ماہِ شعبان ایک بابرکت مہینہ ہے، ”شعبان“ عربی زبان کے لفظ ”شَعّْبْ“ سے بنا ہے، جس کے معنی) پھیلنے کے آتے ہیں اور چوں کہ اس مہینے میں رمضان المبارک کے لیے خوب بھلائی پھیلتی ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام ”شعبان“ رکھا گیا۔
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري-امام بدر الدين العيني (م٨٥٥ھ) :ج11/ص82 بابُ صَوْمَ شَعْبَانَ]
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري-امام بدر الدين العيني (م٨٥٥ھ) :ج11/ص82 بابُ صَوْمَ شَعْبَانَ]
[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري(م499ھ): حدیث نمبر 1885، تفسير الثعلبي(م427ھ)-سورۃ التوبۃ:36، التفسير البسيط-الواحدي(م468ھ): ج3/ ص572]
[جامع الأحاديث-السيوطي:8935، التدوين في أخبار قزوين-الرافعي: 1/ 153]
یعنی اس (ماہ) کا روزہ اس کے لیے عذاب کے بغیر یا سابقین اولین کے ساتھ داخل ہونے کا سبب ہے۔
[التيسير بشرح الجامع الصغير-المناوي(م1031ھ): ص1/363]
یا اس سے ملتی جلتی چیز اور اس سے مراد شعبان کے روزوں کی فضیلت اور ماہ کی قدر وعظمت کو بیان کرنا ہے۔
[فيض القدير-لمناوي(م1031ھ): نمبر 2597]
ماہ شعبان کی برکات سے غافل لوگ :
______________________
عن أسامة بن زيد قال قلت يا رسول الله لم أرك تصوم شهرا من الشهور ما تصوم من شعبان قال ذلك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين فأحب أن يرفع عملي وأنا صائم۔
[مسند أحمد:21753 ، سنن النسائي:2357 حديث حسن، الطحاوي:3323، فضائل الأعمال للمقدسي:208]
شعبان کی فضیلت
شعبان المعظم اسلامی کیلنڈر کے مطابق آٹھواں مہینہ ہے، اس ماہ کی بہت سی فضیلتیں احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئیں ہیں۔
شعبان کی نسبت رسول اللہ کے ساتھ
حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔
[عزاه المناوى (4/166) للديلمى عن عائشة وكذا العجلونى (2/13). جامع الاحادیث للسیوطی:13422+13437]تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي:460،
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے۔۔۔
تاريخ جرجان: ص225، أخبار أصبهان: ج1/ص453، الفردوس بمأثور الخطاب الديلميّ:3592]
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے۔۔۔۔
[شعب الإيمان:3532، الفردوس بمأثور الخطاب الديلميّ:3276، معجم ابن عساكر:510]
حضرت حسن البصریؒ سے روایت ہے ۔۔۔
[الترغيب والترهيب الأصبهاني،:1857]
آپ صلى الله عليه وسلم نے امت کو یہ حکم فرمایا کہ ”أَحْصُوا هِلاَلَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ“․رمضان کے لیے شعبان کے چاند کو اچھی طرح یاد رکھو۔
[سنن الترمذي:687. المعجم الأوسط للطبراني:8242، سنن الدارقطني:2174 المستدرك على الصحيحين للحاكم:1548 ، وقال: صحيح على شرط مسلم، ووافقه الذهبى. السنن الكبرى-البيهقي:7940. وصححه ابن العربى فى العارضة (ص 3، رقم 209) . مصابيح السنة-البغوي:1402]
شعبان میں برکت کی دعا
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اللّٰھمَّ باَرِکْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَان․
اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔[مسند أحمد:2346، فضائل رمضان لابن أبي الدنيا:1، مسند البزار:6496، المعجم الأوسط للطبراني:3939، الدعاء - الطبراني:911، عمل اليوم والليلة لابن السني:659، سبعة مجالس من أمالي أبي طاهر المخلص:63، المخلصيات:798، أمالي ابن بشران - الجزء الثاني:1510، شعب الإيمان البيهقي:3815]
[الأذكار للنووي ت الأرنؤوط:541، الأذكار للنووي ط ابن حزم:980]
کچھ عرصہ بعد رمضان المبارک کی آمد ہوگی ،چشمِ تصور میں ایک بار پھر آنکھیں ان مناظر سے ٹھنڈی ہونے کو بے تاب ہیں کہ پانچوں نمازوں کے وقت موٴذن کی پکار پر لبیک کہنے والے جوق درجوق خانہء خدا کی طرف لپکے چلے آتے ہیں،جہاں ایک طرف ہر نماز سے پہلے اور نماز کے بعد مساجد میں خلق خدا کی ایک بہت بڑی تعداد قرآن حکیم کی تلاوت سے لطف اندوز ہوتی نظر آتی ہے، تودوسری طرف بہت سے افراد نوافل کی ادائیگی میں مشغول نظر آتے ہیں،اور اس کے ساتھ ساتھ ذکر واذکار سے اپنے سینوں کو منور کرنے والے اور اپنے ربِّ عزَّوجلَّ کے حضور الحاح وزاری کے ساتھ سسکتے ہوئے مناجات میں مشغول افراد کی تعداد بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔
شعبان المعظم میں سرکار ِدو عالم ﷺ کا معمول:
اس برکتوں والے ماہِ مبارک کے آنے سے قبل ”شعبان المعظم“میں ہی سرکارِ دو عالم ﷺ اس کے استقبال کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ، آپ ﷺ کی عبادات میں اضافہ ہو جاتا، نہ صرف خود بلکہ اس فکر میں آپ ﷺ اپنی امت کو بھی شریک فرماتے تھے۔
آپ ﷺ نے ”رمضان المبارک “کے ساتھ اُنس پیدا کرنے کے لیے ”شعبان المعظم“ کی پندرہویں رات اور اس دن کے روزے کی ترغیب دی ہے اوراس بارے میں صرف زبانی ترغیب پر ہی اکتفاء نہیں فرمایا؛ بلکہ آپ ﷺ عملی طور پر خود اس میدان میں سب سے آگے نظرآتے ہیں ؛چنانچہ اس ماہ کے شروع ہوتے ہی آپ ﷺ کی عبادات میں غیر معمولی تبدیلی نظر آتی جس کا اندازہ ام الموٴمنین ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، آپ فرماتی ہیں:
(مَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ)
کہ”میں نے آپ ﷺ کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں کثرت سے (نفلی)روزے رکھتے نہیں دیکھا۔“
[سنن أبي داود:2434، سنن الترمذي:736، سنن النسائي:2351 (صحيح البخاري:1969، صحيح مسلم:782)]
شعبان :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ - رضى الله عنها - تَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَتَحَفَّظُ مِنْ شَعْبَانَ مَا لاَ يَتَحَفَّظُ مِنْ غَيْرِهِ ثُمَّ يَصُومُ لِرُؤْيَةِ رَمَضَانَ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْهِ عَدَّ ثَلاَثِينَ يَوْمًا ثُمَّ صَامَ.
(سنن ابي داؤد:2327,باب إِذَا أُغْمِىَ الشَّهْرُ)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ - رضى الله عنها - تَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَتَحَفَّظُ مِنْ شَعْبَانَ مَا لاَ يَتَحَفَّظُ مِنْ غَيْرِهِ ثُمَّ يَصُومُ لِرُؤْيَةِ رَمَضَانَ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْهِ عَدَّ ثَلاَثِينَ يَوْمًا ثُمَّ صَامَ.
(سنن ابي داؤد:2327,باب إِذَا أُغْمِىَ الشَّهْرُ)
حضور پاک ﷺ کے ”شعبان المعظم “ میں بکثرت روزہ رکھنے کی وجہ سے اس مہینے میں روزہ رکھنے کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے مسنون قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:
”وَمِنْ الْمَسْنُونِ صَوْمُ شَعْبَانَ“
[المجموع شرح المهذب:6 /386]۔
مذکورہ حدیث ِ عائشہ رضی اللہ عنھا اور دیگر بہت سی احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ علیہ الصلاة السلام کا یہ عمل اور امت کو ترغیب دینا استقبال رمضان کے لیے ہوتا تھا، کہ”اب خاص اس روزہ کی حکمت بھی سمجھیے، میرے نزدیک یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان سے پہلے نصف شعبان کا روزہ رمضان کے نمونہ کے لیے مسنون فرمایا ہے؛ تاکہ رمضان سے وحشت وہیبت نہ ہو کہ نہ معلوم روزہ کیسا ہو گا ؟ اور کیا حال ہو گا؟ اس لیے آپ نے پندرہ شعبان کا روزہ مقرر فرمادیا کہ اس دن کا روزہ رکھ کر دیکھ لو ؛چونکہ یہ ایک ہی روزہ ہے اس لیے اس کی ہمت آسانی سے ہوجاتی ہے،جب وہ پورا ہو گیا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ بس رمضان کے روزے بھی ایسے ہی ہوں گے اور اس تاریخ میں رات کی عبادت بھی تراویح کا نمونہ ہے، اس سے تراویح کے لیے حوصلہ بڑھتا ہے کہ جب زیادہ رات تک جاگنا کچھ بھی معلوم نہ ہو اتو تراویح کے لیے ایک گھنٹہ زیادہ جاگنا کیا معلوم ہو گا ؟! بس یہ تو اعانت بالمثل علی المثل ہوئی۔
[وعظ ”الیسر مع العسر“ بعنوان نظامِ شریعت:۶/۵۲۴، مکتبہ اشرف المعارف ملتان)“۔
اب ایک نظر اس ماہ ِ مبارک کی پندرہویں شب پر بھی ڈال لی جائے جس کے بارے میں بھی بہت کچھ احادیث میں مذکور ہے،جو آگے بالتفصیل آرہی ہیں، زمانہٴ ماضی اور موجودہ زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس رات کے بارے میں لوگ اِفراط وتفریط کا شکار نظر آتے ہیں، اس لیے اس رات کے فضائل ، اس رات کے فضائل سے محروم ہونے والے افراد اور اس رات کوہونے والی مروج بدعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے، سب سے پہلے اس رات کے بارے میں جناب ِرسول اللہ ﷺ کے مبارک فرمودات ذکر کیے جائیں گے اس کے بعد جمہور اسلاف وفقہائے امت، اہلسنّت والجماعت کے نظریات واقوال ذکر کیے جائیں گے؛تاکہ اس رات کے بارے میں شریعت کا صحیح موقف سامنے آجائے۔
شعبان میں نفل روزے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نفلی روزے (کبھی) مسلسل رکھنے شروع کرتے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب ناغہ نہیں کریں گے اور (کبھی) بغیر روزے کے مسلسل دن گذارتے؛ یہاں تک کہ ہمیں خیال ہونے لگتا ہے کہ اب آپ ﷺ بلا روزہ ہی رہیں گے۔ نیز فرماتی ہیں کہ: میں نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا پورا روزہ رکھتے نہیں دیکھا، اسی طرح کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔
[مشکوٰة:۱۷۸، صحيح البخاري:1969، صحيح مسلم:782]
بعض روایتوں میں ہے کہ شعبان کے مہینہ میں بہت کم ناغہ کرتے تھے، تقریباً پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔
[الترغیب والترہیب:۲/۱۱۷]
احادیث کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نفلی روزوں کے سلسلے میں آپ ﷺ کا کوئی لگا بندھا دستور ومعمول نہیں تھا، کبھی مسلسل روزے رکھتے، کبھی مسلسل ناغہ کرتے؛ تاکہ امت کو آپ ﷺ کی پیروی میں زحمت، مشقت اور تنگی نہ ہو، وسعت وسہولت کا راستہ کھلا رہے، ہر ایک اپنی ہمت، صحت اور نجی حالات کو دیکھ کر آپ ﷺ کی پیروی کرسکے، اسی لیے کبھی آپ ﷺ ایامِ بیض (۱۳،۱۴،۱۵ تاریخوں) کے روزے رکھتے، کبھی مہینے کے شروع میں ہی تین روزے رکھتے، کسی مہینہ میں ہفتہ، اتوار اور پیر کے روزے رکھتے تو دوسرے مہینے میں منگل، بدھ اور جمعرات کے روزے رکھتے، کبھی جمعہ کے روزے کا اہتمام کرتے، اسی طرح عاشورہ اور شوال کے چھ روزے رکھنا بھی آپ ﷺ سے ثابت ہے۔
شعبان کے مہینے میں آپ ﷺ کے کثرت سے روزے رکھنے کی علماء نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں:
۱- چوں کہ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کے دربار میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے؛ اس لیے سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہو تو میں روزے کی حالت میں رہوں، یہ بات حضرت اسامہ بن زید کی روایت میں موجود ہے۔
[نیل الاوطار:۴/۲۴۶، سنن النسائي:2357]
۲- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ: پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے؛ اس لیے آپ ﷺ یہ چاہتے تھے کہ جب آپ ﷺ کی وفات کے بارے میں ملک الموت کو احکام دیے جائیں تو اس وقت آپ ﷺ روزے سے ہوں۔
[معارف الحدیث: ۴/۱۵۵]
۳- رمضان المبارک کے قریب ہونے اور اس کے خاص انوار وبرکات سے مناسبت پیدا کرنے کے شوق میں آپ ﷺ شعبان کے مہینہ میں روزے کا اہتمام کثرت سے فرماتے تھے، جس طرح فرض نمازوں سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے، اسی طرح فرض روزے سے پہلے نفلی روزے رکھا کرتے تھے اور جس طرح فرض کے بعد سنتیں اور نفلیں پڑھتے تھے؛ اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھ روزے رکھتے اوراس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔
ماہِ شعبان میں روزے کی حکمتیں
ماہِ شعبان میں رسول اللہ ﷺ کے زیادہ نفلی روزے رکھنے کے کئی اسباب اور کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، علامہ محب طبری نے چھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں، [عمدة القاری: ۱۱/۱۱۹]
جن میں سے چار حکمتیں وہ ہیں جن کی طرف احادیث میں بھی اشارہ کیاگیا ہے، انھیں کو یہاں ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
(۱) رمضان کی تعظیم اور روحانی تیاری
چناں چہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیاگیا کہ:
”أَيُّ الصَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ: شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ رَمَضَانَ“
ترجمہ:
رمضان المبارک کے بعد افضل روزہ کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا: رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کا روزہ۔ الخ
[سنن الترمذي:663 ، شرح السنة للبغوي:1778]
یعنی رمضان المبارک کی عظمت، اس کی روحانی تیاری، اس کا قرب اور اس کے خاص انوار وبرکات کے حصول اور ان سے مزید مناسبت پیدا کرنے کا شوق اور داعیہ ماہِ شعبان میں کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھنے کا سبب بنتا تھا اور شعبان کے ان روزوں کو رمضان کے روزوں سے وہی نسبت ہے جو فرض نمازوں سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل کو فرضوں سے ہوتی ہے۔
[الطائف المعارف لابن رجب ۱/۱۳۸، معارف الحدیث ۴/۱۵۵]
(۲) اللہ تعالیٰ کی طرف اعمال کا اٹھایا جانا
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں؛ حالاں کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال پروردگارِ عالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا عمل بارگاہِ الٰہی میں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔
[شعب الایمان:3540، فتح الباری:۴/۲۵۳]
(۳) مرنے والوں کی فہرست کا ملک الموت کے حوالے ہونا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ماہِ شعبان میں اس کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: اس مہینے میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی؛ لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ میں روزے دار ہوں۔
[مسند ابو یعلی:4911، فتح الباری:۴/۲۵۳ٌ]
(۴) ہر مہینے کے تین دن کے روزوں کا جمع ہونا
ایک حکمت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم ﷺ تقریباً ہر مہینے تین دن یعنی ایامِ بیض (تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ) کے روزے رکھتے تھے[نسائی شریف ۱/۲۵۷] لیکن بسا اوقات سفر وضیافت وغیرہ کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ جاتے اور وہ کئی مہینوں کے جمع ہوجاتے، تو ماہِ شعبان میں ان کی قضاء فرماتے؛ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ سے حدیث شریف مروی ہے کہ: ”«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ فَرُبَّمَا أَخَّرَ ذَلِكَ حَتَّى يَجْتَمِعَ عَلَيْهِ صَوْمُ السَّنَةِ فَيَصُومَ شَعْبَانَ»“۔
[روضة المحدثین:849(2/349)، نیل الاوطار:4/ 291]۔
فائدہ(۱): مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کئی حکمتوں کی وجہ سے شعبان میں کثرت کے ساتھ روزے رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «إِذَا بَقِيَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا»۔[سنن الترمذي:738، سنن أبي داود:2337] یعنی جب آدھا شعبان باقی رہ جائے تو روزے مت رکھو۔ تو علماء نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس حدیث شریف میں ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جن کو روزہ کمزور کرتا ہے، ایسے لوگوں کو اس حدیث شریف میں یہ حکم دیاگیا کہ نصف شعبان کے بعد روزے مت رکھو؛ بلکہ کھاؤ پیئو اور طاقت حاصل کرو؛ تاکہ رمضان المبارک کے روزے قوت کے ساتھ رکھ سکو اور دیگر عبادات نشاط کے ساتھ انجام دے سکو اور نبی کریم ﷺ چوں کہ طاقت ور تھے، روزوں کی وجہ سے آپ ﷺ کو کمزوری لاحق نہیں ہوتی تھی؛ اس لیے آپ ﷺ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھتے تھے اورامت میں سے جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہیں اور روزے ان کو کمزور نہیں کرتے وہ بھی نصف شعبان کے بعد روزے رکھ سکتے ہیں، ممانعت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کو کمزوری لاحق ہوتی ہے۔
[فتح الباری ۴/۲۵۳، تحفة الالمعی ۳/۱۱۱]
فائدہ (۲): ماہِ شعبان کے روزے صحیح روایات سے ثابت ہیں، جیساکہ تفصیل گزرچکی؛ لہٰذا شعبان کے کم از کم پہلے نصف حصے میں روزے رکھنے چاہئیں اور اس سنت کو زندہ کرنا چاہیے؛ اگرچہ یہ روزے نفلی ہیں نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں۔
شعبان کے روزے میں آں حضرت ﷺ اور امت کے عمل میں فرق
آپ ﷺ کے بارے میں جیسا کہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ شعبان کے تقریباً پورے مہینے روزہ رکھتے تھے، دوسرے مہینوں کے مقابلے میں اس مہینہ میں اہتمام زیادہ تھا، اسی طرح چوں کہ آپ ﷺ امت پر بڑے شفیق، رؤف اور رحیم تھے؛ اس لیے آپ ﷺ نے امت کو بتایا کہ تم میری ہمسری نہیں کرسکتے، مجھے تم سے زیادہ طاقت دی گئی ہے، اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خصوصیت حاصل ہے (یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ) کہ مجھے میرے رب کھلاتے پلاتے رہتے ہیں، مجھے روحانی غذا ملتی رہتی ہے؛ اس لیے تم لوگ شعبان میں روزہ رکھ سکتے ہو؛ لیکن نصف شعبان آتے ہی روزہ رکھنا بند کردو پھر جب رمضان آئے تو نئی نَشاط کے ساتھ روزہ شروع کرو!
[ابن ماجہ: ۱/۳۰۳، تحقیق مصطفی اعظمی زیدمجدہ]
ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے:
اذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلاَ تَصُوْمُوْا۔[۱/۵۵]
جب شعبان کا مہینہ آدھے پر آجائے تو روزہ نہ رکھو!
