Tuesday 21 November 2017

جائز و ناجائز تاویل وتفسیر

تاویل کے معنیٰ:
ایک لفظ میں کئی معانی کا احتمال ہو، ان میں سے ایک کو غلبۂ گمان کی بنیاد پر ترجیح دینا، نہ کہ یقین کی بنیاد پر۔


تفسیر اور تاویل میں فرق:
علامہ ابو منصور ماتریدی﷫ فرماتے ہیں کہ الفاظِ قرآنی کے معانی کو قطعیت کے ساتھ بیان کیا جائے کہ اس لفظ کے یہی معنیٰ ہیں،اس کا نام تفسیر ہے ۔اور تاویل کہتے ہیں کہ لفظ کے چند محتمل معانی میں سے کسی معنیٰ کو بغیر قطعیت کے ترجیح دی جائے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ تفسیرکا تعلق روایات سے ہوتا ہے اور تاویل کا تعلق درایات سے ہوتا ہےیعنی آیات سے متعلق روایات بیان کرنے کوتفسیر کہتے ہیں اور معانیِ قرآن اور اس کے احکام کے بیان وغیرہ کو تاویل کہتے ہیں۔
علامہ راغب﷫ فرماتے ہیں کہ تفسیر اور تاویل میں فرق یہ ہے کہ لفظِ تفسیر الفاظ اور مفردات میں استعمال ہوتا ہے اور تاویل معانی اور جملوں میں استعما ل ہوتا ہے۔اور آگے فرماتے ہیں کہ کتبِ الٰہیہ کے لئے تاویل اور دیگر کتابوں کے لئے تفسیر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
ابو طالب التغلبی﷫ فرماتے ہیں کہ تاویل ،مراد الٰہی اور اس کی حقیقت کی خبر دینے کا نام ہے اور تفسیر مراد کی دلیل بتانے کا نام ہے ۔
[ الاتقان فی علوم القرآن: النوع السابع والسبعون: فی معرفۃ تفسيره وتأويلہ وبيان شرفہ والحاجۃ الیہ]


جو شخص اپنے بھائی کو بغیر تاویل کے کافر کہے تو۔۔۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا وَکِيعٌ ح و حَدَّثَنَا يَحْيَی حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ شَقَّ ذَلِکَ عَلَی أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالُوا أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ کَمَا تَظُنُّونَ إِنَّمَا هُوَ کَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِکْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ۔[بخاری:6103]
ترجمہ:
اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ح ، یحیی ، وکیع، اعمش، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے نہیں ملایا تو نبی ﷺ کے اصحاب پر یہ بہت شاق گزرا اور ان لوگوں نے کہا کہ ہم میں سے کس نے اپنے نفس پر ظلم نہیں کیا؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بات یہ نہیں جیسا کہ تم گمان کرتے ہو، وہ تو صرف یہ ہے کہ لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ اے بیٹے اللہ کا شریک نہ بنا بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔


نبی اکرم ﷺ کی حدیث میں تاویل کرنا:
أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ إِذَا حُدِّثْتُمْ بِالْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَظُنُّوا بِهِ الَّذِي هُوَ أَهْيَأُ وَالَّذِي هُوَ أَهْدَى وَالَّذِي هُوَ أَتْقَى۔
[دارمی:611]
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: «إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا، فَظُنُّوا بِهِ الَّذِي هُوَ أَهْنَاهُ، وَأَهْدَاهُ، وَأَتْقَاهُ»[ابن ماجه:20]
حضرت علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں جب تم نبی اکرم ﷺ کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرو تو اس کے بارے میں وہی بات سوچو جو زیادہ بہترہدایت کے زیادہ قریب اور زیادہ پرہیزگاری پر مشتمل ہو۔


غیر مقلدوں کے خاص امراض:
غیر مقلدوں میں یہ دو مرض زیادہ غالب ہیں: ایک بدگمانی، دوسرے بد زبانی، اسی وجہ سے وہ ائمہ کو حدیث کا مخالف سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک تاویل وقیاس کے معنی ہی مخالفتِ حدیث ہیں گو وہ مستند الی الدلیل ہی ہوں اور اگر ان ہی کے اصول کو مانا جائے تو من تراک الصلاۃ متعمدًا فقد کفر اور لا صلاۃ لمن لم یقرء بأم الکتاب ان حدیثوں میں کوئی تاویل نہ ہوگی اور سارے حنفی تارکِ صلوٰۃ ہوئے اور تارکِ صلوٰۃ کافر ہے، تو سب حنفی کافر ہوئے نعوذ باللّٰہ من ہذا الجہل۔


