Tuesday 12 May 2015

جانور سے بدتر انسان کون اور کیوں؟؟؟


اگر انسان کا وجود خالق کے بغیر ہو سکتا تو اسے اس خالق کا مسلمان (فرمانبردار) بننے كا حكم نہ ديا جاتا.

If mankind can exist without the Creator, then it did not commanded to be Muslim(Obedient) by its Creator.


القرآن : أَفَرَءَيتُم ما تُمنونَ {56:58} ءَأَنتُم تَخلُقونَهُ أَم نَحنُ الخٰلِقونَ {56:59}
دیکھو تو کہ جس (نطفے) کو تم (عورتوں کے رحم میں) ڈالتے ہو. کیا تم اس (سے انسان) کو بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں؟

کان دائیں ہاتھ سے پکڑیں یا بائیں ہاتھ سے، ترتیب ایک جیسی ہے۔ اوپر سے نیچے آئیں یا نیچے سے اوپر نظر ڈالتے جائیں، نتیجہ تقریباً ایک جیسا ہے۔ انسان اور انسانیت کے پاس اعلیٰ اقدار اور اعلیٰ اخلاق کے حوالے سے جتنی چیزیں تھیں، یا ان چیزوں کو ناپنے کے جتنے پیمانے تھے، ان کو ایک ایک کرکے تباہ و برباد کرنے اور نام و نشان مٹانے کی ترتیبیں بڑے عقلی و منطقی انداز میں اور انتہائی مربوط و منظم طریقے سے چلائی جارہی ہیں۔ ان کی روانی میں کچھ ایسا سحر، بلکہ طلسم ہے کہ انسانوں کے ریلے کے ریلے بہے چلے جارہے ہیں، لیکن جو جتنا زیادہ دانش بگھار و عقل مند سمجھا جاتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ مست و مدہوش ہے۔ خفتہ را خفتہ کے کند بیدار۔
مذہبی اخلاق و اقدار جو انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے، اسے شرم و حیا کہہ کر پکارلیں، نظام عفت و عصمت کی بقا یا حسب و نسب کے تحفظ کا نام دے لیں یا خاندانی نظام اور مقدس رشتوں کے احترام کا عنوان دیں۔مزید براں جھوٹ، بہتان، حسد، تعصب، لوٹ مار کا فساد نہ مچانا وغیرہ جیسی مذہبی اخلاقی تعلیماتپر مسلم (فرمان بردار) رہنا ہی انسان کو انسان بناتی ہیں۔ لیکن تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ دنیا کا کوئی قانون اور کوئی حکمت وفلسفہ انسان کو برائی سے نہیں روک سکا، انسان کو اگر ہر طرح کی برائی سے کوئی چیز روک سکتی ہے؛ تو وہ ہے اللہ کے روبرو جواب دہی کی کلی فکرآخرت اور اپنی اس دنیوی زندگی کے بعد قیامت کے دن حساب اور اس پر جزا وسزا کے ترتب کا عقیدہ اور تصور ہے۔
انسانیت دُشمن قوتوں کے  مشق ستم کا پہلا مرحلہ یہ تھا کہ عورت کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دینے والی پبلک پراپرٹی بناتے، "آزادی" کے نام پر اس گھر کی عزت کو باہر نکال کر گلی چوراہوں میں بےحیائی کرنے اور انسان کو بےحیا جانور بنانے کے لیے، اس کی فحش تصاویر عام کرتے سرے سے نظام ازدواج کو ختم کیا جائے تاکہ انسان حیوانوں کی طرح رہیں، رشتوں کا تقدس نام کھوبیٹھے اور نئی نسل پچھلی نسل کی تربیت، نگرانی یا راہنمائی سے بالکلیہ آزاد ہوکر بالشنی لونوں یا بدمست بھوتنوں کی طرح دندناتی پھرے تب یہ فیصلہ انتہائی آسان ہوگا کہ ان میں سے کتنوں پر ’’نئے عالمی نظام‘‘ کی خدمت کے لیے بقیہ حیات رکھنے کا احسان کیا جائے اور کتنوں کو فارمی چوزوں یا کلوننگ شدہ بھیڑوں کی طرح قید انسانیت کے بعد قیدحیات سے بھی آزادی دے دی جائے۔ 

الغرض! عالمی منظرنامے پر نقشہ اس وقت کچھ یوں دکھائی دے رہا ہے کہ عالم انسانیت میں مطلقاً ہر مذہب اور عالم اسلام میں اسلامی مذہب کو مطعون کرنے کا عمل مسلسل جاری رکھا جائے۔ غیرمسلم معاشروں میں انسانی اخلاقیات کو آخری حد تک اور مسلم معاشروں میں جنسی اخلاقیات کو حیوانی حد تک لایا جائے۔ اس دوران جنگوں کی آگ بڑھکاکر مزاحمت کرنے والی قوتوں (یہ قوتیں مسلمانوں کے علاوہ کس قوم سے تعلق رکھ سکتی ہیں) کو دیوار سے لگایا جائے۔ ہولناک سیاست کی فریب آمیز بھٹی تپاکر دنیا کے وسائل کو اپنے قابو میں رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے۔ حرمین چونکہ روئے ارض پر موجود دنیا کے روحانی مراکز میں سے اہم ترین، مستند ترین اور آسمانی مذاہب کا مقدس ترین مرکز ہے، اس کے گرد گھیرا ڈالا جائے۔ اس کے لیے ہر اس قوت کو استعمال کیا جائے جو استعمال ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے؟
جھٹلانے والے چوپائے کی طرح ہیں:
وَلَقَد ذَرَأنا لِجَهَنَّمَ كَثيرًا مِنَ الجِنِّ وَالإِنسِ ۖ لَهُم قُلوبٌ لا يَفقَهونَ بِها وَلَهُم أَعيُنٌ لا يُبصِرونَ بِها وَلَهُم ءاذانٌ لا يَسمَعونَ بِها ۚ أُولٰئِكَ كَالأَنعٰمِ بَل هُم أَضَلُّ ۚ أُولٰئِكَ هُمُ الغٰفِلونَ {7:179}
اور ہم نے پیدا کئے دوزخ کے واسطے بہت سے جن اور آدمی [۲۱۹] انکے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں کہ ان سےسنتے نہیں وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی زیادہ بیراہ وہی لوگ ہیں غافل [۲۲۰]
Surely We have created for Hell a lot of people from among Jinn and mankind. They have hearts wherewith they do not understand, eyes wherewith they do not see, and ears wherewith they do not hear. They are like cattle. Rather, they are much more astray. They are the heedless.
یعنی دل، کان، آنکھ سب کچھ موجود ہیں۔ لیکن نہ دل سے "آیات اللہ" میں غور  کرتے ہیں نہ اس خالق کی قدرت کے نشانات جیسے : آسمان سے کڑوے کے بجاۓ میٹھے پانی  (بارش) کا برسانا، پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کرتے کھیتی کو چورا چورا کرنے کے بجاۓ اگانا، بغیر ہماری طاقت کے اس سے چوپایوں اور ہمارے کھانے اور پینے کا بندوبست کرنا، آگ (روشنی و گرمی) کے لئے درختوں کا اگانا وغیرہ کا بنظر تعمق و اعتبار مطالعہ کرتے ہیں اور نہ خدائی باتوں کو بسمع قبول سنتے ہیں۔ جس طرح چوپائے جانوروں کے تمام ادراکات صرف کھانے پینے اور بہیمی جذبات کے دائرہ میں محدود ہوتے ہیں یہ ہی حال ان کا ہے کہ دل و و دماغ، ہاتھ پاؤں، کان آنکھ غرض خدا کی دی ہوئی سب قوتیں محض دنیوی لذائذ اور مادی خواہشات کی تحصیل و تکمیل کے لئے وقف ہیں۔ انسانی کمالات اور ملکوتی خصال کے اکتساب سے کوئی سروکار نہیں بلکہ غور کیا جائے تو ان کا حال ایک طرح چوپائے جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ جانور مالک کے بلانے پر چلا آتا ہے اس کے ڈانٹنے سے رک جاتا ہے یہ کبھی مالک حقیقی کی آواز پر کان نہیں دھرتے پھر جانور اپنے فطری قویٰ سے وہ ہی کام لیتے ہیں جو قدرت نے ان کے لئے مقرر کر دیا ہے۔ زیادہ کی ان میں استعداد ہی نہیں۔ لیکن ان لوگوں میں روحانی و عرفانی ترقیات کی جو فطری قوت و استعداد ودیعت کی گئ تھی اسے مہلک غفلت اور بے راہ روی سے خود اپنے ہاتھوں ضائع اور معطل کر دیا گیا۔
یہ آیت بظاہر آیہ { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ } کے معارض معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے بعض مفسرین نے وہاں { لِیَعْبُدُوْنَ } میں "لام غایت" اور یہاں {لِجَھَنَّمْ } میں "لام عاقبت" مراد لیا ہے۔ یعنی سب کے پیدا کرنے سے مطلوب اصلی تو عبادت ہے۔ لیکن بہت سے جن و انس چونکہ اس مطلب کو پورا نہ کریں گے اور انجام کار دوزخ میں بھیجے جائیں گے۔ اس انجام کے لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ گویا وہ دوزخ ہی کے لئے پیدا ہوئے۔ کما فی قولہ تعالیٰ { فَالْتَقَطَہٗٗ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوْنَ لَھُمْ عَدُوًا وَحَزَنًا } باقی محققین کے نزدیک اس تکلف کی حاجت نہیں۔ وہ دونوں جگہ "لام غایت" ہی کا ارادہ کرتے ہیں۔ مگر { لِیَعْبُدُوْنَ } میں "غایت تشریعی" اور یہاں {لِجَھَنَّمْ } میں "غایت تکوینی" بیان کی گئ ہے۔

And We have certainly created for Hell many of the jinn and mankind. They have hearts with which they do not understand, they have eyes with which they do not see, and they have ears with which they do not hear. Those are like livestock; rather, they are more astray. It is they who are the heedless.

And We have indeed urged unto Hell many of the jinn and mankind, having hearts wherewith they do not understand, the truth, and having eyes wherewith they do not perceive, the proofs of God’s power with a perception that entails reflection, and having ears wherewith they do not hear, the signs or the admonitions, in a way so as to reflect and take heed. These, they are like cattle, in their failure to understand, perceive or listen — nay, rather they are further astray, than cattle, because [at least] they [cattle] seek what is beneficial to them and stay away from what is harmful to them: these individuals, on the other hand, are proceeding towards the Fire, out of [sheer] obstinacy. These — they are the heedless.



