Sunday 30 October 2016

گانے باجے اور آلاتِ موسیقی کی حرمت

گانے سننا حرام اور برا فعل ہے، اور یہ دلوں کے مرض اور ان کی سختی اور اللہ کے ذکر اور نماز سے دور کرنے والے اسباب میں سے ایک سبب ہے، اور اکثر اہل علم نے اللہ تعالی کے اس فرمان: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ  (سورۃ لقمان:6)  ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻟﻐﻮ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻛﻮ ﻣﻮﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔} کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد گانے باجے ہیں۔ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود - رضي الله عنه - اس بات پر قسم کھاتے تھے کہ لغو باتوں سے مراد گانا ہے۔ اور اگر گانے کے ساتھـ آلات لہو و لعب ہوں، جیسے: رباب، سارنگی، دو تارہ اور ڈھول تو اس کی حرمت اور زیادہ سخت ہوجائے گی۔ اور بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ گانا آلاتِ لہو و لعب (موسیقی) کے ساتھـ ہو تو وہ بالاتفاقِ علماء حرام ہے؛ لہذا اس سے بچنا چاہیے. 




حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گانے والی لونڈیوں کو نہ بیچو اور نہ انہیں خریدو، اور نہ انہیں (گانا) سکھاؤ، ان کی تجارت میں خیر و برکت نہیں ہے اور ان کی قیمت حرام ہے۔ اور اسی جیسی چیزوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے«اور بعض لوگ ایسے ہیں جو لغو باتوں کو خرید لیتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں» (سورۃ لقمان:٦)۔
[سنن سعيد بن منصور:1721،  سنن الترمذي:1282، تفسير ابن أبي حاتم:17523، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌2922]




اور رسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحيح سند سے یہ ثابت ہے كہ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھـ اقوام زنا، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال سمجھیں گے۔[ابوداؤد:4039]


حضرت ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا رحمت اور ہدایت سارے جہاں والوں کے لئے ، مجھے بھیجا تاکہ میں بانسریاں باجے اور تمام آلات موسیقی اور جاہلیت کی باتوں کو اور بتوں کو مٹا ڈالوں،
[أخرجه الطيالسى:1230 ، أحمد:22307 ، الطبرانى:7803، شعب الإيمان للبيهقي:6108 ، ذم الملاهي لابن أبي الدنيا:69، المنهيات، الحكيم الترمذي:ص91، الكبائر للذهبي:ص85]




بہت سارے دلائل سے معلوم ہوا ہے کہ گانا سننا اور اس میں مشغول ہونا خاص طور پر جب تفریحی آلات کے ساتھـ ہو جیسے سارنگی اور موسیقی وغیرہ کے ساتھـ تو یہ شیطان کے بڑے فریبوں میں سے ہے، اور اس کے ان جالوں میں سے ہے جس سے وہ جاہلوں کے دلوں کو شکار کرتا ہے، اور اس کے ذریعے سے قرآن سننے سے روکتا ہے، اور ان کے لئے فسق اور نافرمانی میں مشغول رہنا محبوب کرتا ہے، نیز گانا شیطان کا قرآن، اور اس کی بانسری، اور زنا کی منتر، اور لواطت کی اور شر اور فساد کے مختلف قسموں کو دعوت دینے والا ہے، اور یقیناً ابو بکر طرطوشى اور دیگر اہل علم نے ائمہ اسلام سے حکایت کی ہے کہ انہوں نے گانے کی مذمت کی اور تفریحی آلات کی، اور اس سے پرہیز کیا، اور حافظ علامہ ابو عمرو بن صلاح رحمہ الله نے سارے علماء سے اس گانے کی حرمت نقل کی ہے، جو سارنگی وغیرہ جیسے تفریحی آلات میں سے کسی چیز پر مشتمل ہو، یہ اس لئے کیونکہ گانے اور ساز میں دل کی بیماریاں، اور اخلاق کا فساد، اور اللہ کی ذکر اور نماز سے رکاوٹ ہوتی ہے، اور یقینا گانا اس لغو میں شامل ہے جس کی اللہ نے مذمت اور عیب جوئی کی ہے، اور اس سے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے، جس طرح پانی سے دانہ اگتا ہے، خصوصی طور پر جب یہ ان گلوکار مرودوں اور عورتوں سے جو اس کے لئے مشہور ہوں، تو اس کا ضرر اور خطرناک اور دلوں کو فاسد کرنے میں زیادہ شدید ہوگا، اللہ تعالی فرماتا ہے:     ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻟﻐﻮ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻛﻮ ﻣﻮﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﺑﮯﻋﻠﻤﯽ ﻛﮯ ﺳﺎتھـ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﻮ ﺍﹴللہ ﻛﯽ ﺭﺍﮦ ﺳﮯ ﺑﮩﲀﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭﺍﺳﮯ ﮨﻨﺴﯽ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ، ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﺳﻮﺍ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻋﺬﺍﺏ ﮨﮯ۔(سورۃ لقمان:6) ﺟﺐ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﯾﺘﯿﮟ ﺗﻼﻭﺕ ﻛﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻜﺒﺮ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻣﻨﮧ ﭘﮭﯿﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﻮﯾﺎ ﻛﮧ ﺍﺱ ﻛﮯﺩﻭﻧﻮﮞ کاﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﭦ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﺁﭖ ﺍﺳﮯ ﺩﺭﺩ ﻧﺎﻙ ﻋﺬﺍﺏ ﻛﯽ ﺧﺒﺮ ﺳﻨﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ ۔ ، واحدی اور دیگر اکثر مفسریں نے کہا ہے، ابن مسعود رضی الله عنہ جو بڑے صحابہ اور ان کے علماء میں سے تھے، وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس کی قسم کھا کر کہتے تھے کہ لغو بات سے مراد گانا ہے، اور آپ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ: گانا دل میں ایسے ہی نفاق اگاتا ہے۔
[سنن أبي داود: 4927]
[شعب الإيمان للبيهقي: 4746]۔
[شعب الإيمان للبيهقي: 4746]
(صحيح عن ابن مسعود من قوله ، وقد روي عن ابن مسعود مرفوعا)
اور صحابہ اور تابعین میں اسلاف سے گانے اور تفریحی آلات کی مذمت، اور اس سے پرہیز کرنے کے بارے میں بہت سارے آثار وارد ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
میری امت سےاقوام ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال سمجھیں ۔ امام بخاری نے اسے روايت كيا ہے۔ اور الحر حرام شرمگاہ کو کہتے ہیں، اور اس سے مراد زنا ہے، اور ساز سے مراد ہر تفریحی آلہ ہے جیسے موسیقی، طبلہ، سارنگی، رباب، اور تانت وغیرہ، علامہ ابن قیم رحمہ الله "كتاب الإغاثة" میں لکھا ہے کہ: المعازف کی تفیسر ہر تفریحی آلات سے کرنے میں اہلِ لغت کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ اور ترمذیؒ نے عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت کی ہے کہتے ہیں کہ: رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا: میری امت میں سنگ باری اور خسف ومسخ (زمین میں دھنسنے اور اشکال کی تبدیلی) کے واقعات ہوں گے، تو ایک مسلمان شخص نے کہا کہ : اے اللہ کے رسول! یہ سب کب ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا: جب لونڈی بازی اور موسیقی عام ہو جائے، اور شراب نوشی کھلے عام ہونے لگے۔[ترمذی:2212]




اور احمد نے اپنی مسند میں جيد اسناد کے ساتھـ تخريج كی ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ بے شک نبی صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی نے شراب، جوّا، طبلہ، اور ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دیا ہے۔[ابوداود:3696] اور اس حدیث کے ایک راوی سفیان نے کہا کہ: الکوبہ سے مراد طبلہ ہے، اور گانے اور لغو باتوں کی مذمت میں بہت سارے آثار وارد ہیں جو اس مقالے میں بیان کرنا ممکن نہیں ہیں، اور جو ہم نے ذکر کیا ہے حق کے طلبگار کے لئے اس میں کفایت اور قناعت ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ریڈیو اسٹیشن کو گانے اور تفریحی آلات بہم پہنچانے کے دعویدارں کی عقل میں خلل پیدا ہوا ہے یہاں تک کہ قبیح کو اچھا اور اچھے کو قبیح محسوس کرنے لگے، اور اس کی طرف بلانے لگے جو ان کے لئے اور دوسروں کے لئے نقصاندہ ہے، اور وہ اس سے پیدا ہونے والے نقصانات اور شر اور فساد کی پرواہ نہیں کرتے، اور اللہ تعالی نے کیا ہی خوب فرمایا ہے:     ﻛﯿﺎ ﭘﺲ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺟﺲ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺑﺮﮮ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻣﺰﯾﻦ ﻛﺮﺩﯾﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ، ﭘﺲ ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭼﮭﺎ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ ( ﻛﯿﺎ ﻭﮦ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺷﺨﺺ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﮯ ؟ ) ، ( ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺎﻧﻮ ) ﻛﮧ ﺍللہ ﺟﺴﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺴﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﺭﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺩﻛﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﺲ ﺁﭖ ﻛﻮ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻏﻢ ﻛﮭﺎ ﻛﮭﺎ ﻛﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻥ ﮨﻼﻛﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ، ﯾﮧ ﺟﻮ ﻛﭽھ ﻛﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﯾﻘﯿناً اللہ تعالیٰ ﺑﺨﻮﺑﯽ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﮯ۔
[سورۃ الفاطر:8]
اور شاعر نے کیا ہی سچ کہا ہے:
آزمائش کے دنوں میں انسان پر گذرتی ہے
یہاں تک کی اس کو اچھا سمجھتا ہے جو اچھا نہیں ہوتا۔





بینڈ باجے اور موسیقی کی آواز:
حَدَّثَنا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثنا أَبُو عَاصِم، حَدَّثنا شَبِيب بن بشر البجلي، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى الله عَلَيه وَسَلَّم: صوتان ملعونان في الدنيا والآخرة: مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة.
[مسند البزار:14/62، مُسْنَدُ أَبِي حَمْزَةَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رقم الحدیث 7513]

حکم الحدیث: حسن۔
[الأحاديث المختارة:2200+2201، صَحِيح الْجَامِع: 3801 , الصَّحِيحَة: 427]
المحدث : المنذري | المصدر : الترغيب والترهيب: 4/268 | خلاصة حكم المحدث : رواته ثقات
المحدث : ابن القيم | المصدر : مسألة السماع: 318 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد: 16/3 | خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات
المحدث : الهيتمي المكي | المصدر : الزواجر: 1/159 | خلاصة حكم المحدث : رواته ثقات

















وَيَأْذَنُ اللَّهُ تَعَالَى لِوَرَقِ الجنة فيقول انظروا عبادي الذين كانون يُنَزِّهُونَ أَنْفُسَهُمْ فِي الدُّنْيَا عَنِ الْبَرَابِطِ وَالْمَعَازِفِ فَنَغَمَتُهُنَّ ‌بِأَحْسَنِ ‌أَصْوَاتٍ مِنْ نَغَائِمِ الطَّيْرِ» 
[تاريخ واسط ، بحشل (م٢٩٢ھ) : ص211]


موسیقی کے ساتھ نعت پڑھنا کیسا ہے؟
شریعتِ مطہرہ نے موسیقی سے منع فرمایاہے۔ چنانچہ اس کی ممانعت کس قدر سختی سے کی گئی اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی ہوسکتا ہے ،ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر   کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں طبل کی آواز آنا شروع ہوگئی آپ  نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں تاکہ یہ آوا ز غیر اختیاری طور پربھی آپ کے کانوں میں نہ پڑے، پھر آپ وہاں سے ہٹ گئے اور تین دفعہ ایسا ہی کیا پھر فرمایا کہ نبی ﷺنے بھی اسی طرح کیاتھا۔ کیا یہ واقعہ اس بات پر دلالت کرنے کیلئے کافی نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ   کو موسیقی سے کس قدر نفرت تھی۔
  اس کے علاوہ ایک روایت میںفرمایاکہ جب میری امت پندرہ چیزوں میں مبتلا ہو جائے گی تو ان میں مصائب کا نزول شروع ہوجائے گا ان چیزوں میں سے ایک چیز آپ نے یہ بھی ذکر فرمائی کہ جب ان میں گانے والیاں اور آلات موسیقی عام ہوجائیں گے۔
اب اس کے بعد ہر صاحب بصیرت شخص یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ جس چیز سے آپ کو اس قدر نفرت تھی کہ آپ اس کی آواز سننا پسند نہیں فرماتے تھے تو اب اگر اسی کے ساتھ آپ کا ذکرمبارک کیا جائے اور اسے ثواب بھی گردانا جائے تو اس سے بڑھ کر اور حماقت کیا ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ ملا علی قاری  نے اپنی کتاب شرح فقہ اکبر میں احناف کی کتب کے حوالے سے یہ جزئیہ نقل کیا ہے :
من قرأ القرآن علی ضرب الدف والقضیب یکفر  (ص ۱۶۷)
(جو شخص کلام مقدس کو دف یا بانسری پر پڑھے وہ کافر ہے) 

اس کے بعد اپنا فتویٰ نقل کرتے ہوئے ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں:  
 قلت !ویقرب منہ ضرب الدف والقضیب مع ذکر اللہ تعالی ونعت المصطفیﷺ،وکذا التصفیق علی الذکر۔
ترجمہ:
اسی ( کفر) کے قریب ہے دف اور بانسری بجانااللہ کے ذکر اور محمدﷺ کی نعت کے ساتھ،اور یہی حکم ذکر کے ساتھ تالی بجانے کا ہے۔ 

یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں دف وغیرہ کا ذکر ہے جس کا بعض مواقع پر جواز بھی ثابت ہے،اور رہی آجکل کی موسیقی اس کے ناجائز ہونے میں تو کسی کا اختلاف بھی نہیں،اس کے بعد بھی اتنی جرأت ؟وہ  ذات رؤف وکریم ہے ورنہ ہمارے اس فعل پر نہ معلوم ہمارے اوپر کیا کچھ نازل ہوجاتااور ہم اسی کے مستحق تھے ،کہ اللہ کے نبی ﷺ کا جب ہم نے سرعام مذاق اڑانا شروع کردیا آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ یہ مذاق ہے یا نہیں؟ کہ جس چیز سے آپ منع کریں ہم نہ صرف وہی کام کریں بلکہ اسے علی الاعلان کرتے ہوئے اس پر یہ بھی سمجھیں کہ ہمیں اس پر ثواب بھی مل رہا ہے،تعجب ہے مسلمانوں کی سوچ پر کہ نہ معلوم انہیں کیا ہوگیا ہے کہ العیاذ بااللہ اپنے نبی ﷺ کی نافرمانی کو انہوں نے فرمانبرداری سمجھ کر اس پر فخر کرنا شروع کردیا۔اللہ تعالی ہمیں دین کی حقیقی سمجھ عطا فرمائیں۔آمین
لما فی قولہ تعالی :وَمِنَ النَّاسِ مَن یَّشْتَرِیْ لَھْوَالْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ  عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّخِذَھَا ھُزُوًا اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ  o(لقمان:۶)
وفی جامع الترمذی (۴۴/۲): عن علی بن ابی طالب قال قال رسول اللہﷺ:اذا فعلت امتی خمس عشرۃ خصلۃ حل بھاالبلاء… واتخذت القیان والمعازف۔
وفی ابن ماجۃ (صـ۱۳۷):حدثنا محمد بن یحی …عن مجاھد قال کنت مع ابن عمر فسمع صوت طبل فادخل اصبعیہ فی اذنیہ ثم تنحی حتی فعل ذلک ثلاث مرات ثم قال ھکذا فعل رسول اللہﷺ۔
وفی بدائع الصنائع (۵۱۳/۶):…دلت المسئلۃ علی ان مجرد الغناء معصیۃ وکذا الاستماع الیہ  وکذا ضرب القصب والاستماع الیہ  الا تری ان اباحنیفۃ رضی اللہ عنہ سماہ ابتلاء۔
وفی الدرالمختار (۳۴۸/۶): وفی السراج ودلت المسئلۃ ان الملاھی کلھا حرام ویدخل علیھم بلااذنھم لانکار المنکر قال ابن مسعود صوت اللھو والغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء النبات۔











طریقت میں قوالی، سماع مزامیر اور مجلسِ موسیقی وغیرہ نہیں ہے؟؟؟
          الجواب: واضح رہے کہ احادیث اور عبارات فقہ سے مزامیر اور ملاہی کی حرمت روز روشن کی طرح معلوم ہے۔ البتہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کچھ شرائط سے جواز کی طرف میلان کیا ہے۔ اور وہ شرائط ان قوالوں میں معدوم اور مفقود ہیں۔ لہٰذا ان کو جائز سمجھنے والوں پر کفر کا شدید خطرہ موجود ہے۔ یہ لوگ اپنی بدمعاشیوں اور عیاشیوں پر ان بزرگوں کے کلام سے پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن فقہ حنفی نے ان (مستحلی الرقص والغناء) کو کافر کہا ہے۔
{۱}قال ابن عابدین (قولہ ومن یستحل الرقص قالوا بکفرہ)المرادبہ التمائل والخفض والرفع بحرکات موزونۃ کما یفعلہ بعض من ینتسب الی التصوف وقد نقل فی البزازیہ عن القرطبی اجماع الائمۃ علی حرمۃ ھذاالغناء وضرب القضیب والرقص قال ورأیت فتویٰ شیخ الاسلام جلال الملۃ والدین الکر مانی ان مستحل ھذا الرقص کافر وتما مہ فی شرح الوھبانیۃ ونقل فی نور العین عن التمھید انہ فاسق لا کافر ثم قال التحقیق القاطع للنزاع فی امرالرقص والسماع یستدعی تفصیلا ذکرہ فی عوارف المعارف واحیاء العلوم وخلاصتہ ما اجاب بہ العلامۃ النحریر ابن کمال باشا الخ۔
(ردالمحتار ہامش الدر المختار ص۳۳۷ جلد ۳ قبیل باب البغاۃ مطلب فی مستحل الرقص)



سماع اور غنیٰ میں فرق:
سماع کے معنیٰ سننے کے ہیں، عرف میں اس سے مراد گانا سننا ہوتا ہے، اور غناء کے معنیٰ گانے کے ہیں، پس سماع گانا "سننے" اور غناء گانا "گانے" کو کہتے ہیں۔
قرآن، حدیث یا نعت سننے کو عرف میں سماع نہیں کہتے۔







ٹیپ ریکارڈ پر تلاوت اور موسیقی سننے کا حکم

واضح رہے کہ سوال میں دو چیزوں کا ذکر ہے ۱- تصویر کا مباح ہونا ۲- ریکارڈ شدہ موسیقی کے سننے کا جائز ہونا اور ان دونوں چیزوں کے جواز کی بنیاد ایک فاسد قیاس پر ہے اور قیاس کا مدار محض اس دعویٰ پر ہے کہ: ’’جو حکم اصل کا ہے وہ نقل اور عکس کا نہیں ہے‘‘۔
مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ ’’جو حکم اصل کا ہے وہ حکم نقل اور عکس کا نہیں ہے‘‘ مسلّم نہیں ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جو اصل کا حکم ہے وہی نقل اور عکس کا ہے چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ صورت جس کی حکایت ہے حکم میں اسی کے تابع ہے پس اصل اگر مذموم ہے  جیسے معازف ومزامیر وصوتِ نساء وامارد ویا فحش ومعصیت‘‘ اسکی حکایت بھی ایسی ہی مذموم ہے اور اگر اصل مباح‘ (ہو تو اسکی)حکایت بھی مباح ہے اور اگر اصل محمود ہے تو فی نفسہ اسکی حکایت بھی ایسی ہی ہے‘‘۔
[امداد الفتاوی،کتاب العقائد والاحکام سوال نمبر ۵۱۰۔ :۶؍۲۱۹۔ط:دار العلوم کراچی۔۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء۔]

باقی یہ کہنا کہ نقل اصل کے حکم میں نہ ہونے کی وجہ سے ریکارڈ شدہ تلاوت سننے پر ثواب نہیں ملتا‘ درست نہیں‘ بلکہ ریکارڈ شدہ تلاوت سننے پر ثواب ضرورملتاہے‘ اس لئے کہ ریکارڈ شدہ تلاوت کے بھی وہی آداب ہیں جو اصل تلاوت سننے کے ہیں۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ ’’جدید آلات‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن کریم جب اس میں (ٹیپ ریکارڈ میں) پڑھنا جائز ہے تو اس کا سننا بھی جائز ہے‘ شرط یہ ہے کہ ایسی مجلسوں میں نہ سناجائے جہاں لوگ اپنے کاروبار یا دوسرے مشاغل میں لگے ہوں‘ یاسننے کی طرف متوجہ نہ ہوں‘ ورنہ بجائے ثواب کے گناہ ہوگا ‘‘۔ (۱)
البتہ ریکارڈ شدہ آیت ِ سجدہ سننے سے سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوتا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ سجدۂ تلاوت کے وجوب کیلئے تلاوتِ صحیحہ کا ہونا ضروری ہے اور تلاوت کے صحیح ہونے کیلئے تلاوت کرنے والے کا باشعور اور متمیز ہونا ضروری ہے،کیونکہ صبی غیر متمیز اور مجنون سے آیت سجدہ سننے سے سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوتا، چونکہ مذکورہ آلہ (ٹیپ ریکارڈ وغیرہ) ایک لاشعور اور بے جان شئہے، اس وجہ سے اس پر آنے والی تلاوت تلاوت صحیحہ نہیں اور جب تلاوت صحیحہ نہیں تو اس کے سننے سے سجدۂ تلاوت بھی واجب نہیں۔ پھر چونکہ کیسٹ سے وہ کلام اللہ کی آواز سن رہا ہے اور اس کے دل میں کلام اللہ کی عظمت میں اضافہ ہورہاہے اور دیگر گناہ کی چیزوں سے اپنے کانوں کو محفوظ رکھے ہوئے ہے‘ اس لئے اسکو ریکارڈ شدہ تلاوت سننے پر اجر وثواب ضرور ملے گا۔جیساکہ البدائع میں ہے:

’’بخلاف السماع من البغاء والصدی فان ذلک لیس بتلاوۃ‘ وکذا اذا سمع من المجنون لان ذلک لیس بتلاوۃ صحیحۃ لعدم اہلیتہ لانعدام التمییز ‘‘۔
[آلات جدیدہ کے شرعی احکام از مولانا مفتی محمد شفیع ،ٹیپ ریکارڈر مشین پر تلاوت قرآن کا حکم ،ص:۲۰۷،ط: ادارۃ المعارف۔]


(۲)  بدائع الصنائع للکاسانی، کتاب الصلوۃ، سبب وجوبھا وبیان من تجب علیہ…الخ: ۱؍۴۴۰،ط: دار احیاالتراث العربی بیروت،الطبعۃ الثانیہ ۱۴۱۹ھ بمطابق ۱۹۹۸ء۔
لہذا مذکورہ شخص کا ٹیپ ریکارڈ سے موسیقی سننے کے جواز پر استدلال کرنا اور یہ کہنا کہ: کیسٹ کیؔ موسیقی چونکہ اصل موسیقی نہیں‘ بلکہ موسیقی کی نقل ہے‘اس لئے اس کے سننے سے کوئی گناہ نہیں ہوتا‘ بالکل غلط ہے‘ کیونکہ جب کیسٹ سے تلاوت سننا باعث اجر وثواب ہے‘ تو اسی طرح کیسٹ سے موسیقی سننا بھی گناہ ہے‘ اور موسیقی کی کیسٹ سننے سے جو ذہن کے اندر کدورت اور یاد الٰہی سے غفلت پیدا ہوگی‘ اس کا گناہ الگ ہے۔
پھر اگر بالفرض والتقدیر: ہم مان بھی لیں کہ ٹیپ ریکارڈ سے تلاوت سننے پر اجرو ثواب نہیں ملتا‘ تب بھی اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ عکس اورنقل اصل کے حکم میں نہیں‘قابل تسلیم نہیں ‘کیونکہ بہت ساری ایسی اشیاء ہیں کہ جن کے عکس کا وہی حکم ہوتاہے جو اس کے اصل کا ہوتاہے‘ مثلاً:جس طرح قرآن مجید کی لکھی ہوئی کوئی سورۃ قابل احترام ہے‘ اسی طرح اس کی فوٹو کاپی بھی قابل احترام ہے‘ جس طرح اصل کی بے اکرامی ناجائز ہے‘ اسی طرح اس سورۃ کی فوٹو کاپی کی بے احترامی بھی ہرگز جائز نہیں۔

علاوہ ازیں موسیقی کی حرمت کے دلائل پر اگر غور کیا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ جن وجوہ کی بنأ پر موسیقی سننا حرام ہے‘ وہ تمام کی تمام موسیقی کی کیسٹ میں بھی پائی جاتی ہیں‘ مثلاً: شہوت کا بیدار ہونا اور تلذذکا حاصل ہونا‘ یہ دونوں صورتوں میں پیدا ہوتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ اگرموسیقی گانے والوں سے براہ راست سنی جائے تو اس کا منفی اثر زیادہ ہوتا ہے۔ الغرض موسیقی خواہ براہ راست سنی جائے یا اسکی کیسٹ سنی جائے اس سے دل میں نفاق پیداہوتا ہے جیساکہ حدیث میں ہے:
’’ الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء الزرع‘‘
[شعب الإیمان للبیھقی ،الباب الرابع والثلاثون فی حفظ اللسان، فصل فی حفظ اللسان عن الغناء: ۴؍۲۷۹،رقم الحدیث(۵۱۰۰) ط:دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔]

رہا تلاوت پر ثواب کا حصول! تو وہ محض تلاوت سننے پرہے‘ نہ کہ اس سے تأثر لینے پر‘  لہٰذا یہ قیاس غلط ہے کہ ثواب چونکہ اصل تلاوت پر ہے اور وہ یہاں مفقود ہے اس لئے ثواب نہیں۔
رہا تصویر کا مسئلہ ! تو خانہ کعبہ اور بیت اللہ کی تصویر پر ثواب نہ ملنے کو بنیاد بناکر‘ نا محرم اور جاندار اشیأ کی تصویر بنانے‘ پاس رکھنے اور دیکھنے پر جواز کا استدلال کرنا غلط اور قیاس مع الفارق ہے‘ کیونکہ اس میں بے جان شئ کی تصویر پر جاندار شئی کی تصویر کو قیاس کیاگیا ہے اور یہ قیاس قیاس مع الفارق ہے۔ دوسری بات یہ کہ دلائل شرعیہ میں قیاس کا آخری درجہ ہے‘ سب سے پہلے کتاب اللہ ہے‘ پھر سنت رسول ہے‘ پھر اجماع ہے اور آخر میں قیاس ہے‘ جبکہ جاندار شئی کی تصویر کی حرمت پر بے شمار نصوص (احادیث نبویؐ) موجود ہیں‘ لہٰذا حرمت کی ان نصوص کے باجود محض ایک قیاس مع الفارق سے کیونکر جاندار شئی کی تصویر کی اباحت اور جواز کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟۔
باقی خانہ کعبہ کی تصویر پر ثواب کا ملنا نہ ملنا تو یہ ایک امر شرعی ہے‘ کسی چیز میں ثواب یا عقاب کا ہونا نص شرعی کا محتاج ہے‘ بغیر نص شرعی کے کسی چیز میں ثواب یا عقاب کو ثابت نہیں کیا جاسکتا‘ چونکہ یہاں پر نص شرعی موجود نہیں اس لئے اس میں عقلی طور پر ثواب کا اثبات کیونکر ممکن ہے۔ جیساکہ محدث عظیم ملا علی قاریؒ ذیل کی حدیث میں تحریر فرماتے ہیں:
’’عن عابس بن ربیعۃ قال رأیت عمر یقبل الحجر ویقول انی لاعلم انک حجر ما تنفع ولاتضر ولولا انی رأیت رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم یقبل ما قبلتک‘‘۔
[مشکوۃ المصابیح ،کتاب المناسک،باب دخول مکۃ والطواف،الفصل الثالث ص:۲۲۸۔ط: قدیمی کراچی]

اس کے ذیل میں ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں:
’’وفیہ اشارۃ منہ ؓ الی ان ہذا امر تعبدی فنفعل وعن علتہ لانسأل‘‘
[مرقاۃ المفاتیح ،کتاب المناسک، باب دخول مکۃ الفصل الثالث:۵؍۴۷۹۔ط: رشیدیہ کوئٹہ۔]

لہذا خانہ کعبہ کی تصویر کو بنیاد بناکر جاندار شئی کی تصویر کے جواز اور نامحرم عورت کی تصویر دیکھنے کے جواز پر استدلال کرنا ہرگز درست نہیں ہے۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ




Friday 28 October 2016

اللہ سے، اللہ کا تعارف



اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ الحَىُّ القَيّومُ ۚ لا تَأخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَومٌ ۚ لَهُ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۗ مَن ذَا الَّذى يَشفَعُ عِندَهُ إِلّا بِإِذنِهِ ۚ يَعلَمُ ما بَينَ أَيديهِم وَما خَلفَهُم ۖ وَلا يُحيطونَ بِشَيءٍ مِن عِلمِهِ إِلّا بِما شاءَ ۚ وَسِعَ كُرسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ ۖ وَلا يَـٔودُهُ حِفظُهُما ۚ وَهُوَ العَلِىُّ العَظيمُ {2:255}

اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہں زندہ ہے سب کا تھامنے والا [۴۱۶] نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اجازت سے جانتا ہے جو کچھ خلقت کے روبرو ہے اور جو کچھ انکے پیچھے ہے اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے گنجائش ہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کو اور گراں نہیں اس کو تھامنا ان کا اور وہی ہے سب سے برتر عظمت والا [۴۱۷] 


اس آیت میں توحید ذات اور عظمت صفات حق تعالیٰ کو بیان فرمایا کہ حق تعالیٰ موجود ہے ہمیشہ سے اور کوئی اس کا شریک نہیں تمام مخلوقات کا موجد وہی ہے تمام نقصان اور ہر طرح کے تبدل اور فتور سے منزہ ہے سب چیزوں کا مالک ہے تمام چیزوں کا کامل علم اور سب پر پوری قدرت اور اعلیٰ درجے کی عظمت اس کو حاصل ہے کسی کو نہ اتنا استحقاق نہ اتنی مجال کہ بغیر اس کے حکم کے کسی کی سفارش بھی اس سے کر سکے کوئی امر ایسا نہیں جس کے کرنے میں اس کو دشواری اور گرانی ہو سکے ۔ تمام چیزوں اور سب کی عقلوں سے برتر ہے اس کے مقابلہ میں سب حقیر ہیں ۔ اس سے دو مضمون اور خوب ذہن نشین ہو گئے ایک تو حق تعالیٰ کی ربوبیت اور حکومت اور اپنی محکومیت اور عبدیت جس سے حق تعالیٰ کے تمام احکامات مذکورہ اور غیر مذکورہ کا بلا چون و چراں واجب التصدیق اور واجب التعمیل ہونا اور اس کے احکام میں کسی قسم کے شک و شبہ کا معتبرنہ ہونا معلوم ہو گیا دوسرے عبادات و معاملات کثیرہ مذکورہ سابقہ کو اور ان کے ساتھ تنعیم و تعذیب کو دیکھ کر کسی کو خلجان ہو سکتا تھا کہ ہر ہر فرد کے اس قدر معاملات و عبادات کثیرہ ہیں کہ جن کا مجموعہ اتنا ہوا جاتا ہے کہ ان کا ضبط اور حساب کتاب محال معلوم ہوتا ہے پھر اس کے مقابلہ میں ثواب و عقاب یہ بھی عقل سے باہر غیر ممکن معلوم ہوتا ہے سو اس آیت میں حق سبحانہ نے چند صفات مقدسہ اپنی ایسی ذکر فرمائیں کہ وہ تمام خیالات بسہولت دور ہوگئے یعنی اس کا علم و قدرت ایسا کامل ہے کہ ایک چیز بھی ایسی نہیں جو اس سے باہر ہو جس کا علم اور قدرت ایسا غیر متناہی اور ہمیشہ یکساں رہنے والا ہو اس کو تمام جزئیات عالم کے ضبط رکھنے اور ان کاعوض عطا فرمانے میں کیا دقت ہو سکتی ہے۔ 


پہلی آیت سے حق سبحانہ کی عظمت شان بھی مفہوم ہو تی ہے اب اس کے بعد اس آیت کو جس میں توحید ذات اور اس کا تقدس و جلال غایت عظمت و وضاحت کے ساتھ مذکور ہے نازل فرمائی اور اسی کا لقب آیۃ الکرسی ہے اسی کو حدیث میں اعظم آیات کتاب اللہ فرمایا ہے اور بہت فضیلت اور ثواب منقول ہے اور اصل بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں رلا ملا کر تین قسم کے مضمون کو جگہ جگہ بیان فرمایا ہے علم توحید و صفات، علم احکام، علم قصص و حکایات سے بھی توحید و صفات کی تقریر و تائید مقصود ہوتی ہے یا علم احکام کی تاکید و ضرورت اور علم توحید و صفات اور علم احکام بھی باہم ایسے مربوط ہیں کہ ایک دوسرے کے لئے علت اور علامت ہے صفات حق تعالیٰ احکام شرعیہ کے حق میں منشاء اور اصل ہیں تو احکام شرعیہ صفات کے لئے بمنزلہ ثمرات اور فروع ہیں تو اب ظاہر ہے کہ علم قصص اور علم احکام سے علم توحید کو ضرور اعانت اور تقویت پہنچے گی اور علم قصص اور علم توحید و صفات سے ضرور علم احکام کی تاکید اور اس کی ضرورت بلکہ حقیقت اور اصلیت ثابت ہو گی اور یہ طریقہ جو تین طریقوں سے مرکب ہے بغایت احسن اور اسہل اور قابل قبول ہے اول تو اس وجہ سے کہ ایک طریقہ کہ پابندی موجب ملال ہوتی ہے اور ایک علم سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجانا ایسا ہوجاتا ہے جیسا ایک باغ کی سیر کر کے دوسرے باغ کی سیر کرنے لگے دوسرے تینوں طریقوں سے مل کر حقیقت منشاء ثمرہ نتیجہ سب ہی معلوم ہو جائے گا اور اس میں تعمیل احکام نہایت شوق و مستعدی اور رغبت و بصیرت کے ساتھ ہو گی۔ اس لئے طریقہ مذکورہ بغایت عمدہ اور مفید اور قرآن مجید میں کثیر الاستعمال ہے اس جگہ دیکھ لیجئے کہ اول احکام کو کس کثرت و تفصیل سے بیان فرمایا اس کے بعد بقدر مصلحت قصص کو بیان کر کے تمام احکامات مذکورہ کے فوائد و نتائج گویا ہم کو آنکھوں سے دکھلا دیئے ان سب کے بعد آیۃ الکرسی جو کہ دربارہ توحید و صفات ممتاز آیت ہے اس کو بیان فرما کر جملہ احکامات کی جڑ کو دلوں میں ایسا مستحکم فرما دیا کہ اکھاڑے نہ اکھڑے۔




بےشک اللہ ہی ہر چیز کا ۔۔۔
خالق[سورۃ الانعام:101+102]الرعد:16، الم سجدۃ:7، الزمر:62، القمر:49
خوب دیکھنے والا[الملک:19]
راہ دکھانے والا[طه:50]
مالک[المومنون:88، یس:83]النمل:91
پالنہار[الانعام:164]
حساب کرنے والا[النساء:84]
وسیع علم والا[الانعام:80]الاعراف:89، الغافر:7
وسيع رحمت والا ہے۔[الاعراف:156]





خوب قدرت والا ہے۔
{2:20}{2:106}{2:109}{2:148}{2:259}{2:284}
{3:26}{3:29}{3:165}{3:189}{5:17}{5:19}{5:40}{5:120}{6:17}{8:41}{9:39}{11:4}{13:16}{16:77}{22:6}{24:45}{29:20}{30:50}{33:27}{35:1}{41:39}{42:9}{46:33}{48:21}{57:2}{59:6}{64:1}{65:12}{66:8}{67:1}




خوب علم والا ہے۔
{6:101}{6:102}
{2:29}{2:231}{2:282}{4:32}{4:176}{5:97}{6:80}{7:89}{8:75}{9:115}{24:35}{24:64}{29:62}{33:40}{33:54}{42:12}{48:26}{49:16}{57:3}{58:7}{64:11}{65:12}



****************************************

اللَّهُ وَلِىُّ الَّذينَ ءامَنوا يُخرِجُهُم مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلَى النّورِ ۖ وَالَّذينَ كَفَروا أَولِياؤُهُمُ الطّٰغوتُ يُخرِجونَهُم مِنَ النّورِ إِلَى الظُّلُمٰتِ ۗ أُولٰئِكَ أَصحٰبُ النّارِ ۖ هُم فيها خٰلِدونَ {2:257}


اللہ مددگار ہے ایمان والوں کا نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف اور جو لوگ کافر ہوئے ان کے رفیق ہیں شیطان نکالتے ہیں ان کو روشنی سے اندھیروں کی طرف یہی لوگ ہیں دوزخ میں رہنے والے وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے 


****************************************

اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ الحَىُّ القَيّومُ {3:2} 
اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں زندہ ہے سب کا تھامنے والا.[سورۃ آل عمران:2]

نجران کے ساٹھ عیسائیوں کا ایک مؤقر و معزز وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس میں تین شخص عبدالمسیح عاقب بحیثیت امارت و سیادت کے، ایہم السید بلحاظ رائے و تدبیر کے اور ابو حارثہ بن علقمہ با عتبار سب سے بڑے مذہبی عالم اور لاٹ پادری ہونے کے عام شہرت اور امتیار رکھتے تھے۔ یہ تیسرا شخص اصل میں عرب کے مشہور قبیلہ "بنی بکر بن وائل" سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر پکا نصرانی بن گیا۔ سلاطین روم نے اس کی مذہبی صلابت اور مجدد شرف کو دیکھتے ہوئے بڑی تعظیم و تکریم کی۔ علاوہ بیش قرار مالی امداد کے اس کے لئے گرجے تعمیر کئے اور امور مذہبی کے اعلیٰ منصب پر مامور کیا۔ یہ وفد بارگاہ رسالت میں بڑی آن بان سے حاضر ہوا اور متنازع فیہ مسائل میں حضور ﷺ سے گفتگو کی جس کی پوری تفصیل محمد بن اسحاق کی سیرۃ میں منقول ہے ۔ سورۂ " آل عمران" کا ابتدائی حصہ تقریباً اسی نوے آیات تک اسی واقعہ میں نازل ہوا۔ عیسائیوں کا پہلا اور بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ حضرت مسیحؑ بعینہ خدا یا خدا کے بیٹے یا تین خداؤں میں کے ایک ہیں۔ سورۂ ہذا کی پہلی آیت میں توحید خالص کا دعویٰ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی جو صفات "حیّ قیوم" بیان کی گئیں وہ عیسائیوں کے اس دعوے کو صاف طور پر باطل ٹھہراتی ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺ نے دوران مناظرہ میں ان سےفرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ حَیّ (زندہ) ہے جس پر کبھی موت طاری نہیں ہو سکتی ۔ اسی نے تمام مخلوقات کو وجود عطا کیا اور سامان بقاء پیدا کر کے ان کو اپنی قدرت کاملہ سے تھام رکھا ہے۔ برخلاف اس کے عیسٰیؑ پر یقینًا موت و فنا آ کر رہے گی۔ اور ظاہر ہے جو شخص خود اپنی ہستی کو برقرار نہ رکھ سکے دوسری مخلوقات کی ہستی کیا برقرار رکھ سکتا ہے۔ "نصاریٰ نے سن کر اقرار کیا (کہ بیشک صحیح ہے ) شاید انہوں نے غنیمت سمجھا ہو گا کہ آپ اپنے اعتقاد کے موافق { عیسٰی یاتی علیہ الفناء } کا سوال کر رہے ہیں یعنی عیسٰی پر فنا ضرور آئے گی، اگر جواب نفی میں دیا تو آپ ہمارے عقیدہ کے موافق کہ حضرت عیسٰیؑ کو عرصہ ہوا موت آ چکی ہے۔ ہم کو اور زیادہ صریح طور پر ملزم اور مفحم کر سکیں گے۔ اس لئے لفظی مناقشہ میں پڑنا مصلحت نہ سمجھا۔ اور ممکن ہے یہ لوگ ان فرقوں میں سے ہوں جو عقیدہ اسلام کے موافق مسیحؑ کے قتل و صلب کا قطعًا انکار کرتے تھے اور رفع جسمانی کے قائل تھے جیسا کہ حافظ ابن تمیمہ نے "الجواب الصحیح" اور "الفارق بین المخلوق و الخالق" کے مصنف نے تصریح کی ہے کہ شام و مصر کے نصاریٰ عمومًا اسی عقیدہ پر تھے۔ مدت کے بعد پولس نے عقیدہ صلب کی اشاعت کی۔ پھر یہ خیال یورپ سے مصر و شام وغیرہ پہنچا بہرحال نبی کریم ﷺ کا { انّ عیسیٰ اتی علیہ الفناء } کے بجائے { یاتی علیہ الفناء } فرمانا، درآں حالیکہ پہلے الفاظ تردید الوہیۃ مسیح کے موقع پر زیادہ صاف اور مسکت ہوتے۔ ظاہر کرتا ہے کہ موقع الزام میں بھی مسیحؑ پر موت سے پہلے لفظ موت کا اطلاق آپ نے پسند نہیں کیا۔




****************************************

إِنَّ اللَّهَ لا يَخفىٰ عَلَيهِ شَيءٌ فِى الأَرضِ وَلا فِى السَّماءِ {3:5}

اللہ پر چھپی نہیں کوئی چیز زمین میں اور نہ آسمان میں [۶] 


