اصول حدیث




علم کی دو قسمیں ہوتی ہیں:

پہلا یہ کہ وہ علم خبر کے ذریعے حاصل کیا جائے۔ خبری علم میں اذعان ویقین کی صورت صرف یہ ہے کہ خبر درست اور سچ پر مبنی ہو۔ محدثین نے اسی مقصد کو حاصل کرنے کےلیے خبر کی صداقت کے کڑے اصول وضع کیے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی علم کو محدثین کی اصطلاح میں اصولِ حدیث کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

دوسرا علم یہ کہ وہ علم استدلالی واستنباطی ہو جو فقہاء انجام دیتے رہے اور طریقہ استدلال و استنباط کے اصول وضع کیے، چنانچہ ایسے علم کو اصولِ فقہ کہا جاتا ہے. علم اصول حدیث وہ علم ہے جو محدثین نے صرف اس لئے وضع کیا تھا تاکہ احادیث رسول ﷺ میں تحقیق کرسکیں۔


مومنو! اگر آۓ تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لیکر تو تحقیق کرلیا کرو...
[قرآن»سورۃ الحجرات:آیۃ#6]
کسی آدمی کے جھوٹ(گناہ) کیلئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق آگے) کہدے.
[مسلم:5(ابوداؤد:4992)]
نہیں ہے (سنی ہوئی) خبر دیکھی ہوئی کی طرح۔
[صحيح ابن حبان:6213]
حاضر دیکھ لیتا ہے اس (شے) کو جسے غائب نہیں دیکھتا۔
[مسند أحمد:628]








حدیث کی تعریف:

حدیث (خبر) عام ہے کہ وہ قول نبی  کا ہو یا صحابی و تابعی کا ، اور ان کے افعال ہوں ، یا ان کی تقریر.
[تدریب الراوی-امام السیوطی: صفحہ#٧٢]



مستند حدیث کیا ہے؟
جو حدیث(یعنی نبی، صحابی یا تابعی کی خبر) "سند" کے ساتھ مروی ومنقول ہو۔

سند کیا ہے؟
 یعنی جس پر اعتماد کیا جائے۔
[قاموس : ۱/۳۱۴]
محدثین کی اصطلاح میں رجال کا وہ سلسلہ جو حدیث کے متن (فرمان) تک پہنچانے والا ہوتا ہے۔ یعنی مضبوط حافظہ اور سچے وپاکباز قابلِ اعتماد راویوں (خبر پہنچانے والے گواہوں) کے مسلسل جڑے ہوئے "سلسلہ" کو سند کہتے ہیں۔

سند کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ متنِ حدیث کی نسبت سند ہی کی طرف ہوتی ہے اور متن کا اعتماد اسی پر ہوتا ہے، سند اور اِسناد دونوں مترادف ہیں.

سند کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ رجال کا وہ سلسلہ جو متنِ حدیث تک پہنچانے والا ہوتا ہے وہ اصطلاحِ محدثین میں سند کہلاتا ہے.

متن کی تعریف:
لغت میں ’’متن‘‘ کے معنی آتے ہیں، ایسی زمین کے جو سخت ہو، جیسا کہ قاموس (۴/۲۷۱) میں ہے.

مثلا:
امام بخاریؒ اپنی خبر کا معتبر "سند" لکھتے ہیں کہ:
ہم سے حدیث بیان کی(1)علی بن جعد نے کہ ہمیں خبر دی(2)شعبہ نے کہ مجھے خبر دی(3)منصور نے کہ میں نے سنا(4)ربعی بن حراش کو یہ کہتے کہ میں نے سنا حضرت علیؓ کو یہ کہتے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مت جھوٹ بولو مجھ پر کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ دوزخ میں داخل ہوگا.
[صحیح بخاري: کتاب العلم، حدیث#104]

تحقیق کی ضرورت:
مؤمنو! جب آۓ تمہارے پاس فاسق خبر لیکر تو تحقیق کرلیا کرو...
[سورة الحجرات:6]



نسبت کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:​


اور شیخ الاسلام ((شرح نخبة)) میں فرماتے ہیں :
لفظ خبر اس فن کے علماء کے نزدیک مترادف (ہم معنیٰ) ہیں، پس اس کا اطلاق ہوتا ہے مرفوع (حدیثِ نبوی)، اور موقوف (حدیثِ صحابی) پر اور مقطوع (حدیثِ تابعی) پر بھی. 




نسبت کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:
(1)حدیثِ قدسی:
رسول اللہ ﷺ جب کوئی بات اس تصریح(وضاحت) کے ساتھ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (جبکہ وہ بیان قرآن مجید کی آیت نہ ہو) تو ایسی حدیث(بیان)کو "حدیث قدسی" کہتے ہیں۔

حدیث قدسی وہ احادیث ہیں جن کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے نقل فرماتے ہیں، کبھی تو خواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بتادی جاتی تھی، اور کبھی بذریعہ الہام معلوم ہوتا تھا، اور کبھی جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے علم ہوتا تھا، انھیں حدیث ربانی اور حدیث الٰہی بھی کہتے ہیں، حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ سے نقل کی تصریح ہوتی ہے اور بقیہ حدیث میں اللہ تعالیٰ سے نقل کی تصریح نہیں ہوتی ہے گو وہ بھی بمقتضائے ”وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیo اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُوْحَی“ اللہ تعالیٰ طرف سے ہیں، قرآن پاک اور حدیث قدسی میں فرق یہ ہے کہ قرآن تو لفظاً ومعنیً دونوں طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے منزل ہے، بخلاف حدیث قدسی کے کہ اس میں الفاظ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں اسی لیے نماز قرآن کی تلاوت پر موقوف ہے، اگر کوئی حدیث قدسی پڑھے تو نماز نہ ہوگی، قرآن کو بلاوضو ہاتھ لگانا ائمہ اربعہ کے یہاں جائز نہیں ہے، حدیث قدسی کو چھوسکتے ہیں، قرآن کا ہر لفظ تواتر سے ثابت ہے، اور حدیث قدسی کا تواتر سے ثابت ہونا ضروری نہیں، بلکہ جو احادیث قدسیہ جمع کی گئی ہیں ان میں شاید کوئی بھی متواتر نہیں ہے۔




مثلاً:
﴿امام بخاری نے اپنی سند بیان کرتے ہیں کہ۔۔۔﴾
ہم سے(1)حمیدی نے بیان کیا » انہوں نے کہا ہم سے(2)سفیان بن عیینہ نے بیان کیا » انہوں نے کہا ہم سے(3)ابوالزناد نے بیان کیا » ان سے(4)اعرج نے » اور ان سے حضرت(5)ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ » (6)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ» اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ » *میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں، جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے۔* (پھر رسول اللہ ﷺ نے قرآن سے شہادت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا) اگر جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو:- پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔{سورۃ الم سجدۃ، آیت#17}
[صحیح بخاری» کتاب:-مخلوقات کی ابتداء کا بیان» باب:-جنت کا بیان اور یہ بیان کہ جنت پیدا ہو چکی ہے۔ حدیث نمبر: 3244]

نوٹ:-
راویوں کے سلسلے کو سند(سہارا) کہتے ہیں، اور فرمان/بیان کو حدیث۔




(١) حدیثِ مرفوع :




مثلاً:
﴿امام بخاری فرماتے ہیں کہ﴾
ہم سے(1)اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے(2)مالک نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے(3)اپنے باپ(ہشام بن عروہ) سے نقل کیا، انہوں نے(4)حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا  آپ  ﷺ  فرماتے تھے کہ بےشک اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ  (پختہ کار)  علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیرعلم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
[صحیح بخاری»حدیث نمبر:100]
[صحیح بخاری»حدیث نمبر:7307]
کتاب:-کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان»
باب:-رائے کی مذمت اور قیاس میں تکلف کی کراہت کا بیان۔(اللہ تعالیٰ کا قول کہ) وہ بات نہ کہو جس کا تم کو علم نہ ہو۔

یہ سچی نبوی پیشگوئی ہر سال زیادہ واضح ہوتی جارہی ہے کہ اپنے خیالات وخواہشات کے مطابق غیرعالم حکم دے گا اور انہی سے حکم لیا جائے گا۔۔۔۔پہلوں/بڑوں کا علم نہ لیا جائے گا اور پچھلوں/چھوٹوں کی رائے/نظریہ/خیال کو قبول کیا جائے گا۔

(2)حدثنا محمد بن عبيد الغبري حدثنا أبو عوانة عن أبي حصين عن أبي صالح عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من کذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار۔
ترجمہ :
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 6 (7145) - مقدمہ مسلم : رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کی سختی کے بیان میں]




(٢) حدیثِ موقوف :
لفظ’’موقوف‘‘ یہ’’وَقْف‘‘ مصدر سے اسمِ مفعول کا صیغہ ہے،جس کا معنیٰ ہے روکنا،گویا کہ راوی نے حدیث کو صحابی تک(پہنچا کر)روک دیا اور اسناد کے باقی سلسلہ کو آگے تک نہ چلایا۔ اصطلاح میں: یہ وہ قول یا فعل یا تقریر ہے جس کو کسی صحابی کی طرف منسوب کیا جائے۔
[علوم الحدیث لابن صلاح:صفحہ46]




مثلاً:
نبی کے بعد سب سے افضل کون؟
﴿امام بخاری نے لکھا کہ﴾
ہم سے (1)محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو (2)سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے (3)جامع بن ابی راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے (5)ابویعلیٰ نے بیان کیا، ان سے (6)محمد بن حنفیہ نے بیان کیا کہ  میں نے (7)اپنے والد  (حضرت علی ؓ)  سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ  کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا: ابوبکر ؓ ۔ میں نے پوچھا: پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا: اس کے بعد عمر ؓ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب  (پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون؟ تو آپ)  کہہ دیں گے کہ عثمان ؓ۔ اس لیے میں نے خود کہا: اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں۔
[صحیح بخاری»حدیث نمبر: 3671]

اس حدیث کے دیگر کئی متابعات (طرق/اسناد/راویوں کے سلسلے) ملاحظہ ہوں:
[سنن ابوداؤد:4629، سنن ابن ماجہ:106، مسند(امام)احمد:932، فضائل الخلفاء(امام)ابونعیم:165+224، مشیخۃ(امام)ابن شاذان:64، فضائل الصحابۃ:136]



(2)حدثنا يحيی بن يحيی أخبرنا هشيم عن سليمان التيمي عن أبي عثمان النهدي قال قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه بحسب المر من الکذب أن يحدث بکل ما سمع۔
ترجمہ :
حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا ہر سنی ہوئی بات کو بیان کردینا ہی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 11 (7150) - مقدمہ مسلم : بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں]





(٣) حدیثِ مقطوع :
لفظ مقطوع ’’قَطَعَ‘‘ فعل سے اسمِ مفعول کا صیغہ ہے( جس کے معنیٰ ہیں کٹا ہوا، جدا کیا ہوا) اور یہ ’’وَصَلَ‘‘ کی ضد ہے (جس کے معنی ہیں ملانا اور جوڑنا)۔
محدثین کی اصطلاح میں:-
یہ وہ قول و فعل ہے جس کی کسی تابعی(یعنی صحابی کے شاگرد) یا اس کے نیچے کے راوی کی طرف نسبت ہو۔
[النخبۃ الفکر: صفحہ ۵۹]



مثلاً:
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ لِي مَالِكٌ: «اعْلَمْ أَنَّهُ لَيْسَ يَسْلَمُ رَجُلٌ حَدَّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ، وَلَا يَكُونُ إِمَامًا أَبَدًا وَهُوَ يُحَدِّثُ بِكُلِّ مَا سَمِعَ»۔
ترجمہ :
﴿امام مسلم فرماتے ہیں کہ﴾
مجھ سے حدیث بیان کی (1)ابوطاہر احمد بن عمرو بن عبداللہ بن سرح نے، انہوں نے کہا کہ ہمیں خبر دی (2)ابن وھب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے فرمایا:
جان لے اس بات کو کہ جو شخص ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے وہ غلطی سے محفوظ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ایسا شخص کبھی مقتدا اور امام بن سکتا ہے اس حال میں کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کردے ۔
[صحیح مسلم: حدیث نمبر 5 (10) - مقدمہ مسلم : بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں]

دوسری سند میں ہے:
علمِ چار شخصوں سے نہ لیا جائے: بدعتی سے، بیوقوف(غیرفقیہ)سے، جو لوگوں کی باتوں میں جھوٹ بول لیتا ہو اگرچہ احادیثِ نبوی میں سچ ہی کہتا ہو، اور جو اس(موضوع)کی شان(موقع)کو ہی نہ سمجھتا ہو۔
[المجالسة وجواهر العلم:1891+3053،جامع بيان العلم وفضله:1542]

نوٹ : 
اس تعریف (اور محدثین کے اس پر عمل) کے اعتبار سے سیدنا امام اعظم ابوحنیفہؒ کے اقوال و افعال اور تقریرات بھی حدیث کہلائیں گے یعنی فقہ حنفی حدیث ہی ہے. کیونکہ آپؒ کو تابعیت کا شرف حاصل ہے، آپ نے تو صحابہ سے حدیث بھی سنی ہیں. یہ شرف ائمہ اربعہ (چاروں اماموں) میں سے صرف سیدنا امام اعظم ابوحنیفہؒ کو ہی حاصل ہے.








محدث کی اصطلاح میں ایسی کوئی حدیث نہیں پائی جاتی جس میں یہ دونوں قسمیں (یعنی سند و متن) نہ پائی جائیں۔ البتہ جہاں ہم متون حدیث کے مجموعے کو، کبھی بعض تصنیفات و کتب میں بلا اسانید کے پاتے ہیں، تو وہ احادیث بغیر سند کے نہیں ہوتیں، بل کہ انہیں بعض علما بلا سند کے نقل کردیتے ہیں، جس کا مقصد ہوتا ہے کہ ابتدائی درجات کے طلبہ، چھوٹے بچے اور عوام کو اختصار و تسہیل کے ساتھ احادیث یاد ہوجائیں، اب جن کو ان احادیث کی اسانید مطلوب ہوں تو وہ ان کتابوں کی طرف رجوع کرے جہاں سے یہ احادیث لی گئی ہیں۔

=============================
راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:​
دین کے مسائل تین طرح کی اخبار (احادیث) سے ثابت ہوتے ہیں:

(1) مُتَواتِرات:Recurrents-Incessants -Frequents 
کسی محسوس واقعہ (مَثَلاً : کسی قول یا فعل وغیرہ) کو خود سننے اور دیکھنے والوں کی ابتداء سے آخر (اب) تک ہر زمانہ میں ایسی بڑی تعداد اس واقعہ کی خبر دے کہ ان سب کا جھوٹ یا غلطی پر متفق ہونا عادتاً محال سمجھا جاۓ. 
[الاحکام فی اصول الاحکام : ١/١٥١؛ التوضیح والتلویح : ٢ / ٢-٣؛ تسہیل الوصول : صفحہ ١٤٠؛ فتح الملھم : ١ /٥-٦]
یعنی عقل یہ باور نہ کرے کہ ان سب نے سازش کرکے جھوٹ بولا ہوگا یا ان سب کو مغالطہ لگ گیا ہوگا.




مُتَواتِرات، علم یقینی(بدیہی) کا فائدہ دیتی ہیں۔
[شرح نخبة الفكر:٢٤-٢٥]
بدیہی یعنی جس کے سمجھنے یا سمجھانے میں غور و فکر نہ کرنا پڑے، صریح، کھلا ہوا، یقینی، جو فطری یا قدرتی طور پر معلوم ہو

اور مُتَواتِر کے رجال(یعنی مرد، خبر پہنچانے والے) سے بحث نہیں کی جاتی بلکہ بغیر بحث کے اس پر عمل واجب(لازم) ہے.
[شرح نخبة الفكر:٢٥]

(1)حدیثِ متواتر:-
متواتر وہ حدیث ہے جس کو ابتداء سے لے کر آخر سند تک ہر زمانہ میں اتنے لوگوں نے(مسلسل) بیان کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃّ محال نظر آئے، اور سند کی انتہا ایسی چیز پر ہو جس کا تعلق محسوسات سے ہو، نظر وفکر سے علم یقینی حاصل نہیں ہوتا ہے، یہ(یقین)حدیثِ متواتر سے حاصل ہوتا ہے، مثلاً:- قرآن پاک بھی تواتر سے امت تک پہنچا ہے اور علمِ یقین کا درجہ رکھتا ہے۔
مثالِ حدیث:-
﴿امام ترمذی لکھتے ہیں کہ﴾
ہم سے حدیث بیان کی (1)ابوھشام الرفاعی نے، (انہوں نے کہا کہ) ہم سے حدیث بیان کی (2)ابوبکر بن عیاش نے کہ، (انہوں نے کہا کہ) ہم سے حدیث بیان کی (3)عاصم نے، ان سے (5) زِرّ نے ، وہ  حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا: جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے۔
[جامع ترمذی» کتاب:-علم کا بیان» باب:-اس بارے میں کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنا بہت بڑا گناہ ہے» حدیث نمبر: 2659]

نوٹ:-
یہ حدیث یہاں صرف ایک صحابی کی ایک سند سے بیان کی گئی ہے،جبکہ یہ حدیث تقریباً 62 یا 100 سے زائد سے صحابہ نے روایت کیا۔[قواعد المحدثین:٦٠٢]  مختلف سندوں(طریقوں)سے احادیث کی کتابوں میں منقول ہے۔


























(2) مشہورات:
اصولِ حدیث میں ان اخبار و احادیث کو کہتے ہیں جنہیں دو سے زائد راوی روایت کریں لیکن وہ تواتر کی حد تک نہ پہنچیں.
[نخبة الفكر]

اور اصول فقہ میں : اول (صحابہ کے) زمانہ میں تو وہ واقعہ خبر واحد ہو پھر وہ پھیل جاۓ کہ دوسرے یا بعد کے زمانوں میں اتنی قوم اس کو روایت کرے کہ جن کا جھوٹ پر اتفاق کا وہم نہ ہو.
[نور الأنوار:١٨٠]

اگر وہ اس طرح ہو پہلے زمانہ میں بھی تو وہ متواتر ہوگی اور اگر وہ دوسرے زمانہ میں بھی اس طرح نہ ہو تو وہ (اخبار و واقعات) آحاد سے ہیں. اس سے معلوم ہوگیا کہ اصولیین کے نزدیک مشہورات آحاد اور متواتر (کے درمیان) کی قسیم ہے اور محدثین کے نزدیک وہ آحاد کی قسم ہے جو تواتر کی حد تک نہ پہنچے.
[رد المختار:١/٤٤٦]




(2)حدیثِ مشہور:
یہ وہ فرمان/خبرِ نبوی ہے جس کے راوی(Transmitter) ابتداء سند سے لے کر آخر سند تک دو سے زیادہ ہوں؛ لیکن تواتر کو نہ پہنچتے ہوں اور اس حدیث کی محدثین میں شہرت ہوئی ہو، اس سے ایسا علم پیدا ہوتا ہے جس سے حدیث کی سچائی پر اطمینانِ قلبی حاصل ہوجاتا ہے؛ لیکن اسے قطع ویقین کا وہ درجہ حاصل نہیں ہوتاکہ اس کے منکرکو کافر کہا جاسکے، قطع ویقین صرف حدیث متواتر میں ہوتا ہے۔
مثلاً:
فرض روزے کے کفارہ کا وُجوب حدیثِ مشہور سے ثابت ہے۔
[صحیح البخاری:١٩٣٦، ٢٦٠٠، ٥٣٦٨، ٦٠٨٧، ٦١٦٤، ٦٧٠٩، ٦٧١٠، ٦٧١١، صحیح مسلم:١١١١، سنن الترمذی:٧٢٤، سنن ابن ماجہ:١٦٧١، موطا امام مالک:٢٨، مسند احمد: ٢٤١، ٢٧٣، ٢٨١، ٥١٦، سنن الدارمی:١٧٥٧]
چنانچہ حافظ الحدیث ابن حجر نے [فتح الباری:۴/۱۳۱] نیز علامہ بدرالدین عینی نے [عمدۃ القاری:۱۱/۲۹] میں صراحت کی ہے (کیوں)کہ یہ حدیث چالیس طرق سے مروی ہے۔

جیسے:
.....عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ.
ترجمہ:
.....حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں.
[صحيح البخاری - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 10]










(3) آحاد:
یہ خبرِ واحد کی جمع ہے، اور جس خبر یا واقعہ کو ایک ہی شخص روایت کرے اسے لغتاً خبر واحد کہتے ہیں، اور اصطلاحاً جس میں متواتر کی کل شرائط نہ ہوں. پھر متواتر چونکہ مفید علم یقینی کے ہوتی ہے اس لئے وہ مردود نہیں صرف مقبول ہوتی ہیں، لیکن آحاد مقبول بھی ہوتی ہیں اور مردود بھی، اس لئے کہ ان کا واجب العمل ہونا ان کے راویوں کا حالات پر مبنی ہے.
[شرح نخبة الفكر]
اس لئے وہ اخبار آحاد اپنی سند اور ان میں موجود راویوں کے حالات پر مقبول و مردود اوصاف کی تحقیق سے واجب العمل یا متروک العمل سمجھی جائیں گی.

جس خبر کے ہر دور میں، خود دیکھ یا سن کر نقل کرنے والے، مسلسل گواہوں کی ایسی بڑی تعداد، جن کا جھوٹ یا غلطی پر اتفاق کرنا عادۃََ محال سمجھا جائے۔ایسی(سورج وچاند کی طرح متواتر قرآن وحدیث کی)خبروں کا منکر، بغیر شہادت کے اپنے اصلی والد کو کیسے جانتے رہے ہوں گے؟؟؟




حدیثِ عزیز:
وہ حدیث جس کے راوی کسی طبقے میں صرف دو ہوں۔



جیسے:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا آدَمُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.
ترجمہ:
ہمیں حدیث بیان کی یعقوب بن ابراہیم نے، ان کو ابن علیہ نے، وہ عبدالعزیز بن صہیب سے روایت کرتے ہیں، وہ انس ؓ سے وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں اور ہم کو آدم بن ابی ایاس نے حدیث بیان کی، ان کو شعبہ نے، وہ قتادہ سے نقل کرتے ہیں، وہ انس ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہوگا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہوجائے۔
[صحيح البخاری - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 15]




حدیثِ غریب:
وہ حدیث جسے بیان کرنے والا کسی زمانے میں صرف ایک راوی ہو۔ اگر وہ صحابی یا تابعی ہے تو اسے ”غریب مطلق“ کہیں گے اور اگر کوئی اور راوی ہے تو اسے ”غریب نسبی“ کہیں گے۔

نوٹ:
مذکورہ بالا اقسام میں سے متواتر حدیث علم الیقین کی حد تک سچی ہوتی ہے۔ باقی اقسام مقبول یا مردود ہو سکتی ہیں۔

غريب حديث کی ایک اور تعریف:
غريب حديث وہ ہوتی ہے جس کی سند کے کسی طبقہ ميں صرف ايک راوی رہ جائے۔

تنبیہ:
عموما لوگ غریب روایت کو ضعیف سمجھتے ہيں، جبکہ ايسا نہيں ہے بلکہ غریب روایات صحيح بھی ہوتی ہيں اور ضعیف بھی۔


جیسے:
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الثَّعْلَبِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَدْعُو وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ زَيْدٌ:‏‏‏‏ فَذَكَرْتُهُ لِزُهَيْرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ بَعْدَ ذَلِكَ بِسِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ زَيْدٌ:‏‏‏‏ ثُمَّ ذَكَرْتُهُ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏فَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى شَرِيكٌ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَإِنَّمَا أَخَذَهُ أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ.
ترجمہ:
بریدہ اسلمی ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو ان کلمات کے ساتھ: «اللهم إني أسألک بأني أشهد أنك أنت اللہ لا إله إلا أنت الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له کفوا أحد» اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں بایں طور کہ میں تجھے گواہ بناتا ہوں اس بات پر کہ تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، تو اکیلا (معبود) ہے تو بےنیاز ہے، (تو کسی کا محتاج نہیں تیرے سب محتاج ہیں) ، (تو ایسا بےنیاز ہے) جس نے نہ کسی کو جنا ہے اور نہ ہی کسی نے اسے جنا ہے، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہوا ہے ، دعا کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: قسم ہے اس رب کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے وسیلے سے مانگا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی گئی ہے اس نے وہ دعا قبول کی ہے، اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی گئی ہے اس نے دی ہے۔
زید (راوی) کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث کئی برسوں بعد زہیر بن معاویہ سے ذکر کی تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے یہ حدیث ابواسحاق نے مالک بن مغول کے واسطہ سے بیان کی ہے۔ زید کہتے ہیں: پھر میں نے یہ حدیث سفیان ثوری سے ذکر کی تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث مالک کے واسطے سے بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
١- یہ حدیث حسن غریب ہے۔
٢- شریک نے یہ حدیث ابواسحاق سے، ابواسحاق نے ابن بریدہ سے، ابن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ ؓ) سے روایت کی ہے، حالانکہ ابواسحاق ہمدانی نے یہ حدیث مالک بن مغول سے روایت کی ہے۔
[سنن الترمذی - دعاؤں کا بیان - حدیث نمبر 3475]
[سنن ابی داود:١٤٩٣، سنن ابن ماجہ:٣٨٥٧]









=============================
کیا ساری احادیث، امام بخاری کی کتاب "صحیح بخاری" میں ہیں؟
الجواب:
(1)ابو علی الغسانی سے روایت ہے کہ امام بخاریؒ(م230ھ) کا فرمان روایت ہے:
میں نے نکالا (منتخب کیا) ہے(اپنی کتاب) "الصحیح" کو چھ لاکھ(6،00،000) حدیثوں سے۔
حوالہ:
خرجت ‌الصَّحِيح ‌من ‌سِتّمائَة ‌ألف حَدِيث۔
[فتح الباري شرح صحيح البخاري-ابن حجر العسقلاني (م٨٥٢ھ): ج1 ص7، التنبيهات المجملة على المواضع المشكلة-صلاح الدين العلائي (م٧٦١ھ) : ص31]

(2)الاسماعیلی سے روایت ہے، امام بخاریؒ(م230ھ) نے فرمایا:
نہیں نکالی (منتخب کی) ہیں میں نے اس کتاب (صحیح بخاری) میں سوائے صحیح (احادیث) کے، اور جو میں نے چھوڑدی ہیں (اپنی کتاب) الصحیح میں سے اکثر (یعنی بہت زیادہ)۔
حوالہ:
لم أخرج فِي هَذَا الْكتاب الا صَحِيحا وَمَا تركت من الصَّحِيح أَكثر
[فتح الباري شرح صحيح البخاري-ابن حجر العسقلاني (م٨٥٢ھ): ج1 ص7+صيد الخاطر-ابن الجوزي (م٥٩٧ھ)]

(3)ابراھیم بن معقل سے روایت ہے، امام بخاریؒ(م230ھ) نے فرمایا:
نہیں داخل کی ہیں میں نے اپنی کتاب "الجامع" {پورا نام: الجامع المسند الصحيح المختصر من أُمور رسول الله صلى الله عليه وسلّم وسننه وأيامه» معروف صحیح البخاری} میں سوائے صحیح احادیث کے، اور چھوڑدی ہیں میں نے (بہت سی صحیح احادیث اپنی کتاب) الصحیح میں سے طوالت (لمبائی) کی وجہ سے۔
حوالہ:
مَا أدخلت فِي كتابي الْجَامِع الا مَا صَحَّ ‌وَتركت ‌من ‌الصَّحِيح ‌حَتَّى ‌لَا ‌يطول
[فتح الباري شرح صحيح البخاري-ابن حجر العسقلاني (م٨٥٢ھ): ج1 ص7+المعلم بشيوخ البخاري ومسلم-ابن خلفون (م٦٣٦ھ) : ص18]

طبقاتِ کتب حدیث اور

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ

 


 

اس زمانہ میں احکام اور حدیثِ نبوی کو جاننے کے لیے بجز اس کے کوئی راہ نہیں کہ فن حدیث میں لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ آج ایسی کوئی روایت موجود نہیں، جو قابلِ اعتماد ہو اور وہ حدیث کی کتابوں میں نہ آگئی ہو؛ اس لیے اب معرفتِ حدیث کا مدار کتبِ حدیث پر ہے، کتبِ حدیث مختلف مراتب کی ہیں، سب ایک درجہ اورایک مرتبہ کی نہیں؛ بلکہ حدیثیں جمع کرنے والوں میں بعض کا مقصد صرف صحیح حدیثوں کا انتخاب تھا، جیسے صحیح بخاری وصحیح مسلم اور بعض کا مقصد حدیث کے ساتھ مستدلاتِ فقہاء کو جمع کرنا تھا، جیسے سنن ترمذی اور بعض کا مقصد جملہ روایات کو جمع کرنا تھا، خواہ وہ کیسی بھی ہوں، جیسے مسند ابویعلی، مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ۔ ایسی صورت میں ان احادیث سے مسئلہ مسائل اخذ کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہوجاتا ہے کہ کون سی کتاب کس پایہ کی ہے اور اس پر اعتماد کس حد تک کیا جاسکتا ہے۔ یعنی مسئلہ مسائل صرف صحیح اور حسن درجہ کی روایات سے معلوم کیے جاسکتے ہیں؛ جب کہ فضائل ووعظ ونصیحت اور ترغیب وترہیب کے لیے ان روایات کو بھی بیان کیا جاسکتا ہے جو از قبیلِ ضعیف ہیں؛ جب کہ موضوع روایت کو کسی بھی دینی مقصد کے لیے بیان کرنا جائز نہیں۔

          حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے کتبِ حدیث کو صحت وشہرت کی بنیاد پر چار طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں طبقہٴ اولیٰ کی وہ کتاب ہے جس میں صحت وشہرت دونوں باتیں کامل طورپر پائی جائیں اور ان دو صفات میں جتنی کمی ہوگی، اس کتاب کا مقام ومرتبہ بھی اسی مناسبت سے فروتر ہوگا اوراگر یہ دونوں باتیں کسی کتاب میں بالکل نہ ہوں تو وہ کتاب قابلِ اعتبار نہیں۔

صحت:

          صحت کا مطلب یہ ہے کہ کتاب میں درج روایات اعلیٰ درجے کی ہوں، مقلوب، شاذ اور ضعیف روایات کو کتاب میں جگہ نہ دی گئی ہو اور اگر کوئی روایت ہوبھی تو اس کا حال بیان کردیاگیا ہو۔ ان میں سب سے پہلے متواترروایات ہیں، جن کو امت نے قبول کیاہو اور ان پر عمل بھی کیاہو۔ متواتر کی دو قسمیں ہیں: (۱) لفظاً جیسے پورا قرآن تواترِ لفظی ہے۔ اسی طرح احادیث کا بھی ایک حصہ تواتر سے ثابت ہے، گوکہ وہ بہت کم ہے، ایسی روایات کی تعداد علامہ سیوطی کے مطابق ۱۱۲ ہے، جیسے یہ روایت کہ تم عنقریب اپنے رب کو دیکھوگے، جس طرح چاند کو دیکھتے ہو کہ اس کے دیکھنے میں کوئی بھیڑ نہیں کرتے۔ (۲) متواتر کی دوسری قسم معناً ہے، جیسے طہارت، نماز، زکوٰة اورحج، بیع وشراء، نکاح اور غزوات کے بہت سے احکام معناً متواتر ہیں۔ ان مسائل میں اسلامی فرقوں میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔

          متواتر کے بعد غیرمتواتر وآحاد کا درجہ ہے، یہ بہت بڑی تعداد میں ہیں اور مختلف درجات کی ہیں۔ ان میں اعلیٰ درجہ مستفیض (مشہور) روایات کا ہے۔ مستفیض وہ حدیث کہلاتی ہے جس کو آں حضرت … سے تین یا زیادہ صحابہ نے روایت کیا ہو، پھر پانچویں طبقہ تک رواة برابر بڑھتے رہے ہوں۔ ذخیرئہ حدیث میں مستفیض روایات بہت ہیں اورانھیں پرفقہ کے اہم مسائل کی بنیاد قائم ہے۔

          اس کے بعد ان احادیث کا درجہ ہے جن کو حفاظِ حدیث اور اکابر محدثین نے صحیح یا حسن تسلیم کیا ہو اور وہ کوئی ایسا متروک قول نہ ہو جس کو امت میں سے کسی نے نہ لیاہو۔ پھر ان احادیث کا مرتبہ ہے جو متکلم فیہ ہیں۔ یعنی ان کی سند کو بعض محدثین نے قبول کیا ہو اور بعض نے قبول نہیں کیا۔ یہ روایات اگر شواہد ومتابعات کے ساتھ، یا اکثر اہلِ علم کے قول کے ساتھ، یا عقلِ صریح - یعنی اجتہاد- کی موافقت کے ساتھ موٴیّد ہوں تو ان پر عمل واجب ہے۔

ساقط الاعتبار روایات:

          یعنی موضوع، منقطع، مقلوب الاسناد، مقلوب المتن یا مجہول رُوات کی روایات۔ یہ سب روایات مردود ہیں، ان کو قبول کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔

شہرت:

          شہرت کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب میں درج روایات ایسی ہوں جو مصنف کی کتاب کی تصنیف سے پہلے اور بعد میں محدثین کی زبانوں پر دائر وسائر رہی ہوں اوراپنی جوامع ومسانید میں درج کیا ہو اور ان کی روایت وحفاظت میں مشغول رہے ہوں۔ ان روایات کی مبہم باتوں کی وضاحت کی ہو اوراس کے مشکل کلمات کے معانی بیان کیے گئے ہوں۔ اس کی پیچیدہ عبارتوں کی ترکیب کی ہو۔ ان حدیثوں کی تخریج کی ہو اور ان سے مسائل مستنبط کیے ہوں۔ راویوں کے حالات کی تفتیش ہر زمانہ میں ہوتی رہی ہو اور مصنف سے پہلے اور بعد میں بھی ناقدینِ حدیث نے ان روایات میں مصنف کی رائے میں موافقت کی ہو اور ان روایات کی صحت کا فیصلہ کیا ہو اور انھوں نے مدح وتوصیف کے ساتھ اس کتاب کا استقبال کیا ہو اور فقہاء برابر اس کی حدیثوں سے مسائل کا استخراج کرتے رہے ہوں اور محدثین نے اس کتاب پر بھروسہ کیا ہو اور عوام بھی ان روایات کی عقیدت اور تعظیم سے خالی نہ ہوں۔

          جب یہ دونوں باتیں - صحت وشہرت - کسی کتاب میں کامل طور پر جمع ہوجائیں تو وہ کتاب طبقہٴ اولیٰ میں شمار ہوں گی اور ان میں جتنی کمی ہوگی مقام ومرتبہ بھی ان کا اتنافروتر ہوگا اوراگر یہ دونوں باتیں کسی کتاب میں بالکل نہ پائی جائیں تو وہ کتاب قابلِ اعتبار نہیں۔

          شرائطِ صحت وشہرت کی کسوٹی پر پوری اترنے والی حضرت شاہ ولی اللہ کے نزدیک طبقہٴ اولیٰ کی کتابیں تین ہیں ان میں پہلے مقام پر موطا امام مالک ہے۔ اس کے بعد امام بخاری ومسلم کی صحاح ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:

          ”قد اتفق اہل الحدیث علی ان جمیع ما فیہ صحیح علی رایٴ مالک ومن وافقہ، واما علی رایٴ غیرہ فلیس فیہ مرسل ولا منقطع الّا وقد اتصل السند بہ من طرق أخریٰ فلا جرم أنھا صحیحة من ھٰذا الوجہ“(۱)

(محدثین نے اس بات پر اتفاق کیاہے کہ وہ تمام روایات جو موطا میں ہیں، صحیح ہیں۔ امام مالک اور ان کے موافقین کی رائے کے مطابق تو یہ بات ظاہر ہے اور دوسرے حضرات کی رائے کے مطابق اس طرح صحیح ہیں کہ اس کی تمام مرسل ومنقطع روایات دوسری سندوں سے متصل ہوگئی ہیں؛ لہٰذا وہ بھی صحیح ہیں۔)

          اس کی تفصیل یہ ہے کہ موطا میں تین طرح کی روایات ہیں:(۱) مسند (۲) مرسل (۳) بلاغات۔ متقدمین مسند کے سوا سب کو مرسل کہتے ہیں اور مرسل روایات کی حجیت میں اختلاف ہے۔ امام مالک اوران کے زمانہ کے دوسرے ائمہ، جیسے حسن بصری، سفیان بن عیینہ اور امام ابوحنیفہ حجت مانتے ہیں۔ حسن بصری سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں: ”اذا اجتمع اربعة من الصحابة علی حدیث ارسلتہ“(۲) (جب صحابہ میں چار لوگ کسی حدیث پر جمع ہوجائیں تو اسے مرسل رکھتاہوں)۔

          حسن بصری ہی سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب میں تم سے کہوں کہ مجھ سے بیان کیا فلاں نے تو وہ حدیث ہے اور کچھ نہیں اور جب میں کہوں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو میں نے اسے ۷۰ یا اس سے زیادہ لوگوں سے سنا ہے۔(۳)

          اس طرح دوسری صدی ہجری کے اواخر تک تمام ائمہ متفقہ طورپر مرسل روایات کو قبول کرتے تھے۔ حافظ بلقینی نے فرمایا:

          ”ان التابعین أجمعوا بأمرھم علی قبول المراسیلِ ولم یأت عنھم انکارہ ولا عن أحد من الأئمة بعدھم الی رأس المئین“(۴)

(تمام تابعین متفقہ طور پر مرسل روایات کو قبول کرتے تھے؛ بلکہ تابعین کے بعد بھی دوسری صدی ہجری تک ائمہ میں سے کسی کی طرف سے مراسیل قبول کرنے سے انکار ثابت نہیں)

          مرسل روایات کو ضعیف اور ناقابلِ احتجاج قرار دینے والوں میں سب سے پہلے امام شافعی ہیں(۵)، اس کے بعد تمام محدثین کا اس سے ترکِ احتجاج پر اتفاق ہوگیا؛ لیکن دوسری صدی کے اختتام سے پہلے پہلے تمام ائمہ ومحدثین مرسل روایات کو قبول کرتے تھے، خود امام شافعی کبارِ تابعین کی مراسلات کو قبول کرتے تھے، بشرطے کہ ان کی تائید دوسری حدیث وسند سے ہوجاتی۔ جہاں تک موطا میں درج مرسل روایات اوراس کی صحت کی بات ہے ، خود امام شافعی سے منقول ہے، انھوں نے فرمایا: ”أصحُّ الکتاب بعد کتاب اللہ موطا امام مالک“(۶) (کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب موطا مالک ہے)

          موطا کی تمام مرسل روایات کی سندیں چونکہ دوسری کتابوں میں پائی جاتی ہیں؛ اس لیے اس پر صحیح کا اطلاق درست ہے۔ امام زرقانی لکھتے ہیں:

          ”ما من مرسل فی الموطا الاّ ولہ عاضد أو عواضد فالصواب اطلاق الموطا صحیح لا یستثنیٰ منہ شيء وقد صنف ابن عبد البر کتابا فی وصل ما فی الموطا من المرسل والمنقطع والمعضل قال وجمیع ما فیہ من قولہ بلغنی ومن قولہ عن الثقة عندہ مما لم یسندہ أحد وستون کلھا مسند من غیر طریق مالک الاّ أربعة“(۷)

(موطا میں کوئی روایت مرسل نہیں؛ مگر اس کی تائیں کرنے والے اور معاون حدیث موجود ہے؛ لہٰذا بلا استثناء موطا پر صحیح کا اطلاق درست ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے ایک کتاب تصنیف کی جس میں موطا کی تمام مرسل، منقطع اور معضل روایات کی سندیں بیان کی ہیں اور فرمایا کہ موطا میں امام مالک نے جس قدر ”بلغنی“ اور ”عن الثقة“ کہہ کر روایات بیان کی ہیں اور ان کی سندیں نہیں بیان کیں وہ کل ۶۱ ہیں، جن میں سوائے چار کے تمام روایات امام مالک کے علاوہ دوسرے طرق سے مسند ہیں)

          حضرت شاہ صاحب نے المصفّٰی (فارسی شرح موطا) میں ان چار کے بارے میں فرمایاکہ گرچہ ان الفاظ سے ثابت نہیں، تاہم ان کے معنی صحیح ہیں۔

