یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
فتنہ کے معنیٰ:
دراصل فتن کے معنیٰ سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ظاہر ہوجائے، اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ
[سورۃ الذاریات:13]
جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا۔
[المفردات القرآن: صفحه623، امام الراغب الاصفھانی(م606ھ)]
حضرت اسامہ بن زید ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے پھر فرمایا کہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
اطم پہاڑ کی چوٹی قلعہ اور بلند مکان کو کہتے ہیں اور اٰطام اس کی جمع ہے یہاں اطام سے مراد مدینہ کے گرد واقع وہ فلک بوس مکانات اور قلعے ہیں جن میں وہاں کے یہودی رہا کرتے تھے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ ایک دن انہی قلعوں میں سے ایک قعلہ کی چھت پر تشریف لے گئے اور پھر مذکورہ بالا حدیث ارشاد فرمائی۔ میں ان فتنوں کو دیکھ رہا ہوں الخ کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گویا اپنے نبی ﷺ کو اس وقت جب کہ وہ قلعہ کی چھت پر چڑھے، فتنوں کا قریب ہونا دکھایا تاکہ وہ ان فتنوں کے بارے میں آگاہ کردیں اور لوگ یہ جان کر کہ ان فتنوں کا نازل ہونا مقدر ہوچکا ہے ان سے بچنے کے طریقے اختیار کرلیں۔ اور اس بات کو آنحضرت ﷺ کے معجزات میں سے شمار کریں کہ آپ نے جو پیش گوئی فرمائی تھی وہ بالکل صحیح ثابت ہوئی۔
فقہی نکتے:
(1)جو فتنہ میں نکلنا (پڑنا) ناپسند کرے اور اس سے پناہ مانگے۔
[المصنف - ابن أبي شيبة:39910(37127)]
(2)مدینہ کے محلوں کا بیان۔
[صحيح البخاري:1878]
(3)اونچے اور پست بالاخانوں میں چھت وغیرہ پر رہنا جائز ہے نیز جھروکے اور روشندان بنانا۔
[صحيح البخاري:2467]
(4)نبی کریم ﷺ کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
[صحيح البخاري:3597]
(5)عرب کی ہلاکت ہے اس شر سے جو قریب ہے۔
[صحيح البخاري:7060]
(6)کیا تم وہ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں؟ کہا گیا: نہیں۔
[جزء محمد بن يحيى الذهلي:46]
(7)بارش کے قطروں کی طرح فتنوں کا (اوپر سے) نازل ہونا۔
[صحيح مسلم:2885]
(8)اس قوم میں فتنوں کی تشکیل اور اس کی کثرت، اور جو اس کی عزت کرتا ہے وہ اس میں آتا ہے۔ اور یہ کہ جس کو پناہ (بچنے کی توفیق) ملے وہ اس میں پناہ پکڑلے۔
[مستخرج أبي عوانة:12586- 12587]
(9)فتنوں اور ان کے نقصانات، حد سے زیادہ ہنگامہ آرائی اور دین کی خرابی کے بارے میں
[السنن الواردة في الفتن للداني:16]
(10)پیغمبر کی غیبی خبر (پیشگوئی) کی صداقت کے دلائل
[دلائل النبوة لإسماعيل لأصبهاني:197+310]
(11)فتنوں اور حادثات(نئی نئی باتوں) کی کثرت اور دھوکے کے سالوں کا بیان
قیامت کی معمولی نشانیوں میں سے ایک آزمائش اور فتنوں کی کثرت ہے۔
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار:2 /200]
الفتنہ کی تعریف:
اول :
لغت میں فتنہ کی تعریف:
ازھری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ :
کلام عرب میں فتنہ کے جمیع معنی : ابتلاء ، امتحان ، کے ہیں ، اور اس کا اصل یہ ہے جیسا کہ آپ کہیں فتنت الفضۃ والذھب ، یعنی میں نے سونے اور چاندی کو آگ میں پگلایا تا کہ ردی اور اچھے کی تمیز ہوسکے ۔
اور اسی سے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
{ یومھم علی النار یفتنون }
یعنی انہیں آگ میں جلایا جاۓ گا ۔
[تھذیب الغۃ 14 / 296] ۔
ابن فارسؒ کا کہنا ہے : فاء ، تاء اور نون اصل صحیح ہیں جو کہ ابتلاء اور امتحان پردلالت کرتے ہیں۔
[مقاییس اللغۃ 4 / 472] ۔
تو لغت میں فتنہ کا اصلی معنی یہی ہے ۔
ابن اثیر رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
الفتنۃ : امتحان اور اختبار (آزمائش) کو کہتے ہیں ، اس کا کثرت سے استعمال ناپسندیدہ آزمائش میں نکلنے میں ہوتا ہے ، پھر اس کا استعمال گناہ ، کفر، اور قتال ولڑائی ، جلانے اور زائل اور کسی چيزسے ہٹانے پر ہونے لگا۔
[النھایۃ -امام ابن الاثير: 3 / 410]
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے بھی فتح الباری میں اسی طرح بیان کیا ہے۔
[فتح الباری: 13 / 3] ۔
اور ابن اعرابیؒ نے فتنہ کے معانی کی تلخیص کرتے ہوۓ کہا ہے :
امتحان فتنہ ہے اور آزمائش بھی فتنہ ہے اور مال واولاد فتنہ ہے ، اور کفر اور لوگوں کا آراء میں اختلاف بھی فتنہ ہے ، اور آگ کے ساتھ جلانا بھی فتنہ ہے۔
[لسان العرب لابن منظور]
دوم :
کتاب وسنت میں فتنہ کے معنیٰ :
1 - ابتلاء اور اختبار کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
{احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا وھم لایفتنون}
(کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ صرف ان کے اس دعوے پر کہ ہم ایمان لاۓ ہیں ہم انہیں بغیرآزماۓ ہوۓ ہی چھوڑ دیں گے؟)
[سورۃ العنکبوت:2]
یعنی انہیں آزماۓ بغیر ہی اور اسی طرح ابن جریر میں بھی ہے۔
2 - الصد عن السبیل والرد ، اللہ تعالی کے راستہ سے روکنے کے معنی میں :
جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :
{واحذرھم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک}
آپ ان سے ہوشیار رہیے کہ کہیں وہ آپ کو اللہ تعالی کے اتارے ہوۓ کسی حکم سے ادھر ادھر نہ کردیں ۔
[سورۃ المائدۃ:49]
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ : آپ کو روک اور ہٹادیں ۔
3 – عذاب کے معنی میں :
جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :
{ ثم ان ربک للذین ھاجروا من بعد مافتنوا ثم جاھدوا وصبروا ان ربک من بعدھا لغفور رحیم }
جن لوگوں نے فتنوں میں ڈالے جانے کے بعد ھجرت کی پھر جھاد کیا اور صبر کا ثبوت دیا بیشک آپ کا رب ان باتوں کے بعد انہیں بخشنے والا اور مہربانیاں کرنے والا ہے ۔
[سورۃ النحل:110]
یہاں فتنوا ۔عذبوا کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ،
4 - شرک اور کفر کے معنی میں :
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان میں ہے :
{وقاتلواھم حتی لاتکون فتنۃ}
اور ان سے لڑو جب تک کہ شرک مٹ نہ جاۓ۔
[سورۃالبقرۃ:193]
ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس کا معنی شرک ہے۔
لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنہ میں پھنسا رکھا تھا اور انتظار میں ہی رہے اور شک وشبہ کرتے رہے اور تمہیں تمہاری فضول تمناؤں نے دھوکے میں ہی رکھا۔
[سورۃالحدید:14]۔
امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : تم نے اسے نفاق میں ڈال دیا اور معاصی اور شھوات کے استعمال سے اسے ہلاک کر ڈالا ۔
6 - حق کا باطل سے اشتباہ کے معنی میں :
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے اس فرمان میں ہے :
{والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر}
کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں فتنہ اور زبردست فساد ہوگا۔
[سورۃالانفال:73]۔
تو معنی یہ ہے کہ : اگر مومن کافر کے علاوہ دوستی نہیں لگائيں گے اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو تو زمین میں حق وباطل کے درمیان شبہ پیدا ہوجاۓ گا ۔ جامع البیان لابن جریر ۔
7 - اضلال-گمراہی کے معنی میں :
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے اس ارشاد میں استعمال ہوا ہے :
{ ومن یرد اللہ فتنتہ }
اور جس کا اللہ تعالی کو گمراہ کرنا منظور ہو ، تو یہاں پر فتنہ کا معنی اضلال گمراہ کرنا ہے ۔
[البحر المحیط لابی حیان ( 4 / 262 )] ۔
8 - قتل اور قید کے معنی میں استعمال ہوا ہے :
جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان ہے :
{ وان خفتم ان یفتنکم الذين کفروا }
اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافرتمہیں ستائيں گے ۔
یہاں پر کافروں کا مسلمانوں پر نمازمیں سجدہ کی حالت میں حملہ کرنا مراد ہے تاکہ وہ انہیں قتل کردیں یا پھر قیدی بنا لیں ۔ ابن جریر نے اسی طرح کہا ہے ۔
9 - لوگوں ميں اختلاف اور دلوں کا مخالف ہونا کے معنی میں :
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان میں ہے :
{ ولاوضعوا خلالکم یبغونکم الفتنۃ }
بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑاتے اور تمہیں فتنہ میں ڈالنے کی تلاش میں رہتے ۔
یعنی تمہارے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کرتے۔
[تفسیر الکشاف ( 2 / 277 ) ]۔
10 – جنون کے معنی میں استعمال ہوتا ہے :
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ بایکم المفتون } تو یہاں پر مجنون کے معنیٰ میں ہے ۔
11 - آگ سے جلانے (عذاب) کے معنی میں :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ ان الذین فتنوا المومنون والمومنات }
بیشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں کوستایا۔
[سورۃالبروج:10]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
اس کی مراد سیاق وسباق اور قرائن سے معلوم ہورہی ہے ۔
[فتح الباری (11 / 176) ]۔
تنبیہ :
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
وہ فتنہ جس کی اضافت اللہ تعالی اپنی طرف یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کریں مثلا اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ وکذالک فتنا بعضھم ببعض } اوراسی طرح ہم نے بعض کوبعض سے آزمایا
اور موسی علیہ السلام کا قول ہے
{ ان ھی الافتنتک تضل بھا من تشاء وتھدی من تشاء }
تو یہ اور معنی میں ہوگا جو کہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کوخیر وشر اور نعمتوں اور مصائب سے ابتلاء اور امتحان و آزمائش کے معنی میں ہے ۔
تو یہ ایک رنگ ہے اور مشرکوں کا فتنہ اور رنگ ہے ، اور مومن آدمی کا فتنہ اس کے مال و اولاد اور پڑوسی میں ہونا اس کا رنگ اور ہے ، اور وہ فتنہ جو اہل اسلام میں پیدا ہوتا ہے جیسا کہ علی اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما کے ساتھیوں کے درمیان پیدا ہوا ، اور اہل جمل کے درمیان ، اور مسلمانوں کے درمیان حتی کہ وہ آپس میں لڑائی کریں یہ اور قسم ہے ۔
اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے اور نہ بُرائی سے منع کروگے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے؟
(1)زہد کی کتاب:- اللہ کے ذکر(نصیحت یاد) رکھنے کی فضیلت
[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:1376]
یعنی زہد یہ ہے کہ دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر اور باقی (اللہ اور اسکی جنت) کو ترجیح دے کہ اللہ کی یاد اور اسکی نصیحت کردہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی عادت اختیار کرے۔
(2)فتنوں میں عقلوں کی نیچ ہونے اور عقلمند لوگوں کے مٹ جانے کا ذکر
[کتاب الفتن-لنعيم بن حماد(م228ھ): حدیث#111]
(3)آزمائش جس میں بردبار بھی الجھ کر حیران وپریشان ہو۔
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر-ابن أبي الدنياؒ(م281ھ) : حدیث#32]
(4)اسلام کی کڑیاں ٹوٹنے، اور دین کو دفن کرنے اور بدعات(اعلانیہ گناہوں) کے ظاہر ہونے کا بیان۔
[کتاب البدع-ابن وضاحؒ(م286ھ): حدیث#155]
(5)آخر زمانہ میں اس قوم میں رونما ہونے والی برائیوں(فتنوں، جنگوں) کا تذکرہ۔
[البداية والنهاية - ابن كثير (ت التركي):19 / 50]
جنگوں کے بارے میں
[مسند الفاروق لابن كثير ت إمام:951]
(6)فتن کی کتاب:- جو برائی کو اچھا دیکھے۔
[مجمع الزوائد:12210]
(7)جو نیکی کا حکم نہیں دیتا اور برائی سے منع کرتا ہے۔
[إتحاف الخيرة المهرة-البوصيري:7404]
(8)شرعی سیاست:-
اللہ بزرگ و برتر نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کو واجب(لازم) کیا ہے اور اسے چھوڑنے پر ڈرایا۔
[تنبيه الغافلين عن أعمال الجاهلين وتحذير السالكين من أفعال الجاهلين-ابن النحاس(م814ھ) : صفحہ 100]
یعنی نیکی وبرائی کی تمیز سکھاتے رہنا۔
(9)برائی کا انکار کرنا بہت بڑا ثواب ہے اور اس کا انکار نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
[الكنز الأكبر من الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر - ابن داود الحنبلي: صفحہ 152]
(10)جنگ صفین کا واقعہ
[الخصائص الكبرى-السيوطي(م911ھ):2/ 264]
(11)قابل تعریف اخلاق وعادت:- نیکی کا حکم کرنا۔
[كنز العمال:8470]
(12)نیکی کا حکم کرنا، برائی سے روکنا اور نصیحت و مشورہ
[جمع الفوائد-الروداني:7906]
(13)عورتوں کے فتنہ کے بارے میں جو بیان کیا گیا ہے۔
[إتحاف الجماعة-التويجري:1 / 338]
یعنی باریک یا چھوٹے لباس سے ننگی رہنے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا فتنہ۔
[صحيح مسلم:2128، مستخرج أبي عوانة:9285]
عورتوں کے سرکش اور نوجوانوں کے بے حیاء ہونے کے بارے میں۔
[إتحاف الجماعة-التويجري:2 / 136]
(14)اسلام کا غریب(انوکھا، اجنبی) ہوجانا۔
[غربة الإسلام-التويجري:1 /69]
(15)(یہ حدیث)اس قول کہ خطباء چاہتے ہیں کہ وہ بڑی بڑی سناتے رہیں۔ کا رد ہے۔
[الرد على الكاتب المفتون-التويجري: صفحہ9]
(16)آخرت پر ایمان:-
قیامت کی چھوٹی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ قوم اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کردے گی۔
(17) فتنے میں مبتلا وہ ہے جو اول زمانوں کے بزرگانِ دین جس بات کو نیکی مانتے تھے اسے برائی سمجھنے والا اور وہ بزرگانِ دین جس بات کو برائی مانتے تھے اسے نیکی سمجھنے والا۔
القرآن:
اور (ایمان سے کفر کے طرف) اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد (یعنی اپنے ارادوں میں برباد ہو) جاؤ گے۔
[سورہ المائدۃ:21، تفسير القرآن الكريم وإعرابه وبيانه - الدرة: 2 / 194]
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر-ابن أبي الدنياؒ(م281ھ) : حدیث#32]
[مسند-أبي يعلىؒ(م307ھ) : حدیث#6420]
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ
[الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، لابن أبي الدنيا (سنة الوفاة:281) » حديث: 84]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
[المعجم الأوسط-الطبراني (م360هـ):حدیث#9325]
[مجمع الزوائد-الهيثمي(م807ھ):12210]
[إتحاف الخيرة المهرة-البوصيري(م840ھ):7404]
[الخصائص الكبرى-السيوطي(م911ھ):2/ 264]
دوسری روایت میں ہے:
تین چیزیں ایسی ہیں جب تم انہیں دیکھ لو گے اس وقت آباد ویران اور ویران آباد ہوجائے گا۔ نیکی کو گناہ اور گناہ کو نیکی سمجھا جانے لگے گا، اور آدمی امانت کو یوں رگڑے جیسے اونٹ درخت کو رگڑتا ہے۔
[جامع المسانيد والسنن-ابن كثير(م774ھ):9267، جامع الأحاديث:11106]
[معجم الصحابة للبغوي(م317ھ):1969]
عن محمد بن عروة بن السعدي
[تاريخ دمشق لابن عساكر(م571ھ):11093]
[أسد الغابة في معرفة الصحابة-ابن الأثير(م630ھ):4756]
[جامع الأحاديث-السيوطي(م911ھ):11106]
راہبروں کے روپ میں راہزن
آنحضرت ﷺ نے بارگاہِ الٰہی سے اطلاع پاکر قیامت تک پیش آنے والے حالات و واقعات کی امت کو اطلاع دے دی ہے اور انہیں ممکنہ خطرات و اندیشوں سے آگاہ فرمادیا ہے۔ اسی طرح قربِ قیامت میں جو جو فتنے ظہور پذیر ہوں گے یا جن جن طریقوں سے امت کو گمراہ کیا جاسکتا تھا، آپ ﷺ نے ان کی پیشگی اطلاع دے کر امت کو ان سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ اہل علم اور علماء جانتے ہیں کہ احادیث کی تمام متداول کتب میں حضرات محدثینؒ نے ”ابواب الفتن“ یا ”کتاب الفتن“ کا عنوان قائم کرکے ایسی تمام احادیث اور روایات کو یکجا کردیا ہے۔
یوں تو قربِ قیامت میں بہت سے فتنے اٹھیں گے، مگر ان میں جو سب سے بڑا فتنہ، دجال کا فتنہ ہوگا۔ جو انسانیت کو اپنی شعبدہ بازیوں سے گمراہ کرے گا۔
دجالِ اکبر تو ایک ہوگا، جس کو حضرت عیسیٰؑ آسمان سے نازل ہوکر مقام ”لُدّ“ میں قتل کریں گے، مگر ایسا لگتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے دجال پیدا ہوں گے جو امت کو گمراہ کرنے میں دجالِ اکبر کی نمائندگی کی خدمت انجام دیں گے۔
اسی لئے آنحضرت ﷺ نے امت کو اس بات کی طرف متوجہ فرمایا ہے کہ وہ ایسے ایمان کُش راہ زنوں اور دجالوں سے ہوشیار رہے، کیونکہ قرب قیامت میں شیاطین انسانوں کی شکل میں آکر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ اس کامیابی سے اپنی تحریک کو اٹھائیں گے کہ کسی کو ان کے شیطان، دجال یا جھوٹے ہونے کا وہم و گمان بھی نہ گزرے گا۔
چنانچہ علامہ علأ الدین علی متقیؒ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف "کنزالعمال" میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ان انسان نما شیاطین کے دجل و اضلال ،فتنہ پروری کی سازشوں اور دجالی طریقہ کار کا تذکرہ کرتے ہوئے نقل فرمایا ہے کہ:
”انظروا من تجالسون وعمن تأخذون دينكم فإن الشياطين يتصورون في آخر الزمان في صور الرجال فيقولون: حدثنا وأخبرنا، وإذا جلستم إلى رجل فاسألوه عن اسمه وأبيه وعشيرته فتفقدونه إذا غاب.“
ترجمہ:
”حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ․․․ تم لوگ یہ دیکھ لیا کرو کہ کن لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہو؟ اور کن لوگوں سے دین حاصل کررہے ہو؟ کیونکہ آخری زمانہ میں شیاطین انسانوں کی شکل اختیار کرکے ․․․انسانوں کو گمراہ کرنے․․․ آئیں گے․․․ اور اپنی جھوٹی باتوں کو سچا باور کرانے کے لئے من گھڑت سندیں بیان کرکے محدثین کی طرز پر․․․کہیں گے حدثنا واخبرنا․․․․مجھے فلاں نے بیان کیا، مجھے فلاں نے خبر دی وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا جب تم کسی آدمی کے پاس دین سیکھنے کے لئے بیٹھا کرو، تو اس سے اس کا، اس کے باپ کا اور اس کے قبیلہ کا نام پوچھ لیا کرو، اس لئے کہ جب وہ غائب ہوجائے گا تو تم اس کو تلاش کروگے۔“
