Monday 17 July 2023

حدیثِ متواتر اور احادیث متواتر

حدیثِ متواتر

حدیثِ مُتَواتِر:-
متواتر وہ حدیث ہے جس کو ابتداء سے لے کر آخر سند تک ہر زمانہ میں اتنے لوگوں نے(مسلسل) بیان کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃّ محال نظر آئے، اور سند کی انتہا ایسی چیز پر ہو جس کا تعلق محسوسات سے ہو، نظر وفکر سے علم یقینی حاصل نہیں ہوتا ہے، یہ(یقین)حدیثِ متواتر سے حاصل ہوتا ہے، مثلاً:- قرآن پاک بھی تواتر سے امت تک پہنچا ہے اور علمِ یقین کا درجہ رکھتا ہے۔
مثالِ حدیث:-
﴿امام ترمذی لکھتے ہیں کہ﴾
ہم سے حدیث بیان کی (1)ابوھشام الرفاعی نے، (انہوں نے کہا کہ) ہم سے حدیث بیان کی (2)ابوبکر بن عیاش نے کہ، (انہوں نے کہا کہ) ہم سے حدیث بیان کی (3)عاصم نے، ان سے (5) زِرّ نے ، وہ  حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:
مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے۔
[جامع ترمذی» کتاب:-علم کا بیان» باب:-اس بارے میں کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنا بہت بڑا گناہ ہے» حدیث نمبر: 2659]

[الجامع الصغير وزيادته:11465صحيح الجامع:6519]

نوٹ:-
یہ حدیث یہاں صرف ایک صحابی کی ایک سند سے بیان کی گئی ہے،جبکہ یہ حدیث تقریباً 62 یا 100 سے زائد سے صحابہ نے روایت کیا۔[قواعد المحدثین:٦٠٢]  مختلف سندوں(طریقوں)سے احادیث کی کتابوں میں منقول ہے۔


اس کے علاوہ احادیث متواترہ پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی  رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الأزهار المتناثرة في الأخبار المتواترة" میں تقریباً ایک سو گیارہ متواتر احادیث نقل کی ہیں، اور علامہ محمد بن الجعفر الکتّانی کی کتاب: "النظم المتناثر من الحدیث المتواتر" میں احادیث متواتر کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ فقط واللہ اعلم







حدیث متواتر کی لغوی تعریف:  "متواتر" کا لفظ "تواتر" سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے: مسلسل، پے در پے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تتْرَى )
ترجمہ: پھر ہم نے پے در پے رسول بھیجے
[المؤمنون :44]

اصطلاحی  تعریف: 
وہ روایت جسے  ایک بہت بڑی تعداد  روایت کرے جن کا جھوٹ پر متفق و متحد  ہونا ناممکن ہو ، یہ تعداد اپنے ہی جیسی  تمام صفات کی حامل  ایک بڑی جماعت سے  روایت  کرے، اور انہوں نے یہ خبر بذریعہ حس حاصل کی ہو۔

علمائے کرام نے متواتر حدیث کیلئے 4 شرائط ذکر کی ہیں:

1- اسے بہت بڑی تعداد بیان کرے۔

2- راویوں  کی تعداد اتنی  ہو کہ عام طور پر اس قدر عدد کا کسی جھوٹی خبر کے بارے میں  متفق ہونا محال ہو۔

3- مذکورہ راویوں کی تعداد سند کے ہر طبقے میں ہو، چنانچہ  ایک بہت بڑی جماعت  اپنے ہی جیسی ایک بڑی جماعت سے روایت کرے، یہاں تک کہ سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم  تک پہنچ جائے۔

4-  ان راویوں کی بیان کردہ خبر  کا استنادی ذریعہ حس ہو، یعنی: وہ یہ کہیں کہ : ہم نے سنا، یا ہم نے دیکھا، کیونکہ  جو بات سنی نہ گئی ہو، اور نہ دیکھی گئی ہو، تو اس میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے، اس لیے وہ روایت متواتر نہیں رہے گی۔

متواتر حدیث کی اقسام:

1- متواتر لفظی:
ایسی روایت جس کے الفاظ اور معنی دونوں تواتر کیساتھ ثابت ہوں

اس کی مثال:  حدیث: (‏مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا ‏ ‏فَلْيَتَبَوَّأْ ‏ ‏مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ)
ترجمہ: جو مجھ [محمد صلی اللہ علیہ وسلم] پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ  جہنم میں بنا لے۔
اس روایت کو بخاری: (107) ، مسلم (3) ، ابو داود (3651)  ترمذی (2661) ، ابن ماجہ (30 ، 37) اور احمد (2/159) نے روایت کیا ہے۔

اس روایت کو نقل کرنے  والے صحابہ کرام کی تعداد72  سے بھی زیادہ ہے، اور  صحابہ کرام سے یہ روایت بیان کرنے والوں کی تعداد نا قابل شمار ہے۔

2-  متواتر معنوی: ایسی روایت جس  کا مفہوم تواتر کیساتھ ثابت ہو،  الفاظ  میں کچھ کمی بیشی ہو۔

اس کی مثال:  دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کی احادیث ہیں، چنانچہ دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے سے متعلق ایک سو  کے قریب روایات ملتی ہیں، ان تمام احادیث میں  یہ بات  مشترک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے وقت ہاتھ اٹھائے، ان تمام روایات کو سیوطی رحمہ اللہ نے  اپنے ایک رسالے میں جمع کیا ہے، جس کا نام ہے: " فض الوعاء في أحاديث رفع اليدين في الدعاء "

متواتر حدیث کا حکم:

متواتر حدیث   کی تصدیق کرنا  یقینی طور پر لازمی امر ہے؛ کیونکہ متواتر حدیث سے  قطعی اور یقینی علم حاصل ہوتا ہے؛  اور اس قطعی و یقینی علم کیلئے ایسی حدیث کو کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی، نیز ایسی روایت کے حالات بھی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی عقلمند  اس  حدیث کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رکھتا۔

مصادر:

-  "نزہۃ النظر" از حافظ ابن حجر

- "الحدیث المتواتر" از ڈاکٹر خلیل ملا خاطر

- "الحديث الضعيف وحكم الاحتجاج به "از: شیخ ڈاکٹر  عبد الكريم بن عبد الله الخضیر

- " معجم مصطلحات الحديث ولطائف الأسانيد"از: ڈاکٹر  محمد ضياء الرحمن اعظمی


Sunday 16 July 2023

یہود کی تاریخ، فطرت خصلتیں، عزائم منصوبے اور فساد و تباہ کاریاں


القرآن:

اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔ (77)

[سورة البقرة:120]

(77) اگرچہ حضور رسالت مآب ﷺ سے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ آپ کفار کی خواہشات کے پیچھے چلیں، لیکن اس آیت نے فرض محال کے طور پر یہ بات کہہ کر اصول یہ بتلادیا کہ اللہ کے نزدیک شخصیات کی اہمیت ان کی ذات کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ اللہ کی اطاعت کی وجہ سے ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ ساری مخلوقات میں سب سے افضل اسی بنا پر ہیں کہ اللہ کے سب سے زیادہ فرمانبردار ہیں۔











یہود ونصاریٰ تاریخ کے آئینہ میں
(امام  ابن قیم الجوزیہ)
دنیا میں پائے جانے والے دو مذاہب یہود اور نصاریٰ نے متعدد اسباب کی بنا پر اسلام کے خلاف نفرت انگیز مہم کا آغاز کیا اس کے لیے جہاں انھوں نے نبی کریم ﷺ اور ان کے اتباع و تابعین پر رقیق الزامات لگائے بلکہ انھوں نے اسلام کے خلاف جنگوں کا آغاز کر دیا۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے مجدد اور اپنے استاد امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی ترجمان مانے جاتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں انھوں نے یہود و نصاریٰ کے تمام اعتراضات کے مسکت جوابات دئیے ہیں۔ انھوں نے شریعت اسلامیہ کے ان بنیادی مسائل پر تحقیقی انداز میں روشنی ڈالی ہے جن کو ہمارے دینی حلقے فراموش کر چکے ہیں۔ امام صاحب نے عیسائیوں اور یہودیوں کی کتب سماویہ میں باطل تحریفات کا پردہ ایسے دلنشیں انداز میں فاش کیا ہے کہ کتاب پڑھ کر جہاں اسلام کی حقانیت کا نقش دل پر جم جاتا ہے وہیں انھوں یہود و نصاری کی اسلام دشمنی اور دین یہود کی ضلالت پر مہر ثبت کر دی ہے۔



Thursday 13 July 2023

مسئلہ باغ فدک

باغ فدک ایک نہایت مختصر کھجوروں کا باغ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور فی ملا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات تک اس کو اپنی تحویل میں رکھ رکھا تھا اس سے اپنے اہل وعیال کو بقدر قوت (ضرورت بھر) سال بھر کا نفقہ دے دیا کرتے تھے اور باقی جو کچھ بچتا تھا وہ فقراء مساکین پر صدقہ کردیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے متولی ہوئے اور حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور خلیفہ برحق ہونے کی حیثیت سے آپ کی ہی طرح اس کی آمدنی خرچ کرتے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی عمل کیا، البتہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتظم تجویز فرمادیا تھا۔ باغ فدک کا واقعہ مختصر ہے، مگر شیعوں نے اس کو بے جا لمبا کردیا۔ سیرت مصطفی (۳/۲۴۲-۲۴۹) موٴلف حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی میں باغ فدک کا واقعہ مع شیعوں کے اعتراضات وجوابات مفصلاً مذکور ہے، تفصیل دیکھنی ہو تو اس کا مطالعہ کرلیا جائے۔

مذکورہ واقعہ بخاری شریف میں کتاب المغازی اور مسلم شریف میں کتاب الجہاد میں مذکور ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ:

حضور ﷺکی وفات کے بعد حضرت فاطمہ نے حضرت ابوبکر صدیق  سے ان اموال (ترکہ ) سے اپنی میراث کا مطالبہ فرمایا جو اللہ تعالی نے رسول اللہ ْﷺ کو مدینہ اور فدک میں عنایت فرمائے تھے ،اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق  نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہﷺ کی وہ روایت مبارکہ سنائی ’’ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے‘‘البتہ آل محمد اسی مال میں سے اپنی ضرورت پوری کرے گی اور خدا کی قسم جو صدقہ رسول اللہ ﷺ چھوڑ گئے اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا، جس حال میں وہ حضور ﷺ کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو حضور ﷺ کا اپنی زندگی میں تھا، اس پر حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا راضی  ہوگئیں۔

خود شیعوں کی کتاب میں ہے   کہ جب  ابوبکر  رضی اللہ عنہ نے  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مذکورہ حدیث سنائی  تو   فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اس پر راضی ہوں، چنانچہ شیعوں  کی کتاب  "محجاج السالکین"  میں ہے :

"أن أبا بكر لما رأى فاطمة رضي الله تعالى عنها انقبضت عنه وهجرته ولم تتكلم بعد ذلك في أمر فدك كبر ذلك عنده فأراد استرضاءها فأتاها فقال: صدقت يا بنت رسول الله صلّى الله عليه وسلم فيما ادعيت ولكن رأيت رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم يقسمها فيعطي الفقراء والمساكين وابن السبيل بعد أن يؤتى منها قوتكم فما أنتم صانعون بها؟ فقالت: افعل فيها كما كان أبي صلى الله تعالى عليه وسلم يفعل فيها فقال: لك الله تعالى أن أفعل فيها ما كان يفعل أبوك، فقالت: والله لتفعلن؟ فقال: والله لأفعلن ذلك، فقالت: اللهم اشهد، ورضيت بذلك، وأخذت العهد عليه فكان أبو بكر يعطيهم منها قوتهم ويقسم الباقي بين الفقراء والمساكين وابن السبيل۔"

(محجاج السالكين بحوالہ  تحفہ اثنا  عشریہ (اردو) باب نمبر۱۰ خلفاء ثلاثہ  ....ص545، دار الإشاعت  كراچی)

[الرياض النضرة في مناقب العشرة-الطبري: جلد 1  صفحه 191]

[تفسير روح المعاني-الألوسي: جلد 2  صفحه 430، جلد : 4  صفحه : 221]

[تفسير المنار: جلد 4  صفحه 339]





اور سب سے بڑھ کر خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں حضرت زید بن الحسین بن علی رضی اللہ عنہ کابیان ہےکہ اگرمیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ   کی جگہ ہوتا تو یہی فیصلہ کرتا جو فیصلہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے کیا ۔

چنانچہ السنن الكبری للبیہقی  میں ہے :

"أخبرنا أبوعبد الله الحافظ … قال زید بن علی بن الحسین بن علي: أما أنا فلو كنت مكان أبي بكر رضي الله عنه لحكمت بمثل ماحکم به أبوبکر رضي الله عنه فی فدك."

(السنن الکبری للبیھقی :6/302) 

و في البدایة و النهایة (۲۵۳/۵):

"و تكلمت الرافضة في هذا المقام بجهل عظیم و تکلفوا مالا علم لهم به و كذبوا بمالم یحیطوا بعلمه."

صحيح بخاری  میں ہے :

"عن أبي اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان النصري، أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه دعاه، إذ جاءه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان، وعبد الرحمن، والزبير، وسعد يستأذنون؟ فقال: نعم فأدخلهم، فلبث قليلا ثم جاء فقال:هل لك في عباس، وعلي يستأذنان؟ قال: نعم، فلما دخلا قال عباس: يا أمير المؤمنين اقض بيني وبين هذا، وهما يختصمان في الذي أفاء الله على رسوله صلى الله عليه وسلم من بني النضير، فاستب علي، وعباس، فقال الرهط: يا أمير المؤمنين اقض بينهما، وأرح أحدهما من الآخر، فقال عمر: اتئدوا أنشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض، هل تعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا نورث ما تركنا صدقة» يريد بذلك نفسه؟ قالوا: قد قال ذلك، فأقبل عمر على عباس، وعلي فقال: أنشدكما بالله، هل تعلمان أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قال ذلك؟ قالا: نعم، قال: فإني أحدثكم عن هذا الأمر، إن الله سبحانه كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا الفيء بشيء لم يعطه أحدا غيره، فقال جل ذكره:{وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب}[الحشر: 6]- إلى قوله - {قدير} [الحشر: 6]، فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم، ولا استأثرها عليكم، لقد أعطاكموها وقسمها فيكم حتى بقي هذا المال منها، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على أهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم يأخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، ثم توفي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال أبو بكر: فأنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبضه أبو بكر فعمل فيه بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنتم حينئذ، فأقبل على علي، وعباس وقال: تذكران أن أبا بكر فيه كما تقولان، والله يعلم: إنه فيه لصادق بار راشد تابع للحق؟ ثم توفى الله أبا بكر، فقلت: أنا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، فقبضته سنتين من إمارتي أعمل فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر، والله يعلم: أني فيه صادق بار راشد تابع للحق؟ ثم جئتماني كلاكما، وكلمتكما واحدة وأمركما جميع، فجئتني - يعني عباسا - فقلت لكما: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لا نورث ما تركنا صدقة» فلما بدا لي أن أدفعه إليكما قلت: إن شئتما دفعته إليكما، على أن عليكما عهد الله وميثاقه: لتعملان فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وما عملت فيه منذ وليت، وإلا فلا تكلماني، فقلتما ادفعه إلينا بذلك، فدفعته إليكما، أفتلتمسان مني قضاء غير ذلك، فوالله الذي بإذنه تقوم السماء والأرض، لا أقضي فيه بقضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنه فادفعا إلي فأنا أكفيكماه."

ترجمہ:

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں مالک بن اوس بن حدثان نصری نے خبر دی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تھا۔ (وہ بھی امیرالمؤمنین) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیرالمؤمنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اندر آنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ ہاں، انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا عباس اور علی رضی اللہ عنہما بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، جب یہ بھی دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرالمؤمنین! میرا اور ان (علی رضی اللہ عنہ) کا فیصلہ کر دیجئیے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال بنو نضیر سے فئے کے طور پر دی تھی۔ اس موقع پر علی اور عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے، امیرالمؤمنین! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جلدی نہ کیجئے۔ میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات سے تھی؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا، میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی جواب ہاں میں دیا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال فئے میں سے (جو بنو نضیر سے ملا تھا) آپ کو خاص طور پر عطا فرما دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ”بنو نضیر کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ (یعنی جنگ نہیں کی) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”قدیر“ تک۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا لیکن اللہ کی قسم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اپنے لیے اسے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فئے میں سے یہ جائیداد بچ گئی۔ پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مصارف میں خرچ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا، جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم کہ وہ اپنے اس طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اٹھا لیا، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ چنانچہ میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں۔ آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ آپ کی مراد عباس رضی اللہ عنہ سے تھی۔ تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے کہ ”ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ پھر جب میرے دل میں آیا کہ وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور خود میں نے، جب سے میں خلیفہ بنا ہوں۔ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں۔ آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کر دیں۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کر دیا۔ کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں؟ اس اللہ کی قسم! جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، قیامت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر آپ لوگ (شرط کے مطابق اس کے انتظام سے) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں خود اس کا انتظام کروں گا۔

(صحيح البخاري: حدیث نمبر 4033، باب: حديث بني النضير)

نیز امام بیہقی کی ’’السنن الکبری‘‘ میں حضرت امام عامر شعبی سے ایک روایت  ہےجس میں واضح طور پر موجود ہے کہ جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا مرض میں مبتلا ہوگئیں، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کی اجازت سے گھر میں تشریف لے گئے اور دوران گفتگو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ :میں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ اللہ کی مرضی اور اس کے رسول کی مرضی اور اے آل رسول تمہاری مرضی اور خوشی کی ابتغاء اور جستجو کی خاطر  کیا ہے، اس گفتگو کے دوران حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے خوشی ورضا مندی کا اظہار فرمایا، جو صاف الفاظ سے مروی ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:

"عن الشعبي قال: لما مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا أتاہا أبوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ، فاستأذن علیہا، فقال علي رضی اللہ عنہ: یا فاطمۃ! ہذا أبوبکر یستأذن علیک، فقالت: أتحب أن آذن لہ؟ قال: نعم، فآذنت لہ، فدخل علیہا یترضاہا، وقال: واللہ ما ترکت الدار والمال والأہل والعشیرۃ إلا ابتغاء مرضاۃ اللہ ومرضاۃ رسولہ ومرضاتکم أہل البیت، ثم ترضاہا حتی رضیت۔ ہذا مرسل حسن بإسناد صحیح."

(السنن الکبری للبیہقي، باب بیان مصرف أربعۃ أخماس الفيء … دارالفکر۹/ ۴۳۶، رقم:۱۳۰۰۵)

وهذا إسناد جيد قوى.

[السيرة النبوية - ابن كثير - ج ٤ - الصفحة ٥٧٥]

پھر اس کے بعد کسی کو یہ کہنے کا کیسے حق پہنچتا ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہوگئی تھیں، پورے ذخیرۂ حدیث میں کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے، جس میں حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض ہونا ثابت ہو، یہ محض اہلِ شیعہ کی طرف سے بدگمانی پیدا کرنے کی گندی حرکت ہے۔

Wednesday 12 July 2023

نبوت-رحمت ، خلافت-امامت، سلطنت-ملوکیت، امارت-ولایت


خلافت کا لفظی معنٰی نیابت ہے.

اللہ پاک کا فرمان ہے: 

”إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً“

ترجمہ:

میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔

[سورۃ البقرۃ:30]۔

اللہ کے احکام بندوں تک پہنچانے اور دنیا میں خدا کا قانون نافذ کرنے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے لیے اللہ نے زمین میں جن بندوں کو بھیجا ہے وہ اللہ کے نبی اور خلیفہ کہلاتے ہیں، چنانچہ سب سے پہلے نبی اور خلیفہ آدم علیہ السلام ہیں، پہر نوح علیہ السلام پھر اسی طرح یہ سلسلہ درجہ بدرجہ چلتے ہوئے آخر میں ہمارے آقا محمد ﷺ تک پہنچا اور محمد ﷺ اللہ کے سب سے آخری نبی اور خلیفہ ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی یا خلیفہ اللہ کی طرف سے نہ آیا ہے نہ آئے گا۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد احکامِ الٰہی کے نافذ کرنے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے جو منتخب ہوا وہ خلیفة الرسول اور آپ ﷺ کا نائب ہوتا ہے۔ خلافت پوری دنیا میں ایک ہی ہوتی ہے، البتہ ملوکت بادشاہت متعدد ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک ہی زمانہ میں علاقے کے لحاظ سے متعدد سلاطین اسلام ہوئے ہیں، ملوکیت(بادشاہت) بھی خلافت کی طرح ایک عہدہ اور ذمہ داری ہے کیونکہ آپ ﷺ کے اندر خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت کی شان بھی موجود تھی۔ نیز ملوکیت اور بادشاہت بھی اللہ کی طرف سے ایک تحفہ اور انعام ہے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام نے ﴿‌وَهَبْ ‌لِي ‌مُلْكًا ﴾ یعنی اور مجھے سلطنت بخش دے [سورۃ ص:35] کی دعا کی اور اللہ نے ان کو خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت بھی عطا کی تھی جس پر دلالت کرنے والی بہت سی آیتیں قرآن میں موجود ہیں۔

[حوالہ جات؛ سورۃ البقرۃ:246+247، النساء:54، ص:20]

لہٰذا بادشاہت فی نفسہ مذموم شئ نہیں ہے۔ الغرض جب آسمانی خلافت اور بادشاہت ختم ہوگئی تو دنیا کی خلافت اور بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا، چنانچہ خلفائے راشدین آپ ﷺ کے جانشین اور خلیفہ ہیں، خلیفہ بنانے کے مختلف طریقے عہد صحابہ میں پیش آئے ہیں، چنانچہ ایک طریقہ تو حضرت ابوبکرؓ کے انتخاب کا تھا کہ تمام صحابہؓ نے ان کو بالاتفاق اپنا امیر اور آپ ﷺ کا خلیفہ مقرر کیا اور دوسرا طریقہ حضرت عمرؓ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے اخیر زمانہ میں بغیر کسی شوریٰ کے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین اور خلیفہ بنادیا، پھر تیسرا طریقہ حضرت عثمانؓ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے پہلے ایک شوریٰ قائم کی جس کے انتخاب سے حضرت عثمانؓ خلیفہ مقرر ہوئے، اور چوتھا طریقہ حضرت علیؓ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد اکثر صحابہؓ نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کیا اور ان کو اپنا امیر تسلیم کرلیا۔ اسی طرح ایک پانچواں طریقہ وہ ہے جو صحابی رسولِ ہادی، مہدی امیر معاویہؓ سے ثابت ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانیشین اور خلیفہ بنایا۔ الغرض یہ سب کے سب طریقے عہد صحابہ میں پیش آئے ہیں اور بادشاہت کا طریقہ بھی اسلام میں موجود ہے، پس اُسے منسوخ کیسے کہا جائے گا، آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:

«الْخِلَافَةُ بِالْمَدِينَةِ، ‌وَالْمُلْكُ ‌بِالشَّامِ»

ترجمہ:

خلافت مدینہ سے اور ملک وبادشاہی شام سے ہوگی۔

[المستدرك على الصحيحين للحاكم:4440]

الفتن لنعيم بن حماد:248، الجامع لعلوم الإمام أحمد:15/159، دلائل النبوة للبيهقي:6/447، جامع بيان العلم وفضله:2324، المتفق والمفترق، للخطيب البغدادي:626، الفردوس بمأثور الخطاب:3023، التاريخ الكبير للبخاري:4/ 15، تاريخ دمشق لابن عساكر:1/183، البداية والنهاية لابن كثير:9/212، فضائل الشام لابن رجب الحنبلي:3/190، إمتاع الأسماع لالمقريزي:12/209، المقاصد الحسنة للسخاوي:583، 



اہل السنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی پاک ﷺ کے بعد خلیفہ بلافصل حضرت ابو بکر صدیقؓ ہیں، ان کے بعد حضرت عمرؓ ، ان کے بعد حضرت عثمان غنیؓ، اور ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں، بالترتیب یہ چاروں حضرات خلفاء راشدین ہیں جن کی خلافت کی پیشن گوئی قرآن کریم میں دی گئی ہے، اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ میرے بعد خلافت تیس(30) سال رہے گی اس کے بعد بادشاہت اور ملوکیت شروع ہوجائے گی۔

[سنن الترمذي:2226]

اس سے مراد خلافتِ راشدہ ہے جس کی مدت حضرت سیدنا حسنؓ کی خلافت پر جا کر ختم ہوجاتی ہے؛ کیونکہ مستند تاریخی کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ خلفاء اربعہ کی خلافت کی مدت انتیس(29)سال اور چھ(6)ماہ پر جاکر ختم ہوجاتی ہے ابھی چونکہ تیس(30)سال پورا ہونے میں تقریباً چھ(6) ماہ باقی تھے کہ حضرت علیؓ کی شہادت ہوگئی تھی ان کی شہادت کے بعد اکثر مسلمانوں نے حضرت سیدنا حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی اس کے بعد حضرت حسنؓ نے تقریبا چھ(6)ماہ خلافت کی جب خلافت کے تیس(30)سال مکمل ہوگئے تو انہوں نے نبی ﷺ کے پیشن گوئی کے مطابق حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کرتے ہوئے خلافت کی ذمہ داری ان کے حوالے کردی تھی، اس اعتبار سے حضرت سیدنا حسنؓ کی خلافت کا زمانہ بھی خلافتِ راشدہ میں داخل ہوگا، اور حضرت حسنؓ بھی خلفاء راشدین میں شامل ہوں گے، لہذا جو لوگ مذکورہ حدیث کے حوالے سے حضرت حسن کی خلافت کو خلافتِ راشدہ میں داخل کرکے ان کو خلیفہ راشد کہتے ہیں ان کی بات درست ہے، لیکن حضرت امیر معاویہؓ کو خلفاء راشدین کی فہرست میں شامل نہ ہوں گے؛ کیونکہ خلافتِ راشدہ کے لئے ہجرت کرنا شرط ہے، جیسا کہ "ازالة الخلفاء عن خلافة الخلفاء[ج1/ص10] میں اس کی صراحت کی گئی ہے، چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ صاحب لکھتے ہیں: "از جملہ لوازم خلافت خاصہ آنست کہ خلیفہ از مہاجرین اولین باشد" اور یہ شرط حضرت امیر معاویہؓ میں مفقود ہے؛ اس لئے ان کو خلفاءِ راشدین میں شمار کرنا درست نہ ہوگا، رہا مسئلہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو خلفاءِ راشدین میں شمار کرنے کا مسئلہ تو چونکہ خلفاء راشدین میں شمار ہونے کے لئے صحابی ہونا ضروری ہے، جیسا کہ آپ کے مسائل اور ان کا حل [ج1 /ص330] پر اس کی صراحت کی گئی ہے اور یہ شرط حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے اندر مفقود ہے؛ کیونکہ وہ صحابی نہیں ہیں بلکہ تابعی ہیں اس لئے ان کو خلفاء راشدین میں شمار کرنا درست نہ ہوگا جہاں تک تعلق ہے اہل سنت و الجماعت کے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خلفاء راشدین میں شامل کرنے کا تو اگرچہ بعض اہل السنة والجماعة حضرات نے ان کو خلفاء راشدین میں شمار کیا ہے مگر اس معنیٰ میں نہیں کہ یہ بھی اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں خلافتِ راشدہ کی پیشن گوئی دی گئی ہے بلکہ وہ حضرات ان کو اس اعتبار سے خلیفہ راشد کہتے ہیں کہ یہ بذاتِ خود عادل اور خیرخواہی کرنے والے اچھے خلیفہ تھے اور ان کی خلافت میں رشد(ہدایت) پائی جاتی تھی، اور ان کی خلافت، خلافتِ راشدہ کے مشابہ تھی اس اعتبار سے انہوں نے ان کو خلیفہ راشد کہا ورنہ درحقیقت یہ خلفاء راشدین کے مصداق نہیں ہیں۔





(1)الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ سے، وہ حضرت سفینہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خلافت علی منہاج النبوۃ (نبوت کی خلافت) تیس سال رہے گی ، پھر اللہ تعالیٰ سلطنت یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا دے گا۔

[سنن ابو داؤد - سنت کا بیان - حدیث نمبر 4647][صحیح ابن حبان:6783]


پھر (سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ کہتے ہیں) مجھ سے سفینہ رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت، عمر رضی الله عنہ کی خلافت، عثمان رضی الله عنہ کی خلافت اور علی رضی الله عنہ کی خلافت، شمار کرو۔

[سنن الترمذی - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 2226]

[سنن ابو داؤد - سنت کا بیان - حدیث نمبر 4646]


....وَأَوَّلُ الْمُلُوكِ مُعَاوِيَةُ۔

ترجمہ:

....اور پہلے بادشاہ حضرت معاویہ ہیں۔

[المصنف-ابن أبي شيبة:36005 (ت الحوت)، المصنف-ابن أبي شيبة:38754(ت الشثري)]

[مصنف ابن ابی شیبہ: کتاب الاوائل، باب:-سب سے پہلے کون سا عمل کس نے کیا ؟ حدیث نمبر: 37156]


قلت: معاویة؟ قال: کان اول الملوک. وتابعہ حماد بن سلمة عن سعید بن جمہان.

(المدخل الی سنن الکبری للبیہقی: باب اقاویل الصحابة رضی اللہ عنہم: ج ۱/ ص ۱۱۶)


تشریح:
حضرت سفینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام ہیں انھوں نے حضور ﷺ کا جو ارشاد نقل فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خلافت یعنی ٹھیک ٹھیک میرے طریقہ پر اور اللہ تعالی کے پسندیدہ طریقہ پر میری نیابت میں دین کی دعوت و خدمت اور نظام حکومت کا کام (جس کا مختصر معروف عنوان "خلافت راشدہ" ہے) بس تیس سال تک چلے گا اس کے بعد نظام حکومت بادشاہت میں تبدیل ہوجائے گا اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ پر یہ حقیقت منکشف فرما دی تھی آپ ﷺ نے مختلف موقعوں پر اس کا اظہار فرمایا اور امت کو اس کے بارے میں آگاہی دی مختلف صحابہ کرامؓ سے اس سلسلہ کے آپ ﷺ کے ارشادات مروی ہیں۔ حضرت سفینہ ؓٗ نے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمانے کے ساتھ اس کا حساب بھی بتلایا لیکن اس کو تقریبی یعنی موٹا حساب سمجھنا چاہیے تحقیقی حساب یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر ؓ کی خلافت کی مدت دو سال چار مہینے ہے۔ اس کے بعد حضرت فاروق اعظم ؓ کی مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہیں۔ اس کے بعد حضرت ذوالنورین کی خلافت کی مدت چند دن کم بارہ سال ہیں۔ اس کے بعد حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت کی مدت چار سال نو مہینے ہیں۔ ان کی میزان 29 سال 7 مہینے ہوتی ہے اس کے ساتھ سیدنا حضرت حسنؓ کی خلافت کی مدت قریبا پانچ ماہ جوڑ لی جائے تو پورے تیس سال ہو جاتے ہیں۔ یہی تیس (30) سال خلافت راشدہ کے ہیں اس کے بعد جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا نظام حکومت بادشاہت میں تبدیل ہوگیا اس طرح کی رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئیاں آپ ﷺ کی نبوت کی کھلی دلیلیں بھی ہیں اور ان میں امت کو آگاہی بھی ہیں۔

[معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1948]

آپؓ کے بعد آپؓ کے بڑے صاحبزادے حضرت حسن ؓٗ آپؓ کے جانشین اور خلیفہ ہوئے لیکن انہوں نے چند ہی مہینے بعد مسلمانوں کی خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ایک پیشن گوئی کے مطابق حضرت معاویہ ؓ سے صلح کر لی اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ حضرت حسنؓ کی خلافت کے یہ چند مہینے شامل کر لیے جائیں تو پورے تیس سال ہو جاتے ہیں۔ خلافت علی منہاج نبوت اور خلافت راشدہ جس کو اس حدیث میں خلافت النبوہ کہا گیا ہےبس اس تیس سالوں تک رہی۔ اس کے بعد طور طریقوں میں تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا اور شدہ شدہ خلافت علی منھاج النبوہ کی جگہ بادشاہت کا رنگ آ گیا۔ آنحضرت ﷺ کی دوسری پیشنگوئیوں کی طرح یہ حدیث بھی رسول اللہ ﷺ کا معجزہ اور آپ ﷺ کی نبوت کی دلیل ہے۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد جو کچھ ہونے والا تھا۔ آپ ﷺ نے اس کی اطلاع دی اور وہی وقوع میں آیا۔ ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کو اس کا علم اللہ تعالی کی وحی کے ہی ذریعہ ہوا تھا۔

[معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1874]


الحسن بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه: أبو محمد، سبط رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وريحانته وآخر الخلفاء بنصه.

ترجمہ:

حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ: ابو محمد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے - اور ان کے پھول اور ان کے بيان کے مطابق آخری خلیفہ۔

[تاريخ الخلفاء-السيوطي: ص144]


وَأَخْرَجَ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَدْخَلِ عَنْ سَفِينَةَ أَنَّ أَوَّلَ الْمُلُوكِ مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَالْمُرَادُ بِخِلَافَةِ النُّبُوَّةِ هِيَ الْخِلَافَةُ الْكَامِلَةُ وَهِيَ مُنْحَصِرَةٌ فِي الْخَمْسَةِ فَلَا يُعَارَضُ الْحَدِيثُ لَا يَزَالُ هَذَا الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى يَمْلِكَ إثني عَشَرَ خَلِيفَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ مُطْلَقُ الْخِلَافَةِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ

ترجمہ:

اور بیہقی نے سفینہ کی سند سے اسے المدخل میں شامل کیا ہے کہ سب سے پہلے بادشاہ معاویہ رضی اللہ عنہ تھے اور خلافت نبوت سے مراد مکمل خلافت ہے اور یہ محدود ہے۔ پانچوں تک، لہٰذا حدیث اس مذہب سے متصادم نہیں ہے، یہ مذہب اس وقت تک قائم رہے گا جب تک اس کے بارہ خلفاء نہ ہوں، کیونکہ اس سے مراد مطلق خلافت ہے، اور خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

[عون المعبود وحاشية ابن القيم: كتاب السنة  باب في الخلفاء ، ج12 ص 260، حدیث 284]


هُوَ آخر الْخُلَفَاء الرَّاشِدين بِنَصّ جده صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ولي الْخلَافَة بعد قتل أَبِيه بمبايعة أهل الْكُوفَة فَأَقَامَ بهَا سِتَّة أشهر وأياما خَليفَة حق وَإِمَام عدل وَصدق تَحْقِيقا لما اخبر بِهِ جده الصَّادِق المصدوق صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بقوله 

فَإِن تِلْكَ السِّتَّة الْأَشْهر هِيَ المكملة لتِلْك الثَّلَاثِينَ فَكَانَت خِلَافَته مَنْصُوصا عَلَيْهَا وَقَامَ عَلَيْهَا إِجْمَاع من ذكر فَلَا مرية فِي حقيتها

ترجمہ:

وہ اپنے دادا (صلى الله عَلَيْهِ وَسلم) کی بيان کے مطابق صحیح ہدایت یافتہ خلفاء میں سے آخری ہیں، اور کوفہ کے لوگوں سے بیعت کرنے کے بعد اپنے والد کو قتل کرنے کے بعد خلافت کے جانشین تھے، اس لیے آپ نے قیام کیا۔ وہاں چھ ماہ اور دن ایک سچے خلیفہ اور انصاف اور سچائی کے امام کی حیثیت سے اپنے دادا الصادق المصدوق سے کہی گئی بات کو پورا کرتے ہوئے ان کے اس قول کے مطابق۔

وہ چھ مہینے ان تیس کی تکمیل ہیں، اس لیے اس کے لیے اس کی خلافت معین ہوئی اور اس پر مردوں کا اجماع قائم ہوا، اس لیے اس کے حق میں کوئی شک نہیں۔

[الصواعق المحرقة - ابن حجر الهيتمي: ج 2 ص 397]


امام صدر الدین علی بن علی بن محمد بن ابی العز الحنفی اپنی کتاب [شرح العقيدة الطحاوية] میں لکھتے ہیں:

و أول ملوك المسلمين معاوية رضي الله عنه ، و هو خير ملوك المسلمين ، لكنه إنما صار إماما حقا لما فوض إليه الحسن بن علي رضي الله عنهم الخلافة ، فإن الحسن رضي الله عنه بايعه أهل العراق بعد موت أبيه ، ثم بعد ستة أشهر فوض الأمر إلى معاوية 

ترجمہ:

مسلمانوں کے پہلے بادشاہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ہیں اور وہ مسلمانوں کے تمام بادشاہوں سے بہتر تھے لیکن بعد ازاں وہ بھی خلیفہ برحق تھے جب حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ نے انہیں خلافت تفویض کر دی تھی ۔ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ کی عراقیوں نے بیعت کی لیکن چھ ماہ بعد انہوں نے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو تفویض کر دی.

