Friday 18 July 2014

مسجد کے احكام وآداب

القرآن :
وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا {سورۃ الجن:18}
ترجمہ:
اور یہ کہ بلاشبہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، پس مت پکارو اللہ کے ساتھ کسی کو۔
تشریح :
مسجد یعنی جہاں سجدہ کیا جاۓ، اس جگہ کے خاص اعمال الله ہی کے لیے سجدہ (نماز) اور دعا (پکارنا) ہےیوں تو الله کی ساری زمین اس امّت کے لئے (وقت نماز ہوجانے پر وہیں نماز ادا کرنے کو حکماً) مسجد بنادی گئی ہے۔ لیکن خصوصیت سے وہ مکانات جو مسجدوں کے نام سے خاص عبادت الہٰی کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ ان کو اور زیادہ امتیاز حاصل ہے۔ اس آیت میں مقصد و احترام مسجد کے متعلق دو باتیں واضح ہوتی ہیں: (1) یہ کہ مساجد الله ہی (کی رضا کے لیے عبادت کرنے ، دین سیکھنے اور سکھانے یعنی آخرت کی تیاری کرنے) کے لیے ہیں ، اس کے سوا (آخرت کی فکر وتیاری سے غافل کرنے والی کسی دنیاوی) باتوں کے لیے نہیں ہیں، لہذا علمائے کرام نے قرآن و احادیث کی روشنی میں مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھنے کا سختی سے حکم دیتے اس میں خرید وفروخت کرنا، دنیاوی گفتگو کرنا، گمشدہ چیزوں کے بارے میں اعلانات کرنا، ناپسندیدہ اشعار پڑھنا ممنوع ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ أَوْ يَبْتَاعُ فِي المَسْجِدِ، فَقُولُوا: لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً، فَقُولُوا: لَا رَدَّ اللَّهُ عَلَيْكَ
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید و فروخت کر رہا ہو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے، اور جب ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اسے) تلاش کرتا ہو تو کہو: اللہ تمہاری چیز تمہیں نہ لوٹائے۔
[ترمذی:1321، بیھقی:4345]



ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے مسجد میں دو آدمیوں کو "بلند آواز" میں باتیں کرتے ہوئے سنا تو ان کو ہلکی سی ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا کہ تم دیہاتی ہو اور تمہیں مسجد کے آداب کا علم نہیں اگر تم مدینے کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا ۔
[مشکوٰۃ : باب المساجد ومواضع الصلاۃ]۔

مسجد میں "بلند آواز سے" دعا وتلاوت قرآن بھی نہ کرے:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَاءَةِ فَكَشَفَ السِّتْرَ ، وَقَالَ : " أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ، وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ ، أَوْ قَالَ : فِي الصَّلَاةِ " .
ترجمہ :
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف کیا، آپ ﷺ نے لوگوں کو بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو پردہ اٹھا کر فرمایا : تم میں سے ہر ایک اپنے پروردگار کو پکارتا ہے لہذا کوئی دوسرے کو ایذاء نہ دے اور نہ اپنی آواز قرآن پڑھنے میں دوسرے کے مقابلہ میں بلند کرے یا یہ کہا کہ اپنی آواز دوسرے کے مقابلہ میں بلند نہ کرے۔
[سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1328 (16187) رات کی نماز جہراً قرأت کرنا]
خلاصة حكم المحدث : صحيح
[السلسلة الصحيحة ، الألباني : 4/129،134]




آمین بھی آہستہ کہنا افضل ہے، کیونکہ حضرت عطاءؒ سے مروی ہے کہ
"آمین دعا ہے".
[صحیح بخاري: ۱/۱۰۷، کتاب الأذان: باب جہر الإمام بالتأمین]
اور قرآن مجید دعا مانگنے کا مؤدب طریقہ یہ سکھلاتا ہے کہ
"تم دعا کرو اپنے رب سے عاجزی سے گڑگڑا کر اور خفیہ (دبی) آواز سے"
[سورۃ الأعراف:٢٥]

نوٹ :
"آمین سے مسجد گونج اٹھی" والی [سنن ابن ماجہ: ص٦١] کی روایت کی سند میں ایک راوی "بشر بن رافع"  ضعیف ہے.
[میزان الاعتدال:١/١٤٧]