[تاریخ مستدرک حاکم، مسند فردوس، لامام الدیلمی:1/107، رقم الحدیث#35، جامع الاحادیث، لامام السیوطی: رقم الحدیث#5862، کنزالعمال، جلد:10،صفحہ:214، رقم الحدیث#29131]
قطع نظر اس روایت کی سند کے، اس کا نفس مضمون صحیح ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
آخری زمانہ میں ایسےدجل وفریب دینے والے اور جھوٹے لوگ ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہوگا اور نہ تمہارے باپوں نے سنا ہوگا لہٰذا ان سے بچو اور ان کو اپنے آپ سے بچاؤ تاکہ وہ تمہیں نہ گمراہ کریں اور نہ فتنہ میں ڈالیں۔ "
بہرحال ان روایات میں چند اہم باتوں کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے، مثلاً:
۱:… مسلمانوں کو ہر ایرے غیرے اور مجہول انسان کے حلقہ درس میں نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ کسی سے علمی استفادہ کرنے سے قبل اس کی تحقیق کرلینا ضروری ہے کہ یہ آدمی کون ہے؟کیسا ہے؟ کس خاندان اور قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے، اس کے اساتذہ کون سے ہیں؟ کس درس گاہ سے اس نے علم حاصل کیا ہے؟ اس کا علم خودرو اور ذاتی مطالعہ کی پیداوار تو نہیں؟ کسی گمراہ، بے دین، ملحد اور مستشرق اساتذہ کا شاگرد تو نہیں؟
۲:… اس شخص کے اعمال و اخلاق کیسے ہیں؟ اس کے ذاتی اور نجی معاملات کیسے ہیں؟ خاندانی پس منظر کیا ہے؟ نیز یہ شعبدہ باز یا دین کے نام پر دنیا کمانے والا تو نہیں؟
۳:… اس کا سلسلہ سند کیا ہے؟ یہ جھوٹا اور مکار تو نہیں؟ یہ جھوٹی اور من گھڑت سندیں تو بیان نہیں کرتا؟ کیونکہ محض سندیں (راویوں کا سلسلہ) نقل کرنے اور ”اخبرنا“ و” حدثنا“ کہنے سے کوئی آدمی صحیح عالم ربانی نہیں کہلاسکتا، اس لئے کہ بعض اوقات مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے کافر و ملحد بھی اس طرح کی اصطلاحات استعمال کیا کرتے ہیں۔
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ ہر مقرر و مدرس ،واعظ یا ”وسیع معلومات“ رکھنے والے کتابی ”اسکالر“وڈاکٹر کی بات پر کان دھریں بلکہ اس کے بارہ میں پہلے مکمل تحقیق کرلیا کریں کہ یہ صاحب کون ہیں؟ اور ان کے علم و تحقیق کا حدود اربعہ کیا ہے؟ کہیں یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ اور ان سے ائمہ کے سلسلہ وار قابلِ اعتماد واسطوں (سندوں) سے حاصل شدہ اصلی تعلیماتِ دین کا مخالف یعنی منکرِ حدیث وسنت، منکرِ اجماعِ صحابہ، منکرِ معجزاتِ اولیاء، منکرِ ختمِ نبوت یا ان کا چیلہ چانٹا تو نہیں؟ چنانچہ ہمارے دور میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ ریڈیو، ٹی وی یا عام اجتماعات میں ایسے لوگوں کو پذیرائی حاصل ہوجاتی ہے جو اپنی چرب زبانی اور ”وسعتِ معلومات“ اور تُک بندی کی بنا پر مجمع کو مسحور کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ان کے عقیدت مند ہوجاتے ہیں، ان کے بیانات، دروس اور لیکچرز کا اہتمام کرتے ہیں، ان کی آڈیو، ویڈیو کیسٹیں، سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز بنا بناکر دوسروں تک پہنچاتے ہیں، جب ان بے دینوں کا حلقہ بڑھ جاتا ہے اور ان کی شہرت آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے تو وہ کھل کر اپنے کفر وضلال اور باطل و گمراہ کن نظریات کا پرچار شروع کردیتے ہیں، تب عقدہ کھلتا ہے کہ یہ تو بےدین، ملحد، بلکہ زندیق اور دھریہ تھا اور ہم نے اس کے باطل و گمراہ کن عقائد و نظریات کی اشاعت و ترویج میں اس کا ساتھ دیا اور جتنا لوگ اس کے دام تزویر میں پھنس کر گمراہ ہوئے ہیں، افسوس ! کہ ان کے گمراہ کرنے میں ہمارا مال و دولت اور محنت و مساعی استعمال ہوئی ہے۔ اس روایت میں یہی بتلایا گیا ہے کہ بعد کے پچھتاوے سے پہلے اس کی تحقیق کرلی جائے کہ ہم جس سے علم اور دین سیکھ رہے ہیں یہ انسان ہے یاشیطان؟مسلمان ہے یاملحد؟موٴمن ہے یامرتد؟ تاکہ خود بھی اور دوسرے بھی ایسے شیاطین کی گمراہی سے بچ سکیں۔
حضور ﷺ نے قیامت تک ظاہر ہونے والے تمام فتنوں کے بارے میں پیشگوئی فرما دی تھی:
حدیث نمبر 1
حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے جیسا کہ وعظ وخطبہ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور وعظ کہا، جس کے دوران آپ ﷺ نے ان فتنوں سے آگاہ فرمایا جو ظاہر ہونے والے تھے، پس از قسم فتنہ جو چیزیں اس وقت یعنی زمانہ نبوی سے لے کر قیامت تک وقوع پذیر ہونے والی تھیں ان سب کو ذکر فرمایا اور ان میں سے کوئی چیز بیان کرنے سے نہیں چھوڑی، ان باتوں کو یاد رکھنے والوں نے یاد رکھا اور جو بھولنے والے تھے وہ بھول گئے، (یعنی آپ ﷺ نے جن فتنوں کا ذکر فرمایا ان کو بعض لوگوں نے تو یاد رکھا اور بعض لوگوں نے فراموش کردیا)۔ حضرت حذیفہ ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے یہ دوست (یعنی صحابہ ؓ جو اس وقت بقید حیات ہیں) اس واقعہ سے (کہ آپ ﷺ نے اس دن اپنے خطبہ میں قیامت تک ظاہر ہونے والے فتنوں کا ذکر فرمایا تھا) واقف ہیں۔
(لیکن ان میں سے بعض حضرات حضور ﷺ کی بیان فرمودہ ان باتوں کو جانتے ہیں اور بعض حضرات کو وہ باتیں تفصیل کے ساتھ یاد نہیں رہی ہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ نسیان کا طاری ہوجانا انسانی خواص میں سے ہے اور جیسا کہ بیان کیا گیا میں بھی انہی لوگوں میں سے ہوں جو ان باتوں کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضور ﷺ نے جن باتوں کی خبر دی تھی اور جن باتوں کو میں بھول گیا ہوں اگر ان میں سے کوئی بات پیش آجاتی ہے تو میں اس کو دیکھ کر اپنا حافظہ تازہ کرلیتا ہوں جس طرح کہ جب کسی غائب شخص کا چہرہ نظر آجاتا ہے تو وہ چہرہ دیکھ کر اس شخص کو پہچان لیا جاتا ہے۔
(یعنی عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص بہت عرصہ تک غائب رہتا ہے تو اس کی شخصیت ذہن سے اوجھل ہوجاتی ہے اور لوگ اسے بھول جاتے ہیں لیکن جب کبھی وہ ظاہر ہوجاتا ہے اور اس کا چہرہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے تو اس کی بھولی ہوئی شخصیت فوراً یاد آجاتی ہے اور وہ تشخص کے ساتھ پہچان لیا جاتا ہے، اسی طرح میرا معاملہ بھی یہ ہے کہ اس دن حضور ﷺ نے جو باتیں پیش گوئی فرمائی تھیں وہ تفصیلی طور پر میرے ذہن میں نہیں رہی ہیں لیکن جب ان باتوں میں سے کوئی بات پیش آجاتی ہے اور حضور ﷺ نے جن چیزوں کی خبر دی تھی ان میں سے کوئی چیز وقوع پذیر ہوتی ہے تو اس کو دیکھ کر میں فوراً پہچان لیتا ہوں کہ یہ وہی بات ہے جس کی خبر حضور ﷺ نے دی تھی۔
[صحيح البخاري:3191، صحيح مسلم:2891 سنن أبي داود:4240]
فتنوں سے متاثر کالے (زنگ شدہ/مہر لگے) دل کی علامت»
نیکی اور برائی کو پہچاننے کا معیار دینی علوم بجائے خواہشات ہوں۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " لوگوں کے دلوں پر فتنے(یعنی گمراہ کن-خواہشات وخیالات) اس طرح ڈالے جائیں گے جس طرح چٹائی کے تنکے ہوتے ہیں (یعنی جس طرح چٹائی میں تنکے ایک کے پیچھے ایک لگائے جاتے ہیں، اسی طرح سے دلوں پر ایک کے بعد ایک فتنے ڈالے جائیں گے) پس جو دل ان فتنوں کو قبول کرے گا اس میں سیاہ نکتہ ڈال دیا جائے گا، اور جو دل ان فتنوں کو قبول کرنے سے انکار کرے گا اس میں سفید نکتہ پیدا کر دیا جائے گا پس انسانان فتنوں کے پیش آنے اور ان کے دلوں پر ان فتنوں کی تاثیر وعدم تاثیر کے اعتبار سے دو قسموں میں بٹ جائیں گے (یا یہ کہ انسان کے دل مذکورہ اعتبار کے مطابق دو قسم کے ہو جائیں گے) ایک تو سفید مثل سنگ مرمر کے کہ جس پر کوئی چیز اثر انداز نہیں ہوتی (واضح رہے کہ اس تشبیہ میں محض سفیدی مراد نہیں ہے بلکہ سختی اور قوت کا اعتبار بھی ملحوظ رکھا گیا ہے چنانچہ اس طرح کے دل پر کوئی بھی فتنہ اثر انداز اور مسرت رساں نہیں ہوگا) جب تک کہ زمین وآسمان قائم وباقی ہیں (یعنی اس دل کی یہ کیفیت ہمیشہ باقی رہے گی) اور دوسرا راکھ کے رنگ جیسا سیال دل، اوندھے برتن کی مانند (کہ اس میں جو کچھ بھی ہو گر پڑے، مطلب یہ کہ اس طرح کا دل راکھ کی مانند سیاہ اور اوندھے برتن کی طرح ایمان ومعرفت کے نور سے خالی ہوگا) چنانچہ اس طرح کا دل نہ تو نیک واچھے اور مشروع کاموں کو پہچانے گا اور نہ برے کاموں کو برا جانے گا، وہ تو بس اس چیز سے مطلب رکھے گا جو از قسم خواہشات اس میں رچ بس گئی ہے اور جس کی محبت کا وہ اسیر بن چکا ہے۔ (یعنی وہ طبعی طور پر نفسانی خواہشات کا غلام ہوگا اور اچھی وبری کا امتیاز کئے بغیر ہر اس چیز کے پیچھے بھاگے گا جو اس کے نفس کو مرغوب ہوگی۔
