درس=پڑھنا(فعل)»
القرآن:
کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ "پڑھتے" ہو۔
[سورۃ نمبر 68 القلم،آیت نمبر 37]
القرآن:
حالانکہ ہم نے ان(بت پرست مشرکین) کو پہلے نہ ایسی کتابیں دی تھیں جو یہ "پڑھتے پڑھاتے" ہوں اور نہ (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والا (نبی) بھیجا تھا۔
[سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 44]
تفسیر:
یعنی یہ لوگ اس قرآن کو (معاذ اللہ) من گھڑت کہہ رہے ہیں، حالانکہ من گھڑت تو خود ان کا مذہب ہے، کیونکہ ان کے پاس اس سے پہلے نہ کوئی آسمان کتاب آئی ہے، نہ کوئی پیغمبر، لہذا انہوں نے جو کوئی مذہب بنایا ہے، وہ اپنے دل سے گھڑ کر بنایا ہے۔ نیز ان کو پہلی مرتبہ کتاب اور پیغمبر سے نوازا گیا ہے تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس نعمت کی قدر کرتے، لیکن یہ الٹے اس کے مخالف بن گئے ہیں۔
القرآن:
پھر ان کے بعد ان کی جگہ ایسے جانشین آئے جو کتاب (یعنی تورات) کے وارث بنے، مگر ان کا حال یہ تھا کہ اس ذلیل دنیا کا سازو سامان (رشوت میں) لیتے، اور یہ کہتے کہ : ہماری بخشش ہوجائے گی۔ حالانکہ اگر اسی جیسا سازوسامان دوبارہ ان کے پاس آتا تو وہ اسے بھی (رشوت میں) لے لیتے۔ (86) کیا ان سے کتاب میں مذکور یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کریں ؟ اور اس (کتاب) میں جو کچھ لکھا تھا وہ انہوں نے باقاعدہ "پڑھا" بھی تھا۔ اور آخرت والا گھر ان لوگوں کے لیے کہیں بہتر ہے جو تقوی اختیار کرتے ہیں۔ (اے یہود) کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے؟
[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 169]
تفسیر:
(86) یہ ان کی اس بد عنوانی کا ذکر ہے کہ وہ رشوت لے کر اللہ کی کتاب کی غلط تفسیر کردیتے تھے، اور ساتھ ہی بڑے یقین کے ساتھ یہ بھی کہتے کہ ہمارے اس گناہ کی بخشش ہوجائے گی۔ حالانکہ بخشش تو توبہ سے ہوتی ہے، جس کا لازمی حصہ یہ ہے کہ آئندہ اس گناہ سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن ان کا حال یہ تھا کہ اگر انہیں دوبارہ رشوت کی پیشکش کی جاتی تو وہ دوبارہ لینے کو بےتکلف تیار رہتے تھے۔ اور یہ سب کچھ وہ دنیا کی خاطر کرتے تھے۔ حالانکہ اگر عقل ہوتی تو یہ دیکھتے کہ آخر کی زندگی کہیں بہتر ہے۔
درس بمعنیٰ سیکھنا۔
القرآن:
اسی طرح ہم آیتیں مختلف طریقوں سے بار بار واضح کرتے ہیں (تاکہ تم انہیں لوگوں تک پہنچا دو) اور بالآخر یہ لوگ تو یوں کہیں کہ : تم نے کسی سے "سیکھا" ہے (43) اور جو لوگ علم سے کام لیتے ہیں ان کے لیے ہم حق کو آشکار کردیں۔
[سورۃ نمبر 6 الأنعام،آیت نمبر 105]
تفسیر:
(43) ہٹ دھرم قسم کے کافروں کو بھی یہ کہتے ہوئے شرم آتی تھی کہ یہ کلام خو آنحضرت ﷺ نے گھڑلیا ہے کیونکہ وہ آپ کے اسلوب سے اچھی طرح واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ آپ امی ہیں، اور کسی کتاب سے خود ٖپڑھ کر یہ کلام نہیں بناسکتے، لہذا وہ قرآن کریم کے بارے میں یہ کہا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ کلام کسی سے سیکھا ہے اور اسے اللہ کا کلام قرار دے کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ؛ لیکن کس سے سیکھا ہے وہ بھی نہیں بتاسکتے تھے، کبھی کبھی وہ ایک لوہار کا نام لیتے تھے جس کی تردید سورة نحل میں آنے والی ہے۔
درسِ قرآن کا مقصد ونتیجہ»
القرآن:
یہ کسی بشر کا کام نہیں کہ اللہ تو اسے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کرے، اور وہ اس کے باوجود لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔ (29) اس کے بجائے (وہ تو یہی کہے گا کہ) اللہ والے بن جاؤ، کیونکہ تم جو کتاب پڑھاتے رہے ہو اور جو کچھ "پڑھتے" رہے ہو، اس کا یہی نتیجہ ہونا چاہیے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 79]
تفسیر:
(29) یہ عیسائیوں کی تردید ہورہی ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا یا خدا کا بیٹا مان کر گویا یہ دعویٰ کرتے تھے کہ خود حضرت عیسیٰ ؑ نے ہی ان کو اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ یہی حال ان بعض یہودی فرقوں کا تھا جو حضرت عزیر ؑ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔
۱:- مدرسہ صحنِ ابی بکرؓ
آپ کے گھر کے سامنے ایک چبوترہ تھا، جس پر آپ نماز ادا کرتے اور قرآن پڑھا کرتے تھے۔ مشرکین کے بچے اور عورتیں آپ کے گرد جمع ہو جاتے اور قرآن کو سنتے تھے۔ کفارِ مکہ کو یہ ناگوار گزرا اور حضرت ابوبکرؓ کو اس جگہ کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
[بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، کتاب المناقب، مناقب الانصار،باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وأصحابہ إلی المدینۃ، رقم الحدیث:۳۹۰۵ (ریاض- دارالسلام، ۲۰۰۰ء ) ص: ۳۱۷-۳۱۸]
۲:- مدرسہ دارِ ارقم ؓ
ابتدائے اسلام میں کوہِ صفا کے دامن میں واقع بن ارقمؓ کے مکان میں یہ مدرسہ قائم تھا، جس میں چالیس صحابہ کرامؓ(مرد وعورتیں) تعلیم وتعلم میں مشغول رہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود معلم تھے، حضرت ابوبکر، حضرت حمزہ وحضرت علی رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ اس کے طالب علم تھے، حضرت عمرؓ نے بھی اسی جگہ اسلام قبول کیا۔ یہاں قیام وطعام کا انتظام بھی تھا، یہ جگہ دارالاسلام کے نام سے مشہور ہوگئی تھی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہراوی ہیں کہ: مسلمان ہونے والوں کو ایک ایک دو دو کرکے رسول اللہ ﷺ کسی صاحبِ حیثیت کے پاس بھیج دیتے تھے اور یہ لوگ وہاں رہ کر کھانا کھاتے تھے۔ میرے بہنوئی کے گھر بھی دو آدمی موجود تھے، ایک خبابؓ بن ارت تھے ،جو میرے بہنوئی اور بہن کے پاس جا جا کر قرآن کریم کی تعلیم دیا کرتے تھے۔
[ الحلبی،علی بن إبراہیم بن أحمد،أبو الفرج، المتوفٰی: ۱۰۴۴ھ، السیرۃ الحلبیۃ= إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون (بیروت-دار الکتب العلمیۃ،۱۴۲۷ھ)جلد:۱،ص:۴۶۵]
۳:-مدرسہ أختِ عمرؓ
حضرت عمرؓ کے بہنوئی اور بہن(سعید بن زید اور اُمِ جمیل فاطمہ رضی اللہ عنہما) کے گھر مکتب قائم تھا، جہاں حضرت عمرؓ نے قرآن مجید کی تلاوت سنی اور مخالفت اور مارکٹائی تک نوبت پہنچنے کے بعد یہی واقعہ ان کے ایمان لانے کا باعث بنا۔
[ الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ (بیروت-۱۴۲۷ھ)جلد:۱،ص:۴۶۵]
۴:-مدرسہ مدینہ یا مدرسہ مصعب بن عمیرؓ
ہجرتِ مدینہ سے پہلے آپ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ اور ابن ام مکتومؓ کو مدینہ روانہ فرمایا، جہاں وہ مدینہ والوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔
[بخاری، صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورۃ سبح اسم ربک الاعلی، رقم الحدیث :۴۹۴۱ (ریاض، دارالسلام۲۰۰۰ء ، ص: ۴۲۶)]
۵:- مدرسہ صفہ
مدرسہ صفہ میں پڑھنے والے صحابہ کرامؓ کی کل تعداد ۴۰۰ تک پہنچتی ہے، بیک وقت صفہ کے طلبہ کی تعداد ستر،اَسی تک ہوتی تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ بھی اس مدرسہ کے طالب علم تھے۔
[ زرقانی،أبوعبداللہ محمد بن عبدالباقی المالکی، متوفی:۱۱۲۲ھ، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ بالمنح المحمدیۃ(دارالکتب العلمیۃ۱۹۹۶ء )، ج:۲ ، ص۱۸۶]
عہدِ خلافتِ راشدہ
حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں مکاتب ومدارس کو وسعت دی اور باقاعدہ نظام کے تحت ان کو آگے بڑھایا۔ حضرت ابو الدرداءؓ کو جامع مسجد دمشق میں قرآن پڑھانے کے لیے مقرر کیا، جہاں ایک موقع پر ۱۶۰۰ (سولہ سو) طالب علم ان کے درس میں شریک رہے۔ حضرت عمرؓ نے درسِ حدیث کے حلقے بھی قائم فرمائے۔
یہ سلسلہ قائم رہا اور آنے والے خلفاء اورامراء نے اس کو مزید وسعت دی، ہر بستی میں مدارس ومکاتب قائم تھے۔ امیرلوگ ان مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کے قیام وطعام، اور لباس سمیت تمام ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔
دوسرا دور: قرونِ وسطیٰ
مدارس ومکاتب کی تاریخ میں دو اداروں کو اس حوالے سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ اب تک تعلیمی ادارے کی حیثیت سے قائم ہیں: ایک جامعۃ الزیتون، جو تیسری صدی ہجری میں تیونس کی جامع مسجدمیں قائم ہوا تھا۔ دوسرا جامع ازہر، جو فاطمی سلاطین کے دور میں مصر میں قائم ہوا، ۳۶۱ھ میں اس کی تکمیل ہوئی، اور چوتھی صدی ہجری کے اواخر سے اس کی تعلیمی زندگی کا آغازہوا، اور آج تک قائم ہے۔ تاہم علامہ مقریزیؒ کے مطابق باقاعدہ ادارے کی شکل میں مدرسے کی بنیاد رکھنے والے اہلِ نیشاپور ہیں، جنہوں نے مدرسہ بیہقیہ کی بنیاد ڈالی۔ علامہ مقریزی نے مصر میں قائم ۷۰ سے زائد مدارس کا تعارف کرایا۔
[مقریزی،الخطط(بیروت-۱۴۱۸ھ) ج:۲ ، ص: ۳۶۲]
چند دیگر مدارس بھی ہیں جن میں سلطان محمود غزنوی اور ان کے بیٹے سلطان مسعود کے قائم کردہ مدارس، اورمدرسہ نظامیہ، بغداد‘ دولتِ سلجوقیہ کے علم دوست وزیر نظام الدین طوسی (۴۸۵ھ) کا قائم کردہ مدرسہ شامل ہیں۔ امام غزالیؒ اس نظامیہ سے فیض حاصل کرنے والوں میں سے ہیں اور ان کے استاذ امام الحرمین اس مدرسہ کے صدر مدرس تھے۔ علاوہ ازیں بغداد میں تیس بڑے مدارس تھے۔
مدارس اسلامیہ کی عظیم خدمات
[احسن الفتاویٰ:8/ 238 باب الحظر والاباحۃ]
یہ ہزاروں مدارس معاشرے کو کیا دے رہے ہیں ؟؟
(کارزار/انور غازی)
دینی مدارس اور یونیورسٹیوں میں کئی بڑے فرق ہیں۔ اس موضوع پر گفتگو سے پہلے یہ خبر پڑھیں:
”خیبر پختون خوا کی جامعات کا خسارہ ایک ارب 77 کروڑ سے زائد اور واجبات 6 ارب سے تجاوز کرگئے، جس کے باعث صوبے کی 20 جامعات کی بندش کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ خیبرپختونخوا کی جامعات شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ مالی بحران کے باعث صوبے کی 20 جامعات کی بندش کا خدشہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبے میں 29 نئی یونیورسٹیاں بغیر پلاننگ کے بنائی گئی ہیں۔ طلباء کی کمی کے باوجود سیاسی جماعتوں نے یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھائی۔ صرف سوات میں چار یونیورسٹیاں بنائی گئی ہیں۔ جامعات میں وسائل کی تقسیم پر بھی تنازعات ہیں۔ جبکہ ایچ ای سی کے علاوہ صوبوں کو صوبائی حکومتیں بھی گرانٹس فراہم کرتی ہیں۔ مارچ 2023 سے 12 یونیورسٹیوں میں مستقل وی سی نہیں اور 8 جامعات مستقل وائس چانسلرز نہ ہونے پر پرو وی سیزچلا رہے ہیں۔ رواں سال مزید 8 جامعات کے وی سی کی مدت پوری ہونے والی ہے۔ مالی بحران کے باعث یونیورسٹیز ملازمین کی تنخواہیں بھی رک گئی ہیں۔ وویمن یونیورسٹی صوابی، لکی مروت، خوشحال خان یونیورسٹی کرک اور زرعی یونیورسٹی ڈی آئی خان میں انتظامی امور بند ہوگئے ہیں۔“یہ تو ہے یونیورسٹیوں کا حال جبکہ آج تک کوئی دینی مدرسہ مال نہ ہونے کی وجہ سے بند نہیں ہوا۔
بہت سے لوگوں کا سوال ہے کہ یہ ہزاروں مدارس معاشرے کو کیا دے رہے ہیں؟ کیا یہ مدارس ملک و قوم پر بوجھ نہیں ہیں؟ اس سوال کے جواب سے پہلے یہ جانیں کہ برصغیر پر انگریز کے غلبے سے پہلے دنیا بھر میں کسی جگہ دینی و دنیاوی تعلیم میں تفریق کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سے پہلے دنیا میں جہاں مدارس کا لفظ ملتا ہے اس کا مطلب دینی اور دنیاوی تعلیم کا ادارہ ہوتا ہے۔ 1780ء سے پہلے مسلم دنیا میں ایک ہی نظام تعلیم ہوا کرتا تھا۔ جب انگریز بر صغیر میں آیا تو اس نے رفتہ رفتہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں پر پابندی لگانا شروع کردی۔ 1830ء میں برطانیہ کا بادشاہ ”ولیم چہارم“ تھا۔ برصغیر اس کے نو آبادیات میں سے تھا۔ برطانیہ ہزار جتن کے باوجود اس علاقے پر اپنا پنجہ مضبوط نہیں کرپارہا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ”وائسرائے ہند“ کے ذریعے ”لارڈ میکالے“سے پوچھا ہم کس طرح اس علاقے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکتے ہیں؟ اس نے لکھا: ”میں تجویز دیتا ہوں برٹش گورنمنٹ فوری طورپر مسلمانوں کا ایجوکیشن سسٹم تبدیل کرے۔ اس سے کچھ عرصے میں خود بخود ان کا کلچر بدل جائے گا۔ مسلمانوں کی اپنے مذہب سے گہری وابستگی ختم کرنے کیلئے ضروری ہے جدید کلچر کو فروغ دیا جائے۔ غیر محسوس طریقے سے ایسے اقدامات کیے جائیں تاکہ مسلمان یہ سمجھنے لگیں کہ ان کا مذہب، کلچر اور ثقافت پسماندہ ہے۔وہ انگریزی طرزِ معاشرت پر فخر کرنے لگیں۔ اپنی ثقافت، معاشرت کو گھٹیا تصور کرنے لگیں۔“
اس کا منصوبہ برطانوی حکومت کو پسند آیا اور اس نے یہ بھاری ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر ڈال دی۔ یہ شخص جلد ہی ہندوستان کے لئے نصابِ تعلیم بنانے میں مصروف ہوگیا۔ مسلمانوں کے تہذیب وتمدن کو بدلنے والے برطانیہ کے اس قانونی مشیر نے کہا ”میں ہندوستان کے لئے ایسا نظامِ تعلیم بنارہا ہوں جس کو پڑھنے کے بعد مسلمان بچے اگر عیسائی اور یہودی نہ بنے تو مسلمان بھی نہیں رہیں گے۔“اس پس منظر میں مسلمانوں کے ایمان اور دینی تعلیم کی سلامتی کیلئے اس وقت کے علماءوصلحا نے مل کر ”دارالعلوم دیوبند“ کی بنیاد رکھی اور اپنے مشن، منشور اور مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ اسی طرح اس وقت کے عصری علوم میں مہارت رکھنے والے سرسید احمد اور ان کے ساتھیوں نے ”علی گڑھ“ کی بنیاد رکھی تاکہ مسلمان نوجوان انگریزی تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوسکیں۔یوں یہاں سے دو تعلیمی نظام اور سلسلے چل نکلے۔ دینی تعلیم اور عصری علوم کے دو متوازی نظام وجود میں آئے۔ مدارس میں دینی علوم حاصل کرنیوالے ”ملا“ کہلائے تو اسکول کالج میں عصری فنون پڑھنے والا ”مسٹر“ ہوگیا۔
لارڈ میکالے کے نصاب ونظام تعلیم وضع کرنے سے قبل پورے برصغیر بلکہ پوری اسلامی دنیا میں دینی وعصری تعلیم کا کوئی فرق نہیں تھا۔ یہ دونوں متوازی نظام چلتے رہے۔دونوں ہی اپنے مقاصد میں کامیاب رہے۔ دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ کا نظام تعلیم ایک دوسرے سے جدا ضرور ہوا، مگر دونوں کے درمیان کسی قسم کی مخاصمت نہ تھی، اسی لئے سر سید احمد خان نے جب درخواست کی کہ علی گڑھ میں دینی علوم پڑھانے کے لئے قابل استاد کی ضرورت ہے تو مولانا قاسم نانوتوی نے اپنے داماد مولانا عبد اللہ کو وہاں تعلیم دینے کے لئے بھیجا۔یہ ایک عبوری دور تھا۔ یہاں پر تو درست تھا کہ ہر ممکن طریقے سے اپنا تحفظ کیا جائے لیکن جب پاکستان کا قیام وجود میں آگیا تو اس وقت ضروری تھاکہ مدرسے اور اسکول کی تفریق کو مٹاکر دینی وعصری علوم کے امتزاج پر مشتمل ایک یکساں نصاب تعلیم مرتب کیا جاتا جو ایک مسلمان معاشرے کی دینی ضروریات اورجدیدعصری تقاضوں کو یکساں طورپر پر پورا کرتا۔مولانا شبیر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع اور دیگر کئی حضرات نے اس موقع پر متعدد بار ارباب اختیار کی توجہ اس طرف دلائی۔ انہوں نے صراحت کے ساتھ بتایا کہ پاکستان میں نہ صرف دیوبند کا نصاب تعلیم رائج کیا جاسکتا ہے نہ ہی علی گڑھ کا، البتہ دونوں نصابوں کو ملاکر ایک ایسا نظام ونصاب تعلیم بنایا جاسکتا ہے جس میں مسلمان بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کا بھی سامان ہو اور ساتھ ساتھ عصری ضروریات اور تقاضوں کا بھی پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہو مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور آزادی کے بعدوہ ہی نظامِ تعلیم بعینہ باقی رکھا گیا۔
علماء کو مجبوراً دینی مدارس کا وہ نظام برقرار رکھنا پڑا جو انگریزی اقتدار کے دوران اسلامی شعائر کے تحفظ کے ارادے سے بنایا گیا تھا۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے 78 سال میں دینی تعلیم کی کار کردگی کیسی رہی؟ اور عصری تعلیم نے کیا اور کیسے نتائج حاصل کیے؟ آپ دنیاکے کسی خطے میں چلے جائیں پاکستانی دینی اداروں کے فاضل علماءہر جگہ نمایاں نظر آئیں گے۔دنیا بھر کی مفتیان کرام کی عالمی تنظیم ”مجمع الفقہ الاسلامی“ کو دیکھیں، اس کے نائب صدر مفتی تقی عثمانی ہیں۔ دنیا بھر میں اسلامی مالیاتی اداروں کے شرعی معیارات بنانے والے ادارے ”AAOIF“ کو دیکھیںعلماءہی اس کے سربراہ ہیں۔ شاہ فیصل ایوارڈ دیا جاتا ہے تو مولانا بوالحسن علی ندوی کو،اسلامی ترقیاتی بینک اعزاز سے نوازتا ہے تو مدرسے کے فاضل کانام آتا ہے۔ جہاں تک دینی مدارس میں عصری علوم پڑھانے کی بات ہے تو عرض ہے مدارس کے نصاب میں بقدر ضرورت عصری تعلیم تو ہمیشہ سے رہی۔ علم جغرافیہ، فلکیات، حساب تو ہر زمانے میں اس نصاب کا حصہ رہے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ عصری تعلیمی اداروں نے کتنے علمائ،مفتی اور فقیہ پیدا کیے ہیں؟ کالج یونیورسٹیوں کے کونسے فضلاءکی کھیپ ہیں جو عالمی سطح پر خدماتِ جلیلہ سر انجام دے رہی ہے؟؟یہ کہاں کا انصاف ہے کہ دینی مدارس سے ڈاکٹرز،انجینئر،وکیل، ماہرِ معاشیات، کمپیوٹرانجینئر، حساب داں اور سائنس داں پیدا نہ کرنے کا گلہ کیا جائے؟ کیا دینی مدارس اس کام کے ذمہ دار ٹھہرائے جاسکتے ہیں؟ اور ان سے یہ شکوہ کیا جاسکتا ہے؟ جو دانشور دینی مدارس اور ان کا نظام و نصاب یکسر تبدیل کرنے کی باتیں کرتے ہیں، ان کی خدمت میں مفکر پاکستان علامہ اقبال ؒ کے یہ کہنا کا فی ہونا چاہئے کہ ان مدرسوں کو اسی حال پر رہنے دو۔ غریب مسلمانوں کے بچوں کو اِنہیں مدارس میں پڑھنے دو۔ اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا، میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ مدرسوں کے اَثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح اندلس میں کی گئی آٹھ سو سالہ اسلامی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراءکے نشانات کے سوا اسلام کے پیروکاروں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔اب آپ از خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں یہ مدارس معاشرے کو کیا کچھ دے رہے ہیں اور ملک و قوم پر بوجھ کون ہے؟؟
نوٹ: اس موضوع پر ہم مزید بھی لکھیں گے ان شاءاللہ!
