تمہید:
نیک صرف وہ نہیں جس سے کوئی گناہ نہ ہو، کیونکہ بھول اور غلطی سے ((پاک)) ذات اللہ ہی کی ہے اور گناہوں سے ((معصوم)) یعنی بچائے گئے صرف فرشتے اور انبیاء ہی ہیں
[سورۃ البقرۃ:222]
(1)جتنا علمِ نبوی، اتنا خشوعِ خداوندی
اور انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی ایسے ہیں جن کے رنگ مختلف ہیں۔ اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو عُلَماء ہیں۔ یقینا اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، بہت بخشنے والا بھی۔
«مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ» فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ.
علم انسانیت کی ضرورت
سیدنا جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَزْدِيِّ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یعنی
نوافل میں کمی کوتاہی گناہ نہیں اور ناجائز خواہشات کی تکمیل نہ کرنے میں نفس کو جلانا تقویٰ ہے۔ اور خیر کا راستہ بتلانے والے کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا عمل کرنے والے کو۔
- اُلٹی سیدھی باتیں، نامعقول گفتگو، فضول باتیں، کٹ حجتی، بے ہودہ تکرار
|
ترجمہ:
علم حاصل کرو کیونکہ (1) اس کا حاصل کرنا الله کی خشیت، (2) اسے طلب کرنا عبادت، (3) اس کا درس دینا تسبیح، (4) اس میں بحث کرنا جہاد، (5) بےعلم کو علم سکھانا صدقہ (6) اور اس کی اہلیت رکھنے والوں تک اسے پہنچانا الله کا قرب حاصل کرنا ہے۔ (7) یہ تنہائی میں غمخوار، (8) خلوت کا ساتھی، (9) خوشی و غمی پر دلیل، (10) دوستوں کے ہاں زینت، (11) اجنبی لوگوں کے ہاں قرابت دار (12) اورراہِ جنت کا مینار ہے۔ (13) الله عزوجل اس کے سبب قوموں کو بلندیوں سے نوازتا ہے (14) اور انہیں نیکی کے کاموں میں ایسا رہنما وہادی بنادیتا ہے کہ ان کی پیروی کی جاتی ہے، (15) ہر خیر کے کام میں ان کی راہنمائی لی جاتی ہے، (16) ان کے نقشِ قدم پر چلا جاتا ہے، (17) ان کے اعمال وافعال کی اقتدا کی جاتی ہے، (18) ان کی رائے حرفِ آخر ہوتی ہے، (19) فرشتے ان کی دوستی کو مرغوب جانتے ہیں، اور(20) انہیں اپنے پروں سے چھوتے ہیں، (21) ہر خشک وتر شے یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں، کیڑے اور مکوڑے، خشکی کے درندے وجانور، آسمان وستارے سب ان کی مغفرت چاہتے ہیں، کیونکہ (22) علم اندھے دلوں کی زندگی، (23) تاریک آنکھوں کا نور، (24) اور کمزور جسموں کی قوت ہے۔ (25) بندہ علم کے سبب نیک لوگوں کے مراتب اور بلند درجات تک جا پہنچتا ہے، (26) علم میں غور وفکر کرنا روزے رکھنے کے برابر ہے، اور(27)اور اسے پڑھانا رات بھر کے قیام کے برابر ہے، (28) علم کے ذریعے ہی الله کی عبادت وفرمانبرداری ہوتی ہے، (29) اسی سے توحید اور ورع وتقویٰ ملتا ہے، (30) اسی کے سبب صلہ رحمی کی جاتی ہے، (31) علم امام ہے اور عمل اس کا تابع، (32) علم نیک بخت لوگوں کے دلوں میں ڈالا جاتا ہے جبکہ بدبختوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔
[جامع بيان العلم وفضله-امام ابن عبد البر(م463ھ): باب جامع فی فضل العلم، حدیث#268]
ترجمہ:
[ابوداؤد:2885، ابن ماجہ:54، حاکم:7949، بیھقی:12172، دارقطنی:4060]
تشریح:
(۱)موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
اے رب! آپ کا کونسا بندہ سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
جو (مجھے) یاد کرتا رہتا ہے، بھولتا نہیں۔
(۲)موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
آپ کا کونسا بندہ سب سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟
اللہ عزوجل نے فرمایا:
جو (میری) ہدایت کی (زیادہ) پیروی کرتا ہے۔
(۳)موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
آپ کا کونسا بندہ سب سے زیادہ انصاف پسند ہے؟
اللہ عزوجل نے فرمایا:
جو لوگوں کے لئے بھی وہی کرتا (فیصلہ کرتا) ہے جو خود اپنے آپ کے لئے کرتا ہے۔
(۴)موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
آپ کا کونسا بندہ سب سے زیادہ علم والا ہے؟
اللہ عزوجل نے فرمایا:
وہ شخص جو علم سے سیر نہیں ہوتا، لوگوں کے علم کو اپنے علم میں جمع کرتا رہتا ہے۔
(۵)موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
آپ کا کونسا بندہ سب سے زیادہ معزز ہے؟
اللہ عزوجل نے فرمایا:
جو شخص قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے۔
(۶)موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
آپ کا کونسا بندہ سب سے زیادہ غنی ہے؟
اللہ عزوجل نے فرمایا:
جو (تھورا بہت) اسے دے دیا جائے اس پر راضی ہو جائے۔
(۷)موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
آپ کا کونسا بندہ سب سے زیادہ محتاج ہے؟
اللہ عزوجل نے فرمایا:
جو شخص مالدار ہونے کے باوجود اسے اپنے لیے کم سمجھتا ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بعض دنیاوی علوم نامناسب ہوتے ہیں:
حضرت ابوہريرهؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بےشک اللہ عز وجل نفرت رکھتے ہیں ہر بدخلق، اجڈ اور بازاروں میں شور مچانے والے، رات کو گوشت کا لوتھڑا(تنہائی میں عبادت کے بجائے سوئے)رہنے والے، دن کے گدھے، دنیا کے عالم اور آخرت کے جاہل سے۔
[أمثال الحديث لأبي الشيخ الأصبهاني:234، السنن الكبرى للبيهقي:20804، صحيح الجامع:1878]
کیونکہ وہ (دنیا کا) علم رکھتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب نہیں، اور اس کا علم اسے (آخرت میں) فائدہ نہیں دے گا، اور اس کی (علمِ آخرت سے) جہالت اسے نقصان پہنچائے گی۔
[التنوير شرح الجامع الصغير-الصنعاني:1850]
القرآن:
وہ دنیوی زندگی کے صرف ظاہری رخ کو جانتے ہیں، اور آخرت کے بارے میں ان کا حال یہ ہے کہ وہ اس سے بالکل غافل ہیں۔
[سورۃ الروم:7]
لہذا (اے پیغمبر) تم ایسے آدمی کی فکر نہ کرو جس نے ہماری نصیحت سے منہ موڑ لیا ہے، اور دنیوی زندگی کے سوا وہ کچھ اور چاہتا ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کے علم کی پہنچ بس یہیں تک ہے۔ (15) تمہارا پروردگار ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک چکا ہے، اور وہی خوب جانتا ہے کون راہ پا گیا ہے۔
[سورۃ النجم:29-30]
حضرت انس بن مالکؓ نے فرمایا:
(حیاۃ الصحابۃ:3/ 258)
[ذكره الحكيم (1/135) ، وأخرجه البيهقى فى شعب الإيمان (2/266، رقم 1711) وقال: تفرد به عيسى بن زياد بهذا الإسناد وروى من وجه آخر ضعيف والمحفوظ هذا اللفظ من قول الزهرى.]
[أخرجه أبو نعيم فى مسند أبى حنيفة (1/57) قال المناوى (4/391) : فيه إسماعيل بن عبد الملك، قال الذهبى: قال النسائى: غير قوى.]
حديث أنس:
حديث ابن عباس:
حديث ابن عمر:
حديث على:
حديث أبى سعيد:
حديث الحسين بن على:
حديث ابن مسعود:
[أخرجه البزار كما فى كشف الأستار (1/84، رقم 138) ، وقال الهيثمى (1/124) : رواه البزار، وفيه هلال بن عبد الرحمن الحنفى، وهو متروك. والخطيب (9/247) . وضعفه المنذرى (1/54) وقال: رواه البزار والطبرانى فى الأوسط.]
[أخرجه الترمذى (5/29، رقم 2648) وقال: ضعيف الإسناد. وابن قانع (1/321) ، والطبرانى كما فى مجمع الزوائد (1/123) قال الهيثمى: فيه أبو داود الأعمى وهو كذاب. وأخرجه أيضًا: الدارمى (1/149، رقم 561) ، والديلمى (4/34، رقم 6105) ۔]
[أخرجه الترمذى (5/29، رقم 2647) وقال: حسن غريب. والضياء (6/124، رقم 2119) وقال: إسناده حسن. وأخرجه أيضًا: الطبرانى فى الصغير (1/234، رقم 380) ، والعقيلى (2/17، ترجمة 428 خالد بن يزيد اللؤلؤى) وقال: لا يتابع على كثير من أحاديثه.]
وأخرجه الخطيب (3/78) . وأخرجه أيضًا: الديلمى (3/559، رقم 5755) .]
11785(27146)حدیث ابی الدرداء: أخرجه ابن عبد البر فى جامع بيان العلم (1/31)]
[حديث مشرق الحنيفي (سنة الوفاة:463) : رقم الحديث: 22]
[تاريخ دمشق، لابن عساكر(سنة الوفاة:571) » حَرْفُ الْخَاءِ » ذِكْرُ مِنِ اسْمُهُ عَبْدُ الْمُغِيثِ » عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُونُسَ بْنِ ...رقم الحديث: 37789(37/104) جامع الاحادیث:4352]
|
(2/265، رقم 1709) . وأخرجه أيضاً: الطبرانى فى الصغير (2/63، رقم 786) ، قال الهيثمى (1/122) : رواه الطبرانى فى الثلاثة، والبزار، ورجاله موثوقون. وأخرجه أبو نعيم فى الحلية (7/237) . قال المناوى (2/17) : قال الحافظ أبو زرعة العراقى: هذا حديث فيه ضعف، ولم يخرجه أحد من أصحاب الكتب الستة، وعطاء بن مسلم وهو الخفاف مختلف]
حديث ابن عمر: أخرجه القضاعى (2/241، رقم 1276) . وقال الذهبى فى الميزان (6/64، ترجمة 7211 محمد بن إسحاق السلمى المروزى) : فيه جهالة وأتى بخبر باطل متنه خيار أمتى علماؤها. والحديث موضوع كما قال الحافظ أحمد الغمارى فى المغير (ص 44) .]
الله پاک کی کسی قوم سے رضامندی اور ناراضگی کی علامات:
حضرت حسن البصریؒ روایت کرتے ہیں، رسول الله ﷺ نے فرمایا:
«إِذَا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَى بِقَوْمٍ خَيْرًا جَعَلَ أَمْرَهُمْ إِلَى حُلَمَائِهِمْ، وَفَيْأَهُمْ عِنْدَ سُمَحَائِهِمْ، وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ شَرًّا جَعَلَ أَمْرَهُمْ إِلَى سُفَهَائِهِمْ، وَفَيْأَهُمْ عِنْدَ بُخَلَائِهِمْ»
ترجمہ:
جب الله تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ خیر(وبھلائی)کا ارادہ فرماتا ہے تو (1)اس کے(اجتماعی/حکومتی) معاملات بردبار عقلمندوں کے حوالے کرتا ہے اور(2)مال ان کے سخیوں کو دیتا ہے۔
اور
جب الله کسی قوم سے برائی ارادہ فرماتا ہے تو(1)ان کے معاملات بےوقوف حکمرانوں کے حوالے کرتا ہے اور(2)مال ان کے بخیل(کنجوس)لوگوں کو دیتا ہے۔
[کتاب العقوبات(امام)ابن ابی الدنیا(م281ھ) : حدیث#31، کتاب الحلم(امام)ابن ابی الدنیا:75]
[الآثار لأبي يوسف: ص214، أنساب الأشراف للبلاذري:303، الفرج بعد الشدة للتنوخي:1/ 399، الداء والدواء-ابن القيم: ص48]
وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَرَادَ بِالنَّاسِ صَلاحًا عَمَّلَ عَلَيْهِمْ صُلَحَاؤُهُمْ، وَقَضَى بَيْنَهُمْ فُقَهَاؤُهُمْ، وَجَعَلَ الْمَالَ فِي سُمَحَائِهِمْ، وَإِذَا أَرَادَ بِالْعِبَادِ شَرًّا عَمَّلَ عَلَيْهِمْ سُفَهَاؤُهُمْ، وَقَضَى بَيْنَهُمْ جُهَلاؤُهُمْ، وَجَعَلَ الْمَالَ عِنْدَ بُخَلائِهِمْ
ترجمہ:
اور جب اللہ چاہے گا لوگوں کی اصلاح تو ان پر عامل(حاکم Ruler) بنادے گا ان کے نیکوکاروں کو، اور فَیصل(Judge) بنائے گا ان کے فقہاء کو، اور مال دے گا ان کے سخیوں کو۔ اور جب اللہ چاہے گا بندوں سے برائی تو ان پر ان کے بےوقوفوں کو عامل(حاکم Ruler) بنادے گا، اور فَیصل(Judge) بنائے گا ان کے جہلاء کو، اور مال دے گا ان کے کنجوسوں کو۔
[عيون الأخبار-الدينوري:، 1/ 119، أنساب الأشراف للبلاذري:303، حلم معاوية لابن أبي الدنيا:31]
[البيان والتبيين-الجاحظ:1/ 290، تاريخ دمشق لابن عساكر: ج68 ص129، مسند الدیلمی:954(زهر الفردوس:236)، الجامع الصغير وزيادته:1356]
قرآنی گواہی:
.... یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے۔ اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کا ٹالنا ممکن نہیں، اور ایسے لوگوں کا خود اس کے سوا کوئی رکھوالا نہیں ہوسکتا۔
[سورۃ الرعد:11]الفتح:11
حضرت علیؓ سے فرمانِ نبوی ﷺ نقل کیا گیا ہے:
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا ، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا ، وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ "۔
«من حق العالم ألا تكثر عليه السؤال ولا تُعنته في الجواب ولا تلح عليه إذا كسل ولا تأخذ بثوبه إذا نهض ولا تشير إليه بيدك ولا تعيب عنده أحدا ولا تفشي له سرا ولا تطلب عثرته فإن زل تأنيت أوبته وقبلت معذرته وأن توقره وتعظمه لله عز وجل ما حفظ أمر الله تعالى وأجلس أمامه وإن كانت له حاجة سبقت القوم إلى خدمته ولا تعرض من طول صحبته فإنما هو بمنزلة النخلة تنتظر متى يسقط عليك منها منفعة وإذا جئت فسلم على القوم وخصه بالتحية واحفظه شاهدا أوغائبا وليكن ذلك كله لله عز وجل فإن العالم أعظم أجرا من الصائم القائم والمجاهد في سبيل الله تعالى وإذا مات العالم انثلم في الإسلام ثلمة إلى يوم القيامة لا يسدها إلا خلف مثله وطالب العلم يشيعه ملائكة مقري السماء۔»
(1) تم اس سے زیادہ سوال نہ کرو
(2)اسے جواب دینے کیلئے مشقت میں نہ ڈالو
(3) اگر وہ جواب نہ دینا چاہے تو اسے مجبور نہ کرو
(4) اگر تھک جائے تو اس کا دامن نہ پکڑو(تکلیف میں نہ ڈالو)
(5) اس کی طرف ہاتھوں اور آنکھوں سے اشارے نہ کرو
(6) اس کی مجلس میں(عاجز کیلئے)اس سے سوال نہ کرو
(7) ان کی کوتاہیاں نہ تلاش کرو
(8) اگر کبھی اس سے لغزش ہوجائے تو اس کے لوٹنے کو قبول کرو
(9) یہ نہ کہو کہ فلاں آدمی تمہارے خلاف کہتا ہے
(10)اس کا راز فاش نہ کرو
(11) اس کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرو
(12) اس کی موجودگی اور غیرموجودگی میں اس کی عزت وآبرو کی حفاظت کرو
(13) جب کسی عالم کی مجلس میں جاؤ تو پہلے سب کو اور پھر خصوصیت سے اس کو سلام کرو
(14) عالم کے"سامنے"بیٹھنے کی کوشش کرو
(15) اگر عالم کسی کام اور خدمت کی ضرورت ہو تو سب سے پہلے بڑھ کر اس کی خدمت ادا کرے۔
(16) عالم کے پاس اتنا زیادہ دیر نہ بیٹھو کہ وہ اکتا جائے
(17) اسی طرح اس کی صحبت میں زیادہ بیٹھنے سے نہ اکتاؤ۔
(19) عالم کی مثال اس مجاہد فی سبیل اللہ جیسی(سمجھنی)ہے جو روزہ دار ہو۔
(20) جب عالم فوت ہوتا ہے تو اس کی موت سے اسلام میں ایسا رخنہ واقع ہوتا ہے جو قیامت تک پورا نہیں ہوتا
(21) اور طالبِ علم جب علم حاصل کرنے کیلئے نکلتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کی مشائیت کے ساتھ چلتے ہیں۔
[الترغیب والترھیب، للأصبھانی، باب فی الترغیب فی قضاء حوائج المسلم، حدیث نمبر:۱۱۶۸]
ہمیشہ نیکی وبرائی سے جاہل_حقوق وادب سے غافل_بےحیاء_بدنیت_بدگمان_بےایمان__جھوٹے_ناقدرے_ناشکرے_بےصبرے_بےہدایتے_بےخوف_پتھردل_ظالم_قاتل_زانی_چور_ڈاکو_جانور سے بدتر_بدتمیز_بدتہذیب_پلیت_بداخلاق رہتے۔سچائی_رحم_تعاون_نرمی_برابری_عدل_ایثار_قربانی کی نبوی نصیحتیں بھلادیتے۔ دین_مسجد_قرآن سے دور_اصل اور دائمی نفع ونقصان سے لاپرواہ_مایوس_ناامید_بغیرتوبہ مرجاتے۔
دینی مدارس کی تاریخ ومقصد، افادیت واہمیت، قدر ومنزلت اور امتیازات
http://raahedaleel.blogspot.com/2016/04/blog-post_10.html
حضرت حسن بصریؓ(م۱۱۰ھ)نے فرمایا:
حضرت عبداللہ بن عمر، جندب بن عبداللہ البجلی، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور دیگر صحابہ کرام سے روایت ہے کہ:
تعلمنا الإيمان ثم تعلمنا القرآن فازددنا به إيماناً، ويأتي أقوامٌ يتعلمون القرآن، ثم يتعلمون الإيمان، يشربونه شرب الماء۔
ترجمہ:
ہم نے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا، تو اس سے ہم نے ایمان کو مضبوط کیا، اور لوگ قرآن سیکھنے آئیں گے، پھر ایمان سیکھیں گے، پانی کی طرح اسے پیئیں گے۔
[شرح صحيح البخاري للحويني:٧/١٢، شرح صحيح مسلم - حسن أبو الأشبال:٤١/٢٢]
حضرت ابراہیم بن عبد الرحمٰن العذريؒ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
[البدع لابن وضاح:1+2، مسند البزار:9423، شرح مشكل الآثار:3884، الشريعة للآجري:1/268، مسند الشاميين للطبراني:599، الإبانة الكبرى لابن بطة:33، فوائد تمام:899، السنن الكبرى للبيهقي:20911، مصابيح السنة للبغوي:190]
حدیثِ علي: مسند(امام)زيد:599،1/342
حديث أسامة: أخرجه ابن عساكر (7/39) .
حديث أنس: أخرجه ابن عساكر (54/225) .
حديث ابن عمر: أخرجه الديلمى (5/537، رقم 9012) وأخرجه أيضًا: ابن عدى (3/31، ترجمة 593 خالد بن عمرو القرشى) .
حديث أبى أمامة: أخرجه العقيلى (1/9) .
حديث ابن عمرو وأبى هريرة معا: قال الهيثمى (1/140) : رواه البزار، وفيه عمرو بن خالد القرشى كذبه يحيى بن معين، وأحمد بن حنبل، ونسبه إلى الوضع. وأخرجه العقيلى (1/10) .
وللحديث أطراف أخرى منها: "يرث هذا العلم من كل خلف عدوله".]
علماء کی سب سے بڑی ذمہ داری
علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں
علمِ الٰہی کے محافظ-اللہ والے:
القرآن:
بےشک ہم نے ہی یہ ذکر (نصیحت) اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی یقیناً حفاظت کرنے والے ہیں۔
[سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 9]
تفسیر:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اگرچہ قرآن کریم سے پہلے بھی آسمانی کتابیں بھیجی گئی تھیں، لیکن چونکہ وہ خاص خاص قوموں اور خاص خاص زمانوں کے لیے آئی تھیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت تک محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی، بلکہ ان کی حفاظت کا کام انہی لوگوں کو سونپ دیا گیا تھا جو ان کے مخاطب تھے، ﴿جیسا کہ سورة مائدہ:44 میں فرمایا گیا ہے﴾ لیکن قرآن کریم چونکہ آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے نافذ العمل رہے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے، چنانچہ اس میں قیامت تک کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت اس طرح فرمائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے سینوں میں اسے اس طرح محفوظ کردیا ہے کہ اگر بالفرض کوئی دشمن قرآن کریم کے سارے نسخے (معاذ اللہ) ختم کردے تب بھی چھوٹے چھوٹے بچے اسے دوبارہ کسی معمولی تبدیلی کے بغیر لکھوا سکتے ہیں جو بذات خود قرآن کریم کا زندہ معجزہ ہے۔
یعنی
کیا میں تمہیں نہ خبر دوں پورے سمجھ والے فقیہ(عالم)کی؟ (یہ وہ ہے) جو لوگوں کو نہ رحمتِ الٰہی سے مایوس کرتا ہے اور نہ اللہ کی نافرمانی کی اجازت دیتا ہے، اور نہ ہی انہیں اللہ کی تدبیر(ڈھیل ومنصوبہ بندی)سے نڈر کرتا ہے، اور نہ قرآن کو چھوڑکر کسی اور طرف جاتا ہے، یاد رکھو اس عبادت میں بھلائی نہیں جس میں فقہ نہ ہو اور اس فقہ میں بھلائی نہیں جس میں فہم نہ ہو اور اس قراۃ میں بھلائی نہیں جس میں تدبر(غور وفکر)نہ ہو۔
[الزهد لأبي داود:104، الإبانة الكبرى لابن بطة:1050، (سنن الدارمي:305)، جامع بيان العلم:1510]
امام سفیان بن عیینہؒ (المتوفیٰ 198ھ) کا فرمان ہے:
ليس العالم الذي يعرف الخير والشر، إنما العالم الذي يعرف الخير فيتبعه، ويعرف الشر فيجتنبه.
[الزهد لأحمد بن حنبل:936، قوۃ القلوب:1/141، تھذیب الکمال:11/192]
یعنی عالم وہ نہیں ہے جو خیر اور شر کو پہچان لے، (درحقیقت) عالم تو بس وہ ہے جو خیر کو پہچان کر اس پر چلے اور شر کو پہچان کر اس سے دور رہے۔
[صحيح مسلم:573، مستخرج أبي عوانة:1956، الجمع بين الصحيحين لعبد الحق:801]
اندھی تقلید کیا ہے؟
اندھی تقلید اس کو کہتے ہیں کہ اندھا اندھے کے پیچھے چلے، تو لازماً دونوں کسی کھائی میں گرجائیں گے، اگر اندھا کسی آنکھوں والے کے پیچھے چلے تو آنکھ(علم) والا اپنی آنکھ کی برکت سے اپنے آپ کو بھی اور اس اندھے کو بھی ہر کھائی سے بچاکر لیجائے گا اور منزل تک پہنچادے گا۔
اور اللہ پاک نے علم والے اور بے علم والے کی مثال بینا اور نابینا فرمائی ہے
[دلائلِ قرآن، سورۃ البقرۃ:170، المائدۃ:104]لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
… تو پوچھو علم(کو یاد رکھنے)والوں سے اگر تم علم نہیں رکھتے۔
[سورۃ النحل:43، الانبیاء:7]
[صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ ... رقم الحديث: 99(100)]
حضرت عبداللہ ابن عمروؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
امام تفسیر مجاہدؒ(م102ھ) نے فرمایا:
مستند عالمِ دین کسے کہتے ہیں؟
جو شخص دین میں فقہ(سمجھ) حاصل کرے، رسول الله ﷺ سے تعلیم وتربیت پانے والے سلسلہ یافتہ عُلَماء سے۔حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«تَسْمَعُونَ وَيُسْمَعُ مِنْكُمْ وَيُسْمَعُ مِمَّنْ سَمِعَ مِنْكُمْ»
[ابوداؤد:3659 احمد:2945]
حضرت ہاروں العبدیؒ کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابو سعید الخدریؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو وہ ہمیں مرحبا (خوش آمدید) کہتے رسول الله ﷺ کی وصیت کے موافق (اور فرماتے) کہ رسول الله ﷺ نے ہمیں فرمایا:
بےشک (اے میرے صحابہ!) لوگ تمہاری پیروی کریں گے اور دنیا کے کناروں سے دین کی فقہ (گہری سمجھ) حاصل کرنے آئیں گے، تو میری طرف سے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو.
