[عمدة القاري شرح صحيح البخاري-امام بدر الدين العيني (م٨٥٥ھ) :ج11/ص82 بابُ صَوْمَ شَعْبَانَ]
[جامع الأحاديث-السيوطي:8935، التدوين في أخبار قزوين-الرافعي: 1/ 153]
ماہ شعبان کی برکات سے غافل لوگ :
______________________
عن أسامة بن زيد قال قلت يا رسول الله لم أرك تصوم شهرا من الشهور ما تصوم من شعبان قال ذلك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم۔
آپ صلى الله عليه وسلم نے امت کو یہ حکم فرمایا کہ ”أَحْصُوا هِلاَلَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ“․رمضان کے لیے شعبان کے چاند کو اچھی طرح یاد رکھو۔
[سنن الترمذي:687. المعجم الأوسط للطبراني:8242، سنن الدارقطني:2174 المستدرك على الصحيحين للحاكم:1548 ، وقال: صحيح على شرط مسلم، ووافقه الذهبى. السنن الكبرى-البيهقي:7940. وصححه ابن العربى فى العارضة (ص 3، رقم 209) . مصابيح السنة-البغوي:1402]
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
[مسند أحمد:2346، فضائل رمضان لابن أبي الدنيا:1، مسند البزار:6496، المعجم الأوسط للطبراني:3939، الدعاء - الطبراني:911، عمل اليوم والليلة لابن السني:659، سبعة مجالس من أمالي أبي طاهر المخلص:63، المخلصيات:798، أمالي ابن بشران - الجزء الثاني:1510، شعب الإيمان البيهقي:3815]
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ - رضى الله عنها - تَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَتَحَفَّظُ مِنْ شَعْبَانَ مَا لاَ يَتَحَفَّظُ مِنْ غَيْرِهِ ثُمَّ يَصُومُ لِرُؤْيَةِ رَمَضَانَ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْهِ عَدَّ ثَلاَثِينَ يَوْمًا ثُمَّ صَامَ.
(سنن ابي داؤد:2327,باب إِذَا أُغْمِىَ الشَّهْرُ)
شعبان میں نفل روزے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نفلی روزے (کبھی) مسلسل رکھنے شروع کرتے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب ناغہ نہیں کریں گے اور (کبھی) بغیر روزے کے مسلسل دن گذارتے؛ یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگتا ہے کہ اب آپ ﷺ بلا روزہ ہی رہیں گے۔ نیز فرماتی ہیں کہ: میں نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا پورا روزہ رکھتے نہیں دیکھا، اسی طرح کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
نوٹ:
(2)المنتخب من مسند عبد بن حميد (المتوفى: 249هـ) : حدیث#1507
(3)سنن ابن ماجه (المتوفى: 273هـ) : حدیث#1389
(4)سنن الترمذي (المتوفى: 279هـ) : حدیث#739
(5)الإبانة الكبرى لابن بطة(المتوفى: 387هـ) : حدیث#176
(6)شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - امام اللالكائي (المتوفى: 418هـ) : حدیث#764
(8)شعب الإيمان للبيهقي (المتوفى: 458هـ) : حدیث#3544+3545
(9)شرح السنة - امام البغوي (المتوفى: 516هـ) : حدیث#992
المواهب اللدنية - امام القَسْطَلَّاني (المتوفى: 923هـ) : ج3 ص300
ماہِ شعبان کی پندرہویں شب ”شبِ برأت“ کہلاتی ہے، براءت کے معنیٰ ”رستگاری وچھٹکارا“ کے ہیں، شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں: شبِ برأت کو شبِ برأت اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں دو قسم کی براءت ہوتی ہے: (۱) ایک براءت تو بدبختوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ (۲) دوسری براءت خدا کے دوستوں کو ذلت و خواری سے ہوتی ہے۔
شب برات کیا ہے؟
شب برات اسلامی تقویم کے مطابق شعبان کی 15ویں رات کو کہا جاتا ہے۔ اس رات کو "لیلۃ البراءت" (نجات کی رات) بھی کہتے ہیں، جس کے معنی گناہوں سے مغفرت اور اللہ کی رحمت کے نزول کے ہیں۔ اس رات کی فضیلت اور اس سے متعلق احکامات کو سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات پیش کیے جاتے ہیں:
---
1. شب برات کی تعریف اور اہمیت
- وقت: یہ رات شعبان کے مہینے کی 14 اور 15 تاریخ کی درمیانی شب ہوتی ہے۔
