یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
گناہ کبیرہ وصغیرہ کی تعریف، اقسام، فہرست، احکام اور نتائج
ادمی سے گناہ ہوتے رہنا ایسا ہے جیسے کپڑے میلے ہوتے رہنا، یا وضو ٹوٹتے رہنا۔ تو اس کا علاج وحل باربار دھونا، پاک ہوتے رہنا یعنی توبہ واستغفار کرتے رہنا ہے۔
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ۔۔۔ بیشک اللہ کو محبوب ہیں توبہ کرنے والے بھی اور پسند آتے ہیں (گندگی وبرائی سے) پاک رہنے والے بھی۔ [قرآن، سورۃ البقرۃ:222]
توبہ یعنی ہدایت کی طرف لوٹنا۔۔۔۔۔آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرنا۔
اور
(2)ایمان لانا۔۔۔گناہ کو گناہ ماننا۔۔۔
[سورۃ مریم:60، طٰہٰ:82، الفرقان:70، القصص:67]
(3)نیک عمل کرنا
[سورۃ الفرقان:71]
فدیہ دینا
[البقرۃ:184-194، النساء:92]
کفارہ ادا کرنا
[المائدۃ:45-89-95، المجادلۃ:4]
اصلاح کرنا
[سورۃ البقرۃ:160،آل عمران:89، النساء:16-146]
وہ کبیرہ-بڑے-اعلانیہ گناہ جو بغیر توبہ معاف نہیں ہوتے۔
جیسے:
ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا
[سورۃ آل عمران:90]
زنا وبدکاری کرنا اور توبہ کرنے کو ٹالنا
[سورۃ النساء:17-18]
نماز ضایع کرنا اور (منع کردہ)خواہشات پر چلنا
[سورۃ مریم:59-60]
زکوٰۃ نہ دینا
[سورۃ التوبۃ:11-5]
پاکیزہ رزق نہ کھانا اور سرکشی کرنا
[سورۃ طٰہٰ:80-81]
الله کے حرام کو حلال یا حلال کو حرام قرار دینا
[سورۃ النحل:114-119]
پاکدامن عورتوں پر الزام لگانا
[سورۃ النور:4-5]
غیرالله کو(غائبانہ مدد کیلئے)پکارنے کا شرک کرنا
[سورۃ القصص:64-67]
ناحق قتل کرنا، زنا کرنا
[سورۃ الفرقان:68-70]
وغیرہ (یعنی اور اس کے علاؤہ جو برائیاں پیغمبر نے بیان فرمائے)
[قرآنی حوالہ» سورۃ الاعراف:153، سورۃ التحریم:8]
اور چھوڑدو ظاہری گناہ بھی اور باطنی بھی ۔۔۔
[قرآن، سورۃ الانعام:120]
کبیرہ(بڑے) ظاہری گناہ، جیسے:
رسول اللہ ﷺ کی کوئی نافرمانی کرنا۔
[بخاری:7280]
کبیرہ(بڑے) باطنی گناہ، جیسے:
تکبر کرنا۔
[مسلم:91]
صغیرہ(چھوٹے) ظاہری گناہ، جیسے:
بےفائدہ کام کرنا۔
[ترمذی:2317]
صغیرہ(چھوٹے) باطنی گناہ، جیسے:
صغیرہ گناہ کو معمولی سمجھنا۔
[ابن ماجہ: 4243]
بعض لوگ خود کو معصوم سمجھتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے آخر کیا گناہ کیا ہے؟ جو ہم پر ایسی مصیبت آپہنچی ہے۔ دراصل اگر آدمی اللہ کے ساتھ سچا ہوجائے اور قرآن مجید کھول کر اللہ کے تمام احکام گننا شروع کرے تو اسے یقینا معلوم ہوجائے گا کہ وہ روزانہ کتنی اللہ کی نافرمانیاں کرتا رہتا ہے۔
لڑائی اور جنگ وجدل کا بیان»
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگ اس وقت تک ہلاک نہیں ہوں گے جب تک ان کے پاس (اپنے گناہوں کے جواز کیلئے کوئی جھوٹا) عذر باقی نہ رہے، یا وہ خود اپنا عذر زائل نہ کرلیں۔
[سنن ابوداؤد:4347]
پھر حضرت عبداللہ بن مسعود نے بطورِ گواہی یہ آیت پڑھی: پھر جب ان پر ہمارا عذاب آپہنچا تو ان کے پاس کہنے کو اور تو کچھ تھا نہیں، بس بول اٹھے کہ واقعی ہم ہی ظالم تھے۔
[سورۃ الأعراف، آیت نمبر 5﴿تفسیر ابن ابی حاتم:8212، تفسیر الطبری؛14323﴾]
وہ معاشرتی بداخلاقیاں اور بڑے گناہ»
جو باہمی نفرت، جھگڑے اور دشمنی کا سبب بنتے ہیں»
(1)سنی سنائی خبر بلاتحقیق پھیلانا۔
(2)مذاق اُڑانا۔
(3)الزام وعیب لگانا۔
(4)برے القاب سے چڑانا۔
(5)بدگمانی۔
(6)جاسوسی»راز/خفیہ باتوں پر مطلع ہونے کی کوشش کرنا۔
(7)غیبت۔
[حوالۂ قرآن»سورۃ الحجرات:6+11+12]
(8)طعنہ مارنا-منہ پر برا بھلا کہنا
[حوالۂ»سورۃ الھمزۃ:1]
(9)دوسروں کے گھروں میں بغیر اجازت اور سلام داخل ہونا۔
[حوالۂ»سورۃ النور:27]
(10)عذر ومعذرت قبول نہ کرنا۔۔۔(ایک مسئلہ/دن میں کم از کم دو بار)۔ [حوالہ»سورۃ الکھف:66] اپنے خادم کو ہر روز ستر مرتبہ معاف کرو۔ [ابوداؤد:5164، ترمذی:1949]
(12)دوسروں کا مال ناحق-گناہ کے طریقہ(رشوت،سود،چوری،ڈاکہ، دھوکہ،خیانت وغیرہ بغیراجازت یا بغیردلی-رضامندی) سے کھانا۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:188]
زیادہ وصول کرنے کی چاہت میں احسان کرنا۔
[حوالہ«سورہ المدثر:6]
(11)لوگوں سے چمٹ کر(پیچھے پڑ کر) مانگنا۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:273]
لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس میں امید رکھنا۔
[حاکم:8165(7928)]
ناجائز-لمبی-شیطانی امید وآرزو رکھنا۔
[سورۃ ھود:62، الحجر:3،۔محمد:25]
(13)زیادہ کی لالچ رکھنا۔
[حوالہ«سورہ المدثر:15]
(اپنے انجامِ آخرت اور فرائض سے) غفلت میں پڑنا"کثرت"کی چاہت میں۔
[سورۃ التکاثر:1]
دنیا یعنی کھیل، تماشے، زینت، مال واولاد کی "کثرت" پر آپس میں فخر کرنا۔
[حوالہ»سورۃ الحدید:20]
(14)علم (دین/حق) آجانے کے بعد بھی اپنی خواہشات کے پیچھے چلنا۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:145۔المائدۃ:48 الرعد:37
آپسی بغاوت(ضد،سرکشی،زیادتی) کے سبب اختلاف کرنا۔
[البقرۃ:90+213 آل عمران:19 الشوریٰ:14 الجاثیہ:17]
تفرقہ(علیحدگی ومخالفت)کرنا۔
[آل عمران:19-105 الشوریٰ:14 البینہ:4]
جھگڑنا۔
[آل عمران:61]
خلاف کرنا - اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے حکم یا رضا وپسندیدہ بات یا طریقے کی۔
صغائر وہ گناہ ہیں جن پر کوئی حد(سزا)، لعنت یا جہنم کی وعید وارد نہ ہوئی ہو نیز جو جرأت اور بیباکی سے نہ کیا جائے۔
اور
صغائر وہ گناہ ہیں جن پر کوئیحد، لعنت یا جہنم کی وعید وارد نہ ہوئی ہو نیز جو جرأت اور بیباکی سے نہ کیا جائے۔
اور جو صغیرہ گناہ باربار کیا جاتا ہے وہ بھی کبیرہ بن جاتا ہے۔
حوالہ
لَيْسَ صَغِيرٌ بِصَغِيرٍ مَعَ الْإِصْرَارِ
صغیرہ (گناہ) صغیرہ نہیں رہتا باربار کرنے سے۔
[مسند الشاميين للطبراني:3606]
اصولیاتِ صغائر:
صغیرہ باطنی گناہ#1»
کسی نیکی کو معمولی سمجھنا۔
حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کسی بھی نیکی کو حقیر نہ سمجھنا، پس اگر تیرے پاس کچھ بھی نہ ہو تو مسکراتے چہرے کے ساتھ مل لیا کرو۔
[ترمذی:1833]
اب سوچئے کہ ہم نے کتنی بار ارادے کے ساتگ دوسروں سے مسکراکر ملنے کو چھوڑا ہے؟
صغیرہ باطنی گناہ#2»
کسی گناہ کو معمولی سمجھنا۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اے عائشہ! بچو ان بداعمالیوں سے جنہیں حقیر سمجھلیا جاتا ہے، کیونکہ الله کی طرف سے ان پر بھی پکڑ و بازپرس ہوگی۔
[ابن ماجہ:4243]
ہم تو اگلا قدم اٹھالیتے یعنی اس برائی پر عمل کر لیتے ہیں۔
صغیرہ گناہ#3»
صغائر کو باربار کرنا۔
حضرت ابوھریرہ﴿حضرت ابن عباس﴾(حضرت عائشہ)سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نہیں رہتا کوئی صغیرہ گناہ باربار کرنے سے، اور نہیں رہتا کوئی بھی کبیرہ گناہ بخشش مانگنے کے ساتھ، خوشخبری اس کیلئے جو پائے قیامت کے دن(نامہ اعمال میں)استغفار کثرت سے۔
[الترغیب-ابن شاھین:187 ﴿شعب الایمان-البیھقی:6882﴾ ترتیب الامالی-الشجری:1123]
تفسیر الثعلبی»سورۃ آل عمران:135
صغیرہ گناہ#4»
کوئی بھی بےفائدہ بات/کام کرنا۔
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی(بےفائدہ)باتوں کو چھوڑ دے۔
[سنن ابن ماجہ:3976، سنن ترمذی:2317، صحیح ابن حبان:229]
تفسیر الثعلبی»سورۃ ق:18
تفسیر القشیری»سورۃ الاسراء:36
صغیرہ گناہ#5»
غیرفرض(گہرے)دینی علم سے محروم رہنا۔
رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ دیتا ہے۔۔۔[بخاری:71]
ایک فقیہ ہزار عابدوں سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے۔
[ابن ماجہ:222]
جو شخص دین میں فقہ(گہری سمجھ)حاصل کرتا ہے تو الله اس کے کاموں میں کافی ہوجاتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ گیا ہو۔
[مسند ابوحنیفہ-الحصکفی:3]سورۃ التوبۃ:122
صغیرہ گناہ#5»
روزمرہ نبوی سنن وآداب پر عمل کا ارادہ و کوشش نہ کرنا۔
جیسے:
اٹھنے سونے، کھانے-کھلانے، پینے-پلانے کے آداب واطوار....کپڑے ٹوپی عمامہ جوتے انگوٹھی پہننے پہنانے، نہانے، نکلنے، داخل ہونے، چلنے-چلانے، ملنے-ملانے، اٹھنے بیٹھنے، لینے دینے، سیکھنے سکھانے، بولنے پوچھنے، سننے-سنانے وغیرہ تمام طور-طریقوں کو نبوی مسنون طریقوں میں نہ ڈھالنا۔۔۔۔۔روزمرہ کے متعدد صغیرہ گناہ ہیں۔
القرآن:
حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
[سورۃ الاحزاب:21]
(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔۔۔۔۔۔[سورۃ آل عمران:31]
حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کرو (چنانچہ اس کے سامنے صغیرہ گناہ لائے جائیں گے) اور کبیرہ گناہ چھپا لیے جائیں گے، اور اس سے کہا جائے گا کہ تم نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا اور فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا اور فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا اور فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا تین مرتبہ۔
(آگے) فرمایا:
وہ ہر گناہ کا اقرار کرے گا کسی کا بھی انکار نہیں کرے گا اور کبیرہ گناہوں کے آنے کے خوف سے ڈر رہا ہوگا۔
آپ نے فرمایا:
پھر ارادہ فرمائے گا الله اس سے بھلائی کا، تو حکم ہوگا کہ ہر گناہ کے بدلے اسے ایک نیکی دے دو۔
وہ کہے گا کہ اے میرے رب! میرے بہت سے گناہ ایسے ہیں جنہیں ابھی تک میں نے دیکھا ہی نہیں ہے۔
حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ اس بات پر میں نے نبی کریم ﷺ کو اتنا ہنستے ہوئے دیکھا کہ دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے۔
پھر (یہ آیت) نبی ﷺ نے تلاوت فرمائی:
سو ان کو بدل دے گا، اللہ برائیوں کی جگہ بھلائیاں اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان.
[تفسير الثعلبي، تفسير السمعاني، تفسير القرطبي، تفسير الخازن، تفسير ابن كثير]
یعنی حالتِ کفر میں انہوں نے جو برے کام کیے تھے، وہ ان کے نامہ اعمال سے مٹا دئیے جائیں گے، اور اسلام لا کر جو نیک عمل کیے ہوں گے وہ ان کی جگہ لے لیں گے۔
سچی توبہ چاہئے۔
الله پاک نے ارشاد فرمایا:
اے(زبان سے)ایمان لانے والو! توبہ کرو الله کی طرف سچی توبہ۔۔۔
[سورۃ التحریم:8]
یعنی
گناہ کرنے سے آدمی کافر نہیں ہوجاتا۔۔۔اور ایمان ویقین میں سچائی اور کاملیت سچی توبہ سے حاصل ہوتی ہے۔
حضرت علیؓ کے مطابق، جھوٹے لوگوں کی توبہ کیا ہے؟
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول الله ﷺ کی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے کہا:
اے الله! میں بخشش مانگتا ہوں آپ سے اور لوٹتا ہوں آپ کی طرف۔۔۔پھر اس نے تکبیر کہی(یعنی الله سب سے بڑا ہے۔۔۔کہا)، پھر جب وہ فارغ ہوا اپنی نماز سے تو فرمایا اسے حضرت علی نے کہ او(بھائی)! یہ زبان کی جلدبازی سے بخشش مانگنا جھوٹوں کی توبہ ہے، لہٰذا تیری توبہ تو محتاج ہے (دوسری/سچی) توبہ کی، تو اس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! پھر توبہ(کا صحیح طریقہ)کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
توبہ نام، 6 اشیاء پر واقع ہوتی ہے۔
ماضی کے گناہوں پر ندامت،
اور ضایع شدہ فرائض کا لوٹانا....یعنی قضاء کرنا،
اور جو(حقوق کی ادائیگی میں)ظلم کئے انہیں لوٹانا
﴿اور حل کرنا جھگڑوں کو، اور عزم کرنا کہ وہ(گناہ۔وگمراہی پر) نہ لوٹنے گا﴾
اور نفس کو(نفلی)فرمانبرداری میں لگانا جیسے نافرمانی میں(راتیں)بِتائیں، اور نفس کو فرمانبرداری کی مٹھاس چکھانا جیسے نافرمانی کی لذت چکھائی،
اور(نافرمانی کے)ہر ہنسنے کے بدلے میں(الله حضور معافی مانگتے)رونا۔
حوالہ جات:
[امام-الطيبي(م743ھ)، کتاب-فتوح الغيب في الكشف عن قناع الريب: ج15/ ص512 تفسیر سورۃ التحریم:آیۃ8]
[إسماعيل حقي(م1127ھ)، تفسیر روح البيان»ج10/ص61، سورۃ التحریم:8]
حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺ مجھے کوئی وصیت فرمائیے ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر تم سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کے بعد کوئی نیکی کر لیا کرو جو اس گناہ کو مٹا دے میں نے عرض کیا کہ ((لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ یعنی نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے)) کہنا نیکیوں میں شامل ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ تو سب سے افضل نیکی ہے۔
(2)کبیرہ گناہوں سے بچنے پر بھی صغیرہ گناہ مِٹادیئے جاتے ہیں:
القرآن:
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے۔۔۔
[سورۃ النساء:31]
(3)وہ "کبیرہ-اعلانیہ" گناہ جو بغیر توبہ معاف نہیں ہوتے۔
جیسے:
ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا
[سورۃ آل عمران:90]
زنا وبدکاری کرنا اور توبہ کرنے کو ٹالنا
[سورۃ النساء:17-18]
نماز ضایع کرنا اور (منع کردہ)خواہشات پر چلنا
[سورۃ مریم:59-60]
زکوٰۃ نہ دینا
[سورۃ التوبۃ:11-5]
پاکیزہ رزق نہ کھانا اور سرکشی کرنا
[سورۃ طٰہٰ:80-81]
الله کے حرام کو حلال یا حلال کو حرام قرار دینا
[سورۃ النحل:114-119]
پاکدامن عورتوں پر الزام لگانا
[سورۃ النور:4-5]
غیرالله کو(غائبانہ مدد کیلئے)پکارنے کا شرک کرنا
[سورۃ القصص:64-67]
ناحق قتل کرنا، زنا کرنا
[سورۃ الفرقان:68-70]
وغیرہ (یعنی اور اس کے علاؤہ جو برائیاں پیغمبر نے بیان فرمائیں)
[قرآنی حوالہ» سورۃ الاعراف:153، سورۃ التحریم:8]
(4)اور بعض گناہ، ایسے ہیں جو انسان کے تمام اعمالِ حسنہ پر پانی پھیردیتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا:
جیسے:
مرتد ہوجانا اور اسی کفر کی حالت میں مرنا۔
[سورۃ البقرۃ:214]
آیاتِ الٰہی کا انکار کرنا، انبیاء کو اور انصاف کی تلقین کرنے والوں کو ناحق قتل کرنا
[سورۃ آل عمران:21-22]
آخرت کی ملاقات کا انکار کرنا
[سورۃ الاعراف:147]
شرک کرنا
[سورۃ التوبہ:17، الکھف:102-105]
توبہ یعنی ہدایت کی طرف لوٹنا۔۔۔۔۔آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرنا۔
(1)ایمان لانا۔۔۔یعنی گناہ کو گناہ ماننا۔
[سورۃ مریم:60، طٰہٰ:82، الفرقان:70، القصص:67]
کیونکہ اس کے بغیر ندامت وشرمندگی ممکن نہیں۔ اور ندامت توبہ (کی روح) ہے۔
(2)نیک عمل کرنا
[سورۃ الفرقان:71]
(3)فدیہ دینا
[البقرۃ:184-194، النساء:92]
کفارہ ادا کرنا
[المائدۃ:45-89-95، المجادلۃ:4]
(4)اصلاح کرنا
[سورۃ البقرۃ:160،آل عمران:89، النساء:16-146]
گناہ کبیرہ کی تعریف’اقسام’فہرست اور ان سے متعلق چند ضروری احکام و عقائد
کبیرہ گناہ کی تعریف:
گناہ کبیرہ کی تعریف قرآن وحدیث اور اقوال سلف کی تشریحات کے ماتحت یہ ہے کہ جس گناہ پر قرآن میں کوئی شرعی حد یعنی سزا دنیا میں مقرر کی گئی ہے یا جس پر لعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں یا جس پر جہنم وغیرہ کی وعید آئی ہے وہ سب گناہ کبیرہ ہیں، اسی طرح ہر وہ گناہ بھی کبیرہ میں داخل ہوگا جس کے مفاسد اور نتائج بد کسی کبیرہ گناہ کے برابر یا اس سے زائد ہوں اور جو گناہ صغیرہ جرأت و بیباکی کے ساتھ کیا جائے وہ بھی کبیرہ ہے۔ صغیرہ گناہ بار بار کرنے سے کبیرہ بن جاتا ہے۔
عقیدہ:
گناہِ کبیرہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے اور گناہِ صغیرہ نیک اعمال کی برکت سے توبہ کے بغیر معاف ہوجاتے ہیں۔ تشریح: نیک اعمال کرنے یا کبیرہ گناہوں سے بچنے سے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ [دلائل-سورۃ ھود:114، النساء:31] لیکن کبیرہ گناہ توبہ کیے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ [دلائل-سورۃ مریم:60، الفرقان:68-71، القصص:67] حوالہ(مسلم:233،ترمذی:214)
عقیدہ:
گناہ ٍکبیرہ کی معافی کے لئے توبہ ضروری ہے اور توبہ یہ ہے کہ جس گناہ سے توبہ کی ہو اُسے فوراً چھوڑ دے اور آئندہ اس گناہ کے نہ کرنے کا عزم کرے، اس گناہ پر ندامت و شرمندگی ہو، اس گناہ سے اللہ تعالیٰ یا بندے کا کوئی حق ضائع ہوا ہے تو اس حق کی تلافی کرے، نماز، روزہ وغیرہ چھوڑے ہوں تو ان کی قضاء کرے، کسی کا ناحق مال دبایا ہو یا کسی کو ستایا ہو تو اس کا مال واپس کردے یا اس سے اچھے انداز میں معاف کرالے۔ تشریح: موت یا قیامت کی(آخری)نشانیاں دیکھنے سے پہلے، فی الفور گناہ سے علیحدہ ہونے، ندامت کےساتھ ، (نعمتوں کے اعتراف اور گناہوں کے اقرار کےساتھ) معافی مانگتے، آئندہ نہ کرنے کے پختہ ارادہ کرتے لوٹنے، اور فرائض وحقوق کی قضا، کفارہ، فدیہ ادا کرنے یا وصیت کرجانے اور اس کوشش کو جاری رکھنے کو سچی توبہ کہتے ہیں۔
[دلائل-سورۃ طٰہٰ:82، التحریم:8]
گناہِ کبیرہ کی کوئی متعین تعداد نہیں ہے، بعض احادیث میں تین، بعض میں سات، بعض میں دس، بعض میں پندرہ، بعض میں ستّر (۷۰) تک بیان کئے گئے ہیں، چونکہ ہر چھوٹا عدد اپنے سے بڑے عدد کی نفی نہیں کرتا اس لئے حصر کہیں بھی مقصود نہیں ہے۔ (الزواجر:۱،۱۶،۱۷۔)
کبیرہ گناہوں کی فہرست: امام ابنِ حجر مکی الہیثمیؒ کی تحقیق کے مطابق: تقریباََ 467 کبیرہ گناہ ہیں، گناہ کے شبہات یا مقدمات ہیں۔ [دیکھیے: کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر]
گناہِ کبیرہ (۱)شرک :
یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات میں کسی کو شریک کرنا۔ دلائل:
ضروریاتِ دین میں سے کسی امرِ ضروری کا انکار کرنا۔کفر و شرک کی حالت میں اگر موت آگئی تو ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنا ہوگا اور آخرت میں اس کے لئے معافی کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ دلائل
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الَّذِينَ كَفَرُوا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ۔ (الانفال:۵۵)۔ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا (النساء:۵۶)۔ قال المبحث الثاني عشر اتفقت الأمة ونطق الكتاب والسنة بأن الله تعالى عفو غفور يعفو عن الصغاير مطلقا وعن الكباير بعد التوبة ولا يعفو عن الكفر قطعا وإن جاز عقلا ومنع بعضهم الجواز العقلي أيضا لأنه مخالف لحكمة التفرقة بين من أحسن غاية الإحسان ومن أساء غاية الإساءة وضعفه ظاهر واختلفوا في العفو عن الكباير بدون التوبة فجوزه الأصحاب بل أثبتوه خلافا للمعتزلة حيث منعوه سمعا وإن جاز عقلا عند الأكثرين منهم حتى صرح بعض المتأخرين منهم بأن القول بعدم حسن العفو عن المستحق للعقاب عقلا قول أبي القاسم الكعبي لنا على الجواز أن العقاب حقه فيحسن إسقاطه مع أن فيه نفعا للعبد من غير ضرر لأحد وعلى الوقوع الآيات والأحاديث الناطقة بالعفو والغفران وهو الذي يقبل التوبة عن عباده ويعفو عن السيئات أو يوبقهن بما كسبوا ويعفو عن كثير {إن الله يغفر الذنوب جميعا} {إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء} ( شرح المقاصد:۳؍۳۵۶)
گناہِ کبیرہ (۳)تقدیر کا انکار کرنا۔(صحیح بخاری:۱،۳۸۸)
والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کی نافرمانی کرنا۔ (اگرچہ اوپر چلتے جائیں، یعنی دادا وغیرہ نیز باپ وغیرہ کے ہوتے ہوئے دادا وغیرہ کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی) (سورۃ النساء:۳۶)جائز اور واجب امور میں والدین کی اطاعت فرض ہے، ناجائز اور حرام کاموں میں ان کی اطاعت جائز نہیں۔دلائل
