Tuesday 29 December 2015

قرآن مجید کا تعارف، غرض وغایت، فضائل، آداب اور حقوق

حقوق۔۔۔
ہمیں سلیقہ نہیں آتا تخم ریزی (بیج بونے) کا، اس لئے تو ثمر کچھ ملا نہیں کرتے؛

حقوق مانگتے پھرتے ہیں دوسروں سے ہم، مگر خود اپنے فرائض ادا نہیں کرتے۔
قرآن کا تعارف، قرآن سے
اگر کوئی شخص کتاب کا تعارف کراتا ہے تو پہلے اس کتاب کا نام، پھر اس کے مصنف کا اسم گرامی، پھر یہ کہ کتاب کونسی زبان میں ہے پھر اس کا موضوع، پھر تصنیف کرنے کا مقصد بیان کرے گا، ان سب باتوں کے بعد اس کتاب کا رتبہ اور فضائل بتائے گا۔ تو قرآن کریم کا تعارف بھی ان ہی باتوں سے ہوگ




قرآن کے اسماء
اگر ہم قرآن سے پوچھیں (یعنی قرآن میں تلاش کریں)کہ تمہارا اسم گرامی کیا ہے ؟تو وہ جواب میں بتائے گا کہ میرا ایک نام نہیں، بلکہ میرے کئی نام ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
٭... سب سے زیادہ مشہور نام ”قرآن“ہے، جس کو اللہ نے اپنے کلام میں ستر مرتبہ ذکر کیا ہے۔پھر اللہ پاک نے اس لفظ قرآن کو کبھی مبین کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے کہ سورة الحجر کی پہلی آیت میں آیا ہے:﴿وَقُرْآنٍ مُّبِیْن﴾ اور کبھی عظیم کے ساتھ موصوف کیا ہے جیسا کہ سورة الحجر کی آیت 87 میں ہے:﴿وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْم﴾اور کبھی حکیم کے ساتھ موصوف کیا ہے،جیسا کہ سورة یاسین کی دوسری آیت میں ہے:﴿وَالْقُرْآنِ الْحَکِیْم﴾اور کبھی کریم کے ساتھ موصوف کیا ہے جیسا کہ سورة واقعہ کی آیت 77 میں ہے﴿إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِیْم﴾ اور کبھی عربی کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے کہ سورة یوسف کی دوسری آیت میں ہے﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً﴾ اور کبھی عجب کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے کہ سورة جن کی پہلی آیت میں ہے:﴿ إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآناً عَجَبا﴾اور کبھی یھدی کے ساتھ موصوف کیا ہے جیسے کہ سورة بنی اسرائیل کی آیت 9 میں ہے:﴿إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَم﴾اور کبھی مجید کے ساتھ موصوف کیا ہے، جیسے سورة بروج کی آیت 21 میں آیاہے:﴿بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْد﴾ ․
٭... دوسرا نام کتاب ہے، پھر لفظ کتاب کبھی الف لام سے معرفہ ہوگا، جیسے سورة بقرہ کی دوسری آیت میں ہے:﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ﴾ اور کبھی بغیر الف لام کے نکرہ ہوگا، جیسے سورہ بقرہ کی آیت 89 میں ہے:﴿وَلَمَّا جَاء ہُمْ کِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّہ﴾ اس نام کے ساتھ بھی کبھی مبارک کی صفت لگی ہوگی۔جیسے سورة انعام کی آیت 92 میں ہے:﴿وَہَذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ ﴾ اور کبھی مفصل کی صفت لگی ہوگی، جیسے سورة انعام کی آیت 114 میں ہے:﴿َہُوَ الَّذِیْ أَنَزَلَ إِلَیْْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلا﴾اور کبھی حکیم کی صفت لگی ہوگی، جیسے سورة یونس کی پہلی آیت میں ہے:﴿تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْحَکِیْم﴾ ۔اور کبھی مبین کی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة زخرف کی دوسری آیت میں ہے:﴿وَالْکِتَابِ الْمُبِیْن﴾اور کبھی منیر کی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة حج کی آٹھویں آیت میں ہے﴿یُجَادِلُ فِیْ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَلَا ہُدًی وَلَا کِتَابٍ مُّنِیْر﴾اور کبھی عزیزکی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة حم سجدہ کی آیت 41 میں ہے ﴿وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ﴾ اور کبھی متشابہ کی صفت لگی ہوگی، جیسے کہ سورة زمر کی، آیت 23 میں ہے﴿کتابا متشابھا﴾ ․
٭... تیسرا نام العلم ہے، جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت 120 میں ہے﴿جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ﴾ ۔
٭... چوتھا نام الفرقان ہے، جیسا کہ سورة اٰ ل عمران کی آیت 4 میں ہے﴿ وَأَنزَلَ الْفُرْقَان﴾
٭... پانچواں نام قصص الحق ہے، جیسا کہ سورة اٰل عمران کی آیت 62 میں ہے﴿إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَق﴾۔
٭... چھٹا نام حبل اللہ ہے جیسا کہ سورة اٰل عمران کی آیت 103 میں ہے﴿إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَق﴾۔
٭... ساتواں بیان نام ہے، آٹھواں ھدیً ہے، نواں موعظة ہے،جیسا کہ یہ تینوں نام اٰل عمران کی آیت 138 میں﴿ہَذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَہُدًی وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْن﴾
٭... دسواں نام برہان ہے اور گیارہواں نور مبین ہے،جیسا کہ یہ دونوں سورة نساء کی آیت 174 میں ہیں﴿قَدْ جَاء کُم بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْنا﴾۔
٭... بارہواں نام صراط مستقیم ہے،جیسا کہ سورة انعام کی آیت 126 میں ﴿وَہَذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِیْماً﴾
٭... تیرہواں نام بینة ہے، جیسا کہ سورة انعام کی آیت 157 میں ہے﴿ فَقَدْ جَاء کُم بَیِّنَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ﴾
٭... چودہواں نام کلام اللہ ہے،جیسا کہ سورة توبہ کی چھٹی آیت میں ہے﴿ حَتَّی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّہ﴾۔
٭... پندرہواں شفاء ہے اور سولہواں رحمة ہے،جیسا کہ یہ دونوں نام سورة یونس کی آیت 57 میں ہیں﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ﴾
٭... سترواں نام فضل اللہ ہے، جیسا کہ سورة یونس کی آیت 58 میں ہے﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّہِ﴾۔
٭... اٹھارواں نام بلاغ ہے جیسا کہ سورة ابراہیم کی آیت 56 میں ہے﴿ہَذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاس﴾ ۔
٭... انیسواں نام الروح ہے ،جیسا کہ سورة النحل کی دوسری آیت میں ہے﴿یُنَزِّلُ الْمَلآئِکَةَ بِالْرُّوحِ﴾۔
٭... بیسواں نام ذکر ہے، جیسا کہ سورة انبیاء کی آیت 50 میں ہے﴿وَہَذَا ذِکْرٌ مُّبَارَکٌ أَنزَلْنَاہ﴾۔
٭... اکیسواں نبأعظیم ہے جیسا کہ سورة ص کی آیت 67 میں ہے ﴿قُلْ ہُوَ نَبَأٌ عَظِیْمٌ ﴾۔
٭... بائیسواں نام احسن الحدیث ہے ،جیسا کہ سورة الزمر کی آیت 23 میں ہے ﴿اللَّہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ﴾۔
٭... تئیسواں نام صدق ہے، جیساکہ سورة الزمر کی آیت 33 میں ہے ﴿وَالَّذِیْ جَاء بِالصِّدْقِ﴾
٭... چوبیسواں نام بصائر ہے،جیسا کہ سورة الجاثیہ کی، آیت 20 میں ہے﴿ہَذَا بَصَائِرُ لِلنَّاس﴾۔
٭... پچیسواں نام حکمة بالغة ہے ،جیسا کہ سورة القمر کی آیت5 میں ہے ﴿حِکْمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُر﴾۔
٭... چھبیسواں نام تذکرہ ہے، جیسا کہ سورة الحاقہ کی آیت 48 میں ہے﴿وانہ لتذکرة للمتقین﴾۔
٭... ستائیسواں نام قول فصل ہے، جیساکہ سورة طارق کی آیت13 میں ہے﴿ انہ لقول فصل﴾ ۔

تنبیہ1. قرآن کے ان اسماء میں سے اصل نام دو ہیں ایک ”قرآن“ یہ جمالی نام ہے، دوسرا” فرقان “یہ جلالی نام ہے۔ باقی سارے اسماء ان کی فرع ہیں۔
تنبیہ2.  یہ بھی ایک قاعدہ ہے کہ جس چیز کے بہت سے نام ہوں یہ اس کے عظیم الشان ہونے پر دلالت کرتا ہے۔


قرآن مجید کے اسماء درجہ ذیل ہیں:

الفرقان: (تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا) (الفرقان ـ1)

بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لئے انتباہ کرنے والا ہو۔

الكتاب: (ألم (1) ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ)(البقرة ـ1ـ2)

یہ کتاب، جس میں کوئی شبہ نہیں، ہدایت ہے تقویٰ والوں کے لیے۔.

الذكر:  (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ)(الحجر ـ9).

اس ذکر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

یہان کچھ اسماء ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا یہ قرآن مجید کے اسماء میں سے ہیں یا صفات میں سے۔ لیکن یہ ظاہرََا قرآن مجید کے صفات میں سے ہیں جو درجہ ذیل ہیں:

كلام الله: (وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ)(التوبة ـ6). 

اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دیں تاکہ وہ کلام اللہ کو سن لے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دیں،ایسا اس لیے ہے کہ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔

التنزيل:(وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ)(لشعراء ـ192)

اور بتحقیق یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کیا ہو اہے۔

وقوله تعالى: (لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ)(فصلت ـ42).

باطل نہ اس کے سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے، یہ حکمت والے اور لائق ستائش کی نازل کردہ ہے۔

النّور:(يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا) (النساء ـ174).

اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا ہے۔

الموعظة: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ) (يونس ـ57).

اے لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے (یہ قرآن) تمہارے پاس نصیحت اور تمہارے دلوں کی بیماری کے لیے شفا اور مومنین کے لیے ہدایت اور رحمت بن کر آیا ہے۔

پس اس طرح قرآن مجید کے لئے دو مخصوص نام باقی رہ گئے یعنی ایک قرآن اور دوسرا فرقان جبکہ اقی اسماء الفاظ و معانی کے اعتبار سے عام ہیں جو قرآن اور دیگر کتب میں قدر مشترک ہیں۔یعنی یہ اسماء قرآن کے علاوہ دیگر کتب کےلئےبھی استعمال ہوتےہیں۔


صفاتِ قرآن:

جب ہم قرآن مجید کی طرف مراجعہ کرتے ہیں اور ان صفات کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی بے شمار صفات بیان فرمائی ہیں۔ اور جب ہم یہاں صفات اور اسماء کی بات کررہے ہیں تواس سے مراد قرآن مجید کی وہ صفات اور اسماء ہیں جو دیگر روایات وغیر ہ میں مذکور توصیفات اور اسماء سے قطع نظر خود قرآن میں اللہ تعالی نے ذکر کئے ہیں۔

یہاں ہم قرآن مجید میں مذکور کچھ صفات کوپیش کرتے ہیں:

العظيم: (وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ)(الحجر 87).

 اور بتحقیق ہم نے آپ کو (بار بار) دہرائی جانے والی سات (آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا

الكريم: (وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ (76) إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ) (الواقعة ـ76 ـ77).

اور اگر تم سمجھو تو یہ یقینا بہت بڑی قسم ہے، کہ یہ قرآن یقینا بڑی تکریم والا ہے۔

المبين: (الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُبِينٍ)(الحجر ـ1).

الف لام را، یہ کتاب اور قرآن مبین کی آیات ہیں۔

الحكيم: (يس (1) وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ)(يس ـ1 ـ2).

یا، سین، قسم ہے قرآن حکیم کی

المبارك: (كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ)(ص ـ29).

یہ ایک ایسی بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور صاحبان عقل اس سے نصیحت حاصل کریں۔

المجيد: (ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ)(ق ـ1).

قاف ، قسم ہے شان والے قرآن کی۔

العزيز: (إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ) (فصلت ـ41)

جو لوگ اس ذکر کا انکار کرتے ہیں جب وہ ان کے پاس آجائے، حالانکہ یہ معزز کتاب ہے۔

الهدى: (ألم (1) ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ)(البقرة ـ1 ـ2).

یہ کتاب، جس میں کوئی شبہ نہیں، ہدایت ہے تقویٰ والوں کے لیے۔

الرحمة: (الم (1) تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ (2) هُدًى وَرَحْمَةً لِلْمُحْسِنِينَ)(لقمان ـ1ـ3)

الف ، لام ، میم۔ یہ حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں۔ نیکوکاروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے،

اس کے علاوہ قرآن مجید کے کچھ صفات یہ ہیں: «الشّفاء» و«البلاغ» و«البشير» و«النّذير» و«البصائر» و«الحقّ» و«العلم» و«الصدق» و«العَجَبُ» و«التذكرة» و«البيان» و«الوحي» و«البصائر» و«أحسن الحديث» .......وغیرہ.






قرآن اللہ کا کلام ہے
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کس کا کلام ہیں؟ مشرکین عرب تو کہتے ہیں کہ قرآن محمد بن عبداللہ کا بنایا ہوا ہے یا کسی اور شخص نے لکھوایا ہے اس لیے یہ شعر ہے یا سحر ہے یا کہانت ہے ۔ آپ بتائیں، کہ حقیقت کیا ہے؟ تو قرآن کریم ان سب باتوں کی تردید بہت سے دلائل سے کرے گا۔

ایک دلیل یہ کہ قرآن عربی زبان میں ہے اور مشرکین بھی عرب ہیں اور فصاحت و بلاغت کے اعلی مقام پر فائز ہیں تو اگر قرآن محمد بن عبداللہ نے خود بنایا ہے تو وہ بھی قرآن جیسی کتاب بنا لائیں، مگر یہ لوگ قرآن کی طرح کتاب نہیں بنا سکتے تو معلوم ہوا کہ یہ اللہ کا کلام ہے کسی بشر کا نہیں ۔قرآن پاک نے پوری دنیاکے کفار کو قرآن کے ساتھ مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے کہ تم سب مل کر قرآن جیسی کتاب بناؤ، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرا﴾ [سورة بنی اسرائیل:88] ”کہہ دو اگر سب آدمی اور سب جن مل کر بھی ایسا قرآن لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے، اگر چہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار کیوں نہ ہو“۔پھر اللہ نے قرآن کے منکرین کو اس تحدی میں سہولت دی کہ اگر پورا قرآن نہیں بنا سکتے ہو تو دس سورتیں بنا لاؤ، فرمایا : ﴿أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاہُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہ مُفْتَرَیَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ، فَإِن لَّمْ یَسْتَجِیْبُواْ لَکُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا أُنزِلِ بِعِلْمِ اللّہ﴾ [سورة سورة ھود :14-13] ”کیا کہتے ہیں کہ تونے قرآن خود بنالیا ہے کہ دو تم بھی ایسی دس سورتیں بناؤ اور اللہ تعالیٰ کے سوا جس کو بلا سکو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو ۔پھر اگر تمہارا کہنا پورا نہ کریں تو جان لو کہ قرآن اللہ کے علم سے نازل کیا گیا ہے “۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے منکرین کے لیے قرآن کے ساتھ مقابلہ کرنا بہت آسان کردیا کہ اگر تم دس سورتیں بھی نہیں بنا سکتے ہو تو ایک سورة بناؤ ،فرمایا:﴿وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاء کُم مِّن دُونِ اللّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ﴾ [سورة بقرة:24-23] ”اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو ایک سورة اس جیسی لے آؤ اور اللہ کے سوا جس قدر تمہارے حمایتی ہوں بلالو اگر تم سچے ہو۔ بھلا اگر ایسانہ کر سکو اور ہر گز نہیں کرسکتے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے“۔


تو اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں پورے قرآن سے تحدی کی،پھر دس سورتوں سے ،پھر ایک سورة سے، گویا ان کا عجز بتدریج نمایا ں کیا۔

دوسری دلیل یہ پیش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمی (بے پڑھے)ہیں نہ خط لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں۔ فرمایا :﴿فَآمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الأُمِّی﴾ [سورة اعراف :158] ”سو اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی (بے پڑھے)پر“اور امی کی تفسیر یہ فرمائی ہے :﴿وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہِ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ إِذاً لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُون﴾ [سورة عنکبوت:48] ”اور اس سے پہلے نہ تو کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اس دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا، تب تو یہ باطل پرست شک کرتے “تیسری دلیل یہ پیش کی :﴿وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّہُمْ یَقُولُونَ إِنَّمَا یُعَلِّمُہُ بَشَرٌ لِّسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُونَ إِلَیْْہِ أَعْجَمِیٌّ وَہَذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْن﴾․[سورة النحل:103]”اور ہمیں خوب معلوم ہے وہ کہتے ہیں اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے، حالاں کہ جس آدمی کی طرف نسبت کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن)عربی زبان ہے۔“ مذکورہ آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں بلعام نامی ایک رومی غلام رہتا تھا ،وہ اسلام لایا تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسلامی احکام کی تعلیم فرمایا کرتے تھے، لیکن مشرکین نے یہ مشہور کردیا کہ وہ رومی غلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سکھاتا ہے ۔اللہ نے مشرکین کے اس طعن کا، جو محض عناد پر مبنی تھا، نہایت معقول جواب دیاکہ جس غلام کی طرف وہ تعلیم قرآن کی نسبت کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ قرآن صاف اور سلیس عربی میں ہے تو قرآن اس عجمی کا کلام کس طرح ہوسکتا ہے۔

چوتھی دلیل یہ پیش کی :﴿أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرا﴾[سورة النساء :82] ”کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلافات پاتے“اختلاف سے مراد یا تو یہ ہے کہ قرآن کے بیان کردہ امور نفس الامر سے مختلف ہوتے ۔مگر قرآن کے بیان کردہ امور سب حقائق ہیں ،کوئی بھی خلاف واقع نہیں ہے۔یا اختلاف کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کے مضامین میں کوئی باہمی تناقض ہو تا،حالاں کہ قرآن کے مضامین میں کہیں بھی کوئی تناقص نہیں ہے۔ یا اختلاف سے مراد یہ کہ قرآن کی فصاحت و بلاغت میں اختلاف ہوتا، یعنی کسی جگہ بلاغت موجود ہوتی اور کسی جگہ موجودنہ ہوتی لیکن بلاغت کے اعتبار سے قرآن میں اختلاف نہیں ہے قرآن از اول تا آخر فصیح و بلیغ ہے، جب قرآن کے بیان کردہ امور بالکل واقعہ کے موافق ہیں اور قرآن کے مضامین میں کوئی تضاد و تناقص نہیں ہے اور قرآن میں فصاحت وبلاغت یکساں ہیں اس میں ہستی ونیستی کا کوئی اختلاف نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ قرآن یقینا بلا شک و شبہ اللہ کا کلام ہے۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا ہوتا تو اس میں مذکورہ تینوں باتیں ضرور پائی جاتیں۔

پانچویں دلیل یہ پیش کی ہے :﴿وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنبَغِیْ لَہُ إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِیْن﴾ [سورة یٰس :69] ”اور ہم نے نبی کو شعر نہیں سکھایا اور نہ یہ اس کے مناسب ہی تھا یہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے“۔ نیز فرمایا:﴿وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ﴾ [سورة الحاقہ:41] ”اور وہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے“ان آیتوں میں مشرکین کے اس شبہ کا جواب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شاعر ہیں اور یہ قرآن شعر ہے ۔تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے پیغمبر کو شاعری کا علم نہیں سکھلایا اور نہ شاعر ی آپ کے شایان شان ہے۔جب آپ شاعر نہیں تو یقینی بات ہے کہ قرآن شعر نہیں ہے تو آپ کے شاعرنہ ہونے کے باوجود ایسا بے مثل اور معجز کلام پیش کرنا، جو بشر کی استطاعت سے باہر ہو، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔مذکورہ شبہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے انداز میں دیا ہے، وہ یہ ہے :﴿أَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہِ رَیْْبَ الْمَنُونِ، قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّیْ مَعَکُم مِّنَ الْمُتَرَبِّصِیْن﴾ [سورة طور:31-30] ”کیا وہ کہتے ہیں کہ وہ شاعر ہے ہم اس پر گردش زمانہ کا انتظار کرتے ہیں ۔کہ دو تم انتظار کرتے رہو، بیشک میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔“یعنی معاندین تو کبھی کہتے ہیں کہ وہ شاعر ہے جب تک زندہ ہے اس کے اشعار کو عروج ہے اور ہم اس کی موت کے منتظر ہیں، جوں ہی اس نے آنکھیں بندکیں یہ سارا کھیل ختم ہوجائے گا۔اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ موت تو سب پر آئے گی، اس لیے میں بھی انتظار کرتا ہوں کہ عزت کی موت کس کی ہوگی ؟

چھٹی دلیل یہ پیش کی کہ اگر بالفرض نبی اپنی طرف سے گھڑی ہوئی باتیں میری طرف منسوب کریں تو میں اس کو سخت سزا دوں گا ۔فرمایا: ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ فَمَا مِنکُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ﴾ [سورة الحاقہ:44] ”اور اگر وہ کوئی بناوٹی بات ہمارے ذمہ لگاتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ہم اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے، پھر تم میں سے کوئی بھی اسے روکنے والا نہ ہوتا“۔

ساتویں دلیل یہ پیش کی :﴿فَذَکِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَلَا مَجْنُون﴾ [سورة طور:29] ”پس نصیحت کرتے رہیے کہ آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیں ،نہ دیوانے“۔جب آپ کاہن نہیں ہیں تو قرآن کہانت نہیں ہوگا، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :﴿وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ﴾ [سورة الحاقہ 42] ”اور نہ ہی (یہ قرآن)کسی کاہن کا قول ہے“یہ منکرین قرآن کا اس شبہ کا ازالہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاہن ہیں اور قرآن کہانت ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی کہ نہ آپ کاہن ہیں اور نہ قرآن کہانت ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی نعمت سے نوازا ہے، یعنی نبوت عطا فرمائی ہے اور یہ قرآن وحی ہے ،جو نبی ہی پر نازل ہوتا ہے۔

آٹھویں دلیل یہ پیش کی:مشرکین کہتے تھے کہ جب تک آپ آسمانوں پر جاکر وہاں سے لکھی ہوئی کتاب نہ لے آئیں اس وقت تک ہم ایمان نہیں لائیں گے تو اس کا جواب یہ دیا گیا﴿وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْْکَ کِتَاباً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوہُ بِأَیْْدِیْہِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ إِنْ ہَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ﴾ [سورة الانعام:7] ”اور اگر ہم تم پر کوئی کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب بھی اتار دیتے او لوگ اپنے ہاتھوں سے چھوکر بھی دیکھ لیتے تب بھی کافر یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔“مقصد یہ کہ ان لوگوں نے صرف ضد و عناد کی بنا پر قرآن کو جادو کہہ کر انکار کیا ،ورنہ ان کے پاس قرآن کے جادو ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَلَمَّا جَاء ہُمُ الْحَقُّ قَالُوا ہَذَا سِحْرٌ وَإِنَّا بِہِ کَافِرُونَ ، وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ ہَذَا الْقُرْآنُ عَلَی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْْنِ عَظِیْمٍ﴾ [سورة الزخرف:31-30] ”اور جب ان کے پاس سچا قرآن پہنچا تو کہا کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اسے نہیں مانتے ہیں اور کہا کہ کیوں یہ قرآن ان دو بستیوں کے کسی سردار پر نازل نہیں کیا گیا؟“

اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دیا :﴿أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَةَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُم مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُون﴾ [سورة الزخرف:32] ”کیا وہ بانٹتے ہیں تیرے رب کی رحمت (جب کہ)دنیا کی زندگی میں ان کی روزی ہم نے تقسیم کی ہے اور ہم نے بعض کے بعض پر درجے بلندکیے تاکہ ایک دوسرے کو محکوم بنا کر رکھیں اور آپ کے رب کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے جووہ جمع کرتے ہیں۔“ مقصد یہ کہ میری رحمت جس کافرد اعلیٰ نبوت ہے ،کیا یہ ان کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چا ہیں دے دیں؟ ہر گز نہیں، بلکہ:﴿اللّہُ أَعْلَمُ حَیْْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ﴾ [سورة الانعام 124] ”اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغمبری کا کام کس سے لے“۔

نویں دلیل:اللہ تعالیٰ نے اس بات پر کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اپنی گواہی اور فرشتوں کی گواہیاں پیش کی ہیں، فرمایا:﴿اللّہُ یَشْہَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَیْْکَ أَنزَلَہُ بِعِلْمِہِ وَالْمَلآئِکَةُ یَشْہَدُونَ وَکَفَی بِاللّہِ شَہِیْدا﴾  [سورة النساء166] ”اللہ شاہد ہے اس پر جو تجھ پر نازل کیا کہ نازل کیا ہے اپنے علم کے ساتھ اور فرشتے بھی گواہ ہیں اور اللہ گواہی دینے والا کافی ہے“۔ اور دنیا میں یہ اصول مسلم ہے کہ ثقہ گواہوں سے دعویٰ ثابت ہو تا ہے اور سب سے زیادہ ثقہ گواہی اللہ تعالیٰ کی ہے، اس لیے فرمایا ﴿وکفی بالله شھیدا﴾ اسی اصول کی بنا پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو مجھ پر وحی کے ذریعہ نازل ہو ا ہے، بالکل حق اور سچ ہے۔

مذکور ہ دلائل سے منکرین قرآن کے سارے شکوک و شبہات رفع ہو کر یہ بات یقینی طور ثابت ہوگئی کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، جیساکہ ارشاد ربانی ہے کہ: ﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾ [سورة بقرہ 1] ”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں ہے“یعنی اس بات میں شک نہیں کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے ۔




قرآن عربی زبان میں ہے
اگر قرآن سے پوچھا جائے کہ آپ کونسی زبان میں نازل ہوئے ہیں؟ تو قرآن جواب میں بہت سی ایسی آیتوں کو پیش کرے گا جن میں تصریح ہوئی ہے کہ قرآن عربی میں اترا ہے ۔مثلاً:﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً ﴾․ [سورة یوسف 2] ﴿أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً﴾․ [سورة طٰہٰ 113] ﴿قُرآناً عَرَبِیّاً غَیْْرَ ذِیْ عِوَج﴾․ [سورة الزمر28] ﴿وَکَذَلِکَ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ قُرْآناً عَرَبِیّا﴾․ [سورة الشوریٰ 2]﴿إِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً﴾․[سورة الزخرف 3]وغیرہ․․․․․اس سے معلوم ہوا کہ عربی ساری زبانوں میں بہتر زبان ہے، کیوں کہ اگر عربی سے کوئی اور بہتر زبان ہوتی تو اللہ تعالیٰ قرآن کو اس زبان میں نازل فرماتے ،مگر جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کے لیے ساری زبانوں میں سے عربی کو منتخب کیا اس وجہ سے عربی کو ”ملکة الالسنة“کہتے ہیں اور اصول فقہ میں قرآن کی تعریف کی تکمیل ان الفاظ سے ہوئی ہے ھو اسم للنظم والمعنیٰ جمیعا (حسامی،منار) یعنی قرآن نظم و معنی دونوں کا نام ہے، اسی بنا پر فقہاء نے ایک مسئلہ استنباط کیا ہے:کہ عربی قرآن کے تحت کسی زبان میں ترجمہ کرناتو جائز ہے، مگر بغیر عربی کے کسی زبان میں قرآن کا ترجمہ جائز نہیں ہے، کیوں کہ پھر تو قرآن عربی نہیں رہے گا، بلکہ عجمی بن جائے گا، حالاں کہ قرآن عربی زبان میں ہے۔




قرآن کا موضوع
دنیا میں جتنے علوم ہیں اور ان علوم کے جتنے موضوعات ہیں وہ سارے قرآن کے موضوعات ہیں، کیوں کہ سارے علوم کا منبع قرآن ہے، جیسا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ﴾ [سورة النحل 89] ”اور ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس مین ہرچیز کا کافی بیان ہے۔ “مگر یہاں قرآن کے موضوع سے مراد وہ مرکزی مضمون ہے جو تمام قرآن کے لیے بمنزلہ محور ہوتا ہے اور قرآن کے باقی مضامین اس کے اردگرد چکر لگاتے ہیں تو قرآن پاک میں ایسے مرکزی مضامین چار ہیں توحید رسالت قیامت احکام۔ اس کے علاوہ قرآن میں جو قصص و امثال اور تذکیر بایام اللہ وغیرہ بیان ہوئے ہیں وہ سب ان ہی چار مضامین کے اثبات و توضیح کے لیے ہیں۔چوں کہ قرآن کے مرکزی مضامین یہی چار ہیں اسی بنا پر یہی چار مضامین قرآن کا موضوع ہے۔







قرآن کے نزول کی غرض وغایہ
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کے نزول کی غرض وغایہ کیا ہے؟

تو قرآن جواب میں کہے گا کہ میرے نزول کے بڑے مقاصد چھ ہیں:
پہلا مقصد ہدایت ہے، یعنی لوگوں کو سیدھا راستہ بتانا، جیسے کہ ارشاد باری ہے :﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْن﴾ [سورة البقرہ 2]․ ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاس﴾ [سورة البقرہ 185]․ ﴿إِنَّ ہَذَا الْقُرْآن یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَم﴾ [سورة بنی اسرائیل 9]۔

دوسرا مقصد انذار ہے، یعنی مجرموں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانا، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغ﴾ [سورة الانعام19]۔﴿وَہَذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَی وَمَنْ حَوْلَہَا﴾ [سورة الانعام 92]۔

تیسرا مقصد لوگوں کو شرک وبدعت اور فسق و فجور کے اندھیروں سے نکالنا اور توحید و سنت اور اعمال صالحہ و اخلاق حسنہ کی روشنی میں لاکر کھڑا کرنا ہے، جیسے اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے﴿کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ﴾ [سورة ابراہیم 1]۔

چوتھا مقصد یہ کہ قرآن کے ذریعہ لوگوں کے دعووں کا انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاس﴾ [سورة النساء 105] بے شک ہم نے تیری طرف سچی کتاب اتاردی ہے، تاکہ لوگوں میں (انصاف کے ساتھ )فیصلے کرے۔

پانچواں مقصد وعظ و نصیحت ہے، فرمایا:﴿کِتَابٌ أُنزِلَ إِلَیْْکَ فَلاَ یَکُن فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنذِرَ بِہِ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْن﴾ [سورة الاعراف 2]۔ ”یہ کتاب تیری طرف بھیجی گئی ہے، تاکہ تو اس کے ذریعے ڈرائے، اس سے تیرے دل میں تنگی نہ ہونی چاہیے، یہ ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے“۔

چھٹا مقصد روحانی بیماریوں کے لیے شفا ہے، فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ﴾ [سورة یونس 57] ”اے لوگو!تمہارے پاس آیا اللہ کی طرف سے وعظ اور شفا ،ان بیماریوں کے لیے، جو تمہارے سینوں میں ہیں۔




قرآن جبرائیل امین لائے ہیں
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کون لایا ہے؟ کیا وہ لانے والا معتمد بھی ہے؟ تو قرآن جواب میں کہے گا کہ مجھے جبریل لائے ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ﴾ [سورة الشعراء 193] ”امانت دار فرشہ لے کر آیا ہے۔“ اور جبریل فرشتوں کے سردار،بہت قوت والے اور انتہائی امانت دار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت معزز و مقرب ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی ان چار صفات کا ذکر یوں فرمایا ہے: ﴿إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّةٍ عِندَ ذِیْ الْعَرْشِ مَکِیْن مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِیْنٍ﴾․ [سورة التکویر 21-19] ”بے شک یہ قرآن ایک معزز پیغمبر کا لایا ہوا ہے، جو بڑا طاقت ور ہے، عرش کے مالک کے نزدیک بڑے رتبہ والا ہے، وہاں کا سردار امانت دار ہے۔“ اسی بنا پر اگر کوئی شخص جبریل سے دشمنی کرتا ہے، تو وہ اللہ کا دشمن سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿قُلْ مَن کَانَ عَدُوّاً لِّجِبْرِیْلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللّہِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَہُدًی وَبُشْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ، مَن کَانَ عَدُوّاً لِّلّہِ وَمَلآئِکَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِیْلَ وَمِیْکَالَ فَإِنَّ اللّہَ عَدُوٌّ لِّلْکَافِرِیْنَ﴾ [سورة البقرہ 98-97] ”کہہ دو جو کوئی جبرائیل کا دشمن ہو، سو اسی نے اتارا ہے وہ قرآن، اللہ کے حکم سے، آپ کے دل پر، ان کی تصدیق کرتا ہے جو اس سے پہلے ہیں اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور خوش خبری ہے۔جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو توبے شک اللہ بھی ان کافروں کا دشمن ہے۔“



قرآن سرور کونین پر اتارا گیا ہے
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کو جس پر اتارا ہے وہ کون ہے؟ اور کیسا ہے؟ تو قرآن کہے گا کہ مجھے محمد رسول اللہ پر اتارا گیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سارے انسانوں سے بہتر ہے جن کی بہت سی خصوصی صفات ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
٭...آپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا مصداق ہیں، وہ دعا یہ ہے : ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْہِمْ إِنَّکَ أَنتَ العَزِیْزُ الحَکِیْم﴾․ [سورة البقرة129] ”اے ہمارے رب! ان میں ایک رسول انہیں میں سے بھیج ! جوان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب اور دانائی سکھائے اور انہیں پاک کرے،بے شک تو ہی غالب، حکمت والا ہے“۔
٭... آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہیں جو انہوں نے اس طرح دی:﴿وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتِیْ مِن بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَدُ﴾ [سورة الصف 6]۔ اور ایک رسول کی خوش خبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا “۔
٭...آپ سارے عالم کے لیے رحمت بنا کربھیجے گئے، فرمایا:﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ ﴾ [سورة الانبیاء:107] ”اور ہم نے تمہیں تمام جہاں کے لوگوں کے حق میں رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔
٭... آپ کو سارے لوگوں کے لیے نبی بنا کر مبعوث کیا ہے، فرمایا : ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْراً﴾ [سورة السبا:28]۔ ”اور ہم نے آپ کو سارے لوگوں کو ڈر اور خوشی سنانے کے لیے بھیجا ہے“۔
٭...آپ کو خاتم النبیین کا اعزاز دیا فرمایا ﴿مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ﴾․ [سورة الأحزاب:40] ” محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ الله کے رسول اور سب نبیوں کے خاتم ہیں۔“
٭... آپ کو معراج پر لے جا کر انتہائی اعزاز سے نوازا، فرمایا: ﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا﴾․ [سورة بنی سرائیل:1] ”وہ پا ک ذات ہے جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی، جس کے گرد ا گردہم نے برکت رکھی ہے۔“ مسجد اقصیٰ کے بعد کا واقعہ سورة نجم میں یوں ذکر ہوا :﴿وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً أُخْرَی،عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَہَی،عِندَہَا جَنَّةُ الْمَأْوَی،إِذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ مَا یَغْشَی،مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی،لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی﴾․ (النجم:18-13) ”اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے سدرة المنتٰھی کے پاس، جس کے پاس جنت مأوٰی ہے، جب کہ اس سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا ( یعنی نور) نہ نظر بہکی نہ حد سے بڑھی، بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔“
٭... آپ کو برہان کہا ہے، فرمایا ﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُم بُرْہَانٌ مِّن رَّبِّکُمْ﴾․ [سورة النساء:174) ” اے لوگو! تمہارے پاس پرورد گار کی طرف سے ایک دلیل آچکی ہے ( یعنی محمد صلی الله علیہ وسلم )۔
٭... آپ کی صفات توراة وانجیل میں اس انداز سے بیان ہوئی تھیں جس کی بنا پر یہود ونصاریٰ کے علماء آپ کو اس طرح پہچانتے تھے، جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے ،فرمایا : ﴿الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاء ہُمْ﴾․ [سورة البقرہ:146] ”وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی تھی وہ اسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔“
٭... آپ کے عظیم اخلاق پر الله تعالیٰ نے گواہی دی ہے، فرمایا ﴿وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ﴾․  [سورة القلم:4] ” اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خُلق ہیں۔“
٭... الله تعالیٰ نے آپ کا تذکرہ بہت اونچا کر دیا فرمایا ﴿وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ﴾․ [سورة الم نشرح:4] ”اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا۔“
٭... الله تعالیٰ سارے انبیاء کے اس بات پر گواہ بنائیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوم کو الله تعالیٰ کا پیغام پورا پورا پہنچا دیا، فرمایا﴿ فَکَیْْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّةٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیْدا﴾․ [سورة النساء:41] ”پھر کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے گواہ بلائیں گے اور تمہیں ان پر گواہ کرکے لائیں گے۔“
٭... آپ کو روز قیامت میں مقام محمود عطا کیا جائے گا اور یہ مقام محمود سب سے اعلی مرتبہ ہے فرمایا :﴿ أَن یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوداً﴾․ [سورة بنی اسرائیل:79] ”قریب ہے کہ تیرا رب (یقینا) تجھ کو مقام محمود میں پہنچا دے گا۔“