[شرح العقيدة الطحاوية ، لامام صدر الدين علي بن علي بن محمد بن أبي العز الحنفي ، تحت " خلافة علي رضي الله عنه ، ص 479 تا 480 مطبوعة دار ابن رجب ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠٢ء]


لما قال العلامة ملا علی القاری رحمہ اللہ:

وخلافة النبوة ثلاثون سنة _منہا خلافة الصدیق سنتان وثلاثة اشہر وخلافة عمر عشر سنین ونصف وخلافة عثمان اثنتا عشرة سنة وخلافة علی اربع سنین وتسعة اشہر وخلافة ابنہ ستة اشہر واول ملوک المسلمین معاویة وہو افضلہم لکنہ انما صار اماما حقا لما فوض الیہ الحسن بن علی الخلافة فان الحسن بایعہ اہل العراق بعد موت ابیہ ثم بعد ستة اشہر فوض الامر الی معاویة والقصة مشہورة وفی الکتب المبسوط مستورہ

[شرح الفقہ الاکبر ص ۸۶، ۹۶]



نماز میں صف بندی کی ترتیب اور پاؤں ٹخنے کندھے ملانے کا مطلب

صفیں برابر کرنے کا بیان:
‏‏‏‏‏‏سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ...مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ»
(وفي رواية)
«...من تمام الصلاة»
ترجمہ:
صفیں درست کرو، بے شک صفوں کی درستی...
اقامت صلوٰۃ میں سے ہے۔
[صحيح البخاري:433]
(دوسری روایت میں ہے)
نماز کے پورا کرنے میں سے ہے۔
[صحيح مسلم:433(975)، سنن أبي داود:668، سنن ابن ماجه:993]



صف محاذاۃ (سیدھی-برابری) میں رکھنا ہے:
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیزہ یا تیر کی طرح صف سیدھی کرتے تھے، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا دیکھا تو فرمایا:
”اپنی صفیں برابر کرو، یا اللہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا“۔
[صحيح البخاري:717، صحيح مسلم:978+979، جامع الترمذي:227، سنن أبي داود:663+662، سنن النسائى الصغرى:811، سنن ابن ماجه:994]




‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رُصُّوا صُفُوفَكُمْ وَقَارِبُوا بَيْنَهَا وَحَاذُوا بِالْأَعْنَاقِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرَى الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ مِنْ خَلَلِ الصَّفِّ كَأَنَّهَا الْحَذَفُ.
ترجمہ:
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہو، اور ایک صف دوسری صف سے نزدیک رکھو، اور گردنوں کو بھی ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں شیطان کو دیکھتا ہوں وہ صفوں کے بیچ میں سے گھس آتا ہے، گویا وہ بکری کا بچہ ہے۔
[سنن أبي داود:667، سنن النسائى الصغرى:816]




عن انس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «رصوا صفوفكم وقاربوا بينها وحاذوا بالاعناق».
ترجمہ:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”اپنی صفوں کو مضبوطی سے ملاؤ اور ان کے درمیان فاصلہ کم رکھو اور اپنی گردنوں کو ایک محاذ پر (یعنی برابر برابر) رکھو۔“
[صحیح ابن حبان (الإحسان):2163، صحیح ابن خزيمة:1545]

نماز میں ٹخنے کا ٹخنے سے - کندھے کا کندھا سے ملانے کا حکم:

واضح رہے کہ جیسے احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے۔[ابوداؤد:662]۔ اور ان احادیث میں  کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے، حقیقی  معنیٰ مراد نہیں ہے، مقتدیوں پر لازم ہے کہ جماعت کی نماز میں آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں، کندھوں کو کندھوں سے ملا کر رکھیں، ٹخنوں کی سیدھ میں ٹخنے رکھیں، صفوں  کے درمیان خلاء نہ چھوڑیں تاکہ درمیان میں شیطان داخل نہ ہو۔


نماز میں پاؤں ملانے کا حکم:

نماز میں کھڑے ہوتے وقت پاؤں سے پاؤں ملانا ضروری نہیں ہے؛ ہاں صفیں اچھی طرح سیدھی کرنی چاہیے بایں طور کہ درمیان میں کوئی خالی جگہ نہ رہے، نیز ایسا بھی نہ ہو کہ کوئی آگے کوئی پیچھے کھڑا ہو ؛ بلکہ سارے لوگ اعتدال کے ساتھ خالی جگہوں کو پُر کرتے ہوئے صف میں کھڑے ہوں، جن احادیث میں تسویة الصفوف پاؤں سے پاؤں ملانے کی بات آئی ہے، اس سے یہی مراد ہے، حافظ ابن حجر نے یہ صراحت کی ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ مقتدی حضرات حقیقتًا پاؤں سے پاؤں ملاکر کھڑے ہوں۔

احادیث میں ٹخنے سے ٹخنے، کندھے سی کندھے ملانا اپنی حقیقت پر محمول نہیں ہے۔

شارحِ بخاری علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ رحمة واسعہ اپنی مشہور کتاب فتح الباری میں فرماتے ہیں:
والمراد بذالک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ
(فتح الباری: باب الأذان، رقم الحدیث، ص: ۷۲۵)

حدیث شریف کی مشہور کتاب ابوداؤد شریف میں صف سیدھی کرنے اور خلل کو بند کرنے سے متعلق کئی الفاظ وارد ہوئے ہیں، ان سب کو ملاحظہ فرمالیں۔

نیز اعلاء السنن میں (باب سنة تسویة الصف) اور فیض الباری شرح صحیح البخاری میں (باب الزاق المنکب بالمنکب (فی باب الاذان) کو بھی مطالعہ کرلیں۔

حوالہ
والمراد بتسویة الصفوف اعتدال القائمین بہا علی سمت واحد أو یراد بہا سد الخلل الذی فی الصف إلخ 
(فتح الباری لابن حجر، /207، باب تسویة الصفوف عند الإقامة وبعدہا، ط:المملکة العربیة السعودیة)....
(قولہ باب إلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف)
المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ وقد ورد الأمر بسد خلل الصف والترغیب فیہ فی أحادیث کثیرة أجمعہا حدیث بن عمر عند أبی داود وصححہ بن خزیمة والحاکم ولفظہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولا تذروا فرجات للشیطان ومن وصل صفا وصلہ اللہ ومن قطع صفا قطعہ اللہ۔
(فتح الباری لابن حجر : باب إلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف 2/ 211،ط: السعودیة)




واضح رہے کہ جیسے احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے اور جماعت کی نماز میں اگر بتکلف کندھوں اور ٹخنوں کو ملا بھی لیا جائے تو بھی گھٹنوں کو ملا کر صف میں کھڑا ہونا تقریباً محال ہے،  اسی طرح بہت زیادہ پیر کھول کر ٹخنے سے ٹخنے ملانے کی صورت میں کاندھے ملانا بھی تقریباً ناممکن ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی احادیث میں کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ صف سیدھی کرنے کا طریقہ  یہ ہے کہ  ٹخنے  اور ایڑھیاں پیچھے سے برابر کرکے کھڑے ہوجائیں،  صف سیدھی ہوجائے گی، ایڑھیاں برابر کرنے سے ٹخنے خود ہی تقریباً برابر ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ مونڈھا مونڈھے (کندھے) کی سیدھ میں رکھیں۔



واضح رہے کہ جماعت کی نماز میں صفوں کے درمیان اتصال سنت مؤکدہ ہے ، مقتدیوں پر لازم ہے کہ جماعت کی نماز میں آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں، کندھوں کو کندھوں سے ملا کر رکھیں، صفوں  کے درمیان خلاء نہ چھوڑیں تاکہ درمیان میں شیطان داخل نہ ہو، اگر مقتدی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے نہ ہوں بلکہ فاصلہ سے کھڑے ہوں تو جماعت کی فضیلت تو حاصل ہوجائے گی البتہ یہ خلافِ سنت اور مکروہ عمل ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"يقول: أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس بوجهه، فقال: «أقيموا صفوفكم» ثلاثاً، «والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم» قال: فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه."
ترجمہ:
ابوالقاسم جدلی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا ”اپنی صفیں برابر کر لو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا۔“ قسم اللہ کی! (ضرور ایسا ہو گا کہ) یا تو تم اپنی صفوں کو برابر رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔“ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ، اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر اور جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔
[سنن أبي داود:662]

البحرالرائق میں ہے:

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ‌ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف."

(کتاب الصلاۃ ،باب الامامۃ ج:1،ص:375 ط:دارالکتاب الاسلامی)

وفی حاشية ابن عابدين :

"ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانا كره كقيامة في صف خلف صف فيه فرجة. قلت: وبالكراهة أيضا صرح الشافعية. قال السيوطي في [بسط الكف في إتمام الصف] : وهذا الفعل مفوت لفضيلة الجماعة الذي هو التضعيف لا لأصل بركة الجماعة، فتضعيفها غير بركتها، وبركتها هي عود بركة الكامل منهم على الناقص. اهـ

قوله وهذا الفعل مفوت إلخ) هذا مذهب الشافعية لأن شرط فضيلة الجماعة عندهم أن تؤدى بلا كراهة، وعندنا ينال التضعيف ويلزمه مقتضى الكراهة أو الحرمة كما لو صلاها في أرض مغصوبة رحمتي ونحوه في ط"

 (‌‌‌‌كتاب الصلاة،باب الإمامة،1/ 570،ط:سعید )

وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:  


"فيأمرهم الإمام بذلك وقال صلى الله عليه وسلم: "استووا تستوي قلوبكم وتماسوا تراحموا" وقال صلى الله عليه وسلم: "أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم.


قوله: "فيأمرهم الإمام بذلك" تفريع على الحديث الدال على طلب الموالاة واسم الإشارة راجع إليها ويأمرهم أيضا بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويستووا مناكبهم وصدورهم كما في الدر عن الشمني وفي الفتح ومن سنن الصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه قوله: "استووا" أي في الصف قوله: "تستو" بحدف الياء جواب الأمر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أن اختلاف الصف يقتضي اختلاف القلوب قوله: "أقيموا الصفوف" أي عدلوهها قوله: "وحاذوا بين المناكب" ورد كأن أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه."

(ص: 306,ط: دار الكتب العلمية بيروت)


ـ’’اس باب میں مختلف الفاظ سے روایات آئی ہیں، بخاری کے الفاظ تو سوال ہی میں مذکور ہیں اور سنن ابو داؤد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ آئے ہیں: قال فرأیت الرجل یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ و رکبتہ برکبة صاحبہ و کعبہ بکعبہ۔ اور حضرت انس رضی  اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: قاربو بینہما و حاذوا بالاعناق۔اور عبداللہ  بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: حاذوا بالمناکب۔ اور یہ امر یقنی ہے کہ ان سب عبارات کا معبر عنہ ایک ہی ہے، اسی کو کہیں الزاق سے تعبیر کردیا، کہیں مقاربت سے کہیں محاذاۃ سے، اس سے معلوم ہوا کہ محاذاۃ و مقاربت ہی کو الزاق  کہہ دیا ہے مبالغۃ فی المقاربۃ۔ دوسرے اگر الزاق کے معنی حقیقی  لئے جاویں تو الزاق المناکب اور الزاق الکعب  اس صورت متعارفہ معتادہ میں مجتمع نہیں ہوسکتے کہ مصلی اپنے قدمین میں خوب انفراج رکھے، کیونکہ اس میں الزاق الکعاب تو ہوگا لیکن الزاق  المناکب نہ ہوگا ، جیسا کہ ظاہر اور مشاہد ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ الزاق الکعب کو مقصود سمجھا جاوے اور الزاق المناکب کی رعایت نہ کی جاوے، کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ الزاق المناکب اصل ہے اور الزاق الکعاب  غیر مقصود۔ تیسرے الزاق الکعاب کی جو صورت  بھی  لی جاوے الزاق الرکب کے ساتھ اس کے تحقیق کی کوئی صورت نہیں، کیونکہ رکبہ بمعنی زانو کا الزاق دوسرے رکبہ سے جب ہوسکتا ہے کہ دو شخص باہم متقابل اور متواجہ ہوں جیسا کہ ظاہر ہے، البتہ محاذاۃ  رکب میں ہر حال میں ممکن ہے ان وجوہ سے ثابت ہوا کہ  جس الزاق کا دعوی کیا جاتا ہے، حدیث  اس پر دلالت نہیں کرتی بلکہ فرجات چھوڑنے کی ممانعت سے اس کی نفی ہوتی ہے۔ واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم ۔‘‘

(امداد الفتاوی: ج:1 ص:326 ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )


فتاوی محمودیہ میں ہے:

علامہ شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں تصریح کی ہے کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھے، اس سے معلوم ہوا کہ ٹخنہ سے ٹخنہ نہیں ملایا جائے گا، علاوہ ازیں   ٹخنہ سے ٹخنہ ملا کر نماز پڑھنا  بہت دشوار ہے اور قعدہ تو اس حالت میں ممکن بھی نہیں، البتہ ایک نمازی دوسرے نمازی کے ساتھ صف میں کھڑا ہو کر اپنا ٹخنہ دوسرے کے ساتھ سیدھ میں رکھے، آگے پیچھے نہ رکھے، تاکہ صف سیدھی رہے، یہی حکم حدیث وفقہ سے ثابت ہے، یہ نہیں کہ ایک نمازی ٹخنہ کو دوسرے نمازی کے ٹخنہ سے ملالے ۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

(باب صفۃ الصلاۃ ج:21 ص:508 ط:جامعہ فاروقیہ)










Tuesday 11 July 2023

ائمہ حدیث اور ائمہ جرح وتعدیل


آنحضرت کی تعلیماتِ قدسیہ کی جاذبیت



آنحضرت   کی تعلیماتِ قدسیہ میں فطرت اور عقیدت کی وہ جاذبیت پائی گئی کہ اُن کے گرد اہلِ علم کا ایک عظیم گروہ پوری عقیدت سے حق وحفاظت کا پہرہ دینے لگا اور علوم دینی کی یہ جاذبیت دن بدن بڑھتی رہی اور ہردور میں قائم رہی کوئی دَور ایسا نہ آیا جب سنن نبوی   پر لوگ پروانہ وار نچھاور نہ ہوتے ہوں۔


خدمتِ حدیث کے مختلف دائرے



چند اہلِ علم اُٹھے اور اُنھوں نے روایت Tradition اور فنِ روایت Science of Transmissionکواپنی محنت کا موضوع بنایا اور کچھ لوگ اُس کے رجال Chain of Transmitters کی تحقیق میں لگ گئے اور ہرکھرے کھوٹے کا کھوج لگایا؛ پھرایسے اہلِ علم بھی اُٹھے جواحادیث کے معانی ومطالب کی گہرائی میں اُترے جن مسائل وحوادث میں قرآن وسنت کی صریح نص موجود نہ تھی اُن کے حکم قرآن وسنت کی روشنی میں دریافت کیئے، ان کی جزئیات قرآن وحدیث کے اُصولوں سے استنباط (استنباط، نبط سے ہے، نبط کنویں کی تہہ میں سے پانی نکالنے کو کہتے ہیں، کنواں کھودنے میں جوپانی پہلی مرتبہ نکلتا ہے اسے ماءِ مستنبط کہا جاتا ہے؛ یہاں مراد کسی بات کی تہہ تک پہنچ کراُس کی صحیح حقیقت معلوم کرلینا ہے؛ اِسی طرح فقہاءؒ کا کسی دبی بات کونکال لینا استنباط کہلاتا ہے، فقہاء کرامؒ موجدِ احکام نہیں ہوتے صرف مظہرِ احکام ہوتے ہیں کہ جوبات گہرائی میں دَبی تھی اُسے ظاہر کردیا، شریعۃ کی ایجاد پیغمبر کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ بھی اپنی طرف سے نہیں خدا کی طرف سے شریعت کی بات کہتے ہیں) کیں ان کے لیئے بھی حدیث کا وسیع علم درکار تھا اور اس بحرِناپید کنار میں کامیاب تیرنے کے بغیر کوئی ان چھپے موتیوں کونہ چن سکتا تھا، ان حضرات کی کاوش رہی کہ نہ صرف مسائل غیرمنصوصہ کا استنباط کرتے جائیں بلکہ مزید استنباط واستخراج کے لیئے قواعد بھی وضع کرتے رہیں یہ ائمہ حدیث اس پہلو سے اسلام کے مقنن Theoristقرار پائے اور غیرمجتہدین کے لیئے امام ٹھہرے؛ پھرکچھ اور محدثین اُٹھے اور جن راویوں نے احادیث روایت کی تھیں ان کی جانچ پڑتال اور جرح وتعدیل میں لگ گئے، وہ اس تحقیق میں یہاں تک آگے گئے کہ ان راویوں کی روایت اُن کے دیگر ہمعصرراویوں سے لے کر ان کی مرویات کوپرکھا کہ یہ اور کہاں کہاں نقل ہوئی ہیں، یہ حضرات اس لائن سے آگے بڑھے اور انہوں نے تحقیق وتنقید کے اس پہلو سے آنحضرت   کی تعلیمات کی خدمت اور حفاظت کی پھر کچھ ائمہ حدیث نے فنی طور پر حدیث جمع کرنے میں اپنے کمالاتِ تالیف دکھائے اور کچھ علماء حدیث نے اسماء الرجال کا فن ترتیب دے کر تاریخ شرائع میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا، یہ سب حضرات اپنے اپنے دائرۂ کار میں حدیث کی خدمت کرتے رہے اور حق یہ ہے کہ ان دوائر علم میں ہردائرہ خدمت کے اکابر اپنے اپنے موضوع کے ائمہ حدیث تھے؛ پھرجن بزرگوں نے حدیث کی شروح میں ان تمام موضوعات پر فنی گفتگو کی، وہ حضرات بھی اپنی جگہ ائمہ حدیث تھے، سطورِ ذیل میں علمِ حدیث کے کچھ انہی وفاداروں کا تذکرہ ہے جو اپنی محنتوں اور ریاضتوں سے علم حدیث کے وہ چراغ روشن کرگئے جن کی تابانی رہتی دُنیا تک طالبانِ عمل کوروشنی بخشتی رہے گی۔


ائمۂ حدیث کی مختلف انواع



ائمہ حدیث کا عنوان بہت وسیع ہے، اس سے ائمہ اجتہاد Theorist بھی مراد ہوسکتے ہیں، جن کے پاس حدیث پہنچ کراپنے تمام پہلوؤں میں پھیلتی ہے اور اس میں وہ ائمہ جرح وتعدیل Critics بھی آجاتے ہیں جن کی کسوٹی حدیث کے راویوں کی نشاندہی کرتی ہے، وہ ائمہ کرام جنھوں نے احادیث کومختلف ترتیبوں سے منضبط کیا، وہ مدوّنینCompilers کہلائے او راللہ تعالیٰ نے اُن کی تالیفات کوزندگی اور قبولیت بخشی، یہ بھی ائمہ حدیث ٹھہرے اور جن حفاظِ رجال نے اسماء الرجال کومنضبط کیا اور اس دائرۂ کار میں حدیث کی خدمت کی وہ بھی اس فن کے امام ٹھہرے، جس نے کسی بھی جہت سے حدیث کی کوئی خدمت کی اور اہلِ علم نے اس فن میں اس پر اعتماد کیا ایسے تمام حضرات ائمہؒ حدیث کے ذیل میں ذکر کیئے جاتے ہیں۔
اِس موضوع کوہم درجِ ذیل عنوانات سے پیش کریں گے:
(۱)علماء حدیث
(۲)ائمہ روایت
(۳)ائمہ جرح وتعدیل
(۴)ائمہ تدوین
(۵)ائمہ رجال۔
یہ ان پاک لوگوں کا تذکرہ ہے جن کی علمی خدمات عام احادامت اور حضورخاتم النبیین   میں وجہ اتصال اور رابطہ بنیں اور انہی کی کوشش سے علم اسلام زندہ رہا حدیث کا علم حاصل کرنے والوں کوچاہیے کہ محدثین کے نام یادرکھتے ہوئے ہرمحدث کے بارے میں ذہن میں رکھیں کہ وہ کس دائرہ اور کس طبقے سے تعلق رکھتا ہے، جب تک ہرمحدث کا دائرہ کار ہمہ وقت ذہن میں نہ رہے اُس وقت تک اُس کی خدمت سے کماحقہ فائدہ نہیں اُٹھاسکتے، شام حجاز اور عراق کے رواۃ حدیث اپنے اپنے ہاں کس کس انداز میں حدیث کی خدمت کرتے رہے، انشاء اللہ اس کا ایک اجمالی نقشہ آپ کے سامنے آجائے گا کہ محدثین کس جذبۂ وفا کے ساتھ قرآن کریم  کے گرد حفاظت کا پہرہ دیتے رہے ہیں۔


علمائے حدیث



علماء حدیث سے وہ علماء فن مراد ہیں جوحدیث کے معنی ومضمون منطوق ومفہوم، اس کے عموم وخصوص اور اس کے مناطِ حکم کوپوری طرح سمجھتے ہوں، انہیں فقہاء حدیث بھی کہا جاتا ہے، یہ حضرات فقہ حدیث کے غواص تھے، اس کے سوا جوکچھ ہے وہ صرف متونِ حدیث کی نقل وروایات اور ان کے اسانید ورجال کی معرفت ہے، حافظ ذہبیؒ "تذہیب التہذیب" کے مقدمہ میں امام علی بن المدینی (۲۳۴ھ) سے نقل کرتے ہیں:

"الفقہ فی معانی الحدیث نصف العلم ومعرفۃ الرجال نصف العلم"۔

(مقدمہ خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال، للحافظ صفی الدین الخزرجی (المتوفی:۹۲۳ھ) مطبع کبریٰ بولاق، طبع ۱۳۰۱ھ)

ترجمہ: حدیث کے معانی میں غور وفکر کرنا اس موضوع کا نصف علم ہے اور نصف ثانی حدیث کے رجال کی معرفت ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فقہ حدیث کے معانی کوسمجھنے کا ہی نام ہے، یہ حدیث کے متبادل کسی اور ماخذ کا نام نہیں؛ بلکہ حق یہ ہے کہ فقہاء دین ہی علم حدیث کے صحیح وارث ہیں، حضرت امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) جنائز Funeralsکی ایک بحث میں لکھتے ہیں:

"وَكَذَلِكَ قَالَ الْفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ"۔

(ترمذی، كِتَاب الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ  ،بَاب مَاجَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ،حدیث نمبر:۹۱۱، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: اور فقہا نے ایسا ہی کہا ہے اور یہی لوگ حدیث کے معانی کو اچھی طرح سمجھنے والے ہیں۔

فقہاء کرام حدیث کوصرف سمجھتے ہی نہیں اس سے احکام غیرمنصوصہ (وہ احکام جن کے بارے میںInjunction موجود نہ ہو) ان کا استنباط بھی کرتے ہیں، اجتہادی امور میں یہی حضرات اولی الامر میں فہم حدیث میں انہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور علم کی دنیا میں انہی کا فیصلہ چلتا ہے، قرآن کریم میں ہے:

"وَلَوْرَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ"۔

(النساء:۸۳)

ترجمہ:اوراگر وہ پہنچادیتے اُسے رسول   تک او راپنے اولی الامرتک تو اسے وہ لوگ جو ان میں تحقیق واستنباط کرنے والے ہیں معلوم کرلیتے۔

امام ابوبکرجصاص رازی (۳۷۰ھ) لکھتے ہیں، حضرت جابرؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حسن بصریؒ، حضرت عطاؒ اور مجاہدؒ اولی الامر کی تفسیر اولوالفقہ والعلم سے کرتے ہیں۔

(احکام القرآن:۳/۱۷۷، شاملہ، المؤلف: أحمد بن علي الرازي الجصاص أبوبكر)

امام تفسیر حضرت قتادہؓ کہتے ہیں "ھم اولوالعلم والفقہ"۔

(احکام القرآن:۳/۱۸۲، شاملہ، المؤلف: أحمد بن علي الرازي الجصاص أبوبكر)

حضرت ابوہریرہؓ اس سے حکام مراد لیتے ہیں، الفاظ فقہاء اور امراء دونوں کوشامل ہیں، امراء تدبیر جیوش کرتے ہیں اور علماء حفظ شریعت کرتے ہیں اور جائز وناجائز بتلاتے ہیں؛ سولوگ ان کی اطاعت پر مامور ہوں گے اور انہیں ان کی پیروی کا حکم ہے۔
حاصل یہ ہے کہ اولی الامر حکام کو کہتے ہیں جس دائرۂ کار میں جس کا حکم چلے وہی اس دائرہ میں اُولی الامر میں سے ہے، حافظ جصاص رازی لکھتے ہیں:

"وجائز أن يسمى الفقهاء أولي الأمرلأنهم يعرفون أوامرالله ونواهيه ويلزم غيرهم قبول قولهم فيها، فجائز أن يسموا أولي الأمر من هذا الوجه كماقال في آية أخرى: {لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَارَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ} (التوبہ:۱۲۲) فأوجب الحذر بإنذارهم وألزم المنذرين قبول قولهم"۔

صحیح تفسیر یہی ہے کہ اولی الامر سے مراد فقہاء حدیث ہی ہیں، علماء کے ہی حکم کوواجب الاطاعت سمجھتے ہیں اور ازروئے شرع اُن پر ان کے احکام کی اطاعت واجب ہے؛ لہٰذا اس وجہ سے اُن پر بھی اولی الامر کا اطلاق درست ہے(احکام القرآن:۲/۲۱۰) اولی الامر حکام کو کہتے ہیں جس دائرہ کار میں جن کا حکم چلے وہی اس دائرہ عمل کے اولی الامر ہوں گے، یہ الفاظ اپنے عموم میں ان فقہاء کویقیناً شامل ہیں جن کا فیصلہ مسلمانوں میں عملاً چلتا ہے؛ گووہ اسے اپنے اختیار سے اپنے اوپر نافذ ٹھہراتے ہوں۔
آنحضرت   نے بھی علماء حدیث Scholars اور رواۃ حدیث Transmitters میں فرق کیا ہے، آپ نے راوی حدیث کوفقط حامل فقہ Bearer of knowledge کہا اور علم حدیث کوفقیہ Jurist کے نام سے ذکر فرمایا، تاریخِ حدیث میں راوی حدیث اور عالم حدیث کا یہ فرق ہمیشہ نمایاں رہا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) کہتے ہیں کہ حضوراکرم   نے فرمایا:

"نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي، فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرُ فَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَأَفْقَهُ مِنْهُ"۔                       

(مشکوٰۃ شریف:۳۵، رواہ الشافعی واحمد والدارمی)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس شخص کوسرسبز کرے جس نے میری بات سنی اسے یاد کیا اور محفوظ رکھا اور اُسے آگے پہنچایا؛ کیونکہ کئی ایسے بھی حاملین علم Bearer of knowledge ہوتے ہیں جوخودعالم Scholar (فقیہ) نہیں ہوتے اور کئی ایسے بھی حامل علم ہوتے ہیں جواپنے سے زیادہ سمجھنے والے کوبات پہنچادیتے ہیں (یہاں تک کہ وہ بات کی لم اور حقیقت کو پالیں)۔

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضوراکرم   کے ہاں علماء حدیث فقہاء ہی تھے اور محض راوی حدیث ہونا آپ کے نزدیک اس کی ایک ابتدائی منزل تھی، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عالم حدیث کا راوی حدیث نہ بننا اس کے علم حدیث میں ہرگز کوئی کمی کی وجہ نہیں، صحابہؓ میں حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کی روایات اگرکم ہیں تواس کا مطلب یہ نہیں کہ ابوہریرہؓ ان سے علم میں آگے تھے۔


اسلام میں علم وحکمت کا مرتبہ



قرآن کریم میں علم کے اس اُونچے درجے کوجس میں گہرائی اور گیرائی دونوں درکار ہوں، حکمتJurisprudence کہا گیا ہے اور یہی وہ خیر کثیر ہے جواس ا مت میں نبوت کے قائم مقام رکھی گئی تھی، قرآن کریم میں ہے:

"وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا"۔               

   (البقرۃ:۲۶۹)

ترجمہ: جسے حکمت ودانائی ملی پس تحقیق اسے بہت بڑی خیر ملی۔

حضورؐ نے اِس خیر کے حامل کو فقیہ Jurist ارشاد فرمایا ہے اور حق یہ ہے کہ فقہاء ہی شریعت کے حکماء ہیں، آپ فرماتے ہیں:

"مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔

                      (مشکوٰۃ:۲۲، متفق علیہ)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ جس کے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں فقہ عطا فرمادیتا ہے۔

وہ حاملین حدیث نبوی جواس درجے میں شریعت کا مغز پاگئے کہ مسائلِ منصوصہ کے اصولوں میں تمام مسائلِ غیرمنصوصہ کا حکم دریافت کرسکیں وہ اس دریافت اور استخراج کے اصول بھی انہی نصوص میں پاگئے اور انہو ںنے انہیں بھی پوری دقتِ نظری سے استنباط کیا، یہ وہ مجتہدین کرام ہیں جن سے مسائل کے باب میں معلوم کرنا ضروری ٹھہرا، حقیقت میں یہی اہلِ علم ہیں جن کی طرف ان مسائل میں جوقرآن وحدیث میں صریحاًنہ ملتے ہوں رجوع کیا جاسکتا ہے، حضور   نے حضرت عقبہ بن عامر کواس صورت میں اسی قاعدہ کی تعلیم دی تھی:

"فاباح لہ النبی الاجتہاد بحضرتہ علی الوجہ الذی ذکرنا"۔

     (احکام القرآن:۲/۲۱۳)

اپنے سامنے اس طریق کے مطابق جوہم نے ذکر کیا پس آپ نے ان کے لیے اجتہاد کرنا جائز ٹھہرادیا؛ اِسی طرح حضرت معاذ بن جبلؓ بھی آپ سے اجتہاد کرنے کی اجازت پاچکے تھے، فقہاء حدیث کی کاوش رہی کہ احادیث سے زیادہ سے زیادہ احکام استنباط کریں اور شریعتِ اسلامی آنے والی ہرضرورت پر قابو پاسکے اور حق یہ ہے کہ اسی سے اسلام کی شان جامعیت ہردور میں اپنی وسعت سے نکھرتی رہی ہے، ظاہر ہے کہ ان حضرات کو دن رات حدیث سے واسطہ پڑتا تھا اور اس کے ردوقبول اور تحقیق وتنقیح میں انہیں پوری گہرائی میں جانا ہوتا تھا، اس سے انہیں اس فن کی پوری بصیرت حاصل ہوجاتی تھی اور وہ اس کے درجات اور احکام سے پوری طرح باخبر ہوتے تھے؛ تاہم یہ صحیح ہے کہ اُن کی محنتیں زیادہ ترحدیث کی روایت پر نہیں اس کے فہم ودرایت پر صرف ہوتی تھیں، حدیث اُن کے پاس آکر اس بحرِ بے کراں کی طرح اچھلتی تھی جس کے نیچے بے شمار موتی دبے ہوں، یہ فقہاء حدیث کبھی اپنے تلامذہ واحباب میں حدیث کی سند بھی روایت کردیتے؛ لیکن تحدیث زیادہ تران کا موضوع نہ تھا، وہ احادیث کے معانی میں غوطے لگاتے تھے اور فہم حدیث کے پہلو سے ائمہ حدیث اور حفاظ حدیث میں شمار ہوتے تھے، یہ بات اپنی جگہ محتاجِ دلیل نہیں کہ حدیث میں کامل دست گاہ کے بغیر کوئی شخص مجتہد نہ ہوسکتا تھا؛ البتہ یہ صحیح ہے کہ نادان لوگ ان کی مرویات کوکم دیکھ کر ان کی صحیح قدر کرنے سے محروم رہے اور خود اپنے آپ کو ہی کاٹتے رہے، اس طبقے میں ہم امام ابوحنیفہؒ (۱۵۰ھ)، امام اوزاعیؒ (۱۵۷ھ)، سفیان ثوریؒ (۱۶۱ھ)، امام مالکؒ (۱۷۹)، امام ابویوسفؒ (۲۴۱ھ)، امام محمدؒ (۱۸۹ھ)، امام شافعیؒ (۲۰۴ھ)، اسحاق بن رہویہؒ(۲۳۸ھ)،امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) کا تذکرہ کریں گے، امام احمد سے گوروایتِ حدیث کا سلسلہ بھی خوب چلا؛ تاہم ایک مجتہد کی حیثیت سے ان کا تذکرہ اسی باب میں ہوگا۔


علماءِ جرح وتعدیل



پھرمحدثین کا وہ طبقہ سامنے آتا ہے جن کا موضوع زیادہ تررواۃِ حدیث کی جانچ پڑتال رہا، وہ جرح وتعدیل کے امام تھے، ان کی توجہ تحقیق رواۃ پر اس درجہ مبذول رہی کہ ایک نیا مستقل فن وجود میں آیا، جسے علمِ اسماء الرجال کہا جاتا ہے، جس طرح معانی حدیث میں فقہ وتعمق اس موضوع کا ایک اہم حصہ ہے، معرفتِ رجال بھی اس موضوع کا نصف علم ہے، امام علی بن المدینیؒ (۲۳۴ھ) کی یہ رائے آپ پہلے سن آئے ہیں:

"الفقہ فی معانی الحدیث نصف العلم ومعرفۃ الرجال نصف العلم"۔

(مقدمہ خلاصہ تذہیب تہذی الکمال، للحافظ صفی الدین الخزرجی (المتوفی:۹۲۳ھ) مطبع کبریٰ بولاق، طبع ۱۳۰۱ھ)

ترجمہ: حدیث کے معانی میں غور وفکر کرنا اس موضوع کا نصف علم ہے اور نصف ثانی حدیث کے رجال کی معرفت ہے۔

سوعلم دو ہی ہیں: (۱)فقہ اور (۲)فن اسماءالرجال، ایک علم متن حدیث سے متعلق ہے تودوسرا سند حدیث سے۔
علماء جرح وتعدیل نے رواتِ حدیث کے مختلف درجات معلوم کیئے، اُن کا فنی تجزیہ کیا، باہمی اختلاف کی صورت میں نتیجہ خیزی کی راہیں قائم کیں، یہ حضرات اس جہت سے ائمہ حدیث قرار پائے، بعد کے آنے والے محققین ان کی کاوشوں سے ہی فیصلوں کی راہیں تلاش کرتے ہیں اور اس گروہ کوجتنا خراج تحسین ادا کیا جائے کم ہے، مولانا حالی لکھتے ہیں:  ؎
گروہ ایک جو یا تھا علم نبی کا
لگایا پتہ اس نے ہرمفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا
کیا قافیہ تنگ ہرمدعی کا
کیئے جرح وتعدیل کے وضع قانون
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسون
اس طبقے میں ہم امیرالمؤمنین فی الحدیث عبداللہ بن مبارک (۱۵۶ھ)، امیرالمؤمنین فی الحدیث شعبہ (۱۶۰ھ)، وکیع بن الجراح (۱۹۷ھ)، یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ)، عبدالرحمان بن مہدی (۱۹۸ھ)،سفیان بن عیینہ (۱۹۸ھ)، علی بن المدینی (۲۳۴ھ) اور یحییٰ بن معین (۲۳۳ھ) کا تذکرہ کریں گے؛ پھران کے بعد ائمہ تالیف کا ذکر ہوگا، جنھوں نے کتابیں لکھیں۔