(2) دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ مساجد میں الله کے ساتھ کسی کو (ظاہری اسباب کے تحت مدد کے سوا ، غائبانہ حاجات و ضروریات میں) نہ پکارا جائے (دعا کی جاۓ)۔ یعنی وہاں جا کر اللہ کے سوا کسی ہستی کو غائبانہ پکارنا ظلمِ عظیم اور شرک کی بدترین صورت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خالص خدائے واحد کی طرف آؤ اور اس کا شریک کر کے کسی کو کہیں بھی مت پکارو، خصوصًا مساجد میں جو اللہ کے نام پر تنہا اسی کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہیں۔ بعض مفسّرین نے "مساجد" سے مراد وہ اعضاء لئے ہیں جو سجدہ کے وقت زمین پر رکھے جاتے ہیں۔ اس وقت مطلب یہ ہو گا کہ یہ الله کے دیئے ہوئے اور اس کے بنائے ہوئے اعضاء ہیں۔ جائز نہیں کہ ان کو اس مالک و خالق کے سوا کسی دوسرے کے سامنے جھکاؤ۔

نوٹ :
آج کل مساجد کی دیواروں میں "یا الله" کے ساتھ "یا محمّد" یا "یا علی" وغیرہ کے الفاظ سے منقّش اینٹیں لگائی جاتی ہیں، اگر لگانی ہی ہیں تو اس آیت کو لگاکر توحید کا الہامی پیغام پھیلایا جانا چاہیے۔




آئیں مسجد کے آداب سیکھیں​:
مساجد ﷲ کا گھر ہیں اور توحید کا گہوارہ ہیں وہاں ﷲ کے سوا کسی اور کو پکارنا جائز نہیں۔مساجد کی عزت اور تعظیم کے لیے کچھ آداب کو پیش رکھنا ضروری ہے۔

(1) مساجد میں داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے اندر رکھنا چاہیے اور یہ دعا پڑھنی چاہے۔
"اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي ‌أَبْوَابَ ‌رَحْمَتِكَ"
ترجمہ :
یااﷲ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ 
[صحیح مسلم:713،  سنن ابن ماجه:771، سنن أبي داود:465، سنن الترمذي:314

«السَّلَامُ عَلَى النَّبِيِّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، اللَّهُمَ افْتَحْ لِي ‌أَبْوَابَ ‌رَحْمَتِكَ وَالْجَنَّةَ»۔
[المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي:1663]
«اللَّهُمْ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، اللَّهُمُ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، وَافْتَحْ لِي ‌أَبْوَابَ ‌رَحْمَتِكَ»۔
[المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي:1664]
«بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمُ افْتَحْ لِي ‌أَبْوَابَ ‌رَحْمَتِكَ، وَسَهِّلْ عَلَيَّ أَبْوَابَ رِزْقِكَ»
[المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي:1666]


پاک جگہ جوتے اتارنا:
إِنّى أَنا۠ رَبُّكَ فَاخلَع نَعلَيكَ ۖ إِنَّكَ بِالوادِ المُقَدَّسِ طُوًى {سورۃ طٰہٰ:12}
میں تو تمہارا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دو۔ تم (یہاں) پاک میدان (یعنی) طویٰ میں ہو۔
"طُویٰ" اس میدان کا نام ہے۔ شاید وہ میدان پہلے سے متبرک تھا یا اب ہو گیا۔ موسٰیؑ کی جوتیاں ناپاک تھیں اس لئے اتروا دی گئیں۔ باقی موزہ یا جوتہ پاک ہو تو اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں پورا مسئلہ فقہ میں دیکھنا چاہیئے۔

(2) مسجد میں فضول باتوں سے پرہیز کیا جائے ،بدن لباس پاک صاف ہو،بہتر ہے کہ گھر سے مسجد میں باوضو ہو کر جائیں۔

(3) مسجد میں داخل ہونے کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا سنت ہے ،اس کو تحیتہ المسجد کہتے ہیں۔فرض نماز مسجد میں پڑھنا واجب ہے،بلاعذر گھر میں نماز قبول نہیں ہوتی۔

