کھڑ ے ہو،تو وضو کرو! اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہو،تو وضو کیا کرو ۔توکیا ان احادیث، جن سے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے،ان کا انکار کیا محض اس وجہ سے کردیا جائے گا کہ وہ سنداً قرآن کے بالمقابل کمزور ہیں ؟ہرگز ہر گز ایسا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چوں کہ یہ اصول ہی غلط ہے ۔اگراس اصول کو تسلم کرلیا جائے تو قرآن وحدیث کا ایک ٹکڑااپنے ہی دوسرے حصے کی تکذیب کرتا ہوا نظر آئے گا۔ قرآن” حدیث “کی تکذیب کرے گا اورحدیث ”قرآن“ کی تکذیب کرے گی۔اوریہ ایسی بھیانک مصیبت ہوگی ؛جس کی وجہ سے پوری امت ہلاک ہوجائے گی۔ سابقہ امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہو ئیں۔حدیث میں آتاہے: عَنْ عَمْروٍ بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ قَالَ :سَمِعَ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم قَومًا یَتَدَارَئُونَ فِی الْقُرْآنِ، فَقَالَ :إنَّمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِہٰذَا․ ضَرَبُوا کِتَابَ اللّٰہِ بَعْضَہ بِبَعْضٍ، إنَّمَا نَزَلَ کِتَابُ اللّٰہِ یُصَدِّقُ بَعْضَہ بَعْضًا، فَلاَ تُکَذِّبُوا بَعْضَہ بِبَعْضٍ، فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْہ فَقُولُوا وَمَا جَہِلْتُمْ فَکِلُوہ إلٰی عَالِمِہ․
ترجمہ :عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرکے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے بارے میں سنا کہ وہ قرآن پاک میں باہمی اختلاف کررہے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑرہے ہیں تو (سخت نارا ض ہوئے اور)فرمایا :تم سے پہلے جو لوگ تھے؛ان کی ہلاکت وبربادی کا باعث یہی چیز بنی تھی کہ انھوں نے اللہ کی کتاب کے ایک حصہ سے دوسرے حصے کی تردید (تکذیب )کی ۔سن لو!اللہ کی کتاب اس شان سے نازل ہوئی ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو سچاثابت کرتا ہے ۔لہذا اس کے کسی حصہ کو کسی دوسرے حصے کے ذریعہ مت جھٹلاؤ۔اور اس (طرح کی کسی آیت کے مفہوم ومراد کے بارے میں)تم وہی بات کہوجو (کتاب اللہ کے صحیح معنی ومرادجاننے اور بتانے والوں کے ذریعہ )تمہارے علم میں (آئی ) ہے ۔اور جو چیز تمہارے علم میں نہیں ہے ؛اس کو علم رکھنے والوں کے حوالہ کردو۔ (مسند احمد ،بخاری فی خلق افعال العباد /30)
بعینہ یہی صورت حال ان لوگوں کی اس دعوت کی ہے ؛جو مجتہدین کے معتبر فقہ کوپس پشت ڈالنے اور اجتہادکی دعوت دیتے پھر رہے ہیں،اسلام عام آدمی کو شریعت میں خود برد کرنے کی اجازت نہیں دیتا،ارشاد خداوندی ہے: ﴿فَاسْئَلُوا أہْلَ الذَِّکْرِ إنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُونَ﴾ ترجمہ :اگر نہیں جانتے ؛تو اہل علم سے معلوم کرلو۔ (القرآن ) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّمَاشِفَاءُ الْعِیِّ اَلسُّوَالُ ۔ترجمہ:(علمی امور سے)عاجزشخص(کے دینی معاملات ) کاعلاج (جاننے والوں سے )سوال کرنا ہے۔(ترمذی ) ۔ کتاب اللہ ، سنت رسول صلی الله علیہ وسلم اورآثار صحابہ سے ماخوذ معتبر ”فقہ اسلامی“ و”شریعت “ہمارے سامنے” ستو“ کی مانند موجودہے کہ جب بھی ضرورت محسوس ہو ؛ان راجح اور مقبول فتاوی سے امت استفادہ کرے ۔اسے ائمہ مجتہدین ،محدثین عظام اور فقہائے دین متین نے بڑی عرق ریزی اور دیدہ وری سے مرتب کیا ہے ۔اس کے تیارکرنے ، ترتیب دینے ا ور اصلاح وتہذیب میں نہ جانے کتنے علماء اور محدثین نے خون پسینے ایک کئے ہیں اور صدیوں سے اس کی اصلاح ہوتی چلی آرہی ہے۔ مگر یہ لوگ عوام سے کہتے ہیں کہ اگر اس فقہ کے مطابق زندگی گزاروگے تو گم راہ ہوجاؤ گے۔ قرآن وحدیث سے خود مسائل نکالو اور اس پر عمل کرو۔ کسی عالم، کسی فقیہ اور محدث کے اخذکردہ مسائل کے مطابق زندگی مت گزارو۔
