عقیدے کی لغوی تعریف:
عقیدہ دراصل لفظ "عقد" سے ماخوذ ہے، جس کے معنیٰ ہیں کسی چیز کو باندھنا ،جیسے کہا جاتا ہے "اعتقدت کذا" (میں ایسا اعتقاد رکھتا ہوں) یعنی میں نے اسے (اس عقیدے کو) اپنے دل اور ضمیر سے باندھ لیا ہے۔
جیسے قرآن مجید میں ہے:
وَٱحْلُلْ عُقْدَةًۭ مِّن لِّسَانِى {20:27}
اور کھول دے گرہ میری زبان سے
جس طرح گرہ/گانٹھ باندھنے سے اندر کی چیزیں باہر یا باہر کی چیزیں اندر نہیں جاتیں، اسی طرح صحیح نظریات کے دل میں محفوظ رکھنے اور غلط نظریات سے بچانے کیلئے گانٹھ یعنی ایمان ویقین کا مضبوط رکھنا ضروری ہے۔
عقیدہ
دل کے عمل کا نام ہے، اور وہ ہے دل کا کسی بات پر ایمان رکھنا اور اس کی تصدیق کرنا۔
ایمان کیا ہے؟
حکمِ رسول اللہ ﷺ کو دل سے ماننا»
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ»
ترجمہ:
نہیں مومن ہوسکتا تم میں کوئی ایک بھی جب تک کہ اسکی خواہش اس ﴿دین/حکم﴾ کے تابع (پیچھے چلنے والی) نہ ہوجائے جو میں لایا ہوں۔
[شرح السنة-للبغوي:104]
القرآن:
تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 65]
القرآن:
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا۔
[سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 36]
کیسے اللہ اور رسول کو ماننے کا حکم ہے؟
القرآن :
اے (زبان سے) ایمان لانے والو! (دل سے) ایمان لاؤ۔۔۔
[سورۃ النساء:136]
الایمان
کے ایک معنیٰ شریعت محمدی ﷺ کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔
الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ
[سورہ المائدة:69]
اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔
اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو توحید کا اقرار کرکے شریعت محمدی ﷺ میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت
{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }
[سورة يوسف 106]
اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں.
کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ ؟ فَقَالَ : إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ، قِيلَ : ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ : الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، قِيلَ : ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ : حَجٌّ مَبْرُورٌ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْإِيمَانِ ... رقم الحديث: 25]
[صحيح البخاري » كِتَاب الْإِيمَانِ ... رقم الحديث: 25]
ترجمہ :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، کہا گیا کہ پھر کونسا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا، کہا گیا کہ اس کے بعد کونسا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حج مبرور (مقبول حج) ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، کہا گیا کہ پھر کونسا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا، کہا گیا کہ اس کے بعد کونسا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حج مبرور (مقبول حج) ۔
یعنی عقیدہ سے مراد کسی چیز کو حق اور سچ جان کر دل میں مضبوط اور راسخ کر لینا ہے جبکہ ایمان دین اسلام کی سب سے پہلی تعلیم ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ماننے اور انہیں سچا جان کر ان پر یقین کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ مسلمان کا دینِ اسلام کی تعلیمات کو سچا جاننا اور دل سے ان کی تصدیق کرنا ایمان ہے اور یہی اگر راسخ ہو جائے تو اس کا عقیدہ ہے کیونکہ ’’ایمان نمو پاتا ہے تو عقیدہ بنتا ہے‘‘.
عقیدہ کی اہمیت:
عقیدہ انسان کے کردار و اعمال کی تعمیر میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ انسان کے تمام اخلاق و اعمال کی بنیاد ارادے پر ہے، اور ارادے کا محرک دل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ دل انہی چیزوں کا ارادہ کرتا ہے جو دل میں راسخ اور جمی ہوئی ہوں، اس لئے انسان کے اعمال و اخلاق کی درستگی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دل میں صحیح عقائد ہوں لہذا عقیدے کی اصلاح نہایت اہمیت رکھتی ہے.
عقیدہ انسان کے کردار و اعمال کی تعمیر میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ انسان کے تمام اخلاق و اعمال کی بنیاد ارادے پر ہے، اور ارادے کا محرک دل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ دل انہی چیزوں کا ارادہ کرتا ہے جو دل میں راسخ اور جمی ہوئی ہوں، اس لئے انسان کے اعمال و اخلاق کی درستگی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دل میں صحیح عقائد ہوں لہذا عقیدے کی اصلاح نہایت اہمیت رکھتی ہے.
حوالہ
إِلَّا مَنْ أَتَى ٱللَّهَ بِقَلْبٍۢ سَلِيمٍۢ
{26:89}
یعنی مگر جو کوئی آیا اللہ کے پاس لیکر دل چنگا (پاک)
إِذْ جَآءَ رَبَّهُۥ بِقَلْبٍۢ سَلِيمٍ {37:84}
یعنی جب وہ اپنے پروردگار کے پاس (عیب سے) پاک دل لے کر آئے
یعنی ہر قسم کے اعتقادی و اخلاقی روگ سے دل کو پاک کر کے اور دنیوی خرخشوں سے آزاد
ہو کر انکسار و تواضع کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھک پڑا۔ اور اپنی قوم کو بھی بت
پرستی سے باز رہنے کی نصیحت کی۔ نرے مال و اولاد کچھ کام نہ آئیں گے اگر کافر چاہے کہ قیامت میں مال و اولاد فدیہ
دے کر جان چھڑا لے، تو ممکن نہیں۔ یہاں کے صدقات و خیرات اور نیک اولاد سے بھی کچھ
نفع کی توقع اسی وقت ہے جب اپنا دل کفر کی پلیدی سے پاک ہو۔
عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ فِي الْإِنْسَانِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ بِهَا سَائِرُ الْجَسَدِ ، وَإِذَا سَقِمْتَ سَقِمَ بِهَا سَائِرُ الْجَسَدِ ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ " .
امام ابو حنیفہؒ روایت کرتے ہیں حسنؒ سے، وہ شعبیؒ سے، وہ حضرت نعمان بن بشیرؓ سے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: انسانی جسم میں ایک ٹکڑا ایسا ہے کہ اگر وہ صحیح ہوجاۓ تو سارا جسم صحیح ہوجاتا ہے، اور اگر وہ بیمار پڑ جاۓ تو سارا جسم بیمار پڑجاتا ہے، یاد رکھو! وہ ٹکڑا دل ہے.
حضرت (1)عبداللہ بن عمر، (2)جندب بن عبداللہ البجلی، (3)عبداللہ بن عمرو بن العاص اور دیگر صحابہ کرام سے روایت ہے کہ:
تعلمنا الإيمان ثم تعلمنا القرآن فازددنا به إيماناً، ويأتي أقوامٌ يتعلمون القرآن، ثم يتعلمون الإيمان، يشربونه شرب الماء۔
ترجمہ:
ہم نے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا، تو اس سے ہم نے ایمان کو مضبوط کیا، اور(آخری زمانے میں ایسے) لوگ آئیں گے جو (پہلے)قرآن سیکھیں گے پھر ایمان سیکھیں گے، اسے پانی کی طرح پیئیں گے۔
[شرح صحيح البخاري للحويني:٧/١٢، شرح صحيح مسلم - حسن أبو الأشبال:٤١/٢٢]
خلاصة حكم المحدث: صحيح
خلاصة حكم المحدث: صحيح
|
|
ایمان کے نظریاتی اصول:
پوچھا گیا: ایمان کیا ہے؟
فرمایا: اخلاص۔
[صحیح الترغیب:3]
یعنی
(1)تم مانو الله کو(اکیلا حقیقی خدا)۔
گواہی دو کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے۔
اور ایمان لاؤ
(2)اسکے فرشتوں پر بھی
(3)اور اسکی کتابوں پر بھی
حوالہ
[مسند ابي حنيفة رواية الحصكفي» حديث#2]
اور تم ایمان لاؤ۔۔۔
(4)اسکے پیغمبروں پر بھی۔۔۔
یہ بھی گواہی دینا کہ محمد اللہ کے پیغمبر ہیں
[صحیح البخاري:53+87+7266]
اور عیسیٰ بندے اور رسول ہیں اللہ کے، اور وہ اس کا کلمہ (ہوجا) ہیں جو اس نے مریم کی طرف القا فرمایا، اور وہ اللہ کی طرف سے روح (حکم) ہیں۔ اور جنت حق ہے، اور جہنم بھی حق ہے۔
[صحیح البخاري:3435]
(5)اور آخرت کے دن پر،
موت کے بعد زندہ کیے جانے پر،
جنت وجھنم،
حساب اور(اعمال تولنے والی)میزان پر
اس(اللہ)سے ملاقات پر
(6)اور اچھی بری ﴿ہر﴾ تقدیر پر۔
کہ وہ اللہ بزرگ وبرتر کی طرف سے ہے.
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:1، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:321، الاعتقاد للبيهقي: ص134]
جب تم نے یہ (بنیادی) کام انجام دے دیا، تو تم یقینا ایمان لاچکے۔
حوالہ
[مسند احمد:2924، الأحاديث المختارة:8]
قرآنی گواہی»سورۃ النساء:136
ایمان کے عملی فروع(شاخیں):
(7)اور ﴿فرض﴾ نماز قائم کر,
(8) اور زکوٰۃ دینا,
(9) اور رمضان کے روزے رکھنا,
(10) اور غنائم میں پانچواں حصہ دینا۔
حوالہ
[بخاري:53، 87، 4110، 6838، 7117، ابوداؤد:4677، نسائي:5692]
قرآنی گواہی»سورۃ البقرۃ:177
(11)عمدہ بات کرنا اور کھانا کھلانا۔
[احمد:19435]
(12)جب تجھے خوشی دے تیری نیکی اور بری لگے تیری برائی، پھر تو مؤمن ہے۔
[احمد:22166، طبرانی:7540، حاکم:33]
(13)جس میں حیاء نہیں، اس میں ایمان نہیں۔
مزید ایمان کی 70 شاخیں جاننے کیلئے جاننے کیلئے ملاحظہ فرمائیں، امام بیھقی کی احادیث کی کتاب "شعب الایمان" مفت ڈاؤن لوڈ کریں، یہاں سے:
=============================================
ایمان کے فوائد و ثمرات:
ایمان کے فوائد و ثمرات بے حساب و بے شمار ہیں، چنانچہ دل' جسم' راحت' پاکیزہ زندگی اور دنیا و آخرت میں نہ جانے کتنے فوائد و ثمرات ہیں' مختصر یہ کہ دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں اور تمام تربرائیوں سے دوری (عافیت) یہ ایمان ہی کے ثمرات ہیں، ایمان کے چند فوائد و ثمرات حسب ذیل ہیں:
1۔ اللہ عز و جل کی ولایت پر رشک :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ"﴿٦٢﴾ (سورۃ یونس)
"سنو! بے شک اللہ کے اولیاء (دوستوں) کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔"
پھر ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ"﴿٦٣﴾ (سورۃ یونس)
"یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔"
نیز ارشاد ہے:
"اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ" (سورۃ البقرۃ :257)
"اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا ولی ہے ' وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔"
یعنی انہیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف، جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی کی طرف، گناہوں کی تاریکیوں سے نکال کراطاعت کی روشنی کی طرف اور غفلت کی تاریکیوں سے نکال کر بیداری اور ذکر کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔
2۔ رضاء الٰہی کا حصول:
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚأُولَـٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّـهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٧١﴾ وَعَدَ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ"﴿٧٢﴾ (سورۃ توبۃ)
" مومن مرداور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست (معاون ومددگار) ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے منع کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکاة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے ۔ ان مومن مرد وںاور مومن عورتوں سے اللہ تعالیٰ نے ان جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، اور ان صاف ستھرے پاکیزہ محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں' اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی عظیم کامیابی ہے۔"
چنانچہ انہیں اللہ کی رضا ورحمت اور ان پاکیزہ محلوں کی کامیابی ان کے اس ایمان کے سبب حاصل ہوئی جس سے ا نھوں نے فریضہ ٔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی انجام دہی اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی تابعداری کرکے اپنے آپ کو اور دیگر لوگوں کو مکمل کیا تھا' اس طور پر یہ حضرات عظیم ترین فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہوئے۔
3۔ کامل ایمان (سرے سے) جہنم میں داخل ہونے سے روکتا ہے' جب کہ کمزور (ناقص)ایمان جہنم میں ہمیشہ ہمیش کے لئے رہنے سے مانع ہوتا ہے، کیونکہ جو شخص ایمان لاکر تمام واجبات بجا لائے اور تمام حرام امور ترک کر دے وہ جہنم میں داخل نہیں ہو گا، اسی طرح جس شخص کے دل میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش نہیں رہے گا۔
4۔اللہ تعالیٰ تمام ناپسندیدہ چیزوں سے مومنوں کا دفاع کرتا ہے اور انہیں مصائب سے نجات عطا فرماتا ہے، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"إِنَّ اللَّـهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا "﴿٣٨﴾(سورۃ الحج)
"اللہ تعالیٰ مومنوں کا دفاع کرتا ہے۔"
یعنی ہر ناپسندیدہ چیز سے، جن وانس کے شیاطین کے شر سے اور دشمنوں سے ان کا دفاع کرتا ہے، نیز پریشانیوں کے نزول سے قبل ہی انہیں ان سے دور کردیتا ہے اور نزول کے بعد انہیں ختم کردیتا ہے یا ان میں تخفیف کرتا ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
"وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ"﴿٨٨﴾ (سورۃ الانبیاء)
"اور مچھلی والے (یونس علیہ السلام) کو یاد کرو، جب وہ غصہ سے نکل کر گئے اور سوچا کہ ہم انہیں پکڑ نہ سکیں گے، بالآخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھے کہ ''الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے ، بیشک میں ظالموں میں سے ہوگیا''۔ تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور انہیں غم سے نجات دے دی، اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔"
نیز ارشاد ہے:
"ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِينَ"﴿١٠٣﴾ (سورۃ یونس)
"پھر ہم اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو نجات دے دیتے ہیں ، اسی طرح ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔"
نیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ ﴿١٧١﴾ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ ﴿١٧٢﴾وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ"﴿١٧٣﴾ (سورۃ الصافات)
"اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے۔ کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی۔ اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب و فتح یاب ہو گا۔"
نیز ارشاد ہے:
"وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا"﴿٢﴾(سورۃ الطلاق)
"اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لئے سبیل پیدا فرمادیتا ہے۔"
یعنی لوگوں پر آنے والی ہرپریشانی سے نجات کی سبیل پیدا کردیتا ہے۔
نیز ارشاد ہے:
"وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا"﴿٤﴾ (سورۃ الطلاق)
"اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے ہر معاملہ میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔"
چنانچہ متقی مومن کے مسائل اللہ تعالیٰ آسان فرماتاہے، اسے آسانی کی توفیق عطا کرتا ہے،پریشانی سے نجات دیتا ہے، دشواریوں کو سہل کرتا ہے، اسے اس کے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے نجات کی سبیل عطا کرتا ہے ، اور اسے ایسے ذریعہ سے روزی عطا کرتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا، ان تمام باتوں کے شواہد کتاب وسنت میں بکثرت موجود ہیں۔
5۔ ایمان' دنیا و آخرت میں پاکیزہ زندگی عطا کرتا ہے، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ"﴿٩٧﴾ (سورۃ النحل)
"جو مرد و عورت نیک عمل کرے دراں حالیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے یقینا نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اوران کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔"
وہ اس طرح سے کہ ایمان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایمان دل کا سکون و اطمینان، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ روزی پر دل کی قناعت اور غیر اللہ سے بے تعلقی پیدا کرتا ہے ' اور یہی پاکیزہ زندگی ہے، کیونکہ دل کا سکون و اطمینان اوران تمام چیزوں سے دل کو تشویش نہ ہونا جن سے ایمان صحیح سے محروم شخص کو تشویش ہوتی ہے' یہی پاکیزہ زندگی کی بنیادہیں(1)
(1)۔التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ :68۔
اور پاکیزہ زندگی' پاکیزہ حلال روزی' قناعت، نیک بختی، دنیا میں عبادت کی لذت و حلاوت اور انشراح صدر کے ساتھ اطاعت کے کاموں کی بجا آوری کو شامل ہے(2)
(2)۔تفسیر القرآن العظیم از ابن کثیر :2/566۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:''صحیح بات یہ ہے کہ پاکیزہ زندگی ان (مذکورہ) تمام چیزوں کو شامل ہے''
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " قد افلح من اسلم، ورزق كفافا، وقنعه الله بما آتاه".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مراد کو پہنچا اور چھٹکارا پایا اس نے جو اسلام لایا اور موافق ضرورت کے رزق دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی روزی پر قناعت دی۔"(3)
نیز آپ ﷺنے فرمایا:
عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله لا يظلم مؤمنا حسنة يعطى بها في الدنيا، ويجزى بها في الآخرة، واما الكافر فيطعم بحسنات ما عمل بها لله في الدنيا حتى إذا افضى إلى الآخرة لم تكن له حسنة يجزى بها".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ کسی مومن پر ایک نیکی کے لیے بھی ظلم نہ کرے گا، اس کا بدلہ دنیا میں دے گا اور آخرت میں بھی دے گا اور کافر کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب آخرت ہو گی تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی جس کا اس کو بدلہ دیا جائے۔"(4)
(4)۔صحیح مسلم / قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال / باب :مومن کو نیکیوں کا بدلہ دنیا اور آخرت میں ملے گا ۔حدیث نمبر: 7089
6۔ تمام اقوال واعمال کی صحت و کمال خود عمل کرنے والے کے دل میں ایمان و اخلاص کے اعتبار سے ہوا کرتی ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
"فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ" (سورۃ الانبیاء:94)
"تو جو بھی نیک عمل کرے دراں حالیکہ وہ مومن بھی ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔"
یعنی ایسے شخص کی کوشش اکارت اور اس کا عمل ضائع نہیں کیا جائے گا' بلکہ اسے اس کی ایمانی قوت کے اعتبار سے (بڑھا کر) گنا در گنا (اجر) عطا کیا جائے گا۔
نیزارشاد گرامی ہے:
"وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا"﴿١٩﴾ (سورۃ الاسراء)
"اور جس کا ارادہ آخرت کا ہواور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہئے وہ کرتا بھی ہو اور وہ با ایمان بھی ہو ' تو یہی لوگ ہیں جن کی کو شش کی اللہ کے یہاں پوری قدردانی کی جائے گی۔"
''آخرت کے لئے کوشش'' کا مطلب آخرت سے قریب کرنے والے ا ن اعمال کی بجا آوری اور ان پر عمل کرنا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی زبانی مشروع فرمایا ہے۔
7۔ صاحب ایمان کو اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرماتا ہے، اور صراط مستقیم میں اللہ اسے علم حق اور اس پر عمل کی نیز محبوب و پرمسرت چیزوں کے حصول پر شکرگزاری کی اور مصائب و پریشانیوں پر اظہار رضامندی اور صبر کی ہدایت دیتا ہے۔
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ" (سورۃ یونس:9)
"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا انہیں ان کا پروردگار ان کے ایمان کے سبب ہدایت عطا فرماتا ہے۔"
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:''اس بات کا احتما ل ہے کہ یہاں (آیت: ''بِإِيمَانِهِمْ'' میں) باء سببیت کے لئے ہو، اور اس صورت میں تقدیری عبارت یوں ہوگی کہ دنیا میں ان کے ایمان کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے روز صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے گاتاکہ وہ اس سے گزر کر جنت میں پہنچیں۔اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ باءاستعانت کے لئے ہو، جیساکہ امام مجاہد اللہ تعالیٰ کے قول(يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے نور بنائے گا جس میں وہ چلیں گے
اور کہا گیا ہے کہ اس کے عمل کو ایک خوبصورت اورپاکیزہ خوشبو کی شکل دی جائے گی ، جب وہ اپنی قبر سے اٹھے گا تو وہ اس کے سامنے آکر اسے ہر قسم کی خیر و بھلائی کی بشارت دے گا، وہ (صاحب ایمان) اس سے کہے گا :تم کون ہو؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہارا عمل ہوں۔اور پھر اس کے سامنے ایک نور بنایا جائے گا جو اسے جنت میں داخل کردے گا۔
8۔ ایمان بندے کے لئے اللہ کی محبت پیدا کرتا ہے اور مومنوں کے دلوں میں اس کی محبت بھر دیتاہے، اور جس سے اللہ عز وجل اور مومن بندے محبت کرنے لگیں اسے سعادت و کامرانی حاصل ہوتی ہے، اور مومنوں کی محبت کے فوائد بے شمار ہیں، جیسے ذکر خیراور زندگی میں اور مرنے کے بعداس کے لئے دعاء خیر وغیرہ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَـٰنُ وُدًّا"﴿٩٦﴾ (سورۃ مریم)
"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے اللہ رحمن محبت پیدا کردے گا۔"
9۔ دین میں امامت کا حصول' یہ ایمان کے عظیم ترین ثمرات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ علم و عمل کے ذریعہ اپنے ایمان کی تکمیل کرنے والے مومن بندوں کوسچی زبان عطا فرمادے اور انہیں ایسے ائمہ بنادے جو اس کے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کریں اور ان کی اقتدا وپیروی کی جائے۔
ارشاد باری ہے:
"وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖوَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ"﴿٢٤﴾ (سورۃ السجدۃ)
" اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔"
چنانچہ صبر و یقین ہی سے دین میں امامت کا مقام حاصل ہوتا ہے، کیونکہ صبر و یقین ہی ایمان کی اساس اور کمال ہیں۔
10۔ بلندیٔ درجات کا حصول، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ" (سورۃ المجادلۃ:11)
"اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔"
چنانچہ یہ لوگ اللہ کے نزدیک اور اللہ کے بندوں کے نزدیک دنیا و آخرت میں پوری مخلوق میں سب سے اعلیٰ مقام کے مالک ہیں۔
انہیں یہ رتبۂ بلند محض ان کے سچے ایمان اور علم و یقین کی بدولت حاصل ہوا ہے۔
11۔ اللہ کی کرامت(عزت و مقام) اور ہر طرح سے امن وسکون کی بشارت کا حصول، جیساکہ اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ"﴿٢٢٣﴾ (سورۃ البقرۃ)
"اور مومنوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔"
(اس آیت کریمہ میں) اللہ نے بشارت کا مطلق ذکر فرمایا ہے تاکہ ہر طرح کی دیر سویر بھلائی کو شامل ہو، جب کہ درج ذیل آیت کریمہ میں بشارت کا مقید ذکر فرمایا ہے:
"وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ" (سورۃ البقرۃ:25)
"اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اس بات کی بشارت دیدیجئے کہ ان کے لئے ایسی جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔"
چنانچہ اہل ایمان کے لئے عام اور خاص خوشخبری ہے، اور انہی کے لئے دنیا و آخرت میں عمومی امن بھی ہے، جیساکہ ارشاد باری ہے:
"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ" ﴿٨٢﴾ (سورۃ الانعام)
"جو لوگ ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم (شرک) کے ساتھ گڈمڈ نہیں کیا' ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر گامزن ہیں۔"
اور انہی کے لئے خاص امن بھی ہے،جیساکہ ارشاد ہے:
"فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ"﴿٤٨﴾ (سورۃ الانعام)
"توجو ایمان لے آئے اور اصلاح کر لے ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔"
چنانچہ (اس آیت کریمہ میں) اللہ تعالیٰ نے ان سے مستقبل کے خوف و ہراس کی اور ماضی کے رنج والم کی نفی فرمائی ہے، اور اسی سے ان کا امن و قرارمکمل ہوتا ہے، غرضیکہ مومن کے لئے دنیا و آخرت میں مکمل امن و سکون اور ہر خیر کی بشارت ہے(5)
(5)۔ ملاحظہ فرمائیں: التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ :77 تا 88۔
12۔ ایمان سے گنا درگنا ثواب اور وہ مکمل نور حاصل ہوتا ہے جس کی روشنی میں بندہ اپنی زندگی میں چلتاہے اور قیامت کے روز چلے گا، چنانچہ دنیا میں اپنے علم و ایمان کی روشنی میں چلتا ہے اور جب قیامت کے روز ساری روشنیاں گل ہوں گی تو وہ اپنے نور سے پل صراط پر چلے گا' یہاں تک کہ کرامت و نعمت کے مقام (جنت) میں جا داخل ہوگا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایمان پر بخشش و مغفرت مرتب فرمائی ہے، اور جس کے گناہ بخش دیئے جائیں وہ عذاب الٰہی سے محفوظ ہوکر اجر عظیم سے ہمکنار ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ"﴿٢٨﴾ (سورۃ الحدید)
"اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہراحصہ دے گا اور تمہیں وہ نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا' اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"
13۔ مومنوں کو اپنے ایمان کے سبب ہدایت و کامرانی نصیب ہوگی، اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ اور آپ سے پہلے کے انبیاء پر نازل کردہ احکام پر مومنوں کے ایمان ، ایمان بالغیب، نماز کی اقامت اور زکاة کی ادائیگی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
"أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ"﴿٥﴾ (سورۃ البقرۃ)
"یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر (گامزن) ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔"
چنانچہ یہی مکمل ہدایت و کامرانی ہے ، کامل و مکمل ایمان کے بغیر ہدایت و کامیابی کی کوئی سبیل نہیں۔
14۔ پند و نصائح سے استفادہ ایمان کے ثمرات میں سے ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
"وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ"﴿٥٥﴾ (سورۃ الذاریات)
"اور آپ نصیحت فرمایئے کیونکہ نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔"
یہ اس لئے کہ ایمان' صاحب ایمان کو علمی و عملی طور پر حق کی پابندی اور اس کی اتباع پر آمادہ کرتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کے پاس نفع بخش نصائح کے حصول کا عظیم آلہ اور پوری تیاری ہوتی ہے اور حق کی قبولیت اور اس پر عمل سے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی۔
15۔ایمان 'صاحب ایمان کو خوشی میں شکر گزاری ' پریشانی میں صبر اور اپنے تمام اوقات میں خیر و بھلائی حاصل کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
"مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ ﴿٢٢﴾ لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗوَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ"﴿٢٣﴾ (سورۃ الحدید)
"تمہیں جو کوئی مصیبت دنیا میں یا (خاص) تمہاری جان میں پہنچتی ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے' بلا شبہہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے لئے(نہایت) آسان ہے۔ تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو اور نہ عطا کردہ کسی چیز پر اتراؤ' اور اللہ تعالیٰ اترانے ' فخر کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔"
نیز ارشاد باری ہے:
"مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗوَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ"(سورۃ التغابن)
"جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوا کرتی ہے، اور جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔"
اگر ایمان کے ثمرات میں سے صرف یہی ہوتا کہ ایمان' صاحب ایمان کو مصائب و مشکلات میں ' جن سے ہر ایک دوچار ہوتا ہے' تسلی دیتا ہے تو بھی کافی تھا، جب کہ ایمان و یقین سے شرف یابی (بذات خود) مصائب میں تسلی کا عظیم ترین سبب ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا:
عن صهيب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عجبا لامر المؤمن، إن امره كله خير، وليس ذاك لاحد إلا للمؤمن إن اصابته سراء شكر، فكان خيرا له، وإن اصابته ضراء صبر، فكان خيرا له".
صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مومن کا بھی عجب حال ہے اس کا ثواب کہیں نہیں گیا۔ یہ بات کسی کو حاصل نہیں ہے اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی تو وہ شکر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے اور جو اس کو نقصان پہنچا تو صبر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے۔"(6)
(6)۔ صحیح مسلم / زہد اور رقت انگیز باتیں / باب : مومن کا معاملہ سارے کا سارا خیر ہے ۔حدیث نمبر: 2999
صبر وشکر تمام بھلائیوں کا سر چشمہ ہیں، مومن اپنے تمام اوقات میں بھلائیوں کو غنیمت جانتا ہے اور ہر حالت میں فائدہ اٹھاتا ہے، نعمت و خوشحالی کے حصول پر اسے بیک وقت دو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں: محبوب و پسندیدہ امر کے حصول کی نعمت، اور اس سے بڑھ کر اس پر شکرگزاری کی توفیق کی نعمت، اور اس طرح اس پر نعمتوں کی تکمیل ہوتی ہے، اور پریشانی سے دوچار ہونے پر اسے بیک وقت تین نعمتیں حاصل ہوتی ہیں: گناہوں کے کفارہ کی نعمت، اس سے بڑھ کر مرتبہ صبر کے حصول کی نعمت، اور اس پر پریشانی کے آسان اور سہل ہونے کی نعمت ، کیونکہ جب اسے اجر و ثواب کے حصول کی معرفت اور صبر کی مشق ہوگی تو اس پر مصیبت آسان اور سہل ہوجائے گی(7)
(7)۔التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ 17، 88۔
16۔ سچا ایمان ' شک و شبہہ ختم کر دیتا ہے اور ان تمام شکوک کی جڑ کاٹ دیتا ہے جو بہت سے لوگوں کو لاحق ہو کر انہیں دین کے اعتبار سے نقصان پہنچاتے ہیں، جن و انس کے شیاطین اور برائی کا حکم دینے والے نفوس کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کی بیماریوں کا سچے ایمان کے سوا کوئی علاج نہیں، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا"(سورۃ الحجرات:15)
"بیشک (سچے حقیقی) مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لائے اور پھر شک میں مبتلا نہ ہوئے۔"
ان وسوسوں کا علاج (مندرجہ ذیل) چار چیزیں ہیں:
1۔ ان شیطانی وسوسوں سے باز رہنا۔
2۔ ان وسوسوں کے ڈالنے والے یعنی شیطان کے شر سے (اللہ کی) پناہ مانگنا۔
3۔ایمانی عصمت (ڈھال) سے بچاؤ کرنا، چنانچہ بندہ کہے: ''آمنت باللہ'' میں اللہ پر ایمان لایا۔
4۔ان وسوسوں کے بارے میں زیادہ سوچنے سے باز رہنا(8)
(8)۔التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ :83۔
17۔اللہ عز وجل پر ایمان' خوشی وغم، خوف و امن، اطاعت و نافرمانی اور ان کے علاوہ ان سارے امور میں جو ہر شخص کو لا محالہ پیش آتے ہیں' مومنوںکا ماویٰ و ملجا ہے، چنانچہ وہ خوشی ومسرت کے وقت ایمان ہی کی طرف رجوع کرتے (پناہ لیتے) ہیں، چنانچہ وہ اللہ کی حمد کرتے اور اس کی ثنا بیان کرتے ہیں اور نعمتوں کو اللہ کے محبوب کاموں میں استعمال کرتے ہیں، اسی طرح پریشانیوں ، دشواریوں اور ہموم و غموم کے وقت مختلف انداز میں ایمان کی طرف رجوع کرتے (پناہ لیتے) ہیں، اپنے ایمان اور اس کی حلاوت و مٹھاس نیز اس پر مرتب ہونے والے اجر و ثواب سے تسلی حاصل کرتے ہیں اور رنج و ملال اور قلق و اضطراب کا مقابلہ دل کے سکون اور رنج و غم کو کافور کرنے والی پاکیزہ زندگی کی طرف رجوع کرکے کرتے ہیں، اور خوف کے وقت بھی ایمان ہی کی طرف رجوع کرتے اور اس سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، اور اس سے ان کے ایمان ، ثابت قدمی، قوت اور بہادری میں اضافہ ہوتا ہے اور لاحق ہونے والا خوف جاتا رہتا ہے، جیسا کہ اللہ عز وجل نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ارشاد فرمایا:
"الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴿١٧٣﴾فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ"﴿١٧٤﴾ (سورۃ آل عمران)
"وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں' تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے ان کے ایمان میں اضافہ کر دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔ (نتیجہ یہ ہوا کہ) یہ اللہ کی نعمت و فضل کے ساتھ لوٹے ' انہیں کوئی برائی نہ پہنچی' اور انہوں نے اللہ کی رضامندی کی پیروی کی' اوراللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔"
18۔ سچا ایمان ' بندے کو ہلاکت انگیز چیزوں سے محفوظ رکھتا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے' وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا:
عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يشرب الخمر حين يشرب وهو مؤمن، ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ولا ينتهب نهبة يرفع الناس إليه فيها ابصارهم حين ينتهبها وهو مؤمن".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :" زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا ۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا ۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کر سکتا ۔ اور کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کر سکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو۔"(9)
(9)۔صحیح بخاری / کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں / باب : مالک کی اجازت کے بغیر اس کا کوئی مال اٹھا لینا ۔حدیث نمبر: 2475، صحیح مسلم ، کتاب :الایمان، باب: گناہوں سے ایمان میں کمی کا بیان، حدیث :57۔
اور جس شخص سے یہ ساری چیزیں صادر ہوتی ہیں وہ اس کے ایمان کی کمزوری ، نور ایمانی کے فقدان اور اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کے ختم ہوجانے کا سبب ہوتی ہیں، یہ بات معروف اور مشاہدہ میں ہے ۔ صحیح سچا ایمان ' اللہ سے شرم و حیا ، اس کی محبت، اس کے ثواب کی قوی امید، اس کے عذاب کا خوف اور نور ایمانی کے حصول کی خواہش سے معمور ہوتا ہے، اور یہ ساری چیزیں صاحب ایمان کو ہر طرح کی بھلائی کا حکم دیتی ہیں اور ہر قسم کی برائی سے منع کرتی ہیں۔
19۔ مخلوق میں سب بہتر لوگ دو قسم کے ہیں، اور وہ اہل ایمان ہی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عن ابي موسى الاشعري رضی اللہ عنہ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مثل المؤمن الذي يقرا القرآن مثل الاترجة، ريحها طيب، وطعمها طيب، ومثل المؤمن الذي لا يقرا القرآن مثل التمرة، لا ريح لها، وطعمها حلو ومثل المنافق الذي يقرا القرآن مثل الريحانة، ريحها طيب، وطعمها مر، ومثل المنافق الذي لا يقرا القرآن كمثل الحنظلة، ليس لها ريح، وطعمها مر".
ابوموسیٰ اشعریٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مثال اس مؤمن کی جو قرآن پڑھتا ہے ترنج کی سی ہے کہ خوشبو اس کی عمدہ اور مزا اس کا اچھا ہے اور مثال اس مؤمن کی جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی سی ہے کہ اس میں بو نہیں مگر میٹھا ہے۔ اور مثال اس منافق کی جو قرآن پڑھتا ہے اس پھول کے مانند ہے کہ بو اس کی اچھی ہے اور مزا اس کا کڑوا ہے، اور مثال اس منافق کی جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن کی سی ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں اور مزا کڑوا ہے۔"(10)
(10)۔ صحیح مسلم/ قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور / باب : حافظ قرآن کی فضیلت ۔حدیث نمبر: 797۔
چنانچہ لوگوں کی چار قسمیں ہیں:
پہلی قسم: وہ جو بذات خود اچھے ہیں، اور ان کی اچھائی دوسروں تک پہنچتی ہے، یہ سب سے بہتر قسم کے لوگ ہیں۔
چنانچہ یہ قرآن پڑھنے والا اور دینی علوم کی معرفت حاصل کرنے والا مومن خود اپنی ذات کے لئے بھی مفید ہے اور دوسروں کے لئے بھی نفع بخش ہے، ایسا شخص بابرکت ہے جہاں کہیں بھی ہو۔
دوسری قسم: جو بذات خود اچھا اور بھلائی والا ہے ، یہ وہ مومن شخص ہے جس کے پاس اتنا علم نہیں جس کا فائدہ غیروں کو بھی عام ہو۔
یہ (مذکورہ) دونوں قسموں کے لوگ مخلوق کے سب سے بہتر لوگ ہیں، اور ان میں ودیعت کردہ خیر و بھلائی مومنوں کے حالات کے اعتبارسے خود ان کے لئے محدود ہوتی ہے یا دوسروں کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔
تیسری قسم: وہ جو خیر و بھلائی سے محروم ہے، لیکن اس کا نقصان غیروں تک نہیں پہنچتا ہے۔
چوتھی قسم: جو خود اپنی ذات کے لئے اور دوسروں کے لئے بھی نقصان دہ ہے ' یہ سب سے بدترین قسم کے لوگ ہیں۔
چنانچہ ساری خیر و بھلائی کا مرجع ایمان اور اس سے متعلقہ امور ہیں، اور ساری شر و برائی کا مرجع ایمان کا فقدان اور اس کی ضد (بے ایمانی) کے وصف سے متصف ہونا ہے(11)
(11)۔التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان ا ز سعدی ، صفحہ :63 تا 90۔
20۔ ایمان زمین میں خلافت (جانشینی) عطا کرتا ہے، ارشاد ہے:
"وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ"﴿٥٥﴾ (سورۃ النور)
"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا ' وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے ، اور جولوگ اس کے بعد کفر کریں وہ یقینا فاسق ہیں۔"
21۔ ایمان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بندے کی مدد فرماتا ہے، ارشاد باری ہے:
"وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ"﴿٤٧﴾(سورۃ الروم)
"اور ہم پر مومنوں کی مدد کرنا حق (لازم )ہے۔"
22۔ ایمان بندے کو عزت (غلبہ و سربلندی )عطا کرتا ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
"وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ"﴿٨﴾(سورۃ المنافقون)
"عزت صرف اللہ تعالیٰ ' اس کے رسول ۖاور مومنوں ہی کے لئے لیکن یہ منافق نہیں جانتے۔"
23۔ ایمان' اہل ایمان پر دشمنون کے غلبہ و تسلط کو روکتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَلَن يَجْعَلَ اللَّـهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا"﴿١٤١﴾ (سورۃ النساء)
اور اللہ تعالیٰ کافروں کو مومنوں پر ہرگز راہ (غلبہ و تسلط) نہ دے گا۔
24۔ مکمل امن و سکون اور ہدایت یابی :
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ "﴿٨٢﴾ (سورۃ الانعام)
"جو لوگ ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم (شرک) کے ساتھ گڈمڈ نہیں کیا' ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر گامزن ہیں۔"
25۔ مومنوں کی کد و کاوش کی حفاظت:
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا"﴿٣٠﴾(سورۃ الکھف)
"بیشک جو لوگ ایمان لائیں اور نیک اعمال انجام دیں تو ہم کسی نیک عمل کرنے والے کا اجر و ثواب ضائع نہیں کرتے۔"
22۔ مومنوں کے ایمان میں زیادتی اور اضافہ:
ارشاد باری ہے:
"وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ"﴿١٢٤﴾ (سورۃ التوبۃ)
"اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت سے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہو اہے' تو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان میں اضافہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔"
27۔ مومنوں کی نجات:
اللہ عز وجل نے حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ میں فرمایا:
"فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ"﴿٨٨﴾ (سورۃ الانبیاء)
" تو ہم نے ان کی پکار سن لی، اور انہیں غم سے نجات دے دی، اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔"
28۔ اہل ایمان کے لئے اجر عظیم:
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا"﴿١٤٦﴾ (سورۃ النساء)
" اور عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کو اجر عظیم سے نوازے گا۔"
29۔مومنوں کے لئے اللہ کی (خاص) معیت :
یہ خاص معیت ہے، یعنی توفیق، الہام اور درست راہ پر ثابت رکھنے کی معیت، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَأَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ"﴿١٩﴾ (سورۃ الانفال)
"بیشک اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے۔"
30۔ اہل ایمان خوف وملال سے امن میں ہوں گے، اللہ عز وجل کا ارشاد گرامی ہے:
"فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ "﴿٤٨﴾ (سورۃ الانعام)
"تو جو ایمان لائے اور اصلاح کر لے ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔"
31۔ بڑا اجر و ثواب:
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا"﴿٩﴾ (سورۃ بنی اسرائیل)
"اور نیک اعمال کرنے والوں کو اس بات کی بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔"
32۔ کبھی نہ ختم ہونے والا اجر و ثواب:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ"﴿٨﴾ (سورۃ حم سجدۃ / فصلت)
"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔"
33۔ قرآن کریم مومنوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ"﴿٥٧﴾ (سورۃ یونس)
اور شفاو رحمت ہے
"وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا"﴿٩﴾ (سورۃ بنی اسرائیل)
"اور نیک اعمال کرنے والوں کو اس بات کی بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔"
نیز ذریعۂ ہدایت اورشفا ہے
"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ"﴿٨﴾ (سورۃ حم سجدۃ / فصلت)
"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔"
34۔ اہل ایمان کے لئے اللہ کے یہاں بلند درجات، بخشش اور باعزت روزی ہے، ارشاد باری ہے:
"لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ"﴿٤﴾ (سورۃ الانفال)
"ان کے لئے ان کے رب کے پاس درجات، مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔"
[ماخوذ از (اسلام کا نور اور کفر کی تاریکیاں، داکٹر سعید بن علی بن وھف القحطانی حفظہ اللہ تعالیٰ)]
======================================================
اس سلسلہ میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان عقائد کی بنیاد دو باتوں میں جمع ہیں:
۱۔ داعی اسلام ﷺ نے جو عقائد و اعمال امت کو تلقین اور تعلیم دئے ہیں ان پر ہی جما جائے۔
۲۔ خدا کی ذات اور صفات سے متعلق قرآن نے جو کچھ بیان کیا یا آپﷺ نے اس سلسلہ میں جو کچھ فرمایا ہے یا جس مسئلہ کی قرآن نے جو تشریح کی صرف اسی پر ایمان لانا واجب ہے، اپنی عقل و قیاس و استنباط سے نصوص کی روشنی کے بغیر اس کی تشریح و تفسیر صحیح نہیں اور نہ اس پر ایمان لانا اسلام کی صحت کے لئے ضروری ہے بلکہ ممکن کہ وہ گمراہی اور ضلالت کا موجب ہو۔
[اہل السنۃ و الجماعۃ:۴۷]
نیز فرماتے ہیں کہ اہل سنت کے عقائد کا سب سے مختصر مضمون تو یہ ہے:
’’أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘۔
ترجمہ:
میں (زبان و دل سے) گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
اس شہادت کے فقرۂ اولیٰ کو شہادتِ توحید اور فقرۂ ثانیہ کو شہادتِ رسالت کہتے ہیں، ظاہر ہے کہ بندہ جب اللہ کے سواء اور کوئی معبود نہیں مانتا اور محمد ﷺ کو اللہ کا رسول دل و جان سے تسلیم کرتا ہے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے محمد رسول اللہ ﷺ پر جس قدر احکام نازل ہوئے ان سب کو وہ مانتا ہے۔
لیکن اس اجمال کے بعد مزید تفصیل کوئی چاہتا ہے تو وہ یہ ہے:
آمَنْتُ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ
ترجمہ:
میں ایمان لایا ہوں اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر
[صحيح مسلم:2926]
وَرُسُلِهِ
ترجمہ:
اور اس کے رسولوں پر
[تاريخ المدينة لابن شبة:2/ 404، الجامع - معمر بن راشد:20108، المصنف-عبد الرزاق:21175]
وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
ترجمہ:
اور آخرت کے دن پر
[سنن الترمذي:2247]
وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ
ترجمہ:
اور اچھی اور بری تقدیر پر
[سنن ابن ماجه:63، سنن الترمذي:2610]
مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
ترجمہ:
کہ وہ اللہ بزرگ وبرتر کی طرف سے ہے
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:1، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:321، الاعتقاد للبيهقي: ص134]
وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ۔
ترجمہ:
اور موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر۔
[الجامع - معمر بن راشد:20107، المصنف - عبد الرزاق:21174، الإيمان لابن أبي شيبة:136]
[سنن ابن ماجه:81، سنن الترمذي:2145، السنة لابن أبي عاصم:130، السنة لعبد الله بن أحمد:845، صحيح ابن حبان:178]
بندہ جب رسولوں اور کتابوں پر ایمان لایا تو سارے صحیح عقیدے اور اللہ تعالیٰ کے سارے احکام ان میں داخل ہوگئے، لیکن چونکہ یہ بھی مجمل ہیں اس لئے علماء محققین نے ان امور کو جن کو خاص طور سے خیال رکھنا چاہئے کتاب و سنت سے لے کر یکجا کردیا ہے تاکہ ہر مسلمان ان کو خوب سمجھ کر مان لے تاکہ اس کے مطابق اس کے دین کے سارے کام درست ہوجائیں۔
[اہلسنت و الجماعت: ۸۲]
فرض علم (1) :- اور تم جان لو کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے۔۔۔۔[القرآن،سورۃ محمد:19]
http://raahedaleel.blogspot.com/2014/02/4719.html
خالق کے وجود کے عقلی و نقلی دلائل
The evidences of the existence of Creator
الله تعالیٰ پر ایمان
عقیدہ(۱):
تمام عالم پہلے بالکل ناپید تھا پھر اللہ کے پیدا کرنے سے موجود ہوا۔
حوالہ
القرآن:
ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۘ .....