امام شعبیؒ (م103ھ) فرماتے ہیں :
«مَا حَدَّثُوكَ عَنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فَشُدَّ عَلَيْهِ يَدَكَ وَمَا حَدَّثُوكَ مِنْ رَأْيِهِمْ فَبُلْ
عَلَيْهِ»
ترجمہ:
جو باتیں تمہارے سامنے لوگ صحابۂ کرام کی جانب سے نقل فرمائیں تو انہیں اختیار کرلو اور جو باتیں اصولِ شرع کے خلاف اپنی طرف سے کہیں انہیں بے زاری کے ساتھ ٹھکرادو۔
[الإبانة الكبرى لابن بطة:607، المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي:814+1898، جامع بیان العلم:1066]
يَا بَقِيَّةُ، الْعِلْمُ مَا جَاءَ عَنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا لَمْ يَجِئْ عَنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَيْسَ بِعِلْمٍ
ترجمہ:
اے بقیہ! علم تو وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اصحابِ کرام سے منقول Transmitted ہو اور جو ان سے منقول نہیں وہ علم نہیں۔
[جامع بیان العلم:1067+1420+1421، فتح الباري شرح صحيح البخاري:ج13 ص291، سلسلة الآثار الصحيحة:322]
ہم سے بیان کیا حسن بن علیؒ نے کہ ہم سے بیان کیا ابوعبدالرحمٰن المقریؒ نے کہ ہم سے بیان کیا سعید یعنی ابن ابی ایوبؒ نے، وہ بکر بن عمروؒ سے، وہ مسلم بن یسارؒ ابی عثمان سے، وہ حضرت ابوہریرہؓ سے، کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(پھر یہ متن Text-Statementبیان فرمایا)
جس نے بغیر علم کے فتویٰ دیا تو اس کا گناہ بھی فتوی دینے والے پر ہوگا۔
نوٹ:
(2)بلادلیل فتویٰ لینا کیسا ہے؟
[جامع بيان العلم:1529]
(3)علم کیا ہے؟ کس سے حاصل ہوگا؟
حافظ ابن عبدالبرؒ (م463ھ) امام اوزاعیؒ (م157ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے شاگرد بقیہ بن الولید(م197ھ) سے فرمایا:
يَا بَقِيَّةُ، الْعِلْمُ مَا جَاءَ عَنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا لَمْ يَجِئْ عَنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَيْسَ بِعِلْمٍ
ترجمہ:
اے بقیہ! علم تو وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اصحابِ کرام سے منقول Transmitted ہو اور جو ان سے منقول نہیں وہ علم نہیں۔
[جامع بیان العلم:1067+1420+1421، فتح الباري شرح صحيح البخاري:ج13 ص291، سلسلة الآثار الصحيحة:322]
اور اللہ پاک نے علم والے اور بے علم والے کی مثال بینا اور نابینا فرمائی ہے
[دلائلِ قرآن، سورۃ البقرۃ:170، المائدۃ:104][صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ ... رقم الحديث: 99(100)]
اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جدید رُوپ میں قدیم شیطانی ہتھکنڈے:
دلیری(Boldness)کے نام پر بدتمیزی وبداخلاقی کا فروغ ، خوداعتمادی(Confidence)کے نام پر بےشرمی کا فروغ ، خوبصورتی وفیشن(Beauty & Fashion) کے نام پر بےپردگی، عریانی اور بےحیائی کا فروغ، پیار(Love)کے نام پر بےشرمی اور جنسی بےراہ روی کا فروغ ، تفریح(Entertainment) کے نام پر ناچ گانے اور شراب ومستی کا فروغ، ضرورت واستثناء(Exception & Need) کے نام پر بدترین گناہ کو وقت کی ضرورت قراردینا، آزادی اظہارِ رائے(Independence of view) کے نام پر عُلَماء ، فقہاء، اولیاء اور انبیاء کی شان میں گستاخی اور شریعت کی متفقہ ومسلمہ چیزوں پر نکتہ چینی
شیطانی کرتوت خوشنما لبادے میں:
- جُوا، قمار اور سٹے کو قسمت کا کھیل اور لکی ڈرا
- شراب کو مشروب
- موسیقی اور ناچ گانے کو فن اور آرٹس
- ناچنے اور عریاں جسم کی نمائش کے دھندے کو شو بزنس
- رشوت کو چائے پانی، جیب خرچ اور مٹھائی
- ناجائز اختلاط اور مغربی تہذیب کو ثقافت اور فیسٹیول
- بے پردگی و بے حیائی کو خوبصورتی
- عریانی اور فحاشی کو فطری آزادی
- بےغیرتی کو جدت اور ترقی پسندی
- ناجائز جنسی تعلقات اور زنا کو بوائے و گرل فرینڈ کا رشتہ
- منافقت کے بازار کو سیاست کے نام سے روشناس کروادیا گیا۔
زمانہ کی نبض شناسی علماء کی ذمہ داری
حالات کا نیا رخ اور علماء و دانشور طبقہ کی ذمہ داریاں
برے عُلَماء کی نشانیاں:
(1)
"مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ ، لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا ، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
یعنی
جس شخص نے اس علم کو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیکھا جاتا ہے اس لیے سیکھا تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کمائے ایسا شخص جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔
[ابوداود:3664، ابن ماجة:252، احمد:8457، أبي يعلى الموصلي:6373، صحيح ابن حبان:78، حاكم:288]
ایسے لوگوں کی نشانیاں:
(2) اپنی بات کو نبی ﷺ کے نام کہنے والے:
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ، وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
[ترمذی:2951احمد:2675]
بچو میری حدیث بیان کرنے سے مگر جس کا تمہیں علم ہو، کیونکہ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا جان کر تو اس نے اپنا ٹھکانہ جھنم بنالیا۔
اور
جو کہے قرآن(کے بارے)میں(بغیرعلم محض)اپنی رائے سے تو اس نے اپنا ٹھکانہ جھنم بنالیا۔
(3) جس کا کوشش عُلَماء کی بڑی جماعت کی مخالفت کرنا اور شہرت پانا ہو:
علماء کا مقابلہ کرنے والے:
[ترمذي:2654، ابن ماجة:253، طبراني:199، حاكم:293]
دوسری روایات کے مختلف الفاظ وعلامات:
تَخَيَّرُوا بِهِ الْمَجَالِسَ
مجالس میں اچھے مقام حاصل کرے اس (علم) سے۔
[سنن ابن ماجه:254، التقاسيم والأنواع-ابن حبان:2810، فوائد تمام:812، الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي:23، ذم الكلام وأهله-الهروي، أبو إسماعيل:131، تفسير ابن رجب الحنبلي:1/553-سورۃ ھود:15، صحيح موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان:76، صحيح الترغيب:107]
لِتَجْتَرُّوا بِهِ الْمَجَالِسَ
تاکہ مجالس میں افواہیں پھیلائے-بدتمیزی کرے اس (علم) کے ذریعے۔
[معجم ابن الأعرابي:2223، أخلاق العلماء للآجري: ص84، الفقيه والمتفقه-الخطيب البغدادي:2/173، صحيح الجامع:7370]
لِتَحْتَازُوا بِهِ الْمَجَالِسَ
تاکہ مجالس میں افواہیں پھیلائے-بدتمیزی کرے اس (علم) کے ذریعے۔
[جامع بيان العلم وفضله:1127]
أَوْ لِيَأْخُذَ بِهِ مِنَ الْأُمَرَاءِ۔
یا اپنے علم کے ذریعہ حکمرانوں سے (کچھ) لیا کرے۔
[مسند الدارمي:379 - ت حسين أسد، مسند الدارمي:373 - ت الزهراني، أصول الإيمان لمحمد بن عبد الوهاب - ت الجوابرة:130]
الْمَالَ وَالْحُرْمَةَ وَالْجَاهَ وَالْمَنْزِلَةَ۔
(1)مال ودولت، (2) عزت واحترام، (3)وقار وشہرت، (4)اور درجہ وحیثیت۔
[تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي:679]
حافظ الحدیث امام ابن حجرؒ(م852ھ) نے اپنے مفید رسالے "فضل علم السلف على علم الخلف" (ص 5) میں لکھا ہے کہ:
"بہت سے متاخر لوگوں کو اس فتنے نے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا اور وہ سمجھنے لگے کہ جس شخص کی گفتگو، مناظرے، اور دینی مسائل میں بحث و تمحیص بہت زیادہ ہے تو وہ دوسروں سے بڑا عالم ہے!!
(3) جو دنیاداری کا عالم ہو۔
حضرت ابوہريرهؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ يُبْغِضُ كُلَّ جَعْظَرِيٍّ جَوَّاظٍ صَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ، جِيفَةٍ بِاللَّيْلِ، حِمَارٍ بِالنَّهَارِ، عَالِمٍ بِالدُّنْيَا، جَاهِلٍ بِالْآخِرَةِ۔
ترجمہ:
بےشک اللہ عز وجل نفرت رکھتے ہیں ہر بدخلق، اجڈ اور بازاروں میں شور مچانے والے، رات کو گوشت کا لوتھڑا(بغیر سوئے)رہنے والے، دن کے گدھے، دنیا کے عالم، آخرت کے جاہل سے۔
[صحيح ابن حبان:72، السنن الكبرى للبيهقي:20804، صحيح الجامع:1879]
(4) سرکاری علماء وفقہاء:
حضرت انسؓ کی ایک روایت سے یہ حدیث منقول ہے:
العلماء أمناء الرسل ما لم يُخَالِطُوا السُّلْطَانَ وَيُدَاخِلُوا الدُّنْيَا فَإِذَا خَالَطُوا السُّلْطَانَ وداخلوا الدُّنْيَا فَقَدْ خَانُوا الرُّسُلَ فَاحْذَرُوهُمْ۔
ترجمہ:
عُلَماء الله کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (علمی ورثے کے) امین ہوتے ہیں، جب تک کہ وہ حکمران کے ساتھ نہ گھِلیں مِلیں(یعنی پیچھے پیچھے چلنے نہ لگیں)۔ پس اگر وہ حکمران کے ساتھ گِھل ملیں، تو بلاشبہ انہوں نے رسولوں(کی علمی امانت)سے خیانت کی، تو تم ان(عُلَماء) سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا‘‘۔
[تنبيه الغافلين» حدیث#675، جامع الاحادیث -للسيوطي:14504، الجامع الصغير» حدیث#8319(5683) حسن]
اسی طرح حضرت علیؓ سے بھی ایک روایت میں ہے:
الْفُقَهَاءُ أُمَنَاءُ الرُّسُلِ مَا لَمْ يَدْخُلُوا فِي الدنيا ويتبعوا السلطان فإذا فعلوا ذلك فاحذروهم۔
ترجمہ:
فقہاء(یعنی دین کی گہری سمجھ رکھنے والے علماء) الله کے بندوں کے درمیان رسولوں کے(ورثے کے) امین(محافظ)ہوتے ہیں، جب تک کہ وہ دنیا میں داخل نہ ہوں اور(وہ اس طرح کہ) حکمرانوں کی پیروی کریں، پس جب وہ ایسا کریں تو ان سے بچنا۔
[الجامع الصغير:8463(5971) حسن]
بری حکومت کا تعاون لینے والے برے علماء:
اس دور کی حکومت سے ادنیٰ رعایت بھی حاصل کرنا دین کیلئے سخت مضر بلکہ مہلک ہے، جن مدارس نے حکومت سے امداد لی ہے آئندہ کیلئے ان کی زبان حق گوئی سے بند ہوگئی اور حکومت اس احسان کے عوض ان سے بہت سے خلافِ شریعت کام کرالیتی ہے۔
[احسن الفتاویٰ:8/ 238 باب الحظر والاباحۃ]
(5) جو صحابہ کے فضائل ومناقب کی احادیث چھپائے اور بدعات سے نہ روکیں:
حضرت جابر بن عبداللهؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جب میری اُمت میں بدعتیں ظاہر ہوجائیں اور میرے صحابہؓ کو برا کہا جائے تو اس وقت کے عالم پر لازم ہے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے ، پس بیشک علم کو چھپانے والا اس دن ایسا ہوگا جیسے چھپانے والا ہو اس چیز کا جو(شریعت) نازل کی الله نے محمد ﷺ پر.
[الشريعة، للآجري :1987
السنة، لابن أبي عاصم (المتوفى: 287هـ)رقم الحديث:994
السنن الواردة، الداني (المتوفى: 444هـ) :287،الرسالة الوافية:1/285
الإبانة الكبرى لابن بطة(المتوفى: 387هـ):49
فيض القدير شرح الجامع الصغير (المتوفى: 1031هـ):751(1/401)
السيوطي في مفتاح الجنة (1/ 66) ،جامع الأحاديث:2335(2/352)
الديلمي:1/206،التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِير:747(2/140)
المدخل،لابن الحاج:1/6
حَدَّثَنَا أَبُو الْفَضْلِ الْعَبَّاسُ بْنُ يُوسُفَ الشِّكْلِيُّ ، قال : حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُهَلَّبِ الزُّهْرِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَسَنِ السَّاحِلِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، وَالْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالا : حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا حَدَثَ فِي أُمَّتِي الْبِدَعُ وَشُتِمَ أَصْحَابِي فَلْيُظْهِرِ الْعَالِمُ عِلْمَهُ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ مِنْهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ " . فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحُسَيْنِ : فَقُلْتُ لِلْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ : مَا إِظْهَارُ الْعِلْمِ ؟ قَالَ : إِظْهَارُ السُّنَّةِ ، إِظْهَارُ السُّنَّةِ .
[الشريعة للآجري » كِتَابُ فَضَائِلِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَؓ » بَابُ عُقُوبَةِ الإِمَامِ وَالأَمِيرِ لأَهْلِ الأَهْوَاءِ ... رقم الحديث:2075]
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جب میری اُمت میں بدعتیں پیدا ہوجائیں اور میرے صحابہؓ کو برا کہا جائے تو اس وقت کے عالم پر لازم ہے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرے گا اس پر لعنت ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور سب انسانوں کی ۔ عبداللہ بن حسن ؒ نے فرمایا کہ میں نے ولید بن مسلم سے دریافت کیا کہ حدیث میں اظہار علم سے کیا مراد ہے ، فرمایا:اظہار سنت.
(الاعتصام للشاطبی:١/٨٨)1/104
فيض القدير شرح الجامع الصغير:751(1/401)
ديلمي:1/206، التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ:747(2/140)
جامع الأحاديث:2336،مفتاح الجنة:1/68
والربيع في مسنده (1 / 365)
والديلمي في الفردوس (1 / 321)
قال السيوطي في الدر المنثور (2 / 402)
والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي (2 / 118)
ابن عساكر في «تاريخ دمشق» (54/80 - ط. دار الفكر) (5/ق331)
اور جب ناداں لوگ ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں۔
اور اس نے کتاب میں تم پر یہ حکم نازل کیا ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ اس وقت تک مت بیٹھو جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں، ورنہ تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے۔ یقین رکھو کہ اللہ تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے۔
اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے، اور یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
“بنی اسرائیل میں پہلے پہل جب خرابی داخل ہوئی تو ایک شخص دوسرے سے ملتا اور کہتا: یہ کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو اور یہ کرتوت چھوڑو، یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے۔ پھر اگلے دن اُن سے ملتا تو انہیں منع نہ کرتا، پھر اُن کا ہم نشیں اور ہم نوالہ و ہم پیالا بن جاتا۔ اِسی سبب اللہ تعالیٰ نے اُن کی نحوست کو ایک دوسرے کے دلوں پر مسلّط کردیا، پھر آپ ﷺ نے[سورۂ ص:122 اور سورۂ مائدہ:81] کی آیات تلاوت کرکے فرمایا: خبرار! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دینا ہوگا اور برائی سے روکنا ہوگا اور ظالم کا ہاتھ روکنا ہوگا اور تمہیں ضرور اپنی پوری صلاحیت کے مطابق حق سے انحراف کی روِش کو روکنا اور لوگوں کو حق پر قائم رکھنا ہوگا، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی نحوست کو ایک دوسرے پر مسلّط فرما دے گا اور پھر بنی اسرائیل کی طرح تم پر بھی لعنت فرمائے گا۔
[سنن ابوداؤد: 4337، سنن ترمذی: 3047]
شبِ معراج رسول اللہ ﷺ کو جن عذاب و ثواب کے مشاہدات کرائے گئے، اُن میں سے ایک یہ تھا، آپ ﷺ نے فرمایا:
“میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ اُن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا ہے، میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں، انہوں نے کہا: (یا رسول اللہ!) یہ آپ کی امت کے وہ خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا
[سنن الکبریٰ، بیہقی: 1773، صحيح الجامع: 129، صحيح الترغيب:125+2327]
در اصل مغرب نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کو دنیا سے دیس نکالا دینے کے لیے مسلمانوں کو زیر کرنے یا انھیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کی بجائے تعلیم کے نام پر ان کی عقلوں اور مزاجوں کو مسخر کرنے کا کام کیا، جس کے ذریعے وہ ایک ایسی نسل تیار کرنا چاہتا تھا جو رنگ و نسل کے اعتبار سے اگرچہ مسلمان ہو؛مگر افکار و نظریات اور مزاج ومذاق کے اعتبار سے پوری طرح مغرب کی فکر و نظر سے ہم آہنگ ہو۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویـؒ فرماتے ہیں : ’’یہ مغربی نظام تعلیم درحقیقت مشرق اور اسلامی ممالک میں ایک گہرے اور خاموش قسم کی نسل کشی کے مرادف تھا، عقلائے مغرب نے ایک پوری نسل کو جسمانی طور پر ہلاک کرنے کے فرسودہ اور بدنام طریقے کو چھوڑ کر اس کو اپنے سانچے میں ڈھال لینے کا فیصلہ کیا اور اس کام کے لیے جابجا مراکز قائم کیے جن کو تعلیم گاہوں اور کالجوں کے نام سے موسوم کیا‘‘(مسلم ممالک میں مغربیت اور اسلامیت کی کشمکش)۔ حضرت اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے فرعون کے بنی اسرائیل کے نومولود بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی ظالمانہ کاروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا :۔؎
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
گویا فرعون ایک دقیانوس شخص تھا ، اگر اس کو ہامان کی بجائے میکالے جیسا زیرک اور دور اندیش مشیر ملتا تو وہ ضرور اس سے کہتا کہ جہاں پناہ ! آپ اپنی سلطنت کی بقا کے لیے ان چند سو بچوں کا گلا گھونٹ کر زمانہ بھر کی رسوائی و بدنامی کیوں اپنے سر لیتے ہیں ؟ اس سے تو کئی گنا بہتر ہے کہ آپ ان کے درمیان ایک ایسا نظامِ تعلیم رائج کردیجیے جس کے ذریعے وہ فکری موت مر جائیں اور آپ کی حکومت و سلطنت کے لیے خطرہ نہیں ؛ بلکہ ممد و معاون ثابت ہوں ۔ یہ بات ہم جانتے ہیں کہ انگریز جب ہمارے ملک پر غاصبانہ قابض ہوئے تو ان کا یہی خیال تھا کہ یہ ہندوستانی قوم اپنی تعلیم حاصل کرکے ہمارے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائے گی؛ چناچہ ان انگریزوں اور استعماری قوتوں نے اس ملک میں ایک ایسا مسموم نظامِ تعلیم نافذ کیاجس کے ذریعے انہوں نے ہماری نسلوں کی فکری وروحانی موت کا ایسا منظم منصوبہ تیار کیا جس کی تمام تر بنیاد انکارِ الوہیت اور خودغرضی و قوم پرستی پر رکھی گئی۔
اسلام کی نظر میں علم کا سب سے بڑا مقصدیہ ہے کہ انسان کو اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک کی معرفت حاصل ہو، اس کو شعور وآگہی حاصل ہو،اس کے اندر تحقیق و جستجو کی صلاحیت پیدا ہو، وہ تہذیبی اقدار سے آراستہ ہو ، انسان صحیح معنی میں انسان بن جائے، اس کے اندر خوداحتسابی ، ایثار و ہمدردی ، اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا احساس پیداہو؛ جب کہ مغربی تعلیم کی بنیاد انکارِ الوہیت اور خودغرضی و قوم پرستی پر مبنی ہے، اس میں اپنی ذات کے لیے خود احتسابی یا دوسروں کے لیے ایثار و ہمدردی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ، تہذیبی اقدار،شرافتِ نفس اور حیا و پاک دامنی کے لیے اس نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ؎
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحرکر نہ سکا
مغربی نظام تعلیم اور خصوصاً مخلوط نظام تعلیم چونکہ دین فطرت اسلام کے دیے گئے اصول و قوانین تعلیم کو نظر انداز کرکے؛ بلکہ اس کو ختم کرنے کے مقصد سے ترتیب دیا گیا ہے، لہٰذا جہاں کہیں بھی یہ نظام تعلیم نافذ کیا گیا، وہاں اس کے سنگین و مہلک اثرات و نتائج مذہب بیزاری ، تہذیب و اقدار سے دست برداری اور شہوت رانی و جنسی انارکی ہی کی شکل میں نمودار ہوئے ہیں ، اور یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں مخلوط نظامِ تعلیم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ دینِ اسلام تعلیمِ نسواں کا مخالف ہے؛بلکہ وہ اجنبی مرد اور اجنبی عورتوں کو مخلوط معاشرت سے منع کرتا ہے ، وہ مخلوط معاشرے کو نہ عبادات میں پسند کرتا ہے اور نہ ہی معاملات میں ،اسلام تعلیم نسواں کو کتنی اہمیت دیتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود رسالت مآب … نے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک مخصوص دن مقرر فرمایاتھا جس میں آپ ان کو وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے اور اگر کسی عذر کی وجہ سے آپ تشریف نہ لے جا سکتے تو آپ صحابۂ کرامؓ میں سے کسی کو ان کی تعلیم کے لیے روانہ فرمادیا کرتے تھے۔ اسلام عورت کو اجنبی مردوں کے ساتھ عدمِ اختلاط اور پردے کے پورے اہتمام کے ساتھ تعلیم کی اجازت دیتا ہے؛ لیکن وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ صنف نازک کی نسوانیت کے تقدس کی حفاظت کو اس کی تعلیم سے کئی گنا زیادہ اہمیت دیتا ہے، وہ عورتوں کو حصول تعلیم سے منع نہیں کرتا ہے؛ بلکہ حصول تعلیم کے ان طریقوں سے منع کرتا ہے جن کے ذریعے اس کی نسوانیت کا تقدس پامال ہوتا ہو یا اس کی عصمت کے داغ دار ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوتا ہو، اوریہ بات بالکل روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے ملک میں رائج موجودہ مخلوط نظامِ تعلیم ایک ایسا نظام ہے جو طلباء و طالبات کو ہمہ وقت گمراہی و آوارگی پر ابھارتا رہتا ہے، جس کی تباہ کاریوں اور مضر اثرات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں سرفہرست یہ بات ہے کہ وہ ہماری نوخیز نسل اور مستقبل کے معماروں سے سب سے پہلے حیا کی آخری رمق بھی چھین لیتا ہے۔
مخلوط نظامِ تعلیم کی تباہ کاریوں اور اس کے مضرات کو جاننے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ مخلوط نظامِ تعلیم کیا ہے ، اس کا آغاز کب اور کیوں ہوا؟ َ مخلوط نظام تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی مضمون کی تعلیم ایک ہی جگہ ، ایک ہی وقت اور ایک ہی طریقے سے لڑکا اور لڑکی دونوں کو بلا تفریق جنس ایک ساتھ دی جائے، نہ کوئی علیحدہ نشست کا نظم ہو نہ علیحدہ کلاس کا ۔ مذہب اسلام میں اس طریقۂ تعلیم کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ، یہ لعنت ہمارے پاس مغرب کی اندھی تقلید کے طفیل آئی ہے۔ اس طریقۂ تعلیم کی ابتداء سب سے پہلے ۱۷۷۴ء میں امریکہ میں ہوئی ، اس کے بعد ۱۸۶۷ء میں فرانس میں اور ۱۹۰۲ء میں انگلستان میں مخلوط تعلیم کا قانون پاس کیا گیا۔
مخلوط نظام تعلیم (Co-Education System )کے نقصانات
۱- تعلیمی معیار میں گراوٹ : دنیا کا کوئی بھی کام کامل توجہ اور مکمل یکسوئی کے بغیر بحسن و خوبی انجام نہیں پاسکتا ہے، بعینہٖ یہی معاملہ تعلیم کا بھی ہے کہ اس کے حصول کے لیے کامل توجہ اور مکمل یکسوئی ازحد ضروری ہے؛جب کہ مخلوط نظام تعلیم کے اداروں میں زیر تعلیم طلباء میں سب سے بڑا فقدان اسی ذہنی یکسوئی کا ہوتا ہے۔ وہ صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہمہ وقت اپنے لب و رخسار ، طرزِ ادا و گفتار، لباس و اطواراور اپنی چال ڈھال کو خوش نما و دیدہ زیب بنانے کے’’ کارِخیر‘‘ میں مگن ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں ذہنی یکسوئی بالکل بھی حاصل نہیں ہوپاتی ہے اور اس کا نتیجہ تعلیمی معیار کی پسماندگی اور گراوٹ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
۲- خوب سے خوب تر نظر آنے کی خواہش : یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر کسی مردیا عورت کو یہ پتہ چل جائے کہ کوئی غیر محر م صنف مخالف اس کو دیکھ یا اس کی باتیں سن رہاہے تو عموماًوہ شخص اس صنفِ مخالف کو لبھانے یااپنی طرف راغب کرنے کے لیے خود کو خوب سے خوب تر بناکر پیش کرنے اور اپنے آپ کو منفرد دکھانے کی کوشش کرنے لگ جاتا ہے، یہی صورتِ حال مخلوط نظام تعلیم میں طلباء و طالبات کی ہوتی ہے کہ وہ تعلیم کے اوقات میں اپنے ہم جماعت ساتھیوں کی نظر میں اپنے آپ کو منفرد بناکر پیش کرنے میں لگے رہتے ہیں اوراپنی اس انفرادیت کو برقرار رکھنے کے لیے وہ اپنا قیمتی وقت، پیسہ اور صلاحیت سبھی کچھ ضائع کرتے رہتے ہیں ۔
۳- دوستی و ناجائز تعلقات : دینِ اسلام اور اس کی تعلیمات میں اجنبی مرد و عورت یا لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان دوستی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، دینِ اسلام زنا اور حرام کاری کے اس چور دروازہ کو حرام قرار دیتا ہے اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ مخلوط نظامِ تعلیم کے اداروں میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کا سب سے محبوب مشغلہ صنف مخالف میں دلچسپی لینا، ان سے مذاق و دل لگی کرنا، ایک دوسرے کی توجہ حاصل کرنے یا اپنی طرف راغب کرانے کے مواقع تلاش کرتے رہنا ، نوٹس اور درسی مضامین کی یادداشتوں کے تبادلہ کے نام پر تعلقات اور دوستیاں پیدا کرنا ہوتا ہے؛ چنانچہ آج ان اداروں میں یہ صورت حال ہے کہ وہاں کے نوخیز اور کم سن طلباء و طالبات کے درمیان گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ بنانے کی ملعون روایت فیشن زدہ، روشن خیال اور مہذب ہونے کی علامت بن چکا ہے۔
۴- حیاء و جھجک کا ختم ہونا : مخلوط نظام تعلیم کی اس پراگندہ فضا میں جہاں طلباء و طالبات ہمہ وقت گپ شپ، ہنسی مذاق ، یاری دل لگی، اور دوستیاں و تعلقات پیدا کرنے میں لگے رہتے ہیں ، سب سے بڑی زک اگر کسی چیز پر پڑتی ہے تو وہ حیا و جھجک ہے ، اس ماحول میں سب سے پہلے طلباء و طالبات کے دل و نگاہ کی پاکیزگی اور حیا و جھجک کا جنازہ نکل جاتا ہے اور اس کی جگہ بے غیرتی و بے باکی اور بے شرمی و بے حیائی ان کے رگ و پے میں سرایت کر جاتی ہے۔ان کے آپس کے تعلقات صرف دید تک محدود نہیں رہتے ہیں ؛بلکہ وہ دھیرے دھیرے گفت وشنید ، بوس وکناراور ہم آغوش ہوتے ہوئے وہاں تک جا پہنچتے ہیں جس کو بیان کرنے سے زبان قلم عاجز ہے۔؎
دھیرے دھیرے آپ میرے دل کے مہماں ہوگئے
پہلے جاں ، پھر جانِ جاں ، پھر جانِ جاناں ہو گئے
مغرب و یوروپ (جہاں سب سے پہلے یہ نظام تعلیم نافذ کیا گیا) کی نوجوان نسل کا یہ حال ہے کہ وہاں کے اسکول و کالجس میں زیر تعلیم ۸۰سے ۹۰ فیصد طالبات تعلیمی سال کے اختتام تک متعدد مرتبہ اپنے ہم درس لڑکوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرچکی ہوتی ہیں اور شاید یہی وہ صورت حال ہے جس نے علامہ اقبالؒ سے یہ اشعار کہلوائے ۔؎
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
۵- تہذیبی اقدار سے بغاوت اور خاندانی نظام کی تباہی: مخلوط نظام تعلیم کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کی نحوست سے ہماری نوجوان نسل اسلاف اور بزرگوں کی روایات اور تہذیبی اقدار سے بغاوت کرتی جارہی ہے،جس کی وجہ سے ہمارا خاندانی نظام تباہ وبرباد ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے یہ نوجوان اپنے ہم کلاس لڑکے یا لڑکی کے ساتھ تاکا جھانکی، نوک جھونک، چھیڑ چھاڑاور گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کرتے کرتے عشق و محبت کی شکل میں ہوس کے اس ’’اعلیٰ مقام‘‘ تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ایک دوسرے سے جنسی تسکین حاصل کیے بنا انھیں قرار نہیں ملتا۔ آخرکار وہ وقت آتا ہے کہ شرم و حیا اور غیرت کے پردوں کوپوری طرح چاک کرکے لڑکیاں خود اپنے والدین کو اپنی پسند سے آگاہ کرتی ہیں ، زیادہ تر والدین اپنی بچیوں کی اس پسند کو قبول نہیں کرتے ہیں ؛ کیونکہ وہ اس لڑکے کی دینی و اخلاقی حالت سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں ، وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اس کا مقصد محض وقتی لذت، جنسی تسکین اور لڑکی کے والدین کی مالی حیثیت سے فائدہ اٹھانا ہے۔ لڑکیاں اپنے والدین کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں ، اگر وہ مان جائیں تو ٹھیک ورنہ یہ لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ’’کورٹ میرج‘‘ کرکے والدین اور پورے خاندان کی عزت کو رسوائی سے بدل دیتی ہیں ۔