ف ۷۔ مطلب یہ کہ آپ ان کی ہدایت نہ ہونے سے مغموم نہ ہوجایئے ، کیونکہ آپ ان پر مسلط نہیں کہ خواہی نخواہی ان کو راہ پر لاویں، اور نہ ہدایت کی ان سے توقع کیجئے کیونکہ ان کو نہ سماع ہے نہ عقل ہے ۔
ف۸۔ وہ چوپائے بلکہ ان سے بھی زیادہ بیراہ ہیں کیونکہ وہ اس راہ دین کے مکلف نہیں تو ان کا نہ سمجھنا مذموم نہیں، اور یہ مکلف ہیں، پھر نہیں سمجھتے۔








دوسری آیت میں بھی اسی مضمون کی مزید وضاحت ہے کہ ہدایت اور گمراہی دونوں اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں جس کو ہدایت مل گئی اس سے سارے کام ہدایت ہی کے مناسب سرزد ہوتے ہیں
خرد چون دفتر تلقین کشاید      زمن آن در وجود آید کہ باید
اور جو گمراہی میں پڑگیا اس کے سارے کام اسی انداز کے ہوتے ہیں ۔
اس لئے فرمایا (آیت) وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ڮ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَ آ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا  ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا، یعنی ہم نے جہنم کے لئے پیدا کیا ہے بہت سے جنات اور انسانوں کو جن کی علامات یہ ہیں کہ ان کے پاس سمجھنے کے لئے قلوب اور دیکھنے کے لئے آنکھیں اور سننے کے لئے کان سب کچھ موجود ہیں، جن کو وہ صحیح استعمال کریں تو صراط مستقیم کو پالیں اور نفع نقصان کو سمجھ لیں، لیکن ان کا یہ حال ہے کہ نہ وہ قلوب سے بات سمجھتے ہیں، نہ آنکھوں سے دیکھنے کی چیزوں کو دیکھتے ہیں اور نہ کانوں سے سننے کی چیزوں کو سنتے ہیں ۔
اس میں یہ بتلا دیا کہ اگرچہ تقدیر(علم)الہی ایک راز سربستہ ہے جس کا کسی کو اس دنیا میں علم نہیں ہوتا لیکن اس کی علامات سے کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اہل جہنم کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قوتوں کو ان کے صحیح کاموں میں نہ لگائیں، صحیح علم و مغفرت کے لئے جو اللہ جل شانہ نے عقل اور آنکھ کان عطا فرمائے ہیں ان کو وہ بے مصرف چیزوں میں لگاتے ہیں اور اصل مقصد جس کے ذریعہ دائمی اور لازوال راحت و دولت مل سکتی تھی اس کی طرف دھیان نہیں دیتے۔
آیت میں کافروں سے سمجھنے، دیکھنے، سننے کی نفی جو بظاہر مشاہدہ کے خلاف ہے، کس حقیقت پر مبنی ہے؟
 اس آیت میں ان لوگوں کی سمجھ بوجھ اور بینائی و شنوائی سب چیزوں کی بالکل نفی کی گئی ہے کہ یہ نہ کچھ سمجھتے ہیں نہ کوئی چیز دیکھتے ہیں نہ کوئی کلام سنتے ہیں، حالانکہ واقعہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ یہ لوگ نہ پاگل و دیوانے ہوتے ہیں کہ کچھ نہ سنیں، بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ دنیا کے کاموں میں یہ اکثر لوگوں سے زیادہ چالاک اور ہوشیار نظر آتے ہیں ۔
مگر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے ہر مخلوق کے اندر اس کی ضرورت کے مطابق اور اس کے مقصد حیات کے مناسب عقل و شعور رکھا ہے، جن چیزوں کو ہم بے عقل اور بے حسن و بے شعور کہتے اور سمجھتے ہیں درحقیقت وہ بھی حس و ادراک اور عقل و شعور سے خالی نہیں، البتہ یہ چیزیں ان میں اسی مقدار سے ہیں جو مقدار ان کے مقصد وجود کو پورا کرنے کے لئے کافی ہو، سب سے کم عقل و شعور اور حس جمادات یعنی مٹی اور پھتر وغیرہ میں ہے، جن کو نہ کچھ بڑھنا ہے نہ اپنی جگہ سے نکلنا اور چلنا پھرنا، وہ اتنی قلیل ہے کہ ان میں حیات کے آثار کا پہچاننا بھی بہت دشوار ہے، اس سے کچھ زائد نباتات میں ہے جن کے مقصد وجود میں بڑھنا، پھلنا پھولنا داخل ہے، اسی کے مناسب عقل و ادراک ان کو دے دیا گیا، اس کے بعد حیوانات کا نمبر ہے، جن کے مقصد وجود میں بڑھنا بھی داخل ہے چلنا پھرنا بھی اور چل پھر کر اپنی غذا حاصل کرنا بھی اور مضر و مہلک چیزوں سے بچنا بھاگنا بھی اور نسل پیدا کرنا بھی، اس لئے ان کو جو عقل و شعور ملا وہ اوروں سے زیادہ ملا مگر اتنا ہی جس سے وہ اپنے کھانے پینے پیٹ بھرنے سونے جاگنے وغیرہ کا انتظام کرلیں اور دشمن سے اپنی جان بچالیں، سب کے بعد انسان کا نمبر ہے جس کا مقصد وجود سب چیزوں سے آگے یہ ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے کو پہچانے ، اس کی مرضی کے مطابق چلے، اس کی ناپسند چیزوں سے پرہیز کرے، ساری مخلوقات کے حقائق پر نظر ڈالے اور ان سے کام لے اور ہر چیز کے نتائج اور عواقب کو سمجھے، کھرے کھوٹے اچھے برے کو پرکھے، برائیوں سے بچے، اچھائیوں کو اختیار کرے، اسی نوع انسانی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کو ترقی کرنے کا بڑا میدان ملا ہے جو دوسری نوع کو حاصل نہیں، یہ جب ترقی کرتا ہے تو فرشتوں کی صف سے آگے مقام پاتا ہے، اسی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے اعمال و افعال پر جزاء و سزا ہے، اسی لئے اس کو عقل و شعور تمام انواع مخلوقات سے زائد ملا ہے تاکہ وہ عام حیوانات کی سطح سے بلند ہوکر اپنے مقصد وجود کے مناسب کاموں میں لگے، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مخصوص عقل و شعور اور اس کی بخشی ہوئی بینائی و شنوائی کو اسی کام میں صرف کرے۔
جب یہ حقیقت سامنے آگئی تو ایک انسان کا سمجھنا، دیکھنا، سننا دوسرے جانوروں کے سمجھنے، دیکھنے، سننے سے مختلف ہونا چاہئے اگر اس نے بھی صرف انہی چیزوں میں اپنی عقل اور بینائی و شنوائی کی طاقتوں کو لگا دیا جن میں دوسرے جانور لگاتے ہیں اور جو کام انسان کے لئے مخصوص تھا کہ ہر چیز کے نتائج و عواقب پر نظر رکھے اور برائیوں سے بچے بھلائیوں کو اختیار کرے، ان پر دھیان نہ دیا، اس کو باوجود عقل رکھنے کے بے عقل، باوجود بینا ہو نے نابینا، باوجود سننے والا ہونے کے بہرا ہی کہا جائے گا، اسی لئے قرآن کریم نے دوسرے جگہ ایسے لوگوں کو (آیت) ۻ بُكْمٌ عُمْىٌ، یعنی بہرے گونگے، اندھے فرمایا ہے۔
اس میں اس کا بیان نہیں کہ وہ اپنے کھانے پینے، رہنے سہنے اور سونے جاگنے کی ضروریات کو سمجھتے نہیں، یا یہ کہ ان کے متعلق چیزوں کو دیکھتے سنتے نہیں بلکہ خود قرآن کریم نے ان لوگوں کے بارے میں ایک جگہ فرمایا، (آیت) يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ ، اور فرعون و ہامان اور ان کی قوموں کے بارے میں فرمایا (آیت) وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ ، یعنی یہ لوگ بڑے روشن خیال تھے مگر چونکہ ان کی دانائی و بینائی کا سارا مصرف صرف اتنا ہی رہا جتنا عام جانوروں کا ہوتا ہے کہ اپنے تن بدن کی خدمت کرلیں، روح کی خدمت اور اس کی راحت کے متعلق کچھ نہ سوچا نہ دیکھا، اس لئے وہ ان معاشیات اور عمرانیات میں کتنی ہی ترقی کرلیں، چاند اور مریخ کو فتح کرلیں، مصنوعی سیاروں سے دنیا کی فضا کو بھر دیں لیکن یہ سب خدمت صرف تن بدن کے ڈھانچہ اور پیٹ ہی کی ہے، اس سے آگے نہیں جو روح کے لئے دائمی چین و راحت کا سامان بنے، اس لئے قرآن کریم ان کو اندھا بہرا کہتا ہے اور اس آیت میں ان کے سمجھنے، سننے کی نفی کرتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو جو سمجھنا چاہئے تھا وہ نہیں سمجھے جو دیکھنا چاہئے تھا وہ نہیں دیکھا جو سننا چاہئے تھا وہ نہیں سنا، اور جو کچھ سمجھا اور دیکھا اور سنا وہ عام حیوانات کی سطح کی چیزیں تھیں جن میں گدھا گھوڑا، بیل بکری سب شریک ہیں ۔
اسی لئے آیت مذکورہ کے آخر میں ان لوگوں کے متعلق فرمایا، (آیت) اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ، کہ یہ لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں کہ بدن کے صرف موجودہ ڈھانچہ کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، روٹی اور پیٹ ان کے فکر کی آخری معراج ہے، پھر فرمایا (آیت) بَلْ هُمْ اَضَلُّ بلکہ یہ لوگ چوپاؤں اور جانوروں سے بھی زیادہ بے وقوف ہیں، وجہ یہ ہے کہ جانور احکام شرعیہ کے مکلف نہیں، ان کے لئے جزاء و سزاء نہیں، ان کا مقصد اگر صرف موجودہ زندگی اور اس کے ڈھانچہ کی درستی تک رہے تو صحیح ہے، مگر انسان کو تو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور اس پر جزاء و سزا ہونے والی ہے، اس لئے اس کا ان کاموں کو اپنا مقصد سمجھ بیٹھنا جانوروں سے زیادہ بے وقوفی ہے، اس کے علاوہ جانور اپنے آقا و مالک کی خدمت پوری بجا لاتے ہیں اور نافرمان انسان اپنے رب اور مالک کی خدمت میں قصور کرتا ہے اس لئے وہ جانوروں سے زیادہ بے وقوف اور غافل ٹھہرا، اسی لئے فرمایا (آیت) اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ۔






And surely We have created for Hell a lot of people from among Jinn and mankind. They have hearts wherewith they understand not, have eyes wherewith they see not, and have ears wherewith they hear not. They are like cattle. Rather, they are much more misled. They are the heedless.