(4) جب لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو ان کے سامنے سے گزرنا منع ہے۔اس کے بارے میں حدیث میں وعید آئی ہے۔

(5) سجدوں کو پاک صاف رکھنا اور گردوغبار جھاڑنا(یا اس خدمت پر کسی کو مقرر کرنا) مسلمانوں کے ذمہ ہے۔

(6) مسجد میں بدبو دار چیزیں(سگریٹ وغیرہ) لے کر آنا یا (کچی لہسن، پیاز وغیرہ) کھا کر جانا منع ہے۔[صحيح البخاري: 7359]، اگر کوئی ناگوار بدبودار چیز کھائی ہو پیاز،لہسن وغیرہ توٹھ پیسٹ یا مسواک کے زریعہ منہ صاف کرکےجانا چاہے،مسجد میں خوشبو لگا کر جانا چاہے۔ میلے یا بدبودار کپڑوں کو نہ پہن کر آنا چاہیے بلکہ حکم قرآن کے مطابق : اے اولاد آدم کی! لے لو اپنی زینت و آرائش ہر نماز کے وقت [سورۃ الاعراف:31] خصوصاً جمعہ کو تو نہا دھو کر خوشبو اور مسواک کا اہتمام کرنا چاہیے. [ابن ماجہ:1098]

(7) مسجد میں خریدؤفروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

(8) مسجد میں تھوکنا یا ناک کا فضلہ پھیکنا منع ہے:
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَظُنُّهُ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ تَفَلَ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَفْلُهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ، وَمَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الْبَقْلَةِ الْخَبِيثَةِ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا ثَلَاثًا " .
ترجمہ:
حضرت حذیفہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے قبلہ رخ تھوک دیا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا تھوک اس کی دنوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ہوگا اور جو شخص اس گندی سبزی (لہسن یا پیاز) کو کھائے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ پھٹکے تین دن تک۔
[سنن أبي داود » رقم الحديث: 3330]

تخريج الحديث

 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1من أكل من هذه البقلة الخبيثة فلا يقربن مسجدنا ثلاثاحذيفة بن حسيلسنن أبي داود33303824أبو داود السجستاني275
2من تفل تجاه القبلة جاء يوم القيامة وتفلته بين عينيه ومن أكل من هذه البقلة الخبيثة فلا يقربن مسجدناحذيفة بن حسيلصحيح ابن خزيمة15741569ابن خزيمة311
3من أكل من هذه البقلة الخبيثة فلا يقربن مسجدنا ثلاثاحذيفة بن حسيلصحيح ابن حبان16771643أبو حاتم بن حبان354
4من تفل تجاه القبلة جاء يوم القيامة تفله بين عينيه ومن أكل من هذه البقلة الخبيثة فلا يقربن مسجدنا ثلاثاحذيفة بن حسيلالسنن الكبرى للبيهقي46543 : 76البيهقي458
5من أكل من هذه الشجرة الخبيثة أو البقلة الخبيثة فلا يقربن مسجدناحذيفة بن حسيلالبحر الزخار بمسند البزار25472905أبو بكر البزار292
6من أكل من هذه البقلة الخبيثة فلا يقربن مسجدنا ثلاثاحذيفة بن حسيلإتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة11741497البوصيري840





























(9) مسجد میں(نماز جمعہ کو) دیر سے آنے والوں کو اگلی صف میں جانے کے لیے لوگوں کے کندھے پھلانگ کرجانامنع ہے کیونکہ اس سے پہلے آنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔(ابو داود:1115)


(10) جب دوسرے لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو بلند آواز سے ذکر کرنا حتی کہ تلاوت قرآن مجید بھی منع ہے کیونکہ اس سے دوسروں کی عبادت میں خلل پڑتاہے۔[ابو داود:1136]

(11) مسجدوں میں کوئی ایسی گفتگو نہ کی جائے جس سے دوسروں کی تحقیر ہوتی ہو، نہ ہی کوئی ایسی حرکت کی جائے جو دوسروں کی اذیت کا باعث ہو۔

(12) مسجد کا امام علم، تقویٴ اور عمل کی بناء پر مقرر کیا جانا چاہیے جو علم، تقوئ و دینداری میں سب سے برتر ہو۔