قرآن مجید کے فضائل
اگر ہم قرآن سے پوچھیں کہ آپ کے فضائل کیا ہیں؟ تو وہ جواب میں کہے گا کہ میرے تو بہت سے فضائل ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
٭... مجھے رمضان المبارک کے مہینے میں نازل کیا ہے، فرمایا: ﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآن﴾․ [سورة البقرة:185] ”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔“
٭... مجھے شب قدر میں اتارا ہے فرمایا:﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَةِ الْقَدْرِ﴾․ ( القدر:1) ”بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے۔“
٭... مجھے عربی زبان میں نازل کیا ہے، فرمایا: ﴿إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ﴾․ [سورة یوسف:2] ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا۔“
٭...مجھے سارے لوگوں کی ہدایت کے لیے اتارا ہے ، فرمایا:﴿ہُدًی لِّلنَّاس﴾․ [سورة البقرہ:185] ”ہدایت ہے لوگوں کے واسطے۔“
٭...میں حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والا ہوں، فرمایا: ﴿وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ﴾․ [سورة البقرہ:185] ”اور یہ ( قرآن کی آیتیں) ہدایت کی روشن دلیلیں او رحق وباطل میں فرق کرنے والا ہے۔“
٭... میں خالص روشنی ہوں، فرمایا:﴿وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکُمْ نُوراً مُّبِیْنا﴾․ [سورة النساء:174] اور ہم نے تمہاری طرف ایک ظاہر روشنی اتاری ہے۔“


٭... میں نے سارے مسائل کی وضاحت کی ہے، فرمایا:﴿وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ﴾․[سورة النحل:89] اور ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے، نیز فرمایا :﴿وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِن کُلِّ مَثَلٍ فَأَبَی أَکْثَرُ النَّاسِ إِلاَّ کُفُوراً﴾․ [سورة بنی اسرائیل:89] ”اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر ایک قسم کی مثال کھول کر بیان کر دی ہے ۔“
٭... باطل میرے پاس نہیں آسکتا ،فرمایا: ﴿َإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ لَا یَأْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْْنِ یَدَیْْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ﴾․ [سورة حم سجدہ:42-41] ”تحقیق وہ عزت والی کتاب ہے، جس میں غیر واقعی بات نہ اس کے آگے سے آسکتی ہے او رنہ اس کے پیچھے کی طرف سے، یہحکیم، محمود، الله کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ۔“
٭... میں روحانی بیماریوں کے لیے علاج ہوں، فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ﴾․ [سورة یونس:57] ”اے لوگو! تمہارے رب سے نصیحت اور دلوں کے روگ کی شفا تمہارے پاس آئی ہے۔“
٭... میں تئیس سال کے عرصہ میں نازل ہوا ہوں، تاکہ لوگوں کے دلوں میں جانشین ہو جاؤں، فرمایا:﴿وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیْلا﴾․[سورة بنی اسرائیل:106] ”او رہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا ہے ،تاکہ تو مہلت کے ساتھ اسے لوگوں کو پڑھ کر سنائے اور ہم نے اسے آہستہ آہستہ اتارا ہے۔“
٭... میں ایسی مؤثر کتاب ہوں اگر پہاڑ پر بھی نازل کیا جاؤں تو وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، فرمایا:﴿لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَةِ اللَّہِ ﴾․[سورة الحشر:21] ”اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ اسے دیکھتے کہ الله کے خوف سے جھک کر پھٹ جاتا۔“
٭... میری حفاظت کی ذمہ داری الله جل جلالہ نے لی ہے، فرمایا:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾․[سورة الحجر:9] ”ہم نے یہ نصیحت اتاری، بے شک ہم اس کے نگہبان ہیں۔“
وصلی اللّٰہ علی سیدنا محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین․




اسلامی سوسائٹی میں حفاظ کرام کی امتیازی شان کو واضح کرنےکے لیے احادیث مبارکہ میں انہیں مختلف القابات سے نوازا گیا ، مثلاً:
(1)حَامِلِ ‌الْقُرْآنِ
[المصنف - ابن أبي شيبة (ت الشثري:31992) (ت الحوت:29998)]
(2)صَاحِبِ ‌الْقُرْآنِ
[صحيح البخاري:5031][صحيح مسلم:789]
(3)‌أَهْلُ ‌الْقُرْآنِ
[أبي داود الطيالسي:2238، ابن ماجه:215][أبي داود:1416، الترمذي:453]
(4)‌جَمَعَ ‌الْقُرْآنَ
[صحيح البخاري:3810، 4986 (الترمذي:2382، صحيح ابن خزيمة:2482)]
(5)حَافِظِ ‌الْقُرْآنِ
[صحيح مسلم:797-بَاب فَضِيلَةِ ‌حَافِظِ ‌الْقُرْآنِ]
(6)الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ
[صحيح مسلم:798]
اور مسلم شریف کی ایک روایت میں ’’عالم ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔





تلاوت آداب ومسائل


قرآن حکیم وہ زندہ وجاوید کتاب ہے ، جس کے فیوضات وبرکات، علوم ومعارف اور حکمتیں اور احکام تا قیامت جاری وساری رہیں گے۔ قرآن کریم سرچشمہٴ ہدایت ہے او رجس شخص نے بھی اسے غوروفکر توجہ وانہماک اور شوق ورغبت سے پڑھا ہے ، تو قرآن حکیم کی مقناطیسی کشش نے اسے اپنی طرف ایسا کھینچا ہے کہ وہ قرآن کریم کا ہو کر رہ گیا ہے ۔ قرآن دنیا کی وہ واحد ویکتا کتاب ہے جس کے باربار پڑھنے سے دل اکتا نہیں جاتا، بلکہ شوق ومحبت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

اس بابرکت کتاب سے کماحقہ استفادہ اور اس کے انوار وحکمت اور علوم ومعارف حاصل کرنے کا ایک اچھا طریقہ اس کی تلاوت کرنا بھی ہے، اگر اس کی تلاوت آداب ، احکام اور مسنون طریقہ پر کی جائے تو ان شاء الله العزیز اس شخص کی زندگی میں قرآن انقلاب بپا کر دے گا۔ ذیل میں اس کے کچھ آداب تحریر کیے جاتے ہیں ۔ الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے پہلے مسواک کرنا اس کے بعد مسنون طریقے پر وضو کرنا قرآن کریم کی تلاوت پاک، صاف ستھری جگہ پر کرنا۔ بہتر یہ ہے کہ مسجد شریف میں تلاوت کی جائے ۔ کیوں کہ یہ دنیا کی افضل جگہ ہے ۔ مسجد میں تلاوت کرنے سے پہلے نفلی اعتکاف کی نیت کرنا ۔ ( کیوں نفلی اعتکاف ایک پل ولمحہ کا بھی جائز ہے۔) بعض علماء کے نزدیک باتھ روم وغیرہ میں قرآن کریم کی (یاد سے) تلاوت کرنا مکروہ ہے۔ ( امام نووی: التبیان فی آداب حملة القرآن، باب فی آداب القران، ص:42-38 ملخصاً السیوطی الاتقان فی علوم القرآن، باب فی آداب تلاوتہ وتالیفہ:28-25/1 ملخصاً۔)

قرآن کی تلاوت کیسے کی جائے؟

قرآن کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے اخلاص نیت ہونا ضروی ہے۔ تلاوت کرتے وقت دل میں یہ خیال لانا کہ گویا میں الله تبارک وتعالیٰ سے مناجات کر رہا ہوں۔ تلاوت ایسی کی جائے گویاکہ تلاوت کرنے والا الله تبارک وتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے ۔ اگر اس میں یہ حال وکیفیت پیدا نہ ہو تو یہ تو ضرور سمجھے کہ الله تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت قبلہ رو ہو کر خشوع خضوع، وقار وادب واحترام کے ساتھ اپنا سرجھکا کر بیٹھنا چاہیے۔ پاک صاف ہو کر جسم کو خوشبو لگانا چاہیے۔ تلاوت کرتے وقت اپنے میسر شدہ کپڑوں میں سے بہتر اور صاف ستھرے کپڑے پہننا چاہیے۔ شروعات میں اعوذ بالله من الشیطن الرجیم اور بسم الله الرحمن الرحیم پڑھنا۔ تلاوت کرتے وقت بیچ میں کسی سے بھی کوئی گفتگو نہ کرنا، جب تک تلاوت پوری کرے ۔ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ ایسا کیا کرتے تھے۔تلاوت کرتے وقت ریح وغیرہ آئے تو اس کو بند کرکے نہ بیٹھے، بلکہ تلاوت بند کرکے ریح وغیرہ کو خارج پھر ازسرِ نو تازہ وضو کرکے تلاوت شروع کرنا چاہیے۔ تلاوت کرتے وقت ہنسی مذاق اور شور وغوغا سے مکمل طو پر اجتناب کرنا لازم ہے۔(11) ہاتھ سے ڈاڑھی یا دوسرے کسی عضو کو پکڑنا اور کھیلنا مکروہ ہے۔ (12) ہر اس چیز کی طرف نظر کرنا جس سے ذہن اور دل وہاں متوجہ ہوں ، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ (13) خصوصاً نامحرم عورت اور کمر عمر لڑکے کی طرف دیکھنے سے بچنا فرض ہے۔ (14) قرآن کریم یاد سے پڑھنا بغیر وضو کے جائز ہے، مگر افضل واعلیٰ وضو کے ساتھ پڑھنا ہے۔ (امام نووی، التبیان فی آداب حملة القرآن، باب المذکور سابقاً ،ص:51-50,43 الزرکشی، البرھان فی علوم القرآن، باب استحباب الاستیاک والتطہر للقرأن:464-459/1، السیوطی، الإتقان فی علوم القرآن:229-227/1)۔

مسئلہ: قرآن شریف سے دیکھ کر تلاوت کرنا زبانی تلاوت کرنے سے افضل ہے، کیوں کہ اس میں دو عبادتیں ہیں تلاوت قرآن کریم کو دیکھنا۔ اس لیے اس میں زبانی پڑھنے سے اجر وثواب بھی زیادہ ہے ۔ بہت سے صحابہٴ کرام قرآن شریف سے دیکھ کر تلاوت کیا کرتے تھے اور دن میں کم از کم ایک مرتبہ قرآن کریم کی زیارت نہ کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔ ( ایضاً التبیان ص:55 ،البرہان:461/1)

مسئلہ: قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت رونا چاہیے یا رونے کی کیفیت پیدا کرنی چاہیے ، یہ الله تعالیٰ کے نیک بندوں اور بزرگوں کی علامت ہے، جو کہ خود قرآن کریم کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے﴿ویخرون للاذقان یبکون ویزیدھم خشوعا﴾․ (الاسراء:109)” او رگر پڑتے ہیں اوپر ٹھوڑیوں کے روتے ہوئے اورزیادہ کرتا ہے ان کو عاجزی کرنا“۔

اور جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی فرمایا: ”اقرأوا القرآن، وابکو، فان لم تبکوا فتباکوا․“
”قرآن کی تلاوت کرتے وقت رونا۔ اگر رونا نہ آئے تو اپنا چہرہ رونے جیسا کرو ۔“

امام غزالی رحمہ الله نے فرمایا ہے کہ قرآن کی تلاوت کرتے وقت رونا مستحب ہے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دل کی اتاہ گہرائیوں اور مکمل توجہ کے ساتھ قرآن پڑھنا چاہیے، دل میں غم وحزن، درد وکرب لائے کہ قرآن کریم میں جہنم اور آگ کی جو وعیدیں ہیں ان پر سوچے اور پھر اپنے گناہوں کو یاد کرکے تضرع والحاح کے ساتھ الله تعالیٰ سے معافی مانگے اور رونے کی بھرپور کوشش کرے۔ اگر اس کے باوجود بھی کسی کو دکھ درد اور غم وحزن لاحق نہ ہو اور رونا نہ آئے تواپنے نہ رونے پر روئے کیوں کہ اس سے بڑھ کر او رکوئی نحوست وبدقسمتی ہو نہیں سکتی کہ دل اتنا سخت ہو جائے ۔ ان شاء الله تعالی اس طریقے پر تلاوت کرتے رہنے سے آج نہیں، تو کل ضرور الله تعالیٰ کی بے ا نتہا رحمت اسے اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔آپ تجربہ کرکے دیکھیں ایسا ضرور ہو گا۔

مسئلہ: قرآن کریم کی تلاوت بآوازِ بلند کرنا مستحب اور افضل ہے ۔ بشرطیکہ ریا کا خطرہ نہ ہو، کیوں کہ اس سے مندرجہ ذیل فوائد ہوں گے اس سے تلاوت کرنے والے شخص کا دل پاک صاف ہوکر چمک اٹھے گا۔ ( اور غافل دل جاگ اٹھے گا۔) اس کی مکمل توجہ قرآن کریم کی طرف ہو گی۔ اس کے کان او رآنکھیں بھی عبادت میں مصروف ہوں گے۔ نیند اور سستی جاتی رہے گی ۔ اس شخص سے سستی اور کاہلی جاتی رہے گی، چست و پھرتیلا ہو جائے گا۔ اس کے ارد گرد اگر کوئی غافل یا کاہل انسان ہو گا تو وہ بھی ہو شیار ہو جائے گا۔ علما نے لکھا ہے کہ ان چھ باتوں میں سے کوئی ایک نیت کرے تب بھی بآوازِ بلند پڑھنا افضل ہے۔ اگر یہ سب نیتیں کرے تو نور علی نور ہے اور اسے (ان سب نیتوں کا ) دوہرا اجر وثواب ملے گا۔

فائدہ: بآواز بلند پڑھنا اس وقت افضل ہے جب ریا، تکبر، عُجب اور دوسرے مفاسد کا خطرہ نہ ہو اور کسی دوسرے کی نماز یا عبادت وغیرہ میں خلل نہ پڑے یا کسی کی نیند وآرام خراب نہ ہو ۔ ان میں سے کسی بھی ایک کا خطرہ ہو تو آہستہ پڑھنا افضل ہے۔

مسئلہ: اپنی استطاعت کے مطابق قرآن کریم کو اچھی آواز میں پڑھنا مستحب ہے، جب کہ ترنم وغیرہ والے لہجے سے پرہیز کرنا لازم ہے ۔
(ایضاً البرھان للزرکشی :464-464/1، التبیان للنووی ص:60-58)

تلاوت کے حقوق

اس ضمن میں علامہ زر کشی نے اپنی مشہور ومعروف کتاب البرہان فی علوم القرآن میں عمدہ اور قیمتی بحث کی ہے ۔ اختصار کے ساتھ اسے یہاں درج کیا جاتا ہے۔

” جس شخص کو الله تعالیٰ نے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی دولت نصیب کی ہے تو دراصل الله تعالیٰ نے اسے بے مثل نعمت سے نوازا ہے، کیوں کہ قرآن کریم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے ۔ اورا سلام کا مدار قرآن کریم پر ہے۔ اس لیے اسے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے او رایسے کام کرنے چاہئیں کہ قرآن کریم اس کے لیے شفاعت کرے او ران لوگوں میں سے مت بنے جن پر قیامت کے دن قرآن کریم الله تعالیٰ کی عدالت میں مقدمہ دائر کرے۔ قرآن کریم کچھ کاموں کا مطالبہ کرتا ہے اور کچھ سے روکتا ہے۔ پہلی نافرمان اقوام کے اعمال بد اور ان کے عبرت ناک انجام وعذاب کا بیان کرہے، تاکہ مسلمان اسے پڑھ کر الله تعالیٰ کی نافرمانی اور عصیان سے بچیں، تاکہ اس عبرت ناک عذاب سے بچ جائیں۔ جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت یہ باتیں دل ودماغ میں محفوظ کرے گا تو ان شاء الله تعالیٰ وہ گناہوں سے رک جائے گا اور اسے عمل صالح کی توفیق نصیب ہو گی ۔

ان باتوں کے لیے سب سے بڑا معین ومدد گار ہے ”ترتیل“ یعنی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنا، یہ ترتیل ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ کم سے کم درجے کی ترتیل یہ ہے کہ پڑھتے وقت ایکحرف دوسرے حرف سے ممتاز جداکر ادا کیاجائے۔ ہر حرف اور ہر لفظ زبان میں سے صاف کرکے ادا کیا جائے۔ سانس لیتے وقت رکنا چاہیے او رپھر آگے بڑھے، اسی طرح ہر لفظ اپنے مخرج میں سے نکالے۔

رسول اللہ ﷺ کا انداز قرأت [صحيح البخاري:5046] میں ہے کہ حضرت انس ؓ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی قرأت کس طرح تھی۔ فرمایا کہ ہر کھڑے لفظ کو آپ لمبا کر کے پڑھتے تھے پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سنائی بسم اللہ پر مد کیا الرحمن پر مد کیا الرحیم پر مد کیا۔
[مسند احمد:26526-26564، سنن الترمذي:2923، سنن النسائي:1022-1629، صحیح ابن خزیمہ:1158، الطبراني:646 اور مستدرک حاکم:1165] میں حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرأت الگ الگ ہوتی تھی جیسے بسم اللہ الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر الحمد للہ رب العالمین پھر ٹھہر کر الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر ملک یوم الدین۔ دار قطنی اسے صحیح بتاتے ہیں۔

قرآن پڑھتے وقت الفاظ کے معنی کی طرف غور وفکر کرنا چاہیے۔ ہر آیت کے معنی ومطلب اچھی طرح ذہن نشین کرے، جب تک ایک آیت کریمہ کے معنی ومقصد سمجھ میں نہ آئے تب تک دوسری آیت شروع نہ کی جائے ۔ رحمت والی آیت کی تلاوت کی جائے تو وہاں وقف کیا جائے او رالله تعالیٰ کی رحمت پر خوشی اور بشاشت کا اظہار کیا جائے۔ اور الله تعالیٰ سے اس کی رحمت کے طفیل جنت کا سوال کیا جائے ۔ جس آیت میں عذاب کا ذکر ہو تو وہاں بھی وقف کرکے اس کے معنی ومقصد پر غور کیا جائے۔ اگر یہ آیت کریمہ کافروں کے بارے میں تو اپنے ایمان کا اقرارا واعتراف کیا جائے اور ”آمنا بالله وحدہ“ پڑھے۔ پھر الله تعالیٰ سے جہنم کی آگ سے پناہ لی جائے۔

جس آیت میں ” یا ایھا الذین آمنوا“ ہو تو وہاں رک کر”لبیک ربی وسجدیک“ پڑھنا چاہیے۔ بہرحال ان الفاظ کے بعد آنے والی بات پر غور وفکر کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی حکم کیا ہو او رپڑھنے والے کو اس حکم کی بابت کوتاہی اور سستی واقع ہوئی ہو تو فوری طور پر الله تعالیٰ سے اس گناہ کی بخشش ومعافی مانگی جائے، ( استغفار کرے) اور توبہ تائب ہوجائے۔ مثال کے طور پر یہ آیت ہے : ﴿یا ایھا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم ناراً﴾․ (التحریم:6)

اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ“ ہر ایک مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے بال بچوں کو نماز روزہ کے احکام، غلاظتوں سے پاکی حاصل کرنا۔ عورتوں کو حیض ونفاس وغیرہ سے طہارت کے مسائل سمجھانا لازم ہے۔ اپنی یہ منصبی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیے۔ اسی طرح چھوٹی اولاد کی دینی تعلیم وتربیت پر بھی توجہ مرکوز ہو۔

اسی طرح ﴿یا ایھا الذین آمنوا توبوا الی الله توبة نصوحاً﴾ (التحریم:5) ” اے ایمان والو! الله تعالیٰ کے ہاں سچی توبہ کرو“ پڑھی جائے تو اپنے سب گناہوں، غلطیوں اور سیئات پر نظر دوڑائے ۔ اگر گناہ حقوق العباد کے قبیل سے ہیں تو جس کا جو بھی حق ہے اسے ادا کرنا چاہیے اور اگر حقوق الله کے گناہ ہیں تو رو رو کر اپنے الرحیم الراحمین رب سے اپنے گناہوں کی معافی وبخشش لے، جب اس طریقے سے قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو ان شاء الله تعالیٰ قرآن کریم کا حق ادا ہو جائے گا ۔ اور الله تعالیٰ اس بندہ کو اپنا فرماں بردار سمجھے گا۔

اگر کسی آیت میں کوئی حکم کیا ہوا ہے تو دل ہی دل میں اس کام کے کرنے اور فرماں برداری کرنے کا پکا ارادہ کر لے ۔ اور اگر کسی کام سے ممانعت ہے تو اس کام کو چھوڑنے اور گناہوں سے اجتناب کرنے کا عزم صمیم کر لے۔ اگر کسی عذاب یا سزا کا بیان ہے تو اپنے دل میں جھانکے، اگر اس میں الله تعالیٰ کے خوف کا حصہ زیادہ ہے تو اسے الله تعالیٰ کی رحمت میں امید دلائے ۔ او راگر اس میں امید کا حصہ زیادہ ہے تو اسے الله تعالیٰ کا خوف دلائے، تاکہ خوف وامید دونوں معتدل ہوں، جو کہ کامل ایمان ہے۔

علماء نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والوں کی تین اقسام ہیں:

جو قرآن کریم کے الفاظ کے معنی ومطلب الله تعالیٰ کی گفتگو میں نظر عمیق کرے، اس کا مفہوم ومقصد اچھی طرح سمجھے، پھر اپنے رب کو تضرع والحاح کے ساتھ پکارے، آہ وزاری کرے، یہ عارف بالله کا درجہ ہے ۔ اس لیے ابو عبدالله القرشی نے فرمایا ہے : ” اگر قلوب گناہوں سے پاک وصاف ہوں، تو وہ قرآن کریم کی تلاوت سے کبھی بھی سیراب نہیں ہوں گے۔“

جو شخص دل کے حضور سے قرآن کریم میں غوطہ زنی کرتا ہے ، وہ یہ سمجھتا ہے کہ گویا الله تبارک وتعالیٰ اپنے لطف وکرم سے اس سے بات چیت کر رہا ہے، اس لیے الله کے انعامات واحسانات کے شکریے کے طور پر اسے عجز وانکساری کی تصویر بن کر پکاررہا ہے، اس درجے کا تقاضا حیاء، تعظیم (الله تعالیٰ کی طرف) توجہ کرنا ہے ۔ یہ درجہ الله تعالیٰ کے مقرب بندوں کو حاصل ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " دَرَجُ ‌الْجَنَّةِ ‌عَلَى ‌قَدْرِ ‌آيَاتِ ‌الْقُرْآنِ، بِكُلِّ آيَةٍ دَرَجَةٌ، فَبِكُلِّ سِتَّةٍ أَلْفٌ وَمِائَتَا آيَةٍ وَسِتَّ عَشْرَةَ، بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ. قَالَ: فَيَنْتَهِي الْقَارِئُ بِهِ إِلَى أَعْلَى عِلِّيِّينَ، لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ رُكْنٍ، كُلُّ رُكْنٍ يَاقُوتَةٌ تُضِيءُ مَسِيرَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَ، وَيُصَبُّ عَلَيْهِ حُلَّةُ الْكَرَامَةِ، فَلَوْلَا أَنَّهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا بِرَحْمَةِ اللَّهِ لَأَذْهَبَ تَلَأْلُؤُهَا بِبَصَرِهِ
ترجمہ:
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے درجات قرآن کی آیات کے مطابق ہے، ہر آیت کے ساتھ ایک درجہ، لہٰذا ہر چھ ہزار دو سو آیات اور سولہ کے لیے، ہر دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان کا فاصلہ ہے۔ فرمایا: لہٰذا قاری کی انتہا اس کے سبب اعلیٰ علیین کی تک ہوگی۔ اس کے ستر ہزار گوشے ہوں گے، ہر ایک گوشہ یاقوت کا ہوگا جو دن اور راتوں کو روشن کرتا ہے، اور اس پر عزت ووقار کا لباس انڈیلتا ہے۔ لہٰذا اگر وہ اللہ کی رحمت سے اس کی طرف نظر نہ کرتا تو اس کی چمک دمک سے اسکی روشنی چلی جاتی۔
[الترغيب في فضائل الأعمال-لابن شاهين:206]

حضوری مقام، بندہ( دل کی آنکھوں سے ) دیکھتا ہے گویا کہ وہ اپنے رب سے باتیں کر رہا ہے، اس لیے اسے تلاوت قرآن کریم کے وقت دوسری کسی بھی چیز کی خبر تک نہیں ہوتی۔ دنیا کی ساری چیزوں سے بے نیاز ہو کر قرآن کریم میں مستغرق ہو جاتا ہے، یہ درجہ اصحاب الیمین کو حاصل ہے۔



قرآن کا مطالبہ 

عارفین او رمتقین کے نزد یک قرآن کریم کی ہر آیت میں دس باتیں ہوا کرتی ہیں، جن کو پورا کرنا چاہیے۔

ایمان رب تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا توبہ کرنا صبر رب تبارک وتعالی کی رضا کو ڈھونڈنا الله تعالیٰ کا خوف الله تعالیٰ کی رحمت میں امیدشکر الله تعالیٰ کی محبت الله تعالیٰ پر توکل کرنا۔“ ( علامہ الزرکشی: البرہان فی علوم القرآن:453-449/1)

صفائی قلب کا علاج

حضرت ابراہیم خواص رحمہ الله نے فرمایا: ” دل کی بیماریوں کی دوا اور علاج مندرجہ ذیل پانچ اشیاء ہیں:

معنی ومقصد میں غوروفکر سے قرآن کریم کی تلاوت کرنا پیٹ کو خالی رکھنا ( بالکل تھوڑا کھانا پینا) رات کو عبادت کرنا سحر کے وقت الله تعالیٰ کو تضرع والحاح کے ساتھ پکارنا الله کے نیک بندوں کی صحبت میں بیٹھنا ۔“ ( علامہ نووی: التبیان فی آداب القرآن، ص:46)
تلاوت قرآن کے افضل اوقات

امام نووی رحمہ الله تحریر فرماتے ہیں کہ ” قرآن کریم پڑھنے کا سب سے افضل اور اچھا طریقہ ( نفلی) نماز میں پڑھنا ہے، نوافل کے سوا باقی افضل اوقات مندرجہ ذیل ہیں:

سحر کے وقت غروب آفتاب سے لے کر نصف شب تک کسی بھی وقت مغرب وعشاء کے درمیان نماز فجر کے بعد جمعة المبارک، پیر اور جمعرات کے دن نو ذوالحجہ رمضان المبارک کا سارا مہینہ اور عشروں میں سے ماہِ رمضان کا آخری عشرہ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ۔ ( امام نووی، التبیان فی آداب حملة القرآن ص:91)۔

تلاوت کے مکروہ اوقات

رکوع، سجدہ اور تشہد کی حالت میں نماز میں قیام کے علاوہ باقی اور سب حالات میں بیت الخلاء میں نیند کے غلبے کے وقت خطبہ جمعہ سننے کے وقت کعبة الله شریف کا طواف کرتے وقت غسل خانہ ( حمام) میں منھ میں خون وغیرہ کی نجاست ہونے کے وقت ۔

مخصوص آیات کے مخصوص احکام

جب ﴿وقالت الیھود عزیر بن الله وقالت النصاری المسیح ابن الله﴾ (التوبہ) ﴿وقالت الیھود ید الله مغلولة﴾ ․ (البقرة) ﴿وقالوا اتخذ الرحمن ولدا﴾ ( مریم) اور اسی قسم کی دوسری آیات کی تلاوت کی جائے تو اپنی آواز کو پست کرنا چاہیے او راپنے اوپر خشیت وخوف کی حالت طاری کرنا چاہیے۔ ﴿ان الله وملائکتہ یصلون علی النبی ﴾․ ( الاحزاب) پڑھے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر درود شریف پڑھا جائے۔والتین والزیتون والی سورة میں ﴿الیس الله باحکم الحاکمین﴾ پر پہنچے تو ﴿بلیٰ وانا علی ذلک من الشاھدین﴾ کہے سورة القیامة کی آخری آیت ﴿الیس الله بقا درعلیٰ ان یحییٰ الموتیٰ﴾ پر پہنچے تو ”بلیٰ“ کہنا چاہیے سورة الرحمن میں ﴿فبای آلاء ربکما تکذبٰن﴾ یا والمرسلات میں ﴿فبای حدیث بعدہ یؤمنون﴾ پر پہنچ کر ”آمنت بالله“ کہنا مستحب ہے۔ سورة الاعلیٰ کی پہلی آیت:﴿سبح اسم ربک الاعلیٰ﴾ پڑھے تو تین مرتبہ ﴿سبحان ربی الاعلیٰ‘﴾کہے۔ سورة الاسراء کی آخری آیت تلاوت کرنے کے بعد﴿الحمد لله الذی لم یتخذ ولدا﴾ پڑھنا چاہیے۔ سورة والضحیٰ سے لے کر والناس تک ہر سورت کے آخر میں ”الله اکبر“ کہنا مستحب ہے سورة والناس پوری کرنے کے بعد الله اکبر الحمد لله صدق الله اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر درود شریف اور دعا مانگنا مستحب ہے۔ سورة الفاتحة پوری کرنے کے بعد آمین کہنا۔

قرآن کریم کا ختم کتنے دنوں میں کرنا چاہیے؟

اس سوال کا جواب ہر شخص کے اپنے حالات پر ہے۔ کیوں کہ بعض انسان کمزور وناتواں ہیں تو بعض طاقت ور ، بعض ہوشیار وذہین تو بعض غبی وکند ذہن، بعض غوروفکر کرنے والے تو بعض غافل۔ بعض پھر تیلے اور چست تو بعض کاہل او رسست اس لیے شریعت مطہرہ نے قرآن کریم کے ختم کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے ۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اگر حکومتی ذمہ داریوں یا پڑھنے پڑھانے یا کسی دوسری دینی ذمہ داری سے فارغ ہے تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے کثرت تلاوت کرنا چاہیے۔ باقی مندرجہ بالا ذمہ داریوں والے افراد کو اتنی تلاوت کرنی جس سے ان کو اپنی مفوضہ ذمہ داریاں نبھانے میں خلل وکارٹ نہ پڑے۔ عام حالات میں سلف صالحین سے مختلف طریقے نقل کیے گئے ہیں۔ کچھ ایک ماہ میں، کچھ ہفتے میں، کچھ ایک دن میں اور کچھ تو دن کو ایک ختم اور رات کو ایک ختم کرتے تھے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله نے فرمایا ہے : ” جس شخص نے غوروفکر سے ایک سال میں قرآن کریم کے دو ختم کیے، اس نے قرآن کریم کا حق ادا کر دیا، کیوں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات والے برس جبرئیل علیہ السلام نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دو مرتبہ قرآن کریم سنایا تھا۔


قرآن کریم کا ختم پورا کرنا

قرآن کریم کا ختم دن کے پہلے حصے میں مثال کے طور پر صبح کے وقت پورا کرنا مستحب ہے یا اگر رات کو پورا کرتا ہے تو رات کے پہلے حصے میں پورا کرنا چاہیے۔ ختم پورا کرنے والے دن نفلی روزہ رکھنا مستحب ہے، بشرطیکہ روزہ رکھنے کے مکروہ دن نہ ہوں۔ ختم پورا کرنے والے کی دعا میں شامل ہونا چاہیے۔ ختم پورا کرنے کے وقت دعا مانگنا نہایت تاکید کے ساتھ مستحب ہے ۔ کیوں کہ وہ دعا شرفِ قبولیت سے نوازی جاتی ہے۔ حمیدا عرج نے کہا ہے کہ جس شخص نے قرآن کریم پڑھا، پھر دعا مانگی تو اس کی دعا پر چار ہزار فرشتے آمین کہتے ہیں۔ دعا نہایت خشوع خضوع اور الحاح کے ساتھ ہونی چاہیے ختم پورا کرتے وقت یہ دعا مانگنا مستحب ہے: ﴿اللھم رحمنی بالقرآن العظیم، واجعلہ لي إماما ونوراً وھدی ورحمة، أللھم ذکرنی منہ ما نسیت، وعلمني منہ ما جھلت، وارزقني تلاوتہ آنا للیل وآناء النھار، واجعلہ لي حجة یا رب العالمین﴾․ ختم پورا کرنے اور دعا مانگنے کے بعد، پھر شروع سے الحمد شریف اور﴿ الم ذلک الکتاب﴾ سے ﴿ھم المفلحون﴾ تک پڑھنا مستحب ہے ،کیوں حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس عمل کو سب سے اچھا اور افضل عمل قرار دیا ہے ۔ الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو قرآن کریم کی مندرجہ بالا طریقے پر تلاوت کرنے اور اپنی مرضیات کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین



کتاب پر ایمان رکھنے والے کون؟
الله کی کتاب کے پڑھنے کا "حق" ادا کرنے والے۔
[سورۃ البقرۃ:121]

*قرآن کو پڑھنے کا "حق" کیا ہے؟*
(1)قرآن میں تدبر (انجام پر غور وفکر) کرنا۔
[سورۃ النساء:82، المؤمنون:68، محمد:24]
قرآن کو سُن کر۔
[سورۃ الزمر:18، الملک:10]
(اور ہمیشہ)پڑھ پڑھ کر(بھی غور کرتے رہتے ہیں).
[فاطر:29]

(خصوصاً)تہجد نماز میں
[المزمل:20]
فجر نماز میں
[الاسراء:78]
رات کے اوقات میں
[آل عمران:113]
پڑھتے ہوئے رونا۔
[الاسراء:109، مریم:58]

*روزانہ کتنا پڑھنا چاہئے؟*
(کم از کم)ہر مہینہ میں (پورا) قرآن پڑھو۔۔۔۔۔۔(زیادہ ہوسکے تو) ہر 20 دنوں میں(پورا) قرآن پڑھ لیا کرو۔۔۔۔(مزید ہوسکے تو)10 دن میں قرآن پڑھو۔(مزید ہوسکے تو) ہر ہفتہ قرآن پڑھا کرو۔۔۔۔اور زیادہ نہ کرنا۔۔۔۔کیونکہ تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے، تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے،اور تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے۔۔۔
[صحیح مسلم:2730(1159)] [تفسير البغوي:2287،سورة.المزمل:20]
*اس نے قرآن "سمجھا" ہی نہیں جس نے 3 دن سے کم مدت میں ختم کر ڈالا۔*
[سنن الترمذی:2949]
رمضان کے مہینہ میں حضرت جبرئیل پیغمبر اکرم ﷺ کے ساتھ 2 مرتبہ (پورے) قرآن کا دورہ کیا۔
[صحیح البخاري:4998، سنن ابن ماجہ:1769]
حضرت ابن مسعود کے ساتھ بھی
[المعجم الكبير للطبراني:10473، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:525]
https://youtu.be/tAGUdH8jUkw

(2) *اور جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے "سننا" اور "خاموش" رہنا۔*
[الاعراف:204]
یعنی فرض نماز میں، امام کے پیچھے۔
[تفسیر ابن ابی حاتم:8726- 8728، تفسير الطبري:15581- 15582، تفسير عبد الرزاق:977- 978]

*(3) بغیر وضو قرآن کو نہ چُھونا۔*
القرآن:
نہیں چُھوتے اس(قرآن)کو مگر (مکمل)طہارت والے۔
[الواقعہ:79]
الحدیث:۔۔۔اور نہ چُھوئے قرآن کو سوائے (مکمل) طہارت کے۔۔۔
[صحیح ابن حبان:6559، سنن الدارمي:2266، سنن الدارقطني:433، موطأ محمد:294، المستدرك الحاكم:6051]

*(4)قرآن کو ترتیل سے پڑھنا۔*
[المزمل:4]
اور ترتیل سے پڑھوانا۔
[الفرقان:32]
یعنی
ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا
[الاسراء:106]
قرآن کو پڑھنے میں جلدی نہ کرنا۔
[طٰهٰ:114]
ترتیل یعنی خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔۔۔زبر زیر پیش مد شد کی ہر کیفیت/صفت کا لحاظ رکھتے ہوئے، ہر حرف کو عمدگی کے ساتھ آواز کے فرق کو واضح کرکے عربی لہجہ سے پڑھنا۔
https://youtu.be/aC7vhs8RcZc

*(5)جب بھی قرآن پڑھنا شروع کیا جائے تو (پہلے) الله کی پناہ مانگے شیطان مردود سے۔*
[النحل:98]


(6)بسم الله۔۔۔سے پڑھنا۔
[العلق:1، (الاعراف:54، یونس:3)]


(7)قرآن کو یاد رکھنا۔۔۔پوری امت پر، پورا قرآن یاد کھنا فرض کفایہ ہے۔۔۔اور ہر مسلمان پر، کچھ حصہ یاد رکھنا لازم ہے تاکہ نمازوں میں وہ پڑھا جاسکے۔ بہتر ہے کہ جن چھوٹی بڑی سورتوں کی فضیلت پیغمبر نے فرمائیں۔۔۔یا پیغمبر ﷺ نماز میں پڑھا کرتے تھے۔
القرآن:-
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ قرآن ایسی نشانیوں کا مجموعہ ہے جو ان لوگوں کے سینوں میں بالکل واضح ہیں جنہیں علم عطا کیا گیا ہے...
[سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 49]
یقین رکھو کہ اس کو یاد کرانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے۔
[سورۃ نمبر 75 القيامة، آیت نمبر 17]
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:  جس کے سینے میں کچھ بھی قرآن نہیں ہے، وہ ویران و اجڑے گھر کی مانند ہے۔
[احمد:1947، دارمی:3349، ترمذی:2913، حاکم:2037، بغوی:1185]

قرآن میں سے کیا حفظ(یاد) کرنا مستحب/پسندیدہ ہے؟
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے سورۃ الکهف کی پہلی دس آیات یاد کرلیں وہ فتنہ دجال سے بچالیا گیا۔‘‘
[صحیح مسلم:257،(809)، المستدرک الحاکم:3391]
دوسری روایات میں ہے:
’’جس نے سورۃ الکهف کی آخری(دس) آیات یاد کیں۔۔۔الکھف کے آخر سے۔‘‘
[سنن أبي داود:4323]
حضرت علی سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں یاد رکھیں گے منافقین:- سورۃ ھود، سورۃ برات ، سورۃ یسین ، سورۃ دخان اور سورۃ عم یتساءلون کو۔
[المعجم الأوسط-الطبراني:7570]
حضرت عائشہ ؓ سے سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے قرآن کی ابتدائی سات سورتیں سیکھ لیں وہ عالم ہے۔
[أحمد:24443،24531، حاکم:2070، الصحيحة:2305]
یعنی سورۃ البقرۃ ، آل عمران ، النساء، المائدہ ، الانعام ، الاعراف اور يونس.
[مسند إسحاق بن راهويه:858]
حضرت ابن عباس ؓ نے رسول اللہ  ﷺ  کے زمانہ میں (تب میں دس سالہ لڑکا تھا) سب محکم (مفصل) سورتیں یاد کرلی تھیں۔
[بخاری: 5036(5035)]