گویا کہ اجتہاد کرنا اور قرآن وحدیث سے مسائل نکالنا بچوں کا کھیل ہے ! یہ دعوت اسی مکار اور عیار شخص کی سی ہے ؛جو” ستو“ کے استعمال کو مشکل کہتاہے اور ”جو‘ ‘کے استعمال کو آسان !کیوں کہ قرآن وحدیث سے مسائل نکالنے اور اجتہاد کرنے کے لیے بہت سارے علوم کی ضرورت ہوتی ہے ؛کم از کم اتنا علم تو انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ قرآن کی آیاتِ ناسخہ ومنسوخہ،احادیث ِصحیحہ ،ضعیفہ اور سقیمہ، نیز آثارِ صحابہ واقوال ِمحدثین پر آدمی دست گاہ ِتام رکھتا ہو، اصول ِتفسیر وحدیث ،فصاحت، بلاغت ،عروض و قوافی اور نحو وصرف کے ایک معتدبہ حصے پرقدرت ِتام رکھتا ہو؛جو کہ ایک عام آدمی کے بس سے باہر کی چیزیں ہیں ۔
اس دعوت کا مقصد مسلمانوں کو صراط مستقیم پرچلانا نہیں؛بلکہ غلط مقاصد کی تکمیل ہے۔ مقصدیہ ہے کہ خواہش نفس کے مطابق شریعت کی تدوین کی جائے ۔یعنی جو مسئلہ نفس کو بھائے اور اس پر عمل کرنے میں نفس کو راحت ملے ؛اسی کو قرآن وحدیث کا نام دے کر اس پر عمل کیا جائے،بقیہ جو مسائل نفس پر شاق گزریں،یا ان پر عمل کرنے میں تکلیف محسوس ہو ؛ ان کو غلط اور باطل کہہ دیاجائے ۔ آپ کے سامنے اس طرح کے مجتہدین کے دوفتاوے پیش ہیں؛ جن سے ان کے مقاصدکو بخوبی سمجھاجاسکتا ہے۔پچھلے دنوں( ہفت روزہ”نئی دنیا“) نے اس طرح کے ایک مجتہد صاحب(جو سعودی عرب میں رہتے ہیں،ان) کا فتوی شائع کیا تھا ۔اس فتوی کو سن کر عالم اسلام دم بخود رہ گیا، سعودی حکومت ورطہٴ حیرت میں پڑ گئی اوراس نے ان جیسے مجتہدین سے اپنے دامن کو بچانے ہی میں عافیت محسوس کی۔
سعوی عرب میں عورتیں بھی اعلی سرکاری ونیم سرکاری عہدوں پر فائز ہونے لگی ہیں۔ ان کے ماتحت ملازمین ہواکرتے ہیں ۔مسئلہ یہ آیا کہ ان کے پرد ے کا کیا ہو؟چوں کہ پردہ فرض ہے۔ ایک مجتہد صاحب نے اجتہاد کیا اور جھٹ سے اپنا فتوی جاری کردیا۔انھوں نے فتوی دیا کہ ایسی تمام اعلی عہدوں پر فائز عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو چھاتی کا دودھ پلادیں؛تاکہ ماتحت لوگ اس کے بیٹوں کے حکم میں ہو جائیں اور پر دہ کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ ( ہفت روزہ نئی دنیا10ء )
اسی قسم کے ایک اور مجتہد صاحب کا فتوی ابھی تازہ تازہ آیاہے، اخبار لکھتاہے:سوڈان میں خواتین کے حجاب سے متعلق ایک فتوی کے بعد ملک کے مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے (فتوی یہ ہے:) اسلام خواتین کے لیے کسی مخصوص پردہ اور لباس کا حکم نہیں دیتا۔وہ صرف ایک باوقار لباس کی تلقین کرتاہے ۔اور قرآن کریم میں جو حجاب کی اصطلاح ہے؛ وہ صرف ازواج مطہرات کے لیے مخصوص ہے ۔(راشٹریہ سہارا، 22/جنوری 12ء)
ان فتاوی کو ملاحظہ کیجیے! اور بزعم خود ان نئے مجتہدین کی تلذذِطبعی اورتفنن خاطری کو داد ددیجیے۔ کسی حرام(خصوصاً جس میں لذت ہو؛اس) میں اتنی سکت کہاں کہ ان لوگوں کی زد میں آ نے کے بعد اپنی حرمت برقرار رکھ سکے؟ان حضرا ت کے مزاج کی رنگینی اسے کب حرام رہنے دے گی؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ا ن مجتہدین یا اجتہادکی دعوت دینے والوں کے پاس دلائل کی کمی ہے، دلائل تو ابلیس کے پاس بھی تھے ،پھر یہ بے چارے کیوں کر اس دولت بے بہا سے بے بہرہ رہ سکتے ہیں؟دلائل ان کے پاس بہت ہیں اور ایسے ایسے دلائل کہ رات کو دن اوردن کو رات کہنے پر مجبور کردیں ۔ مثلاًان مجتہدین کے اجتہاد کو کسی د ن اگر زیادہ جو ش آگیا ؛تو آیت قرآنیہ :﴿یَااَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی﴾ (اے ایمان والو !نشے کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جا ؤ!)سے استدلال کرتے ہوئے شراب کی حلت کا بھی فتوی دے ماریں گے ۔ کو ن ان سے جاکرپوچھ سکتا ہے کہ بھائی !یہ آیت شراب کی حرمت سے پہلے کی ہے ۔چوں کہ ان کے یہاں اجتہاد کے لیے کسی صلاحیت کی ضرورت ہی نہیں،صرف کسی کتاب میں لکھا ہوا آیت کا یا حدیث کاترجمہ ان کے اجتہاد وفتاوی بازی کے لیے کافی ہے۔ان کو اس سے کیا لینا دینا کہ یہ آیت حرمت شراب سے پہلے کی ہے یہ بعد کی؟ ناسخ ہے یا منسوخ؟مقبول ہے یا مردود؟کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دلائل ان کے یہاں سارے کے سارے قرآن اورحدیث ہی سے ملیں گے ؛ گرچہ اس سے دین و اسلام منہدم ہو کررہ جائے ۔
