شکر تین قسم پر ہے:
(1)شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا، (2)شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا، (3)شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا۔
جس نے صبح کے وقت کہا:
اَللّٰهُمَّ مَا أَصْبَحَ بِيْ مِنْ نِّعْمَةٍ أَوْ بِأَحَدٍ مِّنْ خَلْقِكَ فَمِنْكَ وَحْدَكَ ، لَا شَرِيْكَ لَكَ ، فَلَكَ الْحَمْدُ وَلَكَ الشُّكْرُ۔
ترجمہ:
اے الله! جو بھی نعمت میرے پاس یا تیری مخلوق میں سے کسی کے پاس بھی صبح کے وقت موجود ہے تو وہ صرف تنہا تیری ہی جانب سے ہے، (اُن میں) تیرا کوئی شریک نہیں، پس تیرے لئے ہی ساری تعریف اور شکر ہے۔
تو اُس کی جانب سے اُس دن کا شکر اداء ہوجائے گا۔
اور اسی طرح شام کے وقت یہ(أَصْبَحَ کے بدلے اَمْسیٰ) کہا تو اُس رات کا شکر ادا ہوجائے گا۔
[سنن ابوداؤد:5073، صحیح ابن حبان:498]
القرآن:
۔۔۔اور﴿میرے احسانات یاد کرکے﴾میرا شکر کرو اور ﴿میرے احسانات بھلاکر﴾میری ناشکری نہ کرو۔
[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃالبقرۃ:152]
[ترمذی:3789، طبرانی:10664، حاکم:4716 ، الأحادیث المختارۃ:383، الشریعۃ لآجری:1760، الأعتقاد للبیھقی:ص#327 عن ابن عباس]
القرآن :
۔۔۔میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، سوائے رشتہ داری کی محبت کے۔۔۔۔
[سورۃ الشوریٰ:23﴿تفسیر ابن کثیر(7/182)﴾]
اللہ تعالی نے نعمتوں کی بقا و دوام اور زیادتی کے لیے صرف ایک شرط رکھی ہے، جی ہاں! صرف ایک شرط، اور وہ یہ ہے کہ ان نعمتوں کو پاکر اس منعم حقیقی کی احسان شناسی اور شکرگذاری کریں
اللہ تعالی نے نعمتوں کی بقا و دوام اور زیادتی کے لیے صرف ایک شرط رکھی ہے، جی ہاں! صرف ایک شرط، اور وہ یہ ہے کہ ان نعمتوں کو پاکر اس منعم حقیقی کی احسان شناسی اور شکرگذاری کریں
جب ایک شخص آپ پرکوئی معمولی احسان کرتا ہے تو بے ساختہ آپ کے زیرلب ‘‘شکریہ، تھینک یو، جزا ک اللہ خیرا جیسے الفاظ آجاتے ہیں اور اگر اسی نے آپ کو کسی تنگی سے نکال دیا اورنازک وقت میں آپ کے کام آیا توآپ اس کے احسان شناس بن جاتے ہیں اور اس کے احسان کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘‘نہ جانے کن الفاظ میں آپ کا شکرادا کروں’’ ،‘‘آپ کی شکرگزاری کےلیے ہمارے پاس الفاظ نہیں’’ ، اب ہمیں جواب دیجئےآپ کا یہ معاملہ ایک معمولی انسان کے ساتھ ہوتا ہے اورایسے انسان کے ساتھ جس سے کبھی کبھار ایسا سابقہ پڑتا ہے، تو پھرمالک ارض وسما اوررب العالمین کے ساتھ ہمارا معاملہ کیسا ہونا چاہئے جس کا ارشاد ہے:
وآتاكم من كل ما سألتموه وان تعدوا نعمة الله لا تحصوها (سوره ابراهيم 34)
‘‘اسی نےتمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے، اگرتم اللہ تعالی کے احسان گننا چاہوتو انہیں گن نہیں سکتے’’ –
اس منعم حقیقی کا فرمان ہے:
‘‘اور تمہیں اللہ تعالی نے اپنی ظاہری وباطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں’’۔
جی ہاں !بندے پراللہ تعالی کی بے شمار، انگنت اور لامتناہی نعمتیں ہیں، قطرہ آب سے پیدا ہونے والا انسان کبھی کچھ نہیں تھا، اللہ تعالی نے اسے نو مہینہ تک رحم مادرمیں رکھا، کرہ ارض پر وجود بخشا، اور بے شمارظاہری وباطنی نعمتوں سے نوازا
وَاللَّـهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (سورہ النحل آیت نمبر78)
‘‘اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے، اُس نے تمہیں کان دیے، آنکھیں دیں، اور سوچنے والے دل دیے، اس لیے کہ تم شکر گزار بنو’’ ۔