*(8)قرآنی نصیحت پر عمل کرنا۔*
[الرعد:19، طٰہٰ:2-3، فاطر:37، ص:29، المزمل:19، المدثر:54، الانسان:29]


(9)پیغامِ الٰہی کو دوسروں تک پہنچانا۔۔۔تبلیغ کرنا۔
*اور نہیں ہے ہمارے ذمہ مگر پہنچادینا واضح۔*
[یس:17]
*۔۔۔پہنچاؤ میری طرف سے اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔۔۔*
[بخاری:3461]

(الف)مشرکین کو الله کا کلام سنانے تک انہیں پناہ دینا، پھر انہیں انکی امن والی جگہ پہنچا دینا۔
[التوبہ:6]
(کیونکہ) *دین (کو تسلیم کرنے) میں "زبردستی" نہیں۔*
[البقرۃ:256]

(ب)قرآن کیلئے خود کو مشقت میں نہ ڈالنا۔۔۔یعنی نصیحت کرنے میں۔۔۔ان لوگوں پر جو ڈرتے نہیں۔۔۔اور ڈرنے والوں کو قرآن سے نصیحت کرتے رہیں۔
[طٰهٰ:2-3](النمل:92، ق:45)





قرآن مجید کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں


عظمت قرآن بہ زبان قرآن :- قرآن کریم کا تعارف جتنا عمدہ خود قرآن سے ہوسکتا ہے اور اس کی عظمت شناسی خود اس کے ذریعے جتنے بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے ، کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوسکتی کیوں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ،آئیے ذرا قدرے تفصیل سے اس بات کا جائزہ لیں کہ قرآن کریم بذاتِ خود اپنا تعارف کس انداز سے پیش کرتا ہے ۔ چنانچہ سورہٴ ھود میں خود باری تعالی فرماتے ہیں : ”المرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ آیٰتُہ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْر“(المرٰ) (یہ) وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم ہیں ، پھر تفصیل سے بیان کی گئی ہیں ، بڑے حکمت والے ،بہت خبر رکھنے والے (اللہ) کی طرف سے ۔(۱)
سورة الشعراء میں قرآن کا تعارف یوں رقم ہے ”وَاِنَّہ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ العالمین o نَزَلَ بِہ الرُّوْحُ الأمِیْنُ o عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ o بِلِسَانٍ عربیٍ مبین o ( اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ (قرآن ) پروردگار عالم کا نازل فرمایا ہوا ہے، اسے امانت دار فرشتے نے (اے محمد ) تمہارے دل پر اتارا ہے تاکہ (تم لوگوں کو عذابِ آخرت) سے خبردار کرنے والے بنو، صاف ستھری عربی زبان میں) ۔(۲)
مندرجہ بالا آیت کے ضمن میں الشیخ محمود بن احمد الدوسری رقم طراز ہیں : ” اللہ جل جلالہ نے قرآن کریم نازل فرمانے کی نسبت اپنی طرف صرف اسی آیت میں نہیں کی؛ بلکہ پچاس یا اس سے بھی زیادہ آیتوں میں کی ہے․․․․․اور یہ اللہ کا کلام ہے، کلام کرنے والے کا حسنِ کمال، کلام کی سچائی کی دلیل ہوتا ہے ، اس طرح اس کی عظمت و رفعت کی شان بھی واضح ہوتی ہے؛ کیوں کہ اسے نازل فرمانے والا بڑی عظمتوں والا ہے، مزید برآں قرآن کے شرف اس کی قدر ومنزلت اور عظمت ہی کی وجہ سے امت مسلمہ کی شان بلند ہوتی ہے “ (۳)۔
سورہٴ یوسف میں قرآن اپنا تعارف یوں پیش کرتا ہے : ”مَا کَانَ حَدِیْثاً یُفْتَریٰ وَلکن تَصْدِیْقَ الذیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کلِّ شَیْءٍ وَہُدَیً وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُوٴمِنُون o“(۴)
ایسے ہی سورہٴ یوسف میں ایک جگہ اور ہے ، ”نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ أَحْسَنَ القَصَصِ بِمَا أوْحَیْنَا الَیْکَ ہَذا القُرْآنَ وَانْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہ لَمِنَ الغٰفلین“ (اور ہم بیان کرتے ہیں تیرے پاس بہت اچھا بیان اس واسطے کہ بھیجاہم نے تیری طرف یہ قرآن اور تو تھا اس سے پہلے البتہ بے خبروں میں )(۵) اور سورہٴ مائدہ میں ہے قَدْ جَآئَکُمْ مِنَ اللّٰہِ نُورٌ وَّ کِتَابٌ مبینo(۶)
سورہٴ فرقان میں ذکر ہے ”تَبَارَکَ الذی نَزَّلَ الفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہ لِیَکُوْنَ للعالَمِیْن نَذِیْراً“o(۷)
سورہ بنی اسرائیل میں اس کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے ”انَّ ہٰذا القرآنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أقْوَمُ“( بلا شبہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے )(۸)
اسی طرح سورئہ یونس میں قرآن مجید کو رحمتِ خدا وندی سے موسوم کیا گیا ہے ، جیسا کہ مذکور ہے ، ”قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُواط ہُوَخَیْرٌ مِمّا یَجْمَعُونo یہ صرف اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ یہ نعمت تمہیں نصیب ہوئی ، پس یہ وہ چیز ہے، جس پر لوگوں کو چاہیے کہ خوشیاں منائیں ، جتنی بھی چیزیں دنیا میں لوگ سمیٹتے ہیں، قرآن کی نعمت ، ان سب سے زیادہ بہتر اور قیمتی ہے (۹)
 رمضان کا مکمل مہینہ قرآن مجید کی نعمت سے منسوب کردیا گیا ، چنانچہ ارشاد ربّانی ہے ”شَہْرُ رَمَضَانَ الذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ القُرْآنَ“۔ محترم خرم مراد صاحب مرحوم اس کی دل نشیں تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”قرآن مجید سے زیادہ بڑی کوئی نعمت ایسی نہیں ہے ، جو خوشی و مسرت اور جشن کی مستحق ہو ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہماری خوشی کے سب سے بڑے دن کو قرآن مجید کے ساتھ وابستہ کردیا ہے “۔ (۱۰)
قرآن کریم کی عظمت و جامعیت کو سورئہ مائدةمیں بڑے ہی بلیغ پیرایے میں بیان کیا گیا ہے، جس کو سن کر ایک یہودی نے امیرالمومنین حضرت عمر  سے کہا تھا کہ تمہاری کتاب میں ایک آیت ایسی نازل ہوئی ہے ، اگر یہ آیت ہمارے یہاں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن یوم عید اور جشن کا دن بنالیتے ، اس پر حضرت عمر  نے اس سے اس آیت کے متعلق دریافت فرمایا، وہ کون سی آیت ہے؟ اس یہودی نے جواب دیا سورئہ مائدة کی درج ذیل آیت:- ” اَلْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاسْلاَمَ دِیْناً“ (آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کیا)۔
مولانا امین احسن اصلاحی  قرآن کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ”قرآن مجید کو ایک اعلیٰ اور بر تر کلام مان کر اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، اگر دل میں قرآن مجید کی عظمت و اہمیت نہ ہو تو آدمی اس کے حقائق و معارف کے دریافت کرنے پر محنت صرف نہیں کر سکتا“۔ (۱۱)
اے کاش! آج امت مسلمہ کو اس کا احساس ہوجاتا کہ قرآن مجید کی شکل میں روئے زمین پر سب سے بڑی نعمت جو اس کو ودیعت کی گئی ہے، یہی کتاب عظیم ہے ۔
 ع       اے کاش کہ ہوجاتی قرآن سے شناسائی
عظمتِ قرآن بہ زبان صاحب قرآن :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں تو قرآن کے فضائل اور اس کی اہمیت کو مختلف پیرایے میں بیان کیا ہے ، یہاں پر اس سلسلے میں چند احادیث مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔
”کِتَابُ اللّٰہِ ہُوَ حَبْلُ اللّٰہِ المَمْدُوْدِ مِنَ السَّمَاءِ الٰی الأرْضِ“(۱۲)
اسی طرح سے ایک دوسرے موقع پر آپ … کا ارشاد ہے، قرآن کی تلاوت اور اس کا مذاکرہ نزول سکینت ، رحمت کا باعث بنتا ہے ۔
”مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ یَتَدَارَسُوْنَ بَیْنَہُمْ الاَّ نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِیْنَةُ وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْہُمْ المَلائکةُ وَذَکَرَہُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہ“۔(۱۳)
حضرت علی  کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی جاتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس امت کے لیے سب سے عمدہ دو ا قرآن مجید ہے ۔ ”عَنْ عَلِیٍ قال: قالَ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خَیْرُالدَّواءِ القُرْآنُ ۔“
آج ا س امت کی مثال اس پیاسے کی سی ہوگئی ہے، جس کے پڑوس میں میٹھا چشمہ بہہ رہا ہو؛ مگر وہ اس چشمے سے سیراب ہونے کے بجائے گندے پانی سے اپنا پیٹ بھرنا چاہتا ہے ۔
اس موقع پر پیارے نبی کی اس وصیت کو ہمہ وقت یا درکھنے کی ضرورت ہے ”اِسْمَعُوا منّی تَعَیَّشُوا“ (میری باتیں غور سے سنو ، یہ باتیں غور و خوض سے سنوگے تو پھلتے پھولتے رہوگے )اور اسی موقع پر آپ نے بڑی دل سوزی سے فرمایا تھا ”تَرَکْتُ فِیْکُمْ أمْرَیْنِ مَا انْ تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا لَنْ تَضلّوا کتابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِی“ (۱۴) وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جو ان ارشادات پر کان دھرتے ہیں اور قرآن مجیدکی خدمت میں اپنی زندگیاں قربان کر رہے ہیں، وہ اس بشارت میں شامل ہیں۔ ”خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہ“ (تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے )۔
نعمت ِ قرآن اورتعمیرِ سیرت:- قرآن مجید میں کلام الٰہی کو نعمت کے طور پرکئی جگہ بیان کیا گیاہے ۔
مثلاً -”فَذَکِّرْ فَمَا أنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَلاَ مَجْنُون“
اور سورة القلم میں یوں ذکر کیا گیا ۔ ”مَا أنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْن“ o۔
قرآن مجید جیسی بیش بہا کتاب ہدایت اس امت کو عطا کی گئی تو اس کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے۔ شکر کے معنی یہاں پر یہ ہے کہ قرآن مجید کے حقوق ادا کئے جائیں ۔
 قرآن کریم کے بنیادی حقوق درج ذیل ہیں :
۱۔ قرآن پر ایمان لانا ۲۔ قرآن کا پڑھنا ۳۔ قرآن کا سمجھنا ۴۔ قرآن پر عمل کرنا ۵۔ قرآن کی تبلیغ کرنا ۔
زوال امت کا اصل سبب و اصلاح معاشرہ :- اگر تاریخ سے سوال پوچھا جائے کہ قرآن مجید جیسی عظیم نعمت کے ہوتے ہوئے یہ امت کیوں رو بہ زوال ہے ؟ تو تاریخ ہمیں اس کا جواب دے گی کہ”انَّ اللّٰہَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنْفُسِہِمْ“۔ ”اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب کہ وہ خود( اپنے ارادے و اختیار سے )اپنے حالات و نفسیات نہ بدل لیں “۔
شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی  نے مالٹا کی تنہائیوں میں جو غور و خوض کرکے اس بیمار ملت کے لیے دوا تجویز کی تھی اے کاش اس ملت نے اگر اس نصیحت پر عمل کیا ہوتا تو شاید آج حالات اتنے ناگفتہ بہ نہ ہوتے ، مفتی محمدشفیع عثمانی صاحب اس سلسلے میں شیخ الہند کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیو ں میں اس پر غور کیا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ، ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا اور دوسرا ان کے آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی ، اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کردوں گا کہ قرآن کریم کو لفظاً و معناعام کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے “(۱۵) آگے مفتی محمد شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں ” ․․․․ حضرت نے جو باتیں فرمائیں ہیں، اصل میں وہ دو نہیں ایک ہی ہے ․․․․اس لیے ہمارے اختلاف میں شدت اس وجہ سے ہوئی کہ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا اس لیے کہ قرآن مرکز تھا اور جب وہ اس مرکز سے دور ہوتے چلے گئے تو ایک دوسرے سے بھی دور ہوتے چلے گئے“ ۔ (۱۶)
یہ بالکل سادہ سی بات ہے واقعی اگر قرآن پر کسی درجہ میں عمل کیا جاتا تو یہ خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی ۔آج سے چند سال پہلے مسلم محلوں سے گزرنے والا یہ لازماً محسوس کرلیتاتھا کہ یہ مسلم محلہ ہے اور اس علاقے اور محلے میں قرآن کی برکت سے الگ ہی قسم کی رونق ہوا کرتی تھی ۔ ” آج سے تیس چالیس سال پہلے مسلمانوں کے محلوں میں گذرتے ہوئے ہر گھر سے قرآن پڑھنے کی آواز تو آتی تھی یہ الگ بات ہے کہ لوگ اسے ٹھیک سے سمجھتے نہیں تھے، لیکن تلاوت تو بہرحال ہوتی تھی ، اب تو تلاوت بھی نہیں ہوتی ، غور و فکر اور تدبر کا تو سوال ہی نہیں ، کون سیکھے اور کون پڑھے ؟ عربی سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ ہو تو ہم سیکھیں ، ہم انگریزی پڑھیں گے اور ایسی پڑھیں گے کہ انگریزوں کو پڑھادیں؛ لیکن عربی سیکھنے کے لیے کوئی بھی وقت نکالنے کے لیے تیار نہیں ۔
خلاصہ بحث
یوں تو آج پوری دنیا کے مسلمان ظلم و جور کی چکی میں پس رہے ہیں اور زبان حال سے یہ فریاد الٰہی کر رہے ہیں :
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
اس فریاد سے پہلے ہمیں خود بحیثیت ملت یہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس طرح کے ناگفتہ بہ حالات ہماراساتھ کیوں نہیں چھوڑ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ رب العزت کی سنت تو یہ رہی ہے۔ ”وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہْلِکَ القُریٰ بِظُلْمٍ وَأہْلُہَا مُصْلِحُون“o (القرآن)
اس آیت کی روشنی میں ہمارا محاسبہ ہمارے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کر ے گا کہ قرآن کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اس طرح کے حالات ہمارا مقدر بن چکے ہیں ،لہٰذا سچے دل سے ہمیں پھر قرآن کے دامن میں پناہ ڈھونڈنی چاہیے ۔ اس کے بغیر اور کوئی علاج کارگر نہیں ہوسکتا ، امام مالک  جیسے بیدار مغز محدث و فقیہ نے اس بیمار ملت کا علاج یہی قرار دیا تھا ۔
”لَنْ یَصْلَہَ ہَذِہ الأمَّةُ الاَّ بِمَا صَلُحَ بِہ أوَّلُہا“
”ان حالات میں اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن حکیم کی طرف رجوع کیا جائے، ہماری تقدیر اس وقت تک نہیں بدلے گی، اور ہم عزت وسربلندی حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ اس قرآن کا حق ادا نہیں کریں گے،ہمارے عروج و بلندی کے لیے اگر کوئی زینہ ہے تو قرآن ہے، ہماری قسمت اسی کتاب کے ساتھ وابستہ ہے ، اگر کوئی راستہ کھلے گا تو اسی کے ذریعے کھلے گا۔“(۱۷)
مراجع:
۱۔       سورہ ھود آیت نمبر۱
۲۔        سورة الشعراء آیت نمبر ۱۹۲ تا ۱۹۵
۳۔       ماہنامہ شمس الاسلام ، بھیرہ (پاکستان)قرآن نمبر ص ۱۱ جلد ۸۶ ش ۸۔۷(جولائی اگست ۲۰۱۱ء)
۴۔       سورہٴ یوسف آیت نمبر ۱۱۱
۵۔        سورہ یوسف آیت نمبر ۳
۶۔       سورة المائدة آیت نمبر ۱۵
۷۔       سورة الفرقان آیت نمبر ۱
۸۔       سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۹
۹۔        سورہ یونس آیت نمبر ۵۸
۱۰۔      قرآن کا پیغام از خرم مراد مرحوم صاحب ص۳۰،اسلامک بک فاوٴنڈیشن دہلی
۱۱۔       مبادی تدبر قرآن ، از مولانا امین احسن اصلاحی ص ۱۷، فاران فاوٴنڈیشن لاہور
۱۲۔      سنن الترمذی حدیث نمبر ۳۷۸۸
۱۳۔     سنن ابی داوٴد حدیث نمبر ۱۴۵۵
۱۴۔     خطبہٴ حجة الوداع ، مشکوٰة ص ۱۹ ، دیوبند سہارن پور
۱۵۔        وحدتِ امت از مفتی شفیع صاحب مرحوم ص ۴۰۔ ۳۹
۱۶۔       ایضاً ص ۴۱
۱۷۔      عظمت قرآن ص ۲۵
***





                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                              

تدوینِ قرآن مجید ایک تحقیقی جائزہ



                ”قرآن مجید“ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، جو آخری نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے، قیامت تک کوئی اور کتاب نازل نہ ہوگی، یہ زندگی کا وہی دستورِ کہن ہے جو ہمارے آبائے اولین کو ملا تھا، اس میں اصولاً اسی کا اعادہ اور عہد کی تجدید ہے، یہ خدائی عطیہ، ہمارا مشترکہ روحانی ترکہ ہے، جو منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے، اسے دوسری آسمانی کتابوں کا آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہا جا سکتا ہے۔ ابتدائے نزول سے آج تک بلا کسی ادنیٰ تغیر و تبدل کے باقی ہے، اس میں سرِ مو کوئی فرق نہیں آیا، ایک لمحہ کے لیے نہ تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ مسلمان قرآن سے جدا ہوئے، اس میں باطل کے در آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے: ”لاَ یَأتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنَ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہ “(حم سجدہ)
                (ترجمہ:) قرآن مجید میں باطل نہ تو سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔
                آسمانی کتابوں میں قرآن مجید ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ قیامت تک اپنی اصل حالت پر رہے گا، خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، ایک جگہ بڑے ذور دار انداز میں ارشاد فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ (حجر ۹)
                (ترجمہ:) ہم نے ہی ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
                صرف الفاظ نہیں؛ بلکہ معانی و مطالب کی تشریح و توضیح کی ذمہ داری بھی خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے: ”ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ“ (ترجمہ) پھر ہم پر ہی اس کا بیان (بھی) ہے۔
                قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا، کبھی ایک آیت کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں، نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی، یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا؛ اس لیے آپ ﷺ کے سامنے آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل؛ بلکہ ناممکن تھا، ہاں! یہ بات ضرور ہے کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوا لیتے تھے اور زمانہ کے لحاظ سے نہایت ہی پائدار چیز پر لکھواتے تھے؛ چناں چہ پورا قرآن مجید بلا کسی کم و کاست کے لکھا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہٴ مبارکہ میں موجود تھا، اس میں نہ تو کوئی آیت لکھنے سے رہ گئی تھی اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی؛ البتہ سب سورتیں الگ الگ تھیں، اور متعدد چیزوں پر لکھی ہوئی تھیں، کتابی شکل میں جلد سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی:
            قد کان القرآنُ کُلُّہ مکتوباً فی عَہْدِہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لکن غیرَ مجموعٍ في مَوضِعٍ واحدٍ۔ (الکتابي ج ۲ص ۳۸۴ بحوالہ تدوینِ قرآن ص ۴۳)
                (ترجمہ:) پورا قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا ہوا تھا؛ لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا۔
                حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کتابی شکل میں جمع کرایا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کی محقق نقلیں تیار کرکے ہر طرف پھیلایا؛ بلکہ پوری امت کو اس پر جمع کیا۔ آج تک قرآن مجید اسی کے مطابق موجود ہے۔
حفاظتِ قرآن مجید کے طریقے
                ابتدائے نزول سے قرآن مجید کی حفاظت جس طر ”لکھ کر“ ہوئی ہے، اس سے کہیں زیادہ ”حفظ“ کے ذریعہ ہوئی ہے، سینہ بہ سینہ حفظ کی خصوصیت صرف اسی آخری کتابِ الٰہی کو نصیب ہوئی، تو رات، انجیل اور دوسری آسمانی کتابوں اور صحیفوں کی حفاظت صرف سفینہ میں ہوئی، اس لیے وہ تغیر و تبدل اور دوسرے حوادث کا شکار ہو گئیں، قرآن مجید کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے، ارشاد فرمایا:
            و مُنَزِّلٌ علیکَ کتاباً لا یغسِلْہ الماء۔ (صحیح مسلم)
                (ترجمہ:) میں آپ پر ایسی کتاب نازل کرنے والا ہوں جس کو پانی نہیں دھو سکے گا۔
                غرض یہ کہ قرآن کی حفاظت شروع شروع میں سب سے زیادہ حافظہ کے ذریعہ ہوئی اور حفاظت کا سب سے اہم ذریعہ یہی ہے، اسی وجہ سے آج تک یہ کتاب مقدس اپنی اصل حالت پر باقی ہے، صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے خداداد بے نظیرحافظے کو جاہلیت کے اشعار، انسابِ عرب حتی کے اونٹوں اور گھوڑوں کی نسلوں کے حفظ سے ہٹا کر، آیاتِ الٰہی کے حفظ پر لگادیا، عرب کے ضرب المثل حافظے نے چند ہی دنوں میں ہزاروں حفّاظِ آیاتِ الٰہی کو معرضِ شہود میں لا کھڑا کر دیا، حفّاظ کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ: صرف ”جنگ ِیمامہ“ میں شہید ہونے والے حافظوں کی تعداد سات سو تھی، بخاری شریف کے حاشیہ میں ہے: وکان عِدَّةٌ مِن القُرّاء سَبْعَ مائة (۲/۷۴۵)۔
                سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل علیہ السلام جب قرآن مجید پڑھ کر سناتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی دہرانے لگے تھے؛ تاکہ خوب پختہ ہو جائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: لا تُحَرِّک بہ لِسانَک لِتَعْجَلَ بہ، انّ علینا جَمْعَہ و قُرآنَہ۔ (قیامہ۱۷)  (ترجمہ:) آپ قرآن مجید کو جلدی جلدی یاد کرلینے کی غرض سے، اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے، (اس لیے کہ) قرآن مجید کو جمع کرنے اور اس کو پڑھوانے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے۔
کتابت کا اہتمام
                زبانی یاد کرنے اور کرانے کے ساتھ ہی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات کی حفاظت کے لیے کتابت (لکھانے) کا بھی خوب اہتمام فرمایا، نزول کے ساتھ ہی بلا تاخیر آیات قلم بند کرا دیتے تھے:
            فکان اذا نَزَلَ علیہ الشئیُ دَعَا بَعْضَ مَنْ کان یَکْتُُبُ فیقولُ: ضعوا ہٰذا في السُّورة التي یذکر فیہا کذا و کذا۔ (مختصر کنزص ۴۸ بحوالہ تدوین قرآن ص۲۷)۔
                (ترجمہ:) چناں چہ رسول اللہ ﷺ پر جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی، تو (بلاتاخیر) جو لکھنا جانتے تھے، ان میں سے کسی کو بلاتے اور ارشاد فرماتے کہ: اس آیت کو اس سورت میں لکھو جس میں فلاں فلاں آیتیں ہیں۔
                اور مجمع الزوائد میں یہاں تک ہے: کان جبریلُ علیہ السلام یُملي علی النبيّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (۷/۱۵۷) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل قرآن مجید لکھواتے تھے۔
                مسند احمد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشاد فرمایا: آتاني جبریلُ فأمَرَني۔(کنز العمال ۲/۴۰) یعنی حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر مجھے (فلاں آیت کو فلاں جگہ رکھنے کا) حکم دیا۔
                غرض یہ کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم آیات لکھانے کا بھی خوب اہتمام فرماتے تھے، اور لکھانے کے بعد سن بھی لیتے تھے، اگر کوئی فرو گذاشت ہوتی تو اس کی اصلاح فرما دیتے تھے: فإن کان فیہ سَقَطٌ أقَامہ۔(مجمع الزوائد ۱/۶۰) پھر یہ لکھی ہوئی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس محفوظ فرما لیتے تھے۔
                صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر لکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے، اس طرح بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھائی ہوئی آیات موجود تھیں، بعض کے پاس پورا پورا قرآن مجید لکھا ہوا تھا۔
سامانِ کتابت
                نزولِ قرآن مجید کے زمانہ میں ایجادات و مصنوعات کی کمی ضرور تھی، جس طرح آج کاغذ، قلم اور دوات کی بے شمار قسمیں دریافت ہیں، اس زمانہ میں اتنی ہرگز نہ تھیں؛ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس وقت کاغذ اور کتابیں دریافت نہ تھیں، یمن، روم اور فارس میں کتب خانے بھی تھے، یہود و نصاریٰ کے پاس کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا، اس زمانے میں ”کاغذ“ وغیرہ کی صنعتیں بھی تھیں؛ لیکن بڑے پیمانے پر نہ ہونے کی وجہ سے کاغذ وغیرہ ہر جگہ دریافت نہ تھے؛ اس لیے لکھنے کے لیے جو چیز بھی قابل اور پائدار سمجھ میں آتی اس پر لکھ لیا جاتا تھا۔ (التبیان فی علوم القرآن ص۴۹)
                قرآن مجید کی کتابت کے لیے بھی اس وقت کی ایسی پائدار چیزیں استعمال کی گئیں، جن میں حوادث وآفات کے مقابلے کی صلاحیت نسبتاً زیادہ تھی؛ تاکہ مدتِ دراز تک محفوظ رکھا جا سکے۔ (تدوین قرآن ص ۳۱)حافظ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق کتابتِ قرآن میں درج ذیل چیزیں استعمال کی گئیں:
                (الف) زیادہ تر پتھروں کی چوڑی اور پتلی سلوں (لِخاف) کو استعمال کیا گیا، اِسے ہم سلیٹ کہہ سکتے ہیں۔
                (ب) اونٹوں کے مونڈھوں کی چوڑی گول ہڈیوں (کَتِف) پر بھی لکھا گیا، مونڈھوں کی ہڈیوں کو نہایت اچھی طرح گول تراش کر تیار کیا جاتا تھا۔
                (ج) چمڑوں کے کافی باریک پارچوں (رِقاع) پر بھی قرآن مجید لکھا جاتا تھا، یہ ٹکڑے نہایت باریک ہوتے تھے، اور لکھنے کے لیے ہی تیار کیے جاتے تھے، گوشت خور ملک میں اس کی بڑی افراط تھی۔
                (د) بانس کے ٹکڑوں پر بھی آیات لکھی جاتی تھیں۔
                (ھ) درخت کے چوڑے اور صاف پتے بھی کتابت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
                (و) کھجور کی شاخوں کی چوڑی جڑوں (عسیب) اور کھجور کے جڑے ہوے پتوں کو کھول کر ان کی اندرون جانب بھی آیات کی کتابت ہوتی تھی۔
                (ز) محدثین نے کاغذ پر بھی کتابتِ قرآن کا ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری ۹/۱۷)
سورتوں اور آیتوں کی ترتیب
                پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن مجید میں سورتوں اور آیتوں کی ترتیب توقیفی ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پورا قرآن مجیدمرتب طور پر لکھوایا، آج بھی اسی ترتیب سے قرآن مجید لکھا اور پڑھا جا رہا ہے، اور قیامت تک اسی طرح رہے گا۔
                پورا قرآن مجید بائیس سال، پانچ ماہ، چودہ دن میں نازل ہوا (مناہل العرفان ص۴۳)، حسبِ ضرورت کبھی ایک آیت، کبھی چند آیتیں اور کبھی پوری سورہ کی شکل میں آیات نازل ہوتی رہیں، اور ساتھ ہی یہ بھی حکم ہوتا کہ اس کو فلاں سور ہ کے فلاں مقام پر رکھ دیجیے؛ چناں چہ کاتبینِ وحی کو بلا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ضَعواہا في مَوضع کذا (التبیان في علوم القرآن ص۴۹، فتح الباری ۹/۲۷)(ترجمہ:) اس کو فلاں مقام پر لکھو!
عہدِ نبوی میں قرآن مجید کے نسخے
                جیسا کہ اوپر گذرا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ وحی کے ساتھ ہی آیات لکھوا لیا کرتے تھے، اور لکھانے کے ساتھ سن بھی لیتے تھے، پھر اسے اپنے پاس محفوظ فرما لیتے تھے، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پورا قرآن مجید لکھی ہوئی شکل میں بھی موجود تھا؛ لیکن ایک جلد میں مجلد نہ تھا، مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا۔
                صحابہٴ کرام میں جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ،وہ خدمت ِنبوی میں پہنچ کر آیات لکھ لیتے تھے، جب کسی سورت میں آیت کا اضافہ ہوتا تو معلوم کرکے مرتب فرما لیتے تھے، اس طرح بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدقہ نسخہٴ قرآن موجود تھا، بعض کے پاس پورا قرآن بھی تھا اور بعض کے پاس چند سورتیں اور چند آیتیں تھیں، لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل ابتداء سے کثرت سے جاری تھی، اس کی شہادت درج ذیل روایتوں سے ملتی ہے:
                (۱) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے والی روایت میں ہے کہ: ان کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہما ان سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے، وہ حضرت خباب بن الارث سے قرآن پڑھ رہے تھے، جب حضرت عمر نہایت غضب ناک حالت میں ان کے پاس پہنچے تو ان کے سامنے ایک صحیفہ تھا جس کو انہوں نے چھپا دیا تھا، اس میں سورہ طہ کی آیات لکھی ہوئی تھیں۔ (سنن دار قطنی۱/ ۱۲۳ باب نہی المحدث عن مس القرآن، دار نشر لاہور)
                (۲) امام بخاری علیہ الرحمہ نے ”کتاب الجہاد“ میں ا یک روایت نقل کی ہے، جس میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصاحف (لکھا ہوا قرآن مجید) لے کر دشمنوں کی زمین میں جانے سے منع فرما دیا تھا۔ (صحیح بخاری ۱/۴۱۹)
                (۳)حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مشورہ سے جب قرآن مجید کے اجماعی نسخہ کی کتابت کا وقت آیا تو اس وقت حضرت زید بن ثابت کو پابند کیا گیا تھا کہ: جو کوئی بھی لکھی ہوئی آیت لے کر آئے ،اس سے دو گواہوں کی گواہی اس بات پر لیجیے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے ؛چناں چہ اس پر عمل ہوا (الاتقان ۱/۷۷)
                مذکورہ بالا تینوں روایتوں اور ان کے علاوہ بہت سی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس آیات لکھی ہوئی تھیں؛ بلکہ بعض کے پاس پورا قرآن مجید بھی لکھی ہوئی شکل میں موجود تھا۔
عہد صدیقی میں تدوینِ قرآن مجید
                ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: أعظمُ النّاسِ في المصاحب أجراً أبوبکرٍ، رحمہُ اللّٰہ علی أبي بکر، ہو أوّلُ مَنْ جَمَعَ کتابَ اللّٰہ۔ (الاتقان في علوم القرآن ۱/۷۶)
                (ترجمہ:) قرآن مجید کی خدمت کے سلسلے میں سب سے زیادہ اجر و ثواب کے مستحق ابوبکرصدیق ہیں، اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائیں کہ وہ اولین شخصیت ہیں، جنہوں نے، جمعِ قرآن کا (مایہ ناز) کارنامہ انجام دیا۔
                سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا، سارے اجزا الگ الگ تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی تمام سورتوں کوا یک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر ایک ہی جلد میں مجلد کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا؛ چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو گیا جس کو سارے صحابہٴ کرام کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی۔
                حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی خدمت کو حکومت کی طرف سے انجام دینے کا مطالبہ کر رہے تھے، وہ چاہتے تھے کہ خلافت و حکومت اس مہم کو اپنے ہاتھ میں لے اور اپنی نگرانی میں اس کو مکمل کرائے؛ تاکہ قرآن مجید ضائع ہونے سے بچ جائے اور بعد میں کتاب اللہ میں اختلاف پیدا نہ ہو۔
                حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت امام بخاری علیہ الرحمہ نے نقل فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ:
                ”جنگ یمامہ“ کے فوراً بعد صدیق اکبر نے میرے پاس بلاوا بھیجا، میں ان کے پاس پہنچا تو وہاں حضرت عمر فاروق بھی موجود تھے، حضرت ابوبکر مجھ سے مخاطب ہوئے کہ: عمر نے ابھی آکر مجھ سے کہا کہ: جنگ ِیمامہ میں حفاظِ کرام کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی ہے، اگر آئندہ لڑائیوں میں بھی اسی طرح حفاظ شہید ہوتے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآن کریم کا بڑا حصہ ناپید نہ ہو جائے!
                لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دے دیں، میں نے کہا کہ: جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے، وہ ہم کیسے کریں؟ عمر نے جواب دیا کہ: بہ خدا! یہ کام بہتر ہے، اس کے بعد عمر بار بار مجھ سے یہ کہتے رہے ؛یہاں تک کہ مجھے بھی اس پر شرحِ صدر ہو گیا، اور اب میری رائے بھی وہی ہے جو عمر کی ہے!
                اِنَّکَ رجلٌ شابٌّ عاقلٌ، لا نَتَّہِمُکَ، وقد کُنْتَ کتبتَ الوحيَ لرسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فَتَتَبَّعِ القرآنَ فاجمعْہُ۔(ترجمہ:) واقعہ یہ ہے کہ تم نوجوان، سمجھ دار آدمی ہو، ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں ہے، اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتابتِ وحی کی خدمت بھی کر چکے ہو؛ اس لیے تم قرآن کریم کو تلاش کرکے جمع کرو!
                حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: خدا کی قسم! اگر یہ حضرات مجھے پہاڑ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو مجھے اتنا مشکل نہ ہوتا، جتنا جمعِ قرآن کا بار ہوا، میں نے کہا بھی کہ: آپ حضرات ایسا کام کیوں کر رہے ہیں ،جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا؟ اس پر حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ: خدا کی قسم یہ کام بہتر ہے، اور حضرت ابوبکر بار بار یہی دہراتے رہے؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا، جس کام کے لیے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو شرحِ صدر عطا فرمایا تھا؛چنانچہ میں نے کھجور کی شاخوں، پتھر کی باریک تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن مجید تلاش کرکے جمع کرنا شروع کر دیا؛ یہاں تک کہ توبہ کی آیت ؛لقد جاء کم رسولٌ مِنْ انفسِکم اخیر سورہ تک“ میں نے صرف حضرت ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پائی، ان کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں پایا، ان کی تنہا شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمی کی شہادت کے قائم مقام قرار دیاتھا (صحیح بخاری ۲/ ۷۴۵، ۷۴۶)
جمعِ قرآن میں حضرت زید بن ثابت کا طریقہٴ کار
                حضرت ابوبکر و عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سب حافظِ قرآن تھے ،ان کے علاوہ بھی صحابہٴ کرام میں حفاظ کی کمی نہیں تھی، اگر حضرت زید چاہتے تو اپنے حافظہ سے پورا قرآن مجید لکھ دیتے، یا حافظ صحابہٴ کرام کو اکٹھا کرکے محض ان کے حافظے کی مدد سے بھی قرآن مجید لکھا جا سکتا تھا، اسی طرح محض رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کی لکھی ہوئی آیتوں سے بھی قرآن مجید لکھا جا سکتا تھا؛ لیکن حضرت ابوبکر نے بیک وقت سارے وسائل کو برروئے کار لانے کا حکم فرمایا، خود بھی شریک رہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت زید کے ساتھ لگایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا کہ:
                جن لوگوں نے جو کچھ بھی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھی ہو، وہ سب لے کر آئیں! (فتح الباری۹/۱۷) چناں چہ جب کوئی لکھی ہوئی آیت آتی تو بلا چوں و چرا قبول نہ کی جاتی تھی؛ بلکہ اس پر دو گواہی طلب کی جاتی تھی:
            وکان لا یَقْبَلُ مِنْ أحدٍ شےئاً حتی یَشْہَدَ شَاہِدَان۔ (الاتقان ۱/۷۷)
                (ترجمہ:) اور کسی سے بھی کوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ اس پر دو گواہ گواہی نہ دے دیتے (کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی، یعنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کی تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ واقعتا آیتِ الٰہی ہے )۔
                جمع قرآن میں درج ذیل باتیں بھی پیشِ نظر رکھی گئیں:
                ۱  سب سے پہلے حضرت زید اپنی یاد داشت سے اس کی تصدیق فرماتے تھے۔
                ۲  حضرت ابوبکر نے حضرت زید اور حضرت عمر دونوں حضرات کو حکم دیا تھا کہ: ”آپ دونوں حضرات مسجدِ نبوی کے دروازے پر بیٹھ جاےئے، پھر جو کوئی آپ دونوں کے پاس کتاب اللہ کی کوئی آیت دو گواہوں کے ساتھ لے کر آئے ،اس کو آپ دونوں لکھ لیجیے! (فتح الباری ۹/۱۷، الاتقان ۱/۷۷)
                رسول اللہ ﷺ کے سامنے کتابت ہونے پر گواہیاں لی جانے کی کیا وجہ تھی؟ اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں:) کانَ غزضُہم أن لا یُکْتَبَ الاّ منْ عَیْنِ ما کُتِبَ بین یَدَي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا مِنْ مْجَرَّدِ الحِفظ۔( فتح الباری ۹/۱۷، الاتقان ۱/۷۷)
                 (ترجمہ:) ان کا مقصد یہ تھا کہ: صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عین سامنے لکھی گئی آیتوں کو ہی لکھا جائے، محض حافظہ سے نہ لکھا جائے۔
                حافظ ابن حجر نے ہی ایک دوسری وجہ بھی لکھی ہے کہ: گواہیاں اس بات پر بھی لی جاتی تھیں کہ: دو گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ لکھی ہوئی آیت ان وجوہ (سبعہ) کے مطابق ہے جن پر قرآن مجید نازل ہوا ہے (فتح الباری ۹/ ۱۷، الاتقان۱/۷۷)
                ۳  لکھنے کے بعد صحابہٴ کرام کے پاس موجود لکھے ہوئے مجموعوں سے ملایا جاتا؛ تاکہ یہ مجموعہ متفقہ طور پر قابلِ اعتماد ہو جائے، (البرہان في علوم القرآن للزرکشی ۱/۲۳۸)
                جب اجتماعی تصدیق کے ساتھ ”قرآن مجید“ کی جمع و تدوین کا کام مکمل ہو گیا، تو صحابہٴ کرام نے آپس میں مشورہ کیا کہ: اس کو کیا نام دیا جائے؟ چناں چہ بعض صحابہٴ کرام نے اس کا نام ”سِفْر“ رکھا؛لیکن یہ نام یہودیوں کی مشابہت کی وجہ سے پاس نہیں ہوا، اخیر میں ” مصحف“ نام پر سارے صحابہٴ کرام کا اتفاق ہو گیا۔ (الاتقان ۱/۷۷)
                قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر کے پاس ان کی وفات تک رہا، پھر حضرت عمر کے پاس رہا، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ رکھاگیا، جیسا کہ بخاری شریف کے حوالے سے گذر چکا ہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس سے ہی منگوا کر نقول تیار کرائے تھے۔
نسخہٴ صدیق کی خصوصیت
                دوسرے صحابہٴ کرام کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حضرت ابوبکر صدیق والا اجماعی نسخہ تھا، ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے، اسی وجہ سے صحابہٴ کرام کے درمیان اُسے ”اُم“ کہا جاتا تھا،اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
                ۱ ہر سورت کو الگ الگ لکھا گیا تھا؛ لیکن ترتیب بعینہ وہی تھی، جو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی (فتح الباری ۹/۲۲)
                ۲ اس نسخہ میں ساتوں حروف جمع تھے، جن پر قرآن مجید کا نزول ہوا۔ (مناہل العرفان ۱/۲۴۶، ۲۴۷)
                ۳یہ نسخہ خط ”حِیَرِی“ میں لکھا گیا تھا۔ (تاریخ القرآن از مولانا عبد الصمد صارم# ص ۴۳)
                ۴اس میں صرف وہ آیات لکھی گئی تھیں، جن کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی۔
                ۵اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو جائے؛ تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے (علوم القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی ص۱۸۶)
                ۶اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر، ایک ہی جلد میں مجلد کرایا گیا تھا، اور یہ کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا، جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا تھا، (تدوین قرآن ص۴۰)
            وکان القرآنُ فیہا مُنْتَشِراً فَجَمَعَہا جامعٌ و رَبَطَہَا بخیطٍ۔ (الاتقان ۱/۸۳)
                (ترجمہ:) اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں قرآن مجید کی مکمل یاد داشتوں کا جو ذخیرہ تھا) اس میں (قرآنی سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں؛ پس اس کو (حضرت ابوبکر کے حکم سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت) نے ایک جگہ (ساری سورتوں کو) جمع کر دیا، اور ایک دھاگا سے سب کی شیرازہ بندی کر دی۔
                قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، جب ان وفات ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو (وصیت کے مطابق) آپ کی بیٹی ام الموٴمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رکھا رہا (صحیح بخاری ۲/۷۴۶)
عہدِ عثمانی میں امت کی شیرازہ بندی
                 جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ جمعِ قرآن ہے، اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ پوری امت کو قرآن مجید کے اس متفق علیہ نسخہ پر جمع کرنا ہے جو ”عہدِ صدیقی“ میں تیار کیا گیا تھا، اس طرح امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھرنے سے انہوں نے بچا لیا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
                بالکل ابتداء میں مضمون و معنی کی حفاظت کرتے ہوئے الفاظ میں ادنی تبدیلی کے ساتھ پڑھنے کی اجازت بھی دی گئی تھی، (مناہل العرفان) جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا، تو جن لوگوں نے مذکوہ بالا رعایتوں کی بنیاد پر اپنے اپنے قبائلی اور انفرادی لہجوں یا مختلف متواتر تلفظ کے لحاظ سے قرآن مجید کے مختلف نسخے لکھے تھے، انکے درمیان شدید اختلاف رونما ہو گیا؛ حتی کہ ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی، تو صحابہٴ کرام کے مشورے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ متفق علیہ نسخہ پر امت کو جمع کیا، اور اس کے علاوہ سارے نسخوں کو طلب کرکے نذرِ آتش کر دیا؛ تاکہ ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“؛ چنانچہ اختلاف جڑ سے ختم ہو گیا (تفصیل کے لے دیکھئے: تدوینِ قرآن ۴۴، ۵۴، تحفة الالمعی ۷/۹۴،۹۵، مناہل العرفان وغیرہ)
کام کی نوعیت
                حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تیار کردہ نسخہ یہ کہہ کر منگوایا کہ ہم اس سے نقل تیار کرکے اصل آپ کو واپس کر دیں گے، چناں چہ حضرت حفصہ نے وہ نسخہ بھیج دیا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تین قریشی اور چوتھے انصاری صحابی کو پانچ یا سات نسخے لکھنے کا حکم فرمایا، قریشی صحابی میں، حضرت عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنہم تھے اور انصاری صحابی سے مراد حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں۔
                ان سب کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ آپ حضرات کا اگر کسی جگہ رسم الخط میں حضرت زید سے اختلاف ہو تو اس لفظ کو قریش کے رسم الخط کے مطابق لکھیں؛ اس لیے کہ قرآن مجید قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے (فتح الباری ۹/۲۲)۔
                معتبر روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ: پورے قرآن مجید کے کسی لفظ میں بھی ان لوگوں کااختلاف نہیں ہوا، ہاں! سورہٴ بقرہ میں ایک لفظ ”التابوت“ ہے، اس کے بارے میں حضرت زید کی رائے گول ”ة“ سے لکھنے کی تھی، اور حضرت سعید بن العاص، لمبی ”ت“ سے لکھنا چاہتے تھے، جب یہ بات حضرت عثمان غنی کے پاس پہنچی تو آپ نے لمبی ”ت“ سے لکھنے کا حکم فرمایا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: سیر أعلام النبلاء مع حاشیہ ۲/۴۴۱،۴۴۲)۔
                واضح رہے کہ مذکورہ بالا چار حضرات ”مجلس کتابت“ کے اساسی رکن تھے، ان کے علاوہ دوسرے حضرات کو بھی ان کے ساتھ کیا گیا تھا، فتح الباری میں ہے کہ حضرت عثمان نے قریش اور انصار کے بارہ افراد کو اس کے لیے جمع فرمایا تھا، ان میں مذکورہ چاروں حضرات کے علاوہ اُبی بن کعب، مالک بن ابی عامر، کثیر بن افلح، انس بن مالک اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ (فتح الباری ۹/۲۳)۔
عہد عثمانی میں تیار کردہ نسخوں کی خصوصیات
                ۱حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جو نسخہ تیار ہوا تھا، اس میں ساری سورتیں الگ الگ لکھی گئی تھیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام سورتوں کو اسی ترتیب سے یکے بعد دیگرے ایک ہی مصحف میں لکھوایا۔ (فتح الباری ۹/۲۲)۔
                ۲قرآن مجید ایسے رسم الخط میں لکھا گیا کہ ممکن حد تک متواتر قرأتیں سما جائیں۔ (مناہل العرفان ۱/۲۵۳)
                ۳حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جن حضرات کو نسخہٴ قرآن تیار کرنے کے لیے مامور فرمایا تھا، ان حضرات نے اسی نسخہ کو بنیاد بنایا تھا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تیار کیا گیا تھا، اسی کے ساتھ مزید احتیاط کے لیے وہی طریقہ اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اختیار کیا گیا تھا؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی متفرق تحریریں جو مختلف صحابہٴ کرام کے پاس محفوظ تھیں، انھیں دوبارہ طلب کیا گیا اور ان کے ساتھ از سرنو مقابلہ کر کے یہ نسخے تیار کیے گئے۔ (علوم القرآن ص۱۹۱)
عہدِ عثمانی میں تیار کردہ نسخوں کی تعداد
                اس سلسلے میں دو اقوال ہیں، ایک قول یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پانچ نسخے تیار کرائے تھے، یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ (فتح الباری ۹/۲۴)اور دوسرا اقوال یہ ہے کہ حضرت عثمان نے سات نسخے تیار کرائے تھے، ایک نسخہ مدینہ منورہ میں رکھا گیا، اور بقیہ مکہ، شام، یمن، بحرین، بصرہ ور کوفہ میں ایک ایک کرکے بھیج دیا گیا، یہ قول ابن ابی داؤد سے ابو حاتم سجستانی نے نقل کیا ہے۔ (فتح الباری۹/۲۵)۔
امت میں پائے جانے والے دیگر مصاحف
                حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کے پاس موجود سارے نسخوں کو نذرِ آتش کرنے کا حکم نافذ فرما دیا (فتح الباری ۹/۱۳) تاکہ امتِ مسلمہ ایک رسم الخط پر متفق ہوجائے اور امت کی شیرازہ بندی باقی رہے۔
                اس وقت موجود بلا استثناء سارے صحابہٴ کرام نے حضرت عثمان کے اس کارنامے کی تائید و حمایت کی اور خوب خوب سراہا۔
عہد صدیقی والا نسخہ
                 حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ام الموٴمنین حضرت حفصہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والا نسخہ واپسی کے وعدے سے منگوایا تھا (فتح الباری ۹/۱۹) ؛اس لیے اس سے نقلیں تیار کرکے حسبِ وعدہ واپس فرما دیا۔ (فتح الباری۱۳۹)۔