          حضرت شاہ صاحب نے موطا کی افضلیت ثابت کرنے کے لیے کئی ٹھوس دلائل دیے ہیں: ایک یہ کہ موطا کی احادیث کی اسناد میں راویوں کی تعداد سب سے کم ہے۔ وہ تین چار سے زیادہ نہیں۔ دوم یہ کہ اس کے بیشتر راوی (۹۵ راویوں میں ماسوا چھ کے تمام کے تمام راوی) مدنی ہیں، جو سب کے سب معروف ومشہور ہیں۔ ان راویوں میں سب سے زیادہ روایات امام مالک نے حضرت نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر سے نقل کی ہیں۔ محدثین کے یہاں یہ سند اصح الاسانید یا سلسلة الذہب کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت نافع کے علاوہ دوسرے راویوں میں زیادہ تر ایسے راوی ہیں، جو حضرت عمر کے قضایا اور فتاویٰ کے سب سے بڑے عالم تھے، جن پر مذاہبِ فقہ کا دارومدار ہے۔ موطا نہ صرف ان فقہاء کرام کا عظیم ذخیرہ ہے؛ بلکہ دوسرے محدث وفقیہ صحابہٴ کرام وتابعین کے فتاویٰ کا مخزن بھی، موسمِ حج ہو یا اس کے سوا، ہر زمانے میں تمام ممالک سے علماء ومحدثین مدینہ منورہ آتے تھے اور وہاں کے علماء سے اکتسابِ فیض کرتے تھے۔ اس زمانہ میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ جو علوم علماء واہلِ مدینہ کے پاس ہیں وہ منقح ہیں، جو دوسرے شہر اور علماء کے پاس نہیں۔ امام مالک نے اسی شہر ’روح البلاد‘ میں رہ کر ہی موطا کی تالیف کی۔

          اس کے علاوہ موطا کی اور بھی خوبیاں ہیں، مثلاً یہ کہ اس کی تمام روایات عمل اہل مدینہ کی ترجمان ہیں؛ کیونکہ قبولیت حدیث کے لیے امام مالک کے یہاں یہ ضروری تھا کہ وہ جمہور اہل مدینہ کے عمل کے خلاف نہ ہو۔ محمد ابوزہو لکھتے ہیں: ”فاشترط الامام مالک فی قبول خبر الواحد أن لا یعمل علی خلافہ الجمھور والجم الغفیر من أھل المدینة“(۹) (خبرواحد کی قبولیت کے لیے امام مالک نے یہ شرط رکھی کہ وہ جم غفیر اور جمہور اہلِ مدینہ کے عمل کے خلاف نہ ہو)۔

          خبرواحد اور عمل اہلِ مدینہ میں تعارض کے وقت وہ اہلِ مدینہ کے عمل کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مدینہ کا عمل جو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وراثتاً ملا ہے، وہ خبرِواحد کے مقابلہ میں زیادہ مستند ہے؛ چنانچہ انھوں نے شیخ لیث کے نام رسالہ میں عمل اہل مدینہ کو خبر واحد پر مقدم رکھنے کو جائز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ اہلِ مدینہ کی اتباع کرتے ہیں، مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی اور مدینہ میں قرآن نازل ہوا۔ یہاں اللہ نے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کہا۔ رسول اللہ… صحابہ کے سامنے تھے، آپ حکم دیتے تھے وہ اس پر عمل کرتے تھے، آپ انھیں سکھاتے تھے وہ اس کا اتباع کرتے تھے۔ یہاں تک کہ حضور کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد امت میں ابوبکر وعمر وعثمان، جیسے صاحب امر ہوئے جن کی لوگوں نے اتباع کی۔ ان کے بعد تابعین بھی اسی راہ پر چلے اور انھیں سنتوں کی پیروی کرتے رہے۔ مدینہ میں جس بات پر لوگوں کا عمل ہوتا تھا اس پر کسی کو اختلاف کرتے ہم نے نہیں پایا تو اسی سے الگ ہونا اوراس کے خلاف ہونا جائز نہیں۔(۱۰)

          اسی بنیاد پر امام مالک نے حدیث کی تحقیق کا معیار عمل اہل مدینہ کو قرار دیا۔ ان کے نزدیک اہل مدینہ کا عمل اور ان کی رائے مشہور سنت کی حیثیت رکھتی ہے اور مشہور سنت خبرواحد پر ہمیشہ مقدم ہوتی ہے؛ اس لیے امام مالک خبرِ واحد پر عمل اہل مدینہ کو مقدم رکھتے تھے۔

          امام مالک کے شیخ ربیعہ کا بھی یہی مسلک تھا، وہ کہتے تھے کہ ہزار ہزار سے نقل کریں یہ بہتر ہے اس سے کہ ایک ایک سے نقل کرے۔(۱۱)

          موطا لکھنے سے امام مالک کی غرض ان حدیثوں کو جمع کرنا نہیں تھا، جن کے راوی ثقہ ہوں، جیساکہ کتبِ صحاح کے مصنّفین نے التزام کیا؛ بلکہ ان روایات کو جمع کرنا تھا، جن پر اہل مدینہ کا عمل اوراجماع تھا؛ اسی لیے (غالباً) انھوں نے موطا میں اسناد کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی؛ کیونکہ یہ روایات جم غفیر اور جمہور اہل مدینہ کے عمل کی ترجمان ہیں، ان کا راوی اِکّا دُکّا نہیں؛ بلکہ ہزاروں ہیں۔ دوسری چیز یہ کہ التزام سند کے سوا راویوں کی تحقیق کے تمام علوم، مثلاً علم تاریخ رواة، فنِ جرح وتعدیل اور علم مصطلح الحدیث سب بعد میں ایجاد ہوئے، جن کی مدد سے راویوں کی جانچ و پرکھ ہوئی اور موطا ان اصولوں کے وضع کیے جانے سے پہلے لکھی جاچکی تھی۔

          حضرت شاہ صاحب نے موطا کو صحیح بخاری و مسلم پر اس لیے بھی فوقیت دی ہے کہ انھوں نے اسے تمام کتبِ حدیث کی اصل واساس قرار دیا ہے اور بعد کی تمام کتابوں کو اس کی شروح وتکملے اور مستخرجات مانا ہے۔ جمہور محدثین نے اس کی روایات کو صحیح تو تسلیم کیا ہے؛ لیکن اس میں موجود مرسل اور منقطع روایات کی بنیاد پر صحاح ستہ میں اسے شامل نہیں کیا ہے؛ حالانکہ اس کی تمام روایات متن کے اعتبار سے تمام کتبِ حدیث میں سب سے اعلیٰ ہیں۔ آج تک اس کی ایک بھی روایت پر کسی نے موضوع ہونے کا شبہ تک نہیں کیا؛ جب کہ صحاح ستہ کی ایک معتدبہ روایات پر غیرصحیح؛ بلکہ موضوع ہونے کا الزام جائز ٹھہرایا ہے۔ حضرت شاہ صاحب کے نزدیک ”صحت“ کا مطلب محض سنداً نہیں؛ بلکہ متنا ً اور درایتاً بھی ہے؛ اس لیے انھوں نے موطا کو تمام کتبِ حدیث میں پہلے درجہ پر رکھا اوراس میں وہ حق بجانب ہیں۔

          موطا امام مالک سے بلاواسطہ ایک ہزار سے زاید اشخاص نے روایت کیا، ان میں بعض فائق فقہاء ہیں، جیسے امام شافعی۲۰۴ھ)، امام محمد بن الحسن شیبانی (م۱۸۹ھ)۔ (امام شیبانی نے امام مالک سے موطا پڑھ کر اس کو مرتب کیا ہے اوراس میں اضافہ بھی کیا ہے، جو موطا محمد کے نام سے معروف ہے۔ درحقیقت وہ موطا امام مالک ہی ہے۔) عبد اللہ بن وہب مصری (م۱۹۷ھ) عبدالرحمن بن القاسم مصری (م۱۹۱ھ) اور بعض اونچے درجے کے محدث ہیں، جیسے یحییٰ بن سعید القطان، عبدالرحمن بن مہدی، عبدالرزاق صنعانی (صاحب مصنَّف عبدالرزاق) اور بعض بادشاہ اور امراء ہیں، جیسے خلیفہ ہارون رشید اوراس کے دو بیٹے امین ومامون۔

          موطا کی شہرت خود امام مالک کی زندگی ہی میں اسلامی مملکت کے کونے کونے میں پھیل چکی تھی اور مابعد زمانوں میں اس کی شہرت میں اضافہ ہی ہوتا رہا؛ یہاں تک کہ اسلامی دنیا کے سب ہی مجتہدین نے اس پر اپنے مذہب کی عمارت تعمیر کی۔ علماء اسلام برابر موطا کی حدیثوں کی تخریج،اس کے متابعات وشواہد کا تذکرہ،اس کے نامانوس الفاظ کی تشریح، اس کے مبہم امور کا انضباط، اس کی حدیثوں سے مسائل کا استنباط اور اس کے راویوں کے حالات کی تفتیش کرتے رہے اور یہ سب کام اس درجہ تک ہوتا رہا کہ اس کے بعد کوئی درجہ نہیں۔

صحیحین:

          صحیحین حدیث کے صفِ اوّل کی کتب ہونے میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ ان کی مرفوع ومتصل روایتیں قطعی طور پر صحیح ہیں؛ مگر امام دارقطنی، ابومسعود دمشقی اور ابوعلی غسانی نے صحیحین کی ایک سو دس روایات پر نقد کیا ہے اور ان کو غیرصحیح بتایا ہے۔ حافظ ابن صلاح نے اس استثناء کو تسلیم کیا ہے، انھوں نے فرمایا کہ بخاری ومسلم پر جو مواخذہ یا قدح، معتمد حفاظ حدیث مانند دارقطنی وغیرہ کی طرف سے وارد ہے، وہ ہمارے فیصلہٴ سابق سے مستثنیٰ ہے(۱۲)؛ کیوں کہ اتنے حصے کی تلقی بالقبول پر اجماع نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ جو صحیحین کی روایات کی بے قدری کرتا ہے اور ان کو ہیچ سمجھتا ہے وہ مبتدع (گمراہ) ہے۔(۱۳)

دوسرے طبقے کی تین کتابیں:

          اس کے بعد کچھ دوسری کتابیں ہیں، جو موطا اور صحیحین کے مرتبہ تک تو نہیں پہنچتیں؛ مگر وہ ان سے متصل اور پیچھے پیچھے ہیں۔ ان کے مصنف اعتماد، عدالت، حفظ اور علومِ حدیث میں تبحر میں معروف ہیں۔ انھوں نے اپنی کتابوں کے لیے جو شرائط (صحت واتصال) طے کی تھیں، ان میں سہل انگاری سے کام نہیں لیا۔ بعد والوں نے ان کی کتابوں کا قبولیت کے ساتھ استقبال کیا ہے اور ہر زمانہ میں محدثین وفقہاء نے ان کے ساتھ اعتناء برتا ہے اور وہ کتابیں لوگوں کے درمیان مشہور ہوئیں اور علماء نے ان کتابوں کے ساتھ تعلق رکھا۔ کسی نے ان کے نامانوس الفاظ کی تشریح کی ہے، کسی نے ان کے رجال کا تتبع کیا ہے اور کسی نے ان کی حدیثوں سے مسائل مستنبط کیے ہیں اور ان روایات پر عام طور پر علومِ دینیہ کا مدار ہے، جیسے امام ابوداؤد (م۲۷۵ھ) کی سنن، امام ابوعیسیٰ ترمذی (م۲۷۹ھ) کی جامع (سنن ترمذی) اور امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی (م۳۰۳ھ) کی مجتبیٰ جس کو سنن صغریٰ اور مطلق سنن بھی کہتے ہیں۔

          چھٹی صدی ہجری کے محدث رزین بن معاویہ عبدری سرقُسطی (م۵۳۵ھ) نے طبقہٴ دوم کی یہ تین کتابیں اور طبقہٴ اولیٰ کی ماقبل مذکور تین کتابیں تجرید الصحاح الستہ میں ان کی حدیثوں کی اسناد حذف کرکے جمع کیا ہے۔ ان کے بعد ابن الاثیر جزری (م۶۰۶ھ) نے مذکورہ تجرید کی تہذیب و ترتیب کی ، جس کا نام جامع الاصول لاحادیث الرسول رکھا، جو مطبوعہ اور متداول ہے۔

          امام احمد کی مسند کو بھی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اسی طبقہ سے منسلک کیاہے۔ آپ لکھتے ہیں:

          ”وکان مسند أحمد یکون من جملة ھذہ الطبقة فان الامام أحمد جعلہ أصلاً یعرف بہ الصحیح من السقیم قال ما لیس فیہ فلا تقبلوہ“(۱۴)

(اور قریب ہے کہ مسند احمد کہ ہو وہ من جملہ اس طبقہ کی کتابوں کے بے شک امام احمد نے اس کتاب کو ایسی اصل (کسوٹی) بتایا ہے جس کے ذریعہ صحیح وسقیم روایات کو جانا جاسکتا ہے) آپ نے فرمایا کہ جو مسند میں نہیں ہے، اس کو قبول نہ کرو (یعنی صحیح روایات سب مسند میں جمع ہیں اور جو اس سے باہر ہیں وہ صحیح نہیں)؛ مگر اطلاق کے ساتھ امام احمد کی یہ بات علماء نے قبول نہیں کی)۔

          کیونکہ مسند احمد ذخیرہٴ حدیث کی مسند روایات کا بہت بڑا مجموعہ سہی؛ لیکن تمام روایات کا استیعاب نہیں؛ اس لیے کہ اس میں بہت سی روایات امام احمد سے نقل کرنے میں چھوٹ گئیں، مثلاً ترجمہ حضرت عائشہ میں قصہٴ ام ذرع والی حدیث اس میں نہیں۔ اسی طرح بقول علامہ سیوطی: تقریباً مختلف صحابہ کی دو سو روایات مسند میں درج ہونے سے رہ گئیں، جن سے صحیح بخاری اور مسلم میں حدیثیں منقول ہیں(۱۵)۔ ہوسکتا ہے، یہ روایات انھیں دستیاب نہ ہوسکی ہوں اور وہ بعد کے ائمہ مثلاً بخاری ومسلم کو دستیاب ہوگئیں۔ بہرحال اس سے مسند میں درج روایات کی صحت پر فرق نہیں پڑتا۔ اور نہ ہی امام احمد کے دعویٰ کو سامنے رکھ کر اسے یہ درجہ دیا گیا؛ بلکہ یہ درجہ اس میں درج روایات کی صحت و شہرت کی بنیادپر عطا کیا۔

          دوسری بات یہ کہ مسند احمد طبقہٴ دوم میں براہِ راست نہ ہوکر اس کے ”قریب“ہے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ مسانید میں احادیث کی تخریج میں ہر صحابی کی تمام روایات کو بلا ترتیبِ عنوان ایک جگہ جمع کردیا جاتاہے۔ اس میں صرف صحیح روایات کوجمع کرنے پر اکتفا نہیں کیاجاتا۔ حافظ ابن صلاح مسانید میں درج روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

          ”فَھٰذِہ عَادَتُھُمْ فِیْھَا أنْ یَخْرُجُوا فِيْ مُسْنَدِ کُلِّ صَحَابِيٍ مَا رَوَوْہُ مِنْ حَدِیْثِہ غَیْرِ لَتَقَیِّدِیْنَ فِأنْ یَکُوْنَ حَدِیْثًا مُحْتَجًّا بِہ “(۱۶)

(مسند میں احادیث کی تخریج کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں ہر صحابی کی تمام روایات کو ایک جگہ جمع کردیا جاتا ہے۔ اس میں اس بات کی قید نہیں ہوتی کہ تمام احادیث قابلِ احتجاج ہوں)۔

          مسانید اور فقہی ابواب کے مطابق ترتیب دی جانے والی کتابوں میں جو فرق ہے، اس کو واضح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فرمایا:

          ”وضع التصنیف للحدیث علی الأبواب أن یقتصر فیہ علی ما یصلح للاحتجاج أو الاستشھاد بخلاف من رتب علی المسانید فان أصل رفعہ“(۱۷)

(ابواب کی ترتیب پر تصنیفات (جوامع) میں صرف انھیں روایات کو جمع کیاجاتاہے، جو احتجاج اور استشہاد کی صلاحیت رکھتی ہوں، بخلاف مسانید کے جن کے لکھنے کا مقصد صرف جمعِ حدیث ہوتا ہے)۔

          اسی وجہ سے شیخ طاہر الجزائری لکھتے ہیں:

          ”أما کتب المسانید دون کتب السنن فی الرتبہ“(۱۸)

(کتب مسانید مرتبہ میں کتبِ سنن سے کم تر ہوتی ہیں)۔

          لیکن مسانید میں مسند احمد سب سے افضل ہے، اس کی روایات دوسری تمام مسانید کے مقابلہ میں صحیح تر ہیں۔ امام شوکانی نے اسے ان تمام کتابوں میں اصح بتایا ہے، جن کتب (مسانید) میں روایات راوی کی بنیاد پر جمع کی جاتی ہیں۔(۱۹)

          علامہ سیوطی نے مام ہیثمی (م۸۰۷ھ) کے واسطے سے فرمایا: مسند أحمد أصح صحیحا من غیرہ(۲۰) (مسند احمد تمام مسانید میں سب سے صحیح ہے)۔

          حاصل یہ کہ مسند احمد طبقہٴ دوم میں چوتھی اور من جملہ کتبِ حدیث میں چھٹی مستند ترین کتاب ہے؛ اسی لیے یہ ہرزمانے کے محدثین کے لیے قابلِ اعتماد ومرجع رہی ہے۔

سنن ابن ماجہ:

          حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے سنن ابن ماجہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، طبقاتِ کتب حدیث بیان کرتے ہوئے، اس کا ذکر نہ طبقہٴ دوم میں کیا اور نہ سوم وچہارم میں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں موجودضعیف روایات کی کثرت کی وجہ سے امام ولی اللہ نے اسے طبقہٴ دوم کی کتب میں شامل نہیں کیا۔

روایات سنن ابن ماجہ کی نوعیت:

          سنن ابن ماجہ میں ایک بڑی تعداد ان روایات کی ہے، جو کتبِ خمسہ (صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ترمذی) میں نہیں پائی جاتیں۔ امام ابن ماجہ ان احادیث کی روایت میں منفرد ہیں۔ ان میں بہت سی ضعیف الاسناد احادیث بھی ہیں۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا: ”وفیہ احادیث کثیرة منکرة“(۲۱)(اس میں منکر روایات بہ کثرت ہیں)۔

          حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن ماجہ نے کتاب مرتب کرکے ابوزرعہ پر پیش کی۔ انھوں نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ شاید اس میں تیس سے زیادہ ایسی حدیثیں نہیں، جن کی اسناد میں ضعف ہے، سیراعلام النبلاء میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ابوزرعہ کا قول کہ اس میں تیس سے زیادہ ضعیف حدیثیں نہیں، اگر یہ قول صحیح ہے تو اس سے مراد تیس ایسی حدیثیں ہیں جو مردود (المطرحہ الساقطہ) ہیں؛ لیکن ایسی روایات جو احتجاج کے قابل نہیں، وہ ہزار کے قریب ہیں۔ آگے لکھتے ہیں کہ امام ابن ماجہ حافظ الحدیث، بہترین ناقد حدیث، صادق القول اور وسیع العلم ہیں۔ ان کی کتاب سنن کے مرتبہ سے کم تر ہے؛ اس لیے کہ اس میں منکر اور کچھ موضوع روایتیں بھی ہیں۔(۲۲)

          سنن ابن ماجہ کی ۴ہزار روایات میں سے ایک بڑی تعداد (ہزار کے قریب) روایت ناقابلِ استدلال ہونے کی وجہ سے یہ جملہ مشہور ہوا ”کل ما انفرد بہ ابن ماجہ فہو ضعیف“ (ہر وہ روایت جسے امام ماجہ بیان کرنے میں منفرد ہوں وہ ضعیف ہے)؛ لیکن اس جملہ میں حقیقت سے زیادہ مبالغہ سے کام لیاگیا ہے۔ حافظ ابن حجر اس جملہ پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”لیس الأمر فی ذلک علی اطلاقہ فاستقرائی وفی الجملة ففیہ أحادیث کثیرة منکرة“(۲۳) (میرے استقراء وعلم کے مطابق یہ حکم علی الاطلاق درست نہیں، تاہم اس سے انکار نہیں کہ اس میں منکر احادیث کی تعداد زیادہ ہے)۔ علامہ ابن جوزی نے اس کی تیس روایات کو موضوع کہاہے۔

          ابن ماجہ میں بڑی تعداد میں روایات کا ضعیف ہونا اور علامہ ابن جوزی اور حافظ ذہبی اور دوسرے ائمہ کی طرف سے اس کی ایک معتدبہ روایات پر موضوع ہونے کے الزام کے پیش نظر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اسے دوسرے طبقہ کی کتب میں شامل نہیں گردانا۔ حافظ ذہبی نے یہ بات صاف طور پر بیان کی کہ اس کا مرتبہ سنن (ابوداؤد، نسائی اور ترمذی) سے کم تر ہے(۲۴)۔ یہی رائے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی بھی ہے اور صحیح ہے؛ کیونکہ کتبِ خمسہ میں کوئی بھی ایسی کتاب نہیں، جس میں اتنی بڑی تعداد میں روایات ضعیف ہوں۔

ابن ماجہ اور صحاح ستہ:

          چوتھی صدی ہجری کے وسط میں موجودہ کتبِ ستہ یا صحاحِ ستہ کے تصور کی طرح کتبِ اربعہ کا تصور پیدا ہوا، جس میں صرف صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی تھیں۔ حافظ ابن السکن اور حافظ مندہ نے فقط اِنھیں چارکتابوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے(۲۵)۔ یہ ائمہٴ سنن ترمذی اور ابن ماجہ کو اس پایہ کی کتب نہیں تسلیم کرتے تھے، بعد میں حافظ ابوطاہر سلفی نے پانچویں صدی ہجری میں سنن/جامع ترمذی کو بھی مذکورہ کتبِ اربعہ کے ساتھ ملحق کیا۔ اسی دوران محمد بن طاہر مقدسی (م۵۰۷ھ) نے سنن ابن ماجہ کو بھی کتبِ اربعہ سے ملحق کرنے کی کوشش کی؛ لیکن امام حازمی (۵۸۴ھ) اور ابن جوزی (م۵۹۷ھ) جیسے ائمہ نے اس سے اتفاق نہیں کیا؛ لیکن ترمذی کو کتبِ خمسہ کی حیثیت سے تسلیم کرلیاگیا۔ اس کے بعد حافظ عبدالغنی (م۶۰۰ھ) نے اس کی حسنِ ترتیب اور فقہی ابواب کی منفعت کی بنیاد پر ابن ماجہ کو اصولِ خمسہ سے ملحق کرنے کی کوشش کی جو کامیاب رہی۔ اس کے بعد ابن النجار (م۶۴۳ھ) ابن تیمیہ (م۶۵۲ھ)، امام جزری (م۷۱۱ھ) اوراکثر اہل علم نے ابن ماجہ کو کتبِ ستہ کی حیثیت سے قبول کرلیا؛ لیکن اسی زمانے کے شیخ ابن صلاح (م۶۴۳ھ)، امام نووی(م۶۷۶ھ) اور ابن خلدون (۸۰۸ھ) نے ابن ماجہ کو چھٹی کتاب کی حیثیت سے کبھی نہیں تسلیم کیا۔ یہ ائمہ اور امام حازمی اور علامہ ابن جوزی صرف اصولِ خمسہ ہی کا ذکر کرتے ہیں۔

          جس دوران ابن ماجہ کو کتبِ ستہ میں شامل کرنے کی پہلی کوشش کی گئی، اس وقت علامہ رزین مالکی نے (م۵۲۵ھ) التجرید للصحاح والسنن میں اور ابن الاثیر جزری (م۶۰۶ھ) نے جامع الاصول میں ودیگر علماء مغرب نے موطا کو کتب ستہ میں شامل تسلیم کرلیا(۲۷)۔ اس کے بعد یہ امر طے ہوگیاکہ علماء مغرب کے نزدیک موطا اور بقیہ سہ جانب ائمہ کے یہاں ابن ماجہ شامل صحاح ستہ ہے۔

          ابن ماجہ حسن ترتیب اور اختصار میں بے نظیر ہے۔ اس کتاب کو جس چیز نے عوام وخواص میں پذیرائی اور قبولیت عطا کی وہ اس کا شاندار اسلوب اور روایات کا حسنِ انتخاب ہے۔ ابواب کی فقہی ترتیب سے مسائل کا واضح استنباط اور تراجمِ ابواب کی احادیث سے بغیر کسی پیچیدگی اور الجھن کے مطابقت نے سننِ ابن ماجہ کے حسن کو نکھاراہے۔ اس کی ایک اہم انفرادیت اور خصوصیت یہ ہے کہ امام ابن ماجہ اپنی سنن میں کوئی حدیث مکرر نہیں لائے ہیں۔ یہ وہ خوبی ہے جو بقیہ کتبِ اصول کی کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی۔

          دوسری بات یہ ہے کہ سنن ابن ماجہ میں دیگر کتب سنن کی بہ نسبت بہت زیادہ اختصار سے کام لیاگیا ہے، اس کے باوجود یہ کتاب ضروری مسائل اور احکام کی جامع ہے۔ زیادہ تر اس کتاب میں مسائل اوراحکام سے متعلق احادیث ہیں۔ فضائل ومناقب کی روایات اس کتاب میں نہیں ہیں۔ ابن ماجہ کی ان ہی فنی خصوصیات کے پیش نظر درس وتدریس کے طلبا اور عام قارئین کے لیے مفید سمجھتے ہوئے ائمہٴ حدیث نے اسے کتبِ ستہ سے ملحق کیا ورنہ نفس روایات اور اس کے رواة کا حال دیکھتے ہوئے سننِ دارمی اور دسری کتب، جیسے صحیح ابن حبان، دارقطنی اور کئی دیگر کتب ابن ماجہ سے برتر ہیں؛ لیکن ان کتب کو وہ قبول عام حاصل نہ ہوسکا جو سنن ابن ماجہ کو نصیب ہوا۔ علامہ سخاوی حافظ علائی (م۷۷۱ھ) کے واسطے سے فرماتے ہیں: ”ینبغی أن یکون کتاب الدارمی سادسہا للخمسة بدلہ فانہ قلیل الرجال الضعفاء نادر الأحادیث المنکرة والشاذة“(۲۸) (کتب ستہ میں سنن ابن ماجہ کے بدلے سنن دارمی زیادہ مناسب ہے؛ اس لیے کہ سننِ دارمی میں ضعیف روایات کم ہیں اور منکر وشاذ روایات بھی نادر ہیں)۔

          اسی طرح علامہ سیوطی نے فرمایاکہ دارمی کی کتاب مرتبہ میں سنن اربعہ سے کم نہیں؛ بلکہ اگر اس کو کتب خمسہ سے ملحق کیا جائے تو ابن ماجہ کی بہ نسبت یہ اولیٰ ہے؛ کیونکہ وہ سنن ابن ماجہ سے کہیں فائق ہے۔(۲۹)

تیسرے طبقے کی کتب حدیث:

          اس طبقہ میں حضرت شاہ صاحب نے حدیث کی ان کتابوں کو شامل کیا جو بخاری ومسلم سے پہلے یا ان کے زمانہ میں یا ان کے بعد لکھی گئیں، جن میں صحیح، حسن، ضعیف، معروف، غریب، شاذ، منکر، ثابت، مقلوب سبھی طرح کی حدیثیں مندرج ہیں اوران کو علماء کے درمیان بہت زیادہ شہرت حاصل نہیں ہوئی، گرچہ وہ بالکل انجانی بھی نہیں رہیں۔ اور جن روایات کے ساتھ وہ کتابیں منفرد ہیں وہ فقہاء کے درمیان بہت زیادہ متداول بھی نہیں رہیں اور محدثین نے ان روایات کی صحت وسقم کے بارے میں بہت زیادہ تفحص بھی نہیں کیا۔ ان میں بعض وہ ہیں،جن کے غریب کلمات کی شرح کرکے کسی عالم لغت نے اور ان کی روایات کو سلف کے مذاہب کے ساتھ تطبیق دے کر کسی فقیہ نے اور ان کے مبہمات کی وضاحت کرکے کسی محدث نے اور اس کے رجال کے ناموں کا تذکرہ کرکے کسی مورخ نے کوئی خدمت نہیں کی؛ گوکہ زمانہ مابعد میں ان کی خدمت کی گئی؛ مگر متقدمین نے ان کو درخور اعتناء نہیں سمجھا؛ لہٰذا وہ کتابیں پوشیدگی اور گمنامی میں رہیں، جسے ابو یعلی موصلی (م۳۰۷ھ) کا مسند جو مطبوعہ ہے، عبدالرزاق بن ہمام (م۲۱۱ھ) کی مصنف جو محدث عصر مولانا حبیب الرحمن اعظمیکی تعلیقات کے ساتھ مطبوعہ ہے، ابوبکر عبداللہ بن محمد، معروف بابن ابی شیبہ واسطی (م۲۳۴ھ) کا مصنف جو طبع ہوچکا ہے، عبدبن حمید کسی (م۲۴۹ھ) کا مسند، ابوداؤد سلیمان بن ابوداؤد طیالسی (م۲۰۳ھ) کا مسند جو مطبوعہ ہے؛ مگر یہ مسند خود ابوداؤد کا ترتیب دیا ہوا نہیں؛ بلکہ بعد میں کسی نے ان کی بعض مسموعات کو جمع کیاہے، احمد بن حسین البیہقی (م۴۵۸ھ) کی کتابیں ”السنن الکبریٰ“ دس جلدوں میں ہے، الجامع المصنف فی شعب الایمان جو صرف شعب الایمان بھی کہلاتی ہے، مطبوعہ ہے۔ معرفة السنن والآثار، دلائل النبوة (مطبوعہ)، الاسماء والصفات (مطبوعہ)، القرأة خلف الامام (مطبوعہ)، ابوجعفر احمد بن محمد الطحاوی (م۳۲۱ھ) کی کتابیں: شرح معانی الآثار المختلفة المرویہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الاحکام، جو معانی الآثار کے نام سے مشہور ہے (مطبوعہ)، بین مشکل الآثار (مطبوعہ)، سلیمان بن احمد طبرانی (م۳۶۰ھ) کی کتابیں: جیسے المعجم الکبیر (مطبوعہ)، المعجم الصغیر (مطبوعہ)، المعجم الوسیط (غیرمطبوعہ)۔

          ان حضرات کا مقصد ان تمام روایات کو جمع کرنا تھا، جو انھیں دستیاب ہوجائیں، تلخیص وتہذیب اور قابلِ عمل روایات کا انتخاب ان کا مقصد نہیں تھا، یہ کام انھوں نے بعد والوں کے لیے چھوڑا۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ چونکہ حدیثوں کے ساتھ ان کی سند بیان کردی گئی ہیں، متاخرین سند دیکھ کر ان روایات کا معیار خود متعین کرلیں گے؛ لیکن فی الواقع ایسا ہوا نہیں۔ بعد والوں نے ان کتب کے مصنّفین کی شان وجلالت دیکھ کر ان کی کتابوں پر اسی حالت میں بھروسہ کرلیا۔

چوتھے طبقے کی کتابیں:

          ذخیرہٴ حدیث میں کچھ وہ کتابیں ہیں جن کے مصنّفین نے صدیاں بیت جانے کے بعد ان روایات کو جمع کرنے کا قصد کیا، جو پہلے دو طبقوں کی کتابوں میں نہیں تھیں۔ وہ روایات جوامع اور مسانید میں مخفی تھیں۔ ان حضرات نے ان روایات کی شان بلند کی، یہ سات قسم کی روایات ہیں:

۱-       ایسے روایوں کی روایتیں جن کو محدثین نے نہیں لکھا، جیسے بے احتیاط بولنے والے واعظین، گمراہ فرقوں کے لوگ اور روایت حدیث میں کمزور رُوات۔

۲-       صحابہ وتابعین کے آثار یعنی موقوف اور مقطوح روایات۔

۳-       حکماء اور واعظوں کی باتیں، جن کو راویوں نے سہواً یا عمداً مرفوع روایات کے ساتھ خلط ملط کردیا۔

۴-       اسرائیلی روایات۔

۵-       قرآن وحدیث کے احتمالی مطالب۔ کچھ نیک لوگوں نے جو روایت کی باریکیوں کو نہیں جانتے تھے، ان کو بالمعنی روایت کیا اور ان کو مرفوع روایت بنادیا۔

۶-       قرآن وحدیث کے ارشادات سے سمجھی ہوئی باتیں جن کو رُوات نے مستقل بالذات حدیثیں بنادیا۔

۷-       مختلف حدیثوں کے متفرق جملے جن کو ملاکر ایک سیاق کی حدیث بنادیاگیا۔

          یہ روایات عام طور پر درج ذیل کتابوں میں پائی جاتی ہیں:

          (۱) ابوحاتم محمد بن حبّان بُستی (م۳۵۴ھ) کی کتاب الضعفاء والمجروحین۔

          (۲) ابواحمد عبداللہ بن عدی جرجانی (م۳۶۵ھ) کی الکامل فی الضعفاء والمتروکین (اس کتاب میں ہر متکلم فیہ راوی کا تذکرہ کیا ہے، اگرچہ وہ صحیحین کا راوی ہو)۔

          (۳) خطیب بغدادی، ابوبکر احمد بن علی (م۵۶۳ھ) کی کتابیں مثلاً تاریخ بغداد (اس کتاب میں احادیث کا کافی ذخیرہ ہے)۔

          الکفایة فی علم الروایة (اصول حدیث میں)، اقتضاء العلم العمل، موضح احکام الجمع والتفریق، الفوائد المنتخبة اورالجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع۔

          (۴) حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی (م۴۳۰ھ) کی کتابیں، مثلاً حلیة الاولیاء، طبقات الاصفیاء اور دلائل النبوة ومعرفة الصحابہ۔

          (۵) ابواسحاق جوزجانی احمد بن عبداللہ محمد شام (م۲۵۹ھ) کی کتابیں، جیسے کتاب فی الجرح والتعدیل اور کتاب الصغفاء۔

          (۶) ابوالقاسم ابن عساکر علی بن الحسن دمشقی (م۵۷۱ھ) کی کتابیں، مثلاً: تاریخ دمسق الکبیر، جس کی شیخ عبدالقادر بدران نے تلخیص کی ہے، جو تہذیب تاریخ ابن العساکر کے نام سے طبع ہوئی ہے۔

          (۷) ابن النجار محمد بن محمود بغدادی (م۶۴۳ھ) کی کتابیں، جیسے: الدرة الثمینة فی اخبار المدینة اور الکمال فی معرفة الرجال۔

          (۸) الدیلمی شیرویہ بن شہردار (م۵۰۹ھ) کی کتاب فردوس الاخبار۔ جس کا اختصار ان کے صاحب زادے شہردار بن شیرویہ (م۵۵۸ھ) نے کیاہے، جس کا نام مسند الدیلمی ہے۔

          (۹) قاضی القضاة ابوالموید محمد بن محمود خوارزمی (م۶۵۵ھ) کی کتاب جامع مسانید الامام ابی حنیفہ کو بھی اسی طبقہ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس میں امام اعظم کی پندرہ مسانید کو جمع کیاگیا ہے۔

          اس طبقہ (چہارم) کی کتابیں علامہ ابن الجوزی عبدالرحمن بن علی (م۵۹۷ھ) کی کتاب الموضوعات وغیرہ ہیں۔ یعنی زیادہ تر انھیں کتابوں کی روایات پر انھوں نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔

چاروں طبقات کی کتابوں کے احکام:

          پہلے اور دوسرے طبقہ کی کتابوں کے بارے میں حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انھیں کتب پر محدثین کا اعتماد ہے اور انھیں پر قناعت کرتے ہیں۔(۳۰)

          تیسرے طبقے کی کتابوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کتب سے قابلِ عمل روایات وہی حضرات منتخب کرسکتے ہیں، جو حاذق وناقد ہیں، جن کو راویوں کے حالات اور اسانید کی خرابیاں معلوم ہیں۔ اور کبھی کبھار اس طبقہ کی روایات شواہد ومتابعات کے لیے بھی قبول کی جاتی ہیں؛ جب کہ چوتھے درجے کی روایت سے شغل رکھنا، ان کو جمع کرنا اور ان سے مسائل مستنبط کرنا متاخرین کا ایک طرح کا غلو اور تعمق ہے۔ روافض اور معتزلہ اور ان جیسے دیگر فرق سے وابستہ لوگوں کو انھیں کتابوں سے مواد ہاتھ آتا ہے؛ جب کہ اس طبقہ کی کتابوں میں درج روایات سے علمی سطح پر استدلال درست نہیں چہ جائے کہ ان سے عقائد اخذ کیے جائیں، جیساکہ گمراہ فرقوں نے کیا۔(۳۱)

          اس کے بعد حضرت شاہ صاحب نے ایک پانچواں طبقہ بھی بیان کیاہے، فرماتے ہیں کہ اس طبقہ کی کتابیں دراصل حدیث کی کتابیں نہیں؛ بلکہ فقہ یا تاریخ کی کتابیں ہیں یا صوفیاء کے ملفوظات یا دیگر موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ شاہ صاحب نے ان کتابوں کے لیے اک پانچواں طبقہ علاحدہ قائم کیا ہے، فرماتے ہیں کہ پانچویں درجہ میں وہ روایتیں ہیں جو فقہاء، صوفیاء، مورخین اور اس قسم کے دوسرے حضرات جیسے واعظین ومبلغین کی زبانوں پر معروف ہیں؛ مگر مذکورہ چار طبقات کی کتابوں میں ان کی کوئی اصل نہیں پائی جاتی۔ اس طبقہ میں بعض روایتیں وہ بھی ہیں جو بے حیا لوگوں نے دین میں داخل کردی ہیں، جو عربی زبان جانتے تھے؛ اسی لیے اچھے مضمون پر مشتمل کوئی بلیغ فقرہ بناکر حدیث کے نام سے چلتا کرتے تھے۔ وہ کلامِ نبوت کے مشابہ ہوتا ہے؛ اسی لیے آسانی سے اس کو حدیث باور کرلیا جاتا ہے۔ پھر وہ بددین مزید چالاکی یہ کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ قوی سند جوڑدیتے ہیں، جس پر جرح ممکن نہیں ہوتی۔ ان لوگوں کی یہ حرکت دین میں بڑا فتنہ ہے؛ مگر نقادِ حدیث ان روایات کو متابعات اور شواہد کے ساتھ ملاتے ہیں تو ان روایات کی اصلیت سامنے آجاتی ہے۔(۳۲)

***

حواشی ومراجع:

(۱)         حجة اللہ البالغہ، ۱/۱۳۳، ادارة الطباعة المنیریة، ۱۳۵۲ھ۔ اس مقالہ میں مفتی سعید احمد پالن پوری دام ظلہ (شیخ الحدیث و صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند) کی ”رحمة اللہ الواسعہ شرح حجة اللہ البالغہ“ جلد ۲ سے حضرت شاہ ولی اللہ کی عبارت کا مفہوم اور اس کی شرح وغیرہ میں مدد لی گئی ہے۔    

(۲)        مالک حیاتہ وعصرہ وآراء ہ وفقہہ، ۲۹۶، ابوزہرہ، قاہرہ، ۱۳۶۳ھ۔

(۳)        ایضاً۔

(۴)        محاسن الاصطلاح وتضمین کتاب ابن صلاح، ص۱۴۱، سراج الدین بلقینی، دارالکتب، مصر ۱۹۷۴/۔

(۵)        مقدمہ ابن صلاح، ص۱۳۶۔

(۶)        تذکرة الحفاظ ۱/۲۰۸، ابوعبداللہ شمس الدین الذہبی، حیدرآباد ۱۳۳۵ھ۔

(۷)        شرح الزرقانی علی صحیح الموطا، ص۹، محمد زرقانی، مصر۔

(۸)        مصفی ۱/۷۔

(۹)        الحدیث والمحدثون، ص۲۸۱، محمد محمد ابوزہو، مصر ۱۳۷۸ھ۔

(۱۰)       مالک حیاتہ، ص۱۲۲۔

(۱۱)        ایضاً۔

(۱۲)       مقدمہ ابن صلاح، ص۱۰۱۔

(۱۳)       حجة اللہ البالغہ ۱/۱۳۴۔

(۱۴)       ایضاً۔

(۱۵)       تدریب الراوی، ۱/۷۳، جلال الدین سیوطی، پاکستان ۱۳۷۹ھ۔

(۱۶)       مقدمہ ابن صلاح، ص۱۱۲۔

(۱۷)       تعجیل المنفعہ، ص۳، حافظ ابن حجر عسقلانی، حیدرآباد ۱۳۲۷ھ۔

(۱۸)       توجیہ النظر، ص۵۳، طاہر بن صالح بن احمد الجزائری، مصر ۱۳۲۸ھ۔

(۱۹)       نیل الاوطار، ۱/۱۰، محمد بن علی الشوکانی، مصر، مطبع بولاق۔

(۲۰)       تدریب الراوی ۱/۱۷۲۔

(۲۱)       تہذیب التہذیب ۹/۵۳۱، حافظ ابن حجر عسقلانی، حیدرآباد ۱۳۲۶ھ۔

(۲۲)       سیراعلام النبلاء، ترجمہ امام ابن ماجہ محمد بن یزید، شمس الدین الذہبی، قاہرہ ۱۹۶۱/۔