تشریح: " فتنوں " سے مراد بلا و آفات اور وہ چیزیں ہیں جو انسان کے ذہن وفکر اور قلب وجسم کو تعب وتکلیف اور رنج ونقصان میں مبتلا کر لیتی ہیں لیکن بعض حضرات نے " فتنوں" کی مراد، فاسد و گمراہ نظریات، باطل افکار اور نفسانی شہوت وخواہشات کو قرار دیا ہے۔ لفظ " عودا " تین طرح سے نقل کیا گیا ہے، ایک روایت میں عین کے پیش اور دال مہملہ کے ساتھ ہے اور جیسا کہ دوسری روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے، یہی زیادہ مشہور ہے۔ اس صورت میں حدیث کے اس جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ دلوں میں فتنے اس طرح ایک کے بعد ایک دو آئیں گے جیسا کہ چٹائی بنتے وقت تنکے ایک کے بعد ایک داخل کئے جاتے ہیں، اس تشبیہ سے مراد دلوں پر فتنوں کا اس طرح پیش آنا ہے جس طرح چٹائی بننے والے کے سامنے تنکے یکے بعد دیگرے پیش ہوتے رہتے ہیں۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس تشبیہ سے مراد یہ ہے کہ وہ فتنے دل پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوسری روایات میں یہ لفظ عین کے زیر اور ذال کے ساتھ یعنی عوذا ہے اس صورت میں یہ لفظ ان فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ گفتگو وکلام کے دوران کفر ومعصیت کے ذکر کے بعد نعوذ باللہ یا معاذ اللہ کہا جاتا ہے۔ تیسری روایت میں یہ لفظ عین کے زیر اور دال کے مہملہ کے ساتھ (یعنی عودا) ہے اور اس سے مراد عود وتکرار ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ فتنے دل پر باربار واقع ہوں گے۔ واضح رہے کہ پہلی روایت میں تو یہ لفظ منصوب اور مرفوع دونوں طرح نقل کیا گیا ہے اور دوسری وتیسری روایت میں صرف منصوب منقول ہے۔ " أُشْرِبَهَا " میں لفظ مشرب صیغہ مجہول کے ساتھ ہے۔ کہا جاتا ہے اشرب فلاں حب فلاں یعنی فلاں شخص کے دل میں فلاں شخص کی محبت رچ گئی ہے۔ یا فلاں شخص کے دل میں فلاں شخص کی محبت کا فتنہ بیٹھ گیا ہے، یا فلاں شخص کے دل پر فلاں شخص کی محبت کا رنگ چڑھ گیا ہے جیسا کہ کسی کپڑے پر کوئی رنگ چڑھ جاتا ہے۔ چونکہ شرب کے اصل معنی پینے کے ہیں اس لئے کڑے پر رنگ چڑھنے کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ گویا وہ کپڑا اس رنگ کو پیتا ہے اور اس میں رنگ جاتا ہے پس " جو دل ان فتنوں کو قبول کر لے گا " کا مطلب یہ ہے کہ جس میں کجی ہوگی اور جس کا میلان و رجحان برائی کی طرف ہوگا اس میں وہ فتنے رچ بس جائیں گے اور گویا وہ دل ان فتنوں کو اس طرح قبول کر لے گا جس طرح کوئی سفید کپڑا کسی بھی رنگ کو فورا قبول کر لیتا ہے۔ " نُكْتَةٌ " اصل میں داغ کو کہتے ہیں اور اس نشان کے معنی میں آتا ہے جو لکڑی وغیرہ کے کریدنے اور چھونے سے زمین پر پیدا ہو جاتا ہے۔ نیز " نکتہ" کا لفظ " نقطہ کے معنی میں بھی آ جاتا ہے اور خاص طور پر اس نقطہ (دھبہ) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو مخالف رنگ کی چیز میں ہو جیسے سفید چیز میں سیاہ نقطہ اور سیاہ چیز میں سفید نقطہ۔ " حَتَّى تَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ " میں لفظ تصیر حرف ت کے ساتھ بھی ہے اور حرف ی کے ساتھ بھی۔ اگر یہ لفظ ی کے ساتھ یعنی یصیر پڑھا جائے تو اس صورت میں اس کی ضمیر انسان کی طرف راجع ہوگی جیسا کہ سیاق کلام سے مفہوم ہوتا ہے اور اگر اس لفظ کو ت کے ساتھ تصیر پڑھا جائے تو اس کی ضمیر قلوب کی طرف راجع ہوگی جو صریحا مذکورہ بھی ہے۔
" مُرْبَادًّا" م کے پیش اور ر کے جزم اور دال کی تشدید کے ساتھ، کے معنی خاکستر اور سیاہ رنگ کے ہیں۔ " رمد " کا لفظ بھی خاکستر رنگ کے معنی میں آتا ہے اور " ارمداد" کے معنی ہیں خاکستری رنگ کا ہونا۔
حدیث نمبر 3
جب امانت دلوں سے نکل جائے گی:
حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں ایک دن رسول کریم ﷺ نے ہم سے امانت کے بارے میں اور فتنے کے زمانہ کے حوادث کے سلسلہ میں دو حدیثیں یعنی دو باتیں بیان فرمائیں ان میں سے ایک کو تو دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں (یعنی حضور نے پہلی بات جو یہ فرمائی کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتاری گئی ہے اس کو تو میں نے دیکھ لیا اور دوسری بات یعنی امانت کے اٹھ جانے کا منتظر ہوں) چناچہ رسول کریم ﷺ نے ہم سے بیان فرمایا کہ۔ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتاری گئی پھر انہوں نے اس امانت کو نور سے قرآن کو جانا اور پھر انہوں نے سنت کو جانا۔ اس کے بعد آپ نے امانت کے اٹھ جانے (یعنی ایمان کے اثرات و برکات کے اٹھ جانے اور اس میں نقص آجانے کی حدیث بیان کی چناچہ فرمایا آدمی حسب معمول سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی (یعنی اس کے ایمان کے بعض ثمرات وانوار ناقص وکم ہوجائیں گے) پس امانت کا اثر یعنی نشان جو ایمان کا ثمرہ ہے وکت کے نشان کی طرح ہوجائے گا (حاصل یہ کہ ایمان کا نور دھندلا اور اس کا اثر وثمرہ ناقص ہوجائے گا) پھر جب وہ دوبارہ سوئے گا اور زیادہ غفلت طاری ہوگی تو اس کی امانت کا وہ حصہ بھی ناقص کردیا جائے گا اور نکال لیا جائے گا جو باقی رہ گیا تھا پس اس کے دل میں ایک مجل یعنی آبلہ جیسا نشان رہ جائے گا جیسا کہ تم آگ کی چنگاری کو اپنے پاؤں پر ڈال دو اور اس سے آبلہ پڑجائے جو بظاہر پھولا اور اٹھا ہوا ہوگا لیکن اس کے اندر خراب اور گندے پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ پھر اس صورت حال کے بعد لوگ صبح کو اٹھیں گے تو حسب معمول آپس میں خریدو فروخت کریں گے اور ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جو امانت کو ادا کرے (یعنی شریعت کے حقوق ادا کرنے والا فرائض و واجبات کی تکمیل کرنے والا اور لوگوں کے حق میں کوئی خیانت و بددیانتی نہ کرنے والا کہیں دور دور بھی نظر نہیں آئے گا) یہاں تک کہ امانت و دیانت میں کمی آجانے کے سبب یہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلہ یا فلاں شہر و آبادی میں لوگوں کی کثرت کے باوجود بس ایک شخص ہے جو امانت دار یعنی کامل الایمان ہے۔ اور زبردست سیاسی مہارت و چالاکی اور دنیاوی شان و شوکت کا حامل ہوگا یا کہا جائے گا کہ اپنے دنیاوی کاروبار اور معاملات میں کس قدر عقلمند و ہوشیار، کس قدر خوبصورت ودانا، خوشگوار اور زبان آور ہے اور کس قدر چست و چالاک ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔
[صحيح البخاري:6497+7086، صحيح مسلم:143]
تشریح:
امانت سے مراد یا تو اس کے مشہور معنی ہیں یعنی کسی کے حق میں یا کسی کی ملکیت میں خیانت نہ کرنا یا وہ تمام شرعی ذمہ داریاں مراد ہیں جو ہر شخص پر عائد کی گئی ہیں یعنی تمام اسلامی احکام وتعلیمات کو ماننا اور ان پر عمل کرنا اور امانت کے یہ وہ معنی ہیں جو قرآن کریم کی اس آیت (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ ) [سورۃ الاحزاب 72] میں مذکور ہیں تاہم ان دونوں معنی کی اصل اور بنیاد ایمان ہے اس لئے زیادہ وضاحت کے لئے یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہاں امانت سے مراد ایمان ہے جیسا کہ خود حدیث کے آخری الفاظ وما فی قلبہ مثقال حبۃ من خر دل من ایمان سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے۔ اسی طرح حدیث کے اس جملہ ولا یکاد احد یودی الامانۃ میں امانت کا جو لفظ ہے وہ بھی مذکورہ وضاحت پر مبنی ہے۔ پس حضور ﷺ نے جو دو حدیثیں بیان فرمائیں ان میں سے پہلی حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و فلاح کے لئے ایمان و امانت کو نازل فرمایا اور اس کا مورود کل قلب انسانی کو قرار دیا کہ پہلے ایمان کا نور اور جوہر انسان کے دل میں اترا اور راسخ ومستحکم ہوا جس نے کتاب ہدایت قرآن مجید اور سنت نبوی پر عمل آوری کے راستہ کو منور کیا، چناچہ انسان نے اسی طور ایمان کے سبب ان لافانی تعلیمات اور احکام و مسائل کو جانا اور سمجھا جو کتاب اللہ سے اخذ کئے گئے ہیں اور وہ احکام و مسائل خواہ فرض و واجب اور مسنون ومباح ہوں یا حرام و مکروہ اور پھر اسی نور نے سنت نبی کی حقیقت و صداقت کو واشگاف کیا کہ زبان رسالت اور معمولات نبوی نے کتاب اللہ کی تعلیمات منشا حق کی جو وضاحت و تفسیر بیان فرمائی اس کو بلا چون وچرا قبول کر کے عمل کی راہ کو استوار کیا گیا۔ یہاں یہ بات واضح ہوئی کہ حق تعالیٰ کی طرف سے نور ہدایت کا پیدا کیا جانا اور اس کے ذریعہ انسانیت عامہ کو نوازنے اور فلاح پہنچانے کا ارادہ فرمانا کتاب اللہ کو نازل کرنے اور رسولوں کو مبعوث کرنے سے پہلے تھا، یعنی پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو پیدا کیا اور یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے بندوں کو اس نور ہدایت کے ذریعہ سعادت و بھلائی کے بلند مقام پر پہنچانا ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنی کتاب کو دنیا میں نازل فرمایا اور اپنے پیغمبر اور رسول مبعوث فرمائے پس نسل انسانی سے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عنایت و ہدایت کا مورد ومحل بننا نصیب ہوا اور جن میں اس نور ہدایت کو قبول کرنے کی توفیق و استعداد و دیعت ہوئی وہی خوش بخت کتاب وسنت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ اس موقع پر ایک نکتہ اور بھی بیان کیا جاتا ہے، وہ یہ کہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ۔ پھر انہوں نے قرآن کو جانا اور پھر انہوں نے سنت کو جانا۔ اس کے ذریعہ ایمان و امانت کے مرتبہ کی شان و حیثیت اور اس کی عظمت کو بیان کرنا بھی مقصود ہے کہ باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے نور ہدایت یعنی ایمان کو نازل فرمایا اور قلوب انسانی میں اس کو ودیعت و راسخ فرما دیا تھا مگر پھر کتاب اللہ کے نازل کرنے اور اپنے پیغمبر و رسول کے مبعوث کرنے کے ذریعہ بھی اس کو مؤ کد ومؤید کیا۔ بہرحال یہ وہ پہلی حدیث جو حضور ﷺ نے صحابہ ؓ سے ارشاد فرمائی اور حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا ہے بایں طور کہ حضور ﷺ کے زمانہ اور رفاقت حضوری میں صحابہ کرام اس ارشاد گرامی کے عین مصداق تھے اور دوسری حدیث کہ جس میں حضور ﷺ نے امانت کے کم ہوجانے اور اٹھ جانے کا ذکر فرمایا وہ حضور کے مبارک زمانہ کے بعد کے لوگوں پر صادق آئی۔ آدمی حسب معمول سوئے گا الخ سے مراد یا تو حقیقۃ سونا ہے یا یہ جملہ اس کی غفلت و کوتاہی میں پڑجانے سے کنایہ ہے یعنی یاد الٰہی سے غافل آیت الٰہی سے بیخبر، قرآن مجید میں تدبر و تفکر سے بےپرواہ اور تباع سنت میں کوتاہ ہوجانا۔ یہ دوسری مراد زیادہ واضح ہے کیونکہ ماقبل جملہ ثم السنۃ (اور پھر انہوں نے سنت کو جانا) کا مخالف مفہوم اسی مراد کا متقاضی ہے۔ فیظل اثرہ مثل اثرالوکت امانت کا اثر یعنی نشان وکت کے نشان کی طرح ہوجائے گا۔ پہلے یہ جاننا چاہئے کہ کسی چیز کا اثر وہ نشان کہلاتا ہے جو اس چیز کی علامت کے طور پر نمودار ہے اور اس چیز کا کچھ نہ کچھ حصہ اس کی صورت میں باقی رہے اور وکت عکسی چیز کے اس دھبہ کو کہتے ہیں جو اس چیز کے مخالف رنگ کی صورت میں نمودار ہوجائے جیسے کسی سفید چیز میں سیاہ نقطہ کا نمودار ہونا اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وکت اصل میں اس سفید نقطہ نما نشان کو کہتے ہیں جو آنکھ کی سیاہی میں پیدا ہوجائے۔ حدیث کے اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ دین و شریعت کی طرف سے غافل ہوجانے اور گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے دل میں ایمان کا نور کم ہوجائے گا اور وہ غافل ہونے والا جب اس صورت حال سے آگاہ ہوگا اور اپنے دل کی حالت و کیفیت میں غور و فکر کرے گا تو یہ محسوس کرے گا کہ اس میں ایک نقطہ کی مقدار کے علاوہ نور امانت میں سے اور کچھ باقی نہیں رہا ہے۔ جب وہ دوبارہ سو جائے گا کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب دین و شریعت سے غفلت کی نیند اور زیادہ طاری ہوجائے گی اور گناہوں کا ارتکاب زیادہ بڑھ جائے گا دل میں سے نور ایمان کا بقیہ حصہ بھی نکل جائے گا اور وہاں صرف مجل کے نشان کی طرح کی صورت میں رہ جائے گا واضح رہے کہ مجل کے معنی ہیں آبلہ پڑجانا اور کام کرتے کرتے ہاتھ کی جو کھال سخت ہوجاتی ہے اور جس کو گھٹا بھی کہتے ہیں اس پر بھی مجل کا اطلاق ہوتا ہے۔ لہٰذا جس طرح انسان کے جسم کے کسی حصہ پر جو آبلہ پڑجاتا ہے وہ اگرچہ اوپر سے ابھرا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اس کے اندر خراب اور گندے پانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح جس شخص کے دل میں امانت کا وہ باقی اثر و نشان بھی نکال لیا جائے گا تو اگرچہ وہ بظاہر بالکل صالح و کار آمد نظر آئے گا لیکن حقیقت میں اس کے اندر سعادت و بھلائی اور اخروی زندگی کو فائدہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ مذکورہ وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وکت اور مجل نور امانت کے اس حصہ کی تمثیل ہے جو دل میں باقی رہ جاتا ہے گویا ان دونوں چیزوں کی مثال کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس دور میں اسلام کے نام لیواؤں میں ایمان و دین کی اس کمزوری کے باوجود ان کے دل میں ایمان و امانت کا نور کسی نہ کسی حد تک ضرور باقی رہے گا خواہ وہ وکت اور مجل کے نشان ہی کی طرح کیوں نہ ہو لیکن اس وضاحت پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ مجل کا نشان وکت کے نشان سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ لہٰذا کلام کے اسلوب کا تقاضا تو یہ تھا کہ پہلے مجل کے نشان کا ذکر کیا جاتا اور اس کے بعد وکت کے نشان کا ذکر ہوتا کیونکہ بعد کے درجہ کا نشان پہلے درجہ کے نشان سے کمتر اور ہلکا ہونا چاہئے اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ وکت اگرچہ بہت قلیل نشان ہوتا ہے مگر وہ مجل سے کمتر حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ مجل ایک خالی اور بالکل بیکار ہونے کی وجہ سے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ لیکن یہ جواب زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ ایک شارح نے اس بحث پر ایک دوسرے انداز سے روشنی ڈالی ہے ان کے منقولات کے مطابق اس دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جن اہل ایمان کے قوائے فکر و عمل پر غفلت وبے حسی طاری ہوجائے گی اور گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں دین شریعت کے ساتھ ان کا تعلق نہایت کمزور پڑجائے گا ان کے دلوں سے امانت جاتی رہے گی چناچہ جب اس کا ایک حصہ زائل ہوجائے گا تو ان کے دلوں میں سے اس کا نور بھی زائل ہوجائے گا اور اس کی جگہ وکت کی طرح ظلمت وتاری کی پیدا ہوجائے گی اور اس کی مثال ایسی جیسے کسی چیز میں اس کا مخالف رنگ نمودار ہوجائے مثلا سفید چیز میں سیاہ رنگ کا نمودار ہوجانا اور جب دین و شریعت کے تئیں غفلت و کوتاہی اور بڑھ جائے گی اور گناہوں کا ارتکاب پہلے سے بھی زیادہ ہوجائے تو نور امانت کا جو حصہ باقی رہ گیا تھا اس میں سے کچھ اور زائل ہوجائے گا اور اس کی مثال ؛ ایسی ہے جیسے جسم کے کسی حصہ پر مجل (یعنی آبلہ یا گٹھے کا نشان) اتنا گہرا اور اس قدر سخت ہوتا ہے کہ جلد زائل نہیں ہوتا، پس دوسری مرتبہ دل میں جو تاریکی پیدا ہوگی وہ پہلی مرتبہ پیدا ہونے والی تاریکی سے زیادہ پھیلی ہوئی اور گہری ہوگی۔ مذکورہ صورت حال کو اس مثال کے ذریعہ بیان فرمانے کے بعد پھر یہ فرمایا کہ قلب انسانی میں ایمان و امانت کے نور کا پیدا ہونا اور پھر نکل جانا یا دلوں میں اس نور کا جگہ پکڑنا اور پھر اس کے زائل ہوجانے کے بعد تاریکی کا آجانا ایسی تشبیہ رکھتا ہے جیسا کہ کوئی آگ کا انگارہ لے کر اس کو اپنے پیر پر ڈال لے اور انگارہ پیر کو جلا کر زائل ہوجائے اور پھر جلی ہوئی جگہ پر آبلہ پڑجائے۔ ایک اور شارح نے یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں امانت کا نور پیدا کیا تاکہ وہ اس کی روشنی میں فلاح کے راستہ پر چلیں اور دین و شریعت کے پیروکار بنیں لیکن جب وہ لوگ اس نعمت سے بےپرواہ ہوجائیں گے، دین و شریعت کے تئیں غفلت و کوتاہی میں پڑجائیں گے اور گناہوں کا ارتکاب کرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر ان لوگوں سے یہ نعمت واپس لے لے گا۔ بایں طور کہ ان کے دل سے امانت نکل جائے گی، یہاں تک کہ جب وہ خواب غفلت سے بیدار ہوں گے تو محسوس کریں گے کہ ان کے قلب کی وہ حالت نہیں ہے جو امانت کی موجودگی میں پہلے تھی۔ البتہ ان کے دلوں میں اس امانت کا نشان باقی رہے جو کبھی وکت کی طرح ہوگا اور کبھی مجل کی طرح ہوگا۔، پس مجل اگرچہ مصدر ہے لیکن یہاں اس سے مراد نفس آبلہ ہے اور یہ یعنی مجل پہلے مرتبہ یعنی وکت سے کمتر درجہ ہے۔ کیونکہ وکت کے ذریعہ اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اگرچہ امانت دل سے نکل جائے گی مگر نشان کی صورت میں اس کا کچھ نہ کچھ حصہ باقی رہے گا۔ حدیث کے آخری الفاظ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہوگا دونوں احتمال رکھتے ہیں یا تو اصل ایمان کی نفی مراد ہے، یعنی اس شخص کے سرے سے ایمان کا وجود ہی نہیں ہوگا، یا کمال ایمان کی نفی مراد ہے کہ ارشاد گرامی کے اس جزو کا حاصل یہ ہے کہ لوگ اس شخص کی عقل و دانائی کی زیادتی اور چالاکی اور مہارت وغیرہ کی تعریف کریں گے اور اس کے تئیں تعجب تحسین کا اظہار کریں گے لیکن کسی ایسے شخص کی تعریف و توصیف نہیں کریں گے جس میں بہت زیادہ علم وفضل ہوگا اور جو عمل صالح کی دولت سے مالا مال ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز ایمان اور پاکیزگی فکر و عمل ہے۔ اگر کسی شخص میں ایمان و پاکیزگی کی دولت نہ ہو تو خواہ وہ دنیا بھر کی تمام نعمتوں، کامرانیوں اور خوبیوں کا حامل ہو اس کی کوئی حقیقت نہ ہوگی اگرچہ دنیا والے اس کی کتنی ہی تعریف وتحسین کریں اور اس کی ان خوبیوں و کامرانیوں کی وجہ سے اس کو کتنا ہی بہتر و برتر جانیں لہٰذا تعریف وتحسین اس شخص کے حق میں معتبر ہوگی جو ایمان وتقویٰ کا حامل ہو۔