یعنی جس طرح اس کا اقتدار و اختیار کامل ہے ۔ علم بھی محیط ہے۔ عالم کی کوئی چھوٹی بڑی چیز ایک سیکنڈ کے لئے اس سے غائب نہیں۔ سب مجرم و بری۔ اور تمام جرموں کی نوعیت و مقدار اس کے علم میں ہے۔ مجرم بھاگ کر روپوش ہونا چاہے تو کہاں ہو سکتا ہے؟ یہیں سے تنبیہ کر دی گئ مسیحؑ خدا نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ایسا علم محیط ان کو حاصل نہ تھا۔ وہ اسی قدر جانتے تھے جتنا حق تعالیٰ ان کو بتلا دیتا تھا۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے جواب میں خود نصاریٰ نجران نے اقرار کیا اور آج بھی اناجیل مروجہ سے ثابت ہے۔



****************************************

إِنَّ اللَّهَ اصطَفىٰ ءادَمَ وَنوحًا وَءالَ إِبرٰهيمَ وَءالَ عِمرٰنَ عَلَى العٰلَمينَ {3:33} 

بیشک اللہ نے پسند کیا آدم کو اور نوح کو اور ابراہیم کے گھر کو اور عمران کے گھر کو [۵۰] سارے جہان سے 


"عمران" دو ہیں ایک حضرت موسٰیؑ کے والد، دوسرے حضرت مریمؑ کے والد، اکثر سلف و خلف نے یہاں عمران ثانی مراد لیا ہے کیونکہ آگے { اِذْقَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰانَ } الخ سے اسی دوسرے عمران کے گھرانے کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اور غالباً سورۃ کا نام " آل عمران" اسی بناء پر ہوا کہ اس میں عمران ثانی کے گھرانے (یعنی مریم و مسیحؑ) کا واقعہ بہت بسط و تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔




****************************************

إِنَّ اللَّهَ رَبّى وَرَبُّكُم فَاعبُدوهُ ۗ هٰذا صِرٰطٌ مُستَقيمٌ {3:51} 

بیشک اللہ ہے رب میرا اور رب تمہارا سو اس کی بندگی کرو یہی راہ سیدھی ہے [۸۵] 


یعنی سب باتوں کی ایک بات اور ساری جڑوں کی اصل جڑ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو میرا اور اپنا دونوں کا یکساں رب سمجھو (باپ بیٹے کے رشتے قائم نہ کرو) اور اسی کی بندگی کرو۔ سیدھا راستہ رضائے الہٰی تک پہنچنے کا یہ ہی توحید، تقویٰ، اور اطاعت رسول ہے ۔



****************************************

إِنَّ اللَّهَ لا يَظلِمُ مِثقالَ ذَرَّةٍ ۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضٰعِفها وَيُؤتِ مِن لَدُنهُ أَجرًا عَظيمًا {4:40} 

بیشک اللہ حق نہیں رکھتا کسی کا ایک ذرہ برابر اور اگر نیکی ہو تو اس کو دونا کر دیتا ہے اور دیتا ہے اپنے پاس سے بڑا ثواب [۷۵] 


یعنی اللہ تعالیٰ کسی کا حق ایک ذرہ کے برابر بھی ضائع نہیں فرماتا سو ان کافروں پر جو عذاب ہوگا وہ عین انصاف اور ان کی بد اعمالی کا بدلہ ہے اور اگر ذرہ برابر بھی کسی کی نیکی ہو گی تو اضعاف مضاعف اس کا اجر دے گا اور اپنی طرف سے ثواب عظیم بطور انعام اس کو عنایت کرے گا۔


****************************************

إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ۚ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَدِ افتَرىٰ إِثمًا عَظيمًا {4:48} 

بیشک اللہ نہیں بخشتا اس کو جو اس کا شریک کرے اور بخشتا ہے اس سے نیچے کے گناہ جس کے چاہے اور جس نے شریک ٹھہرایا اللہ کا اس نے بڑا طوفان باندھا [۸۹] 


یعنی مشرک کبھی نہیں بخشا جاتا بلکہ اس کی سزا دائمی ہے البتہ شرک سےنیچے جو گناہ ہیں صغیرہ ہوں یا کبیرہ وہ سب قابل مغفرت ہیں اللہ تعالیٰ جس کی مغفرت چاہے اس کے صغیرہ کبیرہ گناہ بخش دیتا ہے کچھ عذاب دے کر یا بلا عذاب دیے اشارہ اس کی طرف ہے کہ یہود چونکہ کفر اور شرک میں مبتلا ہیں وہ مغفرت کی توقع نہ رکھیں۔


****************************************

إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمٰنٰتِ إِلىٰ أَهلِها وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كانَ سَميعًا بَصيرًا {4:58} 

بیشک اللہ تم کو فرماتا ہے کہ پہنچا دو امانتیں امانت والوں کو اور جب فیصلہ کرنے لگو لوگوں میں تو فیصلہ کرو انصاف سے [۱۰۱] اللہ اچھی نصیحت کرتا ہے تم کو بیشک اللہ ہے سننے والا دیکھنے والا [۱۰۲] 


یعنی اللہ تعالیٰ جو تم کو ادائے امانت اور عدل کے موافق حکم دینےکا حکم فرماتا ہے تمہارے لئے سراسر مفید ہے اور اللہ تعالیٰ تمہاری کھلی اور چھپی اور موجودہ اور آئندہ باتوں کو خوب جانتا ہے تو اب اگر تم کو کہیں ادائے امانت یا عدل مفید معلوم نہ ہو تو حکم الہٰی کے مقابلہ میں اس کا اعتبار نہ ہو گا۔ 


یہود میں عادت تھی کہ امانت میں خیانت کر تے اور فیصل خصومات میں رشوت وغیرہ کی وجہ سےکسی کی خاطر اور رعایت کر کے خلاف حق حکم دیتےاس لئے مسلمانوں کو ان دونوں باتوں سے اس آیت میں روکا گیا۔ منقول ہے کہ فتح مکہ کے دن آپ نے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونا چاہا تو عثمان بن طلحہ کلید بردار خانہ کعبہ نے کنجی دینے سےانکار کیا تو حضرت علی نے اس سے چھین کر دروازہ کھول دیا۔ آپ ﷺ فارغ ہو کر جب باہر تشریف لائے تو حضرت عباس نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ یہ کنجی مجھ کو مل جائے اس پر آیت نازل ہوئی اور کنجی عثمان بن طلحہ ہی کے حوالہ کی گئ۔


****************************************
اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ لَيَجمَعَنَّكُم إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ لا رَيبَ فيهِ ۗ وَمَن أَصدَقُ مِنَ اللَّهِ حَديثًا {4:87} 

اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں بیشک تم کو جمع کرے گا قیامت کے دن اس میں کچھ شبہ نہیں اور اللہ سے سچی کس کی بات [۱۴۱] 


یعنی قیامت کا آنا اور ثواب و عقاب کے سب وعدوں کا پورا ہونا سب سچ ہے اس میں تخلف نہیں ہو گا ان باتوں کو سرسری خیال نہ کرو۔


****************************************

إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ۚ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد ضَلَّ ضَلٰلًا بَعيدًا {4:116} 

بیثک اللہ نہیں بخشتا اس کو جو اس کا شریک کرے کسی کو اور بخشتا ہے اس کے سوا جس کو چاہے [۱۷۳] اور جس نے شریک ٹھرایا اللہ کا وہ بہک کر دور جا پڑا [۱۷۴] 


دور جا پڑا س لئے کہ وہ شخص تو اللہ ہی سے صریح منحرف ہو گیا اور اللہ کے مقابلہ میں دوسرا معبود بنا کر شیطان کا پورا مطیع ہو چکا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی رحمت سب سے مستغنی ہو بیٹھا اور جو اتنی دور جا پڑا تو اللہ کی رحمت اور اس کی مغفرت کا کیسے مستحق ہو سکتا ہے بلکہ ایسے شخص کی مغفرت تو خلاف حکمت ہونی چاہئے یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو مغفرت سے صاف مایوس فرما دیا گیا اور مسلمان کتنا ہی سخت گنہگار ہو چونکہ اس کی خرابی صرف اعمال تک ہے اس کا عقیدہ اور تعلق اور توقع سب جوں کی توں موجود ہیں اس کی مغفرت ضرور ہو گی جلدی یا دیر کے بعد اللہ جب چاہے گا بخش دے گا۔ 


یعنی شرک سے نیچے کے گناہ جس کے چاہے گا اللہ بخش دے گا مگر شرک کو ہر گز نہیں بخشے گا مشرک کے لئےعذاب ہی مقرر فرما چکا تو چوری کرنا اور تمہت جھوٹی لگانا اگرچہ گناہ کبیرہ تھے مگر یہ بھی احتمال تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس چور کو بخش دیتا لکین جب وہ چور رسول کے حکم سے بھاگا اور مشرکوں میں جا ملا تو اب اس کی مغفرت کا احتمال بھی نہ رہا۔ {فائدہ} اس سے یہ معلوم ہوا کہ شرک یہی نہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش کرے بلکہ اللہ کے حکم کے مقابلہ میں کسی کے حکم کو پسند کرنا یہ بھی شرک ہے۔


****************************************

اعلَموا أَنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ وَأَنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ {5:98} 

جان لو کہ بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے اور بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے [۲۳۸] 


یعنی جو احکام حالت احرام یا احترام کعبہ وغیرہ کے متعلق دیے گئے اگر ان کی عمدًا خلاف ورزی کرو گے تو سمجھ لو کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے۔ اور بھول چوک سے کچھ تقصیر ہو جائے پھر کفارہ وغیرہ سے اس کی تلافی کر لو تو بیشک وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔


****************************************
وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يَمسَسكَ بِخَيرٍ فَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {6:17} 

اور اگر پہنچاوے تجھ کو اللہ کچھ سختی تو کوئی اسکو دور کرنے والا نہیں سوا اسکے اور اگر تجھ کو پہنچاوےبھلائی تو وہ ہر چیز پر قادر ہے



****************************************

إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الحَبِّ وَالنَّوىٰ ۖ يُخرِجُ الحَىَّ مِنَ المَيِّتِ وَمُخرِجُ المَيِّتِ مِنَ الحَىِّ ۚ ذٰلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنّىٰ تُؤفَكونَ {6:95} 

اللہ ہے کہ پھوڑ نکالتا ہے دانہ اور گٹھلی نکالتا ہے مردہ سے زندہ اور نکالنے والا ہے زندہ سے مردہ یہ ہے اللہ پھر تم کدھر بہکے جاتے ہو [۱۲۷] 


یعنی زمین میں دبائے جانے کے بعد گٹھلی اور دانہ کو پھاڑ کو سبز پودا اگانا یا جاندار کو بےجان سے اور بےجان کو جاندار سے نکالنا (مثلًا آدمی کو نطفہ سے ، نطفہ کو آدمی سے پیدا کرنا) اسی خدا کا کام ہے۔ پھر اسے چھوڑ کر تم کدھر بہکے جا رہے ہو؟ کیا اور کوئی ہستی تمہیں ایسی مل سکتی ہے جو ان کاموں کو انجام دے سکے۔


****************************************

ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم ۖ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ فَاعبُدوهُ ۚ وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ وَكيلٌ {6:102} 

یہ اللہ تمہارا رب ہے نہیں ہے کوئی معبود سوا اسکے پیدا کرنے والا ہر چیز کا سو تم اسی کی عبادت کرو اور وہ ہرچیز پر کارساز ہے [۱۴۳] 


اس کی عبادت اس لئے کرنی چاہئے کہ مذکورہ بالاصفات کی وجہ سے وہ ذاتی طور پر استحقاق معبود بننے کا رکھتا ہے اور اس لئے بھی کہ تمام مخلوق کی کارسازی اسی کے ہاتھ میں ہے۔



****************************************

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ يُغشِى الَّيلَ النَّهارَ يَطلُبُهُ حَثيثًا وَالشَّمسَ وَالقَمَرَ وَالنُّجومَ مُسَخَّرٰتٍ بِأَمرِهِ ۗ أَلا لَهُ الخَلقُ وَالأَمرُ ۗ تَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ العٰلَمينَ {7:54} 

بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین [۶۴] چھ دن میں [۶۵] پھر قرار پکڑا عرش پر [۶۶] اوڑھاتا ہے رات پر دن کہ وہ اسکے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا اور پیدا کئے سورج اور چاند اور تارے [۶۷] تابعدار اپنے حکم کے [۶۸] سن لو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا بڑی برکت والا ہے اللہ جو رب ہے سارے جہان کا [۶۹] 


یعنی رات کے اندھیرے کو دن کے اجالے سے یا دن کے اجالے کو رات کے اندھیرے سے ڈھانپتا ہے اس طرح کہ ایک دوسرے کا تعاقب کرتا ہوا تیزی سے چلا آتا ہے۔ ادھر رات ختم ہوئی ادھر دن آ موجود ہوا، یا دن تمام ہوا تو فورًا رات آ گئ۔ درمیان میں ایک منٹ کا وقفہ بھی نہیں ہوتا۔ شاید اس پر بھی تنبیہ فرما دی کہ اسی طرح کفر و ضلالت اور ظلم و عدوان کی شب دیجور جب عالم پر محیط ہو جاتی ہے اس وقت خدا تعالیٰ ایمان و عرفان کے آفتاب سے ہر چہار طرف روشنی پھیلا دیتا ہے۔ اور جب تک آفتاب عالمتاب کی روشنی نمودار نہ ہو تو نبوت کے چاند تارے رات کی تاریکی میں اجالا اور رہنمائی کرتے ہیں۔ 


یعنی اتنے وقت میں جو چھ دن کے برابر تھا پیدا کیا کیونکہ یہ متعارف دن اور رات تو آفتاب کے طلوع و غروب سے وابستہ ہیں جب اس وقت آفتاب ہی پیدا نہ ہوا تھا تو دن رات کہاں سے ہوتا۔ یا یہ کہا جائے کہ عالم شہادت کے دن رات مراد نہیں، عالم غیب کے دن رات مراد ہیں۔ جیسے کسی عارف نے فرمایا ہے ؂ غیب را ابرے وآبے دیگر است۔ آسمان و آفتابے دیگر است۔ پہلی صورت میں پھر علماء کا اختلاف ہے کہ یہاں چھ دن سے ہمارےچھ دن کی مقدار مراد ہے۔ یا ہزار برس کا ایک ایک دن جسے فرمایا ہے { وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ } میرے نزدیک یہ آخری قول راجح ہے۔ بہرحال مقصود یہ ہوا کہ آسمان و زمین دفعۃً بنا کر نہیں کھڑے کئےگئے۔ شاید اول ان کا مادہ پیدا فرمایا ہو۔ پھر اس کی استعداد کے موافق بتدریج مختلف اشکال و صور میں منتقل کرتے رہے ہوں۔ حتٰی کہ چھ دن (چھ ہزار سال) میں وہ بجمیع متعلقا تہما موجودہ مرتب شکل میں موجود ہوئے۔ جیسا کہ آج بھی انسان اور کل حیوانات و نباتات وغیرہ کی تولید و تخلیق کا سلسلہ تدریجی طور پر جاری ہے۔ اور یہ اس کی شان "کن فیکون" کے منافی نہیں۔ کیونکہ "کن فیکون" کا مطلب تو صرف اس قدر ہے کہ خدا جس چیز کو وجود کے جس درجہ میں لانا چاہے اس کا ارادہ ہوتے ہی وہ اس درجہ میں آ جاتی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ خدا کسی چیز کو وجود کے مختلف مدارج سے گذارنے کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ ہر شے کو بدون توسط اسباب و علل کے دفعۃً موجود کرتا ہے۔ 


گذشتہ آیت میں معاد کا ذکر تھا اس رکوع میں مبدا کی معرفت کرائی گئ ہے ۔ وہاں { قَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ } سے بتلایا گیا تھا کہ جو لوگ دنیا میں انبیاء و رسل سے منحرف رہتے تھے ان کو بھی قیامت کے دن پیغمبروں کی سچائی کی ناچار تصدیق کرنی پڑے گی۔ یہاں نہایت لطیف پیرایہ میں خدا کی حکومت یاد دلانے اور انبیاء و رسل کی ضرورت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بعض مشہور پیغمبروں کے احوال و واقعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ انکی تصدیق یا تکذیب کرنے والوں کا آخرت سے پہلے دنیا ہی میں کیا انجام ہوا گویا یہ رکوع آنے والے کئ رکوعات کی تمہید ہے۔ 


پیدا کرنا "خلق" ہے اور پیدا کرنے کے بعد تکوینی یا تشریعی احکام دینا یہ "امر" ہے اور دونوں اسی کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ اس طرح وہ ہی ساری خوبیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہوا۔ 


کوئی سیارہ اس کے حکم کے بدون حرکت نہیں کر سکتا۔ 


خدا تعالیٰ کی صفات و افعال کے متعلق یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ نصوص قرآن و حدیث میں جو الفاظ حق تعالیٰ کی صفات کے بیان کرنے کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ان میں اکثر وہ ہیں جن کا مخلوق کی صفات پر بھی استعمال ہوا ہے مثلًا خدا کو "حی" "سمیع" "بصیر" "متکلم" کہا گیا اور انسان پر بھی یہ الفاظ اطلاق کئے گئے، تو ان دونوں مواقع میں استعمال کی حیثیت بالکل جداگانہ ہے۔ کسی مخلوق کو سمیع و بصیر کہنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے پاس دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان موجود ہیں۔ اب اس میں دو چیزیں ہوئیں۔ ایک وہ آلہ جسے آنکھ کہتےہیں اور جو دیکھنے کا مبدا اور ذریعہ بنتا ہے۔ دوسرا اس کا نتیجہ اور غرض و غایت (دیکھنا) یعنی وہ خاص علم جو رویت بصری سے حاصل ہوا ۔ مخلوق کو جب "بصیر" کہا تو یہ مبداء اور غایت دونوں چیزیں معتبر ہوئیں۔ اور دونوں کی کیفیات ہم نے معلوم کر لیں۔ لیکن یہ ہی لفط جب خدا کی نسبت استعمال کیا گیا تو یقینًا و مبادی اور کیفیات جسمانیہ مراد نہیں ہو سکتیں جو مخلوق کے خواص میں سے ہیں اور جن سے خداوند قدوس قطعًا منزہ ہے البتہ یہ اعتقاد رکھنا ہو گا کہ ابصار (دیکھنے) کا مبداء اس کی ذات اقدس میں موجود ہے اور اس کا نتیجہ یعنی وہ علم جو رویت بصری سے حاصل ہو سکتا ہے اس کو بدرجہ کمال حاصل ہے۔ آگے یہ کہ وہ مبداء کیسا ہے اور دیکھنے کی کیا کیفیت ہے تو بجز اس بات کے کہ اس کا دیکھنا مخلوق کی طرح نہیں ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ { لیس کمثلہ شئ وھو السمیع البصیر } نہ صرف سمیع و بصیر بلکہ اس کی تمام صفات کو اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ صفت باعتبار اپنے اصل مبداء و غایت کے ثابت ہے مگر اس کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی اور نہ شرائع سماویہ نے اس کا مکلف بنایا ہے کہ آدمی اس طرح کے ماوراء عقل حقائق میں خوض کر کے پریشان ہو۔ اس کا کچھ حصہ خلاصہ ہم سورہ مائدہ میں زیر فائدہ { وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُ اللہِ مَغْلُوْلَۃٌ } بیان کر چکے ہیں۔ { اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ } کو بھی اسی قاعدہ سے سمجھ لو۔ "عرش" کے معنی تخت اور بلند مقام کے ہیں۔ "استواء" کا ترجمہ اکثر محققین نے "استقرار و تمکن" سے کیا ہے (جسے مترجمؒ نے قرار پکڑنے سے تعبیر فرمایا) گویا یہ لفظ تخت حکومت پر ایسی طرح قابض ہونے کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کا کوئی حصہ اور گوشہ حیطہ نفوذ و اقتدار سے باہر نہ رہے اور نہ قبضہ و تسلط میں کسی قسم کی مزاحمت اور گڑ بڑی پائی جائے۔ سب کام اور انتظام برابر ہو۔ اب دنیا میں بادشاہوں کی تخت نشینی کا ایک مبداء اور ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت یا غرض و غایت یعنی ملک پر پورا تسلط و اقتدار اور نفوذ و تصرف کی قدرت حاصل ہونا۔ حق تعالیٰ کے { اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ } میں یہ حقیقت اور غرض و غایت بدرجہ کمال موجود ہے یعنی آسمان و زمین (کل علویات و سفلیات) کو پیدا کرنے کے بعد ان پر کامل قبضہ و اقتدار اور ہر قسم کے مالکانہ و شہنشاہانہ تصرفات کا حق بے روک ٹوک اسی کو حاصل ہے جیسا کہ دوسری جگہ { ثُمَّ اسْتَویٰ عَلَی الْعَرْشِ } کے بعد { یُدَبِّرُالْاَمْرَ } وغیرہ الفاظ اور یہاں { یُغْشِی الَّیْلَ النَّھْارَ } الخ سے اسی مضمون پر متنبہ فرمایا ہے۔ رہا { اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ } کا مبداء اور ظاہری صورت، اس کے متعلق وہ ہی عقیدہ رکھنا چاہئے جو ہم "سمع و بصر" وغیرہ صفات کے متعلق لکھ چکے ہیں کہ اس کی کوئی ایسی صورت نہیں ہو سکتی جس میں صفات مخلوقین اور سمات حدوث کا ذرا بھی شائبہ ہو۔ پھر کیسی ہے؟ اس کا جواب وہی ہے کہ ؂اے برتر از خیال و قیاس و گمان و وہم۔ وزہر چہ گفتہ اند شنیدیم و خواندہ ایم۔ منزل تمام گشت و بپایاں رسید عمر۔ ماہمچناں در اول وصف تو ماندہ ایم ۔ { لیس کمثلہ شئ وھو السمیع البصیر }


****************************************

أَوَلَم يَنظُروا فى مَلَكوتِ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَما خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيءٍ وَأَن عَسىٰ أَن يَكونَ قَدِ اقتَرَبَ أَجَلُهُم ۖ فَبِأَىِّ حَديثٍ بَعدَهُ يُؤمِنونَ {7:185} 

کیا انہوں نے نظر نہیں کی سلطنت میں آسمان اور زمین کی اور جو کچھ پیدا کیا ہے اللہ نے ہر چیز سے اور اس میں کہ شاید قریب آ گیا ہو ان کا وعدہ [۲۲۴] سو اس کے پیچھے کس بات پر ایمان لائیں گے [۲۲۵] 


یعنی آخر آیات اللہ کو جھٹلانے اور اس کے بد انجام سے غافل رہ جانے کا سبب کیا ہے ان آیات کا لانے والا معاذ اللہ کوئی بے عقل و مجنون نہیں۔ وہ ساری عمر تمہارے پاس رہا اس کے چھوٹے بڑے حال سے تم واقف ہو اس کی عقل و دانش اور امانت و دیانت پہلے سے مسلم و معروف ہے جس کے پاس سے لایا وہ تمام جہان کا مالک شہنشاہ مطلق اور ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اس کے نہایت ہی محکم و مضبوط نظام سلطنت بلکہ ہر چھوٹی بڑی چیز میں جو اس نے پیدا کی ہے غور کرو تو یہ "آیات تکوینیہ" "آیات تنزیلیہ" کی تصدیق کریں گی۔ پھر آیات اللہ کی تسلیم میں کیا عذر باقی ہے۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ شاید ان کی موت و ہلاکت کا وقت قریب آ لگا ہو۔ لہذا بعد الموت کے لئے جو تیاری کرنی ہے جلد کرنا چاہئے۔ 


یعنی اگر آیات قرآنیہ پر ایمان نہ لائے تو دنیا میں اور کون سی بات اور کون سا کلام ہے جس پر ایمان لانے کی امید کی جا سکتی ہے۔ سمجھ لو کہ ان بدبختوں کے لئے دولت ایمان مقدور ہی نہیں۔


****************************************

هُوَ الَّذى خَلَقَكُم مِن نَفسٍ وٰحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنها زَوجَها لِيَسكُنَ إِلَيها ۖ فَلَمّا تَغَشّىٰها حَمَلَت حَملًا خَفيفًا فَمَرَّت بِهِ ۖ فَلَمّا أَثقَلَت دَعَوَا اللَّهَ رَبَّهُما لَئِن ءاتَيتَنا صٰلِحًا لَنَكونَنَّ مِنَ الشّٰكِرينَ {7:189} 


وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو پیدا کیا ایک جان سے اور اسی سے بنایا اس کا جوڑا تاکہ اسکے پاس آرام پکڑے پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانکا حمل رہا ہلکا سا حمل تو چلتی پھرتی رہی اسکے ساتھ پھر جب بوجھل ہو گئ تو دونوں نے پکارا اللہ اپنے رب کو کہ اگر تو ہم کو بخشے چنگا بھلا تو ہم تیرا شکر کریں۔


****************************************

وَما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم وَأَنتَ فيهِم ۚ وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُم وَهُم يَستَغفِرونَ {8:33} 

اور اللہ ہر گز نہ عذاب کرتا ان پر جب تک تو رہتا ان میں [۲۷] اور اللہ ہرگز نہ عذاب کرے گا ان پر جب تک وہ معافی مانگتے رہیں گے [۲۸] 


نزول عذاب سے دو چیزیں مانع ہیں ایک ان کے درمیان پیغمبر کا موجود رہنا۔ دوسرے استغفار۔ یعنی مکہ میں حضرت کے قدم سےعذاب اٹک رہا تھا۔ اب ان پر عذاب آیا۔ اسی طرح جب تک گنہگار نادم رہے اور توبہ کرتا رہے تو پکڑا نہیں جاتا اگرچہ بڑے سے بڑا گناہ ہو۔ حضرت نے فرمایا کہ گنہگاروں کی پناہ دو چیزیں ہیں۔ ایک میرا وجود اور دوسرے استغفار کذا فی الموضح۔ (تنبیہ) { وَمَا کَانَ اللہُ لَیُعَذِّبَھُمْ } کے جو معنی مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے کئے بعض مفسرین کے موافق ہیں لیکن اکثر کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین جس قسم کا خارق عادت عذاب طلب کر رہے تھے۔ جو قوم کا دفعۃً استیصال کر دے۔ ان پر ایسا عذاب بھیجنے سے دو چیزیں مانع ہیں ایک حضور ﷺ کا وجود باوجود کہ اس کی برکت سے اس امت پر خواہ "امۃ دعوۃ" ہی کیوں نہ ہو ایسا خارق عادت مستاصل عذاب نہیں آتا۔ یوں کسی وقت افراد دوآحاد پر آ جائے وہ اس کے منافی نہیں۔ دوسرے استغفار کرنے والوں کی موجودگی خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم جیسا کہ منقول ہے کہ مشرکین مکہ بھی تلبیہ و طواف وغیرہ میں "غفرانک ، غفرانک" کہا کرتے تھے۔ باقی غیر خارق معمولی عذاب (مثلاً قحط یا وبا یا قتل کثیر وغیرہ) اس کا نزول پیغمبر یا بعض مستغفرین کی موجودگی میں بھی ممکن ہے آخر جب وہ لوگ شرارتیں کریں گے تو خدا کی طرف سے تنبیہ کیوں نہ کی جائے گی۔ آگے اسی کو بیان فرمایا ہے۔ 


سنت اللہ یہ ہے کہ جب کسی قوم پر تکذیب انبیاء کی وجہ سے عذاب نازل کرتے ہیں تو اپنے پیغمبر کو ان سے علیحدہ کر لیتے ہیں۔ خدا نے جب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو مکہ سے علیحدہ کر لیا تب مکہ والے بدر کے عذاب میں پکڑے گئے۔


****************************************

قُل لَن يُصيبَنا إِلّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا هُوَ مَولىٰنا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ {9:51} 

تو کہہ دے ہم کو ہر گز نہ پہنچے گا مگر وہی جو لکھ دیا اللہ نے ہمارے لئے وہی ہے کارساز ہمارا اور اللہ ہی پر چاہئے کہ بھروسہ کریں مسلمان


****************************************

وَعَدَ اللَّهُ المُنٰفِقينَ وَالمُنٰفِقٰتِ وَالكُفّارَ نارَ جَهَنَّمَ خٰلِدينَ فيها ۚ هِىَ حَسبُهُم ۚ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ ۖ وَلَهُم عَذابٌ مُقيمٌ {9:68} 
وعدہ دیا ہے اللہ نے منافق مرد اور منافق عورتوں کو اور کافروں کو دوزخ کی آگ کا پڑے رہیں گے اس میں وہی بس ہے انکو [۷۰] اور اللہ نے انکو پھٹکار دیا اور انکے لئے عذاب ہے برقرار رہنے والا [۷۱] 


شاید یہ مطلب ہو کہ دنیا میں بھی خدا کی پھٹکار (لعنت) کا اثر برابر پہنچتا رہے گا۔ یا پہلے جملہ کی تاکید ہے ۔ واللہ اعلم۔ 


یعنی یہ ایسی کافی سزا ہے جس کے بعد دوسری سزا کی ضرورت نہیں رہتی۔


****************************************

وَعَدَ اللَّهُ المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فى جَنّٰتِ عَدنٍ ۚ وَرِضوٰنٌ مِنَ اللَّهِ أَكبَرُ ۚ ذٰلِكَ هُوَ الفَوزُ العَظيمُ {9:72} 


خدا نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے بہشتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہیں گے اور بہشت ہائے جاودانی میں نفیس مکانات کا (وعدہ کیا ہے) اور خدا کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر نعمت ہے یہی بڑی کامیابی ہے 


وعدہ دیا ہے اللہ نے ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو باغوں کا کہ بہتی ہیں نیچے ان کے نہریں رہا کریں انہی میں اور ستھرے مکانوں کا رہنے کے باغوں میں اور رضامندی اللہ کی ان سب سے بڑی ہے یہی ہے بڑی کامیابی [۷۸] 


یعنی تمام نعمائے دنیوی و اخروی سے بڑھ کر حق تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ جنت بھی اسی لئے مطلوب ہے کہ وہ رضائے الہٰی کا مقام ہے۔ حق تعالیٰ مومنین کو جنت میں ہر قسم کی جسمانی و روحانی نعمتیں اور مسرتیں عطا فرمائے گا۔ مگر سب سے بڑی نعمت محبوب حقیقی کی دائمی رضا ہو گی۔ حدیث صحیح میں ہے کہ حق تعالیٰ اہل جنت کو پکارے گا جنتی "لبیک" کہیں گے۔ دریافت فرمائے گا { ھَلْ رَضِیْتُمْ } یعنی اب تم خوش ہو گئے ۔ جواب دیں گے کہ پروردگار ! خوش نہ ہونے کی کیا وجہ؟ جبکہ آپ نے ہم پر انتہائی انعام فرمایا ہے ۔ ارشاد ہو گا { ھَلْ اُعْطِیْکُمْ اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ } یعنی جو کچھ اب تک دیا گیا ہے کیا اس سے بڑھ کر ایک چیز لینا چاہتے ہو؟ جنتی سوال کریں گے کہ اے پروردگار ! اس سے افضل اور کیا چیز ہو گی؟ اس وقت فرمائیں گے { اُحِلَّ عَلَیْکُمْ رِضْوَانِی فَلَا اَسْخَطُ عَلَیْکُمْ بَعْدَہٗ اَبَدًا } اپنی دائمی رضا اور خوشنودی تم پر اتارتا ہوں جس کے بعد کبھی خفگی اور ناخوشی نہ ہو گی { رزقنا اللہ وسائر المومنین ھذہ الکرامۃ العظیمۃ الباھیرۃ }۔



****************************************

أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها ۚ ذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ {9:89} 

تیار کر رکھے ہیں اللہ نےانکے واسطے باغ کہ بہتی ہیں نیچے انکے نہریں رہا کریں ان میں یہی ہے بڑی کامیابی [۹۹] 


منافقین کے بالمقابل مومنین مخلصین کا بیان فرمایا کہ دیکھو! یہ ہیں خدا کے وفادار بندے۔ جو اس کے راستہ میں نہ جان سے ہٹتے ہیں نہ مال سے کیسا ہی خطرہ کا موقع ہو اسلام کی حمایت اور پیغمبر اسلام کی معیت میں ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں۔ پھر ایسوں کے لئے فلاح و کامیابی نہ ہوگی تو اور کس کے لئے ہو گی۔


****************************************

إِنَّ اللَّهَ اشتَرىٰ مِنَ المُؤمِنينَ أَنفُسَهُم وَأَموٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ ۚ يُقٰتِلونَ فى سَبيلِ اللَّهِ فَيَقتُلونَ وَيُقتَلونَ ۖ وَعدًا عَلَيهِ حَقًّا فِى التَّورىٰةِ وَالإِنجيلِ وَالقُرءانِ ۚ وَمَن أَوفىٰ بِعَهدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاستَبشِروا بِبَيعِكُمُ الَّذى بايَعتُم بِهِ ۚ وَذٰلِكَ هُوَ الفَوزُ العَظيمُ {9:111} 

اللہ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ انکے لئے جنت ہے لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں وعدہ ہو چکا اسکے ذمہ پر سچا توریت اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے قول کا پورا اللہ سے زیادہ سو خوشیاں کرو اس معاملہ پر جو تم نے کیا ہے اس سے اور یہ یہی ہے بڑی کامیابی [۱۲۶] 


اس سے زیادہ سود مند تجارت اور عظیم الشان کامیابی کیا ہوگی کہ ہماری حقیر سی جانوں اور فانی اموال کا خداوند قدوس خریدار بنا۔ ہماری جان و مال کو جو فی الحقیقت اسی کی مملوک و مخلوق ہے محض ادنیٰ ملابست سے ہماری طرف نسبت کر کے "بیع" قرار دیا جو "عقد بیع" میں مقصود بالذات ہوتی ہے ۔ اور جنت جیسے اعلیٰ ترین مقام کو اس کا ثمن بتلایا جو بیع تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں وہ نعمتیں ہوں گی جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی بشر کےقلب پر ان کی کیفیات کا خطور ہوا۔ اب خیال کرو کہ جان و مال جو برائے نام ہمارے کہلاتے ہیں انہیں جنت کا ثمن نہیں بنایا نہ یہ کہا کہ حق تعالیٰ بائع اور ہم مشتری ہوتے تلطف و نوازش کی حد ہو گئ کہ اس ذرا سی چیز کے (حالانکہ وہ بھی فی الحقیقت اسی کی ہے) معاوضہ میں جنت جیسی لازوال اور قیمتی چیز کو ہمارے لئے مخصوص کر دیا جیسا کہ "بالجنۃ" کی جگہ { بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ }فرمانے سے ظاہر ہوتا ہے ؂ نیم جاں بستا مذو صد جاں دہد۔ انچہ درو ہمت نیایدآں دہد۔ پھر یہ نہیں کہ ہمارے جان و مال خرید لئے گئے تو فورًا ہمارے قبضہ سے نکال لئے جائیں صرف اس قدر مطلوب ہے کہ جب موقع پیش آئے جان و مال خدا کے راستہ میں پیش کرنے کے لئے تیار رہیں۔ دینے سے بخل نہ کریں خواہ وہ لیں یا نہ لیں۔ اسی کے پاس چھوڑے رکھیں۔ اسی لئے فرمایا { یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ } یعنی مقصود خدا کی راہ میں جان و مال حاضر کر دینا ہے بعدہٗ ماریں یا مارے جائیں۔ دونوں صورتوں میں عقد بیع پورا ہو گیا اور یقینی طور پر ثمن کے مستحق ٹھہر گئے۔ ممکن ہے کہ کسی کو وسوسہ گذرتا کہ معاملہ تو بیشک بہت سود مند اور فائدہ بخش ہے۔ لیکن ثمن نقد نہیں ملتا۔ اس کا جواب دیا { وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰاتِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ } یعنی زر ثمن کے مارے جانے کا کوئی خطرہ نہیں۔ خدا تعالیٰ نے بہت تاکید و اہتمام سے پختہ دستاویز لکھ دی ہے جس کا خلاف ناممکن ہے۔ کیا خدا سے بڑھ کر صادق القول ، راستباز اور وعدہ کا پکا کوئی دوسرا ہو سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ لہذا اس کا ادھار بھی دوسروں کے نقد سے ہزاروں درجہ پختہ اور بہتر ہو گا۔ پھر مومنین کے لئے خوش ہونے اور اپنی قسمت پر نازاں ہونے کا اس سے بہترکونسا موقع ہو گا کہ خود رب العزت ان کا خریدار بنے اور اس شان سے بنے ۔ سچ فرمایا عبداللہ رواحہ نے کہ یہ وہ بیع ہے جس کے بعد اقالت کی کوئی صورت ہم باقی رکھنا نہیں چاہتے۔ حق تعالیٰ اپنے فضل سے ہم ناتوانوں کو ان مومنین کے زمرہ میں محشور فرمائے۔ آمین۔


****************************************

إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلكُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۖ يُحيۦ وَيُميتُ ۚ وَما لَكُم مِن دونِ اللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلا نَصيرٍ {9:116} 

اللہ ہی کی ہے سلطنت ہے آسمانوں اور زمین میں جلاتا ہے اور مارتا ہے اور تمہارا کوئی نہیں اللہ کے سوا حمایتی اور نہ مددگار [۱۳۳] 


جب اس کی سلطنت ہے تو اسی کا حکم چلنا چاہئے۔ وہ علم محیط اور قدرت کاملہ سے جو احکام نافذ کرے۔ بندوں کا کام ہے کہ بے خوف و خطر تعمیل کریں۔ کسی کی رو رعایت کو دخل نہ دیں۔ کیونکہ خدا کے سوا کوئی کام آنے والا نہیں۔


****************************************

انَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ۖ يُدَبِّرُ الأَمرَ ۖ ما مِن شَفيعٍ إِلّا مِن بَعدِ إِذنِهِ ۚ ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم فَاعبُدوهُ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {10:3} 

تحقیق تمہارا رب اللہ ہے جس نے بنائے آسمان اور زمین چھ دن میں [۴] پھر قائم ہوا عرش پر [۵] تدبیر کرتا ہے کام کی [۶] کوئی سفارش نہیں کر سکتا مگر اس کی اجازت کے بعد [۷] وہ اللہ ہے رب تمہارا سو اسکی بندگی کرو کیا تم دھیان نہیں کرتے [۸] 


یعنی مخلوق کے تمام کاموں کی تدبیر و انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ 


یعنی اتنے وقت میں جو چھ دن کے برابر تھا اور ایک دن ابن عباس کی تفسیر کے موافق ایک ہزار سال کا لیا جائے گا۔ گویا چھ ہزار سال میں زمین و آسمان وغیرہ تیار ہوئے ۔ بلاشبہ حق تعالیٰ قادر تھا کہ آن واحد میں ساری مخلوق کو پیدا کر دیتا۔ لیکن حکمت اسی کو مقتضی ہوئی کی تدریجًا پیدا کیا جائے۔ شاید بندوں کو سبق دینا ہو کہ قدرت کے باوجود ہر کام سوچ سمجھ کر تأنی اور متانت سےکیا کریں۔ نیز تدریجی تخلیق کی بہ نسبت دفعۃً پیدا کرنے کے اس بات کا زیادہ اظہار ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ فاعل بالاضطرار نہیں ۔ بلکہ ہر چیز کا وجود بالکلیہ اس کی مشیت و اختیار سے وابستہ ہے جب چاہے جس طرح چاہے پیدا کرے۔ 


یعنی شریک اور حصہ دار تو اس کی خدائی میں کیا ہوتا ، سفارش کے لئے بھی اس کی اجازت کے بدون لب نہیں ہلا سکتا۔ 


یعنی دھیان کرو کہ ایسے رب کے سوا جس کی صفات اوپر بیان ہوئیں دوسرا کون ہے جس کی بندگی اور پرستش کی جا سکے۔ پھر تم کو کیسے جرأت ہوتی ہے کہ اس خالق و مالک شہنشاہ مطلق اور حکیم برحق کے پیغاموں اور پیغامبروں کو محض اوہام و ظنون کی بنا پر جھٹلانے لگو۔ 


سورہ اعراف کے ساتویں رکوع کے شروع میں اسی طرح کی آیت گذر چکی۔ اس کا فائدہ ملاحظہ کیا جائے۔


****************************************

هُوَ الَّذى جَعَلَ الشَّمسَ ضِياءً وَالقَمَرَ نورًا وَقَدَّرَهُ مَنازِلَ لِتَعلَموا عَدَدَ السِّنينَ وَالحِسابَ ۚ ما خَلَقَ اللَّهُ ذٰلِكَ إِلّا بِالحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الءايٰتِ لِقَومٍ يَعلَمونَ {10:5} 

وہی ہے جس نے بنایا سورج کو چمک (چمکتا) اور چاند کو چاندنا [۱۱] اور مقرر کیں اسکے لئے منزلیں [۱۲] تاکہ پہچانو گنتی برسوں کی اور حساب [۱۳] یوں ہی نہیں بنایا اللہ نے یہ سب کچھ مگر تدبیر سے [۱۴] ظاہر کرتا ہے نشانیاں ان لوگوں کے لئے جن کو سمجھ ہے [۱۵] 


بعض کے نزدیک ''نور'' عام ہے ''ضیاء'' سے ۔ ''ضیاء" خاص اس نور کو کہتے ہیں جو زیادہ تیز اور چمکدار ہو۔ بعض نے کہا کہ جس کی روشنی ذاتی ہو ، وہ ضیاء اور جس کی دوسرے سے مستفاد ہو ، وہ ''نور'' ہے ۔ سورج کی روشنی عالم اسباب میں کسی دوسرے کرہ سے حاصل نہیں ہوئی۔ چاند کی روشنی البتہ سورج سے مستفاد ہے ۔ اور بعض محققین نے دونوں میں یہ فرق بتلایا ہے کہ ''نور'' مطلق روشنی کو کہتے ہیں۔ ''ضیاء'' اور ''ضوء'' اس کے انتشار (پھیلاؤ) کا نام ہے ۔ سورج کی روشنی کا پھیلاؤ چونکہ زیادہ ہے اس لئے ''ضیاء'' سے تعبیر فرمایا۔ واللہ اعلم بمرادہ۔ 