            ایضاً، دیکھیے تذکرة الحفاظ ۲/۱۵۹، شروط الائمة الستة، ص۷۲ پر ابوذرعہ الرازی فرماتے ہیں: طالعت کتاب ابی عبد اللّٰہ فلم اجد فیہ الاقدر یسیر مما فیہ شيء․

(۲۳)      تہذیب التہذیب ۹/۵۳۱۔

(۲۴)      سیر اعلام النبلاء، ترجمہ امام ابن ماجہ، محمد بن یزید۔

(۲۵)      شروط الائمہ الستة، ص۷۱۔

(۲۶)       Gold Aihar, Muslim Studies, P.240. V-2. Oxford, London, 1971

(۲۷)      مقدمہ ابن صلاح، ص۱۱۲، فتح المغیث، ص۳۳، شمس الدین محمد السخاوی، مطبع انوارمحمدی ۱۳۰۳ھ۔

(۲۸)      فتح المغیث، ص۳۳۱۔

(۲۹)       تدریب الراوی ۱/۱۷۴۔

(۳۰)      حجة اللہ البالغہ ۱/۱۳۵۔

(۳۱)       ایضاً۔

(۳۲)      ایضاً۔

***

------------------------------------







سوال :
کیا دین میں سند مطلوب ہے یا نہیں؟ اور اس کی کیا حیثیت ہے؟

جواب :
سند (نبی تک راویوں کے سلسلہ) کا اگر یہ مطلب ہے کہ ((حدثنا فلان عن فلان یعنی  ہم سے حدیث بیان کی فلاں نے فلاں سے)) تو اس کا حکم نہ قرآن پاک میں ہے نہ کسی حدیث میں ، اسی لئے ابتداۓ اسلام میں اسے ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا ، چنانچہ امام ابن سیرینؒ (110ھہ) فرماتے ہیں:
لَمْ يَكُونُوا يَسْأَلُونَ عَنِ الإِسْنَادِ ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ ، قَالُوا : سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ ، فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ ، فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ ، وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ ، فَلَا يُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ
ترجمہ:
"پہلے سند نہیں پوچھا کرتے تھے ، جب فتنہ واقع ہوا تو کہنے لگے کہ راویوں کے نام بتاؤ تاکہ دیکھا جاۓ کہ اگر راوی اہلِ سنّت ہوگا تو حدیث لی جاۓ گی اور اگر اہلِ بدعت ہوگا تو نہیں لی جاۓ گی".
اس سے معلوم ہوا کہ متقدمین نے تو اسناد کو مصلحتاً مخالفینِ اہلِ سنّت کے واسطے نکالا تھا ، اس کے بدعتِ حسنہ ہونے میں شک نہیں ، یہ خود مقصود نہیں ، بلکہ ایک مقصود کا ایک ذریعہ ہے . جس  طرح امت کے انتظام کے لئے تقلیدِ شخصی کا وجوب بالغیر ہے ، اسی طرح سند کا لزوم بھی بالغیر ہے ، بالذات نہیں . امام ابن سیرینؒ کے بعد جن تبع تابعین یا بعد والوں نے سند کو ضروری کہا ، (تو وہ) عقلی دلائل سے کہا ، کسی نے سند کو پرندے کے پروں سے تشبیہ دی ، کسی نے اسلحہ سے تشبیہ دی . عجیب بات تو یہ ہے کہ خیر القرون میں اس پر اتفاق تھا کہ اہلِ سنّت کی حدیث لی جاۓ گی اور اہلِ بدعت کی حدیث نہیں لی جاۓ گی ، لیکن خیر القرون کے ختم ہوتے ہی اس اتفاق کو ختم کردیا گیا ، خود بخاری ومسلم نے کتنے ائمۂ اہلِ سنّت سے حدیث نہیں لی اور ان کو چھوڑ اہلِ بدعت سے احادیث لیں اور آج کل سنّت کے مسئلہ میں بہت افراط و تفریط ہو رہی ہے . ایک طرف اہل بدعت ہیں ، وہ ثبوتِ مسئلہ کے لئے کسی سند کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اور خوب بے پر کی اُڑاتے ہیں ، اور دوسری طرف غیر مقلدین (جدید اہل حدیث) ہیں ، وہ متواترات کے لئے بھی سند تلاش کرتے ہیں ، اگر نہ ملے تو انکار کردیتے ہیں . یہ دونوں گمراہی کے راستہ ہیں . پہلی بات کا نقصان یہ ہے کہ بہت سی باتیں جن کا دین میں ثبوت نہیں ان کو دین میں داخل کرلیا جاتا ہے ، اور دوسری بات کا نقصان یہ ہے کہ بہت سی متواترات تک کا انکار کردیا جاتا ہے .
راہِ اعتدال: 
اس میں یہی ہے کہ جس طرح سورج اور بدر کامل گواہی کے محتاج نہیں اسی طرح متواتر کی چاروں اقسام اور مشھورات سند کی محتاج نہیں . دیکھو قرآن پاک متواتر ہے ، اس کی آیات کی سندیں تلاش کرنا بے فائدہ ہیں ، بلکہ یقینی کو ظنی بنانا ہے. اسی طرح کتاب و سنّت کی سمجھ کے لئے ہمیں (عربی) لغت کی بھی ہمیں سب سے پہلے ضرورت پڑتی ہے ، مگر لغت کے لفظ مَثَلاً : کتاب کا واضع کون ہے ؟ اور اس تک کوئی سند ہے ؟ ہرگز نہیں . مگر کوئی جاہل یہ نہیں کہتا کہ ساری لغت بے سند ہے بے ثبوت ہے ، بلکہ یہ متواتر اور یقینی الثبوت ہے . اسی طرح (علم) صرف ، نحو ، معانی ، بیان اور منطق کے اصول اور اصطلاحات اہلِ فن کے ہاں متواتر یا مشہور ہیں ، کوئی شخص نہ ہی ان کی سند تلاش کرتا ہے ، نہ ہی ان کو بے ثبوت کہتا ہے . اسی طرح اصولِ حدیث ، اصولِ تفسیر ، اور اصولِ فقہ یا تصوف کی اصطلاحات اہلِ فن کے ہاں متواتر یا مشہور ہیں . ان کتابوں پر اعتماد کیا جاتا ہے ، نہ ہی ان کی سند تلاش کی جاتی ہے ، نہ ہی ان کو بے ثبوت کہا جاتا ہے ، راویوں کی بحث (ثقہ، یا ضعیف ہونے) میں اسماء الرجال کی کتابوں :- تقریب التھذیب ، تہذیب التھذیب ، خلاصہ ، تذكرة الحفاظ ، اور میزان الاعتدال کے حوالہ دیے جاتے ہیں ، حالانکہ جن راویوں کو انہوں نے ثقہ (قابل اعتماد) یا ضعیف (حافظہ/عمل میں کمزور) لکھا ہے وہ ان کتابوں کے مصنفین سے چھ سات سو سال پہلے کے ہیں ، نہ (ہم تک پہنچانے والے سے) جارح (ضعیف یا جھوٹا وغیرہ کی جرح کرنے والے ان مصنفین) تک (اس جرح کے ثبوت کے لئے کوئی) سند ہے، نہ جارح سے راوی تک . اسی لئے (شيخ عز الدين عبد السلامؒ سے ایک سوال پر شيخؒ نے ابو محمد عبد الحميد کی طرف یہ جواب لکھا، جسے) مولانا عبد الحی لکھنویؒ تحریر فرماتے ہیں :
اما الاعتماد على كتب الفقه الصحيحة الموثوقة بها فقداتفق العلماء في هذا العصرعلى جواز الاعتماد عليها والاستناد اليها لأن الثقة قد حصلت بها كما تحصل بالرواية وبعد التدليس ومن اعتقد ان الناس قد اتفقوا على الخطأ في ذلك فهو اولى بالخطأ منهم ولولا جواز الاعتماد على ذلك لتعطل كثير من المصالح المتعلقة بها وقد رجع الشارع الى قول الأطباء في صور وليست كتبهم ماخوذة فى الأصل الاعن قوم كفار ولكن لما بعد التدليس فيها اعتمد عليها كما اعتمد في اللغة على أشعار العرب وهم كفار لبعد التدليس قال وكتب الحديث أولى بذلك من كتب الفقه وغيرها لاعتمادهم بضبط النسخ وتحريرها فمن قال ان شرط التخريج من كتاب يتوقف على اتصال السند اليه فقدخرق الاجماع
[اسعاد الرفيق : الجزء الثانى , ص/ 90-91 ، الأجوبة الفاضلة : ص # 45]
اس سے معلوم ہوا کہ غیر مقلدینِ زمانہ (جدید اہل حدیث) کی یہ روش کہ فقہ کی کتاب مشہورہ کی سند مانگتے ہیں ، مگر لغت ، صرف ، نحو ، اسماء الرجال ، قرآن پاک کی سند نہیں مانگتے ، ضد اور جہالت ہے ، مشہورات کی سند مانگنا خرقِ اجماع ہے ، اور قرآن پاک نے خرقِ اجماع کو جہنمی قرار دیا ہے . اعاذنا الله منه
سند عالی : 
محدثین کے ہاں سند عالی کی بہت اہمیت ہے ، اور اس میں امامِ اعظم ابوحنیفہؒ کا مقام بعد والوں میں سب سے بلند ہے ، ان کی مسند میں "وحدانیت" بھی ہیں ، جن میں امام صاحبؒ اور نبی اقدسؐ کے درمیان ایک ہی (راوی کا) واسطہ ہے اور وہ (راوی) بھی صحابی کا . بہت سی سندیں "ثنائيات" ہیں ، جن میں دو ہی واسطہ ہیں :  صحابی اور تابعی کا . کتب صحاح ستہ (بخاری ،  مسلم ،ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ)  "وحدانیت" اور "ثنائيات" سے بالکل خالی ہیں ، ان کی اعلیٰ ترین سندیں "ثلاثيات" ہیں . فاين الثريا من الثرى . اسی طرح امام صاحبؒ نے صحابہؓ کی بھی زیارت کی اور صحابہؓ ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ کا متواتر عمل ان کے مشاہدہ میں تھا ، جس سے اصحابِؒ صحاحِ ستہ محروم رہے.
القرآن :
یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے.
[سورۃ الجمعہ:4]

تعلیقات (بلا سند روایات) : 
موطا امام مالکؒ اور کتب امام محمدؒ میں بعض بلاغات ہیں جن کی سند مذکور نہیں ، اسی طرح بخاریؒ میں تقریباً (2037) تعلیقات ہیں جن میں سے (٨٨٠) کو تو امام بخاریؒ نے موصول فرمایا ہے لیکن (1157) کو انہوں نے موصول نہیں فرمایا ، البتہ ان میں سے اکثر کی سندیں نہیں ملیں ، اسی طرح امام ترمذیؒ ((فی الباب)) لکھ کر بہت سے نام بغیر سند کے لکھ دیتے ہیں . ایسی احادیث جن کی سند مذکور نہ ہو "تعلیقات" کہلاتی ہیں . ایسی احادیث کتب حدیث میں بھی ہوتی ہیں اور کتب فقہ میں بھی . غیر مقلدین کی کتنی بڑی نا انصافی ہے کہ اگر بے سند حدیث بخاری ، ترمذی ، موطا یا کسی اور حدیث کی کتاب میں ملے تو اس کو "تعلیق" کہتے ہیں ، لیکن اگر فقہ کی کتابوں میں ملے تو اس کا نام جھوٹ ، بہتان اور موضوع رکھتے ہیں ، حالانکہ وہ قیامت تک ان کے کسی راوی کو وضع الحدیث ثابت نہیں کرسکتے. ایسی احادیث کے بارے میں راہ اعتدال یہی ہے کہ ان کو حجتِ ملزمہ تو نہیں مانا جاسکتا ، لیکن جن کو اکابر فقہاۓؒ تقویٰ و ثقاہت پر اعتماد ہے ، ان کے لیے وہ حجتِ مطمئنہ کا درجہ ضرور رکھتی ہیں ، اسی لئے فقہی کتابوں میں جیسے فقہاءؒ ان کو نقل در نقل کرتے آرہے ہیں بطور حجتِ مطمئنہ درست ہے.
واللہ اعلم و علمہ احکم.

صحیح غریب احادیث سے استدلال کا تحقیقی جائزہ»
کون سی صحیح حدیث  ایمانیات اور عقائد  اور  حلال و حرام کے احکامات میں دلیل نہیں بن سکتی؟

احادیث کی کئی قسمیں ہیں اس لیے ان کے احکام بھی مختلف ہیں۔

حدیثِ متواتر:
ایسی روایات جس کو  کافی تعداد میں صحابہ نے نقل کیا ہو اور  ان سے اسی طرح مسلسل کافی لوگ لوگ نقل کرتے جائیں  ایسی روایات   بلا شک  و شبہ   آیت قرانی کی طرح  قابل استدلال ہیں  ان سے حلال و حرام اور ایمانیات اور عقائد  سمیت جملہ احکام و امور ثابت ہوں گے

باقی روایات کو خبر واحد کہا جاتا ہے  جن کی تین اقسام ہیں

غریب خبر واحد:
وہ روایت جو صرف ایک صحابی سے منقول ہو اور ایک لاکھ صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی اس کی تصدیق نہ کی ہو۔

عزیز خبر واحد:
وہ روایت جس کی سند کے آغاز میں دو راوی ہوں، بعد میں چاہے جتنے بھی زیادہ ہو جائیں۔

مشہور خبر واحد:
وہ روایت جس کے آغاز میں کم از کم تین راوی ہوں، اور ہر دور میں تین راوی موجود رہیں۔

*خبرِواحد سے استدلال کے قواعد:*
(1)مشہور خبر واحد  روایات سے استدلال بغیر کسی شک و شبہ کے جائز ہے اور اس سے احکامِ شریعہ اور عقائد و ایمانیات میں دلائل فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

(2)عزیز خبر واحد روایات سے احکامات میں قابلِ استدلال ہیں اور ان روایات سے سنت ، مستحب امور ، مکروہات اور ناپسندیدہ امور ثابت  ہونگے ۔ البتہ عقائد اور ایمانیات میں ان سے استدلال ظنی ہوگا۔

(3)غریب خبر واحد رویات سے استدلال کرنا تعلیماتِ قرآن کی رو سے  منع ہے ۔ کیونکہ قرآن  کریم نے ثبوت دعوی کے لیے  دو گواہوں کی  شہادت کا ذکر کیا ہے  جسے نصابِ شہادت کہا جاتا ہے۔ عام امور میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی  کافی ہے۔ جبکہ زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہے۔

                                                            

*قرآنی نصابِ شہادت:*
اگر زنا کے ثبوت کے لیے نصابِ شہادت پورا نہ ہو، تو تین افراد کی گواہی پر حدِ قذف لگائی جائے گی اور  گواہی دینے والے  ہمیشہ کے لیے گواہی کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ البتہ  عام معاملات میں دعوی کے ثبوت کے لیے  بھی دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے، اور ایک فرد کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہوتی  اور دعوی  ثابت نہیں ہوگا۔

دینی معاملات اور شرعی مسائل کی حیثیت ان دنیاوی امور سے کمتر نہیں ہو سکتی۔  اس لیے اگر کوئی روایت صرف ایک صحابی  سے نقل ہو  اور تقریبا سوا  لاکھ صحابہ میں سے کسی   بھی دوسرے صحابی سے  اس  کے ثبوت میں کوئی شہادت نہ ملے تو  اس روایت سے استدلال کرنا درست نہیں۔

اگر صرف ایک ہی راوی والی روایات  سے استدلال شروع کردیا جائے   تو  کافی مضحکہ خیز   قسم کی روایات بھی دکھائی دیتی ہیں جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بنتا  ،بلکہ بے کافی ساری   روایات قرانی احکامات اور  اصول اسلام سے یکسر   متعارض  ہیں۔

    اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے  کہ  ابتدائی   دور میں کافروں کی  ایک کافی  بڑی تعداد منافقین کی شکل میں  مسلمانوں  کی صفوں میں  بطور دشمن  موجود رہی  اور انہوں نے  اپنے  مشن اور زندگی کے نصب العین  کے  طور پر حتی الامکان  مسلمانوں   کو   اسلام سے دور کرنے کی  آخر دم تک بھرپور کوششین  جاری رکھیں   اور اسی سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ  کی جانب من گھڑت باتیں منسوب کرنا  ان کے لیے کوئی معیوب کام نہیں تھا

زمانہ نبوت میں  کی شاید صحابہ کو اتنی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ کسی بھی غلطی پر  فورا بذریعہ وحی  اس کی اصلاح کردی جاتی تھی  اس لیے  انہیں  تحقیق کی  چندان ضرورت ہی نہ تھی۔

مزید برآن صحابہ کرام بھی اسی معاشرے میں اپنے حواس خمسہ –بلکہ ان کی چھٹی حس ہماری والی سے زیادہ حساس تھی -سمیت موجود تھے   ان کے لیے  اپنی بصارت اور بصیرت  سے واقعات اور حالات سے مخلص مسلمانوں کی پہچان آسان تھی ان کو بہت سی باتوں کا ادراک ہوسکتا تھا جن سے بعد کی امت محروم ہے۔

اس لیے اس دور میں اگرچہ کچھ  ایسے واقعات رونما ہوئے ہوں گے جن میں کسی ایک صحابی کی بات پر کچھ لوگوں نے عمل  شروع کردیا  ہو مگر اس سے غریب خبر واحد روایات  کی حجیت پر  استدلال کرنا پھر بھی اسلامی اصول *” تبدیلی حالات سے شرعی احکام کی تبدیلی”* کی خلاف ورزی ہی ہوگا۔

روایات کے قبول کا قرآنی اصول»
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک اصول بیان کیا ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَكُمۡ فَاسِقٌ ۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِيۡبُوۡا قَوۡمًا ۢ بِجَهَالَةٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰى مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِيۡنَ ۞ 

ترجمہ:

اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو،  کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔

[سورۃ نمبر 49 الحجرات،آیت نمبر 6]

اس ایت میں  لفظ "فاسق" ہے جس کا ایک معنیٰ تو وہ ہے جو لغت میں بیان کیا جاتا ہے یعنی  گنہگار یا غلط کام کرنے والا   لیکن یہاں یہ لغوی معنی یہاں مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہاں مخاطب ایک صحابی ہیں جنہوں نے ایک مخصوص واقعے میں کوئی فسق یا گناہ کا کام ہی نہیں  کیاتھا بلکہ انہوں نے اپنے فہم کے مطابق استدلال کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک وہ  بات پہنچائی مگر ان کے پاس کسی قسم کی شہادت نہ تھی اس بلا شہادت بات کے نقل  کرنے کو  اللہ تبارک و تعالی نے فسق کے لفظ سے بیان کیا گویا فسق کا دوسرا معنی جو کہ اللہ تعالی کی کلام کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ” کوئی   ایسی بات کرنا جس کی شہادت موجود نہ ہو” اس  کو بھی فسق کہا جائے گا اور ایسا کرنے والے کو فاسق کہا جائے گا لیکن اس صورت میں اس کا معنی گنہگار اور خطا کار ہرگز نہیں ہوگا۔

چونکہ  خالق کائنات کا کلام  زیادہ مستند ہے و اور یہی فائنل اتھارٹی ہوگااور یہاں فاسق کا لفظ ایسے ادمی کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو کہ پکے ، سچے اور مخلص مسلمان تھے اور وہ قطعا فاسق کی لغوی عام تعریف کے مطابق نہیں تھے اس لیے یہاں موقع محل کی مناسبت  اور  کلام کے سیاق اور سباق کی مناسبت سے ایت کا ترجمہ یہ ہوگا:
”اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کوئی بلا شہادت خبر بیان کرنے والا کوئی بات بتائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو تاکہ تم ناواقفی کی وجہ سے کسی قوم پر حملہ نہ کر بیٹھو جس کے بعد تم کو  ندامت اٹھانی پڑے”۔
[سورۃ الحجرات:6]
اس ایت کی رو سے غریب خبر واحد سے استدلال تو جائز ہی نہیں بنتا کیونکہ اللہ تعالی کا قران میں حکم ہے کہ بلا شہادت بات کی خوب تحقیق کر لیا کرو اور یہاں دوسری گواہی اور شہادت موجود ہی نہیں اور بغیر ثبوت کے کسی روایت کو قابل استدلال قرار دینا اس قرانی ایت کا یک  گونہ انکار ہے اور قران کریم کی اس ایت کے مقابل ایک فرد واحد کی بلا شہادت و ثبوت  روایت کو ترجیح اور فوقیت دینا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہو سکتی

اس بات سے انکار نہیں بعض اوقات خبر واحد کسی عظیم صحابی کی روایت بھی ہو سکتی ہے جو سو فیصد سچ بھی ہو لیکن پھر بھی اس کو  تحقیق کرنے کے قرانی حکم کے سامنے خود کو  سرنگوں کرنا پڑے گا جیسا کہ اگر تین انتہائی عادل، شریف اور  نیک ادمی کسی مرد اور عورت کی بدکاری کی گواہی دیں تو قرانی اصول کے مطابق ان تینوں پر حد قذف لگے گی اگرچہ وہ اپنی جگہ سچے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے:

۔۔۔۔فَاِذۡ لَمۡ يَاۡتُوۡا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓئِكَ عِنۡدَ اللّٰهِ هُمُ الۡـكٰذِبُوۡنَ‏ ۞
ترجمہ:
...اگر وہ پوری گواہی پیش نہ کر سکے تو وہ اللہ کے ہاں جھوٹے ہیں۔
[سورۃ النور:13]

اسی طرح ایک عالم اور فقیہ صحابی کی غریب خبر واحد بھی قابل استدلال نہیں ہوگی کیونکہ وہ معیار شہادت پر پوری نہیں اتر رہی

*غریب(خبرواحد) روایات کا  نقصان»*
محدثین کرام نے احادیث کو جمع کرتے وقت اس کی سند کا تو خیال کیا ، الفاظ متن کی باریکیوں کو بھی مد نظر رکھا ، لیکن  ان محدثین کرام نے اپنی کتب میں غریب روایات کو بھی شامل کردیا ہے جس کی وجہ سے ایسی روایات بھی کتب حدیث میں موجود ہیں  جو بظاہر قران سے متعارض ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان سے انتہائی کمتر درجہ کی ہیں جس پر محدثین کرام کو بعض اوقات ایسی تاویلات اور تطبیقات کرنےپڑیں جن عقل سلیم تسلیم کرنے سے انکاری ہیں

اگر ایسی غریب روایات کو جمع کیا جائے جن کی تاویلات اور تطبیقات میں محدثین کو انتہائی رکیک قسم کی کوششیں کرنی پڑی ہیں  تو ایک کافی بڑا ذخیرہ جمع ہو  سکتا ہے حالانکہ ایسی کوششیں ہی فضول ہیں  کیونکہ جو  روایت  اسلامی  اصول و ضوابط سے ثابت ہی نہیں  اس کو تسلیم کرنا ،تاویل کرنا اور بعض اوقات  ایسی روایات کی وجہ سے آیات قرانی کی تشریح اور تخصیص کردینا ہی  درست نہیں   ہے۔

اور ایسی ہی روایات معاندین اور مخالفین اسلام کا اسلام کے خلاف ایک مضبوط اوزار اور ہتھیار ہیں جس کے ذریعے وہ اسلام کی طرف امادہ ہونے والوں کو برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ اسلامی  قانون کے تحت  وہ ثابت ہی نہیں  اگرچہ  سند میں بڑے مشہور نام بھی ہوں  وہ حضرت علی سے بڑے نہیں ہوسکتے جن کا دعوی قاضی شریح نے اس بنیاد پر مسترد کردیا تھا کہ ان کے دعویٰ کے ثبوت میں دو گواہ موجود نہیں تھے اور حضرت علی نے اسے تسلیم کرلیا تھا۔




علامہ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ(م728ھ)  نے اس پر ایک مفید رسالہ ﴿نامور ائمہ سے الزام اٹھانا﴾ رکھا ہے، اس میں ائمہ مجتہدین کے ترکِ عمل بالحدیث کے دس اسباب ذکر فرمائے ہیں:
(1)کسی تک حدیث نہیں پہنچی۔
(2)کسی کے نزدیک ثابت نہیں۔
(3)حدیث کے ضعیف ہونے کا اعتقاد۔
(4)اسے اپنانے میں خاص شرائط کای پابندی کرنا۔
(5)حدیث کا بھولنا۔
(6)حدیث کے مفہوم سے ناواقفیت۔
(7)حدیث میں دلیل نہ ہونے کا اعتقاد
(8)اس کے خلاف دلیل ہونے کا اعتقاد
(9)یہ اعتقاد کہ حدیث کسی اور چیز کی مخالفت کرتی ہے۔
(10)اس کے ضعیف یا منسوخ ہونے کے ثبوت کے ساتھ مخالفت کرنا۔

ان دس اعذار کو گنوانے کے بعد تحریر فرماتےہیں: 
’’فَهَذِهِ الْأَسْبَابُ الْعَشَرَةُ ظَاهِرَةٌ. وَفِي كَثِيرٍ مِنْ الْأَحَادِيثِ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ لِلْعَالِمِ حُجَّةٌ فِي تَرْكِ الْعَمَلِ بِالْحَدِيثِ لَمْ نَطَّلِعْ نَحْنُ عَلَيْهَا؛ فَإِنَّ مَدَارِكَ الْعِلْمِ وَاسِعَةٌ, وَلَمْ نَطَّلِعْ نَحْنُ عَلَى جَمِيعِ مَا فِي بَوَاطِنِ الْعُلَمَاءِ. وَالْعَالِمُ قَدْ يُبْدِي حُجَّتَهُ وَقَدْ لَا يُبْدِيهَا, وَإِذَا أَبْدَاهَا فَقَدْ تَبْلُغُنَا وَقَدْ لَا تَبْلُغُنا, وَإِذَا بَلَغَتْنَا فَقَدْ نُدْرِكُ مَوْضِعَ احْتِجَاجِهِ, وَقَدْ لَا نُدْرِكُهُ, سَوَاءٌ كَانَتْ الْحُجَّةُ صَوَابًا فِي نَفْسِ الْأَمْرِ, أَمْ لَا.‘‘
ترجمہ:
’’(کسی روایت پر عمل نہ کرنے اور اسے قابلِ استناد نہ سمجھنے کی) یہ دس ظاہری وجوہات ہیں۔ دیگر بہت سی روایات قابلِ استناد نہ سمجھنے کے بارے میں کسی عالم کے لیے ان کے علاوہ بھی دیگر بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، جو شاید ہمیں معلوم نہ ہوں، کیونکہ علم کے ذرائع بہت ہیں۔ اور علماء کے دلوں میں جو باتیں ہیں، ہم ان سب پر مطلع نہیں ہوسکتے۔ اہلِ علم بسا اوقات اپنی دلیل کا اظہار کرتے ہیں، بعض دفعہ نہیں، اور جو ذکر کرتے ہیں وہ باتیں کبھی ہم تک صحیح صورت میں پہنچتی ہیں، کبھی نہیں، ان کی جو دلیل ہم تک پہنچے، خواہ وہ دلیل درحقیقت درست ہو یا غلط، کبھی تو ہم اس کی جانچ پڑتال کرسکتے ہیں، بسا اوقات نہیں۔‘‘
[رفع الملام عن الأئمة الأعلام» ص: ۳۵]








































حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 ، وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ ، فَقَالُوا : مَنْ هَذَا ؟ فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ ، فَقَالَ : " أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ ؟ " قَالُوا : مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا ، قَالَ : " فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ " ، قَالَ أَبُو لَهَبٍ : تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا ، ثُمَّ قَامَ ، فَنَزَلَتْ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ سورة المسد آية 1 ، وَقَدْ تَبَّ هَكَذَا قَرَأَهَا الْأَعْمَشُ يَوْمَئِذٍ .













متواتر عمل سند کا محتاج نہیں۔۔۔۔

اہلِ اصول کے ہاں دین کے مسائل تین طرح کے ثابت ہوتے ہیں: (1) متواترات، (2) مشہوات، (3) آحاد۔ اور اہلِ اصول متواترات کی مثال میں قرآن اور نماز کا ذکر بطور مثال کرتے ہیں۔ جس طرح قرآن پاک تلاوۃً متواتر ہے، اسی طرح نماز عملاً متواتر ہے۔ بلکہ حقیقت میں نماز قرآن پاک سے بھی زیادہ متواتر ہے، کیوں کہ قرآن پاک روزانہ ایک دفعہ بھی ختم کرنا فرض نہیں مگر نماز ہر مکلف مسلمان پر روزانہ پانچ مرتبہ پڑھنی فرض ہے۔ دوسری بات یہ یاد رکھیں کہ متواترات سند کی محتاج نہیں ہوتیں۔ اسی طرح مسلمان قرآن پاک کی ہر ہر آیت کی سند تلاش نہیں کرتے۔ اسی طرح نماز کی روز مرہ پیش آنے والے مسائل اور طریقہ عملاً متواتر ہیں۔ وہ بھی سند کا محتاج نہیں ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ رافضیوں کے ایک گروہ نے متواتر قرآن کا انکار کر دیا ہے اور دوسرے گروہ نے متواتر نماز کی صحت کا انکار کر دیا ہے۔ اور دوسرے گروہ سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اگر متواترات کے لیے بھی سند ضروری ہے اس کے بغیر ثبوت نہیں ہو سکتا تو۔۔۔۔
(1) قرآن پاک کی ہر ہر آیت کریمہ کو سند سے ثابت کردیں، بصورتِ دیگر قرآن کے ثبوت کا انکار کریں جیسے متواتر نماز کا انکار کیا ہے۔
(2) قرآن پاک کی آیات اور سورتوں کی ترتیب کو فرداً فرداً سند سے ثابت کرو، ورنہ بڑے بھائیوں کی طرح اس متواتر ترتیب کا انکار کردیں۔
(3) قرآن و حدیث کے ترجمہ کے لیے لغت کی ضرورت ہے۔ اس متواتر لغت سے قرآن کے ہر ہر لفظ کا معنیٰ واضح لغت تک سند سے ثابت کریں، ورنہ لغت اور اس کے معنیٰ کا اسی طرح برملا انکار کریں جس طرح متواتر نماز کا انکار کیا ہے؟؟؟
(4) متواتر قرآن کے بارے میں کوئی یہ کہے کہ میں اس کو اس لیے نہیں مانتا کہ اس کی ہر آیت کے ثبوت اور ترتیب کی سند مجھے نہیں ملی تو اسے آپ کافر کہتے ہیں یا نہیں۔ تو جو شخص متواتر نماز کے ثبوت کا انکار کرے اس کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟؟؟
(5) جو قرآن پاک تلاوۃً متواتر ہے اس میں ایک آیت کریمہ یوں ہے:
وَٱلَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ۔ وَٱلنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ۔ وَمَا خَلَقَ ٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰٓ۔ (سورۃ اللیل:1-3)
اور بخاری شریف میں ﴿وَٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰٓ﴾ ہے۔ امام بخاری سند کے ساتھ بخاری میں پانچ جگہ لائے ہیں: (حدیث نمبر: 3742، 3743، 3761، 4943، 4944، 6178)۔ کوئی شخص قرآن پاک میں یہ آیت اس طرح چھاپ دے، اور یہ کہے کہ یہ سند سے ثابت ہے اور وہ بے سند اور بے ثبوت ہے، اس کی بھی سند بخاری میں دکھاؤ ورنہ میں اس کو ہرگز نہیں مانتا، تو کیا یہ درست ہے؟ اور کیا آپ نے کوئی ایسا قرآن شائع کیا ہے؟؟؟
(6) جو قرآن پاک تلاوۃً متواتر ہے اس میں ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ﴾(سورۃ الشعراء:214) ہے، بخاری نے صحیح سند کے ساتھ یہ بھی روایت کیا ہے: وَرَهْطَكَ ‌مِنْهُمُ ‌المُخْلَصِينَ[صحيح البخاري:4971] اب کوئی شخص اس طرح قرآن شائع کرے اور اسی طرح تلاوت کریں اور یہ شور مچائے کہ لوگوں نے بے سند اور بے ثبوت آیتوں کو قرآن میں شامل کیا ہوا ہے اور اس صحیح سند والی آیتوں کو قرآن سے نکال رکھا ہے۔ اسی طرح وہ تواتر قران کو غلط کہیں جس طرح آپ متوازن نماز کو کہتے ہیں تو کیا یہ درست ہے؟؟؟
(7) متواتر قرآن میں ایک آیت یوں ہے: ﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ [سورۃ المسد:1] ، مگر بخاری شریف[حدیث:4971] میں صحیح سند کے ساتھ (مزید) اس کے ساتھ (وَقَدْ ‌تَبَّ) بھی ہے۔ اب کوئی شخص متواتر قرآن میں درج آیت کو بے سند کے کر ماننے سے اسی طرح انکار کردے جس طرح آپ نے متواتر نماز کو پسند کے ماننے سے انکار کر دیا ہے اور بخاری کی سند والی آیت کو قرآن میں شامل کرے تو کیا یہ جائز ہے؟ اگر یہ جائز نہیں تو آپ کا متواتر نماز کے خلاف بخاری کی کوئی حدیث دیکھ کر متواتر نماز کو غلط کہنا کس طرح جائز ہے؟؟؟
(8) مسلمانوں میں عملاً یہ متواتر ہے کہ مرد عورتیں سب بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں، جبکہ بخاری[224، 225، 226، 2471] پر چار جگہ، اور مسلم[273]، ابوداؤد[23]، ترمذی[13]، نسائی[18، 26، 27، 28]، ابن ماجہ[305، 306] ، مسند احمد[18150، 23246، 23345، 23414] پر آنحضرت ﷺ کا کھڑے ہو کر پیشاب فرمانا ثابت ہے۔ اس لئے اہل حدیث کے مرد عورتیں ہمیشہ کھڑے ہو کر پیشاب کریں، بلکہ اگر کوئی اہل حدیث مرد یا عورت بیٹھ کر پیشاب کر رہے ہوں، ان کو اسی حالت میں کھڑا کر دیا کریں کہ ساری امت تو بخاری مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف بیٹھ کر پیشاب کرنے کی وجہ سے دوزخی بن گئی ہے، تم کیوں دوزخی بن رہے ہو؟ اور بار بار مطالبہ کریں کہ بخاری و مسلم کی اس حدیث کا منسوخ ہونا صرف بخاری مسلم سے دکھاؤ؟ ورنہ تم سب کے سب گمراہ ہو۔ تو کیا یہ جائز طریقہ ہے؟
(9) ہمارے ملک میں عموماً وضو کے وقت مسواک کرتے ہیں، اگرچہ اہل حدیث کے ہاں مسواک کا عمل "عمل النادر کالمعدوم" ہے، مگر ایک آدمی کہتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے لیے اپنی امت کو مشقت میں ڈالنے والی بات نہ ہوتی تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔[بخاری:887، مسلم:252، ابوداؤد:47، ترمذی:22+23، نسائی:7، ابن ماجہ:287، احمد:607+967+7339+7853+9179 +9549+10617+17032+17048+21674 +23486] اس لیے مسواک بوقتِ اقامت کیا کرو۔ جو بوقتِ وضو مسواک کرتے ہیں وہ صحاح ستہ کی اس حدیث کی مخالفت کی وجہ سے گنہگار ہیں۔
(10) ایک حدیث میں ہے: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ «إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ، ‌يَشُوصُ فَاهُ ‌بِالسِّوَاكِ» رسول اللہ ﷺ جب بھی رات کو اٹھتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف فرماتے۔[بخاري:245، مسلم:255، ابوداؤد:55] آج کل اکثر اہل حدیث اس حدیث پر عمل نہیں کر رہے۔ کیا یہ اونچی آمین کی حدیث سے زیادہ صحیح حدیث نہیں ہے؟ اس پر عمل کرانے کے لیے رسالے، جلسے، کتابیں، چیلینج بازیاں، سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس پر نہ خود عمل نہ دوسروں کو چیلنج۔ وجہ فرق کیا ہے؟
(11) ایک حدیث میں ہے: كَانَ يَبْدَأُ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا ‌دَخَلَ بَيْتَهُ؟ قَالَتْ: «‌بِالسِّوَاكِ» (مختصراً) آپ ﷺ جب بھی گھر تشریف لاتے تو ہمیشہ پہلے مسواک کرتے۔ [مسلم:253، ابن ماجه:290ابوداؤد:51، نسائی:8] کیا اہل حدیثوں کے ساتھ ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا، کسی مرد یا عورت کو اس حدیث پر عمل کرتے نہیں دیکھا، حالانکہ یہ حدیث سینے پر ہاتھ باندھنے والی ضعیف حدیث کے مقابلے میں بہت قوی ہے، اُس ضعیف حدیث پر عمل کے لئے پورے ملک میں شور ہے اور اِس صحیح حدیث پر عمل نہ کوشش؟
(12) ایک حدیث میں ہے: «‌إِذَا ‌اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إِلَى المَسْجِدِ، فَأْذَنُوا لَهُنَّ» رات کو جس وقت بھی تمہاری عورتیں مسجد میں جانے کی اجازت مانگیں، ان کو دے دیا کرو۔  [بخاري:865، مسلم:442، احمد:5211+6304+6444] اس صحیح حدیث پر غیر مقلد مردوں اور عورتوں نے عمل چھوڑ رکھا ہے۔ کیا یہ حدیث حضرت جابر کی آٹھ تراویح والی ضعیف ترین روایت سے بھی گئی گزری ہے؟ اُس پر عمل کے لیے چیلنج بازیاں اور اِس پر عمل بلکل ترک، وجہِ فرق کیا ہے؟
(13) امت کا متواتر عمل یہ ہے کہ جوتا اتار کر نماز پڑھتے ہیں، بخاری ومسلم میں جوتے اتار کر نماز پڑھنے کی کوئی حدیث نہیں، بلکہ اس کے خلاف جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی حدیث ہے: يُصَلِّي ‌فِي ‌نَعْلَيْهِ ۔۔۔۔۔ یعنی آپ ﷺ ہمیشہ ہمیشہ جھوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے۔[بخاری:386+5850، مسلم:554، نسائی:727، ابن ماجه:1037، ترمذي:400، احمد:16364+16353]
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جوتے اتار کر نماز پڑھنا بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف ہے۔ یہ نماز نبی پاک ﷺ والی نماز ہرگز نہیں۔ تو کیا واقعتاً امت کے متواتر عمل کو ان احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط کہا جائے گا؟ یاد رہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنے والی حدیث کو محدثین متواتر کہتے ہیں۔[شرح معاني الآثار،الطحاوي:2911، مجموعة رسائل علمية(الوادعي):ص7، سلسلة الأحاديث الصحيحة:6/1066(2943)] جس سے نماز میں متواتر حدیث کے مخالف ہو، کیا وہ نماز صحیح ہوگی؟ ایک طرف حدیث ہے جو سنداً متواتر ہے، دوسری طرف حدیث کے مخالف عامل ہیں۔
(14) بخاری [516] اور مسلم [543] پر بے: (كَانَ ‌يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ ‌أُمَامَةَ) کہ آپ ﷺ ہمیشہ بچی کو اٹھا کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ جبکہ اس فعل کے ترک یا نسخ کی کوئی حدیث بخاری مسلم میں نہیں، جب کہ امت کی متواتر نماز میں یہ عمل نہیں، اب کیا یہ متواتر نماز بخاری مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ہے؟ اگر کوئی شخص اس متفق علیہ حدیث پر عمل کرنے کی کوشش کرے کہ جب کوئی اہل حدیث مرد یا عورت نماز کی نیت باندھے ان پر ایک بچی سوار کر دے تو کیا اس صورت کو زندہ کرنے پر فی بچہ لادنے پر سو شہید کا ثواب ملے گا یا نہیں، تو کیوں؟؟؟
(15) بخاری[353+354+355+356+360+370] اور مسلم[517+518+519] کی متفق علیہ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی، اور محدثین نے اس حدیث کو متواتر قرار دیتے ہیں، مگر امت کا متواتر عمل اس متواتر حدیث کے خلاف تین کپڑوں میں نماز ادا کرنے کا ہے۔ اب اگر کوئی اہل حدیث امت کی متواتر نماز کو غلط قرار دے اور متواتر حدیث پر عمل کروانے کے لیے اہل حدیث مرد عورتوں کے کپڑے نماز میں اتارنا شروع کردے، صرف ایک ایک پڑا رہنے دے تو کیا اس متواتر حدیث پر عمل کرانے کی کوشش میں اسے فی مردوعورت ہے سو سو شہید کا ثواب ملے گا یا نہیں، تو کیوں؟؟؟
(16) ایک اہلحدیث جس کو متفق علیہ احادیث کی مخالفت برداشت نہیں، وہ دوسرے اہل حدیثوں کو چار تکبیروں کے ساتھ ترجیع والی اذان (یعنی اذان میں شہادتین کو پست آواز سے ادا کرنا، پھر بلند آواز سے پڑھنے) سے روکتا ہے، کیونکہ بلا ترجیع اذان بخاری [605+606] مسلم [378] ترمذی [193] ابوداؤد [508] نسائی [627] ابن ماجہ[729+730] مسند احمد[22027] پر ہے، اور امت کا متواتر عمل بھی ہے، اور چار تکبیروں کے ساتھ ترجیع والی اذان نہ بخاری میں ہے نہ مسلم میں۔ باقی اہل حدیث اس پر ضد کرتے ہیں کہ ہم متفق علیہ حدیث کی مخالفت کریں گے تو ان میں سے کس کو سچا اہلحدیث سمجھیں؟
(17) اہل سنت والجماعت کا متواتر عمل یہ آرہا ہے کہ وہ نماز میں ثناء ﴿سُبْحَانَكَ ‌اللَّهُمَّ۔۔۔﴾ پڑھتے ہیں، جب کہ بخاری و مسلم میں میں﴿اللَّهُمَّ ‌بَاعِدْ ‌بَيْنِي۔۔۔﴾ کی کوئی مرفوع حدیث نہیں، وہاں ﴿﴾ ہے۔[بخاری:744، مسلم:598]
تو﴿سُبْحَانَكَ ‌اللَّهُمَّ۔۔۔﴾پڑھنے والوں کی بوجہ مخالفت متفق علیہ حدیث کے باطل ہوگی یا نہیں؟؟؟
(18) بخاری[1927]، مسلم[1106] میں ہے کہ آپ ﷺ روزہ رکھ کر ہمیشہ بیوی سے مباشرت فرماتے۔ ایک اہلحدیث کہتا ہے آپ کا وزن دگی بھر میں ایک روزہ بھی (ایسا) ثابت نہیں کہ گھر میں روزہ رکھا ہو اور بیوی سے مباشرت نہ کی ہو۔ جو شخص بھی روزہ رکھتا ہے اور بیوی سے مباشرت نہیں کرتا میاں بیوی دونوں کا روزہ خلافِ سنت ہے۔
(19) بخاری[297] مسلم[301] پر ہے کہ آنحضرت ﷺ ہمیشہ حائضہ بیوی کی گود میں ٹیک لگا کر قرآن پاک کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے حائضہ کی گود میں ٹیک لگا کر قرآن پاک کی تلاوت کرنا تو سنت سے ثابت ہے۔ جو اہل حدیث مسجد کی چٹائی پر بیٹھ کر تلاوت کرتے ہیں، یہ بخاری مسلم کی کسی حدیث سے ثابت نہیں۔
(20) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ وضو کے بعد ہمیشہ کسی بیوی کا بوسہ لیتے، پھر نماز پڑھتے اور دوبارہ وضو نہ کرتے۔[ترمذي:86، نسائی:170، ابن ماجہ:502، احمد:25766] ایک اہلحدیث کا کہنا ہے کہ جس طرح وضو میں کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا ترک کرنے سے وضو خلاف سنت ہے، ایسے ہی وضو کے بعد بیوی کا بوسہ لینے سے بھی وضو خلاف سنت ہوتا ہے،اور خلاف سنت وضو سے نماز بھی خلاف سنت ہے۔ جبکہ امت کا متواتر عمل ہر وضو میں کلی کرنے پر تو ہے مگر ہر وضو کے بعد بوسہ لینے پر نہیں ہے۔ تو یہاں متواتر عمل کا ساتھ دیا جائے گا۔ یہ خلاف تواتر حدیث کا؟
(21) تمام امت کی متواتر نماز میں یہ ہے کہ رکوع میں ﴿سُبْحَانَ ‌رَبِّي ‌الْعَظِيمَ﴾ پڑھتے ہیں، مگر یہ تسبیح "متفق علیہ" حدیث میں نہیں بلکہ اس کے خلاف یہ ہے: (سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي)
[بخاري:794، مسلم:484]
تو کیا رکوع سجدے میں مذکورہ تسبیحات پڑھنے والوں کی نمازوں کو اس لیے باطل قرار دیا جائے گا کہ یہ "متفق علیہ" حدیث کے خلاف ہیں، یا عملی تواتر کا لحاظ کر کے ان کو سنت کہا جائے گا؟

