Wednesday 16 December 2015

میری ساری امت معافی کے قابل سوائے ۔۔۔۔

"امت" ایک عربی اصطلاح ہے جو ایک ایسی برادری یا قوم سے مراد ہے جو مشترکہ عقیدے ، ثقافت یا شناخت رکھتے ہوں۔ اسلام کے تناظر میں ، "امتوں" کی اصطلاح مسلمانوں کی عالمی برادری کو بیان کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے ، جو ایک حقیقی معبود (اللہ) پر ان کے اعتقاد اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے ذریعہ متحد ہیں۔



اے لحاف میں لپٹنے والے! کھڑا ہو پھر ڈرا (خبردار کر)۔
[القرآن: سورۃ المدثر:1-2]

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ ابْنِ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ ، وَإِنَّ مِنَ الْمُجَاهَرَةِ أَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ عَمَلًا ثُمَّ يُصْبِحَ وَقَدْ سَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ ، فَيَقُولَ : يَا فُلَانُ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا ، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ " .
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میری ساری(مسلم)امت معاف کردی جائےگی سوائے اعلانیہ گناہوں کے،(وہ بلاحساب وعذاب معاف نہیں کئے جائیں گے) وہ یہ کہ بندہ رات کو کوئی گناہ کرتا ہے پھر صبح کو اس کا پروردگار اس کے گناہ کی پردہ پوشی کرتا ہے لیکن وہ اسے کہتا ہے اے فلاں! میں نے گزشتہ رات ایسے ایسے گناہ کیا اور رات گزاری پروردگار نے تو اسے چھپایا اور ساری رات پردہ پوشی کی لیکن صبح ہوتے ہی اس نے اس گناہ کو ظاہر کردیا جسے اللہ عزوجل نے چھپایا تھا۔
[جامع الاحادیث:15580 - أخرجه البخارى (5721) ، ومسلم (2990) .]

تشریح:
کیونکہ یہ بغاوت، برائی پھیلانے اور لوگوں کے دلوں میں سے اس قباحت نکالنا ہے۔ لہٰذا بچو شرک، بدعت، سود، رشوت، شراب، جوا، ڈاکہ، غصب، بےحیائی، بےپردگی، مارنے، گالی دینے، بلا ضرورت ومجبوری تصویر بنانے بنوانے، گانا گانے سننے، غیبت کرنے سننے، اجنبی کو دیکھنے دکھلانے، مرد کا مشت سے کم داڑھی کرنے یا منڈوانے، ٹخنے ڈھانکنے، سونا وریشم پہننے، غیرجنس یا غیرمذہب والوں کی مشابہت کرنے وغیرہ

یہاں سنن ترمذی کی ایک حدیث نقل کی جارہی ہے جس سے زلزلہ کے اسباب کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے، حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں) تو اس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو، زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی، جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں (وہ باتیں یہ ہیں )
۱- جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے۔
 ۲-                امانت دبالی جائے۔ 
۳-                 زکاة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے۔
۴-                 علم دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے۔
۵-                 انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔ 
۶-                 دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے۔
 ۷-                مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے۔ 
۸-                 قوم کی قیادت، فاسق وفاجر کرنے لگیں۔
 ۹-                انسان کی عزت اِس لیے کی جائے؛ تاکہ وہ شرارت نہ کرے۔ 
۱۰-               گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے۔ 
۱۱-                شباب وشراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں۔
۱۲-               بعد میں پیدا ہونے والے،امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔
                                                      (سنن الترمذی، رقم: ۲۱۱، ما جاء فی علامة حلول المسخ)

يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ (سورۃ الحج:1)
ترجمہ:۔ لوگو ڈرو اپنے رب سے بیشک زلزلہ قیامت کی ایک بڑی چیز ہے۔

قرآن کریم میں قوم شعیب پر عذاب آنے کا تذکرہ ہے اور اُس کی وجہ قرآن نے ناپ تول میں کمی بیشی بتائی ہے کہ ان کی عادت بن گئی تھی کہ لینے کا وقت آتا تو زیادہ لیتے اور دینے کا وقت آتا تو کمی کردیتے تھے، مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ ناپ تول میں کمی صرف محسوسات میں نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ معنوی چیزوں میں بھی ہوسکتی ہے مثلا لوگوں کے حقوق کی پامالی، ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں اپنا پورا حق سمیٹ لوں اور جب دینے کا وقت آئے تو مجھے پورا نہ دینا پڑے، اگر قوم شعیب پر ناپ تول میں کمی کی وجہ سے عذاب اور زلزلہ آسکتا ہے تو آج حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کمی بیشی کی وجہ سے زلزلہ آگیا تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
فَأَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِیْ دَارِہِمْ جَاثِمِیْن(الاعراف:۹۱)
اسی طرح حضرت موسی  کی قوم پر عذاب آیا، حیلے حوالے اور کٹ حجتی کی وجہ سے فَلَمَّا أخذتہم الرجفةُ (پس جب ان کو زلزلے نے آدبوچا اللہ نے ان کو وہیں ہلاک کردیا) (الاعراف:۱۵۵)
قارون جو مالداری میں ضرب المثل تھا، جب اُس سے کہا گیا کہ ان خزانوں پر ا للہ کا شکر ادا کرو تو کہنے لگا، یہ سب میرے زورِ بازو کا کرشمہ ہے؛ چناں چہ اللہ نے اسے اِس ناشکری کی وجہ سے خزانہ سمیت زمین میں دھنسا دیا۔
فَخَسَفْنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الْأَرْض (القصص: ۸۱)

آج اپنے معاشرے کا جائزہ لیجیے کتنے شرعی احکام میں قیل وقال کرنے والے ملیں گے اور کتنے ہی ایسے ملیں گے جن کے احساسات وجذبات قارون کی طرح ہیں۔
****************************
اسی طرح اعلانیہ گناہوں کی تفصیل مندرجہ ذیل حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے:
عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مِنِ اقْتِرَابِ السَّاعَةِ اثْنَتَانِ وَسَبْعُونَ خَصْلَةً : إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ أَمَاتُوا الصَّلاةَ ، وَأَضَاعُوا الأَمَانَةَ ، وَأَكَلُوا الرِّبَا ، وَاسْتَحَلُّوا الْكَذِبَ ، وَاسْتَخَفُّوا الدِّمَاءَ ، وَاسْتَعْلَوُا الْبِنَاءَ ، وَبَاعُوا الدِّينَ بِالدُّنْيَا ، وَتَقَطَّعَتِ الأَرْحَامُ ، وَيَكُونُ الْحُكْمُ ضَعْفًا ، وَالْكَذِبُ صِدْقًا ، وَالْحَرِيرُ لِبَاسًا ، وَظَهَرَ الْجَوْرُ ، وَكَثُرَ الطَّلاقُ ، وَمَوْتُ الْفُجَاءَةِ ، وَائْتُمِنَ الْخَائِنُ ، وَخُوِّنَ الأَمِينُ ، وَصُدِّقَ الْكَاذِبُ ، وَكُذِّبَ الصَّادِقُ ، وَكَثُرَ الْقَذْفُ ، وَكَانَ الْمَطَرُ قَيْظًا ، وَالْوَلَدُ غَيْظًا ، وَفَاضَ اللِّئَامُ فَيْضًا ، وَغَاضَ الْكِرَامُ غَيْضًا ، وَكَانَ الأُمَرَاءُ فَجَرَةً ، وَالْوُزَرَاءُ كَذِبَةً ، وَالأُمَنَاءُ خَوَنَةً ، وَالْعُرْفَاءُ ظَلَمَةً ، وَالْقُرَّاءُ فَسَقَةً ، وَإِذَا لَبِسُوا مُسُوكَ الضَّأْنِ ، قُلُوبُهُمْ أَنْتَنُ مِنَ الْجِيفَةِ ، وَأَمَرُّ مِنَ الصَّبْرِ ، يُغَشِّيهِمُ اللَّهُ فِتْنَةً يَتَهَاوَكُونَ فِيهَا تَهَاوُكَ الْيَهُودِ الظَّلَمَةِ ، وَتَظْهَرُ الصَّفْرَاءُ ، يَعْنِي الدَّنَانِيرَ ، وَتُطْلَبُ الْبَيْضَاءُ ، يَعْنِي الْدَرَاهِمَ ، وَتَكْثُرُ الْخَطَايَا ، وَتَغُلُّ الأُمَرَاءُ ، وَحُلِّيَتِ الْمَصَاحِفُ ، وَصُوِّرَتِ الْمَسَاجِدُ ، وَطُوِّلَتِ الْمَنَائِرُ ، وَخُرِّبَتِ الْقُلُوبُ ، وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ ، وَعُطِّلَتِ الْحُدُودُ ، وَوَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّهَا ، وَتَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ وَقَدْ صَارُوا مُلُوكًا ، وَشَارَكَتِ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا فِي التِّجَارَةِ ، وَتَشَبَّهَ الرِّجَالُ بِالنِّسَاءِ ، وَالنِّسَاءُ بِالرِّجَالِ ، وَحُلِفَ بِاللَّهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُسْتَحْلَفَ ، وَشَهِدَ الْمَرْءُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُسْتَشْهَدَ ، وَسُلِّمَ لِلْمَعْرِفَةِ ، وَتُفِقِّهَ لِغَيْرِ الدِّينِ ، وَطُلِبَتِ الدُّنْيَا بِعَمَلِ الآخِرَةِ ، وَاتُّخِذَ الْمَغْنَمُ دُوَلا ، وَالأَمَانَةُ مَغْنَمًا ، وَالزَّكَاةُ مَغْرَمًا ، وَكَانَ زَعِيمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ ، وَعَقَّ الرَّجُلُ أَبَاهُ ، وَجَفَا أُمَّهُ ، وَبَرَّ صَدِيقَهُ ، وَأَطَاعَ زَوْجَتَهُ ، وَعَلَتْ أَصْوَاتُ الْفَسَقَةِ فِي الْمَسَاجِدِ ، وَاتُّخِذَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ ، وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ فِي الطُّرُقِ ، وَاتُّخِذَ الظُّلْمُ فَخْرًا ، وَبِيعَ الْحُكْمُ ، وَكَثُرَتِ الشُّرَطُ ، وَاتُّخِذَ الْقُرْآنُ مَزَامِيرَ ، وَجُلُودُ السِّبَاعِ صِفَاقًا ، وَالْمَسَاجِدُ طُرُقًا ، وَلَعَنَ آخِرُ هَذِهِ الأُمَّةِ أَوَّلَهَا ، فَلْيَتَّقُوا عِنْدَ ذَلِكَ رِيحًا حَمْرَاءَ ، وَخَسْفًا ، وَمَسْخًا ، وَآيَاتٍ " ، غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، لَمْ يَرْوِهِ عَنْهُ فِيمَا أَعْلَمُ إِلا فَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ .
[حلية الأولياء لأبي نعيم » عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، رقم الحديث: 4555(3/ 358)]
ترجمہ:حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا:بہتّر (۷۲) چیزیں قرب قیامت کی علامت ہیں، جب تم دیکھوکہ:
لوگ نمازیں غارت کرنے لگیں گے، یعنی نمازوں کا اہتمام رخصت ہو جائے گا.
امانت ضائع کرنے لگیں گے ،یعنی جو امانت ان کے پاس رکھی جائے گی اس میں خیانت کرنے لگیں گے.
سود کھانے لگیں گے.
جھوٹ کو حلال سمجھنے لگیں گے، یعنی جھوٹ ایک فن اور ہنر بن جائے گا.
معمولی معمولی باتوں پر خون ریزی کریں گے.
اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے.
دین بیچ کر دنیا جمع کریں گے.
قطع رحمی یعنی رشتہ داروں سے بد سلوکی ہو گی.
انصاف نایاب ہو جائے گا.
جھوٹ سچ بن جائے گا.
لباس ریشم کا پہنا جائے گا.
ظلم عام ہو جائے گا.
طلاقوں کی کثرت ہو گی.
نا گہانی موت عام ہو جائے گی یعنی ایسی موت جس کا پہلے سے پتہ نہیں ہو گا.
خیانت کار کو امین اور امانت دار کوخائن سمجھاجائےگا۔
جھوٹے انسان کو سچا سمجھا جائے گا.
سچے انسان کو جھوٹا سمجھا جائے گا.
تہمت تراشی عام ہوجائےگی، یعنی لوگ دوسروں پر جھوٹی تہمتیں لگائیں گے.
بارش کے باوجود گرمی ہو گی.
اولاد غم وغصہ کا موجب ہوگی۔
کمینے لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گے.
شریفوں کا ناک میں دم ہو جائے گا۔
امیر اور وزیر جھوٹ کے عادی بن جائیں گے.
امین خیانت کرنے لگیں گے.
سردار ظلم پیشہ ہوں گے.
عالم اور قادری بد کردار ہوں گے یعنی عالم بھی ہیں اور قرآن کی تلاوت بھی کرتے ہیں مگر بد کردار ہیں.
لوگ جانوروں کی کھالوں کے لباس پہنیں گے.
لوگ جانوروں کی کھالوں سے بنے اعلی درجے کے لباس پہنیں گے لیکن ان کے دل مردار سے بھی زیادہ بدبودار ہوں گے.
اور ایلوے سے بھی زیادہ کڑوے ہوں گے.
سونا عام ہو جائے گا.
چاندی کی مانگ بڑھ جائے گی.
گناہ زیادہ ہو جائیں گے.
امن کم ہو جائے گا.
قرآن کریم کے نسخوں کو آراستہ کیا جائے گا اور اس پر نقش ونگار بنائے جائیں گے.
مسجدوں میں نقش و نگار کئے جائیں گے.
اونچے اونچے مینار بنیں گے.
لیکن دل ویران ہوں گے.
شرابیں پی جائیں گی.
شرعی سزاؤں کو معطل کر دیا جائے گا.
لونڈی اپنے آقا کو جنے گی یعنی بیٹی ماں پر حکمرانی کرے گی.
جو لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن، غیرمہذب ہوں گے وہ بادشاہ بن جائیں گے.
تجارت میں عورت مرد کے ساتھ شرکت کرے گی، جیسے آج کل ہو رہا ہے.
مرد عورتوں کی نقالی کریں گے.
عورتیں مردوں کی نقالی کریں گی یعنی مرد عورتوں جیسا حلیہ بنائیں گے اورعورتیں مردوں جیسا حلیہ بنائیں گی.
غیر اللہ کی قسمیں کھائی جائیں گی یعنی قسم تو صرف اللہ یا اللہ کی صفت کی کھانا جائز ہے، دوسری چیزوں کی قسم کھانا حرام ہے.
مسلمان بھی بغیر کہے جھوٹی گواہی دینے کو تیار ہو جائیں گے.
صرف جان پہچان کے لوگوں کو سلام کیا جائے گا ؛حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس کو تم جانتے ہو اسکو بھی سلام کہو اور جس کو تم نہیں جانتے اس کو بھی سلام کہو.
غیر دین کے لئے شرعی علم پڑھا جائے گا یعنی شرعی علم دین کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے لئے پڑھا جائے گا.
آخرت کے کام سے دنیا کمائی جائے گی.
مال غنیمت کوذاتی جاگیر سمجھ لیا جائے گا.
امانت کو لوٹ کا مال سمجھا جائے گا.
زکٰوۃ کو جرمانہ سمجھا جائے گا.
سب سے رذیل آدمی قوم کا لیڈر اور قائد بن جائے گا.
آدمی اپنے باپ کی نافرمانی کرے گا.
اور اپنی ماں سے بد سلوکی کرے گا.
دوست کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کریں گے.
شوہر بیوی کی اطاعت کرے گا.
بدکاروں کی آوازیں مسجدوں سے بلند ہوں گی.
گانے والی عورتیں داشتہ رکھی جائیں گی۔
گانے بجانے اور موسیقی کے آلات کو سنبھال کر رکھا جائے گا.
سر راہ شرابیں پی جائیں گی.
ظلم کو فخر سمجھا جائے گا.
انصاف بکنے لگے گا یعنی عدالتوں میں انصاف فروخت ہو گا.
پولیس والوں کی کثرت ہو جائے گی.
قرآن کریم کو نغمہ سرائی کا ذریعہ بنایا جائے گا ۔
درندوں کی کھال کے موزے بنائے جائیں گے.
امت کے آخری لوگ اپنے سے پہلے لوگوں پر لعن طعن کریں گے یعنی تنقید کریں گے.
اُس وقت سرخ آندھی،زمین میں دھنس جانے،شکلیں بگڑجانےاورآسمان سےپتھر برسنے کے جیسے عذابوں کاانتظار کیاجائے۔