The next verse is an extension of the same theme. It said:
وَلَقَدْ ذَرَ‌أْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرً‌ا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُ‌ونَ بِهَا
"And surely, we have created for Hell a lot of people from among Jinn and mankind. They possess heart wherewith they understand not, have eyes wherewith they see not and they have ears wherewith they hear not."

That is, many Jinns and human beings have been created for Hell, because in spite of having all the means of guidance, the heart, the eyes and the ears, they do not use them to seek guidance. They could find the right path, had they used these faculties in proper way. They do not use their hearts to understand, their eyes to see things to be seen and their ears to hear things to be heard.

As a substance of the verse we are given to understand that ulti¬mate end or destiny is a divine secret, not known to anyone, but there are definite signs which help us to make a surmise. The people of Hell can be identified by their characteristic sign of not making proper use of their faculties of seeing, hearing and understanding. Allah has blessed us with these faculties for acquiring knowledge and recogni¬tion of our Lord. The people of Hell invest these abilities in worthless objectives and are evidently heedless of the real aim of man's life, that is, to earn with his capabilities eternal comfort and peace in the Hereafter through seeking guidance.

A Question and its answer
A question may be asked about the above Qur'anic verses. Here the Holy Qur'an has negated their qualities of hearing, seeing and understanding. On the other hand, we see that in real life they are not blind, deaf and insane. Like other human beings they do see, hear and understand things around them. How can this negation be reconciled with the actual fact?

The answer requires to refresh our usual knowledge with regard to things and living beings around us. Everything created has an amount of sensibility equal to the need of its purpose of existence. The things we call inanimate are not totally devoid of sensibility or life. The stones and the earth which are not assigned with the duty of growth or movement have so little an amount of sensitivity that can hardly be detected1.
1. Human reason essentially requires the presence of some kind of perception or life in things called inanimate. It is because there must be some way of communication between the Creator and the created. The one who cannot communicate with created beings for the absence of sensibility on their part, is not worthy of being called god. Allah does communicate with all His created beings, animate or inanimate, which proves some kind of sensibility in all inanimate things. (Translator)

The vegetable Kingdom comes next in this series. The purpose of their existence requires growth and nourishment. The amount of perception or life given to them is greater in degree and is equal to their requirements. Next we come to animal kingdom where we find more elaborate and complex form of life. In addition to growth and nourishment, the animals have to move on the earth from one place to another. They have to seek their food to maintain their existence. They require protecting themselves from dangers and above all, they are required to reproduce their children. The amount of life given to them is greater and more obvious than the others so far discussed. They are, however, equipped with as much powers only as were needed to assist them in feeding and protecting themselves from dangers and enemies.

The last, but not the least, is human being who, in addition to, and more prominent of all the functions discussed above, has the duty of recognizing his Creator and the Lord of the universe, and seek His pleasure by following His commandments and avoid doing things disliked by Him. He is required to contemplate and give due thought to the creations and use his faculty of reason to distinguish right from wrong, abstain from evil and do good to please his Lord. Another distinction of a human being from other creatures is that he has been provided with vast opportunity to make progress in making his life more purposeful and more elevated in position. When he comes to make progress, he can attain more elevated rank than the angels. He is accountable for his acts and is promised of eternal peace and comfort for his good acts and everlasting punishment and distress for his evil deeds. He has been, therefore, trusted with the highest and the most perfect degree of life, in order that he is engaged in doing things that are proper for the aim of his life. He is not expected to waste his special faculties of understanding, hearing and seeing in the achieve-ment of material things only like animals.

Keeping the above points in view, the human faculties of understanding, hearing and seeing should essentially be distinct from those of the animals. If he did not make special use of these faculties like distinguishing right from wrong, doing good and keeping away from evil, he would be rightly considered among those who have eyes but do not see, have ears but do not listen, have mind and heart but do not understand. The Hoy Qur'an has therefore termed them as صُمٌّ بُكْمٌ "deaf, dumb and blind".

The verse therefore has not negated their physical ability of seeing, hearing and understanding. Rather, the Holy Qur'an has affirmed their knowledge about worldly things in the following words,
يَعْلَمُونَ ظَاهِرً‌ا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَ‌ةِ هُمْ غَافِلُونَ ﴿٧﴾
"They know the outward aspect of this worldly life, but of the Hereafter they are heedless." (30:7)

In another verse the Holy Qur'an, speaking the destruction of the people of `Ad and Thamud, said: وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِ‌ينَ "While they could see clearly." (29:38)

The people of `Ad and Thamud being allured by satanic influences involved themselves in evil deeds which led them to their destruction. That is to say they kept the use of their capabilities limited to abject worldly gains like serving their physical needs and remained heedless to their spiritual demands. No matter what great advances they make in science and technology, they may conquer space, explore moon and other planets, make the world full of their sophisticated satellites, and tame the natural forces to serve their varied needs, but all such efforts are no more than a means of serving their physical and material life. It does not go beyond, to seek spiritual peace and comfort. This achievement science and technology of man is certainly confined to serving his physical life only, which does not make him distinct from the animal in technicality. It is why the Holy Qur'an calls them deaf, dumb and blind because they heard, saw and understood things that belonged to this world only. They did not make proper use of these functions which could lead them to eternal success and peace. The last phrase of this verse said that they are like cattle investing all their effort in serving their bodily desires. Next the verse added بَلْ هُمْ أَضَلُّ "Rather they are much more misled." that is, they are far more unwise than are the cattle, because the animals are not bound to follow the laws of the Shari'ah. They have no reward or punishment for their acts. They are required only to serve their physical needs which they are efficiently doing, contrary to human beings who are accountable for everything they do in this world, and they are going to be punished or rewarded according to their performance. If they confine their effort only to seek material gains of this world and do not make proper use of their faculties, they are certainly more imprudent and unwise as compared to animals.



جھٹلانے والے چوپائے کی طرح ہیں:
أَم تَحسَبُ أَنَّ أَكثَرَهُم يَسمَعونَ أَو يَعقِلونَ ۚ إِن هُم إِلّا كَالأَنعٰمِ ۖ بَل هُم أَضَلُّ سَبيلًا {25:44}
یا تو خیال رکھتا ہے کہ بہت سے ان میں سنتے یا سمجھتے ہیں اور کچھ نہیں وہ برابر ہیں چوپایوں کے بلکہ وہ زیادہ بہکے ہوئے ہیں راہ سے [۵۹]
Or do you think that most of them listen or understand? They are but like cattle. Rather, they are even farther astray from the (right) way.
یعنی کیسی ہی نصیحتیں سنائیے، یہ تو چوپائے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، انہیں سننے یا سمجھنے سے کیا واسطہ۔ چوپائے تو بہرحال اپنے پرورش کرنے والے مالک کے سامنے گردن جھکا دیتے ہیں۔ اپنے محسن کو پہچانتے ہیں، نافع و مضر کی کچھ شناخت رکھتے ہیں۔ کھلا چھوڑ دو تو اپنی چراگاہ اور پانی پینے کی جگہ پہنچ جاتے ہیں، لیکن ان بدبختوں کا حال یہ ہے کہ نہ اپنے خالق و رازق کا حق پہچانا نہ اس کے احسانات کو سمجھا نہ بھلے برے کی تمیز کی، نہ دوست دشمن میں فرق کیا، نہ غذائے روحانی اور چشمہ ہدایت کی طرف قدم اٹھایا۔ بلکہ اس سے کوسوں دور بھاگے اور جو قوتیں خدا تعالیٰ نے عطا کی تھیں ان کو معطل کئے رکھا بلکہ بے موقع صرف کیا۔ اگر ذرا بھی عقل و فہم سے کام لیتے تو اس کارخانہ قدرت میں بے شمار نشانیاں موجود تھیں جو نہایت واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی توحید و تنزیہہ اور اصول دین کی صداقت و حقانیت کی طرف رہبری کر رہی ہیں جن میں سے بعض نشانوں کا ذکر آئندہ آیات میں کیا گیا ہے۔

Or do you suppose that most of them listen, listening so as to understand, or comprehend?, what you say to them? They are but as the cattle — nay, but they are further astray from the way, further from these [cattle] upon the path of misguidance, for at least they [cattle] yield to the person who looks after them, whereas these [disbelievers] do not obey their Master, Who is gracious to them.

(Or deemest thou) O Muhammad (that most of them hear) the Truth (or understand) such Truth when they listen to your words? (They are) in relation to understanding the Truth (but as the cattle) which know nothing but eating and drinking; they are with regard to the Truth like this, (nay, but they are farther astray) from proof and Religion! Because the cattle have no ability to understand proofs.









