یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
اور ان کے مال و دولت میں سائلوں اور محروم لوگوں کا (باقاعدہ) حق ہوتا تھا۔
[سورۃ الذاريات، آیت نمبر 19]
اپنے حقوق کیلئے کیا کرنا چاہئے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
میرے بعد تم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں تم پر دوسروں کو مقدم کیا جائے گا اور ایسی باتیں سامنے آئیں گی جن کو تم برا سمجھو گے۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس وقت ہمیں آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو حقوق تم پر دوسروں کے واجب ہوں انہیں ادا کرتے رہنا اور اپنے حقوق اللہ ہی سے مانگنا۔
[صحیح بخاری:3603]
یعنی صبر کرنا اور اپنا حق لینے کے لیے خلیفہ اور حاکم وقت سے بغاوت نہ کرنا۔
حوضِ کوثر کے مستحق کون؟
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میرا حوض عدن سے لے کر عمان تک ہوگا، اس کا پانی برف سے زیادہ سفید ہوگا، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ اکثر آنے والے لوگ "فقراء مہاجرین" ہیں، (جو)پراگندہ بالوں والے، میلے کچیلے کپڑوں والے، جو نازو نعم والی عورتوں سے شادی نہیں کرسکتے، ان کے لئے راستے نہیں کھولے جاتے، جو لوگ اپنے ذمے حق ادا کرتے ہیں لیکن ان کا حق انہیں نہیں دیا جاتا۔
[الصحيحة:1082(2603)، المعجم الكبير للطبراني:1420]
حقدار کا لپٹنا پسندیدہ نہیں۔
القرآن:
(مالی امداد کے بطور خاص) مستحق وہ فقرا ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں اس طرح مقید کر رکھا ہے کہ وہ (معاش کی تلاش کے لیے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے۔ چونکہ وہ اتنے پاک دامن ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے، اس لیے ناواقف آدمی انہیں مال دار سمجھتا ہے، تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان (کی اندرونی حالت) کو پہچان سکتے ہو (مگر) وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 273]
حقوق۔۔۔
ہمیں سلیقہ نہیں آتا تخم ریزی(بیج بونے)کا، اس لئے تو ثمر کچھ ملا نہیں کرتے؛
حقوق مانگتے پھرتے ہیں دوسروں سے ہم، مگر خود اپنے
فرائض ادا نہیں کرتے۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد، دونوں ادا کرنا۔
القرآن:
اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، (29) ساتھ بیٹھے (یا ساتھ کھڑے) ہوئے شخص (30) اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں کے ساتھ بھی (اچھا برتاؤ رکھو) بیشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب غلام اللہ کا حق اور اپنے مولیٰ کا حق ادا کرے تو اس کے لئے دو اجر ہوں گے راوی کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث کعب سے بیان کی تو کعب نے فرمایا کہ اس غلام پر حساب ہے اور نہ اس مؤمن پر جو دنیا سے بےرغبتی رکھتا ہو۔
[صحیح مسلم»حدیث نمبر: 4322]
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس لونڈی ہو وہ اس کو اچھی طرح ادب سکھائے، اور اچھی طرح تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کرلے، تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے، اور اہل کتاب میں سے جو شخص اپنے نبی پر ایمان لایا، پھر محمد ﷺ پر ایمان لایا، تو اسے دوہرا اجر ملے گا، اور جو غلام اللہ کا حق ادا کرے، اور اپنے مالک کا حق بھی ادا کرے، تو اس کو دوہرا اجر ہے۔
حضرت معاذ بن انس جہنی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جو شخص کسی مومن کی عزت و آبرو کی کسی منافق سے حفاظت کرے گا تو اللہ ایک فرشتہ بھیجے گا جو قیامت کے دن اس کے گوشت کو جہنم کی آگ سے بچائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان پر تہمت لگائے گا، اس سے اس کا مقصد اسے مطعون کرنا ہو تو اللہ اسے جہنم کے پل پر روکے رکھے گا یہاں تک کہ جو اس نے جو کچھ کہا ہے اس سے نکل جائے۔
[سنن ابوداؤد:4883]
القرآن:
اور جس بات کا تمہیں یقین نہ ہو، (اسے سچ سمجھ کر) اس کے پیچھے مت پڑو۔ یقین رکھو کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں (تم سے) سوال ہوگا۔
جہنم کے پل پر سات رکاوٹیں ہیں۔ ان میں سے پہلی کے پاس بندہ ہے لا الہ الا اللہ کی شہادت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر اس کو مکمل لایا تو دوسری تک پہنچ جائے گا۔ پھر اس سے نماز کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر اس کو مکمل لایا تو تیسری تک پہنچ جائے گا پھر زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس اگر اس کو مکمل لایا تو چوتھی تک پہنچ جائے گا پھر روزے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر اس کو مکمل لایا تو پانچویں تک پہنچ جائے گا۔ پھر حج کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر اس کو پورا لایا تو چھٹی تک پہنچ جائے گا۔ پھر عمرہ کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر اس کو مکمل لایا تو ساتویں تک تجاوز کرجائے گا۔ پھر مظالم کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر ان سے نکل گیا ورنہ کہا جائے گا تم دیکھو پس اگر اس کے کوئی نقل ہو تو ان کے ذریعے اس کے اعمال کو مکمل کرو، پھر جب فارغ ہوجائے گا تو جنت کی طرف چلے گا۔
[تفسیر امام البغوی»سورۃ النبا، آیت 22]
[تفسیر الثعلبی»سورۃ النبا، آیت 22]
حقوق میں درجات وترجیحات»
القرآن:
...اللہ اور اسکا رسول زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں راضی رکھا جائے...
[سورۃ التوبہ:62]
الحدیث:
عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے، اور مرد پر سب سے زیادہ حق اسکی ماں کا ہے۔
[السنن الکبریٰ للنسائی:9148، مستدرک حاكم:7244]
قیامت سے پہلے فتنوں/نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ
۔۔۔۔جب مرد(کی عادت) اپنی بیوی کی فرمانبرداری اور ماں کی نافرمانی کرے گا۔۔۔
[ترمذی:2372]
عورت جب تک (دوسری) شادی نہ کرلے بچے کی(پرورش کرنے کی) زیادہ حقدار ہے۔
[الصحيحة:1281(2000)، المطالب العالية للحافظ ابن حجر:1769]
ثیبہ(عورت) اپنے بارے میں اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے، اور کنواری سے اس کی اجازت اس کا والد لے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے۔
[الصحيحة:1807(1948)، صحيح مسلم:3543 كتاب النكاح ، باب اسْتِئْذَانِ الثَّيِّبِ فِى النِّكَاحِ بِالنُّطْقِ وَالْبِكْرِ بِالسُّكُوتِ]
بیوہ، اپنے متعلق اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے، اور کنواری سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے۔
[الصحيحة:1216(1941)، صحيح مسلم:2545، كتاب النكاح باب استئذان الثيب]
جب(کافر) آدمی مسلمان ہو جاتا ہے تو وہ اپنی زمین اور مال(مسلمان سے واپس لینے) کا زیادہ حق دار ہے۔
[الصحيحة:1230(2032)، مسند أحمد:18027]
جب کوئی شخص اپنی جگہ سے اٹھے اور پھر واپس آئے تو وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔
آدمی اپنی سواری پر آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے اور اپنے بستر پر آگے بیٹھنے کا اور یہ کہ اپنے گھر میں امامت کروانے کا زیادہ حقدار ہے۔
[الصحيحة:1595(342)، سنن الدارمي:2722، كتاب الاِسْتِئْذَانِ ثَلاَثٌ باب فِى صَاحِبِ الدَّابَّةِ أَحَقُّ بِصَدْرِهَا]
زندہ آدمی نئے (کپڑے) کا مردے سے زیادہ مستحق ہے، (کیونکہ) یہ تو پیپ اور خون کی نذر ہوجائے گا۔
[بخاری:1387]
پڑوسی زیادہ حقدار ہے۔(کہ اس کو اپنا گھر بیچا جائے)۔
[بخاری:6977-6978]
عورت اپنے بچے (کی پرورش کرنے) کی زیادہ حقدار ہے جب تک وہ (دوسری) شادی نہ کرے۔
[احمد:6893، الصحيحة:368]
تفسير ابن ابي حاتم:2262»سورة البقرۃ:233
تفسير الطبري، تفسير ابن كثير»سورة الطلاق،آيت#6
جو اذان دے وہ زیادہ حقدار ہے کہ اقامت بھی کہے۔
[احمد:17538، طبراني:5287، جامع الأحادیث:45489]
لوگوں میں وہ آدمی امامت کا زیادہ حقدار ہے جو کتاب اللہ کا سب سے بڑا قاری ہو، اگر اس میں سب برابر ہوں تو جو سنت کا سب سے بڑا عالم ہو اگر اس میں سب برابر ہوں تو امامت کا حقدار وہ ہے جس نے ان میں سے پہلے ہجرت کی ہو اگر ہجرت میں سب برابر ہوں تو ان میں جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے کوئی آدمی بھی کسی دوسرے کی سلطنت میں امامت نہ کرائے اور نہ ہی کوئی آدمی کسی دوسرے کی مخصوص نشست پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھنے کی جسارت کرے۔
[جامع الأحادیث:37997، عبد الرزاق:3809]
استعمالترمیم
سب سے زیادہ-بڑا حق کس کا ہے؟
القرآن:
. الله کا زیادہ حق ہے کہ تم اسی سے ڈرو…
[سورۃ التوبۃ:13]زمر:38،فتح:11
…الله اور رسول زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں راضی کیا جاۓ۔
[سورۃالتوبۃ:62]
الله زیادہ حقدار ہے کہ اسکا قرض(یعنی فرض عبادات کی قضا) ادا کیا جاۓ۔
[بخاری:1953]
…وفاء کی جاۓ۔
[بخاری:7315]
الله لوگوں سے زیادہ حقدار ہے کہ اس سے(تنہائی میں بھی)حیاء کی جاۓ۔
[ابوداؤد:4017]
جب تم میں سے كوئی شخص نماز پڑھے، تو وہ اپنے دونوں كپڑے پہن لے۔ كیوں كہ اللہ تعالیٰ اس كی آرائش كا زیادہ حقدار ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جو بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اللہ اسے عذاب نہ دے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں اس کی لوگوں کو بشارت نہ دے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو ورنہ وہ خالی اعتماد کر بیٹھیں گے۔ (اور نیک اعمال سے غافل ہوجائیں گے) ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب آدمی زکوۃ میں اللہ کا حق ادا نہیں کرتا (اونٹوں وغیرہ کی زکوۃ نہیں دیتا تو اس کو صاف میدان میں پھینکا جائے گا اور وہ جانور اسے اپنے پاؤں سے روندے گا اور اپنے منہ سے کاٹے گا۔ جب اس پر آخری گزرے گا تو پہلے کو لوٹایا جائے گا یہاں تک کہ وہ اپنا ٹھکانا جنت یا دوزخ میں دیکھ لے گا اور جب گائے کی زکوۃ ادا نہ کی جائے گی، جو اللہ کا حق ہے توا سے صاف چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا تو گائے اپنے پاؤں سے اسے روند لے گی اور اپنے سینگوں سے چھیلے گی جب آخری گزرے گی تو پہلی کو لوٹا دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ اپنا ٹھکانا جنت یا دوزخ میں دیکھ لے گا ایسے ہی بکریاں بھی اپنے سینگوں اور ناخنوں سے اپنے مالک کو روندے گی، ان میں سے کوئی گنجی اور لنگڑی نہ ہوگی یہاں تک وہ اپنا ٹھکانا جنت و دوزخ میں دیکھ لے گا اور گھوڑا تین طرح کا ہوگا: ایک اجر ہوگا ایک بوجھ اور ایک پردہ ہوگا، جس نے اسے اپنی عزت و ضرورت کے لیے رکھا، وہ اس کے لیے پردہ ہے اور جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے رکھا وہ اس کے لیے اجر کا باعث ہوگا اگر وہ اس کی رسی کو لمبا کرتا ہے وہ ایک یا دو ٹیلوں پر چڑھتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے اجر ہوگا اور جس نے فخر رہا اور مسلمانوں پر برتری کے لیے رکھا، یہ اس کے لیے وزر (بوجھ) ہوگا۔ کہنے والے نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! گدھے کے بارے کے لیے آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: گدھے میں کچھ نہیں آیا سوائے اس جامع اور مکمل آیت کے { فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ } جس نے ایک ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر گناہ کیا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہم یوں تو سب سے آخر میں آئے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے سبقت لے جائیں گے فرق صرف اتنا ہے کہ ہر امت کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی جب کہ ہمیں بعد میں کتاب ملی۔ پھر یہ جمعہ کا دن اللہ نے ان پر مقرر فرمایا تھا لیکن وہ اس میں اختلاف کا شکار ہوگئے، چناچہ اللہ نے ہماری اس کی طرف رہنمائی فرما دی، اب اس میں لوگ ہمارے تابع ہیں۔ اور یہودیوں کا اگلا دن (ہفتہ) ہے اور عیسائیوں کا پرسوں کا دن (اتوار) ہے پھر کچھ دیر خاموش رہ کر فرمایا: ہر مسلمان پر اللہ کا حق ہے کہ ہر سات دن میں تو اپنا سر اور جسم دھو لیا کرے۔
ظلم کی تین (3) قسمیں ہیں: ایک ظلم وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرمائیں گے، اور ایک ظلم وہ ہے جسے معاف فرمادیں گے، اور ایک ظلم وہ جسے معاف نہیں کریں گے۔ تو جس ظلم کو بخش نہیں فرمائیں گے وہ شرک ہے [اللہ نے فرمایا: بیشک شرک عظیم ظلم ہے(لقمان:13)]۔ اور جس ظلم کو معاف فرمادیں گے تو وہ بندوں کا (اپنی جانوں پر) ظلم ہے جس کا تعلق بندے اور اس کے رب سے ہے۔
اور وہ ظلم جسے نہیں چھوڑیں گے تو وہ بعض بندوں کا بعض پر ظلم وستم ہوگا، یہاں تک کہ ایک دوسرے سے بدلہ لےلیں گے۔ [مسند ابوداود الطيالسى: 2109، صحيح الجامع:3961، السلسلة الصحيحة:1927]
تشریح: 1۔ اکثر اہل لغت اور علماء کے نزدیک ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کی اصل جگہ کے علاوہ رکھنا، مثلا کسی کا حق دوسرے کو دے دینا، علاوہ ازیں حق بات جو دائرے کے مرکزی نقطے کی طرح صرف اور صرف ایک ہوتی ہے، اس سے تجاوز کو بھی ظلم کہا جاتا ہے۔ خواہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ، اس لیے بڑا گناہ ہو یا چھوٹا سب پر ظلم کا لفظ بولا جاتا ہے، دیکھیئے آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی تو انہیں ظالم کہا گیا او رابلیس کو بھی ظالم کہا گیا، حالانکہ دونوں میں بے حد فرق ہے۔ (مفردات راغب) 2۔ ظلم کی تین قسمیں ہیں: الف: اللہ تعالی کے متعلق ظلم: اس کی سب سے بڑی قسمیں کفر، شرک او نفاق ہے کیونکہ مشرک اللہ کا حق مخلوق کو دیتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴾ [لقمان: 31/13] ’’ یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ﴾ [هود:11/ 18] ’’ اور گواہ کہیں گے یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا خبر دار! اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔‘‘ ب: لوگوں پر ظلم: ان آیات میں یہی مراد ہے: ﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا﴾ [الشوری: 42/ 40] ’’برائی کا بدلہ برائی ہے اس جیسی۔‘‘ اور فرمایا: ﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ﴾ [42/ 40] ’’ یقینا وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ ﴿إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ﴾ [الشوری:42/ 42] ’’صرف ان لوگوں پر گرفت ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔‘‘ ج: اپنی جان پر ظلم : ان آیات میں یہی مراد ہے: ﴿فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ﴾ [الفاطر: 35/ 32] ’’ پھر ان میں بض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ظَلَمْتُ نَفْسِي﴾ [القصص: 28/ 16] ’’ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ﴾ [البقرة: 2/ 35] ’’ پس تم دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔‘‘ ان تینوں قسموں میں سے درحقیقت انسان اپنے آپ پر ہی ظلم کرتا ہے کیونکہ ان سب کا وبال اس کی جان پر ہی پڑنے والا ہے ، اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾ [الأعراف: 7/ 160] ’’ اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے آپ پر ہی ظلم کیا کرتے تھے۔‘‘
3۔ ظلم قیامت کے دن کئی اندھیرے ہو گا، اندھیروں میں سے مراد یا تو حقیقی اندھیرے ہیں یعنی ظالم کو قیامت کے دن روشنی نصیب نہیں ہو گی، جس سے وہ صحیح راستہ معلوم کر سکے جبکہ اہل ایمان کا حال یہ ہو گا: ﴿نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ﴾ [التحریم: 66/8 ] ’’ ان کا نور ان کےآگے اور ان کے دائیں طرف دور رہا ہو گا۔‘‘ یا قیامت کے دن کی سختیاں مراد ہیں جیسا کہ ﴿قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ [الأنعام: 6/ 63] ’’ کہہ دیجئے! جو تمہیں خشکی اور سمندروں کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے۔‘‘ اس آیت میں مذکورہ ظلمات کی تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سے مراد سختیاں ہیں یا قیامت کے دن ظلم کی جو سزائیں ملیں وہ مراد ہیں۔ (سبل) 4۔ ظلم قیامت کے دن کئی اندھیرے ہو گا، کیونکہ وہ کفر و شرک کی صورت یمں ہے تو اس کے مرتکب پر جنت حرام ہے: ﴿إِنَّهُ ُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾ [المائدة: 5/ 72] ’’پکی بات یہ ہے کہ جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا آگ ہے۔‘‘
ظالموں میں سے نہ ہونے کی دعا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّٰلِمِينَ اے ہمارے رب ہمیں ظالموں کے ساتھ نہ ملا۔
[أخرجه أحمد (6/240، رقم 26073) ، قال الهيثمى (10/348) : فيه صدقة بن موسى، وقد ضعفه الجمهور، وكان صدوقًا، وبقية رجاله ثقات. والحاكم (4/619، رقم 8717) وقال: صحيح الإسناد. قال المناوى (3/552) : رده الذهبى بأن صدقة ضعفوه، وابن بابنوس فيه جهالة. وأخرجه أيضًا: البيهقى فى شعب الإيمان (6/52، رقم 7473) .]
حقوق العباد (بندوں کے حقوق):
جن کبیرہ گناہوں کا تعلق حقوق اللہ (اللہ کے حقوق) سے ہے، مثلاً نماز ، روزہ ، زکاۃ اور حج کی ادائیگی میں کوتاہی، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پراللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا، ان شاء اللہ۔ لیکن اگر ان گناہوں کا تعلق‘ حقوق العباد (بندوں کے حقوق)سے ہے مثلاً کسی شخص کا سامان چرایا، یا کسی شخص کو تکلیف دی یا کسی شخص کا حق مارا، تو قرآن وحدیث کی روشنی میں تمام علماء و فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے او پر حق ہے، اس کا حق ادا کریں یا اس سے حق معاف کروائیں، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ واستغفار کے لئے رجوع کریں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے : شہید کے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں، مگر کسی شخص کا قرضہ۔ (مسلم، ۱۸۸۶) یعنی اگر کسی شخص کا کوئی قرض کسی کے ذمہ ہے تو جب تک ادا نہیں کردیا جائے، وہ ذمہ میں باقی رہے گا خواہ کتنا بھی بڑا نیک عمل کرلیا جائے۔ مشہور محدث حضرت امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ قرض سے مراد ‘ تمام حقوق العباد ہیں یعنی اللہ کے راستے میں شہید ہونے سے حقوق اللہ تو سب معاف ہوجاتے ہیں، لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے ہیں۔ (شرح مسلم)
معلوم ہوا کہ ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے : کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے‘ ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے ، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم ۔ باب تحریم الظلم) یہ ہے اس امت مسلمہ کا مفلس کہ بہت ساری نیکیوں کے باوجود ‘ حقوق العباد میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد میں بھی کوتا ہی کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
نبی کریم ﷺ نے سلمان فارسی اور ابودرداء ؓ کو بھائی بھائی بنادیا۔ ایک مرتبہ سلمان، ابودرداء ؓ کی ملاقات کے لیے تشریف لائے اور ام الدرداء ؓ کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا اور پوچھا کیا حال ہے؟ وہ بولیں تمہارے بھائی ابودرداء کو دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ پھر ابودرداء تشریف لائے تو سلمان ؓ نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کھائیے، میں روزے سے ہوں۔ سلمان فارسی ؓ بولے کہ میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا۔ جب تک آپ بھی نہ کھائیں۔ چناچہ ابودرداء نے بھی کھایا رات ہوئی تو ابودرداء ؓ نماز پڑھنے کی تیاری کرنے لگے۔ سلمان نے کہا کہ سو جایئے، پھر جب آخر رات ہوئی تو ابودرداء نے کہا اب اٹھئیے، بیان کیا کہ پھر دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان ؓ نے کہا کہ بلاشبہ تمہارے رب کا تم پر حق ہے اور تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، پس سارے حق داروں کے حقوق ادا کرو۔ پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا ہے۔
[صحیح بخاری » کتاب: ادب کا بیان » باب:مہمان کے لئے کھانا تیار کرنے، اور تکلف کرنے کا بیان» حدیث نمبر: 6139]
ظلم کی حرمت:
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: " لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ (٢) مِنْ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ [تَنْطَحُهَا]
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن تم لوگوں سے حقداروں کے حقوق ادا کروائے جائیں گے یہاں تک کہ بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لے لیا جائے گا۔
[صحیح مسلم» کتاب:-صلہ رحمی کا بیان» باب:-ظلم کرنے کی حرمت کے بیان میں» حدیث نمبر:-6580]
القرآن:
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ایسے عذاب سے خبردار کردیا ہے جو قریب آنے والا ہے جس دن ہر شخص وہ اعمال آنکھوں سے دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھے ہیں، اور کافر یہ کہے گا کہ کاش ! میں مٹی ہوجاتا۔
[سورۃ نمبر 78 النبإ ، آیت نمبر 40]
تفسیر:
بعض روایتوں میں ہے کہ جن جانوروں نے دنیا میں ایک دوسرے پر ظلم کیا تھا، میدان حشر میں ان کو بھی جمع کرکے ان سے ان کے ظلم کا بدلہ دلوایا جائے گا، یہاں تک کہ اگر کسی سینگ والی بکری نے کسی بےسینگ والی بکری کو سینگ مارا تھا تو حشر میں اس کا بھی بدلہ دلوایا جائے گا، اور جب یہ بدلہ پورا ہوجائے گا تو ان جانوروں کو مٹی میں تبدیل کردیا جائے گا، اس وقت وہ کافر لوگ جنہیں دوزخ کا انجام نظر آرہا ہوگا، وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش! ہم بھی مٹی ہوجاتے (مسلم:6580، ترمذی:2420، احمد:7203)۔
حقوق العباد کیسے معاف ہوں گے؟؟؟
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے “آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز،روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا” (رواہ مسلم)
اسلامی اصطلاح میں ظلم سے مراد ہر وہ عمل ہے جس میں یہ شامل ہو:
1. کسی کے حقوق کی خلاف ورزی کرنا
2. دوسروں کو نقصان پہنچانا یا تکلیف دینا
3. دوسروں کے ساتھ ظلم یا سختی کے ساتھ ناانصافی کرنا
4. حد یا حدود سے تجاوز کرنا
5. برے یا غیر اخلاقی کاموں کا ارتکاب کرنا
اسلام میں ظلم کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اور سختی سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث (پیغمبری روایات) انصاف، ہمدردی اور مہربانی کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، اور دوسروں کے ساتھ ناانصافی یا ظلم کرنے سے خبردار کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ظلم کے بارے میں ہے:
- دوسروں کے حقوق اور وقار کو پامال کرنا
- دوسروں کو نقصان پہنچانا یا تکلیف دینا
١ - ظلم یا جبر سے کام لینا
١ - زیادتی یا حد سے تجاوز کرنا
١ - برے یا غیر اخلاقی کاموں کا ارتکاب
ظلم کا مخالف عدل ہے جس کے معنیٰ ہیں عدل، انصاف اور مساوات۔
یعنی جاننا اور ماننا کہ اللہ ہی ہر چیز کا ایک-اکیلا خالق،مالک، پالنے تربیت کرنے والا رب ہے....ہر چیز کا علم رکھنے والا، ہر چیز کی پوری قدرت رکھنے، ہر چیز پر حاضر و موجود رہنے والا، ہر چیز کا کارساز، سب کا سچا-ایک خدا-معبود ہے۔
(2)اللہ کی قدر جاننے کا حق ادا کرنا۔
حوالہ
[القرآن»سورۃ الانعام:91 الحج:74 الزمر:67]
یعنی کہ یہ کفریہ بات نہ کہنا اور ماننا کہ۔۔۔اللہ نے کسی انسان پر کچھ نازل نہیں کیا۔۔۔اور یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو(1)پیدا کرنے میں (2)مالک ہونے میں (3)اور غائبانہ مدد کیلئے پکارنے میں شریک یا حصہ دار نہ بنانا۔
(3)عبادت،ذکر،دعا میں اللہ کی توحید(ایک-اکیلا ہونے) پر ایمان لانا۔
(14)اللہ سے اچھا گمان رکھنا۔۔۔۔جاہلانہ-کافرانہ-بُرے گمان نہ رکھنا۔
[ص:27 آل عمران:154 الفتح:6_12 یونس:60 الکھف:36 فصلت:50 الجاثیہ:32]
(15)اللہ سے تنہائی میں بھی حیاء کرنا۔
[النساء:108]
(16)صبح وشام کثرت سے اللہ کا ذکر-پاکی بیان کرتے رہنا۔
[الاحزاب:41_42 الانسان/الدھر:25]
(17)اللہ کی ہدایت کے مطابق اپنے معاملات میں فیصلہ کرنا۔
[النساء:105]
(18)احکامِ الٰہی کی تکلیف کو اپنی وسعت کے مطابق۔۔۔۔۔ہلکا۔۔۔۔۔آسان ماننا۔
[البقرۃ:185_286 النساء:24]
(19)اللہ کی راہ میں ملنے والی آزمائشوں ومصیبتوں پر صبر کرنا۔
[محمد:31 البقرۃ:155_177_214_249 آل عمران:142_146 العنکبوت:2]
فرشتے، پیغمبر، صحابہ اور اولیاء اللہ کے حقوق
فرشتوں
اور پیغمبروں کے حقوق
چونکہ
اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا وناراضگی کی پہچان
ہمیں حضراتِ انبیاءؑ کے ذریعہ ہوئی اور ان حضرات کے پاس فرشتے وحی لایا کرتے تھے؛
نیزبہت سے دنیوی فائدے اور نقصانات انبیاء علیہم السلام کے واسطے سے معلوم ہوئے
اور بہت سے ملائکہ ہمارے فائدے کے کاموں پر متعین ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اجازت سے
ان کاموں کو انجام دے رہے ہیں، اس لیے حضراتِ انبیاء علیہم السلام وحضراتِ ملائکہ
علیہم السلام کا حق اللہ تعالیٰ کے حق میں داخل ہے؛ بہرحال فرشتوں کے حقوق میں سے
چند یہ ہیں:
حضراتِ
ملائکہ علیہم السلام کے حقوق یہ ہیں
(۱)ان
کے وجود کا اعتقاد رکھے۱؎
(۲)ان
کو گناہوں سے پاک سمجھے۲؎
(۳)جب
ان کا نام آئے تو علیہ السلام کہے۳؎
(۴)مسجد
میں بووالی چیزیں جیسے کچا لہسن، پیاز مولی، پان، تمباکو وغیرہ کھاکر جانے سے
یامسجد میں ریح خارج کرنے سے ملائکہ کو تکلیف ہوتی ہے، اس سے احتیاط کرے اور بھی
جن امور سے ملائکہ کو تکلیف ونفرت ہو ان سے بچنا ضروری سمجھے، مثلاً تصویر رکھنا،
بلاضرورتِ شرعی کتا پالنا، جھوٹ بولنا، سستی کی وجہ سے جنابت ہی کی حالت میں پڑے
رہنا کہ نماز بھی جاتی رہے، بلاضرورتِ شرعی برہنہ رہنا؛ گرچہ اکیلے میں ہی کیوں نہ
ہو۴؎۔
(۱۔۲)"قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ
وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌoقُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ
تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ"آل عمران:۳۱،۳۲۔ (۳)"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺقَالَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ
أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ"بخاری،باب حب الرسول اللہﷺمن الایمان،حدیث نمبر:۱۳۔
(۴)"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا"احزاب:۵۶۔
(۵)"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو
اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا"الاحزاب:۲۱۔
(۶)"عن مالک بن الحویرث قال صعد رسول اللهﷺالمنبر فلما رقي عتبة قال آمين ثم رقي عتبة أخرى فقال آمين ثم رقي عتبة ثالثة
فقال آمين ثم قال أتاني جبريل فقال يامحمد من أدرك رمضان فلم يغفر له فأبعده الله
قلت آمين قال ومن أدرك والديه أو أحدهما فدخل النار فأبعده الله قلت آمين فقال ومن
ذكرت عنده فلم يصل عليك فأبعده الله قل آمين فقلت آمين"صحیح
ابن حبان،باب حق الوالدین،حدیث نمبر:۴۰۹۔
صحابہ
واہلِ بیت کے حقوق
حضراتِ
صحابہ واہل بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کو چونکہ حضورﷺکے
ساتھ دینی اور دنیوی دونوں طرح کا تعلق ہے اس لیے آپﷺکے
حق میں اِن حضرات کے حقوق بھی داخل ہوگئے اور وہ یہ ہیں:
(۱)ان
حضرات کی اطاعت کرے۱؎
(۲)ان
حضرات سے محبت کرے۲؎
(۳)ان
کے عادل ہونے کا اعتقاد رکھے۳؎
(۴)ان
کے چاہنے والوں سے محبت اور ان سے بغض وعداوت رکھنے والوں سے بغض رکھے۴؎۔ حوالہ
یہ حضرات علماء ومشائخ تو دینی نعمتوں میں
واسطہ تھے، اس لیے ان کا حق لازم تھا، بعضے لوگ دنیوی نعمتوں کے لیے ذریعہ ہیں، ان
کا حق بھی شرعاً ثابت ہے، مثلاً ماں، باپ کہ ولادت اور پرورش ان کے واسطہ سے ہوتی
ہے، ان کے حقوق یہ ہیں:
(۱)ان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے؛ اگرچہ کہ ان کی
طرف سے کوئی زیادتی ہو۱؎
(۲)زبان اور دوسرے اعضاء سے ان کی تعظیم کرے۲؎
(۳)شرعی کاموں میں ان کی اطاعت کرے۳؎
(۴)اگر ان کو ضرورت ہو تو مال سے بھی ان کی خدمت
کرے؛ اگرچہ وہ دونوں کافر ہوں۴؎
والد کے احسانات»
ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ اسی وقت (پیغامِ الٰہی لانے والے فرشتے)جبرائیل تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ جب اس کا باپ آجائے تو آپ اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں، خود اس کے کانوں نے بھی اس کو نہیں سنا۔ جب یہ شخص اپنے والد کو لے کر پہنچا تو آپ نے والد سے کہا کہ کیا بات ہے؟ آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں؟ والد نے عرض کیا کہ آپ اسی سے یہ سوال فرمائیں کہ میں اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہاں (فضول)خرچ کرتا ہوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پس حقیقت معلوم ہو گئی۔ اس کے بعد آپ نے اس کے والد سے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں جن کو ابھی تک خود تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا۔ اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمیں ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ آپ پر ہمارا ایمان اور یقین بڑھا دیتے ہیں (کہ جو بات کسی نے نہیں سنی اس کی آپ کو اطلاع ہوگئی جو ایک معجزہ ہے) پھر اس نے عرض کیا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے چند اشعار دل میں کہے تھے جن کو میرے کانوں نے بھی نہیں سنا آپ نے فرمایا کہ وہ ہمیں سناؤ اس وقت اس نے یہ اشعار ذیل سنائے:
غَذَوْتُكَ مَوْلُودًا وَمِنْتُكَ يَافِعًا ... تُعَلُّ بِمَا أَجْنِي عَلَيْكَ وَتَنْهَلُ۔
*میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد تمہاری ذمہ داری اٹھائی تمہارا سب کھانا پینا میری ہی کمائی سے تھا۔*
إِذَا لَيْلَةٌ ضَافَتْكَ بِالسُّقْمِ لَمْ أَبَتْ ... لِسُقْمِكَ إِلَّا سَاهِرًا أَتَمَلْمَلُ
*جب کسی رات میں تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے تمام رات تمہاری بیماری کے سبب بیداری اور بیقراری میں گذاری۔*
تَخَافُ الرَّدَى نَفْسِي عَلَيْكَ وَإِنَّهَا ... لَتَعْلَمُ أَنَّ الْمَوْتَ وَقْتٌ مُؤَجَّلُ۔
*میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے پہلے پیچھے نہیں ہوسکتی۔*
كَأَنِّي أَنَا الْمَطْرُوقُ دُونَكَ بِالَّذِي ... طُرِقْتَ بِهِ دُونِي فَعَيْنَايَ تَهْمَلُ۔
*گویا کہ تمہاری بیماری مجھے ہی لگی ہے تمہیں نہیں جس کی وجہ سے میں تمام شب روتا رہا۔*
فَلَمَّا بَلَغْتَ السِّنَّ وَالْغَايَةَ الَّتِي ... إِلَيْهَا مَدَى مَا فِيكَ كُنْتُ أُؤَمَّلُ۔
*پھر جب تم اس عمر اور اس حد تک پہنچ گئے جس کی میں تمنا کیا کرتا تھا۔*
جَعَلْتَ جَزَائِي غِلْظَةً وَفَظَاظَةً ... كَأَنَّكَ أَنْتَ الْمُنْعِمُ الْمُتَفَضِّلُ۔
*تو تم نے میرا بدلہ سختی اور سخت کلامی بنا دیا گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان وانعام کر رہے ہو۔*
فَلَيْتَكَ إِذْ لَمْ تَرْعَ حَقَّ أُبُوَّتِي ... كَمَا يَفْعَلُ الْجَارُ الْمُجَاوِرُ تَفْعَلُ۔
*کاش اگر تم سے میرے باپ ہونے کا حق ادا نہیں ہوسکتا تو کم از کم ایسا ہی کرلیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔*
فاوليتني حق الجرار ولم تكن، على بمال دون مالك تبخل.