مدارسِ اسلامیہ کا تعاون ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ
دینی مدارس کے خلاف معرکہ آرائی کیوں؟
بصورتِ بشر سب درندے ہی ہوتے، کسی بھی بھی جگہ اچھے انسان نہ ہوتے۔
اگر یہ مدارس نہ رہے تو!
دینی مدارس کے بارے میں مفکرین کے افکار
قدرت اللہ شھاب کے جذبات:
لو سے جھلسی ہوئی گرم دو پہروں میں پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتاہے ؟ دن ہو یا رات ، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملا کے دم سے آباد تھیں، جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑھا تھا، ایک در بدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کی بیٹھ رہاتھا. اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی، اپنوں کی بے اعتنائی، بے گانوں کی مخاصمت ، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع و قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا، اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی شمع، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی، یہ ملا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہے، برصغیر کے مسلمان ملا کے اس احسان عظیم سے کس طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔صحافی محمد طاہر کی منصفانہ رائے:
دینی مدارس نے ہنگاموں ، بحرانوں اور روشنی سے محروم دنوں میں بھی اپنے وجود کے ذریعے اس امت کی نمود کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ان دینی مدارس کے معیار اور کارکردگی کا موازنہ اگر سرکاری سر پرستی میں چلنے والی پاکستانی جامعات کی شعبہ عربی، و شعبہٗ اسلامیات سے کیا جائے تو حقیقت حال خود روشن ہو جاتی ہے، گزشتہ پچاس سالوں میں پاکستان کی جامعات سے وابستہ عربی و اسلامیات کے پروفیسر صاحبان کی کل تصانف کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہیں ہے. ان میں ستر فی صد سے زیادہ تصانیف اردو میں ہیں اور علمی طور پر ان کی وقعت نہیں ہے. اس کے برعکس دینی مدارس جو بغیر کسی سرکاری سر پرستی و امداد کے چل رہے ہیں ان سے وابستہ بوریا نشین علماء نے پچاس سال کے عرصے میں پچاس ہزار سے زیادہ کتابیں ، عربی، فارسی ، انگریزی اور اردو میں تحریر کی ہیں یہ علماء جو نہایت سادہ زندگی بسر کرتے رہے اور جن کی ضروریات زندگی بھی بمشکل پوری ہوتی تھیں ان کا علمی کام سرکاری جامعات میں دنیا کی تمام سہولتیں سمیٹ لینے والے اساتذہ سے ہزاروں گنا بہت رہا .
[دینی مدارس کے لئے چند ناگزیر تقاضے: ص25، مولانا زاہد الر اشدی]
ڈاکٹر جمیل واسطی کی نگاہ میں:
موجودہ زمانے میں مولویوں کے مقدس طبقہ کے متعلق بہت بے قابو ہذیان سرائی کی گئی ہے. داڑھا ، تنبا، ملنٹا، جمعراتیہ، حلوہ مانڈہ خور، گنبد نما پگڑ پوش کے الفاظ استعمال کیے بغیر ان کا تذکرہ مشکل ہو گیا. مولوی قوم کو گمراہ کرتے ہیں. ترقی کے دشمن ہیں، قومی تنزل کا باعث ہیں وغیرہ..... ہمیں احسان مندی سے یاد رکھنا چاہئے کہ جب ہم نے غلط تشریح کے تحت یورپ سے عناصر قوت کی بجائے عناصر تہذیب و تمدن کو اختیار کرنا شروع کیا تو مولویوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور ہم نے ان کے اسی جرم کی وجہ سے اپنی غلطی کو نہ پہچانتے ہوئے مولویوں کو ترقی کا دشمن گردانا، جب کبھی غلط تشریح کے تحت اسلامی روایات میں رخنہ اندازی ہوئی، ان مولویوں نے صدائے احتجاج بلند کی. یہ صرف ان مولویوں کے احتجاج کی بدولت ہے کہ مغربی تعلیم جو شروع میں مغربی مذہب کی تبلیغ سے متعلق بھی آج ہمارے لئے نا صرف قوت کے حصول کا ذریعہ ہے. مقابلہ کیلئے یہ امر نظر انداز نہ کر دینا چاہئے کہ ہندوستان میں ہندو قوم نے بہت سے فائدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع میں مغربی تعلیم کو بلا احتجاج قبول کیا. مگر اس عمل میں ہندو قوم نے آخری تین چوتھائی صدی میں تقریباََ ایک کروڑ ہندو نذر کر دئے. جو آج ہندوستانی عیسائی ہیں اور جاہل مولوی نے قوم کو اس سانحے سے بچا لیا۔ صرف مولویوں کے تقدس کی روایات نے قوم کو انتشار سے بچائے رکھا. کروڑوں گنوار مسلمان صرف بچے کی پیدائش کے وقت مسجد میں جاتے تھے اور مسجد کے ملا سے بچے کا نام تجویز کر ا لیتے تھے اور غالباََ اس اسلامی نام کے سوا ان کے پاس اسلام کا اور کوئی نشان نہ ہوتاتھا. آج ہم ان ناموں کی بدولت اس قوم کو مسلمان کہتے ہیں. اور خدا کی مہربانی سے اس قوم کو مسلمان رکھنے والے مولوی کو حقیر سمجھتے ہیں. یہ سلوک ہے جو قوم ان لاکھوں مولویوں سے کرتی رہی. جنہوں نے غربت اور کسمپرسی کی حالت کے باوجود ہماری نسلوں کو مسلمان رکھا اور جن کے بغیر علاقوں کے علاقے دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہوتے.
[ڈاکٹر جمیل واسطی ، اسلامی روایات کا تحفط، قرتاس پبلشر ، ص 121]
مدارس اسلامیہ اور ان کی تجدید کاری
ہماری دینی درس گاہوں کا اصل موضوع قرآن وسنت اورفقہ اسلامی ہے انہیں کی تعلیم وتعلّم افہام و تفہیم، تعمیل اتباع اور دعوت و تبلیغ مدارس عربیہ دینیہ کا مقصود اصلی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ دینی تعلیمی و تربیتی ادارے علوم شریعت اسلامی کے نقیب اور خاتم الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم کے فرائض سہ گانہ: تلاوت قرآن، تعلیم کتاب اور تفہیم حکمت وسنت کے وارث ہیں۔
ماضی قریب میں ان تعلیمی مراکز نے اس عظیم امانت کی حفاظت اور اس قابل صد فخر امانت کو اخلاف تک منتقل کرنے میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ ہماری علمی و ثقافتی تاریخ کا ایک زرّیں باب ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف کئے بغیر کوئی منصف مزاج نہیں رہ سکتا۔ آج کے انتشار پذیر اور مادیت کے فروغ کے دور میں بھی یہ اسلامی مدارس اپنے وسائل و ذرائع کے مطابق مصروف عمل ہیں اور ملت اسلامیہ کی اولین واہم ترین ضرورت کی کفالت کررہے ہیں۔ بھلا اس سچائی کا کیسے انکار کیاجاسکتا ہے کہ کفر وفسق کے گھٹاٹوپ اندھیرے اور مذہب بیزاری کے موجود ماحول میں اسلامی تہذیب و معاشرت اور دینی رسوم و عبادات کے جو روشن آثار نظر آرہے ہیں وہ واسطہ و بالواسطہ انہیں درسگاہوں کے جہدوعمل کا ثمرہ ہیں۔
مدارس دینیہ کا یہی وہ کردار ہے جو اسلام بیزار طبقہ کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے، کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ان مدرسوں کی آزادانہ کارکردگی کا یہ سلسلہ جب تک جاری رہے گا اسلام اور مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال دینے کا ان کا دیرینہ خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے آج یورپ و امریکہ کی زیرسرپرستی عالمی پیمانہ پر اسلامی درسگاہوں کے نظام تعلیم وتربیت میں ترمیم وتنسیخ کے لئے منصوبہ بند مہم چل رہی ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ سقوط روس کے بعد ہمارے ملک کی قومی حکومتوں کا جھکاؤ امریکہ کی جانب ہے اور چاروناچار اظہار وفاداری کے لئے انہیں کی آواز میں آواز ملانا ہی پڑتا ہے۔ یہ مدرسہ بورڈ کا قیام بھی غالب گمان یہی ہے کہ اسی اظہار وفاداری کا ایک حصہ ہے۔ اور مدارس کو اس بورڈ سے وابستہ کرکے دراصل انہیں بے جان بنادینے کی ایک شاطرانہ ترکیب ہے۔
آخر اس کی کیا توجیہ کی جائے کہ خود حکومت کے بیان کردہ اعداد و شمار کے مطابق مدارس عربیہ دینیہ میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد صرف دو فیصد۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلم بچوں کی اٹھانوے فیصد تعداد اسلامی مدارس سے دور سرکاری اسکولوں کالجوں وغیرہ میں زیر تعلیم ہوگی یا ان میں کی ایک معقول تعداد اپنے والدین کی خانگی مجبوری کی بنا پر بچہ مزدوری کی صف میں شامل ہوگئی ہوگی مسلمانوں کی اقتصادی و تعلیمی کمزوری کے بارے میں سچرکمیٹی نے جو رپورٹ دی ہے اس کے پیش نظر قرین قیاس یہی ہے کہ اس اٹھانوے فیصد کی تعداد میں اکثریت تعلیمی مشغلہ سے الگ ہی ہوگی۔ پھر جو بچے سرکاری اسکولوں اور کالجوں وغیرہ میں پڑھتے ہیں ان میں خود سرکاری بیان کے مطابق تقریباً ساڑھے پانچ فیصد درمیان ہی میں تعلیمی سلسلہ کو منقطع کرکے گھر بیٹھ رہتے ہیں اس لئے عقل و انصاف اور ہمدردی و غمخواری کا تقاضا یہی ہے کہ پہلے اٹھانوے فی صد مسلم بچوں کے روشن مستقبل کی فکر کی جائے اور ان کے معاش و مفاد کی خوشحالی کی تدبیریں سوچی جائیں۔ لیکن ہماری قومی وزارت تعلیم کو ان مسلم بچوں کی کوئی فکر نہیں اور فکر ہے تو صرف ان دو فیصد بچوں کی جو دینی و مذہبی مدرسوں میں تعلیم و تربیت حاصل کررہے ہیں ہماری وزارت تعلیم اور اس کے غمخوار وزیر انہیں کے فکر معاش میں دبلے ہورہے ہیں۔ وزارت تعلیم کا یہ رویہ بجا طور پر یہ شبہ پیدا کررہا ہے کہ ان دو فیصد بچوں کے بہانے وہ مدرسہ بورڈ بالواسطہ سے ملک کی دوسری اکثیرت قوم مسلم سے ان کے دستوری حق کو چھیننا چاہتی ہے اسے یہ گوارا نہیں ہے کہ مسلمان اپنے دستوری حق کے مطابق اپنی مرضی کے مطابق اپنے مذہبی ادارے چلائیں۔ انہیں سرکار کے قانونی شکنجے میں کسنے کے لئے ہی یہ مدرسہ بورڈ قائم کیاگیا ہے۔
کیونکہ اس سرکاری مدرسہ بورڈ سے ملحق ومنسلک ہوجانے کے بعد ان مدارس کی خود مختار حیثیت اورآزادی مجروح ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی اور اس قسم کی مداخلت سے آگے چل کر مدارس کے اصل دینی مقاصد روحانی و اخلاقی تربیت، تعلیمی روح اور صدیوں سے آزمودہ طریقہٴ کار کو درہم برہم کرکے رکھ دے گا۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد اور دائرة المعارف حیدر آباد کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان اداروں کا سرکاری تحویل میں آجانے کے بعد کیاحشر ہوا وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سرکاری اداروں میں آئے دن تجاویز و ترمیمات کا سلسلہ جاری رہتا ہے ان بدلتے ہوئے اضافوں و قرار دادوں کے ساتھ مدارس عربیہ سکون و اطمینان کے ساتھ فروغ اشاعت دین و تحفظ قرآن و سنت اور ترویج علوم دینیہ کی اپنی خدمات کو کیونکر باقی رکھ سکتے ہیں۔ نیز آئے دن بدلتی ہوئی حکومتوں، اور ان کے اہل کاروں کے بدلتے ہوئے رجحانات ونظریات کے ساتھ مدارس عربیہ اپنی خودمختاری کو (جو ان کا دستوری حق ہے) بھلا کیسے باقی رہ سکیں گے۔
پھر دینی مدارس کی اصلاح کا یہ منصوبہ کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے، فرقہ پرست پارٹیاں اور تنظیمیں نیز لادین طبقہ دینی مدارس کی آزادانہ کارکردگی کو ہمیشہ سے تشویش کی نگاہوں سے دیکھتا اور ان کے حق خوداختیاری کو چھین لینے کی تدبیر سوچتا اور اسکیمیں بناتا رہا ہے۔ کون اس سے ناواقف ہوگا کہ فرقہ پرست طاقتیں ایک عرصہ سے مدارس اسلامیہ کے سریہ الزام تھوپنے کی ناروا کوشش میں لگی ہوئی ہیں کہ یہ مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں یہاں دہشت گرد تیار کئے جاتے ہیں حالانکہ آج تک وہ اپنے اس غیرمعقول دعویٰ پر ثبوت پیش نہیں کرسکیں اور نہ قیامت کی صبح تک پیش کرسکتی ہیں۔ ان کے اس بیہودہ پروپیگنڈہ کا مقصد یہی ہے کہ وہ کسی طرح ان مدارس کو قومی مجرم بتلاکر انہیں بند کرانے میں کامیاب ہوجائیں۔ یہ مدرسہ بورڈ بھی مدارس کو بے روح بنادینے کی ایک خوشنما اور دلفریب ترکیب ہے، یہ دام خوش رنگ بھی دراصل اسی اصلاح مدارس کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے جسے ایک سیکولر حکومت اوراس کے سیکولر وزیر کے ذریعہ بچھایا گیا ہے۔ آج جو لوگ اس مدرسہ بورڈ کی وکالت و حمایت کررہے ہیں اگر ان کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ موجودہ وزارت تعلیم دینی مدارس کے علماء و طلبہ کی خیرخواہ ہے اور انہیں کی فلاح و بہبود کے لئے یہ بورڈ قائم کررہی ہے اس بات کو تسلیم کرلینے کے باوجود بھی ملت اسلامیہ کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اگر اس بہانے ایک بار مدارس سرکاری تحویل میں دیدئے گئے تو ان کی حیثیت کسی نہ کسی حد تک سرکاری اداروں کی ہوجائے گی۔ آج اگر ایک سیکولر اور مسلم اقلیتوں کے حقوق کی رعایت کرنے والی سرکار ہے تو کل فرقہ پرست اورمسلم بیزار سرکار بھی آسکتی ہے پھراس وقت سرکاری قانون کے شکنجے میں کسے ان مدارس کا حشر کیا ہوگا وہ دن کے اجالے کی طرح روشن ہے اگر ہمارے ان علماء کرام کو جو مدرسہ بورڈ کی حمایت اوراس کی سودمندی پرلچھے دار تقریریں کررہے ہیں اور اخباروں میں بیانات، مراسلات چھپوارہے ہیں مدارس کی یہ حیثیت گوارا ہے تو بڑے شوق سے مدرسہ بورڈ سے ملحق ہوجائیں اور سرکاری مراعات سے فیض یاب ہوں، مگر اس بات کو بھی ذہن میں ملحوظ رکھیں کہ کل کا حقیقت پسند موٴرخ ان مدرسوں کی تباہی کی تاریخ مرتب کرے گا تو میرجعفر وصادق کی صف میں انہیں کھڑا کرے گا۔
ہماری ان علماء کرام سے گذارش ہے کہ سرکاری تعلیم گاہوں میں جو نصاب تعلیم رائج ہے اس سے ایک جہاں کا جہاں استفادہ کررہا ہے اور ہزاروں میں ایک آدھ فرد اپنی آخرت و عاقبت سنوارنا چاہتا ہے، اگر مدرسہ بورڈ کے اشارہ کے مطابق وہی سرکاری نصاب کلی یا جزوی طورپر دینی مدارس میں بھی جاری کردیا جائے تواس کا معنی یہ ہوگا کہ ہزاروں میں سے ایک فرد کو جو دین سیکھنے کے لئے دینی مدارس کو قبلہٴ توجہ بناتا تھا اس کے لئے کوئی پناہ گاہ باقی نہیں رہے گی اس لئے دینی مدارس کو جدید تعلیم گاہوں کے سانچے میں ڈھالنے کی بجائے یہی بہتر ہے کہ ان مدارس کو ان کے حال پر رہنے دیا جائے اور جو لوگ سرکاری مراعات کے خواہشمند ہوں وہ دینی مدارس کے بجائے عصری تعلیم گاہوں سے استفادہ کریں۔ دینی مدارس کو جدید تعلیم گاہوں میں کلی یا جزوی طور پر تبدیل کرکے ان کی اصلی حیثیت کو بدل دینا یہ ایسا جرم ہوگا جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
آخر میں ہم موجودہ حکومت اور وزارت تعلیم اور اس کے سیکولر وزیر سے بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مسلم بچوں کے سلسلے میں ان کی خیرخواہی و اخلاص سرآنکھوں پر لیکن دینی مدارس کے بارے میں یہ سرکاری مدرسہ بورڈ خود حکومت کے لئے بہت سی پریشانیوں کا باعث ہوگا۔ اور ملت اسلامیہ ہند کی اکثریت ان سے منحرف ہوجائے گی جس کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں اس لئے وسعت قلبی سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کے حق مذہبی تعلیم پر کسی قسم کی قدغن لگانے سے احتراز کیا جائے اور چند خوشامدیوں اور اغراض پسندوں کی چکنی چپڑی باتوں میںآ کر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو ملک کی دوسری اکثریت کے اندر بے چینی و اضطراب کا باعث بنے۔ کیونکہ اس سے خود حکومت اور ملک کا ہی نقصان ہوگا۔
$ $ $
______________________________
تاریخ میں دینی مدارس کی ابتداء اور ارتقاء
یہ ہوتا آیا ہے، مخلصین اور دین ملت کے لیے تڑپنے اور بے کل رہنے والوں او راس کی فکر میں جلنے، پگھلنے اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر بارگاہ خداوندی میں آہ وزاری کرنے والوں کی تعداد کم ہی رہی ہے ۔ انہی سے نورِ نبوت کی کرنیں پھوٹتی اور پھیلتی رہی ہیں اور دنیا میں پھیلے ہوئے ابلیسی نظام نے انہی مردان خدا کو اصل خطرہ جانا ہے، جو شکست کو فتح سے بدلنے ، ہاری ہوئی بازی کو جیتنے اور ڈوبتی ہوئی کشتی کو تیرانے کی اہلیت او رہمت رکھتے ہیں، اقبال مرحوم نے اپنی نظم ”ابلیس کی مجلس شوریٰ“ میں ا بلیس کی زبان سے اس حقیقت کو اس طرح ادا کیاہے:
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو ابلیس اپنے خیالات اور خدشات کا اظہا رکرتے ہوتے مزید کہتا ہے : ” میں جانتا ہوں کہ یہ امت قرآنی پروگرام کی حامل او راس پر عامل نہیں، مال کی محبت، ذخیرہ اندوزی او رنفع رسانی کے بجائے نفع طلبی اور سرمایہ داری اس کا بھی مذہب بنتی چلی جارہی ہے، لیکن زمانے کے انقلابات اور مقتضیات سے مجھے خطرہ ہے کہ وہ کہیں اس امت کی بیداری کا سامان نہ بن جائیں۔“ (نقوش اقبال) غور کیا جائے تو صاف محسوس ہو گا کہ دین اسلام کے خلاف اٹھائے جانے والے ہر فتنہ کے بعد مسلم عوام میں بیداری پیدا ہوتی ہے اور غیروں میں اسلامی تعلیمات پرغور وفکر او رمعلومات وتجسس کا جذبہ کام کرنے لگتا ہے اور وہ اسلامیات کا مطالعہ کرنے لگتے ہیں اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں ، جس کے نتیجے میں بہت سے خوش نصیب اسلام کی آغوش میں آجاتے ہیں اور یہ بات قریباً دنیا کے تمام ملکوں میں پائی جارہی ہے، جس کو میڈیا نمایاں نہیں کرتا ہے، اس کو صرف کسی مسلمان کی معمولی، بلکہ فرضی غلطی کو نمایاں کرکے پیش کرنے سے دلچسپی رہتی ہے، کیا یہ حقیقت جھٹلائی جاسکتی ہے کہ وہی اندلس جہاں اقبال مرحوم نے بڑے درد سے کہا تھا: ” آہ! کہ صدیوں سے ہے تیری زمیں بے اذاں“ اب اسی اندلس میں اذان بھی ہونے لگی ہے ۔ وہاں پہنچنے والے مسلمان جمعہ او رجماعت کا بھی نظام قائم کرنے لگے ہیں، امریکا جہاں سے سب سے زیادہ اسلام او رمسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں ، اس کے نتیجے میں اسلام کے بارے میں معلومات کے جذبات ابھرتے ہیں، پھر اس کا مطالعہ او رحقیقت تک پہنچنے کے بعد بہت سے خوش نصیب ایمان لاتے ہیں۔ اس میں ہمارے ان مدارس ومکاتب کا بڑا دخل ہے جن پر تنقید ہوتی رہتی ہے، ان مدارس کو چلانے والے مخلصین اور بہی خواہان دین وملت تنکے تنکے جمع کرکے اس ماحول میں جہاں تعلیم مہنگی سے مہنگی ہوتی جارہی ہے، طلبا کے لیے نہ صرف یہ کہ مفت تعلیم کا انتظام کرتے ہیں ، بلکہ نادار طلبا کے کھانے کا بھی انتظام کرتے ہیں اور خاص حالات میں ان کی دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھتیہیں، کتابیں تک مفت مہیا کی جاتی ہیں ، پھر انہی طلبا میں سے اچھی خاص تعداد ایسی نکلتی ہے، جو دعوت واصلاح کے کام میں لگ جاتے ہیں ،ایک معتدبہ تعداد مدارس میں تعلیم وتربیت کا کام انجام دیتی ہے ، ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جو اپنے علاقہ کی بنجر زمین میں عقیدہٴ توحید اور دین وایمان کابیج بوتے ہیں ، ایسے بھی ہوتے ہیں، جو دوسرے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پہنچ کر اسلامی شناحت کو باقی رکھنے میں بڑا کر دار ادا کرتے ہیں، اگر ان کی ظاہری وضع قطع میں اہل دین کی نظروں میں کچھ کمی محسو س ہوتی ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دلوں میں دینی جذبات واحساسات موج زن رہتے ہیں، ان میں وہ جواں مرد بھی ہوتے ہیں جو دوسرے ملکوں میں دین وایمان کی قندیل روشن کرتے ہیں، اسلام کا تعارف کراتے ہیں۔ کم سے کم درجہ ہوتا ہے کہ مدار س میں آنے والے کا ایمان وعقیدہ محفوظ ہو جاتا ہے جو عمر کے کسی دور میں شعلہ جوالہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے ، ایسا بہت کم ہوتا ہے، بلکہ شاذ ونادر یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ کوئی جدید افکار ونظریات کا شکار ہو کر الحادو دہریت کی راہ اپنالے۔ جدید تعلیم یافتہ حضرات میں جو صاحبان اپنے خیالات ومشوروں سے اہل مدارس کو نوازنے کی فکر پیش کرتے ہیں ، یا یہ کہوں کہ نوجوانانِ ملت کے بارے میں اپنی فکر وہم دردی کا اظہار کرتے ہیں، ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں، اس لیے کہ یہ انسانی فطرت ہے، وہ جس ماحول میں رہتا ہے، اسی دائرہ میں اس کا علم وفکر بھی اپنا کام کرتا ہے اور اسی کا اظہار کرتا ہے ۔ مدارس کی افادیت واہمیت کو وہی بند گانِ خدا زیادہ جانتے اورسمجھتے ہیں جو اپنے خونِ جگر سے پوری انسانیت کو زندگی کا صحیح رُخ دینا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں جوانصاف پسند اہل علم حضرات اسلام کی تاریخ اصلاح و دعوت اور تجدید دین کی جانفشانیوں کا مطالعہ کریں گے، ان کو صاف معلوم ہو گا کہ روئے زمین پر اس وقت انسانیت کا جو بچا کھچا سرمایہ نظر آرہا ہے، وہ انہیں حضرات کا کارنامہ ہے، ورنہ تاریخ اسلام میں جو انقلابات آئے ہیں، وہ اس کی رہی سہی طاقت ختم کر دیتے اور اسلام بھی دیگر مذاہب کی طرح تحریف وغلو کا شکار ہو چکا ہوتا ہے، ہم زیادہ تفصیل میں نہ جاکر صرف اتنی ہی عرض کریں گے کہ دورِ اکبری میں اگر حضرت مجدد الف ثانی کی شخصیت نے اپنا حکیمانہ رول ادا نہ کیا ہوتا تو آج یہاں اسلام کا کیا حال ہوتا؟ پھر اس سرمایہ کی حفاظت خانوادہ وسلسلہ ولی اللہی نے جس طرح کی، اس سے کون انصاف پسند صاحب علم انکار کر سکتا ہے؟ اور یہی سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ایک اور پہلو سے غور فرمایا جائے کہ اسلام صرف مسجد اورادذکار تک محدود نہیں ہے، اس لیے زندگی کے دوسرے شعبوں میں، پیدائش سے لے کر موت کے مسائل میں، راہ نمائی کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ حقوق الله کے ساتھ حقوق العباد، خرید وفروخت، گھریلو مسائل ، اولاد کی تعلیم وتربیت ، ملنے جلنے اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرنے، نمازیوں کی امامت اور ان کو روزہ مرہ کے مسائل سے کون واقف کراتا ہے؟ اگر یہ نہ ہوتو کیا قومی نام کے علاوہ مسلمانوں میں کوئی اسلامی بات پائی جاسکتی ہے؟ جو اصل مقصد زندگی ہے۔ انہی حقائق کے پیش نظر علامہ اقبال اپنے اشعار میں اہل مدارس وموجودہ دانش وروں کی طرح مشورہ دینے او ران میں مزید زندگی پیدا کرنے ، زور دینے کے باوجود ایک مرحلہ میں یہ کہنے پر مجبورہو ئے کہ ” ان مدارس کو کچھ نہ کہو، اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو ہندوستان اندلس بن چکا ہوتا۔“ خوش نصیب ہیں وہ حضرات جو ان دینی مدارس ومکاتب کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ،ہم اگر دینی زبان وپیمانہ کی روشنی میں ان حضرات کے اس انفاق فی سبیل الله کے اخرو ی اجر وثواب کے ذخیرہ کا حساب لگانا چاہیں تو بڑے سے بڑا ریاضی داں اس کا حساب نہیں لگا سکتا ہے، جس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے :﴿ مثل ما ینفقون فی سبیل الله کمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مئة حبة والله یضاعف لمن یشاء﴾․ ”جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ( ان کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے، جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں، خدا جس کے مال کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے ۔“ اہل مدارس جدید علوم وفنون اور زندگی کے جائز ودرست اسباب ووسائل کے اپنانے کی نفی نہیں کرتے کہ خود دین اسلام اس کی تعلیم دیتا ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ مدارس اور علماء کا منصب یہی ہے کہ وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں رہنے والے مسلمانوں کی صحیح راہ نمائی کریں کہ وہ جاہ ومنصب اور کاروبار کے اندر مال کی فراوانی میں پڑ کر خدا فراموشی کا شکار ہو کر ابدی زندگی سے غافل نہ ہو جائیں، جس کا انجام نہایت بھیانک ہے، یہ بہت فکر کی بات ہے کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات کا ایک بڑا طبقہ اپنی ساری صلاحیتوں، علوم وافکار اور حصولِ زر کی فکر میں اتنا ڈوب جاتا ہے کہ روح وقلب کی طرف متوجہ نہیں ہو پاتا، جو حاصل زندگی ہے ۔ جگر مرحوم کی زبان # نہیں جاتی کہاں تک فکر انسانی نہیں جاتی مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی |
اسلامی مدارس حفاظتِ دین کے قلعے اور علوم اسلامیہ کے سرچشمے ہیں ۔ان کا بنیادی مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو ایک طرف اسلامی علوم کے ماہر،دینی کردار کے حامل اور فکری اعتبار سے صراطِ مستقیم پر گام زن ہوں، دوسری طرف وہ مسلمانوں کی دینی و اجتماعی قیادت کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔ان میں تہذیب و ثقافت،غیرت و حمیت،ایما ن داری ،وفاشعاری اور ان تمام اخلاقی و معاشرتی قدروں کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے ،جن سے دنیا میں بسنے والے ایک امن پسند شخص کو آراستہ ہونا چاہیے۔
ان مدارس نے امتِ مسلمہ کو دین کے ہر شعبے میں رجالِ کاردیے ہیں؛خواہ عقائد ہوں یا عبادات،یا معاملات ،یا معاشرت ،یا اخلاق،غرض کہ دینی زندگی کے تمام شعبوں میں امت کی راہ نمائی کے لیے افراد تیار کیے ہیں۔ان اداروں میں امت کے نونہالان غذائے روحانی کے ذریعہ نشوونما پاتے ہیں اور شدہ شدہ تعلیمات اسلام و اخلاقیہ سے شادابی و سیرابی حاصل کر کے ایک مضبوط تناور درخت بن کر عوام الناس کو اپنے گھنے سائے اور میٹھے پھلوں سے مستفید کرتے ہیں ۔جس کے ذریعہ امت تازہ دم،تن درست و توانا ہو کر اسلامی دھارے کی طرف اپنی زندگی کورواں دواں رکھتی ہے۔
تمام مدرسوں اور دینی اداروں نے اپنے مقاصد تاسیس کی روشنی میں تعلیم و تربیت کو فروغ دیا ہے۔جہالت و ناخواندگی کا قلع قمع کیا اور مسلمانوں کی تعلیمی حالت کو درست سے درست تر بنایا ہے۔ملک کی شرحِ خواندگی کو بڑھانے میں نہ صرف حکومت کا ہاتھ بٹایا؛بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حکومت کی مدد کی ہے۔اسلامی اخلاق اور انسانی قدروں کی آبیاری کی ہے۔برادرانِ وطن کے ساتھ یک جہتی ورواداری اور صلح و آشتی کے ساتھ پر امن بقائے باہم کے اسلامی اصول پر سختی سے عمل کیا ہے۔فرقہ وارانہ میل جول اور ربط و تعلق کو فروغ دیا ہے اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی ،وطنِ عزیز کی آزادی وخود مختاری کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے سرفروش قائدین و راہ نما پیدا کیے ہیں۔
اگر یہ دینی ادارے اور مدارس نہ ہوتے تو امت کو دینِ متین کی صحیح شکل ملنی مشکل تھی۔معاشرہ میں باطل کے پھیلائے گئے جال سے چھٹکارا نہ ملتا۔صلح و آشتی اور امن و سکون قائم نہ ہوتا۔ملک وقوم کی ترقی نہ ہوتی۔وطنِ عزیز کو سام را جیت سے آزادی نہ ملتی اور امت ِ مسلمہ اپنے حقوق ِ اسلامیہ کو بھی حاصل نہ کرپاتی۔
استخلاصِ وطن کی تحریک میں دینی مدارس کے علماء وفضلاء کا جو رول رہا ہے،وہ ایک تاریخی ریکارڈ کا درجہ رکھتا ہے۔فضلائے مدارس نے ہی اسلام کی عزت و ناموس کی پاسبانی کی اور بگڑ ی ہوئی معاشرت کو سنوارا۔ان مدارس سے وطن کے سپاہی ،ملک کے محافظ اور مجاہدینِ ملت پیدا ہوئے ہیں ،جنہوں نے باطل کے ایوانوں میں رخنہ پیدا کردیا اور عملاً میدان میں اتر کر سرفروشی کی بھی سنت تازہ کردی۔
ملک کی آزادی کے بعد ملت کے بکھرے ہوئے شیرازہ کوپھر سے جمع کرنا اور تنکے سے آشیانہ بنانا جیسے مشکل ترین کام کو صحیح معنوں میں مدارس کے تربیت یافتہ علماء نے ہی انجام دیا۔ملتِ اسلامیہ کی دست گیری کی اور اسے منزل جستجو میں سرگرم کرنے کا فریضہ انجام دیا۔
اس سلسلے کا سب سے اہم پہلو تعلیم کے پھیلاؤ اور خواندگی کے مشن کو تحریک دینے اور آگے بڑھانے کاہے ۔”تعلیم سب کے لیے“کے فارمولے کے تحت مدارس و مکاتب نے بنیادی تعلیم کو اُن فقرزدہ اور خاک نشین طبقات کے لیے بھی آسان اور قابل حصول بنادیا،جہاں تک پہنچنے میں حکومتی مشنریاں تھک ہار جاتی ہیں۔
تعلیم کے فروغ میں مدارس اور حکومت کی کارگردگی کا موازنہ کیا جائے تو مدارس کی خدمات نمایا ں اور محسوس شکل میں نظر آتی ہیں ۔ملک میں جوتعلیم گاہیں قائم ہیں، چاہے وہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے عصری ادارے ہوں یا اعلیٰ تعلیم کے، وہ پرائیوٹ سطح پر چل رہے ہوں یا حکومت کی سرپرستی میں،بچوں کے والدین یا حکومت کی طرف سے اس کی مکمل کفالت کی جاتی ہے۔جن والدین کے پاس مال و دولت کی کثرت ہے،وہ اپنے لختِ جگر کے لیے بڑی بڑی ڈگریاں آسانی سے خرید لیتے ہیں ۔ان اسکولوں میں ڈونیشن،ماہانہ اور سالانہ فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہیں۔گویا یہ اسکول اور کالج قوم کے فرزندوں سے روپے اینٹھتے ہیں، پھر انہیں تعلیم دیتے ہیں ۔ان کے برخلاف مدارس ہیں کہ وہ ملک کو دیتے بہت کچھ ہیں؛لیکن لیتے کچھ نہیں۔
مفت تعلیم، جو ایک فلاحی ریاست کے تصور میں ترجیحی حیثیت رکھتی ہے ،ملک کے مدارس اس کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔تعلیم کو ہر اعلیٰ و ادنی طبقہ تک یکساں طور سے پہنچانے میں حکومتی اسکیمیں ناکام رہی ہیں؛لیکن دینی مدارس کا تعلیمی و تنظیمی ڈھانچہ ہرطبقے کے لیے یکساں طور پر یکساں تعلیم کو یقینی بناتا ہے۔
خدمت خلق کے میدان میں دینی مدارس کے فضلاء کی خدمات نمایاں ہیں۔قدرتی آفات اور دیگر مواقع پر مدارس کے فضلاء اپنی خدمات فراہم کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔یہ مدارس اپنے طلبہ میں محنت و جفاکشی کا مزاج پیدا کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ بہت سے مدارس کے فضلاء آج ایسے عہدوں پر نظر آتے ہیں جو ان کے اختصاص سے ہٹ کر ہیں ۔حال میں کئی یونیورسٹیوں کے ذمہ دار اساتذہ دینی مدارس کے فضلاء ہوئے ہیں اور اب تو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اور عالمی زبانوں پر حاوی ہونا ان کے لیے کوئی بڑی چیز نہیں رہ گئی۔
بہر حال امت کی تعلیمی حالت کو پروان چڑھانے،قوم و ملت کو عزت و شرافت اور باوقار زندگی عطا کرنے اور ملک کی تعمیر و ترقی کو فروغ دینے میں مدارسِ دینیہ نے اَن مٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔مدارس مجموعی طور پر پورے ملک اور قوم کا اثاثہ ہیں۔ان کی حفاظت اور نصر ت و اعانت کی کوششوں میں ہاتھ بٹانا ہر ایک کا فریضہ ہے۔
ہماری آج کی دنیا جن طوفانی حوادث اور انسانی برادری جن تباہ کاریوں کے دور سے گزر رہی ہے ، عقل وفہم اور علم وفراست رکھنے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے صرف ایک دن کی اخباری خبریں کافی ہیں ، لیکن ان حوادث وتباہ کن حالات پر غور کرنے، ان کے حقیقی اسباب ومحرکات کو معلوم کرنے اور اس کا اعتراف کرنے او رپھر ان کے ازالہ ومداوا کرنے کے سلسلہ میں سوچنے اور فکر کرنے والے لوگ دور دور تک نظر نہیں آتے ، بلکہ اگر اس کی کچھ لوگ فکر کرتے ہیں تو اُلٹا انہیں کو مجرم ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے اورکوشش ہی نہیں بلکہ ان سے ایسا ڈرایا جاتا ہے ، جیسے پھاڑ کھانے والے درندوں، زہریلے سانپوں اور بچھوؤں سے ڈرایا جاتا ہے ، جو لوگ انسانوں میں انسانیت کی جُوت جگانے، ایک دوسرے سے پیار ومحبت کرنے، ایک دوسرے کے رنج وغم میں شریک ہونے کی تعلیم دیتے ہیں ، اچھے اخلاق سکھانے اور اچھا سماج بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کام کے لیے جگہ جگہ مدرسے قائم کر رکھے ہیں ، انہیں کے کام کو تخریب کاری اور فساد پھیلانیسے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ان دینی مدارس کا پہلا کام انسانی آبادی کے لیے ایسے انسان تیار کرنا ہوتا ہے جن کو انسانوں سے محبت ہو وہ انسانوں کی بھلائی اور سکون واطمینان پیدا کرنے والی باتوں کو رواج دیں ، ان کے اخلاق اچھے ہوں ، وہ سچے ہوں اور سچائی کا سبق سکھاتے ہوں ، ان کے اندر کم زوروں کی مدد کرنے کا شوق اور جذبہ ہو، وہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں، ان کے ذہنوں میں خدا کے آخری نبی محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد تازہ ہو : ”رحم کرنے والوں پر رحمن رحمت بھیجتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو ، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔“ ( ترمذی ،ا بوداؤد) اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر جان دار اورمخلوق کے ساتھ رحم ومحبت کا حکم دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” مخلوق الله کی عیال (کنبہ) ہے تو الله کو سب سے زیادہ محبوب وہ مخلوق ہے جو اس کے عیال ( کنبہ) کے ساتھ حسن سلوک کرے۔“ ( بیہقی فی شعب الایمان) اعلیٰ اقدار کی حامل اسی طرح کی بہت سی چیزیں مدار س میں بتائی اور سکھائی جاتی ہیں ، مدرسہ کی تعلیم ظلم وزیادتی سے روکتی اور اس کے خطرناک نتائج سے ڈراتی ہے، جو انسانوں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں ، دوست تو دوست دشمنوں تک کے ساتھ انصاف کرنے کا مدرسہ سبق پڑھاتا ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ:” اور کسی قوم کی عداوت تم کو اس گناہ پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کے ساتھ انصاف نہ کرو ، تم ہر حال میں ہر ایک کے ساتھ انصاف کرو، تقویٰ کی شان کے یہی زیادہ مناسب ہے۔“ ( المائدہ) یہ ہے بہت مختصر بلکہ خلاصة الخلاصہ مدرسہ کے اس کام کا، جس میں پوری انسانیت، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ساری مخلوق کی راحت کا سامان ہے اور آج اسی کے نہ ہونے سے پوری دنیا میں قتل وخوں ریزی کا بازار گرم ہے اورانسانی جانوں کی قیمت کیڑے مکوڑوں کے برابر بھی نہیں رہ گئی ہے، فحش کاری اور بے حیائی نے جانوروں کو بھی مات کر دیا ہے ، مگر یہ کتنی حیرت ناک بات ہے کہ انسانیت کا سبق پڑھانے والے انہیں مدارس کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں، حد یہ ہے کہ اخلاقی انار کی او ردہشت وبربریت سے روکنے کے جتن کرنے وا لے انہیں مدارس کو دہشت گردی کی تربیت گاہ بتایا جارہا ہے: ”خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہیے!“ کیا برسہا برس تک سری لنکا میں جو کچھ ہوا ، یہ کرنے والے لوگ مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے؟ برما میں ظلم وجور کے جو پہاڑ مسلمانوں پر توڑے گئے ، کیا یہ ظلم کرنے والے لوگ مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے؟ امریکا وافریقہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے کیا یہ لوگ مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے اور ہیں ؟ فلسطینیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ برسہابرس سے توڑے جارہے ہیں کیا یہ ظلم کرنے والے لوگ کسی مدرسہ کے تربیت یافتہ ہیں؟ روسی مسلمانوں کے ساتھ ستر سال تک جو سلوک کیا گیا، کیا یہ سب لوگ مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے؟ اور جو دو عظیم جنگیں ہوئی ہیں ، جن میں بے شمار جانیں گئی ہیں، کیا یہ جنگ کرنے والے لوگ کسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے ؟ ہیروشیما اور اس سے قبل جلیان والا باغ میں جو کچھ ہوا ہے کیا یہ سب مدارس کے فارغ لوگ تھے ؟ او رہمارے ملک میں جو رہ رہ کر ایک طوفان سا اٹھتا رہتا ہے ، عزتیں لٹتی ہیں ، بچے یتیم ہوتے ہیں ، املاک وجائیدادیں جلا کر خاک کر دی جاتی ہیں او رحد یہ ہے کہ بسا اوقات خود وہ لوگ اس میں پورے دھیان او رتوجہ کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں جو حفاظت کے لیے متعین ہوتے ہیں ، بوسنیا اور چیچنیا میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا، یہ خون بہانے والے مدرسہ کے پڑھے ہوئے لوگ تھے؟ آنکھ میں دھو ل جھوکنے کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے !!! جس جگہ اگر سانپ نکلے آئے تو مارنے کے لیے ڈنڈا بھی نہ ملے اور جس جگہ پولیس وانتظامیہ کے لوگ آکر یہ کہیں کہ یہاں آکر روح کو بڑا سکون ملتا ہے ، اس کو تو دہشت گردی کی تربیت گاہ کہا جائے اور جہاں قتل کے واقعات ہوں ، ناجائز اسلحے برآمد ہوں، بم پھٹتے ہوں، ہر وقت پولیس کو چوکس رہنا پڑتا ہو ، گرفتاریاں ہوتی رہتی ہوں ، اس کو امن وامان کی جگہ کہا جائے یا کم از کم یہ کہ اس کے بارے میں زبان تک نہ ہلائی جائے۔ اس وقت مغربی میڈیا اپنی پوری توانائی اس پر صرف کیے دے رہا ہے کہ اسلام دہشت گردی سکھاتا ہے ، مسلمان دہشت گرد ہوتا ہے اوراپنے گریبان میں ہاتھ نہیں ڈالتا کہ وہ کیا کررہا ہے۔ اس وقت پورے میڈیا پر یہودیوں کا قبضہ ہے، اس نے اسلام ومسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، یہ ان کے پروٹوکول میں شامل ہے کہ ہمارے قبضہ وتصرف میں ایسے اخبارات ہوں گے جو مختلف گروہوں اور جماعتوں کی تائید کریں گے، خواہ یہ جماعتیں جمہوریت کی داعی ہوں یا انقلاب کی حامی، حتی کہ ہم ایسے اخبارات کی بھی سر پرستی کریں گے جو انتشار وبے راہ روی ، جنسی واخلاقی انار کی ، استبدادی حکومتوں اور مطلق العنان حکم رانوں کی مدافعت او رحمایت کریں گے۔ انسانیت سے قدیم بغض وعداوت، یہودی نسل کے تقدس پر ایمان کامل، اسرائیلی خون کی عبادت وپرستش کی حد تک عظمت اور تاریخ انسانی کے ہر دور اور روئے زمین کے ہر گوشہ میں بقیہ انسانی نسلوں اور قوموں کو ہر اہلیت وصلاحیت سے محروم سمجھنا، پوری دنیا پر تسلط حاصل کرنے کا منصوبہ، شروفساد کا طبیعت ثانیہ اور افتاد طبع بن جانا، تشدد اور دہشت انگیزی کا قومی خصائص اور موروثی عادتوں کا درجہ اختیار کر لینا۔ یہ تصویر یہودیوں کی تاریخ کے ساتھ اس طرح وابستہ ہے جس طرح مزاج انسان کے ساتھ، اس لیے کہ سازش ان کی تاریخ کی سب سے بڑی بنیاد اور ان کے نظام زندگی کا سب سے بڑا ستون ہے، یہ وہ محور ہے ، جس کے گردان کی ساری ذہانت او رکاوش گھومتی ہے ، یہی وہ دماغ یا خفیہ ہاتھ ہے جو ہر بغاوت ، انقلاب ، سازش، تخریبی نظریات، تباہ کن فلسفوں اور ہر قسم کی بے چینی ، اضطراب ، انارکی او رہر طرح کے اقتصادی، سیاسی ، اجتماعی اور اخلاقی بحران کے پیچھے کام کر رہا ہے ، ان ساری باتوں کی تصویر ایک ممتاز یہودی ڈاکٹر آسکرلیوی نے اپنے اس فخریہ جملہ میں کھینچ دی ہے: ” ہم ہی دنیا کے حاکم اور مفسد ہیں، ہم ہی تمام فتنوں کو ہوا دیتے ہیں، ہم ہی جلاد ہیں۔“ جن یہودیوں نے اپنی تصویر خود اس طرح پیش کی ہے او راس پر فخر کرتے ہیں ، وہ کس منھ سے ان اسلامی تعلیمات کو دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا، تلمود تک کی تعلیم یہ ہے کہ مسیحیوں کا قتل ان فرائض میں سے ایک ہے جن پر یہودی قاتل کو الله تعالیٰ بھرپور بدلہ عطا فرمائے گا۔ جن کی مذہبی تعلیم یہ ہو اور جن کا منصوبہ یہ ہو کہ پوری انسانی برادری کو اخلاق واقدار سے عاری کرکے جانوروں کی صفت میں لاکھڑا کیا جائے ، وہ ان لوگوں کو دہشت گردی کا الزام دیں جو انسانیت کا سبق پڑھاتے ہیں، ان کے اخبار، ٹیلی ویژن اور ریڈیو سب اس کے لیے وقف ہوں او راس جھوٹ میں ان کو ذرا جھجک نہ ہو ، یہ کتنی حیرت ناک بات ہے او را س سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کی دوسری قومیں بھی انہیں کی راہ چلنے لگیں … اور انہیں انسانیت دشمن لوگوں کی بولیاں بولنے لگیں اور یہمعلوم کرنے کی قطعاً فکر نہ کریں کہ انسانوں کی فلاح وبہبود کا سبق کہاں سے ملتا ہے ؟ امن وسکون کے چشمے کہاں سے پھوٹتے ہیں ؟ دنیا میں جہاں کہیں اخلاق وکردار کی کوئی کرن دکھائی دیتی ہو انہیں مدارس کی دین ہے ، وہ اس اسلام ہی کی دین ہے ، جس کو بد نام کرنے اورجس کی صورت کو بگاڑ کر پیش کرنے کے لیے مغربی میڈیا اربوں ،بلکہ کھربوں روپے خرچ کر رہا ہے ، یہودیوں کے پروٹوکول میں یہ بات بھی شامل ہے کہ میڈیا کے ذریعہ ہم جب او رجہاں چاہیں گے قوموں کے جذبات کو مشتعل کریں گے اور جب مصلحت دیکھیں گے انہیں پر سکون کر دیں گے ، اس کے لیے ہم صحیح اور جھوٹی خبروں کا سہارا لیں گے، ہم یہودی ایسے مدیروں، ایڈیٹروں اور نامہ نگاروں کی ہمت افزائی کریں گے جو بد کردار ہوں او ران کا مجرمانہ ریکارڈ ہو ، ہمارا یہی معاملہ بدعنوان سیاست دانوں، لیڈروں اور مطلق العنان حکم رانوں کے ساتھ ہو گا، جن کی ہم خوب تشہیر کریں گے او ران کو دنیا کے سامنے ہیروبنا کر پیش کریں گے ، لیکن ہم جیسے ہی محسوس کریں گے کہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں بس! فوراً ہم ان کا کام تمام کردیں گے۔ جو بات ان کے پروٹوکول میں شامل تھی آج کتنا کھل کر اپنے پورے اثرات کے ساتھ دنیا کی قوموں کے سامنے آگئی ہے ، مگر اس ترقییافتہ زمانہ میں بھی اپنی دانش وری کے دعوے کے ساتھ قومیں ان کے جھوٹے پروپیگنڈوں سے کس طرح متاثر ہیں کہ عقل وخرد سے ادنیٰ کام لیے بغیر انہیں مکارّوں کے دام فریب میں پھنستی جارہی ہیں اور انسانوں کی فلاح وبہبود کے راستہ کی جستجو میں نہیں لگتیں، بلکہ یہ یہودی جوکہ دیں وہی پتھر کی لکیر بن جاتا ہے اور دنیا کی ساری قومیں اندھی بہری ہو کر اسی کے پیچھے دوڑنے لگتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیائے انسانیت ہلاکت کے مہیب غار پر آکھڑی ہوئی ہے۔ ہم مشرقی قوموں کا فرض ہے کہ ان انسانیت دشمن لوگوں کی حقیقت کو سمجھیں او راپنی حفاظت کی فکر کریں، نہ یہ کہ ان کے پروپیگنڈے کا شکارہو کر ہم بھی انہیں کی بولی بولنے لگیں اور ان اصولوں اور فطری ضابطوں کی تعلیم دینے والے افرادو مراکز کو دہشت گرد اور دہشت گردی کا اڈا ہونے کا الزام دیں، جن لوگوں اور جگہوں سے انسانیت کی فلاح وبہبود کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ |
ترجمہ: پھر ہم نے کتاب ( قرآن کریم) کا ان لوگوں کو وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا۔
قال النبی صلی الله علیہ وسلم:” العلماء ورثة الانبیاء“․
علماء (دین) انبیاء کے وارث ہیں
قارئین کرام !مضمون کا عنوان اس قدر وسیع ہے کہ بحر بیکراں، جس نکتے پر قلم اٹھایا جائے اس کی وسعت ختم نہیں ہوگی ،موضوع کی اہمیت اور وقت کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ میں آپ کے سامنے اپنی مختصر سی جاری زندگی کے تجربات اور اپنے محدود مطالعہ کے نتائج بے تکلف رکھ دوں اور زندگی کے سفر کی سب سے قیمتی اور عزیز سوغات آپ کے سامنے پیش کردوں۔
مدرسہ کیا ہے؟
ہمیں سب سے پہلے معلوم ہونا چاہیے کہ ایک دینی مدرسہ کامقام ومنصب کیا ہے؟مدرسہ کیا ہے؟چنا ں چہ مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں سپاہی تیار ہوتے ہیں ، مد رسہ عالم اسلام کا بجلی گھر(Power House)ہے جہاں سے اسلامی آبادی، بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے،مدرسہ اس ٹیوب ویل اور نہرکی حیثیت رکھتا ہے جس سے پورے علاقے کی زمین سیراب ہوتی ہے ، مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اور ذہن ودماغ ڈھلتے ہیں، مدرسہ وہ مقام ہے جہاں پور ی کائنات کا احتساب ہوتا ہے،اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے،جہاں کا فرمان پورے عالم پر نافذہے، عالم کا فرمان اس پر نافذ نہیں ،مدرسہ کا تعلق کسی تمدن، کسی عہد ، کسی کلچر،زبان وادب سے نہیں کہ اس کی قدامت کا شبہ اور اس کے زوال کا خطرہ ہو،بلکہ اس کا تعلق براہ راست نبوت محمدی سے ہے ،جو عالم گیر بھی ہے اور زندہ جاوید بھی ،اس کا تعلق اس انسانیت سے ہے جو ہر دم جواں ہے قدیم و جدید کی بحثوں سے بالاترہے ،وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں پر نبوت محمدی کی ابدیت اور زندگی کا نمواور حرکت دونوں پائے جاتے ہیں۔
مدرسے کی ذمے داری اور گراں باری
معزز قا رئین !کسی مدرسے کے لیے اس سے بڑھ کر قابل احتجاج اور قابل اعتراض لفظ نہیں ہوسکتے کہ وہ محض دارالآثار یا کسی قدیم عہد کی یادگاررہے ،ہم اس کو مدرسہ کے حق میں ازالہٴ حیثیت عرفی کے مرادف سمجھتے ہیں ،مدر سے کوہر مرکز سے بڑھ کر مستحکم ،طاقتور ،زندگی کی صلاحیت رکھنے والا اور حرکت ونمو سیلبریز سمجھتے ہیں،وہ نبوت محمدی کے چشمہ حیواں سے پانی لیتا ہے اور زندگی کے ان کشت زاروں میں ڈالتا ہے،وہ اگر اپنا کام چھوڑدے تو نہ نبوت محمدی کا دریا پایاب ہونے والا ہے،نہ انسانیت کی پیاس بجھنے والی ہے،نہ نبوت محمدی کے چشمہ فیض سے بخل اور انکار ہے،نہ انسانیت کے کاسئہ گدائی کی طرف سے استغنا کا اظہار،ادھر سے ”انماانا قاسم واللہ یعطی“ کی صدائے مکرر ہے تو ادھر سے”ھل من مزید،ھل من مزید“ کی فغانِ مسلسل ،مدرسہ سے بڑھ کر کو نسا زندہ متحرک اور مصروف ادارہ ہوسکتا ہے،زندگی کے مسائل بے شمار ،زندگی کے تغیرات بے شمار ،زندگی کی ضرورتیں بے شمار،زندگی کی غلطیاں بے شمار ،زندگی کے فریب بے شمار ،زندگی کے راہ زن بے شمار،زندگی کی تمنائیں بے شمار ،زندگی کے حوصلے بے شمار تو مدرسہ نے جب زندگی کے پر پہلو کی راہ نمائی ور دستگ گیری کا ذمہ لے لیا تواب اس کے پاس فرصت کہاں؟
دنیا میں ہر ادارہ ،ہر مرکز اور ہر فرد کو راحت و فراغت کا حق حاصل ہے ،اس کو اپنے کام سے چھٹی مل سکتی ہے، مگر مدرسہ کو چھٹی نہیں،دنیا میں ہر مسافرکے لیے آرام ہے، لیکن اس مسافر کے لیے راحت حرام ہے!اگر زندگی میں ٹھہراؤ ہو،سکون و وقوف ہو تو کوئی حرج نہیں کہ مدرسہ بھی چلتے چلتے دم لے لے، لیکن جب زندگی رواں دواں ہے تو مدرسہ میں جمود اور تعطل کی گنجائش کہاں ہے، اس کو قدم قدم پر زندگی کا جائزہ لیناہے ،بدلتے ہوئے حالات میں احکام دینے ہیں،ڈگمگاتے ہوئے پیروں کوجمانا ہے،وہ زندگی سے پیچھے رہ جائے یا تھک کر بیٹھ جائے،یاکسی منزل پر قیام کرلے ،یااس کو کوئی مقام اچھا لگنے لگے تو زندگی کی رفاقت اور قیادت کون کرے گا؟سرود ازلی اور پیغام محمدی کون سنائے گا؟تو مدرسہ کا تعطل ،قیادت سے کنارہ کشی ،کسی منزل پر قیام، خودکشی کا مرادف اور انسانیت کے ساتھ بے وفائی کا ہم معنی ہے اور کوئی خود شناس اور فرض آشنا مدرسہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
طلبہ و فضلا کی ذمہ داریاں
میرے عزیز طلبائے کرام !مدرسہ کے طالب علم کی حیثیت سے آپ کا کام سب سے زیادہ نازک اور سب سے زیادہ عظیم ہے،میں نہیں جانتا کہ اس وقت دنیا کی کسی جماعت کسی گروہ کاکام اتنا نازک ہو،اتنا وسیع اور اہم ہواور آپ کا کام آپ ہی کو کرنا ہوگا، کوئی دوسرا نہیں کر سکتا، آپ جہاں بھی ہوں ،جیسے بھی ہوں،جس حالت میں بھی ہوں، آپ کا کام آپ ہی کو کرنا ہوگا،آپ کے سامنے میدان بہت وسیع ہے اور ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے اور آپ کا کام گاؤں کے ایک ڈاکٹر کی طرح ہے کہ پورے گاؤں میں وہی ایک ڈاکٹر ہوتا ہے اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا ہے، بعینہ اسی طرح آپ کو بھی ہر علم وفن میں مہارت حاصل ہونی چاہیے ،علوم نقلیہ وعقلیہ دونوں میں پوری بصیرت اور دست گاہ حاصل ہو،تمام علوم میں مجتہدانہ نظر ہو،وسعت نظر کے ساتھ دولت یقین سے بھی مالا مال ہو،اپنے ذاتی تفکر ،تلاش وتحقیق اور ریاضت و عبادت سے دین کے ان ابدی حقائق پر نیا ایمان حاصل ہو،نئے اعتماد،تازہ یقین کے ساتھ، علی وجہ البصیرةدین کی پیروی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداکا داعی ہو،نیز عالم اسلامی اور علمی دنیا میں اپنے علم و یقین اور فکرونظر سے ایک نئی روح اور زندگی کی ایک نئی لہر پیداکرتا ہواور ہر دقیق سے دقیق تر ،مغلق سے مغلق مسائل کا آپ کے پاس حل ہونا چاہیے ۔
اب ذرا دوبارہ ان الفا ظ پر غور کیجیے کہ آپ کا ایک سرا نبوت محمدی سے اور دوسرا سرا زندگی سے ملا ہوا ہے،نبوت محمدی سے وابستگی اور اتصال جہاں ایک بہت بڑی خوش نصیبی اور سر فرازی ہے، وہاں ایک عظیم ذمہ داری بھی ہے کہ آپ کے دلوں میں انسانیت کی حمایت و نصرت کا جذبہ موجزن ہونا چاہیے ،آپ جہاں احکام خداوندی اور تعلیمات اسلامی کو سن کر سمعناو أطعنا کہیں ،وہاں جاہلیت کے علم بردار وں کو مخاطب کرکے کہیں کہ ﴿کفرنا بکم وبدا بیننا وبینکم العداوة والبغضاء ابداً حتی توٴمنوا باللہ وحدہ﴾․
آپ اسلام ہی کی رہنمائی ،اور اسوہ محمدی ہی کی روشنی میں دنیا کی نجات کا یقین رکھتے ہوں اور اس پر عقیدہ ہوکہ اس طوفان نوح میں سفینہ نوح صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت وامامت ہے اوریہ بالکل حقیقت ہے کہ:
محمد عربی کہ آبروئے ہر دوسرا ست
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او
آپ تعلیمات نبوت کوعلم کالب لباب اور حقیقة الحقائق سمجھتے ہوں،آپ اس کے مقابلے میں تمام دنیا کی الہیات و فلسفہ مابعد الطبیعات اور قیاسات وروایات کو افسانہ و خرافات سے زیادہ وقت دینے کے لیے تیار نہ ہوں، اور بدعات کے مضر اور نامقبول ہونے پر آپ کو شرح صدر ہو،الغرض آپ اعتقادی ،ذہنی ،فکری ،قلبی ،ذوقی اور عملی حیثیت سے نبوت محمدی کی جامعیت اور عملیت کے قائل، اس کی عملی تفسیرہوں۔
طالبان علوم نبوت کامقام
دنیا کے مقابلے میں آپ کا مقام وامتیاز یہ ہے کہ ان حقائق پر دوسروں کا اجمالی ایمان کافی ہے، مگر آپ کو اس پر پورا ذہنی اطمینان اور شرح صدر ہونا چاہیے ،آپ کا صرف قائل ہونا کافی نہیں، اس کا داعی ہونا ضروری ہے ،تو پھر تمہارا مقام کیاہوگا!کہ اپنے شہر نہیں، پورے ملک، بلکہ پوری امت اور ملت کی تقدیر بدل سکتے ہو،تم وہ پارس بن جاؤ گے کہ اگر تم سے کوئی خداکا باغی وسرکش چھو جائے تو وہ ولی کامل بن جائے ،جس بستی میں تم قدم رکھو وہاں بہار آجائے ،وہاں کا موسم اور فضا بدل جائے ،تمہاری وجہ سے پتہ نہیں کتنی قومیں جنت کی حق دار بن جائیں ،بے شک نبوت تو ختم ہوچکی، لیکن تم اٰیة من اٰیات اللہ بن سکتے ہو،حجةالا سلام اور شیخ الاسلام بن سکتے ہو، اگر تم کام یابی وترقی کا فیصلہ کرو تو اس کائنات کا ذرّہ ذرّہ تمہاری مدد کرے گا ،پورا نظام کائنات تمہارے لیے وقف ہوجائے گا۔
بس عزیزو!محنت کرلو ،گھروں کو بھول جاؤ ،کھانے اور لباس کے معیار کونسیا منسیا کردو ،پس ! اپنے مقصد او رمنزل کو پیش نظر رکھو، اگر تم صاحب کمال بن جاؤ گے تو دنیا و آخرت دونوں تمہاری ہو جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
الله تعالیٰ کا قانون ہے جس کا ذکر الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے اور حدیث میں بھی اس کو بیان کیاگیا ہے، وہ ہے بقائے انفع کا قانون ، جو چیز نافع ہے، جو اس کے علاوہ ہے بہہ جانے والی او رغائب ہو جانے والی ہے اور اسی کو حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے، یا جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے، تو یہ بقائے انفع کا قانون بے لاگ ہے، جو جتنا نفع پہنچانے والا ہو گا اتنا ہی باقی رہے گا، اتنا ہی مضبوط رہے گا، اتنا ہی توانا رہے گا او راپنی نفع پہنچانے والی صفت میں وہ کافی رہے گا تو ہم لوگوں کو یہ چیک کرتے رہنا چاہیے او ربار بار دیکھتے رہنا چاہیے کہ ہمارا نفع کم تو نہیں ہو رہا ہے ، کیوں کہ مدارس جو ہیں وہ نفع پہنچانے کے مراکز ہیں ،ایک طرف سے لیتے ہیں، دوسری طرف دے دیتے ہیں، وہاں سے لیتے ہیں جہاں سے کوئی نہیں لے پاتا او ران کو دیتے ہیں جو لے نہیں پاتے، جو خاص طور سے براہ راست لے نہیں پاتے ان کوپہنچاتے ہیں، تو الله تعالیٰ نے مدارس کے اندر یہ صفت رکھی تھی، اب یہ صفت ہمارے اندر سے ہی ختم ہوتی چلی جارہی ہے، اس وجہ سے نگاہیں اٹھ رہی ہیں لوگوں کی ہماری طرف، جب ہم نفع والے تھے تو نگاہیں اٹھنے سے دور تھے، جب نفع کم ہوگیا یاختم ہوتا جارہا ہے تو حالات خراب ہو رہے ہیں، جب آپس میں ناچاقی ہوتی ہے تو لڑائی ہوتی رہتی ہے۔