جب فتنوں کا ظہور ہو تو گوشہ عافیت تلاش کرو:
حدیث نمبر 4
حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ لوگ تو اکثر رسول کریم ﷺسےخیرکیاوروبھلائیکےبارےمیںپوچھاکرتےتھےاورمیںآپﷺسےشروبرائیکےبارےمیںدریافتکیاکرتاتھااسخوفکیوجہسےکہکہیںمیںکسیفتنہمیںمبتلانہہوجاؤ (یعنیدوسرےصحابہتوعبادتوطاعتکےبارے میں سوال
کیا کرتے تھے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نیک عمل اور اچھے کام کرسکیں یا یہ کہ وہ لوگ
آپ ﷺسےاپنےرزقمیںوسعتوخوشحالیکیدعاکرتےتھےتاکہانہیںاطمینانوفراغتحاصلہواوراپنیدنیاکوآخرتکیفلاحوکامیابیکاذریعہبناسکیںلیکنانکےبرخلافمیرا معمول
دوسرا تھا، میں حضور ﷺسےگناہاوربرائیوںکےبارےمیںپوچھاکرتاتھاکہانسےاجتنابکرسکوںیایہکہانفتنوںکےبارےمیںپوچھتاتھاجواسدنیامیںظہورپذیرہوسکتےہیںاورجونہصرفاخرویزندگیپراثراندازہوتےہیںبلکہانکےبرےاثراتدنیاویخوشحالی اور
رزق کی وسعت پر بھی پڑتے ہیں اور پوچھنے کی بناء یہ خوف ہوتا تھا کہ کہیں میں ان
فتنوں میں مبتلا نہ ہوجاؤں یا ان کے برے اثرات و اسباب مجھ تک نہ پہنچ جائیں چناچہ
اہل علم سے برائیوں کی واقفیت حاصل کر کے ان سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ایک
بہترین طریق ہے۔ اسی لئے حکماء اور اطبا بلکہ بعض فضلاء نے اس طریق کو بطور اصل
اختیار کیا ہے کہ ازالہ مرض سلسلہ میں پرہیز کو ملحوظ رکھنا دوا استعمال کرنے سے
زیادہ بہتر ہے نیز کلمہ توحید بھی اسی اصول کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے ما سوی اللہ
کی نفی کی گئی ہے اس کے بعد الوہیت کو ثابت کیا گیا) حضرت حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ
اپنی مذکورہ عادت کے مطابق ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ اسلام
سے قبل جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکیبعثتکےصدقہمیںہمیںیہہدایتبخشییعنیاسلامکیروشنیعطافرمائی جس کی وجہ
سے کفر ضلالت کے اندھیرے دور ہوگئے اور ہم گمراہیوں اور برائیوں کے جال سے باہر
آگئے تو کیا اس ہدایت و بھلائی کے بعد کوئی اور برائی وبدی پیش آنے والی ہے؟ حضور ﷺنےفرمایاہاں! (اسبھلائیکےبعدبھیبرائیپیشآنےوالیہے)۔میںنےعرضکیاتوکیااسبرائی کے بعد
پھر بھلائی کا ظہور ہوگا کہ جس کی وجہ سے دین و شریعت کا پھر بول بالا ہوجائے؟ آپ ﷺنےفرمایاہاں! اسبرائیکےبعدپھربھلائیکاظہورہوگالیکناسبرائیکےبعدپھربھلائیکاظہورہوگالیکناسبرائیکےبعدجوبھلائیآئےگیاسمیںکدورتہوگی۔میںنے عرض کیا
کہ اس بھلائی کی کدورت کیا ہوگی؟ آپ ﷺنےفرمایا۔میںنےکدورتکیجوباتکہیہےاسسےمرادیہہےکہایسےلوگپیداہوںگےجومیرےطریقہاورمیریروشکےخلافطریقہوروشاختیارکریںگے۔لوگوںکومیرےبتائےہوئےراستہکےخلافراستہپرچلائیںگے۔اورمیری سیرت اور
میرے کردار کے خلاف سیرت و کردار اپنائیں گے تم ان میں دین دار بھی دیکھو گے اور
بےدین بھی۔ میں نے عرض کیا، کیا اس بھلائی کے بعد پھر کوئی برائی پیش آئے گی؟ آپ ﷺنےفرمایاہاںایسےلوگپیداہوںگےجودوزخکےدروازوںپرکھڑےہوکرمخلوقکواپنیطرفبلائی گے جو
شخص ان کے بلاوے کو قبول کر کے دوزخ کی طرف جانا چاہے گا اس کو وہ دوزخ میں دھکیل
دیں گے یعنی جو شخص ان کے بہکاوے میں آ کر ان گمراہیوں میں مبتلا ہوگا جو دوزخ کے
عذاب کا مستوجب بناتی ہیں تو وہ دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ ان
کے بارے میں وضاحت فرمائیے کہ وہ کون لوگ ہوں گے آیا وہ مسلمانوں ہی میں سے ہوں گے
یا غیر مسلم ہوں گے؟ حضور ﷺنےفرمایا۔وہہماریقوم،ہمارےابناءجنساورہماریملتکےلوگوںمیںسےہوںگےاورہماریزبانمیںگفتگوکریںگے (یعنیوہلوگعربیزبانرکھنےوالےہونگےیایہمراد ہے کہ
ان کی گفتگو قرآن و حدیث کے حوالوں سے مزین اور پند و نصائح سے آراستہ ہوگی اور
بظاہر ان کی زبان پر دین و مذہب کی باتیں ہوں گی مگر ان کے دل نیکی و بھلائی سے
خالی ہوں گے) میں نے عرض کیا کہ تو پھر میرے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے (یعنی اگر
میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو مجھے اس وقت کیا کرنا چاہئے؟ حضور ﷺنےفرمایا۔کتابوسنتپرعملکرنےوالےمسلمانوںکیجماعتکولازمجاننااورانکےامیرکیاطاعتکرنایعنیاہلسنتکےراستہکواختیارکرنااوراہلسنتکاجوامامومقتداہواسکیاطاعتورعایتکوملحوظرکھنا میں نے
عرض کیا کہ اور اگر مسلمانوں کی کوئی مسلمہ جماعت ہی نہ ہو؟ اور نہ ان کا کوئی
متفقہ امیر ومقتدا ہو بلکہ مسلمان مختلف جماعتوں میں منقسم ہوں اور الگ الگ
مقتداؤں کے پیچھے چلتے ہوں تو اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟ آپ ﷺنےفرمایاایسیصورتمیںتمہیںان سب فرقوں
اور جماعتوں سے صرف نظر کر کے یکسوئی اختیار کر لینی چاہئے اگرچہ اس یکسوئی کے لئے
تمہیں کسی درخت کی جڑ میں پناہ کیوں نہ لینی پڑے جنگلوں میں چھپنا کیوں نہ پڑے اور
اس کی وجہ سے سخت سے سخت مصائب وشدائد برداشت کیوں نہ کرنا پڑے اور ان جنگلوں میں
گھاس پھوس کھانے پر قناعت تک کی نوبت کیوں نہ آجائے یہاں تک اسی یکسوئی کی حالت
میں موت تمہیں اپنی آغوش میں لے لے۔
[صحيح البخاري:3606+7084]
اور مسلم کی ایک اور روایت میں
یوں ہے کہ آپ ﷺنےفرمایا:میرےبعدایسےامامیعنیامیربادشاہاورقائدرہنماہوںگےجوعقیدہوفکراورعلمکے اعتبار سے
میری سیدھی راہ پر نہیں چلیں گے اور کردار وعمل کے اعتبار سے میری روش اور میرا
طریقہ نہیں اپنائیں گے یا یہ معنی ہیں کہ وہ کتاب وسنت پر عمل نہیں کریں گے اور اس
زمانہ میں ایسے بھی پیدا ہوں گے جو روپ اور بدن تو آدمیوں جیسا رکھیں گے لیکن ان
کے دل شیطانوں کے سے ہوں گے یعنی وہ لوگ فسق و گمراہی شقاوت سخت دلی، شکوک و شبہات
پیدا کرنے، فریب دینے عقل کے نکمے ہونے اور فاسد خواہشات رکھنے میں انسانیت کی
ساری حدوں کو پار کر جائیں گے اور اس اعتبار سے ان کی شکل کو صورت آدمیوں جیسی
ہونے کے باوجود ان کی سیرت اور ان کی باطنیت شیطان کی سی ہوگی۔ حضرت حذیفہ ؓ کہتے
ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اس زمانہ کو پاؤں تو کیا
کرو؟ آپ نے فرمایا۔ مسلمانوں کا امیر ومقتدا جو کچھ کہے اس کو سننا اور امیر کی
اطاعت کرنا (بشرطیکہ اس اطاعت کا تعلق کسی معصیت سے نہ ہو) اگرچہ تمہاری پشت پر
مارا جائے اور تمہارا مال چھین لیا جائے تب بھی سننا اور طاعت کرنا۔
[صحيح مسلم:1847(4785)]
تشریح:
لفظ شر سے مراد فتنہ، ارکان اسلام میں سستی و کوتاہی واقع
ہوجانا، برائی کا غلبہ پالینا اور بدعت کا پھیلنا ہے اور خیر سے مراد اس کے برعکس
معنی ہیں۔ ہم لوگ جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے کے ذریعہ حضرت حذیفہ ؓ نے بعثت
نبوی سے قبل کے زمانہ کی طرف اشارہ کیا جب توحید کا آفتاب جہالت کے بادلوں میں
چھپا ہوا تھا، نبوت و رسالت کی روشنی نمودار نہیں ہوتی تھی۔ اور احکام الٰہی پر
عمل آوری کا راستہ نظروں سے اوجھل تھا۔ فی جاہلیۃ و شر میں وشر کا لفظ عطف تفسیری
ہے کہ اس لفظ کے ذریعہ جاہلیت کی وضاحت بیان کرنا مقصود ہے یا یہ بھی کہا جاسکتا
ہے کہ اس جملہ میں وشر کے بعد تخصیص کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ دخن جس کا
ترجمہ کدورت کیا گیا ہے۔ دخان (دھواں) کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح فضا
میں پھیلا ہوا دھواں صاف و شفاف چیزوں کو مکدر اور دھندلا بنا دیتا ہے اسی طرح اس
وقت جو بھلائی بھی سامنے آئے گی وہ بدی اور برائی کے گرد و غبار سے آلودہ ہوگی،
بایں طور کہ لوگوں کے دلوں میں صفائی اور خلوص نہیں ہوگا جو اس اسلام کے ابتدائی
زمانہ میں تھا۔ اور عقیدے صحیح اور اعمال صالح نہیں ہوں گے، امراء و سلاطین کا نظم
مملکت اس عدل و انصاف پر مبنی نہیں ہوگا جو پہلے زمانہ میں پایا جاتا تھا مسلمانوں
کے قائد و رہنما مخلص (بےغرض اور دین وملت کے سچے خادم نہیں ہوں گے، برائیوں کا
ظہور ہوگا، بدعتیں پیدا ہوں گی بدکار لوگ نیکو کاروں کے ساتھ اہل بدعت، اہل سنت کے
ساتھ خلط ملط رہیں گے۔ تم ان میں دیندار بھی دیکھو گے اور بےدین بھی کا مطلب یہ ہے
کہ وہ لوگ بھلائی اور برائی دونوں کے ساتھ خلط ملط رکھنے کی وجہ سے متضاد اور
مختلف اعمال و کردار اور طور طریقوں کے حامل ہوں گے؟ ان کی زندگی میں منکر یعنی