*تو نے کم از کم مجھے پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور خود میرے ہی مال میں میرے حق میں بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔*
﴿رسول اللہ ﷺ رونے لگے﴾ اور بیٹے کا گریبان پکڑا اور فرمایا:
«أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ»
*جا، تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ کا ہے۔*
[المعجم الصغير-للطبراني:947، المعجم الأوسط-للطبراني:6570 ﴿دلائل النبوة-للبيهقي:6/304، خصائص الكبرىٰ-للسيوطي:2/102﴾]
القرآن: ....اور اپنے والدین پر احسان(اچھا سلوک)کرو..... [ سورۃ الاسراء:23(تفسیر قرطبی ص ٢٤٦ ج ١)]
مرد اپنی اولاد کا مال کس حد تک استعمال کرسکتا ہے۔
[سنن ابن ماجہ:2291]
اگر باپ ضرورتمند ہو تو اولاد کے مال میں سے لے سکتا ہے۔
[سنن ابوداؤد:3530]
حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ تو اللہ کی طرف سے اپنے والد کے لیے ہِبہ (عطیہ) ہے، تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
۔۔۔ وہ عطا کرتا ہے جس کیلئے چاتا ہے لڑکیاں اور وہ عطا کرتا ہے جس کیلئے چاہتا ہے لڑکے۔۔۔ {الشورى:49}۔
[مصنف ابن ابي شيبة:23155، موسوعة التفسير المأثور:29187]
والدین میں کس کی اطاعت مقدم
جب کسی جائز امر کو باپ منع کرے اور ماں کرنے
کا حکم دے تو چونکہ عورت خود شرعاً شوہر کی محکوم (تابع) ہے اس کا شوہر کے خلاف
حکم کرنا معصیت ہے اور معصیت میں اطاعت نہیں ہوتی اس لیے اس صورت میں باپ کا حکم
مانا جائیگا۔
(۱۔۲۔۳)"عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ مَالِكِ بْنِ رَبِيعَةَ
السَّاعِدِيِّ قَالَ بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلَمَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ
اللَّهِ هَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ بَعْدَ
مَوْتِهِمَا قَالَ نَعَمْ الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا
وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ
إِلَّا بِهِمَا وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا"ابوداؤد،باب فی برالوالدین،حدیث نمبر:۴۴۷۶۔ (۴)"محمد بن النعمان، يرفع الحديث إلى النبيﷺقال: من زار قبر أبويه أو أحدهما في كل جمعة
غفر له وكتب برا"شعب الایمان،باب فصل فی حفظ حق الوالدین بعد موتھما،حدیث نمبر:۷۶۶۱۔
دادا، دادی، نانا، نانی کے حقوق
دادا، دادی، نانا، نانی کا حکم شرعاً ماں باپ
کی طرح ہے؛ لہٰذا ان کے حقوق ماں باپ کی طرح سمجھنا چاہیے؛ اسی طرح خالہ اور
ماموں، ماں کی طرح، چچا اور پھوپھی باپ کی طرح ہیں۔
جس طرح ماں باپ کے حقوق اولاد پر ہیں؛ اسی
طرح ماں باپ پر اولاد کے حقوق ہیں، وہ یہ ہیں:
(۱)ان کی پیدائش ہوتے ہی کان میں اذان دینا،
اقامت کہنا اور ان کا اچھا نام رکھنا۱؎، اس کا عقیقہ کرنا، اس کی ختنہ کرنا۲؎، اس
کو دینی تعلیم دینا۳؎، بچپن میں محبت کے ساتھ ان کی پرورش کرنا کہ اولاد کو پیار
کرنے کی بھی فضیلت آئی ہے، خاص کر لڑکیوں سے دل تنگ نہ کرنا، ان کی پرورش کرنے کی
بڑی فضیلت آئی ہے۴؎؛ اگر کسی کا دودھ پلانا پڑے تو دیندار اور اچھے اخلاق والی
(انّا) تلاش کرنا؛ کیونکہ دودھ کا اثر بچہ کے اخلاق میں ہوتا ہے۵؎
(۲)ان کو علم دین وآداب سکھلانا۶؎
(۳)جب نکاح کے قابل ہو ان کا نکاح کردینا؛ اگر
لڑکی کا شوہر مرجائے تو نکاح ثانی ہونے تک اس کو اپنے گھر آرام سے رکھنا، اس کے
ضروری اخراجات کا برداشت کرنا۷؎
(۴)نیک نصیب عورت سے نکاح کرنا؛ تاکہ اولاد اچھی
پیدا ہو۸؎
(۵)اولاد غیرتندرست ہو جیسے اندھا، اپاہج ہو تو
اس کا خرچہ ماں باپ کے ذمہ ہیں؛ اگر ماں باپ نہ ہوں تو رشتہ داروں کے ذمہ ہے، چاہے
کتنی ہی عمر ہوجائے۹؎
نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو، اپنے "بیٹوں" کے درمیان (حقوق کی ادائیگی) برابری کا خیال رکھا کرو (کسی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی نہ ہو) ۔
[سنن ابوداؤد»حدیث نمبر: 3544]
اولاد کا حق والد پر یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو سکھائے (1)کتابت﴿اللہ کی کتاب﴾، (جہاد کیلئے)(2)تیر اندازی، (3)گھوڑ سواری، (4)اور اس کو عمدہ وارث بنائے۔﴿اس کو رزق نہ دے مگر حلال﴾۔
[بیھقی:19742(19748) جامع الاحادیث-السیوطی:15874،۔کنزالعمال:15874 ﴿بیھقی:19526، جامع الاحادیث-السیوطی:11619﴾]
اولاد کا والد پر یہ حق ہے کہ (1)وہ اس کا اچھا نام رکھے، (2)اور اس کو دودھ پلانے والی سے اچھا سلوک رکھے، (3)اور اسے اچھا ادب سکھائے۔
[شعب الایمان:8667، جامع الاحادیث-السیوطی:11621]
اولاد کا والد پر یہ حق ہے کہ(1)وہ اس کا اچھا نام رکھے، (2) اور اسے تعلیم دے کتابت کی، (3)اور اس کی شادی کروائے جب وہ بالغ ہو۔
[دیلمی:2670،جامع الاحادیث-السیوطی:11620]
تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ الانفال:آیت6
دودھ پلانے والی"انا"کے حقوق
انا بھی دودھ پلانے کی وجہ سے ماں کی طرح ہے،
اس کے حقوق بھی وارد ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں:
(۱)اس کے ساتھ ادب واحترام سے پیش آنا۱؎
(۲)اگر اس کو مالی حاجت ہو اور خود کو وسعت ہو
تو اس کی مالی حاجت کو پورا کرے؛ اگر میسر ہو تو ایک غلام یاباندی خرید کر اس کو
خدمت کے لیے دینا۲؎
(۳)اس کا شوہر اس کا مخدوم ہے اور یہ اس کی
مخدومہ ہے تو اس کے شوہر کو مخدوم المخدومہ سمجھ کر اس کے ساتھ بھی احسان کرنا۳؎۔
سوتیلے ماں باپ کے ساتھ اور باپ کے دوستوں کے
ساتھ احسان کرنے کا حکم آیا ہے، اس لیے سوتیلی ماں کے بھی کچھ حقوق ہیں:
ماں باپ کے انتقال کے بعد ان کے دوستوں اور
اہل تعلق کے تحت جو کچھ ذکر ہوا وہ سب ان کے ساتھ بھی کرے ہے۔
بھائی بہن کے حقوق
حدیث میں ہے کہ بڑا بھائی باپ کی طرح ہے(شعب الایمان،فصل بعد فصل فی حفظ حق الوالدین بعد موتھما، حدیث نمبر۷۶۹۴عن سعید بن العاصؓ)اس سے
یہ معلوم ہوا کہ چھوٹا بھائی اولاد کی طرح ہے؛ لہٰذا ان میں باہمی حقوق ویسے ہی
ہوں گے جیسے والدین اور اولاد کے درمیان ہوتے ہیں؛ اسی پر بڑی بہن اور چھوٹی بہن
کو قیاس کرلینا چاہیے۔
رشتہ داروں کے حقوق
حضورﷺکا ارشاد ہے:"جو شخص رشتہ داروں سے بدسلوکی کرے وہ جنت میں
داخل نہ ہوگا"۔
اسی طرح باقی رشتہ داروں کے بھی حقوق آئے
ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
(۱)اپنے ذی رحم محرم (جن سے خونی رشتہ ایسا ہو
کہ ان سے نکاح حرام ہو۱؎) رشتہ
دار اگر محتاج ہوں اور کھانے کمانے کی قدرت نہ رکھتے ہوں تو بقدرِ کفالت ان کے نان
ونفقہ کی خبرگیری کرتا رہے ان خرچہ واجب تو نہیں لیکن کچھ خدمت کرنا ضروری ہے اور
کبھی کبھی ان سے ملتا رہے۲؎
(۲)ان سے رشتہ نہ توڑے بلکہ اگر کسی قدر ان سے
تکلیف بھی پہنچے تو صبر افضل ہے۳؎۔
استاد شاگرد، پیر مرید، میاں بیوی، حاکم ومحکوم اور سسرالی رشتہ داروں
کے حقوق
استاد کے حقوق
(۱)ان کے پاس مسواک کرکے صاف کپڑے پہن کر جائے (۲)ادب کے
ساتھ پیش آئے (۳)عزت واحترام کی نگاہ سے ان کو دیکھے (۴)جو بتلائے اس کو خوب توجہ سے سنے (۵)اس کو خوب یاد رکھے (۶)جو بات سمجھ میں نہ آئے اپنا قصور سمجھے (۷)اس کے روبرو کسی اور کاقول مخالف ذکر نہ کرے (۸)اگر
کوئی استاذ برابھلا کہے تو جہاں تک ہوسکے اس سے عذر معذرت کرے ورنہ وہاں سے
چلاجائے (۹)جب درسگاہ کے قریب پہنچے توسب حاضرین کو سلام کرے پھر استاذ کو خاص کر سلام
کرے لیکن وہ اگر تقریر وغیرہ میں مشغول ہو اس وقت سلام نہ کرے (۱۰)استاذ کے روبرو نہ ہنسے، نہ بہت باتیں کرے، اِدھر اُدھر نہ دیکھے، نہ کسی او
رکی طرف متوجہ ہو، بالکل استاد کی طرف توجہ رکھے (۱۱)استاد
کی بدخلقی کو نظر انداز کردے (۱۲)اس کی سختی سے اس کے پاس جانا نہ چھوڑے، نہ
اس کے کمال سے بداعتقاد ہو؛ بلکہ اس کے اقوال اور افعال کی تاویل کرے (۱۳)جب استاد کسی کام میں لگا ہو یاملول ومغموم ہو یابھوکا پیاسا ہو یااونگھ رہا
ہو یااور کوئی عذر ہو جس سے تعلیم دشوار ہو یاحضور قلب نہ ہو ایسے وقت نہ پڑھے (۱۴)اس کے دور ہونے پر یااس کے نہ ہونے پر بھی اس کے حقوق کا خیال رکھے (۱۵)کبھی کبھی تحفہ تحائف، خط وکتابت سے اس کا دل خوش کرتا رہے، حقوق اور بہت ہیں
مگر ذہین آدمی کے لیے اس قدر کافی ہیں وہ اس سے باقی حقوق بھی سمجھ جائیگا۔
("فمن صفته لإرادته في طلب العلم: أن يعلم أن
الله عز وجل فرض عليه عبادته، والعبادة لا تكون إلابعلم، وعلم أن العلم فريضة
عليه، وعلم أن المؤمن لايحسن به الجهل، فطلب العلم لينفي عن نفسه الجهل، وليعبد الله
كما أمره، ليس كما تهوى نفسه. فكان هذا مراده في السعي في طلب العلم، معتقدا
للإخلاص في سعيه، لايرى لنفسه الفضل في سعيه، بل يرى لله عز وجل الفضل عليه ، إذ
وفقه لطلب علم ما يعبده به من أداء فرائضه، واجتناب محارمه"اخلاق العلماء،باب ذکرصفتہ فی طلب العلم:۱/۴۰۔"يمشي برفق وحلم، ووقار، وأدب، مكتسب في مشيه
كل خير، تارة يحب الوحدة، فيكون للقرآن تاليا، وتارة بالذكر مشغولا، وتارة يحدث
نفسه بنعم الله عز وجل عليه، ويقتضي منها الشكر، يستعيذ بالله من شر سمعه، وبصره،
ولسانه، ونفسه، وشيطانه، فإن بلي بمصاحبة الناس في طريقه"الخ بطولہوباب صفتہ فی مشیہ الی العلماء:۱/۴۱۔"فإذا أحب مجالسة العلماء جالسهم بأدب، وتواضع
في نفسه، وخفض صوته عن صوتهم، وسألهم بخضوع، ويكون أكثر سؤاله عن علم ما تعبده
الله به، ويخبرهم أنه فقير إلى علم ما يسأل عنه، فإذا استفاد منهم علما أعلمهم:
أني قد أفدت خيرا كثيرا، ثم شكرهم على ذلك"الخ
بطولہوباب صفتہ مجالستہ للعلماء:۱/۴۲)
پیر (روحانی تربیت کرنے والے) کے حقوق
جو حقوق استاد کے لکھے گئے ہیں وہی پیر کے
بھی حقوق ہیں اور کچھ حقوق جو زائد ہیں وہ یہ ہیں:
(۱)یہ اعتقاد رکھے کہ میرا مطلب اسی مرشد سے
حاصل ہوگا اور اگر دوسری طرف توجہ کریگا تو مرشد کے فیض وبرکات سے محروم رہیگا (۲)ہرطرح مرشد کا مطیع ہو اور جان ودل سے اس کی خدمت کرے؛ کیونکہ پیر کی محبت کے
بغیر کچھ نہیں ہوتا اور محبت کی پہچان یہی ہے (۳)مرشد
جو کچھ کہے اس کو فوراً بجالائے اور بغیراجازت اس کے فعل کی اقتداء نہ کرے؛ کیونکہ
بعض اوقات وہ اپنے حال اور مقام کے مناسب ایک کام کرتا ہے کہ مرید کو اس کا کرنا
زہر قاتل ہے (۴)جودرود وظیفہ مرشد تعلیم کرے اسی کو پڑھے اور تمام وظیفے چھوڑ دے؛ خواہ اس نے
اپنی طرف سے پڑھنا شروع کیا ہو یاکسی اور نے بتلایا ہو (۵)مرشد
کی موجودگی میں مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ رہنا چاہیے؛ یہاں تک کہ سوائے فرض
وسنت کے نفل نماز اور کوئی وظیفہ اس کی اجازت کے بغیر نہ پڑھے (۶)حتیٰ الامکان ایسی جگہ نہ کھڑا ہوکہ اس کا سایہ مرشد کے سایہ پر یااس کے کپڑے
پر پڑے (۷)اس کے مصلیٰ پر پیر نہ رکھے، اس کی طہارت اور وضو کی جگہ طہارت یاوضو نہ کرے (۸)مرشد کے برتنوں کو استعمال میں نہ لائے (۹)اس کے
سامنے نہ کھانا کھائے نہ پانی پئے او رنہ وضو کرے، ہاں! اجازت کے بعد کرسکتے ہیں (۱۰)اس کے روبرو کسی سے بات نہ کرے؛ بلکہ کسی کی طرف متوجہ بھی نہ ہو (۱۱)جس جگہ مرشد بیٹھا ہو اس طرف پیر نہ پھیلائے اگرچہ سامنے نہ ہو (۱۲)اور اس کی طرف نہ تھوکے (۱۳)جو کچھ مرشد کہے یاکرے اس پر اعتراض نہ کرے؛
کیونکہ مرشد جو کچھ کرتا ہے یاکہتا ہے الہام سے کرتا اور کہتا ہے، اگر کوئی بات
سمجھ میں نہ آئے (تو اسے اپنی سمجھ کا قصور سمجھے جب تک کہ شریعت کے بالکل ہی خلاف
نہ ہو اور کوئی تاویل نہ ہوسکتی ہو؛ کیونکہ کبیرہ گناہوں میں مبتلا آدمی تو پیر ہی
نہیں ہوسکتا، اللہ کے ولی صرف متقی ہی ہوتے ہیں؛ لیکن خلافِ شرع قرار دینے میں
جلدی نہ کرے، علماء متقین سے معلوم کرے، حقیقی پیر تو اسی طرح کا ہوتا ہے، آج کل
بناوٹی پیر دھوکہ باز بہت مل رہے ہیں) تو حضرت موسیٰ اور خضر علیہماالسلام کا
واقعہ یاد کرے (۱۴)اپنے مرشد سے کرامت کی خواہش نہ کرے (۱۵)اگر کوئی شبہ دل میں گزرے فوراً عرض کرے اور
اگر وہ شبہ حل نہ ہو تو اپنے فہم کا نقصان سمجھے اور اگر مرشد اس کا کچھ جواب نہ
دے تو جان لے کہ میں اس کے جواب کے لائق نہ تھا (۱۶)خواب
میں جو کچھ دیکھے وہ مرشد سے عرض کرے اور اگر اس کی تعبیر ذہن میں آئے تو اسے بھی
عرض کردے (۱۷)مرشد کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے اور بآواز بلند اس سے بات نہ کرے اور
بقدر ضرورت مختصر کلام کرے اور نہایت توجہ سے جواب کا منتظر رہے (۱۸)مرشد کے کلام کو دوسروں سے اس قدر بیان کرے جس قدر لوگ سمجھ سکیں اور جس بات
کو یہ سمجھے کہ لوگ نہ سمجھیں گے تو اسے بیان نہ کرے (۱۹)مرشد
کے کلام کو رد نہ کرے؛ اگرچہ حق مرید ہی کی جانب ہو؛ بلکہ یہ اعتقاد کرے کہ شیخ کی
خطا میرے صواب (درستگی) سے بہتر ہے (۲۰)جو کچھ اس کا حال ہو، بھلا یابُرا، اسے مرشد
سے عرض کرے؛ کیونکہ مرشد طبیب (ڈاکٹر) قلبی ہے، اطلاع کے بعد اس کی اصلاح کریگا،
مرشد کے کشف پر اعتماد کرکے سکوت (خاموش) نہ کرے (۲۱)اس کے
پاس بیٹھ کر وظیفہ میں مشغول نہ ہو اگر کچھ پڑھنا ضروری ہے تو اس کی نظر سے پوشیدہ
بیٹھ کر پڑھے (۲۲)جو کچھ فیض باطنی اسے پہنچے اسے مرشد کا طفیل سمجھے؛ اگرخواب میں یامراقبہ میں
دیکھے کہ دوسرے بزرگ سے پہنچا ہے، تب بھی یہ جانے کہ مرشد کا کوئی لطیفہ اس بزرگ
کی صورت سے ظاہر ہوا ہے۔
(المعجم الکبیر،باب صدی بن عجلان
ابوامامۃ الاباھلی،حدیث نمبر:۷۸۸۰۔ آدابالصحبیۃ،باب الصحبۃ مع اولیاء
اللہ:۱/۱۷۵)
شاگرد اور مرید کے حقوق
چونکہ شاگرد اور مرید اولاد کے درجہ میں ہے،
اس لیے شفقت ودلسوزی میں ان کا حق اولاد کے حق کی طرح ہے۔
بیوی کے حقوق
(۱)اپنی وسعت کے موافق اس کے نان ونفقہ (خرچہ
وغیرہ) میں کمی نہ کرے، اعتدال (درمیانی حالت) سے خرچ کرے، نہ تنگی کرے اور نہ
فضول خرچی کی اجازت دے، رہنے کے بقدر گھر دے، ان کو دینی مسائل سکھلاتا رہے اور نیک
عمل کی تاکید کرتا رہے، حیض وغیرہ کے مسائل سیکھ کر اس کو سکھلائے، نماز اور دین
کی تاکید کرے، بدعات اور ممنوعات سے روکے۱؎(۲)اس کے خونی رشتہ دار (جن سے نکاح حرام ہے) سے
کبھی کبھی ملنے دے، اس کی کم فہمیوں پر اکثر صبر وسکوت اختیار کرے؛ اگر کبھی ضرورت
تادیب (ادب سکھلانے) کی ضرورت ہو تو توسط (اعتدال) کا لحاظ رکھے۲؎(۳)اچھے اخلاق سے پیش آئے؛ لیکن اس کی خواہش
اتنی نہ سنے کہ اس کا مزاج بدل جائے اور اپنا رعب باقی رکھے۳؎(۴)اگر کئی بیویاں ہوں تو ان کے حقوق برابر ادا
کرے۴؎(۵)ضرورت کے بقدر اس سے صحبت کرے۵؎(۶)بغیر ضرورت کے طلاق نہ دے۶؎(۷)جماع وغیرہ کے راز ظاہر نہ کرے۷؎(۸)حد سے زیادہ نہ مارے۸؎۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برا وہ شخص ہے جو (یا فرمایا سب سے بڑی امانت یہ ہے کہ) مرد اپنی بیوی سے تنہائی میں ملے اور وہ (بیوی) اس سے ملے، پھر وہ (مرد) اس کا راز فاش کرے۔
(1)جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، (2)جب پہنو یا کماؤ تو اسے بھی پہناؤ، (3)چہرے پر نہ مارو، (4)برا بھلا نہ کہو، (5)اور گھر کے علاوہ اس سے جدائی اختیار نہ کرو۔
[سنن ابوداؤد:2142، سنن ابن ماجہ:1850، سنن الکبري للنسائي:9181]
خبردار ہوجاؤ! تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں، اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں، تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ جنہیں تم ناپسند کرتے ہو انہیں وہ تمہارے بستروں پر نہ آنے دیں، اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں میں آنے کی اجازت دیں جنہیں تم برا جانتے ہو، اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو،۔اچھا پہنانے اور اچھا کھلانے میں۔
[سنن الترمذي:3087، سنن ابن ماجة:1851(صحیح مسلم:1218)]
شوہر کے حقوق:
(۱)اس کی اطاعت اور ادب وخدمت، دلجوئی، رضا جوئی
پورے طور پر بجالائے؛ البتہ ناجائز امور میں عذر کردے۱؎(۲)اس کی گنجائش سے زیادہ اس سے فرمائش نہ کرے۲؎(۳)اس کا مال بلااجازت خرچ نہ کرے۳؎(۴)اس کے رشتہ دار سے سختی نہ کرے کہ جس سے شوہر
کو تکلیف پہنچے، خاص کر شوہر کے ماں باپ کو اپنا مخدوم سمجھ کر ادب وتعظیم سے پیش
آئے۴؎(۵)شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں آنے نہ
دے۵؎(۶)اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے۶؎(۷)اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے کوئی
چیز نہ دے۷؎(۸)اس کی اجازت کے بغیر نفل نماز، نفل روزہ نہ
رکھے۸؎(۹)اگر صحبت کے لیے بلائے شرعی موانع کے بغیر اس
سے انکار نہ کرے، اپنے وسائل اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی زیب وزینت کا دھیان
رکھے۹؎(۱۰)اپنے شوہر کو افلاس یا بدصورتی کی وجہ سے حقیر
نہ سمجھے۱۰؎(۱۱)اگر کوئی چیز خلافِ شرع دیکھے تو ادب سے منع
کرے، اس کا نام لیکر نہ پکارے۱۱؎(۱۲)کسی کے سامنے خاوند کی شکایت نہ کرے۱۲؎۔
[ابن
ماجہ،باب ماللمرأۃ من مال زوجھا،حدیث نمبر:۲۲۸۴]
"عَنْ أبی هريرة قال: قال رسول اللهﷺ: لاتصوم المرأة وبعلها شاهد إلابإذنه،
ولاتأذن في بيته وهوشاهد إلا بإذنه، وماأنفقت عن كسبه من غير أمره، فإن نصف أجره
له"
[الآدابللبیہقی، باب فی مراعاۃ حق الأزواج،حدیث نمبر:۴۸]۔
...چنانچہ نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں، مرد کی غیر موجودگی میں اللہ کی دی ہوئی حفاظت سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں...