[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد:2/341، اخرجہ ابونعیم فی الحلیۃ الاولیاء:3/358، تفسیر درمنثور:سورۃ محمد،آیت:۱۶]
******************************
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب میں لفظ معافا کے معنی سلامت و محفوظ رہنا لکھے ہیں گویا ان کے نزدیک کل امتی معافا الا المہاجرون، کا ترجمہ یوں ہوں گا کہ میری امت کے تمام لوگ غیبت سے محفوظ و مامون ہیں یعنی شریعت الٰہی میں کسی مسلمان کی غیبت کرنے کو روا نہیں رکھا گیا ہے علاوہ ان لوگوں کے جو گناہ و معصیت کے کھلم کھلا ارتکاب کرتے ہیں ایک دوسرے شارح حدیث امام طیبیؒ نے بھی یہی معنی لکھے ہیں کہ لیکن ملا علی قاریؒ نے یہ لکھا ہے کہ حدیث کا سیاق و سباق اور اس کا حقیقی مفہوم اس معنی پر دلالت نہیں کرتا چنانچہ ان کے نزدیک زیادہ مبنی بر حقیقت کے معنی وہی ہیں جو ترجمہ میں نقل کئے گئے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلویؒ نے حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ شریعت نے جس غیبت کو حرام قرار دیا ہے وہ اس شخص کی غیبت ہے جو پوشیدہ طور پر کوئی گناہ کرتا ہے اور اپنے عیب کو چھپاتا ہے لیکن جو لوگ کھلم کھلا اور ڈھٹائی کے ساتھ گناہ کرتے ہیں اور اپنے عیب کو خود ظاہر کرتے پھرتے ہیں کہ نہ تو اللہ سے شرماتے ہیں اور نہ بندوں سے تو ان کی غیبت کرنا درست ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ فاسق معلن یعنی کھلم کھلا فسق و فجور کرنے والے کی غیبت کرنا جائز ہے نیز ظلم کرنے والے حاکم و سلطان اور مبتدع داعی کی اور داد خواہی و اظہار ظلم کے لئے غیبت کرنا بھی درست ہے اسی طرح اصلاح عیوب کی خاطر اور بقصد نصیحت کسی کی برائی کو بیان کرنا کسی کے گواہ و شاہد کے حالات کی چھان بین اور اس کے بارے میں صحیح اطلاعات بہم پہنچانے کی خاطر اس کے عیوب کو بیان کرنا اور اخبار و احادیث کے راویان کی حثییت و شخصیت کو واضح کرنے کے لئے ان کے عیوب کو ظاہر کرنا غیبت میں داخل نہیں ہے۔





الشواهد
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1كل أمتي معافى إلا المجاهرين وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره الله عليه فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه ويصبح يكشف ستر الله عنهعبد الرحمن بن صخرصحيح البخاري56356069محمد بن إسماعيل البخاري256
2كل أمتي معافاة إلا المجاهرين وإن من الإجهار أن يعمل العبد بالليل عملا ثم يصبح قد ستره ربه فيقول يا فلان قد عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه فيبيت يستره ربه ويصبح يكشف ستر الله عنهعبد الرحمن بن صخرصحيح مسلم53102993مسلم بن الحجاج261
3كل أمتي معافى إلا المجاهرين وإن من الإجهار أن يعمل الرجل في الليل عملا ثم يصبح وقد ستره ربه فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه ويبيت في ستر ربه ويصبح يكشف ستر الله عنهعبد الرحمن بن صخرالسنن الصغير للبيهقي15663724البيهقي458
4كل أمتي معافى إلا المجاهرين وإن من الإجهار أن يعمل الرجل في الليل عملا ثم يصبح وقد ستره ربه فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه يبيت في ستر ربه ويصبح يكشف ستر الله عنهعبد الرحمن بن صخرالسنن الكبرى للبيهقي161768 : 328البيهقي458
5كل أمتي معافى إلا المجاهرين قيل ومن المجاهرون قال الذي يعمل العمل بالليل فيستره ربه ثم يصبح فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا فيكشف ستر الله عنهحارث بن ربعيالمعجم الصغير للطبراني633227سليمان بن أحمد الطبراني360
6كل أمتي معافى إلا من يعمل العمل بالليل ثم يصبح يستره ربه ويقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا أو قال بات يستره ربه ويصبح فيكشف ستر الله عنهحارث بن ربعيالمعجم الأوسط للطبراني46404498سليمان بن أحمد الطبراني360
7كل أمتي معافى إلا المجاهر وإن من الإجهار أن يعمل العبد بالليل عملا ثم يصبح وهو يستره ربه فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه يكشف ستر الله عنهعبد الرحمن بن صخرمعجم ابن الأعرابي8885ابن الأعرابي340
8كل أمتي معافى إلا المجاهر يعمل أحدهم العمل بالليل فيستره الله فيصبح فيقول فعلت كذا وكذا فيهتك ذلك السترعبد الرحمن بن صخرمعجم ابن الأعرابي24162455ابن الأعرابي340
9كل أمتي معافى إلا المجاهرين إن من المجاهرين أن يعمل الرجل سرا ثم يخرج فيخبر بهعبد الرحمن بن صخرحديث ابن السماك والخلدي3232ابن مخلد البزاز419
10شر أمتي المجاهرون قيل وما المجاهرون قال الرجل يعمل الذنب بالليل فيستره الله فيصبح فيخبر الناس أنه عمل كذا وكذا فيهتك ستر اللهعبد الرحمن بن صخرالأمالي الخميسية للشجري1716---يحيى بن الحسين الشجري الجرجاني499
11كل أمتي معافى إلا المجاهرين وإن من الإجهار أن يعمل الرجل في الليل عملا ثم يصبح وقد ستره ربه فيقول يا فلان عملت البارحة كذا كذا وقد بات يستره ربه يبيت في ستر ربه ويصبح يكشف ستر الله عنهعبد الرحمن بن صخرشعب الإيمان للبيهقي90429673البيهقي458
12إن الله ليستر العبد من الذنب ما لم يخرقه قالوا وكيف يخرقه قال يحدث به الناسعبادة بن الصامتالتمهيد لابن عبد البر8875 : 338ابن عبد البر القرطبي463
13كل أمتي معافى إلا المجاهرون وإن من المجاهرة أن يعمل عملا لا يرضاه الله بالليل ثم يتحدث به بالنهارعبد الرحمن بن صخرالتمهيد لابن عبد البر8885 : 338ابن عبد البر القرطبي463
14إن الله ليستر العبد من الذنب ما لم يخرقه قالوا وكيف يخرقه قال يحدث به الناسعبادة بن الصامتالتمهيد لابن عبد البر415623 : 124ابن عبد البر القرطبي463
15الله ليستر العبد من الذنب ما لم يخرقه قالوا وكيف يخرقه قال يحدث به الناسعبادة بن الصامتالاستذكار875---ابن عبد البر القرطبي463
16من شرار الناس المجاهرين قالوا يا رسول الله وما المجاهرون قال الذي يذنب الذنب بالليل فيستره الله عليه فيصبح فيحدث به الناس فيقول فعلت البارحة كذا وكذا فيهتك ستر الله عنهعبد الرحمن بن صخرحلية الأولياء لأبي نعيم20742076أبو نعيم الأصبهاني430
17شر أمتي المجاهرون قيل يا رسول الله وما المجاهرون قال الرجل يعمل الذنب بالليل فيستره الله عليه فيصبح فيخبر الناس أنه عمل كذا وكذا فيهتك ستر الله عليهعبد الرحمن بن صخرطبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها627630أبو الشيخ الأصبهاني369
18كل أمتي معافى إلا المجاهرين قيل ومن المجاهرون قال الذي يعمل بالليل فيستره ربه ثم يصبح فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا فيكشف ستر الله عنهحارث بن ربعيأخبار أصبهان لأبي نعيم14872 : 25أبو نعيم الأصبهاني430
19كل أمتي معافاة إلا المجاهرين وإن من الإجهار أن يعمل العبد بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره ربه فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه فيبيت يستره ربه ويصبح ويكشف ستر الله عنهعبد الرحمن بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر5754354 : 29ابن عساكر الدمشقي571
20كل أمتي معافى قال أبو العباس في سماعي إلا المهاجرين وقال غيره إلا المجاهرين وإن من الإجهار أن يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره ربه فيصبح ويكشف ستر الله عنهعبد الرحمن بن صخرتاريخ دمشق لابن عساكر5754654 : 30ابن عساكر الدمشقي571
21كل أمتي معافى إلا المجاهرين وإن من الإجهار أن يعمل العبد بالليل عملا ثم يصبح قد ستره ربه فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه فيبيت يستره ربه ويصبح يكشف ستر الله عنهعبد الرحمن بن صخرسير أعلام النبلاء الذهبي803---الذهبي748
22إن العبد ليبدي عن نفسه ما ستره الله فيتمادى في ذلك حتى يمقته اللهموضع إرسالالزهد والرقائق لابن المبارك13271347عبد الله بن المبارك180
23كل أمتي معافى إلا المجاهرين وإن من المجاهرين أن يعمل الرجل سوءا ثم يخبر بهعبد الله بن عمرمكارم الأخلاق للخرائطي434453محمد بن جعفر بن سهل الخرائطي327





شریعت کے سب احکام پر عمل ضروری ہے:
القرآن: (یہ) کیا (بات ہے کہ) تم کتابِ (خدا) کے بعض احکام کو تو مانتے ہو اور بعض سے انکار کئے دیتے ہو، تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دیئے جائیں اور جو کام تم کرتے ہو، خدا ان سے غافل نہیں۔[سورۃ البقرۃ:85]

ایسا کرے "یعنی بعض احکام کو مانے اور بعض کا انکار کرے" اس لئے کہ ایمان کا تجزیہ تو ممکن نہیں تو اب بعض احکام کا انکار کرنے والا بھی کافر مطلق ہو گا۔ صرف بعض احکام پر ایمان لانے سے کچھ بھی ایمان نصیب نہ ہوگا۔ اس آیت سے صاف معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی شخص بعض احکام شرعیہ کی تو متابعت کرے اور جو حکم کہ اس کی طبعیت یا عادت یا غرض کے خلاف ہو اس کے قبول میں قصور کرے تو بعض احکام کی متابعت اس کو کچھ نفع نہیں دے سکتی۔




وَذَروا ظٰهِرَ الإِثمِ وَباطِنَهُ ۚ إِنَّ الَّذينَ يَكسِبونَ الإِثمَ سَيُجزَونَ بِما كانوا يَقتَرِفونَ {6:120}
اور ظاہری اور پوشیدہ (ہر طرح کا) گناہ ترک کر دو جو لوگ گناہ کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے کئے کی سزا پائیں گے۔[سورۃ الانعام:120]

قُل تَعالَوا أَتلُ ما حَرَّمَ رَبُّكُم عَلَيكُم ۖ أَلّا تُشرِكوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالوٰلِدَينِ إِحسٰنًا ۖ وَلا تَقتُلوا أَولٰدَكُم مِن إِملٰقٍ ۖ نَحنُ نَرزُقُكُم وَإِيّاهُم ۖ وَلا تَقرَبُوا الفَوٰحِشَ ما ظَهَرَ مِنها وَما بَطَنَ ۖ وَلا تَقتُلُوا النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ ۚ ذٰلِكُم وَصّىٰكُم بِهِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ {6:151}
کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کر دی ہیں (ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ (سے بدسلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا کیونکہ تم کو اور ان کو ہم ہی رزق دیتے ہیں اور بےحیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا اور کسی جان (والے) کو جس کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔[سورۃ الانعام:151]
قُل إِنَّما حَرَّمَ رَبِّىَ الفَوٰحِشَ ما ظَهَرَ مِنها وَما بَطَنَ وَالإِثمَ وَالبَغىَ بِغَيرِ الحَقِّ وَأَن تُشرِكوا بِاللَّهِ ما لَم يُنَزِّل بِهِ سُلطٰنًا وَأَن تَقولوا عَلَى اللَّهِ ما لا تَعلَمونَ {7:33}
کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بےحیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے۔ اور اس کو بھی کہ تم کسی کو خدا کا شریک بناؤ جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں۔[سورۃ الاعراف:33]








اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر


قرآن کریم اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام ہے۔زمین کے اندر انبیاء اور رسل بھی ہوئے ہیں، زمین کے اندر صدیقین اور شہداء بھی موجود رہے ہیں، زمین میں خانہ کعبہ بھی ہے اور زمین کے اندر بے شمار مساجد بھی ہیں۔لیکن سب مخلوق ہیں ، انبیاء بھی مخلوق ہیں، کعبہ بھی مخلوق ہے اور شہداء ،صلحاء ،صدیقین یہ سب مخلوق ہیں۔آسمان کے اندر ملائکہ ہیں ،جنت ہے،اس کی نعمتیں ہیں،عرش ہے،کرسی ہے ،لوح وقلم ہیں ،یہ سب مخلوق ہیں، لیکن قرآن مخلوق نہیں ہے، قرآن کریم اللہ کی صفت ہے اور اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس کے مقام اور مرتبہ کا یہ عالم ہے کہ قرآن نے اعلان کیا ہے:﴿لئن اجتمعت الاِنس والجن علیٰ أن یأتوا بمثل ھذا القرآن لایأتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیراً“قرآن کا مثل پیش کرنے سے انسان ،جنات سب عاجز ہیں۔اس کے بعد فرمایا :﴿فأتوا بسورة من مثلہ﴾ کہ پورا قرآن نہیں، صرف چند سورتیں بنا لاؤ ؛وہ بھی نہیں بنا سکتے اس کے بعد فرمایا کہ دس سورتیں نہیں، ایک سورت بنا لاؤ ۔وہ ایک سورت بھی نہیں بنا سکتے۔ ایک آیت اگر قرآن کریم کی آیت کے برابر اور اس کی مثل کو بنانا چاہے اور پورے انسان اور جن اس کے لیے کوشش کریں تو ناکام ہیں۔ یہ قرآن کی عظمت کی واضح اور روشن دلیل ہے۔ اس کے بعد نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی بدولت ایک قوم کو عروج ،ترقی اور عظمت عطا کرتے ہیں جو اس کے مطابق عمل کرتی ہے اور دوسری قوم کو، جو اس کے مطابق عمل نہیں کرتی ،اللہ اس کو ذلیل اور رسوا کرتا ہے #


وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر


اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

پہلے زمانے میں لوگوں نے قرآن کریم کو لیا،اس پر عمل کیا،اس کی عظمت کا،اس کے تقدس کا پورا پورا خیال کیا تو ان کو اقوام عالم میں ترقی نصیب ہوئی اور آج لوگ قرآن کو چھوڑ بیٹھے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ پوری دنیا کے اند رخوار ،پوری دنیا کے اندر ذلیل اور پوری دنیا کے اندرر سوا ہیں۔

میرے بھائیو اور دوستو! بات تو میری تلخ ہوگی، لیکن میں اس کے لیے مجبور ہوں ،نبی پاک ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ اسلام کا نام رہ جائے گا،قرآن کی رسم رہ جائے گی،مسجدیں بڑی شان دار ہوں گی، لیکن روایت ان میں نہیں ہوگی۔ آپ نے سنا ہوگا اور آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ پہلے زمانے میں مسجدیں کچی ہوتی تھیں، نمازی پکے ہوتے تھے ،اس زمانے میں مسجدیں پکی ہیں، نمازی کچے ہیں۔ کیسے انقلاب آئے گا؟ مسجدیں کچی تھیں، نمازی پکے تھے اور اب مسجدیں پکی ہیں اور نمازی کچے ہیں، بلکہ #


مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے 

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا



مسجد کے قریب کتنے مسلمان رہتے ہیں، سیکڑوں اور ہزاروں اذانیں لاؤڈ اسپیکر پر ہوتی ہیں، لیکن لوگ مسجد میں نماز پڑھنے نہیں آتے۔ یعنی ایک تو یہ کہ نمازی کچے ہیں اور ایک یہ کے نمازی ہی نہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے! اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تارک قرآن ہوئے ہیں، قرآن کریم کو ترک کرنے کی وجہ سے یہ صورت حال ہے ۔

میں نے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی صحبت اٹھائی ہے اور اسی طریقہ سے شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کی خدمت میں کافی وقت گزارا ہے اور اسی طریقہ سے حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کے ساتھ بھی میں نے کافی وقت گزارا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ کتاب اللہ اور رجال اللہ یہ دو ذریعہ ہوتے ہیں انسانوں کی ہدایت کے لیے، کتاب اللہ قرآن ہے، ہم نے اس کو پڑھا ہے اور اس کی مستند شرح اورمعتبر احادیثِ نبی کریم ﷺ کو پڑھنے میں اور پڑھانے میں ہم نے اپنی ساری عمر لگائی ہے تو کتاب اللہ سے بھی ہمارا رابطہ ہے اور رجال اللہ سے بھی ہمارا رابطہ ہے۔ حضرت تھانوی، حضرت مدنی اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے مقابلہ میں اس گزری ہوئی صدی میں مجھے کوئی اور نظر نہیں آیا اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ ہم نے، چوں کہ مدرس ہیں ،عمر اور عمر کا بہترین حصہ احادیث نبوی کی درس و تدریس میں گزارا ہے تو ہم اچھا نہیں سمجھتے کہ آج علماء کے فوٹو چوراہوں پر لٹکے نظر آئیں ،اس زمانہ کے جو مختلف محبوب با اثر علماء ہیں، وہ سب اس میں مبتلا ہیں، کیا اس کا نتیجہ یہ نہیں نکلے گا کہ عوام یہ سمجھیں گے کہ تصویرکی شریعت میں کوئی ممانعت نہیں ہے؟ یقینا عوام جب علمائے کرام کی تصاویر کو چوراہوں پر عام دیکھیں گے اور پورے ملک میں جب یہ فضا قائم کی جائے گی تو بلاشبہ عوام پر یہ اثر ہوگا کہ شریعت میں تصویر پر کوئی نکیر نہیں آئی۔

ایسا دوسرامسئلہ بینکاری کا ہے، اس کو بھی رواج دیا جا رہا ہے، اسلام کانام دیا جارہاہے، میں کسی کی توہین نہیں کرنا چاہ رہا ،میں کسی کی تنکیر نہیں کرنا چاہتا ،میں کسی کو رسوا اور ذلیل نہیں کرنا چاہتا، میری نہ یہ حیثیت ہے اور نہ میرا یہ مقام ہے، لیکن مجھے تشویش لا حق ہے، میں کسی صورت میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ میں نے اپنے جن اکا بر کانام لیا اور میں نے جس قرآن اور احادیث کا ذکر کیا، ان کی تعلیمات کے خلاف جب یہ چیزیں آتی ہیں تو تکلیف ہوتی ہے، ایسی تکلیف ہوتی ہے جو ناقابل بیان ہے اور میں اس تکلیف کے اظہار پر مجبور ہوں، لہٰذا میں نے آپ کے سامنے اس کا ذکر کیا، میں نے تین نام لیے ،میں نے احادیث نبویہ کا ذکر کیا، ان ناموں اور ان احادیث نے ان تمام چیزوں پر گویاخط کھینچ دیا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہیں، یہ صحیح نہیں ہیں، بہر حال حدیث میں کیا فرمایا گیا ہے” علما ؤھم شر من تحت أدیم السماء، ومن عندھم تخرج الفتنة،وفیھم تعود“علماء کے ذریعہ یہ فتنے ظاہر ہو رہے ہیں اور اس کا اثر علماء پر پڑ رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اللہ کی مدد سے محروم ہوگئے، یہ جو کوششیں ہو رہی ہیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں اسلام نافذ ہو جائے، یہ کوششیں کبھی کا م یاب نہیں ہوں گی، ہم اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لیے جو چاہے کہتے رہیں، لیکن واقعہ اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے کام یاب ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے اور 66,65سال اس کی دلیل ہیں کہ یہ کوشش کام یابی سے ہم کنار نہیں ہوگی۔اس کے بعد میں آپ سے ایک بات عرض کروں گا کہ جس طریقہ سے جسم سے روح علیحدہ نہیں ہو سکتی ،جس طریقہ سے پھول سے خوش بو علیحدہ نہیں ہو سکتی ،جس طریقہ سے آسمان سے بلندی علیحدہ نہیں ہو سکتی، جس طریقہ سے زمین کی پستی ختم نہیں کی جاسکتی، اسی طریقہ سے قرآن کریم سے ہدایت ختم نہیں کی جاسکتی ۔پھول میں خوش بو لازماًہو گی ،آسمان میں بلندی ہو گی ، زمین میں پستی ہو گی ، سورج کے اندر ضیاء ہو گی، چاند کے اندر نور ہو گا ، اسی طریقہ سے قرآن کریم میں ہدایت ہو گی ۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ قرآن کے اندر آپ ہدایت کومفہوم کر رہے ہیں تو قرآن کریم نے ایک جگہ ﴿ھدی للناس﴾ کہا ہے، ایک جگہ ﴿ھدی للمتقین﴾ کہا ہے تو ناس عام ہے ، متقین خاص ہے، دونوں میں تعارض ہے ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنی اصطلاح میں جو متقین نہیں وہ انسان نہیں، ﴿اولئک کالانعام بل ہم أضل﴾ وہ چوپایوں سے بھی گئے گزرے لوگ ہیں۔لیکن آپ کا یہ خیال کہ قرآن کریم ایک طرف تو ﴿ھدی للناس﴾ کہتا ہے تو ایک طرف ﴿ہدی للمتقین﴾ کہتاہے، دونوں میں تعارض ہے۔ ہم نے آپ سے عرض کیا کہ تعارض نہیں ہے، وہ لوگ جو متقی نہیں ہیں ناس میں داخل ہی نہیں ہیں۔ یہ فیصلہ خود قرآن نے کیا ہے ﴿اولئک کالانعام بل ھم أضل﴾ کہہ کر ان کو انسانیت سے خارج کر دیا ہے۔ اس کے علاہ دوسری ایک بات آپ اور کہہ سکتے ہیں ،وہ یہ کہ بارش ہوتی ہے، آپ اس کو بارانِ رحمت کہتے ہیں، پوری زمین اس سے مستفید ہوتی ہے، لیکن آپ نے دیکھا کہ جو زمین شور ہوتی ہے، جو زمین بنجر ہوتی ہے، اس کے اندر بارش کیخوش گوار اثرات کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، وہ بارش کے خوش گوار اثرات کو قبول نہیں کرتی، جیسے پہلے سے ویران ہے ،اس کے بعد بھی اسی طریقہ سے ویران ہوتی ہے۔ تو قرآن بے شک بارانِ رحمت کی طرح ہے، لیکن جنہوں نے اپنے دل کی زمین کو بنجر بنا دیا ہے، نافرمانیاں کرکے، نافرمانیوں میں مبتلا رہ کر، الله تبارک وتعالیٰ کے احکام سے انحراف کرکے انہوں نے اپنے دل کی زمین کو بنجر بنا دیا ہے، لہٰذا قرآن کی بارانِ رحمت سے ان کو فائد ہ نہیں ہوا۔ اس کا تقاضا یہ ہوا کہ ہمیں قرآن کریم کے ساتھ اپنا رابطہ اور اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہیے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تمام بلاد کو فتح کیا گیا ہے، قھراً قتال کے ذریعہ سے او رجہاد کے ذریعہ سے، لیکن مدینہ کو فتح کیا قرآن نے ۔آپ کو معلوم ہے کہ نبی پاک ﷺ مکہ میں تھے، وہاں کی زندگی بڑی پر مشقت تھی ،وہاں اسلام کے پھلنے پھولنے کے مواقع بالکل موجود نہیں تھے، نبی پاک ﷺ کے لیے ، آپ کے صحابہ کے لیے ایسی ایسی ناقابل برداشت مصیبتیں تھیں کہ ان کو سن کر آدمی لرزجاتا ہے، کانپ جاتا ہے۔ چنا ں چہ نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ منورہ کے چھے آدمی آپ کے پاس آئے، انہوں نے اسلام قبول کیا، اگلے سال بارہ آدمی آئے، انہوں نے اسلام قبول کیا، اگلے سال 72 آدمی آئے او رانہوں نے اسلام قبول کیا، مکہ مکرمہ کے جو حضرات تھے وہ ان سے بالکل بر عکس ،ان سے بالکل بر خلاف تھے، مدینہ طیبہ کے اندر اسلام کا استقبال ہوا، حضرت جعفربن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہجرت سے دو سال پہلے مدینہ طیبہ میں قرآن کریم کی تعلیم کے مراکز قائم ہو گئے تھے، دو سال پہلے حضرت رافع بن مالک خزرجیایک صحابی ہیں، وہ چھے میں بھی شامل ،بارہ میں بھی شامل اور72میں بھی شامل تھے، آپ ﷺ نے ان کو قرآن مجید کا کافی حصہ عنایت فرمایا، وہ مدینہ میں آئے، جہاں آج مسجد یمامہ ہے، وہاں مسجد بنی حذیفہ انہوں نے قائم کی اور قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ قائم کیا ،یہ رافع بن مالک خزرجی ہیں۔

قباء، جو مدینہ کے جانب جنوب میں ہے، جہاں آج مسجد قباء موجود ہے ،وہاں سالم مولی ابی حذیفہ  نے قرآن کی تعلیم کا اہتمام کیا اور وہیں ایک صحابی سعد بن خثیمہ کا مکان تھا۔ان کی شادی نہیں ہوئی تھی تو مکہ سے جو لوگ ہجرت کرکے آتے تھے اور ان کے ساتھ یا تو شادی نہ ہونے کی وجہ سے بیوی،بچے نہیں ہوتے تھے یا بیوی،بچوں والے تنہا آتے تھے اور بیوی بچوں کو مکہ چھوڑدیتے تھے، وہ حضرت سعد بن خثیمہ کے مکان میں مقیم رہتے تھے ۔وہ حضرت سالم مولی ابی حذیفہکے درس کے طالب علم تھے، مدینہ طیبہ کے جانب شمال میں مصعب بن عمیر  کی درس گاہ قائم تھی اور وہ قرآن کا درس دیا کرتے تھے، دیگر احکام تو آئے نہیں تھے، نماز کا حکم تھا،عقائد کے احکام،اخلاقیات کی تعلیم تھی، ان کا چرچہ ہوگیااور گھر گھر قرآن مجید کا اہتمام ہوتا تھا، حضرت اسعد بن زرارہ کے مکان میں بھی تعلیم کا مقام تھا اور حضرت جابر  کہتے ہیں کہ اور گھروں کے اندر بھی قرآن مجید کا اہتمام تھا تو نتیجہ کیا ہوا؟نتیجہ یہ ہوا کہ:﴿ یدخلون فی دین اللہ افواجاً﴾ہوگیا، بڑے بڑے حضرات اور ان کے تمام متعلقین اسلام میں داخل ہوئے اور مدینہ طیبہ آپ کے آنے سے پہلے فتح ہوگیا پھر بعد میں آپ ﷺ تشریف لائے۔

تو میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنا تعلق قرآن کریم سے مضبوط اور مستحکم کرنا چاہیے اور جو ہم پڑھتے ہیں اس کو سمجھ کر پڑھیں اور جو ہم نے پڑھا ہے اس کو تاویلات کے ذریعہ سے نظر انداز نہ کریں ،یہ تاویلیں ہی ہیں جنہوں نے ہمارا ستیاناس کر رکھا ہے، ہم نے اپنے اکابر کو بھی دیکھا،ہم نے اکابر کی صحبت بھی پائی ہے،ہم نے ان سے قرآن و حدیث بھی پڑھا ہے ،وہاں یہ ساری باتیں نہیں تھیں تو اس لیے میری آپ سے گزارش ہے کہ قرآن کریم سے آپ ربط اور تعلق قائم کریں اور بلاکسی تاویل کے جو قرآن و حدیث کی تعلیمات ہیں ان پر من وعن عمل کرنے کی کوشش کریں۔