-معنیٰ: "براءت" عربی لفظ ہے جس کے معنی "نجات" یا "بَری ہونا" ہیں۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو گناہوں سے پاک کرتے ہیں اور رزق، عمر، اور دیگر امور کا فیصلہ فرماتے ہیں۔
-قرآنی حوالہ: بعض مفسرین سورہ الدخان کی آیت 3-4 میں ذکر کردہ "لیلۃ مبارکہ" سے شب برات مراد لیتے ہیں، لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ "لیلۃ القدر" (رمضان کی رات) سے متعلق ہے ۔
---
2. احادیث اور فضائل
مغفرت کی رات: متعدد احادیث کے مطابق اس رات اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت کرتے ہیں، سوائے مشرک، کینہ پرور، والدین کے نافرمان، اور شرابی وغیرہ کے ۔
-اعمال کا فیصلہ: اس رات میں سال بھر کے رزق، عمر، اور دیگر امور کا فیصلہ ہوتا ہے ۔
-ضعیف روایات: بعض احادیث سند کے اعتبار سے کمزور ہیں، لیکن محدثین کا کہنا ہے کہ متعدد روایات کے مجموعے سے اس رات کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
---
3. مستحب اعمال
1. قبرستان کی زیارت:
رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ شب برات میں قبرستان (جنت البقیع) آدھی رات کو اکیلے گئے، لہٰذا سنت کی نیت سے ایک بار آدھی رات کو اکیلے جانا مستحب ہے، لیکن ہر سال جانا یا رسمیں ادا کرنا درست نہیں ۔
2. نوافل اور ذکر:
تنہائی میں تلاوتِ قرآن، نوافل، اور استغفار کی کثرت کی جائے۔ اجتماعی عبادت یا مخصوص نمازوں کی ترتیب بدعت ہے ۔
3. روزہ:
15 شعبان کے روزے کی خاص فضیلت بعض کے نزدیک تو ثابت نہیں، لیکن ماہِ شعبان میں عام روزے رکھنا مستحب ہے۔ اور بعض علماء فضائل کے لحاظ سے ایک ضعیف لیکن مستند حدیث کی بناء پر خاص 15 شعبان کا روزہ رکھنا مستحب قرار دیتے ہیں۔
---
4. رسومات وبدعات اور احتیاط:
- آتش بازی اور حلوہ پکانا:
- یہ رسومات غیر اسلامی ہیں اور مجوسی یا ہندوانہ ثقافت سے متاثر ہیں۔ شیطان ان کے ذریعے عبادت سے دور کرتا ہے۔
- بدعات سے اجتناب:
قبروں پر چراغاں، چادریں چڑھانا، یا روحوں کے آنے کا عقیدہ غلط ہے۔ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔
---
5. علماء کے اختلافات:
- موقف 1:
حنفی، شافعی، اور دیگر مکاتب فکر اس رات کی فضیلت کو تسلیم کرتے ہیں اور عبادت کو باعثِ ثواب سمجھتے ہیں ۔
- موقف 2:
سلفی اور بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس رات کی فضیلت پر کوئی صحیح حدیث نہیں، لہٰذا اسے بدعت قرار دیتے ہیں۔
---
نتیجہ:
شب برات کو اللہ کی رحمت اور مغفرت کی رات سمجھتے ہوئے عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن اسے تہوار کی طرح منانا یا غیر شرعی رسومات اپنانا درست نہیں۔ اس رات کی اصل روح توبہ، استغفار، اور اللہ سے تعلق مضبوط کرنا ہے۔ احادیث کی روشنی میں اعتدال اور سنت پر عمل کرنا ہی بہتر ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے درج ذیل مصادر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں: [فتاویٰ بینات], [تحفۃ الاحوذی], [تفسیر الکشاف]۔
حضرت عثمان بن محمدؒ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (زمین پر بسنے والوں کی)عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں ،یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں؛ حالانکہ اس کا نام مردوں کی فہرست میں داخل ہو چکا ہوتا ہے“۔
حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو موت کا فرشتہ ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک مرنے والوں کا نام (اپنی فہرست سے) مٹا دیتا ہے اور کوئی شخص ظلم، تجارت اور کوئی عورتوں سے نکاح کر رہا ہوتا ہے اس حال میں کہ اس کا نام زندوں سے مردوں کی طرف منتقل ہو چکا ہوتا ہے۔
حضرت راشد بن سعدؒ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ ان تمام روحوں کو قبض کرنے کی تفصیل ملک الموت کو بتا دیتے ہیں جو اس سال میں قبض کی جائیں گی۔
أُنْزِلَ الْقُرْآنُ كُلُّهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ. ثُمَّ أُنْزِلَ نَجْمًا نَجْمًا فِي سَائِرِ الْأَيَّامِ عَلَى حَسْبِ اتِّفَاقِ الْأَسْبَابِ.