(13) مسجد میں جاتے ہوئے وقار اور ادب سے مدنظر رکھا جاہے، کسی عبادت کرتے بھائی کی عبادت میں خلل نہ ڈالتے  سلام کیے بغیر خاموشی سے داخل ہوجائے اگر کوئی بات کرنی پڑے تو آہستہ سے کی جائے۔ذیادہ وقت تلاوت قرآن،نوافل،اور نماز میں صرف کیا جائے۔  مسجد میں اپنی دونوں ہاتھوں کی انگلیاں انگلیوں میں ڈالکر جال بنا کر بیٹھنا ، اور (نماز میں) انگلیاں چٹخانا بھی ممنوع ہیں.[ابو داود:562]


(14) مسجد سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھنی چائیے:
"اللَّهُمَّ إِني أسألُك مِنْ فَضْلك"۔
"الہی!میں تیرے فضل کا سائل ہوں"۔
[صحیح مسلم:713،  سنن ابن ماجه:771، سنن أبي داود:465، سنن الترمذي:314]

«السَّلَامُ عَلَى النَّبِيِّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، اللَّهُمْ أَعِذْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ، وَمِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ»
[المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي:1663]
«اللَّهُمْ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، اللَّهُمُ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ»
[المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي:1666]




(15) ناسمجھ بچوں اور پاگلوں سے مسجد سے دوررکھو .
عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «‌جَنِّبُوا ‌مَسَاجِدَكُمْ ‌صِبْيَانَكُمْ، وَمَجَانِينَكُمْ، وَشِرَاءَكُمْ، وَبَيْعَكُمْ، وَخُصُومَاتِكُمْ، وَرَفْعَ أَصْوَاتِكُمْ، وَإِقَامَةَ حُدُودِكُمْ، وَسَلَّ سُيُوفِكُمْ، وَاتَّخِذُوا عَلَى أَبْوَابِهَا الْمَطَاهِرَ، وَجَمِّرُوهَا فِي الْجُمَعِ».
ترجمہ:
حضرت واثلہ بن اسقع ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم اپنی مسجدوں کو بچوں، دیوانوں (پاگلوں) ، خریدو فروخت کرنے والوں، اور اپنے جھگڑوں (اختلافی مسائل) ، اپنی آوازوں کو بلند کرنے، اپنی حدود قائم(مخصوص)کرنے اور تلواریں کھینچنے سے محفوظ رکھو، اور مسجدوں کے دروازوں پر طہارت خانے بناؤ، اور جمعہ کے روز مسجدوں میں خوشبو جلایا کرو۔

حکم الحدیث:
١) المحدث: السخاوي - المصدر: المقاصد الحسنة - الصفحة أو الرقم: 210
خلاصة حكم المحدث: إسناده ضعيف وله شاهد
یعنی اس (حدیث) کی سند اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس (حدیث کے مضمون کی دوسری صحیح سند) شاہد ہے.


٢) المحدث: محمد بن محمد الغزي - المصدر: إتقان ما يحسن - الصفحة أو الرقم: 1/215
خلاصة حكم المحدث: إسناده ضعيف وله شواهد
یعنی اس (حدیث) کی سند اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس (حدیث کے مضمون کی دوسری صحیح اسناد) کے شواہد ہیں.


٣) المحدث: محمد جار الله الصعدي - المصدر: النوافح العطرة - الصفحة أو الرقم: 117
خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره
یعنی (اس حدیث کی سند) ٹھیک ہے اس کے سوا (کی اسناد) سے.


شواهد:
الراوي: معاذ بن جبل - المحدث: البوصيري - المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 2/41
خلاصة حكم المحدث: له شاهد
یعنی اس (حدیث کی سند) کا شاہد ہے.

الراوي: [أبو هريرة] - المحدث: الزرقاني - المصدر: مختصر المقاصد - الصفحة أو الرقم: 347
خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره
یعنی (اس حدیث کی سند) ٹھیک ہے اس کے سوا (کی اسناد) سے.