گناہِ کبیرہ (۴۵)شراب پینا۔ اگرچہ اس سے نشہ نہ آئے، کوئی نشہ آور چیز استعمال کرنا، ان کو نچوڑنا، نچوڑنے والے کو طلب کرنا (پینے کی نیت سے)، اس کو اٹھانا، اس کو پینے وغیرہ کے لئے اٹھوانا، پلانا، پلانے کے لئے مانگنا، شراب خریدنا اور بیچنا، خریدنے یا بیچنے کے لئے مانگنا، اس کی قیمت کھانا، شراب یا ہر نشہ آور چیز کو روک رکھنا۔دلائل
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔ (البقرۃ:۱۸۸)۔لكبيرة الثامنة و العشرون : أكل الحرام و تناوله على أي وجه كان قال الله عز و جل : { و لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل } أي لا يأكل بعضكم مال بعض بالباطل قال ابن عباس رضي الله عنهما : يعني باليمين الباطلة الكاذبة يقتطع بها الرجل مال أخيه بالباطل و الأكل بالباطل على وجهين أحدهما أن يكون على جهة الظلم نحو الغصب و الخيانة و السرقة والثاني على جهة الهزل و اللعب كالذي يؤخذ في القمار و الملاهي و نحو ذلك و في صحيح البخاري : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : [ إن رجالا يتخوضون في مال الله بغير حق فلهم النار يوم القيامة۔ (الکبائر:۱؍۱۱۸)
گناہِ کبیرہ (۴۸)حرام مال کھانا یا کھلانا۔دلائل
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔ (البقرۃ:۱۸۸)۔الكبيرة الثامنة و العشرون : أكل الحرام و تناوله على أي وجه كان قال الله عز و جل : { و لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل } أي لا يأكل بعضكم مال بعض بالباطل قال ابن عباس رضي الله عنهما : يعني باليمين الباطلة الكاذبة يقتطع بها الرجل مال أخيه بالباطل و الأكل بالباطل على وجهين أحدهما أن يكون على جهة الظلم نحو الغصب و الخيانة و السرقة والثاني على جهة الهزل و اللعب كالذي يؤخذ في القمار و الملاهي و نحو ذلك و في صحيح البخاري : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : [ إن رجالا يتخوضون في مال الله بغير حق فلهم النار يوم القيامة ] و في صحيح مسلم حين ذكر النبي صلى الله عليه و سلم : [ الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يده إلى السماء يا رب يا رب و مطعمه حرام و مشربه حرام و ملبسه حرام و غذي بالحرام فأنى يستجاب لذلك۔ (الکبائر:۱؍۱۱۸)
گناہِ کبیرہ (۵۰) جج کا جان بوجھ کر غلط فیصلہ کرنا۔دلائل
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔ (المائدۃ:۴۷)۔عن عبد الله بن بريدة عن أبيه : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : القضاء ثلاثة : قاضيان في النار و قاض في الجنة قاض عرف الحق فقضى به فهو في الجنة و قاض عرف الحق فجار متعمدا فهو في النار و قاض قضى بغير علم فهو في النار ۔ (مستدرک حاکم:۷؍۲۵۰)
گناہِ کبیرہ (۶۰)ستر نہ چھپانا: مرد کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے اور عورت کا پورا جسم ستر ہے، سوائے ہتھیلیوں، چہرے اور پاؤں کے، عورت کے لئے چہرے کا چھپانا ستر کے طور پر نہیں بلکہ حجاب اور پردے کے طور پر ضروری ہے۔دلائل
گناہِ کبیرہ (۷۲)کاہن یا نجومی کی بات کی تصدیق کرنا۔
دلائل
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا۔ (اسراء:۳۶)۔ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَلَائِكَةُ تَتَحَدَّثُ فِي الْعَنَانِ وَالْعَنَانُ الْغَمَامُ بِالْأَمْرِ يَكُونُ فِي الْأَرْضِ فَتَسْمَعُ الشَّيَاطِينُ الْكَلِمَةَ فَتَقُرُّهَا فِي أُذُنِ الْكَاهِنِ كَمَا تُقَرُّ الْقَارُورَةُ فَيَزِيدُونَ مَعَهَا مِائَةَ كَذِبَةٍ۔ (صحیح بخاری،ح:۳۰۴۵)۔وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من اقتبس بابا من علم النجوم لغير ما ذكر الله فقد اقتبس شعبة من السحر المنجم كاهن والكاهن ساحر والساحر كافر۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ح:۴۶۰۴)
گناہِ کبیرہ (۷۳)پریشانی اور مصیبت کے وقت بے صبری کا مظاہرہ کرنا، نوحہ کرنا، ماتم کرنا، کپڑے پھاڑنا یا بد دعاء وغیرہ کرنا۔دلائل
کبیرہ گناہ (۹۵)کسی مسلمان بھائی کے ساتھ بدگمانی کرنا۔
گناہِ کبیرہ (۹۶) کسی اعتقادی یا عملی بدعت کا اختراع یا ارتکاب کرنا۔تشریح
اعتقادی بدعت اگر مفسّقہ ہو تو اس کا مخترع اور مرتکب گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوگا اور اگر بدعت مکفّرہ ہو تو اس کا مخترع اور مرتکب دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔دلائل
معاملة الكفار في الدنيا أي فيما بيننا وبينه وأما في الآخرة فأمره إلى الله تعالى لأن المتقرر عند أهل السنة أن لنا الظاهر والله يتولى السرائر, والمتقرر عندنا معاشر أهل السنة أن الأحكام في الدنيا على الظواهر والسرائر تبع لها, وأما في الآخرة فإن الأحكام على السرائر والظواهر تبع لها كما هو معلوم, فأمر الجنة والنار جزماً هو من الأحكام الغيبية التي تحتاج إلى دليل قاطع, ولأن التكفير بالبدعة متفرع عن اجتهاد ونتائج المسائل الاجتهادية لا يقطع فيها ببطلان القول المخالف لها كما قلناه في أصحاب الفترة فإن أصحاب الفترة نعاملهم معاملة الكفار في الدنيا وأما في الآخرة فأمرهم إلى الله تعالى قوله ( ويعامل ذي البدعة المفسقة ) وهذا بيان لحكم المبتدع المحكوم عليه بالفسق لا بالكفر فهذا يعامل ( معاملة عصاة الموحدين ) والتعامل مع عصاة الموحدين معلوم عند أهل السنة وسيأتي تفصيل ذلك كله في بقية قيد المسائل إن شاء الله تعالى وخلاصة هذه القاعدة أن البدعة تنقسم باعتبار حكمها إلى قسمين:- بدعة مكفرة فهذه نعامل صاحبها معاملة الكفار إن حكمنا على صاحبها بالكفر, وبدعة مفسقة وهذه نعامل صاحبها معاملة عصاة الموحدين والله أعلم۔ (منهج أهل الاتباع في التعامل مع أهل الابتداع:۱؍۵ من الشاملۃ)
گناہِ کبیرہ (۹۷)کسی چیز یا رقم کی ادائیگی کی مدت پوری ہونے پر قدرت کے باوجود ادائیگی نہ کرنا اور ٹال مٹول کرنا۔دلائل
گناہِ کبیرہ (۱۴۱)گناہِ صغیرہ پر اصرار کرنا،(الزواجر:۲،۲۹۹)
باطنی کبیرہ گناہ
کبیرہ گناہ (۱۴۲) منافقت کرنا۔
کبیرہ گناہ (۱۴۳) بطور غرور و تکبر لوگوں سے دور رہنا اور ان کو حقیر سمجھنا۔
کبیرہ گناہ (۱۴۴) بہت زیادہ فضول اور لایعنی کاموں میں گھسنا۔
کبیرہ گناہ (۱۴۵) خلافِ شریعت کام پسند کرنا۔
کبیرہ گناہ (۱۴۶) غربت کا ڈر رکھنا۔
کبیرہ گناہ (۱۴۷) جو مقدر میں لکھا جاچکا ہے اس پر ناراض ہونا۔
کبیرہ گناہ (۱۴۸) امیروں کو دیکھنا اور ان کی تعظیم ان کی امیری کی وجہ سے کرنا۔
کبیرہ گناہ (۱۴۹) غریبوں کا ان کی غربت کی وجہ سے مذاق اُڑانا۔
کبیرہ گناہ (۱۵۰) لالچ یعنی مال جمع کرنے میں حرام طریقوں سے نہ بچنا۔
کبیرہ گناہ (۱۵۲) مخلوقات کو خوش کرنے کے لئے ناجائز زینت اختیار کرنا۔
کبیرہ گناہ (۱۵۳) اپنے دنیوی نفع کے لئے کسی کو گناہ میں دیکھ کر خاموش رہنا۔
کبیرہ گناہ (۱۵۴) ایسے کام کی تعریف پسند کرنا جو کرتا نہ ہو۔
کبیرہ گناہ (۱۵۵) اپنے عیوب کی جگہ دوسروں کے عیوب میں مشغول ہونا۔
کبیرہ گناہ (۱۵۶) دین کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر عصبیت اختیار کرنا۔
کبیرہ گناہ (۱۵۷) حق تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی نہ رہنا۔
کبیرہ گناہ (۱۵۸) اللہ تعالیٰ کے حقوق اور انسانوں کو دئے ہوئے حکموں کو ہلکا سمجھنا۔
کبیرہ گناہ (۱۵۹) خواہشات کی پیروی کرنا اور حق کو ٹھکرانا۔
کبیرہ گناہ (۱۶۰) دنیا (ہی) کی زندگی چاہنا۔
کبیرہ گناہ (۱۶۱) حق کا مقابلہ کرنا۔
کبیرہ گناہ (۱۶۲) حق بات کو از راہِ نفسانیت ٹھکرادینا یا حق بات اس لئے ٹھکرانا کہ کہنے والا ہمارا دشمن ہے یا ہمیں پسند نہیں ہے۔
کبیرہ گناہ (۱۶۳) گناہ پر خوش ہونا۔
کبیرہ گناہ (۱۶۴) نیکی کرکے اس پر اپنی تعریف چاہنا۔
کبیرہ گناہ (۱۶۵) دنیوی زندگی پر مطمئن ہوکر آخرت کو بھول جانا ۔
کبیرہ گناہ (۱۶۶) اللہ تعالیٰ جل شانہ اور آخرت کو بھول جانا۔
کبیرہ گناہ (۱۶۷) نفس کی خاطر ناجائز غصہ کرنا یا ناجائز بدلہ لینا۔
کبیرہ گناہ (۱۶۹) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوجانا۔ (سورۃ یوسف:۸۷)
کبیرہ گناہ (۱۷۰) اللہ تعالیٰ کے ساتھ بدگمانی کرنا۔ (دیلمی، ابن ماجہ، زواجر:۱۵۰)تشریح
فائدہ:۔ یعنی کبھی انسان اپنے ساتھ کفار جیسے عذاب کا تصور کرتا ہے، یہ بدگمانی اور سوءِ ظن بن جاتا ہے جو گناہِ کبیرہ ہے۔(زواجر:۱۵۰)
کبیرہ گناہ (۱۷۱) سنت کو بالکل چھوڑ دینا۔ (بخاری، زواجر:۱۶۵)
کبیرہ گناہ (۱۷۲) سنت کا انکار یا حقیر سمجھ کر چھوڑ دینا کبیرہ گناہ بنتا ہے۔
کبیرہ گناہ (۱۷۳) ایسی بات کرنا جس سے فساد اور نقصان برپا ہوتا ہو۔ (بخاری، مسلم، زواجر:۱۸۹)
کبیرہ گناہ (۱۷۴) حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ سن کر بھی درود نہ پڑھنا۔ (حاکم، زواجر:۱۹۰)
کبیرہ گناہ (۱۷۵) دل کی سختی اختیار کرنا۔ (یعنی دل اتنا سخت ہوجائے کہ مجبور شخص کو کھلانے پر بھی آمادہ نہ ہو تو یہ گناہ کبیرہ بن جاتا ہے، کیونکہ احادیث میں لعنت اور سخط (ناراضگی) کے الفاظ آئے ہیں۔ (حاکم، زواجر:۱۹۴)
کبیرہ گناہ (۱۷۷)درہم اور دینار کو توڑنا۔ (ابوداؤد، زواجر:۱۹۶)تشریح
فائدہ:۔ درہم ساڑھے تین ماشے چاندی کا سکہ ہے اور دینار اور اشرفی ساڑھے چار ماشے سونے کا سکہ ہے، یہ کبیرہ گناہ اس وقت ہوگا جبکہ درہم یا دینار کا کچھ حصہ توڑ کر اپنے رکھ لینا جس سے اس کی قیمت کم ہوجائے گی، لیکن دھوکہ دے کر اس کو پوری قیمت پر بیچنا۔ (زواجر:۱۹۶)
کبیرہ گناہ (۱۷۸)دراہم و دنانیر میں اتنا کھوٹ ڈالنا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے تو وہ قبول نہ کریں۔ (زواجر:۱۹۶)
تشریح
ظاہری کبیرہ گناہ اور اس کے متعلقات:
کبیرہ گناہ (۱۷۹) وضو کے کسی فرض کو چھوڑ دینا۔ (بخاری، مسلم، زواجر:۲۱۰)
کبیرہ گناہ (۱۸۰) غسل کے کسی فرض کو چھوڑ دینا۔ (ابوداؤد، زواجر:۲۱۱)
کبیرہ گناہ (۱۸۲) بلا عذر نماز کو وقت سے پہلے یا قضاء کرکے پڑھنا۔ (زواجر:۲۲۱)
کبیرہ گناہ (۱۸۳)بغیر رُکاوٹ والی چھت پر سونا۔ (ابوداؤد، زواجر:۲۳۰)
تشریح
فائدہ:۔ چھت کے اوپر کوئی رُکاوٹ نہ ہو، بالکل صاف سیدھی ہو، چاروں طرف کوئی پردہ یا دیوار یا رُکاوٹ نہ ہو تو ایسی چھت پر سونا چونکہ اپنے آپ کو ہلاکت کے قریب کرنا ہے، اس لئے بعض علماء کے نزیک کبیرہ گناہ ہے اور صحیح یہ ہے کہ مکروہ ہے، اور اگر بے پردگی یا کوئی اور گناہ ہو یا گرنے کا عادۃً غالب گمان ہو تو پھر کبیرہ گناہ ہے۔.
کبیرہ گناہ (۱۸۴) نماز کے کسی واجب کو جان بوجھ کر چھوڑنا۔ (زواجر:۲۳۳)
کبیرہ گناہ (۱۸۵) دوسرے کے دانوں کو تیز اور باریک کرنا اور وہی عمل اپنے لئے کرانا۔ (بخاری، مسلم، زواجر:۲۳۴)
کبیرہ گناہ (۱۸۶)دوسروں کے ابروؤں کے بال اکھیڑنا اور یہی عمل اپنے لئے کرانا۔ (بخاری، مسلم، زواجر:۲۳۴)تشریح
فائدہ:۔ آج کل عورتیں عموماً چہرے یا ابرو کے بالوں کو اکھیڑتی ہیں یہ ناجائز ہے، اگرچہ شوہر حکم دے یا پسند کرے، البتہ چہرے کو سفید کرنے کا مروجہ طریقہ کہ چہرے کو بلیچ کرکے یعنی کریم وغیرہ چہرے پر لگاتی ہیں تاکہ چہرے کے بال براؤں ہوجائیں اور منہ سفید ہوجائے، یہ شوہر کو خوش کرنے کے لئے کیا جائے تو صحیح ہے، نیز عورتوں کا دوسری عورتوں کے بالوں کو ملانا تاکہ بال لمبے معلوم ہوں تو یہ ناجائز ہے، البتہ اگر انسان کے بالوں کے علاوہ دوسرے بال ہو یا سیاہ قسم کے دھاگے ہوں پراندہ کی طرح تو کوئی حرج نہیں۔
کبیرہ گناہ (۱۸۷)نمازی کے سامنے گذرنا۔ (بخاری، مسلم، زواجر:۲۳۵)تشریح
فائدہ:۔ یہ گناہ اس وقت ہے جبکہ سجدے کی جگہ سے گذرے یا بعض علماء کے ہاں دو صف کی مقدار کے اندر اندر گذرے، چھوٹی مسجد یا چھوٹے کمرے میں نماز کے آگے سے گذرنا جائز نہیں ہے، یہ ساری وعیدیں مذکورہ صورتوں کے متعلق ہیں۔
کبیرہ گناہ (۱۸۸) کسی فرض نماز کی جماعت کو بستی والے یا شہر والے چھوڑیں جبکہ وہاں جماعت واجب ہونے کے شرائط موجود ہوں۔ (بخاری، مسلم، زواجر:۲۳۶)
کبیرہ گناہ (۱۸۹)ایسے شخص کی امامت جس کو لوگ ناپسند کرتے ہوں۔ (زواجر:۲۳۹)تشریح
فائدہ:۔ اگر واقعتاً کوئی امام حدودِ شرعیہ سے تجاوز کرتا ہے اور قوم کے سارے لوگ اس کے پیچھے نماز پڑھنا ناپسند کرتے ہوں تو ایسے امام کے لئے یہ وعید ہے، ورنہ نہیں۔
کبیرہ گناہ (۱۹۰) صفوں کو توڑنا اور صفیں سیدھی نہ کرنا۔ (بخاری، مسلم، زواجر:۲۴۱)
کبیرہ گناہ (۱۹۱) نماز میں امام سے آگے بڑھنا۔ (بخاری، مسلم، زواجر:۲۴۲)
کبیرہ گناہ (۱۹۲) نماز میں آسمان کی طرف دیکھنا۔ (بخاری، زواجر:۲۴۳)
کبیرہ گناہ (۱۹۳) نماز میں ادھر ادھر دیکھنا۔ (بخاری، زواجر:۲۴۳)
کبیرہ گناہ (۱۹۴) نماز میں اپنے ہاتھ کوکھ پر رکھنا۔ (بخاری، زواجر:۲۴۳)
کبیرہ گناہ (۱۹۵) قبروں کو مسجد بنانا۔
کبیرہ گناہ (۱۹۷) قبروں کو بت بنانا یعنی ان کی پوجا کرنا۔
کبیرہ گناہ (۱۹۸) قبروں کا طواف کرنا۔
کبیرہ گناہ (۱۹۹) قبروں کو چومنا۔
کبیرہ گناہ (۲۰۰) قبروں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا۔ (زواجر:۲۴۴ تا ۲۴۶)
کبیرہ گناہ (۲۰۲) جہاد جیسے مقصد کے بغیر داڑھی کو خصاب لگاکر کالا کرنا۔ (ابوداؤد، نسائی، زواجر:۲۶۱)
کبیرہ گناہ (۲۰۳) زیب و زینت کے لئے کالا خضاب ناجائز اور گناہ ہے، البتہ جہاد جیسا کوئی عذر ہو (دشمنوں پر رعب جمانے کے لئے) تو درست ہے۔
کبیرہ گناہ (۲۰۴) انسان کا یہ کہنا کہ بارش ستارہ طلوع ہونے سے ہوتی ہے اور ستارہ کی تاثیر کا اعتقاد کرنا۔ (بخاری، مسلم، زواجر:۲۶۱)
کبیرہ گناہ (۲۰۵) منہ یا چہرے پر طمانچہ مارنا۔ (چاہے کسی میت پر اظہار غم کے موقع پر ہی کیوں نہ ہو) (بخاری، مسلم، زواجر:۲۶۴)
کبیرہ گناہ (۲۰۹) بطورِ افسوس اپنے بال مونڈنا یا اکھاڑنا۔ (ابوداؤد)
کبیرہ گناہ (۲۱۰) مصیبت کے وقت ہلاکت کی دعاء کرنا۔ (زواجر:۲۶۴)
کبیرہ گناہ (۲۱۱) میت کی ہڈی توڑنا۔ (ابوداؤد، زواجر:۲۶۴)
کبیرہ گناہ (۲۱۲) لوگوں کے حقوق کی عدم حفاظت کی صورت میں ٹیکس وصول کرنا اور اس کے لوازمات مثلاً لکھنا وغیرہ میں حصہ لینا۔ (سورۃ الشوریٰ:۴۲، زواجر:۲۹۹)
کبیرہ گناہ (۲۱۳) مال یا کسب کی استطاعت کی وجہ سے امیر ہونے والے شخص کا لالچ اور کثرتِ مال حاصل کرنے کی بنیاد پر دوسرے سے صدقہ مانگنا۔ (زواجر:۳۰۴)
کبیرہ گناہ (۲۱۴) مانگنے میں اتنا اصرار کرنا کہ جس سے مانگا جا رہا ہے اس کو سخت تکلیف ہو۔ (ابن حبان، زواجر:۳۰۷)
کبیرہ گناہ (۲۱۵) انسان کا اپنے قریبی رشتہ دار یا اپنے غلام یا آزاد کردہ غلام کے مجبور ہوتے ہوئے بھی ان کے مانگنے پر دینے کی قدرت کے باوجود نہ دینا۔ (زواجر:۳۰۹)
کبیرہ گناہ (۲۱۶) ضرورت یا مجبوری کے وقت پانی موجود ہوتے ہوئے نہ دینا۔ (ابوداؤد، زواجر:۳۱۴)
کبیرہ گناہ (۲۱۷) مخلوق کی ناشکری کرنا جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ (ترمذی، زواجر:۳۱۵)
کبیرہ گناہ (۲۱۸) اللہ کا واسطہ دے کر جنت کے سواء کچھ اور مانگنا۔ (ابوداؤد، زواجر:۳۱۶)
کبیرہ گناہ (۲۱۹)اللہ کا واسطہ دے کر مانگنے والے کو نہ دینا۔ (زواجر:۳۱۶)تشریح
فائدہ:۔ عام حالات میں سائل کو نہ دینا کبیرہ گناہ نہیں بلکہ مجبور کو نہ دینا یہ کبیرہ گناہ ہے، اسی طرح عام حالات میں اللہ کا واسطہ دے کر مانگنا حرام نہیں صرف مکروہ ہے، لیکن اصرار کرکے مانگنا یہاں تک کہ مسئول کو پریشان ہی کردینا یہ کبیرہ گناہ ہے۔ (زواجر:۳۱۷)
کبیرہ گناہ (۲۲۰) معین وقت میں نذر مانے ہوئے اعتکاف کو توڑنا۔ (زواجر:۳۲۹)
کبیرہ گناہ (۲۲۱) جماع وغیرہ کے ذریعہ اعتکاف توڑنا۔ (زواجر:۳۲۹)
کبیرہ گناہ (۲۲۲) مسجد میں جماع کرنا، اگرچہ غیر معتکف ہی کرے۔ (زواجر:۳۲۹)
کبیرہ گناہ (۲۲۳) حج و عمرہ میں احرام کھولنے سے پہلے قصداً جماع کرنا۔ (زواجر:۳۳۱)
کبیرہ گناہ (۲۲۴) حج یا عمرہ کے احرام میں باوجود علم و اختیار کے قصداً خشکی کے حلال شکار کو قتل کرنا۔ (سورۃ المائدۃ:۹۵)۔
کبیرہ گناہ (۲۲۵) عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی حج و عمرہ کا احرام باندھنا، اگرچہ وہ گھر سے (بھی ابھی ) نہ نکلی ہو۔ (زواجر:۳۳۲)۔
کبیرہ گناہ (۲۲۷) حرم مکہ میں گناہ کرنا۔ (سورۃ الحج:۲۵)
کبیرہ گناہ (۲۲۸) اہل مدینہ کو ڈرانا۔
کبیرہ گناہ (۲۲۹) اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرنا۔
کبیرہ گناہ (۲۳۰) مدینہ منورہ میں گناہ کرنا۔
کبیرہ گناہ (۲۳۱) مدینہ میں کسی گناہ کرنے والے کو جگہ و پناہ دینا۔
کبیرہ گناہ (۲۳۲) مدینہ منورہ کا درخت کاٹنا۔
کبیرہ گناہ (۲۳۳) مدینہ منورہ کی گھاس کاٹنا۔ (زواجر:۳۴۲ و ۳۴۳)
کبیرہ گناہ (۲۳۴) قدرت کے باوجود قربانی نہ کرنا۔ (زواجر:۳۴۵)
کبیرہ گناہ (۲۳۵)قربانی کی کھال فروخت کرنا۔ (زواجر:۳۴۶)تشریح
فائدہ:۔ اگر قربانی کی کھال بیچ کر رقم حاجت مند کو دیدیں تو پھر صحیح ہے اور اگر خود مستحق نہیں پھر کھال بیچ کر اپنے استعمال میں لائے تو گناہ ہے۔
کبیرہ گناہ (۲۳۶) جانور کے کسی عضو کو کاٹ کر مثلہ کرنا۔
کبیرہ گناہ (۲۳۷) جانور کے چہرے کو داغنا۔
کبیرہ گناہ (۲۳۸) جانور کو داغ کے ذریعہ نشان لگانا۔
کبیرہ گناہ (۲۳۹) جانور کو کھانے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے قتل کرنا۔
کبیرہ گناہ (۲۴۰) جانور کو اچھی طرح قتل یا ذبح نہ کرنا۔ (زواجر:۳۴۷ و ۳۴۸)
کبیرہ گناہ (۲۴۱) غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا جبکہ غیر اللہ کو معبود نہ سمجھے۔ (کیونکہ ایسی صورت میں وہ کافر ہوجائے گا) (سورۃ الانعام:۱۲۱)
کبیرہ گناہ (۲۴۲)سائبہ کو چھوڑ دینا۔ (سورۃ المائدۃ:۱۰۳)تشریح
فائدہ:۔ سائبہ یعنی وہ اونٹنی جو زمانۂ جاہلیت میں بتوں کی نذر و نیاز کے لئے چھوڑی جاتی تھی، یا دس بارہ بچے جننے کے بعد اس کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا، نہ اس پر سواری کرتے اور نہ اس کا دودھ دوہتے، اس کا دودھ اس کا بچہ پیتا یا کسی مہمان کو اس کا دودھ پینے کا حق ہوتا، اسی طرح اس کو پینے اور چرنے میں پوری آزادی ہوتی۔ (المنجد:۵۰۵)
کبیرہ گناہ (۲۴۳) ڈرانے دھمکانے کے لئے حملہ کرنا۔ (زواجر:۲،۲۶۴)
کبیرہ گناہ (۲۴۴) کسی کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر جھانکنا تنگ سوراخ سے دیکھنا یا جھانکنا۔ (زواجر:۲،۲۶۶)
کبیرہ گناہ (۲۴۵) جو لوگ بات نہ بتانا چاہتے ہوں ان کی سننے کے لئے کان دھرنا۔ (بخاری و مسلم، زواجر:۲،۲۶۷)
کبیرہ گناہ (۲۴۶) متعین جہاد چھوڑنا، اس کی صورت یہ ہے کہ کافر دار الاسلام میں آگئے اور انہوں نے کسی مسلمان کو پکڑ لیا اور ان سے چھڑانا بھی ممکن ہو۔ (مسلم، زواجر:۲،۲۷۱)
کبیرہ گناہ (۲۴۷) لوگوں کا جہاد بالکل ہی چھوڑ دینا۔ (مسلم، زواجر:۲،۲۷۱)
کبیرہ گناہ (۲۴۸) اہل ولایت (حکومت) کا اپنی سرحد مضبوط نہ کرنا جس کی وجہ سے کفار کے غالب آنے کا ڈر ہو۔ (مسلم، زواجر:۲،۲۷۱)
کبیرہ گناہ (۲۴۹) نیکی کا حکم نہ کرنا (جبکہ جان و مال کا خطرہ نہ ہو)۔ (سورۃ المائدۃ:۷۸)
کبیرہ گناہ (۲۵۰) قدرت کے باوجود برائی سے نہ روکنا (جبکہ جان و مال کا خطرہ نہ ہو)۔ (سورۃ المائدۃ:۷۹)
