رب کی ہدایت پر قائم رہنے والوں کی "تیسری" بنیادی نشانی»
(3)خرچ کرنے والے۔
القرآن:
۔۔۔الله نے انہیں جو کچھ (علم، قوت، مال، طعام) دیا ہے اس ﴿خیر/مال﴾ میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔
[حوالہ سورۃ البقرۃ:3-5، الانفال:3، لقمان:4-5]
۔۔۔کوئی گناہ نہیں ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو (ضرورت سے زائد)کچھ نہیں۔۔۔
[التوبہ:91]
۔۔۔اور انکی آنکھیں آنسو بہاتی ہیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں۔
[التوبہ:92]
کیوں خرچ کرتے ہیں؟
الله کی "محبت" میں مال خرچ کرتے ہیں۔
[البقرۃ:177، الدھر/الانسان:8]
رضائے الٰہی کی تلاش/چاہت میں
[البقرۃ:265، 272]
کن لوگوں پر خرچ کرتے ہیں؟
(1)رشتہ داروں (یعنی والدین، قریبی-بھائی بہنوں) پر بھی،
[البقرۃ:215]
(2)اور یتیموں پر بھی،
(3)اور ﴿محتاجی کے باوجود حیاء کے سبب لپٹ چمٹ کر نہ مانگتے اپنے گھروں ہی میں رہنے والے﴾مسکینوں پر بھی،
(4)اور قریبی پڑوسیوں، اور دور والے پڑوسیوں، ساتھ بیٹھے/کھڑے شخص پر بھی
[النساء:36]
(5)اور راہ گیر مسافروں پر بھی،
(6)اور فقیر-سائلوں پر بھی،
(7)اور صدقات کی وصولی پر مقرر اہلکاروں پر بھی،
(8)اور دلداری کیلئے محتاج نومسلموں پر بھی،
(9)اور غلاموں کو آزاد کرانے میں بھی،
(10)اور جو قرضدار قرض ادا نہ کرسکے اسکے قرض ادا کرنے میں بھی،
(11)اور الله کے رستے میں(مجاہدین ومہاجرین پر) بھی۔
[التوبہ:60، النور:22]
(12)اور قیدیوں کو کھلانے میں۔
[الدھر/الانسان:8]
کیسی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں؟
اپنی "پاکیزہ-حلال کمائی" میں سے
[البقرۃ:267]
اپنی "پسندیدہ" چیزوں میں سے
[آل عمران:92]
جو(روزمرہ استعمال سے) "زائد" ہو
[البقرۃ:219]
کب، کیسے اور کتنا خرچ کرتے رہتے ہیں؟
خرچ کرتے ہیں۔۔۔
رات میں بھی، اور دن میں بھی، اعلانیہ بھی، اور پوشیدہ بھی
[البقرۃ:274]
خوشحالی میں بھی، اور تنگی میں بھی
[آل عمران:134]
(خرچ)چھوٹا ہو یا بڑا
[التوبہ:121]
اگرچہ ایک کھجور کا "ٹکڑا" ہی ہو۔
[ترمذی:2352]
نہ فضول(غیرضروری)خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں
[الفرقان:67]
وہ دن(قیامت) آنے سے پہلے(تک) جس دن نہ کوئی سودا ہوگا، اور نہ کوئی دوستی (کام آئے گی)
[ابراھیم:31]
اور نہ کوئی سفارش ہوسکے گی
[البقرۃ:254]
خرچ کرنے کے فضائل و فوائد:
۔۔۔اور جو بھی "شیء" (یعنی علم، قوت، مال، طعام) تم خرچ کروگے تو وہ اس کے بدلے اور(بہتر۔زیادہ)چیز دے دیتا ہے۔۔۔
[سبا:39]
یہی لوگ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی نقصان نہیں اٹھائے گی۔
[فاطر:29]
ان کیلئے بہت ہی بڑا اجر ہے۔
[الحدید:7]
یہ(خرچ کرنا)تم سب کیلئے خیر ہے۔
[التغابن:16]
جو خرچ نہیں کرتے سوائے ناپسندیدگی سے، اور نماز نہیں پڑھتے مگر سستی سے، یہ اس لئے کہ ان(منافقین) نے(دل میں)اللہ اور اسکے رسول سے کفر کیا۔
[التوبہ:54]
لہٰذا
الله پاک نے فرمایا:
اور ہم نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے (اللہ کے حکم کے مطابق) خرچ کرلو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو وہ یہ کہے کہ : اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے تھوڑی دیر کے لیے اور مہلت کیوں نہ دے دی کہ میں خوب صدقہ کرتا، اور نیک لوگوں میں شامل ہوجاتا۔
[المنافقون:10]
***************
ربط:پارے کی ابتدا میں اہل ایمان کو انفاق فی سبیل الله کا حکم دیا گیا کہ وقت کو غنیمت جان کر موت وقیامت کے آنے سے قبل جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرنا چاہو اس میں دریغ مت کرو ، اس کے مبد او معاد کے تین واقعے بیان فرما کر بعثت کی حقانیت کو مزید واضح کر دیا، جب آخرت پر یقین کامل ہو گا تو اس کے لیے توشہ جمع کرنا بھی آسان ہو گا، اس لیے اب دوبارہ انفاق کی ترغیب دی جارہی ہے۔
تفسیر:انفاق فی سبیل الله کے فضائل، آداب ، قبولیت کی شرائط
﴿مَّثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُون…﴾ اس آیت کریمہ میں انفاق فی سبیل الله او را س کے ثمرات کی مثال ایک دانے سے دی گئی ہے، جس کی سات بالیں نکلیں او رہر بالی میں سو دانے ہوں، جس طرح ایک دانہ سات سوگُنا دانوں کو لے کر آتا ہے، اسی طرح راہ الہی میں خرچ کیا گیا ایک درہم سات سو گنا ہو کر انسان کو واپس ملے گا، فی الواقع الله تعالیٰ دیتا ہے، لیتا نہیں ، بلکہ خرچ کرنے والے کی باطنی کیفیت، جذبہ اخلاص ، جوش وخروش کے بقدر بخشش خداوندی میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے ، اس کے فضل واحسان کی وسعتیں حدود سے بالاتر ہیں۔
صدقے کے بعد احسان جتلانے اور تکلیف پہنچانے سے اجر ضائع ہو جاتا ہے
کس کو ممنونِ احسان کرکے اس پر احسان جتلانا، حقیر سمجھنا یا کمزور سمجھ کر اس کے حقوق پامال کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا، اس سے انفاق فی سبیل الله کا اجروثواب بھی ضائع ہو جاتا ہے اور مقصد بھی فوت ہو جاتا ہے ، کیوں کہ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ معاشر ے میں ہمدردی اور اخوت کے جذبات غالب رہیں ، معاشرہ بغض، حسد، عناد، تکبر کی آفتوں سے محفوظ رہے ، اگر احسان کرنے والا ممنون احسان کو حقیر جان کر اس سے ذلت آمیز رویہّ رکھے گا تو معاشرتی تقسیم خود بخود پیدا ہوتی چلی جائے گی ،جس کا انجام بغض وحسد، تکبر اور فساد کی شکل میں ظاہر ہو گا، اس لیے صدقہ کرنے کے بعد اس کے ثواب کی حفاظت کا اہتمام بھی کیا جائے، یہ اہتمام کرنے والے ہی قیامت کے دن پروانہ مغفرت کے مستحق ہوں گے، انہیں اس روز اپنے خرچ پر پشیمانی ہو گی اور نہ اجروثواب کے ضائع ہونے کا اندیشہ۔
قول معروف… دل داری کا ایک جملہ دل آزاری سے بہتر ہے
صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلانے یا دل آزاری سے بہتر ہے کہ دل داری کا ایک جملہ بو ل کر معذرت کر لی جائے، یہ معذرت بھی نادار کے لیے درست ہے، صاحب حیثیت کو تو صدقہ ہی کرنا چاہیے اس کے حق میں تو معذرت بھی جرم ہے۔
دکھلاوے کے صدقے میں کوئی اجر نہیں ہوتا
جس صدقے کا مقصد رضائے الہی کا حصول نہ ہو، بلکہ نام ونمود اور ہوائے نفس کی تکمیل ہو ،اس کا کوئی اجر نہیں ہوتا ، اس صدقے کی مثال اس کھیت کی جیسی ہے، جسے کسان نے کسی چٹان پر مٹی کی موٹی تہہ کو زرخیر زمین سمجھ کر بو دیا ہو ، موسلادھار بارش ہو اور کھیت مٹی سمیت بہہ جائے اور چکنی چٹان کے علاوہ کچھ نہ رہے تو کسان کو کس قدر افسوس لاحق ہوتا ہے؟!