شریعت کا مقصد ہے کہ انسان ہر معاملے میں اللہ کے احکام کو پیش نظر رکھے ،اگر شریعت کا حکم معلوم نہ ہو تو علمائے حق سے رجوع کرے اور حکم خداوند ی معلوم ہو نے کے بعد ا پنی اطاعت گزاری اور بندگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر عمل کرے ۔لیکن ان حضرات کا مقصد دوسراہے؛ان کا مقصد ہے کہ اگر کسی کام کے کرنے میں دشواری معلوم ہو اور اس پر عمل نہ کرنا ہو ؛تواس آیت یا حدیث ہی میں نقص نکال دو،مثلاً :کہو کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔یہ بخاری میں نہیں ،مسلم میں نہیں ۔ اگر آپ نے حدیث دکھاہی دی ؛تو کہیں گے : حدیث صحیح مرفوع متصل ان ان الفاظ کے ساتھ دکھاؤ ؛تو ہم مان سکتے ہیں!ورنہ نہیں۔ان کی اصل بیماری تلذذ طبعی اورسہولت پسندی ہے ؛ جس کی باعث یہ لوگ امت کے تمام طبقات سے نالاں ہیں ۔اور بسا اوقات تو خیر القرون سے لے کر اب تک کے تمام اہل حق علماء کو ناحق اور اہل بدعت کہنے سے بھی نہیں کتراتے ۔امت کے اس اجماع سے انہیں بے حد چڑ ہے کہ تقلید صرف ائمہ اربعہ کی ہوگی۔ اور فتاوے صرف انہی مکاتب فکرکے علماء کے چلیں گے۔اللہ سب کی حفاظت فرمائے اور اپنے دین پر قائم ودائم رکھے۔
کیا کسی امام کی تقلید کرنا شرک ہے؟
یاد پڑتاہے کہ بچپن میں ہمارے کچھ ساتھی جب کسی اپنے ہم عمر اورمعاصر لڑکے کے ساتھ مذاق او رتمسخر کاارادہ کرتے؛ تو بطور امتحان اس سے پوچھتے ،بتاؤ : تم زنانی ہوکہ زنانہ؟ اب اگر ساتھی سمجھ دار ا ورہوش مند ہوتا ؛تو کہتا :نہ تو میں زنانی ہوں اور نہ زنانہ(عورت) ؛بلکہ میں تو مردہوں۔لیکن اگر ساتھی نافہم اور بے عقل ہوتا ؛تو تھوڑے سے توقف اورسوچ بچار کے بعد کہہ اٹھتا:میں زنانہ(عورت) ہوں۔اور اس طرح وہ اپنی نادانی اورکم علمی کی وجہ سے ان کے مذاق اور تمسخر کا شکاربن جاتا۔ان کی چال اورجال یہ ہوتی کہ وہ سوال ہی غلط ڈھنگ سے کرتے اور اس کے سامنے ایک چیز کو جو ظاہرمیں الگ الگ (دوچیزیں) معلوم ہوتیں ؛جب کہ حقیقت میں وہ ایک ہی ہوتی ہے؛ اس کو تقسیم کرکے اس کے سامنے پیش کرتے اوراس نادان کو اپنے جال میں پھنسالیتے۔
تقلید سے بے زارکرنے کی مہم اور نظر یہ اسی قبیل کی چیز ہے ۔ یہ لوگ عوام اور کم دینی علم رکھنے والے لوگوں کے پاس جاکرسوال کرتے ہیں کہ بتاؤ:اللہ اوررسول کو مانوگے یاکہ ابوحنیفہ ؛مالک ؛شافعی اوراحمد کو؟ بھلا! ایک مسلمان، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو ؛وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول کے علاوہ کسی اورکو مانتاہے۔لہذا وہ کہتا ہے کہ میں اللہ کو مانتا ہوں ۔اس کے بعد اگر وہ بھولا بھالا آدمی ان کے جال میں صحیح طور پر پھنس گیا؛تو وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتا ؛بلکہ ان لوگوں کے ساتھ مل کر صحابہ ،ائمہ مجتہدین ا ورسلف صالحین پر لعن طعن کی زبان بھی دراز کرتا ہے ؛لیکن اگر وہی شخص پڑھا لکھا اور علمی میدان کا بالغ آدمی ہوتا ہے؛ تو کہتاہے :میں اللہ اور رسول کو بھی مانتاہوں ؛ابوحنیفہ ،مالک ،شافعی اوراحمد وغیرہ کو بھی مانتاہوں۔ چوں کہ میں اللہ کو رب اور خالق ومالک ہونے کی حیثیت سے مانتاہوں؛ رسول کو نبی اورپیغام برہونے کی حیثیت سے مانتاہوں اور ائمہ(ابوحنیفہ، مالک ؛شافعی اوراحمد) کو شریعت کی تشریح و توضیح کرنے والا ہونے کی حیثیت سے مانتاہوں ۔اوراس میں کوئی تضاد اوراختلاف بھی نہیں کہ ایک کو ماننے سے دوسرے پر کوئی ضرب پڑتی ہو ؛جیسے ماں ،باپ ،بھائی اوربہن ۔کیا ماں کو ماں کہنے سے باپ پر کوئی اثر پڑتاہے ،یا بہن کو بہن کہنے سے ماں کی حیثیت متاثرہوتی ہے؟لیکن اگر ماننے سے تیری مراد بندگی ہے؛ تو اے دھوکے باز!کان کھول کرسن لے !میں اللہ کے علاوہ کسی کی بھی عبادت نہیں کرتا؛چہ جائے کہ ائمہ ومحدثین عظام وغیرہ!