[سورۃ المومن :٦٢]
ترجمہ:
ترجمہ:
یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے.....
..... خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ .....
[سورۃ الانعام :١٠١]
..... اور اس نے بنائی ہے ہر چیز۔
الحدیث:
..... كَانَ اللهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُهُ .....
[صحيح البخاري:3191]
..... اللہ (ازل سے موجود) تھا، اور اس کے سوا کوئی نہ تھا.....
کائنات کی ابتداء»
اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ ازل سے موجود تھا اور اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی اور اس کا عرش پانی پر(ہوا کی پشت) تھا۔ لوحِ محفوظ میں اس نے ہر چیز کو (جو ہونے والی ہے اپنے علم وقدرت سے) لکھ لیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔
[صحيح البخاري:3191 (المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي:9089، تفسير عبد الرزاق:1185، السنة لابن أبي عاصم:584، المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية:3293+3306)]
عقیدہ(۲):
اللہ ایک ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ، نہ اس نے کسی کو جنا نہ وہ کسی سے جنا گیا نہ اسکی کوئی بی بی ہے۔کوئی اسکے مقابل کا نہیں۔
قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ0 اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ0 لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ0 وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہ کُفُوًا اَحَدٌ 0
[سورۃ الاخلاص]
تو کہہ وہ اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ کسی کو جنا نہ کسی سے جنا اور نہیں اُس کے جوڑ کا کوئی۔
عقیدہ(۳):
وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ
[سورۃ الحدید :٣]
وہی ہے سب سے پہلا اور سب سے پچھلا
کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ
[سورۃ الرحمٰن : ۲۶-۲۷]
جو کوئی ہے زمین پر فنا ہونے والا ہے. اور باقی رہے گا منہ تیرے رب کا بزرگی اور عظمت والا.
عقیدہ(۴):
کوئی چیز اسکے مثل نہیں، وہ سب سے نرالا ہے۔
لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ
نہیں ہے اس کی طرح کا سا کوئی
[سورۃ الشوریٰ :١١]
عقیدہ(۵):
وہ زندہ ہے۔
[سورۃ البقرہ :٢٥٥]
ہر چیز پر اس کی قدرت ہے۔
[سورۃ البقرہ : ١٠]
کوئی چیز اسکے علم سے باہر نہیں
[سورۃ البقرہ :٢٩، العنکبوت:٦٢]
وہ سب کچھ دیکھتا ہے،سنتا ہے
[سورۃ الشوریٰ :١١]
کلام فرماتا ہے لیکن اس کا کلام ہم لوگوں کے کلام کی طرح نہیں
[سورۃ الفتح:١٥، الصافات:١٧١]
جو چاہے کرتا ہے
[سورۃ ھود :١٠٧]
کوئی اس کو روک ٹوک والا نہیں۔ وہی پوجنے کے قابل ہے اس کا کوئی ساجھی نہیں، اپنے بندوں پر مہربان ہے۔
[سورۃ الحشر:٢٢]
بادشاہ ہے۔ سب عیبوں سے پاک ہے ۔وہی اپنے بندوں کو سب آفتوں سے بچاتا ہے۔
[سورۃ الحشر:٢٣]
و ہی عزت والا ہے۔ بڑائی والا ہے۔ ساری چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے
[سورۃ الأنعام:١٠١]
اس کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں۔ گناہوں کا بخشنے والا ہے۔زبردست ہے۔ بہت دینے والا ہے۔ روزی پہچانے والا ہے،جس کی روزی چاہے تنگ کردے اور جس کی چاہے زیادہ کر دے۔ جس کو چاہے پست کردے جس کو چاہے بلند کردے۔ جس کو چاہے عزت دے جس کو چاہے زلت دے۔ انصاف والا ہے۔ بڑے تحمل اور برد اشت والا ہے۔ خدمت اور عبادت کی قدر کرنے والا ہے، دعا کا قبول کرنے والا ہے۔ سمائی والا ہے۔ وہ سب پر حاکم ہے، اس پر کوئی حاکم نہیں۔اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔وہ سب کا کا م بنا نے والا ہے۔ اسی نے سب کو پیدا کیا ہے۔ وہی قیامت میں پھر پیدا کرے گا۔ وہی جِلاتا ہے۔ و ہی مارتا ہے۔ اس کو نشانیوں اور صفتوں سے سب جانتے ہیں۔ اس کی ذات کی باریکی کو کوئی نہیں جان سکتا۔ گناہ گاروں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ جو سزا کے قابل ہیں ان کو سزا د یتا ہے۔ وہی ہدایت کرتا ہے۔ جہاں میں جو کچھ ہوتا ہے اسی کے حکم سے ہوتا ہے۔ بغیر اس کے حکم کے ذرہ نہیں ہل سکتا۔
نہ وہ سوتا ہے نہ اونگھتا ہے، وہ تمام عالم کی حفاظت سے تھکتا نہیں۔ وہی سب چیزوں کو تھامے ہوئے ہے۔
[سورۃ البقرہ:١٤٤]
اسی طرح تمام اچھی اور کمال کی صفتیں اس کو حاصل ہیں اور بری اور نقصان کی کوئی صفت اس میں نہیں، نہ اس میں کوئی عیب ہے۔
[ترمذی : 3507]
عقیدہ (۶):
اس کی سب صفتیں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی اور اس کی کوئی صفت کبھی جا نہیں سکتی۔
حوالہ
وله صفات أزلية قائمة بذاته
[شرح عقيدہ:٤٥]
عقیدہ(۷):
مخلوق کی صفتوں سے وہ پاک ہے اور قرآن و حدیث میں بعض جگہ جو ایسی باتوں کی خبر دی گئی ہے تو ان کے معنیٰ اللہ کے حوالہ کریں کہ و ہی اس کی حقیقت جانتا ہے اور ہم بے کھود کرید کیے اسی طرح ایمان لاتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ جو کچھ اس کا مطلب ہے، وہ ٹھیک ہے اور حق ہے اور یہی بات بہتر ہے یا اس کے کچھ مناسب معنی لگالیں جس سے وہ سمجھ میں آجائے۔
حوالہ
سُبۡحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الۡعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ [سورۃ الصافات:۱۸۰]
پاک ذات ہے تیرے رب کی وہ پروردگار عزت والا پاک ہے ان باتوں سے جو بیان کرتے ہیں
فَلَا تَضۡرِبُوۡا لِلّٰہِ الۡاَمۡثَالَ
[سورۃ النحل:۷۴]
سو مت چسپاں کرو (بٹھلاؤ) اللہ پر مثالیں
لَیۡسَ کَمِثۡلِہ شَیۡءٌ
[الشوریٰ :١١]
نہیں ہے اس کی طرح کا سا کوئی
وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ
[سورۃ آل عمران:٧]
اور مضبوط علم والے کہتےہیں ہم اس پر یقین لائے سب ہمارے رب کی طرف سے اتری ہیں
تقدیر پر ایمان لانے کا مفہوم
عقیدہ(۸):
عالَم (جہاں) میں جو کچھ بھلا برا ہوتا ہے سب کو اللہ تعالی اس کے ہونے سے پہلے ہمیشہ سے جانتا ہے اور اپنے جاننے کے موافق اس کو پیدا کرتا ہے۔ تقدیر اسی کا نام ہے اور بری چیزوں کے پیدا کرنے میں بہت بھید ہے جن کو ہر ایک نہیں جانتا۔
حوالہ
اِنَّا کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقۡنٰہُ بِقَدَرٍ
[سورۃ القمر:۴۹]
ہم نے ہر چیز بنائی پہلے ٹھہرا کر
اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
[سورۃ النحل:۷۴]
بیشک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
تقدیر پر ایمان لانے کیلئے چار امور ہیں:
اول:
تقدیر پر ایمان لانے کیلئے چار امور ہیں:
اول:
اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالی تمام چیزوں کے بارے میں اجمالی اور تفصیلی ہر لحاظ سے ازل سے ابد تک علم رکھتا ہے، اور رکھے گا، چاہے اس علم کا تعلق اللہ تعالی کے اپنے افعال کے ساتھ ہو یا اپنے بندوں کے اعمال کے ساتھ۔
دوم:
دوم:
اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالی نے تقدیر کو لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے۔
مذکورہ بالا دونوں امور کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
( أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ )
ترجمہ:
مذکورہ بالا دونوں امور کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
( أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ )
ترجمہ:
کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ تعالی جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین پر سب کو بخوبی جانتا ہے، اور یہ سب کچھ کتاب [لوحِ محفوظ] میں لکھا ہوا ہے، اور [ان سب کے بارے میں] علم رکھنا اللہ کیلئے بہت آسان ہے۔
[سورۃ الحج:70]
جبکہ صحیح مسلم (2653) میں عبد اللہ بن عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے ہے کہ آپ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے ہی تمام مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سب سے پہلے اللہ تعالی نے قلم کو پیدا فرمایا، اور اسے حکم دیا: "لکھو!" تو قلم نے کہا: یا رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالی نے اسے فرمایا: "قیامت قائم ہونے تک آنے والی مخلوقات کی تقدیریں لکھ دو")
أبو داود (4700) نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی نے صحيح أبو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سوم:
جبکہ صحیح مسلم (2653) میں عبد اللہ بن عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے ہے کہ آپ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے ہی تمام مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سب سے پہلے اللہ تعالی نے قلم کو پیدا فرمایا، اور اسے حکم دیا: "لکھو!" تو قلم نے کہا: یا رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالی نے اسے فرمایا: "قیامت قائم ہونے تک آنے والی مخلوقات کی تقدیریں لکھ دو")
أبو داود (4700) نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی نے صحيح أبو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سوم:
اس بات پر ایمان ہو کہ ساری کائنات کے امور مشیئتِ الہی کے بغیر نہیں چل سکتے، چاہے یہ افعال اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات سے تعلق رکھتے ہوں یا مخلوقات سے، چنانچہ اپنے افعال کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
(وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ )
ترجمہ:
(وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ )
ترجمہ:
اور آپکا رب جو چاہتا اور پسند کرتا ہے وہی پیدا کردیتا ہے۔
[سورۃ القصص:68]
( وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ )
ترجمہ:
اور اللہ تعالی جو چاہتا ہے، وہی کرتا ہے۔
[سورۃ ابراهيم:27]
( هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ )
ترجمہ:
وہ ہی ہے وہ ذات جو تمہاری شکمِ مادر کے اندر جیسے چاہتا ہے شکلیں بنا دیتا ہے۔
[سورۃ آل عمران:6]
جبکہ افعال ِ مخلوقات کے بارے میں فرمایا:
( وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ )
ترجمہ:
اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کر دیتا، پھر وہ تم سے جنگ کرتے۔
[سورۃ النساء:90]
اسی طرح سورہ انعام میں فرمایا:
( وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ )
ترجمہ:
اور اگر تمہارا رب چاہتا تو وہ کچھ بھی نا کرپاتے۔
[سورۃ الأنعام:112]
چنانچہ کائنات میں رونما ہونے والے تمام تغیرات اور حرکات وسکنات اللہ کی مشیئت ہی سے وقوع پذیر ہوتے ہیں، اللہ تعالی جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے، اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔
چہارم:
اس بات پر ایمان لانا کہ تمام کائنات اپنی ذات، صفات، اور نقل وحرکت کے اعتبار سے اللہ تعالی کی مخلوق ہے، اس بارے میں فرمایا:
( اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ )
ترجمہ:
( اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ )
ترجمہ:
اللہ تعالی ہی ہر چیز کا خالق ہے، اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔
[سورۃ الزمر:62]
( وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيراً )
ترجمہ:
اور اللہ تعالی ہی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا، اور انکا اچھی طرح اندازہ بھی لگایا۔
[سورۃ الفرقان:2]
اسی طرح اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا:
( وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ )
ترجمہ:
اور اللہ تعالی نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو پیدا کیا ہے۔
[سورۃ الصافات:96]
چنانچہ اگر کوئی شخص مذکورہ بالا امور پر ایمان لے آئے تو اسکا تقدیر پر ایمان درست ہوگا۔
ہم نے تقدیر پر ایمان کے بارے میں جو گفتگو کی ہے یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ بندے کی اپنے اختیاری افعال میں کوئی بس ہی نا چلے، اور بندہ خود سے کچھ کرنے کے قابل ہی نہ ہو، کہ بندے کو کسی نیکی یا بدی کرنے کا مکمل اختیار نا دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ لوگ نیکی بدی سب کرتے ہیں، شریعت اور حقائق اسی بات پر دلالت کرتے ہیں کہ بندے کی اپنی مشیئت بھی ہوتی ہے۔
شریعت سے دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بندے کی مشیئت کے بارے میں فرمایا:
( ذَلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ مَآباً )
ترجمہ:
قیامت کا دن سچا دن ہے، چنانچہ جو چاہتا ہے وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے کی جگہ مقرر کر لے۔
[سورۃ النبأ:39]
اسی طرح فرمایا:
( فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ )
تم اپنی کھیتی [بیویوں]کو جس طرح سے چاہوآؤ۔
[سورۃ البقرة:223]
جبکہ انسانی طاقت کے بارے میں بھی فرمایا:
( فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ )
ترجمہ:
اپنی طاقت کے مطابق ہی اللہ تعالی سے ڈرو۔
[سورۃ التغابن:16]
اسی طرح سورہ بقرہ میں فرمایا:
( لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ )
ترجمہ:
اللہ تعالی کسی نفس کو اسکی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا، چنانچہ جواچھے کام کریگا اسکا فائدہ اُسی کو ہوگا، اور جو برے کام کریگا اسکا وبال بھی اُسی پر ہوگا۔
[سورۃ البقرة:286]
مندرجہ بالا آیات میں انسانی ارادہ ، اور استطاعت و قوت کو ثابت کیا گیا ہے، انہی دونوں اشیاء کی وجہ سے انسان جو چاہتا ہے کرتا ہے، اور جو چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے۔
حقائق بھی اسی بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہر انسان اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ وہ کام کاج کرنا یا نا کرنا اپنی طاقت اور چاہت کے مطابق ہی کرتا ہے، اسی طرح انسان ان امور میں بھی فرق کر لیتا ہے جو اسکی چاہت کے ساتھ ہوں، جیسے چلنا پھرنا، اور جو اسکی چاہت کے ساتھ نہ ہوں جیسے کپکپی طاری ہونا، لیکن ان تمام چیزوں کے با وجود انسان کی تمام چاہت و قوت اللہ تعالی کی مشیئت اور قدرت کے تابع ہوتی ہیں، اسکی دلیل اللہ تعالی کا فرمان:
( لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [28] وَمَا تَشَاءُونَ إِلا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ )
ترجمہ:
تم میں سے جو چاہے سیدھے راستے پر چلے[28] اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
[سورۃ التكوير:28-29]
[عقلی طور پر بھی]یہ ساری کائنات اللہ تعالی کی بادشاہت میں ہے، اس لئے اس کائنات میں کوئی بھی کام اللہ تعالی کے علم و مشیئت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
تقدیر(علمِ الٰہی) پر ایمان وعقیدہ اور اس کے فوائد وفضائل
http://raahedaleel.blogspot.com/2016/05/blog-post_10.html
تقدیر کب کب لکھی گئی؟
عقیدہ(۹):
بندوں کو اللہ تعالی نے سمجھ اور ارادہ دیا ہے جس سے وہ گناہ اور ثواب کے کام اپنے اختیار سے کرتے ہیں۔ مگر بندوں کو کسی کام کے پیدا کرنے کی قدرت نہیں ہے۔ گناہ کے کام سے اللہ تعالی ناراض اور ثواب کے کام سے خوش ہوتے ہیں۔
حوالہ
فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ (الکھف:٢٩)
پھر جو کوئی چاہے مانے اور جو کوئی چاہے نہ مانے
پھر جو کوئی چاہے مانے اور جو کوئی چاہے نہ مانے
وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿الصافات:۹۶﴾
اور اللہ نے بنایا تم کو اور جو تم عمل کرتے ہو
اور اللہ نے بنایا تم کو اور جو تم عمل کرتے ہو
وَ لَا یَرۡضٰی لِعِبَادِہِ الۡکُفۡرَ ۚ وَ اِنۡ تَشۡکُرُوۡا یَرۡضَہُ لَکُمۡ (الزمر:٧)
اور وہ پسند نہیں کرتا اپنے بندوں کا منکر ہونا اور اگر اس کا حق مانو گے تو اسکو تمہارے لئے پسند کرے گا۔
اور وہ پسند نہیں کرتا اپنے بندوں کا منکر ہونا اور اگر اس کا حق مانو گے تو اسکو تمہارے لئے پسند کرے گا۔
عقیدہ(۱۰):
اللہ تعالی نے بندوں کو ایسے کام کا حکم نہیں دیا جو بندوں سے نہ ہوسکے۔
حوالہ
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا
(سورۃ البقرہ: ٢٨٦)
اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی کو مگر جس قدر اس کی گنجائش ہے
اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی کو مگر جس قدر اس کی گنجائش ہے
عقیدہ(۱۱):
کوئی چیز اللہ کے ذمہ ضروری نہیں وہ جو کچھ مہربانی کرے اس کا فضل ہے۔
لَا یُسۡـَٔلُ عَمَّا یَفۡعَلُ
﴿سورۃ الانبیاء:۲۳﴾
اُس سے پوچھا نہ جائے جو وہ کرے۔
اُس سے پوچھا نہ جائے جو وہ کرے۔
یعنی
وہ جو کچھ کرتا ہے اس کا کسی کو جواب دہ نہیں ہے، اور ان سب کو جواب دہی کرنی ہوگی۔
فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ
(سورۃ البروج:۱۶﴾
کر ڈالنے والا جو چاہے۔
کر ڈالنے والا جو چاہے۔
یعنی
وہ جو کچھ ارادہ کرتا ہے کر گزرتا ہے۔
رسولوں پر ایمان
عقیدہ(۱۲):
اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے بہت سے پیغمبر بندوں کو سیدھی راہ بتانے آئے ہیں اور وہ سب گناہوں سے پاک ہیں، گنتی ان کی پوری طرح اللہ ہی کو معلوم ہے، انکی سچائی بتانے کو اللہ تعالی نے انکے ہاتھوں ایسی نئی نئی اور مشکل باتیں ظاہر کیں جو اور لوگ نہیں کرسکتے۔ ایسی باتوں کو معجزہ کہتے ہیں۔ ان پیغمبروں میں سب سے پہلے آدم علیہ السلام تھے اور سب کے بعد حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور باقی درمیان میں ہوئے۔ ان میں بعضے بہت مشہور ہیں جیسے حضرت نوح، ابراہیم ، اسحٰق، اسماعیل، یعقوب، یوسف ، داؤد ، سلیمان ، ایوب ، موسٰی ، ہارون ، زکریّا، یحییٰ ، عیسیٰ ، الیاس ، الیسع ، یونس ، لوط ، ادریس ، ذوالکفل ، صالح ، ہود اورشعیب علیہم السلام۔
حوالہ
القرآن:
اور ہم نے بھیجے ہیں رسول تجھ سے پہلے بعضے ان میں وہ ہیں کہ سنایا ہم نے تجھکو ان کا احوال اور بعضے ہیں کہ نہیں سنایا ...
[سورۃ المومن:٧٨]
یعنی یہ سب نیکوکار تھے۔
[سورۃ الانعام:٨٥]
موسٰی نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی تو وہ اسی وقت ایک بڑا اژدھا بن گیا۔ اور اپنا ہاتھ گریبان سے نکالا تو اسی دم دیکھنے والوں کی نگاہوں میں سفید براق یعنی روشن ہو گیا۔
[سورۃ الاعراف:١٠٧-١٠٨]
یعنی تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے سچ مچ پرندہ ہو جاتا ہے۔
[سورۃ آل عمران:٤٩]
ایمان کی اصلاح کریں»
معجزات، پیغمبر کی سچائی ظاہر کرنے کیلئے پیغمبر کے ہاتھوں ظاہر تو ہوتے ہیں، لیکن وہ پیغمبر کے اختیار میں نہیں ہوتے۔
اللہ پاک نے فرمایا:
اور ذرا اپنی لاٹھی کو نیچے پھینکو۔ پھر جب ان(پیغمبر موسیٰ) نے لاٹھی کو دیکھا کہ وہ اس طرح حرکت کر رہی ہے جیسے وہ کوئی سانپ ہو تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے، اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ (ارشاد ہوا) موسیٰ ! ڈرو نہیں، جن کو پیغمبر بنایا جاتا ہے ان کو میرے حضور کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔
[سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 10]
اور یہ کہ : اپنی لاٹھی نیچے ڈال دو ، پھر ہوا یہ کہ جب انہوں نے اس لاٹھی کو دیکھا کہ وہ اس طرح حرکت کر رہی ہے جیسے وہ سانپ ہو، تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے، اور مڑ کر بھی نہ دیکھا (ان سے کہا گیا) موسیٰ ! سامنے آؤ، اور ڈرو نہیں، تم بالکل محفوظ ہو۔
[سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 31]
نوٹ:
اگر لاٹھی سے سانپ بنانے کا کام پیغمبر کا ہوتا تو وہ کیوں اس سے ڈرتا اور بھاگتا؟
اللہ نے فرمایا : (اے موسیٰ) اس(سانپ)کو پکڑ لو، اور خوف نہ کرو۔ ہم ابھی اسے اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے۔
[سورۃ طٰہٰ:21(67-68)]
ثابت ہوا کہ معجزے اللہ ہی کی قدرت واختیار میں ہوتے ہیں۔
نبی-رسول(پیغمبر)کسے کہتے ہیں؟
قرآن کریم نے ”نبی“ کا لفظ ایک ایسے انسان
[بَشَرٌ....سورۃ الانعام:91،ابراھیم:11، الکھف:110، فصلت:6، الشوريٰ:51]
مرد
[رَجُلٍ....سورة الاعراف:63+69، يونس:2]
کے لئے استعمال کیا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے فائدے اور نفع کی ایسی عظیم الشان خبریں سنائیں‘ جن سے ان کی عقول قاصر ہیں‘ صرف اپنی عقل نارسا سے وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی باتیں وہی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے ہوں گی اور پھر ان خبروں پر اطمینان یا علم جب حاصل ہوسکتا ہے کہ خبر دینے والا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی دلیل بھی پیش کرے یا صرف اس کی زندگی ہی اتنی پاکیزہ‘ اتنی اعلیٰ ومقدس ہو کہ اس پر جھوٹ کا وہم وگمان بھی نہ ہو سکے‘ اس کی بات سنتے ہی لوگوں کو یقین آجائے۔ اب صرف ”نبی“ کا لفظ ہی لغتِ عرب کے مطابق ان سب حقائق پر روشنی ڈالتا ہے۔
لغتِ عرب میں ”نبأ“ اس خبر کو کہتے ہیں جس میں فائدہ ہو اور فائدہ بھی عظیم اور اس خبر سے سننے والے کو علم واطمینان بھی حاصل ہو۔غرض کہ تین چیزیں اس میں ضروری ہوں:
۱- خبر فائدے کی ہو۔
۲-فائدہ بھی عظیم الشان ہو۔
۳- سننے والے کو یقین کامل یا اطمینانِ قلب حاصل ہوجائے۔
[مفردات القرآن(امام الراغب اصفہانیؒ) : سورۃ النبا:2]
اللہ تعالیٰ سب حاکموں کا حاکم
[سورۃ ھود:45]
اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
[سورۃ آل عمران:26]
جس نے ہر قوم
[سورۃ الرعد:7]
اور امت
[سورۃ فاطر:24]
اور بستی
[سورۃ الشعراء:208]
میں لوگوں کیلئے ہدایت
[سورۃ آل عمران:4]
روشنی
[سورۃ ابراھیم:1]
مومنوں کیلئے بشارت
[سورۃ النمل:2]
اور رحمت
[سورۃ لقمان:3]
اور شفاء
[سورۃ فصلت:44]
عقلمندوں کیلئے نصیحت
[سورۃ غافر:54]
نازل فرمائی ہے۔
اس(نبی-رسول)کی قوم کی زبان میں
[سورۃ ابراھیم:4]
اپنے "بندوں" میں سے خود منتخب کرتا-چنتا ہے۔
[سورۃ الحج:75، النمل:59]
بھیجتا ہے
[سورۃ القصص:99، غافر:34]
کیونکہ وہ زیادہ جانتا ہے کہ کہاں رکھے-بھیجے اپنی رسالت۔
[سورۃ الانعام:124]
رسالت کہتے ہیں پیغام "پہنچانے" [سورۃ المائدۃ:67] کی ذمہ داری کو۔
اور ذمہ دار کو رسول کہتے ہیں۔[سورۃ آل عمران:53]
اور
اسی طرح ھدایت کرنے[الانبیاء:73]
خبر بتلانے[سورۃ الحجر:49-50]
کی ذمہ داری کو نبوت[سورۃ آل عمران:79] کہتے ہیں۔
کہ انبیاء بھی اللہ کے "بھیجے" ہوئے(رسول)ہیں۔[سورۃ الزخرف:6]
نبی اور رسول میں فرق:
(1)نبی صرف انسانوں میں ہوتے اور رسول ملائکہ اور انسان دونوں میں ہوتے ہیں۔
اللہ چنتا ہے رسول(پیغام پہنچانے والے) ملائکہ میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی۔
[سورۃ الحج:75]
یعنی
ملائکہ میں سے پیغامِ الٰہی پہنچانے کیلئے چنا ہوا جبریلؑ روح الامین ہے[سورۃ الشعراء:123]
کیونکہ اللہ ملائکہ کی طرف وحی کرتا(ذمہ داری سونپتا) ہے [سورۃ الانفال:12]
۔۔۔ تاکہ وہ نازل کرے نبی کے دل پر[سورۃ البقرۃ:97]
۔۔۔اور۔۔۔
لوگوں میں سے چنے ہوئے (خاص) بندوں[سورۃ النمل:59] کو پیغامِ الٰہی پہنچانے والے(رسول) بھیجے۔۔۔
انہیں میں
[سورۃ البقرۃ:129، المومنون:32، الصافات:72]
انہی کے نفسوں(جنس)میں سے
[سورۃ آل عمران:164]
تمہارے نفسوں(جانوں)میں سے
[سورۃ التوبۃ:128]
بشر(آدمی)کو
[سورۃ الانعام:91، ابراھیم:11، الکھف:110، فصلت:6، الشوريٰ:51]
رجل(مرد)کو
[سورۃ الاعراف:63+69، يونس:2]
یعنی
جن اور عورت میں کوئی رسول یا نبی نہیں بھیجا۔
(2) بشری نبی اور بشری رسول میں فرق:
ہر نبی پر وحی بھیجی جاتی ہے اور نبوت عطا ہوتی ہے[] پچھلے رسول کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔[سورۃ المائدۃ:44]
اور
رسول کو نبوت، حکم وشریعت اور کتاب بھی دی جاتی ہے۔
(1)الگ نئی کتاب
[سورۃ آل عمران:79]
جیسے:حضرت داؤدؑ کو زبور
[النساء:163، الاسراء:55]،
حضرت عیسیٰؑ کو انجیل
[سورۃ الحدید:27]
(2)حکم
[سورۃ الانعام:89]
یعنی الگ شریعت
[سورۃ المائدۃ:48]
جیسے:
پہلے قبلہ بیت المقدس(مسجد اقصیٌٰ) تھا اور اب بیت اللہ(مسجد الحرام)
[سورۃ البقرۃ:142-145، الاسراء:1]
مشترکاتِ انبیاء اور رسل:
(1) وحی: دونوں پر نازل ہوتی ہے۔ یعنی پیغامِ الٰہی پہنچانے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔
[سورۃ النساء:163]
(2) بنیادی کلمہ، عقیدہ اور پیغامِ وحی یہی تھی کہ۔۔۔نہیں ہے کہوئی معبود سوائے اللہ کے، لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔
[سورۃ الانبیاء:25]
عیسیٰ بھی رسول ہی ہیں(خدا نہیں)پہلے رسولوں کی طرح۔۔۔کہ وہ بھی کھاتے پیتے ہیں۔
[سورۃ المائدۃ:75]
محمد بھی رسول ہی ہیں پہلے رسولوں کی طرح۔۔۔یعنی وہ قتل یا فوت ہوسکتے ہیں۔
[سورۃ آل عمران:144]
کہدیجیئے میں کوئی نیا رسول نہیں۔۔۔(یعنی دوسرے رسولوں کی طرح)۔۔۔میں بھی نہیں جانتا کہ میرے اور تم سب کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔
[سورۃ الاحقاف:9]
لیکن محمد رسول اللہ کو خاتم النبیین[الاحزاب:40] بناکر،
ساری انسانیت کیلئے
[سورۃ النساء:170، الحج:49، سبا:28]
بلکہ(جن، چرند پرند) سب کی طرف بھیجا۔
[سورۃ الاعراف:158]
لہٰذا لازم ہے:
(1)ان سب پر ایمان لانا
[سورۃ البقرۃ:177+285، النساء:136، الاعراف:158، النور:62، الاحزاب:15، الحدید:7المجادلۃ:4، الصف:11 التغابن:8، ]
(2)انکی عزت وتعظیم کرنا
[سورۃ الفتح:9]
(3)انکی اطاعت کرنا
[سورۃ النساء:64+80]
(4)انکی مدد کرنا
[سورۃ الاعراف:157]
جو دخولِ جنت کا سبب ہے
[سورۃ النساء:14]
اور
ان کی نافرمانی کرنا
[سورۃ النساء:42]
جھٹلانا
[سورۃ آل عمران:184، الانعام:34، الاعراف:92+101، النحل:113، الحج:42، المومنون:44، ق:14]
انکار کرنا کفر ہے۔
[سورۃ آل عمران:86، النساء:136+150+170]
تمسخر اُڑانا
[سورۃ الزمر:56، الانعام:10،الانبیاء:41]
اور استہزاء کرنا کفر ہے۔
[سورۃ الکھف:106، التوبۃ:65]
اور ان سے بغض ودشمنی رکھنا بھی کفر ہے۔
[سورۃ البقرۃ:97]
انہیں قتل کرنا بھی کفر ہے۔
[سورۃ البقرۃ:61، آل عمران:21]
یہ کفر فورا دنیاوی سزا کا مستحق بناتا۔
[سورۃ الانعام:10، یٰس:30-31]
اور دخولِ جہنم کا سبب ہے۔
[سورۃ الجن:23، النساء:15]۔
عقیدہ(۱۳): سب پیغمبروں کی گنتی اللہ تعالی نے کسی کو نہیں بتائی اسلئے یوں عقیدہ رکھے کے اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے جتنے پیغمبرعلیہم السلام ہیں ہم ان سب پر ایمان لاتے ہیں جو ہم کو معلوم ہیں ان پر بھی اور جو نہیں معلوم ان پر بھی۔
حوالہ
اور ہم نے بھیجے ہیں رسول تجھ سے پہلے بعضے ان میں وہ ہیں کہ سنایا ہم نے تجھکو ان کا احوال اور بعضے ہیں کہ نہیں سنایا ...
[سورۃ المومن:٧٨]
عقیدہ(۱۴): پیغمبروں میں بعضوں کا مرتبہ بعضوں سے بڑا ہے۔ سب سے بڑا مرتبہ ہمارے پیغمبرمحمد مصطفیٰ ﷺ کا ہے اور آپ کے بعد کوئی نیا پیغمبر نہیں آسکتا۔ قیامت تک جتنے آدمی اور جنّ ہوں گے آپ سب کے پیغمبر ہیں۔
حوالہ
تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ...[سورۃ البقرہ:٢٥٣]
یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا [سورۃ الاحزاب:٤٠]
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن اللہ کے پیغمبر اور نبیوں کی مہر یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کر دینے والے ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن اللہ کے پیغمبر اور نبیوں کی مہر یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کر دینے والے ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔
عقیدہ(۱۵): ہمارے پیغمبر ﷺ کو اللہ نے جاگتے میں جسم کے ساتھ مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے ساتوں آسمانوں پر اور وہاں سے جہاں تک اللہ کو منظور ہوا پہنچایا اور پھر مکہ میں پہنچادیا۔ اسکو معراج کہتے ہیں۔
حوالہ
سُبْحَٰنَ ٱلَّذِىٓ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًۭا مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْأَقْصَي...(بني اسرائل:١)
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہٴ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک لے گیا...
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہٴ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک لے گیا...
وَلَقَدْ رَءَاهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ {53:13} عِندَ سِدْرَةِ ٱلْمُنتَهَىٰ {53:14}
اور انہوں نے اس کو ایک بار بھی دیکھا ہے. پرلی حد کی بیری کے پاس
اور انہوں نے اس کو ایک بار بھی دیکھا ہے. پرلی حد کی بیری کے پاس
فرشتوں پر ایمان
عقیدہ(۱۶):
اللہ تعالی نے کچھ مخلوقات نور سے پیدا کرکے ان کو ہماری نظروں سے چھپادیا ہے۔ ان کو فرشتہ کہتے ہیں۔ بہت سے کام انکے حوالے ہیں۔ وہ کبھی اللہ کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے۔ جس کام میں لگادیا ہے اس میں لگے رہتے ہیں۔ ان میں چار فرشتے بہت مشہور ہیں۔ حضرت جبریل، میکائیل، اسرافیل،عزرائیل علیہم السلام۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ مخلوق آگ سے بنائی ہے۔ وہ بھی ہم کو دکھائی نہیں دیتی۔ انکو جن کہتے ہیں۔ ان میں نیک و بد سب طرح کے ہوتے ہیں۔ انکے اولاد بھی ہوتی ہے۔ ان سب میں زیادہ مشہور شریر ابلیس یعنی شیطان ہے۔
حوالہ
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ ، وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ " .
ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا ہے اور حضرت آدم کو اس چیز سے (جس کا ذکر قرآن مجید میں) کیا گیا ہے۔
فَٱلْمُدَبِّرَٰتِ أَمْرًۭا {79:5}
یعنی پھر (دنیا کے) کاموں کا انتظام کرتے ہیں۔
لَّا يَعْصُونَ ٱللَّهَ مَآ أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ {66:6}
نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جو بات فرمائے اُنکو اور وہی کام کرتے ہیں جو اُنکو حکم ہو
نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جو بات فرمائے اُنکو اور وہی کام کرتے ہیں جو اُنکو حکم ہو
وَخَلَقَ ٱلْجَآنَّ مِن مَّارِجٍۢ مِّن نَّارٍۢ {55:15}
اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا
اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا
إِنَّهُۥ يَرَىٰكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُۥ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ {7:27}
وہ اور اس (شیطان) کے بھائی تم کو ایسی جگہ سے دیکھتے رہے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے
وہ اور اس (شیطان) کے بھائی تم کو ایسی جگہ سے دیکھتے رہے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے
وَأَنَّا مِنَّا ٱلصَّٰلِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ {72:11}
اور یہ کہ ہم میں کوئی نیک ہیں اور کوئی اور طرح کے۔
اور یہ کہ ہم میں کوئی نیک ہیں اور کوئی اور طرح کے۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُوا۟ لِءَادَمَ فَسَجَدُوٓا۟ إِلَّآ إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ ٱلْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِۦٓ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُۥ وَذُرِّيَّتَهُۥٓ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِى وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّۢ ۚ بِئْسَ لِلظَّٰلِمِينَ بَدَلًۭا {18:50}
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس (نے نہ کیا) وہ جنات میں سے تھا تو اپنے پروردگار کے حکم سے باہر ہوگیا۔ کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو۔ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں (اور شیطان کی دوستی) ظالموں کے لئے (خدا کی دوستی کا) برا بدل ہے
عقیدہ (۱۷):
مسلمان جب خوب عبادت کرتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے اور دنیا سے محبت نہیں رکھتا اور پیغمبر علیہ السلام کی ہر طرح خوب تابعداری کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا دوست اور پیارا ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کو ولی کہتے ہیں۔ اس شخص سے کبھی ایسی باتیں ہونے لگتی ہیں جو اور لوگوں سے نہیں ہوسکتیں۔ ان باتوں کو کرامت کہتے ہیں۔
حوالہ
أَلَآ إِنَّ أَوْلِيَآءَ ٱللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ {10:62} ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَكَانُوا۟ يَتَّقُونَ {10:63}
یاد رکھو جو لوگ اللہ کے دوست ہیں نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے. جو لوگ کہ ایمان لائے اور ڈرتے رہے
حضرت مریم (غیر نبی - امتی) کی کرامت:
كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا ٱلْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًۭا ۖ قَالَ يَٰمَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ ٱللَّهِ {3:37}
ترجمہ:
زکریا جب کبھی عبادت گاہ میں اس کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانا پاتے (یہ کیفیت دیکھ کر ایک دن مریم سے) پوچھنے لگے کہ مریم یہ کھانا تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے وہ بولیں خدا کے ہاں سے (آتا ہے)
عقیدہ (۱۸):
ولی کتنے ہی بڑے درجہ کو پہنچ جائے مگر نبی کے برابر نہیں ہوسکتا۔
حوالہ
وَكُلًّۭا فَضَّلْنَا عَلَى ٱلْعَٰلَمِينَ {6:86}
اور سب کو ہم نے بزرگی دی (اپنے زمانہ کے) سارے جہان والوں پر
اور سب کو ہم نے بزرگی دی (اپنے زمانہ کے) سارے جہان والوں پر
عقیدہ (۱۹):
اللہ کا کیسا ہی پیارا ہوجائے مگر جب تک ہوش و حواس باقی ہوں شرع کا پابند رہنا فرض ہے۔ نماز، روزہ اور دیگر کوئی عبادت معاف نہیں ہوتی۔ جو گناہ کی باتیں ہیں وہ اس کیلیے درست نہیں ہوجاتیں۔
حوالہ
أَيَحْسَبُ ٱلْإِنسَٰنُ أَن يُتْرَكَ سُدًى {75:36}
کیا انسان خیال کرتا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟
کیا انسان خیال کرتا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟
عقیدہ (۲۰): جو شخص شریعت کے خلاف ہو وہ اللہ کا دوست نہیں ہوسکتا اگر اسکے ہاتھ سے کوئی اچنبھے کی بات دکھائی دے یا تو وہ جادو ہے یا نفسانی اور شیطانی دھندہ ہے۔ اس سے عقیدہ نہ رکھنا چاہیے۔
حوالہ
ثُمَّ جَعَلْنَٰكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍۢ مِّنَ ٱلْأَمْرِ فَٱتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَ ٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ {45:18}
پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر (قائم) کر دیا تو اسی (رستے) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا
وَاتَّبَعوا ما تَتلُوا الشَّيٰطينُ عَلىٰ مُلكِ سُلَيمٰنَ ۖ وَما كَفَرَ سُلَيمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطينَ كَفَروا يُعَلِّمونَ النّاسَ السِّحرَ وَما أُنزِلَ عَلَى المَلَكَينِ بِبابِلَ هٰروتَ وَمٰروتَ ۚ وَما يُعَلِّمانِ مِن أَحَدٍ حَتّىٰ يَقولا إِنَّما نَحنُ فِتنَةٌ فَلا تَكفُر ۖ فَيَتَعَلَّمونَ مِنهُما ما يُفَرِّقونَ بِهِ بَينَ المَرءِ وَزَوجِهِ ۚ وَما هُم بِضارّينَ بِهِ مِن أَحَدٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ وَيَتَعَلَّمونَ ما يَضُرُّهُم وَلا يَنفَعُهُم ۚ وَلَقَد عَلِموا لَمَنِ اشتَرىٰهُ ما لَهُ فِى الءاخِرَةِ مِن خَلٰقٍ ۚ وَلَبِئسَ ما شَرَوا بِهِ أَنفُسَهُم ۚ لَو كانوا يَعلَمونَ {2:102} |
اور پیچھے ہو لئے اس علم کے جو پڑتے تھے شیطان سلیمان کی بادشاہت کے وقت اور کفر نہیں کیا سلیمان نے لیکن شیطانوں نے کفر کیا کہ سکھلاتے تھے لوگوں کو جادو اور اس علم کے پیچھے ہو لئے جو اترا دو فرشتوں پر شہر بابل میں جن کا نام ہاروت اور ماروت ہے اور نہیں سکھاتے تھے وہ دونوں فرشتے کسی کو جب تک یہ نہ کہدیتے کہ ہم تو آزمائش کے لئے ہیں سو تو کافر مت ہو پھر ان سے سیکھتے وہ جادو جس سے جدائی ڈالتے ہیں مرد میں اور اسکی عورت میں اور وہ اس سے نقصان نہیں کر سکتے کس کا بغیر حکم اللہ کے اور سیکھتے ہیں وہ چیز جو نقصان کرے ان کا اور فائدہ نہ کرے اور وہ خوب جان چکے ہیں کہ جس نے اختیار کیا جادو کو نہیں اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ اور بہت ہی بری چیز ہے جسکے بدلے بیچا انہوں نے اپنے آپکو اگر ان کو سمجھ ہوتی |
وَجاءَ السَّحَرَةُ فِرعَونَ قالوا إِنَّ لَنا
لَأَجرًا إِن كُنّا نَحنُ الغٰلِبينَ {7:113} قالَ أَلقوا ۖ فَلَمّا أَلقَوا سَحَروا أَعيُنَ
النّاسِ وَاستَرهَبوهُم وَجاءو بِسِحرٍ عَظيمٍ
{7:116}
اور آئےجادوگر فرعون کے پاس بولے ہمارے لئے کچھ مزدوری ہے اگر ہم غالب ہوئے. کہا ڈالو پھر اجب انہوں نےڈالا باندھ دیا لوگوں کی آنکھوں کو اور ان کو ڈرا
دیا اور لائے بڑا جادو
قالَ موسىٰ أَتَقولونَ لِلحَقِّ لَمّا جاءَكُم ۖ أَسِحرٌ هٰذا وَلا يُفلِحُ السّٰحِرونَ {10:77} |
کہا موسٰی نے کیا تم یہ کہتے ہو حق بات کو جب وہ پہنچے تمہارے پاس کیا یہ جادو ہے اور نجات نہیں پاتے جادو کرنے والے |
فَلَمّا أَلقَوا قالَ موسىٰ ما جِئتُم بِهِ السِّحرُ ۖ إِنَّ اللَّهَ سَيُبطِلُهُ ۖ إِنَّ اللَّهَ لا يُصلِحُ عَمَلَ المُفسِدينَ {10:81} |
پھر جب انہوں نے ڈالا موسٰی بولا کہ جو تم لائے ہو سو جادو ہے، اب اللہ اسکو بگاڑتا ہے بیشک اللہ نہیں سنوارتا شریروں کے کام |
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ
وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ {3:31} قُلْ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا
يُحِبُّ ٱلْكَٰفِرِينَ {3:32}
(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا
بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان
ہے. کہہ دو کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو خدا بھی کافروں کو دوست
نہیں رکھتا
لَهُمُ ٱلْبُشْرَىٰ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَفِى ٱلْءَاخِرَةِ...{10:64}
ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔
ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔
عقیدہ (۲۱): ولی لوگوں کو بعض بھید کی باتیں سوتے اور جاگتے میں معلوم ہوجاتی ہیں، اسکو "کشف اور الہام" کہتے ہیں اگر وہ شرع کے موافق ہے تو قبول ہے اور اگر شرع کے خلاف ہے تو رَد ہے۔
(لیکن یہ کشف یا الہام کوئی شرعی دلائل سے نہیں کہ ان سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوسکتا، یہ مثبت احکام نہیں مظہر احکام اسرار شرعی ہیں.
حوالہ
القرآن :
وَلا يُحيطونَ بِشَيءٍ مِن عِلمِهِ إِلّا بِما شاءَ [ البقرة:255]؛
اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل(بخاری)، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الطَّيِّبِ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سَلَّامٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ ، ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ سورة الحجر آية 75 " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَفْسِيرِ هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ سورة الحجر آية 75 ، قَالَ : لِلْمُتَفَرِّسِينَ .
ترجمہ :
حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: بچو (ڈرو) مومن کی فراست سے پس بےشک وہ دیکھتا ہے الله کی روشنی (نور) سے. پھر (نبی نے قرآن کی یہ آیت) قرأت فرمائی: بےشک اس میں یقیناً نشیانیاں ہیں دھیان کرنے (یعنی فراست) والوں کے لیے.(سورۃ الحجر:75)
«مِنْ عَمِلَ بِمَا عَلِمَ وَرَّثَهُ اللَّهُ عِلْمَ مَا لَمْ يَعْلَمْ»
ترجمہ:
جو شخص عمل کرتا ہے اس پر جو وہ جانتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو اس علم کا وارث بناتا ہے جو وہ نہیں جانتا۔
[ذكره الحارث المحاسبي في رسالة المسترشدين ص 100 ، والكلاباذي في بحر الفوائد ص 100 ، والطوسي في اللمع ص 100 ، والغزالي في إحياء علوم الدين ص 106 / 1 ، وابن عربي في تفسيره ص 13 / 1 ، وصالح الجعفري في المنتقى النفيس ص 22]
قرآنی گواہی:
اور سلیمان کو داؤد کی وراثت ملی اور انہوں نے کہا : اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔۔۔
[سورۃ النمل:16]
اور جنہوں نے محنت کی ہمارے واسطے ہم سجھا دیں گے ان کو اپنی راہیں۔۔۔۔
تب ان(موسیٰ) کو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ (خضر) ملا جس کو ہم نے اپنی خصوصی رحمت سے نوازا تھا، اور خاص اپنی طرف سے ایک علم سکھایا تھا۔
(دوسری طرف) جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان کے ایمان کی وجہ سے ان کا پروردگار انہیں اس کی ہدایت دے گا کہ نعمتوں سے بھرے باغات میں ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔
[سورۃ یونس:9]
انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا۔
[سورة العلق:5]
۔۔۔اور اللہ کا خوف دل میں رکھو، اللہ تمہیں تعلیم دیتا ہے۔۔۔
[سورۃ البقرۃ:282]
اور جن لوگوں نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا ہے اللہ نے انہیں ہدایت میں اور ترقی دی ہے۔۔۔۔
[سورۃ محمد:17]
وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه سلم قال : ((الْعِلْمُ حَيَاةُ الإِسْلَامِ وَعِمَادُ الإيمَانِ وَمَنْ عَلِمَ عِلْماً أَتَمَّ الله لَهُ أَجْرَهُ وَمَنْ تَعَلَّمَ فَعَمِلَ عَلَّمَهُ الله مَالَمْ يَعْلَمْ))
ترجمہ:
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: علم اسلام کی زندگی ہے، اور ایمان کا ستون (بنیاد وسہارا) ہے، اور جو شخص علم حاصل کرتا ہے اللہ تعالی قیامت کے دن اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا، اور جو شخص علم حاصل کرکے اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالی کا حق بنتا ہے کہ اسے وہ علم بھی عطا کرے جو وہ نہیں حاصل کر سکا۔
[جامع الأحاديث-السيوطي:14492، زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس-ابن حجر العسقلاني:2045]
الدر المنثور في التفسير بالمأثور=سورۃ البقرۃ=آیۃ 282
اصول حدیث کے مطابق صحیح مضمون کی ضعیف حدیث بھی مقبول ہوتی ہے:
(وہ ہیں) جو اسناد کی حیثیت سے مردود ، معنا کے لحاظ سے مقبول ہیں۔
[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٣]
چونکہ علماء نے اس کو قبول کیا ہے، سو اس حدیث کو اسناد کے لحاظ سے مردود اور معنا کے حثیت سے قبول کیا ہے.
[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٣]
عقیدہ (۲۲):
اللہ اور رسول نے دین کی سب باتیں قرآن و حدیث میں بندوں کو بتادیں۔ اب کوئی نئی بات دین میں نکالنا درست نہیں۔ ایسی نئی بات کو بدعت کہتے ہیں۔ بدعت بہت بڑا گناہ ہے۔
حوالہ
حضرت مالک بن انسؓ فرماتے ہیں:
مَنْ أَحْدَثَ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ شَيْئًا لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ سَلَفُهَا فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ خَانَ الرِّسَالَةَ
ترجمہ:
جس نے اس امت میں کوئی نئی بات نکالی جس پر اس کے پہلے گذرنے والے نہ تھے تو اس نے دعویٰ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت کی۔
[الفروق للقرافي:4/ 225]
اللہ پاک نے نبی کی امانتداری کی شہادت دیتے فرمایا:
اور وہ غیب کی باتوں کے بارے میں بخیل بھی نہیں ہیں۔
[سورۃ التکویر:24]
"من ابتدع في الإسلام بدعةً يراها حسنة فقد زعم أن محمدًا صلى الله عليه وسلم خان الرسالة، لأن الله يقول: "اليوم أكملت لكم دينكم..." (سورۃ المائدة/3) فما لم يكن يومئذ دينًا فلا يكون اليوم دينًا".
ترجمہ:
جس نے اسلام میں کوئی بدعت نکالی، جس کو وہ اچھا سمجھتا ہے، تو گویا اس نے یہ گمان کیا حضرت محمّد ﷺ نے رسالت کی ادائیگی میں خیانت کی۔ کیونکہ الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ: "آج کے دیں میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا..."(سورۃ المائدہ:٣)، پس جو چیز اس وقت دین نہ تھی آج بھی ہرگز دین نہیںہوسکتی۔
[الاعتصام للشاطبي ت الهلالي:1/ 65، سلسلة الآثار الصحيحة:1/ 27]
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ "
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍۢ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌۭ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
{4:59}
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالیٰ) کا اور حکم مانو رسول (ﷺ) کا اور اولوا الامر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے لوٹاؤ اللہ (تعالیٰ) اور رسول (ﷺ) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.
[سورہ-النساء:٥٩]
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو چیزیں ہیں ایک کلام اور دوسرا طریقہ، پس سب سے بہتر کلام اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر طریقہ محمد کا طریقہ ہے، خبردار نئی نئی باتوں سے بچنا کیونکہ بدترین کام دین میں نئی چیز پیدا کرنا ہے جبکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے دھیان رکھنا کہ طویل طویل امیدیں باندھنے نہ لگ جانا مبادا کہ تمہارے دل سخت ہوجائیں خبردار وہ آنے والی (موت) قریب ہے دور تو وہ چیز ہے جو پیش آنے والی نہیں ہے ، آگاہ رہو بدبخت وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں بدبخت ہوگیا اور خوش بخت وہ ہے جو اپنے غیر سے نصیحت حاصل کرے، خبردار مومن مسلمان کے ساتھ قتال کفر ہے اور اس کو گالی دینا فسق ہے کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے آگاہ رہو اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاؤ کیونکہ جھوٹ نہ سنجیدگی کی حالت میں جائز ہے نہ ہنسی مذاق میں کوئی شخص اپنے بچے سے ایسا وعدہ نہ کرے کہ پھر اسے پورا نہ کرے کیونکہ جھوٹ نافرمانی تک لے جاتا ہے اور نافرمانی جہنم تک لے جاتی ہے اور سچ نیکی تک لے جاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور سچے شخص کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے سچ کہا بھلائی کی جبکہ جھوٹے کے لئے کہا جاتا ہے کہ اسے جھوٹ بولا اور نافرمانی کی ، خبردار بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ يَعْنِى ابْنَ زَبْرٍ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي الْمُطَاعِ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ ، يَقُولُ : قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ، فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ ، وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ ، فَقِيلَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَعَظْتَنَا مَوْعِظَةَ مُوَدِّعٍ ، فَاعْهَدْ إِلَيْنَا بِعَهْدٍ ، فَقَالَ : " عَلَيْكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ ، وَالسَّمْعِ ، وَالطَّاعَةِ ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا ، وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي ، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ " .
[سنن ابن ماجه » كِتَاب ابْنُ مَاجَهْ » بَاب اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ ...، رقم الحديث: 42]
حضرت عرباض بن ساریہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے ایسا جامع وعظ کیا کہ دل کانپ اٹھے اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، عرض کیا گیا یا رسول اللہ آپ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی ہے جس طرح رخصت کرنے والا نصیحت کرتا ہے آپ ہم سے کوئی عہد لے لیں ، انہوں نے فرمایا ، اللہ کے ڈر کو مضبوطی سے پکڑو امیر کا حکم سننا اور ماننا لازم کرلو اگرچہ وہ حبشی غلام ہو۔ عنقریب تم میرے بعد سخت اختلافات دیکھو گے، پس تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑ لینا ان کے طریقہ کو دانتوں سے پکڑ لینا بدعات سے اپنے آپ کو بچانا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
[أخرجه أحمد (رقم 17142+17144+17145) ، وأبو داود (4/200، رقم 4607) ، والترمذى (5/44، رقم 2676) وقال: حسن صحيح. وابن ماجه (1/15، رقم 42) ، والحاكم (1/174، رقم 329) وقال: صحيح ليس له علة. والبيهقى (10/114، رقم 20125) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (1/178، رقم 5) ، والدارمى (1/57، رقم 95) .] المحدث : الألباني
[أخرجه أحمد (رقم 17142+17144+17145) ، وأبو داود (4/200، رقم 4607) ، والترمذى (5/44، رقم 2676) وقال: حسن صحيح. وابن ماجه (1/15، رقم 42) ، والحاكم (1/174، رقم 329) وقال: صحيح ليس له علة. والبيهقى (10/114، رقم 20125) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (1/178، رقم 5) ، والدارمى (1/57، رقم 95) .] المحدث : الألباني
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 937 ، 2735 خلاصة حكم المحدث :إسناده صحيح رجاله ثقات
المصدر : صحيح الترغيب الصفحة أو الرقم: 37 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المصدر : صحيح الترغيب الصفحة أو الرقم: 37 خلاصة حكم المحدث : صحيح
عقیدہ (۲۳):
اللہ تعالیٰ نے بہت سی چھوٹی بڑی کتابیں آسمان سے جبرئیل کی معرفت بہت سے پیغمبروں پر اتاریں تاکہ وہ اپنی اپنی امتوں کو دین کی باتیں سنائیں۔ ان میں چار کتابیں بہت مشہور ہیں۔ (۱) توریت موسٰی علیہ السلام کو ملی۔ (۲) زبور داؤد علیہ السلام کو۔ (۳) انجیل عیسٰی علیہ السلام کو ۔(۴) قرآن ہمارے پیغمبر محمد ﷺ کو۔ اور قرآن مجید آخری کتاب ہے، اب کوئی کتاب آسمان سے نہ آئے گی۔ قیامت تک قرآن ہی کا حکم چلتا رہے گا۔ دوسری کتابوں کو گمراہ لوگوں نے بہت کچھ بدل ڈالا۔ مگر قرآنِ مجید کی نگہبانی کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے، اس کو کوئی بدل نہیں سکتا۔
حوالہ
وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ {البقره:٤}
اور جو کتاب (اے محمد) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں.
قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَه مُسْلِمُوْنَ{البقرہ ١٣٦}
تم کہہ دو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو اترا ہم پر اور جو اترا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد پر اور جو ملا موسیٰ کو اور عیسیٰ کو اور جو ملا دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے ہم فرق نہیں کرتے ان سب میں سے ایک میں بھی اور ہم اسی پروردگار کے فرمانبردار ہیں
اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّنَ مِنْۢ بَعْدِه ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ۚ وَاٰتَيْنَا دَاودَ زَبُوْرًا {النساء:١٦٣}
ہم نے وحی بھیجی تیری طرف ف٥ جیسے وحی بھیجی نوح پر اور ان نبیوں پر جو اس کے بعد ہوئے ف ٦ اور وحی بھیجی ابراہیم پر اور اسماعیل پر اور اسحاق پر اور یعقوب پر اور اس کی اولاد پر اور عیسیٰ پر اور ایوب پر اور یونس پر اور ہارون پر اور سلیمان پر اور ہم نے دی داؤد کو زبور
وَقَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ ۠ وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًى وَّنُوْرٌ ۙ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَهُدًى وَّمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ {المائدة: ٤٦}
اور پیچھے بھیجا ہم نے انہی کے قدموں پر عیسیٰ مریم کے بیٹے کو تصدیق کرنے والا تورات کی جو آگے سے تھی اور اس کو دی ہم نے انجیل جس میں ہدایت اور روشنی تھی اور تصدیق کرتی تھی اپنے سے اگلی کتاب تورات کی اور راہ بتلانے والی اور نصیحت تھی ڈرنے والوں کو
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۭ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۭوَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ {المائدة: ٤٨}
اور تجھ پر اتاری ہم نے کتاب سچی تصدیق کرنے والی سابقہ کتابوں کی اور ان کے مضامین پر نگہبان سو تو حکم کر ان میں موافق اس کے جو کہ اتارا اللہ نے اور ان کی خوشی پر مت چل چھوڑ کر سیدھا راستہ جو تیرے پاس آیا ہر ایک کو تم میں سے دیا ہم نے ایک دستور اور راہ اور اللہ چاہتا تو تم کو ایک دین پر کر دیتا لیکن تم کو آزمانا چاہتا ہے اپنے دیے ہوئے حکموں میں سو تم دوڑ کر لو خوبیاں اللہ کے پاس تم سب کو پہنچنا ہے پھر جتاوے گا جس بات میں تم کو اختلاف تھا
وَكَتَبْنَا لَه فِي الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ...{الأعراف:١٤٥}
اور لکھ دی ہم نے اس کی تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور تفصیل ہر چیز کی
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِـيَةً ۚ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِه ۙ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِه ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰي خَاۗىِٕنَةٍ مِّنْهُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ {المائدة: ١٣}
پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرما دی اور ان کے دل سخت کر دیئے کہ وہ کلام کو اپنی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے ان کی ایک نہ ایک خیانت تجھے ملتی رہے گی ہاں تھوڑے سے ایسے نہیں بھی ہیں پس تو انہیں معاف کرتا رہ بیشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَه لَحٰفِظُوْنَ {الحجر: ٩}
ہم نے آپ اتاری ہے یہ نصیحت اور ہم آپ اس کے نگہبان ہیں
عقیدہ (۲۴):
ہمارے پیغمبر ﷺ کو جن جن (ایمان کی حالت میں مرنے والے) مسلمانوں نے دیکھا ہے ان کو "صحابی" کہتے ہیں۔ انکی بڑی بڑی بزرگیاں آئی ہیں۔ ان سب سے محبت اور اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ اگر انکے آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا سننےمیں آئےتو اسکو بھول چو ک سمجھے۔ انکی کوئی برائی نہ کرے ان سب میں سب سے بڑھ کر چار صحابی ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ۔ یہ پیغمبر صاحب کے بعد انکی جگہ بیٹھے اور دین کا بندوبست کیا اسلئے یہ اوّل خلیفہ کہلاتے ہیں۔ تمام امت میں یہ سب سے بہتر ہیں۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔ یہ دوسرے خلیفہ ہیں، ان کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ۔ یہ تیسرے خلیفہ ہیں۔ ان کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔ یہ چوتھے خلیفہ ہیں۔
حوالہ
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ {التوبه: ١٠٠}
اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلی ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ اللہ راضی ہوا اُن سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور تیار کر رکھے ہیں واسطے ان کے باغ کہ بہتی ہیں نیچے ان کے نہریں رہا کریں انہی میں ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی
سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي , أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي "
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللهؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ کہتے سنا کہ ایسے مسلمان کو دوزخ کی آگ نہیں چھو سکے گی جس نے مجھے دیکھا ہو یا اسے دیکھا ہو جس نے مجھے دیکھا.
ایمان کی حالت میں نبی کو دیکھنے والے کو "صحابی" کہتے ہیں، اور ایمان کی حالت میں صحابی کو دیکھنے والے کو "تابعی" کہتے ہیں.
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَهَاۗءُ ۭ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُالسُّفَهَاۗءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ {البقره: ١٣}
ترجمہ:
اور جب کہا جاتا ہے ان کو ایمان لاؤ جس طرح ایمان لائے سب لوگ (يعنى صحابہ) تو (منافقین) کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح ایمان لائے بیوقوف جان لو وہی ہیں بیوقوف لیکن نہیں جانتے۔
اصحابِ رسول کو برا کہنے والے ملعون کی نہ فرض عبادت قبول نہ نفل:
عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا ، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا ، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا صَرْفًا وَلا عَدْلا " , هذا حديث صحيح الأسناد ولم يخرجاه ، وقال الذهبي "صحيح"
[مستدرك الحاكم :6656]
قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ : الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ : الْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ .
ترجمہ:
حضرت عویم بن ساعدہ رضی الله عنہ رسول الله ﷺ سے مروی ہیں کہ: بیشک الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے چن لیا، اور میرے لئے اصحاب کو چن لیا، پس ان میں بعض کو میرے وزیر اور میرے مددگار اور میرے سسرالی بنادیا، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے ، ان پر الله کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت، قیامت کے دن نہ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا، اور نہ ہی نفل.
[مستدرك الحاكم :6656]
الراوي: عبدالرحمن بن عويم بن ساعدة - المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: الأمالي المطلقة - الصفحة أو الرقم: 71 - خلاصة حكم المحدث: حسن
تخريج الحديث
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ " .
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے اصحاب کو برا نہ کہو اس لئے کہ اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو میرے اصحاب کے ایک مد (سیر بھر وزن) یا آدھے (کے ثواب) کے برابر بھی (ثواب کو) نہیں پہنچ سکتا۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَه اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ۡ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ ٻوَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔه فَاٰزَرَه فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِه يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۭ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا
ترجمہ:
محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ (یعنی صحابہ) ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اس کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا (پٹھا) نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے.
{سورۃ الفتح: ٢٩}
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ يَعْنِى ابْنَ زَبْرٍ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي الْمُطَاعِ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ ، يَقُولُ : قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ، فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ ، وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ ، فَقِيلَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَعَظْتَنَا مَوْعِظَةَ مُوَدِّعٍ ، فَاعْهَدْ إِلَيْنَا بِعَهْدٍ ، فَقَالَ : " عَلَيْكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ ، وَالسَّمْعِ ، وَالطَّاعَةِ ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا ، وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلَافًا شَدِيدًا ، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي ، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ " .
[سنن ابن ماجه » كِتَاب ابْنُ مَاجَهْ » بَاب اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ ...، رقم الحديث: 42]
حضرت عرباض بن ساریہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے ایسا جامع وعظ کیا کہ دل کانپ اٹھے اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، عرض کیا گیا یا رسول اللہ آپ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی ہے جس طرح رخصت کرنے والا نصیحت کرتا ہے آپ ہم سے کوئی عہد لے لیں ، انہوں نے فرمایا ، اللہ کے ڈر کو مضبوطی سے پکڑو امیر کا حکم سننا اور ماننا لازم کرلو اگرچہ وہ حبشی غلام ہو۔ عنقریب تم میرے بعد سخت اختلافات دیکھو گے، پس تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑ لینا ان کے طریقہ کو دانتوں سے پکڑ لینا بدعات سے اپنے آپ کو بچانا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَلا اخْتَارَ أَصْحَابِي عَلَى جَمِيعِ الْعَالَمِينَ سِوَى النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ ،
وَاخْتَارَ مِنْ أَصْحَابِي أَرْبَعَةً : أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيًّا رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ ، فَجَعَلَهُمْ أَصْحَابِي
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہؓ نے رسول الله ﷺ کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ بیشک میرے صحابہ کو الله تعالیٰ نے سارے جہاں والوں میں سے پسند فرمایا ہے سواۓ انبیاء اور رسولوں کے، اور پسند کیا میرے لئے میرے صحابہ میں سے چار کو ، (جو) ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضوان الله علیھم (ہیں)، بس بنادیا ان کو میرے ساتھی۔
[صريح السنة للطبري:23، الشريعة للآجري:1153-1154، شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين:156، أصول السنة لابن أبي زمنين:191، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:2334، فضائل الخلفاء الراشدين لأبي نعيم الأصبهاني:104+228، مجمع الزوائد:16383 وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ]
[تفسير الثعلبي، تفسير القرطبي = سورة القصص:68]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْكُمْ حُبَّ أَبِي بَكْرٍ ، وَعُمَرَ ، وَعُثْمَانَ ، وَعَلِيٍّ ، كَمَا فَرَضَ عَلَيْكُمُ الصَّلاةَ وَالصِّيَامَ ، وَالْحَجَّ ، وَالزَّكَاةَ ، فَمَنْ أَبْغَضَ وَاحِدًا مِنْهُمْ ، فَلا صَلاةَ لَهُ ، وَلا حَجَّ وَلا زَكَاةَ ، وَيُحْشَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ قَبْرِهِ إِلَى النَّارِ " .
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی الله عنہ) نے رسول الله ﷺ کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ : بیشک الله نے فرض کی ہے تم پر محبت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی (رضی الله عنھم) کی، جیسا کہ فرض کی تم پر نماز، روزے، حج اور زکات. پھر جس نے بغض رکھا کسی ایک سے، تو نہ اس کی نماز ہے، نہ حج اور نہ زکات. اور وہ اٹھایا جاۓگا قیامت کے دن اپنی قبر سے آگ (جہنم) کی طرف
عقیدہ (۲۵):
صحابی کا اتنا بڑا رتبہ ہے کہ بڑے سے بڑا ولی بھی ادنٰی درجہ کے صحابی کے برابر مرتبے میں نہیں پہنچ سکتا۔
حوالہ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ " .
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے اصحاب کو برا نہ کہو اس لئے کہ اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو میرے اصحاب کے ایک مد (سیر بھر وزن) یا آدھے (کے ثواب) کے برابر بھی (ثواب کو) نہیں پہنچ سکتا۔
عقیدہ (۲۶):
پیغمبر صاحب کی اولاد اور بیبیاں سب تعظیم کے لائق ہیں اور اولاد میں سب سے بڑا رتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ہے اور بیبیوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا۔
حوالہ
القرآن :
...اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴿ۚالأحزاب : ۳۳﴾
ترجمہ :
اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کردے تم کو ایک ستھرائی سے
عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ : مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ ، وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ ".
ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ساری دنیا کی عورتوں میں سے تمہیں مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، اور فرعون کی بیوی آسیہ کافی ہیں۔
[سنن الترمذي:3878) وقال: حسن صحيح].
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ " .
ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عائشہ ؓ کی فضیلت باقی عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت اور تمام کھانوں پر۔
[صحيح البخاري » كِتَاب الْمَنَاقِبِ » بَاب فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، رقم الحديث: 3770]
[صحيح البخاري » كِتَاب الْمَنَاقِبِ » بَاب فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، رقم الحديث: 3770]
عقیدہ (۲۷):
ایمان اس وقت درست ہوتا ہے کہ اللہ و رسول ﷺ کو سب باتوں میں سچا سمجھے اور ان سب کو مان لے۔ اللہ و رسول ﷺ کی کسی بات میں میں شک کرنا یا اس کو جھٹلانا یا اس میں عیب نکالنا یا اس کے ساتھ مذاق اڑانا ان سب باتوں سے ایمان جاتا رہتا ہے۔
حوالہ
القرآن :
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ [سورۃ الحجرات : ۱۵]
ترجمہ :
ایمان والے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اسکے رسول پر پھر شبہ نہ لائے اور لڑے اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے وہ لوگ جو ہیں وہی ہیں سچے
القرآن :
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُجۡرِمِیۡنَ [سورۃ الأعراف : ۴۰]
ترجمہ :
بیشک جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور ان کے مقابلہ میں تکبر کیا نہ کھولے جائیں گے انکے لئےدروازے آسمان کے اور نہ داخل ہوں گے جنت میں یہاں تک کہ گھس جائے اونٹ سوئی کے ناکے میں اور ہم یوں بدلا دیتے ہیں گنہگاروں کو
القرآن :
... قُلۡ اَ بِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمۡ تَسۡتَہۡزِءُوۡنَ [سورۃ التوبة : ٦٥]
ترجمہ :
... تو کہہ کیا اللہ سے اور اسکے حکموں سے اور اسکے رسول سے تم ٹھٹھے کرتے تھے
عقیدہ (۲۸): قرآن و حدیث کے کھلے کھلے مطلب کو نہ ماننا اور اینچ پینچ کر کے اپنے مطلب کے معنیٰ گھڑنا بددینی کی بات ہے۔
حوالہ
القرآن :
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُلۡحِدُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخۡفَوۡنَ عَلَیۡنَا ؕ اَفَمَنۡ یُّلۡقٰی فِی النَّارِ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ یَّاۡتِیۡۤ اٰمِنًا یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِعۡمَلُوۡا مَا شِئۡتُمۡ ۙ اِنَّہٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ [سورۃحم السجدہ : ۴۰]
ترجمہ :
جو لوگ ٹیڑھے چلتے ہیں ہماری باتوں میں وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں بھلا ایک جو پڑتا ہے آگ میں وہ بہتر یا ایک جو آئے گا امن سے دن قیامت کے کئے جاؤ جو چاہو بیشک جو تم کرتے ہو وہ دیکھتا ہے
عقیدہ (۲۹):
گناہ کو حلال سمجھنے سے ایمان جاتا رہتا ہے۔
حوالہ
القرآن :
قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ... [سورۃالتوبہ : ۲۹]
ترجمہ :
اور لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ حرام جانتے ہیں اسکو جس کو حرام کیا اللہ نے اور اسکے رسول نے ۔۔۔
[صحيح مسلم » كِتَاب الإِيمَانِ » بَاب بَيَانِ كَوْنِ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ ... رقم الحديث: 73]
حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ ‘‘تم میں سے جو کوئی منکر کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے ہاتھ سے روکے ، اگر اس کی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے اور اس کی بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کا ازالہ کرے (یعنی خود ان گناہوں و بدعات میں شرکت نہ کرے) اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے’’﴿مسلم:73﴾
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:
”إِذَا استحلَّتْ هذه الأمْةُ الخَمر بالنبيذِ، والرّبا بالبَيِع، والسحت بالهديةِ، واتجرُوا بالزَّكَاةِ، فعندَ ذلك هلاكُهُم ليزدادوا إِثمًا“
ترجمہ:
”جب یہ امت شراب کو مشروب کے نام سے، سود کو منافع کے نام سے اور رشوت کو تحفے کے نام سے حلال کرلے گی اور مالِ زکوة سے تجارت کرنے لگے گی تو یہ ان کی ہلاکت کا وقت ہوگا، گناہوں میں زیادتی اور ترقی کے سبب۔“
[جامع الأحاديث-السيوطي:1319، زهر الفردوس-ابن حجر العسقلاني:442]
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إذا استحلَّت أمَّتي خمسًا فعليهم الدَّمارُ إذا ظهر التَّلاعُنُ وشرِبوا الخمورَ ولبَسوا الحريرَ واتَّخذوا القَيْناتِ واكتفَى الرِّجالُ بالرِّجالِ والنِّساءُ بالنِّساءِ۔
ترجمہ:
جب میری امت پانچ (5) چیزوں کو حلال سمجھ لےگی تو ان کی تباہی ہے: (1) جب ان میں ایک دوسرے پر لعن طعن شروع ہوجائے، (2) وہ ریشم پہننے لگیں، (3) گانے بجانے والی رکھنے لگیں، (4) شرابیں پیئیں، (5) مرد مردوں سے اور عورتیں عورتوں سے فائدہ اٹھانے لگیں۔
[شعب الإيمان-البيهقي:5469(5086)، صحيح الترغيب والترهيب، حدیث:2054+2386]
۔۔۔ فبشرهم بريح حمراء تخرج من قبل المشرق فيمسخ بعضهم ويخسف ببعض، ذلك بما عصوا وكانوا يعتدون.
ترجمہ:
تو اس وقت انہیں سرخ آندھی کی اطلاع دے دو جو مشرق کی جانب سے نکلے گی، کچھ لوگوں کے چہرے بگاڑدیے جائیں گے، کچھ کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرنے لگے تھے۔
[جامع الأحاديث-السيوطي:1326، الفردوس بمأثور الخطاب-الديلمي:1296]
انحطاط و تنزل کی انتہاء:
رسول الله ﷺ نے فرمایا: ”اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی، صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا: جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کروگے، صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی؟ جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے۔“
أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عِيسَى الْمَدِينِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كَيْفَ بِكُمْ إِذَا فَسَقَ فِتْيَانُكُمْ ، وَطَغَى نِسَاؤُكُمْ ؟ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، " وَأَشَدُّ مِنْهُ ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا لَمْ تَأْمُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ؟ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ ذَلِكَ لَكَائِنٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، " وَأَشَدُّ مِنْهُ ، كَيْفَ بِكُمْ إِذَا رَأَيْتُمُ الْمُنْكَرَ مَعْرُوفًا ، وَالْمَعْرُوفَ مُنْكَرًا ؟ " .
[البدع ،لابن وضاح (سنة الوفاة:287) » بَابٌ فِي نَقْضِ عُرَى الإِسْلامِ وَدَفْنِ الدِّينِ ... رقم الحديث: 154]
[الفتن، لنعيم بن حماد (سنة الوفاة:228) » رقم الحديث: 228]
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، لابن أبي الدنيا (سنة الوفاة:281) » رقم الحديث: 33، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ (صدي بن عجلان)
الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، لابن أبي الدنيا (سنة الوفاة:281) » رقم الحديث: 85، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ]
[مسند أبي يعلى الموصلي (سنة الوفاة:307) » تَابِعُ مُسْنَدِ أَبِي هُرَيْرَةَ (عبد الرحمن بن صخر) رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ... رقم الحديث: 6384]
[المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء (سنة الوفاة:807) » كِتَابُ الْفِتَنِ ... رقم الحديث: 1608]
[المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الْهَاء » مَنِ اسْمُهُ : هَمَّامٌ ۔۔۔۔ رقم الحديث: 9558(9325)]
عقیدہ (۳۰):
گناہ چاہے جتنا بڑا ہو جب تک اس کو برا سمجھتا رہے ایمان نہیں جاتا۔ البتہ کمزور ہو جاتا ہے۔
حوالہ
القرآن :
۔۔۔ وَلٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمٰنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّهَ إِلَيكُمُ الكُفرَ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ ۚ أُولٰئِكَ هُمُ الرّٰشِدونَ (سورۃ الحجرات:7)
لیکن اللہ نے تم کو ایمان عزیز بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کردیا۔ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ : مَا الإِيمَانُ ؟ , فَقَالَ : " مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ ، وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ " . هَذِهِ الأَحَادِيثُ كُلُّهَا صَحِيحَةٌ مُتَّصِلَةٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ .
[المستدرك على الصحيحين، رقم الحديث: 33]
حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جسے خوشی (محسوس) ہوتی ہو اپنی نیکی سے اور بری (محسوس) ہوتی ہو اپنی برائی (تاکہ توبہ کیلئے بےچین ہوجائے) تو وہ مومن ہے۔
[أخرجه الشافعى (1/244) ، والطيالسى (ص 7، رقم 31) ، والحميدى (1/19، رقم 32) ، وأحمد (1/18، رقم 114) ، والحارث كما بغية الباحث (2/635، رقم 607) ، وعبد بن حميد (ص 37، رقم 23) ، والترمذى (4/465، رقم 2165) وقال: حسن صحيح غريب. وأبو يعلى (1/131، رقم 141) ، وابن حبان (16/239، رقم 7254) ، والدارقطنى فى العلل (2/65، رقم 111) ، والحاكم (1/197، رقم 387) وقال: صحيح على شرط الشيخين. والبيهقى (7/91، رقم 13299) . وأخرجه أيضًا: النسائى فى الكبرى (5/388، رقم 9225) .حديث أبى موسى: أخرجه الطبرانى كما فى مجمع الزوائد (1/86) قال الهيثمى: رجاله رجال الصحيح ما خلا المطلب بن عبد الله فإنه ثقة ولكنه يدلس ولم يسمع من أبى موسى فهو منقطع. وأخرجه أيضًا: البزار (8/72، رقم 3068) .
حديث جابر: أخرجه الخطيب (11/138) .]
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَكونوا كَالَّذينَ كَفَروا۔۔۔(آلِ عمران:156)
اے ایمان والو! تم نہ ہو ان کی طرح جو کافر ہوئے۔۔۔
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا ءامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ وَالكِتٰبِ الَّذى نَزَّلَ عَلىٰ رَسولِهِ وَالكِتٰبِ الَّذى أَنزَلَ مِن قَبلُ ۚ (النساء:136)
اے ایمان والو! ایمان(کامل وسچا) لاؤ اللہ پر اور اسکے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی ہے اپنے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی تھی پہلے اور جو کوئی یقین نہ رکھے اللہ پر اور اسکے فرشتوں پر اور کتابوں پر۔
القرآن :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿التحريم : ۸﴾
ترجمہ :
اے ایمان والو توبہ کرو اللہ کی طرف صاف دل کی توبہ، امید ہے تمہارا رب اتار دے تم پر سے تمہاری برائیاں اور داخل کرے تم کو باغوں میں جنکے نیچے بہتی ہیں نہریں جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور اُن لوگوں کو جو یقین لاتے ہیں اُسکے ساتھ, اُنکی روشنی دوڑتی ہے اُنکے آگے اور اُنکے داہنے, کہتے ہیں اے رب ہمارے پوری کر دے ہماری روشنی اور معاف کر ہم کو بیشک تو سب کچھ کر سکتا ہے.
فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ : أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ "۔
ترجمہ :
رسول الله ﷺ نے فرمایا : جو دیکھے کوئی برائی پس روکے اسے اپنے ہاتھ سے، پس اگر نہ ہو استطاعت اس کی تو روکے اسے اپنی زبان سے، پس اگر نہ ہو استطاعت اس کی بھی تو اپنے دل سے (برا جانے)، اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے.
عقیدہ (۳۱):
اللہ تعالیٰ سے نڈر ہوجانا یا نا امید ہوجانا کفر ہے۔
حوالہ
القرآن : اَفَاَمِنُوۡا مَکۡرَ اللّٰہِ ۚ فَلَا یَاۡمَنُ مَکۡرَ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿الاعراف : ۹۹﴾
ترجمہ : کیا یہ لوگ اللہ کے داؤں (تدبیر) کا ڈر نہیں رکھتے سن لو کہ اللہ کے داؤں (تدبیر) سے وہی لوگ نڈر ہوتے ہیں جو خسارہ پانے والے ہیں۔
القرآن : ... وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿یوسف : ۸۷﴾
ترجمہ :
اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا کہ اللہ کی رحمت سے تو کافر لوگ ہی ناامید ہوا کرتے ہیں۔
عقیدہ (۳۲):
کسی سے غیب کی باتیں پوچھنا اور اور اس کا یقین کرلینا کفر ہے۔
حوالہ
عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ أَتَى كَاهِنًا " ، قَالَ مُوسَى فِي حَدِيثِهِ : فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ ثُمَّ اتَّفَقَا أَوْ أَتَى امْرَأَةً ، قَالَ مُسَدَّدٌ : امْرَأَتَهُ حَائِضًا أَوْ أَتَى امْرَأَةً ، قَالَ مُسَدَّدٌ : امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ .
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کاہنوں کے پاس (آئندہ کی باتیں پوچھنے کے لئے) جائے، موسیٰ بن اسماعیل نے اپنی روایت میں فرماتے ہیں کہ اور ان کے کہے کی تصدیق بھی کرے یا کسی عورت سے جماع کرے، جبکہ مسدد اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کرے یا اپنی بیوی سے اس کی دبر میں جماع کرے تو بیشک وہ اس چیز سے جو محمد ﷺ پر نازل کی گئی ہے بری ہے۔ (یعنی قرآن پاک کے خلاف اس کے یہ اعمال ہیں)
عقیدہ (۳۳):
غیب کا حال سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ البتہ نبیوں کو وحی سے اور ولیوں کو کشف اور الہام سے اور عام لوگوں کو نشانیوں سے بعضی باتیں معلوم بھی ہوجاتی ہیں۔
حوالہ
القرآن :
قُلۡ لَّا یَعۡلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ الۡغَیۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ؕ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿النمل : ٦٥﴾
کہدو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔
عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙالجن : ٢٦﴾ اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ ... (الجن : ٢٧)
ترجمہ : وہی غیب کا جاننے والا ہے سو کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا۔ 0 ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے...
اِذۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّکَ مَا یُوۡحٰۤی ﴿ۙطه : ۳۸﴾
جب ہم نے تمہاری والدہ کو الہام کیا تھا جو تمہیں بتایا جاتا ہے۔
... وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ ... (البقره : ٢٥٥)
ترجمہ : اور لوگ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے
عقیدہ (۳۴):
کسی کا نام لیکر کافر کہنا یا لعنت کرنا بڑا گناہ ہے۔ ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ظالموں پر لعنت، جھوٹوں پر لعنت۔ مگر جن کا نام لے کر اللہ و رسول ﷺ نے لعنت کی ہے یا اُن کے کافر ہونے کی خبر دی ہے، اُن کو کافر، ملعون کہنا گناہ نہیں۔
حوالہ
القرآن : إِنَّ الَّذينَ كَفَروا وَماتوا وَهُم كُفّارٌ أُولٰئِكَ عَلَيهِم لَعنَةُ اللَّهِ وَالمَلٰئِكَةِ وَالنّاسِ أَجمَعينَ {2:161} |
بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور مر گئے کافر ہی انہی پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور لوگوں کی سب کی۔
... اَلَا لَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙھود : ۱۸﴾ {7:44}
ترجمہ :
سن رکھو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
فَنَجعَل لَعنَتَ اللَّهِ عَلَى الكٰذِبينَ {3:61}
اور لعنت کریں اللہ کی ان پر کہ جو جھوٹے ہیں
موت کے بعد جی اٹھنے پر ایمان
عقیدہ (۳۵):
جب آدمی مرجاتا ہے اگر گاڑا جائے تو گاڑنے کے بعد اور نہ گاڑا جائے تو جس حال میں ہو اُس کے پاس دو فرشتے جن میں سے ایک کو منکر دوسرے کو نکیر کہتے ہیں، آکر پوچھتے ہیں کہ تیرا پروردگار کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ حضرت محمد ﷺ کو پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں؟ اگر مردہ ایماندار ہو تو ٹھیک ٹھیک جواب دیتا ہے۔ پھر اس کے لیے سب طرح کا چین ہے۔ جنت کی طرف کھڑکی کھول دیتے ہیں جس سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور خوشبو آتی رہتی ہے اور وہ مزے میں پڑ کر سو رہتا ہے اور اگر مردہ ایماندار نہ ہو تو وہ سب باتوں میں یہی کہتا ہے کہ مجھے کچھ خبر نہیں۔ پھر اُس پر بڑی سختی اور عذاب قیامت تک ہوتا رہتا ہے۔ اور بعضوں کو اللہ تعالیٰ اس امتحان سے معاف کردیتا ہے مگر یہ سب باتیں مردہ کو معلوم ہوتی ہیں، ہم لوگ نہیں دیکھتے۔ جیسے سوتا آدمی خواب میں سب کچھ دیکھتا ہے اور جاگتا آدمی اُس کے پاس بےخبر بیٹھا رہتا ہے۔
حوالہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ ، أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ : مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ : أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ ، فَيُقَالُ لَهُ : انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا ، قَالَ قَتَادَةُ : وَذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ , قَالَ : وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ : مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ ؟ فَيَقُولُ : لَا أَدْرِي ، كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ ، فَيُقَالُ : لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً ، فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْجَنَائِزِ » بَاب مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ.... رقم الحديث: 1291]؛
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب بندہ اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے رخصت ہوتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے وہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو اس شخص (ﷺ) کے متعلق کیا جانتا ہے ؟ مومن تو یہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں تو اسے کہا جاتا ہے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کی طرف دیکھو اللہ نے اس کے بدلے تمہیں جنت عطا کی وہ شخص یہ دونوں چیزیں دیکھتا ہے۔ قتادہ نے کہا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اس کی قبر میں کشادگی پیدا کردیتی ہے پھر انس کی حدیث کی طرف رجوع کیا اور منافق یا کافر سے کہا جاتا ہے کہ اس شخص کے متعلق تو کیا کہتا تھا ؟ وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے تو اس سے کہا جاتا ہے تو نے نہ تو عقل سے سمجھا اور نہ عقل سے سمجھنے کی کوشش کی اور لوہے کے ہتھوڑوں سے اسے مارا جاتا پس وہ اس طرح چلاتا ہے کہ سوائے انس وجن کے تمام چیزیں جو اس کے قریب ہوتی ہیں سنتی ہیں۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ " .
[جامع الترمذي » كِتَاب الْجَنَائِزِ » بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ... رقم الحديث: 992]؛
عَنْ مَالِكِ بْنِ هُبَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ ، فَيُصَلِّي عَلَيْهِ ثَلَاثَةُ صُفُوفٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ، إِلَّا أَوْجَبَ ".
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتے ہیں۔
[سنن أبي داود » كِتَاب الْجَنَائِزِ » بَاب فِي الصُّفُوفِ عَلَى الْجَنَازَةِ ... رقم الحديث: 2755]؛
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ ، فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا ، لَا يُشْرِكُونَ بِاللَّهِ شَيْئًا ، إِلَّا شُفِّعُوا فِيهِ " .
حضرت مالک بن ہبیرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی میت ایسی نہیں جس پر مسلمانوں کی تین صفوں نے نماز پڑھی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت واجب نہ کرلی ہو۔
[سنن أبي داود » كِتَاب الْجَنَائِزِ » بَاب فَضْلِ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ وَتَشْيِيعِهَا ... ...رقم الحديث: 2758]
عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ شُفْعَةَ ، قَالَ : لَقِيَنِي عُتْبَةُ بْنُ عَبْدٍ السُّلَمِيُّ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ لَهُ ثَلَاثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ إِلَّا تَلَقَّوْهُ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ دَخَلَ " .
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمانوں کی کوئی میت ایسی نہیں کہ جس کے جنازہ پر چالیس ایسے آدمی نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں (اور وہ اس کے حق میں دعائے مغفرت کریں) اور اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کو قبول نہ فرمائے۔
[سنن ابن ماجه » كِتَاب مَا جَاءَ فِي الْجَنَائِزِ » بَاب مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ مَنْ أُصِيبَ بِوَلَدِهِ ... رقم الحديث: 1593]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " اسْتَنْزِهُوا مِنَ الْبَوْلِ فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْهُ " .
[سنن الدارقطني » كِتَابُ الطَّهَارَةِ » بَابُ نَجَاسَةِ الْبَوْلِ وَالأَمْرِ بِالتَّنَزُّهِ ... رقم الحديث: 409]
ترجمہ :
حضرت عتبہ بن عبدالسلمیؓ بیان فرماتے تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یوں ارشاد فرماتے سنا: جس مسلمان کے تین بچے جوانی سے قبل مر جائیں تو وہ (بچوں کے والدین) جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے داخل ہونا چاہیں (مقرب فرشتے انکا) استقبال کریں گے ۔
قيلَ ادخُلِ الجَنَّةَ ۖ قالَ يٰلَيتَ قَومى يَعلَمونَ {36:26} بِما غَفَرَ لى رَبّى وَجَعَلَنى مِنَ المُكرَمينَ {36:27}؛
حکم ہوا کہ بہشت میں داخل ہوجا۔ بولا کاش! میری قوم کو خبر ہو. کہ خدا نے مجھے بخش دیا اور عزت والوں میں کیا
قرآن کریم کی درج ذیل آیات سے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ قرآن میں عذابِ قبر کا واضح ذکر ہے۔
1: ( الانعام:6 - آيت:93 )
2: ( التوبة:9 - آيت:101 )
3: ( غافر:40 - آيت:45-46 )
4: (ابراهيم:14 - آيت:27)
امام بخاری رحمة اللہ علیہ صحیح بخاری کی کتاب الجنائز کے باب "ما جاء في عذاب القبر (عذاب قبر کا بیان)" کے تحت لکھتے ہیں :
1) وقوله تعالى {اذ الظالمون في غمرات الموت والملائكة باسطو ايديهم اخرجوا انفسكم اليوم تجزون عذاب الهون} هو الهوان، والهون الرفق
اللہ تعالیٰ نے سورۂ الانعام میں فرمایا :
وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ
کاش تم ان ظالموں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں ، آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔
( الانعام:6 - آيت:93 )
یہ آیت درج کرنے کے بعد امام بخاری لکھتے ہیں :
هُونِ کے معنیٰ ھوان یعنی ذلت و رسوائی ہے اور هَون کے معنی نرمی اور ملائمت ہے۔
[صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر]
امام بخاری نے اس آیت کی جو شرح کی ہے ، اس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔
الف : عذاب ( و ثوابِ) قبر مرنے کے وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ آیت میں لفظ "الْيَوْمَ" سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
ب : (قبر کا) یہ عذاب بھی گو ذلت و رسوائی کا ہوگا تاہم اشدّ العذاب یا عذابِ عظیم (عذابِ قیامت) کی نسبت بہت ہلکا اور کمزور ہوگا۔
بحوالہ : روح ، عذابِ قبر اور سماع موتیٰ ، ص:37]
2) وقوله جل ذكره {سنعذبهم مرتين ثم يردون الى عذاب عظيم}
اللہ تعالیٰ نے سورۂ التوبہ میں فرمایا :
سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيم
ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے (یعنی دنیا میں اور قبر میں) پھر بڑے عذاب میں لوٹائے جائیں گے۔
( التوبة:9 - آيت:101 )
[صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر]
تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے دو بار کے عذاب سے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ ، قتادہ رضی اللہ اور ابن جریج رحمة اللہ اور محمد بن اسحٰق رحمة اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پہلا عذاب دنیا کا عذاب اور دوسرا قبر کا عذاب ہوگا۔
[بحوالہ : تفسیر ابن کثیر ، آیت : التوبة-101]
3) اور سورۂ مومن (غافر) میں فرمایا :
وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَاب
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب
فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لئے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
( غافر:40 - آيت:45-46 )
[صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر]
تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے اس آیت کی تشریح کے ذیل میں "عذابِ قبر" سے متعلق کئی مستند احادیث کا ذکر کرنے سے قبل لکھا ہے :
وهذه الآية أصل كبير في استدلال أهل السنة على عذاب البرزخ في القبور
یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی بہت بڑی دلیل ہے کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے۔
(بحوالہ : تفسیر ابن کثیر ، آیت : غافر-46)
4) عن البراء بن عازب ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " اذا اقعد المؤمن في قبره اتي، ثم شهد ان لا اله الا الله، وان محمدا رسول الله، فذلك قوله {يثبت الله الذين امنوا بالقول الثابت} ". حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة بهذا وزاد {يثبت الله الذين امنوا} نزلت في عذاب القبر.
ترجمہ:
1: ( الانعام:6 - آيت:93 )
2: ( التوبة:9 - آيت:101 )
3: ( غافر:40 - آيت:45-46 )
4: (ابراهيم:14 - آيت:27)
امام بخاری رحمة اللہ علیہ صحیح بخاری کی کتاب الجنائز کے باب "ما جاء في عذاب القبر (عذاب قبر کا بیان)" کے تحت لکھتے ہیں :
1) وقوله تعالى {اذ الظالمون في غمرات الموت والملائكة باسطو ايديهم اخرجوا انفسكم اليوم تجزون عذاب الهون} هو الهوان، والهون الرفق
اللہ تعالیٰ نے سورۂ الانعام میں فرمایا :
وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ
کاش تم ان ظالموں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں ، آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔
( الانعام:6 - آيت:93 )
یہ آیت درج کرنے کے بعد امام بخاری لکھتے ہیں :
هُونِ کے معنیٰ ھوان یعنی ذلت و رسوائی ہے اور هَون کے معنی نرمی اور ملائمت ہے۔
[صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر]
امام بخاری نے اس آیت کی جو شرح کی ہے ، اس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔
الف : عذاب ( و ثوابِ) قبر مرنے کے وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ آیت میں لفظ "الْيَوْمَ" سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
ب : (قبر کا) یہ عذاب بھی گو ذلت و رسوائی کا ہوگا تاہم اشدّ العذاب یا عذابِ عظیم (عذابِ قیامت) کی نسبت بہت ہلکا اور کمزور ہوگا۔
بحوالہ : روح ، عذابِ قبر اور سماع موتیٰ ، ص:37]
2) وقوله جل ذكره {سنعذبهم مرتين ثم يردون الى عذاب عظيم}
اللہ تعالیٰ نے سورۂ التوبہ میں فرمایا :
سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيم
ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے (یعنی دنیا میں اور قبر میں) پھر بڑے عذاب میں لوٹائے جائیں گے۔
( التوبة:9 - آيت:101 )
[صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر]
تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے دو بار کے عذاب سے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ ، قتادہ رضی اللہ اور ابن جریج رحمة اللہ اور محمد بن اسحٰق رحمة اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پہلا عذاب دنیا کا عذاب اور دوسرا قبر کا عذاب ہوگا۔
[بحوالہ : تفسیر ابن کثیر ، آیت : التوبة-101]
3) اور سورۂ مومن (غافر) میں فرمایا :
وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَاب
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب
فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لئے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
( غافر:40 - آيت:45-46 )
[صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر]
تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے اس آیت کی تشریح کے ذیل میں "عذابِ قبر" سے متعلق کئی مستند احادیث کا ذکر کرنے سے قبل لکھا ہے :
وهذه الآية أصل كبير في استدلال أهل السنة على عذاب البرزخ في القبور
یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی بہت بڑی دلیل ہے کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے۔
(بحوالہ : تفسیر ابن کثیر ، آیت : غافر-46)
4) عن البراء بن عازب ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " اذا اقعد المؤمن في قبره اتي، ثم شهد ان لا اله الا الله، وان محمدا رسول الله، فذلك قوله {يثبت الله الذين امنوا بالقول الثابت} ". حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة بهذا وزاد {يثبت الله الذين امنوا} نزلت في عذاب القبر.
ترجمہ:
حضرت براء بن عازب نے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
مومن جب اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ تو یہ اللہ کے اس فرمان کی تعبیر ہے جو سورۂ ابراھیم میں ہے کہ اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں ٹھیک بات یعنی توحید پر مضبوط رکھتا ہے۔
شعبہ نے یہی حدیث بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ آیت
يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ (اللہ مومنوں کو ثابت قدمی بخشتا ہے) [سورۃ ابراهيم:14 - آيت:27]
عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
مومن جب اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ تو یہ اللہ کے اس فرمان کی تعبیر ہے جو سورۂ ابراھیم میں ہے کہ اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں ٹھیک بات یعنی توحید پر مضبوط رکھتا ہے۔
شعبہ نے یہی حدیث بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ آیت
يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ (اللہ مومنوں کو ثابت قدمی بخشتا ہے) [سورۃ ابراهيم:14 - آيت:27]
عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " اسْتَنْزِهُوا مِنَ الْبَوْلِ فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْهُ " .
[سنن الدارقطني » كِتَابُ الطَّهَارَةِ » بَابُ نَجَاسَةِ الْبَوْلِ وَالأَمْرِ بِالتَّنَزُّهِ ... رقم الحديث: 409]
ترجمہ :
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا : دور (پاک) رہو پیشاب کے قطروں سے، کیونکہ بےشک عموماً عذاب قبر اس سے (نہ بچنے کے سبب) ہوتا ہے.
خلاصة حكم المحدث: [أشار في المقدمة أنه صحيح الإسناد]
خلاصة حكم المحدث: صحيح
خلاصة حكم المحدث: صحيح
عقیدہ (۳۶):
مرنے کے بعد ہر دن صُبح اور شام کے وقت مردے کا جو ٹھکانا ہے دکھلایا جاتا ہے، جنتی کو جنت دکھلا کر خوشخبری دیتے ہیں اور دوزخی کو دوزخ دکھلا کر اور حسرت بڑھاتے ہیں۔
حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : "إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ , وَالْعَشِيِّ ، إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ ، فَيُقَالُ هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " .
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر شخص کے سامنے صبح وشام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے اگر وہ اہل جنت میں سے ہو تو اہل جنت کا ٹھکانہ اور اگر اہل جہنم میں سے ہو تو اہل جہنم کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دوبارہ اٹھاۓ جانے تک تمہارا یہی ٹھکانہ ہے۔
عقیدہ (۳۷):
مردے کے لیے دعا کرنے سے، کچھ خیرخیرات دے کر بخشنے سے اس کو ثواب پہنچتا ہے اور اس سے اس کو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔
القرآن : رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخوٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمٰنِ ... [الحشر : ١٠]
اے رب! بخش ہم کو اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے داخل ہوئے ایمان میں۔
حوالہ
[مسند الشاميين للطبراني » مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ مُسْنَدِ يَعْلَى بْنِ ... رقم الحديث: 2118]؛
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ قَالَ كُلَّ يَوْمٍ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ أَلْحِقْ بِهِ مِنْ كُلِّ مُؤْمِنٍ حَسَنَةً " .
حضرت عبادہ بن صامتؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص مومن مرد اور عورت کے لیے بخشش کی دعا مانگے گا الله تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے لیے مومن مرد و عورتوں کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھے گا.
عقیدہ (۳۸):
اللہ و رسول ﷺ نے جتنی نشانیاں قیامت کی بتائی ہیں سب ضرور ہونے والی ہیں ۔ امام مہدی ؓ ظاہر ہونگے اور خوب انصاف سے بادشاہی کریں گے۔ کانا دجال (یہودی قوم سے) نکلے گا اور دنیا میں بہت فساد مچادے گا۔ اس کے مار ڈالنے کے واسطے حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمان پر سے اتریں گے اور اُس کو مارڈالیں گے۔ یاجوج ماجوج بڑے زبردست ہیں۔ وہ تمام زمین پر پھیل جائیں گے اور بڑا اودھم مچائیں گے۔ پھر اللہ کے قہر سے ہلاک ہوں گے۔ ایک عجیب طرح کا جانور زمین سے نکلے گا اور آدمیوں سے باتیں کرے گا۔ مغرب کی طرف سے آفتاب نکلے گا۔ قرآن مجید اٹھ جائے گااور تھوڑے دنوں میں سارے مسلمان مرجائیں گے اور تمام دنیا کافروں سے بھر جائے گی اور اس کے سوا اور بہت سی باتیں ہوں گی۔
حوالہ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْمَهْدِيُّ مِنِّي أَجْلَى الْجَبْهَةِ أَقْنَى الْأَنْفِ يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا يَمْلِكُ سَبْعَ سِنِينَ " .
ترجمہ :
حضرت ابوسعید خدری ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مہدی مجھ سے ہوں گے روشن پیشانی اور بلند ناک والے ہوں گے زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھریں گے جس طرح وہ ظم و جور سے بھر دی گئی تھی اور سات سال تک حکومت کریں گے۔ (پھر اس کے بعد حضرت عیسیٰ نازل ہوجائیں گے جن کی اقتداء میں حضرت مہدی ؓ دجال سے لڑیں گے)۔
عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ ، قَالَ : اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ ، فَقَالَ : " مَا تَذَاكَرُونَ ؟ " ، قَالُوا : نَذْكُرُ السَّاعَةَ ، قَالَ : " إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ ، فَذَكَرَ الدُّخَانَ ، وَالدَّجَّالَ ، وَالدَّابَّةَ ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا ، وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ ، وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ ، وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ » بَاب فِي الْآيَاتِ الَّتِي تَكُونُ قَبْلَ السَّاعَةِ ... رقم الحديث: 5166]
ترجمہ :
حضرت حذیفہ ابن اسید غفاری ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ ہماری طرف آنکلے اور پوچھا کہ تم لوگ کس چیز کا ذکر کر رہے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم قیامت کا تذکرہ کر ہے ہیں تب آپ ﷺ نے فرمایا " یقینا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیوں کو نہ دیکھ لوگے ، پھر آپ ﷺ نے ان دس نشانیوں کو اس ترتیب سے ذکر فرمایا: (١) دھواں (٢) دجال (٣) دابہ الارض (٤) سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا (٥) حضرت عیسی ابن مریم کا نازل ہونا (٦) یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا اور (چھٹی، ساتویں اور آٹھویں نشانی کے طور پر ، آپ ﷺ نے تین خسوف کا (یعنی تنی مقامات پر زمین کے دھنس جانے کا ) ذکر فرمایا ایک تو مشرق کے علاقہ میں ، دوسرے مغرب کے علاقہ میں اور تیسرے جزیرہ عرب کے علاقہ اور دسویں نشانی ، جو سب کے بعد ظاہر ہوگی ، وہ آگ ہے جو یمن کی طرف سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو گھیر ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ وہ ایک ایسی آگ ہوگی جو ( یمن کے مشہور شہر عدن کے آخری کنارے سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی نیز ایک روایت میں دسویں نشانی کے طور پریمن کی طرف سے یا عدن کے آخری کنارے سے آگ کے نمودار ہونے کے بجائے ) ایک ایسی ہوا کا ذکر کیا گیا ہے جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی ۔ "
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا ، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ " .
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا ، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ " .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا عنقریب تم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام منصف حکمران کے طور پر نزول فرمائیں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے خنزیر کو قتل کردیں گے جزیہ کو موقوف کردیں گے اور مال پانی کی طرح بہائیں گے یہاں تک کہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔
القرآن : حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَ مَاۡجُوۡجُ وَ ہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ ﴿الأنبياء:٩٦﴾
ترجمہ:-
القرآن : حَتّٰۤی اِذَا فُتِحَتۡ یَاۡجُوۡجُ وَ مَاۡجُوۡجُ وَ ہُمۡ مِّنۡ کُلِّ حَدَبٍ یَّنۡسِلُوۡنَ ﴿الأنبياء:٩٦﴾
ترجمہ:-
یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کھول دیے جاویں گے اور وہ (غایت کثرت کی وجہ سے) ہر بلندی (جیسے پہاڑ اور ٹیلہ) سے نکلتے (معلوم) ہوں گے۔
تشریح:
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنا اس وقت ہوگا جب قیامت آئے گی،اور اس کی ایک علامت یہ ہوگی کہ یاجوج اورماجوج کے وحشی قبیلے بہت بڑی تعداد میں دنیا پر حملہ آور ہوں گے او رایسا محسوس ہوگا کہ وہ ہر بلند جگہ سے پھسلتے ہوئے آرہے ہیں۔
القرآن : وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُکَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰيَاتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ(النمل:۸۲)
ترجمہ :
القرآن : وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُکَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰيَاتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ(النمل:۸۲)
ترجمہ :
او رجب اُن پر وعدۂ عذاب پورا ہوجائےگا تو ہم ان کے لئے نکالیں گے زمین سے ایک جانور،وہ اُن سے باتیں کرے گا کیونکہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہ کرتے تھے۔
تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ''قیامت سے پہلے صفا پہاڑ مکہ کا پھٹے گا اس میں سے ایک جانور نکلے گا جو لوگوں سے باتیں کرے گا کہ اب قیامت نزدیک ہے اور سچے ایمان والوں کو اور چھپے منکروں کو نشان دے کر جدا کر دے گا۔'' (موضح) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل آخر زمانہ میں طلوع الشمس من المغرب کے دن ہوگا۔ قیامت تو نام ہی اس کا ہے کہ عالم کا سب موجودہ نظام درہم برہم کر دیا جائے لہٰذا اس قسم کے خوارق پر کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیے جو قیامت کی علاماتِ قریبہ اور اس کے پیش خیمہ کے طور پر ظاہر کی جائیں گی۔ شاید ''دابۃ الارض'' کے ذریعہ سے یہ دکھلانا ہو کہ جس چیز کو تم پیغمبروں کے کہنے سے نہ مانے تھے، آج وہ ایک جانور کی زبانی ماننی پڑ رہی ہے۔ مگر اس وقت کا ماننا نافع نہیں۔ صرف مکذبین کی تجہیل و تحمیق مقصود ہے۔ ماننے کا جو وقت تھا گزر گیا۔ (تنبیہ) ''دابۃ الارض'' کے متعلق بہت سے رطب و یابس اقوال و روایات تفاسیر میں درج کی گئی ہیں۔ مگر معتبر روایات سے تقریباً اتنا ہی ثابت ہے جو حضرت شاہ صاحب نے لکھا۔ واللہ اعلم۔
القرآن : ... يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ اٰيَاتِ رَبِّکَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ ... (الأنعام:١٥٨)
ترجمہ :
تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ''قیامت سے پہلے صفا پہاڑ مکہ کا پھٹے گا اس میں سے ایک جانور نکلے گا جو لوگوں سے باتیں کرے گا کہ اب قیامت نزدیک ہے اور سچے ایمان والوں کو اور چھپے منکروں کو نشان دے کر جدا کر دے گا۔'' (موضح) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل آخر زمانہ میں طلوع الشمس من المغرب کے دن ہوگا۔ قیامت تو نام ہی اس کا ہے کہ عالم کا سب موجودہ نظام درہم برہم کر دیا جائے لہٰذا اس قسم کے خوارق پر کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیے جو قیامت کی علاماتِ قریبہ اور اس کے پیش خیمہ کے طور پر ظاہر کی جائیں گی۔ شاید ''دابۃ الارض'' کے ذریعہ سے یہ دکھلانا ہو کہ جس چیز کو تم پیغمبروں کے کہنے سے نہ مانے تھے، آج وہ ایک جانور کی زبانی ماننی پڑ رہی ہے۔ مگر اس وقت کا ماننا نافع نہیں۔ صرف مکذبین کی تجہیل و تحمیق مقصود ہے۔ ماننے کا جو وقت تھا گزر گیا۔ (تنبیہ) ''دابۃ الارض'' کے متعلق بہت سے رطب و یابس اقوال و روایات تفاسیر میں درج کی گئی ہیں۔ مگر معتبر روایات سے تقریباً اتنا ہی ثابت ہے جو حضرت شاہ صاحب نے لکھا۔ واللہ اعلم۔
القرآن : ... يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ اٰيَاتِ رَبِّکَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ ... (الأنعام:١٥٨)
ترجمہ :
... جس دن آئے گی تمہارے رب کی کوئی نشانی کسی کے کان نہ آئے گا اس کا ایمان لانا جو پہلے سے ایمان نہ لایا تھا ...