الراوي: مكحول - المحدث: الألباني - المصدر: إرواء الغليل - الصفحة أو الرقم: 7/362
خلاصة حكم المحدث: إسناده مرسل صحيح


واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذان روح بلالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

ماخذ: (روضتہ الاطفال)






























=============================

مسجد میں "بلند آواز سے" دعا وتلاوت قرآن بھی نہ کرے:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَاءَةِ فَكَشَفَ السِّتْرَ ، وَقَالَ : " أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ، وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ ، أَوْ قَالَ : فِي الصَّلَاةِ " .
ترجمہ :
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف کیا، آپ ﷺ نے لوگوں کو بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو پردہ اٹھا کر فرمایا : تم میں سے ہر ایک اپنے پروردگار کو پکارتا ہے لہذا کوئی دوسرے کو ایذاء نہ دے اور نہ اپنی آواز قرآن پڑھنے میں دوسرے کے مقابلہ میں بلند کرے یا یہ کہا کہ اپنی آواز دوسرے کے مقابلہ میں بلند نہ کرے۔
[سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1328 (16187) رات کی نماز جہراً قرأت کرنا]
خلاصة حكم المحدث : صحيح
[السلسلة الصحيحة ، الألباني : 4/129،134]

1) مصنف عبد الرزاق  » كِتَابُ الصَّلاةِ  » بَابُ قِرَاءَةِ اللَّيْلِ ... رقم الحديث: 4082
2) مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 11678
3) صحيح ابن خزيمة  » كِتَابُ الصَّلاةِ  » جُمَّاعُ أَبْوَابِ صَلاةِ التَّطَوُّعِ بِاللَّيْلِ ... رقم الحديث: 1103
4) المستدرك على الصحيحين » رقم الحديث: 1103(1 : 310)
5) السنن الكبرى للنسائي » رقم الحديث: 7778
6) السنن الكبرى للبيهقي  » كِتَابُ الْحَيْضِ  » جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْخُشُوعِ فِي الصَّلاةِ وَالإِقْبَالِ ... رقم الحديث: 4319 (3 : 11)
7) شعب الإيمان للبيهقي  » التَّاسِعَ عَشَرَ مِن شُعَبِ الإِيمَانِ هَو بَابٌ ... رقم الحديث: 2429
8) مسند عبد بن حميد » رقم الحديث: 891
9) الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر  » - كِتَابُ السَّفَرِ  » جِمَاعُ أَبْوَابِ صَلاةِ التَّطَوُّعِ بِاللَّيْلِ ... رقم الحديث: 2512
10) تاريخ بغداد للخطيب البغدادي » رقم الحديث: 4446(15 : 207)
[فتاویٰ علمائے حدیث:کتاب الصلاۃ: جلد 1 ص 109۔110]

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَاءَةِ فَكَشَفَ السِّتْرَ ، وَقَالَ : " أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ، وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ ، أَوْ قَالَ : فِي الصَّلَاةِ " .
[سنن أبي داود  » كتاب التطوع  » أَبْوَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ  » بَاب فِي رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ ... رقم الحديث: 1136]
خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]

المحدث: ابن عبدالبر  - المصدر: التمهيد - الصفحة أو الرقم: 23/318 (رقم الحديث: 4296)
خلاصة حكم المحدث: صحيح

المحدث: النووي  - المصدر: المجموع - الصفحة أو الرقم: 3/392
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

المحدث: الوادعي  - المصدر: الصحيح المسند - الصفحة أو الرقم: 430
خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط الشيخين

المحدث: ابن باز  - المصدر: فتاوى نور على الدرب لابن باز - الصفحة أو الرقم: 8/226
خلاصة حكم المحدث: ثابت

المحدث: الألباني  - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 4/134
السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 4/129
أصل صفة الصلاة - الصفحة أو الرقم: 1/370
صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم: 1332
صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2639
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط الشيخين
===================
اس کے علاوہ یہ روایت حضرت عبد الله بن عباس سے 
[مسند الربيع بن حبيب  » بَابٌ فِي الْقِرَاءَةِ فِي الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 229]