یعنی روزانہ بتدریج گھٹتا بڑھتا ہے۔ { وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْم } (یٰس رکوع۳) علمائے ہیئت نے اس کے دورے کی تقسیم کر کے اٹھائیس منزلیں مقرر کی ہیں۔ جو بارہ بروج پر منقسم ہیں۔ قرآن میں خاص ان کی مصطلحات مراد نہیں مطلق سیر و مسافت کے مدارج مراد ہیں۔ 


یعنی فلکیات کا سلسلہ یوں ہی کیفما اتفق نہیں۔ بلکہ بڑے عظیم الشان نظام و تدبیر کے ماتحت اور ہزارہا فوائد و حکم پر مشتمل ہے۔ 


یعنی سمجھ دار لوگ مصنوعات کے اس نظام کو دیکھ کر خداوند قادر و حکیم کی ہستی کا سراغ پاتے ہیں اور مادیات کے انتظام سے روحانیات کے متعلق بھی اندازہ کر لیتے ہیں کہ وہاں کی دنیا میں کیسے کیسے چاند سورج خدا نے پیدا کئے ہوں گے۔ انہی کو انبیاء و مرسلین کہہ لیجئے۔ 


یعنی برسوں کی گنتی اور مہینوں اور دنوں کے چھوٹے موٹے حساب سب چاند سورج کی رفتار سے وابستہ کر دیے ہیں۔ اگر چاند سورج نہ ہوں تو دن رات ، قمری اور شمسی مہینے اور سال وغیرہ کیسے متعین ہوں ۔ حالانکہ علادہ دنیوی زندگی اور معاشی کاروبار کے بہت سے احکام شرعیہ میں بھی تعین اوقات کی ضرورت ہے۔



****************************************

هُوَ الَّذى يُسَيِّرُكُم فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۖ حَتّىٰ إِذا كُنتُم فِى الفُلكِ وَجَرَينَ بِهِم بِريحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحوا بِها جاءَتها ريحٌ عاصِفٌ وَجاءَهُمُ المَوجُ مِن كُلِّ مَكانٍ وَظَنّوا أَنَّهُم أُحيطَ بِهِم ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ لَئِن أَنجَيتَنا مِن هٰذِهِ لَنَكونَنَّ مِنَ الشّٰكِرينَ {10:22} 


وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے اور کشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم جھونکوں) سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے اور لہریں ہر طرف سے ان پر (جوش مارتی ہوئی) آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (اب تو) لہروں میں گھر گئے تو اس وقت خالص خدا ہی کی عبادت کرکے اس سے دعا مانگنے لگتے ہیں کہ (اے خدا) اگر تو ہم کو اس سے نجات بخشے تو ہم (تیرے) بہت ہی شکر گزار ہوں 


وہی تم کو پھراتا ہے جنگل اور دریا میں یہاں تک کہ جب تم بیٹھے کشتیوں میں اور لے کر چلیں وہ لوگوں کو اچھی ہوا سے اور خوش ہوئے اس سے آئی کشتیوں پر ہوا تند اور آئی ان پر موج ہر جگہ سے اور جان لیا انہوں نےکہ وہ گھر گئے پکارنے لگے اللہ کو خالص ہو کر اس کی بندگی میں اگر تو نے بچا لیا ہم کو اس سے تو بیشک ہم رہیں گے شکر گذار



****************************************

قُل مَن يَرزُقُكُم مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ أَمَّن يَملِكُ السَّمعَ وَالأَبصٰرَ وَمَن يُخرِجُ الحَىَّ مِنَ المَيِّتِ وَيُخرِجُ المَيِّتَ مِنَ الحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمرَ ۚ فَسَيَقولونَ اللَّهُ ۚ فَقُل أَفَلا تَتَّقونَ {10:31} 


(ان سے) پوچھو کہ تم کو آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے۔ جھٹ کہہ دیں گے کہ خدا۔ تو کہو کہ پھر تم (خدا سے) ڈرتے کیوں نہیں؟ 


تو پوچھ کون روزی دیتا ہے تم کو آسمان سے اور زمین سے [۴۹] یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا [۵۰] اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے [۵۱] اور کون تدبیر کرتا ہے کاموں کی [۵۲] سو بو ل اٹھیں گے کہ اللہ تو تو کہہ پھر ڈرتے نہیں ہو 


آسمان کی طرف سے بارش اور حرارت شمس وغیرہ پہنچتی ہے اور زمینی مواد اس کے ساتھ ملتے ہیں تب انسان کی روزی مہیا ہوتی ہے۔ 


یعنی دنیا کے تمام کاموں کی تدبیر و انتظام کون کرتا ہے۔ 


یعنی ایسے عجبیب و غریب محیرالعقول طریقہ سے کس نے کان اور آنکھ پیدا کی۔ پھر ان کی حفاظت کا سامان کیا۔ کون ہے جو ان تمام قویٰ انسانی کا حقیقی مالک ہےکہ جب چاہے عطا فرما دے اور جب چاہے چھین لے۔ 


مثلاً ''نطفہ'' یا ''بیضہ'' سےجاندار کو ، پھر جاندار سے نطفہ اور بیضہ کو نکالتا ہے۔ یا روحانی اور معنوی طور پر جو شخص یا قوم مردہ ہو چکی اس میں سے زندہ دل افراد پیدا کرتا ہے اور زندہ قوموں کے اخلاف پر ان کی بدبختی سے موت طاری کر دیتا ہے۔



****************************************

قُل هَل مِن شُرَكائِكُم مَن يَبدَؤُا۟ الخَلقَ ثُمَّ يُعيدُهُ ۚ قُلِ اللَّهُ يَبدَؤُا۟ الخَلقَ ثُمَّ يُعيدُهُ ۖ فَأَنّىٰ تُؤفَكونَ {10:34} 


(ان سے) پوچھو کہ بھلا تمھارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے کہ مخلوق کو ابتداً پیدا کرے (اور) پھر اس کو دوبارہ بنائے؟ کہہ دو کہ خدا ہی پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا تو تم کہاں اُکسے جارہے ہو 


پوچھ کوئی ہے تمہارے شریکوں میں جو پیدا کرے خلق کو پھر دوبارہ زندہ کرے تو کہہ اللہ پیدا کرتا ہے پھر اس کو دہرائے گا سو کہاں سے پلٹے جاتے ہو [۵۵] 


یہاں تک ''مبدأ'' کا ثبوت تھا اب ''معاد'' کا ذکر ہے ۔ یعنی جب اعتراف کر چکے کہ زمین ، آسمان ، سمع و بصر موت و حیات سب کا پیدا کرنے والا اور تھامنے والا وہ ہی ہے تو ظاہر ہے کہ مخلوق کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا اور دہرا دینا بھی اسی کا فعل ہو سکتا ہے۔ پھر انبیاء علیہم السلام کی زبانی جب وہ خود اس دہرانے کی خبر دیتا ہے تو اس کی تسلیم میں کیا عذر ہے۔ ''مبداء'' کا اقرار کر کے ''معاد'' کی طرف سے کہاں پلٹے جاتے ہو۔



****************************************
قُل هَل مِن شُرَكائِكُم مَن يَهدى إِلَى الحَقِّ ۚ قُلِ اللَّهُ يَهدى لِلحَقِّ ۗ أَفَمَن يَهدى إِلَى الحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لا يَهِدّى إِلّا أَن يُهدىٰ ۖ فَما لَكُم كَيفَ تَحكُمونَ {10:35} 


پوچھو کہ بھلا تمہارے شریکوں میں کون ایسا ہے کہ حق کا رستہ دکھائے۔ کہہ دو کہ خدا ہی حق کا رستہ دکھاتا ہے۔ بھلا جو حق کا رستہ دکھائے وہ اس قابل ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے یا وہ کہ جب تک کوئی اسے رستہ نہ بتائے رستہ نہ پائے۔ تو تم کو کیا ہوا ہے کیسا انصاف کرتے ہو؟ 


پوچھ کوئی ہے تمہارے شریکوں میں جو راہ بتلائے صحیح تو کہہ اللہ راہ بتلاتا ہے صحیح تو اب جو کوئی راہ بتائے صحیح اسکی بات ماننی چاہئے یا اسکی جو آپ نہ پائے راہ مگر جب کوئی اور اسکو راہ بتلائے سو کیا ہو گیا تم کو کیسا انصاف کرتے ہو [۵۶] 


''مبداء'' و ''معاد'' کے بعد درمیانی وسائط کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی جس طرح اول پیدا کرنے والا اور دوبارہ جلانے والا وہ ہی خدا ہے ، ایسے ہی ''معاد'' کی صحیح راہ بتلانے والا بھی کوئی دوسرا نہیں ۔ خدا ہی بندوں کی صحیح اور سچی رہنمائی کر سکتا ہے۔ مخلوق میں کوئی بڑا ہو یا چھوٹا، سب اسی کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ اسی کی ہدایت و رہنمائی پر سب کو چلنا چاہئیے بت مسکین تو کس شمار میں ہیں جو کسی کی رہنمائی سے بھی چلنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ بڑے بڑے مقربین (انبیاء و ملائکہ علیہم السلام) بھی برابر یہ اقرار کرتے آئے ہیں کہ خدا کی ہدایت و دستگیری کے بدون ہم ایک قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ان کی رہنمائی بھی اسی لئے بندوں کے حق میں قابل قبول ہے کہ خدا بلاواسطہ ان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ پھر یہ کس قدر نا انصافی ہے کہ انسان اس ہادی مطلق کو چھوڑ کر باطل اور کمزور سہارے ڈھونڈے ۔ یا مثلاً احبار و رہبان پر برہمنوں اور مہنتوں کی رہنمائی پر اندھا دھند چلنے لگے۔


****************************************
إِنَّ اللَّهَ لا يَظلِمُ النّاسَ شَيـًٔا وَلٰكِنَّ النّاسَ أَنفُسَهُم يَظلِمونَ {10:44} 


خدا تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں 


اللہ ظلم نہیں کرتا لوگوں پر کچھ بھی لیکن لوگ اپنے اوپر آپ ظلم کرتے ہیں [۶۷] 


یعنی جن کے دل میں اثر نہیں ہوتا یہ ان ہی کی تقصیر ہے ۔ خود اپنی بے اعتدالیوں اور غلط کاریوں سے انہوں نے قوائے ادراکیہ کو تباہ کر لیا ہے۔ ورنہ اصل فطرت سے ہر آدمی کو خدا نے سمجھنے اور قبول کرنے کی استعداد بخشی ہے۔


****************************************
أَلا إِنَّ لِلَّهِ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۗ أَلا إِنَّ وَعدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلٰكِنَّ أَكثَرَهُم لا يَعلَمونَ {10:55} 


سن رکھو جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ اور یہ بھی سن رکھو کہ خدا کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے 


سن رکھو اللہ کا ہے جو کچھ ہے آسمان اور زمین میں سن رکھو وعدہ اللہ کا سچ ہے [۸۱] پر بہت لوگ نہیں جانتے [۸۲] 


یعنی سوء استعداد بد فہمی اور غلفت سے اکثر لوگ ان حقائق کو نہیں سمجھتے ۔ اسی لئے جو زبان پر آئے بک دیتے ہیں۔ اور جو جی میں آئے کرتے ہیں۔ 


یعنی سارے جہان میں حکومت صرف اللہ کی ہے ۔ انصاف ہو کر رہے گا۔ کوئی مجرم نہ کہیں بھاگ سکتا ہے نہ رشوت دے کر چھوٹ سکتا ہے ۔


****************************************

قُل أَرَءَيتُم ما أَنزَلَ اللَّهُ لَكُم مِن رِزقٍ فَجَعَلتُم مِنهُ حَرامًا وَحَلٰلًا قُل ءاللَّهُ أَذِنَ لَكُم ۖ أَم عَلَى اللَّهِ تَفتَرونَ {10:59} 


کہو کہ بھلا دیکھو تو خدا نے تمھارے لئے جو رزق نازل فرمایا تو تم نے اس میں سے (بعض کو) حرام ٹھہرایا اور (بعض کو) حلال (ان سے) پوچھو کیا خدا نے تم کو اس کا حکم دیا ہے یا تم خدا پر افتراء کرتے ہو 


تو کہہ بھلا دیکھو تو اللہ نے جو اتاری تمہارے واسطے روزی پھر تم نے ٹھہرائی اس میں سے کوئی حرام اور کوئی حلال کہہ کیا اللہ نے حکم دیا تم کو یا اللہ پر افترا کرتے ہو [۸۷] 


یعنی قرآن جو نصیحت ، شفاء اور ہدایت و رحمت بن کر آیا ہے وہ ہی استناد اور تمسک کرنے کے لائق ہے۔ احکام الہٰیہ کی معرفت اور حلال و حرام کی تمیز اسی سے ہو سکتی ہے ۔ یہ کیا واہیات ہے کہ خدا نے تو تمہارے انتفاع کے لئے ہر قسم کی روزی پیدا کی۔ پھر تم نے محض اپنی آراء و اہواء سے اس میں سے کسی چیز کو حلال ، کسی کو حرام ٹھہرا لیا ۔ بھلا تحلیل و تحریم کا تم کو کیا حق ہے۔ کیا تم یہ کہنے کی جرأت کر سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ نے ایسا حکم دیا، یا یوں ہی خدا پر افتراء کر رہے ہو۔ اگلی آیت میں صاف اشارہ کر دیا کہ بجز افتراء علی اللہ کے اور کچھ نہیں۔ (تنبیہ) جن چیزوں کو حلال و حرام کیا تھا ان کا مفصل تذکرہ سورہ مائدہ اور انعام میں گذر چکا۔


****************************************
أَلا إِنَّ لِلَّهِ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَمَن فِى الأَرضِ ۗ وَما يَتَّبِعُ الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ شُرَكاءَ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُصونَ {10:66} 


سن رکھو کہ جو مخلوق آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے سب خدا کے (بندے اور اس کے مملوک) ہیں۔ اور یہ جو خدا کے سوا (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو پکارتے ہیں۔ وہ (کسی اور چیز کے) پیچھے نہیں چلتے۔ صرف ظن کے پیچھے چلتے ہیں اور محض اٹکلیں دوڑا رہے ہیں 


سنتا ہے بیشک اللہ کا ہے جو کوئی ہے آسمانوں میں اور جو کوئی ہے زمین میں اور یہ جو پیچھے پڑے ہیں اللہ کے سوا شریکوں کو پکارنے والے سو یہ کچھ نہیں مگر پیچھے پڑے ہیں اپنے خیال کے اور کچھ نہیں مگر اٹکلیں دوڑاتے ہیں [۹۶] 


یعنی کل زمین و آسمان میں خدائے واحد کی سلطنت ہے۔ سب جن و انس اور فرشتے اسی کے مملوک و مخلوق ہیں۔ مشرکین کا غیر اللہ کو پکارنا اور انہیں خدائی کا حصہ دار بنانا ، محض اٹکل کے تیر اور واہی تباہی خیالات ہیں۔ ان کے ہاتھ میں نہ کوئی حقیقت ہے نہ حجت و برہان ، خالی اوہام و ظنون کی اندھیریوں میں پڑے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔


****************************************

وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدكَ بِخَيرٍ فَلا رادَّ لِفَضلِهِ ۚ يُصيبُ بِهِ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ ۚ وَهُوَ الغَفورُ الرَّحيمُ {10:107} 


اور اگر خدا تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تم سے بھلائی کرنی چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فائدہ پہنچاتا ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے 


اور اگر پہنچا دیوے تجھ کو اللہ کچھ تکلیف تو کوئی نہیں اس کو ہٹانے والا اس کے سوا اور اگر پہنچانا چاہے تجھ کو کچھ بھلائی تو کوئی پھرنے والا نہیں اس کے فضل کو پہنچائے اپنا فضل جس پر چاہے اپنے بندوں میں اور وہی ہے بخشنے والا مہربان [۱۴۰] 


جب ان چیزوں کے پکارنے سے منع کیا جن کے قبضہ میں تمہارا بھلا برا کچھ نہیں تو مناسب ہوا کہ اس کے بالمقابل مالک علی الاطلاق کا ذکر کیا جائے جو تکلیف و راحت اور بھلائی برائی کے پورے سلسلہ پر کامل اختیار اور قبضہ رکھتا ہے جس کی بھیجی ہوئی تکلیف کو دنیا میں کوئی نہیں ہٹا سکتا ۔ اور جس پر فضل و رحمت فرمانا چاہے کسی کی طاقت نہیں کہ اسے محروم کر سکے۔



****************************************

اللَّهُ الَّذى رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيرِ عَمَدٍ تَرَونَها ۖ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمسَ وَالقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجرى لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الأَمرَ يُفَصِّلُ الءايٰتِ لَعَلَّكُم بِلِقاءِ رَبِّكُم توقِنونَ {13:2} 

اللہ وہ ہے جس نے اونچے بنائے آسمان بغیر ستون دیکھتے ہو [۲] پھر قائم ہوا عرش پر [۳] اور کام میں لگا دیا سورج اور چاند کو ہر ایک چلتا ہے وقت مقرر پر (تک) [۴] تدبیر کرتا ہے کام کی ظاہر کرتا ہے نشانیاں کہ (تاکہ) شاید تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کرو [۵] 


یعنی جس نے ایسی عظیم الشان مخلوقات کو پیدا کیا اسے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے ۔ نیز ایک باخبر ، مدبر، بیدا مغز اور طاقتور گورنمنٹ باغیوں اور مجرموں کو ہمیشہ کے لئے یوں ہی آزاد نہیں چھوڑے رکھتی۔ نہ وفادار امن پسند رعایا کی راحت رسانی سے اغماض کر سکتی ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ خداوند قدوس جو زمین و آسمان کے تخت کا تنہا مالک اور اپنی تدبیر و حکمت سے تمام مخلوقات علوی و سفلی کا انتظام باحسن اسلوب قائم رکھنے والا ہے۔ مطیع و عاصی کو یوں ہی مہمل چھوڑے رکھے۔ ضرور ہے کہ ایک دن وفاداروں کو وفاداری کا صلہ ملے اور مجرم اپنی سزا کو پہنچیں۔ پھر جب اس زندگی میں مطیع و عاصی کےدرمیان ہم ایسی صاف تفریق نہیں دیکھتے تو یقینًا ماننا پڑے گا کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے جس میں سب کو آسمانی عدالت کے سامنے حاضر ہو کر عمر بھر کے اعمال کا پھل چکھنا ہوگا۔ 


یعنی اس دنیا کی ایسی عظیم الشان ، بلند اور مضبوط چھت خدا نے بنائی جسے تم دیکھتے ہو۔ اور لطف یہ ہے کہ کوئی ستون یا کھمبا یا گرڈر دکھائی نہیں دیتا جس پر اتنی بڑی ڈاٹ کھڑی کی گئ بجز اس کے کیا کہا جائے کہ محض قدرت کے غیر مرئی ستون کے سہارے اس کا قیام ہے۔ { وَیُمْسِکَ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِہٖ } (حج رکوع۹) کشش اجسام کا نظریہ اگر صحیح ہو تو وہ اس آیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ کشش کو عرفًا عُمد نہیں کہتے اور اگر عمد کہا جائے تو مرئی نہیں ہے۔ { رُوِیَ عنِ ابنِ عَبَاسٍ وَمُجَاھِدٍ وَالْحَسَنِ وَقَتَادَۃَ وَغَیْرِ وَاحِدٍ اَنَّھُمْ قَالُوْالَھَا عُمُدٌ وَلَکِنْ لَا نَرَیٰ } (ابن کثیرؒ) یعنی ان بزرگوں نے فرمایا کہ آسمانوںکے ستون ہیں جو ہم کونظر نہیں آتے۔ واللہ اعلم۔ 


یعنی سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں پورا کرتا ہے یا { لِاَجَلٍ مُّسَمًّی } کے معنی وقت مقرر تک لئے جائیں تو یہ مطلب ہو گا کہ چاند سورج اسی طرح چلتے رہیں گے ۔ قیامت تک۔ 


"استواء علی العرش" کے متعلق سورہ اعراف آٹھویں پارہ کے آخر میں کلام کیا گیا ہے وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔


****************************************
اللَّهُ يَعلَمُ ما تَحمِلُ كُلُّ أُنثىٰ وَما تَغيضُ الأَرحامُ وَما تَزدادُ ۖ وَكُلُّ شَيءٍ عِندَهُ بِمِقدارٍ {13:8} 


خدا ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے)۔ اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے 


اللہ جانتا ہے جو پیٹ میں رکھتی ہے ہر مادہ [۱۶] اور جو سکڑتے ہیں پیٹ اور بڑھتے ہیں اور ہر چیز کا اس کے یہاں اندازہ ہے [۱۷] 


یعنی حاملہ کے پیٹ میں ایک بچہ ہے یا زیادہ ، پورا بن چکا ہے یا ناتمام ہے ، تھوڑی مدت میں پیدا ہو گا یا زیادہ میں۔ غرض پیٹ گھٹنے بڑھنے کے تمام اسرار و اسباب اور اوقات و احوال کو پوری طرح جانتا ہے۔ اور اپنے علم محیط کے موافق ہر چیز کو ہر حالت میں اس کے اندازہ اور استعداد کے موافق رکھتا ہے۔ اسی طرح اس نے جو آیات انبیاء علیہم السلام کی تصدیق کے لئے اتاری ہیں ان میں خاص اندازہ اور مصالح و حکم ملحوظ رہی ہیں۔ جس وقت جس قدر بنی آدم کی استعداد و صلاحیت کے مطابق نشانات کا ظاہر کرنا مصلحت تھا اس میں کمی نہیں ہوئی۔ باقی قبول کرنے اور منتفع ہونے کے لحاظ سے لوگوں کا اختلاف ایسا ہی ہے جیسے حوامل کے پیٹ سے پیدا ہونے والوں کے احوال تفاوت استعداد و تربیت کی بناء پر مختلف ہوتے ہیں۔ 


کہ مذکر ہے یا مونث ، پورا ہے یا ادھورا ، اچھا ہے یا برا ، وغیرہ ذلک من الاحوال۔ 






















قُل مَن رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُل أَفَاتَّخَذتُم مِن دونِهِ أَولِياءَ لا يَملِكونَ لِأَنفُسِهِم نَفعًا وَلا ضَرًّا ۚ قُل هَل يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ أَم هَل تَستَوِى الظُّلُمٰتُ وَالنّورُ ۗ أَم جَعَلوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقوا كَخَلقِهِ فَتَشٰبَهَ الخَلقُ عَلَيهِم ۚ قُلِ اللَّهُ خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ وَهُوَ الوٰحِدُ القَهّٰرُ {13:16} 


ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ (تم ہی ان کی طرف سے) کہہ دو کہ خدا۔ پھر (ان سے) کہو کہ تم نے خدا کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو کیوں کارساز بنایا ہے جو خود اپنے نفع ونقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے (یہ بھی) پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟ یا اندھیرا اور اُجالا برابر ہوسکتا ہے؟ بھلا ان لوگوں نے جن کو خدا کا شریک مقرر کیا ہے۔ کیا انہوں نے خدا کی سی مخلوقات پیدا کی ہے جس کے سبب ان کو مخلوقات مشتبہ ہوگئی ہے۔ کہہ دو کہ خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ یکتا (اور) زبردست ہے 


پوچھ کون ہے رب آسمان اور زمین کا کہدے اللہ ہے کہہ پھر کیا تم نے پکڑے ہیں اس کے سوا ایسے حمایتی جو مالک نہیں اپنے بھلے اور برے کے [۲۷] کہہ کیا برابر ہوتا ہے اندھا اور دیکھنے والا یا کہیں برابر ہے اندھیرا اور اجالا [۲۸]کیا ٹھہرائے ہیں انہوں نے اللہ کے لئے شریک کہ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے جیسے پیدا کیا اللہ نے پھر مشتبہ ہو گئ پیدائش انکی نظر میں کہہ اللہ ہے پیدا کرنے والا ہر چیز کا اور وہی ہے اکیلا زبردست [۲۹] 


یعنی موحد و مشرک میں ایسا فرق ہے جیسے بینا اور نابینا میں اور توحید و شرک کا مقابلہ ایسا سمجھو جیسے نور کا ظلمت سے ۔ تو کیا ایک اندھا مشرک جو شرک کی اندھیریوں میں پڑا ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہو اس مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں ایک موحد کو پہنچنا ہے جو فہم و بصیرت اور ایمان و عرفان کی روشنی میں فطرت انسانی کے صاف راستہ پر چل رہا ہے ؟ ہرگز دونوں ایک نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔ 


یعنی جیسی مخلوقات خدا تعالیٰ نے پیدا کی ، کیا تمہارےدیوتاؤں نے ایسی کوئی چیز پیدا کی ہے جسے دیکھ کر ان پر خدائی کا شبہ ہونے لگا۔ وہ تو ایک مکھی کا پر اور ایک مچھر کی ٹانگ بھی نہیں بنا سکتے۔ بلکہ تمام چیزوں کی طرح خود بھی اسی اکیلے زبردست خدا کی مخلوق ہیں۔ پھر ایسی عاجز و مجبور چیزوں کو خدائی کے تخت پر بٹھا دینا کس قدر گستاخی اور شوخ چشمی ہے۔ 


یعنی جب ربوبیت کا اقرار صرف خدا کے لئے کرتے ہو ، پھر مدد کے لئے دوسرے حمایتی کہاں سے تجویز کر لئے ۔ حالانکہ وہ برابر ذرہ نفع نقصان کا مستقل اختیار نہیں رکھتے۔





















أَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَسالَت أَودِيَةٌ بِقَدَرِها فَاحتَمَلَ السَّيلُ زَبَدًا رابِيًا ۚ وَمِمّا يوقِدونَ عَلَيهِ فِى النّارِ ابتِغاءَ حِليَةٍ أَو مَتٰعٍ زَبَدٌ مِثلُهُ ۚ كَذٰلِكَ يَضرِبُ اللَّهُ الحَقَّ وَالبٰطِلَ ۚ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذهَبُ جُفاءً ۖ وَأَمّا ما يَنفَعُ النّاسَ فَيَمكُثُ فِى الأَرضِ ۚ كَذٰلِكَ يَضرِبُ اللَّهُ الأَمثالَ {13:17} 


اسی نے آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہہ نکلے پھر نالے پر پھولا ہوا جھاگ آگیا۔ اور جس چیز کو زیور یا کوئی اور سامان بنانے کے لیے آگ میں تپاتے ہیں اس میں بھی ایسا ہی جھاگ ہوتا ہے۔ اس طرح خدا حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے۔ سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہو جاتا ہے۔ اور (پانی) جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے۔ اس طرح خدا (صحیح اور غلط کی) مثالیں بیان فرماتا ہے (تاکہ تم سمجھو) 


اتارا اس نے آسمان سے پانی پھر بہنے لگے نالےاپنی اپنی موافق پھر اوپر لے آیا وہ نالا جھاگ پھولا ہوا اور جس چیز کو دھونکتے ہیں آگ میں واسطے زیور کے یا اسباب کے اسمیں بھی جھاگ ہے ویسا ہی یوں بیان (ٹھہراتا ہے) کرتا ہے اللہ حق اور باطل کو سو وہ جھاگ تو جاتا رہتا ہے سوکھ کر اور وہ جو کام آتا ہے لوگوں کے سو باقی رہتا ہے زمین میں اس طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں [۳۰] 


آسمان کی طرف سے بارش اتری جس سے ندی نالے بہہ پڑے ۔ ہر نالے میں اس کے ظرف اور گنجائش کے موافق جتنا خدا نے چاہا پانی جاری کر دیا چھوٹے میں کم بڑے میں زیادہ۔ پانی جب زمین پر رواں ہوا تو مٹی اور کوڑا کرکٹ ملنے سے گدلا ہو گیا۔ پھر میل کچیل اور جھاگ پھول کر اوپر آیا ۔ جیسے تیز آگ میں ، چاندی ، تانبا ، لوہا اور دوسری معدنیات پگھلاتے ہیں تا زیور ، برتن اور ہتھیار وغیرہ تیار کریں اس میں بھی اسی طرح جھاگ اٹھتا ہے مگر تھوری دیر بعد خشک یا منتشر ہو کر جھاگ جاتا رہتا ہے اور جو اصلی کارآمد چیز تھی (یعنی پانی یا پگھلی ہوئی معدنیات) وہ ہی زمین میں یا زمین والوں کے ہاتھ میں باقی رہ جاتی ہے۔ جس سے مختلف طور پر لوگ منتفع ہوتے ہیں۔ یہ ہی مثال حق و باطل کی سمجھ لو ۔ جب وحی آسمانی دین حق کو لے کر اترتی ہے تو قلوب بنی آدم اپنے اپنے ظرف اور استعداد کے موافق فیض حاصل کرتے ہیں ، پھر حق اور باطل باہم بھڑ جاتے ہیں۔ تو میل ابھر آتا ہے۔ بظاہر باطل جھاگ کی طرح حق کو دبا لیتا ہے ۔ لیکن اس کا یہ ابال عارضی اور بے بنیاد ہے تھوڑی دیر بعد اس کےجوش و خروش کا پتہ نہیں رہتا۔ خدا جانے کدھر گیا۔ جو اصلی اور کارآمد چیز جھاگ کے نیچے دبی ہوئی تھی (یعنی حق و صداقت) بس وہ ہی رہ گئ۔ دیکھو ! خدا کی بیان کردہ مثالیں کیسی عجیب ہوتی ہیں کیسے موثر طرز میں سمجھایا کہ دنیا میں جب حق و باطل بھڑتے ہیں یعنی دونوں کا جنگی مقابلہ ہوتا ہے تو گو برائے چندے باطل اونچا اور پھولا ہوا نظر آئے ، لیکن آخرکار باطل کو منتشر کر کے حق ہی ظاہر و غالب ہو کر رہے گا۔ کسی مومن کو باطل کی عارضی نمائش سے دھوکا نہ کھانا چاہئے اسی طرح کسی انسان کے دل میں جب حق اتر جائے کچھ دیر کے لئے اوہام و وساوس زور شور دکھلائیں تو گھبرانے کی بات نہیں ، تھوڑی دیر میں یہ اوبال بیٹھ جائے گا اور خالص حق ثابت و مستقر رہے گا۔ گذشتہ آیات میں چونکہ توحید و شرک کا مقابلہ کیا گیا تھا ، اس مثال میں حق و باطل کے مقابلہ کی کیفیت بتلا دی ، آگے دونوں کا انجام بالکل کھول کر بیان کرتے ہیں۔


















اللَّهُ يَبسُطُ الرِّزقَ لِمَن يَشاءُ وَيَقدِرُ ۚ وَفَرِحوا بِالحَيوٰةِ الدُّنيا وَمَا الحَيوٰةُ الدُّنيا فِى الءاخِرَةِ إِلّا مَتٰعٌ {13:26} 


خدا جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور (جس کا چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے۔ اور کافر لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہو رہے ہیں اور دنیا کی زندگی آخرت (کے مقابلے) میں (بہت) تھوڑا فائدہ ہے 


اللہ کشادہ کرتا ہے روزی جس کو چاہے اور تنگ کرتا ہے [۴۵] اور فریفتہ ہیں دنیا کی زندگی پر اور دنیا کی زندگی کچھ نہیں آخرت کے آگے مگر متاع (مال) حقیر [۴۶] 


یعنی اسی کو مقصود سمجھ کر اتراتے اور اکڑتے ہیں۔ حالانکہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی محض ہیچ ہے جیسے ایک شخص اپنی انگلی سے سمندر کو چھوئے تو وہ تری جو انگلی کو پہنچی ہے سمندر کے سامنے کیا حقیقت رکھی ہے۔ دنیا کی آخرت کے مقابل اتنی بھی حقیقت نہیں۔ لہذا عقلمند کو چاہئے کہ فانی کو باقی پر کو مقدم رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے بذات خود مقصود نہیں۔ یہاں کے سامانوں سے اس طرح تمتع کرو جو آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنے جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا۔ 


یعنی دنیا کے عیش و فراخی کو دیکھ کر سعادت و شقاوت کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ نہ یہ ضروری ہے کہ جس کو دنیا میں خدا نے رزق اور پیسہ زیادہ دیا ہے وہ اس کی بارگاہ میں مقبول ہو۔ بہت سے مقبول بندے بطور آزمائش و امتحان یہاں عسرت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور مردود مجرموں کو ڈھیل دی جاتی ہے وہ مزے اڑاتے ہیں ۔ یہ ہی دلیل اس کی ہے کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے جہاں ہر شخص کو اس کے نیک و بد اعمال کا پورا پورا پھل مل کر رہے گا۔ بہرحال دنیا کی تنگی و فراخی مقبول و مردود ہوے کا معیار نہیں بن سکتا۔ 















اللَّهِ الَّذى لَهُ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۗ وَوَيلٌ لِلكٰفِرينَ مِن عَذابٍ شَديدٍ {14:2} 


وہ خدا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ اور کافروں کے لیے عذاب سخت (کی وجہ) سے خرابی ہے 


اللہ کہ جس کا ہے جو کچھ کہ موجود ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں [۲] اور مصیبت ہے کافروں کو ایک سخت عذاب سے [۳] 


یعنی صحیح معرفت کی روشنی میں اس راستہ پر چل پڑیں جو زبردست و غالب ، ستودہ صفات ، شہنشاہ مطلق اور مالک الکل خدا کا بتایا ہوا اور اس کے مقام رضاء تک پہنچانے والا ہے۔ 


یعنی جو لوگ ایسی کتاب نزال ہونے کے بعد کفر و شرک اور جہالت و ضلالت کی اندھیری سے نہ نکلے ان کو سخت عذاب اور ہلاکت خیز مصیبت کا سامنا ، آخرت میں یا دنیا میں بھی۔















اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزقًا لَكُم ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الفُلكَ لِتَجرِىَ فِى البَحرِ بِأَمرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الأَنهٰرَ {14:32} 


خدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے تمہارے کھانے کے لیے پھل پیدا کئے۔ اور کشتیوں (اور جہازوں) کو تمہارے زیر فرمان کیا تاکہ دریا (اور سمندر) میں اس کے حکم سے چلیں۔ اور نہروں کو بھی تمہارے زیر فرمان کیا 


اللہ وہ ہے جس نے بنائے آسمان اور زمین اور اتارا آسمان سے پانی [۵۵] پھر اس سے نکالی روزی تمہاری میوے [۵۶] اور کہنے میں کیا تمہارے کشتی کو (کام میں دیں تمہارے کشتیاں کہ چلیں) کہ چلے دریا میں اسکے حکم سے [۵۷] اور کام میں لگایا (دیں) تمہارے ندیوں (ندیاں) کو 


یعنی سمندر کی خوفناک لہروں میں ذرا سی کشتی پر سوار ہو کر کہاں سے کہاں پہنچتے ہو اور کس قدر تجارتی یا غیر تجارتی فوائد حاصل کرتے ہو ، یہ خدا ہی کی قدرت اور حکم سے ہے کہ سمندر کے تھپیڑوں میں ذرا سی ڈونگی کو ہم جدھر چاہیں لئے پھرتے ہیں۔ 


یعنی آسمان کی طرف سے پانی اتارا ، یا یہ مطلب ہو کہ بارش کے آنے میں بخارات وغیرہ ظاہری اسباب کے علاوہ غیر مرئی سماوی اسباب کو بھی دخل ہے۔ دیکھو آفتاب کی شعاعیں تمام اشیا کی طرح آتشیں شیشہ پر بھی پڑتی ہیں لیکن وہ اپنی مخصوص ساخت اور استعداد کی بدولت انہی شعاعوں سے غیر مرئی طور پر اس درجہ حرارت کا استفادہ کرتا ہے جو دوسری چیزیں نہیں کرتیں ۔ چاند سمندر سے کتنی دور ہے ، مگر اس کے گھٹنے بڑھنے سے سمندر کے پانی میں مد وجزر پیدا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر بادل بھی کسی سماوی خزانہ سے غیر محسوس طریقہ پر مستفید ہوتا ہو تو انکار کی کونسی وجہ ہے۔ 


یعنی حق تعالیٰ نے اپنے کمال قدرت و حکمت سے پانی میں ایک قوت رکھی جو درختوں اور کھیتوں کے نشوونما اور بارآور ہونے کا سبب بنتی ہے ۔ اسی کے ذریعہ سے پھل اور میوے ہمیں کھانے کو ملتے ہیں۔















وَلا تَحسَبَنَّ اللَّهَ غٰفِلًا عَمّا يَعمَلُ الظّٰلِمونَ ۚ إِنَّما يُؤَخِّرُهُم لِيَومٍ تَشخَصُ فيهِ الأَبصٰرُ {14:42} 


اور (مومنو) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں خدا ان سے بےخبر ہے۔ وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ (دہشت کے سبب) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی 


اور ہرگز مت خیال کر کہ اللہ بیخبر ہے ان کاموں سے جو کرتے ہیں بے انصاف [۷۲] ان کو تو ڈھیل دے رکھی ہے (چھوڑ رکھا ہے) اس دن کے لئے کہ پتھرا جائیں گی (کھلی رہ جائیں گی) آنکھیں [۷۳] 


یعنی قیامت کے دل ہول اور دہشت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ 


ایک رکوع پہلے بہت سے نعمائے عظیمہ کا ذکر کر کے فرمایا تھا ۔ { اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفّار } (انسان بڑا ظالم اور نا شکر گذار ہے) بعدہٗ حضرت ابراہیمؑ کا قصہ سنا کر کفار مکہ کو بعض خصوصی نعمتیں یاد دلائیں۔ اور ان کے ظلم و شرک کی طرف اشارہ کیا۔ کفار کے اعمال سے اللہ غافل نہیں ہے: اس رکوع میں متنبہ فرماتےہیں کہ اگر ظالموں کو سزا ملنے میں کچھ دیر ہو تو یہ مت سمجھو کہ خدا ان کی حرکات سے بے خبر ہے ، یاد رکھو ان کا کوئی چھوٹا بڑا کام خدا سے پوشیدہ نہیں۔ البتہ اس کی عادت نہیں ہے کہ مجرم کو فورًا پکڑ کر تباہ کر دے وہ بڑے سے بڑے ظالم کو مہلت دیتا ہے کہ یا اپنے جرائم سے باز آ جائے یا ارتکاب جرائم میں اس حد پر پہنچ جائے کہ قانونی حیثیت سے اس کے مستحق سزا ہونے میں کسی طرح کا خِفا باقی نہ رہے۔ (تنبیہ) { لَا تَحْسَبَنَّ } کا خطاب ہر اس شخص کو ہے جسے ایسا خیال گذر سکتا ہو ، اور اگر حضور ﷺ کو خطاب ہے تو آپ کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہو گا۔ کہ جب حضور ﷺ کو فرمایا کہ ایسا خیال مت کرو۔ حالانکہ ایسا خیال آپ کے قریب بھی نہ آسکتا تھا۔ تو دوسروں کے حق میں اس طرح کا خیال کس قدر واجب الاحتراز ہونا چاہئے۔





















فَلا تَحسَبَنَّ اللَّهَ مُخلِفَ وَعدِهِ رُسُلَهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ ذُو انتِقامٍ {14:47} 


تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا بےشک خدا زبردست (اور) بدلہ لینے والا ہے 


سو خیال مت کر کہ اللہ خلاف کرے گا اپنا وعدہ اپنے رسولوں سے [۸۱] بیشک اللہ زبردست ہے بدلہ لینے والا [۸۲] 


نہ مجرم اس سے چھوٹ کر بھاگ سکتا ہے نہ وہ خود ایسے مجرموں کو سزا دیے بدون چھوڑ سکتا ہے۔ 


یعنی وہ وعدہ جو { اِنَّالَنَنصُرُ رُسُلَنَا } اور { کَتَبَ اللہُ لَا غْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ } وغیرہ آیات میں کیا گیا ہے۔















لا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما يُسِرّونَ وَما يُعلِنونَ ۚ إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُستَكبِرينَ {16:23} 


یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں خدا اس کو ضرور جانتا ہے۔ وہ سرکشوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا 


ٹھیک بات ہے کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر (جتلاتے ہیں) کرتے ہیں بیشک وہ نہیں پسند کرتا غرور کرنے والوں کو [۳۵] 


یعنی خوب سمجھ لو کبر و غرور کوئی اچھی اور پسندیدہ چیز نہیں ، اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ توحید کا انکار جو تم دلوں میں رکھتے ہو اور غرور و تکبر جس کا اظہار تمہاری چال ڈھال اور طور و طریق سے ہو رہا ہے، سب خدا کے علم میں ہے۔ وہ ہی ہر کھلے چھپے جرم کی سزا تم کو دے گا۔


















هَل يَنظُرونَ إِلّا أَن تَأتِيَهُمُ المَلٰئِكَةُ أَو يَأتِىَ أَمرُ رَبِّكَ ۚ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم ۚ وَما ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلٰكِن كانوا أَنفُسَهُم يَظلِمونَ {16:33} 


کیا یہ (کافر) اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے ان کے پاس (جان نکالنے) آئیں یا تمہارے پروردگار کا حکم (عذاب) آپہنچے۔ اسی طرح اُن لوگوں نے کیا تھا جو اُن سے پہلے تھے اور خدا نے اُن پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے 


کیا کافر اب اس کے منتظر ہیں کہ آئیں ان پر فرشتے یا پہنچے حکم تیرے رب کا [۵۱] اسی طرح کیا تھا ان سے اگلوں نے اور اللہ نے ظلم نہ کیا ان پر لیکن وہ خود اپنا برا کرتے رہے 