جامعینِ حدیث



محدثین کا وہ طبقہ سب سے آگے ہے، جن کا موضوع زیادہ ترروایت وتحدیث رہا، فقہ وتفریع پر صاحب نظر ہونے کے باوجود وہ فقہی استنباط میں زیادہ مصروف نہ ہوئے پھران حضرات کے مختلف طبقے ہوئے، کچھ ایسے تھے جو صحتِ اسناد سے احادیث جمع کرتے رہے اور کچھ وہ تھے جوہرطرح کی اسناد سے احادیث آگے لاتے رہے اور نقد وجرح بھی کرتے رہے اور کبھی اسے پڑھنے والوں پر بھی چھوڑ دیتے تھے، یہ سب حضرات حدیث کے ائمہ تالیف ہیں؛ پھران حفاظِ حدیث میں کئی ایسے بھی ہوئے جوحدیث کے توحامل رہے مگراس کے معنی کی گہرائی میں جانا ان کا موضوع مشق نہ تھا، ان کی حضور   بھی خبر دے چکے اور بے شک ان حضرات کی مساعی اور خدمات بھی اپنی جگہ بہت ممتاز ہیں، امت اسلامی کواپنے ان ائمہ حدیث پر بجاطور پر ناز ہے؛ جنھوں نے تدوین کے دورِ ثانی میں حدیث کوکتابی صورت میں جمع کیا اور وہ کمالات دکھائے کہ تاریخ اُن کی مثال پیش کرنے سے قاصر رہی اور حق یہ ہے کہ اس باب میں وہ تمام متقدمین پر بھی سبقت لے گئے اور آج زیادہ ترانہی کے ذخائر حدیث علماء کے مصادر ومراجع ہیں؛ یہی حضرات ائمہ تالیف ہیں۔


ائمہ تالیف حدیث



جہاں تک مطلق تالیف کا تعلق ہے توحدیث حضور اکرمؐ کی زندگی میں ہی معرضِ تحریر Documentary Records میں آنے لگی تھی اور صحابہ کے جمع کردہ صحیفے  آئندہ کے اہلِ علم کے پاس موجود رہے، خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے حکم سے امام زہری اور صالح بن کیسان جیسے تابعین حضرات نے حدیث خاصی تعداد میں جمع کرلی تھی؛ تاہم زمانے کوانتظار تھا کہ محدثین فن تدوین کوترقی دے کر حدیث کی ایسی تالیفات سامنے لائیں کہ فن اعتماد اور ضرورت کے اعتبار سے یہ مجموعہ ہائے حدیث دیرپا قبولیت پائیں، اس دائرہ اور دَور میں محدثین کی پوری کاوش رہی کہ یہ علمی ذخیرے اس طرح ترتیب پائیں کہ مختلف پہلوؤں سے تعلیم وتدریس کا مرکز بن جائیں اور آئندہ امت پر حفظ وضبط اور جمع وتدوین کا وہ بوجھ نہ رہے جواب تک صحابہ وتابعین اور تبع تابعین اُٹھاتے چلے آرہے تھے۔
قدماء بے شک قدماء ہیں اور بنیادی فضیلت پہلوں کو ہی جاتی ہے؛ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فن تالیف تیسری صدی ہجری میں جس پایۂ تکمیل کو پہنچا اس کی نظیر پہلے علمی ذخیروں میں نہیں ملتی۔
امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کا علمِ حدیث مسلم، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حدیث کے باب میں درایت ہو یاروایت امام شافعیؒ اور امام احمدؒ فن حدیث میں پورے مجتہد تھے، امام سفیان ثوریؒ (۱۶۱ھ) اور امام محمدؒ (۱۸۹ھ) اور عبدالرزاق ابن ہمامؒ (۲۱۱ھ) کی کتابوں میں سینکڑوں حدیثیں مروی ملتی ہیں؛ لیکن تالیف حدیث میں جوکمال امام بخاری اور امام مسلمؒ نے دکھایا اس کی نظیر نہ صرف یہ کہ اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی؛ بلکہ مذاہب عالم کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے "ولقد جاء فی المثل السائرکم ترک الاوّل للآخر"۔
یہی وجہ ہے کہ ان تالیفات کے سامنے آنے پر امت نے پچھلے ذخائرِ حدیث کوجوبے شک اوّلیت کی شان رکھتے تھے، علم حدیث کا مرکز نہ بنایا اور دورۂ حدیث آج انہی کتابوں کے گرد گھوم رہا ہے، یہ جلیل القدر تالیفات پچھلی تالیفاتِ حدیث کی بجاطور پر وارث اور آئندہ کی حدیثی کاوشوں کا صحیح معنوں میں متن Texts ہیں؛ یہی کتابیں ہیں جوآنحضرت   کی تعلیمات کے باب میں اساسی کتابیں Canonical Books کہلاتی ہیں اور حدیث کی سند وروایت اور ردّوقبول میں انہی کتابوں کومرکز قراردیا جاتا رہا ہے، فنِ تالیف میں جوائمہ زیادہ معروف ہوئے اور جن کے علمی ذخائر اپنے اپنے رنگ میں اب تک مرکز سمجھے جاتے ہیں؛ یہاں انہی کا ذکر ہوگا۔
ان ائمہ تالیف میں حضرت امام بخاریؒ (۲۵۶ھ) اور امام ابنِ خزیمہؒ (۳۱۱ھ) توترجمۃ الباب میں بالکل مجتہد نظر آتے ہیں، اسانید کی ترتیب اور ضبط متن میں حضرت امام مسلمؒ (۶۶۱ھ) کا ثانی نہیں ملتا، ترتیب روایت پر حیرت انگیز دسترس کے مالکؒ ہیں، مجتہدانہ بصیرت میں امام ابوداؤدؒ سجستانی (۲۷۵ھ) اور امام طحاویؒ (۳۲۱ھ) اپنی مثال آپ ہیں، امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) نے نقل مذاہب میں جواچھوتا انداز اختیار کیا ہے اس میں وہ پہلے اور پچھلے سب مؤلفین کوپیچھے چھوڑ گئے ہیں اور اس خاص طرز میں کوئی ان کا ہمسر نہیں۔
ان ائمہ تالیف میں ہم عبدالرزاق بن ہمام (۲۱۱ھ) اور ابوداؤد طیالسیؒ (۲۲۴ھ)، ابن ابی شیبہؒ (۲۳۵ھ)، دارمیؒ (۲۵۵ھ)، بخاریؒ (۲۵۶ھ)، مسلمؒ (۲۶۱ھ)، ابوداؤدؒ (۲۷۵ھ)، ترمذیؒ (۲۷۹ھ)، نسائیؒ (۳۰۳ھ)، ابن ماجہ قزوینیؒ (۲۷۳ھ)، ابن خزیمہؒ (۳۱۱ھ)، ابوعوانہؒ(۳۱۶ھ)، طحاویؒ (۳۲۱ھ)، ابن حبان (۳۵۴ھ)، طبرانیؒ (۳۶۰ھ)، دارِقطنی (۳۸۵ھ)، خطابی (۳۸۸ھ)، حاکم نیشاپوری (۴۰۵)، امام بیہقیؒ (۴۵۸) اور ابن عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ) کا ذکر کریں گے۔


حدیث کے ائمہ تخریج



پھران کے بعد ایک ایسا دور آیا جب مستقل راویوں سے حدیث روایت کرنے کی ضرورت نہ رہی، حدیث کی کتابیں مدون ہوچکی تھیں اور انہی کتب کی سند آگے جاری ہوتی تھی، اب نئے مجموع ہائے حدیث میں سند ساتھ ساتھ نقل کرنے کی چنداں ضرورت نہ رہی، تاہم تخریج وتالیف کے دروازے کھلے تھے اور اِس فن میں محنت کرنے والوں کا ایک طبقہ پھربھی اس راہ میں پوری توانائی سے مصروفِ عمل تھا، ان جامعینِ حدیث نے ان پچھلے علمی ذخیروں کے حوالوں سے کتابیں اور اجزاء مرتب کیئے؛ ان سے روایت کیں اور نئے نئے مجموعے ترتیب دیئے اور حدیث کی یہ خدمت آج تک جاری ہے، جن حضرات کے مجموعے علماء حدیث میں مستند، مفید اور معتمد سمجھے گئے وہ اس دور کے ائمہ حدیث تھے، اس طبقے میں ہم امام بغویؒ صاحبِ شرح السنّہ (۵۱۶ھ)، علامہ صنعانی رحمہ اللہ (۶۱۰ھ)، ابنِ عساکرؒ (۵۷۱ھ)، ابنِ تیمیہؒ (۷۲۸ھ)، ابنِ قیمؒ (۷۵۱ھ)، خطیب تبریزیؒ صاحبِ مشکوٰۃ (۷۴۲ھ)، ابنِ کثیرؒ (۷۷۴ھ)، نورالدین ہیثمیؒ (۸۰۷ھ)، حافظ ذہبیؒ (۸۴۸ھ)، ابنِ ہمام اسکندریؒ (۸۶۱ھ)، عسقلانیؒ (۸۵۲ھ)، طاہرفتنیؒ صاحب مجمع البحار (۹۸۶ھ) اور علی المتقی صاحب کنزالعمال (۹۷۵ھ) کا ذکر کریں گے۔


علماءِ تراجم رجال



جہاں تک فن اسماء الرجال کا تعلق ہے، اس کا اصل سہرا ان قدماء کے سرہے جن کا ذکر ہم ائمہ جرح وتعدیل میں کرآئے ہیں؛ لیکن ان کے اقوال وتحقیقات کوباقاعدہ کتابی صورت میں لانے کی خدمت جن حضرات نے سرانجام دی؛ انہیں ہم یہاں علماءِ تراجمِ رجال کے عنوان سے ذکر کریں گے، یہ صحیح ہے کہ ان سے پہلے وہ قدماء جن کا ذکر ہم پہلے کرآئے ہیں اس سلسلہ میں قدم اُٹھا چکے تھے، امام احمد بن حنبلؒ نے کتاب العلل ومعرفۃ الرجال لکھ کر اس کا آغاز کردیا تھا، امام بخاریؒ بھی تاریخِ کبیر لکھ چکے تھے، امام ترمذیؒ اپنی جامع میں جگہ جگہ رواۃ پر بحث کر آئے تھے؛ لیکن حق یہ ہے کہ جس طرح متونِ احادیث پہلے دورِ تدوین میں اس عمدگی سے تالیف نہ ہوسکے جوتیسرے دور کی تدوین میں ہمیں نظر آتی ہے؛ اِس طرح اسماءالرجال میں بھی جوشانِ تالیف پچھلے دور کی کتابوں میں ملتی ہے وہ پہلے ادوار کی تالیفات سے بہت مختلف اور کامل ہے؛ سوعلماءِتراجم کے عنوان سے ہم اُن ائمہ اسماءالرجال کا ذکر کریں گے، جن کی کتابیں اس وقت اس باب میں علماء کی مراجع ومصادر ہیں، ان ائمہ حدیث میں ابن ابی حاتم، علامہ مزی، حافظ شمس الدین ذہبیؒ، حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ، علامہ بدرالدین عینیؒ زیادہ قابلِ ذکر ہیں۔


ائمہ حدیث کی مختلف الانواع خدمات



یہ حدیث کی مختلف پہلوؤں سے خدمت تھی، جس کا یہ ایک مختصر جائزہ لیا گیا ہے، علمی اور فنی پہلو سے یہ تمام ضروری اُمور تھے جو ان حضرات کی توجہ کا موضوع بنے اور حق یہ ہے کہ ہرایک نے اپنے اپنے موضوع کا حق ادا کردیا ہے، ائمہ حدیث کی مختلف الانواع خدمات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ باب حدیث میں خود نئی راہیں بناتے تھے؛ ہرگز نہیں، خدمتِ حدیث عہدِ صحابہؓ میں ہی مختلف پیمانوں میں ڈھل گئی تھی؛ پھرتابعین کرامؒ ان مختلف راہوں سے حدیث کی خدمت کرتے رہے تھے، ائمہ حدیث نے اپنے انہی اکابر سے حدیث کی خدمت مختلف پہلوؤں سے کرنے کا فن سیکھا۔


صحابہؓ میں خدمتِ حدیث کے مختلف انداز



تدوینِ حدیث کے عنوان میں آپ دیکھ آئے ہیں کہ آنحضرت   کے عہد سے ہی روایت حدیث کا آغاز ہوچکا تھا آپ کے بعد آپ کی تعلیماتِ قدسیہ کی مزید نشرواشاعت ہوئی، صحابہؓ ہرخدمت حدیث میں آگے بڑھتے گئے  اور ہرپہلو سے اُنہوں نے اُس کے گرد حفاظت کے پہرے بٹھائے، مثال کے طور پر ہم دونوں پہلوؤں سے بعض اکابر کے نام یہاں ذکر کرتے ہیں۔


صحابہ ؓ اجمعین میں فقہائے حدیث



ان میں فقہائے حدیث بھی تھے جیسے حضرت معاذ بن جبلؓ (۱۸ھ)، حضرت اُبی بن کعبؓ (۱۹ھ)، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ)، حضرت ابوالدرداءؓ (۳۲ھ)، حضرت علیؓ (۴۰ھ)، حضرت زیدبن ثابتؓ (۴۵ھ)، ام المؤمنین حضرت عائشہؓ(۵۷ھ)، حضرت عبداللہ بن عباسؓ (۶۸ھ)، حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ (۷۴ھ)، حضرت عبداللہ بن عمرؓ (۷۴ھ) وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین۔


روایت میں سبقت لے جانیوالے



حضرت ابوذرغفاریؓ (۳۲ھ)، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ (۳۵ھ)، حضرت عمران بن حصینؓ (۵۲ھ)، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ (۵۵ھ)، حضرت ابوہریرہؓ (۵۷ھ)، حضرت سمرہ بن جندبؓ (۵۹ھ)، حضرت عبداللہ بن عمروؓ (۶۵ھ)، حضرت براء بن عازبؓ (۷۲ھ)، حضرت ابوسعیدالخدریؓ (۷۴ھ)، حضرت انس بن مالکؓ (۹۳ھ) وغیرہم من الاکابر روایت حدیث میں بہت آگے نکلے اور یہاں تک آگے بڑھے کہ فقہاء حدیث بھی ان کے خوشہ چین ہوئے، صرف ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہیں جوکثرتِ روایت میں بھی ان اکابر کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔


تابعینِ کرامؒ میں فقہائے حدیث



حضرت علقمہ بن قیسؒ (۶۲ھ)، مسروق بن اجدعؒ(۶۳ھ)، حضرت سعید بن المسیبؒ(۹۳ھ)، سعید بن جبیرؒ(۹۵ھ)، ابراہیم نخعیؒ (۹۶ھ)، مکحولؒ(۱۰۱ھ)، علامہ شعبیؒ (۱۰۳ھ)، حضرت سالمؒ (۱۰۶ھ)، قاسم بن محمدؒ (۱۰۷ھ)، حضرت حسن بصریؒ (۱۱۰ھ)، ابنِ سیرین (۱۱۰ھ)، قتادہ بن دعامہؒ (۱۱۸ھ)، حماد بن ابی سلمانؒ (۱۲۰ھ) فقہاء حدیث میں اس دور کی معروف شخصیتیں تھیں۔


تابعینِ کرام رحمہم اللہ میں اساتذۂ روایت



حضرت طاوس بن کیسانؒ (۱۰۵ھ)، امام زہریؒ (۱۲۴ھ)، ابوالزنادؒ (۱۳۱ھ)، سلیمان تیمیؒ (۱۴۳ھ)، اعمشؒ (۱۴۷ھ)، عمروبن دینارؒ وغیرہم اساتذۂ کبار روایت حدیث کے نہایت درخشندہ ستارے تھے، ان حضرات کے پاس صحابہؓ کی جمع کردہ تحریریں بھی تھیں۔
یہ صحیح ہے کہ حدیث کے باب میں درایۃً ہویاروایۃً فقہ کے عنوان سے ہو یانقل روایت کے عنوان سے عمومی اقتداء ان متقدمین سے نہیں؛ بلکہ بعد کے بزرگوں سے جاری ہوئی، یہ اس لیئے کہ ہرفن اپنی بہت سی منازل طے کرنے کے بعد ہی اس درجے میں قائم ہوتا ہے کہ اس پر آئندہ باقاعدہ اُصول وفروع کی بنیاد رکھی جاسکے؛ سوہم ائمہ حدیث کے عنوان سے انہی اکابر حضرات کا تذکرہ کریں گے، جن کی اقتداء امت میں جاری ہوئی..... وہ فقہاء حدیث ہوں یاائمہ نقّاد، ائمہ تالیف ہوں یاعلماء تراجم رجال، جوجوحضرات اپنے اپنے فن کے امام ٹھہرے ہم انہیں ہی ائمہ حدیث کے مختلف طبقوں کے تحت ذکر کریں گے، ہرایک نے اپنے اپنے دائرہ میں حدیث کی خدمت اور قوم کی امامت کی اور حق یہ ہے کہ یہ حضرات خدمتِ حدیث میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ اب تاریخ اس باب میں انہی کے سرپر سیادت کا تاج رکھتی ہے، ہاں صحابہ کرامؓ جواپنے کسی فنی کمال کی بناپر نہیں اپنے شرفِ صحابیت کی وجہ سے امت کے مقتداء اور پیشوا ہیں، ان کی پیروی واجب ہے، امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ جیسے ائمہ اصول ان حضرات کے آگے سراُٹھانے کی جرأت نہ کرتے تھے اور اُن کے ارشادات کواپنے لیئے سند سمجھتے تھے۔
اب ہم ان مختلف الانواع ائمہ حدیث کاتذکرہ کرتے ہیں، مجموعی اعتبار سے یہ سب ائمہ حدیث ہیں، فقہاء حدیث ہوں یاائمہ جرح وتعدیل، جامعین حدیث ہوں یاائمہ تخریج، علماء تراجم رجال ہوں یاعہدِ اوّل کے شراحِ حدیث، یہ سب حضرات اس فن کے محسنین میں سے ہیں اور حق ہے کہ ہم ان سب کوائمہ حدیث میں جگہ دیں، فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔


تراجم ائمۂ حدیث



یہ بات تفصیل سے آپ کے سامنے ٓاچکی ہے کہ آنحضرت   نے علمِ دین کا اعلیٰ درجۂ خیر علم فقہ کو قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس سے خیر کا ارادہ کریں اُسے فقہ سے حصہ وافرعطا فرمادیتے ہیں، دوسرے درجہ میں رواتِ حدیث ہیں، جوآنحضرت   کی حدیث کوآگے نقل کرتے ہیں؛ یہاں تک کہ یہ حدیث آگے کسی ایسے شخص کو پہنچ جائے جواس سے پورا پورا فائدہ پالے اور اس کے معانی کی حفاطت کرے؛ جہاں تک صحابہ کرامؓ کا تعلق ہے وہ فقہائے حدیث بھی تھے اور رواۃِ حدیث بھی؛ تاہم جن کا فقہ ان کی روایت پر غالب رہا انہیں فقہائے حدیث کے عنوان سے اور جوروایت میں زیادہ معروف ہوئے ہم انہیں رواۃِ حدیث کے عنوان سے ذکر کریں گے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ روایت میں سبقت لے جانے والے صحابہؓ فقہ پر دسترس نہ رکھتے تھے۔


صحابہ ؓ میں فقہائے حدیث



صحابہ کرامؓ میں فقہائے حدیث بڑی تعداد میں تھے؛ لیکن بطورِ نمونہ ہم یہاں دس بزرگوں کا تذکرہ  کرتے ہیں، فقہ حدیث کی ریاست اُن پر تمام تھی؛ یہی قمررسالت کا علمی ہالہ اور علمِ رسالت کا عملی اُجالاتھے، حضرت معاذ بن جبلؓ (م۳۲ھ)، حضرت ابی بن کعبؓ (م۱۹ھ)، فقیہ عراق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (م۳۲ھ)، فقیہ شام حضرت ابوالدرداءؓ (م۳۲ھ)، فقیہ عراق حضرت علیؓ (م۴۰ھ)، حضرت زید بن ثابتؓ (م۴۵ھ)، حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ (م۵۲ھ)، فقیہ مکہ، ترجمان القرآن، حضرت عبداللہ بن عباسؓ (م۶۸ھ)، فقیہ مدینہ، حبرالامۃ حضرت عبداللہ بن عمرؓ (م۷۴ھ) اور حضرت جابر بن عبداللہ الانصاریؓ (م۷۸ھ)۔
پیشتر اس کے کہ ہم ان فقہائے حدیث کا علیٰحدہ علیٰحدہ ذکر کریں ناانصافی ہوگی؛ اگر اس شخصیت کریمہ کا ذکر نہ کیا جائے جن کی طرف کل فقہائے صحابہؓ اپنی مشکلات میں رجوع کرتے تھے اور اُنہیں بلاتامل فقہائے صحابہؓ کا علمی مرکز سمجھا جاتاتھا، ہماری مراد یہاں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں جواہلِ بیتِ رسالت میں اس نوعمری میں لائی گئیں کہ معارف رسالت کواس عمر میں پوری طرح حفظ کرنے کی ان سے بجا طور پر اُمید کی جاسکے، اس عمر میں آپؓ نے علمِ رسالت کواپنے پاس اس طرح محفوظ کرلیا کہ حضوراکرم   کے بعد دُنیائے اسلام نصف صدی تک اُن کے علم سے منور ہوتی رہی، ہم نے دوسرے فقہائے صحابہ رضی اللہ عنہم کی فہرست میں اُن کا ذکر نہیں کیا کہ ماں ہرجہت سے بچو ں میں ممتاز رہے اور یہ مرکزِ علم اپنے تمام اطراف میں برابر کا ضیا بار رہے۔
حافظ شمس الدین الذہبیؒ (م۷۴۸ھ) حفاظِ حدیث کے تذکرہ میں حضرت ام المؤمنینؓ کے بارے میں لکھتے ہیں:

"أم عبد الله حبيبة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بنت خليفة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أبي بكر الصديق رضي الله عنه: من أكبر فقهاء الصحابة، كان فقهاء أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يرجعون إليها"۔            

   (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۶)

ترجمہ:اُمِّ عبداللہ حضورِ پاک   کی حبیبہ، رسول اللہ   کے خلیفہ کی بیٹی بڑے فقہائے صحابہؓ میں سے تھیں، فقہائے صحابہؓ (اپنے مسائل میں) اُن کی طرف رجوع کرتے تھے۔

اب ہم فقہائے صحابہؓ کا مندرجہ بالاترتیب سے ذکرکریں گے، یہ ترتیب ان کے مراتب کی نہیں، سنینِ وفات سے لی گئی ہے۔


(۱)حضرت معاذ بن جبلؓ (۱۸ھ) ابوعبدالرحمان الانصاری



آپ رضی اللہ عنہ اُن ستر صحابہؓ میں سے ہیں جوبیعتِ عقبہ میں حضور   کی خدمت میں حاضر ہوئےتھے، حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ حضورِاکرم   نے صحابہؓ کاذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

"وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ"۔

(مشکوٰۃ:۵۲۶۔ ترمذی، كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ  ،بَاب مَنَاقِبِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي،حدیث نمبر:۳۷۲۴، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:ان میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل ہیں۔

آپ کی فقہی شان کی ایک یہ بھی شہادت ہے کہ آنحضرت   نے آپ کو یمن کا قاضی بناکر بھیجا اور انہیں مسائل غیرمنصوصہ میں اجتہاد کرنے کی اجازت دی، آپ کی نظر میں حضرت معاذ بن جبلؓ ایک مجتہد کی پوری اہلیت رکھتے تھے اور بجا طور پر ایک حاذقؓ مجتہد تھے، حضور   نے اس سلسلہ میں آپؓ کورسول، رسول اللہ کے عنوان سے ذکر کیا ہے، آپ   نے فرمایا:

"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا يُرْضِي بِہٖ رَسُولَ اللَّهِ"۔

(مشکوٰۃ:۳۲۴، رواہ الترمذی وابوداؤد والدارمی)

ترجمہ: سب تعریف اُس خدا کی جس نے اپنے رسول کے رسول کواس بات کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہو۔

حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جابیہ میں جوتاریخی خطبہ دیا تھا، اُس میں فرمایا تھا کہ:

"من اراد ان یسأل عن الفقہ فلیأت معاذًا ومن اراد ان یسأل عن المال فلیأتنی فان اللہ جعلنی لہ خازنا وقاسما"۔    

                (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰)

ترجمہ: جوشخص فقہ کا کوئی مسئلہ جاننا چاہے وہ معاذؓ کے پاس آئے اور جوشخص مال کے بارے میں سوال کرنا چاہے وہ میرے پاس آئے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھےاُن کا خازن اور تقسیم کنندہ بنایا ہے۔

حضرت عمرؓ کے اِس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ عہدِ صحابہؓ میں علمِ فقہ کی کیا عظمت تھی اور مجتہدِ صحابہؓ کی اجتہادی شان کے کیا چرچے ہوتے تھے، حافظ ذہبیؒ حضرت معاذؓ کے ذکر میں لکھتے ہیں:

"کان من نجباء الصحابۃ وفقہائھم"۔             

   (تذکرۃ الحفاظ:۱۸)

آپ بلند شان صحابہ اور ان کے فقہاء میں سے تھے۔



(۲)حضرت اُبی بن کعبؓ (۱۹ھ) ابوالمنذر الانصاری



حضرت ابوبکرالصدیقؓ سیدالمہاجرین ہیں توحضرت ابی بن کعب سیدالانصار تھے، آپ سے بڑے جلیل القدر صحابہؓ نے روایات لی ہیں اور حضرت ابوایوب انصاری، عبداللہ بن عباس، سوید بن غفلہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین جیسے اکابر نے آپ سے کتاب وسنت کی تعلیم پائی، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"حملوا عنہ الکتاب والسنۃ"۔             

  (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶)

ترجمہ: آپ سے ان صحابہ نے کتاب وسنت کا علم حاصل کیا ہے۔

آپؓ کی شخصیت اتنی اُونچی تھی کہ حضرت عمرؓ بھی بعض دفعہ علمی مسائل میں آپ کی طرف رجوع فرماتے، آپؓ صحابہ میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والے تھے، آنحضرت   نے فرمایا:

"أقْرَءھُمْ أبی بِنْ کَعَبْ"۔         

   (مشکوٰۃ:۵۵۰)

ترجمہ:صحابہؓ میں سب سے زیادہ قرآن پڑھے ہوئے ابی بن کعبؓ ہیں۔

حضرت مسروقؓ تابعی (۶۲ھ) نے جن چھ بزرگوں کومرکزِفتوئے تسلیم کیا ہے اُن میں حضرت اُبی بن کعبؓ بھی ہیں۔

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰)

حافظ ذہبیؒ آپ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

"اقرأ الصحابۃ وسید القراء شہدبدراً وجمع بین العلم والعمل"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶)

ترجمہ:صحابہؓ میں سب سے بڑےقاری، قاریوں کے سردار، جنگِ بدر میں شامل ہونے والے اور علم وعمل کے جامع تھے۔

آنحضرت   نے رمضان شریف میں صرف تین راتیں تراویح کی نماز پڑھائی اور پھرتراویح کے لیئے مسجد میں تشریف نہ لائے کہ آپ   کی مواظبت سے یہ نماز امت پرواجب نہ ٹھہرے، حضور   کی عدم موجودگی میں صحابہؓ مسجد میں تراویح کی نماز علیٰحدہ علیٰحدہ جماعتوں میں ادا کرتے رہے، ایک رات حضور   اتفاقاً وہاں آنکلے تودیکھا کہ حضرت اُبی بن کعبؓ مسجد کی ایک طرف تراویح پڑھا رہے ہیں، آپ   نے پوچھا اور جواب ملنے پر اُن کے عمل کی تصویب فرمائی، ارشاد فرمایا:

"أَصَابُوا وَنِعْمَ مَاصَنَعُوا"۔

(سنن ابوداؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۱۱۶۹، شاملہ، موقع الإسلام)

انہوں نے درست کیا اور اچھا ہے جوانہوں نے کیا۔

اِس سے پتہ چلا کہ تراویح کی نماز ان دنوں بھی جماعت سے جاری تھی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ بات جب حضور  کے علم میں آئی توآپ   نے اسے صحیح عمل قرار دیا، اس سے منع نہیں کیا، حضور   کے مسجد میں تراویح نہ پڑھانے کونسخ تراویح نہ سمجھنا اور اُمت میں اس عمل کوپورا مہینہ باقی رکھنا یہ حضرت ابی بن کعبؓ کا ہی اجتہاد تھا، جس نے آنحضرت   سے شرفِ تائید پایا اور امت میں یہ عمل آج تک جاری ہے، حضرت عمرؓ نے جن دوصحابہؓ کوتراویح پڑھانے پر مامور کیا تھا، وہ حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت تمیم داریؓ ہی تھے، خطیب تبریزیؒ لکھتے ہیں:

"احدالفقہاء الذین کانوا یفتون علی عہد رسول اللہ"۔   

  (الاکمال:۵۹۰)

ترجمہ:آپؓ ان فقہائے صحابہؓ میں سے تھے جوآنحضرت   کے عہدِ مبارک میں بھی فتوےٰ دیتے تھے۔

حضور   نے ایک مرتبہ آپ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم پر قرآن پڑھوں، حضرت ابیؓ نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کرکہا ہے، حضور   نے فرمایا: ہاں! حضرت ابیؓ پر رقت طاری ہوئی اور رونے لگے، جس دن آپؓ کی وفات ہوئی، حضرت عمرؓ نے فرمایا:

"الیوم مات سیدالمسلمین"۔                

  (تذکرہ:۱/۱۲)

ترجمہ: آج مسلمانوں کے سردار چل بسے۔



(۳)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ)



خلفائے راشدینؓ کے بعد افضل ترین صحابی سمجھے جاتے ہیں، سابقینِ اوّلین اور کبارِ بدرین سے ہیں، جنگِ بدر میں ابوجہل آپؓ کی تلوار سے ہی واصلِ جہنم ہوا، حضرت عمرؓ نے جب کوفہ کی چھاؤنی قائم کی اور وہاں بڑے بڑے رؤسائے عرب آباد کئے تواُن کی دینی تعلیم کے لیئے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کووہاں مبعوث فرمایا اور اُنہیں لکھا: اے اہلِ کوفہ! میں نے تمھیں اپنے اُوپرترجیح دی ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ کوتمہارے پاس بھیج دیا ہے؛ ورنہ میں اُنہیں اپنے لیئے رکھتا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمرؓ جیسے بزرگ بھی اپنے آپ کو عبداللہ بن مسعودؓ کے علم سے مستغنی نہ سمجھتے تھے، حضرت عمار بن یاسرؓ جب کوفہ کے امیر بنائے گئے توحضرت عمرؓ نے کوفہ والوں کو لکھا:

"قد بعثت اليكم عمار بن ياسر اميرا وعبد الله بن مسعود معلما ووزيرا، وهما من النجباء من اصحاب محمد صلى الله عليه وآله من اهل بدر، فاقتدوا بهما واسمعوا، وقد آثرتكم بعبد الله بن مسعود على نفسي"۔       

     (تذکرہ:۱/۱۴)

ترجمہ:میں نے تمہاری طرف عمار بن یاسرؓ کوامیر اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو معلم اوروزیر بناکر بھیجا ہے اور دونوں حضورؐ کے اعلیٰ درجہ کے صحابہؓ میں سے ہیں اور اہلِ بدر میں سے ہیں تم ان دونوں کی پیروی کرنا اور بات ماننا اور عبداللہ بن مسعودؓ کوبھیج کر میں نے تمھیں اپنے آپ پرترجیح دی ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ اُن دنوں بھی مجتہد صحابہؓ کی پیروی جاری تھی، جوصحابہؓ اس اجتہادی شان پر نہ سمجھے جاتے تھے انہیں ان مجتہدین صحابہؓ کی پیروی کا حکم تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی علمی شہرت تواِس قدر اُونچی تھی کہ آپؓ کے شاگرد کسی صحابی کوبھی علم میں ان سے آگے نہ سمجھتے تھے؛ بلکہ بڑے بڑے صحابہؓ مشکلات مسائل میں آپؓ کے تلامذہ کی طرف رجوع کرتے تھے، آپ حدیث کم روایت کرتے تھے، حضور   کی طرف الفاظ کی نسبت کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیتے، امام ابوحنیفہؒ کوفہ میں آپؓ کی ہی مسندِ علمی کے وارث ہوئے اور آپؒ نے آپؓ کی مسند کو اپنے فیضِ علم سے اور شہرت بخشی، امام ابوحنیفہؒ کے مشہور فقہی مختارات مثلاً نماز میں رکوع کرتے وقت رَفع یدین نہ کرنا، امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھنا، نماز میں آمین آہستہ آواز سے کہنا وغیرہ یہ سب سنن حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ہی مختارات ہیں اور حق یہ ہے کہ آپؓ کی ہی ذاتِ کریمہ تحقیق کی دُنیا میں حنفی مذہب کی اصل قرار پاتی ہے، آپؓ کے صاحبزادہ عبدالرحمنؒ کے پاس ایک کتاب دیکھی گئی، جس کے بارے میں وہ قسم کھاکر کہتے تھے کہ یہ اُن کے والد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔                          

   (جامع بیان العلم لابن عبدالبر:۱/۱۷)

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؓ حدیث لکھنے کے خلاف نہ تھے اور وہ روایات جن میں حضرت عمرؓ کا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت ابوالدرداءؓ اور حضرت ابوذرغفاریؓ کو روایتِ حدیث سے روکنا اور قید کرنا مذکور ہے وہ روایۃً ہرگز صحیح نہیں، اُن کے راوی ابراہیم بن عبدالرحمن (ولادت:۲۰ھ) نے حضرت عمرؓ کا زمانہ نہیں پایا، کوفہ صرف حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ہی مرکزِعلمی نہ تھا، حضرت عمرؓ کے حکم سے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بھی یہاں تشریف لاچکے تھے اور جن صحابہؓ نے وہاں سکونت اختیار کی وہ بھی ایک ہزار پچیس کے قریب تھے، جن میں چوبیس حضراتؓ بدری بھی تھے، ابوالحسن احمدؒ عجلی کی روایت میں وہاں بسنے والے صحابہؓ کی تعداد ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی۔


(۴)حضرت ابوالدرداءؓ(۳۲ھ) عویمربن زیدالانصاری



حافظ ذہبیؒ انہیں الامام الربانی اور حکیم الامت کہتے ہیں، آپؓ اہلِ شام کے عالم فقیہ اور قاضی تھے، صحیح بخاری میں ہے کہ حضورِ اکرم   کی حیات میں چار انصار صحابہؓ کوقرآن کریم یاد تھا:
(۱)ابوالدرداءؓ 
(۲)معاذ بن جبلؓ
(۳)زید بن ثابتؓ
(۴)ابوزیدؓ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"مات النبی   ولم یجمع القرآن غیراربعۃ ابی الدرداء ومعاذبن جبل وزید بن ثابت وابی زید"۔                 

  (تذکرہ:۱/۲۴)

حضرت مسروقؒ تابعی کہتے ہیں:

"وجدت علم اصحاب محمد   انتہی الیٰ ستۃ الی عمر وعلی وعبداللہ ومعاذ وابی الدرداء وزید بن ثابتؓ"۔

ترجمہ: میں نے حضورؐ کے صحابہؓ کے علم کو اِن چھ میں تمام ہوتے پایا (۱)حضرت عمرؓ (۲)حضرت علیؓ (۳)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۴)حضرت معاذؓ (۵)حضرت ابوالدرداءؓ (۶)حضرت زید بن ثابتؓ۔

حدیث میں آپ رضی اللہ عنہ کی علمی عظمت کا اندازہ کیجئے کہ ایک شخص ایک لمبے سفر سے آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہوتا ہے، اُسے دمشق آنے میں سوائے آپؓ سے حدیث سننے کے اور کوئی غرض نہ تھی، وہ حدیث سنتا ہے اور واپس چل دیتا ہے، آپؓ یقیناً اپنے وقت میں اپنے پورے حلقہ کے مرجع اور معلم تھے، کثیر بن قیسؓ اس وقت حضرت ابوالدرداءؓ کے پاس بیٹھے تھے، وہ بیان کرتے ہیں:

"كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَاأَبَاالدَّرْدَاءِ إِنِّي جِئْتُكَ مِنْ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ   لِحَدِيثٍ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ   مَاجِئْتُ لِحَاجَةٍ"۔

(ابوداؤد، كِتَاب الْعِلْمِ،بَاب الْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ،حدیث نمبر:۳۱۵۷، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: میں دمشق کی مسجد میں حضرت ابوالدرداءؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص آپؓ کے پاس آیا اس نے کہا، اے ابوالدرداءؓ! میں مدینہ شریف سے آپؓ کے پاس صرف ایک حدیث کے لیئے آیا ہوں، مجھے اطلاع ملی تھی کہ آپؓ اسے حضور   سے روایت کرتے ہیں، میں اور کسی غرض کے لیئے آپؓ کے پاس نہیں آیا۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ کی شخصیتِ کریمہ اس وقت اکنافِ عالم کے لیےمرجع علم تھی، حضرت علقمہ بن قیسؓ، سعید بن المسیبؓ، خالد بن معدانؓ، ابوادریس خولانیؓ جیسے اکابر تابعین اور آپؓ کے بیٹے حضرت بلالؒ نے آپؓ سے روایت لی ہیں اور انہیں روایت کیا ہے، امام اوزاعیؒ آپؓ کی ہی علمی مسند کے وارث تھے، آپؓ کی اہلیہ اُم الدرداء بھی علمِ فقہ میں بہت اُونچا مقام رکھتی تھیں۔


(۵)حضرت علی مرتضیٰ ؓ (۴۰ھ)



آپؓ بلاشبہ شہرِ علم کا دروازہ تھے، کوفہ آپؓ کی مسندِ علمی تھا اور وہیں آپؓ کی مسندِ خلافت تھی، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) پہلے سے ہی کوفہ میں فقہ وحدیث کا درس دے رہے تھے، اُن کی وفات سے کوفہ میں جوعلمی خلا پیدا ہوگیا تھا، حضرت علیؓ کے وہاں جانے سے کسی حد تک پورا ہوگیا؛ لیکن حضرت علیؓ کے گرد کچھ ایسے لوگ بھی جمع تھے جوعبداللہ بن سبا یہودی کے ایجنٹ تھے اور سبائی سازش کے پروگرام کے تحت مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتے تھے؛ اُنھوں نے حضرت علیؓ کے نام سے اتنی روایات بنائیں کہ اُن کی ہرروایت مشتبہ ہونے لگی کہ حضرت علیؓ نے ایسا کہا ہوگا یا نہ کہا ہوگا؛ سواحتیاط اسی میں سمجھی جاتی رہی کہ حضرت علیؓ کی وہی روایات سبائی سازش سے محفوظ سمجھی جائیں، جوحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد حضرت علیؓ سے نقل کریں، کوفہ کا یہی علمی حلقہ قابلِ اعتماد رہ گیا تھا، اس علمی حلقہ کوحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے علاوہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ اور حضرت موسیٰ اشعریؓ نے بھی جِلابخشی تھی اور وہاں کے لوگوں کوان حضرات سے علمی استفادہ کا پورا موقع مل چکا تھا، حافظ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:

"کان اہل الکوفۃ قبل ان یأتیہم (علی) قداخذوا الدین عن سعد بن ابی وقاص وابن مسعود وحذیفۃ وعمار وابی موسیٰ وغیرہم ممن ارسلہ عمر الی الکوفہ"۔   

   (منہاج السنۃ:۴/۱۵۷)

یہ وہ نابغۂ روزگار ہستیاں تھیں جوحضرت عمرؓ کے حکم سے اس سرزمین میں اُتری تھیں اور کوفہ کودارالفضل ومحل الفضلاء بنادیا تھا (شرح صحیح مسلم للنووی:۱/۱۸۵) افسوس کہ یہ سرزمین حضرت علیؓ کے علوم کواچھی طرح محفوظ نہ رکھ سکی اور حضرت علیؓ کے نام سے بہت سی روایات یونہی وضع کرلی گئیں، سبائیوں نے اپنی مذکورہ سازش سے مسلمانوں کو جوسب سے بڑا نقصان پہنچایا وہ یہ تھا کہ حضرت علیؓ کے نام سے روایات گھڑ کر اُن کی اصل روایات کوبھی بہت حد تک مشتبہ کردیا اور اس طرح امت علم کے ایک بہت بڑے ذخیرے سے محروم ہوگئی، محققین کے نزدیک فقہ جعفری حضرت علیؓ یاحضرت امام جعفرصادقؒ کی تعلیمات نہیں ہیں؛ بلکہ یہ وہ ذخیرہ ہے جوسوادِ اعظم سے اختلاف کرنے کے لیئے ان حضرات کے نام سے وضع کیا گیا ہے؛ تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ حضرت علیؓ کی مرویات اور اُن کے اپنے فقہی فیصلے اہلسنت کی کتب فقہ وحدیث میں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں او راُن کے ہاں حضرت سیدنا علی مرتضیؓ فقہائے صحابہؓ میں ایک عظیم مرتبہ رکھتے تھے، حضرت علیؓ جب کسی سے حضور   کی کوئی حدیث سنتے تواُسے قسم دیتے، بغیرقسم اسے قبول نہ کرتے تھے؛ لیکن قسم لینا محض مزید اطمینان کے لیئے ہوتا تھا نہ اس لیئے کہ اُن کے نزدیک اخبار احاد قابلِ قبول نہیں تھیں، ہاں حضرت ابوبکرؓ ایسی شخصیت ہیں کہ اُن کی روایت کوحضرت علیؓ ان کے شہرۂ آفاق صدق کے باعث فوراً قبول کرلیتے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰) حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی آپؓ نے ایک دفعہ بغیر قسم لیئے قبول کرلی تھی، آپؓ کی قوتِ فیصلہ خدا تعالیٰ کا ایک بڑا عطیہ تھا کہ کسی امت میں اس کی مثال نہیں ملتی؛ خود آنحضرت   نے ارشاد فرمایا: "أقْضَا ھُمْ عَلِیٌ" (مشکوٰۃ:۳۶۵) کہ صحابہؓ میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علیؓ ہیں، آپ   نے انہیں ایک مرتبہ یمن کا قاضی بھی بنایا تھا (مشکوٰۃ:۳۶۶) علامۃ التابعین عامر بن شرحبیل شعبیؒ (۱۰۳ھ) کہتے ہیں کہ اس عہد میں علم ان چھ حضرات سے لیا جاتا تھا:
(۱)حضرت عمرؓ
(۲)حضرت علیؓ
(۳)حضرت ابی بن کعبؓ
(۴)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ
(۵)حضرت زید بن ثابتؓ
(۶)حضرت موسیٰ اشعریؓ، یادرکھیے کہ حضرت علیؓ کوحضورؐ نے انتظامیہ (خلافت) کی بجائے عدلیہ (قضاء) کے زیادہ مناسب ٹھہرایا ہے۔


(۶)کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابتؓ (۴۵ھ) الانصاری



آپ رضی اللہ عنہ کی علمی شخصیت کے تعارف میں یہ جاننا ہی کافی ہے کہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے قرآن کریم آپ سے پڑھا تھا اور حضرت انس بن مالکؓ نے احادیث آپؓ سے روایت کیں، آپؓ کی وفات پر حضرت ابوہریرہؓ نے کہا تھا:

"مأت حبرالامۃ ولعل اللہ یجعل فی ابن عباسؓ منہ خلفاً"۔     

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰)

ترجمہ: امت کے بہت بڑے عالم (حبرالاُمۃ) زید بن ثابتؓ چل بسےاور اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ابنِ عباسؓ کواُن کا جانشین بنادیں گے۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ کواُن کی شخصیت کریمہ پر اتنا اعتماد تھا کہ دونوں حضرات نے اپنے اپنے عہد میں جمع قرآن کی خدمت اُن سے لی، حضرت عمرؓ کی رائے حضرت سلیمان بن یسارؓ نے (۱۰۷ھ) جو بہت بڑے فقیہ اور فاضل تھے اس طرح نقل کی ہے:

"ماکان عمر وعثمان یقدماک علی زید احداً فی الفتوی والفرائض والقرأۃ"۔

(مشکوٰۃ:۵۶۶)

ترجمہ: حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ فقہ، علم وراثت اور قرأت میں حضرت زید بن ثابتؓ پر کسی کوفوقیت نہ دیتے تھے۔

خودآنحضرت   نے فرمایا:

"أفرضهم زيد بن ثابت"۔

(تذکرہ:۳۰)

اِن میں علم فرائض کے سب سے بڑے ماہر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں۔

جب یہ سوار ہوتے یاسواری سے اُترتے توحضرت ابنِ عباسؓ ان کی رکاب پکڑنے کواپنے لیئے عزت سمجھتے تھے۔
حضرت مسروقؒ تابعی (۶۲ھ) کہتے ہیں:

"کان اصحاب الفتویٰ من الصحابۃ عمر وعلی وعبداللہ وزید وابی وابوموسیٰ"۔

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۱/۲۸، شاملہ، المكتبة الرقمية)

خطیب تبریزیؒ لکھتے ہیں:

"کَانَ أَحَدٌ فُقَہَاءِ الصَّحَابَۃِ"۔

(الاکمال:۵۹۹) 

   آپؓ فقہائے صحابہ میں سے ایک تھے۔

اِس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہؓ وتابعینؒ کے دور میں مدارِ شہرت وفضل علم فقہ تھا، رواتِ حدیث فقہاء کے بعد دوسرے درجے میں آتے تھے، قرأت خلف الامام جیسے معرکۃ الآراء مسئلے میں امام مسلمؒ نے آپؓ کا یہ فتویٰ نقل کیا ہے:

"عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنْ الْقِرَاءَةِ مَعَ الْإِمَامِ فَقَالَ لَاقِرَاءَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَيْءٍ"۔

(مسلم، كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ،بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ ،حدیث نمبر:۹۰۳، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: عطاء بن یسار نے حضرت زید بن ثابت سے پوچھا کہ امام کے پیچھے قرآن پڑھا جاسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: امام کے ساتھ کسی حصے میں قرآن پڑھنے کی اجازت نہیں۔



(۷)حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ (۴۴ھ) ذہبی وخطیب تبریزیؒ نے سنِ وفات (۵۲ھ) لکھا ہے



مکہ مکرمہ میں اسلام لائے، حبشہ کی طرف ہجرت کی، حضور   نے انہیں یمن کا والی بنایا، حضرت عمرؓ نے انہیں بصرہ کا والی بنایا اور آپؓ کی اور دیگر صحابہؓ (جن میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بھی تھے) کی آمد سے عراق مرکزِ علم بن چکا تھا، ان دنوں علم سے مراد حدیث اور فقہ تھے، حضرت علیؓ نے معرکۂ تحکیم میں آپؓ (حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ) کواپنا نمائندہ بنایا تھا، یہ مسلسل واقعات آپؓ کی عظمتِ شخصی اور آپؓ کی فقہ وفضیلت کے تاریخی شواہد ہیں، قرآن کریم بہترین آواز سے پڑھنا آپؓ پر ختم تھا؛ تاہم آپؓ امام کے پیچھے قرآن پڑھنے کے قائل نہ تھے، آپؓ نے آنحضرت   سے یہ روایت کی:

"وَإِذَاقَرَأَ فَأَنْصِتُوا"۔

(مسلم، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب التَّشَهُّدِ فِي الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۶۱۲، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:امام جب قرآن پڑھے توتم چپ رہو۔

حضور   کے عہد میں جوچار صحابہؓ فتوےٰ دینے کے مجاز تھے، آپؓ بھی اُن میں تھے، صفوان بن سلیمؒ (۱۳۲ھ) کہتے ہیں:

"لم یکن یفتی فی زمن النبی   غیرعمر ومعاذ وعلی وابی موسیٰ"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۳)

حافظ ذہبیؒ آپ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

"کان عالماً، عاملاً، صالحاً، تالیاً، لکتاب اللہ الیہ المنتہیٰ فی حسن الصوت بالقرآن روی علماً طیباً مبارکاً"۔        

   (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۲)

ترجمہ: آپ عالم تھے، عامل تھے، نیک تھے، اللہ کی کتاب کوپڑھنے والے تھے، قرآن کواچھی آواز سے پڑھنے میں چوٹی کے تھے، آپ نے علم پاکیزہ اور بابرکت روایت کیا ہے۔

آپؓ نے ایک دفعہ حضرت عمرؓ کویہ حدیث سنائی "اذا سلم احدکم ثلٰثاً فلم یجب فلیرجع" جب تم میں سے کوئی (کسی کے دروازے پر) تین دفعہ سلام کہے اور اسے جواب نہ ملے تواُسے واپس لوٹ جانا چاہیے، تو حضرت عمرؓ نے اس پر مزید شہادت طلب کی، حضرت ابوموسیٰؓ بہت گھبرائے؛ یہاں تک کہ آپؓ کو ایک انصاری کے ہاں اس کی تائید ملی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ میں اپنے اکابر کے تعمیلِ حکم کا جذبہ کس درجہ کارفرما تھا، حضرت عمرؓ بھی آپؓ پر معاذ اللہ کوئی الزام نہ لگارہے تھے، صرف دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہ کواحتیاط فی الروایۃ کا سبق دینا مقصود تھا، نہ آپ رضی اللہ عنہ کی غرض یہ تھی کہ خبرِواحد کا اعتبار نہ کیا جائے، حضرت عمرؓ نے خود فرمایا:

"أَمَاإِنِّي لَمْ أَتَّهِمْكَ وَلَكِنْ خَشِيتُ أَنْ يَتَقَوَّلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ  "۔

(مؤطا امام مالکؒ، كِتَاب الْجَامِعِ،وحَدَّثَنِي مَالِك عَنْ الثِّقَةِ عِنْدَهُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ،حدیث نمبر:۱۵۲۰، شاملہ،موقع الإسلام)

ترجمہ: میں آپؓ کو متھم نہیں کررہا تھا میں صرف اس سے ڈراہوا تھا کہ لوگ حضور   پر اپنی طرف سے باتیں نہ لگانے لگیں۔

یاد رکھئے کسی صحابی پر جھوٹ کا الزام نہیں لگتا، صحابہ سب عادل ہیں۔


(۸)فقیہ مکہ ترجمان القرآن حضرت ابنِ عباسؓ (۶۸ھ)



آنحضرت   نے حضرت ابنِ عباسؓ کے لیئے دُعا فرمائی تھی کہ اللہ انہیں علم وفقہ سے مالا مال کرے اور فہم قرآن کی شان بخشے، حضور   کی وفات کے وقت آپؓ کی عمرتیرہ سال تھی، حضور   کے بعد حضرت زید بن ثابتؓ سے تعلیم حاصل کی اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے آپؓ کوترجمان القرآن کا عظیم لقب دیا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۸) اعمشؒ سے روایت ہے کہ جب حضرت علیؓ نے حضرت ابن عباسؓ کوامیرِحج کی ذمہ داری سپرد کی توآپؓ نے ایسا خطبۂ حج دیا کہ اگر اسے ترک اور اہلِ روم سُن لیتے تو سب کے سب مسلمان ہوجاتے، نعیم بن حفصؒ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابن عباسؓ ہمارے ہاں بصرہ میں آئے توعرب میں علم وفضل میں اُن کا ثانی نہ تھا:

"ومافی العرب مثلہ جسماً وعلماً وبیاناً وجمالاً وکمالاً"۔            

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۶)

امام ترمذیؒ کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ نے بھی حضور   کی احادیث آپ   کے بعد جمع کرنی شروع کردی تھیں اور وہ تحریریں لوگوں تک پہنچی ہوئی تھیں، ایک مرتبہ طائف سے کچھ لوگ آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اُن کے پاس آپؓ کی کچھ تحریرات تھیں اور انہوں نے انہیں آپؓ کے سامنے پڑھا۔                    

(کتاب العلل للامام الترمذی)



(۹)حبرالاُمۃ حضرت عبداللہ بن عمرؓ (۷۴ھ) ابوعبدالرحمن العدوی المدنی



حضرت علیؓ کے صاحبزادے محمد بن الحنیفہؒ انہیں "حبرھذہ الامۃ" (اس اُمت کے بڑے عالم) کہا کرتے تھے، امام زہریؒ فرماتے ہیں:

"لاتعد لن برای ابن عمر فانہ اقام ستین سنۃ بعدرسول اللہ  فلم یخف علیہ شئی من امرہ ولامن امراصحابہ"۔                      

  (تذکرہ:۱/۳۸)

ترجمہ:نہ برابر سمجھ ابن عمر کے ساتھ کسی کو رائے میں؛ اس لیئے کہ وہ حضور   کے وصال کے بعد ساٹھ سال تک زندہ رہے اس لیئے نہیں مخفی رہا، آپؓ پر حضور   کے امر سے اور نہ ہی آپ کے صحابہ کے امر سے۔

اہل الرائے ہونا کوئی عیب نہیں جوامام زہریؒ عبداللہ بن عمرؓ کی طرف منسوب کررہے ہیں، یہ علم کا وہ درجہ ہے جومجتہد کوہی نصیب ہوتا ہے، آپؓ سے کثیر تعداد احادیث منقول ہیں؛ لیکن علامہ ذہبیؒ نے انہیں الفقیہ کے پراعزاز لقب سے ذکر کیا ہے، جن دنوں حضرت علی مرتضیٰؓ اور حضرت امیرمعاویہؓ میں اختلاف جاری تھا اور اچھی خاصی تعداد اس بات کی حامی ہوگئی تھی کہ یہ دونوں بزرگ قیادت سے کنارہ کش ہوجائیں توجوشخصیت ان دنوں لوگوں کی نظر میں اس لائق تھی کہ اس پر امت جمع ہوجائے اور اس میں علم وعمل کی پوری استعداد ہوتو وہ آپؓ ہی تھے؛ لیکن آپؓ اس میدان میں آگے آنے  کے لیئے قطعاً تیار نہ ہوئے، حضرت سفیان ثوریؒ (۱۶۱ھ) کہا کرتے تھے:

"یقتدی بعمر فی الجماعۃ وبابنہ فی الفرقۃ"۔             

  (تذکرہ:۱/۳۸)

ترجمہ:لوگوں سے مل کر چلنے میں عمرؓ کی پیروی کی جائے اور لوگوں سے کنارہ کشی میں اُن کے بیٹے کونمونہ بنایا جائے۔



(۱۰)حضرت جابر بن عبداللہ الانصاریؓ (۷۸ھ)



سترانصاریؓ جوبیعتِ عقبہ میں شامل ہوئے آپؓ اُن میں سے تھے، حافظ ذہبیؒ نے انہیں فقیہ اور مفتی مدینہ کے نام سے ذکر کیا ہے اور لکھا ہے:

"حمل عن النبی   علماً کثیراً نافعاً"۔       

  (تذکرۃ:۱/۳۸)

ترجمہ: آپؓ نے آنحضرت   سے بہت سانافع علم پایا۔

حدیث کے اتنے شیدائی تھے کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن انیسؓ کے بارے میں سنا کہ اُن کے پاس ایک حدیث ہے جوانہوں (عبداللہ بن انیسؓ) نے خود حضور   سے سنی ہے وہ اُن دنوں ملکِ شام میں مقیم تھے، اس پر آپؓ نے ایک اُونٹ خریدا اور اس پر ایک ماہ تک سفر کرتے کرتے، ملک شام پہنچے، پیغام بھیجا کہ جابرؓ دروازے پر کھڑا ہے؛ انہوں نے پوچھا: جابر بن عبداللہ ہیں؟ فوراً باہر آئے، حضرت جابرؓ نے اُن سے حدیث پوچھی؛ انہوں نے سنائی(الادب المفرامام بخاری:۲۵۲۔ تذکرہ:۱/۳۸) انہوں نے سنی اور چلدیئے، علامہ عینیؒ فرماتے ہیں وہ حدیث غالباً یہ تھی:

"عَنْ جَابِرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَحْشُرُ اللَّهُ الْعِبَادَ فَيُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ كَمَايَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ أَنَاالْمَلِكُ أَنَاالدَّيَّانُ"۔

(بخاری،كِتَاب التَّوْحِيدِ،َباب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَلَاتَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّالِمَنْ أَذِنَ....)

ترجمہ: حضرت جابرعبداللہ بن انیس سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میں نے حضور   کوفرماتے سنا، اللہ بندوں کوحشر میں ایسی آواز سے بلائے گا جس کوقریب اور بعیدوالے سب یکساں سنیں گے، فرمائیگا میں ہوں بادشاہ انصاف والا۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ کی شخصیت کریمہ کس طرح جمع حدیث اور طلبِ علم میں منہمک تھی، آپؓ مجتہد صحابہؓ میں سے تھے اور حدیث کے مناطِ کلام پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے، مثلاً حضوراکرم   نے فرمایا:

"لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ"۔

(بخاری،كِتَاب الْأَذَانِ، بَاب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا فِي الْحَضَر،حدیث نمبر:۷۱۴، شاملہ، موقع الإسلام)

کہ اُس شخص کی نماز نہیں ہوئی جوسورۂ فاتحہ نہ پڑھے۔

آپؓ نے فرمایا یہ اس شخص سے متعلق ہے جواکیلے نماز پڑھے، جوامام کے پیچھے نماز پڑھے اس پر سورۂ فاتحہ پڑھنا لازم نہیں، حدیث میں مرادِ رسول کوپہنچنا انتہائی گہرا علم ہے، امام احمد بن حنبلؒ جوامام بخاریؒ اور امام مسلم دونوں کے استاد تھے، حضرت جابر بن عبداللہؓ کی اس شرح حدیث سے بہت متاثر تھے، آپؓ فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے؛ مگریہ صاف فرماتے کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر نماز ہوجاتی ہے، امام ترمذیؒ لکھتے ہیں:

"وَأَمَّاأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَقَالَ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَاكَانَ وَحْدَهُ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَيْثُ قَالَ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّاأَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ أَنَّ هَذَا إِذَاكَانَ وَحْدَهُ"۔

(ترمذی،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَاجَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ،حدیث نمبر۲۸۷، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ:امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں کہ حضور   کی حدیث "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ"کامعنی یہ ہے کہ نمازی جب اکیلا نماز پڑھے توفاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی اور آپ نے حضرت جابرؓ کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ جس نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی مگر جب کہ وہ امام کے پیچھے ہو، امام احمدؒ کہتے ہیں کہ حضرت جابرؓ حضور   کے صحابی ہیں وہ حضور  کے ارشاد کا مطلب یہ بیان کررہے ہیں کہ حدیث "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ" سے مراد یہ ہے کہ نمازی جب اکیلا ہو۔

یہ دس مشاہیر کا تذکرہ ہے جوفقہاء صحابہؓ میں بہت ممتاز تھے ،ان کے علاوہ بھی کئی مجتہد صحابہؓ تھے جنھیں فقیہ تسلیم کیا گیا ہے، جیسے عمران بن حصینؓ (۵۲ھ)، حضرت ابوہریرہؓ (۵۸ھ) اور حضرت  امیرمعاویہؓ (۶۰ھ) ان کے علم پر حضرت حسنؓ کوپورا اعتماد نہ ہوتا توکبھی خلافت ان کے سپرد نہ کرتے۔


صحابہ ؓ اجمعین رواۃِ حدیث



ویسے توہرصحابیؓ حضور   سے سنی بات کوآگے پہنچانے کا مکلف تھا؛ لیکن جوصحابہؓ کثرتِ روایت میں معروف ہوئے ان میں سے دس زیادہ ممتاز رواۃِ حدیث کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے، یہ حضرات گواپنی جگہ فقہ میں بھی دسترس رکھتے تھے؛ لیکن ان کی شہرت فقہ حدیث کی بجائے روایتِ حدیث میں زیادہ رہی ہے، رواۃِ حدیث میں کچھ صحابہ مکثرین روایت تھے اور کچھ مقلین روایت۔


مقلین روایت (کم روایت والے)



حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زید بن ارقمؓ، حضرت عمران بن حصینؓ اور دوسرے کئی صحابہؓ تھے جن کے پاس آنحضرت   کی احادیث کی دولت بے پایاں تھی؛ لیکن وہ روایتِ حدیث میں زیادہ محتاط رہے اور بہت کم حدیثیں انہوں نے روایت کیں، اُن کی قلتِ روایت سے اُن کے قلتِ علم پر استدلال کرنا اسی طرح ایک نادانی ہے جیسے کوئی احمق امام ابوحنیفہؒ کی قلتِ روایت پر نظر کرتے ہوئے ان کے قلتِ علم کادعوےٰ کرنے لگے، امام صاحب کی شروطِ روایت بھی توبہت سخت تھیں، یہی وجہ ہے کہ آپؓ نے روایتِ حدیث کی بجائے فقہ حدیث کواپنا موضوع بنایا او راسی پر اپنی ساری عمر صرف کردی؛ گواس ضمن میں بھی آپ کوہزاروں احادیث روایت کرنی پڑیں۔
عبداللہ بن زبیرؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے والد زبیرؓ سے پوچھا، آپؓ حضور   سے اس طرح احادیث روایت کیوں نہیں کرتے؛ جس طرح فلاں فلاں صحابہؓ کرتے ہیں؛ آپؓ نے فرمایا:

"أماإني لم أفارقه ولكن سمعته يقول: مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔

(المفصل في الرد على شبهات أعداء الإسلام، صفحہ نمبر:۱۳/۲۴۴، القسم : العقیدہ)

ترجمہ: میں حضور   سے جدا توکبھی نہیں ہوا؛ لیکن میں نے حضور   کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا اسے جہنم میں ٹھکانہ کرنا ہے۔

آپ کی احتیاط کا منشا یہ تھا کہ حضور   کی بات روایت بالمعنی میں بدلتے ہوئے کوئی بے احتیاطی نہ ہوجائے؛ سوآپ کی قلت روایت قلتِ علم کی وجہ سے نہ تھی۔
جن حضرات نے نسبتاً کثرت سے احادیث روایت کیں ان میں سے ہم دس مشاہیر کا یہاں ذکر کرتے ہیں؛ گوان کے علاوہ بھی ایک کثیرتعداد ان صحابہؓ کی ہے جن سے بہت سی احادیث مروی ہیں اور کتبِ صحاح اُن کی مرویات سے پر ہیں؛ تاہم یہاں صحابہؓ میں سے صرف چند رواۃِ حدیث کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔


صحابہؓ میں رواۃِ حدیث (محدثین کرام)



حضرت ابوذرغفاریؓ (۳۲ھ)، حضرت حذیفہ بن الیمانؓ (۳۵ھ)، حضرت عمران بن حصینؓ (۵۲ھ)، حضرت سعید بن ابی وقاصؓ (۵۵ھ)، حضرت ابوہریرہؓ (۵۷ھ)، حضرت سمرہ بن جندبؓ (۵۹)، حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ (۶۵ھ)، حضرت براء بن عازبؓ (۷۲ھ)، حضرت ابوسعید الخدریؓ(۷۴ھ)، حضرت انس بن مالکؓ (۹۳ھ) رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔

(۱)حضرت ابوذرغفاری ؓ (۳۲ھ)


سابقین اوّلین میں سے ہیں، آپؓ سے حضرت انس بن مالکؓ، زید بن وہبؓ، جبیربن نضیرؓ، احنف بن قیسؓ اور قدمائے تابعین میں سے ایک کثیرتعداد نے روایات لی ہیں، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں "وکان یوازی ابن مسعود فی العلم"علم میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے برابر اُترتے تھے، حدیث روایت کرنا سب سے بڑا فرض جانتے تھے، خود فرماتے ہیں:

قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے؛ اگرتم تلوار میری گردن پر رکھ دو اور مجھے گمان ہوکہ پیشتر اس کے کہ تم اس تلوار کوچلادو میں حضور   کی ایک بات جومیں نے آپ   سے سنی روایت کرسکتا ہوں تومیں ضرور اُسے روایت کرگزرونگا۔       

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸)

اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہؓ کس طرح حضور   کی احادیث کوایک علمی امانت سمجھتے تھے اور انہیں آگے پہنچانے کی ان حضراتؓ کوکتنی فکر تھی، اتفاق دیکھئے کہ آپؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ایک ہی سال فوت ہوئے۔


(۲)حضرت حذیفہ بن الیمانؓ(۳۵ھ)



آپؓ سرِّرسول اللہ (حضور   کے راز دان صحابیؓ) کے طور پر معروف تھے، آپؓ سے حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابوالدرداؓ، جیسے اکابر صحابہؓ نے احادیث روایت کی ہیں اور تابعینؒ کی تو ایک بڑی تعداد نے آپؓ سے احادیث روایت کی ہیں۔


(۳)حضرت عمران حصینؓ (۵۲ھ) ابونجیدالخزاعی



خیبرکے سال اسلام لائے، آپؓ کا اور حضرت ابوہریرہؓ کا اسلام لانے کا ایک ہی سال ہے "کان من فضلاء الصحابۃ وفقہائھم" (الکمال:۶۱۱) حضرت عمرؓ نے آپؓ کوبصرہ روانہ فرمایا؛ تاکہ وہاں کے لوگوں کوفقہ کی تعلیم دیں (تذکرہ:۱/۲۸) آپؓ نے پھر پوری زندگی وہیں بسر کردی، آپؓ سے حسن بصریؒ، امام محمد بن سیرینؒ اور علامہ شعبیؒ جیسے اکابر تابعینؒ نے روایت لی ہیں، حافظ ذہبیؒ فرماتے ہیں:

"له احاديث عدة في الكتب وكان من الباء الصحابة وفضلائهم"۔

     (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۸)

ترجہ:آپؓ ان پانچ ممتاز صحابہؓ میں سے ہیں جوصفین کے معرکہ میں اہلِ شام اور اہلِ عراق میں سے کسی کے ساتھ شامل نہیں ہوئے۔



(۴)حضرت سعدبن ابی وقاصؓ(۵۵ھ)



آپؓ عشرۂ مبشرہ صحابہؓ میں سے ہیں، جنگِ بدر میں شامل ہوئے، آپؓ پہلے فرد ہیں جنھوں نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا، آپؓ سے حضرت عمرؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ نے بھی روایات لی ہیں، حضرت سعید بن المسیبؓ، حضرت علقمہؓ، ابوعثمان النہدیؒ اور حضرت مجاہدؒ جیسے اکابر تابعینؒ آپؓ کے شاگرد تھے، آپؓ معرکہ صفین میں حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ دونوں سے کنارہ کش رہے، حضرت علیؓ آپ کے اس موقف میں آپؓ پر رشک کرتے تھے۔


(۵)حضرت ابوہریرہؓ الدوسی الیمانی (۵۸ھ)



جاہلیت میں نام عبدالشمس تھا، والد نے کنیت ابوہریرہ رکھی، اسلام لانے کے بعد عبدالرحمن سے موسوم ہوئے، خیبر کے سال اسلام لائے، مدینہ ہجرت کی، اصحابِ صفہؓ میں سے تھے، حضور   سے علمِ کثیر پایا، حضور   کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابی بن کعبؓ اور دوسرے کئی اور صحابہؓ سے روایات لیں، امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ آپؓ سے آٹھ سوکے قریب لوگوں نے روایات لیں، ممتاز شاگردوں میں ہمام بن منبہ (۱۱۰ھ)، سعید بن المسیب (۹۳ھ)، مجاہد (۱۰۰ھ)، علامہ شعبی (۱۰۳ھ)، ابن سیرین (۱۱۰ھ)، عطاء بن ابی رباح (۱۱۵ھ)، عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اسماء خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، ابوصالح السمان کہتے ہیں:

"کان ابوہریرۃ من احفظ اصحاب محمد   "۔

اور وہ خود فرماتے ہیں:

"لااعرف احدًا من اصحاب رسول اللہ   احفظ لحدیثہ منی"۔

(تذکرہ:۱/۳۴)

ترجمہ: حضور   کے صحابہؓ میں سے کسی کونہیں جانتا کہ وہ مجھ سے حضور   کی احادیث کا زیادہ یاد کرنے والا ہو۔

جہاں تک روایت کا تعلق ہے توآپؓ سوائے حضرت عبداللہ بن عمروبن عاصؓ کے باقی سب صحابہؓ سے آگے تھے اور وجہ یہ تھی کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ حضور   سے حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لکھتے نہ تھے۔ (بخاری:۱/۳۷)
آنحضرت   نے آپؓ کوقوتِ حافظہ کا دَم کیا تھا، حضرت ابوہریرہؓ اس کے بعد کبھی نہ بھولے، آپؓ سے ساڑھے پانچ ہزار کے قریب حدیثیں مروی ہیں، ان میں سے صحیح بخاری میں ۴۴۸/ اور صحیح مسلم میں ۵۴۵/حدیثیں مروی ہیں۔
حضور   کی وفات کے بعد حضرت ابوہریرہؓ نے بھی احادیث لکھنی شروع کردی تھیں، آپؓ اپنے تلامذہ کویہ تحریرات گاہے بگاہے دکھا بھی دیتے تھے (جامع بیان العلم:۱/۴۷) آپؓ کے شاگردوں نے جوحدیثی مجموعے تیار کیئے اُن میں ہمام بن منبہؒ کا صحیفہ بہت معروف ہے اور چھپ بھی چکا ہے۔
اس درجہ کے عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ آپؓ بلند پایہ فقیہ بھی تھے، امام ذہبیؒ نے "الفقیہ صاحبِ رسول اللہ" کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ کاتعارف کرایا ہے اور لکھا ہے:

"کان من اوعیۃ العلم ومن کبارائمۃ الفتویٰ مع الجلالۃ والعبادۃ والتواضع"۔

(تذکرہ:۳۱)

ترجمہ:علم کا محفوظ خزانہ تھے فتوےٰ دینے والے بڑے ائمہ میں سے تھے، جلالۃ عبادت اور توضع والے تھے۔



(۶)حضرت سمرہ بن جُندب ؓ (۵۹ھ)



خطیب تبریزی رحمۃ اللہ علیہ آپؓ کے تعارف میں لکھتے ہیں:

"کان من الحفاظ المکثرین عن رسول صلی اللہ علیہ وسلم وروی عنہ جماعۃ"۔

(الاکمال:۶۰۱)

ترجمہ:آپؓ ان حفاظ حدیث میں سے تھے جنھوں نے حضور   سے کثرت سے روایت کی ہے اور اُن سے (تابعین کی) ایک جماعت روایت کرتی ہے۔

آپؓ نے خود بھی ایک مجموعہ حدیث جمع کررکھا تھا، ابنِ سیرینؒ کہتے ہیں اس میں علمِ کثیر موجود ہے (تہذیب التہذیب:۴/۲۳۶) حضرت حسن بصریؒ نے بھی اُسے روایت کیا ہے (تہذیب التہذیب:۲/۲۶۹) حافظ ابنِ حجرعسقلانیؒ (۸۵۲ھ) نے اس مجموعہ حدیث کونسخہ کبیرہ کہہ کر ذکر کیا ہے (تہذیب التہذیب:۴/۱۹۸) جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں کثیر حدیثی مواد موجود تھا۔


(۷)حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ (۶۵ھ)



ان خواص صحابہؓ میں سے ہیں جنھیں حضور   نے حدیث لکھنے کی اجازت دے رکھی تھی آپؓ نے خود ایک مجموعہ حدیث لکھا تھا، جسے "الصادقہ" کہتے ہیں، اُن کے والد اُن سے عمر میں صرف تیرہ سال بڑے تھے، آنحضرت   اُنھیں اُن کے والد عمروبن العاصؓ فاتح مصر پر بھی فضیلت دیتے تھے، حضرت ابوہریرہؓ نے صرف اُن کے بارے میں اعتراف کیا ہے کہ اُن کی روایت کردہ احادیث میری مرویات سے زیادہ ہیں، سعید بن المسیبؒ، عروہ بن الزبیرؒ، وہب بن منبہؒ، عکرمہؒ وغیرہم سب آپؓ کے شاگرد تھے، تابعی کبیر حضرت مجاہدؒ (۱۰۰ھ) ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک صحیفہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے تکیےکے نیچے رکھا دیکھا تھا۔

(جامع بیان العلم:۱/۷۲۔ اُسدالغابہ:۳/۲۳۴)