بات دور نکل گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کا جس قدر قرآن تلاوۃً متواتر ہے، اسی طرح نماز اس سے بھی زیادہ عملاً متواتر ہے۔ اس متواتر قرآن کو جس طرح سندو کے ماتحت کرنا قرآن دشمنی ہے، کیونکہ ایک تو یقینی کو ظنی(غیریقینی) کر دیا، دوسرے تواتر سے ثابت کو بیس پسند کہہ کر اس کے ثبوت کا انکار ہے۔ اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ:
(1) اہل سنت والجماعت جو نماز پڑھتے ہیں وہ عمل قرآن پاک سے زیادہ متواتر ہے، اور غیر مقلد جو نماز پڑھتے ہیں وہ عملی تواتر کے خلاف ہے۔
(2) اہل سنت والجماعت کی نماز یقین الثبوت ہے مثلِ قرآن، اور غیر مقلدین کی نماز ظنی الثبوت ہے اور وہ ظنی بھی ایسا جو یقین سے ٹکرا رہا ہے۔
(3) اہل سنت والجماعت کی نماز کی مکمل ترکیب جس طرح روزمرہ ہر جگہ پڑھی جاتی ہے  عملی تواتر سے ثابت ہے، اور غیر مقلدین کی نماز کے روز مرہ پیش آنے والے مسائل اور مکمل ترکیب اخبار آحاد سے ظنی طور پر بھی ثابت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ غیر مقلد علماء اپنی مکمل نماز صرف قرآن و حدیث سے ثابت کرنے سے ایسے بھاگتے ہیں ہیں ﴿‌كَأَنَّهُمْ ‌حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ 0 فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ﴾  بیچارے اردو دان حضرات کو دھوکے میں ڈالتے ہیں کہ بخاری و مسلم کا اردو ترجمہ پڑھ لو مکمل نماز کا طریقہ میں جائے گا۔
ایک پروفیسر صاحب کو اسی دھوکے میں ڈالا، میں نے اس سے مکمل نماز کے بارے میں سوالات کیے، وہ ان کی احادیث نہ نکال سکا، آخر اس نے دھوکہ دینے والے اسکالر صاحب سے کہا کہ آپ نے پندرہ سال قرآن حدیث پڑھا اور پچاس سال سے پڑھا رہے ہیں، آپ ہی قرآن کی ہر آیت کی سند اور ترتیب اور اپنی نماز کے ہر مسئلے کا ثبوت اور ترتیب بخاری مسلم سے نکال دیں۔ اب تو اسکالر صاحب ایسے خاموش ہوئے جیسے: ﴿‌صُمٌّ ‌بُكْمٌ﴾ والی آیت ان کے لیے ہی نازل ہوئی ہو اور ﴿‌فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ﴾  کا منظر بن گیا۔ آخر اسے پروفیسر نے کہا کہ تم نے 65 سال قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا اور 65 سال کے مطالعے سے اپنی "ظنی" نماز کے مکمل مسائل جو روزمرہ عمل میں ہے نہ ثابت کر سکے تو ہم لوگوں کو کس چکر میں ڈال دیا ہے کہ متواتر کو چھوڑ کر زمین نماز پڑھیں اور کامل کو چھوڑ کر ناقص کی طرف آئیں، ثابت کی بجائے غیرثابت پڑھیں۔












غیر مقلدین سے سند کی تحقیق کے بارے میں سوالات:
یہ چند علمی سوالات ہیں، ان کے جوابات صرف قرآن پاک یا صحیح حدیث سے عنایت فرمائیں؟
(1) امام مسلم [صیح مسلم:27] پر امام ابن سیرین(م110ھ) سے نقل فرماتے ہیں:
پہلے زمانے میں کوئی حدیث بیان کرتا تو اس سے سند نہ پوچھتے۔ پھر جب فتنہ پھیلا (یعنی گمراہی شروع ہوئی اور بدعتیں روافض اور خوارج اور مرجیہ اور قدریہ کی شائع ہوئیں) تو لوگوں نے کہا: اپنی اپنی سند بیان کرو۔ پھر دیکھا جائے گا اگر روایت کرنے والے اہل سنت ہیں تو قبول کی جائے گی روایت ان کی اور جو بدعتی ہیں تو نہ قبول کریں گے روایت ان کی۔
اور امام عبداللہ بن مبارک (م181ھ) کا فرمان نقل فرماتے ہیں:
اسناد، دین میں داخل ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو ہر شخص جو چاہتا کہہ ڈالتا (اور اپنی بات چلا دیتا)۔
سوال یہ ہے کہ جب پہلی صدی میں سندھ دین نہیں تھی تو دوسری صدی میں کس وہیں سے اسے دین قرار دیا گیا، کیا پہلی صدی کے لوگ معاذاللہ بے دین ہی تھے؟؟؟

(2) سند کی تحقیق فرض ہے یا سنت یا واجب یا مستحب، صرف ایک صریح آیت یا صحیح صریح حدیث پیش فرمائیں، جس سے سند کے مطالب و تحقیق کا فرض ہونا ثابت ہو۔ اور یہ بھی فرمائیں کہ پہلی صدی والے مسلمان اس آیت یا حدیث کو کیوں نہیں مانتے تھے؟
ابن سیرین اور ابن مبارک نے بھی کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں کی، محض قیاسی وجہ بیان کی ہے۔

(3) خیر القرون والوں نے اپنے قیاس اس سے یہ اصول بنایا کہ اہل بدعت سے حدیث نہ لی جائے، مگر بعد والوں نے خصوصا صحاح ستہ والوں نے اس اصول کو نہیں مانا، مثلاً: امام بخاری مندرجہ ذیل راویوں سے حدیث لاتے ہیں:
(1) عمر بن ذر الہمدانی جو مرجئہ کے سردار تھے۔
[التھذیب:7/ 444-445]
(2) ابومعاویہ بھی خبیث مرجئہ کے رئیس تھے۔
[التھذیب:6/ 139]
(3) عبد العزیز بن ابی رواد والی مرجئہ سے تھے۔
[التھذیب:6/ 339]
(4) اسحاق بن سوید، حضرت علی کا سخت دشمن تھا۔
[التھذیب:1/ 236]
(5) حریز بن عثمان، صبح و شام حضرت علی پر ستر ستر مرتبہ لعنت بھیجتا تھا اور اپنے مذہب کا داعی تھا۔
[التھذیب:2/ 240]
(6) جریر بن عبدالحمید حضرت معاویہ کو اعلانیہ گالیاں دیتا تھا۔
[التھذیب:2/ 77]
(7) بہز بن اسد، حضرت عثمان کا مخالف بدمذہب تھا۔
[التھذیب:1/ 498]
(8) واحد بن یعقوب غالی شیعہ تھا، حضرت عثمان کو گالیاں دیتا تھا۔
[التھذیب:5/ 109]
(9) عوف بن ابی جمیلہ قادری رافضی شیطان تھا۔
[التھذیب:8/ 167]
(10) عبد الملک بن اعین، ذراہ اور حمران تینوں بھائی رافضی تھے اور ان میں بڑا خبیث کال والا عبدالملک ہی تھا۔
[التھذیب:6/ 385-386]
یہ دس راوی بطور مثال لکھے ہیں،ورنہ بخاری مسلم میں ایسے راوی بہت ہیں۔

(4) خیرالقرون کے خلاف جس طرح امام بخاری نے بہت سے اہل بدعت کی حدیث لی ہے، خیرالقرون کا اصول تھا کہ اہل سنت سے حدیث لی جائے مگر امام بخاری نے بہت سے اہل سنت بلکہ ائمہ اہل سنت سے حدیث نہیں لی۔

(5) جب اسناد دین ہے اور تو تعلیقاتِ بخاری جن کی اسانید محدثین کو نہیں ملی یا ترمذی کے فی الباب کی بعض سندیں نہیں ملیں، اس بارے میں امام بخاری اور امام مسلم کو بے دین کہا جائے گا؟ یا بعد والے سب محدثین کو کم علم کہا جائے گا؟

(6) آجکل جو لوگ اپنی تقریر یا تحریر میں احادیث پیش کرتے ہیں وہ نہ سند بیان کرتے ہیں نا رواۃ کی توثیق(Authentication) بیان کرتے ہیں، ایسی کتاب لکھنے والے یا ایسی تقریر کرنے والے اور ان کے پڑھنے سننے والے سب بے دین ہیں یا نہیں؟؟؟

(7) تقریب التہذیب، تہذیب التہذیب، خلاصہ، تذکرۃ الحفاظ، میزان الاعتدال وغیرہ کتب کتبِ اسماء الرجال جن پر آج کل تنفیذِ حدیث کا مدار ہے یہ سب بھی سند اقوال کا مجموعہ ہیں اور اکثر جرحی بے دلیل (بلا معقول وجہ) بھی ہیں، ان کے لکھنے یا پڑھنے والوں کے دین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ مثلاً: آٹھویں صدی کا ایک آدمی بغیر سند کے دوسری صدی کے آدمی کا قول نقل کرتا ہے۔

(8) جب پہلی صدی کے اصول حدیث (کہ سند کا مطالبہ ضروری نہیں) دوسری صدی والوں نے نہیں مانا (کہ سند کو دین قرار دے دیا) اور دوسری صدی والے اصول حدیث کہ اہل سنت کی حدیث قبول اور اہل بدعت کی حدیث مردود ہے کو صحاح ستہ والوں نے نہیں مانا نا کہ بہت سے اہل بدعت کی احادیث لے لیں اور بہت سے امام اہلسنت کی احادیث رد کر دیں تو بعد والوں کا بنایا ہوا اصول حدیث جو آج رائج ہے اس کا ماننا کس آیت یا حدیث صحیح کی بنا پر ضروری ہے اور پہلے لوگ اس آیت وحدیث پر عمل سے کیوں محروم رہے؟؟؟

(9) ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ (اسناد دین میں سے ہے)، دوسری طرف محدثین یہ بھی فرماتے ہیں کہ صحت سند، صحت متن کو مستلزم نہیں۔ کیا یہ صحیح احادیث کے انکار کا چور دروازہ تو نہیں؟؟؟

(10) محدثین یہ بھی فرماتے ہیں کہ حدیث کی سند صحیح نہ ہو، لیکن امت میں تلقی بالقبول حاصل ہو تو وہ حدیث بھی صحیح ہے۔
[تدریب الراوی:1/ 66، التمهيد - ابن عبد البر:10/ 251، 16/ 218 ، مقدمة ابن الصلاح:80]
اب سند کی کیا حیثیت رہی؟

(11) تہذیب التہذیب میں صحاح ستہ کے رواۃ کا ذکر ہے جن کی تعداد تقریباً ساڑھے بارہ ہزار ہے، اور "میزان الاعتدال" ضعیف راویوں کے لیے مرتب کی گئی ہے جس میں تعداد تقریبا گیارہ ہزار ہے، گویا صحاح ستہ کے رواۃ کا اگر یہ حال ہے تو باقی کتب حدیث کا کیا حال ہوگا، اور سند کی تحقیق اور تنقید میں اولیت راوی کو ہی حاصل ہے؟ باقی سند کے عیوب الگ رہے۔





سوال :
احادیث کی صحت اور ضعف میں جب محدثین کی آراء کا باہم اجتہادی اختلاف ہے تو پھر ان میں سے کس کی تقلید (پیروی) کرنی چاہیے ؟؟؟

جواب :
تحقیق میں تین باتوں کی ضرورت ہوتی ہے :
(١) یہ حدیث ثابت ہے یا نہیں
(٢) اس کا مطلب کیا ہے
(٣) اگر یہ حدیث کسی دوسری نص (قرآن و حدیث کے واضح الفاظ) یا تعامل (سلسلۂ تواتر سے چلتا امتِ مسلمہ کے عمل) سے متعارض (ٹکرا رہی) ہو تو (اصول حدیث کے مطابق) ان میں سے کون سی حدیث راجح ہے کہ اس پر عمل کیا جاۓ اور کون سی حدیث مرجوح ہے کہ جس کو (ترجیح نہ دیتے) ترک کیا جاۓ۔

محدثین صرف پہلی بات کی تحقیق میں اپنی (تحقیقی) راۓ صرف کرتے ہیں ، دوسری اور تیسری بات میں وہ خود فقہاءِ مجتہدین کے محتاج و مقلد ہیں. اس سے معلوم ہوا کہ کامل تحقیق بھی فقہاءِ مجتہدین کی ہے اور کامل تقلید بھی ان کی ہی ہو سکتی ہے. اس لئے دیکھا جاۓ گا کہ ان کتبِ احادیث میں جو ایسی احادیث ہیں کہ چاروں ائمہِ کرامؒ (امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ) کا ان پر عمل کرنے میں اتفاق ہے تو ان احادیث پر اجماعاً عمل کیا جاۓ گا ، اور جن احادیث کے راجح یا مرجوح ہونے میں ائمہ اربعہؒ کا اختلاف ہے ان میں وہی طریقہ اختیار کیا جاۓ گا جو خیر القرون سے آج تک چلا آرہا ہے اور فتنہ سے بھی بلکل محفوظ ہے کہ جس امام مجتہدؒ کا کا مذھب (طریقہ و راۓ) جس علاقہ میں متواتر ہوگا ، اس نے ان اختلافی احادیث میں جس کو راجح قرار دیا اسی پر عمل کیا جاۓ گا ، وہاں کے متواتر عمل کے خلاف دوسری حدیث پر عمل کرکے علاقہ میں فتنہ و فساد کھڑا نہ کیا جاۓ گا. جہاں سب حنفی ہوں گے وہ امام صاحبؒ کے مختارات (اختیار کردہ مذھب و راۓ) پر عمل کریں گے ، جہاں شافعی ہوں گے وہ امام شافعیؒ کے مختارات پر عمل کریں گے ، تاکہ (ہر) سنت پر بھی عمل ہوجاۓ اور امت فتنہ سے بھی محفوظ رہے. یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اختلاف قرات کے وقت ہر علاقہ میں وہی قرات پڑھی جاۓ گی جو وہاں تلاوت میں معروف و متواتر یا یا جیسے سعودیہ والے (وہاں چاند دکھنے کے سبب) عید ہی پڑھیں گے اور ہم (یہاں چاند نہ دکھنے کے سبب) روزہ ہی رکھیں گے.
جمہور علماء امت (حنفی) ان احادیث کو راجح قرار دیتے ہیں جن کو امام ابو حنیفہؒ نے صحابہ (رضی اللہ عنھم) کے پیمانہ عمل کو دیکھ کر راجح قراردیا۔ کیونکہ (١) بقیہ ائمہ ثلاثہؒ کے مقابلہ میں امام ابوحنیفہؒ صحابہؓ کے صحبت یافتہ تابعی تھے اور حدیث:
وَصَلُّوا ‌كَمَا ‌رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي
ترجمہ:
اور نماز ایسے پڑھو جیسے تم مجھے دیکھو پڑھتے ...
[صحيح البخاري:631، صحيح ابن خزيمة:397، صحيح ابن حبان:987]
کے مطابق آپ نے دین نبویؐ صحابہؓ سے دیکھ دیکھ کر سیکھا اور (٢) اپنی اکیلی راۓ کی بجاۓ ہمعصر علماء کی مشاورتی جماعت سے ہر ہر مسئلہ میں کئی ہفتوں کی بحثوں کے بعد اتفاقی راۓ پر مبنی صحابہؓ کی فقہ دین [حوالہ سورۃ التوبہ:122] اپنے تلامذہ (شاگردوں) سے لکھواکر جمع کرواتے رہے.
القرآن :
یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے.
[سورۃ الجمعہ :4]
واللہ اعلم بالصواب



اصول :
ہر مجتھد کا حدیث سے استدلال کرنا دلیل ہے کہ حدیث اس کے نزدیک صحیح ہے۔
[قواعد فی علوم الحدیث، ص:58]


امام ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
وَقَدْ احْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَحْمَدُ وَابْنُ الْمُنْذِرِ وَفِي جَزْمِهِمَا بِذَلِكَ دَلِيلٌ عَلَى صِحَّتِهِ عِنْدَهُمَا.
ترجمہ:
اس حدیث (جس پر امام بیھقیؒ نے کلام کیا ہے) سے امام احمدؒ اور امام ابن منذرؒ نے احتجاج کیا(دلیل پکڑی) ہے، اور ان دونوں کا اس حدیث سے احتجاج پر جزم کرنا (یعنی زور دینا) ان کے نزدیک حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔
[التلخيص الحبير:2/327، دار الكتب العلمية؛ الاستذكار:8 /198-199؛ التلخيص الحبير:2/285،قرطبة - مصر؛ سبل الهدى والرشاد:10/487؛ إرواء الغليل للالبانی:3/162(701)]

الأحكام الوسطى [1/61] لعبد الحق الأشبيلي - أيضاً - وتقع في مجلدين، ذكر في خطبتها أن سكوته عن الحديث دليل على صحته.
[تدوين السنة النبوية، ص:212؛ سبل الهدى والرشاد:12/378]



=============================
سنتِ طیبہ اور علماء احناف کا استدلالی انداز

امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور فقہ حنفی کےبارےمیں آج کل نہیں، بلکہ ایک طویل عرصہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا قرآن وسنت کےساتھ کچھ زیادہ ربط وارتباط نہیں ہے۔ دیگر فقہی مذاہب کی بنسبت اس مذہب میں نصوص کےساتھ اعتناء کم پایا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر تمام مذاہب میں سے یہی وہ مذہب ہے جو کتاب وحدیث کی تعلیمات سے بے بہرہ اور بہت دور ہے۔
اس سوال کے تقریباً تمام تر پہلوؤں پر علمی وتاریخی کام ہوا ہے جو اپنی جگہ قابلِ لحاظ اور لائقِ قدر واحترام ہے، تاہم یہاں اس بات کا ایک اور نقطۂ نظر سے جائزہ لینا مقصود ہے، یہ زاویۂ فکر ایسا ہے جس پر کسی مستقل علمی کام کا تلاش کے باوجود ہمیں کوئی علم نہیں ہوسکا، جبکہ بظاہر یہ پہلو نہایت اہمیت اور توجہ کا متقاضی معلوم ہوتا ہے۔ یہاں جس پہلو سے اس پر گفتگو کرنا مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ اصولی لحاظ سے اس بات کا منصفانہ علمی جائزہ لیا جائے، جس کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ حنفی اصولِ اخذ واستنباط اور ضوابطِ فقہ واستخراج کو لےکر دیگر مذاہب کے اصول وقواعد سے اس کا مقارنہ اور موازنہ کرلیا جائے۔
 تاہم اس موازنہ ومقارنہ کا یہ مقصود ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ دیگر مذاہب یا ان کے عالی مقام اور گراں قدر ائمہ مجتہدین کی مساعی کو غلط، بےوقعت یا بے سود ثابت کیاجائے، یہ تو کھلی ہوئی گمراہی کی چوکھٹ ہے، جہاں سے قدم بڑھاتے ہی گمراہی کےتاریک مکان میں انسان داخل ہوجاتاہے، بلکہ مطلوب صرف یہ دکھاناہے کہ جس طرح دیگر مذاہب سے متعلق یہ الزام عائد کرنا بجا طور پر غلط تصور کیاجاتاہے کہ وہ قرآن وحدیث سے دور ہیں، اسی طرح مذہبِ حنفی کے متعلق یہ فردِ جرم عائد کرنا بے جا اور بالکل بے جا ہے، جس سے احتراز کرنا علمی، اخلاقی اور سیاسی ہر سطح پر ضروری ہے۔
یہاں نمونےکےطور پر دس اصول وضوابط کا جائزہ لیا جاتا ہے جس میں اصولیین احناف اور دیگر اصولیین یا محدثین کے موقف کا جائزہ لیاجائے گا کہ ان میں سے کس ضابطے کےتحت زیادہ سے زیادہ احادیث پر عمل کیا جاتا ہے۔

یہاں اجمال واختصار کو پیش نظر رکھ کر چند اصولی نکات کا ذکر کرنا مقصود ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ علم اصولِ فقہ وحدیث کا کوئی متخصص اس کو مستقل تالیف ومقالہ کا موضوع بنائے اور حنفیہ کے اصولِ اخذ واستنباط کے ساتھ ساتھ محدثین اور دیگر مذاہبِ متبوعہ کے اصول کو لے کر مقارنہ کیا جائے اور ساتھ ان روایات کا بھی اپنی حد تک استقراء وتتبع کرے جو ان ضوابط پر عمل کرنے کی صورت میں زیرِ عمل آجاتے ہیں، تاکہ بات پوری طرح منقح اور صاف ہوجائے۔ البتہ موضوع چونکہ اہمیت کے ساتھ ساتھ نزاکت کا بھی حامل ہے، اس لیے قدم قدم پر پورے ادب واحترام کا پاس ولحاظ رکھنا ضروری ہے کہ بحث ومناقشے کے دوران حضرات محدثین کرام اور دیگر ائمہ مجتہدین کی شان میں کوئی نازیبا لفظ سامنے نہ آئے۔

پہلا ضابطہ: مراسیل حجت ہیں یا نہیں؟
حنفیہ اور محدثین کی مرسل کی تعریف وتحدید میں رائے مختلف ہے، جس کاحاصل یہ ہے کہ محدثین کےنزدیک مرسل اسی کو کہاجاتاہے جس میں کوئی تابعی‘ صحابیؓ کا واسطہ چھوڑ کر براہِ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف حدیث منسوب کرکے بیان کرے، جبکہ حنفیہ کے نزدیک مرسل میں جس طرح یہ صورت داخل ہے، یوں ہی اگر تابعی سے نچلے درجے کا راوی درمیان میں واسطہ چھوڑدے، وہ بھی مرسل کےتحت داخل ہے۔ پھر مرسل حجت ہے یانہیں؟ اس میں حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ قرونِ خیر کا مرسل قابلِ احتجاج ہے اور بعد کے ادوار میں ارسال کرنےوالےکو دیکھا جائے، اگر وہ ثقہ ہو اور ثقہ ہی سےروایت کررہا ہو تو اس کی روایت قبول ہوگی، ورنہ نہیں۔ محدثین مجموعی طور پر مرسل کو قابلِ احتجاج نہیں سمجھتے۔ بعض اس کو مختلف شرائط کےساتھ قبول کرتےہیں ۔
احادیث واخبار کےباب میں بلا مبالغہ سیکڑوں روایات ایسی ہیں جو مرسل ہیں، بلکہ علامہ کوثری رحمۃ اللہ علیہ  کے الفاظ میں ایک تہائی روایات مراسیل کے تحت داخل ہیں۔ اب جب حنفیہ کےنزدیک مرسل حجت اور قابلِ عمل ہے، تو لامحالہ ان سب روایات پر عمل ہوجائےگا اور جن محدثین کے نزدیک مرسل حجت نہ ہو، وہ ان روایات پر عمل کرنےسے قاصر اور معذور ہی ہوں گے۔

دوسرا ضابطہ:زیادتِ ثقہ کا حکم
اگر کوئی راوی سند یا متنِ حدیث میں کوئی ایسی اضافی بات نقل کرے جو دیگر روایت کرنےوالے راوی نقل نہ کرتے ہوں، تو آیا یہ زیادت قبول ہوگی یانہیں؟ اس میں اصولیین اور بعض محدثین کا اختلاف ہے، حنفیہ کا اس سلسلہ میں موقف یہ ہے کہ:
الف: سند میں زیادت مضر نہیں ہے ۔
ب: متن میں اگر کہیں کسی ثقہ راوی کی جانب سے کوئی زیادت نقل ہوجائے تو اگر یہ زیادت اصل روایت کےساتھ بالکل منافات رکھتی ہو اور دونوں کو یکجا جمع کرنے کی کوئی صورت میسر نہ ہو تو اس صورت میں ترجیح کے ضوابط کی طرف جایا جائے گا اوران ہی کی روشنی میں کسی ایک جانب کو ترجیح دے دی جائےگی۔
ج:اگر ایسا تعارض نہ ہو تو پھر اگر معلوم ہوجائے کہ دونوں جانب کی روایات میں ایک ہی مجلس کی بات نقل کی جارہی ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں بھی ترجیح دینے کی ضرورت ہے کہ ایک مجلس میں دونوں قسم کی باتوں کا احتمال مغلوب ہے۔
د:اگر مجلس کے ایک ہونےکا علم نہ ہو تواس کو بھی قبول کردیاجائے گا۔
محدثین کے ہاں اس بارے میں متعدد آراء پائی جاتی ہیں کہ ثقہ راوی کی زیادت قبول ہوگی یا نہیں؟ جس کی تفصیل ’’مصطلح الحدیث‘‘ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ اب جن حضرات کے نزدیک زیادتِ ثقہ مطلقاً قبول نہیں ہے یا مشروط طور پر قبول ہو اور وہ شرائط درج بالا تفصیل کی بنسبت کم پائے جاتے ہیں، ان کے مقابلے میں احناف کے اصولِ حدیث کے مطابق زیادہ روایات پر عمل کی نوبت آجاتی ہے۔

تیسرا ضابطہ: مجہول راوی کی روایت کا حکم
محدثین کرام کے نزدیک حدیث کے قبول نہ کرنےکےمتعدد اسباب میں سے ایک سبب راوی کی جہالت بھی ہے۔ راوی کی جہالت کا معیار ومدار کیا ہے؟ اس میں حنفیہ اور محدثین کی رائے مختلف ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک جہالت میں راوی کی روایات کا اعتبار ہے، جس راوی سے ایک آدھ روایت ہی منقول ہو، وہ مجہول کہلاتا ہے، چاہے اس سے اخذ ونقل کرنےوالے افراد زیادہ ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ محدثین کے نزدیک اس کا معیار یہ ہے کہ اس سے روایت کرنےوالے راوی کم ہوں، اگر ایک ہی راوی اس سے روایت کرتا ہے تو وہ مجہول العین ہوگا اور اگر اس سے زیادہ راوی نقل کرتے ہوں، لیکن اس کی عدالت وثقاہت معلوم نہ ہو تو وہ مستور کہلائے گا۔
 پھر مجہول راوی کی روایت کا کیاحکم ہوگا؟ تو محدثین کرام کے نزدیک راوی کا مجہول ہونا اس کی روایت کے نا مقبول ہونے کا باعث ہے، جبکہ حنفیہ کےنزدیک اس میں تفصیل ہے، جس کاحاصل یہ ہے کہ قرونِ ثلاثہ میں اگر کوئی راوی مجہول ہو، لیکن سلف نے اس پر طعن نہ کیا ہو تواس کی روایت قابلِ احتجاج ہے، اور اگر علماءِ سلف نے اس کی روایات میں کوئی جرح یا اختلاف کیا ہو، یا اس کی روایت اس زمانے میں بالکل ہی مشہور نہ ہو تو ان دونوں صورتوں میں بھی اس کی روایت بالکل رد نہ ہوگی، بلکہ قیاس کے موافق ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا۔ اور قرونِ ثلاثہ کے بعد چونکہ فسق وکذب عام ہونے لگا تھا، اس لیے اس کے بعد اگر مجہول راوی کی روایت قابلِ استدلال واحتجاج نہیں ہے۔
اس ضابطہ کے مطابق وہ تمام روایات، جن میں مجاہیل راوی موجود ہوں اور ان کا تعلق قرونِ ثلاثہ سے ہو (جیساکہ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے)، داخل ہوجاتے ہیں اور حنفیہ کے ضابطے کے مطابق وہ قابلِ احتجاج ثابت ہوجاتے ہیں، جبکہ دیگر محدثین کرام کے ہاں ایسی تمام روایات ناقابلِ قبول بن جاتی ہیں۔

چوتھا ضابطہ: قراءاتِ غیر متواترہ
شوافع وغیرہ بہت سے محدثین کا موقف یہ ہے کہ جو قراءت متواتر نہ ہو، وہ شرعاً حجت نہیں ہے، جبکہ حنفیہ کے نزدیک ایسی تمام قراءات بھی حجت ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے اور ان سے شرعی احکام ثابت ہوتے ہیں، شرط یہ ہے کہ وہ اسنادی طور پر ثابت ہو، گو خبرواحد کے طریق ہی پر کیوں نہ ہو۔
اس ضابطہ کی وجہ سے حنفیہ متعدد قراءات پر عمل کرلیتےہیں، گو تواتر کے ساتھ ثابت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو قرآن نہیں سمجھتے، جبکہ دیگر محدثین اس پر عمل نہیں کرتے۔

پانچواں ضابطہ:حدیث کی وجہ سے آیت کو منسوخ سمجھنا
اگر کوئی حدیث متواترکا قرآن کریم کی کسی آیت سے تعارض پیدا ہوجائے اور نسخ کے بغیر اس تعارض کے حل کرنےکا کوئی طریق موجود نہ ہو، تو اس صورت میں جس طرح آیتِ کریمہ کی وجہ سے حدیث کو منسوخ قرار دیا جاسکتا ہے، یوں ہی حدیث کی وجہ سے آیتِ کریمہ کو بھی منسوخ قرار دیاجاسکتا ہے، ناسخ ومنسوخ کی علامات کو دیکھاجائےگا اور جہاں ناسخ ہونے کا کوئی قابلِ اعتماد قرینہ موجود ہو، اسی کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ سمجھا جائے گا۔ حاصل یہ ہے کہ آیتِ کریمہ سے محض تعارض قائم ہونے کی وجہ سے حدیث کو منسوخ سمجھنا درست نہیں ہے۔ یہ حنفیہ کا موقف ہے، جبکہ شوافع اور بہت سے محدثین کا مسلک یہ ہے کہ: حدیث کی وجہ سے آیت کو منسوخ سمجھنا درست نہیں ہے، اور جہاں کہیں ایسا تعارض دکھائی دے، وہاں بہرحال حدیث ہی کو رد کردیا جائے گا۔
اس ضابطہ کی بنا پر بھی حنفیہ ایسے متعدد روایات پر عمل کرسکتے ہیں، جن کو دیگر ائمہ محدثین قابلِ اعتناء نہیں سمجھتے۔

چھٹا ضابطہ: قولِ صحابیؓ کی حجیت کا مسئلہ
اگر کسی صحابیؓ سے کوئی ایسا قول منقول ہو جس میں رائے واجتہاد کا دخل نہ ہو توحنفیہ کےنزدیک ایسا قول بھی حجت ہے، جس سے شرعی احکام بھی ثابت ہوسکتے ہیں، اورا س کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جب عقل وقیاس کا دخل نہیں ہے تو ضرور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سنا ہوگا، اسی بنیاد پر فقہائے احناف اس کو ملحق بالسنۃ کہتے اور سمجھتےہیں، جبکہ شوافع وغیرہ بہت سے محدثین کے نزدیک یہ حجت نہیں ہے۔
یہ ضابطہ بھی ایسا ہے جس کی بنا پر حنفیہ کو بیسیوں ایسی روایات پر عمل کرنے کی توفیق نصیب ہوجاتی ہےجن کو دیگر بہت سے محدثین ناقابلِ احتجاج گردانتےہیں۔

یہاں مکرر یہ عرض ہے کہ اس سے شوافع یا دیگر محدثین پر رد وقدح یا جرح وتعریض کرنا ہرگز مقصود نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو اس سے بچائے رکھے اور ائمہ دین کے ساتھ دل وجان سے ادب کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ وہ حضرات ان روایات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار یا مطعون نہیں ہیں، کیونکہ وہ اپنے اجتہادی ذوق کے مطابق ان جیسے امور کو حدیث سمجھتےہی نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس میں کسی فریق پر رد وقدح کرنا کسی طرح روا نہیں ہے۔

ساتواں ضابطہ: قواعدِ عامہ کی پابندی کرنا۔
اگر کوئی خبر واحد دین وشریعت کے عام قواعد اور ضوابط کے خلاف ہو تو حنفیہ کے نزدیک ایسی روایت قابلِ عمل نہیں ہوتی اور محض اس ایک خبر کی وجہ سے ان قواعد کو چھوڑنا درست نہیں ہوتا جو دسیوں نصوص سے مستنبط ومستفاد ہوتے ہیں۔ یہی وہ ضابطہ ہے جس کی وجہ سے فقہائے حنفیہ سمیت فقہاء ومجتہدین پر طعن وتنقید کے نیزے چھوڑے جاتے ہیں۔ علامہ البانی وغیرہ حضرات نے حنفیہ کو جن مسائل پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ حدیث کےخلاف ہیں، ان میں سے تقریباً چوتھائی یا تہائی ان روایات کی ہے جن کو حنفیہ نے اسی ضابطہ کے تحت قابلِ احتجاج نہیں گردانا۔ 
انصاف وعقل مندی سے کام لےکر غور کیاجائے تو اس ضابطہ کی وجہ سے فقہائے کرام کا احادیث وروایات پر عمل کرنا کم نہیں ہوتا، بلکہ زیادہ ثابت ہوتا ہے، اس ضابطہ کی پابندی کی وجہ سے ان پر یہ فردِ جرم عائد نہیں ہوتا کہ وہ محض رائے کی وجہ سے صحیح روایات واخبار کو رد کردیتے ہیں، بلکہ زیادہ روایات پر عمل کرنے کی وجہ سے ان کو داد دینی چاہیے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جن چیزوں کو قواعدِعامہ کی فہرست میں شامل کرتےہیں، وہ ایسی باتیں ہوتی ہیں جو ایک دو، یا تین چار روایات سے مستفاد نہیں ہوتی، بلکہ بیسیوں نصوص اس پر دلالت کررہی ہوتی ہےاور انہی نصوص کی روشنی میں اس کا استخراج واستنباط کیا جاتا ہے، اب جب کوئی خبر واحد ایسے قاعدے کےخلاف آجائے اور گو وہ اسنادی لحاظ سے صحیح یا حسن بھی ثابت ہوجائے تو بھی اس پر عمل کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اس ایک روایت کی وجہ سے بیسیوں نصوص کے مقتضا پر عمل کرنا چھوڑدیا جارہا ہے۔
 اس کے بالمقابل اگر ان قواعدِ عامہ کو مضبوطی سے تھامے رکھا جائے اورخبر واحد کو اس کےعلاوہ کسی ممکنہ محمل پر حمل کرلیا جائے تو دونوں قسم کے نصوص پر عمل کرنے کی نوبت آجاتی ہے اور حنفیہ عام طور پر ایسا ہی کرتے ہیں، اور اگر کہیں ایسے معارض خبر واحد کو بالکل بھی قابلِ احتجاج نہ قرار دیا جائے تو بھی یہ حدیث پر عمل چھوڑنا نہیں ہوگا، بلکہ حدیث کے ثابت ہونے سے انکار کرنا ہے۔

آٹھواں ضابطہ: قیاس سےاستنباط واستفادہ:
علامہ ابنِ قیم  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ متعدد اہلِ علم نے حنفیہ کے متعلق یہ صراحت کی ہے کہ وہ قیاس کے مقابلہ میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنے کے قائل اوراس پر عامل ہیں اور اس کی متعدد مثالیں بھی ذکر فرمائی ہیں، لیکن بظاہر یہ بات اصول کے خلاف معلوم ہوتی ہے اور جن احادیث سے استدلال کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے، ان کا یا تو واحد مستدل ہونا یقینی نہیں ہے اور یا ان کا ضعیف ہونا اتفاقی نہیں ہے، چنانچہ یہ بھی ضابطہ ہے کہ مجتہد کا کسی حدیث سے استدلال کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حدیث اس کے نزدیک صحیح یا کم از کم حسن لغیرہٖ ہے، کیونکہ اس سے نچلے درجے کی روایت شرعی احکام ومسائل کے ثابت کرنےمیں حجت نہیں ہے، جبکہ شرعی قیاس کا حجت ہونا تقریباً تمام اہلِ حق کے نزدیک ایک اتفاقی مسئلہ ہے، لہٰذا ایک اتفاقی حجت کو غیر حجت (ضعیف حدیث) کی خاطر چھوڑنا کہاں درست ہوسکتا ہے؟!
بہرحال حنفیہ کا ضابطہ یہی ہے کہ حدیث ضعیف اور ناقابل احتجاج ہو تو قیاس کی طرف جاتےہیں اور وہیں سے شرعی احکام کا استنباط واستخراج کرتےہیں، جبکہ بعض محدثین اور منکرینِ قیاس اس بات کی تحقیق میں پڑے بغیر روایت پر عمل کرتے ہیں۔ اس ضابطے کے مطابق بھی حنفیہ کا زیادہ روایات ونصوص پر عمل کرنا ثابت ہوجاتا ہے، کیونکہ خود قیاس کی حجیت بیسیوں نصوص سے ثابت ہے تو ایسے موقع پر قیاس کی طرف جانا اور اصول کی روشنی میں اس کے ذریعے شرعی احکام کا استنباط کرنا ان تمام نصوص پر عمل کرنےکے مترادف ہے جو قیاس کی حجیت پر دلالت کرتے ہیں، جبکہ اس کے بالمقابل اگر روایت کو لیاجائے تو ان روایات پر عمل کرنےکی نوبت نہیں آتی۔
اس اجمالی اور مختصر جائزے سے معلوم ہوا کہ حنفیہ کے اصولِ فقہ کی رو سے زیادہ سے زیادہ احادیث وروایات پر عمل کرنے کی نوبت آجاتی ہے اور ان پر یہ الزام لگانا کسی طرح درست نہیں ہے کہ وہ قرآن وحدیث کے سمجھنے یا اس پر عمل کرنےکے سلسلے میں قصداً کوتاہی وغفلت کرتے ہیں یا محض اپنی رائے وخیال کی بنیاد پر صحیح احادیث کو بھی رد کردیتےہیں۔