اہل مکہ اپنے کفر و شرک پرخوش تھے اور اس میں بڑا کمال سمجھتے تھے کہ ہم نے توحید کی دعو ت قبول نہیں کی وہ کہتے تھے کہ اگر ہم اپنی معبودوں پرجمے ہوئے نہ رہتے تویہ شخص تو ہمیں ان کی پرستش سے ہٹا ہی دیتا ان کی جہالت کا جواب دیتے ہوئے فرمایا (وَ سَوْفَ یَعْلَمُوْنَ) (الآیۃ) اور جس وقت یہ لوگ عذاب دیکھیں گے اس وقت جان لیں گے کہ راہ حق سے ہٹا ہوا کون تھا، عذاب سب سمجھا دے گا اور اس وقت حقیقت ظاہر ہو جائے گی، دنیا میں رسول اللہ ﷺ کو جو بے راہ بتاتے تھے قیامت کے دن ان کا اپنا گمراہ ہونا واضح ہو جائے گا، ان کے بعد رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا (اَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ) (کیا آپ نے اس کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا) (اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاً) (سو کیا آپ نگرانی کرنے والے ہیں) (اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَھُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ) (کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں) (اِِنْ ھُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا) (یہ لوگ محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ ہیں)۔
اس میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان قبول نہ کریں تو آپ پریشان نہ ہوں آپ پر قبول کرانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی لہٰذا آپ ان کے نگران نہیں ہیں آپ کا کام صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے سورۃ الزمر میں فرمایا (اِِنَّا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ فَمَنْ اھْتَدٰی فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا وَمَا اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیْلٍ) (ہم نے لوگوں کے لیے آپ پر یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے جو شخص راہ راست پر آئے گا تو اپنے نفع کے واسطے اور جو شخص بے راہ رہے گا اس کا بے راہ ہونا اس پر پڑے گا اور آپ ان پر مسلط نہیں کیے گئے) آپ کے یہ مخاطب گمراہی میں بہت آگے بڑھ چکے ہیں حق کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے انہوں نے تو خواہش نفس ہی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے جو جی میں آتا ہے وہ کہتے ہیں جو نفس خواہش کرتا ہے اسی کی فرمانبر داری کرتے ہیں جیسے معبود کی فرماں برداری کی جاتی ہے ایسے لوگوں سے ہدایت کی توقع نہ رکھیئے۔ آپ یہ بھی خیال نہ کریں کہ ان میں اکثر سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں۔ یہ تو راہ حق سے اتنی دور جا پڑے ہیں کہ بس چوپایوں کی طرح ہو گئے ہیں۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ راہ سے بھٹک گئے ہیں کیونکہ چوپائے مکلف نہیں ہیں وہ نہ سمجھیں تو ان کی طرف کوئی مذمت متوجہ نہیں ہوتی اور یہ مکلف ہیں پھر بھی سننے کی طرح نہیں سنتے اور سمجھنے کی طرح نہیں سمجھتے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ جانور تو اپنے مجازی مالک کی فرمانبر داری کرتے ہیں محسن اور غیر محسن کو پہچانتے ہیں اپنے کھانے پینے کے مواقع کو جانتے ہیں اپنے ٹھہرنے اور بیٹھنے کے ٹھکانوں کو سمجھتے ہیں اپنے نفع کے طالب رہتے ہیں اور ضرر سے بچتے ہیں، برخلاف ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے عقل دی اور سمجھ دی ہے یہ لوگ اپنے خالق اور رازق کی فرمانبر داری نہیں کرتے اور اس کے احسان مند نہیں ہوتے خواہشوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں نہ ثواب کی طلب ہے نہ عقاب کا خوف، حق سامنے آ گیا معجزات دیکھ لیے دلائل عقلیہ سے لا جواب ہو گئے لیکن ان سب کے باو جود ایمان قبول نہیں کرتے لا محالہ جانوروں سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں۔
یہ جو فرمایا (اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَھُمْ) (الایۃ) اس کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ چونکہ ان میں سے بعض کا ایمان لانا بھی مقدر تھا اس لیے لفظ اکثر لایا گیا، آیت شریفہ سے خواہشات نفس کے پیچھے چلنے کی قباحت اور شناعت معلوم ہوئی یہ خواہشات نفس کا اتباع انسان کو کفر و شرک پر بھی ڈالتا ہے اور گناہ بھی کرواتا ہے جو لوگ نفس کے پابند ہوتے ہیں نفس ہی کی خواہشوں کا اتباع کرتے ہیں اور اس طرح چلتے ہیں جیسے نفس ہی ان کا معبود ہو، یہ ذہن اور مزاج تباہ کر کے رکھ دیتا ہے، حضرت جابر  ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف خواہشات نفس کے پیچھے چلنے کا ہے اور لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں۔ (الحدیث) (مشکوۃ المصابیح ص ٤٤٤)
ایک حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ ہلاک کرنے والی یہ چیزیں ہیں (۱) نفس کی خواہش جس کا اتباع کیا جائے (۲) وہ کنجوسی جس کی اطاعت کی جائے (۳) انسان کا اپنے نفس پر اترانا، اور یہ ان تینوں میں سب سے زیادہ سخت ہے۔ (مشکوۃ المصابیح ص ٤۳٤)
جو لوگ مسلمان نہیں ہیں ان کا اپنی خواہشات کا متبع ہونا ظاہر ہے کہ توحید کی دعوت پر کان نہیں دھرتے اور کفر و شرک ہی کو اختیار کیے رہتے ہیں نفس نہیں چاہتا کہ اللہ کے رسول کا اتباع کریں لہٰذا نفس کے غلام بنے رہتے ہیں۔ دلائل سے حق واضح ہو جانے پر بھی حق کی طرف نہیں آتے، اتباع نفس کا مرض بہت سے مدعیان اسلام میں بھی ہے قرآن حدیث کی صاف صریح تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ایسے عقائد اور ایسے اعمال تراش لیتے ہیں جن میں بعض تو کفر کی حد تک پہنچا دیتے ہیں مثلاً کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے علم کو اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر مانتے ہیں اور کچھ لوگ آپ کے بشر ہونے کے منکر ہیں۔
یہ دونوں کفریہ باتیں ہیں قرآن حدیث کے خلاف ہیں بعض فرقے تحریف قرآن کے قائل ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو دو تین حضرات کے علاوہ تمام صحابہ کو کافر کہتے ہیں یہ بھی کفریہ عقیدے ہیں اور یہ سب نفس کا اتباع ہے یعنی خواہشات نفس کی پابندی ہے۔
یہ ہم نے بعض ایسے عقیدے بتائے ہیں جو اتباع ہویٰ کی وجہ سے لوگوں نے اختیار کر لیے ہیں اب رہے وہ اعمال جنہیں بدعت عملی کہا جاتا ہے یہ بھی بہت زیادہ ہیں۔ مختلف علاقوں میں مختلف بدعات رواج پذیر ہیں یہ بد عتیں خوشی میں اور مرنے جینے میں، محرم الحرام کے مہینے میں ربیع الاول میں رجب میں اور شعبان میں بہت زیادہ مروج ہیں جن کی تفاصیل حضرت حکیم الامت تھانوی کی کتاب اصلاح الرسوم میں بیان کر دی گئی ہیں اورچونکہ بدعت کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں خود تراش لینے ہی سے وجود میں آ جاتی ہے اس لیے مختلف علاقوں میں مختلف بدعات ہیں، احقر نے ایک مرتبہ جنوبی ہند کا سفر کیا ظہر کا وقت تھا مسجد میں امام صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مؤذن نے اذان دی تو اس کے بعد نقارہ بجا دیا گیا احقر نے امام صاحب سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ عورتوں کو بتانے کے لیے ہے کہ مسجد میں اذان ہو گئی ہے میں نے عرض کیا کیا سرکار دو عالم ﷺ کے زمانہ میں عورتوں کی اطلاع دینے کے لیے اذان کے علاوہ نقارہ پیٹا جاتا تھا، کہنے لگے ایسا تو نہیں، میں نے کہا کہ پھر آپ لوگوں نے یہ نئی چیز کیوں نکالی؟ ایک تو نئی چیز وہ بھی نقارہ؟ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ وہاں یہ بھی رواج ہے کہ دفن کرنے کے بعد دفن میں شرکت کرنے والوں کو میٹھی روٹیاں بانٹتے ہیں جب تک روٹیاں تیار نہیں ہو جاتیں میت کو گھر ہی میں رکھے رہتے ہیں، دمشق کا سفر کیا وہاں دیکھا کہ اذان سے چند منٹ پہلے مؤذن مینار پر چڑھ کر بہ آواز بلند درود شریف پڑھتا ہے اور جمعہ کے دن خطیب خطبہ پڑھنے کے لیے اپنے حجرہ سے چلتا ہے تو جب اس پر نظر پڑ جائے چند آدمی مل کر زور زور سے درود شریف پڑھتے ہیں اور اس کے منبر میں بیٹھ جانے تک برابر پڑھتے رہتے ہیں، مختلف علاقوں میں مختلف بدعات ہیں اہل بدعات کو جب متنبہ کیا جاتا ہے تو ماننے کے بجائے الٹی الٹی دلیلیں لے آتے ہیں اور سینکڑوں سنتیں جو احادیث کی کتابوں میں مذکور ہیں ان پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہوتے یہ اتباع ہویٰ ہے اگرچہ دینی جذبات کے ساتھ ہے۔