تم سبھی کچھ ہو ،بتاؤ تو سہی مسلماں بھی ہو؟

ذیل کا مضمون مولانا محمد الیاس ندوی نے ہندستان کے تناظر میں تحریر کیا ہے ، تاہم اس تحریر میں ذکر کیے گئے خطرات کا سامنا ہُوبہ ہُو پاکستانی مسلمانوں کو بھی ہے۔ نیز مضمون میں درج تجاویز بھی پاکستانی مسلمانوں کے لیے قابل عمل اور انتہائی اہم ہیں، چناں چہ مضمون کی افادیت کے پیش نظر یہ تحریر شائع کی جارہی ہے۔ (مدیر)

مجھے اس وقت اپنے بچپن میں، جب میری عمر غالباً پندرہ سال تھی، اپنے گھرمیں والد صاحب مرحوم کی طرف سے روزانہ منگوائے جانے والے اخبارات میں صفحہٴ اول پر شائع ہونے والی ایک تصویر رہ رہ کر یاد آرہی ہے، جس میں ہندوستان کے سابق صدر گیانی ذیل سنگھ اپنی عین صدارت کے دوران، جس پر وہ 1982ء تا1987 فائز تھے، ایک دن اپنے مذہبی مرکز گردوارہ ٹیمپل امرتسر پنجاب میں مندر کے باہر دروازہ پر بیٹھ کر ،کنارے رکھے ہوئے زائرین کے جوتوں کو صاف کر رہے تھے ، یہ سزا ان کو سکھوں کی مذہبی قیادت کی طرف سے گولڈن ٹیمپل پر فوجی حملے میں حکومت ِ ہند کے ساتھ شریک ہونے کی وجہ سے دی گئی تھی اور ان کے مذہبی مرکز کے تقدس کی پامالی کا کفارہ ان سے اس صورت میں کرایا جارہا تھا، جس کو انہوں نے بسر وچشم اپنے عہدے کی پروا نہ کرتے ہوئے قبول بھی کیا ، ابھی کچھ دن پہلے ہماری موجودہ صدرِ جمہوریہ محترمہ پرتیبھاپاٹل کی ایک تصویر بھی نظر سے گذری، جس میں وہ ہمارے ایک مسلم پڑوسی ملک کی خاتون ممبران پارلیمنٹ سے ملاقات کر رہی تھیں، محترمہ سر سے پیر تک ہند ومذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود اتنی پردہ پو ش تھیں کہ فل آستین کی بلاوز میں، ٹخنوں سے نیچے تک ساڑھی میں ایسیملبوس تھیں کہ پیر کے ناخن تک نظر نہیں آرہے تھے، سوائے ان کے چہرے اور ہتھیلیوں کے ان کا پورا جسم ڈھکا ہوا تھا ، ان کی یہ تصویر ہمیں ان کے بیرونی ممالک کے سفر میں بھی نظر آئی اور خود ہمارے ملک میں یورپی سربراہوں کے استبقال میں بھی ، لیکن افسوس کہ دوسری طرف ہماری جن مسلم بہنوں کا وہ استقبال ل کر رہی تھیں بحیثیت مسلم خواتین شریعت کی ہدایات کے مطابق ان میں سے کسی کا سر ڈھکا ہونا تو دور کی بات اکثروں کی گردنیں اور بعضوں کے سینے بھی ان کی بے حیائی اور آزادیٴ فکر کا واضح ثبوت دے رہے تھے اورکچھ خواتین تو کہنیوں سے اوپر شانوں تک اپنے کھلے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اسلام سے اپنی نسبت کا مذاق اڑا رہی تھیں۔ تیسرا واقعہ بھی اسی سلسلے کا سنیے! وہ زیادہ پرانا نہیں،1979ء سے84ء تک ہمارے ملک کے ایک نائب صدر جمہوریہ جسٹس ہدایت الله ہوا کرتے تھے، جن کی نسبت اتفاق سے اسلام ہی کی طرف تھی، وہ1969ء میں دو ماہ قائم مقام صدر جمہوریہ بھی رہے ، اس کے علاوہ 1968ء سے 70ء تک ملک کے سب سے بڑے قانونی عہدے یعنی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بھی فائز رہے ، اسلام سے ان کی نفرت ووحشت کے تعلق سے اگر میں ان کی زندگی کے کچھ واقعات بیان کروں تو آپ کہیں گے کہ شاید انہوں نے انتقال سے پہلے اپنے ان غیر اسلامی کاموں سے توبہ کر لی ہو ، اس لیے میں ان کے آخری لمحے کا واقعہ سناتا ہوں ، انہوں نے مرتے وقت وصیت کی کہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کے بجائے ہندؤوں کی رسم کے مطابق جلا دیا جائے ، چناں چہ ان کی وصیت کے مطابق عمل کیا گیا۔

مذکورہ بالا واقعات میں موجود تینوں شخصیات کی ان حرکات وسکنات او رافعال واقوال پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجیے، تینوں کا تعلق اگرچہ الگ الگ مذاہب ہندوازم، سکھ ازم اور اسلام سے ہے ، لیکن تینوں ہمارے اسی ملک کے باشندے اور یہاں کے سب سے بڑے منصب پر فائز رہ چکے ہیں، ایک طرف اول الذکر دونوں صدور ہند کا اپنے مذہب پر کس قدر اعتماد ہے ! گیانی ذیل سنگھ ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ان کے متعلق یہ تاثر قائم ہو کہ ان کو سکھ مذہب سے کسی جرم کی پاداش میں خارج کر دیا گیا، اپنے مذہب سے اپنی وابستگی کو باقی رکھنے کے لیے وہ حقیر وذلیل کام کرنے کے لیے تیار ہوئے، چاہے دنیا والوں نے ان کی اس تصویر سے جو کچھ بھی تاثر لیا ہو ، اسی طرح محترمہ پرتیبھا پاٹیل عہدہ صدارت پر برقراری کے لالچ میں کوئی ایسا کام کرنا نہیں چاہتیں، جو آج کے ترقی یافتہ دور میں فیشن کے نام سے ایک سفارتی ضرورت ہے او راس منصب سے میل کھانے والی بات ہے، اپنے سر سے لمحہ بھر کے لیے دوپٹہ ہٹانا یا اپنی ہتھیلی یا پیر کے ٹخنوں تک کی نمائش ان کو قبول نہیں، دوسری طرف جسٹس ہدایت الله ہیں، جن کو اپنے مذہب سے، جو اس کائنات کا سب سے برحق ، معقول، منطقی، فطری اور عقلی مذہب ہے، اپنی زندگی میں اس کی طرف نسبت پر ان کو نہ صرف عار ہے، بلکہ مرنے کے بعد بھی مسلم قبرستان میں دفن ہو کر اس کی طرف منسوب ہونے پر وہ شرم محسوس کر رہے ہیں، دوسرے الفاظ میں آپ یوں کہیے کہ اول الذکر دونوں صدور کو اپنے مذہب پر کس قدر اعتماد ہے اور آخر الذکر کو کس قدر عار!

آخر اس کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جب ہم ان تینوں واقعات کے پس پردہ موجود اسباب ومحرکات کا سنجیدگی سے تجزیہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ بچپن میں ان دونوں صدور کی مستحکم مذہبی تعلیم نے ان کا اپنے مذاہب پر اعتماد بحال رکھا اور آخر الذکر کو ان کی ابتدائی عمر میں اسلامی ودینی تعلیم دلانے میں ان کے والدین اور سرپرستوں کی کوتاہی نے اس عبرت ناک انجام تک پہنچا دیا ، ان سب کا خلاصہ یوں سامنے آیا کہ حق ہو یا باطل جب تک اس پر محنت نہیں ہوتی وہ اپنا اثر نہیں دکھاتا، باطل مذاہب پر جب محنت ہوئی تو اس کے اثرات ظاہر ہوئے اور حق پر توجہ نہیں دی گئی تو اس کا اثر ظاہرنہیں ہوا، دنیا میں اثرات ونتائج محنتوں پر مرتب ہوتے ہیں ، جن والدین نے اپنے مذاہب پر اپنی اولاد کو باقی رکھنے کی کوششیں کیں، اس کے نتائج سامنے آئے اور اسلام کے برحق ہونے کے باوجود والدین کی طرف سے اس سلسلہ میں بے توجہی برتی گئی تو اس کے منفی اثرات سامنے آئے، آج ہم اپنے ارد گرد معاشرے پر نظر دوڑائیں توہ ہمارے پورے ملک یا صوبے ہی میں نہیں، بلکہ ہمارے گاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں ایسے سینکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں ہدایت الله نظر آئیں گے جواگرچہ مرنے کے بعد اپنے آپ کو جلانے کی وصیت تو نہیں کر رہے ہیں، لیکن اسلام پر ان کا اعتماد ختم ہو چکا ہے ، مومن او رمسلم کہلائے جانے کے باوجود اسلام سے متعلق اپنے تشکیکی افکار وخیالات او رغیراسلامی نظریات کی وجہ سے چاہے دنیا والوں میں ان کا شمار مسلمانوں میں ہوتا ہو، لیکن عندالله عملاً وہ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں، دنیا کی ترقیات سے مرعوب ہو کر وہ اسلامی قوانین واحکام میں لچک ونرمی کا مطالبہ کرنے او راپنے کوسیکولر او رملک کے وفادار وہمدرد ثابت کرنے کے لیے غیر مسلم دانشوروں کے وہ نہ صرف شانہ بشانہ، بلکہ بعض اوقات ان سے بھی دو قدم آگے نظر آتے ہیں ، عیسائی مشنری اسکولوں میں اپنے بچوں کے زیر تعلیم ہونے پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کواس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ روزانہ ان اسکولوں کی صبح کی اسمبلیوں اور کلاسز میں ان کی زبانوں سے کفریہ اور شرکیہ کلمات ادا ہو رہے ہیں ، کلچرل پروگراموں اور تفریح کے نام سے وہ ایسے پروگراموں کا حصہ بنتے ہیں جن میں ناچ گانوں او رنغمات وسرور ہی نہیں، بلکہ غیر اسلامی حرکات وسکنات کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے ، یہ خیر غیر اسلامی اور مشنری اسکولوں او رکالجوں کا حال ہے، جہاں بڑی تعداد میں خود عیسائیوں سے زیادہ مسلم بچے او ربچیاں زیر تعلیم ہیں، خود اپنے مسلم مینجمنٹ اسکولوں کا یہ عالم ہے کہ اس کے ذمہ داروں کا وہاں زیر تعلیم مسلم طلبا کو دین پر باقی رکھنے کی فکر کرنا تو دور کی بات، ان کو اسلام سے ان کے اسکولوں کی نسبت پر بھی شرم محسوس ہوتی ہے اور خود عیسائیوں کی طرح ان کے اسکولوں کے نام بھی میری اور سینٹ سے شروع ہوتے ہیں، تاکہ دور دور تک کسی کو ان کے اسکول کے مسلم اسکول ہونے کا شبہ نہ ہو ، جہاں اپنی ضروریات سے فارغ ہونے کے لیے کھڑے ہو کر استنجا کرنے کے پیشاب خانے، بالغ بچیوں کے ساتھ بچوں کی مخلوط تعلیم ، اسکول کیمپس میں وقفہ تعلیم میں طلباء وطالبات کے گارڈنوں میں بیٹھ کر بے تکلف ہنسی مذاق کے بے حیا مناظر کو بھی وہ ثقافت او رکلچر کا حصہ سمجھتے ہیں، ان سے اپنے اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کی گنجائش نکالنے کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے!

پھر اس کا تدارک کیسے ہو؟
اب سوال یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو جو 96 فیصد سے زیادہ عصری درس گاہوں میں زیر تعلیم ہے، کیسے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ان کو اسلام پر باقی رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ؟ اور کیسے اسلام پر ان کے اعتماد کو بحال کیا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے ہمیں عیسائی مشنریوں کے طرز عمل اور طریق کار سے سبق لینا چاہیے، عیسائی مشنریاں اپنے تبلیغی او رمشنری مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم کے حوالے سے بڑے بڑے انجینئرنگ او رمیڈیکل کالجز قائم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کرتیں، اس لیے کہ ان کو پتہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ان مراحل میں طلبا کی ذہن سازی علم نفسیات کی روشنی میں ممکن ہی نہیں ، نیم پختہ ذہنوں کو اگر منصوبہ بندی کے ساتھ ابتدائی درجات سے بالخصوص ساتویں سے بارہویں تک کی تعلیم کے دوران اگر کسی فکر یا نظریہ پر موڑ دیا جائے تو آئندہ چل کر دنیاکے کسی بھی مرحلے میں ان طلبا کے ذہنوں میں قائم نظریات وافکار کوتبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے، اسی لیے ان کا پورا زور صرف بارہویں تک کے عصری تعلیمی نظام کے قیام پرہوتا ہے، چناں چہ آپ خود ہمارے ملک میں دیکھیں گے کہ خانگی اسکولوں میں عیسائی مشنریوں کا تناسب چالیس فیصد سے زیادہ ہے ، جب کہ کالجز اور اعلیٰ تعلیم کے مراکز میں ان کا یہ تناسب دس فی صدسے بھی کم رہ جاتا ہے ، ہمیں ان کی اس کامیاب حکمتِ عملی کو سامنے رکھتے ہوئے، جو درحقیقت اسلامی حکمت عملی ہی ہے، اس بات پر اب اپنی پوری توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ بارہویں تک چلنے والے ہمارے عصری تعلیمی مراکز خالص اسلامی ماحول میں قائم ہوں، جہاں عصری تعلیم تو سرکاری نصاب کے مطابق دی جائے، لیکن اسی تعلیم کو خالص اسلامی ماحول میں تربیت اور ذہن سازی کے ساتھ اس طرح عملی جامہ پہنا یا جائے کہ آگے چل کر ہماری نئی نسل نہ صرف اس ملک کے دوسرے اداروں، بلکہ یورپ وامریکا کی کسی بھی دانش گاہ میں جانے کے باوجود اپنی اس تربیت کی برکت سے اسلام وایمان پر قائم رہنے میں کام یاب رہ سکے۔