مخلوط نظام تعلیم کی ان تمام تر خباثتوں اور مضر اثرات کے باوجود بھی اگر لڑکیوں کوان ہی اداروں میں اسی طرح ’’روشن خیال‘‘ اور ’’مہذب‘‘ بنانے کی دوڑ جاری رہی اور چراغِ خانہ کو شمعِ محفل بنانے کا عمل یوں ہی جاری رہاتو ڈر ہے کہ کہیں ان کے ارتداداور ان کی عزت و ناموس کی پامالی کے روح فرسا واقعات بڑھتے نہ چلے جائیں ۔ لڑکیوں کو تعلیم ضرور دی جائے؛ لیکن ایسی تعلیم جو ان کی فطرت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہمیں صحیح و غلط کی سمجھ عطا فرمائے!(آمین)۔
یعنی علم وہ ہے جو اگر تجھے نفع نہ پہنچائے تو پھر نقصان پہنچائے گا۔
[صفۃ الصفوۃ:1/427]
[سیر اعلام النبلاء:10/89]
[تحفۃ المدارس:1/350]
[خطباتِ فقیر:4/127]
نبی ﷺ نے فرمایا:
۔۔۔ بلکہ شیطانوں نے کفر کیا کہ سکھلاتے تھے لوگوں کو جادو۔۔۔
[سورۃ النجم:29+30]
أَفَرَءَيتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَهُ هَوىٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ وَخَتَمَ عَلىٰ سَمعِهِ وَقَلبِهِ وَجَعَلَ عَلىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً فَمَن يَهديهِ مِن بَعدِ اللَّهِ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {45:23}
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود علم ہونے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) اللہ نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب اللہ کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
معلوم ہوا کہ فن (Art/Technic) یا معلومات(Information) یا تجربات ومشاہدات(Sciences) کا عموما ارادہ ومقصد اللہ(کے احکام)کو بھلاکر یعنی خلافِ شریعت وناجائز طریقہ سے دنیا کماکر عیاشیاں کرنا اور اس من مانی میں خود کو خدا بنالیا جاتا ہے۔
جبکہ
أَوَمَن كانَ مَيتًا فَأَحيَينٰهُ وَجَعَلنا لَهُ نورًا يَمشى بِهِ فِى النّاسِ كَمَن مَثَلُهُ فِى الظُّلُمٰتِ لَيسَ بِخارِجٍ مِنها ۚ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلكٰفِرينَ ما كانوا يَعمَلونَ
|
ترجمہ:
بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لیے روشنی کردی جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہوا ہو اور اس سے نکل ہی نہ سکے اسی طرح کافر جو عمل کر رہے ہیں وہ انہیں اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ [سورۃ الانعام:122]
|
فرمایا:
امام سلیمان بن موسیٰ الاشدقؒ (م119ھ) فرمایا کرتے تھے:
«لَا تَأْخُذُوا الْعِلْمَ مِنَ الصَّحَفِيِّينَ»
ترجمہ:
اس حدیث سے کہ ’’مومن نجس نہیں ہوتا‘‘ جاہل یہ مسئلہ سمجھے سمجھائے کہ مومن پر غسل فرض ہی نہیں ہوتا، تو کیا احکام ضائع نہ ہوں گے؟
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
آپ کو علمی ذوق اور مطالعہ کا شوق بھی ہے اسلامی لٹریچر پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک بات میں اپنے تجربے کی بناپر کہتا ہوں کہ آپ سلف صالحین اور امت کے ان لوگوں سے جنہوں نے اپنے دائرہ میں دینی و ملی کام کیا ہے بدگمان نہ ہوں یہ بڑے خطرے کی بات ہے ،یہ بات ہمارے ان بھائیوں میں بہت زیادہ پیدا ہوتی جارہی ہے جن کا سارا انحصار مطالعہ پر ہے، وہ تنقیدی کتابیں اور مضامین پڑھتے ہیں تو ان کو ایسا نظر آنے لگتا ہے کہ کسی نے اسلام پر مکمل کام ہی نہیں کیا ،ان کتابوں کے اثر سے وہ دینی خدمت کے ناپنے کے لئے ایک فیتہ بنا لیتے ہیں جس سے وہ ہر مصلح اور مجدد کو ناپتے ہیں جیسے فوج میں بھرتی ہونے والے رنگروٹ ناپے جاتے ہیں یہ صحیح نہیں ،آپ کو معلوم نہیں کہ ان اللہ کے بندوں نے کن سخت حالات میں کام کیا ۔ میں صاف کہتا ہوں کہ اسلام اب جو دنیا میں محفوظ ہے اور زندہ ہے اس میں سب کا حصہ ہے محدثین ،فقہاء،صلحاء امت،اولیا ء اللہ رحمہم اللہ سب کا اس میں حصہ ہے ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کیا کرتے تھے؟نماز روزے کے مسائل بتاتے تھے انہیں تو اسلامی خلافت وسلطنت قائم کرنی چاہئے تھی ،تو صاحب خلافت تو قائم ہوجاتی لیکن آپ کو نماز پڑھنا کون سکھاتا؟ اور وہ خلافت کس کام کی جس میں نماز پڑھنا کسی نہ آتا ہو؟ یاد رکھیے! سب لوگ اپنے امکان واستطاعت کے مطابق دین کی خدمت اور اس کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے ،کوئی وعظ کہہ رہا تھا کوئی تقریر کررہاتھا ،اور کوئی حدیث پڑھا رہا تھا،کوئی فتوے دے رہا تھا اور کوئی کتابیں لکھ رہا تھا ،اپنی اپنی جگہ اسلام کی خدمت ور مسلمانوں کی تربیت کا کام کررہے تھے اور ہر ایک نے الگ محاذ سنبھال رکھا تھا جن لوگوں نے اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ کا نام سکھایا اور لوگوں کی تربیت کی ان کے کام کی تحقیر نہ کی جائے یہ کام انہوں نے کیا جن کو عرف عام میں صوفیائے کرام کہتے ہیں ،آپ کو معلوم نہیں کہ صوفیائے کرام نے کیا خدمت انجام دی ؟انہوں نے اسلامی معاشرے کو زوال سے بچایا،اس کا میرے پاس ثبوت ہے۔انہوں نے ایسا بنیادی کام کیا اگر وہ نہ کرتے تو مادیت کا یہ سیلاب لوگوں کو بہا کر لے جاتا اور تنکے کی طرح امت اسلامیہ بہتی، انہی کی وجہ سے لوگ رکے ہوئے تھے ،اور ہوس رانی ،نفس پرستی کا بازار گرم نہیں ہونے پاتاتھا، اورجو کوئی اس کا شکار ہوجاتا تھا تو فوراً اس میں احساس پیدا ہوتا تھا کہ ہم غلط کام کررہے ہیں ان کے پاس آتا تھا ،روتا تھا،استغفار کرتا تھا پھر یہ صوفیا ومشائخ کام کے آدمی بناتے تھے اور اپنی جگہ پر فٹ کرتے تھے ۔
(خطبات علی میاں ص:۱۴۳،۱۴۵ج۳)
شواہد:
(1) عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ، قَالَ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَقَالَ: «ذَاكَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ» ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ، وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَنُقْرِئُهُ أَبْنَاءَنَا، وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَاءَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأَرَاكَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ، أَوَلَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى، يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ، وَالْإِنْجِيلَ لَا يَعْمَلُونَ بِشَيْءٍ مِمَّا فِيهِمَا؟»
یعنی
بے عملی کا سبب علماء سے دوری ہے۔ قرآن ومسجد سے امت کو دور کرنے کیلئے شیطانی گروہ لوگوں کو تمام علماء یا ان کے بڑے کی تحقیر پر لگادیتا ہے۔ یہ تعمیر نہیں تخریب ہے۔
(2) عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ: «هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ العِلْمُ مِنَ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ» فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الأَنْصَارِيُّ: كَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا القُرْآنَ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ، إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ المَدِينَةِ هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالإِنْجِيلُ عِنْدَ اليَهُودِ وَالنَّصَارَى فَمَاذَا تُغْنِي عَنْهُمْ؟»
[صحيح الترمذي:2653، سنن الدارمی:296، حاکم:338]
(3) الراوي : وحشي بن حرب
أن رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال يُوشكُ العلمُ أن يُختَلَسَ من الناسِ حتى لا يقدروا منه على شيءٍ فقال زيادُ بنُ لبيدٍ وكيفَ يُختلسُ منا العلمُ وقد قرأنا القرآنَ وأقرأناه أبناءَنا فقال ثكلتك أمُّك يا ابنَ لبيدٍ هذه التوراةُ والإنجيلُ بأيدِي اليهودِ والنصارَى ما يرفعون بها رأسًا
(4) الراوي : عوف بن مالك الأشجعي
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ نظرَ إلى السَّماءِ فقالَ : هذا أوانُ يرفعُ العلمُ من النَّاسِ فقالَ زيادُ بنُ لبيدٍ يا رسولَ اللَّهِ وَكيفَ وقد قرأنا القرآنَ واللَّهِ لنقرأنَّهُ ولنقرأنَّهُ أبناءنا ونساءنا ؟ فقالَ : ثَكلتْكَ أمُّكَ يا زيادُ ، إن كنتُ لأعدّكَ من أفقَهِ أَهلِ المدينةِ ، هذِهِ التَّوراةُ والإنجيلُ عندَ اليَهودِ فماذا يغني عنْهم
نبوی نصیحت:
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الشَّرِّ ، فَقَالَ : " لَا تَسْأَلُونِي عَنْ الشَّرِّ ، وَاسْأَلُونِي عَنْ الْخَيْرِ ، يَقُولُهَا ثَلَاثًا ، ثُمَّ قَالَ : " أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ شِرَارُ الْعُلَمَاءِ ، وَإِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ خِيَارُ الْعُلَمَاءِ "۔
[الدارمي:382، إتحاف المهرة:24145، مشكاة:267]
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے شر کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے شر کے بارے میں سوال مت کرو بلکہ خیر کے بارے میں سوال کرو پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شر میں بدتر شر علمائے سو کا شر ہے اور تمام بھلائیوں میں اعلی درجہ کی بھلائی علماء کا خیر ہے۔
تشریح:
آپ جسمانی صحت کے لیے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں تو یہ معلوم کرتے ہیں کہ اس مرض کا اچھا ڈاکٹر کون کون ہے، اور اچھے تجربہ کار لوگ کس ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، اس تحقیق میں نہیں پڑتے کہ شہر میں کتنے غیر مستند ڈاکٹر یا اناڑی جھولا چھاپ معالج ہیں؟ پس اپنے کام کی بات دریافت کرنا چاہیے۔
(2) اور اپنی قوم کو "ڈرانے-خبردار" کرنے والے ہوں، بشرطیکہ قوم ان کے پاس آئے یعنی اعتماد کرے
دوسرے موقع پر اللہ نے فرمایا:
[سورۃ السجدۃ:24]
جس وقت جس حکم کو ادا کرنا لازم ہے اس وقت اس بات کا علم حاصل کرنا ہر ایک پر فرض (عین) ہے۔ لیکن دوسروں پر جو احکام لازم ہیں وہ سب احکام سیکھنا بعض پر فرض کفایہ) ہے۔
یعنی وہ علم طلب کرنا لازم ہے جو ضروری ہے اس کے وضو، نماز اور اگر مال ہو تو زکاۃ وحج وغیرہ کیلئے۔ اور فرمایا کہ اس(ضروری علم کے طلب) کیلئے نکلنے میں والدین کی اجازت بھی لازم نہیں ہے۔
امام مالکؒ(م179ھ) نے فرمایا۔۔۔اتنا علم حاصل کرنا چاہیے ک ’’اپنے‘‘ میں فائدہ اٹھا سکے۔
امام ابن مبارکؒ(م181ھ) نے فرمایا:
اس سے مراد وہ(دنیاوی) علم نہیں جسے لوگ حاصل کرتے ہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ آدمی کو اپنے ’’دین‘‘ کی کوئی بات (کوئی شک) واقع ہو تو سوال کرنا فرض ہے حتیٰ کہ وہ اسے جان لے۔
ایک فرض عین، اس کی تحصیل ہر فرد پر لازم ہے اور ایک ہے فرض کفایہ، اس علم کو ایک آدمی نے بھی حاصل کرلیا تو اس علاقہ کے باقی لوگوں پر سے ساقط ہوگیا۔
فرائضِ دین کا اجمالی علم، فرض عین ہے۔ کوئی آدمی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ جیسے زبان سے شہادت اور دل سے اقرار ہو کہ اللہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں، کوئی نظیر نہیں، نہ کسی کو اس نے جنا اور نہ کسی نے اسے پیدا کیا ہے، اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔ ہر چیز کا خالق ہے۔ سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ وہی موت دیتا ہے، وہی زندگی بخشتا ہے۔ زندہ ہے، کبھی مرنے والا نہیں۔ عالم ہے چھپی اور ظاہر باتوں کا۔ آسمان میں کوئی ذرہ بھی اس سے اوجھل نہیں۔ وہی اول ہے، وہی آخر ہے۔ وہی ظاہر ہے، وہی باطن ہے۔ اور اہلِ سنت والجماعت کے عقیدے میں وہ اپنی خوبیوں اور ناموں کے ساتھ ازل سے ہے۔ نہ اس کی کبھی ابتدا ہوئی اور نہ کبھی انتہاء ہوگی۔ اور وہ عرش پر متمکن ہے۔
اور اس بات کی شہادت کہ محمد ﷺ کے اللہ کا بندہ، رسول اور خاتم النبیین ہونا حق ہے۔ اور یہ کہ موت کے بعد جزا وسزا کیلئے اٹھنا ہے، اور داخل ہونا آخرت میں اہلِ سعادت کا ایمان وعمل سے جنت میں اور بدبختوں کا کفر ونافرمانی سے جہنم میں۔ اور یہ کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور جو کچھ قرآن میں ہے اللہ کی طرف سے حق ہے۔ اس پر ایمان لانا اور اس کی آیاتِ محکمات پر عمل کرنا فرض ہے۔
اور یہ کہ پانچوں نمازیں فرض ہیں، نیز ان باتوں کا علم بھی لازمی ہے جن کے بغیر نماز پوری نہیں ہوتی، جیسے طہارتِ نماز کے تمام ارکان واحکام، اور یہ کہ رمضان کے روزے فرض ہیں اور روزے کے احکام کا علم بھی فرض ہے۔ اسی طرح اگر آدمی مالدار ہے تو یہ جاننا بھی فرض ہے کہ زکوٰۃ کب اور کن چیزوں میں اور کتنے میں فرض ہے؟ اور یہ کہ استطاعت کے بقدر عمر بھر میں ایک مرتبہ حج فرض ہے وغیرہ
اور وہ باتیں جن کا اجمالی علم ضروری ہے اور جن سے بےخبری ناقابلِ معافی ہے۔ مثلا: بدکاری، سودخوری، شراب نوشی، خنزیر ومردار ونجاستوں کے کھانے کی حرمت، غیر کا مال غصب کرنا، رشوت لےکر فیصلہ کرنا، جھوٹی شہادت دینا، دھوکے یا بغیر رضامندی کسی کا مال کھانا اور یہ کہ ہر قسم کا ظلم حرام ہے۔ بہنوں بیٹیوں وغیرہ سے نکاح ناجائز ہے۔ ناحق مسلمانوں کی جان لینا حرام ہے اور اس کے علاوہ وہ باتیں جن کی حرمت پر اللہ کی کتاب ناطق اور امت متفق ہے۔
علم اور فقہ میں فرق-2
علم کیلئے علماء سے پوچھنا(ان سے خود رابطہ رکھنا)کافی ہے
[دلیلِ سورۃ النحل:43]
لیکن
فقہ حاصل ہوتی ہے علماء کے ساتھ(صحبت و خدمت میں اٹھنے بیٹھنے میں)صبر کرنے سے۔
[دلیلِ سورۃ الکھف:65-67]
جب تک کہ مستند عالم استاد اسے قابل سمجھ کر فتویٰ دینے یا فیصلے کرنے کی رضامندگی(سند) نہ دیدے۔
رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذؓ کو یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو فرمایا:
تم کس طرح فیصلہ کروگے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے؟
انہوں نے کہا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا.
فرمایا: اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو؟
کہا: رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا.
فرمایا: اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو؟
کہا: اجتہاد(پوری جدوجہد) کروں گا "اپنی رائے" سے اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (یعنی قاصد) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔
[ابوداؤد:3592، ترمذی:1327، طیالسی:560، شافعی:604، ابن ابی شیبۃ:22988، احمد:22007+22061+22100، عبد بن حمید:124، دارمی:170، طحاوی:3583، طبرانی:362، بغوی:2814]
اور ایک روایت میں حضرت ابن مسعود سے نبی ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے:
«إِنَّ أَعْلَمَهُمْ أَبْصَرُهُمْ بِالْحَقِّ إِذَا اخْتَلَفَ النَّاسُ، وَإِنْ كَانَ مُقَصِّرًا فِي الْعَمَلِ، وَإِنْ كَانَ يَزْحَفُ عَلَى اسْتِهِ»
یعنی
لوگوں میں سب سے بڑا عالم وہ ہے جو لوگوں کے اختلاف کے وقت بھی حق کو جانتا ہو، اگرچہ عمل میں کوتاہ ہو، اگرچہ اپنے سرین پر گھسٹ کے چلتا ہی کیوں نہ ہو۔
[مسند ابن أبي شيبة:321، مسند أبي داود الطيالسي:376، السنة للمروزي:54، المسند للشاشي:772، المعجم الأوسط للطبراني:4479، المعجم الصغير للطبراني:624، المعجم الكبير للطبراني:10357، المستدرك على الصحيحين للحاكم:3790، شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين:38، المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي:841، شعب الإيمان للبيهقي:9064، جامع بيان العلم:1500، المطالب العالية لابن حجر:3022، مجمع الزوائد:12101]
امام مالکؒ سے پوچھا گیا: فتویٰ دینا کس کو جائز ہے؟
[جامع بيان العلم:1529]
القرآن : ثُمَّ أَورَثنَا الكِتٰبَ الَّذينَ اصطَفَينا مِن عِبادِنا ۖ فَمِنهُم ظالِمٌ لِنَفسِهِ وَمِنهُم مُقتَصِدٌ وَمِنهُم سابِقٌ بِالخَيرٰتِ بِإِذنِ اللَّهِ ۚ ذٰلِكَ هُوَ الفَضلُ الكَبيرُ {سورۃ الفاطر:35} |
پھر ہم نے وارث کئے کتاب کے وہ لوگ جن کو چن لیا ہم نے اپنے بندوں میں سے پھر کوئی ان میں برا کرتا ہے اپنی جان کا اور کوئی ان میں ہے بیچ کی چال پر اور کوئی ان میں آگے بڑھ گیا ہے لیکر خوبیاں اللہ کے حکم سے یہی ہے بڑی بزرگی [۴۱] |
یعنی پیغمبر کے بعد اس کتاب کا وارث اس امت کو بنایا جو بہیأت مجموعی تمام امتوں سے بہتر و برتر ہے ہاں امت کے سب افراد یکساں نہیں ۔ ان میں وہ بھی ہیں جو باوجود ایمان صحیح کے گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں (یہ { ظَالِمٌ لِنَفْسِہٖ } ہوئے) اور وہ بھی ہیں جو میانہ روی سےرہتے ہیں۔ نہ گناہوں میں منہمک نہ بڑے بزرگ اور ولی (ان کو مقتصد فرمایا) اور ایک وہ کامل بندے جو اللہ کے فضل و توفیق سے آگے بڑھ بڑھ کر نیکیاں سمیٹتے اور تحصیل کمال میں مقتصدین سے آگے نکل جاتے ہیں۔ وہ مستحب چیزوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ اور گناہ کے خوف سے مکروہ تنزیہی بلکہ بعض مباحات تک سے پرہیز کرتے ہیں۔ اعلیٰ درجہ کی بزرگی اور فضیلت تو ان کو ہے۔ ویسے چنے ہوئے بندوں میں ایک حیثت سے سب کو شمار کیا۔ کیونکہ درجہ بدرجہ بہشتی سب ہیں۔ گنہگار بھی اگر مومن ہے تو بہرحال کسی نہ کسی وقت ضرور جنت میں جائے گا۔ حدیث میں فرمایا کہ ہمارا گنہگار معاف ہے، یعنی آخر کار معافی ملے گی۔ اورمیانہ سلامت ہے اور آگے بڑے سو سب سے آگے بڑھے، اللہ کریم ہے اس کے یہاں بخل نہیں۔ انبیاء علیہم السلام مال ودولت کا وارث نہیں بناتے، بلکہ وہ علم دین کا وارث بناتے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
”انما العلماء ورثة الانبیاء، وان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درہماً، انما ورثوا العلم…،،۔
[أخرجه أحمد (5/196، رقم 21763) ، وأبو داود (3/317، رقم 3641) ، والترمذى (5/48، رقم 2682) وقال: لا نعرف هذا الحديث إلا من حديث عاصم بن رجاء بن حيوة وليس هو عندى بمتصل. ثم أورد له إسنادًا وقال هذا أصح. وابن ماجه (1/81، رقم 223) ، وابن حبان (1/289، رقم 88) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (2/262، رقم 1696) أخرجه الطبرانى كما فى مجمع الزوائد (1/202) قال الهيثمى: فيه عثمان بن أيمن ولم أر من ذكره وكذلك إسماعيل بن صالح. والبيهقى فى شعب الإيمان (2/263، رقم 1699) . وأخرجه أيضًا: الرافعى (3/462) . أخرجه ابن عساكر (38/318) .]
اس حدیث کی بنیاد پر علماء ملت کی بھی وہی ذمہ داریاں ہوگئیں جو ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو سونپی تھیں، گویا اب دنیا کی کسی سپر پاور کو انبیاء علیہم السلام کی یہ وراثت کتنی ہی چبھے اور کتنی ہی ان سیاہ کاروں کے لئے سوہان روح ہو، علماء اس وراثت سے دست بردار ہونے والے نہیں، بلکہ رسول اللہ ا کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ اس وراثت کے علم برداروں کو پیدا کرتا رہے گا اور وہ اس وراثت کا حق ادا بھی کریں گے اور جب علماء ملت انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں تو ان وارثین کے ساتھ بھی وہی معاملات ہوں گے اور ہوتے چلے آئے ہیں کہ جو خود انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوئے۔ البتہ علمائے ملت ان مصائب میں اپنے ایمانی، روحانی درجات کے بقدر مبتلا ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
”اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالامثل۔
یعنی لوگوں میں سخت ترین امتحان انبیاء کا ہوتا ہے پھر درجہ بدرجہ۔ [سنن ابن ماجه :4024، صحيح ابن حبان:2900+2921+2920]
منور کردے یا رب! مجھ کو تقویٰ کے معالم سے،
ترے در تک جو پہنچادے ملادے ایسے عالم سے؛
کتب خانہ تو ہیں "اختر" بہت آفاقِ عالم میں،
جو ہو الله کا عالم، ملوں ایسے عالم سے.
(عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمّد اختر صاحب دامت برکاتہم)
|
(2) ڈرنے والے:
...اللہ سے ڈرتے وہی ہیں اس کے بندوں میں جن کو علم (سمجھ) ہے...
علم کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ دل میں الله کا خوف اور خشیت ہو".
[حلية الأولياء: جز#٢، حديث # ٢٦٤٥]
امام سفيان ثوریؒ (المتوفیٰ 161ھ) نے فرمایا:
ليس طلب العلم فلان عن فلان، انما طلب العلم الخشية لله عز وجل.
[ٰبتاريخ ابن أبي خيثمة:1253، حلية الاولياء:2/365، سير السلف الصالحين لإسماعيل بن محمد الأصبهاني:1001]
یعنی یہ طلبِ علم نہیں کہ فلاں نے فلاں سے(روایت کیا)، طلبِ علم تو اللہ عز وجل کی خشیت کا نام ہے۔
یعنی
محض نقوش وروایات جاننا علم نہیں۔
۔۔۔اور یہ مثالیں بٹھلاتے ہیں ہم لوگوں کے واسطے اور ان کو "سمجھتے" وہی ہیں جن کو سمجھ(علم) ہے.
[سورۃ آل عمران:٧]
وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب، اس میں بعض آیتیں ہیں محکم یعنی انکے معنیٰ واضح ہیں وہ اصل ہیں کتاب کی، اور دوسری ہیں متشابہ یعنی جنکے معنیٰ معلوم یا معین نہیں، سو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات کی گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے، اور ان کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے، اور مضبوط علم والے کہتے ہیں ہم اس پر یقین لائے سب ہمارے رب کی طرف سے اتری ہیں، اور سمجھانے سے وہی سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے".
[سورۃ النساء:١٦٢]
لیکن جو پختہ ہیں علم میں ان میں، اور ایمان والے سو مانتے ہیں اسکو جو نازل ہوا تجھ پر اور جو نازل ہوا تجھ سے پہلے، اور (آفریں ہے) نماز پر قائم رہنے والوں کو اور جو دینے والے ہیں زکوٰۃ کے اور یقین رکھنے والے ہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر سو ایسوں کو ہم دیں گے بڑا ثواب."
[مسند امام اعظم:٤٧١ مسند احمد:٢١٧٧١ مسند ابو يعلي:٤٢٣٤ ترمذی:٢٦٧٠]
أخرجه الديلمى من طريق ابن لال (1/2/291-292) عن ابن عمر.
أخرجه الخطيب (6/504) عن ابن عباس.
[كنزالعمال:١٠/١٧٦، حدیث # ٢٨٨٩٧، عن ابن_مسعود]
عَنْ عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَجْمَعُ اللَّهُ تَعَالَى الْعُلَمَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، فَيَقُولُ : إِنِّي لَمْ أَجْعَلْ حِكْمَتِي فِي قُلُوبِكُمْ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ بِكُمُ الْخَيْرَ ، اذْهَبُوا إِلَى الْجَنَّةِ ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ عَلَى مَا كَانَ مِنْكُمْ " .
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْعِلْمِ ... رقم الحديث: 33]
حكم :
خلاصة حكم المحدث: رواته ثقات
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
الله تعالیٰ قیامت کے دن علماء کو فرماۓ گا جب کرسی پر (اپنی شان کے مطابق) بیٹھے گا فیصلہ کیلئے اپنے بندوں کے : میں نے تم میں اپنے علم اور اپنی حکمت (یعنی علم سے فائدہ پانے والی عقل) کی باتیں صرف اس لئے ڈالی تھیں کہ میں تمہیں بخشنا چاہتا تھا، میں نے (تمہارے گناہوں کو) جو تم پر بوجھ تھے معاف کردیا، اور (اس بات میں) مجھے کوئی پرواہ نہیں.
[تفسير القرآن لابن كثير: 5/267 ، سورة طه:2]
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْعِلْمِ ... رقم الحديث: 33]
خلاصة حكم المحدث: رجاله موثقون
خلاصة حكم المحدث: سنده رواته ثقات
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات
خلاصة حكم المحدث: له شاهد رجاله موثقون
خلاصة حكم المحدث: هذا وإن كان غريبا فله شواهد حسان
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد وروي مسنداً ومرسلا
خلاصة حكم المحدث: للحديث شاهد من حديث ثعلبة بن الحكم رجاله موثقون
1) نتیجہ_ایمان و تقویٰ [البقرة:١٠٣، ٩٨:٧]
[٩:٤١، ٩:٨٨، ٦١:١١]
[١٠:58, ١٦:٣٠،٢٨:٢٤، ٤٣:٣٢]
20) صالح و نیک اولاد[١٨:٨١]
[١٨:٩٥، ٣٣:١٩، ٣٨:٣٢، ٥٠:٢٥، ١٠٠:٨]
{سورۃ آل عمران:110}
[مسند أبي يعلى الموصلي » رقم الحديث: 2764
[أخرجه أبو يعلى:2790 ، والبيهقى فى شعب الإيمان (2/281، رقم 1767] .
حضرت علیؓ نے فرمایا:
2) حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ سُهَيْلٍ مَوْلَى يَحْيَى بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى, عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ الله قَالَ: لَا يَأْتِي عَلَيْكُمْ عَامٌ إِلاَّ وَهُوَ شَرٌّ مِنَ الَّذِي كَانَ قَبْلَهُ, أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَعْنِي عَامًا أَخْصَبَ مِنْ عَامٍ، وَلَا أَمِيرًا خَيْرًا مِنْ أَمِيرٍ, وَلَكِنْ عُلَمَاؤُكُمْ وَخِيَارُكُمْ وَفُقَهَاؤُكُمْ يَذْهَبُونَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ مِنْهُمْ خَلَفًا, وَيَجِيءُ قَوْمٌ يَقِيسُونَ الأُمُورَ بِرَأْيِهِمْ.
[سنن الدارمي » بَاب تَغَيُّرِ الزَّمَانِ وَمَا يَحْدُثُ فِيهِ ۔۔۔ رقم الحديث: 190(194)]
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ارشاد فرماتے ہیں تمہارا آنے والا ہر برس گزرے ہوئے برس سے زیادہ برا ہوگا میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک سال دوسرے سال سے زیادہ خراب ہے یا ایک حکمران دوسرے حکمران سے زیادہ بہتر ہے بلکہ تمہارے علماء تمہارے معزز لوگ اور تمہارے فقہاء رخصت ہوجائیں گے پھر تمہیں ان کا حقیقی نائب نہیں ملے گا اور وہ لوگ آجائیں گے جو معاملات میں اپنی رائے کے ذریعے قیاس کرکے حکم بیان کریں گے۔
[دارمي:194،البدع لابن وضاح:228(1:159)، المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي:147(1:188)، جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر:1219-1221(2:1042)، ذم الكلام وأهله لعبد الله الأنصاري:258(279)، الإتحاف:13235]
علماء سے بغض رکھے جانے پر چار قسم کے عذابوں کی پیش گوئی:
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَبْغَضَ الْمُسْلِمُونَ عُلَمَاءَهُمْ وَأَظْهَرُوا عِمَارَةَ أَسْوَاقِهِمْ وَتَنَاكَحُوا عَلَى جَمْعِ الدَّرَاهِمِ رَمَاهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِأَرْبَعِ خِصَالٍ: بِالْقَحْطِ مِنَ الزَّمَانِ، وَالْجَوْرِ مِنَ السُّلْطَانِ، وَالْخِيَانَةِ مِنْ ولَاةِ الْأَحْكَامِ، وَالصَّوْلَةِ مِنَ الْعَدُوِّ۔
ترجمہ:
جب مسلمان(امت)اپنے علماء سے بغض رکھنے لگیں گے اور بازاروں کی عمارتوں کو بلند وغالب کرنے لگیں گے اور(دینداری کے بجائے) مال ودولت کے ہونے پر نکاح کرنے لگیں گے تو اللہ عز وجل ان پر چار قسم کے عذاب بھیجے گا: قحط سالی زمانے(کے حالات)سے، اور ظلم حکمرانوں سے، اور خیانت والیانِ حکام سے، اور پے در پے حملے دشمنوں سے۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم » كِتَابُ الرِّقَاقِ » فصل فی توقیر العلماء، حديث:7923]
أَخْبَرَنِي أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغْدَادِيُّ ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، ثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآَلِهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " اللَّهُمَّ لا يُدْرِكُنِي زَمَانٌ ، أَوْ لا أُدْرِكُ زَمَانَ قَوْمٍ ، لا يَتَّبِعُونَ الْعِلْمَ ، وَلا يَسْتَحْيُونَ مِنَ الْحَلِيمِ ، قُلُوبِهُمُ الأَعَاجِمُ ، وَأَلْسِنَتُهُمْ أَلْسِنَةُ الْعَرَبِ " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ .
[المستدرك على الصحيحين » :رقم الحديث: 8655
قَالَ أَبِي : الأَعْجَمُ الدَّوَابُّ ، وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الْعَجْمَاءُ جَرْحُهَا جُبَارٌ. (بخاري:6429)
[شعب الإيمان للبيهقي » رقم الحديث: 7226 (6/143)]
میرے والد نے کہا کہ اعجم چوپاۓ ہیں. اور اس قول کی تفسیر یہ قولِ رسول ﷺ ہے کہ : چوپاۓ اگر کسی کو زخمی کردیں تو ان کا کوئی خون بہا نہیں.
عن سهل بن سعد الساعدي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال : " اللهم لا يدركني زمان - أو لا تدركوا زمانا - لا يتبع فيه العليم ، ولا يستحيا فيه من الحليم ، قلوبهم قلوب الأعاجم ألسنتهم ألسنة العرب " .
[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد » كتاب العلم » باب فيمن لا يتبع أهل العلم ... ٢/٩٠ ، ٨٦١]
حضرت سہلؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ دعا کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ ! میں ایسا دور کبھی نہ پاؤں - اور تم (صحابی) بھی نہ پاؤ - جس میں اہل علم کی پیروی نہ کی جائے ، بردبار سے شرم نہ کی جائے ، جن کے دل عجمیوں کی طرح اور زبانیں اہل عرب کی طرح ہوں ۔
[مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 2883 (68082)] |
[مسند البزار:3626، شرح مشكل الآثار:6116، المعجم الأوسط للطبراني:5171، المعجم الصغیر للطبرانی:786، حلية الأولياء:7/236، شعب الإيمان للبيهقي:1581، جامع بيان العلم وفضله:151 ، رجاله موثقون[مجمع الزوائد: 1/127]
عن عبدِ اللهِ بنِ مَسعودٍ رضِيَ اللهُ عنه أنَّه كان يَقولُ: اغْدُ عالِمًا، أو مُتعلِّمًا، ولا تَغْدُ إمَّعةً فيما بيْنَ ذلك.
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
آپ کو علمی ذوق اور مطالعہ کا شوق بھی ہے اسلامی لٹریچر پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک بات میں اپنے تجربے کی بناپر کہتا ہوں کہ آپ سلف صالحین اور امت کے ان لوگوں سے جنہوں نے اپنے دائرہ میں دینی و ملی کام کیا ہے بدگمان نہ ہوں یہ بڑے خطرے کی بات ہے ،یہ بات ہمارے ان بھائیوں میں بہت زیادہ پیدا ہوتی جارہی ہے جن کا سارا انحصار مطالعہ پر ہے، وہ تنقیدی کتابیں اور مضامین پڑھتے ہیں تو ان کو ایسا نظر آنے لگتا ہے کہ کسی نے اسلام پر مکمل کام ہی نہیں کیا ،ان کتابوں کے اثر سے وہ دینی خدمت کے ناپنے کے لئے ایک فیتہ بنا لیتے ہیں جس سے وہ ہر مصلح اور مجدد کو ناپتے ہیں جیسے فوج میں بھرتی ہونے والے رنگروٹ ناپے جاتے ہیں یہ صحیح نہیں ،آپ کو معلوم نہیں کہ ان اللہ کے بندوں نے کن سخت حالات میں کام کیا ۔ میں صاف کہتا ہوں کہ اسلام اب جو دنیا میں محفوظ ہے اور زندہ ہے اس میں سب کا حصہ ہے محدثین ،فقہاء،صلحاء امت،اولیا ء اللہ رحمہم اللہ سب کا اس میں حصہ ہے ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کیا کرتے تھے؟نماز روزے کے مسائل بتاتے تھے انہیں تو اسلامی خلافت وسلطنت قائم کرنی چاہئے تھی ،تو صاحب خلافت تو قائم ہوجاتی لیکن آپ کو نماز پڑھنا کون سکھاتا؟ اور وہ خلافت کس کام کی جس میں نماز پڑھنا کسی نہ آتا ہو؟ یاد رکھیے! سب لوگ اپنے امکان واستطاعت کے مطابق دین کی خدمت اور اس کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے ،کوئی وعظ کہہ رہا تھا کوئی تقریر کررہاتھا ،اور کوئی حدیث پڑھا رہا تھا،کوئی فتوے دے رہا تھا اور کوئی کتابیں لکھ رہا تھا ،اپنی اپنی جگہ اسلام کی خدمت ور مسلمانوں کی تربیت کا کام کررہے تھے اور ہر ایک نے الگ محاذ سنبھال رکھا تھا جن لوگوں نے اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ کا نام سکھایا اور لوگوں کی تربیت کی ان کے کام کی تحقیر نہ کی جائے یہ کام انہوں نے کیا جن کو عرف عام میں صوفیائے کرام کہتے ہیں ،آپ کو معلوم نہیں کہ صوفیائے کرام نے کیا خدمت انجام دی ؟انہوں نے اسلامی معاشرے کو زوال سے بچایا،اس کا میرے پاس ثبوت ہے۔انہوں نے ایسا بنیادی کام کیا اگر وہ نہ کرتے تو مادیت کا یہ سیلاب لوگوں کو بہا کر لے جاتا اور تنکے کی طرح امت اسلامیہ بہتی، انہی کی وجہ سے لوگ رکے ہوئے تھے ،اور ہوس رانی ،نفس پرستی کا بازار گرم نہیں ہونے پاتاتھا، اورجو کوئی اس کا شکار ہوجاتا تھا تو فوراً اس میں احساس پیدا ہوتا تھا کہ ہم غلط کام کررہے ہیں ان کے پاس آتا تھا ،روتا تھا،استغفار کرتا تھا پھر یہ صوفیا ومشائخ کام کے آدمی بناتے تھے اور اپنی جگہ پر فٹ کرتے تھے ۔
(خطبات علی میاں ص:۱۴۳،۱۴۵ج۳)
امام احمد بن حنبلؒ (م241ھ) اور امام اذرعیؒ نے ارشاد فرمایا:
اہلِ علم کی مذمت وتوہین کرنا، خاص طور پر بڑے
علماء کرام کی، کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
حوالہ
الْوَقِيعَةُ فِي أَهْلِ الْعِلْمِ ولا سيما أكابرهم من كبائر الذنوب۔
[موسوعة محاسن الإسلام ورد شبهات اللئام: ج1 / ص181]
الْوَقِيعَةُ فِي أَهْلِ الْعِلْمِ، وَحَمَلَةِ الْقُرْآنِ، وَمِمَّا يُعَدُّ مِنَ الْكَبَائِرِ
[الزواجر عن اقتراف الكبائر:2 /20، العزيز شرح الوجيز-الرافعي:ج13 ص7، روضة الطالبين وعمدة المفتين-النووي: ج11/ ص223، تفسير ابن كثير-سورة النساء:آية31]
لحوم العلماء مسمومة، من شمها مرض، ومن أكلها مات۔
ترجمہ:
’’علماء کرام کا گوشت(واقعی عیب کی غیبت) زہریلا ہوتا ہے جو اس کو سونگھے گا بیمار پڑ جائے گا اور جو اس کو کھائے گا مر جائے گا۔‘‘
[العقد التليد في اختصار الدر النضيد = المعيد في أدب المفيد والمستفيد العلموي (م981ھ) : صفحہ60]
[الموسوعة العقدية - الدرر السنية: 8/ 20]
علماء میں حقیقی مخفی عیبوں کی غیبت کرنا زہر کی طرح یقینی نقصاندہ ہے، اور جو علماء کے حقیقی خفیہ عیب کی تلاش میں جاسوسی کرے تو منافقت کے مرض میں مبتلا ہوجائے گا، اور جو اس سے کمائے گا وہ برباد ہوگا۔
علامہ ابن نجیم
المصریؒ (م970ھ) فرماتے
ہیں:
الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ۔
ترجمہ:
علم اور علماء کی
توہین کفر ہے۔
[الأشباه والنظائر - ابن نجيم: ص160]
کیونکہ علم دین کا مذاق اڑانا بھی کفر ہے۔
[قرآنی دلیل:-سورۃ النساء:140]
اور دین کی وجہ سے مومنوں کا مذاق اڑانا بھی جہنم میں داخلے کا سبب ہے۔
[قرآنی دلیل:- سورۃ المومنون:110]
تو عالم سے تمسخر کرنا یا تمام علماء کا استہزاء کرنا زیادہ سنگین ہوا۔ کیونکہ انکا درجہ عام مومنین سے بلند ہے۔
[قرآنی دلیل:-سورۃ المجادلہ:11]
دین کی وجہ سے بغض کی علامات:
کسی کا محض عالمِ دین ہونے کی وجہ سے برا بھلا کہنا۔
یا ایک عالم کی آڑ میں لفظ "علماء" کا استعمال کرکے سب کو نشانہ بنانا۔
یا علم کے ذریعہ اپنے علاوہ (تمام) علماء سے مقابلہ کرنا، اس پر تو جہنم کی وعید ثابت ہے۔
[حوالہ:- ترمذي:2654، ابن ماجة:253، طبراني:199، حاكم:293]
[قرآنی اشارہ:- سورۃ المطففین:29 +34]
مَنْ اَبْغَضَ عَالِماً مِنْ غَیْرِ سَبَبٍ ظَاھِرٍ خِیْفَ عَلَیْهِ الْکُفْر ۔
ترجمہ :
جو بغیر کسی واضح سبب کے عالمِ دین سے بغض رکھے اس پر کفر کا خوف ہے ۔
[لسان الحكام-امام ابن الشحنة، لسان الدين (م882ھ) : صفحہ 415]
کلمات ِ کفر بمتعلق علم وعلماء»
جو کسی عالم سے بغیر کسی ظاہری (درست) وجہ کے بغض رکھے تو اس کے کفر کا خوف ہے۔
اور اگر کسی اصلاح کرنے والے(بزرگ) کے حق میں کہا کہ اس کا دیکھنا میرے نزدیک ایسا ہے جس سور کا دیکھنا تو اس پر کفر کا خوف ہے۔
[خلاصہ]
اور اگر بغیر سبب کسی عالم یا فقیہ کو بدگوئی سے یاد(تذکرہ) کیا تو اس پر کفر کا خوف ہے۔
اور اگر کسی نے عالم سے کہا کہ تیرے علم کی دم میں گدھے کا خالیہ لیا مل، بجائے دم کے کون ومقعد وغیرہ فحش الفاظ استعمال کیے اور تیرے علم سے علم دین مراد لیا ہو تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔
[البحر الرائق]
کسی جاھل نے کہا کہ جو لوگ علم سیکھتے ہیں وہ داستانے ہیں کہ ان کو سیکھ لیتے ہیں
یا
کہا کہ جو کچھ کہتے ہیں بیہودہ ہے، یا کہا کہ فریب دہی ہے، یا (علم دین کو) کہا کہ میں علم حیلہ کا منکر ہوں، تو سب کفر ہے۔
[محیط]
ایک شخص ایک اونچی جگہ بیٹھ جاتا ہے اور دیگر جلسے والے اسے بطور مذاق ٹھٹھول کے مسئلہ پوچھتے ہیں، پھر اس کو تکیوں سے مارتے ہیں، اور یہ سب ہنستے ہیں تو یہ سب کافر کہے جائیں گے۔
[الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية- جماعة من العلماء (1118ھ) : 2 /270 ]
غیر واضح سبب:
مثلا:
(۱)تقدیری عیب جیسے کانے، منڈے، کالےحبشی، ہکلانے کے سبب،
(۲)یا ذاتی کمزوری جیسے: مرض کم ہمتی کے سبب،
(۳)یا کسی نافرمان کی رائے یا قابلِ رد گواہی کے سبب
(۴)یا افواہ-سنی سنائی خبر کے سبب
(۵)یا نقلی بناوٹی ثبوت کی وجہ سے
(۶)یا جھوٹے الزام پر یقین کرکے علماء سے بغض رکھے اور نقصان پہنچانے کا موقع جانے نہ دے۔
أَوْ قَالَ لِعَالِمٍ عُوَيْلِمٌ اسْتِخْفَافًا كُلُّهُ كَفَرَ
ترجمہ:
جو کسی عالم کو عویلم(ملاں/مولوی) تحقیر کیلئے کہے، یہ سب کفر ہے۔
[بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية - محمد الخادمي : 2 / 64]
شیطان ہی آگے ہوگا اور امت اس کے پیچھے چلتے چلتے گمراہ ہوجائے گی۔
لہٰذا علما اگر چہ بے عمل نظر آئیں۔ پھر بھی ان کی اس طرح توہین مت کریں بلکہ ان کے لیے دعا کریں اور ان سے قطع تعلق مت کرو۔ ہزاروں علما کو دو تین بے عمل مولوی حضرات یا علما کی وجہ سے معتوب ٹھہرانا زیادتی ہی ہے!
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَتَعَلَّمُوا لِلْعِلْمِ الْوَقَارَ»
علم حاصل کرو اور علم کیلئے وقار سیکھو۔
[حلية الأولياء:6/ 342، الفردوس بمأثور الخطاب:2238، 2449:ضعيف الجامع]
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، وَتَعَلَّمُوا لِلْعِلْمِ السَّكِينَةَ، وَالْوَقَارَ، وَتَوَاضَعُوا لِمَنْ تَعْلَمُونَ مِنْهُ»
علم حاصل کرو اور علم کیلئے سکینہ اور وقار سیکھو، اور تواضع وعاجزی سے پیش آؤ جن(علماء)سے تم نے علم حاصل کیا ہے۔
[المعجم الأوسط-الطبراني:6184]
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
«تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ، وَتَعَلَّمُوا لَهُ الْوَقَارَ وَالسَّكِينَةَ , وَتَوَاضَعُوا لِمَنْ تَعَلَّمْتُمْ مِنْهُ وَلِمَنْ عَلَّمْتُمُوهُ، وَلَا تَكُونُوا جَبَابِرَةَ الْعُلَمَاءِ، فَلَا يُقَوَّمُ جَهْلُكُمْ بِعِلْمِكُمْ»
علم حاصل کرو اور لوگوں کو تعلیم دو، اور علم کیلئے وقار اور سنجیدگی سیکھو، جس شخص سے علم حاصل کرو اس سے تواضع سے ہیش آؤ، اور جنہیں تعلیم دو ان سے بھی تواضع سے پیش آؤ، سختی کرنے والے علماء مت بنو، کیونکہ تمہارا علم جہالت کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتا۔
[الزهد-لوكيع:275، الزهد-لأحمد بن حنبل:630، المجالسة وجواهر العلم-أبو بكر الدينوري:1197، أخلاق أهل القرآن-الآجري:51، شعب الإيمان-البيهقي:1651، المدخل إلى السنن الكبرى-البيهقي:629، جامع بيان العلم وفضله-ابن عبد البر:893، الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع-للخطيب البغدادي:41، ترتيب الأمالي الخميسية-للشجري:214+348]
حضرت ابوسنان الاسدیؒ فرماتے ہیں:
إذا كان طالب قبل أن يتعلم مسألة في الدين يتعلم الوقيعة في الناس؛ متى يفلح؟
ترجمہ:
جب طالب علم دین کا کوئی مسئلہ سیکھنے سے پہلے علماء پر طعن کو سیکھے گا تو کیسے کامیاب ہوگا؟
[ترتیب المدارک ط اوقاف المغرب: 4/104]
حضرت مالک بن دینارؒ نے فرمایا تھا:
كَفَى بِالْمَرْءِ خِيَانَةً أَنْ يَكُونَ أَمِينًا لِلْخَوَنَةِ، وَكَفَى بِالْمَرْءِ شَرًّا أَنْ لَا يَكُونَ صَالِحًا وَيَقَعُ فِي الصَّالِحين۔
ترجمہ:
آدمی کے خیانت(غداری) ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ خائنوں(غداروں) سے ایماندار(وفادار) ہو۔ اور آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ خود نیک نہ ہو اور نیک لوگوں کی عیب جوئی (اور غیبت) کرے۔
[الفوائد والأخبار-لابن حمكان:95، شعب الإيمان-البيهقي:6358 ط الرشد]
امام عبد اللہ ابن مبارک(م181ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«مَنِ اسْتَخَفَّ بِالْعُلَمَاءِ ذَهَبَتْ آخِرَتُهُ، وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالْأُمَرَاءِ ذَهَبَتْ دُنْيَاهُ، وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالْإِخْوَانِ ذَهَبَتْ مُرُوءَتُهُ»
ترجمہ:
جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اُخروی زندگی (کی بھلائی) سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکمرانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیاوی زندگی (کی بھلائی) سے محروم رہے گا، اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا-
[الجليس الصالح الكافي-المعافى بن زكريا(م390ھ): صفحہ#229، آداب الصحبة لأبي عبد الرحمن السلمي (م412ھ)، : حدیث#52، النصيحة للراعي والرعية للتبريزي(م636ھ): صفحہ#97]
"ثلاثٌ لا يَستَخِفُّ بهم إلا منافقٌ: ذو الشيبة في الإسلام، وذو العلمِ، وإمامٌ مُقسِط".
[الأموال لابن زنجويه » بَابٌ : مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ تَوْقِيرِ أَئِمَّةِ الْعَدْلِ ... رقم الحديث: 49 - المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ » صُدَيُّ بْنُ الْعَجْلانِ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ... رقم الحديث: 7720(7817) - التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب، للمنذري:1/65، كتاب الْعلم، حديث:174 - مجمع الزوائد، للهيثمي: 1/132]
حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ عَمَّارٌ: ثَلَاثٌ لَا يَسْتَخِفُّ بِحَقِّهِنَّ إِلَّا مُنَافِقٌ بَيِّنٌ نِفَاقُهُ: الْإِمَامُ الْمُقْسِطُ وَمُعَلِّمُ الْخَيْرِ وَذُو الشَّيْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ.
صحابہ کے دور میں امام پر بے جا اعتراض پر مظلوم امام کی بددعا اور انتقامِ الٰہی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو خُلَيْدٍ عُتْبَةُ بْنُ حَمَّادٍ الدِّمَشْقِيُّ , عَنْ ابْنِ ثَوْبَانَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ قُرَّةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضَمْرَةَ السَّلُولِيِّ , قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ , قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهُوَ يَقُولُ : " الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ مَلْعُونٌ , مَا فِيهَا إِلَّا ذِكْرَ اللَّهِ , وَمَا وَالَاهُ أَوْ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا " .
[أخرجه الترمذى (4/561 رقم 2322) وقال: حسن غريب. وأخرجه أيضًا: ابن ماجه (2/1377 رقم 4112) . والحكيم (4/179) ، والبيهقى فى شعب الإيمان(2/265، رقم 1708) . أخرجه ابن عساكر (47/145) .
علامہ ابن تیمیہؒ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: حضرت شیخ سے کسی نے پوچھا :آپ نے کیسے جانا کہ یہ شیطان ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے اُسے اُس کے اس قول سے پہچانا: میں نے تمہارے لیے وہ سب کچھ حلال کردیا جو دوسروں پر حرام ہے، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ محمد ﷺ کی شریعت نہ تو منسوخ ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ اُس کی شناخت کی دوسری وجہ بھی اُس کا یہ قول تھا: میں تمہارا رب ہوں، وہ یہ نہیں کہہ سکا کہ میں اللہ ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے. (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج:1،ص: 172،طبع سعودیہ)، (غنیۃ الطالبین مترجم، ص:30-31،فرید بک اسٹال ،لاہور)۔
|
ایک علم الٰہی ہے، جو بذریعہٴ وحی انبیائے کرام علیہم السلام کے توسط سے دنیا والوں کو پہنچا ہے ،اس علم کے معلم اول خود حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ شانہ کی ذات گرامی صفات ہے اور اس کے اولین شاگرد حضرات انبیائے کرام علیہم السلام ہیں۔ اس مقدس سلسلہٴ تلا مذہ میں پہلے شاگرد اور متعلم ابولبشر سید نا آدم علیہ السلام ہیں،جن کے علم وفضل کا لوہا ملائکہ مقربین تک نے مانا ہے اور اس لحاظ سے حضرت آدم علیہ السلا م کے ذریعہ ہی اس علم الٰہی کا پہلا درس حظیرئہ قدس کی درس گاہ میں ملائے اعلیٰ کے فرشتوں کو ہی دیا گیا ہے ۔یہ علم الٰہی وہ علم ہے جس کے ادراک و معرفت سے عقل انسانی قاصر وعاجز ہے،اس لیے کہ یہ حقائق الٰہیہ اور علوم غیبیہ عقل انسانی کی دست رس سے بالا تر اوروراء الوراء(دور سے دورتر )ہیں، ارشاد باری ہے :
﴿ وَلاَ یُحِیْطُونَ بِشَیْْء ٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلاَّ بِمَا شَآءَ ﴾․(البقرہ:255) ترجمہ:۔”اور وہ (انسان)نہیں احاطہ کر سکتے اس کے علم کے کسی حصہ پربھی،بجزاس کے جو وہ خود (عطا فرمانا)چاہے“۔ اور اس ” بِمَا شَآءَ“کے استثنا کے تحت ان علوم کا جو حصہ انسانوں کو دیا گیا ہے،وہ علم الاولین والآخرین (اگلوں اور پچھلوں سب کاعلم)ہونے کے باوجودبھی ”’قدر قلیل “گویا بحرذخار کے ایک قطرہ کا مصداق ہے۔ارشاد الٰہی ہے:﴿ وَمَا أُوتِیْتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلاً﴾ (بنی اسرائیل:85) ترجمہ:۔”اور جو علم تم کو دیا گیا ہے ،وہ تو بہت ہی تھوڑا علم ہے“۔ دوسرا وہ علم ہے جس کا ذریعہ عقل وادراک کا وہ جو ہر لطیف ہے جو خالق کائنات نے ہر انسان کی فطرت میں علی فرق المراتب (درجہ بدرجہ)ودیعت فرمایا ہے ۔ جس کا ظہور ہربچہ میں ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے اور سن وسال نیز محسوسات و مشاہدات اور تجربات کے اضافہ کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور ترقی کرتا رہتا ہے۔ بحیثیت مجموعی ہر دور میں عقل انسانی میں جتنی پختگی پیدا ہوتی گئی،، ”یہ فکر ی ونظری علم“بڑھتا اور ترقی و تنوع اختیار کرتا رہا اور جوں جوں نسل انسانی کونت نئی حاجات و ضروریات پیش آتی رہیں،ان کو پورا کرنے کی تگ دو میں اس علم کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتارہا۔ لیکن اس علم انسانی کے مبادی،محسوسات ومشاہدات وتجربات سے انتفاع میں بھی عقل انسانی کی ابتدائی راہ نمائی وحی والہام الٰہی کے ذریعہ ہی ہوئی ہے اور تمام ترصنعتوں اورحِرفوں کے اصول ومبادی اول بھی انبیائے کرام علیہم السلام ہی ہوئے ہیں۔ چناں چہ تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ آدم علیہ السلام کی وہ تمام تر آسمانی تعلیمات جن کی تبلیغ وتعلیم کے لیے اُنہیں مبعوث کیاگیا تھا، معبود حقیقی کی ابتدائی معرفت اور اس روئے زمین پر انسانی زندگی کے ابتدائی لوازمات :غذا،لباس اور مسکن کے مہیاّ کرنے کے طریقوں کی تعلیم پر مشتمل تھیں۔ حضرت ادریس علیہ السلام خیاطت (کپڑا سینے)کے معلم اول تھے،حضرت نوح علیہ السلام کشتی سازی اور جہاز سازی کے معلم اول ہوئے ہیں،حضرت داوٴد علیہ السلام آلات حرب میں سے زرہ سازی کے معلم اول اور حضرت سلیمان علیہ السلام فنونِ لطیفہ میں سے عمارت سازی اور ظروف سازی کے معلم اول ہوئے ہیں۔معدنیات میں سے خام لوہے سے فولاد تیار کرنے اور تانبہ کوسیال کرنے کی صنعت کے معلم اول داوٴدوسلیمان علیہما السلام ہی ہوئے ہیں، قرآن کریم کی نصوص اور صریح آیات اس پر شاہد ہیں۔ لیکن یہ تمام علوم ،جو انسانی عقل اور قوت اختراع کے ذریعہ پرَوان چڑھے اور دنیا میں پھیلے ،در حقیقت علوم نہیں، بلکہ فنونِ صنعت وحرفت ہیں ، جنہیں انسانی عقل، موجوداتِ عالم،خصوصاََ زمین اور اس کی اندرونی وبیرونی پیداوار ،یعنی معدنیات ونباتات وحیوانات ،پہاڑوں اور جنگلات کی طبعی پیداوارکے افعال وخواص اور منفعتوں ،مضر توں کے مسلسل مطالعہ اور ا س کی تحلیل وترکیب سے انسانی ضروریاتِ زندگی پورا کرنے والی نو ایجادات واختراعات کو سالہا سال تک بروئے کار لاتی رہی ہے اور یہ نو بنو مصنوعات وجود میں آتی رہی ہیں۔ بہر حال قرآن کریم کی روشنی میں یہ تو مسلم ہے کہ حیات انسانی کے ابتدائی مراحل میں عقل انسانی کی راہ نمائی بھی وحی الٰہی کے ذریعہ ہوئی ہے،بلکہ مستدرک حاکم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی ذریت میں نسلاً بعد نسل جو صنعتیں اور حرفتیں قیامت تک وجود میں آنے والی تھیں ،جن کی تعداد اس روایت کے بمو جب ایک ہزار ہے ،وہ سب الله جل شانہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھائی ہیں، آیت کریمہ:﴿وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْأَسْمآءَ کُلَّھَا﴾سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے۔فلسفہ تو الدوتناسل کی رو سے بھی آدم یعنی ابو البشرکی خلقت اور فطرت میں اُن تمام کمالات وفنون کے اجمالی نقوش موجود ہونے ضروری ہیں، جو اُن کی ذریت میں بطورِ توراثِ نسلِ انسانی کے مختلف ادوار میں وجود میںآ نے والے ہیں۔ اس جہان ِحدوث وفنا، یعنی دنیا کے بقاوار تقا کے لیے یہ علوم عقلیہ صناعیہ اور ضروریات ِ زندگی کی کفیل صنعتیں بے حد ضروری ہیں اور ہر دور میں حق تعالیٰ شانہ عقل وادراکِ انسانی کی تحقیقات وتجربات کے ذریعہ اپنی گونا گوں عنصری ،معدنی ،نباتاتی اور حیوانی مخلوق میں چُھپی ہوئی بے شمار صلاحیتیں منفعتیں اور مضرتیں ظاہر فرماتے اور منظر عام پر لاتے رہے ہیں، اس لیے کہ خالق ِکائنات نے حضرت انسان کوہی ان پر متصرف بنایا ہے اورا نہی ارضی وسماوی کائنات و مخلوقات سے اس کی زندگی وابستہ ہے ،ارشاد ہے: ﴿وَسَخَّرَ لَکُم مَّا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ﴾․ (الجاثیہ:13) ترجمہ:۔”وہ جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے،سب تمہارے تصرف میں دے دیا ہے“۔ ﴿خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعا﴾․(البقرہ:29) ترجمہ:۔”جو کچھ زمین میں ہے ،سب تمہارے لیے ہی پیدا کیا ہے“۔ چناں چہ انسانی عقل اور قوتِ اختراع کے ذریعہ ”خَلَقَ لَکُمْ“ اور ”سَخَّرَ لَکُمْ“کی عملی تفسیر ہمیشہ سامنے آتی رہی ہے اور رہتی دنیا تک آتی رہے گی،نئی نئی”دریافتیں“ ہوتی رہیں گی اور نو بنو ایجادات ومصنو عات منظر عام پرآتی رہیں گی ،نہ کائنات میں الله تعالیٰ کے ودیعت فرمودہ افعال وخواص اور منفعتوں اور مضرتوں کی کوئی حد و انتہا ہے اور نہ ہی انسانی ایجاد و ا ختراع کی کوئی حد و نہایت ہے۔در حقیقت خالق کائنات کی ان نو بنو شئو ن الٰہیہ کے تحت جن کے متعلق ارشاد ہے:﴿ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَأْن﴾․(رحمن:29)ہر روز اس کی نئی شان اور نرالی شان ہے ہر دن اپنے ساتھ نئی نئی در یافتیں اور نو بنو ایجادات واختراعات لاتا ہے ۔اس طرح ایک طرف اس کا رخانہٴ قدرت کی لا محدود وسعت ،ہمہ گیری اور احاطہ کا اور دوسری طرف روز افزوں دولت وثروت اور نو بنو لوازمِ معیشت کا ظہور ہوتا ہے اورحق جل وعلا کے کمال علم وقدرت اور محیر العقول کائناتی نظام کی حکمتیں اور اسرار ظاہر ہوتے رہتے ہیں،تاکہ یہ حضرت انسان ان آیات بینات (روشن دلائل)کو دیکھ کر زبانِ حال اور زبانِ قال دونوں طریق پر اعتراف کرتے رہیں: ﴿ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً﴾․ (آل عمران:191) ترجمہ:”اے پروردگار!بے شک تو نے اس (کارخانہٴ قدرت)کو (یو نہی) بے کار، بے فائدہ نہیں پیدا کیا ہے“۔ ظاہر ہے کہ دنیا کی اِن گونا گوں ارضی وسماوی موجو دات اور ان کے حقائق و عجائبات، اسرار وحکم کے دریافت و اکتشافات کا کفیل عقل وادراکِ انسانی ہی کو بنایاگیا ہے،اسی میں وہ شب وروز مصروف ومنہمک ہے اور قیامت تک رہے گی،اسی لیے کسی رِند مشرب کا مقولہ ہے کہ:”خدا اور انسان اپنی تخلیق پیہم سے زندہ ہیں“۔بات ایک حد تک صحیح ہے ، لیکن انداز ِ بیان عظمت وجلال خداوندی کے منافی اور تعبیر گستاخانہ ہے۔ ان صناعی علوم کا انبیاء علیہم السلام کے فرضِ منصبی سے کوئی تعلق نہیں۔ نبوت کا فرض منصبی تو یہ ہے کہ ان حقائق الٰہیہ اور مرضیاتِ خداوندی کو وہ بیان کریں،جن کی معرفت سے عقل انسانی قاصر ہے،اسی لیے خاتم انبیاء ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ہے:”أنتم أعلم بأمور دنیاکم“۔”دنیاوی دھندوں کو تم ہی خوب جانتے ہو“۔ انبیاعلیہم السلام کا اصلی کام حق تعالیٰ کی ذات وصفات وکمالات کی معرفت ،عبادت ،وطاعت الٰہی کے طریقوں اور ﴿مَا فِیْ السَّمٰوَاتِ وَ الْأَرْضِ﴾سے انتقاع واستعمال کے سلسلہ میں مرضیاتِ الٰہیہ اور منشا خدا وندی سے آگاہ کرنا ،مبداو معاد کے احوال،مرنے کے بعد کی زندگی کے کوائف،حساب وکتابِ اعمال کی تفصیلات اور جزا وسزا ،جنت ودوزخ وغیرہ حقائق دینیہ کا بیان کرنا ہے ،یہ وہ علم ہے جس کو عقل انسانی قطعی ادراک نہیں کر سکتی۔ اگر اس نظام کا بقا وارتقا اُن دنیوی علوم وفنون اور وسائل وضروریات کی تکمیل پر موقوف ہے تو دنیا کا معنوی بقا، روحانی ارتقا انسان کی درندگی اور بہیمیت سے محفوظ ”انسانیت“ کی تعلیم و تربیت پر موقوف ہے ، اگر نفوس کی تعلیم وتربیت،قلوب کی اصلاح و تزکیہ اور اس﴿خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعا﴾․(البقرة:29) یعنی ”جو کچھ زمین میں ہے،سب تمہارے فائدے کے لیے پیدا کیا ہے “ سے انتفاع میں عقل انسانی کی صحیح راہ نمائی”علوم وحی “یعنی مذہب اور دین الٰہی کے ذریعہ نہ کی جائے اور عقل انسانی کو آزاد اور شتر بے مہار کی طرح بے لگام چھوڑدیا جائے تو یہ پورا کارخانہٴ قدرت اور سارا عالم خود اسی انسان کے ہاتھوں، جس کی فلاح وبہبود کے لیے یہ پیدا کیا گیا ہے،یکسر تباہ وبرباد ہوجائے اور روئے زمین فساد وبربریت،قتل وغارت اور درندگی کی آماج گاہ بن کر رہ جائے،جس کی نشان دہی آیت کریمہٴ ذیل میں کی گئی ہے: ﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْ النَّاسِ﴾(روم:41) ترجمہ :”بحر وبر میں لوگوں کے کر توتوں کی وجہ سے ایک فساد برپا ہے“۔ اس لیے قانونِ قدرت کا تقاضا اور بقائے اصلح کے اصول کا فیصلہ یہی ہے کہ ہر دور میں اس سر زمیں پر انسانی دست رس سے بالا تر قانونِ الٰہی اور مذہب سماوی کا وجو د ضروری ہے،تاکہ انسان انسان رہیں ،حیوان اور درندے نہ بن جائیں۔ موجوداتِ عالم سے انتفاع اور ان کے استعمال پر مذہب ،یعنی احکام الٰہیہ کی یہ پابندی اس لیے بھی ضروری اور ناگزیر ہے کہ خالق کائنات نے جس طرح انسان کی ”عبدیت “یا کہیے عقل وخرد کی آزمائش اور اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی اہلیت کو ظاہر کرنے کی غرض سے خود انسان کی خلقت میں نکوکاری وپرہیزگاری اور فسق وفجور اور بدکاری دونوں کے رجحانا ت فطری طور پر رکھ دیے،ارشاد ہے: ﴿فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا﴾․ (الشمس:8) ترجمہ:۔”پس دل میں ڈال دیا اس کے اس کی بدکاری کو اور پرہیز گاری کو“ اورمتنبہ فرمادیا: ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا﴾ (الشمس:9،10) ترجمہ:۔”بے شک جس نے اس نفس کو پاک وصاف کرلیا،اس نے فلاح پائی اور جس نے اس کو زندہ درگور کردیا،وہ خسارہ میں رہا“۔ اسی طرح انسان کے تصرف اور استعمال میں دی جانے والی تمام موجوداتِ عالم میں منفعت اور مضرت دونوں قسم کے خواص واثرات بھی رکھ دیے۔دنیا کی کوئی بھی چیز نہ اس طرح منفعت رساں ہے کہ اس میں مضرت کا شائبہ بالکل نہ ہو اور نہ ایسی مضرت رساں کہ اس میں منفعت کا کوئی شائبہ نہ ہو،حتی کہ سمّیات (زہریلی اشیا)میں بھی عظیم منافع موجود ہیں،پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ منفعت ومضرت کا کوئی یکساں ضابطہ نہیں،بلکہ ایک ہی چیز ایک وقت اور ایک حالت میں نافع،مفید اور حیات آفرین ہے اور وہی چیز دوسرے حالات میں سخت مضر اور ہلاکت خیز ہوتی ہے۔ طبائع اور امزجہ میں بھی اسی طرح کا فرق اور تفاوت رکھا کہ ایک ہی چیز ایک شخص کے لیے مضر اور مہلک ہے اور وہی چیز دوسرے شخص کے لیے مفید اور صحت بخش ہے اور اس متنوع اور متضاد افعال وخواص کی حامل موجودات پر متصرف بنادیا۔ اس نکوکاری اور بدکاری دونوں قسم کے متضاد رجحانات کی مالک مخلوق انسان کو پھر اچھی بری،مفید ومضر اشیا کے انتخاب کا اختیار صرف عقل وخرد کے ہاتھ میں نہیں دیا،بلکہ نفسانی اغراض وخواہشات کو اس انتخاب میں دراندازی کرنے کی پوری ”پاور“ (قدرت)دے دی۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر وقت اور ہر قدم پر عقل وخرد اور نفسانی اغراض وخواہشات میں زبردست کشمکش اور کھینچ تان برپا ہے اور یہ ظلوم وجہول مخلوق، یعنی حضرت انسان سر پکڑے حیران کھڑا ہے۔اسی ہوی وہوس اور عقل وخرد کی کشمکش کے مواقع کے لیے اللہ رب العالمین اپنی اس”حاملِ امانت مخلوق“حضرت انسان کی راہ نمائی فرماتے ہیں: ﴿عَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تُحِبُّواْ شَیْْئاً وَہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ﴾․(البقرة:216) ترجمہ:۔”بہت ممکن ہے کہ تم کو ایک چیز پسند نہ ہو اور وہی چیز تمہارے لیے بہتر ہواور ایسا بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور تمہارے لیے بری اور مضر ہو، اللہ ہی(حقیقت حال)جانتا ہے،تم نہیں جانتے“۔ یعنی زمامِ اختیار ”ہوی وہوس“کے ہاتھ میں ہرگز مت دینا اور ہمیشہ حکم خداوندی کے مطابق اچھے برے اور پسندونا پسند کافیصلہ کرنا،ورنہ تباہ ہوجاوٴگے۔اس لیے بھی موجودات عالم اور انسانی اختراع کردہ مصنوعات سے انتفاع اور ان کے استعمال کے بارے میں انسان کی راہ نمائی اور دست گیری کی شدید ضرورت ہے اور یہ کا م مذہب یعنی انسانی دست رس سے بالاتر آسمانی تعلیمات اور احکام الٰہیہ ہی انجام دے سکتے ہیں اور اس نظام عالم کے بقاوتحفظ کے لیے علوم دینیہ کا موجود ومحفوظ رہنا از بس ضروری اور ناگزیر ہے۔ ذرا سوچیے!مذہب اگر انسان پر روز افزوں مادی ترقی کے دروازے بند کرے تو اس کے معنی تویہ ہوئے کہ لامحدود قدرتِ خداوندی کے نوبنو کرشموں اور عجائبات اسرار الٰہی کے اس ”مظہر“یعنی کارخانہٴ قدرت کی تخلیق عبث ہے اور یہ گردشِ لیل ونہار اور وقت کی رفتار بے معنی اور انسانی فطرت میں ایجاد واختراع کا جوہر ودیعت فرمانا عبث ہے،حالاں کہ خالق کائنات کا ازلی ابدی کلام”قرآن عظیم “اسی آسمان وزمین کی متنوع اور گونا گوں مخلوق اور اسی روز وشب کی گردش، یعنی وقت کی رفتار کو اربابِ بصیرت کے لیے خالق کائنات کی آیات (عجائبات اور کرشموں )کا مظہر قرار دے رہا ہے، ارشادہے: ﴿إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ﴾․(اٰل عمران:109) ترجمہ :۔”بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کی گردش میں ارباب عقل وخرد کے لیے بے شمار(قدرت کی)نشانیاں (رکھی ہوئی)ہیں“۔ ﴿ربَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾․(اٰل عمران:191) ترجمہ:۔”اے ہمارے رب!بے شک اس (آسمان وزمین)کو تو نے بے کار اور بے مقصد نہیں پیدا کیا تُو تو(بیکار وعبث کام کرنے سے)پاک ومبرا ہے،پس تو ہم کو جہنم کے عذاب سے بچا(اور اس جہل وکج فہمی اورجحود وعناد سے محفوظ رکھ)“۔ اس لیے مذہب اور دینی تعلیمات پر اس سے بڑھ کر کوئی بہتان نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ روزافزوں ترقیات کے دروازے اپنے ماننے والوں پر بند کرتا ہے یا علوم دینیہ کی اشاعت دنیوی ترقیات کے منافی ہے اور ان علوم کی درس گاہوں کا وجود ملکی ترقی واستحکام کی راہ میں حائل ہے۔ بلکہ مذہب تو ان تمام انسانی ایجادات واختراعات اور مصنوعات پر(جو اب تک ہوئی ہیں یا آئندہ ہوتی رہیں گی)کنٹرول کرتا ہے۔جس کی بقاوارتقااور استحکام کے لیے شدید ضرورت ہے کہ ان کا استعمال صحیح اور برمحل ہو،خالق کائنات کے منشا اور مرضی کے خلاف اور منافی نہ ہو،انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کیا جائے، انسانیت کو ظلم وعدوان کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانے کے لیے ان سے کام ہرگز نہ لیا جائے،روئے زمین پر امن وسلامتی قائم کرنے اور معاشی،اقتصادی اور سیاسی فتنہ و فساد،استعماری لوٹ کھسوٹ کو مٹانے کے لیے ان سے کام لیا جائے،کمزور قوموں کو مغلوب ومقہور کرکے ان کے ملکوں کے ذخائرِثروت ورفاہیت پر ڈاکہ ڈالنے اور استحصال بالجبر کرنے کی غرض سے ہرگز ہرگز ان سے کام نہ لیاجائے۔ اسلام تلوار بنانے پر پابندی نہیں لگاتا،ہاں! اس کے استعمال پر ضرور پابندی عائد کرتا ہے کہ صحیح طریقے پر اس کو استعمال کیا جائے، کیوں؟ صرف اس لیے کہ تلوار ایک ظالم وبے رحم قاتل سے قصاص لینے کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے اور ایک بے قصور اور بے گناہ انسان کو اپنی شیطانی اغراض وخواہشات کی راہ سے ہٹانے کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اسلام عہد حاضر کے حربی اسلحہ،ٹینک،طیارہ شکن توپیں،بمبار طیارے،میزائل ،ریڈار اور طرح طرح کے ہلاکت خیز بم بنانے سے منع نہیں کرتا،ہاں! ان کے استعمال پر پابندی ضرور لگاتا ہے کہ یہ تمام سامانِ حرب اور آلاتِ جنگ صرف ملک وملت کے دفاع اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ظلم وعدوان کے مقابلہ کرنے اور دنیا میں امن وامان قائم کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں۔استعماری اغراض ،کمزور قوموں اور ترقی پذیر ملکوں کو اس حربی طاقت کے دباوٴاور زور سے مغلوب ومرعوب کرکے ان ملکوں کی پیداوار،دولت وثروت پر ڈاکے ڈالنے کے لیے ہرگز استعمال نہ کیا جائے کہ یہ عمرانی عدل وانصاف اور مساوات منافی اور روئے زمین پر عالم گیر فتنہ وفساد برپا کرنے کا موجب ہے،جیسا کہ مذکورہ سابق آیتِ کریمہ میں اس پر تنبیہ کی گئی ہے۔ غرض اسلام مقصد کی تعیین،نیت کی تصحیح،نفوس کے تزکیہ کی اہم ترین ضرورت کو پورا کرتااور مقدس ترین فرض کو انجام دیتا ہے،تاکہ عمل خود بخود صحیح ہوجائے۔حاصل یہ ہے کہ نظام عالم کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں قسم کے علوم،عقلی اور نظری علوم،دینی اور آسمانی علوم کا بقا اور تحفظ ضروری اور ناگزیر ہے۔عقلی اور صناعی علوم وفنون کے بقا، تحفظ اور ارتقاکی کفیل انسان کی نوبنوحوائج وضروریات ہیں،وہ خودانسان کو معاشی، اقتصادی ،سیاسی اور حربی امور میں وقت اور زمانہ کے تقاضوں کے تحت نوبنو فنون وصنائع،ایجادات واختراعات اور مصنوعات کو عدم سے وجود میں لانے پر مجبور کرتی رہیں گی۔ علوم دینیہ الٰہیہ کو دنیا میں لانے اور محفوظ رکھنے والے انبیائے کرام علیہم السلام ہیں اور ان کے بعد ان انبیاء علیہم السلام کے ورثا،یعنی حاملین علوم انبیاء ”علمائے حق“ ہیں ، اس لیے کہ انبیا علیہم السلام دینار ودرہم،مال ومتاع،جائداد وجاگیر ترکہ میں نہیں چھوڑتے، بلکہ علوم نبوت کی وراثت قرناً بعد قرن منتقل ہوتی چلی آتی ہے اور نظام عالم کے توازن کو برقرار رکھتی ہے،خاص کر خاتم النبیین سید الاولین والآخرین ﷺ کی امت کے علما اور حاملین علوم کتاب وسنت کہ ان کے متعلق تو سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے: ”العلماء ورثة الأنبیاء“اس حدیث کے پیش نظر علمائے امت کا کام وہی ہے جو انبیاء علیہم السلام کا کام ہے۔ اس بحث وتنقیح سے یہ بات تو بالکل ہی صاف اور واضح ہو جاتی ہے کہ علوم دنیا اور علوم آخرت میں کوئی نزاع یا تصادم قطعاًنہیں ہے،ہاں! دونوں کے مقاصد اور دائرہٴ کار جدا جدا ہیں ،اسی لیے یہ بالکل حقیقت ہے کہ اگر ان انسانی علوم وصنائع کو خالق کائنات کی مرضی اور منشا کی روشنی میں انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیا جائے تو یہ ساری دین بن جائے اور پھر دین اور دنیا کی تفریق جومحض ایک شیطانی مفروضہ اور منصوبہ ہے،بالکل ہی مٹ جائے۔بالکل اسی طرح جیسا کہ اگر انہی علوم انبیاکو حصول دنیا اور جلب خواہشات واغراض نفسانی کا وسیلہ بنالیا جائے تو نہ صرف یہ کہ پورا دین دنیا بن جاتا ہے،بلکہ خالق کائنات کی امانت میں خیانت اور بہت بڑا جرم ہوجاتا ہے۔اس لیے کہ اگر دنیا کا حصول دنیا کے وسائل کے ذریعہ ہوتو عین مصلحت اور عقل کاتقاضا ہے،اس میں کوئی قباحت نہیں،لیکن اگر دین کو صرف حصول دنیا کا وسیلہ بنالیا جائے تو یہ”وضع الشیء فی غیر محلہ“چیز کا بے محل استعمال ہے اور بہت بڑا ظلم اور انتہائی قبیح جرم ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ علوم نبوت کا اصلی مقصد آخرت کے ثمرات وبرکات تو ہیں ہی،لیکن آخرت سے پہلے اسی دنیاوی زندگی میں انفرادی اور اجتماعی حیات طیبہ اور پا کیزہ ماحول کی تشکیل اور صالح، خدا شناس، خدا پرست معاشرے کی تخلیق بھی علوم انبیاکا اہم فریضہ ہے،جس کے بارے میں وہ دنیا وآخرت دونوں میں مسئول ہیں۔خداشناسی ،خداپرستی ،خدمت خلق،امن وامان کی ضمانت،انسانیت کی فلاح وبہبود وغیر ہ انسانی کمالات وفضائل اور وسائلِ سعادت ایک قابل رشک معاشرے کے وہ خدوخال ہیں،جو انسان کو صحیح معنی میں مسجود ملائک اور اشرف المخلوقات بنا دیتے ہیں اور علوم آخرت کے وہ ثمر پیش رس ہیں،جو اس دنیا کو بھی جنت بنا دیتے ہیں۔ یہ تو علوم الٰہیہ دینیہ کی برکات ہیں،اس کے برعکس نرے عقلی اور فنی علوم وفنون کی ہلاکت آفرینی اور ایک ایسے لادینی معاشرے کا جہنمی چہرہ اور انسانیت کے لیے نہ صرف باعث ننگ وعار،بلکہ انتہائی بھیانک خدوخال بھی دیکھیے جو علوم الٰہیہ دینیہ سے باغی اور خدا ورسول کی تعلیمات سے نہ صرف محروم،بلکہ ان کی بیخ کنی کے درپے ہے اور صرف نفسانی اغراض وخواہشات کے ہاتھوں میں اس کی با گ ڈور ہے،حالاں کہ (سائنسی)علوم وفنون اور اختراعات وایجادات کے اس معراج کمال پر پہنچا ہوا ہے کہ کائنات ارضی کو بزعم خود مسخر کرلینے کے بعد کائنات سماوی کی تسخیر کی تگ ودو میں مصروف ومنہمک ہے،ان فنی اور سائنسی علوم وفنون کی پیداوار کیا ہے؟اور ایسے لادینی معاشرہ کے خدوخال کیاہیں؟فرعونیت اور قہاریت ہے،بے پناہ ظلم وعدوان ہے ، عالم گیراقتدار وتسلط کا بھوت ہے،درندے بھی جس شرمائیں وہ بے رحمی اور قساوت ہے، جانوربھی جس سے کترائیں وہ خود غرضی اور نفس پرستی ہے،کمزور کشی اور استحصال بالجبر ہے،بے دریغ خوں ریزی اور جہاں سوزی ہے،عریاں درندگی اوربہیمیت ہے،یہ وہ انسانیت سوز نحوستیں اور لعنتیں ہیں جنہوں نے قیامت سے پہلے ہی اس روئے زمین کو جہنم بنارکھا ہے۔ ان فراعنہٴ وقت امریکہ،روس اور برطانیہ وغیرہ طاغوتی طاقتوں کے سیاہ کارنامے ،ننگِ انسانیت عزائم اور مادی طاقت کے مظاہرے آپ روزانہ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں۔دیکھا آپ نے ان نرے مادی علوم وفنون کے ارتقااور سائنسی اکتشافات وایجادات کی فراوانی نے اس وقت دنیا کو کس خطرناک دورا ہے بلکہ جہنم کے کنارے لاکر کھڑا کردیا ہے؟۔آپ کو معلوم ہے کہ روس میں امریکہ کو تباہ کرنے اور جہنم بنادینے کے لیے غیر معمولی پاور کے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم اور میزائل راکٹوں کے اندر فٹ جہاں سوزی کے لیے تیاررکھے ہوئے ہیں اور امریکہ میں روس کو جہنم بنا دینے کے لیے ناقابل قیاس پاور والے آتش بار بم تیار رکھے ہوئے ہیں ، صرف بٹن دبانے کی دیر ہے،آن کی آن میں امریکہ روس کو ہیروشیما اور روس امریکہ کو ہیروشیما بناسکتا ہے اور ان دونوں براعظموں میں برسنے والے بموں کے ذرات اورتاب کاری کے اثرات یورپ اور ایشیا کو پھونک ڈالنے کے لیے کافی ہیں،یہ ہے علوم آخرت کی گرفت سے آزاد محض عقلی اور سائنسی علوم وفنون اور سائنسی ارتقا کا کارنامہ۔ ہاں!اگر علومِ آخرت کے کنٹرول میں رہ کر اور ان کی سرپرستی ونگرانی میں یہ فنی اور سائنسی علوم وفنون اور ایجادات واختراعات پروان چڑھیں اور ترقی کریں تو یقینا یہ سائنسی علوم وفنون فلاح انسانیت اور خدمت خلق ومخلوق کے بہترین وسائل بن سکتے ہیں،اس لیے بھی علوم دینیہ کی درس گاہوں اور حاملین علوم نبوت یعنی علمائے دین کا بابرکت وجود اس روئے زمین خصوصاً مملکت پاکستان کے لیے از بس ضروری اور ناگزیر ہے۔ |
علم کے ذریعے آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ،بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بروں کو اچھا بناتا ہے، دشمن کو دوست بناتاہے ، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن وامان کی فضا پیدا کرتا ہے۔ علم کی فضیلت وعظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ ودل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم وتربیت، درس وتدریس تو گویا اس دین برحق کا جزلاینفک ہے، کلام پاک کے تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم جل شانہ نے رحمت عالم ﷺ کے قلب مبارک پر نازل فرمایا، وہ اِقْرَأ ہے، یعنی پڑھ۔ اور قرآن پاک کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، ارشاد ہے: ترجمہ: پڑھ اور جان کہ تیرا رب کریم ہے، جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔(سورة القلم آیت 4،5) گویا وحی الٰہی کے آغاز ہی میں جس چیز کی طرف سرکار دوعالم ﷺ کے ذریعے نوعِ بشر کو توجہ دلائی گئی ،وہ لکھنا پڑھنا اور تعلیم وتربیت کے جوہر وزیور سے انسانی زندگی کو آراستہ کرنا تھا۔حضور ﷺ کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا گیا ،اس وقت جزیرة العرب کی کیا حالت تھی؟ قتل وغارت گری، چوری، ڈکیتی ،قتل اولاد، زنا،بت پرستی۔ کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ جاتی ہو۔ بعضے وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے انجام دیاجاتا تھا۔ اللہ کے رسول نے ان کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کی اور زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آشنا ہوگئے۔ جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم وتعلم سے جڑ گئے اور قرآن وحدیث کی افہام وتفہیم میں مشغول ہوگئے۔ ترجمہ :اللہ تم میں سے ان لوگوں کے درجے بلند کردے گا جو ایمان لائے اور جنھوں نے علم حاصل کیا۔(سورة المجادلہ آیت 11) دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:”(اے نبی ﷺ!)کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں؟نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ (سورة الزمر، آیت 9، سورةالرعد،آیت 16) ایک اورآیت میں تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے،چناں چہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:”کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتاہے اندھا(جاہل) اور دیکھنے والا(عالم) ؟یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور اجالا؟“۔(سورةالفاطر، آیت 19،20) اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درجات کے تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔ علم کی فضیلت اوراس کوحاصل کرنے کی ترغیب کے حوالے سے کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں ،جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انسانیت کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں: علم والوں کو دوسروں کے مقابلے میں ایسی ہی فضیلت حاصل ہے ،جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ شخص پر۔ یقینا اللہ عزوجل ،اس کے فرشتے اور آسمان وزمین والے، حتیٰ کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی تک لوگوں کے معلم کے لیے بھلائی کی دعا کرتی ہیں۔(ترمذی:2682) ایک دوسری حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں ،وہ بیان کرتے ہیں: ایک دن رسول اللہ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجد (نبوی) میں داخل ہوے،وہاں دوحلقے لگے ہوئے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا اوراللہ سے دعا کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اللہ سے دعا کررہاہے۔ اللہ چاہے تو اس کی دعا قبول فرمائے ، یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔(مشکوٰة شریف) اہل علم کا صرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ انہیں دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ جب تک مصروف ہیں ، اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق ان کے لیے دعا کرتی رہتی ہے،بلکہ ان کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں انبیا کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے : جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے، اللہ تعالیٰ اس کے سبب اسے جنت کی ایک راہ چلاتا ہے۔ فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقینا عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی چاند کو تمام تاروں پر۔بلاشبہ علما ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ درہم۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔(ترمذی:2682) طلب کرنا علم کا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ (مشکوٰة شریف) حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ علم کا سیکھنا ہر مومن پر فرض ہے اس سے مراد روزہ، نماز ، حلال وحرام اور حدود و احکام کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ حسن بن الربیع فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مبارک سے پوچھا کہ ارشاد نبوی صلى الله عليه وسلم ”علم کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے“ کا مطلب کیاہے؟ تو حضرت عبداللہ بن مبارک نے جواب دیا کہ اس سے وہ دنیوی علوم مراد نہیں جو تم حاصل کرتے ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی دینی معاملہ میں مبتلا ہو تو اس کے بارے میں پہلے جان کار لوگوں سے علم حاصل کرلے۔(آداب المتعلمین) حضرت انسؓ سے روایت ہے فرمایا رسول ﷺ نے کہ جو شخص علم کی طلب میں نکلا وہ گویا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹے۔(ریاض الصالحین، مشکوٰة شریف) ابوامامہؓ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ایک عالم کی برتری ایک عبادت گذار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ شخص پر اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے اور زمین وآسمان کی ہر شے، حتیٰ کہ بلوں کی چیونٹیاں اور سمندروں کی مچھلیاں بھی علم سکھانے والوں کے لیے دعائے خیر کررہی ہیں۔(ترمذی:2682) پیغمبر اسلام ﷺ نے کیسے بلیغ انداز میں فرمایا ہے: حکمت کو ایک گم شدہ لال سمجھو، جہاں پاوٴ اپنا اسے مال سمجھو۔ (ابن ماجہ:4169، ترمذی:2687) تسیر ابن کثیر:سورۃ النور:26 آپ ﷺ نے فرمایا:بلاشبہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(بحوالہ:الرسول المعلم ﷺ) آپ ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علما کو ممتاز کرے گا اور فرمائے گا اے پڑھے لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں ،جاوٴ! تم سب کی مغفرت کردی۔(بحوالہ:دینی علوم کی عظمت اور فضیلت، اسلامی تعلیمات کی اخلاقی اور تہذیبی قدریں،از: مولانا حافظ محمد صدیق المیمنی) آں حضرت صلى الله عليه وسلم نے جس انداز میں دین اسلام کی تبلیغ فرمائی وہ نہ صرف یہ کہ انتہائی کامیاب و موٴثر ہے ۔بلکہ اس میں تعلیم و تربیت کے ایسے اوصاف بھی نمایاں ہیں جو متعلمین و مربیین دونوں کے لیے روشن مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم کی پہلی درس گاہ اور اصحاب صفہ پر مشتمل طالب علموں کی پہلی جماعت کے عمل نے جلدہی اتنی وسعت اختیار کرلی جس کی مثال دینے سے دنیا قاصر ہے ۔آپ صلى الله عليه وسلم نے پہلے خود تعلیم و تربیت دی۔ پھر دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے کے لیے کامل افراد کا انتخاب فرما دیا،چناں چہ تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ آپ صلى الله عليه وسلم کی وفات کے بعد بھی جاری و ساری رہا۔ آپ ﷺ کے منتخب کردہ ، ان تربیت یافتہ معلمین نے درس و تدریس میں جس مہارت کا ثبوت دیا وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی ہمہ گیر تربیت ہی کا نتیجہ ہوسکتا تھا، جس کے اثرات تا دیر محسوس کیے جاتے رہے ۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علم وحکمت اور صنعت وحرفت کے وہ ذخائر، جن کے مالک آج اہل یورپ بنے بیٹھے ہیں، ان کے حقیقی وارث تو ہم لوگ ہیں، لیکن اپنی غفلت وجہالت اور اضمحلال وتعطل کے سبب ہم اپنی خصوصیات کے ساتھ اپنے تمام حقوق بھی کھوبیٹھے۔ باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر وارثِ میراث پدر کیوں کر ہو ان تفصیلات سے واضح ہواکہ دین اسلام نے اپنے ماننے والوں کوعلم حاصل کرنے سے نہیں روکا،بلکہ اس کی فضیلتیں بیان کرکے ہمیں اس کوحاصل کرنے کی ترغیب دی ہے،البتہ اسلام یہ حکم ضروردیتا ہے کہ اپنے آپ کو ضرر رساں نہیں، بلکہ نفع بخش بنا وٴ۔ایک انسان کے قول وعمل سے دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ اچھی اور بھلی باتوں کا تمیز وہی انسان کرسکتا ہے جس کے اندر شعور وفراست ہو اور یہ خوبی بغیر علم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔ عقل و شعور تو جاہل کے پاس بھی ہے۔مگر جو فراست ایک پڑھے لکھے کو حاصل ہوگی وہ جاہل کو ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی۔اس کے دن رات کے عمل میں ،اس کی گفتگو میں ،اس کے معاملات میں ، اس کے فیصلہ لینے میں ایسی بات کا صادر ہونا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچ جائے کوئی بعید نہیں ہے۔ اگر اسے اس کا ادراک ہوجائے تو وہ جاہل ہی کیوں رہے گا؟ اللہ کے رسول کی حدیث سے بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا: جو علم نفع بخش نہ ہو اس کی مثال اس خزانے جیسی ہے جس میں سے خداکی راہ میں کچھ خرچ نہ کیا جائے۔نیز آپ انے یہ بھی فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والاہے۔۔(بحوالہ:منبہات) علم نافع اور رزق وسیع کے لیے اللہ کے حضور یہ دعا بھی کرتے تھے:”اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع، عمل مقبول اور پاک رزق کی درخواست کرتا ہوں“۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عالم بے عمل کے متعلق فرماتے ہیں :عالم بے عمل کی مثال ایسی ہے جیسے اندھے نے چراغ اٹھایا ہو کہ لوگ اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور وہ خود محروم رہتاہے۔حضرت عثمان غنی فرماتے ہیں کہ علم بغیر عمل کے نفع دیتاہے اور عمل بغیرعلم کے فائدہ نہیں بخشتا۔حضرت عبد اللہ بن عباس کا مقولہ ہے کہ اگر اہل علم اپنے علم کی قدر کرتے اور اپنا عمل اس کے مطابق رکھتے تو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور صالحین اُن سے محبت کرتے اور تمام مخلوق پر اُن کا رعب ہوتا ۔ لیکن انہوں نے اپنے علم کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنا لیا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ بھی اُن سے ناراض ہوگیا اور وہ مخلوق میں بھی بے وقعت ہوگئے۔حضرت عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں: علم کے لیے پہلے حسن نیت، پھر فہم، پھر عمل، پھر حفظ اور اس کے بعد اس کی اشاعت اور ترویج کی ضرورت ہے۔شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں:دین کی اصل عقل ،عقل کی اصل علم اور علم کی اصل صبر ہے۔(بحوالہ:منبہات) اسلام یا قرآن ہم کو تعلیم حاصل کرنے سے روکتا نہیں، بلکہ تعلیم کو ہمارے لیے فرض قرار دیتا ہے، وہ تعلیم کے ذریعے ہم کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کے درجہ پر پہنچانا چاہتا ہے، وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کو حقیقی علم ثابت کرتا ہے اور اس کو بنی نوع انسان کی حقیقی صلاح وفلاح اور کام یابی وبہبودی کا ضامن بتاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ قرآن حقیقی علم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں علم حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے اورہم خواہ کوئی بھی علم حاصل کریں ،اس میں اس بات کومدنظررکھنے کی توفیق عطافرمائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے،حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کے امتی اوراس دین ہدایت کے حامل ہیں جس میں زندگی کے ہرشعبے سے متعلق کامل ومکمل احکامات موجودہیں۔اگریہ بات ہمارے پیش نظررہی توہم کسی موڑ پرنفس وشیطان کے بہکاوے کا شکار نہیں ہوں گے۔ان شاء اللہ ! |
دانش اور دانائی کی بہت ساری قسمیں ہیں ریاضی ، طبیعیات ، نباتیات ، حیوانیات ، کیمیا ، فلکیات ، ارضیات، نفسیات ، طب وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سارے وہ فنون ہیں جن کیحصول میں اپنی زندگیاں صرف کرنے والوں کو دنیا دانا اور دانشور کے لفظ سے یاد کرتی ہے ۔
اوپر ذکر کئے گئے تمام فنون دنیوی کہلاتے ہیں اورانسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے مدون کیے گئے ہیں ، قابل قدر ہیں وہ لوگ جنھوں نے بالقصد انسانیت کی خدمت کے لیے ان کو سیکھا اور آگے بڑھایا۔ ان کے بالمقابل ایک علم دینی اور شرعی ہے ، جس کا مدار اور محور اخروی راحت وسعادت ہے ، تخلیق انسان کا مقصد اسی علم میں پنہاں ہے ، کیوں کہ خالق کائنات نے بنی آدم کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:﴿وَمَاخَلَقْتُ الجِنَّ والإنْسَ إلا لِیَعْبُدُوْن﴾․(سورة الذاریات:56)۔ میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیاہے۔ عبادت نام ہے ہراس قول و عمل کا جس سے اللہ راضی ہوجائے ۔ اب اس قول و عمل کی صحیح طور پر ادائیگی اس لیے ضروری ہے، تاکہ عنداللہ مقبول ہوسکے ، اس کے لیے ہمیں شارع کی طرف سے دیے گئے احکام کا جاننا ضروری ہے، جواحکام امر و نہی یعنی کرنے اور نہ کرنے پر مشتمل ہیں جن کا تفصیلی علم انبیاء علیہم السلام یا ان کے وارثین کو ہوتا ہے۔
اب جو لوگ اس علم کو سیکھتے اور سکھاتے ہیں، اس کے حصول میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صرف کرتے ہیں انہیں ہم عالم دین یا علمائے اسلام کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں اور یہی لو گ ہماری گفتگو کا موضوع ہیں۔ ختم نبوت کے بعد اللہ کے احکام کو کھول کھول کر بیان کرنے کی ذمہ داری جن کندھوں پر آ پڑی ہے و ہ یہی علماء ہیں، جن کا مشغلہ قرآن و حدیث ، فقہ وتفسیراور امت کو درپیش مسائل کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کرنا ہے۔
قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے ، اس لیے اللہ کو پہچاننے کے لیے اس سے بہترین ذریعہ اور کچھ نہیں ہوسکتا ،مختلف انداز میں اور مختلف نشانیاں بیان کر کے قرآن اللہ کی ذات و صفات اور قدرت کاملہ کا تعارف کراتا ہے ، لہٰذا اس کتاب کا جتنا زیادہ مطالعہ کیاجائے اتنی ہی اللہ کی معرفت حاصل ہوگی اور اللہ کی جتنی زیادہ معرفت حاصل ہوگی اتنا ہی بندہ اللہ سے ڈرے گا۔ اس کتاب کا پڑھنا اور پڑھاناعلمائے کرام کا خاص مشغلہ ہے\ جس کی وجہ سے یہ اللہ کے بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں ، خود اللہ تعالیٰ اس کی گواہی دیتا ہے: ﴿إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ العُلَمَاءُ ﴾(سورة الفاطر: 28) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ نے کئی مقامات پر ان کو تحفہٴ قدرو منزلت سے نوازا ہے، بنی آدم میں ایک اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے ، حتیٰ کہ اللہ نے جب اپنی شان وحدانیت( کلمہ توحید) کے لیے گواہ بنانا چاہا تو جہاں گواہی کے لیے اپنی ذات کا انتخاب فرمایا وہیں فرشتوں اور بنی نوع انسان میں سے صرف علماء کو گواہی کے لیے منتخب کیا، جویقیناً انتہائی شرف و فضل کی بات ہے ﴿شَہِدَ اللّٰہُ أَنَّہُ لا إلٰہَ إلاہُوَ وَالْمَلٰئِکَةُ وَأُولُوا العِلْمِ قَائِماً بِالقِسْطِ، لاإلٰہَ إلا ھُوَالعَزِیْزُ الْحَکِیْم﴾ (سورةآل عمران:18) اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ،یہی شہادت فرشتوں اور سب اہل علم نے دی ہے ،وہ انصاف پہ قائم ہے ، اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی اللہ نہیں ہے۔
اللہ نے عالم اور غیر عالم کے درمیان برابری کو یکسر مسترد کردیا ہے ، سورة الزمر آیت ۹ میں اللہ ارشاد فرماتاہے: ﴿قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الذِینَ یَعْلَمُوْنَ وَالذِیْنَ لایَعْلَمُونَ، إنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُوْا الألْبَاب﴾اے نبی! کہہ دیجیے کہ کیا جوعلم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے دونوں برابر ہیں؟ بلا شک عقل وفہم والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں ،یعنی جن لوگوں کو اللہ کی معرفت حاصل ہے اور جو شرعی احکام سے اچھی طرح واقف ہیں وہ اور جن کو ان سب چیزوں کا علم نہیں دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں ہوسکتے۔ ایک جگہ فرماتاہے کہ علماء ہی اصحاب عقل ودانش ہیں اور جو مثالیں قرآن کریم میں بیان کی جاتی ہیں، ان کو یہی لوگ سمجھتے ہیں۔ دیکھیے سورة العنکبوت آیت نمبر 43﴿وَتِلْکَ الأمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُھَا إلا العَالِمُون﴾ یہ مثالیں ہیں جسے ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں جس کو صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔
علم والوں کا علم جیسے جیسے ترقی کرتاہے خشیت الٰہی ویسے ویسے بڑھتی جاتی ہے ، غیر اللہ کا خوف جاتا رہتا ہے ، اللہ سے قربت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے ، فانی دنیا سے لگاوٴ کم ہوجاتا ہے ، اخروی شوق دنیوی خواہشات پہ غالب آتا ہے ، نتیجتاً ان کے ایمان میں جلا پیدا ہوتاہے، جو کثرت ِعبادت وریاضت کا سبب بنتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ ان کے درجات بلند فرماتا ہے ، دیکھیے سورة المجادلة آیت 11 ﴿یَرْفَعِ اللّٰہُ الذِینَ آمَنُوا مِنْکُم وَالذِینَ أُوتُوا العِلْمَ دَرَجَات﴾ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور جن کو علم بخشا گیا اللہ ان کو بلنددرجے عطا فرمائے گا۔
ان علمائے کرام کے مقام ومرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے دین اسلام کو آپ ﷺ کے عہد سے سینہ بسینہ محفوظ کرکے ہم تک پہنچایا، جان ومال تک کی پرواہ نہیں کی ، لذتِ عیش کو خیرباد کہا ، راتوں کو بیداری میں گذارا ، سفر کی مشقتوں کو برداشت کیا، تاکہ خاتم الرسل محمد مصطفی ﷺ کی بات صحیح سالم ہم تک پہنچ سکے ۔ آج بھی علمائے کرام اسی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کہ دین اسلام کا جو درخت آپ ﷺ چھو ڑ کر گئے ہیں وہ ترو تازہ باقی رہے۔ نبی اکرم ﷺ ایسے لوگوں کے لیے دعائیں فرما گئے ہیں، چناں چہ فرمایا: ”نَضَّرَاللّٰہُ اِمْرء اً سَمِعَ مِنَّا حَدِیثاً فَحَفِظَہ حَتی یُبَلِّغَہ غَیْرَہ“ (سنن ترمذی) ا للہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور محفوظ کرلی، پھر اس کو دوسروں تک پہنچادیا۔
علمائے کرام کی خاصیت یہ ہے کہ وہ دین اسلام پر استقامت کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں ، حق بات کہنے میں تأمل سے کام نہیں لیتے ، شرعی مسائل کی وضاحت میں کسی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے ، قرآنی آیات اور اقوال رسول ﷺ کو باطل کی ملمع سازی ، جاہل کی بیجا تاویل اورغلو پسند حضرات کی تحریف سے بچاتے ہیں ، ان کی ان حرکتوں کو بلا خوف وخطر لوگوں کے سامنے لاکر ان کے ناپاک عزائم کا قلع قمع کرتے ہیں۔
ان کی صفات میں تواضع ، انکساری ، عوام الناس سے محبت اور ان کی دنیوی و اخروی خیرخواہی ہے ، عوام الناس کو خیر کی طرف بار بار دعوت اور لوگوں کی طرف سے اس سلسلے میں بیجا اور انتہائی غیر مناسب تنقید ان کے حلیم وبردبارہونے کی بین نشانی ہے ، یہ لوگ اللہ کے ان بندوں میں سے ہیں جو زمین پر انتہائی نرمی سے چلتے ہیں ، علم نہ رکھنے والوں سے الجھتے نہیں ہیں ،رات قیام و سجود میں گذارتے اور دن درس تدریس میں صرف کرتے ہیں ، فضول خرچی اور بخل دونوں سے الگ ہوکر درمیانی راستہ اختیار کرتے ہیں ، ناحق کسی کا قتل نہیں کرتے ہیں ، انہیں صرف اخروی غم لاحق ہوتاہے ، جہنم کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور اللہ سے پناہ مانگتے ہیں، اللہ نے ان کے ساتھ خیر کا ارادہ کیا تو انہیں علماء و فقہا بنا دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہ خَیراً یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ“․ اللہ جس کے ساتھ خیر کامعاملہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے بہترین گفتگو وہ ہوتی ہے جو دین ودعوت پر مبنی ہو ۔ علمائے کرام کی پوری زندگی دین ودعوت کے ارد گرد گھومتی ہے ، امامت وخطابت،دعوت و تبلیغ ، تعلیم و تدریس ، پندو نصیحت ، وعظ و ترغیب سب کا مقصد اللہ کے بندوں کو اللہ سے قریب کرنا ہے ، لہٰذا ان کی بات سب سے قیمتی اور عنداللہ محبوب ہوتی ہے ، سورة فصلت آیت 33 میں اللہ فرماتاہے: ﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَولاً مِمَّنْ دَعَا إلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إنَّنِی مِنَ المُسْلِمِیْن﴾․ اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
علم کی فرضیت
خدا کی قسم علم اسی طرح فرض ہے، جس طرح نماز فرض ہے۔ ہر موٴمن مرد و عورت کے ذمے علم کا حاصل کرنا اسی طرح فرضِ عین ہے، جس طرح نماز کا پڑھنا فرضِ عین ہے۔ مدارِس کی طرف رُخ کرو اور اپنے بچوں کو دِینی مدارِس میں داخل کرو۔
ہر وہ عمل اللہ کے یہاں قبول ہوگا جو علم کے مطابق ہو۔ اتنا اِیمان کا سیکھنا ہر موٴمن کے ذمے فرضِ عین ہے کہ جو اس کو اللہ کی پہچان کرائے۔ اسی طرح اتنا علم سیکھنا ہر موٴمن کے ذمے فرضِ عین ہے جو اس کو حرام حلال کی تمیز کرادے۔ ہاں محدث بننا، فقیہ بننا، مفسر بننا یہ فرضِ کفایہ ہے۔ یہ ہر ایک کے ذمے فرض نہیں ہے۔ علماء کی مجالس اور علماء کی صحبت سے فائدہ اُٹھاوٴ۔ قدم قدم پر علماء سے پوچھ کر چلو۔ اس خیال میں نہ رہنا کہ میں تو بظاہر جو کررہا ہوں، ٹھیک ہی کر رہا ہوں۔ یاد رکھو کہ اللہ کے یہاں کوئی عمل جہالت کے ساتھ قبول نہیں ہوگا اور نہ جاننا اللہ کے یہاں عذر نہیں ہے کہ یا اللہ! مجھے تو معلوم نہیں تھا۔
جہالت عذر نہیں ہے۔ چوں کہ اللہ نے سکھانے کے لیے رسول کو بھیج دیا، ﴿أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَن تَذَکَّرَ وَجَاء کُمُ النَّذِیْر﴾․(فاطر:37)
”کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں وہ شخص سمجھ سکتا تھا جو سمجھنا چاہتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا آیا تھا“۔ یہاں تک کہ میرے دوستو، کوئی عمل اخلاص کے ساتھ بھی علم کے بغیر قبول نہیں ہوگا۔ ایک آدمی بڑا مخلص ہے، لیکن جہالت کے ساتھ عمل کر رہا ہے تو اللہ کے یہاں قبول نہیں ہوگا۔
ہر نئی معلومات علم نہیں ہے
سب سے پہلے یہ سمجھو اور اُمت کو سمجھاوٴ کہ علم کیا ہے؟ اہل باطل نے دھوکہ دہی سے مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ ”اگر تم نے صرف قرآن اور حدیث کو علم سمجھا تو تم بہت پیچھے رہ جاوٴ گے، تمہیں دنیا میں کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا۔ صرف قرآن و حدیث علم نہیں ہے، بلکہ سائنس بھی علم ہے، ڈاکٹری بھی علم ہے، انجینئرنگ، تجارت، دنیا کی خاک چھاننا اور اسباب کی تحقیق کرنا یہ بھی علم ہے۔ تم صرف قرآن و حدیث ہی کو علم نہ سمجھنا۔“ یہ میں وہ بات کہہ رہا ہوں جو غیروں نے ہمیں سکھلائی ہے۔ میرے دوستو، عزیزو، آج اس بات کا سمجھانا بڑا جہاد ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس زمانے میں نوجوانوں کے دماغوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ صرف قرآن و حدیث علم نہیں، بلکہ دنیوی فنون اور اس کی معلومات کا حاصل کرنا بھی علم کا حصہ ہے، لہٰذا جس علم سے ہمارا معاش متعلق ہے، اس علم کو اہم درجہ دینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اولاد سترہ اٹھارہ بیس پچیس سال تک پہنچ جاتی ہیں، انہیں کچھ خبر نہیں کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور کو ن سا علم ہم پر فرض ہے؟ چوں کہ انہیں یہ سمجھا دیا گیا کہ علم معاش کے حصول سے تمہاری زندگی متعلق ہے اس لیے وہی علم ہے اور وہ یہ نہیں دیکھتے کہ معاش سے متعلق جو نام نہاد علم مجھ پر فرض کیا جارہا ہے۔ یہ ایسا اندھا کنواں ہے کہ جس میں سمجھ دار بھی ڈوب رہے ہیں اور ناسمجھ بھی۔ یہاں تک کہ موت آجاتی ہے اور بے دینی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ہائے افسوس!
میرے دوستو، عزیزو! باطل نے اپنے فنون کو علم قرار دے کر اُمت مسلمہ کو علم سے کاٹ دیا ہے اور یہ باور کرادیا کہ جو چاہو، سیکھو، سب علم ہے۔
نہیں، ہرگز نہیں! علم صرف وہ ہے جو اللہ ہم سے چاہتے ہیں اور محمد ﷺ کے طریقے سے چاہتے ہیں․․․ صرف وہ علم ہے۔ سارا علم قبر کے تین سوالات پر محدود ہے: ”من ربک، من نبیک، ما دینک․“گویا کہ علم نام ہے: ”ربوبیت کا علم، شریعت کا علم اور سنت کا علم“ ،جو کچھ اس کے سوا ہے وہ علم نہیں ہے اور اس پر علم کی حدیثوں کو فٹ کرنا بڑی حماقت ہے۔
دنیوی فنون کی رغبت کے لیے احادیث علم کا استعمال گمراہی ہے
یہ تو گم راہی ہے کہ دنیوی فنون کے لیے علم کی احادیث کو اِستعمال کرکے دنیوی فنون کی رغبت پیدا کی جائے۔ یہ بڑی گم راہی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا فتنہ یہ کہنا ہے کہ ”جدید آلات و اسباب نے علماء سے مستغنی کردیا۔“
اس لیے میں بار بار کہتا رہتا ہوں کہ علم علماء کی صحبت سے حاصل کرو۔ آج لوگ کہتے ہیں کہ آلات و اسباب نے علماء سے مستغنی کردیا کہ ہم توعلم خود ہی حاصل کرلیں گے کہ اب تو سارا علم آلات پر آگیا ہے، کیا ضرورت ہے علماء کی؟ یہ اس زمانے کا سب سے بڑا فتنہ ہے کہ اُمت کو اپنی دینی رہبری کے لیے علماء کی ضرورت نہ رہے۔ اِس لیے میں اہتمام سے کہہ رہا ہوں کہ علماء کی زیارت کو عبادت یقین کرو اور اپنی اولاد کو دِینی مدارِس میں دَاخل کرو، وَرنہ میرے دوستو، عزیزو، اُمت اس دھوکے میں پڑ چکی ہے کہ بھئی! سب کچھ علم ہے، جو چاہو سیکھو۔ نہیں، ہرگز نہیں! علم صرف وہ ہے جو حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے طریقے پر اللہ ہم سے چاہتے ہیں۔ صرف اس کو ”علم“ کہتے ہیں۔ غیروں کے تجربات کو علم سمجھنا سب سے بڑی جہالت ہے۔
نئی پود کی جہالت کی وجہ
اس بات کو تسلی، سنجیدگی اور بہت ہی ٹھنڈے دماغ سے سمجھنا ہوگا۔ میں نئی پود کی جہالت کی وجہ بتارہا ہوں کہ اگر ان کو یہ سمجھا دیا جاتا کہ یہ (قرآن وسنت) علم ہے، وہ (عصری ذرائع) فن ہے، تب بھی معاملہ آسان تھا کہ یہ دونوں چیزوں کو حاصل کرلیتے، دنیوی فنون کو اپنی دنیوی ضرورت کے لیے اور علم اِلٰہی کو دنیا اور آخرت میں کام یابی کے لیے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کو صرف اتنا ہی نہیں سمجھایا گیا یہاں تک سمجھادیا گیا، کہ جو علم اِلٰہی ہے، وہ علماء سے متعلق چیز ہے۔ وہ علماء سمجھتے ہیں سمجھاتے ہیں، ہم سے متعلق جو علم ہے، یہ تو دنیا کا علم ہے۔
اپنی جہالت کا احساس کب ہوگا؟
جب تک علم اور فن ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کیا جائے گا، اُس وقت تک اپنی جہالت کا احساس نہیں ہوگا اور علم اِلٰہی کے حاصل کرنے کی فکر اور رغبت نہیں پیدا ہوگی۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھیے کہ علم صرف وہ ہے جو ہم سے ہمارا رب چاہتا ہے۔ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ علم میں لگنا اس بات کی توفیق میں لگنے کو کہتے ہیں کہ ہم سے ہمارا رب کیا چاہتا ہے؟ مخلوق ہم سے کیا چاہتی ہے؟ اس میں لگنے کو تو کہیں بھی علم نہیں کہا گیا۔
اگر دُنیو ی فنون کو علم سمجھا ہے تو وہ صرف قارون نے سمجھا تھا، اسی قارونیت پر ہم سب چل رہے ہیں، کیوں کہ جب اس سے یہ کہا گیا کہ یہ اللہ نے تجھے جو کچھ دیا ہے، اس میں دارِ آخرت کی جستجو کرتا رہ اور دنیا میں سے اپنا حصہ فراموش مت کر اور اس میں اللہ کے حکم کے مطابق چل :﴿وَابْتَغِ فِیْمَا اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا﴾ تو اُس نے کہا کہ یہ سب کچھ مجھے میرے علم کی وجہ سے دیا گیا ہے:﴿قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ‘﴾ جس علم کو قارون علم کہہ رہا ہو، اس کو ہم بھی علم کہیں، یہ ہماری جہالت نہیں ہوگی تو پھر کیا ہوگا؟ قارون کا یہ کہنا کہ ﴿اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِی﴾ یہ بتلارہا ہے کہ یہ قارون کا علم ہے، کسی نبی کا علم نہیں کہ جو کچھ مال میرے پاس ہے، یہ میں نے اپنے فن اور علم سے کمایا ہے۔ یہ اللہ نے نہیں دیا ہے۔ ہمیں علم اور فن میں فرق کرنا ہوگا، تاکہ ہمارے دلوں میں اس علم کی اہمیت پیدا ہو، جس کو اللہ نے ہم پر فرض کیا ہے، جس کو علم شریعت کہتے ہیں۔
ہم دنیوی فنون کی تحصیل سے نہیں روکتے
ہم دنیوی فنون سیکھنے سے نہیں روکتے، بالکل نہیں روکتے۔ یہ ایک ضرورت ہے۔ البتہ جس چیز کی جتنی اہمیت ہے، اسے اس کے درجے میں رکھنا چاہیے، لیکن دنیوی فنون کو حاصل کرنے کے لیے ان حدیثوں کا استعمال، جو محض علم اِلٰہی کے لیے ہیں، یہ انتہائی بے وقوفی کی بات ہے۔
توریت کے مطالعے پر نبی پاک ﷺ کا غصہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک بار یہ خیال پیدا ہوا کہ ہمیں یہ بھی تو معلوم کرنا چاہیے کہ ہم سے پہلے نبیوں پر کیا احکامات نازل ہوئے تھے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو توریت اور انجیل پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور کچھ اوراق ہاتھ میں لیے آپ ﷺ کے سامنے حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے پوچھا، یہ ہاتھ میں کیا ہے؟ یا رسول اللہ! میں نے توریت پڑھی ہے تاکہ ہماری معلومات میں اِضافہ ہو کہ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کیا احکامات نازل کیے تھے؟، آپ ﷺ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر اتنا غصہ آیا کہ آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم جمع ہوگئے۔ اتنا آپ کو غصہ تھا کہ انصار تلواریں لے کر آگئے کہ آپ کو کس نے ستایا ہے؟ سارا غصہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر تھا کہ ”عمر نے توریت کیوں پڑھی ہے؟ جو قرآن میں لے کر آیا ہوں، جو علم سنت اور طریقت و شریعت میں لایا ہوں، کیا عمر کی نجات کے لیے یہ کافی نہیں ہے؟“ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”لو کان موسیٰ حیاً لما وسعہ الا اتباعی․“ (مشکوٰة کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب و السنة، الفصل الثانی، ج:۱، ص:30۔ قدیمی) اگر آج موسیٰ زندہ ہوکر آجائیں تو ان کی نجات بھی میرے طریقہ پر ہے۔ اگر تم نے اب موسیٰ کا طریقہ اختیار کیا تو گم راہ ہوجاوٴ گے۔
بہت خطرے کی بات
آپ غور کریں اور اندازہ کریں کہ ایک اتنا بڑا عالم (عمر رضی اللہ عنہ) کہ جن کا مقام یہ ہے کہ ”لو کان بعدی نبیا لکان عمر“ کہ میرے بعد اگر نبوت کا دروازہ کھلا ہوتا تو عمر نبوت کی استعداد رکھتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ اللہ کی کتاب کو سمجھنے والے تھے۔ اس درجے کا صحابی سب کچھ سیکھنے کے بعد توریت پڑھ رہا ہے۔ توریت بھی وہ پڑھی، جو غیر تحریف شدہ، پہلے نبی کا علم شریعت تھا، اللہ کی طرف سے ایک نبی پر نازل ہوا تھا۔ اُس پر بھی آپ ﷺ کو اتنا غصہ آیا کہ آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ آپ اندازہ کریں کہ جو علم علم تھا، لیکن اب منسوخ ہوگیا، اس کی تحصیل کی خواہش پر حضرت عمر پر آپ کو اتنا غصہ آیا تو جو علم سرے سے علم ہی نہیں، دنیوی فن ہے، اگر مسلمان اس زمانے میں علم الٰہی سے جاہل ہوکر اسے حاصل کر کے اپنے آپ کو عالم سمجھیں اور علم کی حدیثیں اس پر فٹ کریں تو ایسے لوگوں پر قیامت کے دن آپ ﷺ کو کس قدر غصہ آئے گا؟ اندازہ کرلیا جاوے۔
