Monday 29 October 2012

حنفی مقلد محدثین (حنفی اہلِ حدیث) اور راوی صحاح ستہ وغیرہ میں


http://urdubooklinks.blogspot.com/2012/09/jaiz-na-jaiz-taqleed.html

امام بخاريؒ(م256ھ) بھی امام شافعيؒ (م150ھ) کے مقلد تھے، آخر میں کتاب کے عکس اور حوالہ سے ثبوت ملاحظہ فرمائیں۔
شکریہ

فرقہ غیرمقلدین جدید وکٹورین اہلِ حدیث سے سوال:

اجتہادی مسائل میں مجتہد عالم کی تقلید "شرک" ہے اور مقلد "جاہل" ہوتا ہے تو احادیث کی سندوں/اسناد میں موجود تقلیدِ شخصی کرنے-والے حنفی-مقلد-محدث راوی ہیں، جو بقول آپ کے "مشرک" اور جاہل ہیں تقلیدِ شخصی(حنفی) کے سبب ، تو آپ ان کی احادیث سے اپنا مذہب کیوں اور کس دلیل سے ثابت کروگے ؟؟؟ کیا اپنی طرف سے حدیثِ نبوی کی کوئی کتاب گھڑ کر لاوگے؟؟؟ اب خود کو جاہل مانوگے یا ان مقلد-محدثین کو تقلید کرنے یعنی "مقلد" ہونے کی وجہ سے جاہل و مشرک کہوگے؟


صحاح-ستہ وغیرہ میں موجود حنفی-مقلد- راوی:



(1) أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ (عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ) المتوفیٰ209ھ


صحاح ستہ میں آپ کی 27 روایات دیکھئے:

حق کو تسلیم کرنے والے کیلئے تو کسی بات میں ایک دو دلیل کافی ہے جیسے عقلمند کیلئے اشارہ کافی ہے اور اونٹ کے آگے بین بجانا فضول ہے۔ جبکہ ان کے علاوہ بھی بہت سے رواۃ محدث ہیں۔
 
امام بخاریؒ (م256ھ) لکھتے ہیں:
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
باب: اس بارے میں کہ مسئلے مسائل کی باتیں اور نیک باتیں عشاء کے بعد بھی کرنا درست ہے۔

حدثنا عبد الله بن الصباح، قال: حدثنا ابو علي الحنفي، حدثنا قرة بن خالد، قال: انتظرنا الحسن، وراث علينا حتى قربنا من وقت قيامه فجاء، فقال: دعانا جيراننا هؤلاء، ثم قال: قال انس بن مالك: انتظرنا النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة حتى كان شطر الليل يبلغه، فجاء فصلى لنا ثم خطبنا، فقال:" الا إن الناس قد صلوا ثم رقدوا، وإنكم لم تزالوا في صلاة ما انتظرتم الصلاة"، قال الحسن: وإن القوم لا يزالون بخير ما انتظروا الخير، قال قرة: هو من حديث انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعلی عبیداللہ حنفی نے، کہا ہم سے قرہ بن خالد سدوسی نے، انہوں نے کہا کہ ایک دن حسن بصری رحمہ اللہ نے بڑی دیر کی۔ اور ہم آپ کا انتظار کرتے رہے۔ جب ان کے اٹھنے کا وقت قریب ہو گیا تو آپ آئے اور (بطور معذرت) فرمایا کہ میرے ان پڑوسیوں نے مجھے بلا لیا تھا (اس لیے دیر ہو گئی) پھر بتلایا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے۔ تقریباً آدھی رات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ اس کے بعد خطبہ دیا۔ پس آپ نے فرمایا کہ دوسروں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے۔ لیکن تم لوگ جب تک نماز کے انتظار میں رہے ہو گویا نماز ہی کی حالت میں رہے ہو۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی خیر کے انتظار میں بیٹھے رہیں تو وہ بھی خیر کی حالت ہی میں ہیں۔ قرہ بن خالد نے کہا کہ حسن کا یہ قول بھی انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ہے جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔



































کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان

باب: جنہوں نے اسے مکروہ رکھا کہ کوئی شہری آدمی کسی بھی دیہاتی کا مال اجرت لے کر بیچے۔