ہمیں مسلم اسکولوں کی نہیں، اسلامی اسکولوں کی ضرورت ہے 
ادھر ہندوستان میں دس پندرہ سال کے دوران مسلمانوں کے تعلیمی تناسب میں تو تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے او رمسلم تعلیمی ادارے بڑی تعداد میں وجود میں آرہے ہیں، لیکن ان اداروں کے نظام تعلیم وتربیت کودیکھتے ہوئے ان کو مسلم اسکولز وکالجز تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اسلامی اسکولز وکالجز کا نام نہیں دیا جاسکتا ، جن اداروں کو مسلمان چلاتے ہیں ان کو مسلم ادارے اور اسلامی اصولوں کے مطابق جو عصری درس گاہیں چلتی ہیں اس کو اسلامی اسکول کہا جاتا ہے، ملت کو اس وقت ضرورت مسلم اسکولوں ودرس گاہوں کی نہیں، بلکہ اسلامی او رایمانی تعلیم گاہوں کی ہے ، مخلوط تعلیم سے گریز ، کلچرل پروگراموں کے نام سے غیر اسلامی شعائر سے اجتناب، اسلام کی بنیادی تعلیمات کی نصاب میں شمولیت اور اسلامی بنیادوں پر بچوں کی ذہن سازی اور فکری تربیت کے ساتھ کیا آج ہم ہندوستان میں اعلیٰ معیار کی تعلیم گاہیں قائم نہیں کرسکتے؟ کیا دستور کی رو سے ہمارے لیے اس کی گنجائش نہیں؟ یقینا کرسکتے ہیں، اس طرز پر، اس فکر کے ساتھ کچھ غیر ت مند مسلمانوں نے ملک کے طو ل وعرض میں اس کا کام یاب تجربہ کیا تو اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے او رایسے اداروں کی مانگ میں نہ صرف تیزی سے اضافہ ہونے لگا، بلکہ اپنے تعلیمی معیار کی بلندی اور دسویں وبارہویں کے سرکاری امتحانی نتائج میں ان اسلامی اسکولوں کے سرفہرست رہنے کی وجہ سے غیر مسلموں کی طرف سے بھی اپنے بچوں کو غیر فطری اور بے حیاماحول سے محفوظ رکھنے کی ضرورت کے پیش نظر بڑی تعداد میں ان اسلامی اسکولوں میں داخلے ہونے لگے۔

یہ بہت آسان اور قابل عمل منصوبہ ہے
اسکولوں کا قیام اس وقت ملک کے موجودہ حالات میں جتنا آسان ، کم خرچ اور سہل ہے، شاید ہی اس سے پہلے کبھی اتنا آسان تھا، تعلیم کی طرف عوام کے میلان نے غریب سے غریب شخص کو بھی اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے پرمجبو رکر دیا ہے، یعنی اسکولوں میں بچوں کی فراہمی او رمعیار تعلیم کی شرط کے ساتھ بڑی سے بڑی فیس کی ادائیگی بھی اب کوئی مسئلہ نہیں ہے ، آپ صرف ایک لاکھ کے سرمایہ سے اپنے خود کے اسکول کا آغاز کرسکتے ہیں، شہر کے کسی بھی حصے میں آپ ایک خوب صورت، کشادہ او رمعیاری مکان کرایہ پر لیجیے او ربیس پچیس بچوں سے نرسری، ایل کے جی اور یوکے جی کی کلاسز کا آغاز کر دیجیے ، تین چار سو روپیہ ماہانہ بچوں سے لی جانے والی فیس سے ہی اساتذہ کی تنخواہ او رمکان وبجلی کا کرایہ بھی ادا ہو جائے گا ، طلبا کے لیے خوب صورت یونی فارم، کھیل کود کے کچھ سامان، شروع میں ان کو گھروں سے لانے کے لیے کرایے کے آٹورکشہ کا نظم، چھٹیوں میں ان کے لیے پکنک کا انتظام ، ماہانہ سرپرستوں کی میٹنگ، وقفہ وقفہ سے بچوں کے اسلامی ثقافتی پروگرام وغیرہ کے ساتھ، جب وقت کے ان تقاضوں کی روشنی میں اسلامی وشرعی حدود میں رہتے ہوئے آپ ایک سال مکمل کریں گے اور محلے وشہر کے لوگوں کے سامنے بچوں کی یہ کارکردگی آئے گی تو اگلے سال خود بخود آپ کے یہاں دس گنا بچوں کے والدین آپ کے اس اسلامی اسکول میں داخلے کے لیے ویٹنگ لسٹ میں نظر آئیں گے ، یہاں ایک دن وہ آئے گا کہ آپ کے ادارے کا شمار نہ صرف شہر کے، بلکہ پورے ملک کے میعاری اورنامور ، قابل تقلید تعلیمی مراکز میں ہو گا اور یہ سب اسلام سے آپ کے ادارے کی نسبت کی برکت ہو گی ، کیا لاکھوں روپے کے عطیات سے مسجدیں تعمیر کرنے والے ، یتیم خانے بنوانے والے، غریبوں کی اجتماعی شادیاں کرانے والے ، لوگوں کو حج پر بھیجنے والے ہمارے یہ اصحاب خیر دو چار لاکھ روپے کسی سال ملت کی اس اہم ترین ضرورت کے لیے مختص کرکے اس کا تجربہ نہیں کرسکتے ؟ اگر آپ کے پاس اس طرح کے تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے وقت یا تجربہ نہیں ہے تو کم از کم آپ سرمایہ تو فراہم کر دیجیے اور تعلیمی میدان سے تعلق رکھنے والے کسی دین پسند اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کو اس کام میں لگا دیجیے، الحمدلله گزشتہ چند سالوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں اس کے کام یاب تجربے وجود میں آچکے ہیں، وہاں جاکر خود اس کا مشاہدہ کیجیے اور اسی کو بعینہ اپنے یہاں نافذ کرنے کی کوشش کیجیے، غیر شعوری اور غیر محسوس طریقے سے اسلام سے نکلنے والی فکری ارتداد میں مبتلا نئی نسل کو ایمان پر باقی رکھنے کی آپ کی یہ کوشش اس وقت ملت کی سب سے بڑی اور اہم ترین ضرورت ہے۔



مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں
یہ نظام قدرت ہے کہ اللہ رب العزت ہمیشہ انسانوں کے اعمال وکردار کی بنیاد پر ان کی ترقی وتنزلی کا فیصلہ فرماتے ہیں،آرام وسکون اور قلبی اطمینان اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اچھے اعمال وکردار کا حامل بن کر اسی کا خوگر بن جاتا ہے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے ،بے چینی ، ذہنی انتشار اور قلبی بے اطمینانی انسان کا اس وقت مقدر بن جاتی ہیں جب وہ خدا تعالی کے مقرر کردہ اصول وضوابط اور ضابطہٴ حیات سے ہٹ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوتا ہے۔

آج یہ عام شکایت ہے کہ اطمینان قلب حاصل نہیں رہا،ذہنی انتشار بہت ہے، طرح طرح کی الجھنیں اور پریشانیاں معاشرے میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں،ہر آدمی مختلف مسائل میں الجھا ہوا ہے اور انواع واقسام کی پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ اس کا صرف اور صرف سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنے اعمال وکردار کو منشائے خداوندی کے خلاف کرلیا ہے ،دنیا کی حرص وہوس میں ہم نے نظام خداوندی کو پس پشت ڈال دیا ہے ،خدائی اصولوں کے بجائے دشمنان اسلام کے متعین کردہ ترقی وتنزلی کے معیار کو درست اور صحیح سمجھ لیا ہے اور اسی کو اپنانے کی فکر اور لگن میں رات دن منہمک اور مشغول ومصروف ہوگئے ہیں۔

آج جب معاشرے اور مسلم سماج کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اکثر کی زندگیاں دینی امور کی بجا آوری کے بجائے غیر شرعی اور غیر دینی امور میں مصروف دکھائی دیتی ہیں ،آج کے معاشرے کا سب سے بڑا ناسور، ٹی وی اور ملٹی میڈیا موبائل فون ہے، جو سماج اور معاشرے کی اخلاقی اقدار کے لیے زہر قاتل سے کسی طرح کم نہیں ہیں، لیکن پھر بھی اکثریت اسی پر فریفتہ نظر آتی ہے ۔

قیامت کی نشانیوں کے سلسلہ میں ایک مشہور مقولہ کتابوں میں مذکور ہے کہ:

لترفعن رأیة الفساد فوق کل بیت

مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب فساد کا جھنڈا ہر گھر کی چھت پر لہرا رہا ہوگا۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی شناعت اور دنیوی واخروی نقصانات اور سماج ومعاشرہ پر پڑنے والے اس کے منفی اثرات کی وجہ سے ”فساد کا جھنڈا“ جس کی طرف اشارہ فرمایاگیا ہے وہ اسی ٹی،وی کا انٹینا ہے، جو تقریباً ہر گھر کی چھت پر نصب ہوتا ہے ۔اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے قیامت کی ایک دوسری نشانی یہ بتائی کہ لوگ راتوں کو ناچا کریں گے اور ان کے سروں پر موسیقی کے آلات ہوں گے۔

آج جب کہ ٹی وی پر رات کو میوزیکل شوز دکھائے جاتے ہیں اور گلیوں میں ہم مسلم نوجوانوں کو اپنے کانوں پر Walk man کے مائیکرو فون لگائے ہوئے موسیقی سنتے دیکھتے ہیں تو حضور ﷺ کی حدیث کی صداقت سامنے آتی ہے، جب کہ1400 سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آلات موسیقی کو سر پر رکھ کر لنگور کی طرح کیسے ناچاجاسکتا ہے۔

جب مسلمانوں میں ای میل(انٹر نیٹ کے ذریعہ خط وکتابت اور پیغام رسانی )کا رواج بڑھا تو نوجوان لڑکوں لڑکیوں میں عشق معاشقے بڑھے۔ پھر جب سیل فون عام ہوا تو اس نے ای میل کا بھی نمبر کاٹ دیا،حد تو یہ ہے کہ آج کل مسلمان حج کے دوران طواف کرتے ہوئے بھی سیل فون استعمال کرتے ہیں۔

ایک یہودی پریس نے اپنے اخبار میں ایسے مسلمان حاجیوں کا ذکر کیا ”جن کے سیل فون عین وسط حرم میں بج رہے تھے اور انہوں نے سیل فون کی گھنٹی میں مائیکل جیکسن کے گانوں کی موسیقی بھری ہوئی تھی ۔“اندازہ کیجیے کہ حج، جو کہ جامع العبادات ہے اور طواف، جو کہ نماز کی طرح کی عبادت ہے، ایسی عبادات کے دوران بھی دجال کے ایجنٹ ہماری توجہ میں خلل انداز ہوتے ہیں، مشینوں کا استعمال بذاتِ خود برا نہیں، لیکن جب وہ اس درجہ پر پہنچ جائے کہ اس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی شروع ہوجائے تو یہ چیز بری ہے۔

کتنے تعجب کی بات ہے کہ آٹا روز بروز مہنگا ہورہا ہے۔ اسی طرح دیگر کھانے کی چیزوں کا حال ہے، لیکن دوسری طرف کیبل، ٹی وی، انٹرنیٹ اور سیل فون دن بدن سستے ہوتے جارہے ہیں۔ حد یہ کہ سیل فون پر آج صرف چند روپوں میں لکھا ہوا پیغام Text Message بھیجا جاسکتا ہے۔ آخر حکومت اس سخاوت کا مظاہرہ کھانے پینے کی اشیا کو سستا کرکے کیوں نہیں کرتی؟در اصل کھانے پینے کی چیزیں فحاشی اور عریانی نہیں پھیلاتیں۔ اس کے برعکس دجال کے ایجنٹ یعنی ٹی وی، سینما، انٹرنیٹ، ڈش، کیبل، سیل فون یہ سب جتنے سستے ہوں گے، سوسائٹی میں اتنے ہی عام ہوں گے اور یہ برائی پھیلانے میں معاون ثابت ہوں گے۔

قرآن میں فرعون اور موسی کا قصہ سب سے زیادہ بیان ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دور میں یہی کشمکش رہتی ہے، شیطان کی چالیں وہی رہتی ہیں۔ صرف چہرے اور آلات بدل جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کے دور میں فرعون نے عوام کو اپنا محکوم اور اپنے سے مرعوب رکھنے کے لیے جادو گر رکھے ہوئے تھے، جو لوگوں کو نظروں کا دھوکہ دے کر ایک طرف لوگوں کی تفریح کا سامان کرتے تھے اور دوسری طرف فرعون کی طاقت سے مرعوب رکھتے تھے۔

آج ٹی وی اور سینما کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر جو کچھ کرتے ہیں وہ فرعونی دور کے جادوگروں سے مختلف نہیں، ہالی وڈ کا مطلب ہی ”ایسی چھڑی جو لوگوں پر جادو کردے“ ہے۔ فلمیں بنانے والے عوام کو ٹی وی اور سینما کے مخصوص اثرات سے ایسا مسحور کردیتے ہیں کہ لوگ فلم میں خطرناک سین دیکھ کر دہشت زدہ ہوجاتے ہیں، غمگین سین دیکھ کر رونے لگ جاتے ہیں۔ اب کمپیوٹر کی وجہ سے نظر کا دھوکہ دینا پہلے سے بھی آسان ہوگیا ہے، آج مسلمان اپنا وقت فلم سٹاروں اور کھلاڑیوں کے کرتب دیکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ اسی طرح آج کل کچھ مسلمان ماں باپ فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا پوری رات کمپیوٹر پر کام کرتا رہا، ایسے ماں باپ نہیں جانتے کہ ان کا بیٹا پوری رات انٹرنیٹ پر کیا غلاظت دیکھتا رہا ہے!؟

قرب قیامت کے متعلق حضرت محمد ﷺ کی ایک نہایت دلچسپ حدیث ہے، جس میں حضور ﷺ نے فرمایا:

”شیطان یتصور بصورة رجل فیحدث الناس“ شیطان آدمی کی صورت میں آئے گا اور لوگوں کو خبریں سنائے گا۔ ”فیسمعون لہ“ پس لوگ اس کی بات سنیں گے اور پھر کہیں گے ”اعرف وجہ الرجل ولا اعرف اسمہ․“ ہم اس شخص کا چہرہ تو پہچانتے ہیں، لیکن اس کا نام نہیں جانتے۔

آج جب لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کرٹی،وی پر خبریں دیکھتے ہیں اور شیاطین کو ٹی وی پر دیکھتے ہیں تو اکثر ان کے چہرے ہی پہچانتے ہیں، نام نہیں پہچانتے۔ یہاں ایک اور دلچسپ بات بھی ہے کہ بہت سے مسلمانوں کو جب ہم ٹی وی کے نقصانات بتاتے ہیں تو وہ ٹی وی کی حمایت میں جو آخری دلیل دیتے ہیں وہ یہی ہوتی ہے: ”آخر ہمیں ٹی وی پر خبریں دیکھنی ہوتی ہیں ۔ ہم حالات حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں۔“حضور ﷺ کو مسلمانوں کی لنگڑی دلیلوں کا علم تھا اس لیے انہوں نے ہمیں پہلے ہی اس سے باخبر کردیا۔