[تفسير القرطبي:16/126، سورۃ الدخان:4]
وقيلَ ليلةُ البراءةِ ابتدىءَ فيها إنزالُه أو أنزل فيها جُملةً إلى السماءِ الدُّنيا من اللوحِ وأملاهُ جبريلَ عليهِ السَّلامُ على السَفَرة ثُمَّ كانَ ينزله على النبيِّ صلَّى الله عليهِ وسلم نُجوماً في ثلاثٍ وعشرينَ سنةً۔
[تفسیر الرازي:32/235، تفسیر النيسابوري:6/540، السراج المنير في الإعانة:3/580]
نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار:8/454]
حضرت ملا علی قاریؒ (المتوفى: 1014هـ) تحریر کرتے ہیں:
عبادت کی رات:

نوٹ :
اس رات میں کرنے کے دو کام ہیں، ایک تو جہاں تک ممکن ہو سکے عبادت کرو اور قرآن کریم کی تلاوت کرو، نماز پڑھنا سب سے افضل ہے، لیکن اگر بیٹھ کر تسبیحات پڑھنا چاہو تو یہ بھی جائز ہے۔ غرضیکہ اللہ کی یاد میں جتنا وقت بھی گزار سکتے ہو گزارو، باقی سونے کا تقاضا ہو تو سوجاؤ، فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ضرور پڑھ لو، تو ایک یہ کہ جہاں ممکن ہو سکے عبادت میں وقت گزارا جائے، اور دوسرے یہ کہ رات دعا مانگنے کی ہے، کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگا جائے، مانگا کیا جائے؟ اس کی طرف رسول اللہ ﷺ نے اشارہ فرمایا ہے، ایک تو اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو، دوسرے اللہ تعالیٰ سے رزق مانگو، اور تیسرے اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو، لیجئے خدا تعالیٰ نے کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی ہیں، جتنا چاہے کھولو اور لو۔
اللہ تعالیٰ جسمِ مادی سے پاک ہیں، اس لیے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بندوں کی طرف اترتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور بخشش بندوں پر زیادہ ہو تی ہے، اور اللہ تعالیٰ بندوں کی دعا کو منظور اور توبہ کو قبول فرماتے ہیں۔
بعض روایات میں ینزل (نازل ہونے) کے بجائے یطلع (جھانکنے یا متوجہ ہونے) کے الفاظ بھی مروی ہیں۔
دیکھئے حدیث#3، حدیث#5، حدیث#7، حدیث#8، حدیث#10
یہ روایت حضرت جابرؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ سے
[جزء ابن عرفة:63 ، شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين:68-71 ، الترغيب والترهيب لقوام السنة:57، إتحاف الخيرة المهرة:7147، المقاصد الحسنة:1091، الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة:381، كنز العمال:43132]
استدلال في كتب علوم الحديث:
[فتح المغيث للسخاوي:3/283، مفتاح الجنة للسيوطي:54، قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث للقاسمي:400]
حدیث شریف میں ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کا ثبوت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو درمنثور، تفسیر سورئہ دخان۔ پس اس روزہ کو فرض یا واجب یا سنتِ موٴکدہ قرار نہیں دیا جاسکتا، نہ اس کو بدعت کہا جاسکتا ہے۔
(1) شبِ قدر میں:
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ ، صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَاب ، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَاب ، وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ " . قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَابْنِ مَسْعُودٍ ، وَسَلْمَانَ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّوْمِ » بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ ... رقم الحديث: 617]
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور دوزخ کے دورازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور پھر اس کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا پھر جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور پکارنے والا پکارتا ہے: اے خیر کے طلبگار! آگے بڑھ، اور اے شر کے طلبگار! ٹھہر جا، اور اللہ کی طرف سے بندے آگ سے آزاد کر دئیے جاتے ہیں یہ معاملہ ہر رات جاری رہتا ہے اس باب میں عبدالرحمن بن عوف ابن مسعود اور سلیمان سے بھی روایت ہے ۔
(2) نصف شعبان کی رات میں:
یہ بات درج بالا پہلی حدیث، حضرت علیؓ کی روایت میں گزرچکی.
[سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ... رقم الحديث: 1378]
(3) ہر رات کے آخری تہائی حصّہ میں:
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ , يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْجُمُعَةِ » أَبْوَابُ تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 1083]
[صحيح البخاري » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب الدُّعَاءِ نِصْفَ اللَّيْلِ ... رقم الحديث: 5873]
آدھی رات کو اندھیرے میں اکیلے قریبی قبرستان جانا:
(2)المنتخب من مسند عبد بن حميد (المتوفى: 249هـ) : حدیث#1509
(3)سنن ابن ماجه (المتوفى: 273هـ) : حدیث#1389
(4)سنن الترمذي (المتوفى: 279هـ) : حدیث#739
(5)الإبانة الكبرى لابن بطة(المتوفى: 387هـ) : حدیث#176
(6)شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - امام اللالكائي (المتوفى: 418هـ) : حدیث#764
(8)شعب الإيمان للبيهقي (المتوفى: 458هـ) : حدیث#3544+3545
(9)شرح السنة - امام البغوي (المتوفى: 516هـ) : حدیث#992
المواهب اللدنية - امام القَسْطَلَّاني (المتوفى: 923هـ) : ج3 ص300
نوٹ:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ ایک مرتبہ شبِ برأت میں قبرستان تشریف لے گئے تھے، لہٰذا اگر وقت ملے تو (اکیلے خفیہ طور پر) قبرستان چلے جانا جائز ہے لیکن مشروع نہیں، لہٰذا اس کو ضروری نہ سمجھا جائے۔ اگر اس رات میں قبرستان جانا کوئی شرعی عمل ہوتا تو پیغمبر اکرم ﷺ چھپ کر نہ جاتے، بلکہ اس کی تعلیم وحکم دیتے یا شوق دلاتے۔
اس دن میں روزہ ، اس رات میں جاگنا، اپنی حاجت طلب کرنا، مُردوں کیلئے دعا کرنا مستحب ہے۔۔۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ مُردوں کو اسی طریق پر نفع پہنچاؤ، جس طور جناب رسول مقبول ﷺ سے منقول ہے یعنی بعد عشاء کے قبرستان میں جا کر مردوں کیلئے دعا کرو، پڑھ کر بخشو، مگر فرداً فرداً جاؤ، جمع ہو کر مت جاؤ اس کو تہوار مت بناؤ۔ اور عجب لطف حق ہے کہ پندرہویں شب میں ہمیشہ چاندنی ہوتی ہے، (اکیلے) قبرستان جانے میں وحشت بھی نہ ہوگی۔
جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجے میں ثابت ہو اسی درجہ میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھانا چاہئے، لہٰذا ساری حیات طیبہ میں رسول کریم ﷺ سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے۔ لیکن ہر شبِ برأت میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا اور اس کو ضروری سمجھنا اور اس کو شب برأت کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شبِ برأت کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شبِ برأت نہیں ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے لہٰذا اگر کبھی کوئی شخص اس نقطہ سے قبرستان چلا گیا کہ حضور نبی کریم ﷺ تشریف لے گئے تھے میں بھی آپ کی اتباع میں جارہا ہوں تو انشاء اللہ اجر وثواب ملے گا، لیکن اس کے ساتھ یہ کرو کہ کبھی نہ بھی جاؤ۔
قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْحَجَّاجِ ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ ، وقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ : لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ .
خلاصہ :
شبِ برأت کی دعائیں:
قلت: الله ورسوله أعلم. قال: «هذه ليلة النصف من شعبان إن الله عز وجل يطلع على عباده في ليلة النصف من شعبان فيغفر للمستغفرين ويرحم المسترحمين ويؤخر أهل الحقد كما هم»․
فیصلے کی رات:
آسمانی بجٹ کی رات:
شبِ برأت کی مغفرت سے محروم لوگ:
ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط
(حدیث#3)
حضرت ابو موسی اشعریؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ ”آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے“۔
شعبان میں رمضان کا انتظار :
_________________
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم أحصوا هلال شعبان لرمضان
(سنن ترمذي:687 باب ما جاء في إحصاء هلال شعبان لرمضان، حديث حسن)
صدوق یعنی سچا ومعتبر۔
# | العالم | القول |
1 | أبو حاتم الرازي | صدوق |
2 | ابن حجر العسقلاني | صدوق |
3 | الذهبي | صدوق |
العالم | القول |
أبو حاتم الرازي | صالح الحديث |
أبو عبد الله الحاكم النيسابوري | أحفظ وأتقن وأعرف بحديث بلده |
أحمد بن صالح الجيلي | ثقة |
عبد الأعلى بن مسهر الغساني | من ثقات أصحابنا |
محمد بن سعد كاتب الواقدي | ثقة كثير الحديث والعلم |
يعقوب بن سفيان الفسوي | محمود عند أهل العلم، متقن، صحيح العلم |
يعقوب بن شيبة السدوسي | ثقة |
العالم | القول |
أبو حفص عمر بن شاهين | ثقة |
أحمد بن صالح المصري | من الثقات إلا أنه إذا لقن شيئا حدث به |
ابن حجر العسقلاني | صدوق، خلط بعد احتراق كتبه، ورواية ابن المبارك وابن وهب عنه أعدل من غيرهما |
عبد الرحمن بن يوسف بن خراش | يكتب حديثه |
[تقریب التهذیب :١/٢٤٢ ، تهذيب التهذیب : ٤/٣٨٩]
[میزان الاعتدال : ٢/٣٢٢، رقم الترجمہ : ٣٩٢٨]
[تقریب التهذیب : ١/٤٤٣ ، تهذيب التهذیب : ٤/٣٢٩]
[میزان الاعتدال : ٢/٣٢٤ ، تهذیب الکمال : ١٣/٢٧١ ، سیر اعلام النبلاء : ٤/٦٠٣ ، تاریخ السلام : ٤/١٣٤]
# | العالم | القول |
1 | أحمد بن عبد الله بن صالح بن مسلم | ثقة |
2 | أحمد بن علي بن محمد بن محمد بن علي بن أحمد بن محمود بن أحمد بن حجر | قال في التقريب : ثقة |
3 | محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز بن عبد الله | وثق |
4 | محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن معبد بن مرة بن هدبة بن سعد | ذكره في الثقات |
المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 1819 خلاصة حكم المحدث : حسن
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 1563 خلاصة حكم المحدث : ذكر له شواهد
المصدر : صحيح ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 1148 خلاصة حكم المحدث :حسن

تو یہ تمام حدیثیں مجموعی اعتبار سے اس شخص کے خلاف حجت ہیں جس نے گمان کیا کہ پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے.

(حدیث#4)
حَدَّثَنَا الأَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ الْمِصْرِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ أَبِي الْحَارِثِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَوْ عَنْ عَمِّهِ ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِكُلِّ نَفْسٍ إِلا لِمُشْرِكٍ بِاللَّهِ وَمُشَاحِنٍ " .
[الرد على الجهمية للدارمي » رقم الحديث: 68]
ترجمہ:
حضرت ابو بکر صدیقؓ، نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ” آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) نزول ِاجلال فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا کینہ پرور یعنی ایسا شخص کے جس کے دل میں بغض ہو“۔
[تفسير البغوي:7/ 227،سورۃ الدخان:آیت4]
المحدث : الألباني
(حدیث#5)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُعَافَى الْعَابِدُ بِصَيْدَا ، وَابْنُ قُتَيْبَةَ ، وَغَيْرُهُ ، قَالُوا : حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الأَزْرَقُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو خُلَيْدٍ عُتْبَةُ بْنُ حَمَّادٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، وَابْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يُخَامِرَ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " يَطْلُعُ اللَّهُ إِلَى خَلْقِهِ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ " .
ترجمہ:
حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) جھانکتے/متوجہ ہوتے فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا کینہ پرور یعنی ایسا شخص کے جس کے دل میں بغض ہو۔
[صحيح ابن حبان:5665، المعجم الكبير للطبراني:215، حلية الأولياء-أبو نعيم الأصبهاني5/ 191، مجلسان من أمالي الجوهري_:7، شعب الإيمان-البيهقي:3833(3552)، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1320+1525+1881، أحاديث الجماعيلي:25، جامع المسانيد والسنن-ابن كثير:9697، موارد الظمآن:1980]
|
|
|
(حدیث#8)
حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " يَطَّلِعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ ، إِلَّا لِاثْنَيْنِ : مُشَاحِنٍ ، وَقَاتِلِ نَفْسٍ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ ... رقم الحديث: 6463(6642)]
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ” رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں رات اللہ عزوجل اپنی مخلوق کی طرف رحمت کی نظر فرماتے ہیں ، سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں، ایک کینہ ور، دوسرے کسی کو ناحق قتل کرنے والا“۔
المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 10/127 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
المحدث : المنذري
|
|
(حدیث#10)
ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنِ الأَحْوَصِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ مُهَاصِرِ بْنِ حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، يَطَّلِعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى خَلْقِهِ ، فَيَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِينَ ، وَيَتْرُكُ أَهْلَ الضَّغَائِنِ ، وَأَهْلَ الْحِقْدِ بِحِقْدِهِمْ " .
ترجمہ:
حضرت ابو ثعلبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں‘ تو مومنوں کو بخش دیتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں بغض رکھنے والوں کو اور نفرت کرنے والوں کو اپنی نفرت میں۔‘‘
[السنة لابن أبي عاصم » رقم الحديث: 511 حديث صحيح ورجاله ثقات]
المصدر : صحيح الترغيب الصفحة أو الرقم: 2771 خلاصة حكم المحدث : صحيح لغيره
|
[المجالس العشرة للخلال (المتوفى: 439هـ) » المجلس الأول ... رقم الحديث: 3]
ترجمہ:
للشافعي: ج1/ ص264، السنن الكبرى - البيهقي:6293 دار الكتب العلمية]
(حدیث#15)
في ليلةِ النصفِ من شعبانَ يغفرُ اللهُ لأهلِ الأرضِ إلا المشركَ والمشاحنَ۔
جس مرسل روایت کے راوی ثقہ (قابلِ اعتماد) ہوں تو وہ حدیث احناف کے نزدیک مقبول ہے۔
(حدیث#17)
جس مرسل روایت کے راوی ثقہ (قابلِ اعتماد) ہوں تو وہ حدیث احناف کے نزدیک مقبول ہے۔
|
مزید دیکھئے: امام ابن الدبيثي (المتوفی:637ھہ) کی کتاب ((فضائل شهر شعبان))
کیا پندرہویں شعبان کا روزہ بدعت ہے؟
پندرہویں شعبان کے روزہ کے سلسلہ میں جوروایت مذکور ہےاس کو ضعیف قرار دے کر اس روزہ کو بدعت کہنے والوں کو یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ، سند کے اعتبار سےوہ روایت اگر چہ کہ ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں ضعیف حدیث سے استدلال درست ہے، پس جب کہ اس کے متعلق حدیث شریف موجود ہے تو اس روزہ کو بدعت کہنا درست نہیں۔
تلقی بالقبول:
چونکہ علماء نے اس کو قبول کیا ہے، سو اس حدیث کو اسناد کے لحاظ سے مردود اور معنى کے حیثیت سے قبول کیا ہے.
[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٣، كتاب الزكوة]
شبِ براءت پر فضول رسمیں:
شبِ براءت پر تین کام بڑی دھوم دھام سے کئے جاتے ہیں :
5 الفیہ نماز
6 صلٰوۃ البرأۃ
” کان النبی ﷺ یحب الحلوۃ والعسل “