تشريح :
تشريح :
یاد رہے کہ قیامت کے نشانوں میں سے ایک نشان وہ بھی ہے جس کے ظاہر ہونے کے بعد نہ کافر کا ایمان لانا معتبر ہوگا نہ عاصی کی توبہ۔ صحیحین کی احادیث بتلاتی ہیں کہ یہ نشان آفتاب کا مغرب سے طلوع کرنا ہے۔ یعنی جب خدا کا ارادہ ہوگا کہ دنیا کو ختم کرے اور عالم کا موجودہ نظام درہم برہم کر دیا جائے تو موجودہ قوانین طبیعیہ کے خلاف بہت سے عظیم الشان خوارق وقوع میں آئیں گے ان میں سے ایک یہ ہے کہ آفتاب مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ غالباً اس حرکت مقلوبی اور رجت قہقری سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہو کہ جو قوانین قدرت اور نوامیس طبیعیہ دنیا کے موجودہ نظم و نسق میں کار فرما تھے، ان کی میعاد ختم ہونے اور نظام شمسی کے الٹ پلٹ ہو جانے کا وقت آپہنچا ہے۔ گویا اس وقت سے عالم کبیر کے نزع اور جانکنی کے وقت کا ایمان اور توبہ مقبول نہیں کیونکہ وہ حقیقت میں اختیاری نہیں ہوتا، اسی طرح طلوع الشمس من المغرب کے بعد مجموعہ عالم کے حق میں یہ ہی حکم ہوگا کہ کسی کا ایمان و توبہ معتبر نہ ہو۔ بعض روایات میں طلوع الشمس من مغربھا کے ساتھ چند دوسرے نشانات بھی بیان ہوئے ہیں مثلاً خروج دجال، خروج دابہ وغیرہ۔ ان روایات کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب ان سب نشانات کا مجموعہ متحقق ہوگا اور وہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ طلوع الشمس من المغرب بھی متحقق ہو تو دروازہ توبہ کا بند کر دیا جائے گا الگ الگ ہر نشان پر یہ حکم متفرع نہیں۔ ہمارے زمانہ کے بعض ملحدین جو ہر غیر معمولی واقعہ کو استعارہ کا رنگ دینے کے خوگر ہیں وہ طلوع الشمس من المغرب کو بھی استعارہ بنانے کی فکر میں ہیں۔ غالباً ان کے نزدیک قیامت کا آنا بھی ایک طرح کا استعارہ ہی ہوگا۔
عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلَابِيِّ ، قَالَ : ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ ، قَالَ : فَانْصَرَفْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَيْهِ فَعَرَفَ ذَلِكَ فِينَا ، فَقَالَ : " مَا شَأْنُكُمْ ؟ " قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ ، قَالَ : " غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ لِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ ، إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ ، شَبِيهٌ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ ، فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ سُورَةِ أَصْحَابِ الْكَهْفِ ، قَالَ : يَخْرُجُ مَا بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ ، فَعَاثَ يَمِينًا وَشِمَالًا ، يَا عِبَادَ اللَّهِ ، اثْبُتُوا " ، قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ ؟ قَالَ : " أَرْبَعِينَ يَوْمًا ، يَوْمٌ كَسَنَةٍ ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ " ، قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَرَأَيْتَ الْيَوْمَ الَّذِي كَالسَّنَةِ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ ؟ قَالَ : " لَا ، وَلَكِنْ اقْدُرُوا لَهُ " ، قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَمَا سُرْعَتُهُ فِي الْأَرْضِ ؟ قَالَ : " كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ ، فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيُكَذِّبُونَهُ وَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ ، فَتَتْبَعُهُ أَمْوَالُهُمْ وَيُصْبِحُونَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ ، ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ وَيُصَدِّقُونَهُ ، فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ ، وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ ، فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ كَأَطْوَلِ مَا كَانَتْ ذُرًى وَأَمَدِّهِ خَوَاصِرَ وَأَدَرِّهِ ضُرُوعًا ، قَالَ : ثُمَّ يَأْتِي الْخَرِبَةَ ، فَيَقُولُ : لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ ، فَيَنْصَرِفُ مِنْهَا فَتَتْبَعُهُ كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ، ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا شَابًّا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ ، ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ ، إِذْ هَبَطَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام بِشَرْقِيِّ دِمَشْقَ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ ، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَّانٌ كَاللُّؤْلُؤِ ، قَالَ : وَلَا يَجِدُ رِيحَ نَفْسِهِ يَعْنِي أَحَدًا إِلَّا مَاتَ وَرِيحُ نَفْسِهِ مُنْتَهَى بَصَرِهِ ، قَالَ : فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلَهُ ، قَالَ : فَيَلْبَثُ كَذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ ، قَالَ : ثُمَّ يُوحِي اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ حَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ ، فَإِنِّي قَدْ أَنْزَلْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ ، قَالَ : وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ ، وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ :مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ سورة الأنبياء آية 96 ، قَالَ : فَيَمُرُّ أَوَّلُهُمْ بِبُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ فَيَشْرَبُ مَا فِيهَا ، ثُمَّ يَمُرُّ بِهَا آخِرُهُمْ ، فَيَقُولُ : لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ بَيْتِ الْمَقْدِسٍ ، فَيَقُولُونَ : لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ هَلُمَّ ، فَلْنَقْتُلْ مَنْ فِي السَّمَاءِ فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ ، فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مُحْمَرًّا دَمًا ، وَيُحَاصَرُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَأَصْحَابُهُ ، حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ يَوْمَئِذٍ خَيْرًا لِأَحَدِهِمْ مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ ، قَالَ : فَيَرْغَبُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ ، قَالَ : فَيُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى مَوْتَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ، قَالَ : وَيَهْبِطُ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ ، فَلَا يَجِدُ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا وَقَدْ مَلَأَتْهُ زَهَمَتُهُمْ وَنَتَنُهُمْ وَدِمَاؤُهُمْ ، قَالَ : فَيَرْغَبُ عِيسَى إِلَى اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ ، قَالَ : فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ ، قَالَ : فَتَحْمِلُهُمْ ، فَتَطْرَحُهُمْ بِالْمَهْبِلِ ، وَيَسْتَوْقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيِّهِمْ وَنُشَّابِهِمْ وَجِعَابِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ ، قَالَ : وَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لَا يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ وَبَرٍ وَلَا مَدَرٍ ، قَالَ : فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ فَيَتْرُكُهَا كَالزَّلَفَةِ ، قَالَ : ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ : أَخْرِجِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ ، فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرُّمَّانَةِ ، وَيَسْتَظِلُّونَ بِقَحْفِهَا ، وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ ، حَتَّى إِنَّ الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ لَيَكْتَفُونَ باللَّقْحَةِ مِنَ الْإِبِلِ ، وَإِنَّ الْقَبِيلَةَ لَيَكْتَفُونَ باللَّقْحَةِ مِنَ الْبَقَرِ ، وَإِنَّ الْفَخِذَ لَيَكْتَفُونَ باللَّقْحَةِ مِنَ الْغَنَمِ ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا فَقَبَضَتْ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ ، وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الْفِتَنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي فِتْنَةِ الدَّجَّالِ ... رقم الحديث: 2171]
ترجمہ :
عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلَابِيِّ ، قَالَ : ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ ، قَالَ : فَانْصَرَفْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَيْهِ فَعَرَفَ ذَلِكَ فِينَا ، فَقَالَ : " مَا شَأْنُكُمْ ؟ " قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ ، قَالَ : " غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ لِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ ، إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ ، شَبِيهٌ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ ، فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ سُورَةِ أَصْحَابِ الْكَهْفِ ، قَالَ : يَخْرُجُ مَا بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ ، فَعَاثَ يَمِينًا وَشِمَالًا ، يَا عِبَادَ اللَّهِ ، اثْبُتُوا " ، قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ ؟ قَالَ : " أَرْبَعِينَ يَوْمًا ، يَوْمٌ كَسَنَةٍ ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ " ، قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَرَأَيْتَ الْيَوْمَ الَّذِي كَالسَّنَةِ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ ؟ قَالَ : " لَا ، وَلَكِنْ اقْدُرُوا لَهُ " ، قَالَ : قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَمَا سُرْعَتُهُ فِي الْأَرْضِ ؟ قَالَ : " كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ ، فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيُكَذِّبُونَهُ وَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ ، فَتَتْبَعُهُ أَمْوَالُهُمْ وَيُصْبِحُونَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ ، ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ وَيُصَدِّقُونَهُ ، فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ ، وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ ، فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ كَأَطْوَلِ مَا كَانَتْ ذُرًى وَأَمَدِّهِ خَوَاصِرَ وَأَدَرِّهِ ضُرُوعًا ، قَالَ : ثُمَّ يَأْتِي الْخَرِبَةَ ، فَيَقُولُ : لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ ، فَيَنْصَرِفُ مِنْهَا فَتَتْبَعُهُ كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ، ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا شَابًّا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ ، ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ ، إِذْ هَبَطَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام بِشَرْقِيِّ دِمَشْقَ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ ، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَّانٌ كَاللُّؤْلُؤِ ، قَالَ : وَلَا يَجِدُ رِيحَ نَفْسِهِ يَعْنِي أَحَدًا إِلَّا مَاتَ وَرِيحُ نَفْسِهِ مُنْتَهَى بَصَرِهِ ، قَالَ : فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلَهُ ، قَالَ : فَيَلْبَثُ كَذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ ، قَالَ : ثُمَّ يُوحِي اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ حَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ ، فَإِنِّي قَدْ أَنْزَلْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ ، قَالَ : وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ ، وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ :مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ سورة الأنبياء آية 96 ، قَالَ : فَيَمُرُّ أَوَّلُهُمْ بِبُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ فَيَشْرَبُ مَا فِيهَا ، ثُمَّ يَمُرُّ بِهَا آخِرُهُمْ ، فَيَقُولُ : لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ بَيْتِ الْمَقْدِسٍ ، فَيَقُولُونَ : لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ هَلُمَّ ، فَلْنَقْتُلْ مَنْ فِي السَّمَاءِ فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ ، فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مُحْمَرًّا دَمًا ، وَيُحَاصَرُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَأَصْحَابُهُ ، حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ يَوْمَئِذٍ خَيْرًا لِأَحَدِهِمْ مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ ، قَالَ : فَيَرْغَبُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ ، قَالَ : فَيُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى مَوْتَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ، قَالَ : وَيَهْبِطُ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ ، فَلَا يَجِدُ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا وَقَدْ مَلَأَتْهُ زَهَمَتُهُمْ وَنَتَنُهُمْ وَدِمَاؤُهُمْ ، قَالَ : فَيَرْغَبُ عِيسَى إِلَى اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ ، قَالَ : فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ ، قَالَ : فَتَحْمِلُهُمْ ، فَتَطْرَحُهُمْ بِالْمَهْبِلِ ، وَيَسْتَوْقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيِّهِمْ وَنُشَّابِهِمْ وَجِعَابِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ ، قَالَ : وَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لَا يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ وَبَرٍ وَلَا مَدَرٍ ، قَالَ : فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ فَيَتْرُكُهَا كَالزَّلَفَةِ ، قَالَ : ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ : أَخْرِجِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ ، فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرُّمَّانَةِ ، وَيَسْتَظِلُّونَ بِقَحْفِهَا ، وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ ، حَتَّى إِنَّ الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ لَيَكْتَفُونَ باللَّقْحَةِ مِنَ الْإِبِلِ ، وَإِنَّ الْقَبِيلَةَ لَيَكْتَفُونَ باللَّقْحَةِ مِنَ الْبَقَرِ ، وَإِنَّ الْفَخِذَ لَيَكْتَفُونَ باللَّقْحَةِ مِنَ الْغَنَمِ ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا فَقَبَضَتْ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ ، وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الْفِتَنِ » بَاب مَا جَاءَ فِي فِتْنَةِ الدَّجَّالِ ... رقم الحديث: 2171]
ترجمہ :
حضرت نواس بن سمعان کلابی فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو اس طرح اس کی ذلت و حقارت اور اس کے فتنے کی بڑائی بیان کی کہ ہم سمجھنے لگے کہ وہ کھجوروں کی آڑ میں ہے پھر ہم لوگ آپ کے پاس سے چلے گئے اور دوبارہ خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ ہمارے دلوں کے خوف کو بھانپ گئے پس آپ ﷺ نے پوچھا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کل آپ ﷺ نے دجال کا فتنہ بیان کیا تو ہمیں یقین ہوگیا کہ وہ کھجوروں کی آڑ میں ہے یعنی یقینا وہ آنے والا ہے آپ ﷺ نے فرمایا دجال کے علاوہ ایسی بھی چیزیں ہیں جن کا مجھے دجال کے فتنے سے زیادہ خوف ہے کیونکہ اگر دجال میری موجودگی میں نکلا تو میں اس سے تم لوگوں کی طرف سے مقابلہ کرنے والا ہوں اور اگر میری غیر موجودگی میں نکلا تو ہر شخص خود اپنے نفس کی طرف سے مقابلہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ میری طرف سے ہر مسلمان کا محافظ ہے اس کی صفت یہ ہے وہ جوان ہوگا گھنگریالے بالوں والا ہوگا اس کى ایک آنکھ ہوگی اور عبدالعزی بن قطن کا ہم شکل ہوگا اگر تم میں سے کوئی اسے دیکھے تو سورت کہف کی ابتدائی آیات پڑھے وہ شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دائیں بائیں کے لوگوں کو خراب کرے گا اے اللہ کے بندو ثابت قدم رہنا پھر ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ کتنی مدت زمین پر ٹھہرے گا آپ ﷺ نے فرمایا چالیس دن تک پہلا دن ایک سال کے برابر دوسرا ایک ماہ اور تیسرا ایک ہفتے کے برابر ہوگا پھر باقی دن تمہارے عام دنوں کے برابر ہوں گے ہم نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ وہ دن سال کے برابر ہوگا کیا اس میں ایک دن کی نماز کافی ہوگی آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ اندازہ لگا لینا ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ زمین میں اس کی تیز رفتاری کس قدر ہوگی آپ ﷺ نے فرمایا ان بادلوں کی طرح جن کو ہوا ہنکا کر لے جائے پھر وہ ایک قوم کے پاس آ کر انہیں اپنی خرافات کی دعوت دے گا وہ لوگ اسے جھٹلا دیں گے اور واپس کر دیں گے پس وہ ان سے واپس لوٹے گا تو ان کے اموال اس کے پیچھے چل پڑیں گے اور وہ خالی ہاتھ رہ جائیں گے وہ ایک اور قوم کے پاس آئے گا انہیں دعوت دے گا وہ قبول کریں گے اور اس کی تصدیق کریں گے تب وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا وہ بارش برسائے گا اور زمین کو درخت اگانے کا حکم دے گا تو وہ درخت اگائے گی شام کو ان کے جانور اس حالت میں لوٹیں گے کہ ان کے کوہان لمبے کولہے چوڑے اور پھیلے ہوئے اور تھن دودھ سے بھرے ہوں گے پھر وہ ویران جگہ آ کر کہے گا اپنے خزانے نکال دے جب واپس لوٹے گا تو خزانے اس کے پیچھے شہد کی مکھیوں کے سرداروں کی طرح چل پڑیں گے پھر وہ ایک بھرپور جوان کو بلا کر تلوار سے اس کے دو ٹکڑے کر دے گا پھر اسے پکارے گا تو وہ زندہ ہو کر ہنستا ہوا اس کو جواب دے گا وہ انہی باتوں میں مصروف ہوگا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم ہلکے زرد رنگ کا جوڑا پہنے جامع مسجد دمشق کے سفید مشرقی مینارہ پر اس حالت میں اتریں گے کہ ان کے ہاتھ دو فرشتوں کے بازؤں پر رکھے ہوں گے جب آپ سر نیچا کریں گے تو ان کے بالوں سے نورانی قطرات ٹپکیں گے اور جب سر اوپر اٹھائیں گے تو موتیوں کی مثل سفید چاندی کے دانے جھڑتے ہوں گے آپ ﷺ نے فرمایا جس کافر تک آپ کے سانس کی ہوا پہنچے گی مر جائے گا اور آپ کی سانس کی ہوا حد نگاہ تک پہنچتی ہوگی نبی ﷺ نے فرمایا پھر حضرت عیسیٰ دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ لد کے دروازے پر پائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے پھر اللہ تعالیٰ کی چاہت کے مطابق مدت تک زمین پر قیام کریں گے پھر اللہ تعالیٰ وحی بھیجیں گے کہ میرے بندوں کو کوہ طور پر لے جا کر جمع کر دیں کیونکہ میں ایسی مخلوق کو اتارنے والا ہوں جن سے لڑنے کی کسی میں طاقت نہیں آپ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا وہ ارشاد الٰہی کے مطابق ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے آپ نے فرمایا انکا پہلا گروہ بحیره طبره پر سے گزرے گا اور اس کا پورا پانی پی جائے گا پھر جب ان کا دوسرا گروہ وہاں سے گزرے گا تو وہ لوگ کہیں گے کہ یہاں کبھی پانی ہوا کرتا تھا پھر وہ لوگ آگے چل دیں گے یہاں تک کہ بیت المقدس کے ایک پہاڑ پر پہنچیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو قتل کر دیا اب آسمان والوں کو بھی قتل کر دیں پس وہ آسماں کی طرف تیر پھینکیں گے اللہ تعالیٰ ان کے تیر خون آلود واپس بھیج دے گا عیسیٰ اور آپ کے ساتھی محصور ہوں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک گائے کا سر (بھوک کی وجہ سے) تمہارے آج کے سو دیناروں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہوگا عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کر دے گا یہاں تک کہ سب یکدم مر جائیں گے جب عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اتریں گے اور ان کی بدبو اور خون کی وجہ سے ایک بالشت جگہ بھی خالی نہیں پائیں گے پھر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ لمبی گردن والے اونٹ کی مثل پرندے بھیجے گا جو انہیں اٹھا کر پہاڑ کى غار میں پہنچا دیں گے مسلمان ان کے تیروں، کمانوں اور ترکشوں سے سات سال تک ایندھن جلائیں گے پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش برسائے گا جو ہر گھر اور خیمہ تک پہنچے گی تمام زمین کو دھو کر شیشہ کی طرح صاف شفاف کر دے گی پھر زمین سے کہا جائے گا اپنے پھل باہر نکال اور اپنی برکتیں واپس لاؤ پس اس دن ایک گروہ ایک انار سے کھائے گا اور اس کے لوگ اس کے چھلکے سے سایہ کریں گے نیز دودھ میں اتنی برکت پیدا کر دی جائے گی کہ ایک اونٹنی کے دودھ سے ایک جماعت سیر ہو جائے گا ایک گائے کے دودھ سے ایک قبیلہ اور ایک بکری کے دودھ سے ایک کنبہ سیر ہو جائے گا وہ لوگ اسی طرح زندگی گزار رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہوا بھیجے گا جو ہر مومن کی روح قبض کرے گی اور باقی صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح راستے میں جماع کرتے پھریں گے اور انہی پر قیامت قائم ہوگی. یہ حدیث غریب حسن صحیح ہے ہم اسے صرف عبدالرحمن بن یزید بن جابر کی روایت سے پہچانتے ہیں.
عقیدہ (۳۹):
جب ساری نشانیاں پوری ہوجائیں گی تو قیامت کا سماں شروع ہوگا۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے صور پھونکیں گے۔ یہ صور ایک بڑی چیز سینگ کی شکل پر ہے۔ اس صور کے پھونکنے سےتمام زمین و آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ تمام مخلوقات مر جائیں گی اور جو مرچکے ہیں ان کی روحیں بے ہوش ہوجائیں گی۔ مگر اللہ تعالیٰ کو جن کا بچانا منظور ہے وہ اپنے حال پر رہیں گے۔ ایک مدت اسی کیفیت پر گزرے جائے گی۔
حوالہ
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : " ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاحِبَ الصُّورِ ، فَقَالَ : عَنْ يَمِينِهِ جِبْرَائِلُ وَعَنْ يَسَارِهِ مِيكَائِلُ " .
حضرت
ابوسعید الخدریؓ سے کہ انہوں نے حضور اقدس ﷺ نے صاحبِ صور (یعنی حضرت اسرافیل) کا تذکرہ
فرمایا تو آپ نے فرمایا کہ ان کے دائیں جانب جبرائیل اور بائیں جانب میکائیل ہوں گے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الصُّورُ قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيهِ " .
حضرت عبداللہ بن عمروؓ حضور اکرم ﷺ
سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:کہ صور ایک سینگ(horn)-سَن٘کھ (Conch Shell)(گھونگے کا چھلکا، ناقوس، عبادت گاہوں کی گھنٹی کی طرح) ہے جس میں پھونکا جائے گا۔
القرآن :
فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ (۱۳) وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّةً وَّاحِدَةً (۱۴) فَيَوْمَئِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ (۱۵) وَانْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَّاهِيَةٌ(الواقعة:١٣-١٦)
ترجمہ : اور اٹھائی جائے گی زمین اور پہاڑ، پس وہ یک بارگی ریزہ ریزہ کردئیے جائیں گے۔ پس اس دن وہ ہونے والی ہو پڑے گی۔ اور آسمان پھٹ جائے گا،تو وہ اس دن بالکل کمزور ہوگا۔
تشریح:
یعنی صور پھونکنے کے ساتھ زمین اور پہاڑ اپنے حِیّز کو چھوڑ دیں گے اور سب کو کوٹ پیٹ کر ایک دم ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔ بس وہی وقت ہے قیامت کے ہوپڑنے کا۔
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ أُخْرٰى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ (الزمر:٦٨)
ترجمہ :
ترجمہ : اور اٹھائی جائے گی زمین اور پہاڑ، پس وہ یک بارگی ریزہ ریزہ کردئیے جائیں گے۔ پس اس دن وہ ہونے والی ہو پڑے گی۔ اور آسمان پھٹ جائے گا،تو وہ اس دن بالکل کمزور ہوگا۔
تشریح:
یعنی صور پھونکنے کے ساتھ زمین اور پہاڑ اپنے حِیّز کو چھوڑ دیں گے اور سب کو کوٹ پیٹ کر ایک دم ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔ بس وہی وقت ہے قیامت کے ہوپڑنے کا۔
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِیْهِ أُخْرٰى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ (الزمر:٦٨)
ترجمہ :
اور صور میں پھونک ماری جائے گی تو(ہر کوئی) جو آسمانوں اور زمین میں ہے بیہوش ہوجائے گا، سوائے اس کے جسے اللہ چاہے ، پھر اس میں پھونک ماری جائے گی، دوبارہ تو وہ فوراً کھڑے ہوجائیں گے(اِدھر اُدھر)دیکھنے لگیں گے۔
تشریح:
حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ''ایک بار نفخ صور ہے عالم کے فناء کا، دوسرا ہے زندہ ہونے کا، یہ تیسرا بعد حشر کے ہے بیہوشی کا، چوتھا خبردار ہونے کا، اس کے بعد اللہ کے سامنے سب کی پیشی ہوگی۔'' اور بتغییر یسیر۔ لیکن علمائے محققین کے نزدیک کل دو مرتبہ نفخ صور ہوگا۔ پہلی مرتبہ میں سب کے ہوش اڑ جائیں گے۔ پھر زندہ تو مردہ ہوجائیں گے اور جو مر چکے تھے ان کی ارواح پر بیہوشی کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ بعدہ دوسرا نفخہ ہوگا جس سے مردوں کی ارواح ابدان کی طرف واپس آجائیں گی اور بیہوشی کو افاقہ ہوگا۔ اس وقت محشر کے عجیب و غریب منظر کو حیرت زدہ ہو کر تکتے رہیں گے۔ پھر خداوند قدوس کی پیشی میں تیزی کے ساتھ حاضر کیے جائیں گے۔
(تنبیہ)الامن شاء اللہ سے بعض نے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت مراد لیے ہیں۔ بعض نے ان کے ساتھ حملۃ العرش کو بھی شامل کیا ہے۔ بعض کے نزدیک انبیاء و شہداء مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔ بہرحال یہ استثناء اس نفخہ کے وقت ہوگا۔ اس کے بعد ممکن ہے ان پر بھی فنا طاری کر دی جائے۔ ''لمن الملک الیوم للہ الواحد القہار۔'' (المومن، رکوع٢)-
تشریح:
حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ''ایک بار نفخ صور ہے عالم کے فناء کا، دوسرا ہے زندہ ہونے کا، یہ تیسرا بعد حشر کے ہے بیہوشی کا، چوتھا خبردار ہونے کا، اس کے بعد اللہ کے سامنے سب کی پیشی ہوگی۔'' اور بتغییر یسیر۔ لیکن علمائے محققین کے نزدیک کل دو مرتبہ نفخ صور ہوگا۔ پہلی مرتبہ میں سب کے ہوش اڑ جائیں گے۔ پھر زندہ تو مردہ ہوجائیں گے اور جو مر چکے تھے ان کی ارواح پر بیہوشی کی کیفیت طاری ہو جائے گی۔ بعدہ دوسرا نفخہ ہوگا جس سے مردوں کی ارواح ابدان کی طرف واپس آجائیں گی اور بیہوشی کو افاقہ ہوگا۔ اس وقت محشر کے عجیب و غریب منظر کو حیرت زدہ ہو کر تکتے رہیں گے۔ پھر خداوند قدوس کی پیشی میں تیزی کے ساتھ حاضر کیے جائیں گے۔
(تنبیہ)الامن شاء اللہ سے بعض نے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت مراد لیے ہیں۔ بعض نے ان کے ساتھ حملۃ العرش کو بھی شامل کیا ہے۔ بعض کے نزدیک انبیاء و شہداء مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔ بہرحال یہ استثناء اس نفخہ کے وقت ہوگا۔ اس کے بعد ممکن ہے ان پر بھی فنا طاری کر دی جائے۔ ''لمن الملک الیوم للہ الواحد القہار۔'' (المومن، رکوع٢)-
عقیدہ (۴۰):
پھر جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا کہ تمام عالم پھر پیدا ہوجائے تو دوسری بار صور پھونکا جائے گا۔ اس سے پھر سارا عالم پیدا ہوجائے گا۔ مردے زندہ ہوجائیں گےاور قیامت کے میدان میں سب اکٹھے ہوں گے اور وہان کی تکلیفوں سے گھبرا کر سب پیغمبروں کے پاس سفارش کرانے جائیں گے۔ آخر میں ہمارے پیغمبر صاحب سفارش کریں گے۔ ترازو کھڑی کی جائے گی۔ بھلے برے عمل تولے جائیں گے، اُن کا حساب ہوگا۔ بعضے بے حساب جنت میں جائیں گے۔ نیکوں کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں اور بدوں کا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ پیغمبر ﷺ اپنی امت کو حوض کوثر کا پانی پلائیں گے۔ جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ پل صراط پر چلنا ہوگا۔ جو نیک لوگ ہیں وہ اس سے پار ہوکر بہشت میں پہنچ جائیں گے۔ جو بد ہیں وہ اس پر سے دوزخ میں گر پڑیں گے۔
حوالہ
القرآن :
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَإِذَا هُمْ مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلٰی رَبِّهِمْ يَنْسِلُوْنَ (يس:۵۱)
ترجمہ :
ترجمہ :
اور( دوبارہ) پھونکا جائے گا صور،تو وہ یکایک قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑیں گے۔
تشریح:
یعنی دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب زندہ ہو کر اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور فرشتے ان کو جلد جلد دھکیل کر میدان حشر میں لے جائیں گے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ ، فَنَهَشَ مِنْهَا نَهْشَةً ، ثُمَّ قَالَ : " أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَهَلْ تَدْرُونَ مِمَّ ذَلِكَ ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي ، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ ، وَلَا يَحْتَمِلُونَ ، فَيَقُولُ النَّاسُ : أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ ، أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ ؟ ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ : عَلَيْكُمْ بِآدَمَ ، فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام ، فَيَقُولُونَ لَهُ : أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا ، فَيَقُولُ آدَمُ : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ ، فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ ، فَيَأْتُونَ نُوحًا ، فَيَقُولُونَ : يَا نُوحُ ، إِنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ : إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ ، فَيَقُولُونَ : يَا إِبْرَاهِيمُ ، أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ لَهُمْ : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنِّي قَدْ كُنْتُ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ ، فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى ، فَيَأْتُونَ مُوسَى ، فَيَقُولُونَ : يَا مُوسَى ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ ، فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى النَّاسِ ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ، فَيَأْتُونَ عِيسَى ، فَيَقُولُونَ : يَا عِيسَى ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ عِيسَى : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ قَطُّ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا ، فَيَقُولُونَ : يَا مُحَمَّدُ ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي ، ثُمَّ يُقَالُ : يَا مُحَمَّدُ ، ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي ، فَأَقُولُ : أُمَّتِي يَا رَبِّ ، أُمَّتِي يَا رَبِّ ، أُمَّتِي يَا رَبِّ ، فَيُقَالُ : يَا مُحَمَّدُ ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ ، ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَحِمْيَرَ ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى " .
تشریح:
یعنی دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب زندہ ہو کر اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور فرشتے ان کو جلد جلد دھکیل کر میدان حشر میں لے جائیں گے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ ، فَنَهَشَ مِنْهَا نَهْشَةً ، ثُمَّ قَالَ : " أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَهَلْ تَدْرُونَ مِمَّ ذَلِكَ ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي ، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ ، وَلَا يَحْتَمِلُونَ ، فَيَقُولُ النَّاسُ : أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ ، أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ ؟ ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ : عَلَيْكُمْ بِآدَمَ ، فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام ، فَيَقُولُونَ لَهُ : أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا ، فَيَقُولُ آدَمُ : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ ، فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ ، فَيَأْتُونَ نُوحًا ، فَيَقُولُونَ : يَا نُوحُ ، إِنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ : إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ ، فَيَقُولُونَ : يَا إِبْرَاهِيمُ ، أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ لَهُمْ : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنِّي قَدْ كُنْتُ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ ، فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى ، فَيَأْتُونَ مُوسَى ، فَيَقُولُونَ : يَا مُوسَى ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ ، فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى النَّاسِ ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ، فَيَأْتُونَ عِيسَى ، فَيَقُولُونَ : يَا عِيسَى ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ عِيسَى : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ قَطُّ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا ، فَيَقُولُونَ : يَا مُحَمَّدُ ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي ، ثُمَّ يُقَالُ : يَا مُحَمَّدُ ، ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي ، فَأَقُولُ : أُمَّتِي يَا رَبِّ ، أُمَّتِي يَا رَبِّ ، أُمَّتِي يَا رَبِّ ، فَيُقَالُ : يَا مُحَمَّدُ ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ ، ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَحِمْيَرَ ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى " .
[صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ بَنِي إِسْرَائِيلَ ... رقم الحديث: 4368]
ترجمہ :
ترجمہ :
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا رسول اللہ ﷺ کو دستی کا گوشت پسند تھا اس لئے پوری دستی پیش کی گئی آپ ﷺ نے اسے اپنے دانتوں سے کھانا شروع کیا پھر فرمایا میں قیامت کے دن سب کا سردار ہوں گا کیا تم جانتے ہو کہ یہ سب کس وجہ سے ہوگا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین وآخرین کو ایک ایسے ہموار میدان میں جمع فرمائیں گے کہ وہ سب آواز دینے والے کی آواز سنیں گے اور ہر آدمی کی نگاہ (یا اللہ کی نظر) سب کے پار جائے گی اور سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو نا قابل برداشت گھبراہٹ اور پریشانی کا سامنا ہوگا اس وقت بعض لوگ دوسرے لوگوں سے کہیں گے کیا تم نہیں دیکھتے کہ تمہارا کیا حال ہے اور کیا نہیں سوچتے کہ تم کس قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہو چکے ہو آؤ ایسے آدمی کی تلاش کریں جو اللہ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کرے پھر بعض لوگ ایک دوسرے سے مشورہ کرکے کہیں گے کہ چلو حضرت آدم علیہ السلام کے پاس چلو پھر لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ اے آدم علیہ السلام آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں اللہ نے آپ کو اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ہے اور آپ میں اپنی روح پھونکی ہے اور تمام فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا آپ اللہ کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور کیا آپ ہماری تکلیفوں کا مشاہدہ نہیں کر رہے؟ حضرت آدم فرمائیں گے کہ آج میرا رب اس قدر جلال میں ہے کہ کبھی اس سے پہلے جلال میں نہیں آیا اور بات دراصل یہ ہے کہ اللہ نے مجھے درخت کے قریب جانے سے روکا تھا اور میں نے اس کی نافرمانی کی آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ لوگ حضرت نوح کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ آپ زمین پر سب سے پہلے رسول ہیں آپ کا نام اللہ نے شکر گزار بندہ رکھا ہے آج اللہ کے ہاں ہماری شفاعت کر دیجئے کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہماری تکلیف کس حد تک پہنچ گئی ہے حضرت نوح فرمائیں گے کہ آج میرا رب اس قدر غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے انتا غضبناک ہوا اور نہ اس کے بعد اتنا غضبناک ہوگا میں نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی جس کی وجہ سے وہ تباہ ہوگئی آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم ابراہیم کے پاس جاؤ لوگ ابراہیم کے پاس جا کر عرض کریں گے آپ اللہ کے نبی ہیں اور ساری زمین والوں میں سے اللہ کے خلیل ہیں ہماری اللہ کے ہاں شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں اور کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہماری تکلیف کس حد تک پہنچ چکی ہے حضرت ابراہیم فرمائیں گے کہ آج میرا پروردگار اتنا غضبناک ہے نہ اس سے پہلے اتنا غضبناک ہوا اور نہ اس کے بعد اتنا غضبناک ہوگا حضرت ابراہیم اپنے جھوٹ بولنے کو یاد کر کے فرمائیں گے کہ آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ لوگ موسیٰ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت اور ہم کلامی دونوں سے نوازا ہے آپ اللہ کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس حال میں ہیں اور ہمیں کتنی تکلیفیں پہنچ رہی ہیں پھر ان سے حضرت موسیٰ فرمائیں گے کہ آج میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اتنا غضبناک نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہوگا اور میں نے بغیر حکم کے ایک آدمی کو قتل کردیا تھا آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم عیسیٰ کے پاس جاؤ، لوگ عیسیٰ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اے عیسیٰ آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے گہوارے میں بات کی آپ کلمہ اللہ ہیں اور روح اللہ ہیں آج اللہ کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمیں کتنی تکلیفیں پہنچ رہی ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ آج میرا رب اتنا غضبناک ہے، اتنا غضبناک نہ اس سے پہلے کبھی ہو اور نہ اس کے بعد کبھی ہوگا حضرت عیسیٰ نے اپنے قصور کا ذکر نہیں فرمایا اور فرمائیں گے کہ آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ جاؤ محمد ﷺ کے پاس جاؤ، لوگ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے محمد ﷺ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے سارے قصور معاف فرما دئیے ہیں اپنے پروردگار کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں کیا آپ ہیں جانتے کہ ہماری تکلیف کس حد تک پہنچ گئی ہے پھر میں چلوں گا عرش کے نیچے آؤں گا پھر سجدہ میں پڑ جاؤں گا پھر اللہ میرے سینہ کو کھول دے گا اور مجھے حمد وثناء کے ایسے کلمات القاء فرمائے گا جو مجھے پہلے القاء نہیں کئے گئے پھر کہا جائے گا اے محمد ( ﷺ ) اپنا سر اٹھائیے مانگئے دیا جائے گا شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی میں اپنا سر اٹھاؤں گا پھر عرض کروں گا اے میرے پروردگار میری امت میری امت پھر کہا جائے گا کہ اے محمد اپنی امت میں سے جن کا حساب نہیں لیا گیا انہیں جنت کے دائیں دروازوں سے داخل کردو اور یہ لوگ اس کے علاوہ دوسرے دروزاوں سے بھی داخل ہو سکتے ہیں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں محمد( ﷺ ) کی جان ہے کہ جنت کے دروازوں کے کواڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہجر کے درمیان یا مکہ اور بصرٰی کے درمیان ہے۔
القرآن : فَاَمَّا مَنْ أُوْتِيَ كِتَابَهٗ بِيَمِيْنِهٖ(۷)فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا(۸)وَيَنْقَلِبُ إِلٰٓی أَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا(الإنشقاق:۹)
ترجمہ :
القرآن : فَاَمَّا مَنْ أُوْتِيَ كِتَابَهٗ بِيَمِيْنِهٖ(۷)فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا(۸)وَيَنْقَلِبُ إِلٰٓی أَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا(الإنشقاق:۹)
ترجمہ :
پس جس کو اس کا اعمالنامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا ۔ پس اس سے عنقریب آسان حساب لیا جائے گا ۔ اور وہ اپنے اہل کی طرف خوش خوش لوٹے گا۔
تشریح:
آسان حساب یہی کہ بات بات پر گرفت نہ ہوگی۔ محض کاغذات پیش ہوجائیں گے اور بدون بحث و مناقشہ کے سستے چھوڑ دیے جائیں گے۔نہ سزا کا خوف رہے گا نہ غصہ کا ڈر، نہایت امن واطمینان سے اپنے احباب و اقارب اور مسلمان بھائیوں کے پاس خوشیاں مناتا ہوا آئے گا۔
وَاَمَّا مَنْ أُوْتِيَ كِتَابَهٗ بِشِمَالِهٖ فَيَقُوْلُ يَا لَيْتَنِيْ لَمْ أُوْتَ كِتَابِيَهْ (الحاقة:۲۵)
حَدَّثَنِي ثَوْبَانُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " حَوْضِي مِنْ عَدَنَ إِلَى عَمَّانَ الْبَلْقَاءِ ، مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ ، وَأَكَاوِيبُهُ عَدَدُ نُجُومِ السَّمَاءِ ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا ، أَوَّلُ النَّاسِ وُرُودًا عَلَيْهِ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ الشُّعْثُ رُءُوسًا الدُّنْسُ ثِيَابًا الَّذِينَ لَا يَنْكِحُونَ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَلَا تُفْتَحُ لَهُمُ السُّدَدُ " ، قَالَ عُمَرُ : لَكِنِّي نَكَحْتُ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَفُتِحَ لِيَ السُّدَدُ ، وَنَكَحْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ عَبْدِ الْمَلِكِ لَا جَرَمَ أَنِّي لَا أَغْسِلُ رَأْسِي حَتَّى يَشْعَثَ وَلَا أَغْسِلُ ثَوْبِي الَّذِي يَلِي جَسَدِي حَتَّى يَتَّسِخَ ".
[جامع الترمذي » كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ ... » بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ ... رقم الحديث: 2381]
ترجمہ :
تشریح:
آسان حساب یہی کہ بات بات پر گرفت نہ ہوگی۔ محض کاغذات پیش ہوجائیں گے اور بدون بحث و مناقشہ کے سستے چھوڑ دیے جائیں گے۔نہ سزا کا خوف رہے گا نہ غصہ کا ڈر، نہایت امن واطمینان سے اپنے احباب و اقارب اور مسلمان بھائیوں کے پاس خوشیاں مناتا ہوا آئے گا۔
وَاَمَّا مَنْ أُوْتِيَ كِتَابَهٗ بِشِمَالِهٖ فَيَقُوْلُ يَا لَيْتَنِيْ لَمْ أُوْتَ كِتَابِيَهْ (الحاقة:۲۵)
ترجمہ :
اور رہا وہ جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیاگیا تو وہ کہے گا اے کاش! مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیاجاتا۔حَدَّثَنِي ثَوْبَانُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " حَوْضِي مِنْ عَدَنَ إِلَى عَمَّانَ الْبَلْقَاءِ ، مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ ، وَأَكَاوِيبُهُ عَدَدُ نُجُومِ السَّمَاءِ ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا ، أَوَّلُ النَّاسِ وُرُودًا عَلَيْهِ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ الشُّعْثُ رُءُوسًا الدُّنْسُ ثِيَابًا الَّذِينَ لَا يَنْكِحُونَ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَلَا تُفْتَحُ لَهُمُ السُّدَدُ " ، قَالَ عُمَرُ : لَكِنِّي نَكَحْتُ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَفُتِحَ لِيَ السُّدَدُ ، وَنَكَحْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ عَبْدِ الْمَلِكِ لَا جَرَمَ أَنِّي لَا أَغْسِلُ رَأْسِي حَتَّى يَشْعَثَ وَلَا أَغْسِلُ ثَوْبِي الَّذِي يَلِي جَسَدِي حَتَّى يَتَّسِخَ ".
[جامع الترمذي » كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ ... » بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْضِ ... رقم الحديث: 2381]
ترجمہ :
حضرت ثوبانؓ نے نبی ﷺ سے نقل کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میرا حوض عدن سے بلقائ کے عمان تک ہے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے اس کے کو زے آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں جو اس پیئے گا اس کے بعد کبھی پیاسا نہ ہوگا اس پر سب سے پہلے جانے والے فقراء مہاجریں ہیں جن کے بال گرو آلود اور کپرے میلے ہیں وہ نازونعمت میں پلی ہوئی عورتوں سے نکاح نہیں کرتے اور ان کے لئے بند دروازے کھولے نہیں جاتے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا لیکن میں نے تو نازونعمت میں پرورش پانے والیوں سے نکاح کیا اور میرے لئے بند دروازے کھولے گئے میں نے فاطمہ بنت عبدالملک سے نکاح کیا یقینا جب تک میرا سر گرد آلود نہ ہو جائے میں اسے نہیں دھوتا اور اسی طرح اپنے بدن پر لگے ہوئے کپڑے بھی میلے ہونے سے پہلے نہیں دھوتا.
عَنْسَمُرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوْضًا ، وَإِنَّهُمْ يَتَبَاهَوْنَ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ وَارِدَةً ، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ وَارِدَةً ".
[جامع الترمذي » كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ ... » بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْحَوْضِ ... رقم الحديث: 2380]
ترجمہ :
عَنْسَمُرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوْضًا ، وَإِنَّهُمْ يَتَبَاهَوْنَ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ وَارِدَةً ، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ وَارِدَةً ".
[جامع الترمذي » كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ ... » بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْحَوْضِ ... رقم الحديث: 2380]
ترجمہ :
حضرت سمرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ( آخرت میں ) ہر نبی کو حوض عطا ہوگا ( اور ہر امت اپنے اپنے نبی علیہ السلام کے حوض پر آکر پانی پئیں گے ، پس تمام انبیاء کرام آپس میں اس پر فخر کریں گے کہ کس کے حوض پر زیادہ آدمی آتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ سب سے زیادہ آدمی میرے حوض پر آئیں گے ۔ " ( ترمذی )
تشریح :
تشریح :
مطلب یہ کہ آنحضرت ﷺ کی امت کے لوگوں کی تعداد چونکہ دوسری تمام امتوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوگی ۔ اس لئے آپ ﷺ کے حوض پر پانی پینے کے لئے آنے والوں کی تعداد بھی زیادہ ہوگی ! اور یہ بات بالکل یقینی ہے جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ، پس آپ کا یہ کہنا کہ " مجھے امید ہے " اور جس سے شک وتردد کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے ) محض تواضح وانکساری کی بنا پر ہے۔
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَيَّ شَرِبَ ، وَمَنْ شَرِبَ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا ، لَيَرِدَنَّ عَلَيَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُهُمْ وَيَعْرِفُونِي ، ثُمَّ يُحَالُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ " .
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَيَّ شَرِبَ ، وَمَنْ شَرِبَ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا ، لَيَرِدَنَّ عَلَيَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُهُمْ وَيَعْرِفُونِي ، ثُمَّ يُحَالُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ " .
حضرت سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔ " میں حوض کوثر پر تمہارا امیر سامان ہونگا ( یعنی وہاں تم سب سے پہلے پہنچ کر تمہارا استقبال کروں گا ) جو شخص بھی میرے پاس سے گزرے گا وہ اس حوض کوثر کا پانی پئے گا اور جو شخص بھی اس کا پانی پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہیں رہے گا ۔ وہاں میرے پاس ( میری امت کے ) کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے لیکن پھر میرے اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل کر دی جائے گی ۔ "
[احمد (22822+22873) إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه مسلم (2290) و (2291) عن قتيبة بن سعيد، بهذا الإسناد.
وأخرجه البخاري (7050) و (7051) من طريق يحيى بن بكير، وأبو عوانة في المناقب كما في "إتحاف المهرة" 6/121 من طريق عبد الله بن وهب، كلاهما عن يعقوب بن عبد الرحمن الإسكندراني، به.
وأخرجه البخاري (6583) و (6584) ، وابن أبي عاصم في "السنة" (774) ، وأبو عوانة، وابن عبد البر في "التمهيد" 2/307 من طرق عن أبي حازم، به.
ورواية ابن عبد البر دون حديث أبي سعيد.
وسيأتي برقم (22873) بشطريه.
وسلف حديث أبي سعيد الخدري في مسنده برقم (11220) من طريق عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار، عن أبي حازم، به.
وانظر حديث ابن مسعود (3639) .
وحديث ابن عمر (6162) .
وحديث جابر (14719) .]
وفي رواية أبي سعيد : ثم يضرب الجسر على جهنم وتحل الشفاعة ويقولون اللهم سلم سلم فيمر المؤمنون كطرف العين وكالبرق وكالريح وكالطير وكأجاويد الخيل والركاب فناج مسلم ومخدوش مرسل ومكدوس في نار جهنم.
[مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 151(42060)]
ترجمہ :
[احمد (22822+22873) إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه مسلم (2290) و (2291) عن قتيبة بن سعيد، بهذا الإسناد.
وأخرجه البخاري (7050) و (7051) من طريق يحيى بن بكير، وأبو عوانة في المناقب كما في "إتحاف المهرة" 6/121 من طريق عبد الله بن وهب، كلاهما عن يعقوب بن عبد الرحمن الإسكندراني، به.
وأخرجه البخاري (6583) و (6584) ، وابن أبي عاصم في "السنة" (774) ، وأبو عوانة، وابن عبد البر في "التمهيد" 2/307 من طرق عن أبي حازم، به.
ورواية ابن عبد البر دون حديث أبي سعيد.
وسيأتي برقم (22873) بشطريه.
وسلف حديث أبي سعيد الخدري في مسنده برقم (11220) من طريق عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار، عن أبي حازم، به.
وانظر حديث ابن مسعود (3639) .
وحديث ابن عمر (6162) .
وحديث جابر (14719) .]
وفي رواية أبي سعيد : ثم يضرب الجسر على جهنم وتحل الشفاعة ويقولون اللهم سلم سلم فيمر المؤمنون كطرف العين وكالبرق وكالريح وكالطير وكأجاويد الخيل والركاب فناج مسلم ومخدوش مرسل ومكدوس في نار جهنم.
[مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 151(42060)]
ترجمہ :
اور حضرت ابوسعید خدری ؓ کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ : " پھر دوزخ کے اوپر ( اس کے بیچوں بیچ ) پل صراط کو رکھا جائے گا اور شفاعت کی اجازت عطا کی جائے گی ، چنانچہ تمام انبیاء علیہم السلام ( اپنی اپنی امتوں کے حق میں طلب استقامت وسلامتی کے لئے ) یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ ! ان کو پل صراط کے اوپر سے ) سلامتی سے گزار دے ، ان کو دوزخ میں گرنے سے محفوظ رکھ ۔ پس مسلمان لوگ ( پل صراط کے اوپر سے اس طرح) سے گزریں گے کہ بعض تو پل جھپکتے ہی گزر جائیں گے ، بعض کوندے کی طرح نکل جائیں گے ، بعض ہوا کے جھونکے کی مانند بعض پرندوں کی اڑان کی مانند گزریں گے پس ان میں سے کچھ مسلمان تو وہ ہونگے جو دوزخ کی آگ سے بالکل سلامتی اور نجات پائے ہونگے ( یعنی پل صراط کے اوپر سے گزرنے کے وقت ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا)
[أخرجه الطيالسى (2293)، وأحمد (3/16، رقم 11143)، والبخارى (7439)، ومسلم (1/167، رقم 183) ،وابن ماجه (1/63، رقم 179)۔
التوحيد لابن خزيمة (2/423) (2/729) ، الرؤية للدارقطني (92)(95) ، الإيمان لابن منده (2/797، 816) (2/802، 818)، ]
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ فَذَكَرَ حَدِيثَ الرُّؤْيَةِ كَمَا سَبَقَ ذِكْرُهُ ، وَذَكَرَ قِصَّةَ الْمُنَادِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَسُجُودَ مَنْ سَجَدَ , قَالَ : ثُمَّ يُضْرَبُ الجسْرُ عَلَى جَهَنَّمَ ، قُلْنَا : وَمَا الْجِسْرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِينَا أَنْتَ وَأُمِّنَا ؟ ، قَالَ : دَحْضٌ مَزِلَّةٌ ، لَهُ كَلالِيبُ وَخَطَاطِيفُ وَحَسَكٌ يَكُونُ بِنَجْدٍ عَقِيقَا , يُقَالُ لَهُ السَّعْدَانُ فَيَمُرُّ الْمُؤْمِنُونَ كَلَمْحِ الْبَرْقِ ، وَكَالطَّيْرِ وَكَالطَّرْفِ ، وَكَأَجَاوِيدِ الْخَيْلِ ، وَكَالرَّاكِبِ ، فَمُرْسَلٌ ، وَمَخْدُوشٌ ، وَمُكَرْدَسٌ ، قَالَ أَبُو حَامِدٍ : إِنَّمَا هُوَ مُكَرْدَسٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , مَا أَحَدُكُمْ بِأَشَدَّ مُنَاشَدَةً فِي الْحَقِّ ، يَرَاهُ مُمْضِيًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي إِخْوَانِهِمْ إِذَا هُمْ رَأَوْا وَقَدْ خَلَصُوا مِنَ النَّارِ ، يَقُولُونَ : أَيْ رَبَّنَا ، إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا ، وَيَصُومُونَ مَعَنَا ، وَيَحُجُّونَ مَعَنَا ، وَيُجَاهِدُونَ مَعَنَا قَدْ أَخَذَتْهُمُ النَّارُ ، فَيَقُولُ : اذْهَبُوا فَمَنْ عَرَفْتُمْ صُورَتَهُ فَأَخْرِجُوهُ ، وَيَحْرُمُ صُورَتَهُمْ عَلَى النَّارِ ، فَيَجِدُونَ الرَّجُلَ قَدْ أَخَذَتْهُ النَّارُ إِلَى قَدَمَيْهِ ، وَإِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ ، وَإِلَى رُكْبَتَيْهِ وَإِلَى حِقْوِهِ ، فَيُخْرِجُونَ مِنْهَا بَشَرًا كَثِيرًا ثُمَّ يَعُودُونَ فَيَتَكَلَّمُونَ ، فَيَقُولُ : اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ قِيرَاطٍ خَيْرًا فَأَخْرِجُوهُ ، فَيُخْرِجُونَ بَشَرًا كَثِيرًا ثُمَّ يَعُودُونَ فَيَتَكَلَّمُونَ فَلا يَزَالُ يَقُولُ ذَلِكَ حَتَّى ، يَقُولَ : اذْهَبُوا فَأَخْرِجُوا مَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فَأَخْرِجُوهُ وَكَانَ أَبُو سَعِيدٍ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ ، يَقُولُ : فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُوا فَاقْرَءُوا : إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا سورة النساء آية 40 ، فَيَقُولُونَ : أَيْ رَبَّنَا ، لَمْ نَذَرْ فِيهَا خَيْرًا ، فَيَقُولُ : هَلْ بَقِيَ إِلا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ؟ ، قَالَ : فَيَأْخُذُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ ، قَالَ : فَيُخْرِجُ قَوْمًا قَدْ عَادُوا حُمَمَةً ، لَمْ يَعْمَلُوا لِلَّهِ عَمَلَ خَيْرٍ قَطُّ ، قَالَ : فَيُطْرَحُونَ فِي نَهْرٍ فِي الْجَنَّةِ ، يُقَالُ لَهُ نَهْرُ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ فِيهِ ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ أَلَمْ تَرَوْهَا وَمَا يَلِيهَا فِي الظِّلِّ أُصَيْفِرٌ ، وَمَا يَلِيهَا مِنَ الشَّمْسِ أُخَيْضِرٌ ، قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَأَنَّكَ كُنْتَ فِي الْمَاشِيَةِ ؟ ، قَالَ : فَيَنْبُتُونَ كَذَلِكَ ، فَيَخْرُجُونَ أَمْثَالَ اللُّؤْلُؤِ فَيُجْعَلُ فِي رِقَابِهِمُ الْخَوَاتِيمُ ثُمَّ يُرْسَلُونَ فِي الْجَنَّةِ ، هَؤُلاءِ الْجَهَنَّمِيُّونَ ، هَؤُلاءِ الَّذِينَ أَخْرَجَهُمُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ بِغَيْرِ عَمَلٍ وَلا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ ، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : خُذُوا فَلَكُمْ مَا أَخَذْتُمْ ، فَيَأْخُذُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا ، قَالَ : ثُمَّ يَقُولُونَ : لَوْ يُعْطِينَا اللَّهُ مَا أَخَذْنَا ، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : فَإِنِّي أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِمَّا أَخَذْتُمْ ، فَيَقُولُونَ : يَا رَبَّنَا وَمَا أَفْضَلُ مِمَّا أَخَذْنَا ؟ ، فَيَقُولُ : رِضْوَانِي فَلا أَسْخَطُ .
[الاعتقاد إلى سبيل الرشاد للبيهقي:175، الرؤيا للدارقطني » الرؤية للدارقطني » حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ... رقم الحديث: 1]
[أخرجه الطيالسى (2293)، وأحمد (3/16، رقم 11143)، والبخارى (7439)، ومسلم (1/167، رقم 183) ،وابن ماجه (1/63، رقم 179)۔
التوحيد لابن خزيمة (2/423) (2/729) ، الرؤية للدارقطني (92)(95) ، الإيمان لابن منده (2/797، 816) (2/802، 818)، ]
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ فَذَكَرَ حَدِيثَ الرُّؤْيَةِ كَمَا سَبَقَ ذِكْرُهُ ، وَذَكَرَ قِصَّةَ الْمُنَادِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَسُجُودَ مَنْ سَجَدَ , قَالَ : ثُمَّ يُضْرَبُ الجسْرُ عَلَى جَهَنَّمَ ، قُلْنَا : وَمَا الْجِسْرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِينَا أَنْتَ وَأُمِّنَا ؟ ، قَالَ : دَحْضٌ مَزِلَّةٌ ، لَهُ كَلالِيبُ وَخَطَاطِيفُ وَحَسَكٌ يَكُونُ بِنَجْدٍ عَقِيقَا , يُقَالُ لَهُ السَّعْدَانُ فَيَمُرُّ الْمُؤْمِنُونَ كَلَمْحِ الْبَرْقِ ، وَكَالطَّيْرِ وَكَالطَّرْفِ ، وَكَأَجَاوِيدِ الْخَيْلِ ، وَكَالرَّاكِبِ ، فَمُرْسَلٌ ، وَمَخْدُوشٌ ، وَمُكَرْدَسٌ ، قَالَ أَبُو حَامِدٍ : إِنَّمَا هُوَ مُكَرْدَسٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , مَا أَحَدُكُمْ بِأَشَدَّ مُنَاشَدَةً فِي الْحَقِّ ، يَرَاهُ مُمْضِيًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي إِخْوَانِهِمْ إِذَا هُمْ رَأَوْا وَقَدْ خَلَصُوا مِنَ النَّارِ ، يَقُولُونَ : أَيْ رَبَّنَا ، إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا ، وَيَصُومُونَ مَعَنَا ، وَيَحُجُّونَ مَعَنَا ، وَيُجَاهِدُونَ مَعَنَا قَدْ أَخَذَتْهُمُ النَّارُ ، فَيَقُولُ : اذْهَبُوا فَمَنْ عَرَفْتُمْ صُورَتَهُ فَأَخْرِجُوهُ ، وَيَحْرُمُ صُورَتَهُمْ عَلَى النَّارِ ، فَيَجِدُونَ الرَّجُلَ قَدْ أَخَذَتْهُ النَّارُ إِلَى قَدَمَيْهِ ، وَإِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ ، وَإِلَى رُكْبَتَيْهِ وَإِلَى حِقْوِهِ ، فَيُخْرِجُونَ مِنْهَا بَشَرًا كَثِيرًا ثُمَّ يَعُودُونَ فَيَتَكَلَّمُونَ ، فَيَقُولُ : اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ قِيرَاطٍ خَيْرًا فَأَخْرِجُوهُ ، فَيُخْرِجُونَ بَشَرًا كَثِيرًا ثُمَّ يَعُودُونَ فَيَتَكَلَّمُونَ فَلا يَزَالُ يَقُولُ ذَلِكَ حَتَّى ، يَقُولَ : اذْهَبُوا فَأَخْرِجُوا مَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فَأَخْرِجُوهُ وَكَانَ أَبُو سَعِيدٍ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ ، يَقُولُ : فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُوا فَاقْرَءُوا : إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا سورة النساء آية 40 ، فَيَقُولُونَ : أَيْ رَبَّنَا ، لَمْ نَذَرْ فِيهَا خَيْرًا ، فَيَقُولُ : هَلْ بَقِيَ إِلا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ؟ ، قَالَ : فَيَأْخُذُ قَبْضَةً مِنَ النَّارِ ، قَالَ : فَيُخْرِجُ قَوْمًا قَدْ عَادُوا حُمَمَةً ، لَمْ يَعْمَلُوا لِلَّهِ عَمَلَ خَيْرٍ قَطُّ ، قَالَ : فَيُطْرَحُونَ فِي نَهْرٍ فِي الْجَنَّةِ ، يُقَالُ لَهُ نَهْرُ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ فِيهِ ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ أَلَمْ تَرَوْهَا وَمَا يَلِيهَا فِي الظِّلِّ أُصَيْفِرٌ ، وَمَا يَلِيهَا مِنَ الشَّمْسِ أُخَيْضِرٌ ، قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَأَنَّكَ كُنْتَ فِي الْمَاشِيَةِ ؟ ، قَالَ : فَيَنْبُتُونَ كَذَلِكَ ، فَيَخْرُجُونَ أَمْثَالَ اللُّؤْلُؤِ فَيُجْعَلُ فِي رِقَابِهِمُ الْخَوَاتِيمُ ثُمَّ يُرْسَلُونَ فِي الْجَنَّةِ ، هَؤُلاءِ الْجَهَنَّمِيُّونَ ، هَؤُلاءِ الَّذِينَ أَخْرَجَهُمُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ بِغَيْرِ عَمَلٍ وَلا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ ، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : خُذُوا فَلَكُمْ مَا أَخَذْتُمْ ، فَيَأْخُذُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا ، قَالَ : ثُمَّ يَقُولُونَ : لَوْ يُعْطِينَا اللَّهُ مَا أَخَذْنَا ، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : فَإِنِّي أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِمَّا أَخَذْتُمْ ، فَيَقُولُونَ : يَا رَبَّنَا وَمَا أَفْضَلُ مِمَّا أَخَذْنَا ؟ ، فَيَقُولُ : رِضْوَانِي فَلا أَسْخَطُ .
[الاعتقاد إلى سبيل الرشاد للبيهقي:175، الرؤيا للدارقطني » الرؤية للدارقطني » حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ... رقم الحديث: 1]
عقیدہ (۴۱):
دوزخ پیدا ہوچکی ہے اس میں سانپ اور بچھو اور طرح طرح کا عذاب ہے۔ دوزخیوں میں سے جن میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ اپنے اعمال کی سزا بھگت کر (الله ہی کی اجازت سے) پیغمبروں اور بزرگوں کی سفارش سے نکل کر بہشت میں داخل ہوں گے۔ خواہ کتنے ہی بڑے گناہ گار ہوں اور جو کافر اور مشرک ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کو موت بھی نہ آئے گی۔
القرآن :
وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ [البقرة:۲۴]
ترجمہ :
ترجمہ :
جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے.
القرآن :
القرآن :
مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ [البقرہ:٢٥٥]
ترجمہ :
ترجمہ :
اور زمین میں ہے ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اجازت سے.
عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " يَجْمَعُ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، كَذَلِكَ فَيَقُولُونَ : لَوِ اسْتَشْفَعْنَا إِلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا ، فَيَأْتُونَ آدَمَ ، فَيَقُولُونَ : يَا آدَمُ ، أَمَا تَرَى النَّاسَ ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ ، وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ ، وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْءٍ ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكَ وَيَذْكُرُ لَهُمْ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَهَا وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا ، فَإِنَّهُ أَوَّلُ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ ، فَيَأْتُونَ نُوحًا ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ وَلَكِنْ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ خَلِيلَ الرَّحْمَنِ ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ لَهُمْ خَطَايَاهُ الَّتِي أَصَابَهَا وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى عَبْدًا آتَاهُ اللَّهُ التَّوْرَاةَ وَكَلَّمَهُ تَكْلِيمًا ، فَيَأْتُونَ مُوسَى ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ لَهُمْ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى عَبْدَ اللَّهِ وَرَسُولَهُ وَكَلِمَتَهُ وَرُوحَهُ فَيَأْتُونَ عِيسَى ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبهِ وَمَا تَأَخَّرَ ، فَيَأْتُونِي ، فَأَنْطَلِقُ ، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي ، فَيُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ لَهُ سَاجِدًا ، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي ، ثُمَّ يُقَالُ لِي : ارْفَعْ مُحَمَّدُ ، وَقُلْ يُسْمَعْ ، وَسَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيهَا ، ثُمَّ أَشْفَعُ ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا ، فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ ، ثُمَّ أَرْجِعُ ، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا ، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي ، ثُمَّ يُقَالُ : ارْفَعْ مُحَمَّدُ ، وَقُلْ يُسْمَعْ ، وَسَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيهَا رَبِّي ثُمَّ أَشْفَعُ ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ ، ثُمَّ أَرْجِعُ ، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا ، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي ، ثُمَّ يُقَالُ : ارْفَعْ مُحَمَّدُ ، قُلْ يُسْمَعْ ، وَسَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيهَا ثُمَّ أَشْفَعْ ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ ، ثُمَّ أَرْجِعُ ، فَأَقُولُ : يَا رَبِّ ، مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ وَوَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً ، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ بُرَّةً ، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مَا يَزِنُ مِنَ الْخَيْرِ ذَرَّةً " .
عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " يَجْمَعُ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، كَذَلِكَ فَيَقُولُونَ : لَوِ اسْتَشْفَعْنَا إِلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا ، فَيَأْتُونَ آدَمَ ، فَيَقُولُونَ : يَا آدَمُ ، أَمَا تَرَى النَّاسَ ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ ، وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ ، وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْءٍ ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكَ وَيَذْكُرُ لَهُمْ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَهَا وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا ، فَإِنَّهُ أَوَّلُ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ ، فَيَأْتُونَ نُوحًا ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ وَلَكِنْ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ خَلِيلَ الرَّحْمَنِ ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ لَهُمْ خَطَايَاهُ الَّتِي أَصَابَهَا وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى عَبْدًا آتَاهُ اللَّهُ التَّوْرَاةَ وَكَلَّمَهُ تَكْلِيمًا ، فَيَأْتُونَ مُوسَى ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ وَيَذْكُرُ لَهُمْ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى عَبْدَ اللَّهِ وَرَسُولَهُ وَكَلِمَتَهُ وَرُوحَهُ فَيَأْتُونَ عِيسَى ، فَيَقُولُ : لَسْتُ هُنَاكُمْ وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبهِ وَمَا تَأَخَّرَ ، فَيَأْتُونِي ، فَأَنْطَلِقُ ، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي ، فَيُؤْذَنُ لِي عَلَيْهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ لَهُ سَاجِدًا ، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي ، ثُمَّ يُقَالُ لِي : ارْفَعْ مُحَمَّدُ ، وَقُلْ يُسْمَعْ ، وَسَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيهَا ، ثُمَّ أَشْفَعُ ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا ، فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ ، ثُمَّ أَرْجِعُ ، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا ، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي ، ثُمَّ يُقَالُ : ارْفَعْ مُحَمَّدُ ، وَقُلْ يُسْمَعْ ، وَسَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيهَا رَبِّي ثُمَّ أَشْفَعُ ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ ، ثُمَّ أَرْجِعُ ، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا ، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي ، ثُمَّ يُقَالُ : ارْفَعْ مُحَمَّدُ ، قُلْ يُسْمَعْ ، وَسَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيهَا ثُمَّ أَشْفَعْ ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ ، ثُمَّ أَرْجِعُ ، فَأَقُولُ : يَا رَبِّ ، مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ وَوَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً ، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ بُرَّةً ، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مَا يَزِنُ مِنَ الْخَيْرِ ذَرَّةً " .
[صحيح البخاري » كِتَاب التَّوْحِيدِ ... رقم الحديث: 6885 ، صحيح مسلم » كِتَاب الإِيمَانِ » بَاب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا ... رقم الحديث: 289 ، سنن ابن ماجه:رقم الحديث: 4310 ، صحيح ابن حبان » كِتَابُ التَّارِيخِ » بَابُ : الْحَوْضِ وَالشَّفَاعَةِ ... رقم الحديث: 6602 ، مستخرج أبي عوانة » كِتَابُ الإِيمَانِ » الدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ أَوَّلَ مَنْ يَسْتَشْفِعُ إِلَى ... رقم الحديث: 330 ، مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 11929 ، السنة لابن أبي عاصم:664 ، التوحيد لابن خزيمة:61 ، 342-346 ، البحر الزخار بمسند البزار 10-13 » رقم الحديث: 2527 ، مسند أبي يعلى الموصلي » رقم الحديث:2870+3024 ، مسند أبي داود الطيالسي » رقم الحديث: 2109]
ترجمہ :حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو قیامت کے دن اسی طرح جمع کرے گا، لوگ کہیں گے کاش ہم اپنے پروردگار کی خدمت میں شفاعت پیش کریں تاکہ ہمیں اس جگہ سے نکال کر آرام دے، چنانچہ آدم علیہ السلام کی خدمت میں آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم علیہ السلام کیا آپ لوگوں کی حالت نہیں دیکھ رہے ہیں، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا اور آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے ہمارے لئے ہمارے رب کے پاس سفارش کیجئے تاکہ ہمیں اس موجودہ حالات سے نجات ملے، وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور ان کے سامنے اپنی غلطی بیان کریں گے، جس کے وہ مرتکب ہوئے تھے، بلکہ تم لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ سب سے پہلے رسول ہیں جن کو اللہ نے زمین والوں کے پاس بھیجا ہے چنانچہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور وہ اپنی غلطی یاد کر کے کہیں گے کہ تم اللہ کے خلیل ابراہیم (علیہ السلا م) کے پاس جاؤ، وہ لوگ حضرت ابراہیم کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں کہ میں اس لائق نہیں ہوں اور ان کے سامنے اپنی غلطی بیان کریں گے اور کہیں گے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، اللہ نے ان کو تورات دی اور ان سے ہم کلام ہوا، لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں اور وہ اپنی غلطی کا تذکرہ کریں گے کہیں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں تو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ وہ ایسے بندے ہیں جن کے اگلے پچھلے گناہ بخشے جا چکے ہیں، لوگ میرے پاس آئیں گے میں چلوں گا اور اپنے رب سے حاضری کی اجازت چاہوں گا، مجھے حاضری کی اجازت دی جائے گی جب میں اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر پڑوں گا اور اللہ تعالیٰ اس طرح مجھے چھوڑ دے گا جس قدر مجھے چھوڑنا چاہے گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا اے محمد سر اٹھاؤ اور کہو سنا جائے گا، مانگو دیا جائے گا اور سفارش کرو قبول کی جائے گی، میں اپنے رب کی وہ حمد بیان کروں گا جو میرے پروردگار نے مجھے سکھائی ہوگی پھر سفارش کروں گا اور اللہ میرے لئے ایک حد مقرر فرمائے گا تو میں ان کو جنت میں داخل کراؤں گا ، پھر واپس ہوں گا اور اپنے رب کو دیکھ کر سجدہ میں گر پڑوں گا اللہ مجھے اسی طرح چھوڑ دے گا جس قدر وہ چاہے گا پھر کہا جائے گا کہ اے محمد! سر اٹھاؤ کہو سنا جائے گا مانگو دیا جائے گا اور سفارش کرو منظور ہو گی، پھر واپس ہو کر عرض کروں گا اے رب! دوزخ میں وہی رہ گئے جن کو قرآن نے روک رکھا ہے اور ان پر ہمیشگی واجب ہوگئی ہے، نبی ﷺ نے فرمایا دوزخ سے وہ شخص نکل جائے گا جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہو اور اس کے قلب میں ایک جو برابر ایمان ہوگا، پھر وہ شخص دوزخ سے نکل جائے گا، جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا اور اس کے دل میں گہیوں برابر ایمان ہوگا، پھر دوزخ سے وہ شخص نکلے گا جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہو اور اس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو.
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلْمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّدَرَّاجًا حَدَّثَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ الزُّبَيْدِيَّ ، يَقُولُ : عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " إِنَّ فِي النَّارِ لَحَيَّاتٍ أَمْثَالَ أَعْنَاقِ الْبُخْتِ ، تَلْسَعُ أَحَدَهُمُ اللَّسْعَةَ ، فَيَجِدُ حُمُوَّتَهَا أَرْبَعِينَ خَرِيفًا " .
[صحيح ابن حبان » كِتَابُ إِخْبَارِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... » باب صِفَة النَّار وأَهْلها ... رقم الحديث: 7631()]
ترجمہ :
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلْمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّدَرَّاجًا حَدَّثَهُ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ الزُّبَيْدِيَّ ، يَقُولُ : عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " إِنَّ فِي النَّارِ لَحَيَّاتٍ أَمْثَالَ أَعْنَاقِ الْبُخْتِ ، تَلْسَعُ أَحَدَهُمُ اللَّسْعَةَ ، فَيَجِدُ حُمُوَّتَهَا أَرْبَعِينَ خَرِيفًا " .
[صحيح ابن حبان » كِتَابُ إِخْبَارِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... » باب صِفَة النَّار وأَهْلها ... رقم الحديث: 7631()]
ترجمہ :
حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا جہنم میں بختی اونٹوں کی گردنوں جیسے سانپ ہوں گے جو اگر کسی کو ایک مرتبہ ڈس لیں تو وہ چالیس سال تک ان کا زہر محسوس کرتا رہے گا اور جہنم میں خچروں جیسے بچھو ہوں گے جو اگر کسی کو ایک مرتبہ ڈس لیں تو وہ چالیس سال تک ان کا زہر محسوس کرتا رہے گا۔
[احمد (17712) وابن حبان (7471) ، والحاكم 4/593، والبيهقي في "البعث والنشور" (561) من طريق عمرو بن الحارث المصري، عن دراج، بهذا الإسناد. واقتصر الأولان على شطر الحديث الأول. وقال الهيثمى (10/390) : رواه أحمد والطبرانى، وفيه جماعة قد وثقوا.
وأخرج الحاكم 4/594 من طريق دراج، عن أبي الهيثم، عن عيسى بن هلال الصدفي، عن ابن عمرو رفعه ضمن حديث طويل: والخامسة فيها حيات جهنم إن أفواهها كالأودية، تلسع الكافر اللسعة فلا يبقى منه لحم على عظم. والسادسة فيها عقارب جهنم إن أدنى عقربة منها كالبغال الموكفة تضرب الكافر ضربة تنسيه ضربتها حَرَّ جهنم. وإسناده ضعيف.
وأخرج ابن أبي شيبة 13/158-159، والحاكم 4/593-594 وغيرهما من طريق مسروق، عن عبد الله بن مسعود في قوله تعالى: (زدناهم عذاباً فوق العذاب) [النحل: 88] قال: زيدوا عقارب أدناها كالنخل الطوال.
وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين. وهو كما قال، ومثله لا يقال بالرأي.
وأخرج ابن أبي شيبة 13/160، وهناد في "الزهد" (259) من طريق الأعمش، عن مجاهد، قال: إن لجهنم جباباً فيها حيات كأمثال أعناق البخت، وعقارب كأمثال البغال الدُّهم، فيهرب أهل جهنم من تلك الحيات والعقارب، فتأخذ بشفاههم فتكشط ما بين الشعر إلى الظفر، فما ينجيهم منها إلا الهرب
في النار.
قال السندي: قوله: "حموتها" ضبط بفتح حاء مهملة وسكون ميم، أي: سمها.]
القرآن :
[احمد (17712) وابن حبان (7471) ، والحاكم 4/593، والبيهقي في "البعث والنشور" (561) من طريق عمرو بن الحارث المصري، عن دراج، بهذا الإسناد. واقتصر الأولان على شطر الحديث الأول. وقال الهيثمى (10/390) : رواه أحمد والطبرانى، وفيه جماعة قد وثقوا.
وأخرج الحاكم 4/594 من طريق دراج، عن أبي الهيثم، عن عيسى بن هلال الصدفي، عن ابن عمرو رفعه ضمن حديث طويل: والخامسة فيها حيات جهنم إن أفواهها كالأودية، تلسع الكافر اللسعة فلا يبقى منه لحم على عظم. والسادسة فيها عقارب جهنم إن أدنى عقربة منها كالبغال الموكفة تضرب الكافر ضربة تنسيه ضربتها حَرَّ جهنم. وإسناده ضعيف.
وأخرج ابن أبي شيبة 13/158-159، والحاكم 4/593-594 وغيرهما من طريق مسروق، عن عبد الله بن مسعود في قوله تعالى: (زدناهم عذاباً فوق العذاب) [النحل: 88] قال: زيدوا عقارب أدناها كالنخل الطوال.
وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين. وهو كما قال، ومثله لا يقال بالرأي.
وأخرج ابن أبي شيبة 13/160، وهناد في "الزهد" (259) من طريق الأعمش، عن مجاهد، قال: إن لجهنم جباباً فيها حيات كأمثال أعناق البخت، وعقارب كأمثال البغال الدُّهم، فيهرب أهل جهنم من تلك الحيات والعقارب، فتأخذ بشفاههم فتكشط ما بين الشعر إلى الظفر، فما ينجيهم منها إلا الهرب
في النار.
قال السندي: قوله: "حموتها" ضبط بفتح حاء مهملة وسكون ميم، أي: سمها.]
القرآن :
ثُمَّ لَا يَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا يَحْيٰى(الأعلى:۱۳)
ترجمہ :
ترجمہ :
پھر نہ مرے گا وہ اس میں اور نہ جئے گا ۔
تشريح :
یعنی نہ موت ہی آئے گی کہ تکلیفوں کا خاتمہ کردے اور نہ آرام کی زندگی ہی نصیب ہوگی۔ ہاں ایسی زندگی ہوگی جس کے مقابلہ میں موت کی تمنا کرے گا۔ العیاذ باللہ۔
تشريح :
یعنی نہ موت ہی آئے گی کہ تکلیفوں کا خاتمہ کردے اور نہ آرام کی زندگی ہی نصیب ہوگی۔ ہاں ایسی زندگی ہوگی جس کے مقابلہ میں موت کی تمنا کرے گا۔ العیاذ باللہ۔
عقیدہ (۴۲):
بہشت بھی پیدا ہوچکی ہے اور اس میں طرح طرح کے چین اور نعمتیں ہیں۔ بہشتیوں کو کسی طرح کا ڈر اور غم نہ ہوگا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ نہ اُس سے نکلیں گے اور نہ وہاں مریں گے۔
حوالہ
وَسَارِعُوْٓا إِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ (سورۃ آل عمران : ۱۳۳)
ترجمہ :
ترجمہ :
اوردوڑو اپنے رب کی بخشش اورجنت کی طرف جس کا عرض آسمانوں اورزمین (کے برابر)ہے تیار کی گئی ہے پرہیزگاروں کے لئے.
تشریح :
یعنی ان اعمال و اخلاق کی طرف جھپٹو جو حسبِ وعدہ خداوندی اسکی بخشش اور جنت کا مستحق بناتے ہیں ۔ ف۱۰ چونکہ آدمی کے دماغ میں آسمان و زمین کی وسعت سے زیادہ اور کوئی وسعت نہیں آسکتی تھی اس لئے سمجھانے کے لئے جنت کے عرض کو اسی سے تشبیہ دی گئی۔ گویا بتلا دیا کہ جنت کا عرض زیادہ سے زیادہ سمجھو پھر جب عرض اتنا ہے تو طول کا حال خدا جانے کیا کچھ ہوگا۔
مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ ۖ فِیْهَا أَنْهَارٌ مِّنْ مَّآءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهٗ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِيْنَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ۖ کَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوْا مَآءً حَمِيْمًا فَقَطَّعَ أَمْعَآءَهُمْ
تشریح :
یعنی ان اعمال و اخلاق کی طرف جھپٹو جو حسبِ وعدہ خداوندی اسکی بخشش اور جنت کا مستحق بناتے ہیں ۔ ف۱۰ چونکہ آدمی کے دماغ میں آسمان و زمین کی وسعت سے زیادہ اور کوئی وسعت نہیں آسکتی تھی اس لئے سمجھانے کے لئے جنت کے عرض کو اسی سے تشبیہ دی گئی۔ گویا بتلا دیا کہ جنت کا عرض زیادہ سے زیادہ سمجھو پھر جب عرض اتنا ہے تو طول کا حال خدا جانے کیا کچھ ہوگا۔
مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ ۖ فِیْهَا أَنْهَارٌ مِّنْ مَّآءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهٗ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِيْنَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ ۖ کَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوْا مَآءً حَمِيْمًا فَقَطَّعَ أَمْعَآءَهُمْ
(سورۃ محمد : ۱۵)
ترجمہ :
ترجمہ :
جنت کی کیفیت جو پرہیزگاروں کو وعدہ کی گئی(یہ ہے) کہ ا س میں نہریں ہیں بدبو نہ کرنے والے پانی کی،نہریں ہیں دودھ کی جس کا ذائقہ متغیر ہونے (بدلنے والا)نہیں،اور نہریں ہیں شراب کی جو پینے والوں کے لئے سراسر لذت ہے،او رنہریں ہیں مصفی (صاف کئے ہوئے) شہد کی،اور اس میں ان کے لئے ہرقسم کے پھل ہیں ،او ران کے رب(کی طرف سے)بخشش،(کیا وہ) اس کی طرح ہے؟ جو ہمیشہ آگ میں رہنے والا ہے،اور انہیں گرم (کھولتا ہوا) پانی پلایا جائے گا، جو ان کی انتڑیاں ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔
تشریح :
وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ :یعنی سب خطائیں معاف کر کے جنت میں داخل کریں گے وہاں پہنچ کر کبھی خطاؤں کا ذکر بھی نہ آئے گا جو ان کی کلفت کا سبب بنے۔ اور نہ آئندہ کسی بات پر گرفت ہوگی۔
آبِ جنت کی عظمتِ شان کا ذکر و بیان :
سو ارشاد فرمایا گیا کہ " وہاں پر نہریں ہونگی ایسے عظیم الشان اور بے مثال پانی کو جو کبھی خراب نہیں ہوگا " ۔ جیسا کہ دنیا کے پانی کا حال ہے کہ زیادہ عرصہ بند رہنے کی وجہ سے اس میں تبدیلی آجاتی ہے۔ رنگ و مزہ بدل جاتا ہے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں اور بدبو آنے لگتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ جنت کی نہروں کا پانی ایسا عمدہ اور بے مثال ہو گا کہ کبھی خراب نہ ہوگا۔ اور اس میں اس طرح کا کوئی فساد رونما نہیں ہوگا۔ دنیا میں ایسے پانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں پر یہ اہم اور بنیادی حقیقت بھی واضح رہنی چاہئے کہ نعمتیں جتنی بھی ہیں ان سب کا منبع اور اصل سرچشمہ جنت ہی ہے۔ لیکن اس عالم ناسوت میں وہ ہمیں ملتی ہیں تو اتنے مراحل سے گزر کر اور اس قدر وسائط و وسائل کے توسط سے کہ ان کی اصل حقیقت اور ماہیت بالکل بدل جاتی ہے، اور ان کی شکل و صورت بھی کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر پانی ہی کو لیجئے جو کہ سب سے اہم اور سب سے عام چیز ہے۔ یہ فضاؤں ، بادلوں، ہواؤں، دریاؤں، نالوں اور زمین کی تہوں کے مختلف مراحل طے کرکے ہم تک پہنچتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ان میں سے ہر مرحلے کے اثرات سے متاثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کی اصل حقیقت بدل کر کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے، بخلاف جنت کے پانی کے وہ اسطرح کے واسطے کے بغیر راہ راست حضرت حق جل مجدہ، کی طرف سے ملے گا اس لئے اس میں ان واسطوں میں سے کسی بھی واسطے کا کوئی اثر موجود نہیں ہوگا۔ اور پانی کی یہ عظیم الشان نعمت وہاں پر اپنی اصل اور حقیقی شکل میں ملے گی تو اس کی شان کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ ہمیشہ راہ حق و صواب پر گامزن رکھے اور زیغ و ضلال کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین، سبحانہ وتعالیٰ ۔
جنت کے دودھ کی عظمت شان کا ذکر و بیان :
سو ارشاد فرمایا کہ وہاں پر نہریں ہونگی ایسے عظیم الشان دودھ کی جس کا مزہ کبھی تبدیل نہ ہوگا۔ جیسا کہ دنیا کے دودھ کا مزہ بدل جاتا ہے اور وہ کچھ سے کچھ بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات وہ استعمال کے قابل بھی نہیں رہتا۔ جبکہ جنت کے اس دودھ میں ایسی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ سبحان اللّٰہ! کیا کہنے جنت اور اس کی نعمتوں کے۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین دنیا میں اول تو دودھ کی نہروں کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ۔ اور پھر دودھ بھی ایسا جس کا مزہ کبھی نہ بدلے۔ اس طرح کے دودھ کا اس دنیا میں پایا جانا متصور ہی نہیں ۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ اور جس طرح اوپر والے حاشیے میں عرض کیا گیا ہے دنیا کے پانی کی طرح یہاں کا دودھ بھی واسطہ در واسطہ ملتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ {وان لکم فی الانعام لعبرۃ ط نسقیکم مما فی بطونہ من بین م فرث و دم لبنا خالصا سآئغا للشربین} الایۃ [النحل: 66پ14] اس ارشاد میں اس بات کی تصریح فرمائی گئی کہ یہ دودھ گوبر اور خون جیسی دو نجاستوں کے درمیان سے ہوکر ہم تک پہنچتا ہے۔ اور یہ چیز جہاں قدرت کی عنایت اور اس کی حکمت کا ایک عظیم الشان شاہکار ہے وہیں اس سے یہ اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ جنت کی یہ عظیم الشان نعمت جو اس راستے سے گزر کر ہم تک پہنچتی ہے اس کی اصل اور مزاجی خصوصیات میں کس قدر فرق واقع ہو جاتا ہوگا۔ سو اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جنت کے پانی اور وہاں کے دودھ اور وہاں کے شہد اور دنیا اور یہاں کے دودھ و شہد اور پانی کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دنیا کی ان نعمتوں سے جنت کی ان نعمتوں کا محض ایک مبہم اور ہلکا سا تصور ہی کیا جا سکتا ہے اور بس ان کی اصل حقیقت وہیں کھلے گی، اللہ نصیب فرمائے، اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
جنت کی شراب سراسر لذے ہوگی۔ والحمدللّٰہ جل وعلا :
یعنی یہاں پر اس شراب کی صفت میں " لذیذ " نہیں " لذۃ " فرمایا گیا ہے جس میں " زید عدل " کی طرح مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اس لئے ہم نے اس کا ترجمہ " لذیذ " یا " مزیدار " جیسے کسی لفظ سے نہیں کیا۔ جیسا کہ عام طور ہر کیا جاتا ہے بلکہ " سراسر لذت " سے کیا ہے، تاکہ لفظ کے مصدری معنی کی قوت اور اس کے زور کا بقدر امکان اظہار و بیان ہوسکے۔ والحمداللّٰہ۔ سو جنت کی شراب بھی بے مثال ہوگی۔ دنیا میں ایسی کسی شراب کا پایا جانا ممکن ہی نہیں ۔ یہاں کی شراب بدمزہ، بدذائقہ اور بدبودار اور طرح طرح کے مفاسد و مضار کی حامل ہوتی ہے جو پینے والے کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دیتی ہے اور بعد میں اس کی عقل کو ماؤف اور اس کے مزاج اور اخلاق کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ سو جنت کی شراب سراسر لذت ہوگی۔ نی اس سے پینے والوں کو کسی قسم کی کوئی تلخی یا خرابی محسوس ہوگی اور نہ ان کو کسی قسم کے خمار یا کسی ناگواری کا کوئی احساس ہوگا اور نہ ہی کسی طرح کی بدمستی اور گناہ کی کوئی تحریک پیدا ہو سو وہاں کی شراب میں خوبی تو ہر ایک موجود ہوگی، مگر خرابی کوئی بھی نہیں ہوگی۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیرو یجار علیہ۔
جنت کی بے مثل شہد کا ذکر و بیان۔ والحمدللّٰہ جل وعلا :
چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " وہاں پر نہریں ہونگی ایسے شہد کی جس کو ہر طرح سے صاف کر دیا گیا ہوگا یعنی وہاں کا وہ شہد حقیقی معنوں میں " غسل مصفی " ہوگا۔ سو اس کو ہر طرح سے صاف کر دیا گیا ہوگا۔ اس لئے وہ ایسا نہیں ہوگا جیسا کہ دنیا کے شہدوں میں مکھیوں کے فضلات اور شمع وغیرہ کی آمیزش ہوتی ہے کہ جنت کا وہ شہد مکھیوں کے پیٹ سے نہیں نکلے گا بلکہ صاف و شفاف نہروں میں رواں دواں ہوگا جس کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { فلا تعلم نفس ما اخفی لہم من قرۃ اعین جزاء م بما کانوا یعملون}[السجدۃ: 17پ21] یعنی " کوئی نہیں جانتا اور نہیں جان سکتا کہ جنتیوں کیلئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ " اور جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔ ما لا عین راث ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر " کہ وہاں وہ کچھ ہوگا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل پر اس کا گزر ہی ہوا۔ اسی لئے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جنت کی نعمتوں کے بارے میں جو الفاظ بولے جاتے ہیں وہ محض الفاظ دنیا ہوتے ہیں جو تقریب و تفہیم کے طور پر بولے جاتے ہیں ۔ ورنہ وہاں کی ان نعمتوں کی حقیقت اور ہی ہوگی جن کو اللہ پاک کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جنت کی دوسری نعمتوں کی طرح وہاں کا شہد بھی بے مثال ہوگا۔ کیونکہ اس دنیا میں جو شہد میسر آتا ہے وہ بہرحال مکھیوں ہی کے واسطے سے انہیں کے ذریعے میسر آتا ہے، جو ان کے پیٹوں کے فضلات وغیرہ سے پاک نہیں ہوتا۔ جبکہ جنت کا شہد اپنے اصل منبع سے نکلا ہوگا۔ اس لئے اس میں اس طرح کے کسی آمیزش اور ملاوٹ کا کوئی سوال نہیں ہوگا۔ اور اس پر کسی کیلئے " مگس کی قے " ہونے کی پھبتی کسنے کا بھی موقع نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے اور ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر اور درگزر فرما کر محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