[أبو داود (2337)، والترمذي (738) واللفظ له، وابن ماجه (1651). نیز دیکھئے: بلوغ المرام:۱۳۹]
خلاصہ یہ کہ پورے مہینہ یا اکثر دنوں میں روزہ رہنا سرکارِ دوعالم ﷺ کی خصوصیت ہے، ہمارے لیے نصف شعبان تک روزہ رہنا سنت ہے؛ لیکن اس کے بعد روزہ رہنا خلافِ سنت ہے، محدثین نے اس ممانعت کو تنزیہی پر محمول کیا ہے، ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ سرکارِ دوعالم ﷺ کا یہ حکم امت پر شفقت کے طور پر ہے تاکہ رمضان المبارک کے فرض روزے رکھنے میں ضعف محسوس نہ ہو؛ بلکہ نَشاط، چستی اور حشاش بشاش ہونے کی حالت میں رمضان کا روزہ شروع کیا جاسکے۔[مرقات]
عظمتوں والی رات شبِ برأت:
حمٓ (١) وَٱلۡڪِتَـٰبِ ٱلۡمُبِينِ (٢) إِنَّآ أَنزَلۡنَـٰهُ فِى لَيۡلَةٍ۬ مُّبَـٰرَكَةٍۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ (٣) فِيہَا يُفۡرَقُ كُلُّ أَمۡرٍ حَكِيمٍ (٤) أَمۡرً۬ا مِّنۡ عِندِنَآۚ إِنَّا كُنَّا مُرۡسِلِينَ (٥)
حٰمٓ. قسم ہے اس کتاب واضح کی کہ ہم نے اس کو (لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر) ایک برکت والی رات میں اتارا ہے (کیونکہ) ہم (بوجہ شفقت کے اپنے ارادہ میں اپنے بندوں کو) آگاہ کرنے والے تھے (یعنی ہم کو یہ منظور ہوا کہ ان کو مضرتوں سے بچانے کیلئے خیر و شر پر مطلع کردیں، یہ قرآن کو نازل کرنے کا مقصد تھا، آگے اس شب کی برکات و منافع کا بیان ہے کہ ) اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری طرف سے حکم (صادر) ہو کر طے کیا جاتا ہے (یعنی سال بھر کے معاملات جو سارے کے سارے ہی حکمت پر مبنی ہوتے ہیں جس طرح انجام دینے اللہ کو منظور ہوتے ہیں اس طریقے کو متعین کر کے ان کی اطلاع متعلقہ فرشتوں کو کرکے ان کے سپرد کردےئے جاتے ہیں، چونکہ وہ رات ایسی ہے اور نزول قرآن سب سے زیادہ حکمت والا کام تھا اس لئے اس کے لئے بھی یہی رات منتخب کی گئی۔
[معارف القرآن ۷؍۵۵۷---تفسيری ترجمہ سورة الدخان:1-5]
ان آیات میں لیلۃ مبارکۃ سے مراد حضرت عکرمہؓ حضرت ابن عباسؓ سے اور مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک شب برأت ہے۔
حوالہ
وقال عكرمة. وجماعة: هي ليلة النصف من شعبان۔
[تفسير الألوسي = روح المعاني:13/ 110]
وقال الآخرون: هي ليلة النصف من شعبان
[تفسير ابن أبي حاتم:18531، تفسير الطبري:22/ 10، تفسير البغوي:7/ 228]
وَقَالَ عِكْرِمَةُ وَطَائِفَةٌ آخَرُونَ: إِنَّهَا لَيْلَةُ الْبَرَاءَةِ، وَهِيَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ
[تفسير الرازي:27/ 652]
عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي قَوْلِهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: " {فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ} [سورۃ الدخان: 4] ، قَالَ: فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يُدَبِّرُ اللَّهُ أَمْرَ السَّنَةِ ، وَيَنْسَخُ الْأَحْيَاءَ مِنَ الْأَمْوَاتِ، وَيَكْتُبُ حَاجَّ بَيْتِ اللَّهِ ، فَلَا يَزِيدُ فِيهِمْ أَحَدٌ ، وَلَا يَنْقُصُ مِنْهُمْ أَحَدٌ۔
[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1878(تفسير الماوردي:6/ 313)]
اختلاف کی جمع وتطبیق:
أُنزلَ القرآنُ من عند الرحمن ليلة القدر جُملةً واحدةً، فوُضع في السماء الدنيا، ثم أُنزِلَ نجوماً۔
ترجمہ:
قرآن کریم شب قدر میں رحمٰن کی طرف سے ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا، پھر اسے سب سے نیچے آسمان پر رکھا گیا، پھر اسے تدریجا اتارا گیا۔
[جزء عم من التفسير المسند لابن مردويه:500 - سورۃ الفرقان:33-سورۃ الاسراء:106]
[المعجم الأوسط للطبراني:1479،المعجم الكبير للطبراني:11839]
[جزء قراءات النبي لحفص بن عمر:75، فضائل القرآن لابن الضريس:116-117]
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:2879، الأحاديث المختارة-المقدسي:386+387]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ سے روایت فرماتی ہیں کہ” آپ ﷺ نے فرمایا کہ ۔۔۔ کیا تمہیں معلوم ہے اس رات یعنی شعبان کی پندرہویں رات میں کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے دریافت فرمایا کہ: یا رسول اللہ! کیا ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شب میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہیں، وہ سب لکھ دئیے جاتے ہیں ،اور جتنے اس سال مرنے والے ہیں وہ سب بھی اس رات لکھ دیے جاتے ہیں ،اور اس رات میں سب بندوں کے (سارے سال کے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی (مقررہ وقت)پر اترتی ہے“۔
[الدعوات الكبير للبيهقي:2/145، باب القول والدعاء ليلة البراءة ۔۔۔ رقم الحدیث: 530]حضرت عثمان بن محمدؒ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (زمین پر بسنے والوں کی )عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں ،یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں؛ حالانکہ اس کا نام مردوں کی فہرست میں داخل ہو چکا ہوتا ہے“۔
[فضائل رمضان لابن أبي الدنيا:6، أمالي ابن سمعون الواعظ:154، المجالس العشرة الأمالي للحسن الخلال:5، شعب الإيمان-البيهقي:3839]
[تفسير الطبري = جامع البيان عن تأويل آي القرآن: 28670،
تفسير الثعلبي = الكشف والبيان عن تفسير القرآن:2682،
تفسير البغوي:1899- إحياء التراث]
حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو موت کا فرشتہ ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک مرنے والوں کا نام (اپنی فہرست سے) مٹا دیتا ہے اور کوئی شخص ظلم، تجارت اور کوئی عورتوں سے نکاح کر رہا ہوتا ہے اس حال میں کہ اس کا نام زندوں سے مردوں کی طرف منتقل ہو چکا ہوتا ہے۔
[مصنف عبد الرزاق:7925]
[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1319،عن ام سلمہ]
شب قدر کے بعد کوئی رات اس رات سے افضل نہیں، اللہ تعالی(اپنی شان کے مطابق) آسمانِ دنیا پر نزول فرما کر ہر ایک کی مغفرت فرما دیتے ہیں سوائے مشرک، کینہ ور اور قطع رحمی کرنے والے کے “۔
[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1886]
حضرت راشد بن سعدؒ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ ان تمام روحوں کو قبض کرنے کی تفصیل ملک الموت کو بتا دیتے ہیں جو اس سال میں قبض کی جائیں گی۔
[وأخرج الدينوري في المجالسة؛ تفسير روح المعاني:12/113؛ الدر المنثور، للسيوطي:7/401؛ الحبائك في أخبار الملائك، للسيوطي:1/45؛ شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور، للسيوطي:60؛ الجامع الصغير وزيادته:8450 ؛ فيض القدير شرح الجامع الصغير:8450؛ التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ:5946؛ الفتح الكبير:8258؛ كنز العمال:35176]
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رات میں بڑے بڑے امور انجام پاتے ہیں یعنی اس سال جتنے پیدا ہونے والے ہیں ان کے نام لکھ دئیے جاتے ہیں، اور جنہوں نے مرنا ہے ان کے نام بھی لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں یعنی بارگاہ خداوندی میں پیش کئے جاتے ہیں اور مخلوق کو اس سال جو رزق ملنا ہوتا ہے وہ بھی اسی شب میں لکھ دیا جاتا ہے۔۔۔
چنانچہ اس تفسیر پر مذکورہ آیات سے ماہِ شعبان کی پندرہویں شب کی خصوصیت سے بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
مشہور تفسیر اس آیت کی اکثر کے نزدیک یہ ہے کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے شبِ برأت مراد نہیں، کیونکہ دوسرے موقع پر ارشاد ہے انا انزلناہ فی لیلۃ القدر کہ ہم نے قرآن لیلۃ القدر میں نازل کیا اور یہاں فرما رہے ہیں کہ ہم نے لیلۃ مبارکہ میں نازل کیا اور یہ ظاہر ہے کہ نزول سے مراد دونوں جگہ نزول دفعی ہے تدریجی نہیں کیونکہ وہ تو 23 سال میں ہوا، اور نزول دفعی ایک ہی مرتبہ ہوا ہے اس لئے لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہوگی یہ قرینہ قویہ ہے اس بات کا کہ یہاں بھی لیلۃ القدر ہی مراد ہے۔
لیکن ایک قول بعض کا یہ بھی ہے کہ لیلۃ مبارک سے مراد شبِ برأت ہے، باقی رہا یہ اعتراض کہ اس سے لازم آتا ہے کہ نزولِ دفعی دو مرتبہ ہوا، تو اس کی توجیہ یہ ہے کہ نزولِ دفعی دو مرتبہ بھی اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک رات میں حکمِ نزول ہوا اور دوسری میں اس کا وُقوع ہوا، یعنی شبِ برأت میں حکم ہوا کہ اس دفعہ رمضان میں جو لیلۃ القدر آئے گی اس میں قرآن نازل کیا جائے گا، پھر لیلۃ القدر میں اس کا وقوع ہوگیا۔۔۔ تو انا انزلناہ فی لیلۃ القدر میں مراد حقیقی نزول ہے کہ وہ لیلۃ القدر میں ہوا اور انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ میں حکمی نزول ہے کہ شبِ برأت میں ہوا۔۔۔ تو احتمال اس کا بھی ہے کہ (لیلۃ مبارکہ سے) شبِ برأت مراد ہو۔۔۔
درمنثور میں بروایت ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم عکرمہ سے یہ تفسیر منقول ہے۔
(خطاب حکیم الامت بمقام تھانہ بھون ۶۳۳۱ھ ۳۱ شعبان، خطبات حکیم الامت ۷؍۵
حوالہ:
أُنْزِلَ الْقُرْآنُ كُلُّهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ. ثُمَّ أُنْزِلَ نَجْمًا نَجْمًا فِي سَائِرِ الْأَيَّامِ عَلَى حَسْبِ اتِّفَاقِ الْأَسْبَابِ.
[تفسير القرطبي:16/126، سورۃ الدخان:4]
وقيلَ ليلةُ البراءةِ ابتدىءَ فيها إنزالُه أو أنزل فيها جُملةً إلى السماءِ الدُّنيا من اللوحِ وأملاهُ جبريلَ عليهِ السَّلامُ على السَفَرة ثُمَّ كانَ ينزله على النبيِّ صلَّى الله عليهِ وسلم نُجوماً في ثلاثٍ وعشرينَ سنةً۔
أُنْزِلَ الْقُرْآنُ كُلُّهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ. ثُمَّ أُنْزِلَ نَجْمًا نَجْمًا فِي سَائِرِ الْأَيَّامِ عَلَى حَسْبِ اتِّفَاقِ الْأَسْبَابِ.
[تفسير القرطبي:16/126، سورۃ الدخان:4]
وقيلَ ليلةُ البراءةِ ابتدىءَ فيها إنزالُه أو أنزل فيها جُملةً إلى السماءِ الدُّنيا من اللوحِ وأملاهُ جبريلَ عليهِ السَّلامُ على السَفَرة ثُمَّ كانَ ينزله على النبيِّ صلَّى الله عليهِ وسلم نُجوماً في ثلاثٍ وعشرينَ سنةً۔
[تفسير أبي السعود:8/58]
وقيل أيضًا "ليلة القدر" لتقدير ما ينزل من القرآن فيها إلى مثلها من السنة القابلة فقط فأما سائر الأمور التي تجري على أيدي الملائكة من تدبير أهل الأرض فإنما تبن ليلة النصف من شعبان۔
ترجمہ:
یہ بھی کہا گیا کہ "شب قدر" یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ اس پر قرآن سے کیا نازل ہوا ہے صرف اسی سال کے برابر۔
باقی کے معاملات جو فرشتوں کے ہاتھوں ہوتے ہیں، جن کا انتظام اہل زمین کرتے ہیں، وہ نصف شعبان رات میں بنائے جاتے ہیں۔
[شعب الإيمان-البيهقي(ت زغلول):3658]
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ شب برات میں تقدیر کا تعین کرتا ہے، لہٰذا جب شب قدر ہوتی ہے تو وہ ان کو ان کے ملائکہ کو دے دیتا ہے۔
[تفسیر الرازي:32/235، تفسیر النيسابوري:6/540، السراج المنير في الإعانة:3/580]
[تفسیر الرازي:32/235، تفسیر النيسابوري:6/540، السراج المنير في الإعانة:3/580]
علامہ محمد بن احمد انصاری قرطبیؒ (المتوفى: 671هـ) تحریر فرماتے ہیں:
يَبْدَأُ فِي اسْتِنْسَاخِ ذَلِكَ مِنَ اللَّوْحِ الْمَحْفُوظِ فِي لَيْلَةِ الْبَرَاءَةِ وَيَقَعُ الْفَرَاغُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
ترجمہ:
ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شبِ برأت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ القدر میں ہوتا ہے۔
[تفسیر قرطبی:16/128، الكشاف للزمخشري:4/271، تفسیر الرازي:27/654، تفسير أبي السعود:8/58، تفسیر النيسابوري:6/103، تفسير أبي السعود:8/58، السراج المنير في الإعانة:3/580، روح البيان:8/404، روح المعانی: 13/112نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار:8/454]
حضرت ملا علی قاریؒ (المتوفى: 1014هـ) تحریر کرتے ہیں:
ترجمہ:
اس میں کوئی نزاع نہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب میں مذکورہ امور انجام پاتے ہیں۔
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:3/974]
علامہ ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسیؒ حنفی بغدادی (المتوفى: 1270هـ) تحریر فرماتے ہیں:
وروي عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما تقضى الأقضية كلها ليلة النصف من شعبان وتسلم إلى أربابها ليلة السابع والعشرين من شهر رمضان.
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ تمام امور کے فیصلے تو شبِ برأت میں ہوتے ہیں اور جن فرشتوں نے ان امور کو انجام دینا ہوتا ہے ان کے سپرد رمضان کی ستائیسویں شب (لیلۃ القدر) میں کئے جاتے ہیں۔
[روح المعانی:13/113]
ماہ شعبان میں پندرہ کی رات کو خاص فضیلت بزرگی و شرافت حاصل ہے، اور مختلف روایات میں اس رات کے کئی نام ذکر کئے جاتے ہیں:
(۱) لیلۃ المبارکۃ۔۔۔ برکتوں والی رات
(۲) لیلۃ الرحمۃ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے نزول کی رات
(۳) لیلۃ الصَّک۔۔۔ دستاویز والی رات
(۴) لیلۃ البراء ۃ۔۔۔ دوزخ سے بری ہونے کی رات۔
[الكشاف للزمخشري:4/269، تفسیر الرازي:27/653، تفسیر قرطبی:16/1286، السراج المنير في الإعانة:3/579، روح المعانی: 13/110، روح البيان:8/402، فتح القدير للشوكاني:4/653]
شبِ برأت کی وجہ تسمیہ:
عرف عام میں اسے شبِ برأت کہتے ہیں، فارسی میں شب
کے معنی رات کے ہیں۔ اور برأت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ بری ہونے اور نجات، خلاصی، چھٹکارا پانے کے ہص4
چونکہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کو شبِ برأت کہتے ہیں۔
وَأَنَّهَا تُسَمَّى لَيْلَةَ الْبَرَاءَةِ
[الدعوات الكبير للبيهقي:2/145، باب القول والدعاء ليلة البراءة ۔۔۔ رقم الحدیث: 530+531]
وَأَنَّهَا تُسَمَّى لَيْلَةَ الْبَرَاءَةِ
[تفسير القرطبي:16/127]
وليلة النصف من شعبان ليلة البراءة۔
[تفسير الماوردي:6/ 313]
ماہِ شعبان کی پندرہویں شب ”شبِ برأت“ کہلاتی ہے، براءت کے معنیٰ ”رستگاری وچھٹکارا“ کے ہیں، شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں: شبِ برأت کو شبِ برأت اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں دو قسم کی براءت ہوتی ہے: (۱) ایک براءت تو بدبختوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ (۲) دوسری براء ت خدا کے دوستوں کو ذلت و خواری سے ہوتی ہے۔
[غنیة الطالبین، ص۴۵۶]
نیز فرمایا کہ جس طرح مسلمانوں کے لیے اس روئے زمین پر عید کے دو دن (عیدالفطر وعیدالاضحی) ہیں، اسی طرح فرشتوں کے لیے آسمان پر دو راتیں (شبِ براء ت وشبِ قدر) عید کی راتیں ہیں۔ مسلمانوں کی عید دن میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ رات میں سوتے ہیں اور فرشتوں کی عید رات میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ سوتے نہیں۔
[غنیة الطالبین، ص۴۵۷]
فضائلِ نصف (15) شعبان
صحیح روایات سے ثابت، مغفرت کی رات:
(1)حضرت ابو موسی اشعریؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ
ترجمہ:
اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے۔
[سنن ابن ماجہ:1390، جامع المسانيد والسنن-ابن كثير:13077]
[صحيح الجامع:1819، صحيح الترغيب:2767، صحيح الكتب التسعة وزوائده:2653، الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار:ج6 / ص210 (9 / 342)]
(2) حضرت ابو بکر صدیقؓ، نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ” آپ ﷺ نے فرمایا:
يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِكُلِّ نَفْسٍ إِلا لِمُشْرِكٍ بِاللَّهِ وَمُشَاحِنٍ
ترجمہ:
اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) نزول ِاجلال فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض ہو۔
[تخريج كتاب السنة(لابن أبي عاصم):509، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1144]
[أخبار مكة - الفاكهي:1838، الرد على الجهمية للدارمي - ت البدر:136، مسند البزار:80، طبقات المحدثين بأصبهان:2/ 149، النزول للدارقطني:76، الإبانة الكبرى - ابن بطة:173، شرح أصول اعتقاد:750]
(3) حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
يَطْلُعُ اللَّهُ إِلَى خَلْقِهِ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ.
ترجمہ:
اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) جھانکتے/متوجہ ہوتے فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض ہو۔
[صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع:791، صحيح الترغيب:1026+2767]
(4) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ” رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
يَطَّلِعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ ، إِلَّا لِاثْنَيْنِ : مُشَاحِنٍ ، وَقَاتِلِ نَفْسٍ.
ترجمہ:
شعبان کی پندرہویں رات اللہ عزوجل اپنی مخلوق کی طرف رحمت کی نظر فرماتے ہیں، سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں، ایک کینہ ور، دوسرے کسی کو ناحق قتل کرنے والا۔
[صحيح الكتب التسعة وزوائده:2652، مسند أحمد - ت شاكر:6642]
(5) حضرت ابو ثعلبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، يَطَّلِعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى خَلْقِهِ ، فَيَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِينَ ، وَيَتْرُكُ أَهْلَ الضَّغَائِنِ ، وَأَهْلَ الْحِقْدِ بِحِقْدِهِمْ۔(حَتَّى يَدَعُوهُ)
ترجمہ:
’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں‘ پس تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں اور کافروں کو ڈھیل دیتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کر دیں۔‘‘
[تخريج كتاب السنة:511، صحيح الترغيب:2771، صحيح الجامع:1898، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1144+1563]
[الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل المرتب على أبواب الفقه: ج 1 / ص 277-282]
احادیث شریفہ میں شبِ براءت کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے:
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے ابو سعید بن منصور کے حوالے سے حضرت ابو موسیٰؓ سے نقل کیا ہے کہ شبِ قدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے زیادہ افضل کوئی رات نہیں۔
[ما ثبت من السنة في أيام السنة (عربی اردو): ص553 591]
پندرہویں شعبان کا روزہ:
پندرہویں شعبان کے روزے کے سلسلے میں ایک حدیث شریف سنن ابن ماجہ میں ہے، یہ حدیث حضرت علیؓ سے مروی ہے، اس کو پوری سند کے ساتھ ملاحظہ فرمائیے:
عبادت ودعا کی رات:
(حدیث#1) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَقُومُوا لَيْلَهَا ، وَصُومُوا يَوْمَهَا ، فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا ، فَيَقُولُ : " أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ ، أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ ، أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ " ، أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ .
ترجمہ :
حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ " جب نصف(15)شعبان کی رات ہو تو اس رات کو نماز پڑھو اور اس کے دن میں (یعنی پندرہویں کو) روزہ رکھو، کیونکہ اللہ جل شانہ ، اس رات کو آفتاب چھپنے کے وقت آسمان دنیا (یعنی نیچے کے آسمان) پر نزول فرماتا ہے (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے) اور (دنیا والوں سے) فرماتا ہےکہ " آگاہ ! ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخشوں؟ آگاہ! ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں؟ آگاہ! ہے کوئی گرفتار مصیبت کہ میں اسے عافیت بخشوں؟ آگاہ! ہے کوئی ایسا اور ایسا (یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کر اپنے بندوں کو پکارتا رہتا ہے)یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔"
[تفسير الثعلبي:7/ 349، سورة الدخان:آية4]
نوٹ :
اس رات میں کرنے کے دو کام ہیں، ایک تو جہاں تک ممکن ہو سکے عبادت کرو اور قرآن کریم کی تلاوت کرو، نماز پڑھنا سب سے افضل ہے، لیکن اگر بیٹھ کر تسبیحات پڑھنا چاہو تو یہ بھی جائز ہے۔ غرضیکہ اللہ کی یاد میں جتنا وقت بھی گزار سکتے ہو گزارو، باقی سونے کا تقاضا ہو تو سوجاؤ، فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ضرور پڑھ لو، تو ایک یہ کہ جہاں ممکن ہو سکے عبادت میں وقت گزارا جائے، اور دوسرے یہ کہ رات دعا مانگنے کی ہے، کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگا جائے، مانگا کیا جائے؟ اس کی طرف رسول اللہ ﷺ نے اشارہ فرمایا ہے، ایک تو اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو، دوسرے اللہ تعالیٰ سے رزق مانگو، اور تیسرے اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو، لیجئے خدا تعالیٰ نے کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی ہیں، جتنا چاہے کھولو اور لو۔
اللہ تعالیٰ جسمِ مادی سے پاک ہیں، اس لیے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بندوں کی طرف اترتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور بخشش بندوں پر زیادہ ہو تی ہے، اور اللہ تعالیٰ بندوں کی دعا کو منظور اور توبہ کو قبول فرماتے ہیں۔
(مجالس الابرار ص:210،مجلس نمبر: 24)
بعض روایات میں ینزل (نازل ہونے) کے بجائے یطلع (جھانکنے یا متوجہ ہونے) کے الفاظ بھی مروی ہیں۔
دیکھئے حدیث#3، حدیث#5، حدیث#7، حدیث#8، حدیث#10
حدیث شریف میں ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کا ثبوت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو درمنثور، تفسیر سورئہ دخان۔ پس اس روزہ کو فرض یا واجب یا سنتِ موٴکدہ قرار نہیں دیا جاسکتا، نہ اس کو بدعت کہا جاسکتا ہے۔
آدھی رات کو اندھیرے میں اکیلے قریبی قبرستان جانا:
بعض روایات میں ینزل (نازل ہونے) کے بجائے یطلع (جھانکنے یا متوجہ ہونے) کے الفاظ بھی مروی ہیں۔
دیکھئے حدیث#3، حدیث#5، حدیث#7، حدیث#8، حدیث#10
حدیثِ علیؓ کی اسنادی حیثیت
نصف
(15) شعبان کی رات کو عبادت اور دن کو روزہ رکھنے کی اس روایت کے مندرجہ ذیل راوی
ہیں:
(١) حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُؒ (المتوفی ٢٤٢ھ): امام نسائیؒ کے علاوہ اصحابِ صحاح (یعنی
صحاح ستہ کے بقیہ ائمہ حدیث: بخاریؒ ، مسلمؒ، ترمذیؒ، ابو داودؒ، ابن ماجہؒ) میں سے ہر
ایک نے آپ سے حدیث حاصل کی ہے، امام خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ آپ ثقه (قابل
اعتماد) اور حافظ الحدیث تھے، امام یعقوب ابن شیبہؒ فرماتے ہیں کہ آپ ثقه (قابل
اعتماد) اور ثبت راوی ہیں، امام ابن حبانؒ نے آپ کو ((ثقات)) میں ذکر کیا ہے. امام
ابن حجرؒ فرماتے ہیں آپ ثقه اور حافظ الحدیث ہیں.
[تقریب
التھذیب : ١/٢٠٧ ، تهذیب التھذیب : ٢/٣٠٢ ، سیر اعلام النبلاء : ١٧/٥٩٣ ، تاریخ
بغداد : ٧/٤٢٥ ، تذكرة الحفاظ : ٣/١١٠٩ ، المنتظم : ٨/١٣٢]
(٢) عبد الرزاق بن همام بن نافعؒ (المتوفی ٢١١ھ)
آپ
سے بھی اصحابِ صحاح ستہ میں سے ہر ایک نے روایت لی ہے. آپ امام ابن جریجؒ، امام
اوزاعیؒ، امام مالکؒ، امام سفیان الثوریؒ وغیرہ جیسے ائمہ کے شاگرد ہیں. امام علی
بن مدینیؒ سے مروی ہے کہ امام ہشام ابن یوسفؒ نے فرمایا : عبدالرزاقؒ ہم میں سے
زیادہ عالم اور زیادہ (حدیث کے) حافظ ہیں. امام احمد بن حنبلؒ سے روایت ہے کہ آپ
لوگوں میں سب سے زیادہ ثبت راوی ہیں.
[سیر
اعلام النبلاء : ٩/٥٦٣ ، تذكرة الحفاظ : ١/٣٦٤ ، الکامل : ٤/٦٤٠ ، تهذیب التھذیب :
٦/٢٧٨]
(٣) ابْنُ أَبِي سَبْرَةَؒ (المتوفی ١٦٢ھ)
اس
روایت میں صرف ایک راوی ((ابْنُ أَبِي سَبْرَةَ)) پر محدثین نے کلام کیا ہے، جن کی
تعریف امام ذہبیؒ اپنے ترجمہ میں ان الفاظ میں شروع فرمائی:
الفقيه
الكبير قاضي العراق أبو بكر إبن عبد الله إبن محمد بن أبي سبرة .... ألخ
ترجمہ
:
(أبو بكر إبن عبد الله إبن محمد) بن أبي سبرة بڑے فقیہ، عراق کے قاضی ہیں۔ ...
[سير أعلام النبلاء:7/ 330]
محدثینؒ کا کلام :
امام بخاریؒ نے انھیں ضعیف الحدیث کہا، امام
نسائیؒ نے متروک الحدیث کہا، عبدللہ اور صالح نے اپنے والد امام احمدؒ سے روایت
کرتے ہیں کہ آپ وضع حدیث کرتے تھے؛ لیکن یہ تین باتیں مبالغہ سے خالی نہیں، کیونکہ حضرات محدثینؒ کے یہاں یہ مسلم اصول ہے کہ
جرح مبھم (بلا سبب و تفصیل) اگر کسی محدث پر کی جاۓ تو قابل قبول نہیں ہوتی، جب تک
کے اس جرح پر کوئی دلیل (جرح کا معقول و مفسر سبب) نہ پیش کی جاۓ.
الطعْن الْمُبْهم من ائمة الحَدِيث بَان يَقُول هَذَا الحَدِيث غير ثَابت اَوْ مُنكر اَوْ مَجْرُوح اَوْ راوية مَتْرُوك الحَدِيث اَوْ غير الْعدْل لايجرح الرَّاوِي فَلَا يقبل الا اذا وَقع مُفَسرًا بِمَا هُوَ الْجرْح مُتَّفق عَلَيْهِ
[الرفع والتكميل-أبو الحسنات اللكنوي: ص100]
ابْنُ
أَبِي سَبْرَةَ کے متروک الحدیث / وضع الحدیث ہونے پر محدثینؒ میں سے کسی نے بھی
تفصیل (و سبب) بیان نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ جیسے نقاد نے ابْنُ أَبِي
سَبْرَةَؒ کو صرف ضعیف(کمزور) کہا ہے(کذاب یعنی جھوٹا یا دجال دھوکہ باز نہیں کہا).
امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ آپ حافظہ کی کمزوری کی وجہ
سے ضعیف الحدیث ہیں۔
[سیر
اعلام النبلاء : ٧/٣٣٠ ؛ تهذیب التھذیب : ١٢/٢٧ ؛ میزان الاعتدال : ٤/٥٠٣ ؛ العقد
الثمین : ٨/١٣]
اور
یہ اتنی بڑی جرح نہیں کہ راوی کی روایت قابلِ رد ہو، جبکہ ضعیف روایت کو محدثین کے
نزدیک فضائلِ اعمال میں مقبول ہے۔ لہٰذا نصف شعبان کے روزہ کو "سنت" نہیں کہہ سکتے تو بدعت کہنا بھی درست نہیں۔
٤) إِبْرَاهِيمَ
بْنِ مُحَمَّدٍؒ
امام
بخاریؒ نے اپنی [تاریخ الکبیر : ١/٣١٨] ، اور امام ذہبیؒ نے [میزان الاعتدال :
١/٦٢] میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے اور دونوں میں سے کسی نے انھیں ضعیف نہیں کہا.
حافظ
ابن حجرؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفرؒ
صدوق من السادسه
ترجمہ:
إبراهيم بن محمد بن علي بن عبد الله بن جعفرؒ چھٹے طبقہ کے صدوق (سچے راویوں) میں سے
ہیں.
٥) مُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍؒ
امام
نسائیؒ اور ابن ماجہؒ نے ان سے روایات لی ہیں، حافظ عجلیؒ نے انھیں ثقه (قابلِ اعتماد) قرار دیا ہے، امام ابن حبانؒ نے بھی انھیں (ثقات یعنی قابلِ اعتماد لوگوں) میں ذکر کیا ہے، حاف:ظ
ابن حجرؒ فرماتے ہیں آپ چوتھے درجہ کے مقبول راوی ہیں.
[تقریب التهذیب : ٣/٤٥٦ ،
تهذیب التھذیب : ٥/١٧٠]
٦) ابیہ یعنی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍؓ : آپؓ کو نبیؐ کی صحبت حاصل ہوئی، آپؓ کا شمار
صغار (چوٹی عمر والے) صحابہؓ میں ہوتا ہے، کتب تاریخ میں آپ کے بیشمار فضائل و
مناقب آتے ہیں.
[الاصابہ فی تمییز الصحابہ : ٢/٢٨٩ ، العقد الثمین : ٥/١٢٠ ،
التاریخ الکبیر : ٥/٧ ، سیر اعلام النبلاء : ٣/٤٥٦ ؛ تهذیب التھذیب : ٥/١٧٠]
٧) عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ : جلیل القدر صحابی اور خلفاء راشدین میں سے
ایک ہیں؛
مذکورہ
تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ کی اس روایت میں ((ابْنُ
أَبِي سَبْرَةَ)) کے علاوہ باقی رواة (راوی) ثقه (قابل اعتماد) ہیں،
صرف ((ابْنُ أَبِي سَبْرَةَؒ)) کو
محدثینؒ نے (قوت حافظہ میں) ضعیف قرار دیا ہے، لہذا اس حدیث کو حسن یا زیادہ سے
زیادہ ضعیف کہا جا سکتا ہے. بعض محدثینؒ نے ((ابْنُ
أَبِي سَبْرَةَؒ)) پر وضع حدیث (گھڑنے) کا جو الزام لگایا ہے اس بناء
پر اس حدیث کو موضوع نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ((ابْنُ
أَبِي سَبْرَةَؒ)) پر یہ الزام (مبھم و غیر مفسر سبب ہونے کی وجہ سے)
درست نہیں. ابْنُ أَبِي سَبْرَةَؒ کے متعلق صحیح اور فیصلہ کن قول وہی ہے
جس کو ہم نے حافظ ذھبیؒ سے نقل کیا ہے کہ وہ قوت حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف
ہیں. یہی وجہ ہے کہ امام زرقانیؒ نے حضرت علیؓ کی اس روایت کے متعلق فرمایا کہ
اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے لیکن اس کے رواة (راوی) نہ کذب (جھوٹے) ہیں اور نہ ہی ان
میں "کوئی" وضع کرنے (گھڑنے) والا ہے اور مندرجہ ذیل ائمہ نے اسے روایت کرنے کے قابل(مقبول)سمجھا۔
تخريج
الحديث:
أخبار مكة - امام الفاكهي (المتوفى: 272هـ) : حدیث#1837
ترتيب الأمالي الخميسية - امام الشجري (المتوفى 499 هـ) : حدیث#1320
الترغيب والترهيب - امام الأصبهاني(المتوفى: 535هـ) : حدیث#1860
الترغيب في الدعاء - امام عبد الغني المقدسي (المتوفى: 600هـ) : حدیث#33
الترغيب والترهيب - امام المنذري (المتوفى: 656هـ) : حدیث#1550
لطائف المعارف - امام ابن رجب الحنبلي(المتوفى: 795هـ) : صفحہ#136
الرصف لما روي عن النبي - امام ابن العاقُولي(797 هـ) : ج1 ص349
بشارة المحبوب بتكفير الذنوب - امام القابوني (المتوفى: 869هـ) : صفحہ#43
نزهة المجالس - امام الصفوري (المتوفى: 894هـ) : ج1 ص161
الأجوبة المرضية - امام السخاوي (المتوفى: 902 هـ) : ج1 ص332
المواهب اللدنية - امام القسطلاني (المتوفى: 923هـ) : ج3 ص300
(حدیث)موضوع نہ
ہونے کی وجوہات:
پہلی
وجہ: محض ایک راوی کے اوپر وضع کے اتہام سے حدیث کو موضوع نہیں کہا
جاسکتا، اگر یہ حدیث موضوع ہوتی تو حافظ منذری اس کو اپنی کتاب ”الترغیب والترہیب“ میں ذکر نہ کرتے؛ اس لیے
کہ ان کے سلسلے میں علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ کوئی حدیث منذری صاحبِ ترغیب وترہیب کی تصانیف میں موجود ہے تو اس کو اطمینان
سے بیان کرسکتے ہو (یعنی وہ موضوع نہیں ہوسکتی)
[الرحمة المرسَلة فی شأن حدیث
البسملة: ص:۱۵]
دوسری
وجہ: اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ: جن حضرات نے سنن ابن ماجہ
کی موضوع احادیث کی نشان دہی کی ہے ان میں اس حدیث کا ذکر نہیں ملتا، ”مَا تَمَسُّ الَیْہِ
الحَاجَةُ“ میں وہ ساری احادیث مذکور ہیں۔ (محدثِ کبیر مولانا حبیب
الرحمن الاعظمی بہ حوالہ ”شب
براء ت کی شرعی حیثیت“ ص:۶)
تیسری
وجہ: ابن ابی سبرہ پر جرح شدید ہے، ان کے ضعیف ہونے میں شبہ نہیں؛ تاہم
بعض اہلِ علم ایسے بھی ہیں جنھوں نے ان کے بارے میں بلندکلمات کہے ہیں؛ جیساکہ
تاریخ خطیب بغدادی میں ان کے تفصیلی
ترجمہ کے ضمن میں موجود ہیں، نیز شیخ محمد طاہرپٹنی نے ان کو قاضی
العراق لکھا ہے، جہاں بعض محدثین نے ان کی طرف وضع کی نسبت کی ہے، وہیں بعض نے محض
ضعیف کہا ہے۔
لہٰذا
قطعی طور پر اس حدیث کو موضوع نہیں کہا جاسکتا، ہاں! ضعیف ضرور کہا جائے گا جس کی
صراحت علامہ شوکانی نے اپنی
کتاب فوائد
المجموعة فی بیان الأحادیث الموضوعة (ص:۲۰) میں کی ہے، اور ضعیف روایتیں
فضائل کے باب میں قابلِ قبول ہوتی ہیں۔
خلاصہ
یہ کہ پندرہویں شعبان کے روزے کو نہ توواجب وسنت کہا جاسکتا ہے، نہ ہی بدعت کہہ کر
بالکل رد کیا جاسکتا ہے؛ بلکہ اس کو مستحب کہا جائے گا، بعض فقہاء نے مرغوبات
(پسندیدہ) روزوں میں شامل کیا ہے؛ جیساکہ فتاویٰ عالم گیری (۱/۲۰۳) میں ہے اور بعض نے ”مستحب“ کی
تعبیر اختیار فرمائی ہے؛ اس لیے انفرادی طور پر اگر کوئی شخص پندرہویں شعبان
کا روزہ رکھے تو اس سے منع نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ وہ اس کی برکات کا پانے والا
کہلائے گا؛ اس لیے کہ اس کی فضیلت ایک حدیث میں مذکور ہے، جس کی سند ضعیف ہے، اور
فضائل میں ضعیف حدیث قابلِ قبول ہوتی ہے۔
یہی
وجہ ہے کہ درج ذیل کتابوں میں اس روزہ کا ذکر موجود ہے: أشِعَّةُ اللمعات (ص:۵۸۸) مطبوعہ نول کشور لکھنوٴ،
فتاویٰ ہندیہ (۱/۲۰۳)، ماثبت بالسُّنة فی أیَّامِ
السَّنة (ص:۸۰)، تحفة الاحوذی (۲/۵۳)، الموعظةُ الحَسَنة للنواب صدیق
حسن خان (ص:۱۶۲) مطبوعہ
مصر ۱۳۰۰ھ، نصاب
اہل خدماتِ شرعیہ (ص:۳۸۲) منظور
محکمہٴ صدارتِ عالیہ، مطبوعہ: سلطان بک ڈپو، کالی کمان حیدرآباد، دکن.
پندرہویں
شعبان کے روزے کے باب میں جو حدیث ابن ماجہ میں آئی ہے وہ موضوع نہیں ہے، کسی ماہر
حدیث عالم نے اس کو موضوع نہیں کہا ہے، تحفة الاحوذی کی عبارت سے اس حدیث کے موضوع
ہونے پر استدلال کرنا جہالت ہے، اس حدیث کے راویوں میں ابوبکر بن سبرہ ضرور ہے، اس
کی نسبت بے شک یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حدیثیں بناتا تھا؛ لیکن اس سے یہ نہیں ثابت
ہوتا کہ زیربحث حدیث اس کی بنائی ہوئی اور موضوع ہے، محض اس بنیاد پر کہ سند میں
کوئی ایسا راوی موجود ہے جو حدیثیں بناتا تھا، کسی حدیث کو موضوع کہہ دینا جائز
نہیں ہے، اس سے تو بس اتنا لازم آئے گا کہ حدیث سنداً ضعیف ہے، یہی وجہ ہے کہ جن
حضرات نے سنن ابن ماجہ کی موضوع احادیث کی نشاندہی کی ہے ان میں اس حدیث کا ذکر
نہیں ملتا، مَا
تَمُسُّ الیہ الحاجة میں وہ ساری حدیثیں مذکور ہیں، جس کا جی چاہے دیکھ لے۔
اصولِ حدیث وغیرہ
کی مختلف کتابوں میں جگہ جگہ تصریح مل سکتی ہے کہ کسی حدیث کی سند میں کوئی کذّاب
یا وضّاع راوی پایا جائے تو محض اتنے سے وہ حدیث موضوع نہیں ہوجائے گی، جب تک کہ
دوسری کوئی دلیل اس کے موضوع ہونے پر دلالت نہ کرے، مثال کے طور پر فتح المغیث:۱/۲۵۱ کوملاحظہ کیا جائے، امام سخاوی لکھتے ہیں:
”ہٰذَا مَعَ أنَّ مُجَرَّدَ تَفَرُّدِ
الْکَذَّابِ بَلِ الْوَضَّاعِ وَلَوْ کَانَ بَعْدَ الاِسْتِقْصَاءِ
وَالتَّفْتِیْشِ مِنْ حَافِظٍ مُتَبَحِّرٍ تَامِ الاِسْتِقْرَاءِ غَیْرُ
مُسْتَلْزِمٍ لِذٰلِکَ بَلْ لاَ بُدَّ مَعَہُ مِنْ اِنْضِمَامِ شَیْءٍ مِمَّا
سَیَأْتِیْ“
ترجمہ:
”محض کسی جھوٹے؛ بلکہ وضّاعِ حدیث کا کسی حدیث میں متفرد ہونا اگرچہ اس کا ثبوت
کسی متبحر اور دیدہ ور حافظِ حدیث کی تحقیق سے ہوا ہو، اس کو (یعنی حدیث کے موضوع
ہونے کو) مستلزم نہیں ہے؛ بلکہ اس کے ساتھ کسی اور دلیل کا انضمام بھی ضروری ہے،
جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔“
اسی
طرح راوی کو منکَرالحدیث اور حدیث کو منکَر بھی کہا گیا ہو تب بھی اس کو موضوع کہنا
جائز نہیں، حدیث لا تقولوا سورةَ البقرةِ الخ کو امام احمد نے منکَر اور اس
کے راوی عبیس کو منکَرالحدیث کہا ہے، اس بنا پر ابن جوزی نے اس حدیث کو
موضوعات میں داخل کردیا تو حافظ ابن حجر نے اس پر سخت
اعتراض کیا۔
فرماتے
ہیں: أفرط
ابن جوزی فی ایراد ہذا الحدیث فی الموضوعات، ولم یذکر مستندہ الا قولَ أحمد وتضعیف
عبیس وہذا لا یقتضی الوضع (اللآلی المصنوعة:۱/۲۳۹)۔ (ابن
جوزی نے اس حدیث کو موضوعات کی قبیل سے شمار کرکے تشدد سے کام لیا ہے، اور دلیل
میں سوائے حضرت امام احمد کے قول اور عبیس
کی تضعیف کے اور کچھ ذکر نہیں کیا؛ لیکن یہ بات اس کے موضوع ہونے کو مقتضی نہیں
ہے)۔
سطورِ
بالا سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس شخص نے یہ بات کہی ہے کہ روایت فضیلتِ صوم شعبان
میں ابوبکر بن عبداللہ راوی واضع الحدیث تھا؛ اس لیے یہ روایت موضوع ٹھہری، بالکل
غلط ہے۔ ایسی جہالت کی بات کوئی عالم نہیں کہہ سکتا، مولانا عبدالرحمن مرحوم کیسے
ایسی بات کہہ سکتے ہیں، مولانا تو اس حدیث کو پندرہویں رات کی فضیلت کے ثبوت میں
پیش کرتے ہیں اور اس شخص کے اوپر حجت قائم کرتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ شعبان کی
پندرہویں رات کی فضیلت ثابت نہیں۔
تحفة
الاحوذی کی عبارت بعینہ نقل کی جاتی ہے:
”مِنْہَا حَدِیْثُ عَلِيٍ قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: اذَا کَانَتْ لِیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ
شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَہَا وَصُوْمُوْا یَوْمَہَا (الی) رَوَاہُ ابْنُ
مَاجَةَ، وفِیْ سَنَدِہ أبُوْبَکْرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ
أبِیْ سَبْرَةَ الْقَرْشِیْ الْعَامِرِیْ الْمَدَنِیْ، قِیْلَ: اسْمُہ عَبْدُ
اللّٰہِ، وَقِیْلَ: محمّدٌ، وَقَدْ یُنْسَبُ الیٰ جَدِّہ، رَمَوہ بِالْوَضْعِ کذا
فِیْ التَّقْرِیْبِ، وَقَالَ الذَّہَبِیْ فِی الْمِیْزَانِ ضَعَّفَہُ
الْبُخَارِیُّ وَغَیْرُہ، وَرَویٰ عَبْدُ اللّٰہِ وَصَالِحُ ابْنَا أحْمَدَ عَنْ
أبِیْہِمَا قَالَ: کَانَ یَضَعُ الْحَدِیْثَ، وَقَالَ النَّسَائِیْ: مَتْرُوْکٌ․ انتہیٰ فَہٰذِہ
الأحادیثُ بِمَجْمُوْعِہَا حُجَّةٌ عَلیٰ مَنْ زَعَمَ أنَّہ لَمْ یَثْبُتْ فِیْ
فَضِیْلَةِ لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ شَیْیءٌ․ (تحفة الاحوذی:۲/۵۳)
ترجمہ:
انھیں میں سے حضرت علیؓ کی حدیث ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب شعبان کی ۱۵/تاریخ آئے تو رات میں عبادت
کرو اور دن میں روزہ رکھو (الیٰ) اس کو ابن ماجہؒ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند
میں ابوبکر بن عبداللہ بن ابی سبرة القرشی العامری المدنی ہے، ان کا نام لوگوں نے
عبداللہ بتایا ہے، بعض لوگوں نے محمد بتایا ہے، اس کی نسبت عموماً ان کے دادا کی
جانب ہوتی ہے، لوگوں نے اس کو وضع حدیث کا مرتکب ٹھہرایا ہے، ایسے ہی تقریب میں
ہے، امام ذہبی نے میزان میں
فرمایا ہے کہ امام بخاری وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور عبداللہ وصالح بن احمد
بن حنبل نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ حدیث گھڑتا تھا اور امام نسائی نے
فرمایا کہ وہ متروک ہے، بس یہ تمام حدیثیں مجموعی اعتبار سے اس شخص کے خلاف حجت
ہیں، جس نے گمان کیا ہے پندرہویں شعبان کی رات کے سلسلہ میں کوئی چیز ثابت نہیں
ہے۔
دیکھئے
مولانا مبارک پوری ابن ماجہ کی حدیث
نقل کرکے اس کے راوی پر جو جرح ہے اس کو بھی نقل کرتے ہیں، اس کے باوجود اس حدیث
کو دوسری ضعیف حدیثوں کے ساتھ ملاکر حجت بھی قرار دیتے ہیں، کیا موضوع حدیث کو بھی
دوسری حدیث کے ساتھ ملاکر حجت بنایا جاسکتا ہے؟ یہ بات کوئی عالم نہیں کہہ سکتا۔
مولانا
عبدالرحمن مبارک پوری نے جس طرح اس
حدیث کو موضوع نہیں کہا ہے؛ بلکہ صرف ضعیف قرار دیا ہے، اسی طرح منذری نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، اور چوں کہ
اس کو انھوں نے اپنی کتاب ترغیب وترہیب میں ذکر کیا ہے؛اس لیے وہ حسب تصریح سیوطی موضوع نہیں ہے، سیوطی فرماتے ہیں:
اذَا عَلِمْتُمْ بِالْحَدِیْثِ أنَّہ فِیْ تَصَانِیْفِ الْمُنْذِرِیْ صَاحبِ
التَّرْغِیْبِ وَالتَّرْہِیْبِ فَأرْوُوْہُ مُطْمَئِنِّیْنَ․
ترجمہ:
جب تمہارے علم میں یہ بات آجائے کہ کوئی حدیث منذری صاحب ترغیب
وترہیب کی تصنیفات میں موجود ہے تو اس کو اطمینان سے بیان کرسکتے ہو؛ یعنی یہ کہ
وہ موضوع نہیں ہے۔
[الرحمة المرسلة فی شان حدیث البسملة:۱۵]
اب تک
ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں ہے اور اس کو موضوع قرار دینا جہالت
ہے، ہاں وہ ضعیف ضرور ہے؛ مگر اس کا ضعف اس پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہے۔
حافظ
ابن عبدالبر نے کتاب العلم
میں یہ حدیث روایت کی ہے:
مَنْ بَلَغَہ عَنِ اللّٰہِ فَضْلٌ فَأخَذَ
بِذٰلِکَ الْفَضْلَ الَّذِيْ بَلَغَہ أَعْطَاہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ مَا بَلَغَہ
وَانْ کَانَ الذِي حَدَّثَہ کَاذِباً․
ترجمہ:
جس کسی کو کسی کام پر کسی ثواب کی اطلاع ملے اور وہ اس پر کار بند ہوجائے تو اللہ
تعالیٰ اس کو وہ ثواب دے دے گا، جس کی اس کو اطلاع پہونچی ہے، اگرچہ جس نے بیان
کیا ہے وہ جھوٹا ہو۔
یہ روایت حضرت جابرؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ سے
[جزء ابن عرفة:63 ، شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين:68-71 ، الترغيب والترهيب لقوام السنة:57، إتحاف الخيرة المهرة:7147، المقاصد الحسنة:1091، الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة:381، كنز العمال:43132،
استدلال في كتب علوم الحديث:
[فتح المغيث للسخاوي:3/283، مفتاح الجنة للسيوطي:54، قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث للقاسمي:400]
یہ روایت حضرت جابرؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ سے
[جزء ابن عرفة:63 ، شرح مذاهب أهل السنة لابن شاهين:68-71 ، الترغيب والترهيب لقوام السنة:57، إتحاف الخيرة المهرة:7147، المقاصد الحسنة:1091، الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة:381، كنز العمال:43132،
استدلال في كتب علوم الحديث:
[فتح المغيث للسخاوي:3/283، مفتاح الجنة للسيوطي:54، قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث للقاسمي:400]
حافظ
ابن عبدالبر اس کو روایت کرکے
فرماتے ہیں کہ:
اس حدیث
کی اسناد ضعیف ہے؛ اس لیے کہ ابومعمر عبادبن عبداللہ اس کا تنہا بیان کرنے والا ہے
اور وہ متروک راوی ہے، مگر اہل علم اپنی جماعت کے ساتھ فضائل (ثواب کے کاموں) کے
باب میں بہت ڈھیل دیتے ہیں اور ہر طرح کے راویوں سے روایت کرلیتے ہیں، وہ تو بس
احکام (حلال وحرام) کی حدیثوں میں سختی سے کام لیتے ہیں۔
خطیب
بغدادی نے کتاب الکفایہ
میں امام احمد وغیرہ ائمہ حدیث
کا قول نقل کیا ہے:
اذَا رَوَیْنَا فِی الْحَلاَلِ وَالْحَرَامِ شَدَّدْنا واذا رَوَیْنَا
فِی الْفَضَائِلِ تَسَاہَلْنَا․
(ترجمہ: جب ہم حلال
وحرام کے باب میں حدیث نقل کرتے ہیں تو پوری احتیاط سے کام لیتے ہیں اور جب فضائل
کے باب میں روایت کرتے ہیں تو سہولت برتتے ہیں)
اور یہی
بات امام نووی اور حافظ عراقی وغیرہ نے وضاحت کے ساتھ لکھی ہے، امام
نووی نے لکھا
ہے:
”یَجُوْزُ
عِنْدَ أہْلِ الْحَدِیْثِ التَّسَاہُلُ فِی الْأسَانِیْدِ الضّعِیْفَةِ وَرِوَایةِ
مَا سِویٰ الْمَوْضُوْعِ مِنَ الضَّعِیْفِ وَالْعَمَلُ بِہ مِنْ غَیْرِ بَیَانِ ضُعْفِہ فِیْ غَیْرِ صِفَاتِ اللّٰہِ وَالأحْکَامِ․
(تدریب
الراوی:۱۹۶)
ترجمہ:
اہل حدیث کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل برتنا اور موضوع کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں
کو روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا ان کا ضعف بیان کیے بغیر جائز ہے؛ مگر اللہ کی
صفات اوراحکام کی حدیثوں میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے“۔
حدیث شریف میں ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کا ثبوت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو درمنثور، تفسیر سورئہ دخان۔ پس اس روزہ کو فرض یا واجب یا سنتِ موٴکدہ قرار نہیں دیا جاسکتا، نہ اس کو بدعت کہا جاسکتا ہے۔
دوزخ سے آزادی کی رات
نداۓ رحمتِ الہی کے مواقع:
(1) شبِ قدر میں:
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ ، صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَاب ، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَاب ، وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ " . قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَابْنِ مَسْعُودٍ ، وَسَلْمَانَ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّوْمِ » بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ ... رقم الحديث: 617]
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور دوزخ کے دورازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور پھر اس کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا پھر جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور پکارنے والا پکارتا ہے: اے خیر کے طلبگار! آگے بڑھ، اور اے شر کے طلبگار! ٹھہر جا، اور اللہ کی طرف سے بندے آگ سے آزاد کر دئیے جاتے ہیں یہ معاملہ ہر رات جاری رہتا ہے اس باب میں عبدالرحمن بن عوف ابن مسعود اور سلیمان سے بھی روایت ہے ۔
(2) نصف شعبان کی رات میں:
یہ بات درج بالا پہلی حدیث، حضرت علیؓ کی روایت میں گزرچکی.
[سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ... رقم الحديث: 1378]
(3) ہر رات کے آخری تہائی حصّہ میں:
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ , يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْجُمُعَةِ » أَبْوَابُ تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 1083]
[صحيح البخاري » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب الدُّعَاءِ نِصْفَ اللَّيْلِ ... رقم الحديث: 5873]
(1) شبِ قدر میں:
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ ، صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَاب ، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَاب ، وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ " . قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَابْنِ مَسْعُودٍ ، وَسَلْمَانَ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّوْمِ » بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ ... رقم الحديث: 617]
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور دوزخ کے دورازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور پھر اس کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا پھر جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور پکارنے والا پکارتا ہے: اے خیر کے طلبگار! آگے بڑھ، اور اے شر کے طلبگار! ٹھہر جا، اور اللہ کی طرف سے بندے آگ سے آزاد کر دئیے جاتے ہیں یہ معاملہ ہر رات جاری رہتا ہے اس باب میں عبدالرحمن بن عوف ابن مسعود اور سلیمان سے بھی روایت ہے ۔
(2) نصف شعبان کی رات میں:
یہ بات درج بالا پہلی حدیث، حضرت علیؓ کی روایت میں گزرچکی.
[سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ... رقم الحديث: 1378]
(3) ہر رات کے آخری تہائی حصّہ میں:
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ , يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الْجُمُعَةِ » أَبْوَابُ تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 1083]
[صحيح البخاري » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » بَاب الدُّعَاءِ نِصْفَ اللَّيْلِ ... رقم الحديث: 5873]
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا پر اترتا ہے، جب کہ آخری تہائی رات باقی رہتی ہے اور فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھے سے سوال کرے تو میں اس کو دے دوں، اور کون ہے جو مجھے سے بخشش چاہے تو میں اس کو بخش دوں۔
آدھی رات کو اندھیرے میں اکیلے قریبی قبرستان جانا:
(حدیث#2) حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ أَبُو بَكْرٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : فَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ ، فَخَرَجْتُ أَطْلُبُهُ ، فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ رَافِعٌ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ ، فَقَالَ : " يَا عَائِشَةُ ، أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ " ، قَالَتْ : قَدْ قُلْتُ وَمَا بِي ذَلِكَ ، وَلَكِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ ، فَقَالَ : " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا ، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ كَلْبٍ " .
ترجمہ:
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میں نے نبی ﷺ کو اپنے بستر پر نہ پایا، میں نکلی تو نبی ﷺ بقیع(کے قبرستان) میں آسمان کی طرف سر اٹھائے دعا فرما رہے تھے، مجھے دیکھ کر فرمایا: کیا تمہیں اس بات کا اندیشہ ہو گیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں سمجھی تھی کہ شاید آپ اپنی کسی زوجہ کے پاس گئے ہوں گے، نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ (کی رحمت) شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا (یعنی متوجہ ہوتا) ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کو معاف فرماتا ہے۔
[سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ...رقم الحديث: 1389]
تخريج الحديث
(1)مسند الإمام أحمد بن حنبل (المتوفى: 241هـ) : حدیث#26018
(2)المنتخب من مسند عبد بن حميد (المتوفى: 249هـ) : حدیث#1509
(3)سنن ابن ماجه (المتوفى: 273هـ) : حدیث#1389
(4)سنن الترمذي (المتوفى: 279هـ) : حدیث#739
(5)الإبانة الكبرى لابن بطة(المتوفى: 387هـ) : حدیث#176
(6)شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - امام اللالكائي (المتوفى: 418هـ) : حدیث#764
(8)شعب الإيمان للبيهقي (المتوفى: 458هـ) : حدیث#3544+3545
(9)شرح السنة - امام البغوي (المتوفى: 516هـ) : حدیث#992
المواهب اللدنية - امام القَسْطَلَّاني (المتوفى: 923هـ) : ج3 ص300
(2)المنتخب من مسند عبد بن حميد (المتوفى: 249هـ) : حدیث#1509
(3)سنن ابن ماجه (المتوفى: 273هـ) : حدیث#1389
(4)سنن الترمذي (المتوفى: 279هـ) : حدیث#739
(5)الإبانة الكبرى لابن بطة(المتوفى: 387هـ) : حدیث#176
(6)شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة - امام اللالكائي (المتوفى: 418هـ) : حدیث#764
(8)شعب الإيمان للبيهقي (المتوفى: 458هـ) : حدیث#3544+3545
(9)شرح السنة - امام البغوي (المتوفى: 516هـ) : حدیث#992
(10)النزول للدارقطني (المتوفى: 385هـ) : حدیث#89
(11)تسعة مجالس من أمالي طراد بن محمد الزينبي (المتوفى: 491هـ) : حدیث#13
(12)جامع المسانيد - امام ابن الجوزي (المتوفى: 597 هـ) : حدیث#7197، ج8 ص135
(13)الترغيب والترهيب - امام المنذري (المتوفى: 656هـ) : حدیث#4191
لطائف المعارف - امام ابن رجب الحنبلي (المتوفى: 795هـ) : صفحہ#136
الغنية لطالبي - امام عبد القادر الجِيلاني (المتوفى: 561 هـ) : ج1 ص346المواهب اللدنية - امام القَسْطَلَّاني (المتوفى: 923هـ) : ج3 ص300
نوٹ:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ ایک مرتبہ شبِ برأت میں قبرستان تشریف لے گئے تھے، لہٰذا اگر وقت ملے تو (اکیلے خفیہ طور پر) قبرستان چلے جانا جائز ہے لیکن مشروع نہیں، لہٰذا اس کو ضروری نہ سمجھا جائے۔ اگر اس رات میں قبرستان جانا کوئی شرعی عمل ہوتا تو پیغمبر اکرم ﷺ چھپ کر نہ جاتے، بلکہ اس کی تعلیم وحکم دیتے یا شوق دلاتے۔
اس دن میں روزہ ، اس رات میں جاگنا، اپنی حاجت طلب کرنا، مُردوں کیلئے دعا کرنا مستحب ہے۔۔۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ مُردوں کو اسی طریق پر نفع پہنچاؤ، جس طور جناب رسول مقبول ﷺ سے منقول ہے یعنی بعد عشاء کے قبرستان میں جا کر مردوں کیلئے دعا کرو، پڑھ کر بخشو، مگر فرداً فرداً جاؤ، جمع ہو کر مت جاؤ اس کو تہوار مت بناؤ۔ اور عجب لطف حق ہے کہ پندرہویں شب میں ہمیشہ چاندنی ہوتی ہے، (اکیلے) قبرستان جانے میں وحشت بھی نہ ہوگی۔
جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجے میں ثابت ہو اسی درجہ میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھانا چاہئے، لہٰذا ساری حیات طیبہ میں رسول کریم ﷺ سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے۔ لیکن ہر شبِ برأت میں جانے کا اہتمام کرنا، التزام کرنا اور اس کو ضروری سمجھنا اور اس کو شب برأت کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شبِ برأت کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شبِ برأت نہیں ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے لہٰذا اگر کبھی کوئی شخص اس نقطہ سے قبرستان چلا گیا کہ حضور نبی کریم ﷺ تشریف لے گئے تھے میں بھی آپ کی اتباع میں جارہا ہوں تو انشاء اللہ اجر وثواب ملے گا، لیکن اس کے ساتھ یہ کرو کہ کبھی نہ بھی جاؤ۔(اصلاحی خطبات ۴؍۵۶۳)
حدیثِ عائشہؓ کی اسنادی حیثیت
امام ترمذیؒ اس حدیث کی سند پر بحث کرتے ہوۓ فرماتے ہیں :
قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْحَجَّاجِ ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ ، وقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ : لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ .
قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْحَجَّاجِ ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ ، وقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ : لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ، لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ .
خلاصہ :
شبِ برأت کی دعائیں:
امام بیھقیؒ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اپنے دونوں کپڑوں کو اتارنا چاہا ابھی مکمل نہ اتارے تھے کہ کھڑے ہوگئے اور ان کپڑوں کو دوبارہ پہن لیا، مجھے شدید غیرت آئی اور میں نے خیال کیا کہ آپ کس زوجہ کے پاس تشریف لے جائیں گے، میں آپ کے پیچھے گئی اور آپ کو بقیع عرفہ میں پایا کہ آپ مومن مردوں مومن عورتوں اور شھداء کے لئے استغفار فرما رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ اپنے رب کی تلاش میں ہیں اور میں دنیا کی حاجت میں ہوں، میں لوٹ آئی اور حجرہ میں داخل ہوگئی جبکہ میرا نفس پھولا ہوا تھا۔ (اتنے میں) نبی کریم ﷺ میرے پاس آگئے اور فرمایا: اے عائشہ! تیرا سانس کیوں پھولا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ میرے پاس تشریف لائے آپ نے اپنے کپڑے اتارے تھے پھر آپ پوری طرح نہیں اتارے تھے کہ آپ کھڑے ہوگئے ان کپڑوں کو پہن لیا اور باہر تشریف لے گئے مجھے سخت غیرت آئی۔ میں نے خیال کیا کہ آپ کسی زوجہ کے پاس تشریف لے جائیں گے یہاں تک کہ میں نے آپ کو بقیع میں یہ کام کرتے ہوئے پایا (یعنی استغفار کرتے ہوئے پایا) فرمایا: اے عائشہ ؓ! کیا تو اس بات کا خوف کرتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟ بلکہ میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا: یہ نصف شعبان کی رات ہے، اللہ تعالیٰ بنوبکر کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتے ہیں۔ (مگر) اللہ تعالیٰ اس میں نہیں دیکھتا مشرک کی طرف، نہ کینہ رکھنے والے کی طرف، نہ قطع رحمی کرنے والے کی طرف، اور نہ چادر کو(ٹخنوں سے) نیچے لٹکانے والے کی طرف، اور نہ اپنی اولاد کو عاق کرنے والے کی طرف، اور نہ شراب کا عادی کی طرف۔
[أمالي ابن بشران (م430ھ) - الجزء الثاني: ص238]
[تسعة مجالس من أمالي طراد بن محمد الزينبي-طراد الزينبي (م491ھ) : حدیث نمبر 60]
[ما وضح واستبان في فضائل شهر شعبان-ابن دحية (م633ھ) : ص35]
[تخريج أحاديث الكشاف-الزيلعي، جمال الدين (م762ھ): حدیث نمبر 1172]
[الزواجر عن اقتراف الكبائر-ابن حجر الهيتمي (م974ھ) : ج 2 / ص 69 دار الفكر]
[دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين-7 / 226]
حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: کہ پھر آپ نے اپنے (زائد کپڑے) اتار دیئے، اور مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! کیا تو مجھ کو (نفلی) نماز میں کھڑے ہونے کی اجازت دیتی ہے اس رات میں؟ میں نے عرض کیا: ہاں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ کھڑے ہوگئے اور لمبا سجدہ کیا، یہاں تک کہ میں نے خیال کیا آپ کی روح قبض کرلی گئی۔ میں کھڑی ہوئی اور میں نے اپنے ہاتھ کو آپ کے پاؤں مبارک کے اندورنی حصہ پر رکھا تو آپ نے پاؤں کو حرکت دی اور میں نے آپ کو سجدہ میں یہ کہتے ہوئے سنا:
«أعوذ بعفوك من عقابك وأعوذ برضاك من سخطك وأعوذ بك منك جل وجهك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك»۔
ترجمہ:
میں پناہ مانگتا ہوں آپ کی سزا سے آپ کے درگزر کرنے کی اور میں پناہ مانگتا ہوں آپ کے غصے سے آپ کی رضا کے ساتھ اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں آپ کی بلند مرتبہ ذات کے طفیل سے میں آپ کی تعریف نہیں کرسکتا جیسے آپ نے اپنی ذات کی خود تعریف فرمائی۔
جب صبح ہوئی تو میں آپ کے سامنے یہ کلمات ذکر کئے آپ نے فرمایا: اے عائشہ ؓ کیا تو نے ان کو سیکھ لیا ہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: تو ان کو سیکھو اور ان کو سکھاؤ کیونکہ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے یہ سکھائے ہیں اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں ان کو سجدوں میں پڑھوں۔
[جامع الأحاديث-السيوطي(م911ھ): حدیث نمبر 13095]
[الأمالي المطلقة - امام ابن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) : صفحہ#120]
[الترغيب والترهيب للمنذري-عبد العظيم المنذري (م656ھ): ج3 / ص308 دار الكتب العلمية]
[الغنية لطالبي طريق الحق-عبد القادر الجيلاني (م561ھ): ج1 / ص 346]
[التبصرة لابن الجوزي (م597هـ) : ج2 ص57]
[بحر المذهب-عبد الواحد الروياني(م502ھ): ج2/ ص54]
امام بیھقی کی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ شعبان کی پندرھویں رات رسول اللہ ﷺ میرے پاس موجود تھے، جب آدھی رات ہوئی میں نے آپ کی عورتوں کے حجروں میں آپ کو تلاش کیا، میں نے آپ کو نہ پایا تو اپنے حجرے کی طرف آگئی تو میں آپ کے اوپر اس طرح آپڑی جیسے گرا ہوا پڑا ہو۔ میں نے دیکھا کہ آپ سجدے میں تھے، اور آپ اپنے سجدوں میں یہ فرما رہے تھے:
سَجَدَ لِلَّهِ سِوَادِي وَخَيَالِي وَآمَنَ بِكَ فُؤَادِي، هَذِهِ يَدِي وَمَا جَنَيْتُهُ بِهَا عَلَى نَفْسِي يَا عَظِيمَ رَجَاءٍ لِكُلِّ عَظِيمٍ، اغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِيمَ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ
ترجمہ:
سجدہ کیا تیرے لئے میرے خیال نے، اور میرے وجود نے، اور امن پایا(ایمان لایا) آپ کی مدد سے میرے دل نے، پس یہ میرا ہاتھ ہے اور جو میں نے اس کے ذریعہ گناہ(ظلم) کیا اپنی جان پر، اے عظمت والی ذات! جس سے امید کی جاتی ہے ہر عظیم کام کے لئے، میرے عظیم گناہ کو بخش دے، میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کے لئے جس نے اس کو پیدا کردیا اور بنا چھوئے اس کے کان اور اس کی آنکھ کو کھولا۔
پھر آپ نے اپنا سرمبارک اٹھایا پھر دوبارہ سجدہ کیا اور یہ دعا فرمائی :
أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِعَفْوِكَ مِنْ عِقَابِكَ، وَبِكَ مِنْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ۔
ترجمہ:
میں پناہ مانگتا ہوں آپ کی رضا کے ساتھ آپ کے غصہ سے اور میں پناہ مانگتا ہوں آپ کے درگزر کے ساتھ آپ کی سزا سے اور میں پناہ مانگتا ہوں آپ کی بلند مرتبہ ذات کے طفیل سے (میں آپ کی تعریف نہیں کرسکتا) جیسے آپ نے اپنی تعریف فرمائی۔
میں س طرح کہتا ہوں جیسے میرے بھائی داؤد (علیہ السلام) نے کہا میں اپنے چہرے کو مٹی میں لت پت کرتا ہوں اپنے آقا کے لئے اور وہ اسی بات کا حقدار ہے کہ اسی کو سجدہ کیا جائے پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا :
اللَّهُمَّ ارزقني قلباً تقياً من الشَّرّ نقياً لَا جَافيا وَلَا شقياً
ترجمہ:
اے اللہ! مجھے ڈرنے والا اور شر سے پاک دل عطا فرما جو سخت نہ ہو اور بد بخت نہ ہو۔
[ما وضح واستبان في فضائل شهر شعبان-ابن دحية (م633ھ) : ص35]
[تسعة مجالس من أمالي طراد بن محمد الزينبي-طراد الزينبي (م491ھ) : حدیث نمبر 60]
[الدعوات الكبير-البيهقي:53، فضائل الأوقات للبيهقي:27]
[شعب الإيمان للبيهقي(م458ھ) » الْبَابُ الثَّالِثُ وَالْعِشْرُونَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ ... » مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ... رقم الحديث: 3838(3557)]
[أمالي ابن بشران (م430ھ) - الجزء الثاني: ص238]
پھر آپ دعا سے فارغ ہوئے اور میرے ساتھ چادر میں داخل ہوگئے جبکہ میری سانس پھولی ہوئی تھی آپ نے فرمایا اے حمیرا (یہ عائشہ کا لقب ہے) یہ سانس کیوں پھولی ہوئی ہے میں نے سارا واقعہ سنایا آپ نے اپنے ہاتھ کو میرے گھٹنوں پر پھیرنا شروع کیا اور فرما رہے تھے افسوس ہے ان دونوں گھٹنوں پر جو اس رات کو نہیں ملے یہ نصف شعبان کی رات ہے اس میں اللہ تعالیٰ دنیا کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ والے کے۔
[الدر المنثور في التفسير بالمأثور: ج 7 / ص 404 ، سورۃ الدخان-آیت 3]
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: " مَا دَعَا عَبْدٌ بِهَذِهِ الدَّعَوَاتِ إِلَّا وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي مَعِيشَتِهِ: يَا ذَا الْمَنِّ , وَلَا يُمَنُّ عَلَيْكَ , يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ , يَا ذَا الطَّوْلِ , لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ , ظَهْرُ الَّاجِئِينَ , وَجَارُ الْمُسْتَجِيرِينَ , وَمَأْمَنُ الْخَائِفِينَ إِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِي فِي أُمِّ الْكِتَابِ عِنْدَكَ شَقِيًّا فَامْحُ عَنِّي اسْمَ الشَّقَاءِ , وَاثْبِتْنِي عِنْدَكَ سَعِيدًا , وَإِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِي فِي أُمِّ الْكِتَابِ مَحْرُومًا مُقَتَّرًا عَلَيَّ رِزْقِي , فَامْحُ عَنِّي حِرْمَانِي وَتَقْتِيرِ رِزْقِي , وَاثْبِتْنِي عِنْدَكَ سَعِيدًا مُوَفَّقًا لِلْخَيْرِ , فَإِنَّكَ تَقُولُ فِي كِتَابِكَ {يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ} [سورۃ الرعد: 39]
[الدعاء، لمحمد بن فضيل الضبي: حدیث#52]
[القضاء والقدر، للبيهقي » باب ذكر البيان أن ما كتب على ابن آدم وجرى به القلم أدركه لا محالة، حدیث#257]
وَأخرج ابْن أبي شيبَة فِي المُصَنّف وَابْن أبي الدُّنْيَا فِي الدُّعَاء
[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:4/ 661 سورۃ الرعد: آیت36]
فقال”رسول اللّٰہ ﷺ“: «أتدرين أي ليلة هذه؟».
قلت: الله ورسوله أعلم. قال: «هذه ليلة النصف من شعبان إن الله عز وجل يطلع على عباده في ليلة النصف من شعبان فيغفر للمستغفرين ويرحم المسترحمين ويؤخر أهل الحقد كما هم»․
قلت: الله ورسوله أعلم. قال: «هذه ليلة النصف من شعبان إن الله عز وجل يطلع على عباده في ليلة النصف من شعبان فيغفر للمستغفرين ويرحم المسترحمين ويؤخر أهل الحقد كما هم»․
ترجمہ:
”آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا (اے عائشہ )جانتی بھی ہو یہ کونسی رات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، فرمایا: یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے، اللہ عزوجل اس رات اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں، اور بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں، رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں، اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کو ان کی حالت پر ہی چھوڑ دیتے ہیں“۔
[شعب الإيمان للبيهقي(م458ھ): حدیث نمبر 3554 مکتبة الرشد(حدیث نمبر 3834 دار الكتب العلمية)]
[الترغيب والترهيب للمنذري-عبد العظيم المنذري (م656ھ): ج2 / ص74 دار الكتب العلمية]
[الدر المنثور في التفسير بالمأثور:7/ 403، جامع الأحاديث-السيوطي:7265، الجامع الصغير:3662، جمع الجوامع المعروف بـ «الجامع الكبير»: ج 2 / ص 260]
وَقَالَ هَذَا مُرْسَلٌ جَيِّدٌ
[شرح الزرقاني: 10/ 558، المواهب اللدنية:3/ 300]
وَقَالَ هَذَا مُرْسَلٌ جَيِّدٌ وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ الْعَلَاءُ أَخَذَهُ مِنْ مَكْحُولٍ
[تحفة الأحوذي-عبد الرحمن المباركفوري: ج3 / ص366]
فیصلے کی رات:
(1) اعمال کی پیشی - شب برات میں:
عن ”عائشة“رضي اللہ عنھا عن”النبي“ صلى الله عليه وسلم قال:(هَلْ تَدْرِينَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ ؟ " قَالَتْ : مَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ : " فِيهَا يُكْتَبُ كُلُّ مَوْلُودٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ ، وَفِيهَا أَنْ يُكْتَبَ كُلُّ هَالِكٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ ، وَفِيهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ ، وَفِيهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ )․
[أخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني » صِفْةُ لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ... » ذِكْرُ لِحَافِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... رقم الحديث: 461 (1 : 139)]
الدعوات الکبیر للبیہقي، رقم الحدیث”۵۳۰“:۱۰ / ۱۴۶،غراس للنشر والتوزیغ، الکویت]
المحدث : البيهقي
المصدر : الدعوات الكبير الصفحة أو الرقم: 2/145 / خلاصة حكم المحدث : في [إسناده] بعض من يجهل [وورد ما يقويه بعض القوة]
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ سے روایت فرماتی ہیں کہ” آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے اس رات یعنی شعبان کی پندرہویں رات میں کیا ہوتا ہے؟ انھوں نے دریافت فرمایا کہ: یا رسول اللہ! کیا ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایاکہ اس شب میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہیں، وہ سب لکھ دئیے جاتے ہیں ،اور جتنے اس سال مرنے والے ہیں وہ سب بھی اس رات لکھ دیے جاتے ہیں ،اور اس رات میں سب بندوں کے (سارے سال کے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی (مقررہ وقت)پر اترتی ہے“۔
آسمانی بجٹ کی رات:
دنیا بھر کی حکومتوں میں یہ دستور ہے کہ وہ اپنے وسائل اور پالیسی کے مطابق آمدنی و اخراجات کا بجٹ ایک سال پہلے ہی تیار کرلیتی ہیں، ان کے پارلیمانی اور وزراء کے اجلاسوں کی میٹنگ میں اس بجٹ پر مہینوں بحث ہوتی ہے، یہ بجٹ اپنی حکومت کے اغراض و مقاصد کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے اور اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ آنے والے سال میں ترقی کی کن منازل کو طے کرنا ہے۔
بعینہٖ شعبان کی چودہویں اور پندرہویں تاریخوں کے درمیان ہر سال خالقِ کائنات اپنی وسیع تر مملکت دنیا کے بجٹ کا اعلان کرتا ہے اور یہ بجٹ زندگی کے ہر زاوئیے پر محیط ہوتا ہے، اس رات میں یہ بھی فیصلہ ہوتا ہے کہ آنے والے سال میں کتنے لوگوں کو دنیا میں بھیجنا ہے اور کتنے لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنے کے بعد واپس بلایا جائے گا، کتنا خرچ کرنے کی اجازت ملے گی اور کس سے کتنا کچھ واپس لے لیا جائیگا، شعبان کی پندرہویں شب میں عالم بالا میں حکیم و خبیر و دانا مدبّر کے حکم کے مطابق دنیا والوں کیلئے جو روز ازل میں فیصلے کئے گئے تھے ان میں سے ایک سال کا جامع بجٹ کارکنانِ قضاء و قدر یعنی خاص مقرب فرشتوں کے سپرد کردیا جاتا ہے ، اس دنیا میں سب کچھ وہی ہوتا ہے جو فرشتوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ (مسائلِ شبِ برأت ص۹۲)
(2) اعمال کی پیشی - ماہ شعبان میں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَبُو غُصْنٍ , حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ , حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ الْأَيَّامَ يَسْرُدُ حَتَّى يُقَالَ : لَا يُفْطِرُ , وَيُفْطِرُ الْأَيَّامَ , حَتَّى لَا يَكَادَ أَنْ يَصُومَ إِلَّا يَوْمَيْنِ مِنَ الْجُمُعَةِ , إِنْ كَانَا فِي صِيَامِهِ وَإِلَّا صَامَهُمَا , وَلَمْ يَكُنْ يَصُومُ مِنْ شَهْرٍ مِنَ الشُّهُورِ مَا يَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ , فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّكَ تَصُومُ لَا تَكَادُ أَنْ تُفْطِرَ , وَتُفْطِرَ حَتَّى لَا تَكَادَ أَنْ تَصُومَ , إِلَّا يَوْمَيْنِ إِنْ دَخَلَا فِي صِيَامِكَ وَإِلَّا صُمْتَهُمَا , قَالَ : " أَيُّ يَوْمَيْنِ ؟ " , قَالَ : قُلْتُ : يَوْمُ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمُ الْخَمِيسِ , قَالَ : " ذَانِكَ يَوْمَانِ تُعْرَضُ فِيهِمَا الْأَعْمَالُ عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ , وَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ " , قَالَ : قُلْتُ : وَلَمْ أَرَكَ تَصُومُ مِنْ شَهْرٍ مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ , قَالَ : " ذَاكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ , وَهُوَ شَهْرٌ يُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ , فَأُحِبُّ أَنْ ترْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ حِبِّ رَسُولِ اللَّهِ ... رقم الحديث: 21207]
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی کریم ﷺ اتنے تسلسل کے ساتھ روزے رکھتے کہ لوگ کہتے اب نبی کریم ﷺ ناغہ نہیں کریں گے اور بعض اوقات اتنے تسلسل کے ساتھ ناغہ فرماتے کہ یوں محسوس ہوتا کہ اب روزہ رکھیں گے ہی نہیں، البتہ ہفتہ میں دو دن ایسے تھے کہ اگر نبی کریم ﷺ ان میں روزے سے ہوتے تو بہت اچھا، ورنہ ان کا روزہ رکھ لیتے تھے اور کسی مہینے میں نفلی روزے اتنی کثرت سے نہیں رکھتے تھے جتنی کثرت سے ماہ شعبان میں رکھتے تھے یہ دیکھ کر ایک دن میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ آپ بعض اوقات اتنے روزے رکھتے ہیں کہ افطار کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اور بعض اوقات اتنے ناغے کرتے ہیں کہ روزے رکھتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ، البتہ دو دن ایسے ہیں کہ اگر آپ کے روزوں میں آجائیں تو بہتر ورنہ آپ ان کا روزہ ضرور رکھتے ہیں نبی کریم ﷺ نے پوچھا کون سے دو دن ؟ میں نے عرض کی پیر اور جمعرات ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان دو دنوں میں رب العالمین کے سامنے تمام اعمال پیش کئے جاتے ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں ۔ پھر میں نے عرض کیا کہ جتنی کثرت سے میں آپ کو ماہ شعبان کے نفلی روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں ، کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا رجب اور رمضان کے درمیان اس مہینے کی اہمیت سے لوگ غافل ہوتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں رب العالمین کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں ۔
المحدث : العيني
المحدث : البوصيري
المحدث : محمد ابن عبد الوهاب
المحدث : الألباني
3) اعمال کی پیشی - ہر سوموار اور جمعرات کے دن:
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، رَفَعَهُ مَرَّةً ، قَالَ : " تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ فِي كُلِّ يَوْمِ خَمِيسٍ ، وَاثْنَيْنِ ، فَيَغْفِرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ لِكُلِّ امْرِئٍ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا ، إِلَّا امْرَأً كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ ، فَيُقَالُ : ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ، ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْبِرِّ ، وَالصِّلَةِ ، وَالْآدَابِ » بَاب النَّهْيِ عَنِ الشَّحْنَاءِ وَالتَّهَاجُرِ ... رقم الحديث: 4659]
شبِ برأت کی مغفرت سے محروم لوگ:
ترجمہ:
حضرت ابو ثعلبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں اور کافروں کو ڈھیل دیتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کر دیں ۔‘‘
صحيح الترغيب والترهيب:2771 ، صحيح الجامع الصغير:771+1898
[صحيح كنوز السنة النبوية: ص73]
ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط
===================================
مغفرت کی رات
نظر رحمت:
(حدیث#3)
(حدیث#3)
حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ رَاشِدٍ الرَّمْلِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ، عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ أَيْمَنَ ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ " .
[سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ... رقم الحديث: 1390]
ترجمہ:
حضرت ابو موسی اشعریؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ ”آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے“۔
حضرت ابو موسی اشعریؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ ”آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے“۔
اہم فائدہ:
”مشاحن“ کی ایک تفسیر اس بدعتی سے بھی کی گئی ہے جو مسلمانوں کی جماعت سے الگ راہ اپنائے۔
[مسند اسحاق بن راہویہ ۳/۹۸۱، حاشیہ ابن ماجہ ص۹۹]
حضرت عثمان بن ابی العاص کی روایت میں ”زانیہ“ بھی آیا ہے
اور حضرت عائشہ صدیقہ کی ایک روایت میں ”رشتہ داری توڑنے والا، ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شراب کا عادی“ بھی آیا ہے
اور بعض روایات میں عشّار، ساحر، کاہن، عرّاف اور طبلہ بجانے والا بھی آیا ہے۔
گویا احادیث شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عام مغفرت کی اس مبارک رات میں چودہ (۱۴) قسم کے آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی؛ لہٰذا ان لوگوں کو اپنے احوال کی اصلاح کرنی چاہیے:
(۱) مشرک، کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو
(۲) بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی سے کینہ اور دشمنی رکھنے والا
(۳) اہل حق کی جماعت سے الگ رہنے والا
(۴) زانی وزانیہ
(۵) رشتے داری توڑنے والا
(۷) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا
(۸) شراب یا کسی دوسری چیز کے ذریعے نشہ کرنے والا
(۹) اپنا یا کسی دوسرے کا قاتل
(۱۰) جبراً ٹیکس وصول کرنے والا
(۱۱) جادوگر
(۱۲) ہاتھوں کے نشانات وغیرہ دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے والا
(۱۳) ستاروں کو دیکھ کر یا فال کے ذریعے خبر دینے والا
(۱۴) طبلہ اور باجا بجانے والا۔
[شعب الایمان ۳/۳۸۲، ۳۸۳، الترغیب والترہیب ۲/۷۳، مظاہر حق جدیث ۲/۲۲۱، ۲۲۲]
شعبان میں رمضان کا انتظار :
_________________
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم أحصوا هلال شعبان لرمضان
(سنن ترمذي:687 باب ما جاء في إحصاء هلال شعبان لرمضان، حديث حسن)
حدیث ابو موسیٰ اشعریؓ کی اسنادی حثیت
امام ابن ماجہؒ نے یہ حدیث [رَاشِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ رَاشِدٍ الرَّمْلِيُّ] سے روایت کی ہے جن کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں : صدوق من العاشرة
[تقریب التهذیب : ١/٢٨٩ ، تهذيب التهذیب : ٣/١٩٦]
صدوق یعنی سچا ومعتبر۔
صدوق یعنی سچا ومعتبر۔
# | العالم | القول |
1 | أبو حاتم الرازي | صدوق |
2 | ابن حجر العسقلاني | صدوق |
3 | الذهبي | صدوق |
(٢) الوليد بن مسلم القرشي : حافظ ابن حجرؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ثقة كثير التدليس [تقریب التهذیب : ٢/٢٨٩] ابن سعدؒ فرماتے ہیں : كان ثقه كثير الحديث [تهذيب التهذیب : ١١/١٣٤]
العالم | القول |
أبو حاتم الرازي | صالح الحديث |
أبو عبد الله الحاكم النيسابوري | أحفظ وأتقن وأعرف بحديث بلده |
أحمد بن صالح الجيلي | ثقة |
عبد الأعلى بن مسهر الغساني | من ثقات أصحابنا |
محمد بن سعد كاتب الواقدي | ثقة كثير الحديث والعلم |
يعقوب بن سفيان الفسوي | محمود عند أهل العلم، متقن، صحيح العلم |
يعقوب بن شيبة السدوسي | ثقة |
العالم | القول |
أبو حفص عمر بن شاهين | ثقة |
أحمد بن صالح المصري | من الثقات إلا أنه إذا لقن شيئا حدث به |
ابن حجر العسقلاني | صدوق، خلط بعد احتراق كتبه، ورواية ابن المبارك وابن وهب عنه أعدل من غيرهما |
عبد الرحمن بن يوسف بن خراش | يكتب حديثه |
(٤) الضَّحَّاكِ بْنِ أَيْمَنَ : حافظ ابن حجرؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
مجهول (یعنی نا معلوم راوی ہیں ، جن کے حالات کا کچھ پتا نہیں)۔
[تقریب التهذیب :١/٢٤٢ ، تهذيب التهذیب : ٤/٣٨٩]
[تقریب التهذیب :١/٢٤٢ ، تهذيب التهذیب : ٤/٣٨٩]
حافظ ذهبيؒ فرماتے ہیں :
لا يدرى من هو (خبر نہیں کہ وہ کون ہے)۔
[میزان الاعتدال : ٢/٣٢٢، رقم الترجمہ : ٣٩٢٨]
[میزان الاعتدال : ٢/٣٢٢، رقم الترجمہ : ٣٩٢٨]
حافظ ابن حجرؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
ثقه من الثلاثة (تیرے طبقہ کے ثقہ راوی ہیں)۔
[تقریب التهذیب : ١/٤٤٣ ، تهذيب التهذیب : ٤/٣٢٩]
[تقریب التهذیب : ١/٤٤٣ ، تهذيب التهذیب : ٤/٣٢٩]
حافظ عجلیؒ فرماتے ہیں :
تابعي ثقه (قابل اعتماد تابعی ہیں)۔
[میزان الاعتدال : ٢/٣٢٤ ، تهذیب الکمال : ١٣/٢٧١ ، سیر اعلام النبلاء : ٤/٦٠٣ ، تاریخ السلام : ٤/١٣٤]
[میزان الاعتدال : ٢/٣٢٤ ، تهذیب الکمال : ١٣/٢٧١ ، سیر اعلام النبلاء : ٤/٦٠٣ ، تاریخ السلام : ٤/١٣٤]
# | العالم | القول |
1 | أحمد بن عبد الله بن صالح بن مسلم | ثقة |
2 | أحمد بن علي بن محمد بن محمد بن علي بن أحمد بن محمود بن أحمد بن حجر | قال في التقريب : ثقة |
3 | محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز بن عبد الله | وثق |
4 | محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن معبد بن مرة بن هدبة بن سعد | ذكره في الثقات |
مذکورہ سند میں صرف ایک راوی ضَّحَّاكِ بْنِ أَيْمَنَ مجہول ہے، باقی تمام رواة (راوی) ثقہ ہیں، اور ابْنِ لَهِيعَةَ حسن الحدیث ہے، اور ایک راوی مجہول ہونے سے اصل حدیث کے ثبوت پر کچھ فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اس روایت کے دیگر شواهد (دوسرے صحابہؓ سے احادیث) اور متابع موجود ہیں. اور ضعیف روایات اگر متعدد طرق (اسانید/روایات) سے مروی ہو تو وہ درجہ حسن تک پہنچتی ہے.[فتاویٰ علماء حدیث : ٧/٧٠ ، كتاب الزكوة] اسی وجہ سے زمانہ حال کے ناقد عالم ناصر الدین البانی نے حدیثِ ابوموسیٰ اشعریؓ کو حسن قرار دیا ہے۔
[صحیح سنن ابن ماجہ ، بتحقق علامہ ناصر الدین البانی : ١/٢٣٣، مكتب التربية العربي]
أخرجه ابن ماجه (رقم 1390) وحسنه الألباني في "المشكاة" ( 1306 - 1307 )
الراوي: أبو موسى الأشعري عبدالله بن قيس المحدث: الألباني - المصدر: تخريج كتاب السنة - الصفحة أو الرقم: 510
خلاصة حكم المحدث: صحيح
المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 1819 خلاصة حكم المحدث : حسن
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 1563 خلاصة حكم المحدث : ذكر له شواهد
المصدر : صحيح ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 1148 خلاصة حكم المحدث :حسن
المصدر : صحيح الجامع الصفحة أو الرقم: 1819 خلاصة حكم المحدث : حسن
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 1563 خلاصة حكم المحدث : ذكر له شواهد
المصدر : صحيح ابن ماجه الصفحة أو الرقم: 1148 خلاصة حكم المحدث :حسن
غير مقلدين (وکٹوریں اہلِ حدیث) کے دوسرے بڑے محدث صفی الرحمٰن مبارکپوری صاحب بھی لکھتے ہیں :
فهذه الأحاديث بمجموعها حجة على من زعم أنه لم يثبت في فضيلة ليلة النصف من شعبان شيء۔[تحفة الأحوذي : ١/٤٢٢، دار الفكر]
ترجمہ :
تو یہ تمام حدیثیں مجموعی اعتبار سے اس شخص کے خلاف حجت ہیں جس نے گمان کیا کہ پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے.
تو یہ تمام حدیثیں مجموعی اعتبار سے اس شخص کے خلاف حجت ہیں جس نے گمان کیا کہ پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے.
================================
(حدیث#4)
حَدَّثَنَا الأَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ الْمِصْرِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ أَبِي الْحَارِثِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَوْ عَنْ عَمِّهِ ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِكُلِّ نَفْسٍ إِلا لِمُشْرِكٍ بِاللَّهِ وَمُشَاحِنٍ " .
[الرد على الجهمية للدارمي » رقم الحديث: 68]
ترجمہ:
حضرت ابو بکر صدیقؓ، نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ” آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) نزول ِاجلال فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا کینہ پرور یعنی ایسا شخص کے جس کے دل میں بغض ہو“۔
[تفسير البغوي:7/ 227،سورۃ الدخان:آیت4]
المحدث : الألباني
تخريج الحديث
================================
(حدیث#5)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُعَافَى الْعَابِدُ بِصَيْدَا ، وَابْنُ قُتَيْبَةَ ، وَغَيْرُهُ ، قَالُوا : حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الأَزْرَقُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو خُلَيْدٍ عُتْبَةُ بْنُ حَمَّادٍ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، وَابْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يُخَامِرَ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " يَطْلُعُ اللَّهُ إِلَى خَلْقِهِ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ " .
ترجمہ:
حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) جھانکتے/متوجہ ہوتے فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا کینہ پرور یعنی ایسا شخص کے جس کے دل میں بغض ہو۔
[صحيح ابن حبان:5665، المعجم الكبير للطبراني:215، حلية الأولياء-أبو نعيم الأصبهاني5/ 191، مجلسان من أمالي الجوهري_:7، شعب الإيمان-البيهقي:3833(3552)، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1320+1525+1881، أحاديث الجماعيلي:25، جامع المسانيد والسنن-ابن كثير:9697، موارد الظمآن:1980]
المصدر : إصلاح المساجد : 99 خلاصة حكم المحدث : صحيح
المصدر : تخريج كتاب السنة: 512 خلاصة حكم المحدث : صحيح
تخريج الحديث
|
(حدیث#6)
حَدَّثَنَا أبو غسان روح بن حاتم ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ غَالِبٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، وَقَدْ قَدِمَ عَلَيْنَا مُرَابِطًا ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يَغْفِرُ اللَّهُ لِعِبَادِهِ ، إلا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک یا جھگڑالو کے۔
سلسلة الأحاديث الصحيحة:1144
تخريج الحديث
|
(حدیث#7) عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ الْحَرَّانِيُّ يَعْنِي عَبْدَ الْغَفَّارِ بْنَ دَاوُدَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَطَّلِعُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَى خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لَهُمْ كُلِّهِمْ إِلا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ " .
ترجمہ:حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللہ تبارک وتعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوق پر نظر فرماتے ہیں، پھر ان سب کو بخش دیا جاتا ہے سوائے مشرک یا کینہ ور کے۔
تخريج الحديث
|
(حدیث#8)
حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " يَطَّلِعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ ، إِلَّا لِاثْنَيْنِ : مُشَاحِنٍ ، وَقَاتِلِ نَفْسٍ " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ المُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ ... رقم الحديث: 6463(6642)]
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ” رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں رات اللہ عزوجل اپنی مخلوق کی طرف رحمت کی نظر فرماتے ہیں ، سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں، ایک کینہ ور، دوسرے کسی کو ناحق قتل کرنے والا“۔
المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 10/127 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
المحدث : المنذري
المصدر : الترغيب والترهيب : 2/132 خلاصة حكم المحدث :[إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
المحدث : الألباني
تخريج الحديث
|
(حدیث#9)
ثنا يُوسُفُ بْنُ عُمَرَ الزَّاهِدُ ، رَحِمَهُ اللَّهُ ، وَعَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ عَلِي اللِّحْيَانِيُّ ، قَالا : ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمِ بْنِ عِيسَى الْوَرَّاقُ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يَزِيدَ الْجُمَحِيُّ ، ثنا جَامِعُ بْنُ صُبْحٍ الرَّمْلِيُّ ، ثنا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانٍ ، عَنِالْحَسَنِ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَالَ : " إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ نَادَى مُنَادٍ : هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ ، فَأَغْفِرَ لَهُ ، هَلْ مِنْ سَائِلٍ ، فَأُعْطِيَهُ ، فَلا يَسْأَلُ أَحَدٌ شَيْئًا إِلا أُعْطِيَ ، إِلا زَانِيَةً بِفَرْجِهَا أَوْ مُشْرِكًا " .
ترجمہ:
حضرت عثمان بن ابی العاصؓ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو(اللہ تعالی کی طرف سے )ایک پکارنے والا پکارتا ہے ، ہے کوئی مغفرت کا طالب ؟! کہ میں اس کی مغفرت کر دوں، ہے کوئی مانگنے والا؟! کہ میں اس کو عطا کروں، اس وقت جو (سچے دل کے ساتھ)مانگتا ہے اس کو (اس کی شا ن کے مطابق )ملتا ہے،سوائے بدکار عورت اور مشرک کے(کہ یہ اپنی بد اعمالیوں کے سبب اللہ کی عطا سے محروم رہتے ہیں)۔
[مساوئ الأخلاق للخرائطي:467، المجالس العشرة الأمالي للحسن الخلال:4، شعب الإيمان -البيهقي:3836، صفات رب العالمين - ابن المحب الصامت:1094]
تخريج الحديث
|
(حدیث#10)
ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنِ الأَحْوَصِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ مُهَاصِرِ بْنِ حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، يَطَّلِعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى خَلْقِهِ ، فَيَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِينَ ، وَيَتْرُكُ أَهْلَ الضَّغَائِنِ ، وَأَهْلَ الْحِقْدِ بِحِقْدِهِمْ " .
ترجمہ:
حضرت ابو ثعلبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں‘ تو مومنوں کو بخش دیتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں بغض رکھنے والوں کو اور نفرت کرنے والوں کو اپنی نفرت میں۔‘‘
[السنة لابن أبي عاصم » رقم الحديث: 511 حديث صحيح ورجاله ثقات]
[العرش وما روي فيه-بن أبي شيبة:87، معجم الصحابة لابن قانع:1/ 160، المعجم الكبير للطبراني:590+593+678، النزول للدارقطني:78+81، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة-اللالكائي:760+764، السنن الصغير للبيهقي:1426، فضائل الأوقات للبيهقي:23، مشيخة أبي طاهر ابن أبي الصقر:10، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1895، صفات رب العالمين - ابن المحب الصامت:76]
المحدث : الألباني
المصدر : تخريج كتاب السنة الصفحة أو الرقم: 511 خلاصة حكم المحدث :صحيح
المصدر : صحيح الترغيب الصفحة أو الرقم: 2771 خلاصة حكم المحدث : صحيح لغيره
المصدر : صحيح الترغيب الصفحة أو الرقم: 2771 خلاصة حكم المحدث : صحيح لغيره
تخريج الحديث
|
پانچ راتوں کو عبادت سے زندہ کرنے پر جنت:
(حدیث#11)حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من أَحْيَا اللَّيَالِي الْخمس وَجَبت لَهُ الْجنَّة لَيْلَة التَّرويَة وَلَيْلَة عَرَفَة وَلَيْلَة النَّحْر وَلَيْلَة الْفطر وَلَيْلَة النّصْف من شعْبَان۔ خمس لَيَال لَا ترد فِيهَا دَعْوَة أول لَيْلَة من رَجَب وَلَيْلَة النّصْف من شعْبَان وَلَيْلَة الْجُمُعَة وليلتي الْعِيدَيْنِ۔
ترجمہ:
’’جو پانچ راتوں کو زندہ کرے گا، جنت اس کیلئے واجب ہوجائے گی: لیلة الترویحہ(یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات) ، اور لیلة العرفہ (یعنی نو ذی الحجہ کی رات)، اور لیلة النحر (یعنی دس ذی الحجہ عیدِ قربانی کی رات)، اور عید الفطر کی رات اور آدھے شعبان کی رات (شبِ برات)۔
[الترغیب والترھیب،للمنذری:1656، الترغیب والترھیب،للاصبھانی:374]
علامہ سیوطی فرماتے ہیں:
اذَا عَلِمْتُمْ بِالْحَدِیْثِ أنَّہ فِیْ تَصَانِیْفِ الْمُنْذِرِیْ صَاحبِ التَّرْغِیْبِ وَالتَّرْہِیْبِ فَأرْوُوْہُ مُطْمَئِنِّیْنَ․
ترجمہ:
جب تمہارے علم میں یہ بات آجائے کہ کوئی حدیث منذری صاحب ترغیب وترہیب کی تصنیفات میں موجود ہے تو اس کو اطمینان سے بیان کرسکتے ہو؛ یعنی یہ کہ وہ موضوع نہیں ہے۔
[الرحمة المرسلة فی شان حدیث البسملة:۱۵]
(حدیث#12)
پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی:
عن أبي أمامة رضي الله عنه قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - خمس لَيَال لَا ترد فِيهَا دَعْوَة أول لَيْلَة من رَجَب وَلَيْلَة النّصْف من شعْبَان وَلَيْلَة الْجُمُعَة وليلتي الْعِيدَيْنِ۔
ترجمہ:
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے): جمعہ کی رات، دو عید کی راتیں، رجب کی پہلی رات، اور نصف(15) شعبان کی رات۔
[الفردوس بمأثور الخطاب-الديلمي (م509ھ) : حدیث نمبر 2975]
[تاريخ دمشق لابن عساكر(م571ھ) : 968 (ج10/ص407)]
[التبصرة لابن الجوزي(م597ھ): ج2 / ص58]
[زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس-ابن حجر العسقلاني (م852ھ): حدیث نمبر 1496]
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يَهْبِطُ اللَّهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَطَّلِعُ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، فَيَغْفِرُ لِأَهْلِ الْأَرْضِ جَمِيعًا، إِلَّا الْكَافِرَ، وَالْمُشَاحِنَ» .
ترجمہ:
جب ہوتی ہے نصف شعبان کی رات تو اللہ تعالیٰ نیچے اتر آتا ہے دنیا کے آسمان کی طرف، پھر وہ روئے زمین والوں کو جھانکتا ہے، پھر تمام روئے زمین کے لوگوں کو بخش دیتا ہے سوائے کافر، اور کینہ پرور کے۔
[تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي:826، المجالس العشرة الأمالي للحسن الخلال:3، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1880]
ثنا عَلِيُّ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ الْحَرِيرِيُّ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عُمَيْرٍ ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عُثْمَانَ التَّنُوخِيُّ الْحِمْصِيُّ ، وَعَلِيُّ بْنُ مَعْرُوفٍ الْقَصَّارُ ، قَالا : ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ سَيْفِ بْنِ مُحَمَّدٍ الثَّوْرِيِّ ، عَنِ الأَحْوَصِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَهْبِطُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا إِلَى عِبَادِهِ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، فَيَطَّلِعُ إِلَيْهِمْ ، فَيَغْفِرُ لِكُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ ، وَكُلِّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ ، إِلا كَافِرًا أَوْ كَافِرَةً ، أَوْ مُشْرِكًا أَوْ مُشْرِكَةً ، أَوْ رَجُلا بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ مُشَاحَنَةٌ ، وَيَدَعُ أَهْلَ الْحِقْدِ لِحِقْدِهِمْ " .
ترجمہ:
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللہ عزوجل نصف شعبان کی رات کو اپنے بندوں کے لیے آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے، پھر وہ ان کی طرف دیکھتا ہے، پھر وہ ہر مومن مرد و مومن عورت کو بخش دیتا ہے، اور ہر ایک مسلمان مرد اور مسلمان عورت کو بھی، سوائے کافر مرد وعورت کے، اور مشرک مرد وعورت کے، اور اس شخص کے جس کے بھائی کے درمیان کینہ ہے، اور نفرت کرنے والوں کو بھی چھوڑ دیتا ہے ان کے نفرت میں۔
[المجالس العشرة للخلال (المتوفى: 439هـ) » المجلس الأول ... رقم الحديث: 3]
[المجالس العشرة للخلال (المتوفى: 439هـ) » المجلس الأول ... رقم الحديث: 3]
الأمالي الخميسية للشجري:1376، تاريخ دمشق لابن عساكر:8684(10/408)
(حدیث#13)
عَنْ ابنِ عُمَر قال: خَمْسُ لَیَالٍ لاَ یُرَدُّ فِیْہِنَّ الدُّعَاءُ لَیلَةُ الجُمُعَة واَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَجَبَ وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعبانَ ولَیْلَتَا الْعِیْدِ․
ترجمہ:
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے) جمعہ کی رات، ماہِ رجب کی پہلی رات، نصف(15) شعبان کی رات، عیدین کی راتیں۔
[المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي:4/317، حدیث؍7927]
[شعب الایمان-للبيهقي: حدیث؍3440 مكتبة الرشد(3713 دار الكتب العلمية) - فضائل الأوقات للبيهقي:149]
(حدیث#14)
عنْ أبي الدرداء قال: من قام ليلتي العيدين لله محتسبًا لم يمت قلبه حين تموت القلوب.
قال الشافعي: وبلغنا أنه كان يقال: إن الدعاء يستجاب في خمس، ليال: في ليلة الجمعة، وليلة الأضحى، وليلة الفطر، وأول ليلة من رجب، وليلة النصف من شعبان۔
ترجمہ:
حضرت ابو درداءؓ فرماتے ہیں کہ: جس شخص نے ثواب کی امید سے عیدین کی راتوں میں قیام کیا (یعنی عبادت کے ذریعے ان کو زندہ کیا) تو اس کا دل اس (وحشت والے) دن زندہ رہے گا، جس دن لوگوں کے دل (قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے) مردہ ہو جائیں گے۔
”امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعاوٴں کو قبول کیا جاتا ہے، جمعہ کی رات ،عید الاضحی کی رات ، عید الفطر کی رات،رجب کی پہلی رات،اور شعبان کی پندرہویں رات“۔
[شعب الایمان-للبيهقي: حدیث نمبر 3438، ج۵/ ص۲۸۷، مکتبة الرشد]
[الأم للشافعي: ج1/ ص264، السنن الكبرى - البيهقي:6293 دار الكتب العلمية]
أَخْبَرَنَا رَوْحٌ ، أنبا غَانِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أنبا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النَّيْسَابُورِيِّ ، هُوَ ابْنُ حَيْوَةَ ، ثنا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْرُوقٍ ، ثنا أَبُو الْعَطُوفِ الْجَرَّاحُ بْنُ الْمِنْهَالِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يَهْبِطُ الرَّحْمَنُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَنْظُرُ إِلَى أَعْمَالِ الْعِبَادِ فَيَغْفِرُ لِلْمُسْتَغْفِرِينَ وَيَتُوبُ عَلَى التَّوَّابِينَ وَيَسْتَجِيبُ لِلسَّائِلِينَ وَيَكْفِي الْمُتَوَكِّلِينَ ، وَيَدَعُ أَهْلَ الصَّغَائِرِ لا يَفْعَلُ بِهِمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ ، وَيَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا لِمَنْ يَشَاءُ إِلا لِمُشْرِكٍ أَوْ قَاتِلِ نَفْسٍ حَرَّمَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ مُشَاحِنٍ " .
ترجمہ:
حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: نصف شعبان کی رات، غالب اور عظمت والا رحمٰن، آسمانِ دنیا پر نیچے آتا ہے اور لوگوں کے اعمال کو دیکھتا ہے۔ پس وہ معافی مانگنے والوں کو بخش دیتا ہے، توبہ کرنے والوں کی توبہ کرتا ہے، مانگنے والوں کو جواب دیتا ہے، اور بھروسہ کرنے والوں کے لیے کافی ہے، اور وہ صغیرہ (گناہ کرنے) والوں کو چھوڑ دیتا ہے اور ان میں سے کچھ نہیں کیا جاتا ہے، اور وہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے جس کے لیے چاہے، سوائے مشرک یا قاتل یا اس شخص کے جس کو خدائے بزرگ و برتر نے حرام کیا ہے۔
(حدیث#15)
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ ، أنا إِسْحَاقُ بْنُ الْحَسَنِ الْحَرْبِيُّ ، نا عَفَّانُ ، نا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ : " يَغْفِرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لأَهْلِ الأَرْضِ إِلا الْمُشْرِكَ وَالْمُشَاحِنَ " . هَذَا مُرْسَلٌ جَيِّدٌ . وَرُوِيَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهُوَ أَيْضًا بَيْنَ مَكْحُولٍ ، وَأَبِي ثَعْلَبَةَ مُرْسَلٌ جَيِّدٌ كَمَا .
ترجمہ:
کثیر بن مرہ الحضرمی کی روایت ہے کہ نصف شعبان کی رات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ غالب اور عظیم معاف کرتا ہے زمین والوں کو سوائے مشرک اور مشائخ کے۔
المحدث : المنذري
المصدر : الترغيب والترهيب الصفحة أو الرقم: 3/392 خلاصة حكم المحدث : [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
خلاصة حكم المحدث : صحيح لغيره
(حدیث#16)
في ليلةِ النصفِ من شعبانَ يغفرُ اللهُ لأهلِ الأرضِ إلا المشركَ والمشاحنَ۔
[صحيح كنوز السنة النبوية: ص72]
الراوي : راشد بن سعد
نوٹ:
جس مرسل روایت کے راوی ثقہ (قابلِ اعتماد) ہوں تو وہ حدیث احناف کے نزدیک مقبول ہے۔
جس مرسل روایت کے راوی ثقہ (قابلِ اعتماد) ہوں تو وہ حدیث احناف کے نزدیک مقبول ہے۔
تقدیری فیصلوں کی رات:
(حدیث#17)
عن راشد بن سعد أن النبي ﷺ قال: «في ليلة النصف من شعبان يوحي الله تعالى إلى ملك الموت بقبض كل نفس يريد قبضها في تلك السنة»
ترجمہ:
حضرت راشد بن سعدؒ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ ان تمام روحوں کو قبض کرنے کی تفصیل ملک الموت کو بتا دیتے ہیں جو اس سال میں قبض کی جائیں گی۔
[وأخرج الدينوري في المجالسة؛ تفسير روح المعاني:12/113؛ الدر المنثور، للسيوطي:7/401؛ الحبائك في أخبار الملائك، للسيوطي:1/45؛ شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور، للسيوطي:60؛ الجامع الصغير وزيادته:8450 ؛ فيض القدير شرح الجامع الصغير:8450؛ التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ:5946؛ الفتح الكبير:8258؛ كنز العمال:35176]
(حدیث#18)
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ آدَمَ بْنِ أَبِي إِيَاسٍ ، قَالَ : ثَنَا أَبِي ، قَالَ : ثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيلٍ بْنِ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ الأَخْنَسِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " تُقْطَعُ الآجَالُ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى شَعْبَانَ حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَنْكِحُ وَيُولَدُ لَهُ وَقَدْ خَرَجَ اسْمُهُ فِي الْمَوْتَى " . .
ترجمہ:
”حضرت عثمان بن محمدؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (زمین پر بسنے والوں کی )عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں، یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں؛ حالانکہ اس کا نام مردوں کی فہرست میں داخل ہو چکا ہوتا ہے“۔
[تفسير الطبري = جامع البيان عن تأويل آي القرآن: 28670، تفسير الثعلبي = الكشف والبيان عن تفسير القرآن:2682، تفسير البغوي - إحياء التراث:«1899]
[فضائل رمضان لابن أبي الدنيا:6، أمالي ابن سمعون الواعظ:154، المجالس العشرة الأمالي للحسن الخلال:5، شعب الإيمان-البيهقي:3839]
المحدث : ابن كثير
المحدث : ابن رجب
نوٹ:
جس مرسل روایت کے راوی ثقہ (قابلِ اعتماد) ہوں تو وہ حدیث احناف کے نزدیک مقبول ہے۔
جس مرسل روایت کے راوی ثقہ (قابلِ اعتماد) ہوں تو وہ حدیث احناف کے نزدیک مقبول ہے۔
تخريج الحديث
|
(حدیث#19)
عن عطاء بن يسار قال : إذا كان ليلة النصف من شعبان نسخ الملك من يموت من شعبان إلى شعبان ، تنسخ في النصف من شعبان الآجال، حتى إن الرجل ليخرج مسافرا وقد نسخ من الأحياء إلى الأموات، ويتزوج وقد نسخ من الأحياء إلى الأموات، ويمشي في الأسواق وإن اسمه لفي الموتى، وإن الرجل ليظلم ويتجر وينكح النسوان وقد نسخ اسمه من الأحياء إلى الأموات، ما من ليلة بعد ليلة القدر أفضل منها...
ترجمہ:
حضرت عطاء بن یسارؒ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو موت کا فرشتہ ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک مرنے والوں کا نام (اپنی فہرست سے) مٹا دیتا ہے اور کوئی شخص ظلم، تجارت اور کوئی عورتوں سے نکاح کر رہا ہوتا ہے اس حال میں کہ اس کا نام زندوں سے مردوں کی طرف منتقل ہو چکا ہوتا ہے۔
[مصنف عبد الرزاق:7925][عن ام سلمہ[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1319]
شب قدر کے بعد کوئی رات اس رات سے افضل نہیں، اللہ تعالی(اپنی شان کے مطابق) آسمانِ دنیا پر نزول فرما کر ہر ایک کی مغفرت فرما دیتے ہیں سوائے مشرک، کینہ ور اور قطع رحمی کرنے والے کے “۔
[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1886][ماثبت بالسنۃ ص۳۵۳، لطائف المعارف ۸۴۱]
اسی مضمون کی متعدد روایات حافظ ابوبکر عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی نے اپنی مشہور کتاب ’’المصنَّف‘‘ میں ذکر کی ہیں ، دیکھئے۔
[مصنف عبد الرزاق: ۴؍۶۱۳]
مزید دیکھئے: امام ابن الدبيثي (المتوفی:637ھہ) کی کتاب ((فضائل شهر شعبان))
مذکورہ تمام احادیث میں جہاں عظیم الشان فضائل مذکور ہیں، وہاں بہت سے ایسے (بد قسمت)افراد کا تذکرہ ہے ، جو اس مبارک رات میں بھی رب عزوجل کی رحمتوں اور بخششوں سے محروم رہتے ہیں،ذیل میں ان گناہوں کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے ؛تاکہ تھوڑا سا غور کر لیا جائے کہ کہیں ہم بھی ان رذائل میں تو مبتلا نہیں ! اللہ نہ کرے کہ ہمارے اندر ان میں سے کچھ ہو،اور اگر کچھ ہو تو اس سے بروقت چھٹکارا حاصل کر سکیں:
”شب براء ت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم افراد“:
(۱)مسلمانوں سے کینہ،بغض رکھنے والا۔(۲)شرک کرنے والا۔(۳)ناحق قتل کرنے والا۔(۴)زنا کرنے والی عورت۔(۵)قطع تعلقی کرنے والا۔(۶)ازار(شلوار،تہبند وغیرہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا۔(۷)والدین کا نافرمان۔(۸)شراب پینے والا۔
(۱) کینہ،بغض :
کسی شخص پر غصہ پیدا ہو اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ نکال سکے تو اس کی وجہ سے دل میں جو گرانی پیدا ہوتی ہے، اس کو ”کینہ “کہتے ہیں،اسی کا دوسرا نام ”بغض “بھی ہے،کینہ و بغض محض ایک گناہ یا عیب نہیں؛ بلکہ یہ اور بہت سارے گناہوں کا مجموعہ ہے،امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ غصہ سے کینہ اور کینہ سے ”آٹھ“گناہ پیدا ہوتے ہیں ،(۱) حسد،(۲) شماتت،(۳) سلام کا جواب نہ دینا،(۴)حقارت کی نگاہ سے دیکھنا،(۵) غیبت ،جھو ٹ اور فحش گوئی کے ساتھ زبان دراز کرنا،(۶) اس کے ساتھ مسخرا پن کرنا،(۷) موقع پاتے ہی اس کو ستانا،(۸) اس کے حقوق ادا نہ کرنا۔(کیمیائے سعادت،ص:۳۳۲)اس کے علاوہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ” کینہ ور کی بخشش نہیں کی جاتی“ (مشکاة المصابیح،ص؛۴۲۷) اس جیسی اور بہت سی احادیث سے کینہ کی برائی اور مذمت سامنے آتی ہے؛اس لیے غور کر کے اپنے آپ کو اس برائی سے بچانا از حد ضروری ہے،اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی کسی پرغصہ آئے فوراً اس کو معاف کر دیا جائے،ہر گز اس کے خلاف کسی بات کو دل میں نہ رہنے دیا جائے،اور اس سے میل جول اور سلام و کلام شروع کر دیا جائے۔
(۲) شرک :
اللہ تعالی کی ذات یا صفات ِمختصہ میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے،شرک توحید کی ضد ہے،موجودہ دور میں شرک کی جتنی صورتیں مروج ہیں، ان سب سے بچنا ضروری ہے، مثلاً: غیر اللہ کو مختار کل ،نفع ونقصان کا مالک ، زندہ کرنے اورمارنے پر قادر، بیمار کرنے اور شفاء دینے پر قادر، روزی میں وسعت اور تنگی پیدا کرنے پر قادرسمجھنا،انبیاء کرام واولیاء عظام کے تقرب کے حصول کے لیے ان کے نام کی نذر ونیاز اور منت ماننا،ان کی قبروں پر سجدہ کرنا،ان کو عالم الغیب اورحاضرو ناظرسمجھنا سب شرک کی اقسام ہیں، پھر شرک کی دو قسمیں ہیں:شرک اکبر اور شرک اصغر،شرک اکبر کی تفصیل تو گذر چکی،شرک اصغر میں ریاکاری،بدشگونی اور غیر اللہ کے نام کی قسمیں کھاناوغیرہ شامل ہے،شرک کا انجام دوزخ بتایا گیا ہے،﴿إن اللہ لا یغفر أن یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشآء، ومن یشرک باللہ فقدضلّ ضلالاً بعیداً﴾ (النساء:۱۱۶) ترجمہ:”اللہ تعالی اس کو تو بے شک نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے،لیکن اس کے علاوہ جس کسی کو بھی چاہے گا بخش دے گا،اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، وہ یقینا بڑی دور کی گمراہی میں پڑ گیا“۔
(۳) ناحق قتل:
بغیر کسی شرعی عذر کے کسی کو ناحق قتل کرنا چاہے، وہ کافر ہی کیوں نہ ہوسخت گنا ہ ہے،اور کسی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے بھی بدترین ہے ایسے شخص کے بارے میں قرآن پاک میں بہت سخت وعید آئی ہے،ارشاد باری تعالی ہے﴿ومن یقتل موٴمناً متعمداً فجزاوٴہ جھنم خالداً فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ وأعد لہ عذاباًعظیماً﴾ (النساء:۹۳)․اس آیت میں اللہ تعالی نے قاتل کو ہمیشہ جہنم کی،اپنے غضب ،اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے،موجودہ دور میں انسانی جان کی قیمت چند ٹکوں کے برابر بھی نہیں سمجھی جاتی،ذرا ذرا سی بات پر اور دنیاوی چند سکوں کی خاطر کسی کے سہاگ کو اجاڑ دینا،معصوم بچوں کو یتیم کر دینا،بوڑھے ماں باپ کی آخری عمر کے سہاروں کو چھین لینا،اور تجارتی وکاروباری مراکز کو خاکستر کر دینا، ایک کھیل سا بن گیا ہے،اور قیامت کی علامات میں سے یہ علامت بھی سامنے آچکی ہے کہ نہ مرنے والے کو پتہ ہے کہ کس نے مارا اور کیوں مارا اور نہ ہی مارنے والے کو ۔
(۴) زنا:
کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ زنا بھی ہے،جو عورت یا مرد اس بد ترین گناہ میں مبتلا ہو، اس کے لیے احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں ،اور اگر اس عمل ِبد کو پیشے کے طور پر کیا جائے ”جیسے موجودہ دور میں اس کا رواج عام ہو چکا ہے“تو یہ دوہرا گناہ ہے اور ایسی کمائی بھی حرام ہے۔”شب ِمعراج میں آپ ﷺ کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں سے(بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھی ، آپ ﷺ نے جبرئیل امین علیہ السلام سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں“․
(۵) قطع رحمی:
اپنے اعزہ واقرباء اور اپنے متعلقین کے حقوق ِضروریہ ادا نہ کرنا قطع رحمی ہے،مثلاً:سلام کا جواب نہ دینا،بیماری کے وقت عیادت نہ کرنا،چھینک کا جواب نہ دینا، فوت ہو جانے پر بلا عذر اس کی نمازِجنازہ نہ پڑھناوغیرہ ،یہ سب درجہ بدرجہ قطع رحمی میں شامل ہیں،ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”قطع رحمی کرنے والا(قانوناً،بغیر سزا کے)جنت میں نہیں جائے گا“ (بخاری ومسلم )
مردوں کے لیے ٹخنوں سے نیچے شلوار، تہبند،پاجامہ، پینٹ ، کرتا یاچوغہ وغیرہ لٹکاناحرام اور گناہ کبیرہ ہے،ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ:”ٹخنوں سے نیچے جو تہبند(پاجامہ وغیرہ) ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے“۔(مشکاة المصابیح:۱/۲۷۳،قدیمی)تکبر کی نیت ہو یا نہ ہو ہر حال میں یہ گناہ ہے ، اگر تکبر کی نیت ہو تو دوہرا گناہ ہے اور اگر نیت نہ بھی ہو تو اس فعل کا گناہ ہے۔
(۷) والدین کی نافرمانی:
والدین کی نافرمانی بہت سخت گناہ ہے، کئی احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیںآ ئی ہیں،ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:”احسان جتلانے والا،والدین کا نافرمان ، اور شراب پینے والا جنت میں داخل نہ ہو گا“(نسائی،دارمی)۔قرآن پاک میں تو والدین کے سامنے ”اُف“ تک کہنے سے منع کیا گیا ہے،آج کل والدین کی نافرمانی، ان کے آگے بولنا ،ان کے حقوق ادا نہ کرناعام ہو گیا ہے، اس سے اجتناب ازحد ضروری ہے،وگرنہ دنیاو آخرت کاوبال اس کا مقدر بنے گا۔
(۸) شراب نوشی:
شراب نوشی کی ایک وعید پیچھے گذر چکی ، یہ صرف ایک گناہ کبیرہ ہی نہیں؛ بلکہ یہ بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے،اس کو ام الخبائث کہا گیا ہے،ایک حدیث پاک میں ہے کہ:”میری امت میں کچھ لوگ شراب پئیں گے،اور شراب کو دوسرا نام دیں گے، اوران کے سامنے ناچنے اور گانے والی عورتیں ہوں گی ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ زمین میں دھنسا دیں گے یا ان کو بندر اور خنزیر بنا دیں گے“۔لہذا شراب یا دیگر نشہ پیدا کرنے والی سب چیزیں مثلا:وہسکی ، ہیروئن،بھنگ،وغیرہ سب حرام ہیں۔آج موجودہ دور میں اس حدیث کے مناظر پوری طرح ہمارے سامنے ہیں،اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
شب براء ت کے فضائل والی احادیث میں مذکور تمام محروم رہ جانے والوں کا کچھ کچھ تذکرہ ہو گیاان سب گناہوں سے جتنا جلد ہو سکے اور کم از کم شعبان کی پندرہویں رات سے پہلے پہلے توبہ کر کے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
اکابرین امت کے اقوال:
علامہ ابن الحاج مالکی رحمہ اللہ (المتوفى: 737هـ) فرماتے ہیں کہ”اس رات کے بڑے فضائل ہیں اور بڑی خیر والی رات ہے، اورہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس رات کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے تھے“
[المدخل لابن الحاج:1/299]
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ” شام کے مشہور تابعی خالد بن لقمان رحمہ اللہ وغیرہ اس رات کی بڑی تعظیم کرتے،اوراس رات میں خوب عبادت کرتے“۔
[لطائف المعارف:۱۴۴]
علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”شعبان کی پندرہویں رات کو بیداررہنا مستحب ہے“
[البحر الرائق:۲/۵۲]
علامہ حصکفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”شعبان کی پندرہویں رات کو عبادت کرنا مستحب ہے“
[الدر مع الرد:۲/۲۴،۲۵]
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ”بیشک یہ رات شب براءت ہے اور اس رات کی فضیلت کے سلسلے میں روایات صحیح ہیں“
[العرف الشذی،ص:۱۵۶]
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ”اس رات بیدار رہنا مستحب ہے اور فضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے ، یہی امام اوزاعی کا قول ہے“۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ”شب براء ت کی اتنی اصل ہے کہ پندرہویں رات اور پندرہواں دن اس مہینے کا بزرگی اور برکت والا ہے“۔
[بہشتی زیور،چھٹا حصہ،ص:۶۰]
کفایت المفتی میں ہے کہ”شعبان کی پندرہویں شب ایک افضل رات ہے“
[۱/۲۲۵،۲۲۶]
فتاوی محمودیہ میں ہے کہ”شب قدر وشبِ براءت کے لیے شریعت نے عبادت، نوافل، تلاوت، ذکر، تسبیح، دعاء و استغفار کی ترغیب دی ہے “۔
[۳/۲۶۳،جامعہ فاروقیہ کراچی]
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ”واقعہ یہ ہے کہ شبِ براءت کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں، جن میں اس رات کی فضیلت نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی ہے، ان میں بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے شک کچھ کمزور ہیں؛ لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبارسے کمزور ہو، لیکن اس کی تائید میں بہت سی احادیث ہوجائیں تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے“
[اصلاحی خطبات:۴/۲۶۳ تا۲۶۵ ،ملخصاً]
شب براء ت کی رسومات اور بدعات:
اس رات میں حد سے زیادہ عبادت کرنا،مسجدوں میں اجتماعی شب بیداری کرنا، مخصوص قسم کے مختلف طریقوں سے نوافل پڑھنا، جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، نوافل وتسبیح تراویح کی جماعت کروانا،اسپیکر پر نعت خوانی وغیرہ کرنا،ہوٹلوں اور بازاروں میں گھومنا،حلوہ پکانے کو ضروری سمجھنا،خاص اس رات میں ایصال ثواب کو ضروری سمجھنا، قبرستان میں چراغ جلانا،اس رات سے ایک دن پہلے عرفہ کے نام سے ایک رسم، اس رات میں گھروں میں روحوں کے آنے کا عقیدہ، فوت شدہ شخص کے گھر جانے کو ضروری سمجھنا،کپڑوں کا لین دین، بیری کے پتوں سے غسل کرنا،گھروں میں چراغاں کرنا،گھروں اور مساجد کو سجانا،اور ان سب سے بڑھ کر اس رات میں آتش بازی کرنا ،مذکورہ تمام امور شریعت کے خلاف ہیں، ان کا کوئی ثبوت نبی اکرم ﷺ ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورسلف صالحین سے نہیں ملتا؛ اس لیے ان تما م بدعات ورسومات کا ترک اور معاشرے سے ان کو مٹانے کی کوشش کرنا ہر ہر مسلمان پر بقدرِ وسعت فرض ہے۔
شب براءت میں کرنے کے کام:
آخر میں اس مبارک رات میں کرنے والے کیا کیا کام ہیں ؟ ان کا ذکر کیا جاتا ہے؛تاکہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے اس رات کے فضائل کو سمیٹا جا سکے:
۱- نماز عشاء اور نماز فجر کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرنا۔
۲- اس رات میں عبادت کی توفیق ہو یا نہ ہو ،گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا،بالخصوص ان گناہوں سے جو اس رات کے فضائل سے محرومی کا سبب بنتے ہیں۔
۳- اس رات میں توبہ واستغفار کا خاص اہتمام کرنااور ہر قسم کی رسومات اور بدعات سے اجتناب کرنا۔
۴- اپنے لیے اور پوری امت کے لیے ہر قسم کی خیرکے حصول کی دعاء کرنا۔
۵- بقدر وسعت ذکر اذکار ،نوافل اور تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کرنا۔
۶- اگر بآسانی ممکن ہو تو پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا۔
واضح رہے کہ مذکورہ تمام اعمال شب براء ت کا لازمی حصہ نہیں؛بلکہ ان کا ذکر محض اس لیے ہے کہ ان میں مشغولی کی وجہ سے اس رات کی منکرات سے بچا جا سکے۔
اس خاص موقع پر کن
کاموں کو کس طریقے پر کرنا چاہیے اور کن امور سے پرہیز کرنا چاہیے؟ ذیل میں ان کو
اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے:
(۱) شبِ براءت میں عبادت کیسے کریں
اس سلسلے میں چند
باتیں پیش نظر رہنی ضروری ہیں:
(الف): نفلی عبادت تنہائی میں اور اپنے گھر میں ادا
کرنا افضل ہے؛ لہٰذا شب براء ت کی عبادت بھی گھر میں کریں، مسجد میں نہیں، حضرت
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اِجْعَلُوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ مِنْ
صَلَاتِکُمْ وَلَا تَتَّخِذُوْہَا قُبُوْرًا“ [بخاری شریف ۱/۱۵۸] اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں بناؤ یعنی نوافل گھر میں ادا
کرو اور ان کو قبرستان نہ بناؤ کہ قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاتی [تحفة القاری: ۳/۵۰۷]
(ب) اس رات میں
(اسی طرح شب قدر میں بھی) عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں؛ ذکر وتلاوت، نفل
نماز، صلاة التسبیح وغیرہ کوئی بھی عبادت کی جاسکتی ہے۔
(ج) اپنی ہمت اور
طاقت کے مطابق عبادت کرنی چاہیے، اتنا بیدار رہنا صحیح نہیں ہے کہ آدمی بیمار
ہوجائے۔
(د) پورے سال فرض
نماز کا اہتمام کیا جائے، صرف شب براء ت میں نفلی عبادت کرکے اپنے کو جنت کا مستحق
سمجھنا باطل خیال ہے، یوں اللہ تعالیٰ مختار کل اور قادر مطلق ہے جس کو چاہے معاف
کرسکتا ہے۔
(ھ) بعض حضرات یہ
کہتے ہیں کہ اس رات میں ایک مخصوص طریقے سے دو رکعت نماز پڑھ لی جائے تو جو نمازیں
قضا ہوگئیں وہ سب معاف ہوجائیں گی۔ یہ بات بالکل بے اصل ہے۔
(و) شب براءت میں
فضول گپ شپ میں شب بیداری کرنا، گلیوں، چوراہوں اور ہوٹلوں میں وقت گذارنا بالکل
بے سود؛ بلکہ ”نیکی برباد گناہ لازم“ کا مصداق ہے۔
(۲) قبرستان جانے کا مسئلہ
حدیث شریف گذرچکی
ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس رات قبرستان تشریف لے گئے؛ مگر واضح رہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اس قدر خفیہ تھا کہ آپ نے اپنی زوجہٴ مطہرہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی اپنے جانے کو مخفی رکھا اور کسی بھی صحابی
کو اپنے ساتھ نہیں لے گئے اور بعد میں بھی کسی صحابی کو اس عمل کی ترغیب دینا ثابت
نہیں؛ اس لیے شب براء ت میں ٹولیوں کی شکل میں قبرستان جانا، اس کو شب براء ت کا
جز ولازم سمجھنا،راستوں میں روشنی کا اہتمام کرنا، یہ دین میں زیادتی اور غلو ہے،
بغیر کسی اہتمام اور پابندی کے قبرستان جانا چاہیے!
(۳) پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھنا
حضرت علی رضی اللہ
عنہ کی مندرجہ بالا حدیث شریف پر عمل کرتے ہوئے امت میں پندرہویں تاریخ کے روزہ
رکھنے کا معمول رہا ہے۔ اگرچہ وہ حدیث باتفاقِ محدثین انتہائی ضعیف ہے؛ کیونکہ اس
کے ایک راوی ”ابوبکر بن عبد اللہ بن محمد بن ابی سبرہ“ پر حدیثیں گھڑنے کا الزام
ہے۔ تاہم اس حدیث شریف کو موضوع نہیں کہا جاسکتا؛ کیوں کہ ابوبکر بن عبد اللہ پر
حدیثیں گھڑنے کے الزام سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ حدیث بھی اس کی بنائی ہوئی ہے،
جس کی تین وجوہات ہیں: (۱) پہلی وجہ یہ ہے کہ
اصولِ حدیث وغیرہ کی مختلف کتابوں میں صراحت ہے کہ کسی حدیث کی سند میں کوئی راوی
متّہم بالکذب یا متّہم بالوضع پایا جائے تو محض اتنے سے وہ حدیث موضوع نہیں
ہوجاتی، جب تک کہ کوئی دوسری دلیل اس کے موضوع ہونے پر دلالت نہ کرے؛ چناں چہ امام
سخاوی فرماتے ہیں: ”ہٰذا مَعَ
اَنّ مُجَرّدَ تَفَرُّدِ الْکَذّابِ بَلِ الْوَضّاعِ ولو کان بعدَ الاسْتِقْصَاءِ
والتَّفْتِیْشِ منْ حافِظٍ مُتَبَحِّرٍ تَامِّ الاسْتِقْرَاءِ غَیْرُ مُسْتَلْزِمٍ
لِذٰلِکَ بل لابُدّ مَعَہ من انضِمَامِ شَیْءٍ مِمّا سَیَأتِیْ“ ترجمہ: محض کسی
جھوٹے بلکہ وضَّاعِ حدیث کا کسی حدیث میں متفرد ہونا اس کو (یعنی حدیث کے موضوع
ہونے کو) مستلزم نہیں، اگرچہ اس کا ثبوت کسی متبحر اور دیدہ ور حافظِ حدیث کی
تحقیق سے ہوا ہو؛ بلکہ اس کے ساتھ کسی اور دلیل کا ملنا بھی ضروری ہے، جس کا ذکر
آئندہ آرہا ہے۔ (فتح المغیث ۲/۶۸، باب تحمل الاجازة)
مثلاً: حدیث: ”لا
تقولوا سورة البقرة الخ“ کو امام احمد نے منکر اور اس کے
راوی ”عُبیس“ کو منکر الحدیث کہا ہے، جس کی وجہ سے علامہ ابن الجوزی نے اس حدیث شریف کو موضوعات میں داخل کردیا، تو علامہ جلال الدین
سیوطی نے حافظ ابن حجر کا اس پر سخت اعتراض نقل کیا ہے، فرماتے ہیں: ”قال ابنُ حجر فی
اَمالِیْہ اَفْرَطَ ابنُ الجوزی فی اِیْرادِ ہٰذا الحدیثِ فی الْمَوْضُوْعاتِ
ولَمْ یَذْکُرْ مُسْتَنَدَہ اِلَّا قولَ احمد وتضْعِیْفَ عُبَیْسَ وہٰذا لاَ
یَقْتَضِیْ وَضْعَ الْحَدِیْثِ“ یعنی ابن جوزی نے اس حدیث شریف کو موضوعات
میں شمار کرکے تشدد سے کام لیاہے اور دلیل میں حضرت امام احمد کے قول اور عبیس کی تضعیف کے علاوہ کچھ اور ذکر نہیں کیا؛ لیکن یہ
بات اس حدیث کے موضوع ہونے کا تقاضہ نہیں کرتی۔ (اللآلی المصنوعہ ۱/۲۱۸)
لہٰذا یہ بات واضح
ہوگئی کہ پندرہویں شعبان کے روزے کی فضیلت والی حدیث کو محض اس وجہ سے موضوع کہنا
کہ اس کے ایک راوی ”ابوبکر بن عبد اللہ“ پر وضعِ حدیث کا الزام ہے، بالکل غلط ہے،
خود مشہور اہل حدیث عالم مولانا عبدالرحمن مبارک پوری اس حدیث کو شب براء ت
کی فضیلت کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور اس شخص پر حجت قائم کرتے ہیں جو یہ کہتا ہے
کہ شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت ثابت نہیں، جیساکہ ان کی عبارت اوپر گزرگئی، اگر
یہ حدیث موضوع ہوتی تو ہرگز وہ یہ بات نہ فرماتے۔
(۲) دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ حدیث شریف سنن ابن ماجہ کی ہے اور بعض حضرات
نے سنن ابن ماجہ کی موضوع احادیث کی نشان دہی کی ہے اور اس سلسلے میں ایک رسالہ
”مَا تَمَسُّ اِلَیْہِ الْحَاجة“ لکھا ہے، جس میں ان تمام موضوع احادیث کو ذکر
کردیاگیا ہے؛ لیکن ان میں اس حدیث شریف کا ذکر نہیں ملتا۔
(۳) درج بالا سطور میں تفصیل کے ساتھ یہ بات بیان کی گئی کہ حضرت علی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث موضوع نہیں، اس کو موضوع قرار دینا محدثین کے اصول
کے خلاف نیز کم علمی کی دلیل ہے، ہاں یہ حدیث شریف ضعیف ضرور ہے؛ مگر اس کا ضعف اس
پر عمل کرنے سے مانع نہیں؛ کیوں کہ محدثین نے اس کی بھی صراحت کی ہے کہ ”باب
الفضائل“ میں ضعیف حدیث قابل قبول ہوتی ہے؛ چناں چہ امام احمد، عبدالرحمن بن مہدی
اور عبداللہ بن المبارک رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول منقول ہے: ”اذا رَوَیْنَا فی
الحلالِ والحرامِ شَدَّدْنَا واِذَا رَوَیْنَا فی الفضائِلِ ونَحْوِہَا
تَسَاہَلْنَا“ جب ہم حلال وحرام کے باب میں حدیث نقل کرتے ہیں تو مکمل احتیاط اور
سختی سے کام لیتے ہیں اور جب فضائل وغیرہ کے باب میں روایت کرتے ہیں تو نرمی برتتے
ہیں۔ (اللآلی المصنوعہ ۱/۹۹)
اسی طرح علامہ
سیوطی فرماتے ہیں:
”یَجُوْزُ
عِنْدَ اَہْلِ الْحَدِیْثِ وغَیْرِہِمْ التّسَاہُلُ فی الاَسَانِیْدِ
الضَّعِیْفَةِ وَرِوَایَةِ مَا سِوَی الْمَوْضُوعِ من الضّعِیْفِ والعَمَلِ بِہ من
غیرِ بَیَانِ ضُعْفِہ فی غیرِ صِفَاتِ اللّٰہ تعالٰی والاحْکَام کالحلالِ
والحرامِ“ ترجمہ:
محدثین وغیرہم کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل برتنا اور موضوع کو
چھوڑ کر ضعیف حدیثوں کو ان کا ضعف بیان کیے بغیر روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا
جائز ہے؛ مگر اللہ تعالیٰ کی صفات اور احکام مثلاً حلال وحرام کی حدیثوں میں ایسا
کرنا جائز نہیں۔
[تدریب الراوی ۱/۲۹۸، النوع الثانی
والعشرون المقلوب]
اس تفصیل سے یہ
بات معلوم ہوئی کہ پندرہویں شعبان کے روزے کو نہ تو سنت قرار دینا مناسب ہے اور نہ
بدعت؛ البتہ مستحب کہا جائے گا؛ کیوں کہ ایک ضعیف حدیث میں اس کی فضیلت مذکور ہے
اور فضائل میں ضعیف حدیث قابل قبول ہوتی ہے۔
لہٰذا بہتر تو یہ
ہے کہ ماہِ شعبان کے اکثر حصے کے روزے رکھے جائیں، یہ نہ ہوسکے تو ماہ شعبان کے
نصف اوّل کے روزے رکھے جائیں، یہ بھی نہ ہوسکے تو ایام بیض (۱۳، ۱۴،۱۵ شعبان) کے روزے
رکھے جائیں اور اتنا بھی نہ ہوسکے تو کم ازکم پندرہ شعبان کا روزہ تو رکھ ہی لے،
یہ روزہ بھی ان شاء اللہ موجب اجر ہوگا۔
===============================================
دعائے صحابی حضرت ابن مسعودؓ برائے وسعت رزق:
«اللَّهُمَّ يَا ذَا الْمَنِّ، وَلَا يُمَنُّ عَلَيْكَ ، يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، يَا ذَا الطَّوْلِ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ، ظَهْرَ اللَّاجِئِينَ، وَجَارَ الْمُسْتَجِيرِينَ، وَمَأْمَنَ الْخَائِفِينَ. إِنْ كَانَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ أَنِّي شَقِيٌّ ، فَامْحُ مِنْ أُمِّ الْكِتَابِ شَقَائِي، وَأَثْبِتْنِي عِنْدَكَ سَعِيدًا، وَإِنْ كَانَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ أَنِّي مَحْرُومٌ مُقَتَّرٌ عَلَيَّ مِنَ الرِّزْقِ ، فَامْحُ مِنْ أُمِّ الْكِتَابِ حِرْمَانِي وَإِقْتَارَ رِزْقِي، وَأَثْبِتْنِي عِنْدَكَ سَعِيدًا مُوَفَّقًا لَكَ فِي الْخَيْرِ، فَإِنَّكَ قُلْتَ فِي كِتَابِكَ الْمُنَزَّلِ عَلَى نَبِيِّكَ: {يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ} [الرعد: 39] »
«فَمَا قَالَهُنَّ عَبْدٌ قَطُّ إِلَّا وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي مَعِيشَتِهِ»
ترجمہ:
’’کسی بندے نے کبھی یہ نہیں کہا سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس کی روزی میں وسعت پیدا کرتا ہے۔‘‘
[الدعاء - الضبي:52، القضاء والقدر للبيهقي:257، الدر المنثور:4/ 661، تفسير الألوسي:7/ 160]
دعائے صحابی حضرت حسن بن علیؓ برائے وسعت رزق:
اللهم اقذف في قلبي رجاك واقطع رجائي عن من سواك حتى لا ارجوا أحدا غيرك اللهم وما ضعفت عنه قوتي وقصر عنه عملي ولم تنته إليه رغبتي ولم تبلغه مسألتي ولم يجر على لساني مما اعطيت أحدا من الأولين والآخرين من اليقين فخصني به يا رب العالمين۔
ترجمہ:
[تاريخ دمشق لابن عساكر:13/ 167، تاريخ الخلفاء-السيوطي: ص148، الصواعق المحرقة:2/ 412]
===============================================
کیا پندرہویں شعبان کا روزہ بدعت ہے؟
پندرہویں شعبان کے روزہ کے سلسلہ میں جوروایت مذکور ہےاس کو ضعیف قرار دے کر اس روزہ کو بدعت کہنے والوں کو یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ، سند کے اعتبار سےوہ روایت اگر چہ کہ ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں ضعیف حدیث سے استدلال درست ہے، پس جب کہ اس کے متعلق حدیث شریف موجود ہے تو اس روزہ کو بدعت کہنا درست نہیں۔
تلقی بالقبول:
چونکہ علماء نے اس کو قبول کیا ہے، سو اس حدیث کو اسناد کے لحاظ سے مردود اور معنى کے حیثیت سے قبول کیا ہے.
[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٣، كتاب الزكوة]
=====================================================================
=====================================================================
شبِ براءت پر فضول رسمیں:
شبِ براءت پر تین کام بڑی دھوم دھام سے کئے جاتے ہیں :
1 حلوہ پکانا۔
2 آتش بازی وچراغاں۔
3 کفار ومشرکین کی مشابہت کرنا۔
جیسے : اسراف وفضول خرچی کرنا، (پٹاخوں سے ) لوگوں کو تکلیف پہنچانا وغیرہ
4 مردوں کی روحوں کا حاضر ہونا ۔
5 الفیہ نماز
6 صلٰوۃ البرأۃ
5 الفیہ نماز
6 صلٰوۃ البرأۃ
7 گھروں کا لیپنا پوتنا، نئے کپڑے بدلنا اوراگربتی وغیرہ جلانا۔
8 مسور کی دال پکانا۔
1) حلوہ پکانا:
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس رات حلوہ پکانا سنت ہے ۔ اس سے متعلق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کتاب [ما ثبت من السنة في أيام السنة: ص214] ” بیان فضائل شعبان “ کے ضمن میں رقطمراز ہیں : ” عوام میں مشہور ہے کہ اس رات سیدنا حضرت حمزہؓ شہید ہوئے تھے ۔ اور اسی رات کو نبی کریم ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے ۔ تو آپ ﷺ نے اس شب حلوہ تناول فرمایا تھا ۔ بالکل لغو اور بے اصل ہے ۔ کیونکہ غزوہ احد تو بالاتفاق مؤرخین شوال 2 ہجری کو واقع ہوا تھا ۔ لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ آج حلوہ ہی واجب اور ضروری ہے ۔ بدعت ہے ۔ البتہ یہ سمجھ کر حلوہ اور مطلقاً میٹھی چیز نبی کریم ﷺ کو محبوب تھی حلوہ پکا لیا جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
” کان النبی ﷺ یحب الحلوۃ والعسل “
نبی ﷺ حلوہ اور شہد پسند فرماتے تھے ۔ اسی طرح بعض لوگ مسور کی دال ، چنے کی دال پکانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ یہ بھی حلوہ کی طرح بدعت ہوگی ۔ بس صحیح بات یہ ہے کہ حسب معمول کھانا پکانا چاہئیے ۔ شب براءت کو تہوار نہیں بنانا چاہئے ۔ کیونکہ اسلامی تہوار دو ہیں : عیدالفطر ، عیدالاضحی ، علامہ عبدالحئی حنفی لکھنوی نے آثار مرفوعہ : 108, 109 میں ستائیس رجب المرجب اور پندرہ شعبان ( شب براءت ) کو بدعات میں شامل کیا ہے ۔ کیونکہ یہ اسلامی تہوار نہیں ہیں۔
ومنھا صلوٰۃ لیلۃ السابع والعشرین من رجب ومنھا صلوٰۃ لیلۃ النصف من شعبان
شبِ براءت کے حلوہ سے متعلق مولانا عبدالحئی حنفی کا فتویٰ ہے کہ اس بارہ میں کوئی نص اثبات یا نفی کی صورت میں وارد نہیں ۔ حکم شرعی یہ ہے کہ اگر پابندی رسم ضروری سمجھے گا تو کراہت لازمی ہوگی ۔ ورنہ کوئی حرج نہیں ۔ ( فتاویٰ عبدالحئی مترجم : 110 )
” کان النبی ﷺ یحب الحلوۃ والعسل “
نبی ﷺ حلوہ اور شہد پسند فرماتے تھے ۔ اسی طرح بعض لوگ مسور کی دال ، چنے کی دال پکانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ یہ بھی حلوہ کی طرح بدعت ہوگی ۔ بس صحیح بات یہ ہے کہ حسب معمول کھانا پکانا چاہئیے ۔ شب براءت کو تہوار نہیں بنانا چاہئے ۔ کیونکہ اسلامی تہوار دو ہیں : عیدالفطر ، عیدالاضحی ، علامہ عبدالحئی حنفی لکھنوی نے آثار مرفوعہ : 108, 109 میں ستائیس رجب المرجب اور پندرہ شعبان ( شب براءت ) کو بدعات میں شامل کیا ہے ۔ کیونکہ یہ اسلامی تہوار نہیں ہیں۔
ومنھا صلوٰۃ لیلۃ السابع والعشرین من رجب ومنھا صلوٰۃ لیلۃ النصف من شعبان
شبِ براءت کے حلوہ سے متعلق مولانا عبدالحئی حنفی کا فتویٰ ہے کہ اس بارہ میں کوئی نص اثبات یا نفی کی صورت میں وارد نہیں ۔ حکم شرعی یہ ہے کہ اگر پابندی رسم ضروری سمجھے گا تو کراہت لازمی ہوگی ۔ ورنہ کوئی حرج نہیں ۔ ( فتاویٰ عبدالحئی مترجم : 110 )
2) آتش بازی وچراغاں:
ملت اسلامیہ کا ایک طبقہ اس رات آتش بازی و چراغاں میں جس اسراف و تبذیر کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ایک طرف اس سے قوم کو بار بار جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے دوسری طرف شرعاً یہ افعال مذموم و قبیح ہیں ۔
محدث شیخ عبدالحق دہلویؒ ”ما ثبت من السنة في أيام السنة“ میں فرماتے ہیں کہ ہندوستان کیا اکثر شہروں میں جو اس وقت بلا ضرورت کثرت سے چراغاں کرتے ہیں اور آتش بازی اور دیگر لہو و لعب میں مشغول ہوتے ہیں ۔ یہ رسم بدسوائے ہندوستان کے اور ملکوں میں نہیں ہے ۔ اصل میں یہ رسم بد ان لوگوں کی ہے جو آتش پرست تھے ۔ اسلام لانے کے بعد یہ لوگ اپنی رسوم جاہلیت پر قائم رہے ۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان بھی اس بلائے عظیم میں مبتلا ہوگئے ۔
تحفۃ الاحوذی میں ہے سب سے پہلے چراغاں و آتشبازی کا مظاہرہ کرنے والے برامکہ آتش پرست تھے ۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے ملمع سازی کر کے ان رسوم کو اسلام میں داخل کردیا ۔ لوگوں کے ساتھ رکوع و سجود کرتے لیکن مقصود آگ کی پوجا تھا ۔ شریعت میں ضرورت سے زیادہ کسی جگہ کو بھی روشن کرنا جائز نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : ( بنی اسرائیل : 27 )
” اور بے جا خرچ نہ کرو ۔ تحقیق بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکر گزار ہے ۔ “ اس آیت میں لفظ ” تبذیر “ استعمال فرمایا ہے ۔ تبذیر اور اسراف میں فرق ہے ۔ حلال مقام پر حد اعتدال سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے اور ناجائز و حرام مقام پر خرچ کرنے کا نام تبذیر ہے ۔ اس جگہ پر ایک پیسہ بھی خرچ کرے تو حرام ہو گا اور شیطان کا بھائی ٹھہرے گا ۔
شبِ براءت کے موقع پر دن کو حلوہ اور رات کو چراغاں و آتش بازی کا مظاہرہ دین حق کے ساتھ مذاق ہے ۔ اسی طرح پہلی قوموں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنایا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوئیں ۔ ان سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے وگرنہ ہم سے بھی اللہ کا عذاب دور نہیں ۔
ارشاد خداوندی ہے :
(( وذر الذین اتخذوا دینھم لعبا ولھوا وغرتھم الحیوۃ الدنیا ))( الانعام : 70 )
اور چھوڑ دو ( اے محمد ﷺ ) ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور ان کی دنیاوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ۔
ملت اسلامیہ کا ایک طبقہ اس رات آتش بازی و چراغاں میں جس اسراف و تبذیر کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ایک طرف اس سے قوم کو بار بار جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے دوسری طرف شرعاً یہ افعال مذموم و قبیح ہیں ۔
علامہ ابن نجیم الحنفیؒ شبِ براءت کے موقعہ پر غیر معمولی چراغاں کے متعلق فرماتے ہیں:
أسرج السرج الكثيرة في السكك والا سواق البراءة بدعة وكذا في المساجد.
شبِ براءت میں گلی اور بازاروں میں زیادہ چراغاں کرنا ہے اسی طرح مساجد میں بھی (ایسا کرنا بدعت ہے).[البحر الرائق : ٥/٢١٥]
محدث شیخ عبدالحق دہلویؒ ”ما ثبت من السنة في أيام السنة“ میں فرماتے ہیں کہ ہندوستان کیا اکثر شہروں میں جو اس وقت بلا ضرورت کثرت سے چراغاں کرتے ہیں اور آتش بازی اور دیگر لہو و لعب میں مشغول ہوتے ہیں ۔ یہ رسم بدسوائے ہندوستان کے اور ملکوں میں نہیں ہے ۔ اصل میں یہ رسم بد ان لوگوں کی ہے جو آتش پرست تھے ۔ اسلام لانے کے بعد یہ لوگ اپنی رسوم جاہلیت پر قائم رہے ۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان بھی اس بلائے عظیم میں مبتلا ہوگئے ۔
تحفۃ الاحوذی میں ہے سب سے پہلے چراغاں و آتشبازی کا مظاہرہ کرنے والے برامکہ آتش پرست تھے ۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے ملمع سازی کر کے ان رسوم کو اسلام میں داخل کردیا ۔ لوگوں کے ساتھ رکوع و سجود کرتے لیکن مقصود آگ کی پوجا تھا ۔ شریعت میں ضرورت سے زیادہ کسی جگہ کو بھی روشن کرنا جائز نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : ( بنی اسرائیل : 27 )
” اور بے جا خرچ نہ کرو ۔ تحقیق بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکر گزار ہے ۔ “ اس آیت میں لفظ ” تبذیر “ استعمال فرمایا ہے ۔ تبذیر اور اسراف میں فرق ہے ۔ حلال مقام پر حد اعتدال سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے اور ناجائز و حرام مقام پر خرچ کرنے کا نام تبذیر ہے ۔ اس جگہ پر ایک پیسہ بھی خرچ کرے تو حرام ہو گا اور شیطان کا بھائی ٹھہرے گا ۔
شبِ براءت کے موقع پر دن کو حلوہ اور رات کو چراغاں و آتش بازی کا مظاہرہ دین حق کے ساتھ مذاق ہے ۔ اسی طرح پہلی قوموں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنایا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوئیں ۔ ان سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے وگرنہ ہم سے بھی اللہ کا عذاب دور نہیں ۔
ارشاد خداوندی ہے :
(( وذر الذین اتخذوا دینھم لعبا ولھوا وغرتھم الحیوۃ الدنیا ))( الانعام : 70 )
اور چھوڑ دو ( اے محمد ﷺ ) ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور ان کی دنیاوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ۔
علامہ ابن الحاج المالکیؒ (المتوفى: 737هـ) شبِ برأت کے متعلق اسلاف کا نظریہ اور اس رات میں ان کا معمول (المدخل:1/299 میں) تحریر کرتے آگے اس رات کے متعلق مختلف بدعات و رسومات کی تردید کرتے ہوۓ رقم طراز ہیں:
لكن هذه الليلة زادت فضيلتها ومقتضى زيادة الفضيلة زيادة الشكر اللائق بها من فعل الطاعات وأنواعها فبدل بعضهم مكان الشكر زيادة البدع فيها عكس مقابلة ذلك بالشكر لزيادة الفضيلة ضد شكر النعم سواء بسواء ، ألا ترى إلى ما فعلوه من زيادة الوقود الخارج الخارق حتى لا يبقى في الجامع قنديل ولا شيء مما يوقد إلا أوقدوه حتى إنهم جعلوا الحبال في الأعمدة ، والشرافات وعلقوا فيها القناديل وأوقدوها ، وقد تقدم التعليل الذي لأجله كره العلماء رحمهم الله تعالى التمسح بالمصحف ، والمنبر ، والجدران إلى غير ذلك ، إذ أن ذلك كان السبب في ابتداء عبادة الأصنام وزيادة الوقود فيه تشبه بعبدة النار في الظاهر ، وإن لم يعتقدوا ذلك ؛ لأن عبدة النار يوقدونها.
ترجمہ:
لیکن اس رات کی فضیلت سے زیادہ ، جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر قسم کی طاعت وعبادت وغیرہ کرکے اس کے شایانِ شان کے مطابق زیادہ سے زیادہ شکریہ ادا کیا جاۓ ، مگر بعض لوگوں نے شکریہ کے مقام کو کثرت بدعت سے تبدیل کردیا. کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ عادت و دستور کے خلاف حد سے زیادہ چراغاں کرتے ہیں یہاں تک کہ جامع مسجد میں کوئی چراغ و بتیاں وغیرہ موجود نہیں ہوتیں مگر اسے روشن کرتے ہیں، یہاں تک کہ یہ لوگ ستونوں میں رسیوں سے پھندے بناتے اور اس پر چراغ اور قندیلوں کو لٹکاتے اور اس کو روشن کرتے ہیں اور حد سے زائد چراغاں کرنا ظاہری طور پر آتش پرستوں کے ساتھ مشابہت ہے اگرچہ یہ لوگ آتش پرستی کا اعتقاد نہیں رکھتے ، کیونکہ آتش پرست مجوسی لوگ حد سے زیادہ چراغاں کرتے ہیں.
[المدخل لابن الحاج (المتوفي:٧٣٧ھہ) » فصل من العوائد الرديئة ما يفعله النساء في المواسم » المرتبة الثانية المواسم التي ينسبونها إلى الشرع وليست منه » فصل من البدع المحدثة في ليلة النصف شعبان (١/٣٠٨)]
لیکن اس رات کی فضیلت سے زیادہ ، جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر قسم کی طاعت وعبادت وغیرہ کرکے اس کے شایانِ شان کے مطابق زیادہ سے زیادہ شکریہ ادا کیا جاۓ ، مگر بعض لوگوں نے شکریہ کے مقام کو کثرت بدعت سے تبدیل کردیا. کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ عادت و دستور کے خلاف حد سے زیادہ چراغاں کرتے ہیں یہاں تک کہ جامع مسجد میں کوئی چراغ و بتیاں وغیرہ موجود نہیں ہوتیں مگر اسے روشن کرتے ہیں، یہاں تک کہ یہ لوگ ستونوں میں رسیوں سے پھندے بناتے اور اس پر چراغ اور قندیلوں کو لٹکاتے اور اس کو روشن کرتے ہیں اور حد سے زائد چراغاں کرنا ظاہری طور پر آتش پرستوں کے ساتھ مشابہت ہے اگرچہ یہ لوگ آتش پرستی کا اعتقاد نہیں رکھتے ، کیونکہ آتش پرست مجوسی لوگ حد سے زیادہ چراغاں کرتے ہیں.
[المدخل لابن الحاج (المتوفي:٧٣٧ھہ) » فصل من العوائد الرديئة ما يفعله النساء في المواسم » المرتبة الثانية المواسم التي ينسبونها إلى الشرع وليست منه » فصل من البدع المحدثة في ليلة النصف شعبان (١/٣٠٨)]
(3) کفار ومشرکین کی مشابہت:
جیسے:
اسراف وفضول خرچی:
4) مردوں کی روحوں کا آنا :
قرآنِ کریم میں اپنی کمائی فضولیات میں خرچ کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیاگیاہے، ارشادِ خداوندی ہے: ”اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن“ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں۔ (سورئہ بنی اسرائیل:۲۷)
دوسروں کو تکلیف دینا
جب پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں تو اس کی آواز سے کتنے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اس کو ہر شخص جانتا ہے، جب کہ ہمارا مذہب اسلام ہم کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک مومن آدمی سے کسی بھی شخص کو (مسلم ہو یا غیرمسلم) تکلیف نہیں ہونی چاہیے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: الْمُوٴْمِنُ مَنْ اَمِنَہُ النَّاسُ علٰی دِمَائِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ، (ترمذی شریف۲/۹۰) یعنی صحیح معنی میں موٴمن وہ شخص ہے جس سے تمام لوگ اپنی جانوں اور مالوں پر مامون اور بے خوف وخطر رہیں، یہاں تک کہ جانوروں کو تکلیف دینا بھی انتہائی مذموم، شدید گناہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا سبب قرار دیاگیا ہے۔ (صحیح بخاری ۲/۸۲۸، صحیح مسلم حدیث ۱۹۵۸، کتاب الصید والذبائح) حاصل یہ ہے کہ صرف ”آتش بازی“ کی ایک رسم کئی بدترین اور بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے، جو کسی بھی طرح مسلم معاشرے میں رواج پانے کے لائق نہیں؛ بلکہ پہلی فرصت میں قابلِ ترک ہے۔
ہمارے نبی ﷺ نے کفار ومشرکین اور یہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایاہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ (مشکوٰة شریف ص۳۷۵) یعنی جو شخص کسی قوم سے مشابہت اور ان کے طور طریق اختیار کرے گا اس کا شمار انھیں میں ہوگا؛ مگر افسوس ہے ہماری زندگی پر کہ ہر چیز میں آج ہم کو غیروں کا طریقہ ہی پسند ہے اور اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے نفرت ہے۔
4) مردوں کی روحوں کا آنا :
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میت کی روح چالیس دن تک گھر آتی ہیں ۔ مومنین کی روحیں جمعرات اور شب براءت کو آتی ہے ۔ حالانکہ مردے برزخی زندگی سے وابستہ ہیں ۔ عالم برزخ کا عالمِ دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ارشاد خداوندی ہے :
ومن وراءھم برزخ الی یوم یبعثون( مومنون : 100 )
ان ( مردوں ) کے ورے ایک پردہ ہے جو قیامت تک رہے گا ۔
بعض لوگ روح کے آنے کا مغالطہ آیت ((تنزل الملائکۃ والروح)) سے دیتے ہیں ۔ اس روح سے مراد مردوں کی روحوں کا اترنا نہیں ہے بلکہ اس روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ دوسری آیت میں بھی جبرئیل علیہ السلام روح سے تعبیر کیا گیا ہے :
1 اذ ایدتک بروح القدس( المائدہ : 110 )
2 قل نزلہ روح القدس من ربک( النحل : 102 )
3 نزل بہ الروح الامین( الشعراء: 193 )
4 تعرج الملائکۃ والروح( المعارج : 4 )
5 یقوم الروح والملائکۃ صفا( النباء: 38 )
مندرجہ بالا آیات میں بھی روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ مردوں کی روح مراد نہیں ہے ۔ اس سے مردوں کی روح مراد لینا ۔ تحریف فی القرآن ہے ۔
فقہاء کا فتویٰ :
من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر( مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ، فتاویٰ قاضی خاں )
جو کہے کہ اولیاء و بزرگوں کی روحیں حاضر و ناظر ہیں ۔ وہ کافر ہو جاتا ہے ۔
نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی شبِ براءت آئی ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ بھی گزر گیا ۔ تابعین و ائمہ اربعہ کا زمانہ بھی گزر گیا ، لیکن کسی سے بھی شبِ براءت کا حلوہ ، آتش بازی ، مردوں کی فاتحہ خوانی وغیرہ ثابت نہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کو بدعات سے اجتناب کرنا چاہئے اور سنت صحیحہ کو مشعل راہ بنانا چاہئے جو راہ نجات ہے اللہ تعالیٰ بدعات سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
5) الفیہ نماز
(6) صلٰوۃ البرأۃ
بعض حضرات صلوٰۃ البرأۃ کے نام سے باجماعت نوافل ادا کرتے ہیں، یہ بھی بدعت ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے زمانے میں اس نماز کا کوئی ثبوت نہیں، بلکہ ہجرت کے چار سو سال بعد یعنی ۸۴۴ھ میں بیت المقدس میں یہ نماز ایجاد ہوئی۔
اس کا واقعہ امام طرسوسیؒ نے یہ لکھا ہے کہ ایک شخص بیت المقدس میں آیا اور پندرہویں شب کو اس نے مسجد میں نماز پڑھنی شروع کردی، ایک شخص نے اس کے پیچھے نماز کی نیت باندھ لی پھر ایک اور شخص نے اس کے پیچھے نیت باندھ لی اسی طرح تیسرے شخص نے پھر چوتھے نے، یہاں تک کہ ابھی اس کی نماز مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک بڑی جماعت لوگوں کی اس کے پیچھے نماز میں بن گئی۔
آئندہ سال بھی وہ شخص آیا بہت سے لوگوں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی پھر دوسری مساجد اور رفتہ رفتہ تمام شہروں میں دھوم مچ گئی۔
علماء متاخرین نے اس کو بدعت قبیحہ قرار دیا ہے اور صاف بیان کیا ہے کہ اس میں کئی برائیاں ہیں، اور نفل نماز کو جماعت سے پڑھنے کیلئے مساجد میں جمع ہونا کراہت سے خالی نہیں ہے، اسی طرح چراغوں کو جلانا اور فانوسوں کا لٹکانا بدعت ہے۔
ارشاد خداوندی ہے :
ومن وراءھم برزخ الی یوم یبعثون( مومنون : 100 )
ان ( مردوں ) کے ورے ایک پردہ ہے جو قیامت تک رہے گا ۔
بعض لوگ روح کے آنے کا مغالطہ آیت ((تنزل الملائکۃ والروح)) سے دیتے ہیں ۔ اس روح سے مراد مردوں کی روحوں کا اترنا نہیں ہے بلکہ اس روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ دوسری آیت میں بھی جبرئیل علیہ السلام روح سے تعبیر کیا گیا ہے :
1 اذ ایدتک بروح القدس( المائدہ : 110 )
2 قل نزلہ روح القدس من ربک( النحل : 102 )
3 نزل بہ الروح الامین( الشعراء: 193 )
4 تعرج الملائکۃ والروح( المعارج : 4 )
5 یقوم الروح والملائکۃ صفا( النباء: 38 )
مندرجہ بالا آیات میں بھی روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ مردوں کی روح مراد نہیں ہے ۔ اس سے مردوں کی روح مراد لینا ۔ تحریف فی القرآن ہے ۔
فقہاء کا فتویٰ :
من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر( مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ، فتاویٰ قاضی خاں )
جو کہے کہ اولیاء و بزرگوں کی روحیں حاضر و ناظر ہیں ۔ وہ کافر ہو جاتا ہے ۔
نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی شبِ براءت آئی ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ بھی گزر گیا ۔ تابعین و ائمہ اربعہ کا زمانہ بھی گزر گیا ، لیکن کسی سے بھی شبِ براءت کا حلوہ ، آتش بازی ، مردوں کی فاتحہ خوانی وغیرہ ثابت نہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کو بدعات سے اجتناب کرنا چاہئے اور سنت صحیحہ کو مشعل راہ بنانا چاہئے جو راہ نجات ہے اللہ تعالیٰ بدعات سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
5) الفیہ نماز
’’جو شخص نصف شعبان کی رات کو سو رکعتوں میں ہزار مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھے، اس کی موت اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک کہ وہ خواب میں نہ دیکھ لے ایک سو تیس فرشتے اسے جنت کی بشارت دیتے ہوئے، اور تیس اس کی آگ سے مدد کرتے ہیں، اور تیس اس کی حفاظت کرتے ہیں، اور دس اس کے خلاف اس کے دشمنوں سے تدبیر کرتے ہیں۔"
[فضائل سورة الإخلاص للحسن الخلال:15]
شبِ برأت میں کوئی خاص نماز کسی خاص ہیئت میں کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، بعض لوگوں کے ہاں الفیہ نماز کے نام سے نوافل پڑھے جاتے ہیں، یعنی سو رکعتیں اس طرح پڑھتے ہیں کہ ہر رکعت میں دس دس بار سورۂ اخلاص یعنی قل ھو اللہ احد پڑھتے ہیں، یہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے نہ کسی صحابی اور تابعی کا کوئی مضبوط ارشاد منقول ہے۔
بعض حضرات صلوٰۃ البرأۃ کے نام سے باجماعت نوافل ادا کرتے ہیں، یہ بھی بدعت ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے زمانے میں اس نماز کا کوئی ثبوت نہیں، بلکہ ہجرت کے چار سو سال بعد یعنی ۸۴۴ھ میں بیت المقدس میں یہ نماز ایجاد ہوئی۔
اس کا واقعہ امام طرسوسیؒ نے یہ لکھا ہے کہ ایک شخص بیت المقدس میں آیا اور پندرہویں شب کو اس نے مسجد میں نماز پڑھنی شروع کردی، ایک شخص نے اس کے پیچھے نماز کی نیت باندھ لی پھر ایک اور شخص نے اس کے پیچھے نیت باندھ لی اسی طرح تیسرے شخص نے پھر چوتھے نے، یہاں تک کہ ابھی اس کی نماز مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک بڑی جماعت لوگوں کی اس کے پیچھے نماز میں بن گئی۔
آئندہ سال بھی وہ شخص آیا بہت سے لوگوں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی پھر دوسری مساجد اور رفتہ رفتہ تمام شہروں میں دھوم مچ گئی۔
علماء متاخرین نے اس کو بدعت قبیحہ قرار دیا ہے اور صاف بیان کیا ہے کہ اس میں کئی برائیاں ہیں، اور نفل نماز کو جماعت سے پڑھنے کیلئے مساجد میں جمع ہونا کراہت سے خالی نہیں ہے، اسی طرح چراغوں کو جلانا اور فانوسوں کا لٹکانا بدعت ہے۔
(قرۃ الواعظین ترجمہ درۃ الناصحین ۲؍۲۱۲)
اور البحر الرائق [2/56] میں ہے: وَيُكْرَهُ الِاجْتِمَاعُ عَلَى إحْيَاءِ لَيْلَةٍ مِنْ هَذِهِ اللَّيَالِي فِي الْمَسَاجِدِ (یعنی فضیلت کی راتوں میں شبِ بیداری کے لیے مساجد میں اجتماع کرنا مکروہ یعنی ناجائز ہے)۔
محمد عبد السلام شقیری کہتے ہیں:
"امام فتنی "تذکرۃ الموضوعات" میں کہتے ہیں کہ: نصف شعبان کی رات کیلئے ایجاد کردہ بدعات میں "ہزاری نماز" بھی ہے جس میں سو رکعت دس ، دس رکعات کی شکل میں باجماعت ادا کی جاتی ہیں، اس نماز کا جمعہ اور عید کی نماز سے بھی بڑھ کر اہتمام کیا گیا ہے، حالانکہ اس کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے، سب یا تو ضعیف ہیں یا پھر خودساختہ ہیں، اگرچہ ان روایات کو "قوت القلوب "یا "احیاء علوم الدین" میں ذکر کیا گیا ہے تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے، اسی طرح تفسیر ثعلبی میں یہ کہا گیا ہے کہ یہی رات لیلۃ القدر ہے اس سے بھی دھوکہ نہیں کھانا چاہئے"انتہی
عراقی کہتے ہیں:
نصف شعبان کی شب ادا کی جانے والی نماز کے متعلق حدیث باطل ہے، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔
فصل: نصف شعبان کی رات دعا، اور نماز کے بارے میں حدیث:
(نصف شعبان کی رات میں قیام اور دن میں روزہ رکھو) اس حدیث کو ابن ماجہ نے علی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، ابن ماجہ کے صاحب حاشیہ لکھتے ہیں: کتاب "الزوائد" میں ہے کہ اسکی سند ابن ابی بسرۃ کی وجہ سے ضعیف ہے، جس کے بارے میں امام احمد، اور ابن معین کہتے ہیں کہ: ابن ابی بسرۃ احادیث گھڑا کرتا تھا۔ انتہی
نصف شعبان کی رات بلائیں ٹالنے، عمر درازی، اور لوگوں سے مستغنی ہونے کیلئے چھ رکعات نماز پڑھنا، اور انکے درمیان سورہ یاسین کی تلاوت اور دعا کرنا: یقینی بات ہے کہ یہ عمل بدعت ہے، اور اس میں سنتِ سید المرسلین کی مخالفت پائی جاتی ہے۔
"احیاء علوم الدین" کے شارح کہتے ہیں:
"متاخر صوفی حضرات کی کتب میں یہ نماز بہت مشہور ہے، مجھے اس نماز اور نماز کی دعا کے بارے میں احادیث سے کوئی مستند دلیل نہیں ملی، ہاں یہ صوفی مشایخ کا عمل ہے، جبکہ ہمارے کچھ احباب کا کہنا ہے کہ: مساجد وغیرہ میں مذکورہ راتوں کی شب بیداری کیلئے جمع ہونا مکروہ ہے۔
نجم الغیطی باجماعت نصف شعبان کی رات قیام کے بارے میں کہتے ہیں:
"حجاز کے اکثر علمائے کرام نے اسے غلط قرار دیا ہے، جن میں عطاء، ابن ابی ملیکہ، فقہائے مدینہ میں سے امام مالک کے تلامذہ شامل ہیں، اِن سب نے اِن تمام افعال کو بدعت کہا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپکے صحابہ کرام سے اس رات باجماعت قیام بالکل بھی ثابت نہیں ہے"
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: رجب اور شعبان کی نمازوں والی بدعات قبیح قسم کی منکر بدعات ہیں۔۔۔ الخ"انتہی
ماخوذ ازکتاب: "السنن والمبتدعات" ص 144
فتنی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا گفتگو کرنے کے بعد کہا:
"عوام اس خودساختہ نماز کے جھانسے میں اتنی گرگئی کہ کچھ لوگوں نے شب بیداری کیلئے کافی مقدار میں ایندھن ذخیرہ کیا، اس شب بیداری کی وجہ سے فسق وفجور پر مشتمل ایسے کام ہوئے جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا، حتی کہ کچھ اولیائے کرام کو عذاب الہی کا خدشہ ہوا اور صحراؤں کی طرف دوڑ نکلے۔
سب سے پہلے اس نماز کی ابتدا بیت المقد س میں 448 ہجری کو ہوئی تھی۔
زید بن اسلم کہتے ہیں:
ہمارے مشایخ یا فقہائے کرام کبھی بھی شب برات وغیرہ کی فضیلت کے متعلق توجہ بھی نہیں کرتے تھے۔
ابن دحیہ کہتے ہیں:
نماز [شب] برات کی تمام احادیث من گھڑت اور خودساختہ ہیں، ان میں سے صرف ایک مقطوع ہے، اور جو شخص کسی ایسی روایت پر عمل کرے جسکا من گھڑت ہونا ثابت ہوچکا ہو، تو وہ شیطان کا چیلہ ہے"انتہی
ماخوذ از: "تذكرة الموضوعات" از فتنی: ص 45
مزید کیلئے دیکھیں: "الموضوعات "از ابن الجوزي (2/ 127) اور "المنار المنيف في الصحيح والضعيف "از ابن قيم ، ص 98، اور "الفوائد المجموعة "از شوكانی ، ص 51۔
(7) گھروں کا لیپنا پوتنا، نئے کپڑے بدلنا اوراگربتی وغیرہ جلانا:
شبِ براء ت کے موقع پر گھروں کی لپائی پوتائی اور نئے کپڑوں کی تبدیلی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، نیز گھروں میں اگربتی جلاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس رات میں مردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں، ان کے استقبال میں ہم ایسا کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل فاسد اور مردود ہے، یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں؛ لہٰذا ان بدعتوں سے بھی احتراز لازم ہے۔
(8) مسور کی دال پکانا:
یہ بھی بے ہودہ رسم ہے۔
غرض یہ تمام رسمیں خرافات اور بے اصل ہیں، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں؛ لہٰذا ان سب چیزوں سے احتراز لازم ہے، ہماری کامیابی نبی کریم ﷺ کے اتباع میں ہی مضمر ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: کُلُّ اُمَّتِی یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ اِلاَّ مَنْ اَبٰی، قَالُوْا: وَمَنْ یَّأبٰی؟ قَالَ مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ اَبٰی․ (بخاری شریف ۲/۱۰۸۱، حدیث ۷۲۸۰) یعنی میری امت کا ہر ہر فرد جنت میں داخل ہوگا؛ مگر جو انکار کرے گا اور بات نہیں مانے گا وہ جنت سے دور رہے گا، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! انکار کون کرسکتا ہے؟ ارشاد ہوا: جو شخص میری اطاعت و فرماں برداری کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو نافرمانی کرے گا اس نے گویا انکار کردیا، جس کی وجہ سے وہ جنت سے محروم رہے گا۔
اللہ تعالیٰ پوری امت کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور بدعات وخرافات سے حفاظت فرماکر اتباعِ سنت کے جذبے سے مالامال فرمائے!آمین ثم آمین!
ما شاء الله تعالى
ReplyDeleteBahut Acha article he.
نہایت مفید و جامع
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت عمدہ۔ کیا یہ مضمون رومن اردو میں ہے؟
ReplyDelete
Deleteرومن (اینگلو اردو) میں یہاں دیکھیں:
https://tahaffuzeahlesunnatpune.wordpress.com/2015/05/29/shab-e-baraat-ki-fazilat-me-1000-sadi-ke-salaf-fuqaaha-wa-muhaddiseen-ke-irshaadaat/
https://ulamaehaqulamaedeoband.wordpress.com/category/articles-on-gm/shab-e-baraat/