قرآن فہمی اور ہمارے درمیان حائل پردے


روایات میں آتا ہے کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن کی ایک آیت سیکھتے، اس کو سمجھتے اس آیت میں بیان کردہ حکم کے مطابق اپنی زندگی ڈھا ل لیتے تھے۔ صحابہٴ کرام نے قرآن مجید میں تدبر کیا،اس کے معانی ومقصود کو سمجھا ،ا س کے مطابق عملی زندگی اختیار کی تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قومیں جو باہمی انتشار وخلفشار کا شکار تھیں ، جو چھوٹی چھوٹی اور رذیل باتوں کی بنیاد پر سالہا سال میدان جنگ میں برسرِپیکار رہتیں اور بعض دفعہ تو سببِ جنگ بھی نہ ہوتا کہ محض انا پرستی کی خاطر کُشتوں کے پُشتے لگا دیے جاتے ، جو اتحادویگانگت جیسی دولتِ عظمیٰ سے محروم تھیں ، جو دل ہلادینے والی عادات وخرافات کا مظہر تھیں ، انھیں قوموں نے جب قرآن کے بیان کردہ طرزِ زندگی کو اپنایا ، کلامِ الٰہی کی معرفت اپنی زندگیوں کو قرآنی سانچے میں ڈھالا تو ان کا شمار دنیا کی بہترین قوموں میں ہونے لگا ۔ وہ قومیں دنیا میں ایسی چھائیں کہ ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک اسلام کا پرچم لہرادیا۔ باہمی انتشار وخلفشار کو پسِ پشت ڈال کر مواخات کی شکل میں اتحادویگانگت کی ایسی فضا قائم کی کہ قیامت تک آنے والی قومیں حیران ہیں کہ یہ کیسا درس اور کیسا سبق تھا کہ ایک انصار ایک مہاجر کو اپنی بیوی تک کو عقد میں دینے کے لیے تیار ہے۔ رذیل عادات وخرافات کو خیرباد کہہ کر معرفتِ الٰہی کی جستجو میں ایسے غرق ہوئے کہ فرشتے ان پر رشک کرتے اور خلقِ آدم پر اعتراض کی بناء پر نادم وشرمندہ ہوکر پانی پانی ہوجاتے تھے۔ وہ نیک سرشت لوگ جانتے تھے کہ یہ حکیمانہ کتاب، زندگی کے تمام پہلووٴں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور زندگی کا کوئی پہلو اس سے مخفی نہیں ۔ اسی نظریے پر چلتے ہوئے انھوں نے زندگی کے ہر مسئلے کا حل اس کتاب میں ڈھونڈا اور ترقی کے اوجِ ثریا تک پہنچ گئے ۔
            آج مسلم امہ کی صورتحال عیاں ہے ۔ باہمی انتشاروخلفشار ، مسلم ممالک کی بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال،معاشی کیفیت، اپنوں کی غداری اور کفر کی یلغار ، عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اور دنیا کے کونے کونے سے اٹھنے والے اسلام مخالف طوفان اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کا پیش خیمہ ہیں۔ قرونِ اولیٰ کی طرح آج بھی قرآن سے وابستگی ضروری ولازم ہوچکی ہے ۔ سچ جانو! ہم نے قرآن کو تدبر کی بجائے پس پشت ڈال دیا، فہمِ قرآن کی بجائے اپنے اور قرآن کے درمیان دبیز پردے حائل کر لیے جس کا خمیازہ بحیثیت مجموعی ہم بھگت رہے ہیں۔قرآن کی آیات پر عمل کرنے کی بجائے اُسے طاقِ نسیاں پر رکھ دیا۔ کفر کی کوششیں توبجا ،مسلمانوں کے ہی ایک مادیت پرست طبقے نے قرآن اور مسلم امہ کے درمیان دبیز پردوں کی ایک تہہ کھڑی کردی ہے ، نتیجتاً مسلم اُمّہ حکمرانی کی بجائے خود محکوم بن کر رہ گئی ہے ۔
            ذیل میں ہم قرآن فہمی اور تدبرِقرآن میں حائل پردوں کا ذکر کرتے ہیں:
            ۱- ہر اسلامی ملک میں اندرونی وبیرونی قوتوں نے مقدور بھر کوششیں کی ہیں کہ عملی زندگی کو قرآن کے بیان کردہ طرزِزندگی کی بجائے مغربی سیکولر ازم کے خطوط پر چلایاجائے نتیجتاً بعض جگہ ان کوششوں کو عملی جامہ پہنادیا گیا ہے ،بعض جگہ جزوی کامیابی ملی جبکہ بعض جگہ کشمکش جاری ہے ۔
            ۲- جن ممالک میں سیکولرازم کی تبلیغ میں خاطرخواہ نتائج کے حصول میں غیرمعمولی رکاوٹیں ہیں ، وہاں فکر ونظر کے دائرئہ کار میں رہ کر یہ سعی کی جارہی ہے کہ خود مسلمانوں کے اندر ہی سے ایسے افراد کو منتخب کیا جائے جو اسلام کے اساسی تصورات پر قدامت پرستی کالیبل چسپاں کرتے ہیں جس میں ٹی وی پر نمودار ہونے والے ’مشہور اسکالر ‘سرِفہرست ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے ادارے قائم کیے جارہے ہیں جو ”قدامت پسند“ اسلام کے مقابلے میں ”ماڈرن اسلام“ تشکیل دینے میں مصروفِ عمل ہیں۔
            ۳- مسلم ممالک کی سیاسی صورتحال یہ ہے کہ آزادی سے قبل غیرمسلم حکومتوں کے شکنجے میں تھے اور اب آمریتوں کے زیرِتسلط آرہے ہیں ، ہر ملک میں آئے دن سیاسی وعسکری انقلابات واقع ہورہے ہیں ، دنیا کو اتحادویگانگت اور شورائیت کا درس دینے والی قوم اپنے پیش کردہ نظام کے نفاذ سے محروم ہے ۔ آئے دن اپنے ہاتھوں اپنی ہی قوتوں کی بربادی، عارضی اقتدار کی بھوک ، ایک مستقل عدمِ استحکام کا تصور ،بے یقینی کی کیفیت کا تسلسل ، کشتیِ جمہوریت کا نت نئے طوفانوں سے ٹکراوٴ اور پھر ان حالات میں مسلم ممالک کو توڑنے اور منقسم کرکے داخلی وخارجی سازشیں تدبرِقرآن اور فہمِ قرآن میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ان سنگین حادثات کو نظرانداز نہیں کرسکتے جو عالمِ اسلام کے مختلف گوشوں میں اسلامی تحریکا ت کو کچلنے اور ان تحریکات کو فعال اور متحرک بنانے والی شخصیات کو موت کے گھاٹ اتارنے کی شکل میں پیش آتے رہے ہیں۔ان سنگین حادثات کی کڑیاں یا تو اسلام دشمن قوتوں سے ملتی ہیں یا ایسے نام نہاد اور مادیت پرست مسلم عناصر سے جو کفر کے ٹکڑوں پر پلے ،پڑھے اور بڑھے ہیں۔ ایسے واقعات نے عام مسلمانوں کو قرآن جاننے ، سمجھنے اور اس کے اجتماعی نظام کے علمبردار بن کر کام کرنے سے خوفزدہ کردیا ہے ۔ وہ قرآن کو پڑھنے ، سمجھنے ، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کی دعوت دینے والوں کا انجام دیکھ کر غیرشعوری طور پر ڈر گئے ہیں۔
            ۴- مسلمانوں کے نئے افکار کا جائزہ لیتے ہوئے ہم ادب کے محاذ کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ ہمارا جدید ادب پوری دنیائے اسلام میں ایسے عناصر کے تصرف میں ہے جو اس میں ملحدانہ افکار کا زہر مسلسل بھرتے آرہے ہیں ۔ عام مسلم قاری اس زہرخورانی کا نہ صرف خوگر ہوگیا ہے؛ بلکہ ان خیالات کی خوراکیں نگل کر فخرومسرت محسوس کرتا ہے ۔ کہیں خدا کی ہستی کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور کبھی ایک شریف انسان کو بدمعاش ثابت کردیا جاتا ہے ۔ کہیں پیروانِ مذہب کے کردار کو دوغلااور کھوٹا بناکر پیش کیاجاتاہے اور کہیں حاملانِ لوائے الحمد کے کرداروں کی خاک اڑائی جاتی ہے۔ ایسے ایسے موضوعات کو منتخب کیاجاتا ہے کہ جن کو پڑھنے سے خدا پرستی اور مذہب سے نفرت وبیزاری پیدا ہو۔ دوسری طرف ان تمام چیزوں کو خوشنما بنا کر شعروشاعری ، صورت گری وافسانہ نگاری میں لایاجاتا ہے جو قرآن کے بیان کردہ حقائق کی روشنی میں محسوس اور غیر محسوس طور پر ضرررساں ہیں۔ جدید ادب ہر مذہب پسند آدمی پر ”مُلاّ“ کا لیبل چسپاں کرکے اُسے سامانِ تمسخر اور ہدفِ تحقیر بناتا ہے اور اس کے ساتھ وہ ان ادبیات کو ترقی پسندی کے مرتبہ پر رکھتا ہے جو ہمارے مذہبی رجحانات سے صریح متصادم ہیں اور جو لوگ اسلامی نظریات، اصول واقدار کو محورِ فکر بناکر پاکیزہ تعمیری ادب کی تشکیل کرتے ہیں، وہ رجعت پسندی اور قدامت پسندی کے گنہگار ٹھہرتے ہیں۔ ایسا اد ب پڑھنے والے عام قارئین جب سالہا سال سے مخالفِ قرآن افکار کی زد میں رہتے ہیں تو آہستہ آہستہ ان کی ذہنیت اس سے ضرور اثرانداز ہوتی ہے ۔ اس حوالے سے ہمارا جدید ادب بھی تعلق بالقرآن میں ایک دبیز پردے کی صورت میں حائل ہوگیا ہے ۔
            ۵- قرآن جو دنیا پرستی کے مختلف مسالک کے خلاف تحریک اٹھانے کے لیے اُترا ہے ، آج مادیت پرستی اور دنیا پرستی کی تیز لہریں اس کے سامنے حائل ہورہی ہیں۔ صنعتی انقلاب اور سائنسی ایجادات سے انکار ممکن نہیں ، اسی طرح موٹر اور مشین سے کام لینا بھی ضروری ہے؛ لیکن بہ حیثیت حاملِ قرآن جب ہم دیکھتے ہیں کہ دولت ومادیت کا یہ سیلاب اپنے ساتھ بدترین مفاسد بھی لارہا ہے تو یہ صورتِ واقعہ بڑی تشویشناک ہوجاتی ہے۔ اس سیلاب کے ابتدائی ہلکے ہلکے ریلوں کو دیکھ کر علامہ اقبال نے پوری قوم کو متنبہ کیا تھا؛ مگر ہماری غفلت سے یہ نہ صرف مزارِاقبال سے گزر گیا؛ بلکہ اس کی اونچی ہوتی ہوئی لہریں ہمارے سروں پر سے بھی گزر گئی ہیں۔ اس کا عجب کرشمہ ہے کہ ہماری زندگی کا ایک سرا ترقی جبکہ دوسرا سرا محرومی ہے ۔ صنعتی انقلاب نے درمیانے طبقے کو پیس کر رکھ دیا ہے ، اس نے طبقاتی تقسیم پیدا کردی ہے ، فردفرد اور گروہ گروہ کو آپس میں مسابقت اور کشمکش میں لگادیا ہے ۔ ہر شخص پیسے کے حصول کے لیے اندھا دھند توڑرہا ہے ، ذریعہٴ عزت وتحفظ اور تمام اخلاقی قدروں اور انسانی روایتوں کا ٹھیکے دار فقط پیسہ ہی رہ گیا ہے ۔ مضمونِ حیات کا اب یہی عنوانِ واحد بچا ہے ۔ بینکوں ، کاروں ، کوٹھیوں ، بھاری کارخانوں ، محل نما ہوٹلوں اور بھاری بھرکم طیاروں کے درمیان گھرا ہوا انسان اپنے آپ کو بے وقعت محسوس کرتا ہے ۔ اکثر لوگوں کا سارا وقت اور سارا قویٰ دولت نے اس طرح جذب کرلیا ہے گویا اب یہی ان کا خدا ہے ۔ اب ترقی کا وہ متوازن تصور ذہنوں سے غائب ہورہا ہے ، جس میں معاشی واخلاقی ترقی اور جسم وروح دونوں کی فلاح شامل ہو۔ ایمان،مذہب ، روحانیت اور اخلاقیات کی باتیں گویا اب مانعِ ترقی ہیں ۔ اب ہر وہ شخص پاگل ، بے وقوف اور قدامت پرستی کا مریض سمجھاجاتا ہے جو مادی ترقی کے ساتھ روحانی واخلاقی ترقی کا متوازی طور پر جاری رہنا ضروری قرار دیتا ہے مادیت پرستی اور پیسے کی اس دوڑ نے توجیہہ الی القرآن کو پسِ پشت ڈال دیا ہے ۔
            ۶- مذکورہ رذائل کے ساتھ ایک انتہائی خطرناک ،عدم توجہہ الی القرآن کے لیے موٴثر کن ”بدن پرست ثقافت“ حریمِ امت مسلمہ بن گھس آئی ہے ۔ وہی ثقافت جس نے مغربی انسانیت کو گھن کی طرح کھاڈالا ہے ۔ گندی فلمیں شراب وکباب ، رقص وسرود، میلے ٹھیلے، مخلوط تقاریب ، ہوٹل بازی ، مخلوط نظامِ تعلیم ، بدنگاہی وآوارگی، ننگی تصاویر ، خواتین کی بے پردگی اور تنگ لباسی ، کپڑوں اور بالوں کے فیشنوں کی وبا ، فحش وعریاں سائن بورڈ، ہر بڑے چوک پر لگی خواتین کے نیم برہنہ فوٹوز وغیرہ ۔ حجاب سے اظہارِبیزاری ، شہوت انگیزفلمیں وڈرامے، نشہ آور ادویات ، کاروباری اداروں میں گاہکوں کی توجہ کے لیے لڑکیوں کا تقرر ،ان سارے امراض کے ساتھ پھر فیملی پلاننگ کی ’مقدس تعلیم“ کو عام کرنے کے لیے میڈیا کا آزادانہ استعمال ۔ یہ سب کچھ اسلام کی ثقافت نہیں کہلاسکتا اورکوئی بھی تاویل اس رنگِ ثقافت کو ”صبغة اللہ“ قرار نہیں دے سکتی۔ کوئی شخص ،خاندان یامعاشرہ مغرب کی اس ثقافتِ فسق وفجور میں مبتلا ہوکر فہمِ قرآن اور تدبر قرآن کی طرف مائل نہیں ہوسکتااور سچ یہ ہے کہ اس کے لیے حقائق ومعارف کے دروازے ہی بند کردیے جاتے ہیں۔
            ۷- ہمارے ہاں کے مذہبی اداروں اور دین کی نمائندگی کرنے والے علماء میں سے تھوڑی سی مقدار کے استنثاء کے ساتھ بقیہ حضرات چھوٹے چھوٹے فروعی اور فقہی مسائل پر آپس میں نبردآزما ہیں ۔ مسجد ومحراب سے آیات واحادیث پڑھ کر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالی جاتی ہے۔ غضب آلود تقریروں کے جھکڑ چلتے ہیں اور تکفیر وتفسیق کا غبار اڑایا جاتا ہے ۔ دنیا کو حسنِ کلام ، آدابِ گفتار اور طریقِ اختلاف سکھانے والے غیرشائستہ لب ولہجہ اختیار کرکے خود اپنا وقار خراب کرتے ہیں۔ ان سطحی مناظروں اور فضول بحثوں نے عوام کو قرآن کے سادہ اور عام فہم حقائق سے دل برداشتہ کردیا ہے اور پڑھے لکھے لوگ ان ہنگامہ آرائیوں سے متنفر ہوکر سرے سے دین سے ہی دور ہوجاتے ہیں۔ افسوس کہ ایسے حاملینِ قرآن عوام وخواص کے لیے قرآن فہمی میں حائل ہوجاتے ہیں اور وہ بڑے بڑے مقاصد کے سامنے ہوتے ہوئے بھی چھوٹے چھوٹے جزئی اور فروعی امور میں ایک طوفان برپا کردیتے ہیں۔
            یہ وہ رکاوٹیں ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو فصیل در فصیل قلعے میں محصور کردیا ہے ۔ اب جو شخص قرآن تک پہنچنا چاہے اس کے لیے ان فصیلوں کو پار کرنے کا کٹھن مرحلہ سرکرنا ضروری ہے۔ شعورِقرآن کے عام ہونے اور غلبہٴ قرآن کے کامیاب ہونے کا دور وہ ہوگا جب قرآن کو اس فصیل در فصیل قلعے سے باہر نکالاجائے گا۔
            اگر ہماری اپنی پیدا کردہ رکاوٹیں درمیان میں حائل نہ ہوں تو قرآن مقدس کی تعلیم کا مرکزی نقطئہ نظر نہایت جامع، نہایت مختصر آسان فہم اور بہت سادہ ہے جو تین بنیادی باتوں پر مشتمل ہے :
            (۱) ساری کائنات کا خالق ومالک فقط اللہ جَلَّ جَلاَلُہ ہے، اس کی کسی کے ساتھ شراکت داری نہیں ۔دنیا اس نے بنائی اور وہی اس کائنات کو ختم کرے گا۔ انبیاء، رسل، فرشتے ، کتب سماویہ ،جنت، جہنم اورتقدیر سب برحق ہیں۔ سجدہ اور عبادت کے لائق فقط وہی ذات ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔
            (۲) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور بندے ہیں۔ آخری نبی ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے آخری شریعت دے کر بھیجا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حکموں کی اطاعت اور فرمانبرداری ایک مسلمان کے لیے فرضِ عین کا درجہ رکھتی ہے ۔ نماز ،روزہ ،حج، زکوٰة اور جہاد وغیرہ سمیت تمام امورِدین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کو پیش نظر رکھناتدبرِقرآن کا لازمی نتیجہ ہے ۔
(۳)      اسلام کا حکم ہے : لَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مَنْ لَایَرْحَمِ النَّاسَ جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا خدا اس پر رحم نہیں کرتا ۔خالق کائنات (جل جلالہ )کی عبادت ، وجہ تخلیق کائنات( صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کے بعد قرآن کریم کی آیات کا معانی ومفہوم مخلوقِ خدا کی خدمت ہے ۔چنانچہ مظلوم لوگوں کی دادرسی، بے کسوں کی مدد، مظلوموں کی نصرت اور لاوارثوں کی کفالت وہ مستحسن امور ہیں جن کی قرآن مقدس نے جگہ جگہ حوصلہ افزائی کی ہے ۔ پس وہ انسان دونوں جہانوں میں کامران ہوگیا جس نے قرآن کریم کی آیات میں غوطہ زن ہوکر اس کے اسرار ورموز اورمعانی ومطالب کو پالیااور خائب وخاسر ہوا وہ شخص جس نے قرآن کریم کی نورانی تعلیمات سے کنارہ کشی اور روگردانی کی۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
%%%







************************************

قرآن محکم کی شان عظیم (قسط 1)


                                                                                                                                                                                  

قرآن کیا ہے

اللہ رب العالمین کا وہ کلام جو سید الملائکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ رحمة للعالمین خاتم النّبیین سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کے قلب اطہر(۱) پر تیئس سال کے طویل عرصہ میں بتدریج مختلف مقامات و احوال میں متنوع ضرورت وحکمت کے تحت(۲) اصلاً بنی نوع انسان اور تبعاً جن کی ہدایت اور آخرت کی فلاح ونجات کے لیے خالص عربی زبان میں نازل کیاگیا، جس کے بیان میں یقین وصداقت ہے اور فصاحت وبلاغت کے اعلیٰ معیار پر ہونے کی وجہ سے اعجازی شان رکھتا ہے جو معانی اورحقائق کا خزینہ اور اسرار ومعارف کا غیر متناہی گنجینہ ہے۔(۳)

آں کتابِ زندہ قرآن حکیم         حکمتِ او لایزال است و قدیم

نسخہٴ اسرارِ تکوینِ حیات               بے ثبات از قوتش گیرد ثبات

نوعِ انساں را پیام آخریں             حاملِ او رحمة للعالمیں

------------------

چیست قرآن اے کلام حق شناس                رونمائے ربِّ ناس آمد بہ ناس

حرف حرفش راست در بر معنئے    معنئے در معنئے در معنئے

اسی کلام ربّانی کو اہل ایمان کے سینوں میں اوراس کے نقوش کو صحیفوں میں حتی کہ اس کے لب ولہجہ کو زبان و ذہن میں اس طرح محفوظ کردیاگیا، ترمیم و تحریف سے مأمون ہوگیا۔ پھر اسی طرح یعنی سینہ بہ سینہ اور صحیفہ بہ صحیفہ ہر زمانہ میں تسلسل کے ساتھ اہل اسلام کا اتنا بڑا طبقہ اُسے مِن وعَن نقل کرتا چلا آرہا ہے کہ جس کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً ناممکن ہے۔(۴) یہی وہ خدا کا ابدی پیغامِ ہدایت ہے جسے قرآن کہتے ہیں اس پرایمان لانا ہر فرد پر لازم و فرض ہے اوراس کے کسی بھی جزء کا انکار کفر ہے۔(۵)

عظمتِ قرآن

انسان کی فطرت میں ایسی قوت و صلاحیت ہی کہاں کہ پاک اور بے عیب ذات یعنی خالق کی صفات کو پاسکے اوراس کے کلام پرُانوار کواِس دنیا میں بلاواسطہ سُن اور سمجھ سکے۔ یہ تو اللہ رب العزت کی ضعیف الخلقت اشرف المخلوقات حضرت انسان پر بے حد عنایت و مہربانی ہے کہ اُس نے اُن حروف و اصوات میں جو کہ بشری صفات اور حادث ہیں اپنی صفتِ کلام کی تجلّی فرمائی یعنی اپنی قدرت سے جلالتِ کلام کی حقیقت کو حروف کے لباس میں پوشیدہ کردیا ورنہ اس کے بغیر اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اس میں کلام الٰہی کے سننے کی ہرگز طاقت نہیں تھی چہ جائیکہ اسے سمجھے۔

... وکیف تجلّت لہم تلک الصفة فی طی حروف واصوات ہی صفات البشر ان یعجز البشر عن الوصول الی فہم صفات اللّٰہ عزوجل الا بوسیلة صفات نفسہ. ولولا استتار کنہِ جلالةِ کلامہ بکسوة الحروف لما ثبت لسماع الکلام عرش ولاثری ولتلاشی ما بینہما من عظمة سلطانہ وسبحاتِ نورہ الخ (احیاء العلوم ۱/۳۳۹)

پس جس طرح انسان کا جسم اس کی روح کے لیے لباس و مکان ہے اور روح کی تعظیم و تکریم کی وجہ سے جسد خاکی بھی قابل تعظیم ہوگیا، اسی طرح قرآنی حروف وآواز کی تعظیم بھی اس لیے واجب ہے کہ کلام الٰہی کا نور اور حروف تجلی گاہ ہے۔ حضرت جعفرصادق رحمة الله عليه فرماتے ہیں ”واللہ خدا نے اپنے کلام میں تجلی فرمائی ہے جو مخلوق کے درمیان ہے لیکن لوگ اس کا مشاہدہ نہیں کرتے۔ (احیاء :۱ /۳۳۹)

کسی نے خوب کہا ہے:

چیست قرآن اے کلام حق شناس                رونمائے ربِ ناس آمد بہ ناس

اے کلام حق کو پہچاننے والے قرآن کیاہے؟ یہ لوگوں کے پروردگار کا جلوہ دکھانے والا ہے جو سب لوگوں کے پاس آیا ہے۔

اسی عظمت کے پیش نظر صاحبِ الشفاء قاضی عیاض رحمة الله عليه فرماتے ہیں ”جس شخص نے قرآن یا اس کے کسی جزء کا استخفاف کیا یااُسے بُرا بھلا کہا یا کسی حرف کا انکار کیا یا کسی ایسی چیز کا انکار کیا جو صراحتاً مذکور ہے خواہ وہ کوئی حکم ہو یا خبر یا ثابت کیا جس کی قرآن نے نفی کی ہے یا نفی کی جس کو قرآن نے ثابت کیا ہے درانحالیکہ وہ اُسے جانتا بھی ہے یا قرآن کی کسی چیز میں شک کرتا ہے تو ایسا شخص باتفاق المسلمین کافر ہے (التبیان لامام النووی ص:۱۶۴) کنزالعمال ۱/۲۷۵ میں ہے مَن تَہاوَن بالقرآن خسر الدنیا والآخرة. جس نے قرآن کے ساتھ تحقیر کی وہ دنیاو آخرت میں برباد ہوگیا۔

اورکیوں نہ ہو کہ کلام الملوک ملوک الکلام شاہوں کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے۔ پس کیا نہیں معلوم کہ شاہ کی یا اس کے کسی فرمان کی ادنی گستاخی و بے حرمتی گستاخ کو کیفرِ کردار تک پہنچادیتی ہے۔ اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ کلام کو اپنا کلام محبوب ہوتا ہے اور اس کی ناقدری مبغوض ہوتی ہے۔ قرآن پاک بھی اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے القرآن احب الی اللّٰہ مِن السموات والارض (مشکوٰة) قرآن اللہ تعالیٰ کو آسمان وزمین یعنی کائنات سے زیادہ محبوب ہے۔

کلام الٰہی کے اسمائے گرامی

کسی چیز کو اگر مختلف ناموں سے پکارا اور مختلف لقبوں سے یاد کیا جاتا ہے تو یہ اس کی قدر ومنزلت اور عظمت و رفعت کا پتہ دیتا ہے اس لیے کہ ناموں کی کثرت مسمّیٰ کے پوشیدہ حقائق وکمالات کے اظہار کا آئینہ ہے کثرة الاسماء دالةٌ علی شرف المسمّٰی (اتقان ۱/۷۰ طبع دہلی) اس اعتبار سے دنیا کی کوئی کتاب بجز قرآن کے ایسی نہیں ہے جس کے لیے بہت نام تجویز کیے گئے ہوں، پس کہنا چاہیے کہ جس طرح معبود حقیقی کے صفات و کمالات کا اظہار اس کے ننانوے یا زائد ناموں سے کیا جاتا ہے اسی طرح اس کے کلام بلاغت نظام کو مختلف ناموں سے پہچاننا بیشک اس کے علوشان کا قرینہ ہے۔

شیخ ابوالمعالی عزیزی بن عبدالملک نے اپنی کتاب ”البرہان“ میں لکھا ہے اعلم ان اللّٰہ تعالٰی سمی القرآن بخمسة وخمسین اسما اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے پچپن نام رکھے ہیں اور بقول بعض اس سے بھی زائد۔ یہاں ان میں سے چند مخصوص ناموں کی کچھ وضاحت کی جاتی ہے تاکہ کلام اللہ کی عظمت و وقعت دلوں میں اجاگر ہو۔

(۱) ”الکتاب“ کلام الٰہی نے سب سے پہلے اپنا تعارف ”الکتاب“ کے نام سے کرایا ہے۔ الٓم ذلک الکتٰب لاریب فیہ، الٓم کتٰب اُحکِمت آیٰتُہ.

کتاب کے اصل معنی ”ضم“ (ملانا)اور ”جمع“ ہے۔ ویسے تو ہر کلام اپنے اندرمحدود معانی وحقائق کو شامل ہونے کی وجہ سے ”کتاب“ کہلاسکتا ہے،مگر لامحدود حقائق وعجائب علوم ومعارف،احکام واَمثال اور قصص و عِبَر وغیرہ کو علی وجہ الکمال جامع ہونے کی وجہ سے ”الکتاب“ کہے جانے کا مستحق حقیقت میں یہی کلام الٰہی ہے جس میں قطعاً شک کا شائبہ تک نہیں ہے۔ (مفردات للراغب ص۴۲۳، اتقان ۱/۶۷) نیز کتاب کے عرفی معنی ”نوشتہ“ (لکھا ہوا) ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پہلے ہی قدم پر لوگوں کے ذہنوں میں یہ جواب نقش کررہاہے کہ وہ توابتدائے نزول سے ہی مکتوب ونوشتہ شکل میں مخلوق کے پاس محفوظ رہنے والا ہے۔ اس لئے یہ کہہ کر ”قرآن عہد صدیقی کا مرتب کردہ ہے“ قرآن کے کسی جزء کو مشکوک ٹھہرانا باطل ہے۔ (تدوین قرآن ازافادات مولانا مناظراحسن گیلانی)

(۲)      ”القرآن“ اس کتاب کا سب سے مشہور نام ”قرآن“ ہے شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن، انا انزلناہ قرآناً عربیًا، ان علینا جمعہ و قرآنہ.