دعوت کے ذریعہ ایمان کی طرح علم کی بھی ضرورت ہے
ہمیں جس طرح دعوت سے اِیمان کی ضرورت ہے، اسی طرح دعوت کے ذریعہ سے علم کی بھی ضرورت ہے اور علم کو بھی اخلاص چاہیے، جو ہمارے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کرے، کیوں کہ جس دل میں اللہ کا خوف نہیں ہے، وہ عالم نہیں ہوسکتا۔ اسے اسلام کی معلومات ضرور ہوں گی، لیکن وہ عالم نہیں ہوسکتا۔
عالم وہ ہے جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو
عالم کے لیے تو شرط ہے کہ اس کے دل میں اللہ کا خوف ہو، کیوں کہ اللہ نے حصر کے ساتھ فرمادیا: ﴿انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء﴾علم تقویٰ کا نام ہے، علم زندگی کے تمام شعبوں میں چوبیس گھنٹے اللہ کے حکموں کا پابند ہوکر چلنے کا نام ہے۔ فرمایا علم دو قسم کا ہے: ”العلم علمان، علم فی القلب، فذاک العلم النافع، وعلم اللسان، فذاک حجة اللّٰہ لابن آدم․“ علم دو قسم کا ہے، ایک زبان کا اورایک دل کا۔ زبان کا علم وہ ہے حدیث میں آتا ہے جو انسان کے لیے قیامت کے دن مصیبت بنے گا، اس کے خلاف حجت بنے گا اور دل کا علم وہ ہے جو ابن آدم کو نفع دے گا، علم کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کا خوف پیدا ہو، علم کے ذریعے خشیت پیدا ہو۔ وہ علم الٰہی ہے۔ سب سے بڑا عالم وہ ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ اس لیے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یارسول اللہ! سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں۔ فرمایا ”اتق اللّٰہ تکن اعلم الناس“ کہ تقویٰ اختیار کرو، تم سب سے بڑے عالم ہوجاوٴ گے۔علم اللہ کی صفت ہے وہ اللہ سے تعلق کے بقدر حاصل کیا جاتا ہے۔
اللہ والا علم علماء کے پاس امانت ہے
اللہ والا علم ہر عالم کے پاس امانت ہے۔ امانت پہنچانے والا معاوضہ نہیں لیا کرتا یہ تو اس کے ذمے ہے، جس طرح ڈاکیا ڈاک پہنچاتا ہے، اس کی تنخواہ حکومت کے ذمے ہوتی ہے، اسی طرح میرے دوستو! عالم کا معاوضہ اللہ کے ذمہ ہے۔
جب اُمت میں دین سیکھنے کے لیے خرچ کرنے کا جذبہ نہ رہے تو اب علماء پر ذمہ داری ہے کہ اُمت کو ہر حال میں دین سکھلایا جائے اور اس کا معاوضہ نہ لیا جائے:﴿لااسئلکم علیہ مالا، لااسئلکم علیہ اجرا﴾ علم پہنچاوٴ، اُمت کی امانت سمجھ کر۔ لیکن کسی غلط فہمی میں نہ رہیے کہ اگر کسی کو دین پھیلانے، قرآن سکھلانے اور علم سکھلانے کی تنخواہ ملتی ہے تو یہ اس کے پڑھانے کا ہرگز بدل نہیں ہے، بلکہ یہ اس مشغلہ کا بدل ہے، جس مشغلہ کو چھوڑ کر یہ عالم دین کی خدمت میں لگا ہوا ہے اور وہ عالم بھی اس کو دینی خدمت کا بدل کبھی نہ سمجھے۔ علم سکھلانے کا کوئی بدل نہیں سوائے جنت کے۔ ظاہر بات ہے، یہ ایک انسان ہے۔ اس کے ساتھ ضروریات لگی ہوئی ہیں۔ اس کو دنیا میں کوئی مشغلہ بھی کرنا تھا، تجارت بھی کرنی تھی۔ لیکن اس نے تجارت اور دیگر معاشی کاموں کو چھوڑ کر بچوں کو پڑھانے میں اپنا وقت لگایا تو یہ اُس مشغلہ کا بدل ہے، جس کو چھوڑا گیا ہے۔
اگر علم اسباب پر موقوف ہوگیا تو․․․
آج کتنا پیسہ شادیوں پر خرچ ہورہا ہے؟ لیکن علم کے حصول پر خرچ کے لیے ہم تیار نہیں۔ تو جہالت کیسے ختم ہوگی؟ اور بغیر جہالت کے ختم ہوئے عبادت قبول ہے نہ اعمال․․․ کچھ قبول نہیں۔ علم حاصل کرو، تاکہ عبادتیں کامل ہوجائیں۔ عبادت کا کمال علم سے ہے۔ عبادت پر استقامت یقین سے ہے اور عبادت کی قبولیت اخلاص سے ہے۔
اگر علم اسباب پر موقوف ہوگیا تو امت کا بڑا طبقہ جاہل رہے گا، کیوں کہ وہ بھی جاہل رہیں گے جن کے پاس سیکھنے کے اسباب نہیں اور وہ بھی نہیں سکھلائیں گے جن کو معاوضہ نہ ملے۔ اجرت تو اس وقت کی ہے جو وقت تعلیم کے لیے فارغ کیا گیا ہے۔
علماء کی ذمے داری
علماء کی ذمے داری بھی بتلادی۔ علماء کیا کہتے ہیں کہ ”جی جاہل تو سیکھتے ہی نہیں، آتے ہی نہیں ہمارے پاس کہ ہم سکھلاویں!“ نہیں میرے دوستو! حضور ﷺ نے فرمایا کہ علماء جاہلوں کو دین سکھائیں، علماء جاہلوں کی تربیت کریں اور اُن کو دِین پر آمادَہ کریں اور علماء عوام کو دِین کی تعلیم دیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے تو یہ بہت بڑی بات تھی۔ چوں کہ جس بات کو محمد ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے فرمادیا ہے اس کا جو اثر اس وقت تھا، قیامت تک کے لیے اس کا وہی اثر ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ وہ سیکھنے آئیں تو سکھلادیں گے۔ عرض کیا، یارسول اللہ! وہ ہم سے سیکھتے ہی نہیں، ہم کیا کریں؟ آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ اپنی بات کو دہرایا۔ مطلب یہ تھا کہ اگر وہ سیکھنے نہیں آتے تو میرے تمہارے ذمہ ہے کہ ان کو جاکر سکھائیں۔
تبلیغ اور تعلیم میں کوئی فرق نہیں ہے
اس لیے تبلیغ اور تعلیم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آنے والوں کو سکھانا بھی شعبہ ہے اور جاکر سکھانا بھی شعبہ ہے۔ آپ نے تو ایک آیت کی تبلیغ کا بھی حکم دیا ہے۔ جاکر تعلیم دو، یہ تبلیغ ہے۔ آنے والوں کو تعلیم دو، یہ تعلیم ہے۔ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم دونوں کاموں میں برابر لگے رہتے تھے۔
علماء انبیاء کے وارث کیوں ہیں؟
یاد رکھنا کہ علماء کو انبیاء کا وارث اُس طریقہٴ تعلیم کے ساتھ قرار دیا گیا ہے جو طریقہٴ تعلیم حضرت محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا تھا کہ وہ تعلیم نقل و حرکت کے ساتھ ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ علماء اپنے کام چھوڑ کر نکلیں، امامت، خطابت، درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور شعبہ افتاء چھوڑ کر نکلیں۔ نہیں، ہم یہ نہیں کہتے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ بھی یہی فرمارہے ہیں، اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ ایمان والوں کو چاہیے کہ سب یک بارگی نہ نکلیں:﴿ماکان الموٴمنون لینفروا کافة﴾ کہ ایمان والوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ سب یک بارگی نکل جاویں:﴿فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ﴾․
ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ایمان والوں کی جماعت کا ایک حصہ اللہ کے راستے میں نکلے۔ کیوں نکلیں؟دیکھو عجیب بات ہے اس آیت میں فرمایا ہے:﴿لیتفقہوا فی الدین﴾دین میں کمال اور سمجھ پیدا کرنے کے لیے نکلیں۔ لازم ہے کہ واپس آکر مقام پر علم کو پھیلائیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ”علماءِ صحابہ رضی اللہ عنہم“ کو حرکت پر رکھا تھا، تاکہ اُمت میں کہیں بھی جہالت پیدا نہ ہو اور علم صرف طلب والوں کے اندر محدود نہ ہوجائے کہ یہ پڑھنے کے لیے آئے ہیں، پڑھ لیں۔
آپ ﷺ نے اپنے علم کی مثال بادل سے دی ہے اور بادل میں حرکت ہے۔ آپ علمائے کرام تو ہلکی بات کرنے لگے ہیں کہ بھئی! ہم تو کنواں ہیں، پیاسا کنویں کے پاس آتا ہے، کنواں پیاسے کے پاس نہیں جایا کرتا۔ نہیں۔ ہرگز نہیں، ایسی بات نہیں ہے، علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا گیا ہے اور انبیاء نے نقل و حرکت کے ذریعے علم کو پھیلایا ہے اور علم کی مثال بادل سے دی ہے۔ جو زمین کسی قابل نہیں، جس زمین میں اگانے کی صلاحیت نہیں، اس پر بھی بادل برستا ہے۔ اپنے علم کو لے کر حرکت میں آوٴ کہ اُمت کو علم پہنچانا ہے اور دعوت سے اپنے علم کے اندر رسوخ پیدا کرنا ہے۔
دعوت کی محنت کا مقصد اُمت سے جہالت کو ختم کرنا ہے:
علم کی دعوت کے ذریعے جہالتیں ختم ہوں گی اور اُمت علماء سے جڑے گی۔ اس محنت کا مقصد جہالت کو ختم کرنا ہے، یہ محنت تو اُمت میں علم کے حصول کی طلب پیدا کرتی ہے۔ جب یہ محنت ہوگی تو یہ احساس ہوگا کہ ہمیں علماء کی ضرورت ہے۔ علماء کی صحبت و مجالست اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہی اس دعوت کا مقصود و مطلوب ہے۔
تمام دنیوی شعبوں میں دین کیسے زندہ ہوگا؟
میرا تو بہت جی چاہتا ہے کہ علماء آدھے دن دینی کاموں میں لگیں اور آدھے دن تجارت بھی کریں۔ حضرت ابو بکر و حضرت عمر دینی کاموں کے ساتھ ساتھ تجارت بھی کیا کرتے تھے۔
ساری دنیا ہوجاہلوں کے ہاتھ میں اور ہم یہ سمجھیں کہ ہمارا کام صرف پڑھانا ہے۔ آج ہم نے سارا بازار اور ساری تجارت جاہلوں کے حوالے کردی ہے۔ جب تک ہم تجارتوں، زراعتوں، حکومتوں کو اور دنیا جہان کے تمام سرمایہ داری کے نقشوں کو یہ سمجھ کر چھوڑے رکھیں گے کہ یہ ہمارے کرنے کا کام نہیں ہے تو خدا کی قسم، اس میں کبھی دین نہیں آسکتا۔ کیسا مزا آئے کہ ایک عالم آدھے دن پڑھاتا ہو اور آدھے دن خود عملی طور پر بازار جاکر دیکھے کہ جو علم میں پڑھا رہا ہوں، اس کے مطابق تجارت ہورہی ہے یا نہیں؟ یہ کتنے بڑے نقصان کی بات ہے کہ ایک آدمی تجارت کا علم حاصل کرے اور اس کے محلہ کا بازار علم کے مطابق نہ ہو۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو جو حرام راستے کی کمائیاں ہیں وہ سب علم و عمل کو لے ڈوبیں گی۔ حضرت مولانا محمد اِلیاس صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ”ہم تجارت چھڑانا نہیں چاہتے، بلکہ تجارت کو حکم الٰہی پر لانا چاہتے ہیں۔ ورنہ وہ ہوگا جو قوم شعیب کے ساتھ ہوا۔“ حکم پر لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ عملی طور پر ان شعبوں کا علم لے کر ان میں داخل ہوں۔
دین کے کسی شعبے کا انکار محمد ﷺ کے لائے ہوئے احکامات کا انکار ہے
اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے کہ دین کے کسی شعبے کا انکار یا اس کا استخفاف یا اس کی افادیت سے انکار کہ مثلاً مدارس سے کیا ہوگا؟ یہ بھی ایک مرض اور بیماری پیدا ہوگئی ہے لوگوں میں۔ غور سے سن لو، جو اس کام میں رہتے ہوئے دین کے کسی شعبے کا انکار کرے، خدا قسم! وہ محمد ﷺ کے لائے ہوئے دو کاموں میں سے ایک کا انکار کر رہا ہے، پکی بات ہے، بالکل سچی بات ہے۔
کیوں کہ اس کام کو کسی خیر کے کام کے معارض سمجھنا یہ محمد ﷺ کے لائے کاموں میں سے ایک کام کو دوسرے کے معارض سمجھنا ہے۔ آپ ﷺ کی سب سے بڑی صفت ”صفت جامعیت“ ہے۔ یہ جامعیت اپنے اندر پیدا کرو، کیوں کہ اس محنت سے پورا دین وجود میں آتا ہے، اس لیے حرام حرام ہے۔ ہمارے لیے یہ سوچنا کہ ”اِس شعبے سے کیا ہوگا، اُس شعبہ سے کیا ہوگا؟“
جتنے دین کے شعبے ہیں، یہ دعوت کی آمدنی ہے۔ لوگ اپنی آمدنی کو سنبھال کر رکھتے ہیں کہ دعوت کی محنت سے لوگوں میں علم کی طلب پیدا ہو، مساجد قائم ہوں، مدارس قائم ہوں، تربیت گاہیں قائم ہوں، دین کے تمام شعبے وجود میں آنے ہیں دعوت کے کام سے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دعوت کا کام ہو اور دین کے شعبے مقصود نہ ہوں۔ یہ ایسا ہے کہ کوئی آدمی تجارت کرے اور کہے کہ مجھے آمدنی مقصود نہیں ہے یا آمدنی کو ضائع کردے۔ وہ کیسا بے وقوف آدمی ہوگا؟ لوگوں کو اپنی آمدنیوں سے ایسی محبت ہوتی ہے کہ وہ اس کو خون پسینا کہتے ہیں کہ یہ میرا خون پسینا ہے۔
دعوت سے دین کے سارے شعبے زندہ ہونے ہیں۔ میری یہ بات یاد رکھنا کہ یہ شعبے اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک دعوت کی نقل و حرکت قائم رہے گی۔ آپ ذرا پچھلا زمانہ اُٹھاکر دیکھیں، ساری تاریخ اس کی گواہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر صحابی کو معلم بنایا تھا: ﴿بلغوا عنی ولو آیة﴾ جب علم نقل و حرکت سے الگ ہوجائے گا تو عام اُمت میں جہالت پھیل جائے گی اور علم اُمت کے ایک محدود طبقے کی چیز بن کر رہ جائے گا۔ اگر علم کے بغیر نقل و حرکت ہے تو جاہلانہ نقل و حرکت ہوگی۔ حضرت مولانا محمد اِلیاس صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میرا دل یہ چاہتا ہے کہ جتنی جماعتیں نکلیں، ان میں ایک عالم ہو اور ایک قاری ہوتاکہ نکلنے والے قرآن سیکھ کر آئیں۔
اربابِ علم و دانش میں کون شخص ایسا ہوگا جو” امام تفسیر، صاحب ِ تفسیرِکبیر، امام رازی“ رحمہ اللہ تعالی رحمة واسعة کے نام ِ نامی اور اسم گرامی سے ناآشنااور ناواقف ہو؟وہ اپنی اسی شہرہ آفاق تفسیر میں فرماتے ہیں :کہ اللہ وحدہ لاشریک نے اپنی لاریب اور بے عیب کتاب میں سات چیزوں کا سات چیزوں سے تقابل کیاہے :
﴿ومایستوي الأعمی والبصیر﴾․ ﴿ولا الظّلمات ولا النّور ﴾․﴿ولا الظّلّ ولا الحرور﴾․﴿ومایستوي الأحیاء ولا الأموات﴾․ (سورةفاطر، آیت:19تا22)﴿قل لا یستوي الخبیث والطّیّب﴾․(سورة المائدة،آیت:100)﴿لا یستوي أصحاب النّار وأصحاب الجنّة ﴾․ (سورة الممتحنة،آیت:20) ﴿قل ھل یستوي الّذین یعلمون والّذین لایعلمون﴾․(سورة الزّمر،آیت:9)
ان سات مقامات میں ایک طرف علم مراد ہے اور دوسری طرف جہالت، چناں چہ علم بینائی ہے اور جہالت نابینگی،علم روشنی ہے اور جہالت تاریکی ،علم ایک سایہ ہے اور جہالت دھوپ،علم ایک حیاتِ جاوداں ہے اور جہالت موت:
الجاھلون فموتی قبل موتھم
والعالمون وان ماتوا فأحیاء
وفي الجھل قبل الموت موت لأھلہ
فأجسامھم قبل القبور قبور
وان امرء لم یحی بالعلم میّت
ولیس لہ حین النّشور نشور
علم پاکیزہ چیز ہے اور جہالت ناپاک، علم جنّت کی طرف رہنمائی کرتاہے، لہذا اہل علم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔
قرآن ِپاک میں تدبّر کرنے سے ایک اور نکتہ بھی سمجھ میں آتاہے کہ اللہ بزرگ وبرتر نے چار طبقوں کا نام لے کر ان کے بلند مرتبہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے:
دوسرا نیک لوگوں کا ہے: ﴿ومن یأتہ موٴمنا قد عمل الصّالحات فأولئک لہم الدّرجات العلی﴾․(سورة:طہ،آیت:75)
تیسرا اصحابِ بدر کا ہے:﴿انماالموٴمنون الّذین اذ اذکر اللہ وجلت قلوبہم… لہم درجات عند ربّہم ومغفرة ورزق کریم﴾․(أنفال ،آیت:4)
چوتھا طبقہ اہلِ علم کا ہے :﴿یرفع اللہ الّذین امنوامنکم والّذین أوتواالعلم درجات﴾(سورة المجادلة،آیت:11)
امام ِتفسیر فرماتے ہیں کہ مرتبہ تو ان چاروں طبقوں کابلند وبالاہے،لیکن قرآن کا انداز بتلاتا ہے کہ اہل علم کا مقام اور مرتبہ باقی طبقوں سے بھی بلند و بالاہے۔
جی ہاں! علم کا مقام حکومت اور سلطنت سے بھی بڑھ کر ہے ،حضرتِ طالوت کو جب بادشاہ بناکر بھیجا گیاتو برادری اور قوم کے لوگوں نے کہا کہ: ﴿ونحن أحقّ بالملک منہ ولم یوٴت سعة من المال﴾کہ بادشاہت کے حق دار تو ہم ہیں، اس لیے کہ مال دارتو ہم ہیں،بڑے گھرانوں والے تو ہم ہیں ،طالوت تو ایک غریب اور نادار آدمی ہے، پھر اس کو باد شاہت کیوں کر اور کیسے مل گئی ؟تو حضرت طالوت کا دفاع کرنے کے لیے اللہ ربّ العزّت نے ان کے علم کو لا کے کھڑا کر دیا اور فرمایا: ﴿ان اللہ اصطفٰہ علیکم وزادہ بسطة في العلم والجسم﴾․(سورة البقرة،آیت:247)
تو جب حضرت طالوت کا دفاع علم کے ذریعے کیا گیا تو اس سے پتہ چل گیا کہ علم کی ضرورت سلطنت چلانے کے لیے بھی پڑتی ہے ،نیز دنیا میں خلافت کے نظام کو قائم کرنے کے لیے بھی علم کی ضرورت ہے۔ادھر دیکھو آسمان میں ایک مکالمہ چل رہا ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا:﴿انّي جاعل في الأرض خلیفة﴾ کہ میں زمین میں اپنا ایک نائب و خلیفہ بناناچاہتاہوں ،تو اس پر فرشتوں نے کہا:﴿ أتجعل فیہا من یفسد فیہا ویسفک الدّماء﴾․
کہ یہ تو زمین میں جاکے قتل و غارت کا بازار گرم کرے گا ،اے رب! خلافت کے حق دار تو ہم ہیں ،اس لیے کہ ہمہ وقت آپ کی تسبیح و تہلیل میں تو ہم ہی لگے ہوئے ہیں :﴿ونحن نسبّح بحمدک ونقدّس لک﴾․(سورة البقرة،آیت :30)
ملت کے پاسبانو! غور کرو کہ خالق ِ کائنات نے اس مقام پر یہ نہیں فرمایا کہ یہ انسان دنیا میں جاکر خونریزی نہیں کرے گا ،نہ یہ فرمایا کہ انسان پر یہ اعتراض نہ کرو ،نہ یہ فرمایا کہ یہ زیادہ عبادت کرے گا ،بلکہ مالک الملک نے اس سوال کا جواب دینے کے لیے علم کو لاکے کھڑا کر دیا، جس کی تعبیر قرآن پاک نے یوں کی ہے :﴿وعلّم آدم الأسماء کلہا﴾ (سورة البقرة،آیت :31)
اس میں اشارہ مل گیا کہ انسان خونریزی کرے گا ،لیکن اس کا یہ فعل علم کے مطابق ہو گا جو علم اس کی لڑائی کو جہاد بنادے گا، جی ہاں جو شعبہ علم سے جتنا منسلک ہوگا وہ اتناہی اعلی ہوگااور جو شعبہ علم سے جتنا دور ہوگا وہ اتنا ہی پستی کا شکار ہوگا ،اگر تصوّف سے علم کو نکال دیا جائے ،تو وہ محض کھانے پینے کا نام بن کر کے رہ جائے ،اگر تبلیغ سے علم نکل جائے ،تو وہ سیر سپاٹے کا نام بن کر رہ جائے،اگر جہاد سے علم کو نکال دیا جائے ،تووہ دہشت گردی ،غارت گری اور بربریّت کا نام بن کر رہ جائے، کوئی شریعت کا عمل ایسا نہیں کہ جس میں علم کی ضرورت نہ ہو۔
اس کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلم سماج کا علمائے دین اور مذہبی راہ نماوٴں سے روحانی اور ایمانی بنیادوں پر رشتہ اور تعلق قائم رہتاہے،ان سے ان کے دینی وشرعی احکام ومسائل وابستہ رہتے ہیں، لوگ اپنی شرعی زندگی گزارنے کے لیے قدم قدم پر ان کی راہ نمائی اور رہبری کے محتاج ہوتے ہیں، حدیث پاک میں اس کی تلقین کی گئی کہ علماء سے مسائل پوچھا کرو۔جالسوا الکبراء، وسائلوا العلماء، وحافظوا الحکماء،بڑے لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو،علماء سے مسائل دریافت کرو،حکماء اور دانش وروں سے تعلق رکھو۔ یہی علماء کرام کہیں منبر ومحراب کو زینت بخشتے ہیں تو کہیں دار ورسن ان کی جلوہ سامانیوں سے عزت پاتے ہیں ،کہیں تخت وتاج ان کی ہیبت سے کانپتے ہیں تو کہیں مدارس ان کے قال اللہ اور قال الرسول کے نغموں سے گونجتے ہیں،کہیں خانقاہیں ان کے وجد وحال اور ذکر واشغال سے بقعٴہ نو ر بنتی ہیں تو کہیں ان کی حق گوئی سے ایوان سیاست میں کپکپی طاری ہوتی ہے، وہ امت کی عزت ووقار کو قائم رکھنے کے لیے ہر جہت سے کوشش کرتے ہیں ،سماج میں امن و آشتی کو فروغ دینے کے لیے احترام انسانیت کے جذبے کو ابھارتے ہیں،حقوق وفرائض کی ادائیگی پر لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں ،سماج میں ایسے علمائے صالحین ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے بلا تفریق مذہب وملت ہر طبقہ کی قابل لحاظ خدمات انجام دیں،ان کی نگاہ زمانے کے بدلتے ہوئے تیور سے کبھی نہیں ہٹی ،جب اور جس وقت امت کو رہبری کی ضرورت پیش آئی بڑھ کر قدم اٹھایا اور کتاب وسنت کی روشنی میں امت کی راہ نمائی کی ۔
ہوا ہے گو تند وتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ |
دو بھوکے کبھی سیرنہیں ہوتے، ایک علم کا بھوکا علم سے سیر نہیں ہوتا، دوسرا دنیا کا بھوکا، اس کا دنیا سے پیٹ نہیں بھرتا۔
حضرت عبدالله بن مسعود نے اس کے متعلق فرمایا کہ یہ دونوں برابر نہیں ( بلکہ ان کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے)جو علم کا بھوکا ہے ،اس کے لیے مسلسل رحمان کی رضا میں اضافہ ہوتا رہتا ہے او رجو دنیا کا حریص ہے تو وہ سرکشی میں بڑھتا چلا جاتا ہے ، حضرت عبدالله بن مسعود نے ( اس پر دلیل کے طور پر ) یہ آیت تلاوت فرمائی ﴿کلا ان الانسان لیطغیٰ ان راٰہ استغنیٰ﴾ ہر گز نہیں ،بے شک انسان سرکش ہو جاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو غنی پاتا ہے ۔
رسول الله ﷺ کی علم کی زیادتی کے لیے دعا مانگنا
ہمارا یقین ہے کہ الله تعالیٰ نے رسول الله ﷺ کو اتنا علم عطا فرمایا ہے کہ اتنا بڑا عالم نہ دنیا میں آج تک آیا ہے اور نہ قیامت تک آسکتا ہے کیوں کہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعلق فرمایا ہے ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ﴾․ (النحل آیت:89)
ترجمہ:” اور تجھ پر ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے۔“
تو دنیا میں جتنے علوم ہیں خواہ کتابوں میں ہیں یا انسانوں کے دلوں اور دماغوں میں ہیں ، وہ سارے علوم قرآن مجید فرقان حمید میں اجمالاً موجود ہیں اور قرآن مجید کو الله تعالیٰ نے رسول الله ﷺ کے دل مبارک پر نازل کیا ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :﴿وَإِنَّہُ لَتَنزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ،عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِیْنَ﴾․ (الشعراء، آیت:194-192)
ترجمہ:” یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے، اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ، تیرے دل پر، تاکہ تو ڈرانے والوں میں سے ہو۔“
تو آپ ﷺ کا دل مبارک منبع علوم ہے، اسی بنا پر احادیث کا جتنا ذخیرہ ہے یہ سب قرآن کریم کی تفسیر ہے، تو آپ ﷺ اتنے بڑے عالم ہونے کے باوجود الله تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے ہیں رب زدنی علماً اے میرے رب میرے علم! اور اضافہ فرما۔
حضرت عبدالله بن عباس کا شوق علم
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما نے رسول الله ﷺ کے گھر میں ایک رات گزاری ہے ،اس واقعے کو امام بخاری نے صحیح البخاری میں غالباً دس مرتبہ مختلف انداز او رمختلف الفاظ میں ذکرکیا ہے، اسی طرح دیگر صحاح خمسہ میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہوا ہے، ان سب روایات کو اگر مرتب کیا جائے تو مفصل واقعہ اس طرح بنتا ہے کہ جب رسول الله ﷺ کی رات گزارنے کی نوبت حضرت میمونہ کے گھر میں ہو گئی ۔ اس موقع پر حضرت عباس نے اپنے بیٹے عبدالله کو کہا کہ بیٹا ! آج رات آپ نے حضرت میمونہ کے گھر میں گذارنی ہے اور وہاں رسول الله ﷺ کی ساری رات کے اعمال ملاحظہ کرکے مجھے بتانا ہے، تاکہ میں بھی رات رسول الله ﷺ کے اتباع کے مطابق گذاروں ۔ حضرت عباس نے عبدالله کے لیے حضرت میمونہ کے گھر کا انتخاب اس لیے کیا کہ یہ عبدالله کی خالہ ہیں، کیوں کہ عبدالله بن عباس کی والدہ لبابة الکبریٰ اور خالد بن ولید کی والدہ لبابة الصغریٰ دونوں حضرت میمونہ کی بہنیں ہیں اور یہ تینوں حارث بن حزن کی بیٹیاں ہیں۔
چناں چہ عبدالله بن عباس حضرت میمونہ کے گھر میں رات گزارنے کے لیے تشریف لائے۔ رسول الله ﷺ اور حضرت میمونہ کا یہ خیال تھا کہ خالہ ہونے کی وجہ سے آیا ہے، کیوں کہ بسا اوقات بھانجا خالہ کا مہمان بنتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بچہ صرف خالہ ہونے کے ناطے نہیں آیا، بلکہ ایک عظیم مقصد لے کر خالہ کا مہمان بنا ہے۔ تو رسول الله ﷺ حسب معمول عشا کی نماز کے بعد جب سونے لگے تو گھر میں صرف ایک سرہانہ ہے جب کہ سونے والے تین ہیں، ایک سید الکونین ہیں ، دوسری ان کی زوجہ مطہرہ حضرت میمونہ ہیں ، تیسرا ان کا مہمان حضرت عبدالله بن عباس ہیں، ان تینوں نے ایک ہی سرہانے پر سر لگائے وہ اس طرح کہ رسول الله ﷺ اور حضرت میمونہ نے سرہانے کے طول پر سر رکھے اور عبدالله بن عباس نے سرہانے کے عرض پر۔
اس کے بعد رسول ﷺ عادت کے مطابق تہجد کے لیے اٹھے۔ آپ ﷺ کا خیال تھا کہ بچہ سویا ہوا ہے ( مگر عبدالله بن عباس نے تو ساری رات جاگنے کا تہیہ کر رکھا تھا) اس لیے آپ ﷺ ایسے انداز میں اٹھے کہ اس کی آہٹ سے کوئی سویا ہوا بیدار نہ ہو جائے چناں چہ آپ سب سے پہلے بیت الخلا تشریف لے گئے، عبدالله بن عباس نے سوچا کہ حضور ﷺ جب قضائے حاجت سے فارغ ہو جائیں گے تو استنجا کے لیے وضو کا برتن لیں گے، پھر پانی سے بھر یں گے، پھر بیت الخلا جائیں گے۔ تو یہ آپ ﷺ کے لیے بہت تکلیف دہ ہے، کیوں نہ یہ کام میں کروں ۔ چناں چہ عبدالله بن عباس اٹھے، وضو کا برتن پانی سے بھرا اور بیت الخلا کے دروازے پر رکھا او رواپس آکر لیٹ گئے۔