[سورۃ النساء:34]
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
[ترمذی:1159،احمد:19422]
اللہ کی نافرمانی میں اطاعت نہیں ہے، اطاعت تو نیکی میں ہوتی ہے۔
جس عورت کا شوہر غائب (غیرحاضر) ہوگیا ہو، اس دوران اس نے اپنے نفس کی حفاظت کی زیب وزینت چھوڑ دی اپنے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں اور نماز قائم کرتی رہی وہ قیامت کے دن نوجوان دوشیزہ لڑکی کی صورت میں اٹھائی جائے گی اگر اس کا شوہر مومن تھا تو جنت میں بھی وہی اس کا شوہر ہوگا ورنہ کسی شہید سے اس کی شادی اللہ تعالیٰ کرادیں گے اگر اس عورت نے اپنا بدن غیر کے سامنے کھولا غیر کے لیے زیب وزینت کی اپنے گھر میں فساد پھیلا دیا اور بدکاری پر اتر آئی وہ جہنم میں الٹی لٹکائی جائے گی۔
[جامع الاحادیث-السیوطی:43114، کنزالعمال:46030]
نیکوکار اور بدکار عورت:
جو عورت بھی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے بستر سے الگ ہوئی وہ برابر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں ہوتی ہے تاوقتیکہ اس کا خاوند اس کے لیے استغفار کرے اور جو عورت بھی اپنے شوہر کے علاوہ کسی غیر سے مشورہ لیتی ہے وہ دوزخ کا انگارہ لے رہی ہوتی ہے جس عورت کا شوہر اس سے راضی ہوا اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی رہتا ہے اور جس کا شوہر اس سے ناراض ہو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض رہتا ہے۔ الایہ کہ اس کا خاوند اسے کسی غیر حلال کام کا حکم دے۔
[جامع الاحادیث-السیوطی:43113، کنزالعمال:46031-]
(2)
۔۔۔۔خوشحال شخص اپنی حیثیت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی حیثیت کے مطابق بھلے طریقے سے یہ تحفہ دے۔۔۔۔
[القرآن-سورۃ البقرة:236]
(3)حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی عورت روزہ نہ رکھے سوائے رمضان کے، اور بغیر اس کی اجازت کے اس کی موجودگی میں کسی کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دے۔
[ابوداؤد:2458]
﴿صحیح البخاری:5192، 2066-5360 صحیح مسلم:(1026) الترمذی:782، ابن ماجہ:1761﴾
عورت روزہ نہ رکھے جب شوہر حاضر ہو مگر اس کی اجازت سے(رکھ سکتی ہے)، اور (عورت)اجازت نہ دے اس کے گھر میں (کسی کو آنے کی) جب وہ(شوہر) حاضر ہو مگر اس کی اجازت سے، اور (عورت) خرچ نہ کرے اس کی کمائی میں سے اس کے حکم کے بغیر، تو اس(بیوی) کیلئے اس(شوہر)کا آدھا اجر ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: کسی عورت کا اپنے مال میں بغیر اپنے شوہر کی اجازت کے تصرف کرنا جائز نہیں، اس لیے کہ وہ اس کی عصمت (ناموس) کا مالک ہے۔
[سنن ابی داود:3546، سنن النسائی:3787، سنن ابن ماجہ:2388]
(4)
اگر تم کوئی نیک کام علانیہ کرو یا خفیہ طور پر کرو، یا کسی برائی کو معاف کرو تو (بہتر ہے کیونکہ) اللہ بہت معاف کرنے والا ہے (اگرچہ سزا دینے پر) پوری قدرت رکھتا ہے۔
[سورۃ النساء:149]
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا: عورتوں میں بہترین عورت کون ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ جو اپنے شوہر کو جب وہ اسے دیکھے خوش کر دے، جب وہ کسی کام کا اسے حکم دے تو (خوش اسلوبی سے) اسے بجا لائے، اپنی ذات اور اپنے مال کے سلسلے میں شوہر کی مخالفت نہ کرے۔
[المستدرک الحاکم:2682]
کہ اسے برا لگے۔
[سنن النسائي:3231، الصحيحة:1838]
(5)۔۔۔اور وہ(بیویاں)تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔۔۔
[ترمذی:1163، ابن ماجہ:1851]
(6)
اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو اور (غیر مردوں کو) بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو، جیسا کہ پہلی بار جاہلیت میں دکھایا جاتا تھا۔۔۔۔
[القرآن-سورۃ الاحزاب:33]
(9)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا، لیکن اس نے آنے سے انکار کردیا اور مرد اس پر غصہ ہو کر سو گیا، تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔
[صحیح بخاری:3237]
۔۔۔خبردار ہوجاؤ! تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں، اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں، تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ جنہیں تم ناپسند کرتے ہو انہیں وہ تمہارے بستروں پر نہ آنے دیں، اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں میں آنے کی اجازت دیں جنہیں تم برا جانتے ہو، اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو،۔اچھا پہنانے اور اچھا کھلانے میں۔
[سنن الترمذي:3087، سنن ابن ماجة:1851(صحیح مسلم:1218)]
کیا شوہر کا حق ادا ہوسکتا ہے؟
کسی شخص کا اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لیے الگ کرلینا جب کہ اس کا نفس نکاح کی طرف مائل نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی ﷺ کے پاس آئی۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں فلاں کی بیٹی فلاں ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے تجھے پہچان لیا ہے، کیا کام ہے؟ عرض کیا: میرے چچا کے بیٹے نے مجھے منگنی کا پیغام دیا ہے۔ مجھے یہ بتائیے کہ خاوند کا بیوی پر کیا حق ہے؟ اگر تو میں اس کی طاقت رکھتی ہوں گی تو میں شادی کروں گی وگرنہ نہیں کروں گی۔ فرمایا: خاوند کا حق بیوی کے ذمے ہے کہ اگر اس سے خون، الٹی یا پیپ وغیرہ بہہ رہی ہو اور عورت اس کو اپنی زبان سے چاٹ لے تو پھر بھی اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرسکتی۔ اگر کسی انسان کو سجدہ لائق ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ جب وہ اس پر داخل ہوتا۔ جس کی وجہ سے اللہ نے اس کو عورت پر افضل کیا ہے۔ تو اس عورت نے کہا: مجھے اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گا۔
[سنن کبریٰ للبیہقی:13491]
شوہر کا کتنا بڑا حق ہے؟
حضرت زید بن ارقم ؓ سے مروی ہے کہ معاذؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اہل کتاب اپنے علماء اور پادریوں کو سجدہ کرتے ہیں،آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو سجدے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، بیوی اپنے شوہر کا حق ادا نہیں کر سکتی حتی کہ اگر شوہر اس سے ملاپ کا مطالبہ کرے اور وہ اونٹ کے پالان پر ہو اور وہ اس کی خواہش پوری بھی کر دے تب بھی۔
[الصحيحة:3366(1971)، المعجم الكبير للطبراني:4973، سنن ابن ماجه:1843]
حضرت ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں: ایک شخص اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر نبی کریم کی خدمت میں آیا، اور عرض کی میری بیٹی شادی کرنے سے انکار کر رہی ہے، نبی کریم نے فرمایا تم اپنے باپ کا حکم مان لو۔ کیا تم جانتی ہو، شوہر کا بیوی پر حق کیا ہے؟ اگر شوہر کی ناک میں پھوڑا نکل آئے جس میں سے پیپ اور مواد خارج ہوتا ہو اور عورت زبان کے ذریعے اس کو چاٹ لے تو بھی وہ شوہر کا حق ادا نہیں کرے گی، تو اس خاتون نے عرض کی: اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ہمراہ مبعوث کیا ہے میں تو شادی نہیں کروں گی، نبی کریم نے ارشاد فرمایا، ان (لڑکیوں) کی شادی ان کی مرضی کے ساتھ کیا کرو۔
[سنن دارقطنی:3515]
[صحیح ابن حبان:4164، مستدرک حاکم:188]
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ جب حضرت معاذ شام سے آئے تو انہوں نے نبی ﷺ کو سجدہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (معاذ! یہ کیا؟) انہوں نے کہا : میں شام گیا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور رہنماؤں کو سجدہ کر رہے تھے، مجھے اپنے دل میں یہ بات اچھی لگی کہ ہم لوگ آپ کے ساتھ یہ طریقہ اختیار کریں ﴿آپ زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کی تعظیم کی جائے﴾ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (تم ایسا مت کرنا، اگر میں کسی کو غیر اللہ کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے، ﴿اس تعظیم میں جو حق ہے اس پر﴾ ﴿اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ نے مقرر کیا ہے﴾۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے! عورت اپنے رب کا ﴿مکمل﴾ حق ادا نہیں کرسکتی جب تک اپنے خاوند کا ﴿مکمل﴾ حق ادا نہیں کرتی، اگر وہ اونٹ کے کجاوے پر بیٹھی ہوئی ہو اور خاوند اس سے جماع کی خواہش کرے، تو وہ اسے انکار نہیں کر سکتی۔
[سنن ابن ماجہ:1853، ﴿مسند احمد:19422﴾ ﴿السنن الکبریٰ للنسائی:9147، المستدرک للحاکم:7325﴾ صحیح ابن حبان:4171 سنن الکبریٰ للبیھقی:14711]
شوہر کا حق ادا (کیسے) ہوسکتا ہے؟
حضرت ابو سعید خدري ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
بیوی پر خاوند کا حق یہ ہے کہ اگر خاوند کو پھوڑا نکل آئے اور اس کی بیوی اس پھوڑے کو چاٹے یا اس سے پیپ اور خون نکلے اس کی بیوی اس کو چاٹے تو پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کرسکتی۔
[مصنف(امام)ابن ابي شيبة:17407(17417)، صحيح ابن حبان:4164، حاکم:(2767)188، سنن الکبریٰ للبیھقی:14707(14714)]
جب تک کہ وہ پلٹے۔
[بیھقی:14708(14715)]
جب تک کہ وہ راضی ہو اس سے۔
[صحیح مسلم:1436()]
شوہر کو ناحق غصہ دلانے کی سزا
حدیث:
اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا، لیکن اس نے آنے سے انکار کردیا اور مرد اس پر غصہ ہو کر سو گیا، تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔
[صحیح بخاری:3237، صحیح مسلم:3538(1436)]
تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ النساء:34
شوہر کو راضی کرنے کا(نبوی)نسخہ»
جب تم غصے ہو جاؤ یا اس سے ناراضگی کا اظہار کرو (یا اس کا شوہر اس سے غصے ہو جائے) تو وہ(بیوی) کہے: یہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک آپ راضی نہیں ہوں گے...
...میں ایک لقمہ بھی نہیں چکھوں گی۔
[الصحيحة:287(272)، شعب الایمان:8474]
...میں سرمہ نہیں ڈالوں گی۔
[الصحيحة:3380(1911)، المعجم الكبير للطبراني:15637، المعجم الأوسط للطبراني:1810]
شوہر کی "اجازت(رضامندی)" کے بغیر بیوی۔۔۔۔
(1) اس کے بستر سے الگ نہ ہو۔
[جامع الاحادیث-السیوطی:43113، کنزالعمال:46031-]
(2)گھر سے نہ نکلے۔
[الصحیحہ:2166(2819)،(بخاری:4141)]
(3)اس کی کمائی/گھر میں سے (صدقہ خیرات میں) کوئی چیز بھی خرچ نہ کرے۔
[طبرانی:17662،الصحیحہ:1974(775)، ابوداؤد:3546، ابن ماجہ:2388]
کسی کو عطیہ (تحفہ) نہ دے۔
[ابوداؤد:3080،الصحیحہ:1805(2579)]
اس لیے کہ وہ اس کی عصمت (ناموس) کا مالک ہے۔
[سنن ابی داود:3546، سنن النسائی:3787، سنن ابن ماجہ:2388]
(4)جسے شوہر ناپسند کرے اسے گھر میں داخل ہونے نہ دے۔
[سنن الترمذي:3087، سنن ابن ماجة:1851(صحیح مسلم:1218)]
(5)اس کے بستر پر کسی کو نہ بٹھائے گی۔
[سنن الترمذي:3087، سنن ابن ماجة:1851(صحیح مسلم:1218)]
(6)نفلی نماز کیلئے بھی کھڑی نہ ہو۔
[طبرانی:12144، جامع الاحادیث:16048]
(7)رمضان کے علاؤہ نفلی روزے نہ رکھے۔
[الصحیحہ:2276(395)]
کسی بچہ کو دودھ نہ پلائے۔
حاکم ومحکوم (مالک وخادم) کے حقوق
حاکم ومحکوم کے حقوق میں حاکم کا مطلب بادشاہ
ونائب بادشاہ، آقا وغیرہ اور محکوم سے مراد رعایا، نوکر وغیرہ سب داخل ہیں اور
جہاں مالک ومملوک (خادم) ہو وہ بھی داخل ہوجائیں گے۔
محکوم کے حقوق
(۱)محکوم پر دشوار احکام نہ جاری کرے۱؎(۲)اگر باہم محکومین میں کوئی جھگڑا ہوجائے تو
عدل وانصاف کی رعایت کرے؛ کسی کی طرف داری نہ ہو۲؎(۳)ہرطرح ان کی حفاظت وآرام رسانی کی فکر میں
رہے، داد خواہوں کو اپنے پاس پہنچنے کے لیے آسان طریقہ مقرر کرے۳؎(۴)اگراپنی شان میں اس سے کوئی کوتاہی یاغلطی
ہوجائے تو کثرت سے معاف کردیا کرے، ناروا اور ناجائز سختی کرنے سے پرہیز کرے۴؎۔
(۱)حاکم کی خیرخواہی واطاعت کرے؛ البتہ خلافِ
شرع امور میں اطاعت نہ کرے۱؎(۲)اگرحاکم سے کوئی امرخلافِ طبع پیش آئے تو صبر
کرے شکایت وبددعا نہ کرے؛ البتہ اس کے نرم مزاجی کے لیے دعا کرے اور خود اللہ
تعالیٰ کی اطاعت کا اہتمام کرے تاکہ حکام کے دل نرم کردے۲؎(۳)اگرحاکم سے آرام پہنچے تو اس کے ساتھ
شکرگزاری کریں۳؎(۴)اپنی ذات کے واسطے اس سے سرکشی نہ کرے اور
جہاں غلام پائے جاتے ہوں، غلاموں کا نان ونفقہ واجب ہے اور غلام کو اس کی خدمت
چھوڑ کر بھاگنا حرام ہے باقی غلام کے علاوہ محکومین آزاد ہیں، دائرۂ حکومت میں
رہنے تک اس پر حقوق ہوں گے اور خارج ہونے کے بعد ہروقت مختار ہے۴؎۔
(۱)"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا
اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ"النساء:۵۹۔"لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ إِنَّمَا
الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ"بخاری،باب ماجاء فی اجازۃ خبرالواحد،حدیث نمبر:۶۷۱۶۔"عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله
عليه و سلم: نعما للعبد أن يتوفاه الله بحسن عبادة ربه وبطاعة سيده نعما له ونعما
له"مسنداحمد، مسند ابی ھریرۃؓ:۷۶۴۲۔ (۲)"يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ
بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ
ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ"لقمان:۱۷۔"والدعاء له بظهر الغيب ليصلحه الله ويصلح على
يديه، والنصيحة له في جميع أموره، والصلاة والجهاد معه"آداب
الصحبۃ،باب الصحبۃ مع السلطان:۱/۱۷۶۔ (۳)"عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَشْكُرْ النَّاسَ لَمْ
يَشْكُرْ اللَّهَ"ترمذی،باب ماجاء فی الشکر لمن احسن الیک،حدیث نمبر:۱۸۷۸۔"عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم
قال: إن السلطان ظل الله في الأرض ، يأوي، إليه كل مظلوم من عباده، فإذا عدل كان
له الأجر وعلى الرعية الشكر، وإذاجار كان عليه الإصر وعلى الرعية الصبر"شعب الایمان،باب فضل الامام العادل،حدیث نمبر:۷۱۱۷۔
رعایا کے حقوق میں خیانت کرنے والے حکمران کے لئے دوزخ کا بیان
شیبان بن فروخ، ابواشہب، حسن کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد، حضرت معقل بن یسار ؓ کے مرض الموت میں ان کی عیادت کے لئے آیا تو حضرت معقل ؓ نے فرمایا کہ میں تجھے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنی ہے اگر مجھے اپنے زندہ رہنے کا علم ہوتا تو میں تجھے بیان نہ کرتا میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی آدمی ایسا نہیں کہ اللہ اسے رعایا پر حاکم بنائے اور وہ ان کے حقوق میں خیانت کرے تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا۔
عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابوشعیب، ابن لیث، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، بکر بن عمر، حارث بن یزید حضرمی، ابن حجیرہ، حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا آپ ﷺ مجھے عامل نہ بنائیں گے؟ تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے پر مار کر فرمایا: اے ابوذر! تو کمزور ہے اور یہ امارت امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس بارے میں جو اس کی ذمہ داری تھی اس کو ادا کیا۔
[صحیح مسلم » حدیث نمبر: 4719]
حاکموں کی اطاعت کے بیان میں اگرچہ وہ تمہارے حقوق نہ دیں۔
محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک بن حرب، علقمہ بن وائل، حضرمی بن وائل حضرمی، حضرت علقمہ بن وائل ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سلمی بن یزید جعفی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ آپ ﷺ اس بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں کہ اگر ہم پر ایسے حاکم مسلط ہوجائیں جو ہم سے اپنے حقوق تو مانگیں اور ہمارے حقوق کو روک لیں آپ ﷺ نے اس سے اعراض کیا اس نے آپ ﷺ سے پھر پوچھا آپ ﷺ نے پھر اعراض فرمایا: پھر اس نے دوسری یا تیسری مرتبہ پوچھا تو اسے اشعث بن قیس نے کھینچ لیا اور کہا: اس کی بات سنو اور اطاعت کرو کیونکہ ان پر ان کا بوجھ ہے اور تمہارے اوپر تمہارا بوجھ ہے۔
[صحیح مسلم»حدیث نمبر: 4782]
سسرالی رشتہ داروں کے حقوق
قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے نسب کے ساتھ
علاقہ مصاہرۃ (سسرالی رشتہ) کا بھی ذکر فرمایا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ساس، خسر، سالے،
بہنوئی، داماد، بہو اور ربیب (بیوی کی پہلی اولاد) کا بھی حق ہوتا ہے، اس لیے ان
تعلقات میں بھی احسان واخلاق کی رعایت کسی قدر خصوصیت کے ساتھ رکھنا
چاہیے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کے مومن پر چھ حقوق ہیں: جب بیمار ہو تو وہ اس کی عیادت کرے، جب مرجائے تو اس کے جنازے میں شریک رہے، جب دعوت کرے تو اسے قبول کرے، جب وہ اس سے ملے تو اسے سلام کرے، جب چھینکے اور الحمد للہ کہے تو جواب میں یرحمک اللہ کہے، اور اس کی خیر خواہی کرے خواہ اس کے پیٹھ پیچھے ہو یا سامنے۔
[سنن نسائی»حدیث نمبر: 1940]
عام
مسلمان، پڑوسی، یتیم، کمزور، مہمان، دوست احباب، لے پالک اور غیرمسلم کے حقوق
عام مسلمانوں کے حقوق
رشتہ داروں کے علاوہ اجنبی مسلمانوں کے بھی
کچھ حقوق ہیں، علامہ اصبہانی رحمہ اللہ نے"ترغیب وترہیب"میں بروایت حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ حقوق نقل کئے ہیں:
(۱)مسلمان بھائی کی لغزش کو معاف کرے (۲)اس کے رونے پر رحم کرے (۳)اس کے عیب کو ڈھانکے (۴)اس کے
عذر کو قبول کرے (۵)اس کے تکلیف کو دور کرے (۶)ہمیشہ اس کی خیرخواہی کرتا رہے (۷)اس کی حفاظت ومحبت کرے (۸)اس کے ذمہ کی رعایت کرے (۹)بیمار ہو تو عیادت کرے (۱۰)مرجائے تو جنازے میں حاضر ہو (۱۱)اس کی دعوت قبول کرے (۱۲)اس کا ہدیہ قبول کرے (۱۳)اس کے
احسان کی مکافات کرے (۱۴)اس کی نعمت کا شکریہ ادا کرے (۱۵)وقت پڑنے پر اس کی مدد کرے (۱۶)اس کے اہل وعیال کی حفاظت کرے (۱۷)اس کی حاجت پوری کرے (۱۸)اس کی درخواست کو سنے (۱۹)اس کی
سفارش قبول کرے (۲۰)اس کی مراد سے ناامید نہ کرے (۲۱)وہ چھینک کر الحمد للہ کہے تو جواب میں"یَرْحَمُک اللہ"کہے (۲۲)اس کی گمشدہ چیز کو اس کے پاس پہنچا دے (۲۳)اس کے سلام کا جواب دے (۲۴)نرمی وخوش خلقی کے ساتھ اس سے گفتگو کرے (۲۵)اس کے ساتھ احسان کرے (۲۶)اگر وہ اس کے بھروسہ پر قسم کھا بیٹھے تو اس
کو پورا کردے (۲۷)اگر اس پر کوئی ظلم کرتا ہو تو اس کی مدد کرے اگر وہ کسی پر کوئی ظلم کرتا ہے
تو روک دے (۲۸)اس کے ساتھ محبت کرے، دشمنی نہ کرے (۲۹)اس کو رسوا نہ کرے (۳۰)جو بات
اپنے لیے پسند کرے اس کے لیے بھی پسند
کرے۔
[الترغیب والترھیب، للأصبھانی، باب فی الترغیب فی قضاء حوائج
المسلم،حدیث نمبر:۱۱۶۸]
"یہ تیس حقوق مختلف احادیث میں الگ الگ موجود ہیں"۔
دوسری احادیث میں یہ حقوق زیادہ ہیں: (۳۱)ملاقات کے وقت اس کو سلام کرے اور مصافحہ بھی کرے۱؎(۳۲)اگر باہم اتفاقاً کچھ رنجش ہوجائے تو تین دن
سے زیادہ ترک کلام نہ کرے۲؎(۳۳)اس پر بدگمانی نہ کرے۳؎(۳۴)اس پر حسد وبغض نہ کرے۴؎(۳۵)امربالمعروف ونہی عن المنکر ممکنہ حد تک کرے۵؎(۳۶)چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت کرے۶؎(۳۷)دو مسلمانوں میں جھگڑا ہوجائے تو ان کو باہم
ملاکر اصلاح کرادے۷؎(۳۸)اس کی غیبت نہ کرے۸؎(۳۹)اس کو کسی طرح کا نقصان نہ پہنچائے، نہ مال
میں نہ آبرو میں۹؎(۴۰)اگر سواری پر سوار نہ ہوسکے یااس پر اسباب نہ
لادسکے تو اس کو سہارا لگادے۱۰؎(۴۱)اس کو اٹھاکر اس کی جگہ نہ بیٹھے۱۱؎(۴۲)تیسرے کو تنہا چھوڑ کر دوآدمی باتیں نہ کریں۱۲؎(۴۳)اس کے راستہ میں کوئی نقصان دہ چیز ہو تو
ہٹادے۱۳؎(۴۴)اس کی چغلی نہ کرے۱۴؎(۴۵)اگر اپنی کسی کے پاس کچھ حیثیت ہو اور کوئی
اس کے پاس سفارشی چاہتا ہو تو سفارش کرے۱۵؎۔
نوٹ:یاد رکھیے! کہ جن لوگوں کے حقوق اوپر ذکر کئے گئے ہیں وہ
خاص حقوق ہیں اور ان عام لوگوں کے حقوق میں وہ سب بھی شریک ہونگے۔حوالہ
پڑوسیوں کے حقوق یہ ہیں: (۱)اس کے ساتھ احسان وہمدردی سے پیش آئے۱؎(۲)اس کے اہل وعیال کی عزت کی حفاظت کرے۲؎(۳)وقتاً فوقتاً اس کے گھر ہدیہ وغیرہ بھیجتا
رہے؛ خاص کر جب وہ فاقہ سے ہو تو ضرور تھوڑا بہت کھانا دے۳؎(۴)اس کو تکلیف نہ دے اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں
اس سے نہ الجھے۴؎۔
حدیث میں تین طرح کے پڑوسی کا ذکر ہے (۱)مسلمان رشتہ دار پڑوسی (۲)مسلمان پڑوسی (۳)غیرمسلم
پڑوسی… ان میں پہلے پڑوسی کا حق زیادہ؛ پھردوسرے کا؛ پھرتیسرے کا۵؎۔
(۱۔۲)"عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا زَالَ جِبْرِيلُ
يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ"بخاری،
باب الوصاۃ بالجار، حدیث نمبر:۵۵۵۶۔"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ
وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِي جَارَهُ"مسلم،باب الحث علی اکرام الجاروالضیف،حدیث نمبر:۶۸۔ (۳)"عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ
اللَّهِﷺيَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا طَبَخْتَ مَرَقَةً
فَأَكْثِرْ مَاءَهَا وَتَعَاهَدْ جِيرَانَكَ"مسلم،باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ،حدیث نمبر:۴۷۵۸۔ (۴)"خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ
وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ"الاعراف:۱۹۹۔ "فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ"الحجر:۸۵۔ (۵)"عَنْ طَلْحَة بْن عَبْدِ اللَّهِ عَنْ
عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي جَارَيْنِ
فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي قَالَ إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا"بخاری،باب ای الجار اقرب،حدیث نمبر:۲۰۹۹۔"ثم قال رسول اللهﷺ: الجيران ثلاثة: فمنهم من له ثلاثة حقوق،
ومنهم من له حقان، ومنهم من له حق، فأما الذي له ثلاثة حقوق فالجار المسلم القريب
له حق الجار، وحق الإسلام، وحق القرابة، وأما الذي له حقان فالجار المسلم له حق
الجوار، وحق الإسلام، وأما الذي له حق واحد فالجار الكافر له حق الجوار"شعب الایمان،فصل فیما یقول العاطس فی جواب التشمیت،حدیث نمبر:۹۲۳۸۔
پڑوسی کا حق
القرآن:
۔۔۔۔اور(اچھا سلوک رکھو) قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، ساتھ بیٹھے (یا ساتھ کھڑے) ہوئے شخص سے بھی۔۔۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 36]
تفسیر:
(29) پڑوسیوں کے تین درجے اس آیت میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ پہلے درجے کو ”جار ذی القربی“ (قریب والا پڑوسی) اور دوسرے کو ”الجار الجنب“ کہا گیا ہے جس کا ترجمہ اوپر دور والے پڑوسی سے کیا گیا ہے۔ پہلے سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کا گھر اپنے گھر سے بالکل ملا ہوا ہو، اور دوسرے سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کا گھر اتنا ملا ہوا نہ ہو۔ بعض حضرات نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ پہلے سے مراد وہ پڑوسی ہے جو رشتہ دار بھی ہو، اور دوسرے مراد وہ جو صرف پڑوسی ہو۔ نیز بعض مفسرین نے پہلے کا مطلب مسلمان پڑوسی اور دوسرے کا مطلب غیر مسلم پڑوسی بتایا ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں ان سب معانی کی گنجائش ہے۔ خلاصہ یہ کہ پڑوسی چاہے رشتہ دار ہو یا اجنبی، مسلمان ہو یا غیرمسلم، اس کا گھر بالکل ملا ہوا ہو یا ایک دو گھر چھوڑ کر ہو، ان سب کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تاکید فرمائی گئی ہے۔
انس بن مالک ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا إله إلا الله کہیں۔ پس جب وہ اس کا اقرار کرلیں اور ہماری طرح نماز پڑھنے لگیں اور ہمارے قبلہ کی طرف نماز میں منہ کریں اور ہمارے ذبیحہ کو کھانے لگیں تو ان کا خون اور ان کے اموال ہم پر حرام ہوگئے۔ مگر کسی حق کے بدلے اور (باطن میں) ان کا حساب اللہ پر رہے گا۔
ابن ابی مریم نے کہا، ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے حمید نے حدیث بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے انس بن مالک ؓ نے نبی کریم ﷺ سے نقل کر کے حدیث بیان کی۔ علی بن عبداللہ بن مدینی نے فرمایا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میمون بن سیاہ نے انس بن مالک ؓ سے پوچھا کہ اے ابوحمزہ! آدمی کی جان اور مال پر زیادتی کو کیا چیزیں حرام کرتی ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے۔ پھر اس کے وہی حقوق ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں اور اس کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو عام مسلمانوں پر ہیں۔
[صحیح بخاری»حدیث نمبر: 392]
غیرمسلم پڑوسی کے حقوق
اس کے حقوق بھی مسلم پڑوسی کی طرح ہیں، جس کا
ذکر پڑوسی کے حقوق کے ذیل میں آچکا ہے۔
پڑوسی کی تحدید
گھر کے آگے چالیس گھر، گھر کے پیچھے چالیس
گھر، گھر کے دائیں حصہ کے چالیس گھر اور گھر کے بائیں حصہ کے چالیس گھر پڑوسی میں
داخل ہیں۔
("عن أبيه قال: أتى النبيﷺرجل فقال: يارسول الله إني نزلت في محلة بني
فلان وإن أشدهم لي أذى أقدمهم لي جوارا فبعث رسول اللهﷺأبابكر وعمر وعليا يأتون المسجد فيقومون على
بابه فيصيحون ألاأن أربعين داراجار ولايدخل الجنة من خاف جاره بوائقه"المعجم الکبیر، باب کعب بن مالک الانصاری،حدیث نمبر:۱۴۳۔"عن الحسن، أنه سئل عن الجار، فقال: أربعين
دارا أمامه، وأربعين خلفه، وأربعين عن يمينه، وأربعين عن يساره"الادب المفرد للبخاری، باب الادنی فالادنی من الجیر،حدیث نمبر:۱۰۹)
یتیموں اور ضعیفو ں کے حقوق
جو دوسروں کا محتاج ہو جیسے یتیم، بچے، عاجز،
ضعیف، مسکین، بیمار، معذور، مسافر اور سائل ان لوگوں کے حقوق کچھ زائد ہیں:
(۱)ان لوگوں کی مالی خدمت کرنا۱؎(۲)ان لوگوں کے کام میں ہاتھ بٹانا۲؎(۳)ان لوگوں کی دلجوئی وتسلی کرنا۳؎(۴)ان کے حاجت وسوال کو رد نہ کرنا۴؎۔
مہمان کے حقوق یہ ہیں: (۱)مہمان کی آمد کے وقت بشاشت (خوشی) ظاہر کرنا، جاتے وقت کم ازکم دروازہ تک ساتھ
چلنا۱؎(۲)اس کی معمولات وضروریات کا انتظام کرنا کہ جس سے اس کو راحت پہنچے۲؎(۳)عاجزی، تواضع اور اکرام کے ساتھ پیش آنا؛
بلکہ خود سے اس کی خدمت کرنا۳؎(۴)کم از کم ایک روز اس کے لیے کھانے میں کسی
قدر متوسط (درمیانی) درجہ کا تکلف کرنا؛ مگراتنا ہی کہ جس میں خود کو کوئی دشواری
نہ ہو اور نہ ہی کوئی حجاب ہو اور کم ازکم تین دن تک اس کی میزبانی کرنا، اتنا تو
اس کا ضروری حق ہے، اس کے بعد جب تک وہ رہے میزبان کی طرف سے احسان ہے؛ مگرخود
مہمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کو تنگ نہ کرے، نہ زیادہ ٹھہر کر، نہ بے جا
فرمائشیں کرکے، نہ اس کےطعاموخدمت وغیرہ میں دخل اندازی کرکے، نہ اس کی
مصروفیات میں زیادہ خلل ڈالے، اس کی میزبانی کا شکرگزار ہوتے ہوئے اس کے لیے دعائے
خیر کرے۴؎۔
جس سے خصوصیت کے ساتھ دوستی ہو قرآن مجید میں
اس کو اقارب ومحارم (خصوصی رشتہ دار) کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔
اس کے آداب یہ ہیں: (۱)جس سے
دوستی کرنا ہو اول اس کے عقائد، اعمال، معاملات اور اخلاق خوب دیکھ بھال لے؛ اگر
سب امور میں اس کو درست وصالح پائے تو اس سے دوستی کرے ورنہ دور رہے، (صحبتِ بد
(بُری صحبت) سے بچنے کی بہت تاکید آئی ہے اور مشاہدہ سے بھی اس کا ضرر محسوس ہوتا
ہے) جب کوئی ایسا ہم جنس، ہم مشرب میسر ہو تو اس سے دوستی کا مضائقہ نہیں؛ بلکہ
دنیا میں سب سے بڑھ کر راحت کی چیز دوستی ہے۱؎(۲)اپنی جان ومال سے کبھی اسے تکلیف نہ دے۲؎(۳)کوئی امرخلافِ مزاج اس سے پیش آجائے تو اُسے
نظرانداز کردے اگر اتفاقاً کوئی رنجش (آپس میں کچھ تکلیف دہ بات ہوجائے) فوراً
صفائی کرلے اس کو طول (لمبا) نہ دے، دوستوں کی شکایت کو لیکر نہ بیٹھ جائے۳؎(۴)اس کی خیرخواہی میں کسی طرح کوتاہی نہ کرے،
نیک مشورہ سے کبھی محروم نہ کرے، اس کے مشورہ کو نیک نیتی سے سنے اور اگر قابلِ
عمل ہو تو قبول کرلے۴؎۔
(۱)"عن مالك بن مغول، قال: قال عيسى ابن مريم
عليه السلام: تحببوا إلى الله عز وجل ببغض أهل المعاصي، وتقربوا إليه بالتباعد
منهم، والتمسوا مرضاته بسخطهم قالوا: ياروح الله من نجالس؟ قال: جالسوا من يذكركم
الله رؤيته، ومن يزد في عملكم منطقه، ومن يرغبكم في الآخرة عمله"شعب
الایمان،فصل فیما یقول العاطس فی جواب التشمیت،حدیث نمبر:۹۱۲۶۔"عن أبي هريرة قال قال رسول اللهﷺ: المرء على دين خليله فلينظر أحدكم من يخالط
وقال مؤمل من يخالل"مسنداحمد،مسند ابی ھریرۃ، حدیث نمبر:۸۰۱۵۔"اعلم أنه لايصلح للصحبة كل إنسان. قالﷺ: "المرء على دين خليله فلينظر أحدكم من
يخالل" ولابد أن يتميز بخصال وصفات يرغب بسببها في صحبته وتشترط تلك الخصال
بحسب الفوائد المطلوبة من الصحبة إذمعنى الشرط مالابد منه للوصول إلى المقصود
فبالإضافة إلى المقصود تظهر الشروط"الخ بطولہ، احیاء علوم الدین،بیان البغض فی اللہ:۲/۱۸۔"أناعمر بن أحمد بن شاہین، ببغداد قال:
قبیداللہ بن عبدالرحمن قال: نازکریا بن یحیی قال: ناالأصمعی قال: ناسلیمان بن
بلال، عن مجالد، عن الشعبی قال: قال علی بن أبی طالب کرم اللہ وجہہ وقد ذکر صحبۃ
رجل فقال: لاتصحب أخاالجھل و۔یاک و۔یاہ فکم من جاھل أردی حلیما حین آخاہ یقاس
المرء بالمرء ۔ذاماالمرء ماشاہ وللشیء من الشیء مقاییس وأشباہ وللقلب من القلب
دلیل حین یلقاہ، من آداب الصحبۃ حسن الخلق، فمن آداب العشرۃ وحسن الخلق مع الإخوان