کبیرہ گناہ (۲۵۲) انسان کا یہ چاہنا کہ لوگ میری تعظیم کریں اور تعظیم میں کھڑے ہوں۔ (ابوداؤد)
کبیرہ گناہ (۲۵۳) خیانت کرنے والے کو چھپانا (پناہ دینا)۔ (ابوداؤد)
کبیرہ گناہ (۲۵۴) کسی مامون یا ذمی یا جس سے صلح کرلی ہو ان میں سے کسی ایک کو قتل کرنا۔ (زواجر:۲،۲۹۵)
کبیرہ گناہ (۲۵۵) کسی مامون یا ذمی یا جس سے صلح کرلی ہو ان میں سے کسی کو دھوکہ دینا۔ (زواجر:۲،۲۹۵)
کبیرہ گناہ (۲۵۶) کسی مامون یا ذمی یا جس سے صلح کرلی ہو ان میں سے کسی پر ظلم کرنا۔ (زواجر:۲،۲۹۵)
کبیرہ گناہ (۲۵۷) گھوڑے تکبر وغیرہ کے لئے رکھنا، یا شرط و جوّے کے ساتھ ان کو گھوڑدوڑ کرانے کے لئے رکھنا۔ (بخاری و مسلم)
کبیرہ گناہ (۲۵۸) شرط یا جوّا لگاکر تیروں کے ساتھ تیر اندازی کا مقابلہ کرنا۔ (زواجر:۲،۲۹۷)
کبیرہ گناہ (۲۵۹) تیر اندازی سیکھ کر اس سے ایسا اعراض کرنا اور چھوڑنا کہ جس سے دشمن کا غلبہ یا مسلمانوں کی بے عزتی ہوتی ہو۔ (مسلم)
کبیرہ گناہ (۲۶۰) عام جھوٹی قسم کھانا۔
کبیرہ گناہ (۲۶۱) بہت زیادہ قسمیں کھانا اگرچہ سچا ہو۔ (ابن حبان، زواجر:۲،۳۰۲)
کبیرہ گناہ (۲۶۲) امانت کی قسم کھانا۔ (ابوداؤد)
کبیرہ گناہ (۲۶۳) بتوں کی قسم کھانا۔ (مسلم)
کبیرہ گناہ (۲۶۴) بے اصولی باتیں کرنے والے کا یہ کہنا کہ اگر میں یہ کروں تو میں کافر یا میں اسلام یا نبی سے بری ہوں۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک) (مسلم، زواجر:۲،۳۰۴)
کبیرہ گناہ (۲۶۵) اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کی جھوٹی قسم کھانا۔ (بخاری و مسلم)
کبیرہ گناہ (۲۶۶) زنا کرنے کے لئے حملہ کرنا۔ (زواجر:۲،۲۶۴)
کبیرہ گناہ (۲۶۷) ایسے شخص کو عہدۂ قضاء سپرد کرنا (جج بنانا) جو خیانت یا ظلم کرنے والا ہو۔ (سورۃ المائدۃ:۴۷ کی تفسیر)
کبیرہ گناہ (۲۶۸) ایسے (نا اہل) شخص کا عہدۂ قضاء کی ذمہ داری قبول کرنا جو جانتا ہو کہ میں خیانت کروں گایا ظلم کروں گا۔ (بخاری و مسلم)
کبیرہ گناہ (۲۶۹) جہالت سے فیصلہ کرنا۔ (ابوداؤد، ترمذی)
فائدہ:۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس نے کسی جھگڑے میں ناحق کسی کی مدد کی تو وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہوگا۔ (ابوداؤد، ترمذی)
کبیرہ گناہ (۲۷۱) قاضی یا حاکم کا اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے رعایا کو راضی کرنا۔ (ابن حبان، زواجر:۲،۳۱۲)
کبیرہ گناہ (۲۷۲) ناحق یا بغیر علم کے جھگڑا کرنا، جیسے ججوں کے وکیل۔ (بخاری، زواجر:۲،۳۱۶)
کبیرہ گناہ (۲۷۳) حق مانگنے کے لئے جھگڑنا،اور سخت جھگڑے کے ذریعہ مقابل کو تکلیف پہنچانا اور اس پر مسلط ہی ہوجانا۔ (بخاری، زواجر:۲،۳۱۶)
کبیرہ گناہ (۲۷۴) محض ضد کے طور پر مدِّ مقابل پر غالب آنے اور اس کو کمزور کرنے کے لئے جھگڑا کرنا۔ (بخاری، زواجر:۲،۳۱۶)
کبیرہ گناہ (۲۷۵) بلا مقصد گفتگو میں خلل ڈالنے کے لئے طعنہ مارنا۔ (بخاری، زواجر:۲،۳۱۶)
کبیرہ گناہ (۲۷۷) تقسیم کرنے والے کا اپنی تقسیم میں ظلم کرنا۔ (زواجر:۲،۳۱۹)
کبیرہ گناہ (۲۷۸) قیمت لگانے والے کا اپنی قیمت میں ظلم کرنا۔ (زواجر:۲،۳۱۹)
کبیرہ گناہ (۲۷۹) جھوٹی گواہی قبول کرنا۔ (بخاری و مسلم، زواجر:۲،۳۲۰)
کبیرہ گناہ (۲۸۰)قراء، علماء و فقہاء کا فاسقوں کے ساتھ مجالست کرنا۔تشریح
فائدہ:۔ یہ بھی بعض نے کبیرہ شمار کیا ہے، کیونکہ فاسقوں فاجروں کے ساتھ جب قاری حضرات یا علماء کرام بار بار ملیں جلیں گے تو لازماً ان سے انس پیدا ہوگا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کے کاموں کی طرف میلان ہوگا، احتمال ہے کہ کہیں وہ بھی گناہ کرنے شروع کردیں، بہرحال ساتھ یہ قید ہونی چاہئے کہ گناہ کو روکنے کی قدرت بھی ہے، اختیار ہے، پھر نہ روکنا یہ گناہ پر راضی ہونا ہے اور اس کو پختہ کرنا ہے جو کبیرہ گناہ ہے۔ (زواجر:۲،۳۲۷)
کبیرہ گناہ (۲۸۲) شطرنج کھیلنا (حنفیہ کے نزدیک گناہ ہے، امام شافعیؒ کے ہاں جوئے کے ساتھ شطرنج کھیلنا گناہ ہے یا اگر نماز کا وقت جاتا ہو تو بغیر جوّے کے کھیلنا بھی، اس وقت امام شافعیؒ کے ہاں ناجائز ہے)۔ (زواجر:۲،۳۲۷)
کبیرہ گناہ (۲۸۳) باجا بجانااور اس کو سننا، بانسری بجانا اور سننا، طبلہ بجانا اور اس کا سننا۔ (زواجر:۲،۳۳۶)
کبیرہ گناہ (۲۸۴) کسی معین یا غیر معین لڑکے کے حسن و جمال کو اس طرح یاد کرنا کہ میرا اس کے ساتھ عشق ہے۔ (زواجر:۲،۳۴۹)
کبیرہ گناہ (۲۸۵) کسی خاص اجنبی عورت کے حسن و جمال کا تذکرہ کرنا، اگرچہ فحش حرکتوں والا نہ ہو۔ (زواجر:۲،۳۴۹)
کبیرہ گناہ (۲۸۶) عورت کو متعین کئے بغیر فحش حرکتوں کا تذکرہ کرنا۔ (زواجر:۲،۳۴۹)
کبیرہ گناہ (۲۸۷) عشق و محبت والے اشعار پڑھنا۔ (زواجر:۲،۳۴۹)
کبیرہ گناہ (۲۸۸) اسی طرح ایسے شعر کہنا جن میں بے حیائی و فحش ہو۔ (زواجر:۲،۳۵۱)
کبیرہ گناہ (۲۸۹) اسی طرح ایسے شعر کہنا جن میں بہت گندہ جھوٹ ہو۔ (زواجر:۲،۳۵۱)
کبیرہ گناہ (۲۹۰) فحش اور گندے جھوٹے قسم کے اشعار پڑھنا اور ان کو عام کرنا۔ (زواجر:۲،۳۵۱)
کبیرہ گناہ (۲۹۱) شعر میں حد سے بڑھ کر کسی کی تعریف کرنا، جیسے جاہل کو عالم اور یا فاسق کو عادل بنادینا۔ (زواجر:۲،۳۵۵)
کبیرہ گناہ (۲۹۲) ایسے اشعار سے کمائی کرنا جن میں اکثر وقت لگتا ہو اور برائی و فحش میں مبالغہ کرتا ہو، جب اس کو کوئی مال وغیرہ نہ دے تو اس کی برائی شروع کردے۔ (زواجر:۲،۳۵۵)
کبیرہ گناہ (۲۹۳) ایک صغیرہ گناہ کو بار بار کرنا یا کئی صغیرہ گناہ کرنا۔ (زواجر:۲،۳۵۸)
کبیرہ گناہ (۲۹۴) کبیرہ گناہ سے توبہ نہ کرنا۔ (سورۃ النور:۳۱)
کبیرہ گناہ (۲۹۵) کسی انصاری کے ساتھ بغض رکھنا۔ (بخاری، زواجر:۲،۳۷۹)
کبیرہ گناہ(۲۹۶)شرعی اجازت کے بغیر آزاد شدہ غلام سے خدمت لینا، جیسا کہ چھپ کر اس کو آزاد کردے اور مسلسل اس سے خدمت لیتا رہے۔ (زواجر:۲،۳۸۷)
کبیرہ گناہ (۲۹۷) ملک الاملاک (شہنشاہ) نام رکھنا۔ (بخاری، مسلم، زواجر:۳۵۳)
کبیرہ گناہ (۲۹۹) بغیر شدید مجبوری و عذر کے بہنے والا خون پینا۔ (سورۃ المائدۃ:۳)
کبیرہ گناہ (۳۰۰) بغیر شدید مجبوری و عذر کے خنزیر کا گوشت کھانا۔ (سورۃ المائدۃ:۳)
کبیرہ گناہ (۳۰۲) کسی جاندار کو آگ میں جلانا۔ (زواجر:۳۶۴)
کبیرہ گناہ (۳۰۳) نجاست، یا گندگی کھانا۔ (زواجر:۳۶۵)
کبیرہ گناہ (۳۰۴) تکلیف دہ یا نقصاندہ چیز کھانا۔ (زواجر:۳۶۵)
کبیرہ گناہ (۳۰۵) آزاد آدمی کو فروخت کرنا۔ (بخاری، زواجر:۳۶۷)
کبیرہ گناہ (۳۰۶) سود میں (ناجائز) حیلہ کرنا۔ (زواجر:۳۸۱)
کبیرہ گناہ (۳۰۷)ضرورتمند کو جفتی کے لئے نَر نہ دینا۔ (زواجر:۳۸۲)تشریح
تنبیہ: در اصل یہ مکروہ ہے، کبیرہ گناہ اس وقت ہوگا جبکہ کسی بستی والے سخت مجبور ہوں، اپنی بستی میں نَر نہ پاتے ہوں اور دوسری بستی میں ایک ہی ملتا ہو اور وہ نہ دے۔ (زواجر:۳۸۲)
کبیرہ گناہ (۳۰۸)سودا مہنگا بیچنے کے لئے روک کر رکھنا، ذخیرہ اندوزی کرنا۔ (مسلم، ابوداؤد، زواجر:۳۸۷)تشریح
تنبیہ: یہ ذخیرہ اندوزی کھانے کی چیزوں میں بوقتِ قحط مراد ہے، لہٰذا فراخی کے دنوں میں کھانے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کبیرہ گناہ نہیں ہے۔
کبیرہ گناہ (۳۰۹)ناسمجھ بچے کی بیع وغیرہ کرکے اس کو اس کی ماں سے جدا کرنا۔ (ترمذی، زواجر:۳۹۰)تشریح
تنبیہ:۔ بچہ سے مراد وہ لڑکا ہو یا لڑکی ہے جو تمیز اور فرق نہ کرسکتا ہو، چھوٹا ہونے کی وجہ سے یا پاگل ہونے کی وجہ سے، اگرچہ ماں کی رضامندی بھی ہو، پھر بھی اس کو ماں سے علاحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
کبیرہ گناہ (۳۱۰) کسی شخص کا انگور اور کشمش کسی ایسے شخص کے پاس بیچنا جو اس کو نچوڑ کر شراب بنائے۔ (زواجر:۳۹۲)
کبیرہ گناہ (۳۱۱) بے ریش غلام کو ایک ایسے آدمی کو بیچنا جس کے بارے میں معلوم ہوکہ یہ اس سے گناہ کرے گا۔ (زواجر:۳۹۲)
کبیرہ گناہ (۳۱۲) باندی کا ایسے شحص کے ہاں فروخت کرنا جو اس کو زنا پر آمادہ کرے۔ (زواجر:۳۹۲)
کبیرہ گناہ (۳۱۳) لکڑی وغیرہ ایسی جگہ بیچنا جہاں وہ فضول کھیل کود کا آلہ بنالیتے ہوں۔ (زواجر:۳۹۲)
کبیرہ گناہ (۳۱۴) کافروں کو ہتھیار فروخت کرنا تاکہ وہ ہمارے خلاف جہاد میں مدد کریں ۔ (زواجر:۳۹۲)
کبیرہ گناہ (۳۱۵) اس شخص کو شراب بیچنا جو اس کو پی لے گا۔ (زواجر:۳۹۲)
کبیرہ گناہ (۳۱۶) ایسے شخص کو نشہ آور نباتات وغیرہ فروخت کرنا جو اُسے ناجائز استعمال کرے گا۔ (زواجر:۳۹۲)
کبیرہ گناہ (۳۱۷) بغیر ارادۂ خریدی کے کسی چیز کا دام بڑھانا۔ (زواجر:۳۹۲)
کبیرہ گناہ (۳۱۸) بیع پر بیع کرنا، یعنی خریدنے والے کو سودا پکا کرنے سے پہلے یہ کہنا کہ تم یہ نہ خریدو میں اس بہتر سودا تمہیں دوں گا۔ (زواجر:۳۹۲)
کبیرہ گناہ (۳۱۹) شراء پر شراء کرنا، یعنی بیچنے والے کو سودا پکا کرنے سے پہلے یہ کہنا کہ تم سودا ختم کردو، میں تمہیں زیادہ قیمت دوں گا۔ (زواجر:۳۹۲)
کبیرہ گناہ (۳۲۰) قرض واپس ہونے کی امید ہی نہیں اور خود مجبور بھی نہیں ہے اور کوئی ظاہری سبب بھی قرض اترنے کا نہیں ہے اور قرض دینے والا اس بات سے ناواقف ہے، ایسی حالت میں قرض مانگنا۔ (نسائی، حاکم، زواجر:۴۱۱)
کبیرہ گناہ (۳۲۱) گناہ کے کام میں مال خرچ کرنا، اگرچہ ایک پیسہ ہی ہو، اگرچہ چھوٹے گناہ میں ہی کیوں نہ خرچ کیا جائے۔ (زواجر:۴۲۱)
کبیرہ گناہ (۳۲۲) پڑوسی کو تکلیف دینا، اگرچہ پڑوسی ذمّی ہو، اس کے گھر میں جھانک کر یا تکلیف دہ عمارت بناکر۔ (بخاری و مسلم
کبیرہ گناہ (۳۲۳) بطور تکبر و غرور ضرورت سے بڑھ کر عمارت بنانا۔ (بخاری و مسلم)
کبیرہ گناہ (۳۲۴) زمین کے نشان بدلنا (کہ جس سے دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہو)۔ (مسلم، نسائی)
کبیرہ گناہ (۳۲۵) اپنے عقیدہ اور خیال میں صحیح ضمان ہو اور دینے پر قدرت بھی ہو، پھر بھی ضامن کا ضمان نہ دینا۔ (زواجر:۴۳۰)
کبیرہ گناہ (۳۲۷) وکیل کا اپنے مؤکل سے خیانت کرنا۔ (ابوداؤد، زواجر:۴۳۱)
کبیرہ گناہ (۳۲۸) کسی وارث یا اجنبی کے لئے قرض یا کسی چیز کا جھوٹا اقرار کرنا۔ (ابوداؤد، ترمذی)
کبیرہ گناہ (۳۲۹) مریض کا اپنے ذمہ قرض یا کسی چیز کا اقرار چھوڑ دینا، جبکہ ورثاء کے علاوہ اس کی بات کوئی اور نہ جانتا ہو جو ثابت کرسکے۔ (زواجر:۴۳۲)
کبیرہ گناہ (۳۳۰) جس مقصد کے لئے چیز اُدھار لی تھی اس کو اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنا۔(زواجر:۴۳۳)
کبیرہ گناہ (۳۳۱) مالک کی اجازت کے بغیر اُدھار لی ہوئی چیز آگے اُدھار دے دینا۔ (زواجر:۴۳۳)
کبیرہ گناہ (۳۳۲)اگر مالک نے کہا کہ مقررہ وقت کے بعد یہ چیز آپ کو اپنے پاس نہیں رکھنا ہے یا نہیں استعمال کرنا ہے، پھر اس کی مخالفت کرنا۔ (زواجر:۴۳۳)تشریح
فائدہ:۔ چونکہ مذکورہ تینوں گناہوں کا مرجع و ماٰل ظلم اور غصب ہے، لہٰذا یہ تینوں بھی کبیرہ گناہ شمار ہوں گے۔ (زواجر:۴۳۳)
کبیرہ گناہ (۳۳۳) مزدور سے کام کرواکر اس کی مزدوری نہ دینا یا دیر سے دینا۔ (بخاری)
کبیرہ گناہ (۳۳۴) عرفہ یا مزدلفہ یا منیٰ میں عمارت بنانا جبکہ اس کی تحریم کا قائل ہو۔ (زواجر:۴۳۸)
کبیرہ گناہ (۳۳۵) عام یا خاص جائز چیزوں میں لوگوں کو روکنا، مثلاً بنجر زمین جس کا آباد کرنا ہر شخص کے لئے جائز ہے اور مثلاً عم سڑکیں اور مسجدیں اور معادن وغیرہ۔ (زواجر:۴۳۸)
کبیرہ گناہ (۳۳۶) کسی کا عام راستہ کو کرایہ پر دینا اور اس کی اجرت لینا، اگرچہ اپنی دُکان یا مملوکہ جگہ کے قریب ہو۔ (زواجر:۴۳۸)
کبیرہ گناہ (۳۳۷) جائز پانی پر قبضہ کرکے مسافر کو نہ دینا۔ (بخاری و مسلم)
کبیرہ گناہ (۳۳۸) وقف کرنے والے کی شرط کے مخالف کرنا۔ (زواجر:۴۳۹)
کبیرہ گناہ (۳۳۹) گمشدہ چیز کی شرع کے موافق تشہیر کئے بغیر اس میں تصرف کرنا اور اس کا مالک خود بن جانا۔ (زواجر:۴۳۹)
کبیرہ گناہ (۳۴۰) گمشدہ چیز کے مالک کا علم ہوجانے کے باوجود اس سے چھپانا۔ (زواجر:۴۳۹)
کبیرہ گناہ (۳۴۱) گرے پڑے بچہ کو لیتے وقت کسی کو گواہ نہ بنانا۔ (زواجر:۴۳۹)
کبیرہ گناہ (۳۴۳) اجنبی عورت کو شہوت کے ساتھ دیکھنا جبکہ فتنہ کا ڈر ہو۔ (بخاری و مسلم، زواجر:۲،۳)
کبیرہ گناہ (۳۴۴) اجنبی عورت کو چھونا۔ (زواجر:۲،۴)
کبیرہ گناہ (۳۴۵) عورت کا مرد سے یا مرد کا عورت سے تنہائی میں ملنا اس طرح کہ ان کا ایسا محرم ان کے ساتھ موجود نہ جن کی وجہ سے وہ باز رہیں۔ (بخاری و مسلم، زواجر:۲،۵)
کبیرہ گناہ (۳۴۶) بے ریش لڑکے کو شہوت سے دیکھنا۔ (زواجر:۲،۵)
کبیرہ گناہ (۳۴۷) بے ریش لڑکے کو شہوت سے چھونا۔ (زواجر:۲،۶)
کبیرہ گناہ (۳۴۸) بے ریش لڑکے کے تنہائی کرنا جبکہ کوئی دوسرا شخص ایسا موجود نہ ہو جس کی وجہ سے یہ حرکت نہ کرسکتا ہو۔ (زواجر:۲،۷)
کبیرہ گناہ (۳۴۹) غیبت سننے پر راضی ہونا اور اس کو درست مان کر خاموش رہنا۔ (سورۃ الحجرات، زواجر:۲،۱۰)
کبیرہ گناہ (۳۵۰) بے گناہ پر قتل کے ارادے سے حملہ کرنا۔ (زواجر:۲،۲۶۴)
کبیرہ گناہ (۳۵۲)ولی کا اپنی بیٹی یا بہن کو کفو میں نکاح کرنے سے روکنا۔ (زواجر:۲،۴۲)تشریح
فائدہ:۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک عاقلہ بالغہ لڑکی اپنا نکاح اپنے کفو میں کرنا چاہتی ہے تو ولی اس کو روکتا ہے، یہ کبیرہ گناہ ہے، جیسا کہ امام نوویؒ نے بھی اس تصریح اپنے فتاویٰ میں کی ہے، باقی حضرات نے صغیرہ گناہ شمار کیا ہے، امام رافعیؒ وغیرہ نے یہ فرمایا کہ عضل (روکنا) کبیرہ گناہ تو نہیں ہے البتہ جب کئی مرتبہ (دیگر علماء نے تین مرتبہ حد بتائی ہے) روکے تو پھر فسق بن جاتا ہے (جو گناہِ کبیرہ ہے)۔ (زواجر:۲،۴۲)
.
کبیرہ گناہ (۳۵۳) حد قائم کرنے میں مداہنت (یعنی بزدلی اختیار) کرنا۔ (بخاری و مسلم)
کبیرہ گناہ (۳۵۴) عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکانا۔ (ابوداؤد، نسائی)
کبیرہ گناہ (۳۵۵) مرد کو اس کی بیوی کے خلاف بھڑکانا۔ (ابوداؤد، نسائی)
کبیرہ گناہ (۳۵۶) طلاق دینے والے کا حلالہ کرانے پر راضی ہونا۔ (زواجر:۲،۴۳)
کبیرہ گناہ (۳۵۷) مطلقہ عورت کا طلاق دینے والے کی حلالہ والی بات ماننا۔ (زواجر:۲،۴۳)
کبیرہ گناہ (۳۵۸)پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے والے دوسرے خاوند کا راضی ہونا۔ (زواجر:۲،۴۳)تشریح
تنبیہ: اس حدیث کی وجہ سے یہ تینوں گناہ کبیرہ ہیں، بہت سے صحابہؓ، تابعین و حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا اس کے مطلق پر عمل ہے، مگر امام شافعیؒ کے ہاں یہ شرط ہے کہ جب حلالہ کرنے والے کے نکاح کے اندر (نکاح ثانی میں) یہ شرط لگائی جائے کہ وطی کے بعد تم طلاق دیدوگے، تب حرام ہے، اگر یہ شرط نہ لگائی جائے (بلکہ مقصود صرف اصلاحِ احوال ہو) تو ضرورت کی وجہ سے کیا جاسکتا ہے (احناف بھی اسی کے قائل ہیں)۔ (زواجر:۲،۴۴)
کبیرہ گناہ (۳۵۹) بیوی یا باندی کے ساتھ دبر (پچھلے راستہ) میں وطی کرنا۔ (مسند احمد، ابوداؤد، زواجر:۲،۴۶)
کبیرہ گناہ (۳۶۰) کسی اجنبی مرد یا عورت کی موجودگی میں اپنی بیوی سے جماع کرنا۔ (زواجر:۲،۴۷)
کبیرہ گناہ (۳۶۱) ایسی شادی کرنا کہ مرد کا عورت کو اس کے مطالبہ پر بھی مہر ادا نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو۔ (زواجر:۲،۴۸)
کبیرہ گناہ (۳۶۲) کسی محترم یا گھٹیا چیز پر زمین یا دیوار وغیرہ پر کسی جاندار کی تصویر لگانا، اگرچہ ایسی تصویر ہو جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی، مثلاً پروں والے گھوڑے کی تصویر۔ (بخاری و مسلم)
کبیرہ گناہ (۳۶۳) طفیلی بن کر دوسرے کا کھانا کھانے کے لئے بغیر اس کی اجازت اور خوشی کے دعوت میں جانا۔ (ابوداؤد، زواجر:۲،۵۳)
کبیرہ گناہ (۳۶۴) مہمان کا پیٹ بھرنے کے بعد میزبان سے معلوم کئے بغیر ضرورت سے زائد کھانا کھانا۔ (زواجر:۲،۵۴)
کبیرہ گناہ (۳۶۵) حرص و تکبر کی وجہ سے کھانے پینے میں بے حد توسع کرنا۔ (زواجر:۲،۵۵)
کبیرہ گناہ (۳۶۶) مسلمان بھائی سے ایسا اعراض کرنا کہ جب وہ اُسے ملے تو یہ اس سے چہرہ موڑ لے۔ (بخاری)
کبیرہ گناہ (۳۶۷) دل میں ایسا کینہ رکھنا جو مذکورہ دو گناہوں کا سبب بنے۔ (بخاری، زواجر:۲،۶۷)
کبیرہ گناہ (۳۶۸) اپنی بیوی اور لڑکے کے بارے میں بے غیرت بننا۔ (زواجر:۲،۸۱)
کبیرہ گناہ (۳۶۹) کسی اجنبی عورت اور اجنبی لڑکے کے بارے میں بے غیرت بننا۔ (زواجر:۲،۸۱)
کبیرہ گناہ (۳۷۰)جن کے نزدیک رجوع کرنے سے پہلے وطی نہیں کرسکتا ان کا رجوع سے قبل وطی کرنا۔ (زواجر:۲،۸۳)تشریح
فائدہ:۔ حنفیہ کے نزدیک جس عورت کو طلاقِ رجعی دی ہو اُس سے وطی درست ہے، یعنی زبان سے رجوع کرکے وطی حنفیہ کے ہاں صرف بہتر ہے۔
کبیرہ گناہ (۳۷۱)چار ماہ یا اس سے زیادہ وقت وطی نہ کرنے کی قسم کھانا۔ (زواجر:۲،۸۴)تشریح
فائدہ:۔ یہ کبیرہ گناہ اس لئے ہے کہ اس میں بیوی کا بہت بڑا نقصان ہے اور اس کو اذیت دینا ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت نے قاضی کو اجازت دی ہے کہ جو شخص (قسم کھاکر پھر) چار ماہ تک بیوی سے وطی نہ کرے تو قاضی طلاق دلوا کر نکاح ختم کرا سکتا ہے۔ (زواجر:۲،۸۴) یہ قاضی کا تفریق کرانا امام شافعیؒ کے پاس ضروری ہے، احنافؒ کے نزدیک چار ماہ گذرنے سے پہلے وطی نہ کی تو وہ عورت ایک طلاق سے بائنہ ہوجائے گی۔ (معدن الحقائق شرح کنز الدقائق:۱،۳۴۱)
کبیرہ گناہ (۳۷۲) اپنی بیوی کو کسی ایسی عورت سے تشبیہ دینا جو اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو، مثلاً یوں کہنا کہ تو مجھ پر مثل میری ماں کی پشت کے ہے۔ (زواجر:۲،۸۵)
کبیرہ گناہ (۳۷۳) پاکدامن مرد یا عورت پر زنا یا لِواطت کی تہمت لگانا۔ (سورۃ النور:۴،۵)
کبیرہ گناہ (۳۷۴) زنا یا لواطت کی تہمت پر خاموش رہنا۔ (زواجر:۲،۹۰)
کبیرہ گناہ (۳۷۵) اپنے والدین کو گالی دینا یا انہیں گالی دینے کا سبب بننا، اگرچہ خود والدین کو گالی وغیرہ نہ دے۔ (بخاری)
کبیرہ گناہ (۳۷۷) عورت کا زنا یا شبہ کے طور پر وطی کی وجہ سے غیر ثابت النسب بچہ کو کسی خاندان کی طرف منسوب کرنا۔ (ابوداؤد، نسائی)
کبیرہ گناہ (۳۷۸) عدت پوری کرنے میں خیانت کرنا۔ (زواجر:۲،۱۰۱)
کبیرہ گناہ (۳۷۹)شوہر کی وفات پر غم میں سوگ نہ منانا۔ (زواجر:۲،۱۰۱)تشریح
فائدہ:۔ عورت کے سوگ منانے کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ نہ ہنسے اور نہ بن سنور کر رہے، اور بلا عذر و مجبوری عدت مکمل ہونے تک گھر سے باہر قدم تک نہ رکھے۔ (زواجر:۲،۱۰۱)
کبیرہ گناہ (۳۸۰) جو اپنے اہل و عیال میں ہو اس کو ضائع کرنا، جیسے چھوٹے بچے۔ (ابوداؤد، نسائی، زواجر:۲،۱۰۲)
کبیرہ گناہ (۳۸۱) مجمع میں نیکوں کی شکل ظاہر کرنا اور تنہائی میں حرام کاموں کا اگرچہ وہ گناہ صغیرہ ہی ہوں ارتکاب کرنا۔ (زواجر:۲،۲۰۹)
کبیرہ گناہ (۳۸۲) غلام کا اپنے آقا سے بھاگ جانا۔ (زواجر:۲،۱۳۴)
کبیرہ گناہ (۳۸۳) آزاد شخص کو غلام بناکر اس سے خدمت لینا۔ (ابوداؤد)
کبیرہ گناہ (۳۸۴) اپنے غلام پر ضروری خرچ نہ کرنا۔ (مسنداحمد، ترمذی)
کبیرہ گناہ (۳۸۵) اپنے غلام کو برداشت سے زیادہ تکلیف دینا اور ہمیشہ مارتے رہنا۔ (طبرانی، زواجر:۲،۱۳۸)
کبیرہ گناہ (۳۸۶) حرام قتل یا اس کے مقدمات پر مدد کرنا۔ (بیہقی، زواجر:۲،۱۵۱)
کبیرہ گناہ (۳۸۷) قتلِ حرام یا اور غلط مقدمات کے وقت روکنے پر قادر ہوتے ہوئے وہاں موجود ہونا اور نہ روکنا۔ (زواجر:۲،۱۵۷)
کبیرہ گناہ (۳۸۸) کسی مسلمان یا ذمی کی ناحق پٹائی کرنا۔ (مسلم)
کبیرہ گناہ (۳۸۹) کسی مسلمان کو ڈرانا۔ (مسلم)