امام سرخسی  رحمۃ اللہ علیہ  کی تحقیق:
 
امام سرخسی  رحمۃ اللہ علیہ(م483ھ)  کیا خوب فرماتےہیں:
’’وأصحابنا هم المتمسكون بِالسنةِ  والرأي فِي الْحَقِيقَة فقد ظهر مِنْهُم من تَعْظِيم السّنة مَا لم يظْهر من غَيرهم مِمَّن يَدعِي أَنه صَاحب الحَدِيث لأَنهم جوزوا نسخ الْكتاب بِالسنةِ لقُوَّة درجتها وجوزوا الْعَمَل بالمراسيل وَقدمُوا خبر الْمَجْهُول على الْقيَاس وَقدمُوا قَول الصَّحَابِيّ على الْقيَاس لِأَن فِيهِ شُبْهَة السماع من الْوَجْه الَّذِي قَررنَا ثمَّ بعد ذَلِك كُله عمِلُوا بِالْقِيَاسِ الصَّحِيح وَهُوَ الْمَعْنى الَّذِي ظهر أَثَره بقوته.
فَأَما الشَّافِعِي رَحمَه الله حِين لم يجوز الْعَمَل بالمراسيل فقد ترك كثيرا من السّنَن وَحين لم يقبل رِوَايَة الْمَجْهُول فقد عطل بعض السّنة أَيْضا وَحين لم ير تَقْلِيد الْوَاحِد من الصَّحَابَة فقد جوز الْإِعْرَاض عَمَّا فِيهِ شُبْهَة السماع ثمَّ جوز الْعَمَل بِقِيَاس الشّبَه وَهُوَ مِمَّا لَا يجوز أَن يُضَاف إِلَيْهِ الْوُجُوب بِحَال فَمَا حَاله إِلَّا كَحال من لم يجوز الْعَمَل بِالْقِيَاسِ أصلا ثمَّ يعْمل باستصحاب الْحَال فَحَمله مَا صَار إِلَيْهِ من الِاحْتِيَاط على الْعَمَل بِلَا دَلِيل وَترك الْعَمَل بِالدَّلِيلِ.
وَتبين أَن أَصْحَابنَا هم الْقدْوَة فِي أَحْكَام الشَّرْع أُصُولهَا وفروعها وَأَن بفتواهم اتَّضَح الطَّرِيق للنَّاس إِلَّا أَنه بَحر عميق لَا يسلكه كل سابح وَلَا يستجمع شَرَائِطه كل طَالب وَالله الْمُوفق۔‘‘
ترجمہ:
’’ہمارے ائمہ حنفیہ ہی سنت اور قیاس پر عمل کرنے والے ہیں، کیونکہ جو لوگ احادیث پر عمل کا دعویٰ کرتے ہیں، ان سے زیادہ ہمارے ائمہ حضرات سنت اور احادیث کی قدر کرتے ہیں، کیونکہ ہم ہی بعض آیاتِ قرآن کو حدیث کے ذریعے منسوخ ہونے کے قائل ہیں، مرسل روایات کو قابلِ احتجاج سمجھتے ہیں، مجہول راوی کی روایت کو قیاس پر ترجیح دیتے ہیں، صحابیؓ کے قول کو قیاس پر مقدم جانتے ہیں، کیونکہ اس میں سماع کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم قیاس صحیح کو بھی قابلِ عمل سمجھتے ہیں، جبکہ امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک ’’مرسل‘‘ قابلِ احتجاج نہیں، اس قاعدہ کی بنیاد پر بہت سی روایات متروک ہوئیں، نیز مجہول راوی کی روایت معتبر نہ سمجھنے کی وجہ سے بھی بہت سی روایات ناقابلِ عمل رہیں، نیز جب وہ اکیلے صحابیؓ کے قول کو قابلِ تقلید اور حجت نہیں سمجھتے تو ان کے نزدیک بالضرور بعض وہ اقوالِ صحابہؓ جن میں سماع کا شبہ ہو وہ قابلِ احتجاج نہ رہی۔ بہرحال ائمہ حنفیہ ہی اصولی اور فروعی مسائل میں لوگوں کے لیے رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے فتاویٰ سے ہی لوگوں کو دینی رہنمائی ہوتی ہے، البتہ فقہ حنفی کی مثال ایک گہرے سمندر کی ہے جس میں ہر غوطہ زن غوطہ نہیں لگا سکتا اور اس راستے کی شرائط پوری کرنا ہر طالب کا کام نہیں۔‘‘
[أصول السرخسي:۲/ ۱۱۳]

حضرت مجدد صاحبؒ کی رائے:
حضرت مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’عجیب معاملہ ہے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ سنت کی پیروی میں سب سے آگےہیں، حتیٰ کہ احادیثِ مرسلہ کو احادیثِ مسند کی طرح متابعت کےلائق جانتےہیں اور ان کو اپنی رائے پر مقدم کرتےہیں اور ایسے ہی صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے قول کو حضرت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم  کی شرف ِصحبت کے باعث اپنی رائے پر مقدم رکھتےہیں، دوسروں کاحال ایسا نہیں ہے، اس کے باوجود بھی مخالفین ان کو صاحبِ رائے کہتےہیں اورایسے ایسے الفاظ ان کی جانب منسوب کرتےہیں جو بے ادبی کی خبر دیتےہیں۔‘‘
[مکتوبات، دفترِ دوم، مکتوب نمبر:۵۵]

حضرت شاہ صاحبؒ کا مکاشفہ:
حضرت علامہ شاہ ولی اللہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہ(م1176ھ)  ’’فیوض الحرمین‘‘ کے مشاہدات میں سے ایک جگہ تحریر فرماتےہیں:
’’عرّفني رسول اللہ صلّی اللہ عليہ وسلّم أنّ في المذہب الحنفي طريقۃ أنيقۃ ہي أوفق الطّرق بالسنّۃ المعروفۃ التّي جُمعت ونقّحتْ في زمان البخاريّ وأصحابہ۔‘‘
ترجمہ:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو سمجھایا کہ مذہبِ حنفی میں ایک ایسا بہتر راستہ موجود ہے جو تمام طرق میں سب سے زیادہ ان احادیث کے موافق ہے جن کی جمع وتدوین امام بخاریؒ اور ان کے اصحاب کے زمانے میں ہوئی تھی۔‘‘
[فیوض الحرمین، ص:۴۸]
یہاں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ بعض مترجمین حضرات نے نہ جانے اس عبارت کا ترجمہ کیوں اس ڈھنگ سے کیاہے جس کی بدولت عبارت کا اصل مقصود ہی واضح نہیں ہوتا، بلکہ اس کے برعکس مفہوم مترشح ہوتاہے اوراس کی وجہ سے فقہ حنفی سے بلا وجہ ایک قسم کا ذہنی یا عملی بعد پیدا ہوجاتا ہے۔

چند ضروری نکات:
ائمہ مجتہدین تو بہت بلند مرتبے کی حامل دیدہ ور شخصیات ہیں، کوئی عام سچا مسلمان بھی یہ اقدام نہیں کرسکتا کہ حدیث سے عناد رکھے یا قصداً کسی حدیث پر عمل کرنا چھوڑدے، اس لیے ائمہ مجتہدین اور بالخصوص مذاہبِ اربعہ متبوعہ کے مجتہدین سے متعلق یہ تصور کرنا اونچے درجے کی بدگمانی ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے۔
بعض اوقات جو اس طرح کی بات سامنے آجاتی ہے کہ مثال کے طور پر کسی مذہب کا کوئی مسئلہ کسی روایت کے ظاہر کے بالکل خلاف اور اس سے واضح طور پر متصادم معلوم ہوجائے تو وہاں بھی جلد بازی سے کام لے کر فیصلہ کرنا بالکل مناسب نہیں ہے، بلکہ درج ذیل نکات کو سامنے رکھ کر انصاف، دیانت داری اور اعتدال کےساتھ غور وفکر سے کام لیاجائے تو معلوم ہوجائے گا کہ جس مجتہد نے اس حدیث کے ظاہر پر عمل نہیں کیا، وہ اس سلسلہ میں بالکل معذور ہے اور اس کی تحقیق واجتہاد سے اگر کسی کا اختلاف بھی ہے تو بھی اس کی وجہ سے اس کو نہ حدیث کا دشمن گرداننا درست ہوسکتا ہے اور نہ ہی روایات کے مقابلہ میں اتباعِ ہویٰ کا عادی خیال کرنا جائز ہے۔ وہ نکات یہ ہیں: 

پہلا نکتہ
بعض اوقات یہ جو دیکھنے میں آتا ہے کہ ائمہ مجتہدین کسی روایت پر عمل نہیں کرتے تو اس کی مختلف وجوہات واعذار ہوتے ہیں، علامہ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ(م728ھ)  نے اس پر ایک مفید رسالہ ﴿نامور ائمہ سے الزام اٹھانا﴾ رکھا ہے، اس میں ائمہ مجتہدین کے ترکِ عمل بالحدیث کے دس اسباب ذکر فرمائے ہیں:
(1)کسی تک حدیث نہیں پہنچی۔
(2)کسی کے نزدیک ثابت نہیں۔
(3)حدیث کے ضعیف ہونے کا اعتقاد۔
(4)اسے اپنانے میں خاص شرائط کای پابندی کرنا۔
(5)حدیث کا بھولنا۔
(6)حدیث کے مفہوم سے ناواقفیت۔
(7)حدیث میں دلیل نہ ہونے کا اعتقاد
(8)اس کے خلاف دلیل ہونے کا اعتقاد
(9)یہ اعتقاد کہ حدیث کسی اور چیز کی مخالفت کرتی ہے۔
(10)اس کے ضعیف یا منسوخ ہونے کے ثبوت کے ساتھ مخالفت کرنا۔

ان دس اعذار کو گنوانے کے بعد تحریر فرماتےہیں: 
’’فَهَذِهِ الْأَسْبَابُ الْعَشَرَةُ ظَاهِرَةٌ. وَفِي كَثِيرٍ مِنْ الْأَحَادِيثِ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ لِلْعَالِمِ حُجَّةٌ فِي تَرْكِ الْعَمَلِ بِالْحَدِيثِ لَمْ نَطَّلِعْ نَحْنُ عَلَيْهَا؛ فَإِنَّ مَدَارِكَ الْعِلْمِ وَاسِعَةٌ, وَلَمْ نَطَّلِعْ نَحْنُ عَلَى جَمِيعِ مَا فِي بَوَاطِنِ الْعُلَمَاءِ. وَالْعَالِمُ قَدْ يُبْدِي حُجَّتَهُ وَقَدْ لَا يُبْدِيهَا, وَإِذَا أَبْدَاهَا فَقَدْ تَبْلُغُنَا وَقَدْ لَا تَبْلُغُنا, وَإِذَا بَلَغَتْنَا فَقَدْ نُدْرِكُ مَوْضِعَ احْتِجَاجِهِ, وَقَدْ لَا نُدْرِكُهُ, سَوَاءٌ كَانَتْ الْحُجَّةُ صَوَابًا فِي نَفْسِ الْأَمْرِ, أَمْ لَا.‘‘
ترجمہ:
’’(کسی روایت پر عمل نہ کرنے اور اسے قابلِ استناد نہ سمجھنے کی) یہ دس ظاہری وجوہات ہیں۔ دیگر بہت سی روایات قابلِ استناد نہ سمجھنے کے بارے میں کسی عالم کے لیے ان کے علاوہ بھی دیگر بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، جو شاید ہمیں معلوم نہ ہوں، کیونکہ علم کے ذرائع بہت ہیں۔ اور علماء کے دلوں میں جو باتیں ہیں، ہم ان سب پر مطلع نہیں ہوسکتے۔ اہلِ علم بسا اوقات اپنی دلیل کا اظہار کرتے ہیں، بعض دفعہ نہیں، اور جو ذکر کرتے ہیں وہ باتیں کبھی ہم تک صحیح صورت میں پہنچتی ہیں، کبھی نہیں، ان کی جو دلیل ہم تک پہنچے، خواہ وہ دلیل درحقیقت درست ہو یا غلط، کبھی تو ہم اس کی جانچ پڑتال کرسکتے ہیں، بسا اوقات نہیں۔‘‘
[رفع الملام عن الأئمة الأعلام» ص: ۳۵]
معلوم ہوا کہ مجتہد جب بھی اجتہاد کرتا ہے تو شرعی دلائل کی روشنی ہی میں کرتا ہے اور اگر وہ کسی روایت سے استدلال نہیں کرتا یا اس کے خلاف موقف اپناتا ہے تو اس کے پاس بھی کچھ شرعی دلائل ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ اس طرح اقدام کرتا ہے، وہ دلائل اگر کسی دوسرے صاحب ِ علم واہلِ اجتہاد کے نزدیک کمزور بھی ہوں تو بھی اس جہاں میں اجتہادی مسائل میں حق وباطل کا یقینی فیصلہ کرنا مشکل ہے، لہٰذا کسی کو ایک ہی موقف کا پابند بنانا حد سے تجاوز اور بابِ اجتہاد کا دروازہ بند کردینےکے مترادف ہے۔

دوسرا نکتہ
حدیث کے حدیث ہونے کا انکار کرنا اور ہے اور حدیث ماننے اور تسلیم کرنےکے باوجود اس پر عمل نہ کرنا اس سے بالکل مختلف اور الگ چیز ہے۔ اب اگر کوئی مجتہد حدیث پر عمل کرنے کےلیے کچھ شرائط وضوابط مقرر کرتاہے اور وہ شرائط اس کے اجتہادی ذوق کے مطابق ضروری ہوں اور پھر کوئی حدیث ان ضوابط کے مطابق پایۂ ثبوت کو نہ پہنچے تو اس صورت میں یہ کہنا کسی طرح درست نہیں ہے کہ فلاں مجتہد فلاں حدیث پر عمل نہیں کرتا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے نزدیک وہ نقل پایۂ ثبوت کو نہ پہنچنے کی وجہ سے حدیث ہے ہی نہیں۔

تیسرا نکتہ
 
کسی بھی مستند عالم کا یہ موقف نہیں ہے کہ جو بھی بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرکے کہی جائے، وہ حدیث ہے اور اس پر عمل کرنا بہر حال ضروری ہے، بلکہ محدثین کرام ہوں یا فقہاء عظام، دونوں حضرات کے نزدیک اس کے لیے کچھ شرائط وضوابط مقرر ہیں جن پر جانچ پرکھ کر وہ یہ فیصلہ کرتےہیں کہ فلاں بات جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف منسوب کرکے روایت کی جارہی ہے، وہ واقعۃً حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بات ہے یانہیں؟ اس نوعیت کی جو شرائط اورضوابط مقرر کیے گئے ہیں، وہ تمام منصوص نہیں ہیں، بلکہ ہر جماعت کے علمی واجتہادی ذوق کا نتیجہ ہیں اور اس میں اختلاف کا ہونا نہ بعید ہے اور نہ مذموم، لہٰذا جس طرح محدثین کی شرائط پر پورانہ اُترنے والی روایت پر عمل چھوڑنا حدیث پر عمل نہ کرنے کے مترادف نہیں ہے، یوں ہی فقہاء کرام کو بھی اس بات کا حق حاصل ہے اور ان کے ضابطہ کے مطابق اگر کوئی روایت پایۂ ثبوت واحتجاج تک نہیں پہنچتی تو اس پرعمل نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حدیث پر عمل نہیں کرتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کسی خبرِ واحد کا شرائطِ قبول پر پورا نہ اُترنا اور اس کی وجہ سے اس پر عمل نہ کرنا ’’ردِحدیث‘‘ نہیں کہلاتا، جس طرح تواتر کا انکار، قرآنیت کا انکار، قطعیت کا انکار‘ متواتر، قرآن اور قطعی کا انکار نہیں کہلاتا، یوں ہی ضابطۂ ثبوت پر پورا نہ اُترنے والی روایت پر عمل نہ کرنا حدیث پر عمل نہ کرنے کے مترادف نہیں ہے۔

چوتھا نکتہ
جس طرح ثابت شدہ حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کرنا روا نہیں ہے، یوں ہی غیر ثابت شدہ نقل کو حدیثِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سمجھنا اور اس کو شرعی حجت کا درجہ دےکر احکام کا استنباط کرنا بھی نہایت نزاکت کا حامل ہے اور اس میں بھی تغافل برتنا جائز نہیں ہے، دونوں پہلوؤں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

پانچواں نکتہ
یوں تو ہر مسلمان پر حسنِ ظن رکھنے کی تعلیم وہدایت کی گئی ہے اور بلا وجہ کسی مسلمان پر بھی بدگمانی کرنا درست نہیں ہے، لیکن ائمہ مجتہدین اور حضرات اہلِ علم کےساتھ بالخصوص اس بات کا اہتمام کرنا ضروری ہے، اور مسلمان ہونے کے ناطے اس سے بڑا جرم کیا ہوسکتا ہے کہ حدیث کو حدیث سمجھنے کے باوجود محض اتباعِ ہویٰ جیسے عناصر کی وجہ سے اس پر عمل نہ کیا جائے یا بلا وجہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو رد کردے، اس لیے اگر کسی مجتہد کا کوئی ایسا اجتہاد سامنے بھی آئے جو بظاہر کسی روایت سے متعارض ہو، تو بھی ان کے بارےمیں بدگمانی سے بچنا اور بچتے رہنا ضروری ہے۔
یہ چند باتیں ہیں جن پر اگر انصاف اور دیانت داری کےساتھ غور وفکر کیاجائے اور عملی طور پر اس کا اچھی طرح اہتمام کیا جائے تو اُمید ہے کہ مفید ثابت ہوں گی اور بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔





کیا عمل کے لیے ”صحیح حدیث “ہی ضروری ہے؟

بعض حضرات کہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ پر ہی عمل کرنا چاہیے ۔ان سے احادیث صحیحہ کی تشریح معلوم کی جاتی ہے تو کہتے ہیں: بخاری اور مسلم۔یعنی کہ بخاری اور مسلم کے علاوہ جتنی حدیث کی دیگر کتابیں ہیں؛ عمل سے ان کا تعلق نہیں؛چوں کہ وہ سب ضعیف احادیث کا مجموعہ ہیں۔ضعیف احادیث کویہ لوگ موضوع روایت سمجھتے ہیں۔یہ بڑا ہی خطر ناک اوربھیانک نظریہ ہے ؛اس لیے کہ ضعیف روایات کو اگر منکر اورموضوع مان لیا جائے ؛ جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں؛تب تو ہمارے تمام محدثین بشمول امام بخاری اور امام مسلم ،سب کے سب موضوع روایات کو فروغ دینے اور دنیا میں پھیلانے والے شمارہوں گے۔ اوررسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے موضوع اورجھوٹی روایات کو پھیلانے والوں کو سخت ترین انجام کی دھمکی دی ہے،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّا مَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ ․
ترجمہ :جس نے قصداً ہماری جانب جھوٹی بات منسوب کی ؛وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔(بخاری ،ترمذی )

امام بخاری،امام مسلم ،امام نسائی، امام ترمذی اور امام ابوداؤد وغیرہ تمام محدثین اپنی کتابوں میں ضعیف احادیث کو جگہ دیتے ہیں۔امام بخاری ”بخاری شریف“ میں نہ سہی؛ مگر اپنی دیگر کتابوں میں ضعیف احادیث ذکر کرتے ہیں۔

یہ انتہائی جہالت کی بات ہے؛ورنہ جن حضرات کو علم حدیث کی ”ہوا “ بھی لگی ہے ؛وہ جانتے ہیں کہ احادیث کی صرف دو ہی قسمیں :صحیح اورضعیف نہیں ؛بلکہ اس کی متعدد اقسام ،مثلا: صحیح ،صحیح لغیرہ ؛حسن ،حسن لغیرہ وغیرہ ہیں۔اوروہ یہ بھی جانتے ہیں کہ امام بخاری اور امام مسلم نے چوں کہ التزام کررکھا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف انہی راوایات کو جگہ دیں گے ؛ جوان قسموں میں سے اول درجے کی ہوں گی۔ بقیہ قسمیں بخاری اورمسلم میں جگہ نہیں پاسکیں ۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیثیں منکرہیں ۔بات یہ ہے کہ محدثین کو جو روایات پہنچیں؛ان کو انھوں نے جانچا ،ان کے اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے درمیان جتنے لوگ اس روایت کو نقل کرنے میں واسطہ بنتے ؛ ان کے احوال زندگی،ان کے قوت حفظ ،مہارت ،ضبط اور عدالت وغیرہ کو جانچنے کے بعد اس حدیث پر صحیح ،حسن ،صحیح لغیرہ یا حسن لغیرہ اورضعیف وغیرہ کا حکم لگادیا ۔اگر روایت سب سے اعلی درجہ کی ہوتی ہے ؛تو اس کو صحیح کہہ دیتے، اگر کہیں کوئی کمی کوتاہی نظر آتی تو اس کو حسن وغیرہ کہہ دیتے،بعض مرتبہ تمام شرائط پائی جاتیں؛مگر اس کو محض اپنے خاص ذوق(علة خفیہ)کی وجہ سے چھوڑ دیتے۔ہاں! اگر اس روایت کے بارے میں معلوم ہوجاتاکہ وہ جھوٹی ہے تو اس کو منکراور موضوع قرار دیتے اوراسے اپنی کتابوں میں نقل ہی نہ کرتے ۔ موضوعا ت کی کتابیں الگ سے لکھی گئی ہیں؛تاکہ کسی موضوع روایت کے بارے میں تحقیق کرنی ہوتو اس کتاب میں اس کی تفصیل مل جائے۔مگر یہ سارے فیصلے اجتہادی ہوا کرتے ہیں؛ان میں غلطی بھی ہوسکتی ہے۔یہ با ت نہیں ہے کہ امام بخاری اورامام مسلم رحمة اللہ علیھما نے جن روایتوں کو ترک کردیا ہے ؛وہ صحیح نہیں ہوسکتی ہیں،یا جن کواختیار کیا ہے وہ ہراعتبار سے صحیح ہی ہیں۔کیوں کہ ان حضرات کی بیسیوں روایات پر محدثین نے کلام کیا ہے ؛بلکہ بعض کو توشاذ بھی کہا ہے ۔ مثلا:بخاری کی وہ روایت جس میں واقعہ” افک“ کے تعلق سے حضرت سعد بن معاذرضی اللہ عنہ کانام آیا ہے۔ ایسے ہی امام مسلم کی وہ روایت جس میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکے نکاح کے تعلق سے حضرت سفیان کانام آیا ہے ۔ جن روایات کو ان حضرات نے ترک کیا ہے ؛ان کے لیے بھی ضروری نہیں کہ وہ صحیح نہ ہوں؛چوں کہ بہت ساری ایسی روایات ہیں؛جو ان دونوں اماموں کی شرائط پرمکمل اترتی تھیں؛مگر ان حضرات نے اپنے خاص ذوق(علة خفیہ) کی وجہ سے ان کو ترک کردیا ۔چناں چہ بعد میں”امام حاکم نیساپوری“ نے انہی روایات کو جمع کرکے ” مستدرک حاکم “ تصنیف فرمائی؛ اسی وجہ سے مستدک حاکم کی روایات کو” صحیح علی شرط الشیخین“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ بارہا ایساہوتا ہے کہ ایک محدث ایک حدیث پر صحیح ہونے کا حکم لگاتاہے تو دوسرا اسی حدیث پرحسن ہونے کا حکم لگادیتا ہے ،کسی حدیث پر ایک محدث صحت کا حکم لگاتا ہے تو دوسرا اسی پرضعف کا حکم لگا دیتا ہے۔اسی وجہ سے امام بخاری اور امام مسلم نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ تمام صحیح احادیث ان کی کتاب میں آگئی ہیں،یا ان کی کتاب کے علاوہ صحیح روایات کہیں اور نہیں ہیں۔

مگر احکام شرعیہ اور حرام وحلال کا فیصلہ کرنے کے لیے احادیث کا صرف صحیح ہونا کافی نہیں ہے ۔بلکہ حدیث کا صحیح اورحسن ہونا؛احکام شرعیہ کی راہ میں ابتدائی مرحلہ کی چیز ہے۔چوں کہ روایت کتنی بھی مضبوط ہو؛ مگر اس پر عمل ہونا ضروری نہیں ،مثلاً : وُضُوءُ مِمَّا مَسَّتِ النَّار․ یعنی آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹنے کی روایت بہت ہی مضبوط ہے؛ایسے ہی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے والی روایت بہت ہی اعلی درجے کی ہے ؛ مگر ان پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔چوں کہ روایات کا محض صحیح اور مضبوط ہونا ہی عمل کے لیے کافی نہیں ۔عمل کے باب میں اصل چیز ان روایات کی گہرائی میں جاکر ان کی صحیح سمجھ حاصل کرنا ہے۔اوراسی گیرائی و گہرائی کو” فقہ“ سے تعبیر کیاجاتاہے۔ شریعت اسلامی میں یہی درجہ مطلوب ہے ۔فقہ کہتے ہیں دینی سمجھ کو ۔یہ ایسا فن ہے جس میں صحابہ کرام کے مابین بھی باہم فرق مراتب تھا،چناں چہ صحابہ میں بھی اختلافات ہوئے اور کہناچاہیے کہ ائمہ اربعہ کے اکثر اختلافات کی بنیاد صحابہ کے اختلافات ہی ہیں؛اور وہ غلط بھی نہیں،چناں چہ حضرت عون بن عبد اللہ تابعی فرما تے ہیں مجھے یہ بات ناپسندنہیں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف نہ ہوتا اس لیے کہ اگروہ حضرات کسی چیز پر مجتمع ہوں اورپھر کوئی شخص ان کے خلاف کرے تو وہ تارک سنت ہے اوراگر اختلاف ہو،پھر کوئی شخص ان میں سے کسی کے بھی قول کے مطابق عمل کرے تو وہ حدود سنت سے نہیں نکلا۔ (دارمی)

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فرمایا:

«مَا يَسُرُّنِي لَوْ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَخْتَلِفُوا , لِأَنَّهُ لَوْ لَمْ يَخْتَلِفُوا لَمْ تَكُنْ رُخْصَةً»
[الإبانة الكبرى لابن بطة:2/565 - کتاب الاول:الایمان - المجلد الثانی - بَابُ التَّحْذِيرِ مِنِ اسْتِمَاعِ كَلَامِ قَوْمٍ يُرِيدُونَ نَقْضَ الْإِسْلَامِ۔۔۔رقم الحدیث:703]
ترجمہ:مجھے یہ بات پسند نہیں کہ صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا؛ کیوں کہ اگر صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا تو رخصتیں نہ ہوتیں۔
(زرقانی علی المواہب بحوالہ اعتدال فی مراتب الرجال)۔

حضرت عبد اللہ بن المبارکؒ فرمایا کرتے تھے:

قرآن وحدیث کے مقابلے میں،ایسے ہی صحابہ کے اجماعی قول کے مقابلے میں نہ کسی کا قول معتبر ہے نہ رائے ۔ہاں جہاں صحابہ میں اختلاف ہے؛ اس میں ہم اس چیز کو اختیار کریں گے۔ جو قرآن وحدیث کے زیادہ قریب ہوگی۔
(اعتدال فی مراتب الرجال )

اگر احکام شرعیہ کے لیے صرف حدیث کا صحیح ہونا ہی کافی ہوتا۔ تو صحابہ میں اختلاف کیوں ہوتا؛ان کے حق میں تو تمام روایات صحیح سے بھی بڑھ کر قطعی یعنی قرآن کے ہم پلہ تھیں۔انھوں نے احادیث کو اپنے کانوں سے جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا، صحابہ میں سب سے زیادہ حدیث روایت کرنے والے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں؛مگرفتاوی حضرت عمروحضرت علی رضی اللہ عنہما وغیرہ کے چلتے تھے ۔وجہ اس کی یہی ہے کہ احکام شرعیہ کے لیے صرف نصوص کافی نہیں ؛بلکہ اس کے لیے ”تفقہ“اوردینی سمجھ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :﴿فَلَولاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْہُمْ طَائِفَةٌ لِیَتَفَقَّہُوافِی الدِّیْنِ ﴾․
ترجمہ :کیوں نہیں نکلی ہرگروہ میں سے ایک جماعت کہ وہ دین میں سمجھ پیداکرے اور قوم کے لوگوں کوجب لوٹ کر آئیں؛ تو ان کوبا خبرکرے، تاکہ وہ لوگ بچیں(قرآن)۔ 

اسی فقہ کے بارے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :رُبَّ مُبَلَّغٍ اَوعٰی مِنْ سَامِعٍ ۔ترجمہ :جن لوگوں کو حدیث پہنچائی جاتی ہے ؛ان میں بہت سے ایسے ہیں؛جو حدیث کوسننے والوں سے زیادہ حفاظت کرنے والے ہیں۔(مسند احمد ،ابوداؤد،ترمذی ،ابن ماجہ)اسی ملکہ کے بار ے میں حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:رُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیْرُ فَقِیْہٍ :یعنی بہت سے لوگ جو (حدیث جس میں) فقہ( کا خزانہ ہے،اس)کے حامل ہیں(مگر)وہ (خود)غیر فقیہ ہیں۔ (ترمذی ) اسی ملکہ کی وجہ سے حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایاتھا :معاذمیرے صحابہ میں سب سے زیادہ حرام وحلال کو جاننے والے ہیں۔(ترمذی)اگر صرف حدیث کا مضبوط ہونا ہی کافی ہوتا ،جیسا کہ یہ دین کے نادان دوست سمجھ رہے ہیں؛تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم یہ کہتے : جس نے سب سے زیادہ مجھ سے حدیثیں سنیں ہیں؛ وہی سب سے بڑا احکام شرعیہ کا جاننے والا ہے۔چوں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے براہ راست (ڈائرکٹ) حدیث سنی ؛اس کے حق میں وہ حدیث قرآن کے برابرہے۔چوں کہ وہ بالکل قطعی اوریقینی ہے ۔وہاں کسی صحیح اور ضعیف کا احتمال ہی نہیں۔

اہل علم جانتے ہیں کہ صرف احادیث کا مضبوط ہوناہی عمل کے لیے کافی نہیں؛انہی وجوہات کی بنا پرغیر مجتہد محدثین احکام شرعیہ نہیں نکالاکرتے تھے؛بلکہ وہ خودبھی فقہاء ہی کی اتباع کرتے تھے۔ مشہورمحدث حضرت امام شعبی کا مقولہ مشہور ہے :نَحْنُ الصَّیَادِلَہْ وَأنْتُمُ الْأطِبَّاءُ․
ترجمہ :ہم محدثین تو دواخانہ والے ہیں،ڈاکٹر تو آپ(فقہاء ) حضرات ہیں۔ امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کے طرز کو دیکھیے!حضرت اپنی سنن”ترمذی “ میں جہاں حدیث کے صحیح اورحسن وضعیف وغیرہ ہونے کا حکم لگاتے ہیں ؛تووہاں محدثین اصولیین کے اقوال نقل کرتے ہیں؛لیکن جہاں احکام شرعیہ ،حرام اورحلال کو بیان کرتے ہیں،وہاں فقہاء ہی کے اقوال نقل کرتے ہیں۔ایک جگہ” امام ترمذی“ فقہائے عظام کے مسالک نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:کَذَالِکَ قَالَ الْفُقَہَاءُ وَہُمْ اَعْلَمُ بِمَعَانِی الْأحَادِیْثِ․
ترجمہ:فقہاء نے ایسا ہی کہاہے اوروہی لوگ حدیث کے مطلب کوزیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ (ترمذی باب ماجاء فی غسل ا لمیت)

اکثرمحدثین خود بھی مقلد تھے ،چناں چہ مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن بھوپالی صاحب امام بخاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: وہ شافعی المسلک تھے۔(ابجد العلوم 810)اسی طرح امام مسلم رحمة اللہ کے بارے میں بھی نواب صاحب نے شافعی المسلک ہونا ذکر کیا ہے۔ (الحطہ98) وجہ بالکل ظاہر ہے کہ احادیث کے مابین تطبیق دینا اور ان سے احکام شرعیہ نکالنا ؛اس کے لیے حدیث کا صحیح اور حسن ہونا ہی کا فی نہیں، بلکہ اس کے لیے اور بھی بہت سی دیگر چیزیں درکا ر ہوتی ہیں۔ 

احکام شریعت کے لیے جودیگرچیزیں درکار ہیں؛ان میں سب سے اہم چیز صحابہ کے آثار ہیں ۔ احکام اسلام اور شریعت محمدی میں صحابہ کے آثار فیصلہ کن چیز ہواکرتے ہیں ۔چناں چہ حضرت ابراہیم نخعی (96ھ)،جو خود بھی صحابہ کے شاگر د ہیں،فرماتے ہیں:اگر صحابہ کو دیکھ لیتا کہ وہ کلائی تک وضو کرتے ہیں؛ تو میں عمل اس پر کرتا؛ جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھتا اور قرآن میں جو آیاہے:﴿الی المرافق﴾․ یعنی وضو میں کہنیوں تک ہاتھ دھوؤ(مائدہ)تو اس کو ایسے ہی پڑھتا ؛جیساکہ قرآن میں ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ صحابہ پرترک سنت کی تہمت نہیں لگا ئی جاسکتی ،وہ اہل علم تھے اور تمام مخلوق میں سب زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے خواہاں اور مشتاق تھے۔ ان کے عمل کے بارے میں کسی قسم کا شک وہی کرسکتا ہے ؛جس کو اپنے دین میں شبہ ہو۔ (الحجہ فی بیان المحجہ 2/401)

حضرت عمر بن عبد العزیر رحمة اللہ علیہ (جن کو جامع احادیث کہاجاسکتا ہے؛یعنی احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلوة والسلام کو کتابی شکل میں جمع کرانے اوراس کے لیے سرکاری طور پر کام شروع کرانے کا سہرا آپ ہی کے سرجاتا ہے ۔) صحابہ کی اتباع کی بابت اپنے ایک خط (جسے امام ابوداؤد نے بھی نقل کیا ہے،اس ) میں فرماتے ہیں :
فَمَا دُوْنَہُمْ مِنْ مُقَصِّرٍ وَمَا فَوقَہُمْ مِنْ مُحَسِّرٍ، وَمَنْ قَصَرَ دُوْنَہُمْ فَجَفُوا، أوْ طَمَحَ عَنْہُمْ أقْوَامٌ فَغَلُوا، وَإنَّہُمْ بَیْنَ ذٰلِکَ لَعَلٰی ہُدًی مُسْتَقِیْمٌ ․
ترجمہ :صحابہ کی اتباع نہ کرنا (دین میں) کمی اورتقصیر ہے ۔اور ان سے آگے بڑھنا (دین میں)زیادتی اورتکان ہے۔ایک جماعت نے(ان کی اتباع نہیں کی ؛بلکہ) ان سے کوتاہی کی ،تو اس نے ظلم کیا اوردوسری ان سے آگے بڑھ گئی تو انھوں نے غلو کیا ،صحابہ کرام اسی افراط وتفریط کے درمیا ن سیدھی راہ پر تھے۔ (الاعتدال فی مراتب الرجال)

حضرت ابو زید قیروانی مالکی (متوفی :386ھ)نے اپنی کتا ب ”الجامع“ میں” اہل سنت والجماعت“ کے عقائد اور ان کے طریق کا ر کوا س طرح بیان کیا ہے :
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سنتو ں کے بارے میں یہ بات مسلم ہے کہ نہ اس کا مقابلہ رائے سے ہوگا اور نہ قیاس سے۔ اور سلف صالحین(صحابہ ) نے جہاں تاویل کی ہے ؛ہم بھی تاویل کریں گے اور جس پر عمل در آمد کیا؛ ا س پرہم بھی عمل کریں گے اور جس پر عمل نہیں کیا ؛اس پر ہم بھی عمل نہیں کریں گے اور جہاں انھوں نے توقف اختیار کیا ؛ہمارے لیے بھی توقف کی گنجائش ہے اور جہاں انھوں نے کچھ بیان کیا ہے ؛ہم اس کی اتباع کریں گے، اور جو استنباط کیا ہے؛ اس کی اقتدا کریں گے اور جہاں انھوں نے تاویل میں اختلاف کیا ہے؛ تو ہم ان کی جماعت سے نہ نکلیں گے ۔(الجامع)

امام احمد ابن حنبل فرماتے ہیں:ہمارے نزدیک سنت کے اصول وہ ہیں ؛جن پر حضرات صحابہ کرام تھے ۔(فتاوی ابن تیمیہ 4/155)

حاصل کلام یہ کہ احادیث کا صرف صحیح اور مضبوط ہونا ہی عمل کے لیے کافی نہیں ہے ؛بلکہ اس کے لیے اوربھی بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔

اوراگربالفرض تسلیم کرلیا جائے کہ جو روایت زیادہ مضبوط ہو؛اس پر عمل کیا جائے اور اس کے بالمقابل جو کمزور ہو ؛اس کو ترک کردیا جائے ؛تب تو دین کا جنازہ نکل جائے گا۔ چوں کہ سندکے اعتبار سے سب سے مضبوط ترین روایت ”قرآن کریم“ کی ہے ؛جو معناً اور لفظاً دونوں اعتبار سے متواتر ہے ، ذخیرہ احادیث کی کوئی بھی روایت سند کی مضبوطی و قوت میں اس کا مقابل نہیں ہوسکتی ۔قرآن مجید بہرصورت ”حدیث“ کے مقابلے میں مضبوط ہے۔اب اگر کسی جگہ قرآن وحدیث میں بظاہرتعارض نظرآئے ،یعنی قرآن سے ایک حکم نکل رہا ہو؛جب کہ حدیث سے اس حکم کے بالکل خلاف دوسرا حکم نکل رہا ہو؛تو کیا محض اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ اپنے مدمقابل کے سامنے کمزورہے ؟اگر یہی اصول تسلیم کرلیا جائے ؛تو ان احادیث کے ساتھ آپ کیا کریں گے،جس میں حضور صلی الله علیہ وسلم کو خصوصی طورپر چار سے زائد شادیوں کی اجازت تھی۔چوں کہ قرآن کریم جو حدیث کے بالمقابل مضبوط ہے ؛اس کا تو حکم یہ ہے :﴿فَانْکِحُوا مَاطَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنٰی وَثُلاَثَ وَرُبَاع﴾.

یعنی بیک وقت صرف چارعورتوں سے ہی شادی کرسکتے ہو(اس سے زیادہ نہیں)-(سورہ نساء آیت نمبر 3)۔کیا حضور صلی الله علیہ وسلم کو آپ بھی یہود ونصاری کی طرح اپنے طعن وتشنیع کا نشانہ بناؤگے ؟۔ نعوذ با للہ من ذلک!