کلامِ الٰہی کا یہ نام جس کو خود اللہ تعالیٰ نے ساٹھ(۶۰) سے زائد مقام پر ذکر کیا ہے ایسا منفرد نام ہے جو ناخواندہ (اَن پڑھ) قوم کو قرأت(۶) (پڑھنے) سے مانوس کرنے اور علم وعدل سے وابستہ کرنے کیلئے کفار کے علی الرغم تجویز کیاگیا ہے جن کی کوشش یہ تھی کہ شوروغوغاء کرکے اس کلام کو پڑھے اور سنے جانے کے قابل نہ رکھیں۔(۷)

امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں ”نہ تو کسی شئی کے مجموعہ کو اور نہ ہی ہر کلام کے مجموعہ کو ”قرآن“ کہا جاتاہے بلکہ یہ صرف آخری پیغام خداوندی پر بولاجاتا ہے جو کتب سماویہ متقدمہ کے مضامین اور تمام علوم کے ثمرات کو جامع ہے“ (منفردات ص۴۰۲) مولانا رحمت اللہ لدھیانوی رحمة الله عليه لکھتے ہیں ”یہ کتاب زبور کی طرح مجموعہٴ مناجات بھی ہے اورانجیل کی طرح مجموعہٴ امثال بھی ہے توریت کی طرح گنجینہٴ شریعت بھی ہے اور کتب دانیال و یسعیاہ کی طرح خزینہٴ اخبار مستقبل بھی ہے۔ (مخزن اخلاق ص۴۵۷)

لفظ ”قرآن“ کے اشتقاق میں علماء کا نقطئہ نظر مختلف ہے۔ امام محمد بن ادریس الشافعی رحمة الله عليه تواسم جامد ہونے کے قائل ہیں اور مشتق ہونے کے اقوال میں سے دو ذکر کئے جاتے ہیں۔

۱- قرآن فُعْلان بالضم کے وزن پر مصدر بمعنی المفعول ہے جو ”قرء“ یا ”قرأت“ (مہموز اللام) سے ماخوذ ہے اس کے اصل لغوی معنی ”جمع الکلمات بعضہا الی بعض فی الترتیل“ یعنی ”پڑھنا“ ہے گویا قرآن کا نزول ہی پڑھنے کے لیے ہوا ہے چنانچہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کلام مجید ہی ساری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اور قیامت تک پڑھی جاتی رہے گی۔ کبھی کسی زمانہ میں بالکلیہ اس کی قرأت نہ متروک ہوسکتی ہے اور نہ ہی اہل اسلام اس کے پڑھنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔

۲- قرآن ”قَرْن“سے ماخوذ ہے جس کے معنی ملانا ہے یعنی فصاحت وبلاغت میں اس کے تمام کلمات مربوط اور سورتوں اور آیتوں کا تناسب و تناسق ایسا ہے کہ ہر آیت اعجاز میں اپنے ماقبل و مابعد سے مستقل ہونے کے باوجود پورا کلام معناً مقرون ومرتبط ہے۔ (مفردات ص۴۰۲، اتقان ص۶۸)

(۳) ”الفرقان“ قرآن پاک کا ایک امتیازی نام ”الفرقان“ ہے وانزل الفرقان، تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ.

فرق کے معنی دو چیزوں کے درمیان فصل کرنا خواہ وہ فصل آنکھوں سے دکھائی دے یا دل سے ادراک کیاجائے (مفردات ص۳۷۷) یعنی قرآن مجید بنی آدم کو ایسے احکام و تعلیمات سے آگاہ کرتا ہے کہ جن سے ایمان وکفر، حق وباطل اور مطیع و عاصی کے درمیان ایک حد فاصل پیدا ہوجاتا ہے اور اس سے حق یعنی اسلام کا پسندیدہ ومقبول ہونا اور غیراسلام کا باطل و مردود ہونا عیاں ہوجاتا ہے۔ لیحق الحق ویبطل الباطل اور اُس فرقان پر صحیح عمل کرنے والوں کو ایسی شان عطا کرتا ہے جس سے وہ دوسروں سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔

(۴) ”برہان“ قرآن کا ایک اہم نام ”برہان“ ہے قد جاء کم برہان من ربکم ”برہان“ ایسی مستحکم دلیل کو کہتے ہیں جس میں قطعی اور ابدی سچائی نمایاں ہو (مفردات ص۴۵) یعنی یہ کلام الٰہی ماضی کے واقعات اور مستقبل کے اخبار واحوال کو حتمی صداقت وحقانیت کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ شکوک و اوہام کا پردہ چاک کرکے یقین تک پہنچادیتا ہے اور جواس کی سچائی میں رخنہ اندازی کرے اُن سے ان کے دعوی پر اسی طرح کی مضبوط ومستحکم دلیل کا مطالبہ کرتا ہے۔ قل ہاتوا برہانکم ان کنتم صٰدقین.

(۵) ”تنزیل“ قرآن شریف کا ایک بنیادی نام ”تنزیل“ ہے تنزیل من حکیم حمید، تنزیلٌ من ربِّ العٰلمین.

یعنی یہ کلام جو فرقان اور برہان ہے اس کا مبدأ ومصدر عرب کے کسی فصیح وبلیغ ادیب یا غیب کی جھوٹی خبر دینے والے کاہن و نجومی یا کسی بڑے مصلح اور ریفارمر کی ذات حتی کہ نبی کی ذات بھی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی بے عیب و بے نظیرہستی لیس کمثلہ شیء کی طرف سے نازل کیاگیا ہے جو سارے ہی کمالات کا سرچشمہ اور ساری قوتوں کا تنہا مالک ہے جہاں عجز و ضعف اور جہل کا ادنی واہمہ تک نہیں ہے اور جو تمام مخلوق کا یکتا حقیقی مربی ہے جس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا انسان بلکہ ہر مخلوق کا فطری جذبہ اور اس کی دعوت ہے۔

(۶) ”الذکر“ قرآن کا ایک خصوصی نام ”الذکر“ ہے انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون، وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس، ان ہو الا ذکر للعٰلمین.

یعنی قرآن شریف دینی ودنیوی انعامات یاد دلاکر نافرمان قوموں کی عبرت خیز ہلاکت اور مومنین کی حیرت انگیز نجات کے سچے واقعات بیان کرتے ہوئے تمام انسانوں کے لیے عبرت پذیری اور نصیحت گیری کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اور افلا یتذکرون، لعلکم تذکرون جیسے کلمات سے لوگوں کو خواب غفلت سے ہوشیار کرتاہے تاکہ موت اور مابعد الموت کی حقیقی دائمی زندگی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلیں۔

(۷) ”حبل اللّٰہ“ قرآن کا ایک وصفی نام ”حبل اللہ“ ہے واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعًا ولا تتفرقوا.

خدا کی زمین پر جو انسان (وجن) دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے خالق کی طاعت و بندگی سے بیزار ہیں اور کفر و معصیت کے گڑھے اور دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور قعرِ مذلت سے نکل کر منزل کی تلاش اور قرب الٰہی کے طلبگار ہیں ایسے تمام لوگوں کے لیے قرآن مجید اللہ کی اتاری ہوئی رسی ہے جو اسے مضبوطی سے تھام لے گا وہ کفر و عصیان کے گڑھے سے نجات پاکر بلند مقام پر پہنچ جائے گا۔ حبل اللّٰہ ہو القرآن (کنزل العمال ۱/۲۷۷)

(۸) ”النور“ قرآن کا ایک روشن وصف ”النور“ ہے وانزلنا الیکم نورا مبیناً، قد جاء کم من اللّٰہ نورٌ.

اللہ تعالیٰ نے انسان کو نور بصراور نور عقل دونوں نعمت سے نوازا ہے پس جب انسان نور عقل کے ذریعہ اللہ کی وحدانیت اور محمد رسول اللہ کی رسالت تسلیم کرکے قرآنی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے تو یہ قرآن اُسے نور معرفت عطا کرتاہے جس سے وہ موٴمن گناہوں کی ظلمت سے بچتے ہوئے ان ہذ القرآن یہدی للتی ہی اقوم قرآن کی روشنی میں جنت کا راستہ طے کرتا چلا جائیگا۔ یسعی نورہم بین ایدیہم وبایمانہم (مفردات ص۵۰۷، اتقان ۱/۶۸)

(۹) ”الشفاء“ قرآن کا ایک دل پذیر نام ”شفاء“ ہے قل ہو للذین آمنوا ہدیً وشفاء، وشفاء لما فی الصدور.

روئے زمین پر قرآن مجید ہی وہ نسخہٴ صحت ہے جس کی ہدایت پر کما حقہ عمل کرنا امراضِ قلبیہ (کفر، جہل، کبر، حسد، خیانت، بغض، وغیرہ) سے صحت وشفاء کا ضامن ہے ویشف صدور قوم موٴمنین بلکہ قرآن کے ظاہری الفاظ بھی انسان کی جسمانی بیماریوں کے لیے دوائے شیریں ہے حتی کہ اسی تاثیر کی وجہ سے ایک مستقل سورة کا نام بھی ”سورة الشفاء“ ہے ۔ (اتقان ۱/۶۸)

مختلف سورتوں کے مختلف نام

جس طرح مکمل قرآن پاک کے مختلف اسماء ہیں اسی طرح اس کی سورتوں کے بھی ایک سے زائد نام وارد ہوئے ہیں بلکہ بعض بعض آیتوں کے بھی مستقل نام حدیث سے ثابت ہیں،مثلاً سورئہ فاتحہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمة الله عليه لکھتے ہیں قد وقفت لہا علی نیف وعشرین اسما.

یہاں صرف نمونہ پیش کرنے پر اکتفاء کیا جاتاہے۔

(۱) فاتحة الکتاب (۲) ام القرآن (۳) السبع المثانی (۴) سورة الحمد (۵) سورة الصلاة (۶) سورة الشفاء (۷) سورة المناجاة (۸) سورة الادب وغیرہ۔

سورئہ بقرہ کو              سنام القرآن              فسطاط القرآن                           بھی کہا گیا ہے

سورئہ مائدہ کو            سورة العقود               سورة المنقذہ                              بھی کہتے ہیں

سورئہ انفال کو           سورة البدر                                                                بھی کہتے ہیں

سورئہ برأة کو            سورة التوبة               سورة الفاضحة            سورة العذاب بھی کہا گیاہے

                                                                                                (تفصیل کے لیے اتقان کی مراجعت فرمائیں)

چندآیتوں کے نام

آیة الکرسی، آیة المباہلہ، آیة الربا، آیة المیراث،آیة الحجاب، آیة التخییر، وغیرہا۔

نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جہاں سورتوں کے ایک سے زائدنام آئے ہیں اس کے برعکس چند سورتوں کے مشترک نام بھی آئے ہیں۔ کماسمیت السورة الواحدة باسماء سُمیت سُورٌ باسم واحد (اتقان۱/۷۴)

(۱)          زہراوین: سورہٴ بقرہ وآل عمران

(۲)         جامدات:  وہ سورتیں جن کے شروع میں ”الحمد“ ہے جیسے سورئہ فاتحہ، انعام، کہف، سبا، فاطر۔

(۳)         حوامیم:    وہ سورتیں جن کے شروع میں ”حم“ ہے جیسے سورہٴ موٴمن، حم سجدہ، شوریٰ، زخرف، دخان، جاثیہ، احقاف۔

(۴)         مُسَبِّحات: وہ سورتیں جن کے شروع میں تسبیح کا کوئی صیغہ سبّح یا یسبح وغیرہ ہے جیسے اسراء، حدید، حشر، جمعہ، تغابن، اعلیٰ۔

(۵)         معوّذتین:  سورئہ فلق، سورئہ ناس۔

بعض سورتوں کو ایسے بھی نام دئے گئے ہیں جن سے انکا مقام یا شان واضح کی گئی ہے مثلاً:

(۱)          ام القرآن                                سورئہ فاتحہ                (۲)         سنام القرآن                              سورة البقرہ

(۳)         نواجب القرآن         سورئہ انعام               (۴)         قلب القرآن                            سورة یس

(۵)         عروس القرآن          سورئہ رحمن              (۶)          دیباج القرآن           الحوامیم

(۷)         ریاض القرآن           المفصلات

                                                                (تفصیل کے لیے اتقان، برہان، اورفتح العزیز ملاحظہ فرمائیں)

جمع قرآن اور اس کی حفاظت

حفاظت کلام کے دو بنیادی طریقے ہیں الضبط ضبطان (نخبة الفکر) ایک حفظ (ازبر) کرنا دوسرا کتابت یعنی کسی چیز پر نقش کرنا اِن دونوں میں بھی اصل واہم حفظ ہے ان المعوّل علیہ وقتئذ کان ہو الحفظ والاستظہار (مناہل العرفان ۱/۲۵۳) اس لیے کہ مکتوب علیہ (جس پر کلام لکھا گیا ہے) کے پھٹنے یا جلنے، ڈوبنے یا چھن جانے سے نوشتہ کے ضائع ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے جبکہ لوح قلب پر جو محفوظ ہوگیا وہ اِن تمام خدشات سے مامون ہوتا ہے اِلا یہ کہ تقدیر الٰہی کے ماتحت صفحہٴ دل سے محو کردیا جائے تو یہ امر آخر ہے۔

قادر مطلق نے اپنے کلام کی حفاظت کے لیے دونوں نظام چلائے ہیں چنانچہ سب سے پہلے عام کتب سماویہ کی طرح قرآن کو کتابی شکل میں نازل کرنے کے بجائے لوح محفوظ سے نبی كريم صلى الله عليه وسلم کے لوحِ قلب پر نازل کیا نزل بہ الروح الامین علی قلبک اور اس کی حفاظت کا وعدہ فرماکر دل سے محو ہوجانے کے اندیشہ کو زائل فرمایا انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون، ان علینا جمعہ وقرآنہ یعنی خدائے حافظ نے اپنے حبیب صلى الله عليه وسلم کو کلام کا حافظ بنادیا۔ اور ثانیاً ذلک الکتٰب کہہ کر کتابت کے ذریعہ محفوظ کرنے کا اشارہ فرمادیا۔

جمع نبوی

صاحب وحی نبی اکرم صلى الله عليه وسلم پر وحی کا نزول ختم ہوتے ہی قرآن آپ کے سینہ میں محفوظ ہوجاتا تھا پھر سب سے پہلے تحریراً ضبط کرنے کے لیے کاتبانِ وحی میں سے کسی کو طلب فرماتے جیسے خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام اور عموماً حضرت زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه حاضر خدمت ہوتے اور نازل شدہ حصہ کو کسی پائدار چیز پر لکھ کر محفوظ کرلیتے تھے۔ پھر یہ لکھا ہوا کلام صحابہ کے سامنے پیش کیا جاتا اور پڑھ کر سنایا جاتا تھا اس طرح پورا قرآن ”رقاع“ چمڑے کے ٹکڑوں ”اکتاف“ اونٹ کی گول چوڑی ہڈیوں ”اقتاب“ کجاوہ کی چوڑی پٹیوں ”لَخاف“ سطیٹ نما سفید پتھرکی پلیٹوں ”ادیم“ دباغت شدہ چمڑوں ”عسیب“ کھجور کے پتوں کی جڑ کا حصہ(۸) وغیرہ اشیاء میں محفوظ کرلیا جاتا تھا اور پھر صحابہٴ کرام حضور صلى الله عليه وسلم کے روبرو لکھے ہوئے حصہٴ قرآن کی نقل اتار لیا کرتے تھے کنّا نوٴلف القرآن عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (کنزالعمال) اور رسالتمآب صلى الله عليه وسلم سے سن کر حفظ کرلیتے تھے۔ غرض پورا کلام الٰہی صرف نبیٴ پاک ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے پاس بھی مذکورہ بالا دونوں طریقوں سے نزول کے ساتھ ساتھ محفوظ ہوتا چلاگیا۔ اور جب سلسلہٴ وحی بند ہوا تو اس وقت تک سوپچاس نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد کم و بیش حصہٴ قرآن کے حافظ وقاری صحابہ میں موجود تھے اور کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہیں جنھیں فاتحہ الکتاب سے والناس تک مکمل قرآن حفظ تھا اسی طرح مکمل قرآن پاک کی نقلیں بھی محفوظ تھیں (مناہل العرفان ۱/۲۴۵)

پس مستشرقین کا یہ کہنا کہ ”قرآن صاحب وحی کی حیات میں محفوظ نہیں تھا“ یا ”صدیق اکبررضى الله تعالى عنه کے زمانہ ہی میں جمع کیاگیا“ بے بنیاد اعتراض ہے بلکہ دانستہ طور پر حقیقت کا انکار ہے۔

جمع صدیقی

پھر اس کے بعد ایک طرف تو حفظِ قرآن کا سلسلہ چلتا رہا، مگر دوسری طرف چھوٹے بڑے معرکوں میں حافظِ قرآن صحابی بھی جام شہادت پی کر داغ مفارقت دیتے رہے یہاں تک کہ جنگ یمامہ میں جو حضور صلى الله عيله وسلم کی وفات سے قریب ہی مدت میں لڑی گئی ہے ستر یا سات سو حفاظِ صحابہ کی شہادت نے فاروق اعظم رضى الله تعالى عنه جیسے وزیر باتدبیر کی وزارت میں لرزہ پیدا کردیا اور امت مسلمہ مرحومہ کا بیڑا منجدھار میں نہ پھنس جائے مُلْہَم ومُوفَّق من اللّٰہ شخص جس کی زبان پر حق ہی جاری ہوتا ہے یعنی حضرت عمررضى الله تعالى عنه نے خلیفہ رسول صدیق اکبر سے عرض کیا کہ قرآن کو یکجا محفوظ کرلیا جائے کہ حضور صلى الله عليه وسلم سے براہ راست کلام اللہ کو سن کو حفظ کرنے والے اور آپ کے سامنے قرآن کو لکھ کر اس کی حفاظت کرنے والے ابھی بے شمار صحابہ موجود ہیں جو قرآن کے تواتر کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمررضى الله تعالى عنه کی فرمائش پر صدیق اکبر رضى الله تعالى عنه کے سینہ کو اِس عظیم خدمت کے لیے منشرح فرمادیا۔ اب شیخین نے مل کر حضرت زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه کو اس خدمت کے لیے مستعد کیا، اللہ رب العزت نے ان کو بھی شرح صدر کی دولت سے سرفراز کیا۔ چنانچہ خلیفہ رسول کی نگرانی میں انتہائی تفتیش و تحقیق اور شرعی شہادت اور غایت درجہ احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے مذکورہ بالا اشیاء ”رقاع“ وغیرہ سے جس ترتیب سے حضور صلى الله عليه وسلم نے ضبط کرایا تھا اور جس کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی بعینہ اس کو دوسرے اوراق میں یکجا کردیاگیا اور گتے لگاکر دھاگوں سے باندھ دیاگیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ کارنامہ جو ان ہی کے لیے ازل سے مقدر تھا کہ اللہ تعالیٰ جس سے امت کی شیرازہ بندی کا کام لینے والا ہے اسی سے امت کے ہدایت نامہ کی شیرازہ بندی کرائیں کان القرآن فیہا منتشرًا فجمعہا جامع وربطہا بخیط (کنز العمال) تاکہ مجموعہٴ واحد کی حفاظت آسان ہو اور پورے قرآن کی تلاوت اور اس سے استفادہ سہل ہوجائے۔

اس طرح قرآن کا یکجا کرنا حضور صلى الله عليه وسلم کی وفات کے بعد ہی ممکن تھا اس لیے کہ آپ کے انتقال تک نسخ وغیرہ کا احتمال موجود تھا۔ انما لم یجعلہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی مصحف واحد لما کان یتوقع من زیادتہ ونسخ بعض المتلو ولم یزل ذلک التوقع الی وفات النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم. (التبیان ص۱۸۶، مناہل العرفان، تدوین قرآن لمناظر گیلانی رحمة الله عليه)

جمع فاروقی

عرف عام میں ”جامعِ قرآن“ کا مہتم بالشان لقب حضرت عثمان غنی رضى الله تعالى عنه کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اِس لفظ ”جامعِ قرآن“ سے مراد عین قرآن کو جو منتشر تھا جمع کرنا ہے تو جامعِ قرآن حضرت ابوبکر صدیق رضى الله تعالى عنه ہیں جس کے محرک اور داعی فاروق اعظم ہیں اوراگر امت کو قرآن پر جمع کرنا مراد ہے جیساکہ حضرت عثمان رضى الله تعالى عنه کو غالباً اسی اعتبار سے ”جامعِ قرآن“ کہا جاتا ہے تو پھر پورے وثوق اور یقین سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ حضرت عمررضى الله تعالى عنه واقعتا ”جامعِ قرآن“ ہیں چنانچہ حکمت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اوّلاً نبیٴ امی صلى الله عليه وسلم نے نفس قرآن کو محفوظ فرمایا پھر صدیق اکبررضى الله تعالى عنه نے مصحف واحد میں یکجا فرمایا جس سے اصل قرآن کی حفاظت ہوگئی اب ضرورت تھی نزولِ قرآن کے اولین مقصد یعنی تلاوت پر امت کو کسی خاص ڈھنگ سے جمع کردیا جائے یہ کارنامہ حضرت عمررضى الله تعالى عنه کے لیے مقدر تھا۔ چنانچہ فاروق اعظم رضى الله تعالى عنه نے اپنی خلافت کے زمانہ میں حفاظت قرآن کا ایک عجیب نظام قائم کیا رہنمائی خود صاحب قرآن صلى الله عليه وسلم نے فرمادی تھی لیکن بعض مصالح کی بناء پر آپ صلى الله علیہ وسلم نے حتمی شکل وصورت متعین نہیں کی تھی اور خلیفة الرسول حضرت صدیق اکبر کو اپنی خلافت کی قلیل مدت میں امت کی شیرازہ بندی کی وجہ سے موقع میسر ہی نہیں آیا کہ اس طرح متوجہ ہوتے۔ بہرحال اب تک صحابہ کرام اور تابعین عظام انفرادی طور پر نماز میں قرآن پڑھا کرتے تھے بالخصوص رمضان شریف میں پڑھنے والوں کی کثرت ہوتی تھی۔ بالآخر حضرت عمررضى الله تعالى عنه نبوی ہدایت کی روشنی میں اجتماعی طریقہ سے حفظاً قرأت اور سماع پر سب لوگوں کو جمع کیا یعنی ماہ مبارک (افضل الشہور) میں شب کی نماز کی بیس رکعتوں میں جماعت کے ساتھ قرآن کے پڑھنے اور سننے کا سلسلہ جاری فرمایا جسے شریعت کی زبان میں تراویح کہتے ہیں۔ تمام صحابہ اور تابعین نے بلا نکیر اس انوکھے اورمستحکم طریقہ کو بہت پسند فرمایا اور عملاً اس پر متفق و متحد ہوگئے لہٰذا حضرت عمر بھی جامع للقرآن ہوئے یعنی جامع الامة علی قرأة القرآن فی التراویح اجماع صحابہ و تابعین نے حضرت عمررضى الله تعالى عنه کے اس طریق عمل کو قطعی بنادیا اور قیامت تک کے لیے (۲۰) بیس رکعت تراویح سنت موٴکدہ قرار پائی ۔

پس حضرت صدیق اکبررضى الله تعالى عنه کا جمع قرآن اجماعی ہے اور حضرت عثمان رضى الله تعالى عنه کا رسم الخط بھی اجماعی ہے بالکل اسی طرح حضرت عمررضى الله تعالى عنه کا مسئلہ تراویح بھی اجماعی ہے اور ان میں سے کسی بھی اجماع کا انکار اہل السنة والجماعة سے انحراف اور ضلالت ہے۔

جمع عثمانی

حفاظتِ قرآن کے سلسلہ میں اب ایک اہم کام باقی رہ جاتا ہے کہ ایک سے زائد طریقہٴ اداء سے قرآن پڑھنے کی جو اجازت دی گئی ہے جیساکہ حضرت اُبَی بن کعب کی حدیث میں ہے ان اللّٰہ یامرک ان تقرء امتُک القرآن علی سبعة احرف فایما حرف قرء وا علیہ فقد اصابوا (مسلم) وہ کہیں آگے چل کر حق وباطل کے اختلاف کا سبب نہ بن جائے اس طرح پر کہ مختلف قبائل کے لوگ جب اپنے اپنے طریق ادا کے مطابق رسم الخط میں قرآن کی نقل تیار کرنے لگیں گے اوراس کی وجہ سے ہر قبیلہ کا قرآن دوسرے قبیلہ کے قرآن سے رسم الخط میں جدا نظر آئے گا پھر ہر ایک اپنے طریق ادا ء کو حق بتانے کے لیے اپنا قرآن پیش کرے گا تو مستقبل میں فتنہٴ عظیم برپا ہوگا (اتقان، الفوز الکبیر، تاریخ طبری ۱/۶۵۱) اس لیے حکمت الٰہیہ کا تقاضہ ہوا کہ رسم الخط کے اعتبار سے الگ الگ مصحف کو ایک مصحف پر جمع کردیا جائے۔ عثمان جمع المصاحف علی مصحف واحد (مقنع للدانی ص۸) تاکہ امت اختلاف کا شکار نہ ہو اور رسم الخط کی وحدت پر مجتمع ہوجائے اور قرأتِ متواترہ جو منزل من اللہ ہے اوراس میں امت کے لیے سہولت بھی ہے وہ بھی سالم اور محفوظ رہے۔(۹)

مذکورہ تحریر سے معلوم ہوا کہ قرآن کا نزول جس طرح بتدریج ہوا ہے اسی طرح اس کی حفاظت میں بھی تدریجی حکمت پنہاں ہے بلکہ دونوں کی مدت بھی تقریباً یکساں ہے۔ الفاظ کے بعد معانی کا درجہ ہے جس کا دروازہ خلیفہ رابع حضرت علی ہیں انا مدینة العلم وعلی بابہا (جامع الصغیر ۳/۴۶) ماشاء اللہ کیا خوب ترتیب ہے۔                                                         

(جاری)

* * *

حواشی:

(۱)           نزل بہ الروح الامین علی قلبک پ :۱۹

(۲)           نزل فی نیف و عشرین سنة فی احکام مختلفة لاسباب مختلفة (اتقان۲/۱۳۸)

انزل الملِک علی الاطلاق جلّ شانہ علی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لہدایة عبادہ سورة بعد سورة حسب متطلّبات الظروف (الفوز الکبیر ص۸۷)

(۳)          القرآن ہو الوحی المنزل علی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم للبیان والاعجاز (اتقان۲/۱۳۸)

(۴)          انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون (قرآن)

ہو المنزل علی الرسول المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ الینا نقلا متواتراً بلاشبہة (نورالانوار، تعریفات للجرجانی ص۷۵)

(۵)          فتح الباری ص۹             

(۶)           اشارة الی اشتقاقہ من القرأة او القرن.

(۷)          لاتسمعوا لہٰذا القرآن والغوا فیہ پ ۲۶

(۸)          عرب میں کھجور کے پتوں کی جڑ ہمارے یہاں کے ناریل کے پتوں کی جڑ کی طرح چوڑی ہوتی تھی نہ کہ ہندوستانی کھجور کے پتوں کی جڑ (از تدوین قرآن مولانا مناظراحسن گیلانی)

(۹)           جمع عثمانی کا مزید بیان رسم عثمانی کے ذیل میںآ ئے گا، ان شاء اللہ۔

---------------------------------

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 03 ، جلد: 93 ربيع الاول 1430 ھ مطابق مارچ 2009ء



قرآن محکم کی شان عظیم (قسط ۲)

قرآن کا رسم الخط اور قرأتِ متواترہ کا بیان

ہرزبان کا ایک طرزِ ادا ہوتا ہے اور ایک طریقہٴ خط۔ دونوں کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں جن کے مطابق پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔ عربی زبان دنیا کی وسیع تر زبانوں میں سب سے اعلیٰ واشرف اور وسیع ترین ہے علمائے عربیت نے اس کے اصول و قوانین بیان کیے ہیں وقد مہّد النحاة اصولاً وقواعد․(۱) کلام الٰہی کا آخری نسخہ قرآن پاک اسی عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور قواعد عربیت کا سرچشمہ اورمخزن ہے اِنَّا انزلناہ قرءٰ ناً عربیًا(۲)۔ اب یہاں دو امر قابل لحاظ ہیں: (۱) ایک یہ کہ قرآن مجید عربی قواعد و اصول کے موافق ہونے کے باوجود ایک خاص فوقیت کا حامل ہے وہ یہ کہ عربی زبان تو اپنے اصول و قواعد میں کلام اللہ کی خوشہ چیں ہے مگر قرآن خود قائد ہے اس کا تابع نہیں ہے۔ اسی لیے بعض مقام پر عام نحوی قواعد کی مطابقت نظر نہیں آتی ہے۔ (۲)دوسرا امر یہ ہے کہ قرآن مجید کی کیفیت اداء جس طرح جداگانہ اور ممتاز ہے اسی طرح اس کا رسم الخط بھی انوکھا اور امتیازی شان لیے ہوئے ہے یعنی قرآن پاک کا اپنا ایک مخصوص رسم الخط ہے اور وہ اسی کا پابند ہے خواہ عام رسم الخط کے اصول کے موافق نہ ہو وقد خالفہا فی بعض الحروف خط الامام المصحف(۳) اس کی نظیر ایسی سمجھئے جیسے فن عروض کا خط جس میں اشعار لکھے جاتے ہیں کہ وہ عام اصول خط کے خلاف ہوتا ہے اور شاعر اپنے کلام کو اسی کے مطابق وزن کے سانچہ میں ڈھال لیتا ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے ۔ خطان لایقاسان خط العروض وخط القرآن(۴) یعنی دو خط قیاسی نہیں ہیں ایک فن عروض کا خط، دوسرے قرآن کریم کا خط۔ علامہ طاش کبری زادہ صاحب مفتاح السعادة نقل کرتے ہیں: قال عبداللّٰہ بن درستویہ فی کتابہ فی الخط والہجاء ”خطانِ لایقاسان خط المصحف لانہ سنة وحظ العروض لانہ یثبت فیہ ماثبتہ اللفظ ویسقط عنہ ما اسقطہ“(۵)۔

قرأة متواترہ کی اصلیت

حدیث اُنزل القرآن علی سبعة احرف یعنی قرآن سات مختلف طُرقِ ادا پر نازل کیاگیا ہے۔ یہ حدیث ۲۱/صحابہ کرام سے مختلف الفاظ میں مروی ہے ابوعبید قاسم بن سلاّم نے اسے متواتر بتایا ہے(۶) خلاصہ اس کا یہ ہے کہ شروع میں قرآن کو ایک طرز یعنی قبیلہٴ قریش کے طریق ادا پر پڑھنے کا حکم دیاگیا تھا مگر عرب کے دوسرے قبائل جن کا طریق ادا قریش سے جداگانہ تھا ان کے لیے قریش کے طرز و لہجہ میں پڑھنا طبعی وفطری ذوق کے اعتبار سے گراں تھا جیساکہ ہر علاقہ کی زبان میں بُعدِ مسافت کی وجہ سے لب ولہجہ میں فرق ہوا کرتا ہے اس لیے نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنی پوری امت کے لیے سہولت و آسانی کی دعا فرمائی اور دوسرے طریق میں پڑھنے کی اجازت طلب فرمائی بار بار کی التجاء پر سات (بلکہ اس سے زائد) طریقوں سے پڑھنے کی اجازت مرحمت ہوئی عن ابی بن کعب رضى الله تعالى عنه․․․ اِن اللّٰہ یامرک اَن تقرأ امتک القرآن علی سبعة احرف فایما حرف قرء وا علیہ فقد اصابوا(۷)۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے اصحاب رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کو انہی مختلف انداز سے قرآن کریم کی تعلیم دی پھر جس صحابی نے جس طرح تعلیم پائی تھی اس کو سینہ سے لگایا، ذہن میں بسایا اور دوسروں تک پہونچایا یہاں تک کہ یہ مختلف قرأتیں صحابہ کرام میں عملاً رائج اور معروف ہوچکی تھیں۔ اور رسول اکرم صلى الله عليه وسلم اپنی حیات مبارکہ میں قرآن مجید کو جن جن چیزوں میں لکھواکر ضبط فرمایا کرتے تھے حضرت صدیق اکبر رضى الله تعالى عنه نے جب اپنی خلافت میں قرآن کریم کو منتشر چیزوں سے اکٹھا کرکے اوراق میں جمع کروایا تو جمع کردہ یہ قرآن دیگر خصوصیات کے ساتھ مذکورہ بالا احرف سبعہ کا بھی حامل تھا ولا یعزبَنّ عن بالک ان ہذا الجمع کان شاملاً لاحرف السبعة التی نزل فیہا القرآن(۸) اعلم ان جماہیرالعلماء من السلف والخلف وائمة المسلمین ذہبوا الی ان المصاحف العثمانیة مشتملة علی ما یحتملہ رسمہا من الاحرف السبعة التی انزل بہا القرآن جامعة للعرضة الاخیرة التی عرضہا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی جبریل متضمنة لہا لم یترک حرفا منہا لان الصحابة اجمعوا علی نقلہا من المصحف الذی کتبہ ابوبکر وعمر واجمعوا علی ترک ماسوی شیء من القرآن کذا قالہ الجزری فی النشر ولذلک لایجوز مخالفة المصاحف العثمانیة فی الکتابة(۹)۔ اور اس مجموعہ بین الدفتین کا نام خلیفہٴ اول حضرت صدیق اکبر رضى الله تعالى عنه نے مشورہ سے ”مصحف“ تجویز فرمایا۔(۱۰)

رسم عثمانی کی اہمیت وفرضیت

پھر قرّاء صحابہ میں سے جو جس علاقہ میں رونق افروز ہوئے وہاں کے لوگوں کو انھوں نے اپنے طریق عمل، طرزِ تعلیم اور کیفیت ِ اداء سے روشناس کرایا چنانچہ کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه کی قرأت، ملک شام میں حضرت اُبی بن کعب رضى الله تعالى عنه کی قرأت اوریمن وغیرہ میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضى الله تعالى عنه کی قرأت مشہور ومقبول ہوئی(۱۱)۔ انما کان کل صحابی فی اقلیم یُقرئہم بما یعرف فقط من الحروف التی نزل علیہا القرآن(۱۲)۔

بہرحال قرآن پاک کو مختلف کیفیات سے پڑھنے کی جس طرح صریح اجازت شریعت کی طرف سے دی گئی تھی اس طرح قرآن لکھنے کے لیے رسم الخط کی نہ تو عام اجازت تھی اور نہ کسی رسم الخط پر صراحتاً کوئی پابندی تھی۔ اس لیے اپنی اپنی پسندیدہ قرأت کے مطابق قرآن کی نقل کا سلسلہ بھی جاری تھا جس کے نتیجہ میں قرآن مجید کے مختلف نسخے وجود میں آگئے تھے یہاں تک کہ اختلافِ رسم (مع اختلاف قرأت) کی وجہ سے رفتہ رفتہ امت میں سنگین صورتِ حال پیدا ہوچلی تھی۔ صاحب السیر (رازدارِ رسول صلى الله عليه وسلم) حضرت حذیفہ رضى الله تعالى عنه کی حساس طبیعت نے کتاب اللہ کے متعلق امت میں ہونے والے فتنہ کو بھانپ لیا اور دربار خلافت میں یہ کہہ کر استغاثہ فرمایا ادرک ہذہ الامة قبلَ ان یختلفوا اختلاف الیہود والنصاری(۱۳) یعنی قبل اس کے کہ امت یہود ونصاریٰ کی طرح گمراہی کے بھنور میں پھنسے امت کی کشتی کو سنبھالیے اور اس کو بچائیے۔ خلیفہٴ رسول حضرت عثمان غنی رضى الله تعالى عنه نے امت کو اختلاف کے گرداب سے بچانے اور ساحل عافیت پر لانے کے لیے اصحاب بصیرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مشورہ کیا چنانچہ قرآن پاک کی ازسرِ نو کتابت کے لیے چار آدمیوں عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص، عبدالرحمن بن الحارث، اور زید بن ثابت پر مشتمل ایک جماعت مقرر فرمائی اور کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه کو ذمہ دار ٹھہرایا اور مصحف ابی بکر کو جو قرآن کا اولین مجموعہ اور مستند ترین نسخہ تھا سامنے رکھ کر اس کی نقل تیار کرنے کا حکم دیا اور یہ خاص ہدایت دی اذا احتلفتم انتم وزید بن ثابت فی شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فانما نزل بلسانہم(۱۴) کہ جس کلمہ کی کتابت میں قریش وغیر قریش کا اختلاف ہو تو اسے قریش ہی کی لغت پر لکھا جائے اس لیے کہ قرآن پاک انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔

چنانچہ چار بلکہ سات نقلیں اس طرح تیار کی گئیں کہ قرأتِ مختلفہ جس کا مصحف ابی بکر حامل تھا وہ بھی بسلامت اور رسم الخط کی وحدت بھی قائم رہی۔ نیز ایک نسخہ حضرت عثمان رضى الله تعالى عنه نے اپنے لیے مختص فرمایا جس کو الامام کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد آپ نے جن کے پاس قرآن پاک کا اپنا نسخہ تھا سب کو طلب فرمایا اور دارالخلافت کا تیار کردہ ایک ایک نسخہ سات بڑے شہروں مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ، شام، یمن اور بحرین روانہ کیا۔ اور چونکہ صحابہ کے پاس دوسرے نسخے بھی موجود تھے اِن الصحابة کانت لہم صحف او مصاحف کتبوا فیہا القرآن من قبل(۱۵) اس لیے یہ شاہی فرمان جاری کیا کہ اِس متفق علیہ (سرکاری) نسخہ ہی کو اختیار کیا جائے اور سابقہ تمام نسخے جو سرکاری نسخے کے خلاف ہوں نذر آتش کردیے جائیں(۱۶) قد استنخ عثمان بمدة نسخ من ذلک المصحف وارسلہا الی الآفاق لیستفید المسلمون منہا ولایمیلون الی ترتیب آخر(۱۷) صحابہ و تابعین نے خلیفہٴ وقت کے فرمان کو سمعاً وطاعةً قبول کیا اور اُن مصاحف کو جو مصحف عثمانی کے خلاف تھے باادب طریقہ سے ختم کردیا اور بغیر کسی اختلاف ونکیر کے مصاحف عثمانیہ پر مجتمع ومتحد ہوگئے، پس اختلافِ ضلالت کو جس کا خطرہ لاحق ہوا تھا بیخ وبن سے ختم کردیاگیا۔ یہ کارنامہ چونکہ حضرت عثمان رضى الله تعالى عنه نے انجام دیا اس لیے قرآن کا یہ رسم الخط آپ کی طرف منسوب ہوکر رسم عثمانی کہلایا۔

حضرات صحابہ و تابعین کے اس غیرمعمولی اجماع نے مصحف کی قرانیت کے لیے رسم عثمانی کو فرض وشرط بنادیا۔ علامہ جزری اپنی کتاب ”النشر“ میں لکھتے ہیں کل قرأة وافقت العربیة لو بوجہٍ ووافقت احدَ المصاحف العثمانیة ولو احتمالا وصح سندہا فہی القرأة الصححة التی لایجوز ردہا ولا یحل انکارہا(۱۸) یعنی ہر وہ قرأت جس میں یہ تین شرطیں پائی جائیں: (۱) قواعد نحویہ کی مطابقت، (۲) رسم الخط کی موافقت، (۳) اسناد صحیحہ متصلہ کی متابعت۔ تو وہ قرأت صحیحہ ہے اس کا انکار کرنا جائز نہیں ہے۔ اور جس مصحف میں یہ تینوں ارکان موجود ہونگے وہی حقیقت میں قرآن کہلائے گا۔ صاحب خلاصة الرسوم لکھتے ہیں کہ ابوبکر احمد بن مہران اپنی کتاب الہجاء میں فرماتے ہیں: الحق والعدل والواجب والموجّہ فی وفی خط المصحف ان یتبع کتَبةَ زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه ورسم خطہ وتصویرہ وتمثیلہ ولایحل للکاتب مخالفتہ ولو کان حاذقاً فیہما(۱۹)۔

راقم الحروف نے ہندوستان کے متعدد کتب خانوں میں قرآن کے چوتھی صدی ہجری سے ۱۲/ویں صدی ہجری تک کے مخطوطہ بہت سے نسخے اجمالاً و تفصیلاً ملاحظہ کیے ہیں تو جو مصاحف رسم عثمانی کے موافق نہیں ہیں وہ الماریوں کی زینت ضرور ہیں لیکن منصہ شہود پر یعنی امت محمدیہ کے سامنے قرآن مجید کا وہی نسخہ منقول و متواتر چلا آرہا ہے جو رسم عثمانی کے مطابق ہے۔ فللّٰہ درالخلیفہ۔

تنبیہ: اور جب رسم عثمانی کی اہمیت و فرضیت اور قبولیت کا یہ عالَم ہے تو مادیات کی ترقی کے موجودہ زمانہ میں کمپیوٹر اور موبائل میں اتارے ہوئے قرآن کا باریک بینی سے مکمل جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ رسم عثمانی کی موافقت و مخالفت کا حال منکشف ہوجائے۔ راقم الحروف اس سلسلہ میں ایک تحقیقی اور تفصیلی تحریر ان شاء اللہ قارئین کی خدمت میں پیش کرے گا۔ کل شيء مرہون بوقتہ․ وکل آتٍ قریبٌ․

دوسرے رسم الخط میں قرآن لکھنے کی ممانعت

امام اشہب رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ الله علیہ سے پوچھا گیا کہ کوئی شخص قرآن لکھوانا چاہتا ہے تو کیامصحف اُس خط میں لکھ سکتے ہیں جو لوگوں کے ایجاد کردہ ہیں امام مالک رحمة الله عليه نے فرمایا نہیں قرآن تو بس پہلے رسم الخط (رسم عثمانی) میں ہی لکھاجائے گا ہل یکتب المصحف علی ما احدثہ الناس من الہجاء فقال لا الا علی الکتبیة الاولی(۲۰) امام احمدبن حنبل رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ مصحف عثمان رضى الله تعالى عنه کے خط (رسم الخط) کی مخالفت حرام ہے(۲۱) علامہ ابوعمرو الدانی فرماتے ہیں کہ علمائے امت میں سے کوئی بھی اس کا مخالف نہیں ہے(۲۲) صاحب کشاف لکھتے ہیں وکان اتباع خط المصحف سنة لا تخالف(۲۳) مصحف عثمانی کے خط کا اتباع سنت (یعنی ایسا دستور) ہے جس کی مخالفت نہیں کی جاتی ہے۔ جلال الدین سیوطی رحمة الله عليه امام بیہقی سے نقل کرتے ہیں من یکتب مصحفا فینبغی ان یحافظ علی الہجاء الذی کتبوا بہ تلک المصاحف ولایخالفہم فیہ ولا یغیر مما کتبوہ شیئاً فانہم کانوا اکثر علما واصدق قلبا ولسانا واعظم امانة فلا ینبغی ان نظن فانفسنا استدراکا علیہم(۲۴) یعنی جو شخص مصحف شریف لکھنا چاہتا ہے تو چاہیے کہ اس رسم الخط کی پابندی کرے جس سے صحابہ کرام نے مصاحف عثمانیہ لکھے ہیں ان کی مخالفت نہ کرے اور نہ ان کی لکھی ہوئی کسی چیز میں کوئی ادنیٰ تغیر کرے اس لیے کہ وہ حضرات پوری امت میں سب سے علم والے اور قلب وزبان کے اعتبار سے سب سے سچے اور سب سے زیادہ امانت دار تھے پس خوش فہمی میں مبتلاہوکر ان پر استدراک کرنا ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔

علامہ جعبری متوفی ۷۳۳ھ لکھتے ہیں رسم المصحف توقیفی ہو مذہب الاربعة یعنی قرآن کریم کا یہ رسم الخط توقیفی اور سماعی ہے یہی ائمہ اربعہ کا مذہب ہے۔(۲۵)

مولانا ظفراحمد تھانوی لکھتے ہیں: جب عربی ہی زبان میں مگر دوسرے رسم الخط میں قرآن کا لکھنا جائز نہیں ہے جبکہ اس میں وہ سارے حروف موجود ہیں جو خط عثمانی میں موجود ہیں تو پھر اس کے علاوہ دوسری زبان میں جس میں تمام حروف کو مکمل رعایت ہوہی نہیں سکتی ہے لکھنا کب جائز ہوگا۔(۲۶)

فقیہ الامت مفتیٴ اعظم ہند و دارالعلوم دیوبند حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمة الله عليه لکھتے ہیں ․․․․ عبارات منقولہ سے معلوم ہوا کہ مصحف عثمانی کے رسم خط کی رعایت ومتابعت لازم و ضروری ہے اور اس کے خلاف لکھنا اگرچہ وہ عربی رسم خط میں ہی کیوں نہ ہو ناجائز اور حرام ہے اور اس مسئلہ پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے بلکہ علمائے امت میں سے کسی کا اختلاف نہیں تو یہ اجماعی مسئلہ ہوا پھر غیر عربی بنگلہ (ہندی، گجراتی) وغیرہ رسم خط میں لکھنا کیسے جائز ہوسکتا ہے اس میں تو جواز کا کوئی احتمال ہی نہیں بعض حروف عربی کے ساتھ مخصوص ہیں جیسے طاء، حاء، ضاد، ظاء وغیرہ یہ حروف دوسری زبان میں استعمال ہی نہیں ہوتے ان کے لیے ان زبانوں میں نہ صوت ہے نہ شکل وصورت ہے تو لامحالہ ان کی جگہ دوسرے حروف لکھے جائیں گے اور یہ عملاً تحریف و تغییر ہے جو کہ حرام ہے۔ البتہ اگر متن قرآن کریم تو عربی اصل رسم خط میں ہو اور اس کا ترجمہ و تفسیر دوسری زبان میں تو شرعاً مضائقہ نہیں(۲۷)۔

تنبیہ: بہت سے علاقوں میں وہاں کے ہمدردانِ قوم مقامی عام لوگوں کی دینی راہنمائی کے لیے قرآن پاک کی چھوٹی سورتوں اور ماثور دعاؤں کو عربی خط میں لکھنے کے بجائے علاقائی زبان (ہندی، گجراتی، بنگالی وغیرہ) میں لکھ کر اور چھاپ کر شائع کرتے ہیں۔ مذکورہ تحریر سے معلوم ہوگیا کہ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔

قراء تِ سبعہ یا عشرہ کا تواتر

پیغمبر صلى الله عليه وسلم سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں میں سے پچاسوں صحابہ تعلیم قرآن میں معروف تھے پھر ان میں سب سے زیادہ مشہور حضرت عثمان رضى الله تعالى عنه، علی رضى الله تعالى عنه، ابی بن کعب رضى الله تعالى عنه، زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه، عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه، ابوالدرداء رضى الله تعالى عنه، ابوموسیٰ اشعری رضى الله تعالى عنه تھے(۲۸) پھر تابعین کی ایک بڑی جماعت نے اُن سے اور دوسرے صحابہ سے قرآن کو اُن وجوہ سے حاصل کیا جن سے انھوں نے خود نبی امی صلى الله عليه وسلم سے سیکھا تھا۔ پھر اُن میں متعدد شخصیتوں نے قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا اور یہی اُن کے شب وروز کا حقیقی موضوع اور بہترین مشغلہ تھا ثم تجرد قوم واعتنوا بضبط القرأة اتم عنایة حتی صاروا ائمة یقتدی بہم ویرحل الیہم(۲۹) ثم تجرد قوم للقرأة والاخذ واعتنوا بضبطا اتم عنایة حتی صاروا فیہا ائمة یقتدی بہم واجمع اہل بلدہم علی تلقی قرأتہم بالقبول(۳۰) یعنی بعض حضرات نے قرأتِ قرآن کی تعلیم و تبلیغ کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیا تھا اُن کی اِس قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے علم قرأت میں انہیں امامت و پیشوائی کا رتبہ عطا فرمایا قال السیوطی: واشتہر من ہوٴلاء فی الآفاق الائمةُ ان میں سے پھر یہ لوگ یعنی امام نافع مدنی، امام ابن کثیر مکی، امام ابن عامر شامی، امام ابوعمرو بصری، امام عاصم کوفی، امام حمزہ کوفی، امام کسائی کوفی، کو عالم میں زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔(۳۱)

یہ ائمہ اگرچہ تمام متواتر قرأتوں کے حافظ وعالم تھے مگر ہر ایک کو ایک مخصوص قرأت میں جو ان کی پسندیدہ اور محبوب تھی امتیازی شان نصیب ہوئی یہاں تک کہ ہر قرأت ان اماموں میں سے ایک ایک کے نام کی طرف منسوب ہوگئی اور قرأت کا تواتر ان ائمہ کے ناموں سے وابستہ ہوگیا اور ان کی قرأت متواتر قرأت کی معرفت کا مدار بن گئی کہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں قرآن کی قرأت ہو وہ قرأت معتبر و مستند جب ہوگی جب کہ اس کی سند مذکورہ اماموں میں سے کسی ایک تک سند متصل سے پہنچتی ہے تو وہ متواتر کہلائے گی کیونکہ اِن ائمہ سے پیغمبر صلى الله عليه وسلم تک قرآن کا تواتر یقینی ہے لہٰذا ہر امام کی قرأت کے قرآن ہونے کا یقین واجب اور ضروری ہے اور جو قرأت مذکورہ ائمہ سبعہ بلکہ عشرہ کے علاوہ کسی اور شخصیت کی طرف منسوب ہے وہ متواتر نہیں کہلائے گی۔

تنبیہ: قراء سبعہ وعشرہ کی قرأت کے متواتر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قرأت کا تواتر اِن ائمہ قرأت سے شروع ہوا ہے اس سے قبل نہیں تھا۔ حاشا وکلاّ۔ اگر کسی کو یہ تردد ہوا ہوتو مذکورہ تحریر سے اس کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ فافہم

* * *

حواشی:

(۱)              اتقان، ص:۲۱۲ نوع ۷۶۔                                          (۲)         سورئہ یوسف پ۱۲۔

(۳)            اتقان،ج:۲، ص:۲۱۲۔                                             (۴)         الکامل للمبرد۔

(۵)             مفتاح السعادة،ج۱، ص:۹۴۔                                      (۶)          مناہل العرفان۔

(۷)            مسلم شریف۔                                                           (۸)         مناہل ،ج:۱، ص:۲۵۳۔

(۹)             نثر المرجان فی رسم نظم القرآن، ج:۱، ص:۱۰۔(۱۰)      اتقان۔

(۱۱)            المقنع للدانی ص۴۔                                                     (۱۲)        مناہل،ج:۱،ص:۲۵۶

(۱۳)           المقنع،ص۴۔                                                             (۱۴)       مناہل ،ج۱،ص۲۵۹۔

(۱۵)           مناہل العرفان۔                                                         (۱۶)        ایضاً۔

(۱۷)           الفوز الکبیر،ص۸۷۔                                                  (۱۸)       اتقان عن النشر۔

(۱۹)            نثرالمرجان،ج۱،ص:۱۱۔                                            (۲۰)       المقنع،ص۹۔

(۲۱)           اتقان ص۲۱۳۔                                                        (۲۲)       المقنع ،ص۹۔

(۲۳)          مفتاح السعادة،ج۱،ص:۹۴۔                                      (۲۴)      اتقان عن البیہقی فی شعب الایمان۔

(۲۵)          شرح العقیلہ۔                                                            (۲۶)       امداد الفتاویٰ،ج۴، ص۴۴۔

(۲۷)          فتاویٰ محمودیہ،ج۱، ص۴۶۔                                        (۲۸)      الاتقان،ج۱، ص۹۶۔

(۲۹)           ایضاً،ج۱، ص۹۷۔                                                     (۳۰)      نثر المرجان، ج۱، ص۱۰۔

(۳۱)           نثرالمرجان، منجد المقرئین، ص۲۳۔

* * *






قرآن محکم کی شان عظیم (قسط 3)



صُحُفِ رَبّانیہ کی تعداد اور قرآن کی جامعیت:
          امام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی حسن بصری کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں اور اُن سب کے علوم چار کتابوں : توریت، انجیل، زبور اور فرقان میں جمع فرمادئیے، پھر مذکورہ تین کتابوں کے علوم قرآن پاک میں محفوظ کردئیے۔(۱)
کتبِ سماویہ کا زمانہٴ نزول:
          حضرت واثلہ بن الاسقع  سے  مروی ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تورات ۶/رمضان المبارک کو نازل ہوئی، انجیل ۱۳/رمضان کو، زبور ۱۸/رمضان کو اور قرآن مجید ۲۴/رمضان میں نازل ہوا۔ بعض روایات میں ہے کہ صحیفہٴ ابراہیم یکم رمضان کو نازل ہوا۔(۲) (اسباب النزول للواحدی،ص:۱۵)
کتبِ الٰہیہ کی زبان:
          اہل جنت کی زبان عربی ہونے کی وجہ سے گویا وہی انسان کی اصلی زبان کہی جاسکتی ہے اور اس لیے وحی کے لیے بھی یہی زبان پسند کی گئی؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے دنیا میں عربی زبان کے علاوہ دوسری زبانیں بھی پیدا فرمائی ہیں تاکہ ہر انسان بہ سہولت اپنے مافی الضمیر کو ادا کرسکے اور اسی وجہ سے ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اپنی قوم کی زبان میں مبعوث فرمایا -  وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ اِلّا بِلسَانِ قَومِہ لِیُبَیِّنَ لَہُم -تاکہ وہ پیغام خداوندی جس کا نزول ان پر عربی زبان میں ہوتا ہے،اس کی ترجمانی اور توضیح اپنی قوم کے سامنے ان کی مادری زبان میں فرماتے رہیں؛ چنانچہ عَنْ سُفیانَ مَا نزَل مِنَ السَّمَاءِ وَحْيٌ الاَّ بِالعربیةِ وَکَانَتْ الأنْبِیَاءُ علیہمُ السلامُ تُتَرْجِمُہ لِقَوْمِہِمْ بِلِسَانِہِمْ(۳) سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ وحی تو عربی زبان میں ہی نازل ہوئی پھر ہر نبی نے اپنی قوم کی زبان میں اس وحی کی ترجمانی فرمائی۔ برخلاف قرآن مجید کے کہ وہ جس زبان میں نازل ہوا وہی نبی علیہ الصلاة والسلام اور قوم کی مادری زبان اور تمام انسانوں کی فطری اور اخروی زبان تھی؛ اس لیے قرآن جس طرح نازل ہوتا تھا، بعینہ اسی طرح قوم کے سامنے پیش کردیا جاتا اوراسی طرح زبانی وتحریری طور پر محفوظ کرلیا جاتا تھا۔
بتدریج نزول قرآن کی چند حکمتیں:
          آسمانی کتاب کے نزول کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ پوری کتاب یکبارگی اُتار دی جائے تاکہ تمام احکام پر عمل درآمد ایک ساتھ شروع ہوجائے، (۲) دوسری صورت تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت نازل ہو۔ آخری کلام الٰہی کے سوا تمام کتب سماویہ اور صحیفے یکبارگی نازل ہوئے۔(۴) اور قرآن مجید دونوں کیفیتوں کا جامع ہے؛ چنانچہ لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر دفعتہ ہی نازل ہوا ہے انا أنزلنٰہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ جس کی حکمت علامہ سخاوی یوں بیان کرتے ہیں: قَالَ السَّخَاوِیُّ فِیْ جَمَالِ القُرَّاء: فِیْ نُزُوْلِہ الٰی السَّمَاءِ جُمْلَةً تَکْرِیْمُ بَنِیْ آدَمَ وَتَعْظِیْمُ شَأنِہِمْ عِنْدَ الْمَلاَئِکَةِ وَتَعْرِیْفُہُمْ عِنَایَةَ اللّٰہِ بِہِمْ وَرَحْمَةً بِہِمْ(۵) یعنی فرشتوں کے نزدیک بنی آدم کی تعظیم وتکریم اور یہ بتلانا ہے کہ امتِ محمدیہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت وعنایت کی مستحق ہے۔ پھر سمائے دنیا سے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات پر ضرورت کے مطابق بتدریج نازل کیاگیا، جس کی چند حکمتیں یہ ہیں:
          (۱)      حفظ آسان ہو۔
          (۲)      فہمِ معانی میں سہولت ہو۔
          (۳)     پورے کلام کا ضبط کرنا سہل ہو۔
          (۴)     لوگوں کے لیے عمل میں راحت ہو دشواری نہ ہو۔
          (۵)      شانِ نزول دیکھ کر معنی ومراد متعین کرنے میں اعانت ہو۔
          (۶)      ضرورت پر بروقت جواب ملنے سے پیغمبر اور مسلمانوں کے لیے باعثِ تسکینِ قلب ہو۔
          (۷)     ہرآیت کے نزول پر قرآن کا اعجاز اور عہدِ الست کی یاد تازہ ہو۔
          (۸)     باربار حضرت جبرئیل کی تشریف آوری سے برکت کا نزول اور مسرت حاصل ہو(۶)
قرآن مجید کے اوّلیات وآخریات:
          اولیت وآخریت کسی چیز کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے اس شئی کی تأسیس وانشا، تکمیل وانتہاء کی تاریخ معلوم ہوتی ہے،اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ دو متعارض احکام یا واقعات میں ترجیح دینا آسان ہوتا ہے۔ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ صاحبِ اولیت وآخریت کے لیے باعث فضیلت وشرف ہے؛ چونکہ یہ دونوں وصف محمود ہیں اور تمام محامد کا حقیقی مستحق اللہ رب العزت ہے اس لیے واقعی اولیت و آخریت تو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ثابت ہے۔ دیکھیے حق تعالیٰ نے اپنے کمال کا اظہار جن اسمائے حسنیٰ سے فرمایاا ہے ان میں ہُوَ الأوَّلُ وَالْآخِرُ (الحدید) بھی نمایاں ہے۔ نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مذکورہ فضیلت حاصل ہے، جسے آپ نے مختلف مواقع میں بیان فرمایاہے، مثلاً اَنَا اَوَّلُ النَّبِیِیْنَ خَلْقاً وَآخِرُہُمْ بَعْثاً، أنَا آخِرُ الأنْبِیَاءِ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، أنَا أوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الأرْضُ وغیرہ۔
          بہرحال قرآن پاک کے اولیات وآخریات سے متعلق علماء نے جو کچھ کلام کیا ہے اس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔(۷)
          (۱)      علی الاطلاق سب سے پہلی وحی جس کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی بنائے گئے وہ قرآن پاک کی سب سے پہلی سورہ ”اقرأ“ کی ابتدائی پانچ آیتیں نازل ہوئیں، پھر تقریباً تین سال وحی کا سلسلہ مصلحتاً منقطع رہا، جس کو اصطلاح شریعت میں فترة الوحی کہتے ہیں (فضائل القرآن لابن کثیر)۔ اِس فترت کے بعد
          (۲)      سب سے پہلی آیت یا سورہ نازل ہوئی وہ یَا أیُّہَا الْمُدَّثِّرْ․․․ الی ․․․ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ہے۔
          (۳)     سب سے پہلی مکمل سورہ جو نازل ہوئی وہ سورہٴ فاتحہ ہے۔
          (۴)     سب سے پہلی سورہ جو مکہ میں نازل ہوئی وہ سورہٴ ”علق“ یعنی سورہٴ اقرأ ہے۔
          (۵)      سب سے پہلی سورہ جو کفار مکہ کے سامنے ظاہر ہوئی وہ سورہٴ ”النجم“ ہے۔
          (۶)      سب سے پہلی سورہ جو مدینہ میں نازل ہوئی وہ سورہٴ ”تطفیف“ ہے۔
---------------------
          (۱)      سب سے آخری سورہ قتال وجہاد کے اعتبار سے سورہٴ ”برأت“ ہے۔
          (۲)      سب سے آخری آیت میراث کے اعتبار سے یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلَالَةِ الخ ہے۔
          (۳)     سب سے آخری آیت احکام کے اعتبار سے، آیت رِبا ہے۔
          (۴)     سب سے آخری سورہ، سورہٴ ”نصر“ ہے۔
          (۵)      اور مطلقاً سب سے آخری آیت وَاتَّقُوْا یَوْماً تَرْجِعُوْنَ فِیْہِ الٰی اللّٰہِ الخ ہے۔
حِصصِ قرآن کی تشریح:
          سورتوں اور آیتوں کی تعداد نیز مضامین کی تفصیل وتکرار کے لحاظ سے مشہور قول کے مطابق قرآن پاک کے چار حصے بتائے گئے ہیں: طوال، مئین، مثانی، مفصلات۔ واثلہ بن الاسقع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ سات لمبی سورتیں مجھے دی گئیں جو بمنزلہٴ تورات کے ہیں اورمجھے مئین، دی گئیں جو انجیل کے درجہ میں ہیں اور مجھے مثانی عنایت کی گئیں جو زبور کے قائم مقام ہیں اور مفصّلات مرحمت فرماکر مجھے دوسرے نبیوں پر فضیلت دی گئی ہے(۸)۔
          (۱) السبع الطوال: سات بڑی سورتیں یعنی ایسی بڑی سورتیں کہ عموماً ان میں سے ہرایک میں دوسو یا زائد آیتیں ہیں۔ سورہٴ بقرہ، آلِ عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف، انفال اورتوبہ۔
          (۲) المئین : وہ سورتیں کہلاتی ہیں کہ ان میں ہر ایک میں کم وبیش سو آیات ہیں، یہ سورہٴ یونس سے لے کر سورہٴ فاطرتک ہیں۔
          (۳) المثانی: وہ سورتیں کہلاتی ہیں جن میں واقعات وقصص اور نصیحتیں بار بار بیان کئے گئے ہیں، یہ سورہٴ یٰسین سے سورہٴ ق تک ہیں۔
          (۴) المفصلات: جدا جدا مضامین والی سورتیں، یا ہردو سورتوں کے درمیان بسملہ کے ذریعہ فصل کی کثرت کی وجہ سے انھیں مفصّل کہا جاتا ہے، یہ سورہٴ حجرات سے آخر قرآن تک ہیں۔
          مفصلات کی ابتداء کون سی سورہ سے ہوتی ہے،اس میں علامہ جلال الدین سیوطی نے بارہ اقوال نقل کیے ہیں۔ ان میں سے امام نووی نے حجرات سے ابتداء والے قول کی تصحیح کی ہے اوراحناف کے نزدیک بھی یہی راجح ہے۔(۹)
          پھر اِن مفصلات کی تین قسمیں ہیں:
          طِوالِ مفصل                  سورہٴ حجرات سے سورہٴ بروج تک
          اوساطِ مفصل                  سورہٴ بروج سے سورہٴ لم یکن تک
          قِصارِ مفصل                   سورہٴ لم یکن سے آخر قرآن تک(۱۰)
          محیط میں اسی طرح تصریح ہے اور بالعموم فقہاء بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں۔(۱۱)
پاروں اور منزل وغیرہ کی تعیین:
          مذکورہ بالا حصص اور سورتوں کی تقسیم کے علاوہ وہ تقسیمات جن کی علامتیں قرآن مجید میں ہم پاتے ہیں منزل (حزب) سی پارہ (جزء) نصف، ثلث، ربع۔ عملاً ان سب کا وجود اگرچہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھا، مثلاً حضرت اوس بن حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ آپ لوگ قرآن کو کتنے حصوں میں (یومیہ تلاوت کے لیے) تقسیم کرتے ہیں، تو صحابہ نے فرمایا: تین (سورتیں) پانچ، نو، گیارہ، تیرہ اور مفصلات کی سورتوں کا مجموعہ(۱۲)؛ لیکن متعین طور سے تقسیم و تحدید دورِ صحابہ کے اواخر یا قرنِ تابعین کے اوائل میں ہوئی جس کا منشاء قرآن کے حفظ وتلاوت اور اس کے معانی کی تعلیم وتدریس کو امت پر سہل کرنا ہے، جس طرح قرآن میں اعراب، نُقاط وغیرہ لگانے کا مقصد امت کو خطاء وگمراہی سے بچانا تھا دراصل یہ بھی وَاِنّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ کی ایک عملی صورت تھی جو منجانب اللہ وجود میں آئی۔ حضرت فقیہ الامت لکھتے ہیں: ”قرونِ مشہود لہا بالخیر میں حفاظتِ قرآن پاک کے لیے یہ سب کچھ کردیاگیا؛ تاکہ لوگ غلط نہ پڑھیں اور تحریف نہ ہوجائے۔“(۱۳)
          اس سلسلہ میں مشہور قول یہ ہے کہ حجاج بن یوسف ثقفی والیِ عراق نے اپنی ولایت کے زمانہ میں قرّاء وعلماء کی ایک جماعت کو جو صحابہ اور تابعین پر مشتمل تھی حصصِ قرآن کی تعیین اور اس کے کلمات وحروف کے شمار پر مامور کیا اور انھوں نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حُسنِ قبول عطا کیا؛ چنانچہ امت اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہے(۱۴)۔ صاحب تفسیرِ حقانی اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں: علماء نے سہولتِ حفظ کے لیے قرآن کو تیس حصوں میں بہ حساب مہینوں کے دنوں کے منقسم (کرکے کہ ہر ایک کو جزء یا پارہ کہتے ہیں پھر ہر پارہ کو چار حصوں میں منقسم) کیا ہے اور ان پر ربع، نصف، ثلث لکھ دیا ہے اور ہر حصہ کو رکوعات میں منقسم کیا ہے۔ (البیان فی علوم القرآن، ص:۲۶۸)
(۱)      پاروں کی تقسیم: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ: ہرمہینہ ایک ختم کیا کرو۔ اس ارشاد پر عمل کرنے کے لیے (قرآن پاک جب تیس دنوں میں تقسیم کریں گے تو) ہر رات ایک پارہ یعنی تیسواں حصہ کی مقدار قرأت ہواکرے گی(۱۵)؛ چنانچہ صحابہ کرام کی ایک جماعت ہر ماہ ایک قرآن ختم کرتی تھی(۱۶)۔
(۲)      منزل کی تخصیص: مذکورہ فرمانِ نبوی کو تسلیم کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمرو نے جب مزید رغبت وقوت کا اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے واسطے ہفتہ مقرر کیا یعنی ہر ہفتہ ایک ختم کیا کرو پھر اکثر صحابہ نے بھی اپنا یہی معمول بنالیا، جیساکہ شروع میں اوس بن حذیفہ کے حوالہ سے صحابہ کا معمول ذکر کیاگیا؛ چنانچہ پہلی شب میں فاتحہ کے بعد تین سورتیں، دوسری شب میں اس کے بعد پانچ سورتیں، تیسری شب میں سات، چوتھی شب میں نو، پانچویں شب میں گیارہ، چھٹی شب میں تیرہ سورتیں اور ساتویں شب میں بقیہ قرآن پورا کرتے تھے۔
          ان منزلوں کو سہولت کے لیے ”فمی بشوق“ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ ہر منزل کی پہلی سورہ کے نام کا پہلا حرف لے کر یہ جملہ بنایا گیا ہے(۱۷)۔
(۳)     نصف، ربع، ثلثہ کی تقدیر: حضرت صحابہ کرام میں ایک جماعت ہر دوماہ میں ایک قرآن پاک ختم کیا کرتی تھی، امام نووی لکھتے ہیں فَکَانَ جَمَاعَةٌ مِنْہُمْ یَخْتُمُوْنَ فِیْ کُلِّ شَہْرَیْنِ خَتْمَةً(۱۸) لہٰذا روزانہ پارہ کا نصف تلاوت کرتے ہوں گے۔ پس ہر پارہ کے نصف کا سراغ لگ گیا۔
          حضرت عبداللہ بن عمر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کتنے دنوں میں قرآن ختم کرلیں، ارشاد فرمایا چالیس دنوں میں ختم کردیا کرو(۱۹) اس حدیث کے مطابق عمل کرنے کے لیے ضروی ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید کو چالیس حصوں میں تقسیم کرکے روزانہ ایک جزء پڑھا جائے؛ چنانچہ نصف پارہ پر ایک ربع کا اضافہ کرلیا جائے تو پورے قرآن کا چالیسواں حصہ بن جاتا ہے؛ اس لیے ہرپارہ کوچار حصوں میں تقسیم کرکے حصہٴ اول پر ربع کی علامت اور دو ربع پر نصف اور تین ربع پر ثلثہ کی علامت مقرر کی گئی؛ تاکہ قرآن میں کہیں سے بھی تین چوتھائی کی قرأت کرنے سے چالیسواں حصہ کی تلاوت ہوجائے۔
(۴)     رکوعات: نماز میں قرأت کی فرضیت ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتوں سے اداء ہوجاتی ہے؛ مگر واجب کی ادئیگی کے لیے سورہٴ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورہ کا ملانا بھی ضروری ہے؛ چونکہ رکعت میں مکمل سورہ کا پڑھنا مستحب ہے، جیساکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے عموماً ایسا ہی منقول ہے(۲۰) چنانچہ چھوٹی چھوٹی سورتیں جو چند آیات پر مشتمل ہیں، مکمل پڑھ کر رکوع کیا جاتا تھا، اس لیے وہ ایک مقدارِ قرأت تھی جس کو رکوع سے تعبیر کیا گیا اور اسی طرح جہاں آیات کی تعداد زیادہ تھی، وہاں معانی کو ملحوظ رکھ کر اور طریقہٴ نزول کا اعتبار کرتے ہوئے چند آیات کے مجموعہ پر رکوع کی تعیین کردی گئی؛ تاکہ رکعتوں میں اس کا پڑھنا آسان ہو۔
آیات و سورتوں کی ترتیب وتقسیم:
          سورہ کہتے ہیں قرآن پاک کی اس مخصوص ومحدود مقدار کو جس کی ابتداء وانتہاء متعین ہو اور کم از کم تین آیتوں پر مشتمل ہو، مثلاً سورہٴ کوثر۔
          آیت کہتے ہیں قرآن کا ایک حصہ جس میں کم سے کم چھ حروف ہوں اور اس کا اول و آخر متعین ہو جیسے ثُمَّ نَظَرَ (۲۱)۔
          اب جاننا چاہیے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو آیتیں نازل ہوتی تھیں، انھیں کاتبینِ وحی کے ذریعہ لکھواکر ارشاد فرماتے: اِن آیتوں کو فلاں سورہ کے فلاں مقام پر فلاں آیت کے بعد اور فلاں آیت سے پہلے رکھا جائے۔ نیز سورتوں کا موقع ومحل بھی مقرر فرماتے تھے کَانَ اِذَا نَزَلَ عَلَیْہِ الشَّیْءُ دَعَا بَعْضَ مَنْ کَانَ یَکْتُبُ فَیَقُوْلُ ضَعُوا ہَذِہ الآیاتِ فِیْ السُّوْرَةِ الَّتِیْ یَذْکُرُ فِیْہَا کَذَا وَکَذَا(۲۲)اس طرح تمام آیات و سورتوں کی ترتیب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آگاہ فرماتے رہتے ؛ یہاں تک کہ پورا قرآن پاک تحریری شکل میں مرتب اور منضبط ہوگیا؛ غرض یہ کہ نفس آیت وسورہ کی معرفت جس طرح شارع کی طرف سے ہے(۲۳) اسی طرح آیات وسُوَر کی ترتیب و تقسیم بھی من جانب الشارع ہے(۲۴) ۔ یہ بندوں کا محض نتیجہٴ فکر یا اُن کی عقل کی دریافت نہیں ہے؛ بلکہ شارع کی طرف سے ہے اسی کو ”توقیف“ کہتے ہیں۔
          پس قرآنی آیات اور سورتوں کی موجودہ ترتیب جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ہر سال کے عرض (دور) اور عرضہٴ اخیرہ کی ترتیب کے عین مطابق ہے اور جو تواتر وتعامل سے منقول چلی آرہی ہے، یہی حق اور قطعی ہے(۲۵) صحابہ کرام نے قرآن مجید کو اسی ترتیب کے مطابق بغیر کسی کمی بیشی کے جمع کیا اور اسی طرح لکھا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اپنی جانب سے نہ تو کچھ تقدیم وتاخیر کی اور نہ کوئی ایسی ترتیب قائم کی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ (حاصل) نہ کی ہو (البیان فی علوم القرآن،ص:۲۷۴)۔
           جو قرآن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ سے پوری دنیا میں آج تک بغیر کسی حرف یا حرکت کی تبدیلی کے بے شمار تعداد میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے رسم کے مطابق نقل ہوتا چلا آرہا ہے اور امت کے اَن گنت افراد اپنے سینوں میں محفوظ کرتے چلے آرہے ہیں اور قیامت تک ان شاء اللہ جمہورامت اسی طرح متفق رہے گی، وہی قرآن، قرآن ہے، حق ہے اس کے علاوہ باطل ہے۔
          سورتوں کی ترتیب اور تقسیم میں بہت سی حکمتیں بیان کی گئی ہیں مثلاً (۱) ہر سورہ کو ایک مستقل معجزہ کی شکل میں پیش کرنا۔ (۲) پڑھنے اور حفظ کرنے والوں کے دل میں خوشی پیدا کرنا؛ تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ ہم ایک حصہ ختم کرچکے۔ (۳) مربوط مضامین کو یکجا کرنا۔ (علوم القرآن للافغانی،ص:۱۴۲) (اتقان:۱/۸۸)
مکی ومدنی آیات وسُوَر کی توضیح:
          قرآن مجید صحابہٴ کرام کے درمیان نازل ہورہا تھا؛ اس لیے وہ بہ خوبی واقف تھے کہ کون سی آیت یا سورہ کب، کہاں اور کس کے حق میں نازل ہوئی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ واللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں کتاب اللہ کی کوئی سورہ اور کوئی آیت جو بھی نازل ہوئی ہے میں خوب جانتا ہوں کہ کہاں اور کس سلسلہ میں نازل ہوئی ہے(۲۶)۔ ایک شخص نے حضرت عکرمہ (تلمیذ ابن عباس) سے کسی آیت کے متعلق پوچھاتو فرمایا وہ آیت فلاں پہاڑ (سلع) کے دامن میں اتری ہے۔(۲۷)
          اور ظاہر ہے کہ قرآن مجید کا بیشتر حصہ جو ایمان وعقائد اور واقعات وتذکیر پر مشتمل ہے، مکی زندگی میں نازل ہوا اور احکام شرعیہ وسیاست مُلکِیہ سے متعلق قرآن کا حصہ مدنی زندگی میں نازل ہوا ہے، مکی ومدنی کی معرفت کا پورا دارومدار صحابہ و تابعین کی یاد داشتوں پر ہے(۲۸) مکی ومدنی کی توضیح کی ضرورت اس وقت لاحق ہوئی جب مجتہدینِ امت نے احکام شرعیہ کے استنباط کے موقع پر دلائل میں تعارض محسوس کیا اور اس کے رفع کے لیے ناسخ ومنسوخ جاننے کی ضرورت پڑی؛ چونکہ مکی زندگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدم ہے مدنی زندگی پر، لہٰذا جو آیت مدنی ہوگی وہ لامحالہ متأخر ہوگی اور اسے ناسخ کا درجہ دیا جاسکے گا اور جو آیت مکی ہوگی وہ منسوخ قرار پائے گی؛ چنانچہ صحابہ کرام کے آثار اور تابعین کے اقوال کا تتبع کیاگیا تو اس تلاش وجستجو کے نتیجہ میں علماء کے تین نظریات سامنے آئے، جن میں زیادہ صحیح اور مشہور یہ ہے کہ جو سورہ یا آیت قبل الہجرت نازل ہوئی وہ ”مکی“ ہے، خواہ شہر مکہ میں یا اس کے قرب وجوار میں نازل ہوئی ہو اور جو آیت یا سورہ بعد الہجرت نازل ہو وہ ”مدنی“ ہے چاہے مدینہ میں یا اس کے اطراف میں حتی کہ مکہ ہی میں کیوں نہ اتری ہو، بہ بہرحال مدنی کہلائے گی(۲۹)۔
مکی ومدنی کی ظاہری علامتیں:
          مکی ومدنی سورتوں میں امتیاز کے لیے کوئی حتمی قاعدہ نہیں ہے؛ البتہ علماء نے کچھ علامتیں ذکر کی ہیں مثلاً: (۱) ہر وہ سورہ جس میں لفظ ”کلاّ“ آیا ہو وہ مکی ہے۔ یہ لفظ پورے قرآن میں ۳۳ مرتبہ آیا ہے اور وہ بھی نصف اخیر میں۔ (۲) ہر وہ سورہ جس میں سجدہ ہے وہ مکی ہے۔ (۳) ہر وہ سورہ جس کے شروع میں حروف مقطعات ہیں وہ مکی ہے، سوائے سورہٴ بقرہ اور آل عمران کے کہ دونوں بالاتفاق مدنی ہیں۔ (۴) ہر وہ سورہ جس میں نبیوں کا قصہ ہے وہ مکی ہے سورائے بقرہ کے۔ (۵) ہر وہ سورہ جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان لعین کا قصہ ہے وہ مکی ہے، سوائے بقرہ کے۔ (۶) ہر وہ سورہ جس میں حدود وفرائض کا ذکر ہے وہ مدنی ہے (۷) ہر وہ سورہ جس میں جہاد کی اجازت اور احکام جہاد کا بیان ہے وہ مدنی ہے۔ (۸) ہر وہ سورہ جس میں منافقین کا ذکر ہے وہ مدنی ہے (۳۰)
معنوی علامتیں:
          ان ظاہری علامتوں کے علاوہ کچھ معنوی علامتیں بھی ہیں جنھیں خصوصیات کہنا چاہیے، صاحب ”مناہل العرفان“ نے مکی سورتوں کے چھ خواص اور مدنی سورتوں کے تین خواص بیان کیے ہیں۔ یہاں صرف ایک نمونہ کے طورپر لکھا جاتا ہے۔
          مکی سورتوں میں اصولِ اخلاق اور اجتماعی حقوق کی تشریح اس انداز سے کی گئی ہے کہ کفر فسق، معصیت، جہل، طبعی سختی، قلب کی گندگی اور الفاظِ قبیحہ کی کراہت دل میں آجائے اور ایمان، طاعت، رحمت، اخلاص، والدین کے ساتھ حسن سلوک، پڑوسیوں کا اکرام، دوسروں کا احترام، قلوب کی طہارت، زبان کی نظافت وغیرہ دل میں اترجائے اور مدنی سورتوں میں احکامِ شرعیہ کی تفصیل اور اس کے دقائق، شہری وملکی، اجتماعی وجنگی، حکومت و جنایت کے قوانین، نیز حقوقِ شخصیہ اور دوسری عبادات اور معاملات کی تشریح کی گئی ہے۔(۳۱)
***
حواشی:
(۱)         الاتقان:۲/۱۶۰۔
(۲)        اتقان: ۱/۵۵۔
(۳)        ارشادالساری:۱/۶۵، اتقان:۱/۶۰ مطبوعہ دہلی، دیکھیے فتاویٰ محمودیہ: ۱/۱۸ عن تفسیر ابن کثیر۔
(۴)        اتقان:۱/۵۶۔
(۵)        اتقان:۱/۵۵۔
(۶)        اتقان:۱/۵۶، فوائد عثمانی پ ۱۹، بیان القرآن پ۱۵، پ۱۹۔
(۷)        اتقان:۱/۳۹، مناہل العرفان:۱/۹۷، البرہان للزرکشی:۱/۲۶۳۔
(۸)        برہان للزرکشی:۱/۳۰۷ عن تفسیر ابن کثیر۔
(۹)        برہان:۱/۳۰۷، اتقان:۱/۸۵۔
(۱۰)       شامی:۱/۲۶۱۔
(۱۱)        اصول تفسیر لمالک:۴۶۔
(۱۲)       احیاء العلوم:۱/۳۳۶۔
(۱۳)       فتاویٰ محمودیہ (قدیم)۱/۱۹۔
(۱۴)       تفسیر قرطبی:۱/۶۳،۶۴۔
(۱۵)       تفسیر فتح العزیز:۱/۲۹۔
(۱۶)       الاذکار للنووی:۱/۱۱۸۔
(۱۷)       فتح العزیز:۱/۲۹۔
(۱۸)       الاذکار۔
(۱۹)       اتقان عن ابی داؤد۔
(۲۰)       ومِن ثم کانتّ القراء ة فی الصلاة بسورةِ افضل، اتقان:۱/۸۸۔
(۲۱)       شامی:۲/۲۵۶ ، طبع بیروت۔
(۲۲)       البرہان للزرکشی۔
(۲۳)      اتقان:۱/۸۸۔
(۲۴)      ایضاً۔
(۲۵)      فتح الباری:۹/۵۲۔
(۲۶،۲۷) مناہل العرفان:۱/۱۹۶۔
(۲۸)      مناہل :۱/۱۹۶۔
(۲۹)       مناہل واتقان وفضائل القرآن لابن کثیر۔
(۳۰)      مناہل العرفان:۱/۱۹۶۔
(۳۱)       ایضاً:۱/۲۰۳۔
***






