Friday 12 August 2016

سورۃ الکافرون کی فضیلت چوتھائی قرآن کے برابر

Prophetic Motivation:
عمل مختصر، ثواب زیادہ:

 حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِهِ : " هَلْ تَزَوَّجْتَ يَا فُلَانُ ؟ قَالَ : لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَلَا عِنْدِي مَا أَتَزَوَّجُ بِهِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : ثُلُثُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : رُبُعُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : رُبُعُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : أَلَيْسَ مَعَكَ " إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ " ؟ قَالَ : بَلَى ، قَالَ : رُبُعُ الْقُرْآنِ ، قَالَ : تَزَوَّجْ تَزَوَّجْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ .
ترجمہ:
امام ترمذیؒ (209ھ - 279ھ) فرماتے ہیں کہ
ہمیں بیان کیا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ نے کہ مجھے بیان کیا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ نے کہ ہمیں خبر دی سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ نے حضرت انس بن مالکؓ سے، کہ رسول اللہ نے اپنے ایک صحابی سے کہا: اے فلاں! کیا تم نے شادی کرلی؟ انہوں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی! اے اللہ کے رسول! نہیں کی ہے، اور نہ ہی میرے پاس ایسا کچھ ہے جس کے ذریعہ میں شادی کرسکوں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس سورۃ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، میرے پاس ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ (ثواب میں) ایک تہائی قرآن ہے۔ آپ نے کہا: کیا تمہارے پاس سورۃ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ نہیں ہے؟ انہوں نے کہا :کیوں نہیں، (ہے) آپ نے فرمایا: یہ ایک چوتھائی قرآن ہے، آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس سورۃ قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ (ہے) آپ نے فرمایا: (یہ) چوتھائی قرآن ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس سورۃ إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں(ہے)۔ آپ نے فرمایا: یہ ایک چوتھائی قرآن ہے، آپ نے فرمایا: تم شادی کرلو شادی کرلو"۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
[مسند احمد:12488+13309، سنن ترمذی:2895، مسند البزار:6247، معجم ابن الأعرابي:1648، شعب الإيمان للبيهقي:2300، جامع الأحاديث:15260، كنز العمال:2717]

خلاصة حكم المحدث : [أشار في المقدمة إلى صحته]





تشریح:
اس قسم کی روایات جن میں بعض سورتوں کو قرآن کریم کے کسی حصہ کے برابر گردانا گیا ہے: علماءِ کرام نے ایسی حدیثوں کے دو مطلب بان کیے ہیں:
(1) یہ قرآنَ کریم کے مضامین کی مختلف اعتبارات سے تقسیم ہے، جیسے حضرت ابوہریرہؓ سے ایک حدیثِ نبوی میں ہے:
قرآنِ کریم پانچ طرح کے مضامین پر مشتمل ہے: حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثلہ۔ پس حلال کو حلال جانو اور حرام کو حرام جانو، اور محکم پر عمل کرو، اور متشابہ پر ایمان لاؤ، اور امثال کے ذریعہ عبرت حاصل کرو۔
[شعب الإيمان:2293، مشکوٰۃ:182]
اسی طرح مختلف اعتبارات سے قرآنِ کریم کے مضامین کی تقسیم کی گئی ہے، مثلاََ: علومِ قرآن تین ہیں: توحید، احکام اور تہذیبِ اخلاق۔ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ میں توحید کا بیان ہے، پس وہ تہائی قرآن ہے۔
اور قرآنِ کریم دو قسم کے احوال پر مشتمل ہے: دنیوی اور اخروی۔ اور سورۃ الزلزال میں آخرت کا بیان ہے، لہٰذا وہ نصف قرآن ہوئی۔
اور قرآن کریم میں توحید فی العبادۃ اور توحید فی العقیدۃ کا بیان ہے، نیز دنیوی اور اخروی احکام ہیں، اور سورۃ الکافرون میں توحید فی العبادۃ کا مضمون ہے، لہٰذا وہ چوتھائی قرآن ہوئی۔
اسی طرح سورۃ النصر کو بھی چاتھائی قرآن کہا، ان کی تخریج بھی اسی طرح کرلی جائے۔
(2) یہ روایتیں ان سورتوں کے انعامی ثواب کا بیان ہیں، مثلاََ: سورۃ الاخلاص پر جو انعامی ثواب ملتا ہے وہ تہائی قرآن کے اصلی ثواب کے برابر ہے۔
ثواب کی دو قسمیں ہیں: اصلی اور فضلی(انعامی)۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیے، بخاری شریف کا ختم پڑھایا گیا، ہر طالبِ علم کو پانچ لڈو ملے، اور تین طالب علموں نے مٹھائی تقسیم کرنے کا کام سرانجام دیا، آخر میں استاد نے ان تیں طالب علموں کو پندرہ پندرہ لڈو دیئے، ان میں پانچ اصلی ہیں اور باقی دس فضلی یعنی انعامی ہے۔ اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ عمل کا ایک اصلی ثواب ہے اور ایک فضلی ثواب، اور مقابلہ کی صورت میں ایک کا اصلی ثواب لیا جائے گا اور دوسرے کا فضلی۔ اصلی ثواب کا اصلی سے اور فضلی ثواب سے مقابلہ نہیں کیا جائے گا۔ لہٰذا سورۃ الاخلاص پڑھنے کا ثواب تہائی قرآن کے برابر ہے، مگر جو تہائی قرآن پڑھے گا اس کے پاس اصلی اور فضلی دونوں ثواب اکٹھا ہوں گے جو اس فضلی ثواب سے کہیں زیادہ ہوں گے، اس لیے صرف سورۃ الاخلاص پڑھنے پر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے، بلکہ سارا قرآن پڑھنا چاہئے۔

فائدہ:
یہ دوسرا مطلب مشہور ہے اور پہلا مطلب اصح ہے، کیونکہ دوسرا مطلب لینے سے سورۃ الزلزال کا سورۃ الاخلاص سے افضل ہونا لازم آئے گا کیونکہ سورۃ الزلزال کو نصف قرآن کہا گیا ہے، اور سورۃ الاخلاص کو تہائی قرآن، اور اس فضیلت کا کوئی قائل نہیں۔ اس لئے پہلا مطلب اصح ہے۔ واللہ اعلم!

*****************************************************

سورۃ نمبر 109-الكافرون، جو (نازل ہوئی نبی ﷺ پر زمانہ) مکہ میں ، اس میں 6 آیات ہیں۔


أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ. بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ قُلۡ يَـٰٓأَيُّہَا ٱلۡڪَـٰفِرُونَ (١) لَآ أَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُونَ (٢) وَلَآ أَنتُمۡ عَـٰبِدُونَ مَآ أَعۡبُدُ (٣) وَلَآ أَنَا۟ عَابِدٌ۬ مَّا عَبَدتُّمۡ (٤) وَلَآ أَنتُمۡ عَـٰبِدُونَ مَآ أَعۡبُدُ (٥) لَكُمۡ دِينُكُمۡ وَلِىَ دِينِ (٦)

ترجمہ:
تم کہہ دو کہ : اے حق کا انکار کرنے والو۔(1) میں ان چیزوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو۔(2) اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ (3) اور نہ میں (آئندہ) اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم کرتے ہو۔(4) اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔(5) تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔ (6)

مختصر آسان تفسیر:

یہ سورت اس وقت نازل ہوئی تھی جب مکہ مکرمہ کے کچھ سرداروں نے جن میں ولیدبن مغیرہ، عاص بن وائل وغیرہ شامل تھے حضور اقدس ﷺ سے صلح کی یہ تجویز پیش کی کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کرلیا کریں تو دوسرے سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کرلیں گے، کچھ اور لوگوں نے اسی قسم کی کچھ اور تجویز بھی پیش کیں جن کا خلاصہ یہی تھا کہ آنحضرت ﷺ کسی نہ کسی طرح ان کافروں کے طریقے پر عبادت کے لئے آمادہ ہوجائیں تو آپس میں صلح ہوسکتی ہے، اس سورت نے دو ٹوک الفاظ میں واضح فرمادیا کہ کفر اور ایمان کے درمیان اس قسم کی کوئی مصالحت قابل قبول نہیں ہے جس سے حق اور باطل کا امتیاز ختم ہوجائے اور دین برحق میں کفر کی ملاوٹ کردی جائے، ہاں اگر تم حق قبول نہیں کرتے تو تم اپنے دین پر عمل کرو جس کے نتائج تم خود بھگتو گے، اور میں اپنے دین پر عمل کروں گا اور اسکے نتائج کا میں ذمہ دار ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے کوئی ایسی مصالحت جائز نہیں ہے جس میں ان کے دین کے شعائر کو اختیار کرنا پڑے، البتہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے امن کا معاہدہ ہوسکتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم نے سورة انفال (6۔ 8) میں فرمایا ہے۔




قرآنی تفسیر:
محمود اور مذموم اتحاد میں فرق کا معیار:
حق کے ساتھ اتحاد کرنا محمود ولازم ہے، باطل(جھوٹ وظلم)کے ساتھ اتحاد کرنا مذموم وحرام ہے۔

القرآن:
اور اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل، تم اس سے بری ہو جو میں کرتا ہوں اور میں اس سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو۔ 
[سورۃ یونس:41]

کہہ دے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ وہی ہمارا رب اور تمہارا رب ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال اور ہم اسی کے لیے خالص کرنے والے ہیں۔ 
[سورۃ البقرۃ:139]

سو تو اسی کی طرف پھر دعوت دے اور مضبوطی سے قائم رہ، جیسے تجھے حکم دیا گیا ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی مت کر اور کہہ دے کہ اللہ نے جو بھی کتاب نازل فرمائی میں اس پر ایمان لایا اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔ اللہ ہی ہمارا رب اور تمہارا رب ہے، ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں، اللہ ہمیں آپس میں جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ 
[سورۃ الشوریٰ:15]

اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم مجھ سے اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت و بندگی کروں اے جاہلو ! تم یہ کیسی باتیں کرتے ہو۔ 
[سورة زمر۔ آیت نمبر ٦٤]

لاجواب قرآنی سوال:
القرآن:
ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر (قرینِ انصاف) کس کی شہادت ہے کہہ دو کہ الله ہی مجھ میں اور تم میں گواہ ہے اور یہ قرآن مجھ پر اس لیے اتارا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور جس شخص تک وہ پہنچ سکے آگاہ کردوں کیا (پھر بھی)تم لوگ اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ الله کے ساتھ اور بھی معبود ہیں؟ (اے محمدﷺ!) کہہ دو کہ میں تو (ایسی) شہادت نہیں دیتا کہہ دو کہ صرف وہی ایک معبود ہے اور جن کو تم لوگ شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 19]

باطل سے بیزاری کا اعلان سنت ہے:
القرآن:
پھر جب انہوں نے سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا : یہ میرا رب ہے۔ یہ زیادہ بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا : اے میری قوم ! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔
[سورۃ الأنعام، آیت نمبر 78]

باطل سے بیزاری کا اعلان سنت ہے:
القرآن:
لوط نے کہا : یقین جانو، میں ان لوگوں میں سے ہوں جو تمہارے اس کام سے بالکل بیزار ہیں۔
[سورۃ نمبر 26 الشعراء، آیت نمبر 168]

ذکرِ حق(الله)سے بیزار لوگ مؤمن نہیں:
القرآن:
اور جب کبھی "تنہا" الله کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل بیزار ہوجاتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو یہ لوگ خوشی سے کھل اٹھتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 39 الزمر، آیت نمبر 45]

*الله کي دعوت دینے والے داعی سے بیزار لوگ ہی کافر ہیں۔*
القرآن:
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے، ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ : (آج) تمہیں جتنی بیزاری اپنے آپ سے ہو رہی ہے اس سے زیادہ بیزاری الله کو اس وقت ہوتی تھی جب تمہیں ایمان دعوت دی جاتی تھی اور تم انکار کرتے تھے۔
[سورۃ نمبر 40 غافر، آیت نمبر 10]

*کافر کی ناحق بے وفائی اور خدا کی حق بیزاری:*
القرآن:
اگر وہ اپنا رزق بند کردے تو بھلا وہ کون ہے جو تمہیں رزق عطا کرسکے ؟ اس کے باوجود وہ سرکشی اور بیزاری پر جمے ہوئے ہیں۔
[سورۃ نمبر 67 الملك، آیت نمبر 21]




حدیثی تفسیر:
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ سے یہ کہا کہ وہ آپ کو اتنا مال دیں گے کہ آپ مکہ کے امیر ترین شخص ہوجائیں گے اور آپ جس عورت سے شادی کرنا چاہیں گے، وہ اس سے آپ کی شادی کردیں گے، بس آپ ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دیں اور اگر آپ ایسا نہ کریں تو ہم آپ کے سامنے ایک اور پیشکش کرتے ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا، آپ ایک سال تک ہمارے معبودوں یعنی لات اور عزیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال تک ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے، آپ ﷺ نے فرمایا : میں دیکھتا ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا حکم نازل ہوتا ہے، پھر اس کے جواب میں سورة کافرون نازل ہوئی اور یہ آیت نازل ہوئی۔
[تفسیر امام ابن ابی حاتم: 19518، المعجم الصغير للطبراني:751، صحيح السيرة النبوية ، لالباني: ص205]

سعید بن مینا کے غلام ابوالبختریؒ بیان کرتے ہیں کہ الولید بن مغیرہ، العاص بن وائل، الاسود بن المطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ ﷺ سے ملے اور انھوں نے کہا : یا محمد! آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں، ہم آپ کے معبودوں کی عبادت کریں اور ہم اور آپ تمام معاملات میں مشترک ہوجائیں، پھر اگر ہمارا موقف آپ کے موقف سے زیادہ صحیح ہو تو آپ ہمارے موقف سے حصہ لے چکے ہوں گے اور اگر آپ کا موقف ہمارے موقف سے زیادہ صحیح ہو تو ہم آپ کے موقف سے حصہ لے چکے ہوں گے ، تب اللہ تعالیٰ نے سورة کافرون نازل فرمائی۔
[تفسیر امام ابن ابی حاتم:19519، تفسير الطبري:24/703، الدر المنثور:8/655]


امام ابو منصور محمد بن محمد ماتریدی حنفی (م333ھ) لکھتے ہیں :
یہ سورت ان ضدی اور سرکش کافروں کے متعلق نازل ہوئی ہے، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ وہ ہرگز ہرگز کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے اور وہ بت پرستی کو ترک کر کے توحید اور اسلام کی طرف رجوع نہیں کریں گے، کیونکہ ایسا نہیں تھا کہ ہر کافر کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرے گا، کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک وقت میں کافر ہو اور دوسرے وقت میں اسلام لے آئے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ سورت صرف ان ہی کافروں کے متعلق نازل ہوئی ہے، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ یہ تادمِ مرگ کافر ہی رہیں گے اور اسلام نہیں لائیں گے اور واقع میں ایسا ہی ہوا اور اس میں سیدنا محمد ﷺ کی رسالت کے ثبوت پر دلیل ہے کیونکہ آپ نے خبر دی تھی کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور وہ ایمان نہیں لائے اور کفر پر مرگئے۔ اس سورت میں آپ کی رسالت کی دلیل کے علاوہ یہ بھی دلیل ہے کہ کفارِ مکہ جو آپ کو اپنے دین کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ مایوس ہوجائیں کیونکہ آپ کبھی بھی ان کے بتوں کی طرف موافقت کرنے والے نہ تھے۔
[تاویلات اهل السنة: ج ١٠ ص ٦٤١، دارالکتب العلمیہ - بیروت، ١٤٢٦ھ]


*******************************************
سورۃ الکافروں کی تلاوت کے مخصوص اوقات ومقامات:
(1)حج میں مقامِ ابراھیم پر:
سیدنا جابر بن عبداللہؓ حجۃ الوداع کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ مقام ابراہیم پر آئے اور آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى (سورۃ البقرۃ:125) اور تم ابراہیم کی جائے قیام کو نماز کی جگہ بناؤ۔
پھر آپ ﷺ نے مقِام ابراہیم کو اپنے اور کعبہ کے درمیان کرلیا، پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور ان میں (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ) اور (قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْن) کی تلاوت کی۔
[صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی ﷺ :1218]

سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صبح کی دو سنتوں میں (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ) اور (قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْن) کی تلاوت فرمائی۔
[صحیح مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین، باب استحباب رکعتی سنۃ الفجر والحث علیہما۔۔ الخ : 726]

حضرت فروہ بن نوفل الشجعیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے عرض کیا : مجھے کچھ وصیت کیجیے، آپ نے فرمایا : تم سوتے وقت ”قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْن“ پڑھا کرو، کیونکہ یہ سورت شرک سے بری کرتی ہے۔
[التاريخ الكبير للبخاري:2372 ، سنن أبي داود:5055، سنن ترمذی:3403]

حضرت جبیر بن مطعمؓ فرمتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جب تم سفر میں جاؤ تو وہاں تم اپنے سب رفقاء سے زیادہ خوش حال، با مراد ہو اور تمہارا سامان زیادہ ہوجائے ؟ انھوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ بیشک میں ایسا چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ آخر قرآن کی پانچ سورتیں یعنی قل یایھا الکافرون سے آخر تک پڑھا کرو اور ہر سورت بسم اللہ سے شروع کرو اور بسم اللہ ہی پر ختم کرو، حضرت جبیرؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت میرا حال یہ تھا کہ سفر میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے بالمقابل قلیل الزاد اور خستہ حال ہوتا تھا، جب رسول اللہ ﷺ کی اس تعلیم پر عمل کیا، میں سب سے بہتر حال میں رہنے لگا۔
[مسند أبي يعلى:7419، فضائل القرآن للمستغفري:1028، التفسير المظهري:10/ 355]

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کو بچھونے کاٹ لیا تو آپ ﷺ نے پانی اور نمک منگایا آپ ﷺ پانی اور نمک کاٹنے کی جگہ لگاتے جاتے تھے اور قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھتے جاتے تھے۔
[المعجم الصغير للطبراني:830، المعجم الأوسط:5890، سلسلة الأحاديث الصحيحة:548]





”یا ايھا الکافرون“ سے پہلے ”قل“ لانے کے متعلق امام رازیؒ کی توجیہات:
امام رازیؒ (م606ھ) نے یہ بحث چھیڑی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ ”قل“ کیوں فرمایا : یعنی آپ کہیے اور صرف اسی پر اکتفاء کیوں نہیں کیا کہ اے کافرو ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر لفظ ”قل“ نہ ہوتا تو اس سے یہ سمجھا جاتا کہ رسول اللہ ؤ از خود فرما رہے ہیں:
اے کافرو ! حالانکہ آپ بہت نرم مزاج، شفیق اور رحیم و کریم ہیں اور ایسا سخت لفظ کہنا آپ کے مزاج کے مناسب نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں آپ کی نرمی اور رحم دلی کے متعلق یہ آیات ہیں :
اللہ کی رحمت کے سبب آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے بھاگ جاتے۔
[سورۃ آل عمران : ١٥٩]

اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
[سورۃ الانبیاء : ١٠٧]

اور آپ کو یہ بھی حکم دیا تھا کہ آپ کافروں کو نہایت اچھے طریقہ سے دین کی طرف بلائیں اور عمدہ جواب دیں، فرمایا :
لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیں اور نہایت اچھے طریقہ کے ساتھ ان سے بحث کریں۔
[سورۃ النحل: ١٢٥]

سو آپ کو لوگوں کے ساتھ خلق اور نرم گفتاری کا حکم دیا گیا اور پھر آپ ان سے فرماتے : اے کافرو ! تو لوگ کہتے : یہ سخت کلام نرم گفتگو کے کیسے لائق ہوسکتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے ” قل “ فرمایا یعنی آپ کہیے : اے کافرو ! گویا آپ از خود مشرکین مکہ کو اے کافروچ نہیں کہہ رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو اس کے حکم کی تعمیل میں ان سے سخت کلام فرما رہے ہیں اور نرم گرفتاری کر رہے ہیں یعنی آپ کی رحمت اور نرم مزاجی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

امام رازیؒ نے اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا:
آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایئے۔
[سورۃ الشعراء : ٢١٤]

اور آپ اپنے قرابت داروں سے بہت محبت کرتے تھے، کیونکہ قرآن مجید میں ہے :
آپ کہیے کہ میں اس تبلیغ دین پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا سوا اس کے کہ تم میرے قرابت داروں سے محبت رکھو۔
[سورۃ الشوری : ٢٣]

اور جب کہ رشتہ داری اور نسب کی وحدت سخت کلام کرنے سے مانع ہوتی ہے تو آپ کو حکم دیا کہ آپ اپنے رشتہ داروں سے سختی سے کلام کریں اور کہیں : اے کافرو !

امام رازیؒ نے اس کی تیسری وجہ یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اے رسول ! آپ پر آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ بھی نازل کیا گیا ہے اس کو پہنچا دیجیے اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے اپنے ذمہ جو پیغام تھا وہ نہیں پہنچایا دیا۔
[سورۃ المائدہ : ٦٧]

تو چونکہ آپ کے اوپر ” قل یا ایھا الکفرون۔“ کا مجموعہ نازل کیا گیا تھا، اس لیے آپ نے ” قل “ سمیت یہ پورا کلام پہنچا دیا۔

امام رازیؒ نے ”قل“ کہنے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ انسان اپنے مالک اور مولا کی تو ہر بات برداشت کرلیتا ہے خواہ وہ سخت ہو یا نرم لیکن دور سے کی سخت بات برداشت نہیں کرتا اور مشرکین یہ مانتے تھے اور یہ اعتراض کرتے تھے کہ اللہ سبحانہ ان کا خالق اور ان کا رازق ہے اور وہی ساری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے، کیونکہ قرآن مجید میں ہے:
اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے پیدا کیا ہے۔
[سورۃ لقمان : ٢٥]

اور انسان اپنے مالک اور مولیٰ کی وہ باتیں برداشت کرلیتا ہے جن کو وہ دوسروں سے سننا گوارا نہیں کرتا، پس اگر نبی ﷺ ابتداء فرماتے : یایھا الکفرون۔ “ اے کافرو ! تو ہوسکتا تھا کہ وہ یہ قرار دیتے کہ یہ سیدنا محمد ﷺ کا کلام ہے تو شاید وہ اس کو برداشت نہ کرتے اور آپ کو ایذاء پہنچاتے لیکن جب انھوں نے سنا ’ دقل “ (آپ کہیے “ تو انھوں نے جان لیا کہ یہ درشت اور سخت کلام آسمانوں اور زمینوں کے خالق کی طرف سے ہے، تو انھوں نے اس سخت کلام کو برداشت کرلیا اور ان کو یہ ناگوار نہ لگا۔

امام رازیؒ نے ”یایھا الکفرون“ سے پہلے لفظ ”قل“ ذکر کرنے کی اسی طرح کی تینتالیس (٤٣) تاویلات اور توجیہات ذکر کی ہیں، آخری تاویل اور توجیہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی طبیعت میں سختی اور درشتی تھی، سو جب ان کو حضرت ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ فرعون کی طرف بھیجا گیا تو ان دونوں سے فرمایا :
آپ دونوں فرعون سے نرمی سے بات کریں۔
[سورۃ طہ : ٤٤]

اور جب سیدنا محمد ﷺ کو مخلوق کی طرف بھیجا گیا تو آپ کو سختی کرنے کا حکم دیا، لہٰذا فرمایا : 
واغلظ علیھم [سورۃ التوبہ : ٧٣] ان پر سختی کیجیے۔

کیونکہ آپ میں انتہائی نرمی اور رحم دلی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا :
آپ کہیے : اے کافرو !۔ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو۔
[سورۃ الکافرون : ٢۔١]
[تفسیر کبیر: ج ١١ ص 323-329 داراحیاء التراث العربی، بیروت ١٤١٥ ھ]

امام رازی کی توجیہات:
امام رازی قدس سرہ نے یہ توجہیات اور تاویلات اس لیے کی ہیں کہ مشرکین مکہ کو کافر کہنا گویا سب و شتم کی بات تھی جو رسول اللہ ﷺ کے شایان شان نہ تھی اس لیے ”یایھا الکافرون“ سے پہلے ”قل“ لایا گیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ آپ نے از خود ان کو کافر نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم دینے سے ان کو کافر فرمایا ہے۔
مصنف کے نزدیک فی نفسہ کافر کے لفظ میں کوئی سختی یا سب و شتم کی بات نہیں ہے، کافر کا معنیٰ ہے : منکر، مشرکین چونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کرتے تھے، اس لیے ان کو کافر کہا جاتا ہے یعنی منکرین، اسی طرح مسلمان چونکہ بتوں کی پرستش اور شیاطن کی اطاعت کا انکار کرتے ہیں، اس لیے اس معنیٰ میں ان پر بھی کفر کا اطلاق فرمایا گیا ہے، قرآن مجید میں ہے:
سو جو شخص شیطان (کی اطاعت) کا کفر کرتا ہے اور اللہ (کی توحید) پر ایمان رکھتا ہے، اس نے مضبوط دستے کو تھام لیا۔
[سورۃ البقرہ : ٢٥٦]

جس طرح مشرکین اللہ تعالیٰ کی توحید کے کافر اور منکر ہیں، اسی طرح مسلمان بھی شیاطن کی اطاعت کے کافر اور منکر ہیں، اس لیے اس اعتبار سے مسلمان کو کافر کہنے میں کوئی سخت بات ہے نہ مشرک کو کافر کہنے میں کوئی سخت اور ناروابات ہے۔
قرآن مجید کی بہت آیات میں مشرکوں کو خطاب کر کے کفر کا صیغہ استعمال فرمایا ہے اور اس سے پہلے لفظ ” قل “ نہیں ہے، چند آیات ملاحظہ فرمائیں :
تم اللہ کا کیوں کر کفر کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے، سو اس نے تم کو زندہ کیا۔
[سورۃ البقرہ : ٢٨]
حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم کے مشرکوں نے کہا ،
متکبر لوگوں نے کہا، تم جس ذات پر ایمان لائے ہو، ہم اس ذات کے کافر ہیں (یعنی اس کے منکر ہیں)۔
[سورۃ الاعراف : ٧٦]
اس آیت میں مشرکین، نے خود اپنے اوپر کافر کا اطلاق کیا ہے، پس مشرکین کو کافر کہنا ان کے حق میں سخت بات کیسے ہوگئی۔
مشرکین چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے کے سوا انکار کرتا ہے، خواہ کافروں کو ناگوار ہو۔ 
[سورۃ التوبہ:٣٢]
لہٰذا مصنف کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا مشرکین مکہ کو ” کافرون “ فرمانا کوئی ایسی سخت اور سنگین بات نہیں ہے، جس کی تینالیس (٤٣) توجیہات کی ضرورت ہو، ویسے امام رازی بہت عظیم اور متبحر مفسر ہیں، وہ جس کی چاہیں اور جتنی چاہیں توجیہات کرسکتے ہیں۔
الکافرون : ٥۔٢ میں فرمایا : میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم نے عبادت کی ہے۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔

سورة الکافرون کی آیات میں تکرار کا جواب:
ان آیات پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آیت : ٣۔٢ اور آیت : ٥۔٤ کا ایک ہی معنی اور مفہمو ہے اور یہ تکرار ہے اور تکرار غیر مفید ہوتا ہے اور بلیغ کے کلام میں کوئی چیز غیر مفید نہیں ہوتی، اس کا جواب یہ ہے کہ آیت ٥۔٤ آیت ٣۔٢ کی تاکید ہیں اور دوسرا جواب یہ ہے کہ آیت ٣- ٢ حال کے زمانہ پر محمول ہیں اور آیت : ٥۔٤ مستقبل کے زمانہ پر محمول ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہ میں زمانہ حلا میں تمہارے معبودوں کی عبادت کرتا ہوں اور نہ زمانہ مستقبل میں تمہارے معبدوں کی عبادت کروں گا، اسی طرح کافر کے متعلق فرمایا، نہ تم زمانہ حال میں اس کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ تم زمانہ مستقبل میں اس کی عبادت کرو گے جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔
اور یہ آیات ان ہی کافروں کے ساتھ مخصوص ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔
الکافرون : ٦ میں فرمایا : تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔ 
” لکم دینکم ولی دین “ کے محامل 
اس کا معنی یہ ہے : تمہارا موقف اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کرنا ہے اور میرا موقف اخلاص کے ساتھ اللہ سبحانہ کی توحید کو ماننا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت کا یہ معنی ہے کہ مشرکین کو شکر کرنے کی اجازت دی دی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تو شرک کی بیخ کنی کے لیے ہوئی، آپ شرک کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔ اور رہی یہ آیت تو اس کے حسب ذیل محامل ہیں :
(١) اس آیت سے مراد تہدید (دھمکانا) اور زجر و توبیخ (ڈانٹ ڈپٹ) ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
تم جو چاہو کرتے رہو، بیشک وہ تمہارے تمام کاموں کو دیکھنے والا ہے۔
[سورۃ حم السجدہ : ٤٠]
یہ امر کا صیغہ ہے لیکن اس سے مقصد عذاب سے ڈرانا اور دھمکانا ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ تم کو شرک اور کفر اور معصیت کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، سو اسی طرح الکافرون : ٥ ہے۔
(٢) گویا آپ نے فرمایا : میں تمہیں توحید کی دعوت دینے کے لیے بھیجا گیا ہوں، اگر تم میری دعوت کو قبول نہیں کرتے اور میری پیروی نہیں کرتے تو مجھ کو چھوڑ دو اور مجھے شرک اور بت پرستی کی دعوت نہ دو ۔
(٣) دین کا معنی ہے : حساب یعنی تم سے تمہارے اعمال کا حساب ہوگا اور مجھ سے میرے اعمال کا حساب ہوگا اور کسی سے دوسرے کے اعمال کا حساب نہیں ہوگا۔
(٤) مت کو تمہارے اعمال کی سزا ملے گی اور مجھ کو میرے اعمال کو جزا ملے گی۔
(٥) دین سے مراد ہے : عادت، تمہاری وہ عادت ہے جو تم کو شیاطین سے ملی ہے اور میری وہ عادت ہے جو مجھے وحی الٰہی سے حاصل ہوئی ہے، لہٰذا تم اتباع شیاطین کی وجہ سے دوزخ میں جاؤ گے اور میں اتباع وحی کی وجہ سے جنت میں جاؤں گا۔





تفسیر امام قرطبیؒ(م671ھ):
علماء نے کہا : جو آدمی اپنے دل کا علاج کرنا چاہتا ہے اور ظلم و قہر کی زنجیروں سے آزاد ہو کر اپنے رب کی طاعت کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ لذات کو ختم کرنے والی، جماعتوں کو جدا کرنے والی، بیٹوں اور بیٹیوں کو یتیم کرنے والی کا ذکر کثرت سے کرے جو لوگ موت وحیات کی کشمکش میں ہیں ان کی ملاقات پر مواظبت اختیار کرے اور مسلمانوں کی قبروں کی زیارت میں ہمیشگی اختیار کرے۔ یہ تین امور ہیں جس آدمی کا دل سخت ہو، گناہ اس کی اپنی گرفت میں لے چکا ہو تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف اس سے مدد لے اور شیطان اور اس کے دوستوں کے فتنوں کے خلاف ان سے مدد لے اگر موت کا ذکر کثرت سے کرنے سے اس نے فائدہ اٹھا لیا اور اس کے دل کی سختی چھٹ گئی تو یہی اس کا مقصود ہے اگر اس پر دل کا میل بڑھ گیا اور گناہ کے اسباب مستحکم ہوگئے تو موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا لوگوں کے پاس جانا اور مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کرنا ان گناہوں کو دور کرنے میں وہاں تک پہنچ سکتا ہے جہاں تک پہلی صورت نہ پہنچ پائی تھی۔ کیونکہ کو ت کا ذکر دل کے لیے ایک خبر ہے جس کی طرف اس کا ٹھکانا ہے اور یہ اسے خبردار کرنے کے قائم مقام ہے۔ جو آدمی موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اس کے پاس جانا اور مسلمانوں میں سے جو کوئی مرچکا ہے اس کی قبر کی زیارت کرنا یہ آنکھوں سے مشاہدہ ہے اس وجہ سے دوسری صورت پہلی سے زیادہ موثر ہے رسول اللہ کا ارشاد ہے : لیس الخبر کالمعاینۃ خبر آنکھوں دیکھی چیز جیسی نہیں ہوتی۔ اسے حضرت ابن عباس نے روایت کیا ہے۔ جو لوگ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے حال سے عبرت حاصل کرنا ہر وقت ممکن نہیں ہوتا جو آدمی اپنے دل کا علاج کرنا چاہتا ہے اس کا علاج بعض اوقات ایک لمحے میں نہیں ہوپاتا، جہاں تک زیارت قبول کا تعلق ہے تو اس کا وجود یعنی اثر بہت تیز ہوتا ہے اور ان سے نفع حاصل کرنا زیادہ مناسب اور موزوں ہوتا ہے۔ جو آدمی قبروں کی زیارت کا ارادہ کرتا ہے اس کے لیے مناسب یہ ہے وہ اس کے آداب اپنائے، آتے وقت اس کا دل حاضر ہو اس کے پیش نظر صرف قبر کی زیارت نہ ہو کیونکہ یہ تو صرف اس کی ایسی حالت ہے جس میں حیوان بھی اس کے ساتھ شریک ہیں ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں، بلکہ اس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اپنے فاسد دل کی اصلاح ہونی چاہیے۔ یا میت کو نفع پہنچانے کا ارادہ ہونا چاہیے جو زیارت کرنے والا اس کے پاس قرآن پڑھے گا، دعا کرے گا، قبروں کے اوپر چلنے اور ان پر بیٹھنے سے اجتناب کرے جب قبرستان میں داخل ہو تو وہ انھیں سلام کرے جب وہ اپنے میت کی قبر تک پہنچے جسے وہ پہچانتا ہے تو اسے بھی سلام کرے اور اس کے چہرے کی جانب سے آئے کیونکہ وہ اس کی زیارت میں اس طرح ہے جس طرح وہ زندہ حالت میں اس سے مخاطب تھا اگر زندہ حالت میں اس سے خطاب کرتا تو آداب یہی ہوتے کہ اس کے چہرے کے بالمقابل ہوتا یہاں بھی اسی ہے پھر جو مٹی کے نیچے جا چکا ہے اپنے گھر والوں اور احباب سے الگ ہوچکا ہے اس سے عبرت حاصل کرنے کے بعد کہ اس میت نے چھوٹے بڑے لشکروں کی قیادت کی ہوگی، ساتھیوں اور قبائل سے مقابلہ کیا ہوگا اموال اور ذخائر کو جمع کیا ہوگا تو اسے موت ایسے وقت میں آپہنچی کہ اسے گمان تک نہ تھا ایسی ہول ناکی میں موت آئی جس کا اسے کوئی انتظار نہ تھا تو زیارت کرنے والے کو اس بھائی کی حالت میں غور کرنا چاہیے جو گزر چکا ہے اور ان ساتھیوں میں شامل ہوچکا ہے جنہوں نے امیدوں کو پایا اور اموال کو جمع کیا کہ ان کی آرزوئیں کیسے ختم ہوگئیں، ان کے اموال نے انھیں کوئی نفع نہ دیا، مٹی نے ان کے چہروں کے محاسن کو مٹا دیا اور قبروں میں ان کے اجزا بکھر گئے، ان کے بعد ان کی بیویاں بیوہ ہوگئی ان کی اولادیں یتیم ہوگئیں، دوسروں نے ان کے عمدہ اموال کو تقسیم کرلیا تاکہ اسے ان کا مقاصد میں گھومنا پھرنا، حصول مطالب میں ان کا حرص، اسباب کے حصول میں ان کا دھوکہ اور جوانی اور صحت کی طرف ان کا میلان سب کو یاد کرسکے اور یہ بھی جان سکے کہ اس کا لہو و لعب کی طرف میلان ان کے میلان اور غفلت کی طرح ہے جس کے سامنے خوفناک موت اور تیز ہلاکت ہے یقینا وہ اس طرف جارہا ہے جس طرف وہ گئے تھے اسے اپنے دل میں اس آدمی کے ذکر کو یاد کرنا چاہیے جو اپنی اغراض میں متردد تھا کہ اس کے پاؤں کیسے ٹوٹ گئے، وہ اپنے دوستوں کو دیکھ کر لذت حاصل کرتا تھا جبکہ اب اس کی آنکھیں بہہ چکی ہیں، وہ اپنی قوت گویائی کی بلاغت سے حملہ کیا کرتا تھا جبکہ کیڑے اس کی زبان کو کھا گئے ہیں، وہ لوگوں کی موت پر ہنسا کرتا تھا جب کہ مٹی نے اس کے دانتوں کو بوسیدہ کردیا ہے، وہ یقین کرلے کہ اس کا حال اس کے حال جیسا ہوگا اور اس کا انجام اس کے انجام جیسا ہوگا۔ اس یاد اور عبرت کی وجہ سے اس سے تمام دنیوی غیرتیں زائل ہوجائیں گی اور وہ اخروی اعمال پر متوجہ ہوگا۔ وہ دنیا میں زہد اختیار کرے گا اپنے رب کی اطاعت کی طرف متوجہ ہوگا اس کا دل نرم ہوجائے گا اور اعضاء میں خشوع واقع ہوجائے گا۔
فراء نے کہا : کلا سے مراد یہ ہے معاملہ اس طرح نہیں جس باہم فخر اور کثرت پر تم ہو تم عنقریب اس کا انجام جان لوگے۔
یہاں وعید پر وعید ہے ؛ یہ مجاہد کا قول ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں کلام میں جو تکرار ہے وہ تاکید اور تغلیظ کے طریقہ پر ہو ؛ یہ فراء کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : قبر میں جو تم پر عذاب آئے گا اس کو تم جان لو گے پھر آخرت میں تم پر جو عذاب آئے گا اس کو تم جان لو گے۔ پہلی کلام قبر کے عذاب کے بارے میں ہے اور دوسری کلام آخرت کے بارے میں ہے۔ تو یہ تکرار دو حالتوں کے بارے میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلا سوف تعلمون۔ یہ آنکھ سے دیکھنے کے بارے میں ہے کہ جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے وہ حق ہے، ثم کلا سوف تعلمون۔ یہ دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت ہوگا کہ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا وہ سچ ہے۔ زر بن حبیش نے حضرت علی سے روایت نقل کی ہے کہ ہم عذاب قبر میں شک کرتے تھے یہاں تک کہ یہ سورت نازل ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ کے فرمان : کلا سوف تعلمون، سے مراد ہے تم قبروں میں دیکھ لو گے، ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلا سوف تعلمون، سے مراد ہے جب موت تم پر واقع ہوگی اور فرشتے تمہاری روحیں نکالنے کے لیے تمہارے پاس آئیں گے۔ 
ثم کلا سوف تعلمون۔ جب تم قبروں میں داخل ہوگے اور تمہارے پاس منکر و نکیر آئیں گے، سوال کی ہول ناکی تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گی اور جو اب تم سے ختم ہوجائے گا۔
میں کہتا ہوں : یہ سورت عذاب قبر کے بارے میں قول کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے ہم نے اپنی کتاب التذکرہ میں ذکر کیا ہے کہ اس پر ایمان واجب ہے اس کی تصدیق لازم ہے جیسے نبی صادق و امین نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ قبر میں مکلف بندے کی طرف زندگی لوٹا کر زندہ کردیتا ہے، عقل کی جس صفت پر اس نے زندگی بسر کی تھی اتنا عقل اسے عطا فرماتا ہے تاکہ جو اس سے سوال کیا جارہا ہے اس کی اسے سمجھ ہو، اس کا وہ جواب دے سکے، اس کے رب کی جانب سے جو اسے چیز مل رہی ہے اس کا ادراک کرسکے اور قبر میں اس کے لیے جو کرامت اور ذلت مقدر کی گئی ہے اس کو جان سکے ؛ یہ اہل سنت کا مذہب ہے جس پر اہل اسلام کی جماعت قائم ہے ہم نے التذکرہ میں اس پر مفصل بحث کی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلا سوف تعلمون یہ دوبارہ اٹھانے کا وقت ہوگا کہ تم جان لو گے کہ جو تمہیں کہا جاتا تھا کہ تم کو اٹھایا جائے گا۔ ثم کلا سوف تعلمون یہ قیامت میں ہوگا کہ تم جان لو گے کہ تمہیں جو کچھ کہا جاتا تھا کہ تمہیں عذاب دیا جائے گا۔ یہ سورت قیامت کے احوال یعنی دوبارہ اٹھانا، میدان محشر میں جمع کرنا، سوال کرنا، پیشی ہونا وغیرہ دوسرے اموال اور نزاع سب کو شامل ہے، جس طرح ہم نے کتاب التذکرہ میں مردوں کے احوال اور آخرت کے امور پر گفتگو کی ہے۔ ضحاک نے کہا : کلا سوف تعلمون کا مصداق کفار ہیں ثم کلا سوف تعلمون کا مصداق مومن ہیں، اس طرح وہ اسے پڑھا کرتے تھے پہلی آیت تاء کے ساتھ اور دوسری آیت یاء کے ساتھ۔
یہ ایک اور وعید ہے۔ یہ کلام اس بنا پر ہے کہ قسم محذوف ہے یعنی تم آخرت میں ضرور دیکھو گے۔ یہ خطاب ان کفار کو ہے جن کیلیے جہنم لازم ہوچکی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ حکم عام ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وان منکم الا واردھا۔ (مریم) یہ کفار کے لیے گھر ہے اور مومن کے لیے گزرگاہ ہے۔ صحیح میں ہے : ان میں سے پہلا بجلی کی سی تیزی سے پھر ہوا کی سی تیزی سے پھر پرندے کی سی تیزی سے گزرے گا۔ سورة مریم میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ کسائی اور ابن عامر نے اسے لترون پڑھا ہے یہ اریتہ الشی سے مشتق ہے یعنی تمہیں اس کی طرف اٹھایا جائے گا اور تمہیں وہ دکھائی جائے گی تاء کے فتحہ کے ساتھ یہ عام قراء کی قرات ہے۔ یعنی تم دور ہونے کے باوجود اپنی آنکھوں سے جہنم کو دیکھو گے پھر تم اپنی آنکھ سے مشاہدہ کرو گے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ہمیشہ جہنم میں رہنے کی خبر ہے یعنی یہ دائمی اور متصل روایت ہے اس بنا پر خطاب کفار کے لیے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لو تعلمون علم الیقین۔ کا معنی ہے تم دنیا میں آج اس امر کو علم یقین سے جان لیتے جو آگے ہونے والا ہے جس کی تمہارے سامنے صفت بیان کی گئی ہے کہ تم ضرور اپنے دل کی آنکھوں سے اسے دیکھو گے، کیونکہ علم یقین تجھے جہنم کو تیرے دل کی آنکھوں سے دکھائے گا وہ یہ ہے تیرے لیے قیامت کے مراحل اور اس کی قطع مسافت تیرے لیے عیاں ہوگی۔ پھر معاینہ کے وقت سر کی آنکھوں سے دیکھے گا تو تو اسے یقینا دیکھ لے گا وہ تیری آنکھ سے غائب نہیں ہوگی پھر سوال اور پیشی کے وقت تم سے نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ایک دن یا ایک رات باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر موجود ہیں، پوچھا : تمہیں اس وقت کس چیز نے گھروں سے نکالا ؟ دونوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! بھوک نے۔ فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ مجھے بھی اس چیز نے گھر سے نکالا ہے جس نے تمہیں نکالا ہے دونوں اٹھو، دونوں آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے رسول اللہ ایک انصاری کے گھر آئے تو وہ گھر پر نہیں تھا جب اس کی بیوی نے رسول اللہ کو دیکھا تو اس نے خوش آمدید کہا۔ رسول اللہ نے اس سے پوچھا : فلاں کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا : وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہوا ہے، اسی اثنا میں وہ انصاری بھی پہنچ جاتا ہے اس نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں صحابہ کو دیکھا پھر گویا ہوا : الحمدللہ آج مجھ سے بڑھ کر کوئی عزت والے مہمانوں والا نہیں۔ وہ گیا تو کھجور کا ایک خوشہ ان کے پاس لے آیا۔ عرض کی : اسے کھاؤ اور چھری لی رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : دودھ دینے والے جانور کو ذبح نہ کرنا۔ اس انصاری نے جانور ذبح کیا تو انھوں نے اس بکری اور اس خوشے سے کھانا کھایا اور پانی پیا۔ جب یہ حضرات خوب سیر ہوگئے تو رسول اللہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ْ تم سے اس دن کی نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا، تمہیں تمہارے گھروں سے بھوک نے نکالا پھر تم نہ لوٹے یہاں تک کہ تمہیں اس نعمت نے آلیا۔ 
اسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے اس میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں : ھذا والذی نفسی بیدہ من النعیم الذی تسالون عنہ یوم القیامۃ ظل بارد و رطب طیب وماء بارد۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے روز تم سے پوچھا جائے گا۔ ٹھنڈا سایہ، عمدہ تر کھجوریں اور ٹھنڈا پانی اور اس انصاری کی کنیت ذکر کی اور کہا : ابو ہیثم بن تیہان اور اس واقعہ کا ذکر کیا۔
میں کہتا ہوں : اس انصاری کا نام مالک بن تیہان تھا اس کی کنیت ابو ہیثم تھی اس واقعہ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن رواحہ اشعار کہتے ہیں اور ابو ہیثم بن تیہان کی مدح کرتے ہیں :
فلم ار کالاسلام عزا لامۃ۔۔ ولا مثل اضیاف الا راشی معشرا 
میں نے کسی قوم کے لیے اسلام جیسی کوئی عزت نہیں دیکھی اور نہ میں نے اراشی کے مہمانوں جیسی کوئی جماعت دیکھی ہے۔
نبی و صدیق و فاروق امۃ۔۔ و خیر بنی حواء فرعا و عنصرا 
نبی، صدیق اور امت کا فاروق، بنی حواء میں سے عنصر کے اعتبار سے سب سے بہتر۔
فوافوا لمیقات و قدر قضیۃ۔۔ و کان قضاء اللہ قدرا مقدرا 
انہوں نے وعدہ و پیمان کا حق ادا کیا۔ اللہ کا فیصلہ ہو کر رہنے والا ہے۔
الی رجل نجد یباری بجودہ۔۔ شموس الضحی جو دا و مجدا و مفخرا 
نجد کے ایک معزز آدمی کی طرف جو اپنی سخاوت، بزرگی اور فخر میں چاشت کے سورجوں کا مقابلہ کرتا ہے۔
و فارس خلق اللہ فی کل غارۃ۔۔ اذا لبس القوم الحدید المسمرا 
یہ غزوہ میں اللہ کی مخلوق کا شاہسوار ہے جب قوم گندمگوں نیزے زیب تن کرلیں۔
ففدی و حیا ثم ادنی قراھم۔۔ فلم یقرھم الا سمینا متمرا 









اس سورت کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک بار چند رؤسا نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ آیئے ہمارے معبودوں کی آپ عبادت کیا کیجئے اور آپ کے معبود کی ہم عبادت کیا کریں، جس میں ہم اور آپ طریق دین میں شریک رہیں، جونسا طریقہ ٹھیک ہوگا اس سے سب کو کچھ کچھ حصہ مل جائے گا، اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ کذا فی الدر المنثور۔


قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ
ترجمہ: آپ (ان کافروں سے) کہہ دیجیئے کہ اے کافرو (میرا اور تمہارا طریقہ متحد نہیں ہوسکتا اور ) ۔ (1)

لَآ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ
ترجمہ: نہ (تو فی الحال) میں تمہارے معبود کی پرستش کرتا ہوں ۔ (2)

وَلَآ أَنتُمْ عَٰبِدُونَ مَآ أَعْبُدُ
ترجمہ: اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرتے ہو ۔ (3)

وَلَآ أَنَا۠ عَابِدٌۭ مَّا عَبَدتُّمْ
ترجمہ: اور نہ ( آئندہ استقبال میں) میں تمہارے معبودوں کی پرستش کروں گا ۔ (4)

وَلَآ أَنتُمْ عَٰبِدُونَ مَآ أَعْبُدُ
ترجمہ: اور نہ تم میرے معبود کی پرستش کرو گے ۔ (ف ٥)
تفسیر:
ف ٥۔ مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ موحد ہوکر بلائے شرک میں گرفتار نہیں ہوسکتا، نہ اب نہ آئندہ ، اور تم مشرک رہ کر موحد نہیں قرار دیئے جاسکتے ، نہ اب نہ آئندہ، یعنی توحید و شرک جمع نہیں ہوسکتے یعنی جب تک تم اپنے معبودوں کے عابد اور مشرک رہو گے اس وقت تک میرے معبود کے عابد یعنی موحد نہ سمجھے جاوگے ، پس اس کو پیشنگوئی پر محمول کرنے کی اور اس پر جو سوال ہوتا ہے کہ بعضے تو مسلمان ہوگئے ، اس کے جواب میں الکافرون کو معہود پر محمول کرنے کی ضرورت نہیں ۔

لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِىَ دِينِ
ترجمہ: تم کو تمہارا بدلہ ملے گا اور مجھ کو میرا بدلہ ملے گا ۔ (ف ٦)
تفسیر:
ف ٦۔ اس میں ان کے شرک پر وعید بھی سنادی ، پس یہ سورت مشتمل ہے اظہار خلاف و وعید پر۔

************************************
     ربط و خلاصہ : سورۃ کا موضوع توحید اور شرک کی نفی ہے۔ جس طرح ناصح وعظ ونصیحت میں پورے افہام وتفہیم اور تفصیل وتوضیح کے بعد کہتا ہے کہ مسئلہ تو میں نے واضح کردیا ہے اگر اب بھی نہیں مانتے تو میرا راستہ یہ ہے اور تمہارا راستہ وہ ہے۔ اسی طرح یہاں کہا گیا کہ اتنے بیانات کے بعد بھی باز نہیں آتے ہو۔ تو ہمارے اور تمہارے درمیان سلامِ متارکہ ہے۔
تائید:
’’ فاعرض عمن تولی عن ذکرنا [سورۃ النجم:29]
اس میں سلامِ متارکہ کا اعلان کرنا مقصود ہے۔



*ف 2:۔ ’’قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ‘‘ ۔ مَا تَعْبُدُونَ (یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو) میں مَا(یعنی جنکی) سے معبودانِ باطل مراد ہیں۔ جن کی مشرکین اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے۔ مَآ أَعْبُدُ(یعنی جس کی میں عبادت کرتا ہوں) میں مَا سے معبودِ حقیقی مراد ہے۔ جس کی پیغمبر خدا  خالص عبات بجا لاتے تھے فرمایا اگر اس طرح ایضاح و تفصیل اور ایسے دلائلِ قاطعہ کے باوجود بھی مشرکین مسئلہ توحید کو نہیں مانتے تو آپ ﷺ اعلان فرما دیں: اے کفار! تم اپنی راہ پر چلو، میں اپنی راہ پر چل رہا ہوں۔ تم جن باطل اور خود ساختہ معبودوں کی پوجا کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرسکتا اور نہ تم ہی اپنے ان معبودوں کی عبادت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کو تیار ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔

*ف 3:۔ ’’وَلَآ أَنَا۠ عَابِدٌۭ‘‘ تکرار تاکید کے لیے ہے یا پہلے زمانہ حال واستقبال کا ذکر تھا اور اب زمانہ ماضی کا بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ اب اور آئندہ ہوسکتا ہے کہ میں تمہارے باطل معبودوں کی عبادت کروں اور تم صرف اللہ کی عبادت کرو اور نہ گذشتہ زمانہ میں کبھی ایسا ہوا کہ میں نے تمہارے باطل معبوددوں کی عبادت کی ہو اور تم نے ان معبودوں کی عبادت چھوڑ کر صرف خدائے واحد کی عبادت کی ہو۔

*ف 4:۔ ’’لَكُمْ دِينُكُمْ‘‘ یہ سلامِ متارکہ کا اعلان ہے۔ اگر تم نہیں مانتے ہو تو تم اپنے دینِ شرک پر چلتے رہو اور میں اپنے دینِ توحید پر چلتا ہوں، بہت جلد دونوں فریق میں اور تم اپنا اپنا انجام دیکھ لیں گے۔



اس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے کوئی ایسی مصالحت جائز نہیں ہے جس میں ان کے دین کے شعائر کو اختیار کرنا پڑے، البتہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے امن کا معاہدہ ہوسکتا ہے ، جیسا کہ قرآن کریم نے سورۂ انفال (٦۔ ٨) میں فرمایا ہے۔



آج کل کی ایک بے ہودہ رسم 
جیسا آج کل یہ بیہودہ رسم نکلی ہے کہ مسلمان کفار کے میلوں ٹھیلوں میں شریک ہوتے ہیں اور ان کو اپنی عید بقر عید کے موقع پر شریک کرتے ہیں یہ تو وہی قصہ ہے جیسا کہ اہل شرک نے حضور سے کہا تھا کہ اے محمد ہم اور آپ صلح کرلیں ایک سال آپ ہمارے دین کو اختیار کرلیں اور دوسرے سال ہم آپ کے دین کو اختیار کرلیں گے اسی وقت یہ آیتیں نازل ہوئیں یعنی نہ میں تمہارا دین اختیار کروں گا اور نہ تم میرا دین قبول کرو گے ۔ یہ بطور اخبار کے فرمایا پس لکم دینکم الخ کو اس تقریر پر منسوخ کہنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ پس کفار سے تو بالکل علیحدہ ہی رہنا چاہیے ۔ یہاں چونکہ ایک جگہ رہتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ آپس میں لڑیں نہیں باقی ان کے مذہبی میلے اور مجامع میں جانا بالکل بند کرنا چاہیے ۔ 

جیسا کرو گے ویسا بھروگے 
بعض لوگوں نے ایک غلطی کی ہے کہ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِىَ دِينِ کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ تمہارے واسطے تمہارا دین ہے ہمارے واسطے ہمارا دین ہے اور یہ تفسیر کرکے اسی آیت کے حکم کو باقی سہی سمجھا ہے چنانچہ بعض صوفیہ نے اسی کو اپنا معمول بنالیا اور صلح کل اپنا مذہب بنالیا کہ موسیٰ بدین خود عیسیٰ بدین خود کسی سے لڑنے جھگڑے کی ضرورت نہیں۔ مگر یہ استدلال اس لئے غلط ہے کہ اول تو یہاں دین بمعنیٰ مذہب ہونا مسلم نہیں، بلکہ بمعنے جزا(بدلہ) ہونا محتمل ہے یعنی جیسا تم کرو گے ویسا بھرو گے، پس لَكُمْ دِينُكُمْ ایسا ہے جیسا محاورہ میں کہتے ہیں:
كَمَا تَدِينُ تُدَانُ۔
اور اس صورت میں منسوخ ماننے کی بھی ضرورت نہ ہوگی اور اگر یہی تفسیر کی جاوے تو اس صورت میں یہ آیت منسوخ ہوگی ۔ 


احتیاطِ خطاب 
کاندھلہ میں ایک بار مولویوں کے مجمع میں یہ گفتگو ہورہی تھی کہ کافر کو کافر کہنا کیسا ہے، ایک جماعت یہ کہہ رہی تھی کہ تہذیب کے خلاف ہے، اور ایک جماعت کہہ رہی تھی کہ جائز ہے، کیونکہ قرآن میں بکثرت کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ پہلی جماعت نے اس کا یہ جواب دیا کہ قرآن میں خطاب کے موقعہ پر کافروں کو کافر نہیں کہا گیا (بلکہ یایھا الناس سے خطاب کیا گیا ) اور گفتگو اس میں ہے کہ کافر کو کافر کہہ کر خطاب کرنا کیسا ہے؟ پھر ایک مولوی صاحب کو حکم بتایا گیا کہ اس اختلاف کا فیصلہ کریں انہوں نے کہا کہ قرآن میں خطاب کے موقعہ پر بھی کافروں کو کافر کہا گیا ہے۔ قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ۔ مگر میں اس محاکمہ کا بھی محاکمہ کرتا ہوں کہ قرآن میں کفار کو کافر کہہ کر بلا ضرورت خطاب نہیں کیا گیا اور جہاں اس لفظ سے خطاب کیا گیا ہے وہاں ضرورت تھی وہ یہ کہ ان ظالموں نے حضور  سے ایک بے ڈھنگی درخواست کی تھی کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کرلیا کریں ایک سال ہم آپ کے خدا کی عبادت کرلیا کریں گے اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی کہ ان سے فرما دیجئے کہ اے کافرو! میں تمہارے معبودوں کی پرستش نہ کروں گا نہ تم میرے معبودوں کی عبادت کرو گے نہ اب نہ آئندہ تو یہاں ان لوگوں کی امیدیں قطع کرنے کے لئے سختی کے ساتھ کافر کہہ کر ان کو خطاب کیا گیا ہے باقی آیات میں اس لفظ سے خطاب نہیں کیا گیا کیونکہ ضرورت نہ تھی پس فیصلہ یہ ہوا کہ خشِ خطاب بلاضرورت نہ کرنا چاہیے ہاں ضرورت سے ہوتو جائز ہے ۔
(المرابط ملحقہ مواعظ: حقیقت مال وجاہ ص ٥٦ )



سورۃ الکافرون ایک نظر میں عرب اللہ کے منکر نہ تھے ، لیکن ان کی نظروں سے وہ اوصاف اوجھل تھے جن سے اللہ نے اپنے آپ کو متصف فرمایا تھا یعنی  ”احد“ یعنی اکیلا اور”صمد” یعنی جو کسی کا محتاج نہ ہو اور سب اس کے محتاج ہوں۔ چنانچہ وہ کچھ دوسرے لوگوں کو اللہ کے ساتھ شریک کرتے تھے اور اللہ کی قدر اس طرح نہ کرتے تھے جس طرح اللہ کی عبادت کرنے کا حق ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ کئی بتوں کو شریک کرتے تھے۔ یہ بت انہوں نے یا اپنے اسلاف کی طرف منسوب کررکھے تھے یا بڑے اکابر کی طرف یا فرشتوں کی طرف۔ یاد رہے کہ یہ لوگ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے اور یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے۔ کہ اللہ اور جنوں کے درمیان نسب اور رشتہ ہے۔ مدت گزرنے کے بعد انہوں نے یہ نسبت بھلا دی اور ان اِلٰہوں (خداؤوں) کی بندگی شروع کردی اور ان کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ان کو اللہ کے زیادہ قریب کرتے ہیں۔ سورۃ زمر:3 میں کہا گیا ہے: مانعبدھم....................زلفی (3:39) ”ہم ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے ذریعے اللہ تک ہماری رسائی ہوجائے “۔ قرآن کریم نے ان کی یہ بات نقل کی ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ زمین و آسمان کی تخلیق اللہ نے کی ہے اور شمس وقمر کو بھی اللہ ہی نے مسخر کیا ہے اور آسمانوں سے پانی بھی اللہ ہی اتارتا ہے۔ سورت العنکبوت (61) میں ہے : ولئن............................اللہ (61:29) ”اگر تم ان سے پوچھو کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا ؟ اور سورج اور چاند کس کے تابع فرمان ہیں تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے “۔ اور آگے اسی سورت (63) میں کہا گیا ہے۔ ولئن ................................اللہ (63:29) ”اگر تم ان سے پوچھو کون ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا اس سے زمین کو مردہ کے بعد زندہ کیا تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے “۔ وہ جب قسمیں کھاتے تو اللہ کے نام کی کھاتے ، واللہ ، باللہ اور تا اللہ اور اپنی دعاﺅں کا آغاز بھی وہ اللھم سے کرتے تھے۔ لیکن اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود شرک نے ان کے عقائد وتصورات ، ان کے رسم ورواج ، ان کے مراسم عبودیت کو خراب کردیا تھا۔ انہوں نے اپنے مزعومہ خداﺅں اور دیوتاﺅں کو اپنے مویشیوں ، اپنی فصلوں اور اپنی اولاد میں شریک کرلیا تھا ، اور اس سلسلے میں وہ اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ وہ اپنے بیٹوں کو بھی بعض اوقات بتوں پر قربان کرتے تھے۔ سورۃ انعام (136 تا 140) میں قرآن مجید یہ صراحت کرتا ہے۔ وجعلواللہ........................................مھتدین (136:6 تا 140) ”انہوں نے اللہ کے لئے خوداس کھیتوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں یہ اللہ کے لئے ہے ، بزعمِ خود ، اور یہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے ، پھر جو چیز ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کے لئے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لئے ہے وہ ان شریکوں کو پہنچ جاتا ہے ، کیسے برے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ ؟ اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لئے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوشنما بنادیا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنادیں۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے لہٰذا انہیں چھوڑ دو کہ اپنی افترا پردازیوں میں لگے رہیں‘‘۔ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں انہیں صرف وہی لوگ کھاسکتے ہیں جنہیں ہم کھلانا چاہیں ، حالانکہ یہ پابندی ان کی خود ساختہ ہے ۔ پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور بار برداری حرام کردی گئی۔ اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے ، اور یہ سب کچھ انہوں نے اللہ پر افترا کیا ہے ، عنقریب اللہ انہیں افترا پردازیوں کا بدلہ دے گا۔ اور کہتے ہیں کہ جوکچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کے لئے مخصوص ہے۔ اور ہماری عورتوں پر حرام ، لیکن اگر وہ مردہ ہو تو دونوں اس کے کھانے میں شریک ہوسکتے ہیں۔ یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں۔ ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا۔ یقینا وہ حکیم اور سب باتوں کی اسے خبر ہے۔ یقینا خسارے میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت اور نادانی کی وجہ سے قتل کیا اور اللہ کے دیئے ہوئے رزق کو اللہ پر افتراپردازی کرکے حرام ٹھہرالیا۔ یقینا وہ بھٹک گئے اور ہرگز وہ راہ راست پانے والوں میں سے نہ تھے “۔ ان کا اعتقاد تھا کہ وہ دین ابراہیم پرہیں۔ وہ یہ یقین بھی رکھتے تھے کہ وہ اہل کتاب سے زیادہ ہدایت پر ہیں۔ یہ اہل کتاب ان مشرکین کے ساتھ جزیرة العرب میں دیتے تھے کیونکہ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عزیرؑ اللہ کے بیٹے ہیں۔ عیسائی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ حضرت عیسیٰؑ اللہ کے بیٹے ہیں اور خود یہ اہلِ عرب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جنوں کی اللہ کے ساتھ رشتہ داری ہے ، لہٰذا وہ اہل کتاب کے مقابلے میں اپنے آپ کو زیادہ ہدایت یافتہ سمجھتے تھے۔ کیونکہ ملائکہ اور جنوں کی نسبت اللہ کی طرف اس عقیدے سے زیادہ قریب الفھم ہے کہ حضرت عزیرؑ یا حضرت عیسیٰؑ اللہ کے بیٹے ہیں ۔ جبکہ یہ سب عقائد شرکیہ ہیں۔ اور شرک میں کوئی درجہ بھی اچھا نہیں ہے۔ البتہ وہ اہل کتاب کے مقابلہ میں اپنے عقائد کو بہتر سمجھتے تھے۔ جب آپکی بعثت ہوئی اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں دین ابراہیم پرہوں تو انہوں نے کہا جب ہم بھی دین ابراہیم پر ہیں تو ہمیں پھر محمد ﷺ کی اطاعت کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے باوجود ان کے ہاں ایک منصوبہ تھا کہ محمد ﷺ کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اختیار کرلی جائے۔ انہوں نے آپ کو یہ پیشکش کی تھی کہ آپ ان کے معبودوں کے سامنے جھک جائیں اور وہ محمد ﷺ کے اِلٰہ کے سامنے جھک جائیں گے۔ محمد ﷺ ہمارے اِلٰہوں (خداؤوں) پر تنقید نہ کریں ، ہم ان کے اِلٰہ (خدا) پر تنقید نہ کریں گے۔ اس کے علاوہ محمد ﷺ ان لوگوں پر جو شرائط عائد کریں آپ کی مرضی۔ ان لوگوں کے خیالات اور تصورات چونکہ مختلف النوع تھے۔ وہ ایک طرف اللہ کی عبادت کا دم بھرتے تھے اور دوسری جانب دوسرے اِلٰہوں (خداؤوں) کے بھی پچاری تھے اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ ان کے اور حضرت محمد ﷺ کے درمیان زیادہ فاصلے نہیں ہیں۔ اور اتحاد ممکن ہے۔ اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر باہم فیصلہ ہوسکتا ہے جس میں دونوں فریقوں کی رضا پیش نظر ہو۔ اس خیال کو پوری طرح رد کردینے کی خاطر اور اس کوشش کا راستہ پوری طرح بند کردینے کی خاطر اور اسلامی عبادت اور مشرکانہ عبادت ، اسلامی نظام اور جاہلی نظام ، اسلامی عقائد اور کافرانہ عقائد اور اسلامی طرز زندگی اور کافرانہ طرز زندگی کے درمیان مکمل فرق کردینے کی خاطر یہ دو ٹوک بات کی ضرورت تھی اس لئے یہ سورت نازل ہوئی۔ جس کے اندر یہ بات نہایت تاکیدی انداز میں مکرر سہ کرر بیان کی گئی تاکہ اس موضوع پر بات ختم ہوجائے۔ توحید اور شرک کے اتحاد کے تمام راستے بند کردیئے جائیں اور ہر قسم کی (مذہبی) سودابازی کی جڑ کاٹ دی جائے اور راستے کے نشانات واضح ہوجائیں اور نہ سودا بازی ہو اور نہ بحث ومباحثہ ہو۔ انکار کے بعد انکار ، تاکید کے بعد تاکید اور قطعیت کے بعد قطعیت۔ نفی ، قطعیت اور تاکید کے تمام صیغے اور اسالیب اس سورت میں جمع کردیئے گئے ہیں۔ قل ”کہہ دو“۔ یہ دو ٹوک خدائی حکم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ عقیدہ اور یہ نظریہ مامور من اللہ ہے۔ یہ اللہ وحدہ کا حکم ہے اور اس میں حضرت محمد ﷺ کا کوئی ذاتی فیصلہ نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے اور اس حکم سے سرتابی نہیں کی جاسکتی ۔ اور نہ کوئی ایسا وجود ہے جو اللہ کے حکم کو رد کرسکے۔ 
قل ............الکفرون (1:109) ”کہہ دو اے کافرو “۔ اللہ نے ان کو اس لفظ سے پکارا جس کا اطلاق ان پر حقیقی معنوں میں ہوتا ہے۔ ایک ایسی صفت سے ان کو بلایا گیا جو ان کے اندرونی الواقعہ موجود ہے۔ درحقیقت وہ کسی دین کے پیرو نہ تھے اور درحقیقت وہ مومن نہ تھے ، وہ کافر تھے۔ لہٰذا تمہارے اور ان کے درمیان کوئی نکتہ اشتراک نہیں ہے۔ اس طرح سورت کے آغاز ہی سے یہ اشارہ دے دیا جاتا ہے اور چھوٹتے ہی یہ بات واضح کردی جاتی ہے کہ ایک مسلم مومن اور کافر کے درمیان کبھی بھی اتحاد نہیں ہوسکتا۔ 
لا اعبد ما تعبدون (2:109) ” میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو “۔ میری عبادت تمہاری عبادت سے مختلف ہے اور میرا معبود تمہارے معبود سے مختلف ہے۔ 
ولا انتم....................اعبد (3:109) ” نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو ، جس کی عبادت میں کرتا ہوں “۔ اس لئے کہ تمہاری عبادت میری عبادت سے مختلف ہے اور تمہارا معبود میرے معبود سوا ہے۔ 
ولا انا....................ماعبدتم (4:109) ” اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی تم نے عبادت کی ہے “۔ پہ پہلے فقرے کی تاقید ہے لیکن یہ جملہ اسمیہ منفیہ کے ذریعے نفی ہے۔ جملہ اسمیہ منفیہ نہایت مضبوطی ، دوام اور تسلسل کے مفہوم میں کسی امر کی نفی کرتا ہے۔ 
ولا انتم....................اعبد (5:109) ”اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں “۔ یہ دوسرے فقرے کی تاکید ہے تاکہ اس معاملے میں کوئی شک وشبہ نہ رہے۔ ظاہر ہے کہ اس قدر مکرر تاکیدات کے بعد شک و شبہ کی کوئی گنجائش بھی نہیں رہتی۔ اس کے بعد نہایت اجمالی طور پر ایک ہی فقرے میں دونوں گروہوں کے درمیان ایسی تفریق کردی جاتی ہے جس میں کوئی اتحاد نہیں رہتا۔ اس قدر اختلاف پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کے بعد کوئی اتصال نہیں رہتا ، دونوں کے درمیان اس قدر جدائی ہوجاتی ہے کہ جس کے بعد کوئی ملاپ متصور نہیں رہتا۔ 
لکم دینکم ولی دین (6:109) ” تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے “۔ میں یہاں اپنے موقف پر ڈٹا ہوں اور تم اپنے موقف پر ڈٹے ہو ، دونوں کے درمیان کوئی پل نہیں ہے جس پر یہ فریق مل سکیں۔ دونوں کے درمیان مکمل جدائی ہے۔ ایک واضح امتیاز اور گہری جدائی۔ یہ مکمل جدائی ضروری بھی تھی ، تاکہ کفر واسلام کے درمیان پائے جانے والے جوہری تضاد کے خدوخال واضح تر ہوجائیں ، جن کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی سمجھ لے کہ دونوں کے درمیان مصالحت اور کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اختیار کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اختلاف بنیادی نظریات میں ہے۔ اصل تصور اور منہاج زندگی ، دونوں میں مختلف ہے اور طرززندگی بھی بالکل جدا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ توحید ایک مکمل نظام ہے۔ شرک ایک متضاد نظام ہے۔ ان کا باہم ملاپ ممکن ہی نہیں ۔ توحید ایک ایسا نظام اور تصور ہے جو انسان کو اس پوری کائنات کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس جہت اور سمت کا تعین کردیتا ہے جہاں سے انسان نے اپنی پوری زندگی کے لئے ہدایات لینی ہے ، عقائد بھی اور قانون بھی۔ اقدار حیات اور پیمانے بھی۔ آداب اور اخلاق بھی ، غرض اس زندگی اور اس کائنات کے بارے میں مکمل فلسفہ انسان اسی جہت سے لیتا ہے اور یہ جہت جہاں سے مومن یہ سب کچھ لیتا ہے ذات باری تعالیٰ کی جہت ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ اس لئے اسلامی نظام زندگی میں زندگی کے تمام معاملات اسی اصول پر قائم ہوتے ہیں اور اس نظام میں اللہ کی ذات کے ساتھ کوئی شرک نہیں ہوتا۔ اسی طرز پر زندگی چلتی ہے۔ یہ فیصلہ کن جدائی اسلامی نقطہ نظر سے داعی کے لئے بھی ضروری ہے اور جن کو دعوت دی جارہی ہے ۔ ان کے لئے بھی ضروری ہے۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ یہ خالص اسلامی تصور حیات اور جاہلی تصور حیات آپس میں مل جاتے ہیں خصوصاً ان سوسائٹیوں میں جنہوں نے پہلے خالص اسلامی تصور کو قبول کرلیا ہوتا ہے لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ان کے اندر انحراف پیدا ہوجاتا ہے ، اس قسم کی سوسائٹیوں کے سامنے جب خالص ایمانی دعوت پیش کی جاتی ہے اور ان کے سامنے اسلامی نظام کو سیدھے سادھے طریقے سے بغیر کسی ملاوٹ کے پیش کیا جاتا ہے تو یہ لوگ اس دعوت پر بہت سختی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کا رویہ زیادہ معقول ہوتا ہے جن تک کبھی اسلامی دعوت پہنچی ہی نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ جن سوسائٹیوں نے اسلام قبول کیا ہوتا ہے اور بعد کے ادوار میں وہ منحرف ہوچکی ہوتی ہیں ، وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتی ہیں کہ وہ بھی تو ہدایت پر ہیں حالانکہ ان کے عقائد واعمال میں صالح کے ساتھ فاسد کی ملاوٹ ہوچکی ہوتی ہے۔ ایی سوسائٹیوں میں کام کرنے والے ان داعیوں کو بھی بعض اوقات دھوکہ لگ جاتا ہے جو ایسی سوسائٹیوں کے صالح جانب کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے برے پہلو بدلنا چاہتے ہیں اور خود ایسی سوسائٹیوں کے برے پہلو سے دھوکہ کھاجاتے ہیں اور یہ ھوکہ نہایت خطرناک ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام ، اسلام ہے اور جاہلیت جاہلیت ہے۔ ان کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ اصل طریق کار یہ ہے کہ لوگ جاہلیت سے پوری طرح نکل آئیں اور جاہلیت کے ہر رنگ سے پوری طرح نکل کر اسلام کی طرف ہجرت کرآئیں۔ اس سلسلے میں پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ داعی مکمل شعور کے ساتھ جاہلیت سے نکل کر اسلام کی طرف آجائے۔ اپنے تصورات اور نظریات کے لحاظ سے ، اپنے اعمال اور طریق کار کے لحاظ سے اور یہ جدائی ایسی ہو کہ ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہ ہو ، کوئی تہذیبی مصالحت نہ ہو اور جب کوئی پوری طرح جاہلیت سے نکل کر اسلام میں آجائے تو اس کے بعد پھر دونوں کے درمیان کوئی تعاون باقی نہیں رہتا۔ پھر یہ نہیں ہوتا کہ اسلام کی گدڑی میں کسی دوسرے کلچر کے پارچے اور پیوند لگیں ، نہ کچھ لو اور کچھ دو کا اصول چلتا ہے۔ نہ ادھر سے جھکاﺅ اور ادھر سے جھکاﺅ ہوتا ہے۔ اگرچہ جاہلیت اسلام کے روپ میں آئے اور اسلام کے عنوان سے بات کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی داعی کے لئے سب سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ اس زاویہ سے اس کا ذہن صاف ہو ، یہ بنیادی بات ہے۔ وہ مکمل شعور رکھتا ہو کہ وہ اس سوسائٹی سے ایک بیگانہ شخص ہے ، اس کا اپنا دین ہے اور میرا اپنا دین ہے۔ ان کا اپنا طریقہ ہے۔ میرا اپنا طریقہ ہے۔ اور وہ ایک قدم بھی ایسے لوگوں کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ لہٰذا اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے ہی راستے پر چلے اور بغیر کسی مداہنت کے وہ اپنے راستے میں اس طرح ڈٹا ہوا ہو کہ اس کا ایک قدم بھی اپنی جگہ سے نہ ہے۔ غرض مکمل برات کا اعلان ضروری ہے ، مکمل جدائی ضروری ہے اور صریح اور فیصلہ کن بات ضروری ہے۔ 
لکم دینکم ولی دین (6:109) ”تمہارا اپنا دین ہے اور میرا اپنا دین ہے “۔ آج کے داعیان حق اس بات کے محتاج ہیں اور ان کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ وہ جاہلیت جدید کے مقابلے میں اپنی مکمل برات کا اعلان کریں اور دو ٹوی اور فیصلہ کن جائی کا اعلان کردیں۔ آج کے داعی اس شعور کے محتاج ہیں کہ وہ اچھی طرح جان لیں کہ دراصل وہ مکمل جاہلانہ اور کافرانہ معاشرے میں ازسرنو اسلام کا اجراء واحیا چاہتے ہیں اور ان کو ایسے معاشروں سے سابقہ درپیش ہے جو پہلے صحیح مسلمان تھے ۔ ان پر ایک طویل عرصہ گزر گیا۔ فقست........................فسقون”ان پر بہت مدت گزر گئی اور ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہوگئے ہیں “۔ اس کے علاوہ کوئی درمیانی صورت نہیں ہے۔ نہ کچھ لو اور کچھ دو کا معاملہ ہوسکتا ہے ، نہ یہ بات ہے کہ سوسائٹی تو اسلامی ہے ، چند عیوب کی اصلاح چاہئے ، کملی تو درست ہے ایک پارچہ لگنا درکار ہے ، اصل طریقہ یہ ہے کہ اسلام کی طرف اسی طرح مکمل دعوت دی جائے جس طرح آغاز اسلام میں داعی حق نے مکمل دعوت دی تھی ، جبکہ وہ ایک جاہلی سوسائٹی کو بدل رہے تھے۔ اسلام اور جاہلیت کے درمیان مکمل جدائی اور تفریق ضروری ہے۔ یہ ہے میرا دین ، خالص اپنے عقائد ونظریات میں ، اپنی شریعت اور قانون میں ، اپنے تصورات وافکار ہیں یہ سب اللہ سے ماخوذ ہیں۔ اس میں شرک کا کوئی شائبہ اور آمیزہ نہیں ہے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو ، انسانی طرز عمل کے ہر رخ پر۔ اس فیصلہ کن جدائی کے سوا کوئی چارہ نہیں ورنہ جاہلیت کے ساتھ التباس رہے گا۔ اسلامی کلچر میں دوسرے کلچروں کی پیوند کاری ہوگی اور جو بھی تحریک چلے گی وہ کمزور اور ضعیف بنیادوں پر ہوگی۔ اسلامی دعوت وتحریک کے لئے ضروری ہے کہ وہ جرات مندی کے ساتھ دو ٹوک اور فیصلہ کن انداز میں دی جائے اور یہی طریق کار تھا داعی اول کا۔ وہ صاف صاف کہتے تھے۔ لکم دینکم ولی دین (6:109) ”تمہارے لئے تمہارا دین ہے ۔ اور میرے لئے میرا دین ہے “۔



تفسیر الدر المنثور(از امام سیوطیؒ 849ھ -911ھ)
١۔ ابن مردویہؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ سورۃ قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ مکہ میں نازل ہوئی ۔ 
٢۔ ابن مردویہؒ نے حضرت ابن الزبیرؓ سے روایت کیا کہ آیت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ مدینہ میں نازل ہوئی ۔ 
٣۔ ابن جریرؒ وابن ابی حاتمؒ والطبرانیؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ قریش نے رسول اللہ کو یہ دعوت دی کہ وہ لوگ آپ کو اتنا مال دیں گے کہ آپ مکہ کے مالدار لوگوں میں سے ہوجائیں گے ۔ اور عورتوں میں سے جس کے ساتھ آپ پسند کریں گے وہ آپ کی شادی کردیں گے ۔ اور کہنے لگے یہ سب کچھ آپ کے لیے ہے اے محمد  اور آپ ہمارے معبودوں کو برا کہنے سے رک جائیں اور ہمارے معبودوں کا تذکرہ برائی (یعنی حقیقی حالت) کے ساتھ نہ کریں۔ اگر آپ ایسا نہ کریں تو ہم آپ پر ایک بات کو پیش کرتے ہیں اور یقیناً اس میں آپ کا فائدہ اور نفع ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا: ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے۔ آپ  ﷺ نے فرمایا: یہاں تک کہ میں انتظار کروں گا کہ میرے پاس میرے رب کا کیا حکم آتا ہے۔ چنانچہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی آیت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ۔ لَآ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ الایۃ: فرمادیجیے اے کافرو! میں نہیں عبادت کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی نازل فرمایا آیت قل افغیر اللہ تامرونی اعبد ایہا الجہلون فرمادیجیے کہ اللہ کے علاوہ تم مجھ کو حکم دیتے ہو کہ میں عبادت کروں اے جاہلو۔ سے لے کر من الشکرین تک ۔ 
٤۔ عبدالرزاقؒ وابن المنذرؒ نے وہبؒ سے روایت کیا کہ قریش نے نبی  سے کہا کیا آپ کو یہ بات خوش لگتی ہے کہ ایک سال ہم تیری تابعداری کریں اور ایک سال تو ہمارے دین کی طرف لوٹ آئے ۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا آیت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ سورۃ کے آخر تک۔ 
٥۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابن الانباری نے المصاحف میں سعید بن میناء ابو البختری کے آزاد کردہ غلام سے روایت کیا کہ ولید بن مغیرہ عاص بن وائل الاسود بن المطلب اور امیہ بن خلف رسول اللہ  سے ملے اور کہا اے محمد  آجاؤ ۔ آپ اس کی عبادت کریں جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اور ہم اس کی عبادت کریں گے جس کی تو عبادت کرتا ہے تاکہ ہم اور آپ تمام کاموں میں شریک ہوجائیں پس اگر وہ دین زیادہ صحیح ہے جس پر ہم ہیں ۔ اس دین سے جس پر آپ ہیں تو آپ اس سے حصہ لے لیں گے اور اگر وہ دین جس پر آپ ہیں وہ زیادہ صحیح ہے اس دین سے جس پر ہم ہیں تو ہم اس سے حصہ لے لیں گے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ۔ لَآ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ۔ نازل فرمائی ۔ یہاں تک کہ سورۃ ختم فرمائی۔ 
٦۔ عبد بن حمیدؒ وابن المنذرؒ وابن مردویہؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ قریش نے کہا اگر آپ چوم لیں ہمارے معبودوں کو تو ہم بھی تیرے معبود کی عبادت کریں گے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا آیت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ مکمل سورۃ کو ۔ 
۷۔ ابن ابی حاتمؒ نے زرارہ بن اوفی رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ اس سورۃ کو نام دیا جاتا تھا المقشقشہ ۔ 
٨۔ ابن مردویہؒ نے حضرت ابو رافعؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ  نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر آپ مقام ابراہیم رپ آئے اور یہ آیت پڑھی آیت واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی (البقرہ آیت ١٣٥) اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنایلجیے ۔ پھر آپ نے نماز پڑھی ۔ اور سورۃ فاتحہ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کو پڑھا۔ اور فرمایا کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہے ۔ یعنی آیت لم یلد ولم یولد نہ اس نے کسی کو جنا اور انہ اس سے کوئی جنا گیا پھر فرمایا یہ وہ اللہ ہے آیت ولم یکن لہ کفوا احد ۔ اور اس کے برابر کوئی نہیں ۔ پھر فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ ہیں پھر رکوع کیا اور سجدہ کیا ۔ پھر سورۃ فاتحہ پڑھی اور آیت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ ، لَآ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ، وَلَآ أَنتُمْ عَٰبِدُونَ مَآ أَعْبُدُ ۔ پڑھا اور فرمایا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کروں گا۔ آیت لکم دینکم ولی دین۔ تمہارے لیے تمہارادین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے ۔ پھر آپ نے رکوع کیا اور سجدہ کیا۔ 
٩۔ ابن ماجہؒ نے حضرت ابن عمرؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم  مغرب کی نماز میں آیت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھا کرتے تھے ۔ 
سورۃ کافرون واخلاص کی تلاوت
١٠۔ ابن ماجہؒ ، حضرت ابن مسعودؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم  نے نماز مغرب کے بعد دو رکعتوں میں قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھی ۔ 
١١۔ بیہقیؒ نے اپنی سنن میں حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ  نے بیت اللہ کا طواف کیا ۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں ۔ اور ان میں قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کی قراءت فرمائی ۔ 
١٢۔ حاکمؒ وصححہ نے حضرت ابیؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ  ان سورتوں کے ساتھ وتر پڑھتے تھے آیت وقل للذین کفرو اور اللہ الواحد الصمد اور کافروں سے کہہ دیجیے اور اللہ تعالیٰ اکیلا ہے اور بےنیاز ہے ۔ 
١٣۔ مسلمؒ وبیہقیؒ نے اپنی سنن میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ  فجر کی دو رکعتوں میں قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کو پڑھا۔ 
١٤۔ ابن ابی شیبہؒ واحمدؒ والترمذیؒ ونسائیؒ وابن ماجہؒ وابن حبانؒ وابن مردویہؒ نے حضرت ابن عمؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی  کو پچیس مرتبہ دیکھا اور ایک روایت میں ہے کہ ایک مہینہ تک دیکھا کہ آپ  فجر سے پہلے دو رکعتوں میں اور مغرب کے بعد دو رکعتوں میں آیت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھا کرتے تھے ۔ 
١٥۔ ابن الضریسؒ والحاکؒم (فی الکنی) وابن مردویہؒ نے حضرت ابن عمرؓسے روایت کیا کہ میں نے چالیس صبحوں میں نبی اکرم  کو غزوۂ تبوک کے دوران دیکھا اور میں نے آپ کو فجر کی دو رکعتوں میں قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھتے ہوئے سنا۔ اور آپ فرماتے تھے دونوں سورتیں کیا ہی اچھی ہیں ایک سورۃ برابر ہے چوتھائی قرآن کے اور دوسری تہائی قرآن کے ۔ 
١٦۔ بیہقیؒ نے شعب الایمان میں حضرت انسؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم  مغرب کے بعد دو رکعتوں میں اور فجر کی نماز سے پہلے دو رکعتوں میں قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھا کرتے تھے ۔ 
١٧۔ ابن مردویہؒ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ کو بڑھا تو یہ اس کے لیے چوتھائی قرآن کے برابر ہے۔ 
١٨۔ طبرانیؒ فی الصغیر اور بیہقیؒ نے شعب الایمان میں حضرت سعید بن ابو العاصؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ  نے فرمایا جس نے قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ کو پڑھا تو گویا اس نے چوتھائی قرآن کو پڑھا اور جس نے قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کو پڑھا تو گویا اس نے ایک تہائی قرآن کو پڑھا 
١٩۔ مسددؒ نے صحابہؓ میں سے ایک آدمی سے روایت کیا میں نے رسول اللہ  سے بیس سے زائد مرتبہ یہ کہتے ہوئے سنا کہ کیا ہی اچھی یہ دونوں سورتیں ہیں جو دو رکعتوں میں پڑھی جاتی ہیں الاحد الصمد ۔ یعنی قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ۔ 
٢٠۔ احمدؒ وابن الضریسؒ والبغویؒ وحمیؒد وزنجویہؒ نے اپی ترغیب میں ایک شیخ سے روایت کیا کہ جس نے نبی اکرم  کو پایا ا۔ اس نے کہا میں نبی اکرم  کے ساتھ ایک سفر میں نکلا اور آپ ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ پڑھا رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا یہ آدمی شرک سے بری ہوگیا۔ اور دوسرا آدمی قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھ رہا تھا تو نبی اکرم  نے فرمایا اس کے اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ اس کی مغفرت کردی گئی ۔ 
٢١۔ ابن ابی شیبہؒ واحمدؒ وابو داوٗدؒ والترمذیؒ والنسائیؒ وابن الانباریؒ فی المصاحف والحاکمؒ وصححہ وابن مردویہؒ ، والبیہقیؒ نے شعب الایمان میں حضرت مروہ بن نوف بن معاویہ اشجعی رحمہ اللہ سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے بتائیے جو میں اپنے بستر پر سوتے وقت پڑھا کروں؟ آپ نے فرمایا قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ پڑھ پھر اس کے ختم پر سو جا کیونکہ وہ شرک سے براءت ہے ۔ 
٢٢۔ سعید بن منصورؒ اب ابی شیبہؒ وابن مردویہؒ نے حضرت عبدالرحمن بن نوفل اشجعی سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میر انیا نیا زمانہ شرک سے گذرا ہے ۔ مجھے ایسی آیت کا حکم فرمادیجیے جو مجھے شرک سے بری کردے ۔ آپ نے فرمایا قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ پڑھ ۔ اور فرمایا میرے باپ نے اس کے پڑھنے میں خطا نہیں کی یعنی نہیں بھولے نہ کسی دن اور نہ کسی رات میں یہاں تک کہ دنیا سے جدا ہوگئے ۔ 
٢٣۔ ابن مردویہؒ نے حضرت براءؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ  نے نوفل بن معاویہ الاشجعیؓ سے فرمایا جب تو نیند کے لیے اپنے بستر پر آئے تو آیت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ بےشک جب تو اس کو پڑھے گا۔ تو شرک سے بری ہوجائے گا۔ 
٢٤۔ احمدؒ والطبرانیؒ فی الاوسط عن الحارث بن جبلہ والطبرانیؒ نے کہا کہ حضرت جبلہ بن حارثؓ اور وہ بھائی ہیں حضرت زید بن حارثہؓ نے ان سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے میں سوتے وقت پڑھا کروں۔ آپ  نے فرمایا جب تو رات کو اپنے بستر پر جائے تو قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ کو اس کے آخر تک پڑھ بےشک یہ شرک سے براءت ہے ۔
٢٥۔ بیہقیؒ نے شعب الایمان میں حضرت انسؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ  نے معاذ (رض) سے فرمایا اپنی نیند کے وقت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ پڑھ بےشک یہ شرک سے براءت ہے ۔
٢٦۔ الدیلمیؒ نے حضرت عبداللہ بن جرادؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ  نے فرمایا کہ منافق چاشت کی نماز نہیں پڑھتا ۔ اور نہ قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ پڑھتا ہے ۔ 
٢٧۔ ابو یعلیؒ والطبرانیؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ  نے فرمایا کیا میں تم کو ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو تم کو اللہ کے ساتھ شرک کرنے سے نجات دے دے ۔ تم لوگ اپنی نیند کے وقت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ پڑھ اکرو۔ 
٢٨۔ البزارؒ والبطرانیؒ وابن مردویہؒ نے خبابؓ سے روایت کیا رسول اللہ  نے فرمایا کہ جب تو اپنے لیٹنے کی جگہ پر آجائے تو قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ پڑھ کیونکہ نبی  اپنے بستر مبارک پر کبھی بھی تشریف نہیں لے گئے مگر قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ پڑھی یہاں تک کہ اس کو ختم فرمائے ۔ 
٢٩۔ ابن مردویہؒ نے حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ  نے فرمایا جو شخص ان دو سورتوں قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو اس پر کوئی حساب نہ ہوگا۔ 
٣٠۔ ابوعبیدؒ فی فضائلہ وابن الضریسؒ نے حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ کو رات میں پڑھا تو اس کے مال میں اضافہ ہوگا اور وہ خوشحال ہوگا۔ 
٣١۔ طبرانیؒ نے الصغیر میں حضرت علیؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم  کو ایک بچھو نے کاٹ لیا اور آپ نماز پڑھ رہے تھے ۔ جب آپ فارغ ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت کرے کہ نہ کسی نماز پڑھنے والے کو اور نہ اس کے علاوہ کسی دوسرے کو چھوڑتا ہے پھر آپ نے پانی اور نمک منگوایا اور اس پر ملنے لگے اور ساتھ ہی قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ بھی پڑھتے رہے ۔ 
٣٢۔ ابو یعلیؒ نے حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو رسول اللہ  نے فرمایا اے جبیر! کیا تو پسند کرتا ہے جب تو سفر میں نکلے تو بیت میں اپنے ساتھیوں کی مثل اور زاد راہ کے اعتبار سے تو ان سے زیادہ ہوجائے میں نے عرض کیا ہاں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ اور فرمایا یہ پانچ سورتیں پڑھاکرو ۔ قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ اور إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ اور قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۔ اور ہر سورۃ کو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ شروع کرے ۔ حضرت جبیؓ نے فرمایا کہ میں غنی اور زیادہ دولت مند ہوگیا ۔ میں سفر میں نکلتا تھا ۔ تو میری حالت کمزور اور زاد کم ہوتا تھا اور جب سے رسول اللہ  نے یہ سورتیں بتائیں اور میں نے وہ پڑھیں تو میری حالت سب سے اچھی ہوگئی ار زاد راہ بڑھ گیا ساتھیوں سے یہاں تک کہ میں سفر سے واپس لوٹ آتا ۔ 
٣٢۔ ابن الضریس نے عمرو بن مالک رحمہ اللہ سے روایت کیا کہ ابو الجوزاء کہا کرتے تھے آیت قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ کو کثرت سے پڑو اور ان جھوٹ معبودوں سے براءت کا اظہار کرو۔



تفسیر امام ابن کثیر(701ھ - 774ھ)
مشرک سے براۃ اور بیزاری :
صحیح مسلم شریف میں حضرت جابرؓ سے مروی ہوے کہ رسول اللہ  نے اس سورت کو اور سورۃ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کو طواف کے بعد کی دو رکعت نماز میں تلاوت فرمایا صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ صبح کی دو سنتوں میں بھی آنحضرت  انہی دونوں سورتوں کی تلاوت کیا کرتے تھے مسند احمد میں حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  نے صبح کے فرضوں سے پہلے کی دو رکعتوں میں اور مغرب کے بعد کی دو رکعتوں میں بیس اوپر کچھ دفعہ یا دس دفعہ اوپر کچ مرتبہ سورۃ قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ اور سورۃ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ پڑھی یعنی اتنی مرتبہ میں نے آپ کو یہ سورتیں ان نمازوں میں پڑھتے ہوئے سنا مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی  کو میں نے چوبیس یا پچیس مرتبہ صبح کی دو سنتوں میں ان دونوں سورتوں کو پڑھتے ہوئے بخوبی دیکھا، مسند ہی کی دوسری روایت میں آپ سے مروی ہے کہ مہینہ بھر تک میں نے آپ کو ان دونوں رکعتوں میں یہ دونوں سورتیں پڑھتے ہوئے پایا یہ روایت ترمذی ابن ماجہ اور نسائی میں بھی ہے امام ترمذیؒ اسے حسن کہتے ہیں وہ روایت پہلے بیان ہوچکی ہے کہ یہ سورت چوتھائی قرآن کے برابر ہے اور سورۃ إِذَا زُلْزِلَتِ بھی مسند احمد میں روایت ہے حضرت نوفل بن معاویہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  نے ان سے فرمایا کہ ہماری ربیبہ زینب کی پرورش تم اپنے ہاں کرو میرخ یال سے یہ حضرت زینبؓ تھیں یہ ایک مرتبہ پھر حضور  کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :کہو بچی کیا کر رہی ہے؟ کہا میں اسے اس کی ماں کے پاس چھوڑ آیا ہوں فرمایا اچھا کیوں آئے ہو؟ عرض کیا اس لیے کہ آپ سے کوئی وظیفہ سیکھ جاؤں جو سوتے وقت پڑھ لوں؟ آپ نے فرمایا قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ پڑھ کر سو جایا کرو اس میں شرک سے براۃ اور بیزاری ہے۔ طبرانیؒ کی روایت میں ہے کہ جبلہ بن حاثرہؓ کو بھی آپ نے یہی فرمایا تھا۔ طبرانیؒ کی اور روایت میں ہے کہ خود حضور  بھی اپنے بسترے پر لیٹ کر اس سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت حارث بن جبلہؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ! مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے کہ میں سونے کے وقت اسے کہہ لیا کروں۔ آپ نے فرمایا: جب تو رات کو اپنے بستر پر جاؤ تو قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ پڑھ لیا کرو یہ شرک سے بیزاری ہے۔ واللہ اعلم

مشرکین الگ اور موحدین الگ :
اس سورۃ مبارکہ میں مشرکین کے عمل سے بیزاری کا اعلان ہے اور اللہ کی عبادت کے اخلاص کا حکم ہے، گو یہاں خطاب مکہ کے کفار قریش سے ہے لیکن دراصل روئے زمین کے تمام کافر مراد ہیں۔ اس کی شان نزول یہ ہے کہ ان کافروں نے حضور  سے کہا تھا کہ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں تو اگلے سال ہم بھی اللہ کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق  کو حکم دیا کہ ان کے دین سے اپنی پوری بیزاری کا اعلان فرما دیں کہ میں تمہارے ان بتوں کو اور جن جن کو تم اللہ کا شریک مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا گو تم بھی میرے معبود برحق اللہ وحدہ لا شریک لہ کو نہ پوجو پس مَا یہاں پر معنی میں من کے ہے۔ پھر دوبارہ یہی فرمایا کہ میں تم جیسی عبادت نہ کروں گا تمہارے مذہب پر میں کاربند نہیں ہوسکتا نہ میں تمہارے پیچھے لگ سکتا ہوں بلکہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کروں گا اور وہ بھی اس طریقے پر جو اسے پسند ہو اور جیسے وہ چاہے اسی لیے فرمایا کہ نہ تم میرے رب کے احکام کے آگے سر جھکاؤ گے نہ اس کی عبادت اس کے فرمان کے مطابق بجا لاؤ گے بلکہ تم نے تو اپنی طرف سے طریقے مقرر کر لیے ہیں جیسے اور جگہ ہے إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ (کہ وہ تو بس پیچھے ہیں اٹکل کےالخ یہ لوگ صرف وہم و گمان اور خواہش نفسانی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت پہنچ چکی ہے پس جناب نبی اللہ احمدِ مجتبیٰ  نے ہر طرح اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان کے معبودوں سے اور ان کی عبادت کے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی کا اعلان فرما دیا ظاہر ہے کہ ہر عابد کا معبود ہوگا اور طریقہ عبادت ہوگا پس رسول اللہ  اور آپ کی امت صر فاللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور طریقہ عبادت ان کا وہ ہے جو سرور رسول  نے تعلیم فرمایا ہے اسی لیے کلمہ اخلاص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا راستہ وہی ہے جس کے بتانے والے محمد  ہویں جو اللہ کے پیغمبر ہیں  اور مشرکین کے معبود بھی اللہ کے سوا غیر ہیں اور طریقہ عبادت بھی اللہ کا بتلایا ہوا نہیں اسی لیے فرمایا کہ متہارا دین تمہارے لیے میرا میرے لیے جیسے اور جگہ ہے وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ [سورۃ یونس:41] یعنی اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے متہارا عمل ہے تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے کاموں سے بیزار ہوں اور جگرہ فرمایا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ [سورۃ القصص:55] ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے تمہارے ساتھ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے تمہارے لیے متہارا دین ہے یعنی کفر اور میرے لیے میرا دن ہے یعنی اسلام یہ لفظ اصل میں دینی تھا لیکن چونکہ اور آیتوں کا وقف نون پر ہے اس لیے اس میں بھی "یا" کو حذف کردیا جیسے فھوا یھدین میں اور یسقین میں بعض مفسرین نے کہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں اب تو تمہارے معبودوں کی پرستش کرتا نہیں اور آگے کے لیے بھی تمہیں ناامید کر دیتا ہوں کہ عمر بھر میں کبھی بھی یہ کفر مجھ سے نہ ہو سکے گا اسی طرح نہ تم اب میرے اللہ کو پوجتے ہو نہ آئندہ اس کی عبادت کرو گے اس سے مراد وہ کفار ہیں جن کا ایمان نہ لانا اللہ کو معلوم تھا جیسے قرآن میں اور جگہ ہے وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا [سورۃ المائدۃ:64+68] یعنی تیری طرف جو اترتا ہے اس سے ان میں سے اکثر تو سرکشی اور کفر میں بڑھ جاتے ہیں ابن جرری نے بعض عربی دان حضرات سے نقل کیا ہے کہ وہ مرتبہ اس جملے کا لانا صرف تاکید کے لیے ہے جیسے فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا [سورۃ الشرح:5-6] میں اور جیسے لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ۔ ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ۔ [سورۃ التکاثر:6-7]  پس ان دونوں جملوں کو دو مرتبہ لانے کی حکمت میں یہ تین قول ہوئے ایک تو یہ کہ پہلے جملے سے مراد معبود دوسرے سے مراد طریق عبادت دوسرے یہ کہ پہلے جملے سے مراد حال دوسرے سے مراد استقبال یعنی آئندہ تیسرے یہ کہ پہلے جملے کی تاکید دوسرے جملے سے ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں ایک چوتھی توجیہ بھی ہے جسے حضرت امام ابن تیمیہ اپنی بعض تصنیفات میں قوت دیتے ہیں وہ یہ کہ پہلے تو جملہ فعلیہ ہے اور دوبارہ جملہ اسمیہ ہے تو مراد یہ ہوئی کہ نہ تو میں غیر اللہ کی عبادت کرتا ہو نہ مجھ سے کبھی بھی کوئی امید رکھ سکتا ہے یعنی واقعہ کی بھی نفی ہے اور شرعی طور پر ممکن ہونے کا بھی انکار ہے یہ قول بھی ہت اچھا ہے واللہ اعلم حضرت امام ابو عبداللہ شافعیؒ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے یہود نصرانی کا اور نصرانی یہود کا وارث ہوسکتا ہے جبکہ ان دونوں میں نسب یا سبب ورثے کا پایا جائے اس لیے کہ اسلام کے سوا کفر کی جتنی راہیں ہیں وہ سب باطل ہونے میں ایک ہی ہیں حضرت امام احمدؒ اور ان کے موافقین کا مذہب اس کے برخلاف ہے کہ نہ یہودی نصرانی کا وارث ہوسکتا ہے نہ نصرانی یہود کا کیونکہ حدیث ہے دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے سورۃ کافرون کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ احسانہ۔



تفسیر امام قرطبیؒ (600ھ - 671ھ)
حضرت ابن مسعودؓ ، حضرت حسن بصریؒ اور عکرمہ کے قول میں یہ مکی ہے ۔ اور حضرت ابن عباسؓ کے ایک قول ، قتادہؒ اور ضحاکؒ کے نزدیک یہ مدنی ہے ۔ اس کی چھ آیات ہیں ۔
ترمذی شریف میں حضرت انسؓ سے مروی روایت ہے : یہ سورت قرآن کے ایک تہائی کے برابر ہے ۔

قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلْكَٰفِرُونَ ۔ تا ۔ وَلَآ أَنتُمْ عَٰبِدُونَ مَآ أَعْبُدُ ۔
علماء نے کہا : جو آدمی اپنے دل کا علاج کرنا چاہتا ہے اور ظلم و قہر کی زنجیروں سے آزاد ہوکر اپنے رب کی طاعت کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ لذات کو ختم کرنے والی ، جماعتوں ں کو جدا کرنے والی ، بیٹوں اور بیٹیوں کو یتیم کرنے والی کا ذکر کثرت سے کرے جو لوگ موت و حیات کی کشمکش میں ہیں ان کی ملاقات پر مواظبت اختیار کرے اور مسلمانوں کی قبروں کی زیارت میں ہمیشگی اختیار کرے ۔ یہ تین امور ہیں جس آدمی کا دل سخت ہو ، گناہ اس کی اپنی گرفت میں لے چکا ہو تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف اس سے مدد لے اور شیطان اور اس کے دوستوں کے فتنوں کے خلاف ان سے مدد لے اگر موت کا ذکر کثرت سے کرنے سے اس نے فائدہ اٹھا لیا اور اس کے دل کی سختی چھٹ گئی تو یہی اس کا مقصود ہے اگر اس پر دل کا میل بڑھ گیا اور گناہ کے اسباب مستحکم ہوگئے تو موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا لوگوں کے پاس جانا اور مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کرنا ان گناہوں کو دور کرنے میں وہاں تک پہنچ سکتا ہے جہاں تک پہلی صورت نہ پہنچ پائی تھی ۔ کیونکہ کوت کا ذکر دل کے لیے ایک خبر ہے جس کی طرف اس کا ٹھکانہ ہے اور یہ اسے خبردار کرنے کے قائم مقام ہے ۔ جو آدمی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اس کے پاس جانا اور مسلمانوں میں سے جو کوئی مرچکا ہے اس کی قبر کی زیارت کرنا یہ آنکھوں سے مشاہدہ ہے اس وجہ سے دوسری صورت پہلی سے زیادہ موثر ہے رسول اللہ کا ارشاد ہے : لیس الخبر کالمعاینۃ خبر آنکھوں دیکھی چیز جیسی نہیں ہوتی ۔ اسے حضرت ابن عباس نے روایت کیا ہے ۔ جو لوگ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے حال سے عبرت حاصل کرنا ہر وقت ممکن نہیں ہوتا جو آدمی اپنے دل کا علاج کرنا چاہتا ہے اس کا علاج بعض اوقات ایک لمحے میں نہیں ہوپاتا ، جہاں تک زیارت قبول کا تعلق ہے تو اس کا وجود یعنی اثر بہت تیز ہوتا ہے اور ان سے نفع حاصل کرنا زیادہ مناسب اور موزوں ہوتا ہے ۔ جو آدمی قبروں کی زیارت کا ارادہ کرتا ہے اس کے لیے مناسب یہ ہے وہ اس کے آداب اپنائے ، آتے وقت اس کا دل حاضر ہو اس کے پیش نظر صرف قبر کی زیارت نہ ہو کیونکہ یہ تو صرف اس کی ایسی حالت ہے جس میں حیوان بھی اس کے ساتھ شریک ہیں ہم اس سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہ یں ، بلکہ اس کے پیش نظر اللہ تعالی کی رضا اور اپنے فاسد دل کی اصلاح ہونی چاہیے ۔ یا میت کو نفع پہنچانے کا ارادہ ہونا چاہیے جو زیارت کرنے والا اس کے پاس قرآن پڑھے گا ، دعا کرے گا ، قبروں کے اوپر چلنے اور ان پر بیٹھنے سے اجتناب کرے جب قبرستان میں داخل ہو تو وہ انہیں سلام کرے جب وہ اپنے میت کی قبر تک پہنچے جسے وہ پہچانتا ہے تو اسے بھی سلام کرے اور اس کے چہرے کی جانب سے آئے کیونکہ وہ اس کی زیارت میں اس طرح ہے جس طرح وہ زندہ حالت میں اس سے مخاطب تھا اگر زندہ حالت میں اس سے خطاب کرتا تو آداب یہی ہوتے کہ اس کے چہرے کے بالمقابل ہوتا یہاں بھی اسی ہے پھر جو مٹی کے نیچے جا چکا ہے اپنے گھر والوں اور احباب سے الگ ہوچکا ہے اس سے عبرت حاصل کرنے کے بعد کہ اس میت نے چھوٹے بڑے لشکروں کی قیادت کی ہوگی ، ساتھیوں اور قبائل سے مقابلہ کیا ہوگا اموال اور ذخائر کو جمع کیا ہوگا تو اسے موت ایسے وقت میں آپہنچی کہ اسے گمان تک نہ تھا ایسی ہولناکی میں موت آئی جس کا اسے کوئی انتظار نہ تھا تو زیارت کرنے والے کو اس بھائی کی حالت میں غور کرنا چاہیے جو گزر چکا ہے اور ان ساتھیوں میں شامل ہوچکا ہے جنہوں نے امیدوں کو پایا اور اموال کو جمع کیا کہ ان کی آرزوئیں کیسے ختم ہوگئیں ، ان کے اموال نے انہیں کوئی نفع نہ دیا ، مٹی نے ان کے چہروں کے محاسن کو مٹا دیا اور قبروں میں ان کے اجزا بکھر گئے ، ان کے بعد ان کی بیویاں بیوہ ہوگئیِ ان کی اولادیں یتیم ہوگئیں ، دوسروں نے ان کے عمدہ اموال کو تقسیم کرلیا تاکہ اسے ان کا مقاصد میں گھومنا پھرنا ، حصول مطالب میں ان کا حرص ، اسباب کے حصول میں ان کا دھوکہ اور جوانی اور صحت کی طرف ان کا میلان سب کو یاد کرسکے اور یہ بھی جان سکے کہ اس کا لہو و لعب کی طرف میلان ان کے میلان اور غفلت کی طرح ہے جس کے سامنے خوفناک موت اور تیز ہلاکت ہے یقینا وہ اس طرف جارہا ہے جس طرف وہ گئے تھے اسے اپنے دل میں اس آدمی کے ذکر کو یا د کرنا چاہیے جو اپنی اغراض میں متردد تھا کہ اس کے پاؤں کیسے ٹوٹ گئے ، وہ اپنے دوستوں کو دیکھ کر لذت حاصل کرتا تھا جبکہ اب اس کی آنکھیں بہہ چکی ہیں ، وہ اپنی قوت گویائی کی بلاغت سے حملہ کیا کرتا تھا جبکہ کیڑے اس کی زبان کو کھا گئے ہیں ، وہ لوگوں کی موت پر ہنسا کرتا تھا جب کہ مٹی نے اس کے دانتوں کو بوسیدہ کردیا ہے ، وہ یقین کرلے کہ اس کا حال اس کے حال جیسا ہوگا اور اس کا انجام اس کے انجام جیسا ہوگا ۔ اس یاد اور عبرت کی وجہ سے اس سے تمام دنیوی غیرتیں زائل ہوجائیں گی اور اور وہ اخروی اعمال پر متوجہ ہوگا ۔ وہ دنیا میں زہد اختیار کرے گا اپنے رب کی اطاعت کی طرف متوجہ ہوگا اس کا دل نرم ہوجائے گا اور اعضاء میں خشوع واقع ہوجائے گا ۔
فراء نے کہا : کلا سے مراد یہ ہے معاملہ اس طرح نہیں جس باہم فخر اور کثرت پر تم ہو تم عنقریب اس کا انجام جان لوگے ۔
یہاں وعید پر وعید ہے ؛ یہ مجاہد کا قول ہے ۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں کلام میں جو تکرار ہے وہ تاکید اور تغلیظ کے طریقہ پر ہو ؛ یہ فراء کا قول ہے ۔ حضرت ابن عباس نے کہا : قبر میں جو تم پر عذاب آئے گا اس کو تم جان لو گے پھر آخرت میں تم پر جو عذاب آئے گا اس کو تم جان لو گے ۔ پہلی کلام قبر کے عذاب کے بارے میں ہے اور دوسری کلام آخرت کے بارے میں ہے ۔ تو یہ تکرار دو حالتوں کے بارے میں ہے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلا سوف تعلمون ۔ یہ آنکھ سے دیکھنے کے بارے میں ہے کہ جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے وہ حق ہے ، ثم کلا سوف تعلمون ۔ یہ دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت ہوگا کہ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا وہ سچ ہے ۔ زر بن حبیش نے حضرت علی سے روایت نقل کی ہے کہ ہم عذاب قبر میں شک کرتے تھے یہاں تک کہ یہ سورت نازل ہوئی ۔ تو اللہ تعالی کے فرمان : کلا سوف تعلمون ، سے مراد ہے تم قبروں میں دیکھ لو گے ، ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلا سوف تعلمون ، سے مراد ہے جب موت تم پر واقع ہوگی اور فرشتے تمہاری روحیں نکالنے کے لیے تمہارے پاس آئیں گے ۔ 
ثم کلا سوف تعلمون ۔ جب تم قبروں میں داخل ہوگے اور تمہارے پاس منکر و نکیر آئیں گے ، سوال کی ہولناکی تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گی اور جو اب تم سے ختم ہوجائے گا ۔
میں کہتا ہوں : یہ سورت عذاب قبر کے بارے میں قول کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے ہم نے اپنی کتاب التذکرہ میں ذکر کیا ہے کہ اس پر ایمان واجب ہے اس کی تصدیق لازم ہے جیسے نبی صادق و امین نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالی قبر میں مکلف بندے کی طرف زندگی لوٹا کر زندہ کردیتا ہے ، عقل کی جس صفت پر اس نے زندگی بسر کی تھی اتنا عقل اسے عطا فرماتا ہے تاکہ جو اس سے سوال کیا جارہا ہے اسکی اسے سمجھ ہو ، اس کا وہ جواب دے سکے ، اس کے رب کی جانب سے جو اسے چیز مل رہی ہے اس کا ادراک کرسکے اور قبر میں اس کے لیے جو کرامت اور ذلت مقدر کی گئی ہے اس کو جان سکے ؛ یہ اہل سنت کا مذہب ہے جس پر اہل اسلام کی جماعت قائم ہے ہم نے التذکرہ میں اس پر مفصل بحث کی ہے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلا سوف تعلمون یہ دوبارہ اٹھانے کا وقت ہوگا کہ تم جان لو گے کہ جو تمہیں کہا جاتا تھا کہ تم کو اٹھایا جائے گا ۔ ثم کلا سوف تعلمون یہ قیامت میں ہوگا کہ تم جان لو گے کہ تمہیں جو کچھ کہا جاتا تھا کہ تمہیں عذاب دیا جائے گا ۔ یہ سورت قیامت کے احوال یعنی دوبارہ اٹھانا ، میدان محشر میں جمع کرنا ، سوال کرنا ، پیشی ہونا وغیرہ دوسرے اموال اور نزاع سب کو شامل ہے ، جس طرح ہم نے کتاب التذکرہ میں مردوں کے احوال اور آخرت کے امور پر گفتگو کی ہے ۔ ضحاک نے کہا : کلا سوف تعلمون کا مصداق کفار ہیں ثم کلا سوف تعلمون کا مصداق مومن ہیں ، اس طرح وہ اسے پڑھا کرتے تھے پہلی آیت تاء کے ساتھ اور دوسری آیت یاء کے ساتھ ۔
یہ ایک اور وعید ہے ۔ یہ کلام اس بنا پر ہے کہ قسم محذوف ہے یعنی تم آخرت میں ضرور دیکھو گے ۔ یہ خطاب ان کفار کو ہے جن کیلیے جہنم لازم ہوچکی ہے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ حکم عام ہے جس طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : وان منکم الا واردھا ۔ (مریم) یہ کفار کے لیے گھر ہے اور مومن کے لیے گزرگاہ ہے ۔ صحیح میں ہے : ان میں سے پہلا بجلی کی سی تیزی سے پھر ہوا کی سی تیزی سے پھر پرندے کی سی تیزی سے گزرے گا ۔ سورہ مریم میں یہ بحث گزر چکی ہے ۔ کسائی اور ابن عامر نے اسے لترون پڑھا ہے یہ اریتہ الشی سے مشتق ہے یعنی تمہیں اس کی طرف اٹھایا جائے گا اور تمہیں وہ دکھائی جائے گی تاء کے فتحہ کے ساتھ یہ عام قراء کی قرات ہے ۔ یعنی تم دور ہونے کے باوجود اپنی آنکھوں سے جہنم کو دیکھو گے پھر تم اپنی آنکھ سے مشاہدہ کرو گے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ہمیشہ جہنم میں رہنے کی خبر ہے یعنی یہ دائمی اور متصل روایت ہے اس بنا پر خطاب کفار کے لیے ہے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لو تعلمون علم الیقین ۔ کا معنی ہے تم دنیا میں آج اس امر کو علم یقین سے جان لیتے جو آگے ہونے والا ہے جس کی تمہارے سامنے صفت بیان کی گئی ہے کہ تم ضرور اپنے دل کی آنکھوں سے اسے دیکھو گے ، کیونکہ علم یقین تجھے جہنم کو تیرے دل کی آنکھوں سے دکھائے گا وہ یہ ہے تیرے لیے قیامت کے مراحل اور اس کی قطع مسافت تیرے لیے عیاں ہوگی ۔ پھر معاینہ کے وقت سر کی آنکھوں سے دیکھے گا تو تو اسے یقینا دیکھ لے گا وہ تیری آنکھ سے غائب نہیں ہوگی پھر سوال اور پیشی کے وقت تم سے نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ایک دن یا ایک رات باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر موجود ہیں ، پوچھا : تمہیں اس وقت کس چیز نے گھروں سے نکالا ؟ دونوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! بھوک نے ۔ فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ مجھے بھی اس چیز نے گھر سے نکالا ہے جس نے تمہیں نکالا ہے دونوں اٹھو ، دونوں آپ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے رسول اللہ ایک انصاری کے گھر آئے تو وہ گھر پر نہیں تھا جب اس کی بیوی نے رسول اللہ کو دیکھا تو اس نے خوش آمدید کہا ۔ رسول اللہ نے اس سے پوچھا : فلاں کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا : وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہوا ہے ، اسی اثنا میں وہ انصاری بھی پہنچ جاتا ہے اس نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں صحابہ کو دیکھا پھر گویا ہوا : الحمدللہ آج مجھ سے بڑھ کر کوئی عزت والے مہمانوں والا نہیں ۔ وہ گیا تو کھجور کا ایک خوشہ ان کے پاس لے آیا ۔ عرض کی : اسے کھاؤ اور چھری لی رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : دودھ دینے والے جانور کو ذبح نہ کرنا ۔ اس انصاری نے جانور ذبح کیا تو انہوں نے اس بکری اور اس خوشے سے کھانا کھایا اور پانی پیا ۔ جب یہ حضرات خوب سیر ہوگئے تو رسول اللہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ْ تم سے اس دن کی نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا ، تمہیں تمہارے گھروں سے بھوک نے نکالا پھر تم نہ لوٹے یہاں تک کہ تمہیں اس نعمت نے آلیا ۔ 
اسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے اس میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں : ھذا والذی نفسی بیدہ من النعیم الذی تسالون عنہ یوم القیامۃ ظل بارد و رطب طیب وماء بارد ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے روز تم سے پوچھا جائے گا ۔ ٹھنڈا سایہ ، عمدہ تر کھجوریں اور ٹھنڈا پانی اور اس انصاری کی کنیت ذکر کی اور کہا : ابو ہیثم بن تیہان اور اس واقعہ کا ذکر کیا ۔
میں کہتا ہوں : اس انصاری کا نام مالک بن تیہان تھا اس کی کنیت ابو ہیثم تھی اس واقعہ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن رواحہ اشعار کہتے ہیں اور ابو ہیثم بن تیہان کی مدح کرتے ہیں :
فلم ار کالاسلام عزا لامۃ۔ ۔ ۔ ولا مثل اضیاف الا راشی معشرا
میں نے کسی قوم کے لیے اسلام جیسی کوئی عزت نہیں دیکھی اور نہ میں نے اراشی کے مہمانوں جیسی کوئی جماعت دیکھی ہے ۔
نبی و صدیق و فاروق امۃ۔ ۔ ۔ و خیر بنی حواء فرعا و عنصرا
نبی ، صدیق اور امت کا فاروق ، بنی حواء میں سے عنصر کے اعتبار سے سب سے بہتر ۔
فوافوا لمیقات و قدر قضیۃ۔ ۔ ۔ و کان قضاء اللہ قدرا مقدرا
انہوں نے وعدہ و پیمان کا حق ادا کیا ۔ اللہ کا فیصلہ ہوکر رہنے والا ہے ۔
الی رجل نجد یباری بجودہ ۔ ۔ ۔ شموس الضحی جودا و مجدا و مفخرا
نجد کے ایک معزز آدمی کی طرف جو اپنی سخاوت ، بزرگی اور فخر میں چاشت کے سورجوں کا مقابلہ کرتا ہے ۔
و فارس خلق اللہ فی کل غارۃ ۔ ۔ ۔ اذا لبس القوم الحدید المسمرا
یہ غزوہ میں اللہ کی مخلوق کا شاہسوار ہے جب قوم گندمگوں نیزے زیب تن کرلیں ۔
ففدی و حیا ثم ادنی قراھم ۔ ۔ ۔ فلم یقرھم الا سمینا متمرا

لکم دینکم ولی دین ۔
تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ۔
اس میں تہدید کا معنی ہے ، یہ اایت بھی اللہ تعالی کے اس فرمان کی طرح ہے لنا اعمالنا ولکم اعما لکم (القصص) اگر تم اپنے دین پر راضی ہو تو ہم اپنے دین سے راضی ہیں ۔ یہ قتال کے حکم سے قبل کا حکم ہے اسے آیت سیف سے منسوخ کردیا گیا ہے ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ پوری آیت منسوخ ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس میں سے کوئی چیز بھی منسوخ نہیں کیونکہ یہ خبر ہے اور لم دینکم کا معنی ہے تمہارے لیے دین کی جزا اور میرے لیے میرے دین کی جزا ہے ۔ ان کے دین کو دین کا نام دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اسی کا اعتقاد رکھا تھا اور اس سے اپنی وابستگی کی تھی ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تمہارے لیے تمہاری جزا اور میرے لیے میرا جزا ہے کیونکہ دین کا معنی جزا ہے ۔ نافع نے ولی دین میں یاء کو فتحہ دی ہے اور بزی نے ابن کثیر سے اسی طرح روایت کی ہے جبکہ ان سے اختلاف مروی ہے ۔ ہشام نے ابن عامر سے اور احفص نے عاسم سے اسی طرح نقل کیا ہے دین میں دونوں حالتوں میں نصر بن عاصم ، سلام اور یعقوب نے یاء کو ثابت رکھتا ہے انہوں نے کہا : یہ بھی ایک اسم ہے جس طرح دینکم میں کاف ہے اور قمت میں تاء ہے جبکہ باقی قراء نے یاء کے بغیر پڑھا ہے جس طرح اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے : فھو یھدین (الشعرائ) فاتقوا اللہ واطیعون (آل عمران) اس کی مثل دوسری آیات ہیں ان میں کسرہ پر اکتفا کیا گیا ہے اور مصحف کے خط کی اتباع کی گئی ہے کیونکہ اس میں یہ یاء کے بغیر واقع ہے ۔