والأقران والأصحاب اقتداء بسنۃ رسول اللہﷺ"آداب
الصحبۃ،باب احذر صحبۃ الجھال:۱/۱۳۔"عَن الْمَدَائِنِی، قال: قال علی بن ابی
طالبؓ: لاتؤاخ الفاجر؛ فإنہ یزین لک فعلہ، ویحب لوأنک مثلہ، ویزین لک
أسوأخصالہ، ومدخلہ علیک ومخرجہ من عندک شین وعار، ولاالأحمق؛ فإنہ یجھد نفسہ لک
ولاینفعک، وربما أراد أن ینفعک فیضرک؛ فسکوتہ خیر من نطقہ، وبعدہ خیر من قربہ،
وموتہ خیر من حیاتہ، ولاالکذاب؛ فإنہ لاینفعک معہ عیش، ینقل حدیثک، وینقل الحدیث
۔لیک، و۔ن تحدّث بالصدق فمایصدق"المجالسۃ وجواھرالعلم لابی بکراحمد بن مروان بن محمدالدینوری، باب الجزء
العاشر،حدیث نمبر:۱۳۷۹۔ (۲)"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّﷺقَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ
الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى
اللَّهُ عَنْهُ"بخاری،باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ،حدیث نمبر:۹۔ (۳)"خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ
وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ"الاعراف:۱۹۹۔ "وَلَايَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ
وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ
فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَاتُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ
اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ"النور:۲۲۔ (۴)"فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ
وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ
عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ
عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ"آل
عمران:۱۵۹۔"عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ
بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ
الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ"بخاری،باب قول النبیﷺالدین النصیحۃ للّٰہ ولرسولہ ولأئمۃ
المسلمین وعامتھم،حدیث
نمبر:۵۵۔
متبنیٰ(لےپالک) کا حکم
یادرکھیے! کہ ہندوستان میں جس طرح متبنٰی (لے
پالک) بنانے کی رسم ہے کہ اس کو بالکل تمام احکام میں اولاد کی طرح سمجھتے ہیں،
شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں، لے پالک"منھ بولے"بیٹے کا اثر دوستی کے اثر سے زیادہ نہیں چونکہ اس کے ساتھ
جان بوجھ کر خصوصیت پیدا کی ہے اس لیے دوستی کے ضابطہ میں اس کو داخل کرسکتے ہیں،
باقی میرا ث وغیرہ اس کو مل سکتی کیونکہ میراث اضطراری امر ہے، اختیاری نہیں کہ جس
کو چاہا میراث دلوادیا، جس کو چاہا محروم کردیا۔
جس طرح اسلام یارشتہ دار کی وجہ سے بہت سے
حقوق ثابت ہوتے ہیں، بعض حقوق صرف معمولی مطابقت کی وجہ سے بھی ثابت ہوجاتے ہیں،
یعنی صرف آدمی ہونے کی وجہ سے ان کی رعایت واجب ہوتی ہے گومسلمان نہ ہو وہ یہ ہیں:
(۱)بلاوجہ کسی کو جانی یامالی تکلیف نہ دیں۱؎(۲)بلاوجہ شرعی کسی کے ساتھ بدزبانی نہ کرے۲؎(۳)اگر کسی کو مصیبت، فاقہ اور مرض میں دیکھے تو
اس کی مدد کرے، کھانا پانی دیدے، علاج معالجہ کردے۳؎(۴)جس صورت میں شریعت نے سزا کی اجازت دی ہے، اس
میں بھی ظلم وزیادتی نہ کرے، اس کو کسی بات میں نہ ترسائے۴؎۔
اور بندگی کرو اللہ کی اور شریک نہ کرو اس کا کسی کو [۷۰] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور قرابت والوں کے ساتھ اور یتیموں اور فقیروں اور ہمسایہ قریب اور ہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والےاور مسافر کے ساتھ اور اپنے ہاتھ کے مال یعنی غلام باندیوں کے ساتھ بیشک اللہ کو پسند نہیں آتا اترانے والا بڑائی کرنے والا [۷۱]
یعنی عبادت اور نیک عمل خدا پر یقین کر کے اور ثواب آخرت کی توقع سے کرو فخر اور ریا سے مال دینا یہ بھی شرک ہے گو کم درجہ کا ہے۔
یتامٰی اور نساء اور ورثہ اور زوجین کے حقوق اور انکے ساتھ حسن معاملہ کو بیان فرما کر اب یہ ارشاد ہےکہ ہر ایک کا حق درجہ بدرجہ تعلق کے موافق اور حاجتمندی کے مناسب ادا کرو سب سے مقدم اللہ تعالیٰ کا حق ہے پھر ماں باپ کا پھر درجہ بدرجہ سب واسطہ داروں اور حاجتمندوں کا اور ہمسایہ قریب اور غیر قریب سے مراد قرب و بُعد نسبی ہے یا قرب و بُعد مکانی صورت اولیٰ میں یہ مطلب ہوگا کہ ہمسایہ قرابتی کا حق ہمسایہ اجنبی سے زیادہ ہوگا اورصورت ثانیہ کا مدعا یہ ہو گا کہ پاس کا ہمسایہ کا حق بعید یعنی جو کہ فاصلہ سے رہتا ہے اس سے زیادہ ہے اور پاس بیٹھنے والے میں رفیق سفر اور پیشہ کے اور کام کے شریک اور ایک آقا کے دو نوکر اور ایک استاد کے دو شاگرد اور دوست اور شاگرد اور مرید وغیرہ سب داخل ہیں اور مسافر میں مہمان غیر مہمان دونوں آ گئے اور مال مملوک غلام اور لونڈی کے علاہ دیگر حیوانات کو بھی شامل ہے آخر میں فرما دیا کہ جس کے مزاج میں تکبر اور خود پسندی ہوتی ہے کہ کسی کو اپنے برابر نہ سمجھے اپنے مال پر مغرور اور عیش میں مشغول ہو وہ ان حقوق کو ادا نہیں کرتا سو اس سے احتراز رکھو اور جدا رہو۔
ناحق اور نقصاندہ آزادی»
ظلم اور گناہ کی آزادی:
آزادی ایک بنیادی انسانی حق ہے، لیکن کسی بھی حق کی طرح، اس کا استعمال ذمہ داری یا غیر ذمہ داری سے کیا جا سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل قسم کی آزادی نقصان دہ یا غلط ہو سکتی ہے جب انتہائی حد تک لے جایا جائے یا دوسروں کا خیال کیے بغیر استعمال کیا جائے:
1. دوسروں کو نقصان پہنچانے کی آزادی:
دوسروں کو پہنچنے والا جسمانی، جذباتی یا نفسیاتی نقصان کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے۔
2. امتیازی سلوک کی آزادی:
نسل، جنس، مذہب، یا دیگر ذاتی خصوصیات کی بنیاد پر امتیاز نقصان دہ اور غلط ہے۔
3. جوڑ توڑ یا دھوکہ دینے کی آزادی:
ذاتی فائدے یا بدنیتی پر مبنی مقاصد کے لیے دوسروں کو دھوکہ دینے یا دھوکہ دینے کی آزادی کا استعمال غیر اخلاقی ہے۔
4. استحصال کی آزادی:
ذاتی فائدے کے لیے دوسروں کی کمزوریوں یا وسائل کا استعمال نقصان دہ اور غلط ہے۔
5. ماحول کو آلودہ کرنے یا تباہ کرنے کی آزادی:
آزادی کو ماحول کو نقصان پہنچانے یا دوسروں کی صحت کو خطرے میں ڈالنے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
6. نفرت یا تشدد کو ہوا دینے کی آزادی:
دوسروں کے خلاف نفرت یا تشدد کو فروغ دینے کے لیے آزادی کا استعمال نقصان دہ اور غلط ہے۔
یاد رکھیں، آزادی مطلق نہیں ہے۔ یہ تمام افراد اور معاشرے کی فلاح و بہبود اور حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ داریوں اور حدود کے ساتھ آتا ہے۔
آزادی اظہار کا غلط استعمال
1. نفرت انگیز تقریر:
نسل، مذہب، جنس، یا دیگر ذاتی خصوصیات کی بنیاد پر افراد یا گروہوں کے خلاف نفرت یا تشدد کو فروغ دینا۔
2. ہتک عزت:
کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے غلط معلومات پھیلانا۔
3. ہراساں کرنا:
دوسروں کو دھمکانے، ڈرانے یا دھمکانے کے لیے اظہار خیال کا استعمال۔
4. اکسانا:
تشدد، دہشت گردی، یا دیگر نقصان دہ رویے کی حوصلہ افزائی کرنا۔
5. امتیازی سلوک:
امتیازی سلوک یا علیحدگی کو فروغ دینے کے لیے اظہار کا استعمال۔
6. فحاشی:
بے ہودہ یا فحش مواد پھیلانے کے لیے اظہار خیال کا استعمال۔
7. سرقہ:
دوسروں کے کام کو اپنا سمجھ کر ترک کرنا۔
8. پروپیگنڈہ:
رائے عامہ میں ہیرا پھیری کے لیے گمراہ کن یا جانبدارانہ معلومات پھیلانا۔
9. بہتان:
دوسروں کے بارے میں غلط اور نقصان دہ بیانات دینا۔
10. تشدد کی تعریف:
دوسروں کے خلاف تشدد یا نقصان کو فروغ دینا یا اس کی تعریف کرنا۔
یاد رکھیں، اظہار رائے کی آزادی ایک حق ہے، لیکن دوسروں کے حقوق کو نقصان پہنچائے یا ان کی خلاف ورزی کیے بغیر اسے ذمہ داری اور اخلاقی طور پر استعمال کرنا ضروری ہے۔
قال الله تعالیٰ:﴿والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار الذین اتبعوھم باحسان رضی الله عنھم ورضوا عنہ وأعد لھم جنت تجری تحتھا الانھار، خلدین فیھا ابداً ذلک الفوز العظیم﴾۔(سورة توبہ،آیت:100)
ترجمہ:
مہاجرین وانصار میں سے جو سب سے پہلے ( ایمان لانے میں ) سبقت کرنے والے ہیں او رپھر جن لوگوں نے احسان واخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی ہے ، الله تعالیٰ ان سب سے راضی ہو گئے اور وہ سب (بھی) الله تعالیٰ سے راضی ہو گئے او رالله تعالیٰ نے ان سب کے لیے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ، ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، یہی بڑی کام یابی ہے۔
بلاشبہ حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عہنم دین اسلام کے ترجمان وعلم بردار، قرآن عظیم کے محافظ وپاسبان، سنت نبوی ( علی صاحبھا الصلوٰة والسلام) کے عامل ومبلغ، بلند سیرت وکردار کے حامل وداعی او رامت مسلمہ کے محسن ومعمار ہیں، یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ میں ان کو بڑا اونچا مقام ومرتبہ حاصل ہے ، کیوں کہ الله تعالیٰ کی خصوصی ہدایت وراہ نمائی اور حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مثالی تعلیم وتر بیت نے ان کو مکمل اسلامی سانچہ میں ڈھال کر پوری امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے بہترین نمونہ وآئیڈیل بنا دیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے کہ ” اور اسی طرح ہم نے تم (مومنوں) کو ایک متوازن امت بنایا ہے، تاکہ تم دنیا کے عام لوگوں پر گواہ رہو۔“ (سورہ بقرہ/143) اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے حالت اسلام میں حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا ا سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ہو، خواہ ایک لمحہ کے لیے کیوں نہ ہو۔
حضرات صحابہٴ کرام کی کل تعداد حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے وقت کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی اور جن صحابہٴ کرام سے کتب حدیث میں روایات منقول ہیں ان کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے ۔ اور ان صحابہٴ کرام کا تعارف حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے قلم گہر بار نے کیا خوب کرایا ہے کہ:
”آپ صلی الله علیہ وسلم کے تیار کیے ہوئے افراد میں سے ایک ایک نبوت کا شاہ کار ہے اور نوع انسانی کے لیے باعث شرف وافتخار ہے، انسانیت کے مرقع میں بلکہ اس پوری کائنات میں حضرات پیغمبروں کو چھوڑ کر اس سے زیادہ حسین وجمیل، اس سے زیادہ دل کش ودل آویز تصویر نہیں ملتی، جو ان کی زندگی میں نظر آتی ہے ، ان کا پختہ یقین، ان کا گہرا علم ، ان کا سچا دل ، ان کی بے تکلف زندگی ، ان کی بے نفسی، خدا ترسی، ان کی پاک بازی، پاکیزگی، ان کی شفقت ورافت او ران کی شجاعت وجلادت، ان کا ذوق عبادت اور شوق شہادت ، ان کی شہ سواری او ران کی شب زندہ داری ، ان کی سیم وزر سے بے پروائی او ران کی دنیا سے بے رغبتی ، ان کا عدل ، ان کا حسن انتظام دنیا کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ مختلف قبائل، مختلف خاندانوں اور مختلف حیثیتوں کے افراد ایک خوش اسلوب، متحد القلوب خاندان میں تبدیل ہو گئے اور اسلام کی انقلاب انگیز تعلیم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معجزانہ صحبت نے ان کو شِیروشکر بنا دیا۔“ ( دو متضاد تصویریں)
اور ایک غیر مسلم مغربی فاضل ” کائتانی“ اپنی کتاب ”سنین اسلام“ میں صحابہٴ کرام کو بہترین خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ ” یہ لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اخلاقی وراثت کے سچے نمائندے، مستقبل میں اسلام کے مبلغ اور محمد صلی الله علیہ وسلم نے خدا رسیدہ لوگوں تک جو تعلیمات پہنچائی تھیں ، اس کے امین تھے ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مسلسل قربت اوران سے محبت نے ان لوگوں کو فکر وجذبات کے ایک ایسے عالم میں پہنچا دیا تھا، جس سے اعلیٰ اور متمدن ماحول کسی نے دیکھا نہیں تھا، درحقیقت ان لوگوں میں ہر لحاظ سے بہترین تغیر ہوا تھا اور بعد میں انہوں نے جنگ کے مواقع پر، مشکل ترین حالات میں ،اس بات کی شہادت پیش کی کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کے اصول وافکار کی تخم ریزی ، زرخیززمین میں کی گئی تھی ، جس سے بہترین صلاحیتوں کے انسان وجود میں آئے ، یہ لوگ مقدس صحیفہ ( قرآن مجید) کے امین او راس کے حافظ تھے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جو لفظ یا حکم انہیں پہنچا تھا، اس کے زبردست محافظ تھے۔“
ان صحابہٴ کرام کے فضائل ومناقب قرآن وحدیث میں بہت کثرت سے بیان ہوئے ہیں۔ قرآن مجید کی مختلف سورتوں ( بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، اعراف، انفال، توبہ، حج، مجادلہ، حشر، صف اور بینہ) میں حضرات صحابہٴ کرام کی بہت سی امتیازی صفات او رکمالات مختلف انداز واسلوب میں بیان ہوئے ہیں ، ان سے قابل ذکر خصوصیات یہ ہیں کہ حضرات صحابہٴ کرام ، الله تعالیٰ کے منتخب ومختار بندے ہیں او رحضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد پوری دنیا کے لیے اسوہ ونمونہ ہیں۔ ( سورہ حج:78)
نیز یہ حضرات الله تعالیٰ کے نہایت محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں اور بخشے بخشائے ہیں،حتی کہ الله تعالیٰ نے ان کو ”رضی الله عنہم ورضوا عنہ“ کا پراونہ خوش نودی عطا فرما دیا ہے۔ ( سورہ توبہ:100)
اور الله تعالیٰ نے دنیا میں ان کی خلافت وحکومت کی بشارت دی ہے ۔ (سورہ حج:21)
اور آخرت میں الله تعالیٰ نے ہرصحابی سے ان کے ایمان ، انفاق اورجانی قربانیوں کے نتیجہ میں ” جنت“ کا اہم وعدہ فرمایا ہے ۔ (سورہ حدید :10)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں حضرات صحابہٴ کرام کے مناقب بہت تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ،احادیث کی تمام کتابوں میں بہت اہتمام کے ساتھ مناقبِ صحابہ بیان ہوئے ہیں کہ حضرات صحابہٴ کرام تمام انسانوں سے بہتر ہیں ، ایک حدیث شریف میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں “۔ (بخاری ومسلم)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” تم لوگ تمام روئے زمین کے انسانوں سے بہتر ہو ۔“ ( بخاری ومسلم)
حضرات صحابہٴ کرام الله تعالیٰ کے منتخب وچنندہ بندے ہیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ” الله تعالیٰ نے حضرات انبیا علیہم السلام کے علاوہ تمام مخلوق میں سے میرے صحابہ کو چھانٹا ہے او ران میں سے چار ( ابوبکر، عمر، عثمان اور علی) کو ممتاز کیا ہے ،ان کو میرے سب صحابہ سے افضل قرار دیا ہے۔“
حضرت عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ ”آپ صلی الله علیہ وسلم (کے انتخاب) کے بعد ( الله تعالیٰ نے ) لوگوں کے قلوب پر نظر ڈالی تو کچھ لوگوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب او راپنے دین کے ناصر ومدد گار اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے وزراء اور نائبین کے طور پر منتخب فرمایا۔“ (مؤ طا امام محمد)
اسی طرح حضرات صحابہٴ کرام دنیا میں پوری امت کے امن وامان کے باعث ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ ” میرے صحابہ میری امت کے امن وامان کا ذریعہ ہیں ، جب میرے سارے صحابہ الله تعالیٰ کو پیارے ہو جائیں گے تو میر ی امت پر تمام وہ آفات اور مصائب ٹوٹ پڑیں گے ، جن کی وعیدان کو دی گئی ہیں۔ “( مسلم)
حضرات صحابہٴ کرام اس دنیامیں خیروبرکت اور فتح ونصرت کا موجب ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ ” ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کا لشکر روانہ کیا جائے گا او ر( بوقت روانگی وجہاد ) لوگ اس تلاش وجستجو میں ہوں گے کہ کیا اس لشکر میں کوئی صحابی موجود ہیں؟ ایک صحابی اس لشکر میں مل جائیں گے او رانہی کی برکت سے الله تعالیٰ مسلمانوں کے اس لشکر کو فتح نصیب فرمائیں گے۔“ (بخاری ومسلم)
اور حضرات صحابہٴ کرام قیامت کے دن اپنے مدفون علاقہ کے لوگوں کے قائد اور راہ نما بن کر اٹھائے جائیں گے، ایک حدیث میں ہے کہ ”کوئی صحابی کسی سر زمین وعلاقہ میں نہیں وفات پاتے ہیں مگر وہ روز قیامت اس علاقہ کے لوگوں کے قائد اور راہ نما بن کر اٹھائے جائیں گے“۔ ( ترمذی)
حضرات صحابہٴ کرام میں سے ہر ایک صحابی جنت جائیں گے اور جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے ، ایک حدیث میں ہے کہ ” جہنم کی آگ اس مسلمان کو چھو نہیں سکتی ہے ، جس نے مجھے دیکھا ہے یا میرے دیکھنے والوں کو دیکھا ہے ۔ “ ( ترمذی)
قرآن وحدیث میں حضرات صحابہٴ کرام کے کچھ حقوق وآداب بیان ہوئے ہیں ،ان میں سے قابل ذکر اہم حق یہ ہے کہ ان کے شایانِ شان ان کی تعظیم وتکریم کی جائے، کیوں کہ حضرات صحابہ کرام کے اکرام کرنے کا حکم آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو بالکل واضح انداز میں دیا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” میرے صحابہ کا اکرام کرو، کیوں کہ صحابہ تم تمام میں سب سے زیادہ بہتر ہیں ۔“ (نسائی)
حضرات صحابہٴ کرام کا تقاضا ہے کہ ان کے تذکرہ کے وقت ان کا پورا پورا پاس ولحاظ رکھا جائے ، پوری رعایت برتی جائے اور تحریر وتقریر کے وقت ان کے بارے میں بڑی احتیاط سے کام لیا جائے، کیوں کہ حضرات صحابہٴ کرام کے پاس ولحاظ کرنے میں ہم مسلمانوں کا ہی فائدہ ہے، روز قیامت حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت نصیب ہو گی اور حوض کوثر تک پہنچنا ممکن ہو سکے گا، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ” جوشخص حضرات صحابہ کے بارے میں میری رعایت کرے گا، میں قیامت کے دن ان کا محافظ ہوں گا“۔ ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”جو میرے صحابہ کے بارے میں رعایت رکھے گا وہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ سکے گا اور جوان کے بارے میں میری رعایت نہ کرے گا وہ میرے پاس حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا او رمجھے دور ہی سے دیکھے گا۔“ (حکایت صحابہ)
حضرات صحابہٴ کرام کی تعظیم کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ان سے محبت اور تعلق رکھا جائے ، کیوں کہ ان سے محبت وتعلق رضائے الہٰی کا ذریعہ ہے اوران سے عداوت وبغض رضائے الہٰی سے محرومی وخسارہ اور رسوائی وعذاب کا موجب ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بہت ہی جامع انداز میں ہم مومنوں کو مؤثر تنبیہ فرمائی ہے کہ ” الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے بارے میں ڈرو، الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے سلسلہ میں ڈرو، میرے بعد ان کو ملامت کا نشانہ مت بناؤ، جو شخص ان سے محبت رکھتا ہے ، میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتا ہے او رجوان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے ، جو شخص ان کو اذیت وتکلیف دے ، اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی ، اس نے الله تعالیٰ کو اذیت دی اور جو شخص الله تعالیٰ کو اذیت دیتا ہے ، بہت ممکن ہے کہ الله تعالیٰ ایسے شخص کو ( دنیا وآخرت میں ) سزا اور عذاب میں مبتلا کر دے ۔“ ( ترمذی)
ایک دوسری حدیث میں بہت ہی بلیغ ومؤثر اسلوب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میرے صحابہ کو برامت کہو ، اگر تم میں سے کوئی شخص اُحُد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تب بھی وہ ان کے ایک مُد ( ایک کلو وزن کے برابر ایک پیمانہ ) یا نصف مد ( جَو) خرچ کرنے کے برابر بھی ثواب کا مستحق نہ ہو گا ۔“ (بخاری ومسلم)
یقینا حضرات صحابہٴ کرام کی شان میں گستاخی کرنا الله تعالیٰ، فرشتوں اور تمام مومنوں کی لعنت وملامت کا موجب ہے، ایک حدیث میں ہے کہ ” جو شخص حضرات صحابہٴ کرام کو گالیاں دے ، اس پر الله تعالیٰ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے ، نہ اس کا فرض مقبول ہے اور نہ نفل۔“ ( حکایت صحابہ)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے گستاخ پر لعنت بھیجنے کا صریح حکم دیا ہے کہ “ جب تم لوگ حضرات صحابہ کرام کو گالی دیتے ہوئے (منافق) لوگوں کو دیکھو تو کہو کہ تمہاری بد گوئی پر الله تعالیٰ کی لعنت ہو۔“( ترمذی)
یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ حضرات صحابہ کرام کو گالی دینا حرام اورگناہ کبیرہ میں سے ہے ۔ اس لیے تمام مومنوں کو چاہیے کہ حضرات صحابہ کرام کی تنقیص وتنقید سے بچیں، صرف ان کی تعریف وتوصیف کریں، کیوں کہ ان کی تعریف ایمان کی علامت ہے او ران کی تنقیص ( بے عزتی) نفاق کی پہچان ہے ۔ حضرت ایوب سختیانی نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ ” جو صحابہ کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی، منافق اور سنت کا مخالف ہے مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل قبول نہ ہو، یہاں تک کہ ان سب کو محبوب رکھے اور ان کی طرف سے دل صاف ہو ۔“ (حکایت صحابہ)
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام کی شان عالی میں گستاخی کرنے والوں سے دوری اختیار کی جائے اور ان سے ہر گز کوئی تعلق نہ رکھا جائے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنی امت کو زور دار انداز میں متنبہ فرمایا ہے کہ ” بلاشبہ الله تعالیٰ نے ( تمام بندوں میں ) مجھے منتخب فرمایا ہے او رمیرے لیے اصحاب، انصار اور رشتہ داروں کو منتخب فرمایا ہے ،عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو میرے اصحاب کو برا کہیں گے اوران کی تنقیص ( بے ادبی) کریں گے پس تم ان کے ساتھ میل ملاپ نہ کرنا، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا۔ “( مرقاة)
حضرات صحابہٴ کرام کا دوسرا اہم ترین حق یہ ہے کہ ان کے اعمال وافعال میں او ران کے اخلاق میں ان کی اتباع وپیروی کی جائے ،کیوں کہ الله تعالیٰ نے سابقین اولین صحابہٴ کرام کی اتباع واقتدا پر ہم تمام مومنوں کو اپنی خوش نودی کی بشارت دی ہے ۔( سورہ توبہ:100)
اور ان کی زندگی کو ہمارے لیے اسوہ نمونہ قرار دیا ہے او ران کے عمل کو مثالی قرار دیا ہے ۔ ( سورہ، حج:78)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں ان کی اتباع وپیروی کی تاکید وترغیب بہت اہتمام سے بیان ہوئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ ” میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ، جس کی اتباع کرو گے ہدایت پاؤگے۔“ محققین اہل سنت والجماعت نے سورہ توبہ (آیت:100) سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اصحاب نبی صلی الله علیہ وسلم مقتدایان امت ہیں او رتمام صالحین ان کے تابع ہیں ۔ (تفسیر ماجدی)
چناں چہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے بعد حضرات صحابہٴ کرام کے نقش قدم پر چلنا دنیا وآخرت میں کام یابی وکام رانی کا موجب ہے، ایک طویل حدیث میں ہے کہ ” میر ی امت تہتر(73) فرقوں میں تقسیم ہو گی، ایک فرقہ کے علاوہ سب فرقے جہنم میں جائیں گے۔ حضرات صحابہٴ کرام نے پوچھا یا رسول الله ! جنت میں جانے والا فرقہ کون سا ہو گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ جو فرقہ اس راستہ پر جما رہا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“ (ترمذی)
اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” میں تم لوگوں میں اپنے قیام کی مقدار نہیں جانتا، پس میرے بعد دو صحابہٴ کرام کی اقتدا کرنا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر او رحضرت عمر کی طرف اشارہ فرمایا۔“ ( ترمذی)
اور ایک دوسری حدیث میں چاروں خلفائے راشدین کی سنت پر گام زن ہونے کی مؤثر ترغیب دی ہے کہ ” میری سنت او رحضرات خلفائے راشدین کی سنت تم تمام پر واجب ہے اور اس کو اپنی داڑھوں ( دانتوں) سے مضبوط پکڑ لو۔“ (ابوداؤد)
مذکورہ بالا دو حق کے علاوہ حضرات صحابہٴ کرام کے اور بھی حقوق وآداب ہیں، ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر حق ” دفاعِ صحابہ“ ہے، موجود حالات میں اس حق کی ادائیگی بہت ضروری ہے ، اس حق سے پہلو تہی باعث لعنت ہے، چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ ” جب فتنے یا بدعات ظاہر ہونے لگیں او رمیرے صحابہ کو برا کہا جانے لگے تو عالم کو چاہیے کہ اپنے علم کو کام میں لاکر صحابہٴ کرام کا دفاع کرے او رجو شخص حضرات صحابہ کا دفاع نہیں کرے گا تو اس پر الله تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور الله تعالیٰ نہ اس کے فرض قبول فرمائیں گے اور نہ ہی نفل ۔“ ( مرقاة)
بہرکیف حضرت قاضی عیاض نے اپنی مشہور کتاب ” شفاء“ میں حضرات صحابہٴ کرام کے اہم حقوق بیان کرتے ہوئے کیا خوب تحریر فرمایا ہے کہ ” ان حضرات کو برائی سے یاد نہ کرے ، بلکہ ان کی خوبیاں او ران کے فضائل بیان کیا کرے اور عیب کی باتوں سے سکوت کرے، جیسا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” جب میرے صحابہ کا ذکر ( برا ذکر) ہوتو سکوت کیا کرو۔“
یقینا حضرات صحابہٴ کرام تاریخ ساز، عہد آفریں شخصیات کا مجموعہ ہیں اور یہ حضرات الله تعالیٰ کی نعمت عظمی کے پر تو ، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کا ثمرہ او راسلام کی صداقت کی دلیل وحجت ہیں او ریہ حضرات بلاشبہ حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان میں ” زمین کا نمک او رپہاڑی کا چراغ “ تھے ، جن سے ان کی اپنی ہم عصر دنیا نے رشد وہدایت کا نور حاصل کیا اور آج کی تاریکیوں میں بھی ان کی بلند سیرت وکردار کی شعاعوں سے ہم اپنی زندگیاں منور کرسکتے ہیں او ران کی مثالی زندگی سے اپنی دنیا وآخرت دونوں سنوار سکتے ہیں اور دونوں جگہ کام یاب و کام راں ہو سکتے ہیں ، الله تعالیٰ ہم تمام مومنوں کو ان کے نقش قدم پر خلوص واحسان کے ساتھ چلنے کی توفیق ارزانی فرمادے او ران کی محبت وعظمت ہمارے دلوں میں راسخ فرمادے۔ آمین
دنیا میں بہت سی مخلوقات ایسی ہیں کہ وہ اپنے باقی رہنے میں اپنی ہم جنس کی محتاج نہیں ہیں، جیسے درخت ہے، درخت کو اپنے ہی جیسی درخت کی ضرورت پیش نہیں آتی، بلند وبالا پہاڑ اپنے باقی رہنے میں دوسرے پہاڑ کے محتاج نہیں ہیں، لیکن جان دار او رخاص کر انسان اپنی زندگی میں اپنی ہم جنس مخلوق اور انسان کے محتاج ہیں، ماں باپ کا ” بوڑھا پا“ بال بچوں کے بغیر گزارے نہیں گزرتا، بچے باپ کی شفقت او رماں کی ممتا کے بغیر بچپن سے جوانی تک کا سفر طے نہیں کرسکتے، ایک خاص عمر کو پہنچنے کے بعد ہر شخص کو ایک رفیق کی ضرورت پیش آتی ہے ، جو شوہر وبیوی کی شکل میں مہیا ہوتا ہے ، یہ ضرورتیں تو چھوٹے سے خاندان سے متعلق ہیں، اس سے باہر نکلیے تو ضرورتوں کا دائرہ اور وسیع ہو جاتا ہے ، تاجرو گاہک ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور آجرو مزدور کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے ۔
سماج میں اس سے زیادہ افراد کے درمیان باہمی احتیاج وضرورت کی بنا پر جو مالی تعلق قائم ہوتا ہے، اُسے فقہ وقانون کی زبان میں ”معاملہ“ کہتے ہیں ، معاملات میں بعض دفعہ ” ادھار“ کی بھی نوبت آتی ہے اورمہلت کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں ، ایسے وقت میں خاص کر باہمی نزاع کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے ، عام طور پر معاملات میں جو اختلافات پیدا ہوتے ہیں ، وہ بڑی شدت اختیار کر جاتے ہیں ، اس لیے کہ مال کی حرص او رمال کے سلسلہ میں بخل انسانی فطرت میں داخل ہے ، ایسے اختلافات محبت کے رشتوں کو کڑواہٹوں میں تبدیل کر دیتے ہیں ، کینہ وکدورت کی آگ سینوں کو سلگا کر رکھ دیتی ہے، یہاں تک کہ لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں اور قتل وقتال تک نوبت آجاتی ہے، یہ اختلاف عام طور پر دو اسباب کی وجہ سے رونما ہوتا ہے ، ایک بددیانتی ، دوسرے معاملات میں ابہام۔
بد دیانتی او رخیانت کے واقعات تو دن رات پیش آتے رہتے ہیں، اس لیے کہ بد دیانتی آج کی دنیا میں جرم کے بجائے آرٹ بن چکا ہے اور بعض لوگ ایسی حرکتوں کو ہوش مندی او رعقل مندی باور کرتے ہیں ، لیکن بہرحال جو لوگ دین وشریعت سے جڑے ہوئے ہیں ، نماز وروزہ کے پابند ہیں او راسلامی وضع قطع رکھتے ہیں ، وہ بڑی حد تک اس سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن معاملات میں ابہام اور صفائی ووضاحت کا نہ ہونا ایسی بیماری ہے ، جس میں یہ طبقہ بھی گرفتار رہتا ہے ، قرآن مجید کی سب سے بڑی آیت سورة البقرة کی آیت نمبر282 ہے ، جو آیت ”مداینت“ کہلاتی ہے ، اس میں قرض کا ایک اہم حکم بتایا گیا ہے او رخاص طور پر ایسے معاملات کو لکھ لینے کا حکم دیا گیا ہے ، عداء بن خالد بن ہوذہ کے پاس خریدوفروخت کی ایک دستاویز تھی، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تحریر کرائی تھی ، اس میں خریدار کی حیثیت سے عداء کا نام تھااور فروخت کنندہ کی حیثیت سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا۔ ( سنن الترمذی، کتاب البیوع ، باب ماجاء فی کتابة الشروط، حدیث نمبر:1260)
اس سے معلوم ہوا کہ خرید وفروخت نقد ہو تب بھی لکھ لینا بہتر ہے۔