اور حضرت عبدالله بن عمر سے 
[مسند أحمد بن حنبل  » رقم الحديث: 4787+5198+5960]
1) صحيح ابن خزيمة  » كِتَابُ الصِّيَامِ  » جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاعْتِكَافِ ... رقم الحديث: 2090
2) البحر الزخار بمسند البزار 10-13 » رقم الحديث: 1729
3) مصنف ابن أبي شيبة  » كتاب الصلاة  » أَبْوَابُ مَسَائِلَ شَتَّى فِي الصَّلاةِ ... رقم الحديث: 8273
4) مصنف ابن أبي شيبة  » رقم الحديث: 29084(7 : 107)
5) المعجم الكبير للطبراني  » بَابُ التَّاءِ  » بَابٌ ... رقم الحديث: 13405
6) تاريخ جرجان للسهمي  » باب حرف الألف ... رقم الحديث: 114(1 : 115)
7) تاريخ جرجان للسهمي  » حرف الميم ... رقم الحديث: 583(1 : 389)
8) أخبار الصلاة لعبد الغني المقدسي  » رقم الحديث: 38

اور حضرت فروة بن عمرو الأنصاري 
[موطأ مالك رواية يحيى الليثي  » كِتَابُ الصَّلاةِ  » بَابُ الْعَمَلِ فِي الْقِرَاءَةِ ... رقم الحديث: 174]
1) موطأ مالك برواية أبي مصعب الزهري  » كِتَاب الطَّهَارَةِ  » جَامِعُ الحيض ... رقم الحديث: 141
2) مسند الموطأ للجوهري  » الْجُزْءُ الرَّابِعُ مِنْ مُسْنَدِ مُوَطَّأِ مَالِكٍ ...  » بَابُ : الْيَاءِ ... رقم الحديث: 659
3) مسند أحمد بن حنبل  » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ...  » تتمة مسند الكوفيين ... رقم الحديث: 18625
4) السنن الكبرى للنسائي » رقم الحديث: 7777
5) السنن الكبرى للبيهقي  » كِتَابُ الْحَيْضِ  » جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْخُشُوعِ فِي الصَّلاةِ وَالإِقْبَالِ ... رقم الحديث: 4320(3 : 11)
٦6 شعب الإيمان للبيهقي  » التَّاسِعَ عَشَرَ مِن شُعَبِ الإِيمَانِ هَو بَابٌ ... رقم الحديث: 2427
7) فضائل القرآن للقاسم بن سلام  » رقم الحديث: 200
8) معرفة الصحابة لأبي نعيم  » حَرْفُ الأَلِفِ  » مَنِ اسْمُهُ أَنَسٌ ... رقم الحديث: 6614
9) شرح السنة » رقم الحديث: 604
10) غوامض الأسماء المبهمة لابن بشكوال  » فروة بْن عمرو البياضي ... رقم الحديث: 767
11) إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة  » كِتَابُ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ  » بَابٌ فِي الْخُشُوعِ وَتَرْكِ الِالْتِفَاتِ ... رقم الحديث: 1618

اور حضرت (رشيد) أبو عمرة الأنصاري
[الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم  » ذِكْرُ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ دُلَيْمِ بْنِ حَارِثِ ... رقم الحديث: 1784]

رضی الله عنھم اجمعین سے بھی صحیح ثابت ہے.

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (مسجد میں) قبلے کی طرف رینٹھ پڑا ہوا دیکھا تو آپ ﷺ کو بہت ناگوار گذرا یہاں تک کہ اس ناگواری کا اثر آپ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہو رہا تھا۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور اسے خود اپنے دست مبارک سے کھرچ کر پھینکا اور فرمایا کہ ، تم میں سے جب کوئی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے سر گوشی کرتا ہے اور اس وقت اس کا پروردگار اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ قبلے کی طرف ہرگز نہ تھوکے بلکہ اپنے بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوک لے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر مبارک کا ایک کونہ لیا اور اس میں کچھ تھوکا اور پھر کپڑے کو آپس میں رگڑ کر فرمایا کہ " اس طرح کر لیا کرو۔"
[صحیح البخاری]
تشریح:
اس کا پروردگار اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ قبلے کی طرف متوجہ ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہونے اور اس کے قریب ہونے کا ارادہ کرتا ہے لہٰذا چونکہ اس کا مطلوب اور مقصود اس کے اور قبلے کے درمیان ہے اس لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ قبلے کی سمت کو تھوک سے بچایا جائے۔ بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوکنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ کوئی آدمی مسجد میں نماز نہ پڑھ رہا ہو۔ مسجد میں نماز پڑھنے کی صورت میں بائیں طرف اور قدموں کے نیچے بھی تھوکنا نہیں چاہئے کہ اس سے مسجد کے آداب و احترام میں فرق آتا ہے بلکہ اس صورت میں اگر تھوکنے کی ضرورت محسوس ہو تو کسی کپڑے میں تھوک لیا جائے پھر اسے رگڑ کر صاف کر لیا جائے۔
[مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 707(37276) مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان]




حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ میں اور نبی ﷺ ایک برتن سے غسل کرتے تھے، (جب کہ) ہم دونوں جنبی ہوتے تھے اور حیض کی حالت میں آپ مجھے حکم دیتے تھے، میں ازار پہن لیتی تھی، پھر آپ مجھ سے اختلاط کرتے تھے، (یہ بھی ہوتا تھا کہ) آپ بحالت اعتکاف اپنا سر (مبارک) میری طرف نکال دیتے تھے اور میں اس کو دھو دیتی تھی، حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔ 
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 299 -حائضہ عورت سے اختلاط کرنے کا بیان]





ناپاکی، جنابت اور حیض کی حالت میں مسجد میں آنا جائز نہیں ہے، البتہ احاطۂ مسجد میں دکان یا وضو خانہ، طہارت خانہ یا ایسی جگہ جہاں نماز نہیں پڑھی جاتی وہ مسجد شرعی کے حکم میں نہیں ہے اس لیے ناپاکی کے حالت میں بھی وہاں جاسکتے ہیں۔ حوالہ
عن عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهُ بُيُوتِ أَصْحَابِهِ شَارِعَةٌ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ وَجِّهُوا هَذِهِ الْبُيُوتَ عَنْ الْمَسْجِدِ ثُمَّ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَصْنَعْ الْقَوْمُ شَيْئًا رَجَاءَ أَنْ تَنْزِلَ فِيهِمْ رُخْصَةٌ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ بَعْدُ فَقَالَ وَجِّهُوا هَذِهِ الْبُيُوتَ عَنْ الْمَسْجِدِ فَإِنِّي لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ
(ابو داود بَاب فِي الْجُنُبِ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ ۲۰۱)


مسجد میں داخل ہوتے وقت اپناداہنا قدم ڈال کر درود شریف پڑھ کر اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ پڑھے اور نکلتے وقت بایاں قدم پہلے نکالیں اور درود شریف پڑھ کر اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَپڑھے۔ حوالہ
عن أَبي حُمَيْدٍ أَوْ أَبي أُسَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لِيَقُلْ اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ فَإِذَا خَرَجَ فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ۔
(ابو داود بَاب فِيمَا يَقُولُهُ الرَّجُلُ عِنْدَ دُخُولِهِ الْمَسْجِدَ ۳۹۳)

مسجد میں کوئی بدبودار چیز کھا کر داخل نہ ہو جیسے لہسن ،پیاز وغیرہ اور جاتے ہی بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے اور کوئی بھی ایسا عمل نہ کرے جو احترام مسجد کےخلاف ہو، کھانا پینا اور سونا وغیرہ اگر مجبوری ہے تو گنجائش ہوسکتی ہے۔ حوالہ
عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ قَالَ أَوَّلَ يَوْمٍ الثُّومِ ثُمَّ قَالَ الثُّومِ وَالْبَصَلِ وَالْكُرَّاثِ فَلَا يَقْرَبْنَا فِي مَسَاجِدِنَا فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ الْإِنْسُ(نسائي باب مَنْ يُمْنَعُ مِنْ الْمَسْجِدِ ۷۰۰) عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ(بخاري بَاب إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ ۴۲۵)عن نَافِع قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَأَنَّهُ كَانَ يَنَامُ وَهُوَ شَابٌّ أَعْزَبُ لَا أَهْلَ لَهُ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،،، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ قَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ فَجَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ وَأَصَابَهُ تُرَابٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ قُمْ أَبَا تُرَابٍ قُمْ أَبَا تُرَابٍ(بخاري بَاب نَوْمِ الرِّجَالِ فِي الْمَسْجِدِ ۴۲۱،۴۲۲) الضرورات تبيح المحظورات(الاشباه والنظائر:۱۰۷/۱)