اس کی محنت، حصول نفع کی سار ی امیدیں اس طوفانی ریلے میں بہہ جاتی ہیں، اسی طرح ایمان سے محروم شخص کا انفاق ، یا دکھلاوے کی نیت سے کیا گیا صدقہ روزمحشر میں اس کے اعمال خیر سے ایسے ہی غائب ہو گا جیسے مٹی چٹان سے، پھر وہاں کا افسوس تو بہت بڑا افسوس ہے ، جس کی تلافی بھی ناممکن ہے۔
﴿وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُکُلَہَا ضِعْفَیْْنِ فَإِن لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْر﴾․(سورہ بقرہ، آیت:265)
اور مثال ان کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال الله کی خوشی حاصل کرنے کو اور اپنے دلوں کو ثابت کرنے کو، ایسی ہے جیسے ایک باغ ہے، بلند زمین پر، اس پرپڑا زور کامینہ تو لایا وہ باغ اپنا پھل دو چند اور اگر نہ پڑا اس پر مینہ تو پھوار ہی کافی ہے اور الله تمہارے کاموں کو خوب دیکھتا ہے
تفسیر:اخلاص نیت کے ساتھ صدقہ کرنے کی مثال
اس کے برعکس جن لوگوں کے صدقات وطاعات کا مقصد رضائے الہٰی کا حصول ہوتا ہے ،ان کے انفاق کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی بلند ٹیلے پر واقع ہو، زمین بھی زرخیر ہو ، اچھے محل وقوع کی وجہ سے وہ لطیف ہواؤں سے معمور رہتا ہو، اس پر اگر زور کی بارش پڑ جائے تو اس کا پھل دگنا ہو جائے او راگر ہلکی پھوار پڑ جائے تو بھی اس کی بارآوری کے لیے کافی ہے، یعنی ایسا باغ بہر صورت نفع دیتا ہے، اسی طرح رضائے الہٰی کے حصول کے لیے خرچ کیا گیا مال بھی بہر صورت آخرت میں نفع ہی پہنچائے گا۔ اخلاص کی کمی بیشی کے تناسب سے اس کے نفع میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے، لیکن ضائع ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ۔ زوردار بارش اور پھوار سے اخلاص کے ادنی واعلیٰ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
﴿أَیَوَدُّ أَحَدُکُمْ أَن تَکُونَ لَہُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِیْلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ لَہُ فِیْہَا مِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَہُ الْکِبَرُ وَلَہُ ذُرِّیَّةٌ ضُعَفَاء فَأَصَابَہَا إِعْصَارٌ فِیْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمُ الآیَاتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُون﴾․(سورہ بقرہ ،آیت:266)
کیا پسند آتا ہے تم میں سے کسی کو یہ کہ ہووے اس کا ایک باغ کھجور اور انگور کا، بہتی ہوں نیچے اس کے نہریں اس کو اس باغ میں اور بھی سب طرح کا میوہ حاصل ہو او رآگیا اس پر بڑھاپا اور اس کی اولاد ہیں ضعیف، تب آپڑا اس باغ پر ایک بگولا، جس میں آگ تھی، جس سے وہ باغ جل گیا، یوں سمجھاتا ہے تم کو الله آیتیں، تاکہ تم غور کرو
تفسیر:گزشتہ مثالوں کی مزید وضاحت
جس طرح تم میں سے کوئی شخص یہ گوارہ نہیں کرتا کہ اس کے عمر بھرکی کمائی جوکھجوروں اور انگورں کے باغ کی صورت میں موجود ہو اس میں نہریں بہہ رہی ہوں ، جس سے باغ کی خوش حالی اور حسن وجمال میں اضافہ ہو رہا ہو، باغ کا مالک بوڑھا شخص ہو، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں ، ان کی معیشت کا دار ومدار صرف یہی باغ ہو، اس عمر میں جب انسان مشقت کا کام نہیں کر سکتااور مال کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے، یک بیک کوئی آگ کا بگولا آئے اور پورے باغ کو جلا کر خاکستر کردے، بوڑھے نے جس باغ پر امیدوں کی بہارسجا رکھی تھی اسی سے شعلے اٹھنے لگے، حسرتوں کا جنازہ آنکھوں کے سامنے سے گزر نے لگے، ایسے وقت میں بوڑھے کے دل میں گزرتے غموں کے طوفان کاکوئی اندازہ کرسکتا ہے؟ لیکن اس سے بڑھ کر حرماں نصیبی اس شخص کی ہے جس نے اپنے اعمال نامے میں انفاق فی سبیل الله کا باغ لگایا ہو ، پھر قیامت کے روز اسی پر بھروسہ کرکے اجر وجواب کی امید لگائے کھڑا ہو کہ اچانک اسے خبر دی جائے کہ تم نے جو انفاق فی سبیل الله کا باغ لگایا تھا وہ قبولیت کی شرائط سے محروم ہونے کی وجہ سے پھل دینے سے قاصر ہے، تمہارا سہارا ٹوٹ چکا ہے، اس کی حسرت کا کیا عالم ہو گا؟وہ حسرت بھی ناقابل تلافی حسرت ہو گی ۔ اگر تم اس اندوہناک انجام سے بچنا چاہتے ہو تو اپنے صدقات وطاعات کو ریا کاری اور دل آزاری سے بچائے رکھو۔
قبولیتِ صدقہ کی بنیادی شرط
انفاقی فی سبیل الله اور ہر قسم کی طاعات کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ نیکوکار صاحب ایمان ہو ، بغیر ایمان اورد ینِ اسلام کے کوئی نیکی بارگاہ الہٰی میں سند قبولیت حاصل نہیں کر سکتی، بلکہ دنیا ہی میں ان کی جزا چکا دی جاتی ہے۔
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَیَمَّمُواْ الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِیْہِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِیْہِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ غَنِیٌّ حَمِیْد، الشَّیْْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُکُم بِالْفَحْشَاء وَاللّہُ یَعِدُکُم مَّغْفِرَةً مِّنْہُ وَفَضْلاً وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ،یُؤتِیْ الْحِکْمَةَ مَن یَشَاء ُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:269-267)
اے ایمان! والو خرچ کرو ستھری چیزیں اپنی کمائی میں سے اوراس چیز میں سے کہ جوہم نے پیدا کیا تمہارے واسطے زمین سے اور قصد نہ کرو گندی چیز کا اس میں سے کہ اس کو خرچ کرو، حالاں کہ تم اس کو کبھی نہ لو گے، مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ او رجان رکھو کہ الله بے پروا ہے، خوبیوں والا شیطان وعدہ دیتا ہے تم کو تنگ دستی کا اور حکم کرتا ہے بے حیائی کا او رالله وعدہ دیتا ہے تم کو اپنی بخشش اور فضل کا اور الله بہت کشائش والا ہے، سب کچھ جانتا ہے عنایت کرتا ہے سمجھ جس کسی کو چاہے او رجس کو سمجھ ملی اس کو بڑی خوبی ملی اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں
ربط:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ…﴾ بارگاہ الہٰی میں قبولیت انفاق کی چند شرائط کا تذکرہ گزشتہ آیت میں ہوا تھا اور کچھ شرائط کا تذکرہ اس میں ہے۔
تفسیر:حلال اور عمدہ مال راہ الہی میں خرچ کرنا چاہیے
الله کی راہ میں وہ چیز خرچ کرنی چاہیے جو حلال کمائی سے ہو اور عمدہ بھی ہو ۔ ناقص اور ردّی اشیاء کے خرچ کرنے سے نہ کوئی غریب فائدہ اٹھا سکتاہے، نہ ہی بخل جیسے باطنی مرض کا علاج ہو سکتا ہے او ررضائے الہی کے حصول کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ایسی بے فائدہ چیز کے خرچ پر کیا ثواب ملے گا؟ ہاں! اگر عمدہ چیز میسر نہ ہو تو پھر قابل انتفاع تو ہو،ایسی بے کار چیزیں جو ہم خود ایک دوسرے کو دینے سے شرمائیں اور ان سے اعراض برتیں ،وہ بارگاہ الہٰی میں حاضر کرنے کے لائق کس طرح ہو سکتی ہیں ؟
مال تجارت میں زکوٰة اور عشر کے وجوب پر استدلال
اہل علم نے ﴿أَنفِقُواْمِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ ﴾ سے مال تجارت میں زکوٰة کے فرض ہونے پر استدلال کیا ہے اور ﴿وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُم ْ﴾ سے عشر کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ اس صورت میں انفاق کا حکم برائے وجوب ہوگا۔ اور من الارض کی قید سے سمندری جواہر اور ہیرے مستثنیٰ ہو گئے، ان پر زکوٰة نہیں ہے، بشرطیکہ مال تجارت نہ بنے۔ (احکام القرآن اللجصاص،البقرة تحت آیة رقم:267،احکام القرآن للقرطبی تحت آیة رقم:267)
الشَّیْْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْر
ربط:گزشتہ آیت میں عمدہ مال کے خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے او راس آیت کریمہ میں بتایا جارہا ہے کہ شیطان اس موقع پر مختلف اندیشے اور وسوسے جھونک کر ورغلاتا ہے ،اس لیے اس کے کہنے میں مت آنا۔
تفسیر:شیطان فقر کا خوف دلاتا ہے
شیطان فقر کا خوف دلا کر انفاق سے روکتا ہے، حالاں کہ بوقت گنجائش مناسب مقدار میں مال خرچ کرنے سے افلاس کا خطرہ لاحق ہی نہیں ہوتا ،چہ جائیکہ اس کا اندیشہ کیا جائے، جہاں خرچ کرنے میں دنیا وآخرت کی فلاح یقینی ہو اور نقصان کا ذرہ بھر بھی احتمال نہ ہو، وہاں افلاس کا خوف احمقوں کو ہی لاحق ہو سکتا ہے۔ شیطان بخیلوں کو انہی وہموں میں غلطاں رکھ کر خیرسے محروم رکھتا ہے، ہاں! اگر مال کے خرچ کرنے کی گنجائش نہ ہو یا خرچ کرنے سے افلاس او رمحتاج ہونے کے اسباب وقرائن یقینی طور پر موجود ہوں تو خرچ سے رک جانے میں کوئی حرج نہیں، نہ ہی انہیں بخل کا طعنہ دیا جاسکتا ہے، بلکہ ایسے شخص کو تو شریعت صدقات نافلہ سے روکتی ہے۔
یُؤتِیْ الْحِکْمَةَ مَن یَشَاء
ربط:چوں کہ بخل انسان کو انفاق فی سبیل الله سے روکتا ہے ، اس لیے اس آیت میں بخل کا علاج تجویز کیا جارہاہے۔
تفسیر:حکمت کسے کہتے ہیں؟
الله جسے چاہتا ہے اسے ”حکمت“ سے نوازتا ہے اور جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر عطا کر دی گئی، حکمت کیا ہے؟ امور دین کو صحیح طریقے سے سمجھنے کا نام حکمت ہے۔(احکام القرآن للقرطبی، البقرة تحت آیة رقم:269) اوردین کی فہم صحیح بخل کا علاج بھی ہے اور خیر کثیر کی بنیاد بھی، اعمال خیر کی پہچان بھی اسی سے ہوتی ہے، عقائد واعمال کے درجات جاننا کہ کون سے فرض، کون سے واجب، کون سے مسنون، کون سے مستحب اور کون سے اولیٰ اور کون سے مباح ہیں؟ پھر اسی لحاظ سے ان کی رعایت رکھنا، اسی طرح کون سا اختلاف کس درجے کا ہے او راس میں کس قدر شدّت، یا نرمی روا رکھی جائے؟ یہ سب چیزیں دین کی صحیح سمجھ کی برکت سے حاصل ہوتی ہیں۔اور آخرت میں نجات کا دارومدار بھی ان دو چیزوں پر قائم ہے ۔ درست عقائد اعمال صالحہ۔ اس لیے” حکمت “کو خیر کثیر کی بنیاد کہنا بالکل بجا ہے۔
رمضان اور زکاة
ان طریقہ ہائے زندگی میں سے اسلام کا نظام ِ کفالت یا نظام ِ تکافل بھی ہے،جو ایسا جامع نظام ہے جس کے تحت ایسا معاشی نظام قائم ہو گا،جس میں بلا کسی تخصیص وامتیاز ، معاشرے کے ہر فرد کو، کسی نہ کسی شکل میں، اتنا سامان ِ معاش ہر حال میں میسر ہو جائے ، جس کے بغیر عام طور پر کوئی انسان نہ اطمینان کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی اپنے متعلقہ فرائض وحقوق سر انجام دے سکتا ہے، اس نظام کے تحت ملکی و قومی دولت کی گردش کا دائرہ کار چند اغنیاء اور بڑے مالدار لوگوں کے درمیان محدود نہ ہونے پائے کہ دوسرے ان کے رحم وکرم کے محتاج ہوں، بلکہ اس صورت میں تو اور بھی خصوصیت کے ساتھ اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے، کہ معاشرے کے وہ افراد جو مسکین ، محتاج اور نادار ہوں اور کسی طبعی عذر کی وجہ سے معذور ہوں، جس کی وجہ سے کوئی معاشی کام کرنے اور اپنے لیے خودروزی کمانے کے لائق نہ ہوں،یا مناسب روزگار نہ ملنے کی وجہ سے حالت ایسی ہو گئی ہو تو ایسے ضرورت مند افراد کی ”معاشی کفالت“ حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے اور اسی طرح جو اُن کے عزیز و اقربا ہیں ، اُن کے ذمہ اِن کی کفالت ہوگی اور معاشرے کے جو دیگر مال دار لوگ ہیں وہ صدقات ِ واجبہ و نافلہ اور عطیات سے ایسے افراد کی کفالت کا انتظام کریں گے۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے :
اسلام افراد ِ معاشرہ کے درمیان جس معاشی مساوات کو پیدا کرنا چاہتا ہے وہ یہ نہیں کہ معاشرے کے تمام افراد کے درمیان مال و دولت یکساں اور برابر ہو، جتنی اور جیسی ایک فرد کے پاس ہو اتنی اور ویسی ہی تمام افراد کے پاس ہو،کیوں کہ ایسی مساوات ،خیالی دنیا میں تو ہو سکتی ہے ،لیکن حقیقت کی دنیا میں نہیں ہو سکتی، اسلام جس مساوات کو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ مال و دولت کی کمی بیشی کے ساتھ ساتھ افراد ِ معاشرہ کے معیار ِ زندگی اور مظاہر ِ معیشت میں زیادہ سے زیادہ یکسانیت اور برابری ہو،لہذٰا اسلام غنی کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنا زائد اور اضافی مال راہِ خدا اور مصارفِ خیر میں خرچ کر کے اللہ تعالی کی خوش نودی اورروحانی عظمت اور اخلاقی برتری حاصل کرے۔
اس کے بعد یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے کہ مغربی دنیا اور بعض جدّت کی طرف مائل مسلم دانش ور بھی یہ پروپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ”اسلام نے کوئی معاشی نظام نہیں دیا “ ان کا یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے ، اس لیے کہ معیشت کا تعلق حصولِ رزق اور پیدائش ِ دولت سے ہے، اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کھانے پینے، پہننے،اوڑھنے اور رہنے سہنے کے لیے انتظام کیا جانا انسانی تاریخ کا اتنا قدیم عنصر ہے جتنی دنیا کی تاریخ ، تو کیا ایسا ممکن ہے کہ اسلام آنے کے بعد ہزار سال تک(جو کہ دنیا میں اسلام کے عروج کا دور ہے) لوگ ضروریات ِ زندگی سے محروم تھے؟!