خریدو فروخت کی ایک صورت یہ ہے کہ قیمت نقد ادا کر دی جائے اور خریدی جانے والی شیء ادھار رکھی جائے ، اس کو شریعت کی اصطلاح میں ”سلم“ کہتے ہیں،رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو وہاں ایسی خرید وفروخت کا عام رواج تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ، لیکن فرمایا کہ پیمانہ متعین ہونا چاہیے او رمدت متعین ہونی چاہیے:”من اسلف فی شیء ففی کیل معلوم، ووزن معلوم، الی اجل معلوم“․ (صحیح البخاری، کتاب السلم، باب السلم فی وزن معلوم، حدیث نمبر:2240)
فقہا نے اس سلسلہ میں مزید تفصیل کی ہے کہ چوں کہ شریعت کا منشا نزاع کو روکنا او رجھگڑے کا سدباب کرنا ہے ، اس لیے ان تمام چیزوں کا متعین اور واضح ہونا ضروری ہے ، جن کے بارے میں آئندہ اختلاف پیدا ہو سکتا ہے ، جوشے ادھار ہے وہ بھی متعین ہو جیسے چاول ، گیہوں، پھر اس کی قسم بھی متعین ہو ، جیسے باسمتی چاول ، کوالٹی اور کیفیت میں بھی ابہام نہ ہو ، جیسے اعلیٰ درجہ، درمیانی درجہ وغیرہ، سامان کی ڈیلیوری کی جگہ بھی مقرر ہو ، مثلا یہ چیز فلاں شہر میں مہیا کی جائے گی وغیرہ۔
حضرت عبدالله بن عباس نے قرض وادھار کی تمام صورتوں کے بارے میں اصولی بات فرمائی ہے کہ ادائیگی کی مدت واضح اور متعین ہونی چاہیے ، کوئی شخص کہے کہ کھیت کی کٹائی یا فلاں شخص کے دینے تک کے لیے ادھار ہے ، تو اس کا اعتبار نہیں، بلکہ مدت یا ادائیگی کا وقت کسی ابہام کے بغیر مقرر ہونا چاہیے ”لا تسلف الی العطاء، ولا الی الحصاد، واضرب اجلا“ ․ ( اعلاء السنن:381/14 بہ حوالہ، مصنف ابن ابی شیبہ)․
آج کل دارالافتاء، دارالقضاء اور محکمہ شرعیہ وغیرہ میں متعدد ایسے معاملات آتے رہتے ہیں ، جن میں آپسی جھگڑے کی بنیاد معاملات کا واضح نہ ہونا ہے ، اس وقت اس کی چند صورتوں کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
بعض اوقات والد ایک کاروبار شروع کرتے ہیں ، اس وقت بچے چھوٹے ہوتے ہیں ، بچے جیسے جیسے بڑے ہوئے ان میں سے بعض والدکے ساتھ کاروبار میں لگ جاتے ہیں ، بعض ملک یا بیرون ملک میں اچھی ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے لڑکے تو کاروبار میں شامل ہو گئے ، تاکہ تجارت کو فروغ دیں اور اس کی وجہ سے وہ آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکے ، چھوٹے بھائیوں نے تعلیم حاصل کی او راعلیٰ ملازمتوں پر فائز ہو گئے ، اب والد کے انتقال کے بعد جب ترکہ کی تقسیم کا مسئلہ آیا تو جس بھائی نے کاروبار میں تعاون کیا تھا ، وہ چاہتا ہے کہ اس کو اس کی محنت کا معاوضہ ملے اور چھوٹے بھائیوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ترکہ برابر تقسیم کیا جائے ، بعض دفعہ اس میں ان بھائیوں کے ساتھ بہ ظاہر ناانصافی ہوتی ہے، جنہوں نے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے خود الگ سے کوئی ملازمت نہیں کی یا اپنی تعلیم کو قربان کیا ، بعض دفعہ اس کے برعکس صورت حال بھی پیش آتی ہے کہ جو بھائی کاروبار میں شریک تھا، وہ پورے کاروبار پر قابض ہو جاتا ہے اور دوسرے بھائی بہنوں کو بے دخل کر دیتا ہے …، اگر والدین بچوں کو کاروبار میں شریک کرتے ہوئے وضاحت کر دیں کہ تمہاری حیثیت پارٹنر کی ہو گی اور تم اس میں اتنے فیصد کے مالک ہو گے ، یا تمہاری حیثیت ملازمت کی ہو گی اور تم ماہانہ اتنی تنخواہ کے مستحق ہو گے، یا تم میرے معاون ومدد گار ہو ، الگ سے تمہارا کوئی حصہ نہیں ہو گا تو بعد کو چل کر اس طرح کا اختلاف پیدا نہیں ہوتا۔
عملی تعاون ہی کی طرح بعض دفعہ مالی تعاون میں بھی یہ صورت پیش آتی ہے ، جیسے والد کی تجارت میں ان کے مطالبہ پر یا بلا مطالبہ بعض بچوں نے مختلف موقعوں پر پیسے دیے ، یہ سرمایہ کاروبار کا حصہ بن گیا، لیکن یہ بات متعین نہیں ہوئی کہ سرمایہ لگانے والوں کا کاروبار میں خصوصی شیئر ہو گا یا ان کی یہ رقم قرض ہے، جوبعد میں ادا کی جائے گی ، یا اپنے والد کا تعاون ہے ؟ یہ عدم وضاحت پھر بعد میں بڑے جھگڑے کا سبب بنتی ہے، جن لڑکوں نے رقم دی تھی وہ زائد حصہ چاہتے ہیں اور دوسرے بھائی پورے کاروبار کو والد کا ترکہ قرار دیتے ہیں۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بھائی نے کاروبار شروع کیا ، سب لوگ مل کر رہ رہے تھے، مختلف بھائیوں نے حسب گنجائش موقعہ بہ موقعہ کاروبار میں رقم لگائی ، بعض نے نہیں لگائی، بعض محنت میں شامل ہوئے ، بعض نہیں ہوئے ، اب ہوتا یہ ہے کہ جس بھائی نے کاروبار شروع کیا تھا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ پورا کاروبار تنہا اسی کی ملکیت ہے اور دوسرے بھائی اپنے حصہ کے دعوے دار ہوتے ہیں ، یہ بات اس وقت زیادہ پیش آتی ہے ، جب والد کی زندگی میں اس نوعیت کا کاروبار شروع ہوا ہو ، کبھی کبھار وہ بھی دکان پر بیٹھ جاتے ہیں ، یا تجارت شروع کرنے والے بچے نے اپنے والد کے نام سے تجارت شروع کی، اگر شروع ہی میں یہ بات واضح ہو جائے کہ یہ کاروبار مشترکہ ہے ، یا جس بھائی نے شروع کیا ہے ، اس کا ہے او رجن دوسرے بھائیوں نے کچھ پیسے لگائے ہیں یا محنت کی ہے ، وہ تعاون ہے یا قرض ہے یا شرکت ہے ؟ او راگر اسی کاروبار سے گھر کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں تو یہ بہ طور شرکت کے ہے ، یا جس کا کاروبار ہے اس کی طرف سے تبرع واحسان ہے ؟ تاکہ بعد میں اختلاف پیدا نہ ہو۔
اسی طرح کی صورت حال بعض دفعہ اراضی کی خریداری میں پیش آتی ہے، ایسا ہوتا ہے کہ بعض لڑکے بیرون ملک ملازمت کر رہے ہوتے ہیں ، وہ زمین یا مکان کی خریداری کے لیے رقم بھیجتے ہیں، اب والد نے اس رقم سے اپنے نام مکان یا زمین خرید لی یا اپنے کسی ایسے لڑکے کے نام خرید کر دی جو وطن میں ہے، حالاں کہ پیسے بھیجنے والے کا مقصد اس کے لیے جائیداد خریدنا ہے او روالدکی بھی یہی نیت ہے ، بھائیوں کو معلوم ہے ، لیکن جب والد کا انتقال ہوا تو نیت بد ل گئی اور اصل صاحب حق کا نقصان ہو گیا، اس لیے اولاً تو خود رقم بھیجنے والے لڑکے کو چاہیے کہ اپنے والد پر اس بات کو واضح کر دے کہ اس کی نیت خود اپنے لیے زمین خریدنے کی ہے اور والد کو بھی چاہیے کہ اس کی نیت دریافت کرکے اس کے نام سے زمین خریدے اور اگر اس میں کوئی قانونی دقت ہو تو اپنے نام سے خرید کر اس لڑکے کے نام ہبہ نامہ بنا دے ، یا اس کو پاور آف اٹارنی دے دے ، یا کم سے کم اپنا یہ اقرار نامہ رجسٹرڈ کرادے کہ یہ زمین حقیقت میں میرے فلاں لڑکے کی ملکیت ہے، میں اس کا مالک نہیں ہوں اورمیرے دوسرے ورثہ کا بھی اس سے حق متعلق نہیں ہے ۔
اسی طرح کا اختلاف بعض اوقات مکان کی تعمیر میں بھی پیدا ہوتا ہے ، جیسے والد نے مکان کی تعمیر شروع کی اور بعض لڑکوں نے اس میں پیسے دیے، لیکن ان کا پیسہ دینا کس حیثیت سے ہے ؟ یہ واضح نہیں ہوتا، بعد میں پیسہ دینے والے لڑکے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس مکان میں اس کا خصوصی شیئر ہو اور دوسرے لڑکے پورے مکان کو والد کا ترکہ قرار دیتے ہیں، یہی صورت حال اس وقت بھی پیش آتی ہے جب اتفاق واتحاد کے ماحول میں کوئی بھائی مکان کی تعمیر شروع کرتا ہے ، اب کئی بھائیوں میں سے ایک دو کچھ پیسے لگا دیتے ہیں ، کوئی اپنا وقت دے دیتا ہے اور یہ بات طے نہیں ہوتی کہ اس مالی اورعملی تعاون کی حیثیت کیا ہو گی؟ اگر یہ شروع میں طے پا جائے تو نہ دل کے آبگینے ٹوٹیں گے، نہ کینہ وکدورت کی آگ سلگے گی۔
ایک قابل توجہ بات تقسیم میراث کی ہے ، جیسے ہی مورث کا انتقال ہوا، اس کے ترکہ سے تمام ورثہ کا حق متعلق ہو جاتا ہے او رترکہ میں مرنے والے کی تمام چیزیں شامل ہیں ، مثلاً اگر ایک لڑکا مرنے والے کے ساتھ اس مکان میں مقیم تھا ، اب والد کی وفات کے بعد تنہا اس مکان کو یا والد کی دوسری اشیاء کو استعمال کر رہا ہے تو اپنے شیئر سے زیادہ حصہ ،جو اس کے استعمال میں ہے وہ اس کے حق میں گناہ اور حرام ہے ، پھر تقسیم میں جتنی تاخیر ہوتی جاتی ہے الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں اور اختلاف کے مواقع بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں ، اس لیے شریعت کا مقرر کیا ہوا اصول یہ ہے کہ مرنے والے کے گزرنے کے بعد جلد سے جلد ایک دودنوں کے اندر تمام ورثہ بیٹھ کر شریعت کے حکم کے مطابق اپنے حصے تقسیم کر لیں اور اس تقسیم میں ہر چیز کو شامل کریں ، کیوں کہ قرآن مجید میں ترکہ کے لیے ”ماترک“ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی مرنے والا جو بھی چھوڑ جائے ، اس لیے گلاس اورپلیٹیں بھی ترکہ میں شامل ہیں ، ہاں! اگر مرحوم کی بعض اشیا کے استعمال کے بارے میں ورثہ کا اتفاق ہو جائے کہ یہ چیز فلاں کے استعمال میں رہے گی تو حرج نہیں ہے ، کیوں کہ یہ دوسرے حق داروں کی طرف سے اس کے حق میں ہبہ ہے۔
یہ او راس طرح کے معاملات میں جہاں وضاحت ضروری ہے ، وہیں یہ بھی مناسب ہے کہ ان معاملات کو تحریر میں لے آیا جائے اور اس تحریرپر تمام متعلقہ لوگوں اور کچھ گواہوں کے دستخط ہو جائیں ، تاکہ آئندہ طے پانے والے امور کے سلسلہ میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو ، حقیقت یہ ہے کہ اگر معاملات کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے اور اسے تحریر میں لایا جائے تو زمین وجائیداد کے پچاس فیصد جھگڑے ختم ہو جائیں گے اور اختلاف کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
بوڑھوں اور حیوانات کے ساتھ
آپصلی اللہ علیہ وسلم کا کریمانہ سلوک
اُداس چہرہ، سفید ڈاڑھی، ہاتھ میں لاٹھی، کھال میں سِلْوٹ، چال میں سستی، بات میں لرزہ، یہ معاشرہ کا وہ کمزور طبقہ ہے، جسے ہم ”بوڑھا“ کہتے ہیں، انسانی زندگی کئی مراحل سے گزرتے ہوئے بڑھاپے کو پہونچتی ہے، بڑھاپا گویا اختتامِ زندگی کا پروانہ ہے، اختتامی مراحل ہنسی خوشی پورے ہوں تو اس سے دلی تسلی بھی ہوتی ہے، رہن سہن میں دشواری بھی نہیں؛ لیکن آج جو صورتحال سن رسیدہ افرا د کے ساتھ روا رکھی گئی ہے، اس سے عمر رسیدہ افراد کی پریشانی میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے؛ حالانکہ والد نے بچے کی پرورش اس امید پر کی تھی کہ وہ بڑھاپے میں سہارا بنے گا، بجائے اس کے کہ یہ لڑکا بوڑھے باپ کو سہارا دیتا، کمر کو بھی توڑ دیتا ہے۔ایک جانب معاشرہ کی یہ صورتحال ہے، دوسری جانب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کے ساتھ کمزوروں کے ساتھ ضعیفوں کے ساتھ بہت ہی زیادہ حسنِ سلوک کا مظاہر کیا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ عمر رسیدہ افراد کی قدر دانی کی تعلیم دی، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ قدردانی کا ثبوت بھی مہیا فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن رسیدہ افراد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عظمت وبڑائی کا تقاضہ یہ ہے کہ بوڑھے مسلمان کا اکرام کیا جائے (ابوداوٴد: ۴۸۴۳ باب فی تنزیل الناس منازلہم، حسن) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے بال اسلام کی حالت میں سفید ہوئے ہوں، اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا (ترمذی: ۱۶۳۴ باب ماجاء فی فضل من شاب، صحیح) ان احادیث سے سن رسیدہ افراد کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، اول الذکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رسیدہ کو حاملِ قرآن وعادل بادشاہ پر بھی مقدم کیا ہے؛ حالانکہ ان دونوں کی اہمیت وعظمت اپنی جگہ پر مسلم ہے، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کی رعایت کرتے ہوئے، ان کی حمایت فرمائی، دوسری حدیث میں بڑھا پے کے اثرات کا اخروی فائدہ بیان کیا کہ جس پر بڑھاپا اسلام کی حالت میں آیا ہو تواس کے لیے اللہ اس بڑھاپے کی قدردانی کرتے ہوئے روزِ محشر نور مقدر فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کا اکرام واحترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے، (بخاری: ۶۲۳۴ باب تسلیم الصغیر علی الکبیر) بڑوں کے اکرام واحترام کی ایک شکل سلام بھی ہے،بڑوں کی عمر ان کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے چھوٹے ہی بڑوں کو سلام کیا کریں؛ تاکہ یہ سلام چھوٹوں کی جانب سے بڑوں کے اکرام کا جذبہ بھی ظاہر کرے، اور بڑوں کے لیے بھی دل بستگی کا سامان ہو، کئی مقامات پر بڑوں کو بچوں سے اسی بات کی شکایت ہوتی ہے کہ بچے انھیں سلام نہیں کرتے، فطری طور پر بڑے عزت کے طالب ہوتے ہیں، کیوں نہ ہم ان کے اس تقاضے کا لحاظ کرتے ہوئے سلام کے ذریعہ ان کے جی کو خوش کریں، مجالس میں کوئی مشروب آئے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا لحاظ کیا اس کو اولاً بڑے نوش فرمائیں، بڑوں سے آغاز ہو، فرمایا: بڑوں سے آغاز کرو؛بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مسواک کرتے ہوئے دو میں سے بڑے کو پہلے مسواک عنایت فرمائی (ابوداوٴ: ۵۰ باب فی الرجل یستاک، صحیح) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑوں کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے فرمایا: اَلْبَرَکَةُ مَعَ أکَابِرِکُمْکہ برکت تو تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے، کون ہے جو برکت کا متلاشی نہ ہو؟ کون ہے جو برکت کا طلبگار نہ ہو؟ آج تو کئی ایک بے برکتی کے شاکی ہیں، ایسے میں بر کت کے حصول کا آسان طریقہٴ کار یہ ہے کہ بوڑھوں کو اپنے ساتھ رکھا جائے، ان کے اخراجات کی کفالت کی جائے، اس سے آمدنی میں برکت ہوگی، نیز ایک موقع پر فرمایا: بات چیت میں بھی بڑوں کو موقع دیا، کَبِّرِ الکِبَرَ، اس کی تشریح کرتے ہوئے یحییٰ نے فرمایا: بات چیت کا آغاز بڑے لوگوں سے ہو، (بخاری: ۶۱۴۲ باب اکرام الکبیر) ایک موقع پر بوڑھوں کے اکرام کے فضائل وفوائد ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نوجوان نے کسی بوڑھے کا اکرام اس کی عمر کی بنیادپر کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے بڑھاپے میں اکرام کرنے والا شخص مقرر فرمائیں گے(ترمذی: ۲۰۲۲ باب ما جاء فی اجلال الکبیر، ضعیف)کون ہے جو اپنے بڑھاپے کو ہنسی خوشی پورا نہیں کرنا چاہتا ؟ کون ہے جو بڑھاپے میں خدمت گزاروں سے کتراتا ہے؟ کون ہے جو بڑھاپے میں آرام وسکون نہیں چاہتا؟ ان سب کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک آسان نسخہ عنایت فرمایا کہ اپنے بوڑھوں کا اکرام کرو تمہیں بڑھاپے میں خدمت گار مل جائیں گے، الغرض! مختلف مواقع پر مختلف انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کی اہمیت وعظمت کو واضح کیا، اور امت کو ان پر توجہ کی تعلیم دی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کریمانہ اخلاق ہیں کہ امت کے ہر کمزور طبقہ پر بذاتِ خود بھی رحم وکرم کا معاملہ کیا، اور وں کو بھی رحم وکرم سے پیش آنے کی تلقین کی۔
بڑوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل
ایک سن رسیدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے، آنے والے کے لیے لوگوں نے مجلس میں گنجائش نہ پیدا کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتحال کو دیکھ کر صحابہٴ کرام ث سے مخاطب ہو کر فرمایا: جو شخص چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، بڑوں کی عزت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں (ترمذی: ۱۹۱۹ باب ماجاء فی رحمة الصغیر) یعنی ایک مسلمان میں جو صفات ہونی چاہیے ان میں سے ایک بڑوں کا اکرام بھی ہے، اگر کوئی اس وصف سے متصف نہیں تو گویا وہ ایک اہم مسلمانی صفت سے محروم ہے، اگر کوئی اس اہم اسلامی صفت کا خواستگار ہے تو اسے بڑوں کے اکرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، فتحِمکہ کے بعد جو حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے انھیں میں ایک اہم واقعہ حضرت ابو بکر صدیق ص کے بوڑھے والد کا بھی پیش آیا، لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ حق پر ست پر اسلام قبول کرنے کے لیے انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بڑھاپے کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ان کو گھر ہی میں کیوں نہ چھوڑا؟ میں خود ان کے گھر پہونچ جاتا (مستدرک حاکم: ۵۰۶۵ ذکر مناقب ابی قحافہ)
واضح رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہورہے ہیں، اس کے باوجود بوڑھوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رحیمانہ وکریمانہ سلوک ہے؛ حالانکہ دیگر فاتحین کا طرزِ عمل تو وہ ہے، جسے قرآن حکیم نے بیان کیا ہے کہ جب فاتحین کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کو برباد کردیتے ہیں، اہلِ عزت کو ذلیل کرتے ہیں، یہی ان کا طرہٴ امتیاز ہے، (النمل: ۳۴) یہ عمر رسیدہ افراد کی عملی قدر دانی ہے، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثبوت فراہم کررہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیا کہ ابو قحافہ ایک طویل عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں، بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سے کسی کی تعظیم وتکریم سے کتراتا ہے؛ حالانکہ اس میں ان لوگوں کے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ کی بہر صورت تعظیم کی جائے، نماز کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی حریص اس حرص وطمع کے باوجود بھی بوڑھوں کی رعایت میں نماز میں تخفیف فرمادی، ابو مسعود ص انصاری فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کرنے لگے کہ میں ظہر کی نماز میں فلاں شخص کی طویل قرأت کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا، ابو مسعود ص کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس غضبناک کیفیت میں دیکھا اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام ث سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: نمازیوں میں نماز سے نفرت مت پیدا کرو، لہٰذا جو بھی شخص امامت کرے وہ ہلکی نماز پڑھا یا کرے، کیوں کہ اس میں کمزور بھی ہیں، بوڑھے بھی ہیں، ضرورت مند بھی ہیں (بخاری: ۷۰۲ باب إذا طول الامام وکان الرجل ذاحاجة) ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طویل قرأت کی شکایت کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ص پر غصہ ہوتے ہوئے فرمایا: فَتَّانٌ فَتَّانٌ!(بخاری: ۷۰۱ باب إذا طول الامام) اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو! تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو دھرایا، غور وخوض کا مقام ہے کہ سن رسیدہ اور کمزور افراد کی رعایت کا سلسلہ نماز جیسے اہم فریضہ میں بھی جاری ہے، بڑھیا کا مشہور واقعہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھیا کا سامان اٹھا کر شہر مکہ کے باہر پہونچا دیا تھا؛ حالانکہ وہ بڑھیا جو اسلام سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی میں مصروف تھی؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے طفیل اس بڑھیا نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ایک دفعہ مجلس میں بائیں جانب اکابر صحابہٴ کرام ث تشریف فرما تھے اور دائیں جانب ایک بچہ تھا اور مجلس میں کوئی مشروب پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ چونکہ تم دائیں جانب ہو اگر تم اجازت دو تو میں اس کا آغاز ان بڑے صحابہ کرام ث سے کروں، اس بچے نے اپنے آپ پر کسی کو ترجیح دینے سے انکار کردیا؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مشروب اسی کے ہاتھ میں تھما دیا، (بخاری: ۲۳۶۶، باب من رأی أن الحوض الخ) غور طلب امر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں جانب بڑوں کی موجودگی کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچے سے اجازت بھی مانگی؛ لیکن بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوش کردہ برکت کی وجہ سے اپنے آپ پر کسی کو ترجیح نہ دی، اس سے بھی بڑوں کے ساتھ اکرام کا درس ملتا ہے کہ بہر صورت ان کے اکرام کی کوشش کی جائے، ان کی توہین سے بیزارگی کا اظہار ہو۔
ان اقوال واحوال کا سرسری جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کا ہر موقع پر لحاظ فرمایا، کسی بھی بوڑھے کا اکرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کی بنیاد پر کیا، رشتہ داری وتعلق سے بالا تر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو تر جیح دی،آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانیت کے اس ستم رسیدہ طبقے کے ساتھ احترام واکرام کا معاملہ کیا جائے، ان کے حقوق جان کر پورے کرنے کی کوشش کریں، کسی چیز کے ذریعہ بڑھاپے میں انھیں تکلیف نہ دیں، ان کی ضروریات پوری کرکے ان پر احسان کرتے ہوئے ان کی دعاوٴں میں شامل ہوں، بعض دفعہ بوڑھوں سے ہونے والی خطاوٴں سے نظر انداز کریں۔
حیوانات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رحیمانہ سلوک
اس دور میں جب کہ مسلمانوں کی شبیہ بگاڑ کر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے، مسلمانوں کو مسیحا کے بجائے قاتل، صلح پسند کے بجائے جنگجو، امن پسند کے بجائے شدت پسند کے عنوان سے متعارف کرنے کی پیہم کوشش جاری ہے، دشمنانِ اسلام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ مسلمان کبھی شدت پسند وجنگجو ہو ہی نہیں سکتا؛ کیونکہ اس کا رشتہ ایسے نبی کریم ا سے ملتا ہے، جو صرف انسانیت ہی کے لیے نہیں؛ بلکہ سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں، جن کی رحمت کا اثر صرف انسانوں تک ہی محدود نہ تھا؛ بلکہ اس سے متجاوز ہو کر آپ کا سایہٴ عاطفت ورحمت چرند پرند حیوانات تک کے لیے عام تھا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ جانوروں کے ساتھ نرمی کی ہدایات دیں، وہیں عمل کے ذریعہ بھی جانور کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کردکھا یا، آج جب کہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر کئی تنظیمیں بیدار ہورہی ہیں، کئی حکومتیں جانوروں کے تحفظ کے لیے سرگرم مہمیں چلارہی ہیں، جانوروں کے حقوق کی رعایت نہ کرنے والوں کے لیے کڑی سے کڑی سزائیں تجویز کی جارہی ہیں، ان قوانین کے پامال کرنے والوں کو قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑرہی ہیں، قربان جائیے نبیِ اکرم ا پر جنہوں نے آج سے چودہ صدی قبل حیوانات کے حقوق کے تحفظ اور ان کی حمایت کا اعلان فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو بھوکا رکھنے، اسے تکلیف دینے، اس پر سکت سے زائد بوجھ لادنے سے منع فرمایا، نیز جانور کو نشانہ بنانے، جانور پر لعنت کرنے والے کو مجرم قرار دیا، جانوروں کو تکلیف دینے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کی سختی میں سے شمار کیا ۔
جانور کے ساتھ رحم وکرم ان کے ساتھ نرمی کے بے شمار واقعات کتابوں میں مذکور ہیں؛ لیکن ہم چند واقعات واقوال کے نقل پر اکتفاء کرتے ہیں۔
نشانہ بازی
زمانہٴ جاہلیت میں جانوروں کو تکلیف دینے کی رائج صورتوں میں ایک اہم صورت زندہ جانور کو نشانہ بازی کے لیے مقرر کرنا تھا، غور کیجیے زندہ جانور کو جب تیروں کے ذریعہ چھلنی کیا جاتا ہوگا تو وہ کس قدر انھیں تکلیف ہوتی ہوگی، آپ ں نے اس سے منع فرمایا، ایک دفعہ ابن عمر ص قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے جو ایک زندہ پرندہ کو لٹکا کر نشانہ بازی کررہے تھے، وہ ابن عمر ص کو دیکھ کر متفرق ہوگئے، ابن عمر ص نے ان سے دریافت کیا: یہ کس نے کیا ہے؟ اس فعل کے مرتکب پر اللہ کی لعنت ہے،پھر ابن عمر ص نے آپ ں کا قول نقل کیا: اللہ کی لعنت اس شخص پر ہے جس نے نشانہ بازی کے لیے ذی روح کو استعمال کیا(مسلم: ۹۵۸، باب صبر البہائم) ایک دفعہ ابن عمر ص یحییٰ بن سعید ص کے پاس آئے تو دیکھا کہ ایک غلام مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کررہا ہے، ابن عمر ص نے اس مرغی کو کھول دیا، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، اس بچے کو ڈراوٴ! اس طرح پرندہ کو قید کرکے قتل کرنے سے روکو؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو قید کرکے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے(بخاری: ۵۵۱۴ مایکرہ من المثلة)
پرندہ اور اس کے والدین میں جدائیگی
اولاد سے فطری محبت جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں ودیعت کررکھی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ جانوروں کو بھی عطا کیا ہے، بعض طاقتور جانور تو اولاد کی جدائیگی پر حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں؛ لیکن جو جانور کمزور ہو اولاد سے وہ جدائیگی کے غم میں گھٹ جاتا ہے، اسی طرح کا ایک واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر میں پیش آیا، ابن مسعود ص فرماتے ہیں ہم سفر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت کے لیے تشریف لے گئے، اتنے میں ہم نے ایک سرخ پرندے کو اس کے چوزوں سمیت دیکھا، لہٰذا ہم نے بچوں کو اٹھالیا، ان چوزوں کی ماں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور اپنے بازوہلا کر کچھ کہنے لگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام سے پوچھا کس نے اس پرندے کے بچوں کو اس سے جدا کر کے تکلیف دی ہے، اس کے بچوں کو لوٹا دو (ابوداوٴد: ۳۶۷۵،کراہیةاحراق العدو بالنار)
مثلہ کی ممانعت
جانوروں کو زندہ رکھ کر اگر اس کے اعضاء وجوارح کو کاٹا جائے تو اسے کتنی تکلیف ہوگی؟ اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے، جانوروں کو جن ذرائع سے تکلیف دی جاتی، انھیں میں ایک طریقہ زمانہٴ جاہلیت میں مثلہ کا بھی رائج تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہٴ کار کی مذمت کی، اور اس کے مرتکب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ، جس شخص نے جانور کا مثلہ کیا، اس پر آپ ں نے لعنت فرمائی (بخاری: ۵۵۱۵ مایکرہ من المثلة) ایک دفعہ مثلہ زدہ گدھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرا تو آپ علیہ الصلاة والسلام نے اس کے مرتکب پر لعنت فرمائی (مسلم: ۲۱۱۷ باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ)
جانوروں پر احسان، مغفرت کا ذریعہ
کسی کی ضرورت کی تکمیل، کسی کی تکلیف کا دفعیہ، جس طرح اس کی ضرورت انسانوں میں پائی جاتی ہے، اسی طرح جانور بھی احسان کے مستحق ہوتے ہیں؛ بلکہ بے زبان جانور انسانوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی احسان کے مستحق ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی تکلیف بیانی کے لیے زبان نہیں رکھتے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں انسانوں کے ساتھ احسان کی تعلیم دی ہے، وہیں جانوروں کے ساتھ بھی احسان کی ترغیب دی ہے؛ بلکہ بعض خصوصی مواقع پر جانوروں کے ساتھ احسان کو مغفرت کا ذریعہ قرار دیا؛ چنانچہ آپ ں نے فرمایا: ایک راہ رو پیاس سے بے تاب ہوکر کنواں میں اتر کر پانی پی لیتا ہے، جب کنواں سے باہر نکلتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا پیاس کی شدت سے کیچڑ کھارہا ہے، اس شخص نے محسوس کیا کہ یہ کتا بھی میری ہی طرح پیاسا ہے، لہٰذا وہ شخص کنواں میں اترا، اور اپنے موزے میں پانی بھر لیا، اور کتے کو سیراب کیا، اس خدمت پر اللہ نے اس بندہ کی قدر دانی کی، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی، صحابہٴ کرام نے سوال کیا؟ کیا ہمیں جانوروں پر بھی احسان کرنے سے اجر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر ذی روح پر احسان کرنے سے اجر ملے گا (بخاری: ۶۰۰۹، باب رحمة الناس والبہائم) اس سے تعجب خیز واقعہ وہ ہے جو ابوہریرةص سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ پیاس کی شدت سے ایک کتا کنواں کے ارد گرد گھوم رہا تھا، قریب تھا کہ پیاس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوجائے، اچانک ایک گنہ گارعورت جو بنی اسرائیل کی تھی، اس نے اپنے موزے کو نکالا، اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی مغفرت فرمادی، (بخاری:۳۴۶۷) غور کرنے کا مقام ہے، ایسے جانورکے ساتھ رحم کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت کا ذریعہ قرار دیا ہے ، جسے بعض علماء نے نجس العین تک قرار دیا ہے، بعض علماء نے اگر کتا برتن میں منھ ڈال دے تو سات آٹھ دفعہ برتن کو دھونے کا حکم دیا ہے، اس کے بالمقابل جانوروں کے ساتھ بُرا سلوک بعض دفعہ انسانوں کو جہنم میں بھی لے جاتا ہے، ایک عورت ایک بلی کو تکلیف دینے کے سلسلے میں جہنم میں چلی گئی، اس عورت نے بلی کو باندھ دیا تھا، اس کو نہ کھلاتی تھی اور نہ ہی اس کو چھوڑتی تھی کہ باہر وہ اپنی غذا کا انتظام کرسکے، حتی کہ وہ کمزور ہوگئی اور مر گئی(مسلم: ۲۶۱۹)
جانوروں کے ساتھ نرمی کا معاملہ
نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی نرمی کا برتاوٴ کرتے تھے؛ بلکہ حضرات صحابہٴ کرام ث کو بھی اس کی تلقین فرماتے، ایک دفعہ ایک اونٹ بدک گیا، صحابہٴ کرام ث کے لیے اس اونٹ کو سنبھالنا دشوار ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے جس میں یہ اونٹ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کی طرف بڑھ رہے تھے، تو صحابہٴ کرا م ث نے کہا: یہ اونٹ کٹخنے کتے کی طرح ہوگیا ہے، یہ آپ پر حملہ آور ہوسکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ پر نظر التفات کیا تووہ اونٹ سجدہ ریز ہوگیا، آپ ں نے اس کی پیشانی پکڑی اور اسے کام پر لگادیا، یہ دیکھ صحابہٴ کرام ث کہنے لگے، جب جانور آپ کو سجدہ کرسکتا ہے، ہم انسان ہو کر آپ کو سجدہ کیوں نہ کریں، کسی انسان کے لیے سجدہ درست نہیں، اگر کسی انسان کے لیے سجدہ درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کا سجدہ کرے(مسند احمد: ۱۲۶۱۴) ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے، وہاں ایک اونٹ تھا، اس نے جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ رونے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آنسو پوچھے، وہ خاموش ہوگیا، آپ ں نے اس کے مالک کے سلسلہ میں دریافت کیا تو ایک انصاری صحابی نے کہا کہ میں اس کامالک ہوں، آپ ں نے فرمایا: کیا تم جانور کے سلسلہ میں اللہ سے نہیں ڈرتے، جس کا اللہ تمہیں مالک بنایا ہے، اس سے کام زیادہ لیتے ہو، اور بھوکا رکھتے ہو، (ابوداوٴد:۲۵۴۹)
ذبح میں احسان کا پہلو
جانور بھی بڑی حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، وہ بھی آثار وقرائن سے پتہ لگالیتے ہیں کہ اب ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے؛ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے سامنے چاقو وغیرہ تیز کرنے سے منع کیا، اس سے جانور کو گھبراہٹ ہوگی، نیز آپ ں نے ذبح میں احسان کے پہلو کو اپنانے کی بھی ترغیب دی کہ جانور کو مکمل طور پر ذبح کیا جائے، کہیں اسے تڑپتا ہوا نہ چھوڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کو لازم کیا ہے، جب تم قتل کرو تو اچھے انداز میں قتل کرو، جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، چھری کو تیز کر لیا کرو، اور مذبوح کو راحت پہونچاوٴ(مسلم : ۱۹۵۵) ایک صحابی نے فرمایا: یا رسول اللہ …! میں بکری کو ذبح کرتا ہوں، اس پر رحم بھی آتا ہے، آپ ں نے فرمایا: اگر تم نے بکری پر رحم کیاتو اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا(مسند احمد: ۱۵۵۹۲)
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک صحابی جانور کو لٹا کر چھری تیز کرنے لگے، آپ ں نے فرمایا: تم اس جانور کو کئی موتوں سے مارنا چاہتے ہو، لٹانے سے پہلے ہی چھری کیوں نہ تیز کی (مستدرک حاکم: ۷۵۶۳)
ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس نے مذبوحہ چڑیا ہی پر رحم کیوں نہ کیا ہو، اللہ تعالیٰ روزِ محشر اس پر رحم فرمائیں گے، (طبرانی کبیر:۷۹۱۵) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور پر لعنت کرنے سے بھی منع فرمایا، ایک سفر میں ایک صاحب جانور پر لعنت کرنے لگے، آپ ں نے فرمایا: جس نے اس اونٹنی پر لعنت کی ہے، وہ ہمارے ساتھ نہ آئے (مسند احمد: ۱۹۷۶۵)
الغرض! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جانوروں پر رحم کے واقعات سے بھر ی پُری ہے، یہ چند نقول ہیں جس سے ہمیں عبرت ونصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم خلقِ خدا کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کریں۔
$$$
معذورین کے حقوق ومراعات: اسلامی نقطئہ نظر
انسانی معاشرے کا وہ حصہ جسے مادہ پرستی کے اس دور میں نظر انداز کردیا گیا ہے، ”معذورین“ کے عنوان سے جانا جاتا ہے، سماج کے اس طبقہ میں وہ افراد شامل سمجھے جاتے ہیں، جو رفتارِ زمانہ اور زندگی کی دوڑ میں اپنی طبعی دائمی اور پیدائشی مجبوریوں کی بناء پر پیچھے رہ گئے ہوں، بینائی، شنوائی سے محروم، بے دست وپا دماغی طور پر مفلوج، دائمی روگ میں مبتلا افراد عام طور پر اس میں داخل مانے جاتے ہیں۔
یوں تو دنیا بھر میں ان کے تعلق سے ہمدردی کی لہرچل پڑی ہے، ایک عالمی ادارہ باقاعدہ طور پر ان کا نگران سمجھاجاتا ہے، تاہم یہ حقیقت ہے کہ سماج کا یہ طبقہ جس قدرہمدردی اور توجہ کا مستحق ہے، فی الحال عملی طور پر محرومی کے شکوہ سے دوچار ہے، ان حضرات کا قضیہ وقتی عبوری اقدامات سے حل نہیں ہوسکتا، ان کے مستقل حل کے لیے مضبوط حکمتِ عملی اور بڑے دیرپا اقدامات ناگزیر ہیں، ویسے تو معذورین کے تعلق سے جذبہٴ ترحم انسانی فطرت کا تقاضا اور لازمہ ہے؛ لیکن صرف اسلام نے اس جذبہ کو صحیح رخ دیا ہے، معذورین کے مختلف حقوق ومراعات کووضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں، قانونِ اسلامی کا ایک معتدبہ حصہ ان کے حقوق سے متعلق مختص کردیا گیا ہے، ذیل میں اسلامی نقطہٴ نظر سے معذورین کے معاشی، معاشرتی، مذہبی اورسیاسی وحربی حقوق ومراعات پر قدرے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جاتی ہے۔
معاشی حقوق ومراعات:
اسلام نے معذور افراد پر کسی طرح کا معاشی بار نہیں رکھا ہے، کسبِ معاش کی الجھنوں سے انھیں آزاد رکھا ہے، وہ تمام قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ جن میں کمزوروں، بے سہاروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان پر انفاق کی تلقین کی گئی ہے، معذورین بھی ان کے مفہوم میں داخل ہیں، کتبِ فقہ میں نفقہٴ اقارب کے عنوان سے جو تفصیلات بکھری پڑی ہیں؛ ان کا حاصل بھی یہی ہے کہ ان معذورین کے معاش وزیست میں تعاون ہو، علامہ کاسانی رحمہ اللہ نفقہٴ اقارب کے وجوب (بعض رشتہ داروں کے نفقہ کا بعض رشتہ داروں پر وجوب) کی ایک نہایت ہی اہم اور بنیادی شرط کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
”خاندان کے کچھ مفلس رشتہ دار، اپاہج ولاچار ہوں یامعذور ومفلوج ہوں یا مجنون واندھے پن کا شکاہوں، دست وپا بریدہ یا شل زدہ ہوں تو ان کا نفقہ معہود ترتیبِ فقہی کے اعتبار سے خاندان کے دیگر صحیح الاعضاء متمول رشتہ داروں پر واجب ہوتا ہے“ (بدائع الصنائع: ۴/۴۴۶)
معذورین کے حقوق کی یہ رعایت خاندانی سطح سے تھی، اسلامی دورِ درخشاں میں حکومتی سطح پر معذورین کی نگرانی اور دیکھ بھال کا جو نظم تھا وہ حددرجہ بے مثال اور قابلِ رشک تھا۔
علامہ شبلی ”الفاروق“ میں لکھتے ہیں: (حضرت عمر کے زمانے میں) عام حکم تھا اور اس کی ہمیشہ تعمیل ہوتی تھی کہ ملک کے جس قدر اپاہج، ازکاررفتہ، مفلوج وغیرہ ہوں سب کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کردی جائیں، لاکھوں سے متجاوز آدمی فوجی دفتر میں داخل تھے جن کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی، بلاتخصیص مذہب حکم تھا کہ بیت المال سے ان کے روزینے مقرر کردیے جائیں (الفاروق: ۲/۱۹۶، ۱۹۷)
غرض حکومتی سطح پر جو معاشی مراعات مسلم معذورین کو حاصل تھیں، پوری رواداری کے ساتھ غیرمسلم معذور رعایا بھی نفع اندوز ہوتی تھی، ایک اور مقام پر علامہ موصوف رقمطراز ہیں:
یہ جو قاعدہ تھا کہ جو مسلمان اپاہج اور ضعیف ہوجاتا تھا اور محنت ومزدوری سے معاش نہیں پیدا کرسکتا تھا، بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہو جاتا تھا، اسی قسم کی؛ بلکہ اس سے زیادہ فیاضانہ رعایت ذمیوں کے ساتھ بھی تھی (الفاروق: ۲/۱۵۷)
سید قطب شہید مرحوم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت عمر نے ایک بوڑھے نابینا کو ایک دروازے پر بھیک مانگتے دیکھا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ یہودی ہے، آپ نے اس سے پوچھا: تمھیں کس چیز نے اس حالت تک پہنچایا؟ اس نے جواب دیا: جزیہ، ضرورت اور بڑھاپا، عمر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور اتنا کچھ دیا جو اس وقت کی ضروریات کے لیے کافی تھا، پھر آپ نے بیت المال کے خزانچی کو کہلا بھیجا کہ اس شخص اور اس جیسے دوسرے اشخاص کی طرف توجہ کرو، خدا کی قسم یہ انصاف کی بات نہیں کہ ہم اس کی جوانی کی کمائی کھائیں اور بڑھاپے میں اسے دُھتکار دیں․․․․ آپ نے اس فرد اور اس جیسے دوسرے افراد کو جزیہ سے بری قرار دے دیا، جب آپ نے دِمَشق کا سفر کیا تو ایک ایسی بستی سے گذرے جہاں کچھ جُذام کے مریض عیسائی بستے تھے، آپ نے حکم دیا کہ ان کو زکوٰة کی مد سے امداد دی جائے اور ان کے لیے راشن جاری کیے جائیں (العدالة الاجتماعیة فی الاسلام اردو: ۳۷۸)
ایک صحابی جن کی بینائی میں نقص تھا اور کچھ ذہن بھی متاثر تھا وہ خریدوفروخت میں اکثر دھوکا کھاجاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اور ان جیسے افراد کی خاطر، خریدوفروخت میں خیارِ شرط مشروع فرمایا، جس کی رو سے بیچنے والے یاخریدنے والے کو بیع کی قطعیت کے لیے تین دن کی مہلت مل جاتی ہے (تکمہ فتح الملھم: ۱/۳۷۸، ۳۸۲)
معاشرتی حقوق ومراعات:
اسلام نے معذور افراد کو الگ تھلگ کسمپرسی کی زندگی گذارنے کے بجائے اجتماعی معاشرت کا حوصلہ دیا، ان کے مقام ومرتبہ کے مناسب معاشرتی کام بھی تفویض کیے، احساسِ کمتری اور معاشرتی سردمہری کا شکار بننے سے ان کو تحفظ فراہم کیا، عبداللہ بن ام مکتوم ایک نابینا صحابی تھے، ایک دفعہ وہ بغرضِ دریافت مسئلہ بارگاہِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ایسے وقت حاضرہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اعیانِ قریش سے اسلام پر گفتگو فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ بے وقت سوال پوچھنا ناگوار ہوا، بس اتنا ہونا تھا کہ سورہٴ عبس کا نزول ہوا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس رویہ کے تعلق سے ہلکا سا عتاب کیا گیا، روایات میں ہے کہ اس کے بعد جب وہ نابینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت تعظیم وتکریم سے پیش آتے اور فرماتے: خوش آمدید اے وہ ساتھی جس کے بارے میں پروردگار نے مجھ پر تنبہ فرمایا۔
رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہٴ احد کے لیے روانہ ہوئے تو اپنی جگہ انہی نابینا ابن ام مکتوم کو اپنا نائب فرمایا (السیرة النبویة لابن ہشام: ۳/۱۷)غور کیجیے کتنا بڑا منصب ایک نابینا شخصیت کے سپرد کیا جارہا ہے اور تو اور ایک جُذامی آدمی کو بھی آپ نے اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرمایا ہے (تکملہٴ فتح الملہم: ۴/۳۷۲، نزھة النظر فی توضیح نخبة الفکر: ۴۵) سعید بن یربوع ایک صحابی تھے جن کی آنکھیں جاتی رہی تھیں، حضرت عمر نے ان سے کہا کہ آپ جمعہ میں کیوں نہیں آتے انھوں نے کہا: میرے پاس آدمی نہیں کہ مجھ کو راستہ بتائے، حضرت عمر نے ایک آدمی مقرر کردیا جو اُن کے ساتھ رہتا تھا (الفاروق: ۲/۲۰۵) حضرت ابوبکر کی خلافت کے زمانے میں حضرت عمر مدینہ کی ایک اندھی عورت کی خبرگیری کیا کرتے تھے، پھر ایسا ہونے لگا کہ جب بھی آپ پہنچتے یہ دیکھتے ہیں کہ ابوبکر آکر اس کے کام کر جاتے ہیں (اسلام میں عدلِ اجتماعی: قطب شہید: ۳۸۶)
مذہبی حقوق ومراعات:
بہت سی وہ عبادات جو جسمانی تعب ومشقت کی متقاضی ہیں، اسلام نے معذور حضرات کو یا تو ان سے بالکلیہ مستثنیٰ رکھا ہے یا پھر ان کا متبادل تجویز کیا ہے، جمعہ وجماعات کی لازمی حاضری سے معذور حضرات مستثنیٰ ہیں، مالدار ہوں؛ مگر اپاہج ولاچار ہوں تو عبادتِ حج میں، حجِ بدل اور روزہ میں فدیہ کی شکل رکھی گئی ہے، جہاد جیسی عظیم عبادت سے بھی یہ حضرات مستثنیٰ رکھے گئے ہیں، ارشادِ باری ہے: اندھے پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے (سورہٴ فتح: ۱۷)
بصارت سے محرومی اور لنگڑے پن کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذوری ہے، یہ دونوں عذر تو لازمی ہیں، ان اصحابِ عذر یا ان جیسے دیگر معذورین کو جہاد سے مستثنیٰ کردیا گیا، حد تو یہ کہ یہ معذور حضرات جو اپنی معذوری کے سبب جہاد سے پیچھے رہ گئے، ان کے لیے بھی مجاہدین کے برابر اجروثواب کا وعدہ گھر بیٹھے حاصل ہے۔
عزوہٴ تبوک کے موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تمہارے پیچھے مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر بھی چلتے ہو تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں، صحابہٴ کرامنے پوچھا یہ کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ وہ مدینہ میں بیٹھے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حَبَسَھُمُ الْعُذْرُ: عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے (بخاری شریف: کتاب الجہاد)
سیاسی وحربی حقوق ومراعات:
اسلام سے قبل جنگ میں مقاتلین اور غیرمقاتلین کے درمیان کوئی امتیاز نہ تھا، دشمن قوم کے ہرفرد کو دشمن سمجھا جاتا تھا اور اعمالِ جنگ کا دائرہ تمام طبقوں اور جماعتوں پر یکساں محیط تھا، عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی کوئی بھی اس ہمہ گیر دست درازی سے مستثنیٰ نہ تھا (الجہاد فی الاسلام: ۱۹۸)اسلام نے اس سلسلہ میں سب سے پہلی چیز یہ کی کہ محاربین (Belligerents) کو دوطبقوں میں تقسیم کردیا، ایک اہلِ قتال (Combatants) دوسرے غیر اہلِ قتال (Non Combatants) اہل قتال وہ ہیں جو عملاً جنگ میں حصہ لیتے ہیں یا عقلاً وعرفاً حصہ لینے کی قدرت رکھتے ہیں یعنی جوان مرد اور غیراہلِ قتال وہ ہیں جو عقلاً وعرفاً جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے، یا عموماً نہیں لیا کرتے، مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی، اندھے، مقطوع الاعضاء، مجنون، سیاح، خانقاہ نشین زاہد، معبدوں اور مندروں کے پجاری اور ایسے ہی دوسرے بے ضرر لوگ، اسلام نے طبقہٴ اوّل کے لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے اور طبقہٴ دوم کے لوگوں کو قتل کرنے سے منع کردیا ہے (الجہاد فی الاسلام: ۲۲۳)
آج معذورین کے حقوق کے علمبردار اور دعویدار طاقتیں اپنی طاقت کے نشہ میں نہ صرف معذورین سمیت بستی کی بستی اور ملک کے ملک اجاڑ رہی ہیں؛ بلکہ ہلاکت خیز کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ذریعہ، نسلوں؛ معذورین کی افزائش وآبادی میں اضافہ کا سامان بہم پہنچارہی ہیں، ناطقہ سربہ گریباں اور خرد معرکہٴ حیرت بنی ہوئی ہے کہ ان کے قول وعمل کے اس تفاوت وتضاد کی آخر کیا توجیہ کی جائے۔
اس کائناتِ ارضی وسماوی میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات وہدایات تضاد ونفاق کے جراثیم سے مکمل پاک ہیں اور اسلام ہی روئے زمین پر وہ اکیلا مذہب ہے جو معذورین سمیت پوری انسانیت کا مسیحا ہے؛ آج شرط ہے اس کے نظام کو اپنانے اور برتنے کی ہے۔
***
میت کے حقوق اوراُن کی ادائیگی
حافظ محمد زاہد
روزِ اوّل سے یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اِس دنیا میں آیا ہے اُس نے ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے۔اس حوالے سے اسلام کی حقانیت ملاحظہ ہو کہ اسلام میں اس دنیا میں آنے والوں، یعنی زندہ لوگوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے جانے والوں، یعنی مردوں کے حقوق بھی متعین کیے گئے ہیں، جن کو ادا کرنا زندہ لوگوں کے ذمے ہے۔ذیل میں ان حقوق اور ان کی ادائیگی کا طریقہ بیان کیاجارہا ہے۔
قریب المرگ شخص کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرنا
جس شخص پر موت کے آثار واضح ہونے شروع ہو جائیں اس کے پاس موجود ورثا کو چاہیے کہ وہ اس کے سامنے لا الٰہ الا اللہ کا ورد شروع کردیں، تاکہ ان کو دیکھ کر قریب المرگ شخص بھی لا الٰہ الا اللہ پڑھنا شروع کردے۔نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے قریب المرگ لوگوں کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرنے کا حکم دیا ہے۔حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم اپنے قریب الموت (بھائیوں)کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کیاکرو۔“(ترمذی)
لا الٰہ الا اللہ کا انسان کا آخری کلام ہونابہت فضیلت کا باعث ہے۔حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے ‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص کا آخری کلام لا الٰہ الا اللہ ہو گا وہ جنت میں جائے گا۔ “(ابوداوٴد)
تلقین کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قریب المرگ شخص کو کلمہ طیبہ پڑھنے کا نہیں کہنا چاہیے، ا س لیے کہ اُس وقت وہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں ہوتا اور ہوسکتا کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھنے سے انکارکر دے یا کوئی ایسی بات کہہ دے جو اس کے ایمان کے حوالے سے نقصان دہ ہو۔البتہ اس کے پاس موجود اشخاص کو خود کلمہ کا ورد کرنا چاہیے، تاکہ اُن کو دیکھ کروہ بھی کلمہ پڑھنا شروع کردے۔
جان کنی کے وقت سورہٴ یٰسین کی تلاوت کرنا
قریب المرگ شخص کا دوسرا حق یہ ہے کہ اُس کے پاس سورہٴ یٰسین کی تلاوت کی جا ئے ،تاکہ اگراُس پر”غَمَرَاتُ الْمَوْت“ یعنی موت کی سختیاں ہیں تو وہ کم ہوجائیں اور اس کی روح اس کے بدن سے آسانی سے نکل کر اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی جائے۔حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم اپنے مرنے والوں پر سورئہ یٰسٓ پڑھا کرو۔“(ابوداوٴد)
انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا اور اس کی فضیلت
جب کسی کی وفات کا علم ہو تو اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا چاہیے۔یہ ایک طرح سے اللہ کی رضا پر راضی ہونے کی علامت ہے اور دوسری طرف اس حقیقت کااعتراف ہے کہ اس شخص کی طرح ہم سب نے بھی اپنے خالق کے پاس چلے جانا ہے۔
اس حوالے سے ہمارے ہاں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون صرف کسی کی موت پر پڑھنا مسنون ہے‘حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی نقصان کی صورت میں اسے پڑھا مسنون عمل ہے ۔اس کے علاوہ احادیث میں اس کے فضائل بھی موجود ہیں۔مثلاً حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب کسی انسان کا بیٹا فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہتے ہیں:تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کرلی؟فرشتے کہتے ہیں:ہاں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:کیا اُس کے دل کے میوہ کو بھی قبض کر لیا؟فرشتے کہتے ہیں:ہاں۔اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں :اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟فرشتے کہتے ہیں:اُس نے آپ کی حمد بیان کی اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بناوٴ اور اس کا نام”بیت الحمد “رکھو۔“(ترمذی)
اس کے علاوہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی فضیلت سے اللہ تعالیٰ اس سے بہتر بدل عطا فرمادیتے ہیں۔اس حوالے سے روایات میں حضرت اُم سلمہ کا واقعہ مذکور ہے۔جن کو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کی بدولت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہوا۔
میت کو غسل دینا
جب انسان فوت ہوجائے تو سب سے پہلے اُس کی آنکھیں بند کریں‘اس کے ہاتھ سیدھے کریں اور اُس کی ٹانگیں ساتھ جوڑ دیں ۔اس لیے کہ مرنے کے بعد انسان کا جسم ٹھنڈا ہوکر اکڑ جاتا ہے اور پھر وہ جس حالت میں ہو اسی حالت میں رہتا ہے۔اس کے بعد میت کو غسل دینے کا مرحلہ آتا ہے۔
میت کو غسل دینے کا طریقہ
غسل دینے والے دوآدمی ہونے چاہئیں‘ ایک غسل دینے والا اور دوسرا اُس کی مدد کرنے والااور اُن کو چاہیے کہ اپنے ہاتھوں پر دستانے پہن کر میت کو غسل دیں۔سب سے پہلے میت کو کسی تختہ‘جو عموماً مساجد میں موجود ہوتا ہے‘پر قبلہ رخ کرکے لٹایا جائے ۔ پھرپانی میں بیری کے پتے ڈال کر گرم کیا جائے۔میت کے کپڑے اتارکر اس کی شرم گاہ پر کسی کپڑے کو رکھ دیا جائے۔پھر میت کے پیٹ کو نرمی سے دبایاجائے ،تا کہ اگر کوئی گندگی پیٹ میں موجود ہے تو وہ نکل جائے۔پھر میت کی شرم گاہ کو اچھی طرح دھو کر صاف کیا جائے۔پھر میت کو وضو کرایا جائے لیکن منہ اور ناک میں پانی نہ ڈالا جائے بلکہ کپڑا یا روئی گیلی کرکے پہلے منہ ‘دانت اور پھر ناک اچھی طرح صاف کی جائے اور پھر باقی وضو کرایا جائے۔اس کے بعد میت کو بائیں پہلو پر کرکے دائیں پہلو پر پانی بہایا جائے، اور پاوٴں تک اچھی طرح دھو دیا جائے،پھر دائیں پہلو پر کرکے بائیں پہلو کو دھویا جائے۔میت کو غسل دیتے وقت صابن کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔میت کے بالوں کو بھی اچھی طرح دھویا جائے۔اس کے بعد میت کو خشک کپڑے سے صاف کیا جائے، تاکہ پانی کے اثرات ختم ہو جائیں اور آخر میں میت کو کافور یا کوئی اورخوش بو لگائی جائے۔
یہ ہے میت کو غسل دینے کا طریقہ ۔نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق میت کو اس طرح تین یا پانچ مرتبہ غسل دینا چاہیے۔حضرت اُم عطیہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”اس کو طاق یعنی تین یا پانچ مرتبہ غسل دینا اور پانچویں مرتبہ کافور یا اور کوئی خوش بو لگا لینا۔“(مسلم)
کافور لگانا مسنون اور مستحب عمل ہے اور اس کے کئی فوائدہیں: اس کی تاثیر ٹھنڈ ی ہوتی ہے جو میت کے جسم کے لیے مفید ہوتی ہے۔اس کی خوش بو ایسی ہے جس سے کیڑے مکوڑے میت کے جلدی قریب نہیں آتے۔
میت کو غسل دینے کی فضیلت
میت کو غسل دینے کا طریقہ سیکھنا ایک تو اس لیے ضروری ہے کہ یہ میت کا ورثا کے ذمے حق ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ میت کو غسل دینا فضیلت کا باعث بھی ہے۔احادیث میں میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے والے کو گناہوں سے ایسے پاک قرار دیا گیا ہے جیسے نومولود اپنے پیدائش کے دن گناہوں سے پاک صاف ہوتاہے۔حضرت علی سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے میت کو غسل دیا‘اس کو کفن دیا‘اس کو خوش بو لگائی‘اس کو کندھا دیا‘اس پر نماز(جنازہ)پڑھی اور اس کے راز کو ظاہر نہیں کیا جو اس نے دیکھا تو وہ غلطیوں (اور گناہوں)سے ایسے پاک صاف ہوجائے گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے آج ہی جناہے۔“(ابن ماجہ)
میت کو کفن پہنانا
میت کو غسل دینے کے بعد میت کو کفن پہنایا جائے گا۔کفن کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ایک نصیحت یہ ہے کہ کفن سفید رنگ کاصاف ستھرا کپڑا ہو۔ رسو ل اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
”تم سفید کپڑے پہنا کرو‘ وہ تمہارے لیے اچھے کپڑے ہیں اور انہی میں اپنے مرنے والوں کو کفن دیا کرو۔“(ابوداوٴد)
کفن کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی دوسری نصیحت یہ ہے کہ وہ زیادہ قیمتی نہ ہو،اس لیے کفن کے لیے مہنگا نہیں،بلکہ درمیانہ کپڑا ہونا چاہیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”زیادہ قیمتی کفن استعمال نہ کرو، کیوں کہ وہ جلدی ختم ہو جاتا ہے۔“(ابوداوٴد)
مستحب ہے کہ مردوں کو تین کپڑوں میں کفن دیا جائے :بڑی چادر(لفافہ) چھوٹی چادر اورقمیصجب کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دینا مستحب ہے: بڑی چادر(لفافہ)چھوٹی چادراورقمیص دوپٹہ (اوڑھنی) اورسینہ بند ۔
کفن کے حوالے سے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مجبوری کی حالت میں ایک کپڑے کا کفن بھی ہو سکتا ہے اور پرانے اور سفید رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ کے کپڑے کا کفن بھی دیا جا سکتا ہے۔
کفن پر دعائیہ کلمات لکھنا کیسا ہے؟
بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کفن پر کلمہٴ طیبہ‘قرآنی آیات، آیت کریمہ اور مختلف دعائیہ کلمات لکھتے ہیں، حالاں کہ ایسا کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کفن پر آیات اوردوسرے مقدس کلمات کو لکھنے سے ان کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے، اس لیے کفن پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے۔
میت کو لے جانے میں جلدی کرنا
غسل اور کفن دینے کے بعد میت کو جلد سے جلدنماز جنازہ کے لیے لے جانا بھی میت کا حق ہے ۔ بہت دیر تک رشتہ داروں کو میت کا دیدار کرانے کے لیے انتظار کرنا مناسب نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہسے مروی ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جنازے کو تیز لے جایا کرو ۔اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو (قبر اس کے لیے) خیر ہے، جہاں تم اس کو جلدی پہنچا دو گے اور اگر اس کے سوا کوئی اور صورت ہے تو ایک برا (بوجھ تمہارے کندھوں پر) ہے تو (تم تیز چل کر جلدی) اس کو اپنے کندھوں سے اتار دو گے۔“(بخاری)
نماز ِجنازہ اداکرنا
نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے اور چند لوگوں کے اداکرنے سے یہ سب کی طرف سے کفایت کرجائے گا ‘لیکن اگر کافی تعداد میں لوگ نمازِ جنازہ پڑھیں گے اور اللہ سے اس میت کی بخشش اور بلندیٴ درجات کی دعا اور سفارش کریں گے تو یہ میت کے حق میں بھی بہتر ہوگا اور پڑھنے والے بھی اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
” جس میت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نماز پڑھے، جن کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور وہ سب اللہ کے حضور اس میت کے لیے سفارش کریں تو ان کی یہ سفارش میت کے حق میں ضرور قبول ہو گی۔ “(مسلم)
نماز جنازہ پڑھانے کا حق دار کون؟
یہاں یہ بھی نوٹ کرلیں کہ نمازجنازہ پڑھانے کے حق دار میت کے قریبی ورثا ہیں ‘ بالخصوص والدین کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق دار بیٹا ہے …اس حوالے سے یہ نوٹ کریں کہ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگوں کو نمازِ جنازہ کا طریقہ اور جنازہ کی دعا یاد نہیں ہے۔ہمیں چاہیے کہ نمازِ جنازہ اوراس کی دعا کو سیکھیں اور اپنے والدین اور ورثا کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کریں۔
جنازے کے ساتھ جانا اور جنازے کوکندھا دینا
نمازِ جنازہ اداکرنے کے بعد میت کو دفنانے کے لیے قبرستان لے جایا جاتا ہے ۔میت کے ساتھ قبرستان جانا اور جنازے کو کندھا دینا ایک طرف میت کا حق ہے تو دوسری طرف بہت اجر وثواب کا باعث بھی۔اس لیے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جنازے کے ساتھ جانے‘نمازِ جنازہ پڑھنے اور دفنانے تک میت کے ساتھ رہنے والے کو اُحد پہاڑ جتنے دو قیراط اجر وثواب کا مستحق قرار دیا ہے۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
”جو آدمی ایمان کی صفت اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور اُس وقت تک جنازے کے ساتھ رہے جب تک کہ اُس پر نماز پڑھی جائے اور اس کے دفن سے فراغت ہو تو وہ ثواب کے دو قیراط لے کر واپس ہو گا‘ جس میں سے ہر قیراط گویااُحد پہاڑ کے برابر ہو گا۔ اور جو آدمی صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے تو وہ ثواب کا ایک قیراط لے کر واپس ہو گا۔ “(بخاری)
جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ اور اس کی فضیلت
ہر اچھے کام کو دائیں طرف سے شروع کرنا فضیلت کا باعث ہے اس لیے سب سے پہلے میت کی چارپائی کے دائیں پائے کو کندھا دیا جائے اور پھر ساتھ ساتھ پیچھے آتے ہوئے پچھلے پائے کو کندھا دیا جائے۔اس کے بعد چارپائی کے آگے والے بائیں پائے کو کندھا دیا جا ئے اور پھر ساتھ ساتھ پیچھے آتے ہو ئے پچھلے پائے کو کندھا دیاجائے۔ایک دفعہ چاروں طرف کندھا دینا مسنون عمل ہے۔اس حوالے سے حضرت عبداللہ بن مسعود کاقول ملاحظہ ہو:
”جو جنازے کے ساتھ چلے اس کو چاہیے کہ چارپائی کے ہر طرف (پائے)کو کندھا دے، اس لیے کہ یہ مسنون ہے۔پھر اگر چاہے تو مزید کندھا دے اور اگر چاہے تو نہ دے۔“(ابن ماجہ)
جنازے کو کندھا ایک طرف میت کا حق ہے تو دوسری طرف یہ انسان کے کبیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔اس حوالے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا قول مبارک ملاحظہ ہو:
”جس نے جنازے کے چاروں جانب کندھادیا تو اللہ تعالیٰ (جنازہ کو کندھا دینے کو)اس کے چالیس کبیرہ گناہوں کا کفارہ بنا دیں گے۔“(مجمع الزوائد)
عورت کی میت کو بھی ہر شخص کندھا دے سکتا ہے اس میں محرم ‘غیر محرم کا کوئی فرق نہیں ہے‘البتہ عورت کی میت کو قبر میں اتارنے کی ذمہ داری محرم ہی پوری کرے۔
جنازے کے احترام میں کھڑا ہونا کیسا ہے؟
احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ شروع زمانہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جنازہ کے احترام میں کھڑے ہوا کرتے تھے‘ لیکن ایک بار جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہوئے تو پاس موجود ایک یہودی نے کہا کہ ہم بھی ایسا کرتے ہیں۔اُس وقت سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہودیوں کی مخالفت میں جنازہ کے لیے کھڑے ہونے سے منع فرمادیا۔حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے، یہاں تک کہ میت کو لحد میں اتار دیا جاتا۔ایک مرتبہ ایک یہودی کا گزر ہوا(اور آپ صلی الله علیہ وسلم جنازہ کے احترام میں کھڑے تھے)۔اُس یہودی نے کہا کہ ہم بھی ایسا کرتے ہیں۔پس نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فوراً بیٹھ گئے اور فرمایا:(جنازہ دیکھ کر)اِن کی مخالفت میں بیٹھے رہو(اور کھڑے نہ ہو)۔“(ابوداوٴو)
آج بھی اگر کوئی جنازہ کو دیکھ کر میت کے احترام کی نیت سے کھڑا ہوجاتا ہے تو ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے‘لیکن اولیٰ یہی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طرزِعمل کو اپنایا جائے۔
میت کو دفن کرنا اور مٹی ڈالنا