کبیرہ گناہ (۳۹۰) ڈرانے کے لئے کسی مسلمان کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنا۔ (ابوداؤد، زواجر:۲،۱۶۰)
کبیرہ گناہ (۳۹۱) ایسا جادو کرنا جو کفر کی حد تک نہ پہنچے۔
کبیرہ گناہ (۳۹۲) جادو سیکھنا۔
کبیرہ گناہ (۳۹۳) جادو سکھانا۔
کبیرہ گناہ (۳۹۴)جادو کرانا۔ (زواجر:۲،۱۷۵) تشریح
فائدہ:۔ قرآن کریم کی سورۂ بقرہ کی آیت نمبر:۱۰۲ میں جادو کی برائی ظاہر کردی گئی ہے، جادو یا کفر ہے یا کبیرہ گناہ ہے، اگر جادو میں کفریہ کلمات ہیں یا جادو حلال سمجھ کر کرتا یا سیکھتا یا سکھاتا ہے تو وہ کافر ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے۔ (زواجر:۲،۱۷۵)
کبیرہ گناہ (۳۹۵) کہانت کا پیشہ اختیار کرنا۔ (زواجر:۲،۱۷۷)
کبیرہ گناہ (۳۹۶) عرافت یعنی نجوم کا پیشہ اختیار کرنا۔ (زواجر:۲،۱۷۷)
کبیرہ گناہ (۳۹۷) الطیرہ یعنی بدفالی لینا۔ (زواجر:۲،۱۷۷)
کبیرہ گناہ (۳۹۸) الطرق یعنی پرندوں کے ذریعہ فال نکالنا۔ (زواجر:۲،۱۷۷)
کبیرہ گناہ (۳۹۹) التنجیم یعنی احولالِ عالم معلوم کرنے کے لئے ستاوں کو دیکھنا (اور اس پر یقین رکھنا)۔ (زواجر:۲،۱۷۷)
کبیرہ گناہ (۴۰۰) العیافہ یعنی خط (لکیروں) کے ذریعہ معلوم کرنا۔ (زواجر:۲،۱۷۷)
کبیرہ گناہ (۴۰۲) پیشۂ نجوم والے کے پاس جانا۔ (زواجر:۲،۱۷۷)
کبیرہ گناہ (۴۰۳) فال نکالنے والے کے پاس جانا۔ (زواجر:۲،۱۷۷)
کبیرہ گناہ (۴۰۴) بدفالی نکالنے والے کے پاس بدفالی لینے جانا۔ (زواجر:۲،۱۷۷)
کبیرہ گناہ (۴۰۵) خطوط و لکیروں کے ذریعہ معلوم کرنے والے کے پاس خط لگوانے جانا۔ (زواجر:۲،۱۷۷)
کبیرہ گناہ (۴۰۶) بادشاہِ وقت چاہے وہ ظالم ہی ہو، اس کے خلاف بغیر کسی وجہ کے یا ایسی وجہ کے ساتھ جس کا باطل ہونا یقینی ہو بغاوت کرنا۔ (سورۃ الشوریٰ:۴۲، زواجر:۲،۱۷۹)
کبیرہ گناہ (۴۰۷) بادشاہت یا وزارت کو قبول کرنے جبکہ یہ معلوم ہو کہ وہ خیانت کا مرتکب ہوگا۔ (بخاری و نسائی)
کبیرہ گناہ (۴۰۸) اپنی خیانت یا عزم خیانت کو جانتے ہوئے بادشاہت یا وزارت مانگنا۔ (زواجر:۲،۱۸۱)
کبیرہ گناہ (۴۰۹) اپنی خیانت یا عزم خیانت کو جانتے ہوئے بادشاہت یا وزارت حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کرنا۔ (بخاری، نسائی)
کبیرہ گناہ (۴۱۰) کسی ظالم یا فاسق کو مسلمانوں کے کسی معاملہ میں حاکم بنانا۔ (زواجر:۲،۱۸۴)
کبیرہ گناہ (۴۱۱) بادشاہ، امیر یا قاضی کا اپنی رعایا کے ساتھ دھوکہ کرنا۔ (بخاری و مسلم)
کبیرہ گناہ (۴۱۲) بادشاہ، امیر یا قاضی کا خود یا نائب کے ذریعہ ضرورتمندوں کی اہم ضروریات کا پورا نہ کرنا۔ (زواجر:۲،۱۸۷)
کبیرہ گناہ (۴۱۳) بادشاہوں، وزیروں اور قاضیوں (ججوں)وغیرہ کا کسی مسلمان یا ذمی پر مال کھاکر یا مار کر یا گالی دے کر (یا کسی بھی طرح) ظلم کرنا۔ (بخاری و مسلم)
کبیرہ گناہ (۴۱۴) مظلوم کی مدد پر قادر ہونے کے باوجود مدد نہ کرنا۔ (زواجر:۲،۱۹۴)
کبیرہ گناہ (۴۱۵) ظالموں کے پاس جھوٹی شکایت لے کر جانا۔ (زواجر:۲،۱۹۵)
کبیرہ گناہ (۴۱۶) کسی بدعتی یا فسادی آدمی کو پناہ دینا (یعنی ان کی اتنی حفاظت کرنا کہ کوئی ان سے حق لینے آئے تو روکنا)۔ (مسلم، زواجر:۲،۲۰۴)
کبیرہ گناہ (۴۱۷) کسی مسلمان کو بطورِ گالی ’’اے کافر‘‘ کہنا۔ (بخاری و مسلم، زواجر:۲،۲۰۵)
کبیرہ گناہ (۴۱۸) کسی مسلمان کو ’’اے اللہ کے دشمن‘‘ کہنا۔ (بخاری و مسلم، زواجر:۲،۲۰۵)
کبیرہ گناہ (۴۱۹) ظالموں کے پاس جانا، ان کے ظلم سے رضامند ہوکر۔ (زواجر:۲،۱۹۵)
کبیرہ گناہ (۴۲۰) عورت کا عورت کے ساتھ (مرد کا عورت کے ساتھ کرنے کی طرح) کرنا ۔ (زواجر:۲،۲۳۵)
کبیرہ گناہ (۴۲۱) مشرک باندی سے شریک ساتھی کا وطی کرنا۔ (زواجر:۲،۲۳۶)
کبیرہ گناہ (۴۲۲) اپنی مردہ بیوی سے وطی کرنا۔ (زواجر:۲،۲۳۶)
کبیرہ گناہ (۴۲۳) بغیر ولی اور گواہی کے کی ہوئی شادی میں وطی کرنا۔ (زواجر:۲،۲۳۶)
کبیرہ گناہ (۴۲۴) اجرت پر لی ہوئی عورت سے وطی کرنا۔ (زواجر:۲،۲۳۶)
یہ سب گناہِ کبیرہ میں داخل ہیں، یہ گناہ بہت سخت قسم کے ہیں جس میں نہ پائے جاتے ہوں وہ شکر کرے اور جس میں پائے جاتے ہوں وہ توبہ و استغفار کرے۔
گناہ صغیرہ کی تعریف ومثالیں اوران سے متعلق چندضروری احکام و ہدایات
گناہ صغیرہ کی تعریف سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مطلق گناہ نام ہے ہرایسے کام کا جو اللہ تعالیٰ کے حکم اور مرضی کے خلاف ہو، اس سے پتہ چلا کہ اصطلاح میں جس گناہ کو صغیرہ کہا جاتا ہے درحقیقت وہ بھی صغیرہ نہیں، اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہرحال میں نہایت سخت وشدید جرم ہے، کبیرہ اور صغیرہ کا فرق صرف گناہوں کے باہمی مقابلہ وموازنہ کی وجہ سے کیا جاتا ہے، اسی معنی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ کل ما نہی عنہ فہو کبیرة، خلاصہ یہ ہے کہ جس گناہ کو اصطلاح میں صغیرہ یا چھوٹا کہا جاتا ہے اس کے یہ معنی کسی کے نزدیک نہیں کہ ایسے گناہوں کے ارتکاب میں غفلت یا سستی برتی جائے اور ان کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کیا جائے؛ بلکہ صغیرہ گناہ کو بیباکی اور بے پروائی کے ساتھ کیا جائے وہ بھی کبیرہ ہوجاتا ہے۔ گناہ کو معمولی نہ سمجھیں: عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَائِشَةُ إِيَّاكِ وَمُحَقَّرَاتِ الْأَعْمَالِ، فَإِنَّ لَهَا مِنَ اللَّهِ طَالِبًا» حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایاؒ اے عائشہ! بچو ان بداعمالیوں سے جنہیں معمولی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اللہ کی طرف سے ان پر بھی بازپرس ہونے والی ہے۔ [سنن ابن ماجہ: 4243، دارمی:2768، احمد:24415]
کسی نیکی کو حقیر و معمولی نہ سمجھنا، پس اگر تیرے پاس کچھ نہ ہو تو مسکراتے چہرے کےساتھ مل لیا کرو۔[احمد:21519، مسلم:2626، ترمذی:1833] تفسیر سورۃ لقمان:18
صغیرہ گناہ کی تعریف
گناہ صغیرہ وہ ہے جس پر کوئی حد ،لعنت یا جہنم کی وعید وارد نہ ہوئی ہو نیز جو جرأت اور بیباکی سے نہ کیا جائے۔اور جو صغیرہ گناہ بار بار کیا جاتا ہے وہ بھی کبیرہ بن جاتا ہے۔
چند صغیرہ گناہ:
علامہ ابن نجیم مصری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۲۵، صغیرہ گناہ لکھے ہیں، یہاں بطور مثال ۵۰،گناہ لکھے جاتے ہیں اور یاد رہے کہ باقی ۷۵،گناہ میں سے اکثر وہ ہیں جن کو ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے زواجر میں کبیرہ شمار کیا ہے، لیکن ساتھ ابن حجر مکیؒ نے قیدیں وغیرہ بھی لگائی ہیں کہ یہ گناہ اگر اس طرح ہو تو کبیرہ بنے گا ورنہ نہیں، نہ یہ کہ مطلقاً صغیرہ کو ابن حجر مکیؒ نے کبیرہ شمار کرلیا ہو(ایسا نہیں ہے)، یہی وجہ ہے کہ آگے لکھے جانے والے ۵۰،صغیرہ گناہ ابن حجر مکیؒ نے نہیں لئے، اور یہ بات بھی یاد رہے کہ چھوٹا گناہ بار بار کرنے سے کبیرہ ہی بن جاتا ہے۔
صغیرہ گناہ(۱) وہ جھوٹ جس میں کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
صغیرہ گناہ(۲) نماز میں با اختیار ہنسنا یا کسی مصیبت کی وجہ سے رونا۔
صغیرہ گناہ(۳) صومِ وصال یعنی اس طرح نفل روزہ پر روزہ رکھنا کہ درمیان میں بالکل افطار نہ کرے۔
صغیرہ گناہ(۴) جمعہ کی (پہلی) اذان کے بعد خرید و فروخت کرنا (جبکہ دوسری اذان کے بعد حرام ہے)۔
صغیرہ گناہ(۵) شوقیہ کُتّا پالنا۔ (شکار کے لئے یا کھیت، باغ اور گھر کی حفاظت کے لئے پالنا جائز ہے)
صغیرہ گناہ(۶) شراب کو اپنے گھر میں رکھنا۔
صغیرہ گناہ(۷) کھڑے ہوکر پیشاب کرنا۔
صغیرہ گناہ(۸) نماز میں سدل کرنا یعنی کپڑے کو اس کی وضع طبع کے خلاف لٹکانا۔
صغیرہ گناہ(۹) بحالتِ جنابت اذان دینا۔
صغیرہ گناہ(۱۰) بحالت جنابت مسجد میں بلاعذر داخل ہونا۔
صغیرہ گناہ(۱۱) کسی نماز پڑھنے والے کے آگے اس کی طرف رخ کرکے بیٹھنا یا کھڑا ہونا۔
صغیرہ گناہ(۱۲) مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا۔
صغیرہ گناہ(۱۳) مسجد میں ایسے کام کرنا جو عبادت نہیں ہیں۔
صغیرہ گناہ(۱۴) زکوٰۃ ردّی مال سے ادا کرنا۔
صغیرہ گناہ(۱۵) سڑی ہوئی مچھلی یا جو مرکر پانی کے اوپر آجائے اس کو کھانا۔
صغیرہ گناہ(۱۶) حلال اور مذبوح (جو ذبح ہوچکا ہو) جانور کے اعضائے مخصوصہ اور مثانہ اور غدود کھانا۔
صغیرہ گناہ(۱۷) نکاح شغار یعنی ایک لڑکی کے مہر میں بجائے روپئے پیسے کے اپنی لڑکی دینا، اور وہ صورت جس کو ہمارے عرف میں وٹہ سٹہ کہتے ہیں، جس میں دونوں لڑکیوں کا علاحدہ علاحدہ مہر مقرر ہو وہ اس میں داخل نہیں۔
صغیرہ گناہ(۱۸) بیوی کو ایک وقت میں ایک سے زائد طلاق دینا۔
صغیرہ گناہ(۱۹) بیوی کو بلاوجہ اور بلاضرورت طلاقِ بائن دینا(بلکہ ضرورت کے وقت ایک رجعی طلاق دینی چاہئے)
صغیرہ گناہ(۲۰) بحالتِ حیض طلاق دینا۔
صغیرہ گناہ(۲۱) جس طہر میں جماع کرچکا ہو اس میں طلاق دینا۔
صغیرہ گناہ(۲۲) مطلبہ بیوی سے بذریعہ فعل (جماع وغیرہ کے) رجعت کرنا (بلکہ اول رجعت قول سے ہونی چاہئے)، اس گناہ کے متعلق علامہ ابن حجر مکیؒ نے یہ قید لگائی ہے کہ یہ گناہ اس وقت کبیرہ ہے جبکہ رجوع کرنے سے پہلے وطی کی حرمت کا قائل ہو (یا ان کا مقلد ہو)۔
صغیرہ گناہ(۲۳) اپنی اولاد کو کوئی چیز دینے میں برابری نہ کرنا (ہاں کسی لڑکے لڑکی میں علم و صلاحیت زیادہ ہونے کے سبب اس کو کچھ زیادہ دیدے تو مضائقہ نہیں)۔
صغیرہ گناہ(۲۴) جس شخص کے پاس مالِ حرام زیادہ اور مالِ حلال کم ہو اس کا ہدیہ یا دعوت بغیر عذر کے بلا تحقیق قبول کرنا۔
صغیرہ گناہ(۲۵) مغصوبہ (یعنی غصب کی ہوئی) زمین کی پیداوار سے کھانا۔
صغیرہ گناہ(۲۷) غیر کی زمین میں بغیر اس کی اجازت کے چلنا (جبکہ اس کو اپنی زمین میں کسی کے چلنے پر اعتراض نہ ہو)۔
صغیرہ گناہ(۲۸) کسی حربی کافر یا مرتد کو تین روز تک توبہ کرکے مسلمان ہونے کی دعوت دینے سے پہلے قتل کرنا۔
صغیرہ گناہ(۲۹) مرتدہ عورت کو قتل کرنا۔
صغیرہ گناہ(۳۰) نماز میں سجدۂ تلاوت واجب ہو تو اس کو مؤخر کرنا یا چھوڑ دینا۔
صغیرہ گناہ(۳۱) نماز کے لئے کسی خاص سورۃ تو متعین کرنا۔
صغیرہ گناہ(۳۲) جنازہ کی چار پائی کو چوڑائی کے رخ پر ڈولی کی طرح بانس باندھ کر اٹھانا۔
صغیرہ گناہ(۳۳) بغیر ضرورت کے دو آدمیوں کو ایک قبر میں دفن کرنا۔
صغیرہ گناہ(۳۴) دانتوں کو سونے کے تاروں سے (بلاضرورت) باندھنا۔
صغیرہ گناہ(۳۵) مردہ کے چہرے کو (شہوت سے) بوسہ دینا۔
صغیرہ گناہ(۳۶) کافر کو بلاضرورت ابتداءً سلام کرنا (ہاں وہ سلام کرے تو جواب میں ’وعلیک‘ یا ’ھداک اللہ‘ کہنا چاہئے)۔
صغیرہ گناہ(۳۷) مخالف اسلام قوم کے ہاتھ ہتھیار فروخت کرنا جبکہ ان سے لڑائی ہو۔
صغیرہ گناہ(۳۸) خصّی غلام سے خدمت لینا یا اس کے کسب سے کھانا۔
صغیرہ گناہ(۳۹) بچوں کو ایسا لباس پہنانا جو بالغ کے لئے ممنوع ہے۔
صغیرہ گناہ(۴۰) اپنا دل بہلانے کے لئے گانا گانا۔
صغیرہ گناہ(۴۱) کسی عبادت کو شروع کرکے باطل کرنا۔ (بلا عذر توڑ دینا یا ادھورا چھوڑ دینا)
صغیرہ گناہ(۴۲) اذان سننے کے بعد گھر میں بیٹھ کر اقامت کا انتظار کرتے رہنا۔
صغیرہ گناہ(۴۳) عالم، بزرگ، باپ کے سوا کسی کا ہاتھ چومنا۔
صغیرہ گناہ(۴۴) تلاوت قرآن کرنے والے کو اپنے باپ یا استاد کے سوا کسی کے لئے تعظیماً کھڑا کرنا۔
صغیرہ گناہ(۴۵) خطبہ کے وقت بات کرنا۔
صغیرہ گناہ(۴۶) اپنا لڑکا جس کی عمر سات سال سے زائد ہو اس کے ساتھ ایک بستر میں سونا۔
صغیرہ گناہ(۴۷) تلاوتِ قرآن پاک کرنا بحالتِ جنابت یا بحالتِ حیض و نفاس۔
صغیرہ گناہ(۴۸) بے فائدہ کلام کرنا۔
صغیرہ گناہ(۴۹) ہنسی دل لگی میں افراط و زیادتی کرنا۔
صغیرہ گناہ(۵۰) کسی ذمی غیر مسلم کو ’اے کافر‘ کہہ کر مخاطب کرنا جبکہ غیر مسلم کو اس سے تکلیف ہوتی ہو (اگر کسی مسلمان کو ’اے کافر‘ کہہ کر بلائے گا تو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوگا)۔
(کما نقلہ ابن حجر المکی فی الزواجر)
گناہوں کی وجہ سے دنیا میں ہونے والے نقصانات:
(۱) علم سے محروم رہنا۔
(۲) روزی کم ہوجانا۔
(۳) اللہ تعالیٰ کی یاد سے وحشت ہوجانا۔
(۴) آدمیوں سے وحشت ہوجانا، خاص کر نیک آدمیوں سے۔
(۵) اکثر کاموں میں مشکل پڑجانا۔
(۶) دل میں صفائی نہ رہنا۔
(۷) دل میں اور بعض دفعہ پورے بدن میں کمزوری ہوجانا۔
(۸) طاعت سے محروم رہنا۔
(۹) عمر گھٹ جانا۔
(۱۰) توبہ کی توفیق نہ ہونا۔
(۱۱) کچھ دنوں میں گناہوں کی برائی دل سے جاتی رہنا۔
(۱۲) اللہ تعالیٰ جل شانہ کے نزدیک ذلیل ہوجانا۔
(۱۳) دوسری مخلوق کو اس سے نقصان پہنچنا اور اس وجہ سے اس پر لعنت کرنا۔
(۱۴) عقل میں فتور ہوجانا۔
(۱۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس پر لعنت ہونا۔
(۱۶) فرشتوں کی دعاء سے محروم رہنا۔
(۱۷) پیداوار میں کمی ہونا۔
(۱۸) شرم و حیاء کا جاتا رہنا۔
(۱۹) اللہ تعالیٰ جل شانہ کی بڑائی اس کے دل سے نکل جانا۔
(۲۰) نعمتوں کا چھن جانا۔
(۲۱) بلاؤں کا ہجوم ہوجانا۔
(۲۲) اس پر شیطان کا مقرر ہوجانا۔
(۲۳) دل کا پریشان رہنا۔
(۲۴) مرتے وقت منہ سے کلمہ نہ نکلنا۔
(۲۵) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا اور اس وجہ سے بے توبہ مرجانا۔
یہ تو صرف دنیا کے نقصانات ہیں اور آخرت کے نقصانات اس کے علاوہ ہیں جو اس سے بہت ہی زیادہ اور تکلیف دہ ہیں۔ (اعاذنا اللہ منہ) (بہشتی زیور حصہ اول)
عبادات اور نیکی کی وجہ سے دنیا کے فوائد:
(۱) روزی کا بڑھنا اور اس میں برکت ہونا۔
(۲) طرح طرح کی برکتیں ہونا۔
(۳) تکلیف اور پریشانیوں کا دور ہوجانا۔
(۴) مرادیں پوری ہونے میں آسانی ہونا۔
(۵) لطف و راحت کی زندگی ہونا۔
(۶) بارش ہونا۔
(۷) ہر قسم کی بلاء کا ٹل جانا۔
(۸) اللہ تعالیٰ جل شانہ کا مہربان و مددگار رہنا۔
(۹) اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کو حکم کرنا کہ اس کا دل مضبوط رکھو۔
(۱۰) سچی عزت و آبرو ملنا۔
(۱۱) مرتبہ بلند ہونا۔
(۱۲) سب کے دلوں میں اس کی محبت کا ہوجانا۔
(۱۳) قرآن کا اس کے حق میں شفاء ہوجانا۔
(۱۴) مال کا نقصان ہو تو اس کا اچھا بدلہ ملنا۔
(۱۵) دن بدن نعمت میں ترقی ہونا۔
(۱۶) مال بڑھنا اور اس میں برکت ہونا۔
(۱۷) دلی راحت و تسلی رہنا۔
(۱۸) آئندہ نسل میں نفع پہنچنا۔
(۱۹) زندگی میں غیبی بشارتیں نصیب ہونا۔
(۲۰) مرتے وقت فرشتوں کا خوشخبری سنانا۔
(۲۱) عمر بڑھنا اور اس میں برکت ہونا۔
(۲۲) افلاس اور فقر و فاقہ سے بچے رہنا۔
(۲۳) تھوڑی چیز میں زیادہ برکت ہونا۔
(۲۴) اللہ تعالی کا غصہ جاتا رہنا۔ (بہشتی زیور:۱،۳۸)
فائدہ:۔ یہ صرف دنیا کے فوائد ہیں اور آخرت کے فوائد اس سے کہیں زیادہ اور باعثِ خوشی و اطمینان ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو گناہوں سے بچائے اور نیکی کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
گناہوں سے توبہ کا طریقہ:
توبہ ایسی چیز ہے کہ اس سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں، مگر اس کے کچھ شرائط و قواعد ہیں۔
ترجمہ:۔ اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی اور خالص توبہ کرو، امید ہے کہ تمہارا رب تمہارےگناہ تم سے دور کردے اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔
خالص اور سچی توبہ یہ ہے کہ اس کے بعد گناہ کا دھیان بھی نہ آئے، یعنی توبہ عدم عود کی نیت کے ساتھ ہو کہ آئندہ گناہ نہ کروں گا، گناہ کو تر ک کرے، اس کی برائی کے سبب، گذشتہ گناہوں پر ندامت ہو اور آئندہ کے لئے گناہ نہ کرنے کا عزم ہو، اعمالِ متروکہ کا تدارک اور تلافی مافات ہو۔
یعنی جو نماز، روزہ وغیرہ قضا ہوا ہو اس کو قضاء (یعنی اس کو ادا) بھی کرے اور اگر بندے کے حقوق ضائع ہوئے ہیں تو ان سے معاف بھی کرالے یا ادا کرے، اور جو ویسے ہی گناہ ہوں ان پر خوب کُڑھے، گڑگڑائے اور روئے، اگر رونا نہ آئے تو کم از کم رونے کی شکل و صورت بناکر اللہ تعالیٰ سے خوب معافی مانگے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔
یہ چار باتیں علماء کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں توبۃ النصوح کی شرطیں بیان کی ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اس توبۃ النصوح کے اثرات بیان فرمائے کہ ایسی توبہ سے گناہ معاف ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ تمام برائیوں کو دور کردے گا اور بہشت کے باغوں میں داخل فرمائے گا۔
اگر کسی شخص نے ان مذکورہ شرائط کے ساتھ سچی اور پکی توبہ کی اور کچھ عرصہ بعد کچھ غلطی ہوگئی تو اُسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بلکہ پھر توبہ کرے، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کے کسی بندے نے گناہ کیا، پھر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: اے میرے مالک! مجھ سے گناہ ہوگیاہے مجھے معاف فرما، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہوں پر پکڑ اور معاف بھی کرسکتا ہے؟ میں نے اپنے بندے کا گناہ بخش دیا اور اس کو معاف کردیا! اس کے بعد جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ بندہ گناہ سے رُکا رہا اور پھر (وہ غلطی سے) گناہ کر بیٹھا، پھر اللہ سے (توبہ و ندامت کے ساتھ) عرض کیا: اے میرے مالک! مجھ سے گناہ ہوگیا، تو اس کو بخش دے اور معاف فرمادے، تو اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی مالک ہے جو گناہ و قصور پر پکڑ بھی سکتا اور معاف بھی کرسکتا ہے، میں اپنے بندے کا گناہ معاف کردیا، اس کے بعد جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا بندہ گناہ سے رُکا رہا اور کسی وقت پھر کوئی گناہ کر بیٹھا اور پھر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: اے میرے مالک و مالک! مجھ سے اور گناہ ہوگیا ہے تو مجھے معاف فرمادے اور میرے گناہ بخش دے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا کوئی مالک و مولیٰ ہے جو گناہ بھی معاف کرسکتا ہے اور سزا بھی دے سکتا ہے، میں اس نے اپنے بندے کو بخش دیا اور معاف کردیا، (اس کے بعد آپؐ نے فرمایا) اب جو اس کا جی چاہے کرے۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ:۲۰۳)
فائدہ:۔ ’’اب جو چاہے کرے‘‘، یعنی جب توبہ استغفار سے گناہوں کی معافی ملتی ہے تو بندے کو چاہئے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے توبہ استغفار کرتا رہے اور موت کے آثار شروع ہونے سے پہلے پہلے توبہ استغفار سے معافی مل سکتی ہے، جونہی موت کے آثار شروع ہوئے توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے، اب بھی اگر بندہ گناہ پر توبہ نہ کرے تو یہ اس کی بدبختی ہے۔ مزید گناہوں کے نئے مقدمات، طریقوں اور شبھات کےلئے اصول:
************************************
نافرمانیوں کا دنیاوی نتیجہ:
القرآن:
لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔ تاکہ انہوں نے جو کام کیے ہیں اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ انہیں چکھائے، شاید وہ باز آجائیں۔
[سورہ الروم، آیت 41]
آیت کریمہ یہ سبق دے رہی ہے کہ عام مصیبتوں کے وقت چاہے ظاہری اسباب کے ماتحت وجود میں آئی ہوں، اپنے گناہوں پر استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
الانسان یعنی اللہ اور آخرت کو بھلانے والا.
القرآن:
انھوں نے الله (کی نصیحت) کو بھلا یا تو الله نے بھی ان کو بھلا دیا ۔
[سورۃ التوبة:67]
اب (جہنم کا) مزہ چکھو کیونکہ تم نے اپنے اس دن کا سامنا کرنے کو بھلا ڈالا تھا۔ ہم نے (بھی) تمہیں بھلا دیا ہے۔ جو کچھ تم کرتے رہے ہو، اس کے بدلے اب ہمیشہ کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو۔
[سورۃ السجدۃ:14]
گناہ ــــــپریشانیوں کا سبب
آج ہر انسان پریشان ہیکسی کوجانی پریشانی ہے تو کسی کومالی، کسی کو منصب کی پریشانی ہے تو کسی کوعزت وآبرو کی، امیر اپنی کوٹھی میں پریشان تو غریب جَھونپڑی میں، کوئی روزگار اور حالات سے نالاں ہے تو کوئی عزیز واقارب اور دوست واحباب سے شاکی۔ تقریباً ہر آدمی کسی نہ کسی فکر، ٹینشن اور پریشانی میں مبتلاہے۔
دلی سکون،قرار اور اطمینان حاصل کرنے کے لیے ہر ایک اپنے ذہن اوراپنی سوچ کے مطابق اپنی پریشانیوں کی از خود تشخیص کرکے ان کے علاج میں لگتاہے۔ کوئی اقتدار،منصب یا عہدہ میں سکون تلاش کرتاہے؛ مگر جب اُسے مطلوبہ منصب مل جاتا ہے تو پتہ چلتاہے کہ اس میں تو سکون نام کی کوئی چیز ہی نہیں؛ بلکہ منصب کی ذمہ داریوں اورمنصب کے زوال کے اندیشوں کی صورت میں اور زیادہ تفکرات ہیں۔
کسی نے سمجھا کہ سکون صرف مال ودولت کی کثرت وفراوانی میں ہے؛ مگرحقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ مال ودولت حاصل ہوا، اُن میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ کاروباری تفکرات، ترقی کا شوق،دن بدن بڑھتی ہوئی حرص اور تجارت میں نقصان کے اندیشوں سے اُن کی راتوں کی نیند حرام ہے،الا ماشاء اللہ۔کسی نے رقص وسرود اور شراب وکباب کو باعثِ سکون جانا؛ مگروقتی اور عارضی لذت کے بعد پھر بھی بے چینی اور اضطراب برقرار۔ کسی نے منشیات کا سہارا لیا؛ مگر اس میں بھی صرف عارضی دل بہلاوا، عارضی فائدہ اور دائمی نقصان۔ کسی نے نت نئے فیشن کرکے دل بہلانے کی کوشش کی؛ مگر سکون وقرار نہ ملا۔
جب کہدینی ذہن رکھنے والوں کا یہ خیال ہے کہ مختلف پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچاؤ کا اصل طریقہ اور اُن کا حقیقی علاج صرف ایک ہی ہے کہ اپنے آپ کو گناہگار،خطاکار، نافرمان اور قصوروار سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے اور گناہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیا جائے؛ کیونکہ سکون وراحت کے سب خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں،وہی ان کا مالک ہے، جب مالک راضی ہوگا تو خوش ہوکر اپنی مملوکہ چیز(سکون وراحت) اپنے فرمانبردار بندوں کو عطا کرے گا اور وہ مالک راضی ہوتا ہے نافرمانی اور گناہوں کو چھوڑنے اور فرمانبرداری اختیارکرنے سے۔
ہر آدمی جانتا ہے کہ ہراچھے یا بُرے عمل کا رد عمل ضرور ہوتاہے، دنیا میں پیش آنے والے حالات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز انسان کے اچھے یا بُرے اعمال ہیں جن کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور ناراضی سے ہے۔ کسی واقعہ اور حادثہ کے طبعی اسباب جنہیں ہم دیکھتے، سُنتے اور محسوس کرتے ہیں، وہ کسی اچھے یا برے واقعہ کے لیے محض ظاہری سبب کے درجہ میں ہیں۔ سادہ لوح لوگ حوادث وآفات کو صرف طبعی اورظاہری اسباب سے جوڑتے اورپھراِسی اعتبار سے اُن حوادث سے بچاؤ کی تدابیر کرتے ہیں۔ شرعی تعلیمات کی روشنی میں بحیثیت مسلمان ہمیں یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور امر سے ہوتا ہے، جس کاعقل اورحواس خمسہ کے ذریعہ ادراک کرنے سے ہم قاصر ہیں، وحی الٰہی اورانبیاء علیہم السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جزاء وسزا کا جو نظام سمجھایا ہے، وہ ہمیں اس غیبی نظام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، وہ یہ کہ کسی بھی واقعہ اور حادثہ کا اصل اورحقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور ناراضی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حالات کو (خواہ اچھے ہوں یا بُرے) انسانی اعمال سے جوڑا اور وابستہ فرمایا ہے، چنانچہ انسان کے نیک وبداعمال کی نوعیت کے اعتبار سے احوال مرتب ہوتے ہیں؛ صحت ومرض، نفع ونقصان، کامیابی وناکامی، خوشی وغمی، بارش وخشک سالی، مہنگائی وارز انی، بدامنی ودہشت گردی، وبائی امراض، زلزلہ، طوفان، سیلاب وغیرہ،یہ سب ہمارے نیک وبد اعمال کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر :ان سب احوال کے ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں؛ مگر حقیقی اسباب ہمارے نیک وبد اعمال ہوتے ہیں۔اس طرح کے خوفناک اور عبرت انگیز واقعات (خواہ انفرادی ہوں یااجتماعی ) دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ”الارم“ اور ”تنبیہ“ ہوتے ہیں؛ تاکہ انسان اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور کوئی تنبیہ اس کے غفلت شعار دل کو جُنبش دینے میں کامیاب ہوجائے :
جب بھی میں کہتا ہوں: اے اللہ! میرا حال دیکھ
حکم ہو تا ہے کہ ا پنا نا مہٴ ا عما ل د یکھ
دُنیا میں پیش آمدہ اچھے یا بُرے واقعات سے حاصل ہونے والا انسانی تجربہ بھی اسی پر شاہد ہے کہ بہت سارے لوگوں اور قوموں پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے دُنیا میں ہی مختلف قسم کے عذاب آئے ہیں، مثلاً:کوئی مسخ کیاگیا، کوئی زمین میں دھنسایا گیا، کوئی دریا میں غرق کیاگیا،کوئی طوفان کی نذر ہوا۔ ان تباہ شدہ اقوام کی بستیوں کے کھنڈرات آج بھی اس حقیقت پر دال ہیں کہ نافرمانی سببِ پریشانی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں اعمال کی حسبِ نوعیت تاثیرات کو(جیسی کرنی ویسی بھرنی کے بہ مصداق) مختلف پہلوؤں اور طریقوں سے بیان فرمایا ہے، امت کوبدعملیوں کے بُرے نتائج سے آگاہ فرماکر اعمال کی اصلاح کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ یہ مضمون قرآن کریم کی دسیوں آیات اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکڑوں احادیث سے صراحةً ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ:”جو کوئی نیک کام کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطے کہ صاحبِ ایمان ہو، تو ہم اُسے پاکیزہ (یعنی عمدہ) زندگی دیں گے“۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نیکی پُرسکون زندگی کا سبب ہے؛چنانچہ دو چیزوں (ایمان اور اعمال صالحہ) کے موجود ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ”حیٰوة طیبة“ یعنی پرلطف اور پُرسکون زندگی عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے۔ عام آدمی بھی یہ آیت پڑھ کر یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ نہ ہوں یا کوئی ایک نہ ہو تو ”حیٰوة طیّبة“ یعنی ”پُرسکون زندگی“ نصیب نہ ہوگی، بلکہ ”پریشان زندگی“ نصیب ہوگی۔
ترجمہ:”اور جو شخص میری نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے (دنیا اور آخرت میں) تنگی کا جینا ہوگا۔“
مطلب یہ ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہ کی؛ بلکہ نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ اس پر دنیا کی زندگی تنگ کردیں گے، ظاہری طور پر مال ودولت، منصب وعزت مل بھی جائے تو قلب میں سکون نہیں آنے دیں گے، اس طور پر کہ ہر وقت دنیا کی حرص، ترقی کی فکر او ر کمی کے اندیشہ میں بے آرام رہے گا۔ اس آیت سے بھی یہی ثابت ہوا کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے“۔
ترجمہ: ”خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے؛تاکہ وہ باز آجائیں“۔
ترجمہ:”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے“۔
ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیے ہوئے بُرے اعمال ہیں، اور یہ بھی بآسانی سمجھ میں آرہاہے کہ: اگر بُرے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اورفسادات وغیرہ بھی نہ ہوں گے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے“۔
ترجمہ:”اور اگر ان بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے؛ لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا“۔
یعنی ایمان اور تقویٰ( اعمالِ صالحہ) برکت وخوشحالی کا ذریعہ اور بُرے اعمال عذاب وپکڑ اور پریشانی کا سبب ہیں۔
ترجمہ:”اور اے میری قوم! تم اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ اور اس کے سامنے توبہ کرو، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا او رتم کو قوّت دے کر تمہاری قوّت میں زیادتی کرے گا اور مجرم رہ کر اعراض مت کرو“۔
ترجمہ: ”تو میں نے کہا کہ گناہ بخشواؤ اپنے رب سے، بے شک وہ بخشنے والا ہے، تم پر آسمان کی دھاریں (تیز بارشیں) برسائے گا اور بڑھادے گا تم کو مال اور بیٹوں سے اور بنادے گا تمہارے واسطے باغ اور بنادے گا تمہارے لیے نہریں“۔
ان دونوں آیات میں نعمتوں اور برکات کے حصول کا طریقہ گناہوں سے توبہ، استغفار اور تقویٰ کو بیان فرمایا ہے، جب معلوم ہوا کہ گناہوں کا چھوڑنا اور توبہ کرنا مال واولاد کی کثرت اور خوشحالی کا سبب ہے تو اس سے لازمی طور صاحبِ عقل وشعور یہی نتیجہ نکالے گا کہ” گناہ اور نافرمانی، نعمتوں میں کمی اور بدحالی کا سبب ہے“۔
ترجمہ:”اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے، جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا“۔
اس آیت میں تقویٰ کو نجات اور وسعتِ رزق کا سبب بتایا ہے اور اس کا عکس یہی ہے کہ نافرمانی اور گناہ‘ پریشانیوں میں گرفتار ہونے اور قلتِ رزق اورنعمت میں کمی کا سبب ہے۔
ترجمہ:”اور بتائی اللہ نے ایک بستی کی مثال جو چین وامن سے تھے، چلی آتی تھی اس کی روزی فراغت سے ہرجگہ سے، پھر ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی، پھرمزہ چکھایا اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کے لباس کا“۔
اگر غور کیا جائے تو یہ آیت درحقیقت ایک آئینہ ہے، جس میں ہر بستی اور ہر ملک والے اپنی حالت دیکھ اور جانچ سکتے ہیں۔ جس کی حالت اس بستی کی طرح ہے، وہ سمجھ لے کہ اُس سے غلطی بھی اُنھیں کی طرح ہوئی ہے۔اپنے ملک کے موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے آیت کے ترجمہ کودوبارہ پڑھیں اور غورکریں تو صاف پتہ چلے گا کہ ہم میں اور ان بستی والوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اسلامی ملک پاکستان کے ساتھ مسلمانانِ پاکستان نے جو غیر اسلامی سلوک روا رکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری ہے ،جس کے نتیجہ میں ہم پر آج برے حالات مسلط ہیں ۔ہمارے وطن کے من جملہ بڑے مسائل میں سے دو مسئلے بہت خطرناک اور انتہائی پریشان کن ہیں۔ (۱)مہنگائی۔ (۲)بدامنی اور دہشت گردی۔ اس آیت میں بھی ناشکری کی دو سزائیں مذکور ہیں، ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری اور اُس کی نافرمانی کی ہے؛ اس لیے ہم ان حالات کا شکار ہیں۔بہرحال قرآن مجید کی یہ آیت ٹھیک ٹھیک ہمارے حالات پر چسپاں ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔
بہت سی احادیث بھی صراحةً اسی مضمون ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون“ پر دلالت کرتی ہیں۔ ”مشتے نمونہ ازخروارے“یہاں چنداحادیث پیش کی جاتی ہیں، حضرت ابن عمرسے روایت ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” اس وقت کیا ہوگا؟ جب پانچ چیزیں تم میں پیدا ہوجائیں گی اور میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ تم میں پیدا ہوں یا تم ان (پانچ چیزوں) کو پاؤ، (وہ یہ ہیں):
۱-بے حیائی: جسے کسی قوم میں علانیہ (ظاہراً) کیا جاتا ہو تو اس میں طاعون اور وہ بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جو ان سے پہلوؤں میں نہیں تھیں۔
۲- اور جو قوم زکوٰة سے رک جاتی ہے تو وہ (درحقیقت) آسمان سے ہونے والی بارش کو روکتی ہے اور اگر جانور نہ ہوتے تو ان پر بارش برستی ہی نہیں۔
۳-اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط سالی، رزق کی تنگی اور بادشاہوں کے ظلم میں گرفتار ہوجاتی ہے۔
۴- اور امراء جب اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے بغیر فیصلے کرتے ہیں تو ان پر دشمن مسلط ہوجاتا ہے جو ان سے ان کی بعض چیزوں کو چھین لیتا ہے۔
۵- اور جب اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلمکی سنت کو چھوڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں جھگڑے پیدا کردیتا ہے“۔(الترغیب،ج:۳،ص:۱۶۹)
مذکورہ حدیث میں مختلف گناہوں کو مختلف آفات وپریشانیوں کا سبب بتایا گیا ہے، اس قدر صراحت کے بعد بھی کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور باعثِ عذاب ہے“؟۔
ایک اور روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے:
”عبادَ اللّٰہ! لَتُسَوُّنَّ صفوفَکم أو لیخالفَنَّ اللہ بین وجوہکم“․(مشکوٰة،ص:۹۷)
ترجمہ:”اے اللہ کے بندو! تم اپنی صفوں کو درست کرلو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں (یعنی دلوں) میں اختلاف پیدا کردے گا“۔
مذکورہ حدیث میں صفوں کو سیدھا نہ کرنے کے فعل بد پر(جو ہے بھی بظاہر چھوٹا گناہ) آپس میں اختلافات پیدا ہونے کی وعید ہے،اس سے واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ بُرے اعمال سبب پریشانی ہیں۔ حضرت حسن بصریسے منقول ایک حدیث میں ہے کہ:
ترجمہ:”تمہارے اعمال ہی (درحقیقت) تمہارے حاکم ہیں اور جیسے تم ہوگے ایسے ہی حاکم تم پر مسلّط ہوں گے“۔
یہ حدیث بھی اعمالِ بد کے برے نتائج برآمد ہونے پر دلالت کرتی ہے؛ چنانچہ برے اور ظالم حکمران بھی اعمالِ بد کی وجہ سے مسلط ہوتے ہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہاں ذکر کردیا جائے، جومذکورہ مسئلہ پر دلالت کرتا ہے :”حضرت عمرکے دور خلافت میں ایک دفعہ مدینہ اور حجاز کے علاقہ میں زبردست قحط پڑا، حضرت عمرنے مصر وشام کے علاقہ سے کثیر مقدار میں غذائی اشیا منگوائیں؛ مگر قحط کسی طور پر کم نہ ہوا، ایک صحابی بلال بن حارث مزنیکو خواب میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: میں تو سمجھتا تھا کہ عمر سمجھدار آدمی ہے! اس صحابی نے حضرت عمرکو خواب سنایا، حضرت عمر بہت پریشان ہوئے اور نمازِ فجر کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں نے میرے اندر حضور صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد کوئی تبدیلی محسوس کی؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: نہیں اورحضرت عمرکی کچھ تعریف کی۔ حضرت عمرنے خواب دیکھنے والے صحابیکو فرمایا کہ اپنا خواب بیان کریں۔ خواب سن کرصحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا: امیر المؤمنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جانب متوجہ فرمارہے ہیں کہ قحط کے حالات سے نمٹنے کے لیے آپ دنیا کے ظاہری اسباب تو اختیار فرمارہے ہیں؛ لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ سے رجوع نہیں کیا، یعنی نمازِ استسقاء نہیں پڑھی، حضرت عمر چونکہ حق قبول کرنے کا مزاج رکھتے تھے تو آپ نے نمازِ استسقاء ادا فرمائی اور ایسی بارش ہوئی کہ مدینہ کا طویل قحط دور ہوا۔ (البدایہ والنہایہ،ج:۷، ص:۲۰۳،۲۰۴)
اس واقعہ پر غور کرنے سے یہی نتیجہ نکلے گا کہ اچھے اعمال کا اثر بھی اچھا اور بُرے اعمال کا اثر بھی بُرا ہوتا ہے،جیسا کہ مذکورہ واقعہ میں نمازِ استسقاء کا اثر اچھا ہوا۔ اوراس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسائل صرف ظاہری اسباب سے حل نہیں ہوتے؛ بلکہ ان کے لیے باطنی اسباب بھی ضروری ہوتے ہیں۔
ممکن ہے کسی کو یہ تردّد اور اشکال ہو کہ عجیب بات ہے، پریشانی دنیوی ہے اور مشورہ دنیوی اسباب کے بجائے گناہوں اور نافرمانیوں کے چھوڑنے کادیا جارہا ہے، یعنی بظاہر ان دونوں باتوں کا آپس میں کوئی جوڑ معلوم نہیں ہوتا۔
اس اعتراض کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہوں کو پریشانی اور نیکی کو راحت واطمینان کا سبب قرار دے دیا تو ایک مسلمان کے ایمان کاتقاضا یہ ہے کہ عقل میں آئے یا نہ آئے، بلاتردُّد ”آمَنَّا وَصَدَّقْنَا“کہے اور بزبانِ حال یوں گویا ہو کہ:
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
کیونکہ جس ذات پر ایمان لائے ہیں، اس کا یہی فرمان ہے، اس لیے ماننے کے سوا چارہٴ کار نہیں۔
دوسرا جواب عقلی لحاظ سے یہ ہے کہ مال ودولت، عزت ومنصب، صحت وتندرستی، راحت وسکون وغیرہ،یعنی دنیا کی ہر نعمت اللہ تعالیٰ کے خزانہ اور ملکیت میں ہے، جب ہر نعمت اللہ تعالیٰ کے خزانہ اور ملکیت میں ہے تو پھر سوچئے کہ کیا مالک (اللہ تعالیٰ) جس کے دربار میں نہ ہی چوری ممکن ہے اور نہ زبردستی سفارش، اس کو راضی کیے بغیر کچھ لیا جاسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرکے ہی پریشانیوں سے چھٹکارا اور راحت وسکون مل سکتا ہے۔
ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں : بعض اوقات نیک وصالح،دین دار، حتیٰ کہ بزرگ حضرات بھی مصیبت وپریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں؛ حالانکہ وہ گناہوں سے بھی بچ رہے ہوتے ہیں، فرمانبرداری بھی کر رہے ہوتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟۔
اس کاایک جواب تو یہ ہے کہ یہ قاعدہ اکثریہ ہے یعنی اکثر پریشانیاں گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے آتی ہیں؛ مگر بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جو بہ طورِ آزمائش ہوتی ہیں اور نتیجتاً نعمت کے حصول کا سبب بنتی ہیں،وہ اس طرح کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کو کسی خاص اخروی درجہ اور مرتبہ پر فائز کرنا چاہتے ہیں؛ مگر وہ اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے نیکیوں کی بنیاد پر اُس کا مستحق نہیں بن سکتا تو اللہ تعالیٰ اُس کے مرتبہ کو مزید بڑھانے اور اونچا کرنے کے لیے دنیا کے اندر آزمائش (بیماری، پریشانی وغیرہ) میں مبتلا کردیتے ہیں تو یہ مصیبت درحقیقت مصیبت نہیں ہوتی، بلکہ ایک طرح کی نعمت ہوتی ہے جو نتیجتاً رفعِ درجات کا سبب بنتی ہے، انبیاء علیہم السلام کی تکالیف اور آزمائشیں اسی قبیل سے ہیں،ان کی مثال اُس محنت کی طرح ہے جو کسی نعمت کے حصول میں کرنی پڑتی ہے،جیسے شہد کے حصول میں بعض اوقات شہد کی مکھی کے ڈنک سہنے پڑتے ہیں، تو اس طرح کی پریشانیاں دراصل شہد کی مکھی کے اُن ڈنکوں کی طرح ہیں جو بالآخر شہد جیسی نعمت کے حصول پر منتج ہوتے ہیں۔
اس شبہ کا دوسرا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اس نیک بندے سے بشری کمزوری کی بنا پر کبھی کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ جو بڑے رحیم وکریم ہیں، اپنے خاص بندے کے اس گناہ کو دنیا ہی میں دھونے کے لیے اُسے مصیبت میں مبتلا کردیتے ہیں؛ تاکہ وہ آخرت کی بڑی رُسوائی اور بڑے عذاب سے بچ جائے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ایک صورت ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کا احاطہ انسان نہیں کرسکتا۔
ان دو جوابات کا حاصل یہ ہے کہ انسان پر آنے والی پریشانی دو قسم کی ہوتی ہے:ایک پریشانی وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کا عذاب ہوتا ہے،جو اخروی عذاب کی ایک جھلک ہوتی ہے۔ اصل دارالجزاء تو آخرت ہے، دنیا دارالعمل ہے؛ مگر کبھی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے اخروی عذاب کا ایک ادنیٰ سا نمونہ دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے؛ تاکہ انسان نافرمانی سے باز آجائے، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ”اور ہم ضرور ان کو قریب کاچھوٹا عذاب چکھائیں گے بڑے عذاب سے پہلے، تاکہ وہ لوٹ آئیں ۔“
اور پریشانی کی دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے جو رفع درجات یا گناہوں کے مٹنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اور یہ پریشانی اور تکلیف درحقیقت اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہوتی ہے کہ اس چھوٹی سے تکلیف کے سبب اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندے کو آخرت کے بڑے عذاب سے بچالیتے ہیں یا رفع درجات کی صورت میں آخرت کی بڑی نعمت عطا فرمادیتے ہیں حتیٰ کہ ایک حدیث میں ہے کہ:
”أشد الناس بلاء الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل“․
ترجمہ:”سب سے زیادہ آزمائش انبیاء علیہم السلام پر آتی ہے ، پھر جو اُن کے جس قدر زیادہ مشابہ ہوں۔“
یعنی انبیاء علیہم السلام پر زیادہ آزمائشیں آئیں اور پھر جس کا جس قدر اُن سے زیادہ تعلق ہوگا، زیادہ قرب ہوگا، زیادہ اتباع ہوگی، اس پر بھی آزمائشیں زیادہ آئیں گی؛ مگر خدانخواستہ انبیاء علیہم السلام پر آنے والی یہ تکالیف اور آزمائشیں کوئی سزا نہیں تھیں؛ بلکہ ان کے درجات کو مزید بلند کرنا مقصد تھا۔
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ نافرمان لوگ جومال دار ہیں، بظاہر خوش نظر آتے ہیں۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ بات مسلم ہے کہ مالداری ایک نعمت ہے اور خوشی اور آرام کا ظاہری سبب ہے؛ مگر ضروری نہیں کہ جو مال دار ہو، وہ خوشحال اور پرسکون بھی ہو؛کیونکہ بعض لوگوں کے پاس بہ ظاہر مال ودولت اور سامانِ عیش وعشرت تو ہوتا ہے؛ مگر ان کا دل قناعت وتوکل سے خالی ہونے کی بنا پر ہروقت دنیا کی مزید حرص، ترقی کی فکر، اور کمی کے اندیشہ میں بے آرام رہتا ہے، ذرا اُن سے پوچھ کر تو دیکھیے کہ وہ راحت وآرام کے سارے اسباب اپنے پاس رکھنے کے باوجود سکونِ دل کی دولت سے کتنے محروم ہیں؟ ہاں! اگر کوئی ایک آدھ فرد ا یسامل جائے جو نافرمان ہونے کے باوجودبھی خوش ہو تو وہ شاذ ونادر مثال ہوگی اور شاذ ونادر کا اعتبار نہیں ہوتا، حکم اکثریت پر لگتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ نافرمانوں کی اکثریت پریشان ہی رہتی ہے۔ دراصل قلبی سکون اور حقیقی اطمینان مال سے حاصل ہونے والی چیز ہی نہیں ہے، اس کا تعلّق اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اوراس کے ذکر سے ہے، جیساکہ ارشاد خداوندی ہے: ”أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ“ یعنی ”خبر دار اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ہوتا ہے“۔ مگر ہم میں سے اکثر لوگ چونکہ ذکر اللہ کی لذت سے بالکل کورے ہیں؛ اس لیے ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا،دراصل ہم نے اس وادی میں قدم ہی نہیں رکھا، بقولِ شاعر:
ذوقِ ایں بادہ ندانی بخدا تانہ چشی
مذکورہ اعتراض کا یہ جواب بھی ہے کہ جو نافرمان بہ ظاہر خوشحال ہیں، انھیں دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہے، جو چند روزہ ہے، یہ چند روزہ خوشحالی لمبی پریشانی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ جس خوشحالی کا انجام چند روز کے بعد دائمی تباہی ہو، اسے خوشحالی کہنا کہاں زیبا ہے؟ جیسے چوہا زہر ملی ہوئی چیز کھاکر خوش ہوتا ہے؛ مگر اس میں اس کی تباہی پوشیدہ ہوتی ہے۔
اصل نکتہ کی بات یہ ہے کہ سکون وراحت کا تعلّق صرف جسم سے نہیں ہے؛ بلکہ جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی ان کا تقاضہ کرتی ہے، مادی وسائل اور راحت وسکون کے ظاہری اسباب جسم کو تو آرام دے سکتے ہیں؛ مگر روح کو قرار اور دل کو سکون بخشنا اُن کے بس کی بات نہیں۔ روح کی تسکین اور اس کی غذا عبادت اور ذکر اللہ ہیں؛ کیونکہ انسان کی فطری خواہش ہے کہ وہ کسی لافانی ذات کی بندگی کرے، اس فطری خواہش کی تسکین مادہ پرست زندگی کے اسباب ووسائل سے پوری نہیں ہوسکتی،روح کی تسکین کے لیے روحانی اسباب (اعمال صالحہ جیسے ذکر اللہ اور عبادت وغیرہ) کا اختیار کرنا ضروری ہے۔
ایک بزرگ نے یہی بات کیا ہی خوب صورت انداز میں بیان فرمائی ہے :
”یہ خدا نا آشنا زندگی کا لازمی خاصّہ ہے کہ اس کے شیدائی ایک انجانی سی بے قراری کا شکار رہتے ہیں، اس بے قراری کا ایک کرب انگیز پہلو یہ ہے کہ انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بے قرار کیوں ہیں؟ وہ ہمہ وقت اپنے دل میں ایک نامعلوم اضطرار اور پراسرار کسک محسوس کرتے ہیں، لیکن یہ اضطراب کیوں ہے؟ کس لیے ہے؟ وہ نہیں جانتے“۔
خلاصہ یہ کہ ہم پر جو پریشانیاں اور مصیبتیں آتی ہیں، وہ ہمارے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہیں، لہٰذا پُرسکون اورپُرلطف زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی گزشتہ کوتاہیوں پر نادم ہوکر اللہ تعالیٰ سے ان پر معافی مانگیں،فی الفور نافرمانی چھوڑ کر آئندہ اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ والله الموفّق والمعین ․
$$$
دنیا اور آخرت میں گناہوں کی سخت سزا ئیں
انسان اس دنیا میں آزمائش اور امتحان کی غرض سے پیدا کیا گیا، یہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے، اصلی ٹھکانہ آخرت ہی اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل فرمائی اس میں مادی وروحانی اشیا کی حقیقتوں کو بیان کیا ، ان کے احکام کو بیان کیااور ساتھ ہی ساتھ انجام کو بھی بیان کردیا اور یہ اللہ کے علاوہ کسی کے بس میں نہیں کہ مادی و روحانی حقائق قطعیہ کو بیان کرے اور اس کے نتیجہ میں دنیا و آخرت میں پیش آنے والے اچھے یا برے انجام کو بھی بیان کرے، اس لیے کہ ان امور کے لیے علمِ محیط، بصارت وبصیرتِ کاملہ، حکمتِ بالغہ، قدرتِ تامہ جیسے عظیم اوصاف کا ہونا ضروری ہے اور یہ اوصاف صرف اور صرف ایک ذات یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ میں بیک وقت یا اس جیسے بے شمار اوصاف اپنی کاملیت کے ساتھ پائے جاتے ہیں، تو آئیے! ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں گناہ کے انجام کو جاننے کی کوشش کریں۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آج کل لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ دنیا دار العمل اور آخرت دارالجزاء ہے ، لہٰذا اچھائی برائی کی جزا وہیں ہوگی، دنیا میں اس سے کچھ نہیں ہوتا، حالاں کہ یہ سوچ بالکل بے بنیاد اور حقیقتِ واقعہ سے عاری ہے ، کیوں کہ یہ مشاہدہ ہے اور تاریخ اس پر شاہد عدل ہے کہ برائی کا انجام بہرحال دنیا میں بھی برا ہوا ۔(مستفاد:جزاء الاعمال مع ترمیم و اضافہ)
توآےئے! سب سے پہلے گناہ کی تعریف اور اس کے اقسام اور گناہ کرنے کے اسباب کو معلوم کریں اور اَخیر میں دنیا اورآخرت میں گناہ کے اثرات اورنقصانات کو واضح کریں گے۔انشاء اللہ
قرآن کریم اوراحادیث مبارکہ میں گناہ کے لیے متعدد الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، مثلاً : السیئة، الخطیئة، الذنب، الإثم، المعصیة،الفسق،الحوب، الغشاء وغیرہ۔ ”الخطیئة“ یہ خطا سے ہے، اس کے معنی ہے ”صحیح کام نہ کرنا“۔ اس میں ”عمد“ کو دخل ہوتا ہے، البتہ غیر عمد کے لیے بھی اسی کا استعمال ہوتاہے۔
امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ جو کام بالذات مقصود ہو اس میں کوتاہی کو ”سیئة“ کہتے ہیں اور جو بالذات مقصود نہ ہو بلکہ عرض اور واسطے کے قبیل سے ہو، اس میں کوتاہی کو ”خطیئة“ کہتے ہیں۔
الذنب کہتے ہیں دُم کو، گناہ کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا، لہٰذا گناہ کو بھی ذنب کہا جاتاہے۔
”اثم“ کے معنی ہے کارِ ثواب کے کرنے میں سستی سے کام لینا اور انسان گناہ کرتاہے تو کار ِثواب سے غافل ہو جاتاہے، اس لیے گناہ کو”اثم“ کہتے ہیں۔
”معصیة“ کے معنی، نافرمانی اور مخالفت کرنا۔ گناہ میں بھی بندہ اپنے رب کی مخالفت کرتاہے، اس لیے اسے معصیت کہا جاتا ہے۔
گناہ کی عام تعریف
اللہ اور رسول نے جن کا موں کے کرنے کاحکم دیا ہے، انہیں نہ کرنا اور جن کے کرنے سے روکا ہے انہیں کرنا یہ ہے گناہ۔
اس تعریف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر وہ قول، فعل یا عمل جس کے کرنے کا اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو اسے نہ کرنا اور جس کے کرنے سے روکا ہو اسے کرنا یہ تعریف عام ہے، کبیرہ وصغیرہ دونوں کو شامل ہے، اب ہم گناہ کی تقسیم اور گناہِ کبیرہ وصغیرہ کی تعریف کرتے ہیں۔
گناہ کی دو قسمیں ہیں
گناہ کبیرہ: ہر وہ کام یا نافرمانی جس کے بارے میں شریعت کی جانب سے قباحت یا لعنت اور وعید شدید وارد ہوئی ہو وہ کبیرہ ہے۔ مثلاً: (1)اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا۔(2) جادو کا عمل کرنا کرانا ۔ (3) ناحق قتل کرنا۔ (4) سود کھانا کھلانا یا اس پر گواہ بننا۔ (5)یتیم کا مال کھانا۔ (6) والدین کی نافرمانی کرنا۔ (7) زکوٰة نہ دینا ۔ (8) عمداً رمضان کا روزہ نہ رکھنا ۔ (9)قدرت کے باوجود حج نہ کرنا ۔ (10) زنا کرنا یا اغلام بازی کرنا ۔ (11) رشتہ داروں کے ساتھ براسلوک کرنا ۔ (12) تکبر کرنا ۔ (13) شراب پینا ۔ (14) جوا کھیلنا ۔ (15)چوری کرنا ۔ (16) جھوٹی قسم کھانا ۔ (17) رشوت کھانا۔ (18) جھوٹ بولنا ۔ (19) ناحق کسی کوستانا۔ (20) مردوں کا عورت کی مشابہت اور عورتوں کا مردوں کی مشابہت اختیار کرنا ۔ (21) پیشاب کے قطرے سے اجتناب نہ کرنا ۔ (22) فرض وواجب نماز کو ترک کرنا ۔ (23)چغل خوری کرنا ۔ (24) تقدیر کا انکار کرنا ۔ (25)بد فالی لینا ۔ (26)ذی روح کی تصاویر لینا ۔ (27)نوحہ کرنا ،سرکشی کرنا ۔ (28)کمزوروں کوناحق مارنا، مثلاًبیوی‘ بچے اور جانوروں کو ۔ (29)پڑوسی کو ستانا ۔ (30) ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانا۔ (31)مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا ۔ (32)سونے چاندی کے برتن میں کھانا اور پینا ۔ (33)مرد کا سونا یاریشم زیب تن کرنا۔ (34) لڑائی جھگڑا کرنا ۔ (35) دھوکہ بازی کرنا ۔ (36) صحابہ کو برا کہنا ۔ (37) خیانت کرنا ۔ (38) ناحق کسی پر لعن طعن کرنا ۔ (39) بے وفائی اور وعدہ خلافی کرنا ۔ (40) ناپ تول میں کمی زیادتی کرنا ۔ (42) عورتوں کا بال کٹوانا۔ (43)مصیبت پر واویلا مچانا ۔ (44) مختصراور تنگ لباس زیب تن کرنا ۔ (45)اجنبیہ عورت کے ساتھ خلوت کرنا ۔ (46) اجنبیہ عورت کے ساتھ مصافحہ کرنا ۔ (47) عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا ۔ (48) میوزک اور گانے سننا ۔ (49) اپنے مال کو فضول ضائع کرنا ۔ (50) حائضہ بیوی کے ساتھ مباشرت کرنا ۔ (51) عورت کا بن سنور کر، خوشبو لگاکر، بے پردہ اجنبی مردوں کے سامنے نکلنا ۔ (52) مزدور کو اس کی مزدوری نہ دینا ۔ (53)بلا ضرورت لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ۔ (54)بدعت کا ارتکاب کرنا ۔ (55) اجنبی عورت کو عمداً دیکھنا ۔ (56) نماز کو اس کے وقت سے موٴخر کرکے پڑھنا ۔ (57)جلدی جلدی نماز پڑھنا ۔ (58) کسی کو برے نام سے پکارنا ۔ (59) اولیاء سے عداوت کرنا ۔ (60) کھلے عام گناہ کرنا ۔ (61) اپنے گناہ کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا ۔ (62) مسجد میں باتیں کرنا وغیرہ وغیرہ ۔
اگر ہم اپنے معاشرے پر ایک نظر ڈالیں اور گناہ کبیرہ کی فہرست پر ایک نظر دوڑائیں، تو معلوم ہوگا ہماری اکثریت ان گناہوں میں ملوث ہے؛ بعض تو ان میں سے بہت سے گناہوں کو گناہ ہی نہیں سمجھتے اور بعض کبیرہ کو صغیرہ گناہ تصور کرتے ہیں ،یہ ہمارے سوچنے کا مقام ہے، اللہ ہم کو صحیح سمجھ عطا فرماے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
گناہِ صغیرہ
صغیرہ ہر اس گناہ کو کہا جاتاہے جس کو کرنے سے شریعت نے روکا ہو، البتہ اس پر کوئی شدید وعید نہ بیان کی ہو، مثلاً بغیرعذر کے بائیں ہاتھ سے کھانا، بڑوں کی بے ادبی کرنا ، بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے، کیوں کہ خالق و مالک کی نافرمانی بہرحال بہت بری شے ہے، یہ نہ دیکھا جائے کہ کبیرہ ہے یا صغیرہ، بلکہ یہ دیکھو کہ نافرمانی کس کی کررہے ہو۔
گناہ میں مبتلا ہونے کے اسباب
انسان اس دنیا میں آزمائش اور امتحان کی غرض سے پیدا کیا گیا، یہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے، اصلی ٹھکانہ آخرت ہے، اس لیے اللہ نے خیر اور شر کو پیدا کیا، انسان کو چاہیے کہ وہ خیر کو اختیار کرے اور شر سے اجتناب برتے ۔
انسان کے گناہ میں مبتلا ہونے کے چند اسباب ہیں
سب سے پہلا سبب مقصدِ تخلیق اور انجام سے غفلت ہے، اللہ نے انسان کو محض اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا، لہٰذااصل مقصد عبادت ہے اور دیگر تمام چیزیں ضرورت کے قبیل سے ہیں، مثلاً کھانا‘ پینا‘ سونا وغیرہ۔ اور کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے ابتلا اور آزمائش کے لیے بنائی ہیں، جیسے مال، اولاد، عورت وغیرہ اور انسان کو قوتِ شہوانیہ اور عقلیہ دونوں دیں تاکہ معلوم ہو کہ وہ شہوانیت سے اجتناب کرتا ہے یا نہیں۔ وحی کی روشنی میں زندگی گزارتا ہے یانہیں۔ لہٰذا ہمیں خواہشات پر قابو پاکر زندگی گزارنی چاہیے اور یہ بات بھی یاد رہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ نہ ہوگا، اس لیے بھی وہ گناہ کرنے سے باز نہیں رہتا ،حالاں کہ زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب یقینی ہے اور اس پر جزا وسزا بھی قطعی ہے اور برائی کا انجام برا ہے اور بھلائی کا انجام بھلا ہے، جب انسان انجام سے غافل ہوتا ہے تو گناہ پر آمادہ ہوجاتا ہے، اللہ انجامِ بد سے دارین میں ہماری حفاظت فرمائے۔
گناہ کرنے کا دوسرا سبب ضعف ِایمانی ہے، جب اللہ کے قادر ہونے پر، قیامت کے دن پر، حساب پر، میزان پر، جنت اور جہنم کے برحق ہونے پر، عذابِ قبر کے حق ہونے پر، ایمان میں ضعف اور کمزوری آتی ہے، تو انسان گناہ پر آمادہ ہوجاتا ہے، اس کے لیے عقائد کی کتابوں کا پڑھنا اور عقائد کو مضبوط کرنا ضروری ہے ۔
دنیاکی محبت،جب آدمی کسی چیز کا گرویدہ ہوجاتاہے تو اندھا دُھن اسی کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ عربی میں ضرب المثل مشہور ہے: ”حبک الشیء یعمی و یصم“․ کسی چیز کی محبت تجھے اندھا اور بہرا کردیتی ہے ،جب کسی پر دنیا غالب ہوجاتی ہے تو وہ بغیر کسی انجام کی پروا کیے اس کے پیچھے لگا رہتا ہے، اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔آمین!
خواہشات کی پیروی، انسان کو اللہ نے دو چیز یں بغرض آزمائش عطا کی ہیں، ایک عقل اور دوسری نفس۔ پھر ان دونوں کے تعاون کے دو خارجی اسباب پیدا کیے وحی اور شیطان، وحی عقل کی رہنمائی کرتی ہے اور شیطان شہوانیت کو ہوا دیتا ہے؛ اب اگر انسان شہوانیت اور شیطان کے جال میں پھنس جاتا ہے تو گناہ پر گناہ کیے جاتا ہے، اللہ نفس اور شیطان سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین !
بعض لوگ گناہ پر گناہ کرتے ہیں اور پھر جب نصیحت اور موعظت کی جائے تو کہتے ہیں، کیا کریں، مقدر میں جیسا لکھا ہے ویسا ہوتا ہے؛ یہ صحیح نہیں، اس لیے کہ اسباب اختیاری ہیں، جب انسان برے اسباب اختیار کرتا ہے تو برائی پر آمادہ ہوتا ہے، اگر بندہ برائی سے بچنے کی کوشش کرے تو اللہ ضرور اسے بچا لیتے ہیں، ہم کوشش نہیں کرتے اور پھر تقدیر کا رونا روتے ہیں، یہ عقیدہٴ تقدیر کو اچھی طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتاہے، اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین !
اللہ کی مغفرت کی امید بھی گناہ پر آمادہ کرتی ہے مثلاً گناہ کرتے وقت انسان سوچتا ہے، ارے! اللہ تو غفور الرحیم ہے‘ ضرور معاف کردے گا، مگریہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ عزیزذو انتقام بھی ہے، اور شدید العقاب بھی، یعنی سخت پکڑ کرنے والا اور سخت سزا دینے والا ہے، لہٰذا مغفرت کی بیجا امید پر گناہ پر گناہ کرنا غلط ہے، کیوں کہ اگر گناہ پر گناہ کرتا رہا اور اسی حالت میں موت آگئی تو ایمان کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے، اللہ ایمان کے ساتھ موت عطا فرمائے ۔آمین
غصہ سے بے قابو ہوجانا بھی گناہ اور ظلم پر آمادہ کرتا ہے ، غصہ میں کبھی کسی کو قتل کردیتا ہے، کبھی کسی کے ہاتھ پاوٴں موڑ دیتا ہے وغیرہ، لہٰذا غصہ آئے تو اس صورت میں صبر سے کام لے ۔
خواہشات کی پیروی بھی گناہ کے رئیسی اسباب میں سے ہے، شہوانیت کی وجہ سے کبھی بوس وکنار اور کبھی زنا اور ناچ گانے پر اتر آنا، لہٰذا ایسی حالت میں استغفار اور تعوذ کا ورد شروع کردینا چاہیے، تاکہ شہوانی قوت پست ہوجائے یا ٹھنڈی ہوجائے۔
علم دین سے ناواقفیت بھی گنا ہ کا سبب ہے، کیوں کہ حلال وحرام کی تمیز نہیں، گناہ اور نیکی کا علم نہیں، حرام کو حلال سمجھ کر اور گناہ کو نیکی سمجھ کر کرتاہے، لہٰذا دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنی چاہیے ۔
کبھی آدمی سے بہت زیادہ گناہ ہوجاتے ہیں تو وہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہوجاتاہے اور پھر گناہ پر جری ہوجاتاہے، حالاں کہ موٴمن کو اللہ کی رحمت سے نا امید ہونے کی ضرورت نہیں، کتنا بڑا گناہ ہو، خواہ کتنی ہی مرتبہ کیوں نہ ہو، یاد آنے پر فوراً استغفار اور توبہ کرے۔
مولاناپیر ذوالفقار نقش بندی فرماتے ہیں:آدمی چار وجوہات کی بنا پر گناہ کرتاہے:
وہ یہ سمجھتا ہے کہ گناہ کرتے وقت اسے کوئی نہیں دیکھتا، حالاں کہ قرآن میں ارشاد خداوندی ہے: ﴿ان ربک لبالمرصاد﴾تیرا پر وردگار تیری گھات میں ہے۔ یعنی ایک لمحہ ایک سیکنڈکے لیے بھی تجھ سے غافل نہیں ۔ (سورہٴ فجر:14)
گناہ کرتے وقت یہ سمجھتاہے کہ میرے پاس کوئی نہیں، حالاں کہ قرآن میں ارشادباری ہے: ﴿وھومعکم أینما کنتم﴾تم جہاں کہیں رہو اللہ تمہارے ساتھ ہے ۔
کبھی انسان گناہ اس لیے کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ میری ان حرکتوں کا کسی کو علم نہیں، قرآن نے کہا:﴿یعلم خائنة الأعین وماتخفی الصدور﴾ وہ تمہاری نظر کی خیانت کو بھی جانتاہے اورتم دل میں جو کچھ چھپاتے ہو اسے بھی جانتاہے ۔ (سورہٴ موٴمن:19)
گناہ کرتے وقت انسان یہ سمجھتا ہے کہ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے؛ قرآن نے کہا: ﴿إن اخذہ ألیم شدید﴾اللہ کی گرفت انتہائی درد ناک ہے۔ (سورہٴ ہود:102)
یہ چند اسباب بیان کیے گئے، جو انسان کو معاصی پر آمادہ کرتے ہیں، اب آئیے! گناہ کے نقصانات پر ایک نظر ڈالیں :
حکیم الامت مجدد ِملت حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اس وقت جو حالات ہمارے ہیں، مثلاً طاعت میں سستی اور معاصی میں انہماک وجرأت ،اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اعمال حسنہ اور سیئہ یعنی نیکی اور گناہ کی جزا وسزا صرف آخرت میں ہوگی، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ دنیا میں بھی (اور برزخ میں بھی ) اور آخرت میں بھی (تینوں ٹھکانوں میں ) اس کی سزا و جزا بھگتنی ہوتی ہے، تو آیئے! قرآن و حدیث اورملفوظاتِ محققین کے ذریعہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ گناہ کی سزا دنیا میں ہوتی ہے۔
دنیا میں گناہ کی سزا پر قرآن سے دلائل
قرآن کریم نے نویں پارے میں کہا: ﴿فلما عتوا عمَّا نہوا عنہ قلنا لہم کونوا قردةً خاسئین﴾۔ پھر جب انہوں نے سرکشی اختیار کی اس چیز سے جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے ان سے کہا ذلیل بندر بن جاوٴ۔ (سورہٴ اعراف:166)
اس سے صاف معلوم ہوا کہ بنو اسرائیل کی اس جماعت کو گناہ کرنے کی وجہ سے دنیا میں سزا مل گئی ۔
ایک مقام پر فرمان الٰہی: ﴿فعصوا رسول ربھم فأخذھم﴾․انہوں نے اپنے پروردگا ر کے رسول کی نافرمانی کی تو اللہ نے ان کی گرفت کی۔ (سورہٴ حاقہ:10)
﴿فکذبوھما فکانوا من المھلکین﴾۔انہوں نے موسیٰ اور ہارون کو جھٹلایا تو وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہوگئے ۔ (سورہٴ موٴمنون: 48)
یہ اور اس جیسی بے شمار آیات ِقرآنیہ اس پر دلیل ہیں کہ گناہ کی سزا دنیا میں بھی ہوئی، صرف یہی نہیں بلکہ شیطان اور امم ِسابقہ جو گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے مختلف طریقوں سے ہلاک کی گئیں، کیوں کہ اس گناہ کی وجہ سے ابلیس لعین کو راندہٴ درگاہ کیا گیا، گناہ کی وجہ سے ملعون ہوا، باطن تباہ وبرباد ہوگیا ، بجائے رحمت کے لعنت کا مستحق ہوا، قرب کے بدلے بُعد حصہ میں آیا ، تسبیح اور تقدیس کی جگہ کفر ، شرک جھوٹ اور فحش انعام میں ملا، یہ گناہ ہی تھے جنہوں نے قوم نوح علیہ السلام کو طوفان میں غرق کردیا ، اسی گناہ کی وجہ سے قوم عاد تند وتیز ہوا سے ہلاک کردی گئی ۔ یہی وہ گناہ ہے کہ قومِ ثمود کو چیخ کی آواز سے ہلاک کردیا گیا، وہ کونسی چیز تھی جس کی وجہ سے قوم لوط کی بستیوں کو آسماں تک لے جاکر الٹ دیا گیا، قومِ شعیب، قومِ فرعون و قارون وغیرہ اقوام کی بربادی اور ہلاکت کا سبب محض گناہ کے اور کیاتھا ؟
معلو م ہوا گناہ کی سزا انسان کو دنیا میں بھی بھگتنا پڑتی ہے اور آخرت میں بھی ہوگی، بلکہ قبر میں بھی مبتلائے عذاب ہونا ہوگا ؛ (اللہم احفظنا)۔
دنیا میں گناہ کی سزا پر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں ،ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے :پانچ چیزوں سے میں پناہ مانگتا ہوں، تم بھی اس سے پناہ مانگو۔
جب کسی قوم میں بے حیائی عام ہوئی ہے تو طاعون اور طرح طرح کی بیماریاں ان میں پھیل جاتی ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔
جب ناپ تول میں کمی ہوتی ہے تو وہ قوم قحط اور تنگی کے ساتھ ظالم حکمرانوں کے تسلط میں مبتلا ہوگی ۔
جو قوم زکوٰة کی ادائیگی نہیں کرے گی اس پر بارش کم کردی جائے گی ۔
جو لوگ عہد شکنی کریں گے تو اللہ غیر قوم کو ان پر مسلط کردیں گے۔
جو قوم شراب پینے اور موسیقی ومیوزک سننے میں مبتلا ہوگی تو ان پر زلزلے آئیں گے۔ (ابن ماجہ وابن ا بی الدنیا )
یہ اور اس طرح کی بے شمار احادیث دنیا میں گناہ کی سزا اور نقصانات پر دال ہیں۔
خلاصہ یہ نکلا کہ عام طور پر جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ اور برائی کی سزا دنیا میں نہیں ہوتی، آخرت میں ہوتی ہے، غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ دنیا میں بھی اس کی سزا ہوتی ہے ،آج ہمارے معاشرے میں بے حیائی عام ہے تو کیا طرح طرح کی نئی نئی بیماریاں عام نہیں ہورہی ہیں؟ آج ہمارے معاشرے میں ناپ تول میں کمی ہورہی ہے تو کیا ظالم حکمراں ہم پر مسلط نہیں؟ آج ہمارے معاشرے میں زکوٰة دینے کا اہتمام نہیں تو کیا بارش کی قلت نہیں ہے ؟آج ہم لوگ وعدے پر وعدے کی مخالفت کرتے ہیں تو کیا اغیا ر کو ہم پر مسلط نہیں کردیا گیا؟
تعجب ہے پوری روئے زمین پر کہ کہیں بھی قرآن اور حدیث سے ماخوذ دستور پر مکمل عمل نہیں ہورہاہے اور ہمارے تمام حکمران غیروں کے دست نگر ہیں، شراب اور میوزک عام ہونے کی وجہ سے آئے دن زلزلے پر زلزلے آتے رہتے ہیں، آخری چند سالوں میں وقفے وقفے سے دنیا کے مختلف خطوں میں بھیانک زلزلے آتے رہے ہیں اور ہلاکت خیز تباہی مچاتے رہے ہیں، یہ سب کیا ہے؟ احادیث کی وعیدوں کی جیتی جاگتی صداقت کی مثالیں ہیں۔ فاعتبروا یا أولی الألباب۔
مگر افسوس کہ ہمارا معاشرہ پھر بھی اس بات کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیارنہیں، بلکہ وہ عذابِ الٰہی کو عذاب ہی نہیں تصور کرتا اور الٹا اس کے سائنسی اسباب تلاش کرکے، ان اسباب کے ذریعہ عذابِ الٰہی کو روکنے کی کوشش کرتاہے، یہ کتنی بڑی حماقت ہے، کیا عذابِ الٰہی کو بھی کوئی روک سکتا ہے؟ زلزلے کے اسباب کو معلوم کرنے کے بعد بھی وہ کسی زلزلے کو پچاس سال میں روک سکے، نہ روک سکیں گے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ روحانی اسباب کو تلاش کرکے ان پر توجہ دی جائے اور وہ اسباب ہیں اللہ کی نافرمانیاں اور گناہ۔ اللہ ہمیں حق بات سمجھنے کی توفیق دے اور دنیاوبر زخ اور آخرت میں اپنی ہر طرح کی گرفت اور عذاب سے محفوظ رکھے۔ آمین !
گناہ کے دنیوی نقصانات اور سزائیں
گناہوں کی کثرت سے علم کا نور سلب ہوجاتا ہے۔
امام مالک نے امام شافعی سے کہا کہ میں تمہارے قلب میں نور محسوس کررہاہوں، کہیں گناہ کرکے تم اسے ضائع نہ کردینا۔ ارشاد خداوندی ہے: ﴿واتقوا اللہ لعکم تفلحون﴾۔(سورہٴ آل عمران:200) جب تقوی آئے گا (یعنی گناہوں سے بچنا) تب علم کا نور حاصل ہوگا۔
رزق کم ہوجاتا ہے یا بڑی ذہنی وبدنی کلفت کے بعد رزق حاصل ہوتا ہے ، حدیث میں ہے : ”وإن الرجل لیحرم الرزق بالذنب یصیبہ“۔ (ابن ماجہ)آدمی گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جات اہے۔
قرآن میں ارشاد ہے: ﴿وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد﴾اور اگر تم کفر کروگے یا ناشکری کروگے تو میراعذاب بڑا سخت ہے۔ (سورہٴ ابراہیم:7) اگر گناہ کے بعد رزق میں تنگی نہ آئے تو یہ اللہ کی طرف سے ڈھیل ہے ،ا س سے دھوکہ نہ کھانا چاہیے۔
تصرف الٰہی سے محرومی: گناہ کے سبب اللہ کی مدد کے دروازے بندہوجاتے ہیں، ارشادِایزدی ہے : ﴿یایہاالذین آمنوا إن تنصروا اللہ ینصرکم﴾․ اے ایمان والو! اگرتم اللہ کی مددیعنی اطاعت کروگے تواللہ تمہاری مددکرے گا۔ (سورہٴ محمد:7)
معلوم ہوا کہ اطاعت کی صورت میں نصرت آتی ہے اور گناہ کرنے کی صورت میں مددنہیں آتی۔
ذلت سے دوچارہونا: گناہ کرنے سے انسان کی وقعت یاختم ہوجاتی ہے یاگھٹ جاتی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے : ﴿ضربت علیہم الذلة﴾․ (گناہ کے سبب) ان پرذلت تھونپ دی گئی۔ (سورہٴ آل عمران:112)
معلوم ہواکہ گناہ سے ذلت وخواری کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔
دنیامیں امن وامان کاختم ہوجانا: گناہ کی نحوست سے ملک کاامن وامان غارت ہوکررہ جاتاہے۔ اللہ کاارشاد ہے: ﴿ظہرالفساد فی البر و البحر بما کسبت أیدی الناس﴾خشکی اورتری میں فسادبرپاہوگیا، لوگوں کے(برے)کرتوتوں کے سبب، یعنی گناہ کی وجہ سے۔ (سورہٴ روم:41)
کیاآج ہم نہیں دیکھ رہے ہیں کہ کوئی خطہٴ ارض امن سے معمورنہیں، قتل وغارت گری، چوری ڈکیتی ایک عام سی بات ہوگئی، روزانہ ہزاروں لوگ بے قصورمارے جارہے ہیں، بظاہریہ قصورہے، لیکن حقیقت میں یہ اللہ کی نافرمانی کی اجتماعی سزاہے، جسے ہم سمجھ نہیں پارہے ہیں۔
دنیامیں عمل صادرہوتاہے، عالمِ برزخ میں ریکارڈہوتاہے اوریوم الحشرکے دن سب ظاہرہوجائے گا
ایمان سے محرومی
کبھی کبھی جب انسان گناہ کا عادی ہوجاتاہے اور گناہ پر نڈر ہو جاتا ہے توروحانی طورپراس پرمردنی چھاجاتی ہے، یہاں تک کہ وہ ایمان جیسی قیمتی نعمت سے ہاتھ دھوبیٹھتاہے، جوبہت بڑاخسارہ ہے، بلکہ اس سے بڑھ کراورکوئی خسارہ نہیں ہوسکتا۔
حدیث میں ہے: ”لایزنی الزانی حین یزنی وہو موٴمن“یعنی زناکرنے والازناکرتے وقت ایمان سے ہاتھ دھولیتاہے۔
معلوم ہواکہ گناہ سے ایمان بھی ضائع ہوسکتاہے ۔اسی لیے علماء فرماتے ہیں کہ صغائر پر مداومت انسان کو کبائر تک تک پہنچاتی ہے اور کبائر پر مداومت کفر تک پہنچا کر چھوڑتی ہے۔
کثرتِ گناہ توفیقِ خیر سے محرومی کا سبب
گناہ کرتے رہنے سے آدمی اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جاتاہے ، اللہ کا فرمان ہے :﴿وما توفیقی إلا باللہ﴾ توفیق تو اللہ ہی دیتا ہے۔(سورہٴ ہود:88)
اور اللہ توفیق کب دیتا ہے جب بندے سے خوش ہوتاہے اور خوش کب ہوتاہے، جب بندہ نیکی کرتا ہے ۔لہٰذاجب بندہ گناہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوں گے اور جب اللہ ناراض ہوں گے تو رحم نہ کریں گے اورجب رحم نہیں کریں گے تو توفیق نہیں دیں گے۔
وحدت سے محرومی
گناہ کے سبب مسلم معاشرے سے وحدت اور اتفاق کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور آپس میں خلفشار برپا ہوجاتا ہے۔ارشادِ الٰہی ہے : ﴿واطیعوا اللہ ورسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا﴾ اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو اور آپس میں تنازع مت کرو ،ورنہ ناکام ہو جاوٴگے ۔(سورہٴ انفال:46)
معلوم ہوا کہ گناہ کرنے سے انتشار پیدا ہوتا ہے اور امت متحد نہیں ہوپاتی۔
گناہ کی نحوست راہِ حق سے محرومی
گناہ کے کرنے سے آدمی ہدایت اور صراطِ مستقیم سے محروم ہوجاتاہے ، ”بدعت“ کو ”سنت“ اور ”ضلالت“ کو ”ہدایت“ سمجھتاہے، جو بہت بڑی محرومی ہے۔
گناہ سے قلب پر تاریکی
گناہ کرنے سے قلب پر ظلمت اور تاریکی چھا جاتی ہے پھر وہ برائی کو اچھائی سمجھ کر کرتا ہے ۔حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں : بدی، کرنے سے چہرہ بے رونق ہوجاتا ہے ، قبر اور قلب میں ظلمت چھا جاتی ہے ، بدن میں سستی آجاتی ہے۔
گناہ کے سبب عمرمیں کمی
گناہ کرنے سے انسان کی عمر سے برکت ختم ہوجاتی ہے ۔
حدیث میں ہے : ”نیکی سے عمر میں برکت ہوتی ہے“ ۔تواس سے معلوم ہواکہ بدی اور گناہ سے عمر میں برکت ختم ہوجاتی ہے۔
گناہ سے ارادہٴ توبہ کمزور ہوجاتاہے اور مرنے کے وقت بغیر توبہ کے چلا جاتاہے۔
گناہ اور عقل کافتور
گناہ کرنے سے عقل میں فتور واقع ہوجاتاہے اور بھلی بات اس کو سمجھ میں نہیں آتی۔
خلاصہ یہ ہے کہ گناہ بہرحال انسان کے لیے دنیا اور آخرت میں سمِ قاتل ہے اور زہرہلاہل ہے۔ دنیامیں بھی سزا بھگتنی ہوگی اور آخرت میں بھی۔
پیر ذوالفقار نقشبندی فرماتے ہیں کہ قرآن کا اعلان ہے : ﴿وذروا ظاہر الإثم وباطنہ﴾ظاہری وباطنی گناہوں کو چھوڑو ۔(سورہٴ انعام:121) گناہ شروع میں مکڑی کے جال کی طرح ہوتاہے ، مگر توجہ نہ دینے کی صورت میں جہاز کے لنگر کی صورت اختیار کرجاتاہے ،پھر اس سے دامن چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔
آخرت میں گناہوں کی سزا
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة الله فرماتے ہیں :کتاب وسنت سے معلوم ہوتاہے کہ اس دنیاکے علاوہ دوعالم اورہیں: برزخ آخرت۔ جب آدمی کوئی عمل کرتاہے توفوراًآخرت میں منعکس ہوجاتاہے، اس کے وجودپرکچھ آثاربھی مرتب ہوتے ہیں، اس عالم کوعالم قبراورعالم برزخ کہتے ہیں۔ پھران ہی اعمال کاایک وقت، کامل ظہورہوگا۔جس کویوم حشرو نشریعنی لوگوں کے جمع ہونے، اعمال نامہ کے ظاہرہونے کادن کہتے ہیں۔ تومعلوم ہواکہ ہرعمل کے وجودی مراتب تین ہیں: صدور ظہور مثالی اورظہورحقیقی۔ اس مضمون کوآج کی ایجادات مثلاً ٹیپ ریکارڈ اور ویڈیوریکاڈر سے سمجھاجاسکتاہے۔ جب آدمی کوئی بات یاعمل کرتاہے تواس کے تین مراتب ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ اس کامنہ یابدن سے صادر ہونا۔ دوسرامرتبہ اس کاٹیپ یاکیمرے میں بندہونا اورتیسرامرتبہ جب آدمی اس کی آوازکوسننا چاہے، یادیکھنا چاہے تواسے بعینہ دیکھ لے۔
بس اب اسی پرقیاس کریں، دنیامیں عمل صادرہوتاہے، عالمِ برزخ میں ریکارڈہوتاہے اوریوم الحشرکے دن سب ظاہرہوجائے گا۔
اب جب یہ ثابت ہوگیاتو کوئی عاقل اورذی شعوراپنے کرتوت کے ریکارڈکوسننے یادیکھنے کے بعدانکارنہیں کرسکتا،بالکل قیامت کے روزبھی ایساہی ہوگا۔لہٰذاجس طرح آدمی ریکاڈرکے سامنے ہونے کی صورت میں بچ بچ کر بات کرتاہے اورکوئی کام کرتاہے کہ کہیں کوئی غلط چیزریکارڈنہ ہوجائے، انسان کوبھی اسی طرح زندگی گذارنی چاہیے اورجان لیناچاہیے کہ یقینی طورپراس کی زندگی کے ہرلمحہ کوپوری باریکی کے ساتھ قیدکیاجارہاہے، قرآن میں ارشادالٰہی ہے :﴿ما یلفظ من قول إلا لدیہ رقیب عتید﴾۔ (سورہٴ قٓ:18) انسان جوبات بھی اپنے منہ سے اداکرتاہے توایک ریکاڈربرابر اسے ریکارڈکررہاہے ایک اورجگہ پرہے:﴿یوم تجدکل نفس ماعملت من خیرمحضرًا و ماعملت من سوء﴾․
”جس دن ہرشخص اپنے کئے ہوئے کواپنی نظروں کے سامنے پائے گا چاہے وہ اچھائی ہویابرائی۔“(سورہٴ آل عمران:30)
ذراہم ان آیتوں پرغورکریں، قرآن کیسی تنبیہ کوبیان کررہاہے!اللہ ہمیں اس کوسمجھنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین!
بعض گناہوں کی مماثل سزاوٴں کوبھی قرآن وحدیث میں بیان کیاگیاہے، مثلاًزکوٰة نہ دینے پروہ مال سانپ کی شکل میں اس کے گلے کاطوق ہوگا:﴿سیطوقو ن مابخلوا بہ یوم القیامة﴾․ (سورہٴ آلِ عمران: 180)
جھوٹ بولنے والے چہرے کالے ہو جائیں گے، جوقرآن کاعلم حاصل کرکے اس پرعمل نہ کرے گااس کاسرباربارپتھرسے کچلاجائے گا۔معلوم ہواکہ دنیابرزخ، اورآخرت تینوں جگہ انسان کواس کے گناہوں کی سزادی جاتی ہے۔
کیا آپ گناہ ترک کرنا چاہتے ہیں؟
مجدد ملت حکیم الامت حضرت اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ چھ گناہ ایسے ہیں جو تمام گناہوں کے لیے جڑ اور اصل کی مانند ہیں، اگر ان سے پرہیز کیا جائے تو انشاء اللہ انسان دوسرے بے شمار گناہوں سے خودبخود محفوظ ہوجائے گا۔ وہ یہ ہیں:
غیبت: بے شمار گناہ اس سے جنم لیتے ہیں؛ اس سے بچنے کا راستہ یہ ہے کہ بلاضرورت نہ کسی کا تذکرہ کرے نہ سنے، نہ اچھا نہ برا، بلکہ اپنے ضروری کاموں میں مشغول رہے، انشاء اللہ بے شمار گناہوں سے محفوظ ہوجاوٴگے ،اسی لیے حدیث میں بھی اس کی سخت وعید وارد ہوئی ، حدیث میں ہے: ”لا یدخل الجنة قتات “ چغل خور جنت میں نہ جائے گا۔
ظلم سے اجتناب، خواہ مالی ہو یا جانی یا زبانی، مثلاً کسی کا حق مارنا، کسی کو تکلیف پہنچانا، کسی کی بے عزتی کرنا وغیرہ۔
اپنے آپ کو بڑا سمجھنے سے اجتناب کرے اور دوسروں کو حقیر گرداننے سے بھی بچتا رہے، بلکہ اپنے آپ کو حقیر اور دوسروں کو بڑا سمجھے،بے شمار گناہوں سے حفاظت ہوجائے گی۔
غصہ سے بچتے رہیں اور اگرغصہ آجائے تو صبر سے کام لیں،کبھی غصہ کی حالت میں آدمی ایسا کام کر بیٹھتا ہے کہ زندگی بھر اس پر افسوس کرنا پڑتا ہے، مگر اس کا کوئی حل نہیں نکلتا ۔
غیرمحرم عورت یا مرد سے کسی طرح کا تعلق نہ رکھے ،نہ اسے دیکھے ،نہ اس سے دل خوش کرنے کے لیے ہم کلام ہو، نہ تنہائی میں اس کے ساتھ بیٹھے، نہ اسے خوش کرنے کے لیے اس کی پسند کے موافق وضع قطع یا کلام کو آراستہ کرے، اس تعلق سے جو خرابیاں پیدا ہوں گی وہ احاطہٴ تحریر سے باہرہیں۔
مشتبہ اور حرام مال سے کلی اجتناب برتے ،بے شمار نفسانی وروحانی بیمار یاں اس سے جنم لیتی ہیں، کیوں کہ غذا سے عضو بنتا ہے اور عضوسے اعمال سرزد ہوتے ہیں، لہٰذا جیسی غذا ہوگی اور جیسی کمائی ہوگی ویسے اعمال ہوں گے ۔
حضرت تھانوی اخیر میں فرماتے ہیں یہ چھ 6معاصی ہیں، جن سے اکثر معاصی پیدا ہوتے ہیں، ان کو چھوڑنے سے انشاء اللہ دوسرے معاصی اور گناہوں کا چھوڑنا سہل اور آسان ہوجائے گا ،بلکہ امید ہے کہ خود بخود متروک ہوجائیں گے۔ اللھم وفقنا ۔(مستفاد:جزاء الاعمال مع ترمیم و اضافہ)
اس کے علاوہ مزید چند امور کے التزام سے بھی انشاء اللہ گناہ ترک کرنے پر مدد ملے گی، وہ یہ ہیں :
دعا: ایک طرف گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے اور دوسری جانب اللہ سے دست بدعا رہے کہ اے اللہ! تو گناہوں سے میری حفاظت فرما، ایک حدیث میں ہے کہ نماز کے بعد دس مرتبہ یہ دعا پڑھنے سے بھی آدمی کو گناہ سے بچنے کی توفیق ہوتی ہے، وہ دعا یہ ہے:
”لاإلہ إلا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، بیدہ الخیر، و ھو علی کل شیٴ قدیر“․
اسی طرح یہ دعا بکثرت پڑھے: ”اَللّٰھُمَّ یا مُصَرِّفَ القُلُوْب صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکْ“ اسی طرح یہ دعا بھی کثرت سے اپنی دعاوٴں میں شامل کرے: ”اللھم إنِّی أسئَلُکَ الھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالعَفَافَ وَالغِنیٰ“․ (مسلم)
مجاہدہ:ترک گناہ کوئی آسان کام نہیں اور نہ آسانی سے گناہ کی عادت جاتی ہے، بلکہ اس کے لیے مجاہدہ لازم ہے، اسی کو جہادِ اکبر کہا گیا؛ اگر آپ ایک بار مجاہدہ شروع کریں گے تو اللہ اسے آسان کردے گا، ارشاد باری ہے:﴿وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھَدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾․
”جو ہماری خاطر مشقت اٹھاتا ہے تو ہم ضرور اسے اپنے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ (سورہٴ عنکبوت:69)
گناہ کے انجامِ بد پر غور و فکر: دنیا وآخرت میں گناہ کے انجامِ بد پر غور کرتا رہے کہ گناہ کا انجام اچھا نہیں ہوتا، گناہ کے سبب غم، مصیبت، پریشانی، رزق میں کمی، بدن میں ضعف، اللہ اور نیکوکاروں سے وحشت وغیرہ، اور آخرت میں جہنم کے سانپ، بچھو، آگ اورہولناک عذابِ قبر اور حشر میں رسوائی وغیرہ کو سوچتا رہے۔
اسبابِ معصیت سے دور رہے: مثلاً بد نظری، فلم بینی، تصویر بینی وغیرہ سے کلی اجتناب کرے ۔
برے لوگوں کی دوستی سے اجتناب : بری صحبت سے بچنا بہت ضروری ہے، کیوں کہ انسان پر برائی کا اثر جلدی پڑتا ہے، لہٰذا بے نمازی، بد اخلاق اور بد اطوار آدمی سے کبھی دوستی نہ کرے ۔
موت کی یاد: یہ بات ذہن میں دوہراتا رہے کہ موت اچانک کبھی بھی آسکتی ہے، اگر گناہ کی حالت میں آگئی تو کیا ہوگا ؟اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین!
گناہ کے چھوڑنے کا عزمِ مصمّم: گناہ کو ایک بار چھوڑنے کا عزمِ مصمّم کرلے کہ جوہونا ہو ،ہوجائے، بس گناہ کو کسی صورت میں نہیں کروں گا۔
پیرذوالفقار نقشبندی فرماتے ہیں: انسان یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ اس کے اعمال پر اور گناہ پر ہمیشہ چار گواہ موجود ہوتے ہیں جو قیامت کے دن گناہوں پر گواہی دیں گے:
جس عضو سے گناہ کیا وہ عضوگواہی دے گا، ارشاد ہے:﴿وتکلّمنا أیدیھم و تشہد أرجلہم بما کانوا یکسبون﴾․(سورہٴ یٰس:65) ”ان کے ہاتھ ،پاوٴں ان کے اعمال کے بارے میں ہمیں خبر دیں گے۔“
جس خطہٴ ارض پر گناہ کیا وہ گواہی دے گا، ارشاد الٰہی ہے:﴿یومئذ تحدث اخبارھا﴾․”جب زمین اپنی خبریں بیان کرے گی ۔“ (سورہٴ زلزال:4)
کراماً کاتبین : وہ فرشتے جو انسان کے اعمال کا ریکارڈ تیار کرتے ہیں: ﴿کراما کاتبین یعلمون ما تفعلون﴾․ (سورہٴ انفطار:11،12) ”تم جو کرتے ہو اسے وہ اپنے علم اور ریکارڈ میں لیتے رہتے ہیں ۔“
نامہٴ اعمال :جس میں ہر چیزمکتوب ہوگی ،ارشاد ہے: ﴿مال ھذا الکتاب لایغادرُ صغیرةً ولا کبیرةً إلا أحصاھا ﴾․”انسان کہے گا اس کتاب کو کیا ہوگیا کوئی چھوٹی بڑی چیز نہیں چھوڑتی ۔“ (سورہٴ کہف:49)
اور میں کہتا ہوں خود اللہ ہی گواہ نہیں بلکہ عین شاہد اور دوسرے انسانوں میں کے گواہ الگ، یعنی 6 گواہ ہوں گے، لہٰذا اسی بات کو ذہن میں چسپاں کرلیں کہ گناہ کرکے کہیں چھوٹ کرجانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
مولانا موسیٰ روحانی بازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: عوام بن حوشب نے فرمایا کہ گناہ کے بعد چار امور بہت ہلاکت خیز ہیں۔
گناہ کرنے کے بعد اس کو ہلکا سمجھنا اور احساس پیدا نہ ہونے دینا۔
عذاب نہ آنے پر دھوکہ میں رہنا کہ گناہ سے کچھ نہیں ہوتا ۔
العیاذ باللہ گناہ کر کر گناہ پر خوشی کا اظہار کرنا ۔
گناہ پر اصرار کرنا اور باربار کرتے رہنا ۔(استعظام الصغائر)
امام محمد ابن باقر اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، اے بیٹے! اللہ کا غصہ اور غضب گناہوں میں پوشیدہ ہے، سو کسی معصیت کو حقیر اور معمولی نہ سمجھ، ہوسکتا اسی میں ناراضگی خدا مستور ہو۔ (ایضا)
آج کے مسلمانوں کی حالت
آج کل مسلمانوں کی حالت وہ ہے جو اس حدیث میں مذکور ہے :
عن أبی ھریرة رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:یأتی علی الناس زمان لا یبالی المرءُ ما أَخَذَ أَ مِن الحلال أم من الحرام ۔ رواہ البخاری۔ و فی روایة رزین زیادة: فإذ ذلک لا تجاب لھم دعوة․
یعنی” ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی علیہ الصلاة والسلام کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ ہر شخص حلال وحرام کی تمیز سے بے پروا ہوگا اور اسے جو کچھ ملے گا،لے لے گا ۔اس وقت ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں کی جائے گی “۔(چھوٹے گناہوں اورنیکیوں کے اثرات:ص41)
گناہ بڑا ہویا چھوٹا دس عیوب سے خالی نہیں
فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمة اللہ علیہ نے ”تنبیہ الغافلین: ص134“ پر لکھا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ گناہ بڑا ہو یا چھوٹا اس میں بڑے بڑے عیوب بہرحال ہوتے ہیں۔
أولھا أنّہ أسخط خالقہ وھو قادر علیہ۔ یعنی” اول: عیب یہ ہے کہ اس نے اپنے خالق کو ناراض کیا، جو اس پر قادر ہے“۔
والثانی انہ فرّح من ھو أبغض إلیہ وھو إبلیس۔” دوم: یہ کہ اس نے ابلیس کو خوش کیا، جو اللہ کو مبغوض ہے۔“
والثالث تباعدہ من الجنة۔ ”سوم: یہ کہ جنت سے دور ہوا “۔
والرابع تقربہ من النار۔ چہارم :یہ کہ دوزخ سے قریب ہوا “۔
والخامس انہ جفا مَن ھو أَحبّ الیہ، وھي نفسہ۔ ”پنجم: یہ کہ اس نے اپنے محبوب نفس پر ظلم کیا “۔
والسادس نجّس نفسَہ وقد خلقھا اللّٰہ طاھِرةً۔ ”ششم: یہ کہ اس نے اپنے نفس کو پلید کردیا حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پاک پیدا کیا تھا “۔
والسابع آذی أَصحابہ الذین لا یوٴذونہ، وھم الحفظة۔ ”ہفتم: یہ کہ اس نے اپنے ہم نشینوں کو اذیت پہنچائی جو کہ حفاظت کرنے والے فرشتے ہیں“۔
الثامن أحزَنَ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قبرہ۔”ہشتم: یہ کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں غمگین و پریشان کیا“۔
التاسع أَشھَد علی نفسہ اللیلَ والنھار ۔ ”نہم: یہ کہ اس نے رات اور دن کو اپنے اس عملِ بد کا گواہ بنایا“۔
العاشر انہ خان جمیعَ الخلائِق من الآدمیین وغیرھم إذ لا تُقبل شھادتہ لھم، فیبطل حق صاحبہ، ویقلّ المطرُإذا أَذنب․ ”دہم: یہ کہ اس نے تمام مخلوق سے خیانت کی،اس لیے کہ گناہ کے بعد اب اس کی گواہی ان کے لیے قبول نہیں ہوگی ، تو ساتھی کا حق ضائع ہوا اوربارش بھی اس کی معصیت کی وجہ سے نہیں برسے گی“۔ (چھوٹے گناہوں اورنیکیوں کے اثرات،44,43)
چھوٹے گناہ کی بھی باز پرس ہوگی
گناہ خواہ چھوٹا ہی ہو اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، لہٰذا کسی چھوٹے گناہ کے ارتکاب کی بھی جرات نہیں کرنی چاہیے ۔
ایک حدیث شریف ہے:
عن عائشة رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول: یاعائشة!إیّاک ومحقَّرات الذنوب، فإن لھا من اللّٰہ طالبًا۔ رواہ النسائی وابن ماجہ۔ یعنی”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا: اے عائشہ !چھوٹے گناہوں سے بھی بچا کرو۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی با ز پرس ہوگی“۔
”تفسیر ابن کثیر: ج 4/ ص 269“ پر ہے کہ مذکورہ صدرحدیث سعید بن مسلم عن عامر بن عبداللّٰہ عن عوف عن عائشة رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھاکی سند سے مروی ہے۔اور حافظِ ابن ابی الدنیا اور ابن عساکر رحمہ اللہ تعالیٰ نے سعید بن مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ کے احوال میں لکھا ہے کہ سعید بن مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث عامر بن ہشام رحمہ اللہ کو سنائی ۔عامر نے کہااے سعید !مجھے سلیمان بن مغیرہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے بتایا انّہ عمل ذنباً فاستصغرہ فأتاہ آتٍ فی منامہ فقال: یا سلیمان.یعنی ”سلیمان فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک صغیرہ گناہ سرزد ہوگیا لیکن میں نے اسے چھوٹا اور ہلکا سمجھا۔پس خواب میں کسی نے کہا اے سلیمان (اوریہ شعر کہے)“۔
لاتُحقّرنَّ مِنَ الذنوب صَغِیراً إن الصغیر غداً یَعود کبیرا إن الصغیر و لَو تَقادَم عھدُہ عند الإ لٰہ مسطَّر تسطیراً فازجُر ھَواکَ عن البطالةِ لاتکُن صَعبَ القِیادِ وشمّرن تَشمیرا إنَّ المُحبَّ إذا أحَبَّ إلٰہَہ طارَ الفوٴادُ والھَمَ التفکیرا فاسأل ھدایتَک الإلٰہَ فَتَتَّئِد فکفی بِربّک ھادِیاً ونَصیرا
یعنی”کسی گناہ کو چھوٹا نہ سمجھ، کیوں کہ یہی چھوٹا گناہ کل بڑا ہوگا۔
چھوٹا جرم کیے ہوئے اگرچہ ایک مدت گزر جائے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لکھا ہوا ہوتا ہے۔
پس اپنی خواہش کو بے فائدہ امور سے روک دے اور سرکشی نہ کر اور عبادت کے لیے مستعد و تیار رہ۔
وہ شخص جو خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہو اُسے کچھ ہوش نہیں ہوتااسے تو ہر وقت آخرت کی تیاری کا الہام ہوتا رہتا ہے۔
تم اللہ تعالیٰ سے اپنی ہدایت کی دعا کرو ۔ پھر حصولِ ہدایت کے بارے میں مطمئن رہو، کیوں کہ ذاتِ خدا تعالیٰ کافی ہے ہدایت کرنے اور مدد کرنے کے لحاظ سے۔ (چھوٹے گناہوں اورنیکیوں کے اثرات:70,68)
لباس کی طرح ایمان کو بھی بد نما داغوں سے بچانا چاہیے
جس طرح ہم اپنے لباس اور ظاہری جسم کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح ہمیں اپنے دین وایمان کی بھی فکر ہونی چاہیے۔
لباس پر اگر چھوٹے چھوٹے دھبوں اور داغوں کی تعداد بڑھ جائے تو لباس کتنا بُرا اور بد نما معلوم ہوتا ہے۔ کوئی معزز سفید پوش انسان ایسا لباس پہننا پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح ایمان کا لباس بھی چھوٹے چھوٹے گناہوں سے داغدار اور بد نما ہوجاتاہے ۔
بدنما اور داغدار لباس پہن کر بڑی مجالس میں ، بادشاہوں کے دربار میں اور بڑے لوگوں سے ملاقات کے لیے جانا کوئی عقلمند آدمی گوارا نہیں کرتا۔ مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ مسلمان گناہوں سے داغدار ایمانی لباس پہن کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جانے سے نہیں شرماتے۔
مابال دینک ترضی ان تُدَنّسَہ وثَوبُک الدھر مغسول من الدّنَس تَرجُو النجاةَ ولم تَسلُک طریقتَھا إنّ السفینةَ لا تجری علی الیبس
یعنی” کیا وجہ ہے کہ تو اپنے دین کے میلے ہونے پر راضی ہے، مگر تیرا لباس ہمیشہ میل سے صاف ہوتا ہے۔
تجھے نجات کی امید ہے لیکن تونجات کی راہ پر نہیں چلتا ۔یاد رکھ! کشتی کبھی خشکی پر نہیں چل سکتی “۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے اور ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچنے کی توفیق بخشیں ۔ آمین ثم آمین!
آج کل لوگوں کی عقلیں لہو ولعب (کھیل تماشہ) اور بے فائدہ دلچسپیوں میں اور نگاہیں دنیاوی رنگ وبو میں الجھی ہوئی ہیں ۔
نگاہ الجھی ہوئی ہے رنگ وبو میں خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں نہ چھوڑ اے دل فغانِ صبح گاہی اَماں شاید ملے اللہ ہو میں
یہ دنیا فانی ہے اور اس کی مسرّتیں اور آرائشیں بھی فانی ہیں ۔موت کے وقت ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ ان بے فائدہ مسرتوں اور خوشیوں کی حیثیت شیخ چلی کے خیالی منصوبے سے زیادہ نہیں تھی ۔(چھوٹے گناہوں اورنیکیوں کے اثرات:91-88)
گناہ اور منکرات سے بچنے کی ضرورت
محی السنہ حضرت مولانا ابرار الحق رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”طاعون کے زمانے میں ہر شخص چوہے سے ڈرتا ہے کہ طاعون کے جراثیم ہمارے گھر میں نہ آجائیں اور بد عملی اور منکرات کے چوہے ہمارے گھروں میں کتنے ہی ہوں فکر نہیں،سانپ گھر میں آجائے، سب پریشان اور گھرمیں خلاف شرع وضع قطع، تصاویر جاندار کی،ریڈیو کے گانے، ٹیلی ویژن کا گھر یلو سینما آجائے تو کوئی فکر نہیں ،ہر عمل کے معاملے میں علمِ صحیح کی ضرورت ہے، لاعلمی میں زہر کھانے سے نقصان تو یقینا پہنچے گا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک گھر میں تشریف لے گئے ،وہاں تصویر جاندار کی تھی، فوراً واپس آگئے۔ رزق کی ترقی اور برکت کے لیے، وظیفے پڑھنے کے لیے تیار ہیں مگر گناہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں“۔ (یادگار باتیں:357)
اخیر میں قرآن کی ان دو آیتوں پر اپنے مضمون کو سمیٹتا ہوں: ﴿وذروا ظاھرالإثم و باطنہ إن الذین یکسبون الإثم سیجزون بما کانوا یقترفون﴾․ اے لوگو! ظاہری وباطنی ہر طرح کے گناہ کو چھوڑ دو، کیوں کہ جو لوگ گناہ کرتے رہتے ہیں، وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔“ (سورہٴ انعام:121)
دوسری آیتِ کریمہ میں ارشاد الٰہی ہے:
﴿أم حسب الذین اجترحوا السیٰأت أن نجعلھم کالذین اٰمنوا وعملوا الصالحات، سواءً محیاھم ومماتھم، ساء ما یحکمون﴾ کیا جو لوگ گناہ کرتے رہتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو انہیں لوگوں کی طرح (بدلہ) دیں گے جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ کیے اور (دونوں طرح کے لوگوں) کی زندگی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایک جیسی ہوگی، وہ لوگ کتنا ہی برا فیصلہ کررہے ہیں ۔“ (سورہٴ جاثیہ:21)
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صاف اعلان کر دیا کہ برائی اور گناہ کرنے والے کی دنیوی زندگی بھی اور اخروی زندگی بھی سزا اور عذاب سے تعبیر ہوگی۔ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں، ایک نہ ایک دن تو بہرحال گناہ کا برا وبال بھگتنا ہوگا؛ اللہ ہماری پوری پوری حفاظت فرمائے۔ آمین!
گناہ کے بارے میں اتنی معلومات کے بعدآیئے! اب ہم اللہ سے سچی پکی توبہ کریں کہ انشاء اللہ اب پوری زندگی اے اللہ! تیری اطاعت میں صرف کریں گے اور گناہوں سے بچنے کی مکمل کوشش کرتے رہیں گے۔ اے اللہ! تو ہماری مدد فرما، ہم کمزور ہیں، نفس وشیطان، دنیا ومال اور ہر طرح کے شروروفتن سے، چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی، ہماری حفاظت فرما اور ہمیں اپنے حفظ وامان میں لے لے اور دنیا وآخرت اور برزخ میں ہر طرح کے عذاب سے تو ہمیں بچالے۔ آمین یارب العالمین!
اللھم وفقنا بالقول والفعل والعمل لما تحب وترضی،
اللھم احفظنا عن المعصیة أبدًا ما أبقیتنا۔ آمین!
انسان کے نفس پر گناہوں کے اثرات
دل کا اطمینان ، گھر میں سکون وراحت ،آپس میںپیار ومحبت ، صحت وعافیت اور ذہنی سکون وہ نعمتیں ہیں جن کا شمار اور صحیح قدر وقیمت کااندازہ لگانا ہر ایک کے لیے نا ممکن ہے۔ نیک اعمال کرنے سے ان نعمتوںکو بقاء اور دوام ملتاہے ،اور گناہ کرنے پر یہ نعمتیں سلب کرلی جاتی ہیں۔ انسان کا گناہ خواہ اس کی ذات تک محدود ہو ، یا دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہوں،ہر حال میںجس طرح نیک اعمال کے نتائج واثرات ظاہر ہوتے ہیں ، ایسے ہی بد اعمال کے بھی نتائج اور اثرات ہیں ، اور ان پر جزا و سزا مرتب ہوتے ہیں۔ ان میں بعض اثرات اس دنیا کی زندگی میں ہی ظاہر ہوجاتے ہیں ، اور بعض کو آخرت تک کے لیے مؤخر کردیا جاتا ہے۔کبھی تو ہم ان اثرات کودیکھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے فلاں عمل کا نتیجہ ہے ، اورکبھی کام کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اسے عادت کے مطابق معمول کا حصہ سمجھ کر ٹال دیتے ہیں، یا اس کا سامنا کرتے ہیں۔اگر ہمیں سمجھ آجائے تو یہ اللہ کا ایک بہت بڑا فضل ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا ہے ، وہ ہمیں توبہ کی طرف ہدایت دینا چاہتاہے۔ اور اگر اس کی وجوہات کو نہ سمجھ پائیں ،اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دلوں کو تالے لگ چکے ہیں۔ بہر حال اسے سمجھنے کے لیے ہی آئندہ سطور تحریر کی جارہی ہیں، اللہ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ بہت سارے لوگ جو دل کی سختی، برکت کے خاتمہ، شیطانی وسوسوں، دنیامیں مشغولیت اور آخرت سے غفلت کی شکایت کرتے ہیں ،اصل میں یہ سب گناہ ہی کی وجہ سے تو ہے، اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بھول گئے ہیں : (وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظَّالِمُوْنَ اِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ) (ابراہیم:٤٢) '' اور آپ اللہ تعالیٰ کو اس چیز سے غافل نہ سمجھیں جو کچھ یہ ظالم لوگ کرتے ہیں، بے شک ہم انہیں اس دن تک مہلت دیتے ہیں جب آنکھیں پھٹی ہوئی رہ جائیں گی۔'' گناہ اور برائیاں ایسی مہلک بیماریاںہیں جن سے معاشرے اور قومیں ہلاک و برباد ہوجاتے ہیں اور منکرات و معاصی یا برائیوں کے راستے بند کرنے اور ان کا خاتمہ کرنے میں کمی و کوتاہی برتنا اللہ کے عذاب و عقاب کے نازل ہونے کا اہم سبب ہے ، چنانچہ ام المومنین ام الحکم زینب بنت جحش cسے مروی ہے کہ نبی اکرم a ان کے یہاں تشریف لائے ، آپaکی زبان سے یہ کلمات نکل رہے تھے : ((لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَیْل لِّلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ، فُتِحَ الْیَوْمَ مِنْ رَدْمِ یَأْجُوْجَ وَ مَأْجُوْجَ مِثْلَ ھٰذِہ ، وَحَلَّقَ بِاِصْبَعِہِ الْاِبْھَامِ وَ الَّتِیْ تَلِیْھَا،فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِA! أَنَھْلِکُ وَفِیْنَا الصَّالِحُوْنَ، قَالَ: نَعَمْ،اِذَا کَثُرَ الْخَبَثُ))]متفق علیہ [ ''اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، ہلاکت ہے عربوں کے لیے اس شر سے جو قریب آگیا ہے، آگے فرمایا: آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا سا سوراخ کردیا گیا ہے، اور سوراخ کی مقدار بتانے کے لیے آپaنے انگوٹھے اور انگشت شہادت کو باہم ملا کر گول دائرہ بنایا۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے جبکہ ہمارے مابین بکثرت نیک و صالح لوگ موجود ہوںگے ؟آپaنے فرمایا: ''ہاں، جب ''خبث '' کی کثرت ہوگی۔'' خبث سے مراد:'' فسق وفجور اور گناہوں کی کثرت ہے؛ نبی اکرمa کا ارشاد گرامی ہے : ''اللہ تعالیٰ کچھ خاص لوگوں کے گناہوں کی سزا عامة الناس کو نہیں دیتا ، یہاں تک کہ وہ اپنے مابین منکرات اور برائیاں دیکھیں اور وہ اس سے منع کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہوں ؛ مگر اس کے باوجود وہ اس سے نہ روکیں، اور نہ ہی اس کا سد باب کریں ؛اگر ایسا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ پھر خاص وعام سب کو عذاب دیتا ہے۔'' ]مسند أحمد ١٧٧٥٦، صحیح[ نیز: نبی اکرمa کا ارشاد گرامی ہے : '' جب کسی قوم میں گناہوں کا ارتکاب ہو اور وہ ان کا سدباب کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہوں مگر ایسا نہ کریں تو پھر قریب ہے کہ اللہ تمام لوگوں کو عمومی عذاب میں مبتلا کردے گا۔'' ]ابوداؤد ٤٣٣٨/ صحیح [ سیدنا عمر بن عبدالعزیزk نے اپنے بعض علاقوں کے گورنروں کو خط لکھا جس میں حمدوثنا کے بعد لکھا : '' کسی قوم میں اگر برائی عام ہوجائے اور اس کے نیک لوگ دوسروں کو منع نہ کریں تو اللہ انہیں اپنی طرف سے کسی عذاب میں مبتلا کر دے گا یا اپنے بندوں میں سے جس کے ہاتھوں چاہے لوگوں کو مبتلائے عذاب کردے گا اور جب تک باطل پرستوں کی سرکوبی اور حرمتوں کے ساتھ کھیلنے والوں کا قلع قمع کرنے والے موجود رہیں گے ، لوگ عذابوں اور سزاؤں سے محفوظ رہیں گے۔'' دین میں کمزوری دکھانا ، اور آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے منع نہ کرنا لعنت کے استحقاق اور ارحم الراحمین کی رحمت سے دوری کے بڑے اسباب میں سے ہے۔ لوگ اپنے اعمال کے انجام سے غافل ہیں،مگر اللہ تعالیٰ اپنے علم اور بصر سے ہر ایک چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ذیل میں چند ایک گناہوں کے اثرات تحریر کیے جارہے ہیں تاکہ انسان انہیں سمجھ کر اپنے نفس کا محاسبہ اور پھر گناہ سے توبہ کرے۔ ١۔جرم کا ارتکاب: گناہ کا اثر ایک تو وہ بڑا فرق ہے جو اللہ کے ہاں نیک اور بد کے درمیان ہے ، خود لوگوں کی نظروں میں بھی یہ فرق کسی بیان کا محتاج نہیں۔ ہر مذہب اور معاشرہ کے لوگ نیک وکار کی تعریف اور بدکار کی مذمت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (أَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْکَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائً مَّحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ ) (الجاثیہ:٢١) '' کیا وہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں جنہوں نے گناہ کمائے کہ ہم انہیں ان لوگوں کی مانند کردیں جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ان کی زندگی اور موت برابر ہو ؟ سو بہت ہی بری بات ہے جس کا وہ فیصلہ کرتے ہیں۔'' ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ مجرمین کی صف میں شمار کرتے ہیں ، اگر توبہ نہ کی تو روزِ محشر انجام بھی مجرموںکے ساتھ ہوگا ، فرمایا: (اَ فَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ) (القلم: ٣٥) '' کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کی طرح کردیں۔'' ٢۔خواہش نفس کا غلبہ نفس پرستی کے سامنے عاجزی ، قوت ارادی اور عزیمت کا خاتمہ اور حوصلوں کی پستی گناہ کے اثرات میں سے ہے۔یہ اس لیے براہے کہ خواہش پرست اور حیوان کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔دونوں ہی اپنی خواہش کے لیے جاتے ہیں۔ گناہ اس وقت تک صادر نہیں ہوتا جب تک غفلت اور شہوت کا غلبہ نہ ہوجائے۔کیوںکہ شہوت پرستی ہی تمام برائیوں کی جڑ اور بنیاد ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہ وَلَا تَعْدُ عَیْْنَاکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہ وَکَانَ اَمْرُہُ فُرُطاً) (الکہف: ٢٨) ''اور اپنے آپ کوان لوگوں کے ساتھ رکھا کریں جو اپنے پروردگار کوصبح وشام پکارتے ہیں ،اوراس کی رضامندی چاہتے ہیں ؛ خبردار آپ کی نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیوی زندگی کی زینت میں لگ جاؤ۔ اور اس کا کہنا بھی نہ مانیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیاہے ، اورجو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا ہے ، اورجس کا معاملہ حد سے گزرچکا ہے۔'' ٣۔بندے اور رب کے درمیان پردہ: مومن کے لیے دنیا اور آخرت کی سب سے بڑی خوشی آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے ، اسی لیے دنیا میں وہ محنت کرتا ہے ،اور آخرت میں اس کا مشتاق اور طلب گار رہے گا؛مگر گناہ گار کو یہ دیدار الٰہی نصیب نہیں ہوگاجب تک وہ سچی توبہ نہ کرلے: ( کَلَّا اِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ ےَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ) (الانشقاق :١٥) ''ہر گز نہیں ، بے شک آج کے دن وہ اپنے رب سے پردہ میں رہیں گے۔'' ٤۔دل میں خوف اور بے چینی: ( سَنُلْقِیْ فِیْ قَلُوْبِ الَّذِےْنَ کَفَرُوا الْرُّعْبَ ) (آل عمران:١٥٠) '' ہم عنقریب ان لوگوں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے جنہوں نے کفر کیا۔'' ٥۔ معاشی پریشانیاں: (وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ مَعِےْشَةً ضَنْکاً) (طٰہٰ:١٢٤) ''اور جوکوئی میری یاد سے رو گردانی کرے گا، پس بے شک اس کے لیے زندگی بہت تنگ کردی جائے گی۔'' ٦۔دل کی سختی اور اندھیرا : ایمان اور اطاعت اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وہ نور ہیں جن سے مومن اس دنیا میں بھی استفادہ کرتا ہے ، اور آخرت میں بھی پل صراط پار کرنے کے لیے یہ نور کام آئے گا: ( وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قَاسِےَةً ) (المائدہ:١٢) '' اور ہم نے ان کے دلوں کو بہت سخت کردیا۔'' ٧۔گناہ کا زنگ: جس طرح لوہا اگر نمی میں پڑا رہے تو اسے زنگ لگ جاتاہے ،ایسے ہی انسان کے دل پر گناہ کرتے رہنے سے اس کا زنگ لگ جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّاْ کَانُوْا ےَکْسِبُوْنَ ) (المطففین:١٤) '' ہر گز نہیں ، ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ چکا ہے۔'' اس کا علاج اللہ تعالیٰ کی یاد اورکثرت سے اس کا ذکر، توبہ واستغفار ہے۔انھی امور سے یہ زنگ ختم ہوتا ہے دل میں چمک اور نور پیدا ہوتے ہیں۔ ٨۔دلوں کا پردہ: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَجَعَلْنَا عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّةً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْ اٰذَانِہِمْ وَقْراً وَاِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَةٍ لَّایُؤْمِنُوْا بِہَا) (الانعام:٢٥) '' اور ہم نے اُن کے دلوں پر تو پردے ڈال دیے ہیں کہ اُن کو سمجھ نہ سکیں اور کانوں میں بوجھ پیدا کر دیا ہے (کہ سن نہ سکیں) اور اگر یہ تمام نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی تو اُن پر ایمان نہ لائیں۔'' یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان گناہ میں منہمک ہوجاتا ہے تواللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دلوں پر پردے ڈال دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے خیر وشر کی معرفت کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ ہدایت کی راہیں بند ہوجاتی ہیں،کبھی انسان اس چیز کو خود بھی محسوس کرتا ہے ، اورشعوری یا لاشعوری طور پر اس کا اقرار بھی کرتا ہے ؛ فرمانِ الٰہی ہے : ( وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْف) (البقرہ :٨٨) '' اور وہ کہنے لگے ہمارے دلوں پر پردے ہیں۔'' اس کا علاج اللہ تعالیٰ کی آیات میں غور وفکر اور کثرت سے قرآن کی تلاوت ، اس کے ترجمہ اور معانی کوسمجھنا ،اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کرنا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰ یَاتِ رَبِّہ فَاَعْرَضَ عَنْہَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدَاہُ اِنَّا جَعَلْنَا عَلَی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّةً أَن یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْ اٰذَانِہِمْ وَقْراً وَاِنْ تَدْعُہُمْ اِلَی الْہُدَی فَلَنْ یَّہْتَدُوْا اِذاً اَبَداً ) (الکہف: ٥٧) '' اور اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جسے اس کے رب کے کلام سے سمجھایا گیا تو اُس نے اس سے منہ پھیر لیا اور جو اعمال وہ آگے کر چکا اُسے بھول گیا، ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ اُسے سمجھ نہ سکیں اور کانوں میں بوجھ (پیدا کر دیا ہے کہ سن نہ سکیں) اور اگر تم ان کو راستے کی طرف بلاؤ تو کبھی راستے پر نہ آئیں گے۔'' ٩۔چہرے کی سیاہی: چہرہ کی رونق وتابانی، جاذبیت وکشش، درخشندگی وتازگی، نور و جمال اور اس کے نورانی آثار اللہ تعالیٰ کی ان بڑی نعمتوں میں سے ہیں جن کا الفاظ میں بیان کرنا میرے بس میں نہیں۔ایسا ہزار بار مشاہدہ میں آتا ہے کہ کسی انسان کوایک نظر دیکھنے سے ہی خیر اوربھلائی کی توقع کی جاتی ہے ،اورکتنے چہرے نظر پڑتے ہی برائی اور شر کے آثار جھلکتے نظر آتے ہیں۔جب انسان گناہوں میں مگن ہوجاتا ہے تو یہ تمام نعمتیں ختم کردی جاتی ہیں، چہرہ بے رونق وبے نور ہی نہیں ہوتا بلکہ سیاہ پڑ جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (فَاَمَّا الَّذِےْنَ اَسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِےْمَانِکُمْ ) (آل عمران:١٠٦) '' سو وہ لوگ جن کے چہرے سیاہ ہوئے ا نہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا۔''
١٠۔دنیا میں سخت پکڑ اورآزمائش سے دوچار ہونا: اس میں کوئی شک نہیں کہ گنہگار جب توبہ نہیں کرتا تو اللہ اسے اپنی نصرت وحمایت سے بری کردیتے ہیں؛انسان ہرطرح آزمائشوں اور پریشانیوں کا شکارہوجاتا ہے، اور شیطان اسے مختلف مصیبتوں میںڈال دیتا ہے۔ فرمایا: ( فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَة اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَاب اَلِیْم ) (النور:٦٣) ''جو لوگ آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو۔'' ١١۔آخرت میں عذاب: مومن وکافر اور ان کے سواء جتنی بھی آخرت پر ایمان رکھنے والی قومیں اور مذاہب ہیں ، خواہ وہ اسے تناسخ أرواح کانام دیں یا اگلے جنم ، موت کے بعد دوبارہ زندگی سے تعبیر کریں یاکچھ بھی کہہ لیں ، ان میں سے ہر ایک کا عقیدہ ہے کہ جو بھی اورجیسا بھی عمل اس دنیا میں کرلیا جائے گا آخرت میں اس کے مطابق بدلہ ملے گا۔یہ معاملہ نیکی ، بدی اور خیر وشرسے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ( اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْْنَا اَنَّ الْعَذَابَ عَلیٰ مَن کَذَّبَ وَتَوَلّٰی ) (طہ :٤٨) '' بے شک ہماری طرف یہ وحی آئی ہے کہ جو جھٹلائے اور منہ پھیرے اُس کے لیے عذاب (تیار) ہے۔'' اور فرمایا: (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰ یَاتِنَا اُولٰئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ) (التغابن:١٠) '' اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی اہلِ دوزخ ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے اور وہ بُری جگہ ہے۔'' ١٢۔ گناہ سے نعمتیں ختم اور آزمائشیں شروع ہوجاتی ہیں: گناہ کرنے سے انسان پر نعمتیں ختم او ر آزمائشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَن کَثِیْرٍ) (الشوری:٣٠) '' اورتمہیں جوکچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا بدلہ ہے ،اور وہ بہت سی باتوںسے در گزر فرما لیتا ہے۔'' ١٣۔ قبول حق کی توفیق کا سلب ہونا : اپنی خواہش نفس کی وجہ سے حق بات کا رد کرنا ایسا معاملہ ہے جس کے بارے میں روزِ قیامت ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔اور حق اسی وقت رد کیا جاتا ہے جب انسان کا دل خواہشات سے بھر گیا ہو، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَنُقَلِّبُ اَفْئِدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُوْمِنُوْا بِہ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ) (الانعام:١١٠) '' اور ہم اُن کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے؛ اور ان کو چھوڑ دیں گے کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں۔'' ١٤۔ نفسیاتی اورجسمانی امراض: ان کے ساتھ دل کی تنگی اور گمراہی اور بد بختی کا لازم ہونا ؛ گناہ کے سب سے خطرناک آثار میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے نتیجہ میں بہت ہی برے اور خطرناک قسم کے روحانی اوربدنی امراض جنم لیتے ہیں۔ اور انسان نفسیاتی دباؤ کا شکار رہنے لگتا ہے جس کی وجہ سے انسان تنگی ، سستی اور عاجزی محسوس کرتا ہے۔اور اس کے سامنے خیر کے تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں، شر کے دروازے کھل جاتے ہیں ، اور انسان اب اس حالت سے اگر نکلنا بھی چاہے تو اس کا کوئی راستہ نہیں پاتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہ یَجْعَلْ صَدْرَہ ضَیِّقاً حَرَجاً کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَآئِ کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللّٰہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُوْمِنُوْنَ ) (الانعام:١٢٥) '' اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے، اس طرح اللہ اُن لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے، عذاب بھیجتا ہے۔'' ١٥۔ نعمتوں کا زوال : جیساکہ شکر اداکرنے سے نعمتیں بڑھتی ہیں اور انہیں دوام نصیب ہوتا ہے ، ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اورناشکری کرنے سے یہ نعمتیں ختم ہوجاتی ہیں ، اور ان کا وجود باقی نہیں رہتا ؛ فرمان الٰہی ہے : ( لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد) (ابراہیم:٧) ''اگر تم میری شکر گزاری کروگے، میں تمہیں اورزیادہ دوںگا، اور اگر میری نعمتوں کا کفرکرو گے تو جان لو کہ میرا عذاب بہت سخت ہے۔'' ١٦۔ مخلوق کے دل میں نفرت وبغض اور جہنم کے عذاب کا استحقاق: رسول اللہ a نے فرمایا: ((مَنْ أَثْنَےْتُمْ عَلَےْہِ خَےْراً وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّةُ، وَمَنْ أَثْنَےْتُمْ عَلَےْہِ شَرّاً وَجَبَتْ لَہُ النَّارُ، أَنْتُمْ شُہَدَآئُ اللّٰہِ فِ الْاَرْضِ، أَنْتُمْ شُہَدَآئُ اللّٰہِ فِ الْاَرْضِ، أَنْتُمْ شُہَدَائُ اللّٰہِ فِ الْاَرْضِ.)) ]متفق علیہ[ '' جس کے لیے تم بھلائی کی تعریف کرو، اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، اور جس کی تم برائی بیان کرو، اس کے لیے جہنم واجب ہوگئی۔ تم اس زمین میں اللہ کے گواہ ہو، تم اس زمین میں اللہ کے گواہ ہو، تم اس زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔'' ١٧۔ اللہ کا غضب اور ایمان کا نقصان : (فَبَائُ وْا بِغَضَبٍ عَلیٰ غَضَبٍ) (البقرہ:٩٠) '' وہ غضب پر اللہ کا غضب کما لائے۔'' ١٨۔گناہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں انسان کی ذلت کا باعث بنتا ہے : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَنْ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہُ مِنْ مُّکْرِمٍ ) (الحج:١٨) '' اور جسے اللہ تعالیٰ ذلیل کردیں اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔'' ١٩۔گناہ سے ذلت انسان کا مقدر بن جاتی ہے: گناہ سے ذلت انسان کا مقدر بن جاتی ہے، کیوںکہ ہر قسم کی عزت وعظمت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ( وَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِہ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ) (منافقون:٨) ''حالانکہ عزت اللہ کی ہے اور اس کے رسول کی اور مومنوں کی لیکن منافق نہیں جانتے۔'' ٢٠۔ ملائکہ اور مرسلین کی دعاؤں سے محرومی کا اصل سبب گناہ ہیں: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (الَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا …) (الغافر:٧) '' فرشتے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں ، اور جو اس عرش کے ارد گرد ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ بیان کرتے ہیں اور اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور مومنوں کے لیے استغفار کرتے ہیں…''۔ ٢١۔ گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسان کو بھلا دیتے ہیں: گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسان کو بھلا دیتے ہیںجس کی وجہ سے انسان ہر قسم کی خیر وبرکت سے محروم ہوجاتا ہے۔ فرمایا: (وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوْا اللّٰہَ فَاَنْسٰہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُوْلٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ) (الحشر:١٩) '' اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلایا، اللہ نے ان کے لیے اپنے نفسوں کو بھلا دیا؛ سو یہی لوگ پکے فاسق ہیں۔'' ٢٢۔ گناہ کی وجہ سے انسان کا حقیر ہو جانا: گناہ کی وجہ سے انسان کا نفس حقیر ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاہَا) (الشمس ٩ـ١٠) '' وہ کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ نامراد ہوا جس نے اسے گناہوں میں ملوث کیا۔'' ٢٣۔ اعضا کی خیانت اور ان کی مدد سے محرومی: عین ضرورت کے وقت انسان کے اعضا کی خیانت اور ان کی مدد سے محرومی ؛فرمایا: ( فَمَا اَغْنَی عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَا اَبْصَارُہُمْ وَلَا اَفْئِدَتُہُمْ مِّنْ شَیْْئٍ اِذْ کَانُوْا یَجْحَدُوْنَ بِاٰ یَاتِ اللّٰہِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہ یَسْتَہْزِئُ وْنَ) (الاحقاف:٢٦) ''اورانہیں ان کے کان اوران کی آنکھیں اوردل کچھ بھی کام نہ آئے ، جبکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرنے لگے ،اور جس چیز کامذاق اڑایا کرتے تھے ،وہی ان پر الٹ گئی۔''
٢٤۔دنیا میں رزق میں تنگی اور بے اطمینانی وبے چینی اور آخرت میں برا انجام یعنی اندھا کرکے اٹھایا جانا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ مَعِیْشَةً ضَنْکاً وَّنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اَعْمٰی oقَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْراًo قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی) (طہ ١٢٤ـ ١٢٦) '' اور جوکوئی میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے قیامت والے دن اندھا کرکے اٹھائیں گے۔وہ کہے گا : اے میرے رب! مجھے کیوں اندھا اٹھایا ہے ، حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔( جواب میں)کہا جائے گا: ایسے ہی تیرے پاس میری آیات بھی پہنچی تھیں، تو نے ان کو بھلا دیا تھا، پس اسی طرح آج تجھے بھلادیا جائے گا۔'' ٢٥۔ اعمال صالحہ پر مقرر فرشتوں کی صحبت سے محرومی: اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ دو ملائکہ مقرر کر رکھے ہیں جو انسان کے اعمال کو لکھ کر محفوظ کرتے ہیں ؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (کِرَاماً کَاتِبِیْنَo یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ) (الانفطار١١۔١٢) '' عالی قدرلکھنے والے۔ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں۔'' جو نیکو کار لوگ ہوتے ہیںانہیں یہ فرشتے خوش خبریاں سناتے ہیں ، اور بدکار و بد بخت لوگ اس سے محروم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَائِکَةُ اَ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ) (فصلت:٣٠) '' بے شک جن لوگوںنے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ڈٹ گئے ، ان پر ملائکہ نازل ہوں گے ، نہ ہی تم گھبراؤ اور نہ غم کھاؤ ، اور تمہیں اس جنت کی خوشخبری ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔'' رسول اللہaنے فرمایا: ((ِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ مِنْہُ الْمَلِکُ مِنْ نَتْنِ رِےْحِہِ.)) ]ترمذی / حسن[ '' جب انسان جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کی وجہ سے ساتھ والا فرشتہ دور ہٹ جاتا ہے۔'' ٢٦۔ علم سے محرومی: چونکہ علم ایک ایسا نور ہے جسے اللہ تعالیٰ انسان کے دلوں میں ڈالتے ہیں اور گناہ اس نور کو بجھا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْْئٍ عَلِیْم ) (البقرہ :٢٨٢) '' اللہ سے ڈرو اللہ تمہیں علم عطا کریں گے ،اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کے جاننے والے ہیں۔'' جب تقویٰ کی جگہ نافرمانی اور گناہ لے لیں تو علم اٹھ جاتا اور جہالت باقی رہ جاتی ہے۔ امام شافعی نے اپنے مشہور قصیدہ میں اسی چیز کو نقل کیا ہے ؛ فرمایا : ((شکوت لی وکیع سوء حفظی فأرشدنی لی ترک المعاصی وأخبرن بأن العلم نور ونور اللہ لا یعطی فلعاصی.)) '' میں نے وکیع (بن جراح امام شافعی کے استاد ) کے پاس حافظہ خراب ہونے کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ معاصی ترک کردی جائیں اور انہوںنے مجھے بتایا کہ علم ایک نور ہے۔ اور اللہ کا نور گنہگار کو نہیں دیاجاتا۔'' ٢٧۔ وحشت اور خوف کا طاری رہنا: عام لوگوں سے بھی انسان کو ایک خوف سا رہتا ہے ، اور خاص کر اہل خیر اور اہل علم سے انسان کو بہت خوف محسوس ہوتا ہے ، اور انسان ان کی صحبت کی برکت سے محروم رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (اَفِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَض اَمِ ارْتَابُوْآ اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْْہِمْ وَرَسُوْلُہ بَلْ اُولٰئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ) (النور:٥٠) '' کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا (یہ) شک میں ہیں یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے حق میں ظلم کریں گے؟ (نہیں) بلکہ یہ خود ظالم ہیں۔'' ٢٨۔ کاموں میں رکاوٹ: جب بھی وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے سامنے تمام تر راہیں بند پاتا ہے ، یا وہ کام اس کے لیے اتنا دشوار ہوجاتا ہے کہ وہ اسے بجالانے سے محروم رہتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے پرہیز گار انسان کے لیے تمام تر راہیں آسان سے آسان تر ہوتی جاتی ہیں۔ فرمان ِ الٰہی ہے : (وَاَمَّا مَنْ م بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہ لِلْعُسْرٰی) (اللیل٨ـ١٠) '' اور جس نے بخل کیا اور بے پروا بنا رہا۔ اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا۔ اسے ہم سختی میں پہنچائیں گے۔'' ٢٩۔ بصیرت سے محرومی: گناہوں کے سبب انسان کی بصیرت ختم ہوجاتی ہے۔ دیکھتے بوجھتے بھی اسے کسی چیز کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ( فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلَکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُوْرِ) (الحج: ٤٦) '' بے شک ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہیں ، لیکن ان کے دل اندھے ہیں، جوسینوں میںہیں۔'' ٣٠۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور پکڑ کا شکار ہونا: اللہ تعالیٰ کی تدبیر اوراس کی پکڑ کا شکار ہوکر عذاب میں مبتلا ہونا، فرمایا: (وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْْرُ الْمَاکِرِیْنَ) (آل عمران:٥٤) ''وہ چال چلے اور اللہ بھی چال چلا اور اللہ خوب چال چلنے والا ہے۔'' ٣١۔ گناہ آپس میں جڑے ہوتے ہیں: گناہ آپس میں ایک دوسرے کو جنم دیتے ہیں ، ایک سے دوسرے کی پیوند کاری روبہ عمل میں آتی ہے اور آخر کار انسان پر ان گناہوں کا ترک کردینا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔فرمایا: (وَجَزَائُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَة مِّثْلُہَا ) (الشوری:٤٠) ''اور بُرائی کا بدلا تو اسی طرح کی بُرائی ہے۔'' ٣٢۔ گناہ سے بدن اور دل کمزور ہوجاتے ہیں: گناہ سے انسان کا بدن اور دل کمزور ہوجاتے ہیں۔ مومن کی تمام تر قوت اس کے دل میں ہوتی ہے۔ جتنا اس کا دل مضبوط ہوگا اس کا بدن بھی اتنا ہی قوی ہوگا۔ گنہگار اور فاجر اس کا بدن خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو وہ ضرورت کے وقت سب سے بڑھ کر کمزور اور بزدل ہوتا ہے ؛ فرمایا: (اَوَلَمْ یَہْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ اَہْلِہَا اَنْ لَّوْ نَشَائُ اَصَبْنَاہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَنَطْبَعُ عَلَی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لاَ یَسْمَعُوْنَ) (الاعراف:١٠٠) '' کیا ان لوگوں کو جو اہل ِ زمین کے (مر جانے کے) بعد زمین کے مالک ہوتے ہیں یہ امر موجب ہدایت نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے گناہوں کے سبب ان پر مصیبت ڈال دیں اور ان کے دلوں پر مہر لگا دیں کہ کچھ سن ہی نہ سکیں۔'' ٣٣۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے سے ثواب سے محرومی: گناہ انسان کو نیکی کے کاموں سے روکتے ہیں اور نیکیوں کی جگہ لے لیتے ہیں؛ اور یہ لوگ اگر اچھا عمل کر بھی لیںتو برائی اس اچھے عمل کو ختم کردیتی ہے ، اور وہ اجروثواب سے محروم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ( اُولٰئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ) (التوبہ:٦٩) '' یہ وہی لوگ ہیں جن کے ا عمال دنیااور آخرت میں ضائع ہو گئے اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔'' ٣٤۔ عمر میں کمی اور برکت کا خاتمہ: جیسے نیکی سے انسان کی عمر بڑھتی ہے اس کے برعکس گناہ سے کم ہوتی ہے۔ انسان کی زندگی اس وقت تک بامعنی نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنے رب کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرلے۔ جب کہ فاجر انسان ایسے کھاتے پیتے اور عیش کرتے ہیں جیسے مویشی کھاتے اور پیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میںبد اعمال میں عمریں ضائع کرنے پر مذمت کی ہے؛ جو اتنی لمبی عمر پانے کے باوجود نہ ہی راہ ہدایت پر آئے اور نہ ہی کفر سے اسلام کی طرف نہ نکلے ان کی بابت فرمایا: ( اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا ےَتَذَکَّرُ فِےْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَائَ کُمُ النَّذِےْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰالِمِےْنَ مِنْ نَصِےْرٍ ) (فاطر:٣٧) ''کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرسکتا تھا، اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آپہنچا تھا ، سو اب تم مزہ چکھو کہ ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہے۔'' ٣٥۔ گناہ سے خیر کا ارادہ کمزور اور شر کا ارادہ قوت پکڑتا ہے: انسان کے دل میں خیر کا ارادہ کمزور ہوجاتا ہے اور شر اور برائی کا ارادہ مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر پلیدی مسلط کردیتے ہیں ، فرمان ِ الٰہی ہے: ( فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہ یَجْعَلْ صَدْرَہ ضَیِّقاً حَرَجاً کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَائِ کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللّٰہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ) ( الانعام:١٢٥) ''تو جس شخص کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اُس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اس طرح اللہ اُن لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے، عذاب بھیجتا ہے ۔'' ٣٦۔ حیاء کا خاتمہ: گناہ سے حیاء کا خاتمہ ہو جاتا ہے، جو دلوں کی زندگی اور ہر خیر کا اصل مادہ ہے۔ اور حیاء کا ختم ہوجانا ان تمام چیزوں کا ختم ہوجانا ہے۔رسول اللہ a نے فرمایا: (( ِنَّ مِمَّا أَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُوْلیٰ : '' ِذَا لَمْ تَسْتَحْ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ.)) ]سنن أب داؤد باب: الحیاء ح: ٤٧٩٩۔قال الألبان: صحیح[ '' بے شک لوگوں نے گزشتہ نبوت کی تعلیمات سے جو چیز پائی وہ یہ ہے کہ جب تم میں حیاء نہ رہے ، جو چاہو سو کرو۔'' ٣٧۔ مسلسل گناہ سے گناہ کی قباحت جاتی رہتی ہے: گناہ مسلسل کرتے رہنے سے انسان کے دل سے اس کی قباحت ختم ہوجاتی ہے، اور وہ کام اس انسان کے لیے ایک عادت بن جاتا ہے اور پھر اس کے لیے اس گناہ سے توبہ کا دروازہ بند کردیا جاتا ہے۔رسول اللہ a نے فرمایا: (( کُلُّ أُمَّتِْ مُعَافیً اِلاَ الْمُجَاہِرِےْنَ.)) ]بخاری ٥٧٢١[ '' میری ساری امت کو معافی مل جائے گی سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والے کے۔'' ٣٨۔ انسان کی عقل خراب ہو جاتی ہے: گناہ انسا ن کی عقل کو خراب کردیتے ہیں کیوںکہ عقل کا ایک نور ہے جسے گناہ کے اندھیرے مٹا کر رکھ دیتے ہیں۔ اگر اس انسان کی عقل حاضر ہوتی تو گناہ کا ارتکاب نہ کرتا۔ بلال بن سعدk فرماتے ہیں : '' گناہ کے چھوٹا ہونے کو نہ دیکھو، بلکہ یہ دیکھو کہ کس کی نافرمانی کررہے ہو۔'' ]زہد /امام احمد٤٦٠[ ٣٩۔ رزق سے محرومی : رسول اللہaنے فرمایا: '' بے شک انسان اپنے گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔'' ]مسند احمد ٥/٢٨٠[ ٤٠۔عقل کا فساد اورخاتمہ : عقل میںایک نور اللہ کی عنایت ہوتا ہے ،جب انسا ن گناہ کرتا جاتا ہے اس نور میں ایسے ہی کمی آتی جاتی ہے ،اورآخر کار کمزور ہوتے ہوتے یہ نور ختم ہوجاتا ہے۔ بعض سلف صالحین فرماتے ہیں: '' کوئی انسان بھی اس وقت تک گناہ نہیں کرتا جب تک اس کی عقل غائب نہ ہو کیوںکہ اگر اس کی عقل حاضر ہوتی تو ضرور اسے گناہ سے روکے رکھتی،کہ تم اللہ کے قبضہ اور اس کے تصرف میںہو، وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ،اور ملائکہ بھی دیکھ بھی رہے ہیں اور جو کچھ ہورہا ہے اسے لکھ بھی رہے ہیں،توپھر عقل کی موجودگی میں اس قسم کا اقدام معصیت محال ہے۔ ٤١۔ غیرت کا خاتمہ : غیرت ہی انسان کی زندگی ہے ،اور یہی وہ ہتھیار ہے جس سے زندگی کے ہر میدان میں کام لیا جاسکتا ہے ، اور یہی وہ گل سر سبد ہے جس سے رونق چمن اور زینت حیات ہے ، اگر غیرت نہ رہے تو انسان اور حیوان میں، اور زندہ اور مردہ میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ ایک ادنیٰ سی مثال لیجیے : دیوث (بھڑوا) جس پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کردیا ہے ، اس کی غیرت کتنی ہی مرچکی ہوتی ہے جو وہ اس حرکت پر اتر آتا ہے کہ خود بھی گناہ کرتا ہے اورگناہ کے اسباب مہیا کرکے لوگوں کوبھی اس کی دعوت دیتا ہے۔بس جس انسان میں جتنی غیرت ہوگی وہ برائیوں سے اتنا ہی دور رہنے والا ہوگا۔ ٤٢۔ احسان اور بھلائی کا خاتمہ : گناہ کرنے کی وجہ سے انسان احسان اور محسنین کے دائرہ سے نکل جاتا ہے کیوںکہ جب انسان احسان کے معنی اور مفہوم کومد نظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو پھر اس سے گناہ کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰہُ اَنْ یُّطَہِّرَ قُلُوْبَہُمْ لَہُمْ فِیْ الدُّنْیَا خِزْی وَّلَہُمْ فِیْ الاٰخِرَةِ عَذَاب عَظِیْم ) (المائدہ:٤١) ''یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہیں چاہا اُن کے لیے دنیا میں بھی ذلت ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔'' ٤٣۔ مرنے کے وقت کی سختیاں اور اضطراب: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ( وَلَوْ تَرٰی اِ ذِ الظَّالِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِکَةُ بَاسِطُوْا اَیْْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْا اَنْفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیَاتِہ تَسْتَکْبِرُوْنَ) (الانعام:٩٣) ''اوراگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے ؛ اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑہا رہے ہوںگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو، آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی،اس سبب سے کہ تم اللہ کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے، اورتم اللہ کی آیات سے تکبر کرتے تھے۔'' اورفرمایا: (وَلَوْ تَرٰی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُواْ الْمَلآئِکَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِo ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْْدِیْکُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ لَیْْسَ بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ) (الانفال:٥٠ـ٥١) '' کاش! آپ دیکھتے جب فرشتے کافروںکی روحیںقبض کرتے ہیں اورا ن کے منہ پر اورسرینوں پر مار مارتے ہیں، (اورکہتے ہیں) تم آگ کا عذاب چکھو۔ یہ بہ سبب ان کاموںکے ہے جوتمہارے ہاتھوںنے پہلے ہی بھیج رکھا تھا ، بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوںپرظلم کرنے والے نہیں ہیں۔'' ٤٤۔ محشر کی سختیاں: گنہگار انسان مرنے سے لے کر قبر تک اور پھر وہاں سے حشر تک مختلف قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرتا ہے ؛ اور آخر کار اس کابدلہ جہنم کے عذاب کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ ایسے انسان کو جہنم جانے سے پہلے ہی جب نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جاتا ہے تو اس وقت سے اس کی حسرت وپریشانی شروع ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَاَمَّا مَنْ اُوتِیَ کِتَابَہ بِشِمَالِہ فَیَقُوْلُ یَا لَیْْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتَابِیَہْo وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ o یَا لَیْْتَہَا کَانَتِ الْقَاضِیَةَo مَا اَغْنٰی عَنِّیْ مَالِیَہْo ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطَانِیَہْo خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُo ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ ) (الحاقہ:٢٥ـ٣١) '' اور جس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا: اے کاش! مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا۔ اور مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے؟ اے کاش! موت میرا کام تمام کر چکی ہوتی۔میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا۔ میری سلطنت خاک میں مل گئی۔ (حکم ہو گا ) اسے پکڑ لو اور طوق پہنا دو۔ پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دو۔'' ٤٥۔ جہنم کا عذاب: آخر کار اس انسان کوبہت ہی بری طرح سے اس کے جرم کا احساس دلا کر جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائے گا ، فرمایا: ( وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَo وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَراً حَتَّی اِذَا جَائُ وْہَا فُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُل مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْْکُمْ اٰیَاتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَائَ یَوْمِکُمْ ہَذَا قَالُوْا بَلیٰ وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَی الْکَافِرِیْنَo قِیْلَ ادْخُلُوْا اَبْوَابَ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ) (الزمر ٧٠ـ٧٢) '' اور جس شخص نے جو عمل کیا ہوگا اس کو اس کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور جو کچھ یہ کرتے ہیں اس کو سب کی خبر ہے۔ اور کا فروں کو گروہ گروہ بنا کر جہنم کی طرف لے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیںگے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو اس کے داروغے ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور اس دن کے پیش آنے سے ڈراتے؟ کہیں گے کیوں نہیں لیکن کافروں کے حق میں عذاب کا حکم ثابت ہو چکا تھا۔ کہا جائے گا کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ ہمیشہ اس میں رہو گے تکبر کرنے والوں کا بُرا ٹھکانہ ہے۔'' ٤٦۔ آخرت میں حسرت اورافسوس: جس کی وجہ سے اس عذاب کی سختی اور بڑھ جائے گی،فرمایا: (وَہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَا رَبَّنَا اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحاً غَیْْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَائَ کُمُ النَّذِیْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ) (فاطر: ٣٧) '' وہ اس میں چلائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ؛ہم نیک عمل کیا کریں گے نہ وہ جو (پہلے) کرتے تھے کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تو اب مزے چکھو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔'' امام ابن جوزیk فرماتے ہیں: ''کسی بد بخت نے اپنے والد کو مارا اور زمین پر گھسیٹا؛ باپ اس سے کہنے لگا: ''بس یہاں تک کافی ہے ، میں نے اپنے باپ کو بھی یہاں تک گھسیٹا تھا۔'' صید الخاطر ٣٩١، اسے کہتے ہیں: ''جیسا کروگے ویسا بھر وگے۔ '' یہ مضمون کتاب ‘‘ توبہ و تقوی’’ سےماخوذ ہے۔ تالیف/ شفیق الحمن شاہ آل عبد الکبیر الدراوی ناشر : الفرقان ٹرسٹ لاہور
Jazakallahu khaira جزاكم الله خيرا خالداً
ReplyDeleteگناہ سے متعلق کافی وافی بحث ۔اللہ تعالیٰ تمام گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ReplyDeleteآمین۔
Delete