ہر گز نہیں!بلکہ حضراتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا مختصر دور توہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے، کہ جو نظام محض 23 سال میں انہوں نے پوری دنیا میں متعارف کرا کے رائج بھی کر دیا اوروہ 32 سال تک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم رہا ، پھر غیروں کی سازشوں اور کوششوں سے اِس نظام کے ختم ہونے تک ایک ہزار برس لگ گئے، یعنی جو فلسفہ معاش ساتویں صدی عیسوی میں انسانیت کے سامنے آیا اُس کے اثرات سترہویں صدی عیسوی تک بھی مٹائے نہ جا سکے اور آج بیسویں صدی میں بھی دنیا کی ایک بڑی آبادی اِس نظام کو اپنائے ہوئے ہے، پھر اِس نظام کو فرسودہ کیونکر کہا جا سکتا ہے؟!
اسلامی نظام ِ معاش و نظامِ کفالت کو برباد کرنے کے لیے سالہا سال کوششیں ہوئیں ، منصوبے بنے ، اُن پر عمل ہوا اور ایک حد تک اِن اسلام دشمن عناصر کو کام یابی بھی ہوئی، اُن منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ”نظام ِ انشورنس “ بھی ہے جو اسلام کے نظامِ کفالت ِ عامہ کو ختم کرنے کے لیے وجود میں آیا ، ایک نظر اِس مغربی نظام ِ انشورنس کے مقاصد پر ڈال لی جائے، تا کہ اس کے مقابل اسلام کے نظام کفالت کی جامعیت اور افادیت پوری طرح واضح ہو جائے۔
نظام انشورنس سماجی اور معاشی تحفظ کا ضامن نہیں بن سکتا، کیوں کہ اِس کا دائرہ کار انتہائی محدود ہے، اگر کچھ تھوڑا بہت نظر آرہا ہے تو محض اِن ہی افراد کے لیے یہ نظام ہے، جو کمپنی کی پالیسی لیتے ہیں ، یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو عام طور پر سرمایہ دار ہی ہوتے ہیں ، اِس نظام میں ایسے طبقہ یا افراد کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے، جو اُن کے پالیسی ہولڈر نہیں ہیں، جو معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں، ایسے افراد کو سہارا دینے کا، ان کاساتھ دینے کا،ان کو چلانے کا، گرے پڑے ہووٴں کو اٹھانے کا کوئی پروگرام یا کوئی حصہ نہیں ہے، جو معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ، اِس نظام میں نہ یتیم بچوں کے سروں پر رکھنے کے لیے دستِ شفقت ہے (کیوں کہ ان کا باپ پالیسی ہولڈر نہیں تھا)اور اُس بیوہ کے لیے کھانے کے ایک لقمہ کا بھی انتظام نہیں ہے ، جس کا مزدور خاوند بیمہ کمپنی میں اپنایا اپنی اس بیوہ کا بیمہ نہ کرا سکا تھا، اِس نظام میں اُن غربا اور مساکین کے لیے کوئی پالیسی یا انتظام نہیں ہے، جو مکان نہ ہونے کے باعث کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں یا دن بھر مزدوری نہ ملنے کے سبب بھوکے سونے پر مجبور ہیں ، ایسا کیوں ؟؟ اِس لیے کہ وہ بیمہ کمپنی کے ممبر نہیں ہیں ، اُن کے پاس اِن کی اَقساط ادا کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
مذکورہ تفصیل کے بعد یہ بات کھل کے سامنے آجاتی ہے، کہ” نظام ِ انشورنس“ جس پر آج مغرب فخر کر رہا ہے اور غریبوں کو اپنا محسن ہونا بتا رہا ہے ، جس کے پُر فریب اور پُرکشش اشتہارات ”ہر فکر کو دور کیجیے“ اور ”غم کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں“ کا سبق پڑھا رہے ہیں ، دراصل یہ (نظام) مذموم سرمایہ کاری کی کوکھ سے جنم لینے والا ایک نیا نظام استحصال، دولت کو اپنے پاس جمع کرتے رہنے کا جدید حیلہ اور عالمِ اسلام میں یہودی کاروبار کو فروغ دینے والا ذہنی ، فکری و عملی منصوبہ ہے ، جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ”امیر کے لیے سب کچھ اور نادار و بے کَس غریب کے لیے کچھ نہیں“۔
اِس کے بر عکس اسلام کے نظام ِ کفالت ِ عامہ کو پہچانیے اور اِس کی جامعیت اور کاملیت کا بڑی بیدارمغزی اور پوری بصیرت سے جائزہ لیجیے کہ کتنادودھ اور کتنا پانی ہے؟! جِس کا مقصد اسلامی ریاست کے متمول ، صاحب ِ ثروت افراد سے جائز اور شرعی طریقے سے لے کر اور غربا ومساکین اور معذورین سے کچھ بھی نہ لے کر، مملکت و ریاست کے تمام باشندوں (بلا تمیز مسلم و کافر )کی ہر قسم کی سماجی ، معاشرتی، و معاشی حاجات و ضروریات کی کفالت ، غیر متوقع پیش آمدہ حادثات کا تحفظ اور نقصانات کی تلافی کی ضمانت دینا ہے۔
یہ نظام (کفالت )اس معاشی نظام کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد محض معاشی کفالت نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امن و سلامتی کی ضمانت دینا ہے،اس (اسلامی نظام ) کا رکن بننے کے لیے کوئی قسطیں ، کوئی فیس نہیں ادا کرنا پڑتی ،بلکہ صرف احکاماتِ الٰہیہ کے سامنے سر تسلیم ِ خم کرتے ہوئے اسلام کو بحیثیت ضابطہ حیات تسلیم کرنا ، امرا کا جائز شرعی واجبات (زکاة ، صدقات واجبہ، عشر وغیرہ) ادا کرنا اور پوری زندگی الله کا بندہ بن کر رہنا ہے اور بہ صورت ِ ذمی،اسلامی ریاست کا وفادار شہری بن کر رہنا اور معمولی جزیہ کا ادا کرنا ہے۔
اسلام جس قسم کا نظام ِ کفالت پیش کرتا ہے، اس میں اوّلیت اس بات کو دی گئی ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شخص بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہے، اس نظام میں امیر کو ترغیب دے کر اور آخرت کا خوف دلا کر یہ درس دیا جا تا ہے کہ وہ غریب اور محروم المعیشت تک اس کی ضروریاتِ زندگی پہنچائے، جو شخص مفلس اور نادار کی حاجت روائی نہ کرے وہ کامل مسلمان ہی نہیں۔
قرآن ِ پاک کا معاشی نظام سے متعلق اُسلوب
اسلام میں کمال حاصل کرنے کے لیے جن صفات کا ہونا ضروری ہے، اُن میں سے ایک صفت غرباء کو کھانا کھلانے کی تلقین بھی ہے،ملاحظہ ہو:
﴿أرء یت الذي یکذب بالدّین فذٰلک الذي یدع الیتیم ولا یحض علی طعام المسکین﴾۔ (الماعون:1 تا3)
ترجمہ:”کیا تو نے ایسے شخص کو دیکھا جو جزا و سزا کا منکر ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا“۔
دیکھیے !غریب کو خود کھانا کھلانے سے انکار تو دور کی بات ہے، یہاں تو اگر کوئی فرد کسی دوسرے متمول شخص کو کسی بھوکے شخص کوکھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا تب بھی اسے صحیح اور کامل دین دار قرار نہیں دیا جارہا۔
ایک اور جگہ تو بہت سخت لہجے میں فرمایا گیا:
﴿خذوہ فغلوہ ثم الجحیم صلّوہ ثم في سلسلة ذرعھا سبعون ذراعاً فاسلکوہ إنہ کان لا یوٴمن باللہ العظیم ولا یحض علی طعام المسکین﴾۔ (الحاقة:30 تا34)
ترجمہ: ”اسے پکڑو اور اس کے گلے میں طوق ڈالو، پھر اسے جہنم میں داخل کرو، پھر اسے ستر گز لمبی زنجیر میں جکڑدو، یقینا یہ وہی ہے جو خدائے بزرگ و بر تر پر ایمان نہیں لایا تھا اور نہ ہی محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا“۔
ایک اور جگہ ایمان والوں کی صفات ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:
﴿ویطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکیناً و یتیماً وأسیراً ﴾․ (الدھر:۸)
ترجمہ:”اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں (اپنا) کھانا مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھلاتے ہیں“۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
﴿في أموالہم حقٌ معلومٌ للسائل والمحروم﴾․ (المعارج:24،25)
ترجمہ:”ان کے اموال میں ایک مقررہ حصہ ہے، مانگنے والے کا اور ہارے ہوئے کا“۔
مذکورہ آیات میں امرا کے لیے ایک راہِ عمل متعین کر دی گئی اور پھر دوسرے طرز پر مقصد یہ بتایا گیاکہ:
﴿کي لا یکون دولةً بین الأغنیاء منکم﴾․(الحشر:۷)
ترجمہ:”تاکہ وہ (دولت)تمہارے مال داروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتی رہے“۔