میت کوتیار کی گئی قبر کے پاس رکھا جائے ۔اگر قبر میں کوئی چٹائی یا کپڑا بچھا لیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر کوئی قریبی رشتہ دار احتیاط کے ساتھ میت کو قبر میں اتارے۔ میت کو قبر میں اتارتے وقت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ((بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی مِلَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ)) پڑھنا چاہیے اور اگر کسی کو یہ یاد نہ ہوتو بسم اللہ پڑھ لے۔
میت کو قبر میں اتارنے کے بعد اس پر مٹی ڈالی جاتی ہے۔وہاں موجود لوگوں کو چاہیے کہ وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے عمل کے مطابق تین بار مٹھی بھر کر سر والی طرف مٹی ڈالیں۔علمائے کرام نے لکھا ہے کہ پہلی دفعہ﴿مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ﴾‘ دوسری دفعہ ﴿وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ﴾‘اور تیسری دفعہ ﴿وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْرٰی﴾پڑھنا چاہیے۔
دفنانے کے بعد دعا کرنا
جب میت کو مکمل طور پر دفنادیا جائے تو پھر وہاں موجود لوگوں کو چاہیے کہ میت کی بخشش اور اس کی استقامت کے لیے دعاگو ہوں، اس لیے کہ اب اُس کے اصل امتحان کا وقت شروع ہو گیا ہے۔حضرت عثمان غنی اس حوالے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے معمول کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے:”اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو،اس لیے کہ اِس وقت اُس سے سوال کیا جارہا ہے۔“(ابوداوٴو)
اس کے علاوہ بھی ورثا اور خاص کر اولاد کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی بخشش کے لیے ہر وقت دعا گو ہوں اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اس لیے کہ اولاد کے نیک اعمال کا ثواب فوت شدہ والدین کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جاتا ہے۔
میت کے لواحقین سے تعزیت کرنا
تعزیت کا عام فہم معنی یہ ہے کہ میت کے لواحقین او راس کے اہل خانہ سے ایسے کلمات کہنا جن کو سن کر اُن کا صدمہ کچھ کم ہوجائے ۔تعزیت کرنا بھی زندہ لوگوں کے ذمے ایک فرض ہے، جس کی بہت فضیلت ہے۔نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو کوئی اپنے موٴمن بھائی کی مصیبت پر تعزیت کرے گا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے قیامت کے روز عزت کا تاج پہنائے گا۔“(ابن ماجہ)
ہمارے معاشرے میں تعزیت بھی صرف رسماً کی جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ تعزیت کومیت کا حق سمجھ کر کریں، تاکہ مذکورہ اجرکے حق دار بن سکیں۔
میت کے ذمے واجب الادا قرض کو ادا کرنا
میت کی تدفین اور باقی معاملات سے فراغت کے بعد ورثا کو چاہیے کہ میت کے ذمے اگرکوئی قرض ہے تو اس کی جلد ادا ئیگی کی فکر کریں۔اس لیے کہ جب تک قرض ادا نہیں ہوجاتا انسان کی روح معلق رہتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے‘رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”موٴمن کی روح اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک اس کا قرض ادا نہ کر دیا جائے۔“(ابن ماجہ)
قرض ادا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر قرض ادا نہ کیا گیا تو قیامت کے دن اس قرض کے بدلے میں اِس میت کی نیکیاں لے لی جائیں گی اوراس طرح مقروض صرف قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے جنت سے محروم کر دیا جائے گا۔اسی وجہ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس کی روح اُس کے جسم سے اس حال میں جدا ہوئی کہ وہ تین چیزوں تکبر دھوکہ دہی اورقرضہ سے بچا رہا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔“(ابن ماجہ)
میت کی طرف سے حج کرنا
اگر کسی نے حج کرنے کی نذر مانی ‘لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی وفات پا گیاتواب اس کے ورثا پر لازم ہے کہ وہ اُس کی اِس نذر کو پورا کریں۔اس لیے کہ یہ بھی میت کے ذمے قرض ہے، جسے ادا کرنا ورثا پر لازم ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا کہ میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، لیکن وہ حج کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئی۔کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”ہاں‘اس کی طرف سے حج کرو۔تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا نہ کرتی؟(یہ نذر اللہ کا قرض ہے‘لہٰذا) اللہ کا قرض ادا کرو، اس لیے کہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔“(بخاری)
اس کے علاوہ اگر نذر نہ بھی مانی ہو تب بھی اولاد اپنے والدین یا قریبی رشتہ دار کی طرف سے حج کرسکتے ہیں ‘اس کا اجر و ثواب ان شاء اللہ تعالیٰ میت کو ضرورپہنچے گا۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے انسان اپنا فرض حج ادا کرے اور بعد میں والدین یا رشتہ دارکی طرف سے حج یا عمرہ کرے۔
میت کے قضا روزوں اور نمازوں کا فدیہ اداکرنا
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے روزہ رکھنے کی نذر مانی اور روزے رکھنے سے پہلے وفات پا گیا تو اس کے ورثا نذر کے روزوں کو بالفعل رکھ سکتے ہیں‘ لیکن رمضان کے فرض روزوں اور فرض نمازوں کو بالفعل ادا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اگر ممکن ہو تو حساب کرکے میت کی طرف سے فی روزہ اور فی نماز صدقہ فطر کے برابر فدیہ اداکریں۔اس حوالے سے مولانا محمد یوسف لدھیانوی کا جواب ملاحظہ ہو:
”فرض نماز اور روزہ ایک شخص دوسرے کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا‘البتہ نماز روزے کا فدیہ مرحوم کی طرف سے اس کے وارث اداکرسکتے ہیں۔پس اگر آپ اپنی والدہ کی طرف سے نمازیں قضا کرنا چاپتی ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس گنجائش ہو تو ان کی نمازوں کاحساب کرکے ہر نماز کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ادا کریں۔وتر کی نماز سمیت ہر دن کی نمازوں کے چھ فدیے ہوں گے۔ویسے آپ نوافل پڑھ کر اپنی والدہ کو ایصالِ ثواب کر سکتی ہیں۔“(آپ کے مسائل اور ان کا حل)
میت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا
فوت شدہ قریبی رشتہ داروں اور خاص کر فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقہ وخیرات کرنا فوت شدگان کے لیے بھی باعث ثواب ہے اور صدقہ خیرات کرنے والے کے حق میں بھی باعث برکت ہے۔
” حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کا ان کی عدم موجودگی میں انتقال ہو گیا۔(جب وہ واپس آئے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہو کر گزارش کی :) یارسول اللہ! میری والدہ نے میری غیر حاضری میں وفات پائی‘ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انہیں کوئی نفع پہنچے گا ؟تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”ہاں‘ پہنچے گا“ ۔ انہوں نے عرض کیا: آپ صلی الله علیہ وسلم گواہ رہیں ‘میں نے اپنا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ کردیا۔ “ (بخاری)
اسی طرح اور بھی بہت سی روایات ہیں، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب فوت شدگان کو پہنچتا ہے۔
عورت کا عدت گزارنا
میت کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے‘البتہ عورت کے لیے اپنے خاوند کے مرنے پر عدت گزارنا لازم ہے اور یہ میت کا حق بھی ہے۔عدت کے حوالے سے یہ نوٹ کرلیں کہ عورت اگر حاملہ ہے تو اُ س کی عدت وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے اور اگر وہ حاملہ نہیں ہے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔اس مدت میں وہ گھر میں سادگی اختیار کرتے ہوئے رہے اوربغیر کسی مجبوری اور شرعی عذر کے گھر سے باہر نہ نکلے۔اگر مجبوری کے وقت گھر سے باہر جانا بھی پڑے تو سادگی اور پردہ کا خصوصی لحاظ رکھے۔
نتیجہ کلام
پیدائش‘ شادی اور وفات انسانی زندگی کے تین اہم مراحل ہیں اور ان مراحل کے حوالے سے کچھ رسومات اور افعال ایسے ہیں جو دین اسلام سے ثابت ہیں جب کہ کچھ رسومات اور افعال ایسے ہیں جنہیں اسلامی معاشروں نے ہندوانہ تہذیب سے مستعار لیا ہے ۔ان کے بارے میں قاعدہ تو یہی ہے کہ جو افعال اسلامی پہلوسے ثابت ہیں اُن کو اپنایا جائے اور جن کا ثبوت نہیں ملتا اُن سے کنارہ کشی کی جائے۔
سن رسیدہ کے حقوق
محترم محمد شمشاد ندوی
اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف بنایا۔اس کو علم،عقل،صلاحیت اور فہم و فراست عطا فرمائی۔انسان ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔اُن میں نیک و بد، عالم وجاہل،مشرک ومومن،اپنے اور پرائے، ہمسایہ واجنبی وغیرہ ہیں۔مردو عورت میں مختلف رشتہ داریاں اور حقوق وواجبات ہیں۔ان میں بچے،جوان، بوڑھے،محتاج وکمزور،یتیم و بیوہ اور بیمار واپاہج بھی ہیں۔انسانی نسل میں مختلف قبائل وخاندان،رسم ورواج،مذہب ومسلک،رنگ ونسل،ملک ووطن ہیں، لیکن تمام تر تفریقات کے باوجود کچھ قدریں مشترک ہیں اور انسانی آبادی میں ان قدروں پر عمل ہوتا رہا ہے۔ بچوں سے شفقت و محبت اور بوڑھوں کا ادب و احترام تمام قوموں اور مذہبوں میں پایا جاتا ہے اور انسانی سماج میں ہر عمر کے لوگوں کے لیے الگ الگ برتاؤ پایا جاتا ہے، لیکن آج بدلتے حالات کے ساتھ بہت سی پرانی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔مغربی ممالک اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے سماج میں بوڑھے مرد اور عورت پر ظلم و زیادتی پائی جارہی ہے۔ان کا ادب و احترام،ان کی خدمت و خبرگیری سے خود اولاددورہوتی جارہی ہے۔بوڑھے اپنے ہی گھر سے نکلنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور سرکاری رہائش گاہوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔آئے دن ان پر زیادتی کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔
مسلم خاندان و معاشرے میں بھی بتدریج تبدیلیاں آرہی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ عمر رسیدہ کے حقوق اور ان کے ادب و احترام اور خدمت وخبر گیری کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو قدرے تفصیل کے ساتھ لکھا جائے اور وعظ ونصیحت اور آپسی ملاقاتوں میں بھی بڑوں کے ادب و خدمت کو بار بار دہرایا جائے اور بچوں پر شفقت و محبت اور بڑوں کے ادب و احترام کا عمومی ماحول پیدا کیا جائے۔
اسلام نے چھوٹوں پرشفقت و محبت کرنے اور عمر رسیدہ لوگوں کی عزت و احترام کا حکم دیا ہے۔اس سلسلے میں احادیث اور اسلاف کے قول وعمل کے نادر نمونے موجود ہیں۔حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا…”من لم یرحم صغیرنا ولم یعرف حق کبیرنا فلیس منا“ (جوہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کے حقوق کونہ پہچانے وہ ہم میں سے نہیں ہے)۔
اس حدیث میں بڑوں کے ادب واحترام نہ کرنے والوں کے لیے سخت تہدید ہے۔ایسے لوگوں کا رشتہ اسلام سے کمزور ہے۔
نماز ایک اہم رکن ہے،اس میں بھی بوڑھوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔انفرادی نماز میں انسان کو بڑی سورت اور لمبی نماز پڑھنے کی اجازت ہے، لیکن جماعت کی نماز میں بوڑھے ،کمزور اور بیمار شریک ہوتے ہیں اس لیے امام کو حکم دیا گیا کہ آسانی اختیار کرے اور نماز زیادہ لمبی نہ کرے۔
”عن أبی ھریرة ان النبی صلی الله علیہ وسلم قال: اذا أم أحدکم الناس فلیخفّف، فان فیھم الصغیر والکبیر والضعیف والمریض، فاذا صلی وحدہ فلیصلّ کیف شاء“․
ترجمہ:
”حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جب تم میں سے کوئی لوگوں کا امام بن کر نماز پڑھائے تو چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے(یعنی زیادہ طول نہ دے)، کیوں کہ مقتدیوں میں کمزور،بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں۔“
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امام پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا جو بوڑھے،کمزور اور ضرورت مندوں کاخیال نہ رکھتے ہوئے لمبی نماز پڑھاتے تھے۔چناں چہ صحیحین میں ہے:
”عن قیس بن أبی حازم قال أخبرنی أبو مسعود ان رجلاً قال: واللّٰہ یا رسول اللّٰہ، انی لاتاخر عن صلاة الغداة من أجل فلان مما یطیل بنا، فمارأیت رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم فی موعظة أشد غضباً منہ یومئذ، ثم قال: ان منکم منفرین، فایکم ما صلی بالناس فلیتجوز، فان فیھم الضعیف والکبیر وذاالحاجة“
ترجمہ:
”قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ مجھ سے ابو مسعود انصاری نے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بخدا میں فلاں شخص کی وجہ سے صبح کی نماز میں شریک نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ بہت طویل نماز پڑھاتے ہیں۔ حدیث کے راوی ابو مسعود انصاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو کبھی وعظ اور خطبہ کہ حالت میں اس دن سے زیادہ غضبناک نہیں دیکھا،پھر اس خطبہ میں آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا کہ تم میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو (اپنے غلط طرزِعمل سے اللہ کے بندوں کو) دور بھگانے والے ہیں،جو کوئی تم میں سے لوگوں کا امام بنے اور ان کو نماز پڑھائے تو اس کے لیے لازم ہے کہ نماز مختصر پڑھائے،کیوں کہ ان میں ضعیف بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی اور حاجت والے بھی۔“
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات امامت فرمائی۔ مرض الموت میں صحابہ کرام کے درمیان سب سے معزز ہستی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امامت کے فریضہ کو انجام دیا۔یہاں بھی حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھے شخص کو فراموش نہیں فرمایا۔قرآن و حدیث میں مہارت،عمر میں برابری،ہجرت میں سبقت میں سب برابر ہوں تو اس وقت سب سے زیادہ عمر دراز کو امامت کرنی چاہیے۔
”عن ابی مسعود الأنصاری قال:قال رسول للہ صلی الله علیہ وسلم: یوٴم القوم أقروٴھم لکتاب اللہ، فان کانوا فی القرأة سواءً، فاعلمھم بالسنة، فان کانوا فی السنة سواءً فاقدمھم سناً، ولا یوٴمن الرجل الرجل فی سلطانہ، ولا یقعد فی بیتہ علی تکرمتہ، الا باذنہ“ ․
ترجمہ:
”حضرت ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جماعت کی امامت وہ شخص کرے جو ان میں سب سے زیادہ کتاب اللہ کا پڑھنے والا ہو اور اگر اس میں سب یکساں ہوں تو پھر وہ آدمی امامت کرے جو سنت و شریعت کا زیادہ علم رکھتا ہو اور اگر اس میں بھی سب برابر ہوں تو وہ جس نے پہلے ہجرت کی ہو اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو پھر وہ شخص امامت کرے،جو سن کے لحاظ سے مقدم ہواور کوئی آدمی دوسرے آدمی کے حلقہ سیادت و حکومت میں ا س کا امام نہ بنے اور اس کے گھر میں اس کے بیٹھنے کی خاص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔“
امام بخاری نے کتاب الاذان کے تحت ایک روایت کو ذکر کیا ہے جس میں عمر میں سب سے بڑے کو امامت سپرد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
”عن مالک بن الحویرث: اتیت النبی صلی الله علیہ وسلم فی نفر من قومی، فأقمنا عندہ عشرین لیلة، وکان رحیماً رفیقاً، رأی شوقنا الی أھالینا، قال: ارجعوا وکونوا فیھم، وعلموھم وصلوافاذا حضرت الصلوٰة فلیوٴذن لکم احدکم ولیوٴمکم اکبرکم“․
ترجمہ:”حضرت مالک بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے قبیلہ کے چند افراد کے ہمراہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم آپ کے پاس بیس راتیں ٹھہرے ،آپ انتہائی مہربان اور نرم مزاج تھے۔چناں چہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ ہم لوگ اپنے اہل وعیال کی طرف واپس جانے کے مشتاق ہیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تم لوگ اب واپس چلے جاوٴاور اپنے قبیلے میں ٹھہر کر انہیں دین کی تعلیم دو اور نماز پڑھاوٴ، جب نماز کا وقت ہو تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے۔“
بیہقی نے کتاب الزہد میں حضرت انسسے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ اس سے جنون اور جذام اور برص کو رفع کردیتا ہے،پھر جب پچاس سال کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب نرم فرما دیں گے، پھر جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرماتے ہیں اور آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں،پھر جب اسّی سال کو پہنچتا ہے تو اللہ اس کے حسنات کو قبول فرمالیتے ہیں اور اس کی سیئات کو معاف فرمادیتے ہیں، پھرجب نوّے سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتے ہیں اور اس کا نام خدائی قیدی ہو جاتا ہے اور اس کے اہل کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔
حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقات ہیں۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا…”ان من اِجلال اللہ تعالیٰ اِکرامَ ذی الشیبة المسلم، وحامل القرآن غیر الغالی فیہ، والجافی عنہ، واِکرام ذی السلطان المقسط“․
ترجمہ:”اللہ کی عظمت واحترام کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان عمر رسیدہ کا اکرام کیا جائے اور اس قرآن کے حامل وحافظ کا جو اس میں غلو نہ کرنے والا ہو اور نہ اس کو چھوڑنے والا اور عادل بادشاہ کا“۔
جس شخص نے عمر رسیدہ کی عزت کی اس کا بدلہ یہ کہ بڑھاپے میں اس کی بھی عزت کی جائے گی۔
”عن أنس بن مالک رضی ا للہ عنہ قال:قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ما اکرم شابٌ شیخاً لسنہ الا قیض اللہ لہ من یکرمہ عند سنہ“․
ترجمہ:”حضرت انس رضی ا للہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو نوجوان کسی بوڑھے کی عزت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے شخص کو مامور کرے گا جو اس کے بڑھاپے میں اس کے عزت کرے۔“
جو شخص اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے بوڑھا ہو جائے اور اس کے بال سفید ہو جائیں ،اس کو اللہ تعالیٰ قیامت میں ایک نور عطا فرمائے گا۔یہ اس کی عظمت وبڑائی کی علامت ہوگی جس کی وجہ سے وہ عام لوگوں میں ممتاز ہو گا۔
”عن کعب بن مرة قال: سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول: من شاب شیبة فی الِاسلام کانت نوراً یوم القیامة“․
ترجمہ:”حضرت کعب بن مرہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جونوجوان اسلام میں بوڑھا ہو گیا اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا“۔
دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بوڑھے شخص کے لیے ایک سفید بال کے بدلہ ایک نیکی عطا کرے گا اور ایک گناہ مٹائے گا۔
”کتب اللّٰہ بھا حسنة وحط عنہ بھا خطیئة“ لأصحاب السنن بلفظ ابی داوٴد․
ایک اور حدیث میں ہے کہ :حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو شرم آتی ہے اس بات سے کہ اپنے بندے اور بندی کو جب کہ وہ اسلام میں بوڑھے ہوں،عذاب دیں۔
عمر دراز کی عظمت و بڑائی کا تقاضا ہے کہ چھوٹا سلام کرنے میں پہل کرے اور بعض روایتوں میں بڑوں کے ادب و احترام کے لیے کھڑے ہونے اور ہاتھ چومنے کی بابت معلوم ہوتاہے اور امت کے دین دار ومہذب طبقہ میں اس کا معمول پایا جاتا ہے۔
حضرت حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی کھانے میں شریک ہوتے تو اس وقت تک برتن میں ہاتھ نہیں ڈالتے جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست مبارک برتن میں نہ ڈالیں۔
اسی طرح ادب یہ ہے کہ کھانے سے فراغت کے بعد عمر دراز کو سب سے پہلے ہاتھ دھونے کا موقع دیا جائے یا ان کا ہاتھ دھلایا جائے۔اسی طرح اپنے ہر اجتماعی کام میں اپنے بڑوں کو شریک کرے ،ان سے مشورہ کرے۔ان کی رائے پر عمل کرنے سے کام یابی ملتی ہے اور کام پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے اور اس کام میں برکت ہوتی ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”البرکة من أکابرنا ،فمن لم یرحم صغیرنا، ویجل کبیرنا فلیس منا“ ․
ترجمہ:”برکت اکابر کے ساتھ ہے جو، چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔
حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”الخیر مع أکابرنا“یعنی خیر اکابر کے ساتھ ہے۔
کئی افراد جمع ہوں اور ان کے سامنے کوئی چیز پیش کی جائے اور بڑوں کی عزت و مرتبہ کا خیا ل رکھا جائے۔مسلم شریف میں ہے۔
”عن ابن عمر ان النبی صلی الله علیہ وسلم قال: أرانی فی المنام أتسوک بسواک وجاء نی رجلان، أحدھما أکبر من الآخر، فناولت السواک للأصغرفقیل لی:کبر، اِلی الکبیر منھما “․
ترجمہ: ”حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ مسواک کررہا ہوں،میرے پاس دو آدمی آئے،ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا تھا،تو میں نے چھوٹے کو مسواک پیش کیا تو مجھ سے کہا گیا،بڑے کو دیجیے،لہٰذا میں نے وہ مسواک دونوں میں سے جو بڑا تھا اس کے حوالے کردی۔“
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے شفقت و محبت اور رحم وکرم کا معاملہ فرماتے تھے ۔ان کے نقش قدم پر صحابہ کرام بھی بچوں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتے تھے۔بچے بھی اپنے بڑوں کا ادب و احترام کرنے میں اپنی سعادت و نیک بختی سمجھتے تھے۔کیوں کہ ان کی تربیت ایسی ہی کی گئی تھی۔ایک مرتبہ صحابہ کرام کے مجمع میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ وہ کون سا درخت ہے جس کی تمام چیزیں کار آمد ہیں؟حضرت عبداللہ بن عمر کو اس کا جواب معلوم تھا، لیکن معمر صحابہ کرام کی موجودگی میں جواب دینا ادب کے خلاف سمجھا۔
”عن عبداللہ بن عمر قال قال: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: أخبرونی بشجرة مثَلھا مَثل المسلم، توٴتی اکلَھا کل حین باذن ربھا، لا تحث ورقھا، فوقع فی نفسی النخلة فکرھت ان أتکلم وثم أبوبکروعمر رضی اللہ عنھما فلما لم یتکلما، قال النبی صلی الله علیہ وسلم: ھی النخلة، فلما خرجت مع أبی قلت یا أبت وقع فی نفسی النخلة، قال:مامنعک أن تقولھا؟ لو کنت قلتھا کان احب الی من کذا و کذاَ قال: ما منعنی اِلا لم أرک ولا أبابکر تکلمتما فکرھت“․
ترجمہ: ”حضرت عبداللہ بن عمررو ایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا۔آپ لوگ ایسے درخت کے بارے میں بتایئے جس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔اللہ کے حکم سے ہرموسم اس کا پھل آتا ہے،اس کے پتے نہیں گرتے ۔راوی کہتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے،میں نے جواب دینا ناپسندکیا، اس لیے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے کوئی جواب نہیں دیا۔تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔جب میں اپنے والد کے ساتھ نکلا تو میں نے کہا اے میرے والد!میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کادرخت ہے۔حضرت عمرنے فرمایا کس بات نے تم کو جواب دینے سے روک دیا؟اگرتم جواب دیتے تو مجھے بے حد خوشی ہوتی ۔حضرت عبداللہ نے فرمایا میرے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی بس اتنا کہ آپ اور حضرت ابو بکر نے جواب نہیں دیا تو میں نے جواب دینا نا پسند کیا“۔
اسلام نے بڑوں کی بے حرمتی کرنے،مذاق اُڑانے،برابھلا کہنے اور ان پر ہنسنے سے منع کیا ہے اور بڑوں کی توہین کرنے والوں کو منافق قرار دیاہے۔طبرانی اپنی کتاب معجم کبیر میں حضرت ابو امامہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ثلاث لا یستخف بہم الا منافق: الشیبة فی الِاسلام، وذوالعلم، واِمام مقسط.“
ترجمہ: ”تین آدمیوں کی توہین منافق کرسکتا ہے،ایک وہ شخص جو حالتِ اسلام میں بڑھاپے کو پہنچا ہو اور عالم اور عادل امام و بادشاہ“۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی اس طرح تربیت فرمائی کہ قرآن وحدیث کی مکمل تعلیمات ان کے اعمال و اقوال سے ظاہر ہوتی تھیں،گویا کہ وہ قرآن و حدیث کے سانچے میں ڈ ھلے ہوئے تھے۔حکیم بن قیس بن عاصم فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو یوں نصیحت کی:”عن قتادة سمعت مطرفا، عن حکیم بن قیس بن عاصم، أن أباہ أوصی عند موتہ بنیہ فقال اتقوا اللہ، وسوّدوا أکبرہم، فان القوم اذا سودوا أکبرہم خلفوا أباہم، واذا سودوا أصغرہم أزری بھم ذلک فی أکفائھم، وعلیکم بالمال واصطناعہ، فانہ منبھة لکریم، ویستغنی بہ عن اللئیم، وایاکم ومسألة الناس، فانھما من آخر کسب الرجل، واذا متُّ فلا تنوحوا، فانہ لم ینح علی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم واذا متُّ فادفنونی بأرض لا تسعیر بدفنی بکر بن وائل، فانی کنت أغافلھم فی الجاہلیة“․
ترجمہ: ”حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے مطرف سے سنا، وہ حکیم بن قیس بن عاصم سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نے اپنی موت کے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا،اللہ سے ڈرو اور اپنے بڑوں کو سردار بناوٴ۔جب قوم اپنے بڑوں کو سردار بناتی ہے تو اپنے آبا واجداد سے آگے نکل جاتی ہے اور جب اپنے چھوٹے کو سردار بناتی ہے وہ اپنے ہم عصروں میں ذلیل و رسوا ہوتی ہے۔تم پر مال حاصل کرنا اور اس کی حفاظت کرنا لازم ہے۔مال شریعت کے لیے زینت ہے اور وہ اس کے ذریعہ سے کمینہ سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچو…“۔
ایک بوڑھا شخص ،چاہے اس کا تعلق کسی بھی قوم ووطن سے ہو،کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو، اس کے ادب و احترام کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔“:(اذا أتاکم کبیر قوم فأکرموہ،رواہ الطبرانی)(یعنی جب تمہارے پاس کسی قوم کا بڑا آدمی آئے تو تم ان کا اکرام کرو)۔
قاضی ابو یوسف نے”کتاب الخراج“میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر نے دیکھا کہ ایک بوڑھا، جو اندھا بھی تھا، ایک دروازے پر کھڑا بھیک مانگ رہا تھا۔حضرت عمر نے پیچھے سے اس کے بازو پر ہاتھ مارا اور پوچھا تم کو بھیک مانگنے کی ضرورت کیوں پڑی؟اس نے کہا جزیہ ادا کرنے،اپنی ضرورت پوری کرنے اور اپنی عمر کے سبب بھیک مانگ رہا ہوں۔حضرت عمراس کا ہاتھ پکڑکراپنے گھر لائے اور اپنے گھر سے کچھ دیا،پھر اس کو بیت المال کے خزانچی کے پاس بھیجا اور کہلوایا کہ اس کو اور اس جیسے لوگوں کو دیکھو! خدا کی قسم! ہم انصاف نہیں کریں گے،اگر ہم اس کی جوانی کی کمائی کھائیں اور اس کے بوڑھے ہونے پر اس کی مدد چھوڑ دیں۔قرآن میں صدقہ کی اجازت فقرا اور مساکین کے لیے ہے ۔فقراء تو وہی لوگ ہیں جو مسلمان ہیں اور یہ لوگ مساکین اہل ِکتاب میں ہیں ،ان سے جزیہ لیا جائے۔
اسلام پورے عالم میں امن وآتشی چاہتا ہے۔برائیوں و گم راہیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔شرک و بدعات،اوہام وخرافات،قتل و غارت گری اور زنا وبے حیائی سے عالمِ انسانیت کو محفوظ و پاک رکھنا چاہتا ہے۔اس لیے تمام انسانوں تک اسلام کی ابدی و لازوال دولت پہنچاناامتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔
﴿ادع اِلی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلھم بالتی ھی أحسن ﴾․
”اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاوٴ اور ان کے ساتھ بحث کرو بہترین طریقے پر “۔
یہ بھی تعلیم ہے کہ”لا اِکراہ فی الدین“دین میں کوئی زبردستی نہیں۔لیکن اس کے باوجود حق وباطل میں معرکہ آرائی روزِاوّل سے جاری ہے۔حق کے سامنے باطل نے سینہ سپر ہونے کی کوشش کی ہے۔اس موقع پر بھی اسلام نے بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے اور عورتوں کی طرف نگاہِ بد ڈالنے سے منع کیا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس خطہ میں تشریف لے گئے،آپ حضرات کے اعلیٰ اخلاق و کردار کی وجہ سے ان کی موجودگی کو باعث خیر وعافیت اور سعادت و نیک بختی خیال کیا گیا۔
الغرض اسلام نے عمر رسیدہ و بزرگ کی عزت و احترام کا حکم دیتے ہوئے ان کی موجودگی کو معاشرہ کے لیے خیر و برکت کا بہترین ذریعہ قراردیا ہے۔ایک بوڑھا شخص، چاہے کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو،اس کا کوئی بھی وطن ہو،اس کاتعلق کسی بھی نسل و برادری سے ہو،ا س کی عزت و توقیر اور ادب واحترام کرنے کی اسلام نے تاکید کی ہے ۔ جو کوئی ان کی عزت واحترام کو ناقابل ِاعتناء سمجھتا ہے،اس کا تعلق و وابستگی کمزور ہے۔دنیا میں بوڑھے و عمر دراز ادب و احترام اور عزت ووقعت کے مستحق ہیں اور آخرت میں ان کو ایک نور سے نوازا جائے گا،جوان کے لیے عزت و تکریم کا باعث ہو گا۔اللہ ہر سفید بال کے بدلے ان کو ایک نیکی عطا کرے گا اور ایک گناہ کو مٹائے گا۔
عمر رسیدہ و بوڑھوں کی قدر و منزلت اور عزت و احترام اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ اللہ ان کو آخرت میں ایک نور عطا فرمائے گا جس کی وجہ سے وہ اورلوگوں میں ممتاز ہوں گے ، یہ ان کی بڑائی اور عظمت کی نشانی ہوگی۔اللہ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گا۔دنیاوی معاشرہ میں بھی ان کی موجودگی خیر وبرکت کا بہترین ذریعہ ہے، لہٰذا ان کے ادب و احترام ،سکون واطمینان اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے لیے عمومی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ امتِ مسلمہ کو انسانی برادری کے سامنے قابلِ تقلید نمونہ پیش کرتے ہوئے قائدانہ رول ادا کرنا چاہیے۔
وما توفیقی الا باللّٰہ وعلیہ توکلت والیہ اُنیب.