55 لوگوں کی اکثریت حق کو سننے سمجھنے سے عاری - والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور استفہامِ انکاری کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ " ۔ استفہام انکاری ہے ۔ یعنی ایسے نہیں سمجھنا چاہیئے کہ ایسے لوگ نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں ۔ اور جب یہ سنتے سمجھتے ہی نہیں اور انہوں نے اپنے کانوں اور دلوں کو حق کے سننے اور سمجھنے سے بند کر رکھا ہے تو پھر ان سے کسی خیر کی توقع ہی کیا اور کیسے ہو سکتی ہے ؟ اور پھر ان کی ایذاء رسانیوں اور حق دشمنیوں سے صدمہ اور دکھ ہی کیا ؟ پس ضد اور عناد و ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں ۔ ایسے ضدی عناصر کو چھوڑ دو یہ اپنے انجام کو خود پہنچ جائیں گے - { فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ } - (الانعام: 113) ۔ سو قصور آپ کی دعوت و تبلیغ کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا اپنا ہے کہ انہوں نے اپنی ہٹ دھرمی اور خواہش پرستی کی بنا پر اپنے کانوں کو سماعِ حق اور اپنے دلوں کو قبولِ حق سے بند اور اپنی عقلوں کو صحیح غور و فکر سے ماؤف کر رکھا ہے۔ تو پھر ان کو حق و ہدایت کی روشنی اور دولت ملے تو کیسے اور کیونکر؟ نیز یہاں سے یہ حقیقت بھی ایک مرتبہ پھر واضح ہوگئی کہ عوام کی اکثریت کی رائے کا کسی امر کے حق میں یا اس کے خلاف ہوجانا اس کے حق یا باطل اور صحیح یا غلط ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ جس طرح کہ مغربی جمہوریت کے پرستاروں کا کہنا ہے اور جس طرح کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے کہ فلاں فلاں بدعات چونکہ عوام کی اکثریت میں پائی جاتی ہیں لہذا یہ ٹھیک ہیں ۔ سو ایسا کہنا اور ماننا غلط ہے کہ عوام کی اکثریت اس طرح کی نصوص صریحہ کے مطابق نہ سنتی ہے نہ سمجھتی ہے۔ وہ جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ تو پھر ایسوں کی اکثریت کا آخر کیا وزن اور اعتبار ہو سکتا ہے ؟۔
56 نور حق و ہدایت سے محروم لوگ چوپایوں سے بھی بدتر - والعیاذ باللہ : سو اس سے تصریح فرما دی گئی کہ نور حق وہدایت سے محروم لوگ چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراہ ہیں - والعیاذ باللہ - سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ایسے لوگ تو محض چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ کر گمراہ ہیں " ۔ کہ جانوروں اور چوپایوں کو تو عقل ہی نہیں دی گئی تھی اس لئے وہ احکام و شرائع کے مکلف ہی نہیں ۔ جبکہ ان کو عقل و فکر کی دولت سے نواز کر مکلف بنایا گیا تھا۔ جانور تو اپنے مالک و محسن کو پہچانتے ہیں اور اس سے انس و محبت رکھتے ہیں جبکہ یہ اپنے رب کے احسانات سے غافل اور اس کے ناشکرے ہیں ۔ جانور تو اپنے دشمن کو پہچان کر اس سے دور و نفور رہتے ہیں مگر ایسے لوگ اپنے اس دشمن سے محبت رکھتے اور اس کے پیچھے چلتے ہیں جو ان کو جہنم کی طرف لے جا رہا ہے۔ جانور اگر کسی کو نقصان پہنچائے تو بس وہیں تک جہاں تک کہ ان کے سینگ پہنچ سکیں یا لات مارسکیں یا اپنے دانتوں سے کاٹ سکیں وغیرہ ۔ جبکہ انسان جب جانوروں کی راہ پر چلتا ہے تو سب سے بڑا درندہ بن جاتا ہے اور اس کی تباہ کاریوں اور ہلاکت سامانیوں سے ساری دنیا اپنے آپ کو آگ کے منہ میں تصور کرتی ہے۔ اور یہ ایسے ایسے آلات ایجاد کرتا ہے کہ ہزاروں ، لاکھوں بے گناہوں کی جان لینے میں بس ایک بٹن دبانے کی دیر رہ جاتی ہے۔ پھر چوپایہ جانور کسی کو راہ حق و ہدایت سے نہیں روکے گا جبکہ یہ بہکا بھٹکا انسان دوسروں کو بھی راہ حق و صواب سے روکنے اور ان کو نور ہدایت سے محروم کرنے کے لئے طرح طرح کے حیلے حوالے اور ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ سو اس طرح کے ان امور سے یہ امر پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ انسان جب نور حق و ہدایت سے محروم ہوتا ہے تو یہ سب سے بڑھ کر گمراہ - اضل - اور سب نیچوں سے نیچ - اسفل سافلین - بن جاتا ہے - والعیاذ باللہ العظیم - پس ایسے لوگ اگر حق کو قبول نہیں کرتے تو اس سے نہ کسی کو کوئی تعجب اور اچنبھا ہونا چاہیے اور نہ ہی کوئی صدمہ و افسوس کہ یہ انسان نہیں حیوان ہیں ۔ بلکہ اس سے بھی بدتر۔ تو پھر ایسوں سے قبولِ حق کی امید اور خیر کی کوئی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے ؟ - والعیاذ باللہ - اللہ تعالیٰ زیغ وضلال کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے - آمین ثم آمین۔

تفسیر بالقرآن
اندھے ، بہرے لوگ اور ان کا انجام :
۱۔ اہل ایمان اور کفر کی مثال اندھے بہرے اور دیکھنے سننے والوں کی طرح ہے ۔ (ھود: ۲٤)
۲۔ اللہ کی آیات کی تکذیب کرنے والے اندھے بہرے ہیں ۔ (الانعام: ۳۹)
۳۔ کانوں آنکھوں کا صحیح استعمال نہ کرنے والے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں ۔ (الاعراف: ۱۷۹)
٤۔ اندھے بہرے لوگ عقل نہیں رکھتے ۔ (البقرۃ: ۱۷۱)
۵۔ بہرے وحی کو نہیں سنتے ۔ (الانبیاء: ٤۵)
٦۔ نبی کریم ﷺ بھی اندھے بہرے لوگوں کو ہدایت نہیں دے سکتے ۔ (الروم: ۵۲)
۷۔ اندھے بہرے لوگ ہدایت کی طرف نہیں لوٹتے ۔ (البقرۃ: ۱۸)
اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کر دی انھیں بہرے اور اندھے کر دیاہے ۔ (محمد : ۲۳)
بہروں کو آپ نہیں سنا سکتے کیونکہ وہ بے عقل ہیں ۔ (یونس: ٤۲)
آپ مردوں اور بہروں کو اپنی پکار نہیں سنا سکتے ۔ (النمل: ۸۰)
عقل سے کام نہ لینے کا انجام ۔( الملک:۱۰)
ہدایت کے لیے ضروری ہے کہ انسان دل ، کان اور توجہ سے کام لے۔( ق : ۳۷)





سیدنا عبداللہ بن مسعود  ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’بے شک تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن (بحالت نطفہ) رہتا ہے، پھر چالیس دن جمے ہوئے خون کی شکل میں رہتا ہے، پھر چالیس دن گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتے کو بھیجتا ہے، وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اس کو چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیتا ہے۔ ایک تو اس کی روزی لکھنا (یعنی محتاج ہو گا یا مال دار)، دوسرے اس کی عمر لکھنا (کہ کتنا عرصہ زندہ رہے گا)، تیسرے اس کا عمل لکھنا (کہ کیا کیا کرے گا) اور یہ لکھنا کہ نیک بخت (جنتی) ہو گا یا بدبخت (جہنمی) ہو گا۔‘‘ [ بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ صلوات اللہ علیہم : ۳۲۰۸، ٦۵۹٤۔ مسلم، کتاب القدر، باب کیفیۃ خلق الآدمی فی بطن أمہ : ۲٦٤۳ ]


وَما مِن دابَّةٍ فِى الأَرضِ وَلا طٰئِرٍ يَطيرُ بِجَناحَيهِ إِلّا أُمَمٌ أَمثالُكُم ۚ ما فَرَّطنا فِى الكِتٰبِ مِن شَيءٍ ۚ ثُمَّ إِلىٰ رَبِّهِم يُحشَرونَ {6:38}
اور نہیں ہے کوئی چلنے والا زمین میں اور نہ کوئی پرندہ کہ اڑتا ہے اپنے دو بازوؤں سے مگر ہر ایک امت ہے تمہاری طرح ہم نےنہیں چھوڑی لکھنے میں کوئی چیز پھر سب اپنے رب کے سامنے جمع ہوں گے [۴۳]
اور زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان) یا دو پروں سے اڑنے والا جانور ہے ان کی بھی تم لوگوں کی طرح جماعتیں ہیں۔ ہم نے کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں کسی چیز (کے لکھنے) میں کوتاہی نہیں کی پھر سب اپنے پروردگار کی طرف جمع کئے جائیں گے
ان آیات میں بعض حکمتوں پر متنبہ کیا گیا ہے جو فرمائشی نشانات نہ دکھلائے جانے میں مرعی ہیں۔ یعنی تمام حیوانات خواہ زمین پر رینگتے ہوں یا ہوا میں اڑتے ہوں وہ بھی انسانوں کی طرح ایک امت ہیں ان میں سے ہر نوع کو حق تعالیٰ نے ایک خاص وضع اور فطرت پر پیدا کیا جو ان کے معین خواص و افعال کے دائرہ میں کام کرتی ہے۔ کوئی جانور اپنے افعال و حرکات کے محدود حلقہ سے جو قدرت نے بااعتبار اس کی فطرت و استعداد کے مشخص کر دیے ہیں ایک قدم باہر نہیں نکال سکتا۔ چنانچہ ابتدائے آفرینش سے آج تک کسی حیوان نے اپنی نوع کے محدود دائرہ عمل میں کسی طرح کی ترقی نہیں کی اسی طرح ہر چیز کی استعداد و فطرت کو خیال کر لیجئے حق تعالیٰ کے علم قدیم اور لوح محفوظ میں تمام انواع و اجناس کی تدبیر و تربیت کے اصول و فروع منضبط ہیں۔ کوئی چیز نہ اس زندگی میں اور نہ مرنے کے بعد اس مکمل انضباط و انتظام سے باہر جا سکتی ہے انسان جنس حیوان میں "بااختیار اور ترقی کن" حیوان ہے اسی کسب و اختیار اور ترقی کن عقل و تمیز کی موجودگی نے اس کے نظام تکوینی اور قانون حیات کو دوسرے تمام حیوانات سے ایسا اعلیٰ اور ممتاز بنا دیا ہے کہ اب اسے حیوان کہتے بھی شرم آتی ہے۔ وہ برخلاف باقی حیوانات کے دیکھنے سننے اور پوچھنےسے نئی نئی معلومات حاصل کرتا اور قوت فکریہ سے ان کو ترتیب دےکر حیات جدید کی طرف ترقی کرتا رہتا ہے وہ نیک و بد میں تمیز کرنے، نافع و ضار کے پہنچانے، آغاز و انجام سمجھنے پر قادر اور کسی عمل کے کرنے یا چھوڑنے میں فی الجملہ آزاد ہے۔ اسی لئے اس کو خدا کی جانب سے ایسے نشانات دکھلائے جاتے ہیں جن میں غور و فکر کرنے کا موقع مل سکے اور فکر و کسب کی فطری آزادی کو سلب کرنے والے نہ ہوں۔ اور اگر وہ خدا کے دیے ہوئے قوائے عقلیہ سے ٹھیک طور پر ان میں غور کرے تو اسے حق و باطل اور نیک و بد کی تمیز کرنے میں کچھ دقت نہ ہو۔ پس ایسے فرمائشی نشانات و معجزات کی درخواست کرنا جو بہمہ وجوہ ایمان لانے پر مجبور کر دیں، انسان کی فطری آزادی اور اس کے نظام ترکیبی کو تباہ کرنے بلکہ انسان کو عام حیوانات کی صف میں اتار لانے کا مرادف ہے۔ اور اگر فرمائشی نشان بہمہ وجوہ مجبور کن نہ ہوں تو ان کا دکھلانا بیکار ہے۔ کیونکہ ان میں بھی وہی غیرناشی عن دلیل شکوک و شبہات پیدا کر لئے جائیں گے جو ہزاروں غیرفرمائشی نشانات میں کئے جا چکے۔

