Tuesday, 25 August 2015

جس میں حیا نہیں، اس میں ایمان نہیں۔

"حیاء" سے مراد شرمندہ اور محبوب ہونا اور حیاء دراصل اس کیفیت کا نام ہے جو کسی انسان پر عیب و برائی کے خوف و ندامت کے وقت طاری ہو، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بہترین حیاء وہی ہے جو نفس کو اس چیز میں مبتلا ہونے سے روکے جس کو شریعت نے بری قرار دیا ہے۔

حضرت جنیدؒ کا یہ قول کہ حیاء اس کیفیت کا نام ہے جو اللہ کی نعمتوں کے حاصل ہونے اور ان نعمتوں کا شکر ادا نہ کرنے کی وجہ سے وحشت کے ساتھ دل میں پائی جائے۔ اور حضرت رقاق کا قول یہ ہے کہ حیاء اس کیفیت کا نام ہے جو آقا کے سامنے درخواست و طلب سے باز رکھتی ہے۔

ابوحیان اُندلسی صفت حیا کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’معیوب اور قابلِ مذمت افعال صادر ہونے کے خوف سے انسانی طبیعت میں انقباض اور گھٹن کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے، اسے حیا کہتے ہیں، اس کا منبع دل ہے اور اس کا مظہر چہرہ ہے ، یہ حیات سے مشتق ہے اور اس کی ضد اَلْقِحَۃُ یعنی بے حیائی اور غیر پسندیدہ کاموں کے ارتکاب پر جری ہونا ہے‘‘۔
[البحر المحیط، ج:1،ص: 191]

حافظ ابن حجر عسقلانی شافعیؒ(م852ھ) فرماتے ہیں:
’’جس کام کے ارتکاب کی صورت میں کسی شخص کو ملامت کا خوف ہو اور اس بنا پر اس کام کو کرنے میں انقباض اور گھٹن کی کیفیت پیدا ہو تو اُس کیفیت کو لغت میں حیا کہا جاتا ہے اور شریعت کی نظر میں حیا کا معنی ہے:’’ایسا وصف جو انسان کو بُرے کاموں سے اجتناب پر برانگیختہ کرے اور حق داروں کے حقوق میں تقصیر وکوتاہی سے روکے ، اِسی وجہ سے حدیث میں آیا ہے : حیا پوری کی پوری خیر ہے‘‘۔
[فتح الباري لابن حجر: جلد#1، صفحہ#52 الناشر: دار المعرفة - بيروت، ١٣٧٩]




علامہ ابن علان صدیقی فرماتے ہیں:
’’شریعت کی اصطلاح میں حیا اس خُلق کو کہتے ہیں کہ جو انسان کو قبیح اقوال وافعال اور برے اخلاق کے ترک پر برانگیختہ کرتا ہے اور حقدار کے حق میں کوتاہی اور تقصیر سے روکتا ہے اور کہا گیا ہے : حیا نفس کی ایک ایسی کیفیتِ راسخہ کا نام ہے کہ جو نفس کو حقوق کی ادائیگی پر اور قطع ِرحمی اور نافرمانی سے اجتناب پر برانگیختہ کرتی ہے۔‘‘
[دَلِیْلُ الْفَالِحِیْن لِطُرُقِ رِیَاضِ الصَّالِحِیْن،ج:5،ص:150]


بنیادی طور پر حیا کی دو قسمیں ہیں:
حیا کی ایک قسم تو نفسانی ہے، حیاکی یہ صفت اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی درجے میں تمام نفوس میں پیدا فرمائی ہے ، جیساکہ لوگوں کے سامنے شرمگاہ کھولنے اور صحبت ومجامعت سے حیاکرنا اور دوسری قسم ایمانی ہے ،وہ یہ ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کے خوف کی بناپر گناہوں کے ارتکاب سے رُک جائے‘‘ ۔ 
[التعریفات،ص:94]

حیا کے مختلف درجات ہیں اور اس کا کامل ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے خالق ومالک سے حیا کرے اور اس کی تشریح یوں کی گئی ہے:’’وہ تمہیں ایسی جگہ موجود نہ پائے جہاں قدم رکھنے سے اُس نے تمہیں منع کیا ہے اور اُس جگہ سے تمہیں غیر حاضر نہ پائے جہاں حاضر ہونے کا اُس نے تمہیں حکم دیا ہے‘‘۔
[شَرْحُ الزُّرْقَانِی عَلَی الْمَوَاہِبِ الَّلدُنِّیَّۃِ بِالْمَنَحِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ،ج:6،ص: 91]

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(1)’’کیا وہ(انسان)نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے‘‘۔
[سورۃ العلق:14]
(2)’’بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے‘‘۔
[النساء :1]
لہٰذا کسی بندے کا گناہوں کی پروا نہ کرنا، شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرنا،بندگانِ خدا کی حق تلفی اور اُن کی دل آزاری کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اس کا دل اللہ تعالیٰ کی عظمت و ہیبت سے خالی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے حیا کی کوئی رمق موجود نہیں ہے۔

حیائے ایمانی کی وضاحت ان احادیث سے ہوتی ہے:
’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے حیاکرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے ، ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ! الحمد للہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا: حیا کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر (اور دماغ )میں موجود تمام افکار کی حفاظت کرو اور تم اپنے پیٹ اور جو کچھ اس کے اندر ہے، اُس کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کرو اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے ، پس جس نے اس طرح کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالی سے حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے‘‘۔
[ترمذی:2458]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکیزہ انسان اپنی سوچ کو بھی پاکیزہ رکھتا ہے ، بطن اور باطن کی حفاظت کے معنی یہ ہیں کہ وہ لقمہ حلال کھاتا ہے اور شہوت پرستی نہیں کرتا۔

حضرت معاویہ بن حیدہ القشیریؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: یا رسول اللہ! ہماری شرمگاہوں کی حدود کیا ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی منکوحہ بیوی کے سوا ہر ایک سے اپنی شرمگاہ کو چھپائو، اُنہوں نے عرض کی: انسان کبھی دوسرے شخص کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: تب بھی تمہاری ہر ممکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ تمہاری شرمگاہ کوئی نہ دیکھے، میں نے عرض کی: انسان کبھی تنہائی میں ہوتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اُس سے حیا کی جائے‘‘۔
[ترمذی:2769]
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان تنہائی میں بھی تلذُّذ کی نیت سے اپنی شرمگاہ کو نہ دیکھے اور بلاضرورت کشفِ عورت نہ کرے ، اگر کوئی نہ بھی دیکھے ، اللہ تو دیکھ رہا ہوتا ہے ، تو سب سے زیادہ حیا تو خالق ومالک کی ذات سے ہونی چاہیے۔



حضرت سعید بن زید انصاریؓ بیان کرتے ہیں : ’’ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی: یا رسول اللہ! مجھے وصیت فرمائیں، آپ ﷺنے فرمایا: میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تو اللہ عزوجل سے ایسی حیا کر جیسے تو اپنی قوم کے کسی نیک وصالح آدمی سے حیا کرتا ہے۔‘‘۔
[مکارم الاخلاق للخرائطی:309]



الغرض حیا ایک نفسانی ملکہ ، فطری اور جبلّی استعداد ہے جو انسان کو ہر طرح کی برائیوں سے روکتی ہے ، اس کے اور معصیت کے درمیان رکاوٹ بنتی ہے ، یہ ایک روحانی حِس ہے ، جس طرح انسان آگ کے الائو سے بے اختیار پیچھے ہٹتا ہے اور تمام موذی ومُضراشیاء مثلاً: شیراور سانپ وغیرہ تمام درندوں اورحشرات سے بے اختیار جان بچاتا ہے ، اسی طرح جس کے اندر اللہ تعالیٰ کا ودیعت کردہ یہ نفسانی ملکہ اور فطری استعداد اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہوتی ہے، وہ ہر معصیت اور تمام معیوب وناپسندیدہ اقوال وافعال سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ جس انسان میں یہ ملکہ جس قدر کم ہوگا ،اُس سے اعمالِ خیر کا صدور بھی اُسی مقدارمیں کم ہوگا۔ اگر کسی شخص میں اس استعداد کا فقدان ہے یا قرآنِ کریم کے الفاظ میں اُس کے قلب پر رَین ہے یاحدیثِ پاک کے مطابق غین ہے ، تو وہ قبیح افعال سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتا، بلکہ ان کاموں میں وہ ایک گونہ لذت وانبساط محسوس کرتا ہے ۔ صفتِ حیا فطرتِ سلیمہ کو جانچنے کی ایک کسوٹی ہے ، چنانچہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’لوگوں تک گزشتہ نبیوں کا ج وکلام پہنچا، اُس میں یہ بھی مذکور تھا: جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو۔‘‘
[بخاری:6120]
اسی کو فارسی میں یوں بیان کیا جاتا ہے:’’بے حیا باش ہرچہ خواہی کن‘‘، یعنی جسے شُترِ بے مہاراور مادر پدر آزاد بننے کی خواہش ہے توسب سے پہلے وہ نعمتِ حیا سے محروم ہوتا ہے اوراپنی گردن سے اس کے بندھن کو کھول دیتا ہے ، یعنی شریعت کی پابندی سے آزاد ہوجاتا ہے ،اس کے بعدجو اُس کے جی میں آئے، کر گزرتا ہے، کیونکہ یہی وہ غیر مرئی مُہار اورپیروں کی زنجیر ہے جو انسان کے قدموں کو برائیوں کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے شرم وحیا کو انبیائے کرام ورسلِ عظام کی سنت قراردیا ہے:

(1)’’حضرت ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺنے فرمایا: چار چیزیں رسولوں کی سنتوں(عادتوں) میں سے ہیں: حیا، خوشبو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔‘‘
[ترمذی:1080]

(2):’’حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: موسیٰ(علیہ السلام) بڑے ہی حیا والے اور بدن کو ڈھانکنے والے تھے ، ان کی حیا کی وجہ سے اُن کے بدن کا کوئی بھی حصہ نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔‘‘
[بخاری:3404]

(3)’’تمام انبیائے کرام ورسلِ عظام میں سب سے بڑھ کر شرم وحیا کی صفت خاتم النبیّٖن سیدنا محمد رسول اللہ ﷺمیں پائی جاتی تھی ، چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺایک پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیادار اور شرمیلے تھے ، جب کسی چیز کو ناپسند فرماتے (تو زبان سے کچھ نہ فرماتے) اُس کے آثار رخِ انور پر نمایاں ہوجاتے تھے۔‘‘
[بخاری:6102]



(4)’’اُم المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے(بیوی ہونے کے باوجود)اپنی پوری زندگی میں نبی کریم ﷺ کی شرمگاہ کو نہیں دیکھا۔‘‘
[ابن ماجہ:622]

(5)’’حضرت عائشہؓ آپ ﷺ کی صفتِ حیا کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
نبی کریم ﷺ نہ کوئی فحش بات اپنی زبان پر لاتے ، نہ بازاروں میں شور مچاتے تھے ، بلکہ آپ ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کے بجائے عفو و درگزر سے کام لیتے تھے۔‘‘
[شمائل ترمذی:330]

(6)’’حضرت عائشہؓ  بیان کرتی ہیں: جب بارگاہِ رسالت میں کسی شخص کی کوئی شکایت کی جاتی تو نبی کریم ﷺ یہ نہ فرماتے کہ فلاں شخص کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ یہ بات کرتا یا کہتا ہے، بلکہ ایسے موقع پر آپ کا اندازِ تکلّم یہ ہوتا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ یہ بات کرتے یا کہتے ہیں، یعنی اُس شخص کا نام نہ لیتے تاکہ اُس کی عزتِ نفس قائم رہے اور اُسے ناپسندیدہ کام سے بھی روک دیتے۔‘‘
[ابوداود:4788]

(7)’’قاضی عیاض مالکیؒ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اپنے طبعی شرم وحیا اور کریم النفس ہونے کے باعث کسی کے منہ پر ایسی بات نہ کہتے جو اُسے ناپسند ہوتی‘‘۔

(8)یہ بھی روایت ہے کہ شدتِ حیا کی وجہ سے آپ  ﷺ کسی کے چہرے پر نظریں جماکر نہیں دیکھتے تھے اور کسی کی ناپسندیدہ حرکت کو دیکھ کر آپ ﷺ کی طبیعت میں ملال آجاتا، لیکن اس کے باوجود آپ اشاروں سے ہی اُس  اُس کا تذکرہ کرتے تھے۔‘‘
[اَلشِّفَاء بِتَعْرِیْفِ حُقُوْقِ الْمُصْطَفٰی،ج:1،ص:242]






حیا کی صفت بے باکی اور بزدلی کی ایک درمیانی کیفیت ہے ، جو شخص بے باک اور جری ہوتا ہے، وہ دلیری کے ساتھ انجام کی پروا کیے بغیر ہر کام کر گزرتا ہے ، خواہ وہ کام قابلِ مذمت اور معیوب ہی کیوں نہ ہو ، اس کے برعکس بزدل انسان مطلقاً کوئی کام نہیں کرسکتا، خواہ وہ اچھا ہو یا بُرا، جبکہ حیادار انسان ہر اچھا کام پورے اطمینانِ نفس اور قوتِ ایمانی کے ساتھ کرتا ہے اور ہر برے کام سے ہر صورت میں اجتناب کرتا ہے ۔

مفسرین اور شارحین کے نزدیک اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاکیزہ ہے کہ وہ کسی کی ملامت سے خوفزدہ اور متاثر ہوجائے، لہٰذا قرآن وحدیث میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف حیا کی نسبت کی گئی ہے، اس سے حیا کا لازمی معنی یعنی اُس فعل کا ترک کرنا مراد ہے ، مثلاً قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’بے شک اللہ (سمجھانے کے لیے) کسی بھی مثال کے بیان کرنے کو ترک نہیں فرماتا ، وہ مچھر ہو یا اس سے بھی زیادہ حقیرچیز،پھر جو ایمان لائے وہ جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق ہے ،رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تو وہ کہتے ہیں:
اس مثال سے اللہ کی مراد کیا ہے، اللہ اس کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور اس کے ذریعے صرف نافرمانوں کو گمراہی میں چھوڑتا ہے۔‘‘۔
[سورۃ البقرہ:26]
اس سے مراد یہ ہے کہ مثال میں کسی چیز کا اپنا حُسن وقُبح مقصود بالذات نہیں ہوتا ، بلکہ مثال اور مُمَثَّلْ لَہٗ (یعنی جس چیز کے لیے مثال بیان کی جارہی ہے)میں حُسن وقُبح کے اعتبار سے جو معنوی مناسبت ہوتی ہے ، اُسے بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ طرف حیا کی نسبت کرتے ہوئے فرمایا:
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ بہت حیا دار کریم ہے ، جب بندہ اُس کے حضور دعا کے لیے اپنے ہاتھوں کو بلند کرتا ہے تو وہ اُنہیں خالی (یعنی ناکام ونامراد)لوٹانے سے حیا فرماتا ہے۔‘‘
[ترمذی : 3556]
الغرض مذکورہ آیت وحدیث میں اللہ تعالیٰ کی طرف حیا کی نسبت ہے اور اس سے ترک کرنا مراد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہدایت کے سلسلے میںکسی بھی مثال کے بیان کرنے کو ترک نہیں فرماتا،پس جب اللہ تعالیٰ کے لیے حیا کا لفظ استعمال ہو تواس سے اُس چیز کا ترک کرنا مراد ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حیا کا ملکہ اوراس کی استعداد روزِ اول سے انسانیت کے جدِّ اعلیٰ وجدّۂ عُلیَا حضرت آدم وحوا علیہما السلام کی جبلّت میں پیوست فرمائی تھی، چنانچہ جب حکمتِ خداوندی کے تحت حضرت آدم علیہ السلام شیطانی مکروفریب کے نتیجے میں ممنوعہ درخت کے قریب چلے گئے اور اس کے نتیجے میں انہیں بے لباس کردیا گیا تو اُن کا فوری اور فطری ردِّ عمل قرآنِ کریم نے یہ بیان فرمایا ہے :
’’پھر شیطان نے فریب سے انہیں (اپنی طرف)مائل کر لیا، پس جب اُنہوں نے اس درخت سے چکھا تو اُن کاستر اُن پر منکشف ہوگیا اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے اور ان کے رب نے ان سے پکار کر فرمایا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تم دونوں سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
[سورۃ الاعراف:22]
غرض مُرورِ زمانہ سے صورتیں بدلتی رہتی ہیں ، لیکن اولادِ آدم کے خلاف شیطان کا حربہ اور ہدف آج بھی وہی ہے جو ابتدائے آفرینش سے تھاا ور وہ یہ ہے :
’’بے لباس کردینا ، ستر کو اٹھادینا، برہنگی ، بے حجابی اور بے حیائی ‘‘، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے بنی آدم! مبادا شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا کردے، جس طرح وہ تمہارے ماں باپ کے جنت سے اخراج کا سبب بنا تھا (وہ اس طرح)کہ ان دونوں کے لباس اُترنے کا سبب بنا تھا تاکہ انجامِ کار وہ انہیں ان کی شرم گاہیں دکھائے، بے شک وہ (شیطان)اور اس کا قبیلہ تمہیں (وہاں سے)دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ پاتے، بے شک ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے‘‘۔
[سورۃ الاعراف: 27]

روزِ اول کی طرح ہمیشہ ابلیس اور ائمہ تلبیس کا حربہ یہی رہا ہے کہ وہ کھلے دشمن کے روپ میں سامنے نہیں آتے، بلکہ خیر خواہ اور مُصلح کے روپ میں آتے ہیں ، سبز باغ دکھاتے ہیں ، چکاچوند سے مرعوب کرتے ہیں اور بالآخر اپنے دامِ تزویر میں گرفتار کرلیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’پھر دونوں کے دلوں میں شیطان نے وسوسہ ڈالا تاکہ ان دونوں کی جو شرم گاہیں ان سے چھپائی گئی تھیں،(انجامِ کار)ان پر منکشف کردے اور اس نے کہا:تمہارے رب نے اس درخت سے تمھیں صرف اس لیے روکا ہے کہ مبادا تم فرشتے بن جائو یا حیاتِ ابدی پالو اور ان دونوں سے قسم کھاکر کہا:بے شک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں‘‘۔
[سورۃ الاعراف:21]



حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان کے بنیادی شعبوں میں سے ایک عظیم شعبہ ہے:

رسول اللہﷺنے فرمایا:
(1)’’ایمان کے ساٹھ سے زائد شعبے ہیں اورحیا ایمان کا (عظیم ترین)شعبہ ہے۔‘‘
[بخاری:9]

(2)’’حیا ایمان کا حصہ ہے اور اہلِ ایمان جنت میں ہونگے اور بے حیائی ظلم ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے۔‘‘
[ترمذی:2009]

(3)’’حیا اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں اور فحش گوئی اور کثرت کلام نفاق کے دو شعبے ہیں۔‘‘
[ترمذی:2027]

(4)’’نبی کریم ﷺ کا گزرایک شخص پر ہوا جو اپنے بھائی کو شرم وحیا کی وجہ سے ڈانٹ رہا تھا ، وہ کہہ رہا تھا تم شرم وحیا کی وجہ سے اپنا نقصان کر لیتے ہو، پس رسول اللہﷺنے فرمایا: اِسے چھوڑ دو، بیشک حیا ایمان میں سے ہے۔‘‘
[بخاری:6118]

(5)’’بیشک حیا اور ایمان دونوں ساتھی ہیں، جب ان میں سے ایک جاتا ہے تو دوسرا بھی چلاجاتا ہے۔‘‘
[مشکوٰۃ :5093]

(6)’’ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور دینِ اسلام کا اخلاق حیا ہے۔‘‘
[ابن ماجہ:4181]


اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر دین کا اپنا ایک رنگ اور مزاج ہوتا ہے اور وہی اس کے ظاہر وباطن پر چھایا ہوتا ہے، دین اسلام کا وہ رنگ حیا ہے ، اگر حیا نہیں ہے پھر دین اسلام بے رنگ ہے۔
حضرت وہب بن منبہؒ کا قول ہے:
’’ایمان بے پردہ ہوتا ہے اس کا لباس تقویٰ ہے ، اس کی زینت حیا ہے اور اس کا مال دین کی فہم ہے۔‘‘
[صفوۃ الصفوۃ:ج:1،ص:455]
یعنی ایسا ایمان جو تقویٰ و حیا اور دین کی فہم سے خالی ہو، وہ بے جان اور بے وقعت ہے۔


خیر وصلاح کے جملہ محاسن کی اصل شرم وحیا ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’شرم وحیا اپنے ساتھ خیر ہی کو لیکر آتی ہے۔‘‘
[صحیح بخاری:6117]
اور ایک حدیث میں فرمایا:
’’حیا پوری کی پوری خیر ہے‘‘۔
[صحیح مسلم:37]
حافظ ابن قیم فرماتے ہیں:
’’ تمام اخلاق وصفات میں سے سب سے افضل اور قدرو منزلت کے اعتبار سے سب سے بلند اور نفع بخش صفت حیا ہے، بلکہ یہ انسانی خواص میں سے ہے ،جس شخص میں حیانہیں وہ انسان نہیں محض گوشت پوست کا ایک ٹکڑا ہے۔ حیا ہی کے سبب مہمانوں کا خیال رکھا جاتا ہے ، وعدے وفا کیے جاتے ہیں،امانت کالحاظ رکھا جاتا ہے ، اچھائیوں اور خوبیوں کو حاصل کیا جاتا ہے ،عفت وپاکدمنی اختیار کی جاتی ہے،خلقِ خدا کے حقوق کی رعایت کی جاتی ہے،اگرحیا نہ ہوتی تو مہمان نوازی کی قدر فروغ نہ پاتی ،وعدے وفانہ ہوتے، امانت داری کاپاس نہ رکھا جاتا،محتاجوں کی حاجت برآری نہ ہوتی ،انسان کمالات کاخوگر نہ ہوتا ،برائیوں سے کنارہ کشی نہ کرتا ،شرمگاہوں کی حفاظت نہ ہوتی، فحاشی سے اجتناب نہ کرتا،خلقِ خدا کے حقوق کا تحفظ نہ ہوتا ،صلہ رحمی نہ ہوتی ،والدین کے ساتھ حسن سلوک نہ ہوتا ،غرضکہ جملہ افعالِ خیر کا منبع اور سرچشمہ حیا ہے،یہی وہ صفت ہے جو انسانوں کو خیر وصلاح پر اُبھارتی ہے اور برائیوں سے روکتی ہے، خالق اوراس کی مخلوق سے حیا نہ ہوتی تو خیر کا وجود نہ ہوتا‘‘۔
[مِفْتَاح دَارِالسَّعَادَہ ملخصاً بتصرف،ج:1،ص:277]

علامہ نوَوی لکھتے ہیں:
نبی کریمﷺنے فرمایا:’’حیا پوری کی پوری خیر ہے‘‘، اس پر کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بعض اوقات انسان شدتِ حیا کی وجہ سے کسی شخص کے سامنے حق بات نہیں کہہ سکتا ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردیتا ہے اور بعض اوقات انسان بعض حقوق کی ادائیگی نہیں کر پاتا ، پھر حیا پوری کی پوری خیر کس طرح ہوگی۔
علامہ ابن صلاح اس کے جواب میں فرماتے ہی:
حیا یہ نہیں کہ جس کی وجہ سے انسان حق بات نہ کہہ سکے اور حق کام نہ کرسکے ، بلکہ یہ کم ہمتی اور بزدلی ہے۔ حیا ایسی صفت ہے جو انسان کو بُرے کاموں سے اجتناب پر برانگیختہ کرے اور حق داروں کی حق تلفی سے روکے، جنید بغدادی فرماتے ہیں:’’حیا یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو دیکھے اور پھر اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالے، اس سے جو حالت پیدا ہوتی ہے وہ حیا ہے‘‘۔
[المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج،ج:2،ص:4-5]

قرآنِ مجید میں مردوں اور عورتوں کو حیا کا حکم دیا گیا ہے :
’’(اے رسولِ مکرم!)مسلمان مردوں کو حکم دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ،یہ طریقہ اُن کے لیے بہت پاکیزہ ہے ،بے شک اللہ اُن کے تمام کاموں سے باخبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھیں، اپنی پاکدامنی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی نمائش نہ کریں‘‘۔
[سورۃ النور:30-31]









حیا کی ضد فَحشاء ہے ، اِسی سے فُحش اور فحاشی کے الفاظ نکلے ہیں ،جس کا مطلب ہے :
بے شرمی، بے حیائی، انتہائی درجے کی بے غیرتی اور اعَلانیہ برائی کرنا۔
قرآن کریم میں ہے :
’’بیشک جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے‘‘۔
[سورۃ النور:19]



بعض اوقات انسان لوگوں کے ڈر سے بے حیائی کی باتوں کو ترک کردیتا ہے ،لیکن جب لوگوں کی نظروں سے اُوجھل ہوتا ہے تو اُسے بے حیائی کے ارتکاب میں کوئی باک نہیں ہوتا، رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’میں اپنی اُمت کے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کی مثل نیکیاں لے کر حاضر ہوں گے، ﷲ تعالیٰ اُنہیں بے حیثیت اور پراگندہ ذروں کی طرح بکھیر دے گا ، عرض کیا گیا: یا رسول اﷲ! ہمیں ان لوگوں کی پہچان بتادیجیے تاکہ ہم نادانستہ ان لوگوں میں سے نہ ہوجائیں ، آپ ﷺنے فرمایا: وہ تمہارے ہی بھائی ہوں گے ، تمہاری ہی طرح راتوں میں عبادت بھی کرتے ہوں گے، لیکن جب وہ لوگ تنہائی میں ہوں گے تو ﷲ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کریں گے‘‘۔
[ابن ماجہ:4245]

یہ حدیث ہمارے حسبِ حال ہے ،کیونکہ اُس زمانے میں خَلوت میں گناہ کے ارتکاب کے وہ اسباب موجود نہ تھے جوآج میسر ہیں، اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی سہولتیں عام ہیں، بے حیائی اور بدکاری کے مناظر ایک کلک سے نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں ،جو اُن سے لطف اندوز ہونا چاہے تو کوئی روک ٹوک نہیں،ہمارا معاشرہ تباہی کے جس دلدل میں دھنسا جارہا ہے ، کوئی صاحب ِاختیار واقتدار اُس پر کنٹرول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے ، فیشن کے طور پر ٹَسوے بہائے جاتے ہیں اور مذمتیں کی جاتی ہیں ،لیکن کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ یاد رکھیں !ایک ایسی علیم وخبیر ذات ضرور موجود ہے جس کی نظروں سے کوئی پتہ اور ذرہ اُوجھل نہیں ہے، وہ ہمارے قلبی خیالات سے بھی آگاہ ہے ۔










حیاء، خاص اسلامی اخلاق ہے:

عَنْ أَنَسٍ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا , وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ " .
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: ہر دین اور مذہب میں ایک خلق ہے (یعنی ہر مذہب والوں میں ایک ایسی صفت و خصلت ہوتی ہے جو ان کی تمام صفتوں پر غالب اور ان کی ساری خصلتوں سے اعلی ہوتی ہے) اور اسلام کا وہ خلق حیاء ہے۔
المحدث : الألباني | خلاصة حكم المحدث : حسن
اس روایت کو مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے (کیونکہ زید صحابی نہیں ہیں بلکہ تابعی ہیں نیز ابن ماجہ اور شعب الایمان میں بیہقی نے اس روایت کو حضرت انس ؓ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے۔
تشریح:
یہاں" حیاء" سے اس چیز میں شرم و حیاء کرنا مراد ہے جس میں حیاء کرنا مشروع ہے چنانچہ جن چیزوں میں شرم و حیاء کرنے کی اجازت نہیں ہے جیسے تعلیم و تدریس ، امربالمعروف ونہی عن المنکر ادائیگی حق کا حکم دینا خود حق کو ادا کرنا اور گواہی دینا وغیرہ وغیرہ ان میں شرم و حیاء کرنے کی کوئی فضیلت نہیں ہے۔ حدیث کا زیادہ مفہوم بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دین کے لوگوں پر کوئی نہ کوئی وصف و خصلت غالب رہتی ہے چنانچہ اہل اسلام پر جس طبعی وصف و خصلت کو غالب قرار دیا گیا ہے وہ حیاء ہے اور باوجودیکہ حیاء بھی ان اوصاف و خصائل میں سے ہے جو تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہیں لیکن اسی وصف و حیاء کو خاص طور پر اہل اسلام پر غالب کیا گیا ہے اور دوسرے مذہب کے لوگوں میں اس جوہر کو بہت کم رکھا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حیاء نہ صرف یہ کہ طبعی خاصیتوں اور خصلتوں میں سب سے اعلی درجہ رکھتی ہے بلکہ یہ وہ جوہر ہے جس سے انسانی اخلاق و کردار کی تکمیل بھی ہوتی ہے اور چونکہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ «إِنَّمَا ‌بُعِثْتُ ‌لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ» (میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں) [مسند البزار:،8949، السنن الكبرى-البيهقي:20782] اس لئے اس جوہر کے ذریعہ ملت اسلامیہ کے اخلاق اوصاف کو کمال کے درجہ پر پہنچایا گیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ صرف حیاء ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہم سے پہلے کی امتوں میں تمام ہی اخلاق و خصائل ناقص تھے یہاں تک کہ نبی کریم  دنیا میں تشریف لائے اور آپ کی برکت سے ملت اسلامیہ میں تمام اخلاق و خصائل کو کامل و مکمل کیا گیا اسی لئے ملت اسلامیہ کی اس خاصیت کو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ " آیت (کنتم خیر امۃ اخرجت للناس)" (تم کو دنیا والوں کے لئے سب سے بہتر امت بنا کر پیدا کیا گیا ہے الخ۔ )۔۔ ابن ماجہ اور بیہقی نے مذکورہ بالا روایت کو حضرت انس ؓ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بطریق موقوفہ نقل نہیں کیا ہے جیسا کہ عبارت سے ظاہر اسلوب سے یہ گمان ہو سکتا ہے بلکہ بطریق مرفوع نبی کریم  کے ارشاد گرامی کے طور پر نقل کیا ہے نیز مذکورہ عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں یعنی ابن ماجہ اور بیہقی میں سے ہر ایک نے ان دونوں صحابی سے اس روایت کو نقل کیا ہے اور یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ مذکورہ عبارت میں ان دونوں کا ذکر علی الترتیب ہو یعنی ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت انس ؓ سے اور بہیقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے، لیکن جامع صغیر میں اس حدیث کو ابن ماجہ کے سلسلہ کے ساتھ براویت حضرت انس ؓ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نقل کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح بیہقی نے بھی اس روایت کو ان دونوں صحابی سے نقل کیا ہے۔




 * *حیاء اور بزدلی میں فرق:-*
حیاء اور بزدلی دونوں خوف، خطرے، جھجھک کو کہتے ہیں جو کسی بات سے رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔
بس فرق یہ ہے حیاء کا خوف روکتا ہے اعلانیہ برائی کرنے-پھیلانے سے
جبکہ
بزدلی کا خوف روکتا ہے  اعلانیہ برائی روکنے سے۔
القرآن:
اور وہ(نیکی کرنے اور برائی روکنے میں)خوف نہیں رکھتے ملامت کا ملامت کرنے والوں کی۔
[سورۃ المائدۃ:54]



حیا کی فضیلت

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ إِسْحَاق وَهُوَ ابْنُ سُوَيْدٍ ، أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ حَدَّثَ ، قَالَ : كُنَّا عِنْدَ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ فِي رَهْطٍ مِنَّا ، وَفِينَا بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ ، فَحَدَّثَنَا عِمْرَانُ يَوْمَئِذٍ ، قَال : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّهُ " ، قَالَ : أَوَ قَالَ : " الْحَيَاءُ كُلُّهُ خَيْرٌ ".
حضرت عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حیاء نیکی اور بھلائی کے سوا کوئی بات پیدا نہیں کرتا۔ ایک اور روایت میں یہ ہے کہ حیاء کی تمام صورتیں بہتر ہیں۔
[حديث عمران: أخرجه أحمد (4/426، رقم 19830) ، ومسلم (1/64، رقم 37) ، وأبو داود (4/252، رقم 4796) . وأخرجه أيضًا: الطيالسى (ص 114، رقم 854) ، والبزار (9/29) ، والطبرانى فى الكبير (18/171، رقم 387) ، وفى الصغير (1/151، رقم 231) ، والقضاعى (1/76، رقم 70) ، والديلمى (2/151، رقم 2766) .
حديث أنس: أخرجه البزار كما فى مجمع الزوائد (8/26) قال الهيثمى: رجاله رجال الصحيح غير محمد بن عمر المقدمى، وهو ثقة. وأخرجه أيضًا: القضاعى (1/75، رقم 69) .]

تشریح:
یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بسا اوقات حیاء بعض حقوق کی ادائیگی جیسے امربالمعروف میں مخل ہوتی ہے تو اس اعتبار سے حیاء کی تمام صورتیں کو بہتر قرار دینا کیسے درست ہو سکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جو حیاء اظہار حقیقت اور حق کی ادائیگی سے باز رکھے اس کو حیاء کہا جاتا ہی نہیں ہے بلکہ اس کو عجز اور بزدلی کہیں گے جو ایک طرح کی خرابی اور نقصان ہے اور اگر اس کو حیاء کہا بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ مجازا کہا جا سکتا ہے کیونکہ شریعت کی نظر میں حقیقی حیاء وہی ہے کہ جو برائی کو ترک کرنے کا باعث بنے علاوہ ازیں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ حیاء کے زیادہ صحیح معنی نفس کا برائی سے رک جانا خواہ وہ برائی طبعی ہو یا شرعی۔ اور شریعت میں جس حیاء کو بہتر اور قابل تعریف کہا گیا ہے اس کی صحیح پہچان یہ ہے کہ نفس اس چیز کو اختیار کرنے سے باز رہے جس کو شریعت نے برائی قرار دیا ہے خواہ وہ حرام ہو یا مکروہ یا ترک اولی لہذا مذکورہ بالا اشکال کا زیادہ واضح جواب یہ ہے کہ یہ کلیہ حیاء خیر کلہ ، حیاء کی ان صورتوں کے ساتھ خاص ہے جو حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے مطابق ہوں


 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا إِيمَانَ لِمَنْ لا حَيَاءَ لَهُ " .
[مكارم الأخلاق لابن أبي الدنيا » فَضْلُ الْحَيَاءُ » لِبَاسُ الإِيمَانُ التَّقْوَى وَزِينَتُهُ الْحَيَاءُ ... رقم الحديث: 97(101)]
حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس میں حیا نہیں، اس کا (کامل) ایمان نہیں۔



تشریح:
اس کی سند میں کلام ہے لیکن شواہد سے اس کا متن صحیح ہے، جس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے:
لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ ...
...یعنی...زانی زنا کے وقت مومن نہیں ہوتا۔ اور فرمایا : 
 فَزِنَا الْعَيْنِ : النَّظَرُ ... 



دَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ " .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ نبی کریم  سے نقل کرتے ہیں کہ آپ  نے فرمایا: ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیاء (بھی) ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔
وأخرجه ابن حبان (1/386، رقم 167) . وأخرجه أيضًا: البيهقى فى شعب الإيمان (1/31، رقم 1) .