حضرت ابوہریرہؓ کی کل مرویات ۵۳۷۴/ہیں اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمروؓ کی مرویات مجھ سے زیادہ ہیں؛ اس لیئے کہ وہ حضور   سے حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہ تھا۔


(۸)حضرت براء بن عازبؓ(۷۲ھ) ابوعمارۃ الانصاری



عبداللہ بن حنش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براءؓ کے پاس لوگوں کوقلم ہاتھ میں لیئے (حدیثیں) لکھتے پایا (سنن دارمی:۱/۱۰۶۔ جامع بیان العلم:۱/۷۳) آپؓ کوفہ میں رہتے تھے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ کوفہ ان دنوں کس طرح علم حدیث کا گہوارہ بنا ہوا تھا، آپؓ جنگِ جمل، صفین اور نہروان تینوں میں حضرت علیؓ کے ساتھ رہے، خطیب تبریزیؒ لکھتے ہیں:

"روی عنہ خلق کثیر"۔ 

(الاکمال:۵۹۱)     

آپؓ سے بہت لوگوں نے احادیث روایت کیں۔



(۹)حضرت ابوسعید سعد بن مالکؓ الخدری (۷۴ھ) الانصاری الخزرجی



بیعت الرضوان کے شاملین میں سے تھے، اہلِ صفّہ میں سے تھے، آپ نے حدیث کثرت سے روایت کی، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"روى حديثا كثيرًا وأفتى مدة وأبوه من شهداء أحد، عاش أبوسعيد ستا وثمانين سنة وحدث عنه بن عمرو جابر بن عبد الله وغيرهما من الصحابة"۔

(الاکمال:۵۸۹)

ترجمہ: آپ نے بہت احادیث روایت کی ہیں اور مدتوں فتوےٰ دیتے رہے، آپ کے والد شہداء احد میں سے تھے ابوسعید ۸۶/سال زندہ رہے، آپ سے حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت جابر بن عبداللہ اور دوسرے کئی صحابہ نے روایت کی ہے۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آپؓ کی متفق علیہ تینتالیس حدیثیں ہیں اور علی الانفراد دونوں کتابوں میں سولہ اور باون حدیثیں ملتی ہیں، خطیب تبریزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"کان من الحفاظ المکثرین والعلماء الفضلاء العقلاء روی عنہ جماعۃ من الصحابۃ والتابعین"۔

(الاکمال:۶۰۲)

آپ کثرت سے احادیث بیان کرنے والے حفاظ میں سے تھے اور علماء وعقلاء میں سے تھے، آپ سے کئی صحابہ وتابعین نے روایت کی ہے۔



(۱۰)حضرت انس بن مالکؓ (۹۳ھ) ابوحمزۃ الانصاری الخزرجی



آپؓ آنحضرت   کے نو سال کے قریب خادم رہے اور سفروحضر میں حضور   کی احادیث سنیں، حضور   کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت ابی بن کعبؓ اور کئی دوسرے اکابر صحابہؓ سے فیضِ علم پایا (تذکرہ:۱/۴۲) آپؓ بعض اوقات حضور   سے حدیثیں لکھ بھی لیتے تھے؛ بلکہ حضور کوسنا بھی دیتے تھے، آپؓ کے شاگرد سعید بن ہلال کہتے ہیں:

"كنا إذاأكثرنا على أنس بن مالك رضي الله عنه اخرج إلينا محالا عنده فقال: هذه سمعتها من النبي صلى الله عليه و سلم فكتبتها وعرضتها عليه"۔

(المستدرك على الصحيحين،كتاب معرفة الصحابةؓ،ذكرأنس بن مالك الأنصاريؓ،حدیث نمبر:۶۴۵۲،شاملہ،الناشر:دارالكتب العلمية،بيروت)

ترجمہ: ہم جب حضرت انسؓ سے زیادہ روایات پوچھتے تو آپؓ اپنے مجلات (بیاضیں) نکال لیتے اور فرماتے یہ وہ روایات ہیں جو میں نے حضور   سے سنی ہیں، میں نے انھیں لکھا اور انھیں آپ   کو پڑھ کر بھی سناتا رہا۔

حفاظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"وله صحبة طويلة وحديث كثير وملازمة للنبي صلى الله عليه وآله وسلم..... وكان آخر الصحابة موتا"۔                       

   (تذكرة الحفاظ للذھبی:۱/۳۷،شاملہ، المكتبة الرقمية)

ترجمہ:آپؓ نے (حضورؐ کی) لمبی صحبت پائی، بہت حدیث سنی اور آپؐ کی مجلس کولازم پکڑا..... آپؓ صحابہؓ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے۔

آپؓ کے شاگردوں میں حضرت حسن بصریؒ، امام زہریؒ، قتادہؒ، ثابت بنانی، حمید الطویل زیادہ معروف ہیں، امام ابوحنیفہؒ نے بھی آپ رضی اللہ عنہ کودیکھا ہے، حضرت امامؒ نے آپؓ سے روایات لی ہیں یانہیں؟، اس میں اختلاف ہے، حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں انہیں بصرہ بھیج دیا (الاکمال:۶۰۲) تاکہ وہاں لوگوں کوفقہ کی تعلیم دیں، اِس صورتِ حال سے پتہ چلتا ہے کہ عراق کی درسگاہیں کس طرح علم وحدیث وفقہ سے مال مال ہورہی تھیں، امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ۱۲۸/حدیثیں بالاتفاق روایت کی ہیں اور ہردواماموں نے آپ رضی اللہ عنہ کی ۸۰/ اور ۷۰/دیگرروایات علی الانفراد روایت کی ہیں، حضرت انسؓ کے شاگردوں میں سے ابان بن یزید نے آپؓ کے سامنے ہی آپ رضی اللہ عنہ کی مرویات لکھنی شروع کردی تھیں۔
  (نوٹ):اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ روایتِ حدیث میں بھی امتیازی شان رکھتی ہیں، آپؓ سے دوہزار دوسو دس حدیثیں مروی ہیں، جن میں سے ۲۲۹/صحیح بخاری میں ۲۳۲/صحیح مسلم میں مروی ہیں اور ان میں سے ۱۷۴/روایات پر شیخین کا اتفاق ہے، جس طرح دس فقہائے حدیث میں ہم نے حضرت عائشہؓ کوذکر نہیں کیا کہ ماں امتیازی شان رکھتی ہے، اس طرح ہم نے ان دس رواۃِ حدیث میں حضرت ام المؤمنینؓ کا ذکر نہیں کیا؛ تاکہ یہاں بھی ان کی امتیازی حیثیت قائم رہے، ان دس ممتاز روایتِ حدیث کے ساتھ ساتھ جواور صحابہؓ روایتِ حدیث میں پیش پیش رہے، ان میں حضرت اسید بن حضیرؓ (۲۰ھ)، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ (۳۲ھ)، حضرت عبادہ بن صامتؓ (۳۴ھ)، حضرت سلمان فارسیؓ (۳۵ھ)، حضرت عبداللہ بن سلامؓ (۴۳ھ)، حضرت عمروبن حزمؓ (۵۳ھ)، مولودِ کعبہ حضرت حکیم بن حزامؓ (۵۴ھ)، حضرت عقبہ بن عامر الجہنیؓ (۵۸ھ) زیادہ روایات کے راوی ہیں اور حق یہ ہے کہ ہرایک صحابیؓ نے اپنی اپنی بساط اور اپنی اپنی یاد کے مطابق حضور   سے احادیث سنیں اور آپ   سے دیکھی ہربات کو آگے پہنچانے اور پھیلانے میں اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا؛ یہاں تک کہ علمِ پیغمبر   اِن مقدس راویانِ حدیث (صحابہ کرامؓ) سے آگے تابعینؒ کو منتقل ہوا..... جس طرح صحابہ کرامؓ میں فقہاء حدیث اور رواۃِ حدیث امتیازی صورتوں میں علم حدیث کی خدمت کرتے رہے تھے، تابعین کرامؒ میں بھی خدمتِ حدیث کا وہی رنگ اُبھرا، کچھ بزرگ فقہاء حدیث کی حیثیت سے زیادہ نمایاں ہوئے توکچھ حضرات نے روایتِ حدیث کی حیثیت سے اس فن کی زیادہ خدمت کی اور یہ بھی صحیح ہے کہ بیشتر حضرات ان میں سے بھی فقہ اور حدیث دونوں کے جامع تھے، فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔


تابعین کرامؒ میں فقہاء حدیث



حضرت علقمہ بن قیسؒ (۶۱ھ)، مسروق بن اجدعؒ (۶۳ھ)، سعید بن المسیبؒ (۹۳ھ)، حضرت سعید بن جبیرؒ (۹۵ھ)، ابراہیم نخعیؒ (۹۶ھ)، مکحولؒ (۱۰۱ھ)، علامہ شعبیؒ (۱۰۳ھ)، حضرت سالمؒ (۱۰۶ھ)، حضرت قاسم بن محمدؒ (۱۰۷ھ) حماد بن ابی سلیمانؒ (۱۲۰ھ) کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔


(۱)حضرت علقمہ بن قیسؒ النخعی الکوفی (۶۲ھ)



حافظ ذہبیؒ تذکرۃ الحفاظ میں صحابہ کرامؓ کے تذکروں کے بعد کبرائے تابعینؒ کا آغاز آپؒ سے میں کرتے ہیں، آپؒ حضوراکرم   کی حیات میں پیدا ہوئے اور آپ   کے بعد نصف صدی تک زندہ رہے، آپؓ فقیہ عراق ابراہیم نخعیؒ کے ماموں اور مرکزِ علم کوفہ ابوعمرواسود بن یزیدؒ کے چچا تھے، علقمہ اور اسود دونوں حضرات فقہ حنفی کی اساس سمجھے جاتے ہیں، آپؒ کے علم وفضل کا اندازہ امام ربّانی عبداللہ بن مسعودؓ کے اس ارشاد سے دیکھئے:

"مااقرأ شیئا ومااعلم شیئا الاوعلقمۃ یقرؤہ ویعلمہ"۔    

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۵)

ترجمہ:جو کچھ میں پڑھتا اور جانتا ہوں علقمہ بھی اُسے پڑھ چکے اور جان چکے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے اس کہنے کا اثر تھا کہ حضرت علقمہ باوجود یہ کہ صحابیؓ نہ تھے، صحابہ کرامؓ آپؒ سے مسائل پوچھنے آتے تھے، اُن کی زبان سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا علم بولتاتھا، قابوس بن ابی ظبیانؒ کہتے ہیں:

"ادرکت ناسا من اصحاب النبی   وہم یسألون علقمۃ ویستفتونہ"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۵)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے علاوہ آپؒ نے حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور حضرت ابوالدرداءؓ سے بھی حدیث پڑھی، فقہ کی تعلیم حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے پائی۔


(۲)حضرت مسروق بن اجدعؒ (۶۳ھ) ابوعائشہ الہمدانی الکوفی الفقیہ



آپؒ نے حضرت ابن مسعودؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت اُبی بن کعبؓ سے علم حاصل کیا، حضرت ابوبکرصدیقؓ کے پیچھے نماز پڑھی، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے آپؒ کو متبنی بنایا ہوا تھا، فقیہ عراق ابراہیم نخعیؒ، علامہ شعبیؒ، ابوالضحیؒ، ابواسحاقؒ اور ایک کثیر تعداد لوگ آپؒ سے فیضیاب ہوئے، فقہ میں قاضی شریحؒ (حضرت عمرؓ کے زمانے کے مشہور قاضی) سے فائق سمجھے جاتے ہیں، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"وکان اعلم بالفتویٰ من شریح وکان شریح یستشیرہ وکان مسروق لایحتاج الی شریح"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۷)

ترجمہ: آپ فقہ میں شریح سے فائق تھے، شریح آپ سے پوچھتے تھے؛ لیکن آپ شریح کے محتاج نہ تھے۔



(۳)حضرت سعید بن المسیبؒ (۹۴ھ)



حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں پیدا ہوئے، حضرت عثمانؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابوہریرہؓ، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور کئی دوسرے صحابہؓ سے حدیث پڑھی، حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے آپؒ کومفتی ہونے کی سند دی، حضرت قتادہ بن دعامہؒ (۱۱۸ھ) کہتے ہیں: میں نے سعید بن المسیبؒ سے بڑا عالم کسی کونہیں دیکھا، امام علی بن المدینیؒ (۲۳۴ھ) کہتے ہیں:

"لَاأَعْلَمُ فِي التَّابِعِينَ أَوْسَعَ عِلْمًا مِنْ سَعِیْدٍ، وَهُوَعِنْدِي أَجَلُّ التَّابِعِينَ"۔

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۱/۴۴، شاملہ،المكتبة الرقمية،الناشر: دارالكتب العلمية، بيروت،لبنان)

آپؒ خود کہتے ہیں میں نے حضورِ اکرم   کے فیصلوں اور حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے فیصلوں کو جاننے والا اپنے سے زیادہ کسی کونہیں پایا، امام زہریؒ (۱۲۴ھ) کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے عدالتی فیصلوں کا بھی زیادہ علم انہی کوتھا۔
طلبِ حدیث کا یہاں تک شوق تھا کہ ایک ایک حدیث کے لیئے کئی کئی دنوں اور راتوں کا سفر اختیار فرماتے؛ سویہ گمان نہ کیا جائے کہ فقہاء حدیث کے مخالف ہوتے ہیں، علمِ فقہ حدیث کے بغیر کیسے چل سکتا ہے۔


(۴)حضرت سعید بن جبیرؒ (۹۵ھ) الفقیہ الکوفی

آپؒ کے علم کا اندازہ اس سے کیجئے کہ موسمِ حج میں اہلِ کوفہ حضرت ابنِ عباسؓ سے اگر کوئی مسئلہ پوچھتے توآپؓ کہتے:"ألَیْسَ فِیْکُمْ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ؟" کیا تم میں سعید بن جبیر نہیں ہیں؟ عبادت میں یہ سعادت ملی کہ کعبہ میں داخل ہوکر جوفِ کعبہ میں ایک قرآن ختم کیا (تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۲، من حماد بن ابی سلیمان) یہ سعادت کسی اور کونہیں ملی۔


(۵)حضرت ابراہیم نخعیؒ (۹۶ھ) فقیہ کوفہ


حضرت علقمہ بن قیسؒ، مسروقؒ، اسود بن یزیدؒ سے تعلیم پائی اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی مسندِ علمی کے وارث ٹھہرے بچپن میں حضرت ام المؤمنینؓ کی بھی زیارت کی، مشہور محدث اعمشؒ فرماتے ہیں:

"کان ابراہیم صیر فیا فی الحدیث وکان یتوقی الشھرۃ ولایجلس الی اسطوانۃ"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۶۹، من حماد بن ابی سلیمان)

اِس سے پتہ چلتا ہے کہ کوفہ کس طرح علمِ حدیث کا مرکز بنا ہوا تھا، ابراہیم نخعیؒ اگردیگر محدثین کی طرح مرکزِ روایت بن کر نہ بیٹھے تواس کی وجہ ان کی عزلت گرینی تھی؛ ورنہ علم میں تویہ حال تھا کہ جب فوت ہوئے توعلامہ شعبیؒ نے کہا:

"مَا خَلَّفَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ"۔

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۱/۵۹، شاملہ،المكتبة الرقمية،الناشر: دارالكتب العلمية، بيروت،لبنان)

آپؒ نے اپنے بعد کوئی اپنا مثل نہیں چھوڑا۔

سعید بن جبیرؒ (۹۵ھ) کے بارے میں کوفہ والوں کوحضرت ابنِ عباسؓ کہتے تھے کیا تم میں سعید بن جبیرؒ نہیں ہیں؟ یعنی ان کے ہوتے ہوئے تم مجھ سے مسائل پوچھتے ہو؟ حضرت ابراہیم نخعیؒ کے علم کا یہ حال تھا کہ حضرت سعید بن جبیرؒ لوگوں کوکہتے:

"تَسْتَفْتُوْنِيْ، وَفِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيّ؟!"۔

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۱/۵۹، شاملہ،المكتبة الرقمية،الناشر: دارالكتب العلمية، بيروت،لبنان)

ترجمہ: تم مجھ سے مسائل پوچھتے ہو؟ اور تم میں ابراہیم نخعیؒ موجود ہیں۔



(۶)حضرت ابوعبداللہ مکحول الہذلی (۱۰۱ھ) الحافظ فقیہ الشام



ابوامامۃ الباہلیؒ، واثلہ بن الاسقعؒ، انس بن مالکؓ، محمود بن الربیعؒ، عبدالرحمن بن غنمؒ، ابوادریس الخولانیؒ سے حدیث پڑھی، حدیث کومرسل بھی روایت کرتے اور ابی بن کعبؓ، عبادہ بن الصامتؓ اور حضرت ام المؤمنینؓ سے بھی درمیانے راوی کوذکر کیئے بغیر روایت کردیتے تھے، آپؒ سے ایوب بن موسیٰؒ، علاء بن حارثؒ، زید بن واقدؒ، حجاج بن ارطاۃؒ، امام اوزاعیؒ اور سعید بن عبدالعزیزؒ نے روایات لی ہیں، آپؒ نے مصر، عراق اور حجاز ہرجگہ طلبِ علم میں سفر کیا، امام زہریؒ فرمایا کرتے تھے: علماء تین ہیں، ان میں آپؒ مکحول رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ذکر کرتے (دوسرے سعید بن المسیبؒ اور علامہ شعبیؒ ہیں) ابوحاتمؒ کہتے ہیں:

"مَاأَعْلَمَ بِالشَّامِ أَفْقَهُ مِنْ مَكْحُوْلٍ"۔

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۱/۸۲، شاملہ،المكتبة الرقمية،الناشر: دارالكتب العلمية، بيروت،لبنان)

ترجمہ:شام میں مکحولؒ سے بڑا فقیہ میں نے نہیں دیکھا۔

خطیب تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

"لم يكن في زمان مكحول أبصربالفتيا منه، وكان لايفتي حتى يقول: لاحول ولاقوة إلابالله، هذا رأي والرأي يخطئ ويصيب"۔

(طبقات الفقہاء:۱/۷۵، المؤلف:أبوإسحاق الشيرازي، شاملہ،موقع الوراق)

حضرت مکحول کے زمانہ میں فتویٰ دینے کی بصیرت سب سے زیادہ آپ میں تھی اور آپ فتوےٰ نہ دیتے جب تک"لاحول ولاقوة إلابالله" نہ پڑھ لیتے اور فرماتے یہ میری رائے ہے اور رائے خطا بھی کرتی ہے اور درست بھی ہوتی ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لفظ رائے ان دنوں کسی پہلو سے معیوب نہ سمجھا جاتا تھا۔


(۷)ابوعمروعلامہ شعبیؒ (۱۰۳ھ) الہمدانی الکوفی



آپؒ علامۃ التابعین کے لقب سے معروف تھے، علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں:

"کان اماماً حافظاً فقیہا متقنا"۔

آپؒ نے حضرت عمران بن حصینؓ، جریر بن عبداللہؓ، حضرت ابوہریرہؓ، ابن عباسؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عدی بن حاتمؓ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے احادیث لی ہیں، آپ امام ابوحنیفہؒ کے سب سے بڑے استاد تھے۔

(تذکرہ:۱/۷۵)

علامہ شعبیؒ سے اسماعیل بن ابی خالد، اشعث بن سواء، داؤد بن ابی ہند، زکریا بن ابی زائدہ، مجالد بن سعید، اعمش، امام ابوحنیفہ، ابن عون، یونس بن ابی اسحاق، سری بن یحییٰ نے احادیث روایت کی ہیں، کوفہ کے قاضی بھی رہے، پانچ سو کے قریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پایا، امام ابنِ سیرینؒ فرماتے ہیں:

"الزم الشعبی فلقدرأیتہ یستفتیٰ والصحابۃ متوافرون"۔  

(تذکرہ:۱/۷۶)

ترجمہ: تم شعبی کی مجلس کولازم پکڑو، میں نے لوگوں کوان سے مسائل پوچھتے دیکھا؛ حالانکہ صحابہ بڑی تعداد میں موجود ہوتے تھے۔

پھرایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:

"قدمت الکوفۃ وللشعبی حلقۃ واصحاب رسول اللہ یومئذ کثیر"۔

ترجمہ: میں کوفہ آیا اور وہاں علامہ شعبیؒ کا ایک بڑا حلقہ دیکھا؛ حالانکہ ان دنوں صحابہ کثیر تعداد میں موجود تھے۔

ابومجلزرحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

"مارأیت افقہ من الشعبی لاسعید بن المسیب ولاطاؤس ولاعطاء ولاالحسن ولاابن سیرین"۔      

      (تذکرہ:۱/۷۹)

ترجمہ: میں نے علامہ شعبیؒ سے بڑا فقیہ کسی کو نہیں پایا نہ حضرت سعید بن المسیب کونہ طاؤس کو نہ عطا بن ابی رباح کونہ حسن بصری کواور نہ امام ابنِ سیرین کو۔

مگرآپؒ کے ذہن میں علم فقہ کی اتنی عظمت تھی کہ کھلے بندوں فرماتے: ہم فقیہ نہیں ہم تومحدث ہیں، جوروایت ملے اسے آگے پہنچا دیتے ہیں:

"قَالَ الشَّعْبِيُّ: إِنَّالَسْنَا بِالْفُقَهَاءِ، وَلَكِنَّا سَمِعْنَا الْحَدِيثَ فَرَوَيْنَاهُ الْفُقَهَاءَ"۔

(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۱/۶۶، شاملہ،المكتبة الرقمية،الناشر: دارالكتب العلمية، بيروت،لبنان)

ترجمہ: شعبی کہتے ہیں، ہم فقہاء نہیں ہیں، بات صرف یہ ہے کہ ہم نے حدیث سنی اور اسے فقہاء تک پہنچادیا۔

وہ کون سے فقہاء کرام ہیں جن تک آپ نے حدیثیں پہنچادیں اور ان کے سامنے اپنے آپ کوفقیہ نہ جان سکے؟ ان میں سرِفہرست امام ابوحنیفہؒ ہیں، آپ نے اگرامام ابوحنیفہؒ کو نہ دیکھا ہوتا توشاید اتنی بات نہ کہتے۔



(۸)سالم بن عبداللہ بن عمرؒ (۱۰۶ھ) فقیہ مدینہ



حضرت سالمؓ حضرت عمرؓ کے پوتے، علم وعمل کے جامع اور اپنے زمانہ کے الفقیہ اور الحجہ تھے، اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت ام المؤمنینؓ، حضرت ابوہریرہؓ، رافع بن خدیجؓ، حضرت سفینہؓ اور افضل التابعین حضرت سعید بن المسیبؒ سے علم حاصل کیا اور حدیث پڑھی، آپؒ سے عمروبن دینارؒ، امام زہریؒ، صالح بن کیسانؒ، موسیٰ بن عقبہؒ اور حضرت حنظلہ بن ابی سفیانؒ نے تعلیم پائی، خطیب تبریزیؒ لکھتے ہیں:

"احدفقہاء المدینۃ من سادات التابعین وعلمائہم وثقاتہم"۔     

    (الاکمال:۶۰۳)

ترجمہ: مدینہ کے فقہا میں سے ایک تھے سادات تابعین میں سے تھے، ان کے علماء اور ثقہ لوگوں میں سے تھے۔



(۹)قاسم بن محمدؒ (۱۰۷ھ) فقیہ مدینہ



حضرت قاسمؒ حضرت ابوبکرؓ کے پوتے، علم وعمل کے جامع اور مدینہ کے فقہاء سبعہ میں سے ایک تھے، اپنی پھوپھی حضرت ام المؤمنینؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت امیرمعاویہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت فاطمہ بنتِ قیسؓ سے حدیث پڑھی اور تعلیم حاصل کی اور آپؒ سے آپؒ کے بیٹے عبدالرحمنؒ، امام زہریؒ، ابن المنکدرؒ، ربیعہ الرایؒ، افلح بن حمیدؒ، حنظلہ بن ابی سفیانؒ، ایوب السختیانیؒ جیسے ائمہ علم نے روایات لیں اور اکتسابِ علم کیا، آپؒ سے دوسو کے قریب حدیثیں مروی ہیں، ابوالزناد عبدالرحمٰن (۱۳۱ھ) کہتے ہیں:

"مارأیت فقیہاً اعلم من القاسم ومارأیت احدًا اعلم بالسنۃ منہ"۔ 

(تذکرہ:۹۱)

ترجمہ: میں نے قاسم سے بڑا فقیہ کسی کونہیں دیکھا اور نہ کسی کودیکھا جو ان سے زیادہ سنت جاننے والا ہو۔

ابنِ سعد کہتے ہیں: "کان اماماً فقیہاً ثقۃً رفیعاً ورعاً کثیرالحدیث"۔
یحییٰ بن سعیدؒ کہتے ہیں: "ماادرکنا بالمدینۃ احداً نفضلہ علی القاسم بن محمد"۔

(الاکمال:۶۱۸)

ترجمہ: ہم نے مدینہ شریف میں کسی کونہ پایا جسے قاسم بن محمدپر فضیلت دے سکیں۔



(۱۰)حماد بن ابی سلیمانؒ (۱۲۰ھ)



حضور   کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالکؓ کے شاگرد تھے، امیرالمؤمنین فی الحدیث شعبہ (۱۶۰ھ) اور حضرت سفیان ثوریؒ نے آپ سے حدیث روایت کی ہے (الاکمال:۵۹۶) آپ ابراہیم نخعیؒ کے فیصلوں اور ان کے فقہی آراء کے سب سے بڑے عالم تھے، امام ابوحنیفہؒ کے استاد تھے، حضرت حمادؒ کے بعد آپ ہی سیدنا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی اس مسند علمی کے وارث ہوئے، امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے بھی آپ سے روایات لی ہیں۔
تابعین میں فقہاء حدیث صرف یہی دس حضرات نہیں، ان کے علاوہ بھی اس طبقہ میں بہت سے فقہاء اعلام ہوئے جوفقہ اور حدیث کے جامع تھے، ان میں حضرت حسن بصریؒ (۱۱۰ھ)، امام ابنِ سیرینؒ (۱۱۰ھ)، قتادہ بن دعامہؒ (۱۱۸ھ) بھی بے شک فقہ حدیث اور استنباط مسائل میں بہت اُونچا مقام رکھتے تھے۔
اب ہم یہاں تابعین کے ان اساتذہ روایت کا ذکر کرتے ہیں جوصحابہؓ کے علم کو لے کر بحروبر میں پھیلے اور ان کی محنتوں سے روایات حدیث آگے تبع تابعین تک پہنچیں، علمِ حدیث کوآج بیشک ان شخصیات کریمہ پر ناز ہے، تابعین کے فقہاء حدیث بے شک ائمہ روایت بھی ہیں اور ان کا ذکر پہلے آچکا ہے؛ لیکن یہ اساتذہ روایت اس فن میں زیادہ معروف اور ممتاز ہوئے ہیں۔


تابعین کرام میں اساتذہ روایت



ابوبردہؒ(۱۰۴ھ)، طاؤس بن کیسانؒ(۱۰۵ھ)، عکرمہؒ(۱۰۷ھ)، حسن بصریؒ (۱۱۰ھ)، ابنِ سیرینؒ (۱۱۰ھ)، عطا بن ابی رباحؒ (۱۱۵ھ)، امام نافعؒ (۱۱۷ھ)، میمون بن مہرانؒ (۱۱۷ھ)، امام زہریؒ (۱۲۴ھ)، عمروبن دینارؒ (۱۲۶ھ)، ابواسحاق السبیعی (۱۲۷ھ)، عبدالرحمن ابوالزنادؒ(۱۳۱ھ)، سلیمان التیمیؒ(۱۴۳ھ)، ہشام بن عروہؒ(۱۴۶ھ)، اعمشؒ(۱۴۷ھ) رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔


(۱)ابوبردہ بن ابی موسیٰ الاشعریؒ (۱۰۴ھ)



اپنے والد حضرت موسیٰ اشعریؓ، حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت حذیفہؓ، حضرت عبداللہ بن سلامؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے حدیث پڑھی، قاضی شریح کے بعد کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے، آپؒ سے آپ کے بیٹے بلال الامیرؒ، پوتے برید بن عبداللہؒ، حضرت ثابت بنانیؒ، قتادہ بن دعامہؒ، بکیربن الاشج، ابواسحاق شیبانیؒ اور کئی دوسرے حضرات نے روایت کی ہے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"کان علامۃ کثیر الحدیث"۔ 

  (تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۱/۷۳، شاملہ،المكتبة الرقمية،الناشر: دارالكتب العلمية، بيروت،لبنان)

آپ بڑے عالم تھے اور کثیرالحدیث تھے۔



(۲)طاؤس بن کیسانؒ (۱۰۵ھ) ابوعبدالرحمن الیمانی



حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابنِ عباسؓ، حضرت زید بن ارقمؓ اور حضرت ام المؤمنین سے حدیث پڑھی اور ان سے اُن کے بیٹے عبداللہ، امام زہری، ابراہیم بن میسرہ، ابوالزبیر مکی، عبداللہ بن ابی نجیح اور حنظلہ بن ابی سفیان نے حدیث سنی، عمروبن دینار کہتے ہیں: "مارایت احدا مثل طاؤس" میں نے طاؤس جیسا کسی کو نہیں پایا، آپ اہلِ یمن کے شیخ اور مفتی تھے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ فن حدیث میں اس جلالتِ شان کے ساتھ ساتھ فقیہ بھی تھے۔


(۳)عکرمہ ؒ (۱۰۷ھ)



حضرت ابنِ عباسؓ، حضرت ابوہریرہؓ، عقبہ بن عامرالجہنیؓ، حضرت ابوسعید الخدریؓ، حضرت علیؓ اور حضرت ام المؤمنینؓ سے روایات لی ہیں، آپ سے کثیرتعداد لوگوں نے احادیث روایت کی ہیں، حضرت ابنِ عباسؓ کی زندگی میں فتوےٰ دینے لگے، سعید بن جبیرؓ سے پوچھا گیا آپ نے کسی کواپنے سے بڑا عالم پایا، آپ نے کہا ہاں! عکرمہ کو، علامہ شعبیؒ بھی ان کے علم قرآن کے معترف تھے، آپ پر یہ الزام بھی ہے کہ کچھ خارجیت کا ذہن تھا، اس لیئے امام مالکؒ اور امام مسلمؒ نے اُن سے روایت نہیں لی؛ لیکن اس میں شک نہیں:

"ان ھٰذا الإمام من بحورالعلم"  

کہ یہ امام علم کا ایک سمندر ہے۔



(۴)ابوسعید حسن بن ابی الحسنؒ (۱۱۰ھ) یسارالبصری



حافظ ذہبیؒ نے امام حسن بصریؒ کا الامام اور شیخ الاسلام کہہ کر تعارف کرایا ہے، آپؒ نے حضرت عثمانؓ، عمران بن حصینؓ، مغیرہ بن شعبہؓ، عبدالرحمن بن سمرہؓ، سمرہ بن جندبؓ، حضرت ابن عمرؓ، حضرت جابرؓ اور دیگر کئی صحابہؓ سے احادیث سنی ہیں، آپؒ سے قتادہ بن دعامہؒ، ایوبؒ، ابن عونؒ، یونسؒ، خالدالحذاءؒ، ہشام بن حسانؒ، حمیدالطویلؒ، جریر بن حازم، ربیع بن الصبیح اور ابان بن یزید وغیرہم نے روایات لی ہیں، امام حسن بصری ثقہ، حجۃ، مامون، عابد وزاہد اور کثیرالعلم ہیں، حظیب تبریزی لکھتے ہیں:

"ہوامام وقتہ فی کل فن وعلم وزھد وورع وعبادۃ"۔   

  (تذکرہ:۱/۶۷)

ترجمہ: آپ اپنے وقت میں ہرفن اورہرعلم کے امام تھے، زہد پرہیزگاری اور عبادت میں بھی۔

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"حافظ، علامہ، من بحورالعلم، فقیہ النفس، کبیرالشان عدیم النظیر ملیح التذکیر، بلیغ الموعظۃ رأس فی انواع الخیر"۔         

  (تذکرہ:۱/۶۷)

ترجمہ:حافظ تھے، علامہ تھے، علم کے سمندر تھے، فقیہ النفس تھے بڑی شان تھی، ان کی نظیر نہ تھی، وعظ بہت اچھا کہتے، نصیحت مؤثر ہوتی، انواع خیر کا مرکز تھے۔

البتہ آپ کی مرسل روایات کو محدثین نے قبول نہیں کیا "وماارسلہ فلیس ہو حجۃ" مشہور بات چلی آتی ہے کہ آپ کی مرسل روایت حجت نہیں۔


(۵)امام ربانی محمدبن سیرین (۱۱۰ھ)



حضرت عثمانؓ کے آخر عہد خلافت میں پیدا ہوئے، علمِ تعبیر کے بے مثل عالم تھے، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عمران بن حصینؓ، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابن عمرؓ سے حدیث پڑھی، آپ سے ایک خلقِ کثیر نے فیضِ علم پایا؛ انہیں حدیث میں حضرت حسن بصریؒ سے اثبت مانا گیا ہے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"کان فقیہاً امامًا غزیرالعلم ثقہ ثبتاً علامۃ فی التعبیر راساً فی الورع وامہ صفیۃ مولاۃ لابی بکر الصدیقؓ"۔                       

  (تذکرہ:۱/۷۳)

ترجمہ: آپ فقیہ تھے، امام تھے، ماہر علم تھے، ثقہ تھے، اچھے ضبط والے تھے، علم تعبیر کے ماہر تھے، پرہیزگاری میں بہت اُونچے تھے، آپ کی والدہ صفیہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آزاد کردہ باندی تھیں۔



(۶)عطاء بن ابی رباحؒ (۱۱۴ھ)



ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت ابوسعید خدریؓ سے حدیث پڑھی، آپؒ سے ایوبؒ، ابن جریح رحمہ اللہ، امام اوزاعیؒ، امام ابوحنیفہؒ، ہمام بن یحییٰ، جریر بن حازمؒ اور بہت سے ائمہ علم نے روایات لی ہیں، حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"قال ابوحنیفۃ مارأیت احداً افضل من عطاءِ"۔

(تذکرہ:۱/۹۲)

ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ کہتے ہیں: میں نے عطا سے کسی کوبہتر راوی نہیں پایا۔

یہاں مطلق دیکھنا مراد نہیں، آپ صرف اپنے اساتذہ میں انہیں سب سے افضل کہہ رہے ہیں، حضرت امام باقر بھی فرماتے ہیں:

"مابقی علی وجہ الارض اعلم بمناسک الحج من عطاء"۔

مناسک حج جاننے والا کوئی روئے زمین پر عطاء سے بڑھ کر نہ تھا..... آپ کی بعض علمی اور فقہی آراء امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں بھی نقل کی ہیں، آپ کی وجاہت علمی دنیائے اسلام میں ہرجگہ مسلم رہی ہے، مکہ کے لوگ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے جب کوئی مسئلہ پوچھتے توآپ فرماتے "تجمعون علی وعندکم عطاء" تم میرے پاس چلے آتے ہو؛ حالانکہ عطاء تمہارے پاس موجود ہیں۔


(۷)امام نافع المدنی ؒ (۱۱۷ھ)



حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت رافع بن خدیجؓ، حضرت ابولبابہؓ، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ سے حدیث پڑھی، آپؒ سے امام اہلِ مکہ ابنِ جریجؒ، امام اہلِ شام امام اوزاعیؒ، امام اہلِ مدینہ امام مالکؒ، امام مصر لیث بن سعد مصریؒ، عقیل بن خالدؒ، ایوبؒ اور ابن عونؒ نے احادیث روایت کی ہیں۔
جس طرح صحیح بخاری کواصح الکتب کہا گیا ہے عام محدثین کے ہاں "مالک عن نافع عن ابن عمر" کواصح الاسانید کہا گیا ہے، حضرت نافع کہتے ہیں: میں حضرت ابنِ عمرؓ کی خدمت میں تیس سال رہا، اس سے ان کی علمی عظمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، روایت حدیث میں آپ ایک مرکزی شخصیت ہیں۔