زمانہ آخری چل رہاہے ،قیامت قریب ہے ، اند راورباہر ہر طرف سے فتنوں کی یلغار ہے اورہر فتنہ ایک جاذب نظر ، خوب صورت اور پرکشش انداز اورٹائٹل میں سامنے آتاہے۔ مثلا یہی فتنہ جس کا میں نے اوپر تذکرہ کیا کہ ائمہ کی تقلید کرنا حرام ہے ۔ یہ کوئی معمولی فتنہ نہیں ہے، اس کے عوامل اوراثرات پر اگر غورکیا جائے ؛تو معلوم ہوگاکہ صرف یہی ایک فتنہ پوری امت کو صراط مستقیم سے ہٹاکر گم راہی اورضلالت کے راستے پرڈالنے کے لیے کافی ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا زمانہ ہم سے بہت دور ہوچکا ہے ؛ نہ ہم حضور صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ رہے ہیں اور نہ ان کی مجلسوں میں حاضر ہی ہوسکتے ہیں؛ لامحالہ ہمیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی باتو ں کے لیے ذخیرہ احادیث کی جانب رجوع کرناپڑ ے گا۔ اور حدیث نام ہے تین چیزوں کا:
1... حضور صلی الله علیہ وسلم کی وہ باتیں ؛جو صحابہ نے آپ سے سنیں اور بعد والوں سے روایت کی،
2... حضور صلی الله علیہ وسلم کے وہ کام جو آپ نے صحابہ کے سامنے عملی طور پرکیے،پھر صحابہ نے اپنے اپنے الفاظ میں اسے ادا کیے،
3... رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ذاتی اوصاف ۔مثلاً آپ کے بال کا رنگ ؛چہرہ بشرہ ؛ آپ کی شجاعت اورسخاوت وغیر ہ کے واقعات ۔
ایسے ہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی حدیثیں کسی نہ کسی واسطے اورذریعہ ہی سے ہمارے پاس آئی ہیں اور وہ ذرائع محدثین کی کتابیں ہیں۔ ہر محدث نے کیف ما اتفق احادیث کو جمع نہیں کیا ہے ؛بلکہ بعض نے ابواب فقہیہ کے حساب سے حدیثیں جمع کی ہیں؛تو بعض نے مسندات صحابہ وغیرہ کے اعتبار سے۔صحاحِ ستہ :بخاری ،مسلم ،ترمذی ،ابوداؤد ،نسائی ،ابن ماجہ اورموطامالک وغیرہ ابواب فقہیہ پر جمع ہیں۔ امام بخاری احادیث کو لانے سے پہلے ،اس حدیث سے نکلنے والے مسئلہ کو سمجھانے کے لیے صحابہ اورتابعین یا تبع تابعین کے اقوال و اعمال ا ورفتاوی کو بھی تعلیق(یعنی تمہید) میں نقل کردیتے ہیں،پھر احادیث کو ذکر کرتے ہیں؛تاکہ حدیث کے سمجھنے میں اگرکسی طرح کا خلجان ہو ؛ تو وہ دور ہوجائے اورحدیث کا واضح ترین مطلب سامنے آجائے ۔ مثلا امام بخاری نے جہاں ”دونوں ہاتھوں“ سے مصافحہ کا باب باندھا ہے ؛وہاں حدیث نقل کرنے سے پہلے تعلیق میں یہ بھی لکھا ہے : وَصَافَحَ حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ وَاِبْنُ الْمُبَارَکِ بِیَدَیْہِ (حماد بن زید اورعبد اللہ بن المبارک نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا ۔)(بخاری2/926)
اب اگر کوئی مسلمان امام بخاری کے بیان کردہ معانی کے مطابق عمل کرتاہے ؛تو اس گروپ کے نزدیک وہ مشرک اور مرتد ہے ؛چوں کہ ان کے خیال میں وہ حدیث پر عمل کرنے والا نہیں ہے ۔تبھی تو عوام سے جاکر یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ اللہ اورر سول کو مانوگے یاکہ ائمہ کو؟ان کے نزدیک حدیث اورقرآن کی تفسیر وتوضیح کرنا ،اپنی نبوت کا دعوی کرنا ہے ۔اسی وجہ سے زنانی اورزنانہ والی تقسیم سامنے لاتے ہیں اوربتانا چاہتے ہیں کہ فقہاء اور محدثین اللہ اوررسول کے دین کے دشمن ہیں،اللہ اوررسول کی باتیں کچھ اورہوتی ہیں اور یہ لوگ بیان کچھ اورکرتے ہیں۔
بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک صحابی ابتدائے اسلام میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور چلے گئے ۔انھوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کوجو کچھ کرتے ہوئے دیکھا یا کہتے ہوئے سناتھا؛اسی کوبیان کرتے رہے۔ حالاں کہ بعد میں وہ حکم منسوخ بھی ہوگیا ؛مگران صحابی کو اس کی منسوخیت کاعلم نہیں ہوا ۔البتہ جن صحابہ کو اس کا علم تھا؛وہ اس کے خلاف حدیث بیان کرنے لگے۔اب یہ دوطرح کی روایتیں سامنے آئیں ؛جو بالکل مدمقابل کی ہیں کہ اگر ایک پر عمل کیاجائے ؛تو یقینا دوسری کو ترک کرنا پڑے گا۔ بڑی مشکل ہوئی،اللہ تعالی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ان ائمہ پر کہ انھوں نے دونوں روایتوں کو دیکھا ؛مگر فتوی اس روایت کے مطابق دیا ؛جو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے آخری ایام میں آپ کے پاس رہنے والے صحابہ کے عمل سے موید پائی اورپہلی والی روایت کے منسو خ یامرجوح ہونے کا فیصلہ کردیا۔اس طرح امت کے لیے سنت (یعنی حضور صلی الله علیہ وسلم کے آخری معمول)پرچلنا آسان ہوگیا ۔لیکن اس گروپ کے نزدیک اگر مسلمان ان فقہاء کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق شریعت پر کار بند ہوتے ہیں ؛تو وہ مرتد اور مشرک ہیں۔تبھی توعوام سے پوچھتے ہیں کہ اللہ اور رسول کی مانوگے یا کہ ائمہ کی ؟ان کے نزدیک فقہاء کا یہ عمل الوہیت اور نبوت کا دعوی ہے۔یہ فقہاء اوران کے ماننے والے سب کے سب مرتد اور مشرک ہیں۔
یہ باتیں جو پیش کی گئی ہیں ؛یہ کوئی انوکھی اور نادر باتیں نہیں ہیں کہ اہل علم اس سے ناواقف ونا بلد ہوں؛اسے تو ہر وہ مسلمان بخوبی جانتاہے ؛جسے ادنی درجہ میں بھی علوم اسلامیہ کی ہوا لگی ہے؛لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب چیزوں کے باوجود یہ گروہ کیوں کر ائمہ اورسلف صالحین کے راستے سے عوام کو برگشتہ اور بدگمان کرنے پرتُلاہواہے اور اس سلسلے میں ایسی ایسی کوششیں اورجدوجہد کررہا ہے ؛جیسے مسلمان اسلام کو پھیلانے کے لیے کرتے ہیں؟ تومعلوم ہونا چاہیے کہ اس کا جواب خود جنا ب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آج سے چودہ سوسال پہلے دے چکے ہیں، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :اِنَّ مِنْ عَلَامَاتِ السَّاعَةِ اَن یَّلْعَنَ آخِرُہٰذِہ الاُّمَّةِ اَوَّلَہَا․
ترجمہ:قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس امت کے آخرکے لوگ پہلے کے لوگوں پر لعن طعن کریں گے۔(ترمذی کتاب الفتن )
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے محدثین لکھتے ہیں کہ لعن طعن سے مراد غلط انداز سے ان کو یاد کرنا اور اعمال صالحہ میں ان کے طریقے سے ہٹ کرالگ راہ بنانا ہے۔ (طیبی شرح مشکوٰة)
یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ مسلمان سلف صالحین کے راستہ کو چھوڑ کرخود ان کے بنائے ہوئے طریقے کو اپنا لیں،حالاں کہ یہ غلط ہے، چوں کہ قیامت تک کے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر نمازمیں صحابہ،ائمہ اورمحدثین کی راہ پر چلنے کی دعاکریں اور کہیں :﴿اِہْدِنَالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ﴾․
ترجمہ:اے اللہ! ہمیں سیدھے اوراپنے انعام یافتہ بندوں (یعنی صحابہ ؛تابعین اور تبع تابعین وغیرہ)کی راہ پر چلائیے!