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے آپ نے سنا ہو گا کہ جب زیادہ پیسے والے جمع ہو جاتے ہیں تو لڑائی زیادہ ہوتی ہے، آپ نے زیادہ آرام سے رہنے والوں کو، زیادہ پیسوں والوں کو بے تکے الفاظ سے لڑتے نہیں دیکھا ہو گا، کبھی بھی کہ سامنے گریبان پکڑ لیں، لڑنے لگیں، لیکن یہ جو چھوٹے لوگ ہوتے ہیں، ایک ایک دو دو پیسے پر لڑنے لگتے ہیں، کیوں کہ ان کے پاس خاکہ نہیں ہے اور جس کا نفع زیادہ ہوتا ہے اس کی سطح زیادہ بلند ہوتی ہے وہ لڑتے نہیں ہیں، تو اب اس طرح مدارس میں باتیں ہیں، کیوں کہ نفع ختم ہوتا جارہا ہے اور اگر یہ سب نہیں ہے تو نفع باقی ہے۔ پاور ہاؤس کاConection صحیح ہو یہ مدارس جو ہیں ان کے بہت سے کام ہیں، نمبر ایک وہ سارے کے سارے نفع سے وابستہ ہیں، ایک تویہ ہے کہ وہ بجلی لیتے ہیں، قرآن وحدیث سے اور قرآن وحدیث سے جو بجلی اکھٹاکرتے ہیں تو پاورہاؤس کی حیثیت ہوجاتی ہے اور جس کو جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی وہ استعمال کرتا ہے ، تویہ پاور ہاؤس ہیں، لیکن یہ پاور ہاؤس بجلی اس وقت پائیں گے، جب ان کا کنکشن ہو گا ، قرآن وحدیث سے جب ان کا تعلق ہو گا تب ان کو بجلی ملے گی اور ان سے تعلق نہیں ہو گا تو چاہے ادھر ادھر کتنے ہی تعلق ہوں۔ جتنے مذاہب ہیں ،عیسائی ہوں، یہودی ہوں، ان سب کا کیامعاملہ ہے؟ ان کا رابطہاصلسے نہیں ہے اور یہودیوں کا اور عیسائیوں کا بھی کٹ گیا ہے اور انہوں نے نمبر تین اور نمبر چار، بلکہ اس کے بعد بھی لوگوں کے اقوال سے ہی وابستگی اختیار کر لی ، تو جب اصل سے رشتہ کٹ گیا، تو انرجی جوتھی سپلائی کی، وہ ختم ہو گئی اور ان کا وہ حال ہو گیا جو عمومی طور پر ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے، تھوڑا بہت رہتا ہے وہ بھی بہت جلدی ختم ہو جاتا ہے اور وہ کام کا بھی نہیں رہتا، کیوں کہ اس کے اندر پاور نہیں رہتا، پاور پاور ہاؤس کے پاس رہتا ہے ، بڑی مشین اسی سے چلتی ہے ، چھوٹی مشینیں اس سے چل جاتی ہیں، تھوڑے وقت کے لیے، اس کے لیے کنکشن چاہیے تو ایک کام تو مدارس کا پاور ہاؤس کا ہے، تو اب خود دیکھ لیناچاہیے کہ ہمارا تعلق قرآن وحدیث سے کیسا ہے؟ اگر قوی ہے تو سمجھ لیں نفع ہے، ہمارے اندر۔ ہم پاور ہاؤس کی حیثیت رکھتے ہیں او رجب نفع نہیں ہے تو پھر ظاہر ہے کہ قلم جہاں لگاتے ہیں قلم دل کے پاس لگا ہوتا ہے، لیکن یہ کہ قلم دل کے پاس اس وقت تک رہتا ہے جب تک چل رہا ہے اور نفع باقی ہے اس کا، نفع اگر ختم ہو جائے قلم کا، تو نکال کے باہر پھینک دیا جاتا ہے، اس لیے کہ لکھنے کی اس کے اندر صلاحیت نہیں رہی، ایسے ہی مدارس کا معاملہ بھی ہے کہ آپ کیا دے رہے ہیں امّت کو؟ قرآن اور حدیث سے لیا کیا اور امّت کو دیا کیا؟ یہ ضروری ہے۔ مدارس شفا خانے ہیں نمبر دو یہ مدارس شفا خانے بھی ہیں، تاکہ مریض آکر یہاں اپنا علاج کراسکے، یہاں ہر طرح کی دوا ملتی ہے ، یہاں ہر طرح کا آپریشن ہوتا ہے، یہاں بڑے بڑے کیس آتے ہیں مریض کے اور مریض شفا پاکے چلے جاتے ہیں، تو اگر آپ کے پاس دوائیں ہیں اور نسخے ہیں تو ظاہر ہے اس کا تعلق بھی اسی سے ہے ، قرآن وحدیث سے ، یعنی قرآن مجید وحدیث سے ایسا تعلق ہے کہ آپ اس سے علاج کر سکیں، بتا سکیں مسئلہ کا حل یہ ہے اور اس کو بھی قرآن وحدیث میں ڈھونڈ سکیں، جس جگہ یہ مسئلہ آتا ہو کہ قرآن وحدیث سے مسئلہ پیش کرو، تو اس کے لیے ہے قرآن مجید میں ﴿ إِن تَنصُرُوا اللَّہَ یَنصُرْکُمْ﴾․(سورہ محمد، آیت:7) مدد خدا کی کرو، مدد وہ تمہاری کرے گا، اس کی مدد کا مطلب کیا آپ جانتے ہیں؟ یعنی اس کے دین کی مدد کرو، الله تم پر احسان اس وقت کرے گا جب تم اس کی مخلوق پر احسان کرو گے اور تم مخلوق پر کیسے احسان کرو گے؟ یہ ذرا لمبی بات ہے، وقت کم ہے ، آپ ماشاء الله پڑھے لکھے حضرات ہیں، تو آپ سمجھ لیں کہ کیسے احسان کرنا ہے مخلوق پراور مخلوقات میں کتنی قسمیں ہیں جو آپ کا احسان چاہتی ہیں، ان سب پر احسان کرو تو الله کا احسان آپ پر ہو گا اور ان حالات سے بچائے جاؤ گے ، تو گویا کہ نسخے آپ کے پاس ہوں، جو مریض آئے، لگا دیجیے اس کو ، کہ یہ آپ استعمال کریں ۔یہ آپ استعمال کریں۔ تو یہ شفاخانے ہوں، کچھ دن رکھ لیا جائے، یہاں پر جس کو کہا جاتا ہے، ہر کم درکانِ نمک رفت نمک شد، تو اب یہاں کوئی آجائے تو شفا پاکر ہی نکلے گا، تو مدرسے جو ہیں وہ شفاخانے بھی ہیں۔ سابقہ کتب تھیں اور قرآن ہے اب آپ سمجھ لیجیے، جیسے میں کہا کرتا ہوں، بہت سارے غیر مسلمین میں کہ تورات ، انجیل، زبور یہ تو قرآن میں ہیں اور وید اور گیتا یہ بھی ہیں اور اس کے اندر ایسی چیزیں ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ کی کتابیں ہیں یہ، بلکہ اس وقت تورات او رانجیل سے زیادہ توحید وید میں ہے، یہ عجیب بات ہے، توحید جتنی وید اور گیتا میں ہے، اتنی انجیل اور تورات میں نہیں ہے اور قرآن کے برابر بالکل تو نہیں کہہ سکتے، لیکن قریب قریب دونوں میں کھلی ہوئی توحید ملتی ہے، لیکن یہ کتابیں تھیں اور قرآن ہے، یہ فرق ہے، یہ تھیں، قرآن ہے، تو ایسے کہیں ہمارے ساتھ نہ ہو جائے، کہ ”تھے اور ہیں۔“ نہیں ہونا چاہیے، ایک شفاخانہ ہونا چاہیے۔ مدارس اسلام کے قلعے ہیں نمبر تین یہ کہ یہ قلعے ہیں، پناگاہیں ہیں، کوئی دشمن کسی کو بھگا رہا ہو اور وہ مدرسوں میں آجائے گاتو محفوظ ہو جائے گا، یہ نہیں کہ مدرسوں میں آکر اور نظروں میں چڑھ جائیں کہ یہ گڑ بڑ ہے، یہ دہشت گرد ہے، یہ فلاں ہے۔ ایسا نہیں ہے پناہ گاہ پہنچ جانے کے بعد، ہے کسی کی ہمت کہ کوئی ہاتھ ڈال سکے اور کوئی گزند پہنچا سکے، اس لیے کہ اس کا تعلق کس سے ہے :﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون﴾․(الحجر:9) سے ہے، کہ ہم نے الذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں تو گویا کہ ہمارا تعلق الذکر سے ہے تو الذکر کی حفاظت کا مطلب کیا ہوا؟ جو چیزیں الذکر سے وابستہ ہیں ان کی بھی حفاظت کی جائے، قرآن اعلان کررہا ہے، بڑے زور سے کر رہا ہے اور اس کا مشاہدہ کرارہا ہے تو ایک مشاہدہ تو یہ ہے ہی، ہر آدمی جانتا ہے کتنے حافظ ہیں، ہے کوئی جو قرآن کے سوا حافظ ہو جائے اور اس کو یا دکرلے؟ ابھی ایک سکھ صاحب ملنے آئے ہم سے، تو ہم نے کہا کہ آپ کے دھرم کا کوئی حافظ ہے؟ ندوہ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ۔ تو میں نے کہا ندوہ میں ماشاء الله ہزار حافظ ہوں گے ہی اور پورے ہندوستان میں پچاس لاکھ حافظ ہوں گے، چونک گئے، تو ہم نے کہا کہ کسی کی مجال ہے کہ قرآن مجید میں گھٹا بڑھا سکے، کرہی نہیں سکتے، حفاظت کا الله تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا۔ یہ بھی عجیب ہی ہے کہ علماء سے بھی حفاظت ہو گی، گویا کہ آپ اور ہم وابستہ ہو گئے ان علوم سے اور قرآن وحدیث سے تو ہم محفوظ ہیں۔ قرآن والے کی بھی حفاظت الله کے ذمہ ہے جس کی آخری مثال حضرت شیخ عز الدین بن عبدالسلام ہیں ان کے بارے میں شاید آپ نے کچھ پڑھا ہو، شیخ عز الدین بن عبدالسلام جب مصر تشریف لے جارہے تھے، شام سے نکلے، راستہ میں ایک شہر پڑا تو پورا شہر استقبال کے لیے نکل آیا اور انہوں نے کہا ہمارے یہاں چلیے، ہم سب آپ کو بٹھاتے ہیں، کہا کہ سب کچھ اپنی جگہ پر ہے، لیکن میرا علم بہت زیادہ ہے، میرا علم تمہارے شہر کا تحمل نہیں کر سکتا، مصر گئے، وہاں کے بادشاہوں نے استقبال کیا، شیخ الاسلام بنایا، شیخ الاسلام بنتے ہی انہوں نے فتوے جاری کیے اور کہا بادشاہ کی حکومت ناجائز ہے، لمباقصہ ہے، وقت نہیں ہے، آخر جو قصہ ہے ان کا وہ یہ ہے کہ سارا مصر خلاف ہو گیا، سارے بادشاہ ، وزراء اور سب نے کہا اس مولوی کو نکالو۔ یہی بہت گڑ بڑ ہے، وہ روز بیٹھے بیٹھے یہی سب کرتا رہے گا تو سب نے طے کر لیا کہ ان کی چھٹی کرنی ہے، سب آگئے، ان کے گھر پر، تلواریں وغیرہ لے کر اور سارے جمع ہوگئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، شیخ کے بیٹے باہر نکلے اورجب نکل کر دیکھا تو اس کو اندازہ ہو گیا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے، تو بیٹے نے جاکر اندر کہا ابا با!باہر معاملہ گڑ بڑ ہے۔ تو انہوں نے اپنے بیٹے سے بڑے اطمینان سے کہا تمہاے ابا کے حق میں شہادت کہاں لکھی ہے ؟ یہ ہے محفوظ ہونا۔ تمہارے ابا کے حق میں شہادت کہاں لکھی ہے ؟ بس یہ کہہ کر باہر نکلے اور یوں کہا: بھائی کیسے آئے؟ سب کی تلواریں نیچے گر گئیں اور کہنے لگے حضورکہیے کیا چاہتے ہیں؟ کہنے لگے میں تم سب کو بیچونگالے جاکر نخاس میں اور پھرنخاس میں بیچا، بیچنے کے بعد بادشاہ بنایا، میں سمجھتا ہوں پور ی انسانی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا، یہ تجربہ نہیں ہے، لیکن یہ جو میں نے کہا ہے ، اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ یہ ہیں، یاتھے، یا کیا ہیں؟ آج بھی اگر وہ مقام پیدا ہو جائے تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا، لیکن اب چوں کہ پہلا ہی مسئلہ نہیں رہ گیا کہ قرآن وحدیث سے ہمارا تعلق ہو جائے اور اس سے ہم لیں، لیکن ہم تو اپنے ہی کو کھوئے ہوئے بیٹھے ہیں ،ہم کیا کام انجام دیں، بس میرے بھائیو اور دوستو! مختصر سا وقت ہے اور یہ مختصر سی بات ہے، لیکن اپنے کو سمجھو، پہلے ہم کیا تھے اور کیاہوگئے؟ ہم کو کیا کرنا تھا اور کیا کر رہے ہیں؟ اور کیا کرنا چاہیے؟ الله تعالیٰ ہم سب کی مدد فرمائے۔ |
ہزاروں برس سے انسانی نسلوں میں (زبان وتہذیب اور مذہب عقائد کے اختلاف کے باوجود)جواحساسات وتاثرات نسل درنسل منتقل ہوتے رہے ہیں، ان میں ایک”پیشہ ور“(Proffessional ) اور ”غیرپیشہ ور“(Non-Proffessional)میں فرق کا تاثر اور تقلیدواتباع کا(خواہ اس پرعمل نہ ہوسکے) جذبہ اور شوق وابستہ رہاہے، فطرت انسانی کے اسی دائمی تاثر ورد عمل اور مسلمہ حقیقت کے پیش نظر،ہر دور اورہر امت میں مبعوث کیے جانے والے پیغمبر نے اپنی قوم میں ہدایت وتبلیغ کاکام شروع کرتے وقت اس کی وضاحت ضروری سمجھی کہ وہ کسی دنیاوی منفعت، مال ودولت او رمعاوضہ واجرت کا طالب نہیں، قرآن مجید کی سورہٴ شعراء میں حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام میں سے کسی کے تذکرہ میں بھی ان کے اس بیان اور اطمینان دہانی کو نظر انداز نہیں کیا گیا کہ ” میں تم سے کسی دنیاوی منفعت کا امید وار نہیں“ ہرایک کے تذکرہ میں اس کا بیان واعلان نقل کیا گیا ہے کہ:﴿ وَمَا اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العالمین﴾․
ترجمہ:”میں تم سے (اس دعوت ونصیحت اورمحنت وسعی پر) کسی معاوضہ ومنفعت کا طالب نہیں، میرا معاوضہ وانعام رب العالمین کے ذمہ ہے۔“
پھر جب خدا کا آخری دین اسلام دنیا میں آیا تو اس نے صحیح تعلیم کے کام کو اعلیٰ درجہ کی عبادت اور تقرب الی الله کا ذریعہ او راس کو انبیا کی نیابت کا منصب قرار دیا، اس کے نتیجہ میں پورے عالم میں آزاد دینی تعلیم کا نظام جاری ہوا اور آزاد دینی مدارس ومکاتب کی شکل میں مدرسے او رمکاتب قائم ہوئے اور بالعموم مسجدیں قرآن مجید اور ابتدائی دینیات کی تعلیم کا مرکز بن گئیں، سلاطین وقت کی علمی قدردانی و سرپرستی اور شوق وکوشش کے باوجود اکثر یہ مدارس اور تعلیمی مراکز آزادر ہے اور ان کا براہ راست عوام سے ربط وتعلق رہا اورعوام سے ربط وتعلق، گہرا نفسیاتی اثر اور فائدہ ظہور میں آیا، جو بالکل قدرتی ومنطقی ہے،انسان کی ایک فطرت ہے کہ جب وہ کسی ادارہ یا تحریک کی امداد میں براہ راست حصہ لیتا ہے (خواہ وہ کتنا ہی حقیر ہو)تو اس کو اس سے نفسیاتی اور جذباتی تعلق اور لگاؤ پیدا ہوجاتا ہے،اسی کا نتیجہ تھا کہ مستحکم اور طویل المیعاد اسلامی سلطنتوں کی موجودگی اور شاہان وقت کی فیاضی اور بعض اوقات دین داری کے باوجود،اس تحتی براعظم کے مسلمانوں کی اسلام سے ارادی وشعوری وابستگی،بقدر ضرورت دینی معلومات اور دینی احکام پر عمل کرنے کا جذبہ،اس آزاد دینی نظام،تعلیم اور انہیں آزاد مدارس کے ایثار پیشہ اور مخلص فضلاء کی سعی وجہد کا نتیجہ ہے،جس میں مسلم سلطنتوں اور فرماں رواؤں کا تقریباًکچھ حصہ نہیں، تاریخ وحقائق کی روشنی میں بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت تک نہ صرف اس برصغیر کے مسلمانوں کا بلکہ بیشتر یا تمام، حتیٰ کہ عرب ممالک تک کے مسلمانوں کا دین وشریعت سے ربط وتعلق اور ان کی دینی باخبری اور اسلامی ثقافت وتہذیب سے نہ صرف واقف ہونا،بلکہ اس کا حامل اور پر جوش حامی ہونا، انہیں ایثار پیشہ، رضا کار اور کسی حد تک زاہد ومتوکل فضلائے مدارس اور ناشرین علم دین کار ہین منت ہے۔
ان مدارس کے اساتذہ وفضلا میں سے متعدد اگر چہ اپنے فن کے ماہر اور یگانہ روزگار عالم ہوتے تھے۔لیکن وہ پورے افتخارواعتماد کے ساتھ یہ کہنے کے اہل تھے کہ #
کرم تیرا کہ بے جوہر نہیں میں
غلام طغرل وسنجر نہیں میں
جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن
کسی جمشید کا ساغر نہیں میں
اس آزاد دینی تعلیم کا ایک فائدہ یہ تھا کہ سلاطین وقت کے غلط اور بعض اوقات مخالف اسلام اور ماحی دین رجحانات،بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دین کی بیخ کنی اور استیصال کی باعزم اور منظم کوششوں کا اثر مسلم معاشرہ پر بالکل نہیں پڑسکااور درباریوں اور خوش آمدیوں کے ایک مختصر حلقہ میں محدود ہوکر رہ گیا،اس کا ایک روشن ثبوت یہ ہے کہ شہنشاہ اکبرکی(جو سلطان ترکی کے بعد اپنے وقت میں دنیائے اسلام کاسب سے طاقتوراور وسیع المملکت بادشاہ تھا) تحریک وحدت ادیان،تعطیل شریعت اسلامی،بلکہ تنسیخ دین محمدصلی الله علیہ وسلم کی منظم اور منصوبہ بند کوشش، جس میں اس عہد کے بعض ذکی ترین، بلکہ عبقری(Genius)افراد شریک تھے،مسلم معاشرہ پر قطعاًکوئی اثر نہیں ڈال سکی اور جیسا کہ بعض یورپین مورخین نے اعتراف کیا ہے،وہ چند درباری اشخاص تک محدود رہی اور مسلمان عوام اس سے کلی طورپرغیرمتاثررہے اوریہ نتیجہ ان حقانی،ربانی علماء ومصلحین اور داعیان دین کا فیض تھا،جس کا اثر عامة المسلین پر نہ صرف سرکاری درباری علماء سے زیادہ، بلکہ سلاطین وحکام سے بھی زیادہ تھا اور جن کے بعض افراد کے متعلق یہ کہنا صحیح ہوگا کہ #
جہانے را دگرگوں کردیک مردِ خود آگا ہے
حکومت سے اسی بے نیازی،عامة المسلمین سے ربط وتعلق، وایثار و جذبہ قربانی کا نتیجہ تھا کہ جب1857ء میں مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہوااور مسلمان اقتدار اور اس کے منافع ومواقع سے محروم ہو گئے تو اس دینی تعلیم کے نظام و مراکز پر کوئی گہرا انقلاب انگیز اثر نہیں پڑا،بلکہ ان مدارس کے قیام کا ایک نیا جوش وولولہ پیدا ہو گیا،جو نہ صرف مسلمانوں کو دینی،ذہنی وتہذیبی ارتداد سے محفوظ رکھ سکیں ، بلکہ (نظم مملکت کو چھوڑکر)ہر طرح سے اسلامی سلطنت کی قائم مقامی کر سکیں۔
انگریز حکومت نے اپنے اقتداروتسلط اور سوچے سمجھے منصوبہ کے ذریعے مسلمانوں کے تعلیمی مراکز کی بقاوحیات کے سر چشموں کو خشک کرنے کی ایسی منظم کوشش کی جس کے بعد مدارس اور اس دینی تعلیم کے نظام کا باقی رہ جانا ایک معجزے سے کم نہیں اور وہ(تاریخی تجزیہ نگار اور فلسفئہ حیات کی روسے)محض مسلمانوں کے عزم وقوت ایمانی اور شروع سے دینی تعلیم کے آزاد رہنے کا نتیجہ تھا،انگریز حکومت کے ان انتظامات اور اقدامات کی بعض کڑیاں پیش کی جاتی ہیں جو ایک طویل اور آ ہنی زنجیر کا جز ہیں، جو کسی نظام تعلیم کے ختم کرنے کے لیے بھی کافی ہے۔
آنریبل مسٹر النفسٹن اورایف وارڈن نے مسئلہ تعلیم پر ایک یادداشت مرتب کی، جس میں حسب ذیل اعتراف موجود ہیں:
”ہم نے ہندوستانیوں کی ذہانت کے چشمے خشک کردیے اور ہماری فتوحات کی نوعیت ایسی ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ تعلیمی ترغیب نہیں ہوتی، بلکہ اس سے قوم کا علم سلب ہوا جاتا ہے اور علم کے پچھلے ذخیرے نسیاً منسیاً ہوئے جاتے ہیں“ (حکومت خود اختیاری،از مولوی سید طفیل احمد صاحب منگلوری علیگ ایم۔ایل سی، ص95)
ڈبلیو۔ڈبلیوہنٹر(W.W.Hunter)نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”ہمارے ہندوستانی مسلمان“(The Indian Musalmans) میں ہندوستانی مسلمانوں کی جائز شکایتوں کاذکر کرتے ہوئے لکھا ہے اور ان کو بجاقرار دیاہے:
”ان( مسلمانوں کو)شکایت ہے کہ ہم نے مسلمانوں سے مذہبی فرائض کو پورا کرنے کے ذرائع چھین لیے اور اس طرح روحانی اعتبار سے ان کے ایمان کو خطرہ میں ڈال دیا ، ہمارا بڑاجرم ان کے نزدیک یہ ہے کہ ہم نے مسلمانوں کے مذہبی اوقاف میں بددیانتی سے کام لیتے ہوئے،ان کے سب سے بڑے تعلیمی سرمایہ کا غلط استعمال کیا“۔(ہمارے ہندوستانی مسلمان، مترجمہ: ڈاکٹر صادق حسین،مطبوعہ اقبال اکیڈمی لاہور،ص219)۔
سر ولیم ہنٹر نے اپنی اس کتاب میں مسلمانوں کے نظام تعلیم ومدارس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
”انگریزوں کے ہندوستان پر قابض ہونے سے پہلے وہ ملک کی سیاسی ہی نہیں،بلکہ دماغی قوت بھی تسلیم کیے جاتے تھے،اس ہندوستانی مدبر کے الفاظ میں، جو ان سے بخوبی واقف تھا،اس کا تعلیمی نظام اگرچہ اس نظام کے مقابلہ میں کم درجہ پر ہے، جسے ہم نے رائج کیا ہے، لیکن پھر بھی اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنا غلطی ہے ، کیوں کہ وہ اعلیٰ دماغی تعلیم و تربیت کااہل تھا ،اس کی بنیادیں بالکل ہی ناقص اصولوں پر نہ تھیں، گو ان کے پڑھانے کا طریقہ بہت پرانا تھا ،لیکن یقینی طور پر وہ ہر اس طریقہ سے برتر رہا جو اس وقت ہندوستان میں رائج تھا،مسلمان اس طریق تعلیم سے اعلیٰ قابلیت اور دنیاوی برتری حاصل کرتے“۔(ایضا!ص259)
ڈاکٹر ہنٹر کی اس کتاب سے ثابت ہوتا ہے کہ آزاد اور غیر سرکاری تعلیم گاہوں کا ذریعہ آمدنی کیا تھا اور وہ کیوں ہر طرح کے ناسازگار حالات کے باوجود نہ صرف زندہ بلکہ مفید اور کار آمد رہے وہ لکھتا ہے:
”ہم نے ان کے(مسلمانوں کے)طریقہ تعلیم کو بھی سرمایہ سے محروم کردیا،جس میں اس کی بقا کا دارومدار تھا،مسلمانان بنگال کا ہراعلیٰ خاندان ایسے اسکول کا خرچ بھی برداشت کرتاتھا جس میں خود اس کے اور غریب ہمسایوں کے بچے مفت تعلیم حاصل کر سکتے تھے،جوں جوں صوبہ کے مسلما ن خاندانوں پر ادبار چھاتاگیا، یہ خاندانی اسکول کم ہوتے گئے اور ان کے اثرات بھی کم ہوتے گئے، زمانہ قدیم سے ہندوستانی شہزادوں کا دستور چلا آتا تھا کہ وہ نوجوانوں کی تعلیم او ر خدا کی رضا جوئی کے لیے زمین کے قطعات وقف کر دیتے“۔(ایضاًص267)۔
حکومت برطانیہ کی اس منظم ومسلح معنوی وثقافتی نسل کشی (Genocide Cultural) ، اوقاف کی ضبطی، سرکاری ملازمتوں کے لیے فضلائے مدارس کی نااہلی کے قانون اور اس سب سے بڑھ کر قدیم دینی تعلیم کے متوازی پرائمری اور ہائی اسکولوں کی سطح سے لے کر کالجوں اوریونیورسٹیوں کے ملک گیر نظام کے قائم کرنے اور ان میں ہر طرح کی کشش اور ترغیب کے پہلو کے موجود ہونے کے باوجود ، مسلمان اپنے دین اور اس کی ثقافت ( کلچر) اور تہذیب ومعاشرہ سے وابستہ رہے اور وہ کسی بڑے پیمانہ پر بلکہ قابل ذکر سطح پر بھی دینی، تہذیبی وثقافتی ارتداد کا اس طرح شکار نہیں ہوئے، جس طرح اسپین کے مسلمان زوال حکومت اسلامی کے بعد شکار ہوئے ، یہ تنہا آزاد دینی تعلیم اور آزاد مدارس ومکاتب اور ان کے فضلاء، وہاں سے تعلیم پاکر نکلنے والے مفتیوں،قاضیوں، واعظوں او رائمہ مساجد کا فیض تھا اور انہی کی وجہ سے نہ صرف علوم دینیہ، بلکہ قرآن مجید پڑھنے اور یاد کرنے کی صلاحیت ، اردو میں نوشت وخواند کی قابلیت اس نسل تک باقی رہی، اس بنا پر عہد جدید کے نامور ترین مفکر او رترجمان حقیقت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے مدارس دینیہ پر تنقید کرنے والے ایک مسلمان صاحب قلم کی تنقید پر یہ فرمایا کہ ” ان دینی مدارس کو کچھ نہ کہو، اگر یہ باقی نہیں رہے تو ہندوستان بھی اسپین بن جائے گا۔“