ابن قدامہ اپنی کتاب ذم التاویل میں لکھتے ہیں:
ثم لوکان تاویلا فما نحن تاولنا و انما السلف رحمۃ اللہ علیھم الذی ثبت صوابھم و وجب اتباعھم ہم الذین تاولوہ فان ابن عباس و الضحاک و مالکا و سفیان و کثیرا من العلماء۔
’’ترجمہ: پھر اگر یہ تاویل ہی ہو تو یہ تاویل ہم نے نہیں کی۔ یہ تاویل ان سلف نے کی ہے جن کی درستگی ثابت ہے اور جن کا اتباع واجب ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور ضحاک اور مالک اور سفیان ثوری اور دیگر بہت سے اہل علم ہیں رحمہم اللہ)۔


امام احمد تاویل کرتے ہیں
(i) حکی حنبل عن الامام احمد انہ سمعہ یقول احتجوا علی یوم المناظرۃ فقالوا تجیٔ یوم القیامۃ سورۃ البقرۃ و تجیٔ سورۃ تبارک قال فقلت لھم انما ھو الثواب قال اللّٰہ جل ذکرہ و جاء ربک و الملک صفا صفا و انما تاتی قدرتہ۔ (العقیدہ و علم الکلام ص 504) 
(ترجمہ: امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا کہ مناظرہ کے دن فریق مخالف نے میرے خلاف یہ دلیل دی کہ حدیث میں ہے کہ سورہ بقرہ اور سورہ تبارک قیامت کے دن آئیں گی۔ میں نے جواب دیا کہ اس سے مراد ان کا ثواب ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَجَائَ رَبُّکَ وَالْمَلَکْ صَفًّا صَفَّا (یعنی اس کی قدرت آئے گی)۔
(ii) قال ابن حزم الظاہری روینا عن الامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فی قولہ تعالیٰ وجاء ربک انما معناہ جاء امر ربک کقولہ تعالیٰ ھل ینظرون الا ان تاتیھم الملائکۃ او یاتی امر ربک۔ و القرآن یفسر بعضہ بعضا ھکذا نقلہ ابن الجوزی فی تفسیرہ زاد المسیر (العقیدہ و علم الکلام ص 504)
(ترجمہ: ابن حزم ظاہری نے نقل کیا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے وجاء ربک اور تمہارا رب آیا کےبارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے ہ تمہارے رب کا حکم آیا جیسا کہ اس آیت میں ہے :
ھَلْ یَنْظُرُوْن اِلَّا اَنْ تَاتِیَھُمْ الْمَلَائِکَۃُ اَوْ یَاتِیَ اَمْرُ رَبِّکَ۔ (نحل: 33) 
(وہ نہیں انتظار کرتے مگر اس کا کہ آئیں ان کے پاس فرشتے یا آئے تمہارے رب کا حکم۔) اور قرآن کا ایک حصہ دوسرے کی تفسیر کرتا ہے۔ اسی طرح سے ابن الجوزی نے اپنی تفسیر زاد المسیر میں نقل کیا ہے۔
ان روایتوں کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے تاویل کا طریقہ اختیار کیا ہے۔


تاویل غیر مکفرہ کے لئے قواعد و ضوابط، اور اس بارے میں کچھ فوائد



1- دین میں جہالت یا تاویل کی بنا پر پیدا ہونے والے عذر میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ متأول کا عذر جاہل سے زیادہ قابلِ قبول ہونا چاہئے، اس لئے کہ وہ اپنے عقیدے سے بہرہ ور ہے، اور اسے سچا سمجھتے ہوئے اس پر دلائل بھی دیتا ہے، اوراسکا دفاع بھی کرتا ہے، اسی طرح عملی یا علمی مسائل میں بھی جہالت یا تاویل کے عذر بننے میں کوئی فرق نہیں ہے۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کی چاہت کرنے والے متأول پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا، بلکہ اسے فاسق بھی نہیں کہنا چاہئے، بشرطیکہ اس سے اجتہاد میں غلطی ہوئی ہو، یہ بات علماء کے ہاں عملی مسائل میں معروف ہے، جبکہ عقائد کے مسائل میں بہت سے علماء نے خطاکاروں کو بھی کافر کہہ دیا ہے، حالانکہ یہ بات صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں، نہ ہی تابعین کرام سے اور نہ ہی ائمہ کرام میں سے کسی سے ثابت ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اصل میں اہل بدعت کی ہے" انتہی، "منہاج السنۃ" (5/239)

2- اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان پر حدود جاری نہیں ہونگی، -جیسے کہ قدامہ بن مظعون کو شراب پینے کے بارے میں تاویل کرنے پر حد لگائی گئی- اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ اس کی مذمت نہ کی جائے یا تعزیری سزا نہ دی جائے، بلکہ انکے اس غلط نظریے کو گمراہی اور کفر کہا جائے گا، -جیسے کہ اسکی تفصیل آئندہ آئیگی-اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان سے جنگ بھی کرنی پڑے، کیونکہ اصل ہدف لوگوں کو انکے گمراہ کن عقیدہ سے محفوظ کرنا ، اور دین کی حفاظت ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر کوئی مسلمان اجتہادی تاویل یا تقلید کی بنا پر واجب ترک کردے، یا پھر کسی حرام کام کا ارتکاب کرے اس شخص کا معاملہ میرے نزدیک بالکل واضح ہے، اسکی حالت تاویل کرنے والے کافر سے بہتر ہے، اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں تاویل کرنے والے باغی سے لڑانی نہ کروں، یا تاویل کرتے ہوئے شراب پینے پر کوڑے نہ لگاؤں، وغیرہ وغیرہ، اسکی وجہ یہ ہے کہ تاویل کرنے سے دنیاوی سزا مطقا ختم نہیں ہوسکتی، کیونکہ دنیا میں سزا دینے کا مقصد شر کو روکنا ہوتا ہے" انتہی "مجموع الفتاوی" (22/14)

ایسے ہی شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے کہا: "اگر کسی نے ضرر رساں عقیدہ یا نظریہ پیش کیا تو اِس کے ضرر کو روکا جائے گا چاہے اس کے لئے سزا دینی پڑے، چاہے وہ فاسق مسلمان ہو یا عاصی، یا پھر خطاء کار عادل مجتہد ، اس سے بڑھ کر چاہے صالح اور عالم ہی کیوں نہ ہو، اور چاہے وہ کام انسانی وسعت میں ہو یا نہ ہو۔۔۔ اسی طرح اس شخص کو بھی سزا دی جائے گی جو لوگوں کو دین کیلئے نقصان دہ بدعت کی جانب دعوت دیتا ہے؛ اگرچہ اسے اجتہاد یا تقلید کی بنا پر معذور سمجھا جائے گا " انتہی، "مجموع الفتاوی" (10/375)

3- شریعت میں ہر تاویل جائز نہیں ہے؛ اس لئے شہادتین، وحدانیتِ الہی، رسالتِ نبوی، مرنے کے بعد جی اٹھنے، جنت، اور جہنم کے بارے میں کوئی بھی تاویل قبول نہیں ہوگی، بلکہ اس کو ابتدائی طور پر تاویل کہنا بھی درست نہیں ہے، اور حقیقت میں یہ باطنیت اور زندقہ ہے، جسکا مطلب دین کا یکسر انکار ہے۔

ابو حامد الغزالی -رحمہ اللہ-کہتے ہیں: "یہاں ایک اور قاعدہ کے بارے میں جاننا ضروری ہے اور وہ ہےکہ : فریق ثانی کبھی متواتر نص کی مخالفت کو بھی تاویل سمجھ لیتا ہے، اور پھر ایسی کمزور سی تاویل پیش کرتا ہے جسکا لغت سے کوئی تعلق ہی نہیں، نہ دور کا نہ قریب کا، چنانچہ یہ کفر ہے اور ایسا شخص جھوٹا ہے، چاہے اپنے آپکو وہ مؤول سمجھتا رہے، اسکی مثال باطنیہ کی کلام میں ملتی ہے، انکا کہنا ہے کہ: اللہ تعالی واحد ہے یعنی وہ وحدانیت لوگوں کو عطا کرتا ہے اور اس وحدانیت کا خالق بھی ہے، ایسے ہی اللہ تعالی عالم ہے یعنی وہ دوسروں کو علم دیتا بھی ہے اور اسکا خالق بھی ہے، اللہ تعالی موجود ہے یعنی کہ وہ دوسری اشیاء کو وجود بخشتا ہے، اس لئے ان کے ہاں تینوں صفات کا معنی یہ لینا کہ وہ بذاتہ خود واحد ہے، موجود ہے اور عالم بھی ہے غلط ہے،اور یہ ہی واضح کفر ہے؛ اس لئے کہ وحدانیت کا ایجادِ وحدانیت معنی کرنا کوئی تاویل نہیں اور نہ ہی عربی لغت میں اسکی گنجائش ہے۔۔۔ اس دعوے کی بہت سی دلیلیں ہیں جو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہیں، جنہیں تاویل کا نام دیا گیا ہے" انتہی، "فیصل التفرقۃ"صفحہ (66-67)

ابن وزیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ایسے شخص کے کفر میں بھی کوئی خلاف نہیں جو دین میں مسلًمہ اشیاء کا انکار کرے، پھر اس انکار کو تاویل کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرے، جیسے کہ مُلحد لوگوں نے اسمائے حسنی ، قرآنی آیات، شرعی احکام، اخروی معاملات، جنت ، جہنم کے بارے میں تاویل کرتے ہوئے کیا" انتہی، "إیثار الحق علی الخلق" (صفحہ: 377)

4- جائز تاویل وہ ہوتی ہے جس سے دین پر کسی قسم کی قدغن نہ آئے، اور عربی زبان بھی اسکی اجازت دیتی ہو، اور مؤول کا مقصد حق بات تک پہنچنا ہو، علمی قواعد و ضوابط کا اہتمام کیا گیا ہو، تو ایسی صورت میں انکو تاویل کے معاملے میں معذور سمجھا جائے گا، اور انکے لئے وہی عذر ہونگے جنہیں اہل علم نے علمی مسائل کے اختلافات بیان کرتے ہوئے انکے اسباب کے ضمن میں بیان کیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہی حال کفریہ اقوال کا ہے، کہ کبھی انسان کو حق کی پہچان کروانے والی نصوص نہیں ملتی، یا ملتی تو ہیں لیکن پایا ثبوت تک نہیں پہنچتی، یا ثابت تو ہوجاتی ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آتی، یا کبھی اسکے سامنے ایک شبہ آجاتا ہے جسکی بنا پر اللہ تعالی اسکا عذر قبول فرمائیں گے، چنانچہ جو کوئی مؤمن حق کی تلاش میں سرگرداں ہواور پھر بھی اس سے غلطی ہوجائے تو اللہ تعالی اسکی غلطی کو معاف فرمائے گاچاہے وہ کوئی بھی ہو، غلطی چاہے نظری مسائل میں ہو یا عملی، یہ صحابہ کرام اور تمام ائمہ اسلام کا موقف ہے" "مجموع الفتاوی" (23/346)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "علماء کے نزدیک ہر متأول کو اسوقت تک معذور سمجھا جاتا ہے جب تک عربی زبان میں اس تاویل کی گنجائش ہو، اور اسکی توجیہ بھی بنتی ہو" انتہی، "فتح الباری" (12/304)

5- ایک صحیح حدیث بھی موجود ہے جو مسائلِ اعتقاد میں تاویل کرنے والوں کی تکفیر سے روکتی ہے، بشرطیکہ انکی تاویل سے دین میں کسی قسم کا نقصان نہ ہو، اور وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان، ("یہودی اکہتر (71) فرقوں میں تقسیم ہوئے، ستر (70) جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا، عیسائی بہتّر (72) فرقوں میں بٹ جائیں گے اکہتر (71) جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا، قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! میری امت تہتّر (73) فرقوں میں تقسیم ہوگی ایک جنت میں جائے گا اور باقی بہتّر(72) جہنم میں جائیں گے "، کہا گیا: یا رسول اللہ ! وہ کون ہونگے؟ آپ نے فرمایا: "وہ بہت بڑی جماعت ہوگی")ابن ماجہ، (3992) اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا۔

ابو سلیمان الخطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ " میری امت تہتّر (73) فرقوں میں تقسیم ہوگی "اسکا مطلب ہے کہ تمام کے تمام فرقے اسلام سے خارج نہیں ہونگے؛ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو اپنی امت میں شمار کیا ہے، اور اس میں یہ بھی ہے کہ متأول اسلام سے خارج نہیں ہوتا چاہے تاویل کرتے ہوئے غلطی کر جائے " انتہی، "معالم السنن" از خطابی، (4/295) ایسے ہی دیکھیں، "السنن الکبری"از بیہقی، (10/208)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ایسے ہی تمام کے تمام بہتّر فرقےہیں، ان میں سے کچھ منافق ہیں، جو کہ باطنی طور پر کافر ہوتے ہیں، اور کچھ منافق نہیں ہیں، بلکہ باطنی طور پر اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ان میں سے بعض باطنی طور پر کافر نہیں ہیں، چاہے تاویل کرتے ہوئےکتنی ہی گھناؤنی غلطی کر بیٹھے۔۔۔ اور جو شخص ان بہتّر فرقوں کے بارے میں کفر کا حکم لگائے تو یقینا اس نے قرآن، حدیث اور اجماع ِصحابہ کرام کی مخالفت کی، بلکہ ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ کے اجماع کی بھی مخالفت کی؛ اس لئے ان میں سے کسی نے بھی ان تمام بہتّر فرقوں کی تکفیر نہیں کی، ہاں کچھ فرقے آپس میں ایک دوسرے کو بعض نظریات کی بنا پر کافر قرار دیتے ہیں" انتہی، "مجموع الفتاوی" (3/218)

6- علماء میں سے جس کسی نے بھی اہل بدعت - غیر مکفرہ -پر کفر کا حکم لگایا ، ان کی مراد ایسا کفر ہے جس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جو کچھ امام شافعی دغیرہ سے اہل بدعت کی تکفیر کے بارے میں منقول ہےان کا مقصود "کفر دون کفر "والا کفر ہے" انتہی، "السنن الکبری " ازبیہقی (10/207)

امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "امام شافعی رحمہ اللہ نے مطلق طور پر اہل بدعت کی گواہی اور انکے پیچھے نماز کی ادائیگی کو کراہت کے ساتھ جائز قرار دیا ہے، اس بنا پر اگر کہیں امام شافعی رحمہ اللہ نے ان اہل بدعت کے بارے میں کفر کا حکم لگایا ہے تو اس کا مطلب "کفر دون کفر" والا کفر ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون ) المائدة/ 44

ترجمہ: اور جو کوئی بھی اللہ تعالی کے احکامات سے ہٹ کر فیصلہ کرے یہی لوگ کافر ہیں "شرح السنۃ" (1/228)

بسا اوقات ائمہ کرام کا لفظِ "کفر "بول کر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"بسا اوقات ائمہ کرام سے کسی کی تکفیر نقل کی جاتی ہے حالانکہ ان کا مقصود صرف تنبیہ ہوتا ہے، اس لئے کفریہ قول کی بنا پر ہر قائل جہالت یا تاویل کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا، اس لئے کہ کسی کے بارے میں کفر ثابت ہونا ایسے ہی ہے کہ جیسے اس کے لئے آخرت میں وعید ثابت کی جائے، جبکہ اسکے بارے میں شرائط و ضوابط ہیں" انتہی، "منہاج السنۃ النبویۃ" (5/240)َ

7- اہل بدعت کے کفر کے بارے میں ائمہ کرام کے اقوال میں اختلاف کفریہ کام اور کفریہ کام کے مرتکب میں فرق کی وجہ سے ہے، چنانچہ وہ کفریہ عقیدہ پر کفر کا حکم لگاتے ہیں، لیکن فردِ معین پر کفر کا حکم اس وقت لگاتے ہیں جب اسکی شرائط مکمل ہوں اور کوئی چیز مانع بھی نہ ہو۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" ائمہ کا موقف کفریہ کام اور اسکے مرتکب کے بارے میں تفصیل پر مبنی ہے، اسی بنا پر بغیر سوچے سمجھے ان سے تکفیر کے بارے میں اختلاف نقل کیا گیا ہے، چنانچہ ایک گروہ نے امام احمد سے اہل بدعت کی مطلق تکفیر کے بارے میں دو روایتیں بیان کی ہیں، جنکی وجہ سے مرجئہ اور فضیلتِ علی کے قائل شیعہ حضرات کی تکفیر کے بارے میں انہوں نے اختلاف کیا ، اور بسا اوقات انہوں نے ان کی تکفیر کی اور ابدی جہنمی ہونے کو راجح قرار دیا، حقیقت میں یہ موقف امام احمد کا ہے اور نہ ہی علمائے اسلام میں سے کسی کا، بلکہ ایمان بلا عمل کے قائلین مرجئہ کی تکفیر کے بارے میں انکا موقف ایک ہی ہے کہ انکی تکفیر نہ کی جائے، اور ایسے ہی عثمان رضی اللہ عنہ پر علی رضی اللہ عنہ کو فضیلت دینے والے کی بھی تکفیر نہ کی جائے، اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ خوارج اور قدریہ کی تکفیر سے ممانعت کے بارے میں انہوں نے صراحت کی ہے، امام احمد ان جہمی افراد کی تکفیر کرتے تھے جو اسماء و صفاتِ الہیہ کے منکر ہیں، جسکی وجہ یہ تھی کہ ان کا موقف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول واضح نصوص کے مخالف تھا، دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کے موقف کی حقیقت خالق سبحانہ وتعالی کو معطل کرنا تھا، امام احمد رحمہ اللہ انکے بارے میں چھان بین کرتے رہے اور آخر کار انکی حقیقت کو سمجھ لیا کہ انکا مذہب تعطیل پر مبنی ہے، اسی لئے جہمیہ کی تکفیر سلف اور ائمہ کرام کی جانب سے مشہور و معروف ہے، لیکن وہ سب تعیین کے ساتھ افراد پر حکم نہیں لگاتے تھے، کیونکہ مذہب کو مان لینے والے سے بڑا مجرم وہ ہے جو اس مذہب کی جانب دعوت دینے والا ، اسی طرح اس مذہب کی ترویج کرنے والے سے بڑا مجرم وہ ہے جو اپنے مخالفین کو سزائیں دیتا ہو، اور سزا دینے والے سے بڑا مجرم وہ ہے جو اپنے علاوہ دوسروں کی تکفیر کرتا ہو، ان تمام باتوں کے باوجود ایسے حکمران جو جہمیہ کے موقف پر تھے کہ قرآن مخلوق ہے، اور اللہ تعالی کا آخرت میں دیدار نہ ہوگا، وغیرہ، اس سے بڑھ کر یہ تھا کہ یہ حکمران جہمی عقیدہ کی لوگوں کو دعوت بھی دیتے اور مخالفین کو سزائیں بھی، جو انکی بات نہ مانتا اسے کافر جانتے، اور مخالفین کو قید کرنے کے بعد اس وقت تک رہا نہ کرتے جب تک وہ انکے موقف کا قائل نہ ہوجاتا کہ قرآن مخلوق ہےوغیرہ وغیرہ ، وہ اپنے مخالفین میں سے کسی کو گورنر مقرر نہ کرتے، اور بیت المال سے اسی کا تعاون کرتے جو جہمی عقائد کا قائل ہوتا تھا، لیکن اس کے باوجود امام احمد رحمہ اللہ انکے بارے میں رحمت کی دعا کرتے، ان کیلئے اللہ سے مغفرت مانگتےتھے صرف اس لئے کہ آپ جانتے تھے کہ انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر رہے ہیں اور آپ پر نازل شدہ وحی کا انکار کر رہے ہیں، انہوں نے یہ سب کچھ غلط تاویل کرنے والوں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے کیا "

اسی طرح شافعی رحمہ اللہ نے اکیلئے حفص کو کہا تھا "توں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا"جب اس نے قرآن کے مخلوق ہونے کا دعوی کیا، امام شافعی نے اسکے موقف کی حقیقت بیان کردی کہ یہ کفر ہے، لیکن صرف اسی قول کی بنا پر انہوں نے حفص کے مرتد ہونے کا فتوی نہیں لگایا، اس لئے کہ اسے ابھی ان دلائل کا نہیں پتہ جن کے ساتھ وہ کفر کر رہا ہے، اگر امام شافعی اسے مرتد سمجھتے تو اس کے قتل کا بند وبست کرتے، اسی طرح امام شافعی نے اپنی کتب میں وضاحت کی ہے کہ اہل بدعت کی گواہی قبول کی جائے گی اور انکے پیچھے نماز بھی ادا کی جاسکتی ہے" انتہی، "مجموع الفتاوی" (23/348-349)

8- اب آتے ہیں اشاعرہ کی جانب : اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انکے عقائد میں کچھ شبہات ہیں جو سلفی عقائد کے مخالف ہیں، اُن میں بھی اہل علم موجود ہیں جنکی تقلید کی جاتی ہے، اور ان سے مسائل دریافت کئے جاتے ہیں، یہ سب کے سب ایک ہی ڈِگر پر نہیں ہیں، بلکہ ان میں بھی مختلف درسگاہیں اور منہج میں اختلاف پایا جاتا ہے، اشاعرہ میں سے پہلی تین صدیوں کے افراد حق کے زیادہ قریب ہیں، سابقہ ذکر شدہ تفصیل کو اگر ہم اشاعرہ پر بھی لاگو کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ جس نے بھی اشاعرہ کی تکفیر کے متعلق گفتگو کی اس کا مقصد اشاعرہ سے صادر ہونے والے کفریہ کام ہیں، اس لئے کسی فردِ معین پر کفر کا حکم لگانا مقصود نہیں ہے، یا پھر اس نے مطلقاً کفر کی بات کی ہےجسکا مقصد "کفر دون کفر" تھا ، اس لئے اشاعرہ اسلام سے خارج نہیں ہیں، اور نہ ہی انکے پیروکار کافر ہیں؛ بلکہ انہیں مسائلِ اعتقاد میں تاویل کی وجہ سے معذور سمجھا جائے گا۔

شیخ عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "میں اشاعرہ کی تکفیر کرنے والے کسی اہل علم کو نہیں جانتا " "ثمرات التدوین" از ڈاکٹر احمد بن عبد الرحمن القاضی (مسئلہ نمبر: 9)

9- ہم آپ کے لئے شیخ عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ کی جامع مانع گفتگو سے بدعتی فرقوں پر شرعی حکم لگانے کیلئے خلاصہ پیش کرتے ہیں، انہوں نے کہا:

اہل بدعت میں سے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ وحی کا جزوی یا کلی انکار بغیر کسی تاویل کے کیا تو وہ کافر ہے؛ اس لئے اس نے ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق کا انکار کیا اور اللہ اور اسکے رسول کی تکذیب کی۔

أ‌- جہمی ، قدری، خارجی، اور رافضی وغیرہ کوئی بھی بدعتی اپنے موقف کی کتاب و سنت سے مخالفت جاننے کے باوجوداس پر ڈٹ جاتا ہےاور اسکی تائید بھی کرتا ہے تو ایسا شخص کافر ہے، راہِ ہدایت واضح ہونے کے باوجود اللہ اور اسکے رسول کا مخالف ہے۔

ب‌- اہل بدعت میں سے جو کوئی بھی ظاہری اور باطنی طور پر اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہو، کتاب و سنت کے مطابق اللہ اور رسول کی تعظیم بھی کرتا ہو، لیکن کچھ مسائل میں غلطی سے حق کی مخالفت کر بیٹھتا ہے، کسی کفریہ اور انکاری سوچ کے بغیر اس سے یہ غلطی سرزد ہوتی ہے، ایسا شخص کافر نہیں ہے، ہاں ایسا شخص فاسق اور بدعتی ہوگا، یا گمراہ بدعتی ہوگا، یا پھر تلاشِ حق کیلئے ناکام کوشش کی وجہ سے قابلِ معافی ہوگا۔

اسی لئے خوارج ، معتزلہ، قدریہ وغیرہ اہل بدعت کی مختلف اقسام ہیں:

• ان میں سے بعض بلا شک وشبہ کافر ہیں جیسے غالی جہمی جنہوں نے اسماء و صفات کا انکار کردیا، اور انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ انکی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کے مخالف ہے، لیکن اسکے باوجود انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی ۔

• اور کچھ ایسے بھی ہیں جو گمراہ، بدعتی، فاسق ہیں مثلا: تاویل کرنے والے خارجی اور معتزلی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب نہیں کرتے، لیکن اپنی بدعت کی وجہ سے گمراہ ہوگئے، اور اپنے تئیں سمجھتے رہے کہ ہم حق پر ہیں، اسی لئے صحابہ کرام خوارج کی بدعت پر حکم لگانے کیلئے متفق تھے، جیسے کہ انکے بارے میں احادیث صحیحہ میں ذکر بھی آیا ہے، اسی طرح صحابہ کرام انکے اسلام سے خارج نہ ہونے پر بھی متفق تھے اگرچہ خوارج نے خونریزی بھی کی اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب کیلئے شفاعت کے انکاری بھی ہوئےاسکے علاوہ بھی کافی اصولوں کی انہوں نے مخالفت کی ، خوارج کی تاویل نے صحابہ کرام کوتکفیر سے روک دیا۔

• کچھ اہل بدعت ایسے بھی ہیں جو سابقہ دونوں اقسام سے کہیں دور ہیں، جیسے بہت سے قدری، کلابی، اور اشعری لوگ، چنانچہ یہ لوگ کتاب وسنت کی مخالفت کرنے والے اپنے مشہور اصولوں میں بدعتی شمار ہونگے، پھر حق سے دوری کی بنیاد پر ہر ایک کے درجات مختلف ہونگے، اور اسی بنیاد پر کفر ، فسق، اور بدعت کا حکم لگے گا، اور حکم لگاتے ہوئے تلاشِ حق کیلئے انکی کوشش کو بھی مد نظر رکھا جائے گا، یہاں اسکی تفصیل بہت لمبی ہو جائے گی" انتہی، "توضیح الکافیۃ الشافیۃ" (156-158)


***************************************************

” امام ا بو عبیدہ نے فضائل قرآن میں اور سعید بن منصور نے ابراہیم تمیمی سے بیان کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ بات سوچ رہے تھے کہ اس امت میں اختلاف کیسے واقع ہو سکتا ہے۔ پھر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کو بلوایا اور فرمایا اے ابن عباس رضی اللہ عنہ اس امت کا نبی ایک، قبلہ ایک، کتاب ایک پھر یہ امت اختلاف میں کیسے پڑے گی ….؟ (یعنی بظاہر یہ ممکن نہیں۔ ) 
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : اے امیر المومنین یہ قرآن ہم میں نازل ہوا ہم نے اسکو نبی سے پڑھا اور ہمیں معلوم ہے(کون سی آیات) کس بارے نازل ہوئی۔ جبکہ ہمارے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو قرآن تو پڑھیں گے لیکن انہیں یہ معلوم نہ ہو گا کہ کونسی آیت کس بارے نازل ہوئی اور وہ خود سے اس کے بارے رائے زنی کرینگے ۔ جب اپنی اپنی آراء پہ چلیں گے تو ان میں اختلاف ہو گا۔۔۔
[فضائل قرآن لابی عبیدۃ]
اسی پہ امام شاطبی فرماتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کا یہ فرمانا برحق ہے کہ جب آدمی کو علم ہو کہ یہ آیت کس بارے نازل ہوئی تو وہ اسکے ماخذ، تفسیر، اور شریعت کے مقصد کو معلوم کر لیتا ہے اور زیادتی کا شکار نہیں ہوتا تو جب کوئی آدمی اپنی نظر سے کئی احتمالات بنانا شروع کردیتا ہے تو ایسے لوگوں کے علم میں۔پختگی نہی ہوتی اور یہ لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
اسکی وضاحت اس واقع سے بھی ہوتی ہے جب سیدنا نافع رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی حروریہ(خوارج)کے بارے کیا رائے ہے تو انہوں نے فرمایا : وہ انکو اللہ کی سب سے بدترین مخلوق سمجھتے ہیں کیونکہ وہ خوارج کفار کے بارے نازل شدہ آیات کو مسلمانوں پہ فٹ کرتے ہیں۔
یہ سن نے سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ متوجہ ہوئے اور فرمایا یہ لوگ متشابہ آیات جو مختلف احتمال رکھتی ہیں انکی پیروی کرتے ہیں جیسے اللہ کا فرمان: 
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک الکافرون
اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ کافر ہے
اور ساتھ یہ آیت ملا لیتے ہیں۔۔۔۔
وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآَخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ (الانعام: 150)  
وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لائے اور وہ اپنے رب کے ساتھ برابری کرنے والے تھے
اور نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ جس نے کفر کیا اس نے اللہ کی برابری کی اور جس نے رب کے ساتھ برابری کی اس نے شرک کیا۔۔۔!!!
پس یہ لوگ مشرک ہیں لہٰذا وہ خروج کرتے ہیں اور قتل و غارت کرتے ہیں۔کیونکہ انہوں نے آیت کی تفسیر ہی ایسے لی تھی
[الاعتصام للشاطبی ج2، ص 692_691]
اہل السنة والجماعة کے علماء کا اجماع ہے کہ آیات تحکیم سے ظاہر مراد نہیں ہے اور ان آیات کے ظاہر سے خوارج اور معتزلہ، کفر اکبر کا استدلال کرتے ہیں ۔۔۔ !!!!
مندرجہ ذیل علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
1⃣۱۔ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اس آیت کے ظاہر سے وہ لوگ کفر اکبر کی حجت بیان کرتے ہیں جو گناہوں کی وجہ سے کفر اکبر کا فتوی لگاتے ہیں اور وہ خوارج ہیں۔ اور اس آیت میں انکی کوئی حجت نہیں۔‘‘ 
[المفہم جلد نمبر5صفحہ نمبر117]
2⃣۲۔ حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
‘‘ اوراس باب میں اہل بدعت کی ایک جماعت گمراہ ہوئی ۔اس باب میں خوارج اور معتزلہ میں سے پس انہوں نے ان آثار سے حجت بیان کی کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب کافر ہیں اور اللہ تعالی کی کتاب میں سے ایسی آیات کو حجت بنایا جن سے ظاہر مراد نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ) (المائدة: 44)‘‘
[التمہید جلد 16، صفحہ 312]
3⃣۳۔ امام آجری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’اورحروری (خوارج) جن متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں ان میں سے یہ آیت بھی ہے‘‘
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [المائدة: 44]
اور اس آیت کے ساتھ یہ آیت بھی بیان کرتے ہیں
ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الانعام : 1]
’’پس جب وہ کسی حکمران کو دیکھتے ہیں کہ وہ بغیر حق کے فیصلہ کرتا ہے ،کہتے ہیں یہ کافر ہے اور جس نے کفر کیا اس نے اپنے رب کے ساتھ شریک بنا لیا ، پس یہ حکمران مشرک ہیں ،پھریہ لوگ نکلتے ہیں اور وہ کرتے ہیں جو آپ دیکھتے ہیں کیونکہ (وہ )اس آیت کی تاویل کرتے ہیں ۔‘‘
[الشریعہ صفحہ:44]
4⃣ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور یہ وہ آیت ہے جسے خوارج ایسےحکمرانوں کی تکفیرکے لئے بطور حجت پیش کرتے ہیں جو اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلوں کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
[منہاج السنہ ج5 ص131]
5⃣علامہ ابو الحسن الملطی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ ؛
یہ بات فیصلہ شدہ ہے کہ سب سے پہلے خوارج وہ تھے کہ جنہوں نے لا حکم الا للہ ۔۔۔ اللہ عزوجل کی ذات اقدس کے علاوہ کسی کا فیصلہ قابلِ قبول نہیں کا نعرہ لگایا تھا ۔ اور ان کا دوسرا نعرہ یہ تھا کہ ؛ امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کفر کا ارتکاب کیا ہے والعیاذ باللہ کہ انہوں نے بندوں کے درمیان فیصلے کا اختیار حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ کو سونپ دیا تھا ۔ جبکہ فیصلے کا اختیار تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔۔۔۔۔!!!!
خارجیوں کے فرقے کو اس وجہ سے بھی خوارج کہا جاتاہے کہ انہوں حکمَین والے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا تھا کہ جب انہوں نے جناب علی اور ابو موسیٰ اشعری کے فیصلہ کرنے والے عمل کو ناپسندیدگی اور نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ؛ لا حکم الا للہ ۔۔۔۔۔

[التنبیہ والرد علی اھل الاھواء والبدع ص 47]