بری باتوں کا چلن بھی ہوگا اور معروف یعنی اچھے کاموں کا عمل دخل بھی ہوگا۔ پس یہ
جملہ بھی اسی مفہوم کو واضح کرتا ہے جو ماقبل کے جملوں نعم وفیہ دخن ویستنون بغیر
سنتی سے مراد لیا گیا ہے۔ بعض حضرات نے وضاحت کی ہے کہ اس ارشاد گرامی میں اسلام و
ہدایت کی روشنی کے بعد پیش آنے والی جس پہلی برائی یا فتنہ کی طرف اشارہ کیا گیا
ہے اس سے وہ فتنہ و فساد مراد ہے جو حضرت عثمان غنی ؓ کے سانحہ شہادت کے وقت رونما
ہو اور پھر پیش آنے والی دوسری بھلائی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے مراد حضرت
عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ خلافت ہے، نیز منہم وتنکر یعنی تم ان میں دیندار بھی
دیکھو گے اور بےدین بھی۔ میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے وہ امراء و
سلاطین مراد ہیں جو حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد حکمراں ہوئے چناچہ ان میں سے بعض
ایسے حکمران گزرے جو اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور اپنے نظام سلطنت میں بھی کتاب
وسنت کی ہدایت کو رہنما بناتے تھے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے تھے۔ یا
یہ کہ بعض ان میں سے ایسے تھے جو کبھی تو اچھے کام کرتے تھے اور کبھی خواہشات
نفسانی میں پڑ کر برے کام کرتے تھے، اس وقت ان کے سامنے آخرت کا مفاد اور دار آخرت
کے لئے تیاری کا جذبہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کا اصل مفاد اپنی ذاتی اغراض کو پورا
کرنا اور ہر صورت اپنے اقتدار اور اپنی حکمرانی کو باقی رکھنا ہوتا تھا۔ اور بعض
حضرات یہ کہتے ہیں کہ پہلی برائی سے مراد وہ فتنہ و فساد ہے جو حضرت عثمان غنی ؓ
کے قتل کی صورت میں اور ان کے بعد رونما ہوا اور دوسری بھلائی سے وہ صلح صفائی ہے
جو حضرت امیر معاویہ ؓ اور حضرت حسن ؓ کے درمیان ہوئی اور دخن یعنی کدورت سے مراد
وہ افسوسناک واقعات، حادثات ہیں جو حضرت امیر معایہ ؓ کے زمانے میں بعض امراء کے
ذریعہ رونما ہوئے جیسے عراق میں زیاد کا فتنہ و فساد۔ جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے
ہو کر بلائیں گے یعنی ان مفاد پرست خود غرض اور گمراہ افراد کا ایک گروہ ہوگا جو
لوگوں کو طرح طرح کے فریب اور مختلف لالچ اور بہلادوں کے ذریعہ گمراہی کی طرف
بلائیں گے اور ان کو ہدایت و راستی سے دور رکھے گا۔ پس حضور ﷺنےگمراہیکیدعوتدینےوالوںکیدعوتکواورجنکودعوتدیجائےگیانکیطرفسےاسدعوتکوقبولکئےجانےکوایکایساسببقراردیاہےجسکےذریعہدعوتدینےوالے،دعوتقبولکرنےوالوںکوجہنممیںدھکیلدیںگےاسطرحوہلوگانکیمکروفریبدعوتکاشکار ہو کر
جہنم میں پہلے جائیں گے، نیز آپ ﷺنےگویامکروفریبکیتماماقساماورتمامصورتوںکوجہنمکےدروازوںکاقائممقامقراردیاہے۔بعضحضراتنےیہکہاہےکہیہاںجنافرادکیطرفاشارہکیاگیاہےکہوہلوگوںکوگمراہیکیطرفبلائیںگےانسےوہجاہپسند اور
حکومت و اقتدار کے طلبگار مراد ہیں جو ملک وقوم پر اپنا تسلط قائم کرنے اور اقتدار
پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے گروہ بنائیں گے اور عام لوگوں کو طرح طرح کے فریب دے کر
اپنے گرد جمع کریں گے تاکہ ان کی اجتماعی طاقت کے ذریعہ ملی سیادت اور ملک و حکومت
پر قبضہ کرسکیں، جیسا کہ خوارج اور روافض جیسے گمراہ فرقے اس ناپاک مقصد کے لئے
پیدا ہوئے حالانکہ امارت وسیادت اور امانت و ولایت کی کوئی بھی شرط وخصوصیت ان میں
موجود نہیں پائی جائے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل وضاحت ہے کہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ
وہ و دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے۔ تو دوزخ کے
دروازوں پر کھڑے ہونا، مال کار کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے یعنی گمراہی کی طرف ان
لوگوں کے بلانے کا مآل کار چونکہ یہ ہوگا کہ جو لوگ ان کے بلانے پر ان کی طرف چلے
جائیں گے وہ دوزخ کے عذاب کے مستوجب بنیں گے۔ اس لئے گمراہی کی طرف ان کے بلانے کو
دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پس یہ ارشاد گرامی
اسلوب کے اعتبار سے قرآن کریم اس آیت کی طرح ہے کہ (اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ
اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا) 4۔
النساء 10) مسلم کی روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی ایسے ملک میں
رہتے ہو جہاں مسلمانوں کا باقاعدہ نظم سلطنت قائم ہے اور مسلمانوں کا امیر و امام
موجود ہے تو وہاں کے سیاسی حالات میں تمہارے لئے کتنی ہی تنگی و سختی کیوں نہ ہو
اور اس امیر و امام کی طرف سے تمہارے مال اور تمہاری جان کے تئیں ظلم ہی کیوں نہ
ہوتا ہو یا تمہیں مارا پیٹا اور تمہارا مال و اسباب چھینا کیوں نہ جاتا ہو، تم اس
امیر و امام کے خلاف علم بغاوت ہرگز بلند نہ کرنا اور فتنہ و فساد کے دروازے نہ
کھولنا بلکہ صبر و تحمل کی راہ اختیار کئے رہنا اور سخت سے سخت حالات میں بھی امام
وقت سے بغاوت کر کے دین وملت کے شیرازہ کو منتشر کرنے کا سبب نہ بننا رہی بات یہ
کہ اگر وہ امیر و امام مشروع امور کے ارتکاب کا حکم دے؟ تو اس صورت میں مسئلہ یہ
ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ہاں اگر ان مشروع امور کے ارتکاب کے لئے کہا جائے کہ
حکم عدولی کی صورت میں بھی اولیٰ کو اختیار کرنے کا جواز باقی رہتا ہے یعنی حکم
عدولی کی صورت میں جان جانے کا خوف ہو تو غیر مشروع امر کا ارتکاب کیا جاسکتا ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص جان کی بازی لگا کر بھی غیر مشروع امر کے ارتکاب سے انکار کرے تو
یہ سب سے اچھی بات ہوگی۔ اور اس سب سے اعلی درجہ کو اختیار کرنے کا جواز ہے۔ آخر
میں فاسمع واطع کے الفاظ جو دوبارہ ارشاد فرمائے گئے ہیں ان سے اس حکم کو مؤ کد
کرنا مقصود ہے کہ اپنے کو امام وقت کی اطاعت سے علیحدہ نہ کیا جائے اور سرکشی و
بغاوت کے ذریعہ ملک وملت میں انتشار و تفریق کا فتنہ نہ اٹھایا جائے۔
حدیث نمبر 5
اس سے قبل کہ فتنوں کا ظہور ہو، اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنی زندگی مستحکم کر لو:
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺنےفرمایا:اعمالصالحہمیںجلدیکروقبلاسکےکہوہفتنےظاہرہوجائیںجوتاریکراتکےٹکڑوںکیمانندہوںگےاورانفتنوںکااثرہوگاکہآدمیصبحکوایمانکیحالتمیںاٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا اور
شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا، نیز اپنے دین و مذہب کو دنیا
کی تھوڑی سی متاع کے عوض بیچ ڈالے گا۔ ]صحيح مسلم:118، سنن الترمذي:2195]
تشریح: اعمال صالحہ میں جلدی کرو کی ہدایت کا حاصل یہ ہے کہ اس تغیر
پذیر دنیا کو کسی ایک رخ پر قرار نہیں اور وقت حالت کا بہاؤ ایک ہی سمت نہیں رہتا،
اگر اب ایسے حالات ہیں جو عقیدہ و عمل کا رخ صحیح سمت رکھنے میں معاون بنتے ہیں تو
بعد میں ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں جو فکر ونظریات اور عقیدہ وعمل کا سفر
ٹھیک رخ پر جاری رکھنے میں زبر دست رکاوٹ پیدا کردیں اور ایسے میں کم ہی انسان
ایسے ہوتے ہیں جن کے ذہن وفکر اور دل و دماغ ان حالات کی تاثیر سے محفوظ رہ پائیں
اور جن کے اعمال صالحہ میں رکاوٹ نہ پیدا ہوتی ہو، پس جس شخص کو جو بھی موقع ملے
اس میں اچھے کام اور نیک عمل کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور جس قدر بھی اعمال کئے
جاسکتے ہوں کر لئے جائیں کیونکہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا وقت کیا فتنے لے
کر آئے اور پھر اعمال صالحہ اختیار کرنے کا موقع بھی مل سکے یا نہیں۔ فتنوں کو
اندھیری رات کے ٹکڑوں سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے فتنوں کے
بارے میں کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکے گا کہ وہ کب اور کیوں نمودار ہوں گے اور ان
سے چھٹکارے کی راہ کیا ہوگی، لہٰذا ان آنے والے فتنوں سے پہلے ہی اعمال صالحہ کے
ذریعے اپنی دینی زندگی کو مضبوط ومستحکم بنا لو، آنے والے وقت کا انتظار نہ کرو
کیونکہ اس وقت دین و شریعت کے تعلق سے سخت ترین آفات و مصائب میں اس طرح گم ہو کر
رہ جاؤ گے کہ نیک کام کرنے کا موقع ہی نہ پا سکو گے۔ وہ وقت لوگوں کے ذہن وفکر اور
اعمال و کردار پر کتنا برا اثر ڈالے گا اور وہ فتنے کس قدر سریع الاثر ہوں گے اس
کی طرف اشارہ فرمایا کہ مثلا آدمی جب صبح کو اٹھے گا تو ایمان یعنی اصل ایمان یا
کمال ایمان کے ساتھ متصف ہوگا لیکن شام ہوتے ہوتے کفر کے اندھیروں میں پہنچ جائے
گا۔ رہی یہ بات کہ کفر سے کیا مراد ہے؟ تو ہوسکتا ہے کہ اصل کفر مراد ہو، یعنی وہ
شخص واقعۃ کفر کے دائرہ میں داخل ہوجائے گا یا یہ مراد ہے کہ وہ کفران نعمت کرنے والا