اور اگر کوئی شخص ان حضرا ت کی راہوں سے ہٹتا ہے اور اعراض کرناچاہتا ہے ؛تو اللہ اوررسول کی دھمکی بھی سن لیجیے! :﴿وَمَن یَّتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُومِنِیْنِ نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہ جَہَنَّمَ﴾․
ترجمہ:اور جو شخص مسلمانوں (یعنی صحابہ وغیرہ)کی راہ سے ہٹ کر(کسی اور کی راہ پر )چلے گا؛تو ہم حوالہ کردیں گے اس کے وہی ؛ جو اس نے اختیار کیا ہے اور اس کو جہنم میں پھینک دیں گے ۔(سورہٴ نساء )
د و اہم سوالات
اگر کوئی یہ کہے کہ امام بخاری ہی کو کیوں نہ امام الائمہ تسلیم کرکے تمام مسلمانو ں کوایک پلیٹ فارم پر متحد کرلیاجائے؟توسوال ہے کہ امام بخاری کی کتاب” بخاری شریف“ کو قرآن کے بعد سب سے اچھی کتاب تسلیم کس نے کیا؟جواب ہوگا: امت نے ۔پھر سوال ہوتاہے کہ کیا امت نے امام بخاری کوامام مجتہد بھی تسلیم کیا ہے ؟تو جواب ملتاہے کہ امت تو کیا کرتی ؟ خود حضرت کے شاگر دوں نے ان کو مجتہد تسلیم نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی اپنی کتاب کے اندر جہاں فقہاء ومجتہدین کے مذاہب نقل کرتے ہیں؛وہاں اپنے استاذ امام بخاری کے مسلک کونقل نہیں کرتے ، حالاں کہ وہ ان کے بہت ہی چہیتے شاگرد ہیں،البتہ اسی امت، جس نے بخاری شریف کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ تسلیم کیا ہے؛اسی نے ابوحنیفہ ،مالک ،شافعی اور احمد کو بطورمجتہد کے قبول کیا ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ امام بخاری کی اصل نظر راویوں کے کمزور اور ضعیف ہو نے پر رہتی ہے،روایتیں جمع کرنے سے ان کا مقصدفتوی دینا نہیں ہوتاہے ؛تبھی تو وہ منسوخ روایات کو بھی اپنی کتاب میں جگہ دیتے ہیں؛حالاں کہ عمل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔
دوسری بات:ہرامام کے مسلک میں کچھ نہ کچھ فتاوی ایسے ضرور ہیں؛جو احادیث کے خلاف معلوم ہوتے ہیں ؛لہٰذا کیوں نہ ایک ایسے نئے مسلک کی بنیاد ڈال دی جائے؛جو اس طرح کی کمیوں اورکمزوریوں سے پاک ہوں؟جواب یہ ہے کہ ان کمیوں کے قائل تو مسلمان روز اول ہی سے ہیں؛چوں کہ غیر نبی معصوم نہیں ہوتا،غلطیاں اس سے سرزد ہونا بشریت کالازمہ ہے ؛اسی وجہ سے تو ہرمسلک کے علماء شروع سے یہ کام کرتے چلے آرہے ہیں کہ ان کے ائمہ سے اگر کسی مسئلہ میں کوئی فروگزاشت ہوگئی ہے اور وہ مسئلہ حدیث اور قرآن سے ٹکراتاہے ؛تو تحقیق اور تفتیش کے بعد اصول وضوابط کے دائرے میں رہ کر اس فتوی کو تبدیل کردیتے ہیں۔چناں چہ چاروں ائمہ کے مسالک والوں میں دیکھا جاتاہے کہ امام کا مسلک کچھ ہوتاہے ؛مگران کے مقلدین کا عمل کسی اور فتوی پرہوتاہے۔بات یہ ہے کہ ابتدامیں مسالک بہت تھے؛مگرشروع سے اس طرح سے تنقیح و تہذ یب انہی چار مسالک کی ہوتی رہی ہے؛اسی وجہ سے کہاجاتاہے کہ یہ چاروں مسالک منقّہ اورمنزّہ ہیں،غیر مجتہد کے عمل کے لیے ان سے بہتر کوئی اور مذہب (امام مہدی سے قبل )ہوہی نہیں سکتا ۔
اور اس زمانہ میں جن لوگوں نے ان مذاہب حقہ سے بغاوت کرکے الگ سے ایک نئے مسلک کی بنیاد رکھنی چاہی ہے ؛انھوں نے منھ کی کھائی ہے ۔ان کے فتاوے کو دیکھیے اورسر پیٹیے کہ کس طرح ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول پر بہتان باندھا اورکتنی ڈھٹائی اوردلیری سے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال کردہ اشیا کو حرام ٹھہرایا۔بتایئے! اپنے عمل کے خلاف پائی جانے والی احادیث کو ضعیف کہہ کران کا انکارکون کرتاہے؟ (دانستہ یا نادانستہ طور پر شریعت کو ناقص کرنیکے لیے) بخاری اورمسلم کے علاوہ تمام احادیث کی کتابوں سے دست بردا ر ہونے کی مہم امت میں کون چلا رہا ہے ؟ تمام صحابہ کو بدعتی کون کہتا ہے؟ بیوی کے ساتھ لواطت کے جواز کا فتوی کون دیتاہے ؟زمانہ حیض میں عورتوں کوتلاوت قرآن کی اجازت کو ن دیتا ہے ؟ عورتوں کی چھاتی سے نامحرم مردوں کو دودھ پینے کی اجازت کس نے دی؟ان تمام کرتوتوں کا سہرا اسی گروپ کے سرجاتاہے؛جو مسالک قدیمہ سے بغاوت کرکے ایک نئے مسلک کی بات کرتا ہے اورعوام سے جاکر کہتاہے کہ اللہ اور رسول کو مانو گے یا کہ ابوحنیفہ ،شافعی ،مالک اوراحمد رحمہم اللہ کو؟۔اللہ ہم سب کی اس فتنہ سے حفاظت فرمائے !