آیت ِ کریمہ میں اسلامی معاشرے اورحکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مال داروں میں ہی گھومتا رہے،یا امیر! روز بروزامیر تر اور غریب دن بدن غریب تر ہوتے چلے جائیں، اس مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا، زکوٰة فرض کی گئی، مالِ غنیمت میں خُمس مقرر کیا گیا، صدقات کی ترغیب دی گئی، مختلف قسم کے کفارات کی ایسی صورت تجویز کی گئی جِن سے غریب افراد کی خاطر خواہ دل داری اور حاجت براری ہو سکے ، میراث کا ایسا قانون بنایا گیاکہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے ، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابلِ مذمت اور سخاوت و فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ، الغرض وہ تمام انتظامات کیے گئے کہ دولت پر بااثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو اور دولت کا بہاوٴ امیروں سے غریبوں کی طرف بھی ہو جائے۔
احادیث ِ مبارکہ کا معاشی نظام سے متعلق اُسلوب
سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے کہ یہ افرادِ معاشرہ سے سخاوت کو بالکلیہ ہی ختم کر دیتا ہے، چناں چہ اِس نظام کی کسی بھی کتاب کو اُٹھا کے دیکھ لیا جائے کہ اس میں سخاوت و فیاضی کا کوئی ایک بھی عنوان ڈھونڈنے سے نہ مل سکے گا ، اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نظام کا خمیر ہی بخل اور امساک سے اٹھایا گیا ہے، جب کہ سخاوت و فیاضی کریمانہ اَخلاق کے وہ حصے ہیں جو اللہ رب العزت کی راہ میں خرچ کرنے سے فقرا و مساکین کی محبت ، دنیاداری کی حقارت جیسی عمدہ روحانی غذا پاتے ہیں ، نبی اکرم ﷺ نے سخاوت و فیاضی کے اوصاف ِ حمیدہ کے ذریعے اپنے مال و دولت میں امت کے غربا اور بے کسوں کو بھی شامل فرمایا اور اِس طرح گردش ِ دولت کی راہیں کشادہ کر دیں اور بخل و اِرتکازِ دولت کی عاداتِ رذیلہ کے مضر اثرات کو ختم فرمایا اور اِس خصلتِ حمیدہ میں امت کو بھی اپنے ساتھ شامل فرمایا ، جابجا ان کی ذہن سازی کی ، کبھی ترغیب کے ذریعے اور کبھی ترہیب کے ذریعے، لیکن اِن سب سے بڑھ کر خود آپ ﷺ کا اپنا پاکیزہ عمل، نمونہ تھا، جس کی ادنیٰ سی جھلک پہلی بار نازل ہونے والی وحی کے وقت آپ ﷺ پرطاری ہونے والی گھبراہٹ کو دیکھ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا آپ کو تسلی دیتے ہوئے آپ کی اعلیٰ صفات شمار کرواناہے، ملاحظہ ہو:
”فقالت خدیجة:کلّا واللہ، ما یخزیک اللہ أبداً، إنک لَتصل الرحم، وتحمل الکلّ، وتکسب المعدوم وتقري الضیف وتعین علی نوائب الحق“․(صحیح البخاري، کتاب بدء الوحي،رقم:3،7/1،دارطوق النجاة)
ترجمہ: (آپ ﷺ کی گبھراہٹ کو دیکھ کر ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:”ہر گز نہیں! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کریں گے، آپ تو رشتوں کو جوڑنے والے ہیں، آپ تو کمزوروں ، بے کسوں کا سہارا بنتے ہیں ، جن کا کوئی کمانے والا نہیں آپ اُن کو کما کر کھلاتے ہیں ، ناتواوٴں کے بوجھ اُٹھاتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور آفت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں“۔
یہ تو آپ ﷺ کی صفاتِ عالیہ کی ایک ادنیٰ سی جھلک ہے، ورنہ تو پوری حیاتِ طیبہ یہی أسوہ پیش کرتی ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”أیما أھل عرصة أصبح فیھم امرء جائعاً فقد برئت منھم ذمة اللہ“۔(المستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع، رقم الحدیث:2165،14/2، دار الکتب العلمیة)
ترجمہ: ”کسی بھی بستی میں کوئی شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ رات بھر بھوکا رہا ہو، تو اللہ رب العزت کا ذمہ اس بستی سے بری ہے“۔
نبی اکرم ﷺ نے غربا کی امداد کی اس قدر ترغیب دی کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کہنے لگے کہ ہمارے پاس جو زائد اموال ہیں ان میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے،ملاحظہ ہو:
”عن أبي سعید الخدري رضي اللہ عنہ قال:بینما نحن في سفر مع النبي صلی الله علیہ وسلم إذ جاء رجل علی راحلة لہ، فجعل یصرف بصرہ یمیناً وشمالاً، فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم :”من کان معہ فضل ظھر فلیعد بہ علی من لا ظھر لہ، ومن کان لہ فضل من زادٍ ، فلیعد بہ علی من لا زاد لہ“، فذکر من أصناف المال ما ذکر حتیٰ رأینا أنہ لا حق لأحدٍ منّا في فضلٍ“۔(ریاض الصالحین، باب الإیثار والمواساة، رقم:566،ص:173، دارالسلام)
ترجمہ:”حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ہم راہ ایک سفر میں تھے کہ ایک شخص آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس زائدسواری ہو وہ اُسے دے دے جِس کے پاس سواری نہ ہو اور جِس کے پاس ضرورت سے زائد زادِ راہ ہو تو وہ (اُس توشے کو) اُسے دے دے جِس کے پاس زادِ راہ نہ ہو،حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ مختلف انواع کے اموال( اسی طرح اوروں کو دینے ) کا ذکر فرماتے رہے کہ ہم (میں سے ہر ایک )نے گمان کرلیا کہ ہم میں سے کسی کو بھی اپنے ضرورت سے زائد مال پر کوئی حق نہیں“۔
ایک اور حدیث شریف میں ارشاد فرمایا:
”من کان عندہ طعام إثنین فلیذھب بثالث، فإن أربع فخامس، أو سادس“۔(صحیح البخاري ، کتاب الہبہ، رقم الحدیث:2581، 156/1، دارالشعب ، القاھرة)
ترجمہ:جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے آدمی کو اپنا مہمان بنا لے اور اگر چار (آدمیوں)کا کھانا ہو تو پانچوے یا چھٹے کو(اپنا مہمان بنا لے)“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ :
”طعام الإثنین کافي الثلاثة و طعام الثلاثة کافي الأربعة“(ریاض الصالحین، باب الإیثار و المواساة، رقم الحدیث:565، ص:173، دارالسلام)
ترجمہ: ”دو افراد کا کھانا تین افراد کو کفایت کر جائے گا اور تین کا کھانا چار کو کفایت کر جائے گا“۔
کفالت کے اس سلسلے کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”عن جابر رضی اللہ عنہ یقول:سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول:”طعام الواحد یکفي الإثنین، وطعام الإثنین یکفي الأربعة، وطعام الأربعة یکفي الثمانیة“ ․(صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب فضیلة المواساة، رقم :5489، 132/2، دارالجیل، بیروت)
ترجمہ:”حضرت جابرؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ ایک فرد کا کھانا دو کے لیے کافی ہو جائے گا، دو کا کھانا چار افراد کے لیے کافی ہو جائے گا اور اسی طرح چار افراد کا کھانا آٹھ افراد کے لیے کافی ہو سکتا ہے“۔
یہ ہیں وہ تعلیمات جو اسلام کی جامعیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کریہ امت وحدتِ امت کا نمونہ پیش کر سکتی ہے،یہ تصور امت کے اندر سے منافرت کی بو تک مٹا دیتا ہے اور امت َ مسلمہ کو یک جان کر دیتا ہے،اس کی بہت ہی دل کش تعبیر نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمائی ہے:
”مثل الموٴمنین في توادّھم وتراحمھم وتعاطفھم مثل الجسد إذا اشتکیٰ منہ عضوٌ تداعیٰ لہ سائر الجسم بالسھر والحمیٰ“․ (صحیح مسلم، کتاب البروالصلة، باب تراحم الموٴمنین، رقم : 6751،20/8، دارالجیل، بیروت)
ترجمہ:”موٴمنین کی مثال ان کے آپس میں محبت و شفقت ، اُنس ومودت اور لطف و کرم میں ایک جسم کی مانند ہے، جس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بیداری اور بخار میں اس کا شریک ہوتا ہے“۔ اس سے اندازہ کر لینا چا ہیے کہ کیا مغرب کا پیش کردہ نظامِ انشورنس اسلام کے نظام ِ کفالت عامہ کے برابر ہوسکتا ہے؟!