ان مدارس او ران کے فضلاء کی اس خصوصیت او راس ملک میں اسلام سے واقفیت اور وابستگی کے تسلسل وبقا میں ان کے عظیم کارنامہ کا بقدر ضرورت اور اضطرار اً تذکرہ کرنے کے بعدہم ایک دوسرے پہلو کی طرف بھی قارئین وقائدین اور حقیقت پسند او رمنصف مزاج محبان وطن کی توجہ منعطف کرانا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا حصہ اس قدیم نظام تعلیم کے ساختہ پرداختہ فضلا اور علمائے دین کا تھا ، آزاد مسلم مفکرین وقائدین میں سرفہرست علمائے دین ہی تھے ، جو سیاسی اور قومی تحریکات میں حصہ لینے کے نہ صرف قائل بلکہ داعی تھے اور سیاست کو مسلمانوں کے لیے ( بعض جدید تعلیم یافتہ قائدین کی طرح ) ”شجرہٴ ممنوعہ“ نہیں سمجھتے تھے ، انہیں علماء نے برطانوی حکومت کی مخالفت او راس کے خلاف جدوجہدمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، اس کے نتیجہ میں مولانا یحییٰ علی ، مولانا حمد الله عظیم آبادی، مولوی عبدالرحیم صادق پوری اور مولوی محمد جعفر تھانیسری کو پورٹ انڈمان روانہ کر دیا گیا، مولانا یحییٰ علی اور مولانا حمد الله صاحب کا انڈمان میں انتقال ہو گیا اور مولوی محمد جعفر اٹھارہ سال کی قید بامشقت اور جلا وطنی کے بعد اپنے وطن واپس ہوئے، ان کے علاوہ دوسرے ممتاز او رجلیل القدر علماء کو بھی انڈمان میں جلا وطنی کی سزا دی گئی ، جن میں مولانا فضل حق خیر آبادی ، مفتی عنایت احمد کاکوروی اور مفتی اظہر کریم دریا بادی کے نام قابل ذکر ہیں، مولانا فضل حق خیر آبادی کا وہیں انتقال ہوا اور بقیہ دو عالم طویل عرصہ کے بعدوطن واپس ہوئے۔
پھر جب ہندوستان میں تحریک خلافت اور اس کے ساتھ آزادی ہند کی تحریک شروع ہوئی تو اس میں بھی علماء ہی پیش پیش تھے، اس طویل ونورانی فہرست میں یہاں صرف شیخ الہند مولانا محمود حسن ، قیام الدین ، مولانا عبدالباری فرنگی محلی ، مولانا معین الدین اجمیری، مولانا ابوالکلام آزاد، مفتی کفایت الله دہلوی، مولانا احمد سعید، ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد بہاری ، مولانا سید سلیما ن ندوی، مولانا مسعود علی ندوی ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ، مولانا سید محمد داؤد غزنوی ، مولانا عطاء الله شاہ بخاری اور مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کا نام لینا کافی ہے ، ان میں شیخ الہند مولانا محمود حسن ، مولانا سیدحسین احمد مدنی ، مولانا عزیز گل ، مولانا حکیم نصرت حسین اور مولوی سید وحیداحمد کو 1917ء میں مالٹا جلا وطن کر دیا گیا، یہ جماعت 1920 ء تک وہیں رہی۔
انگریزوں سے نفرت او رحکومت انگریزی کی مخالفت میں ہر طرح کی سختیاں اورمصائب کے برداشت کرنے کی جس صلاحیت اور ہمت کا ثبوت جماعت علماء نے دیا ، اس سے یہ نتیجہ اخذ کر نا ہر طرح سے حق بجانب ہو گا کہ دینی تعلیم اور آزاد مدارس میں قربانی وایثار کا جذبہ، عزیمت وعالی ہمتی اوربلندنگاہی پیدا کرنے کی زیادہ صلاحیت ہے او رملک وقوم کو درپیش مصائب وخطرات کے موقع پر یہی جماعت ( جو مادی ترقیات، معاشی آسودگی اور عزت واقتدار کے حصول سے زیادہ آسانی کے ساتھ صرف نظر کر سکتی ہے ) زیادہ کام آنے والی ہے۔
اس کے ساتھ ضمناً اس حقیقت کااظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ علم وتحقیق کی آبرو، ذوق مطالعہ اور علم وتصنیف کی راہ میں خود فراموشی اورمحنت کوشی انہیں عربی ودینی مدارس سے قائم ہے ، ان میں سے ایک ایک آدمی نے اکیڈمی کا کام کیا ہے، اس سلسلہ میں ان مصنفین کے تصنیفی کارناموں کا ذکر موجب طوالت وملال طبع کا باعث ہو گا۔
ان آزاد دینی مدارس ومکاتب کا یہ احسان او رکارنامہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ اس دو رمیں زبان اردو انہیں کے ذریعہ نئی نسل کی طرف منتقل ہو رہی ہے اوراس نسل میں اردو نوشت وخواند اور قدیم دینی وعلمی ذخیرہ سے ربط وتعلق واستفادہ کی صلاحیت انہیں مدارس ومکاتب کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے، ورنہ جدید تعلیم گاہوں میں تعلیم پانے والا ( اسکولوں سے لے کریونی ورسٹیوں کے طلبہ تک) اردو میں تحریر وتصنیف کا کیا ذکر؟ اردو میں پڑھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں او راپنے والدین اور سرپرستوں سے ہندی یاانگریزی میں خط وکتابت کرنے پر مجبور ہیں۔
حضرات! گذشتہ بیان او رمعروضات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ کسی ملک میں دین سے وابستگی او رملت کے تشخص کی بقا حکومت کی ان پابندیوں سے آزاد رہنے اوران قوانین سے مستثنیٰ ہونے میں مضمر ہے، جو ملک کی مادی ضرورتوں کی تکمیل او رعام نظم ونسق کے شعبوں کے لیے ضروری یا مفیدہو سکتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اگر ذمہ داران حکومت صحیح معنی میں حقیقت پسند او رمحب وطن ہوں توان کو ہر ایسی کوشش اور ہر ایسے ادارے کو نہ صرف باقی رہنے کی اجازت دینی چاہیے بلکہ اس کی ہمت افزائی اور قدردانی کرنی چاہیے، جو ملک میں علم وخواندگی اور ثقافت وتہذیب کی اشاعت وترقی اور ان کی توسیع میں مدددے کہ اس وسیع ، طویل و عریض اور کثیر آبادی کے ملک میں اگر کوئی شخص درخت کے نیچے بیٹھ کر جسم وجان کارشتہ قائم رکھنے والی خوراک او ربقدر ستر پوشی پوشاک پر قناعت کرتے ہوئے تعلیم وتربیت کا کام کرے تو ہر محب وطن انسان او رعلم کے ہر قدردان کو اس کا نہ صرف خیر مقدم کرنا چاہیے، بلکہ اس کا شکر گزار ہونا اورا س پر فخر کرنا چاہیے کہ تمام تر سرکاری وسائل اورزیادہ سے زیادہ تعلیم گاہوں کے قیام او ران کے لیے اساتذہ کی فراہمی کے باوجود ملک کی آزادی کے بڑے حصہ کو خواندہ تعلیم یافتہ نہیں بنایا جاسکتا، چہ جائیکہ اخلاق وسیرت کی تعمیر ہواورباکردار شہری پیدا ہوں۔
اسی بنا پر ہم حکومت کے ان قوانین وضوابط کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبورہیں، جو آزاددینی مدارس ومکاتب کے قیام اوران کے آزادی سے تعلیمی خدمت اور علم وثقافت کی اشاعت اور مسلمانوں کو اپنے دین سے اس درجہ واقف کرانے کے کام میں خلل انداز ہوں، جو ان کے لیے مذہبی طور پر ضروری ہے اور وہ تعلیم گاہیں یا تو قائم نہ ہو سکیں،یا اگر قائم ہیں تو باقی نہ رہ سکیں، مثلاًکم سے کم تنخواہ ومعاوضہ(Minimum Wage)کا قانون یا مدارس و مکاتب کے لیے قیام وجواز کے لیے لائسنس لینے کی پابندی، جو حکومت کے دوسرے شعبوں، جن کا نظم و نسق(Administration)یا (Labour) سے تعلق ہے،کے لیے موزوں ہیں، لیکن دینی مدارس و مکاتب کے لیے، جن کا شعار اور طاقت وخصوصیات ،زمانہ قدیم سے لے کر اس وقت تک ایثارو قناعت رہی اورہمیشہ رہنا چاہیے،ناموزوں اور سخت ضرر رساں ہیں۔ہم اپنا جمہوری،مذہبی،اخلاقی اور شہری حق سمجھتے ہیں کہ اس کے خلاف آواز بلند کریں کہ ملک کے دستور نے ہر اقلیت اور ہر اکائی کو اس کی اجازت دی ہے کہ وہ اپنی پسند کے مدارس قائم کرے اور اپنی پسند اور صواب دید کے مطابق ان کو چلائے۔ہم خالص حبُ الوطنی اور ہندوستا ن کے لیے اس کو باعث فخر سمجھنے کی بناپر بھی یہ کہتے ہیں کہ تعلیم وتربیت اور ثقافت وتہذیب کے پھیلانے میں ایثار وقربانی کی اس روایت کو جو ہندوستان کی قدیم تاریخ کا بھی طرئہ امتیاز رہا ہے،باقی رہنا چاہیے۔
آخر میں بڑی معذرت کے ساتھ ایک تلخ حقیقت کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتاہوں کہ ان مدارس و مکاتب کے سرکاری امداد قبول کرلینے کے بعدیہ اندیشہ ہے( جو واقعہ بن کر سامنے آگیا ہے)کہ ان مدارس کا عوام سے رابطہ بھی ٹوٹ جائے اور وہ مقصد بھی حاصل نہ ہو جس کے لیے سرکاری امداد اور ایڈ قبول کی گئی ہے۔کچھ عرصہ پہلے پٹنہ کے ایک جلسہ میں شرکت کے موقع پر، جو امارت شرعیہ بہارکے قائم کردہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحبکی یادگار میں ہسپتال کے افتتاح کے لیے منعقد کیا گیا تھا اور جس میں بہار کے چیف منسٹر بھی شریک تھے،ایک عربی مدرسہ کے ذمہ دارنے تقریر میں کہا کہ چھ مہینے سے ہم کو سرکاری امدادی رقم نہیں ملی،ہمارے بچے فاقہ کررہے ہیں،یہ بہار کا حال ہے، جہاں اکثرمدارس عربیہ سرکاری امداد قبول کرچکے ہیں،ابھی چند ہی دن پہلے”قومی آواز“(لکھنو)میں جھانسی کے ایک دینی مدرسہ کے صدر مدرس یا مہتمم صاحب کا مراسلہ شائع ہوا ہے،اس میں صاف لکھا گیا ہے کہ پانچ مہینے سے ہم کو سرکاری امداد نہیں ملی اور ہمارے بچے فاقہ کررہے ہیں،ایسی حالت میں بڑے گھاٹے کا سودا ہوگا کہ ہمارا رشتہ عوام سے بھی ٹوٹ جائے اور ہم ان کی ہم دردی اور اعانت سے بھی محروم ہو جائیں اور حکومت کے تغافل یا اس کے نظم ونسق کی طوالت کا بھی شکار ہوں،اس طرح(بہت معذرت کے ساتھ) صرف اس مصرعہ پر اکتفاکروں گاکہ #
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
میں ایثار وقربانی کی اس دعوت کے ساتھ ،جو کسی نہ کسی درجہ میں دینی تعلیم کی بقاوملت کے تشخص کی حفاظت کے لیے ضروری ہے،حقائق اور زندگی کی طبعی وفطری، بلکہ شرعی ضروریات سے چشم پوشی نہیں کر سکتا، مدارس ومکاتب کے اساتذہ ومنتطمین کے لیے بقدر ضرورت وباعزت معاشی انتظام کی بے شک ضرورت ہے ادراس کے ذمہ داروں کواس پر ہم دردانہ غور کرنا اور اس تقاضے کو اپنے وسائل اور دائرہ اختیار میں رہ کر پورا کرنا ضروری ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور مدارس ومکاتب کے کارکنوں اور خدمت گزاروں کو کسی نہ کسی درجہ میں ایثار وقناعت کے اجروثواب کی امید میں کام کرنے کے ساتھ اس چراغ کو روشن رکھنے اور اس کی روشنی دور دور اور دیر تک پہنچاتے رہنے کی کوشش وجاں فشانی بھی جاری رکھنی چاہیے کہ اس دین کا ماضی ،حال او رمستقبل ایمان ویقین،ایثار وتوکل اور عزم حالات اور تیز وتند آندھیوں میں بھی اس چراغ کو گل ہونے سے بچاتارہاہے اور بچاتا رہے گا #
ہوا ہے گو تند وتیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ
میں اقبال کے اس شعر پر گزارش کا اختتام کرتا ہوں کہ #
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے قرآن وحدیث کی تعلیم کا آغاز ایک ایسے چبوترے سے کیا تھا جس کے اوپر چھت بھی نہیں تھی، مطبخ تو بڑی بات ہے، لوگ کھجور کے خوشے ایک جگہ آویزاں کر دیا کرتے تھے، صحابہ کرام حسب ضرورت چند کھجوریں کھا کر باقی دوسروں کے لیے چھوڑ دیا کرتے تھے، حضرت ابو ہریرہ بعض اوقات شدتِ بھوک کی وجہ سے بے ہو ش ہو کر گرجایا کرتے تھے، فرماتے ہیں کہ لوگ سمجھا کرتے تھے کہ مرگی کا دورہ پڑ گیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ میری گردن پر پاؤں رکھ کر گزرا کرتے تھے (بطور علاج)۔ حضرت ابوہریرہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! مرگی نہیں، بلکہ سخت بھوک کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہوا کرتی تھی، صحابہ کرام رضی الله عنہم نے یہ عظیم قربانیاں دے کر دین ہم تک پہنچایا، یہی حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہ انہیں حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی طویل صحبت میسر نہیں آئی، 7 ہجری میں غزوہ خیبر کے موقع پر مشرف با اسلام ہوئے اور سن 11ہجری میں آفتاب نبوت غروب ہو گیا ،حضرت ابوہریرہ نے اس مختصر ترین مدت میں بہت زیادہ کسب فیض کیا، بلکہ کثرتِ روایت کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام سے نمایاں نظرآتے ہیں، مرویات ابوہریرہ کی تعداد5364 ہے، جو سب سے زیادہ ہے، آج یہ سادہ سے مدارس جو نظر آرہے ہیں اگرچہ بے رنگ ہوں، بیٹھنے کے لیے بورے بھی میسر نہ ہوں، لیکن ان میں بیٹھ کر علوم قرآنی وحدیث حاصل کرنے سے حضرات صحابہ کرام کے ساتھ جو ایک نسبت قائم ہو جاتی ہے یہ اتنی بڑی نعمت اور انعامِ خداوندی ہے کہ جس کا حق اور شکر ادا نہیں ہو سکتا۔
دین ہم تک کیسے پہنچا؟ دین ہم تک اس طرح پہنچا ہے کہ ہر کسی نے باادب ہو کر زانوئے تلمذ تہہ کرکے ان اساتذہ سے سیکھا جن کی سند رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم تک متصل ہے،کتاب کا آپ خود مطالعہ کر لیجیے، ایک کتاب کسی کامل استاذ سے پڑھ لیجیے جس کا سلسلہٴ سند حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ملتا ہو، دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہو گا، آج کل اسٹڈی (مطالعہ) کرنے کا رواج اور وباء پھیلی ہوئی ہے، مطالعہ کرنے کا بڑا شوق ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اجتہادات کا ایک بازار گرم ہے۔ یاد رکھیے! اگر علم کا حاصل ہونا صرف مطالعہ کے ذریعے بغیر کسی استاذ کے ممکن ہوتا تو آسمانی کتابوں کے ساتھ کسی رسول کو بھیجنے کی حاجت نہ تھی، الله تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہ تھا کہ کسی رات ہر مسلمان کے سرہانے قرآن پاک کا ایک ایک عمدہ نسخہ اور خوب صورت جلد میں مجلد رکھ دیا جاتا اور غیب سے یہ آواز لگا دی جاتی کہ اسے پڑھو اور اس پر عمل کرو! لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید کے ساتھ شارح قرآن حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بھیجا اور فرمایا”یعلمھم الکتاب“ تاکہ وہ پیغمبر کتاب کی ان کو تعلیم دیں ،ایسے ہی ہر کتاب کے ساتھ الله تعالیٰ نے ایک ایک پیغمبر بھیجے ہیں، ایسا تو ہوا ہے کہ انبیاء علیہم السلام تشریف لاتے، مگر کتاب نہیں تھی، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کتاب بغیر صاحب کتاب کے نازل ہوئی ہو۔ وجہ یہ ہے کہ کتاب بغیر معلم ومربی کے انسان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ، اگر انسان کتاب کا خود مطالعہ کرتا تو جب اسے مطلب سمجھ نہ آتا تو گم راہ ہو جاتا۔ اس کی مثال تو ایسے ہے کہ ایک آدمی علم طب پر لکھی ہوئی کتب کا خود مطالعہ کرکے مطب کھول کر بیٹھ جائے تو سوائے اس کے کہ وہ قبرستان آباد کرے، انسانیت کی کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتا، کسی ڈاکٹر سے یہ علم حاصل کرنا پڑے گا، اس کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کرنے پڑیں گے، وگرنہ حکومت بھی اس کی اجازت نہیں دے گی، یہی معاملہ دین کا بھی ہے کہ اسے سیکھنے کے لیے کسی کامل مربی ومعلم کے پاس رہنا ہو گا ،وگرنہ گم راہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا، ان مدارس کی قدر پہچانئے، ان کی بدولت الله تعالیٰ کا کلمہ بلند ہے اور دین اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے، ان ممالک میں جا کر دیکھیے جہاں یہ مدارس ختم کر دیے گئے، ان کا بیج ما ردیا گیا، وہاں بے دینی کا سیلاب امڈ رہا ہے، اور کوئی بند باندھنے والا نہیں ، بقول ہمارے حضرت علی میاں رحمہ الله کے ردة ولا ابا بکرلھا کہ ارتدار کا بازار گرم ہے لیکن کوئی ابوبکر رضی الله عنہ نہیں۔الله تعالیٰ نے مجھے دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں جانے اور وہاں کے اہل علم اور دینی حلقوں سے ملاقات کا موقع عطا فرمایا، پہلے تو تقلیداً یہ بات سمجھتا تھا کہ یہ دینی مدارس جن کا تعلق حضرات علماء دیوبند سے ہے، ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہیں ،لیکن ان ممالک میں حالات دیکھنے کے بعد تحقیقا یہ سمجھا ہے کہ دین کی حفاظت وتحفظ کا ذریعہ الله تعالیٰ نے ان دینی مدارس کو بنایا ہوا ہے، خواہ بہ ظاہر یہ کتنے ہی سادہ کیوں نہ ہوں؟ معاشرے پر ان کی برکات واثرات الحمدلله آج بھی نمایاں ہیں، جہاں یہ مدرسے نہیں وہاں بے عملی وبے راہ روی کی عجیب وغریب شکلیں او رمناظر دیکھنے میں آئے۔ یہ مناظر بھی دیکھے گئے کہ منھ میں سگریٹ گلے میں ٹائی کلین شیو اور انگریزی لباس زیب تن کیے ہوئے ایک آدمی بخاری شریف پڑھا رہا ہے، یہ مناظر بھی دیکھے گئے کہ درس بخاری کا ہو رہا ہے، لیکن نماز پڑھنے کا سوال ہی نہیں، یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ مرد وزن باہمی مخلوط بیٹھے ہیں اور اسلامی تعلیمات کا درس ہو رہا ہے کیا کیا بتاؤں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل مجھے عراق جانا ہوا، آج تو وہاں ایک طوفان برپا ہے، وہاں میں نے بعض دوستوں سے کہا کہ اگر کوئی پرانی طرز کا عالم ہو تو اس کی زیارت کو جی چاہتا ہے، یہ تقاضا اس لیے پیدا ہواکہ وہاں ایسے علماء وصلحاء کا بیج مار دیا گیا ہے تو کسی نے بتایا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کے مزار کے قریب ایک مدرسہ میں پرانی طرز کے بزرگ ہیں، آپ ان سے ملاقات کیجیے، میں وہاں پہنچا، جاکر دیکھا تو واقعی ایک بزرگ جن کی چال ڈھال میں، اندازِ گفتگو میں نشست برخاست میں اسلاف کی جھلک نظر آئی ، انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ پاکستان میں کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا کراچی میں ہمارا ایک دارالعلوم ہے، اس میں پڑھنے پڑھانے کا کچھ سلسلہ ہے ،انہوں نے پوچھا وہ کون سی یونیورسٹی سے متعلق ہے؟ میں نے کہا ہمارے ہاں! یہ سلسلہ نہیں ہے، بلکہ عوامی قسم کے مدارس ہیں، انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کیا تمہارے ہاں عوامی قسم کے مدارس ہیں؟ پھر خود ہی فرمایا ہم تو اس قسم کے تصور کو بھو ل گئے، آپ پر تو الله تعالیٰ کی یہ بہت بڑی نعمت ہے، پھر پوچھا وہاں کیا پڑھاتے ہو؟ میں نے مدارس میں پڑھائی جانے والی چند کتب کا نام لیا مثلاً شرح جامی اور سلم وغیرہ جب شیخ نے ان کتب کا نام سنا تو ان کی چیخ نکل گئی، پھر فرمایا: ” میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جب تک تمہارے دم میں دم ہے، اس طریق کار اور نصاب تعلیم کو نہ چھوڑنا، کیوں کہ ہمارے ہاں عراق میں جب اس نصاب کی کتابیں زیر تعلیم تھیں تو فضا کچھ اور تھی او رجب سے یونیورسٹیوں کا نظام رائج ہو گیا اور دینی کتب چھوڑ دی گئیں اس وقت سے فضا بالکل تبدیل ہو گئی، پھر فرمایا:” کسی زمانہ میں ہم بھی یہ کتابیں پڑھاتے تھے، اس وقت علماء متبع سنت اور دینی جذبہ رکھنے والے پیدا ہوتے تھے، بعد میں تمام مدارس سرکار کی تحویل میں لے لیے گئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت سے سرکاری مولوی پیدا ہونے لگے۔“ ان ممالک میں گھومنے پھرنے کے بعد یہ احساس مزید پختہ اور قوی ہو گیا کہ یہ مدارس جن کا سلسلہ ماضی قریب میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے جڑا ہوا ہے اور پھر بالآخر سند متصل کے ساتھ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم سے جاملتا ہے ایسی نعمتیں اور احسان ہے کہ جس پر شکر ادا نہیں ہو سکتا۔ ایک مرتبہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ( قدس سرہ) دارالعلوم کراچی تشریف لائے ( یہ الله کے بندے اخلاص کے پیکر عندالله اتنے مقبول ومنظور تھے کہ ان کی تصنیف شدہ کتب فضائل24 گھنٹوں میں سے کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں پڑھی نہ جاتی ہوں ) ہم نے عرض کیا کہ حضرت نصیحت فرما دیجیے ، تقریر کرنے کا تو معمول نہ تھا، صرف ایک جملہ ارشاد فرمایا:”طالب علمو! اپنی حقیقت پہچانو! اپنی قدر پہچانو“۔ اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ بعض اوقات تمہارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم تو یوں ہی بوریوں پر بیٹھنے والے ہیں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ،لیکن الله تعالیٰ نے جو نعمت عظمیٰ تمہیں عطا کی ہے اس کا مقابلہ دنیا اور اس کی دولت نہیں کر سکتی ،وہ نعمت ہے حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نسبت، یہ جو ہم پڑھتے ہیں ،حدثنا فلان حدثنا فلان عن فلان، عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس سند متصل کے ساتھ اپنے کو جوڑ دینا آج تو شاید اس کی قدر ومنزلت ہمیں معلوم نہ ہو، لیکن جب آنکھیں بندہوں گی اور الله تعالیٰ کے ہاں حاضری ہو گی اس وقت پتا چلے گا کہ اس سلسلہ کے ساتھ وابستگی کتنی بڑی نعمت ہے۔ میرے شیخ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی مثال دیا کرتے تھے کہ کراچی سے صدر مملکت کی ایک ٹرین جارہی ہے، جس میں بہترین سیلون لگا ہوا ہے ، عمدہ اور عالی شان ڈبے لگے ہوئے ہیں، اس کے ساتھ کھانے پینے کا بہترین انتظام موجود ہے، بہت ہی پر کیف خوشبو ئیں اٹھ رہی ہیں، روانگی کے وقت اسٹیشن ماسٹر نے ایک پرانا اور بوسیدہ ڈبہ بھی اس ٹرین کے ساتھ جوڑ دیا، یہ بھی ٹرین کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا، ایسے ہی ہم بوسیدہ اور خستہ حالت میں سہی، لیکن ہمارا کنڈا اعلیٰ اور عمدہ ڈبوں پر مشتمل ٹرین کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ہمارا تعلق سند متصل کے ساتھ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ قائم ہوچکا ہے، اس نسبت او رتعلق کی وجہ سے الله تعالیٰ کی بے پایاں رحمتیں ہم پر نازل ہوں گی، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے کی قدر پہچانیں۔ پڑھنے پڑھانے والوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اپنے آپ کو محروم نہ سمجھیں ہ،و ان پڑھنے پڑھانے والوں کے ساتھ محبت کریں ”المرء مع من احب․“ اگر کسی کی محبت اس سلسلہ والوں کے ساتھ ہو گئی تو ان کا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا خود بھی تعاون کریں، دوسروں کو بھی توجہ دلائیں تو اس سلسلہ کے ساتھ وابستگی ہو جائے گی، خدا کے لیے ان دینی مدارس کی قدر پہچاننے کی کوشش کریں۔ |
دینی مدارس کے امتیازات
| ||||||
دینی مدارس اعتدال پسند اور انسانیت نواز ادارے ہیں
|
مدارس اسلامیہ اور ہمارا طرز عمل |
لیکن رنج و الم اور دلی کوفت اس وقت ہوتی ہے جب غیروں کی ان ناپاک کوششوں میں مدعیان حق بھی پیش پیش نظر آتے ہیں اور اسلام کے زندہ وجاوید آشیانے میں آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان گھناؤنی حرکات کے بعد بھی اپنے آپ کو شیدائیان اسلام ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
یہ ایک تلخ، مگر مسلمہ حقیقت ہے کہ آج ہمارے سماج ومعاشرہ میں دینی مدارس اور اہل مدارس کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھا جاتا ہے، مدارس کے سفرا اور ذمہ داران حضرات کو قوم کے بدترین افراد شمار کیا جاتا اور ان کے ساتھ سوتیلا برتاوٴ کیا جاتا ہے، جب کہ ہندوستان کی آزادی سے لے کر اس کی نشوو نما تک مدارس اور اہل مدارس نے اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر جو کارہائے نمایاں انجام دیے شاید ان احسانات کو تاریخ کے صفحات کبھی بھی فراموش نہ کرسکیں، کسی بھی قوم کی ترقی وتعمیر میں تعلیم کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، جنگ آزادی میں اپنا گراں قدر کردار ادا کرنے کے بعد مدارس اسلامیہ نے تعلیم کے میدان میں بھی بڑے جوش وخروش کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیا،ماشاء اللہ آزادی ہندوستان کے بعد سرزمین ہند کے جو سب سے پہلے وزیر تعلیم منتخب کیے گئے وہ ایک مولانا ہی تھے، جن کو ہندوستانی تاریخ مولانا ابو الکلام آزاد کے نام سے جانتی ہے، جو ایک دینی مدرسہ کی پیداوار تھے، جنہوں نے اپنے منصب کے لحاظ سے ہندوستانی نظام تعلیم کو عروج وارتقا کا سفر طے کرایا،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،عثمانیہ یونیورسٹی اور کشمیر یونیورسٹی جیسی عالمی شہرت یافتہ جامعات جن بزرگوں کی مرہون منت ہیں وہ سب مدارس ہی کے فارغین تھے۔
جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن
یہ ہمارا چمن ہے تمہارا نہیں
افسوس ہے کہ دور حاضر میں ملک کی ترقی کے کچھ دشمن حضرات، انسانیت اور حب وطن کا درس دینے والے مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈاتصور کرتے ہیں، بلکہ اگر سچائی سے کام لیں تو مدارس کے قیام کا مقصد ہی ایمانداری، سچائی اور خدمت خلق کا درس دینا ہے، جب کہ دینی مدارس کے خلاف اغیار کے جھوٹے پروپیگنڈوں سے زیادہ خطرناک ملت اسلامیہ کو اسلام سے وابستہ رکھنے کا واحد ذریعہ ان دینی مدارس سے مسلمانو ں میں بڑھتی بے اعتمادی ،بلکہ بدگمانی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان مدارس کی طرف سے بے اعتمادی اور بد گمانی خود اسلام سے بدگمانی اور دینی تعلیم سے محرومی ہے جب کہ ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم ومسلمة “کا واضح فارمولا ہمارے سامنے موجود ہے۔
آج مسلم معاشرہ علماء کے تعلق سے عمومی چندہ کے سلسلے میں بھی بدظن ہے، جب کہ وہ حضرات بخوبی واقف ہیں کہ مدارس کے جملہ اخراجات انہیں دردمند محسنین اور اہل خیر کے تعاون ہی پر منحصر ہیں، جس کے لیے مدارس کے سفرا حضرات رمضان کے ماہ مبارک میں روزہ رکھتے ہوئے دربدر بھٹکتے ہیں روزہ کی حالت میں جب وہ سفراء اہل خیر حضرات کے دربار میں حاضری دیتے ہیں تو انہیں حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے، بسا اوقات کچھ امداد کیے بغیر اور الہی فرمان ﴿واما السائل فلاتنہر﴾ کا پاس ولحاظ نہ رکھتے ہوئے انھیں خالی ہاتھ واپس کردیا جاتا ہے، اللہ تعالی اخلاص کے ساتھ اس کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹانے کی لذت سے آشنا، خوش نصیبوں کو خدام مدارس کی قدرومنزلت سے واقفیت عطا کرتے ہیں اس کے برخلاف بخل کے مریضوں ،مہاجنو ں اور نام ونمود کے لیے خرچ کرنے کے خواہش مندوں کو ان قابل رشک خدام دین میں کمیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔دو پیسوں کے نشے میں یا مغربی پروپیگنڈہ سے متاثر بھولے بھالے مسلمانوں میں ان خدام مدارس کی عظمت کا بڑا فقدان پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے امت مسلمہ مدارس کے حقیقی فائدے سے محروم سی ہوتی جارہی ہے۔افسوس ہے کہ دینی اداروں، علمائے مدارس اور خدام مدارس کے سلسلے میں امت میں حد درجہ استخفاف اور اہانت کا معاملہ پایا جاتا ہے۔
ملک کا ایک بڑ ا تعلیم یافتہ طبقہ مدارس کے قیام کے سلسلے میں بھی بدظن ہے اور مدارس اسلامیہ کوعلما ء کے مالی وسائل اور معاش کا ذریعہ بتاتا ہے سفرا ئے مدارس کی بڑھتی تعداد سے عاجز نظر آتا ہے جب کہ مدارس اسلامیہ کی اتنی بڑی تعداد ہو جانے کے باوجود بھی اس ملک کے پانچ فیصد حصے میں بھی مسلمانوں کی بنیادی دینی تعلیم کی ضرورت پوری نہیں ہوپاتی ۔اس کے باوجود بھی مسلمانوں میں مدارس کے قیام کی فکر کے بجائے مدارس کی زیادتی ایک عیب اور برائی نظر آتی ہے، بنیادی دینی تعلیم کی ضرورت محسوس کرنے والے کچھ دردمند مسلمان بھی یہ خیال رکھتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں دینی مدارس کی ضرورت نہیں ہے ان دانشور حضرات کو خود محاسبہ کرنا چاہیے کہ آج مدارس اسلامیہ سے کتنے علماء فارغ ہوتے ہیں جن کی ایک لمبی تعدادحکومتی اسکولوں میں استاذ دینیات متعین کی جاتی ہے، پھر ائمہ مساجد بھی وہی علماء بنتے ہیں اس کے علاوہ مدارس اسلامیہ کو بھی ایک بڑی تعداد کی ضرورت پیش ہوتی ہے جو درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کی اہم ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں اس کے باوجود آج ہندوپاک کے کتنے علاقے، بلکہ صوبے ایسے ہیں جہاں کے مسلمان نہ تو قرآن کی تعلیم سے واقف ہیں اور نہ ہی شریعت اسلامیہ کے دیگر ضروری امور سے،ان کے دلوں کو اگر کوئی ایمان کی دولت سے ما لا مال کرے گا تو یہی علماء ہوں گے جن کے بارے میں خود مولائے حقیقی اعلان کر رہے ہیں ﴿ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینہون عن المنکر واولئک ہم المفلحون﴾․
جن فرشتہ صفت انسانوں کو اللہ رب العزت نے فلاح اور کام یابی کی ضمانت دی ہے وہ یہی علماء ہیں، اس کے باوجو د مدارس کی وقعت اور اہمیت کا اندازہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے تعلیمی معیار پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہو تا ہے، آج دینی مدارس میں صرف وہ طلباء داخل کیے جاتے ہیں جو مالی لحاظ سے بالکل کمزور ہوتے ہیں ،دوسرے وہ طلباء جو اسکولوں اور کالجوں میں فیل ہوجاتے ہیں یا پھر جو آخری درجے میں شریر ہوتے ہیں، افسوس ہے کہ اللہ کے نبی اکے فرمان ”العلماء ورثة الانبیاء“ کے تحت آپ نے جس لڑکے کو نبی کا نائب اور قوم کا امام بنانے کا انتخاب کیا ہے وہ نہایت خام مال ہے، جس کی بازار میں کوئی قیمت نہیں ہے، اس کے برعکس جو لڑکا ذہین اور ہونہار ہے اسے عصری علوم کے لیے چنا ہے، جس سے اس کی دنیا تو یقینا سنور جائے گی مگر میدان محشر میں کف افسوس ملنا ہوگا۔
اس لیے ضرورت ہے کہ مسلم قوم کا اپنی آئندہ نسلوں کو اسلام پر باقی رکھنے کے لیے اور ان کو دینی ،فکری، بلکہ کلی ارتداد سے بچائے رکھنے کا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ کم از کم ٹھوس بنیادوں پر ان کی ابتدائی دینی تعلیم کا نظم کیا جائے ،یہ گمان کہ دینی تعلیم سے محروم رہ کر آئندہ نسلیں اسلام پر باقی رہ سکیں گی خیال عبث ہے۔ بلکہ دینی تعلیم سے محروم بچوں کے ارتدادکا خطرہ یقینی ہے، اس لحاظ سے ہندوستان میں دینی اداروں کی حیثیت بڑی اہمیت کی حامل ہے، مدارس اسلامیہ کو بے فیض سمجھنے کے ساتھ مدارس اور اہل مدارس کے سلسلے میں مسلمانوں میں، جو استخفاف، بلکہ اہانت کا جذبہ پایا جاتا ہے، یہ ملت، خصوصا آئندہ نسلوں کے ایمان سے کھلواڑ ہے اور اس ناسو ر کے علاج کی ذمہ داری خود انہیں علماء پر ہے کہ وہ مدارس کی ضرورت وافادیت کا احساس دلاکر ملت اسلامیہ کی ذہن سازی کریں، حقائق کی روشنی میں ان کو اس بات کو باور کرانا ہوگا کہ ہماری دنیا و آخرت بنانے میں ان مدارس کا کیا کردار رہا ہے؟ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ علمائے اسلام اور اہل مدارس کوعوام کی ا ن ناشائستہ حرکتوں اور ذلت آمیز تنقیدوں سے ناامیدی کے بجائے تقویت ملے، تاکہ حق کا عروج ہو اور باطل دم توڑ دے ۔
دینی مدارس کا مزاج
تعلیم کسی بھی قوم کی تہذیبی اور تمدنی روایات کی آئینہ دار ہوتی ہے، کسی ملت کی تہذیب کے گیسو سنوارنے اور کسی ملک کی تہذیب کو پروان چڑھانے کے لیے ایک ہمہ گیر نصاب تعلیم ہی کو معیار قرار دیا جاسکتا ہے، اس لیے ہر زندہ قوم اپنے تشخص اور ملی وجود کو برقراررکھنے کے لیے اپنے نظام تعلیم کو ایسے رنگ ڈھنگ سے مرتب کرتی ہے کہ اس میں اپنی ثقافت کی روح بھی پھونک دیتی ہے اور اپنے مزاج کو بھی سمو دیتی ہے، تاکہ معاشرہ میں ہر فرد کی عملی وفکری تعمیر اس کی ثقافت اور اقدار پر پختگی کے ساتھ ہو، تاکہ نئی نسل جب مستقبل میں ملک وملت کی باگ ڈور سنبھالے یا کسی بھی سطح کی عملی زندگی میں قدم رکھے تو اپنے بنیادی عقائد ونظریات اور اساسی افکار وخیالات کی اس خوش اسلوبی سے خدمت کرے کہ وہ اپنا تشخص اور وجود برقرار رکھ سکے۔
بعثتِ نبوی سے پہلے انسانی معاشرہ کرب انگیزحالات سے دور چار تھا، علم ومعرفت سے دور ہو کر جہالت کے اندھیروں میں پڑا سسک رہا تھا، انسانیت، شرافت، مروت، ہم دردی وغم خواری جیسی صفات معاشرہ میں ناپید ہو گئی تھیں، ہر سو ظلمت وتاریکی چھائی ہوئی تھی، ایسے پر خطر حالات میں نبی امی، محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ صلی الله علیہ وسلم کو کوہِ حرا سے یہ پیغام سنایا جاتا ہے کہ پڑھیے اپنے رب کے نام سے، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیداکیا۔ پھر دوبارہ حکم ملا پڑھیے، آپ کا پروردگار بڑا باعزت ہے، جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور وہ تمام باتیں سکھلائیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔ دیکھیے! ایسے بگڑے ہوئے معاشرہ کی درستگی کے لیے جس چیز کو بنیاد بنایا گیا وہ تعلیم ہے، چناں چہ اس بات پر زور دیا گیا کہ خدائی تعلیمات اور آسمانی ہدایات کو حاصل کیا جائے، کیوں کہ ان کے ذریعہ انسان علم ومعرفت، انسانیت، شرافت، تہذیب واخلاق سے آراستہ ہو کر اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرسکے گا اور انسانی خوبیوں سے متصف ہو کر دنیا کے لیے رحمت کا سبب بنے گا۔ دنیا نے دیکھا کہ قرآن وحدیث کی حامل شخصیت محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی ذات بابرکت سے براہِ راست اکتسابِ فیض کرکے مصلحین امت کی وہ شان دار اور بے نظیر جماعت منصہ شہود پر آئی کہ رہتی دنیا تک لوگ ان کی مثال اور نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے بعد جس مبارک جماعت نے ان کے نقش قدم پر چل کر امت کی راہ بری کا فریضہ انجام دیا وہ بھی اس امت کے قائدین میں نہایت اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، امتِ مسلمہ نے ان کو تابعین کے باوقار لقب کے ساتھ موسوم کیا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور بڑے بڑے مفسرین، محدثین، فقہاء اور مجتہدین پیدا ہوئے ،درجہ بہ بدرجہ اسلامی تعلیمات وہدایات کی پاسبانی کے لیے افراد تیار ہوتے رہے۔ اس کے بعد افراد سازی کے لیے اسلامی مملکت کے سربراہوں کی نگرانی میں ادارے وجود میں آئے، جہاں نہایت باصلاحیت علماء کو تدریس کے لیے مقرر کیا گیا۔ یہ طریقہٴ کار امت کے سامنے پائیدار نمونہ کی شکل میں وجود میں آیا اور اسلامی معاشرہ کے درمیان پوری آب وتاب کے ساتھ باقی رہا۔ ہندو پاک میں مدارس کا تاریخی پس منظر برصغیر ہند وپاک میں مسلمانوں کا فاتحانہ داخلہ پہلی صدی ہجری، یعنی ساتویں صدی عیسوی (93ہجری) میں ہوا ،محمد بنقاسم نے جس وقت سندھ پر حملہ کیا اس وقت مسلمان سندھ پہنچ چکے تھے۔ ان فتوحات کے بعد مزید ترقی ہوئی، اس سلسلہ میں کتب رجال میں ایسے متعدد علماء، محدثین اور ادیبوں کے نام ملتے ہیں، جنہوں نے حجاز وعراق کے علماء سے سند قبولیت حاصل کی تھی۔برصغیر میں اسلامی حکومت کی بنیاد سلطان محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین غوری کی مجاہدانہ مساعی کی مرہونِ منت ہے، لیکن ایک علمی فاتح البیرونی اس سے قبل یہاں آچکا تھا، جس نے اس ملک کے علوم کو اپنی زبان میں منتقل کیا۔ محمود غزنوی کے جانشین شہاب الدین مسعود کے عہد میں بہ کثرت مساجد کی بنیاد پڑی اور ان کے ساتھ مدارس کا بھی انتظام کیا گیا۔ شہاب الدین غوری کی فتوحات کے بعد اجمیر میں متعدد مدارس قائم کیے گئے اور غالباً وہیں اس ملک کی قدیم درس گاہیں ہیں۔ سلطان محمد غوری کے غلام اور نائب السلطنت قطب الدین ایبک نے بھی ترویجِ علم کی طرف توجہ دی اور ملک کے مختلف حصوں میں بے شمار مساجد تعمیر کیں اور مدارس قائم کیے۔ برصغیر کے اس قدیم عہد میں مدارس کے لیے الگ عمارتیں بنانے کا سلسلہ نہ تھا، بلکہ یہ کام عموماً مساجد سے لیا جاتا تھا۔ مساجد کے علاوہ بزرگانِ دین کی خانقاہیں بھی مدارس کا کام دیتی تھیں، اس عہد کے مشائخِ عظام مشائخِ طریقت ہی نہ تھے ، بلکہ وہ مدرس شریعت بھی تھے، بڑے بڑے متبحر علما کے گھر او رمکان بھی دارالعلوم کی حیثیت رکھتے تھے، حکومت نے ان علماء کو فکر معیشت سے آزاد کر دیا تھا اور علم وحکمت کے پیاسے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے، برصغیر کی علمی زبان فارسی تھی اور اسی میں درس و تدریس ہوتی تھی، صرف قرآن وحدیث کی تعلیم عربی میں دی جاتی تھی، ابتدائی جماعتوں میں قرآن پاک کے علاوہ لکھنا پڑھنا، حساب وکتاب اور خوش نویسی کی بنیادی تعلیم بھی دی جاتی تھی ، درمیانی تعلیم کے لیے طلبا قصبات اور شہروں کے فارسی مکتب میں داخل ہوتے تھے، جس کے بعد فارسی پڑھ کر سرکاری ملازمت سے منسلک ہو جاتے تھے او راعلی تعلیم کا شوق رکھنے والے طلباء بڑے شہروں اور بڑے مدارس میں اخلاقیات، ریاضیات ، زراعت، طب، الہیات او رتاریخ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ شہاب الدین غوری کے ہاتھوں ہندوستان میں 589ہجری بمطابق1192 عیسوی کو اسلامی حکومت قائم ہوئی اور سلطنت کے قائم ہوتے ہی درس وتدریس کا چرچا بھی ہندوستان بھر میں پھیل گیا، اس آغاز سے مدارس کا سلسلہ چل نکلا، امراء وسلاطین اور علماء وفضلاء کی کوششوں سے ہندوستان کے ہر کونے میں مدارس قائم ہوتے چلے گئے۔ سلطان محمدغوری کے عہد میں دہلی میں ایک ہزار اسلامی مدارس قائم تھے، جن میں ایک مدرسہ شوافع کا بھی تھا، مدرسین کے لیے شاہی خزانہ سے وظیفہ مقرر تھا، مدارس میں علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ ریاضی اور معقولات کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ مسلم حکم رانوں کی جانب سے مدرسوں اور علماء کی سرپرستی بدستور جاری رہی، دہلی کی مرکزی حکومت کے کم زور پڑ جانے کے بعد بھی صرف اضلاع روہیل کھنڈ میں جو دہلی سے قریب تر تھے، پانچ ہزار علماء مختلف مدارس میں درس دیتے تھے او رنواب رحمت خان کی ریاست سے تنخواہیں پاتے تھے۔ مغلیہ بادشاہوں کے دور حکومت میں بھی دینی مدارس کی بھرپور سرپرستی کی گئی۔ انگریزوں کے دور میں دینی مدارس کا قیام اوررنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ کا زوال شروع ہو گیا تھا اور اشاعت تعلیم دینیہ کے لیے حکومت کی سرپرستی بھی کم ہو گئی تھی سلاطین دہلی اور سلاطین مغلیہ کے عہد میں قائم ہونے والے دینی مدارس اور ان کے مصارف واخراجات کے لیے قائم کردہ اوقاف اور وظائف کو انگریزوں نے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ختم کر دیا اور ان کی جگہ انگریزی تعلیم کو رواج دیا۔ مسلمانوں کے پاس نہ حکومت تھی نہ سلطنت، نہ دولت تھی نہ ذرائع دولت ، مزید یہ کہ انگریز حکم ران وقت کے دشمنوں میں بھی مسلمان سر فہرست تھے۔ ان حالات میں مسلمانوں کا واحد سہارا الله تعالیٰ کی ذات اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات تھیں، چناں چہ مسلمانوں نے اسی ذاتِ لازوال پر بھروسہ کرکے اس کے دین حق کی حفاظت کی او رمسلمانوں میں اس کی تبلیغ واشاعت کے لیے نئے سرے سے دینی مدارس کے قیام کا آغاز کیا۔ علمائے اسلام اور دینی علوم کے اساتذہ نے توکل علی الله کرکے درختوں اور دیواروں کے سایہ تلے الله اور اس کے رسول کی تعلیمات کو جاری ساری رکھا، ان پیکرانِ علم وعرفان اور زہد وتقویٰ کے حلقہٴ تلامذہ میں صرف ونحو، قرآن وحدیث اور فقہ وکلام کا سلسلہ شروع ہوا، آگے چل کر یہ حلقہ ہائے تعلیم وتعلم دینی مدارس کی شکل اختیار کرنے لگے۔ دینی مدارس کے لیے نئے دور کی بنیاد علماء کے علم وزہد، مخیر حضرات کے عطیات ، دین دار مسلمان زمین داروں او رتاجروں کے دیہی وشہری اوقاف پر رکھی گئی اور یہ دینی مدارس حکومتِ وقت کی امداد اور سرپرستی کے بغیر ہی اسلام کی اشاعت وترویج میں مصروف رہے اور مسلمانوں کا ملی تشخص انہی کی بدولت قائم ودائم رہا۔ مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد تعلیم کی سرپرستی ختم ہوگئی، لیکن اس کے باد جو شاہ عبدالرحیم، حضرت شاہ ولی الله او ران کے خاندان نے علم کی تدریس وتبلیغ کا کام جاری رکھا، اسی طرح لکھنو میں علمائے فرنگی محل نے بھی تعلیم وتدریس کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد 1857ء کے ہنگامے نے جب دہلی کی سیاسی مرکزیت کو ختم کر دیا تو اس کی علمی اور تعلیمی مرکزیت بھی ختم ہو گئی، انگریز دہلی کی حکومت پر قابض ہو گئے، وہ متحدہ ہندوستان کے باشندوں کو جسمانی طور پر اپنا غلام بنانے میں کام یاب ہو چکے تھے او راب ان کو ذہنی غلامی کے شکنجے میں جکڑنا چاہتے تھے، تاکہ ان کی حکومت میں مزید استحکام پیدا ہو جائے، اس مقصد کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انہوں نے مختلف جگہوں پر مشنری اسکول قائم کیے، جہاں انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ عیسائیت ، انگریری تہذیب وتمدن اور افکار وخیالات کی تعلیم دی جاتی تھی، انگریزوں کو اپنے مقصد میں کام یابی اس وقت خطرے میں پڑتی محسوس ہوئی جب انہوں نے دیکھا کہ سر زمین ہند پر ایک جماعت ایسی بھی ہے جو ان کے دام فریب میں آنے کے بجائے برٹش حکومت اور خاص طور پر اس کی ماتحتی میں قائم کیے گئے مشنری اسکولوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے۔ یہ جماعت بوریہ نشین علماء کی تھی، جن کا احتجاج روز افزوں ترقی کر رہا تھا۔ انگریزوں کو اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ اگر چنگاری کو بروقت نہیں بجھایا گیا تو کل یہی چنگاری آگ بن کر ان کے مشن او ران کی حکومت کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر سکتی ہے، چناں چہ انہوں نے علمائے کرام کو نشانہ بنانا شروع کیا، نتیجہ یہ نکلا کہ علمائے کر ام پر طرح طرح کی زیادتیاں شروع ہوگئیں ، ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، تشدد کے نئے نئے طریقے آزمائے گئے، اتنا ہی نہیں بلکہ ہزاروں علماء کو سولی پر چڑھا کر یا آگ میں ڈال کر یا پھر گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا او راتنی ہی بڑی تعداد کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ ایسے پر آشوب حالات میں خاندان ولی الله سے فیض یافتہ تین علمائے کرام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے دوسرے علماء سے مل کر اسلامی تعلیم اورد ینی تبلیغ کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا اور مسلمانوں کے دین ومذہب، علوم وفنون، تہذیب وتمدن، اخلاق واعمال اور معاشرت وکلچر کی بقا کے لیے، نیز انگریزوں کی دینی وفکری یورش کا کام یابی سے مقابلہ کرنے کے لیے مدارس اسلامیہ کے قیام کی باقاعدہ جدوجہد کی او رمتحدہ ہندوستان میں مدارس کا جال بچھایا، جن میں سے چند مشہور مدرسوں کے نام درج ذیل ہیں۔ دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارن پور، دارلعلوم ندوة العلماء لکھنو، جامعہ قاسمیہ دارالعلوم شاہی مراد آباد، مدرسة الاصلاح سرائے میر، جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد علمی مراکز وجود میں آئے اوراس طرح برصغیر ہند میں علوم اسلامیہ دینیہ کی ترویج واشاعت میں علماء کی خدمات کا سلسلہ جاری رہا۔ آج ہندوپاک کے جس گوشے میں بھی اسلام کی روشنی نظر آرہی ہے اور قال الله وقال الرسول کی آواز سنائی دے رہی ہے وہ انہیں مدارس کی بدولت ہے۔ جدید تعلیم کا احیا اٹھارویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد کلکتہ میں مدرسہ قائم کیا اور اس کے بعد سنسکرت کالج قائم کیا۔ برصغیر میں جدید انگریزی تعلیم کی تاریخ1797ء سے شروع ہوتی ہے۔ سرچارلس گرانٹ نے کمپنی کو خط لکھ کر یہ منظوری حاصل کی کہ ابتدا میں ذریعہ تعلیم ہندوستانی زبان میں ہو اور بعد میں بتدریج انگریزی کو رواج دیا جائے۔ 1855ء میں راجہ رام موہن رائے کی شرکت سے کلکتہ میں ایک انگریز نے کالج قائم کیا، اس طرح آہستہ آہستہ انگریزی تعلیم زور پکڑتی گئی، ہندوانگریزی سے مستفیض ہو کر ملازمتیں حاصل کرتے رہے اور مسلمان انگریزی سے دور رہ کر ملازمتوں کے دروازے اپنے اوپر بند کرتے رہے۔ 1834ء میں عدالتوں سے فارسی زبان کو خارج کر دیا گیا اور اسی سال لارڈ میکالے نے اپنی کوششوں سے انگریزی تعلیم کا اجرا منظور کروایا اور کلکتہ، مدراس اور بمبئی میں یونی ورسٹیاں قائم کی گئیں، مسلمانوں کے تمام اوقاف ضبط کر لیے گئے اور ان اوقاف کی آمدنی دوسری قوموں پر صرف کی گئی، مسلمانوں کا نظام تعلیم جس کا دار ومدار انہی معاشیات پر تھاتہہ وبالا ہو گیا۔ مدارس کی تربیت کا رخ ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات میں مدارس دینیہ کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ مسلمان کو بلحاظ دین ومذہب اور بلحاظ معاشرت موجودہ حالات کی رو میں بہنے نہیں دیا، بلکہ پختگی وعزیمت کے ساتھ انہیں اسلامی سادگی اور دینی ثقافت کے زاہدانہ ومتوکلانہ اخلاق پر قائم رکھا، جو بدلتے ہوئے تمدن ومعاشرت میں ایک مشکل امر تھا، اس طرح مسلمانوں میں اسلامی مدنیت کا عام نقشہ قائم رہا، جدید تمدن ومعاشرت میں اغیار کی نقالی کا غلبہ نہیں ہو سکا اور اسلامی غیرت وحمیت باقی رہ گئی۔ اغیار کی نقل کے بجائے سنتِ نبوی کو معیار زندگی بنانے کے جذبات عام مسلمانوں میں پیدا ہوگئے، جس سے آج تک عام تمدن ومعاشرت میں پرہیزگاری اور تقویٰ وطہارت قائم ودائم ہے اور اس طرح امکانی حد تک دین میں آزاد فکری، آزاد روشی اور بے قاعدگی کی مداخلت پر روک لگ گئی۔ قصہ مختصر یہ کہ آج برصغیر میں اسلام انہی مدارس کی وجہ سے قائم ہے، انہیں مدارس کے اہل علم سے فیض پاکر وہ علماء وفضلاء تیار ہوئے جنہوں نے تعلیم، تصنیف، خطابت ، تذکیر ، تبلیغ، تزکیہٴ اخلاق، افتاء درس وتدریس ،امامت وحکمت اور طب وغیرہ میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ ان علماء وفضلاء نے کسی مخصوص خطہ میں نہیں ،بلکہ ہندو پاک کے ہر صوبہ، ہر شہر، ہر قصبہ، ہر محلہ اور ہر قریہ سمیت بیرون ممالک میں بھی مذہب اسلام کی تعلیم وتبلیغ میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ مدارس کا نصاب تعلیم مدارس کے نصاب تعلیم کو نہایت ہی بنیادی واساسی اہمیت حاصل ہے، جس سے یہاں کے فارغ التحصیل علماء کا دینی رخ متعین ہوتا ہے۔ درجات عربیہ میں بہت سارے علوم وفنون داخل ہیں، جن میں کچھ علوم عالیہ ہیں، جو مقاصد کا درجہ رکھتے ہیں او رکچھ علوم آلیہ ہیں جو علوم عالیہ کے لیے ممد ومعاون یا وسائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علوم عالیہ قرآن وحدیث، تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، علم عقائد وکلام وغیرہ۔ علوم آلیہ صرف ونحو، معانی وبیان، ادب عربی، منطق، فلسفہ وغیرہ۔ ان ہی کتابوں کو پڑھ کر بڑے بڑے مفسرین محدثین، علماء وفضلاء تیار ہوتے رہے ہیں، ہو رہے ہیں او رانشاء الله ہوتے رہیں گے۔ |
معاشرتی برائیوں کو دیکھیے! مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، سیاسی ابتری، بدعنوانی، توانائی کی قلت، قرضوں کا ناقابل تحمل بوجھ، دلوں کی ویرانی، محبتوں اور خلوص کی کمی، خود غرضی، ہوس و حرص کی گرم بازاری، اولاد کی نافرمانی، شادی شدہ مردوں کی بے راہ روی، بیویوں کی آزادمنشی، اخلاقی اقدار کی پامالی، جائیداد اور وراثت پر بھائیوں کے جھگڑے، بھتہ خوری، چور بازاری، بلیک میلنگ، کالا دھن، ٹارگٹ کلنگ وغیرہ… غرض معاشرے کی وہ تمام برائیاں جن سے شریف لوگ پناہ مانگتے ہیں، ان میں سے کسی کی جڑیں آپ کو دینی مدارس سے ملتی دکھائی نہیں دیں گی، بلکہ اگر ان برائیوں میں کچھ کمی ہے تو وہ مدارس میں گونجنے والی قال اللہ اور قال الرسول کی روح پرور صدا ؤں کی برکت ہے۔ سوچیے! اگر یہ دینی مدارس نہ ہوتے، اگرمدارس میں اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کی حفاظت اور ان کی تشریح، منبر و محراب میں ان کی تلقین اور تعلیم نہ ہوتی تو پھر معاشرے کا کیا حال ہوتا؟
مدارسِ دینیہ کسی بھی معاشرے میں روحانی ایمانی اور اخلاقی بیماریوں کے لیے ہسپتال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں بیماریاں بڑھ جائیں، کوئی وبا پھیل جائے تو کوئی احمق بھی ہسپتالوں کو الزام نہیں دے سکتا۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ وبائی حالات میں ہسپتال کم پڑجائیں۔ ضرورت کے بقدر معالجین میسر نہ آئیں، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی، آلات کی نایابی اور دواؤں کی قلت کی وجہ سے کچھ مریض مرجائیں، کچھ کو واپس کردیا جائے، مگر پھر بھی کوئی ڈاکٹروں پر الزام عائد نہیں کرتا،بلکہ پوری قوم معالجین کی مشکور ہوتی ہے کہ وہ کٹھن حالات میں بھی دن رات ایک کرکے اپنی سی پوری کوشش کرکے لوگوں کو موت کے منہ سے نکال رہے ہیں۔
اس وقت ہمارا معاشرہ اخلاقی و ایمانی لحاظ سے موت کے دھانے پر ہے۔ اس پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں، بلکہ ہر شخص اپنے گردوپیش کے حالات، اپنے تجربات اور لوگوں کے رویوں سے اس کا اندازہ لگاسکتا ہے۔ ایک مسلم قوم ہونے کی حیثیت سے ہمارا اِس پر بھی ایمان ہے کہ معاشرے میں اخلاقی انحطاط کو دور کرنے اور ایمانی روح کو زندہ کرنے کے لیے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی انہی تعلیمات کی ضرورت ہے جن کی بدولت عرب کے اخلاق باختہ ماحول میں ایمان و معرفت اور علم و عمل کی بہار آئی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مدراسِ دینیہ ہی وہ ادارے ہیں جو اس وقت ان تعلیماتِ نبویہ کو اجاگر کررہے ہیں۔ مدارس کے نصاب میں کوئی کتاب اور کوئی باب نہیں جس سے دہشت گردی کی اجازت سمجھ آتی ہو، کوئی عبارت ایسی نہیں جو بے گناہ شہریوں اورمعصوم بچوں کی جان لینے پر اُکساتی ہو، کوئی سطر ایسی نہیں جو ملک و ملت کے مفاد کے خلاف کام کرنے کے فضائل بتاتی ہو۔
ان مدارس سے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا عبیداللہ سندھیؒ جیسی شخصیات نکلیں جن کے بغیر برطانوی استعمار سے آزادی کی تاریخ ہی مکمل نہیں ہوتی۔ انہی مدارس سے مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا شبیراحمد عثمانیؒ، مولانا ظفراحمد تھانویؒ اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ جیسے حضرات نکلے جن کا تحریکِ پاکستان کی کامیابی اور یہاں کے دستور و آئین کی تدوین میں اہم ترین کردار سب کو معلوم ہے۔ مدارس کا وہ نصاب جسے آج بغیر دیکھے بھالے ’’دہشت گردانہ تعلیم‘‘ کا گردانا جارہا ہے، اسے پڑھ کر مولانا مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مفتی محمودؒ اور مولانا احتشام الحق تھانویؒ جیسی شخصیت نے جنم لیا جن پر پاکستان کے بڑے بڑے چوٹی کے سیاست دان اعتماد کرتے اور ان کی سیاست دانی کو خراجِ تحسین پیش کرتے تھے۔ دینی مدارس کے بانیوں کے نام دیکھیں تو مفتی محمد شفیعؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا عبدالحقؒ اکوڑہ خٹک، مفتی محمد حسن امرتسریؒ اور مولانا خیر محمد جالندھریؒ جیسے اولیاء واتقیاء دکھائی دیں گے، جن کے نام آج بھی پاکستان کی تاریخ میں تابندہ ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں۔
یہ حقائق اتنے واضح ہیں کہ ان کے لیے الگ سے شہادتیں جمع کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر دہشت گردی میں ملوث بعض لوگوں کا مدارس سے تعلق ثابت ہوجائے تب بھی اس کے لیے مدارس کو موردِ الزام ٹھہرانا تب درست ہوگا، جب مدارس میں ان چیزوں کی تعلیم دی جاتی ہو، ورنہ یہ بالکل ایسا ہوگا کہ کچھ ڈاکٹر مریضوں کو لوٹ کر اپنی جیبیں گرم کرناشروع کردیں، تو الزام میڈیکل کالجوں کو دیا جائے۔ کسی انجینئر کے نقشے کے مطابق بنایا گیا پُل ٹوٹ کر 50 آدمیوں پر گرجائے تو اس یونیورسٹی کو الزام دیا جائے جہاں سے اس نے ڈگری لی ہے۔
کسی ٹیچر نے طلبہ پر زیادتی کی ہو تو معلم کے قابلِ احترام پیشے کو دہشت گردی کانام دے دیاجائے۔ ظاہر ہے ایسا نہیں کیا جاتا، کیونکہ نہ میڈیکل کالجوں کے نصاب میں مریضوں کو لوٹنے کی تکنیک شامل ہے، نہ انجینئرنگ یونیورسٹی میں ناقص تعمیرات کا طریقہ سکھایا جاتا ہے، نہ معلّم کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ طلبہ پر زیادتی کرے۔ یہ اس شخص کا ذاتی فعل ہوتا ہے اور عدالت میں وہی اس کے لیے جواب دہ ہوتا ہے۔ اگر دہشت گردی میں ملوث بعض لوگ مدرسوں میں پڑھتے پڑھاتے تھے توا ن سے کہیں زیادہ لوگ ان میں ایسے ملیں گے جو کالجوں اور یونیورسٹیوں کی پیداوار ہیں۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ دہشت گردی کا مفہوم اتنا محدود کیوں کہ صرف ایک گروہ کی کارروائیوں پر اس کا اطلا ق کیا جائے جو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ سے سالانہ سینکڑوں لوگ قتل ہورہے ہیں، کیا وہ دہشت گردی نہیں؟
ان تمام باتوں کے باوجود اگر دہشت گردی کا تعلق مدارس سے جوڑنے کی کوشش کی جائے تو اسے ایک سوچی سمجھی سازش کہنا برحق ہوگا۔ ہمیں امید ہے حکومت اور فوج اس موقعے پر سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں گے اور بے گناہ شہریوں کو زد میں لے کر ایسے اشتعال کے مواقع پیدا نہیں ہونے دیں گے جن سے مزید دہشت گرد جنم لے سکیں۔
No comments:
Post a Comment