"جَمِيعُ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ الْحَدِيثِ فَهُوَ مَعْمُولٌ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَاخَلَا حَدِيثَيْنِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ وَحَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجلدوهُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ"۔
(جامع ترمذی، کتاب العلل:۶۲۶/۲، موقع الإسلام)
ترجمہ: جو کچھ اس کتاب میں ہے اس پر (کسی نہ کسی حلقے میں) عمل ضرور رہا ہے اور اس کے مطابق اہل علم کی ایک جماعت نے فیصلہ کیا ہے سوائے ان دو حدیثوں کے ایک حدیث حضرت ابن عباسؓ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خوف، سفر اور بارش کے کسی عذر کے بغیر مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر یکجا اور مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھی ہیں، اور دوسری حضور ﷺ کی یہ حدیث کہ جب کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور چوتھی دفعہ پئے تو اس کو قتل کردو۔
اکثر اوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے اور صحت روایت اصول کی رو سے شروط معتبرہ مجوزہ ائمہ جرح و تعدیل کے ساتھ ہوتی ہے اور بعض دفعہ صحت عمل پر متفرع ہوتی ہے، صورت اول عام ہے،صورت دوم خاص ہے اور اس کی تصریح محققین نے کردی ہے، امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں لکھتے ہیں:
"ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقد صرح غیر واحد بان من دلیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علی مثلہ"۔
(تنزیہ الشریعۃ للکنانی:۲/۱۲۰)
ترجمہ:
اہل علم کے قول اور تعامل کے ساتھ حدیث ضعیف، ضعف سے نکل کر صحیح اور قابل عمل ہوجاتی ہے؛ اگرچہ اس کی اسناد لائق اعتماد نہ ہو، بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے۔
بعض فضلائے امت و امناء ملت میں اس صورت دوم کے اپنے موضع میں پائے جانے کی وجہ سے بعض کوتاہ اندیش جاہل اپنی کج فہمی کی وجہ سے ان پر اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں مولوی حدیث کا تارک ہے۔
(الانصاف لرفع الاختلاف:۷۷۶،مطبوعہ:۱۹۱۰ ء، مطبع: رفاہ عام اسٹیم پریس، لاہور)
ملا علی قاری رح فرماتے ہیں : عدمِ ثبوت سے حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا.
موضوع ِحدیث میں "تعامل امت" پر نظر
==============
اصولِ حدیث سب اجتہادی ہیں، مقصود صحیح بات کوپالینا ہے، وہ جس طرح بھی میسر آسکے اور یقین بڑھاسکے، خطیب بغدادی اصولِ حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اہلِ بدعت سے لی گئی روایات کا حکم
"وقال کثیر من العلماء یقبل اخبار غیرالدعاۃ من اہل الاھواء فاما الدعاۃ فلایحتج باخبارہم"۔
(الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۲۱)
ترجمہ:بہت سے علماء نے کہا ہے کہ ان اہل بدعت کی جوداعی الی البدعۃ نہ ہوں روایت قبول کی جاسکتی ہے؛ لیکن ان لوگوں کی جواپنی بدعات کی طرف دعوت دیتے ہیں روایت سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا۔
(فتح الملہم:۱/۶۵)
"لایوخذ العلم عن اربعۃ عن مبتدع ولاعن سفیہ ولاعمن یکذب فی احادیث الناس وان کان یصدق فی احادیث النبیﷺ ولاعمن لایعرف ھٰذا الشان"۔
ترجمہ:علم حدیث چارشخصوں سے نہ لیا جائے، نہ بدعتی سے نہ بیوقوف سے نہ اس شخص سے جولوگوں کی باتوں میں جھوٹ بول لیتا ہو؛ اگرچہ حدیث نبوی میں سچ ہی کہتا ہو اور نہ اس سے جواس (موضوع) کی شان کو ہی نہ جانتا ہو۔
(مقدمہ اوجز المسالک:۶)
"ولا شک ان اخذ الحدیث من ہذہ الفرق یکون بعد التحری والاستصواب ومع ذلک، الاحتیاط فی عدم الاخذ لانہ قد ثبت ان ھؤلاءِ الفرق کانوا یضعون الاحادیث لترویج مذاھبھم وکانوا یقرون بہ بعد التوبۃ والرجوع واللہ اعلم"۔
(مقدمہ مشکوٰۃ:۶)