تشریح :
اس حدیث میں ایمان کے شعبوں اور شاخوں کی تعداد بتائی گئی ہے یعنی وہ چیزیں مل کر کسی کو ایمان و اسلام کامکمل پیکر اور خوشنما مظہر بناتی ہیں۔ یہاں تو صرف ان شعبوں اور شاخوں کی تعداد بتلائی گئی ہے لیکن بعض احادیث میں ان کی تفصیل بھی منقول ہے اور وہ اس طرح ہے : پہلی چیز تو بنیادی ہے یعنی اس حقیقت کا دل و دماغ میں اعتقاد و یقین اور زبان سے اقرار و اظہار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس کی ذات وصفات برحق ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، بقاء اور دوام صرف اسی کی ذات کے لئے ہے جب کہ کائنات کی تمام چیزیں فنا ہو جانے والی ہیں، ایسے ہی اللہ کے رسولوں، اس کی کتابوں اور فرشتوں کے بارے میں اچھا اعتقاد اور حسن یقین رکھنا اور ان کو برحق جاننا، آخرت کا عقیدہ رکھنا کہ مرنے کے بعد قبر میں برے اور گنہگار لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اور اچھے نیک بندوں پر اس کا انعام و اکرام ہوتا ہے۔ قیامت آئے گی اور اس کے بعد حساب و کتاب کا مرحلہ ضرور آئے گا، اس وقت ہر ایک کے اعمال ترازو میں تولے جائیں گے جن کے زیادہ اعمال اچھے اور نیک ہوں گے ان کو پروانہ جنت دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، جن کے زیادہ اعمال برے ہوں گے، ان کی فردجرم ان کے بائیں ہاتھ میں تھمادی جائے گی۔ تمام لوگ پل صراط پر سے گزریں گے۔ مومنین صالحین ذات باری تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ نیک اور اچھے لوگ بہشت میں پہنچائے جائیں گے اور گنہگاروں کو دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا۔ جس طرح جنتی (مومن) بندے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام اور اس کی خوشنودی سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے اسی طرح دوزخی لوگ (کفار) ہمیشہ ہمیشہ اللہ کے مسلط کئے ہوئے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ایمان کے شعبوں اور شاخوں میں سے یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ سے ہر وقت لو لگائے رہے اور اس سے محبت رکھے اگر کسی غیر اللہ سے محبت کرے تو اللہ کے لئے کرے یا کسی سے دشمنی رکھے تو اللہ کے لئے رکھے۔ رسول اللہ  سے کامل محبت اور آپ  کی عظمت و برتری اور آپ  کی تعلیمات کو روان دینا اور پھیلانا بھی آپ  سے محبت رکھنے کی دلیل ہے۔ اللہ اور اس کے رسول  کی محبت کی علامت اس طرح رچ بس جائے کہ اس محبت کے مقابلہ میں دنیا کی کسی بھی چیز اور کسی بھی رشتہ کی محبت کوئی اہمیت نہ رکھے۔ اللہ اور اس کے رسول  کی محبت کی علامت اتباع شریعت ہے۔ اگر کوئی آدمی اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کی تعمیل کرتا ہے اور شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے اللہ اور رسول  سے محبت کرتا ہے لیکن جو آدمی اللہ اور رسول کے احکام و فرمان کی تابعداری نہ کرتا ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ نعوذ باللہ اس کا دل اللہ و رسول کی پاک محبت سے بالکل خالی ہے۔ یہ بھی ایمان کی ایک شاخ ہے کہ جو عمل کیا جائے خواہ وہ بدنی ہو یا مالی، قولی ہو یا فعلی اور یا اخلاقی وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہو، نام و نمود یا کسی دنیاوی غرض سے نہ ہو پس جہاں تک ہو سکے اعمال میں اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ نفاق اور ریا کا اثر عمل کے حسن و کمال اور تاثیر کو ختم کر دے گا۔ مومن کا دل ہمہ وقت خوف اللہ اور خشیت الٰہی سے بھرا ہوا اور اس کے فضل و کرم اور رحمت کی امیدوں سے معمور رہنا چاہیے، اگر بتقاضائے بشریت کوئی بری بات یا گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر فوراً خلوص دل سے توبہ کے بعد آئندہ کے لئے گناہوں سے اجتناب کا عہد کرے اور اللہ کے عذاب سے ڈرتا رہے اور اپنے اچھے عمل اور نیک کام میں اللہ کی رحمت اور اس کے انعام و اکرام کی آس لگائے رہے۔ درحقیقت یہ ایمان کا ایک بڑا تقاضہ ہے کہ جب کبھی کوئی گناہ جان بوجھ کر یا نادانستہ سرزد ہو جائے تو فوراً احساس ندامت و شرمندگی کے ساتھ اللہ کے حضور اپنے گناہ سے توبہ کرے اور معافی و بخشش کا طلبگار ہو، اس لئے کہ ارتکاب گناہ کے بعد توبہ کرنا شرعاً ضروری اور لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے اگر اس نے اولاد عنایت فرمائی ہو تو فوراً عقیقہ کرے، اگر نکاح کیا ہو تو ولیمہ کرے، اگر قرآن مجید حفظ یا ناظرہ ختم کیا ہو تو خوشی و مسرت کا اظہار کرے، اللہ نے اگر مال دیا ہے تو زکوۃ ادا کرے۔ عیدالفطر کی تقریب میں صدقۃ الفطر دے اور بقر عید میں قربانی کرے۔ یہ بھی ایمان کا تقاضہ ہے کہ وعدہ کرے تو اسے پورا کرے، مصیبت پر صبر کرے، اطاعت و فرمانبرداری کے لئے ہر مشقت برداشت کرے، گناہوں سے بچتا رہے۔ تقدیر اور اللہ کی مرضی پر راضی رہے، اللہ پر توکل کرے، بڑوں اور بزرگوں کی تعظیم و احترام، چھوٹوں اور بچوں سے شفقت و محبت کا معاملہ کرے اور کبر و غرور، نخوت و تکبر کو چھوڑ کر کسر نفسی وتواضع اور حلم وبردباری اختیار کرے۔ " حسن اسلام" اور " تکمیل ایمان" کے مدارج میں سے یہ بھی ہے کہ برابر کلمہ تو حید و شہادت کا ورد رکھے۔ قرآن شریف پڑھے اگر جاہل ہو تو عالم سے علم کی دولت حاصل کرے اگر عالم ہو تو جاہلوں کو تعلیم دے اپنے مقاصد میں کامیابی کے لئے اللہ سے مدد کا طلب گار ہو اور دعا مانگے اور اس کا ذکر کرتا رہے اپنے گناہوں سے استغفار کرے اور فحش باتوں سے بچتارہے، ہر وقت ظاہری و باطنی گندگیوں سے پاک رہے۔ نمازوں کا پڑھنا خواہ فرض ہوں یا نفل اور وقت پر ادا کرنا، روزہ رکھنا ، چاہے نفل ہو یا فرض، ستر کا چھپانا، صدقہ دینا خواہ نفلی ہو یا لازمی، غلاموں کو آزاد کرنا، سخاوت و ضیافت کرنا، اعتکاف میں بیٹھنا، شب قدر اور شب برأت میں عبادت کرنا، حج وعمرہ کرنا، طواف کرنا۔ دارالحرب یا ایسے ملک سے جہاں فسق و فجور، فحش و بے حیائی اور منکرات و بدعات کا زور ہو، دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جانا، بد عتوں سے بچنا اپنے دین کو بری باتوں سے محفوظ رکھنا، نذروں کا پورا کرنا ، کفاروں کا ادا کرنا، حرام کاری سے بچنے کے لئے نکاح کرنا۔ اہل و عیال کے حقوق پورے طور پر ادا کرنا، والدین کی خدمت کرنا اور ہر طرح ان کی مدد کرنا اور خبر گیری رکھنا، اپنی اولاد کی شریعت کے مطابق تربیت کرنا اپنے ماتحتوں سے حسن سلوک کرنا اپنے حاکموں، افسروں اور مسلمان سرداروں کی تابعداری کرنا بشرطیکہ وہ خلاف شرع چیزوں کا حکم نہ دیں۔ غلام اور باندی سے نرمی اور بھلائی سے پیش آنا، اگر صاحب اقتدار اور حاکم و جج ہو تو انصاف کرنا، لوگوں میں باہم صلح صفائی کرانا، اسلام سے بغاوت کرنے والوں اور دین سے پھرنے والوں سے قتل و قتال کرنا، اچھی باتوں کی تبلیغ کرنا، بری باتوں سے لوگوں کو روکنا، اللہ کی جانب سے مقرر کی ہوئی سزاؤں کا جاری کرنا، دین و اسلام میں غلط باتیں پیدا کرنے والوں اور اللہ و رسول کا انکار کرنے والوں سے حسب قوت و استطاعت خواہ ہتھیار سے خواہ قلم و زبان سے جہاد کرنا، اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کرنا، امانت کا ادا کرنا، مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرنا، وعدے کے مطابق فرض پورا کرنا، پڑوسی کی دیکھ بھال کرنا اور اس کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا، لوگوں کے ساتھ بہترین معاملہ کرنا، حلال طریقہ سے مال کمانا اور اس کی حفاظت کرنا، مال و دولت کو بہترین مصرف اور اچھی جگہ خرچ کرنا۔ فضول خرچی نہ کرنا، سلام کرنا اور سلام کا جواب دینا، جب کسی کو چھینک آئے تو " یرحمک اللہ " کہنا، خلاف تہذیب کھیل کود اور برے تماشوں سے اجتناب کرنا، لوگوں کو تکلیف نہ پہنچانا اور راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹا دینا تاکہ راہ گیروں کو تکلیف و نقصان نہ پہنچے، یہ سب ایمان کے شعبے اور اس کی شاخیں ہیں۔ راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کے ہٹانے کا یہ مطلب ہے کہ اگر راستے میں پتھر یا کانٹے پڑے ہوں جس سے راہ گیر کو تکلیف پہنچ سکتی ہو یا نجاست و غلاظت پڑی ہو یا ایسی کوئی بھی چیز پڑی ہو جس سے راستے پر چلنے والوں کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو مومن کا یہ فرض ہے کہ انسانی و اخلاقی ہمدردی کے ناطے اس کو ہٹا دے اور راستہ صاف کر دے۔ اور اسی طرح خود بھی ایسی کوئی چیز راستے میں نہ ڈالے جو راستہ چلنے والوں کے لئے تکلیف کا باعث ہو اور عارفین کی رمز شناس نگاہوں نے تو اس سے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کو ایسی تمام چیزوں سے صاف کر لے جو توجہ الی اللہ اور معرفت کے راستہ کی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں اور اپنے قلب سے برائی و معصیت کے خیال تک کو کھرچ کر پھینک دے۔ بہر حال یہ تمام باتیں ایمان کے شعبے ہیں جن پر مومن کا عمل کرنا نہایت ضروری ہے اس لئے کہ ایمان کی تکمیل اور اسلام کا حسن ان ہی چیزوں سے پیدا ہوتا ہے اگر کوئی آدمی ان باتوں سے خالی ہے اور اس کی زندگی ان کی شعاعوں سے منور نہیں ہے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے ایمان کی تکمیل نہیں ہوئی اس کو چاہیے کہ اللہ کی مدد اور اس کی توفیق چاہ کر ان اہم باتوں کو اختیار کرے۔






حیا ایمان کا جزء ہے:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَهُوَ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " دَعْهُ فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الْإِيمَانِ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْإِيمَانِ » بَاب الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ ۔۔۔ رقم الحديث: 23(24)]
حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کی نبی کریم  (ایک مرتبہ) کسی انصاری صحابی کے پاس سے گذرے اور (ان کو دیکھا) کہ وہ اپنے بیٹے کو حیاء کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے، تو رسول اللہ  نے فرمایا کہ (حیاء کے بارے میں) اس کو (نصیحت کرنا) چھوڑ دو اس لئے کہ حیاء ایمان میں سے ہے۔
[أخرجه أحمد (2/56، رقم 5183) ، والبخارى (1/17، رقم 24) ، ومسلم (1/63، رقم 36) ، وأبو داود(4/252، رقم 4795) ، والنسائى (8/121، رقم 5033) ، وابن ماجه (1/22، رقم 58) . وأخرجه أيضًا: مالك(2/905، رقم 1611) ، وعبد بن حميد (ص 238، رقم 725) ، ابن حبان (2/374، رقم 610).]
تشریح:
وہ صحابی اپنے بھائی کو زیادہ حیاء کرنے سے منع کر رہے تھے کہ جو شخص زیادہ حیاء کرنے لگتا ہے وہ رزق علم حاصل کرنے سے باز رہتا ہے چنانچہ جب نبی کریم  نے ان کو اس طرح کہتے ہوئے سنا تو ان کو منع کیا کہ تم اپنے اس بھائی کو حیاء کرنے سے نہ روکو کیونکہ حیاء بذات خود بہت اعلی وصف ہے اور ایمان کی ایک شاخ ہے۔طیبی نے لفظ یعظ سے مراد ینذر ہے یعنی وہ صحابی اپنے بھائی کو ڈرا دھمکا رہے تھے امام راعب نے لکھا ہے کہ وعظ کے معنی ہیں کسی کو اس طرح تنبیہ کرنا کہ اس میں کچھ ڈر بھی ہو۔خلیل نے یہ بیان کیا ہے کہ وعظ کہتے ہیں کہ خیر بھلائی کی اس طرح نصیحت کرنا کہ اس کے اس سے دل نرم ہو جائے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہاں وعظ عتاب کے معی میں ہے جیسا کہ ایک روایت میں یعظ کے بجائے یعاتب کا لفظ منقول ہے۔






کم گوئی ایمان کی نشانی ہے: 
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " الْحَيَاءُ وَالْعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الْإِيمَانِ ، وَالْبَذَاءُ وَالْبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ ".
[جامع الترمذي » كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الْعِيِّ ... رقم الحديث: 1946(2027)]
حضرت ابوامامہؓ آنحضرت ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: شرم و حیاء اور زبان کو قابو میں رکھنا ایمان کی دو شاخیں ہیں جب کہ فحش گوئی اور لاحاصل بکو اس نفاق کی دو شاخیں ہیں۔
[أخرجه أحمد (5/269، رقم 22366) ، والترمذى (4/375، رقم 2027) وقال: حسن غريب. والحاكم (1/51، رقم 17) . وأخرجه أيضًا: ابن أبى شيبة (6/170، رقم 30428) ، والرويانى (2/309، رقم 1263) ، والبغوى فى الجعديات (1/433، رقم 2949) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (6/133، رقم 7706) ، والديلمى (2/151، رقم 2767) . قال المناوى (3/428) : قال الحافظ العراقى فى أماليه: حديث حسن، وقال الذهبى: صحيح.
ومن غريب الحديث: "العى": قلة الكلام تحرزًا عن الوقوع فى الإثم أو فيما لا ينبغى.]
تشریح:
شرم و حیاء کا ایمان کی شاخ ہونا ایک ظاہر و معروف بات ہے اور اس کا تفصیلی ذکر باب الایمان میں گزر چکا ہے۔زبان کو قابو میں رکھنے کا ایمان کی شاخ ہونا اور فحش گوئی و لا حاصل بکو اس کا نفاق کی شاخ ہونا اس اعتبار سے ہے کہ مومن اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرم و حیاء انکساری مسکینی و سلامتی طبع کے جن اوصاف سے مزین ہوتا ہے وہ اپنے اللہ کی عبادت اپنے اللہ کی مخلوق کی خدمت اور اپنے باطن کی اصلاح میں جس طرح مشغول و منہمک رہتا ہے اس کی بناء پر اس کے بے فائدہ تقریر بیان پر قدرت ہی حاصل نہیں ہوتی وہ اس بات پر قادر ہی نہیں ہوتا کہ اپنے مفہوم و مدعا کو مبالغہ آرائی اور زبان کی تیز و طرار کے ذریعہ ثابت و ظاہر کر سکے بلکہ وہ اس خوف سے کم گوئی کو اختیار کرتا ہے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے کہ مبادا زبان سے کوئی بڑی بات نکل جائے اور وہ فحش گوئی اور بد زبانی کا مرتکب ہو جائے اس کے برخلاف منافق کی شان ہی ہوتی ہے کہ وہ چرب زبانی یا وہ کوئی اور مبالغہ آمیزی کی راہ اختیار کرتا ہے اور نتیجہ کے طور پر وہ بے فائدہ تقریر و بیان، زبان درازی اور فحش گوئی پر قادر و دلیر ہو جاتا ہے۔




ایمان اور حیاء لازم ملزوم ہیں:

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ ، نا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْبَخْتَرِيِّ إِمْلاءً ، نا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبِ بْنِ حَرْبٍ الضَّبِّيُّ ، نا أَبُو سَلَمَةَ ، نا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، أنا يَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ ، أَظُنُّهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِنَّ الْحَيَاءَ وَالإِيمَانَ قُرِنَا جَمِيعًا ، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدُهُمَا رُفِعَ الآخَرُ " ۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حیاء اور ایمان کو ایک دوسرے کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے لہذا جب کسی کو ان دونوں میں سے کسی ایک سے محروم کیا جاتا تو وہ دوسرے سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔
[أخرجه أبو نعيم فى الحلية (4/297) ، والحاكم (1/73، رقم 58) وقال: صحيح على شرطهما. والبيهقى فى شعب الإيمان (6/140، رقم 7727) . وأخرجه أيضًا: ابن أبى شيبة (6/165، رقم 30372) موقوفًا. قال المناوى (3/426) : قال الحافظ العراقى: صحيح غريب إلا أنه قد اختلف على جرير بن حازم فى رفعه ووقفه.]
تشریح:
یعنی جو شخص ایمان سے محروم رہتا ہے وہ حیاء سے محروم رکھا جاتا ہے اور جس میں حیاء نہیں ہوتی اس میں ایمان بھی نہیں ہوتا اور ایک دوسری روایت جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے یوں ہے کہ ان دونوں میں سے جب ایک کو دور کیا جاتا ہے تو دوسرا بھی جاتا رہتا ہے۔
لفظ قرناء اصل میں قرین کی جمع ہے اس اعتبار سے یہ لفظ ان لوگوں کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اقل جمع کا اطلاق دو پر بھی ہوتا ہے ویسے بعض نسخوں میں یہ لفظ ماضی مجہول کے صیغہ تثنیہ کے ساتھ منقول ہے۔
خلاصة حكم المحدث : صحيح