حضور ﷺ نے مختلف احادیث میں بیان فرمایا کہ جو شخص سورہٴ کہف پڑھے وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا۔ (ترمذی، احمد، نسائی) ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سورہٴ کہف میں وہ کیا پیغام ہے جس سے ہم فتنہ دجال سے بچ سکتے ہیں۔ اصحاب کہف نے اپنے دور کے دجالی فتنہ اور مادیت پرستی کا مقابلہ غار میں محصور ہوکر کیا، اب ہم بھی دجالی فتنہ کا مقابلہ اصحاب کہف والے طریقے سے کر سکتے ہیں۔ ہمارا غار (کہف) ہمارا گھر ہے، ہمیں یہ چاہیے کہ ہر فتنہ والی جگہ، جہاں اللہ کی نافرمانی ہورہی ہو، وہاں جانے سے اجتناب کریں، اور اپنے گھروں میں دجال کے ایجنٹوں کو داخل نہ ہونے دیں۔ بلکہ مخبر صادق ﷺ نے ایسے فتنے کے مواقع کے لیے ہمیں ہدایت فرمائی کہ”کونوا أحلاس بیوتکم“ (ابو داؤد) فتنوں کے دور میں گھروں میں ایسے دبک کے بیٹھ جاوٴ جیسے گھروں میں پرانی چٹائیاں پڑی رہتی ہیں کہ نہ ان کوکسی سے کوئی مطلب ہوتا ہے اور نہ کسی کو ان سے کوئی سرو کار۔جو دجالی ایجنٹ شدید ضرورت کی وجہ سے ہمارے استعمال میں اور ہمارے بچوں کے استعمال میں ہیں، ان پر کڑی نظر رکھیں۔ ساتھ ساتھ قرآن کی تفسیر اور احادیث نبوی کے ترجمے اپنی پورے خاندان کے ساتھ پڑھیں۔

کیوں کہ احادیث نبوی میں ہمیں زندگی گزارنے کی ایک ایک قدم پر راہ نمائی ملتی ہے اور سنت کی پیروی میں ہی ہماری کام یابی ہے، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھیں گے تو کوئی ہمیں زبردستی باطل کے راستے پر نہیں چلا سکتا۔ بقول اقبال #
        تقلید پہ یورپ کی رضا مند ہوا تو
        مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے

میڈیا اور غیر اسلامی ذرائع ابلاغ اور جدید مواصلاتی نظام کی روز افزوں ترقی نے آج مسلم معاشرے کے سامنے ان گنت مسائل کھڑے کردیے ہیں، انسانی معاشرتی نظام میں نت نئی تبدیلیاں اتنی تیزی سے آرہی ہیں کہ عقل و حواس محو حیرت ہیں، غیر اسلامی طاقتیں عام ذہنوں کی تسخیر کے لیے میڈیا اور ذرائع ابلاغ کو نہایت خفیہ انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہیں اور معاشرہ کی ساری صالح قدروں پر نقب زنی میں مصروف عمل ہیں، خاص طور سے مسلم معاشرے میں ان کو خوب خوب رواج دیا جارہا ہے اور ایک طرح سے ذہنوں سے اسلامی قدروں کو پامال کرنے اور دینی شعار کو فرسودہ تصور کرانے کی مہم چلا رکھی ہے ،اسلامی ناموں کے ساتھ پروگرام نشر کیے جاتے ہیں، ویب سائٹس بنائی جارہی ہیں” الجہاد“،” الشہادة“، ”الاسلام“اور ”القدس“ جیسے خوبصورت ناموں کے ذریعہ دام ہم رنگ زمین پھیلائے جارہے ہیں اور مسلمانوں کی نئی نسل کو گرفتار مکرو فریب کرکے ان کے ایمان اور ان کی روحانی وراثت کو سلب کیا جارہا ہے، اس سلسلہ میں عیسائی اور یہودی مشینریاں تو سب سے آگے ہیں ،گویا خوش رنگ اور دیدہ زیب حلوہ زہر ملا کر پیش کرتے ہیں اور معاشرہ اس سے لذت ِکام و دہن حاصل کرتا ہے، لیکن اس کے مہلک اثرات سے بے خبر ہوکر، اس کے نتیجہ اور انجام سے لاپروا ہوکر،آج عالم یہ ہے کہ موبائل فون گاؤں گاؤں پہنچ چکے ہیں، کسی گھر میں چاہے بجلی نہ ہو، پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، معقول علاج کے لیے پیسے نہ ہوں، بچوں نے کسی اسکول کا منھ بھی نہ دیکھا ہو، لیکن موبائل فون ضرور میسر ہوگا، اس موبائل فون کے ذریعے جو انٹرنیٹ کی سہولت سے مزین ہوں اورجو فی الواقع ایک منی کمپیوٹر ہوں، جس میں ڈیجیٹل اور ویڈیو کیمرے بھی موجود ہوں، اخلاقی قدروں کا انہدام اور جنسی اباحیت کا فروغ، دونوں کام دھڑلے سے جاری ہیں، ان موبائل کیمروں کی وجہ سے اس وقت دنیا کی تمام فحش ویب سائٹس پر تیسری دنیا کے لڑکوں اور لڑکیوں کی جنسی حرکات کی فلمیں موبائل کلپس (clips) کے نام سے دست یاب ہیں، یہ اور ایسی ہی دوسری فحش فلمیں ہر اس موبائل پر، جس میں بلیوٹوتھ (BLUE TOOTH) کی سہولت ہو، بھیجے جاسکتے ہیں، آج ہم کس قدربے حس اور بے خبر ہیں ،ہماری نوجوان نسل تیزی سے اس میٹھے زہر کی لت میں مبتلا ہوتی جارہی ہے ،ایک پاکستانی ماہنامہ کی رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے اخبارات میں کم و بیش روزانہ شائع ہونے والی اخلاقی جرائم کی روح فرسا خبریں شاہد ہیں کہ ہماری حالت بھی ان مغربی معاشروں جیسی ہوتی جارہی ہے جہاں جنسی جرائم روز مرہ کا حصہ اور عام زندگی کا معمول بن چکے ہیں، مغربی معاشرے میں ہر منٹ میں خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں، یعنی ایک گھنٹے میں اٹہتر(78 )، ایک دن میں ایک ہزار آٹھ سو بہتر( 1872) اور ایک سال میں چھ لاکھ تراسی ہزار دو سو اسی(683280) خواتین جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں، ان میں سے84 فی صد کی عمریں24 سال سے کم ہوتی ہیں، جب کہ 84 فی صد جنسی تشدد کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں اکسایا گیا ہے، کس نے اکسایا ہے؟ فحش موبائل کلپس اور انٹرنیٹ فحاشی نے، جنسی تشدد کے 75 فی صد مجرموں کی تعداد انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے بننے والے ”دوستوں“ کی ہوتی ہے، لیکن جرم کی یہ وہ تعداد ہے جو پولیس ریکارڈ میں ہے، مغرب میں دس میں سے نو عورتیں اپنے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کا کسی سے ذکر تک نہیں کرتیں، جب کہ مشرق میں شاید سو میں سے ایک عورت، بلکہ ایک ہزار میں سے ایک عورت ہی شاید اپنے اوپر ہونے والے جنسی ظلم کو باہر جاکر بتاتی ہو، اس کے باوجود صرف پاکستان جیسے چھوٹے سے مسلم ملک میں صرف ایک سال 2009ء میں گینگ ریپ کی 928 وارداتیں پولیس میں رپورٹ ہوئیں اور274عمومی ریپ کے واقعات ہوئے، یعنی پاکستان جیسے نام نہاد مسلم ملک میں روزانہ چار خواتین اجتماعی یا انفرادی آبروریزی کا شکار ہوئیں، مغرب کے ماہرین جرائم و نفسیات بتاتے ہیں کہ یہ سارے جنسی جرائم کسی مذہبی گھٹن یا مردانہ استحصال کی نعرہ بازی کا شکار نہ تھے، بلکہ ان میں سے 87 فی صد ایسے تھے جو فحش فلمیں دیکھنے کی لت میں مبتلا تھے، جن لوگوں نے چھوٹے بچوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا ان میں تو موبائل اور انٹرنیٹ پر فحش فلمیں دیکھنے اور فحش میگزین پڑھنے کی عادت رکھنے والوں کی تعداد 95 فی صد تھی، مغربی ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ آبروریزی اور جنسی جرائم کی خواہشات اسی غلیظ مواد سے پیدا ہوتی ہیں جو موبائل اور انٹرنیٹ پر بے روک ٹوک مہیا ہے، دنیا کے کسی ملک میں ہمارے یہاں سے زیادہ سستا موبائل فون نہیں اور مغرب کی طرح ہمارا میڈیا بھی اس قدر مادر پدر آزاد ہوچکا ہے کہ جیسا چاہتا ہے فحش اشتہارات دکھاتا اور چھاپتا ہے، ابھی تو یہ آتش فشاں خاموشی سے اُبل رہا ہے، لیکن اُس دن کیا ہوگا جب یہ اک دم سے پھٹ پڑے گا اور عزت و ناموس ، غیرت و حمیت اور اخلاق و اقدار اس نوجوان نسل کے پاؤں کی ٹھوکر میں ہوں گے جن کو ہم خود یہ زہر دے کر پال رہے ہیں؟

تاریخ شاہد ہے کہ جس ماحول اور معاشرے میں اسلام کی تعلیمات اور خدائی اصولوں کی مکمل پاس داری کی گئی اور رسول اکرم ﷺ کے متعین کردہ خطوط و حدود کے اندر ہی رہ کر زندگی گذارنے کی کوشش کی گئی وہ ماحول اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنارہا، اس معاشرے کے ہر ہر فرد کو اطمینان قلب اور ذہنی سکون میسر رہا ہے، معاشرتی بگاڑ اور ماحولیاتی پراگندگی میں سب سے اہم چیز جو موثر ہوتی ہے وہ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح ہوتی ہے، جس معاشرے میں جرم پر ابھارنے والے محرکات موجود ہوں گے اورمجرم کھلے بندوں پھریں گے، انھیں کوئی ٹوکنے والا نہ ہوگا، ان کی سرزنش کرنے والا کوئی نہ ہوگا، اس ماحول اور معاشرے کا امن و سکون یقینا غارت ہوگا، نگاہ اٹھا کر دیکھا جائے تو آج پوری دنیا میں یہی نظر آئے گا کہ مسلمانوں کی عملی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر غیر اسلامی عناصر اسلام کی شبیہ کو ہر ممکن طریقے سے بگاڑنے میں کوشاں ہیں اور یہ سلسلہ عرصہ دراز سے ہی نہیں، بلکہ اسلامی تاریخ کے پہلے دورسے اس کی کڑیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں،البتہ حالات و زمانہ کے اعتبار سے اس میں کمی و زیادتی ہوتی رہی ہے ۔

آج پھرضرورت اس بات کی ہے کہ ماحول اور معاشرے کو صالح بنایا جائے اور ان اسباب ومحرکات کا پوری ایمانی قوت کے ساتھ بائی کاٹ کیا جائے جو سماج اور معاشرے میں گندگی پھیلا کر جرائم کو پنپنے کا موقع فراہم کرتے ہیں،موبائل فون آج کی زندگی کی ایک ضرورت بن چکا ہے ،لیکن اس کا استعمال بقدر ضرورت جائز حدود میں رہ کر ہی کیا جائے ،تاکہ معاشرے کی صالح اقدار برقرار رہیں اور کہیں سے کوئی بگاڑ اورمعاشرے کی صالحیت میں کوئی فرق نہ آئے ۔
*******************************
مسلمانوں کی روشن تاریخ گواہ ہے کہ مثالی اتحاد اور استقامت علی اللہ واخلاص و للہیت کی بدولت، امت محمدیہ نے دنیائے انسانیت میں تاریخ ساز ،حیرت انگیز انقلاب برپا کیا، سب سے پہلے جزیرہ نمائے عرب سے لاقانونیت، بدامنی، غارت گری، بدامنی، انارکی، درندگی کو ختم کرکے صحرائے عرب کو اسلامی وحدت کا مرکز بنادیا، اسلام نے اپنی آفاقی تعلیمات کے ذریعہ منتشر و متحارب گروپوں اور جنگ و جدال میں برباد ہوتے قبائل کو کلمہ توحید کی بنیاد پر ایسا مربوط و ثابت قدم کردیا کہ وہ ایک جسم و جان بن کر ابھرے اور ساری دنیا پر چھاگئے، ایک ایمانی فضا قائم کی، اللہ کی الوہیت وربوبیت ،رسول اللہ ﷺ کی رسالت و قیادت اور اسلام کی حقانیت و صداقت پر کامل یقین، امت محمدیہ کا تشخص وامتیازبن گیا تھا اور یہی جذبہ ان کو دنیائے فانی کی حرص ، اقتدار کی ہوس اور منصب و مرتبہ کی لالچ سے بے نیاز بنائے ہوئے تھا کہ کبھی بھی جاہ و منصب کے لیے محاذ آرائی اور اپنے کو نمایاں کرنے کی خواہش ان میں پیدا نہ ہوسکی، عہد اول و قرون ماضیہ کے مسلمانوں کی یہی صفت دشمنوں کے لیے سب سے خطرناک چیز تھی، وہ اپنی تمام تر سازشوں اور کوششوں سے بھی اسلامی وحدت کو نہیں توڑ سکے، نتیجہ ظاہر تھا کہ مسلمانوں کو ہر میدان میں فضیلت و برتری، فتح و غلبہ حاصل تھا، اس وحدت کی روح کلمہ توحید اور اسلامی نظام حیات تھا، کسی موقع پر بھی انھوں نے اپنی ذاتی آرا اور نفسانی خواہشات کے تحت کوئی قدم نہیں اٹھایا، بلکہ ملت کے مفاد میں اگراپنی ذاتی شخصیت وحیثیت کو قربان کرنے کی ضرورت پیش آئی تو بلا تردد قربانی دے دی، مثال میں ایک بہت ہی اہم واقعہ محض نمونہ کے طور پر اشارةً پیش ہے کہ مجاہدین اسلام کے سپہ سالار اعظم حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی فوجی بصیرت ، دفاعی لیاقت اور حربی حکمت عملی کی تعریف خود رسول اللہ ﷺ نے فرمائی اور ان کو سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کا خطاب دیا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی دہشت سے قیصر و کسریٰ کے جرنیلوں کا پِتّہ پانی ہوتا تھا، وہ فی الواقع سیف اللہ تھے،فتح و کامرانی کی علامت ،مگر کچھ خاص مصلحتوں اور حکمتوں کے باعث امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو سپہ سالار اعظم کے جلیل القدر منصب سے عین اس وقت معزول کردیا جب کہ وہ شام کے محاذ پر قیصر روم کی فوجوں سے لوہا لے رہے تھے اور ان کا ناطقہ بند کیے ہوئے تھے، جیسے ہی معزولی کا پروانہ پہنچا، خالد بن ولید نے اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد میں اپنی بلند ترین شخصیت کو ایک عام سپاہی کے درجہ تک بلا تکلف پست کرلیا، نہ کوئی شکوہ، نہ کوئی تبصرہ، بلکہ ایک جملہ زبان پر دل کی گہرائیوں سے نکل رہا تھا، کہ ابن ولید ہر حال میں امیر المومنین کے حکم کا تابع، صرف اللہ ورسول کے لیے سربکف میدان میں ہے، خواہ بحیثیت سپہ سالار ہو یا بحیثیت عام فوجی، مقصد اللہ کی خوش نودی اور اسلام کی سربلندی کے سوا کچھ نہیں۔