ترجمہ:اس میں شک نہیں کہ ان فرقوں سے حدیث لینا غور اور پڑتال کے بعد ہی چاہئے اور اس کے باوجود احتیاط نہ لینے میں ہی ہے؛ کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ لوگ اپنے خیالات باطلہ کورواج دینے کے لیے حدیثیں گھڑتے تھے اور جب (ان میں کسی کو) توبہ کی توفیق ہوجاتی تواقرار کرتے (کہ انہوں نے بدعقیدگی کے دور میں کیا کیا حدیثیں گھڑی تھیں)۔
[معرفۃ علوم الحدیث(امام حاکم):148 طبع القاہرۃ]
دراصل، لفظ عَنْزَۃ کے معنیٰ بکری کے ہوتے ہیں اور وہ صاحب یہی سمجھے تھے، جبکہ لفظ (نون پر زبر سے ہو تو) عَنَزَۃ کے معنیٰ ایسی لاٹھی جس کے آگے لوہا لگا ہو۔ رسول اللہ ﷺ جب کھلی جگہ نماز پڑھاتے تو سامنے لاٹھی گاڑدیتے تاکہ سُترہ بن جائے اور یہاں یہی مراد ہے۔ اور یہ روایت [بخاری:501] وغیرہ میں موجود ہے۔
امام ابوعبداللہ(حاکمؒ) نے یہ مثال بیان کرکے اس بات کی دلیل دی ہے کہ فرمان میں اکثر غلطیاں ان لوگوں سے ہوتی ہیں جن کیلئے حدیث کو سمجھنا مشکل ہے۔
[معرفۃ علوم الحدیث(امام حاکم):149 طبع القاہرۃ]
محدثین میں حدیث کی تصحیح کے دونوں طریقے رائج رہے ہیں:
"ومعرفۃ الحدیث الھام فلوقلت للعالم لعلل الحدیث من این قلت ھذا؟ لم یکن لہ حجۃ"۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم:۱۱۳)
ترجمہ: حدیث کی معرفت ایک الہامی چیز ہے جو دل میں اُترتی ہے؛ اگر میں علل حدیث کے کسی عالم سے کہوں کہ تم یہ بات کہاں سے کہہ رہے ہو تو اس کے پاس اس کا جواب نہ ہوگا۔
تصحیحِ روایت میں محدثین پر اعتماد
"ان الجرح انما جرز فی الصدرالاول حیث کان الحدیث یوخذ من صدور الاحبار لامن بطون الاسفار فاحتیج الیہ ضرورۃ للذب من الاثارومعرفۃ القبول والمردود من الحدیث والاخبار واماالآن فالعمدۃ علی الکتب المدونۃ"۔
(الکادی فی تاریخ السخاوی کما فی الرفع والتکمیل:۵۰)
ترجمہ:
راویوں پرجرح کرنا پہلے دور میں اس لیئے جائز رہا کہ حدیث علماء کے سینوں سے لی جاتی تھی نہ کہ کتابوں کے اوراق سے؛ سو اس کی ضرورت رہی تاکہ آثار کی حفاظت کی جاسکے اور احادیث واخبار میں مقبول ومردود کو پہچانا جاسکے؛ لیکن اب اعتماد کتب مدونہ پر ہونا چاہیے۔
من گھڑت اور غیرمعتبر روایات:
بنیادی عوامل اور ان کے سدِّباب کی راہیں
شمار
|
نام کتاب
|
مصنف
|
سنہ اشاعت
|
جلد
|
ضخامت
|
۱
|
کتاب الاعتبار (الطبعۃ الثالثۃ)
|
ابوبکر الحازمی، المتوفی:۵۸۴ھ
|
۱۴۰۱ھ م ۱۹۸۱ء
|
۱
|
۲۵۸
|
۲
|
الأمم لایقاظ الھمم
|
برہان الدین الکورانی، المتوفی:۱۱۰۲ھ
|
۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء
|
۱
|
۱۳۴
|
۳
|
بغیۃ الطالبین
|
احمد النخلی، المتوفی:۱۱۱۴ھ
|
۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء
|
۱
|
۸۴
|
۴
|
الامدا
|
عبداللہ البصری، المتوفی ۱۱۳۴ھ
|
۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء
|
۱
|
۹۲
|
۵
|
قطف ا لثمر
|
صالح العمری، المتوفی ۱۲۱۸ھ
|
۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء
|
۱
|
۷۶
|
۶
|
اتحاف الاکابر
|
ابوعلی الشوکانی، المتوفی ۱۲۵۵ھ
|
۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء
|
۱
|
۱۱۹
|
۷
|
الکفایۃ فی علوم الروایۃ
|
الخطیب البغدادی، المتوفی: ۶۴۳ھ
|
۱۳۹۰ھ م ۱۹۷۰ء
|
۱
|
۶۱۲
|
۸
|
مشکل الحدیث (الطبعۃ الثانیہ)
|
ابن فورک، المتوفی ۴۰۶ھ
|
۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۴ء
|
۱
|
۲۸۶
|
۹
|
معرفۃ علوم الحدیث (الطبعۃ الثنانیۃ)
|
الحاکم النیسابوری، المتوفی ۴۱۵ھ
|
۱۴۰۱ھ م ۱۹۸۱ء
|
۱
|
۲۶۹
|
۱۰
|
الاتحافات السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ (الطبعۃ الثانیۃ)
|
محمد المدنی، المتوفی ۱۲۷۱ھ
|
۱۳۵۸ھ م ۱۹۳۹ء
|
۱
|
۱۹۵
|
۱۱
|
جامع مسانید الامام الاعظم ابی حنیفہؒ
|
ابوالمؤید الخوارزمی، المتوفی:۶۶۸ھ
|
۱۲۳۲ھ م ۱۹۱۳ء
|
۲
|
۱۱۶۵
|
۱۲
|
الجوھر النقی
|
ابن الترکمانی، المتوفی:۶۶۵ھ
|
۱۳۱۶ھ م ۱۸۹۸ء
|
۲
|
۶۷۱
|
۱۳
|
السنن الکبریٰ وفی ذیلھا