جنت کی خوبیاں اور اس کا تفوق و امتیاز بیان فرمانے کے بعد ان غافلوں کو تنبیہ کی جاتی ہے جو محض دنیوی سامانوں پر مست ہو کر آخرت کو بھلائے بیٹھے ہیں اور اپنا کام سدھارنے کی کوئی فکر نہیں کرتے ۔ یعنی کیا یہ لوگ اس کے منتظر ہیں کہ جس وقت فرشتے جان نکالنے کو آ جائیں گے یا خدا کے حکم کے موافق قیامت قائم ہو جائے گی ، یا مجرموں کی سزا دہی کا حکم پہنچ جائے گا اور جوتا سر پر پڑنے لگے گا ، تب ایمان لا کر اپنی حالت درست کریں گے ، حالانکہ اس وقت کا ایمان یا توبہ و رجوع کچھ نافع نہ ہو گا۔ ضرورت تو اس کی ہے کہ موت سے پہلے بعد الموت کی تیاری کی جائے اور عذاب آنے سے پیشتر بچاؤ کی تدبیر کر لیں۔


















وَقالَ اللَّهُ لا تَتَّخِذوا إِلٰهَينِ اثنَينِ ۖ إِنَّما هُوَ إِلٰهٌ وٰحِدٌ ۖ فَإِيّٰىَ فَارهَبونِ {16:51} 


اور خدا نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود وہی ایک ہے۔ تو مجھ ہی سے ڈرتے رہو 


اور کہا ہے اللہ نے مت پکڑو معبود دو وہ معبود ایک ہی ہے سو مجھ سے ڈرو [۷۵] 


یعنی جب تمام آسمانی و زمینی مخلوق ایک خدا کے سامنے بے اختیار سر بسجود اور عاجز و مقہور ہے ، پھر عبادت میں کوئی دوسرا شریک کہاں سے آ گیا جو سارے جہان کا ملک و مطاع ہے تنہا اسی کی عبادت ہونی چاہئے اور اسی سے ڈرنا چاہئے۔ 






وَلَهُ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَلَهُ الدّينُ واصِبًا ۚ أَفَغَيرَ اللَّهِ تَتَّقونَ {16:52} 


اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اسی کی عبادت لازم ہے۔ تو تم خدا کے سوا اوروں سے کیوں ڈرتے ہو 


اور اسی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور اسی کی عبادت ہے (اسی کا انصاف) ہمیشہ [۷۶] سو کیا سوائے اللہ کے کسی سے ڈرتے ہو (خطرہ رکھتے ہو) 


یعنی تکوینی طور پر ہر چیز خالص اسی کی عبادت و اطاعت پر مجبور ہے { اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا کَرْھًا وَاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ } (آل عمران رکوع۹) یا یہ مطلب ہے کہ ہمیشہ اسی کی عبادت کرنا لازم ہے { اَلَا لِلہِ الدِّیْنُ الْخَالِصْ } (زمر رکوع۱) اور بعض نے "دین" کو "جزاء" کے معنی میں لیا ۔ یعنی نیک و بد کا دائمی بدلہ اسی ایک خدا کی طرف سے ملے گا۔ واللہ اعلم۔





















وَاللَّهُ خَلَقَكُم ثُمَّ يَتَوَفّىٰكُم ۚ وَمِنكُم مَن يُرَدُّ إِلىٰ أَرذَلِ العُمُرِ لِكَى لا يَعلَمَ بَعدَ عِلمٍ شَيـًٔا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ قَديرٌ {16:70} 


اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا۔ پھر وہی تم کو موت دیتا ہے اور تم میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور (بہت کچھ) جاننے کے بعد ہر چیز سے بےعلم ہوجاتے ہیں۔ بےشک خدا (سب کچھ) جاننے والا (اور) قدرت والا ہے 


اور اللہ نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو موت دیتا ہے اور کوئی تم میں سے پہنچ جاتا ہے نکمی عمر کو کہ سمجھنے کے پیچھے اب کچھ نہ سمجھے اللہ خبردار ہے قدرت والا [۱۰۸] 


قدرت کے بہت سے خارجی نشان بیان فرما کر انسان کو متنبہ کرتے ہیں کہ خود اپنے اندرونی حالات میں غور کرے۔ وہ کچھ نہ تھا ، خدا نے وجود بخشا ، پھر موت بھیجی اور دی ہوئی زندگی واپس لے لی ۔ یہ کچھ نہ کر سکا اور بعضوں کو موت سے پہلے ہی پیرانہ سالی کے ایسے درجہ میں پہنچا دیا کہ ہوش و حواس ٹھکانے نہ رہے۔ نہ ہاتھ پاؤں میں طاقت رہی ، بالکل نکما ہو گیا۔ نہ کوئی بات سمجھتا ہے ۔ نہ سمجھی ہوئی یاد رکھ سکتا ہے ۔ اس سے ثابت ہو اکہ علم و قدرت اسی خالق و مالک کے خزانہ میں ہے ۔ جب او رجس قدر چاہے دے اور جب چاہے واپس کر لے۔ حضرت شاہ صاحبؒ کے نزدیک آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس امت میں کامل پیدا ہو کر پھر ناقص پیدا ہونے لگیں گے۔ واللہ اعلم۔















وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعضَكُم عَلىٰ بَعضٍ فِى الرِّزقِ ۚ فَمَا الَّذينَ فُضِّلوا بِرادّى رِزقِهِم عَلىٰ ما مَلَكَت أَيمٰنُهُم فَهُم فيهِ سَواءٌ ۚ أَفَبِنِعمَةِ اللَّهِ يَجحَدونَ {16:71} 


اور خدا نے رزق (ودولت) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے تو جن لوگوں کو فضیلت دی ہے وہ اپنا رزق اپنے مملوکوں کو تو دے ڈالنے والے ہیں نہیں کہ سب اس میں برابر ہوجائیں۔ تو کیا یہ لوگ نعمت الہیٰ کے منکر ہیں 


اور اللہ نے بڑائی دی تم میں ایک کو ایک پر روزی میں سو جن کو بڑائی دی وہ نہیں پہنچا دیتے اپنی روزی ان کو جن کے مالک ان کے ہاتھ ہیں کہ وہ سب اس میں برابر ہو جائیں کیا اللہ کی نعمت کے منکر ہیں [۱۰۹] 


یعنی خدا کی دی ہوئی روزی اور بخشش سب کے لئے برابر نہیں۔ بلحاظ تفاوت استعداد و احوال کے اس نے اپنی حکمت بالغہ سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ کسی کو مالدار اور بااقتدار بنایا جس کے ہاتھ تلے بہت سے غلام اور نوکر و چاکر ہیں۔ جن کو اسی کے ذریعہ سے روزی پہنچتی ہے۔ ایک وہ غلام ہیں جو بذات خود ایک پیسہ یا ادنیٰ اختیار کے مالک نہیں ، ہر وقت آقا کے اشاروں کے منتظر رہتے ہیں۔ پس کیا دنیا میں کوئی آقا گوارا کرے گا کہ غلام یا نوکر چاکر جو بہرحال اسی جیسے انسان ہیں بدستور غلامی کی حالت میں رہتے ہوئے اس کی دولت ، عزت ، بیوی وغیرہ میں برابر کے شریک ہو جائیں غلام کا حکم تو شرعًا یہ ہے کہ بحالت غلامی کسی چیز کا مالک بنایا جائے تب بھی نہیں بنتا ۔ آقا ہی مالک رہتا ہے اور فرض کرو آقا غلامی سے آزاد کر کے اپنی دولت وغیرہ میں برابر کا حصہ دار بنا لے تو مساوات بیشک ہو جائے گی۔ لیکن اس وقت غلام نہ رہا ۔ بہرکیف غلامی اور مساوات جمع نہیں ہو سکتی۔ جب دو ہم جنس اور متحد النوع انسانوں کے اندر مالک و مملوک میں شرکت و مساوات نہیں ہو سکتی ، پھر غضب ہے کہ خالق و مخلوق کو معبودیت وغیرہ میں برابر کر دیا جائے۔ اور ان چیزوں کو جنہیں خدا کی مملوک سمجھنے کا اقرار خود مشرکین بھی کرتے تھے { اِلَّا شَرِیْکًا ھُوَ لَکَ تُمْلِکُہٗ وَمَا مَلَکَ } مالک حقیقی کا شریک و سہیم ٹھہرا دیا جائے کیا منعم حقیقی کی نعمتوں کا یہ ہی شکر یہ ہے کہ جس بات کے قبول کرنے سے خود ناک بھووں چڑھاتے ہو اس سے زیادہ قبیح و شنیع صورت اس کے لئے تجویز کی جائے۔ نیز جس طرح روزی وغیرہ میں حق تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ، سب کو ایک درجہ میں نہیں رکھا ، اگر علم و عرفان اور کمالات نبوت میں کسی ہستی کو دوسروں سے فائق کر دیا تو خدا کی اس نعمت سے انکار کرنے کی بجز ہٹ دھرمی کے کیا وجہ ہو سکتی ہے۔















وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزوٰجًا وَجَعَلَ لَكُم مِن أَزوٰجِكُم بَنينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِنَ الطَّيِّبٰتِ ۚ أَفَبِالبٰطِلِ يُؤمِنونَ وَبِنِعمَتِ اللَّهِ هُم يَكفُرونَ {16:72} 


اور خدا ہی نے تم میں سے تمہارے لیے عورتیں پیدا کیں اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور کھانے کو تمہیں پاکیزہ چیزیں دیں۔ تو کیا بےاصل چیزوں پر اعتقاد رکھتے اور خدا کی نعمتوں سے انکار کرتے ہیں 


اور اللہ نے پیدا کیں تمہارے واسطے تمہای ہی قسم سے عورتیں [۱۱۰] اور دیے تم کو تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے [۱۱۱] اور کھانے کو دیں تمکو ستھری چیزیں [۱۱۲] سو کیا جھوٹی باتیں مانتے ہیں اور اللہ کے فضل کو نہیں مانتے [۱۱۳] 


یعنی بتوں کا احسان مانتے ہیں کہ بیماری سے چنگا کیا یا بیٹا دیا ، یا روزی دی ، اور یہ سب جھوٹ اور وہ جو سچ دینے والا ہے اس کے شکر گذار نہیں ۔ کذا فی الموضح۔ اور شاید یہ بھی اشارہ ہو کہ فانی و زائل زندگانی کی بقاء نوعی و شخصی کے اسباب کو تو مانتے ہو اور خدا کی سب سے بڑی نعمت (پیغمبر السلام کی ہدایات) کو جو بقائے ابدی اور حیات جاودانی کا واحد ذریعہ ہے ، تسلیم نہیں کرتے { اَلَا کُلُّ شَیْءٍ مَاخَلَا اللہِ بَاطِلُ }۔ 


یعنی نوح انسان ہی سے تمہارا جوڑا پیدا کیا۔ تاالفت و موانست قائم رہے ۔ اور تخلیق کی غرض پوری ہو ۔ { وَمِنْ اٰیَاتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوْدَّۃً وَّرَحْمَۃً } (الروم رکوع۳) 


جو تمہاری بقاء نوعی کا ذریعہ ہیں۔ 


جو بقائے شخصی کا سبب ہے۔ 

















أَلَم يَرَوا إِلَى الطَّيرِ مُسَخَّرٰتٍ فى جَوِّ السَّماءِ ما يُمسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ۗ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يُؤمِنونَ {16:79} 


کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمان کی ہوا میں گھرے ہوئے (اُڑتے رہتے) ہیں۔ ان کو خدا ہی تھامے رکھتا ہے۔ ایمان والوں کے لیے اس میں (بہت سی) نشانیاں ہیں 


کیا نہیں دیکھے اڑتے جانور حکم کے باندھے ہوئے آسمان کی ہوا میں کوئی نہیں تھام رہا ان کو سوائے اللہ کے [۱۲۷] اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کو جو یقین لاتے ہیں [۱۲۸] 


یعنی جیسے آدمی کو اس کے مناسب قویٰ عنایت فرمائے ، پرندوں میں ان کے حالات کے مناسب فطری قوتیں ودعیت کیں ، ہر ایک پرندہ اپنی اڑان میں قانون قدرت کا تابع اور خدا تعالیٰ کے تکوینی احکام سے وابستہ ہے۔ اسے کسی درسگاہ میں اڑنے کی تعلیم نہیں دی گئ ، قدرت نے اس کے پر اور بازو اور دم وغیرہ کی ساخت ایسی بنائی ہے کہ نہایت آسانی سے آسمانی فضا میں اڑتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ ان کا جسم ثقیل ہوائے لطیف کو چیر پھاڑ کر بے اختیار نیچے آ پڑے ۔ یا زمین کی عظیم الشان کشش انہیں اپنی طرف کھینچ لے اور طیران سے منع کر دے کیا خدا کے سوا کسی اور کا ہاتھ ہے جس نے ان کو بے تکلف فضائے آسمانی میں روک رکھا ہے۔ 


حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی ایمان لانے میں بعضے اٹکتے ہیں ، معاش کی فکر سے ، سو فرمایا کہ ماں کے پیٹ سے کوئی کچھ نہیں لاتا۔ کمائی کے اساب کہ آنکھ ، کان ، دل وغیرہ ہیں ، اللہ ہی دیتا ہے اور اڑتے جانور ادھر میں آخر کس کے بھروسہ رہتے ہیں۔















إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُ بِالعَدلِ وَالإِحسٰنِ وَإيتائِ ذِى القُربىٰ وَيَنهىٰ عَنِ الفَحشاءِ وَالمُنكَرِ وَالبَغىِ ۚ يَعِظُكُم لَعَلَّكُم تَذَكَّرونَ {16:90} 


خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بےحیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو 


اللہ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کے (کو) دینے کا [۱۴۹] اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور نامعقول کام سے اور سرکشی سے [۱۵۰] تم کو سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھو [۱۵۱] 


ابن کثم بن صفی نے اس آیت کریمہ کو سن کر اپنی قوم سےکہا "میں دیکھتا ہوں کہ یہ پیغمبر تمام عمدہ اور اعلیٰ اخلاق کا حکم دیتے ہیں اور کمینہ اخلاق اور اعمال سے روکتے ہیں۔ تو تم اس کے ماننے میں جلدی کرو۔ { فَکُوْ نُوْا فِیْ ھٰذَا الْاَ مْرِ رَؤُسًا وَّلَا تَکُوْنُوْا فِیْہِ اَذْنَابًا } (یعنی تم اس سلسلہ میں سر بنو ، دم نہ بنو) حضرت عثمان بن مظعون فرماتے ہیں کہ اسی آیت کو سن کر میرے دل میں ایمان راسخ ہوا اور محمد ﷺ کی محبت جا گزیں ہوئی۔ 


"قرآن" کو { تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ } فرمایا تھا ۔ یہ آیت اس کا ایک نمونہ ہے ، ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہر ایک خیرو شر کے بیان کو اس آیت میں اکٹھا کر دیا ہے۔ گویا کوئی عقیدہ ، خلق ، نیت ، عمل ، معاملہ اچھا یا برا ایسا نہیں جو امرًا و نہیًا اس کے تحت میں داخل نہ ہو گیا ہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر قرآن میں کوئی دوسری آیت نہ ہوتی تو تنہا یہ ہی آیت { تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ } کا ثبوت دینے کے لئے کافی تھی۔ شاید اسی لئے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خطبہ جمعہ کے آخر میں اس کو درج کر کے امت کے لئے اسوہ حسنہ قائم کر دیا ۔ اس آیت کی جامعیت سمجھانے کے لئے تو ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے ۔ تاہم تھوڑا سا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ آیت میں تین چیزوں کا امر فرمایا ہے۔ عدل و احسان: عدل ، احسان ، ایتاء ذی القربیٰ۔ "عدل" کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے تمام عقائد ، اعمال ، اخلاق ، معاملات ، جذبات، اعتدال و انصاف کی ترزاو میں تلے ہوں ، افراط و تفریط سے کوئی پلہ جھکنے یا اٹھنے نہ پائے ، سخت سے سخت دشمن کےساتھ بھی معاملہ کرتے وقت انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو جو بات اپنے لئے پسند نہ کرتا ہو اپنے بھائی کے لئے بھی پسند نہ کرے۔ "احسان" کے معنی یہ ہیں کہ انسان بذات خود نیکی اور بھلائی کا پیکر بن کر دوسروں کو بھلا چاہے۔ مقام عدل و انصاف سے ذرا اور بلند ہو کر فضل و عفو اور تلطف و ترحم کی خو اختیار کرے ۔ فرض ادا کرنے کے بعد تطوع و تبرع کی طرف قدم بڑھائے ۔ انصاف کے ساتھ مروت کو جمع کرے ۔ اور یقین رکھے کہ جو کچھ بھلائی کرے گا خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ ادھر سے بھلائی کا جواب ضرور بھلائی کی صورت میں ملے گا۔ { اَلِاحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ } (صحیح بخاری) { ھَلْ جَزَاءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ } (رحمٰن رکوع۳) یہ دونوں خصلتیں (یعنی عدل و احسان یا بالفاظ دیگر انصاف و مروت) تو اپنے نفس اور ہر ایک خویش و بیگانہ اور دوست دشمن سے متعلق تھیں۔ لیکن اقارب کا حق اجانب سے کچھ زائد ہے۔ جو تعلقات قرابت قدرت نے باہم رکھ دیے ہیں انہیں نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ اقارب کی ہمدردی اور ان کے ساتھ مروت و احسان اجانب سے کچھ بڑھ کر ہونا چاہئے۔ صلہ رحم ایک مستقل نیکی ہے جو اقارب و ذویٰ الارحام کے لئے درجہ بدرجہ استعمال ہونی چاہئے۔ گویا "احسان" کے بعد ذوی القربیٰ کا بالتخصیص ذکر کر کے متنبہ فرما دیا کہ عدل و انصاف تو سب کے لئے یکساں ہے ۔ لیکن مروت و احسان کے وقت بعض مواقع بعض سے زیادہ رعایت و اہتمام کے قابل ہیں ۔ فرق مراتب کو فراموش کرنا ایک طرح قدرت کے قائم کئے ہوئے قوانین کو بھلا دینا ہے۔ اب ان تینوں لفظوں کی ہمہ گیری کو پیش نظر رکھتے ہوئے سمجھدار آدمی فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کونسی فطری خوبی ، بھلائی اور نیکی دنیا میں ایسی رہ گئ ہے جو ان تین فطری اصولوں کے احاطہ سے باہر ہو۔ فللہ الحمد والمنہ۔ 


منع بھی تین چیزوں سے کیا ۔ فحشاء ، منکر ، بغی۔ کیونکہ انسان میں تین قوتیں ہیں ۔ جن کے بے موقع اور غلط استعمال سےساری خرابیاں اور برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ قوت بہیمیہ شہوانیہ ، قوت وہمیہ شیطانیہ ، قوت غضبیہ سبعیہ۔ غالبًا "فحشاء" سے وہ بے حیائی کی باتیں مراد ہیں جن کا منشاء شہوت و بہیمیت کی افراط ہو ۔ "منکر" معروف کی ضد ہے ۔ یعنی نامعقول کام جن پر فطرت سلیمہ اور عقل صحیح انکار کرے ۔گویا قوت وہمیہ شیطانیہ کے غلبہ سے قوت عقلیہ ملکیہ دب جائے۔ تیسری چیز "بغی" ہے ۔ یعنی سرکشی کر کے حد سے نکل جانا ۔ ظلم و تعدی پر کمربستہ ہو کر درندوں کی طرح کھانے پھاڑنے کو دوڑنا ، اور دوسروں کے جان و مال یا آبرو وغیرہ لینے کے واسطے ناحق دست درازی کرنا۔ اس قسم کی تمام حرکات قوت سبعیہ غضبیہ کے بے جا استعمال سے پیدا ہوتی ہیں۔ الحاصل آیت میں تنبیہ فرما دی کہ انسان جب تک ان تینوں قوتوں کو قابو میں نہ رکھے اور قوت عقلیہ مالکیہ کو ان سب پر حاکم نہ بنائے ، مہذب اور پاک نہیں ہو سکتا۔


















إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذينَ اتَّقَوا وَالَّذينَ هُم مُحسِنونَ {16:128} 


کچھ شک نہیں کہ جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکوکار ہیں خدا ان کا مددگار ہے 


اللہ ساتھ ہے ان کے جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکی کرتے ہیں [۲۰۳] 


یعنی انسان جس قدر خدا سے ڈر کر تقویٰ ، پرہیز گاری اور نیکی اختیار کرے گا ، اسی قدر خدا کی امداد و اعانت اس کے ساتھ ہو گی ۔ سو ایسے لوگوں کو کفار کے مکر و فریب سے تنگ دل اور غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں حق تعالیٰ اس عاجز ضیعف کو بھی متقین و محسنین کے ساتھ اپنے فضل و رحمت سے محشور فرمائے ۔ تم سورۃ النحل بعونہ و توفیقہ وللہ الحمد۔












وَمَن يَهدِ اللَّهُ فَهُوَ المُهتَدِ ۖ وَمَن يُضلِل فَلَن تَجِدَ لَهُم أَولِياءَ مِن دونِهِ ۖ وَنَحشُرُهُم يَومَ القِيٰمَةِ عَلىٰ وُجوهِهِم عُميًا وَبُكمًا وَصُمًّا ۖ مَأوىٰهُم جَهَنَّمُ ۖ كُلَّما خَبَت زِدنٰهُم سَعيرًا {17:97} 


اور جس شخص کو خدا ہدایت دے وہی ہدایت یاب ہے۔ اور جن کو گمراہ کرے تو تم خدا کے سوا اُن کے رفیق نہیں پاؤ گے۔ اور ہم اُن کو قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے گونگے اور بہرے (بنا کر) اٹھائیں گے۔ اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ جب (اس کی آگ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو (عذاب دینے کے لئے) اور بھڑکا دیں گے 


اور جس کو راہ دکھلائے اللہ وہی ہے راہ پانے والا اور جس کو بھٹکائے پھر تو نہ پائے انکے واسطے کوئی رفیق اللہ کے سوائے [۱۴۵] اور اٹھائیں گے ہم انکو دن قیامت کے چلیں گے منہ کے بل اندھے اور گونگے اور بہرے [۱۴۶] ٹھکانا ان کو دوزخ ہے جب لگے گی بجھنے اور بھڑکا دیں گے ان پر [۱۴۷] 


یعنی عذاب معین اندازہ سے کم نہیں ہونے دیں گے۔ اگر بدن جل کر تکلیف میں کمی ہونے لگے گی تو پھر نئے چمڑے چڑھا دیے جائیں گے۔ { کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنَاھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا } (نساء رکوع۸)۔ 


یہ قیامت کے بعض مواطن میں ہو گا کہ کافر منہ کے بل اندھے گونگے کر کے چلائے جائیں گے ۔ حدیث میں ہے صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! منہ کے بل کس طرح چلیں گے فرمایا جس نے آدمی کو پاؤں سے چلایا وہ قادر ہے کہ سر سے چلا دے۔ باقی فرشتوں کا جہنمیوں کو منہ کے بل گھسیٹنا ، وہ دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہو گا۔ { یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ } (القمر رکوع۳)۔ 


یعنی خدا کی توفیق و دستگیری ہی سے آدمی راہ حق پر چل کر منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے جس کی بدبختی اور تعنت کی وجہ سے خدا دستگیری نہ فرمائے اسے کون ہے جو ٹھیک راستہ پر لگا سکے۔















أَوَلَم يَرَوا أَنَّ اللَّهَ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ قادِرٌ عَلىٰ أَن يَخلُقَ مِثلَهُم وَجَعَلَ لَهُم أَجَلًا لا رَيبَ فيهِ فَأَبَى الظّٰلِمونَ إِلّا كُفورًا {17:99} 


کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس بات پر قادر ہے کہ ان جیسے (لوگ) پیدا کردے۔ اور اس نے ان کے لئے ایک وقت مقرر کر دیا ہے جس میں کچھ بھی شک نہیں۔ تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا (اسے) قبول نہ کیا 


کیا نہیں دیکھ چکےکہ جس اللہ نے بنائے آسمان اور زمین وہ بنا سکتا ہے ایسوں کو [۱۴۹] اور مقرر کیا ہے انکے واسطے ایک وقت بے شبہ [۱۵۰] سو نہیں رہا جاتا بے انصافوں کو بن ناشکری کیے [۱۵۱] 


یعنی جس نے اتنے بڑے بڑے اجسام پیدا کئے ، اسے تم جیسی چھوٹی سی چیز کا پیدا کر دینا کیا مشکل ہے۔ { لَخَلْقُ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ } (مومن رکوع۶)۔ بیشک وہ تم کو اور تمہارےجیسے سب آدمیوں کو بے تکلف پیدا کر سکتا ہے۔ 


یعنی شاید یہ کہو کہ آخر اتنے آدمی مر چکے ہیں وہ اب تک کیوں نہیں اٹھائے گئے ۔ تو فرما دیا کہ سب کے واسطے قبروں سے اٹھنے اور دوبارہ زندہ ہونے کا ایک وقت مقرر ہے وہ ضرور آ کر رہے گا۔ تاخیر دیکھ کر انکار کرنا حماقت ہے ۔ { وَمَا نُؤَخِّرُہٗ اِلَّا لِاَجَلٍ مَعْدُوْد } (ہود رکوع۹)۔ 


یعنی ایسے واضح مضامین و دلائل سن کر بھی ناانصافوں کے کفر و ضلال اور ناشکری میں ترقی ہی ہوتی ہے ، ذرا نہیں پسیجتے۔


















اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ لَهُ الأَسماءُ الحُسنىٰ {20:8} 


(وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کے (سب) نام اچھے ہیں 


اللہ ہے جسکے سوا بندگی نہیں کسی کی اُسی کے ہیں سب نام خاصے [۶] 


آیات بالا میں جو صفات حق تعالیٰ کی بیان ہوئی ہیں (یعنی اس کا خالق الکل ، مالک علی الاطلاق ، رحمٰن ، قادر مطلق اور صاحب علم محیط ہونا) ان کا اقتضاء یہ ہے کہ الوہیت بھی تنہا اسی کا خاصہ ہو بجز اس کےکسی دوسرے کے آگے سر عبودیت نہ جھکایا جائے ۔ کیونکہ نہ صرف صفات مذکورہ بالا بلکہ کل عمدہ صفات اور اچھے نام اسی کی ذات منبع الکمالات کے لئے مخصوص ہیں۔ کوئی دوسری ہستی اس شان و صفت کی موجود نہیں جو معبود بن سکے۔ نہ ان صفتوں اور ناموں کےتعدد سے اس کی ذات میں تعدد آتا ہے۔ جیسا کہ بعض جہال عرب کا خیال تھا کہ مختلف ناموں سے خدا کو پکارنا دعوےٰ توحید کے مخالف ہے۔















إِنَّما إِلٰهُكُمُ اللَّهُ الَّذى لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ وَسِعَ كُلَّ شَيءٍ عِلمًا {20:98} 


تمہارا معبود خدا ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے 


تمہارا معبود تو وہی اللہ ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں سب چیز سما گئ ہے اُسکے علم میں [۱۰۱] 


باطل کو مٹانے کے ساتھ ساتھ حضرت موسٰیؑ قوم کو حق کی طرف بلاتے جاتے ہیں ۔ یعنی بچھڑا تو کیا چیز ہے کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی معبود نہیں بن سکتی سچا معبود تو وہ ہی ایک ہے۔ جس کے سوا کسی کی بندگی عقلًا و نقلًا و فطرۃً روا نہیں اور جس کا لا محدود علم ذرہ ذرہ کو محیط ہے۔















لَو كانَ فيهِما ءالِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتا ۚ فَسُبحٰنَ اللَّهِ رَبِّ العَرشِ عَمّا يَصِفونَ {21:22} 


اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین وآسمان درہم برہم ہوجاتے۔ جو باتیں یہ لوگ بتاتے ہیں خدائے مالک عرش ان سے پاک ہے 


اگر ہوتے ان دونوں میں اور معبود سوائے اللہ کے تو دونوں خراب ہو جاتے [۱۹] سو پاک ہے اللہ عرش کا مالک اُن باتوں سے جو یہ بتلاتے ہیں [۲۰] 


جو عرش (تخت شاہی) کا اکیلا مالک ہے ، اس کے ملک میں شرکت کی گنجائش ہی نہیں ۔ دو خود مختار بادشاہ جب ایک اقلیم میں نہیں سما سکتے جن کی خود مختاری بھی مجازی ہے تو دو مختار کل اور قادر مطلق خدا ایک قلمرو میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں۔ 


تعدد الہٰہ کے ابطال پر یہ نہایت پختہ اور واضح دلیل ہے جو قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کی۔ اس کو یوں سمجھو کہ عبادت نام ہے کامل تذلل کا۔ اور کامل تذلل صرف اسی ذات کے سامنے اختیار کیا جا سکتا ہے جو اپنی ذات و صفات میں ہر طرح کامل ہو ، اسی کو ہم "اللہ" یا "خدا" کہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ خدا کی ذات ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو ، نہ وہ کسی حیثیت سے ناقص ہو نہ بیکار ، نہ عاجز ہو نہ مغلوب ، نہ کسی دوسرے سے دبے نہ کوئی اس کے کام میں روک ٹوک کر سکے اب اگر فرض کیجئے آسمان و زمین میں دو خدا ہوں تو دونوں اسی شان کے ہوں گے ، اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ عالم کی تخلیق اور علویات و سفلیات کی تدبیر دونوں کے کلی اتفاق سے ہوتی ہے یا گاہ بگاہ باہم اختلافات بھی ہو جاتا ہے اتفاق کی صورت میں دو احتمال ہیں۔ یا تو اکیلے ایک سے کام نہیں چل سکتا تھا اس لئے دونوں نے مل کر انتظام کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں سے ایک بھی کامل قدرت والا نہیں اور اگر تنہا ایک سارے عالم کا کامل طور پر سر انجام کر سکتا تھا تو دوسرا بیکار ٹھہرا حالانکہ خدا کا وجود اسی لئے ماننا پڑ ا ہے کہ اس کے مانے بدون چارہ ہی نہیں ہو سکتا۔ اگر اختلاف کی صورت فرض کر یں تو لامحالہ مقابلہ میں یا ایک مغلوب ہو کر اپنے ارادہ اور تجویز کو چھوڑ بیٹھے گا۔ وہ خدا نہ رہا ۔ اور یا دنوں بالکل مساوی و متوازی طاقت سے ایک دوسرے کے خلاف اپنے ارادہ اور تجویز کو عمل میں لانا چاہیں گے۔ اول تو (معاذ اللہ) خداؤں کی اس رسہ کشی میں سرے سے کوئی چیز موجود ہی نہ ہو سکے گی اور موجود چیز پر زور آزمائی ہونے لگی تو اس کشمکش میں ٹوٹ پھوٹ کر برابر ہو جائے گی۔ یہاں سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر آسمان و زمین میں دو خدا ہوتے تو آسمان و زمین کا یہ نظام کبھی کا درہم برہم ہو جاتا ۔ ورنہ ایک خدا کا بیکار یا ناقص و عاجز ہونا لازم آتا ہے جو خلاف مفروض ہے۔















وَمِنَ النّاسِ مَن يُجٰدِلُ فِى اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيطٰنٍ مَريدٍ {22:3} 


اور بعض لوگ ایسے ہیں جو خدا (کی شان) میں علم (ودانش) کے بغیر جھگڑتے اور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرتے ہیں 


اور بعضے لوگ وہ ہیں جو جھگڑتے ہیں اللہ کی بات میں بیخبری سے [۲] اور پیروی کرتا ہے ہر شیطان سرکش کی [۳] 


یعنی اللہ تعالیٰ جن باتوں کی خبر دیتا ہے ان میں یہ لوگ جھگڑتے اور کج بحثیاں کرتے ہیں اور جہل و بے خبری سے عجیب احمقانہ شبہات پھیلاتے ہیں۔ چنانچہ قیامت ، بعث بعد الموت اور جزاء و سزا و غیرہ پر ان کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ جب آدمی مر کر گل سڑ گیا اور ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو گئیں تو یہ کیسے سمجھ میں آئے کہ وہ پھر زندہ ہو کر اپنی اصلی حالت پر لوٹ آئے گا۔ 


یعنی جن یا آدمیوں میں کا جو شیطان اس کو اپنی طرف بلائے یہ فورًا اسی کے پیچھے چل پڑتا ہے گویا گمراہ ہونے کی ایسی کامل استعداد رکھتا ہے کہ کوئی شیطان کسی طرف پکارے یہ اس پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہتا ہے۔















ذٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الحَقُّ وَأَنَّهُ يُحىِ المَوتىٰ وَأَنَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {22:6} 


ان قدرتوں سے ظاہر ہے کہ خدا ہی (قادر مطلق ہے جو) برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتا ہے۔ اور یہ کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے 


یہ سب کچھ اس واسطے کہ اللہ وہی ہے محقق اور وہ جِلاتا ہے مُردوں کو اور وہ ہر چیز کر سکتا ہے


















وَمِنَ النّاسِ مَن يُجٰدِلُ فِى اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَلا هُدًى وَلا كِتٰبٍ مُنيرٍ {22:8} 


اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو خدا (کی شان) میں بغیر علم (ودانش) کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر کتاب روشن کے جھگڑتا ہے 


اور بعضا شخص وہ ہے جو جھگڑتا ہے اللہ کی بات میں بغیر جانے اور بغیر دلیل اور بدون روشن کتاب کے [۱۳] 


یعنی ایسے واضح دلائل و شواہد سننےکے بعد بھی کجرو اور ضدی لوگ اللہ کی باتوں میں یوں ہی بےسند جھگڑے کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی علم ضروری ہے نہ دلیل عقلی نہ دلیل سمعی، محض اوہام و ظنون کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔















إِنَّ اللَّهَ يُدخِلُ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفعَلُ ما يُريدُ {22:14} 


جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا ان کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں چل رہیں ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے 


اللہ داخل کرے گا اُنکو جو ایمان لائے اور کیں بھلائیاں باغوں میں بہتی ہیں نیچے اُنکے نہریں [۲۱] اللہ کرتا ہے جو چاہے [۲۲] 


جس کو مناسب جانے سزا دے اور جس پر چاہے انعام فرمائے ۔ اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ 


منکرین مجادلین اور مذبذبین کے بعد یہاں مومنین مخلصین کا انجام نیک بیان فرمایا۔















أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسجُدُ لَهُ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَمَن فِى الأَرضِ وَالشَّمسُ وَالقَمَرُ وَالنُّجومُ وَالجِبالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوابُّ وَكَثيرٌ مِنَ النّاسِ ۖ وَكَثيرٌ حَقَّ عَلَيهِ العَذابُ ۗ وَمَن يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِن مُكرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفعَلُ ما يَشاءُ ۩ {22:18} 


کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو (مخلوق) آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور سورج اور چاند ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چار پائے اور بہت سے انسان خدا کو سجدہ کرتے ہیں۔ اور بہت سے ایسے ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا ہے۔ اور جس شخص کو خدا ذلیل کرے اس کو عزت دینے والا نہیں۔ بےشک خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے 


تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو کوئی آسمان میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے اور سورج اور چاند اورتارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت آدمی [۲۷] اور بہت ہیں کہ اُن پر ٹھہر چکا عذاب [۲۸] اور جسکو اللہ ذلیل کرے اُسے کوئی نہیں عزت دینے والا اللہ کرتا ہے جو چاہے [۲۹] 


یعنی خدا تعالیٰ جس کو اس کی شامت اعمال سے ذلیل کرنا چاہے اسے ذلت کے گڑھے سے نکال کر عزت کے مقام پر کون پہنچا سکتا ہے ؟ 


ایک سجدہ ہے جس میں آسمان و زمین کی ہر ایک مخلوق شامل ہے وہ یہ کہ اللہ کی قدرت کے آگے تکوینًا سب مطیع و منقاد اور عاجز و بے بس ہیں۔ خواہی نخواہی سب کو اس کے سامنے گردن ڈالنا اور سر جھکانا پڑتا ہے دوسرا سجدہ ہے ہر چیز کا جدا۔ وہ یہ کہ جس چیز کو جس کام کے لئے بنایا اس کام میں لگے۔ یہ بہت آدمی کرتے ہیں بہت نہیں کرتے۔ مگر آدمیوں کو چھوڑ کر اور ساری خلقت کرتی ہے۔ بناءً عیلہ { اَنَّ اللہَ یَسْجُدُلَہٗ } الخ میں ہر چیز کا اپنی شان کے لائق سجدہ مراد ہو گا یا { مَنْ فِی الْاَرْضِ } کے بعد دوسرا { یَسجُدُ } کا مقدر نکالا جائے گا (تنبیہ) پہلی آیت سے ربط یہ ہوا کہ مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں حالانکہ دوسری تمام مخلوق خدا کی مطیع و منقاد ہے ، انسان جو ساری مخلوق سے زائد عاقل ہے ، چاہئے تھا کہ اس کے کل افراد اوروں سے زیادہ متفق ہوتے۔ 


یعنی سجدہ سے انکار و اعراض کرنے کی بدولت عذاب کے مستحق ہوئے۔





















إِنَّ اللَّهَ يُدخِلُ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ يُحَلَّونَ فيها مِن أَساوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤلُؤًا ۖ وَلِباسُهُم فيها حَريرٌ {22:23} 


جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے خدا ان کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہہ رہیں ہیں۔ وہاں ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور موتی۔ اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا 


بیشک اللہ داخل کرے گا اُنکو جو یقین لائے اور کیں بھلائیاں باغوں میں بہتی ہیں انکے نیچےنہریں گہنا پہنائیں گے اُنکو وہاں کنگن سونے کے اور موتی [۳۴] اور اُنکی پوشاک ہے وہاں ریشم کی [۳۵] 


پہلے { قُطِّعَتْ لَھُمْ ثِیَابٌ مِنْ نَّارٍ } میں دوزخیوں کا لباس مذکور ہوا تھا ، اس کے بالمقابل یہاں جنتیوں کا پہناوا بیان فرماتے ہیں کہ ان کی پوشاک ریشم کی ہو گی۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں یہ جو فرمایا کہ وہاں گہنا اور وہاں پوشاک معلوم ہوا یہ دونوں (چیزیں مردوں کے لئے) یہاں نہیں۔ اور گہنوں میں سے کنگن اس واسطے کے غلام کی خدمت پسند آتی ہے تو کڑے ہاتھ میں ڈالتے ہیں (تنبیہ) احادیث میں ہے کہ جو مرد یہاں ریشم کا لباس پہنے گا آخرت میں نہیں پہنے گا۔ اگر وہ پہننے والا کافر ہے تب تو ظاہر ہے کہ وہ جنت میں داخل ہی نہ ہو گا کہ جنتیوں کا لباس پہنے۔ ہاں اگر مومن ہے تو شاید کچھ مدت تک اس لباس سے محروم رکھا جائے پھر ابدالآباد تک پہنتا رہے اور اس لامتناہی مدت کے مقابلہ میں یہ قلیل زمانہ غیر معتبدہ سمجھا جائے۔ 


یعنی بڑی آرائش اور زیب و زینت سے رہیں گے اور ہر ایک عنوان سے تجمل اور تنعم کا اظہار ہو گا۔















إِنَّ اللَّهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذينَ ءامَنوا ۗ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ كُلَّ خَوّانٍ كَفورٍ {22:38} 


خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹاتا رہتا ہے۔ بےشک خدا کسی خیانت کرنے والے اور کفران نعمت کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔ 


اللہ دشمنوں کو ہٹا دے گا ایمان والوں سے [۶۶] اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی دغاباز نا شکر [۶۷] 


{ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ } الخ میں ان کفار کا ذکر تھا جو مسلمانوں کو حرم شریف کی زیارت اور حج و عمرہ وغیرہ سے روکتے تھے ۔ درمیان میں مسجد حرام اور اس کے متعلقات کی تعظیم و ادب کے احکام بیان فرمائے ، اب پھر مضمون سابق کی طرف عود کیا گیا ہے۔ یعنی مسلمان مطمئن رہیں اللہ تعالیٰ عنقریب دشمنوں سے ان کا راستہ صاف کر دے گا۔ مسجد حرام تک پہنچنے اور اس کے متعلق احکام کی تعمیل کرنے میں کوئی مخالفانہ رکاوٹ باقی نہ رہے گی۔ بے خوف و خطر حج و عمرہ ادا کریں گے۔ گویا { وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ } میں جو بشارت دینے کا امر تھا اس کا ایک فرد یہ خوشخبری ہوئی۔ 


یعنی دغاباز ناشکر گذاروں کو اگر ایک خاص میعاد تک مہلت دی جائے تو یہ مت خیال کرو کہ وہ اللہ تعالیٰ کو خوش آتے ہیں۔ یہ مہلت بعض مصالح اور حکمتوں کی بناء پر ہے ۔ آخری انجام یہ ہی ہونا ہے کہ اہل حق غالب ہوں اور باطل پرستوں کو راستہ سے چھانٹ دیا جائے۔












أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَتُصبِحُ الأَرضُ مُخضَرَّةً ۗ إِنَّ اللَّهَ لَطيفٌ خَبيرٌ {22:63} 


کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا آسمان سے مینہ برساتا ہے تو زمین سرسبز ہوجاتی ہے۔ بےشک خدا باریک بین اور خبردار ہے 


تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر زمین ہو جاتی ہے سر سبز [۹۶] بیشک اللہ جانتا ہے چھپی تدبیریں خبردار ہے [۹۷] 


اسی طرح کفر کی خشک و ویران زمین کو اسلام کی بارش سے سبزہ زار بنا دے گا۔ 


وہ ہی جانتا ہے کہ کس طرح بارش کے پانی سے سبزہ اگ آتا ہے۔ قدرت اندر ہی اندر ایسی تدبیر و تصر ف کرتی ہے کہ خشک زمین پانی وغیرہ کے اجزاء کو اپنے اندر جذب کر کے سرسبز و شاداب ہو جائے۔ اسی طرح وہ اپنی مہربانی ، لطیف تدبیر و تربیت، اور کمال خبرداری و آگاہی سےقلوب بنی آدم کو فیوض اسلام کامینہ برسا کر سر سبز و شاداب بنا دے گا۔












أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم ما فِى الأَرضِ وَالفُلكَ تَجرى فِى البَحرِ بِأَمرِهِ وَيُمسِكُ السَّماءَ أَن تَقَعَ عَلَى الأَرضِ إِلّا بِإِذنِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِالنّاسِ لَرَءوفٌ رَحيمٌ {22:65} 


کیا تم نہیں دیکھتے کہ جتنی چیزیں زمین میں ہیں (سب) خدا نے تمہارے زیرفرمان کر رکھی ہیں اور کشتیاں (بھی) جو اسی کے حکم سے دریا میں چلتی ہیں۔ اور وہ آسمان کو تھامے رہتا ہے کہ زمین پر (نہ) گڑ پڑے مگر اس کے حکم سے۔ بےشک خدا لوگوں پر نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے 


تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے بس میں کردیا تمہارے جو کچھ ہے زمین میں اور کشتی کو جو چلتی ہے دریا میں اُسکے حکم سے اور تھام رکھتا ہے آسمان کو اس سے کہ گر پڑے زمین پر مگر اُسکے حکم سے بیشک اللہ لوگوں پر نرمی کرنے والا مہربان ہے [۹۹] 


یعنی اس کو تمہاری یا کسی کی کیا پروا تھی۔ محض شفقت و مہربانی دیکھو کہ کس طرح خشکی اور تری کی چیزوں کو تمہارے قابو میں کر دیا ۔ پھر اسی نے اپنے دست قدرت سے آسمان، چاند، سورج اور ستاروں کو اس فضائے ہوائی میں بدون کسی ظاہری کھمبے یا ستون کے تھام رکھا ہے جو اپنی جگہ سے نیچے نہیں سرکتے ۔ ورنہ گر کر اور ٹکرا کر تمہاری زمین کو پاش پاش کر دیتے ۔ جب تک اس کا حکم نہ ہو یہ کُرات یوں ہی اپنی جگہ قائم رہیں گے مجال نہیں کہ ایک انچ سرک جائیں۔ { اِلَّا بِاِ ذْنِہٖ } کا استثناء محض اثبات قدرت کی تاکید کے لئے ہے ۔ یا شاید قیامت کے واقعہ کی طرف اشارہ ہو۔ واللہ اعلم۔












اللَّهُ يَحكُمُ بَينَكُم يَومَ القِيٰمَةِ فيما كُنتُم فيهِ تَختَلِفونَ {22:69} 


جن باتوں میں تم اختلاف کرتے ہو خدا تم میں قیامت کے روز ان کا فیصلہ کردے گا 


اللہ فیصلہ کرے گا تم میں قیامت کے دن جس چیز میں تمہاری راہ جدا جدا تھی [۱۰۲] 


تمام انبیاء اصول دین میں متفق رہے ہیں۔ البتہ ہر امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے بندگی کی صورتیں مختلف زمانوں میں مختلف مقرر کی ہیں جن کے موافق وہ امتیں خدا کی عبادت بجا لاتی رہیں۔ اس امت محمدیہ کے لئے بھی ایک خاص شریعت بھیجی گئ لیکن اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا۔ بجز اللہ کے کبھی کسی دوسری چیز کی عبادت مقرر نہیں کی گئ ۔ اس لئے توحید وغیرہ کے ان متفق علیہ کاموں میں جھگڑا کرنا کسی کو کسی حال زیبا نہیں۔ جب ایسی کھلی ہوئی چیز میں بھی حجتیں نکالی جائیں تو آپ کچھ پروا نہ کریں۔ آپ جس سیدھی راہ پر قائم ہیں لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہئے۔ اور خواہ مخواہ کے جھگڑے نکالنے والوں کا معاملہ خدائے واحد کے سپرد کیجئے وہ خود ان کی تمام حرکات سے خوب واقف ہے قیامت کےدن ان کے تمام اختلافات اور جھگڑوں کا عملی فیصلہ کر دے گا۔ آپ دعوت و تبلیغ کا فرض ادا کر کے ان کی فکر میں زیادہ دردسری نہ اٹھائیں۔ ایسے ضدی معاندین کا علاج خدا کے پاس ہے (تنبیہ) { فَلَا یُنَا زِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ } کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب ہر امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جدا گانہ دستور العمل مقرر کیا ہے۔ پھر اس پیغمبر کی امت کے لئے نئی شریعت آئی تو جھگڑنے کی کیا بات ہے۔ بعض مفسرین نے {مَنْسَک } کے معنی ذبح و قربانی کے لئے ہیں ، مگر اقرب وہ ہی ہے جو مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے اختیار فرمایا ۔ واللہ اعلم۔
















اللَّهُ يَصطَفى مِنَ المَلٰئِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النّاسِ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَميعٌ بَصيرٌ {22:75} 


خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ بےشک خدا سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے 


اللہ چھانٹ لیتا ہے فرشتوں میں پیغام پہنچانے والے اور آدمیوں میں [۱۱۱] اللہ سنتا دیکھتا ہے [۱۱۲] 


یعنی ان کی تمام باتوں کو اور ان کے ماضی و مستقبل کے تمام احوال کو دیکھتا ہے اس لئے وہ ہی حق رکھتا ہے کہ جس کے احوال و استعداد پر نظر کر کے منصب رسالت پر فائز کرنا چاہے فائز کر دے۔ { اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ } (انعام رکوع۱۵) حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی ساری خلق میں بہتر وہ لوگ ہیں پیغام پہنچانے والے، فرشتوں میں بھی وہ فرشتے اعلیٰ ہیں ان کو (یعنی ان کی ہدایات کو) چھوڑ کر بتوں کو مانتے ہو" کس قدر بے تکی بات ہے۔ 


یعنی بعض فرشتوں سے پیغامبری کا کام لیتا ہے (مثلًا جبریلؑ) اور بعض انسانوں سے جن کو خدا اس منصب کے لئے انتخاب فرمائے گا ظاہر ہے ان کا درجہ تمام خلائق سے اعلیٰ ہونا چاہئے۔ 
















اللَّهُ نورُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ مَثَلُ نورِهِ كَمِشكوٰةٍ فيها مِصباحٌ ۖ المِصباحُ فى زُجاجَةٍ ۖ الزُّجاجَةُ كَأَنَّها كَوكَبٌ دُرِّىٌّ يوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُبٰرَكَةٍ زَيتونَةٍ لا شَرقِيَّةٍ وَلا غَربِيَّةٍ يَكادُ زَيتُها يُضيءُ وَلَو لَم تَمسَسهُ نارٌ ۚ نورٌ عَلىٰ نورٍ ۗ يَهدِى اللَّهُ لِنورِهِ مَن يَشاءُ ۚ وَيَضرِبُ اللَّهُ الأَمثٰلَ لِلنّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمٌ {24:35} 


خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے۔ اور چراغ ایک قندیل میں ہے۔ اور قندیل (ایسی صاف شفاف ہے کہ) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارہ ہے اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے (یعنی) زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف۔ (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے (پڑی) روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے) خدا اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ اور خدا نے (جو مثالیں) بیان فرماتا ہے (تو) لوگوں کے (سمجھانے کے) لئے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے 


اللہ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی [۶۶] مثال اس کی روشنی کی جیسے ایک طاق اس میں ہو ایک چراغ وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشہ میں وہ شیشہ ہے جیسے ایک تارہ چمکتا ہوا تیل جلتا ہے اس میں ایک برکت کے درخت کا وہ زیتون ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف قریب ہے اس کا تیل کہ روشن ہو جائے اگرچہ نہ لگی ہو اس میں آگ روشنی پر روشنی اللہ راہ دکھلا دیتا ہے اپنی روشنی کی جس کو چاہے اور بیان کرتا ہے اللہ مثالیں لوگوں کے واسطے اور اللہ سب چیز کو جانتا ہے [۶۷] 


یعنی یوں تو اللہ کے نور سے تمام موجودات کی نمود ہے۔ لیکن مومنین مہتدین کو نور الہٰی سے ہدایت و عرفان کا جو خصوصی حصہ ملتا ہے۔ اس مثال کی ایک عمدہ توجیہہ: اس کی مثال ایسی سمجھو گویا مومن قانت کا جسم ایک طاق کی طرح ہے جس کے اندر ایک ستارہ کی طرح چمکدار شیشہ (قندیل) رکھا ہو۔ یہ شیشہ اس کا قلب ہوا جس کا تعلق عالم بالا سے ہے۔ اس شیشہ (قندیل) میں معرفت و ہدایت کا چراغ روشن ہے، یہ روشنی ایسے صاف و شفاف اور لطیف تیل سے حاصل ہو رہی ہے جو ایک نہایت ہی مبارک درخت (زیتون) سے نکل کر آیا ہے اور زیتون بھی وہ جو کسی حجاب سے نہ مشرق میں ہو نہ مغرب میں یعنی کسی طرف دھوپ کی روک نہیں کھلے میدان میں کھڑا ہے جس پر صبح و شام دونوں وقت کی دھوپ پڑتی ہے۔ تجربہ سے معلوم ہوا کہ ایسے زیتون کا تیل اور ابھی زیادہ لطیف و صاف ہوتا ہے۔ غرض اس کا تیل اس قدر صاف اور چمکدار ہے کہ بدون آگ دکھلائے ہی معلوم ہوتا ہے کہ خودبخود روشن ہو جائے گا۔ یہ تیل میرے نزدیک اسی حسن استعداد اور نور توفیق کا ہوا جو نور مبارک کے القاء سے بدء فطرت میں مومن کو حاصل ہوا تھا۔ جیسا کہ اوپر کے فائدہ میں گذر چکا اور جس طرح شجرہ مبارکہ کو { لَاشَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍ } فرمایا تھا وہ نور ربانی بھی جہت کی قید سے پاک ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ مومن کا شیشہ دل نہایت صاف ہو تا ہے، اور خدا کی توفیق سے اس میں قبول حق کی ایسی زبردست استعداد پائی جاتی ہے کہ بدون دیا سلائی دکھائے ہی جل اٹھنے کو تیار ہوتا ہے اب جہاں ذرا آگ دکھائی یعنی وحی و قرآن کی تیز روشنی نے اس کو مس کیا فورًا اس کی فطری روشنی بھڑک اٹھی۔ اسی کو { نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ } فرمایا باقی سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے جس کو چاہے اپنی روشنی عنایت فرمائے اور وہ ہی جانتا ہے کہ کس کو یہ روشنی ملنی چاہئے۔ کس کو نہیں ان عجیب و غریب مثالوں کا بیان فرمانا بھی اسی غرض سے ہے کہ استعداد رکھنے والوں کو بصیرت کی ایک روشنی حاصل ہو۔ حق تعالیٰ ہی تمثیل کے مناسب موقع و محل کو پوری طرح جانتا ہے، کسی دوسرے کو قدرت کہاں کہ ایسی موزوں و جامع مثال پیش کر سکے۔ آگے فرمایا کہ وہ روشنی ملتی ہے اس سے کہ جن مسجدوں میں کامل لوگ صبح و شام بندگی کرتے ہیں وہاں دھیان لگا رہے۔ (تنبیہ) مفسرین نے تشبیہ کی تقریر بہت طرح کی ہے، حضرت شاہ صاحبؒ نے بھی موضح القرآن میں نہایت لطیف و عمیق تقریر فرمائی ہے مگر بندہ کے خیال میں جو توجیہہ آئی وہ درج کر دی۔ { وَلِلنّاس فیما یعشقون مذاھبٗ } واضح رہے کہ { یُوقَدُ } اور { وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَار } میں جس نار کی طرف اشارہ ہے میں نے مشبہ میں اس کی جگہ وحی و قرآن کو رکھا ہے۔ اس کا ماخذ وہ فائدہ ہے جو حضرت شاہ صاحبؒ نے { مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَنَارًا } پر لکھا ہے اور جس کی تائید صحیحین کی ایک حدیث سے ہوتی ہے جس میں آپ نے یہ الفاظ فرمائے ہیں۔ { اِنَّمَا مَثَلِیْ وَ مَثَلُ النّاسِ کَرجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فلما اضاءَتْ مَا حَوْلَہٗ جَعَلَ الفِرَاشُ وَھٰذہِ الدَّوابُّ الَّتِیْ یَقَعْنَ فِیْھَا } الخ 


یعنی اللہ سے رونق اور بستی ہے زمین و آسمان کو اس کی مدد نہ ہو تو سب ویران ہو جائیں (موضح القرآن) سب مخلوق کو نور وجود اسی سے ملا ہے۔ چاند، سورج، ستارے، فرشتے اور انبیاء و اولیاء میں جو ظاہری و باطنی روشنی ہے، اسی منبع النور سے مستفادہ ہے۔ ہدایت و معرفت کا جو چمکارا کسی کو پہنچتا ہے اسی بارگاہ رفیع سے پہنچتا ہے۔ تمام علویات و سفلیات اس کی آیات تکوینیہ و تنزیلیہ سے منور ہیں۔ حسن و جمال یا خوبی و کمال کی کوئی چمک اگر کہیں نظر پڑتی ہے وہ اس کے وجہ منور اور ذات مباک کے جمال و کمال کا ایک پر تو ہے۔ سیرت ابن اسحٰق میں ہے کہ طائف میں جب لوگوں نے حضور ﷺ کو ستایا تو یہ دعا زبان پر تھی۔ { اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الذِی اَشْرَقَتْ لَہُ الظلمَاتُ وَ صَلَحُ عَلَیَہِ اَمْرُ الدُّنْیَا والْاٰ خِرَۃِ اَنْ یَحُلَّ بِیْ غَضَبُکَ اَوْ یَنْزِل بِیْ سَخَطُکَ لَکَ الْعُتْبٰی حَتّٰی ترضٰی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ} ۔ رات کی تاریکی میں آپ اپنے رب کو { اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ } کہہ کر پکارا کرتے اور اپنے کان، آنکھ، دل، ہر ہر عضو بلکہ بال بال میں اس سے نور طلب فرماتے تھے اور اخیر میں بطور خلاصہ فرماتے { وَاجْعَلْ لِیْ نُوْرًا } یا { وَاَعْظِمْ لِیْ نُوْرًا } یا { وَاجْعَلْنِیْ نُوْرًا } یعنی میرے نور کو بڑھا بلکہ مجھے نور ہی نور بنا دے۔ اور ایک حدیث میں ہے۔ { اِنَّ اللہَ خَلَقَ خَلْقَہٗ فِی ظُلْمَۃٍ ثُمَّ القیٰ عَلَیْھِمْ مِنْ نُوْرِہٖ فَمَنْ اَصَابَہٗ مِنْ نُوْرِہٖ یَوْمَئِذٍ اھْتَدیٰ وَمَنْ اَخْطَاہٗ ضَلَّ } (فتح الباری ۶۔۴۳۰) یعنی جس کو اس وقت اللہ کے نور (توفیق) سے حصہ ملا وہ ہدایت پر آیا اور جو اس سے چوکا گمراہ رہا۔ واضح رہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات مثلاً سمع، بصر وغیرہ کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ ایسے ہی صفت نور بھی ہے ممکنات کے نور پر قیاس نہ کیا جائے۔ تفصیل کے لئے امام غزالی کا رسالہ "مشکوٰۃ الانوار" دیکھو۔ 



















أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَالطَّيرُ صٰفّٰتٍ ۖ كُلٌّ قَد عَلِمَ صَلاتَهُ وَتَسبيحَهُ ۗ وَاللَّهُ عَليمٌ بِما يَفعَلونَ {24:41} 


کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں خدا کی تسبیح کرتے ہیں اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی۔ اور سب اپنی نماز اور تسبیح کے طریقے سے واقف ہیں۔ اور جو کچھ وہ کرتے ہیں (سب) خدا کو معلوم ہے 


کیا تو نہ نے دیکھا کہ اللہ کی یاد کرتے ہیں جو کوئی ہیں آسمان و زمین میں اور اڑتے جانور پر کھولے ہوئے [۷۹] ہر ایک نے جان رکھی ہے اپنی طرح کی بندگی اور یاد [۸۰] اور اللہ کو معلوم ہے جو کچھ کرتے ہیں [۸۱] 


یعنی حق تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو اس کےحال کے مناسب جو طریقہ انابت و بندگی اور تسبیح خوانی کا الہام فرمایا اس کو سمجھ کر وہ اپنا وظیفہ ادا کرتی رہتی ہے۔ لیکن افسوس و تعجب کا مقام ہے کہ بہت سے انسان کہلانے والے غرور و غفلت اور ظلمت جہالت میں پھنس کر مالک حقیقی کی یاد اور ادائے وظیفہ عبودیت سے بے بہرہ ہیں (تنبیہ) مخلوقات کی تسبیح کے متعلق پندرہویں پارہ میں ربع کے قریب کچھ مضمون گذر چکا۔ وہاں دیکھ لیا جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹوں کو تسبیح کی وصیت کی اور فرمایا { وَاِنَّھَا لَصَلوٰۃ الخلق } (یہ ہی باقی مخلوق کی نماز ہے)۔ 


شاید اڑتے جانوروں کا علیحدہ ذکر اس لئے کیا کہ وہ اس وقت آسمان اور زمین کے بیچ میں معلق ہوتے ہیں اور ان کا اس طرح ہوا میں اڑتے رہنا قدرت کی بڑی نشانی ہے۔ 


یعنی ان کی بندگی اورتسبیح کو خواہ تم نہ سمجھو، لیکن حق تعالیٰ کو سب معلوم ہے کہ کون کیا کرتا ہے۔















أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزجى سَحابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَينَهُ ثُمَّ يَجعَلُهُ رُكامًا فَتَرَى الوَدقَ يَخرُجُ مِن خِلٰلِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِن جِبالٍ فيها مِن بَرَدٍ فَيُصيبُ بِهِ مَن يَشاءُ وَيَصرِفُهُ عَن مَن يَشاءُ ۖ يَكادُ سَنا بَرقِهِ يَذهَبُ بِالأَبصٰرِ {24:43} 


کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی بادلوں کو چلاتا ہے، اور ان کو آپس میں ملا دیتا ہے، پھر ان کو تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ بادل میں سے مینہ نکل (کر برس) رہا ہے اور آسمان میں جو (اولوں کے) پہاڑ ہیں، ان سے اولے نازل کرتا ہے تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ہٹا دیتا ہے۔ اور بادل میں جو بجلی ہوتی ہے اس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کرکے بینائی کو اُچکے لئے جاتی ہے 


تو نے نہ دیکھا اللہ ہانک لاتا ہے بادل کو پھر انکو ملا دیتا ہے پھر انکو رکھتا ہے تہ بر تہ پھر تو دیکھے مینہ نکلتا ہے اس کے بیچ سے [۸۳] اور اتارتا ہے آسمان سے اس میں جو پہاڑ ہیں اولوں کے پھر وہ ڈالتا ہے جس پر چاہے اور بچا دیتا ہے جس سے چاہے [۸۴] ابھی اس کی بجلی کی کوند لیجائے آنکھوں کو [۸۵] 


یعنی جیسے زمین میں پتھروں کے پہاڑ ہیں، بعض سلف نے کہا کہ اسی طرح آسمان میں اولوں کے پہاڑ ہیں۔ مترجم رحمہ اللہ نے اسی کے موافق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن زیادہ راجح اور قوی یہ ہے کہ "سماء" سے بادل مراد ہو۔ مطلب یہ ہے کہ بادلوں سے جو کثیف اور بھاری ہونے میں پہاڑوں کی طرح ہیں، اولے برساتا ہے جس سے بہتوں کو جانی یا مالی نقصان پہنچ جاتا ہے اور بہت سے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ اولے کی چھال بیل کے ایک سینگ پر پڑتی ہے اور دوسرا سینگ خشک رہ جاتا ہے۔ 


یعنی ابتداء میں بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اٹھتے ہیں پھر مل کر بڑا بادل بن جاتا ہے۔ پھر تہ پر تہ جما دی جاتی ہے۔ 


یعنی بجلی کی چمک اس قدر تیز ہوتی ہے کہ آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، قریب ہے کہ بینائی جاتی رہے۔


















وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دابَّةٍ مِن ماءٍ ۖ فَمِنهُم مَن يَمشى عَلىٰ بَطنِهِ وَمِنهُم مَن يَمشى عَلىٰ رِجلَينِ وَمِنهُم مَن يَمشى عَلىٰ أَربَعٍ ۚ يَخلُقُ اللَّهُ ما يَشاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {24:45} 


اور خدا ہی نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ تو اس میں بعضے ایسے ہیں کہ پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو چار پاؤں پر چلتے ہیں۔ خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، بےشک خدا ہر چیز پر قادر ہے 


اور اللہ نے بنایا ہر پھرنے والے کو ایک پانی سے [۸۸] پھر کوئی ہے کہ چلتا ہے اپنے پیٹ پر [۸۹] اور کوئی ہے کہ چلتا ہے دو پاؤں پر [۹۰] اور کوئی ہے کہ چلتا ہے چار پر [۹۱] بناتا ہے اللہ جو چاہتا ہے بیشک اللہ ہر چیز کر سکتا ہے [۹۲] 


یعنی کسی جانور کو چار سے زائد پاؤں دیے ہوں تو بعید نہیں، اس کی لامحدود قدرت و مشیت کو کوئی محصور نہیں کر سکتا۔ 


اس کے لئے سترہویں پارہ کے تیسرے رکوع میں آیت { وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شیءٍ حَیّ } کا فائدہ دیکھنا چاہئے۔ 


جیسے گائے بھینس وغیرہ۔ 


جیسے سانپ اور مچھلی۔ 


جیسے آدمی اور طیور۔















اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ رَبُّ العَرشِ العَظيمِ ۩ {27:26} 


خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی عرش عظیم کا مالک ہے 


اللہ ہے کسی کی بندگی نہیں اس کے سوائے پروردگار تخت بڑے کا [۳۴] 


یعنی اس کے عرش عظیم سے بلقیس کے تخت کو کیا نسبت۔















أَمَّن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَنبَتنا بِهِ حَدائِقَ ذاتَ بَهجَةٍ ما كانَ لَكُم أَن تُنبِتوا شَجَرَها ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ بَل هُم قَومٌ يَعدِلونَ {27:60} 


بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔ (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سرسبز باغ اُگائے۔ تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم اُن کے درختوں کو اگاتے۔ تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہو رہے ہیں 


بھلا کس نے بنائے آسمان اور زمین اور اتار دیا تمہارے لئے آسمان سے پانی پھر اگائے ہم نے اس سے باغ رونق والے تمہارا کام نہ تھا کہ اگاتے ان کے درخت [۷۸] اب کوئی اور حاکم ہے اللہ کے ساتھ کوئی نہیں وہ لوگ راہ سے مڑتے ہیں [۷۹] 


سرے سے درختوں کا اگانا تمہارے اختیار میں نہیں۔ چہ جائیکہ اسکا پھول پھل لانا اور بارآور کرنا۔ 


یعنی تمام دنیا جانتی ہے اور خود یہ مشرکین بھی مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنا، بارش برسانا، درخت اگانا، بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کا کام نہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ قرآن میں ان کا اقرار و اعتراف مذکور ہے پھر یہاں تک پہنچ کر راستہ سے کیوں کترا جاتے ہیں۔ جب اللہ کے سوا کوئی ہستی نہیں جو خلق و تدبیر کر سکے یا کسی چیز کا مستقل اختیار رکھے، تو اس کی الوہیت و معبودیت میں وہ کس طرح شریک ہو جائے گی۔ "عبادت" انتہائی تذلل کا نام ہے، سو وہ اسی کی ہونی چاہئے جو انتہائی درجہ میں کامل اور بااختیار ہو۔ کسی ناقص یا عاجز مخلوق کو معبودیت میں خالق کے برابر کر دینا انتہائی ظلم اور ہٹ دھرمی ہے۔















أَمَّن جَعَلَ الأَرضَ قَرارًا وَجَعَلَ خِلٰلَها أَنهٰرًا وَجَعَلَ لَها رَوٰسِىَ وَجَعَلَ بَينَ البَحرَينِ حاجِزًا ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعلَمونَ {27:61} 


بھلا کس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں اور اس کے لئے پہاڑ بنائے اور (کس نے) دو دریاؤں کے بیچ اوٹ بنائی (یہ سب کچھ خدا نے بنایا) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ ان میں اکثر دانش نہیں رکھتے 


بھلا کس نے بنایا زمین کو ٹھہرنے کی جگہ [۸۰] اور بنائیں اس کے بیچ میں ندیاں اور رکھے اسکے ٹھہرانے کو بوجھ [۸۱] اور رکھا دو دریا میں پردہ [۸۲] اب کوئی اور حاکم ہے اللہ کے ساتھ کوئی نہیں بہتوں کو ان میں سمجھ نہیں [۸۳] 


یعنی آدمی اور جانوروں کی قیام گاہ ہے۔ آرام سے اس پر زندگی بسر کرتے اور اس کے محاصل سے منتفع ہوتے ہیں۔ 


یعنی کوئی اور با اختیار ہستی ہے جس سے یہ کام بن پڑیں اور اس بناء پر وہ معبود بننے کے لائق ہو۔ جب نہیں تو معلوم ہوا کہ یہ مشرکین محض جہالت اور نا سمجھی سے شرک و مخلوق پرستی کے غار عمیق میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔ 


یعنی پہاڑ رکھ دئے تاکہ ٹھہری رہے، کپکپائے نہیں۔ 


اس کی تحقیق قریب ہی سورہ "فرقان" میں گذر چکی۔ آیت { وَھُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَ جَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا } کا فائدہ ملاحظہ کر لیا جائے۔












أَمَّن يُجيبُ المُضطَرَّ إِذا دَعاهُ وَيَكشِفُ السّوءَ وَيَجعَلُكُم خُلَفاءَ الأَرضِ ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَليلًا ما تَذَكَّرونَ {27:62} 


بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو 


بھلا کون پہنچتا ہے بےکس کی پکار کو جب اسکو پکارتا ہے اور دور کر دیتا ہے سختی [۸۴] اور کرتا ہے تم کو نائب اگلوں کا زمین پر [۸۵] اب کوئی حاکم ہے اللہ کے ساتھ تم بہت کم دھیان کرتے ہو [۸۶] 


یعنی ایک قوم یانسل کو اٹھا لیتا اور اس کی جگہ دوسری کو آباد کرتا ہے جو زمین میں مالکانہ اور بادشاہانہ تصرف کرتے ہیں۔ 


یعنی پوری طرح دھیان کرتے تو دور جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ انہی پر اپنی حوائج و ضروریات اور قوموں کے ادل بدل کو دیکھ کر سمجھ سکتے تھے کہ جس کے ہاتھ میں ان امور کی باگ ہے تنہا اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ 


یعنی جب اللہ چاہے اور مناسب جانے تو بے کس اور بیقرار کی فریاد سن کر سختی کو دور کر دیتا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ { فَیَکْشِفُ مَاتَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآءَ } (انعام رکوع۴) گویا اسی نے دعاء کو بھی اسباب عادیہ میں سے ایک سبب بنایا ہے جس پر مسبّب کا ترتب بمشیت الہٰی استجماع شروط اور ارتفاع موانع کے بعد ہوتا ہے۔ اور علامہ طیبی وغیرہ نے کہا کہ آیت میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ سخت مصائب و شدائد کے وقت تو تم بھی مضطر ہو کر اسی کو پکارتے ہو اور دوسرے معبودوں کو بھول جاتے ہو۔ پھر فطرت اور ضمیر کی اس شہادت کو امن و اطمینان کے وقت کیوں یاد نہیں رکھتے۔ 






أَمَّن يَهديكُم فى ظُلُمٰتِ البَرِّ وَالبَحرِ وَمَن يُرسِلُ الرِّيٰحَ بُشرًا بَينَ يَدَى رَحمَتِهِ ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ تَعٰلَى اللَّهُ عَمّا يُشرِكونَ {27:63} 


بھلا کون تم کو جنگل اور دریا کے اندھیروں میں رستہ بناتا ہے اور (کون) ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے خوشخبری بناکر بھیجتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں)۔ یہ لوگ جو شرک کرتے ہیں خدا (کی شان) اس سے بلند ہے 


بھلا کون راہ بتاتا ہے تم کو اندھیروں میں جنگل کے اور دریا کے [۸۷] اور کون چلاتا ہے ہوائیں خوشخبری لانے والیاں اس کی رحمت سے پہلے [۸۸] اب کوئی حاکم ہے اللہ کے ساتھ اللہ بہت اوپر ہے اس سے جسکو شریک بتلاتے ہیں [۸۹] 


یعنی خشکی اور دریا کی اندھیریوں میں ستاروں کے ذریعہ سے تمہاری رہنمائی کرتا ہے۔ خواہ بلاواسطہ یا بالواسطہ قطب نما وغیرہ آلات کے۔ 


یعنی کہاں وہ قادر مطلق اور حکیم برحق اور کہاں عاجز و ناقص مخلوق، جسے اسکی خدائی کا شریک بتلایا جا رہا ہے۔ 


یعنی باران رحمت سے پہلے ہوائیں چلاتا ہے جو بارش کی آمد آمد کی خوشخبری سناتی ہیں۔












أَمَّن يَبدَؤُا۟ الخَلقَ ثُمَّ يُعيدُهُ وَمَن يَرزُقُكُم مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قُل هاتوا بُرهٰنَكُم إِن كُنتُم صٰدِقينَ {27:64} 


بھلا کون خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا۔ پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے اور (کون) تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں) کہہ دو کہ (مشرکو) اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو 


بھلا کون سرے سے بناتا ہے پھر اسکو دہرائے گا [۹۰] اور کون روزی دیتا ہے تمکو آسمان سے اور زمین سے [۹۱] اب کوئی حاکم ہے اللہ کے ساتھ تو کہہ لاؤ اپنی سند اگر تم سچے ہو [۹۲] 


یعنی اگر اتنے صاف نشانات اور واضح دلائل سننے کے بعد بھی تم خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور شرک کی قباحت کو تسلیم نہیں کرتے تو جو کوئی دلیل تم اپنے دعوے باطل کے ثبوت میں رکھتے ہو پیش کرو۔ ابھی تمہارا جھوٹ سچ کھل جائے گا۔ مگر وہاں دلیل و برہان کہاں محض اندھی تقلید ہے { وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ لَا بُرْھَانَ لَہٗ بِہٖ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ } (مومنون رکوع۶) 


ابتداءً پیدا کرنا تو سب کو مسلم ہے کہ اللہ کا کام ہے۔ موت کے بعد دوبارہ پیدا کرنے کو بھی اسی سے سمجھ لو۔ منکرین "بعث بعد الموت" بھی اتنا سمجھتے تھے کہ اگر بالفرض دوبارہ پیدا کئے گئے تو یہ کام اسی کا ہو گا جس نے اول پیدا کیا تھا۔ 


یعنی کون ہے جو آسمانی اور زمینی اسباب کے ذریعہ سے اپنی حکمت کے موافق تم کو روزی پہنچاتا ہے۔ 

















وَهُوَ اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ لَهُ الحَمدُ فِى الأولىٰ وَالءاخِرَةِ ۖ وَلَهُ الحُكمُ وَإِلَيهِ تُرجَعونَ {28:70} 


اور وہی خدا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں دنیا اور آخرت میں اُسی کی تعریف ہے اور اُسی کا حکم اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے 


اور وہی اللہ ہے کسی کی بندگی نہیں اسکے سوا اسی کی تعریف ہے دنیا اور آخرت میں اور اسی کے ہاتھ حکم ہے اور اسی کے پاس پھیرے جاؤ گے [۹۶] 


یعنی جس طرح تخلیق و اختیار اورعلم محیط میں وہ منفرد ہے الوہیت میں بھی یگانہ ہے۔ بجز اس کے کسی کی بندگی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اسی کی ذات منبع الکمالات میں تمام خوبیاں جمع ہیں۔ دنیا اور آخرت میں جو تعریف بھی خواہ وہ کسی کے نام رکھ کر کی جائے حقیقت میں اسی کی تعریف ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے۔ اسی کا فیصلہ ناطق ہے۔ اسی کو اقتدار کلی حاصل ہے اور انجام کار سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ آگے بتلاتے ہیں کہ رات دن میں جس قدر نعمتیں اور بھلائیاں تمکو پہنچتی ہیں اسی کے فضل و انعام سے ہیں۔ بلکہ خود رات اور دن کا ادل بدل کرنا بھی اس کا مستقل احسان ہے۔















قُل أَرَءَيتُم إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيكُمُ الَّيلَ سَرمَدًا إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ مَن إِلٰهٌ غَيرُ اللَّهِ يَأتيكُم بِضِياءٍ ۖ أَفَلا تَسمَعونَ {28:71} 


کہو بھلا دیکھو تو اگر خدا تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک رات (کی تاریکی) کئے رہے تو خدا کے سوا کون معبود ہے ہے جو تم کو روشنی لا دے تو کیا تم سنتے نہیں؟ 


تو کہہ دیکھو تو اگر اللہ رکھ دے تم پر رات ہمیشہ کو قیامت کے دن تک [۹۷] کون حاکم ہے اللہ کے سوائے کہ لائے تم کو کہیں سے روشنی پھر کیا تم سنتے نہیں [۹۸] 


مثلاً سورج کو طلوع نہ ہونے دے۔ یا اس سے روشنی سلب کر لے تو اپنے کاروبار کے لئے ایسی روشنی کہاں سے لا سکتے ہو۔ 


یعنی یہ بات ایسی روشن اور صاف ہے کہ سنتے ہی سمجھ میں آ جائے ۔ تو کیا تم سنتے بھی نہیں۔












قُل أَرَءَيتُم إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيكُمُ النَّهارَ سَرمَدًا إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ مَن إِلٰهٌ غَيرُ اللَّهِ يَأتيكُم بِلَيلٍ تَسكُنونَ فيهِ ۖ أَفَلا تُبصِرونَ {28:72} 


کہو تو بھلا دیکھو تو اگر خدا تم پر ہمیشہ قیامت تک دن کئے رہے تو خدا کے سوا کون معبود ہے کہ تم کو رات لا دے جس میں تم آرام کرو۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ 


تو کہہ دیکھو تو اگر رکھ دے اللہ تم پر دن ہمیشہ کو قیامت کے دن تک کون حاکم ہے اللہ کے سوائے کہ لائے تم کو رات جس میں آرام کرو پھر کیا تم نہیں دیکھتے [۹۹] 


یعنی اگر آفتاب کو غروب نہ ہونے دے ہمیشہ تمہارے سروں پر کھڑ ارکھے تو جو راحت و سکون اور دوسرے فوائد رات کے آنے سے حاصل ہوتے ہیں ان کا سامان کونسی طاقت کر سکتی ہے۔ کیا ایسی روشن حقیقت بھی تم کو نظر نہیں آتی (تنبیہ) { اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ } { اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ النَّھَارَ سَرْمَدًا } کے مناسب ہے کیونکہ آنکھ سےدیکھنا عادۃً روشنی پر موقوف ہے جو دن میں پوری طرح ہوتی ہے۔ رات کی تاریکی میں چونکہ دیکھنے کی صورت نہیں، ہاں سننا ممکن ہے اس لئے { اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا } کے ساتھ { اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ } فرمانا ہی موزوں تھا۔ واللہ اعلم۔ 














خَلَقَ اللَّهُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ بِالحَقِّ ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايَةً لِلمُؤمِنينَ {29:44} 


خدا نے آسمانوں اور زمین کو حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ ایمان والوں کے لئے اس میں نشانی ہے 


اللہ نے بنائے آسمان اور زمین جیسے چاہئیں [۶۹] اس میں نشانی ہے یقین لانے والوں کے لئے [۷۰] 


یعنی نہایت حکمت سے بنایا، بیکار پیدا نہیں کیا۔ 


یعنی جب آسمان و زمین اس اکیلے نے بنا دیے تو چھوٹے چھوٹے کاموں میں اسے کسی شریک یا مددگار کی کیا احتیاج ہو گی۔ ہوتی تو ان بڑے کاموں میں ہوتی۔












وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَسَخَّرَ الشَّمسَ وَالقَمَرَ لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنّىٰ يُؤفَكونَ {29:61} 


اور اگر اُن سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا۔ اور سورج اور چاند کو کس نے (تمہارے) زیر فرمان کیا تو کہہ دیں گے خدا نے۔ تو پھر یہ کہاں اُلٹے جا رہے ہیں 


اور اگر تو لوگوں سے پوچھے کہ کس نے بنایا ہے آسمان اور زمین کو اور کام میں لگایا سورج اور چاند کو تو کہیں اللہ نے پھر کہاں سے الٹ جاتے ہیں [۹۶] 


یعنی رزق کے تمام اسباب (سماویہ و ارضیہ) اسی نے پیدا کئے سب جانتے ہیں، پھر اس پر بھروسہ نہیں کرتے کہ وہ ہی پہنچا بھی دے گا۔ مگر جتنا وہ چاہے نہ جتنا تم چاہو۔ یہ اگلی آیت میں سمجھا دیا ہے۔ (موضح)












اللَّهُ يَبسُطُ الرِّزقَ لِمَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ وَيَقدِرُ لَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمٌ {29:62} 


خدا ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے بیشک خدا ہر چیز سے واقف ہے 


اللہ پھیلاتا ہے روزی جس کے واسطے چاہے اپنے بندوں میں اور ماپ کر دیتا ہے جسکو چاہے [۹۷] بیشک اللہ ہر چیز سے خبردار ہے [۹۸] 


ناپ کر دیتا ہے یہ نہیں کہ بالکل نہ دے۔ 


یعنی یہ خبر اسی کو ہے کہ کس کو کتنا دینا چاہئے۔















وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن نَزَّلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَحيا بِهِ الأَرضَ مِن بَعدِ مَوتِها لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعقِلونَ {29:63} 


اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے پانی کس نے نازل فرمایا پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد (کس نے) زندہ کیا تو کہہ دیں گے کہ خدا نے۔ کہہ دو کہ خدا کا شکر ہے۔ لیکن ان میں اکثر نہیں سمجھتے 


اور جو تو پوچھے ان سے کس نے اتارا آسمان سے پانی پھر زندہ کر دیا اس سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد تو کہیں اللہ نے تو کہہ سب خوبی اللہ کو ہے پر بہت لوگ نہیں سمجھتے [۹۹] 


یعنی مینہ بھی ہر کسی پر برابر نہیں برستا۔ اور اسی طرح حال بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ذرا دیر میں مفلس سے دولتمند کر دے۔















اللَّهُ يَبدَؤُا۟ الخَلقَ ثُمَّ يُعيدُهُ ثُمَّ إِلَيهِ تُرجَعونَ {30:11} 


خدا ہی خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے وہی اس کو پھر پیدا کرے گا پھر تم اُسی کی طرف لوٹ جاؤ گے 


اللہ بناتا ہے پہلی بار پھر اس کو دہرائے گا پھر اسی کی طرف جاؤ گے















أَوَلَم يَرَوا أَنَّ اللَّهَ يَبسُطُ الرِّزقَ لِمَن يَشاءُ وَيَقدِرُ ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يُؤمِنونَ {30:37} 


کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کرتا ہے اور( جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کرتا ہے۔ بیشک اس میں ایمان لانے والوں کے لئے نشانیاں ہیں 


کیا نہیں دیکھ چکے کہ اللہ پھیلا دیتا ہے روزی کو جس پر چاہے اور ماپ کر دیتا ہے جسکو چاہے اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں [۴۲] 


یعنی ایمان و یقین والے سمجھتے ہیں کہ دنیا کی سختی نرمی اور روزی کا بڑھانا گھٹانا سب اسی رب قدیر کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا جو حال آئے بندہ کو صبر و شکر سے رضا بقضا رہنا چاہئے۔ نعمت کے وقت شکرگذار رہے اور ڈرتا رہے کہیں چھن نہ جائے اور سختی کے وقت صبر کرے اور امید رکھے کہ حق تعالیٰ اپنے فضل و عنایت سے سختیوں کو دور فرما دے گا۔












اللَّهُ الَّذى خَلَقَكُم ثُمَّ رَزَقَكُم ثُمَّ يُميتُكُم ثُمَّ يُحييكُم ۖ هَل مِن شُرَكائِكُم مَن يَفعَلُ مِن ذٰلِكُم مِن شَيءٍ ۚ سُبحٰنَهُ وَتَعٰلىٰ عَمّا يُشرِكونَ {30:40} 


خدا ہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو رزق دیا پھر تمہیں مارے گا۔ پھر زندہ کرے گا۔ بھلا تمہارے (بنائے ہوئے) شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کچھ کر سکے۔ وہ پاک ہے اور (اس کی شان) ان کے شریکوں سے بلند ہے 


اللہ وہ ہی ہے جس نے تم کو بنایا پھر تم کو روزی دی پھر تم کو مارتا ہے پھر تم کو جلائے گا کوئی ہے تمہارے شریکوں میں جو کر سکے ان کاموں میں سے ایک کام وہ نرالا ہے اور بہت اوپر ہے اس سے کہ شریک بتلاتے ہیں [۴۵] 


یعنی مارنا جلانا، روزی دینا سب کام تو تنہا اس کے قبضہ میں ہوئے۔ پھر دوسرے شریک کدھر سے آ کر الوہیت کے مستحق بن گئے۔















اللَّهُ الَّذى يُرسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثيرُ سَحابًا فَيَبسُطُهُ فِى السَّماءِ كَيفَ يَشاءُ وَيَجعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الوَدقَ يَخرُجُ مِن خِلٰلِهِ ۖ فَإِذا أَصابَ بِهِ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ إِذا هُم يَستَبشِرونَ {30:48} 


خدا ہی تو ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو اُبھارتی ہیں۔ پھر خدا اس کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا اور تہ بتہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے مینھہ نکلنے لگتا ہے پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے اُسے برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں 


اللہ ہے جو چلاتا ہے ہوائیں پھر وہ اٹھاتی ہیں بادل کو پھر پھیلا دیتا ہے اس کو آسمان میں جس طرح چاہے [۵۹] اور رکھتا ہے اس کو تہہ بہ تہہ پھر تو دیکھے مینہ کو کہ نکلتا ہے اس کے بیچ میں سے پھر جب اس کو پہنچاتا ہے جس کو کہ چاہتا ہے اپنے بندوں میں تبھی وہ لگتے ہیں خوشیاں کرنے [۶۰] 


یعنی پہلے کسی طرف، پیچھے کسی طرف، اسی طرح دین بھی پھیلائے گا۔ چنانچہ پھیلا دیا۔ 


اسی طرح جو ایمانی اور روحانی بارش سے منتفع ہوں گے اور خوشیاں منائیں گے۔















اللَّهُ الَّذى خَلَقَكُم مِن ضَعفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعدِ ضَعفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعدِ قُوَّةٍ ضَعفًا وَشَيبَةً ۚ يَخلُقُ ما يَشاءُ ۖ وَهُوَ العَليمُ القَديرُ {30:54} 


خدا ہی تو ہے جس نے تم کو (ابتدا میں) کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد طاقت عنایت کی پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ صاحب دانش اور صاحب قدرت ہے 


اللہ ہے جس نے بنایا تم کمزوری سے پھر دیا کمزوری کے پیچھے زور پھر دے گا زور کے پیچھے کمزوری اور سفید بال بناتا ہے جو کچھ چاہے اور وہ ہے سب کچھ جانتا کر سکتا [۶۶] 


یعنی بچہ شروع میں پیدائش کے وقت بیحد کمزور و ناتوان ہوتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ قوت آنے لگی ہے حتٰی کہ جوانی کے وقت اس کا زور انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور تمام قوتیں شباب پر ہوتی ہیں پھر عمر ڈھلنے لگتی ہے اور زور و قوت کے پیچھے کمزوری کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ جس کی آخری حد بڑھاپا ہے۔ اس وقت تمام اعضاء ڈھیلے پڑ جاتےاور قویٰ معطل ہونے لگتے ہیں۔ قوت و ضعف کا یہ سب اتار چڑھاؤ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جس طرح چاہے کسی چیز کو بنائے ۔ اور قوت و ضعف کے مختلف ادوار میں اس کو گذارے۔ اسی کو قدرت حاصل ہے اور وہ ہی جانتا ہے کہ کس چیز کو کس وقت تک کن حالات میں رکھنا مناسب ہے۔ لہذا اسی خدا کی اور اس کے پیغمبروں کی باتیں ہمیں سننی چاہئیں۔ شاید اس میں یہ بھی اشارہ کر دیا کہ جس طرح تم کو کمزوری کے بعد زور دیا، مسلمانوں کو بھی ضعف کے بعد قوت عطا کرے گا اور جو دین بظاہر اس وقت کمزور نظر آتا ہے کچھ دنوں بعد زور پکڑے گا اور اپنے شباب و عروج کو پہنچے گا۔ اس کے بعد پھر ہو سکتا ہے کہ ایک زمانہ مسلمانوں کے ضعف کا آئے سو یاد رکھنا چاہئے کہ خدائے قادر و توانا ہر وقت ضعف کو قوت سے تبدیل کر سکتا ہے۔ ہاں ایسا کرنے کی خاص صورتیں اور اسباب ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
























أَلَم تَرَوا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ وَأَسبَغَ عَلَيكُم نِعَمَهُ ظٰهِرَةً وَباطِنَةً ۗ وَمِنَ النّاسِ مَن يُجٰدِلُ فِى اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَلا هُدًى وَلا كِتٰبٍ مُنيرٍ {31:20} 


کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو خدا نے تمہارے قابو میں کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔ اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں نہ علم رکھتے ہیں اور نہ ہدایت اور نہ کتاب روشن 


کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کام میں لگائے تمہارے جو کچھ ہے آسمان اور زمین میں [۲۶] اور پوری کر دیں تم پر اپنی نعمتیں کھلی اور چھپی [۲۷] اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو جھگڑتے ہیں اللہ کی بات میں نہ سمجھ رکھیں نہ سوجھ اور نہ روشن کتاب [۲۸] 


یعنی آسمان و زمین کی کل مخلوق تمہارے کام میں لگا دی ہے، پھر تم اس کے کام میں کیوں نہیں لگتے۔ 


کھلی نعمتیں وہ جو حواس سے مُۡدرک ہوں یا بے تکلف سمجھ میں آ جائیں ۔ چھپی وہ جو عقلی غوروفکر سے دریافت کی جائیں۔ یا ظاہری سے مادی و معاشی اور باطنی سے روحانی و معادی نعمتیں مراد ہوں۔ گویا پیغمبر بھیجنا کتاب کا اتارنا، نیکی کی توفیق دینا، سب باطنی نعمتیں ہوں گی۔ واللہ اعلم۔ 


یعنی ایسے کھلے ہوئے انعام و احسان کے باوجود بعض لوگ آنکھیں بند کر کے اللہ کی وحدانیت میں یا اس کی شئون و صفات میں یا اس کے احکام و شرائع میں جھگڑتے ہیں اور محض بے سند جھگڑتے ہیں۔ نہ کوئی علمی اور عقلی اصول ان کے پاس ہے نہ کسی ہادی برحق کی ہدایت، نہ کسی مستند اور روشن کتاب کا حوالہ ، محض باپ دادوں کی اندھی تقلید ہے جس کا ذکر اگلی آیت میں آتا ہے۔ (تنبیہ) ترجمہ سے یوں مترشح ہوتا ہے کہ غالبًا متجرم محقق قدس اللہ روحہ نے "علم" سےعقلی طور پر سمجھنا مراد لیا ہے اور "ہدی" سے ایک طرح کی بصیرت مراد لی ہے جو سلامتی ذوق و وجدان اور ممارست عقل و فکر سے ناشی ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ان لوگوں کو نہ معمولی سمجھ ہے نہ وجدانی بصیرت حاصل ہے نہ روشن کتاب یعنی نقلی دلیل رکھتے ہیں۔ یہ معنی بہت لطیف ہیں۔ ہم نے آیت کی جو تقریر اختیار کی محض تسہیل کی غرض سے کی ہے۔





















وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعلَمونَ {31:25} 


اور اگر تم اُن سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو بول اُٹھیں گے کہ خدا نے۔ کہہ دو کہ خدا کا شکر ہے لیکن ان میں اکثر سمجھ نہیں رکھتے 


اور اگر تو پوچھے ان سے کس نے بنائے آسمان اور زمین تو کہیں اللہ نے تو کہہ سب خوبی اللہ کو ہے پر وہ بہت لوگ سمجھ نہیں رکھتے [۳۴] 


یعنی الحمدلِلہ اتنا تو زبان سے اعتراف کرتے ہو کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنا۔ بجز اللہ کے کسی کا کام نہیں تو پھر اب کونسی خوبی رہ گئ جو اس کی ذات میں نہ ہو۔ کیا ان چیزوں کا پیدا کرنا اور ایک خاص محکم نظام پر چلانا بدون اعلیٰ درجہ کے علم و حکمت اور زور و قدرت کے ممکن ہے؟ لا محالہ "خالق السمٰوٰت والارض" میں تمام کمالات تسلیم کرنے پڑیں گے۔ اور یہ بھی اسی کی قدرت کا ایک نمونہ ہے کہ تم جیسے منکرین سے اپنی عظمت و قدرت کا اقرار کرا دیتا ہے جس کے بعد تم ملزم ٹھہرتے ہو کہ جب تمہارے نزدیک خالق تنہا وہ ہے تو معبود دوسرے کیونکر بن گئے۔ بات تو صاف ہے پر بہت لوگ نہیں سمجھتے اور یہاں پہنچ کر اٹک جاتے ہیں۔












أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ يولِجُ الَّيلَ فِى النَّهارِ وَيولِجُ النَّهارَ فِى الَّيلِ وَسَخَّرَ الشَّمسَ وَالقَمَرَ كُلٌّ يَجرى إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى وَأَنَّ اللَّهَ بِما تَعمَلونَ خَبيرٌ {31:29} 


کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور (وہی) دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اُسی نے سورج اور چاند کو (تمہارے) زیر فرمان کر رکھا ہے۔ ہر ایک ایک وقتِ مقرر تک چل رہا ہے اور یہ کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے 


تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور کام میں لگا دیا ہے سورج اور چاند کو ہر ایک چلتا ہے ایک مقرر وقت تک [۳۹] اور یہ کہ اللہ خبر رکھتا ہے اسکی جو تم کرتے ہو [۴۰] 


یعنی جو قوت رات کو دن اور دن کو رات کرتی، اور چاند سورج جیسے کرات عظیمہ کو ادنیٰ مزدور کی طرح کام میں لگائے رکھتی ہے اسے تمہارے مرے پیچھے زندہ کر دینا کیا مشکل ہو گا۔ اور جب ہر ایک چھوٹے بڑے عمل سے پوری طرح با خبر ہے تو حساب کتاب میں کیا دشواری ہو گی۔ 


"مقرر وقت" سے قیامت مراد ہے یا چاند سورج میں سے ہر ایک کا دورہ۔ کیونکہ ایک دورہ پورا ہونے کے بعد گویا ازسرنو چلنا شروع کرتے ہیں۔















أَلَم تَرَ أَنَّ الفُلكَ تَجرى فِى البَحرِ بِنِعمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُم مِن ءايٰتِهِ ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِكُلِّ صَبّارٍ شَكورٍ {31:31} 


کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی کی مہربانی سے کشتیاں دریا میں چلتی ہیں۔ تاکہ وہ تم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے۔ بیشک اس میں ہر صبر کرنے والے (اور) شکر کرنے والے کے لئے نشانیاں ہیں 


تو نے نہ دیکھا کہ جہاز چلتے ہیں سمندر میں اللہ کی نعمت لے کر تاکہ دکھلائے تمکو کچھ اپنی قدرتیں [۴۳] البتہ اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک تحمل کرنے والے احسان ماننے والے کے واسطے [۴۴] 


یعنی جہاز بھاری بھاری سامان اٹھا کر خدا کی قدرت و رحمت سے کس طرح سمندر کی موجوں کو چیرتا پھاڑتا ہوا چلا جاتا ہے۔ 


یعنی اس بحری سفر کے احوال و حوادث میں غور کرنا انسان کے لئے صبر و شکر کے مواقع بہم پہنچاتا ہے ۔ جب طوفان اٹھ رہے ہوں اور جہاز پانی کے تھپیڑوں میں گھرا ہو اس وقت بڑے صبر و تحمل کا کام ہے اور جب اللہ نے اس کشمکش موت و حیات سے صحیح و سالم نکال دیا تو ضروری ہے کہ اس کا احسان مانے۔















إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلمُ السّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الغَيثَ وَيَعلَمُ ما فِى الأَرحامِ ۖ وَما تَدرى نَفسٌ ماذا تَكسِبُ غَدًا ۖ وَما تَدرى نَفسٌ بِأَىِّ أَرضٍ تَموتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ {31:34} 


خدا ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینھہ برساتا ہے۔ اور وہی (حاملہ کے) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (کہ نر ہے یا مادہ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا۔ اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کس سرزمین میں اُسے موت آئے گی بیشک خدا ہی جاننے والا (اور) خبردار ہے 


بیشک اللہ کے پاس ہے قیامت کی خبر اور اتارتا ہے مینہ اور جانتا ہے جو کچھ ہے ماں کے پیٹ میں اور کسی جی کو معلوم نہیں کہ کل کو کیا کرے گا اور کسی جی کو خبر نہیں کہ کس زمین میں مرے گا تحقیق اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے [۵۰] 


یعنی قیامت آ کر رہے گی۔ کب آئے گی؟ ا سکا علم خدا کے پاس ہے۔ نہ معلوم کب یہ کارخانہ توڑ پھوڑ کر برابر کر دیا جائے۔ آدمی دنیا کے باغ و بہار اور وقتی تازگی پر ریجھتا ہے، کیا نہیں جانتا کہ علاوہ فانی ہونے کے فی الحال بھی یہ چیز اور اس کے اسباب سب خدا کے قبضہ میں ہیں۔ زمین کی ساری رونق اور مادی برکت (جس پر تمہاری خوشحالی کا مدار ہے) آسمانی بارش پر موقوف ہے۔ سال دو سال مہینہ نہ برسے تو ہر طرف خاک اڑنے لگے۔ نہ سامان معیشت رہیں نہ اسباب معیشت رہیں، نہ اسباب راحت، پھر تعجب ہے کہ انسان دنیا کی زینت اور تروتازگی پر فریفتہ ہو کر ا س ہستی کو بھول جائے جس نے اپنی باران رحمت سے اس کو تروتازہ اور پر رونق بنا رکھا ہے۔ علاوہ بریں کسی شخص کو کیا معلوم ہے کہ دنیا کے عیش و آرام میں اس کا کتنا حصہ ہے۔ بہت سے لوگ کوشش کر کے اور ایڑیاں رگڑ کر مر جاتے ہیں لیکن زندگی بھر چین نصیب نہیں ہوتا۔ بہت ہیں جنہیں بے محنت دولت مل جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر بھی کوئی آدمی جو دین کےمعاملہ میں تقدیر الہٰی پر بھروسہ کئے بیٹھا ہو، دنیوی جدوجہد میں تقدیر پر قانع ہو کر ذرہ برابر کمی نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ تدبیر کرنی چاہئے۔ کیونکہ اچھی تقدیر عمومًا کامیاب تدبیر ہی کے ضمن میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ علم خدا کو ہے کہ فی الواقع ہماری تقدیر کیسی ہو گی اور صحیح تدبیر بن پڑے گی یا نہیں ۔ یہ ہی بات اگر ہم دین کے معاملہ میں سمجھ لیں تو شیطان کے دھوکہ میں ہرگز نہ آئیں بیشک جنت دوزخ جو کچھ ملے گی تقدیر سے ملے گی جس کا علم خدا کو ہے مگر عمومًا اچھی یا بری تقدیر کا چہرہ، اچھی یا بری تدبیر کے آئینہ میں نطر آتا ہے۔ اس لئے تقدیر کا حوالہ دے کر ہم تدبیر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ کیونکہ یہ پتہ کسی کو نہیں کہ اللہ کے علم میں وہ سعید ہے یا شقی۔ جنتی ہے یا دوزخی، مفلس ہے یا غنی لہذا ظاہری عمل اور تدبیر ہی وہ چیز ہوئی جس سے عادۃً ہم کو نوعیت تقدیر کا قدرے پتہ چل جاتا ہے۔ ورنہ یہ علم تو حق تعالیٰ ہی کو ہے کہ عورت کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی اور پیدا ہونے کے بعد اس کی عمر کیا ہو، روزی کتنی ملے، سعید ہو یا شقی، اس کی طرف { وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ } میں اشارہ کیا ہے۔ رہا شیطان کا یہ دھوکا کہ فی الحال تو دنیا کے مزے اڑا لو، پھر توبہ کر کے نیک بن جانا، اس کا جواب ہے { وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَاتَکْسِبَ غَدًا } الخ میں دیا ہے۔ یعنی کسی کو خبر نہیں کہ کل وہ کیا کرے گا؟ اور کچھ کرنے کے لئے زندہ بھی رہے گا؟ کب موت آ جائے گی اور کہاں آئے گی؟ پھر یہ وثوق کیسے ہو کہ آج کی بدی کا تدارک کل نیکی سے ضرور کر لے گا اور توبہ کی توفیق ضرور پائے گا؟ ان چیزوں کی خبر تو اسی علیم و خبیر کو ہے۔ (تنبیہ) اللہ کا علم غیب اور رسول اللہ کا علم غیب: یاد رکھنا چاہئے کہ مغیبات جنس احکام سے ہوں گی یا جنس اکوان سے، پھر اکوان غیبیہ زمانی ہیں یا مکانی، اور زمانی کی باعتبار ماضی، مستقبل، حال کے تین قسمیں کی گئ ہیں۔ ان میں سے احکام غیبیہ کا کلی علم پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمایا گیا۔ { فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ } الیٰ آخرالآیۃ (جن رکوع۲) جس کی جزئیات کی تفصیل و تبویب اذکیائے امت نے کی، اور اکوان غیبیہ کی کلیات و اصول کا علم حق تعالیٰ نے اپنے ساتھ مختص رکھا ہاں جزئیات منتشرہ پر بہت سے لوگوں کو حسب استعداد اطلاع دی۔ اور نبی کریم ﷺ کو اس سے بھی اتنا وافر اور عظیم الشان حصہ ملا جس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا۔ تاہم اَکوانِ غیبیہ کا علم کلی رب العزت ہی کے ساتھ مختص رہا۔ مفاتیح الغیب کا کلی علم صرف اللہ کو ہے: آیت ہذا میں جو پانچ چیزیں مذکور ہیں احادیث میں ان کو مفاتیح الغیب فرمایا ہے جن کا علم (یعنی علم کلی) بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں۔ فی الحققیت ان پانچ چیزوں میں کل اکوان غیبیہ کی انواع کی طرف اشارہ ہو گیا۔ { بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ } میں غیوب مکانیہ۔ { مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا } میں زمانیہ مستقبلہ۔ { مَافِی الْاَرْحَامِ } میں زمانہ حالیہ اور { یُنَزِّلُ الْغَیْثَ } میں غالبًا زمانیہ ماضیہ پر تنبیہ ہے۔ یعنی بارش آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں کہ پہلے سے کیا اسباب فراہم ہو رہے تھے کہ ٹھیک اسی وقت اسی جگہ اسی مقدار میں بارش ہوئی، ماں بچہ کو پیٹ میں لئے پھرتی ہے پر اسے پتہ نہیں کہ پیٹ میں کیاچیز ہے لڑکا یا لڑکی۔ انسان واقعات آئندہ پر حاوی ہونا چاہتا ہے۔ مگر یہ نہیں جانتا کہ کل میں خود کیا کام کروں گا؟ میری موت کہاں واقع ہو گی؟ اس جہل و بیچارگی کے باوجود تعجب ہے کہ دنیوی زندگی پر مفتون ہو کر خالق حقیقی کو اور اس دن کو بھول جائے۔ جب پروردگار کی عدالت میں کشاں کشاں حاضر ہونا پڑے گا۔ بہرحال ان پانچ چیزوں کے ذکر سے تمام اکوان غیبیہ کے علم کلی کی طرف اشارہ کرنا ہے، حصر مقصود نہیں اور غالبًا ذکر میں ان پانچ کی تخصیص اس لئے ہوئی کہ ایک سائل نے سوال انہی پانچ باتوں کی نسبت کیا تھا جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ کما فی الحدیث۔ پہلے سورہ انعام اور سورہ نمل میں بھی ہم علم غیب کے متعلق کچھ لکھ چکے ہیں ۔ ایک نظر ڈال لیجائے۔ تم سورۃ لقمان بمنہٖ و کرمہٖ












اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَما بَينَهُما فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ۖ ما لَكُم مِن دونِهِ مِن وَلِىٍّ وَلا شَفيعٍ ۚ أَفَلا تَتَذَكَّرونَ {32:4} 


خدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ اس کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ سفارش کرنے والا۔ کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے؟ 


اللہ ہے جس نے بنائے آسمان اور زمین اور جو کچھ انکے بیچ میں ہے چھ دن کے اندر پھر قائم ہوا عرش پر [۳] کوئی نہیں تمہارا اس کے سوائے حمایتی اور نہ سفارشی پھر تم کیا دھیان نہیں کرتے [۴] 


یعنی دھیان نہیں کرتے کہ اس کے پیغام اور پیغامبر کو جھٹلا کر کہاں جاؤ گے ۔ تمام زمین و آسمان میں عرش سے فرش تک اللہ کی حکومت ہے۔ اگر پکڑے گئے تو ا سکی اجازت و رضاء کے بدون کوئی حمایت اور سفارش کرنے والا بھی نہ ملے گا۔ 


اس کا بیان سورہ اعراف میں آٹھویں پارہ کے اختتام کے قریب گذر چکا۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔ 

















إِنَّ اللَّهَ وَمَلٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا {33:56} 


خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو تم بھی ان پر دُرود اور سلام بھیجا کرو 


اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بیجھتے ہیں رسول پر اے ایمان والو رحمت بھیجو اس پر اور سلام بھیجو سلام کہہ کر [۸۶] 


"صلوٰۃ النبی" کا مطلب ہے "نبی کی ثناء و تعظیم رحمت و عطوفت کے ساتھ" پھر جس کی طرف "صلوٰۃ" منسوب ہو گی اسی کی شان و مرتبہ کے لائق ثناء و تعظیم اور رحمت و عطوفت مراد لیں گے، جیسے کہتے کہ باپ بیٹے پر، بیٹا باپ پر اور بھائی بھائی پر مہربان ہے یا ہر ایک دوسرے سے محبت کرتا ہے تو ظاہر ہے جس طرح کی محبت اور مہربانی باپ کی بیٹے پر ہے اس نوعیت کی بیٹے کی باپ پر نہیں۔ اور بھائی کی بھائی پر ان دونوں سے جداگانہ ہوتی ہے۔ ایسے ہی یہاں سمجھ لو۔ اللہ بھی نبی کریم ﷺ پر صلوٰۃ بھیجتا ہے یعنی رحمت و شفقت کےساتھ آپ کی ثناء اور اعزاز و اکرام کرتا ہے۔ اور فرشتے بھی بھیجتےہیں، مگر ہر ایک کی صلوٰۃ اور رحمت و تکریم اپنی شان و مرتبہ کے موافق ہو گی۔ آنحضرت ﷺ پر مومنین کی صلوٰۃ: آگے مومنین کو حکم ہے کہ تم بھی صلوٰۃ و رحمت بھیجو۔ اس کی حیثیت ان دونوں سے علیحدہ ہونی چاہئے۔ علماء نے کہا کہ اللہ کی صلوٰۃ رحمت بھیجنا اور فرشتوں کی صلوٰۃ استغفار کرنا اور مومنین کی صلوٰۃ دعا کرنا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب آیت نازل ہوئی صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا یا رسول اللہ! "سلام" کا طریقہ تو ہم کو معلوم ہو چکا (یعنی نماز کے تشہد میں جو پڑھا جاتا ہے { اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ } ) "صلوٰۃ" کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیجئے جو نماز میں پڑھا کریں۔ آپ نے یہ درود شریف تلقین کیا { اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بِارِکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ } غرض یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے مومنین کو حکم دیا کہ تم بھی نبی پر صلوٰۃ (رحمت) بھیجو۔ نبی نے بتلاد یا کہ تمہارا بھیجنا یہ ہی کہ اللہ سے درخواست کرو کہ وہ اپنی بیش از بیش رحمتیں ابدالآباد تک نبی پر نازل فرماتا رہے۔ کیونکہ اس کی رحمتوں کی کوئی حد و نہایت نہیں یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس درخواست پر جو مزید رحمتیں نازل فرمائے وہ ہم عاجز و ناچیز بندوں کی طرف منسوب کر دی جائیں ۔ گویا ہم نے بھیجی ہیں۔ حالانکہ ہر حال میں رحمت بھیجنے والا وہ ہی اکیلا ہے کسی بندے کی کیا طاقت تھی کہ سید الانبیاء کی بارگاہ میں ان کے رتبہ کے لائق تحفہ پیش کر سکتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "اللہ سے رحمت مانگنی اپنے پیغمبر پر اور ان کے ساتھ ان کے گھرانے پر بڑی قبولیت رکھتی ہے۔ ان پر ان کے لائق رحمت اترتی ہے، اور ایک دفعہ مانگنے سے دس رحمتیں اترتی ہیں مانگنے والے پر۔ اب جس کا جتنا جی چاہے اتنا حاصل کر لے۔ (تنبیہ) صلوٰۃ علی النبی کے متعقل مزید تفصیلات ان مختصر فوائد میں سما نہیں سکتیں۔ شروح حدیث میں مطالعہ کی جائیں۔ اور اس باب میں شیخ شمس الدین سخاویؒ کا رسالہ "القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع" قابل دید ہے۔ ہم نے شرح صحیح مسلم میں بقدر کفایت لکھ دیا ہے فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔















سُنَّةَ اللَّهِ فِى الَّذينَ خَلَوا مِن قَبلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبديلًا {33:62} 


جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان کے بارے میں بھی خدا کی یہی عادت رہی ہے۔ اور تم خدا کی عادت میں تغیر وتبدل نہ پاؤ گے 


دستور پڑا ہوا ہے اللہ کا ان لوگوں میں جو پہلے ہو چکے ہیں اور تو نہ دیکھے گا اللہ کی چال بدلتی [۹۴] 


یعنی عادت اللہ یہ ہی ہے کہ پیغمبرں کےمقابلہ میں جنہوں نے شرارتیں کیں اور فتنے فساد پھیلائے اسی طرح ذلیل و خوار یا ہلاک کئے گئے۔ یا یہ مطلب ہے کہ پہلی کتابوں میں بھی یہ حکم ہوا ہے کہ مفسدوں کو اپنے درمیان سے نکال باہر کرو۔ جیسا کہ حضرت شاہ صاحبؒ "تورات" سے نقل فرماتے ہیں۔












إِنَّ اللَّهَ لَعَنَ الكٰفِرينَ وَأَعَدَّ لَهُم سَعيرًا {33:64} 


بےشک خدا نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے (جہنم کی) آگ تیار کر رکھی ہے 


بیشک اللہ نے پھٹکار دیا ہے منکروں کو اور رکھی ہے انکے واسطے دہکتی ہوئی آگ [۹۶] 


اسی پھٹکار کا اثر ہے کہ لاطائل سوالات کرتے ہیں، انجام کی فکر نہیں کرتے۔















قُل مَن يَرزُقُكُم مِنَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ وَإِنّا أَو إِيّاكُم لَعَلىٰ هُدًى أَو فى ضَلٰلٍ مُبينٍ {34:24} 


پوچھو کہ تم کو آسمانوں اور زمین سے کون رزق دیتا ہے؟ کہو کہ خدا اور ہم یا تم (یا تو) سیدھے رستے پر ہیں یا صریح گمراہی میں 


تو کہہ کون روزی دیتا ہے تم کو آسمان سے اور زمیں سے بتلا دے کہ اللہ [۳۶] اور یا ہم یا تم بیشک ہدایت پر ہیں یا پڑے ہیں گمراہی میں صریح [۳۷] 


یعنی دونوں فرقے تو سچ نہیں کہتے (ورنہ اجتماع نقیضین لازم آ جائے) یقینًا دونوں میں ایک سچا اور ایک جھوٹا ہے تو لازم ہے کہ سوچو اور غور کر کے سچی بات قبول کرو۔ اس میں ان کا جواب ہے جو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ میاں! دونوں فرقے ہمیشہ سے چلے آئے ہیں کیا ضرور ہے جھگڑنا۔ سو بتلا دیا کہ ایک یقینًا خطار کار اور گمراہ ہے۔ باقی تعیین نہ کرنے میں حکیمانہ حسن خطاب ہے۔ یعنی لو ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ بہرحال ایک تو یقینًا غلطی پر ہوگا۔ اب اوپر کے دلائل سنکر تم ہی خود فیصلہ کر لو کہ کون غلطی پر ہے گویا مخالف کو نرمی سے بات کر کے اپنے نفس میں غور کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ 


یعنی آسمان و زمین سے روزی کے سامان بہم پہنچانا صرف اللہ کے قبضہ میں ہے اس کا اقرار مشرکین بھی کرتے تھے لہذا آپ بتلا دیں کہ یہ تم کو بھی مسلم ہے۔ پھر الوہیت میں دوسرے شریک کہاں سے ہو گئے۔















قُل ما سَأَلتُكُم مِن أَجرٍ فَهُوَ لَكُم ۖ إِن أَجرِىَ إِلّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ شَهيدٌ {34:47} 


کہہ دو کہ میں نے تم سے کچھ صلہ مانگا ہو تو وہ تم ہی کو (مبارک رہے)۔ میرا صلہ خدا ہی کے ذمے ہے۔ اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے 


تو کہہ جو میں نے تم سے مانگا ہوکچھ بدلا سو وہ تمہی رکھو میرا بدلہ ہے اسی اللہ پر [۶۸] اور اس کے سامنے ہے ہر چیز [۶۹] 


یعنی میں تم سے اپنی محنت کا کچھ صلہ نہیں چاہتا اگر تمہارے خیال میں کچھ معاوضہ طلب کیا ہو وہ سب تم اپنے پاس رکھو مجھے ضرورت نہیں۔ میرا صلہ تو خدا کے ہاں ہے۔ تم سے جو چیز طلب کرتا ہوں یعنی ایمان و اسلام وہ صرف تمہارے نفع کی خاطر۔ اس سے زائد میری کوئی غرض نہیں۔ 


یعنی میری سچائی اور نیت اللہ کے سامنے ہے۔












أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخرَجنا بِهِ ثَمَرٰتٍ مُختَلِفًا أَلوٰنُها ۚ وَمِنَ الجِبالِ جُدَدٌ بيضٌ وَحُمرٌ مُختَلِفٌ أَلوٰنُها وَغَرابيبُ سودٌ {35:27} 


کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے آسمان سے مینہ برسایا۔ تو ہم نے اس سے طرح طرح کے رنگوں کے میوے پیدا کئے۔ اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اور (بعض) کالے سیاہ ہیں 


کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر ہم نے نکالے اس سے میوے طرح طرح کے انکے رنگ [۳۴] اور پہاڑوں میں گھاٹیاں ہیں سفید اور سرخ طرح طرح کے انکے رنگ اور بھجنگے کالے [۳۵] 


یعنی قسم قسم کے میوے۔ پھر ایک قسم میں رنگ برنگ کے پھل پیدا کئے۔ ایک زمین ایک پانی ایک ہوا سے اتنی مختلف چیزیں پیدا کرنا عجیب و غریب قدرت کو ظاہر کرتا ہے۔ 


یعنی سفید بھی کئ درجے (کوئی بہت زیادہ سفید کوئی کم کوئی اس سے کم) اور سرخ بھی کئی درجے۔ اور کالے بھجنگے یعنی بہت گہرے سیاہ کوے کے پر کی طرح۔


















إِنَّ اللَّهَ عٰلِمُ غَيبِ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ إِنَّهُ عَليمٌ بِذاتِ الصُّدورِ {35:38} 


بےشک خدا ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے۔ وہ تو دل کے بھیدوں تک سے واقف ہے 


اللہ بھید جاننے والا ہے آسمانوں کا اور زمین کا اس کو خوب معلوم ہے جو بات ہے دلوں میں [۴۸] 


یعنی اسے بندوں کے سب کھلے چھپے احوال و افعال اور دلوں کے بھید معلوم ہیں۔ کسی کی نیت اور استعداد اس سے پوشیدہ نہیں اسی کے موافق معاملہ کرتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جو لوگ اب چلا رہے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دو، پھر ایسی خطا نہ کریں گے، وہ اپنےدعوے میں جھوٹے ہیں۔اگر ستر دفعہ لوٹائے جائیں تب بھی شرارت سے باز نہیں آ سکتے۔ ان کے مزاجوں کی افتاد ہی ایسی ہے۔ { وَلَوْرُدُّوْ الَعَادُوْ الِمَانُھُوا عَنْہُ وَ اِنَّھُمْ لَکَاذِبُوْنَ } (انعام رکوع۳)












قُل أَرَءَيتُم شُرَكاءَكُمُ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ أَرونى ماذا خَلَقوا مِنَ الأَرضِ أَم لَهُم شِركٌ فِى السَّمٰوٰتِ أَم ءاتَينٰهُم كِتٰبًا فَهُم عَلىٰ بَيِّنَتٍ مِنهُ ۚ بَل إِن يَعِدُ الظّٰلِمونَ بَعضُهُم بَعضًا إِلّا غُرورًا {35:40} 


بھلا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو۔ مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین سے کون سی چیز پیدا کی ہے یا (بتاؤ کہ) آسمانوں میں ان کی شرکت ہے۔ یا ہم نے ان کو کتاب دی ہے تو وہ اس کی سند رکھتے ہیں (ان میں سے کوئی بات بھی نہیں) بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے 


تو کہہ بھلا دیکھو تو اپنے شریکوں کو جن کو پکارتے ہو اللہ کے سوائے دکھلاؤ تو مجھ کو کیا بنایا انہوں نے زمین میں یا کچھ ان کا ساجھا ہے آسمانوں میں [۵۱] یا ہم نے دی ہے انکو کوئی کتاب سو یہ سند رکھتے ہیں اس کی [۵۲] کوئی نہیں پر جو وعدہ بتلاتے ہیں گنہگار ایک دوسرے کو سب فریب ہے [۵۳] 


یعنی عقلی نہیں تو کوئی معتبر نقلی دلیل پیش کرو۔ جس کی سند پر یہ مشرکانہ دعویٰ کرتے ہو۔ 


یعنی عقلی یا نقلی دلیل کوئی نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان میں سے بڑے چھوٹوں کو اور اگلے پچھلوں کو شیطان کے اغواء سے یہ وعدہ بتلاتے چلے آئے کہ { ھٰؤلاءِ شُفَعَاءُ نَا عِنْدَاللہِ } (یہ بت وغیرہ اللہ کے ہاں ہمارے شفیع بنیں گے) اور اس کا قرب عطا کریں گے۔ حالانکہ یہ خالص دھوکا اور فریب ہے۔ یہ تو کیا شفیع بنتے، بڑے سے بڑا مقرب بھی وہاں کفار کی سفارش میں زبان نہیں ہلا سکتا۔ 


یعنی اپنے معبودوں کے احوال میں غور کر کے مجھے بتلاؤ کہ زمین کاکونسا حصہ انہوں نے بنایا، یا آسمانوں کے بنانے اور تھامنے میں ان کی کس قدر شرکت ہے۔ اگر کچھ نہیں تو آخر خدا کس طرح بن بیٹھے۔ کچھ تو عقل سے کام لو۔












إِنَّ اللَّهَ يُمسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ أَن تَزولا ۚ وَلَئِن زالَتا إِن أَمسَكَهُما مِن أَحَدٍ مِن بَعدِهِ ۚ إِنَّهُ كانَ حَليمًا غَفورًا {35:41} 


خدا ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے رکھتا ہے کہ ٹل نہ جائیں۔ اگر وہ ٹل جائیں تو خدا کے سوا کوئی ایسا نہیں جو ان کو تھام سکے۔ بےشک وہ بردبار (اور) بخشنے والا ہے 


تحقیق اللہ تھام رہا ہے آسمانوں کو اور زمین کو کہ ٹل نہ جائیں اور اگر ٹل جائیں تو کوئی نہ تھام سکے انکو اس کے سوائے [۵۴] وہ ہے تحمل والا بخشنے والا [۵۵] 


یعنی اسی کی قدرت کا ہاتھ ہے جو اتنے بڑے بڑے کرات عظام کو اپنے مرکز سے ہٹنے اور اپنے مقام و نظام سے ادھر ادھر سرکنے نہیں دیتا اور اگر بالفرض یہ چیزیں اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو پھر بجز خدا کے کس کی طاقت ہے کہ ان کو قابو میں رکھ سکے چنانچہ قیامت میں جب یہ سارا نظام اللہ تعالیٰ درہم برہم کر ے گا، کوئی قوت اسے روک نہ سکے گی۔ 


یعنی لوگوں کے کفر و عصیان کا اقتضاء تو یہ ہے کہ یہ سارا نظام ایک دم میں تہ و بالا کر دیا جائے لیکن اس کے تحمل وہ بردباری سے تھما ہوا ہے۔ اس کی بخشش نہ ہو تو سب دنیا ویران ہو جائے۔












اللَّهَ رَبَّكُم وَرَبَّ ءابائِكُمُ الأَوَّلينَ {37:126} 


(یعنی) خدا کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پروردگار ہے 


جو اللہ ہے رب تمہارا اور رب تمہارے اگلے باپ دادوں کا [۷۴] 


یعنی یوں تو دنیا میں آدمی بھی تحلیل و ترکیب کر کے بظاہر بہت سی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ مگر بہتر بنانے والا وہ ہے جو تمام اصول و فروع، جواہر و اعراض اور صفات و موصوفات کا حقیقی خالق ہے جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا پھر یہ کیسے جائز ہو گا کہ اس احسن الخالقین کو چھوڑ کر "بعل" بت کی پرستش کی جائے اور اس سے مدد مانگی جائے جو ایک ذرہ کو ظاہری طور پر بھی پیدا نہیں کر سکتا بلکہ اس کا وجود خود اپنے پرستاروں کا رہین منت ہے۔ انہوں نے جیسا چاہا بنا کر کھڑا کر دیا۔












أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَسَلَكَهُ يَنٰبيعَ فِى الأَرضِ ثُمَّ يُخرِجُ بِهِ زَرعًا مُختَلِفًا أَلوٰنُهُ ثُمَّ يَهيجُ فَتَرىٰهُ مُصفَرًّا ثُمَّ يَجعَلُهُ حُطٰمًا ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَذِكرىٰ لِأُولِى الأَلبٰبِ {39:21} 


کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا آسمان سے پانی نازل کرتا پھر اس کو زمین میں چشمے بنا کر جاری کرتا پھر اس سے کھیتی اُگاتا ہے جس کے طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں۔ پھر وہ خشک ہوجاتی ہے تو تم اس کو دیکھتے ہو (کہ) زرد (ہوگئی ہے) پھر اسے چورا چورا کر دیتا ہے۔ بےشک اس میں عقل والوں کے لئے نصیحت ہے 


تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اتارا آسمان سے پانی پھر چلا دیا وہ پانی چشموں میں زمین کے [۳۵] پھر نکالتا ہے اس سے کھیتی کئ کئ رنگ بدلتی اس پر [۳۶] پھر آئے تیاری پر تو تو دیکھے اس کا رنگ زرد پھر کر ڈالتا ہے اسکو چورا چورا بیشک اس میں نصیحت ہے عقلمندوں کے واسطے [۳۷] 


یعنی بارش کا پانی پہاڑوں اور زمینیوں کے مسام میں جذب ہو کر چشموں کی صورت میں پھوٹ نکلتا ہے باقی اگر چشموں کے حدوث کا کوئی اور سبب بھی ہو، اس کی نفی آیت سے نہیں ہوتی۔ 


یا مختلف قسم کی کھیتیاں مثلًا گیہوں چاول وغیرہ۔ 


یعنی عقلمند آدمی کھیتی کا حال دیکھ کر نصیحت حاصل کرتا ہے کہ جس طرح اس کی رونق اور سر سبزی چند روزہ تھی، پھر چورا چورا کیا گیا۔ یہ ہی حال دنیا کی چہل پہل کا ہو گا۔ چاہیئے کہ آدمی اس کی عارضی بہار پر مفتوں ہو کر انجام سے غافل نہ ہو جائے جیسے کھیتی مختلف اجزاء سے مرکب ہے۔ مثلًا اس میں دانہ ہے جو آدمیوں کی غذا بنتا ہے اور بھوسہ بھی ہے جو جانوروں کا چارہ بنتا ہے۔ اور ہر ایک جزء سے منتفع ہونا بدون اس کے ممکن نہیں کہ دوسرے اجزاء سے اس کو الگ کریں اور اپنے اپنے ٹھکانہ پر پہنچائیں۔ اسی طرح دنیا کو سمجھ لو کہ اس میں نیکی، بدی، راحت، تکلیف وغیرہ سب ملی جلی ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ یہ کھیتی کٹے اور خوب چورا چورا کیجائے۔ پھر اس میں سے ہر ایک جزء کو اس کے مناسب ٹھکانے پر پہنچا دیا جائے، نیکی اور راحت اپنے مرکز و مستقر پر پہنچ جائے اور بدی یا تکلیف اپنے خزانہ میں جا ملے۔ غرض کھیتی کے مختلف احوال دیکھ کر عقلمند لوگ بہت مفید سبق حاصل کر سکتے ہیں نیز مضمون آیت میں ادھر بھی اشارہ ہو گیا کہ جس خدا نے آسمانی بارش سے زمین میں چشمے جاری کر دیے وہ ہی جنت کے محلات میں نہایت قرینہ کے ساتھ نہروں کا سلسلہ جاری کر دے گا۔















اللَّهُ نَزَّلَ أَحسَنَ الحَديثِ كِتٰبًا مُتَشٰبِهًا مَثانِىَ تَقشَعِرُّ مِنهُ جُلودُ الَّذينَ يَخشَونَ رَبَّهُم ثُمَّ تَلينُ جُلودُهُم وَقُلوبُهُم إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ ۚ ذٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهدى بِهِ مَن يَشاءُ ۚ وَمَن يُضلِلِ اللَّهُ فَما لَهُ مِن هادٍ {39:23} 


خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی) کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی (ہیں) اور دہرائی جاتی (ہیں) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے (اس سے) رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہو کر) خدا کی یاد کی طرف (متوجہ) ہوجاتے ہیں۔ یہی خدا کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور جس کو خدا گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں 


اللہ نے اتاری بہتر بات کتاب کی [۳۹] آپس میں ملتی دہرائی ہوئی [۴۰] بال کھڑے ہوئے ہیں اس سے کھال پر ان لوگوں کے جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے پھر نرم ہوتی ہیں ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کی یاد پر [۴۱] یہ ہے راہ دینا اللہ کا اس طرح راہ دیتا ہے جس کو چاہے اور جس کو راہ بھلائے اللہ اسکو کوئی نہیں سجھانے والا [۴۲] 


یعنی کتاب اللہ سن کر اللہ کے خوف اور اس کے کلام کی عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کھالیں نرم پڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ کہ خوف و رعب کی کیفیت طاری ہو کر ان کا قلب و قالب اور ظاہر و باطن اللہ کی یاد کے سامنے جھک جاتا ہے اور اللہ کی یاد ان کے بدن اور روح دونوں پر ایک خاص اثر پیدا کرتی ہے یہ حال اقویائے کاملین کا ہوا۔ اگر کبھی ضعفاء و ناقصین پر دوسری قسم کی کیفیات و احوال طاری ہو جائیں مثلًٓا غشی یا صعقہ وغیرہ تو اس کی نفی آیت سے نہیں ہوتی۔ اور نہ ان کی تفصیل ان پر لازم آتی ہے۔ بلکہ اس طرح ازخود رفتہ اور بے قابو ہو جانا عمومًٓا وارد کی قوت اور مورد کے ضعف کی دلیل ہے۔ جامع ترمذی میں ایک حدیث بیان کرتے وقت ابوہریرہؓ پر اس قسم کے بعض احوال کا طاری ہونا مُصّرح ہے۔ واللہ اعلم۔ 


یعنی صحیح، صادق، مضبوط، نافع، معقول اور فصیح و بلیغ ہونے میں کوئی آیت کم نہیں۔ ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے، مضامین میں کوئی اختلاف و تعارض نہیں۔ بلکہ بہت سی آیات کے مضامین ایسے متشابہ واقع ہوئے ہیں کہ ایک آیت کو دوسری کی طرف لوٹانے سے صحیح تفسیر معلوم ہو جاتی ہے۔ { القراٰن یفسر بعضہ بعضًا } اور "مثانی" یعنی دہرائ ہوئی کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے احکام اور مواعظ و قصص کو مختلف پیرایوں میں دہرایا گیا ہے تا اچھی طرح دلنشین ہو جائیں، نیز تلاوت میں بار بار آیتیں دہرائی جاتی ہیں اور بعض علماء نے "متشابہ" و "مثانی" کا مطلب یہ لیا ہے کہ بعض آیات میں ایک ہی طرح کے مضمون کا سلسلہ دور تک چلا جاتا ہے وہ متشابہ ہوئیں اور بعض جگہ ایک نوعیت کے مضمون کے ساتھ دوسرے جملہ میں اس کے مقابل کی نوعیت کا مضمون بیان کیا جاتا ہے۔ مثلًا { اِنَّ الْاَبْرارَ لَفِیْ نَعِیْم وَّاِنَّ الفجارَ لفی جَحِیْم } یا { نَبِّیْ عِبَادِیْ اَنِّیْ اَنَاالغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ وَاَنَّ عَذَابِیْ ھُوَالْعَذَابُ الْاَلِیْمُ } یا { وَیُحَذِّرُکُمُ اللہُ نَفْسَہٗ وَاللہ رَؤفٌ بِالْعِبَادِ }۔ ایسی آیات کو مثانی کہیں گے کہ ان میں دو مختلف قسم کے مضمون بیان ہوئے۔ 


یعنی دنیا میں کوئی بات اس کتاب کی باتوں سے بہتر نہیں۔ 


یعنی جس کے لئے حکمت الہٰی مقتضی ہو اس طرح کامیابی کے راستے کھول دیے جاتے ہیں اور اس شان سے منزل مقصود کی طرف لے چلتے ہیں۔ اور جس کو سوء استعداد کی وجہ سے خدا تعالیٰ ہدایت کی توفیق نہ دے۔ آگے کون ہے جو اس کی دستگیری کر سکے۔












ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فيهِ شُرَكاءُ مُتَشٰكِسونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَل يَستَوِيانِ مَثَلًا ۚ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعلَمونَ {39:29} 


خدا ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی (آدمی) شریک ہیں۔ (مختلف المزاج اور) بدخو اور ایک آدمی خاص ایک شخص کا (غلام) ہے۔ بھلا دونوں کی حالت برابر ہے۔ (نہیں) الحمدلله بلکہ یہ اکثر لوگ نہیں جانتے 


اللہ نے بتلائی ایک مثل ایک مرد ہے کہ اس میں شریک ہیں کئ ضدی اور ایک مرد ہے پورا ایک شخص کا کیا برابر ہوتی ہیں دونوں مثل [۴۶] سب خوبی اللہ کے لئے ہے پر وہ بہت لوگ سمجھ نہیں رکھتے [۴۷] 


یعنی سب خوبی اللہ کے لئے ہے کہ کیسے اعلیٰ مطالب و حقائق کو کیسی صاف اور دلنشین امثال و شواہد سے سمجھا دیتے ہیں مگر اس پر بھی بہت بدنصیب ایسے ہیں جو ان واضح مثالوں کے سمجھنے کی توفیق نہیں پاتے۔ 


یعنی کئ حصہ دار ایک غلام یا نوکر میں شریک ہیں اور ہر حصہ دار اتفاق سے کج خلق، بے مروت اور سخت ضدی واقع ہوا ہے، چاہتا ہے کہ غلام تنہا اس کے کام میں لگا رہے دوسرے شرکاء سے سروکار نہ رکھے اس کھینچ تان میں ظاہر ہے غلام سخت پریشان اور پراگندہ دل ہو گا۔ برخلاف اس کے جو غلام پورا ایک کا ہو، اسے ایک طرح کی یکسوئی اور طمانیت حاصل ہو گی اور کئ آقاؤں کو خوش رکھنے کی کشمکش میں گرفتار نہ ہو گا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ دونوں غلام برابر نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح مشرک اور موحد کو سمجھ لو۔ مشرک کا دل کئ طرف بٹا ہوا ہے اور کتنے ہی جھوٹے معبودوں کو خوش رکھنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اس کے برخلاف موحد کی کل توجہات خیالات اور دوادوش کا ایک مرکز ہے۔ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اس کے خوش رکھنے کی فکر میں ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی خوشنودی کے بعد کسی کی خوشنودی کی ضرورت نہیں۔ اکثر مفسرین نے اس مثال کی تقریر اسی طرح کی ہے ۔مگر حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "ایک غلام جو کئ کا ہو کوئی اس کو اپنا نہ سمجھے، تو اس کی پوری خبر نہ لے اور ایک غلام جو سارا ایک کا ہو، وہ اس کو اپنا سمجھے اور پوری خبر لے یہ مثال ہے ان کی جو ایک رب کے بندے ہیں، اور جو کئ رب کے بندے ہیں"۔


















وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُل أَفَرَءَيتُم ما تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ إِن أَرادَنِىَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَل هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهِ أَو أَرادَنى بِرَحمَةٍ هَل هُنَّ مُمسِكٰتُ رَحمَتِهِ ۚ قُل حَسبِىَ اللَّهُ ۖ عَلَيهِ يَتَوَكَّلُ المُتَوَكِّلونَ {39:38} 


اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں کہ خدا نے۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو۔ اگر خدا مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے خدا ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں 


اور جو تو ان سے پوچھے کس نے بنائے آسمان اور زمین تو کہیں اللہ نے تو کہہ بھلا دیکھو تو جن کو پوجتے ہو اللہ کے سوائے اگر چاہے اللہ مجھ پر کچھ تکلیف تو وہ ایسے ہیں کہ کھول دیں تکلیف اسکی ڈالی ہوئی یا وہ چاہے مجھ پر مہربانی تو وہ ایسے ہیں کہ روک دیں اسکی مہربانی کو تو کہہ مجھ کو بس ہے اللہ اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں بھروسہ رکھنے والے [۵۳] 


یعنی ایک طرف تو خداوند قدوس جو تمہارے اقرار کے موافق تمام زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور دوسری طرف پتھر کی بیجان مورتیں یا عاجز مخلوق جو سب ملکر بھی خدا کی بھیجی ہوئی ادنٰی سے ادنٰی تکلیف و راحت کو اس کی جگہ سے نہ ہٹا سکے۔ تم ہی بتاؤ دونوں میں سے کس پر بھروسہ کیا جائے اور کس کو اپنی مدد کے لئے کافی سمجھا جائے حضرت ہودؑ کی قوم نے بھی کہا تھا۔{ اِنْ نَقُوْلُ اِلَّا اعْتَرَاکَ بَعْضُ اٰلِھَتِنَا بَسُوْءٍ } جس کا جواب حضرت ہودؑ نے یہ دیا { اَنِّی اُشْھِدُ اللہَ وَاشْھَدُ وْا اَنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ فَکِیْدُ وْنی جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تنظرون اَنِّیْ تَوَکلّتُ عَلَی اللہِ رَبِّی وَرَبِّکُمْ مَا مِنْ دَابَّۃٍ الا ھُوَ اٰ خِذٌ بِناصِیَتِھَا اِنَّ رَبِّی عَلٰی صَراطٍ مُسْتقیم } (ہود رکوع ۵) اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا { وَلَا اَخَافُ مَا تُشْرِکُوْنَ بِہٖ اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ رَبِّی شَیْئًا وَسِعَ رَبِّی کلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۔ اَفَلَا تتذکَّرُوْنَ وَکَیْفَ اَخَافُ مَا اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکتم بِاللہِ مَالَمْ یُنزِّل بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا فَاَیُّ الفَریْقیْنِ اَحقُّ بِالاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ } (انعام رکوع۹)















اللَّهُ يَتَوَفَّى الأَنفُسَ حينَ مَوتِها وَالَّتى لَم تَمُت فى مَنامِها ۖ فَيُمسِكُ الَّتى قَضىٰ عَلَيهَا المَوتَ وَيُرسِلُ الأُخرىٰ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ {39:42} 


خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں (ان کی روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کرچکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں 


اللہ کھینچ لیتا ہے جانیں جب وقت ہو انکے مرنے کا اور جو نہیں مریں انکو کھینچ لیتا ہے انکی نیند میں پھر رکھ چھوڑتا ہے جن پر مرنا ٹھہرا دیا ہے بھیج دیتا ہے اوروں کو ایک وعدہ مقرر تک اس بات میں پتے ہیں ان لوگوں کو جو دھیان کریں [۵۶] 


حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں یعنی نیند میں ہر روز جان کھینچتا ہے پھر (واپس) بھیجتا ہے۔ یہ ہی نشان ہے آخرت کا۔ معلوم ہوا نیند میں بھی جان کھینچتی ہے۔ جیسے موت میں۔ اگر نیند میں کھینچ کر رہ گئ وہ ہی موت ہے مگر یہ جان وہ ہے جس کو (ظاہر) ہوش کہتے ہیں۔ اور ایک جان جس سے سانس چلتی ہے اور نبضیں اچھلتی ہیں اور کھانا ہضم ہوتا ہے سو دوسری ہے وہ موت سے پہلے نہیں کھینچتی (موضح القرآن) حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بغوی نے نقل کیا ہے کہ نیند میں روح نکل جاتی ہے مگر اس کا مخصوص تعلق بدن سے بذریعہ شعاع کے رہتا ہے جس سے حیات باطل ہونے نہیں پاتی(جیسے آفتاب لاکھوں میل سے بذریعہ شعاعوں کے زمین کو گرم رکھتا ہے)۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیند میں بھی وہ ہی چیز نکلتی ہے جو موت کے وقت نکلتی ہے لیکن تعلق کا انقطاع ویسا نہیں ہوتا جو موت میں ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔












اللَّهُ خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ ۖ وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ وَكيلٌ {39:62} 


خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ اور وہی ہر چیز کا نگراں ہے 


اللہ بنانے والا ہے ہر چیز کا اور وہ ہرچیز کا ذمہ لیتا ہے 













اللَّهُ الَّذى جَعَلَ لَكُمُ الَّيلَ لِتَسكُنوا فيهِ وَالنَّهارَ مُبصِرًا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذو فَضلٍ عَلَى النّاسِ وَلٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَشكُرونَ {40:61} 


خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (کہ اس میں کام کرو) بےشک خدا لوگوں پر فضل کرنے والا ہے۔ لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے 


اللہ ہے جس نے بنایا تمہارے واسطے رات کو کہ اس میں چین پکڑو اور دن بنایا دیکھنے کا [۸۲] اللہ تو فضل والا ہے لوگوں پر اور لیکن بہت لوگ حق نہیں مانتے [۸۳] 


یعنی منعم حقیقی کی حق شناسی یہ تھی کہ قول و فعل اور جان و دل سے اس کا شکر ادا کرتے بہت سے لوگ شکر کے بجائے شرک کرتے ہیں۔ 


رات کی ٹھنڈ اور تاریکی میں عمومًا لوگ سوتے اور آرام کرتے ہیں۔ جب دن ہوتا ہے تو تازہ دم ہو کر اس کے اجالے میں اپنے کاروبار میں مشغول ہو جاتے ہیں اس وقت دیکھنے بھالنے اور چلنے پھرنے کے لئے مصنوعی روشنیوں کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی۔















اللَّهُ الَّذى جَعَلَ لَكُمُ الأَرضَ قَرارًا وَالسَّماءَ بِناءً وَصَوَّرَكُم فَأَحسَنَ صُوَرَكُم وَرَزَقَكُم مِنَ الطَّيِّبٰتِ ۚ ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم ۖ فَتَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ العٰلَمينَ {40:64} 


خدا ہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے ٹھیرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہاری صورتیں بنائیں اور صورتیں بھی خوب بنائیں اور تمہیں پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں۔ یہی خدا تمہارا پروردگار ہے۔ پس خدائے پروردگار عالم بہت ہی بابرکت ہے 


اللہ ہے جس نے بنایا تمہارے لئے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو عمارت [۸۵] اور صورت بنائی تمہاری تو اچھی بنائیں صورتیں تمہاری اور روزی دی تمکو ستھری چیزوں سے وہ اللہ ہے رب تمہارا سو بڑی برکت ہے اللہ کی جو رب ہے سارے جہان کا [۸۶] 


سب جانوروں سے انسان کی صورت بہتر اور سب کی روزی سے اسکی روزی ستھری ہے۔ 


یعنی قبہ کی طرح بنایا۔ 























اللَّهُ الَّذى جَعَلَ لَكُمُ الأَنعٰمَ لِتَركَبوا مِنها وَمِنها تَأكُلونَ {40:79} 


خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے چارپائے بنائے تاکہ ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو 


اللہ ہے جس نے بنا دیے تمہارے واسطے چوپائے تاکہ سواری کرو بعضوں پر اور بعضوں کو کھاتے ہو















اللَّهُ الَّذى أَنزَلَ الكِتٰبَ بِالحَقِّ وَالميزانَ ۗ وَما يُدريكَ لَعَلَّ السّاعَةَ قَريبٌ {42:17} 


خدا ہی تو ہے جس نے سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور (عدل وانصاف کی) ترازو۔ اور تم کو کیا معلوم شاید قیامت قریب ہی آ پہنچی ہو 


اللہ وہی ہے جس نے اتاری کتاب سچے دین پر اور ترازو بھی [۲۳] اور تجھ کو کیا خبر ہے شاید وہ گھڑی پاس ہو [۲۴] 


یعنی اپنے اعمال و احوال کو کتاب اللہ کی کسوٹی پر کس کر اور دین حق کی ترازو میں تول کر دیکھ لو ، کہاں تک کھرے اور پورے اترتے ہیں۔ کیا معلوم ہے کہ قیامت کی گھڑی بالکل قریب ہی آ لگی ہو، پھر کچھ نہ ہو سکے گا۔ جو فکر کرنا ہے اس کے آنے سے پہلے کر لو۔ 


اللہ نے مادی ترازو بھی اتاری جس میں اجسام تلتے ہیں اور علمی ترازو بھی جسے عقل سلیم کہتے ہیں اور اخلاقی ترازو بھی جسے صفت عدل و انصاف کہا جاتا ہے اور سب سے بڑی ترازو دین حق ہے جو خالق و مخلوق کے حقوق کا ٹھیک ٹھیک تصفیہ کرتا ہے اور جس میں بات پوری تلتی ہے نہ کم نہ زیادہ۔















اللَّهُ لَطيفٌ بِعِبادِهِ يَرزُقُ مَن يَشاءُ ۖ وَهُوَ القَوِىُّ العَزيزُ {42:19} 


خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ جس کو چاہتا ہے رزق دیتا ہے۔ اور وہ زور والا (اور) زبردست ہے 


اللہ نرمی رکھتا ہے اپنے بندوں پر [۲۶] روزی دیتا ہے جس کو چاہے اور وہی ہے زورآور زبردست [۲۷] 


جس کو چاہے، جتنی چاہے دے۔ 


یعنی باوجود تکذیب و انکار کے روزی کسی کی بند نہیں کرتا۔ بلکہ بندوں کے باریک سے باریک احوال کی رعایت کرتا اور نہایت نرمی اور تدبیر لطیف سے ان کی تربیت فرماتا ہے۔ 
















وَلَو بَسَطَ اللَّهُ الرِّزقَ لِعِبادِهِ لَبَغَوا فِى الأَرضِ وَلٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ ما يَشاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبادِهِ خَبيرٌ بَصيرٌ {42:27} 


اور اگر خدا اپنے بندوں کے لئے رزق میں فراخی کردیتا تو زمین میں فساد کرنے لگتے۔ لیکن وہ جو چیز چاہتا ہے اندازے کے ساتھ نازل کرتا ہے۔ بےشک وہ اپنے بندوں کو جانتا اور دیکھتا ہے 


اور اگر پھیلا دے اللہ روزی اپنے بندوں کو تو دھوم اٹھا دیں ملک میں ولیکن اتارتا ہے ماپ کر جتنی چاہتا ہے بیشک وہ اپنے بندوں کی خبر رکھتا ہے دیکھتا ہے [۳۹] 


خدا کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اگر چاہے تو اپنے تمام بندوں کو غنی اور تونگر بنا دے۔ لیکن اسکی حکمت مقتضی نہیں کہ سب کو بے اندازہ روزی دیکر خوش عیش رکھا جائے۔ ایسا کیا جاتا تو عمومًا لوگ طغیان و تمرد اختیار کر کے دنیا میں اودھم مچا دیتے۔ نہ خدا کے سامنے جھکتے نہ اسکی مخلوق کو خاطر میں لاتے، جو سامان دیا جاتا کوئی اس پرقناعت نہ کرتا حرص اور زیادہ بڑھ جاتی جیسا کہ ہم بحالت موجودہ بھی عمومًا مرفّہ الحال لوگوں میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ جتنا آ جائے اس سے زیادہ کے طالب رہتے ہیں، کوشش اور تمنا یہ ہوتی ہے کہ سب کے گھر خالی کر کے اپنا گھر بھر لیں ظاہر ہے کہ ان جذبات کے ماتحت غِنا اور خوشحالی کی صورت میں کیسا عام اور زبردست تصادم ہوتا اور کسی کو کسی سے دبنے کی کوئی وجہ نہ رہتی۔ ہاں دنیا کے عام مذاق اور رجحان کے خلاف فرض کیجئے کسی وقت غیر معمولی طور پر کسی مصلح اعظم اور مامور من اللہ کی نگرانی میں عام خوشحالی اور فارغ البالی کے باوجود باہمی آویزش اور طغیان و سرکشی کی نوبت نہ آئے اور زمانہ کے انقلاب عظیم سے دنیا کی طبائع ہی میں انقلاب پیدا کر دیا جائے وہ اس عادی اور اکثری قاعدہ سے مستثنٰی ہو گا۔ بہرحال دنیا کو بحالت موجودہ جس نظام پرچلانا ہے اس کا مقتضی یہ ہی ہے کہ غنا عام نہ کیا جائے بلکہ ہر ایک کو اسکی استعداد و احوال کی رعایت سے جتنا مناسب ہو جانچ تول کر دیا جائے۔ اور یہ خدا ہی کو خبر ہے کس کے حق میں کیا صورت اصلح ہے۔ کیونکہ سب کے اگلے اور پچھلے حالات اسی کے سامنے ہیں۔












وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَهُم لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنّىٰ يُؤفَكونَ {43:87} 


اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ خدا نے۔ تو پھر یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟ 


اور اگر تو ان سے پوچھے کہ انکو کس نے بنایا تو کہیں گے اللہ نے پھر کہاں سے الٹ جاتے ہیں [۸۴] 


یعنی جب بنانے والا ایک اللہ ہے تو بندگی کا مستحق کوئی دوسرا کیونکر ہو گیا۔ عبادت نام ہے انتہائی تذلل کا۔ وہ اسی کا حق ہونا چاہئے جو انتہائی عظمت رکھتا ہے۔ عجیب بات مقدمات کو تسلیم کرتے ہیں اور نتیجہ سے انکار۔












اللَّهُ الَّذى سَخَّرَ لَكُمُ البَحرَ لِتَجرِىَ الفُلكُ فيهِ بِأَمرِهِ وَلِتَبتَغوا مِن فَضلِهِ وَلَعَلَّكُم تَشكُرونَ {45:12} 


خدا ہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے قابو کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کے فضل سے (معاش) تلاش کرو اور تاکہ شکر کرو 


اللہ وہ ہے جس نے بس میں کر دیا تمہارے دریا کو کہ چلیں اس میں جہاز اس کے حکم سے [۱۰] اور تاکہ تلاش کرو اسکے فضل سے اور تاکہ تم حق مانو [۱۱] 


یعنی سمندر جیسی مخلوق کو ایسا مسخر کر دیا کہ تم بے تکلف اپنی کشتیاں اور جہاز اس میں لئے پھرتے ہو۔ میلوں کی گہرائیوں کو پایاب کر رکھا ہے۔ 


یعنی بحری تجارت کرو ، یا شکار کھیلو، یا اسکی تہ میں سے موتی نکالو۔ اور یہ سب منافع و فوائد حاصل کرتے وقت منعم حقیقی کو نہ بھولو اس کا حق پہچانو، زبان و دل اور قلب و قالب سے شکر ادا کرو۔ 
















وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ بِالحَقِّ وَلِتُجزىٰ كُلُّ نَفسٍ بِما كَسَبَت وَهُم لا يُظلَمونَ {45:22} 


اور خدا نے آسمانوں اور زمین کو حکمت سے پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص اپنے اعمال کا بدلہ پائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا 


اور بنائے اللہ نے آسمان اور زمین جیسے چاہئیں اور تاکہ بدلا پائے ہر کوئی اپنی کمائی کا اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔ [۲۷] 


یعنی زمین و آسمان کو یوں ہی بیکار پیدا نہیں کیا۔ بلکہ نہایت حکمت سے کسی خاص مقصد کیلئے بنایا ہے ۔ تا انکے احوال میں غور کر کے لوگ معلوم کر سکیں کہ بیشک جو چیز بنائی گئ ہے ٹھیک موقع سے بنائی اور تا اندازہ کر لیا جائے کہ ضرور ایک دن اس کارخانہ ہستی کا کوئی عظیم الشان نتیجہ نکلنے والا ہے۔ اسی کو آخرت کہتے ہیں جہاں ہر ایک کو اس کی کمائی کا پھل ملے گا اور جو بویا تھا وہ ہی کاٹنا پڑے گا؎ گندم از گندم بروید جو ز جو از مکافات عمل غافل مشو۔















قُلِ اللَّهُ يُحييكُم ثُمَّ يُميتُكُم ثُمَّ يَجمَعُكُم إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ لا رَيبَ فيهِ وَلٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ {45:26} 


کہہ دو کہ خدا ہی تم کو جان بخشتا ہے پھر (وہی) تم کو موت دیتا ہے پھر تم کو قیامت کے روز جس (کے آنے) میں کچھ شک نہیں تم کو جمع کرے گا لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے 


تو کہہ کہ اللہ ہی جِلاتا ہے تمکو پھر مارے گا تمکو پھر اکھٹا کرے گا تمکو قیامت کے دن تک اس میں کچھ شک نہیں پر بہت لوگ نہیں سمجھتے [۳۳] 


یعنی جس نے ایک مرتبہ زندہ کیا پھر مارا، اسے کیا مشکل ہے کہ دوبارہ زندہ کر کے سب کو ایک جگہ اکٹھا کر دے۔












أَوَلَم يَرَوا أَنَّ اللَّهَ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَلَم يَعىَ بِخَلقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلىٰ أَن يُحۦِىَ المَوتىٰ ۚ بَلىٰ إِنَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {46:33} 


کیا انہوں نے نہیں سمجھا کہ جس خدا نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں۔ وہ اس (بات) پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے۔ ہاں ہاں وہ ہر چیز پر قادر ہے 


کیا نہیں دیکھتے کہ وہ اللہ جس نے بنائے آسمان اور زمین اور نہ تھکا انکے بنانے میں [۵۹] وہ قدرت رکھتا ہے کہ زندہ کرے مردوں کو کیوں نہیں وہ ہر چیز کر سکتا ہے [۶۰] 


اس لفظ میں "یہود" کے عقیدہ کا رد ہے جو کہتے تھے کہ چھ دن میں اللہ نے زمین و آسمان پیدا کئے { ثُمَّ اسْتَرَاحَ } (پھر ساتویں دن آرام کرنے لگا) العیاذ باللہ۔ 


یعنی بڑا عذاب مرنے کے بعد ہو گا اور اس دھوکہ میں نہ رہیں کہ مر کر کہاں زندہ ہوتے ہیں۔اللہ کو یہ کچھ مشکل نہیں جو آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے نہ تھکا، اس کو تمہارا دوبارہ پیدا کردینا کیا مشکل ہے۔












إِنَّ اللَّهَ يُدخِلُ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهٰرُ ۖ وَالَّذينَ كَفَروا يَتَمَتَّعونَ وَيَأكُلونَ كَما تَأكُلُ الأَنعٰمُ وَالنّارُ مَثوًى لَهُم {47:12} 


جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے ان کو خدا بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل فرمائے گا۔ اور جو کافر ہیں وہ فائدے اٹھاتے ہیں اور (اس طرح) کھاتے ہیں جیسے حیوان کھاتے ہیں۔ اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے 


مقرر اللہ داخل کرے گا انکو جو یقین لائے اور کئے بھلے کام باغوں میں جنکے نیچے بہتی ہیں نہریں اور جو لو گ منکر ہیں برت رہے ہیں اور کھاتے ہیں جیسے کہ کھائیں چوپائے اور آگ ہے گھر ان کا [۱۶] 


یعنی دنیا کا سامان برت رہے ہیں اور مارے حرص کے بہائم کی طرح اناپ شناپ کھاتے چلے جاتے ہیں۔ نتیجہ کی خبر نہیں کہ کل یہ کھایا پیا کس طرح نکلے گا۔ اچھا چند روز مزے اڑالیں انکے لئے آگ کا گھر تیار ہے۔












فَاعلَم أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاستَغفِر لِذَنبِكَ وَلِلمُؤمِنينَ وَالمُؤمِنٰتِ ۗ وَاللَّهُ يَعلَمُ مُتَقَلَّبَكُم وَمَثوىٰكُم {47:19} 


پس جان رکھو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔ اور خدا تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھیرنے سے واقف ہے 


سو تو جان لے کہ کسی کی بندگی نہیں سوائے اللہ کے اور معافی مانگ اپنے گناہ کے واسطے اور ایماندار مردوں اور عورتوں کے لئے [۳۰] اور اللہ کو معلوم ہے بازگشت تمہاری اور گھر تمہارا [۳۱] 


ہر ایک کا ذنب (گناہ) اس کے مرتبہ کے موافق ہوتا ہے۔ کسی کام کا بہت اچھا پہلو چھوڑ کر کم اچھا پہلو اختیار کرنا گو وہ حدود ءجواز و استحسان میں ہو، بعض اوقات مقربین کے حق میں ذنب (گناہ) سمجھا جاتا ہے۔ { حَسَنَاتُ الْابْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ } کے یہ ہی معنی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ دن میں سو بار استغفار فرماتے تھے (تنبیہ) { فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَااِلٰہَ اِلَّا للہُ } الخ کا خطاب ہر ایک مخاطب کو ہے۔ اور اگر خاص نبی کریم ﷺ مخاطب ہوں تو مطلب یہ ہے کہ اس علم پر برابر جمے رہیئے۔ اور استغفار کرتے رہے۔ اور { فَاعْلَمْ } کی تفریع ماقبل پر اس طرح ہے کہ قیامت آنے کے بعد کسی کو ایمان و توبہ وغیرہ نافع نہیں تو آدمی کو چاہئے کہ اس کے آنے سے قبل صحیح معرفت حاصل کرے۔ اور ایمان و استغفار کے طریق پر مستقیم رہے۔ 


یعنی جتنے پردوں میں پھرو گے پھر بہشت یا دوزخ میں پہنچو گے جو تمہار اصلی گھر ہے۔


















وَلِلَّهِ جُنودُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ وَكانَ اللَّهُ عَزيزًا حَكيمًا {48:7} 


اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں۔ اور خدا غالب (اور) حکمت والا ہے 


اور اللہ کے ہیں سب لشکر آسمانوں کے اور زمین کے اور ہے اللہ زبردست حکمت والا [۱۳] 


یعنی وہ سزا دینا چاہے تو کون بچا سکتا ہے۔ خدائی لشکر ایک لمحہ میں پیس کر رکھ دے۔ مگر وہ زبردست ہونے کے ساتھ حکمت والا بھی ہے۔ حکمت الٰہی مقتضی نہیں کہ فورًا ہاتھوں ہاتھ ان کا استیصال کیا جائے۔















وَلِلَّهِ مُلكُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ يَغفِرُ لِمَن يَشاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشاءُ ۚ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا {48:14} 


اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی خدا ہی کی ہے۔ وہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے 


اور اللہ کے لئے ہے راج آسمانوں کا اور زمین کا بخشے جسکو چاہے اور عذاب میں ڈالے جسکو چاہے اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان [۲۳] 


یعنی جسکو وہ بخشنا نہ چاہے، میں کیسے بخشواؤں ہاں اسکی مہربانی ہو تو تم کو توبہ کی توفیق مل جائے اور بخشش ہو جائے۔ اس کی رحمت بہرحال غضب پر سابق ہے۔















سُنَّةَ اللَّهِ الَّتى قَد خَلَت مِن قَبلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبديلًا {48:23} 


(یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے۔ اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے 


رسم پڑی ہوئی اللہ کی جو چلی آتی ہے پہلے سے اور تو ہر گز نہ دیکھے گا اللہ کی رسم کو بدلتے [۴۱] 


یعنی جب اہل حق اور اہل باطل کا کسی فیصلہ کن موقع پر مقابلہ ہو جائے تو آخرکار اہل حق غالب اور اہل باطل مغلوب و مقہور کئے جاتے ہیں۔ یہ ہی عادت اللہ کی ہمیشہ سے چلی آتی ہے جس میں کوئی تبدیلی و تغیر نہیں ہاں یہ شرط ہے کہ اہل حق بہیات مجموعی پوری طرح حق پرستی پر قائم رہیں۔ اور بعض نے { وَلَنْ تَجِدَ لَسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِیْلًا } کے معنی یوں کئے ہیں کہ اللہ کی عادت کوئی دوسرا نہیں بدل سکتا۔ یعنی کسی اورکو قدرت نہیں کہ وہ کام نہ ہونے دے جو سنت اللہ کے موافق ہونا چاہئے تھا۔















إِنَّ اللَّهَ يَعلَمُ غَيبَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ وَاللَّهُ بَصيرٌ بِما تَعمَلونَ {49:18} 


بےشک خدا آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے دیکھتا ہے 


اللہ جانتا ہے چھپے بھید آسمانوں کے اور زمین کے اور اللہ دیکھتا ہے جو تم کرتے ہو [۲۷] 


یعنی دلوں کے بھید اور ظاہر کا عمل سب کو خدا جانتا ہے۔ اسکے سامنے باتیں نہ بناؤ۔ تم سورۃ الحجرات بعون اللہ وحسن توفیقہ فلہ الحمد والمنہ۔












إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزّاقُ ذُو القُوَّةِ المَتينُ {51:58} 


خدا ہی تو رزق دینے والا زور آور اور مضبوط ہے 


اللہ جو ہے وہی ہے روزی دینے والا زور آور مضبوط [۴۲] 


یعنی ان کی بندگی سے میرا کچھ فائدہ نہیں، ان ہی کا نفع ہے۔ میں وہ مالک نہیں جو غلاموں سے کہے میرے لئے کما کر لاؤ یا میرے سامنے کھانا لا کر رکھو۔ میری ذات ان تخیلات سے پاک اور برتر ہے۔ میں ان سے اپنے لئے روزی کیا طلب کرتا، خود ان کو اپنے پاس سے روزی پہنچاتا ہوں بھلا مجھ جیسے زور آور اور قادر و توانا کو تمہاری خدمات کی کیا حاجت ہوسکتی ہے۔ بندگی کا حکم صرف اس لئے دیا گیا ہے کہ تم میری شہنشاہی اور عظمت و کبریائی کا قولًا و فعلًا اعتراف کرکے میرے خصوصی الطاف و مراحم کے موردومستحق بنو؎ من نہ کردم خلق تا سودے کنم بلکہ تا بربندگاں جودے کنم۔















لَهُ مُلكُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرجَعُ الأُمورُ {57:5} 


آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ اور سب امور اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں 


اُسی کے لئے ہے راج آسمانوں کا اور زمین کا اور اللہ ہی تک پہنچتے ہیں سب کام [۹] 


یعنی اس کی قلمرو سے نکل کر کہیں نہیں جاسکتے۔ تمام آسمان و زمین میں اسی اکیلے کی حکومت ہے اور آخر کار سب کاموں کا فیصلہ وہیں سے ہوگا۔















هُوَ الَّذى يُنَزِّلُ عَلىٰ عَبدِهِ ءايٰتٍ بَيِّنٰتٍ لِيُخرِجَكُم مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلَى النّورِ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُم لَرَءوفٌ رَحيمٌ {57:9} 


وہی تو ہے جو اپنے بندے پر واضح (المطالب) آیتیں نازل کرتا ہے تاکہ تم کو اندھیروں میں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ بےشک خدا تم پر نہایت شفقت کرنے والا (اور) مہربان ہے 


وہی ہے جو اتارتا ہے اپنے بندے پر آیتیں صاف کہ نکال لائے تم کو اندھیروں سے اجالے میں اور اللہ تم پر نرمی کرنے والا ہے مہربان [۱۵] 


یعنی قرآن اتارا اور صداقت کے نشان دیئے تا ان کے ذریعہ سے تم کو کفروجہل کی اندھیریوں سے نکال کر ایمان و علم کے اجالے میں لے آئے۔ یہ اللہ کی بہت ہی بڑی شفقت اور مہربانی ہے، اگر سختی کرتا تو ان ہی اندھیروں میں پڑا چھوڑ کر تم کو ہلاک کردیتا۔ یا ایمان لانے کے بعد بھی پچھلی خطاؤں کو معاف نہ کرتا۔















اعلَموا أَنَّ اللَّهَ يُحىِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ قَد بَيَّنّا لَكُمُ الءايٰتِ لَعَلَّكُم تَعقِلونَ {57:17} 


جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ ہم نے اپنی نشانیاں تم سے کھول کھول کر بیان کردی ہیں تاکہ تم سمجھو 


جان رکھو کہ اللہ زندہ کرتا ہے زمین کو اُسکے مرجانے کے بعد ہم نے کھول کر سنا دیے تم کو پتے اگر تم کو سمجھ ہے [۲۹] 


یعنی عرب لوگ جاہل اور گمراہ تھے جیسے مردہ زمین۔ اب اللہ نے ان کو ایمان اور علم کی روح سے زندہ کیا۔ اور ان میں سب کمال پیدا کر دیئے۔ غرض کسی مردہ سے مردہ انسان کو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ سچی توبہ کرلے تو اللہ پھر اس کے قالب میں روح حیات پھونک دے گا۔















يَومَ يَبعَثُهُمُ اللَّهُ جَميعًا فَيُنَبِّئُهُم بِما عَمِلوا ۚ أَحصىٰهُ اللَّهُ وَنَسوهُ ۚ وَاللَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ شَهيدٌ {58:6} 


جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا تو جو کام وہ کرتے رہے ان کو جتائے گا۔ خدا کو وہ سب (کام) یاد ہیں اور یہ ان کو بھول گئے ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے 


جس دن کہ اٹھائے گا اللہ ان سب کو پھر جتلائے گا اُنکو اُنکے کئے کام [۱۲] اللہ نے وہ سب گن رکھی ہیں اور وہ بھول گئے اور اللہ کے سامنے ہے ہر چیز [۱۳] 


یعنی ان کو اپنی عمر بھر کے بہت سے کام یاد بھی نہیں رہے، یا ان کی طرف توجہ نہیں رہی۔ لیکن اللہ کے ہاں وہ سب ایک ایک کرکے محفوظ ہیں۔ وہ سارا دفتر اس دن کھول کر سامنے رکھ دیا جائیگا۔ 


یعنی جو کام کیے تھے ان سب کا نتیجہ سامنے آجائے گا کوئی ایک عمل بھی غائب نہ ہوگا۔















أَلَم تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَما فِى الأَرضِ ۖ ما يَكونُ مِن نَجوىٰ ثَلٰثَةٍ إِلّا هُوَ رابِعُهُم وَلا خَمسَةٍ إِلّا هُوَ سادِسُهُم وَلا أَدنىٰ مِن ذٰلِكَ وَلا أَكثَرَ إِلّا هُوَ مَعَهُم أَينَ ما كانوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِما عَمِلوا يَومَ القِيٰمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمٌ {58:7} 


کیا تم کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے خدا کو سب معلوم ہے۔ (کسی جگہ) تین (شخصوں) کا (مجمع اور) کانوں میں صلاح ومشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ہے اور نہ کہیں پانچ کا مگر وہ ان میں چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم یا زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں ہوں۔ پھر جو جو کام یہ کرتے رہے ہیں قیامت کے دن وہ (ایک ایک) ان کو بتائے گا۔ بےشک خدا ہر چیز سے واقف ہے 


تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کو معلوم ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں کہیں نہیں ہوتا مشورہ تین کا جہاں وہ نہیں ہوتا ان میں چوتھا اور نہ پانچ کا جہاں وہ نہیں ہوتا اُن میں چھٹا اور نہ اُس سے کم اور نہ زیادہ جہاں وہ نہیں ہوتا اُنکے ساتھ جہاں کہیں ہوں [۱۴] پھرجتلا دے گا اُنکو جو کچھ انہوں نے کیا قیامت کے دن بیشک اللہ کو معلوم ہے ہر چیز 


یعنی صرف ان کے اعمال ہی پر کیا منحصر ہے، اللہ کے علم میں تو آسمان و زمین کی ہر چھوٹی بڑی چیز ہے۔ کوئی مجلس، کوئی سرگوشی اور کوئی خفیہ سے خفیہ مشورہ نہیں ہوتا جہاں اللہ اپنے علم محیط کے ساتھ موجود نہ ہو جہاں تین آدمی چھپ کر مشورہ کرتے ہوں نہ سمجھیں کہ وہاں کوئی چوتھا نہیں سن رہا۔ اور پانچ کی کمیٹی خیال نہ کرے کہ کوئی چھٹا سننے والا نہیں۔ خوب سمجھ لو کہ تین ہوں یا پانچ یا اس سے کم زیادہ کہیں ہوں، کسی حالت میں ہوں، اللہ تعالیٰ ہر جگہ اپنے علم محیط سے ان کے ساتھ ہے کسی وقت ان سے جدا نہیں۔ (تنبیہ) طاق عدد کی حکمت: مشورہ میں اگر صرف دو شخص ہوں تو بصورت اختلاف ترجیح دشوار ہوتی ہے۔ اسی لئے عمومًا معاملات مہمہ میں طاق عدد رکھتے ہیں۔ اور ایک کے بعد پہلا طاق عدد تین تھا پھر پانچ۔ شاید اس لئے ان دو کو اختیار فرمایا اور آگے { وَلَآ اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَاْ اَکْثَرَ } سے تعمیم فرمادی۔ باقی حضرت عمرؓ کا شورٰی خلافت کو چھ بزرگوں میں دائر کرنا (حالانکہ چھ کا عدد طاق نہیں) اس لئے ہوگا کہ اس وقت یہ ہی چھ خلافت کے سب سے زیادہ اہل اور مستحق تھے جن میں سے کسی کو چھوڑا نہیں جاسکتا تھا۔ نیز خلیفہ کا انتخاب ان ہی چھ سے ہو رہا تھا تو ظاہر ہے جس کا نام آتا، اس کے سوائے رائے دینے والے تو پانچ ہی رہتے ہیں۔ پھر بھی احتیاطًا حضرت عمرؓ نے بصورت مساوات ایک جانب کی ترجیح کے لئے عبداللہ بن عمرؓ کا نام لے دیا تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔


















أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم عَذابًا شَديدًا ۖ إِنَّهُم ساءَ ما كانوا يَعمَلونَ {58:15} 


خدا نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ یہ جو کچھ کرتے ہیں یقیناً برا ہے 


تیار رکھا ہے اللہ نے اُنکے لئے سخت عذاب [۳۰] بیشک وہ برے کام ہیں جو وہ کرتے ہیں [۳۱] 


یعنی خواہ ابھی ان کو نظر نہ آئے لیکن نفاق کے کام کرکے وہ اپنے حق میں بہت برا بیج بو رہے ہیں۔ 


جس کو دوسری جگہ فرمایا { اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِیْ الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ } (نساء رکوع۲۱)۔















كَتَبَ اللَّهُ لَأَغلِبَنَّ أَنا۠ وَرُسُلى ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِىٌّ عَزيزٌ {58:21} 


خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے۔ بےشک خدا زورآور (اور) زبردست ہے 


اللہ لکھ چکا کہ میں غالب ہوں گا اور میرے رسول بیشک اللہ زورآور ہے زبردست [۳۷] 


یعنی اللہ و رسول کا مقابلہ کرنے والے جو حق و صداقت کے خلاف جنگ کرتے ہیں سخت ناکام اور ذلیل ہیں۔ اللہ لکھ چکا ہے کہ آخر کار حق ہی غالب ہو کر رہیگا۔ اور اس کے پیغمبر ہی مظفر و منصور ہوں گے۔ اس کی تقریر پہلے کئ جگہ گذر چکی ہے۔















هُوَ الَّذى أَخرَجَ الَّذينَ كَفَروا مِن أَهلِ الكِتٰبِ مِن دِيٰرِهِم لِأَوَّلِ الحَشرِ ۚ ما ظَنَنتُم أَن يَخرُجوا ۖ وَظَنّوا أَنَّهُم مانِعَتُهُم حُصونُهُم مِنَ اللَّهِ فَأَتىٰهُمُ اللَّهُ مِن حَيثُ لَم يَحتَسِبوا ۖ وَقَذَفَ فى قُلوبِهِمُ الرُّعبَ ۚ يُخرِبونَ بُيوتَهُم بِأَيديهِم وَأَيدِى المُؤمِنينَ فَاعتَبِروا يٰأُولِى الأَبصٰرِ {59:2} 


وہی تو ہے جس نے کفار اہل کتاب کو حشر اول کے وقت ان کے گھروں سے نکال دیا۔ تمہارے خیال میں بھی نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ لوگ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے ان کو خدا (کے عذاب) سے بچا لیں گے۔ مگر خدا نے ان کو وہاں سے آ لیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا۔ اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی کہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں اور مومنوں کے ہاتھوں سے اُجاڑنے لگے تو اے (بصیرت کی) آنکھیں رکھنے والو عبرت پکڑو 


وہی ہے جس نے نکال دیا اُنکو جو منکر ہیں کتاب والوں میں اُنکے گھروں سے [۲] پہلے ہی اجتماع پر لشکر کے [۳] تم نہ اٹکل کرتے تھے کہ نکلیں گے اور وہ خیال کرتے تھے کہ اُنکو بچا لیں گے اُنکے قلعے اللہ کے ہاتھ سے پھر پہنچا اُن پر اللہ جہاں سے اُنکو خیال نہ تھا اور ڈال دی اُنکے دلوں میں دھاک [۴] اجاڑنے لگے اپنے گھر اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں [۵] سو عبرت پکڑو اے آنکھ والو [۶] 


مدینہ سے مشرقی جانب چند میل کے فاصلہ پر ایک قوم یہود بستی تھی جس کو "بنی نضیر" کہتے تھے۔ یہ لوگ بڑے جتھے والے اور سرمایہ دار تھے، اپنے مضبوط قلعوں پر ان کو ناز تھا۔ حضورﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو شروع میں انہوں نے آپﷺ سے صلح کا معاہدہ کرلیا، کہ ہم آپ کے مقابلہ پر کسی کی مدد نہ کریں گے۔ پھر مکہ کے کافروں سے نامہ و پیام کرنے لگے۔ حتّٰی کہ ان کے ایک بڑے سردارکعب بن اشرف نے چالیس سواروں کے ساتھ مکہ پہنچ کر بیت اللہ شریف کے سامنے مسلمانوں کے خلاف قریش سے عہدوپیمان باندھا۔ آخر چند روز بعد اللہ و رسول کے حکم سے محمد بن مسلمہ نے اس غدار کاکام تمام کردیا۔ پھر بھی "بنی نضیر" کی طرف سے بدعہدی کا سلسلہ جاری رہا۔ کبھی دغابازی سے حضور ﷺ کو چند رفیقوں کے ساتھ بلا کر اچانک قتل کرنا چاہا۔ ایک مرتبہ حضور ﷺجہاں بیٹھے تھے اوپر سے بھاری چکی کا پاٹ ڈال دیا، اگر لگے تو آدمی مر جائے۔ مگر سب مواقع پر اللہ کے فضل نے حفاظت فرمائی۔ آخر حضور ﷺ نے مسلمانوں کو جمع کیا۔ ارادہ یہ کہ ان سے لڑیں۔ جب مسلمانوں نے نہایت سرعت و مستعدی سے مکانوں اور قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ وہ مرعوب و خوفزدہ ہوگئے۔ عام لڑائی کو نوبت نہ آئی۔ انہوں نے گھبرا کر صلح کی التجا کی۔ آخر یہ قرار پایا کہ وہ مدینہ خالی کر دیں۔ ان کی جانوں سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ اور جو مال اسباب اٹھا کر لے جاسکتے ہیں، لے جائیں۔ باقی مکان زمین، باغ وغیرہ پر مسلمان قابض ہوئے۔ حق تعالیٰ نے وہ زمین مالِ غنیمت کی طرح تقسیم نہ کرائی۔ صرف حضرت کے اختیار پر رکھی۔ حضرت ﷺ نے اکثر اراضی مہاجرین پر تقسیم کر دی۔ اس طرح انصار پر سے ان کا خرچ ہلکا ہوا۔ اور مہاجرین و انصار دونوں کو فائدہ پہنچا۔ نیز حضرت ﷺ اپنے گھر کا اور واردوصادر کا سالانہ خرچ بھی اسی سے لیتے تھے اور جو بچ رہتا اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے تھے۔ اس سورت میں یہ ہی قصہ مذکور ہے۔ 


یعنی ایک ہی ہلّہ میں گھبراگئےاور پہلی ہی مڈبھیڑ پر مکان اور قلعے چھوڑ کر نکل بھاگنے کو تیار ہو بیٹھے۔ کچھ بھی ثابت قدمی نہ دکھلائی۔ (تنبیہ) "اوّل الحشر" سے بعض مفسرین کے نزدیک یہ مراد ہے کہ اس قوم کے لئے اس طرح ترکِ وطن کرنے کا یہ پہلا ہی موقع تھا۔ قبل ازیں ایسا واقعہ پیش نہ آیا تھا۔ یا "اوّل الحشر" میں اس طرف اشارہ ہو کہ ان یہود کا پہلا حشر یہ ہے کہ مدینہ چھوڑ کر بہت سے خیبر وغیرہ چلے گئے اور دوسرا حشر وہ ہو گا جو حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں پیش آیا۔ یعنی دوسرے یہودونصارٰی کی معیت میں یہ لوگ بھی خیبر سے ملک شام کی طرف نکالے گئے جہاں آخری حشر بھی ہونا ہے۔ اسی لئے "شام" کو "ارض المحشر" بھی کہتے ہیں۔ 


یعنی ان کے سازوسامن مضبوط قلعے اور جنگجو یانہ اطوار دیکھ کر نہ تم کو اندازہ تھا کہ اس قدر جلد اتنی آسانی سے وہ ہتھیار ڈال دیں گے۔ اور نہ ان کو خیال تھا کہ مٹھی بھر بے سروسامان لوگ اس طرح قافیہ تنگ کر دیں گے۔ وہ اسی خواب خرگوش میں تھے کہ مسلمان (جن کے سروں پر اللہ کا ہاتھ ہے) ہمارے قلعوں تک پہنچنے کا حوصلہ نہ کرسکیں گے۔ اور اس طرح گویا اللہ کے ہاتھ سے بچ نکلیں گے۔ مگر انہوں نے دیکھ لیا کہ کوئی طاقت اللہ کے حکم کو نہ روک سکی۔ ان کے اوپر اللہ کا حکم وہاں سے پہنچا جہاں سے ان کو خیال و گمان بھی نہ تھا۔ یعنی دل کے اندر سے خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ اور بے سروسامان مسلمانوں کی دھاک بٹھلادی۔ ایک تو پہلے ہی اپنے سردار کعب بن اشرف کے ناگہانی قتل سے مرعوب و خوفزدہ ہو رہے تھے۔ اب مسلمانوں کے اچانک حملہ نے رہے سہے حواس بھے کھو دیئے۔ 


یعنی حرص اور غیظ و غضب کے جوش میں مکانوں کے کڑی، تختے کواڑ اکھاڑنے لگے تا کوئی چیز جو ساتھ لے جاسکتے ہیں رہ نہ جائے اور مسلمانوں کے ہاتھ نہ لگے۔ اس کام میں مسلمانوں نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا۔ ایک طرف سے وہ خود گراتے تھے دوسری طرف سے مسلمان۔ اور غور سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کے ہاتھوں جو تباہی و ویرانی عمل میں آئی وہ بھی ان ہی بدبختوں کی بد عہدیوں اور شرارتوں کا نتیجہ تھی۔ 


یعنی اہلِ بصیرت کے لئے اس واقعہ میں بڑی عبرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دکھلادیا کہ کفر، ظلم، شرارت اور بدعہدی کا انجام کیسا ہوتا ہے۔ اور یہ کہ محض ظاہری اسباب پر تکیہ کرکے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے غافل ہو جانا عقلمند کاکام نہیں۔


















هُوَ اللَّهُ الَّذى لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ عٰلِمُ الغَيبِ وَالشَّهٰدَةِ ۖ هُوَ الرَّحمٰنُ الرَّحيمُ {59:22} 


وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے 


وہ اللہ ہے جس کے سوائے بندگی نہیں کسی کی جانتا ہے جو پوشیدہ ہے اور جو ظاہر ہے وہ ہے بڑا مہربان رحم والا












هُوَ اللَّهُ الَّذى لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ المَلِكُ القُدّوسُ السَّلٰمُ المُؤمِنُ المُهَيمِنُ العَزيزُ الجَبّارُ المُتَكَبِّرُ ۚ سُبحٰنَ اللَّهِ عَمّا يُشرِكونَ {59:23} 


وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی) پاک ذات (ہر عیب سے) سلامتی امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ خدا ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے 


وہ اللہ ہے جس کے سوائے بندگی نہیں کسی کی وہ بادشاہ ہے پاک ذات سب عیبوں سے سالم [۴۰] امان دینے والا [۴۱] پناہ میں لینے والا زبردست دباؤ والا صاحب عظمت پاک ہے اللہ اُنکے شریک بتلانے سے [۴۲] 


"مومن " کا ترجمہ "امان دینے والا" کیا ہے۔ اور بعض مفسّرین کے نزدیک "مصدق" کے معنی ہیں یعنی اپنی اور اپنے پیغمبروں کی قولًا و فعلًا تصدیق کرنے والا۔ یا مومنین کے ایمان پر مہر تصدیق ثبت کرنے والا۔ 


یعنی سب نقائص اور کمزوریوں سے پاک، اور سب عیوب و آفات سے سالم، نہ کوئی برائی اس کی بارگاہ تک پہنچی نہ پہنچے۔ 


یعنی اس کی ذات و صفات اور افعال میں کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔












هُوَ اللَّهُ الخٰلِقُ البارِئُ المُصَوِّرُ ۖ لَهُ الأَسماءُ الحُسنىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ ما فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۖ وَهُوَ العَزيزُ الحَكيمُ {59:24} 


وہی خدا (تمام مخلوقات کا) خالق۔ ایجاد واختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا اس کے سب اچھے سے اچھے نام ہیں۔ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے 


وہ اللہ ہے بنانے والا نکال کھڑا کرنے والا [۴۳] صورت کھینچنے والا [۴۴] اُسی کے ہیں سب نام خاصے (عمدہ) [۴۵] پاکی بول رہا ہے اُسکی جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں [۴۶] اور وہی ہے زبردست حکمتوں والا [۴۷] 


"خالق" و "باری" کے فرق کی طرف ہم نے سورۃ "بنی اسرائیل" کی آیت { ویسئلونک عن الروح قل الروح من امرربّی } الخ کے فوائد میں کچھ اشارہ کیا ہے۔ 


تمام کمالات و صفاتِ الہٰیہ کا مرجع ان دو صفتوں "عزیز" اور "حکیم" کی طرف ہے۔ کیونکہ "عزیز" کمال قدرت پر اور "حکیم" کمال علم پر دلالت کرتا ہے۔ اور جتنے کمالات ہیں علم اور قدرت سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہیں۔ روایات میں سورۃ "حشر" کی ان تین آیتوں (ھو اللہ الذی لآ الٰہ الاّ ھو سے آخر تک) کی بہت فضیلت آئی ہے۔ مومن کو چاہیئے کہ صبح و شام ان آیات کی تلاوت پر مواظبت رکھے۔ تم سورۃ الحشر وللہ الحمد والمنہ۔ 


یعنی زبانِ حال سے یا قال سے بھی جس کو ہم نہیں سمجھتے۔ 


یعنی جیسا کہ نطفہ پر انسان کی تصویر کھینچ دی۔ 


یعنی وہ نام جو اعلیٰ درجہ کی خوبیوں اور کمالات پر دلالت کرتے ہیں۔ 













عَسَى اللَّهُ أَن يَجعَلَ بَينَكُم وَبَينَ الَّذينَ عادَيتُم مِنهُم مَوَدَّةً ۚ وَاللَّهُ قَديرٌ ۚ وَاللَّهُ غَفورٌ رَحيمٌ {60:7} 


عجب نہیں کہ خدا تم میں اور ان لوگوں میں جن سے تم دشمنی رکھتے ہو دوستی پیدا کردے۔ اور خدا قادر ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے 


امید ہے کہ کر دے اللہ تم میں اور جو دشمن ہیں تمہارے اُن میں دوستی اور اللہ سب کچھ کر سکتا ہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے [۱۹] 


یعنی اللہ کی قدرت و رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ جو آج بدترین دشمن ہیں کل انہیں مسلمان کردے اور اس طرح تمہارے اور ان کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم ہو جائیں۔ چنانچہ فتح مکہ میں ایسا ہی ہوا تقریبًا سب مکہ والے مسلمان ہو گئے اور جو لوگ ایک دوسرے پر تلوار اٹھا رہے تھے اب ایک دوسرے پر جان قربان کرنے لگے۔ اس آیت میں مسلمانوں کی تسلی کر دی کہ مکہ والوں کے مقابلہ میں یہ ترک موالات کا جہاد صرف چند روز کے لئے ہے۔ پھر اس کی ضرورت نہیں رہیگی۔ چاہیئے کہ بحالت موجودہ تم مضبوطی سے ترکِ موالات پر قائم رہو۔ اور جس کسی سے کوئی بے اعتدالی ہو گئ ہو اللہ سے اپنی خطا معاف کرائے۔ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔















لا يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقٰتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِجوكُم مِن دِيٰرِكُم أَن تَبَرّوهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ {60:8} 


جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے 


اللہ تم کو منع نہیں کرتا اُن لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارےگھروں سے کہ اُن سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک بیشک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو [۲۰] 


یعنی مکہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو آپ مسلمان نہ ہوئے اور مسلمان ہونے والوں سے ضد اور پرخاش بھی نہیں رکھی، نہ دین کے معاملہ میں ان سے لڑے نہ ان کو ستانے اور نکالنے میں ظالموں کے مددگار بنے۔ اس قسم کے کافروں کے ساتھ بھلائی اور خوش خلقی سے پیش آنے کو اسلام نہیں روکتا۔ جب وہ تمہارے ساتھ نرمی اور رواداری سے پیش آتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دنیا کو دکھلادو کہ اسلامی اخلاق کا معیار کس قدر بلند ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر کافروں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسرِپیکار ہے، تو تمام کافروں کو بلا تمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دیں۔ ایسا کرنا حکمت و انصاف کے خلاف ہو گا۔ ضروری ہے کہ عورت، مرد، بچے، بوڑھے، جوان اور معاند و مسالم میں ان کے حالات کے اعتبار سے فرق کیا جائے جس کی قدرے تفصیل سورۃ "مائدہ" اور "آل عمران" کے فوائد میں گذر چکی۔















إِنَّما يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ قٰتَلوكُم فِى الدّينِ وَأَخرَجوكُم مِن دِيٰرِكُم وَظٰهَروا عَلىٰ إِخراجِكُم أَن تَوَلَّوهُم ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم فَأُولٰئِكَ هُمُ الظّٰلِمونَ {60:9} 


خدا ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں 


اللہ تو منع کرتا ہے تم کو اُن سے جو لڑے تم سے دین پر اور نکالا تم کو تمہارے گھروں سے اور شریک ہوئے تمہارے نکالنے میں کہ اُن سے کرو دوستی اور جو کوئی ان سے دوستی کرے سو وہ لوگ وہی ہیں گنہگار [۲۱] 


یعنی ایسے ظالموں سے دوستانہ برتاؤ کرنا بیشک سخت ظلم اور گناہ کا کام ہے۔ (ربط) یہاں تک کفار کے دوفریق (معاند اور مسالم) کے ساتھ معاملہ کرنے کا ذکر تھا۔ آگے بتلاتے ہیں کہ ان عورتوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوناچاہیئے جو "دارالحرب" سے "دارالاسلام" میں آئیں یا "دارالحرب" میں مقیم رہیں۔ قصہ یہ ہے کہ "صلح حدیبیہ"میں مکہ والوں نے یہ قرار دیا کہ ہمارا جو آدمی تمہارے پاس جائے اس کو واپس بھیجنا ہوگا۔ حضرت ﷺ نے اس کو قبول فرمالیا تھا۔ چنانچہ کئ مرد آئے۔ آپﷺ نے ان کو واپس کردیا۔ پھر کئ عورتیں آئیں۔ ان کو واپس کرتے تو کافر مرد کے گھر مسلمان عورتیں حرام میں پڑتیں۔ اس پر یہ اگلی آیتیں اتریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد عورتوں کی واپسی پر کفار نے اصرار نہیں کیا ورنہ صلح قائم نہ رہتی۔ 










كَبُرَ مَقتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقولوا ما لا تَفعَلونَ {61:3} 


خدا اس بات سے سخت بیزار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں 


بڑی بیزاری کی بات ہے اللہ کے یہاں کہ کہو وہ چیز جو نہ کرو 




















إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذينَ يُقٰتِلونَ فى سَبيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنيٰنٌ مَرصوصٌ {61:4} 


جو لوگ خدا کی راہ میں (ایسے طور پر) پرے جما کر لڑتے کہ گویا سیسہ پلائی دیوار ہیں وہ بےشک محبوب کردگار ہیں 


اللہ چاہتا ہے اُن لوگوں کو جو لڑتے ہیں اُسکی راہ میں قطار باندھ کر گویا وہ دیوار ہیں سیسہ پلائی ہوئی [۱] 


بندہ کو لاف زنی اور دعوے کی بات سے ڈرنا چاہیئے کہ پیچھے مشکل پڑتی ہے۔ زبان سے ایک بات کہہ دینا آسان ہے، لیکن اس کا نباہنا آسان نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص سے سخت ناراض اور بیزار ہوتا ہے جو زبان سے کہے بہت کچھ اور کرے کچھ نہیں۔ روایات میں ہے کہ ایک جگہ مسلمان جمع تھے، کہنے لگے ہم کو اگر معلوم ہوجائے کہ کونسا کام اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے تو وہی اختیار کریں۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ یعنی دیکھو! سنبھل کر کہو، لو ہم بتلائے دیتے ہیں۔ جہاد میں دیوار کی طرح ڈٹنے والے: کہ اللہ کو سب سے زیادہ ان لوگوں سے محبت ہے جو اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں کے مقابلہ پر ایک آہنی دیوار کی طرح ڈٹ جاتے ہیں اور میدان جنگ میں اس شان سے صف آرائی کرتے ہیں کہ گویا وہ سب مل کر ایک مضبوط دیوار ہیں جس میں سیسہ پگھلا دیا گیا ہے، اور جس میں کسی جگہ کوئی رخنہ نہیں پڑسکتا۔ اب اس معیار پر اپنے کو پرکھ لو۔ بیشک تم میں بہت ایسے ہیں جو اس معیار پرکامل و اکمل اتر چکے ہیں مگر بعض مواقع ایسے بھی نکلیں گے جہاں بعضوں کے زبانی دعووں کی انکے عمل نے تکذیب کی ہےآخر جنگ احد میں وہ بُنیان مرصوص کہاں قائم رہی۔ اور جس وقت حکم قتال اترا تو یقیناً بعض نے یہ بھی کہا { ربنا لم کتبت علینا القتال لولا اخرتنا } الخ (نساء رکوع۱۱) بہرحال زبان سے زیادہ دعوے مت کرو۔ بلکہ خدا کی راہ میں قربانی پیش کرو جس سے اعلیٰ کامیابی نصیب ہو۔ موسٰی کی قوم کو نہیں دیکھتے کہ زبان سے تعلی و تفاخر کی باتیں بہت بڑھ چڑھ کر بناتے تھے لیکن عمل کے میدان میں صفر تھے۔ جہاں کوئی موقع کام کا آیا فوراً پھسل گئے اور نہایت تکلیف دہ باتیں کرنے لگے۔ نتیجہ جو کچھ ہوا اس کو آگے بیان فرماتے ہیں۔















وَلَن يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفسًا إِذا جاءَ أَجَلُها ۚ وَاللَّهُ خَبيرٌ بِما تَعمَلونَ {63:11} 


اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو خدا اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے 


اور ہرگز نہ ڈھیل دے گا اللہ کسی جی کو جب آ پہنچا اُس کا وعدہ [۱۷] اور اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو [۱۸] 


یہ شاید منافقوں کے قول { لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ } الخ کا جواب ہوا کہ خرچ کرنے میں خود تمہارا بھلا ہے جو کچھ صدقہ خیرات کرنا ہے جلدی کرو، ورنہ موت سر پر آپہنچی تو پچتاؤ گے کہ ہم نے کیوں خدا کے راستہ میں خرچ نہ کیا۔ اس وقت (موت کے قریب) بخیل تمنا کریگا کہ اے پروردگار! چند روز اور میری موت کو ملتوی کر دیتے کہ میں خوب صدقہ خیرات کر کے اور نیک بن کر حاضر ہوتا۔ لیکن وہاں التوا کیسا؟ جس شخص کی جس قدر عمر لکھدی اور جو میعاد مقرر کردی ہے، اسکے پورا ہوجانے پر ایک لمحہ کی ڈھیل اور تاخیر نہیں ہوسکتی۔ (تنبیہ) ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ وہ اس تمنا کو قیامت کے دن پر حمل کرتے ہیں یعنی محشر میں یہ آرزو کریگا کہ کاش مجھے پھر دنیا کی طرف تھوڑی مدت کے لئے لوٹا دیا جائے تو خوب صدقہ کر کے اور نیک بن کر آؤں۔ 


اس کو یہ بھی خبر ہے کہ اگر بالفرض تمہاری موت ملتوی کر دی جائے یا محشر سے پھر دنیا کی طرف واپس کریں تب تم کیسے عمل کرو گے۔ وہ سب کی اندرونی استعدادوں کو جانتا ہے اور سب کے ظاہری و باطنی اعمال سے پوری طرح خبردار ہے۔ اسی کے موافق ہر ایک سے معاملہ کریگا۔















زَعَمَ الَّذينَ كَفَروا أَن لَن يُبعَثوا ۚ قُل بَلىٰ وَرَبّى لَتُبعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِما عَمِلتُم ۚ وَذٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرٌ {64:7} 


جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ وہ (دوبارہ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے۔ کہہ دو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر جو کام تم کرتے رہے ہو وہ تمہیں بتائے جائیں گے اور یہ (بات) خدا کو آسان ہے 


دعوٰی کرتے ہیں منکر کہ ہر گز اُنکو کوئی نہ اٹھائے گا [۷] تو کہہ کیوں نہیں قسم ہے میرے رب کی تم کو بیشک اٹھانا ہے پھر تم کو جتلانا ہے جو کچھ تم نے کیا اور یہ اللہ پر آسان ہے [۸] 


رسالت کی طرح بعث بعدالموت کا بھی انکار ہے۔ 


یعنی دوبارہ اٹھانا اور سب کا حساب کر دینا اللہ کو کیا مشکل ہے پوری طرح یقین رکھو کہ یہ ضرور ہو کر رہیگا۔ کسی کے انکار کرنے سے وہ آنے والی گھڑی ٹل نہیں سکتی۔ لہٰذا مناسب ہے کہ انکار چھوڑ کر اس وقت کی فکر کرو۔












ما أَصابَ مِن مُصيبَةٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤمِن بِاللَّهِ يَهدِ قَلبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمٌ {64:11} 


کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر خدا کے حکم سے۔ اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ اور خدا ہر چیز سے باخبر ہے 


نہیں پہنچتی کوئی تکلیف بدون حکم اللہ کے اور جو کوئی یقین لائے اللہ پر وہ راہ بتلائے اسکے دل کو [۱۴] اور اللہ کو ہر چیز معلوم ہے [۱۵] 


یعنی جو تکلیف و مصیبت اس نے بھیجی عین علم و حکمت سے بھیجی۔ اور وہی جانتا ہے کہ کون تم میں سے واقعی صبر و استقامت اور تسلیم و رضا کی راہ پر چلا۔ اور کس کا دل کن احوال و کیفیات کا مورد بننے کے قابل ہے۔ 


دنیا میں کوئی مصیبت اور سختی اللہ کی مشیت و ارادہ کے بدون نہیں پہنچتی۔ مومن کو جب اس بات کا یقین ہے تو اس پر غمگین اور بددل ہونے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ بہر صورت مالک حقیقی کے فیصلہ پر راضی رہنا چاہیئے اور یوں کہنا چاہیئے ؎ نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت سرِ دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی اس طرح اللہ تعالیٰ مومن کے دل کو صبر و تسلیم کی راہ بتلادیتا ہے جس کے بعد عرفان و ایقان کی عجیب و غریب راہیں کھلتی ہیں۔ اور باطنی ترقیات اور قلبی کیفیات کا دروازہ مفتوح ہوتا ہے۔ 















اللَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَليَتَوَكَّلِ المُؤمِنونَ {64:13} 


خدا (جو معبود برحق ہے اس) کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو مومنوں کو چاہیئے کہ خدا ہی پر بھروسا رکھیں 


اللہ اُسکے سوائے کسی کی بندگی نہیں اور اللہ پر چاہئے بھروسہ کریں ایمان والے [۱۷] 


یعنی معبود اور مستعان تنہا اسی کی ذات ہے۔ نہ کسی اور کی بندگی نہ کوئی دوسرا بھروسہ کے لائق۔










وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَجًا {65:2}

اور جو کوئی خدا سے ڈرے گا وہ اس کے لئے (رنج ومحن سے) مخلصی (کی صورت) پیدا کرے گا

یعنی اللہ سے ڈر کر اس کے احکام کی بہر حال تعمیل کرو۔ خواہ کتنی ہی مشکلات و شدائد کا سامنا کرنا پڑے۔ حق تعالیٰ تمام مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دیگا۔ اور سختیوں میں بھی گزارہ کا سامان کر دے گا۔









وَيَرزُقهُ مِن حَيثُ لا يَحتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بٰلِغُ أَمرِهِ ۚ قَد جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيءٍ قَدرًا {65:3} 


اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے (وہم و) گمان بھی نہ ہو۔ اور جو خدا پر بھروسہ رکھے گا تو وہ اس کو کفایت کرے گا۔ خدا اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کردیتا ہے۔ خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے 


اور روزی دے اُسکو جہاں سے اُسکو خیال بھی نہ ہو [۱۳] اور جو کوئی بھروسہ رکھے اللہ پر تو وہ اُسکو کافی ہے تحقیق اللہ پورا کر لیتا ہے اپنا کام اللہ نےرکھا ہے ہر چیز کا اندازہ [۱۴] 


یعنی اللہ پر بھروسہ رکھو، محض اسباب پر تکیہ مت کرو۔ اللہ کی قدرت ان اسباب کی پابند نہیں۔ جو کام اسے کرنا ہو ، وہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ اسباب بھی اسی کی مشیت کے تابع ہیں۔ ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ ہے۔ اسی کے موافق وہ ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اس لئے اگر کسی چیز کے حاصل ہونے میں دیر ہو تو متوکل کو گھبرانا نہیں چاہیئے۔ 


اللہ کا ڈر دارین کے خزانوں کی کنجی اور تمام کامیابیوں کا ذریعہ ہے۔ اسی سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں، بے قیاس و گمان روزی ملتی ہے گناہ معاف ہوتے ہیں، جنت ہاتھ آتی ہے اجر بڑھتا ہے اور ایک عجیب قلبی سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ جس کے بعد کوئی سختی، سختی نہیں رہتی، اور تمام پریشانیاں اندر ہی اندر کافور ہو جاتی ہیں۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمام دنیا کے لوگ اس آیت کو پکڑ لیں تو ان کو کافی ہو جائے۔












ذٰلِكَ أَمرُ اللَّهِ أَنزَلَهُ إِلَيكُم ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّر عَنهُ سَيِّـٔاتِهِ وَيُعظِم لَهُ أَجرًا {65:5} 


یہ خدا کے حکم ہیں جو خدا نے تم پر نازل کئے ہیں۔ اور جو خدا سے ڈرے گا وہ اس سے اس کے گناہ دور کر دے گا اور اسے اجر عظیم بخشے گا 


یہ حکم ہے اللہ کا جو اتارا تمہاری طرف اور جو کوئی ڈرتا رہے اللہ سے اتار دے اس پر سے اسکی برائیاں اور بڑا دے اُسکو ثواب [۱۷] 


جملہ جملہ کے بعد اتقاء اور اللہ کے ڈر کا مضمون مختلف پیرایوں میں دہر ایا گیا ہے تا پڑھنے والا بار بار متنبہ ہو کہ عورتوں کے معاملات میں اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔















لِيُنفِق ذو سَعَةٍ مِن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيهِ رِزقُهُ فَليُنفِق مِمّا ءاتىٰهُ اللَّهُ ۚ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا ما ءاتىٰها ۚ سَيَجعَلُ اللَّهُ بَعدَ عُسرٍ يُسرًا {65:7} 


صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیئے۔ اور جس کے رزق میں تنگی ہو وہ جتنا خدا نے اس کو دیا ہے اس کے موافق خرچ کرے۔ خدا کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کے مطابق جو اس کو دیا ہے۔ اور خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا 


چاہیے خرچ کرے وسعت والا اپنی وسعت کے موافق اور جسکو نپی تلی ملتی ہے اُسکی روزی تو خرچ کرے جیسا کہ دیا ہے اُسکو اللہ نے اللہ کسی پر تکلیف نہیں رکھتا مگر اُسی قدر جو اُسکو دیا اب کر دے گا اللہ سختی کے پیچھے کچھ آسانی [۲۳] 


یعنی بچہ کی تربیت کا خرچ باپ پر ہے۔ وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق اور کم حیثیت کو اپنی حیثیت کے مناسب خرچ کرنا چاہیئے۔ اگر کسی شخص کو زیادہ فراخی نصیب نہ ہو محض نپی تلی روزی اللہ نے دی ہو، وہ اسی میں سے اپنی گنجائش کے موافق خرچ کیا کرے۔ اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ جب تنگی کی حالت میں اس کے حکم کے موافق خرچ کروگے، وہ تنگی اور سختی کو فراخی اور آسانی سے بدل دیگا۔















اللَّهُ الَّذى خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ وَمِنَ الأَرضِ مِثلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الأَمرُ بَينَهُنَّ لِتَعلَموا أَنَّ اللَّهَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَد أَحاطَ بِكُلِّ شَيءٍ عِلمًا {65:12} 


خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ایسی ہی زمینیں۔ ان میں (خدا کے) حکم اُترتے رہتے ہیں تاکہ تم لوگ جان لو کہ خدا چیز پر قادر ہے۔ اور یہ کہ خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے 


اللہ وہی ہے جس نے بنائے سات آسمان اور زمین بھی اتنی ہی [۳۲] اترتا ہے اُس کا کا حکم اُنکے اندر [۳۳] تاکہ تم جانو کہ اللہ ہر چیز کر سکتا ہے اور اللہ کے علم میں سمائی ہے ہر چیز کی [۳۴] 


یعنی آسمان و زمین کے پیدا کرنے اور ان میں انتظامی احکام جاری کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات علم و قدرت کا اظہار ہو (نبّہ علیہ ابن قیم فی بدائع الفوائد) بقیہ صفات ان ہی دو صفتوں سے کسی نہ کسی طرح تعلق رکھتی ہیں۔ صوفیہ کے ہاں جو ایک حدیث نقل کرتے ہیں { کُنْتُ کنزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ} گو محدثین کے نزدیک صحیح نہیں۔ مگر اس کا مضمون شاید اس آیت کے مضمون سے ماخوذ و مستفاد ہو۔ واللہ اعلم۔ تم سورۃ الطلاق وللہ الحمد والمنہ۔ 


یعنی زمینیں بھی سات پیدا کیں، جیسا کہ ترمذی وغیرہ کی احادیث میں ہے۔ ان میں احتمال ہے کہ نظر نہ آتی ہوں، اور احتمال ہے کہ نظر آتی ہوں۔ مگر لوگ ان کو کواکب سمجھتے ہوں۔ جیسا کہ مریخ وغیرہ کی نسبت آج کل حکماء یورپ کا گمان ہے کہ اس میں پہاڑ دریا اور آبادیاں ہیں۔ باقی حدیث میں جو ان زمینوں کا اس زمین کے تحت میں ہونا وارد ہے وہ شاید باعتبار بعض حالات کے ہو۔ اور بعض حالات میں وہ زمینیں اس سے فوق ہوجاتی ہوں۔ رہا ابن عباسؓ کا وہ اثر جس میں { اٰدمھم کا دمکم } وغیرہ آیا ہے، اس کی شرح کا یہ موقع نہیں۔ "روح المعانی" میں اس پر بقدر کفایت کلام کیا ہے۔ اور حضرت مولانا محمد قاسمؒ کے بعض رسائل میں اس کے بعض اطراف وجوانب کو بہت خوبی سے صاف کر دیا گیا ہے۔ 


یعنی عالم کے انتظام و تدبیر کے لئے اللہ کے احکام تکوینیہ و تشریعیہ آسمانوں اور زمینوں کے اندر اترتے رہتے ہیں۔















قُل إِنَّمَا العِلمُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّما أَنا۠ نَذيرٌ مُبينٌ {67:26} 


کہہ دو اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ اور میں تو کھول کھول کر ڈر سنانے دینے والا ہوں 


تو کہہ خبر تو ہے اللہ ہی کے پاس اور میرا کام تو یہی ڈر سنا دینا ہے کھول کر [۳۳] 


یعنی وقت کا تعیین میں نہیں کرسکتا۔ اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔البتہ جو چیز یقینًا آنیوالی ہے اس سے آگاہ کر دینا اور خوفناک مستقبل سے ڈرا دینا میرا فرض تھا۔ وہ میں ادا کر چکا۔












قُل أَرَءَيتُم إِن أَهلَكَنِىَ اللَّهُ وَمَن مَعِىَ أَو رَحِمَنا فَمَن يُجيرُ الكٰفِرينَ مِن عَذابٍ أَليمٍ {67:28} 


کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر خدا مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کردے یا ہم پر مہربانی کرے۔ تو کون ہے کافروں کو دکھ دینے والے عذاب سے پناہ دے؟ 


تو کہہ بھلا دیکھو تو اگر ہلاک کر دے مجھ کو اللہ اور میرے ساتھ والو کو یا ہم پر رحم کرے پھر وہ کون ہے جو بچائے منکروں کو عذاب دردناک سے [۳۵] 


کفار تمنا کرتے تھے کہ کہیں جلد مرمراکر ان کا قصّہ ختم ہو جائے(العیاذباللہ) اسکا جواب دیاکہ فرض کرو تمہارے زعم کے موافق میں اور میرے ساتھی دنیا میں سب ہلاک کر دیئے جائیں یا ہمارے عقیدےکے موافق مجھ کو اور میرےرفقاء کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سےکامیاب و بامراد کرے۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، مگر تم کو اس سے کیا فائدہ ہے۔ ہمارا انجام دنیا میں جو کچھ ہو، بہرحال آخرت میں بہتری ہے کہ اس کے راستہ میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن تم اپنی فکر کرو کہ اس کفروسرکشی پرجو دردناک عذاب آنا یقینی ہے۔ اس سے کون بچائیگا۔ ہمارا اندیشہ چھوڑ دو، اپنی فکر کرو ، کیونکہ کافر کسی طرح بھی خدائی عذاب سے نہیں چھوٹ سکتا۔















أَلَم تَرَوا كَيفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِباقًا {71:15} 


کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے سات آسمان کیسے اوپر تلے بنائے ہیں 


کیا تم نے نہیں دیکھا کیسے بنائے اللہ نے سات آسمان تہہ پر تہہ [۱۶] 


یعنی ایک کے اُوپر ایک۔












أَلَيسَ اللَّهُ بِأَحكَمِ الحٰكِمينَ {95:8} 


کیا خدا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ 


کیا نہیں ہے اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم [۷] 


یعنی اس کی شہنشاہی کے سامے دنیا کی سب حکومیتں ہیچ ہیں۔ جب یہاں کی چھوٹی چھوٹی حکومتیں اپنے وفاداروں کو انعام، اور مجرموں کو سزا دیتی ہیں تو اس احکم الحاکمین کی سرکار سے یہ توقع کیوں نہ رکھی جائے۔












قُل هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ {112:1} 


کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے 


تو کہہ وہ اللہ ایک ہے [۱] 


یعنی جو لوگ اللہ کی نسبت پوچھتے ہیں کہ وہ کیسا ہے، ان سے کہہ دیجیئے کہ وہ ایک ہے۔ جس کی ذات میں کسی قسم کے تعدد و تکثر اور دوئی کی گنجائش نہیں۔ نہ اسکا کوئی مقابل، نہ مشابہ، اس میں مجوس کے عقیدہ کا رد ہوگیا۔ جو کہتے ہیں کہ خالق دو ہیں۔ خیر کا خالق "یزداں" اور شر کا "ہرمن" نیز ہنود کی تردید ہوئی جو تینتیس کروڑ دیوتاؤں کو خدائی میں حصہ دار ٹھہراتے ہیں۔












اللَّهُ الصَّمَدُ {112:2} 


معبود برحق جو بےنیاز ہے 


اللہ بے نیاز ہے [۲] 


"صمد" کی تفسیر کئ طرح کی گئ ہے۔ طبرانی ان سب کو نقل کرکے فرماتے ہیں { وکلّ ھٰذہٖ صحیحۃ وھی صفات ربنا عزوجل ھوالّذی یصمد الیہ فی الحوائج وھو الذی قدانتھٰی سؤددہٗ وھو الصمد الذی لاجوف لہ ولا یاکل ولایشرب وھوالباقی بعد خلقہ } (ابن کثیرؒ) (یہ سب معانی صحیح ہیں اور یہ سب ہمارے رب کی صفات ہیں۔ وہ ہی ہے جس کی طرف تمام حاجات میں رجوع کیا جاتا ہے یعنی سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اور وہ ہی ہے جس کی بزرگی اور فوقیت تمام کمالات اور خوبیوں میں انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اور وہ ہی ہے جو کھانے پینے کی خواہشات سے پاک ہے۔ اور وہ ہی ہے جو خلقت کے فنا ہونے کے بعد بھی باقی رہنے والا ہے) اللہ تعالیٰ کی صفت صمدیت سے ان جاہلوں پر رد ہوا جو کسی غیر اللہ کو کسی درجہ میں مستقل اختیار رکھنے والا سمجھتے ہوں نیز آریوں کے عقیدہ مادہ و روح کی تردید بھی ہوئی۔ کیونکہ ان کے اصول کے موافق اللہ تو عالم بنانے میں ان دونوں کا محتاج ہے اور یہ دونوں اپنے وجود میں اللہ کے محتاج نہیں (العیاذ باللہ)۔ 



رب کسے کہتے ہیں؟
جو (1)زندگی اور (2)موت دیتا اور (3)کائنات کا نظام سنبھالتا رہتا ہے:
القرآن:
(ابراھیم نے کہا) میرا رب وہ ہے جو زندگی بھی دیتا ہے اور موت بھی، (نمرود نے سزاۓ موت والے قیدی کو رہا کرکے کہا) میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں، (ابراہیم نے کہا) الله تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تم ذرا مغرب سے تو نکال کرلاؤ؟ اس پر وہ کافر مبہوت ہوکر رہ گیا۔
[سورۃ البقرۃ:258]

(4)جو سب کو تخلیق کرتا اور (5) پھر انہیں اس کے کام کرنے کا طریقہ دل میں سجھادیتا ہے کہ کیسے دودھ پینا ہے، چلنا ہے، زبان بولنی ہے وغیرہ
القرآن:
ہمارا رب وہ ہے جس نے دی ہر چیز کو اسکی شکل وصورت پھر ہدایت۔
[سورۃ طه:50]

جو (6)کھلاتا ہے بھوک میں اور (7)امن بخشتا ہے خوف سے۔
[سورۃ قریش:4]

اللہ رب ہے تمام جہانوں کا۔
[قرآنی حوالہ جات:- سورۃ المائدۃ:28، الاعراف:54، النمل:8، القصص:30، غافر:64، الحشر:16، التکویر:29]
یعنی
فرشتوں کے جہان کا، جنوں کے جہان کا، چرندوں کے جہان کا، پرندوں کے جہان کا، مچھلیوں کے جہان کا وغیرہ






























2:255 , 13:2, 13:8, 13:26, 14:32, 22:69, {22:75}{24:35}{24:45}{29:62}{30:11}{30:40}{30:48}{30:54}{32:4}{39:23}{39:42}{40:61}{40:64}{40:79}{42:17}{42:19}{45:12}{59:22-24}{65:12}