رسول الله ﷺ جب بیت الخلا سے باہرآ ئے تو دروازے کے سامنے وضو کا برتن پانی سے بھرا ہوا دیکھا، پوچھا کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ حضرت میمونہ نے بتایا کہ یہ کام اس چھوٹے بچے نے کیا ہے ؟ آپ ﷺ بچپنے کی حالت میں ایسی بہترین خدمت پر بہت خوش ہوئے، اس موقع پر آپ ﷺ نے ان کے لیے جو دعا فرمائی ہے، بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں ”اللھم فقھہ فی الدین“․ (بخاری، ص:26)”اے الله !اس کو دین کی سمجھ عطا فرما۔“
اسی دعا کی برکت تھی کہ یہ بچہ بعد میں رئیس المفسرین اور حبر الامة کے القاب سے مشہور ہوا۔
ایک حدیث کے لیے مدینہ منورہ سے شام تک جانا
کثیر بن قیس تابعی کہتے ہیں کہ میں حضرت ابودرداء رضی الله عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا او رکہا کہ میں مدینہ منورہ سے صرف ایک حدیث سننے کے لیے آیا ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ آپ نے وہ حدیث رسول الله ﷺ سے سنی ہے۔ حضرت ابو درداء نے پوچھا کوئی تجارتی کام تو نہیں تھا؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ حضرت ابو درداء نے پھر پوچھا کوئی دوسری غرض تو نہیں تھی ؟ کہا نہیں صرف حدیث معلوم کرنے کے لیے آیاہوں ۔ حضرت ابو درداء نے فرمایا کہ میں نے رسول الله ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے ، الله تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں اورفرشتے اپنے پر طالب علم کی خوش نودی کے لیے بچھا دیتے ہیں اور طالب علم کے لیے آسمان و زمین کے رہنے والے استغفار کرتے ہیں، یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی اس کے لیے مغفرت کی دعا مانگتی ہیں۔ عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے کہ چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر اور علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کسی کو دینار ودرہم کا وارث نہیں بناتے، بلکہ علم کا وارث بناتے ہیں تو جو شخص علم حاصل کرتا ہے وہ ایک بڑی دولت حاصل کرتا ہے ۔
ربیعة الرائے کا حصول علم
ربیعہ بن ابی عبدالرحمن فروخ اہل مدینہ منورہ کے فقہاء میں سے ہیں اور صحابہ کی ایک جماعت سے مل چکے ہیں ، تابعین میں بہت بڑے امام الفقہ والحدیث تھے، بڑے مجتہدین میں ان کا شمار ہوتا ہے ، اس لیے ان کا لقب رائے پڑ گیا۔ امام مالک نے ان سے روایت کی ہے ، ربیعہ کے والد فروخ بنو امیہ کے دور میں فوج کے ساتھ خراسان گئے ربیعہ اس وقت ماں کے پیٹ میں تھے ،ابو عبدالرحمن فروخ سفر پر روانہ ہونے کے وقت اپنی بیوی کے پاس تیس ہزار دینار چھوڑ گئے او رپھر ستائیس سال کے بعد مدینہ منورہ واپس آئے۔ گھوڑے پر سوار تھے، نیزہ ہاتھ میں تھا۔ اپنے گھر جب پہنچے تو گھوڑے سے اتر کر دروازہ پاؤں سے دھکیلا۔ ربیعہ نکلے او رکہنے لگے ، اے الله کے دشمن !تو میرے حرم میں کیوں داخل ہوا؟ فروخ نے جوابا کہا کہ الله کا دشمن توتو ہے کہ میرے حرم میں داخل ہوا ہے، دونوں آپس میں الجھ گئے۔ دنوں ایک دوسرے سے کہتے ہیں ، ” میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔“
ادھر ہمسائے ربیعہ کی مدد کے لیے پہنچ گئے ۔ اس کی اطلاع امام مالک کو پہنچی، وہ جلدی سے موقع پر تشریف لائے، جب امام مالک کو دیکھا تو خاموش ہو گئے، امام مالک نے کہا کہ چاچا محترم! آپ کے لیے کسی اورمکان میں گنجائش ہو سکتی ہے ۔ آپ زبردستی اس مکان میں کیوں داخل ہونا چاہتے ہیں ؟ بڑے میاں نے جواب دیا کہ میں فروخ ہوں اور یہ میرا مکان ہے ۔ بیوی نے ان کی بات سنی تو نکل آئیں اور کہنے لگیں، یہ میرے خاوند ہیں اور یہ میرے بیٹے ہیں، جنہیں حمل کی حالت میں چھوڑ گئے تھے۔ اب باپ بیٹا گلے ملے او ربہت روئے ۔ اس کے بعد ربیعہ تومسجد نبوی میں چلے گئے، وہاں اپنے درس میں بیٹھے اور فروخ گھر کے اندر آئے،بیوی سے پوچھاکیا یہ میرا بیٹا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ تیرے بیٹے ہیں۔ فروخ نے بیوی سے پوچھا کہ میں سفر پر جاتے وقت تمہارے پاس جو مال چھوڑ گیا تھا وہ کہاں ہے؟ بیوی نے کہا اب آپ مسجد نبوی تشریف لے جائیں، وہاں نماز پڑھیں وہاں سے واپس آئیں پھر آپ کو جواب دوں گی۔ فروخ مسجد نبوی میں آئے تو وہاں ایک بڑا حلقہ دیکھا جس میں امام مالک ، حسن بصری جیسے بڑے بڑے علماء بیٹھے ہیں ، کھڑے ہو کر صاحب درس کو وہاں سے دیکھنے لگے ۔ اپنے بیٹے کا شک ہوا۔ ربیعہ نے بھی اس انداز سے سرجھکا یا کہ وہ گمان کریں کہ میں اس کو نہیں دیکھ رہاہوں۔ فروخ نے دریافت کیا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ جواب ملا کہ یہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن فروخ ہیں۔ کہنے لگے سبحان الله! ان کو الله تعالیٰ نے کتنی بڑی شان عطا فرمائی ہے ۔ گھر آکر بیوی کو کہا کہ میں نے تمہارے بیٹے کو ایسے بلند مرتبے میں دیکھا ہے جو اہل علم وفقہاء میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ ربیعہ کی ماں نے کہا کہ آپ کو تیس ہزار دینار زیادہ پسند ہیں یا اپنے بیٹے کی یہ شان! کہنے لگے والله! مجھے اپنے بیٹے کی یہ شان زیادہ پسند ہے۔ بیوی نے کہا کہ وہ ساری رقم میں نے اس پر خرچ کی تو فروخ نے کہا کہ والله! تم نے وہ مال ضائع نہیں کیا ہے۔ ( فضل الباری ، ج2، ص:70، بحوالہ دائرة ، المعارف، فرید وجدی، ج4، ص:185)
امام محمد کا مطالعہ میں انہماک
ایک دفعہ امام محمد کسی سڑک کے کنارے پر بیٹھے ہوئے کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے ، اسی اثنا میں ایک بہت شان دار بارات گزری، جس میں گانے باجے بھی بج رہے تھے۔ امام محمد رحمہ الله کو اس بارات کا کوئی پتا نہیں چلا اوربرابر اپنے مطالعہ میں مشغول رہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد چند آدمی جو بارات سے پیچھے رہ گئے تھے امام صاحب کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا کہ یہاں سے کوئی بارات تو نہیں گذری ؟ امام صاحب نے جواب دیا کہ مجھے تو پتا نہیں چلا ، البتہ کتاب پر اچانک گردوغبار پڑ گیا، اس کو میں نے پھونک مار کر اڑا دیا، اس سے زیادہ مجھے بارات کی کوئی خبر نہیں ہے۔ ( میری نماز، ص:53)
میر سید شریف کا علوِ سند کے لیے سفر کرنا
آٹھویں صدی ہجری میں ایک بہت بڑے عالم گذرے ہیں، جو میر سید شریف سے مشہور ہیں، جنہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں، جن میں صرف میر، نحو میر او رمیر ایساغوجی بہت مشور ہیں ،ان کو یہ شوق ہوا کہ میں شرح مطالع خود مصنف سے پڑھوں، چناں چہ اس مقصد کے لیے وہ ہرات گئے اور علامہ قطب الدین رازی ( تحتانی) کی خدمت میں حاضر ہوئے ، علامہ رازی نے ان سے پوچھا، کون ہو ؟ کہاں سے آئے ہو ؟ کس مقصد کے لیے آئے ہو ؟ آپ نے جواب دیا کہ میرا نام محمد بن علی ہے اور میر سید شریف سے معروف ہوں، جرجان سے آیا ہوں اور آنے کا مقصد یہ ہے کہ میں اگرچہ شرح مطالع ایک دفعہ پڑھ چکا ہوں، مگر میری خواہش ہے کہ خود آپ سے پڑھوں۔
علامہ رازی کو میر سید کی باتوں سے ان کی ذہانت کا اندازہ ہو گیا، اسی بنا پر فرمایا کہ میں پیر فرتوت ہو چکا ہوں ،اس لیے اب میں شرح مطالع پڑھانے کے قابل نہیں ہوں۔ آپ کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ میرے خاص شاگرد مبارک شاہ کے پاس جائیں، ان سے شرح مطالع پڑھنا ایسا سمجھو گویا مجھ سے پڑھ لیا ہو۔ تو میر سید صاحب خراسان سے چل کر مصر پہنچے، وہاں قاہرہ میں مبارک شاہ کی خدمت میں حاضرہو کر اپنا مدعا بیان کیا ، مبارک شاہ نے فرمایا میں آپ کو شرح مطالع پڑھاؤں گا، مگر تین شرطوں کے ساتھ ، ایک یہ کہ آپ روزانہ ایک اشرفی دیں گے ، دوسری یہ کہ آخری صف میں بیٹھیں گے، تیسری یہ کہ کوئی بات نہیں پوچھیں گے ۔
میر سید شریف نے عرض کی کہ یومیہ ایک اشرفی دینے کی شرط میں اتنی ترمیم فرمائیں کہ جب بھی میں ایک اشرفی دوں گا آپ سبق پڑھائیں گے ۔ مبارک شاہ نے کہا صحیح ہے، ایسا ہی کروں گا۔ اب میر سید صاحب سوچ میں پڑ گئے کہ فی سبق ایک اشرفی کہاں سے لاؤں۔ مزدوری کروں یا جھولی پھیلا کر بھیک مانگوں ۔ وہ اسی فکر میں تھے کہ ایک رئیس کو پتا چلا کہ یہاں ایک سید طالب علم آیا ہے، جو بہت مفلس او رپریشان حال ہے تو اس نے میر سید کو بلایا او ران سے حال احوال پوچھا۔ میر سید نے پورا ماجرا سنایا۔ رئیس نے تسلی دی کہ فکر نہ کرو، آپ ہر روز مجھ سے ایک اشرفی لے لیا کرو اور دل جمعی سے اپنا سبق پڑھ لیا کرو ۔
چناں چہ میر سید شریف نے شرط کے مطابق سبق پڑھنا شروع کیا تو ایک ہفتہ کے بعد مبارک شاہ نے لی ہوئیں ساری اشرفیاں واپس کر دیں اور فرمایا کہ اشرفی لینے سے میرا مقصد یہ تھا کہ آپ کا شوق علم معلوم کروں، سو معلوم کر لیا۔ اس لیے آئندہ یہ شرط نہیں ہے، البتہ باقی دو شرطیں اب بھی برقرار ہیں۔ میر صاحب کے لیے تیسری شرط بھی بڑا امتحان تھا، کیوں کہ وہ میر سید تھے، سبق کے دوران بے شمار شکوک شبہات پیدا ہوتے تھے، ان کے ازالہ کے لیے جوش میں آجاتے تھے ، مگر اجازت نہ ہونے کی وجہ سے خاموش ہوجاتے۔
مبارک شاہ ایک دفعہ چپ چاپ مدرسہ کے احاطے میں آئے، تاکہ معلوم کریں کہ طلباء تکرار یا مطالعہ کرتے ہیں یا نہیں تو ایک حجرے میں ایک طالب علم اپنے ساتھ عجیب انداز سے سبق دہرا رہا ہے، کہتا ہے کہ مصنف نے یوں لکھا ہے، شارح نے اس طرح تشریح کی ہے، استاذ نے یوں پڑھایا ،مگر میری توجیہ اس میں یہ ہے۔ استاذ نے جب اس کی توجیہ پر غور کیا تو بہت عمدہ پایا، اس پر استاذ بہت زیادہ خوش ہوئے، طالب علم کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ میرسید شریف ہے اور ہر رات اس قسم کا تکرار کرتا ہے ۔ اگلی صبح جب مبارک شاہ مسند درس پر بیٹھے تو میر سید کو آخری صف سے بلاکر پہلی صف میں اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا کہ جو پوچھنا چاہو، پوچھو! اس کے بعد میر سید شریف کو وہ رتبہ ملا جو سب کو معلوم ہے ۔ (فضل الباری، ج2 ص:65 ظفر المحصلین، ص:326)
شیخ سعدی نے بالکل سچ فرمایا #
چو شمع پئے علم باید گداخت
کہ بے علم نہ توان خدا را شناخت
علم کے لیے موم بتی کی طرح پگھلنا چاہیے، کیوں کہ علم کے بغیر الله تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔
[مسند الفردوس، للديلمي :۸۸۰، لسان المیزان:۵/۵۵، میزان الاعتدال: ٦/٢٢، ۷۰۶۶ ، تاريخ دمشق لابن عساكر : ٥٠/٥٠]
حضرت حسن بصری رحمہ الله تعالی فرمایا کرتے تھے : علماء وصلحاء کی مجالس کے علاوہ ساری دنیا میں تاریکی ہی تاریکی ہے ۔ ( جامع بیان العلم وفضلہ، ابن عبدالبر:51/1)
سہل بن عبدالله تستری فرماتے ہیں : جو انبیا کی مجالس کا منظر دیکھنا چاہتا ہو وہ علما کی مجالس کو دیکھ لے۔ ( مفتاح دارالسعادة ابن القیم :129)
اکابر ائمہ صلحاء کی مجالس کا اثر
مقتدیٰ وصاحب سیرت ذات کو دیکھنے میں اس سے نصیحت کے سننے میں زیادہ اثر پذیری ہے اور دیکھنے والے میں اس کے اثرات دیر تک باقی رہتے ہیں ، نبی کریم ﷺ سے صحابہ کرام نے اس زیارت کا بہت حصہ حاصل کیا او راس سے بھر پور مستفید ہوئے ،کیوں کہ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین آپ کی صحبت میں بیٹھتے، آپ کی زیارت سے محظوظ ہوتے اور آپ کا قرب تلاش کرتے تھے اس لیے وہ حضرات امت کا بہترین وافضل ترین عنصر کہلائے، جس کو نبی کریم علیہ الصلوات والسلام کے بعد لوگوں کو راہ نمائی وہدایت کے لیے منتخب کیا گیا۔
نیک وقابل اقتداء شخصیت کی زیارت الله تعالیٰ کی یاد دلاتی ہے کہ ان پر انوار وتحلیات کی ضیا پاشیاں، انس واطمینان، محبت وسکینت کی جھلکیاں، ان کی چال ڈھال، عاجزی، بول چال، خاموشی وفکر مندی، حرکت وسکون اورتمام احوال میں برستی نظر آتی ہیں تو ہر دیکھنے والے کی نظر اس منظر سے اللہ تعالیٰ تک پہنچتی ہے اور یہ اس کے لیے ” مذکر“ ( یاد دلانے والی ) ہوتی ہے اوران لوگوں کی شکل وصورت توجہ الی الله کی وجہ سے نظروں کو الله تعالیٰ کی طرف پھیر دیتی ہے” یہی وہ لوگ ہیں جن کے دیکھنے سے اللہ یاد آتا ہے۔“
اہل الله کی مجالس میں بیٹھنے والوں میں خیر کیسے سرایت کرتی ہے؟
حکیم ترمذی رحمہ الله تعالیٰ”نوادر الاصول صفحہ140“ میں آپ ﷺ کے فرمان ”من ذکَّرکم بالله رؤیتُہ“ (جس کا دیدار تمہارے اندر الله تعالیٰ کی یاد تازہ کر دے) کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ظاہر وباہر ہیں ۔ ان سے قرب خداوندی کی رونق، عظمت ایزدی کا نور، کبریائی کا رعب ودبدبہ، وقار وسکینت کی انسیت ٹپکتی ہے، ان پر ملکوتیت کے آثار کے ظہور کی وجہ سے ان کو دیکھ کر الله تعالیٰ کی یاد ستاتی ہے۔
انسانی دل ان تمام صفات کا مخزن اور نور کا مستقر ہے، چہرہ بھی دل ہی کے رنگ سے رنگ جاتا ہے تو جب دل پر وعدہ وعید والے بادشاہ کا نور غالب ہو گا تو یہی نور چہرے سے ظاہر ہو گا، جب انسان کی نظر اس چہرہ پر پڑے گی ، نیکی وتقوی کو ابھارے گی، پھر اس سے الله تعالیٰ کے اوامر کے علم اور صلاح کی ہیبت دل میں جاگزیں ہو گی۔
دل میں جب حق تعالیٰ کی ہیبت کا نور ہو گا تو یہ چہرہ کو متاثر کرے گا، پھر جب تمہاری نظر اس چہرے پر پڑے گی تو تمہیں صدق وحق کی یاد دلائے گی، تم پر حق واستقامت کی ہیبت چھا جائے گی، (اسی طرح) جب الله جل شانہ کی عظمت وہیبت وبادشاہت کا نور دل میں ضو فشاں ہو گا تو یہ چہرے تک سرایت کرے گا، پھر جب اس چہرے سے نظریں دو چار ہوں گی تو الله جل جلالہ کی شان وشوکت ورُعب کی یاد دلائے گی ، ( اسی طرح) دل میں الله تعالیٰ کا نور ( جاگزیں) ہو گا، جو کہ منبع انوار ہے، تو ایسے انسان کا دیدار تمہیں عیوب ونقائص اور الله تعالیٰ کے حکموں کی خلاف ورزی سے مانع ہو گا، اس لیے کہ دل کی شان یہ ہے کہ اس سے چہرے کے سوتوں کو سیراب او راس کو تروتازہ زندگی کے پانی سے معطر کر دے گا اور چہرہ تک صرف وہی چیز سرایت کرے گی جو دل میں ہو گی ، پھر ان انوارات میں سے جو نور دل میں ہو گا وہی چہرے سے عیاں ہو گا، الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ ولقّٰھم نضرة وسروراً﴾․ (سورة الانسان)
”اور عنایت کردی ان کو ( چہرے کی ) تازگی اور ( دل کی ) خوشی۔“
پھرجب بندے کا دل الله تعالیٰ کی رضا او راس سے چمکنے والے نور کی وجہ سے خوش ہو گا تو چہرہ دلی رضا مندی کی وجہ سے ( چمک دار ) تروتازہ ہو گا۔ اسی کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کی رؤیت سے یاد خدا وندی پیدا ہوتی ہے اور آپ نے اس کو ولایت کی نشانی او رعلامت بتلایا ہے “۔ ( فیض القدیر مناوی:467/2)
شیخ ابو غدہؒ فرماتے ہیں : سلف صالحین واکابر میں یہ وصف بہت زیادہ تھا، لوگ محض ان کی زیارت سے استفادہ کے لیے حاضر ہوتے، کیوں کہ محض ان کی زیارت ہی دلوں کو جگ مگا دیتی اور دل میں اصلاح کا داعیہ پیدا کر دیتی، دین کو محبوب بنا دیتی اور الله تعالیٰ کی یاد دلاتی تھی۔
علما کی مجالس میں جاتے وقت نیت کیا ہو؟
امام ابن الجوزی اپنی کتاب”صید الخاطر303/2“ پر فرماتے ہیں :” سلف صالحین کی ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی نیک بندے کے پاس اس کی راہ نمائی وتوجہ کے حصول کے لیے جاتی تھی ، علم حاصل کرنا ان کا مقصد نہ ہوتا، کیوں کہ ان کی رشد وہدایت اور کسی جہت پر گامزن ہونا ان کے علم کا ہی ثمر ونتیجہ ہوتا۔
ابو طالب مکی” قوت القلوب“ میں فرماتے ہیں : ”وہ حضرات شہروں کا رخ صرف عُلَماء وصلحاء کی ملاقات وزیارت ان سے برکت کے حصول کے لیے کرتے اوران سے ادب سیکھنے جاتے تھے۔
راہبروں کے روپ میں راہزن
حاملین علم کا مقام اور ذمہ داریاں
(١٨) أخرجه البخارى فى التاريخ الكبير (2/170) ، والترمذى (4/593، رقم 2383) وقال: حسن غريب. وابن ماجه (1/94، رقم 256) . وأخرجه أيضًا: الطبرانى فى الأوسط (3/261، رقم 3090) ، وابن عدى (5/71، ترجمة 1250 عمار بن سيف الضبى) ثم قال: منكر الحديث، والبيهقى فى شعب الإيمان (5/339، رقم 6851) .
(٢٠) أخرجه أحمد (2/338، رقم 8438) ، وأبو داود (3/323، رقم 3664) ، وابن ماجه (1/92، رقم 252) ، والحاكم (1/60، رقم 288) وقال: صحيح سنده ثقات رواته على شرط الشيخين. والبيهقى فى شعب الإيمان (2/282، رقم 1770) . وأخرجه أيضًا: ابن أبى شيبة (5/285، رقم 26127) ، والخطيب (5/346) .
(٢١) أخرجه الترمذى (5/32، رقم 2654) وقال: غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه وإسحاق بن يحيى ليس بذاك القوى عندهم تكلم فيه من قبل حفظه. وأخرجه أيضًا: ابن أبى الدنيا فى الصمت (ص 106، رقم 141) ، والطبرانى (19/100، رقم 199) .
(٢٢) أخرجه الفريابى فى صفة المنافق (1/54، رقم 31) ، وأخرجه الدارمى (1/82، رقم 214)،كنز العمال:29411+44338]
(٢٣) حديث أبى هريرة: أخرجه أحمد (2/344، رقم 8514) ، وأبو داود (3/321، رقم 3658) ، والترمذى (5/29، رقم 2649) وقال: حسن. وابن ماجه (1/98، رقم 266) ، والحاكم (1/182، رقم 345) ، والبيهقى فى شعب الإيمان
(2/275، رقم 1743) .
حديث أنس: أخرجه ابن ماجه (1/97، رقم 264) . قال البوصيرى: هذا إسناد ضعيف.
حديث قيس بن طلق عن أبيه: أخرجه الطبرانى (8/334، رقم 8251) ، وابن عدى (1/353، ترجمة أيوب بن عتبة) وقال: الحديث بهذا الإسناد غريب. والخطيب (8/155) .
(٢٤) أخرجه ابن ماجه (1/81، رقم 224) قال البوصيرى (1/30) : هذا إسناد ضعيف. وأخرجه أيضًا: ابن عدى (6/71، ترجمة 1605 كثير بن شنظير المازنى) وقال: وليس فى حديثه شىء من المنكر وأحاديثه أرجو أن تكون مستقيمة.
(٢٥) أخرجه أحمد (1/436، رقم 4157) ، والترمذى (5/34، رقم 2657) وقال: حسن صحيح. وابن حبان (1/268، رقم 66) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (2/274، رقم 1738) . وأخرجه أيضًا: البزار (5/382، رقم 2014) ، والشاشى (1/314، رقم 275) ، وابن عدى (6/462، ترجمة 1942 مهران بن أبى عمر الرازى) .
(٢٦) جامع الاحادیث:22045
(۲۷) أخرجه أحمد (1/323، رقم 2976) ، والترمذى (5/199، رقم 2951) ، وقال: حسن. وأخرجه أيضًا: أبو يعلى (4/228، رقم 2338) .
(۲۸) أخرجه البيهقى فى شعب الإيمان (2/417، رقم 2258) ، وأحمد (2/185، رقم 6741) .
( الجرح والتعدیل جلد 5 صفحہ 49 )
( الکامل فی الضعفاء : جلد 5 صفحہ 377 )
ترجمہ :۔
[صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب كَيْفَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ ... رقم الحديث: 99(100)]
حضرت عبداللہ ابن عمروؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ عُلَماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔"
حق اور جھوٹ کیا ہے؟
حق وہ ہے جو سب سے اول بھی ہو اور ایک بھی، پرانا بھی ہو اور چھپا ہوا بھی، (اپنی نشانیوں سے)ظاہر بھی ہو(جائے) اور باقی رہنے والا آخر بھی۔(جیسے سب کا خالق اللہ)، جبکہ جھوٹ اس کے خلاف ہوتا ہے یعنی نہ اول ہوتا ہے اور نہ ہی ایک، نہ پرانا ہوتا ہے اور نہ ہی چھپا ہوا، نہ باقی رہتا ہے اور نہ آخر۔
[سورۃ یوسف:5، الاسراء:53]
قیامت تک کے لیے
[سورۃ المائدۃ:14+64]
اگر یہ کافر تم پر قدرت پالیں تو تمہارے دشمن ہوجائیں اور ایذا کے لئے تم پر ہاتھ (بھی) چلائیں اور زبانیں (بھی) اور چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ۔
[سورۃ الممتحنۃ:2]
بےشک(ایذاء دینے والے)کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں۔
[سورۃ النساء:101]
یقیناََ تو پائے گا سب لوگوں سے زیادہ دشمن مسلمانوں کا یہودیوں کو اور مشرکوں کو۔۔۔
[سورۃ المائدۃ:82]
۔۔۔ وہی ہیں دشمن اُن سے بچتا رہ ۔۔۔
[سورۃ المنافقون:4]
اور اللہ تمہارے دشمنوں سے خوب واقف ہے۔
[سورۃ النساء:45]
اے ایمان والو! نہ پکڑو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست، تم اُن کو پیغام بھیجتے ہو دوستی کے، جبکہ وہ منکر ہوئے ہیں اُس سے جو تمہارے پاس آیا سچا دین، نکالتے ہیں رسول کو اور تم کو (تمہارے گھروں سے) اس لیے کہ تم مانتے ہو اللہ کو جو رب ہے تمہارا، اگر تم نکلے ہو لڑنے کو میری راہ میں اور طلب کرنے کو میری رضامندی کو۔ تم اُنکو چھپا کر بھیجتے ہو دوستی کے پیغام اور مجھ کو خوب معلوم ہے جو چھپایا تم نے اور جو ظاہر کیا تم نے۔ اور جو کوئی تم میں یہ کام کرے تو وہ بھول گیا سیدھی راہ۔
[سورۃ الممتحنۃ:1]
گمراہ کون؟
اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے،اور جن کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔۔۔سورۃ [الانعام:70]
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کردی اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں، بس ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے۔ پھر ان کے وہ کام ان کو جتا دے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
دین کیا ہے؟
[سورۃ یوسف:40]
بےشک(مقبول) دین اللہ کے نزدیک تو بس اسلام(فرمانبرداری) ہے۔
اب کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش میں ہیں؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں ان سب نے اللہ ہی کے آگے گردن جھکا رکھی ہے، (کچھ نے) خوشی سے اور (کچھ نے) ناچار ہوکر، اور اسی کی طرف وہ سب لوٹ کر جائیں گے۔
[سورۃ آل عمران:83]
اور اس سے بڑھ کر دین کے اعتبار سے کون اچھا ہوگا جس نے اپنی ذات کو اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ اچھے کام کرنے والا ہے اور اس نے ابراہیم کی ملت کا اتباع کیا جو سارے دینوں کو چھوڑ کر اللہ ہی کی طرف مائل ہونے والے تھے اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنا لیا۔
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ میرے پروردگار نے مجھے ایک سیدھے راستے پر لگا دیا ہے جو کجی سے پاک دین ہے، ابراہیم کا دین۔ جنہوں نے پوری طرح یکسو ہو کر اپنا رخ صرف اللہ کی طرف کیا ہوا تھا، اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔
کہو کہ : میرے پروردگار نے تو انصاف کا حکم دیا ہے۔ اور (یہ حکم دیا ہے کہ) جب کہیں سجدہ کرو، اپنا رخ ٹھیک ٹھیک رکھو، اور اس یقین کے ساتھ اس کو پکارو کہ دین(فرمانبرداری) خالص اسی کا حق ہے۔ جس طرح اس نے تمہیں ابتدا میں پیدا کیا تھا۔ اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہوگے۔
اور یاد کرو جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا، یہ کہہ رہے تھے کہ : ان (مسلمانوں) کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے، حالانکہ جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ سب پر غالب ہے، بڑی حکمت والا ہے۔
یاد رکھو کہ خالص دین(عبادت)اللہ ہی کا حق ہے۔ اور جن لوگوں نے اس کے بجائے دوسرے اولیاء(رکھوالے) بنا لیے ہیں۔ (یہ کہہ کر کہ) ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔ ان کے درمیان اللہ ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ یقین رکھو کہ اللہ کسی ایسے شخص کو راستے پر نہیں لاتا جو جھوٹا ہو، کفر پر جما ہوا ہو۔
اس(اللہ) نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ طے کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا، اور جو (اے پیغمبر) ہم نے تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ تم دین کو قائم کرو، اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ (پھر بھی) مشرکین کو وہ بات بہت گراں گزرتی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوتے دے رہے ہو۔ اللہ جس کو چاہتا ہے چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو کوئی اس سے لو لگاتا ہے اسے اپنے پاس پہنچا دیتا ہے۔
[سورۃ الماعون]
بہت ہی عمدہ کمال کردیا
ReplyDeleteتعریف کے لئے سب الفاظ کم محسوس ہورہے ہیں ۔ اللہ جزاء خیر عطا فرمائے ۔ آمین
zabardast jinab aali bhot he acha likha hy ap n.allah ap k ilm m izafa or ap k qalam ko mazeed mazboot or mustahkam kr dy
ReplyDeleteameen