نبی ﷺ حلوہ اور شہد پسند فرماتے تھے ۔ اسی طرح بعض لوگ مسور کی دال ، چنے کی دال پکانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ یہ بھی حلوہ کی طرح بدعت ہوگی ۔ بس صحیح بات یہ ہے کہ حسب معمول کھانا پکانا چاہئیے ۔ شب براءت کو تہوار نہیں بنانا چاہئے ۔ کیونکہ اسلامی تہوار دو ہیں : عیدالفطر ، عیدالاضحی ، علامہ عبدالحئی حنفی لکھنوی نے آثار مرفوعہ : 108, 109 میں ستائیس رجب المرجب اور پندرہ شعبان ( شب براءت ) کو بدعات میں شامل کیا ہے ۔ کیونکہ یہ اسلامی تہوار نہیں ہیں۔
ومنھا صلوٰۃ لیلۃ السابع والعشرین من رجب ومنھا صلوٰۃ لیلۃ النصف من شعبان
شبِ براءت کے حلوہ سے متعلق مولانا عبدالحئی حنفی کا فتویٰ ہے کہ اس بارہ میں کوئی نص اثبات یا نفی کی صورت میں وارد نہیں ۔ حکم شرعی یہ ہے کہ اگر پابندی رسم ضروری سمجھے گا تو کراہت لازمی ہوگی ۔ ورنہ کوئی حرج نہیں ۔ ( فتاویٰ عبدالحئی مترجم : 110 )
ملت اسلامیہ کا ایک طبقہ اس رات آتش بازی و چراغاں میں جس اسراف و تبذیر کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ایک طرف اس سے قوم کو بار بار جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے دوسری طرف شرعاً یہ افعال مذموم و قبیح ہیں ۔
محدث شیخ عبدالحق دہلویؒ ”ما ثبت من السنة في أيام السنة“ میں فرماتے ہیں کہ ہندوستان کیا اکثر شہروں میں جو اس وقت بلا ضرورت کثرت سے چراغاں کرتے ہیں اور آتش بازی اور دیگر لہو و لعب میں مشغول ہوتے ہیں ۔ یہ رسم بدسوائے ہندوستان کے اور ملکوں میں نہیں ہے ۔ اصل میں یہ رسم بد ان لوگوں کی ہے جو آتش پرست تھے ۔ اسلام لانے کے بعد یہ لوگ اپنی رسوم جاہلیت پر قائم رہے ۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان بھی اس بلائے عظیم میں مبتلا ہوگئے ۔
تحفۃ الاحوذی میں ہے سب سے پہلے چراغاں و آتشبازی کا مظاہرہ کرنے والے برامکہ آتش پرست تھے ۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے ملمع سازی کر کے ان رسوم کو اسلام میں داخل کردیا ۔ لوگوں کے ساتھ رکوع و سجود کرتے لیکن مقصود آگ کی پوجا تھا ۔ شریعت میں ضرورت سے زیادہ کسی جگہ کو بھی روشن کرنا جائز نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : ( بنی اسرائیل : 27 )
” اور بے جا خرچ نہ کرو ۔ تحقیق بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکر گزار ہے ۔ “ اس آیت میں لفظ ” تبذیر “ استعمال فرمایا ہے ۔ تبذیر اور اسراف میں فرق ہے ۔ حلال مقام پر حد اعتدال سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے اور ناجائز و حرام مقام پر خرچ کرنے کا نام تبذیر ہے ۔ اس جگہ پر ایک پیسہ بھی خرچ کرے تو حرام ہو گا اور شیطان کا بھائی ٹھہرے گا ۔
شبِ براءت کے موقع پر دن کو حلوہ اور رات کو چراغاں و آتش بازی کا مظاہرہ دین حق کے ساتھ مذاق ہے ۔ اسی طرح پہلی قوموں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنایا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوئیں ۔ ان سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے وگرنہ ہم سے بھی اللہ کا عذاب دور نہیں ۔
ارشاد خداوندی ہے :
(( وذر الذین اتخذوا دینھم لعبا ولھوا وغرتھم الحیوۃ الدنیا ))( الانعام : 70 )
اور چھوڑ دو ( اے محمد ﷺ ) ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور ان کی دنیاوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ۔
لیکن اس رات کی فضیلت سے زیادہ ، جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر قسم کی طاعت وعبادت وغیرہ کرکے اس کے شایانِ شان کے مطابق زیادہ سے زیادہ شکریہ ادا کیا جاۓ ، مگر بعض لوگوں نے شکریہ کے مقام کو کثرت بدعت سے تبدیل کردیا. کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ عادت و دستور کے خلاف حد سے زیادہ چراغاں کرتے ہیں یہاں تک کہ جامع مسجد میں کوئی چراغ و بتیاں وغیرہ موجود نہیں ہوتیں مگر اسے روشن کرتے ہیں، یہاں تک کہ یہ لوگ ستونوں میں رسیوں سے پھندے بناتے اور اس پر چراغ اور قندیلوں کو لٹکاتے اور اس کو روشن کرتے ہیں اور حد سے زائد چراغاں کرنا ظاہری طور پر آتش پرستوں کے ساتھ مشابہت ہے اگرچہ یہ لوگ آتش پرستی کا اعتقاد نہیں رکھتے ، کیونکہ آتش پرست مجوسی لوگ حد سے زیادہ چراغاں کرتے ہیں.
[المدخل لابن الحاج (المتوفي:٧٣٧ھہ) » فصل من العوائد الرديئة ما يفعله النساء في المواسم » المرتبة الثانية المواسم التي ينسبونها إلى الشرع وليست منه » فصل من البدع المحدثة في ليلة النصف شعبان (١/٣٠٨)]
(3) کفار ومشرکین کی مشابہت:
4) مردوں کی روحوں کا آنا :
ارشاد خداوندی ہے :
ومن وراءھم برزخ الی یوم یبعثون( مومنون : 100 )
ان ( مردوں ) کے ورے ایک پردہ ہے جو قیامت تک رہے گا ۔
بعض لوگ روح کے آنے کا مغالطہ آیت ((تنزل الملائکۃ والروح)) سے دیتے ہیں ۔ اس روح سے مراد مردوں کی روحوں کا اترنا نہیں ہے بلکہ اس روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ دوسری آیت میں بھی جبرئیل علیہ السلام روح سے تعبیر کیا گیا ہے :
1 اذ ایدتک بروح القدس( المائدہ : 110 )
2 قل نزلہ روح القدس من ربک( النحل : 102 )
3 نزل بہ الروح الامین( الشعراء: 193 )
4 تعرج الملائکۃ والروح( المعارج : 4 )
5 یقوم الروح والملائکۃ صفا( النباء: 38 )
مندرجہ بالا آیات میں بھی روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ مردوں کی روح مراد نہیں ہے ۔ اس سے مردوں کی روح مراد لینا ۔ تحریف فی القرآن ہے ۔
فقہاء کا فتویٰ :
من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر( مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ، فتاویٰ قاضی خاں )
جو کہے کہ اولیاء و بزرگوں کی روحیں حاضر و ناظر ہیں ۔ وہ کافر ہو جاتا ہے ۔
نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی شبِ براءت آئی ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ بھی گزر گیا ۔ تابعین و ائمہ اربعہ کا زمانہ بھی گزر گیا ، لیکن کسی سے بھی شبِ براءت کا حلوہ ، آتش بازی ، مردوں کی فاتحہ خوانی وغیرہ ثابت نہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کو بدعات سے اجتناب کرنا چاہئے اور سنت صحیحہ کو مشعل راہ بنانا چاہئے جو راہ نجات ہے اللہ تعالیٰ بدعات سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
5) الفیہ نماز
بعض حضرات صلوٰۃ البرأۃ کے نام سے باجماعت نوافل ادا کرتے ہیں، یہ بھی بدعت ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے زمانے میں اس نماز کا کوئی ثبوت نہیں، بلکہ ہجرت کے چار سو سال بعد یعنی ۸۴۴ھ میں بیت المقدس میں یہ نماز ایجاد ہوئی۔
اس کا واقعہ امام طرسوسیؒ نے یہ لکھا ہے کہ ایک شخص بیت المقدس میں آیا اور پندرہویں شب کو اس نے مسجد میں نماز پڑھنی شروع کردی، ایک شخص نے اس کے پیچھے نماز کی نیت باندھ لی پھر ایک اور شخص نے اس کے پیچھے نیت باندھ لی اسی طرح تیسرے شخص نے پھر چوتھے نے، یہاں تک کہ ابھی اس کی نماز مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک بڑی جماعت لوگوں کی اس کے پیچھے نماز میں بن گئی۔
آئندہ سال بھی وہ شخص آیا بہت سے لوگوں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی پھر دوسری مساجد اور رفتہ رفتہ تمام شہروں میں دھوم مچ گئی۔
علماء متاخرین نے اس کو بدعت قبیحہ قرار دیا ہے اور صاف بیان کیا ہے کہ اس میں کئی برائیاں ہیں، اور نفل نماز کو جماعت سے پڑھنے کیلئے مساجد میں جمع ہونا کراہت سے خالی نہیں ہے، اسی طرح چراغوں کو جلانا اور فانوسوں کا لٹکانا بدعت ہے۔
ما شاء الله تعالى
ReplyDeleteBahut Acha article he.
نہایت مفید و جامع
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت عمدہ۔ کیا یہ مضمون رومن اردو میں ہے؟
ReplyDelete
Deleteرومن (اینگلو اردو) میں یہاں دیکھیں:
https://tahaffuzeahlesunnatpune.wordpress.com/2015/05/29/shab-e-baraat-ki-fazilat-me-1000-sadi-ke-salaf-fuqaaha-wa-muhaddiseen-ke-irshaadaat/
https://ulamaehaqulamaedeoband.wordpress.com/category/articles-on-gm/shab-e-baraat/