اس منعم حقیقی نے دیکھنے کے لیے دو آنکھیں دیں، سننے کے لیے دوکان دیا، چلنے کے لیے دو پیر دیا، پکڑنے کے لیے دو ہاتھ دیا، سونگھنے کے لیے ناک دیا، بولنے کے لیے زبان دیا اور سمجھنے اور رطب و یابس میں تمیز کرنے کے لیے عقل و دماغ دیا اور پھر مال و دولت، لباس و پوشاک، گھر و مکان، آب و دانہ ، صحت و عافیت، آل و اولاد اور خوشحال و سعادتمند زندگی عطا کی، ان نعمتوں کی قدر وہی جان سکتا ہے جو ان نعمتوں سے محروم ہو، مال ودولت کی اہمیت جاننا ہوتو فقیروں سے پوچھیے، گھر ومکان کی قیمت جاننا ہو تو بے گھروں اور وقتی خیموں میں پناہ لینے والوں سے پوچھیے، آب و دانہ کی اہمیت جاننا ہوتو فاقہ کشوں سے پوچھیے، آل و اولاد کی نعمت جاننا ہو تو آل اولاد سے محروم کو دیکھیے، صحت و عافیت کی اہمیت جاننا ہو تو بیماروں کی زندگی میں جھانک کر دیکھیے، خوشحال زندگی کی اہمیت جاننا ہو تو بدحالی کی زندگی گذارنے والوں کو دیکھیے، تعجب تو اس بات پر ہے کہ مصائب و شدائد میں بھی اللہ تعالی کی نعمتیں انسان سے جدا نہیں ہوتیں، چنانچہ اگر انسان نے مصیبت میں صبر و شکیبائی کے دامن کو تھامے رکھا تو اس کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں، اس کے اجر وثواب میں اضافہ کردیا جاتا ہے، اور اس سے بری بری بلائیں دور کردی جاتی ہیں، لیکن ان بنیادی نعمتوں سے اعلی و ارفع اور عظیم نعمت جو اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہے وہ ایمان کی نعمت ہے، جس سے شرفیاب وہی ہوتا ہے جو اللہ کی نظر میں محبوب ہو، اس نعمت کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں، کیونکہ اس کے بغیر انسانی زندگی تن مردہ بن جاتی ہے، غرضیکہ حضرت انسان سرتاپا اللہ تعالی کے احسانات اور نعمتوں میں ڈوبا ہوا ہے، جی ہاں! یہ نعمتیں انگنت، لاتعداد اور حیطہ تحریر سے باہر ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم ان کی حفاظت کیسے کریں؟ انہیں ہم اپنے قابو میں کیسے کریں؟ اللہ تعالی نے ان بے بہا نعمتوں کی بقا و دوام اور زیادتی کے لیے صرف ایک شرط رکھی ہے، جی ہاں! صرف ایک شرط، اور وہ یہ ہے کہ ان نعمتوں کو پاکر اس منعم حقیقی کی احسان شناسی اور شکرگذاری کریں، اللہ تعالی کا فرمان ہے
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (سورۃ البقرہ ۱۵۲ )
لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالی ہمارے شکر کا محتاج ہے، وہ ذات بے ہمتا تو اس قدر بے نیاز ہے کہ اگر سب لوگ اس کے نافرمان ہوجائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی، اور اگر سب اس کے اطاعت گذار بن جائیں تو اس سے اس کی قوت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا،اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَاللَّـهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ( سورہ الفاطر ۱۵)
‘‘لوگو! تم ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو غنی و حمید ہے’’۔
لہذا اگر کوئی شکرگزاری کرتا ہے تو اس کا پورا فائدہ شکرگذار ہی کو ملنے والا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے
وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ (سورہ النمل 40)
‘‘اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، ورنہ کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے’’۔
تاہم اللہ تعالی اپنے بندے کی اطاعت اور شکرگزاری دیکھنا چاہتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے ہمیں شکرگزاری کا حکم دیا، شاکرین کی تعریف کی، اور اپنے خاص بندوں کو اس صفت سے متصف کیا، چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّـهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ، شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ ۚ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (سورہ النمل 120-121)