اللہ تعالیٰ سے حیا:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق ، عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ " قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، قَالَ : " لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنَّ الِاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى ، وَتَحْفَظَ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى ، وَتَتَذَكَّرَ الْمَوْتَ وَالْبِلَى ، وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق ، عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ .
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے اتنی حیاء کرو جتنا اس کا حق ہے، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس سے حیاء کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن اس کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر اور جو کچھ اس میں ہے اس کی حفاظت کرو پھر پیٹ اور اس میں جو کچھ اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے اس کی حفاظت کرو اور پھر موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو اور جو آخرت کی کامیابی چاہے گا وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے گا اور جس نے ایسا کیا اس نے اللہ سے حیاء کرنے کا حق ادا کر دیا۔
[حديث ابن مسعود: أخرجه أحمد (1/387، رقم 3671) ، والترمذى (4/637، رقم 2458) وقال: غريب. والطبرانى (10/152، رقم 10290) ، والحاكم (4/359، رقم 7915) وقال: صحيح الإسناد. والبيهقى فى شعب الإيمان (6/141، رقم 7730) . وأخرجه أيضًا: ابن أبى شيبة (7/77، رقم 34320) ، والبزار (5/391، رقم 2025) ، وأبو يعلى (8/461، رقم 5047) ، والطبرانى فى الصغير (1/298، رقم 494) . وأشار المنذرى (4/120) إلى ضعف الحديث، وأن الصواب وقفه. قال المناوى (1/488) : فيه أبان بن إسحاق، قال الأزدى: تركوه لكن وثقه العجلى عن الصباح بن مرة، قال فى الميزان: والصباح واه.
حديث عائشة: أخرجه الخرائطى فى مكارم الأخلاق (ص 111، رقم 313) . وأخرجه أيضًا: الطبرانى فى الأوسط (7/226، رقم 7342) .
ومن غريب الحديث: "الرأس وما وعى": ما جمعه من الحواس الظاهرة والباطنة. "البطن وما حوى": ما جمعه باتصاله من القلب والفرج واليدين والرجلين.]
تشریح:
سر کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ سر جسے خدا نے شرف مکرمت سے نوازا ہے خدا کے علاوہ کسی اور کے کام نہ آئے۔ سر کو جسے خدا نے انسانی تقدس عطا فرمایا ہے انسان کے ہاتھوں تراشے گئے فانی بتوں اور خود انسانوں کے سامنے سجدہ ریز کر کے ذلیل نہ کیا جائے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اپنی دینداری کا سکہ جمانے کے لیے نماز نہ پڑھی جائے۔ سر کو خدا کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جھکایا نہ جائے اور سر کو از راہ غرور و تکبر بلند نہ کیا جائے۔
" سر کے ساتھ" کی چیزوں سے مراد ہیں۔ زبان، آنکھ، اور کان اور ان چیزوں کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ ان اعضاء کو گناہ سے بچایا جائے، جیسے زبان کو غیبت میں مبتلا نہ کیا جائے اور نہ جھوٹ بولا جائے آنکھ سے نامحرم اور گناہ کی چیزیں نہ دیکھی جائیں اور کان سے کسی کی غیبت اور جھوٹ مثلاً کہانی وغیرہ نہ سنی جائے۔
" پیٹ کی محافظت" کا مطلب یہ ہے کہ حرام اور مشتبہ چیزیں نہ کھائی جائیں۔
" پیٹ کے ساتھ" کی چیزوں سے جسم کے وہ حصے اور اعضاء مراد ہیں جو پیٹ سے ملے ہوئے ہیں، جیسے ستر، ہاتھ پاؤں اور دل وغیرہ، مطلب یہ ہے کہ جسم کے ان اعضاء اور حصوں کو بھی گناہ سے محفوظ رکھا جائے مثلاً ستر کو حرام کاری میں مبتلا نہ کیا جائے، گناہ و فواحش کی جگہ جیسے میلے، تماشے، ناچ گانے میں نہ جایا جائے کہ اس طرح پاؤں معصیت سے محفوظ رہیں گے ہاتھوں سے کسی کو کسی بھی طرح کی ایذاء نہ پہنچائی جائے۔ جیسے نہ کسی کو مارے پیٹے، نہ کسی کا مال چوری کر کے یا چھین کر لے اور نہ نامحرم کو ہاتھ لگائے، اسی طرح دل کو برے عقیدوں، گندے خیالات اور خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی یاد سے پاک رکھا جائے۔
آخر میں انسان کے جسم خاکی کے فانی ہونے کا احساس دلایا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ اس بات کو کبھی نہ بھولنا چاہئے کہ آخرت کا ایک نہ ایک دن اس دنیا سے تعلق ہو جائے گا اور یہ فانی جسم خواہ کتنا ہی حسین و جمیل اور باعظمت کیوں نہ ہو قبر کی آغوش میں سلا دیا جائے گا جہاں گوشت تو گوشت ہڈیا تک بوسیدہ وخاک ہو جائیں گی۔
پھر اس کے بعد ا یت (ومن اراد الآخرۃ) الخ فرما کر ایک ضابطہ بیان فرما دیا گیا ہے کہ جو شخص جانتا ہے کہ دنیا فانی ہے وہ دنیا اور دنیا کی لذات و خواہشات کو ترک کر دیتا ہے، نیز یہ کہ جو شخص آخرت کے ثواب اور وہاں کی ابدی نعمتوں اور سعادتوں کی خواہش رکھتا ہے وہ دنیا کی ظاہری زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں پورے کمال کے ساتھ کسی ایک شخص میں یہاں تک کہ اولیاء میں بھی جمع نہیں ہو سکتیں۔ اس حدیث کو لوگوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ بیان کرنا ، اس کی اشاعت کرنا اور اس کے مفہوم و مطالب سے عوام کو باخبر کرنا بڑی سعادت اور فضیلت کی بات ہے، چنانچہ نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو کثرت کے ساتھ ذکر و بیان کرنا مستحب ہے۔
[مظاہر حق جدید، شرح مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 86]







خلوت میں بھی اپنا ستر چھپائے رکھو:
دَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : قُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ ؟ قَالَ : " احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ " ، قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِذَا كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ ؟ قَالَ : " إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَرَاهَا أَحَدٌ فَلَا يَرَاهَا " ، قَالَ : قُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، إِذَا كَانَ أَحَدُنَا خَالِيًا ؟ قَالَ : " فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ مِنَ النَّاسِ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ .

حضرت بہز بن حکیم اپنے والد حضرت حکیم سے اور وہ بہز کے دادا (حضرت معاویہ ابن حیدہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم  نے فرمایا کہ تم اپنا ستر چھپائے رکھو علاوہ اپنی بیوی یا اپنی لونڈی کے (کہ ان کے سامنے اپنا ستر چھپانا ضروری نہیں ہے) حضرت معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ  ! مجھے بتائیے کہ آدمی جب خلوت تنہائی میں ہو تو کیا وہاں بھی اپنا ستر چھپائے رکھے؟ آپ  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ لائق تر ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔
[أخرجه عبد الرزاق (1/287، رقم 1106) ، وأحمد (5/3، رقم 20046) ، وأبو داود (4/40، رقم 4017) ، والترمذى (5/97، رقم 2769) وقال: حديث حسن. وابن ماجه (1/618، رقم 1920) ، والحاكم (4/199، رقم 7358) وقال: صحيح الإسناد. ووافقه الذهبى. والبيهقى (1/199، رقم 910) . وأخرجه أيضًا: الطبرانى (19/413، رقم 992) .
ومن غريب الحديث: "احفظ عورتك": استرها كلها.]

تشریح :
آپ ﷺ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ خلوت میں اگرچہ کوئی موجود نہیں ہوتا لیکن اس وقت بھی اپنا ستر کھولنا مناسب نہیں ہے کیونکہ حق تعالیٰ تو بہرصورت دیکھتا ہے جو انسانوں سے زیادہ اس بات کا لائق ہے کہ اس سے شرم و حیاء کی جائے لہذا اس سے معلوم ہوا کہ خلوت میں بھی ستر کو چھپائے رکھنا واجب ہے ہاں کسی ضرورت کی بناء پر کھولنا جائز ہے۔ حدیث میں ستر کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں بیوی اور لونڈی کا جو استثناء کیا گیا ہے کہ اپنی بیوی یا اپنی لونڈی کے سامنے اپنا ستر چھپانا ضروری نہیں ہے تو اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ملک اور نکاح جانبین یعنی مرد وعورت کے لئے ایک دوسرے کے ستر کی طرف دیکھنے کو مباح کر دیتے ہیں۔




ایک بہت پرانی بات جو پچھلے انبیاء سے منقول چلی آ رہی ہے

حیاء برائی سے روکتی ہے
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ يُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ " .
حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں نے پہلے انبیاء پر اترنے والے کلام میں سے جو بات پائی ہے وہ یہ کہ جب تو بے شرم ہو جائے تو جو جی چاہے کرے۔
[حديث حذيفة: أخرجه أحمد (5/383، رقم 23302) . وأخرجه أيضًا: البزار (7/256، رقم 2835) . قال الهيثمى (8/27) : رجاله رجال الصحيح.
حديث أبى مسعود: أخرجه أحمد (4/121، رقم 17131) ، والبخارى (5/2268، رقم 5769) ، وأبو داود
(4/252، رقم 4797) ، وابن ماجه (2/1400، رقم 4183) .
حديث أنس: أخرجه ابن عساكر (46/301) وقال: لم أكتبه من مسند أنس إلا من هذا الوجه وفى إسناده غير واحد من المجهولين.
وللحديث أطراف أخرى منها: "المعروف كله صدقة"، "آخر ما أدرك الناس".

تشریح:
إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ۔ کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بات پہلے انبیاء پر اترنے والے کلام سے ماخوذ ہے اور جس کا حکم ابھی تک باقی ہے نہ اس کو منسوخ قرار دیا گیا ہے اور نہ اس میں کوئی تغیر و تبدل ہوا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ جملہ میں جو امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی جو جی چاہے کر اس سے حکم دینا طلب مراد نہیں ہے بلکہ یہ امر بطور خبر کے ہے جس کا مطلب ہے کہ جو چیز بری باتوں سے باز رکھتی ہے وہ حیاء ہے اور جب حیاء نہ رہے اور آدمی بے حیائی کا شیوہ اپنا لے تو پھر وہ جو چاہے کرے گا اور اس سے کسی گناہ اور کسی برائی کو اختیار کرنے میں کوئی باک نہیں ہوگا یا یہ کہ امر کا صیغہ بطور تہدید و توبیخ کے ہے اور اس سے مقصد یہ آگاہی دینا ہے کہ جب تم نے بے حیائی کی کمر باندھ لی تو جی چاہے کرو ۔ لیکن یاد رکھو کہ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ جب تمہیں اپنے سارے کرتوتوں کی سزا بھگتنی پڑے گی گویا یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آیت (اعملو ماشئتم)





صدقات و زکوة حقیقی مستحق تک پہنچائیں :
__________________________
عن أبي هريرة رضي الله عنه : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال:" ليس المسكين الذي ترده الأكلة والأكلتان ولكن المسكين الذي ليس له غنى ويستحيي أو لا يسأل الناس إلحافا"
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہُ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسکین وہ نہیں جسے ایک دو لقمے در در پھرائیں۔ مسکین تو وہ ہے جس کے پاس مال نہیں۔ لیکن اسے سوال سے شرم آتی ہے اور وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتا (مسکین وہ جو کمائے مگر بقدر ضرورت نہ پا سکے)۔
[صحیح البخاری: 1479 باب قول الله تعالى لا يسألون الناس إلحافا]
، والنسائى (5/85، رقم 2572) .






عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ : الْحَيَاءُ ، وَالتَّعَطُّرُ ، وَالسِّوَاكُ ، وَالنِّكَاحُ " .
حضرت ابوایوب ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: " چار چیزیں رسولوں کے طریقہ میں سے ہیں (١) حیاء کرنا ( ایک روایت میں) ختنہ کرنا مروی ہے (یعنی اس روایت میں تو الحیاء کا لفظ ہے اور بعض روایت میں اس کے بجائے الختان کا لفظ آیا ہے۔ (٢) خوشبو لگانا (٣) مسواک کرنا (٤) نکاح کرنا۔"
[أخرجه أحمد (5/421، رقم 23628) ، وعبد بن حميد (ص 103، رقم 220) ، وابن أبى شيبة (1/156،رقم 1802) ، وسعيد بن منصور فى كتاب السنن (1/167، رقم 503) ، والترمذى (3/391، رقم 1080) وقال: حسن غريب. والطبرانى (4/183، رقم 4085) . والبيهقى فى شعب الإيمان (6/137، رقم 7719) .]
تشریح :
رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد فرمانا کہ چار چیزیں رسولوں کے طریقہ میں سے ہیں کہ اکثر کے اعتبار سے ہے کیونکہ بعض انبیاء کرام علیہم السلام ایسے بھی تھے جن کے یہاں ان میں سے کچھ چیزیں نہیں پائی جاتی تھیں مثلاً حضرت یحییٰ علیہ السلام نے نکاح نہیں کیا تھا۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم، حضرت شیث، حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت یوسف، حضرت موسیٰ، حضرت سلیمان، حضر زکریا، حضرت عیسیٰ علیم السلام اور حضرت حنظلہ بن صفوان علیہ السلام جو " اصحاب الرس" کے نبی تھے اور سرکار دو عالم ﷺ مختون ہی اس دنیا میں تشریف لائے تھے، یعنی انبیاء و رسول ختنہ کئے ہوئے پیدا ہوئے تھے۔ سرکار دو عالم ﷺ کے بارے میں بعض علماء کرام کا قول ہے کہ پیدا ہونے کے بعد آپ ﷺ کا ختنہ ہوا ہے، رسول اللہ ﷺ چونکہ نظافت ولطافت کے انتہائی بلند مقام پر تھے اس لئے آپ ﷺ کو خوشبو زیادہ مرغوب تھی، چنانچہ منقول ہے کہ آپ خوشبو کے لئے مشک استعمال فرماتے تھے۔ شریعت محمدی ﷺ میں نکاح کی بہت زیادہ اہمیت ہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعلان فرما دیا ہے کہ جو آدمی میری اس سنت سے اعراض کرے گا یعنی نکاح نہیں کرے گا تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔ حضرت علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے نکاح کے فضائل و مناقب میں منقول جو احادیث جمع کی ہیں ان کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔


عَنْ يَعْلَى : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَغْتَسِلُ بِالْبَرَازِ بِلَا إِزَارٍ ، فَصَعَدَ الْمِنْبَرَ ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسَّتْرَ ، فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُكُمْ ، فَلْيَسْتَتِرْ ".
حضرت یعلیٰ ( یہاں تحقیق سے یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ یہ یعلیٰ بن امیہ تمیمی ہیں یا یعلی ابن مرہ ثقفی ہیں بہر حال یہ دونوں جلیل القدر صحابی ہیں۔ ( فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ایک آدمی کو میدان میں ننگا نہاتے ہوئے دیکھا چنانچہ آپ ﷺ (وعظ کے لئے) منبر پر چڑھے اور پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ بہت حیاء دار ہے (یعنی اپنے بندوں سے حیاداروں کا سا معاملہ کرتا ہے، بایں طور کہ انہیں معاف کر دیتا ہے) اور بہت پردہ پوش ہے (یعنی اپنے بندوں کے گناہ اور عیوب کو پوشیدہ رکھتا ہے) وہ حیاء اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے لہذا جب تم میں سے کوئی (میدان میں) نہائے تو اسے چاہیے کہ وہ پردہ کر لیا کرے ۔
اور نسائی کی ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
" اللہ تعالیٰ پردہ پوش ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہانے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ کسی چیز سے پردہ کر لیا کرے)
[أخرجه أحمد (4/224، رقم 17999) ، وأبو داود (4/39، رقم 4012) ، والنسائى (1/200، رقم 406) . وأخرجه أيضًا: البيهقى (1/198، رقم 908) .]
تشریح:
سرکار دو عالم ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب آپ ﷺ کسی اہم اور عظیم مسئلے کو بیان کرنا چاہتے یا کسی خاص چیز سے آگاہ کرنا چاہتے تو منبر پر تشریف لے جاتے اور پہلے اللہ جل شانہ کی حمد و ثنا کرتے اس کے بعد اصل مسئلے کو بیان فرماتے چنانچہ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ ایک آدمی کو دیکھا وہ شرم کو بالائے طاق رکھ کر ایک کھلی جگہ (میدان میں ننگا نہا رہا ہے تو آپ ﷺ کی جبین شرم و حیاء پر بل پڑ گئے، فورًا مسجد نبوی میں پہنچے منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کے سامنے آپ ﷺ نے شرم و حیاء کی اہمیت کو بڑے بلیغ اور ناصحانہ انداز میں بیان فرمایا۔ آپ ﷺ کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ رب قدوس کی ذات پاک تمام محاسن و اوصاف کی جامع ہے چنانچہ شرم و حیاء اور پردہ پوشی جو بہت بڑے وصف ہیں یہ بھی اللہ تعالےٰ کے اوصاف میں سے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے اوصاف کی نورانی کرنوں سے اپنے دل و دماغ کو روشن کریں، اس کی جو صفات ہیں ان کو حتی الامکان اپنے اندر پیدا کریں اس لئے وہ پسند کرتا ہے ۔ بندے شرم و حیاء کے اصولوں پر کار بند رہیں، ان عظیم اوصاف سے اپنے دامن کو مالا مال کریں اور پردہ پوشی کو کسی حال میں ترک نہ کریں، لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ شرم اور پردے کے معاملے میں غفلت اور لاپرواہی نہ برتیں۔




حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلَّامٍ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ فَرَجِ بْنِ فَضَالَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْخَبِيرِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ ،  عَنْأَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلَّادٍ  وَهِيَ مُنْتَقِبَةٌ تَسْأَلُ عَنِ ابْنِهَا وَهُوَ مَقْتُولٌ ، فَقَالَ لَهَا بَعْضُ  أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ ، فَقَالَتْ : إِنْ أُرْزَأَ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ابْنُكِ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ " قَالَتْ : وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " لِأَنَّهُ قَتَلَهُ أَهْلُ الْكِتَابِ "  .
[سنن أبي داود » كِتَاب الْجِهَاد » بَاب فَضْلِ قِتَالِ الرُّومِ عَلَى غَيْرِهِمْ مِنَ ...رقم الحديث: 2133]
حضرت قیس بن شماسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اس کا نام خلاد تھا اور اس کے چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ یہ عورت اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کر رہی تھی جو جنگ میں شہید ہوگیا تھا۔ اصحاب رسول ﷺمیں سے کسی نے اس سے کہا کہ تو اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہی ہے اور اس حال میں سر اور چہرہ ڈھکا ہوا ہے (یعنی پوری طرح اپنے حو اس میں ہے اور احکام شریعت کی پابندی برقرار ہے) وہ بولی اگر میرا بیٹا بھی جاتا رہا تب بھی اپنی حیاء نہیں جانے دوں گی۔ آپ ﷺ نے اس عورت سے فرمایا تیرے بیٹوں کو دو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔ اس نے پوچھا اے اللہ کے رسول وہ کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیونکہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔






میت کا وہی لحاظ ہونا چاہئے جو اس کی زندگی میں ہوتا تھا
حدثنا : ‏ ‏حماد بن أسامة ‏ ‏قال : ، أخبرنا : ‏ ‏هشام ‏ ‏، عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏، عن ‏ ‏عائشة ‏ ‏قالت : ‏ ‏كنت إدخل بيتي الذي دفن فيه رسول الله ‏ (ص) ‏ ‏وأبي فأضع ثوبي فأقول إنما هو زوجي وأبي ، فلما دفن ‏ ‏عمر ‏ ‏معهم فوالله ما دخلت إلاّ وأنا مشدودة علي ثيابي حياء من ‏ ‏عمر.
[مسند أحمد - مسند الأنصار.. - باقي المسند.. - رقم الحديث : ( 24480/25660 )
الحاكم النيسابوري - المستدرك - كتاب المغازي والسرايا - رقم الحديث : ( 4402 )
الهيثمي - مجمع الزوائد - الجزء : ( 8 ) - رقم الصفحة : ( 26 )]
حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین ؓ فرماتی ہیں کہ جب میں اس حجرہ مبارک میں جایا کرتی تھی جس میں رسول کریم (اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ) مدفون تھے تو میں (اپنے بدن سے) کپڑا (یعنی چادر) اتار کر رکھ دیتی تھی اور (دل میں ) کہا کرتی تھی کہ یہاں میرے خاوند (آنحضرت ) اور میرے باپ (حضرت ابوبکر صدیق ) مدفون ہیں اور یہ دونوں میرے لئے اجنبی نہیں ہیں تو پھر حجاب کیسا؟ مگر جب (اس حجرہ میں ) ان کے ساتھ حضرت عمر فاروق کو دفن کر دیا گیا تو اللہ کی قسم میں اس حجرہ میں جب بھی داخل ہوتی تھی، حضرت عمر سے حیاء کی وجہ سے (کہ وہ اجنبی تھے) اپنے بدن پر کپڑے لپیٹے رکھتی۔ (احمد) تشریح یہ حدیث بڑی و ضاحت کے ساتھ اس بات کی دلیل پیش کر رہی ہے کہ زیارت میت و قبور کے وقت وہی لحاظ ہونا چاہئے جو اس کی زندگی میں ہوتا تھا چنانچہ اس بارہ میں ایک صحابی حضرت عقبہ بن عامر ؓ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ : " اگر میں آگ پر چلوں یا تلوار کی تیز دھار پر اپنا پیر رکھ دوں جس کے نتیجہ میں میرا پیر (جل) کٹ جائے تو میرے نزدیک یہ پسندیدہ ہے بہ نسبت اس چیز کے کہ میں کسی شخص کی قبر پر چلوں اور میرے نزدیک قبروں پر پیشاب کرنے اور بھرے بازار میں لوگوں کی نظروں کے سامنے پیشاب کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے" اسی طرح حضرت ابن ابی الدنیا نے حضرت سلیم بن غفیر کے بارہ میں یہ نقل کیا ہے : ایک مرتبہ وہ کسی قبرستان سے گزر رہے تھے کہ انہیں پیشاب کی شدید حاجت ہوئی (ان کی کیفیت دیکھ کر) لوگوں نے کہا کہ سواری سے اتر کر یہیں پیشاب کیوں نہیں کر لیتے! انہوں نے فرمایا کہ سبحان اللہ! (کیسی غلط بات کہہ رہے ہو) اللہ کی قسم میں مردوں سے اسی طرح حیاء کرتا ہوں جس طرح زندوں سے حیاء کرتا ہوں۔



بغیر ضرورت تنہائی میں بھی ستر کھولنا اچھا نہیں ہے:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَيْزَكَ الْبَغْدَادِيُّ ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُحَيَّاةَ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِيَّاكُمْ وَالتَّعَرِّيَ ، فَإِنَّ مَعَكُمْ مَنْ لَا يُفَارِقُكُمْ إِلَّا عِنْدَ الْغَائِطِ ، وَحِينَ يُفْضِي الرَّجُلُ إِلَى أَهْلِهِ فَاسْتَحْيُوهُمْ وَأَكْرِمُوهُمْ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ ، وَأَبُو مُحَيَّاةَ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ يَعْلَى .
اور حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم برہنہ ہونے سے اجتناب کرو اگرچہ تنہائی کیوں نہ ہو) کیونکہ پاخانہ اور اپنی بیوی سے مجامعت کے اوقات کے علاوہ تمہارے ساتھ ہر وقت وہ فرشتے ہوتے ہیں جو تمہارے اعمال لکھنے پر مامور ہیں لہذا تم ان فرشتوں سے حیاء کرو اور ان کی تعظیم کرو۔
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ تم ہر وقت اپنے ستر کو چھپائے رکھو اچھے کام کرتے رہو اور بری باتوں اور فحش اعمال سے اجتناب کرتے رہو تاکہ ان فرشتوں کی شان میں حیاء سوزی نہ ہو و اور ان کی تعظیم وتکریم میں کوئی فرق نہ آئے ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی ضررت مثلا مجامعت یا رفع حاجت وغیرہ کے علاوہ ستر کو کھولنا جائز نہیں ہے کیونکہ بڑی بے شرمی اور بے غیرتی کی بات ہے۔


ایام حیض میں اپنی بیوی کے پاس نہ جاؤ اور نہ بیوی کے ساتھ بد فعلی کرو                                                                 


عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِي أَدْبَارِهِنَّ " .
[سنن ابن ماجه » كِتَاب النِّكَاحِ » بَاب النَّهْيِ عَنْ إِتْيَانِ النِّسَاءِ فِي أَدْبَارِهِنَّ ... رقم الحديث: 1914(1924)]
حضرت خزیمہ بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے حیاء نہیں کرتا تم عورتوں کی مقعد میں بدفعلی نہ کرو ۔
[حديث خزيمة بن ثابت: أخرجه الدارمى (2/196، رقم 2213) ، والنسائى فى الكبرى (5/316، رقم 8982) ، وابن ماجه (1/619، رقم 1924) ، والطبرانى (4/84، رقم 3716) ، والبيهقى (7/197، رقم 13894) . وأخرجه أيضًا: الحميدى (1/207، رقم 436) ، وابن أبى شيبة (3/530، رقم 16810) ، وأحمد (5/213، رقم 21907) ، وابن الجارود (ص 181، رقم 728) ، وأبو عوانة (3/85، رقم 4294) ، وابن حبان (9/514، رقم 4200) .
حديث عمر: أخرجه أبو نعيم فى الحلية (8/376) وقال: غريب. وأخرجه أيضًا: البزار (1/474، رقم 339) .]
تشریح :
حیاء اس تغیر کو کہتے ہیں جو عیب لگنے اور برا کہے جانے کے خوف سے انسان میں واقع ہوتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی تغیر کا واقع ہونا محال ہے اس لئے یہاں حیاء سے حقیقی حیاء مراد نہیں ہے بلکہ مجازی حیاء یعنی ترک کرنا مراد ہے جو حیاء کا مقصد ہے اس طرح ( اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْى ) 2۔ البقرۃ : 26) کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے اور اس کے اظہار کو ترک نہیں کرتا لہذا حدیث میں اس بات کو ما بعد کے مضمون (عورت کے ساتھ بد فعلی کی ممانعت) کی تمہید ومقدمہ کے طور پر ذکر کرنا گویا اس فعل بد کی انتہائی برائی اور اس کے حرام ہونے پر متنبہ کرنا ہے کہ یہ بات اتنی ناپسندیدہ اور مکروہ ہے کہ اس کو زبان پر لانا اور اس کا ذکر کرنا بھی شرم وحیا کے منافی ہے اگرچہ اس کا ذکر کرنا اس سے روکنے ہی کی وجہ سے کیوں نہ ہو لیکن چونکہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے اور شرعی مسئلہ کو بیان کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اس لئے سن لو کہ عورتوں کے ساتھ ان کی مقعد میں بد فعلی کرنا حرام ہے اس لئے اجتناب کرو اس سے معلوم ہوا کہ جب عورتوں کے ساتھ بد فعلی کرنا حرام ہے تو مردوں کے ساتھ یہ فعل بطریقہ اولی حرام ہے۔ طیبی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی اجنبی عورت کے ساتھ یہ فعل بد کرے تو وہ زانی کے حکم میں ہوگا اور اگر اپنی بیوی یا اپنی لونڈی کے ساتھ کرے تو وہ حرام کا مرتکب ہوا لیکن اس کی پاداش میں اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا اور نہ اس پر حد جاری کی جائے گی البتہ اسے کوئی سزا ضرور دی جائے گی۔ اور نووی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کے ساتھ اغلام کرے تو وہ اجنبی کے ساتھ بد فعلی کرنے والے کے حکم میں ہوگا نیز حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس فعل بد پر فاعل اور مفعول یعنی یہ فعل بد کرنیوالا اور کرانیوالا دونوں مستوجب تعزیر ہوتے ہیں کہ ان دونوں کو ان کے حال کے مناسب کوئی سزا دی جائے گی ہاں اگر مفعول یعنی جس کے ساتھ یہ بد فعلی کی گئی ہے) چھوٹا ہو یا دیوانہ ہو یا اس کے ساتھ زبردستی یہ فعل بد کیا گیا ہو تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔





عن ابن عباس قال : أوحي إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم : ( نساوكم حرث لكم فأتوا حرثكم )

الآية : " أقبل وأدبر واتق الدبر والحيضة " .

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پر یہ آیت نازل کی گئی
(نِسَا ؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ) 2۔ البقرۃ : 223)
( تماری عورتیں تمہاری کھیتیاں پس آؤ تم اپنی کھیتیوں میں الخ)
لہذا تم جس طرح چاہو ان سے مجامعت کرو خواہ آگے سے اگلی جانب میں آؤ یا پیچھے سے اگلی جانب آؤ لیکن مقعد میں دخول کرنے سے اجتناب کرو اور حیض کی حالت میں جماع نہ کرو۔
[رواه الترمذي وابن ماجه(2/223)]
تشریح :
لفظ اقبل (خواہ آگے سے اگلی جانب میں آؤ) اور ادبر ( یا پیچھے سے اگلی جانب میں آؤ) یہ دونوں لفظ آیت کریمہ کے الفاظ (فا تو ا حرثکم) 2۔ البقرۃ : 223) کی تفسیر و بیان میں ہیں، یعنی ان دونوں الفاظ کے ذریعہ یہ وضاحتی تنبیہ کی گئی ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ خواہ آگے کی طرف سے آؤ یا پیچھے کی طرف سے آؤ مگر دخول بہرصورت اگلے حصے یعنی شرمگاہ ہی میں کرو چنانچہ بد فعلی کرنا یعنی مقعد میں دخول کرنا قطعی حرام ہے اسی طرح حیض کی حالت میں اگلے حصہ میں بھی دخول کرنا حرام ہے۔





بدگوئی عیب دار بناتی ہے اور نرم گوئی ، زینت بخشتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ ، قَالُوا : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ ، وَمَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ ".
[جامع الترمذي » كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الْفُحْشِ وَالتَّفَحُّشِ ... رقم الحديث: 1893(1974)]
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جس چیز میں بدگوئی اور سخت کلام ہو اس کو عیب دار بنا دیتی ہے اور جس چیز میں حیاء و نرمی ہو اس کو زیب و زینت عطا کرتی ہے۔
[أخرجه أحمد (3/165 رقم 12712) ، وعبد بن حميد (ص 372، رقم 1241) ، والبخارى فى الأدب المفرد (1/210، رقم 601) ، والترمذى (4/349، رقم 1974) وقال: حسن غريب. وابن ماجه (2/1400، رقم 4185) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (6/139، رقم 7723) .]
تشریح :
طیبی کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی میں فحش یعنی بدگوئی و سخت کلامی اور اس کے مقابلہ پر حیاء یعنی نرم گوئی کی تاثیر وشان کو مبالغہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اگر بالفرض فحش یا حیاء کسی پتھر یا لکڑی میں پیدا ہو جائے تو اس کو عیب دار یا بازینت بنا دے اس سے معلوم ہوا کہ بدگوئی وسخت کلامی شخصیت میں نقص و عیب پیدا کرنے کا ذریعہ ہے جب کہ نرم گوئی وخوش کلامی شخصیت میں وقار کو ظاہر کرتی ہے۔




وَأَقْبَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآَلِهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ ، خَمْسٌ إِنِ ابْتُلِيتُمْ بِهِنَّ ، وَنَزَلَ فِيكُمْ ، أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ تُدْرِكُوهُنَّ : لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتَّى يَعْمَلُوا بِهَا ، إِلا ظَهَرَ فِيهِمُ الطَّاعُونُ وَالأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلافِهِمْ ، وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ، إِلا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ وَشِدَّةِ الْمُؤْنَةِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ ، وَلَمْ يَمْنَعُوا الزَّكَاةَ ، إِلا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ ، وَلَوْلا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا ، وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللَّهِ ، وَعَهْدَ رَسُولِهِ إِلا سُلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوُّهُمْ مَنْ غَيْرِهِمْ ، وَأَخَذُوا بَعْضَ مَا كَانَ فِي أَيْدِيهِمْ ، وَمَا لَمْ يَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ ، إِلا أَلْقَى اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ .۔۔۔
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو، (وہ پانچ باتیں یہ ہیں) پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں، دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں، تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا، چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے، پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے۔
[المستدرك على الصحيحين » كِتَابُ الْفِتَنِ وَالْمَلاحِمِ ۔۔۔ رقم الحديث: 8717(2/582)]
أخرجه ابن ماجه (2/1332، رقم 4019) ، وأبو نعيم (8/333) ، والحاكم (4/583، رقم 8623) وقال: صحيح الإسناد. والبيهقى فى شعب الإيمان (3/197، رقم 3315) ، وابن عساكر (35/260) .









************************

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الحياء من الإيمان والإيمان في الجنة . والبذاء من الجفاء والجفاء في النار .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حیاء یعنی برے کاموں سے حجاب رکھنا ایمان کا جز ہے اور ایمان یعنی مومن جنت میں جائے گا اور بے حیائی بدی کا جز ہے اور بد دوزخ کی آگ میں جائے گا۔


حديث عمران بن حصين: أخرجه الطبرانى (18/178، رقم 409) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (6/134، رقم 7709 مكرر)

حديث أبى هريرة: أخرجه أحمد (2/501، رقم 10519) ، قال الهيثمى (1/91) : رجاله رجال الصحيح. والترمذى (4/365، رقم 2009) وقال: حسن صحيح. والحاكم (1/119، رقم 172) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (6/133، رقم 7707) . وأخرجه أيضًا: ابن أبى شيبة (5/213، رقم 25345) ، وهناد فى الزهد (2/626، رقم 1351) ، وابن حبان(2/372، رقم 608) ، والديلمى (2/150، رقم 2762) .

حديث أبى بكرة: أخرجه البخارى فى الأدب المفرد (1/445، رقم 1314) ، وابن ماجه (2/1400، رقم 4184) ، والحاكم (1/118، رقم 171) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (6/133، رقم 7708) . وأخرجه أيضًا: ابن أبى الدنيا فى مكارم الأخلاق (1/35، رقم 72) ، والبغوى فى الجعديات (1/421، رقم 2874) ، والطبرانى فى الأوسط (5/193 رقم 5055) .

عن ابن مسعود عن فاطمة الزهراء:
أخرجه الطبرانى (22/413، رقم 1024) ، قال الهيثمى (8/169) : فيه سوار بن مصعب، وهو متروك.













اللہ ہاتھوں کی لاج رکھتا ہے
عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا خَائِبَتَيْنِ " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ وَلَمْ يَرْفَعْهُ .
حضرت سلمان ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارا پروردگار بہت حیاء مند ہے یعنی وہ حاجت مندوں کا سا معاملہ کرتا ہے وہ بغیر مانگے دینے والا ہے اور وہ اپنے بندہ سے حیاء کرتا ہے کہ اسے خالی ہاتھ واپس کرے جب کہ اس کا بندہ اس کی طرف (دعا کے لئے) اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے۔
[حديث سلمان المرفوع: أخرجه أحمد (5/438، رقم 23765) ، والترمذى (5/556، رقم 3556) وقال: حسن غريب. والحاكم (1/718، رقم 1962) وقال: صحيح على شرط الشيخين. والبيهقى (2/211، رقم 2965) . وأخرجه أيضًا: أبو داود (2/78، رقم 1488) ، وابن حبان (3/160، رقم 876) .
حديث سلمان الموقوف: أخرجه ابن أبى شيبة (6/72، رقم 29555) .]







آنحضرت کے اوصاف حمیدہ :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَشَدَّ حَيَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا ، فَإِذَا رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ عَرَفْنَاهُ فِي وَجْهِهِ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْأَدَبِ » باب مَنْ لَمْ يُوَاجِهِ النَّاسَ بِالْعِتَابِ ۔۔۔ رقم الحديث: 5664(6102)]
حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے ، جب کوئی خلاف مزاج بات (طبعی طور پر غیر پسندیدہ یا غیر شرعی ہونے کی وجہ سے ) پیش آجاتی تو ہم آپ ﷺ کے چہرہ مبارک سے آپ ﷺ کی ناگواری کو محسوس کرلیتے ۔
[صحيح ابن حبان:6306+6307+6308، صحيح البخاري:3562+6102+6119، صحيح مسلم: 2320، البحر الزخار المعروف بمسند البزار: 13/434، مجمع الزوائد: 9/20، صحيح الأدب المفرد:364+467]
تشریح :
" خدر" پردہ کو کہتے ہیں پردہ میں رہنے والی کنواری لڑکی ۔ اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ جتنی زیادہ شرم وحیا اس کنواری لڑکی میں ہوتی ہے جو پردہ میں رہتی ہے اور گھر سے باہر قدم نہیں نکالتی اتنی اس کنواری میں نہیں ہوتی جو بے پردہ ہوتی ہے اور گھر سے باہر پھرتی ہے ۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ کے سامنے کوئی ایسی بات پیش آتی جو طبعی طور پر غیر پسندیدہ یا غیر شرعی ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کے مزاج کے خلاف ہوتی تو اس کی ناگواری کے اثر سے چہرہ مبارک فورًا متغیرہوجاتا اور ہم اس تغیر سے آپ ﷺ کی ناگواری کو محسوس کرکے اس کے دفیعہ کی کوشش کرتے چنانچہ آپ ﷺ کے چہرہ سے ناگواری کے اثرات ختم ہوجاتے تھے اور یہ محسوس ہونے لگتا تھا کہ آپ ﷺ بالکل غصہ نہیں ہوئے تھے لیکن یہ اس صورت میں ہوتا تھا جب اس خلاف مزاج بات کا تعلق کسی طبعی امر سے ہوتا یا کسی ایسے شرعی امر سے ہوتا جس کا ارتکاب حرام ناجائز بلکہ مکروہ ہوتا ۔ علامہ نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ مطلب لکھا ہے کہ جو خلاف مزاج بات پیش آتی غلبہ حیاء سے آپ ﷺ اس کے خلاف ناگواری کا اظہار زبان سے نہ کرتے بلکہ اس کے اثرات آپ ﷺ کے چہرے پر ظاہر ہوجاتے تھے چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ چہرے کے تغیر سے آپ کی ناگواری اور ناراضگی کو محسوس کرلیتے اس حدیث سے نہ صرف یہ کہ شرم وحیاء کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے بلکہ یہ سبق ملتا ہے کہ اس وصف کو اپنے اندر زیادہ سے زیادہ پیدا کرنا چاہے تاوقتے کہ اس کی وجہ سے کسی شرعی وانسانی فریضہ کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا نہ ہو اور کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو۔









حضرت عثمان کے مناقب کا بیان:

حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَيَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَي بْنُ يَحْيَي : أَخْبَرَنَا ، وقَالَ الْآخَرُونَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، وَسُلَيْمَانَ ابني يسار ، وأبي سلمة بن عبد الرحمن ، أن عائشة ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِي ، كَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ أَوْ سَاقَيْهِ ، فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ ، فَتَحَدَّثَ ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ ، فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ كَذَلِكَ ، فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَوَّى ثِيَابَهُ ، قَالَ مُحَمَّدٌ : وَلَا أَقُولُ ذَلِكَ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ ، فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ فَلَمَّا خَرَجَ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ ، فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ وَسَوَّيْتَ ثِيَابَكَ ، فَقَالَ : أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ " .
ام المؤمنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں : (ایک دن ) رسول کریم ﷺ اپنے گھر میں اپنی رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے لیٹے تھے کہ حضرت ابوبکر نے حاضری کی اجازت چاہی ، آپ ﷺ نے انہیں اندر بلالیا اور اسی حالت میں لیٹے رہے ، حضرت ابوبکر (کچھ دیر تک بیٹھے ) آپ ﷺ سے باتیں کرتے رہے پھر حضرت عمر نے حاضری کی اجازت چاہی ، آپ ﷺ نے انہیں اندر بلالیا اور اسی طرح لیٹے رہے حضرت عمر (بھی کچھ دیر تک بیٹھے ) آپ ﷺ سے باتیں کرتے رہے اور پھر جب حضرت عثمان نے حاضری کی اجازت چاہی ( اور اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئے ) تو رسول کریم ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کپڑوں کو درست کر لیا (یعنی رانیں یا پنڈلیاں ڈھک لیں ) جب حضرت عثمان ( اور خدمت اقدس میں حاضر دوسرے لوگ ) چلے گئے تو عائشہ نے عرض کیا کہ حضرت ابوبکر اندر تو آپ نے نہ جنبش کی اور نہ ان کی پرواہ کی ، (بلکہ اسی طرح لیٹے رہے اور اپنے کپڑے بھی درست نہیں کئے نہیں ) اسی طرح حضرت عمر اندر آئے تو آپ ﷺ نے اس وقت بھی نہ حرکت کی اور نہ ان کی پرواہ کی ، مگر جب حضرت عثمان اندر داخل ہوئے تو آپ فورًا اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کرلئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا : کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے حیاء کرتے ہیں " اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ عثمان بہت حیادار آدمی ہیں میں نے محسوس کیا کہ اگر میں نے عثمان کو اسی حالت میں بلالیا (کہ میری رانیں یا پنڈلی کھلی ہوئی ہوں ) تو وہ مجھ سے اپنا مقصد پورا نہیں کریں گے یعنی اگر وہ مجھ کو اس حالت میں دیکھیں کے تو غلبہ ادب اور شرم وحیا سے میرے پاس نہیں بیٹھیں گے اور جس مقصد سے یہاں آئے ہیں اس کو پورا کئے بغیر واپس چلے جائیں گے ۔"
[أخرجه مسلم (4/1866، رقم 2401) ، وأبو يعلى (8/240، رقم 4815) ، وابن عساكر (39/91) . . صحيح ابن حبان: 6907، السنن الكبرى للبيهقي: 2/231، ، صحيح الجامع، الألباني: 2620، التمهيد،لابن عبد البر: 6/380، الاستذكار،لابن عبد البر: 2/191
الراوي : حفصة بنت عمر |شرح مشكل الآثار: 4/421، المعجم الأوسط،للطبراني: 8/379، تاريخ دمشق، لابن عساكر: 39/88]



تشریح :

"اپنی رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے" حدیث کی شرح میں اس عبارت کے تحت امام نووی نے لکھا ہے کہ مالکی اور دوسرے حضرات نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ " ران " جسم کا وہ حصہ ہے جس کو " ستر " میں شمار کیا جائے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ اول تویہی بات یقینی نہیں ہے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ اپنی رانیں کھولے ہوئے لیٹے تھے اگر یہ یقینی ہوتا تو حدیث کے راوی کو " اپنی رانیں یا پنڈلیاں " کے الفاظ سے یہ شک وتردد ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ کہ اس وقت آنحضرت ﷺ اپنے جسم مبارک کا جو حصہ کھولے ہوئے لیٹے تھے وہ رانیں تھیں یا پنڈلیاں ؟ جب الفاظ حدیث سے رانوں کا کھولنا یقینی طور پر ثابت نہیں تو پھر رانوں کا ستر نہ ہونا یعنی رانیں کھولنے کا جواز اس حدیث سے ثابت کرنا غیرموزوں بات ہے دوسرے اس بات کا قریبی امکان ہے کہ " رانیں کھولنے " سے مراد رانوں پر سے کرتے کا دامن ہٹا ہونا " ہو یعنی ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ﷺ کی رانیں بالکل کھلی ہوئی تھیں کہ ان پر نہ تہبند تھا اور نہ کرتے کا دامن بلکہ یہ مطلب ہے کہ آپ ﷺ نے تہبند تو باندھ رکھا تھا جس میں رانیں چھپی ہوئی تھیں مگر رانوں کے اوپر سے کرتے کا دامن ہٹا ہوا تھا ، اس کی تائید نہ صرف یہ کہ آگے کی عبارت سے سمجھ میں آتی ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کی عادت ، مزاج اور اس معمول کے پیش بھی یہی بات زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے جو آل واصحاب کے ساتھ مخالطت ومجالست کے مواقع پر آپ ﷺ کا تھا ۔ اور کپڑوں کو درست کرلیا " ان الفاظ میں اس طرف واضح اشارہ ہے کہ آپ ﷺ رانوں یا پنڈلیوں میں سے کوئی بھی عضو پوری طرح کھولے ہوئے نہیں لیٹے تھے بلکہ تہبند کے علاوہ اور کوئی کپڑا رانوں یا پنڈلیوں پر نہیں تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رانیں پوری طرح کھلی ہوئی ہوتیں تو یہاں وسوی ثیابہ (اور کپڑوں کو درست کرلیا ) کے بجائے یہ الفاظ ہوتے کہ : وستر فخذیہ (اور اپنی رانوں کو ڈھک لیا ) ۔ " جس سے فرشتے حیاء کرتے ہیں " امام نووی نے لکھا ہے کہ یہ ارشاد گرامی حضرت عثمان کی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ " حیاء " فرشتوں کی ایک اعلی صفت ہے جو مذکورہ الفاظ کے ذریعہ حضرت عثمان میں ثابت کی گئی ہے اور مظہر نے لکھا ہے : یہ الفاظ حضرت عثمان کی اس عزت وتوقیر کو ظاہر کرتے ہیں ، جو آنحضرت ﷺ کے نزدیک تھی لیکن اس سے نہ تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے اس مقام ومرتبہ پر کوئی فرق پڑتا ہے جو بارگاہ رسالت ﷺ میں ان کو حاصل تھا اور نہ یہ لازم آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان کی بہ نسبت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی ، دراصل حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو تعلق ، محبت اور قربت کا جو خصوصی مقام بارگارہ رسالت میں حاصل تھا وہ اسی " بے تکلفی " کا متقاضی تھا ، جس کا اظہاران دونوں کی آمد پر آنحضرت ﷺ نے کیا کہ جس طرح لیٹے تھے اسی طرح لیٹے رہ گئے ۔سب جانتے ہیں ، جیسا کہ کہا گیا ہے : اذا حصلت الالفۃ بطلت الکفۃ : اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ حدیث فضیلت عثمان کے موضوع سے زیادہ فضیلت ابوبکر وعمر کے موضوع سے تعلق رکھتی نظر آتی ہے مگر حدیث کا ظاہری مفہوم اور اس کا سیاق وسباق چونکہ حضرت عثمان کی تعظیم وتوقیر پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس حدیث کو حضرت عثمان کے مناقب کے باب میں ذکر کرنا ہی زیادہ موزوں ہے یہ حقیقت بھی ذہن میں رہنے چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کے رفقاء و صحابہ میں سے جو شخص جس صفت کا زیادہ حامل ہوتا تھا اور جس کی طبیعت ومزاج پر جس خصلت وخوبی کا غلبہ ہوتا تھا آپ اسی صفت وخصلت کی رعایت سے اس کے ساتھ سلوک فرماتے تھے ، چنانچہ حضرت عثمان پر چونکہ صفت حیاء کا غلبہ تھا اس لئے آپ ہمیشہ ان کا حجاب ولحاظ کرتے تھے جب کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر چونکہ آپ سے بہت بے تکلف تھے اس لئے ان کے ساتھ بے تکلفی کا معاملہ رکھتے تھے ۔ فرشتوں نے حضرت عثمان سے جن مواقع پر حیاء کی ہے ان میں سے ایک یہ نقل کیا گیا ہے کہ مدینہ میں ایک قضیہ کے دوران حضرت عثمان جو آگے بڑھے تو ان کا سینہ کھل گیا اور فرشتے فورا پیچھے ہٹ گئے ۔ اسی وقت آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان کو متوجہ کیا کہ اپنا سینہ ڈھک لیں ۔ اس کے بعد فرشتے اپنی جگہ واپس آگئے ۔ آنحضرت ﷺ نے ان فرشتوں سے ان کے پیچھے ہٹنے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ عثمان کی حیاء سے ہم پیچھے ہٹ گئے تھے اور جب انہوں نے آپ ﷺ کے توجہ دلانے پر اپنا سینہ ڈھک لیا تو ہم اپنی جگہ پر واپس آگئے ۔"












چاروں خلفاء کے فضائل:


عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " رَحِمَ اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ زَوَّجَنِيَ ابْنَتَهُ , وَحَمَلَنِي إِلَى دَارِ الْهِجْرَةِ , وَأَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِهِ ، رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ يَقُولُ الْحَقَّ , وَإِنْ كَانَ مُرًّا تَرَكَهُ الْحَقُّ , وَمَا لَهُ صَدِيقٌ ، رَحِمَ اللَّهُ عُثْمَانَ تَسْتَحْيِيهِ الْمَلَائِكَةُ ، رَحِمَ اللَّهُ عَلِيًّا اللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ " 
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ » بَاب مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ ... رقم الحديث: 3676(3714)]

حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔ انہوں نے اپنی بیٹی (عائشہ ) کا نکاح مجھ سے کردیا اپنی اونٹنی پر سوار کرکے مجھ کو دار ہجرت (یعنی مدینہ ) لے آئے (سفر ہجرت کے دوران ) غار ثور میں میرے ساتھ رہے اور اپنے مال سے بلال کو (خرید کر ) آزاد کیا (اور میری خدمت میں دیدیا ) اللہ تعالیٰ عمر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ، وہ جو بات کہتے ہیں خواہ کسی کو تلخ ہی کیوں نہ لگے اور حق گوئی نے ان کو اس حال پر پہنچا دیا کہ ان کا کوئی دوست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ، ان سے تو فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ علی پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ، اے اللہ (حق کو علی کے ساتھ رکھ کہ جدھر علی رہے ادھر ہی حق رہے ۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہم کہ یہ حدیث غریب ہے ۔"
[تخريج مشكاة المصابيح،لالباني: 6079، المعجم الأوسط، للطبراني: 6/95، تاريخ الإسلام،للذهبي: 3/634]
تشریح :
اپنی اونٹنی پر سوار کرکے " بعض روایتوں میں آیا ہم کہ حضرت ابوبکر نے (٢) اونٹنیاں پال کر تیار کر رکھی چھوڑی تھیں کہ نامعلوم کب ہجرت کا حکم آجائے چنانچہ جب ہجرت کا حکم آگیا تو وہ ایک اونٹنی لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! سفر ہجرت میں سواری کے لئے اس اونٹنی کو قبول فرمائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اس اونٹنی کو اپنی سواری کے لئے اس صورت میں لوں گا کہ تم اس کو میرے ہاتھ فروخت کردو ۔ آخر کار حضرت ابوبکر نے اس اونٹنی کو آپ کے ہاتھ فروخت کیا اور آپ ﷺ نے آٹھ سو درہم قرض کے عوض اس اونٹنی کو خرید لیا ۔ " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کا کوئی دوست نہیں یعنی ان کا کوئی ایسا دوست نہیں جو دوستی کے ناطے ان سے رعایتی سلوک اور مداہنیت کی توقع رکھے ورنہ جہاں تک مطلق دوستی کا تعلق ہے تو سارے ہی مخلص اور سچے مسلمان ان کے دوست تھے اور سب سے بڑھ کر تو صدیق اکبر ہی ان کے صدیق (دوست ) تھے ۔ " جدھر علی رہے ادھر ہی حق رہے " یہ الفاظ ایسے ہی ہیں جیسے ایک اور روایت میں کہ جس کو سیوطی نے جمع الجوامع میں نقل کیا ہے فرمایا گیا ہے القران مع علی وعلی مع القران ۔ (یعنی قرآن علی کے ساتھ ہے اور علی قرآن کے ساتھ )











حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ ، وَأَشَدُّهُمْ فِي دِينِ اللَّهِ عُمَرُ ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ ، وَأَقْضَاهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ، وَأَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا ، وَأَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ "۔
الراوي : [أنس بن مالك] | المحدث : الزرقاني | المصدر : مختصر المقاصد
الصفحة أو الرقم: 83 | خلاصة حكم المحدث : صحيح





حضرت انس نبی کریم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میری امت میں ابوبکر ہی میری امت کے لوگوں کے حق میں سب سے زیادہ مہربان اور سب سے بڑے درد مند ہیں (کہ وہ نہایت لطف ومہربانی اور درد مندی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور ان کو فلاح ونجات کے راستہ پر لگاتے ہیں ) اور میری امت کے لوگوں میں عمر اللہ کے دین کے معاملات میں سب سے زیادہ سخت ہیں (کہ نہایت سختی اور مضبوطی کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں ) اور میری امت کے لوگوں میں عثمان سب سے سچے حیادار ہیں اور میری امت کے لوگوں میں سب سے بڑے فرائض داں زید بن ثابت ہیں اور میری امت کے لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والے اور سب سے بڑے ماہر تجوید قرآن ابی ابن کعب ہیں اور میری امت میں حلال وحرام کو سب سے زیادہ جاننے والے معاذ بن جبل ہیں اور ہرامت میں ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین عبیدہ بن الجراح ہیں ۔ (احمد وترمذی ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس حدیث کو معمر نے بھی قتادہ سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اور (معمر کی ) اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ : میری امت کے لوگوں میں حق کے مطابق سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے علی ہیں ۔"
[أخرجه الطيالسى (ص 281، رقم 2096) ، وأحمد (3/281، رقم 14022) ، والترمذى (5/665، رقم 3791) وقال: حسن صحيح. والنسائى فى الكبرى (5/67، رقم 8242) ، وابن ماجه (1/55، رقم 154) ، وابن حبان (16/85، رقم 7137) ، والحاكم (3/477، رقم 5784) ، وقال: صحيح على شرط الشيخين. وأبو نعيم فى الحلية (3/122) ، والبيهقى (6/210، رقم 11966) ، والضياء (6/225، رقم 2240) .
ومن غريب الحديث: "وأصدقُهم حياءً": أشدهم حياء، حتى إنه كان يستحيى من حلائله، وفى خلوته، ولشدة حيائه كانت تستحيى منه ملائكة الرحمن. "أفرضُهم": أعلمهم بعلم الفرائض، وهو علم المواريث.
وللحديث أطراف أخرى منها: "أرحمُ هذه الأمةِ"]
تشریح :
۔ ۔ ۔ ۔ عثمان سب سے سچے حیادار ہیں ۔ حیاء کا وصف ، کہ جو ایمان کی ایک بڑی شاخ ہے ۔ حضرت عثمان کے ساتھ ایک طرح کی خصوصی اور امتیازی نسبت رکھتا ہے تھا اور ان کی حیاداری اور غیرت مندی کو مثالی حیثیت حاصل تھی رہی یہ بات کہ " سچی حیاداری " سے کیا مراد ہے تو اس میں دراصل اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بسا اوقات حیاء اور غیرت کا اظہار طبعی تقاضہ کے تحت ایسے موقع پر بھی ہوتا ہے جو شرعی نکتہ نظر سے حیاء اور غیرت کا تقاضا نہیں کرتا پس حضرت عثمان اسی سچی اور معتبر حیاء کے حامل تھے ۔" " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے بڑے فرائض داں زید بن ثابت ہیں ۔" یعنی فرائض اور میراث کا علم فنی اور تحقیقی مضبوطی کے ساتھ زید بن ثابت میں بہت زیادہ ہے بلاشبہ حضرت زید بن ثابت بڑے فقہا، صحابہ میں سے تھے اور علم فرائض کے ماہر سمجھے جاتے تھے کاتب وحی ہونے کا شرف بھی ان کو حاصل تھا اور انہوں نے حضرت ابوبکر اور پھر حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں قرآن کو لکھنے اور جمع کرنے کی خدمت بڑی خوبی کے ساتھ انجام دی ۔ " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے بڑے ماہر تجوید قرآن ابی بن کعب ہیں ۔" حضرت ابی بن کعب انصاری خزرجی ہیں ۔ آنحضرت کے ایک کاتب وحی بھی تھے جن چھ صحابہ نے حضور کے عہد مبارک میں پورا قرآن کریم حفظ کیا تھا ان میں سے ایک یہ بھی ہیں ۔ آنحضرت کے زمانہ میں ان کو " سید القراء " کہا جاتا تھا اور خود سرکار نے ان کو " سید الانصار کا لقب دیا تھا ۔ حضرت عمر فاروق " سید المسلمین " کے لقب سے پکارتے تھے ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ جب سورت نازل ہوئی تو آنحضرت نے ابی بن کعب ؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہ سورت تمہارے سامنے پڑھوں اور تمہیں سناوں ۔ ابی نے پوچھا : کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے ؟ حضور نے فرمایا : ہاں اللہ نے تمہارا نام لیا ہے ۔ یہ سن کر ابی رونے لگے اور ان کے ساتھ آنحضرت بھی رو دئیے ۔ ان کی وفات ١٩ھ میں مدینہ میں ہوئی ۔ ایک بہت بڑی جماعت کو ان سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہے ۔ حلال وحرام کو سب سے زیادہ جاننے والے معاذ بن جبل انصار میں سے ہیں اور ان ستر خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جو آنحضرت کی ہجرت مدینہ سے پہلے مکہ آئے تھے اور بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے ، مدینہ میں آنحضرت نے مہاجرین اور انصار کے درمیان جو عام بھائی چارہ کرایا تھا اس کے تحت حضرت معاذ بن جبل کا بھائی چارہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے یا ایک روایت کے مطابق حضرت جعفر بن ابی طالب سے قائم ہوا تھا ۔ آنحضرت نے آپ کو قاضی اور معلم بنا کر یمن بھیجا تھا اس وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال کی تھی طاعون عمو اس میں بعمر اڑتیس سال ١٨ھ میں آپ نے انتقال کیا ، انتقال کے وقت آپ بار بار کہتے تھے : الہٰی !یہ (سخت ترین طاعون بعض اعتبار سے ) درحقیقت تیرے بندوں پر تیری رحمت ہے الہٰی !معاذ اور معاذ کے اہل وعیال کو اس رحمت سے محروم نہ رکھ ۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ دم رخصت حضرت معاذ کی زبان پر کچھ اس طرح کے الفاظ تھے : الہٰی ! موت کی سختی کم کردے جتنا تو چاہے قسم ہے تیری عزت کی تو خوب جانتا ہے کہ میں تجھ کو دوست رکھتا ہوں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ہم معاذ بن جبل کو اس آیت (اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا) 16۔ النحل : 120) ۔ کے مضمون میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ دیا کرتے تھے حضرت معاذ بن جبل کی علمی فضیلت وبزرگی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آنحضرت کے زمانہ میں فتویٰ دینے کی اہم ذمہ داری آپ کے سپرد تھی اور حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں بھی ۔ جب معلم وقاضی ہو کر یمن چلے گئے تو حضرت عمر فاروق فرمایا کرتے تھے : معاذ نے یمن جا کر اہل مدینہ میں فقہ کا خلاء پیدا کردیا ہے حضرت معاذ جنگ بدر میں بھی شریک تھے اور دوسری جنگوں میں بھی مجاہدین اسلام کے دوش بدوش رہے ۔ منقول ہے کہ رحلت کے وقت آپ کے ساتھی رونے لگے تو ان سے پوچھا : تم لوگ کیوں رو رہے ہو ؟ ان سب نے کہا کہ ہم علم کو رو رہے ہیں جو آپ کی موت کے سبب منقطع ہوا چاہتا ہے ، حضرت معاذ نے کہا : علم اور ایمان لازوال ہیں قیامت تک باقی رہنے والے ہیں ، حق جس سے بھی ملے حاصل کرو باطل پر جو بھی اس کی تردید ومخالفت کرو۔ " اس امت کے امین ابوعبیدہ بن الجراح ہیں ۔ حضرت عبیدہ بن الجراح نے اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت کا سب سے بڑا کامیاب امتحان اپنے باپ کو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتار کر دیا جو دشمنان اسلام کی طرف سے اہل اسلام کے خلاف میدان جنگ میں آیا تھا جنگ احد میں پامردی اور ثابت قدمی کے ساتھ میدان کارزار میں ڈٹے رہے اور ذات رسالتماب کو دشمن کے حملوں سے بچانے میں فدا کاری کے جوہر دکھائے ۔خلافت صدیقی میں آپ بیت المال کے مہتمم اور افسر اعلی تھے حضرت عمر فاروق نے آپ کو حضرت خالد بن ولید کی جگہ اسلامی فوج کا سپہ سالار اعظم مقرر کیا اور شام وفلسطین کی اکثر فتوحات آپ ہی کے زیر کمان حاصل ہوئیں ۔ حضرت عمر نے اپنی وفات کے دن فرمایا تھا : اگر آج ابوعبیدہ زندہ ہوتے تو اس معاملہ (یعنی خلافت) کی زمام کار (یا یہ کہ انتخاب خلیفہ کے لئے مشاورت کا انتظام واختیار ) میں انہی کو سونپ جاتا ۔ حضرت ابوعبیدہ زہد وقناعت کے جس درجہ کمال کے حامل تھے ان کا اندازہ اس روایت سے کیا جاسکتا ہے جو بعض مستند کتابوں میں عروہ بن زبیر سے منقول ہے کہ جب امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق شام وفلسطین کے دورہ پر آئے تو اس خطہ کے مختلف علاقوں میں تعینات اسلامی افواج کے کمانڈر اور بڑے بڑے عمال وحکام امیر المؤمنین کے استقبال کے لئے موجود تھے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح جو شام وفلسطین میں اسلامی افواج کے سپہ سالار اعظم تھے ، اس وقت تک وہاں نہیں پہنچے تھے ، حضرت عمر نے استقبال کرنے والے امراء اور عمائدین سے پوچھا کہ میرا بھائی کہاں ہے ؟ لوگوں نے پوچھا : کون آپ کا بھائی ؟ فاروق اعظم نے فرمایا : ابوعبیدہ بن الجراح !لوگوں نے کہا وہ آتے ہی ہوں گے ۔ جب ابوعبیدہ آگئے تو امیرالمؤمنین سواری سے اترے اور ان کو گلے لگایا ، پھر ان کے گھر گئے ، انہوں نے سپہ سالاراعظم ابوعبیدہ کے گھر میں پہنچ کر دیکھا تو وہاں ان کو ایک چھوٹی سی تلوار ، ایک سپر کے علاوہ اور کوئی سامان نظر نہ آیا ۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ : امیر المؤمنین نے حضرت ابوعبیدہ سے کہا کہ چلو ہمیں اپنے گھر لے چلو اور پھر امیر المؤمنین حضرت ابوعبیدہ کے گھر آئے اور اندر پہنچ کر دیکھا تو پورا مکان خالی نظر آیا کہیں کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔ امیر المؤمنین حیرت سے پوچھا : ابوعبیدہ ! تمہارے سامان کہاں ہے ، یہاں تو ایک نمدہ ، ایک رکابی اور ایک تلوار کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے حالانکہ تم تو اس علاقہ کے حاکم اعلی اور اسلامی افواج کے سپہ سالاراعظم ہو ، کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو بھی ہے یا نہیں ؟ حضرت ابوعبیدہ یہ سن کر گھر کے ایک کونے میں گئے اور وہاں سے روٹی کے چند خشک ٹکڑے اٹھا کر لائے ، فاروق اعظم نے یہ دیکھا تو بے اختیار رونے لگے اور بولے : ابوعبیدہ !بس تم ہی ایک مرد افگن نکلے ، باقی ہم سب کو تو دنیا نے اپنے فریب کا شکار بنا لیا ۔" " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حق کے مطابق سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے حضرت علی ہیں ،" بلاشبہ حضرت علی اس امت کے سب سے بڑے قاضی ہیں ، قضایا نمٹانے اور حق بجانب فیصلہ کرنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا اسی لئے حضرت عمر ان کے مشورہ اور ان کے فتوے کے بغیر کوئی حکم اور فیصلہ صادر نہیں کرتے تھے ، اگر حضرت علی موجود نہ ہوتے تو ان کے آنے تک فیصلہ کی کاروائی ملتوی رکھتے تھے ۔ بہرحال حدیث کے الفاظ " اقضاہم " کے بظاہر یہی معنی ہیں کہ : " علی فیصلہ طلب مقدموں اور قضیوں کے شرعی اور عدالتی احکام وقوانین سب سے زیادہ جانتے ہیں اور سب سے اچھا فیصلہ دیتے ہیں تاہم اس سے حضرت عمر اور حضرت عمر پر حضرت علی کی افضلیت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حضرت علی کی جزئی فضیلت ہے اور جزئی فضیلت کلی فضیلت کے منافی نہیں ہوتی ، جبکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی شان میں جو نصوص موجود ہیں ان سے علی الترتیب ان دونوں حضرات کا تمام امت سے افضل ہونا ثابت ہے ۔ حضرت ابوبکر کی افضلیت کی ایک صریح دلیل تو ایک یہی آیت ہے (لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ اُولٰ ى ِكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا) 57۔ الحدید : 10) یہ آیت خاص حضرت ابوبکر ہی کے حق میں نازل ہوئی ہے کیونکہ صرف انہوں نے ہی فتح مکہ سے پہلے اپنا مال جہاد میں لگا یا تھا ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کوئی مسلمان ان کے برابر نہیں ہوسکتا ، اس میں بھی کوئی شبہ کہ اس بارے میں حدیثیں متعارض اور دلیلیں متناقض ہیں اور روایت ودلائل کا یہ تعارض وتناقض اس بات کا متقضی ہے کہ اس نکتہ کو تسلیم کیا جائے جس پر جمہور صحابہ نے اتفاق کیا ہو۔ پس جس نکتہ پر جمہور صحابہ نے اتفاق کیا ہے وہ وہی ہے جس پر اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے یعنی یہ کہ آنحضرت کے بعد اجر وثواب کی کثرت کے اعتبار سے حضرت ابوبکر افضل ہیں پھر حضرت عمر ، پھر حضرت عثمان اور پھر حضرت علی ۔



شرم وحیاء حضرت عثمان ؓ کا امتیازی وصف تھا، اس لئے مؤرخین نے ان کے اخلاق وعادات کے بیان میں حیاء کا مستقل عنوان قائم کیا، آپ میں اس درجہ شرم وحیاء تھی کہ خود حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اس حیا کا پاس ولحاظ رکھتے تھے، ایک دفعہ صحابہ کرام ؓ کا مجمع تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے تکلفی کے ساتھ تشریف فرماتھے، زانوئے مبارک کا کچھ حصہ کھلا ہوا تھا، اسی حالت میں حضرت عثمان ؓ کے آنے کی اطلاع ملی تو سنبھل کر بیٹھ گئے اور زانوئے مبارک پر کپڑا برابر کرلیا،لوگوں نے حضرت عثمان کے لئے اس اہتمام کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ عثمان ؓ کی حیاء سے فرشتے بھی شرماتے ہیں،(بخاری ج ۲ مناقب حضرت عثمان ؓ)اسی قسم کا ایک اورواقعہ حضرت عائشہ ؓ بھی بیان فرماتی ہیں،(مسند ابن حنبل ج ۱ : ۷۱) حضرت ذوالنورین ؓ کی حیا کا یہ عالم تھا کہ تنہائی اوربند کمرے میں بھی وہ برہنہ نہیں ہوتے تھے۔




حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ (۵۸۶۔تا۔۶۴۴ء)نے فرمایا:


جو شخص زیادہ ہنستا ہے اس کا دبدبہ کم ہوجاتا ہے ، جو لوگوں کی تذلیل کرتا ہے خود ذلیل ہوتاہے ، جس چیزکی کثرت کرتا ہے اسی کے ساتھ موسوم ہوجاتا ہے ، جو بہت بولنے کا عادی ہو اس سے غلطیاں بہت ہوتی ہیں  ، جو بہت غلطیاں کرے اس کی شرم گھٹ جاتی ہے ، جس کی حیاء کم ہوجاتی ہے اس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اور جس کا تقویٰ کم ہوجاتا ہے اس کا دل مر جاتا ہے۔





 حضرت علی المرتضیٰؓ نے فرمایا:ہیبت وخوف سے ناکامی اورحد سے زیادہ حیاء کرنے سے محرومی ملتی ہے۔


اور فرمایا: بے موقع حیاء بھی باعثِ محرومی ہے۔



حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ برائی اورہلاکت کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس سے حیاء نکال لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تم دیکھو گے کہ لوگ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں اور وہ بھی لوگوں سے بغض رکھتا ہے۔(حلیۃ الاولیاء:۱/۲۰۴)


حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اندھیرے گھر میں نہاتے تھے؛ تاہم شرم کے مارے سیدھےکھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ سکٹرتے رہتے تھے ،ایک دفعہ چند لوگوں کو دیکھا کہ پانی میں بغیر تہبند باندھے ہوئے کھڑے ہوئے ہیں، بولے مجھے یہ پسند ہے کہ مرکر زندہ ہوں پھر مروں پھر زندہ ہوں پھر مروں پھر زندہ ہوں ؛لیکن یہ بے حیائی پسند نہیں، ان کو ستر عورت کا اس قدر خیال تھا کہ سونے کی حالت میں خاص کپڑے پہن لیتے تھے کہ کہیں حالت نیند میں کشف عورت  نہ ہوجائے۔

(طبقات ابن سعد، تذکرہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ)

ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ حمام میں گئے دیکھا کہ کچھ لوگ برہنہ نہارہے تھے، آنکھ بند کرکے فورا ًواپس آئے ،حمامی کو معلوم ہوا تو اس نے سب کو نکال کر اورحمام کو خوب پاک و صاف کرکے ان کو بلوایا اورکہا کہ اب حمام میں کوئی نہیں، اندر داخل ہوئے توپانی نہایت گرم تھا، بولے کتنا برا گھر ہے جس سے حیا نکال دی گئی ہے اور کتنا اچھا گھر ہے جس سے آدمی چاہے تو عبرت حاصل کرسکتا ہے یعنی دوزخ کو یاد کرسکتا ہے ،ایک دن ان سے کسی نے کہا کہ آپ حمام کیوں نہیں کرتے؟ بولے میں پسند نہیں کرتا کہ میری شرمگاہ پر کسی کی نگاہ پڑے، اس نے کہا تو تہبند باندھ لیجئے، بولے میں کسی دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ 

  (ایضا ،تذکرہ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ)





حضرت احمد بن سہل بن عطاء الآدمیؒ نے فرمایا: علم اور حیاء میں سب سے بڑی ہیبت ہوتی ہے اگر یہ دونوں کسی میں نہ ہوں تو اس اس میں  کچھ کبھی نہیں۔


حضرت مالک بن دینارؒنے فرمایا:اللہ نے اس دل سے بڑھ کر کسی کو سزا نہیں دی جس دل سے حیاء چھین لی۔


حضرت یحیی بن معاذرازیؒ(م:۲۵۸ ھ)نے فرمایا:شریف آدمی شرم و حیاء کی وجہ سے  اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا ، اور سمجھدار آدمی عقل و فہم کی برکت سے دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دیتا ۔




رسول الله ﷺ نے فرمایا:
اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی، صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا: جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کروگے، صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی؟ جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے۔
حوالہ
أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عِيسَى الْمَدِينِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كَيْفَ بِكُمْ إِذَا فَسَقَ فِتْيَانُكُمْ ، وَطَغَى نِسَاؤُكُمْ ؟ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، " وَأَشَدُّ مِنْهُ ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا لَمْ تَأْمُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ؟ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، " وَأَشَدُّ مِنْهُ ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا رَأَيْتُمُ الْمُنْكَرَ مَعْرُوفًا ، وَالْمَعْرُوفَ مُنْكَرًا ؟ " .
[الزهد والرقائق ، لابن المبارك (سنة الوفاة:180) » بَابُ : فَضْلِ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ... رقم الحديث: 1354]
[البدع ،لابن وضاح (سنة الوفاة:287) » بَابٌ فِي نَقْضِ عُرَى الإِسْلامِ وَدَفْنِ الدِّينِ ... رقم الحديث: 154]
[الفتن، لنعيم بن حماد (سنة الوفاة:228) » رقم الحديث: 228]
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، لابن أبي الدنيا (سنة الوفاة:281) » رقم الحديث: 33، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ (صدي بن عجلان)
الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، لابن أبي الدنيا (سنة الوفاة:281) » رقم الحديث: 85، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ]
[مسند أبي يعلى الموصلي (سنة الوفاة:307) » تَابِعُ مُسْنَدِ أَبِي هُرَيْرَةَ (عبد الرحمن بن صخر) رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ... رقم الحديث: 6384
[المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء (سنة الوفاة:807) » كِتَابُ الْفِتَنِ ... رقم الحديث: 1608]
[المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الْهَاء » مَنِ اسْمُهُ : هَمَّامٌ ۔۔۔۔ رقم الحديث: 9558(9325)]


شرم و حیا .... انسانیت کا لباس 

 

محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: 
’’ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘ 
حضرت عبداﷲبن عمر رضی اللہ عنہا  فرماتے ہیں: ’’ایک موقع پر محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک انصاری مسلمان کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو بہت زیادہ شرم و حیا کے بارے میں نصیحت کررہا تھا، تب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: 
’’اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ حیادراصل ایمان کاایک حصہ ہے۔‘‘ 
ایک اور صحابی عمران بن حصین ؓنے بتایا کہ ایک موقع پر محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: 
’’شرم وحیا صرف بھلائی کا باعث بنتی ہے۔‘‘ 
محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے ادیان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: 
’’ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے، اور ہمارے دین کی جداگانہ پہچان ’’شرم وحیا‘‘ہے۔‘‘ 
ایک بار محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حیا کی غیرموجودگی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: 
’’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتا رہ۔‘‘ 
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی برے کام سے روکنے کا جو واحد سبب ہے وہ شرم و حیا ہے، اور جب کسی میں شرم کا فقدان ہو جائے اور حیا باقی نہ رہے تو اب اس کا جو جی چاہے گا وہی کرے گااورجب انسان اپنی مرضی کا غلام بن جاتا ہے تو تباہی اس کا یقینی انجام بن جاتی ہے، اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: 
’’جب اﷲتعالیٰ کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہے تواس سے شرم و حیا چھین لیتاہے۔‘‘
ایک طویل حدیثِ مبارکہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’ اﷲ تعالیٰ سے ایسی حیا کرو جیسی کہ اس سے کرنی چاہیے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ: الحمدﷲ! ہم اﷲتعالیٰ سے حیاکرتے ہیں، محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: نہیں، حیا کا مفہوم اتنا محدود نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو، بلکہ اﷲتعالیٰ سے حیاکرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور سر میں جو افکار وخیالات ہیں ان سب کی نگرانی کرو اور پیٹ کی اور جو کچھ پیٹ میں بھراہے، اس سب کی نگرانی کرو، اور موت کو اور موت کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے، اس کو یاد کرو،پس جس نے ایسا کیا، سمجھو اس نے اﷲتعالیٰ سے حیا کرنے کاحق ادا کردیا۔‘‘ 
اس حدیثِ مبارکہ میں فکرو عمل سے موت و حیات تک کے تمام اُمور میں حیا کا درس دیا گیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ حیا کی سب سے زیادہ حق دار اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے، اور چونکہ اﷲ تعالیٰ سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے، اس لیے کھلے چھپے ہرحال میں اﷲ تعالیٰ سے حیا کی جائے اور اﷲتعالیٰ سے حیا کا مطلب اﷲ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کیا جائے اور جلوت ہو یا خلوت‘ برائیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سبقت اختیار کرنا ہی تقویٰ ہے۔ 
حضرت ابن حیدہؓ سے روایت ہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی شرم گاہ محفوظ رکھو (کسی کے سامنے نہ کھولو) سوائے اپنی بیوی اور باندی کے، میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا تنہائی میں بھی؟! (شرم گاہ نہ کھولی جائے) محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواباً ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔‘‘
حضرت ابو سعید خدریؓبیان کرتے ہیں کہ :
 ’’محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے۔‘‘ 
اسی لیے ہر قبیح قول و فعل اور اخلاق سے گری ہوئی ہر طرح کی حرکات و سکنات سے آپ کا دامنِ عفت و عصمت تاحیات پاک رہا۔ 
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ: محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نہ فحش کلام تھے،نہ بیہودہ گوئی کرتے تھے اور نہ ہی بازاروں میں شور کیا کرتے تھے،برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہ دیتے تھے، بلکہ معاف فرما دیتے تھے، یہاں تک کہ زوجہ محترمہ ہوتے ہوئے بھی بی بی پاکؓ نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو برہنہ نہ دیکھا تھا۔ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن میں جب آپ بہت چھوٹی عمر میں تھے اور اپنے چچاؤں کی گود میں کھیلا کرتے تھے تو ایک بار پاجامہ مبارک تھوڑا سا نیچے کو سرک گیا تو مارے حیا کے بے ہوش ہوگئے، تب پانی کی چھینٹوں سے ہوش دلایا گیا، چنانچہ بعدازبعثت حضرت جرہد ابن خویلدؓ سے روایت ہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیاتمہیں یہ معلوم نہیں کہ ران(بھی) ستر میں شامل ہے؟۔‘‘ 
حضرت علی کرم اﷲوجہ سے روایت ہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے علی! اپنی ران نہ کھولو اور کسی زندہ یا مردہ آدمی کی ران کی طرف نظر بھی نہ کرو۔‘‘ 
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ: محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد مبارک ہے کہ: ’’مرد دوسرے مرد کے ستر کی طرف اور عورت دوسری عورت کی ستر کی طرف نگاہ نہ کرے۔‘‘ 
عبداﷲبن عمر رضی اللہ عنہما  سے تو یہاں تک روایت ہے کہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’لوگو! (تنہائی کی حالت میں بھی) برہنگی سے پرہیز کرو (یعنی ستر نہ کھولو) کیونکہ تمہارے ساتھ فرشتے ہروقت موجود ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت جدا نہیں ہوتے، لہٰذا اُن کی شرم کرو اور ان کا احترام کرو۔‘‘ چنانچہ فقہاء لکھتے ہیں کہ سوائے قضائے حاجت اور وظیفۂ زوجیت کے اپنا ستر کھولنا جائز نہیں اور بالکل الف ننگا ہوکر غسل کرنا بھی خلافِ سنت ہے، پس دورانِ غسل بھی کسی کپڑے سے ستر یا ننگ کا ڈھکا ہونا بہتر ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓسے مروی ہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت گویا ستر (چھپی ہوئی) ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے ہیں اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں۔‘‘ 
حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کہ مجھ تک یہ قولِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پہنچاہے کہ: ’’اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور جس کو دیکھا جائے۔‘‘ چنانچہ جب اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میںدریافت کیا گیا تو محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’ادھرسے اپنی نگاہ پھیرلو۔‘‘ 
حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ: محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے علیؓ! (اگر کسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑ جائے تو) دوبارہ نظر نہ کرو، تمہارے لیے (بلاارادہ) پہلی نظر تو جائز ہے، مگردوسری نظر جائز نہیں۔‘‘ 
حضرت ابوامامہ ؓنے روایت کیاہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس مرد مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر نظر پڑ جائے، پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کرلے تو اﷲ تعالیٰ اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی لذت و حلاوت اس مردِ مومن کو محسوس ہوگی۔‘‘ 
امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓسے روایت ہے کہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’ایسا ہرگزنہیں ہو سکتاکہ کوئی (نامحرم) آدمی کسی عورت سے تنہائی میں ملے اور وہاں تیسرا شیطان موجود نہ ہو۔‘‘ 
ایک موقع پر حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں، محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم (نامحرم) عورتوں کے پاس جانے سے بچو (اور اس معاملے میں بہت احتیاط کرو)۔‘‘ 
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ: ’’تم ان عورتوں کے گھروں میں مت جایا کروجن کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں، کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آنکھوں کا زنا (نامحرم عورت کی طرف) دیکھنا ہے، کانوں کا زنا (حرام آواز کا) سننا ہے، زبان کا زنا(ناجائز) کلام کرنا ہے، ہاتھ کا زنا (ناجائز) پکڑنا ہے اور پیر کا زنا (حرام کی طرف) چل کر جانا ہے اور دل خواہش کرتا ہے اور آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔‘‘ 
حضرت امِ سلمہ ؓبیان کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہؓ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں کہ ایک نابینا صحابی ابنِ اُمِ مکتومؓحاضرِ خدمتِ اقدس ہوئے تو ہمیں حکم ہوا کہ: ’’تم (دونوں) ان سے پردہ کرو، ہم نے عرض کی: یارسول اﷲ! کیا وہ نابینا نہیں ہیں؟ پس محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم (دونوں) بھی نابینا ہو؟ کیا تم (دونوں) انہیں نہیں دیکھتیں؟۔‘‘ 
حضرت عبداﷲ بن عباس ؓنے فرمایا کہ : ’’محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں والا حلیہ اختیار کرنے والے مردوں پر اور مردانہ انداز اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اسی مضمون کو حضرت ابوہریرہؓ نے بھی یوں بیان کیا کہ: ’’محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس آدمی پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا سا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کا سا لباس پہنتی ہے۔‘‘
شرم و حیا بعض اوقات بوجھ تصور ہوتے ہیں اوربہت کچھ معاشرتی تقریبات میں تکلیف کا باعث بھی شاید سمجھے جاتے ہوں، جیسے مردوں اورعورتوں کے لیے قیام و طعام اور نشست و برخواست کا جدا جدا انتظام کرنا اور زنانے میں مردوں کے داخلے پر جزوی پابندی، مردحضرات کے لیے غصِ بصر (نظریں نیچی رکھنے) کا حکم اور خواتین کے لیے حجاب اور اوڑھنیوں کاقانون اور بازاروں میں اور میلوں ٹھیلوں اور کھیل تماشوں میں خواتین کی حتی الامکان حوصلہ شکنی وغیرہ، لیکن ان معمولی بارِگراں جیسے انتظامات کے نتیجے میں ایک بہت بڑا ثمرآور معاشرہ وجودمیں آتا ہے، جہاں نسلوں کے نسب مکمل طورپر محفوظ ہوتے ہیں اور آنکھوں میں شرم و حیاکے باعث سینوں میں ایمان بھی سلامت رہتا ہے۔ یہ انتظامات اگرچہ بعض اوقات معمولی کوفت کا باعث بھی بن جاتے ہیں، لیکن حساب کے عملی قاعدے کے مطابق آمدن اور خرچ کے تقابل کے بعد نفع یا نقصان کا تعین کیا جاتا ہے، چنانچہ اس معمولی سی تکلیف کے بعد عالمِ انسانیت کو اگر ایمانی و روحانی و جسمانی صحت بھی میسر آجائے تو سودا نہ صرف یہ کہ مہنگا نہیں، بلکہ انتہائی سودمند اور بارآور ہے۔ اس کے برعکس مخلوط محافل میں سب سے پہلے آنکھوں کی حفاظت مطلقاً ناممکن ہوتی ہے۔ آنکھوں کے راستے دل کی آلودگی شروع ہوجاتی ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ: ’’نظر دل کی طرف تیروں میں سے ایک تیر ہے۔‘‘ 
نظر بازی سے ناجائز آشنائیوں کے راستے کھلتے ہیں اور پھر انسانی معاشرہ بالآخر تباہی کے اس گڑھے میں جاگرتا ہے جس سے بچانے کے لیے انبیاء o کو مبعوث کیا گیا تھا۔ ہرمیدانِ عمل کی طرح جب حیا اور شرم کے میدان میں بھی آسمانی تعلیمات سے منہ موڑ کر روگردانی کی جائے اور احکاماتِ ربانیہ کوپس پشت ڈال کر شادمانیوں کے گل چھڑے اُڑائے جائیں گے تو تباہی و بربادی انسان کا مقدر ٹھہرے گی۔
بے حیائی کے منطقی وتاریخی نتائج میں سے ایک بہت بھیانک نتیجہ خاندانی نظام کی تباہی ہے۔ شرم و حیاکاایک نتیجہ نکاح کے ادارے کی مضبوطی و پختگی اوردوام بھی ہے۔ مرد کو جب دوسری عورتیں نظرہی نہیں آئیں گی یا لپٹی،سمٹی اورڈھکی ہوئی نظر آئیں گی تو چاہتے ہوئے یانہ چاہتے ہوئے بھی اس کی تمام تر توجہ اپنی ہی زوجہ کی طرف رہے گی۔ اسی طرح جب عورت کا چاہنے والا صرف ایک ہی ہوگا، یعنی اس کا اپنا شوہر ہی ہوگا تو اس کا مرکزِ التفات کبھی منتشرنہیں ہوگا،اور خاندانی نظام مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا، جس کا نتیجہ سوائے خیر کے کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا۔ 
اگر تصویر کا دوسرا رُخ مشاہدہ کیا جائے تو دنیا میں اس قبیل کے بھی بے شمار معاشرے نظر آئیں گے،جو معاشرے معاشقوں کی بھینٹ چڑھ کر زندہ انسانوں کا قبرستان بن چکے ہیں، بے روح انسانوں کے اجسام کاجم غفیرہے جو ایک دوسرے سے بیزار، حرص و ہوس کی دوڑ میں چند سکوں کے عوض باہم جھنجھوڑنے، بھنبھوڑنے اور نوچنے، چاٹنے، سونگھنے اور چکھنے کے بعد اگلے شکار کی تلاش میں کسی دوسرے بے روح جسم سے کفن کو تارتار کرنے کی تگ و دومیں مصروفِ عمل ہوجاتاہے۔ شرم و حیا کے قحط نے وہاں کے انسانوں کی روحوں کو بے آب و گیاہ ریگستان کی مانند تپتے ہوئے پیاسے صحراکی مثال بنادیا ہے، جہاں ہرسو سراب ہی سراب ہیں۔ رحم کے رشتے ہوں یانسبی و صہری تعلقات ہوں، شرم و حیا کی قلت وتعدیم نے ہرنوع کے دامنِ عصمت کو ورق ورق کردیا ہے اور اس کا وہی مذکورہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ عریانی و فحاشی کے خونخوار ہاتھوں سے خاندانی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔
لومڑی گڑھے میں پھنسی تھی، باربارچھلانگیں لگانے کے باوجود نکل نہیں پارہی تھی۔گدھے نے دیکھا تو لومڑی نے فوراً گڑھے کی دیواروں کو سونگھ کر آنکھیں اس طرح بندکیں کہ جیسے بہت لذت وسرور آرہا ہو۔ گدھے نے پوچھاتولومڑی نے گڑھے کے قصیدے پڑھنے شروع کر دئیے کہ گویا یہ گڑھا قطعۂ بہشتِ بریں ہے۔ گدھے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، چھلانگ لگادی ۔ لومڑی نے گدھے کی کمر پر اپنے پاؤں ٹکائے اور چھلانگ لگاکر گڑھے سے باہر آگئی۔ دشمن اپنے پورے وسائل،قوت و طاقت اور ذہنی وفکری صلاحیتوں اور تحریری و تقریری موادسے سے اُمتِ مسلمہ کے سامنے عریانی و فحاشی و مے خواری و بدکاری و لذتِ گناہ اور گناہِ بے لذت کے اس مکروہ اوربدبودارومکروہ گڑھے کو جنت بناکردکھانے میں پوری طرح مصروف ہے، جب کہ غدارانِ ملت ہمیشہ کی طرح اس باربھی گدھے کاکرداراداکرکے اپنی وہ قیمت وصول کررہے ہیں کہ جس کا خمیازہ صدیوں تک نسلوں کوبھگتناپڑے گا۔ ایسے لوگوں کے بارے قرآن مجیدنے واضح طورپر کہاہے کہ: 
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اللہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔‘‘                                  (النور:۱۹)
ترجمہ: ’’جولوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب کے مستحق ہیں، اﷲ تعالیٰ جانتاہے اورتم نہیں جانتے۔‘‘
دشمن ہمیں اس گڑھے میں دانستہ طورپر گرانا چاہتاہے، جہاں سے نکلنے میں وہ خودبری طرح ناکام ہے، لیکن وہ گڑھے میں پھنسنے کے بھیانک انجام سے ہمیں اس لیے آگاہ نہیں کرتا کہ ہم اس کے جال میں بآسانی شکارہو جائیں، لیکن اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات ہمارے لیے بہت کافی ہیں، الحمد للہ۔
گزشتہ اقوام کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ گناہ کے کام مل کر اجتماعی طورپرکیاکرتے تھے۔ اﷲتعالیٰ کا ہر عذاب اگرچہ بڑا عذاب ہے، لیکن سب سے سخت ترین عذاب قومِ لوط پر آیا جو اجتماعی عذاب بھی تھا اور انفرادی عذاب بھی۔ اس قوم کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ شرم و حیا سے عاری ہو چکی تھی اور بے حیائی کے کام بھری محفلوں میں سرِعام کیا کرتے تھے۔ قومِ لوط کے لوگوں کی گفتگوئیں، ان کی حرکات و سکنات، اشارات و کنایات اور ان کے محلے اور بازارسب کے سب عریانی و فحاشی اور برائی و بے حیائی کا مرقع تھے، تب وہ غضبِ خداوندی کے مستحق ٹھہرے۔ 
آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کوحیاکے لبادے سے ناآشنا کر دیا ہے اور انسان کوثقافت کی آڑ میں اپنے خالق و مالک سے دور کر کے تباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ پس جو بھی اس بے ہودگی و ہوسِ نفس کی ماری پرکشش اورفریب زدہ سیکولر تہذیب میں داخل ہو گا، وہ ’’إِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ ‘‘ کی عملی تصویر بنتے ہوئے ممکن ہے کہ قومِ لوط میں شمار ہوکہ یہ سیکولر فکر خالصتاً ابلیس اور اس کے پیروکاروں کا راستہ ہے، جس کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ کی وادیاں ہیں، اور جو اس نقصان سے بچنا چاہے اس کے لیے کل انبیاء o کا طریقۂ حیات موجود ہے، جسے بسہولت حیاتِ حیاداری کا نام دیا جاسکتا ہے کہ اس دنیا میں انسانوں سے حیا ہو اور روزِ محشر اﷲ تعالیٰ بزرگ و برتر کے سامنے پیش ہونے کا خوف و حیا ہو۔



2 comments:

  1. بہت عمدہ تحریر ہے اللہ آپ کے علم میں ترقی اور عروج عطا فرمائے۔
    جناب پردے کے بارے میں بھی تحریر فرمائے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. عورت کیلئے چہرے کا پردہ وحجاب
      http://raahedaleel.blogspot.com/2015/12/blog-post_29.html
      بدنظری - آنکھوں کا زنا
      http://raahedaleel.blogspot.com/2014/08/blog-post_21.html

      Delete