اس کے علاوہ اور بہت سی روایات و آثار اس بارے میں منقول ہیں، مثلاً:
”صح عن أبي عبیدة بن الجراح وثلٰث مائة من الصحابة أن زادھم فني، فأمرھم أبو عبیدة، فأجمعوا أزوادھم في مزودین و جعل یقوتھم إیاھا علی السواء“․(المحلّٰی لابن حزم، کتاب الزکاة، إن اللہ فرض علی الأغنیاء ما یکفي الفقراء، 4/283، دارالکتب العلمیة)
ترجمہ:”حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور تین سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق یہ روایت درجہ صحت کو پہنچتی ہے کہ(ایک مرتبہ) ان کا سامانِ خوردونوش ختم ہونے کے قریب آلگا تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ جس جس کے پاس جس قدرہے، وہ حاضر کرے اور پھر سب کو یک جا کیا اور ان سب میں برابرتقسیم کر کے سب کو ”قوت لایموت“کا سامان مہیا کر دیا“۔
وعن أبي موسیٰ رضی اللہ عنہ، قال قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم:”إن الأشعریین إذا أرملوا في الغزو، أو قلّ طعام عیالھم بالمدینة ، جمعوا ما کان عندھم في ثوب واحدٍ، ثم اقتسموہ بینھم في إناءٍ واحدٍ بالسویة، فھم مني وأنا منھم“․(ریاض الصالحین، باب الإیثار والمواساة، رقم الحدیث:568،ص:173،دار السلام)
غور کریں اس حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ نے اشعری قبیلہ والوں کی اس وجہ سے تعریف کی کہ جب کبھی سفرحضر میں ان کے ہاں غلہ کی کمی ہو جاتی تو وہ اپناغلہ ایک کپڑے میں جمع کر دیتے اور پھر برابرتقسیم کر لیتے، چناں چہ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں خوش ہو کر فرمایا ”وہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں“۔
”المحلی بالآثار“ میں علامہ ابن حزم نے لکھا ہے کہ ”اس بات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص بھوکا ننگا یا ضروریاتِ زندگی سے محروم ہے تو مال دار کے خاص مال میں سے اس کی کفالت کرنا فرض ہے“۔(المحلی، کتاب الزکاة:283/4،دارالکتب العلمیة)
”اسلام کا اقتصادی نظام“ میں حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ تمام آئمہ مجتہدین کا بھی یہی مسلک ہے۔(اسلام کا اقتصادی نظام،ص:46،ندوة المصنفین)
خلاصہ کلام!اسلام اپنی تعلیمات کے ذریعے تعاون و تکافل کا وہ اعلیٰ ترین معیارقائم کرتا ہے، جس کی بلندیوں تک آج مذموم سرمایہ دار اور لا دین اشتراکی ذہن رکھنے والے کا تخیل،پرواز ہی نہیں کر سکتا۔ اسلام معاشی کمزوریاں دور کرنے کے لیے اجتماعی کفالت ِعامہ کا جو تصور پیش کرتا ہے اُسے صرف وعظ و تلقین ہی تک نہیں چھوڑا اور نہ ہی اسے صرف انفرادی اور اجتماعی وجدان کے رحم و کرم کے سپرد کیا ہے، بلکہ اسلامی ریاست کے امیر المومنین کو ذمہ دار بنایا ہے، کہ وہ اس نظام کو عملی جامہ پہنائے اور اس کے احیا میں آنے والی ہر رکاوٹ دور کرے۔
اسلامی نظامِ تکافل کی حدود و طریقہ کار
مندرجہ بالا سطور میں یہ بات تفصیل سے گذر چکی ہے کہ کفالت ِ عامہ بنیادی طور پر اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، اس کے تحت اب جائزہ اس بات کا لینا ہے کہ یہ نظام ، ریاست میں بسنے والے صرف مسلمانوں کے لیے ہو گا یا غیر مسلم بھی اس نظام سے مستفید ہو سکیں گے۔اور پھر اس نظام کے تحت کس قسم کی ضروریات پوری کی جائیں ؟
ہر انسان کے ساتھ کچھ ضروریات ایسی ہوتی ہیں جو انسانیت کی فلاح و بہبود سے متعلق ہوتی ہیں،مثلاً:تعلیم،صحت ، تزویج، نومولود بچوں کے وظائف ، معذور افراد کی دیکھ بھال ، مقروضوں کے قرضوں کی ادائیگی وغیرہ۔
اس کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے، نظامِ کفالت کا سارا بوجھ سرکاری ریاست کے ہی ذمے ہے یا معاشرے کے افراد بھی اس میں شامل ہیں، چناں چہ معلوم ہوتا ہے کہ افرادِ امت کے ذمہ بھی کچھ مختلف نوعیت کی ذمہ داریاں لاحق ہوتی ہیں،جن میں کچھ قانونی اور کچھ اخلاقی ذمہ داریاں ہیں، قانونی ذمہ داریوں کو ”صدقاتِ واجبہ“(مثلاً:زکوٰة، عشر ، صدقة الفطر، کفارات اور نذور وغیرہ) اور اخلاقی ذمہ داریوں کو” انفاق“ (مثلاً:صدقاتِ نافلہ، قرضِ حسنہ، ہبہ، عاریت، وصیت، امانت، اوقاف، میراث اور نفقات وغیرہ)سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
پھر اس کے بعد سوال یہ پید اہوتا ہے کہ یہی سرکاری ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے مصارف کہاں سے اور کیسے لائیں گے؟اس کے لیے کون کون سے ذرائع اختیار کیے جائیں گے؟تو یہ مصارف اور ذرائع آمدنی اسلام میں متعین ہیں، مثلاً: زکوٰة، خمس، متعین شرائط کے ساتھ جائز ٹیکس، اموالِ فاضلہ، خراج، منافع تجارت وغیرہ۔
خلاصہ کلام!اگر مندرجہ بالا شعبوں کا احیا ہو جائے اور یہ مصروف ِ عمل ہو جائیں تو ممکن ہی نہیں کہ ملک میں دولت کے ذخائر پر محض چند اور مخصوص افراد قابض ہوں اور گردشِ دولت کا بہاوٴ صرف اور صرف سرمایہ کاروں کی طرف ہی ہو اور اس کے برعکس دوسری طرف غریب طبقہ ظلم کی چکی میں پِس رہا ہو اور بھوک پیاس کی حالت میں ایک ایک لقمے کا محتاج ہو۔
اگر اسلام کا یہ نظام ِ کفالت وجود میں ہوتو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں غیروں کے بنائے ہوئے نظامِ انشورنس وغیرہ کا سہارا لینا پڑے اور اپنے دین و مذہب کا خون کرنا پڑے۔ البتہ اس کے لیے انتھک محنت کرنا ہو گی، کہ جس طرح آج سے چودہ سو سال قبل یہ نظامِ کامل پوری طرح چمکتا ہوا ،انسان کو انسان اور جہالت و نفسانیت میں ڈوبے معاشرے کو ایک صالح اور پُر امن معاشرے میں ڈھال چکا تھا ، جس کی حقانیت کا اعتراف اپنے تو اپنے ، غیربھی کرنے پر مجبور ہوگئے، اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی ایسی ایسی مثالیں قائم ہوئیں کہ آج تک مغربی معاشرہ اس کی کوئی نظیر پیش نہ کر سکا، تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی نظام اس وقت ”جب کوئی ظاہری ٹھاٹ باٹ نہ تھے“ اپنا اثر قائم کر سکتا ہو اور آج کے دور میں بے اثر ہو!!اگر معاشرے کے چند بااثر افراد مل کر ہمت و کوشش کر لیں اور اپنے فاضل اموال کو مذکورہ بالا مدّات میں خرچ کر لیں اور پھر ان کی دیکھا دیکھی کچھ اور اور پھر کچھ اور حتیٰ کہ ہر طرف ایک عام فضا بن جائے تو یقینا مقصود حاصل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