‘‘واقعہ یہ ہے کہ ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو وہ کبھی مشرک نہ تھا،اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا اللہ نے اس کو منتخب کر لیا اور سیدھا راستہ دکھایا’’۔
اور حضرت نوح علیہ السلام کی بابت فرمایا
ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا (سورۃ الاسرا ۳)
‘‘ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا’’۔
اور پھر اللہ تعالی نے اپنا نام بھی شاکر اور شکور رکھا ہے جس سے شکرگزاری کی اہمیت مزید دوبالا ہوتی ہے، شکر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے اندر شکر کا ذکر متعدد معانی میں تقریبا 75 مقامات پر کیا ہے۔
مومن نعمتوں میں شکر گذار ہوتا ہے
ایک مومن نعمتوں کو پاکر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے، اور ان نعمتوں کو اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری میں صرف کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ بروز قیامت اس سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جانے والاہے، فرمان الہی ہے
ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ (سورۃ التکاثر 8)
پھر ضرور اُس روز تم سے اِن نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔
چنانچہ اللہ تعالی اس کی شکرگزاری کی بنیاد پراس کی نعمتوں میں مزید اضافہ اور زیادتی کرتا ہے ،جب کہ کافر نعمتوں کو پاکر ظلم وعدوان کا شکار ہوجاتا ہے ، نافرمانی اس کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے، حالانکہ یہ نعمتیں حقیقت میں اس کے حق میں وبال جان ہوتی ہیں۔
شکرگذاری کے درجات
نعمتوں کی شکرگذاری کے چند درجات ہیں: شکر کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان رب کریم کی ان نعمتوں کا شکر بجالائےجن سے وہ شبانہ روز مستفید ہورہا ہے۔
شکرگذاری کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان مصائب وآلام اور شدائد سے نجات پانے کے بعد اللہ تعالی کا شکر بجا لائے جن سے وہ بذات خود دوچار رہا ہے، یا اس کا کوئی بھائی، لیکن اللہ تعالی نے اسے اپنے فضل وکرم سے نجات بخشی۔
شکرگذاری کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان مصائب و آلام میں گھرے رہنے کے باوجود اللہ تعالی کو یاد کرے، اور اس بات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے کہ اس ذات پاک نے ہمیں بہیترے لوگوں سے اچھا رکھا ہے، اور مصائب پر صبر وشکیبائی اختیار کرنا شکر ہی تو ہے، اسی لیے ایک حدیث میں آتا ہے، صحیح مسلم کی روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عجبا لأمر المؤمن إن أمره كله خير ، وليس ذاك لأحد إلا للمؤمن ؛ إن أصابته سرّاء شكر ؛ فكان خيراً له ، وإن أصابته ضرّاء صبر ؛ فكان خيراً له . رواه مسلم
‘‘مومن کا معاملہ بھی کیا خوب ہے، اس کے ہر کام میں اس کے لیے بھلائی ہے، اگر اسے خوشحالی نصیب ہو تو اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے، تو یہ شکر کرنا بھی اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے اور یہ صبر کرنا بھی اس کے لیے بہتر ہے۔ یعنی صبر بھی بجائے خود نیک عمل اور باعث اجر و ثواب ہے’’۔
نعمتوں کا اعتراف کریں