اسی طرح احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن شفاعت ہوگی ؛جب کہ قرآن کہتا ہے : ﴿لَابَیْعٌ وَلاَخُلَّةٌ وَلَاشَفَاعَةٌ ﴾(سورہ بقرہ آیت نمبر 254) یعنی قیامت کے دن شفاعت نہیں ہو گی ؛تو کیا محض اس وجہ سے شفاعت کی احادیث کا انکار کردیا جائے گا کہ وہ قرآن کے مقابلے میں سنداًکمزورہیں۔ ایسے ہی حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:لَانُورِثُ مَاتَرَکْنَاہ صَدَقَةٌ(ہم(انبیاء وارث نہیں بناتے ؛ہمارا جو کچھ ترکہ ہوتا ہے ؛وہ صدقہ ہوتا ہے۔) جب کہ قرآن کہتا ہے:﴿یُوصِیْکُمُ اللّٰہُ فِی أوْلَادَکُمْ﴾․

ترجمہ: اللہ تعالی تم کو حکم دیتاہے تمہاری اولاد(کی میراث)کے باب میں۔(سورہ نساء)یعنی ہربچے کا حصہ منجانب اللہ متعین ہے ؛ماں باپ اس کے حصے کو ختم نہیں کرسکتے ۔تو کیا اس حدیث کو محض اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ اپنے مقابل والی آیت کے مقابلے میں سنداًکمزور ہے ۔ایسے ہی احادیث میں آتا ہے کہ ایک وضو سے متعدد نمازیں ہوجاتی ہیں،جب کہ قرآن کہتاہے :﴿إذَاقُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ ﴾․یعنی نماز کے لیے کھڑ ے ہو،تو وضو کرو! اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہو،تو وضو کیا کرو ۔توکیا ان احادیث، جن سے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے،ان کا انکار کیا محض اس وجہ سے کردیا جائے گا کہ وہ سنداً قرآن کے بالمقابل کمزور ہیں ؟ہرگز ہر گز ایسا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چوں کہ یہ اصول ہی غلط ہے ۔اگراس اصول کو تسلم کرلیا جائے تو قرآن وحدیث کا ایک ٹکڑااپنے ہی دوسرے حصے کی تکذیب کرتا ہوا نظر آئے گا۔ قرآن” حدیث “کی تکذیب کرے گا اورحدیث ”قرآن“ کی تکذیب کرے گی۔اوریہ ایسی بھیانک مصیبت ہوگی ؛جس کی وجہ سے پوری امت ہلاک ہوجائے گی۔ سابقہ امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہو ئیں۔حدیث میں آتاہے: عَنْ عَمْروٍ بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ قَالَ :سَمِعَ النَّبِیُّ صلی الله علیہ وسلم قَومًا یَتَدَارَئُونَ فِی الْقُرْآنِ، فَقَالَ :إنَّمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِہٰذَا․ ضَرَبُوا کِتَابَ اللّٰہِ بَعْضَہ بِبَعْضٍ، إنَّمَا نَزَلَ کِتَابُ اللّٰہِ یُصَدِّقُ بَعْضَہ بَعْضًا، فَلاَ تُکَذِّبُوا بَعْضَہ بِبَعْضٍ، فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْہ فَقُولُوا وَمَا جَہِلْتُمْ فَکِلُوہ إلٰی عَالِمِہ․
ترجمہ :عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرکے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے بارے میں سنا کہ وہ قرآن پاک میں باہمی اختلاف کررہے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑرہے ہیں تو (سخت نارا ض ہوئے اور)فرمایا :تم سے پہلے جو لوگ تھے؛ان کی ہلاکت وبربادی کا باعث یہی چیز بنی تھی کہ انھوں نے اللہ کی کتاب کے ایک حصہ سے دوسرے حصے کی تردید (تکذیب )کی ۔سن لو!اللہ کی کتاب اس شان سے نازل ہوئی ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو سچاثابت کرتا ہے ۔لہذا اس کے کسی حصہ کو کسی دوسرے حصے کے ذریعہ مت جھٹلاؤ۔اور اس (طرح کی کسی آیت کے مفہوم ومراد کے بارے میں)تم وہی بات کہوجو (کتاب اللہ کے صحیح معنی ومرادجاننے اور بتانے والوں کے ذریعہ )تمہارے علم میں (آئی ) ہے ۔اور جو چیز تمہارے علم میں نہیں ہے ؛اس کو علم رکھنے والوں کے حوالہ کردو۔ (مسند احمد ،بخاری فی خلق افعال العباد /30) 

کیا ہر آدمی کو قرآن وحدیث سے خود مسائل نکالنے چاہییں؟
بعض لوگ یہ نظریہ امت میں بڑے زوروشور سے پھیلارہے ہیں کہ ہر آدمی کو اجتہاد کرنا چاہیے اوراپنے اجتہاد کے مطابق احکام شرع پر عمل پیراہونا چاہیے ،شریعت کسی مجتہدیا فقیہ کے باپ کی جائداد نہیں۔یہ نظریہ بڑا ہی آسان، صاف ستھرا اور بے داغ معلوم ہوتا ہے ۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص سفر میں جارہا تھا ۔ گھر والوں نے زاد راہ کے لیے ”جو“ اور ”چنا“ وغیرہ کو پیس کر ”ستو “بنایااور اس کے سپر د کردیا کہ راستے میں جب بھوک کا احساس ہو ؛تو ”ستو“ کو پانی میں گیلاکرکے کھالے گا۔ اس کے ہم راہ ایک عیار اورمکارآدمی تھا ،جس کے پاس زادِراہ کے لیے صرف ”جَو“ تھا۔ بھوک محسو س ہوئی؛ تو اس نے دقت محسوس کی ؛چوں کہ ’جو“کو کوٹنا ،صاف کرنااورقابل استعمال بنانا مشکل کام تھا۔ جسے دوران سفر انجام نہیں دیا جا سکتا؛اس لیے اس نے پیٹ بھرنے کے لیے ایک ترکیب کی اوراپنے ساتھی کے پاس آیا اور بڑے ناصحانہ و خیرخواہانہ انداز میں بولا: تمہارے پاس کھانے کے لیے تو” ستو “ ہے؟ اس نے کہا:ہاں!تو اس نے کہا کہ اس کے کھانے میں تو بھائی بہت پریشانی ہے ،ستو !!!لپتو !!! کب کھاؤگے ؟؟؟تو کب چلوگے ؟؟؟۔ اورہمارے پاس تو ”جو“ہے ؛جس کا کھانا بہت ہی آسان ہے۔”جو“ کو کوٹو! کھاؤ! اور چلتابنو۔وہ ”سیدھا سادھاآدمی“ اس عیار شخص کی باتوں میں آگیا اوراس دجال سے ”ستو“کے بدلے میں ”جو“لے لیا،پھر پورے راستے دشواریوں کا سامنا کرتا رہا۔ 

بعینہ یہی صورت حال ان لوگوں کی اس دعوت کی ہے ؛جو مجتہدین کے معتبر فقہ کوپس پشت ڈالنے اور اجتہادکی دعوت دیتے پھر رہے ہیں،اسلام عام آدمی کو شریعت میں خود برد کرنے کی اجازت نہیں دیتا،ارشاد خداوندی ہے: ﴿فَاسْئَلُوا أہْلَ الذَِّکْرِ إنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُونَ﴾ ترجمہ :اگر نہیں جانتے ؛تو اہل علم سے معلوم کرلو۔ (القرآن ) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّمَاشِفَاءُ الْعِیِّ اَلسُّوَالُ ۔ترجمہ:(علمی امور سے)عاجزشخص(کے دینی معاملات ) کاعلاج (جاننے والوں سے )سوال کرنا ہے۔(ترمذی ) ۔ کتاب اللہ ، سنت رسول صلی الله علیہ وسلم اورآثار صحابہ سے ماخوذ معتبر ”فقہ اسلامی“ و”شریعت “ہمارے سامنے” ستو“ کی مانند موجودہے کہ جب بھی ضرورت محسوس ہو ؛ان راجح اور مقبول فتاوی سے امت استفادہ کرے ۔اسے ائمہ مجتہدین ،محدثین عظام اور فقہائے دین متین نے بڑی عرق ریزی اور دیدہ وری سے مرتب کیا ہے ۔اس کے تیارکرنے ، ترتیب دینے ا ور اصلاح وتہذیب میں نہ جانے کتنے علماء اور محدثین نے خون پسینے ایک کئے ہیں اور صدیوں سے اس کی اصلاح ہوتی چلی آرہی ہے۔ مگر یہ لوگ عوام سے کہتے ہیں کہ اگر اس فقہ کے مطابق زندگی گزاروگے تو گم راہ ہوجاؤ گے۔ قرآن وحدیث سے خود مسائل نکالو اور اس پر عمل کرو۔ کسی عالم، کسی فقیہ اور محدث کے اخذکردہ مسائل کے مطابق زندگی مت گزارو۔

گویا کہ اجتہاد کرنا اور قرآن وحدیث سے مسائل نکالنا بچوں کا کھیل ہے ! یہ دعوت اسی مکار اور عیار شخص کی سی ہے ؛جو” ستو“ کے استعمال کو مشکل کہتاہے اور ”جو‘ ‘کے استعمال کو آسان !کیوں کہ قرآن وحدیث سے مسائل نکالنے اور اجتہاد کرنے کے لیے بہت سارے علوم کی ضرورت ہوتی ہے ؛کم از کم اتنا علم تو انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ قرآن کی آیاتِ ناسخہ ومنسوخہ،احادیث ِصحیحہ ،ضعیفہ اور سقیمہ، نیز آثارِ صحابہ واقوال ِمحدثین پر آدمی دست گاہ ِتام رکھتا ہو، اصول ِتفسیر وحدیث ،فصاحت، بلاغت ،عروض و قوافی اور نحو وصرف کے ایک معتدبہ حصے پرقدرت ِتام رکھتا ہو؛جو کہ ایک عام آدمی کے بس سے باہر کی چیزیں ہیں ۔

اس دعوت کا مقصد مسلمانوں کو صراط مستقیم پرچلانا نہیں؛بلکہ غلط مقاصد کی تکمیل ہے۔ مقصدیہ ہے کہ خواہش نفس کے مطابق شریعت کی تدوین کی جائے ۔یعنی جو مسئلہ نفس کو بھائے اور اس پر عمل کرنے میں نفس کو راحت ملے ؛اسی کو قرآن وحدیث کا نام دے کر اس پر عمل کیا جائے،بقیہ جو مسائل نفس پر شاق گزریں،یا ان پر عمل کرنے میں تکلیف محسوس ہو ؛ ان کو غلط اور باطل کہہ دیاجائے ۔ آپ کے سامنے اس طرح کے مجتہدین کے دوفتاوے پیش ہیں؛ جن سے ان کے مقاصدکو بخوبی سمجھاجاسکتا ہے۔پچھلے دنوں( ہفت روزہ”نئی دنیا“) نے اس طرح کے ایک مجتہد صاحب(جو سعودی عرب میں رہتے ہیں،ان) کا فتوی شائع کیا تھا ۔اس فتوی کو سن کر عالم اسلام دم بخود رہ گیا، سعودی حکومت ورطہٴ حیرت میں پڑ گئی اوراس نے ان جیسے مجتہدین سے اپنے دامن کو بچانے ہی میں عافیت محسوس کی۔

سعوی عرب میں عورتیں بھی اعلی سرکاری ونیم سرکاری عہدوں پر فائز ہونے لگی ہیں۔ ان کے ماتحت ملازمین ہواکرتے ہیں ۔مسئلہ یہ آیا کہ ان کے پرد ے کا کیا ہو؟چوں کہ پردہ فرض ہے۔ ایک مجتہد صاحب نے اجتہاد کیا اور جھٹ سے اپنا فتوی جاری کردیا۔انھوں نے فتوی دیا کہ ایسی تمام اعلی عہدوں پر فائز عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو چھاتی کا دودھ پلادیں؛تاکہ ماتحت لوگ اس کے بیٹوں کے حکم میں ہو جائیں اور پر دہ کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ ( ہفت روزہ نئی دنیا10ء ) 

اسی قسم کے ایک اور مجتہد صاحب کا فتوی ابھی تازہ تازہ آیاہے، اخبار لکھتاہے:سوڈان میں خواتین کے حجاب سے متعلق ایک فتوی کے بعد ملک کے مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے (فتوی یہ ہے:) اسلام خواتین کے لیے کسی مخصوص پردہ اور لباس کا حکم نہیں دیتا۔وہ صرف ایک باوقار لباس کی تلقین کرتاہے ۔اور قرآن کریم میں جو حجاب کی اصطلاح ہے؛ وہ صرف ازواج مطہرات کے لیے مخصوص ہے ۔(راشٹریہ سہارا، 22/جنوری 12ء)

ان فتاوی کو ملاحظہ کیجیے! اور بزعم خود ان نئے مجتہدین کی تلذذِطبعی اورتفنن خاطری کو داد ددیجیے۔ کسی حرام(خصوصاً جس میں لذت ہو؛اس) میں اتنی سکت کہاں کہ ان لوگوں کی زد میں آ نے کے بعد اپنی حرمت برقرار رکھ سکے؟ان حضرا ت کے مزاج کی رنگینی اسے کب حرام رہنے دے گی؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ا ن مجتہدین یا اجتہادکی دعوت دینے والوں کے پاس دلائل کی کمی ہے، دلائل تو ابلیس کے پاس بھی تھے ،پھر یہ بے چارے کیوں کر اس دولت بے بہا سے بے بہرہ رہ سکتے ہیں؟دلائل ان کے پاس بہت ہیں اور ایسے ایسے دلائل کہ رات کو دن اوردن کو رات کہنے پر مجبور کردیں ۔ مثلاًان مجتہدین کے اجتہاد کو کسی د ن اگر زیادہ جو ش آگیا ؛تو آیت قرآنیہ :﴿یَااَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی﴾ (اے ایمان والو !نشے کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جا ؤ!)سے استدلال کرتے ہوئے شراب کی حلت کا بھی فتوی دے ماریں گے ۔ کو ن ان سے جاکرپوچھ سکتا ہے کہ بھائی !یہ آیت شراب کی حرمت سے پہلے کی ہے ۔چوں کہ ان کے یہاں اجتہاد کے لیے کسی صلاحیت کی ضرورت ہی نہیں،صرف کسی کتاب میں لکھا ہوا آیت کا یا حدیث کاترجمہ ان کے اجتہاد وفتاوی بازی کے لیے کافی ہے۔ان کو اس سے کیا لینا دینا کہ یہ آیت حرمت شراب سے پہلے کی ہے یہ بعد کی؟ ناسخ ہے یا منسوخ؟مقبول ہے یا مردود؟کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دلائل ان کے یہاں سارے کے سارے قرآن اورحدیث ہی سے ملیں گے ؛ گرچہ اس سے دین و اسلام منہدم ہو کررہ جائے ۔

شریعت کا مقصد ہے کہ انسان ہر معاملے میں اللہ کے احکام کو پیش نظر رکھے ،اگر شریعت کا حکم معلوم نہ ہو تو علمائے حق سے رجوع کرے اور حکم خداوند ی معلوم ہو نے کے بعد ا پنی اطاعت گزاری اور بندگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر عمل کرے ۔لیکن ان حضرات کا مقصد دوسراہے؛ان کا مقصد ہے کہ اگر کسی کام کے کرنے میں دشواری معلوم ہو اور اس پر عمل نہ کرنا ہو ؛تواس آیت یا حدیث ہی میں نقص نکال دو،مثلاً :کہو کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔یہ بخاری میں نہیں ،مسلم میں نہیں ۔ اگر آپ نے حدیث دکھاہی دی ؛تو کہیں گے : حدیث صحیح مرفوع متصل ان ان الفاظ کے ساتھ دکھاؤ ؛تو ہم مان سکتے ہیں!ورنہ نہیں۔ان کی اصل بیماری تلذذ طبعی اورسہولت پسندی ہے ؛ جس کی باعث یہ لوگ امت کے تمام طبقات سے نالاں ہیں ۔اور بسا اوقات تو خیر القرون سے لے کر اب تک کے تمام اہل حق علماء کو ناحق اور اہل بدعت کہنے سے بھی نہیں کتراتے ۔امت کے اس اجماع سے انہیں بے حد چڑ ہے کہ تقلید صرف ائمہ اربعہ کی ہوگی۔ اور فتاوے صرف انہی مکاتب فکرکے علماء کے چلیں گے۔اللہ سب کی حفاظت فرمائے اور اپنے دین پر قائم ودائم رکھے۔

کیا کسی امام کی تقلید کرنا شرک ہے؟
یاد پڑتاہے کہ بچپن میں ہمارے کچھ ساتھی جب کسی اپنے ہم عمر اورمعاصر لڑکے کے ساتھ مذاق او رتمسخر کاارادہ کرتے؛ تو بطور امتحان اس سے پوچھتے ،بتاؤ : تم زنانی ہوکہ زنانہ؟ اب اگر ساتھی سمجھ دار ا ورہوش مند ہوتا ؛تو کہتا :نہ تو میں زنانی ہوں اور نہ زنانہ(عورت) ؛بلکہ میں تو مردہوں۔لیکن اگر ساتھی نافہم اور بے عقل ہوتا ؛تو تھوڑے سے توقف اورسوچ بچار کے بعد کہہ اٹھتا:میں زنانہ(عورت) ہوں۔اور اس طرح وہ اپنی نادانی اورکم علمی کی وجہ سے ان کے مذاق اور تمسخر کا شکاربن جاتا۔ان کی چال اورجال یہ ہوتی کہ وہ سوال ہی غلط ڈھنگ سے کرتے اور اس کے سامنے ایک چیز کو جو ظاہرمیں الگ الگ (دوچیزیں) معلوم ہوتیں ؛جب کہ حقیقت میں وہ ایک ہی ہوتی ہے؛ اس کو تقسیم کرکے اس کے سامنے پیش کرتے اوراس نادان کو اپنے جال میں پھنسالیتے۔

تقلید سے بے زارکرنے کی مہم اور نظر یہ اسی قبیل کی چیز ہے ۔ یہ لوگ عوام اور کم دینی علم رکھنے والے لوگوں کے پاس جاکرسوال کرتے ہیں کہ بتاؤ:اللہ اوررسول کو مانوگے یاکہ ابوحنیفہ ؛مالک ؛شافعی اوراحمد کو؟ بھلا! ایک مسلمان، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو ؛وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول کے علاوہ کسی اورکو مانتاہے۔لہذا وہ کہتا ہے کہ میں اللہ کو مانتا ہوں ۔اس کے بعد اگر وہ بھولا بھالا آدمی ان کے جال میں صحیح طور پر پھنس گیا؛تو وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتا ؛بلکہ ان لوگوں کے ساتھ مل کر صحابہ ،ائمہ مجتہدین ا ورسلف صالحین پر لعن طعن کی زبان بھی دراز کرتا ہے ؛لیکن اگر وہی شخص پڑھا لکھا اور علمی میدان کا بالغ آدمی ہوتا ہے؛ تو کہتاہے :میں اللہ اور رسول کو بھی مانتاہوں ؛ابوحنیفہ ،مالک ،شافعی اوراحمد وغیرہ کو بھی مانتاہوں۔ چوں کہ میں اللہ کو رب اور خالق ومالک ہونے کی حیثیت سے مانتاہوں؛ رسول کو نبی اورپیغام برہونے کی حیثیت سے مانتاہوں اور ائمہ(ابوحنیفہ، مالک ؛شافعی اوراحمد) کو شریعت کی تشریح و توضیح کرنے والا ہونے کی حیثیت سے مانتاہوں ۔اوراس میں کوئی تضاد اوراختلاف بھی نہیں کہ ایک کو ماننے سے دوسرے پر کوئی ضرب پڑتی ہو ؛جیسے ماں ،باپ ،بھائی اوربہن ۔کیا ماں کو ماں کہنے سے باپ پر کوئی اثر پڑتاہے ،یا بہن کو بہن کہنے سے ماں کی حیثیت متاثرہوتی ہے؟لیکن اگر ماننے سے تیری مراد بندگی ہے؛ تو اے دھوکے باز!کان کھول کرسن لے !میں اللہ کے علاوہ کسی کی بھی عبادت نہیں کرتا؛چہ جائے کہ ائمہ ومحدثین عظام وغیرہ!

زمانہ آخری چل رہاہے ،قیامت قریب ہے ، اند راورباہر ہر طرف سے فتنوں کی یلغار ہے اورہر فتنہ ایک جاذب نظر ، خوب صورت اور پرکشش انداز اورٹائٹل میں سامنے آتاہے۔ مثلا یہی فتنہ جس کا میں نے اوپر تذکرہ کیا کہ ائمہ کی تقلید کرنا حرام ہے ۔ یہ کوئی معمولی فتنہ نہیں ہے، اس کے عوامل اوراثرات پر اگر غورکیا جائے ؛تو معلوم ہوگاکہ صرف یہی ایک فتنہ پوری امت کو صراط مستقیم سے ہٹاکر گم راہی اورضلالت کے راستے پرڈالنے کے لیے کافی ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا زمانہ ہم سے بہت دور ہوچکا ہے ؛ نہ ہم حضور صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ رہے ہیں اور نہ ان کی مجلسوں میں حاضر ہی ہوسکتے ہیں؛ لامحالہ ہمیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی باتو ں کے لیے ذخیرہ احادیث کی جانب رجوع کرناپڑ ے گا۔ اور حدیث نام ہے تین چیزوں کا:
1... حضور صلی الله علیہ وسلم کی وہ باتیں ؛جو صحابہ نے آپ سے سنیں اور بعد والوں سے روایت کی،
2... حضور صلی الله علیہ وسلم کے وہ کام جو آپ نے صحابہ کے سامنے عملی طور پرکیے،پھر صحابہ نے اپنے اپنے الفاظ میں اسے ادا کیے،
3... رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ذاتی اوصاف ۔مثلاً آپ کے بال کا رنگ ؛چہرہ بشرہ ؛ آپ کی شجاعت اورسخاوت وغیر ہ کے واقعات ۔

اب(1)  یعنی حضور صلی الله علیہ وسلم کے اقوال کو لیجیے !حضور صلی الله علیہ وسلم جب بات کرتے تھے ؛تو صحابہ کبھی کم ہوتے ؛تو کبھی ان کا اژدہام اورمجمع ہوتا ،چناں چہ بعض صحابہ کبھی حضور صلی الله علیہ وسلم کی باتوں کودور تک پہنچانے کے لیے بطور ”مکبر ‘ ‘ کے بھی الفاظ دہراتے؛ جس کی وجہ سے ایک صحابی کوبات اگرمکمل پہنچتی؛ توکبھی دوسرے صحابی کو ناقص۔اورروایت دونوں نے کی ؛جس کی وجہ سے روایت میں اختلاف ہوگیا۔ایسے ہی (2) یعنی افعال نبی صلی الله علیہ وسلم کو لیجیے! صحابہ نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو کچھ کرتے ہوئے دیکھا،تواس کام کے طریقے اورانداز کو اپنے اپنے الفاظ میں ڈھال کربیان کردیا۔بعض مرتبہ اس طرز بیان میں اختلاف ہوگیا ؛چوں کہ ایک صحابی نے ایک تعبیر استعمال کی ؛مگر دوسرے نے دوسری تعبیر استعمال کردی ؛حتی کہ تعبیرکا یہ اختلاف معانی تک پہنچ گیا۔اسی طرح بعض اعمال حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھے ؛مثلا نو بیویوں کو نکاح میں رکھنا؛صوم وصال رکھنا، تہجدکافرض ہونا وغیرہ وغیرہ ۔ اب اگر کوئی فقیہ تمام روایا ت کو جمع کرکے خلاصہ نکالتا ہے اور تحقیق وتفتیش کے بعد اصل مسئلہ حل کرنے کے لیے اُن صحابہ کے عمل کا بھی سہارا لیتاہے؛جو حضور صلی الله علیہ وسلم کے آخری دور میں آپ کے ساتھ تھے اوراس طرح حدیث کا ایک معنی متعین کردیتا ہے؛ پھر عام مسلمان (جن کی رسائی ذخیرہ احادیث پر اس درجہ نہیں) وہ اسی فقیہ کی تحقیق پر؛اللہ کے حکم :﴿ فَاسْئَلُو ا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُون﴾َ(اگر تم نہیں جانتے ؛تو جاننے والوں سے معلو م کرلو) کی بنا پرعمل کرلیتا ہے ؛تو اس گروپ کے نزدیک ایسا مسلمان اللہ اور رسول کے مقابلے میں اس فقیہ کو معبود ٹھہرنے والا شمار ہوتا ہے۔اور وہ فقیہ جس نے اپنی پوری عمر اس مسئلہ کو حل کرنے اوراس گتھی کو سلجھانے میں صرف کی ہے ؛وہ ان لوگوں کے گما ن میں اللہ کے مقابلے میں اپنی الوہیت اور معبودیت کا دعوے دار ہے۔تبھی تو یہ لو گ عوام سے کہتے ہیں کہ اللہ اوررسول کی مانوگے یاکہ ابو حنیفہ ،مالک ،شافعی اور احمد کی؟ان کے نزدیک اللہ اوررسول کا حکم کچھ اور ہے اورائمہ کے فتاوے کچھ اور ہیں۔

ایسے ہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی حدیثیں کسی نہ کسی واسطے اورذریعہ ہی سے ہمارے پاس آئی ہیں اور وہ ذرائع محدثین کی کتابیں ہیں۔ ہر محدث نے کیف ما اتفق احادیث کو جمع نہیں کیا ہے ؛بلکہ بعض نے ابواب فقہیہ کے حساب سے حدیثیں جمع کی ہیں؛تو بعض نے مسندات صحابہ وغیرہ کے اعتبار سے۔صحاحِ ستہ :بخاری ،مسلم ،ترمذی ،ابوداؤد ،نسائی ،ابن ماجہ اورموطامالک وغیرہ ابواب فقہیہ پر جمع ہیں۔ امام بخاری احادیث کو لانے سے پہلے ،اس حدیث سے نکلنے والے مسئلہ کو سمجھانے کے لیے صحابہ اورتابعین یا تبع تابعین کے اقوال و اعمال ا ورفتاوی کو بھی تعلیق(یعنی تمہید) میں نقل کردیتے ہیں،پھر احادیث کو ذکر کرتے ہیں؛تاکہ حدیث کے سمجھنے میں اگرکسی طرح کا خلجان ہو ؛ تو وہ دور ہوجائے اورحدیث کا واضح ترین مطلب سامنے آجائے ۔ مثلا امام بخاری نے جہاں ”دونوں ہاتھوں“ سے مصافحہ کا باب باندھا ہے ؛وہاں حدیث نقل کرنے سے پہلے تعلیق میں یہ بھی لکھا ہے : وَصَافَحَ حَمَّادُ بْنُ زَیْدٍ وَاِبْنُ الْمُبَارَکِ بِیَدَیْہِ (حماد بن زید اورعبد اللہ بن المبارک نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا ۔)(بخاری2/926)

اب اگر کوئی مسلمان امام بخاری کے بیان کردہ معانی کے مطابق عمل کرتاہے ؛تو اس گروپ کے نزدیک وہ مشرک اور مرتد ہے ؛چوں کہ ان کے خیال میں وہ حدیث پر عمل کرنے والا نہیں ہے ۔تبھی تو عوام سے جاکر یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ اللہ اورر سول کو مانوگے یاکہ ائمہ کو؟ان کے نزدیک حدیث اورقرآن کی تفسیر وتوضیح کرنا ،اپنی نبوت کا دعوی کرنا ہے ۔اسی وجہ سے زنانی اورزنانہ والی تقسیم سامنے لاتے ہیں اوربتانا چاہتے ہیں کہ فقہاء اور محدثین اللہ اوررسول کے دین کے دشمن ہیں،اللہ اوررسول کی باتیں کچھ اورہوتی ہیں اور یہ لوگ بیان کچھ اورکرتے ہیں۔

بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک صحابی ابتدائے اسلام میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور چلے گئے ۔انھوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کوجو کچھ کرتے ہوئے دیکھا یا کہتے ہوئے سناتھا؛اسی کوبیان کرتے رہے۔ حالاں کہ بعد میں وہ حکم منسوخ بھی ہوگیا ؛مگران صحابی کو اس کی منسوخیت کاعلم نہیں ہوا ۔البتہ جن صحابہ کو اس کا علم تھا؛وہ اس کے خلاف حدیث بیان کرنے لگے۔اب یہ دوطرح کی روایتیں سامنے آئیں ؛جو بالکل مدمقابل کی ہیں کہ اگر ایک پر عمل کیاجائے ؛تو یقینا دوسری کو ترک کرنا پڑے گا۔ بڑی مشکل ہوئی،اللہ تعالی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ان ائمہ پر کہ انھوں نے دونوں روایتوں کو دیکھا ؛مگر فتوی اس روایت کے مطابق دیا ؛جو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے آخری ایام میں آپ کے پاس رہنے والے صحابہ کے عمل سے موید پائی اورپہلی والی روایت کے منسو خ یامرجوح ہونے کا فیصلہ کردیا۔اس طرح امت کے لیے سنت (یعنی حضور صلی الله علیہ وسلم کے آخری معمول)پرچلنا آسان ہوگیا ۔لیکن اس گروپ کے نزدیک اگر مسلمان ان فقہاء کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق شریعت پر کار بند ہوتے ہیں ؛تو وہ مرتد اور مشرک ہیں۔تبھی توعوام سے پوچھتے ہیں کہ اللہ اور رسول کی مانوگے یا کہ ائمہ کی ؟ان کے نزدیک فقہاء کا یہ عمل الوہیت اور نبوت کا دعوی ہے۔یہ فقہاء اوران کے ماننے والے سب کے سب مرتد اور مشرک ہیں۔

یہ باتیں جو پیش کی گئی ہیں ؛یہ کوئی انوکھی اور نادر باتیں نہیں ہیں کہ اہل علم اس سے ناواقف ونا بلد ہوں؛اسے تو ہر وہ مسلمان بخوبی جانتاہے ؛جسے ادنی درجہ میں بھی علوم اسلامیہ کی ہوا لگی ہے؛لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب چیزوں کے باوجود یہ گروہ کیوں کر ائمہ اورسلف صالحین کے راستے سے عوام کو برگشتہ اور بدگمان کرنے پرتُلاہواہے اور اس سلسلے میں ایسی ایسی کوششیں اورجدوجہد کررہا ہے ؛جیسے مسلمان اسلام کو پھیلانے کے لیے کرتے ہیں؟ تومعلوم ہونا چاہیے کہ اس کا جواب خود جنا ب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آج سے چودہ سوسال پہلے دے چکے ہیں، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :اِنَّ مِنْ عَلَامَاتِ السَّاعَةِ اَن یَّلْعَنَ آخِرُہٰذِہ الاُّمَّةِ اَوَّلَہَا․
ترجمہ:قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس امت کے آخرکے لوگ پہلے کے لوگوں پر لعن طعن کریں گے۔(ترمذی کتاب الفتن )

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے محدثین لکھتے ہیں کہ لعن طعن سے مراد غلط انداز سے ان کو یاد کرنا اور اعمال صالحہ میں ان کے طریقے سے ہٹ کرالگ راہ بنانا ہے۔ (طیبی شرح مشکوٰة)

یہ لوگ اس کوشش میں ہیں کہ مسلمان سلف صالحین کے راستہ کو چھوڑ کرخود ان کے بنائے ہوئے طریقے کو اپنا لیں،حالاں کہ یہ غلط ہے، چوں کہ قیامت تک کے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر نمازمیں صحابہ،ائمہ اورمحدثین کی راہ پر چلنے کی دعاکریں اور کہیں :﴿اِہْدِنَالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ﴾․
ترجمہ:اے اللہ! ہمیں سیدھے اوراپنے انعام یافتہ بندوں (یعنی صحابہ ؛تابعین اور تبع تابعین وغیرہ)کی راہ پر چلائیے!

اور اگر کوئی شخص ان حضرا ت کی راہوں سے ہٹتا ہے اور اعراض کرناچاہتا ہے ؛تو اللہ اوررسول کی دھمکی بھی سن لیجیے! :﴿وَمَن یَّتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُومِنِیْنِ نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہ جَہَنَّمَ﴾․
ترجمہ:اور جو شخص مسلمانوں (یعنی صحابہ وغیرہ)کی راہ سے ہٹ کر(کسی اور کی راہ پر )چلے گا؛تو ہم حوالہ کردیں گے اس کے وہی ؛ جو اس نے اختیار کیا ہے اور اس کو جہنم میں پھینک دیں گے ۔(سورہٴ نساء )

د و اہم سوالات
اگر کوئی یہ کہے کہ امام بخاری ہی کو کیوں نہ امام الائمہ تسلیم کرکے تمام مسلمانو ں کوایک پلیٹ فارم پر متحد کرلیاجائے؟توسوال ہے کہ امام بخاری کی کتاب” بخاری شریف“ کو قرآن کے بعد سب سے اچھی کتاب تسلیم کس نے کیا؟جواب ہوگا: امت نے ۔پھر سوال ہوتاہے کہ کیا امت نے امام بخاری کوامام مجتہد بھی تسلیم کیا ہے ؟تو جواب ملتاہے کہ امت تو کیا کرتی ؟ خود حضرت کے شاگر دوں نے ان کو مجتہد تسلیم نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی اپنی کتاب کے اندر جہاں فقہاء ومجتہدین کے مذاہب نقل کرتے ہیں؛وہاں اپنے استاذ امام بخاری کے مسلک کونقل نہیں کرتے ، حالاں کہ وہ ان کے بہت ہی چہیتے شاگرد ہیں،البتہ اسی امت، جس نے بخاری شریف کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ تسلیم کیا ہے؛اسی نے ابوحنیفہ ،مالک ،شافعی اور احمد کو بطورمجتہد کے قبول کیا ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ امام بخاری کی اصل نظر راویوں کے کمزور اور ضعیف ہو نے پر رہتی ہے،روایتیں جمع کرنے سے ان کا مقصدفتوی دینا نہیں ہوتاہے ؛تبھی تو وہ منسوخ روایات کو بھی اپنی کتاب میں جگہ دیتے ہیں؛حالاں کہ عمل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔

دوسری بات:ہرامام کے مسلک میں کچھ نہ کچھ فتاوی ایسے ضرور ہیں؛جو احادیث کے خلاف معلوم ہوتے ہیں ؛لہٰذا کیوں نہ ایک ایسے نئے مسلک کی بنیاد ڈال دی جائے؛جو اس طرح کی کمیوں اورکمزوریوں سے پاک ہوں؟جواب یہ ہے کہ ان کمیوں کے قائل تو مسلمان روز اول ہی سے ہیں؛چوں کہ غیر نبی معصوم نہیں ہوتا،غلطیاں اس سے سرزد ہونا بشریت کالازمہ ہے ؛اسی وجہ سے تو ہرمسلک کے علماء شروع سے یہ کام کرتے چلے آرہے ہیں کہ ان کے ائمہ سے اگر کسی مسئلہ میں کوئی فروگزاشت ہوگئی ہے اور وہ مسئلہ حدیث اور قرآن سے ٹکراتاہے ؛تو تحقیق اور تفتیش کے بعد اصول وضوابط کے دائرے میں رہ کر اس فتوی کو تبدیل کردیتے ہیں۔چناں چہ چاروں ائمہ کے مسالک والوں میں دیکھا جاتاہے کہ امام کا مسلک کچھ ہوتاہے ؛مگران کے مقلدین کا عمل کسی اور فتوی پرہوتاہے۔بات یہ ہے کہ ابتدامیں مسالک بہت تھے؛مگرشروع سے اس طرح سے تنقیح و تہذ یب انہی چار مسالک کی ہوتی رہی ہے؛اسی وجہ سے کہاجاتاہے کہ یہ چاروں مسالک منقّہ اورمنزّہ ہیں،غیر مجتہد کے عمل کے لیے ان سے بہتر کوئی اور مذہب (امام مہدی سے قبل )ہوہی نہیں سکتا ۔

اور اس زمانہ میں جن لوگوں نے ان مذاہب حقہ سے بغاوت کرکے الگ سے ایک نئے مسلک کی بنیاد رکھنی چاہی ہے ؛انھوں نے منھ کی کھائی ہے ۔ان کے فتاوے کو دیکھیے اورسر پیٹیے کہ کس طرح ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول پر بہتان باندھا اورکتنی ڈھٹائی اوردلیری سے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال کردہ اشیا کو حرام ٹھہرایا۔بتایئے! اپنے عمل کے خلاف پائی جانے والی احادیث کو ضعیف کہہ کران کا انکارکون کرتاہے؟ (دانستہ یا نادانستہ طور پر شریعت کو ناقص کرنیکے لیے) بخاری اورمسلم کے علاوہ تمام احادیث کی کتابوں سے دست بردا ر ہونے کی مہم امت میں کون چلا رہا ہے ؟ تمام صحابہ کو بدعتی کون کہتا ہے؟ بیوی کے ساتھ لواطت کے جواز کا فتوی کون دیتاہے ؟زمانہ حیض میں عورتوں کوتلاوت قرآن کی اجازت کو ن دیتا ہے ؟ عورتوں کی چھاتی سے نامحرم مردوں کو دودھ پینے کی اجازت کس نے دی؟ان تمام کرتوتوں کا سہرا اسی گروپ کے سرجاتاہے؛جو مسالک قدیمہ سے بغاوت کرکے ایک نئے مسلک کی بات کرتا ہے اورعوام سے جاکر کہتاہے کہ اللہ اور رسول کو مانو گے یا کہ ابوحنیفہ ،شافعی ،مالک اوراحمد رحمہم اللہ کو؟۔اللہ ہم سب کی اس فتنہ سے حفاظت فرمائے !

سنت صرف روایت سے ثابت نہیں ہوتی، اس کے ساتھ امت کا تعامل بھی ضروری ہے۔ کوئی حدیث سند کے لحاظ سے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو؛ اگر اس پر امت کا عمل نہیں تو اس کی حجیت قطعی نہ رہے گی، زیادہ گمان یہی ہوگا کہ وہ عمل منسوخ ہوچکا، محدثین حدیث کی حفاظت پر اس کے معمول بہ ہونے سے بھی استدلال کرتے رہے ہیں، امام وکیع نے اسمعیل ابن ابراہیم مہاجر سے نقل کیا ہے:
"کان یستعان علی حفظ الحدیث بالعمل بہ"۔(تاریخ ابی زرعہ الدمشقی: ۱/۳۱۱)
ترجمہ:
حفظ حدیث میں اس کے عمل سے بھی مدد لی جاتی تھی (یعنی یہ کہ اس پر عمل بھی ہو)۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے معمول بہ ہونے کا اس کی صحت اور مقبولیت پر بہت اثر رہا اور محدثین کو ایسی روایات بہت کھٹکتی رہی ہیں جو معمول بہ نہ رہی ہوں۔



 امام ترمذیؒ ایک مقام پر لکھتے ہیں:

"جَمِيعُ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ الْحَدِيثِ فَهُوَ مَعْمُولٌ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَاخَلَا حَدِيثَيْنِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ وَحَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجلدوهُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ"۔

(جامع ترمذی، کتاب العلل:۶۲۶/۲، موقع الإسلام)

ترجمہ: جو کچھ اس کتاب میں ہے اس پر (کسی نہ کسی حلقے میں) عمل ضرور رہا ہے اور اس کے مطابق اہل علم کی ایک جماعت نے فیصلہ کیا ہے سوائے ان دو حدیثوں کے ایک حدیث حضرت ابن عباسؓ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خوف، سفر اور بارش کے کسی عذر کے بغیر مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر یکجا اور مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھی ہیں، اور دوسری حضور  کی یہ حدیث کہ جب کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور چوتھی دفعہ پئے تو اس کو قتل کردو۔



یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے لائق استدلال ہیں، لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ ائمہ دین میں کسی نے ان کے ظاہر پر عمل نہیں کیا، بلکہ اس کے ترک پراہل علم کا اجماع رہا ہے۔
 ائمہ مجتہدین اوران کے تمسکات کو علم حدیث کے موضوع میں شامل نہ کیا جائے تو بڑی مشکلات پیدا ہو جائیں گی، صحت حدیث کا مدار صرف سند پر نہیں،  اہل علم کے عمل سے بھی حدیث قوی ہوجاتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اکثراوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے؛ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی صحت عمل پر بھی متفرع ہوتی ہے۔
مشہور غیر مقلد عالم مولانا عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں:

اکثر اوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے اور صحت روایت اصول کی رو سے شروط معتبرہ مجوزہ ائمہ جرح و تعدیل کے ساتھ ہوتی ہے اور بعض دفعہ صحت عمل پر متفرع ہوتی ہے، صورت اول عام ہے،صورت دوم خاص ہے اور اس کی تصریح محققین نے کردی ہے، امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں لکھتے ہیں:

"ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقد صرح غیر واحد بان من دلیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علی مثلہ"۔

(تنزیہ الشریعۃ للکنانی/۱۲۰)       

ترجمہ:

اہل علم کے قول اور تعامل کے ساتھ حدیث ضعیف، ضعف سے نکل کر صحیح اور قابل عمل ہوجاتی ہے؛ اگرچہ اس کی اسناد لائق اعتماد نہ ہو، بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے۔

بعض فضلائے امت و امناء ملت میں اس صورت دوم کے اپنے موضع میں پائے جانے کی وجہ سے بعض کوتاہ اندیش جاہل اپنی کج فہمی کی وجہ سے ان پر اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں مولوی حدیث کا تارک ہے۔

(الانصاف لرفع الاختلاف:۷۷۶،مطبوعہ:۱۹۱۰ ء، مطبع: رفاہ عام اسٹیم پریس، لاہور)


حافظ الحدیث ابن صلاح(م643ھ) مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ:
وَمَتَى قَالُوا: " هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ " فَمَعْنَاهُ: أَنَّهُ اتَّصَلَ سَنَدُهُ مَعَ سَائِرِ الْأَوْصَافِ الْمَذْكُورَةِ، وَلَيْسَ مِنْ شَرْطِهِ أَنْ يَكُونَ مَقْطُوعًا بِهِ فِي نَفْسِ الْأَمْرِ، إِذْ مِنْهُ مَا يَنْفَرِدُ بِرِوَايَتِهِ عَدْلٌ وَاحِدٌ، وَلَيْسَ مِنَ الْأَخْبَارِ الَّتِي أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى تَلَقِّيهَا بِالْقَبُولِ. وَكَذَلِكَ إِذَا قَالُوا فِي حَدِيثٍ: " إِنَّهُ غَيْرُ صَحِيحٍ " فَلَيْسَ ذَلِكَ قَطْعًا بِأَنَّهُ كَذِبٌ فِي نَفْسِ الْأَمْرِ، إِذْ قَدْ يَكُونُ صِدْقًا فِي نَفْسِ الْأَمْرِ، وَإِنَّمَا الْمُرَادُ بِهِ أَنَّهُ لَمْ يَصِحَّ إِسْنَادُهُ عَلَى الشَّرْطِ الْمَذْكُورِ
ترجمہ:
جب ہم کسی حدیث کو صحیح قرار دیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیث یقینا صحیح ہے اور اس کی صحت درجہ علم تک پہنچتی ہے؛ بلکہ اس حکمِ صحت سے مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس میں صحیح ہونے کی وہ فنی شرائط موجود ہیں جو محدثین(Experts of Hadith) کے یہاں صحتِ حدیث کے لیے درکار ہیں، لہذا گمان یہی ہے کہ وہ حدیث صحیح ہوگی۔ اسی طرح ضعیف کا مطلب بھی یہ نہیں کہ یقینی طور پر وہ خلافّ واقعہ ہے، ہوسکتا ہے کہ نفس الامر میں صحیح ہو۔
[مقدمة ابن الصلاح في علوم الحديث: صفحہ#14]

یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم کا تعامل اس کی فنی کمزوریوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔


علامہ ابن حجر العسقلانی رح فرماتے ہیں : کسی حدیث کو “لا یصح” یعنی وہ صحیح نہیں، کہنے سے اس (حدیث) کا موضوع (جھوٹی/من گھڑت) ہونا لازم نہیں آتا۔
[شرح الفیہ : ١/١٥]
  کیونکہ جھوٹا آدمی بھی کبھی کبھی سچ اور صحیح بات کہہ دیتا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ اس نے زیرِ غور حدیث میں سچ ہی بیان کیا ہو۔ اگر محدثین اسے من گھڑت اور جھوٹ کہتے ہیں تو وہ بھی محض غالبِ ظن کی حدتک ہوتا ہے۔چنانچہ ابنِ حجر اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”والحکم علیہ بالوضع انما ہو بطریق الظن الغالب لا بالقطع ‘ اذ قد یصدق الکذوب“
ترجمہ:
”موضوع حدیث کو موضوع اور من گھڑت کہنے کا معاملہ صرف ظن غالب کی حد تک ہے‘ قطعی اور یقینی طور پر نہیں‘ کیونکہ کبھی کبھی جھوٹا  آدمی بھی سچ کہہ دیتا ہے۔“
(نزہۃ النظر۔ صفحہ۸۴)

ملا علی قاری رح فرماتے ہیں : عدمِ ثبوت سے حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا.
[تذكرة الموضوعات للقاری : ٨٢]



لیکن (جدید) اہلحدیث مطلقاً ضعیف کو قابلِ عمل نہیں ٹھہراتے۔ گو اس پر اہل علم کا عمل ہوا؟
جبکہ قدیم اصول حدیث کے اصولی جیسے:

=============================



موضوع ِحدیث میں "تعامل امت" پر نظر


امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب "التعقبات علی الموضوعات" میں اور 
امام على بن محمد بن عراق الكناني "تنزیہ الشریعۃ" میں لکھتے ہیں: 
"وقال : حنش ضعيف عند أهل الحديث والعمل على هذا عند أهل العلم ، فأشار بهذا إلى أن الحديث اعتضد بقول أهل العلم ، وقد صرح غير واحد بأن دليل صحة الحديث قول أهل العلم به ، وإن لم يكن له إسناد يعتمد على مثله"۔
ترجمہ:
اور (امام ترمذیؒ)  نے کہا : اہل حدیث کے نزدیک (یہ حدیث) ضعیف ہے لیکن عمل ہے اسی پر اہل علم کا" بس یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ بیشک (ضعیف) حدیث اہل علم کے قول اور تعامل کے ساتھ حدیث ضعیف، ضعف سے نکل کر صحیح اور قابل عمل ہوجاتی ہے؛ اگرچہ اس کی اسناد لائق اعتماد نہ ہو، بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے۔

==============

تقریباً 200 کتب کے مصنف مصنف محدث، فقیہ، اصولی، مؤرخ علامہ سخاویؒ لکھتے  ہیں:

وقال الحافظ السخاوي في شرح ألفية : إذا تلقت الأمة الضيف بالقبول يعمل به الصحيح حتى أنه ينزل منزلة المتواتر في أنه ينسخ المقطوع به، ولهذا قال الشافعي رحمة الله تعالیٰ في حديث "لا وصية الوارث" أنه لا يثبت أهل العلم بالحديث ولكن العامة تلقته بالقبول وعملوا به حتى جعلوه ناسخا لاية الوصية الوارث...إنتهى
ترجمہ :
علامہ سخاویؒ نے "شرح الفیہ" میں کہا ہے کہ: جب امت حدیثِ ضعیف کو قبول کرلے تو صحیح یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاۓ ، یہاں تک کہ وہ یقینی اور قطعی حدیث کو منسوخ کرنے میں ((متواتر حدیث کے رتبہ میں سمجھی جاۓ گی))، اور اسی وجہ سے امام شافعیؒ نے حدیث : "لا وصية لوارث" کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس کو حدیث کے علم والے (علماۓ حدیث) ((ثابت نہیں)) کہتے ہیں لیکن عامه علماء نے اس کو قبول کرلیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کو آیت_وصیت کا ناسخ قرار دیا ہے۔
[فتح المغيث بشعره ألفية الحديث: ص # ١٢٠ ؛ المعجم الصغیر لطبرانی: باب التحفة المرضية في حل مشكلات الحديثية،٢/١٧٩]
(فتاویٰ علماۓ_حدیث : ٢/٧٤ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)
-----------------------------
علامة ابن مرعي ألشبرخيتي المالكيؒ: 

"ومحل كونه لايعمل بالضعيف في الأحكام ما لم يكن تلقته الناس بالقبول فان كان كذلك تعين وصار حجة يعمل به في الاحكام وغيرها.[شرح الأربعين النووي]
ترجمہ:
اس بات کا محل کہ ضعیف حدیث پر احکام میں عمل نہیں کیا جاتا یہ ہے کہ اس کو تلقی بلقبول حاصل نہ ہو، اگر اسے تلقی بلقبول حاصل ہوجاۓ تو وہ حدیث متعین ہوجاۓ گی اور حجت ہوجاۓ گی اور احکام وغیرہ میں اس پر عمل کیا جاۓ گا۔
======================


=======================






=============================
اصولِ حدیث اور علم جرح و تعدیل اجتہادی اور ظنی ہے۔













اصولِ حدیث سب اجتہادی ہیں، مقصود صحیح بات کوپالینا ہے، وہ جس طرح بھی میسر آسکے اور یقین بڑھاسکے، خطیب بغدادی اصولِ حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
"وجب الاجتہاد فی علم اصولہا" (الکفایہ فی علوم الروایہ:۳) 
جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس موضوع کی ہربات میں اجتہاد سے کام لیا گیا ہے، فقہاء حدیث نے اپنے اپنے تفقہ کی روشنی میں اس کے اصول طے کئے ہیں؛

وقال العلامة بدر الدين بن بهادر في النكت على مقدمة ابن الصلاح (3\341-342) : "فلا شك أن في الجرح والتعديل ضربين من الاجتهاد ؛ وأئمة النقل يختلفون في الأكثر فبعضهم يوثق الرجل إلى الغاية وبعضهم يوهنه إلى الغاية وهما إمامان إليهما المرجع في هذا الشأن".
علم جرح وتعدیل میں ناقدین رجال کے احکام ظنی اوراجتہادی ہیں اوریہ ان کے روات کے حالات،روایات کا استقراء اوتتبع پرمبنی ہے۔یہ بات حافظ ذہبی نے بھی کہی ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
قالالحافظالذهبي في الموقظة : "هذا الدين مؤيدمحفوظ من الله تعالى،لميجتمععلماؤهعلىضلالة،لاعمداولاخطأ،فلايجتمعاثنانعلىتوثيقضعيف،ولاعلىتضعيفثقة،وإنمايقعاختلافهمفيمراتبالقوةأومراتبالضعف؛والحاكممنهميتكلمبحسباجتهادهوقوةمعارفه،فإنقدرخطؤهفينقده،فلهأجرواحد" ." .
یہی بات حافظ ذہبی نے دوسرے مقام پر بھی دوہرایاہے چنانچہ وہ ذکر من یعتمدقولہ فی الجرح والتعدیل میں کہتے ہیں۔

"فمنأئمةالجرحوالتعديلبعدمنقدمنايحيىبنمعين؛وقدسألهعنالرجالعباسالدوريوعثمانالدراميوأبوحاتموطائفة؛وأجابكلواحدمنهمبحسباجتهاداتالفقهاءالمجتهدينوصارتلهمفيالمسألةأقوال". ۔
حافظ ذہبی نے یہ بات میزان الاعتدال میں بھی دوہرائی ہے چنانچہ وہ میزان الاعتدال میں ہشام بن عمار السلمی الدمشقی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔
ومازال العلماء الاقران یتکلم بعضھم فی بعض بحسب اجتہادھم وکل احد یوخذ منہ قولہ ویترک الارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔(میزان الاعتدال 3/256)
اس امر کا اعتراف حافظ الدنیا حافظ ابن حجر کو بھی ہے کہ ناقدین رجال اورجرح وتعدیل کے ائمہ کے اقوال بعینہ اسی طرح اجتہادی ہیں جس طرح کے فقہاء کے اقوال اجتہادی اور استنباطی ہوتے ہیں۔
وقالالحافظابنحجرفيلسانالميزان (1\3) : "أقاماللهطائفةكثيرةمنهذهالأمةللذبعنسنةنبيهصلىاللهعليهوسلمفتكلموافيالرواةعلىقصدالنصيحة؛ولميعدذلكمنالغيبةالمذمومةبلكانذلكواجباعليهموجوبكفايةثمألفالحفاظفيأسماءالمجروحينكتباكثيرةكلمنهمعلىمبلغعلمهومقدارماوصلاليهاجتهاده" ." .
حافظ سخاوی کہتے ہیں کہ جرح وتعدیل کے ائمہ کے اختلافی کلام میں اسی طرح اجتہادی ہیں جس طرح کے فقہاء کرام کے مختلف اقوال کسی ایک مسئلہ میں اجتہادی ہوتے ہیں۔اسی طرح کسی ایک مسئلہ میں ایک فقیہہ کا مختلف قول اجتہادی ہوتاہے اسی طرح ایک راوی پرایک ناقد حدیث کے مختلف احکام بھی اجتہادی ہوتے ہیں۔ جیساکہ ابن معین سے ایک ہی راوی کے سلسلہ میں مختلف احکام منقول ہیں۔
وقالالسخاويفيفتحالمغيث (3\352) : "وولاةالجرحوالتعديلبعدمنذكرنايحيىبنمعين , وقدسألهعنالرجالغيرواحدمنالحفاظ ,ومنثماختلفتآراؤهوعباراتهفيبعضالرجالكمااختلفاجتهادالفقهاءوصارتلهمالأقوالوالوجوهفاجتهدوافيالمسائلكمااجتهدابنمعينفيالرجال" ." .
سلفی علماء میں سے اس امر کا اعتراف شیخ جمال الدین قاسمی نے بھی کیاہے کہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کامعاملہ ہو یاپھر بات راوی پر کلام کی ہو ۔یہ اجتہادی امر ہے اورقائل کی اپنے معلومات،دائرہ اطلاع،فکر ونظر کی گہرائی وگیرائی کے اعتبار سے ہے۔
"ومعرفة الرجال علم واسع ثم قد يكون المصيب من يعتقد ضعفه لاطلاعه على سبب جارح , وقد يكون الصواب مع الآخر لمعرفته أن ذلك السبب غير جارح : إما لأن جنسه غير جارح , أو لأنه كان له فيه عذر يمنع الجرح -وهذا باب واسع- , وللعلماء بالرجال وأحوالهم في ذلك من الإجماع والاختلاف مثل ما لغيرهم من سائر أهل العلم في علومهم" .
في قواعد التحديث (ص 377)




حدیث کی تقویت میں اصولِ درایت کا اثر:

بعض قرائن اور دلائل ایسے بھی ہوتے ہیں جو اصولِ درایت کی روشنی میں غیرمقبول حدیث کو مقبول اور قابل عمل بنادیتے ہیں؛ چنانچہ خطیب بغدادی اپنی کتاب الکفایہ میں لکھتے ہیں:
ترجمہ:
پہلی قسم جس سے حدیث کی صحت کا علم ہوتا ہے، اس کی جانکاری کی راہ ہے اگر وہ روایت متواتر نہ ہو کہ جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے کہ وہ روایت مقتضائے عقل کے مطابق ہو، کبھی اس کی صحت یوں معلوم ہوتی ہے کہ وہ خبر نصِ قرآنی یا سنتِ مشہورہ کے مطابق ہو یا امت نے اس روایت کو درست گردانا ہو اور اس پر عمل درآمد کیا جاتا رہا ہو۔
[الکفایۃ فی علم الروایۃ،باب الكلام في الاخبار وتقسيمها:۱/۱۷،شاملہ،الناشر: المكتبة العلمية،المدينة المنورة]


=============================








اہلِ بدعت سے لی گئی روایات کا حکم



اہلِ بدعت سے وہ لوگ مراد ہیں جوبدعت فی العقائد کے مجرم ہوئے، جیسے: معتزلہ، قدریہ، شیعہ، خوارج، کرامیہ اور جہمیہ وغیرہ، بدعت فی الاعمال اس سے اخف ہے اور اہلِ بدعت دونوں ہیں، جن محدثین نے فن حدیث پر بطور ایک فن کے نظر کی ان کا نقطۂ صرف یہ رہا کہ جوصورت بھی ہو روایت صحیح ہو انہیں کسی بدعتی میں بھی بیان کی پختگی نظر آئی توانہوں نے اس سے روایت لے لی، جن علماء نے حدیث کومحض ایک فن کے طور پر نہیں پورے تدین اور اعتماد سے دیکھا انہوں نے اہلِ بدعت سے روایت لینے کوجائز نہ سمجھا، وہ دین کو بدعتی سے حاصل کرنا جائز نہ سمجھتے تھے۔
حضرت امام ابنِ سیرینؒ (۱۱۱ھ) اور حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ) اہلِ بدعت سے روایت لینے کے حق میں نہیں، وہ اس کی اجازت نہیں دیتے، امام ابویوسفؒ (۱۸۲ھ)، حضرت سفیان ثوریؒ(۱۶۱ھ) اور امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) اس کے جواز کے قائل ہیں، یہ حضرات کہتے ہیں کہ سوائے روافض (اثناعشری شیعوں) کے دیگراہلِ بدعت سے (اگروہ جھوٹ بولنے والے نہ ہوں اور ان کی یادداشت کمزور نہ ہو) روایت لی جاسکتی ہے، امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) اس میں تفصیل کے قائل ہیں، جواہلِ بدعت اپنی بدعات کوفروغ دینے والے ہوں ان کی روایت کسی صورت میں قبول نہ کی جائے گی اور غیرداعی اہل بدعت کی روایت دیگر شرائط پوری ہونے پر قبول کی جاسکتی ہے۔
روافض سے روایت نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ تقیہ ان کے مذہب کا جزو ہے وہ کسی مذہبی مصلحت سے خلاف واقعہ بات کہنا جائز سمجھتے ہیں؛ سونہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں کہاں جھوٹ بول رہے ہیں       ؎
تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم
خطیب بغدادی لکھتے ہیں:

"وقال کثیر من العلماء یقبل اخبار غیرالدعاۃ من اہل الاھواء فاما الدعاۃ فلایحتج باخبارہم"۔

(الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۲۱)

ترجمہ:بہت سے علماء نے کہا ہے کہ ان اہل بدعت کی جوداعی الی البدعۃ نہ ہوں روایت قبول کی جاسکتی ہے؛ لیکن ان لوگوں کی جواپنی بدعات کی طرف دعوت دیتے ہیں روایت سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا۔

شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے شرح صحیح مسلم میں اس پرتفصیل سے بحث کی ہے۔      

(فتح الملہم:۱/۶۵)

امام مالکؒ تویہاں تک فرما گئے کہ:

"لایوخذ العلم عن اربعۃ عن مبتدع ولاعن سفیہ ولاعمن یکذب فی احادیث الناس وان کان یصدق فی احادیث النبی   ولاعمن لایعرف ھٰذا الشان"۔

ترجمہ:علم حدیث چارشخصوں سے نہ لیا جائے، نہ بدعتی سے نہ بیوقوف سے نہ اس شخص سے جولوگوں کی باتوں میں جھوٹ بول لیتا ہو؛ اگرچہ حدیث نبوی میں سچ ہی کہتا ہو اور نہ اس سے جواس (موضوع) کی شان کو ہی نہ جانتا ہو۔         

(مقدمہ اوجز المسالک:۶)

جہاں تک ہوسکے اہلِ بدعت سے روایت نہ لے اگر کہیں روایت بایں نظرلی ہے کہ شاید کسی دوسری روایت میں متابعت کے کام آئے توبھی ان لوگوں کی مجلس کولازم نہ پکڑے؛ تاکہ انہیں باقاعدہ استاد نہ کہنا پڑے اور وہ بھی پوری احتیاط کے ساتھ، سیدنا حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:

"ولا شک ان اخذ الحدیث من ہذہ الفرق یکون بعد التحری والاستصواب ومع ذلک، الاحتیاط فی عدم الاخذ لانہ قد ثبت ان ھؤلاءِ الفرق کانوا یضعون الاحادیث لترویج مذاھبھم وکانوا یقرون بہ بعد التوبۃ والرجوع واللہ اعلم"۔        

(مقدمہ مشکوٰۃ:۶)

ترجمہ:اس میں شک نہیں کہ ان فرقوں سے حدیث لینا غور اور پڑتال کے بعد ہی چاہئے اور اس کے باوجود احتیاط نہ لینے میں ہی ہے؛ کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ لوگ اپنے خیالات باطلہ کورواج دینے کے لیے حدیثیں گھڑتے تھے اور جب (ان میں کسی کو) توبہ کی توفیق ہوجاتی تواقرار کرتے (کہ انہوں نے بدعقیدگی کے دور میں کیا کیا حدیثیں گھڑی تھیں)۔

یہ ادب واحترام توشیخ کے عقائد واعمال کے متعلق ہے کہ اہلِ حق میں سے ہو گمراہ فرقوں میں سے نہ ہو،تاہم اس ادب واحترام کا بھی اپنا ایک مقام ہے جواخلاق وعادات کی راہ سے قائم ہوتا ہے۔



عربی جاننے کے باوجود بھی "ذاتی مطالعہ" سے غلط فہمی کا امکان
امام ابومنصورؒ بن محمد الفقیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن ’’یمن‘‘ کے علاقہ شہر ’’عدن‘‘ میں تھا کہ دیہات سے ایک صاحب تشریف لائے اور ہمارے ساتھ انہوں نے مذاکرہ کیا اور اثناء گفتگو میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے سامنے بکری کھڑی کرلیتے تھے۔
[معرفۃ علوم الحدیث(امام حاکم):148 طبع القاہرۃ]
دراصل، لفظ عَنْزَۃ کے معنیٰ بکری کے ہوتے ہیں اور وہ صاحب یہی سمجھے تھے، جبکہ لفظ (نون پر زبر سے ہو تو) عَنَزَۃ کے معنیٰ ایسی لاٹھی جس کے آگے لوہا لگا ہو۔ رسول اللہ ﷺ جب کھلی جگہ نماز پڑھاتے تو سامنے لاٹھی گاڑدیتے تاکہ سُترہ بن جائے اور یہاں یہی مراد ہے۔ اور یہ روایت [بخاری:501] وغیرہ میں موجود ہے۔
امام ابوعبداللہ(حاکمؒ) نے یہ مثال بیان کرکے اس بات کی دلیل دی ہے کہ فرمان میں اکثر غلطیاں ان لوگوں سے ہوتی ہیں جن کیلئے حدیث کو سمجھنا مشکل ہے۔
[معرفۃ علوم الحدیث(امام حاکم):149 طبع القاہرۃ]




"مضطرب" حدیث کی تعریف:
جو ثقہ (قابل اعتماد) راویوں کی صحیح سند (راویوں کے سلسلہ) سے مذکور تو ہو، لیکن اس کی سند (راویوں کے سلسلہ) یا متن (الفاظ حدیث) میں ایسا اختلاف ہو کہ اس میں کسی کو ترجیح یا تطبیق (جوڑ) نہ دی جا سکے؛

لغوی اعتبار سے "مضطرب"، "اضطراب" کا اسم فاعل ہے جس کا معنی ہے کسی معاملے میں اختلال پیدا ہو جانا اور نظام میں فساد پیدا ہو جانا۔ اپنی اصل میں یہ لہروں کے اضطراب سے نکلا ہے کیونکہ لہریں کثرت سے حرکت کرتی ہیں اور بے ترتیبی سے ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔

          اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جو متعدد اسناد سے روایت کی گئی ہو۔ تمام اسناد قوت میں ایک دوسرے کے برابر ہوں لیکن ان میں کوئی تضاد پایا جاتا ہو۔


"مضطرب" حدیث کی تعریف کی وضاحت:
مضطرب وہ حدیث ہوا کرتی ہے جس میں ایسا تضاد پایا جاتا ہو جس کی موافقت کرنا ممکن ہی نہ ہو۔ یہ تمام روایات ایسی اسناد سے مروی ہوں جو قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسرے پر ترجیح نہ دی جا سکے۔


اضطراب کی تحقیق کرنے کی شرائط:
مضطرب حدیث کی تعریف اور اس کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی حدیث کو اس وقت تک مضطرب قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ اس میں دو شرائط نہ پائی جاتی ہوں:

·       حدیث کی مختلف روایات میں ایسا اختلاف پایا جاتا ہو جس میں موافقت پیدا کرنا (Reconciliation) ممکن ہی نہ ہو۔

·       روایات سند کی قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا بھی ممکن نہ ہو۔

اگر ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا ممکن ہو یا ان میں کسی وضاحت کے ذریعے موافقت پیدا کی جا سکتی ہو تو اس حدیث میں سے "اضطراب" ختم ہو جائے گا۔ اگر کسی ایک روایت کو ترجیح دی گئی ہے تو ہم اس پر عمل کریں گے اور اگر ان میں موافقت پیدا کر دی گئی ہے تو تمام احادیث پر عمل کریں گے۔


"مضطرب" حدیث کی اقسام:
مضطرب حدیث کو اضطراب کی جگہ کے اعتبار سے دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، مضطرب السند اور مضطرب المتن۔ ان میں سے پہلی قسم زیادہ طور پر پائی جاتی ہے۔

مضطرب السند کی مثال یہ حدیث ہے:

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کیا، "یا رسول اللہ! میں آپ کے بال سفید ہوتے دیکھ رہا ہوں۔" آپ نے فرمایا، "ہود اور ان کے بھائیوں (یعنی دیگر انبیاء کی قوموں پر عذاب) کے واقعات نے میرے بال سفید کر دیے ہیں۔" (رواه الترمذي ـ كتاب التفسير)

          امام دارقطنی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ اس حدیث کو صرف ابو اسحاق کی سند سے روایت کیا گیا ہے۔ ان کی بیان کردہ اسناد میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ کہیں تو کسی راوی نے اسے مرسل (صحابی کا نام بتائے بغیر) روایت کیا ہے اور کہیں موصول (ملی ہوئی سند کے ساتھ)۔ کسی نے اس کا سلسلہ سند سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تک پہنچایا ہے، کسی نے سعد رضی اللہ عنہ تک اور کسی نے عائشہ رضی اللہ عنہا تک۔ ان تمام روایتوں کے راوی ثقہ ہیں جس کی وجہ سے کسی ایک روایت کو ترجیح دینا ممکن نہیں اور ان میں مطابقت پیدا کرنا بھی ممکن نہیں۔

مضطرب المتن حدیث کی مثال یہ حدیث ہے:

ترمذی شریک سے، وہ ابو حمزہ سے، وہ شعبی سے اور وہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے زکوۃ سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، "زکوۃ کے علاوہ بھی مال سے متعلق ذمہ داری ہے۔"

ابن ماجہ نے یہی حدیث ان الفاظ میں روایت کی ہے "زکوۃ کے علاوہ مال سے متعلق کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔" عراقی کہتے ہیں کہ یہ ایسا اضطراب ہے جس کی کوئی توجیہ کرنا ممکن نہیں ہے۔

اضطراب کس سے واقع ہو سکتا ہے؟
اضطراب کسی ایک راوی سے بھی واقع ہو سکتا ہے اگر وہ مختلف الفاظ میں ایک ہی حدیث کو روایت کر رہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اضطراب ایک سے زائد راویوں سے ہو جائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے مختلف الفاظ میں اس حدیث کو روایت کر رہا ہو۔

"مضطرب" حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ:
مضطرب حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اضطراب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ راوی حدیث کو صحیح طور پر محفوظ نہیں کر سکے۔

"مضطرب" حدیث سے متعلق مشہور تصنیف:
حافظ ابن حجر کی کتاب "المقترب فی بیان المضطرب۔"
=============================
آج کل ایک چھوٹا سا طبقہ قرآن و حدیث کے نام پر لوگوں کو ائمہ اور ان کی فقہ (دینی سمجھ و تفسیر) کے خلاف گمراہ کرتے، تہجد اور تراویح نماز کا ایک ہونا ثابت کرنے کی بھونڈی و ناکام کوشش کرتے اس حدیث کو ٨ رکعت تراویح کے لئے پیش کرتے ہیں:
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : " كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ : مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ، يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ، قَالَ : يَا عَائِشَةُ ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي " .
[صحيح البخاري » رقم الحديث: 1883]
ترجمہ:
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں کتنی رکعت نماز پڑھتے تھے؟۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے نہ رمضان میں اور نہ غیر رمضان میں آپ چار رکعت پڑھتے تھے اس کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو پھر چار رکعت نماز پڑھتے تھے تم ان کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو اس کے بعد تین رکعت پڑھتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر پڑھنے سے پہلے آرام فرماتے ہیں۔ فرمایا میری آنکھ سو جاتی ہے لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔

یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں؛ اس لیے کہ
﴿۱لف﴾ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں رمضان ((اور غیر رمضان)) میں گیارہ رکعات اس ترتیب سے پڑھنے کا ذکر ہے چار، چار اور تین۔[بخاري : ١٨٨٣ ؛ مسلم : 1225] اور دوسری صحیح حدیث میں دس اور ایک رکعات پڑھنے کا ذکر ہے،[مسلم : 1228] اور ایک صحیح حدیث میں آٹھ رکعات اور پانچ رکعات ایک سلام کے ساتھ جملہ تیرہ (۱۳) رکعات پڑھنے کا ذکر ہے[مسلم : 1223] اور ایک صحیح حدیث میں نو (۹) رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے۔[مسلم : 1226] حضرت عائشہ کی روایت کردہ یہ تمام حدیثیں ایک دوسرے سے رکعات اور ترتیب میں معارض (باہم ٹکراتی) ہیں۔ ایک روایت پرعمل کرنے سے دوسری حدیثوں کا ترک لازم آئے گا؛ لہٰذا ان حدیثوں کی توجیہ و تاویل کرنی ضروری ہوگی۔ علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی روایات بھی حضرت عائشہ کی اس روایت سے ترتیب اور رکعات میں مختلف ہیں، جیسا کہ حضرت عبدالله ابن عباس کی صحیح روایت میں دو رکعات چھ مرتبہ جملہ بارہ (۱۲) رکعات پھر وتر پڑھنے کا ذکرہے۔ اورایک مرسل حدیث میں سترہ (۱۷) رکعات پڑھنا مذکور ہے۔(مصنف عبدالرزاق: ۴۷۱۰) لہٰذا حضرت عائشہ کی صرف ایک ہی روایت سے تراویح کی گیارہ رکعات پر اصرار کرنا اور باقی حدیثوں کا ترک کرنا صحیح نہ ہوگا۔

(۲) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں "أتنام قبل أن توتر" کے الفاظ ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ سو کراٹھنے کے بعد نماز ادا فرماتے تھے، اور دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رمضان کی راتوں میں سوتے نہیں تھے، جیسا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ: إذا دَخَلَ رمضانَ شَدَّ مِئْزَوَہ ثم لم یَأتِ فِراشَہ حتی یَنْسَلِخَ (یعنی پورا رمضان بستر کے قریب نہیں آتے تھے) [صحيح ابن خزيمة : 2070] نیز حضرت ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث میں پوری رات تراویح پڑھانا ثابت ہے؛ لہٰذا اس حدیث کو تراویح پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔

(۳) حضرت عائشہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے کمرہ میں نماز ادا فرما کر آرام فرمایا، جب کہ تراویح کی احادیث میں اکثر مسجد میں ((جماعت)) سے نماز پڑھنے کا ذکر ملتا ہے؛ لہٰذا گیارہ (۱۱) رکعات کی اس حدیث کو تراویح سے جوڑنا، اور بیس (۲۰) رکعات کی نفی میں اس حدیث کو پیش کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔

(۴) حدیث کے مطابق اس نماز کے بعد وتر بھی اسی کی طرح اکیلے ہی پڑھتے، جبکہ یہ لوگ اسی حدیث کے خلاف خود وتر بھی جماعت سے پڑھتے ہیں، کیوں ؟؟؟

(٥) حضرت عائشہ کی گیارہ (۱۱) رکعات کی روایت کے اخیر میں أتَنَامُ قَبْلَ أن تُوتِرَ (کیا وتر پڑھے بغیر آپ سوگئے تھے؟) کے الفاظ قابلِ غور ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ نماز وتر ہو؛ اس لیے کہ حضرت عائشہ کی دوسری حدیث (صحیح مسلم۱۷۷۳) میں نو (۹) رکعات وتر پڑھ کر دو رکعات جملہ گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے۔

اس حدیث کو امام بخاریؒ((كتاب التهجد)) میں بھی لائیں ہیں اور ((كِتَاب : صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ)) میں بھی لائیں ہیں، اور اس پوسٹ میں یہ بات ثابت کی جا چکی کہ امام بخاریؒ تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھتے، معلوم ہوا کہ آپ ان دونوں کو الگ الگ نماز سمجھتے پڑھتے اور انھیں علیحدہ علیحدہ باب میں ذکر بھی ذکر کرتے ان کا الگ الگ ہونا مانتے.

ویسے تو یہ بخاری بخاری چلاتے ہیں، لیکن اپنا مسلک ثابت کرنے کے لئے بخاری کو چھوڑ کر ((مسلم)) کی طرف چلے، مسلم کی اس حدیث میں سرے سے تراویح کا ذکر ہی نہیں، تہجد کا ذکر ہے جس کا کون منکر ہے؟ لہذا موضوع سے ہی خارج ہے.
اور اس حدیث پر خود ان کا بھی عمل نہیں اس لئے کہ خود ترجمہ یہ کیا ہے کہ "فجر کی اذان تک" یہ نماز جس کو خود تراویح کہہ رہے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پڑھتے تھے، جبکہ آج خود عشاء کی نماز کے فوراً بعد آٹھ (٨) رکعت پڑھ کر نیند کے مزے لیتے ہیں. صحیح حدیث پر تو ان کا بھی عمل نہیں ہم سے گلا کس بات کا؟؟؟


اسی لیے امام قرطبی (المتوفى : 463هـ) (اس حدیث کا حکم) فرماتے ہیں : قال القرطبي : أشكلت روايات عائشة على كثير من العلماء حتى نسب بعضهم حديثها إلى الاضطراب ، وهذا إنما يتم لو كان الراوي عنها واحداً أو أخبرت عن وقت واحد .

[فتح الباری شرح صحیح البخاری ، لامام ابن حجر : ٣/١٧، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، علامہ عینی : 11/294 ، شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك: ، شرح الزرقاني علي المواهب اللدنيه : 1/549]؛

ترجمہ : "مشتبہ ہوئیں حضرت عائشہ کی روایات بہت ہی زیادہ علماء پر حتاکہ منسوب کیا ان میں سے بعض نے اس حدیث کو اضطراب کی طرف (یعنی مضطرب حدیث کہا)"؛


===========================

محدثین میں حدیث کی تصحیح کے دونوں طریقے رائج رہے ہیں:
(۱) راویوں کی ثقاہت ان کے باہمی اتصال اور شذوذ ونکارت سے سلامتی معلوم کرکے بھی کسی حدیث کوصحیح کہہ سکتے ہیں۔
(۲) کبھی ان تفصیلات میں جائے بغیر اکابر علمائے فن کی تصحیح پر اعتماد کرکے بھی کسی حدیث کوصحیح کہا جاسکتا ہے۔
قبولیت روایت میں اصل الاصول اعتماد ٹھہرا توجس طرح سے بھی یہ اعتماد حاصلہوسکے روایت قابلِ قبول ہوجاتی ہے۔
ہرفن میں اکابرِ فن کی تقلید کی جاتی ہے، اس سے انسان اسی وقت نکلتا ہے جب خود براہِ راست راویوں کی جانچ پڑتال کرسکے اور اس کی جملہ طرق پر نظر ہوسکے، اس کے بغیراعتماد سے چارہ نہیں، اس اعتماد کوبھی علم کی ہی ایک شان سمجھنا چاہیے، تقلید سے مراد دوسرے کے علم پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی دلیل مانگے بغیر اس کی بات کوقبول کرنا ہے، جس بات میں خود مضبوط علم حاصل نہ ہو تقلید سے چارہ نہیں، ہاں جب کسی بات کی براہِ راست تحقیق ہوجائے اور اس میں کوئی شک اور دغدغہ نہ رہے توپھرتقلید درست نہیں؛ لیکن جب تک راویوں کا پورا علم خود حاصل نہ ہو محدثین کرام جوائمہ فن ہیں ان کی تصحیح اور ان کی تضعیف سے بھی علماءِ حدیث کسی روایت کوصحیح یاضعیف کہہ سکتے ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن مہدیؒ (۱۹۸ھ) جرح وتعدیل کے جلیل القدر امام ہیں، آپ اس اعتماد کے یہاں تک قائل تھے کہ اسے الہام کا درجہ دیتے تھے، جس طرح الہام کی خارج میں کوئی دلیل نہیں ہوتی، ایک وجدان ہے جواندر ہی اندر بولتا رہتا ہے؛ اسی طرح محدثین کرام کوفن کے کمال سے جوذوق ووجدان ملتا ہے اس پر وہ بعض حدیثوں کوراویوں کی ثقاہت اور سند کے اتصال کے باوجود قبول نہیں کرتے، حضرت عبدالرحمن بن مہدیؒ (۱۹۸ھ) کہتے ہیں:

"ومعرفۃ الحدیث الھام فلوقلت للعالم لعلل الحدیث من این قلت ھذا؟ لم یکن لہ حجۃ"۔             (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم:۱۱۳)

ترجمہ: حدیث کی معرفت ایک الہامی چیز ہے جو دل میں اُترتی ہے؛ اگر میں علل حدیث کے کسی عالم سے کہوں کہ تم یہ بات کہاں سے کہہ رہے ہو تو اس کے پاس اس کا جواب نہ ہوگا۔



تصحیحِ روایت میں محدثین پر اعتماد

حافظ شمس الدین الذہبیؒ لکھتے ہیں:
إذ العمدة في زماننا ليس على الرواة بل على المحدثين والمفيدين والذين عرفت عدالتهم وصدقهم في ضبط أسماء السامعين (میزان الاعتدال:۱/۴)
ترجمہ:
ہمارے پاس اس دور میں (تحقیق حدیث میں) اعتماد راویوں پر نہیں کیا جاسکتا؛ بلکہ محدثین اور اساتذہ پر ہے اور ان لوگوں پر جن کی عدالت اور سچائی راویانِ حدیث کے ناموں کو یاد رکھنے میں جانی پہچانی جاچکی ہے۔


جب تک راویانِ حدیث اپنی سند سے حدیثیں روایت کرتے رہے تحقیق حدیث کا طریق راویوں کی جانچ پڑتال ہی رہا؛ لیکن جب سندوالی کتابیں مدون ہوچکیں اور اس جمع شدہ ذخیرے سے ہی حدیث آگے چلی تواس دور میں علیحدہ علیحدہ راویوں کی جانچ پڑتال کے ساتھ حاذق محدثین کی تحقیق اور اکابراساتذہ فن کا ذوق بھی ساتھ Instinct چلنے لگے تواب راویوں کی بجائے اساتذہ فن کے فیصلوں پراعتماد کے بغیر آگے نہیں چل سکتے؛ یہاں اہلِ فن کی تقلید سے چارہ نہیں، ہرشخص کا ذوق اس درجے میں پختہ نہیں ہوتا کہ محض راویوں کے حالات جان کرپوری سندع اور پوری حدیث پر وہ کوئی حکم لگاسکے، حافظ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:

"ان الجرح انما جرز فی الصدرالاول حیث کان الحدیث یوخذ من صدور الاحبار لامن بطون الاسفار فاحتیج الیہ ضرورۃ للذب من الاثارومعرفۃ القبول والمردود من الحدیث والاخبار واماالآن فالعمدۃ علی الکتب المدونۃ"۔

(الکادی فی تاریخ السخاوی کما فی الرفع والتکمیل:۵۰)

ترجمہ:

راویوں پرجرح کرنا پہلے دور میں اس لیئے جائز رہا کہ حدیث علماء کے سینوں سے لی جاتی تھی نہ کہ کتابوں کے اوراق سے؛ سو اس کی ضرورت رہی تاکہ آثار کی حفاظت کی جاسکے اور احادیث واخبار میں مقبول ومردود کو پہچانا جاسکے؛ لیکن اب اعتماد کتب مدونہ پر ہونا چاہیے۔

امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) کی کتاب "کتاب العلل" ومعرفۃ الحدیث، امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) کی "کتاب العلل" اور ابن ابی حاتم کی "کتاب الجرح والتعدیل" اس سلسلہ کی بہت مفید کتابیں ہیں اور امام احمدؒ کی یہ کتاب انقرہ سے اور ابن ابی حاتم کی یہ کتاب حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ایک موضوع پر دوحدیثیں مروی ہوں راوی ہردوکے ثقہ ہوں اور اتصالِ رواۃ بھی اپنی جگہ قائم ہواور سند صحیح ہے توایسے موقعوں پر محدثین علل روایت میں چلے جاتے ہیں، علت کا پالینا ایک بڑی علمی مرتبہ ہے، عبدالرحمن بن مہدی اس کوالہامِ الہٰی سے تعبیر کرتے تھے؛ پھربھی کوئی حل نہ ملے توترجیح وتطبیق کی راہ لینے سے چارہ نہیں۔
=============================



من گھڑت اور غیرمعتبر روایات:

بنیادی عوامل اور ان کے سدِّباب کی راہیں



اسلام میں اَحادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مصدر ثانی کی اساسی حیثیت حاصل ہے،جس میں نقب زنی سے حفاظت کا انتظام عہد رسالت کی ابتداء ہی سے کر دیا گیا تھا،اور یہ صیانت و حفاظت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا نتیجہ تھی:
”مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ“(۱)
ترجمہ:”جس نے مجھ پر جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے“۔
جاں نثار صحابہ آپ صلّی الله علیہ وسلّم کے اس ارشاد سے ہر دَم خوفزدہ رہتے تھے اور آپ صلّی الله علیہ وسلّم کا یہ دستور، ہمہ وقت اُن کی نگاہوں کے سامنے رہتا تھا،صحابہ کی اسی کیفیت کوعلامہ جلال الدین سیوطی نے اِن لفظوں میں بیان کیا ہے :
”سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان، محافل صحابہ میں اتنی شہرت اختیار کر گیا تھا کہ آج بھی کتبِ حدیث میں سو سے زائد ایسے صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام محفوظ ہیں،جن سے یہ روایت منقول ہے“۔(۲)
اگراِن تمام طُرق اور روایات کو بنظر غائردیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہمہ گیری میں اپنی نظیر نہیں رکھتا،کیونکہ جہاں اِبتدائے نبوت کی خفیہ مجالس میں اِس حدیث کی سرگوشیاں تھی،وہاں اِکمال نبوت یعنی خطبہ حجة الوداع کے عظیم اجتماع میں بھی اسی اعلان کی گونج تھی،جہاں عشرہ مبشّرہ اس روایت کو نقل کر رہے ہیں، وہاں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عام وخاص بھی اس کو دُہرا رہے تھے،صحابہ رضی اللہ عنہم میں جس طرح یہ ارشاد زبان زَد خاص و عام تھا، صحابیات رضی اللہ عنہن کی مجالس بھی اس فرمان سے مزیّن تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی ارشاد کا اثر تھا کہ جب ذخیرہٴ اَحادیث میں من گھڑت اور ساقط الاعتبار روایات کے ذریعے رَخنہ اندازی کی مذموم کوششیں شروع ہو گئیں، تو محدثینِ کرام نے احادیث کے صحت و سُقَم کے مابین ”اِسناد“ کی ایسی خلیج قائم کر دی،جس کی مثال اُممِ سابقہ میں ملنا مُحال ہے،محدثینِ کرام نے احادیث کو خس وخاشاک سے صاف کرنے کے لیے یہی ”میزانِ اِسناد“ قائم کی، جس کے نتیجے میں اصولِ حدیث کے مبارک علوم وجود میں آتے رہے، ضعیف اور کذّاب راویوں پر مستقل تصانیف کی گئیں،انہی متقدمین علماء نے کتب العِلَل میں ساقط الاعتبار(غیر معتبر) احادیث کو واضح کیا، علماء متأخرین نے بھی باقاعدہ مُشتَہَرات (زبان زَد عام روایات پر مشتمل کتابیں)، ساقط الاعتبار اور من گھڑت روایات پر کتابیں لکھیں؛چنانچہ ہر زمانے میں احادیث کا ذخیرہ محفوظ شاہراہ پر گامزن رہا، غرضے کہ روئے زمین پر جہاں کہیں اسلام کا سورج طلوع ہوا ہے،وہ حدیث کے محافظین خودساتھ لایا ہے۔
ہندوپاک میں ساقط الاعتبار اور من گھڑت روایات اور اُن کا سدّباب
اگر ہم اپنے خطّے برّصغیرہندوپاک کا جائزہ لیں،تو موضوعات کی روک تھام میں سرفہرست علامہ ابو الفضل الحسن بن محمد صاغانی لاہوری کا نام نظر آتا ہے، آپ ۵۷۷ھ لاہور (پاکستان) میں پیدا ہوئے،اور حدیث و لغت کی دیگر خدمات کے ساتھ، خود ساخطہ روایات پر دو گراں قدر کتابیں لکھی:
۱- الدُرَرُ المُلْتَقَط في تَبْیَینِ الغَلَط
۲- موضوعات الصَّغَانِي
من گھڑت اور غیر معتبر روایات کے بنیادی عوامل
ہندوپاک میں َمن گھڑت اور باطل روایات کا مطالعہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے،جن میں یہ نکتہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ برّصغیر ہندوپاک میں وہ کونسے قدیم بنیادی طبقات ہیں،جو یہاں خود ساختہ روایات کی ترویج میں راہ ہموار کرتے رہے ہیں؟اس سوال کے جواب میں سب سے قدیم تحریر علامہ صاغانی  ہی کی ملتی ہے، جس سے ہمیں بڑی حد تک اس مسئلے کے جواب میں رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ علامہ صاغانی ”الدُّررُ المُلْتقَط“(۳) میں اپنی تصنیف کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وقد کَثُرَتْ في زَمَانِنا الأحادیث الموضوعةُ، یروِیھا القصاصُ علی رُوٴوس المَنَابِر والمجالسِ، ویَذْکُرُ الفُقَرَاءُ والفُقَھَاءُ في الخَوَانِقِ والمَدَارِسِ، وتَدَاوَلَتْ في المَحَافِل، واشْتُھِرَتْ في القَبَائِل، لِقِلَّة مَعْرِفَةِ النَّاس بعِلْمِ السُنَنِ، وانْحِرَافِھم عن السُّنَنِ“
اس عبارت میں امام صاغانی نے موضوعات اور غیر معتبر روایات کی اِشاعت میں مُلوَّث چند عوامل کا ذکر کیا ہے،ملاحظہ ہو:
$  قصہ گَو برسرِ منبر اورعام مجالس میں من گھڑت روایتیں بیان کرتے تھے،ایسے ہی جاہل صوفیاء اور جاہل فقہاء کی مجالس بھی ان باطل مرویّات سے پُر تھیں۔
$  اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ یہ خود ساختہ عبارتیں ملّت اسلامیہ کے ہر طبقے اور قبیلے میں رواج پاتی رہیں، اور یہی کلام، مجالس کی زینت بنتا رہا،بالآخر موضوعات کی یہ گرم بازاری پورے معاشرے میں سرایت کر گئی۔
$  اس شرعی اِنحطاط کا باعث صرف معرفتِ حدیث سے دوری تھی۔
وضّاعین کی اقسام اور ان کے مذموم مقاصد
علامہ صاغانی  کا گزشتہ اِقتباس ہماری قدیم خستہ حالی کی جیتی جاگتی تصویر ہے، جس میں مذکورطبقات ہمارے سابقہ سوال کا اجمالی جواب ہیں،مزید وضاحت کے لیے ہم علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ کے اس مقدمے (۴)کو بہت ہی معاون پاتے ہیں،جس میں انھوں نے حدیث گھڑنے والوں کی اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے، انھیں کئی اقسام پر تقسیم کیا،اِن اقسام سے ہم بخوبی یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ برصغیر ہندوپاک میں وہ کونسے حلقے،اَفراد اور گروہ ہیں،جن کے ہاں موضوع روایات کا ایک بڑا ذخیرہ جنم لیتا رہا ہے،بالفاظ دیگر یہ روایات انھیں کے راستے سے مشہور ہوئیں۔
۱-زَنادِقہ
زَنادِقَہ،ان کا مقصد اُمت میں رطب ویابس پھیلا کر شریعت کو مسخ کرنا ہے،علامہ عبدا لحی لکھنوی نے اس عنوان کے تحت ہندوپاک کے ”فرقہٴ نیچریہ“ اور اُن کے گمراہ کُن عقائد کا ذکر کیا ہے، آپ نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یہ فرقہ نصوصِ شرعیہ میں تحریف(تبدیلی) لفظی ومعنوی کا مرتکب رہا ہے۔
۲-موٴیدینِ مذاہب
دوسری قسم اُن افراد کی ہے،جنہوں نے اپنے مذہب اور موقف کی تائید میں روایتیں گھڑیں،اِس عنوان کے تحت علامہ عبد الحی لکھنوینے حدیث میں خوارج کے طریقہٴ واردات کو بیان کیا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ بعض خوارج نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ہم نے اپنے موقف اور رائے کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی احادیث گھڑی ہیں ۔
یہاں برّصغیر ہندوپاک میں موجود اہل سوء اور بدعتیوں کا ذکر بھی برمحل ہے،جنہوں نے اس خطّے میں بہت سی مُحدَثَات(دین میں نئی باتیں) اور بدعات کو سند جواز فراہم کیا، اور اپنی اِختراعات کے ثبوت میں، من گھڑت اورساقط الاعتبار روایتوں کا سہارا لیا۔
۳-اصلاح پسند اَفراد
تیسرا طبقہ اُن افراد کا ہے،جنہوں نے لوگوں کی اصلاح کے خیال سے ترغیب وترہیب کی احادیث گھڑیں۔اس میں علامہ عبدالحی لکھنوینے ایک دلچسپ مثال بیان کی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ ہندوپاک کے بعض اصلاح پسند لوگوں نے تمباکو نوشی سے زَجرووَعِید پر مشتمل احادیث وضع کی ہیں،پھر موصوف نے اس مضمون پر مشتمل وضّاعین کی آٹھ ایسی روایتیں لکھی ہیں، جو سب کی سب جعلی ہیں۔
۴-طبقہٴ جہلاء
چوتھی قسم اُن لوگوں کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہر اَمرِخیر،اقوال زَرِیں وغیرہ کا انتساب، جائز سمجھتے ہیں؛حالانکہ معتبر سند کے بغیر اس طرح انتساب کرنا ہر گز جائز نہیں۔
 ۵-اہل غلو
ایک قسم اُن لوگوں کی ہے،جو عقیدت ومحبت میں اِفراط وغُلُوّ کا شکار ہوجاتے ہیں،اور اہل بیت، خلفائے راشدین،ائمہ کرام اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے باطل،بے اصل مضامین مشہور کردیتے ہیں۔
۶-واعظین
چھٹا طبقہ ان قصہ گَو واعظین کا ہے جو جعلی غرائبِ زمانہ سُنا کر عوام سے دادِ تحسین وُصول کرتے ہیں۔
خلاصہ کلام
خلاصہ کلام یہ کہ یہی طبقات اور اَفراد، خطہٴ ہند وپاک میں حدیث کی جعل سازی کا بیڑا اٹھائے رہے ہیں؛بلکہ اس تفصیل کے بعد ہم بصیرت سے یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے گرد و پیش ایسی بہت سی ہم معنی باطل احادیث پھیلی ہوئی ہیں،جو بلا تردّدانھیں خاص طبقات کی مذموم کوششوں کانتیحہ ہے۔
ہندوپاک میں تکاسلِ حدیث اور اس کے اسباب
اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں زبان زَدْ عام رِوایات کی تنقیح بجا طور پر ہوتی رہی ہے،لیکن پھر بھی یہ سوال، جواب کا مستحق ہے کہ افرادِ اُمت عام طورپراحادیث میں صرف سطحی ذہن رکھنے والے ہیں،اور اکثر احادیث کی چھان بین کو خاطر میں نہیں لایا جاتا، آخر، حدیث کے عنوان سے مزاجوں میں حسّاسیت اتنی مَدھم کیوں رہی ہے؟
تلاشِ بسیار کے بعد علامہ عبدالغزیز فرہاروی (۱۲۳۹ ھ) کی عبارت میں اس مُعِمّہ کا حل مل گیا۔علامہ عبد العزیز فرہاروی نے ”کوثر النَّبِیّ وزُلَالُ حَوْضِہ الرَّوِي“(۵)میں ایک مقام پر بعض ایسی کتبِ تفسیر،کتب ِزہد،کتب ِ اَورَاد وغیرہ کا تذکرہ کیا،جن میں غیر مُعتبر احادیث بھی ہیں،پھر اِن کتابوں میں موجود ساقط الاعتبار احادیث کے اسباب ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”والسَّبَبُ أنّہ قَلَّ اشْتِغَالُھم بِصنَاعَةِ الحَدِیث، وأنّھم اعْتَمَدُ وا علی المشہورفي الألْسِنَة مِنْ تَحْسِیْنِ الظَّنّ بالمُسْلِم وأنَّھم انْخَدَعُوا بالکُتُب الغَیرِ المُنَقَّحَةِ الحَاوِیَةِ لِلرَّطْبِ والیَابِسِ،وأنَّہ لم یَبْلُغْھُم وَعِیدُ التَّھَاوُنِ في روایةِ الحَدِیثِ، وأیضاً منھم مَنْ یَعْتَمِدُ علی کُلِّ ما أسْنِدَ مِنْ غَیرِ قَدْحٍ وتَعْدِیلٍ في الرُّوَاة“
”(اِن کتب میں رطب ویابِس احادیث کی )وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کے مصنّفین فنِ حدیث سے کم اِشتغال رکھتے ہیں،اور مسلمان سے حسن ظن رکھتے ہوئے،زبان زَد عام روایتوں پر بھروسہ کر لیتے ہیں(حا لانکہ ایسا اعتماد صرف ماہرِ فن پر ہی کیا جا سکتا ہے،نہ کہ حدیث میں کم اشتغال رکھنے والے پر)اور یہ مصنّفین رطب ویابس پر مشتمل، غیر منقّح کتابوں سے دھوکے میں پڑ جاتے ہیں،اور(ان کے بارے میں یہی حسنِ ظن ہے کہ) ان مصنّفین کو حدیث نقل کرنے میں تہاون(حقیر سمجھنا) کی وعید نہیں پہنچی ہوگی،اور بعض مصنّفین سند کے راویوں کی جرح وقدح دیکھے بغیر، ہر سند والی روایت پر اعتمادکر لیتے ہیں“۔
اسبابِ تکاسل کا جائزہ
دراصل علامہ عبدالعزیز فرہاروی نے جن کتبِ حدیث و تفسیر وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے،یہ کتب برصغیر میں مُتَدَاول اور مُرَوّج ہیں اور ان کتابوں کے موٴلفین کی جلالت اور علوّ شان بلا شبہ مُسَلَّم ہے؛ لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اِن موٴلفین کافنِ حدیث میں اشتغال ناقص رہا ہے؛چنانچہ صاحبِ کتاب کی یہ کمزوری عوام میں بھی سرایت کرتی رہی اور احادیثِ موضوعہ معاشرے میں پھیلتی رہیں، بہرحال ذَیل میں ہم مولانا عبد العزیز فرہاروی کے بیان کردہ نِکات اور ان سے ماخوذ نتائج کا جائزہ لیتے ہیں۔
فنّ حدیث میں اشتغال کی کمی
ان مصنّفین کی تالیفات میں رَطب و یابس روایات کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان موٴلفین نے علومِ حدیث سے ایسا اشتغال نہیں رکھا،جس سے ان میں اُصولِ حدیث کے مطابق،حدیث کے ردّو قبول کا مَلَکَہ اور اسے پرکھنے کی قابلیت پیدا ہو جاتی،حتی کہ ہمارے زمانے میں بھی مُعتَد بہ تالیفات اس بات کی مقتضی ہیں کہ ان کے موٴلفین احادیث کے معاملے میں محض تحویل(حوالہ دینا) پر اکتفا نہ کریں؛ بلکہ حسبِ ضرورت اس بات کا پورا اطمینان حاصل کریں کہ یہ حدیث، معتبر سند سے ثابت ہے۔
محض حسنِ ظن کی بناء پر، روایات پر اعتماد
ان کتابوں میں باطل اور بے اصل روایتوں کے شُیوع کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مصنّفین ہر مسلم کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے تھے،اور زبان زَد عام روایتوں کو حسنِ ظن کی بناء پر بلا تحقیق قبول کر لیتے تھے۔
واضح رہے کہ اس مقام پر مولانا عبد الحی لکھنوی نے لکھا ہے حدیث میں اعتماد کا مدار صرف ماہرینِ فن ہیں؛چنانچہ اگر کوئی شخص صناعتِ حدیث میں مہارت نہیں رکھتا ہو، توایسے شخص پر بلا تحقیق حسنِ ظن سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا(۶)۔
تہاونِ حدیث پر وعید سے نا آشنائی
ان کتب میں قابلِ رَدّ مواد کی تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات تہاونِ حدیث( یعنی رِوایتِ حدیث میں پوری احتیاط سے کام نہ لینا ) کی وعیدوں سے واقف نہیں ہوں گے، بلاشبہ ان حضرات کی عُلوّ شان اسی حسنِ ظن کی مقتضی ہے؛البتہ اس تہاون سے اجتناب کی اہمیت اپنی جگہ ہے، خاص طور پر عوامی حلقوں میں اس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ ملّت اسلامیہ کا ہر فرد یہ محسوس کر رہاہو کہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات ہرگز منسوب نہ کروں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو؛تاکہ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً․․․․․․ کا مصداق بننے سے بچ جاوٴں،ورنہ یہی تہاون نہ صرف غیر مستند روایات کو پھیلانے میں کام آتا ہے؛ بلکہ اِن روایتوں کو تحفّظ بھی فراہم کرتا ہے۔
تحقیق کا فقدان
ان تالیفات میں جو احادیث مُسنَد (سند والی روایات)تھیں،ان میں اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ فن جرح و تعدیل کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے؛تاکہ قابلِ احتراز روایتیں ظاہر ہوجاتیں۔
ایک اہم فائدہ
اگر ہم بھی اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں،تو ہم دیکھتے ہیں کہ علم الروایہ(علمِ حدیث) میں ہمارا منتہیٰ صرف سندِ حدیث پانا ہے، اس کے بعد ہم کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں کرتے؛حالانکہ صاحبِ کتاب سند بیان کر کے ایک حد تک اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا ہے،اب اگلا مرحلہ ہم سے متعلق ہے کہ ہم حسبِ ضرورت،متقدمین اصحاب ِتخریج اور ائمہٴ علل کی جانب رجوع کریں،اور روایات کے قابل تحمّل(روایت لینا) ہونے کا پورا اطمینان حاصل کریں۔
حاصل کلام
سابقہ اسبابِ تکاسل خطہٴ ہندوپاک میں موضوعات کی اشاعت اور ان کی ترویج میں انتہائی موٴثر رہے ہیں؛بلکہ اگر ان اسباب کے سدّ باب کے لیے اکابر کے طرز پر عملی اِقدامات جاری رکھے جائیں تو کافی حد تک اس ساقط الاعتبار ذخیرے کی روک تھام ہو سکتی ہے۔
من گھڑت اور ساقط الاعتبار روایات کے سدِّ باب میں علماء ہندوپاک کی خدمات :
سابقہ اقتباسات سے ہمیں من گھڑت روایات کی اِشاعت میں ملوث بہت سے گروہوں اور طبقات کا بخوبی علم ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ ان کی اغراض، اَفکار، اورطریقہٴ کار بھی وضاحت سے سامنے آگئے،لیکن واضح رہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہوا کہ عمائدینِ اُمت نے اس فتنے کے سدّباب کے لیے اپنی خدمات پیش نہ کی ہو؛بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ برّ صغیرپر ایسے شب وروز بھی آئے ہیں،جن میں صیانتِ حدیث کا تاج، علماء برّصغیرکے سر رہا ہے؛ چنانچہ علامہ زاہدالکوثری فرماتے ہیں:
”دسویں صدی ہجری کے نصف آخر میں جب کہ علمِ حدیث کی سر گر میاں ماند پڑ گئی تھیں،برّ صغیر میں یہ سر گر میاں عروج پر تھیں“(۷)۔
گویا کہ یوں کہنا چاہیے کہ اس وقت عالمِ اسلام کی سر براہی کی سعادت برِ صغیر کو حاصل رہی ہے،بہر حال یہاں ہم اُن چند مشہور مشایخ کا مختصر تذکرہ کریں گے،جنہوں نے زبان زَد عوام و خواص،روایات کی حقیقت واضح کی،اور ذخیرہٴ احادیث میں تنقیح کی خدمات انجام دیں۔
۱-امام رضی الدین ابوالفضائل الحسن بن محمد (المتوفی ۵۷۷ھ)
آپ کی تالیف ”الدُّ رَرُ المُلْتَقَط“ اور ”رسالة موضوعات الصَّغَانِی“ کا شمار فن ہذا کے اوّلین مصادر میں ہوتا ہے۔مشتہرات پر مشتمل شاید ہی کوئی کتاب موصوف اقوال سے خالی ہو۔
۲-ملک المحدّثین علامہ محمد طاہر صدیقی پٹنی  (المتوفی ۹۸۶ھ)
آپ نے اس فن میں ”تذکِرةُ الموضوعات“ اور ”قانون الموضوعات“ لکھیں،بلاشبہ مشتہرات کا یہ مجموعہ ایک انسا ئیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔
۳-امام علامہ سید محمد بن محمد حسینی زَبِیدی الشہیر بمرتضی (المتوفی ۱۲۰۵ھ)
آپ نے ”إتَّحاف السَّادَة المُتَّقِین“ میں”إحیاء علوم الدین للغزالي“ کی احادیث پر، تخریج و تشریح میں محدثانہ شان کا مظاہرہ کیا ہے،اہل علم کا طبقہ اس سے مستغنی نہیں رہ سکتا۔
۴-امام عبدالعزیز بن احمد فرہاروی (المتوفی ۱۲۳۹ ھ)
آپ نے تقریباً ۲ ہزار موضوع اور زبان زَد عام روایتوں پر مشتمل مجموعہ تیار کیا ہے،فی الحال یہ مخطوطہ ہے۔آپ کے بارے میں مولانا موسیٰ خان روحانی بازی  فرماتے ہیں کہ اگر میں اس بات پر قسم کھاوٴں کہ اللہ تعالیٰ نے سرزمینِ پنجاب کو جب سے وجود بخشا ہے،ان جیسی کسی دوسرے شخصیت نے یہاں جنم نہیں لیا،تو میں حانث نہیں ہوں گا(۸)۔
۵-علامہ ابو الحسنات محمد عبدالحی لکھنوی (المتوفی ۱۳۰۴ ھ)
آپ کی شخصیت اور حدیثی خدمات، محتاج تعریف نہیں ہے،اس فن میں آپ نے ”الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة“ کے نام سے یادگار چھوڑی ہے۔
۶-حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (المتوفی۱۲۸۰ھ/۱۳۶۲ ھ)
آپ امراضِ امت کی پہچان اور اس کے علاج میں وَہْبی بصیرت رکھتے تھے،آپ نے مُتَدَاوَل من گھڑت،بے اصل روایتوں کا سدّباب عملاً بھی کیا اور عوام کو بھی اس سے اجتناب کی طرف توجہ دلائی؛چنانچہ بہشتی زیور،حصہ دہم میں یہ عنوان قائم کیا ہے : ”بعضی کتابوں کے نام جن کے دیکھنے سے نقصان ہوتا ہے“اس عنوان کے تحت ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
”دعا گنج العرش،عہد نامہ یہ دونوں کتابیں اور بہت سی کتابیں ایسی ہیں کہ ان کی دعائیں تو اچھی ہیں؛مگران میں جو سندیں لکھی ہیں،ا ور ان میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے لمبے چوڑے ثواب لکھے ہیں،وہ بالکل گھڑی ہوئی باتیں ہیں“(۹)۔
اسی طرح حضرت تھانوی  اس بات سے بھی بخوبی واقف تھے کہ سلوک و تصوّف کی مجالس میں ایک معتد بہ تعداد بے اصل روایتوں کی ہیں؛چنانچہ آپ نے ”التَشَرَّفُ بِمَعْرِفَة أحَادِیثِ التَّصَوُّف“میں ایسی بہت سی روایات پر روایتی اور درایتی پہلوٴوں سے بحث کی ہے،جو درجہٴ اعتبار سے ساقط ہیں۔
ایک اہم التماس
یہ مختصر اور محدود مقالہ اس کی مزید گنجائش رکھنے سے قاصر ہے کہ ہم اکابرینِ ہندوپاک کی متعلقہ موضوع میں تاریخی خدمات سے تفصیلی بحث کریں؛ البتہ اگر کوئی فرد علامہ عبد الحی الحَسَنی کی تصنیف”نزہة الخواطر وبہجة المسامع والنّواظر“کوسامنے رکھ کر ان محدثینِ کرام کی خدمات کو جمع کرے، جنہوں نے باطل اور من گھڑت روایتوں کا تعاقب کیا ہے،تو یہ کام نہ صرف ہمارے اسلاف کے منہج کی جانب رہنمائی کرے گا بلکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے اُن مخطوطات کی جانب بھی رہنمائی کرے گا جو آج دِیمک اور گرد وغبار سے تحلیل ہوتے جارہے ہیں،بلاشبہ نت نئی تحقیقات، شروحات،تسہیلات وغیرہ نا گزیر تالیفات ہیں؛لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ آج جن مخطوطات کو ہم محفوظ کر سکتے ہیں، کل ان کا نام ”حَسَراتِ زمانہ“ کی فہرست میں شامل کر دیا جائے ۔
$ $ $
حوالہ جات اور مآخذ
(۱)الجامع الصحیح للبخاري: باب إثم من کذب علی النبيﷺ۱/۳۳، رقم الحدیث:۱۰۷،ت:محمد زھیربن الناصر، دار طوق النجاة․ بیروت، الطبعة الأولی۱۴۲۲ھ․
(۲)اللآلي المصنوعة:ص:۳۵، ت: محمد عبد المنعم رابح، دارالکتب العلمیة․ بیروت،الطبعة الثانیة ۱۴۲۸ھ․
(۳)الدُرَرُ الملتقظ: بحوالہ مجلّہ ”فکر ونظر“، ص:۷۶، خصوصی اشاعت، ربیع الأول شعبان ۱۴۲۶ھ، ادارہ تحقیقات اسلامی بین الأقوامی، اِسلامي یو نیورسٹی، اسلام آباد، پاکستان․
(۴)الآثار المرفوعة: ص: ۱۲، دارالکتب العلمیة بیروت․
(۵)کوثر النَّبِیّ وزُلَالُ حَوْضِہ الرَّوِي (فن معرفة الموضوعات):ص:۱۰۸، المخطوط،نَسَخَہ العلامة عبد الله الوَلْہَارِي(۱۲۸۳ھ)․
(۶)الآثار المرفوعة: ص: ۱۹، دارالکتب العلمیة بیروت․
( ۷)مقالات الکوثري:ص:۶۷،دار السلام مصر، الطبعة الثانیة ۱۴۲۸ھ․
(۸)بغیة الکامل السامي في شرح المحصول والحاصل للجامي:ص:۲۲۷،مکتبة مدینة بلاہور باکستان، الطبعةالخامسة ۱۴۱۴ھ․
 (۹)بہشتی زیور:ص:۷۰۴،حصہ دہم،دار الإشاعت،ایم اے جناح روڈ،ارد و بازار کراچی․


============================

امام السنن حضرت امام ابوداؤد السجستانی (۲۷۵ ھ) لکھتے ہیں:
"قَالَ أَبُو دَاوُد إِذَا تَنَازَعَ الْخَبَرَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُظِرَ إِلَى مَاعَمِلَ بِهِ أَصْحَابُهُ مِنْ بَعْدِهِ"۔
(سنن ابی داؤد:۱/۳۷۶، مع البذل،حدیث نمبر:۶۱۸، موقع الإسلام)؛
ترجمہ:
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی موضوع پر دو مختلف روایتیں ملیں تو انہیں حل کرنے کے لیے یہ دیکھا جائے گا کہ آپ کے صحابہ نے آپ کے بعد کیا عمل کیا ہے۔

اس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے موضوع میں صحابہ بھی داخل ہیں اور ان کے اقوال واعمال کے بغیر مشکلات حدیث کو حل نہیں کیا جاسکتا، یہ انہی کے اعمال ہیں جن کی روشنی میں تعلیم نبوت کی تفہیم ہوتی ہے۔

حافظ ابوبکرجصاص رازی (۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:
"إذ كان متى روي عن النبي عليه السلام خبران متضادان وظهر عمل السلف بأحدهما كان الذي ظهر عمل السلف به أولى بالإثبات"۔  
(احکام القرآن:۱/۱۷، طبع:۱۳۴۱ھ)
ترجمہ:
جب حضورﷺ   سے دو حدیثیں اس طرح کی مروی ہوں جو آپس میں ٹکراتی ہوں اور سلف کا عمل ان میں سے کسی ایک پر ہو تو سنتِ قائمہ وہ ہوگی جس پر سلف کا عمل ہو۔

حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ) حضرت امام محمدؒ (۱۸۹ھ) سے روایت کرتے ہیں:
"روى محمد بن الحسن عن مالك بن أنس أنه قال إذا جاء عن النبيﷺ  حديثان مختلفان وبلغنا أن أبا بكر وعمر عملا بأحد الحديثين وتركا الآخر كان في ذلك دلالة أن الحق فيما عملا به"۔
               (التمہید:۳/۳۵۳)

ترجمہ:
آنحضرت ﷺ سے جب دو مختلف حدیثیں مروی ہوں اور ہمیں یہ بات پہنچے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے ایک پر عمل کیا ہے اور دوسری کو چھوڑدیا ہے تو اس سے پتہ چلے گا کہ حق وہ ہے جس پر ان کا عمل ہوا۔

امام طحاویؒ (۳۲۱ھ) لکھتے ہیں:
اختلافِ آثار میں عمل امضار کا اعتبار کیا جائے گا، جس بات پر پچھلوں کا عمل پایا جائے اسے پہلی بات کا ناسخ سمجھا جائے گا، آپ لکھتے ہیں:
"فلما تضادت الآثار في ذلك، وجب أن ننظر إلى ماعليه عمل المسلمين، الذي قد جرت عليه عاداتهم، فيعمل على ذلك، ويكون ناسخا لماخالفه"۔ 
(طحاوی:۱/۳۴۱)
=============================
مثال:
(١) ترمذی شریک سے، وہ ابو حمزہ سے، وہ شعبی سے اور وہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے زکوۃ سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، "زکوۃ کے علاوہ بھی مال سے متعلق ذمہ داری ہے۔"
[سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 1581]
ابن ماجہ نے یہی حدیث ان الفاظ میں روایت کی ہے "زکوۃ کے علاوہ مال سے متعلق کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔"
[مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 3016]

(٢) حضرت ابوایوب انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم قضائے حاجت یا پیشاب کے لئے جاؤ تو قبلہ رخ نہ کرو اور نہ پشت بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کیا کرو.
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 8]
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ منع کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ کی طرف رخ کر کے پیشاب کرنے سے پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفات سے ایک سال قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبلہ کی طرف رخ کرتے ہوئے دیکھا.
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 9 ; طہارت جو مروی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے : قبلہ کی طرف رخ کرنے میں رخصت]

(٣) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ اگر تم میں سے کوئی کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو اس کی تصدیق نہ کرو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے.
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 12]
حضرت حذیفہ نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے ڈھیر پر آئے اور اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا.
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 13]


(٤) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وضو واجب ہو جاتا ہے آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے چاہے وہ پنیر کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو.
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 77 - آگ سے پکی چیز کھانے سے وضو]
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باہر نکلے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا پھر ایک انصاری عورت کے گھر داخل ہوئے اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک بکری ذبح کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا کھایا پھر وہ کھجوروں کا ایک تھال لے آئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی کھجوریں کھائیں پھر وضو کیا ظہر کی نماز ادا کی پھر واپس آئے تو وہ عورت اسی بکری کا کچھ بچا ہوا گوشت لائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کی نماز ادا کی وضو نہیں کیا.
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 78 - آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا]

(٥) حضرت بسرہ بنت صفوان سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو اپنے ذکر کو چھوئے وہ نماز نہ پڑھے جب تک وضو نہ کرے.
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 80 - ذکر چھونے سے وضو ہے]
حضرت قیس بن طلق بن علی حنفی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ ایک ٹکڑا ہے اس کے بدن کا اور راوی کو شک ہے کہ (مُضْغَةٌ) فرمایا یا (بَضْعَةٌ) جبکہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہےامام ابوعیسٰی کہتے ہیں کئی صحابہ اور بعض تابعین سے روایت ہے کہ وہ عضو خاص کو چھونے سے وضو کو واجب قرار نہیں دیتے تھے یہ قول اہل کوفہ اور ابن مبارک کا ہے اور یہ حدیث اس باب میں احادیث میں سب سے زیادہ اچھی ہے اسے ایوب بن عتبہ اور محمد بن جابر بن قیس بن طلق سے اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں بعض محدثین محمد بن جابر اور ایوب بن عتبہ پر اعتراض کرتے اور ملازم بن عمرو کی عبداللہ بن بدر سے منقول حدیث صحیح اور احسن ہے۔
[جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 81 - ذکر چھونے سے وضو نہ کرنا]

(1) اختلاف الحديث ، للشافعي ( ت 203هـ )
(2) تأويل مختلف الحديث ، لابن قتيبة الدينوري ( ت 276هـ )
(3) شرح مشكل الآثار ، للطحاوي ( ت 221هـ ) ( 1 – 16 )
(4) كشف مشكل الصحيحين ، لابن الجوزي ( ت 597هـ ) ( 1 – 4 )
(5) منهاج العوارف إلى روح المعارف في شرح مشكل الحديث ، للقاضي عياض ( ت 544 هـ )
(6) الأحكام الشرعية الكبرى ، لعبد الحق الإشبيلي ( ت 581هـ ) ( 1 – 5 )
(7) الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار ، للحازمي ( ت 584هـ )
(8) منهج الشافعي في ظاهرة مختلف الحديث ، لعبد اللطيف السيد علي
(9) وجوه الترجيح الحديثية في شرح مشكل الآثار للطحاوي ، لصالح حمد محمد الحواس / رسالة ماجستير
(10) مختلف الحديث وموقف النقاد والمحدثين منه ، د . أسامة خياط
(11) منهج التوفيق والترجيح بين مختلف الحديث وأثره في الفقه الإسلامي ، د . عبد المجيد محمد إسماعيل / رسالة دكتوراه .

(جاری ہے)



اصول الحدیث
شمار
نام کتاب
مصنف
سنہ اشاعت
جلد
ضخامت
۱
کتاب الاعتبار (الطبعۃ الثالثۃ)
ابوبکر الحازمی، المتوفی:۵۸۴ھ
۱۴۰۱ھ م ۱۹۸۱ء
۱
۲۵۸
۲
الأمم لایقاظ الھمم
برہان الدین الکورانی، المتوفی:۱۱۰۲ھ
۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء
۱
۱۳۴
۳
بغیۃ الطالبین
احمد النخلی، المتوفی:۱۱۱۴ھ
۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء
۱
۸۴
۴
الامدا
عبداللہ البصری، المتوفی ۱۱۳۴ھ
۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء
۱
۹۲
۵
قطف ا لثمر
صالح العمری، المتوفی ۱۲۱۸ھ
۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء
۱
۷۶
۶
اتحاف الاکابر
ابوعلی الشوکانی، المتوفی ۱۲۵۵ھ
۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء
۱
۱۱۹
۷
الکفایۃ فی علوم الروایۃ
الخطیب البغدادی، المتوفی: ۶۴۳ھ
۱۳۹۰ھ م ۱۹۷۰ء
۱
۶۱۲
۸
مشکل الحدیث (الطبعۃ الثانیہ)
ابن فورک، المتوفی ۴۰۶ھ
۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۴ء
۱
۲۸۶
۹
معرفۃ علوم الحدیث (الطبعۃ الثنانیۃ)
الحاکم النیسابوری، المتوفی ۴۱۵ھ
۱۴۰۱ھ م ۱۹۸۱ء
۱
۲۶۹
۱۰
الاتحافات السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ (الطبعۃ الثانیۃ)
محمد المدنی، المتوفی ۱۲۷۱ھ
۱۳۵۸ھ م ۱۹۳۹ء
۱
۱۹۵
۱۱
جامع مسانید الامام الاعظم ابی حنیفہؒ
ابوالمؤید الخوارزمی، المتوفی:۶۶۸ھ
۱۲۳۲ھ م ۱۹۱۳ء
۲
۱۱۶۵
۱۲
الجوھر النقی
ابن الترکمانی، المتوفی:۶۶۵ھ
۱۳۱۶ھ م ۱۸۹۸ء
۲
۶۷۱
۱۳
السنن الکبریٰ وفی ذیلھا
الجوہر النفی
ابوبکر البیہقی، المتوفی:۴۵۸ھ

۱۰
۴۵۹۵
۱۴
شرح تراجم أبواب صحیح البخاری (الطبعۃ الخامسۃ)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،
المتوفی:۱۱۷۶ھ
۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۵ء
۱
۱۶۲
۱۵
القول المسدد فی الذب عن المسند (الطبعۃ الخامسۃ)
ابن حجر العسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ
۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۴ء
۱
۲۰
۱۶
عمل الیوم واللیلۃ (الطبعۃ الثالثۃ)
ابن السنی، المتوفی:۳۶۴ھ
۱۳۹۸ھ م ۱۹۷۸ء
۱
۲۳۵
۱۷
کنزالعمال فی سنن الأقوال والأفعال (الطبعۃ الثانیۃ)
علی المتقی الہندی، المتوفی:۹۷۵ھ

۲۲
۸۸۵۳
۱۸
المستدرک علی الشیخین مع التلخیص للذھبی
الحاکم النیسابوری، المتوفی:۴۰۵ھ

۱۔۴

۱۹
المسند
ابوداؤد الطیالسی، المتوفی:۲۰۴ھ
۱۳۲۱ھ م ۱۹۰۳ء
۱
۴۰۴
۲۰
المسند (الطبعۃ الثانیۃ)
ابوعوانہ، المتوفی:۳۰۶ھ

۵
۱۹۷۷
۲۱
مشکل الآثار (الطبعۃ الثانیۃ)
الامام ابوجعفر الطحاوی، المتوفی:۳۲۱ھ

۱۰
۴۲۹۰
۲۲
المعتصر من المختصر (الطبعۃ الثانیۃ)
القاضی یوسف الحنفی، المتوفی:۳۲۱ھ
۱۳۶۲ھ م ۱۹۴۳ء
۲
۷۷۶
۲۳
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاف مع الفھرس(الطبعۃ الثانیۃ)
الحافظ ابن عبدالبر القرطبی،
المتوفی:۴۶۳ھ
۱۳۳۶ھ م ۱۹۱۶ء
۲
۱۲۷۲
۲۴
التاریخ الکبیر
الامام محمد بن اسماعیل البخاری، المتوفی:۲۵۶ھ



۲۵
تجرید اسماء الصحابۃ مختصر اسدالغابۃ لابن الاثیر الجزری
الحافظ شمس الدین الذہبی،
المتوفی:۷۴۸ھ
۱۳۱۵ھ م ۱۸۹۵ء
۲
۸۲۷
۲۶
تذکرۃ الحفاظ من الطبعۃ الاولیٰ الی السابعۃ (الطبعۃ الرابعۃ)
الحافظ شمس الدین الذہبی،
المتوفی:۷۴۸ھ
۱۳۹۰ھ م ۱۹۷۰ء
۴
۱۶۵۱
۲۷
تعجیل المنفعۃ بزوائد رجال الائمۃ الاربعۃ
الحافظ ابن حجر العسقلانی،
المتوفی:۸۵۲ھ
۱۳۲۴ھ م ۱۹۰۴ء
۱
۵۷۵
۲۸
تہذیب التہذیب
الحافظ ابن حجر العسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ

۱۲
۶۷۲۰
۲۹
مقدمۃ الجرح والتعدیل
الحافظ ابن أبی حاتم الرازی، المتوفی:۳۲۷ھ
۱۳۷۱ھ م ۱۹۵۲ء
۱
۴۱۵
۳۰
الجرح والتعدیل
الحافظ ابن أبی حاتم الرازی، المتوفی:۳۲۷ھ

۱۴
۵۰۲۵
۳۱
قرۃ العین
عبدالغنی البحرانی
۱۳۳۵ھ م ۱۹۰۵ء
۱
۶۳
۳۲
کتاب الکنی والاسماء
ابوبشرالدولابی، المتوفی:۳۱۰ھ
۱۳۲۴ھ م ۱۹۰۴ء
۲
۴۶۹
۳۳
کتاب الکنی
الامام البخاری، المتوفی:۲۵۶ھ
۱۳۹۸ھ م ۱۹۷۸ء
۱
۱۰۶
۳۴
لسان المیزان
ابن حجرالعسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ

۶
۲۳۸۶
۳۵
الموضح الاوھام الجمع والتفریق
الحافظ الخطیب البغدادی، المتوفی:۴۶۳ھ
۱۳۷۹ھ م ۱۹۶۰ء
۲
۱۰۰۸
۳۶
بیان خطأ البخاری فی تاریخہ (الطبعۃ الثانیۃ)
ابن أبی حاتم الرازی، المتوفی:۳۲۷ھ
۱۴۱۷ھ م ۱۹۹۶ء
۱
۲۰۶
۳۷
الثقات
الحافظ محمدبن حبان البستی، المتوفی:۳۵۴ھ

۹
۴۱۷۰
۳۸
التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانی
الحافظ ابن نقطۃ، المتوفی:۶۲۹ھ

۲
۷۳۹
۳۹
نزہۃ الالباب فی الالقاب
الحافظ ابن حجر العسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ
۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۴ء
۱
۶۱۰
۴۰
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب
ابن عبدالبر
۱۳۳۶ھ


۴۱
مفتاح السعادہ
طاش کبری زادہ
۱۳۲۸ھ
















1 comment:

  1. جناب اصول تفسیر پر بھی کچھ تحریر فرمائے۔؟
    جناب اصول فقہ پر بھی کچھ تحریر فرمائے؟
    اور محدث محقق میں کیا فرق ہے مکمل تحریر فرمائے؟
    شیخ الحدیث اور شیخ الاسلام میں کیا فرق کیا مکمل تحریر فرمائے؟
    جزاک اللہ

    ReplyDelete