مسجدوں کو گزرگاہ نہ بناؤ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسجدوں کو گزرگاہ (گزرنے کا راستہ) نہ بناؤ ، یہ مساجد تو نماز اور اللہ کے ذکر کے لئے ہیں۔
[(المعجم الأوسط للطبراني : 1/14 ، مجمع الزوائد : 2/27 ، صحيح الجامع : 7215 ، السلسلة الصحيحة : 1001 ، الترغيب والترهيب : 1/164 ، صحيح الترغيب : 295 ، النوافح العطرة : 446)​]



اللہ کو اُن کی کوئی پرواہ نہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے قریب ایسے لوگ ہوں گے جو مسجدوں میں دنیا کی باتیں کریں گے ، اللہ تعالی کو ایسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں۔
[صحيح ابن حبان : 6761 ، ، الترغيب والترهيب: 1/165 ، صحيح الترغيب 296]








مساجد بنانے کی فضیلت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «‌أَحَبُّ ‌الْبِلَادِ ‌إِلَى ‌اللَّهِ ‌مَسَاجِدُهَا، وَأَبْغَضُ الْبِلَادِ إِلَى اللَّهِ أَسْوَاقُهَا»۔
ترجمہ:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہروں میں پیاری جگہ اللہ کے نزدیک مسجدیں اور سب سے بری جگہ اللہ کے نزدیک بازار ہیں۔“
[صحيح مسلم:671، صحيح ابن خزيمة:1293، صحيح ابن حبان:1600]




حضرت عثمان بن عفان ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: 
مَنْ بَنَى مَسْجِدًا للهِ) (1) (يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللهِ) (2) (بَنَى اللهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ ") (3) وفي رواية: " بَنَى اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ۔
ترجمہ:
جس نے مسجد بنائی (1) اللہ کی رضا کے لیے (2) تو بنائے گا اللہ اس کے لیے اسی جیسا گھر۔
[سنن الترمذی:318]
جنت میں۔
[سنن ابنِ ماجہ:736، صحيح البخاری:450]




حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ أَوْ أَصْغَرَ، (لَا يُرِيدُ بِهِ رِيَاءً وَلَا سُمْعَةً) ‏‏‏‏‏‏بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ. (أَوْسَعَ مِنْهُ)۔
ترجمہ:
جس شخص نے پرندے کے گھونسلے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹی مسجد اللہ کے لیے بنوائی، (نہیں ارادہ کیا اس سے دکھلاوے کا اور نہ سنوانے کا) تو اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ (اس سے بھی زیادہ بڑا۔)
[سنن ابنِ ماجہ:738، (المعجم الوسط:7005-الصَّحِيحَة: 3399) طبراني:7889-صحيح الترغيب:273]




مساجد کو پاک صاف رکھیں:
عَنْ أَبِيهِ ‌سَمُرَةَ قَالَ: «إِنَّهُ كَتَبَ إِلَى بَنِيهِ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا بِالْمَسَاجِدِ أَنْ نَصْنَعَهَا فِي دُورِنَا، ‌وَنُصْلِحَ ‌صَنْعَتَهَا ‌وَنُطَهِّرَهَا.»
ترجمہ:
حضرت سمرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے (سلیمان) کو لکھا: حمد و صلاۃ کے بعد معلوم ہونا چاہیئے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنے گھروں اور محلوں میں مسجدیں بنانے اور انہیں درست اور پاک و صاف رکھنے کا حکم دیتے تھے۔
[سنن أبي داود:456، المعجم الكبير للطبراني:7026، السنن الكبرى-البيهقي-ط العلمية:4309]




مساجد کو خوشبو سے بسائیں:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِى الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ.
ترجمہ:
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھر اور محلہ میں مسجدیں بنانے، انہیں پاک صاف رکھنے اور خوشبو سے بسانے کا حکم دیا ہے۔
[سنن ابن ماجہ:758، سنن ابی داؤد:455، سنن الترمذی:594]





مسجد۔۔۔
خود ہی ہوجائیں گی جبینیں خم ، یہ اذانیں جہاں کہیں ہوں گی؛
اہلِ ایمان ہیں جب تلک زندہ ، مسجدیں منہدم نہیں ہوں گی۔