اسلام کا نظامِ کفالت کن کن افراد کے لیے مفید ہو گا؟
اسلامی ریاست میں بسنے والے چوں کہ صرف مسلمان ہی نہیں ہوتے، بلکہ غیر مسلم بھی ہوتے ہیں تو ریاست میں مقیم ہر مسلم و غیر مسلم کی کفالت اس نظام کا حصہ ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِمبارک میں جب”حیرہ “ فتح ہوا تو اس موقع پر ایک معاہدہ لکھا گیا، جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے کفالت ِ عامہ کا ذکر ہے، ملاحظہ ہو:
”وجعلتُ لہم أیّما شیخ ضعُف عن العمل أو أصابتہ اٰفةٌ من اٰفاتٍ أو غنیاً فافتقر وصار أھلُ دینہ یتصدّقون علیہ، طرحت جزیة، وعیل من بیت مال المسلمین وعیالہ ما أقام بدارالہجرة ودارالإسلام“․(کتاب الخراج لأبي یوسف، باب في الکنائس والبیع والصلبان،ص:144، مطبوعة سلفیة)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: ”میں طے کرتا ہوں کہ اگر ذمیوں میں سے کوئی ضعیف ہو ، کام نہ کر سکتا ہو، یا آسمانی یا زمینی آفات میں سے کوئی آفت اس پر آپڑے ، یا ان کا کوئی مال دار محتاج ہو جائے اور اس کے اہلِ مذہب اس کو خیرات دینے لگیں،تو ایسے تمام افراد کو جزیہ معاف ہے اور بیت المال سے ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی کفالت کی جائے گی، جب تک وہ دارالہجرة اور دارالاسلام میں اقامت پذیر ہوں“۔
اسی تناظر میں دور فاروقی کا بھی ایک واقعہ ملاحظہ کر لیا جائے، جسے امام ابو یوسف نے اپنی کتاب الخراج میں نقل کیا ہے:
”قال: وحدثني عمر بن نافع عن أبي بکر، قال:مرّ عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ بباب قومٍ وعلیہ سائلٌ یسأل، شیخٌ کبیرٌ، ضریر البصر، فضرب عضُدہ من خلفہ، وقال: مِن أيِّ أہل الکتاب أنتَ؟ فقال: یھوديٌ، قال: فما ألجأک إلی ما أریٰ؟ قال: أُسأَلُ الجزیةَ، والحاجةُ، والسِنُّ، قال: فأخذ عمر بیدہ، وذھب بہ إلی منزلہ، فرضَخ لہ بشيء من المنزل، ثم أرسل إلی خازنِ بیتِ المال، فقال:اُنظر ھذا وضُربائَہ، واللہ ماأنصفناہ أن أکلنا شبیبتَہ، ثم نخذُلہ عند الھرَم ﴿إنما الصدقات للفقراء والمساکین﴾ و”الفقراء“ من المسلمین، وھذا من ”المساکین“ من أھل الکتاب، ووضع عنہ الجزیةَ وعن ضُربائِہ، قال أبو بکر:أنا شہِدت ذلک من عُمَرَ ورأیتُ ذلٰک الشیخَ “․(کتاب الخراج لأبي یوسف، في من یجب علیہ الجزیة؟ص:126، الطبعة السلفیة، القاھرة)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نابینا بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے دیکھا، اس سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ یہودی ہے، بھیک مانگنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ جزیہ کی ادائیگی، معاشی ضروریات اور پیرانہ سالی نے(بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا )۔یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے، جو موجود تھا وہ دیا اور پھر بیت المال کے خزانچی کے پاس فرمان بھیجا کہ یہ اور اس جیسے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو، اللہ کی قسم! ہم اس کے ساتھ ہر گز انصاف نہیں کر سکتے کہ اس کی جوانی کی محنت (بصورتِ جزیہ) تو کھائیں، مگر اس کے بڑھاپے میں اسے بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیں، قرآن پاک میں ہے:﴿إنما الصدقات للفقراء والمساکین﴾اورمیرے نزدیک یہاں ”فقراء“ سے مرادمسلمان مفلس ہیں(اور ”مساکین “سے مراد اہل کتاب کے مساکین و فقراء ہیں) اور یہ سائل مساکینِ اہلِ کتاب میں سے ہے، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جزیہ معاف کر دیا۔
مذکورہ بالا اور اس جیسی اور بہت سی نظائر سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کا نظامِ کفالت بلا تمیزمسلم و کافر سب کے لیے ہے ، یہ ایسا ابرِ رحمت ہے جو باغ اور کوڑے کرکٹ ، ہر جگہ برستا ہے۔
کن ضروریات کو پورا کیا جائے گا؟
انسان کی ضروریات دو قسم کی ہیں:اول وہ ضروریات جن پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے اور دوسری وہ ضروریات جو حیاتِ انسانی میں نکھار کا سبب بنتی ہیں:
پہلی قسم کی ضروریات
ضروریات کی اس قسم میں بنیادی طور پر خوراک، لباس، جائے سکونت اور ابتدائی و ضروری طبی امداد شامل ہے، اسلامی حکومت تمام مذکورہ ضروریات کو پورا کرے گی، مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی لکھتے ہیں کہ: ”اسلامی حکومت کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر فرد خواہ وہ امیر ہو یا فقیر ، مرد ہو یا عورت، کواس کی استعداد اور حالت کے مطابق ان تین بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے ہر قسم کی سہولیات پہنچائے، وہ تین چیزیں یہ ہیں: کھانے پینے کی سہولت، کیوں کہ یہ ہر فرد کی زندگی کا ذریعہ ہے، اور اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی نہیں۔ لباس کی ضرورت،خواہ وہ روئی کا ہو یا کتان (قیمتی کپڑا) یااُون کا۔ ازدواجی زندگی کی سہولت، کیوں کہ یہ انسانی نسل کی بقا کے لیے ضروری ہے “۔ (اسلام کا اقتصادی نظام، ص:153، ندوة المصنفین)
دوسری قسم کی ضروریات
اس قسم میں وہ ضروریات شامل ہیں،جو انسان کو اخلاقی اعتبار سے اور معاشرتی اعتبار سے مضبوط کرتی ہیں،ان میں تعلیم و تربیت، صحت و دیگر مصائب، غیر شادی شدہ اور شادی شدہ افراد کی کفالت، مقروضوں کے قرضوں کی ادائیگی، نومولود بچوں کے وظائف، اپاہج و ناکارہ افراد کی کفالت، مسافر خانوں کی تعمیر، خواتینِ اسلام کی کفالت وغیرہ وغیرہ۔(ان تمام صورتوں کے تفصیلی احکامات کتاب الأموال لأبی عبید،کتاب الخراج لیحیی بن آدم القرشی، سیرة عمر بن عبد العزیز لابن عبد الحکیم، سیرة عمر بن عبد العزیز لابن جوزی، سیرة عمر بن الخطاب لابن جوزی، تاریخ الخلفاء للسیوطی، الطبقات الکبریٰ لابن سعد میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔)