قرآن محکم کی شان عظیم (قسط 4)



تلاوتِ قرآن اللہ کا خصوصی انعام:
          وحی کے سب سے پہلے کلمے ”اقرأ“ کا مخاطب حضرتِ انسان ہے نہ کہ فرشتہ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی حیثیت واسطہ کی ہے،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تعلیم و تربیت اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے، جبرئیل کا قرآن لانا اور پڑھ کر سنانا خود ان کے اختیار میں نہیں تھا(۱) وہ حکم خداوندی کے خلاف کرہی نہیں سکتے تھے؛ جب کہ انسان کو طاعت ومعصیت دونوں کا اختیار دیاگیا ہے، اسی وجہ سے تلاوتِ قرآن کا مر انسان کوملا کسی فرشتہ کو ایسا کوئی حکم نہیں دیاگیا، ابن الصلاح اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں قِرَأةُ الْقُرْآنِ کُرَامَةٌ أکْرَمَ اللّٰہُ بِہَا الْبَشَرَ فَقَدْ وَرَدَ أنَّ الْمَلَائِکَةَ لَمْ یُعْطَوا ذٰلِکَ وَأنَّہَا حَرِیْصَةٌ عَلٰی اسْتِمَاعِہ مِنَ الْانْسِ یعنی قرآن کا پڑھنا ایسی شرافت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو مشرف کیا ہے؛ چونکہ یہ چیز فرشتوں کو نہیں ملی؛ اس لیے انسان اس نعمتِ خاصہ کی وجہ سے فرشتوں کے لیے رشکِ تمنا بنا ہوا ہے۔(۲) یہی وجہ ہے کہ فرشتے ایسی مجالس کی تلاش میں رہتے ہیں، جہاں قرآن پاک کی تلاوت یا مذاکرہ ہورہا ہو، بالآخر موٴمنین کی ایسی مجلسوں کو رحمت کے فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں اور سَماعِ قرآن کی برکت سے رحمت الٰہی اور سکینت سے وہ بھی مستفید ہوتے ہیں۔(۳) امام بیہقی نے شعب الایمان میں یہ حدیث نقل کی ہے اذَا قَامَ أحَدُکُمْ یُصَلِّي مِنَ اللَّیْلِ فَلْیَسْتَکِ فَانَّ أحَدَکُمْ اِذَا قَرَأَ فِی صَلَاتِہ وَضَعَ مَلَکٌ فَاہُ عَلٰی فِیْہِ وَلاَ یَخْرُجُہ مِنْ فِیْہِ شَیْءٌ الاَّ دَخَلَ فَمَ الْمَلَکِ (ترجمہ) نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی رات میں نماز (تہجد) کے لیے اٹھے تو مسواک کرلے؛ اس لیے کہ تم میں سے کوئی جب نماز میں قرآن پڑھتا ہے تو فرشتہ پڑھنے والے کے مُنھ پر اپنا منھ رکھ دیتا ہے اور جو چیز پڑھنے والے کے منھ سے نکلتی ہے وہ فرشتہ کے منھ میں داخل ہوتی ہے۔ اس طرح کی روایت کچھ اضافہ کے ساتھ حضرت علی سے بھی منقول ہے۔(۴)
قرآن اللہ کا غیرفانی کلام:
          بنی نوع انسان کی داستانیں قصہٴ پارینہ بن سکتی ہیں، تمام درختوں کے اوراق بوسیدہ ہوسکتے ہیں، شاخوں کے قلم ریزہ ریزہ ہوسکتے ہیں اور ہفت اقلیم کے سمندر کی روشنائی ختم ہوسکتی ہے؛ مگر کلامِ الٰہی کا چہرہٴ بسیط ہمیشہ تروتازہ اور نشیط رہے گا، اس کے شباب پر کبھی کہنگی یا کہولت نہیں آسکتی؛ اس لیے کہ وہ عجائب ونوادر کا لازوال سرچشمہ اور معانی ومعارف کا بحرِناپیدا کرنا ہے وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہ امام شاطبی لکھتے ہیں:
وَخَیْرُ جَلِیْسِ لَا یُمَلَّ حَدِیثُہ        *      وَتَرْدَادُہ یَزْدَادُ فِیْہِ تَجَمُّلاَ(۵)
          سہل بن عبداللہ تُستَری فرماتے ہیں ”اگر بندہ کو قرآن مجید کے ہر حرف کے بدلے ہزار فہم ودانش دے دی جائے، تب بھی اُن معانی کی انتہاء کو نہیں پہنچ سکتا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی ایک آیت میں ودیعت کی ہے؛ اس لیے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور کلام اس کی ذاتی صفت ہے، پس جس طرح ذاتِ خداوندی کی کوئی حدونہایت نہیں، اسی طرح معانیِ کلام کی بھی کوئی غایت نہیں ہے، انسان بس اتناہی سمجھتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے اس پر منکشف فرمایا ہے؛ لہٰذا اس کا کلام ”قدیم“ (یعنی غیرفانی) ہے“(۶)
          قرآن پاک کی اسی ازلی وابدی حیثیت کوکسی زمانہ میں ہواپرست عقل مندوں نے پائمال کرنے کی کچھ ناپاک سعی کی تھی، جس سے عام اہل اسلام کے عقائد میں وسوسہ لاحق ہوگیا تھا، دنیادار لوگوں کا ایمان ڈگمگا چکا تھا، اللہ تعالیٰ نے اِس فتنہٴ عظیم کو جڑسے ختم کردینے کے لیے علمائے حق میں سے ایک جماعت کا انتخاب فرمایا جس کے سرخیل امام احمد بن حنبل قرار پائے؛ چنانچہ امام احمد نے اپنی پوری توانائیوں سے فتنہ کی سرکوبی فرمائی اور کلام کے غیرفانی یعنی ”قدیم“ ہونے کو دلائل وبراہین سے مستحکم وآشکارا کیا؛ یہاں تک کہ فتنہ پرزوال آہی گیا اور کلامِ لازوال پورے آب و تاب کے ساتھ مخلوق کے درمیان محفوظ رہا۔(۷)
          جس کو کلام مجید، قرآن مجید کہا جاتا ہے، وہ مصحف ہے ، یعنی کاغذ یا کسی اور چیز پر لکھا ہوا یا چھپا ہوا قرآن۔ یہ یقینا مخلوق ہے (کفایة المفتی ۱/۱۳۰) یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ کلام الٰہی پر دلالت کرنے والے نقوش جو کاغذ وغیرہ پررقم ہوتے ہیں، اسی کے مجموعہ کو مصحف کہا جاتا ہے، ان ہی نقوش ومکتوب کو ہم اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں، جس کو الفاظ کہتے ہیں اور اپنے کانوں سے اس کی جو آواز سنتے ہیں اسے اصوات کہتے ہیں؛ چونکہ یہ سب انسان کی ذات وصفات سے متعلق ہیں؛ اس لیے انسان کی طرح یہ چیزیں بھی حادث اور فانی ہیں۔
          علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ قرآن کے غیرفانی ہونے پر بعض علماء نے ایک لطیف استدلال یہ بھی کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ”انسان“ کا ذکر اٹھارہ جگہ کیا ہے اور سب جگہ اس کا مخلوق ہونا بیان کیا اور ”قرآن“ کا ذکر چو ّن (۵۴) جگہ فرمایا ہے؛ لیکن کسی ایک جگہ بھی اس کے مخلوق ہونے کا تذکرہ نہیں؛ بلکہ ایک مقام پر دونوں کو یکجا ذکر کیا تو ارشاد الٰہی ”اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْانْسَانَ“ کی تعبیر نے دونوں کو ممتاز کردیا ہے۔(۸)
فضائلِ قرآن کی احادیث کی حیثیت:
          مطلق فضائل کی روایات کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں: (۱) وہ احادیث جو سنداً ومتناً صحیح اور حسن ہیں (۲) وہ روایات جو سنداً ومتناً موضوع ہیں (۳) وہ احادیث جو سند کے اعتبار سے اگرچہ پہلے درجہ کی نہیں ہیں؛ لیکن وہ موضوع بھی نہیں ہیں، اسے ضعیف کہتے ہیں۔
          موضوع روایات ناقابل اعتبار ہیں اور جو احادیث ضعیف کہلاتی ہیں ان سے احکام فقہیہ کے لیے استدلال استشہاد میں تو کلام کیا جاسکتا ہے؛ مگر جن محدثین محققین نے حدیث کے رد و قبول کے اصول اور اس کے مراتب اور درجاتِ استدلال مقرر فرمائے ہیں، انھوں نے ہی فضائل کے باب میں توسّع کیا ہے اور نقد کی باریکیوں سے اِغماض کرتے ہوئے عمل بالحدیث الضعیف کو صحیح قرار دیا ہے۔ ابوعبداللہ حاکم نیشاپوری صاحب مستدرک نے کتاب الدعاء کے شروع میں اس کی صراحت فرمائی ہے (مستدرک ۱/۴۹۰) لہٰذا فضائل کے باب میں ضعیف احادیث پر اعتماد اور عمل جمہور علمائے امت محدثین و فقہاء کے نزدیک درست؛ بلکہ مستحب ہے۔ امام نووی نے بھی اس کی صراحت فرمائی ہے(ازکار۱/۱۰) اور کیوں نہ ہوکہ شرائع کا ایک بڑا حصہ فضائل پر مشتمل ہے، پس احادیثِ فضائل پر عدم اعتماد اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں دین کے ایک وافر حصہ سے گویا اعراض اور اس سے دستبردار ہونا لازم آتا ہے، جو یقینا مصالحِ شرعیہ کے خلاف اور خسارہٴ عظیم ہے۔
مطلق قرآن مجید کے فضائل:
          علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ فضائلِ قرآن کے سلسلہ میں دو طرح کی روایات ہیں: ایک قسم روایات کی وہ ہے جس میں قرآن کی فضیلت یا کسی مخصوص سورة یا آیت کی فضیلت مذکور ہے اور وہ سب روایات قابل اعتبار ہیں۔ یہاں ان میں سے چند احادیث وآثار بالترتیب پیش کرتے ہیں:
          (۱) رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قابل رشک دوا شخاص ہیں ایک وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی تلاوت عطا کی اور وہ رات دن اس میں مشغول رہتا ہے اور اس کے احکام پر عمل کرتا ہے، دوسرا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے مال عطا فرمایا، پس وہ رات دن اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا رہتا ہے۔(۹)
          (۲) حضرت عثمان غنی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ تم میں بہتر شخص وہ ہے جو قرآن پاک خود سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔(۱۰)
          (۳) نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجر دس نیکی کے برابر ملتا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے؛ بلکہ الف (ا) ایک حرف ہے، لام (ل) ایک حرف ہے، میم (م) ایک حرف ہے۔(۱۱)
          (۴) حضرت عائشہ حضور کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور وہ قرأت میں ماہر ہے تو (قیامت کے دن) وہ سَفَرہٴ کرام (انبیائے کرام اور ابرارلوگوں) کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے (مگر ماہر نہیں ہے) مشقت اٹھاکر تکلف سے قرأت کرلیتاہے اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔(۱۲)
          (۵) حضرت ابوامامہ باہلی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ”قرآن پڑھاکرو؛ اس لیے کہ قرآن اپنے پڑھنے والوں کے لیے قیامت کے دن سفارش کرے گا۔(۱۳)
          (۶) حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو مسلمان قرآن شریف پڑھتا ہے،اس کی مثال ترنج کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اور مزہ بھی لذیذ۔ اور جو مومن قرآن شریف نہ پڑھے اس کی مثال کھجور کی سی ہے کہ خوشبو بالکل نہیں؛ مگر مزہ شیریں ہوتا ہے اور جو منافق قرآن شریف پڑھتا ہے اس کی مثال خوشبودار پھول کی سی ہے کہ خوشبو عمدہ اور مزہ کڑوا۔ اور جو منافق قرآن شریف نہیں پڑھتا اس کی مثال حنظل کے پھل کی سی ہے کہ مزہ کڑواہے اور خوشبو بالکل نہیں۔(۱۴)
          (۷) حضرت عمر حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ اس کتاب یعنی قرآن پاک کی وجہ سے کتنے لوگوں کا مرتبہ بلند کردیتا ہے اور کتنی ہی لوگوں کو پست وذلیل کرتا ہے۔(۱۵)
چند مخصوص سورتوں کے فضائل:
سورہٴ فاتحہ: (۱) حضرت ابی بن کعب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو تورات میں نہ ہی انجیل میں ام القرآن جیسی کوئی سورہ نازل فرمائی اور وہ سبع المثانی (سورہٴ فاتحہ) ہے(۱۶)
          (۲) حضرت انس سے روایت ہے کہ الحمدللہ رب العالمین (سورہٴ فاتحہ) قرآن پاک میں سب سے افضل ہے(۱۷)
          (۳) حضرت ابن عمر سے مرسلاً روایت ہے کہ سورہٴ فاتحہ ہر بیماری سے شفاء ہے(۱۸)
سورہٴ بقرہ وآل عمران: (۱) حضرت نواس بن سمعان کی روایت ہے ”قیامت کے دن قرآن اور اہلِ قرآن کو جو اس پر عمل کرتے تھے لایا جائے گا اور (بطور قائد) ان کے آگے آگے سورہٴ بقرہ اور آل عمران ہوگی(۱۹)
          (۲) حضرت انس سے مروی ہے کہ شیطان گھر سے نکل جاتا ہے جب وہ سنتا ہے کہ سورہٴ بقرہ پڑھی جارہی ہے۔(۲۰)
          (۳) حضرت بُریدہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ سورہٴ بقرہ سیکھو؛ اس لیے کہ اس کا سیکھنا برکت ہے اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور سیکھو بقرہ و آل عمران کہ یہ دونوں زَہراوین ہیں۔(۲۱)
          (۴) حضرت سہل بن سعد حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ہر شئے کا ایک کوہان ہے قرآن کا کوہان سورہٴ بقرہ ہے، جس نے گھر میں دن میں پڑھا تو تین دن تک شیطان گھر میں داخل نہیں ہوگا اور جس نے رات میں پڑھا تو تین رات تک شیطان اس کے گھر میں داخل نہیں ہوگا۔(۲۲)
          (۵) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ آدمی کا خزانہ سورہٴ بقرہ وآل عمران ہے۔(۲۳)
سورہٴ کہف: حضرت ابوسعید خدری حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے سورہٴ کہف جمعہ کے دن پڑھی اس کے لیے ایک نور ظاہر ہوگا اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک (۲۴)بعض روایت میں ہے کہ اس کی جگہ سے مکہ تک نور ہوگا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ حضرت ابوالدرداء کی حدیث میں ہے کہ سورہٴ کہف شبِ جمعہ کو بھی پڑھ سکتے ہیں(۲۵)
سورہٴ الم سجدہ: مسیب بن رافع کی مرسل روایت ہے کہ سورہٴ الم سجدہ قیامت کے دن آئے گی، اس کے دو بازو ہوں گے، اپنے پڑھنے والے پر سایہ فگن ہوگی اور کہے گی تم پرکوئی گرفت نہیں، تم پر کوئی گرفت نہیں۔(۲۶)
سورہٴ یٰسین: (۱) حضرت انس کی حدیث ہے کہ ہرشے کا ایک دل ہے، قرآن کا دل یٰسین ہے جو شخص اُسے پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس قران کا ثواب لکھتے ہیں۔(۲۷)
          (۲) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جس شخص نے رات میں اللہ کی رضا کے لیے یٰسین پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیں گے(۲۸)
          (۳) حضرت انس سے مروی ہے کہ جو شخص ہر رات یٰسین شریف پڑھنے کا پابند ہو اور پھر مرا تو شہید مرا (یعنی شہادت کا درجہ پائے گا)(۲۹)
          (۴) حضرت معقل بن یسار کی روایت ہے کہ یٰسین قرآن کا دل ہے جو شخص بھی اللہ کی رضا اور آخرت کی طلب کے لیے پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مغفرت فرمادیں گے اور اسے اپنے مُردوں پر پڑھا کرو۔(۳۰)
سورہٴ دُخان: حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے، جس شخص نے رات میں سورہٴ دُخان پڑھی تو صبح اس حال میں کرے گا کہ ستر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کریں گے۔(ترمذی)
مُسَبِّحات: حضرت عِرباض بن ساریہ فرماتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات سونے سے پہلے مسبحات پڑھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ان میں ایک آیت ہے جو ہزار آیتوں سے افضل ہے۔(۳۱) (مسبحات وہ سورتیں کہلاتی ہیں جن کے شروع میں تسبیح کا کوئی صیغہ سبّح یُسَبِّحُ وغیرہ موجود ہے)
سورہٴ واقعہ: حضرت عبداللہ بن مسعود حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جو شخص ہر رات سورہٴ واقعہ پڑھے گا، اسے کبھی فاقہ نہیں ہوگا اور حضرت ابن مسعود اپنی بیٹیوں کو حکم فرماتے وہ ہررات سورہٴ واقعہ پڑھا کرتی تھیں۔(۳۲)
سورہٴ حشر: حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو وصیت کی کہ جب وہ بستر پر آئے تو سورہٴ حشر پڑھ لیا کرے اور فرمایا کہ اگر مرگیا تو شہادت کا درجہ پائے گا۔(۳۳)
سورہٴ ملک: حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث ہے جو شخص ہر رات سورہٴ مُلک پڑھے گا اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ رکھیں گے (ترمذی) ایک روایت میں ہے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ سورہٴ ملک ہر موٴمن کے دل میں ہو (یعنی حفظ ہو)(۳۴)
سورہٴ کافرون: حضرت ابن عباس حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ کیا میں تم کو ایسا کلمہ نہ بتادوں جو تم کو شرک سے بچائے قل یٰآیّہا الکٰفِرُون الخ سوتے وقت پڑھ لیا کرو۔(۳۵)
سورہٴ اخلاص: حضرت ابوہریرہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس نے قل ہو اللّٰہ احدٌ دس مرتبہ (اخلاص کے ساتھ) پڑھا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک محل تیار کرے گا۔(۳۶)
معوّذتین: حضرت عقبہ بن عامر سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عقبہ! کیا میں تم کو نہ سکھلاؤں دو پسندیدہ سورتیں قُلْ اَعُوذُبِرَبِّ الفَلَقِ اور قُلْ اَعُوذُبِرَبِّ النَّاسِ اے عقبہ انھیں پڑھا کرو، جب سوو یا اٹھو، سائل نے اس سے بہتر کسی اور ذریعہ سے نہ سوال کیا اور نہ پناہ مانگنے والے نے اس سے بہتر کسی اور طریقہ سے پناہ مانگی ہے۔(۳۷)
چند آیتوں کے فضائل:
آیَةُ الکرسی کی فضیلت: حضرت اُبی بن کعب سے مروی ہے أعْظَمُ آیةٍ فی کتابِ اللّٰہ آیةُ الکرسی قرآن پاک میں سب سے عظیم آیت، آیتُ الکرسی ہے(۳۸) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِن لِکُلِّ شی سَناما وسَنَامُ القرآن البقرة ہر چیز کا ایک کوہان ہوتا ہے، قرآن کا کوہان سورہٴ بقرہ ہے اور اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی آیتوں کی سردار ہے، وہ آیت الکرسی ہے(۳۹) حضرت علی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مجھے آیتُ الکرسی عرش کے نیچے خزانہ سے دی گئی ہے اور مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی۔(کنزالعمال۱/۲۸۲)
خواتیم بقرہ کی فضیلت: حضرت ابومسعود حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے رات میں سورہٴ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہوں گی (یعنی پوری رات قرآن پڑھنے سے یا کفایت کرے گی جن و شیطان اور ہر قسم کی برائیوں سے ۔ فتح الباری ۹/۶۸) حضرت ابوقتادہ نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے آیت الکرسی اور خواتیم بقرہ (آمن الرسول سے آخر تک) کسی پریشانی کے وقت پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائیں گے۔(۴۰)
خواتیم آل عمران کی فضیلت: حضرت عثمان غنی نقل کرتے ہیں کہ جس نے رات میں آل عمران کی آخری آیتیں اِنّ فی خلق السمٰوٰت والارضِ الخ پڑھیں تو اس کے لیے قیام اللیل کا ثواب لکھا جائے گا۔(۴۱)
خواتیم سورہٴ اسراء کی فضیلت: حضرت ابوموسیٰ اشعری سے مروی ہے کہ جس شخص نے صبح یا شام قل ادعوا اللّٰہ او ادعوا الرحمٰن الخ پڑھا تو اس کا قلب نہیں مرے گا نہ اس دن میں اور نہ اس رات میں (کنزالعمال ۱/۲۸۶)
اوائل کہف کی فضیلت: حضرت ابوالدرداء حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ جس نے سورہٴ کہف کی ابتدائی دس آیتیں حفظ کرلیں (اور اسے پڑھتا رہا) تو دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا(۴۲) اور بعض روایتوں میں آخری کی دس آیتوں کا ذکر ہے (عمل الیوم واللیلہ للنسائی ص۲۷۵)
آخر کہف کی فضیلت: حضرت عمرو بن العاص حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس نے رات میں قُلْ اِنَّمَا أنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلیَّ اَنّمَا الٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَاحِدٌ پڑھی تو عدن سے مکہ تک اس کے لیے نور ہوگا اور فرشتوں سے پُر ہوگا(۴۳)
اوائل سورہٴ فتح کی فضیلت: حضرت انس سے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق کہ مجھ پر ایسی آیات نازل ہوئی ہیں جو مجھے پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں اِنا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُبیناً پانچ آیتیں(۴۴)
آیةُ الحدید کی فضیلت: حضرت عرباض بن ساریہ فرماتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات مُسبِّحات سونے سے پہلے پڑھتے تھے اور فرمایا کہ ان میں ایک آیت ہے جو ہزار آیتوں سے افضل ہے۔ ابن کثیرفرماتے ہیں کہ وہ یہ ہے ہُوَ الاوّلُ والآخِرُ والظَّاہِرُ وَالباطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیءٍ عَلِیْمٍ (ابوداود بحوالہ اتقان)
آخر سورہٴ حشر کی فضیلت: حضرت معقل بن یسار سے مروی ہے کہ جس نے صبح کے وقت سورہٴ حشر کی آخری تین آیتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ ستر ہزار فرشتے اس پر مقرر فرماتے ہیں جو شام تک اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں ہو اللّٰہ الذی لا الٰہ الا ہو الخ(۴۵)
سورتیں چھوٹی فضائل بڑے:
          یوں تو پورا قرآن الحمدللہ رب العٰلمین سے والناس تک ایسا کلام ہے جس کی تلاوت پر ہر حرف کے بدلے کم از کم دس نیکیاں متعین ہیں، پس جو شخص روزانہ ایک منزل یا تہائی یا نصف قرآن پڑھتا ہے وہ کس قدر خوش نصیب اور اجر عظیم کا مستحق ہے؛ لیکن ظاہر ہے کہ تہائی یا چوتھائی قرآن پاک کا پڑھنا عام مسلمانوں کے لیے روزانہ آسان نہیں ہے یا پڑھنا ممکن ہو؛ مگر کسی وجہ سے وقت میں گنجائش نہ ہو یا کم وقت میں اجر کثیر حاصل کرنے اور دوسروں کو نفع پہنچانے کی آرزو ہوتو ایسی صورتوں میں کیا کریں؟ قربان جائیے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ نے اپنی امت کے لیے یہ مشکل بھی آسان کردی؛ تاکہ کم وقت میں زیادہ ثواب کے عدم حصول کی حسرت نہ رہ جائے؛ چنانچہ ایک مرتبہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”کیا تم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ تہائی حصہ قرآن پاک کا ہررات پڑھا کرو“ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم تہائی قرآن ہر رات پڑھنا تو بہت مشکل ہے یہ کس سے ہوسکتا ہے۔ تب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قل ہو اللّٰہ احد ثواب میں تہائی حصہ قرآن کے برابر ہے ۔ (فتح الباری باب فضائل القرآن ۹/۷۲)
          اس طرح کی احادیث کی روشنی میں چند سورتوں کے فضائل ملاحظہ فرمائیں:
          (۱) حضرت ابن عباس سے روایت ہے ”سورہٴ فاتحہ دو تہائی قرآن کے برابر ہے“ (اتقان۱/۱۹۵)
          (۲) حضرت انس بن مالک سے مروی ہے ”آیت الکرسی چوتھائی قرآن ہے“ (مسند احمد بحوالہ اتقان۱/۱۹۵)
          (۳) حضرت انس بن مالک سے مروی ہے جس نے ایک مرتبہ یٰسین شریف پڑھی اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس قرآن پڑھنے کا اجر لکھیں گے۔ (ترمذی، بحوالہ اتقان)
          (۴) حضرت انس بن مالک سے مروی ہے جس شخص نے شبِ قدر میں سورہٴ قدر پڑھی گویا اس نے رُبع قرآن پڑھا(۴۶)
          (۵) حضرت انس بن مالک سے مروی ہے جس نے سورہٴ زلزال پڑھی اس کو نصفِ قرآن پڑھنے کے برابر ثواب ہوگا(۴۷)
          (۶) حضرت حسن بصری سے مروی ہے: سورہٴ والعادیات نصفِ قرآن کے برابر ہے (۴۸)
          (۷) حضرت ابن عمر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کیاتم میں سے کوئی طاقت نہیں رکھتا کہ روزآنہ ایک ہزار آیتیں پڑھا کرے، صحابہ نے عرض کیا اس کی کون طاقت رکھتا ہے؟ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں کسی کی طاقت نہیں کہ روزآنہ اَلہاکُمُ التکاثر پڑھ لے(۴۹)
          (۸) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے قل یآ أیُّہا الکٰفرون چوتھائی قرآن ہے(۵۰)
          (۹) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے اذا جاء نصر اللّٰہ چوتھائی قرآن ہے(۵۱)
          (۱۰) حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے قل ہو اللّٰہ احد چوتھائی قرآن ہے (۵۲)
          (۱۱) حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے جس شخص نے قل ہو اللّٰہ احد فجر کی نماز کے بعد بارہ مرتبہ پڑھی گویا اس نے چار مرتبہ قرآن پڑھا۔(۵۳)
          ان آیتوں اور سورتوں کو پورے قرآن کا نصف یا ربع یا ثلث جو کہاگیاہے اس کا ایک مطلب ظاہر احادیث کے مطابق یہ ہے کہ اس سے مراد اجر وثواب ہے، یعنی ان آیتوں اور سورتوں کی تلاوت کا ثواب تہائی یا چوتھائی قرآن کے ثواب کے برابر ہے۔(۵۴) اور جو کوئی پورے قرآن کی تلاوت کرے اس کے اجر وثواب کی برابری تو ہونہیں سکتی۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: حدیث میں ہے کہ قل ہو اللّٰہ احد تہائی قرآن کے برابر ہے، اس سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تین دفعہ قل ہو اللّٰہ پڑھ لینے سے پورے قرآن کا ثواب مل جاتا ہے۔ حضرت شاہ محمد اسحاق صاحب محدث دہلوی فرماتے تھے کہ اس حدیث سے یہ لازم نہیں آتا کہ تین مرتبہ قل ہو اللّٰہ پڑھنے سے کامل قرآن کا ثواب مل جاتا ہے؛ بلکہ تین ثلث قرآن کا ثواب ہوگا، جیسے کوئی دس پارے کو تین مرتبہ پڑھے۔ (مجالس حکیم الامت ص۱۸۹)
ازالہٴ رسم: بعض علاقوں میں تراویح میں ختم کے موقع پر حُفاظِ کرام سورہٴ اخلاص کو تین مرتبہ پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں، یہ گویا ایک رسم ہے اور بعض مرتبہ حافظ صاحب کے ایسا نہ کرنے پر کچھ لوگ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں، یہ علامت ہے کہ وہ اسے لازم سمجھ رہے ہیں؛ حالانکہ ایک ہی رکعت میں سورة کو مکرر پڑھنا اگرچہ نفل نماز ہو بشرطے کہ باجماعت ادا کی جاتی ہو، جیسے تراویح خلافِ اولیٰ ہے؛ اس لیے قل ہو اللّٰہ احد کے تکرار سے اگر رسماً نہ بھی ہو تب بھی بچنا چاہیے اور رسماً ہوتب تو مکروہ ہے ہی، اسے ترک کرنا چاہیے۔ (امداد الفتاویٰ۱/۴۹۱)
حواشی:
(۱)         علم الکلام لمولانا ادریس الکاندھلوی۔                            (۲)        اتقان ۱/۱۳۶، الحبائک فی اخبار الملائک۔
(۳)        مسلم شریف۔                                                           (۴)        شعب الایمان ۱/۳۸۱۔
(۵)        حرز الامانی للشاطبی۔                                           (۶)        البرہان للزرکشی ۱/۲۹۔
(۷)        دیکھئے ”فتنہٴ خلقِ قرآن“ تاریخ دعوت وعزیمت ۱/۹۴۔        (۸)        الاتقان ۲/۱۶۶۔
(۹)        بخاری ومسلم بحوالہ التبیان للنووی۔                             (۱۰)       بخاری ومسلم، التبیان۔
(۱۱)        ترمذی۔                                                                (۱۲)       بخاری ومسلم۔
(۱۳)       مسلم شریف۔                                                           (۱۴)       بخاری ومسلم۔
(۱۵)       مسلم بحوالہ التبیان۔                                          (۱۶)       ترمذی بحوالہ اتقان۔
(۱۷)       شعب الایمان للبیہقی۔                                       (۱۸)       کنزالعمال۱/۲۷۸، بیہقی فی الشعب۔
(۱۹)       بحوالہ اتقان۔                                                            (۲۰)       اخرجہ ابوعبید۔
(۲۱)       مسند احمد۔                                                   (۲۲)       بحوالہ اتقان۔
(۲۳)      کنزالعمال۔                                                  (۲۴)      اخرجہ الحاکم فی المستدرک۔
(۲۵)      اتقان ۱/۱۹۵۔                                                           (۲۶)       اتقان ۲/۱۹۶ عن ابی عبید۔
(۲۷)      ترمذی بحوالہ اتقان۔                                          (۲۸)      طبرانی بحوالہ اتقان۔
(۲۹)       ایضاً۔                                                                   (۳۰)      ابوداود بحوالہ اتقان۔
(۳۱)       ابوداود بحوالہ اتقان۔                                          (۳۲)      بیہقی بحوالہ فضائل قرآن۔
(۳۳)      اتقان۔                                                                 (۳۴)      اتقان۔
(۳۵)      اتقان عن ابی یعلی۔                                                      (۳۶)      اتقان ۲/۱۹۸۔
(۳۷)      کنزالعمال ۱/۲۹۳۔                                           (۳۸)      مسلم بحوالہ اتقان۔
(۳۹)      مستدرک حاکم۔                                                          (۴۰)      اذکار للنووی۔
(۴۱)       بیہقی بحوالہ اتقان۔                                                       (۴۲)      مسلم، کنزالعمال ۱/۲۸۷۔
(۴۳)      کنزالعمال ۱/۲۸۸۔                                           (۴۴)      کنزالعمال ۱/۲۹۰۔
(۴۵)      اتقان ۲/۱۹۷۔                                                          (۴۶)      کنزالعمال ۱/۲۹۶۔
(۴۷)      ترمذی بحوالہ اتقان۔                                          (۴۹)      اخرجہ ابوعبید مرسلاً۔
(۴۹)      مستدرک بحوالہ اتقان۔                                       (۵۰)      ترمذی بحوالہ اتقان۔
(۵۱)       ترمذی بحوالہ اتقان۔                                          (۵۲)      مسلم بحوالہ اتقان۔
(۵۳)      بیہقی بحوالہ اتقان۔                                                       (۵۴)      اتقان ۲/۲۰۴۔

***



قرآنِ محکم کی شانِ عظیم
(۵)