ایک اثر میں حضرت داود علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے: ” اے رب میں تیرا شکر کس طرح کروں، جبکہ شکر بجائے خود تیری طرف سے مجھ پر ایک نعمت ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: اے داود اب تونے میرا شکر ادا کردیا، جبکہ تونے اعتراف کرلیا کہ اے اللہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں” ۔
لہذا سب سے پہلے نعمت کی اہمیت و عظمت کو اپنے دل میں بٹھائیں اور یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی ذات نہیں جو نعمتیں عنایت کرنے کی طاقت رکھتی ہو۔
اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کریں
نعمتوں کی شکر گذاری میں یہ شامل ہے کہ ایک بندہ زبان سے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے، صحیح مسلم کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
إن اللهَ ليرضى عن العبدِ أن يأكلَ الأكلةَ فيحمدَه عليها . أو يشربَ الشربةَ فيحمدَه عليها
ترجمہ:
‘‘بیشک اللہ تعالی ایسے بندے سے خوش ہوتا ہے جو ایک لقمہ کھائے تو اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے اور ایک گھونٹ پانی پئے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے’’۔
انگنت نعمتوں کا ذکر کرتے رہیں
نعمتوں کی شکرگذاری میں یہ بات داخل ہے کہ بندہ مومن اپنے اوپر اللہ تعالی کی انگنت نعمتوں کا ذکر کرتا رہے اور اس کی کرم نوازی کا عاجزانہ اظہار کرے، اللہ تعالی نے انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
یا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّـهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ (سورۃ الفاطر ۳)
‘‘لوگو! تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد رکھو کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو؟ کوئی معبود اُس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو؟ ’’
اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا:
من لم يشكرِ القليلَ لم يشكرِ الكثيرَ ، و من لم يشكرِ الناسَ ، لم يشكرِ اللهَ ، و التحدُّثُ بنعمةِ اللهِ شكرٌ ، وتركُها كفرٌ ۔۔۔
ترجمہ:
‘‘جو شخص تھوڑے پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرسکتا وہ زیادتی پر بھی شکرگذار نہیں بن سکتا، جس شخص نے لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا تو اللہ تعالی کا بھی شکر ادا نہیں کرسکتا اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو بیان کرنا اس کی شکر گذاری ہے، اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو بیان نہ کرنا کفران نعمت ہے’’۔
پتہ یہ چلا کہ اللہ تعالی کے انعامات کا تذکرہ اور ان کا اظہار اللہ تعالی کو بہت پسند ہے، لیکن تکبر اور فخر کے طور پر نہیں بلکہ اللہ تعالی کے فضل وکرم اور اس کے احسان سے زیربار ہوتے ہوئے اور اس کی قدرت و طاقت سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ ہمیں اپنی نعمتوں سے محروم نہ کردے۔
نعمتوں کا اثر جسم پر ظاہر ہونا چاہئے
نعمتوں کا ذکرکرنے کے ساتھ ساتھ اس کا اثربھی جسم پرظاہرہونا چاہئےکیوں کہ اللہ تعالی کو یہ بات پسند ہے کہ بندے کے جسم پراپنی نعمتوں کا اثردیکھے، مسند احمد کی روایت ہے کہ ایک صحابی حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اس وقت ان کے جسم پر نہایت ہی گھٹیا اور معمولی لباس تھا ،آپ نے پوچھا کیا تمہارے پاس مال ودولت ہے ،اس نے کہا جی ہاں، دریافت فرمایا :کس طرح کامال ہے ؟ اس نے کہا اللہ نے مجھے ہرقسم کامال دے رکھا ہے ،اونٹ بھی ہیں ،گائے بھی ہیں، بکریاں بھی ہیں، گھوڑے بھی ہیں، اورغلام بھی ہیں، آپ نے فرمایا : اذا آتاک اللہ مالا فلیرعلیک جب اللہ تعالی نے تجھے مال دے رکھا ہے تواس کا اثرتمہارے جسم پرظاہرہونا چاہئے