وَالَّذينَ كَذَّبوا بِـٔايٰتِنا صُمٌّ وَبُكمٌ فِى الظُّلُمٰتِ ۗ مَن يَشَإِ اللَّهُ يُضلِلهُ وَمَن يَشَأ يَجعَلهُ عَلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ {6:39}
اور جو جھٹلاتے ہیں ہماری آیتوں کو وہ بہرے اور گونگے ہیں اندھیروں میں [۴۴] جسکو چاہے اللہ گمراہ کرے [۴۵] اور جس کو چاہے ڈال دے سیدھی راہ پر
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں (اس کے علاوہ) اندھیرے میں (پڑے ہوئے) جس کو خدا چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے سیدھے رستے پر چلا دے
گمراہ کرنا اسی کو چاہتا ہے جو خود ذرائع ہدایت کو اپنے اوپر مسدود کر لیتے ہیں { وَلَوْ شِئْنَالَرَفَعْنٰہُ بِھَا وَلٰکِنَّہٓٗ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ } (الاعراف رکوع ۲۲)
نہ کہنے والے کی سنتے ہیں نہ خود دوسرے سے پوچھتے ہیں اور نہ اندھیرے میں کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ جب سب قوٰی اپنی بےاعتدالیوں سے بیکار کر لئے تو حق کی تصدیق و قبول کا کیا ذریعہ ہو؟



أَفَلَم يَسيروا فِى الأَرضِ فَتَكونَ لَهُم قُلوبٌ يَعقِلونَ بِها أَو ءاذانٌ يَسمَعونَ بِها ۖ فَإِنَّها لا تَعمَى الأَبصٰرُ وَلٰكِن تَعمَى القُلوبُ الَّتى فِى الصُّدورِ {22:46}
کیا سیر نہیں کی ملک کی جو اُنکے دل ہوتے جن سے سمجھتے یا کان ہوتے جن سے سنتے [۷۹] سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں پر اندھے ہو جاتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں [۸۰]
کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل (ایسے) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے۔ اور کان (ایسے) ہوتے کہ ان سے سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں (وہ) اندھے ہوتے ہیں
یعنی آنکھوں سے دیکھ کر اگر دل سے غور نہ کیا تو وہ نہ دیکھنے کے برابر ہے۔گو اس کی ظاہری آنکھیں کھلی ہوں پر دل کی آنکھیں اندھی ہیں اور حقیقت میں زیادہ خطرناک اندھا پن وہ ہی ہے جس میں دل اندھے ہو جائیں۔ (العیاذ باللہ)
یعنی ان تباہ شدہ مقامات کے کھنڈر دیکھ کر غور و فکر نہ کیا، ورنہ ان کو سچی بات کی سمجھ آ جاتی اور کان کھل جاتے۔
                                                                                                                                                        
وَلَقَد مَكَّنّٰهُم فيما إِن مَكَّنّٰكُم فيهِ وَجَعَلنا لَهُم سَمعًا وَأَبصٰرًا وَأَفـِٔدَةً فَما أَغنىٰ عَنهُم سَمعُهُم وَلا أَبصٰرُهُم وَلا أَفـِٔدَتُهُم مِن شَيءٍ إِذ كانوا يَجحَدونَ بِـٔايٰتِ اللَّهِ وَحاقَ بِهِم ما كانوا بِهِ يَستَهزِءونَ {46:26}
اور ہم نے مقدور دیا تھا انکو ان چیزوں کا جن کا تم کو مقدور نہیں دیا [۴۴] اور ہم نے انکو دیے تھے کان اور آنکھیں اور دل پھر کام نہ آئے انکےکان انکے اور نہ آنکھیں انکی اور نہ دل انکے کسی چیز میں [۴۵] اس لئے کہ منکر ہوتے تھے اللہ کی باتوں سے اور الٹ پڑی ان پر جس بات سے کہ وہ ٹھٹھا کرتے تھے [۴۶]
اور ہم نے ان کو ایسے مقدور دیئے تھے جو تم لوگوں کو نہیں دیئے اور انہیں کان اور آنکھیں اور دل دیئے تھے۔ تو جب کہ وہ خدا کی آیتوں سے انکار کرتے تھے تو نہ تو ان کے کان ہی ان کے کچھ کام آسکے اور نہ آنکھیں اور نہ دل۔ اور جس چیز سے استہزاء کیا کرتے تھے اس نے ان کو آ گھیرا
یعنی نصیحت سننے کے لئے کان اور قدرت کی نشانیاں دیکھنے کے لئے آنکھیں اور سمجھنے بوجھنے کے لئے دل دئے گئے تھے پر وہ کسی قوت کو کام میں نہ لائے، اندھے، بہرے اور پاگل بن کر پیغمبروں کے مقابل ہو گئے۔ آخر انجام یہ ہوا کہ یہ قوتیں سب موجود رہیں اور عذاب الٰہی نے آ گھیرا۔ کوئی اندرونی یا بیرونی قوت اس کو دفع نہ کر سکی۔
یعنی جس عذاب کی ہنسی اڑایا کرتے تھے وہ ان پر واقع ہوا۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتےہیں "انکو دل اور کان اور آنکھ دی تھی۔ یعنی دنیا کے کام میں عقلمند تھے۔ وہ عقل نہ آئی جس سے آخرت بھی درست ہو"۔
یعنی مال، اولاد، جتھے، اور جسمانی طاقت جو انکو دی گئ تھی، تمکو نہیں دی گئ۔ مگر جب عذاب آیا، کوئی چیز کام نہ آئی۔ پھر تم کس بات پر مغرور ہو۔

                                                                                                                                                       

=========================================

آپ مسلمان پہلے ہیں یا انسان۔۔؟


اگر انسان کا وجود خالق کے بغیر ہو سکتا تو اسے اس خالق کا مسلمان (فرمانبردار) بننے كا حكم نہ ديا جاتا.
If mankind can exist without the Creator, then it did not commanded to be Muslim(Obedient) by its Creator.

خالق_انسان نے فرمایا:

هَل أَتىٰ عَلَى الإِنسٰنِ حينٌ مِنَ الدَّهرِ لَم يَكُن شَيـًٔا مَذكورًا {76:1}
بےشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی

إِنّا خَلَقنَا الإِنسٰنَ مِن نُطفَةٍ أَمشاجٍ نَبتَليهِ فَجَعَلنٰهُ سَميعًا بَصيرًا {76:2}
ہم نے انسان کو نطفہٴ مخلوط سے پیدا کیا تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اس کو سنتا دیکھتا بنایا

إِنّا هَدَينٰهُ السَّبيلَ إِمّا شاكِرًا وَإِمّا كَفورًا {76:3}
(اور) اسے رستہ بھی دکھا دیا۔ (اب) وہ خواہ شکرگزار ہو خواہ ناشکرا

إِنّا أَعتَدنا لِلكٰفِرينَ سَلٰسِلَا۟ وَأَغلٰلًا وَسَعيرًا {76:4}
ہم نے کافروں کے لئے زنجیر اور طوق اور دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے

إِنَّ الأَبرارَ يَشرَبونَ مِن كَأسٍ كانَ مِزاجُها كافورًا {76:5}
جو نیکو کار ہیں اور وہ ایسی شراب نوش جان کریں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی

عَينًا يَشرَبُ بِها عِبادُ اللَّهِ يُفَجِّرونَها تَفجيرًا {76:6}
یہ ایک چشمہ ہے جس میں سے خدا کے بندے پئیں گے اور اس میں سے (چھوٹی چھوٹی) نہریں نکالیں گے

يوفونَ بِالنَّذرِ وَيَخافونَ يَومًا كانَ شَرُّهُ مُستَطيرًا {76:7}
یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی خوف رکھتے ہیں

وَيُطعِمونَ الطَّعامَ عَلىٰ حُبِّهِ مِسكينًا وَيَتيمًا وَأَسيرًا {76:8}
اور باوجود یہ کہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں

إِنَّما نُطعِمُكُم لِوَجهِ اللَّهِ لا نُريدُ مِنكُم جَزاءً وَلا شُكورًا {76:9}
(اور کہتے ہیں کہ) ہم تم کو خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں۔ نہ تم سے عوض کے خواستگار ہیں نہ شکرگزاری کے (طلبگار)

إِنّا نَخافُ مِن رَبِّنا يَومًا عَبوسًا قَمطَريرًا {76:10}
ہم کو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر لگتا ہے (جو چہروں کو) کریہہ المنظر اور (دلوں کو) سخت (مضطر کر دینے والا) ہے

فَوَقىٰهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذٰلِكَ اليَومِ وَلَقّىٰهُم نَضرَةً وَسُرورًا {76:11}
تو خدا ان کو اس دن کی سختی سے بچالے گا اور تازگی اور خوش دلی عنایت فرمائے گا

وَجَزىٰهُم بِما صَبَروا جَنَّةً وَحَريرًا {76:12}
اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت (کے باغات) اور ریشم (کے ملبوسات) عطا کرے گا

مُتَّكِـٔينَ فيها عَلَى الأَرائِكِ ۖ لا يَرَونَ فيها شَمسًا وَلا زَمهَريرًا {76:13}
ان میں وہ تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ وہاں نہ دھوپ (کی حدت) دیکھیں گے نہ سردی کی شدت

وَدانِيَةً عَلَيهِم ظِلٰلُها وَذُلِّلَت قُطوفُها تَذليلًا {76:14}
ان سے (ثمردار شاخیں اور) ان کے سائے قریب ہوں گے اور میوؤں کے گچھے جھکے ہوئے لٹک رہے ہوں گے

وَيُطافُ عَلَيهِم بِـٔانِيَةٍ مِن فِضَّةٍ وَأَكوابٍ كانَت قَواريرا۠ {76:15}
خدام) چاندی کے باسن لئے ہوئے ان کے اردگرد پھریں گے اور شیشے کے (نہایت شفاف) گلاس

قَواريرَا۟ مِن فِضَّةٍ قَدَّروها تَقديرًا {76:16}
اور شیشے بھی چاندی کے جو ٹھیک اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں

وَيُسقَونَ فيها كَأسًا كانَ مِزاجُها زَنجَبيلًا {76:17}
اور وہاں ان کو ایسی شراب (بھی) پلائی جائے گی جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی

عَينًا فيها تُسَمّىٰ سَلسَبيلًا {76:18}
یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے

وَيَطوفُ عَلَيهِم وِلدٰنٌ مُخَلَّدونَ إِذا رَأَيتَهُم حَسِبتَهُم لُؤلُؤًا مَنثورًا {76:19}
اور ان کے پاس لڑکے آتے جاتے ہوں گے جو ہمیشہ (ایک ہی حالت پر) رہیں گے۔ جب تم ان پر نگاہ ڈالو تو خیال کرو کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں

وَإِذا رَأَيتَ ثَمَّ رَأَيتَ نَعيمًا وَمُلكًا كَبيرًا {76:20}
اور بہشت میں (جہاں) آنکھ اٹھاؤ گے کثرت سے نعمت اور عظیم (الشان) سلطنت دیکھو گے

عٰلِيَهُم ثِيابُ سُندُسٍ خُضرٌ وَإِستَبرَقٌ ۖ وَحُلّوا أَساوِرَ مِن فِضَّةٍ وَسَقىٰهُم رَبُّهُم شَرابًا طَهورًا {76:21}
ان (کے بدنوں) پر دیبا سبز اور اطلس کے کپڑے ہوں گے۔ اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا

إِنَّ هٰذا كانَ لَكُم جَزاءً وَكانَ سَعيُكُم مَشكورًا {76:22}
یہ تمہارا صلہ اور تمہاری کوشش (خدا کے ہاں) مقبول ہوئی

إِنّا نَحنُ نَزَّلنا عَلَيكَ القُرءانَ تَنزيلًا {76:23}
اے محمد() ہم نے تم پر قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے

فَاصبِر لِحُكمِ رَبِّكَ وَلا تُطِع مِنهُم ءاثِمًا أَو كَفورًا {76:24}
تو اپنے پروردگار کے حکم کے مطابق صبر کئے رہو اور ان لوگوں میں سے کسی بد عمل اور ناشکرے کا کہا نہ مانو

وَاذكُرِ اسمَ رَبِّكَ بُكرَةً وَأَصيلًا {76:25}
اور صبح وشام اپنے پروردگار کا نام لیتے رہو

وَمِنَ الَّيلِ فَاسجُد لَهُ وَسَبِّحهُ لَيلًا طَويلًا {76:26}
اور رات کو بڑی رات تک سجدے کرو اور اس کی پاکی بیان کرتے رہو

إِنَّ هٰؤُلاءِ يُحِبّونَ العاجِلَةَ وَيَذَرونَ وَراءَهُم يَومًا ثَقيلًا {76:27}
یہ لوگ دنیا کو دوست رکھتے ہیں اور (قیامت کے) بھاری دن کو پس پشت چھوڑے دیتے ہیں

نَحنُ خَلَقنٰهُم وَشَدَدنا أَسرَهُم ۖ وَإِذا شِئنا بَدَّلنا أَمثٰلَهُم تَبديلًا {76:28}
ہم نے ان کو پیدا کیا اور ان کے مقابل کو مضبوط بنایا۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان کے بدلے ان ہی کی طرح اور لوگ لے آئیں

إِنَّ هٰذِهِ تَذكِرَةٌ ۖ فَمَن شاءَ اتَّخَذَ إِلىٰ رَبِّهِ سَبيلًا {76:29}
یہ تو نصیحت ہے۔ جو چاہے اپنے پروردگار کی طرف پہنچنے کا رستہ اختیار کرے

وَما تَشاءونَ إِلّا أَن يَشاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليمًا حَكيمًا {76:30}
اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو خدا کو منظور ہو۔ بےشک خدا جاننے والا حکمت والا ہے

يُدخِلُ مَن يَشاءُ فى رَحمَتِهِ ۚ وَالظّٰلِمينَ أَعَدَّ لَهُم عَذابًا أَليمًا {76:31}
جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور ظالموں کے لئے اس نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے



(القرآن- سورة الدهر/الإنسان)
-----------------------------
[۱]انسان عدم محض تھا:

بے شک انسان پر ایک وقت گزرچکا ہے۔ جب اس کا کچھ نام و نشان نہ تھا۔ پھر کتنے ہی دور طے کر کے نطفہ کی شکل میں آیا۔ وہ حالت بھی اس کی موجودہ شرافت و کرامت کو دیکھتے ہوئے اس قابل نہیں کہ زبان پر لائی جائے۔

[۲]مخلوط پانی سے انسان کی تخلیق:

یعنی مرد اور عورت کے دو رنگے پانی سے پیدا کیا۔ (تنبیہ) اَمْشَاجٍ کے معنی مخلوط کے ہیں۔ نطفہ جن عذاؤں کا خلاصہ ہے وہ مختلف چیزوں سے مرکب ہوتی ہیں اس لئے عورت کے پانی سے قطع نظر کرکے بھی اُس کا اَمْشَاجٍ کہہ سکتے ہیں۔

[۳]الٹ پھیر کے بعد دیکھنے سننے والا بنا دیا:

یعنی نطفہ سے جما ہوا خون ، پھر اس سے گوشت کا لوتھڑا بنایا۔ اسی طرح کئ طرح کے الٹ پھیر کرنے کے بعد اس درجہ میں پہنچا دیا کہ اب وہ کانوں سےسنتا اور آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ان قوتوں سے وہ کام لیتا ہے جو کوئی دوسرا حیوان نہیں لے سکتا۔ گویا اور سب اس کے سامنے بہرے اور اندھے ہیں (تنبیہ) نَّبْتَلِیْہِ کے معنی اکثر مفسرین نے امتحان و آزمائش کے لئے ہیں۔ یعنی آدمی کا بنانا اس غرض سے تھا کہ اس کو احکام کا مکلف اور امرونہی کا مخاطب بنا کر امتحان لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کہاں تک مالک کے احکام کی تعمیل میں وفاداری دکھلاتا ہے۔ اسی لئے اس کو سننے، دیکھنے، اور سمجھنے کی وہ قوتیں دی گئیں جن پر تکلیف شرعی کامدار ہے۔

[۴]ہدایت کے باوجود دو فرقے ہو گئے:

یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔

[۵]منکروں کے لئے طوق اور زنجیریں:

یعنی جو لوگ رسم و رواج اور اوہام وظنون کی زنجیروں میں جکڑے رہے اور غیر اللہ کی حکومت و اقتدار کے طوق اپنے گلوں سے نہ نکال سکے۔ بلکہ حق و حاملین حق کے خلاق دشمنی اور لڑائی کی آگ بھڑکانے میں عمریں گذار دیں، کبھی بھول کر اللہ کی نعمتوں کو یاد نہ کیا۔ نہ اس کی سچی فرمانبرداری کا خیال دل میں لائے۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں دوزخ کے طوق و سلاسل اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

[۶]ابرار کے لئے چشمہ کا فور کی شراب:

یعنی جام شراب پئیں گے جس میں تھوڑا سا کافور ملایا جائیگا۔ یہ کافور دنیا کا نہیں بلکہ جنت کا ایک خاص چشمہ ہے جو خاص طور پر اللہ کے مقرب و مخصوص بندوں کو ملے گا۔ شاید اس کو ٹھنڈا، خوشبودار، مفرح اور سفید رنگ ہونے کی وجہ سے کافور کہتے ہونگے۔

[۷]چشمہ کا بہنا عباداللہ کے اختیار میں:

یعنی وہ چشمہ ان بندوں کے اختیار میں ہوگا جدھر اشارہ کریں گے اسی طرف کو اس کی نالی بہنے لگے گی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا اصل منبع حضور پرنور محمد رسول ﷺ کے قصر میں ہوگا۔ وہاں سے سب انبیاء و مؤمنین کے مکانوں تک اس کی نالیاں پہنچائی جائیں گی۔ واللہ اعلم۔ آگے ابرار کی خصلتیں بیان فرمائی ہیں۔

[۸]منّت کو پورا کرنے والے:

یعنی جو منت مانی ہو اسے پورا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب خود اپنی لازم کی ہوئی چیز کو پورا کرینگے تو اللہ کی لازم کی ہوئی باتوں کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔

[۹]یعنی اس دن کی سختی اور برائی درجہ بدرجہ سب کو عام ہوگی۔ کوئی شخص بالکلیہ محفوظ نہ رہیگا۔ الا من شاء اللّٰہ ۔

[۱۰]قیدیوں سے حسنِ سلوک کرنے والے:

یعنی اللہ کی محبت کے جوش میں اپنا کھانا باوجود خواہش اور احتیاج کے نہایت شوق اور خلوص سے مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھلا دیتے ہیں۔ (تنبیہ) قیدی عام ہے مسلم ہو یا کافر۔ حدیث میں ہے کہ "بدر" کے قیدیوں کے متعلق حضور ﷺ نے حکم دیا کہ جس مسلمان کے پاس کوئی قیدی رہے اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ چنانچہ صحابہؓ اس حکم کی تعمیل میں قیدیوں کو اپنے سے بہتر کھانا کھلاتے تھے حالانکہ وہ قیدی مسلمان نہ تھے۔ مسلمان بھائی کا حق تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ اور اگر لفظ اَسِیْرًا میں ذرا توسّع کر لیا جائے تب تو یہ آیت غلام اور مدیون کو بھی شامل ہوسکتی ہے کہ وہ بھی ایک طرح سے قید میں ہیں۔

[۱۱]یہ کھلانے والے زبانِ حال سے کہتے ہیں اور کہیں مصلحت ہو تو زبان قال سے بھی کہہ سکتے ہیں۔

[۱۲]اخلاص سے کھانا کھلانے والے:

یعنی کیوں نہ کھلائیں اور کھلانے کے بعد کیونکہ بدلہ یا شکر کے امیدوار رہیں جب کہ ہم کو اپنے پروردگار کا اور اس دن کا خوف لگا ہوا ہے جو بہت سخت اداس اور غصہ سے چیں بہ چیں ہوگا۔ ہم تو اخلاص کے ساتھ کھلانے پلانے کے بعد بھی ڈرتے ہیں کہ دیکھئے ہمارا عمل مقبول ہوا یا نہیں۔ مبادا اخلاص وغیرہ میں کمی رہ گئ ہو اور الٹا منہ پر مارا جائے۔