ہر دور میں دین دشمن عناصر نے یہی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں دراڑ پیدا کرکے ان کو اختلاف و افتراق میں ڈال دیا جائے، اس کے علاوہ کوئی صورت ان پر غالب آنے اور قابو پانے کی نہیں، بغداد کی عباسی خلافت ہو یا عثمانی سلطنت ، قومی و علاقائی اور مذہبی منافرت و تعصب ہی زوال کا باعث بنا، استعماری طاقتوں نے ہندوستان و دیگر افریقی و ایشیائی ممالک پر اپنے تسلط و اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے اسی افتراق کا سہارا لیا اور اسلامی وحدت کی چادر ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بھر پور کوشش کی ،ملک کے موجودہ حالات میں آج وحدت اور اتفاق واتحاد کی سخت ضرورت ہے ،اس اتحاد واتفاق کی عملی کوششیں ہونی چاہییں اور اس کے لیے دعاوٴں کا خصوصی اہتمام بھی ۔

والله الموفق، وہو المستعان



نورِ خداہے کفرکی حرکت پہ خندہ زن
آہ!یہ منظر بھی آنکھوں نے دیکھا، کانوں نے سنا، حسرت، ندامت اور شرمندگی کا دریا ہے، جس میں قلب مضطرب ڈوبا ڈوبا جاتا ہے۔ایسے میں امت مسلمہ کی بے بسی وبے کسی، لاچارگی کے احساس کو بڑھاوادے جاتی ہے۔ہرمعتدل سوچ مغرب کی جانب سے توہین قرآن کے واقعے پر غلطاں وپیچاں ہے۔ملعون پادری ٹیری جونز کی ناپاک جسارت، یورپ کی وسعت نظری اوررواداری کے دعووں کاکھلا جنازہ ہے۔اقوام عالم میں اپنا شمارمہذب ،شائستہ اورترقی یافتہ تہذیبوں میں کرانے والا امریکا اندرسے کتنا کھوکھلا،تنگ نظراورمتعصب ہے؟اس کی تازہ ترین گواہی فلوریڈامیں واقع چرچ کے مذموم اورناقابل بیان اقدام سے ملتی ہے۔ ثابت ہوگیا کہ دوسروں کو اعتدال کادرس دینے والے خود بے اعتدالی کے خوگرہیں۔ہروقت مسلمانوں کو تنگ فکر ،محدودسوچ اورعدم برداشت کے طعنے دینے والے خود اس روگ میں مبتلاہیں۔کفریہ طاقتیں اپنے ظاہری لب ولہجے کو کتنا ہی میٹھا اورشیریں بنالیں ،مگر کلام مقدس کی یہ خبر اپنا آپ منواکر ہی رہتی ہے کہ ”یہ یہود ونصاری دل سے چاہتے ہیں کہ تم تکلیف اٹھاؤ،بغض ان کے منہ سے ظاہرہوچکاہے اورجو عدوات ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔“(آل عمران، 118)

شیطان نما انسان ٹیری جونز اوراس قبیل کے دوسرے افرادیا گروہ کے خبث باطن کے پس منظر میں کیا ذہنیت کارفرماہے؟اس کا جواب بہت آسان اورواضح ہے۔بلاشبہ فرقان عظیم روز اول سے اسلام دشمنوں کے لیے ناقابل برداشت رہاہے۔کیوں کہ یہی وہ سچی ،ابدی اورسرمدی کتاب ہے جو ان کے سابقہ کرتوتوں اورمجرمانہ رویوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ماضی میں ضالین ومضلین نے احکام ِخداوندی کو کس طرح پامال کیا ؟خواہشات نفس کی غلامی نے انہیں ضلالت کی کن اتاہ گہرائیوں میں دھکیلا؟حق سبحانہ وتعالی کے رسولوں اورنبیوں علیھم السلام کی کھلم کھلابغاوت اوران کی اتباع سے اعراض کی روش نے انہیں دنیا وعقبیٰ کی کن رسوائیوں اورناکامیوں سے دوچارکیا؟یہ اوران جیسے دیگر مبنی برحقیقت سوالات کے جواب میں ،کلام الٰہی بنی نوع انسان کی کامل راہ نمائی اورمکمل رہبری کرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کو طاغوت کی پیروی کے ہول ناک نتائج سے آگاہی دیتاہے۔بدی کی قوتوں کا نیکی کے چشمہ صافی کے خلاف یہ عنادتب سے قائم ہے ،جب غار حرامیں اس پاکیزہ ،قابل تکریم اورکائنات کی سب سے سچی آسمانی کتاب کی پہلی وحی نازل ہوئی۔

حق وباطل کے مابین یہ معرکہ آرائی پہلے دن سے جاری ہے۔فرق اتنا ہے پہلے معرکے رزم گاہوں میں ہواکرتے تھے۔اب ان کامیدان ہردھڑکنے والا دل ،دیکھنے والی آنکھ اورسوچنے والا دماغ ہے۔اس فکری جنگ میں صہیونی طاقتوں کا نشانہ ہر وہ صاحب ایمان ہے جو اسلام ،قرآن اورصادق مصدوق ﷺ سے اپنی نسبت کو باعث نجات اورمایہٴ آخرت جانتاہے۔مغربی چرچوں میں پیش آمدہ افسوس ناک واقعات دراصل اہل اسلام کی ایمانیات کو جانچنے کا وہ آلہ ہیں، جس کے سیماب میں کمی یا زیادتی، اعدائے اسلام کو اپنے دجالی منصوبوں کے لیے پھیلائی جانی والی سازشوں کے بارے میں کام یابی یا ناکامی کاپتادیتی ہے۔

اب جو شخص اسلام کا دعوے دارہے۔وہ اپنے کردار،عمل اورقول کو پرکھے اوردیکھے کہ اس کی زندگی کس قدر قرآن مبین سے قریب ہے؟اس نے حیات مستعارکے گنے چنے لمحوں کوکہاں تک قرآنی سانچے میں ڈھال رکھا ہے؟اس کے دل میں ہدایت کی پیاس نے اسے کتنا بے چین کر رکھا ہے؟وہ اپنی تشنگی کی سیرابی کے لیے کہاں تک کتاب لاریب سے رجوع کرتاہے؟اس کا اپنا ربط وجوڑ اہل قرآن یعنی حضرات علمائے کرام سے کس حد تک استوارہے؟کہیں شیطان کے پھیلائے گئے پھندے میں پھنس کر ”مولویت“سے چڑتونہیں گیا؟کیا یہ امر کسی المیے سے کم نہیں کہ ایک طرف کلام مبارک کو نذرآتش کیا گیا اوراگلے دن پوری قوم کرکٹ میں فتح یابی کا جشن پورے تزک واحتشام کے ساتھ منارہی تھی۔خوشی اورغمی کے پیمانوں میں اس قدرواضح تفاوت اورفرق اہل ایمان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

بے شک کتاب مقدس کی بے آبروئی اوراہانت کی جس قدرپرز ور مذمت کی جائے کم ہے۔اظہارمذمت کے لیے جتنے جائز ذرائع ووسائل اختیارکیے جاسکتے ہوں وہ اپنی جگہ درست اوربرمحل ہیں۔مگرہم اور آپ اس واقعے پر زبانی کلامی ردعمل تک محدودہوکرنہ رہ جائیں۔بلکہ اپنی زندگیوں میں صالح انقلاب پیداکریں۔ایسی راست تبدیلی، جس سے ہمارا رشتہ کلام اللہ سے مزید مستحکم اورپائے دارہو۔دشمنان ِقرآن کومنہ توڑ جواب اسی وقت دیا جاسکتاہے جب ہمارے انفرادی واجتماعی مزاجوں میں قرآنی تعلیمات کا نورجھلکتانظرآئے گا۔جب ہم قرآنی زبان میں سیسہ پلائی عمارت کی طرح متحدومتفق ہوں گے۔جب ہمارے دل ونظرتلاوت اورتدبرقرآن سے آبادوشاداب ہوں گے۔ اگرہم اپنے معصوم بچوں کا تعلق ابھی سے کلام پاک سے مضبوط کردیں توکل یہی نوخیز نسل اسلام وقرآن اورصاحب قرآن ﷺ کی عزت وناموس کی پشتی بان ہوگی۔

یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ امریکا،اسرائیل اوران کی ہم نواریاستیں اپنے اپنے ملکوں میں قرآن اورقرآنی احکام کی ہتک اوربے حرمتی کے واقعات کو بھرپور شہہ دے رہی ہیں، مگراس کے باوجوداسلا م مغرب کا دوسرابڑامذہب بن چکاہے۔وہ پرد ہ اورحجاب، جس کے متعلق مغربی مفکرین قید اورگھٹن کا پروپیگنڈاکرتے نہیں تھکتے تھے،آج وہاں مردوں کی ہوس ناکی کا نشانہ بننے والی صنف نازک کے لیے قلبی وروحانی سکون کا ذریعہ بنتاجارہاہے۔جو بھی یورپی باشندہ خالی الذہن ہوکر قرآن حکیم کا مطالعہ کرتاہے،اس کی تعلیمات وہدایات کو اپنے دل ودماغ کے قریب پاتا ہے۔اُسے اسلام مخالف نعرے مکڑی کا جال معلوم ہوتے ہیں۔اسلام کی واضح تصویر نظرآنے پر وہ خود کو قبول ِاسلام پر مجبورپاتاہے۔یہ سب آخرکیا ہے؟یہ اسلام کی وہ آفاقی صداقت اوراعجاز ہے، جس کے متعلق رب ذوالجلا ل فرماتے ہیں:”دشمنانِ اسلام چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کے نورکو بجھادیں، حالاں کہ اللہ اپنے نورکی تکمیل کرکے رہے گا،چاہے کافروں کو یہ بات کتنی بری لگے۔“(سورة الصف،08)

عین ممکن ہے صہیونی گماشتوں کی یہ ناپاک جسارتیں مغربی دنیا میں قرآن کی شمع فروزاں ہونے ،اسلام کی روزافزوں ترقی اورنشاة ثانیہ کا سبب بن جائیں۔ان ظالموں اورشیطانوں کی تدبیریں ان ہی پر الٹ جائیں۔آزرکے گھر سے ابراہیم کے پیداہونے کا منظردنیا ایک بارپھر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔وماذلک علی اللّہ بعزیز.



اسلام، عمل کا نام ہے
رسول الله ﷺ جس دین کی دعوت لے کر آئے، وہ پوری ایک زندگی تھی ۔ اس زندگی کی دو خوبیاں خاص تھیں۔ اس زندگی کی بنا پر الله کی خاص مدد اور نصرت مسلمانوں کو حاصل ہو جاتی تھی اور دوسرے انسانی فطرت میں اس کے لیے بے انتہا کشش تھی ۔ یہ زندگی در حقیقت ”اسلام“ تھی۔ اس کے بر خلاف آج مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلام چند قوانین کا نام ہے جو کتابوں میں بند ہیں، عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

دراصل وہ زندگی جس کی دعوت لے کر آں حضور ﷺ آئے اور صحابہ کرام نے جس زندگی پر عمل کرکے دکھایا، اصل دین تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عام انسانوں سے بلند تر ہو کر خاص انسان بن گئے اور اتنے خاص بن گئے کہ وہ جو چاہتے تھے ، الله کرتا تھا۔

دوسری خوبی یعنی انسانی فطرت میں کشش کے باعث انہیں غیروں کو یہ بتانااور سمجھانا نہیں پڑتا تھا کہ اسلام ہے کیا۔ وہ تو ان کے دن رات کے معمولات اور سرگرمیوں سے عیاں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب بڑے سے بڑا دشمن بھی ذاتی تعصب اور خود غرضی سے بلند تر ہو کر ان لوگوں کی زندگیوں کا مشاہدہ کرتا تھا تو اسے ان کی زندگیوں میں درج بالاخوبیاں واضح طور پر نظر آتی تھیں۔ یعنی خدا کی غیبی مدد اور فطری کشش۔

آج ہم مسلمان جب اسلام کی بات کرتے ہیں تو وہ اسلام ہمیں عملی طور پر جیتا جاگتا اور نافذ کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ صرف کتابوں میں بند اور محفوظ ہے ۔ کتاب اور عمل میں فرق ہے ، کتابوں میں سب کچھ موجود ہے، مگر اصل چیزعمل ہے۔ کسی چیز پرعمل ہی یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ چیز کتنی قابل عمل ہے ۔ رسول الله ﷺ اور صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین نے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ جس دین کی طرف بلا رہے ہیں وہ قابل عمل ہے اور ان کی زندگیاں اس پر سب سے بڑھ کر دلیل اور ثبوت تھیں۔ اس کے برخلاف جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہوتا، کیوں کہ ہماری زندگیاں عام طور پرعمل سے خالی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا اسلام خدا کی تائید ونصرت سے بھی محروم ہے اور ہماری بے عملی اور بدعملی کی بناء پر اغیار کو اس میں فطری کشش بھی محسوس نہیں ہوتی۔

اسلام، زندگی میں عمل کا نام ہے ۔ یہ عمل جتنا خالص اور پختہ ہو گا اس کی فصل بھی اتنی ہی خوش نما اور پرکشش ہو گی۔