الجوہر النفی
|
ابوبکر البیہقی، المتوفی:۴۵۸ھ
|
۱۰
|
۴۵۹۵
| |
۱۴
|
شرح تراجم أبواب صحیح البخاری (الطبعۃ الخامسۃ)
|
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،
المتوفی:۱۱۷۶ھ
|
۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۵ء
|
۱
|
۱۶۲
|
۱۵
|
القول المسدد فی الذب عن المسند (الطبعۃ الخامسۃ)
|
ابن حجر العسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ
|
۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۴ء
|
۱
|
۲۰
|
۱۶
|
عمل الیوم واللیلۃ (الطبعۃ الثالثۃ)
|
ابن السنی، المتوفی:۳۶۴ھ
|
۱۳۹۸ھ م ۱۹۷۸ء
|
۱
|
۲۳۵
|
۱۷
|
کنزالعمال فی سنن الأقوال والأفعال (الطبعۃ الثانیۃ)
|
علی المتقی الہندی، المتوفی:۹۷۵ھ
|
۲۲
|
۸۸۵۳
| |
۱۸
|
المستدرک علی الشیخین مع التلخیص للذھبی
|
الحاکم النیسابوری، المتوفی:۴۰۵ھ
|
۱۔۴
| ||
۱۹
|
المسند
|
ابوداؤد الطیالسی، المتوفی:۲۰۴ھ
|
۱۳۲۱ھ م ۱۹۰۳ء
|
۱
|
۴۰۴
|
۲۰
|
المسند (الطبعۃ الثانیۃ)
|
ابوعوانہ، المتوفی:۳۰۶ھ
|
۵
|
۱۹۷۷
| |
۲۱
|
مشکل الآثار (الطبعۃ الثانیۃ)
|
الامام ابوجعفر الطحاوی، المتوفی:۳۲۱ھ
|
۱۰
|
۴۲۹۰
| |
۲۲
|
المعتصر من المختصر (الطبعۃ الثانیۃ)
|
القاضی یوسف الحنفی، المتوفی:۳۲۱ھ
|
۱۳۶۲ھ م ۱۹۴۳ء
|
۲
|
۷۷۶
|
۲۳
|
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاف مع الفھرس(الطبعۃ الثانیۃ)
|
الحافظ ابن عبدالبر القرطبی،
المتوفی:۴۶۳ھ
|
۱۳۳۶ھ م ۱۹۱۶ء
|
۲
|
۱۲۷۲
|
۲۴
|
التاریخ الکبیر
|
الامام محمد بن اسماعیل البخاری، المتوفی:۲۵۶ھ
| |||
۲۵
|
تجرید اسماء الصحابۃ مختصر اسدالغابۃ لابن الاثیر الجزری
|
الحافظ شمس الدین الذہبی،
المتوفی:۷۴۸ھ
|
۱۳۱۵ھ م ۱۸۹۵ء
|
۲
|
۸۲۷
|
۲۶
|
تذکرۃ الحفاظ من الطبعۃ الاولیٰ الی السابعۃ (الطبعۃ الرابعۃ)
|
الحافظ شمس الدین الذہبی،
المتوفی:۷۴۸ھ
|
۱۳۹۰ھ م ۱۹۷۰ء
|
۴
|
۱۶۵۱
|
۲۷
|
تعجیل المنفعۃ بزوائد رجال الائمۃ الاربعۃ
|
الحافظ ابن حجر العسقلانی،
المتوفی:۸۵۲ھ
|
۱۳۲۴ھ م ۱۹۰۴ء
|
۱
|
۵۷۵
|
۲۸
|
تہذیب التہذیب
|
الحافظ ابن حجر العسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ
|
۱۲
|
۶۷۲۰
| |
۲۹
|
مقدمۃ الجرح والتعدیل
|
الحافظ ابن أبی حاتم الرازی، المتوفی:۳۲۷ھ
|
۱۳۷۱ھ م ۱۹۵۲ء
|
۱
|
۴۱۵
|
۳۰
|
الجرح والتعدیل
|
الحافظ ابن أبی حاتم الرازی، المتوفی:۳۲۷ھ
|
۱۴
|
۵۰۲۵
| |
۳۱
|
قرۃ العین
|
عبدالغنی البحرانی
|
۱۳۳۵ھ م ۱۹۰۵ء
|
۱
|
۶۳
|
۳۲
|
کتاب الکنی والاسماء
|
ابوبشرالدولابی، المتوفی:۳۱۰ھ
|
۱۳۲۴ھ م ۱۹۰۴ء
|
۲
|
۴۶۹
|
۳۳
|
کتاب الکنی
|
الامام البخاری، المتوفی:۲۵۶ھ
|
۱۳۹۸ھ م ۱۹۷۸ء
|
۱
|
۱۰۶
|
۳۴
|
لسان المیزان
|
ابن حجرالعسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ
|
۶
|
۲۳۸۶
| |
۳۵
|
الموضح الاوھام الجمع والتفریق
|
الحافظ الخطیب البغدادی، المتوفی:۴۶۳ھ
|
۱۳۷۹ھ م ۱۹۶۰ء
|
۲
|
۱۰۰۸
|
۳۶
|
بیان خطأ البخاری فی تاریخہ (الطبعۃ الثانیۃ)
|
ابن أبی حاتم الرازی، المتوفی:۳۲۷ھ
|
۱۴۱۷ھ م ۱۹۹۶ء
|
۱
|
۲۰۶
|
۳۷
|
الثقات
|
الحافظ محمدبن حبان البستی، المتوفی:۳۵۴ھ
|
۹
|
۴۱۷۰
| |
۳۸
|
التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانی
|
الحافظ ابن نقطۃ، المتوفی:۶۲۹ھ
|
۲
|
۷۳۹
| |
۳۹
|
نزہۃ الالباب فی الالقاب
|
الحافظ ابن حجر العسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ
|
۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۴ء
|
۱
|
۶۱۰
|
۴۰
|
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب
|
ابن عبدالبر
|
۱۳۳۶ھ
| ||
۴۱
|
مفتاح السعادہ
|
طاش کبری زادہ
|
۱۳۲۸ھ
|
جناب اصول تفسیر پر بھی کچھ تحریر فرمائے۔؟
ReplyDeleteجناب اصول فقہ پر بھی کچھ تحریر فرمائے؟
اور محدث محقق میں کیا فرق ہے مکمل تحریر فرمائے؟
شیخ الحدیث اور شیخ الاسلام میں کیا فرق کیا مکمل تحریر فرمائے؟
جزاک اللہ