نعمتوں کا استعمال اللہ کے مکروہات میں نہ کریں
نعمتوں کی شکرگزاری یہ بات داخل ہے کہ ہم ان نعمتوں کا استعمال اللہ تعالی کے مکروہات میں نہ کریں، اللہ تعالی کے تابع وفرمابرداربن جائیں، اس کی رضامندی کاکام کریں اگریہ نعمت مال کی شکل میں ہے تو اس میں سے فقراء ومساکین کا حق اداکریں، رشتے داروں اورقرابتداروں کی مالی اعانت کریں، یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ مواسات وغمخواری کریں
اعتدال اور توازن کو مدنظر رکھیں
نعمتوں کی شکرگزاری میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم نعمتوں کے استعمال میں اعتدال اور توازن کو مدنظر رکھیں، بطورمثال بجلی اور پانی کو لیجئے جوبندوں پر اللہ تعالی کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان ہے،یہ ایسی نعمت ہے جس سے کوئی مخلوق بے نیازنہیں ہوسکتی اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وجعلنا من الماء کل شئ حی ‘‘ہم نے پانی سے ہرجاندارچیزکو زندگی بخشا۔’’
اور سورہ واقعہ میں اللہ تعالی ہمیں اس نعمت کا یوں احساس دلاتا ہے
أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ
کیا تم اس پانی کی طرف نہیں دیکھتے جسے تم پیتے ہو، اِسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اِس کے برسانے والے ہم ہیں، ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں، پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے۔
[سورۃ الواقعہ:]
شکر گذاری کے فوائد و ثمرات
ایک انسان جب نعمتیں پاکر اللہ تعالی کا شکر بجا لاتا ہے تو ایسا نہیں کہ اس نے عقل وفطرت کے تقاضے پر عمل کیا اور بس بلکہ اسے شکرگزاری کے بے شمار نمبرات اورفوائد بھی حاصل ہوتے ہیں ۔
رضائے الہی اور بے پناہ اجر وثواب
شکرگزاری کاپہلافائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اس سے راضی ہوتاہے اور بے پناہ اجروثواب سے نوازتاہے، فرمان الہی ہے:
نِّعْمَةً مِّنْ عِندِنَا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي مَن شَكَرَ (سورہ القمر35)
‘‘اُن کو ہم نے اپنے فضل سے رات کے پچھلے پہر بچا کر نکال دیا یہ جزا دیتے ہیں ہم ہر اُس شخص کو جو شکر گزار ہوتا ہے۔’’
اور اللہ تعالی نے فرمایا
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا ۗ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ (سورہ آل عمران145)
‘‘کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مرسکتا موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے جو شخص ثواب دنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دیں گے، اور جو ثواب آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں کو ہم اُن کی جزا ضرور عطا کریں گے۔’’
ان آیات سے پتہ یہ چلا کہ اللہ تعالی نے شکرگزاربندوں کے لیے بے پناہ اجروثواب کا وعدہ کیا ہے، اوراللہ تعالی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
نعمتوں میں اضافہ
شکرگزاری کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انسان مزید اللہ تعالی کی نعمتوں سے مالامال ہوتا ہے، اوراس پرنعمتوں کی بارش ہوتی ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (سورہ ابراہیم ۷)
‘‘اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔’’
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے شکرکی بنیاد پرنعمتوں میں اضافہ کا وعدہ کیا ہے، اوراس زیادتی کی کوئی تحدید بھی نہیں کی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ تاریخ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جس شخص کو پانچ چیزوں کی توفیق مل گئی، وہ پانچ چیزوں سے محروم نہیں رہ سکتا ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ جسے شکرکی توفیق مل گئی وہ (نعمتوں میں ) زیادتی سے محروم نہیں رہ سکتا ،
اسی لیے فضیل بن عیاضی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں
من عرف نعمۃ اللہ بقلبہ وحمدہ بلسانہ لم یستتم ذلک حتی یری الزیادۃ
‘‘جس نے اللہ تعالی کی نعمت کو اپنے دل سے پہچانا اور اپنی زبان سے اس کی حمد وثنا بیان کی، تووہ ضروراپنی نعمتوں میں زیادتی دیکھے گا’’ ۔
عذاب سے حفاظت
شکرگزاری کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی مخلوق سے عذاب کو روک لیتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے
مَّا يَفْعَلُ اللَّـهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ شَاكِرًا عَلِيمًا (سورہ النساء:آیت نمبر147)
‘‘ آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو اللہ بڑا قدر دان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے’’،
تاریخ شاہد ہے کہ اگراللہ تعالی نے کسی قوم پرعذاب بھیجا ہے تو یہ دراصل اس کی ناشکری کا نتیجہ رہاہے،لیکن جس قوم نے اللہ تعالی کی شکرگزاری کی ہے،اس کی مرضیات کے مطابق زندگی گذارا ہے اور شریعت اسلامیہ کی پاسداری کی ہے تو وہ دنیا وآخرت دونوں میں امن وامان اور سعادتمند زندگی سے ہمکنار ہوئی ہے ۔
رب کریم کے بے پایاں الطاف عنایات کا کیاکہنا کہ اسی ذات نے انسان پر ہرطرح کی نعمت نچھاور کی اور صرف بندے کی شکرگزاری کے نتیجے میں مزید دینے کاوعدہ کیا لیکن آہ انسان کس قدر ناشکرا واقع ہواہے کہ جس مالک کی روٹی کھا رہا ہے،اسی کی نمک حرامی پر تلا ہوا ہے، جس ذات کی نعمتوں میں پل رہا ہے اسی کے خلاف قدم اٹھا رہا ہے، حالانکہ اگر انسان کو اللہ تعالی کی معمولی ایک نعمت کا صحیح اندازہ ہو جائے تو کبھی ناشکری کی جرات بھی نہ کر سکے، ایک مرتبہ ابن سماک خلیفہ ہارون رشید کے پاس آئے اور انہیں نصیحت کی، نصیحت سن کر ہارون رشید آب دیدہ ہو گئے، اس کے بعد خلیفہ نے پینے کے لیے پانی منگوایا،ابن سما ک نے کہا: امیرالمومنین! اگر آپ پیاس سے بے تاب ہوں اور ایک گلاس پانی پینے کے لیےدنیا اور اس کے اندر کی ساری چیزیں چکانا پڑے تو کیا آپ اس کے لیے تیار ہوجائیں گے؟ ہارون رشید نے کہا : جی ہاں ! ابن سماک نے کہا :اللہ برکت دے پی لیجئے
جب پانی پی چکے تو ابن سماک نے کہا: امیرالمومنین! ابھی آپ نے جو پانی پیا ہے اگر وہ پیشاب کے راستے میں رک جائے اور اسے نکالنے کے لیے دنیا اور اس کے اندر کی ساری چیزیں چکانا پڑے تو کیا آپ چکا دیں گے؟ ہارون رشید نے کہا: ہاں! بالکل، تب ابن سماک نے کہا: فما تصنع بشیء شربۃ ماء خیر منہ تو آخر اس حکومت کا کیا فائدہ جس سے بہتر ایک گھونٹ پانی ہو۔
عزیز قاری! رب کریم نے ہمیں بے شمار، انگنت اور لامتناہی نعمتوں سے مالامال کیا ہے جن سے ہم ہر وقت، ہر آن اور ہر لمحہ فائدہ اٹھا رہے ہیں، پلک جھپکنے کے برابر بھی ہم اس کی نعمتوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ذات باری تعالی کا شکر ادا کریں، اس کے احکام کی تابعداری کریں اور ان نعمتوں کو خیر کے کام میں صرف کریں۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے۔
شكر گذار کیسے بن سکتے ہیں:
جو سورة التکاثر پڑھے، نہیں حساب لے گا اس کا الله عزوجل ان نعمتوں کا جو انعام کیں اس پر دنیوی زندگی میں، اور عطا کرے گا اسے اجر جیسا کہ اس نے پڑھی ہوں ایک ہزار آیات.
No comments:
Post a Comment