حدثني عبد الله بن صباح، حدثنا ابو علي الحنفي، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار، قال: حدثني ابي، عن عبد الله بن عمررضي الله عنه، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبيع حاضر لباد"، وبه قال ابن عباس.
مجھ سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعلی حنفی نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شہری، کسی دیہاتی کا مال بیچے۔ یہی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی کہا ہے۔
































==================================================

ahnaf huffaz e hadith ki fan e jarah o tadeel me


یہ کتاب درحقیقت علامہ سخاویؒ (٨٣١-٩٠٢هجري) کی کتاب "الاعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ" میں "المتكلمون في الرجال" کا ایک انتخاب ہے، جس کو شیخ عبد الفتاح ابوغدہؒ(١٩١٧-١٩٩٧ع) نے مستقل رسالہ کی صورت میں "أربع رسائل في علوم الحديث" کے ساتھ شایع کیا ہے، چونکہ اس سے حنفی علماء کی فہرست الگ کرنے کی ضرورت تھی تو اس عنوان پر مولف مولانا محمّد ایوب الرشیدی صاحب نے اسے کتابی صورت میں ترتیب دیا ہے.
اس کام کی اہمیت کا ایک دوسرا اہم پہلو بھی ہے کہ ایک مخصوص طبقہ جو اپنی تمام تر توانائی اس پر خرچ کرتا ہے کہ حنفی علماء اور علمِ حدیث کے درمیان وسیع اور گہری خلیج ہے، حالانکہ جو لوگ مسلمہ طور پر نہ صرف یہ کہ علماء حدیث کے سرخیل گردانے جاتے ہوں بلکہ فنِ جرح و تعدیل کے ائمہ بھی شمار ہوتے ہوں، انھیں علمِ حدیث کی مناسبت سے دور کرنے کی کوشش کتنی لاحاصل اور احمقانہ کوشش ہے.
بہر کیف مولوی صاحب موصوف کی کوشش لائقِ تحسین، قابلِ تشجیع اور ہمّت افزائی کی مستحق ہے، الله تعالیٰ موصوف کو جزاۓ خیر دے اور اس کوشش کو شرفِ قبولیت سے نوازے، دنیاۓ علم میں مقبولِ عام بناۓ.
آمین بحرمة النبي صلي الله عليه وسلم

Sunday 28 October 2012

نمازِ عید کی زائد چھہ تکبیرات کے دلائل

نمازِ عید کی زائد چھہ تکبیرات کے دلائل
(تکبیراتِ عیدین پر مختلف روایات کتبِ احادیث میں موجود ہیں، دنیا میں موجود مسلمانوں کی اکثریت "احناف" کا جن پر عمل ہیں وہ ذکر کی جاتی ہیں) عید الفطر اور عید الأضحى کی دو رکعات نماز جو چھہ زائد تکبیرات سے ادا کی جاتی ہے. پہلی رکعت میں ثنا کے بعد قرأت سے پہلے تین (٣) زائد تکبیرات کہی جاتی ہیں، اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تین (٣) زائد تکبیرات کہہ کر رکوع کی تکبیر کہتے رکوع میں چلے جاتے ہیں.
پہلی رکعت میں تین (٣) زائد تکبیرات چونکہ تکبیرِ تحریمہ کہکر ثنا کے متصل بعد کہی جاتی ہیں اور دوسری رکعت میں یہ تکبیرات کہکر متصل رکوع کی تکبیر کہی جاتی ہے، اس لئے اس اتصال کی وجہ سے پہلی رکعت میں رکوع کی تکبیر سے مل کر چار. گویا ہر رکعت میں چار تکبیرات شمار ہوں گی.
پہلی روایات میں پہلی رکعت میں تکبیرِ تحریمہ  تین زائد تکبیرات اور رکوع کی تکبیر کو ملا کر پانچ (٥) اور دوسری رکعت میں تین زائد تکبیرات اور رکوع کی تکبر ملا کر چار بتایا گیا ہے اور مجموئی طور پر نو (٩) تکبیرات شمار کی گئی ہیں.

1) أَنَّ الْقَاسِمَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " صَلَّى بِنَا ، النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ ، فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ، وَأَرْبَعًا ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ حِينَ انْصَرَفَ ، قَالَ : لا تَنْسَوْا ، كَتَكْبِيرِ الْجَنَائِزِ ، وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ ، وَقَبَضَ إِبْهَامَهُ " .
ترجمہ : ابو عبدالرحمٰن قاسم فرماتے ہیں کہ مجھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے بتایا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھائی تو چار چار (4،4) تکبیریں کہیں، جب نماز سے فارغ ہوۓ تو ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا : بھول نہ جانا عید کی تکبیرات جنازہ کی طرح (چار) ہیں. آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ کی انگلیوں کا اشارہ فرمایا اور انگوٹھا بند کرلیا.

 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم عيد فكبر أربعا وأربعا ثم أقبل علينا بوجهه حين انصرف قال لا تنسوا كتكبير الجنائز وأشار بأصابعه وقبض إبهامهاسم مبهمشرح معاني الآثار للطحاوي48204829الطحاوي321
2يصلي بالناس إذ مرت بهمة أو عناق ليجيز أمامه فجعل يدنو من السارية ويدنو حتى سبقها فألصق بطنه بالسارية فمرت بينه وبين الناس فلم يأمر الناس بشيءاسم مبهممصنف عبد الرزاق22452321عبد الرزاق الصنعاني211
====================================

حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور میں تکبیراتِ جنازہ کے چار (٤) ہونے پر تمام صحابہِ کرام کا "اتفاق (یعنی اجماع) ہوا. حديث کے الفاظ ہیں : فَأَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ عَلَى أَنْ يَجْعَلُوا التَّكْبِيرَ عَلَى الْجَنَائِزِ ، مِثْلَ التَّكْبِيرِ فِي الأَضْحَى وَالْفِطْرِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ ، فَأُجْمِعَ أَمْرُهُمْ عَلَى ذَلِكَ " .
ترجمہ : تو انہوں نے اس پر اتفاق کیا کہ نماز عید الأضحى اور عید الفطر کی چار تکبیروں کی طرح جنازہ کی بھی چار تکبیریں ہیں.
=======================-
2) عَنْ مَكْحُولٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو عَائِشَةَ جَلِيسٌ لِأَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ سَأَلَ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ ، وَحُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ : كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ ؟ فَقَالَ أَبُو مُوسَى : " كَانَ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا تَكْبِيرَهُ عَلَى الْجَنَائِزِ " ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ : صَدَقَ ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : كَذَلِكَ كُنْتُ أُكَبِّرُ فِي الْبَصْرَةِ حَيْثُ كُنْتُ عَلَيْهِمْ ، وقَالَ أَبُو عَائِشَةَ : وَأَنَا حَاضِرٌ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ .

ترجمہ : حضرت مکحول رح فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک ہمنشین ابوعائشہ نے بتایا کہ میں نے حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح تکبیر کہتے تھے؟ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ (ہر رکعت میں) چار تکبیریں کہتے تھے جیسا کہ آپ نماز جنازہ میں کہتے تھے۔ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں. حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے (مزید) بتایا کہ جب میں بصرہ والوں پر حاکم (گورنر) بنایا گیا تو میں وہاں بھی اسی طرح تکبیریں کہا کرتا تھا. ابوعائشہ نے کہا کہ (اس سوال و جواب کے موقع پر) سعید بن العاص کے ساتھ موجود تھا۔
[سنن ابوداؤد: جلد اول: حدیث نمبر 1150، نماز کا بیان : عیدین کی تکبیرات کا بیان]


 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1يكبر أربعا تكبيره على الجنائزحذيفة بن حسيلمسند أحمد بن حنبل1929419234أحمد بن حنبل241
2كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى أربعا كتكبيره على الجنائزحذيفة بن حسيلشرح معاني الآثار للطحاوي48214830الطحاوي321
3في التكبير على الجنائز خمساحذيفة بن حسيلإتحاف المهرة4125---ابن حجر العسقلاني852
4يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى كان يكبر أربع تكبيرات كتكبيره على الجنائزحذيفة بن حسيلمسند أبي حنيفة لابن يعقوب579---عبد الله بن محمد بن يعقوب بن البخاري340
5يكبر في الأضحى والفطر أربعا كتكبيره على الجنائزحذيفة بن حسيلمسند الشاميين للطبراني35263573سليمان بن أحمد الطبراني360
6يكبر أربعا تكبيره على الجنائزحذيفة بن حسيلالسنن الكبرى للبيهقي57073:289البيهقي458
7الصلاة في العيدين كالتكبير على الجنائز أربع وأربع سوى تكبيرة الافتتاح والركوعحذيفة بن حسيلمعرفة السنن والآثار للبيهقي16941901البيهقي458
8كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الفطر والأضحي فقال أبو موسى كان يكبر أربع تكبيرات تكبيرة على الجنائز وصدقه حذيفةحذيفة بن حسيلتاريخ دمشق لابن عساكر2589567 : 26ابن عساكر الدمشقي571
9كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى كان يكبر أربعا تكبيره على الجنائز وصدقه حذيفةحذيفة بن حسيلتاريخ دمشق لابن عساكر2589667 : 26ابن عساكر الدمشقي571
10كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى أربعا كتكبيره على الجنائز فصدقه حذيفةحذيفة بن حسيلتاريخ دمشق لابن عساكر2589767 : 27ابن عساكر الدمشقي571





==========================
3) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، " أَنَّهُ صَلَّى خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي الْعِيدِ ، فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ، ثُمَّ قَرَأَ ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ ، ثُمَّ قَامَ فِي الثَّانِيَةِ فَقَرَأَ ، ثُمَّ كَبَّرَ ثَلاثًا ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ " حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، مِثْلَهُ .
خلاصة حكم المحدث: [ورد] من طريقين صحيحين [نخب الافكار (العيني) - الصفحة أو الرقم:16/447]

ترجمہ : حضرت عبدالله بن حارث رح نے حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کے پیچھے نماز پڑھی. حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ نے پہلے چار تکبیریں کہیں، پھر قرأت کی، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کیا. پھر جب آپ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوۓ تو پہلے قرأت کی پھر تین تکبیریں کہیں، پھر (چوتھی) تکبیر کہہ کر رکوع کیا.[سنن الطحاوی]



كبَّرَ ابنُ عبَّاسٍ يومَ العيدِ في الرَّكعَةِ الأولى أربعَ تَكْبيراتٍ ، ثمَّ قرأَ ثمَّ رَكَعَ ، ثمَّ قامَ فقَرأَ ثمَّ كبَّرَ ثلاثَ تَكْبيراتٍ سِوى تَكْبيرةِ الصَّلاةِ
الراوي: عبدالله بن الحارث بن نوفل المحدث: ابن حزم المصدر: المحلى - الصفحة أو الرقم: 5/83
خلاصة حكم المحدث: إسناده في غاية الصحة
المحدث: ابن حجر العسقلاني المصدر: الدراية - الصفحة أو الرقم: 1/220
[إرواء الغليل (لألباني) - الصفحة أو الرقم: 3/111 ، السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 6/1262]
ترجمہ : تکبیر کہتے حضرت ابن عباس عید کے دن پہلی رکعت میں (پہلی تکبیر تحریمہ کے ساتھ) چار تکبیرات ، پھر (قرآن کی) قرأت کرتے پھر رکوع کرتے ، پھر (جب دوسری رکعت کو) کھڑے ہوتے تو (پہلے قرآن کی) قرأت کرتے پھر تکبیر کہتے تین تکبیرات سواۓ نماز کی (بقیہ) تکبیرات کے.  
تشریح : یعنی رکوع و سجدہ کو جاتے اور اٹھتے وقت کی تکبیرات علیحدہ ہوتیں.
===========================
4) عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ جَالِسًا ، وَعِنْدَهُ حُذَيْفَةُ ، وَأَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ ، فَسَأَلَهُمَا سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ عَنِ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى ، فَجَعَلَ هَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، وَهَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ : سَلْ هَذَا ، لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، فَسَأَلَهُ ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ " يُكَبِّرُ أَرْبَعًا ، ثُمَّ يَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْكَعُ ، ثُمَّ يَقُومُ فِي الثَّانِيَةِ فَيَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا بَعْدَ الْقِرَاءَةِ " .
[مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِرقم الحديث: 5528]
خلاصة حكم المحدث: إسناده في غاية الصحة 
[المحلى (ابن حزم) - الصفحة أو الرقم: 5/83 ، السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم:6/1261]

ترجمہ : علقمہ اور اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالله بنِ مسعودؓ بیٹھے ہوۓ تھے، ان کے پاس حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابو موسیٰؓ بھی بیٹھے ہوۓ تھے. تو ان سے حضرت سعید بن العاصؓ نے عید الفطر اور عید الأضحى کے متعلق سوال کیا، حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ نے کہا : ان (حضرت حذیفہؓ)  سے پوچھو، پھر حضرت حذیفہؓ نے کہا : یہ مسئلہ حضرت عبدالله بنِ مسعودؓ سے پوچھو، چناچہ انہوں نے پوچھا تو حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا : نمازی چار تکبیریں (ایک تکبیرِ تحریمہ اور تین تکبیراتِ زائد  کہے، پھر قرأت کرے، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرے، دوسری رکعت میں تکبیر کہے، پھر قرأت کرے، پھر قرأت کے بعد چار تکبیریں کہے. (تین تکبیراتِ زائد اور ایک تکبیر رکوع کے لئے)
[المعجم الکبیر للطبرانی : ٤/٥٩٣، رقم : ٩٤٠٢؛ مصنف عبد الرزاق : ٣/١٦٧، باب تكبير في الصلاة يوم العيد، رقم : ٥٧٠٤]








===========================
5) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ" فِي الأُولَى خَمْسَ تَكْبِيرَاتٍ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ ، وَبِتَكْبِيرَةِ الاسْتِفْتَاحِ ، وَفِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى أَرْبَعَةٌ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ " .
[ مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِ , رقم الحديث: 5526 ]

ترجمہ : حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نمازِ عید کی پہلی رکعت میں رکوع اور تحریمہ کی تکبیر کو ملاکر پانچ (٥) تکبیریں ہوتی ہیں اور دوسری رکعت میں رکوع والی تکبیر کو ملاکر چار (٤) تکبیریں بنتی ہیں.
[خلاصہ یہ کہ ہر رکعت میں زائد تکبیروں کی تعداد تین (٣) ہے]




حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : " كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُعَلِّمُنَا التَّكْبِيرَ فِي الْعِيدَيْنِ ، تِسْعَ تَكْبِيرَاتٍ : خَمْسٌ فِي الْأُولَى ، وَأَرْبَعٌ فِي الْآخِرَةِ ، وَيُوَالِي بَيْنَ الْقِرَاءَتَيْنِ ".
[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أبواب العيدين » في التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ وَاخْتِلَافُهُمْ ... رقم الحديث: 5554(5746)]
ترجمہ: حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ وہ عیدین (یعنی دونوں عیدوں) میں نو،نو (9،9) تکبیرات کہتے تھے: پہلی (رکعت) میں پانچ(5) تکبیریں ، اور دوسری (رکعت) میں چار(4) تکبیریں کہتے تھے۔
تشریح:
یعنی پہلی رکعت میں ایک تکبیرِ تحریمہ کع بعد تین(3) تکبیرات عید کی زائد اور ایک رکوع کی، کل پانچ ہوئیں۔ اور دوسری رکعت میں تین(3) تکبیریں عید کی اور ایک رکوس کی، کل چار ہوئیں۔
الراوي: - المحدث: ابن عبدالبر المصدر: الاستذكار - الصفحة أو الرقم: 2/384
خلاصة حكم المحدث: ثابت



================== 
6) عن أنسِ بنِ مالِكٍ أنه قالَ: تِسعُ تَكْبيراتٍ، خَمسٌ في الأولى، وأربعٌ في الآخرةِ، معَ تَكْبيرةِ الصَّلاةِ
[الراوي: محمد المحدث: العيني المصدر: نخب الافكار - الصفحة أو الرقم: 16/454، خلاصة حكم المحدث: طريقه صحيح]
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ : نو (٩) تکبیرات، پانچ (٥) پہلی میں ، اور چار (٤) دوسری میں ، تکبیرات_نماز کے ساتھ.

تشریح : یعنی نماز کی پہلی تکبیرِ تحریمہ اور رکوع کی تکبیر کے ساتھ زاید تین (٣) تکبیرات سے پہلی رکعت میں پانچ (٥) تکبیرات ہوں ، اور دوسری رکعت میں زاید تین (٣) تکبیرات کے ساتھ نماز کی دوسری رکعت میں رکوع میں جانے والی تکبیر کے ساتھ دوسری رکعت میں چار (٤) تکبیرات ہوں.



حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ[ثقہ(تقریب:7557)]، عَنْ أَشْعَثَ[ثقہ(تقریب:531)]، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ[ثقہ(تقریب:5947)]، عَنْ أَنَسٍ [ثقہ(تقریب:565)]«أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْعِيدِ تِسْعًا»، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ۔

ترجمہ: محمد بن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ حضرت انسؓ عید کے دن نو(9) تکبیریں کہتے تھے، اور ان نو(9) تکبیروں کی تفصیل محمد بن سیرینؒ نے ایسے ذکر کی جیسے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی حدیث میں ہے۔



==================
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ طَالِبٍ ، قَالَ : ثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْعَامِرٍ ، " أَنَّ عُمَرَ وَعَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، اجْتَمَعَ رَأْيُهُمَا فِي تَكْبِيرِ الْعِيدَيْنِ عَلَى تِسْعِ تَكْبِيرَاتٍ ، خَمْسٌ فِي الأُولَى ، وَأَرْبَعٌ فِي الآخِرَةِ ، وَيُوَالِي بَيْنَ الْقِرَاءَتَيْنِ " .
[شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الزِّيَادَاتِ » بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا ... رقم الحديث: 4822(7278)]
ترجمہ: امام شیبانیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت ابن مسعودؓ اس بات پر متفق تھے،(عید کی نماز میں)تکبیرات پہلی رکعت میں پانچ(5) اور دوسری رکعت میں چار(4) ہیں۔

نوٹ: (1) جمھور کے نزدیک مرسل روایت حجت ہے۔
(2) اس روایت کے تمام رواۃ ثقہ (قابلِ اعتماد) ہیں۔
(3) اسی طرح حضرت علیؓ، حضرت جابرؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے بھی یہی مروی ہے کہ وہ بھی عیدین میں چھہ(6) تکبیرات کے قائل تھے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ : " أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْفِطْرِ إِحْدَى عَشْرَةَ : سِتًّا فِي الْأُولَى ، وَخَمْسًا فِي الْآخِرَةِ ، يَبْدَأُ بِالْقِرَاءَةِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ ، وَخَمْسًا فِي الْأَضْحَى ، ثَلَاثًا فِي الْأُولَى ، وَثِنْتَيْنِ فِي الْآخِرَةِ ، يَبْدَأُ بِالْقِرَاءَةِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ " .
[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أبواب العيدين » في التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ وَاخْتِلَافُهُمْ ... رقم الحديث: 5557(5700)]




=

=
عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، " أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ أَرْبَعًا ، ثُمَّ يَرْجِعُ فَيَقِيلُ " .


=
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , قَالَا : " تِسْعُ تَكْبِيرَاتٍ ، وَيُوَالِي بَيْنَ الْقِرَاءَتَيُْنِ " .

=
عَنْ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : " التَّكْبِيرُ فِي يَوْمِ الْعِيدِ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى أَرْبَعًا ، وَفِي الآخِرَةِ ثَلاثًا ، فَالتَّكْبِيرُ سَبْعٌ سِوَى تَكْبِيرُ الصَّلاةِ " .


=
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ ، قَالَ : ثَنَا رَوْحٌ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ : ثَنَا يُوسُفُ بْنُ مَاهَكَ ، أَخْبَرَنِي أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ لَمْ يَكُنْ يُكَبِّرُ إِلا أَرْبَعًا ، سِوَى تَكْبِيرَتَيْنِ لِلرَّكْعَتَيْنِ " .

=
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ
ترجمہ: امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ یہ[چھہ(6) تکبیرات کا]تریقہ اصحابِ رسولﷺ میں سے کسی ایک سے نہیں، بلکہ متعدد حضرات سے مروی ہے اور تمام اہلِ کوفہ کا یہی مذہب ہے۔ 

=
ان احادیث اور آثارِ صحابہ کی وجہ سے امام ابوحنیفہؒ کی بھی یہی رائے ہے کہ عیدین میں چھہ(6) تکبیریں سنت ہیں:
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، وَلَا بَأْسَ أَنْ يَخْطُبَهَا قَائِمًا، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ۔
[الآثار لمحمد بن الحسن الشيباني » بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ ۔۔۔ رقم الحديث: 200(202)]


=============


==================