اہل جنت کے لئے ہر قسم کے پھلوں کا ذکر و بیان :
سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان کیلئے وہاں پر ہر طرح کے پھل بھی ہوں گے " جو اپنے رنگوں، شکلوں، خوشبوؤں اور فائدوں وغیرہ کے اعتبار سے اس قدر مختلف اور اتنے متنوع ہوں گے کہ ان کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ نصیب فرمائے۔ یہاں پر یہ بات بھی نظر میں رہے کہ یہاں پھلوں کا ذکر مشروب کے بعد فرمانے سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ جنت کی نعمتوں کا استعمال محض لذت و نشاط کیلئے ہوگا نہ کہ ضرورت و حاجت کی بنا پر جیسا کہ دنیا میں ہوتا ہے [ حاشیہ زادہ علی البیضاوی] بہرکیف جنت کی ان نعمتوں اور دنیاوی نعمتوں کے درمیان وہی فرق ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان ہے۔ دنیا کی ان عارضی اور فانی اصل حقیقت کا ادراک کسی کیلئے یہاں پر ممکن نہیں ۔ اللہ پاک نے اپنے بندوں کو دنیا کی ان نعمتوں سے نوازا بھی اسی لئے ہے کہ وہ ان کے ذریعے جنت کا بقدرا مکان تصور کر سکیں ۔ ورنہ ددنیا اور جنت کی ان نعمتوں کے درمیان وہی فرق ہے جو کہ حقیقت اور محاز کے درمیان ہوتا ہے لہٰذا اس فرق کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جنت کی جن نعمتوں کا ذکر دنیا میں فرمایا جاتا ہے وہ محض نام ہیں سو اصل حقیقت وہیں کھلے گی۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ
بخششِ خداوندی اہل جنت کیلئے ایک عظیم الشان انعام:
سو اس واضح فرما دیا گیا کہ جنتیوں کیلئے ایک عظیم الشان بلکہ سب سے بڑی نعمت ان کے رب کی طرف سے بخشش و مغفرت ہوگی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان کیلئے ان کے رب کی جانب سے عظیم الشان بخشش بھی ہوگی۔ " جو کہ ایک معنوی اور روحانی لذت ونعمت ہوگی رضائے خداوندی کی طرح۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ جو کہ تمام مادی اور ظاہری لذتوں اور نعمتوں سے کہیں بڑھ کر ہوگی۔ [صفوۃ التفاسیر وغیرہ] سو اس عظیم الشان بخشش خداوندی کی وجہ سے اہل جنت کی ان تمام تقصیرات و سیات کو دخول جنت سے پہلے ہی معاف فرما دیا جائے گا جو ان سے دنیا میں بتقاضائے بشریت سرزد ہوگئی ہوں گی۔ تاکہ جنت کی زندگی میں ان کی کسی طرح کا کوئی تکدر پیش نہ آنے پائے کہ وہ سراسر آرام و لذت اور سرور و سکون کی جگہ۔ اور خدائے غفور و رحیم کی طرف سے مہمانی ہوگی۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے یاد آجانے اور ان کے ذکر ہو جانے کی وجہ سے ان کو کوئی خفت اور شرمندگی لاحق ہو ۔ سبحان اللہ! کیا کہنے اکرم الاکرمین کے اس کرم بے مثال کے۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ بہرکیف جنت کی ان عظیم الشان نعمتوں کے ذکر کے بعد رب کی مغفرت و بخشش کے اس ذکر و بیان سے اس کی عظمت شان واضح ہوتی ہے کہ ان مادی اور ظاہری نعمتوں کے مقابلے میں یہ معنوی نعمت سب سے بڑی اور نہایت عظمت شان والی نعمت ہوگی۔ اور خداوند قدوس کی مغفرت و خوشنودی کی یہ عظیم الشان نعمت ہی دراصل وہ اصل اور اہم نعمت ہوگی جو حق تعالیٰ کی ان تمام نعمتوں کی ضامن بھی ہوگی جو اہل جنت کو وہاں پر نصیب ہوں گی۔ اور اسی سے آگے کے مدارج و درجات کی راہیں کھلیں گے۔ سو اللہ تعالیٰ کی مغفرت و رضا مندی دوسری تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہوگی جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا " احل علیکم رضوانی فلا اسخط علیکم بعدہ ابدا " یعنی " میں نے تم لوگوں پر اپنی رضا مندی اور خوشنودی اتارے دیتا ہوں ۔ پس اب میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔ " اللہ نصیب فرمائے اور محض اپنی فضل و کرم سے اور اپنی شان کریمی و رحیمی کی بنا پر نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ رب اغفرلی ذنبی کلہ دقہٗ وجلہٗ اولہ وآخرہ سرہ وعلانیۃ، ما علمت منہ ومالم اعلم، اللہم مغفرتک اوسع من ذنوبی، ورحمتک ارجی عندی من عملی۔
دوزخیوں کیلئے کھولتا ہوا پانی۔ والحمدللّٰہ جل وعلا :
سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " ان کو ایسا کھولتا پانی پلایا جائے گا جو ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دے گا ان کی انتڑیوں کو " ۔ اور وہ پانی ایسا کھولتا ہوگا کہ جب وہ منہ کے سامنے لایا جائے گا تو وہ بھون کر رکھ دے گا ان کے چہروں کو ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا
تشریح :
وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ :یعنی سب خطائیں معاف کر کے جنت میں داخل کریں گے وہاں پہنچ کر کبھی خطاؤں کا ذکر بھی نہ آئے گا جو ان کی کلفت کا سبب بنے۔ اور نہ آئندہ کسی بات پر گرفت ہوگی۔
آبِ جنت کی عظمتِ شان کا ذکر و بیان :
سو ارشاد فرمایا گیا کہ " وہاں پر نہریں ہونگی ایسے عظیم الشان اور بے مثال پانی کو جو کبھی خراب نہیں ہوگا " ۔ جیسا کہ دنیا کے پانی کا حال ہے کہ زیادہ عرصہ بند رہنے کی وجہ سے اس میں تبدیلی آجاتی ہے۔ رنگ و مزہ بدل جاتا ہے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں اور بدبو آنے لگتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ جنت کی نہروں کا پانی ایسا عمدہ اور بے مثال ہو گا کہ کبھی خراب نہ ہوگا۔ اور اس میں اس طرح کا کوئی فساد رونما نہیں ہوگا۔ دنیا میں ایسے پانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں پر یہ اہم اور بنیادی حقیقت بھی واضح رہنی چاہئے کہ نعمتیں جتنی بھی ہیں ان سب کا منبع اور اصل سرچشمہ جنت ہی ہے۔ لیکن اس عالم ناسوت میں وہ ہمیں ملتی ہیں تو اتنے مراحل سے گزر کر اور اس قدر وسائط و وسائل کے توسط سے کہ ان کی اصل حقیقت اور ماہیت بالکل بدل جاتی ہے، اور ان کی شکل و صورت بھی کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر پانی ہی کو لیجئے جو کہ سب سے اہم اور سب سے عام چیز ہے۔ یہ فضاؤں ، بادلوں، ہواؤں، دریاؤں، نالوں اور زمین کی تہوں کے مختلف مراحل طے کرکے ہم تک پہنچتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ان میں سے ہر مرحلے کے اثرات سے متاثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کی اصل حقیقت بدل کر کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے، بخلاف جنت کے پانی کے وہ اسطرح کے واسطے کے بغیر راہ راست حضرت حق جل مجدہ، کی طرف سے ملے گا اس لئے اس میں ان واسطوں میں سے کسی بھی واسطے کا کوئی اثر موجود نہیں ہوگا۔ اور پانی کی یہ عظیم الشان نعمت وہاں پر اپنی اصل اور حقیقی شکل میں ملے گی تو اس کی شان کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ ہمیشہ راہ حق و صواب پر گامزن رکھے اور زیغ و ضلال کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین، سبحانہ وتعالیٰ ۔
جنت کے دودھ کی عظمت شان کا ذکر و بیان :
سو ارشاد فرمایا کہ وہاں پر نہریں ہونگی ایسے عظیم الشان دودھ کی جس کا مزہ کبھی تبدیل نہ ہوگا۔ جیسا کہ دنیا کے دودھ کا مزہ بدل جاتا ہے اور وہ کچھ سے کچھ بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات وہ استعمال کے قابل بھی نہیں رہتا۔ جبکہ جنت کے اس دودھ میں ایسی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ سبحان اللّٰہ! کیا کہنے جنت اور اس کی نعمتوں کے۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین دنیا میں اول تو دودھ کی نہروں کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ۔ اور پھر دودھ بھی ایسا جس کا مزہ کبھی نہ بدلے۔ اس طرح کے دودھ کا اس دنیا میں پایا جانا متصور ہی نہیں ۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ اور جس طرح اوپر والے حاشیے میں عرض کیا گیا ہے دنیا کے پانی کی طرح یہاں کا دودھ بھی واسطہ در واسطہ ملتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ {وان لکم فی الانعام لعبرۃ ط نسقیکم مما فی بطونہ من بین م فرث و دم لبنا خالصا سآئغا للشربین} الایۃ [النحل: 66پ14] اس ارشاد میں اس بات کی تصریح فرمائی گئی کہ یہ دودھ گوبر اور خون جیسی دو نجاستوں کے درمیان سے ہوکر ہم تک پہنچتا ہے۔ اور یہ چیز جہاں قدرت کی عنایت اور اس کی حکمت کا ایک عظیم الشان شاہکار ہے وہیں اس سے یہ اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ جنت کی یہ عظیم الشان نعمت جو اس راستے سے گزر کر ہم تک پہنچتی ہے اس کی اصل اور مزاجی خصوصیات میں کس قدر فرق واقع ہو جاتا ہوگا۔ سو اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جنت کے پانی اور وہاں کے دودھ اور وہاں کے شہد اور دنیا اور یہاں کے دودھ و شہد اور پانی کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دنیا کی ان نعمتوں سے جنت کی ان نعمتوں کا محض ایک مبہم اور ہلکا سا تصور ہی کیا جا سکتا ہے اور بس ان کی اصل حقیقت وہیں کھلے گی، اللہ نصیب فرمائے، اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
جنت کی شراب سراسر لذے ہوگی۔ والحمدللّٰہ جل وعلا :
یعنی یہاں پر اس شراب کی صفت میں " لذیذ " نہیں " لذۃ " فرمایا گیا ہے جس میں " زید عدل " کی طرح مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اس لئے ہم نے اس کا ترجمہ " لذیذ " یا " مزیدار " جیسے کسی لفظ سے نہیں کیا۔ جیسا کہ عام طور ہر کیا جاتا ہے بلکہ " سراسر لذت " سے کیا ہے، تاکہ لفظ کے مصدری معنی کی قوت اور اس کے زور کا بقدر امکان اظہار و بیان ہوسکے۔ والحمداللّٰہ۔ سو جنت کی شراب بھی بے مثال ہوگی۔ دنیا میں ایسی کسی شراب کا پایا جانا ممکن ہی نہیں ۔ یہاں کی شراب بدمزہ، بدذائقہ اور بدبودار اور طرح طرح کے مفاسد و مضار کی حامل ہوتی ہے جو پینے والے کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دیتی ہے اور بعد میں اس کی عقل کو ماؤف اور اس کے مزاج اور اخلاق کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ سو جنت کی شراب سراسر لذت ہوگی۔ نی اس سے پینے والوں کو کسی قسم کی کوئی تلخی یا خرابی محسوس ہوگی اور نہ ان کو کسی قسم کے خمار یا کسی ناگواری کا کوئی احساس ہوگا اور نہ ہی کسی طرح کی بدمستی اور گناہ کی کوئی تحریک پیدا ہو سو وہاں کی شراب میں خوبی تو ہر ایک موجود ہوگی، مگر خرابی کوئی بھی نہیں ہوگی۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیرو یجار علیہ۔
جنت کی بے مثل شہد کا ذکر و بیان۔ والحمدللّٰہ جل وعلا :
چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " وہاں پر نہریں ہونگی ایسے شہد کی جس کو ہر طرح سے صاف کر دیا گیا ہوگا یعنی وہاں کا وہ شہد حقیقی معنوں میں " غسل مصفی " ہوگا۔ سو اس کو ہر طرح سے صاف کر دیا گیا ہوگا۔ اس لئے وہ ایسا نہیں ہوگا جیسا کہ دنیا کے شہدوں میں مکھیوں کے فضلات اور شمع وغیرہ کی آمیزش ہوتی ہے کہ جنت کا وہ شہد مکھیوں کے پیٹ سے نہیں نکلے گا بلکہ صاف و شفاف نہروں میں رواں دواں ہوگا جس کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ { فلا تعلم نفس ما اخفی لہم من قرۃ اعین جزاء م بما کانوا یعملون}[السجدۃ: 17پ21] یعنی " کوئی نہیں جانتا اور نہیں جان سکتا کہ جنتیوں کیلئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ " اور جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔ ما لا عین راث ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر " کہ وہاں وہ کچھ ہوگا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل پر اس کا گزر ہی ہوا۔ اسی لئے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جنت کی نعمتوں کے بارے میں جو الفاظ بولے جاتے ہیں وہ محض الفاظ دنیا ہوتے ہیں جو تقریب و تفہیم کے طور پر بولے جاتے ہیں ۔ ورنہ وہاں کی ان نعمتوں کی حقیقت اور ہی ہوگی جن کو اللہ پاک کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جنت کی دوسری نعمتوں کی طرح وہاں کا شہد بھی بے مثال ہوگا۔ کیونکہ اس دنیا میں جو شہد میسر آتا ہے وہ بہرحال مکھیوں ہی کے واسطے سے انہیں کے ذریعے میسر آتا ہے، جو ان کے پیٹوں کے فضلات وغیرہ سے پاک نہیں ہوتا۔ جبکہ جنت کا شہد اپنے اصل منبع سے نکلا ہوگا۔ اس لئے اس میں اس طرح کے کسی آمیزش اور ملاوٹ کا کوئی سوال نہیں ہوگا۔ اور اس پر کسی کیلئے " مگس کی قے " ہونے کی پھبتی کسنے کا بھی موقع نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے اور ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر اور درگزر فرما کر محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
اہل جنت کے لئے ہر قسم کے پھلوں کا ذکر و بیان :
سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان کیلئے وہاں پر ہر طرح کے پھل بھی ہوں گے " جو اپنے رنگوں، شکلوں، خوشبوؤں اور فائدوں وغیرہ کے اعتبار سے اس قدر مختلف اور اتنے متنوع ہوں گے کہ ان کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ نصیب فرمائے۔ یہاں پر یہ بات بھی نظر میں رہے کہ یہاں پھلوں کا ذکر مشروب کے بعد فرمانے سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ جنت کی نعمتوں کا استعمال محض لذت و نشاط کیلئے ہوگا نہ کہ ضرورت و حاجت کی بنا پر جیسا کہ دنیا میں ہوتا ہے [ حاشیہ زادہ علی البیضاوی] بہرکیف جنت کی ان نعمتوں اور دنیاوی نعمتوں کے درمیان وہی فرق ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان ہے۔ دنیا کی ان عارضی اور فانی اصل حقیقت کا ادراک کسی کیلئے یہاں پر ممکن نہیں ۔ اللہ پاک نے اپنے بندوں کو دنیا کی ان نعمتوں سے نوازا بھی اسی لئے ہے کہ وہ ان کے ذریعے جنت کا بقدرا مکان تصور کر سکیں ۔ ورنہ ددنیا اور جنت کی ان نعمتوں کے درمیان وہی فرق ہے جو کہ حقیقت اور محاز کے درمیان ہوتا ہے لہٰذا اس فرق کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جنت کی جن نعمتوں کا ذکر دنیا میں فرمایا جاتا ہے وہ محض نام ہیں سو اصل حقیقت وہیں کھلے گی۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین، ویامن بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ
بخششِ خداوندی اہل جنت کیلئے ایک عظیم الشان انعام:
سو اس واضح فرما دیا گیا کہ جنتیوں کیلئے ایک عظیم الشان بلکہ سب سے بڑی نعمت ان کے رب کی طرف سے بخشش و مغفرت ہوگی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ان کیلئے ان کے رب کی جانب سے عظیم الشان بخشش بھی ہوگی۔ " جو کہ ایک معنوی اور روحانی لذت ونعمت ہوگی رضائے خداوندی کی طرح۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ جو کہ تمام مادی اور ظاہری لذتوں اور نعمتوں سے کہیں بڑھ کر ہوگی۔ [صفوۃ التفاسیر وغیرہ] سو اس عظیم الشان بخشش خداوندی کی وجہ سے اہل جنت کی ان تمام تقصیرات و سیات کو دخول جنت سے پہلے ہی معاف فرما دیا جائے گا جو ان سے دنیا میں بتقاضائے بشریت سرزد ہوگئی ہوں گی۔ تاکہ جنت کی زندگی میں ان کی کسی طرح کا کوئی تکدر پیش نہ آنے پائے کہ وہ سراسر آرام و لذت اور سرور و سکون کی جگہ۔ اور خدائے غفور و رحیم کی طرف سے مہمانی ہوگی۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے یاد آجانے اور ان کے ذکر ہو جانے کی وجہ سے ان کو کوئی خفت اور شرمندگی لاحق ہو ۔ سبحان اللہ! کیا کہنے اکرم الاکرمین کے اس کرم بے مثال کے۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ بہرکیف جنت کی ان عظیم الشان نعمتوں کے ذکر کے بعد رب کی مغفرت و بخشش کے اس ذکر و بیان سے اس کی عظمت شان واضح ہوتی ہے کہ ان مادی اور ظاہری نعمتوں کے مقابلے میں یہ معنوی نعمت سب سے بڑی اور نہایت عظمت شان والی نعمت ہوگی۔ اور خداوند قدوس کی مغفرت و خوشنودی کی یہ عظیم الشان نعمت ہی دراصل وہ اصل اور اہم نعمت ہوگی جو حق تعالیٰ کی ان تمام نعمتوں کی ضامن بھی ہوگی جو اہل جنت کو وہاں پر نصیب ہوں گی۔ اور اسی سے آگے کے مدارج و درجات کی راہیں کھلیں گے۔ سو اللہ تعالیٰ کی مغفرت و رضا مندی دوسری تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہوگی جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا " احل علیکم رضوانی فلا اسخط علیکم بعدہ ابدا " یعنی " میں نے تم لوگوں پر اپنی رضا مندی اور خوشنودی اتارے دیتا ہوں ۔ پس اب میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔ " اللہ نصیب فرمائے اور محض اپنی فضل و کرم سے اور اپنی شان کریمی و رحیمی کی بنا پر نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ رب اغفرلی ذنبی کلہ دقہٗ وجلہٗ اولہ وآخرہ سرہ وعلانیۃ، ما علمت منہ ومالم اعلم، اللہم مغفرتک اوسع من ذنوبی، ورحمتک ارجی عندی من عملی۔
دوزخیوں کیلئے کھولتا ہوا پانی۔ والحمدللّٰہ جل وعلا :
سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " ان کو ایسا کھولتا پانی پلایا جائے گا جو ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دے گا ان کی انتڑیوں کو " ۔ اور وہ پانی ایسا کھولتا ہوگا کہ جب وہ منہ کے سامنے لایا جائے گا تو وہ بھون کر رکھ دے گا ان کے چہروں کو ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا
{وقل الحق من ربکم قف فمن شآء فلیومن ومن شاء فلیکفر انا اعتدنا للظلمین نارا احاط بھم سرادقھا ط وان یستغیثوا یغاثوا بمآء کالمہل یشوی الوجوہ} الایۃ۔
[الکہف:29 پ 15]
اور ترمذی کی حدیث میں ہے کہ وہ کھولتا ہوا پانی ان کے سروں پر چھوڑا جائے گا تو اس سے ان کی انتڑیوں پگھل کر ان کے ادبار سے باہر نکلیں گی۔ اور ان کی کھالیں بھی پگھل جائیں گے۔ اور اسی کو دوسرے مقام پر " صھر " سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ {یصھربہ ما فی بطونھم والجلود} [الحج: 20پ17] کہ " اس سے پگھل جائے گا جو کچھ کہ ان کے پیٹوں میں ہوگا اور ان کی کھالیں " ۔ اور استفہام یہاں پر انکاری ہے۔ یعنی ان دونوں گروہوں کا انجام ایک برابر نہیں ہوسکتا۔ پس دنیا میں جو ایمان و کفر والے یہ دونوں گروہ آپس میں برابر نظر آرہے ہیں بلکہ بعض اوقات کافر ومنکر انسان طرح طرح کے سامان عیش وعشرت میں نظر آتا ہے اور مومن صادق تکلیف اور مشکلات میں ۔ تو اس سے دھوکے میں نہیں پڑنا کہ دنیا تو اصل میں ابتلاء و آزمائش کی جگہ ہے۔ نہ کے فیصلے کا مقام۔ کہ وہ آخرت ہے۔ اور ابتلاء و آزمائش کا تقاضا یہی ہے کہ اس میں ہر ایک کو کھلی چھوٹ اور آزادی دی جائے۔ تاکہ وہ اپنے ارادہ و اختیار سے جو چاہے کرے، اور اپنے زندگی بھر کے کیے کرائے کا صلہ و ثمرہ اور بدلہ آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں پاس کے جو کہ فیصلے اور بدلے کا دن ہوگا اور برپور طریقے سے پاس کے تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور اپنی آخری اور کامل شکل میں پورے ہوں اور اس کائنات ہست و بود کی تخلیق اور اس کے وجود کی حکمت کا تحقق ہوسکے۔ سو کافر اور مومن کبھی باہم برابر نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
نَحْنُ أَوْلِيَآؤُكُمْ فِی الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِيْٓ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ(سورۃ حم السجدۃ/فصلت:۳۱)
ترجمہ : ہم تمہارے رفیق تھےدنیا کی زندگی میں اور آخرت میں(بھی) اور تہارے لئے اس میں (موجود ہے)جو تمہارے دل چاہیں،اور تمہارے لئے اس میں (موجود ہے) جوتم مانگوگے۔
تشریح:
بعض نے اس کو اللہ کا کلام بتایا ہے۔ یعنی فرشتوں کا کلام اس سے پہلے ختم ہو چکا۔ اور اکثر کے نزدیک یہ بھی فرشتوں کا مقولہ ہے۔ گویا فرشتے یہ قول ان کے دلوں میں الہام کرتے ہیں اور ان کی ہمت بندھاتے ہیں۔ ممکن ہے اس زندگی میں بعض بندوں سے مشافہۃً بھی اتنے الفاظ کہتے ہوں اور ممکن ہے موت کے قریب یا اس کے بعد کہا جاتا ہو۔ اس وقت ''نحن اولیاؤکم فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرۃ۔'' کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے رفیق رہے ہیں کہ اللہ کے حکم سے باطنی طور پر تمہاری اعانت کرتے تھے، اور آخرت میں بھی رفیق رہیں گے کہ وہاں تمہاری شفاعت یا اعزازو کرام کا انتظام کریں۔ جس چیز کی خواہش و رغبت دل میں ہوگی یا جو زبان سے طلب کرو گے سب کچھ ملے گا۔ اللہ کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔
... فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿البقرہ:۳۸﴾
ترجمہ : تو نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے.
تشریح :
اس آیت میں آسمانی ہدایات کی پیروی کرنے والوں کے لئے دو انعام مذکور ہیں ایک یہ کہ ان پر کوئی خوف نہ ہوگا، دوسرے وہ غمگین نہ ہوں گے، خَوْفٌ آئندہ پیش آنے والی کسی تکلیف ومصیبت کے اندیشہ کا نام ہے اور حزن کسی مقصد ومراد کے فوت ہوجانے سے پیدا ہونے والے غم کو کہا جاتا ہے غور کیا جائے تو عیش وراحت کی تمام انواع واقسام کا ان دو لفظوں میں ایسا احاطہ کردیا گیا ہے کہ آرام وآسائش کا کوئی فرد اور کوئی قسم اس سے باہر نہیں پھر ان دونوں لفظوں کی تعبیر میں ایک خاص فرق کیا گیا ہے کہ خوف کی نفی تو عام انداز میں کردی گئی مگر حزن کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ لاحزن علیہم بلکہ بصیغہ فعل لایا گیا اور اس کی ضمیر فاعل کو مقدم کرکے وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ فرمایا گیا اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ کسی چیز یا مراد کے فوت ہونے کے غم سے آزاد ہونا صرف انہی اولیاء اللہ کا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات کی مکمل پیروی کرنے والے ہیں ان کے سوا کوئی انسان اس غم سے نہیں بچ سکتا خواہ وہ ہفت اقلیم کا بادشاہ ہو یا دنیا کا بڑے سے بڑا مالدار ، کیونکہ ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہوتا جس کو اپنی طبیعت اور خواہش کےخلاف کوئی بات پیش نہ آئے اور اس کا غم نہ ہو جیسا کہ کہا گیا ہے، دریں دنیا کسے بے غم نباشد وگر باشد بنی آدم نباشد بخلاف اولیاء اللہ کے کہ وہ اپنی مرضی اور ارادے کو اللہ رب العزت کی مرضی اور ارادے میں فنا کردیتے ہیں اس لئے ان کو کسی چیز کے فوت ہونے کا غم نہیں ہوتا قرآن مجید میں دوسری جگہ بھی اس کو ظاہر کیا گیا ہے کہ خاص اہل جنت ہی کا یہ حال ہوگا کہ وہ جنت میں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا اس پر شکر کریں گے کہ ان سے غم دور کردیا گیا، الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (۳٤:۳۵) اس سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کچھ نہ کچھ غم ہونا ہر انسان کے لئے ناگزیز ہے بجز اس شخص کے جس نے اپنا تعلق حق تعالیٰ کے ساتھ مکمل اور مضبوط کرلیا ہو خواجہ عزیز الحسن مجذوب نے خوب فرمایا، جو بچنا ہو غموں سے آپ کا دیوانہ ہوجائے، اس آیت میں اللہ والوں سےخوف وغم کی نفی کرنے سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی کسی تکلیف یا کسی خواہش ومراد پر ان کو خوف وغم نہ ہوگا آخرت کی فکر وغم اور اللہ جل شانہ کی ہیبت وجلال تو ان پر اور سب سے زیادہ ہوتی ہے اسی لئے رسول اللہ ﷺ کی شان میں یہ آیا ہے کہ آپ اکثر غمگین اور متفکر رہتے تھے وجہ یہ ہے کہ آپ کا یہ فکر وغم کسی دنیوی نعمت کے فوت ہونے یا کسی مصیبت کے خطرہ سے نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کی ہیبت وجلال سے اور امت کے حالات کی وجہ سے تھا ، نیز اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ دنیا میں جو چیزیں خوفناک سمجھی جاتی ہیں ان سے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کو بشری طور پر طبعی خوف نہ ہو کیونکہ حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے سامنے جب لاٹھی کا سانپ بن گیا تو انکا ڈر جانا قرآن مجید میں مذکور ہے فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى(٦۷:۲۰) کیونکہ یہ فطری اور طبعی خوف ابتداء حال میں تھا جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا لاتخف تو یہ ڈر بالکل نکل گیا، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ خوف عام انسانوں کی طرح اس بنیاد پر نہ تھا کہ یہ سانپ ان کو تکلیف پہنچائے گا بلکہ اس لئے تھا کہ بنی اسرائیل اس سے کہیں گمراہی میں نہ پڑجائیں تو یہ خوف ایک قسم کا اخروی خوف تھا.(معارف)
پھر مومن صادق دنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی اندیشہ مستقبل اور غم ماضی کے بارِگراں سے سبکسار، لذت ایمان سے سرشار اسطرح رخصت ہوتا ہے کہ " چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست " کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے، کیونکہ ماضی کے بارے میں اس کو یہ افسوس نہیں ہوتا کہ میں نے متاع زندگی کو بے راہ روی میں گزارا بلکہ وہ مسرور اور مطمئن ہوتا ہے کہ مجھے زندگی میں متاع ھدیٰ کی اِتّباع کی سعادت حاصل رہی جس کے ثمرات سے میرا رب مجھے اب پوری طرح, نوازیگا ، اور ملائکہ رحمت زندگی کے اس پورے سفر کے دوران ایسے خوش نصیبوں کو { اَلاَّ تَخَافُوْا وَلا تَحْزَنُوْا } کی کیف آور لوریاں دیتے رہیں گے ، اور پھر خوف و اندیشیہ اور حزن و ملال سے محفوظ رہنے کی اس عظیم الشان خوش خبری کا اصلی ظہور ان کے حق میں آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں ہو گا جہاں ہر انسان کو اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا بلا کم وکاست پورا پورا صلہ و بدلہ ملے گا، اور وہ وہاں پر اس سب سے بڑی گھبراہٹ یعنی " فَزع اکبر " کی ہولنا کیوں سے بھی محفوظ رہیں گے ، جس نے ابناء کفر و ضلال کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہو گا - وَالْعِیَاذُ بِاللہ العظیم - اور اللہ پاک کے نوری فرشتے بڑھ بڑھ کر ان کا استقبال کرتے، ان کو سلام پیش کرتے، اور ان کو خوشخبریاں دے رہے ہوں گے، جیسا کہ سورہ انبیاء میں ارشاد فرمایا گیا، { لاَیَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الاَکْبَرُ وَتَتَلَقّٰہُمُ الْمَلٓئِکَۃُ ہٰٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدوْنَ } (الانبیاء : 103) ۔ یعنی " ان کو (قیامت کے دن کی ) وہ سب سے بڑی گھبراہٹ بھی پریشان نہیں کرسکے گی، اور فرشتے وہاں بڑھ بڑھ کر ان کو لے رہے ہوں گے (اور ان کے سرور کو دوبالا کرنے کے لئے ان سے کہا جارہا ہو گا کہ) یہی ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا " اور جیسا کہ سورہ نمل میں فرمایا گیا ہے کہ " وہ اس دن گھبراہٹ سے امن میں ہو نگے " { وَہُمْ مِنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ} (نمل: 89) اسطرح ان خوش نصیب بندگان خدا کے حق میں اندیشہ و خوف اور حزن و ملال سے محفوظ رہنے کی اس عظیم الشان خوشبخری کا کامل ظہور آخرت میں اس روز ہوگا، جو کہ کشف حقائق، ظہور نتائج اور مشاہدئہ غیوب کا دن ہوگا ۔ وہاں اگر ان کو کوئی غم اور افسوس کسی درجہ میں ہوگا بھی تو وہ صرف اس بات کا ہوگا کہ انہوں نے اس یوم عظیم کے لیے اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ کمائی کیوں نہ کی ۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں حضرت نبی معصوم - علیہ الصلوۃ والسلام سے۔ اسطرح وارد و منقول ہے ۔ اللہ تعالی زندگی کے ہر لمحے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے ۔ آمین۔
نَحْنُ أَوْلِيَآؤُكُمْ فِی الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِيْٓ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ(سورۃ حم السجدۃ/فصلت:۳۱)
ترجمہ : ہم تمہارے رفیق تھےدنیا کی زندگی میں اور آخرت میں(بھی) اور تہارے لئے اس میں (موجود ہے)جو تمہارے دل چاہیں،اور تمہارے لئے اس میں (موجود ہے) جوتم مانگوگے۔
تشریح:
بعض نے اس کو اللہ کا کلام بتایا ہے۔ یعنی فرشتوں کا کلام اس سے پہلے ختم ہو چکا۔ اور اکثر کے نزدیک یہ بھی فرشتوں کا مقولہ ہے۔ گویا فرشتے یہ قول ان کے دلوں میں الہام کرتے ہیں اور ان کی ہمت بندھاتے ہیں۔ ممکن ہے اس زندگی میں بعض بندوں سے مشافہۃً بھی اتنے الفاظ کہتے ہوں اور ممکن ہے موت کے قریب یا اس کے بعد کہا جاتا ہو۔ اس وقت ''نحن اولیاؤکم فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرۃ۔'' کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے رفیق رہے ہیں کہ اللہ کے حکم سے باطنی طور پر تمہاری اعانت کرتے تھے، اور آخرت میں بھی رفیق رہیں گے کہ وہاں تمہاری شفاعت یا اعزازو کرام کا انتظام کریں۔ جس چیز کی خواہش و رغبت دل میں ہوگی یا جو زبان سے طلب کرو گے سب کچھ ملے گا۔ اللہ کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔
... فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿البقرہ:۳۸﴾
ترجمہ : تو نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے.
تشریح :
اس آیت میں آسمانی ہدایات کی پیروی کرنے والوں کے لئے دو انعام مذکور ہیں ایک یہ کہ ان پر کوئی خوف نہ ہوگا، دوسرے وہ غمگین نہ ہوں گے، خَوْفٌ آئندہ پیش آنے والی کسی تکلیف ومصیبت کے اندیشہ کا نام ہے اور حزن کسی مقصد ومراد کے فوت ہوجانے سے پیدا ہونے والے غم کو کہا جاتا ہے غور کیا جائے تو عیش وراحت کی تمام انواع واقسام کا ان دو لفظوں میں ایسا احاطہ کردیا گیا ہے کہ آرام وآسائش کا کوئی فرد اور کوئی قسم اس سے باہر نہیں پھر ان دونوں لفظوں کی تعبیر میں ایک خاص فرق کیا گیا ہے کہ خوف کی نفی تو عام انداز میں کردی گئی مگر حزن کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ لاحزن علیہم بلکہ بصیغہ فعل لایا گیا اور اس کی ضمیر فاعل کو مقدم کرکے وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ فرمایا گیا اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ کسی چیز یا مراد کے فوت ہونے کے غم سے آزاد ہونا صرف انہی اولیاء اللہ کا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات کی مکمل پیروی کرنے والے ہیں ان کے سوا کوئی انسان اس غم سے نہیں بچ سکتا خواہ وہ ہفت اقلیم کا بادشاہ ہو یا دنیا کا بڑے سے بڑا مالدار ، کیونکہ ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہوتا جس کو اپنی طبیعت اور خواہش کےخلاف کوئی بات پیش نہ آئے اور اس کا غم نہ ہو جیسا کہ کہا گیا ہے، دریں دنیا کسے بے غم نباشد وگر باشد بنی آدم نباشد بخلاف اولیاء اللہ کے کہ وہ اپنی مرضی اور ارادے کو اللہ رب العزت کی مرضی اور ارادے میں فنا کردیتے ہیں اس لئے ان کو کسی چیز کے فوت ہونے کا غم نہیں ہوتا قرآن مجید میں دوسری جگہ بھی اس کو ظاہر کیا گیا ہے کہ خاص اہل جنت ہی کا یہ حال ہوگا کہ وہ جنت میں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا اس پر شکر کریں گے کہ ان سے غم دور کردیا گیا، الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (۳٤:۳۵) اس سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کچھ نہ کچھ غم ہونا ہر انسان کے لئے ناگزیز ہے بجز اس شخص کے جس نے اپنا تعلق حق تعالیٰ کے ساتھ مکمل اور مضبوط کرلیا ہو خواجہ عزیز الحسن مجذوب نے خوب فرمایا، جو بچنا ہو غموں سے آپ کا دیوانہ ہوجائے، اس آیت میں اللہ والوں سےخوف وغم کی نفی کرنے سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی کسی تکلیف یا کسی خواہش ومراد پر ان کو خوف وغم نہ ہوگا آخرت کی فکر وغم اور اللہ جل شانہ کی ہیبت وجلال تو ان پر اور سب سے زیادہ ہوتی ہے اسی لئے رسول اللہ ﷺ کی شان میں یہ آیا ہے کہ آپ اکثر غمگین اور متفکر رہتے تھے وجہ یہ ہے کہ آپ کا یہ فکر وغم کسی دنیوی نعمت کے فوت ہونے یا کسی مصیبت کے خطرہ سے نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کی ہیبت وجلال سے اور امت کے حالات کی وجہ سے تھا ، نیز اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ دنیا میں جو چیزیں خوفناک سمجھی جاتی ہیں ان سے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کو بشری طور پر طبعی خوف نہ ہو کیونکہ حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے سامنے جب لاٹھی کا سانپ بن گیا تو انکا ڈر جانا قرآن مجید میں مذکور ہے فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى(٦۷:۲۰) کیونکہ یہ فطری اور طبعی خوف ابتداء حال میں تھا جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا لاتخف تو یہ ڈر بالکل نکل گیا، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ خوف عام انسانوں کی طرح اس بنیاد پر نہ تھا کہ یہ سانپ ان کو تکلیف پہنچائے گا بلکہ اس لئے تھا کہ بنی اسرائیل اس سے کہیں گمراہی میں نہ پڑجائیں تو یہ خوف ایک قسم کا اخروی خوف تھا.(معارف)
پھر مومن صادق دنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی اندیشہ مستقبل اور غم ماضی کے بارِگراں سے سبکسار، لذت ایمان سے سرشار اسطرح رخصت ہوتا ہے کہ " چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست " کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے، کیونکہ ماضی کے بارے میں اس کو یہ افسوس نہیں ہوتا کہ میں نے متاع زندگی کو بے راہ روی میں گزارا بلکہ وہ مسرور اور مطمئن ہوتا ہے کہ مجھے زندگی میں متاع ھدیٰ کی اِتّباع کی سعادت حاصل رہی جس کے ثمرات سے میرا رب مجھے اب پوری طرح, نوازیگا ، اور ملائکہ رحمت زندگی کے اس پورے سفر کے دوران ایسے خوش نصیبوں کو { اَلاَّ تَخَافُوْا وَلا تَحْزَنُوْا } کی کیف آور لوریاں دیتے رہیں گے ، اور پھر خوف و اندیشیہ اور حزن و ملال سے محفوظ رہنے کی اس عظیم الشان خوش خبری کا اصلی ظہور ان کے حق میں آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں ہو گا جہاں ہر انسان کو اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا بلا کم وکاست پورا پورا صلہ و بدلہ ملے گا، اور وہ وہاں پر اس سب سے بڑی گھبراہٹ یعنی " فَزع اکبر " کی ہولنا کیوں سے بھی محفوظ رہیں گے ، جس نے ابناء کفر و ضلال کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہو گا - وَالْعِیَاذُ بِاللہ العظیم - اور اللہ پاک کے نوری فرشتے بڑھ بڑھ کر ان کا استقبال کرتے، ان کو سلام پیش کرتے، اور ان کو خوشخبریاں دے رہے ہوں گے، جیسا کہ سورہ انبیاء میں ارشاد فرمایا گیا، { لاَیَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الاَکْبَرُ وَتَتَلَقّٰہُمُ الْمَلٓئِکَۃُ ہٰٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدوْنَ } (الانبیاء : 103) ۔ یعنی " ان کو (قیامت کے دن کی ) وہ سب سے بڑی گھبراہٹ بھی پریشان نہیں کرسکے گی، اور فرشتے وہاں بڑھ بڑھ کر ان کو لے رہے ہوں گے (اور ان کے سرور کو دوبالا کرنے کے لئے ان سے کہا جارہا ہو گا کہ) یہی ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا " اور جیسا کہ سورہ نمل میں فرمایا گیا ہے کہ " وہ اس دن گھبراہٹ سے امن میں ہو نگے " { وَہُمْ مِنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ} (نمل: 89) اسطرح ان خوش نصیب بندگان خدا کے حق میں اندیشہ و خوف اور حزن و ملال سے محفوظ رہنے کی اس عظیم الشان خوشبخری کا کامل ظہور آخرت میں اس روز ہوگا، جو کہ کشف حقائق، ظہور نتائج اور مشاہدئہ غیوب کا دن ہوگا ۔ وہاں اگر ان کو کوئی غم اور افسوس کسی درجہ میں ہوگا بھی تو وہ صرف اس بات کا ہوگا کہ انہوں نے اس یوم عظیم کے لیے اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ کمائی کیوں نہ کی ۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں حضرت نبی معصوم - علیہ الصلوۃ والسلام سے۔ اسطرح وارد و منقول ہے ۔ اللہ تعالی زندگی کے ہر لمحے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے ۔ آمین۔
عقیدہ (۴۳):
اللہ کو اختیار ہے کہ چھوٹے گناہ پر سزا دے دے یا بڑے گناہ کو اپنی مہربانی سے معاف کردے اور اُس پر بالکل سزا نہ دے۔
حوالہ
إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ ۖ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (المائدہ:۱۱۸)
ترجمہ :
ترجمہ :
اگر توانہیں عذاب دے توبیشک وہ تیرے بندے ہیں اوراگر توبخشدے ان کو توبیشک توغالب حکمت والا ہے۔
تشریح:
یعنی آپ اپنے بندوں پر ظلم اور بیجا سختی نہیں کر سکتے اس لئے اگر ان کو سزا دیں گے تو عین عدل و حکمت پر مبنی ہوگی اور فرض کیجئے معاف کر دیں تو یہ معافی بھی از راہ عجز وسفہ نہ ہوگی۔ چونکہ آپ عزیز (زبردست اور غالب) ہیں اس لئے کوئی مجرم آپ کے قبضہ قدرت سے نکل کر بھاگ نہیں سکتا کہ آپ اس پر قابو نہ پا سکیں۔ اور چونکہ ''حکیم'' (حکمت والے) ہیں۔ اس لئے یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی مجرم کو یونہی بے موقع چھوڑ دیں۔ بہرحال جو فیصلہ آپ ان مجرمین کے حق میں کریں گے وہ بالکل حکیمانہ اور قادرانہ ہوگا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ کلام چونکہ محشر میں ہوگا جہاں کفار کے حق میں کوئی شفاعت اور استدعاء رحم وغیرہ نہیں ہو سکتی، اسی لئے حضرت مسیح نے عزیز حکیم کی جگہ غفور رحیم وغیرہ صفات کو اختیار نہیں فرمایا برخلاف اس کے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دنیا میں اپنے پروردگار سے عرض کیا تھا۔ رب انھن اضللن کثیرا من الناس فمن تبعنی فانہ منی و من عصانی فانک عفور رحیم( سورۃ ابراہیم آیت نمبر ٣٦)اے پروردگار ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو گمراہ کر دیا تو جو ان میں سے میرے تابع ہوا وہ میرا آدمی ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو پھر تو غفور رحیم ہے) یعنی ابھی موقع ہے کہ تو اپنی رحمت سے آئندہ ان کو توبہ اور رجوع الی الحق کی توفیق دے کر پچھلے گناہوں کو معاف فرما دے.
تشریح:
یعنی آپ اپنے بندوں پر ظلم اور بیجا سختی نہیں کر سکتے اس لئے اگر ان کو سزا دیں گے تو عین عدل و حکمت پر مبنی ہوگی اور فرض کیجئے معاف کر دیں تو یہ معافی بھی از راہ عجز وسفہ نہ ہوگی۔ چونکہ آپ عزیز (زبردست اور غالب) ہیں اس لئے کوئی مجرم آپ کے قبضہ قدرت سے نکل کر بھاگ نہیں سکتا کہ آپ اس پر قابو نہ پا سکیں۔ اور چونکہ ''حکیم'' (حکمت والے) ہیں۔ اس لئے یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی مجرم کو یونہی بے موقع چھوڑ دیں۔ بہرحال جو فیصلہ آپ ان مجرمین کے حق میں کریں گے وہ بالکل حکیمانہ اور قادرانہ ہوگا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ کلام چونکہ محشر میں ہوگا جہاں کفار کے حق میں کوئی شفاعت اور استدعاء رحم وغیرہ نہیں ہو سکتی، اسی لئے حضرت مسیح نے عزیز حکیم کی جگہ غفور رحیم وغیرہ صفات کو اختیار نہیں فرمایا برخلاف اس کے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دنیا میں اپنے پروردگار سے عرض کیا تھا۔ رب انھن اضللن کثیرا من الناس فمن تبعنی فانہ منی و من عصانی فانک عفور رحیم( سورۃ ابراہیم آیت نمبر ٣٦)اے پروردگار ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو گمراہ کر دیا تو جو ان میں سے میرے تابع ہوا وہ میرا آدمی ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو پھر تو غفور رحیم ہے) یعنی ابھی موقع ہے کہ تو اپنی رحمت سے آئندہ ان کو توبہ اور رجوع الی الحق کی توفیق دے کر پچھلے گناہوں کو معاف فرما دے.
عقیدہ (۴۴):
شرک اور کفر کا گناہ اللہ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتا اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے گا اپنی مہربانی سے معاف کردے گا۔
القرآن :
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا
﴿النساء:١١٦﴾
ترجمہ :
ترجمہ :
بیشک اللہ اس کونہیں بخشتا کہ اس کا شریک ٹھہرایاجائے اوربخشدے گا اس کو سوا جس کو چاہے اورجس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا سو وہ گمراہ ہوا ،گمراہی میں بہت دور کی.
تشریح :
یعنی شرک سے کم کسی گناہ کواللہ تعالی جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کرکے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرے اور توحید پرایمان لے آئے۔
تشریح :
یعنی شرک سے کم کسی گناہ کواللہ تعالی جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کرکے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرے اور توحید پرایمان لے آئے۔
قرآن مجید میں عربی لفظ ((دون یعنی سوا) اور ((غير یعنی علاوہ)) سے مخلوق کو ((إله یعنی معبود-خدا)) ٹھہراتے ہوئے اپنے ((زعم یعنی بغیر حکم محض اپنے خیال و گمان)) سے جو جو عقیدہ یا عمل ((أخذ-جعل یعنی خود پکڑتے-بناتے)) شرک کرتے رہے ہیں، ان میں:
(1)سورج کو سجدہ کرتے {27:24}،
(2)چاند تاروں کو رب(رزاق) مان لیتے{6: 76-78}،
(3)جِن کی عبادت کرتے {34:41} شیطان کو پکارتے{4:117}،
(4)فرشتوں کو (اللہ کی بیٹیاں-جُزء قرار دیتے) عبادت کرتے{34:40}،
(5)عیسیٰ نبی اور ان کی ماں مریم کو خدا بناتے{5:116}
عزیر اور عیسیٰ نبی کو خدا کا بیٹا قرار دیتے{9:30}
(6)اللہ ہی کے بندوں کو ولی (رکھوالا) بناتے{18:102}پیر-پرستی کرتے
مردہ اولیاء کے بت بناتے{71:23}پتھروں کی یادگاروں کو پوجتے تھے{21:98}
نفع نقصان اور شفاعت کی امید رکھتے پوجتے ہیں{10:18}
اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزء(حصہ/ٹکڑا) خود بناتے{43:15}
اور انہیں غائبانہ حاجات میں پکارتے رہتے، اور یہ سب وہ بلادلیل (بغیرخداوندی حکم و اجازت) کے محض اپنے زعم سے کرتے، اور عقیدت میں ان کو ولی (رکھوالا) اور نصیر (مددگار) ، رب (تربیت وحکم والا) ، رزاق ، شفیع (سفارش کرنے والا) ، نفع و نقصان کی ملکیت و اختیار رکھنے والا مالک مانتے تھے، تاکہ وہ الله کے ہاں قربت (نزدیکی) دلوانے {39:3} کا وسیلہ (ذریعہ) {17:57} ہیں۔
عقیدہ (۴۵):
جن لوگوں کا نام لیکر اللہ اور رسول نے اُن کا بہشتی ہونا بتلایا ہے اُن کے سوا کسی اور کے بہشتی ہونے کا یقینی حکم نہیں لگا سکتے البتہ اچھی نشانیاں دیکھ کر اچھا گمان رکھنا اور اس کی رحمت کی سے اُمید رکھنا ضروری ہے۔
حوالہ
[صحيح البخاري » كِتَاب التَّعْبِيرِ » بَاب الْعَيْنِ الْجَارِيَةِ فِي الْمَنَامِ ... رقم الحديث: 6527(7016)]
حضرت ام علاء رضی اللہ عنہا جو انہیں میں سے ایک خاتون تھیں اور رسول اللہ ﷺ سے بیعت تھیں بیان کرتی ہیں کہ جب انصار نے مہاجرین کی رہائش کے لئے قرعہ اندازی کی تو حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ میرے حصہ میں آئے، وہ بیمار پڑے تو ہم نے ان کی تیمارداری کی یہاں تک کہ وہ وفات پاگئے، پھر ہم نے ان کو ان کے کپڑوں میں کفن دیا، ہم لوگوں کے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے کہا: اے ابوالسائب! تم پر خدا کی رحمت، میں تم پر گواہ ہوں کہ اللہ نے تمہیں بزرگی دی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: تم کو کس طرح معلوم ہوا؟ میں نے کہا: خدا کی قسم! میں نہیں جانتی، آپ ﷺ نے فرمایا: ان کی موت آگئی، میں ان کے لئے اللہ سے بھلائی کی امید رکھتا ہوں، خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا؛ حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں! حضرت ام علاء رضی اللہ عنہا نے کہا: خدا کی قسم! اس کے بعد میں کسی انسان کی پاکیزگی نہیں بیان کروں گی، حضرت ام علاء رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے بہتا ہوا چشمہ دیکھا، میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا، تو آپؐ نے فرمایا: یہ ان کا عمل ہے جو ان کے لئے جاری رہے گا۔
[مسند احمد (27457 ) إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين، غير أبي كامل -وهو مظفَّر بن مُدرِك الخراساني- فقد روى له أبو داود في "التفرد" والنسائي، وهو ثقة. يعقوب: هو ابنُ إبراهيم بن سعد الزُّهري.وأخرجه ابن سعد 3/398، والبخاري (3929) ، وابن أبي عاصم في "الآحاد والمثاني" (3323) ، والطبراني في "الكبير" 25/ (338) ، وأبو نعيم في "الحلية" 1/104 من طرق عن إبراهيم بن سعد، بهذا الإسناد.
وأخرجه البخاري (1243) و (2687) و (7003) و (7004) ، وابن أبي عاصم في "الآحاد والمثاني" (3322) و (3324) ، والطبراني في "الكبير" 23/ (339) ، وفي "الشاميين" (3212) ، والحاكم 1/378، والبيهقي في "السنن" 4/76 من طرق عن الزهري، به.
قال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه. ووافقه الذهبي!
وسيأتي في الحديثين بعده.
قال السندي: قوله: طار لهم، أي: وقع في حصّتهم. فمرّضناه: من التمريض، أي: خدمناه في مرضه.
"ذاك عمله"، أي: لأنه مات مرابطاً، فإن المدينة كانت محل الرباط يومئذ، وعمل المرابط لا ينقطع.]
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، قَالَ : أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ وَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا ، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَمَرَّتْ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ خَيْرًا ، فَقَالَ عُمَرُ : وَجَبَتْ ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ خَيْرٌ ، فَقَالَ : وَجَبَتْ ، ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ شَرًّا ، فَقَالَ : وَجَبَتْ ، فَقُلْتُ : وَمَا وَجَبَتْ : أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ ، قَالَ : قُلْتُ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ ، قُلْنَا : وَثَلَاثَةٌ ، قَالَ : وَثَلَاثَةٌ ، قُلْتُ : وَاثْنَانِ ، قَالَ : وَاثْنَانِ ، ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الشَّهَادَاتِ » بَاب تَعْدِيلِ كَمْ يَجُوزُ ... رقم الحديث: 2462(2642)]
ابوالاسود سے روایت کرتے ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں مدینہ آیا اور وہاں ایک بیماری پھیلی ہوئی تھی جس سے لوگ جلد مر جاتے تھے، میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی تعریف بیان کی، حضرت عمر نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر ایک دوسرا جنازہ گزرا اور لوگوں نے اس کی بھی تعریف بیان کی تو انہوں نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر تیسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا واجب ہوگئی، میں نے پوچھا اے امیرالمؤمنین کیا واجب ہوگئی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اسی طرح کہا جس طرح نبی ﷺ نے فرمایاکہ جس مسلمان کی نیکی کی چار آدمی گواہی دے دیں تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کر دیتا ہے، میں نے پوچھا اور تین میں بھی؟ انہوں نے کہا تین میں بھی، میں نے پوچھا کیا دو میں بھی؟ انہوں نے کہا اور دو میں بھی، پھر ہم نے ان سے ایک کے متعلق نہیں پوچھا۔
[أخرجه ابن أبى شيبة (3/46، رقم 11993) ، وأحمد (139+204) ، والبخارى (1/460، رقم 1302(2643) ، والترمذى (3/373، رقم 1059) قال: حسن صحيح. والنسائى (4/50، رقم 1934) ، والبزار (312) ، وأبو يعلى (1/135، رقم 145) ، وابن حبان (7/297، رقم 3028) ، والبغوي في " شرح السنة " (1506) .]
ابوالاسود سے روایت کرتے ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں مدینہ آیا اور وہاں ایک بیماری پھیلی ہوئی تھی جس سے لوگ جلد مر جاتے تھے، میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی تعریف بیان کی، حضرت عمر نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر ایک دوسرا جنازہ گزرا اور لوگوں نے اس کی بھی تعریف بیان کی تو انہوں نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر تیسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا واجب ہوگئی، میں نے پوچھا اے امیرالمؤمنین کیا واجب ہوگئی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اسی طرح کہا جس طرح نبی ﷺ نے فرمایاکہ جس مسلمان کی نیکی کی چار آدمی گواہی دے دیں تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کر دیتا ہے، میں نے پوچھا اور تین میں بھی؟ انہوں نے کہا تین میں بھی، میں نے پوچھا کیا دو میں بھی؟ انہوں نے کہا اور دو میں بھی، پھر ہم نے ان سے ایک کے متعلق نہیں پوچھا۔
[أخرجه ابن أبى شيبة (3/46، رقم 11993) ، وأحمد (139+204) ، والبخارى (1/460، رقم 1302(2643) ، والترمذى (3/373، رقم 1059) قال: حسن صحيح. والنسائى (4/50، رقم 1934) ، والبزار (312) ، وأبو يعلى (1/135، رقم 145) ، وابن حبان (7/297، رقم 3028) ، والبغوي في " شرح السنة " (1506) .]
عقیدہ (۴۶):
بہشت میں سب سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے جو بہشتیوں کو نصیب ہوگا۔ اس کی لذت میں تمام نعمتیں ہیچ معلوم ہوں گی۔
حوالہ
[صحيح مسلم » كِتَاب الإِيمَانِ » بَاب إِثْبَاتِ رُؤْيَةِ الْمُؤْمِنِينَ فِي الآخِرَةِ ... رقم الحديث: 271(183)]
حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب تمام جنت والے جنت میں چلے جائیں گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ کیا تم مزید کچھ چاہتے ہو وہ جنتی عرض کریں گے اے اللہ کیا تو نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا کیا تو نے ہم کو دوزخ سے نجات نہیں دی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ ان کے اور اپنے درمیان سے پردے اٹھا دے گا اور جنتی اللہ کا دیدار کریں گے تو ان کو اس دیدار سے زیادہ کوئی چیز پیاری نہیں ہو گی۔
حضرت حماد بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰٰ عنہا سے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث روایت ہے لیکن اس میں اتنا زائد ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِيَادَةٌ) نیک لوگوں کے لئے نیک انجام اور مزید انعام ہے یعنی دیدار الہی۔
[وأخرجه احمد (18936+18941) ، ومسلم (181) (297) ، والترمذي (2552) و (3105) ، وابن ماجه (1/67، رقم 187) ، وابن حبان (16/471، رقم 7441)، والنسائي في "الكبرى" (7766) ، والبزار (6/13، رقم 2087) ، وأبو عوانة (1/136، رقم 411) ، والطبرانى فى الكبير (8/39، رقم 7314) ، وفى الأوسط (1/230، رقم 756) ، والشاشى (2/389، رقم 991) ، والطبري في "تفسيره" (17625) ، وابن خزيمة في "التوحيد" ص180 - 181، وابن منده في "الإيمان " (783) .]
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الْعَبَّادَانِيُّ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ الرَّقَاشِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بَيْنَا أَهْلُ الْجَنَّةِ فِي نَعِيمِهِمْ إِذْ سَطَعَ لَهُمْ نُورٌ فَرَفَعُوا رُءُوسَهُمْ ، فَإِذَا الرَّبُّ قَدْ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ، فَقَالَ : " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ ، قَالَ : وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ سَلامٌ قَوْلا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ سورة يس آية 58 قَالَ : فَيَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ ، فَلَا يَلْتَفِتُونَ إِلَى شَيْءٍ مِنَ النَّعِيمِ مَا دَامُوا يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ حَتَّى يَحْتَجِبَ عَنْهُمْ وَيَبْقَى نُورُهُ وَبَرَكَتُهُ عَلَيْهِمْ فِي دِيَارِهِمْ " .
[سنن ابن ماجه » كِتَاب ابْنُ مَاجَهْ » أَبْوَابُ فِي فَضَائِلِ أَصَحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ... رقم الحديث: 180]
حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنتی اپنی نعمتوں میں مشغول ہوں گے کہ ایک نور بلند ہوگا وہ اپنے سر اٹھائیں گے تو اوپر سے رب انہیں دیکھ رہا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے جنتیو تم پر سلام ہو! یہ اللہ تعالیٰ کا وہی ارشاد ہے: (رب رحیم کی طرف سے سلام کی بات ہوگی)، چنانچہ وہ انہیں اور وہ اسے دیکھیں گے۔ تو جب تک وہ اسے دیکھتے رہیں گے کسی نعمت کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے یہاں تک کہ وہ خود ان سے اوجھل ہوجائے اور اس کا نور اور اس کی برکت ان پر ان کے گھروں میں باقی رہے گی۔
[أخرجه ابن ماجه (1/65، رقم 184) ، وأبو نعيم فى الحلية (8509) . صفة الجنة لابن أبي الدنيا (98) ، صفة الجنة لأبي نعيم (88) ، الشريعة للآجري (637) ، الرؤيا للدارقطني (47) ، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي (836) ، الحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة 2 قوام السنة الأصبهاني (388) ، إثبات صفة العلو لابن قدامة المقدسي (31) ، العلو للعلي الغفار الذهبي (26) ، معالم التنزيل تفسير البغوي (990) ، الوسيط في تفسير القرآن المجيد (3 : 517 ، 777) ، الرسالة القشيرية (1 : 106 ، 39)۔]
[معجم ابن المقرئ » السلام عليكم يا أهل الجنة ، وهذا في القرآن سلام قولا ... رقم الحديث: 244(258)]
عقیدہ (۴۷):
دنیا میں جاگتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو ان آنکھوں سے کسی نے نہیں دیکھا اور نہ کوئی دیکھ سکتا ہے۔
القرآن :
حوالہ
... قالَ لَن تَرىٰنى ... [الأعراف:143]
فرمایا تو مجھ کو ہر گز نہ دیکھ سکو گے
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْأَبِي مُوسَى ، قَالَ : قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ ، فَقَالَ : " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ، لَا يَنَامُ ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ ، حِجَابُهُ النُّورُ " ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ : النَّارُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ ، مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ : وَلَمْ يَقُلْ حَدَّثَنَا ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَاجَرِيرٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ ، قَالَ : قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ ، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، وَلَمْ يَذْكُرْ : مِنْ خَلْقِهِ ، وَقَالَ : " حِجَابُهُ النُّورُ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الإِيمَانِ » بَاب فِي قَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَام : " إِنَّ اللَّهَ ... رقم الحديث: 268(181)]
ترجمہ:
ترجمہ:
حضرت ابوموسیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں فرمائیں کہ اللہ سوتا نہیں اور نہ ہی سونا اس کی شان ہے میزان اعمال کو جھکاتا اور بلند کرتا ہے اس کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے بلند کیا جاتا ہے اور اس کا حجاب نور ہے اور ابوبکر کی روایت میں ہے کہ اس کا حجاب آگ ہے اگر وہ اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی شعاعیں جہاں تک اس کی نگاہیں پہنچتی ہیں مخلوق کو جلا دیں۔
اسحق بن ابراہیم، جریر، اعمش حضرت اعمش سے یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے مگر اس میں چار باتوں کا ذکر ہے اور مخلوق کا ذکر نہیں اور فرمایا اس کا حجاب نور ہے۔
وأخرجه عبد بن حميد في "المنتخب" (541) ، وابن خزيمة في "التوحيد" ص20، والآجري في "الشريعة" ص290 و305، وأبو الشيخ في "العظمة" (131) ، والإسماعيلي في "معجمه" 2/562، والسهمي في "تاريخ جرجان" ص130-131 من طريق أبي بُردة، عن أبي موسى، به.]
اسحق بن ابراہیم، جریر، اعمش حضرت اعمش سے یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے مگر اس میں چار باتوں کا ذکر ہے اور مخلوق کا ذکر نہیں اور فرمایا اس کا حجاب نور ہے۔
[أخرجه مسلم (1/161، رقم 179) ، وابن ماجه (1/70، رقم 195) ، وابنُ أبي عاصم في "السنة" (614) ، وأبو يعلى (7263) ، وابنُ خزيمة في "التوحيد" ص19 و75، وأبو عوانة 1/145-146، والآجُري في "الشريعة" ص304، وأبو الشيخ في "العظمة" (120) ، وابنُ منده في "الإيمان" (776) ، والبغوي في "شرح السنة" (91) ، وفي "التفسير" -عند آية الكرسي- من طريق أبي معاوية الضرير، بهذا الإسناد.
وأخرجه أيضًا: أحمد (19632) ، وأبو عوانة (1/127، رقم 379) ، وابن حبان (1/499، رقم 266) ، والطبرانى فى الأوسط (6/139، رقم 6025) ، وابنُ خزيمة في "التوحيد" ص 19 و19-20، ، والآجُرِّي في "الشريعة" ص 290-291 و304، وأبو الشيخ في "العظمة" (130) ، وابن منده في "الإيمان" (778) من طرق عن عمرو بن مرة، به.وأخرجه عبد بن حميد في "المنتخب" (541) ، وابن خزيمة في "التوحيد" ص20، والآجري في "الشريعة" ص290 و305، وأبو الشيخ في "العظمة" (131) ، والإسماعيلي في "معجمه" 2/562، والسهمي في "تاريخ جرجان" ص130-131 من طريق أبي بُردة، عن أبي موسى، به.]
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ انْطَلَقَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ ، حَتَّى وَجَدَهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ يَوْمَئِذٍ الْحُلُمَ ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ صَيَّادٍ : " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ " ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ : أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ، فَرَفَضَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ : " آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ " ، ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَاذَا تَرَى ؟ " ، قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ : يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ " ، ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا " ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ : هُوَ الدُّخُّ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ " ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : ذَرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ " ، وَقَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ : انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ ، حَتَّى إِذَا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلَ طَفِقَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشٍ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا زَمْزَمَةٌ ، فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ : يَا صَافِ وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ هَذَا مُحَمَّدٌ ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ " ، قَالَ سَالِمٌ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ : فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ ، فَقَالَ : " إِنِّي لَأُنْذِرُكُمُوهُ مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ ، لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ ، وَلَكِنْ أَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ تَعَلَّمُوا أَنَّهُ أَعْوَرُ ، وَأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ " ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَأَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيُّ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " يَوْمَ حَذَّرَ النَّاسَ الدَّجَّالَ إِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ ، يَقْرَؤُهُ مَنْ كَرِهَ عَمَلَهُ أَوْ يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ " ، وَقَالَ : " تَعَلَّمُوا أَنَّهُ لَنْ يَرَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ، حَتَّى يَمُوتَ " ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ : انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، حَتَّى وَجَدَ ابْنَ صَيَّادٍ غُلَامًا قَدْ نَاهَزَ الْحُلُمَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مُعَاوِيَةَ ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ إِلَى مُنْتَهَى حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ ، وَفِي الْحَدِيثِ عَنْ يَعْقُوبَ ، قَالَ : قَالَ أُبَيٌّ يَعْنِي فِي قَوْلِهِ : لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ ، قَالَ : لَوْ تَرَكَتْهُ أُمُّهُ بَيَّنَ أَمْرَهُ ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ،وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ جَمِيعًا ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ بِمَعْنَى حَدِيثِ يُونُسَ وَصَالِحٍ ، غَيْرَ أَنَّ عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ لَمْ يَذْكُرْ حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ ، فِي انْطِلَاقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ » بَاب ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ ... رقم الحديث: 5219]
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک جماعت میں ابن صیاد کی طرف نکلے یہاں تک کہ اسے بنی مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پایا اور ابن صیاد ان دنوں قریب البلوغ تھا اور اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کی کمر پر ضرب ماری، پھر رسول اللہ ﷺ نے ابن صیاد سے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ ﷺ کی طرف دیکھ کر کہا کہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ امیوں کے رسول ہیں! پھر ابن صیاد نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: کیا آپؐ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا: میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے رسولوں پر، پھر رسول ﷺ نے اس سے فرمایا تو کیا دیکھتا ہے؟ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس سچا بھی آتا ہے اور جھوٹا بھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تجھ پر اصل معاملہ تو پھر مشتبہ ہوگیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات چھپائی ہوئی ہے، تو ابن صیاد نے کہا وہ دخّ ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: دور ہو تو اپنے اندازہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھے اجازت دیں اے اللہ کے رسولؐ! میں اس کی گردن مار دوں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اگر یہ وہی ہے تو تم اس پر غالب نہ ہو سکو گے اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو اس کے قتل کرنے میں تمہارے لئے کوئی بھلائی نہیں ہے، حضرت سالم بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اس واقعہ کے بعد رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ اس باغ کی طرف چلے جس میں ابن صیاد تھا یہاں تک کہ جب رسول اللہ ﷺ اس باغ میں داخل ہوئے تو وہ کھجوروں کے تنوں میں چھپنے لگے تاکہ ابن صیاد کے دیکھنے سے پہلے اس کی کچھ گفتگو سن سکیں، پس رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی ایک چادر میں لپٹا لیٹا ہوا ہے اور کچھ گنگنا رہا ہے، پس ابن صیاد کی والدہ نے رسول اللہ ﷺ کو کھجور کے تنوں کی آڑ میں چھپتے ہوئے دیکھ لیا، تو اس نے ابن صیاد سے کہا: اے صاف اور یہ ابن صیاد کا نام تھا، یہ محمدؐ ہیں! تو ابن صیاد فورًا اٹھ کھڑا ہوا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ اسے چھوڑ دیتی تو وہ کچھ بیان کر دیتا، سالم بن عبد اللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق بیان کی، پھر دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے، تحقیق نوح علیہ السلام بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرا چکے ہیں؛ لیکن میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی، یادرکھو! کہ بیشک وہ کانا ہوگا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کانا نہیں ہے، ابن شہاب نے کہا مجھے حضرت عمر بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ اُسے رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ آپ ﷺ نے دجال سے ڈراتے ہوئے اس دن فرمایا: اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا جسے وہی پڑھ سکے گا جو اس کے عمل کو ناپسند کرتا ہوگا، یا ہر مومن اسے پڑھ سکے گا اور آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی اپنے رب کو مرنے تک ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔
[صحيح مسلم » كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ » بَاب ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ ... رقم الحديث: 5219]
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک جماعت میں ابن صیاد کی طرف نکلے یہاں تک کہ اسے بنی مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پایا اور ابن صیاد ان دنوں قریب البلوغ تھا اور اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کی کمر پر ضرب ماری، پھر رسول اللہ ﷺ نے ابن صیاد سے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ ﷺ کی طرف دیکھ کر کہا کہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ امیوں کے رسول ہیں! پھر ابن صیاد نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: کیا آپؐ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا: میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے رسولوں پر، پھر رسول ﷺ نے اس سے فرمایا تو کیا دیکھتا ہے؟ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس سچا بھی آتا ہے اور جھوٹا بھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تجھ پر اصل معاملہ تو پھر مشتبہ ہوگیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات چھپائی ہوئی ہے، تو ابن صیاد نے کہا وہ دخّ ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: دور ہو تو اپنے اندازہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھے اجازت دیں اے اللہ کے رسولؐ! میں اس کی گردن مار دوں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اگر یہ وہی ہے تو تم اس پر غالب نہ ہو سکو گے اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو اس کے قتل کرنے میں تمہارے لئے کوئی بھلائی نہیں ہے، حضرت سالم بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اس واقعہ کے بعد رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ اس باغ کی طرف چلے جس میں ابن صیاد تھا یہاں تک کہ جب رسول اللہ ﷺ اس باغ میں داخل ہوئے تو وہ کھجوروں کے تنوں میں چھپنے لگے تاکہ ابن صیاد کے دیکھنے سے پہلے اس کی کچھ گفتگو سن سکیں، پس رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی ایک چادر میں لپٹا لیٹا ہوا ہے اور کچھ گنگنا رہا ہے، پس ابن صیاد کی والدہ نے رسول اللہ ﷺ کو کھجور کے تنوں کی آڑ میں چھپتے ہوئے دیکھ لیا، تو اس نے ابن صیاد سے کہا: اے صاف اور یہ ابن صیاد کا نام تھا، یہ محمدؐ ہیں! تو ابن صیاد فورًا اٹھ کھڑا ہوا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ اسے چھوڑ دیتی تو وہ کچھ بیان کر دیتا، سالم بن عبد اللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف اس کی شان کے مطابق بیان کی، پھر دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے، تحقیق نوح علیہ السلام بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرا چکے ہیں؛ لیکن میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی، یادرکھو! کہ بیشک وہ کانا ہوگا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کانا نہیں ہے، ابن شہاب نے کہا مجھے حضرت عمر بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ اُسے رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ آپ ﷺ نے دجال سے ڈراتے ہوئے اس دن فرمایا: اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا جسے وہی پڑھ سکے گا جو اس کے عمل کو ناپسند کرتا ہوگا، یا ہر مومن اسے پڑھ سکے گا اور آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی اپنے رب کو مرنے تک ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔
[إسناده صحيح. وهو في "مصنف" عبد الرزاق (20820) .
ومن طريق عبد الرزاق أخرجه مسلم ص2246 (97) ، والترمذي (2235) ، وأبو عمرو الداني في "الفتن" (644) . قال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح.
وأخرجه مسلم ص 2245، و (2930) (96) ، ويعقوب بن سفيان في "المعرفة والتاريخ" 1/383، وعثمان الدارمي في "الرد على الجهمية" ص51، وابن أبي عاصم في "السنة" (430) ، واللالكائي في "شرح أصول الاعتقاد" (855) من طرق عن الزهري، به.
وسلف برقم (6365) من طريق عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر.
وفي الباب عن أنس بن مالك سلف برقم (12004) .
وعن أبي بكرة سلف برقم (20401) .
وعن ابن عمر سلف برقم (4743) و (4804) ، وانظر تتمة شواهده هناك.]
ومن طريق عبد الرزاق أخرجه مسلم ص2246 (97) ، والترمذي (2235) ، وأبو عمرو الداني في "الفتن" (644) . قال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح.
وأخرجه مسلم ص 2245، و (2930) (96) ، ويعقوب بن سفيان في "المعرفة والتاريخ" 1/383، وعثمان الدارمي في "الرد على الجهمية" ص51، وابن أبي عاصم في "السنة" (430) ، واللالكائي في "شرح أصول الاعتقاد" (855) من طرق عن الزهري، به.
وسلف برقم (6365) من طريق عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر.
وفي الباب عن أنس بن مالك سلف برقم (12004) .
وعن أبي بكرة سلف برقم (20401) .
وعن ابن عمر سلف برقم (4743) و (4804) ، وانظر تتمة شواهده هناك.]
عقیدہ (۴۸):
عمر بھر کوئی کیسا ہی بھلا برا ہو مگر جس حالت پر خاتمہ ہوتا ہے اُسی کے موافق اُس کو اچھا برا بدلہ ملتا ہے۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص ایک غزوہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ شریک تھا اور مسلمانوں کی طرف سے بہت شدت سے جنگ کر رہا تھا، نبی کریم ﷺ نے دیکھا تو فرمایا: جو کوئی دوزخی آدمی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اس کو دیکھ لے، مسلمانوں میں سے ایک شخص اس کے ساتھ ہوگیا اور وہ مشرکوں کے ساتھ سختی سے جنگ کر رہا تھا یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا اور جلدی سے مرنا چاہا، اس نے تلوار کی دھار اپنے سینے پر رکھ کر دبائی یہاں تک کہ وہ مونڈھوں سے نکل گئی (اور مر گیا)، وہ آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں روتا ہوا آیا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں، آپؐ نے فرمایا: کیا بات ہے اس نے عرض کیا: آپؐ نے فلاں شخص کے متعلق فرمایا تھا کہ جو کوئی دوزخی دیکھنا چاہتا ہے وہ اس کو دیکھ لے؛ حالانکہ وہ ہم مسلمانوں کی طرف سے بہت سخت جنگ کرنے والا تھا؛ چنانچہ میں نے سمجھا تھا کہ وہ اس حالت میں نہیں مرے گا، پھر جب وہ زخمی ہوا تو اس نے جلدی مرنا چاہا اور خودکشی کرلی تو نبی کریم ﷺ نے (اس بات کو سن کر فرمایا:) بندہ دوزخیوں کے عمل کرتا ہے؛ حالانکہ وہ جنتیوں میں سے ہوتا ہے، اسی طرح ایک بندہ جنتیوں کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے، اور بلاشبہ اعمال کا دار و مدار خاتمہ پر موقوف ہے۔
حوالہ
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَعْظَمِ الْمُسْلِمِينَ غَنَاءً عَنِ الْمُسْلِمِينَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى الرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا " ، فَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ عَلَى الْمُشْرِكِينَ حَتَّى جُرِحَ ، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ فَجَعَلَ ذُبَابَةَ سَيْفِهِ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ ، حَتَّى خَرَجَ مِنْ بَيْنِ كَتِفَيْهِ ، فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْرِعًا ، فَقَالَ : أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ ، فَقَالَ : وَمَا ذَاكَ ؟ قَالَ : قُلْتَ لِفُلَانٍ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ إِلَيْهِ ، وَكَانَ مِنْ أَعْظَمِنَا غَنَاءً عَنِ الْمُسْلِمِينَ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَا يَمُوتُ عَلَى ذَلِكَ ، فَلَمَّا جُرِحَ اسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ : " إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ ، وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ " .[صحيح البخاري » كِتَاب الْقَدَرِ » بَاب الْعَمَلُ بِالْخَوَاتِيمِ ... رقم الحديث: 6145(6605)]حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص ایک غزوہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ شریک تھا اور مسلمانوں کی طرف سے بہت شدت سے جنگ کر رہا تھا، نبی کریم ﷺ نے دیکھا تو فرمایا: جو کوئی دوزخی آدمی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اس کو دیکھ لے، مسلمانوں میں سے ایک شخص اس کے ساتھ ہوگیا اور وہ مشرکوں کے ساتھ سختی سے جنگ کر رہا تھا یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا اور جلدی سے مرنا چاہا، اس نے تلوار کی دھار اپنے سینے پر رکھ کر دبائی یہاں تک کہ وہ مونڈھوں سے نکل گئی (اور مر گیا)، وہ آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں روتا ہوا آیا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں، آپؐ نے فرمایا: کیا بات ہے اس نے عرض کیا: آپؐ نے فلاں شخص کے متعلق فرمایا تھا کہ جو کوئی دوزخی دیکھنا چاہتا ہے وہ اس کو دیکھ لے؛ حالانکہ وہ ہم مسلمانوں کی طرف سے بہت سخت جنگ کرنے والا تھا؛ چنانچہ میں نے سمجھا تھا کہ وہ اس حالت میں نہیں مرے گا، پھر جب وہ زخمی ہوا تو اس نے جلدی مرنا چاہا اور خودکشی کرلی تو نبی کریم ﷺ نے (اس بات کو سن کر فرمایا:) بندہ دوزخیوں کے عمل کرتا ہے؛ حالانکہ وہ جنتیوں میں سے ہوتا ہے، اسی طرح ایک بندہ جنتیوں کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے، اور بلاشبہ اعمال کا دار و مدار خاتمہ پر موقوف ہے۔
[أخرجه أحمد (5/335، رقم 22886) ، والبخارى (6/2436، رقم 6233) ، وابن حبان (14/50، رقم 6175) والطبرانى (6/143، رقم 5784) ، والدارقطنى فى الأفراد كما فى أطراف ابن طاهر (3/98، رقم 2147) ، ابن عساكر (55/416) ، كنز العمال 1574]
عقیدہ (۴۹):
آدمی عمر بھی میں جب کبھی توبہ کرے یا مسلمان ہو اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہے۔ البتہ مرتے وقت جب دَم نکلنے لگے اور عذاب کے فرشتے دکھائی دینے لگیں اُس وقت نہ توبہ قبول ہوتی ہے اور نہ ایمان۔
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب فِي فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ وَمَا ... رقم الحديث: 3488(3537)]
حوالہ
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْجُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ " . قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب فِي فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ وَمَا ... رقم الحديث: 3488(3537)]
حضرت ابو عبد الرحمنؓ بن عمرؓ بن خطاب سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : " یقینا اللہ عزوجل بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فر ما لیتا ہے جب تک وہ حالت نزع کو نہ پہنچ جا ئے " .
[أخرجه أحمد (6160+6408+15499) ، والترمذى (5/547، رقم 3537) وقال: حسن غريب. وابن ماجه (2/1420، رقم 4253) ، وابن حبان (2/394، رقم 628) ، والحاكم (4/286، رقم 7659) وقال: صحيح الإسناد. والبيهقى فى شعب الإيمان (5/395، رقم 7063) . وأخرجه أيضًا: عبد بن حميد (ص 267، رقم 847) ، وأبو يعلى (10/81، رقم 5717) ، والبغوى فى الجعديات (1/489، رقم 3404) .]
=====================================
سوال :
ہمارے تبلیغی بھائی اپنی تقریروں میں اکثر یہ کہتے ہیں کی صحابہ فرماتے ہیں کی "ہم نے پہلے ایمان سیکھا پھر اسکے بعد قرآن سیکھا" کیا یہ بات درست ہے ؟ انسے اس بات کا حوالہ مانگو تو وہ غصہ کرتے ہیں اس لئے آپ بتائے کہ یہ بات کس مستند کتاب میں ہے؟ اور قرآن کے بغیر ایمان کو کیسے اور کہاں سے سیکھا جائے؟
جواب :
جی ہاں! یہ بات صحیح ودرست ہے اور عربی کی مستند ومعتبر کتابوں میں موجود ہے چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کی التاریخ الکبیر (۲/۲۲۱) میں ہے:
عن جندب قال: کنا علی عہد النبي ﷺ غلماناً حزاورة تعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن ثم تعلمنا القرآن ازددنا بہ إیمانا۔
اور حافظ ابن البر رحمہ اللہ کی التمہید (۱۴:۱۳۳) میں ہے:
قال حذیفة بن الیمان: تعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، وسیأتي قوم في آخر الزمان یتعلمون القرآن قبل الإیمان.
ضروریات ایمان واسلام قرآن سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے کہ اس کے لیے قرآن کو چھوڑنا پڑے اور قرآن سیکھنے کا مطلب حفظ قرآن ہے، قرآنی احکام ومطالب کا سیکھنا مراد نہیں ہے کیونکہ صحابہٴ کرام احکام و مطالب قرآن جاننے اور سیکھنے کو حفظ قرآن پر مقدم رکھتے تھے۔
قال ابن عبد البر في التمہید (۱۴: ۱۳۳):
وکان الصحابة رضي اللہ عنہم وہم الذین خوطبوا بہذا الخطاب لم یکن منہم من حفظ القرآن کلہ ویکملہ علی عہد رسول اللہ ﷺ إلا قلیل منہم أبي بن کعب وزید بن ثابت ومعاذ بن جبل وأبوزید الأنصاري وعبد اللہ بن مسعود، وکلہم کان یقف علی معانیہ ومعاني ما حفظ منہ ویعرف تأویلہ ویحفظ أحکامہ، وربما عرف العارف منہم أحکاما من القرآن کثیرة وہو لم یحفظ سورہا، قال حذیفة بن الیمان... اھ
اور ایمان اور ضروریاتِ ایمان کا علم مستند ومعتبر علمائے کرام سے سیکھا جائے اور اخلاص اور ایقان کے لیے متبع شریعت وسنت اور صاحبِ نسبت بزرگوں کے پاس جایا جائے اور ان سے اصلاحی تعلق قائم کیا جائے اور تبلیغی جماعت میں وقت لگایا جائے۔
خلاصة حكم المحدث: صحيح
خلاصة حكم المحدث: صحيح
|
|
=========================================
No comments:
Post a Comment