قرأت اور تلاوت کا فرق:
          قرأت کے حقیقی لغوی معنی ”جمع الحروف“ یا ”ضم الکلمات بعضہا الی بعض“ ہے، یعنی پڑھنا، خواہ اس کے ساتھ معنی کا تدبر ہو یا نہ ہو اور اس کے مقتضی پر عمل ہویا نہ ہو؛ جبکہ تلاوت کی حقیقت میں تبعیّت اور اتباع کے معنی شامل ہیں امام راغب لکھتے ہیں: والتلاوة تختصُّ باِتِّبَاعِ کُتُبِ اللّٰہِ المنزلةِ تارةً بالقرأةِ وتارةً بالارتسام مطلب یہ ہوا کہ تلاوت اس کتاب کے پڑھنے کو کہیں گے جس کا اتباع تالی پر واجب ہے، یہ اتباع کبھی قرأت کے ذریعہ اورکبھی عمل کے ذریعہ اور چونکہ کتبِ الٰہیہ سماویہ کا اتباع جواب صرف قرآن مجید کے لیے ضروری ہے؛ اس لیے تلاوت کالفظ قرآن ہی کے پڑھنے پر بولاجائے گا اور قرأت عام ہے، ہر کتاب کے پڑھنے پر بولا جاتا ہے(۱)۔
تلاوتِ قرآن کی اہمیت:
          تلاوتِ کلام پاک کی اہمیت کا کچھ اندازہ اس سے لگائیے کہ اللہ رب العزت نے نبی آخر الزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مبعوث فرمایا، تو آپ کے فرائض منصبی کو بیان کرتے ہوئے ”تلاوت“ کو سب سے مقدم رکھا(۲)؛ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب امتِ مسلمہ کے ظہور اور ان میں ایک رسول کی بعثت کی درخواست کی تو فرائضِ رسالت کی نشاندہی کرتے ہوئے سب سے پہلے تلاوت کو ذکر کیا(۳) اور جہاں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریوں کو نبھانے کا ذکر کیا تو دیکھیے تلاوت کتاب ہی کو پیش پیش رکھاجاتا ہے(۴)، پھر یہ کہ تلاوت خود اللہ رب العزت کا فعل ہے(۵) اور حبیب پاک  صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب عمل ہے، حضرات صحابہ کرام کا پسندیدہ مشغلہ ہے(پ۲۶) مزید براں اللہ تعالیٰ نے اس کے پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے اور کلام اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے اور حق تلاوت اداکرنے پر خصوصی نوازش کی ہے، تو جس چیز کی یہ شان واہمیت ہو اس کے آداب وطریقے اور اس پر مرتب ہونے والے فوائد وثمرات بھی کیا کچھ ہوں گے۔
سرکاری وشاہی القاب:
          مسلمان تمام قوموں میں اس اعتبار سے بھی ممتاز اور بڑے خوش نصیب ہیں کہ احکم الحاکمین نے رحمتِ عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل میں اپنے مخصوص شاہی وسرکاری القاب بھی اُن کو مرحمت فرمائے ہیں، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند رحمہم اللہ فرماتے ہیں: حقیقت میں پڑھنے اور پڑھانے والے حق تعالیٰ ہیں: فاذا قرأنہ فاتبع قرآنہ، سنقرئک فلا تنسیٰ معلوم ہوا قاری حق تعالیٰ ہیں۔ تلاوت کرنے والے وہی نتلو علیک من نبا موسیٰ، ذلک نتلوہ علیک من الآیٰت والذکر الحکیم، معلوم ہوا کہ اصل تلاوت کرنے والے حق تعالیٰ ہیں۔ حفاظت کرنے والے وہی۔ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون ذکر (قرآن) ہم نے اتارا اور ہمیں حافظ ہیں، تو قاری بھی وہ ، تالی بھی وہ، حافظ بھی وہ۔ بس یہ اللہ کا فضل ہے کہ جو حفظ کرلیتا ہے تو کہتے ہیں کہ آج سے جو لقب ہمارا تھا تمہارا بھی ہے، کوئی قرأت سیکھ لیتا ہے تو فرماتے ہیں کہ قاری تو ہم ہیں؛ لیکن آج سے ہم نے اپنا لقب تمہیں دے دیا۔ اسی طرح تلاوت کرنیوالے ہم ہیں؛ مگر جب تم تلاوت کررہے ہوتو تم بھی یہ لقب استعمال کرسکتے ہو۔
          حالانکہ سرکاری القاب کوئی اختیار نہیں کرسکتا، جب تک سرکار ہی کسی کو کوئی لقب یا خطاب نہ دے، اس کے بغیر وہ سرکاری مجرم شمار ہوگا اور پروانہٴ گرفتاری اس کے نام آجائے گا، تو یہ اللہ کا کرم اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا طفیل ہے کہ جس نے قرآن کو سینے میں محفوظ کرلیا اس نے شاہی لقب پالیا، جس نے قرآنی حروف کے مخارج اور صفات پر محنت کرکے اس کی ادائیگی صحیح کرلی وہ قاری (سرکاری آدمی) بن گیا جس نے شاہی فرامین تلاوت کرکے دوسروں کو سنائے وہ شاہ سے قریب اور اس سے مناجات کرنے والا ہوگیا۔ (خطبات حکیم الاسلام،ج:۱،ص:۲۰۵)
ذکر ودعاء سے تلاوتِ قرآن افضل ہے :
          فضائلِ قرآن کی احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ سب سے اعلیٰ شغل قرأتِ قرآن ہے انّ افضل عبادة امتی قرأة القرآن(۶) فضائلِ ذکر کی روایات سے نمایاں ہوتا ہے کہ بہترین مشغلہ ذکر اللہ ہے۔ اور درود شریف کے فضائل اس قدر ہیں کہ سب سے عمدہ فعل درود شریف کا پڑھنا ہی معلوم ہوتا ہے اور دعا کی اہمیت وفضیلت بھی اتنی ہے کہ دعا کرنا ہی سب سے اچھا عمل نظر آتا ہے، مثلاً الدعاء ہو العبادة(۷) اور لیس شيء اکرم علی اللّٰہ من الدعاء(۸)۔
          مگر ان چاروں میں ارجح کیا ہے سو اس کی ترجیح میں علماء کا ذوق مختلف رہا ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں: البتہ پسندیدہ قول جس پر کبار علماء اعتماد کرتے ہیں، یہ ہے کہ تسبیح وتہلیل (اور ادعیہٴ ماثورہ) وغیرہ تمام اذکار سے قراء تِ قرآن افضل ہے (۹) اس کی تائید ایک حدیثِ قدسی سے ہوتی ہے جو حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول الرب تبارک وتعالیٰ: من شَغَلَہ القرآنُ عن ذکری ومسئلتی اعطیتُہ افضلَ ما اُعطی السائلین وفضل کلام اللّٰہ علی سائر الکلام کفضل اللّٰہ علی خلقہ (ترمذی بحوالہ فضائل قرآن،ص:۸) اس حدیث سے تلاوتِ قرآن کا ذکر ودعاء سے افضل ہونا تو صاف معلوم ہوگیا اور آخری جملہ کی تعبیر نے کلام اللہ کا درود شریف سے بھی افضل ہونا سمجھا دیا۔
          اس موقع پر جناب محشیِ ”التبیان“ نے بہت اچھی تفصیل کی ہے کہ ”تلاوت میں مشغول ہونا ایسے ذکر میں مشغول ہونے سے افضل ہے جو کسی محل یا وقت کے ساتھ خاص نہ ہو، اگر وقت یا محل کے ساتھ مخصوص ہو یعنی شریعت میں اس کی فضیلت وارد ہوتو مخصوص ذکر میں مشغول ہونا افضل ہوگا، جیسے شب جمعہ میں درود شریف کا پڑھنا مطلوب ہے، تو درود شریف کا شغل اُس قرأت سے افضل ہوگا جو اس رات میں مطلوب نہیں ہے۔ (جیسے مدینہ منورہ میں حاجی کے لیے درود شریف کی کثرت، خاص کر روضہٴ اقدس علی صاحبہا الصلاة والسلام کے پاس افضل ہے، یا جیسے نماز کے فوراً بعد یا میدانِ عرفہ میں دعا کا اہتمام اولیٰ ہے، یا جیسے فجر وعصر کے بعد اور مکہ مکرمہ میں ذکرکی خاص اہمیت ہے) اوراگر کسی وقت یا محل میں اذکار مخصوصہ میں تعارض ہوجائے تو جس کا وقوع قلیل ہے اس کی رعایت کی جائے گی“ قال صاحب ”فتح العلام“: الاشتغالُ بہا افضلُ من الاشتغالِ بذکرِ لم یَخُصَّ بمحلٍ أو وقتٍ معینٍ فانْ خُصَّ بِہ بأن وَرَدَ الشرع بہ فیہ فالاشتغالُ بہ افضلُ، مثلاً الصلاة علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم طَلَبَتْ لیلةَ الجمعة فالاشتغال بہا افضلُ من الاشتغال بقرأة لم تطلب لیلة الجمعة․․ ولو تعارضا خاصًّا ․․․ روعی الأقلُّ وقوعاً(۱۰) اس سے معلوم ہوا کہ اذان کے وقت اس کا جواب دینا شرعاً مامور اور مطلوب ہے، تلاوت سے افضل ہوگا، فقط۔
قرآن دیکھ کر پڑھنا افضل:
          مصحف شریف میں دیکھ کر پڑھنا افضل ہے زبانی پڑھنے سے، چونکہ قرآن میں نظر کرنا بھی عبادت ہے، اس لیے دیکھ کر پڑھنے کی صورت میں دو عبادتیں جمع ہوجاتی ہیں لِأنَّ النَّظْرَ فی المصحفِ عبادةٌ مطلوبةٌ فتجتمعُ القرأةُ والنظرُ(۱۱) بلکہ ایسی حالت میں قرآن کو ہاتھ میں اٹھانا یا ہاتھ لگانا بھی پایا جاتا ہے اوریہ بھی باعثِ اجر ہے، امام غزالی لکھتے ہیں: قرأةُ القرآن مِنَ المصاحِفِ افضلُ اِذْ یَزِیْدُ فی العملِ النظرُ وتأملُ المصحف وحَمْلُہ فیزیدُ الأجرُ(۱۲) دیکھ کر پڑھنا افضل ہے کہ اس میں کئی عمل پائے جاتے ہیں۔ دیکھنا، غور کرنا، قرآن کا اٹھانا؛ لہٰذا اجر بھی زائد ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ دیکھ کر قرآن پڑھنے کی فضیلت زبانی پڑھنے پر ایسی ہے جیسے فرض کی فضیلت نفل پر(۱۳) امام غزالی فرماتے ہیں کہ بہت سے صحابہٴ کرام قرآن دیکھ کر پڑھا کرتے تھے اور پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی دن ان کا ایسا گذرے جس میں انھوں نے قرآن میں نظر نہ ڈالی ہو․․․ ویکرہونَ اَنْ یخرج یومٌ ولم ینظروا فی المصحف(۱۴) اور بہت سے سلف کا بھی معمول یہی رہا ہے۔
          البتہ محدثین کی ایک جماعت نے دوسری احادیث کی روشنی میں چونکہ حفظ پڑھنا زیادتِ خشوع کا سبب ہے، ریاء سے دور ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ حفظ پڑھنے کی تھی، حفظ پڑھنے کو ترجیح دی ہے(۱۵) امام نووی نے عمدہ بات کہی ہے کہ یہ اختلاف دراصل اشخاص کا اختلاف ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ حفظ ونظر دونوں حالتوں میں خشوع وتدبر یکساں قائم رہتا ہے تو دیکھ کر پڑھنا پسندیدہ ہے اور اگر دیکھ کر پڑھنے سے خشوع کامل نہ ہو تو زبانی پڑھنا افضل ہے اور اگر دیکھ کر پڑھنے سے خشوع وتدبر میں اضافہ ہوتا ہے تو یہی افضل ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ سلف کے اقوال وافعال کو اسی تفصیل پر محمول کرنا چاہیے۔(۱۶)
کثرتِ تلاوت افضل ہے یا فہم وتدبر سے پڑھنا:
          قرآن مجید کے حقوق میں سے ایک اہم حق اس کی تلاوت ہے اور تلاوت افضل الاذکار ہے ، حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں ان أفضلَ عبادةِ امتی قرأةُ قرآن(۱۷) اور مشہور حدیث کہ دو شخص قابل رشک ہیں ایک وہ جو رات دن تلاوت میں مشغول رہتا ہے اور اللہ رب العزت نے شب وروز کی گھڑیوں میں تلاوت کرنے والوں کی توصیف فرمائی ہے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وارزقنی تلاوتَہ اناءَ اللیلِ واناءَ النہار کے ذریعہ کثرت تلاوت کی دعا فرمائی ہے۔ اور دیگر فضائلِ قرآن کی احادیث کی وجہ سے علماء فرماتے ہیں یُستحبُّ الاکثارُ مِنْ قرأةِ القرآنِ وتلاوتِہ (۱۸) چنانچہ امت کے بے شمار افراد نے کثرت تلاوت کو اپنا مشغلہ بنایا؛ البتہ تلاوت کلام پاک میں ترتیل وتدبر بھی مطلوب ومقصود ہے؛ اس لیے کہ قرآن کا نزول ترتیل کے ساتھ ہوا اور ترتیل سے پڑھنے کا حکم دیاگیا ہے (قرآن مجید) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لَاَن أقرأ البقرةَ وآل عمران أرتِّلُہما وأتدبَّرُہما أحبُّ اِلیَّ مِن اَن اقرأ القرآنَ کلَّہ ہذرمة(۱۹) یعنی ترتیل وتدبر کے ساتھ سورئہ بقرہ وآل عمران پڑھوں یہ مجھے پسند ہے اس سے کہ تیز رفتاری سے پورا قرآن پڑھوں۔ حضرت عبیدہ مکی مرفوعاً نقل کرتے ہیں یَا أہلَ القرآنِ لا توسَّدوا القرآنَ واتلوہ حقَّ تلاوتِہ آناءَ اللیلِ وآناءَ النہارِ وافشوہ وتدبَّروا ما فیہ لعلکم تُفلحون(۲۰) حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت ہے لا یفقہُ مَنْ قرأ القرآنَ فی اقلِّ من ثلثٍ(۲۱) ہَذْرَمَةٌ کے معنی ”کثرة الکلام“ اور ”السرعة فی القرأة والکلام والمشی“ ہے جیسے ابن عباس سے منقول ہے لأن اقرأ القرآنَ فی ثلثٍ احبُّ اِلیَّ مِنْ أنْ اقرأہ فی لیلةِ ہذرمةً(۲۲) اس لیے دیگر اصحابِ ذوق فہم وتدبر سے پڑھنے کو افضل قرار دیتے ہیں۔
          مذکورہ دونوں نظریوں کے تحت صحابہٴ کرام میں ایک دن رات میں قرآن ختم کرنے سے لے کر دوماہ تک میں ختم کا معمول پایا جاتا ہے۔
          البتہ دونوں میں کون راجح ہے مطلقاً فیصلہ مشکل ہے، امام نووی نے اس موقع پر بھی بہت عمدہ تفصیل پیش کی ہے کہ افضلیت میں اختلاف لوگوں کے( فہم وذکاوت میں) اختلاف کی وجہ سے ہے پس جو شخص ایسا ہوکہ دقیق فکروں سے قرآن کے لطائف اور معارف اس پر ظاہر ہوتے ہوں تو اس کو چاہیے کہ تلاوت کی اتنی مقدار پر اکتفاء کرے جس سے اس کو اپنی قرأت میں کمال فہم وتدبر حاصل رہے۔ اسی طرح جو شخص علم کے نشر (جیسے تدریس، تصنیف اور تذکیر) میں، مقدمات خصومات کافیصلہ اور دیگر دینی وملی امور کی انجام دہی میں مشغول ہوتو اسے چاہیے کہ اتنی مقدارِ تلاوت پر اکتفاء کرے جس سے اس کے ضروری کاموں میں خلل واقع نہ ہو اور اگر کوئی مذکورہ لوگوں میں سے نہ ہو تو پھر جتنا زیادہ ممکن ہو تلاوت کرے بشرطیکہ اکتاہٹ پیدا نہ ہو اور نہ ایسی رفتار سے کہ حروف مخلوط ہونے لگیں اور پڑھا ہوا سمجھ میں نہ آئے(۲۳)۔
قرأتِ قرآن بغیر فہم معانی کے بھی مفید ہے:
           دنیا بھر میں کوئی کتاب ایسی نہیں جس کا نفع بغیر سمجھے حاصل ہو سوائے ”قرآن مجید“ کے کہ یہ ایک ایسی ممتاز کتاب ہے جو ہر حال میں مفید اور نفع بخش ہے۔ تلاوتِ قرآن کا ایک بڑا فائدہ اجر وثواب کا حصول ہے جو معانی کے فہم وتدبر پر موقوف نہیں ہے(۲۴) اس لیے کہ (۱) ہر عاقل اس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ معانی تک رسائی الفاظ و نقوش کے بغیر ممکن نہیں اور الفاظ ونقوش کا حصول اس کے بغیر بھی ہوتا ہے۔ (۲) دوسری چیز اللہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مخلوق کو اپنی ذات سے قریب کرنے کے لیے سب سے پہلے اسے محض قرأت کی ترغیب دے کر اپنے کلام کا گرویدہ بنایا جائے،کلام کی یہ محنت رفتہ رفتہ اسے فہم وتدبر کی طرف لے جائے گی، اس طرح کلام اللہ کا اصل مقصود بتدریج حاصل ہوجائے گا اور یہی شانِ ربوبیت کا تقاضہ بھی ہے۔ ورنہ اگر پہلے ہی قدم پر قرأت کے لیے فہم معنی کو شرط ولازم قرار دے دیا جائے اور بغیر فہم کے قرأت کو لغو ٹھہرائیں تو بہت ممکن ہے کہ مخلوق قریب ہونے کے بجائے دور ہی رہیں گے اسی کو کسی حکیم نے خوب کہا ہے ذکر میں اگر حضور مع اللہ (دھیان) حاصل نہ ہوتو ذکر کو مت چھوڑو؛ اس لیے کہ ذکر سے غافل ہوجانا ذکر میں دھیان نہ ہونے سے زیادہ سخت ہے(۲۵)،(۳) تیسری چیز یہ ہے کہ شریعت نے محض تلاوت کو بھی ایک عبادت قرار دیا ہے ان افضل عبادة امتی قرأة القرآن(۲۶) اور عبادت کہتے ہیں ایسے افعال کو جن سے مقصود بندگی کا اظہار ہو خواہ عقلاً اس کی نوعیت سمجھ میں آئے یا نہ آئے اور اس کا منشا قرآن کی حفاظت کے اسباب اور تحریف وتبدیل جس کا کتبِ سابقہ شکار ہوچکی ہیں اس سے محفوظ رکھنے کے عوامل کو بڑھانا ہے(۲۷)۔
          اگرچہ کمال نفع اور کما حقہ استفادہ کے لیے کلام کا فہم وتدبر ضروری ہے؛ لیکن فہم کے نہ ہونے سے قرآن مجید کا ایک عظیم نفع یعنی اجر وثواب اور خوشنودیِ رب الارباب کے حصول میں کوئی خلل نہیں آتا ہے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں ”جس شخص نے قرآن سمجھ کر پڑھا تو ہر حرف پر بیس نیکیاں ملیں گی اور جس نے بغیر سمجھے پڑھا توہر حرف پر دس نیکیاں“۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے مَن قرأ حرفا من کتاب اللّٰہ فلہ حسنةٌ والحسنةُ بعشر امثالِہا لا أقول ا لم حرفٌ بل الفٌ حرفٌ، ولام حرفٌ، ومیم حرفٌ(۲۸)(ترمذی)
          معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کے ہرحرف کے پڑھنے پر کم از کم دس نیکیاں متعین ہیں؛ لہٰذا ”الٓم“ کے پڑھنے پر تیس نیکیاں ہوئیں،اس ارشاد نبوی پر غور فرمائیے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور مثال جس حرف کو ذکر کیا ہے، وہ مسمّیٰ نہیں؛ بلکہ اسم ہے یعنی ہر حرف کو الگ الگ اس کے نام سے پڑھا جاتا ہے اور اس طرح کے حروف چند سورتوں کے شروع میں ہیں جنھیں ”حروف مقطعات“ کہتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حرف پر دس نیکیوں کے حصول کی مثال ایسے حرف سے دی جس کے معنی اور مراد آج تک کسی امتی کو معلوم نہ ہوسکے اور نہ کسی حکیم وفلسفی کو اس کا سراغ لگ سکا اورنہ ہی قیامت تک کوئی اسے سمجھ سکتا ہے، حتیٰ کہ مختار قول کے مطابق نبی آخرالزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی حقیقت کا علم نہیں دیاگیا ۔(اتقان،ج:۲،ص:۱۱)
          پھر یہ کہ محض تلاوت کے لیے نہ وضوء شرط ہے اور نہ نظر فی القرآن، جبکہ قرآن کا دیکھنا مستقل باعثِ اجر ہے اور خشوع وخضوع اور شرفِ احوال کی وجہ سے ثواب میں اضافہ امر یقینی ہے۔
          امام غزالی نے حضرت علی کا قول نقل کیا ہے کہ ”جس نے نماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھا تواس کو ہر حرف پر سو نیکیاں ملیں گی اور جس نے نماز میں بیٹھ کر پڑھا توپچاس نیکیاں، اور جس نے بغیر نماز کے باوضو پڑھا تو پچیس نیکیاں اور جس نے بلا وضو پڑھا تواس کے لیے دس نیکیاں(۲۹) یہ اجر وثواب اُس دار آخرت میں ہے، جہاں کا سکّہٴ رائج یہی نیکیاں ہوں گی، دنیا کے سکّے سیم وزر کے ڈھلے ہوئے یا کاغذ کے بنے ہوئے کیا کام آئیں گے، پس جس کتاب کے پڑھنے پر اس قدر عظیم نفع کا وعدئہ حق ہے کیاکوئی دانش مند یہ کہنے کی جرأت کرے گا کہ ”قرآن بغیر سمجھے پڑھنے سے کیا فائدہ“؟ ہرگز نہیں۔ پھر یہ بھی ذہن نشین کرتے چلیے کہ تلاوت کے بعض منافع (جیسے محبوب کے کلام سے لذت اندوز ہونے) کا تعلق اصل میں نفس کلام سے ہے، اگرچہ فہم معانی کی وجہ سے لذت دوبالا ہوجاتی ہے۔ غرض یہ کہ تلاوت کا مطلق فائدہ ایک امر مسلّم ہے خواہ معانی سمجھ میں نہ آئیں، لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ ”قرآن بغیر سمجھے پڑھنے سے کیا فائدہ“ ان کا یہ نظریہ عقل سلیم اور شرع مستقیم سے دور ہے اور ضلالت سے قریب ہے۔ دراصل یہ اعتراض بھی مستشرقین (مشرقی علوم کے ماہرین یہود ونصاری) کا ایک رکیک اور خوشنماحملہ ہے جس کا عصری تعلیم یافتہ لوگ شکار ہیں۔
          پس حسی طور پر جس طرح دِق (ٹی، بی) کے مریض کا ازالہ ہو؛ بلکہ صحت مند حضرات بھی سیرسمندر کونشاط کے لیے پسند کرتے ہیں؛ حالانکہ مقصود بحر کی غواصی اور لوٴلوٴ وجواہر کی برآمد ہے؛ لیکن کوئی بھی اِس سَیر کو بے فائدہ نہیں کہتا، تو قرآن کی تلاوت جو بحرِمعانی کی سطح الفاظ کی سَیر ہے آخر کیوں بے فائدہ ٹھہرے گی (اشرف الجواب حصہ چہارم)
          مزید اطمینان کے لیے ایک خواب بھی سن لیجیے: علامہ ابن الجوزی کتاب ”مناقب احمد بن حنبل“ میں منامات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ رب العزت کو خواب میں دیکھا تو میں نے پوچھا اے رب کونسی چیز سب سے افضل ہے جس سے آپ کا قرب حاصل کرنے والے قرب حاصل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جواب دیا میرا کلام اے احمد! فرماتے ہیں کہ پھر میں نے کہا: اے رب سمجھ کر پڑھنے سے یا بغیر سمجھے، تو اللہ تعالیٰ نے کہا سمجھ کر یا بغیر سمجھے۔(الفوائد علی التبیان، احیاء العلوم)
اخلاص اور تلاوت کی اغراض دنیویہ:
          قرآن پاک کی تلاوت افضل القربات ؛ بلکہ عبادت ہے اور ہر طاعت وقربت کا اجر وثواب نیت پر موقوف ہے(۳۰) اورنیت میں اخلاص مقصود ومطلوب ہے اور اسی کے بقدر اجر دیا جائے گا عن ابن عباس:انما یعطیٰ الرجل علی قدر نیتہ(۳۱) پس تلاوت میں بھی نیت خالص ہونی چاہیے، یعنی تلاوت کی غایت اور اس سے مطلوب اللہ کی رضاء ہو، حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے تلاوت کرتا تھا، کل قیامت کے دن وہ مشک کے ٹیلوں پر ہوگا۔
اخلاص کسے کہتے ہیں؟
          علامہ ابوالقاسم قشیری فرماتے ہیں: اخلاص یہ ہے کہ طاعت سے محض اللہ کا تقرب مقصود ہو کوئی دوسری غرض، مثلاً مخلوق کے لیے تصنع، یا لوگوں کے نزدیک ستائش یا مخلوق کی طرف سے محبوبیت وغیرہ کی تحصیل نہ ہو(۳۲) حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں کہ اخلاص کی تین علامتیں ہیں: (۱) لوگوں کی تعریف مذمّت برابر ہو یعنی اس کی پروا نہ ہو، (۲) لوگ اُس کے عمل کو دیکھیں اِس کا تصور نہ ہو، (۳) آخرت میں ثواب کا طلب گار ہو(۳۳) حضرت سہیل بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں کہ اہل بصیرت نے اخلاص کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ بندے ہر حرکت وسکون ظاہر وباطن میں صرف اللہ کے لیے ہو اس میں نفس یا خواہش یا دنیا کی قطعاً آمیزش (ملاوٹ) نہ ہو(۳۴)۔
          شارحِ مسلم شریف علامہ نووی لکھتے ہیں: یعنی قرأتِ قرآن سے مقصود دنیا کی اغراض میں سے کوئی غرض نہ ہونا چاہیے جیسے (۱) مال کا حصول (۲) ریاست وسرداری کی طلب (۳) جاہ ومنصب کی خواہش (۴)عزت ووجاہت کی آرزو (۵) ہمعصروں پر فوقیت (۶) لوگوں کے نزدیک تعریف وستائش (۷) لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا، وغیرہ۔ (۸) خدمت کی تمنا (۹) ہدیہ وتحفہ کی طمع (۱۰) سمعہ و شہرت (۱۱)مقابلہ آرائی (۱۲) مخلوق کے لیے تصنع وبناوٹ(۳۵)۔
          حاصل یہ کہ تلاوت کا مقصد رضائے الٰہی ہو اس میں کسی قسم کی دنیا کی ملاوٹ نہ ہو۔
حوالہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «‌إِنَّ ‌أَكْثَرَ ‌مُنَافِقِي أُمَّتِي قُرَّاؤُهَا»
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے اکثر منافقین اس کے (دکھلاوے کیلئے) پڑھنے والے ہوں گے“۔
[مسند أحمد - ط الرسالة:6633، الصحيحة:‌‌750، صحيح الجامع:1203]
عن عقبة بن عامر، عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنّه كان يقول: "أكثر منافق هذه الأمة قراؤها
ترجمہ:
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس امت کے اکثر منافق اسے پڑھیں گے۔
[شعب الإيمان - ط الرشد:6561، إسناده: حسن- باب في إخلاص العمل لله عز وجل وترك الرياء]
فعد قراء المعطلة والجهمية وأهل الأهواء وغيرهم
ترجمہ:
چنانچہ آپ نے شمار کیا (بدعتی فرقہ) معطلہ، جہمیہ، اور اہلِ خواہش اور دیگر قرآن پڑھنے والوں کو۔
[خلق أفعال العباد للبخاري: صفحہ118]
دنیا کی لالچ میں عبادتگذار کی مذمت
[محاضرات الأدباء ومحاورات الشعراء والبلغاء-الراغب الأصفهاني(م502ھ): 2/ 429]
خوارج کے بارے میں
[مجمع الزوائد-الهيثمي (م807ھ): 10413 - 10415]

تلاوت کے مقاصدِ حَسَنہ:
          تلاوت کے مذکورہ بالا اغراض دنیویہ کے سواء وہ امور جو دینی اعتبار سے مطلوب ہیں وہ سب تلاوت کے مقاصد حسنہ ہیں، ان میں بعض منافع وثمرات ایسے بھی ہیں، جن کا حصول دنیا میں مقصود ہے، مگر اغراضِ دنیویہ کی طرح رضائے الٰہی کے خلاف نہیں ہیں؛ بلکہ مقاصد اخروی کے حق میں معاون اور اللہ کی رضاء کی طرف پہونچانے والے ہیں اور یہ سب منافع قرأتِ قرآن کے لیے اسباب ہوا کرتے ہیں، جن کو فضائل کی احادیث وآثار میں ذکر کیاگیا ہے۔ مثلاً جلائے قلب یعنی دل کا زنگ دور ہونے کے لیے تلاوت کرنا۔(۳۶)
علم اور معلومات کے حصول کے لیے تلاوت کرنا:
          حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: مَنْ ارادَ العلمَ فَعلیہ بالقرآنِ فانَّ فیہ خبرُ الأولینَ والآخرین(۳۷)․
گھر میں خیروبرکت اور نورانیت کے لیے قرأتِ قرآن:
          حضرت انس سے مروی ہے نوِّرُوا منازلکم بالصلاة وقرأة القرآن(۳۸)
موت کی سہولت کے لیے قرأتِ قرآن:
          حضرت ابوذرغفاری سے روایت ہے: مَا مِن میّتٍ یموتُ فیقرأ یٓسن الا ہوَّن اللّٰہ علیہ(۳۹)۔
شیطان سے حفاظت کے لیے تلاوت:
          حضرت علی مرتضیٰ کا ارشاد ہے: مَن یقرأ القرآنَ لا یزالُ فی حِرَزٍ وحِصْن(۴۰)۔
          شفائے مرض اور دفع اثر ونظر کے لیے بھی قرآن کا پڑھنا ثابت ہے، جیساکہ ہم آئندہ مستقل مضمون کے تحت پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ بھی دینی، واخروی، روحانی وجسمانی فوائد وثمرات ہیں جو تلاوتِ قرآن سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہاں اُن سب کا ذکرکرنا مقصود نہیں ہے، البتہ بطور نمونہ اشارہ کیا جاتا ہے۔
          (۱) حصولِ اجر وثواب، (۲) مغفرت ذنوب، (۳) نزول رحمت وسکینت، (۴) انبیاء وصدیقین کے ساتھ حشر (۵) مستحق جہنم کی سفارش (۶) دخول جنت (۷) دوزخ سے حفاظت (۸) دل کا بیدار ہونا (۹) جلائے قلب (۱۰) حصول علم (۱۱) قوت حافظہ (۱۲) بینائی کا تیز ہونا (۱۳) غنائے قلب (۱۴) شیطان سے محفوظ رہنا (۱۵) گھر میں خیروبرکت کا ہونا (۱۶) نشاط و انبساط کا نصیب ہونا (۱۷) طمانیتِ قلب (۱۸) ایمان کی تازگی (۱۹) موت کے وقت آسانی (۲۰) ظاہری جسمانی مرض سے شفاء (۲۱) باطنی امراض سے پاکیزگی (۲۲) استحقاقِ شفاعت (۲۳) حیاتِ سعید (۲۴) موتِ شہادت (۲۵) عذاب سے نجات (۲۶) وزن نامہٴ اعمال (۲۷) خوف کے دن امن (۲۸) آنکھوں کی ٹھنڈک (۲۹) ازالہٴ حزن وغم (۳۰) محشر کے دن سایہ (۳۱) دینی واخروی ضروریات کی تکمیل (۳۲) عذاب میں تخفیف (۳۳) اللہ تعالیٰ کی عنایتِ خاص حاصل ہوتی ہے (۳۴) گمراہی کے دن رہنمائی (۳۵) سفر میں مددگار کا ملنا (۳۶) اثر جن اور نظر بد سے محفوظ رہنا (۳۷) فاقہ سے حفاظت (۳۸) گھر کا آباد ہونا (۳۹) اللہ تعالیٰ کی یاد (۴۰) اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے(۴۱)۔
قرأتِ قرآن برائے ایصال ثواب:
          اہل السنة والجماعة کا اتفاق ہے کہ نفل عبادت مالی ہو یا بدنی اس کا ثواب ہدیہ کرنا یعنی دوسرے کو پہنچانا درست ہے اور اسے پہنچتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عمر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمرہ کیاکرتے تھے۔ ابن مُوفَّق نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ستر(۷۰) حج کیے ہیں۔ ابن السراج نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دس ہزار مرتبہ قرآن ختم فرمائے اور اسی کے بقدر قربانی کی ہے(۴۲) دراصل اہداءِ ثواب کے ذریعہ میت کو نفع پہونچانا ایک مقصد شرعی ہے اور اعمال صالحہ اسی مقصد کے حصول کے طُرُق ہیں؛ چنانچہ قرأتِ قرآن کا معمول اس مقصد کے لیے بھی امت میں تسلسل کے ساتھ قائم ہے؛ بلکہ حضرات صحابہٴ کرام سے اس کا ثبوت موجود ہے، علامہ ابن القیّم جوزی نے اپنی کتاب ”الرُّوح“ میں امام شعبی سے نقل کیا ہے: کانت الانصارُ اذا ماتَ لہم المیتُ اختلفوا الی قبرہ ویقرء ون عِنْدَہ القرآنَ اور امام نووی نے یوں نقل کیا ہے کانت الانصارُ اذا حضروا عندَ المیت قرء وا سورةَ البقرة(۴۳) اور اتنا تو خود صاحبِ شریعت  صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے ․․․ویقرأ عند رأسِہ فاتحةَ الکتاب وعند رجلَیْہ بخاتمةَ البقرة(۴۴) اِس قرأتِ قرآن للمیت کے سلسلہ میں احادیث وآثار کا حاصل اور امت کا عمل کیا رہا ہے مُلا علی قاری کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے:الاحادیثُ المذکورةُ وہی اِن کانتْ ضعیفةً فمجموعُہا یَدُلُّ علی أن لذلک أصلاً واَن المسلمین ما زالوا فی کلِ عصرٍ و مصرٍ یجتمعونَ ویقرء ونَ لِموتاہُمْ مِنْ غیرِ نَکِیْرٍ فکان ذلک اِجماعاً(۴۵) پس تلاوتِ قرآن برائے ایصالِ ثواب اجتماعاً کی اصل خیرالقرون میں موجود ہے اورامت کا اس پر عمل بھی رہا ہے؛ لہٰذا بغیر کسی چیز کے التزام کے اجتماعی تلاوت کو ۔ نہ تو بدعت کہہ سکتے ہیں اورنہ ہی رسم قبیح۔ حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی بآواز بلند یا پست کے جواب میں لکھتے ہیں ”الجواب حامداً ومصلیا: افضل تو یہی ہے کہ جب ایک جگہ مجمع قرآن شریف پڑھے تو سب آہستہ پڑھیں الخ ، ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: یہ سب قید (تاریخ، دن، چیز، ہیئت اورآیت وسورة کی تخصیص) ختم کردیا جائے کہ یہ شرعاً بے اصل ہے صحابہ نے بغیر ان قیدوں کے ثواب پہنچایا ہے“(۴۶)۔
***
حواشی:
(۱)      مفردات،ص۷۵، فرائد اللغة،ج۱،ص۴۶۔                       (۲)      آل عمران آیت۱۶۴، سورئہ جمعہ آیت۲۔
(۳)     بقرة آیت ۱۲۹۔                                            (۴)     بقرہ آیت۱۵۱۔
(۵)      بقرہ آیت ۲۵۲۔                                           (۶)      اتقان،ج۱،ص۱۳۷۔
(۷،۸)   الاذکار للنووی،ج۲۔                                          (۹)      التبیان،ص۲۴۔
(۱۰)     التبیان،ص۲۵۔                                           (۱۱)     التبیان،ص۱۰۰۔
(۱۲)     احیاء العلوم،ج۱،ص۳۲۹۔                                  (۱۳)    اتقان،ج۱،ص۱۴۲۔
(۱۴)    التبیان۔                                                  (۱۵)     فضائل قرآن للشیخ،ص۲۷۔
(۱۶)     التبیان۔                                                  (۱۷)    اتقان۔
(۱۸)    اتقان۔                                                   (۱۹)     التبیان،ص۸۹۔
(۲۰)    اتقان،ج۱،ص۱۳۷۔                                                   (۲۱)     التبیان عن ابی داؤد۔
(۲۲)    لسان العرب،ج۱۵،ص۶۶۔                                   (۲۳)    اتقان،ج۱،ص۱۳۸ عن التبیان۔
(۲۴)    مناہل العرفان،ج۲،ص۱۴۰۔                                 (۲۵)    مناہل العرفان، ج۲،ص۱۴۱۔
(۲۶)    بیہقی بحوالہ اتقان،ج۱،ص۱۳۷۔                                (۲۷)    مناہل،ج۲،ص۱۴۰۔
(۲۸)    التبیان للنووی۔                                            (۲۹)    فضائل قرآن للشیخ،ص۲۶۔
(۳۰)    بخاری شریف۔                                            (۳۱)    التبیان،ص۳۲۔
(۳۲،۳۳،۳۴)     التبیان۔                                        (۳۵)    التبیان،ص۳۴۔
(۳۶)    احیاء،ج۱،ص۳۲۲ عن البیہقی۔                                (۳۷)    اتقان،ج۲،ص۱۶۰ عن سعید بن منصور۔
(۳۸)    اتقان،ج۱،ص۱۳۷ عن البیہقی۔                                         (۳۹)    اتقان،ج۲،ص۲۱۰ عن دارمی۔
(۴۰)    کنز العمال،ج۱،ص۲۷۲۔
(۴۱)    الاتقان، التبیان، الاحیاء، کنز العمال وغیرہ۔                         (۴۲)    شامی،ج۳،ص۱۵۲۔
(۴۳)    الروح،ص۹۳، البتیان، مرقاة المفاتیح،ج۴،ص۱۹۸۔              (۴۴)    مشکوة المصابیح۔
(۴۵)    مرقاة،ج۴،ص۱۹۹۔                                      (۴۶)    فتاوی محمودیہ،جلد اوّل قدیم۔
***


No comments:

Post a Comment