[۱۳]یعنی جس چیز سے وہ ڈرتے تھے۔ اللہ نے اس سے محفوظ و مامون رکھا۔ اور ان کے چہروں کو تازگی اور دلوں کو سرور عطا کیا۔

[۱۴]یعنی ازبسکہ یہ لوگ دنیا کی تنگیوں اور سختیوں پر صبر کرکے معاصی سے رکے اور طاعت پر جمے رہے تھے۔ اس لئے اللہ نے ان کو عیش کرنے کے لئے جنت کے باغ اور لباس ہائے فاخرہ مرحمت فرمائے۔

[۱۵]بادشاہوں کی طرح۔

[۱۶]جنّت کا موسم:

یعنی جنت کا موسم نہایت معتدل ہوگا نہ گرمی کی تکلیف نہ سردی کی۔
[۱۷]جنّت کے پھلوں کے گچھے:
یعنی درختوں کی شاخیں مع اپنے پھول پھل وغیرہ کے ان پر جھکی پڑتی ہونگی اور پھلوں کے خوشے ایسی طرح لٹکے ہوں گے اور ان کے قبضہ میں کر دیئے جائیں گے کہ جنتی جس حالت میں چاہے کھڑے بیٹھے، لیٹے بے تکلف چن سکے (تنبیہ) شاید درختوں کی شاخوں کو یہاں ظلال سے تعبیر فرمایا ہے یا واقعی سایہ ہو۔ کیونکہ آفتاب کی دھوپ نہ سہی، کوئی دوسری قسم کا نور تو وہاں ضرور ہوگا۔ اس کے سایہ میں بہشتی تفنّن و تفریح کی غرض سے کبھی بیٹھنا چاہیں گے۔ واللہ اعلم۔
[۱۸]جنّت کے برتن:
یعنی آبخورے اصل میں چاندی کے بنے ہونگے نہایت سفید ، بے داغ اور فرحت بخش، لیکن صاف و شفاف اور چمکدار ہونے میں شیشے کی طرح معلوم ہونگے۔ ان کے اندر کی چیز باہر سے صاف نظر آئیگی۔
[۱۹]اندازے پر بھرے ہوئے:
یعنی جنتی کو جس قدر پینے کی خواہش ہو گی ٹھیک اس کے اندازے کے موافق بھرے ہوں گے کہ نہ کمی رہے نہ بچے۔ یا بہشتیوں نے اپنے دل سے جیسا اندازہ کر لیا ہو گا بلاکم و کاست اسی کے موافق آئینگے۔
[۲۰]سونٹھ ملے ہوئے مشروب:
یعنی ایک جامِ شراب وہ تھا جس کی ملونی کافور ہے۔ دوسرا وہ ہوگا جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔ مگر یہ دنیا کی سونٹھ نہ سمجھئے وہ ایک چشمہ ہے جنت میں جس کو سلسبیل کہتے ہیں۔ سونٹھ کی تاثیر گرم ہے اور وہ حرارت عزیزیہ میں انتعاش پیدا کرتی ہے۔ عرب کے لوگ اس کو بہت پسند کرتے تھے۔ بہرحال کسی خاص مناسبت سے اس چشمہ کو زنجبیل کا چشمہ کہتے ہیں۔ ابرار کے پیالہ میں اس کی تھوڑی سے آمیزش کی جائیگی۔ اصل میں وہ چشمہ بڑے عالی لوگ مقام مقربین کے لئے ہے۔ واللہ اعلم۔
[۲۱]جنّت کا چشمہ سلسبیل:
اس نام کے معنی ہیں پانی صاف بہتا ہوا۔ کذا فی الموضح۔
[۲۲]یعنی ہمیشہ لڑکے رہیں گے یا جنتیوں سے کبھی چھینے نہ جائیں گے۔
[۲۳]بکھرے موتیوں کی طرح خوبصورت لڑکے:
یعنی اپنے حسن و جمال صفائی اور آب و تاب میں اِدھر اُدھر پھرتے ہوئے ایسے خوش منظر معلوم ہونگے گویا بہت سے چمکدار خوبصورت موتی زمین پر بکھیر دیئے گئے۔
[۲۴]جنّت کی عظیم حکومت:
یعنی جنت کا حال کیا کہا جائے، کوئی دیکھے تو معلوم ہو کہ کیسی عظیم الشان نعمت اور کتنی بھاری بادشاہت ہے جو ادنیٰ ترین جنتی کو نصیب ہوگی۔ رزقنا اللّٰہ منھا بمنہ وفضلہ ۔
[۲۵]جنّت کے لباس:
یعنی باریک اور دبیز دونوں قسم کے ریشم کے لباس جنتیوں کو ملیں گے۔
[۲۶]چاندی کے کنگن:
اس سورت میں تین جگہ چاندی کے برتنوں اور زیور وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔ دوسری جگہ سونے کے بیان کئے گئے ہیں۔ ممکن ہے یہ بھی ہوں اور وہ بھی، کسی کو یہ ملیں، کسی کو وہ۔ یا کبھی یہ کبھی وہ۔
[۲۷]پروردگار کی طرف سے شراب طہور:
یعنی سب نعمتوں کے بعد شراب طہور کا ایک جام محبوب حقیقی کی طرف سے ملے گا، جس میں نہ نجاست ہوگی نہ کدورت، نہ سرگرانی، نہ بدبو، اس کے پینے سے دل پاک اور پیٹ صاف ہوں گے، پینے کے بعد بدن سے پسینہ نکلے گا جس کی خوشبو مُشک کی طرح مہکنے والی ہوگی۔
[۲۸]یعنی مزید اعزازواکرام اور تطییب قلوب کے لئے کہا جائے گا کہ یہ تمہارے اعمال کا بدلہ ہے۔ تمہاری کوشش مقبول ہوئی۔ اور محنت ٹھکانے لگی۔ اس کو سن کر جنتی اور زیادہ خوش ہونگے۔
[۲۹]کفّار پر صبر کیجئے:
تاکہ آپ ﷺ کا دل مضبوط رہے اور لوگ بھی آہستہ آہستہ اپنے نیک و بد کو سمجھ لیں۔ اور معلوم کر لیں کہ جنت کن اعمال کی بدولت ملتی ہے۔ اگر اس طرح سمجھانے پر بھی نہ مانیں اور اپنی ضد و عناد ہی پر قائم رہیں تو آپ اپنے پروردگار کے حکم پر برابر جمے رہئے۔ اور آخری فیصلہ کا انتظار کیجئے۔
[۳۰]قریش کے سرداروں کی بات نہ مانئے:
عتبہ اور ولید وغیرہ کفار قریش آپ ﷺ کو دنیوی لالچ دے کر اور چکنی چپڑی باتیں بنا کر چاہتے تھے کہ فرض تبلیغ و دعوت سے باز رکھیں۔ اللہ نے متنبہ فرمادیا۔ کہ آپ ان میں سے کسی کی بات نہ مانیں۔ کیونکہ کسی گنہگار فاسق یا ناشکر کافر کا کہا ماننے سے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ ایسے شریروں اور بدبختوں کی بات پر کان دھرنا نہیں چاہیئے۔
[۳۱]صبح و شام ذکر اللہ کی تاکید:
یعنی ہمہ وقت اس کو یاد رکھو خصوصًا ان دووقتوں میں سب خرخشوں کا علاج یہی ذکر خدا ہے۔
[۳۲]رات کی نماز:
یعنی نماز پڑھ، شاید مغرب و عشاء مراد ہو یا تہجد۔
[۳۳]تہجّد کی نماز:
اگر وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْلَہٗ سے تہجّد مراد لیا جائے تو یہاں تسبیح سے اس کے معنی متبادر مراد لینگے۔ یعنی شب کو تہجد کے علاوہ بہت زیادہ تسبیح وتہلیل میں مشغول رہیئے اور اگر پہلے مغرب و عشاء مراد تھی تو یہاں تسبیح سے تہجد مراد لے سکتے ہیں۔
[۳۴]حُبِّ دنیا کفر کی وجہ ہے:
یعنی یہ لوگ جو آپ ﷺ کی نصیحت و ہدایت قبول نہیں کرتے اس کا سبب حب دنیا ہے۔ دنیا چونکہ جلد ہاتھ آنیوالی چیز ہے اسی کو یہ چاہتے ہیں اور قیامت کے بھاری دن سے غفلت میں ہیں۔ اس کی کچھ فکر نہیں۔ بلکہ اس کے آنے کا یقین بھی نہیں سمجھتے ہیں کہ مرکر جب گل سڑگئے پھر کون دوبارہ ہم کو ایسا ہی بنا کر کھڑا کر دیگا؟ آگے اس کا جواب دیا ہے۔
[۳۵]یعنی اوّل پیدا ہم نے کیا اور سب جوڑبند درست کئے۔ آج ہماری وہ قدرت سلب نہیں ہوگئ۔ ہم جب چاہیں ان کی موجودہ ہستی کو ختم کرکے دوبارہ ایسی ہی ہستی بنا کر کھڑی کر دیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ یہ لوگ نہ مانیں گے تو ہم قادر ہیں کہ جب چاہیں ان کی جگہ دوسرے ایسے ہی آدمی لے آئیں جو ان کی طرح سرکش نہ ہونگے۔
[۳۶]اس نصیحت کو جو چاہے قبول کرے:
یعنی جبر وزور سے منوا دینا آپ کا کام نہیں، قرآن کے ذریعہ نصیحت کر دیجئے۔ آگے ہر ایک کو اختیار ہے جس کا جی چاہے اپنے رب کی خوشنودی تک پہنچنے کا راستہ بنا رکھے۔
[۳۷]تمہارا چاہنا بھی اللہ کے چاہنے سے ہے:
یعنی تمہارا چاہنا بھی اللہ کے چاہے بدون نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بندہ کی مشیت اللہ کی مشیت کے تابع ہے وہ جانتا ہے کہ کس کی استعداد و قابلیت کس قسم کی ہے اسی کے موافق اس کی مشیت کام کرتی ہے۔ پھر وہ جس کو اپنی مشیت سے راہ راست پر لائے، اور جس کو گمراہی میں پڑا چھوڑدے عین صواب وحکمت ہے۔
[۳۸]یعنی جن کی استعداد اچھی ہوگی ان کو نیکی پر چلنے کی توفیق دیگا۔ اور اپنی رحمت و فضل کا مستوجب بنائیگا۔ تم سورۃ الانسان وللہ الحمد والمنہ۔