کفالت کس حد تک کی جائے گی؟
اسلام کے نظام ِ کفالت عامہ کی حدود کیا ہیں؟ تو جاننا چاہیے کہ جوں جوں اسلامی ریاست وسیع ہوتی جائے گی اور وسائل بڑھتے جائیں گے، اسی طرح کفالت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا، چناں چہ اسلام کے نظام تکافل و کفالتِ عامہ کی وسعت ، جامعیت، کاملیت و حدود کا اندازہ لگانے کے لیے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ، جنہیں خلیفہ راشد تسلیم کیا گیا ہے، کا نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ :
”کتب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ إلی عبدالحمید بن عبد الرحمن، وھو بالعراق:”أن أخرج للناس أعطیاتھم“ فکتب إلیہ عبد الحمید: ”إني قد أخرجت للناس أعطیاتھم، وقد بقي في بیت المال“فکتب إلیہ:”أن انظر کل من أدان في غیر سفہ ولا سرف، فاقض عنہ“․ فکتب إلیہ:”إني قد قضیت عنھم، قد بقي في بیت مال المسلمین مالٌ“․ فکتب إلیہ:”أن انظر کل بکرٍ لیس لہ مالٌ، فشاء أن تزوجہ، فزوِّجہ واصدق عنہ“․ فکتب إلیہ:”إني قد زوَّجتُ کل من وجدتُ، وقد بقي في بیت مال المسلمین مالٌ“․ فکتب إلیہ:بعد مخرج ھذا، أن انظر من کانت علیہ جزیة فضعف عن أرضہ، فأسلفہ مایقوي بہ علیٰ عمل أرضہ، فإنا لا نریدھم لعامٍ ولا لعامین“ قال:قال العمري ھٰذا أو نحوہ“․(کتاب الأموال لأبي عبید، الجزء الثالث: صنع عمر بن عبد العزیز في تقسیم الفيء:۱/۳۶۳، دارالہدي النبوي، مصر)
مذکورہ روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ :”حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اپنے گورنر کے نام لکھا کہ وہ لوگوں کے عطایا ان کو ادا کرے، گورنر نے جواب لکھا کہ میں نے عوام کے عطایا انہیں اداکر دیے ہیں ، مگر بیت المال کی رقم بچی پڑی ہے (اس کا کیا کروں؟) تو آپ نے لکھا کہ ایسے مقروضوں کو تلاش کرو جنہوں نے کسی بغیر نادانی کے کاموں کے ، یا بغیر فضول خرچی کے قرض لیا ہو، ان کا قرض ادا کر دو۔ گورنر نے لکھا کہ میں نے ایسے تمام (مقروضوں) کے قرضے ادا کر دیے ہیں پھر بھی مسلمانوں کے بیت المال میں رقم بچ گئی ہے۔ آپ نے لکھا کہ ہر ایسے کنوارے کو تلاش کرو جس کے پاس مال نہ ہو ، مگر وہ شادی کرنا چاہتا ہو، اس کی شادی کراوٴ اور اس کا مہر ادا کرو۔ گورنر نے لکھا کہ میں نے جس کسی کوایسا پایا ، اس کا نکاح کرا دیا ہے، مگر پھر بھی بیت المال میں رقم باقی ہے۔ آپ نے لکھا کہ ہر ایسے ذمی(شخص ) کو تلاش کرو جس پر جزیہ ہو، اور (مفلسی کے باعث ) اپنی زمین آباد کرنے سے عاجز ہو، اسے قرضہ دو، تا کہ وہ اپنی زمین (کی آباد کاری) کا کام کرنے کے قابل ہو جائے، کیوں کہ ہم ان (ذمیوں) کو صرف ایک سال یا دو سال کے لیے ہی نہیں رکھنا چاہتے (بلکہ ان سے حسن و سلوک کا طویل رشتہ چاہتے ہیں)“۔
اس روایت سے خوب اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسلام کا نظامِ کفالت ِ عامہ کتنا جامع اور وسیع ہے کہ وسائل کی دست یابی کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے اور پھیلتا جاتا ہے اور پھر رعایا کی ضروریات کی تکمیل کا اندازہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ایک ارشاد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، فرمایا:
”أما واللہ! لئن بقیت لأرامل أھل العراق لأدعنھن لا یفتقرن إلیٰ أمیرٍ بعدي“․(کتاب الخراج لیحییٰ بن آدم القرشي، باب الرفق بأھل الجزیة،رقم الحدیث:۲۴۰،ص:۷۳، المکتبة العلمیة)
فرمایا:”اللہ( جل شانہ) کی قسم ! اگر میں اہلِ عراق کی بیواوٴں کے لیے (اگلے سال تک) زندہ رہ سکا، تو انہیں ایسا (غنی) کر دوں گا کہ وہ میرے بعد کسی امیر کی اعانت کی محتاج نہیں رہیں گی“۔
اور پھر ان خواہشات کی تکمیل حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور ِ خلافت میں ہوئی، جس کی طرف ان کے ایک گورنر یحییٰ بن سعید نے اشارہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:
”قال یحییٰ بن سعید: بعثني عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ إلی صدقات إفریقیة، فاقتضیتھا وطلبت فقراء، نعطیھا لھم، فلم نجد بھا فقیراً ،ولم نجد من یأخذھا مني، قد أغنیٰ عمر بن عبد العزیز الناس، فاشتریت بھا رقاباً فأعتقتھم، وولائھم للمسلمین“․ (سیرة عمر بن عبد العزیز لابن عبد الحکیم :۱/۶۵)
یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ” مجھے امیر المو منین عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے افریقہ میں صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا ، میں نے صدقات وصول کئے اور ایسے لوگوں کی تلاش کی جنہیں صدقات دے سکوں ، مگر ایسا شخص نہ ملا جو صدقہ قبول کرے،حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اہل عراق کو (اتنا )غنی کردیا تھا (کہ انہیں صدقہ قبول کرنے کی حاجت ہی نہیں رہی تھی) بالآخر میں نے اس صدقہ سے غلاموں کو خرید کے آزاد کیا“۔
یہ انتہا ہے اسلام کے نظامِ کفالتِ عامہ کی ، اس حقیقت سے نظریں چُرا کر مغرب کے قائم کردہ نظاموں کو قائم کرنا ، ان کو رواج دینا بالخصوص ”نظامِ انشورنس“کو اسلام کے اس کامل نظام کے مقابل کھڑا کرنا ظلم نہیں تو اورکیا ہے؟ انسان کا بنایا ہو ا نظام شاید قانون ساز کی تجوری کو توبھرسکتا ہو لیکن ہر ہر انسان کے لیے وہ مفید و معاون ہو ، ایسا ہونا محال ہے، اس عالمی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قانونِ الہٰی ہی کارگر ثابت ہو سکتا ہے، کوئی اور نہیں۔
No comments:
Post a Comment