قرآن وحدیث کے تناظر میں حقوقِ انسانی کی تشریح
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے وہ خونچکاں حالات، جہاں جان ومال، عزت وآبرو ہر چیز خطرے میں تھی، اس کا تصور ذہن میں آتے ہی ایک روح فرسا کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اخوت ومحبت ، ہمدردی وغم گساری، نامانوس بلکہ ناپید تھی، معمولی معمولی سی باتوں پر جنگ چھڑ جاتی اور ایسی بھیانک شکل اختیار کرلیتی، جس کا تذکرہ تو کجا تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے، غرض ہر طرف ظلم وبربریت کا دور دورہ تھا، ایسے مہیب سائے میں فاران کی چوٹی سے ایک آفتاب عالمتاب نمودار ہوا جس کی ضیاء پاش کرنوں سے ایک نئی صبح کا آغاز ہوا، دم توڑتی اور جاں بلب انسانیت کو آبِ حیات ملا، اور انسانیت پہلی بار اپنے حقوق سے آشنا ہوئی۔
حقوق انسانی کے معنی: یہ دو کلموں سے مرکب ہے حقوق جو حق کی جمع ہے: وہ چیز جو ثابت ہو (کسی فرد یا جماعت کیلئے) انسانی: انسان کی طرف منسوب ہے، انسان کی تعریف وہ جاندار یعنی جسم و روح والاجو قادرالکلام ہو۔
حقوق انسانی کا مفہوم: انسان اس دنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا، وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے، اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اور آفات ومصائب کے ازالہ کے سلسلہ میں دوسرے انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے، اس قضیہ کے پیش نظر ہر انسان کا یہ عقلی و طبعی حق بنتا ہے کہ دوسرااس کی مدد کرے،اس کے حقوق و فرائض کا لحاظ رکھے۔
حقوق انسانی کی ارتقائی تاریخ کا مختصر جائزہ: حقوق انسانی پر کتاب وسنت کی روشنی میں تفصیلی بحث کرنے سے قبل ان حقوق کی ارتقائی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا بے محل نہ ہوگا تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے، اور آج کی مہذب دنیا (امریکہ) جو انسانی حقوق کی رٹ لگاتے نہیں تھکتا، یہ جان جائے کہ انسانی حقوق کے جس کھوکھلے تصور تک وہ اب پہنچا ہے اس سے کہیں زیادہ جامع اور واضح تصور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سوسال قبل پیش کردیا تھا۔ خطبہٴ حجة الوداع کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شدومد اور تاکید کے ساتھ حقوق انسانی ہی کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
حقوق انسانی کے شعور وارتقاء کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک ندوی فاضل جناب مولانا سید احمد ومیض ندوی اپنے وقیع مضمون میں رقمطراز ہیں ”صنعتی انقلاب کے آغاز سے مغرب میں حقوق انسانی کا شعور پیدا ہوا کہ انسان کے بھی بحیثیت انسان ہونے کے چند فطری حقوق ہوتے ہیں جن سے کسی بھی فرد کو محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ انسانی حقوق کا شعور بیسویں صدی کے شروع میں نمودار ہوا اور انقلابِ فرانس کا اہم جزو قرار پایا، اس میں قوم کی حاکمیت، آزادی، مساوات اور ملکیت جیسی فطری حقوق وغیرہ کا اثبات کیاگیا تھا، تدریجاً حقوق انسانی کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا، اور اخیر میں حقوقِ انسانی کا عالمی منشور سامنے آیا، دسمبر ۱۹۴۶/ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ریزرویشن پاس کیا جس میں انسانوں کی نسل کشی کو ایک بین الاقوامی جرم قرار دیاگیا۔۱۹۴۸/ میں نسل کشی کے انسداد کیلئے ایک قرار داد پاس کی گئی اور ۱۲/جنوری ۱۹۸۱/ میں نفاذ ہوا۔
حقیقی انسانی حقوق: انسان کے بنیادی اور فطری حقوق کے تحت جن جن امور کو شامل کیاجاتا ہے ان میں حقوق اِنسانی کا جامع ترین تصور، انسانی مساوات کا حق، انسانی عزت وآبرو کی حفاظت، انسانی جان ومال اورجائداد کی حفاظت، مذہبی آزادی کا حق، آزادیٴ ضمیر کا حق ضروریات زندگی کا انتظام، انسانی حقوق میں فرد ومعاشرے کی رعایت، بچوں کے حقوق کی حفاظت،اسی طرح انسانوں کے معاشی وثقافتی اور تعلیمی حقوق نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔
حقوقِ انسانی کی صحیح تشریح: سطور بالا میں دور حاضر کے انسانی حقوق کے ارتقاء کا جو سرسری جائزہ لیاگیا ہے اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مغرب میں حقوق انسانی کے تصور کی دو تین صدیوں قبل کوئی تاریخ نہیں ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی حقوق انسانی کا ایک جامع تصور انسانیت کے سامنے پیش کرکے بذاتِ خود اسے عملی جامہ پہناکر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کی۔
فاضل مضمون نگار مولانا ندوی حقوقِ انسانی کے اس مغربی منشور کی عدم تاثیر اور فرسودگی کے اسباب ومحرکات متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جن مغربی ممالک نے منشور حقوقِ انسانی کی داغ بیل ڈالی تھی، آج وہی ممالک حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں میں پیش پیش نظر آتے ہیں، چنانچہ آئے دن ان ممالک میں جرائم پیشہ افراد کی شرح میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مفکرین و مدبرین نے اس کے بہت سے اسباب متعین کیئے ہیں، لیکن حقوق انسانی پر ڈاکہ زنی کا بنیادی سبب ان انسانی حقوق کے نفاذ کیلئے کسی داخلی قوتِ نافذہ کا فقدان ہے، علاوہ ازیں مغرب کے حقوق انسانی کا فلسفہ صرف اس کے مفادات کے اردگرد گھومتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقوقِ انسانی ایک نظریہ بن کر رہ گیا، جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوقِ انسانی کے صحیح نفاذ اور ان کو عملی زندگی سے مربوط کرنے کے لیے فکر آخرت سے جوڑدیا جس کے باعث بندوں کے اندر حقوقِ انسانی کی رعایت وحفاظت کی ایسی اسپرٹ پیدا ہوگئی کہ بندہ از خود حقوق انسانی کا محافظ بن جاتا ہے۔
حقوقِ انسانی کا جامع ترین تصور اسلام نے دیا: مغرب نے حقوقِ انسانی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے، اس کے اندر اتنی وسعت نہیں کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کرسکے اس کے باوجود مغرب حقوق انسانی کی رٹ لگائے تھکتا نہیں، لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مربوط نظام، انسانی حقوق کا پیش کیا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیاگیا ہے اور حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی، حتیٰ کہ جانوروں کے آپسی ظلم وستم کا انتقام بھی لیا جائے گا۔ اللہ کے رسول نے فرمایا: حق والوں کو ان کے حقوق تمہیں ضرور بالضرور قیامت کے روز ادا کرنے پڑیں گے، حتیٰ کہ بے سنگھے بکرے کو سینگھ والی بکری سے بدلہ دیا جائے گا۔
زکوٰة اور حقوق انسانی: یہ ایک بدیہی امر ہے کہ ایک مخصوص طبقہ کے پاس مال ودولت کے منجمد رہنے سے کمزور طبقے بیروزگاری کے شکار ہوجاتے ہیں، اور انسانی معاشرہ کی ایک معتد بہ تعداد خط افلاس کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اسلامی قوانین نے زکوٰة کو فرض قرار دے کر سالانہ آمدنی کا ڈھائی فیصد حصہ غریبوں کیلئے خاص کیا کہ دولت ایک ہاتھ میں سمٹ کر نہ رہ جائے، صدقہ وخیرات کی اہمیت اجاگر کرکے غرباء ومساکین کا بھرپور خیال رکھا، ارشاد ربانی ہے: وَفِیْ أمْوَالِہِم حَقٌ للسَّائِلِ وَالمَحْرُومِ اور ان کے مالوں میں غرباء ومساکین کا حق ہے۔
اسلام میں انسانیت کی میزبانی: اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر دنیا کی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ اعزاز بخشا، اس کے احترام واکرام کی تعلیم دی، اس کو خوبصورت سانچہ میں ڈھال کر اسے دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کیا، ارشاد ربانی ہے: ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے اور خشکی ودریا میں ان کو سواری دی، اور پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور ہم نے ان کو بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ہم نے آدمی کو اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ہے۔ تیسری جگہ فرمایا: اللہ نے تمہارے نفع کیلئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں۔ چوتھی جگہ یوں فرمایا: میں سب جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح اسلام نے انسانی حرمت وشرافت کی اتنی پاسداری کی کہ انسان کا احترام پس مرگ تک باقی رکھا، چنانچہ آپ کے زمانے میں ایک عورت کا جنازہ گذررہا تھا، اللہ کے رسول کھڑے ہوگئے، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو یہودی ہے، اللہ کے رسول نے فرمایا ألیسَتْ نفسًا: یعنی کیا وہ انسان نہیں؟ اسی طرح نبوت وشریعت کی دولت بھی صرف اور صرف انسان ہی کو عطا کیاگیا ہے، اسی طرح اسلام نے علوم وعقل اور خرد جیسی گرانقدر انعام سے نوازا، ارشاد ہے: اللہ کی تمام پیداکردہ چیزوں میں عقل اللہ کے نزدیک سب سے باعزت ہے۔
انسانی اخوت ومساوات: محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ ونسل، قومیت ووطنیت، اور اونچ نیچ کے سارے امتیازات کا یکسر خاتمہ کرکے ایک عالمگیر مساوات کا آفاقی تصور پیش کیا، اور ببانگ دُہل یہ اعلان کردیا کہ سب انسان آدم کی اولاد ہیں، لہٰذا سب کا درجہ مساوی ہے، حجة الوداع کے موقع پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تاریخی خطبہ میں جن بنیادی انسانی حقوق سے وصیت وہدایت فرمائی ان میں انسانی وحدت ومساوات کا مسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، ارشاد نبوی ہے:
اے لوگو! یقینا تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارے باپ بھی ایک ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، یقینا تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اورپاک باز ہو، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر، اور فتح مکہ کے موقع پر ایک اہم خطبہ میں اسی طرح کا حکم ارشاد فرمایا۔ اسی طرح ارشاد ربانی ہے: لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا (یعنی اوّل) اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلادئیے، دوسری جگہ ارشاد ہے: لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قوم اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو، اور خدا کے نزدیک تم میں سے قابل اکرام اور عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔
انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت: یہ انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے اس لیے کہ جان سب سے قیمتی اثاثہ ہے، اس کے اردگرد زندگی کی سرگرمیاں گھومتی ہیں، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، سب سے پہلے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان وحشی درندوں کو انسانی جان کا احترام سکھایا، اور ایک جان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن پاک میں بھی اس کی تائید کی گئی چنانچہ ارشاد باری ہے: جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اس نے گویا تمام لوگوں کا قتل کیا، اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔ اسی طرح ارشاد نبوی ہے: رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔ دوسری حدیث میں ارشاد ہے: اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہ کرے۔ اور مال کے تحفظ کو یوں موکد کیاگیا ہے، ارشاد ربانی: اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ، واضح رہے کہ انسانی زندگی کی بقاء کے لیے مال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
جس طرح حق زندگی اور تحفظ مال، انسان کے بنیادی حقوق ہیں، اسی طرح عزت وآبرو کا تحفظ بھی انسان کا بنیادی حق ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے، ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، ممکن ہے کہ وہ اس سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ، اور ایک دوسرے کو برے نام سے مت پکارو۔
تحفظ آزادی (شخصی ومذہبی): اسلامی معاشرہ میں چونکہ ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہیں کسی کا کسی پر بیجا دباؤ نہیں، ہر ایک آزاد اور خود مختار ہے اس لیے اسلام نے انسان کی شخصی آزادی کی بقاء کے لیے انسان کی نجی اور پرائیویٹ زندگی میں مداخلت سے دوسروں کو روکا ہے اور خواہ مخواہ کی دخل اندازی ٹوہ بازی اور بلا اجازت کسی کے گھر میں دخول سے منع کیا ہے۔ ارشاد حق ہے: مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں) کے گھروں میں گھروالوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہواکرو۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ (بعض) گمان گناہ ہے اور ایک دوسرے کے حال کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ اسی طرح اسلام میں مذہب اور ضمیر واعتقاد کے تحفظ کی گارنٹی یوں دی گئی: دین اسلام میں زبردستی نہیں ہے، ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔ ایک دانشور مفکر لکھتے ہیں ”صبر واعتقاد کی آزادی ہی کا قیمتی حق تھا، جسے حاصل کرنے کے لیے مکہ مکرمہ کے سیزدہ سالہ دور ابتلاء میں مسلمانوں نے ماریں کھاکھا کر کلمہ حق کہااور بالآخر یہ حق ثابت ہوکر رہا۔ اسلامی تاریخ اس بات سے عاری ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی غیرمسلم رعایا کو اسلام قبول کرنے پرمجبور کیا ہو، یا کسی قوم کو مارمار کر کلمہ پڑھوایا ہو۔
عورتوں، بچوں، غلاموں، یتیموں اور حاجتمندوں کے حقوق: اعلان نبوت سے قبل عورتوں کی حالت بڑی ناگفتہ بہ تھی، معاشرہ میں اس کی حیثیت سامان لذت سے کچھ زیادہ نہ تھی، معاشی، سماجی ہرلحاظ سے بے بس تھی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سسکتی، بلکتی عورت کی فریاد رسی کی اس کے حقیقی مقام کومتعین فرمایا: چنانچہ حجة الوداع کے موقع پر ان کے حقوق کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا۔ اسی طرح قبل از اسلام اسقاط حمل اور دختر کشی کی رسم عروج پر تھی، اسلام نے سختی کے ساتھ اس گھناؤنے فعل سے منع کیا۔ ارشاد ہے: اپنی اولاد کو فقر وفاقہ کے خوف سے نہ قتل کرو، ان کو اور تم کو روزی ہم ہی دیتے ہیں۔ یقینا یہ بڑا گناہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں غلاموں اور غریبوں کے حقوق بھی روندے، پامال کیے جاتے انہیں حقارت وذلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اسلام نے انہیں بھی اتنے حقوق دئیے کہ ان کی سطح زندگی بلند کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ چنانچہ ایسے ایسے اصول وقوانین طے کیے جن سے لوگ زیادہ سے زیادہ غلامی کی طوق سے نکل سکے بریں بنا بہت سے گناہوں اور حکم عدولیوں کا کفارہ غلاموں کی آزادی رکھی، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا۔
٭٭٭
اسلام اور جانوروں کے حقوق
سید وجاہت، طالب علم جامعہ فاروقیہ کراچی
اسلام ایک مکمل دین ہے، اسلام نے انسانوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا، اسلام ہی نے انسان کو حقوق بتائے کہ اگر وہ مرد ہے تو اس کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟ اس پر اس کی اولاد کے کیا حقوق ہیں؟ اسی طرح اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے صنفِ نازک کو اس کا اصل حق عطا کیا، اسلام ایک جامع وکامل مذہب ہے، حتی کہ اسلام نے جانوروں کے حقوق بھی متعین کیے ہیں، شریعت محمدیہ نے چو پاؤں، مویشیوں، پرندوں غرض ہر قسم کے جانوروں کے حقوق کا بیان کیا ہے، ان سطور میں ان تمام حقوق کا احاطہ تو ممکن نہیں، بلکہ اسلام کی تعلیمات نے جانوروں کے کیا حقوق بیان کیے ان کی وضاحت مطلوب ہے۔
جانوروں کوکھلانے پلانے کی فضیلت
عن انس رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ما من مسلم یغرس غرسا او یذرع زرعا، فیاکل منہ انسان او طیر او بھیمة الا کانت لہ صدقة․
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جوبھی مسلمان کھیتی لگائے یا پودا لگائے، پھر کوئی انسان یا پرندہ یا چوپایہ اس میں سے کھا لیوے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔
اس سے جان دار چیز کو کھلانے پلانے کا اجر معلوم ہواکہ کوئی بندہ کھیتی بوئے اور اس کھیتی میں سے کوئی جان دار کھا لیتا ہے اور اس کھیتی کے مالک کو پتہ بھی نہیں کہ اس کی کھیتی سے چوپائے پرندے وغیرہ جو کھارہے ہیں اس کے نامہٴ اعمال میں صدقے کا اجر لکھا جارہا ہے، اب اگر کسی نے کسی جان دار کو پال رکھا ہو اور پھر اسے چارہ ودانہ وغیرہ دیتا ہو تو اس پر کتنا اجر ہو گا؟! اسی طرح کسی جانور کو تکلیف دینا، انہیں بھوکا رکھنا سخت ترین گناہ ہے ۔صحیح مسلم کی روایت ہے۔
وعنہ وعن ابن عمر رضی الله عنہ قالا: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: عذبت امرأة فی ھرة امسکتھا حتی ماتت من الجوع، فلم تکن تطعمھا ولا ترسلھا، فتاکل من خشاش الارض․
ترجمہ: حضرت ابن عمر وابوہریرہ رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کے سبب عذاب ہوا تھا کہ اس نے اس کو پکڑ رکھا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی ،سو نہ تو اس کو کچھ کھانے کو دیتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض، یعنی زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لے۔
کتنی سخت وعید ہے کہ ایک بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے اس عورت کو جہنم کا عذاب ہو رہا تھا، ایک اور روایت میں امام ترمذی ذکر کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا، جس کو ایک بلی کے معاملے میں اس طرح عذاب ہو رہا تھا کہ وہ بلی اس کو نوچتی تھی جب کہ وہ عورت سامنے آتی تھی او رجب وہ ہشت کرتی تھی تو وہ بلی اس کے سرین کو نوچتی تھی۔ ( باب صلوٰة الکسوف)
جانوروں کو لعن طعن کرنے کی ممانعت
اسلام نے جانوروں پر بھی لعن طعن کرنے سے منع کیا ہے وعن ابی جری جابر بن سلیم رضی الله عنہ فی حدیث طویل قال: قلت: یا رسول الله اعہد الی، قال النبی علیہ السلام: لا تسبن احداً، قال: فما سبت بعدہ حرا، ولا عبدا، ولا بعیرا، ولا شاة․(رواہ ابوداؤد)
ترجمہ: ابو جری جابر بن سلیم سے ایک طویل حدیث روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ کچھ وصیت فرمائیں، حضور علیہ السلام نے فرمایا کسی کو بُرا مت کہنا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد کسی کو بُرا نہیں کہا ،نہ آزاد کو، ناغلام کو، نہ اونٹ کو اور نہ بکری کو۔ اسی طرح ایک اور روایت میں وارد ہے:”وعن عمران بن حصین رضی الله تعالیٰ عنہ ان النبی صلی الله علیہ وسلم، کان فی سفر، فسمع لعنة، فقال: ما ھذہ قالو: ھذہ فلانة لعنت راحلتھا․ فقال علیہ السلام: ضعوا عنھا، فانھا ملعونة․(رواہ ابوداؤد)
حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام سفر میں تھے، پس آپ علیہ السلام نے لعنت کی آواز سنی، آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله! فلاں عورت نے اپنی سواری پر لعنت کی ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اس سواری کو چھوڑ دو، اس پر لعنت کی گئی ہے۔
ان حادیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں پر لعنت کرنا، انہیں گالی دینا، جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے، شریعت کی نظر میں انتہائی شنیع فعل ہے۔
جانوروں کو بے جا تکالیف دینے پر وعید
جانوروں کو بے جا تکالیف دینے کے حوالے سے بہت کثرت سے احادیث وارد ہوئی ہیں، جن میں جانوروں کو تکلیف دینے پر وعید آئی ہے اور آپ علیہ السلام نے ایسے شخص سے جو جانوروں کو بے جا تکلیف دیتا ہو غصے کا اظہار فرمایا ہے اور بعض جگہ ایسے شخص پر آپ علیہ السلام نے لعنت بھی فرمائی ہے ۔
عن ابن عمر رضی الله عنہ ان النبی صلی الله علیہ وسلم لعن من اتخدشیئاً فیہ الروح غرضا․ (متفق علیہ)
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جوایسی چیز کو نشانہ بناوے جس میں روح ہو۔
بعض لوگ محض نشانہ بازی کی مشق کے لیے یا شغل کے لیے جانوروں کو باندھ کے کھڑا کرتے ہیں اور اس پر تیر وغیرہ سے نشانہ بازی کرتے ہیں، اس سے حضور علیہ السلام نے منع کیا اور ایسے شخص پر لعنت کی۔ اسی طرح آپ علیہ السلام نے فرمایا :”عن جابر رضی الله عنہ نھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن الضرب فی الوجہ، وعن الوسم فی الوجہ․(رواہ مسلم)
حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے چہرہ پر مارنے اور چہرے پر داغنے سے منع فرمایا۔ یعنی کسی جانور کے چہرے پر مارنے کو بھی آپ علیہ السلام نے منع فرمایا ہے اور ایک حدیث میں وارد ہے کہ حضور علیہ السلام کے سامنے سے ایک گدھا گزرا اور اس کے چہرے پر نشان لگاہوا تھا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا الله تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے اس کے چہرے کو داغا ۔جانوروں کی آپس میں لڑائی کروانا یہ بھی جانوروں کو تکلیف دینا ہے بعض جگہ اونٹوں کو لڑایا جاتا ہے، کسی جگہ مرغوں کو آپس میں لڑایا جاتا ہے ،جو کہ سخت ناپسندیدہ عمل ہے اور بے زبان جانوروں پر ظلم ہے۔
وعن ابن عباس رضی الله عنھما قال نھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم من التحریش بین البھائم․(رواہ الترمذی)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جانوروں میں لڑائی کروانے سے منع فرمایا ہے۔ مرغ بازی اور بیٹر بازی اور مینڈھے لڑانا اسی طرح کسی اور جانور کو لڑانا سب اسی ممانعت میں داخل ہے اور یہ سب حرام ہے۔
جانوروں کو بھوکا رکھنا اور ان کے کھانے پینے کا خیال نہ رکھنا بھی ظلم ہے، جو موجب عذاب ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے روایت ذکر کی ،اسی طرح ان پر مشقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا بھی گناہ ہے، اس کی ممانعت آئی ہے۔
حضرت یعلی بن مرہ ثقفی رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین واقعے عجیب رسول الله سے دیکھے ( ان میں سے ایک یہ ہے کہ) ہم آپ علیہ السلام کے ہم راہ چلے جارہے تھے کہ اچانک ہمارا گذر ایک اونٹ پر ہوا، جس پر ( آب پاشی کے لیے) آب کشی کی جارہی تھی، جب اونٹ نے آپ علیہ السلام کو دیکھا تو بلبلانے لگا اور اپنی گردن کا اگلاحصہ جھکا لیا، آپ علیہ السلام اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ وہ حاضر ہوا ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے ہاتھ اس کو بیچ دو۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول الله نہیں بلکہ ہم یہ آپ کو ہبہ کرتے ہیں اور یہ ایسے گھرانے کا ہے کہ بجز اس کے ان کے پاس کوئی ذریعہ معیشت نہیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا اس اونٹ نے کام زیادہ لینے کی اور خوراک کم دینے کی شکایت کی ہے، سواس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ ( شرح السنہ)
آج کل اس معاملے میں بہت کوتاہی برتی جارہی ہے، جانوروں سے بے انتہا کام لیا جانا معمول کی بات بن گئی ہے اور ان کی خوراک کا خیال نہیں رکھا جاتا، ہل چلانے والے ،گدھا گاڑی چلانے والے وغیرہ حضرات ان تعلیمات کو غور سے پڑھیں اور اپنے عمل کا جائزہ لیں ۔ درمحتار میں بیل اور گدھے سے کام لینے میں یہ شرط لگائی ہے کہ ان سے بغیر مشقت اور مار کے کام لیا جائے ۔ ردالمحتار میں ہے کہ ان جانوروں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ر کھے اور ان کے سر اور منھ پر نہ مارے۔
جانوروں پر سواری کے حقوق
الله تعالیٰ نے بڑے بڑے جانوروں کو انسان کے لیے مسخر کیا، انسان ان جانوروں سے مختلف فائدے اٹھاتا ہے ،ان میں سے ایک ان پر سواری کا فائدہ بھی ہے، شریعت نے اس کے بھی اصول مقرر کیے ہیں۔
وعن سھیل بن الحنظلیة رضی الله تعالی عنہ قال: مر رسول الله ببعیر قد لحق ظھرہ ببطنہ، فقال: اتقوا الله فی ھذہ البھائم المعجمة، فارکبوھا صالحة، واترکوھا صالحة․ (رواہ ابوداؤد)
ترجمہ: حضرت سُہیل بن حنظلیہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله کا ایک اونٹ پر گزر ہوا، جس کی کمر (بھوک کی وجہ سے ) پیٹ سے ملی ہوئی تھی، آپ علیہ السلام نے اس کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا: ان بے زبان جانوروں کے بارے میں الله سے ڈرو۔ لہٰذا مناسب طریقے پر ان پر سواری کرو اور ان کی بھوک پیاس کا خیال رکھو ) اور مناسب طریقے پر ان کو چھوڑ دو (یعنی تھکنے سے پہلے سواری ختم کر دو ۔(ابوداؤد)
او رایک روایت میں وارد ہے کہ جب تم چٹیل میدان خشک زمین پر سفر کرو تو وہاں جلدی سفر کرو ( یعنی آرام سے سفر میں جانور کو تکلیف ہو گی، کیوں کہ خشک زمین پر اس کے لیے چارہ نہیں ہو گا ) اور جب سبزہ زار زمین پر سفر کرو تو جانور کو اس کا حق دو ( یعنی تھوڑا انہیں چارہ کھانے کے لیے چھوڑ دو)۔ (ابوداؤد) اور اسی روایت میں ہے کہ ” لا تتخدوا ظھور دوابکم المنابر․“
ترجمہ: تم اپنی سواری کی پشتوں کو منبر مت بناؤ۔ یعنی دوران سفر کسی جگہ پڑاؤڈالا ہو یا کسی سے بات چیت کی غرض سے روکنا پڑے تو جانوروں کی پیٹھ سے اترنے کا حکم ہے، کیوں کہ اس طرح انہیں تکلیف ہو گی۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم کسی منزل پر پڑاؤ ڈالتے تو اس وقت تک نماز نہ پڑھتے جب تک کہ ہم سواریوں سے کجاوے کو کھول نہ دیتے۔ ( ابوداؤد)
جانوروں کے ذبح وشکار کے حقوق
الله تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:﴿واحل لکم الطیبات﴾کہ ہم نے تم پر پاک چیزوں کو حلال کیا، الله رب العزت نے انسان پر بہت سے جانوروں کا گوشت حلال کیا، انسان ضرورت کے تحت ان جانوروں کو ذبح کرکے کھا سکتا ہے، لیکن اس کے بھی الله رب العزت نے کچھ احکامات دیے ہیں اور ذبح کرتے وقت اسلام کا حکم ہے کہ جانور کو کم سے کم تکلیف دی جائے۔
وعن شداد بن اوس رضی الله تعالی عنہ عن رسول الله قال: ان الله تبارک وتعالی کتب الاحسان علی کل شیء، فاذا قتلتم فاحسنوا القتلة، واذا ذبحتم فاحسنوا الذبح، ولیحد احدکم شفرتہ، ولیرح ذبیحتہ․ (رواہ مسلم)
حضرت شداد بن مسلم فرماتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الله تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کرنے کو ضروری فرمایا ہے، سو جب تم ( کسی مجرم) کو قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کیا کر واور جب تم ( کسی جانور کو) ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کیا کرو اور اس اچھے طریقے میں یہ بھی شامل ہے کہ تم میں سے جو شخص بھی اس کام کو کرنے والا ہو وہ اپنے چاقو کو تیز کر لیا کرے اور ذبیحہ کو راحت دے۔ اور جانور کو کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنے سے بھی شریعت نے منع کیا اور جانور کے سامنے چھری تیز کرنے کو بھی ناپسند کیا ہے، شریعت نے کسی جانور کو بلا ضرورت ذبح کرنا، یعنی اس کا گوشت کھانا جب مقصد نہ ہو یہ بھی مذموم قرار دیا۔ حضرت عبدالله بن عمرو سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کسی چڑیا کو یااس سے بڑے جانور کو اس کے حق کے خلاف قتل کرے تو الله تعالیٰ اس کے قتل کے متعلق باز پرس فرمائیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول الله! اور اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ اس کو کھانے کے لیے ذبح کرے اور اس کا سر جدا کرکے پھینک نہ دے ۔( رواہ احمد)
مطلب یہ کہ بلاضرورت اور بے کار کسی جانور کو قتل نہ کرے، بلکہ جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہو اور اس کا کھانا مقصود ہو تو باقاعدہ ذبح کرے۔ یہ جانوروں کے حقوق سے متعلق اجمالی نظر ہے، ورنہ اس موضوع پر اگر احکام کو جمع کیا جائے تو ایک کتاب ترتیب دی جاسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment