Thursday 18 December 2014

الله پاک کے علاوہ کو کس کس طرح ((معبود/خدا)) بنایا گیا؟

قرآن مجید میں عربی لفظ ((دُوْن/غَيْر یعنی علاوہ/سوا) سے مخلوق کو ((إله یعنی معبود-خدا)) ٹھہراتے ہوئے محض اپنے ((زعم)) سے جو جو عقیدہ یا عمل  ((أخَذَ/جَعَلَ یعنی خود پکڑتے/بناتے)) شرک کرتے رہے ہیں، وہ:
(1)سورج کو سجدہ کرتے  {27:24}،
(2)چاند تاروں کو رب(رزاق) مان لیتے{6: 76-78}،
(3)جِن کی عبادت کرتے {34:41}
شیطان کو(غائبانہ) پکارتے{4:117}،
(4)فرشتوں کو (اللہ کی بیٹیاں-جُزء قرار دیتے) عبادت کرتے{34:40}،
(5)عیسیٰ نبی اور ان کی ماں مریم کو خدا بناتے{5:116}
عزیر اور عیسیٰ نبی کو خدا کا بیٹا قرار دیتے{9:30}
(6)اللہ ہی کے بندوں کو ولی (رکھوالا) بناتے {18:102} یعنی پیر-پرستی کرتے
مردہ اولیاء کے بت بناتے{71:23}
پتھروں کی یادگاروں کو بھی پوجتے{21:98}
نفع نقصان اور شفاعت کی امید رکھتے پوجتے{10:18}
اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزء(حصہ/ٹکڑا) خود بناتے{43:15}
اور
انہیں غائبانہ حاجات میں پکارتے رہتے، اور یہ سب وہ بلادلیل (بغیرخداوندی حکم و اجازت) کے محض اپنے زعم سے کرتے، اور عقیدت میں ان کو ولی (رکھوالا) اور نصیر (مددگار)  ، رب (تربیت وحکم والا) ، رزاق ، شفیع (سفارش کرنے والا) ، نفع و نقصان کی ملکیت و اختیار رکھنے والا مالک مانتے تھے، تاکہ وہ الله کے ہاں قربت(نزدیکی) دلوانے{39:3} کا وسیلہ(ذریعہ){17:57} ہیں۔


م




أَلَم تَعلَم أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلكُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۗ وَما لَكُم مِن دونِ اللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلا نَصيرٍ {2:107}
تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت الله ہی کی ہے، اور الله کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مدد گار نہیں
یعنی ادھر تو اللہ کی قدرت و ملکیت سب پر شامل ادھر اس کے اپنے بندوں پر اعلیٰ درجے کی عنایت ۔ تو اب مصالح اور منافع بندوں کی اطلاع اور ان پر قدرت کس کو ہو سکتی ہے اور اس کے برابر بندوں کی خیرخواہی کون کر سکتا ہے۔

وَمِنَ النّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دونِ اللَّهِ أَندادًا يُحِبّونَهُم كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذينَ ءامَنوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ۗ وَلَو يَرَى الَّذينَ ظَلَموا إِذ يَرَونَ العَذابَ أَنَّ القُوَّةَ لِلَّهِ جَميعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَديدُ العَذابِ {2:165}
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر الله کو شریک (خدا) بناتے اور ان سے الله کی سی محبت کرتے ہیں۔ لیکن جو ایمان والے ہیں وہ تو الله ہی کے سب سے زیادہ دوستدار ہیں۔ اور اے کاش ظالم لوگ جو بات عذاب کے وقت دیکھیں گے اب دیکھ لیتے کہ سب طرح کی طاقت الله ہی کو ہے۔ اور یہ کہ الله سخت عذاب کرنے والا ہے
یعنی صرف اقوال و اعمال جزئیہ ہی میں ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر نہیں مانتے بلکہ محبت قلبی جو کہ صدور اعمال کی اصل ہے اس تک شرک اور مساوات کی نوبت پہنچا رکھی ہے جو شرک کا اعلیٰ درجہ ہے اور شرک فی الاعمال اس کا خادم اور تابع ہے۔
یعنی مشرکین کو جو اپنے معبودوں سے محبت ہے مومنین کو اپنے اللہ سے اس سے بھی بہت زیادہ اور مستحکم محبت ہے کیونکہ مصائب دنیا میں مشرکین کی بسا اوقات زائل ہو جاتی ہے اور عذاب آخرت دیکھ کر تو بالکل تبّری اور بیزاری ظاہر کریں گے جیسا کہ اگلی آیہ میں آتا ہے بخلاف مومنین کے کہ ان کی محبت اپنے اللہ کے ساتھ ہر ایک رنج و راحت مرض و صحت دنیا و آخرت میں برابر باقی اور پائدار رہنے والی ہے اور نیز اہل ایمان کو جو اللہ سے محبت ہے وہ اس محبت سے بھی بہت زیادہ ہے جو محبت کہ اہل ایمان ماسوٰی اللہ یعنی انبیاء و اولیاء و ملائکہ و عبّاد و علماء یا اپنے آباو اجداد اور اولاد و مال وغیرہ سے رکھتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تو اس کی عظمت شان کے موافق با لاصالہ اور بالاستقلال محبت رکھتے ہیں اور اوروں سے بالواسطہ اور حق تعالیٰ کے حکم کے موافق ہر ایک کے اندازہ کے مطابق محبت رکھتے ہیں "گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی" خدا اور غیر خدا کو محبت میں برابر کردینا خواہ وہ کوئی ہو یہ مشرکین کا کام ہے۔
یعنی جن ظالموں نے خدا کے لئے شریک بنائے اگر وہ اس آنے والے وقت کو دیکھ لیں کہ جس وقت ان کو عذاب الہٰی کا مشاہدہ ہو گا کہ زور سارا اللہ ہی کے لئے ہے عذاب خداوندی سے کوئی نہیں بچا سکتا اور اللہ کا عذاب سخت ہے تو ہر گز اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر دوسروں کی طرف متوجہ نہ ہوں اور نہ ان سے امید منفعت رکھیں۔
یعنی آدمیوں میں جو کہ شعور و عقل میں جمیع مخلوقات سے افضل ہیں بعضے ایسے بھی ہیں کہ باوجود دلائل ظاہرہ سابقہ کے پھر غیر اللہ کو حق تعالیٰ کا شریک اور اس کے برابر بناتے ہیں۔



قُل يٰأَهلَ الكِتٰبِ تَعالَوا إِلىٰ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَينَنا وَبَينَكُم أَلّا نَعبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلا نُشرِكَ بِهِ شَيـًٔا وَلا يَتَّخِذَ بَعضُنا بَعضًا أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوا فَقولُوا اشهَدوا بِأَنّا مُسلِمونَ {3:64}
کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ الله کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو الله کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماں بردار ہیں
یعنی تم دعویٰ اسلام و توحید کر کے پھر گئے، ہم الحمد اللہ اس پر قائم ہیں کہ اپنے کو محض خدائے واحد کے سپرد کر دیا ہے اور اسی کے تابع فرمان ہیں۔
پہلے نقل کیا جا چکا کہ حضور نے جب وفد نجران کو کہا { اَسْلِمُوا } (مسلم بن جاؤ) تو کہنے لگے ۔ { اَسْلَمْنَا } (ہم مسلم ہیں) اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی طرح ان کو بھی مسلم ہونے کا دعویٰ تھا اسی طرح جب یہود و نصاریٰ کے سامنے توحید پیش کی جاتی تو کہتے کہ ہم بھی خدا کو ایک کہتے ہیں۔ بلکہ ہر مذہب والا کسی نہ کسی رنگ میں اوپر جا کر اقرار کرتا ہے کہ بڑا خدا ایک ہی ہے۔ یہاں اسی طرف توجہ دلائی گئ کہ بنیادی عقیدہ (خدا کا ایک ہونا اور اپنے کو مسلم ماننا) جس پر ہم دونوں متفق ہیں۔ ایسی چیز ہے جو ہم سب کو ایک کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ آگے چل کر اپنے تصرف اور تحریف سے اس کی حقیقت بدل نہ ڈالیں۔ ضرورت اُس کی ہے کہ جس طرح زبان سے مسلم و موحد کہتے ہو ۔ حقیقۃً و عملًا بھی اپنے آپ کو تنہا خدائے وحدہٗ لا شریک لہٗ کے سپرد کر دو۔ نہ اس کے سوا کسی کی بندگی کرو نہ اس کی صفات خاصہ میں کسی کو شریک ٹھہراؤ۔ کہ کسی اور عالم، فقیر، پیر، پیغمبر کے ساتھ وہ معاملہ کرو جو صرف رب قدیر کے ساتھ کیا جانا چاہیئے۔ مثلًا کسی کو اس کا بیٹا پوتا بنانا، یا نصوص شریعت سے قطع نظر کر کے محض کسی کے حلال و حرام کر دینے پر اشیاء کی حلت و حرمت کا مدار رکھنا۔ جیسا کہ { اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ } کی تفیسر سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سب امور دعویٰ اسلام و توحید کے منافی ہیں۔

ما كانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤتِيَهُ اللَّهُ الكِتٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقولَ لِلنّاسِ كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّهِ وَلٰكِن كونوا رَبّٰنِيّۦنَ بِما كُنتُم تُعَلِّمونَ الكِتٰبَ وَبِما كُنتُم تَدرُسونَ {3:79}
کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ الله تو اسے کتاب اور حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ الله کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ بلکہ (اس کو یہ کہنا سزاوار ہے کہ اے اہلِ کتاب) تم (علمائے) ربانی ہو جاؤ کیونکہ تم کتابِ (خدا) پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو
وفد نجران کی موجودگی میں بعض یہود و نصاریٰ نے کہا تھا کہ اے محمد ! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم تمہاری اسی طرح پرستش کرنے لگیں؟ جیسے نصاریٰ عیسٰی بن مریمؑ کو پوجتے ہیں۔ آپ نے فرمایا معاذ اللہ کہ ہم غیر اللہ کی بندگی کریں۔ یا دوسروں کو اس کی دعوت دیں۔ حق تعالیٰ نے ہم کو اس کام کے لئے نہیں بھیجا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی جس بشر کو حق تعالیٰ کتاب و حکمت اور قوت فیصلہ دیتا اور پیغمبری کے منصب جلیل پر فائز کرتا ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک پیغام الہٰی پہنچا کر لوگوں کو اس کی بندگی اور وفاداری کی طرف متوجہ کرے اس کا یہ کام کبھی نہیں ہو سکتا کہ ان کو خالص ایک خدا کی بندگی سے ہٹا کر خود اپنا یا کسی دوسری مخلوق کا بندہ بنانے لگے۔ اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ خداوند قدوس نے جس کو جس منصب کا اہل جان کر بھیجا تھا، فی الواقع وہ اس کا اہل نہ تھا۔ دنیا کی کوئی گورنمنٹ بھی اگر کسی شخص کو ایک ذمہ داری کے عہدہ پر مامور کرتی ہے تو پہلے دو باتیں سوچ لیتی ہے ۔ (۱) یہ شخص گورنمنٹ کی پالیسی کو سمجھنے اور اپنے فرائض کو انجام دینے کی لیاقت رکھتا ہے یا نہیں (۲) گورنمنٹ کے احکام کی تعمیل کرنے اور رعایا کو جادۂ وفاداری پر قائم رکھنے کی کہاں تک اس سے توقع کی جاسکتی ہے؟ کوئی بادشاہ یا پارلیمنٹ ایسے آدمی کو نائب السلطنت یا سفیر مقرر نہیں کر سکتی جس کی نسبت حکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے یا اس کی پالیسی اور احکام سے انحراف کرنے کا ادنیٰ شبہ ہو بیشک یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کی قابلیت یا جذبہ وفاداری کا اندازہ حکومت صحیح طور پر نہ کر سکی ہو ۔ لیکن خداوند قدوس کے یہاں یہ بھی احتمال نہیں۔ اگر کسی فرد کی نسبت اس کو علم ہے کہ یہ میری وفاداری اور طاعت شعاری سے بال برابر تجاوز نہ کرے گا تو محال ہے کہ وہ آگے چل کر اس کےخلاف ثابت ہو سکے۔ ورنہ علم الہٰی کا غلط ہونا لازم آتا ہے۔ العیاذ باللہ یہیں سےعصمت انبیاء علیہم السلام کا مسئلہ سمجھ میں آ جاتا ہے (کما نبہ علیہ ابوحیان فی البحر و فصلہ مولانا قاسم العلوم و الخیرات فی تصانیفہ) پھر جب انبیاء علیہم السلام ادنیٰ عصیان سے پاک ہیں تو شرک اور خدا کے مقابلہ میں بغاوت کرنے کا امکان کہاں باقی رہ سکتا ہے۔ اس میں نصاریٰ کے اس دعوے کا بھی رد ہو گیا جو کہتے تھے کہ ابنیت و الوہیت مسیحؑ کا عقیدہ ہم کو خود مسیحؑ نے تعلیم فرمایا ہے۔ اور ان مسلمانوں کو بھی نصیحت کر دی گئ جنہوں نے رسول اللہ سے عرض کیا تھا کہ ہم سلام کے بجائے آپ کو سجدہ کریں تو کیا حرج ہے۔ اور اہل کتاب پر بھی تعریض ہو گئ جنہوں نے اپنے احبار و رہبان کو خدائی کا درجہ دے رکھا تھا۔ (العیاذ باللہ) تنبیہ { مَاکَانَ لِبَشَرٍ } الخ میں ابو حیان کے نزدیک اسی طرح کی نفی ہے جیسے { مَاکَانَ لَکُمْ اَنْ تُنْبِتُو شَجَرَھَا } میں یا { وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ } میں۔ وہوا صوب عندی۔
موضح القرآن میں ہے "جس کو اللہ نبی بنائے اور وہ لوگوں کو کفر و شرک سےنکال کر مسلمانی میں لائے، پھر کیونکر ان کو کفر سکھلائے گا۔ ہاں تم کو (اے اہل کتاب!) یہ کہتا ہے کہ تم میں جو آگے دینداری تھی۔ کتاب کا پڑھنا اور سکھانا وہ نہیں رہی۔ اب میری صحبت میں پھر وہی کمال حاصل کرو "۔ اور عالم، حکیم، فقیہہ، عارف، مدبر، متقی اور پکے خدا پرست بن جاؤ۔ اور یہ بات اب قرآن کریم پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے سے حاصل ہو سکتی ہے ۔

إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ۚ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَدِ افتَرىٰ إِثمًا عَظيمًا {4:48}
الله  اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کردے اور جس نے الله کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا
یعنی مشرک کبھی نہیں بخشا جاتا بلکہ اس کی سزا دائمی ہے البتہ شرک سےنیچے جو گناہ ہیں صغیرہ ہوں یا کبیرہ وہ سب قابل مغفرت ہیں اللہ تعالیٰ جس کی مغفرت چاہے اس کے صغیرہ کبیرہ گناہ بخش دیتا ہے کچھ عذاب دے کر یا بلا عذاب دیے اشارہ اس کی طرف ہے کہ یہود چونکہ کفر اور شرک میں مبتلا ہیں وہ مغفرت کی توقع نہ رکھیں۔

إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ۚ وَمَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد ضَلَّ ضَلٰلًا بَعيدًا {4:116}
الله  اس کے گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہیے گا بخش دے گا۔ اور جس نے الله کے ساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دور جا پڑا
یعنی شرک سے نیچے کے گناہ جس کے چاہے گا اللہ بخش دے گا مگر شرک کو ہر گز نہیں بخشے گا مشرک کے لئےعذاب ہی مقرر فرما چکا تو چوری کرنا اور تمہت جھوٹی لگانا اگرچہ گناہ کبیرہ تھے مگر یہ بھی احتمال تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس چور کو بخش دیتا لکین جب وہ چور رسول کے حکم سے بھاگا اور مشرکوں میں جا ملا تو اب اس کی مغفرت کا احتمال بھی نہ رہا۔ {فائدہ} اس سے یہ معلوم ہوا کہ شرک یہی نہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش کرے بلکہ اللہ کے حکم کے مقابلہ میں کسی کے حکم کو پسند کرنا یہ بھی شرک ہے۔
دور جا پڑا س لئے کہ وہ شخص تو اللہ ہی سے صریح منحرف ہو گیا اور اللہ کے مقابلہ میں دوسرا معبود بنا کر شیطان کا پورا مطیع ہو چکا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی رحمت سب سے مستغنی ہو بیٹھا اور جو اتنی دور جا پڑا تو اللہ کی رحمت اور اس کی مغفرت کا کیسے مستحق ہو سکتا ہے بلکہ ایسے شخص کی مغفرت تو خلاف حکمت ہونی چاہئے یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو مغفرت سے صاف مایوس فرما دیا گیا اور مسلمان کتنا ہی سخت گنہگار ہو چونکہ اس کی خرابی صرف اعمال تک ہے اس کا عقیدہ اور تعلق اور توقع سب جوں کی توں موجود ہیں اس کی مغفرت ضرور ہو گی جلدی یا دیر کے بعد اللہ جب چاہے گا بخش دے گا۔

وَلَأُضِلَّنَّهُم وَلَأُمَنِّيَنَّهُم وَلَءامُرَنَّهُم فَلَيُبَتِّكُنَّ ءاذانَ الأَنعٰمِ وَلَءامُرَنَّهُم فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيطٰنَ وَلِيًّا مِن دونِ اللَّهِ فَقَد خَسِرَ خُسرانًا مُبينًا {4:119}
اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا ہروں گا اور یہ سکھاتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیرتے رہیں اور (یہ بھی) کہتا رہوں گا کہ وہ الله کی بنائی ہوئی صورتوں کو بدلتے رہیں اور جس شخص نے الله کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنایا اور وہ صریح نقصان میں پڑ گیا
یعنی جو لوگ میرے حصہ میں آئیں گے ان کو طریق حق سے گمراہ کروں گا اور ان کو حیات دنیوی اور خواہشات دنیوی کے حصول کی قیامت اور حساب و کتاب امور اخروی کے نہ ہونے کی آرزو دلاؤں گا اور اس بات کی تعلیم دوں گا کہ جانوروں کے کان چیر کر بتوں کے نام پر ان کو چھوڑیں گے اور اللہ کی پیدا کی ہوئی صورتوں کو اور اس کی مقرر کی ہوئی باتوں کو بدل ڈالیں گے۔ {فائدہ} کافروں کا دستور تھا گائے بکری اونٹ کا بچہ بت کے نام کا کر دیتے اور اس کا کان چیر کر یا اس کےکان میں نشانی ڈال کر چھوڑ دیتے اور صورت بدلنا جیسے خوجہ کرنا یا بدن کو سوئی سے گود کر تل بنانا یا نیلا داغ دینا یا بچوں کے سر پر چوٹیاں رکھنی کسی کے نام کی۔ مسلمانوں کو ان کاموں سے بچنا ضرور ہے داڑھی منڈوانا بھی اسی تغیر میں داخل ہے اور اللہ کے جتنے احکام ہیں کسی میں تغیر کرنا بہت سخت بات ہے جو چیز اس نے حلال کر دی اس کو حرام کرنا یا حرام کو حلال کرنا اسلام سے نکال دیتا ہے تو جو کوئی ان باتوں میں مبتلا ہو اس کو یقین کر لینا چاہئے کہ میں شیطان کے مقررہ حصہ میں داخل ہوں جس کا ذکر گذرا۔

لَيسَ بِأَمانِيِّكُم وَلا أَمانِىِّ أَهلِ الكِتٰبِ ۗ مَن يَعمَل سوءًا يُجزَ بِهِ وَلا يَجِد لَهُ مِن دونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلا نَصيرًا {4:123}
(نجات) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی (طرح) کا بدلا دیا جائے گا اور وہ الله کے سوا نہ کسی کو حمایتی پائے گا اور نہ مددگار



فَأَمَّا الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُوَفّيهِم أُجورَهُم وَيَزيدُهُم مِن فَضلِهِ ۖ وَأَمَّا الَّذينَ استَنكَفوا وَاستَكبَروا فَيُعَذِّبُهُم عَذابًا أَليمًا وَلا يَجِدونَ لَهُم مِن دونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلا نَصيرًا {4:173}
تو جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے وہ ان کو ان کا پورا بدلا دے گا اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ بھی عنایت کرے گا۔ اور جنہوں نے (بندوں ہونے سے) عاروانکار اور تکبر کیا ان کو تکلیف دینے والا عذاب دے گا۔ اور یہ لوگ الله کے سوا اپنا حامی اور مددگار نہ پائیں گے
یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کی بندگی سے ناک چڑھاوے گا اور سرکشی کرے گا تو وہ یونہی نہ چھوڑ دیا جائے گا بلکہ ایک روز سب کو اللہ کے سامنے جمع ہونا ہے اور حساب دینا ہے سو جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نےنیک کام کئے یعنی اللہ کی بندگی پوری بجا لائے ان کو ان کے کاموں کا پورا ثواب ملے گا بلکہ اللہ کے فضل سے بڑی نعمتیں ان کے ثواب سے زیادہ بھی ان کو عنایت ہوں گی اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی بندگی سے ناک چڑھائی اور سرکشی کی وہ عذاب عظیم میں گرفتار ہوں گے اور کوئی ان کا خیرخواہ اور مددگار نہ ہو گا جن کو اللہ کی بندگی میں شریک کر کے عذاب میں پڑے وہ بھی کام نہ آئیں گے سو اب نصاریٰ خوب سمجھ لیں کہ ان دونوں صورتوں میں سے ان کے مناسب حال کیا ہے اور حضرت مسیحؑ کے موافق شان کیا ہے۔

قُل أَتَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَملِكُ لَكُم ضَرًّا وَلا نَفعًا ۚ وَاللَّهُ هُوَ السَّميعُ العَليمُ {5:76}
کہو کہ تم الله کے سوا ایسی چیز کی کیوں پرستش کرتے ہو جس کو تمہارے نفع اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں؟ اور الله ہی (سب کچھ) سنتا جانتا ہے
یعنی جب مسیحؑ کو خدا کہا تو لازم ہےکہ معبود بھی کہو۔ مگر معبود بننا صرف اسی ذات کے ساتھ مختص ہے جو ہر قسم کے نفع و ضرر کا مالک اور پورا با اختیار ہو۔ کیونکہ عبادت انتہائی تذلل کا نام ہے اور انتہائی تذلل اسی کے سامنے اختیار کر سکتے ہیں جو انتہائی عزت اور غلبہ رکھنے والا ہر آن سب کی سننے والا اور سب کےاحوال کا پوری طرح جاننے والا ہو۔ اس میں تثلیث کے عقیدہ شرکیہ کے ساتھ تمام مشرکین کا رد ہو گیا۔

وَإِذ قالَ اللَّهُ يٰعيسَى ابنَ مَريَمَ ءَأَنتَ قُلتَ لِلنّاسِ اتَّخِذونى وَأُمِّىَ إِلٰهَينِ مِن دونِ اللَّهِ ۖ قالَ سُبحٰنَكَ ما يَكونُ لى أَن أَقولَ ما لَيسَ لى بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلتُهُ فَقَد عَلِمتَهُ ۚ تَعلَمُ ما فى نَفسى وَلا أَعلَمُ ما فى نَفسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلّٰمُ الغُيوبِ {5:116}
اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب الله فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ الله کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم ہوگا (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اسے میں نہیں جانتا بےشک تو علاّم الغیوب ہے
یعنی میں ایسی گندی بات کیسے کہہ سکتا تھا۔ آپ کی ذات اس سے پاک ہے کہ الوہیت وغیرہ میں کسی کو اس کا شریک کیا جائے۔ اور جس کو آپ پیغمبری کا منصب جلیل عطا فرمائیں، اس کی یہ شان نہیں کہ کوئی ناحق بات منہ سے نکالے۔ پس آپ کی سبو حیت اور میری عصمت دونوں کا اقتضاء یہ ہے کہ میں ایسی ناپاک بات کبھی نہیں کہہ سکتا۔ اور سب دلائل کو چھوڑ کر آخری بات یہ ہے کہ آپ کے علم محیط سے کوئی چیز باہر نہیں ہو سکتی۔ اگر فی الواقع میں ایسا کہتا تو آپ کے علم میں ضرور موجود ہوتا۔ آپ خود جانتے ہیں کہ میں نے خفیہ یا علانیہ کوئی ایسا حرف منہ سے نہیں نکالا۔ بلکہ میرے دل میں اس طرح کے گندے خیال کا خطور بھی نہیں ہوا۔ آپ سے میرے یا کسی کے دل کے چھپے ہوئے ہواجس و خواطر بھی پوشیدہ نہیں۔
پچھلا رکوع حقیقت میں اس رکوع کی تمہید تھی۔ پچھلے رکوع کی ابتدا میں { یَوْمَ یَجْمَعُ اللہُ الرُّسُلَ } الخ فرما کر آگاہ کیا تھا کہ قیامت کے دن تمام مرسلین سے ان کی امتوں کے مواجہ میں علیٰ رؤس الاشہاد سوال و جواب ہوں گے۔ پھر ان میں سے خاص حضرت مسیحؑ کا ذکر فرمایا جن کو کروڑوں آدمیوں نے خدائی کا درجہ دے رکھا ہے کہ ان سے بالخصوص اس عقیدہ باطلہ کی نسبت دریافت کیا جائے گا لیکن اول وہ عظیم الشان احسانات اور ممتاز انعامات یاد دلائیں گے جو ان پر اور ان کی والدہ ماجدہ پر فائض ہوئے۔ بعدہٗ ارشاد ہو گا { ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ } الخ (کیا تو نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی خدا کے سوا معبود مانو) حضرت مسیحؑ اس سوال پر کانپ اٹھیں گے اور وہ عرض کریں گے جو آگے آتا ہے۔ آخر میں ارشاد ہو گا { ھٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُھُمْ } ہذا کا اشارہ اسی یوم کی طرف ہے جو { یَوْمَ یَجْمَعُ اللہُ الرُّسُلَ } میں مذکور تھا۔ بہرحال یہ سب واقعہ روز قیامت کا ہے۔ جسےمتیقن الوقوع ہونے کی وجہ سے قرآن حدیث میں بصیغہ ماضی (قال) تعبیر فرمایا ہے۔

قُل إِنّى نُهيتُ أَن أَعبُدَ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ ۚ قُل لا أَتَّبِعُ أَهواءَكُم ۙ قَد ضَلَلتُ إِذًا وَما أَنا۠ مِنَ المُهتَدينَ {6:56}
(اے پیغمبر! کفار سے) کہہ دو کہ جن کو تم الله کے سوا پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے۔ (یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہاری خواہشوں کی پیروی نہیں کروں گا ایسا کروں تو گمراہ ہوجاؤں اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہوں
گذشتہ آیت میں وہ چیزیں بیان ہوئیں جو مومنین سےکہنے کے لائق ہیں۔ اس رکوع میں ان امور کا تذکرہ ہے جو مجرمین اور مکذبین کے حق میں قابل خطاب ہیں۔ یعنی آپ فرما دیجئے کہ میرا ضمیر ، میری فطرت، میری عقل میرا نور شہود اور وحی الہٰی جو مجھ پر اترتی ہے یہ سب مجھ کو اس سے روکتے ہیں کہ میں توحید کامل کے جادہ سے ذرا بھی قدم ہٹاؤں۔ خوا تم کتنے ہی حیلے اور تدبیریں کرو میں کبھی تمہاری خوشی اور خواہش کی پیروی نہیں کر سکتا۔ بفرض محال اگر پیغمبر کسی معاملہ میں وحی الہٰی کو چھوڑ کر عوام کی خواہشات کا اتباع کرنے لگیں تو خدا نےجنہیں ہادی بنا کر بھیجا تھا معاذ اللہ وہ ہی خود بہک گئے پھر ہدایت کا بیج دنیا میں کہاں رہ سکتا ہے۔

وَذَرِ الَّذينَ اتَّخَذوا دينَهُم لَعِبًا وَلَهوًا وَغَرَّتهُمُ الحَيوٰةُ الدُّنيا ۚ وَذَكِّر بِهِ أَن تُبسَلَ نَفسٌ بِما كَسَبَت لَيسَ لَها مِن دونِ اللَّهِ وَلِىٌّ وَلا شَفيعٌ وَإِن تَعدِل كُلَّ عَدلٍ لا يُؤخَذ مِنها ۗ أُولٰئِكَ الَّذينَ أُبسِلوا بِما كَسَبوا ۖ لَهُم شَرابٌ مِن حَميمٍ وَعَذابٌ أَليمٌ بِما كانوا يَكفُرونَ {6:70}
اور جن لوگوں نے اپنےدین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ان سے کچھ کام نہ رکھو ہاں اس (قرآن) کے ذریعے سے نصیحت کرتے رہو تاکہ (قیامت کے دن) کوئی اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے (اس روز) الله کے سوا نہ تو کوئی اس کا دوست ہوگا اور نہ سفارش کرنے والا۔ اور اگر وہ ہر چیز (جو روئے زمین پر ہے بطور) معاوضہ دینا چاہے تو وہ اس سے قبول نہ ہو یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی اور دکھ دینے والا عذاب ہے اس لئے کہ کفر کرتے تھے
گذشتہ آیت میں خاص اس مجلس سے کنارہ کشی کا حکم تھا جہاں آیات اللہ کے متعلق طعن و استہزاء اور ناحق کے جھگڑے کئے جارہے ہوں۔ اس آیت میں ایسے لوگوں کی عام مجالست و صحبت ترک کر دینے کا ارشاد ہے۔ مگر ساتھ ہی حکم ہےکہ ان کو نصیحت کر دیا کرو۔ تاکہ وہ اپنے کئے کے انجام سے آگاہ ہو جائیں۔
یعنی اپنے اس دین کو جس کا قبول کرنا ان کے ذمہ فرض تھا اور وہ مذہب اسلام ہے۔
دنیا کی لذتوں میں مست ہو کر عاقبت کو بھلا بیٹھے۔
یعنی ایسےلوگوں کو جو تکذیب و استہزاء کی کوتوت میں پکڑے گئے ہوں نہ کوئی حمایتی ملے گا جو مدد کر کے زبردستی عذاب الہٰی سے چھڑا لے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا ہو گا جو سعی و سفارش سےکام نکال دے۔ اور نہ کسی قسم کا فدیہ اور معاوضہ قبول کیا جائے گا اگر بالفرض ایک مجرم دنیا بھر کے معاوضے دے کر چھوٹنا چاہے تو نہ چھوٹ سکے گا۔

قُل أَنَدعوا مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُنا وَلا يَضُرُّنا وَنُرَدُّ عَلىٰ أَعقابِنا بَعدَ إِذ هَدىٰنَا اللَّهُ كَالَّذِى استَهوَتهُ الشَّيٰطينُ فِى الأَرضِ حَيرانَ لَهُ أَصحٰبٌ يَدعونَهُ إِلَى الهُدَى ائتِنا ۗ قُل إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الهُدىٰ ۖ وَأُمِرنا لِنُسلِمَ لِرَبِّ العٰلَمينَ {6:71}
کہو۔ کیا ہم الله کے سوا ایسی چیز کو پکاریں جو نہ ہمارا بھلا کرسکے نہ برا۔ اور جب ہم کو الله نے سیدھا رستہ دکھا دیا تو (کیا) ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟ (پھر ہماری ایسی مثال ہو) جیسے کسی کو جنات نے جنگل میں بھلا دیا ہو (اور وہ) حیران (ہو رہا ہو) اور اس کے کچھ رفیق ہوں جو اس کو رستے کی طرف بلائیں کہ ہمارے پاس چلا آ۔ کہہ دو کہ رستہ تو وہی ہے جو الله نے بتایا ہے۔ اور ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ ہم خدائے رب العالمین کے فرمانبردار ہوں
ہم سے یہ امید مت رکھو کہ اسے چھوڑ کر ہم شیطان کی بتلائی ہوئی راہوں پر چلیں گے۔
یعنی مسلمان کی شان یہ ہے کہ گمراہوں کو نصیحت کر کے سیدھی راہ پر لائے اور جو خدا سے بھاگ کر غیر اللہ کی چوکھٹ پر سر رکھے ہوئے ہیں ان کو خدائے واحد کےسامنے سر بسجود کرنے کی فکر کرے۔ اس سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ خدا کےسوا کسی ایسی ہستی کے آگے سر جھکائے گا جس کے قبضہ میں نہ نفع ہے نہ نقصان۔ یا اہل باطل کی صحبت میں رہ کر توحید و ایمان کی صاف سڑک چھوڑ دے گا اور شرک کی بھول بھلیاں کی طرف الٹے پاؤں پھرے گا۔ اگر معاذ اللہ ایسا ہو تو اس کی مثال اس مسافر کی سی ہو گی جو اپنے راہ جاننے والے رفقاء کے ساتھ جنگل میں سفر کر رہا تھا کہ ناگاہ غول بیابانی (خبیث جنات) نے اسے بہکا کر راستہ سے الگ کر دیا۔ وہ چاروں طرف بھٹکتا پھرتا ہے اور اس کےرفقاء ازراہ خیر خواہی اسے آوازیں دے رہے ہیں کہ ادھر آؤ راستہ اس طرف ہے۔ مگر وہ حیران و مخبوط الحواس ہو کر نہ کچھ سمجھتا ہے نہ ادھر آتا ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کہ مسافر آخرت کے لئےسیدھی راہ اسلام و توحید کی ہے اور جن کی رفاقت و معیت میں یہ سفر طے ہوتا ہے وہ پیغمبر اور اس کے متبعین ہیں۔ جب یہ بدبخت شیاطین و مضلین کے پنجہ میں پھنس کر صحرائے ضلالت میں بھٹکتا پھرتا ہے اس کے ہادی اور رفقاء ازراہ ہمدردی جادۂ حق کی طرف بلا رہے ہیں مگر یہ نہ کچھ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ تو اے گروہ اشرار کیا تمہاری یہ غرض ہے کہ ہم اپنی ایسی مثال بنا لیں یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں اتری ہے جنہوں نے مسلمانوں سے ترک اسلام کی درخواست کی تھی۔

وَلا تَسُبُّوا الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدوًا بِغَيرِ عِلمٍ ۗ كَذٰلِكَ زَيَّنّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُم ثُمَّ إِلىٰ رَبِّهِم مَرجِعُهُم فَيُنَبِّئُهُم بِما كانوا يَعمَلونَ {6:108}
اور جن لوگوں کو یہ مشرک الله کے سوا پکارتے ہیں بغیر علم کے ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں الله کو بےادبی سے بے سمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں۔ اس طرح ہم نے ہر ایک فرقے کے اعمال (ان کی نظروں میں) اچھے کر دکھائے ہیں۔ پھر ان کو اپنے پروردگار ک طرف لوٹ کر جانا ہے تب وہ ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے
یعنی تم تبلیغ و نصیحت کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکے۔ اب جو کفر و شرک یہ لوگ کریں اس کے خود ذمہ دار ہیں۔ تم پر اس کی کچھ ذمہ داری نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ تم اپنی جانب سے بلاضرورت ان کے مزید کفر و تعنت کا سبب نہ بنو۔ مثلًا فرض کیجئے ان کے مذہب کی تردید یا بحث و مناظرہ کے سلسلہ میں تم غصہ ہو کر ان کے معبودوں اور مقتداؤں کو سب و شتم کرنے لگو جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ جواب میں تمہارے معبود برحق اور محترم بزرگوں کی بےادبی کریں گے اور جہالت سے انہیں گالیاں دیں گے۔ اس صورت میں اپنے واجب التعظیم معبود اور قابل احترام بزرگوں کی اہانت کا سبب تم بنے۔ لہذا اس سے ہمیشہ احتراز کرنا چاہیئے۔ کسی مذہب کے اصول و فروع کی معقول طریقہ سے غلطیاں ظاہر کرنا یا اس کی کمزوری اور رکاکت پر تحقیقی و الزامی طریقوں سے متنبہ کرنا جداگانہ چیز ہے۔ لیکن کسی قوم کے پیشواؤں اور معبودوں کی نسبت بغرض تحقیر و توہین دلخراش الفاظ نکالنا قرآن نے کسی وقت بھی جائز نہیں رکھا۔
یعنی دنیا چونکہ دارلامتحان ہے۔ اس کا نظام ہم نے ایسا رکھا ہے اور ایسے اسباب جمع کر دیئے ہیں کہ یہاں ہر قوم اپنے اعمال اور طور طریقوں پر نازاں رہتی ہے، انسانی دماغ کی ساخت ایسی نہیں بنائی کہ وہ صرف سچائی کے قبول اور پسند کرنے پر مجبور ہو غلطی کی طرف گنجائش ہی نہ رکھے۔ ہاں خدا کے یہاں جا کر جب تمام حقائق سامنے ہوں گے، پتہ چلے جائے گا کہ جو کام دنیا میں کرتے تھے وہ کیسے تھے۔

فَريقًا هَدىٰ وَفَريقًا حَقَّ عَلَيهِمُ الضَّلٰلَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيٰطينَ أَولِياءَ مِن دونِ اللَّهِ وَيَحسَبونَ أَنَّهُم مُهتَدونَ {7:30}
ایک فریق کو تو اس نے ہدایت دی اور ایک فریق پر گمراہی ثابت ہوچکی۔ ان لوگوں نے الله  کو چھوڑ کر شیطانوں کو رفیق بنا لیا اور سمجھتے (یہ) ہیں کہ ہدایت یاب ہیں
یعنی جن پر گمراہی مقرر ہو چکی، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے الله کو چھوڑ کرشیطانوں کو اپنا دوست اور رفیق ٹھہرا لیا ہے۔ اور تماشا یہ ہے کہ اس صریح گمراہی کے باوجود سمجھتے یہ ہیں کہ ہم خوب ٹھیک چل رہے ہیں اور مذہبی حیثیت سےجو روش اور طرز عمل ہم نے اختیار کر لیا ہے وہ ہی درست ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ { اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا } (کہف رکوع ۱۳) (تنبیہ) آیت کےعموم سے ظاہر ہوا کہ کافر معاند کی طرح کافر مخطی بھی جو واقع اپنی غلط فہمی سے باطل کو حق سمجھ رہا ہو { فَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْھِمُ الضَّلٰلَۃُ } میں داخل ہے، خواہ یہ غلط فہمی پوری طرح غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ہو، یا اس لئے کہ گو اس نے بظاہر پوری قوت غور و فکر میں صرف کر دی، لیکن ایسےصریح اور واضح حقائق تک نہ پہنچنا خود بتلاتا ہے کہ فی الحقیقت اس سے قوت فکر و استدلال کے استعمال میں کوتاہی ہوئی ہے۔ گویا جن چیزوں پر ایمان لانا مدار نجات ہے وہ اس قدر روشن اور واضح ہیں کہ ان کے انکار کی بجز عناد یا قصور فکر و تامل کے اور کوئی صورت نہیں۔ بہرحال کفر شرعی ایک ایسا سنکھیا(زہر) ہے جو جان بوجھ کر یا غلط فہمی سےکسی طرح بھی کھایا جائے انسان کو ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے۔ "اہل السنت والجماعت" کا مذہب یہ ہی ہے اور "روح المعانی" میں جو بعض کا اختلاف اس مسئلہ میں نقل کیا ہے، اس بعض سے مراد جاحظ و عنبری ہیں جو اہل السنت و الجماعت میں داخل نہیں بلکہ باوجود "معتزلی" کہلائے جانے کے خود معتزلی کو بھی ان کے اسلام میں کلام ہے۔ اسی لئے صاحب روح المعانی نے ان کا مذہب نقل کرنے کے بعد لکھ دیا۔ "وللہ تعالیٰ الحجۃ البالغۃ والتزام ان کل کافر معاند بعد البعثت و ظہور امر الحق کفار علی علم اھ"

فَمَن أَظلَمُ مِمَّنِ افتَرىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَو كَذَّبَ بِـٔايٰتِهِ ۚ أُولٰئِكَ يَنالُهُم نَصيبُهُم مِنَ الكِتٰبِ ۖ حَتّىٰ إِذا جاءَتهُم رُسُلُنا يَتَوَفَّونَهُم قالوا أَينَ ما كُنتُم تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ ۖ قالوا ضَلّوا عَنّا وَشَهِدوا عَلىٰ أَنفُسِهِم أَنَّهُم كانوا كٰفِرينَ {7:37}
تو اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو الله پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے۔ ان کو ان کے نصیب کا لکھا ملتا ہی رہے گا یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) جان نکالنے آئیں گے تو کہیں گے کہ جن کو تم الله کے سوا پکارا کرتے تھے وہ (اب) کہاں ہیں؟ وہ کہیں گے (معلوم نہیں) کہ وہ ہم سے (کہاں) غائب ہوگئے اور اقرار کریں گے کہ بےشک وہ کافر تھے
یعنی ان سچے پیغمبروں کی تصدیق کرنا ضروری ہے جو واقعی خدا کی آیات سناتے ہیں باقی جو شخص پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کر کےاور جھوٹی آیات بنا کر خدا پر افتراء کرے یا کسی سچے پیغمبر کو اور اس کی لائی ہوئی آیات کو جھٹلائے ان دونوں سے زیادہ ظالم کوئی نہیں۔
یعنی جب فرشتے نہایت سختی سے ان کی روح قبض کر کے برے حال سے لے جاتے ہیں تو ان سےکہتے ہیں کہ خدا کے سوا جن کو تم پکارا کرتے تھے وہ کہاں گئے جو اب تمہارےکام نہیں آتے، انہیں بلاؤ تاکہ اس مصیبت سے تمہیں چھڑائیں۔ اس وقت کفار کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہم سخت غلطی میں پڑے تھے کہ ایسی چیزوں کو معبود و مستعان بنایا جو اس کے مستحق نہ تھے۔ آج ہماری اس مصیبت میں ان کا کہیں پتہ نہیں لیکن یہ ناوقت کا اقرار و ندامت کیا نفع دے سکتا ہے۔ حکم ہو گا { ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ } الخ باقی بعض مواضع میں جو وارد ہوا ہے کہ وہ اپنے کفر وشرک سے انکار کریں گے، اس آیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ قیامت میں مواقف اور احوال مختلف ہونگے اور جماعتیں بھی بےشمار ہوں گی۔ کہیں ایک موقف یا ایک جماعت کا ذکر ہے کہیں دوسری کا۔
یعنی دنیا میں عمر و رزق وغیرہ جتنا مقدر ہے یا یہاں کی ذلت و رسوائی جو ان کے لئے لکھی ہے وہ پہنچے گی۔ پھر مرتے وقت اور مرنے کے بعد جو گت بنے گی اس کا ذکر آگے آتا ہے اور اگر { نَصِیْبُھُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ } سے دنیا کا نہیں عذاب آخروی کا حصہ مراد لیا جائے تو { حَتّٰی اِذَا جَآءَتْھُمْ } سے اس پر تنبیہ ہو گی کہ اس عذاب کے مبادی کا سلسلہ اسی دنیوی زندگی کے آخری لمحات سے شروع ہو جاتا ہے۔



إِنَّ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمثالُكُم ۖ فَادعوهُم فَليَستَجيبوا لَكُم إِن كُنتُم صٰدِقينَ {7:194}
(مشرکو) جن کو تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم ان کو پکارو اگر سچے ہو تو چاہیئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں



اتَّخَذوا أَحبارَهُم وَرُهبٰنَهُم أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ وَالمَسيحَ ابنَ مَريَمَ وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدوا إِلٰهًا وٰحِدًا ۖ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ سُبحٰنَهُ عَمّا يُشرِكونَ {9:31}
انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا رب (حاکم) بنا لیا حالانکہ اُن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے
ان کے علماء مشائخ جو کچھ اپنی طرف سے مسئلہ بنا دیتے خواہ حلال کو حرام یا حرام کو حلال کہہ دیتے اسی کو سند سمجھتے کہ بس خدا کے ہاں ہم کو چھٹکارا ہو گیا۔ کتب سماویہ سے کچھ سروکار نہ رکھا تھا محض احبار و رہبان کے احکام پر چلتے تھے ۔ اور ان کا یہ حال تھا کہ تھوڑا سا مال یا جاہی فائدہ دیکھا اور حکم شریعت کو بدل ڈالا۔ جیسا کہ دو تین آیتوں کے بعد مذکور ہے ۔ پس جو منصب خدا کا تھا (یعنی حلال و حرام کی تشریح) وہ علماء مشائخ کو دے دیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے فرمایا کہ انہوں نے عالموں اور درویشوں کو خدا ٹھہرا لیا۔ نبی کریم نے عدی بن حاتم کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اسی طرح کی تشریح فرمائی ہے اور حضرت حذیفہ سے بھی ایسا ہی منقول ہے حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "عالم کا قول عوام کو سند ہے جب تک وہ شرع سےسمجھ کر کہے ۔ جب معلوم ہو کہ خود اپنی طرف سےکہا ، یا طمع وغیرہ سے کہا ، پھرسند نہیں"۔

إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلكُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۖ يُحيۦ وَيُميتُ ۚ وَما لَكُم مِن دونِ اللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلا نَصيرٍ {9:116}
الله  ہی ہے جس کے لیے آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت ہے۔ وہی زندگانی بخشتا ہے (وہی) موت دیتا ہے اور الله کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے
جب اس کی سلطنت ہے تو اسی کا حکم چلنا چاہئے۔ وہ علم محیط اور قدرت کاملہ سے جو احکام نافذ کرے۔ بندوں کا کام ہے کہ بے خوف و خطر تعمیل کریں۔ کسی کی رو رعایت کو دخل نہ دیں۔ کیونکہ الله کے سوا کوئی کام آنے والا نہیں۔

وَيَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُم وَلا يَنفَعُهُم وَيَقولونَ هٰؤُلاءِ شُفَعٰؤُنا عِندَ اللَّهِ ۚ قُل أَتُنَبِّـٔونَ اللَّهَ بِما لا يَعلَمُ فِى السَّمٰوٰتِ وَلا فِى الأَرضِ ۚ سُبحٰنَهُ وَتَعٰلىٰ عَمّا يُشرِكونَ {10:18}
اور یہ (لوگ) الله کے سوا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ ہی سکتی ہیں اور نہ کچھ بھلا ہی کر سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ الله کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔ کہہ دو کہ کیا تم الله کو ایسی چیز بتاتے ہو جس کا وجود اسے نہ آسمانوں میں معلوم ہوتا ہے اور نہ زمین میں۔ وہ پاک ہے اور (اس کی شان) ان کے شرک کرنے سے بہت بلند ہے
یعنی بتوں کا شفیع ہونا اور شفیع کا مستحق عبادت ہونا دونوں دعوے غلط اور بے اصل ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ خدا کے علم میں وہ ہی چیز ہو گی جو واقعی ہو۔ لہذا تعلیم الہٰی کے خلاف ان غیر واقعی اور خود تراشیدہ اصول کو حق بجانب ثابت کرنا ، گویا خدا تعالیٰ کو ایسی چیزوں کے واقعی ہونے کی خبر دینا ہے جن کا وقوع آسمان و زمین میں کہیں بھی اسے معلوم نہیں۔ یعنی کہیں ان کا وجود نہیں ، ہوتا تو اس کے علم میں ضرور ہوتا۔ پھر اس سے منع کیوں کرتا۔
وہ معاملہ تو خدا اور پیغمبر کے ساتھ تھا۔ اب ان کی خدا پرستی کا حال سنئے کہ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جن کے قبضہ قدرت میں نفع و ضرر کچھ بھی نہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ بیشک بڑا خدا تو ایک ہے جس نے آسمان زمین پیدا کئے ، مگر ان اصنام (بتوں) وغیرہ کو خوش رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ سفارش کر کے بڑے خدا سے دنیا میں ہمارے اہم کام درست کرا دیں گے اور اگر موت کے بعد دوسری زندگی کا سلسلہ ہوا تو وہاں بھی ہماری سفارش کریں گے باقی چھوٹے موٹے کام جو خود ان کے حدود اختیار میں ہیں ان کا تعلق تو صرف ان ہی سے ہے۔ بناءً علیہ ہم کو ان کی عبادت کرنی چاہئے۔



أَلا إِنَّ لِلَّهِ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَمَن فِى الأَرضِ ۗ وَما يَتَّبِعُ الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ شُرَكاءَ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُصونَ {10:66}
سن رکھو کہ جو مخلوق آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے سب الله کے (بندے اور اس کے مملوک) ہیں۔ اور یہ جو الله کے سوا (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو پکارتے ہیں۔ وہ (کسی اور چیز کے) پیچھے نہیں چلتے۔ صرف ظن (خیال) کے پیچھے چلتے ہیں اور محض اٹکلیں دوڑا رہے ہیں
یعنی کل زمین و آسمان میں خدائے واحد کی سلطنت ہے۔ سب جن و انس اور فرشتے اسی کے مملوک و مخلوق ہیں۔ مشرکین کا غیر اللہ کو پکارنا اور انہیں خدائی کا حصہ دار بنانا ، محض اٹکل کے تیر اور واہی تباہی خیالات ہیں۔ ان کے ہاتھ میں نہ کوئی حقیقت ہے نہ حجت و برہان ، خالی اوہام و ظنون کی اندھیریوں میں پڑے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

قُل يٰأَيُّهَا النّاسُ إِن كُنتُم فى شَكٍّ مِن دينى فَلا أَعبُدُ الَّذينَ تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ وَلٰكِن أَعبُدُ اللَّهَ الَّذى يَتَوَفّىٰكُم ۖ وَأُمِرتُ أَن أَكونَ مِنَ المُؤمِنينَ {10:104}
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ لوگو اگر تم کو میرے دین میں کسی طرح کا شک ہو تو (سن رکھو کہ) جن لوگوں کی تم الله کے سوا عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا۔ بلکہ میں الله کی عبادت کرتا ہوں جو تمھاری روحیں قبض کرلیتا ہے اور مجھ کو یہی حکم ہوا ہے کہ ایمان لانے والوں میں ہوں

وَلا تَدعُ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُكَ وَلا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظّٰلِمينَ {10:106}
اور الله کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تمہارا کچھ بھلا کرسکے اور نہ کچھ بگاڑ سکے۔ اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں ہوجاؤ گے
یعنی اگر میرا طریقہ اور مسلک دینی تمہاری سمجھ میں نہیں آیا اس لئے اس کی نسبت شکوک و شبہات میں پھنسے ہوئے ہو تو میں تمہیں اپنے دین کا اصل اصول (جو توحید خالص ہے) سمجھائے دیتا ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ میں تمہارے ان فرضی معبودوں کی عبادت سےسخت نفور اور بیزار ہوں جس کے اختیار کرنے کا امکان بھی کبھی میری طرف سے دل میں نہ لانا۔ میری عبادت خالص اس خداوند قدوس کے لئے ہے جس کے قبضہ میں تمہاری سب کی جانیں ہیں ۔ کہ جب تک چاہے انہیں جسموں میں چھوڑے رکھے اور جب چاہے ایک دم میں کھینچ لے گویا موت و حیات کا رشتہ جس کے ہاتھ میں ہے بندگی اسی کی ہو سکتی ہے نہ صرف یہ کہ جوارح سے اس کی بندگی کی جائے ضروری ہے کہ دل میں اس کی توحید و تفرید پر پورا یقین و ایمان ہو اور ظاہر و باطن میں اسی دین حنیف پر جو ابراہیم خلیل اللہ کا دین ہے پوری ہمت اور توجہ سے مستقیم رہ کر شرک جلی و خفی کا تسمہ نہ لگا رہنے دیا جائے۔ جس طرح عبادت صرف اسی کی کریں۔ استعانت کے لئے بھی اسی کو پکاریں کیونکہ ہر قسم کا نفع نقصان اور بھلائی برائی تنہا اسی کے قبضہ میں ہے مشرکین کی طرح ایسی چیزوں کو مدد کے لئے پکارنا جو کسی نفع نقصان کے مالک نہ ہوں سخت بے موقع بات بلکہ ظلم عظیم (یعنی شرک) کا ایک شعبہ ہے۔ اگر بفرض محال نبی سے ایسی حرکت صادر ہو تو ان کی عظیم الشان شخصیت کو لحاظ کرتے ہوئے ظلم اعظم ہو گا۔



أُولٰئِكَ لَم يَكونوا مُعجِزينَ فِى الأَرضِ وَما كانَ لَهُم مِن دونِ اللَّهِ مِن أَولِياءَ ۘ يُضٰعَفُ لَهُمُ العَذابُ ۚ ما كانوا يَستَطيعونَ السَّمعَ وَما كانوا يُبصِرونَ {11:20}
یہ لوگ زمین میں (کہیں بھاگ کر الله کو) نہیں ہرا سکتے اور نہ الله کے سوا کوئی ان کا حمایتی ہے۔ (اے پیغمبر) ان کو دگنا عذاب دیا جائے گا کیونکہ یہ (شدت کفر سے تمہاری بات) نہیں سن سکتے تھے اور نہ (تم کو) دیکھ سکتے تھے
یعنی اتنی وسیع زمین میں نہ کہیں بھاگ کر خدا سے چھپ سکتے ہیں اور نہ کوئی مددگار اور حمایتی مل سکتا ہے جو خدا کے عذاب سے بچا دے۔
یعنی دنیا میں ایسے اندھے بہرے بنے کہ نہ حق بات سننے کی تاب تھی نہ خدا کے نشانوں کو دیکھتے تھےجنہیں دیکھ کر ممکن تھا راہ ہدایت پالیتے۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے اس کا مطلب یہ لیا ہےکہ اللہ پر جھوٹ بولا ، بے اصل اور غلط باتیں اس کی طرف منسوب کیں۔ کہاں سے لائے ؟ غیب سے سن نہ آتے تھے ، غیب کو دیکھتے نہ تھے پھر ان کا ماخذ کیا ہے۔
کیونکہ خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو گمراہ کیا۔

وَما ظَلَمنٰهُم وَلٰكِن ظَلَموا أَنفُسَهُم ۖ فَما أَغنَت عَنهُم ءالِهَتُهُمُ الَّتى يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ مِن شَيءٍ لَمّا جاءَ أَمرُ رَبِّكَ ۖ وَما زادوهُم غَيرَ تَتبيبٍ {11:101}
اور ہم نے ان لوگوں پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اُوپر ظلم کیا۔ غرض جب تمہارے پروردگار کا حکم آپہنچا تو جن معبودوں کو وہ الله کے سوا پکارا کرتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے۔ اور تباہ کرنے کے سوا ان کے حق میں اور کچھ نہ کرسکے
باطل معبود کام کیا آتے ؟ الٹے ہلاکت کا سبب بنے ۔ جب انہیں نفع و ضرر کا مالک سمجھا ، امیدیں قائم کیں، چڑھاوے چڑھائے ۔ تعظیم اور ڈنڈوت کی ، تو یہ روز بد دیکھنا پڑا۔ تکذیب انبیاء وغیرہ کا جو عذاب ہوتا ، شرک و بت پرستی کا عذاب اس پر مزید رہا۔
یعنی خدا نے کسی کو بے قصور نہیں پکڑا جو ظلم کا وہم ہو سکے ، جب وہ جرائم کے ارتکاب میں حد سے نکل گئے اور اس طرح اپنے کو کھلم کھلا سزا کا مستحق ٹھہرا دیا تب خدا کا عذاب آیا۔ پھر دیکھ لو جن معبودوں (دیوتاؤں) کا انہیں بڑا سہارا تھا اور جن سے بڑی بڑی توقعات قائم کر رکھی تھیں وہ ایسی سخت مصیبت کے وقت کچھ بھی کام نہ آئے۔

وَلا تَركَنوا إِلَى الَّذينَ ظَلَموا فَتَمَسَّكُمُ النّارُ وَما لَكُم مِن دونِ اللَّهِ مِن أَولِياءَ ثُمَّ لا تُنصَرونَ {11:113}
اور جو لوگ ظالم ہیں، ان کی طرف مائل نہ ہونا، نہیں تو تمہیں (دوزخ کی) آگ آلپٹے گی اور الله کے سوا تمہارے اور دوست نہیں ہیں۔ اگر تم ظالموں کی طرف مائل ہوگئے تو پھر تم کو (کہیں سے) مدد نہ مل سکے گی
پہلے { لَا تَطْغَوْا } میں حد سے نکلنے کو منع کیا تھا ۔ اب بتلاتے ہیں کہ جو لوگ ظالم (حد سے نکلنے والے) ہیں، ان کی طرف تمہارا ذرا سا میلان اور جھکاؤ بھی نہ ہو۔ ان کی موالات ، مصاحبت ، تعظیم و تکریم ، مدح و ثنا ، ظاہری تشبہ ، اشتراک عمل ہر بات سے حسب مقدور محترز رہو، مبادا آگ کی لپٹ تم کو نہ لگ جائے۔ پھر نہ خدا کے سواء تم کو کوئی مددگار ملے گا اور نہ خدا کی طرف سے کچھ مدد پہنچے گی۔

وَالَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ لا يَخلُقونَ شَيـًٔا وَهُم يُخلَقونَ {16:20}
اور جن لوگوں کو یہ الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی تو نہیں بناسکتے بلکہ خود ان کو اور بناتے ہیں
خدا تو وہ ہے جس کے عظیم الشان اور غیر محصور انعامات کا اوپر تذکرہ ہوا۔ اب مشرکین کی حماقت ملاحظہ ہو کہ ایسے عالم الکل اور خدا کا شریک ان چیزوں کو ٹھہرا دیا۔ جو ایک گھاس کا تنکا پیدا نہیں کر سکتیں ، بلکہ خود ان کا وجود بھی خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔

وَيَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَملِكُ لَهُم رِزقًا مِنَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ شَيـًٔا وَلا يَستَطيعونَ {16:73}
اور الله کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جو ان کو آسمانوں اور زمین میں روزی دینے کا ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ کسی اور طرح کا مقدور رکھتے ہیں
یعنی نہ آسمان سے مینہ برسانے کا خدائی اختیار رکھتے ہیں نہ زمین سے غلہ اگانے کا ۔ پھر قادر مطلق کے شریک معبودیت میں کس طرح بن گئے ؟۔
یعنی نہ فی الحال اختیار حاصل ہے نہ آئندہ حاصل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔

وَلَم تَكُن لَهُ فِئَةٌ يَنصُرونَهُ مِن دونِ اللَّهِ وَما كانَ مُنتَصِرًا {18:43}
(اس وقت) الله کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوئی اور نہ وہ بدلہ لے سکا
یعنی نہ جتھا کام آیا ، نہ اولاد ، نہ فرضی معبود جنہیں خدائی کا شریک ٹھہرا رکھا تھا۔ اور نہ خود اپنی ذات میں اتنی طاقت تھی کہ خدا کے عذاب کو روک دیتا یا بدلہ لے سکتا۔

وَأَعتَزِلُكُم وَما تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ وَأَدعوا رَبّى عَسىٰ أَلّا أَكونَ بِدُعاءِ رَبّى شَقِيًّا {19:48}
اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ الله کے سوا پکارا کرتے ہیں ان سے کنارہ کرتا ہوں اور اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا۔ امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا
یعنی میری نصیحت کا جب کوئی اثر تم پر نہیں ، بلکہ الٹا مجھے دھمکیاں دیتے ہو ، تو اب میں خود تمہاری بستی میں رہنا نہیں چاہتا ۔ تم کو اور تمہارے جھوٹے معبودوں کو چھوڑ کر وطن سے ہجرت کرتا ہوں تاکہ یکسو ہو کر اطمینان سے خدائے واحد کی عبادت کر سکوں حق تعالیٰ کے فضل و رحمت سے کامل امید ہے کہ اس کی بندگی کر کے میں محروم و ناکام نہیں رہوں گا ۔ غربت و بےکسی میں جب اس کو پکاروں گا ، ادھر سے ضرور اجابت ہو گی ۔ میرا خدا پتھر کی مورتی نہیں کہ کتنا ہی چیخو چلاؤ سن ہی نہ سکے۔

فَلَمَّا اعتَزَلَهُم وَما يَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ وَهَبنا لَهُ إِسحٰقَ وَيَعقوبَ ۖ وَكُلًّا جَعَلنا نَبِيًّا {19:49}
اور جب ابراہیم ان لوگوں سے اور جن کی وہ الله کے سوا پرستش کرتے تھے اُن سے الگ ہوگئے تو ہم نے ان کو اسحاق اور (اسحاق کو) یعقوب بخشے۔ اور سب کو پیغمبر بنایا
یعنی اللہ کی راہ میں ہجرت کی اور اپنوں سے دور پڑے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے بہتر اپنے دیے تاکہ غریب الوطنی کی وحشت دور ہو اور انس و سکون حاصل کریں۔ شاید حضرت اسمٰعیل کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ وہ ان کے پاس نہیں رہے بچپن ہی میں جدا کر دیے گئے تھے۔ نیز ان کا مستقل تذکرہ آگے آنے والا ہے (تنبیہ) حضرت اسحاقؑ حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے اور حضرت یعقوبؑ حضرت اسحٰقؑ کے بیٹے ہیں۔ ان ہی سے سلسلہ بنی اسرائیل کا چلا ۔ جن میں سینکڑوں نبی ہوئے۔

وَاتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ ءالِهَةً لِيَكونوا لَهُم عِزًّا {19:81}
اور ان لوگوں نے الله کے سوا اور معبود بنالئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے (موجب عزت و) مدد ہوں
یعنی مال و اولاد سے بڑھ کر اپنے جھوٹے معبودوں کی مدد کے امیدوار ہیں کہ وہ ان کو خدا کے ہاں بڑے بڑے درجے دلائیں گے ۔ حالانکہ ہر گز ایسا ہونے والا نہیں ۔ محض سودائے خام ہے جو اپنے دماغوں میں پکا رہے ہیں۔

قالَ أَفَتَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُكُم شَيـًٔا وَلا يَضُرُّكُم {21:66}
(ابراہیم نے) کہا پھر تم الله کو چھوڑ کر کیوں ایسی چیزوں کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ فائدہ دے سکیں اور نقصان پہنچا سکیں؟

أُفٍّ لَكُم وَلِما تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ ۖ أَفَلا تَعقِلونَ {21:67}
تف ہے تم پر اور جن کو تم الله کے سوا پوجتے ہو ان پر بھی کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
یعنی پھر تم کو ڈوب مرنا چاہئے کہ جو مورتی ایک لفط نہ بول سکے، کسی آڑے وقت کام نہ آ سکے، ذرہ برابر نفع و نقصان اس کے اختیار میں نہ ہو ، اسے خدائی کا درجہ دے رکھا ہے ، کیا اتنی موٹی بات بھی تم نہیں سمجھ سکتے۔



إِنَّكُم وَما تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُم لَها وٰرِدونَ {21:98}
(کافرو اس روز) تم اور جن کی تم الله کے سوا عبادت کرتے ہو دوزخ کا ایندھن ہوں گے۔ اور تم سب اس میں داخل ہو کر رہو گے
یہ خطاب مشرکین مکہ کو ہے جو بت پوجتے تھے ، یعنی تم اور تمہارے یہ معبود سب دوزخ کا ایندھن بنیں گے { وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃً } (بقرہ رکوع۳) اس کے معنی یہ نہیں کہ اصنام (بت) معذب ہوں گے۔ بلکہ غرض یہ ہے کہ بت پرستوں پر حجت زیادہ لازم ہو ۔ جیسا کہ آگے فرمایا۔ { لَوْ کَانَ ھٰٓؤُ لَاءِٓ اٰلِھَۃً مَاوَرَدُوْھَا } اور ان کی حسرت بڑھے اور حماقت زیادہ واضح ہو کہ جن سے خیر کی توقع رکھتے تھے وہ آج خود اپنے کو نہ بچا سکے پھر ہماری حفاظت کیا کر سکتے ہیں۔ (تنبیہ) { وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ } سے مراد یہاں صرف اصنام ہیں۔ کیونکہ خطاب ان ہی کے پرستاروں سے ہے۔ لیکن اگر ''مَا'' کو عام رکھا جائے تو ''بشرط عدم المانع'' کی قید معتبر ہو گی۔ یعنی جن فرضی معبودوں میں کوئی مانع دخول نار سے نہ ہو وہ اپنے عابدین کے ساتھ دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے ۔ مثلًا شیاطین و اصنام۔ باقی حضرت مسیحؑ و عزیرؑ اور ملائکۃ اللہ جن کو بہت لوگوں نے معبود ٹھہرا لیا ہے۔ ان حضرات کی مقبولیت و وجاہت مانع ہے کہ (معاذ اللہ) اس عموم میں شامل رکھے جائیں ۔ اسی لئے آگے تصریحًا فرما دیا { اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِنَّا الْحُسْنٰی اُولٰٓئِکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ }۔

يَدعوا مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُ وَما لا يَنفَعُهُ ۚ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ البَعيدُ {22:12}
یہ الله کے سوا ایسی چیز کو پکارتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچائے اور نہ فائدہ دے سکے۔ یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے
یعنی خدا کی بندگی چھوڑی دنیا کی بھلائی نہ ملنے کی وجہ سے ۔ اب پکارتا ہے ان چیزوں کو جن کے اختیار میں نہ ذرہ برابر بھلائی ہے نہ برائی ۔ کیا خدا نے جو چیز نہیں دی تھی وہ پتھروں سے حاصل کرے گا ؟ اس سے بڑھ کر حماقت کیا ہو گی۔

وَيَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ ما لَم يُنَزِّل بِهِ سُلطٰنًا وَما لَيسَ لَهُم بِهِ عِلمٌ ۗ وَما لِلظّٰلِمينَ مِن نَصيرٍ {22:71}
اور (یہ لوگ) الله کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی اس نے کوئی سند نازل نہیں فرمائی اور نہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے۔ اور ظالموں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوگا
سب سے بڑا ظلم اور بے انصافی یہ ہے کہ خدا کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے ۔ سو ایسے ظالم اور بے انصاف لوگ خوب یاد رکھیں کہ ان کے شرکاء مصیبت پڑنے پر کچھ کام نہ آئیں گے نہ اور کوئی اس وقت مدد کر سکے گا۔
محض باپ دادوں کی کورانہ تقلید میں ایسا کرتے ہیں، کوئی نقلی یا عقلی دلیل نہیں رکھتے۔

يٰأَيُّهَا النّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاستَمِعوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ لَن يَخلُقوا ذُبابًا وَلَوِ اجتَمَعوا لَهُ ۖ وَإِن يَسلُبهُمُ الذُّبابُ شَيـًٔا لا يَستَنقِذوهُ مِنهُ ۚ ضَعُفَ الطّالِبُ وَالمَطلوبُ {22:73}
لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
یعنی مکھی بہت ہی ادنیٰ اور حقیر جانور ہے۔ جن چیزوں میں اتنی بھی قدرت نہیں کہ سب مل کر ایک مکھی پیدا کر دیں، یا مکھی ان کے چڑھاوے وغیرہ میں سے کوئی چیز لیجائے تو اس سے واپس لے سکیں ان کو "خالق السماوات و الارضین" کے ساتھ معبودیت اور خدائی کی کرسی پر بٹھا دینا کس قدر بے حیائی حماقت اور شرمناک گستاخی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مکھی بھی کمزور اور بتوں سے بڑھ کر ان کا پوجنے والا کمزور ہے جس نے ایسی حقیر اور کمزور چیز کو اپنا معبود و حاجت روا بنا لیا۔
یہ توحید کے مقابلہ میں شرک کی شناعت و قبح ظاہر کرنے کے لئے مثال بیان فرمائی جسے کان لگا کر سننا اور غوروفکر سے سمجھنا چاہئے۔ تا ایسی رکیک و ذلیل حرکت سے باز رہو۔



وَيَومَ يَحشُرُهُم وَما يَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ فَيَقولُ ءَأَنتُم أَضلَلتُم عِبادى هٰؤُلاءِ أَم هُم ضَلُّوا السَّبيلَ {25:17}
اور جس دن (الله ) ان کو اور اُن کو جنہیں یہ الله کے سوا پوجتے ہیں جمع کرے گا تو فرمائے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود گمراہ ہوگئے تھے
یعنی عابدین کو سنا کر معبودوں (نبی سے {5:116}یا ولی) سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے ان کو شرک کی اور اپنی پرستش کرانے کی ترغیب دی تھی یا یہ خود اپنی حماقت و جہالت اور غفلت و بے توجہی سے گمراہ ہوئے۔

وَيَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُهُم وَلا يَضُرُّهُم ۗ وَكانَ الكافِرُ عَلىٰ رَبِّهِ ظَهيرًا {25:55}
اور یہ لوگ الله کو چھوڑ کر ایسی چیز کی پرستش کر تے ہیں جو نہ ان کو فائدہ پہنچا سکے اور نہ ضرر۔ اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زور مارتا ہے
دیکھ لو! کس طرح اپنی قدرت کاملہ سے ایک قطرہ آب کو عاقل و کامل آدمی بنا دیا۔ پھر آگے اس سے نسلیں چلائیں اور دامادی اور سسرال کے تعلقات قائم کئے۔ ایک ناچیز قطرہ کو کیا سے کیا کر دیا۔ اور کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ لیکن یہ حضرت تھوڑی ہی دیر میں اپنی اصل کو بھول گئے اور اس رب قدیر کو چھوڑ کر عاجز مخلوق کو خدا کہنے لگے۔ اپنے پروردگار کا حق تو کیا پہچانتے اس سے منہ موڑ کر اور پیٹھ پھیر کر شیطان کی فوج میں جا شامل ہوئے۔ تا اغواء و اضلال کے مشن میں اس کی مدد کریں اور مخلوق کو گمراہ کرنے میں اس کا ہاتھ بٹائیں۔ نعوذ باللہ میں شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا۔

مِن دونِ اللَّهِ هَل يَنصُرونَكُم أَو يَنتَصِرونَ {26:93}
یعنی جن کو الله کے سوا (پوجتے تھے) کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا خود بدلہ لے سکتے ہیں
یعنی اب وہ فرضی معبود کہاں گئے، کہ نہ تمہاری مدد کر کے اس عذاب سے چھڑا سکتے ہیں نہ بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ خود اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے۔

وَجَدتُها وَقَومَها يَسجُدونَ لِلشَّمسِ مِن دونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيطٰنُ أَعمٰلَهُم فَصَدَّهُم عَنِ السَّبيلِ فَهُم لا يَهتَدونَ {27:24}
میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم الله کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آئے
یعنی وہ قوم مشرک آفتاب پرست ہے شیطان نے ان کی راہ مار دی، اور مشرکانہ رسوم و اطوار کو ان کی نظر میں خوبصورت بنا دیا۔ اسی لئے وہ راہ ہدایت نہیں پاتے۔ ہدہد نے یہ کہہ کر گویا سلیمانؑ کو اس قوم پر جہاد کرنے کی ترغیب دی۔

وَصَدَّها ما كانَت تَعبُدُ مِن دونِ اللَّهِ ۖ إِنَّها كانَت مِن قَومٍ كٰفِرينَ {27:43}
اور وہ جو الله کے سوا (اور کی) پرستش کرتی تھی، سلیمان نے اس کو اس سے منع کیا (اس سے پہلے تو) وہ کافروں میں سے تھی
یعنی حق تعالیٰ یا سلیمانؑ نے حق تعالیٰ کے حکم سے ملکہ بلقیس کو آفتاب وغیرہ کی پرستش سے روک دیا۔ جس میں وہ بمعیت اپنی قوم کے مبتلا تھی۔ یا یہ مطلب ہے کہ سلیمانؑ کی خدمت میں حاضر ہونے تک جو علانیہ اسلام کا اظہار نہیں کیا اس کا سبب یہ ہے کہ جھوٹے معبودوں کے خیال اور قوم کفار کی تقلید و صحبت نے اس کو ایسا کرنے سے روک رکھا تھا نبی کی صحبت میں پہنچ کر وہ روک جاتی رہی۔ ورنہ سلیمانؑ کی صداقت کا اجمالی علم اس کو پہلے ہی ہو چکا تھا۔



فَخَسَفنا بِهِ وَبِدارِهِ الأَرضَ فَما كانَ لَهُ مِن فِئَةٍ يَنصُرونَهُ مِن دونِ اللَّهِ وَما كانَ مِنَ المُنتَصِرينَ {28:81}
پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو الله کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی۔ اور نہ وہ بدلہ لے سکا
یعنی نہ کوئی دوسرا اپنی طرف سے مدد کو پہنچا، نہ یہ کسی کو بلا سکا۔ نہ اپنی ہی قوت کام آئی نہ دوسروں کی۔

إِنَّما تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ أَوثٰنًا وَتَخلُقونَ إِفكًا ۚ إِنَّ الَّذينَ تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ لا يَملِكونَ لَكُم رِزقًا فَابتَغوا عِندَ اللَّهِ الرِّزقَ وَاعبُدوهُ وَاشكُروا لَهُ ۖ إِلَيهِ تُرجَعونَ {29:17}
تو تم الله کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے اور طوفان باندھتے ہو تو جن لوگوں کو تم الله کے سوا پوجتے ہو وہ تم کو رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے پس الله ہی کے ہاں سے رزق طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "اکثر خلق روزی کے پیچھے ایمان دیتی ہے۔ سو جان رکھو کہ اللہ کے سوا روزی کوئی نہیں دیتا وہ ہی دیتا ہے اپنی خوشی کے موافق"۔ لہذا اس کے شکر گذار بنو اور اسی کی بندگی کرو۔ وہیں تم کو لوٹ کر جانا ہے، آخر اس وقت کیا منہ دکھاؤ گے۔
یعنی جھوٹے عقیدے تراشتے ہو اور جھوٹے خیالات و اوہام کی پیروی کرتے ہو، چنانچہ اپنے ہاتھوں سے یہ بت بنا کر کھڑے کر لئے ہیں جنہیں جھوٹ موٹ خدا کہنے لگے۔

وَما أَنتُم بِمُعجِزينَ فِى الأَرضِ وَلا فِى السَّماءِ ۖ وَما لَكُم مِن دونِ اللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلا نَصيرٍ {29:22}
اور تم (اُس کو) نہ زمین میں عاجز کرسکتے ہو نہ آسمان میں اور نہ الله کے سوا تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مددگار
یعنی جس کو اللہ تعالیٰ سزا دینا چاہے وہ زمین کے سوراخوں میں گھس کر سزا سے بچ سکتا ہے نہ آسمان میں اڑ کر ، کوئی بلندی یا پستی خدا کے مجرم کو پنادہ نہیں دے سکتی نہ کوئی طاقت اسکی حمایت اور مدد کو پہنچ سکتی ہے۔

وَقالَ إِنَّمَا اتَّخَذتُم مِن دونِ اللَّهِ أَوثٰنًا مَوَدَّةَ بَينِكُم فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا ۖ ثُمَّ يَومَ القِيٰمَةِ يَكفُرُ بَعضُكُم بِبَعضٍ وَيَلعَنُ بَعضُكُم بَعضًا وَمَأوىٰكُمُ النّارُ وَما لَكُم مِن نٰصِرينَ {29:25}
اور ابراہیم نے کہا کہ تم جو الله کو چھوڑ کر بتوں کو لے بیٹھے ہو تو دنیا کی زندگی میں باہم دوستی کے لئے (مگر) پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے (کی دوستی) سے انکار کر دو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے اور تمہارا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہوگا
یعنی آگ سے نکل کر پھر نصیحت شروع کر دی۔
یعنی بت پرستی کو کون عقلمند جائز رکھ سکتا ہے، بت پرست بھی دل میں جانتے ہیں کہ یہ نہایت مہمل حرکت ہے۔ مگر شیرازہ قومی کو جمع رکھنے کے لیے ایک مذہب ٹھہرا لیا ہے کہ اس کے نام پر تمام قوم متحد و متفق رہے اور ایک دوسرے کے دوست بنے رہیں جیسا کہ آج کل ہم یورپ کی عیسائی قوموں کا حال دیکھتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ بت پرستی کا شیوع و رواج اس بناء پر نہیں ہوا کہ وہ کوئی معقول چیز ہے بلکہ اندھی تقلید، قومی مروت و لحاظ اور تعلقات باہمی کا دباؤ اس کا بڑا سبب ہے یا یہ غرض ہو کہ بت پرستی کی اصل جڑ آپس کی محبت اور دوستی تھی۔ ایک قوم میں کچھ نیک آدمی جنہیں لوگ محبوب رکھتے تھے انتقال کر گئے، لوگوں نے جوش محبت میں ان کی تصویریں بنا کر بطور یادگار رکھ لیں پھر تصویروں کی تعظیم کرنے لگے وہی تعظیم بڑھتے بڑھتے عبادت بن گئ۔ یہ سب احتمالات آیت میں مفسرین نے بیان کئے ہیں۔ اور ممکن ہے { مَوَدَّۃَ بَیْنَکُمْ } سے بت پرستوں کی اپنے بتوں سے جو محبت ہے وہ مراد ہو جیسا کہ دوسری جگہ { اَنْدَادًا یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللہِ } فرمایا۔ واللہ اعلم۔
یعنی یہ سب دوستیاں اور محبتیں چند روزہ ہیں۔ قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن بنو گے اور بعض بعض کو لعنت کرو گے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی وہ شیطان جن کے نام کے تھان ہیں اللہ کے روبرو منکر ہوں گے کہ ہم نے نہیں کہا کہ ہم کو پوجو۔ تب یہ پوجنے والے ان کو لعنت کریں گے کہ ہماری نذر ونیاز لے کر وقت پر پھر گئے"۔ (موضح)۔
جو دوزخ کی آگ سے تم کو بچا لے، جیسے میرے پروردگار نے تمہاری آگ سے مجھ کو بچا لیا۔

مَثَلُ الَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ أَولِياءَ كَمَثَلِ العَنكَبوتِ اتَّخَذَت بَيتًا ۖ وَإِنَّ أَوهَنَ البُيوتِ لَبَيتُ العَنكَبوتِ ۖ لَو كانوا يَعلَمونَ {29:41}
جن لوگوں نے الله -کے سوا (اوروں کو) کارساز بنا رکھا ہے اُن کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک (طرح کا) گھر بناتی ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہے کاش یہ (اس بات کو) جانتے
یعنی گھر اس واسطے ہے کہ جان و مال کا بچاؤ ہو، نہ مکڑی کا جالا کہ دامن کے جھٹکے سے ٹوٹ پڑے۔ یہ ہی مثال اس کی ہے جو اللہ کے سوا کسی کو اپنا بچانے والا اور محافظ سمجھے، بدون مشیت الہٰی کچھ بچاؤ نہیں کر سکتے۔



قُل مَن ذَا الَّذى يَعصِمُكُم مِنَ اللَّهِ إِن أَرادَ بِكُم سوءًا أَو أَرادَ بِكُم رَحمَةً ۚ وَلا يَجِدونَ لَهُم مِن دونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلا نَصيرًا {33:17}
کہہ دو کہ اگر الله تمہارے ساتھ برائی کا ارادہ کرے تو کون تم کو اس سے بچا سکتا ہے یا اگر تم پر مہربانی کرنی چاہے تو (کون اس کو ہٹا سکتا ہے) اور یہ لوگ الله کے سوا کسی کو نہ اپنا دوست پائیں گے اور نہ مددگار
یعنی عرب کی مخالفت سے ڈرتے ہو، اگر اللہ حکم دے تو مسلمان اب تم کو قتل کر ڈالیں۔
یعنی اللہ کے ارادے کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ نہ کوئی تدبیر اور حیلہ اس کے مقابلہ میں کام دے سکتا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ اسی پر توکل کرے اور ہر حالت میں اسی کی مرضی کا طلبگار رہے۔ ورنہ دنیا کی برائی بھلائی یا سختی نرمی تو یقینًا پہنچ کر رہے گی۔ پھر اس کے راستہ میں بزدلی کیوں دکھائے اور وقت پر جان کیوں چرائے جو عاقبت خراب ہو اور دنیا کی تکلیف ہٹ نہ سکے۔



قُلِ ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِ اللَّهِ ۖ لا يَملِكونَ مِثقالَ ذَرَّةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَلا فِى الأَرضِ وَما لَهُم فيهِما مِن شِركٍ وَما لَهُ مِنهُم مِن ظَهيرٍ {34:22}
کہہ دو کہ جن کو تم الله کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ۔ وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ان میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے
یہاں سے مشرکین مکہ کو خطاب ہے جنکی تنبیہ کے لئے "سبا" کا قصہ سنایا تھا۔ یعنی اللہ کے سوا جن چیزوں پر تم کو خدائی گمان ہے ذرا کسی آڑے وقت میں ان کو پکارو تو سہی دیکھیں وہ کیا کام آتے ہیں؟

قُل أَرَءَيتُم شُرَكاءَكُمُ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ أَرونى ماذا خَلَقوا مِنَ الأَرضِ أَم لَهُم شِركٌ فِى السَّمٰوٰتِ أَم ءاتَينٰهُم كِتٰبًا فَهُم عَلىٰ بَيِّنَتٍ مِنهُ ۚ بَل إِن يَعِدُ الظّٰلِمونَ بَعضُهُم بَعضًا إِلّا غُرورًا {35:40}
بھلا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا جن کو تم الله کے سوا پکارتے ہو۔ مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین سے کون سی چیز پیدا کی ہے یا (بتاؤ کہ) آسمانوں میں ان کی شرکت ہے۔ یا ہم نے ان کو کتاب دی ہے تو وہ اس کی سند رکھتے ہیں (ان میں سے کوئی بات بھی نہیں) بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے
یعنی عقلی نہیں تو کوئی معتبر نقلی دلیل پیش کرو۔ جس کی سند پر یہ مشرکانہ دعویٰ کرتے ہو۔
یعنی اپنے معبودوں کے احوال میں غور کر کے مجھے بتلاؤ کہ زمین کاکونسا حصہ انہوں نے بنایا، یا آسمانوں کے بنانے اور تھامنے میں ان کی کس قدر شرکت ہے۔ اگر کچھ نہیں تو آخر خدا کس طرح بن بیٹھے۔ کچھ تو عقل سے کام لو۔
یعنی عقلی یا نقلی دلیل کوئی نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان میں سے بڑے چھوٹوں کو اور اگلے پچھلوں کو شیطان کے اغواء سے یہ وعدہ بتلاتے چلے آئے کہ { ھٰؤلاءِ شُفَعَاءُ نَا عِنْدَاللہِ } (یہ بت وغیرہ اللہ کے ہاں ہمارے شفیع بنیں گے) اور اس کا قرب عطا کریں گے۔ حالانکہ یہ خالص دھوکا اور فریب ہے۔ یہ تو کیا شفیع بنتے، بڑے سے بڑا مقرب بھی وہاں کفار کی سفارش میں زبان نہیں ہلا سکتا۔

وَاتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ ءالِهَةً لَعَلَّهُم يُنصَرونَ {36:74}
اور انہوں نے الله کے سوا (اور) معبود بنا لیے ہیں کہ شاید (ان سے) ان کو مدد پہنچے



أَئِفكًا ءالِهَةً دونَ اللَّهِ تُريدونَ {37:86}
کیوں جھوٹ (بنا کر) الله کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو؟
یعنی یہ آخر پتھر کی مورتیاں چیز کیا ہیں جنہیں تم اس قدر چاہتے ہو کہ اللہ کو چھوڑ کر ان کے پیچھے ہو لیے۔ کیا سچ مچ ان کے ہاتھ میں جہان کی حکومت ہے؟ یا کسی چھوٹے بڑے نقصان کے مالک ہیں؟ آخر سچے مالک کو چھوڑ کر ان جھوٹے حاکموں کی اتنی خوشامد اور حمایت کیوں ہے؟

وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُل أَفَرَءَيتُم ما تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ إِن أَرادَنِىَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَل هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهِ أَو أَرادَنى بِرَحمَةٍ هَل هُنَّ مُمسِكٰتُ رَحمَتِهِ ۚ قُل حَسبِىَ اللَّهُ ۖ عَلَيهِ يَتَوَكَّلُ المُتَوَكِّلونَ {39:38}
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں کہ الله نے۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم الله کے سوا پکارتے ہو۔ اگر الله مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے الله ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں
یعنی ایک طرف تو خداوند قدوس جو تمہارے اقرار کے موافق تمام زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور دوسری طرف پتھر کی بیجان مورتیں یا عاجز مخلوق جو سب ملکر بھی خدا کی بھیجی ہوئی ادنٰی سے ادنٰی تکلیف و راحت کو اس کی جگہ سے نہ ہٹا سکے۔ تم ہی بتاؤ دونوں میں سے کس پر بھروسہ کیا جائے اور کس کو اپنی مدد کے لئے کافی سمجھا جائے حضرت ہودؑ کی قوم نے بھی کہا تھا۔{ اِنْ نَقُوْلُ اِلَّا اعْتَرَاکَ بَعْضُ اٰلِھَتِنَا بَسُوْءٍ } جس کا جواب حضرت ہودؑ نے یہ دیا { اَنِّی اُشْھِدُ اللہَ وَاشْھَدُ وْا اَنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ فَکِیْدُ وْنی جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تنظرون اَنِّیْ تَوَکلّتُ عَلَی اللہِ رَبِّی وَرَبِّکُمْ مَا مِنْ دَابَّۃٍ الا ھُوَ اٰ خِذٌ بِناصِیَتِھَا اِنَّ رَبِّی عَلٰی صَراطٍ مُسْتقیم } (ہود رکوع ۵) اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا { وَلَا اَخَافُ مَا تُشْرِکُوْنَ بِہٖ اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ رَبِّی شَیْئًا وَسِعَ رَبِّی کلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۔ اَفَلَا تتذکَّرُوْنَ وَکَیْفَ اَخَافُ مَا اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکتم بِاللہِ مَالَمْ یُنزِّل بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا فَاَیُّ الفَریْقیْنِ اَحقُّ بِالاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ } (انعام رکوع۹)

أَمِ اتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ شُفَعاءَ ۚ قُل أَوَلَو كانوا لا يَملِكونَ شَيـًٔا وَلا يَعقِلونَ {39:43}
کیا انہوں نے الله کے سوا اور سفارشی بنالئے ہیں۔ کہو کہ خواہ وہ کسی چیز کا بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ (کچھ) سمجھتے ہی ہوں
یعنی بتوں کی نسبت مشرکین دعویٰ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں ان کے سفارشی ہیں ۔ ان ہی کی سفارش سے کام بنتے ہیں۔ اسی لئے انکی عبادت کی جاتی ہے۔ سو اول تو شفیع ہونے سے معبود ہونا لازم نہیں آتا۔ دوسرے شفیع بھی وہ بن سکتا ہے جسے اللہ کی طرف سے شفاعت کی اجازت ہو اور صرف اس کے حق میں شفاعت کر سکتا ہے جس کو خدا پسند کرے۔ خلاصہ یہ کہ شفیع کا مأذون ہونا اور مشفوع کا مرتضٰی ہونا ضروری ہے۔ یہاں دونوں باتیں نہیں ۔ نہ اصنام (بتوں) کا ماذون ہونا ثابت ہے نہ کفار کا مرتضٰی ہونا۔ لہذا ان کا دعویٰ غلط ہوا۔
یعنی بتوں کو نہ اختیار ہے نہ سمجھ، پھر انکو شفیع ماننا عجیب ہے۔

قُل إِنّى نُهيتُ أَن أَعبُدَ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ لَمّا جاءَنِىَ البَيِّنٰتُ مِن رَبّى وَأُمِرتُ أَن أُسلِمَ لِرَبِّ العٰلَمينَ {40:66}
(اے محمد ان سے) کہہ دو کہ مجھے اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ جن کو تم الله کے سوا پکارتے ہو ان کی پرستش کروں (اور میں ان کی کیونکر پرستش کروں) جب کہ میرے پاس میرے پروردگار (کی طرف) سے کھلی دلیلیں آچکی ہیں اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ پروردگار عالم ہی کا تابع فرمان ہوں
یعنی کھلے کھلے نشانات دیکھنے کے بعد کیا حق ہے کہ کوئی خدائے واحد کے سامنے سر عبودیت نہ جھکائے اور خالص اسی کا تابع فرمان نہ ہو۔

مِن دونِ اللَّهِ ۖ قالوا ضَلّوا عَنّا بَل لَم نَكُن نَدعوا مِن قَبلُ شَيـًٔا ۚ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الكٰفِرينَ {40:74}
(یعنی غیر الله) کہیں گے وہ تو ہم سے جاتے رہے بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کو پکارتے ہی نہیں تھے۔ اسی طرح الله کافروں کو گمراہ کرتا ہے
یعنی جس طرح یہاں انکار کرتے کرتے بچل گئے اور گھبرا کر اقرار کر لیا۔ یہ ہی حال ان کافروں کا دنیا میں تھا۔
یعنی ہم سے گئے گذرے ہوئے۔ شاید اس وقت عابدین اور معبودین الگ الگ کر دیے جائیں گے یا { ضَلُّوْا عَنَّا } کا مطلب یہ ہو کہ گو موجود ہیں، مگر جب ان سےکوئی فائدہ نہیں تو ہوئے نہ ہوئے برابر ہیں۔
یعنی اس وقت ان میں سے کوئی کام نہیں آتا۔ ہو سکے تو ان کو مدد کے لئے بلاؤ۔
اکثر مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ ہم جنکو دنیا میں پکارتے تھے، اب کھلا کہ وہ واقع میں کچھ چیز نہ تھے گویا یہ بطور حسرت و افسوس کے اپنی غلطی کا اعتراف ہو گا۔ لیکن حضرت شاہ صاحبؒ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین اول منکر ہو چکے تھے کہ ہم نے شریک ٹھہرائے ہی نہیں۔ اب گھبرا کر منہ سے نکل جائے گا۔ { ضَلُّوْاعَنَّا } جس میں شریک ٹھہرانے کا اعتراف ہو گا۔ پھر کچھ سنھبل کر انکار کر دیں گے کہ ہم نے خدا کے سوا کسی کو پکارا ہی نہیں۔

وَما أَنتُم بِمُعجِزينَ فِى الأَرضِ ۖ وَما لَكُم مِن دونِ اللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلا نَصيرٍ {42:31}
اور تم زمین میں (خدا کو) عاجز نہیں کرسکتے۔ اور الله کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مددگار
یعنی محض اپنی مہربانی سے معاف کرتا ہے ورنہ جس جرم پر سزا دینا چاہے، مجرم بھاگ کر کہیں روپوش نہیں ہو سکتا۔ اور نہ اس کے سوا کوئی دوسرا حمایت و امداد کے لئے کھڑا ہو سکتا ہے۔

وَما كانَ لَهُم مِن أَولِياءَ يَنصُرونَهُم مِن دونِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُضلِلِ اللَّهُ فَما لَهُ مِن سَبيلٍ {42:46}
اور الله کے سوا ان کے کوئی دوست نہ ہوں گے کہ الله کے سوا ان کو مدد دے سکیں۔ اور جس کو الله گمراہ کرے اس کے لئے (ہدایت کا) کوئی رستہ نہیں
یعنی نہ دنیا میں ہدایت کی، نہ آخرت میں نجات کی۔

وَسـَٔل مَن أَرسَلنا مِن قَبلِكَ مِن رُسُلِنا أَجَعَلنا مِن دونِ الرَّحمٰنِ ءالِهَةً يُعبَدونَ {43:45}
اور (اے محمد) جو اپنے پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے ہیں ان سے دریافت کرلو۔ کیا ہم نے (خدائے) رحمٰن کے سوا اور معبود بنائے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے
یعنی آپ کا راستہ وہی ہے جو پہلے انبیاء علیہم السلام کا تھا۔ شرک کی تعلیم کسی نبی نے نہیں دی نہ اللہ تعالٰی نے کسی دین میں اس بات کو جائز رکھا کہ اس کے سوا دوسرے کی پرستش کی جائے۔ اور یہ ارشاد کہ "پوچھ دیکھو" یعنی جس وقت ان سے ملاقات ہو (جیسے شب معراج میں ہوئی) یا اُنکے احوال کتابوں سے تحقیق کرو۔ بہرحال جو ذرائع تحقیق و تفتیش کے ہوں اُنکو استعمال میں لانے سے صاف ثابت ہو جائے گا کہ کسی دین سماوی میں کبھی شرک کی اجازت نہیں ہوئی۔

مِن وَرائِهِم جَهَنَّمُ ۖ وَلا يُغنى عَنهُم ما كَسَبوا شَيـًٔا وَلا مَا اتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ أَولِياءَ ۖ وَلَهُم عَذابٌ عَظيمٌ {45:10}
ان کے سامنے دوزخ ہے۔ اور جو کام وہ کرتے رہے کچھ بھی ان کے کام نہ آئیں گے۔ اور نہ وہی (کام آئیں گے) جن کو انہوں نے الله کے سوا معبود بنا رکھا تھا۔ اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے
یعنی اموال و اولاد وغیرہ کوئی چیز اس وقت کام نہ آئے گی۔ نہ وہ کام آئیں گے جنکو اللہ کے سو امعبود یا رفیق و مددگار بنا رکھا تھا اور جن سے بہت کچھ اعانت و امداد کی توقعات تھیں۔

قُل أَرَءَيتُم ما تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ أَرونى ماذا خَلَقوا مِنَ الأَرضِ أَم لَهُم شِركٌ فِى السَّمٰوٰتِ ۖ ائتونى بِكِتٰبٍ مِن قَبلِ هٰذا أَو أَثٰرَةٍ مِن عِلمٍ إِن كُنتُم صٰدِقينَ {46:4}
کہو کہ بھلا تم نے ان چیزوں کو دیکھا ہے جن کو تم الله کے سوا پکارتے ہو (ذرا) مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے۔ یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے۔ اگر سچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی کتاب میرے پاس لاؤ۔ یا علم (انبیاء میں) سے کچھ (منقول) چلا آتا ہو (تو اسے پیش کرو)
یعنی اگر اپنے دعوۓ شرک میں سچے ہو تو کسی آسمانی کتاب کی سند لاؤ یا کسی ایسے علمی اصول سے ثابت کرو جو عقلاء کے نزدیک مسلم چلا آتا ہو۔ جس چیز پر کوئی نقلی یا عقلی دلیل نہ ہو آخر اسے کیونکر تسلیم کیا جائے۔
یعنی خداوند قدوس نے آسمان و زمین اور کل مخلوقات بنائی۔ کیا سچے دل سے کہہ سکتے ہو کہ زمین کا ٹکڑا یا آسمان کا کوئی حصہ کسی اور نے بھی بنایا ہے یا بنا سکتا ہے۔ پھر انکو خدا کے ساتھ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کیوں پکارا جاتا ہے۔

وَمَن أَضَلُّ مِمَّن يَدعوا مِن دونِ اللَّهِ مَن لا يَستَجيبُ لَهُ إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ وَهُم عَن دُعائِهِم غٰفِلونَ {46:5}
اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو
یعنی اس سے بڑی حماقت اور گمراہی کیا ہو گی کہ الله کو چھوڑ کر ایک ایسی بے جان یا بے اختیار مخلوق کو اپنی حاجت براری کے لئے پکارا جائے جو اپنے مستقل اختیار سے کسی کی پکار کو نہیں پہنچ سکتی۔ بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو پکارنے کی خبر بھی ہو۔ پتھر کی مورتوں کا تو کہنا ہی کیا، فرشتے اور پیغمبر بھی وہ ہی بات سن سکتے اور وہ ہی کام کر سکتے ہیں جس کی اجازت اور قدرت حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو۔

فَلَولا نَصَرَهُمُ الَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِ اللَّهِ قُربانًا ءالِهَةً ۖ بَل ضَلّوا عَنهُم ۚ وَذٰلِكَ إِفكُهُم وَما كانوا يَفتَرونَ {46:28}
تو جن کو ان لوگوں نے تقرب (خدا) کے سوا معبود بنایا تھا انہوں نے ان کی کیوں مدد نہ کی۔ بلکہ وہ ان (کے سامنے) سے گم ہوگئے۔ اور یہ ان کا جھوٹ تھا اور یہی وہ افتراء کیا کرتے تھے
یعنی ظاہر ہوا کہ بتوں کو خدا بنانا اور ان سے امیدیں قائم کرنا محض جھوٹی اور من گھڑت باتیں تھیں۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے پھر وہ چلے کیسے۔ (ربط) اوپر کی آیات میں انسانوں کے تمرد و سرکشی کی داستان تھی۔ آگے اس کے مقابل جنوں کی اطاعت و فرمانبرداری کا حال سناتے ہیں تا معلوم ہو کہ جو قوم طبعی طور پر سخت متمرد اور سرکش واقع ہوئی ہے اس کے بعض افراد کس طرح اللہ کا کلام سن کر موم ہو جاتے ہیں۔
یعنی جن بتوں کی نسبت کہا کرتے تھے کہ ہم انکی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے نزدیک کر دیں اور بڑے درجے دلائیں وہ اس آڑے وقت میں کیوں کام نہ آئے۔ اب ذرا انکو بلایا ہوتا۔
یعنی آج ان کا کہیں پتہ نہیں۔ نہ عذاب کے وقت ان کو پکارا جاتا ہے۔ آخر وہ گئے کہاں جو ایسی مصیبت میں بھی کام نہیں آتے۔





لَيسَ لَها مِن دونِ اللَّهِ كاشِفَةٌ {53:58}
اس (دن کی تکلیفوں) کو الله کے سوا کوئی دور نہیں کرسکے گا
یعنی قیامت قریب ہی آلگی ہے جس کا ٹھیک وقت اللہ کے سوا کوئی کھول کر نہیں بتا سکتا۔ اور جب وقت معین آجائے تو کوئی طاقت اس کو دفع نہیں کر سکتی۔ اللہ ہی چاہے تو ہٹے، مگر وہ چاہے گا نہیں۔

قَد كانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى إِبرٰهيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَءٰؤُا۟ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَرنا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَدٰوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ إِلّا قَولَ إِبرٰهيمَ لِأَبيهِ لَأَستَغفِرَنَّ لَكَ وَما أَملِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن شَيءٍ ۖ رَبَّنا عَلَيكَ تَوَكَّلنا وَإِلَيكَ أَنَبنا وَإِلَيكَ المَصيرُ {60:4}
تمہیں ابراہیم اور ان کے رفقاء کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں) سے جن کو تم الله کے سوا پوجتے ہو بےتعلق ہیں (اور) تمہارے (معبودوں کے کبھی) قائل نہیں (ہوسکتے) اور جب تک تم خدائے واحد اور ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی۔ ہاں ابراہیمؑ نے اپنے باپ سے یہ (ضرور) کہا کہ میں آپ کے لئے مغفرت مانگوں گا اور الله کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ اے ہمارے پروردگار تجھ ہی پر ہمارا بھروسہ ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیرے ہی حضور میں (ہمیں) لوٹ کر آنا ہے
یعنی صرف دعا ہی کرسکتا ہوں کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ خدا جو کچھ پہنچانا چاہے۔ اسے میں نہیں روک سکتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں " یعنی ابراہیمؑ نے ہجرت کی پھر اپنی قوم کی طرف منہ نہیں کیا۔ تم بھی وہی کرو۔ ایک ابراہیمؑ نے دعا چاہی تھی، باپ کے واسطے۔ جب تک معلوم نہ تھا۔ تم کو معلوم ہو چکا۔ لہٰذا تم کافر کی بخشش نہ مانگو"۔ (تنبیہ) باپ کے حق میں ابراہیمؑ کے استغفار کا قصہ سورۃ "براءۃ" میں گزر چکا۔ آیت { وماکان استغفار ابراھیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایّاہ } الخ کے فوائد میں دیکھ لیا جائے۔
یعنی تم اللہ سے منکر ہو۔ اور اس کے احکام کی پروا نہیں کرتے۔ ہم تمہارے طریقہ سے منکر ہیں۔ اور ذرّہ برابر تمہاری پروا نہیں کرتے۔
یعنی سب کو چھوڑ کر تجھ پر بھروسہ کیا اور قوم سے ٹوٹ کر تیری طرف رجوع ہوئے اور خوب جانتے ہیں کہ سب کو پھر کر تیری ہی طرف آنا ہے۔
یعنی یہ دشمنی اور بیر اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب تم شرک چھوڑ کر اسی ایک آقا کے غلام بن جاؤ جس کے ہم ہیں۔
یعنی جو لوگ مسلمان ہو کر ابراہیمؑ کے ساتھ ہوتے گئے اپنے اپنے وقت پر سب نے قولًا یا فعلًا اسی علیحدگی اور بیزاری کا اعلان کیا۔



أَمَّن هٰذَا الَّذى هُوَ جُندٌ لَكُم يَنصُرُكُم مِن دونِ الرَّحمٰنِ ۚ إِنِ الكٰفِرونَ إِلّا فى غُرورٍ {67:20}
بھلا ایسا کون ہے جو تمہاری فوج ہو کر الله کے سوا تمہاری مدد کرسکے۔ کافر تو دھوکے میں ہیں
یعنی منکر سخت دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے باطل معبودوں اور فرضی دیوتاؤں کی فوج ان کو اللہ کے عذاب اور آنیوالی آفت سے بچالیگی؟ خوب سمجھ لو! رحمٰن سے الگ ہو کرکوئی مدد کو نہ پہنچے گا۔

مِمّا خَطيـٰٔتِهِم أُغرِقوا فَأُدخِلوا نارًا فَلَم يَجِدوا لَهُم مِن دونِ اللَّهِ أَنصارًا {71:25}
(آخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب پہلے غرقاب کردیئے گئے پھر آگ میں ڈال دیئے گئے۔ تو انہوں نے الله کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہ پایا
یعنی طوفان آیا اور بظاہر پانی میں ڈبوئے گئے۔ لیکن فی الحقیقت برزخ کی آگ میں پہنچ گئے۔
یعنی وہ بت (ودّ، سواع، یغوث وغیرہ) اس آڑے وقت میں کچھ بھی مدد نہ کرسکے یوں ہی کسمپرسی کی حالت میں مرکھپ گئے۔








قُل أَرَءَيتُم إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيكُمُ الَّيلَ سَرمَدًا إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ مَن إِلٰهٌ غَيرُ اللَّهِ يَأتيكُم بِضِياءٍ ۖ أَفَلا تَسمَعونَ {28:71}
کہو بھلا دیکھو تو اگر الله تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک رات (کی تاریکی) کئے رہے تو الله کے سوا کون معبود ہے ہے جو تم کو روشنی لا دے تو کیا تم سنتے نہیں؟
مثلاً سورج کو طلوع نہ ہونے دے۔ یا اس سے روشنی سلب کر لے تو اپنے کاروبار کے لئے ایسی روشنی کہاں سے لا سکتے ہو۔
یعنی یہ بات ایسی روشن اور صاف ہے کہ سنتے ہی سمجھ میں آ جائے ۔ تو کیا تم سنتے بھی نہیں۔

قُل أَرَءَيتُم إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيكُمُ النَّهارَ سَرمَدًا إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ مَن إِلٰهٌ غَيرُ اللَّهِ يَأتيكُم بِلَيلٍ تَسكُنونَ فيهِ ۖ أَفَلا تُبصِرونَ {28:72}
کہو تو بھلا دیکھو تو اگر الله تم پر ہمیشہ قیامت تک دن کئے رہے تو الله کے سوا کون معبود ہے کہ تم کو رات لا دے جس میں تم آرام کرو۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں؟
یعنی اگر آفتاب کو غروب نہ ہونے دے ہمیشہ تمہارے سروں پر کھڑ ارکھے تو جو راحت و سکون اور دوسرے فوائد رات کے آنے سے حاصل ہوتے ہیں ان کا سامان کونسی طاقت کر سکتی ہے۔ کیا ایسی روشن حقیقت بھی تم کو نظر نہیں آتی (تنبیہ) { اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ } { اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ النَّھَارَ سَرْمَدًا } کے مناسب ہے کیونکہ آنکھ سےدیکھنا عادۃً روشنی پر موقوف ہے جو دن میں پوری طرح ہوتی ہے۔ رات کی تاریکی میں چونکہ دیکھنے کی صورت نہیں، ہاں سننا ممکن ہے اس لئے { اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا } کے ساتھ { اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ } فرمانا ہی موزوں تھا۔ واللہ اعلم۔

يٰأَيُّهَا النّاسُ اذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم ۚ هَل مِن خٰلِقٍ غَيرُ اللَّهِ يَرزُقُكُم مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ ۚ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۖ فَأَنّىٰ تُؤفَكونَ {35:3}
لوگو الله کے جو تم پر احسانات ہیں ان کو یاد کرو۔ کیا الله کے سوا کوئی اور خالق (اور رازق ہے) جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟
یعنی مانتے ہو کہ پیدا کرنا اور روزی کے سامان بہم پہنچا کرزندہ رکھنا سب اللہ کے قبضہ اور اختیار ہے۔ پھر معبودیت کا استحقاق کسی دوسرے کو کدھر سے ہو گیا جو خالق و رازق حقیقی ہے وہ ہی معبود ہونا چاہئے۔






وَإِذا رَءَا الَّذينَ أَشرَكوا شُرَكاءَهُم قالوا رَبَّنا هٰؤُلاءِ شُرَكاؤُنَا الَّذينَ كُنّا نَدعوا مِن دونِكَ ۖ فَأَلقَوا إِلَيهِمُ القَولَ إِنَّكُم لَكٰذِبونَ {16:86}
اور جب مشرک (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے کہ پروردگار یہ وہی ہمارے شریک ہیں جن کو ہم تیرے سوا پُکارا کرتے تھے۔ تو وہ (اُن کے کلام کو مسترد کردیں گے اور) اُن سے کہیں گے کہ تم تو جھوٹے ہو
یعنی جھوٹے ہو جو ہم کو خدا کا شریک ٹھہرا لیا۔ ہم نے کب کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو۔ فی الحقیقت تم محض اپنے اوہام و خیالات کو پوجتے تھے جس کے نیچے کوئی حقیقت نہ تھی ، یا جن و شیاطین کی پرستش کرتے تھے ۔ مگر وہاں شیطان بھی یہ کہہ کر الگ ہو جائے گا۔ { وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ } (ابراھیم رکوع۴) غرض جن چیزوں کو مشرکین نے معبود بنا رکھا تھا ، سب اپنی علیحدگی اور بیزاری کا اظہار کریں گے ، کوئی سچ کوئی جھوٹ ، پتھر کے بتوں کو تو سرے سے کچھ خبر ہی نہ تھی۔ ملائکہ اور بعض انبیاء و صالحین ہمیشہ شرک سے سخت نفرت و بیزاری اور اپنی خالص بندگی کا اظہار کرتے رہے۔ رہ گئے شیاطین سو ان کا اظہار نفرت گو جھوٹ ہو گا ، تاہم اس سے مشرکین کو کلی طور پر مایوسی ہو جائے گی کہ آج بڑے سے بڑا رفیق بھی کام آنے والا نہیں۔
یعنی ہم تو ان کی بدولت مارے گئے ۔ شاید مطلب ہو کہ ہم بذات خود بے قصور ہیں ، یا یہ کہ انہیں دوہری سزا دیجئے۔

قالوا سُبحٰنَكَ ما كانَ يَنبَغى لَنا أَن نَتَّخِذَ مِن دونِكَ مِن أَولِياءَ وَلٰكِن مَتَّعتَهُم وَءاباءَهُم حَتّىٰ نَسُوا الذِّكرَ وَكانوا قَومًا بورًا {25:18}
وہ کہیں گے تو پاک ہے ہمیں یہ بات شایان نہ تھی کہ تیرے سوا اوروں کو دوست بناتے۔ لیکن تو نے ہی ان کو اور ان کے باپ دادا کو برتنے کو نعمتیں دیں یہاں تک کہ وہ تیری یاد کو بھول گئے۔ اور یہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے
یعنی اصل یہ ہے کہ یہ بدبخت اپنی سوء استعداد سے خود ہی تباہ ہونے کو پھر رہے تھے ہلاکت ان کے لئے مقدر ہو چکی تھی، ظاہری سبب اس کا یہ ہوا کہ عیش و آرام میں پڑ کر غفلت کے نشہ میں چور ہو کر آپکی یاد کو بھلا بیٹھے، کسی نصیحت پر کان نہ دھرا، پیغمبروں کی ہدایت و ارشاد کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لیں اور دنیوی تمتع پر مغرور ہو گئے، آپ نے اپنی نوازش سے جس قدر انکو اور انکے باپ دادوں کو دنیا کے فائدے پہنچائے، یہ اسی قدر غفلت و نسیان میں ترقی کرتے گئے چاہئے تو یہ تھا کہ انعامات الہٰیہ کو دیکھ کر منعم حقیقی کی بندگی اور شکرگذاری اختیار کرتے، الٹے مغرور و مفتوں ہو کر کفر و عصیان پر تل گئے۔ گویا جو امرت تھا بدبختی سے ان کے حق میں زہر بن گیا۔
یعنی ہماری کیا مجال تھی کہ تجھ سے ہٹ کر کسی دوسرے کو اپنا رفیق و مددگار سمجھتے۔ پھر جب ہم اپنے نفس کے لئے تیرے سوا کوئی سہارا نہیں رکھتے تھے تو دوسروں کو کیسے حکم دیتے کہ ہم کو اپنا معبود اور حاجت روا سمجھیں۔

أَم لَهُم ءالِهَةٌ تَمنَعُهُم مِن دونِنا ۚ لا يَستَطيعونَ نَصرَ أَنفُسِهِم وَلا هُم مِنّا يُصحَبونَ {21:43}
کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو (مصائب سے) بچاسکیں۔ وہ آپ اپنی مدد تو کر ہی نہیں سکتے اور نہ ہم سے پناہ ہی دیئے جائیں گے
یعنی کیا اپنے فرضی معبودوں کی نسبت خیال ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرتے ہیں ؟ اور موقع آنے پر خدا تعالیٰ کے غضب سے بچا لیں گے ؟ سو وہ مسکین ان کی مدد اور حفاظت تو درکنار ، خود اپنے وجود کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے ، اگر ان کو کوئی توڑنے پھوڑنے لگے یا کچھ چیز ان کے پاس سے چھین کر لے جائے تو اتنی قدرت نہیں کہ مدافعانہ تحفظ کے لئے خود ہاتھ پاؤں ہلا سکیں یا اپنے بچاؤ کی خاطر ہماری امداد و رفاقت حاصل کر لیں۔





إِن يَدعونَ مِن دونِهِ إِلّا إِنٰثًا وَإِن يَدعونَ إِلّا شَيطٰنًا مَريدًا {4:117}
یہ جو الله  کے سوا پرستش کرتے ہیں تو عورتوں کی اور پکارتے ہیں تو شیطان کی سرکش ہی کو

وَأَنذِر بِهِ الَّذينَ يَخافونَ أَن يُحشَروا إِلىٰ رَبِّهِم ۙ لَيسَ لَهُم مِن دونِهِ وَلِىٌّ وَلا شَفيعٌ لَعَلَّهُم يَتَّقونَ {6:51}
اور جو لوگ جو خوف رکھتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے روبرو حاضر کئے جائیں گے (اور جانتے ہیں کہ) اس کے سوا نہ تو ان کا کوئی دوست ہوگا اور نہ سفارش کرنے والا، ان کو اس (قرآن) کے ذریعے سے نصیحت کر دو تاکہ پرہیزگار بنیں
یعنی یہ سن کر گناہ سے بچتے رہیں۔
یعنی جو لوگ فرمائشی معجزات دکھلائے جانے پر اپنے ایمان کو موقوف رکھتے اور ازراہ تعنت و عناد آیات اللہ کی تکذیب پر تلے ہوئے ہیں ان سے قطع نظر کیجئے۔ کیونکہ تبلیغ کا فرض ادا ہو چکا اور ان کے راہ راست پر آنے کی توقع نہیں اب وحی الہٰی (قرآن) کے ذریعہ سے ان لوگوں کو متنبہ کرنے کا مزید اہتمام فرمائیے جن کے دلوں میں محشر کا خوف اور عاقبت کی فکر ہے۔ کیونکہ ایسے ہی لوگوں سےامید ہو سکتی ہے کہ نصیحت سے متاثر اور ہدایات قرآنی سے منتفع ہوں۔





وَالَّذينَ تَدعونَ مِن دونِهِ لا يَستَطيعونَ نَصرَكُم وَلا أَنفُسَهُم يَنصُرونَ {7:197}
اور جن کو تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تمہاری ہی مدد کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ خود ہی اپنی مدد کرسکتے ہیں



لَهُ دَعوَةُ الحَقِّ ۖ وَالَّذينَ يَدعونَ مِن دونِهِ لا يَستَجيبونَ لَهُم بِشَيءٍ إِلّا كَبٰسِطِ كَفَّيهِ إِلَى الماءِ لِيَبلُغَ فاهُ وَما هُوَ بِبٰلِغِهِ ۚ وَما دُعاءُ الكٰفِرينَ إِلّا فى ضَلٰلٍ {13:14}
سودمند پکارنا تو اسی کا ہے اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرتے مگر اس شخص کی طرح جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا دے تاکہ (دور ہی سے) اس کے منہ تک آ پہنچے حالانکہ وہ (اس تک کبھی بھی) نہیں آسکتا اور (اسی طرح) کافروں کی پکار بیکار ہے
یعنی پکارنا اسی کا چاہئےجو ہر قسم کے نفع و ضرر کا مالک ہے ۔ عاجز کو پکارنے سے کیا حاصل ؟ اللہ کے سوا کون ہے جس کے قبضہ میں اپنا یا دوسروں کا نفع و ضرر ہے ؟ غیر اللہ کو اپنی مدد کے لئے بلانا ایسا ہے جیسے کوئی پیاسا کنویں کی من پر کھڑا ہو کر پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے اور خوشامد کرے کہ میرے منہ میں پہنچ جا۔ ظاہر ہے قیامت تک پانی اس کی فریاد کو پہنچنے والا نہیں۔ بلکہ اگر پانی اس کی مٹھی میں ہو۔ تب بھی خود چل کر منہ تک نہیں جا سکتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "کافر جن کو پکارتے ہیں بعضے محض خیالات و اوہام ہیں ، بعضے جن اور شیاطین ہیں ، اور بعضی چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں ، لیکن اپنے خواص کی مالک نہیں ۔ پھر ان کے پکارنے سے کیا حاصل" ؟ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں۔"





قُل مَن رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُل أَفَاتَّخَذتُم مِن دونِهِ أَولِياءَ لا يَملِكونَ لِأَنفُسِهِم نَفعًا وَلا ضَرًّا ۚ قُل هَل يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ أَم هَل تَستَوِى الظُّلُمٰتُ وَالنّورُ ۗ أَم جَعَلوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقوا كَخَلقِهِ فَتَشٰبَهَ الخَلقُ عَلَيهِم ۚ قُلِ اللَّهُ خٰلِقُ كُلِّ شَيءٍ وَهُوَ الوٰحِدُ القَهّٰرُ {13:16}
ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ (تم ہی ان کی طرف سے) کہہ دو کہ الله ۔ پھر (ان سے) کہو کہ تم نے الله کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو کیوں کارساز بنایا ہے جو خود اپنے نفع ونقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے (یہ بھی) پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟ یا اندھیرا اور اُجالا برابر ہوسکتا ہے؟ بھلا ان لوگوں نے جن کو الله کا شریک مقرر کیا ہے۔ کیا انہوں نے الله کی سی مخلوقات پیدا کی ہے جس کے سبب ان کو مخلوقات مشتبہ ہوگئی ہے۔ کہہ دو کہ الله ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ یکتا (اور) زبردست ہے
یعنی جیسی مخلوقات خدا تعالیٰ نے پیدا کی ، کیا تمہارےدیوتاؤں نے ایسی کوئی چیز پیدا کی ہے جسے دیکھ کر ان پر خدائی کا شبہ ہونے لگا۔ وہ تو ایک مکھی کا پر اور ایک مچھر کی ٹانگ بھی نہیں بنا سکتے۔ بلکہ تمام چیزوں کی طرح خود بھی اسی اکیلے زبردست خدا کی مخلوق ہیں۔ پھر ایسی عاجز و مجبور چیزوں کو خدائی کے تخت پر بٹھا دینا کس قدر گستاخی اور شوخ چشمی ہے۔
یعنی جب ربوبیت کا اقرار صرف خدا کے لئے کرتے ہو ، پھر مدد کے لئے دوسرے حمایتی کہاں سے تجویز کر لئے ۔ حالانکہ وہ برابر ذرہ نفع نقصان کا مستقل اختیار نہیں رکھتے۔
یعنی موحد و مشرک میں ایسا فرق ہے جیسے بینا اور نابینا میں اور توحید و شرک کا مقابلہ ایسا سمجھو جیسے نور کا ظلمت سے ۔ تو کیا ایک اندھا مشرک جو شرک کی اندھیریوں میں پڑا ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہو اس مقام پر پہنچ سکتا ہے جہاں ایک موحد کو پہنچنا ہے جو فہم و بصیرت اور ایمان و عرفان کی روشنی میں فطرت انسانی کے صاف راستہ پر چل رہا ہے ؟ ہرگز دونوں ایک نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔

قُلِ ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِهِ فَلا يَملِكونَ كَشفَ الضُّرِّ عَنكُم وَلا تَحويلًا {17:56}
کہو کہ (مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں (معبود ہونے کا) گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے
یعنی خدا تو وہ ہے کہ جس کو چاہے عذاب دے جس پر چاہے مہربانی فرمائے ، جس کو جس قدر چاہے دوسروں پر فضیلت عطا کرے ، اس کی قدرت کامل اور علم محیط ہو ۔ اب ذرا مشرکین ان ہستیوں کو پکاریں جن کو انہوں نے خدا سمجھ رکھا یا بنا رکھا ہے۔ کیا ان میں ایک بھی ایسا مستقل اختیار رکھتا ہے کہ ذرا سی تکلیف کو تم سے دور کر سکے یا ہلکی کر دے یا تم سے اٹھا کر کسی دوسرے پر ڈال دے۔ پھر ایسی ضعیف و عاجز مخلوق کو معبود ٹھہرا لینا کیسے روا ہو گا۔


أُولٰئِكَ الَّذينَ يَدعونَ يَبتَغونَ إِلىٰ رَبِّهِمُ الوَسيلَةَ أَيُّهُم أَقرَبُ وَيَرجونَ رَحمَتَهُ وَيَخافونَ عَذابَهُ ۚ إِنَّ عَذابَ رَبِّكَ كانَ مَحذورًا {17:57}
یہ لوگ جن کو (الله کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (اعمال تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (الله کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے
یعنی باوجود غایت قرب کے ان کی امیدیں محض حق تعالیٰ کی مہربانی سے وابستہ ہیں اور اسی کے عذاب سے ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہر قسم کا نفع پہنچانا ، یا ضرر کو روکنا ایک خدا کے قبضہ میں ہے۔
بخاری میں روایت ہے کہ کچھ لوگ جاہلیت میں جنات کی عبادت کرتے تھے ۔ وہ جن مسلمان ہو گئے اور یہ پوجنے والے اپنی جہالت پر قائم رہے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ جن ، ملائکہ ، مسیحؑ و عزیرؑ وغیرہ کے پوجنے والے سب اس میں شامل ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جن ہسیتوں کو تم معبود و مستعان سمجھ کر پکارتے ہو ، وہ خود اپنے رب کا بیش از بیش قرب تلاش کرتے ہیں۔ ان کی دوادوش صرف اس لئے ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کرنے میں کون آگے نکلتا ہے ، ان میں جو زیادہ مقرب ہیں وہ ہی زیادہ قرب الہٰی کے طالب رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کسی سب سے زیادہ مقرب بندہ کی دعا وغیرہ کو حصول قرب کا وسیلہ بنائیں ۔ پس جب تمہارے تجویز کئے ہوئے معبودوں کا خدا کے سامنے یہ حال ہے تو اپنے تئیں خود فیصلہ کر لو کہ خدا تعالیٰ کو خوش رکھنا کہاں تک ضروری ہے ۔ غیر اللہ کی پرستش سے نہ خدا خوش ہوتا ہے نہ وہ جنہیں تم خوش رکھنا چاہتے ہو (تنبیہ) "توسل" اور "تعبد" میں فرق ظاہر ہے۔ پھر توسل بھی اسی حد تک مشروع ہے جہاں تک شریعت نے اجازت دی۔



وَمَن يَهدِ اللَّهُ فَهُوَ المُهتَدِ ۖ وَمَن يُضلِل فَلَن تَجِدَ لَهُم أَولِياءَ مِن دونِهِ ۖ وَنَحشُرُهُم يَومَ القِيٰمَةِ عَلىٰ وُجوهِهِم عُميًا وَبُكمًا وَصُمًّا ۖ مَأوىٰهُم جَهَنَّمُ ۖ كُلَّما خَبَت زِدنٰهُم سَعيرًا {17:97}
اور جس شخص کو الله ہدایت دے وہی ہدایت یاب ہے۔ اور جن کو گمراہ کرے تو تم الله کے سوا اُن کے رفیق نہیں پاؤ گے۔ اور ہم اُن کو قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے گونگے اور بہرے (بنا کر) اٹھائیں گے۔ اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ جب (اس کی آگ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو (عذاب دینے کے لئے) اور بھڑکا دیں گے
یعنی عذاب معین اندازہ سے کم نہیں ہونے دیں گے۔ اگر بدن جل کر تکلیف میں کمی ہونے لگے گی تو پھر نئے چمڑے چڑھا دیے جائیں گے۔ { کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنَاھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا } (نساء رکوع۸)۔
یہ قیامت کے بعض مواطن میں ہو گا کہ کافر منہ کے بل اندھے گونگے کر کے چلائے جائیں گے ۔ حدیث میں ہے صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! منہ کے بل کس طرح چلیں گے فرمایا جس نے آدمی کو پاؤں سے چلایا وہ قادر ہے کہ سر سے چلا دے۔ باقی فرشتوں کا جہنمیوں کو منہ کے بل گھسیٹنا ، وہ دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہو گا۔ { یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ } (القمر رکوع۳)۔
یعنی خدا کی توفیق و دستگیری ہی سے آدمی راہ حق پر چل کر منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے جس کی بدبختی اور تعنت کی وجہ سے خدا دستگیری نہ فرمائے اسے کون ہے جو ٹھیک راستہ پر لگا سکے۔

وَرَبَطنا عَلىٰ قُلوبِهِم إِذ قاموا فَقالوا رَبُّنا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ لَن نَدعُوَا۟ مِن دونِهِ إِلٰهًا ۖ لَقَد قُلنا إِذًا شَطَطًا {18:14}
اور ان کے دلوں کو مربوط (یعنی مضبوط) کردیا۔ جب وہ (اُٹھ) کھڑے ہوئے تو کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اس کے سوا کسی کو معبود (سمجھ کر) نہ پکاریں گے (اگر ایسا کیا) تو اس وقت ہم نے بعید از عقل بات کہی
یعنی مضبوط و ثابت قدم رکھا کہ اپنی بات صاف کہدی۔
یعنی جب "رب" وہ ہی ہے تو معبود کسی اور کو ٹھہرانا حماقت ہے ۔ "ربوبیت" و "الوہیت" دونوں اسی کے لئے مخصوص ہیں۔

هٰؤُلاءِ قَومُنَا اتَّخَذوا مِن دونِهِ ءالِهَةً ۖ لَولا يَأتونَ عَلَيهِم بِسُلطٰنٍ بَيِّنٍ ۖ فَمَن أَظلَمُ مِمَّنِ افتَرىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا {18:15}
ان ہماری قوم کے لوگوں نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں۔ بھلا یہ ان (کے خدا ہونے) پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے۔ تو اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو الله پر جھوٹ افتراء کرے
جیسے موحدین توحید پر صاف صاف دلیلیں پیش کرتے ہیں ، اگر مشرکین اپنے دعوے میں سچے ہیں تو کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ۔ لائیں کہاں سے ؟ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو گا کہ خدا کے شریک ٹھہرائے جائیں۔

قُلِ اللَّهُ أَعلَمُ بِما لَبِثوا ۖ لَهُ غَيبُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۖ أَبصِر بِهِ وَأَسمِع ۚ ما لَهُم مِن دونِهِ مِن وَلِىٍّ وَلا يُشرِكُ فى حُكمِهِ أَحَدًا {18:26}
کہہ دو کہ جتنی مدّت وہ رہے اسے الله ہی خوب جانتا ہے۔ اسی کو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں (معلوم) ہیں۔ وہ کیا خوب دیکھنے والا اور کیا خوب سننے والا ہے۔ اس کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی شریک کو کرتا ہے
جتنی مدت سو کر وہ جاگے تھے ، تاریخ والے کئ طرح بتاتے تھے ۔ سب سے ٹھیک وہ ہی ہے جو اللہ بتائے آسمان و زمین کے تمام پوشیدہ راز اسی کے علم میں ہیں ۔ کوئی چیز اس کی آنکھ سے اوجھل نہیں۔
یعنی جس طرح اس کا علم محیط ہے ، اس کی قدرت و اختیار بھی سب پر حاوی ہے ۔ جیسے غیوب سموٰات و ارض کے علم میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ اختیارات قدرت میں بھی کوئی سہیم و شریک نہیں ہو سکتا۔


وَاتلُ ما أوحِىَ إِلَيكَ مِن كِتابِ رَبِّكَ ۖ لا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دونِهِ مُلتَحَدًا {18:27}
اور اپنے پروردگار کی کتاب جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے
پہلے "اصحاب کہف کے قصہ پر فرمایا تھا { فَلَاتُمَارِفِیْھِمْ اِلَّامِرَآءً ظَاھِرًا وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیْھِمْ مِّنْھُمْ اَحَدًا } مطلب یہ ہےکہ بیکار چیزوں میں زیادہ الجھنے اور کاوش کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ اپنے فرض منصبی کی انجام دہی میں مشغول رہئے۔ یعنی جو جامع و مانع اور کافی و شافی کتاب تیرے رب نے مرحمت فرمائی۔ اسے پڑھ کر سناتے رہئے۔ خدا نے جو باتیں اس میں سنائیں اور جو وعدے کئےکوئی طاقت نہیں جو انہیں بدل یا ٹال سکے یا غلط ثابت کر سکے ۔ اگر کوئی ان باتوں کو بدلنے کے درپے ہو گا یا اس کتاب کےحقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرے گا وہ خوب سمجھ لے کہ خدا کے مجرم کے لئے کہیں پناہ نہیں۔ ہاں وفاداروں کو پناہ دینے کے لئے اس کی رحمت وسیع ہے ۔ دیکھ لو "اصحاب کہف" کو جو خدا کی باتوں پر جمے رہے ، کیسی اچھی جگہ اپنے فضل سے عنایت فرمائی۔

ذٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الحَقُّ وَأَنَّ ما يَدعونَ مِن دونِهِ هُوَ البٰطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ العَلِىُّ الكَبيرُ {22:62}
یہ اس لئے کہ الله ہی برحق ہے اور جس چیز کو (کافر) اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہے اور اس لئے الله رفیع الشان اور بڑا ہے
یعنی اللہ کے سوا ایسے عظیم الشان انقلابات اور کس سے ہو سکتے ہیں۔ واقع میں صحیح اور سچا خدا تو وہ ہی ایک ہے باقی اسکو چھوڑ کر خدائی کے جو دوسرے پاکھنڈ پھیلائے گئے ہیں سب غلط، جھوٹ اور باطل ہیں۔ اسی کو خدا کہنا اور معبود بنانا چاہئے جو سب سے اوپر اور سب سے بڑ اہے اور یہ شان بالاتفاق اسی ایک اللہ کی ہے۔

وَاتَّخَذوا مِن دونِهِ ءالِهَةً لا يَخلُقونَ شَيـًٔا وَهُم يُخلَقونَ وَلا يَملِكونَ لِأَنفُسِهِم ضَرًّا وَلا نَفعًا وَلا يَملِكونَ مَوتًا وَلا حَيوٰةً وَلا نُشورًا {25:3}
اور (لوگوں نے) اس کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کئے گئے ہیں۔ اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اُٹھ کھڑے ہونا
یعنی کس قدر ظلم اور تعجب و حیرت کا مقام ہے کہ ایسے قادر مطلق، مالک الکل، حکیم علی الاطلاق کی زبردست ہستی کو کافی نہ سمجھ کر دوسرے معبود اور حاکم تجویز کر لئے گئے، جو گویا خدا کی حکومت میں حصہ دار ہیں۔ حالانکہ ان بیچاروں کا خود اپنا وجود بھی اپنے گھر کا نہیں نہ وہ ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، نہ مارنا جِلانا ان کے قبضے میں ہے، نہ اپنے مستقل اختیار سے کسی کو ادنیٰ ترین نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بلکہ خود اپنی ذات کے لئے بھی ذرہ برابر فائدہ حاصل کرنے یا نقصان سے محفوظ رہنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ایسی عاجز و مجبور ہستیوں کو خدا کا شریک ٹھہرانا کس قدر سفاہت اور بے حیائی ہے۔ (ربط) یہ قرآن نازل کرنے والے کی صفات و شئون کا ذکر تھا اور اس کے متعلق مشرکین جو بے تمیزی کر رہے تھے اسکی تردید تھی۔ آگے خود قرآن اور حامل قرآن کی نسبت سفیہانہ نکتہ چینیوں کا جواب ہے۔

إِنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما يَدعونَ مِن دونِهِ مِن شَيءٍ ۚ وَهُوَ العَزيزُ الحَكيمُ {29:42}
یہ جس چیز کو الله کے سوا پکارتے ہیں (خواہ) وہ کچھ ہی ہو الله اُسے جانتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے
یعنی ممکن تھا سننے والا تعجب کرے کہ سب کو ایک ہی ذیل میں کھینچ دیا کسی کو مستثنٰی نہ کیا بعض لوگ بت کو پوجتے ہیں، بعض آگ پانی کو، بعض اولیاء یا فرشتوں کو، سو اللہ نے فرما دیا کہ اللہ کو سب معلوم ہیں۔ اگر کوئی ایک بھی ان سے مستقل قدرت و اختیار رکھتا تو اللہ سب کی یک قلم نفی نہ کرتا۔
یعنی اللہ کو کسی کی رفاقت نہیں چاہئے، وہ زبردست ہے، اور مشورہ نہیں چاہئے کیونکہ حکیم مطلق ہے۔

هٰذا خَلقُ اللَّهِ فَأَرونى ماذا خَلَقَ الَّذينَ مِن دونِهِ ۚ بَلِ الظّٰلِمونَ فى ضَلٰلٍ مُبينٍ {31:11}
یہ تو الله کی پیدائش ہے تو مجھے دکھاؤ کہ الله کے سوا جو لوگ ہیں اُنہوں نے کیا پیدا کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم صریح گمراہی میں ہیں
جب نہیں دکھلا سکتے تو کس منہ سے ان کو خدائی کا شریک اور معبودیت کا مستحق ٹھہراتے ہو۔ معبود تو وہ ہی ہو سکتا ہے جس کےہاتھ میں پیدا کرنا اور رزق پہنچانا سب کچھ ہو۔ یہاں ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا اختیار نہیں۔
یعنی ان ظالموں کو سوچنے سمجھنے سے کچھ سروکار نہیں۔اندھیر ے میں پڑے بھٹک رہے ہیں۔ آگے شرک و عصیان کی تقبیح کے لئے حضرت لقمان کی نصیحتیں نقل فرماتے ہیں جو انہوں نے اللہ کی طرف سے دانائی پا کر اپنے بیٹے کو کی تھیں۔

ذٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الحَقُّ وَأَنَّ ما يَدعونَ مِن دونِهِ البٰطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ العَلِىُّ الكَبيرُ {31:30}
یہ اس لئے کہ الله کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ الله کے سوا پکارتے ہیں وہ لغو ہیں اور یہ کہ الله ہی عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے
یعنی حق تعالیٰ کی یہ شئون عظیمہ او رصفات قاہرہ اس لیے ذکر کی گئیں کہ سننے والے سمجھ لیں کہ ایک خدا کو ماننا اور صرف اس کی عبادت کرنا ہی ٹھیک راستہ ہے۔ اس کے خلاف جو کچھ کہا جائے یا کیا جائے باطل اور جھوٹ ہے۔ یا یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ کا موجود بالذات اور واجب الوجود ہونا جو { بِاَنَّ اللہَ ھُوَ الْحَقُّ } سے سمجھ میں آتا ہے اور دوسروں کا باطل و ہالک الذات ہونا اس کو مستلزم ہے کہ اکیلے اسی خدا کے واسطے یہ شئون و صفات ثابت ہوں، پھر جس کے لئے یہ شئون و صفات ثابت ہوں گی وہ ہی معبود بننے کا مستحق ہو گا۔
لہذا بندہ کی انتہائی پستی اور تذلل (جس کا نام عبادت ہے) اسی کے لئے ہونا چاہئے۔

اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَما بَينَهُما فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ۖ ما لَكُم مِن دونِهِ مِن وَلِىٍّ وَلا شَفيعٍ ۚ أَفَلا تَتَذَكَّرونَ {32:4}
الله  ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ اس کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ سفارش کرنے والا۔ کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے؟
اس کا بیان سورہ اعراف میں آٹھویں پارہ کے اختتام کے قریب گذر چکا۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔
یعنی دھیان نہیں کرتے کہ اس کے پیغام اور پیغامبر کو جھٹلا کر کہاں جاؤ گے ۔ تمام زمین و آسمان میں عرش سے فرش تک اللہ کی حکومت ہے۔ اگر پکڑے گئے تو ا سکی اجازت و رضاء کے بدون کوئی حمایت اور سفارش کرنے والا بھی نہ ملے گا۔

يولِجُ الَّيلَ فِى النَّهارِ وَيولِجُ النَّهارَ فِى الَّيلِ وَسَخَّرَ الشَّمسَ وَالقَمَرَ كُلٌّ يَجرى لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم لَهُ المُلكُ ۚ وَالَّذينَ تَدعونَ مِن دونِهِ ما يَملِكونَ مِن قِطميرٍ {35:13}
وہی رات کو دن میں داخل کرتا اور (وہی) دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا ہے۔ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے۔ یہی الله تمہارا پروردگار ہے اسی کی بادشاہی ہے۔ اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو (کسی چیز کے) مالک نہیں
یہ مضمون پہلے کئ جگہ گذر چکا ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی رات دن کی طرح کبھی کفر غالب ہے کبھی اسلام۔ اور سورج چاند کی طرح ہر چیز کی مدت بندھی ہے دیر سویر نہیں ہوتی"۔ حق کا نمایاں غلبہ اپنے وقت پر ہو گا۔
یعنی جس کی صفات و شئون اوپر بیان ہوئیں حقیت میں یہ ہے تمہارا سچا پروردگار اور کل زمین و آسمان کا بادشاہ۔ باقی جنہیں تم خدا قرار دیکر پکارتے ہو۔ وہ مسکین بادشاہ تو کیا ہوتے کھجور کی گٹھلی پر جو باریک جھلی سی ہوتی ہے اس کے بھی مالک نہیں۔

ءَأَتَّخِذُ مِن دونِهِ ءالِهَةً إِن يُرِدنِ الرَّحمٰنُ بِضُرٍّ لا تُغنِ عَنّى شَفٰعَتُهُم شَيـًٔا وَلا يُنقِذونِ {36:23}
کیا میں ان کو چھوڑ کر اوروں کو معبود بناؤں؟ اگر خداۓ رحمٰن میرے حق میں نقصان کرنا چاہے تو ان کی سفارش مجھے کچھ بھی فائدہ نہ دے سکے اور نہ وہ مجھ کو چھڑا ہی سکیں

أَلا لِلَّهِ الدّينُ الخالِصُ ۚ وَالَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ما نَعبُدُهُم إِلّا لِيُقَرِّبونا إِلَى اللَّهِ زُلفىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحكُمُ بَينَهُم فى ما هُم فيهِ يَختَلِفونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لا يَهدى مَن هُوَ كٰذِبٌ كَفّارٌ {39:3}
دیکھو خالص عبادت الله ہی کے لئے (زیبا ہے) اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ہم کو الله کا مقرب بنادیں۔ تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں الله ان میں ان کا فیصلہ کردے گا۔ بےشک الله اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا
یعنی حسب معمول اللہ کی بندگی کرتے رہئے جو شوائب شرک و ریاء وغیرہ سے پاک ہو۔ اسی کی طرف قولًا و فعلًا لوگوں کو دعوت دیجئے اور اعلان کر دیجئے کہ اللہ اسی کی بندگی قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لئے ہو عمل خالی از اخلاص کی اللہ کے ہاں کچھ پوچھ نہیں۔
عمومًا مشرک لوگ یہ ہی کہا کرتے ہیں کہ ان چھوٹے خداؤں اور دیوتاؤں کی پرستش کر کے ہم بڑے خدا سے نزدیک ہو جائیں گے۔ اور وہ ہم پر مہربانی کرے گا جس سے ہمارے کام بن جائیں گے اس کا جواب دیا کہ ان لچر پوچ حیلوں سے توحید خالص میں جو جھگڑے ڈال رہے ہو اور اہل حق سے اختلاف کر رہے ہو اس کا عملی فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگے چل کر ہو جائے گا۔
یعنی جس نے دل میں یہ ہی ٹھان لی کہ کبھی سچی بات کو نہ مانوں گا، جھوٹ اور حق ہی پر ہمیشہ اڑا رہوں گا۔ منعم حقیقی کو چھوڑ کر جھوٹے محسنوں ہی کی بندگی کروں گا۔ اللہ کی عادت ہے کہ ایسے بد باطن کو فوز و کامیابی کی راہ نہیں دیتا۔

وَاللَّهُ يَقضى بِالحَقِّ ۖ وَالَّذينَ يَدعونَ مِن دونِهِ لا يَقضونَ بِشَيءٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّميعُ البَصيرُ {40:20}
اور الله سچائی کے ساتھ حکم فرماتا ہے اور جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں اس کے سوا وہ کچھ بھی حکم نہیں دے سکتے۔ بےشک الله سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
یعنی فیصلہ کرنا اسی کا کام ہو سکتا ہے جو سننے اور جاننے والا ہو۔ بھلا یہ پتھر کی بیجان مورتیں جنہں تم خدا کہہ کر پکارتے ہو کیا خاک فیصلہ کریں گے۔ پھر جو فیصلہ بھی نہ کر سکے و ہ خدا کس طرح ہوا۔
یعنی مخلوق سے نظر بچا کر چوری چھپے سے کسی پر نگاہ ڈالی یا کن انکھیوں سے دیکھا یا دل میں کچھ نیت کی یا کسی بات کا ارادہ یا خیال آیا، ان میں سے ہر چیز کو اللہ جانتا ہے اور فیصلہ انصاف سے کرتا ہے۔

وَالَّذينَ اتَّخَذوا مِن دونِهِ أَولِياءَ اللَّهُ حَفيظٌ عَلَيهِم وَما أَنتَ عَلَيهِم بِوَكيلٍ {42:6}
اور جن لوگوں نے اس کے سوا کارساز بنا رکھے ہیں وہ الله کو یاد ہیں۔ اور تم ان پر داروغہ نہیں ہو
یعنی دنیا میں مشرکین کو مہلت تو دیتا ہے لیکن یہ نہ سمجھو کہ وہ ہمیشہ کے لئے بچ گئے۔ ان کے سب اعمال و احوال اللہ کے ہاں محفوظ ہیں جو وقت پر کھول دیئے جائیں گے۔ آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ مانتے کیوں نہیں۔ اور نہ ماننے کی صورت میں فورًا تباہ کیوں نہیں کر دیے جاتے۔ آپ ان باتوں کے ذمہ دار نہیں صرف پیغام حق پہنچا دینے کے ذمہ دار ہیں۔ آگے ہمارا کام ہے وقت آنے پر ہم ان کا سب حساب چکا دیں گے۔

أَمِ اتَّخَذوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ۖ فَاللَّهُ هُوَ الوَلِىُّ وَهُوَ يُحىِ المَوتىٰ وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ {42:9}
کیا انہوں نے اس کے سوا کارساز بنائے ہیں؟ کارساز تو الله ہی ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
یعنی رفیق و مددگار بنانا ہے تو اللہ کو بناؤ جو سارے کام بنا سکتا ہے۔ حتٰی کہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے یہ بیچارے عاجز و مجبور رفیق تمہارا کیا ہاتھ بٹائیں گے۔

وَلا يَملِكُ الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِهِ الشَّفٰعَةَ إِلّا مَن شَهِدَ بِالحَقِّ وَهُم يَعلَمونَ {43:86}
اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ سفارش کا کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ ہاں جو علم ویقین کے ساتھ حق کی گواہی دیں (وہ سفارش کرسکتے ہیں)
یعنی اتنی سفارش کر سکتے ہیں کہ جس نے انکے علم کے موافق کلمہ اسلام کہا اس کی گواہی دیں۔ بغیر کلمہ اسلام کسی کے حق میں ایک حرف سفارش کا نہیں کہہ سکتے اور اتنی سفارش بھی صالحین کریں گے جو سچائی کو جانتے اور اسکو زبان و دل سے مانتے ہیں دوسروں کو اجازت نہیں۔

وَمَن لا يُجِب داعِىَ اللَّهِ فَلَيسَ بِمُعجِزٍ فِى الأَرضِ وَلَيسَ لَهُ مِن دونِهِ أَولِياءُ ۚ أُولٰئِكَ فى ضَلٰلٍ مُبينٍ {46:32}
اور جو شخص الله کی طرف بلانے والے کی بات قبول نہ کرے گا تو وہ زمین میں (الله کو) عاجز نہیں کرسکے گا اور نہ اس کے سوا اس کے حمایتی ہوں گے۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں ہیں
یعنی نہ خود بھاگ کر خدا کی مار سے بچ سکے نہ کوئی دوسرا بچا سکے۔ حضرت شاہ صاحبؒ "فِی الارض" کی قید پر لکھتے ہیں کہ (شیاطین کو ) اوپر سے فرشتے مارتے ہیں تو زمین ہی کو بھاگتے ہیں"۔

قُل إِنّى لَن يُجيرَنى مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَن أَجِدَ مِن دونِهِ مُلتَحَدًا {72:22}
(یہ بھی) کہہ دو کہ الله (کے عذاب) سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ اور میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ نہیں دیکھتا
یعنی تم کو نفع نقصان پہنچانا تو کجا، اپنا نفع و ضرر میرے قبضہ میں نہیں۔ اگر بالفرض میں اپنے فرائض میں تقصیر کروں تو کوئی شخص نہیں جو مجھ کو اللہ کے ہاتھ سے بچا لے اور کوئی جگہ نہیں جہاں بھاگ کر پناہ حاصل کر سکوں۔


قالوا سُبحٰنَكَ أَنتَ وَلِيُّنا مِن دونِهِم ۖ بَل كانوا يَعبُدونَ الجِنَّ ۖ أَكثَرُهُم بِهِم مُؤمِنونَ {34:41}
وہ کہیں گے تو پاک ہے تو ہی ہمارا دوست ہے۔ نہ یہ۔ بلکہ یہ جِنّات کو پوجا کرتے تھے۔ اور اکثر انہی کو مانتے تھے
یعنی آپ کی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی کسی درجہ میں اس کا شریک ہو ۔ (العیاذ باللہ) ہم کیوں ان کو ایسی بات کہنے لگے تھے یا ایسی واہیات حرکت سے خوش ہوتے۔ ہماری رضا تو آپ کی رضا کے تابع ہے۔ ہم کو ان مجرموں سے کیا واسطہ ہم تو آپ کے فرمانبردار غلام ہیں پھر یہ بدبخت تو حقیقت میں ہماری پرستش بھی نہیں کرتے تھے۔ نام ہمارا لے کر شیطانوں کی پرستش تھی فی الحقیقت ان کی عقیدتمندی ان ہی کے ساتھ ہے۔ شیاطین ان کو جس طرف ہانکتے ہیں ادھر ہی مڑ جاتے ہیں خواہ فرشتوں کا نام لے کر یا کسی نبی اور ولی کا۔ بلکہ بعض توعلانیہ شیطان ہی کو پوجتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے کسی جگہ غالبًا سورہ "انعام" میں ہم مفصل لکھ چکے ہیں۔



وَإِذ قُلنا لِلمَلٰئِكَةِ اسجُدوا لِءادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ كانَ مِنَ الجِنِّ فَفَسَقَ عَن أَمرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَولِياءَ مِن دونى وَهُم لَكُم عَدُوٌّ ۚ بِئسَ لِلظّٰلِمينَ بَدَلًا {18:50}
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس (نے نہ کیا) وہ جنات میں سے تھا تو اپنے پروردگار کے حکم سے باہر ہوگیا۔ کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو۔ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں (اور شیطان کی دوستی) ظالموں کے لئے (خدا کی دوستی کا) برا بدل ہے
راجح یہ ہی ہے کہ ابلیس نوع جن سے تھا ، عبادت میں ترقی کر کے گروہ ملائکہ میں شامل ہو گیا۔ اسی لئے فرشتوں کو جو حکم سجود ہوا اس کو بھی ہوا اس وقت اس کی اصلی طبیعت رنگ لائی ۔ تکبر کر کے خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری سے بھاگ نکلا ، آدمؑ کے سامنے سر جھکانے میں کسر شان سمجھی ۔ تعجب ہے آج آدمؑ کی اولاد اپنے رب کی جگہ اسی دشمن ازلی اور اس کی اولاد و اتباع کو اپنا رفیق و خیرخواہ اور مددگار بنانا چاہتی ہے۔ اس سے بڑھ کر بے انصافی اور ظلم کیا ہو گا۔ یہ قصہ پہلے کئ جگہ مفصل گذر چکا ہے۔ یہاں اس پر متنبہ کرنے کے لئے لائے ہیں کہ دنیائے فانی کی ٹیپ ٹاپ پر مغرور ہو کر آخرت سے غافل ہو جانا شیطان کی تحریک و تسویل سے ہے چاہتا ہے کہ ہم اپنے اصلی و آبائی وطن (جنت) میں واپس نہ جائیں۔ اس کا مطمح نظر یہ ہے کہ دوست بن کر ہم سے پرانی دشمنی نکالے آدمی کو لازم ہے کہ ایسے چالاک دشمن سے ہشیار رہے۔ جو لوگ دنیوی متاع پر مغرور ہو کر ضعفاء کو حقیر سمجھتے اور اپنے کو بہت لمبا کھینچتے ہیں ، وہ تکبر و تفاخر میں شیطان لعین کی راہ پر چل رہے ہیں۔ (تنبیہ) ابن کثیر نے بعض روایات نقل کر کے جن میں ابلیس کی اصل نوع ملائکہ میں سے بتلائی گئ ہے ، لکھا ہے کہ ان روایات کا غالب حصہ اسرائیلیات میں سے ہے جنہیں بہت نظر و فکر کے بعد احتیاط کے ساتھ قبول کرنا چاہئے اور ان میں کی بعض چیزیں تو یقینًا جھوٹ ہیں۔ کیونکہ قرآن صاف ان کی تکذیب کرتا ہے ۔ آگے ابن کثیرؒ نے بہت وزندار الفاظ میں اسرائیلیات کے متعلق جو کچھ کلام کیا ہے ، دیکھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہے۔ یہاں بخوف تطویل ہم درج نہیں کر سکتے۔

أَفَحَسِبَ الَّذينَ كَفَروا أَن يَتَّخِذوا عِبادى مِن دونى أَولِياءَ ۚ إِنّا أَعتَدنا جَهَنَّمَ لِلكٰفِرينَ نُزُلًا {18:102}
کیا کافر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا (اپنا) کارساز بنائیں گے (تو ہم خفا نہیں ہوں گے) ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے جہنم کی (مہمانی) تیار کر رکھی ہے
یعنی اس دھوکہ میں مت رہنا ! وہاں تم کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ ہاں ہم تمہاری مہمانی کریں گے۔ دوزخ کی آگ اور قسم قسم کےعذاب سے (اعاذنا اللہ منہا)۔
یعنی کیا منکرین یہ گمان کرتے ہیں کہ میرے خاص بندوں (مسیحؑ ، عزیرؑ ، روح القدس ، فرشتوں) کی پرستش کر کے اپنی حمایت میں کھڑا کر لیں گے۔ { کَلَّا سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِھِمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْھِمْ ضِدَّا } (ہر گز نہیں ! وہ خود تمہاری حرکات سے بیزاری کا اظہار فرمائیں گے اور تمہارے مقابل مدعی بن کر کھڑے ہوں گے)۔



 غائبانہ حاجات میں دعا و پکار جیسی عبادت میں شرک:
الله تعالیٰ کی دو (٢) خاص صفات (ایسی) ہیں:
[(1) ہر چیز پر شھید (خوب شاہد/حاضر) ہونا {4:33}{22:17}{34:47}{41:53}{58:6}{85:9}
اور اسی لئے، (2) ہر شئی پر علیم (خوب جاننے والا) ہونا {2:29}{2:231}{2:282}{4:32}{4:126}{4:176}{5:17}{6:101}{7:89}{8:75}{9:115}{13:8}{20:98}{21:81}{24:35}{24:64}{29:62}{33:40}{33:54}{42:12}{48:26}{57:3}{58:7}{64:11}{65:12} ہر چیز کو بَصيرٌ (خوب دیکھنے والا) {67:19}  ہر چیز پر مُقيتً {4:85} مُقتَدِر  {18:45} یا قَديرٌ (خوب قدرت والا)     {2:20}{2:106}{2:109}{2:148}{2:259}{2:284}{3:26}{3:29}{3:165}{3:189}{5:17}{5:40}{5:120}{6:17}{8:41}{9:39}{11:4}{16:77} {22:6} {24:45}{29:20} {30:50}{33:27} {35:44} {35:1}{41:39}  {42:9}{46:33} {48:21} {57:2} {59:6} {64:1} {66:8}{67:١} ، ہر اسباب و سامان کے دینے والا  {18:84}  ، اور ہر چیز پر رَقيبً (خوب نگاہ رکھنے والا) ہونا {33:52}، اور ہر چیز پر مُحيطٌ (خوب احاطہ کرنے والا){4:126}{41:54}  اور ہر چیز کے دروازے کھولنے والا - فاتح {6:44}  ہر چیز کا حشر (قیامت میں جمع) کرنے والا - حاشر {6:111}  ، ہر چیز کا حسیب (خواب حساب لینے والا) {4:86} ،  ہر چیز کا رب (تربیت کرنے یعنی کھلانے اور امن دینے والا) {6:164}  ، ہر چیز پر واسع یعنی وسعت رکھنے والا ہے اپنے علم {6:80}{7:89}  اور رحمت میں {7:156} ، اور ہر چیز کا وَكيلٌ  (کارساز یعنی کام بنانے والا) ہونا {6:102} {11:12} {39:62}  ، اور ہر چیز پر حَفيظٌ (خوب حفاظت کرنے والا) ہونا {11:57} {34:21} ، ہر چیز کا خالق{6:102}{13:16}{39:62}{40:62}، ہر چیز کو موزوں (برابر) اگانے والا{6:99} {15:19} ، ہر (ضروری) چیز کی تفصیل کرنے والا{6:154} {17:12} ]
جو غیر الله (یعنی مخلوق) کو شریک مانے گا تو اس کو بھی غائبانہ حاجات میں "پکارنے" کے لائق ماننے لگے گا اور اس عمل سے اس کا یہ شرکیہ عقیدہ ظاہر ہوگا.
کیونکہ 
فاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ جَعَلَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزوٰجًا وَمِنَ الأَنعٰمِ أَزوٰجًا ۖ يَذرَؤُكُم فيهِ ۚ لَيسَ كَمِثلِهِ شَيءٌ ۖ وَهُوَ السَّميعُ البَصيرُ {42:11}
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (وہی ہے)۔ اسی نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کے جوڑے بنائے اور چارپایوں کے بھی جوڑے (بنائے اور) اسی طریق پر تم کو پھیلاتا رہتا ہے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ اور وہ دیکھتا سنتا ہے


الله کے سوا سے غائبانہ حاجات میں دعا (پکار) کے مطلق قرانی آیت مندرجہ ذیل ہیں:

إِن يَدعونَ مِن دونِهِ إِلّا إِنٰثًا وَإِن يَدعونَ إِلّا شَيطٰنًا مَريدًا {4:117}
یہ جو اس (الله) کے سوا پرستش (پکارتے) کرتے ہیں تو عورتوں کی اور پکارتے ہیں تو شیطان کی سرکش ہی کو

قُل أَرَءَيتَكُم إِن أَتىٰكُم عَذابُ اللَّهِ أَو أَتَتكُمُ السّاعَةُ أَغَيرَ اللَّهِ تَدعونَ إِن كُنتُم صٰدِقينَ {6:40}
کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر خدا کا عذاب آجائےیا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) خدا کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)

بَل إِيّاهُ تَدعونَ فَيَكشِفُ ما تَدعونَ إِلَيهِ إِن شاءَ وَتَنسَونَ ما تُشرِكونَ {6:41}
بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لئے اسے پکارتے ہو۔ وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو
جب اندھے بہرے گونگے ہو کر آیات اللہ کو جھٹلایا اور گمراہی کے عمیق غار میں جا پڑے۔ اس پر اگر دنیا میں یا قیامت میں خدا کا سخت عذاب نازل ہو تو سچ سچ بتلاؤ کہ خدا کے سوا اس وقت کسے پکارو گے۔ دنیا کی چھوٹی چھوٹی مصیبتوں میں بھی جب گھر جاتے ہو تو مجبور ہو کر اسی خدائے واحد کو پکارتے ہو اور سب شرکاء کو بھول جاتے ہو { فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ } جس پر اگر خدا چاہتا ہے تو اس مصیبت کو دور بھی کر دیتا ہے۔ اسی سے اندازہ کر لو کہ نزول عذاب یا ہول قیامت سے بچانے والا بجز خدا کے اور کون ہو سکتا ہے پھر یہ کس قدر حماقت اور اندھا پن ہے کہ اس خدا کی عظمت و جلال کو فراموش کر کے اس کی نازل کی ہوئی آیات کی تکذیب اور فرمائشی آیات کا مطالبہ کرتے ہو۔

قُل إِنّى نُهيتُ أَن أَعبُدَ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ ۚ قُل لا أَتَّبِعُ أَهواءَكُم ۙ قَد ضَلَلتُ إِذًا وَما أَنا۠ مِنَ المُهتَدينَ {6:56}
(اے پیغمبر! کفار سے) کہہ دو کہ جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے۔ (یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہاری خواہشوں کی پیروی نہیں کروں گا ایسا کروں تو گمراہ ہوجاؤں اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہوں
گذشتہ آیت میں وہ چیزیں بیان ہوئیں جو مومنین سےکہنے کے لائق ہیں۔ اس رکوع میں ان امور کا تذکرہ ہے جو مجرمین اور مکذبین کے حق میں قابل خطاب ہیں۔ یعنی آپ فرما دیجئے کہ میرا ضمیر ، میری فطرت، میری عقل میرا نور شہود اور وحی الہٰی جو مجھ پر اترتی ہے یہ سب مجھ کو اس سے روکتے ہیں کہ میں توحید کامل کے جادہ سے ذرا بھی قدم ہٹاؤں۔ خوا تم کتنے ہی حیلے اور تدبیریں کرو میں کبھی تمہاری خوشی اور خواہش کی پیروی نہیں کر سکتا۔ بفرض محال اگر پیغمبر کسی معاملہ میں وحی الہٰی کو چھوڑ کر عوام کی خواہشات کا اتباع کرنے لگیں تو خدا نےجنہیں ہادی بنا کر بھیجا تھا معاذ اللہ وہ ہی خود بہک گئے پھر ہدایت کا بیج دنیا میں کہاں رہ سکتا ہے۔

قُل مَن يُنَجّيكُم مِن ظُلُمٰتِ البَرِّ وَالبَحرِ تَدعونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفيَةً لَئِن أَنجىٰنا مِن هٰذِهِ لَنَكونَنَّ مِنَ الشّٰكِرينَ {6:63}
کہو بھلا تم کو جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں سے کون مخلصی دیتا ہے (جب) کہ تم اسے عاجزی اور نیاز پنہانی سے پکارتے ہو (اور کہتے ہو) اگر خدا ہم کو اس (تنگی) سے نجات بخشے تو ہم اس کے بہت شکر گزار ہوں

قُل أَنَدعوا مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُنا وَلا يَضُرُّنا وَنُرَدُّ عَلىٰ أَعقابِنا بَعدَ إِذ هَدىٰنَا اللَّهُ كَالَّذِى استَهوَتهُ الشَّيٰطينُ فِى الأَرضِ حَيرانَ لَهُ أَصحٰبٌ يَدعونَهُ إِلَى الهُدَى ائتِنا ۗ قُل إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الهُدىٰ ۖ وَأُمِرنا لِنُسلِمَ لِرَبِّ العٰلَمينَ {6:71}
کہو۔ کیا ہم خدا کے سوا ایسی چیز کو پکاریں جو نہ ہمارا بھلا کرسکے نہ برا۔ اور جب ہم کو خدا نے سیدھا رستہ دکھا دیا تو (کیا) ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟ (پھر ہماری ایسی مثال ہو) جیسے کسی کو جنات نے جنگل میں بھلا دیا ہو (اور وہ) حیران (ہو رہا ہو) اور اس کے کچھ رفیق ہوں جو اس کو رستے کی طرف بلائیں کہ ہمارے پاس چلا آ۔ کہہ دو کہ رستہ تو وہی ہے جو خدا نے بتایا ہے۔ اور ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ ہم خدائے رب العالمین کے فرمانبردار ہوں
یعنی مسلمان کی شان یہ ہے کہ گمراہوں کو نصیحت کر کے سیدھی راہ پر لائے اور جو خدا سے بھاگ کر غیر اللہ کی چوکھٹ پر سر رکھے ہوئے ہیں ان کو خدائے واحد کےسامنے سر بسجود کرنے کی فکر کرے۔ اس سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ وہ خدا کےسوا کسی ایسی ہستی کے آگے سر جھکائے گا جس کے قبضہ میں نہ نفع ہے نہ نقصان۔ یا اہل باطل کی صحبت میں رہ کر توحید و ایمان کی صاف سڑک چھوڑ دے گا اور شرک کی بھول بھلیاں کی طرف الٹے پاؤں پھرے گا۔ اگر معاذ اللہ ایسا ہو تو اس کی مثال اس مسافر کی سی ہو گی جو اپنے راہ جاننے والے رفقاء کے ساتھ جنگل میں سفر کر رہا تھا کہ ناگاہ غول بیابانی (خبیث جنات) نے اسے بہکا کر راستہ سے الگ کر دیا۔ وہ چاروں طرف بھٹکتا پھرتا ہے اور اس کےرفقاء ازراہ خیر خواہی اسے آوازیں دے رہے ہیں کہ ادھر آؤ راستہ اس طرف ہے۔ مگر وہ حیران و مخبوط الحواس ہو کر نہ کچھ سمجھتا ہے نہ ادھر آتا ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کہ مسافر آخرت کے لئےسیدھی راہ اسلام و توحید کی ہے اور جن کی رفاقت و معیت میں یہ سفر طے ہوتا ہے وہ پیغمبر اور اس کے متبعین ہیں۔ جب یہ بدبخت شیاطین و مضلین کے پنجہ میں پھنس کر صحرائے ضلالت میں بھٹکتا پھرتا ہے اس کے ہادی اور رفقاء ازراہ ہمدردی جادۂ حق کی طرف بلا رہے ہیں مگر یہ نہ کچھ سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ تو اے گروہ اشرار کیا تمہاری یہ غرض ہے کہ ہم اپنی ایسی مثال بنا لیں یہ آیت ان مشرکین کے جواب میں اتری ہے جنہوں نے مسلمانوں سے ترک اسلام کی درخواست کی تھی۔
ہم سے یہ امید مت رکھو کہ اسے چھوڑ کر ہم شیطان کی بتلائی ہوئی راہوں پر چلیں گے۔

فَمَن أَظلَمُ مِمَّنِ افتَرىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَو كَذَّبَ بِـٔايٰتِهِ ۚ أُولٰئِكَ يَنالُهُم نَصيبُهُم مِنَ الكِتٰبِ ۖ حَتّىٰ إِذا جاءَتهُم رُسُلُنا يَتَوَفَّونَهُم قالوا أَينَ ما كُنتُم تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ ۖ قالوا ضَلّوا عَنّا وَشَهِدوا عَلىٰ أَنفُسِهِم أَنَّهُم كانوا كٰفِرينَ {7:37}
تو اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے۔ ان کو ان کے نصیب کا لکھا ملتا ہی رہے گا یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) جان نکالنے آئیں گے تو کہیں گے کہ جن کو تم خدا کے سوا پکارا کرتے تھے وہ (اب) کہاں ہیں؟ وہ کہیں گے (معلوم نہیں) کہ وہ ہم سے (کہاں) غائب ہوگئے اور اقرار کریں گے کہ بےشک وہ کافر تھے
یعنی ان سچے پیغمبروں کی تصدیق کرنا ضروری ہے جو واقعی خدا کی آیات سناتے ہیں باقی جو شخص پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کر کےاور جھوٹی آیات بنا کر خدا پر افتراء کرے یا کسی سچے پیغمبر کو اور اس کی لائی ہوئی آیات کو جھٹلائے ان دونوں سے زیادہ ظالم کوئی نہیں۔
یعنی دنیا میں عمر و رزق وغیرہ جتنا مقدر ہے یا یہاں کی ذلت و رسوائی جو ان کے لئے لکھی ہے وہ پہنچے گی۔ پھر مرتے وقت اور مرنے کے بعد جو گت بنے گی اس کا ذکر آگے آتا ہے اور اگر { نَصِیْبُھُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ } سے دنیا کا نہیں عذاب آخروی کا حصہ مراد لیا جائے تو { حَتّٰی اِذَا جَآءَتْھُمْ } سے اس پر تنبیہ ہو گی کہ اس عذاب کے مبادی کا سلسلہ اسی دنیوی زندگی کے آخری لمحات سے شروع ہو جاتا ہے۔
یعنی جب فرشتے نہایت سختی سے ان کی روح قبض کر کے برے حال سے لے جاتے ہیں تو ان سےکہتے ہیں کہ خدا کے سوا جن کو تم پکارا کرتے تھے وہ کہاں گئے جو اب تمہارےکام نہیں آتے، انہیں بلاؤ تاکہ اس مصیبت سے تمہیں چھڑائیں۔ اس وقت کفار کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہم سخت غلطی میں پڑے تھے کہ ایسی چیزوں کو معبود و مستعان بنایا جو اس کے مستحق نہ تھے۔ آج ہماری اس مصیبت میں ان کا کہیں پتہ نہیں لیکن یہ ناوقت کا اقرار و ندامت کیا نفع دے سکتا ہے۔ حکم ہو گا { ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ } الخ باقی بعض مواضع میں جو وارد ہوا ہے کہ وہ اپنے کفر وشرک سے انکار کریں گے، اس آیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ قیامت میں مواقف اور احوال مختلف ہونگے اور جماعتیں بھی بےشمار ہوں گی۔ کہیں ایک موقف یا ایک جماعت کا ذکر ہے کہیں دوسری کا۔

إِنَّ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمثالُكُم ۖ فَادعوهُم فَليَستَجيبوا لَكُم إِن كُنتُم صٰدِقينَ {7:194}
(مشرکو) جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی ہیں (اچھا) تم ان کو پکارو اگر سچے ہو تو چاہیئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں

أَلَهُم أَرجُلٌ يَمشونَ بِها ۖ أَم لَهُم أَيدٍ يَبطِشونَ بِها ۖ أَم لَهُم أَعيُنٌ يُبصِرونَ بِها ۖ أَم لَهُم ءاذانٌ يَسمَعونَ بِها ۗ قُلِ ادعوا شُرَكاءَكُم ثُمَّ كيدونِ فَلا تُنظِرونِ {7:195}
بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں؟ کہہ دو کہ اپنے شریکوں کو بلالو اور میرے بارے میں (جو) تدبیر (کرنی ہو) کرلو اور مجھے کچھ مہلت بھی نہ دو (پھر دیکھو کہ وہ میرا کیا کرسکتے ہیں)
جن بتوں کو تم نے معبود ٹھہرایا ہے اور خدائی کا حق دیا ہے وہ تمہارے کام تو کیا آتے خود اپنی حفاظت پر بھی قادر نہیں اور باوجود مخلوق ہونے کے ان کمالات سے محروم ہیں جن سے کسی مخلوق کو دوسری پر تفوق و امتیاز حاصل ہو سکتا ہے۔ گو ان کے ظاہری ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان سب کچھ تم بناتے ہو لیکن ان اعضاء میں وہ قوتیں نہیں جن سے انہیں اعضاء کہا جا سکے۔ نہ تمہارے پکارنے سے مصنوعی پاؤں سے چل کر آسکتے ہیں۔ نہ ہاتھوں سے کوئی چیز پکڑ سکتے ہیں، نہ آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، نہ کانوں سے کوئی بات سنتے ہیں۔ اگر پکارتے پکارتے تمہارا گلا پھٹ جائے گا تب بھی وہ تمہاری آواز سننے والے اور اس پر چلنے والے یا اس کا جواب دینے والے نہیں۔ تم ان کے سامنے چلاؤ یا خاموش رہو، دونوں حالتیں یکساں ہیں۔ نہ اس سے فائدہ نہ اس سے نفع تعجب ہے کہ جو چیزیں مملوک و مخلوق ہونے میں تم ہی جیسی عاجز و درماندہ بلکہ وجود و کمالات وجود میں تم سے بھی گئ گزری ہوں انہیں خدا بنا لیا جائے اور جو اس کا رد کرے اسے نقصان پہنچنے کی دھمکیاں دی جائیں۔ آنحضرت کو مشرکین کی دھمکیاں: چنانچہ مشرکین مکہ نبی کریم کو کہتے تھے کہ آپ ہمارے بتوں کی بےادبی کرنا چھوڑ دیں ورنہ نہ معلوم وہ کیا آفت تم پر نازل کر دیں { وَیُخَوِّ فُوْنَکَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ } (زمر رکوع۴) اسی کا جواب { قُلِ ادْعُوْا شُرَکَآءَ کُمْ } الخ سے دیا یعنی تم اپنے سب شرکاء کو پکارو اور میرے خلاف اپنے سب منصوبے اور تدبیریں پوری کر لو، پھر مجھ کو ایک منٹ کی مہلت بھی نہ دو۔ دیکھوں تم میرا کیا بگاڑ سکو گے۔

وَالَّذينَ تَدعونَ مِن دونِهِ لا يَستَطيعونَ نَصرَكُم وَلا أَنفُسَهُم يَنصُرونَ {7:197}
اور جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تمہاری ہی مدد کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ خود ہی اپنی مدد کرسکتے ہیں

وَإِن تَدعوهُم إِلَى الهُدىٰ لا يَسمَعوا ۖ وَتَرىٰهُم يَنظُرونَ إِلَيكَ وَهُم لا يُبصِرونَ {7:198}
اور اگر تم ان کو سیدھے رستے کی طرف بلاؤ تو سن نہ سکیں اور تم انہیں دیکھتے ہو کہ (بہ ظاہر) آنکھیں کھولے تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں مگر (فی الواقع) کچھ نہیں دیکھتے
یعنی بظاہر آنکھیں بنی ہوئی ہیں، پر ان میں بینائی کہاں؟




هُوَ الَّذى يُسَيِّرُكُم فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۖ حَتّىٰ إِذا كُنتُم فِى الفُلكِ وَجَرَينَ بِهِم بِريحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحوا بِها جاءَتها ريحٌ عاصِفٌ وَجاءَهُمُ المَوجُ مِن كُلِّ مَكانٍ وَظَنّوا أَنَّهُم أُحيطَ بِهِم ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ لَئِن أَنجَيتَنا مِن هٰذِهِ لَنَكونَنَّ مِنَ الشّٰكِرينَ {10:22}
وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے اور کشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم جھونکوں) سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے اور لہریں ہر طرف سے ان پر (جوش مارتی ہوئی) آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (اب تو) لہروں میں گھر گئے تو اس وقت خالص خدا ہی کی عبادت کرکے اس سے دعا مانگنے لگتے ہیں کہ (اے خدا) اگر تو ہم کو اس سے نجات بخشے تو ہم (تیرے) بہت ہی شکر گزار ہوں

وَإِذا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِى البَحرِ ضَلَّ مَن تَدعونَ إِلّا إِيّاهُ ۖ فَلَمّا نَجّىٰكُم إِلَى البَرِّ أَعرَضتُم ۚ وَكانَ الإِنسٰنُ كَفورًا {17:67}
اور جب تم کو دریا میں تکلیف پہنچتی ہے (یعنی ڈوبنے کا خوف ہوتا ہے) تو جن کو تم پکارا کرتے ہو سب اس (پروردگار) کے سوا گم ہوجاتے ہیں۔ پھر جب وہ تم کو (ڈوبنے سے) بچا کر خشکی پر لے جاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان ہے ہی ناشکرا
یعنی مصیبت سےنکلتے ہی محسن حقیقی کو بھول جاتا ہے۔ چند منٹ پہلے دریا کی موجوں میں خدا یاد آرہا تھا۔ کنارہ پر قدرم رکھا اور بے فکر ہو کر سب فراموش کر بیٹھا ۔ اس سے بڑھ کر ناشکر گذاری کیا ہوگی۔

فَإِذا رَكِبوا فِى الفُلكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ فَلَمّا نَجّىٰهُم إِلَى البَرِّ إِذا هُم يُشرِكونَ {29:65}
پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خدا کو پکارتے (اور) خالص اُسی کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ اُن کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگے جاتے ہیں

وَإِذا غَشِيَهُم مَوجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ فَلَمّا نَجّىٰهُم إِلَى البَرِّ فَمِنهُم مُقتَصِدٌ ۚ وَما يَجحَدُ بِـٔايٰتِنا إِلّا كُلُّ خَتّارٍ كَفورٍ {31:32}
اور جب اُن پر (دریا کی) لہریں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو خدا کو پکارنے (اور) خالص اس کی عبادت کرنے لگتے ہیں پھر جب وہ اُن کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو بعض ہی انصاف پر قائم رہتے ہیں۔ اور ہماری نشانیوں سے وہی انکار کرتے ہیں جو عہد شکن اور ناشکرے ہیں
اوپر دلائل و شواہد سے سمجھایا تھا کہ ایک اللہ ہی کا ماننا ٹھیک ہے اس کے خلاف سب باتیں جھوٹی ہیں۔ یہاں بتلایا کہ طوفانی موجوں میں گھر کر کٹر سے کٹر مشرک بھی بڑی عقیدت مندی اور اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسانی ضمیر اور فطرت کی اصلی آواز یہ ہی ہے۔ باقی سب بناوٹ اور جھوٹے ڈھکوسلے ہیں۔
یعنی جب خدا تعالیٰ طوفان سے نکال کر خشکی پر لے آیا۔ تو تھوڑے نفوس ہیں جو اعتدال کی راہ پر قائم رہیں ورنہ اکثر تو دریا سے نکلتے ہی شرارتیں شروع کر دیتے ہیں۔ مترجم رحمہ اللہ نے { فَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ } کا ترجمہ کیا "تو کوئی ہوتا ہے ان میں بیچ کی چال پر"۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں یعنی جو حال خوف کے وقت تھا وہ تو کسی کا نہیں ، مگر بالکل بھول بھی نہ جائے ایسے بھی کم ہیں نہیں تو اکثر قدرت سے منکر ہوتے ہیں۔ اپنے بچ نکلے کو تدبیر پر رکھتےہیں یا کسی ارواح وغیرہ کی مدد پر۔
یعنی ابھی تھوڑی دیر پہلے طوفان میں گھر کر جو قول و قرار اللہ سے کر رہے تھے سب جھوٹے نکلے۔ چند روز بھی اس کے انعام و احسان کا حق نہ مانا۔ اس قدر جلد قدرت کی نشانیوں سے منکر ہو گئے۔

قُلِ ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِ اللَّهِ ۖ لا يَملِكونَ مِثقالَ ذَرَّةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَلا فِى الأَرضِ وَما لَهُم فيهِما مِن شِركٍ وَما لَهُ مِنهُم مِن ظَهيرٍ {34:22}
کہہ دو کہ جن کو تم الله کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ۔ وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ان میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے
یہاں سے مشرکین مکہ کو خطاب ہے جنکی تنبیہ کے لئے "سبا" کا قصہ سنایا تھا۔ یعنی اللہ کے سوا جن چیزوں پر تم کو خدائی گمان ہے ذرا کسی آڑے وقت میں ان کو پکارو تو سہی دیکھیں وہ کیا کام آتے ہیں؟







أَلا إِنَّ لِلَّهِ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَمَن فِى الأَرضِ ۗ وَما يَتَّبِعُ الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ شُرَكاءَ ۚ إِن يَتَّبِعونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِن هُم إِلّا يَخرُصونَ {10:66}
سن رکھو کہ جو مخلوق آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے سب خدا کے (بندے اور اس کے مملوک) ہیں۔ اور یہ جو خدا کے سوا (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو پکارتے ہیں۔ وہ (کسی اور چیز کے) پیچھے نہیں چلتے۔ صرف ظن کے پیچھے چلتے ہیں اور محض اٹکلیں دوڑا رہے ہیں
یعنی کل زمین و آسمان میں خدائے واحد کی سلطنت ہے۔ سب جن و انس اور فرشتے اسی کے مملوک و مخلوق ہیں۔ مشرکین کا غیر اللہ کو پکارنا اور انہیں خدائی کا حصہ دار بنانا ، محض اٹکل کے تیر اور واہی تباہی خیالات ہیں۔ ان کے ہاتھ میں نہ کوئی حقیقت ہے نہ حجت و برہان ، خالی اوہام و ظنون کی اندھیریوں میں پڑے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

وَلا تَدعُ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُكَ وَلا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظّٰلِمينَ {10:106}
اور خدا کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تمہارا کچھ بھلا کرسکے اور نہ کچھ بگاڑ سکے۔ اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں ہوجاؤ گے
یعنی اگر میرا طریقہ اور مسلک دینی تمہاری سمجھ میں نہیں آیا اس لئے اس کی نسبت شکوک و شبہات میں پھنسے ہوئے ہو تو میں تمہیں اپنے دین کا اصل اصول (جو توحید خالص ہے) سمجھائے دیتا ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ میں تمہارے ان فرضی معبودوں کی عبادت سےسخت نفور اور بیزار ہوں جس کے اختیار کرنے کا امکان بھی کبھی میری طرف سے دل میں نہ لانا۔ میری عبادت خالص اس خداوند قدوس کے لئے ہے جس کے قبضہ میں تمہاری سب کی جانیں ہیں ۔ کہ جب تک چاہے انہیں جسموں میں چھوڑے رکھے اور جب چاہے ایک دم میں کھینچ لے گویا موت و حیات کا رشتہ جس کے ہاتھ میں ہے بندگی اسی کی ہو سکتی ہے نہ صرف یہ کہ جوارح سے اس کی بندگی کی جائے ضروری ہے کہ دل میں اس کی توحید و تفرید پر پورا یقین و ایمان ہو اور ظاہر و باطن میں اسی دین حنیف پر جو ابراہیم خلیل اللہ کا دین ہے پوری ہمت اور توجہ سے مستقیم رہ کر شرک جلی و خفی کا تسمہ نہ لگا رہنے دیا جائے۔ جس طرح عبادت صرف اسی کی کریں۔ استعانت کے لئے بھی اسی کو پکاریں کیونکہ ہر قسم کا نفع نقصان اور بھلائی برائی تنہا اسی کے قبضہ میں ہے مشرکین کی طرح ایسی چیزوں کو مدد کے لئے پکارنا جو کسی نفع نقصان کے مالک نہ ہوں سخت بے موقع بات بلکہ ظلم عظیم (یعنی شرک) کا ایک شعبہ ہے۔ اگر بفرض محال نبی سے ایسی حرکت صادر ہو تو ان کی عظیم الشان شخصیت کو لحاظ کرتے ہوئے ظلم اعظم ہو گا۔

وَما ظَلَمنٰهُم وَلٰكِن ظَلَموا أَنفُسَهُم ۖ فَما أَغنَت عَنهُم ءالِهَتُهُمُ الَّتى يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ مِن شَيءٍ لَمّا جاءَ أَمرُ رَبِّكَ ۖ وَما زادوهُم غَيرَ تَتبيبٍ {11:101}
اور ہم نے ان لوگوں پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اُوپر ظلم کیا۔ غرض جب تمہارے پروردگار کا حکم آپہنچا تو جن معبودوں کو وہ خدا کے سوا پکارا کرتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے۔ اور تباہ کرنے کے سوا ان کے حق میں اور کچھ نہ کرسکے
یعنی خدا نے کسی کو بے قصور نہیں پکڑا جو ظلم کا وہم ہو سکے ، جب وہ جرائم کے ارتکاب میں حد سے نکل گئے اور اس طرح اپنے کو کھلم کھلا سزا کا مستحق ٹھہرا دیا تب خدا کا عذاب آیا۔ پھر دیکھ لو جن معبودوں (دیوتاؤں) کا انہیں بڑا سہارا تھا اور جن سے بڑی بڑی توقعات قائم کر رکھی تھیں وہ ایسی سخت مصیبت کے وقت کچھ بھی کام نہ آئے۔
باطل معبود کام کیا آتے ؟ الٹے ہلاکت کا سبب بنے ۔ جب انہیں نفع و ضرر کا مالک سمجھا ، امیدیں قائم کیں، چڑھاوے چڑھائے ۔ تعظیم اور ڈنڈوت کی ، تو یہ روز بد دیکھنا پڑا۔ تکذیب انبیاء وغیرہ کا جو عذاب ہوتا ، شرک و بت پرستی کا عذاب اس پر مزید رہا۔

لَهُ دَعوَةُ الحَقِّ ۖ وَالَّذينَ يَدعونَ مِن دونِهِ لا يَستَجيبونَ لَهُم بِشَيءٍ إِلّا كَبٰسِطِ كَفَّيهِ إِلَى الماءِ لِيَبلُغَ فاهُ وَما هُوَ بِبٰلِغِهِ ۚ وَما دُعاءُ الكٰفِرينَ إِلّا فى ضَلٰلٍ {13:14}
سودمند پکارنا تو اسی کا ہے اور جن کو یہ لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی پکار کو کسی طرح قبول نہیں کرتے مگر اس شخص کی طرح جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا دے تاکہ (دور ہی سے) اس کے منہ تک آ پہنچے حالانکہ وہ (اس تک کبھی بھی) نہیں آسکتا اور (اسی طرح) کافروں کی پکار بیکار ہے
یعنی پکارنا اسی کا چاہئےجو ہر قسم کے نفع و ضرر کا مالک ہے ۔ عاجز کو پکارنے سے کیا حاصل ؟ اللہ کے سوا کون ہے جس کے قبضہ میں اپنا یا دوسروں کا نفع و ضرر ہے ؟ غیر اللہ کو اپنی مدد کے لئے بلانا ایسا ہے جیسے کوئی پیاسا کنویں کی من پر کھڑا ہو کر پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے اور خوشامد کرے کہ میرے منہ میں پہنچ جا۔ ظاہر ہے قیامت تک پانی اس کی فریاد کو پہنچنے والا نہیں۔ بلکہ اگر پانی اس کی مٹھی میں ہو۔ تب بھی خود چل کر منہ تک نہیں جا سکتا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "کافر جن کو پکارتے ہیں بعضے محض خیالات و اوہام ہیں ، بعضے جن اور شیاطین ہیں ، اور بعضی چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں ، لیکن اپنے خواص کی مالک نہیں ۔ پھر ان کے پکارنے سے کیا حاصل" ؟ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں۔"


وَالَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ لا يَخلُقونَ شَيـًٔا وَهُم يُخلَقونَ {16:20}
اور جن لوگوں کو یہ خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی تو نہیں بناسکتے بلکہ خود ان کو اور بناتے ہیں
خدا تو وہ ہے جس کے عظیم الشان اور غیر محصور انعامات کا اوپر تذکرہ ہوا۔ اب مشرکین کی حماقت ملاحظہ ہو کہ ایسے عالم الکل اور خدا کا شریک ان چیزوں کو ٹھہرا دیا۔ جو ایک گھاس کا تنکا پیدا نہیں کر سکتیں ، بلکہ خود ان کا وجود بھی خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔

وَإِذا رَءَا الَّذينَ أَشرَكوا شُرَكاءَهُم قالوا رَبَّنا هٰؤُلاءِ شُرَكاؤُنَا الَّذينَ كُنّا نَدعوا مِن دونِكَ ۖ فَأَلقَوا إِلَيهِمُ القَولَ إِنَّكُم لَكٰذِبونَ {16:86}
اور جب مشرک (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے کہ پروردگار یہ وہی ہمارے شریک ہیں جن کو ہم تیرے سوا پُکارا کرتے تھے۔ تو وہ (اُن کے کلام کو مسترد کردیں گے اور) اُن سے کہیں گے کہ تم تو جھوٹے ہو
یعنی ہم تو ان کی بدولت مارے گئے ۔ شاید مطلب ہو کہ ہم بذات خود بے قصور ہیں ، یا یہ کہ انہیں دوہری سزا دیجئے۔
یعنی جھوٹے ہو جو ہم کو خدا کا شریک ٹھہرا لیا۔ ہم نے کب کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو۔ فی الحقیقت تم محض اپنے اوہام و خیالات کو پوجتے تھے جس کے نیچے کوئی حقیقت نہ تھی ، یا جن و شیاطین کی پرستش کرتے تھے ۔ مگر وہاں شیطان بھی یہ کہہ کر الگ ہو جائے گا۔ { وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَکُمْ } (ابراھیم رکوع۴) غرض جن چیزوں کو مشرکین نے معبود بنا رکھا تھا ، سب اپنی علیحدگی اور بیزاری کا اظہار کریں گے ، کوئی سچ کوئی جھوٹ ، پتھر کے بتوں کو تو سرے سے کچھ خبر ہی نہ تھی۔ ملائکہ اور بعض انبیاء و صالحین ہمیشہ شرک سے سخت نفرت و بیزاری اور اپنی خالص بندگی کا اظہار کرتے رہے۔ رہ گئے شیاطین سو ان کا اظہار نفرت گو جھوٹ ہو گا ، تاہم اس سے مشرکین کو کلی طور پر مایوسی ہو جائے گی کہ آج بڑے سے بڑا رفیق بھی کام آنے والا نہیں۔

قُلِ ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِهِ فَلا يَملِكونَ كَشفَ الضُّرِّ عَنكُم وَلا تَحويلًا {17:56}
کہو کہ (مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں (معبود ہونے کا) گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے
یعنی خدا تو وہ ہے کہ جس کو چاہے عذاب دے جس پر چاہے مہربانی فرمائے ، جس کو جس قدر چاہے دوسروں پر فضیلت عطا کرے ، اس کی قدرت کامل اور علم محیط ہو ۔ اب ذرا مشرکین ان ہستیوں کو پکاریں جن کو انہوں نے خدا سمجھ رکھا یا بنا رکھا ہے۔ کیا ان میں ایک بھی ایسا مستقل اختیار رکھتا ہے کہ ذرا سی تکلیف کو تم سے دور کر سکے یا ہلکی کر دے یا تم سے اٹھا کر کسی دوسرے پر ڈال دے۔ پھر ایسی ضعیف و عاجز مخلوق کو معبود ٹھہرا لینا کیسے روا ہو گا۔

أُولٰئِكَ الَّذينَ يَدعونَ يَبتَغونَ إِلىٰ رَبِّهِمُ الوَسيلَةَ أَيُّهُم أَقرَبُ وَيَرجونَ رَحمَتَهُ وَيَخافونَ عَذابَهُ ۚ إِنَّ عَذابَ رَبِّكَ كانَ مَحذورًا {17:57}
یہ لوگ جن کو (خدا کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (خدا کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے
یعنی باوجود غایت قرب کے ان کی امیدیں محض حق تعالیٰ کی مہربانی سے وابستہ ہیں اور اسی کے عذاب سے ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہر قسم کا نفع پہنچانا ، یا ضرر کو روکنا ایک خدا کے قبضہ میں ہے۔
بخاری میں روایت ہے کہ کچھ لوگ جاہلیت میں جنات کی عبادت کرتے تھے ۔ وہ جن مسلمان ہو گئے اور یہ پوجنے والے اپنی جہالت پر قائم رہے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ جن ، ملائکہ ، مسیحؑ و عزیرؑ وغیرہ کے پوجنے والے سب اس میں شامل ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جن ہسیتوں کو تم معبود و مستعان سمجھ کر پکارتے ہو ، وہ خود اپنے رب کا بیش از بیش قرب تلاش کرتے ہیں۔ ان کی دوادوش صرف اس لئے ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کرنے میں کون آگے نکلتا ہے ، ان میں جو زیادہ مقرب ہیں وہ ہی زیادہ قرب الہٰی کے طالب رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کسی سب سے زیادہ مقرب بندہ کی دعا وغیرہ کو حصول قرب کا وسیلہ بنائیں ۔ پس جب تمہارے تجویز کئے ہوئے معبودوں کا خدا کے سامنے یہ حال ہے تو اپنے تئیں خود فیصلہ کر لو کہ خدا تعالیٰ کو خوش رکھنا کہاں تک ضروری ہے ۔ غیر اللہ کی پرستش سے نہ خدا خوش ہوتا ہے نہ وہ جنہیں تم خوش رکھنا چاہتے ہو (تنبیہ) "توسل" اور "تعبد" میں فرق ظاہر ہے۔ پھر توسل بھی اسی حد تک مشروع ہے جہاں تک شریعت نے اجازت دی۔

وَرَبَطنا عَلىٰ قُلوبِهِم إِذ قاموا فَقالوا رَبُّنا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ لَن نَدعُوَا۟ مِن دونِهِ إِلٰهًا ۖ لَقَد قُلنا إِذًا شَطَطًا {18:14}
اور ان کے دلوں کو مربوط (یعنی مضبوط) کردیا۔ جب وہ (اُٹھ) کھڑے ہوئے تو کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اس کے سوا کسی کو معبود (سمجھ کر) نہ پکاریں گے (اگر ایسا کیا) تو اس وقت ہم نے بعید از عقل بات کہی
یعنی مضبوط و ثابت قدم رکھا کہ اپنی بات صاف کہدی۔
یعنی جب "رب" وہ ہی ہے تو معبود کسی اور کو ٹھہرانا حماقت ہے ۔ "ربوبیت" و "الوہیت" دونوں اسی کے لئے مخصوص ہیں۔

وَيَومَ يَقولُ نادوا شُرَكاءِىَ الَّذينَ زَعَمتُم فَدَعَوهُم فَلَم يَستَجيبوا لَهُم وَجَعَلنا بَينَهُم مَوبِقًا {18:52}
اور جس دن خدا فرمائے گا کہ (اب) میرے شریکوں کو جن کی نسبت تم گمان (الوہیت) رکھتے تھے بلاؤ تو وہ ان کے بلائیں گے مگر وہ ان کو کچھ جواب نہ دیں گے۔ اور ہم ان کے بیچ میں ایک ہلاکت کی جگہ بنادیں گے
اس وقت رفاقت اور دوستی کی ساری قلعی کھل جائے گی ایک دوسرے کے نزدیک بھی نہ جا سکیں گے ۔ کام آنا تو درکنار دونوں کے بیچ میں عظیم و وسیع خندق آگ کی حائل ہو گی (اعاذنا اللہ منہا)۔
یعنی جن کو میرا شریک بنا رکھا تھا ۔ بلاؤ ! تا اس مصیبت کے وقت تمہاری مدد کریں۔

وَأَعتَزِلُكُم وَما تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ وَأَدعوا رَبّى عَسىٰ أَلّا أَكونَ بِدُعاءِ رَبّى شَقِيًّا {19:48}
اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ خدا کے سوا پکارا کرتے ہیں ان سے کنارہ کرتا ہوں اور اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا۔ امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا
یعنی میری نصیحت کا جب کوئی اثر تم پر نہیں ، بلکہ الٹا مجھے دھمکیاں دیتے ہو ، تو اب میں خود تمہاری بستی میں رہنا نہیں چاہتا ۔ تم کو اور تمہارے جھوٹے معبودوں کو چھوڑ کر وطن سے ہجرت کرتا ہوں تاکہ یکسو ہو کر اطمینان سے خدائے واحد کی عبادت کر سکوں حق تعالیٰ کے فضل و رحمت سے کامل امید ہے کہ اس کی بندگی کر کے میں محروم و ناکام نہیں رہوں گا ۔ غربت و بےکسی میں جب اس کو پکاروں گا ، ادھر سے ضرور اجابت ہو گی ۔ میرا خدا پتھر کی مورتی نہیں کہ کتنا ہی چیخو چلاؤ سن ہی نہ سکے۔

يَدعوا مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُ وَما لا يَنفَعُهُ ۚ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ البَعيدُ {22:12}
یہ خدا کے سوا ایسی چیز کو پکارتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچائے اور نہ فائدہ دے سکے۔ یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے
یعنی خدا کی بندگی چھوڑی دنیا کی بھلائی نہ ملنے کی وجہ سے ۔ اب پکارتا ہے ان چیزوں کو جن کے اختیار میں نہ ذرہ برابر بھلائی ہے نہ برائی ۔ کیا خدا نے جو چیز نہیں دی تھی وہ پتھروں سے حاصل کرے گا ؟ اس سے بڑھ کر حماقت کیا ہو گی۔

يَدعوا لَمَن ضَرُّهُ أَقرَبُ مِن نَفعِهِ ۚ لَبِئسَ المَولىٰ وَلَبِئسَ العَشيرُ {22:13}
ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے۔ ایسا دوست برا بھی اور ایسا ہم صحبت بھی برا
یعنی بتوں سے نفع کی تو امید موہوم ہے (بت پرستوں کے زعم کے موافق) لیکن انکو پوجنے کا جو ضرر ہے وہ قطعی اور یقینی ہے اس لئے فائدہ کا سوال تو بعد کو دیکھا جائے گا ، نقصان ابھی ہاتھوں ہاتھ پہنچ گیا۔
جب قیامت میں بت پرستی کے نتائج سامنے آئیں گےتو بت پرست بھی یہ کہیں گے { لَبِئْسَ المَوْلٰی وَلَبِئْسَ الْعَشِیْرُ } یعنی جس سےبڑی امداد و رفاقت کی توقع تھی وہ بہت ہی برے رفیق اور مددگار ثابت ہوئے کہ نفع تو کیا پہنچاتے الٹا ان کے سبب سے نقصان پہنچ گیا ۔ ؂مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا ، موم سمجھا تھا تیرے دل کو سو پتھر نکلا۔

ذٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الحَقُّ وَأَنَّ ما يَدعونَ مِن دونِهِ هُوَ البٰطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ العَلِىُّ الكَبيرُ {22:62}
یہ اس لئے کہ خدا ہی برحق ہے اور جس چیز کو (کافر) خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہے اور اس لئے خدا رفیع الشان اور بڑا ہے
یعنی اللہ کے سوا ایسے عظیم الشان انقلابات اور کس سے ہو سکتے ہیں۔ واقع میں صحیح اور سچا خدا تو وہ ہی ایک ہے باقی اسکو چھوڑ کر خدائی کے جو دوسرے پاکھنڈ پھیلائے گئے ہیں سب غلط، جھوٹ اور باطل ہیں۔ اسی کو خدا کہنا اور معبود بنانا چاہئے جو سب سے اوپر اور سب سے بڑ اہے اور یہ شان بالاتفاق اسی ایک اللہ کی ہے۔

يٰأَيُّهَا النّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاستَمِعوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ لَن يَخلُقوا ذُبابًا وَلَوِ اجتَمَعوا لَهُ ۖ وَإِن يَسلُبهُمُ الذُّبابُ شَيـًٔا لا يَستَنقِذوهُ مِنهُ ۚ ضَعُفَ الطّالِبُ وَالمَطلوبُ {22:73}
لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
یہ توحید کے مقابلہ میں شرک کی شناعت و قبح ظاہر کرنے کے لئے مثال بیان فرمائی جسے کان لگا کر سننا اور غوروفکر سے سمجھنا چاہئے۔ تا ایسی رکیک و ذلیل حرکت سے باز رہو۔
یعنی مکھی بہت ہی ادنیٰ اور حقیر جانور ہے۔ جن چیزوں میں اتنی بھی قدرت نہیں کہ سب مل کر ایک مکھی پیدا کر دیں، یا مکھی ان کے چڑھاوے وغیرہ میں سے کوئی چیز لیجائے تو اس سے واپس لے سکیں ان کو "خالق السماوات و الارضین" کے ساتھ معبودیت اور خدائی کی کرسی پر بٹھا دینا کس قدر بے حیائی حماقت اور شرمناک گستاخی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مکھی بھی کمزور اور بتوں سے بڑھ کر ان کا پوجنے والا کمزور ہے جس نے ایسی حقیر اور کمزور چیز کو اپنا معبود و حاجت روا بنا لیا۔

وَالَّذينَ لا يَدعونَ مَعَ اللَّهِ إِلٰهًا ءاخَرَ وَلا يَقتُلونَ النَّفسَ الَّتى حَرَّمَ اللَّهُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا يَزنونَ ۚ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ يَلقَ أَثامًا {25:68}
اور وہ جو الله کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور جن جاندار کو مار ڈالنا الله نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق پر (یعنی شریعت کے مطابق) اور بدکاری نہیں کرتے۔ اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا
یعنی بڑا سخت گناہ کیا جس کی سزا مل کر رہے گی۔ بعض روایات میں آیا کہ “ آثام” جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں بہت ہی ہولناک عذاب بیان کئے گئے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہا
مثلاً قتل عمد کے بدلہ قتل کرنا، یا بدکاری کی سزا میں زانی محصن کو سنگسار کرنا، یا جو شخص دین چھوڑ کر جماعت سے علیحدہ ہو جائے، اس کو مار ڈالنا، یہ سب صورتیں { اِلَّا بِالْحَقِّ } میں شامل ہیں۔ کما ورد فی الحدیث۔

قُل ما يَعبَؤُا۟ بِكُم رَبّى لَولا دُعاؤُكُم ۖ فَقَد كَذَّبتُم فَسَوفَ يَكونُ لِزامًا {25:77}
کہہ دو کہ اگر تم (الله کو) نہیں پکارتے تو میرا پروردگار بھی تمہاری کچھ پروا نہیں کرتا۔ تم نے تکذیب کی ہے سو اس کی سزا (تمہارے لئے) لازم ہوگی
یعنی تمہارے نفع ونقصان کی باتیں سمجھا دیں۔ بندہ کو چاہئے مغرور اور بے باک نہ ہو، خدا کو اس کی کیا پرواہ ہاں اس کی التجاء پر رحم کرتا ہے، نہ التجا کرو گے اور بڑے بنے رہو گے تو مٹھ بھیڑ کے لئے تیار ہو جاؤ جو عنقریب ہونے والی ہے۔
یعنی کافر جو حق کو جھٹلا چکے۔ یہ تکذیب عنقریب ان کے گلے کا ہار بنے گی اس کی سزا سے کسی طرح چھٹکارا نہ ہو گا۔ آخرت کی ابدی ہلاکت تو ہے ہی دنیا میں بھی اب جلد مٹھ بھیڑ ہونے والی ہے ۔ یعنی لڑائی جہاد۔ چنانچہ غزوہ “بدر” میں اس مٹھ بھیڑ کا نتیجہ دیکھ لیا۔ تم سورۃ الفرقان وللہ الحمد والمنہ۔

قالَ هَل يَسمَعونَكُم إِذ تَدعونَ {26:72}
ابراہیم نے کہا کہ جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری آواز کو سنتے ہیں؟
یعنی اتنا پکارنے پر کبھی تمہاری بات سنتے ہیں؟ اگر نہیں سنتے (جیسا کہ ان کے جماد ہونے سے ظاہر ہے) تو پکارنا فضول ہے۔

فَلا تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلٰهًا ءاخَرَ فَتَكونَ مِنَ المُعَذَّبينَ {26:213}
تو الله کے سوا کسی اور معبود کو مت پکارنا، ورنہ تم کو عذاب دیا جائے گا
یہ فرمایا رسول کو اور سنایا اوروں کو یعنی جب یہ کتاب بلا شک و شبہ خد اکی اتاری ہوئی ہے، شیطان کا اس میں ذرہ بھر دخل نہیں تو چاہئے کہ اس کی تعلیم پر چلو جس میں اصل اصول توحید ہے۔ شرک و کفر اور تکذیب کی شیطانی راہ اختیار مت کرو۔ ورنہ عذاب الہٰی سے رستگاری کی کوئی سبیل نہیں۔

وَقيلَ ادعوا شُرَكاءَكُم فَدَعَوهُم فَلَم يَستَجيبوا لَهُم وَرَأَوُا العَذابَ ۚ لَو أَنَّهُم كانوا يَهتَدونَ {28:64}
اور کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ۔ تو وہ اُن کو پکاریں گے اور وہ اُن کو جواب نہ دے سکیں گے اور (جب) عذاب کو دیکھ لیں گے (تو تمنا کریں گے کہ) کاش وہ ہدایت یاب ہوتے
یعنی اس وقت عذاب کو دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں سیدھی راہ چلتے تو یہ مصیبت کیوں دیکھنی پڑتی۔
یعنی کہا جائے گا کہ اب مدد کو بلاؤ ، مگر وہ کیا مدد کر سکتے خود اپنی مصیبت میں گرفتار ہوں گے۔ کذا قال المفسرون۔ اور حضرت شاہ صاحبؒ کی تحریر کا حاصل یہ ہے کہ شیاطین جب نیکوں کا نام لیں گے تو مشرکین سےکہا جائے گا کہ ان نیکوں کو پکارو! وہ کچھ جواب نہ دیں گے۔ کیونکہ وہ ان مشرکانہ حرکات سے راضی نہ تھے یا خبر نہ رکھتے تھے۔

وَلا تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلٰهًا ءاخَرَ ۘ لا إِلٰهَ إِلّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيءٍ هالِكٌ إِلّا وَجهَهُ ۚ لَهُ الحُكمُ وَإِلَيهِ تُرجَعونَ {28:88}
اور الله کے ساتھ کسی اور کو معبود (سمجھ کر) نہ پکارنا اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کی ذات (پاک) کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے
یعنی ہر چیز اپنی ذات سےمعدوم ہے اور تقریبًا تمام چیزوں کو فنا ہونا ہے، خواہ کبھی ہو۔ مگر اس کا منہ یعنی وہ آپ کبھی معدوم تھا، نہ کبھی فنا ہو سکتا ہے۔ سچ ہے؎ { اَلَا کُلُّ شیءٍ مَا خَلَا اللہ بَاطِلٌ }۔ قال تعالیٰ { کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ} اور بعض سلف نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ سارے کام مٹ جانے والے اور فنا ہو جانے والے ہیں بجز اس کام کے جو خالصًا لوجہ اللہ کیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
یہ آپ کو خطاب کر کے دوسروں کو سنایا۔ اوپر کی آیتوں میں بھی بعض مفسرین ایسا ہی لکھتے ہیں۔
یعنی سب کو اس کی عدالت میں حاضر ہونا ہے جہاں تنہا اسی کا حکم چلے گا۔ صورۃً و ظاہرًا بھی کسی کا حکم و اقتدار باقی نہ رہے گا۔ اے اللہ اس وقت اس گنہگار بندہ پر رحم فرمایئے اور اپنے غضب سے پناہ دیجئے۔ تم سورۃ القصص وللہ الحمد والمنۃ۔

إِنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما يَدعونَ مِن دونِهِ مِن شَيءٍ ۚ وَهُوَ العَزيزُ الحَكيمُ {29:42}
یہ جس چیز کو الله کے سوا پکارتے ہیں (خواہ) وہ کچھ ہی ہو خدا اُسے جانتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے
یعنی ممکن تھا سننے والا تعجب کرے کہ سب کو ایک ہی ذیل میں کھینچ دیا کسی کو مستثنٰی نہ کیا بعض لوگ بت کو پوجتے ہیں، بعض آگ پانی کو، بعض اولیاء یا فرشتوں کو، سو اللہ نے فرما دیا کہ اللہ کو سب معلوم ہیں۔ اگر کوئی ایک بھی ان سے مستقل قدرت و اختیار رکھتا تو اللہ سب کی یک قلم نفی نہ کرتا۔
یعنی اللہ کو کسی کی رفاقت نہیں چاہئے، وہ زبردست ہے، اور مشورہ نہیں چاہئے کیونکہ حکیم مطلق ہے۔

ذٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الحَقُّ وَأَنَّ ما يَدعونَ مِن دونِهِ البٰطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ العَلِىُّ الكَبيرُ {31:30}
یہ اس لئے کہ الله کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ الله کے سوا پکارتے ہیں وہ لغو ہیں اور یہ کہ الله ہی عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے
لہذا بندہ کی انتہائی پستی اور تذلل (جس کا نام عبادت ہے) اسی کے لئے ہونا چاہئے۔
یعنی حق تعالیٰ کی یہ شئون عظیمہ او رصفات قاہرہ اس لیے ذکر کی گئیں کہ سننے والے سمجھ لیں کہ ایک خدا کو ماننا اور صرف اس کی عبادت کرنا ہی ٹھیک راستہ ہے۔ اس کے خلاف جو کچھ کہا جائے یا کیا جائے باطل اور جھوٹ ہے۔ یا یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ کا موجود بالذات اور واجب الوجود ہونا جو { بِاَنَّ اللہَ ھُوَ الْحَقُّ } سے سمجھ میں آتا ہے اور دوسروں کا باطل و ہالک الذات ہونا اس کو مستلزم ہے کہ اکیلے اسی خدا کے واسطے یہ شئون و صفات ثابت ہوں، پھر جس کے لئے یہ شئون و صفات ثابت ہوں گی وہ ہی معبود بننے کا مستحق ہو گا۔

قُلِ ادعُوا الَّذينَ زَعَمتُم مِن دونِ اللَّهِ ۖ لا يَملِكونَ مِثقالَ ذَرَّةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَلا فِى الأَرضِ وَما لَهُم فيهِما مِن شِركٍ وَما لَهُ مِنهُم مِن ظَهيرٍ {34:22}
کہہ دو کہ جن کو تم الله کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ۔ وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ان میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی الله کا مددگار ہے
یہاں سے مشرکین مکہ کو خطاب ہے جنکی تنبیہ کے لئے "سبا" کا قصہ سنایا تھا۔ یعنی اللہ کے سوا جن چیزوں پر تم کو خدائی گمان ہے ذرا کسی آڑے وقت میں ان کو پکارو تو سہی دیکھیں وہ کیا کام آتے ہیں؟

يولِجُ الَّيلَ فِى النَّهارِ وَيولِجُ النَّهارَ فِى الَّيلِ وَسَخَّرَ الشَّمسَ وَالقَمَرَ كُلٌّ يَجرى لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ ذٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُم لَهُ المُلكُ ۚ وَالَّذينَ تَدعونَ مِن دونِهِ ما يَملِكونَ مِن قِطميرٍ {35:13}
وہی رات کو دن میں داخل کرتا اور (وہی) دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا ہے۔ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چل رہا ہے۔ یہی الله تمہارا پروردگار ہے اسی کی بادشاہی ہے۔ اور جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو (کسی چیز کے) مالک نہیں
یہ مضمون پہلے کئ جگہ گذر چکا ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی رات دن کی طرح کبھی کفر غالب ہے کبھی اسلام۔ اور سورج چاند کی طرح ہر چیز کی مدت بندھی ہے دیر سویر نہیں ہوتی"۔ حق کا نمایاں غلبہ اپنے وقت پر ہو گا۔
یعنی جس کی صفات و شئون اوپر بیان ہوئیں حقیت میں یہ ہے تمہارا سچا پروردگار اور کل زمین و آسمان کا بادشاہ۔ باقی جنہیں تم خدا قرار دیکر پکارتے ہو۔ وہ مسکین بادشاہ تو کیا ہوتے کھجور کی گٹھلی پر جو باریک جھلی سی ہوتی ہے اس کے بھی مالک نہیں۔

إِن تَدعوهُم لا يَسمَعوا دُعاءَكُم وَلَو سَمِعوا مَا استَجابوا لَكُم ۖ وَيَومَ القِيٰمَةِ يَكفُرونَ بِشِركِكُم ۚ وَلا يُنَبِّئُكَ مِثلُ خَبيرٍ {35:14}
اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کرسکیں۔ اور قیامت کے دن تمہارے شرک سے انکار کردیں گے۔ اور (خدائے) باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا
یعنی اللہ سے زیادہ احوال کون جانے وہ ہی فرماتا ہے کہ یہ شریک غلط ہیں جو کچھ کام نہیں آ سکتے ایسی ٹھیک اور پکی باتیں اور کون بتلائے گا۔
یعنی جن معبودوں کا سہارا ڈھونڈتے ہو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے اور توجہ کرتے بھی تو کچھ کام نہ آ سکتے۔ بلکہ قیامت کے دن تمہاری مشرکانہ حرکات سے علانیہ بیزاری کا اظہار کریں گے۔ اور بجائے مددگار بننے کے دشمن ثابت ہوں گے۔

قُل أَرَءَيتُم شُرَكاءَكُمُ الَّذينَ تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ أَرونى ماذا خَلَقوا مِنَ الأَرضِ أَم لَهُم شِركٌ فِى السَّمٰوٰتِ أَم ءاتَينٰهُم كِتٰبًا فَهُم عَلىٰ بَيِّنَتٍ مِنهُ ۚ بَل إِن يَعِدُ الظّٰلِمونَ بَعضُهُم بَعضًا إِلّا غُرورًا {35:40}
بھلا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا جن کو تم الله کے سوا پکارتے ہو۔ مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین سے کون سی چیز پیدا کی ہے یا (بتاؤ کہ) آسمانوں میں ان کی شرکت ہے۔ یا ہم نے ان کو کتاب دی ہے تو وہ اس کی سند رکھتے ہیں (ان میں سے کوئی بات بھی نہیں) بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے
یعنی عقلی یا نقلی دلیل کوئی نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان میں سے بڑے چھوٹوں کو اور اگلے پچھلوں کو شیطان کے اغواء سے یہ وعدہ بتلاتے چلے آئے کہ { ھٰؤلاءِ شُفَعَاءُ نَا عِنْدَاللہِ } (یہ بت وغیرہ اللہ کے ہاں ہمارے شفیع بنیں گے) اور اس کا قرب عطا کریں گے۔ حالانکہ یہ خالص دھوکا اور فریب ہے۔ یہ تو کیا شفیع بنتے، بڑے سے بڑا مقرب بھی وہاں کفار کی سفارش میں زبان نہیں ہلا سکتا۔
یعنی اپنے معبودوں کے احوال میں غور کر کے مجھے بتلاؤ کہ زمین کا کونسا حصہ انہوں نے بنایا، یا آسمانوں کے بنانے اور تھامنے میں ان کی کس قدر شرکت ہے۔ اگر کچھ نہیں تو آخر خدا کس طرح بن بیٹھے۔ کچھ تو عقل سے کام لو۔
یعنی عقلی نہیں تو کوئی معتبر نقلی دلیل پیش کرو۔ جس کی سند پر یہ مشرکانہ دعویٰ کرتے ہو۔

أَتَدعونَ بَعلًا وَتَذَرونَ أَحسَنَ الخٰلِقينَ {37:125}
کیا تم بعل کو پکارتے (اور اسے پوجتے) ہو اور سب سے بہتر پیدا کرنے والے کو چھوڑ دیتے ہو
حضرت الیاسؑ بعض کے نزدیک حضرت ہارونؑ کی نسل سے ہیں۔ اللہ نے ان کو ملک شام کے ایک شہر "بعلبک" کی طرف بھیجا۔ وہ لوگ "بعل" نامی ایک بت کو پوجتے تھے۔ حضرت الیاسؑ نے ان کو خدا کے غضب اور بت پرستی کے انجام بد سے ڈرایا۔

وَإِذا مَسَّ الإِنسٰنَ ضُرٌّ دَعا رَبَّهُ مُنيبًا إِلَيهِ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعمَةً مِنهُ نَسِىَ ما كانَ يَدعوا إِلَيهِ مِن قَبلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندادًا لِيُضِلَّ عَن سَبيلِهِ ۚ قُل تَمَتَّع بِكُفرِكَ قَليلًا ۖ إِنَّكَ مِن أَصحٰبِ النّارِ {39:8}
اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار کو پکارتا (اور) اس کی طرف دل سے رجوع کرتا ہے۔ پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور اللہ کا شریک بنانے لگتا ہے تاکہ (لوگوں کو) اس کے رستے سے گمراہ کرے۔ کہہ دو کہ (اے کافر نعمت) اپنی ناشکری سے تھوڑا سا فائدہ اٹھالے۔ پھر تُو تو دوزخیوں میں ہوگا
یعنی انسان کی حالت عجیب ہے مصیبت پڑے تو ہمیں یاد کرتا ہے، کیونکہ دیکھتا ہے کوئی مصیبت کو ہٹانے والا نہیں۔ پھر جہاں اللہ کی مہربانی سے ذرا آرام و اطمینان نصیب ہوا معًا وہ پہلی حالت کو بھول جاتا ہے جس کے لئے ابھی ابھی ہم کو پکار رہا تھا۔ عیش و تنعم کے نشہ میں ایسا مست و غافل ہو جاتا ہے گویا کبھی ہم سے واسطہ ہی نہ تھا۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو دوسرے جھوٹے اور من گھڑت خداؤں کی طرف منسوب کرنے لگتا ہے اور ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو خدائے واحد کے ساتھ کرنا چاہئے تھا۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور اپنے قول و فعل سے دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔
یعنی اچھا۔ کافر رہ کر چند روز یہاں اور عیش اڑا لے۔ اور خدا نے جب تک مہلت دے رکھی ہے دنیا کی نعمتوں سے تمتع کرتا رہ اس کے بعد تجھے دوزخ میں رہنا ہے۔ جہاں سے کبھی چھٹکارا نصیب نہ ہو گا۔

وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُل أَفَرَءَيتُم ما تَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ إِن أَرادَنِىَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَل هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهِ أَو أَرادَنى بِرَحمَةٍ هَل هُنَّ مُمسِكٰتُ رَحمَتِهِ ۚ قُل حَسبِىَ اللَّهُ ۖ عَلَيهِ يَتَوَكَّلُ المُتَوَكِّلونَ {39:38}
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں کہ الله نے۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم الله کے سوا پکارتے ہو۔ اگر الله مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے الله ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں
یعنی ایک طرف تو خداوند قدوس جو تمہارے اقرار کے موافق تمام زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے اور دوسری طرف پتھر کی بیجان مورتیں یا عاجز مخلوق جو سب ملکر بھی خدا کی بھیجی ہوئی ادنٰی سے ادنٰی تکلیف و راحت کو اس کی جگہ سے نہ ہٹا سکے۔ تم ہی بتاؤ دونوں میں سے کس پر بھروسہ کیا جائے اور کس کو اپنی مدد کے لئے کافی سمجھا جائے حضرت ہودؑ کی قوم نے بھی کہا تھا۔{ اِنْ نَقُوْلُ اِلَّا اعْتَرَاکَ بَعْضُ اٰلِھَتِنَا بَسُوْءٍ } جس کا جواب حضرت ہودؑ نے یہ دیا { اَنِّی اُشْھِدُ اللہَ وَاشْھَدُ وْا اَنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ فَکِیْدُ وْنی جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تنظرون اَنِّیْ تَوَکلّتُ عَلَی اللہِ رَبِّی وَرَبِّکُمْ مَا مِنْ دَابَّۃٍ الا ھُوَ اٰ خِذٌ بِناصِیَتِھَا اِنَّ رَبِّی عَلٰی صَراطٍ مُسْتقیم } (ہود رکوع ۵) اور حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا { وَلَا اَخَافُ مَا تُشْرِکُوْنَ بِہٖ اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ رَبِّی شَیْئًا وَسِعَ رَبِّی کلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۔ اَفَلَا تتذکَّرُوْنَ وَکَیْفَ اَخَافُ مَا اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکتم بِاللہِ مَالَمْ یُنزِّل بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا فَاَیُّ الفَریْقیْنِ اَحقُّ بِالاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ } (انعام رکوع۹)

ذٰلِكُم بِأَنَّهُ إِذا دُعِىَ اللَّهُ وَحدَهُ كَفَرتُم ۖ وَإِن يُشرَك بِهِ تُؤمِنوا ۚ فَالحُكمُ لِلَّهِ العَلِىِّ الكَبيرِ {40:12}
یہ اس لئے کہ جب تنہا الله کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کردیتے تھے۔ اور اگر اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جاتا تھا تو تسلیم کرلیتے تھے تو حکم تو الله ہی کا ہے جو (سب سے) اوپر اور (سب سے) بڑا ہے
یعنی بیشک اب دنیا کی طرف واپس کئے جانے کی کوئی صورت نہیں۔ اب تو تم کو اپنے اعمال سابقہ کا خمیازہ بھگتنا ہے۔ تمہارے متعلق ہلاکت ابدی کا یہ فیصلہ اس لئے ہوا ہے کہ تم نے اکیلے سچے خدا کی پکار پر کبھی کان نہ دھرا۔ ہمیشہ اس کا یا اس کی وحدانیت کا انکار ہی کرتے رہے۔ ہاں کسی جھوٹے خدا کی طرف بلائے گئے تو فورًا آمنا و صدقنا کہہ کر ان کے پیچھے ہو لئے۔ اس سے تمہاری خو اور طبعیت کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر ہزار مرتبہ بھی واپس کیا جائے، پھر وہی کفر و شرک کما کر لاؤ گے۔ بس آج تمہارے جرم کی ٹھیک سزا یہ ہی حبس دوام ہے جو اس بڑے زبردست خدا کی عدالت عالیہ سے جاری کی گئ۔ جس کا کہیں آگے مرافعہ (اپیل) نہیں۔ اس سے چھوٹنے کی تمنا عبث ہے۔

فَادعُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ وَلَو كَرِهَ الكٰفِرونَ {40:14}
تو الله کی عبادت کو خالص کر کر اُسی کو پکارو اگرچہ کافر برا ہی مانیں
یعنی بندوں کو چاہئے سمجھ سے کام لیں۔ اور ایک خدا کی طرف رجوع ہو کر اسی کو پکاریں، اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کریں۔ بیشک مخلص بندوں کے اس موحدانہ طرز عمل سے کافر و مشرک ناک بھوں چڑھائیں گے کہ سارے دیوتا اڑا کر صرف ایک ہی خدا رہنے دیا گیا مگر پکا مُؤحِّد وہ ہی ہے جو مشرکین کے مجمع میں توحید کا نعرہ بلند کرے۔ اور ان کے برا ماننے کی اصلًا پروا نہ کرے۔

وَاللَّهُ يَقضى بِالحَقِّ ۖ وَالَّذينَ يَدعونَ مِن دونِهِ لا يَقضونَ بِشَيءٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّميعُ البَصيرُ {40:20}
اور الله سچائی کے ساتھ حکم فرماتا ہے اور جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی حکم نہیں دے سکتے۔ بےشک خدا سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
یعنی فیصلہ کرنا اسی کا کام ہو سکتا ہے جو سننے اور جاننے والا ہو۔ بھلا یہ پتھر کی بیجان مورتیں جنہں تم خدا کہہ کر پکارتے ہو کیا خاک فیصلہ کریں گے۔ پھر جو فیصلہ بھی نہ کر سکے و ہ خدا کس طرح ہوا۔
یعنی مخلوق سے نظر بچا کر چوری چھپے سے کسی پر نگاہ ڈالی یا کن انکھیوں سے دیکھا یا دل میں کچھ نیت کی یا کسی بات کا ارادہ یا خیال آیا، ان میں سے ہر چیز کو اللہ جانتا ہے اور فیصلہ انصاف سے کرتا ہے۔



ساری نافرمانیوں کی جڑ خواھش پرستی


  
أَفَرَءَيتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَهُ هَوىٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ وَخَتَمَ عَلىٰ سَمعِهِ وَقَلبِهِ وَجَعَلَ عَلىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً فَمَن يَهديهِ مِن بَعدِ اللَّهِ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {45:23}
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) خدا نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب خدا کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
جو شخص محض خواہش نفس کو اپنا حاکم اور معبود ٹھہرا لے، جدھر اسکی خواہش لے چلے ادھر ہی چل پڑے اور حق و ناحق کے جانچنے کا معیار اسکے پاس یہ ہی خواہش نفس رہ جائے، نہ دل سچی بات کوسمجھتا ہے، نہ آنکھ سے بصیرت کی روشنی نظر آتی ہے ۔ ظاہر ہے اللہ جسکو اس کی کرتوت کی بدولت ایسی حالت پر پہنچا دے، کونسی طاقت ہے جو اسکے بعد اسے راہ پر لے آئے۔
یعنی اللہ جانتا تھا کہ اسکی استعداد خراب ہے اور اسی قابل ہے کہ سیدھی راہ سے اِدھر اُدھر بھٹکتا پھرے۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ بدبخت علم رکھنے کے باوجود اور سمجھنے بوجھنے کے بعد گمراہ ہوا۔