(۸)میمون بن معدانؒ (۱۱۷ھ) عالم اہلِ الجزیرہ



ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابنِ عباسؓ، حضرت ابن عمرؓ اور دوسرے کئی صحابہؓ سے احادیث روایت کی ہیں، حضرت عمرؓ اور حضرت زبیرؓ سے بھی مرسل روایات لی ہیں، آپ سے ابوبشر، خصیف، جعفر بن برقان، حجاج بن ارطاۃ، سالم بن ابی المہاجر، امام اوزاعی، ابوالملیح، معقل بن عبیداللہ اور ایک خلیقِ کثیر نے حدیث روایت کی ہے، مشہور فقیہ سلیمان بن موسیٰ کہتے ہیں خلافتِ ہشام میں چار ہی عالم تھے، حسن بصری، مکحول، میمون بن معدان اور زہری، امام احمدؒ کہتے ہیں آپ عکرمہ سے زیادہ ثقہ ہیں، امام نسائی بھی آپ کوثقہ قرار دیتے ہیں۔


(۹)امام زہریؒ (۱۲۴ھ)



اعلم الحفاظ ابنِ شہاب زہری حدیث اور تاریخ کے بڑے امام تھے، آپ نے حدیث صحابہؓ میں سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ، سہل بن سعدؓ، حضرت انس بن مالکؓ سے اور تابعین میں سے حضرت سعید بن المسیبؒ، ابوامامؒ اور ابوسہلؒ وغیرہم من الائمہ الاعلام سے پڑھی، آپ سے صالح بن کیسانؒ، معمرؒ، شعیب بن ابی حمزہؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام اوزاعیؒ، ابن ابی ذئبؒ، لیث بن سعد مصریؒ، سفیان بن عیینہؒ اور دیگر کئی ائمہ علم نے روایت لی ہے، ابن المسیبؒ کے پاس آٹھ سال کے قریب رہے، لیث مصری رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے زہریؒ سے جامع علم کسی کونہیں دیکھا، ترغیب وترہیب کی احادیث ہوں یاانساب عرب کی، قرآن وسنت کی بات ہو یاحلال وحرام کی، ہرموضوع میں سبقت لے گئے نہیں، ابوالزناد رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"کنانطوف مع الزھری علی العلماء ومعہ الالواح والصحف یکتب کلما سمع"۔

(تذکرہ:۱۰۳)

ترجمہ:ہم امام زہری کے ساتھ علماء حدیث کے ہاں گھوما کرتے تھے، آپ کے پاس کاغذات اور تختیاں ہوتیں آپ جوکچھ سنتے تھے، لکھتے جایا کرتے تھے۔

ابن المدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں ثقہ راویوں کا علم حجاز میں زہریؒ اور عمروبن دینارؒ پر بصرہ میں قتادہؒ اور یحییٰ بن کثیرؒ پر، کوفہ میں ابواسحاق السبیعیؒ اور اعمشؒ پر گردش کرتا ہے، اکثر صحیح حدیثیں ان چھ رواۃِ حدیث سے باہر نہیں، محدثین امام زہریؒ کی مرسل روایات کا اعتبار نہیں کرتے، آپ کہیں کہیں روایتِ حدیث کے دوران شرح الفاظ بھی کردیتے تھے، علماء بعض اوقات ان کے ادراج کو حدیث کا جزوسمجھ لیتے اور اُسے حدیث کے طور پر آگے روایت کردیتے؛ تاہم اُن کی علمی عظمت اور حدیثی عبقریت ہردائرۂ علم میں مسلم رہی ہے، آپ جب اپنے شیخ کا نام نہ لیں اور اس سے اُوپر کے شیخ سے صیغہ عن سے روایت کریں تواس سے آپ کی ثقاہت مجروح نہیں ہوتی؛ البتہ اس روایت کی صحت مشکوک ہوگی، شیعہ علماء نے اس تدلیس کوتقیہ سمجھ کر انہیں اپنے ہاں شیعہ شمار کرلیا تھا؛ سوجب کبھی وہ اُن کی روایت پیش کریں تویہ استدلال ان کے ہاں برسبیل مناظرہ نہیں برسبیل مجادلہ ایک الزامی دلیل سمجھا جائے گا۔


(۱۰)امام حرم عمروبن دینار الحافظ (۱۲۶ھ)



صحابہ میں سے حضرت ابنِ عباسؓ، حضرت ابن عمرؓ، حضرت جابرؓ، حضرت انس بن مالکؓ کے اور تابعین میں سے ابوالشعثاء اور طاؤس، کریب، مجاہد کے شاگرد تھے، امیرالمؤمنین فی الحدیث شعبہ، ابن جریج، سفیان الثوری، حضرت حماد بن سلمہ، سفیان بن عیینہ اور حماد بن ابی سلیمان آپ کے شاگرد تھے، شعبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے حدیث میں عمروبن دینارؒ سے اثبت کسی کونہیں پایا، آپ صرف محدث نہیں فقیہ بھی تھے، عبداللہ بن ابی نجیح رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے عمروبن دینارؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، مجاہدؒ اور طاؤسؒ سے کسی کوفقہ میں زیادہ نہیں پایا۔
اِن ائمہ روایت میں پانچ اور حضرات کا بھی ترجمہ شامل کرلیجئے، اس دور میں روایت پر توجہ زیادہ تھی؛ اِس لیئے اس طبقہ میں ہم یہ نام بھی اضافہ کیئے دیتے ہیں۔


(۱)ابواسحاق السبیعیؒ (۱۲۷ھ) عمرو بن عبداللہ




کثرت روایت میں امام زہریؒ کے اقران میں سے ہیں، حضرت علیؓ کودیکھا ہے، حضرت زید بن ارقمؓ، عبداللہ بن عمروؓ، عدی بن حاتمؓ، براء بن عازبؓ، جریر بجلیؓ، جابر بن سمرہؓ سے حدیث پڑھی، تین سو کے قریب اساتذہ سے روایت لی، آپ سے قتادہ، سلیمان التیمی، اعمش، شعبہ، سفیان الثوری، ابوالاحوص، زائدہ، شریک اور سفیان بن عیینہ اور ٓپ کے بیٹے یونس اور پوتے اسرائیل نے روایت کی ہے۔
ابوداؤد الطیالسی کہتے ہیں چارشخصوں میں علم حدیث نمایاں رہا ہے، زہری، قتادہ، ابواسحاق اور اعمش میں..... قتادہ اختلافِ رواۃ میں زہری اسناد میں ابواسحاقؓ، حضرت علیؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ کی مرویات میں اور اعمش ان میں سے ہرایک باب میں آگے تھے۔


(۲)ابوعبدالرحمن ابوالزناد (۱۳۱ھ) عبداللہ بن ذکوانؒ فقیہ المدینہ



حضرت انس بن مالکؓ سے حدیث پڑھی، تابعین میں سے حضرت سعید بن المسیبؒ جیسےاکابر سے علم حاصل کیا، آپ سے امام مالکؒ، سفیان ثوریؒ، لیث مصریؒ، سفیان بن عیینہؒ اور دوسرے کئی اکابر نے روایت لی ہے، لیث بن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے پیچھے تین سو کے قریب فقہ کے طالب علم چلتے دیکھے، امام ابوحنفیہؒ جیسے فقیہ فرماتے ہیں میں نے ربیعہ الرای اور ابوالزناد دونوں کودیکھا ہے اور ابوالزناد کوافقہ (علمِ فقہ میں زیادہ ماہر) پایا ہے۔

"قال ابوحنیفۃ رأیت ربیعۃ وابوالزناد افقہ الرجلین"۔

حضرت امام جیسے نادرۂ روزگار فقیہ کا ان کی فقاہت پر شہادت دینا پتہ دیتا ہے کہ آپ کس درجہ کے عالم تھے؛ اگرہم انہیں فقہاء تابعین میں ذکر کرتے توزیادہ مناسب تھا؛ لیکن چونکہ سفیان بن عیینہؒ آپ کوامیرالمؤمنین فی الحدیث کہتے ہیں، اس لیئے ہم نے انہیں رواۃِ حدیث میں ذکر کیا ہے۔


(۳)سلیمان بن طرفان التیمیؒ (۱۴۳ھ) البصری



حافظ ذہبیؒ انہیں الحافظ، الامام اور شیخ الاسلام لکھتے ہیں، حضرت انس بن مالکؓ اور دیگر محدثینِ کبار سے حدیث پڑھی، آپ سے شعبہ، حضرت عبداللہ بن مبارک، حضرت سفیان الثوری، یزیدبن ہارون، سفیان بن عیینہ اور دیگر کئی ائمہ کبار نے روایت لی، حدیث بڑے ادب سے روایت کرتے:

"کان اذا حدث عن رسول اللہ تغیرلونہ"۔       

   (تذکرہ:۱/۱۴۲)

سفیان کسی بصری محدث کوسلیمان تیمی پر ترجیح نہ دیتے تھے، شعبہ کہتے ہیں میں نے ان سے زیادہ راست گو کسی کو نہیں دیکھا۔


(۴)ہشام بن عروہؒ (۱۴۶ھ)



حضرت زبیرؓ کے پوتے تھے، حافظ ذہبیؒ آپ کوالامام، الحافظ، الحجہ اور الفقیہ کے القاب سے ذکر کرتے ہیں، ان دنوں حدیث اور فقہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے تھے، بہت سے حفاظِ حدیث فقیہ بھی ہوتے تھے، ہشام بن عروہ بھی انہی میں سے تھے، ابن سعد آپ کے بارے میں کہتے ہیں: "کان ہشام ثقۃ، ثبتاً، کثیرالحدیث، حجۃً" ابوحاتم الرازی آپ کوامام فی الحدیث لکھتے ہیں، حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے آپ کے سرپر ہاتھ رکھا تھا اور بچپن میں آپ کے لیئے برکت کی دُعا کی تھی، شعبہ، ایوب، امام مالک، سفیان الثوری، سفیان بن عیینہ، حماد بن سلمہ، حماد بن ابی سلیمان، یحییٰ بن سعید القطان جیسے اکابر آپ کے شاگرد تھے، امام یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا آپ ہشام کوبہتر جانتے ہیں یازہری کو؟ آپ نے کہا دونوں کواور کسی کوکسی پر ترجیح نہ دی، آپ حضرت حسن بصری اور امام ابنِ سیرین کے اقران میں سے تھے۔


(۵)ابومحمدسلیمان الاعمش الکوفیؒ (۱۴۷ھ) الحافظ والثقہ



حضرت انس بن مالکؓ کے شاگرد تھے، مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعیؒ سے بھی حدیث سنی، آپ سے امیرالمؤمنین فی الحدیث شعبہ، سفیان الثوری، سفیان بن عیینہ، وکیع بن الجراح، زائدہ، ابونعیم اور بہت سے لوگوں نے روایت لی ہے، امام ابوحنیفہؒ کے بھی استاد تھے، ابن المدینی کہتے ہیں: آپ سے تیرہ سوکے قریب احادیث مروی ہیں، صدق مقال کا یہ حال تھا کہ لوگ آپ کو مصحف (قرآن) کہتے تھے، یحییٰ بن سعید القطان آپ کوعلامۃ الاسلام کہتے تھے، سترسال تک آپ کی تکبیرِ اولیٰ فوت نہ ہوئی، سفیان بن عیینہ نے آپ کے بارے میں لکھا ہے:

"اقرأہم لکتاب اللہ واحفظہم للحدیث واعلمہم بالفرائض"۔

(سیراعلام النبلاء:۶/۲۲۸،شاملہ، موقع يعسوب)

ترجمہ:سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والے سب سے زیادہ حدیث یاد رکھنے والے اور علمِ وراثت کے سب سے بڑے عالم تھے۔

ِس درجہ کے عالی مرتبت محدثین کوفہ میں بہت ہوئے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ کوفہ ان دنوں کس طرح علم وفضل کا مرکز تھا؛ سویہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ عراق علم حدیث میں حجاز سے پیچھے تھا، عراق نے علم حدیث کے وہ جلیل القدر اور جہابذہ روزگار محدث پیدا کیئے کہ چشم فلک نے ان کی نظیر نہ دیکھی، تذکرۃ الحفاظ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کوفہ علم حدیث کا گہوارہ تھا، یہ تابعین کے اساتذہ روایت کا ذکر تھا، اب ہم ان ائمہ اصول کاذکر کرتے ہیں جن کی علمی بلندی انہیں درجہ اجتہاد پر لے آئی اور امت میں ان کی پیروی جاری ہوئی یاوہ اس مرتبہ پر ٹھہرے کہ اُن کی پیروی کی جاسکے


فقہاء حدیث ائمہ مجتہدین



صحابہؓ وتابعینؒ کے بعد ائمہ مجتہدین کی باری آتی ہے، یہ حضرات علمِ اصول کے امام اور فقہ واحادیث کے جامع تھے ، موضوع ان کا زیادہ ترفقہ رہا، اس لیئے ان کی شہرت مجتہد Theorist کے طور پر زیادہ رہی، محدثین انہیں حفاظِ حدیث میں بھی ذکر کرتے ہیں اور فقہاء انہیں اپنے میں سے مجتہد قرار دیتے ہیں، ان میں سے بعض کی امت میں پیروی جاری ہوئی اور بعض کی نہیں، بعض ان میں سے اپنے اساتذہ سے نسبت برقرار رکھنے کے باعث مجتہد منتسب سمجھے گئے؛ تاہم اس میں شبہ نہیں کہ یہ حضرات حدیث وفقہ کے جامع اور اپنے اپنے درجہ میں مجتہد مطلق کا مقام رکھتے تھے، ان میں ہم حضرت امام ابوحنیفہؒ (۱۵۰ھ)، امام اوزاعیؒ (۱۵۷ھ)، سفیان الثوریؒ (۱۶۱ھ)، امام لیث بن سعد مصریؒ (۱۷۵ھ)، امام مالکؒ (۱۷۹ھ)، امام ابویوسفؒ (۱۸۲ھ)، امام محمدؒ (۱۸۹ھ)، امام شافعیؒ (۲۰۴ھ)، اسحاق بن راہویہؒ (۲۳۸ھ) اور امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) کا ذکر کریں گے، حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ان حضرات کو مجتہد تسلیم کیا ہے، ائمہ اربعہ امام اوزاعی، سفیان الثوریؒ، لیث مصریؒ، امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ اور اسحاق بن راہویہؒ یہ دس حضرات ہوتے ہیں، جومجتہدین کہلائے، یہ حضرات اپنے اپنے وقت کے فقہائے حدیث تھے، اب ان کا فرداً فرداً ذکر ہوتا ہے۔


(۱)حضرت امام ابوحنیفہ ؒ



امام ابوحنیفہؒ (پیدئش: ۸۰ھ) کی شہرت زیادہ ترامام مجتہد کی حیثیت سے ہے؛ لیکن علمائے حدیث نے آپ کو محدثین میں بھی ذکر کیا ہے، محدثین کا ذکر اس عنوان سے کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں سے احادیث سنیں اور ان سے آگے فلاں فلاں نے روایت لیں، حضرت امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں بھی یہ پیرایہ تعارف موجود ہے، حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ (سنہ ۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:

"قد قال الامام علی بن المدینی ابوحنیفہ روی عنہ الثوری وابن المبارک وحماد بن زید وہشام ووکیع وعباد بن العوام وجعفر بن عون وھو ثقہ لاباس بہ وکان شعبہ حسن الرای فیہ"۔             

    (روی حماد بن زید عن ابی حنیفۃ احادیث کثیرۃ، الانتقاء:۱۳۰)

ترجمہ: امام علی بن المدینی کہتے ہیں کہ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، حمادبن زید، ہشام، وکیع، عباد بن عوام، جعفر بن عون نے امام ابوحنیفہؒ سے حدیث روایت کی ہے، ابوحنیفہ ثقہ تھے ان سے روایت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور شعبہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔

حافظ شمس الدین ذہبی لکھتے ہیں:

"وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الاعرج وعدى بن ثابت وسلمة بن كهيل وابي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وابي اسحاق وخلق كثير..... وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وابوعاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وابو نعيم وابو عبد الرحمن المقرى وبشر كثير، وكان اماما ورعا"۔   

  (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶۸)

ترجمہ: امام ابوحنیفہ نے عطاء، نافع، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج، سلمہ بن کہیل، ابی جعفر، محمدبن علی، قتادہ، عمرو بن دینار، ابی اسحاق اور بہت سے لوگوں سے حدیث روایت کی ہے اور ابوحنیفہ سے وکیع، یزید بن ہارون، سعد بن صلت، ابوعاصم، عبدالرزاق، عبیداللہ بن موسیٰ، ابونعیم، ابوعبدالرحمن المقری اور خلق کثیر نے روایت لی ہے اور ابوحنیفہ امام تھے اور زاہد پرہیزگار تھے۔

ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ اہلِ مکہ کے محدث اور مفتی عطاء بن ابی رباح سے کس کس نے حدیث راویت کی ہے؟:

"وعنه ايوب وحسين المعلم وابن جريج وابن اسحاق والاوزاعي وابو حنيفة وهمام بن يحيى وجرير ابن حازم"۔  

        (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۲)

خطیب تبریزی، صاحب مشکوٰۃ لکھتے ہیں:

"سمع عطاء بن ابی رباح وابااسحاق السبیعی ومحمد بن المنکد رونا فعاوہشام بن عروۃ وسماک بن حرب وغیرہم وروی عنہ عبداللہ بن المبارک وکیع بن الجراح ویزید بن ہارون والقاضی ابویوسف ومحمد بن الحسن الشیبانی وغیرہم"۔                 

  (الاکمال:۶۲۴)

ترجمہ: ابوحنیفہؒ نے عطا بن رباح اور ابواسحاق السبیعی اور محمدبن المنکدر اور ہشام بن عروہ اور سماک بن حرب وغیرہ حضرات سے روایت لی اور ابوحنیفہؒ سے عبداللہ بن مبارک اوروکیع بن الجراح اور یزید بن ہارون اور قاضی ابویوسف اور محمد بن حسن الشیبانی وغیرہ حضرات نے روایت لی ہیں ۔

حضرت عبدالرحمن المقری (۲۱۳ھ) جب آپ سے روایت کرتے توفرماتے مجھ سے اس شخص نے یہ حدیث بیان کی جو (فن حدیث میں) بادشاہوں کا بادشاہ تھا، خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں:

"کان اذاحدث عن ابی حنیفۃ قال حدثنا شاہنشاہ"۔

آپ کے اساتذہ وتلامذہ ان کے علاوہ بھی بہت سے تھے، آپ نے بلند پایہ محدثین سے محدثین کے طور پر روایات لیں اور آگے محدثین کے طرز پر انہیں محدثین سے روایت کیا، آپ کے تلامذہ میں سے عبداللہ بن مبارک اور وکیع بن الجراح کے تذکرے کتب رجال میں دیکھیں، یہ حضرات فنِ حدیث میں اپنے وقت کے آفتاب وماہتاب تھے، ان جیسے اکابر محدثین کا حدیث میں آپ کی شاگردی کرنا اس فن میں آپ کی عظمتِ شان کی کھلی شہادت ہے، یہ صحیح ہے کہ آپ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی طرح مکثرین روایت میں سے نہ تھے؛ لیکن اس سے آپ کے علمِ حدیث میں کمزور ہونے کا شبہ کسی جاہل کوبھی نہ ہوسکے گا، محدثین آپ کے ذکر کے بغیرآگے نہ چلتے تھے، مشکوٰۃ شریف حدیث کی کتاب ہے جس میں ایک روایت بھی آپ سے منقول نہیں؛ مگرخطیب تبریزی "الاکمال فی اسماء الرجال" میں آپ کے ذکر کے بغیر آگے نہیں چل سکے، آپ کے وفور علم کی شہادت آپ کودینی پڑی اور ظاہر ہے کہ ان دنوں علم سے مراد علم حدیث ہی لیا جاتا تھا، مصنف مذکور لکھتے ہیں:

"والغرض بایراد ذکرہ فی ہذا الکتاب وان لم نرد عنہ حدیثاً فی المشکوٰۃ للتبرک بہ لعلو رتبتہ ووفور علمہ"    

       (الاکمال فی أسماء الرجال:۶۲۴)

ترجمہ: اورغرض اس کتاب میں آپ کا ذکرلانے سے یہ ہے کہ اگرچہ ہم مشکوٰۃ میں اُن سے کوئی حدیث نہیں لائے ہیں کہ آپ کے ذکر سے برکت حاصل ہوجائے، یہ آپ کے علوِمرتبہ اور وفور علم کی وجہ سے ہے۔

وفورِ علم سے مرادِ حدیث کا علم وافر نہیں تو اور کیا ہے؟ رہا فقہ تویہ علم اسی وقت بنتا ہے جب یہ حدیث پر مرتب ہو اسے علم حدیث لازم ہے؛یہی نہیں کہ آپ نے محدثین کے طرز پر روایات لیں اور آگے روایت کیں؛ بلکہ روایتِ حدیث اور راویوں کے صدق وکذب پر بھی آپ کی پوری نظر تھی، امام اوزاعیؒ سے ایک مسئلے پر گفتگو ہوئی اور دونوں طرف سے احادیث سند کے ساتھ پڑھی گئیں توآپ نے دونوں طرف کے راویوں پر تبصرہ فرمایا اور باوجود یہ کہ دونوں طرف کے روات ثقہ تھے، آپ نے راویوں کے علو فہم پر بحث شروع کردی (سند الانام فی شرح مسند الامام:۲۰) اور دونوں طرف کے راویوں کا نام لے لے کر بتایا کہ حماد بن ابی سلیمان زہری سے افقہ ہیں اور فلاں فلاں سے افقہ ہے اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے مقابلے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہیں، اس سے واضح ہے کہ آپ راویوں پر تنقیدی نظر رکھتے تھے، ایک دوسری جگہ راویوں کے صدق وکذب پر آپ گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"مارأیت احداً افضل من عطاء"۔                 

  (تذکرہ:۱/۹۲)

میں نے عطاء بن ابی رباح سے زیادہ اچھا (راوی) کسی کو نہیں دیکھا...... اور یہ بھی فرمایا:

"مالقیت فیمن لقیت اکذب من جابر الجعفی"۔              

(تہذیب التہذیب:۳/۴۸)

میں جن لوگوں سے ملاہوں ان میں جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا کسی کو نہیں پایا۔

حافظ ابنِ حجر نے زید بن عیاش کے بارے میں آپ کی رائے نقل کی ہے "انہ مجہول" (تہذیب التہذیب:۴/۴۲۴)طلق بن حبیب پر آپ نے اس کے عقیدہ کی رو سے جرح کی ہے "کان یری القدر" (الجواہر المضیہ:۱/۳۰) محدثین ہی راویوں پر اس درجہ تنقیدی نظر رکھتے ہیں، حافظ شمس الدین الذہبیؒ لکھتے ہیں:

"قال ابوحنیفۃ رایت ربیعہ واباالزناد وابوالزناد افقہ الرجلین"۔ 

(تذکرہ:۱/۱۲۷)

ترجمہ:ابوحنیفہؒ کہتے ہیں میں نے ربیعہ اور ابوالزناد دونوں کودیکھا، ابوالزناد زیادہ فقیہ تھے۔

محدثین کا آپ کے متعلق اس قسم کی آراء کا اظہار کرنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ آپ رواۃ حدیث کے فہم ودرایت پر کتنی گہری نظر رکھتے تھے، حضرت سفیان الثوریؒ کے علمی مرتبہ اور شانِ علم حدیث سے کون واقف نہیں، اتنے بڑے محدث کے بارے میں آپ سے رائے لی گئی کہ ان سے حدیث لی جائے یا نہیں؟ امام بیہقیؒ لکھتے ہیں:

"عبد الحميد قال: سمعت أباسعد الصاغاني يقول: جاء رجل إلى أبي حنيفة فقال: ماترى في الأخذ عن الثوري؟ فقال: اكتب عنه ماخلا حديث أبي إسحاق عن الحارث عن علي، وحديث جابر الجعفي"۔

(کتاب القرأۃ للبیہقی:۱۳۴)

ترجمہ: عبدالحمید الحمانی کہتے ہیں میں نے ابوسعدصاغانی کوکہتے ہوئے سنا کہ ایک شخص امام ابوحنیفہ کے پاس آیا اور پوچھا سفیان ثوری سے روایت لینے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ان سے حدیث لے لو؛ ماسوائے ان حدیثوں کے جنھیں وہ ابواسحاق عن الحارث کی سند سے روایت کریں یاجنھیں وہ جابر جعفی سے نقل کریں۔

غور کیجئے جب حضرت امام سفیان ثوری جیسے محدث کے بارے میں بھی آپ سے رائے لی جارہی ہےتو آپ کا اپنا مقام حدیث میں کیا ہوگا؟ اجتہاد واستنباط یاتطبیق وترجیح میں تومجتہدین آپ سے اختلاف کرسکتے ہیں؛ لیکن کسی مقام پریہ کہہ دینا کہ یہ حدیث حضرت امام کونہ پہنچی ہوگی ہرگز درست نہیں؛ اس دور میں یہ بعض الظن اثم کے قبیل میں سے ہے، محدث جلیل ملاعلی قاری احیاء العلوم کی ایک عبارت پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"فالظن بأبي حنيفة أن هذه الأحاديث لم تبلغه ولوبلغته لقال بها قلت هذا من بعض الظن فإن حسن الظن بأبي حنيفة أنه أحاط بالأحاديث الشريفة من الصحيحة والضعيفة، لكنه مارجح الحديث الدال على الحرمة أوحمله على الكراهة جمعا بين الأحاديث وعملا بالرواية والدراية"۔

(سندالانام:۵۲)

الحافظ اور الحجۃ کے درجے کے محدثین توبہت ہوئے؛ لیکن بہت کم ہوئے جن کا علم تمام احادیث کومحیط مانا گیا ہو، حضرت امام ان کبارِ محدثین میں سے ہیں، جن کاعلم تمام احادیثِ صحیحہ اور ضعیفہ کومحیط مانا گیا، ایک مرتبہ یحییٰ بن معینؒ سے امام ابوحنیفہؒ کے متعلق پوچھا گیا توفرمایا کہ ثقہ میں ثقہ ہیں، ایک مرتبہ فرمایا حدیث فقہ میں اور سچے ہیں اور دین کے بارے میں قابلِ اعتماد ہیں۔

(تاریخ بغداد خطیب:۱۳/۴۱۹،۴۲۰)

امام ابوداؤد فرماتے ہیں:

"ان ابا حنیفۃ کان اماما"۔

(تذکرہ:۵/۱۶۰) 

   ترجمہ:بے شک ابوحنیفہؒ امام تھے۔

حضرت سفیان بن عیینہ (۱۹۸ھ) کس پائے کے محدث تھے یہ اہلِ علم سے مخفی نہیں، آپ کوفہ آئے توعلماء حدیث تب آپ سے حدیث سننے کے لیئے تیار ہوئے، جب حضرت امام ابوحنیفہؒ نے آپ کے محدث ہونے کی تصدیق کی، آپ نے فرمایا: یہ شخص عمرو بن دینار کی روایات کا سب سے بڑا عالم ہے، اس پر علماء سفیان بن عیینہ کے گرد جمع ہوگئے، حضرت سفیانؒ کہتے ہیں:

"قدمت الکوفۃ فقال ابوحنیفۃ ہذا اعلم الناس بحدیث عمروبن دینار فاجتمعوا علی فحدثتھم"۔ 

                   (الجواہرالمضیئۃ:۱/۳۰)

سفیان بن عیینہ کومحدث بنانے میں بڑے بڑے محدثین کی محنتیں ہوئیں؛ مگراس میں سبقت حضرت امام ابوحنیفہؒ کی ہے۔

حضرت سفیان خود کہتے ہیں:

"اوّل من صیرنی محدثا ابوحنیفۃ"۔      

(الجواہر نقلاً عن ابن خلکان:۱/۱۰۳)

ترجمہ:جسں نے سب سے پہلے مجھے محدث بنایا ابوحنیفہ تھے۔

حافظ ذہبیؒ فرماتے ہیں محدثِ حرم حضرت سفیان کوفی تھے، اب آپ خود سمجھ لیں کہ آپ نے حضرت امام سے کس قدر استفادہ کیا ہوگا، آپ مسلکاً بھی حنفی تھے۔                    

   (الجواہر:۱/۲۵۰)

یحییٰ بن زکریا ابی زائدہ کی جلالتِ علم سے کون واقف نہیں، حافظ ذہبیؒ انہیں "الحافظ الثبت المتقن الفقیہ"(تذکرہ:۱/۲۴۶) لکھتے ہیں،  آپ حضرت امام کے شاگرد تھے اور بقول حضرت امام طحاویؒ حضرت امام کے اُن پہلے دس اصحاب میں سے تھے جوتدوین علم میں آپ کے ساتھ بیٹھے، فن حدیث کے ان جیسے اکابر کا حضرت امام سے یہ قریبی رابطہ بتلاتا ہے کہ حضرت امام فن روایت میں بھی ان جبالِ علم کے شیخ تھے اور اکابر محدثین نہ صرف ان کے علم حدیث کے قائل تھے؛ بلکہ ان سے اپنے محدث ہونے کی سند لیتے تھے۔


حضرت امام حدیثِ منقول پر عمل کرنے سے پہلے یہ دیکھتے تھے کہ کثیرتعداد متقی لوگ اس حدیث کواِس صحابیؓ سے روایت کرتے ہوں، یہ روایت کرنا لفظاً ضروری نہیں، خبرِواحد اپنی جگہ معتبر ہے؛ لیکن اُن کے ہاں اس کا عمل میں آیا ہوا ہونا ضروری تھا، جوحدیث معمول بہ نہ رہی ہو؛ اِس سے ان کے ہاں سنت ثابت نہیں ہوتی، سنت کے ثابت ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ اس پر عمل بھی ہوتا آیا ہو، امام مالکؒ کانظریۂ حدیث بھی تقریباً یہی تھا، وہ حدیث کی بجائے سنت پر زیادہ زور دیتے تھے؛ مؤطا میں بار بار سنت کا لفظ لاتے ہیں اور اس سے صحابہؓ وتابعینؒ کا تواتر عمل مراد ہوتا ہے جب فتنے پھیلے اور جھوٹ کا بازار گرم ہوا تومحدثین روایت اور اسناد کے گرد پہرہ دینے لگے، اِن بدلے ہوئے حالات میں حدیث سے تمسک بذریعہ اسناد ہونے لگا اور تواتر عمل کی اس طرح تلاش نہ رہی جس طرح پہلے دور میں ہوتی تھی، اس نئے دور کے مجدد حضرت امام شافعیؒ ہیں؛ لیکن اس میں شک نہیں کہ پہلے دور میں حدیث کی بجائے سنت کوزیادہ اہمیت دی جاتی تھی، حافظ شمس الدین الذہبیؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کانظریۂ حدیث اُن کے اپنے الفاظ میں اس طرح نقل کرتے ہیں:

"آخذ بکتاب اللہ فمالم اجد فبسنۃ رسول اللہ والاثار الصحاح عنہ التی فشت فی ایدی الثقات عن الثقات فان لم اجد فبقول اصحابہ اٰخذ بقول من شئت...... وامااذا انتہی الامرالی ابراہیم والشعبی والحسن والعطاء فاجتہد کمااجتہدوا"۔  

(مناقب ابی حنیفۃ للذہبی:۲۰)

ترجمہ: میں فیصلہ کتاب اللہ سے لیتا ہوں جواس میں نہ ملے اسے حضور   کی سنت اور ان صحیح آثار سے لیتا ہوں جوحضور سے ثقہ لوگوں کے ہاں ثقات کی روایت سے پھیل چکے ہوں، ان میں بھی نہ ملے تومیں صحابہ کرامؓ سے لیتا ہوں اور جس کا فیصلہ مجھے اچھا (قوی) لگے لے لیتا ہوں..... اور جب معاملہ ابراہیم نخعیؒ، علامہ شعبیؒ، حضرت حسن بصریؒ اور عطاء بن ابی رباحؒ تک پہنچے تومیں بھی اس طرح اجتہاد کرتا ہوں جس طرح ان پہلوؤں نے اجتہاد کیا تھا۔

حضرت امام یہاں آثارِ صحیحہ کے عملاً پھیلے ہوئے ہونے پر زور دے رہے ہیں اور یہی اُن کا نظریہ حدیث تھا، حضرت علامہ عبدالوہاب الشعرانیؒ (۹۷۳ھ) لکھتے ہیں:

"وقد کان الامام ابوحنیفۃ یشترط فی الحدیث المنقول عن رسول اللہ قبل العمل بہ ان یرویہ عن ذٰلک الصحابی جمع اتقیاء عن مثلہم"۔        

(المیزان الکبریٰ للشعرانی:۱/۶۲)

ترجمہ: امام ابوحنیفہؒ حضور   سےنقل شدہ حدیث کومعمول بہ ٹھہرانے سے پہلے یہ ضروری ٹھہرائے تھے کہ اسے اس صحابیؓ سے ان جیسے نیک لوگوں کی ایک جماعت نے روایت کیا ہو۔

 محقق ابن الہمامؒ (۸۶۱ھ) کی حضرت امام کے اس اصل پر گہری نظر تھی، آپؒ تصریح کرتے ہیں کہ جب کوئی صحابیؓ اپنی روایت کردہ حدیث پر عمل نہ کرے اس کے خلاف فتوےٰ دے تو وہ روایت ازخود حجت نہ رہے گی؛ کیونکہ اس کے ساتھ تواترِ عمل ثابت نہیں ہوسکا، حضرت امام کا یہ نظریہ بیشک نہایت سخت ہے، روایت کے ساتھ راوی کا عمل ساتھ ساتھ چلے، ایسے راوی توصحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بہت کم ملیں گے، حضرت امامؒ تواتر عمل کے اس حد تک قائل تھے کہ وہ اس کی تائید میں ان روایات وآثار سے مدد لیتے تھے، جواپنی جگہ مرسل ہوں؛ مگرعملاً اتصال رکھتے ہوں، آپؒ کی املاء کردہ کتاب الآثار اور امام مالکؒ کے مؤطا میں آپؒ اسی نظریہ کوجگہ جگہ کارفرما پائیں گے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:

"أنہ کان یذھب فی ذلک الی عرضھا علٰی مااجتمع علیہ من الاحادیث ومعانی القرآن فماشذ من ذلک ردہ وسماہ شاذاً"۔                

   (الموافقات للشاطبی:۳/۲۶)

ترجمہ:امام صاحبؒ ایسے موقع پر اس روایت کواس موضوع کی دوسری احادیث اور قرآنی مطالب سے ملاکر دیکھتے جوروایت اس مجموعی موقف سے علیٰحدہ رہتی آپؒ اسے (عمل میں) قبول نہ کرتے اور اس کا نام شاذIsolated رکھتے۔

حضرت امام کے نظریہ حدیث میں یہ اصول بھی کار فرما ہے کہ آثارِ صحابہ اور ضعیف حدیث کوبھی نظرانداز نہ کیا جائے، اُن کے ہاں آثارِ صحابہ اور ضعیف حدیث کے ہوتے ہوئے اجتہاد اور قیاس سے کام نہ لینا چاہئے، اپنی رائے پر ضعیف حدیث اور آثارِ صحابہ کوترجیح دینی چاہیے، یہ صرف حضرت امام کی ہی رائے نہ تھی، کل فقہاء عراق اسی نظریہ کے تھے، علامہ ابنِ حزمؒ نے اس پر فقہاء عراق کا اجماع نقل کیا ہے؛ ضعیف حدیث سے یہاں وہ روایت مراد نہیں، جس کا ضعف انتہائی شدید قسم کا ہویا وہ موضوع ہونے کے بالکل قریب جاچکی ہو، متکلمین کا جوطبقہ مسائل ذات وصفات میں تاویل کی راہ چلا حضرت امام اس مسلک کے نہ تھے، اس باب میں آپ محدثین کی روش پرتھے اور آیات صفات پر بلاتاویل ایمان رکھتے تھے، حافظ ابنِ کثیرؒ (۷۷۴ھ) آپ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:

"هوالامام أبوحنيفة واسمه النعمان بن ثابت التيمي مولاهم الكوفي، فقيه العراق، وأحد أئمة الاسلام، والسادة الاعلام، وأحد أركان العلماء، وأحد الائمة الاربعة أصحاب المذاهب المتنوعة"۔                

   (البدایہ والنہایہ:۱/۱۰۷)

علامہ ذہبیؒ (۷۴۸ھ) آپ کے لیئے امام اعظم کا لقب اختیار کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:

".....کان اماماً ورعاً عالماً عاملاً متعبدا کبیرالشان"۔          

   (تذکرہ:۱/۱۵۸)

الامام اعظم، فقیہ العراق، حضرت امام متورع، عالم، عامل، متقی اور کبیرالشان تھے۔

امام مکی بن ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ اعلم اہل الارض تھے (مقدمہ اوجزالمسالک:۶۰) یعنی کرۂ ارضی کے اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم تھے، علم ان دنوں علمِ حدیث کوہی کہا جاتا تھا، علامہ ابنِ خلدونؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ علم حدیث کے بڑے مجتہدین میں سے تھے (مقدمہ ابنِ خلدون:۴۴۵) اور لکھتے ہیں کہ فقہ میں آپ کا مقام اتنا بلند تھا کہ کوئی دوسرا ان کی نظیر نہ تھا اور ان کے تمام ہمعصر علماء نے ان کی اس فضیلت کا اقرار کیا ہے خاص طور پر امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے(مقدمہ:۴۴۸) امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ) فرماتے ہیں کہ ہم خدائے قدوس کی تکذیب نہیں کرتے، ہم نے امام ابوحنیفہؒ سے بہتر رائے اور بات کسی سے نہیں دیکھی (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۴۹) آپ بھی حضرت امام کے قول پر فتویٰ دیتے تھے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"کان یحییٰ القطان یفتی بقول ابی حنیفہ ایضا"۔       

   (تذکرہ:۱/۲۸۲)

یہ اِس درجہ کے امام تھے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں: "مارأیت بعینی مثل یحییٰ بن سعید القطان"۔    

      (تذکرہ:۱/۲۷۵)

میں نے اپنی آنکھوں سے یحییٰ بن سعید کی مثال کسی کو نہ دیکھا۔

اِس درجے کے عظیم القدر محدث کا فقہی مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کی پیروی کرنا اور اُن کے قول پر فتوےٰ دینا اس با ت کا پتہ دیتا ہے کہ حضرت امامؒ حدیث وفقہ میں کتنا اونچا مقام رکھتے تھے، عبداللہ بن داؤدؒ کہتے ہیں:

"جب کوئی آثار یاحدیث کا قصد کرے تو (اس کے لیئے) سفیانؒ ہیں اور جب آثار یاحدیث کی باریکیوں کومعلوم کرنا چاہے توامام ابوحنیفہؒ ہیں"۔         

   (سیرالاحناف:۲۹)

امام مسعر بن کدامؒ (۱۵۵ھ) کی جلالتِ قدر سے کون واقف نہیں، شعبہ کہتے ہیں ہم نے اُن کا نام مصحف (قرآن) رکھا ہوا تھا، یحییٰ بن سعید القطانؒ کہتے ہیں میں نے حدیث میں ان سے زیادہ ثابت کسی کونہیں پایا، محمد بن بشرؒ کہتے ہیں میں نے اُن سے دس کم ایک ہزار احادیث لکھیں، یہ مسعربن کدامؒ حضرت امامؒ کے ہم سبق تھے، آپؒ کہتے ہیں:

"طلبت مع ابی حنیفۃ الحدیث فغلبنا واخذنا فی الزھد فبرع علینا وطلبنا معہ الفقہ فجاء منہ ماترون"۔

(مناقب ابی حنیفۃ للذھبی:۲۷)

ترجمہ: میں نے اور ابوحنیفہؒ نے اکٹھے حدیث پڑھنی شروع کی وہ ہم پر غالب رہے اورعلم حدیث میں ہم سب طلبہ سے بڑھ گئے، ہم زہد وسلوک میں پڑے تو اس میں بھی وہ کمال پر پہنچے اور ہم نے اُن کے ساتھ فقہ پڑھنا شروع کیا تواس میں بھی وہ اس مقام پر آپہنچے جو تم دیکھ رہے ہو۔

مسعر بن کدامؒ جیسے محدث کی یہ شہادت حضرت امام کے علم حدیث میں اسبق ہونے کی ایک کھلی دلیل ہے، کم از کم پانچ لاکھ احادیث بیک نظر آپ کے سامنے ہوتی تھیں، آپ نے اپنے بیٹے حماد کوجن پانچ حدیثوں پر عمل کرنے کی وصیت کی ان کے بارے میں فرمایا کہ میں نے یہ پانچ لاکھ احادیث سے انتخاب کی ہیں، وصیت ۱۹/کے تحت لکھتے ہیں:

"ان تعمل بخمسۃ احادیث جمعتھا من خمس مائۃ الف حدیث"۔

(وصیۃ الامام الاعظم لابن حماد:۶۵)

ترجمہ:ان پانچ احادیث کو خاص طور پر معمول بہ بنانا، میں نے انہیں پانچ لاکھ احادیث سے چنا ہے۔

(۱)"وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى"

اورہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہو۔

( بخاری، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب مَاجَاءَ إِنَّ الْأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالْحِسْبَةِ وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَانَوَى،حدیث نمبر:۵۲، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۲)"مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ"

( ترمذی، كِتَاب الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب فِيمَنْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُضْحِكُ بِهَا النَّاسَ،حدیث نمبر:۲۲۳۹، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۳)"لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِهِ"

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنےبھائی کے لیےوہی پسند نہ کرے جواپنےنفس کو پسند ہے۔

(بخاری،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب مِنْ الْإِيمَانِ أَنْ يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِهِ،حدیث نمبر:۱۲، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۴)"إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ"

بے شک حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں۔

(مسندِاحمد،أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ،حَدِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۱۷۶۴۹، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۵)"الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ"

مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

(مسلم،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب بَيَانِ تَفَاضُلِ الْإِسْلَامِ وَأَيُّ أُمُورِهِ أَفْضَلُ،حدیث نمبر:۵۸، شاملہ، موقع الإسلام۔)


حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا نظریہ حدیث



حضرت امام حدیثِ منقول پر عمل کرنے سے پہلے یہ دیکھتے تھے کہ کثیرتعداد متقی لوگ اس حدیث کواِس صحابیؓ سے روایت کرتے ہوں، یہ روایت کرنا لفظاً ضروری نہیں، خبرِواحد اپنی جگہ معتبر ہے؛ لیکن اُن کے ہاں اس کا عمل میں آیا ہوا ہونا ضروری تھا، جوحدیث معمول بہ نہ رہی ہو؛ اِس سے ان کے ہاں سنت ثابت نہیں ہوتی، سنت کے ثابت ہونے کے لیئے ضروری ہے کہ اس پر عمل بھی ہوتا آیا ہو، امام مالکؒ کانظریۂ حدیث بھی تقریباً یہی تھا، وہ حدیث کی بجائے سنت پر زیادہ زور دیتے تھے؛ مؤطا میں بار بار سنت کا لفظ لاتے ہیں اور اس سے صحابہؓ وتابعینؒ کا تواتر عمل مراد ہوتا ہے جب فتنے پھیلے اور جھوٹ کا بازار گرم ہوا تومحدثین روایت اور اسناد کے گرد پہرہ دینے لگے، اِن بدلے ہوئے حالات میں حدیث سے تمسک بذریعہ اسناد ہونے لگا اور تواتر عمل کی اس طرح تلاش نہ رہی جس طرح پہلے دور میں ہوتی تھی، اس نئے دور کے مجدد حضرت امام شافعیؒ ہیں؛ لیکن اس میں شک نہیں کہ پہلے دور میں حدیث کی بجائے سنت کوزیادہ اہمیت دی جاتی تھی، حافظ شمس الدین الذہبیؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کانظریۂ حدیث اُن کے اپنے الفاظ میں اس طرح نقل کرتے ہیں:

"آخذ بکتاب اللہ فمالم اجد فبسنۃ رسول اللہ والاثار الصحاح عنہ التی فشت فی ایدی الثقات عن الثقات فان لم اجد فبقول اصحابہ اٰخذ بقول من شئت...... وامااذا انتہی الامرالی ابراہیم والشعبی والحسن والعطاء فاجتہد کمااجتہدوا"۔  

(مناقب ابی حنیفۃ للذہبی:۲۰)

ترجمہ: میں فیصلہ کتاب اللہ سے لیتا ہوں جواس میں نہ ملے اسے حضور   کی سنت اور ان صحیح آثار سے لیتا ہوں جوحضور سے ثقہ لوگوں کے ہاں ثقات کی روایت سے پھیل چکے ہوں، ان میں بھی نہ ملے تومیں صحابہ کرامؓ سے لیتا ہوں اور جس کا فیصلہ مجھے اچھا (قوی) لگے لے لیتا ہوں..... اور جب معاملہ ابراہیم نخعیؒ، علامہ شعبیؒ، حضرت حسن بصریؒ اور عطاء بن ابی رباحؒ تک پہنچے تومیں بھی اس طرح اجتہاد کرتا ہوں جس طرح ان پہلوؤں نے اجتہاد کیا تھا۔

حضرت امام یہاں آثارِ صحیحہ کے عملاً پھیلے ہوئے ہونے پر زور دے رہے ہیں اور یہی اُن کا نظریہ حدیث تھا، حضرت علامہ عبدالوہاب الشعرانیؒ (۹۷۳ھ) لکھتے ہیں:

"وقد کان الامام ابوحنیفۃ یشترط فی الحدیث المنقول عن رسول اللہ قبل العمل بہ ان یرویہ عن ذٰلک الصحابی جمع اتقیاء عن مثلہم"۔        

(المیزان الکبریٰ للشعرانی:۱/۶۲)

ترجمہ: امام ابوحنیفہؒ حضور   سےنقل شدہ حدیث کومعمول بہ ٹھہرانے سے پہلے یہ ضروری ٹھہرائے تھے کہ اسے اس صحابیؓ سے ان جیسے نیک لوگوں کی ایک جماعت نے روایت کیا ہو۔

 محقق ابن الہمامؒ (۸۶۱ھ) کی حضرت امام کے اس اصل پر گہری نظر تھی، آپؒ تصریح کرتے ہیں کہ جب کوئی صحابیؓ اپنی روایت کردہ حدیث پر عمل نہ کرے اس کے خلاف فتوےٰ دے تو وہ روایت ازخود حجت نہ رہے گی؛ کیونکہ اس کے ساتھ تواترِ عمل ثابت نہیں ہوسکا، حضرت امام کا یہ نظریہ بیشک نہایت سخت ہے، روایت کے ساتھ راوی کا عمل ساتھ ساتھ چلے، ایسے راوی توصحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بہت کم ملیں گے، حضرت امامؒ تواتر عمل کے اس حد تک قائل تھے کہ وہ اس کی تائید میں ان روایات وآثار سے مدد لیتے تھے، جواپنی جگہ مرسل ہوں؛ مگرعملاً اتصال رکھتے ہوں، آپؒ کی املاء کردہ کتاب الآثار اور امام مالکؒ کے مؤطا میں آپؒ اسی نظریہ کوجگہ جگہ کارفرما پائیں گے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:

"أنہ کان یذھب فی ذلک الی عرضھا علٰی مااجتمع علیہ من الاحادیث ومعانی القرآن فماشذ من ذلک ردہ وسماہ شاذاً"۔                

   (الموافقات للشاطبی:۳/۲۶)

ترجمہ:امام صاحبؒ ایسے موقع پر اس روایت کواس موضوع کی دوسری احادیث اور قرآنی مطالب سے ملاکر دیکھتے جوروایت اس مجموعی موقف سے علیٰحدہ رہتی آپؒ اسے (عمل میں) قبول نہ کرتے اور اس کا نام شاذIsolated رکھتے۔

حضرت امام کے نظریہ حدیث میں یہ اصول بھی کار فرما ہے کہ آثارِ صحابہ اور ضعیف حدیث کوبھی نظرانداز نہ کیا جائے، اُن کے ہاں آثارِ صحابہ اور ضعیف حدیث کے ہوتے ہوئے اجتہاد اور قیاس سے کام نہ لینا چاہئے، اپنی رائے پر ضعیف حدیث اور آثارِ صحابہ کوترجیح دینی چاہیے، یہ صرف حضرت امام کی ہی رائے نہ تھی، کل فقہاء عراق اسی نظریہ کے تھے، علامہ ابنِ حزمؒ نے اس پر فقہاء عراق کا اجماع نقل کیا ہے؛ ضعیف حدیث سے یہاں وہ روایت مراد نہیں، جس کا ضعف انتہائی شدید قسم کا ہویا وہ موضوع ہونے کے بالکل قریب جاچکی ہو، متکلمین کا جوطبقہ مسائل ذات وصفات میں تاویل کی راہ چلا حضرت امام اس مسلک کے نہ تھے، اس باب میں آپ محدثین کی روش پرتھے اور آیات صفات پر بلاتاویل ایمان رکھتے تھے، حافظ ابنِ کثیرؒ (۷۷۴ھ) آپ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:

"هوالامام أبوحنيفة واسمه النعمان بن ثابت التيمي مولاهم الكوفي، فقيه العراق، وأحد أئمة الاسلام، والسادة الاعلام، وأحد أركان العلماء، وأحد الائمة الاربعة أصحاب المذاهب المتنوعة"۔                

   (البدایہ والنہایہ:۱/۱۰۷)

علامہ ذہبیؒ (۷۴۸ھ) آپ کے لیئے امام اعظم کا لقب اختیار کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:

".....کان اماماً ورعاً عالماً عاملاً متعبدا کبیرالشان"۔          

   (تذکرہ:۱/۱۵۸)

الامام اعظم، فقیہ العراق، حضرت امام متورع، عالم، عامل، متقی اور کبیرالشان تھے۔

امام مکی بن ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ اعلم اہل الارض تھے (مقدمہ اوجزالمسالک:۶۰) یعنی کرۂ ارضی کے اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم تھے، علم ان دنوں علمِ حدیث کوہی کہا جاتا تھا، علامہ ابنِ خلدونؒ فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہؒ علم حدیث کے بڑے مجتہدین میں سے تھے (مقدمہ ابنِ خلدون:۴۴۵) اور لکھتے ہیں کہ فقہ میں آپ کا مقام اتنا بلند تھا کہ کوئی دوسرا ان کی نظیر نہ تھا اور ان کے تمام ہمعصر علماء نے ان کی اس فضیلت کا اقرار کیا ہے خاص طور پر امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے(مقدمہ:۴۴۸) امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ) فرماتے ہیں کہ ہم خدائے قدوس کی تکذیب نہیں کرتے، ہم نے امام ابوحنیفہؒ سے بہتر رائے اور بات کسی سے نہیں دیکھی (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۴۹) آپ بھی حضرت امام کے قول پر فتویٰ دیتے تھے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"کان یحییٰ القطان یفتی بقول ابی حنیفہ ایضا"۔       

   (تذکرہ:۱/۲۸۲)

یہ اِس درجہ کے امام تھے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں: "مارأیت بعینی مثل یحییٰ بن سعید القطان"۔    

      (تذکرہ:۱/۲۷۵)

میں نے اپنی آنکھوں سے یحییٰ بن سعید کی مثال کسی کو نہ دیکھا۔

اِس درجے کے عظیم القدر محدث کا فقہی مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کی پیروی کرنا اور اُن کے قول پر فتوےٰ دینا اس با ت کا پتہ دیتا ہے کہ حضرت امامؒ حدیث وفقہ میں کتنا اونچا مقام رکھتے تھے، عبداللہ بن داؤدؒ کہتے ہیں:

"جب کوئی آثار یاحدیث کا قصد کرے تو (اس کے لیئے) سفیانؒ ہیں اور جب آثار یاحدیث کی باریکیوں کومعلوم کرنا چاہے توامام ابوحنیفہؒ ہیں"۔         

   (سیرالاحناف:۲۹)

امام مسعر بن کدامؒ (۱۵۵ھ) کی جلالتِ قدر سے کون واقف نہیں، شعبہ کہتے ہیں ہم نے اُن کا نام مصحف (قرآن) رکھا ہوا تھا، یحییٰ بن سعید القطانؒ کہتے ہیں میں نے حدیث میں ان سے زیادہ ثابت کسی کونہیں پایا، محمد بن بشرؒ کہتے ہیں میں نے اُن سے دس کم ایک ہزار احادیث لکھیں، یہ مسعربن کدامؒ حضرت امامؒ کے ہم سبق تھے، آپؒ کہتے ہیں:

"طلبت مع ابی حنیفۃ الحدیث فغلبنا واخذنا فی الزھد فبرع علینا وطلبنا معہ الفقہ فجاء منہ ماترون"۔

(مناقب ابی حنیفۃ للذھبی:۲۷)

ترجمہ: میں نے اور ابوحنیفہؒ نے اکٹھے حدیث پڑھنی شروع کی وہ ہم پر غالب رہے اورعلم حدیث میں ہم سب طلبہ سے بڑھ گئے، ہم زہد وسلوک میں پڑے تو اس میں بھی وہ کمال پر پہنچے اور ہم نے اُن کے ساتھ فقہ پڑھنا شروع کیا تواس میں بھی وہ اس مقام پر آپہنچے جو تم دیکھ رہے ہو۔

مسعر بن کدامؒ جیسے محدث کی یہ شہادت حضرت امام کے علم حدیث میں اسبق ہونے کی ایک کھلی دلیل ہے، کم از کم پانچ لاکھ احادیث بیک نظر آپ کے سامنے ہوتی تھیں، آپ نے اپنے بیٹے حماد کوجن پانچ حدیثوں پر عمل کرنے کی وصیت کی ان کے بارے میں فرمایا کہ میں نے یہ پانچ لاکھ احادیث سے انتخاب کی ہیں، وصیت ۱۹/کے تحت لکھتے ہیں:

"ان تعمل بخمسۃ احادیث جمعتھا من خمس مائۃ الف حدیث"۔

(وصیۃ الامام الاعظم لابن حماد:۶۵)

ترجمہ:ان پانچ احادیث کو خاص طور پر معمول بہ بنانا، میں نے انہیں پانچ لاکھ احادیث سے چنا ہے۔

(۱)"وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى"

اورہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہو۔

( بخاری، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب مَاجَاءَ إِنَّ الْأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالْحِسْبَةِ وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَانَوَى،حدیث نمبر:۵۲، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۲)"مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ"

( ترمذی، كِتَاب الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب فِيمَنْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُضْحِكُ بِهَا النَّاسَ،حدیث نمبر:۲۲۳۹، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۳)"لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِهِ"

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنےبھائی کے لیےوہی پسند نہ کرے جواپنےنفس کو پسند ہے۔

(بخاری،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب مِنْ الْإِيمَانِ أَنْ يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَايُحِبُّ لِنَفْسِهِ،حدیث نمبر:۱۲، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۴)"إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ"

بے شک حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں۔

(مسندِاحمد،أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ،حَدِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۱۷۶۴۹، شاملہ، موقع الإسلام۔)

(۵)"الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ"

مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

(مسلم،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب بَيَانِ تَفَاضُلِ الْإِسْلَامِ وَأَيُّ أُمُورِهِ أَفْضَلُ،حدیث نمبر:۵۸، شاملہ، موقع الإسلام۔)


حضرت امام اعظم ؒ کی تابعیت



حضورِاکرم   کی وفات کے وقت جوعمرحضرت عبداللہ بن عباسؓ کی تھی حضرت امامؒ تقریباً اسی عمر کے تھے کہ حضور   کے کئی صحابہؓ موجود تھے، حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ (۸۷ھ)، سہل بن سعد ساعدیؓ (۹۱ھ)، حضرت انس بن مالکؓ (۹۳ھ)، حضرت عبداللہ بن بسرؓ المازنی (۹۶ھ)، حضرت عامر بن واثلہ الاسقعؓ (۱۰۲ھ) اِس وقت زندہ تھے، حضرت عامرؓ کی وفات کے وقت حضرت امامؒ کی عمر ۲۲/سال کی تھی اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ تورہتے ہی کوفہ میں تھے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

"مولدہ سنۃ ثمانین رای انس بن مالکؓ غیرمرۃ لماقدم علیہم الکوفۃ"۔

(تذکرہ:۱/۱۵۸)

ترجمہ:حضرت امامؒ کی پیدائش سنہ۸۰ھ میں ہوئی، آپؒ نے حضرت انس بن مالکؓ (۹۳ھ) کوجب وہ کوفہ گئے توکئی دفعہ دیکھا۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضورؐ سے گیارہ برس کی عمر میں روایت لے سکتے ہیں توحضرت امامؒ، حضرت انسؓ سے حدیث کیوں نہ سن سکتے تھے، یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی کہ آپؒ نے حضرت انسؓ کی بارہا زیارت کی ہو اور اُن سے احادیث نہ سنی ہوں، نہ حضرت انسؓ کے بارے میں تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی مجالس میں احادیث نہ پڑھتے ہوں، یہ علیٰحدہ بات ہے کہ امام نے انہیں روایت نہ کیا ہو۔


اہلِ کوفہ کی ایک منفرد عادت



اہلِ کوفہ حدیث کے بارے میں کچھ زیادہ ہی محتاط ہوئے ہیں، خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں:

"ان اھل الکوفۃ لم یکن الواحد منہم یسمع الحدیث الابعد استکمالہ عشرین سنۃ"۔

(الکفایہ:۵۴)

اہلِ کوفہ میں سے کوئی بیس سال کی عمر سے پہلے حدیث کا باقاعدہ سماع نہ کرتا تھا۔

اِس صورتِ حال میں بہت ممکن ہے کہ آپؒ نے اُن سے احادیث سنی توہوں لیکن بیس سال سے کم ہونے کے باعث اُنہیں آگے عام روایت نہ کیا ہو، دارِقطنی کا یہ کہنا کہ آپؒ نے حضرت انس بن مالکؓ کودیکھا توضرور ہے؛ لیکن اُن سے احادیث نہیں سنیں، اِس معنی پر محمول ہوگا کہ بیس سال سے کم عمر کے سماع کواہلِ کوفہ سماع شمار نہ کرتے تھے اور جہاں کہیں حضرت امامؒ نے ان سے روایت کردی وہ محض تبرک کے طور پر ہوگی اور عام عادت سے ایک استثناء ہوگا، حافظ بدرالدین عینیؒ اور ملا علی قاریؒ نے حضرت امام رحمہ اللہ کا صحابہؓ سے روایت لینا تسلیم کیا ہے، یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں کہ حضرت امامؒ نے حضرت عائشہ بنتِ عجردؓ سے بھی حدیث سنی ہے اور وہ براہِ راست حضور   سے اپنا سماع پیش کرتی ہیں، حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"ان اباحنیفۃ صاحب الرأی سمع عائشہ بنت عجرد وتقول سمعت رسول اللہ  "۔

(لسان المیزان،حرف العين المهملة،من اسمه عباد وعبادة:۲/۱۲، شاملہ، موقع الوراق)

الحاصل حضرت امامؒ تابعین میں سے تھے اور یہ وہ فضیلت ہے جوائمۂ اربعہؒ میں سے اور کسی کوحاصل نہیں ہے، ملاعلی قاری نے "مسندالانام" میں حضرت امام کی عائشہ بنتِ عجرد سے روایت نقل کی ہے۔


حضرت امام اعظم رحمہ اللہ کی ثقاہت


حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"وقال محمد بن سعد العوفي سمعت ابن معين يقول كان أبوحنيفة ثقة لايحدث بالحديث إلابما يحفظه ولايحدث بمالايحفظ"۔

(تہذیب التہذیب،الجزء العاشر،حرف النون:۱۰/۴۰۱،شاملہ،موقع یعسوب)

ترجمہ:محمدبن سعدؒ عوفی نے یحییٰ بن معینؒ سے سنا وہ کہتے تھے ابوحنیفہؒ ثقہ ہیں، وہی حدیث روایت فرماتے جوآپؒ کویاد ہوتی اور جویاد نہ رہتی اُسے بیان نہ کرتے تھے۔

جن لوگوں نے حضرت امام کی اس ثقاہت کومجروح کرنے کی کوشش کی ہے اُن کے پاس سوائے تعصب اور دشمنی کے اور کوئی وجہ جرح نہیں ملتی..... یہ یحییٰ بن معین کون ہیں اور کس درجے کے ہیں؟ حضرت امام احمدؒ فرماتے ہیں، علم رجال میں یہ ہم میں سے سب سے آگے ہیں، اب ان کی توثیق کے مقابلے میں کس کی بات سنی جاسکتی ہے، آپؒ سے اگرروایات کم ہیں تو اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ آپؒ کی شروط روایت بہت سخت تھیں۔
خطیب بغدادی یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حدیث نقل کرنے کے لیئے یہ شرط تھی کہ وہ سننے کے بعد سے اسے برابر یاد رہنی چاہئے؛ اگریاد نہ رہے تواس کو روایت کرنا آپ کے نزدیک درست نہ تھا۔

حضرت امام کے اقران


جولوگ حضرت امام کواپنے وقت کے دیگر اہلِ علم سے جدا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ حضرت امام قرون وسطیٰ تک صحابہ وتابعین کے علم کے اِسی طرح وارث شمار ہوتے رہےہیں جس طرح حضرت سفیان الثوری، امام اوزاعی اور امام مالکؒ وغیرہم من جبال اہلِ العلم اور آپ کا علم اِسی درجہ میں سند سمجھا جاتا رہا ہے، جس طرح اِن حضرات کا..... حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) ایک جگہ علم منطق جدل اور حکمت یونان پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"لم تكن والله من علم الصحابة ولاالتابعين ولامن علم الأوزاعي والثوري ومالك وأبي حنيفة وابن أبي ذئب وشعبة ولاوالله عرفها ابن المبارك ولاأبويوسف القائل من طلب الدين بالكلام تزندق ولاوكيع ولابن مهدي ولابن وهب ولاالشافعي"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۲)

ترجمہ:یہ علم بخدا صحابہ اور تابعین کے علوم میں سے نہیں نہ یہ اوزاعی، سفیان ثوری، امام مالکؒ، امام اابوحنیفہؒ، ابنِ ابی ذئب اور امام شعبہ کے علوم میں سے ہیں، بخدا انہیں نہ عبداللہ بن مبارک نے جانا نہ امام ابویوسفؒ نے نہ امام وکیعؒ نے نہ عبدالرحمن بن المہدیؒ نے نہ ابنِ وہب نے اور نہ امام شافعیؒ نے۔

کچھ انصاف کیجئے اور دیکھئے کہ اُمتِ اسلامیہ نے جن جبالِ علم کوجنم دیا اور جن کے علم وفن پر یہ امت اب تک نازاں ہے، کیا ان میں بلاکسی استثناء امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے؟ ان حضرات نے اگرحدیث کم روایت کی ہے تواس کی وجہ یہ تھی صالحین اوّلین کا ایک طبقہ یہ مسلک رکھتا تھا کہ زیادہ حدیث روایت نہ کی جائے، علامہ شعبیؒ فرماتے ہیں:

"کرہ الصالحون الاولون الاکثار من الحدیث"۔          

  (تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۷)

علامہ ذہبیؒ نے مذکورہ بالا عبارت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کوکن ائمہ علم کے ساتھ برابر کا شریک کیا ہے، سفیان الثوریؒ، امام مالکؒ اور اوزاعیؒ کے ساتھ اور یہ وہ حضرات ہیں کہ اگر کسی بات پر متفق ہوجائیں تواس کا سنت ہونا ازخود ثابت ہوجاتا ہے؛ گواُس کی سنیت پر کوئی نص موجود نہ ہو، اسحاق بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"إذااجتمع الثوري ومالك والأوزاعي على أمرفهو سنة وان لم يكن فيه نص"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۱۹۵)

اب آپ ہی اندازہ کریں کہ حضرت امامؒ کس درجہ کے ائمہ علم کے ساتھ برابر کی نسبت رکھتے تھے اور یہ کہ آپ کے اقران میں کون کون سے جبالِ علم تھے۔


محدثین میں اہلُ الرّائے



ائمہ حدیث میں اہلُ الرائے صرف وہی حضرات ہوئے جومجتہد کے درجہ تک پہنچے تھے، نص صریح نہ ہونے کی صورت میں کسی مسئلہ میں رائے دینا کوئی معمولی کام نہ تھا، ابن قتیبہؒ نے معارف میں اصحاب الرائے کا عنوان قائم کرکے اِن میں سفیان الثوریؒ، امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ کو بھی ذکر کیا ہے؛ سواگرکسی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اہلُ الرائے میں لکھ دیا تویہ ان کے مجہتدانہ مقام کا ایک علمی اعتراف ہے، محدث ہونے کا انکار نہیں؛ پھرصرف حنفیہ میں ہی اہل الرائے نہیں، حافظ محمد بن الحارث الخشنی نے قضاۃ قرطبہ میں مالکیہ کوبھی اصحاب الرائے میں ذکر کیا ہے، علامہ سلیمان بن عبدالقوی الطوقی الحنبلی نے اصولِ حنابلہ پر مختصر الروضہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، اِس میں ہے:

"اعلم ان اصحاب الرای بحسب الاضافۃ ہم کل من تصرف فی الاحکام بالرای فیتناول جمیع علماء الاسلام لان کل واحد من المجتہدین لایستغنی فی اجتہادہ عن نظر ورای ولوبتحقیق المناط وتنقیحہ الذی لانزاع فیہ"۔

ترجمہ:جان لوکہ اصحاب الرائے باعتبار اضافت تمام وہ علماء ہیں جو احکام میں فکر کوراہ دیتے ہیں؛ سویہ لفظ تمام علماءِ اسلام کوشامل ہوگا؛ کیونکہ مجتہدین میں سے کوئی بھی اپنے اجتہاد میں نظرورای سے مستغنی نہیں؛ گووہ تحقیقِ مناط سے ہو اور اس تنقیح سے ہو جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

تدوین فقہ کے کام کوسرانجام دینے کے باعث حضرت امام نے حدیث کا کوئی مجموعہ مرتب نہیں کیا؛ لیکن فقہی مباحث کے ضمن میں بہت سی احادیث آپ نے اپنے تلامذہ کے سامنے روایت کیں، آپ کی جوروایات آپ سے آگے آپ کے تلامذہ میں چلتی رہیں انہیں حصفکیؒنے جمع کیا ہے؛ پھرابوالموید محمدبن محمود الخوارزمی نے تمام مسانید کو سنہ ۶۶۵ھ میں یکجا جمع کیا؛ اِسی مجموعہ کو "مسندِامام اعظمؒ" کہا جاتا ہے، اِس کے لائق اعتماد ہونے کے لیئے موسیٰ بن زکریا الحصفکی کی ثقہ شخصیت کے علاوہ یہ بات بھی لائقِ غور ہے کہ عمدۃ المحدثین ملاعلی قاریؒ جیسے اکابر نے اس مسندِامام کی شرح لکھی ہے، جو"سندالانام" کے نام سے معروف ہے اور علماء میں بے حد مقبول ہے، امام وکیع بن الجراح کی علمی منزلت اور فن حدیث میں مرکزی حیثیت اہلِ علم سے مخفی نہیں ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم آپ کی مرویات سے بھری پڑی ہیں، علمِ حدیث کے ایسے بالغ نظر علماء کا امام ابوحنیفہؒ سے حدیث سننا اور پھراِن کے اس قدر گرویدہ ہوجانا کہ انہی کے قول پر فتوےٰ دینا حضرت امام کی علمی منزلت کی ناقابلِ انکار تاریخی شہادت ہے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں:

"وکان (وکیع) یفتی برأی أبی حنیفۃ وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ حدیثاً کثیراً"۔                         

  (کتاب الانتقاء:۲/۱۵۰۔ جامع بیان العلم:۲/۱۴۹)

ترجمہ:حضرت وکیع حضرت امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے اور آپ کی روایت کردہ تمام احادیث یاد رکھتے تھے اور انہوں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی تھیں۔

حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) بھی وکیع کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

"وقال يحيى: مارأيت افضل منه يقوم الليل ويسرد الصوم ويفتى بقول ابي حنيفة"۔

(تذکرۃ الحفاظ:۲۸۲)

وکیع جیسے حافظ الحدیث اور عظیم محدث کا آپ کی تقلید کرنا اور فقہ حنفی پر فتوےٰ دینا حضرت امام کے مقام حدیث کی ایک کھلی شہادت ہے؛ پھرچند نہیں آپ نے ان سے کثیراحادیث سنیں، علم حدیث اور علم فقہ کے علاوہ آپ کی کلام پر بھی گہری نظر تھی، عراق کے کوفی اور بصری اعتقادی فتنوں نے حضرت امام کواس طرف بھی متوجہ کردیا تھا، آپ نے محدثین کے مسلک پررہتے ہوئے ان الحادی تحریکات کا خوب مقابلہ کیا، خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:

"علمِ عقائد اور علمِ کلام میں لوگ ابوحنیفہؒ کے عیال اور خوشہ چیں ہیں"۔   

(بغدادی:۱۳/۱۶۱)

علامہ ابنِ خلدونؒ لکھتے ہیں:

"والامام أبوحنيفة إنماقلت روايته لماشدد في شروط الرواية والتحمل"۔

(مقدمہ تاریخ ابنِ خلدون:۱/۴۴۵،شاملہ، موقعِ یعسوب)

ترجمہ:اور امام ابوحنیفہؒ کی روایت قلیل اس لیئے ہیں کہ آپ نے روایت اور تحملِ روایت کی شرطوں میں سختی کی ہے۔

بایں ہمہ آپ کثیرالروایۃ تھے، وکیع نے آپ سے کثیراحادیث سنی ہیں۔


(۲)حضرت امام اوزاعیؒ (۱۵۷ھ)



آپؒ محدث تھے اور حدیث کے بہت بڑے عالم تھے، علامہ ذہبیؒ آپ رحمہ اللہ کو شیخ الاسلام اور الحافظ لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آپؒ اس قابل تھے کہ آپ رحمہ اللہ کوخلیفۂ وقت بنایا جائے (تذکرۃ الحفاظ) امام ابوزرعہؒ (۲۸۱ھ) فرماتے ہیں کہ امام اوزاعیؒ سے دین اور فقہ کا بڑا ذخیرہ منقول ہے، آپؒ اہلِ شام کے مرجع اور مفتی اعظم تھے، مدتوں اہلِ شام میں آپؒ کی پیروی جاری رہی، امام ابنِ مہدیؒ کا بیان ہے کہ حدیث کے مرکزی امام چار ہیں، جن میں امام اوزاعیؒ بھی شامل ہیں اور فرمایا کہ اہلِ شام میں اُن سے بڑا سنت کا کوئی عالم نہ تھا (تہذیب التہذیب:۶/۲۳۹) امام ابواسحاق فزاریؒ کا بیان ہے کہ اگرتمام امت کے لیئے خلیفہ انتخاب کرنے کا مجھے اختیار دیا جائے تومیں امام اوزاعیؒ کا انتخاب کرونگا، اہلِ شام کے ساتھ اہلِ اُندلس میں بھی ایک عرصہ تک آپؒ کی تقلید جاری رہی (تذکرہ:۱/۱۶۸) ائمہ اربعہؒ کی طرح آپؒ بھی اس وقت کے امام متبوع رہے، عبدالرحمن بن مہدیؒ اسی جہت سے کہا کرتے تھے کہ آپؒ امام فی السنۃ ہیں (البدایۃ والنہایۃ:۱۰/۱۱۵) امام فی الحدیث نہیں، اس سے مراد اُن کے محدث ہونے کا انکار نہ تھا، مطلب یہ تھا کہ آپؒ سنتِ قائمہ میں منسلک ہوئے اور امت کے ایک طبقہ میں آپؒ کی پیروی جاری ہوئی۔
حافظ ابنِ کثیرؒ آپؒ کوالامام الجلیل علامۃ الوقت اور فقیہ اہلِ الشام لکھتے ہیں، امام عبیداللہ بن عبدالکریمؒ نے فرمایا: کہ میں نے امام اوزاعیؒ سے بڑا عقلمند، پرہیزگار، عالم، فصیح، باوقار، حلیم اور خاموش طبع کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔                

  (الاکمال:۶۲۸)



(۳)امام سفیان الثوریؒ (۱۶۱ھ)



آپؒ کوفہ کے رہنے والے تھے، کوفہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت علیؓ کی آمد کے باعث علم کا گہوارہ بنا ہوا تھا؛ گوحضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مسندنشین حضرت امام ابوحنیفہؒ ہوئے؛ مگراس میں شک نہیں کہ اختلافِ ائمہ میں اہلِ کوفہ کے الفاظ ان کوبھی شامل سمجھے جاتے ہیں، صاحبِ مشکوٰۃ فرماتے ہیں:

"سفیان الثوری امام فی الحدیث، ولیس بامام فی السنۃ والاوزاعی امام فی السنۃ ولیس بامام فی الحدیث ومالک بن انسؓ امام فی جمیعہا"

  (الاکمال:۶۲۸)

آپؒ نے ایک مجموعہ حدیث بھی مرتب فرمایا تھا جس کا نام جامع سفیان ثوری تھا، یہ مجموعہ آپ نے کوفہ میں تحریر کیا تھا، فتح الباری وغیرہ میں جامع سفیان الثوری کا ذکر کئی جگہ ملتا ہے۔

  (دیکھئے: فتح الباری، کتاب الجہاد:۶/۵۳، اب یہ کتاب شائع بھی ہوچکی ہے)

"عن ثابت الزاہد قال کان اذااشکل علی الثوری مسئلۃ قال مایحسن جوابھا الامن حسدناہ ثم یسأل عن اصحابہ ویقول ماقال فیہ صاحبکم فیحفظ الجواب ثم یفتیٰ بہ"۔

(کتاب المناقب للموفق:۱/۲۶۸)

ترجمہ:ثابت زاہدؒ جوکہ امام سفیان ثوریؒ کے تلامذہ اور امام بخاریؒ اور امام ترمذیؒ کے اساتذہ میں ہیں، کہتے ہیں کہ جب امام سفیان ثوریؒ کوکسی مسئلہ میں کوئی اشکال پیش آتا توفرماتے کہ اس کا جواب بہتر طور پر وہی دے سکتا ہے جس پر ہم لوگ (یعنی تم لوگ) حسد کرتے ہیں یعنی امام ابوحنیفہؒ؛ پھرامام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ سے پوچھتے کہ بتلاؤ تمہارے استاد اس بارے میں کیا فرماتے ہیں اور پھر اس کو یاد رکھتے اور اسی کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے۔

اِس سے بھی یہی معلوم ہوا کہ حدیث کا عالم فقط وہی نہیں جسے حدیث کے الفاظ زیادہ یاد ہوں؛ بلکہ حدیث کا اصل عالم اور امام وہی ہے، جوحدیث کے معانی اور اس کے حقائق ودقائق کوبخوبی سمجھتا ہو اور حدیث کی حفاظت وخدمت کا جذبہ رکھتا ہو، امام ابوحنیفہؒ حدیث کے اِس قدر قائل تھے کہ حدیث ضعیف کوبھی قیاس پر مقدم رکھتے "الحدیث الضعیف احب الی من رای الرجال" (شرح سنن ابوداؤد، عبدالمحسن العباد:۱۸/۱۶۳، شاملہ،القسم: شروح الحدیث) اِن کا مشہور قول ہے کوفہ کے محدثین حدیث کے بغیر فقیہ بننا جرم سمجھتے تھے:

"وکان سفیان الثوری وابنِ عیینہ وعبداللہ بن سنان یقولون لوکان احدنا قاضیاً لضربنا بالجرید فقیہاً لایتعلم الحدیث ومحدثا لایتعلم الفقہ"

   (لواقح الانوار:۳۶)

ترجمہ: سفیان ثوریؒ اور سفیان بن عیینہؒ اور عبداللہ بن سنان کہا کرتے تھے کہ اگر ہم میں سے کوئی قاضی ہوجائے تودوشخصوں کوضرور کوڑے لگائیں، ایک وہ کہ جو فقہ سیکھتا ہو اور حدیث کا علم حاصل نہ کرتا ہو اور ایک وہ جو حدیث پڑھتا ہو اور فقہ حاصل نہ کرتا ہو۔

علامہ ذہبیؒ نے امام ثوریؒ کوالامام، شیخ الاسلام، سیدالحفاظ اور الفقیہ لکھا ہے (تذکرہ:۱/۱۹۰) امام شعبہؒ وابنِ معینؒ اور ایک کثیر تعداد کہتی ہے کہ سفیانؒ فن حدیث میں امیرالمؤمنین تھے، ابنِ مبارکؒ نے کہا کہ میں نے گیارہ سو شیوخ سے احادیث کی سماعت کی ہے، جن میں سفیان ثوریؒ سے افضل کسی کو نہ پایا، امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ اس سرزمین پر کوئی بھی ایسا نہیں رہا کہ جس پر تمام امت متفق ہو؛ ہاں مگر حضرت سفیان ثوریؒ ایسے ضرور تھے (تذکرہ:۱/۱۹۱) حافظ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ سفیان ثوریؒ احدائمہ الاسلام اور عابد ومقتدی اور احدالتابعین تھے (البدایہ والنہایہ:۱۰/۱۳۴) علامہ خطیب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ وہ ائمہ مسلمین میں سے تھے اور بڑے امام اور دین کے بہت بڑے عالم تھے، سب کا ان کی امامت پر اتفاق ہے۔

    (بغدادی:۹/۱۵۲۔ تہذیب التہذیب:۴/۱۱۴)

امام سیوطیؒ لکھتے ہیں: آپ کے مقلد پانچویں صدی کے بعد تک پائے جاتے رہے ہیں۔   

    (تدریب الراوی:۳۶۰)



(۴)حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ)



حضرت امام مالکؒ امام دارالھجرۃ کے نام سے معروف ہیں، حدیث کی خدمت میں آپؒ نے حدیث کی مشہور کتاب مؤطا تالیف کی، اس کتاب کومرتب کرنے کے بعد سترعلماء کے سامنے پیش کیا گیا توسب نے مؤاطات (موافقت) ظاہر کی؛ اِسی لیے اس کا نام مؤطا رکھا گیا، حضرت شاہ ولی اللہؒ کے قول کے مطابق مؤطا میں سترہ سو کے قریب روایات ہیں، جن میں سے ۶۰۰/ مسند اور ۳۰۰/مرسل ہیں، بقایا فتاویٰ صحابہؓ اور اقوالِ تابعین ہیں، حضرت امام مالکؒ سے مؤطا پڑھنے والے حضرات میں امام شافعیؒ، یحییٰ اندلسیؒ اور امام محمدؒ کے اسماء سرفہرست ہیں، امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ المؤطا" (موطا مالک، روایت محمدبن الحسن:۱/۳۰، شاملہ،ناشر:دارالقلم، دمشق) مگر یہ بات اس وقت کی ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم تالیف نہ ہوئی تھیں۔
محدث نے الفاظِ حدیث کی خدمت کی تواس کا نام حافظِ حدیث ہوا اور مجتہد نے معانی حدیث کی خدمت کی تواس کا لقب عالمِ حدیث اور فقیہ ہوا، امام مالکؒ میں اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں خصوصیات ودیعت فرمائی تھیں کہ احادیث کا ذخیرہ بھی جمع کیا اور فقہ کے بھی امام ٹھہرے:

"اخرج إِبْنِ ابِیْ حَاتِم عَنْ طریق مَالِکْ بِنْ أَنَس عَنْ رَبِیْعَۃَ قَالَ ان اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالَیٰ أَنْزَلَ إِلَیْکم الْکِتَابَ مُفَصِّلاً وَتَرَکَ فِيهِ مَوْضِعًا لِلسُّنَّةِ، وَسَنَّ رَّسُولُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكَ فِيهَا مَوْضِعًا لِلرَّأْيِ"۔

(الدرالمنثور فی التأویل بالماثور، جلال الدین السیوطی:۴/۱۲۰، شاملہ،موقع التفاسیر)

ترجمہ:امام مالکؒ امام ربیعہؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ربیعہؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مفصل کتاب نازل فرمائی اور اس میں حدیث کے لیئے جگہ چھوڑی اور آنحضرت   نے بہت سی باتیں حدیث میں بیان فرمائیں اور قیاس کے لیئے جگہ رکھی۔

الفاظ مقصود بالذات نہیں، مقصود اطاعت اور اتباع شریعت ہے اور یہ مقصد معانی کے سمجھنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے، مقصود بالذات معنی ہیں، الفاظ نہیں الفاظ مقصود بالعرض ہیں، امام مالکؒ تبع تابعینؒ کے طبقہ میں تھے، آپؒ کے شیوخ واساتذہ کی تعداد نوسو تھی، جن میں تین سو تابعینؒ اور چھ سو تبع تابعینؒ تھے (تہذیب الاسماء للنووی:) امام شافعیؒ کا فرمان ہے کہ آپؒ کواگرحدیث کے ایک ٹکڑے پر بھی شک پڑجاتا توپوری کی پوری ترک کردیتے تھے، محدثینؒ کے نزدیک اصح الاسانید میں بحث ہے، مشہور ہے کہ جس کے راوی مالکؒ نافعؒ سے اور نافعؒ ابن عمرؓ سے ہوں وہ اسناد سب سے صحیح ہے (ترجمان السنہ:۱/۲۴۲) لیثؒ، ابنِ مبارکؒ، امام شافعیؒ اور امام محمدؒ جیسے مشاہیر امت آپؒ کے تلامذہ میں سے ہیں اور ابنِ وہبؒ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں ایک منادی سے سنی کہ مدینہ میں ایک مالک بن انس اور ابن ابی ذئبؒ کے سوا کوئی فتوےٰ نہ دیا کرے (مشاہیرِامت:۲۹، از قاری محمدطیبؒ) امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام اسحاق بن ابراہیمؒ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ اگر امام مالکؒ امام اوزاعیؒ اور امام ثوریؒ کسی مسئلہ پر متفق ہوجائیں تووہی مسئلہ حق اور سنت ہوگا؛ اگرچہ اس میں نص نہ موجود ہو (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۵) ابن سعدؒ فرماتے ہیں کہ امام مالکؒ ثقہ، مامون، ثبت، متورع، فقیہ، عالم اور حجت ہیں (تہذیب التہذیب:۱۰/۸) علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ امام مالکؒ الامام الحافظ فقیہ الامت شیخ الاسلام اور امام دارالھجرت تھے (تذکرہ:۱/۱۹۳) آپؒ کا مسلک زیادہ تراُندلس ومغرب پہنچا (بستان المحدیثن:۲۶) افریقی ممالک خصوصاً مغربی افریقہ میں زیادہ تراُنہی کے مقلد ہیں، اس جلالت علم کے باوجود وہ امام ابوحنیفہؒ کے معتقد تھے "نظرمالک فی کتب ابی حنیفۃ وانتفعہ بھا کمارواہ الدراوردی وغیرہ" (الانتقاء:۱۴) سو یہ حقیقت ہے کہ امام مالکؒ کا امام ابوحنیفہؒ کی کتابوں کو دیکھنا اور ان سے نفع حاصل کرنا ثابت ہے۔

(۵)حضرت امام ابویوسفؒ (۱۸۲ھ)




الامام القاضی یعقوب ابویوسفؒ کوفہ میں پیدا ہوئے، حدیث کے بہت بڑے عالم اور امام تھے، علامہ ذہبیؒ نے آپؒ کو حفاظ حدیث میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ امام احمدبن حنبلؒ اور یحییٰ بن معینؒ آپؒ کے تلامذہ میں سے تھے، آپؒ اپنے دورِقضامیں ہرروز دودوسو رکعت ادا فرمایا کرتے تھے، ابنِ خلکانؒ کہتے ہیں کہ یہ پہلے شخص ہیں جنھیں قاضی القضاۃ کا لقب دیا گیا، آپؒ امام ابوحنیفہؒ کے معروف تلامذہ میں سے تھے، سترہ سال آپؒ کے ساتھ رہے، سب سے پہلے اصولِ فقہ آپؒ نے ہی مرتب کیئے، ابنِ خلکانؒ لکھتے ہیں:

"ولم یختلف یحییٰ بن معین واحمد بن حنبل وعلی ابن المدینی فی ثقتہ فی النقل"۔

(ترجمان السنہ:۱/۲۵۰)

ترجمہ:نقل کے بارے میں یحییٰ بن معینؒ اور احمدبن حنبلؒ اور علی بن المدینی کوآپ کی ثقاہت میں کوئی اختلاف نہ تھا۔

امام ابن عبدالبرؒ امام طبریؒ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابویوسفؒ فقیہ، عالم اور حافظ تھے، پچاس ساٹھ احادیث وہ ایک ہی مجلس میں یاد کرلیا کرتے تھے اور وہ کثیر الحدیث تھے (الانتقاء:۱۷۲) علامہ ذہبیؒ کا کہنا ہے کہ ابویوسفؒ حسن الحدیث ہیں (تلخیص المستدرک:۱/۲۷۷) امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ جب مجھے حدیث کا شوق پیدا ہوا توسب سے پہلے امام ابویوسفؒ کی خدمت میں حاضر ہوا (بغدادی:۱۴/۲۵۵) اس سے پتہ چلتاہے کہ آپ کس درجہ کے محدث تھے، علامہ عبدالقادرؒ (۶۹۶ھ) کہتے ہیں کہ مشرق ومغرب تک کی قضا اُن کے سپرد تھی (الجواہر المضیئۃ:۲/۲۲۱) امام نسائی آپ کوثقہ لکھتے ہیں (کتاب الضعفاء، الصغیر:۸۷) امام بیہقیؒ نے بھی آپ کوثقہ فرمایا ہے(السنن الکبریٰ:۱/۳۴۷) امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ فقہاء اور اصحاب الرائے میں ابویوسفؒ سب سے زیادہ حدیث کی اتباع کرنے والے تھے (البدایہ والنہایہ:۱۰/۱۸۰)امام ابن معینؒ آپؒ کوصاحبِ حدیث اور صاحب سنت کہتے ہیں (تذکرہ:۱/۲۷۰) اور اُن سے یہ بھی منقول ہے کہ اصحاب الرائے میں آپؒ سب سے زیادہ احادیث روایت کرنے والے تھے اور اثبت فی الحدیث تھے، علامہ ذہبیؒ نے آپؒ کوالامام العلامہ اور فقیہ العراقین لکھا ہے (تذکرہ:۱/۲۶۹) امام ابن قتیبہؒ (۲۷۶ھ) بھی آپؒ کوصاحب سنت اور حافظ لکھتے ہیں (معارف ابن قتیبہ:۱۷۱) ہلال بن یحییؒ نے فرمایا کہ تفسیرومغازی اور تاریخِ عرب کے حافظ تھے اور فقہ توآپؒ کے علوم کا ادنی جزء تھا (ترجمان السنہ:۱/۲۴۹)آپؒ نے اعمشؒ، ہشام بن عروہؒ، سلیمان تیمیؒ، ابواسحاق شیبانیؒ، یحییٰ بن سعید الانصاریؒ سے بھی احادیث روایت کیں، آپؒ نے مختلف علوم میں تصانیف کیں، ابن الندیم نے کتاب الفہرست میں اُن کی مفصل فہرست لکھی ہے، کتاب الخراج آپ کی مشہور تصنیف ہے، جوخلیفہ ہارون الرشید کے نام آپ کی چند تحریروں کا مجموعہ ہے (سیرت النعمان:۱۷۲،۱۷۱) آپ کا ارشاد ہے:

"وکنت ربما مات الی الحدیث فکان ھو البصر بالحدیث الصحیح منی"۔

(مقدمہ اعلاء السنن:۳،۲۔ نقلاً عن ابن حجرالمکیؒ)


(۶)حضرت امام محمدؒ (۱۸۹ھ)



مؤطا امام مالکؒ اور مؤطا امام محمدؒ ہردوکتب آج بھی دینی مدارس میں دورۂ حدیث میں پڑھائی جاتی ہیں، امام شافعیؒ کا قول مشہور ہے کہ میں نے امام محمدؒ سے بقدر ایک اونٹ کتابوں کے علم حاصل کیا (تہذیب الاسماء:۱/۸۱) امام بخاریؒ کے استاذیحییٰ بن معینؒ فرماتے ہیں کہ میں نےجامع صغیر خود امام محمدؒ سے لے کر لکھی ہے، جو اُن کی مشہور تصنیف ہے، امام حربیؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا کہ آپؒ یہ مسائل دقیقہ کہاں سے بیان فرماتے ہیں تو کہا کہ امام محمدؒ کی کتب سے (تہذیب الاسماء:۱/۸۲،۸۱) امام محمدؒ نے مسعر بن کدامؒ، سفیان ثوریؒ، مالک بن دینارؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ حضرات سے بھی احادیث روایت کیں، امام محمدؒ کی شہرت زیادہ ترفقہ میں ہے؛ مگروہ تفسیر، حدیث اور ادب میں بھی اجتہاد کا درجہ رکھتے ہیں، امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے تیس ہزار درہم ترکہ میں چھوڑے تھے، پندرہ ہزار میں نے نحو، شعر اور ادب پر خرچ کیئے اور پندرہ ہزار فقہ وحدیث کی تعلیم پر صرف کیئے (بغدادی:۲/۱۷۳) امام دارِقطنیؒ (۳۸۵ھ) آپؒ کوثقات اور حفاظِ حدیث میں شمار کرتے ہوئے ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث بیس عدد ثقات اور حفاظِ حدیث نے بیان کی ہے، جن میں امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ، یحییٰ بن سعید القطانؒ، عبداللہ بن المبارکؒ، عبدالرحمن بن مہدیؒ اور ابنِ وہبؒ وغیرہ شامل ہیں۔           

   (نصب الرایہ:۱/۴۰۹)



(۷)حضرت امام شافعیؒ (۲۰۴ھ)



امام محمدبن ادریس الشافعیؒ کی پرورش انتہائی نامساعد حالات اور تنگدستی میں ہوئی، بسااوقات آپؒ کوعلمی یادداشتوں کوتحریر کرنے کے لیئے کاغذ بھی میسر نہ آتا تھا، آپؒ جانوروں کی ہڈیوں پر بھی لکھ لیتے تھے، تیرہ سال کی عمر میں امام مالکؒ کی خدمت میں پہنچے، مؤطا حفظ کرچکے تھے، دوسرے سال عراق چلے گئے، آپؒ کوپندرہ سال کی عمر میں آپؒ کے شیخ مسلم بن خالدؒ نے فتوےٰ نویسی کی اجازت دے دی تھی، علم حدیث وفقہ اور تفسیر وادب میں کمال حاصل کیا، امام نوویؒ نے شرح مہذب میں لکھا ہے کہ امام عبدالرحمن بن مہدیؒ کے فرمانے پر آپؒ نے اصولِ فقہ پر "الرسالہ" تحریر کیا، آپؒ کواصولِ فقہ کاموسس کہا جاتا ہے، فقہ میں آپؒ صرف صحیح احادیث کو لیتے اور ضعیف کو ترک کردیتے، آپؒ کی تصنیف کتاب الاُم اور الرسالہ آج بھی دستیاب ہیں۔

"وقال الزعفرانی کان اصحاب الحدیث رقودًا حتی ایقظھم الشافعی وقال ربیع بن سلیمان کان اصحاب الحدیث لایعرفون تفسیر الحدیث حتی جاء الشافعی"۔

(توالی التاسیس للحافظ ابنِ حجر :۵۹)

ترجمہ:زعفرانی کہتے ہیں کہ اصحابِ حدیث محوِخواب تھے، امام شافعیؒ نے آکرانہیں بیدار کیا (یعنی معانی اور فقہ کی طرف متوجہ کیا) ربیع بن سلیمانؒ کہتے ہیں کہ اصحابِ حدیث تفسیر اور شرح سے واقف نہ تھے امام شافعیؒ نے آکر حدیث کے معانی سمجھائے۔

علامہ ذہبی آپ کی تعریف یوں کرتے ہیں:

"الامام العالم، حبرالامۃ وناصرالسنۃ"۔          

  (تذکرہ:۱/۳۲۹)

ترجمہ:اونچے درجہ کے امام، امت کے عالم اور سنت کے مددگار تھے۔

امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں اگرامام شافعیؒ نہ ہوتے تو میں حدیث کے ناسخ ومنسوخ کوہرگز نہ پہنچتا ان کی مجلس میں بیٹھنے سے مجھ کویہ سب کچھ حاصل ہوا (مشاہیرامت، ازقاری محمدطیب صاحب:۲۸) علماء کا آپ کی ثقاہت وعبادت اور نزاہت وامانت اور زہد وورع پر اتفاق ہے، حافظ ابنِ حجرؒ نے لکھا ہے کہ امام شافعیؒ جب بغداد تشریف لائے توامام احمد بن حنبلؒ نے اس حلقۂ درس کوچھوڑ دیا جس میں یحییٰ بن معینؒ اور اُن کے معاصرین شریک ہوتے تھے اور امام شافعیؒ کی صحبت اختیار کی؛ حتی کہ اگر امام شافعیؒ کہیں جاتے توامام احمدؒ اُن کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے، یحییٰ بن معینؒ کویہ ناگوار گزرا اور کہلا بھیجا کہ یہ طریقہ ترک کردیں، امام احمد بن حنبلؒ نے کہلا بھیجا کہ اگر فقہ (مفہومِ حدیث) سمجھنا چاہتے ہوتو امام شافعیؒ کی سواری کی دُم پکڑ کرچلو، آپؒ کے خادم بنو (توالی التاسیس،ابنِ حجر:۵۷) آپؒ فقہ وحدیث کے امام اور جلیل القدر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ سخی بھی تھے، بقول حمیدی آپ ایک مرتبہ صنعاء سے تشریف لائے، خیمہ مکہ سے باہر لگا ہوا تھا اور آپؒ کے پاس دس ہزار دینار تھے، لوگ آپ کی ملاقات کے لیئے آتے تھے توآپ اُن میں تقسیم فرماتے؛ یہاں تک کہ دس ہزار دینار اسی جگہ تقسیم کردیئے۔

(ترجمان السنۃ:۱/۲۴۶)

شروع شروع میں تحقیقِ اسناد پر آپؒ کی توجہ زیادہ تھی، ان کے ہاں حدیث کی قبولیت کا معیار اس کی صحت سند تھا، استفاضہ عمل کوکچھ نہ سمجھتے تھے؛ لیکن آخری دور میں آپؒ بھی اِس طرف پلٹے، جوامام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ کا نظریہ تھا کہ تواتر عمل کے ہوتے ہوئے اسناد کی ضرورت نہیں رہتی، بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں اُن کے پاس کوئی صحیح حدیث نہ تھی، آپؒ نے یہاں اہلِ مکہ کے عملی استفاضہ سے استدلال کیا، امام ترمذیؒ لکھتے ہیں:

"وَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً"۔

(ترمذی، كِتَاب الصَّوْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۷۳۴، شاملہ، موقع الإسلام)

ترجمہ: اور امام شافعیؒ نے کہا اور اسی طرح پایا ہم نے شہر مکہ میں لوگوں کوبیس رکعت تراویح پڑھتے ہیں۔

اس فکری تبدیلی کے باعث بہت سے مسائل میں آپؒ کے دودو قول ملتے ہیں، قولِ قدیم اورقولِ جدید..... اور فقہاء شافعیہ میں اس کی بحث رہی ہے۔


امام شافعیؒ کے تفردات



کبھی آپؒ اپنی تحقیق میں سب ائمہ کوپیچھے چھوڑدیتے ہیں، اِن مسائل کوآپؒ کے تفردات کہا جاتا ہے، فاتحہ خلف الامام کوفرض سمجھنے میں آپؒ دوسرے سب اماموں سے علیٰحدہ ہیں، امام احمد بن حنبلؒ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے؛ مگراسے فرض نہ سمجھتے تھے، ائمہ اربعہ میں سے تین امام، امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کوفرض نہیں کہتے، امام شافعیؒ اِس مسئلہ میں سب سے علیٰحدہ ہیں، اِس طرح آپ کے کچھ اور تفردات بھی ہیں، مسئلہ طلاق میں آپؒ جمہور امت کے ساتھ ہیں، منفرد نہیں، آپ رحمہ اللہ ایک مجلس میں تین دفعہ دی گئی طلاق کوتین طلاق قرار دیتے تھے، آپؒ کے مقلدین کوبھی اِس مسئلہ میں کبھی اختلاف نہیں ہوا، ایک مجلس میں تین دفعہ دی گئی طلاق گوسنت کے خلاف ہے، طلاق بدعت ہے؛ لیکن اِس کے واقع ہوجانے میں ائمہ اربعہ کا اختلاف نہیں، حضرت امام نووی شافعیؒ لکھتے ہیں:

"وقد اختلف العلماء فیمن قال لامرأتہ انت طالق ثلٰثاً فقال الشافعی ومالک وابوحنیفۃ واحمد وجماھیرالعلماء من السلف والخلف یقع الثلاث"۔ 

(نووی شرح مسلم:۱/۲۹۰)

سویہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ مسئلہ طلاق میں آپؒ دوسرے ائمہ سے منفرد تھے اور اُن کا طریقہ موجودہ دور کے غیرمقلد حضرات کا ساتھا، آپؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کا بہت احترام کرتے، دل ودماغ سے اُن کی جلالتِ علمی کا اعتراف کرتے، ایک دفعہ حضرت امامؒ کی مسجد میں نماز پڑھی تورکوع کے وقت رفع یدین نہ کیا، لوگوں نے سبب پوچھا توفرمایا کہ حضرت امامؒ کا علمی رعب میرے دل پرچھاگیا تھا، احترامِ اکابر کی اس سے بڑی روشن مثال اور کیا ہوگی۔


(۸)حضرت امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ)




اپنے زمانہ کے متفق علیہ امام اور جلیل القدر محدث تھے، علی بن المدینیؒ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کودواشخاص کے ذریعے عزت نصیب فرمائی پہلے شخص فتنہ ارتداد کے وقت حضرت ابوبکرصدیقؓ تھے اور دوسرے فتنۂ خلقِ قرآن کے وقت حضرت امام احمد بن حنبلؒ تھے، امام احمدؒ امام المحدثین تھے، بخاریؒ، مسلمؒ اور ابوداؤدؒ سب حضرات آپؒ کے تلامذہ میں سے ہیں، آپؒ صاحبِ مذہب ہیں، آپؒ کی فقہ "فقہ حنبلی" کے نام سے موسوم ہے، آپ کوایک لاکھ کے قریب احادیث یاد تھیں، آپؒ کی مسند احمد میں بہت سی وہ احادیث جمع ہیں جودوسرے محدثین کے ہاں نہیں ملتیں، ثابت قدمی، حق گوئی اور اتباعِ سنت میں اپنی مثال آپ تھے، یہ آپؒ کا استقلال ہی تھا کہ فتنہ خلقِ قرآن میں روزانہ کوڑے کھاتے؛ مگرخلقِ قرآن کا اقرار ہرگز نہ کرتے، جب انتقال ہوا تو آٹھ لاکھ مرد اور ساٹھ ہزار عورتیں جنازہ میں شریک ہوئیں، حنبل بن اسحاق جوامام احمدؒ کے بھتیجے ہیں؛ انہوں نے امام احمدؒ سے نقل کیا ہے کہ آپؒ نے مسنداحمد سات لاکھ سے زیادہ ذخیرۂ احادیث سے منتخب کی ہے۔
علامہ خطیب بغدادیؒ (۴۶۳ھ) اپنی سند کے ساتھ احمد بن محمد بن خالد البرقیؒ سے روایت کرتے ہیں کہ ہماری موجودگی میں ایک شخص امام احمد بن حنبلؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے حلال وحرام کے ایک مسئلے کے بارے میں دریافت کیا؛ انہوں نے کہا خدا تجھ پر رحم کرے کسی اور سے پوچھ لے، سائل نے کہا حضرتؒ ہم توآپؒ ہی سے اس کا جواب سننا چاہتے ہیں، امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا:

"سل عافاک اللہ غیرنا سل الفقہاء سل اباثور"۔         

  (بغدادی:۶/۶۶)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ تجھے عافیت سے رکھے کسی اور سے پوچھ لے، فقہاء سے پوچھ ابوثور سے پوچھ۔

 اِس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؒ پر حدیث کا غلبہ تھا، فقہ میں آپؒ دوسرے ائمہ کی طرف رجوع کرنے کی تعلیم دیتے تھے، آپؒ سرخیلِ محدثین اور مقتدائے ملت ہیں اور اہلِ سنت کے امام ہیں؛ مگر مسائل کے بارہ میں کس قدر احتیاط سے چلتے ہیں کہ دوسرے فقہاء کا راستہ دکھاتے ہیں اور خود فتوےٰ دینے سے حتی الوسع احتراز کرتے ہیں، آپؒ فقہاء کی طرف رُجوع کرنے کا اس لیئے حکم دیتے کہ فقہاء قرآن وحدیث کے مطابق ہی مسائل کا استنباط کرتے ہیں، علامہ ذہبیؒ امام احمدؒ کی تعریف اِن الفاظ سے کرتے ہیں، شیخ الاسلام، سیدالمسلمین، الحافظ اور الحجۃ (تذکرہ:۲/۱۷) امام شافعیؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بغداد میں امام احمدؒ سے بڑا کوئی نہیں دیکھا (بغدادی:۴/۴۱۹۔ تذکرہ:۲/۱۷۔ البدایہ والنہایہ:۱/۳۳۵) محدث ابراہیم حربی کہا کرتے تھے کہ امام احمد بن حنبلؒ میں اللہ تعالیٰ نے اوّلین وآخرین کے علوم جمع کردیئے تھے۔   

(تذکرہ:۲/۱۷)


حضرت امام احمدؒ کا نظریۂ حدیث


حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کواپنے لیئے حجت اور سند سمجھتے تھے، آپؒ کا عقیدہ تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے ہیں، اُمت پر اُن کی پیروی لازم ہے، صحابی کی بات کوحجۃ تسلیم کرنے میں آپؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ ہیں، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:

"(قال ابوعمرو) جعل للصحابۃ فی ذلک مالم یجعل لغیرہم واظنہ مال الی ظاہر حدیث اصحابی کالنجوم واللہ اعلم والی نحو ھذا کان احمد بن حنبل یذھب"۔

(جامع بیان العلم:۲/۱۴۵)

ترجمہ:امام ابوحنیفہؒ نے صحابہ کے لیئے وہ درجہ مانا ہے جو دوسرے راویوں کے لیئے نہیں، آپ حدیث "اصحابی کالنجوم" کے ظاہر کی طرف مائل ہیں، امام احمد کی بھی یہی رائے تھی۔

اِسی اُصول پر آپؒ کا موقف یہ تھا کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے؛ کیونکہ حضور   کے صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؒ پوری صراحت سے فرماچکے ہیں کہ سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی مگر امام کے پیچھے، آپ ہی سوچیں کہ صحابی کا اِس قدر صریح فیصلہ، کیا نظر انداز کیاجاسکتا ہے؟۔
حضرت امام ابوحنیفہ کی طرح حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ حدیثِ ضعیف کواپنے قیاس اور اجتہاد پر مقدم کرنا چاہیے، ضعیف حدیث کو کلیۃً نظرانداز کردینا قطعاً صحیح نہیں، جب کسی موضوع پر صحیح حدیث نہ ملے تووہاں ضعیف حدیث کو ہی لے لینا چاہئے، حضرت امام اعظمؒ اور حضرت امام احمدؒ کا مسلک اس باب میں ایک ہے، حافظ ابنِ قیمؒ (۷۵۱ھ) لکھتے ہیں:

"فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابة على القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد"۔

(اعلام الموقعین عن رب العالمین، كلام التابعين في الرأي:۷/۵)

ترجمہ:سو ضعیف حدیث اور آثارِ صحابہ کو قیاس اور رائے پر مقدم کرنا امام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے اور یہی قول امام احمد کا ہے۔

صحابہ رضی اللہ عنہم کی پیروی سے جوفقہ مرتب ہوئی اللہ تعالیٰ اسے بڑی قبولیت سے نوازتے رہے ہیں، تاریخ اسلامی میں حکومتی سطح پر زیادہ تردوہی فقہ نافذ العمل رہی ہیں، فقہ حنفی اور فقہ حنبلی، دورِ اوّل میں قاضی القضاۃ حضرت امام ابویوسفؒ تھے، اِس دَور میں سعودی عرب کواللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی ہے کہ انہوں نے اللہ کی حدود قائم کیں اور فقہ حنبلی کے مطابق فیصلے کیئے، جن حضرات کا ہم نے یہاں تذکرہ کیا ہے، وہ سب ائمہ حدیث تھے، ائمہ حدیث میں صرف وہی حضرات شامل نہیں ہوتے جوکہ صرف روایات کواسانید اور مختلف طرق سے بیان کرسکیں؛ بلکہ وہ بھی ائمہ حدیث ہوتے ہیں جوحدیث کی کسی بھی نوع کی خدمت کریں؛ خواہ اسناد بیان کریں؛ خواہ مسائل کا استنباط کریں اور علماء کا اِس پر اجماع ہے، صاحب کنزالعمال لکھتے ہیں:

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کوکوئی مسئلہ پیش آتا تواہل الرائے اور اہل الفقہ کومشورہ کے لیئے بلاتے، مہاجرینؓ وانصارؓ میں سے اہلِ علم کوبلاتے، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اورحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ اورحضرت ابی بن کعبؓ اورحضرت زید بن ثابتؓ کوبلاتے،یہی لوگ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ خلافت میں فتوےٰ دیا کرتے تھے،پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے وہ بھی انہی حضرات سے مشورہ لیا کرتے تھے اور فتویٰ کا مدار انہی حضرات پر تھا۔

(کنز العمال:۳/۱۳۴)

اس روایت سے صاف ظاہرہے کہ علماء حدیث سب صحابہ کرام تھے،مگر اہل الرائے اور اہل الفقہ صرف فقہاء صحابہؓ ہی تھے،فقہ حدیث سے جدا کوئی چیز نہ تھی،یہ حدیث کی ہی تفسیر ہوتی تھی،اسے محض رائے سمجھ لینا بہت بڑی غلطی ہے،سو ید بن نصرؒ جو کہ امام ترمذیؒ اورامام نسائیؒ کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارکؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:

"لاتقولو ارای ابو حنیفۃ ولکن قولوا تفسیر الحدیث"۔

(کتاب المناقب للموفق:۲/۵۱)

ترجمہ:یہ نہ کہا کرو ابو حنیفہ کی رائے بلکہ کہو یہ حدیث کی شرح اور تفسیر ہے۔

فقہ حدیث سے الگ کوئی چیز نہیں فقہ کے خلاف ذہن بنانا خود حدیث سے بدگمان کرنا ہے، لفظ رای یہ فقہی استنباط کا ہی دوسرانام ہے،اجتہاد رائے سے ہی تو ہوتا ہے،حضرت عمرؓ نے قاضی شریح کو لکھا تھا:

"فَاخْتَرْ أَىَّ الأَمْرَيْنِ شِئْتَ : إِنْ شِئْتَ أَنْ تَجْتَهِدَ رَأْيَكَ"۔

(سنن الدارمی،باب الفتیاوما فیہ من الشدۃ،حدیث نمبر:۱۶۹)

ترجمہ ان دوکاموں میں سے جس کو چاہے اختیار کرلے چاہے تو اپنی رائے سے اجتہاد کرلینا۔

حضرت زید بن ثابت نے اس کے ساتھ دوسرے مجتہدین سے معلوم کرلینے کی بھی تعلیم دی ہے۔

"فَادْعُ أَهْلَ الرَّأْىِ ثُمَّ اجْتَهِدْ وَاخْتَرْ لِنَفْسِكَ وَلاَحَرَجَ"۔

(سنن دارمی:۱/۶۰۔سنن کبری بیہقی:۱۰/۱۱۵)

دوسرے اہل الرائے سے بھی پوچھ لینا پھر اجتہاد کرنا اور اپنا موقف اختیار کرنا اور اس میں کوئی حرج نہیں۔

صحابہ میں حضرت ابوبکرؓ (مستدرک حاکم:۴/۳۴۰) حضرت عمرؓ (میزان کبریٰ للشعرانی:۱/۴۹)  حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ (شرح فقہ اکبر:۷۹)حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت ابوالدردا، حضرت زید بن ثابت حضرت عبداللہ عباس (سنن دارمی:۱/۵۹۔ مستدرک:۱/۱۲۷۔ سنن بیہقی:۱۰/۱۱۵) اور مغیرہ بن شعبہ(مستدرک حاکم:۳/۴۴۷) سب اہل الرائے تھے۔