آ، تجھ کو بتاؤں میں، تقدیرِ اُمم کیا ہے؟



          رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں اعداء اسلام کے ساتھ جو معرکہٴ آرائیاں ہوئیں ، ان میں غالباً سب سے سخت معرکہ ’غزوہٴ احزاب،کا تھا ، اس غزوہ میں تمام اسلام دشمن طاقتیں یکجا ہوگئی تھیں ، اس میں مکہ کے مشرکین بھی تھے ، قبیلہٴ بنوغطفان کے جاں باز بھی ان کے دوش بدوش تھے اور مسلمانوں کے بغلی دشمن یہود بھی اس نازک وقت میں کھل کر مسلمانوں کی مخالفت میں سرگرم ہوگئے تھے ، اس طرح بیس ہزار کا لشکرِ جرار مدینہ کی اس مختصر آبادی کا محاصرہ کیے ہواتھا ، جو محض دو ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل تھی ، یہ بڑا نازک وقت تھا ؛ اسی لیے مسلمانوں نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے ایرانیوں کے طریقہٴ جنگ کے مطابق ایک گہری اور وسیع خندق کھودی ، سامنے کی طرف سے یہ خندق تھی اور پشت کی طرف سے پہاڑ تھے ؛ تاکہ دشمن مسلمانوں تک پہونچ نہ سکیں ، تقریبا بیس دنوں مسلمان محاصرہ کی حالت میں رہے ۔
          جنگ کے موقع پر یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ فوجیوں کو غذائی رسد اور ضروری سہولتیں حاصل رہیں ، تبھی وہ پوری قوت اور جوش وولولہ کے ساتھ حملہ کرسکتے ہیں اور اپنے دفاع کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں ؛ لیکن صورتِ حال یہ تھی کہ یخ بستہ کردینے والی ٹھنڈک اور اس کے ساتھ ساتھ غذا کی نہایت قلت ، غذا ئی صورت حال یہ تھی کہ راوی نقل کرتے ہیں :
          ”یُوٴْتُون بِمِلإ کَفَّي مِن الشعِیرِ فَیُصْنَعُ لَہُمْ بإِهالةِ سنِخةٍ تُوْضَعُ بَیْنَ یَدَیِ الْقَومِ والقومُ جِیاعٌ وہِی بشِعة فِی الحلقِ ولہا رِیح منتِن“ (صحیح البخاری ، کتاب المغازي ، باب غزوة الخندق وہو الأحزاب ، حدیث نمبر : ۳۷۹۱)
” صحابہ کے پاس دو مٹھی جو لایا جاتا مزہ اتری ہوئی بد بودار چربی کے ساتھ اس کو ان کے لیے پکایا جاتا ، جو لوگوں کے سامنے رکھ دیا جاتا ، درانحالیکہ وہ بھوکے ہوتے “
          مگر کیا مجال تھی کہ کبھی زبان پر شکوہ آئے ، احتجاج ہو ، یا بطورِ الحاح والتجاء ہی رسول اللہ ﷺ کے سامنے عرضِ مدعا کیا جائے ، وہ ہمیشہ صبر و قناعت کا پیکر بن کر رہتے اور ہر حال میں ان کی زبان اللہ تعالیٰ کے شکر و سپاس سے تر رہتی ، معمولی ہتھیاروں سے چٹان کے پتھروں کو توڑنا اور خشک پتھریلی زمینوں کو کھودنا آسان بات نہیں تھی ؛ لیکن صحابہ کا حال یہ تھا کہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنا کام کیے جاتے ، سخت جسمانی کام کرتے ہوئے ، بعض اوقات لوگ نعرہ لگاتے اور نغمے گاتے ہیں ، یہ بات ان کے لیے کام کو آسان بناتی ہے اور ان میں نیا جوش وولولہ بھر دیتی ہے ، عربوں کے یہاں بھی اس کا رواج تھا ؛ چنانچہ صحابہ اس موقع سے حوصلہ بڑھانے والے اشعار پڑھتے ، ان اشعار کے لفظ لفظ سے رسول اللہ ﷺ سے ان کا عشق ، اللہ کی قدرت پر بے پایاں یقین اور اللہ کے فیصلوں پر راضی رہنے کا جذبہ اور صبر و قناعت کا عزمِ مصمم ظاہر ہوتا ہے ، آپ بھی ان ایمان افروز اشعار کو پڑھیے جن کو امام بخاری نے اپنے مجموعہٴ حدیث میں نقل کیا ہے :
نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوا محمدا
عَلی الجہادِ مَا بَقِیْنَا أبدا
(صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب التحریض علی القتال ، حدیث نمبر : ۲۸۴۳)
” جب تک ہم زندہ رہیں گے اس وقت تک کے لیے ہم نے محمد (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کی “
وَاللّٰہِ لولا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا
وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا
فَإنزِلِنْ سَکینةً عَلَیْنَا
وَثَبِّتِ الأقدامَ إنْ لَا قِیْنَا
إنَّ الأُلیٰ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا
إذا أرَادُوا فِتنةً أَبَیْنَا
 (حوالہ سابق ، حدیث نمبر : ۴۱۰۴)
” خدا کی قسم !اگر اللہ ہمیں ہدایت سے نہ نوازتے تو ہم ہدایت نہیں پاتے اور نہ صدقہ دیتے اورنہ نماز پڑھتے ، پس خداوندا ! ہم پر سکینہ نازل فرمائیے اور جب ہمارا مقابلہ دشمن سے ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھیے ، ان لوگوں نے ہمارے خلاف زیادتی کی ہے ، جب انھوں نے فتنہ پیدا کرنا چاہا تو ہم نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا “
          ایک طرف آپ ﷺ کے رفقاء پر فقر و فاقہ کی آزمائش ہے ، دوسری طرف یہ جذبہٴ سرفروشی اور جانبازی و جان نثاری بھی دو ش بدوش ہے ، اسی ماحول میں اسلام کا سورج جزیرة العرب کے افق پر طلوع ہوا ، وہ بلندی کا سفر طے کرتا گیا؛ یہاں تک کہ اس کی کرنیں مشرق سے مغرب تک پھیل گئیں ، اس پر ایمان لانے والوں کے ایک ہاتھ میں فولاد کی تلوار ہوتی تھی اور دوسرے ہاتھ میں اخلاق کی تلوار ، ان کی زندگی میں اتنی سادگی اور قناعت تھی کہ انھیں متاعِ سیم وزر کی طرف دوڑنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ، دنیا کے لوگ مال و دولت کے انبارکے ذریعہ اپنی شان و شوکت کے مصنوعی محل کھڑا کرتے ہیں ؛ مگر ان کا رعب وجلال ان کی فقرو دُرویشی میں پنہاں تھا ، بڑے بڑے بادشاہوں کو ان سے گفتگو کا یارانہ ہوتا تھا ؛ اسی لیے رسول اللہ ﷺ کو یہ خوف دامن گیر نہیں تھا کہ میری امت معاشی اعتبار سے پسماندہ ہوجائے گی اور اس فقر و پسماندگی کی وجہ سے اسے ذلت ورسوائی سے دو چار ہونا پڑے گا ؛بلکہ آپ کو ڈر اس بات کا تھا کہ یہ امت جد و جہد کے جذبہ سے محروم ہوکر عیش و عشرت میں مبتلا نہ ہوجائے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
” خدا کی قسم ! مجھے تم پر فقر و محتاجی کا خوف نہیں ہے ؛ لیکن میں تم پر جس بات کے بارے میں ڈرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم پر دنیا کی نعمتیں بچھادی جائیں گی ، جیسے تم سے پہلوں کے لیے بچھادی گئی تھیں ، پھر پچھلی قوموں کی طرح تم دنیا کے سلسلہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے اور جیسے دنیا کی حرص نے انھیں غفلت اور لہو ولعب میں مبتلا کردیا تھا ، کہیں تم کو بھی غفلت اور لہوو لعب میں مبتلا نہ کردے “ (بخاری ،باب ما یحذر من زہرة الدنیا والتنافس بہا ، حدیث نمبر : ۶۴۲۵)
          ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
” مجھے اپنے بعد تمہارے شرک میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ نہیں ؛ لیکن اس بات کا ڈر ہے کہ دنیا کی دولت میں تم ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کروگے “ (دیکھیے : بخاری ، حدیث نمبر : ۶۴۲۵)
          رسول اللہ لی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں آج عمومی طور پر مسلمانوں کا اور خاص طور پر مسلمان حکمرانوں کا حال دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اپنی امت کے بارے میں جس چیز سے ڈرتے تھے ، آج امتِ مسلمہ عملی طور پر اسی مرض میں مبتلا ہے ، گذشتہ ماہ ڈیڑھ ماہ سے عالم عرب میں آزادی اور جمہوریت کی جو لہر اٹھی ہے ، اس نے زور زبردستی سے برسر اقتدار رہنے والے فرماں رواوٴں کی نیندحرام کردی ہے ، ساتھ ہی بعض ایسے واقعات سے بھی پردہ اٹھ رہا ہے ، جو اقتدار کی دبیز اور مضبوط دیواروں کی اوٹ میں چھپے ہوئے تھے ، جیسے تیونس کے آمر زین العابدین بن علی جب اپنے ملک سے فرار ہوئے تو اس طرح کہ سولہ ٹن سونے کی اینٹیں ان کے ساتھ تھیں ، اس کے ساتھ مال و دولت کے اور جو خزانے لے جائے گئے ہوں گے ، ان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ، مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کی بیوی اور بیٹے کئی لدے لدائے جہازوں کے ساتھ مصر سے بھاگے اور خود حسنی مبارک کی دولت کا اندازہ کیا جائے کہ وہ دو بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے ، لیبیا کے صدر کی صورت حال یہ ہے کہ ان کی دوسری بیوی دوٹن سونا لے کر فرار ہوچکی ہیں ، ان کی ایک محبوبہ جو یوکرین کی متوطن ہیں اور سایہ کی طرح ان کے ساتھ رہا کرتی تھیں ، وقت کے تیور کو دیکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ دولت کا ایک انبار لے کر اپنے وطن پہونچ چکی ہیں ، پھر قذافی کی عیاشی اور عشرت آرائی کا حال یہ ہے کہ ان کے ساتھ دو سو جوان اور نوجوان خاتون باڈی گارڈ ساتھ ہوتی ہیں اور یوکرین کی محبوبہ نرس کے طور پر ان کے ساتھ رہتیں ، دولت جمع کرنے اور داد عیش دینے کی قریب قریب یہی صورت حال اکثر عرب ملکوں میں ہے ، جہاں فرماں رواوٴں نے عوام کو اپنا غلام اور ملک کو اپنی ذاتی جائداد سمجھ لیا ہے ، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان کی ہوسِ دولت کو پوری کرنے کے لیے ملک میں موجود بینک کافی نہیں ہوتے ؛ اس لیے زیادہ تر مسلم حکمرانوں کے پیسے مغربی ممالک کے بینکوں میں محفوظ کیے گئے ہیں ، ان ہی ملکوں میں انھوں نے سرمایہ کاری کررکھی ہے اور یہیں بڑے بڑے قصور و محلات واقع ہیں ؛ اس لیے جب مغرب کے کٹ پتلی حکمرانوں کے خلاف ان کے ملک میں فضا بنتی ہے تو مغربی قوتیں مخالفین کی مددکرتی ہیں اور ان کی طرف سے برپا کی جانے والی شورشوں کو تقویت پہونچاتی ہیں ، ادھر ان کا تختِ اقتدار متزلزل ہوا اور اُدھر ان کے کھاتے منجمد کردئیے جاتے ہیں اور ان کی ساری دولت پر قبضہ جمالیا جاتا ہے ، ان کے بعض ’بے نامی ‘کھاتے بھی ہوتے ہیں ، ایسی صورت میں کوئی ان کے بارے میں پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا ۔
          ایک طرف عالمِ اسلام کی یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف ہمارے سامنے رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹے سے ملک جاپان کی مثال ہے ، مورخہ ۱۱/مارچ ۲۰۱۱ء کو جاپان میں زبردست سونامی آئی ، جس کی مثال صدیوں میں نہیں ملتی ، یہ ایسی سونامی تھی کہ آٹھ میٹر بلند سمندر کی سرکش موجیں آبادی میں گھس پڑیں اور پوری آبادی کو دھوکر رکھ دیا ، مکانات اس طرح گر پڑے کہ گویا بچوں کے کھیلنے کے مٹی کے گھر و ندے ہوں ، کاریں اور بسیں ماچس کی ڈبیوں کی طرح سڑکوں پر بہنے لگیں ، سمندری سونامی کے ساتھ ساتھ زمین میں بھی زلزلہ آگیا ، اس کے نتیجہ میں تین نیو کلیرری ایکٹراڑ گئے اور اس کی تابکاری کے اثرات ایک وسیع علاقہ میں پھیل گئے ، ایک ہی وقت میں اس قوم کو زلزلہ ، سونامی اور نیوکلیر حادثہ سے گذرنا پڑا ؛ لیکن اس قوم نے اپنی حوصلہ مندی ، جد و جہد اور قربانی کے ذریعہ ان حادثات کا مقابلہ کیا ، نہ دنیا کی دوسری قوموں کے سامنے ہاتھ پھیلایا، نہ آہ و وبکاکی اور نہ پست ہمت ہوئے ، جس پامردی کے ساتھ انھوں نے حالات کا مقابلہ کیا ہے ، وہ یقینا ایک مثال ہے ، اور بجا طور پر پوری دنیا میں ان کی ان کوششوں کو داد دی جارہی ہے ، شاعرِ حقیقت شناس علامہ اقبال نے خوب کہا تھا :
آ ، تجھ کو بتاؤں میں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سنان اول ، طاوٴس و رباب آخر
          یعنی جب کوئی قوم ترقی و عروج کا سفر طے کرتی ہے تو وہ تلواروں اور نیزوں سے مزین ہوتی ہے ، وہ مشکل حالات کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ، وہ عیش و عشرت کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے بجائے جد وجہد کے میدان میں آگے بڑھتی ہے ، اور جب قوموں کے زوال و انحطاط کا زمانہ آتا ہے تو وہ عیش و عشرت کے نقشے بنانے لگتی ہے اور رقص و سرود سے اپنے دل کو بہلانے کی عادی ہوجاتی ہے ، یہی وہ بات ہے کہ جس کا رسول اللہ ﷺ اندیشہ رکھتے تھے ، حضرت عبد اللہ بن عباس ص کا قول ہے کہ جب کسی قوم میں خیانت اور بد دیانتی پیدا ہوجاتی ہے تو وہ کم ہمت اور بزدل ہوجاتی ہے: ”مَا ظَہَرَ الْغُلُوْلُ فِيْ قَومٍ الاَّ أُلْقِیَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبُ“(طبری ، ص : ۲۶۹۶)۔
          اس وقت عالم اسلام کی صورت حال یہی ہے کہ اپنی قوم کے ساتھ حکمرانوں کا معاملہ بدترین بد دیانتی کا ہے اور صہیونی و صلیبی طاقتوں کے سامنے شرمناک بزدلی اور کم حوصلگی کا ، عام مسلمانوں کی بھی صورت حال یہ ہے کہ وہ علم و تحقیق ، محنت اور جدو جہد میں پیچھے ہیں اورعیش پرستی میں آگے، دوسری قومیں ہمیں دیکھتی ہیں اور خندہ زن ہوتی ہیں کہ یہ لٹی پٹی اور ذلیل و رسوا کی ہوئی قوم اپنی محرومی اور کم نصیبی کو بھول کر کس طرح دادِ عیش دے رہی ہے ، کاش! ہم اس طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں ، اپنے اندر حالات کا مقابلہ کرنے اور جدو جہد کے ذریعہ آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں اور عیش و عشرت کے نقشوں کو تج کر، ایک باعزت اور آبرو مند امت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اپنے آپ کو لانے کی کوشش کریں ۔
***



No comments:

Post a Comment