ہوجائے گا، یا وہ کافروں کی مشابہت اختیار کرلے گا اور یا یہ کہ وہ ایسے کام کرنے
لگے گا جو صرف کافر ہی کرتے ہیں۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ جملہ کے
معنی یہ ہیں کہ مثلا ایک شخص جب صبح کو اٹھے گا تو اس چیز کو حلال جانتا ہوگا جس
کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس چیز کو حرام جانتا ہوگا جس کو اللہ
تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، لیکن شام ہوتے ہوتے اس کے ذہن وفکر اور اس کے عقیدے
میں اس طرح انقلاب آجائے گا کہ وہ اس چیز کو حرام سمجھنے لگے گا جس کو اللہ تعالیٰ
نے حلال قرار دیا ہے اور اس چیز کو حلال سمجھنے لگے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام
قرار دیا ہے۔ اس پر جملہ کے دوسرے جزء یعنی شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کفر کی
حالت میں ا تھے گا۔ کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اور حاصل یہ ہے کہ عام لوگ ان
فتنوں کی وجہ سے دین و شریعت کے معاملات میں تذبذب وتردد کا شکار ہوجائیں اور نام
نہاد دانشور و عالم اور دنیادار مقتداؤں کے پیچھے چلنے لگیں گے۔ مظہر نے کہا ہے کہ
مذکورہ صورت حال کے کئی وجوہ و اسباب اور مختلف مظاہر ہوں گے ایک تو یہ مسلمانوں
میں تفرقہ پڑجائے گا اور وہ مخالف گروہوں میں بٹ جائیں گے۔ پس ان کے درمیان محض
عصبیت اور بغض وعناد کی وجہ سے خونریزی ہوگی اور دونوں گروہوں کے لوگ اپنے مخالفین
کے جان و مال کو نقصان پہنچانے اور ایک دوسرے کی آبرو ریزی کرنے کو حلال و جائز
جانیں گے، دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے حاکم و امراء ظلم وجور کا شیوہ اپنا لیں گے۔
چناچہ وہ مسلمانوں کا ناحق خون بہائیں گے، زور زبردستی ان کا مال لیں گے زنا کاری
کریں گے، شراب پئیں گے اور دوسرے حرام امور کا ارتکاب کریں گے، لیکن ان کی صریح
زیادتیوں اور بدکاریوں کے باوجود بعض لوگ یہ عقیدہ رکھیں گے اور دوسرے حرام امور
کا ارتکاب کریں گے، لیکن ان کی بدعقیدگی کے اس فتنہ میں مبتلا کرنے والے وہ نام
نہاد علماء ہوں گے جن کو علماء سو کہا جاتا ہے۔ ان کی طرف سے بےمحابا ان امراء و
حکام کے ان کاموں کے جواز کا فتوی دیا جائے گا جو وہ مسلمانوں کی خونریزی اور حرام
امور کے ارتکاب کی صورت میں کریں گے اور تیسرے یہ کہ عام مسلمانوں میں جہالت اور
دین کی ناواقفیت کی وجہ سے جو برائیاں پھیل جائیں گی اور ان سے جن غیر شرعی امور
کا صدور ہوگا جیسے خریدو فروخت کے معاملات اور دوسرے سماجی امور و تعلقات میں دین
و شریعت کے احکام کی خلاف ورزی، ان کو حلال و جائز مانیں گے۔ اور حضرت شیخ عبدالحق
نے یہ لکھا ہے کہ مذکورہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوگی کہ لوگ اپنے اغراض و منافع
کی خاطر، دنیادار امراء و حکام اور اہل دولت و ثروت سے میل جول رکھیں گے ان سے
حاجت روائی کی امید میں ان کے ہاں گھستے پھریں گے ان کی حاشیہ نشینی اور مصاحبت کو
بڑا اعزاز سمجھیں گے، پس اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ان کے تابع محض اور جی حضوری
بن جائیں گے اور ان کے خلاف شریعت امور و معاملات میں ان کی موافقت تائید کرنے پر
مجبور ہوں گے۔ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا الخ کے ایک معنی یہ ہوسکتے
ہیں کہ آدمی صبح کو اٹھے گا تو اپنے مسلمان بھائی کے خون اور مال وعزت کے حرام
ہونے کا عقیدہ رکھنے کے سبب ایمان کی حالت میں ہوگا مگر شام ہوتے ہوئے اس کے عقیدے
میں تبدیلی آجائے گی اور وہ اپنے مسلمان بھائی کے خون اور مال کو حلال سمجھنے لگے
گا اور اس کے سبب وہ کافر قرار دیا جائے گا یہ معنی اختیار کرنے کی صورت میں فتنوں
سے مراد جنگ و قتال ہوگا۔ لیکن اس جملہ کے جو معنی پہلے بیان کئے گئے ہیں وہ حضور ﷺکےارشادگرامیکےزیادہمناسبہیں۔
حدیث نمبر 6
فتنوں کے ظہور کے وقت گوشہ عافیت میں چھپ جاؤ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: عنقریب فتنے پیدا ہوں گے یعنی جلد ہی ایک بڑا فتنہ سامنے آنے والا ہے یا یہ کہ پے بہ پے یا تھوڑے تھوڑے وقفہ سے بہت زیادہ فتنوں کا ظہور ہونے والا ہے ان فتنوں میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا سعی کرنے والے (یعنی کسی سواری کے ذریعہ یا پاپیادہ دوڑنے والے اور جلدی چلنے والے) بہتر ہوگا اور جو شخص فتنوں کی طرف جھانکے گا فتنہ اس کو اپنی طرف کھینچ لے گا پس جو شخص ان فتنوں سے نجات کی کوئی جگہ یا اس سے بھاگنے کا کوئی راستہ یا پناہ گاہ پائے اور یا کوئی ایسا آدمی اس کو مل جائے جس کے دامن میں وہ ان ان فتنوں سے پناہ لے سکتا ہو تو اس شخص کو چاہئے کہ اس کے ذریعہ پناہ حاصل کرلے یعنی اگر ان فتنوں سے بھاگنے کا کوئی راستہ مل سکتا ہو تو فتنوں کی جگہ سے نکل بھاگے یا کوئی ایسی جگہ اس کو معلوم ہو کہ جہاں چھپ جانے کی وجہ سے ان فتنوں سے پناہ مل سکتی ہو تو وہاں جا کر چھپ جائے اور یا اگر کوئی آدمی اپنے سایہ عاطفت میں پناہ دینے والا مل سکتا ہو تو پاس جا کر پناہ گزین ہوجائے۔
[صحيح البخاري:3601+7081+7082، صحيح مسلم:2886]
اور مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی فتنہ ظاہر ہوگا تو اس فتنہ میں سونے والا شخص (جو اس فتنہ سے غافل اور بیخبر ہو اور اس کے بارے میں اطلاعات نہ سنتا ہو) جاگنے والے (یعنی اس فتنہ کو جاننے اور اس کی خبر رکھنے والے سے بہتر ہوگا، جاگنے والا شخص کہ خواہ وہ لیٹا ہوا ہو یا بیٹھا ہوا) کھڑا رہنے والے سے بہتر ہوگا اور اس فتنہ میں کھڑا ہونے والا شخص اس فتنہ میں سعی کوشش کرنے والے سے بہتر ہوگا (یہاں سعی کا لفظ مشی یعنی چلنے والے کے معنی میں ہے اور کسی چیز کی طرف چلنا گویا اس چیز کے حق میں سعی و کوشش کرنے کے مترادف ہوتا ہے، صراح میں لکھا ہے کہ سعی کے معنی ہیں دوڑنا، جلدی کرنا اور کسی چیز کے حق میں محنت وعمل کرنا پس اس فتنہ میں سعی کرنے والے سے مراد اس فتنہ میں مدد و تعاون دینا اور اس کے حق میں سعی و کوشش کرنا ہے، لہٰذا جو شخص اس فتنہ سے بھاگنے کا راستہ یا اس سے پناہ کی جگہ پائے تو اس کو چاہئے کہ وہاں جا کر پناہ حاصل کرلے۔ [صحيح مسلم:2886(7249)]
تشریح:
فتنہ میں بیٹھنے والا، کھڑے ہونے والے سے اس لئے بہتر ہوگا کہ کسی چیز کے پاس کھڑے رہنے والا شخص اس چیز سے زیادہ قربت اور مناسبت رکھتا ہے کہ وہ اس چیز کو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے جب کہ ادھر ادھر بیٹھا رہنے والا شخص اس چیز کو نہ دیکھتا ہے نہ سنتا ہے لہٰذا فتنوں میں کھڑا رہنے والا شخص ان کو دیکھنے اور سننے کی وجہ سے کہ جن کو بیٹھا ہوا شخص نہیں دیکھے، سنے گا عذاب سے زیادہ قریب ہوگا، ہوسکتا ہے کہ اس جملہ میں بیٹھنے والے شخص سے مراد وہ شخص ہو جو اس زمانہ میں ظاہر ہونے والے فتنہ کا محرک نہ ہو بلکہ اس سے دور رہ کر اپنے مکان میں بیٹھا رہے اور باہر نہ نکلے اور کھڑے ہونے والے سے مراد وہ شخص ہو جس کے اندر اس فتنہ کے تعلق سے کوئی داعیہ اور تحریک تو ہو مگر فتنہ انگیزی میں متردد ہو۔ جو شخص فتنوں کی طرف جھانکے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان فتنوں کی طرف متوجہ ہوگا اور ان کے نزدیک جائے گا تو اس کی وہ توجہ اور نزدیکی اس کے ان فتنوں میں مبتلا ہوجانے کا باعث ہوگی، لہٰذا ان فتنوں کی برائیوں سے بچنے اور ان کے جال سے خلاصی پانے کی صورت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگی کہ ان فتنوں سے جتنا زیادہ دور رہنا ممکن ہو اتنا ہی زیادہ دور رہا جائے۔
حدیث نمبر 7
حضرت ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺنےفرمایا:اسمیںکوئیشبہنہیںکہعنقریبفتنوںکاظہورہوگا،یادرکھوپھرفتنےپیداہوںگےاوریادرکھوانفتنوںمیںسےایکبہتبڑافتنہ (یعنیمسلمانوںکیباہمیمحاذآرائیاورخونریزیکاحادثہپیشآئےگا،اسفتنہ میں بیٹھا ہوا شخص چلنے والے شخص
سے بہتر ہوگا اور چلنے والا شخص اس فتنہ کی طرف دوڑنے والے شخص سے بہتر ہوگا۔ پس
آگاہ رہو! جب وہ فتنہ پیش آئے تو جس شخص کے پاس جنگل میں اونٹ ہوں اوہ اپنے اونٹوں
کے پاس جنگل میں چلا جائے جس شخص کے بکریاں ہوں وہ بکریوں کے پاس چلا جائے اور جس
شخص کے پاس اس فتنہ کی جگہ کہیں دور کوئی زمین ومکان وغیرہ ہو وہ اپنی اس زمین پر
یا اس مکان میں چلا جائے۔ (حاصل یہ کہ جس جگہ وہ فتنہ ظاہر ہو وہاں نہ ٹھہرے بلکہ
اس جگہ کو چھوڑ کر کہیں دور چلا جائے اور گوشہ عافیت پکڑ لے یا اس فتنہ سے غیر
متوجہ ہو کر اپنے کاروبار میں مشغول ومنہمک ہوجائے ایک شخص نے یہ سن کر عرض کیا کہ
یا رسول اللہ! مجھے یہ بتائیے کہ اگر کسی شخص کے پاس نہ اونٹ ہوں نہ بکریاں اور نہ
کسی دوسری جگہ کوئی زمین ومکان وغیرہ ہو جہاں وہ جا کر گوشہ عافیت اختیار کرے اور
اس فتنہ کی جگہ سے دور رہ سکے تو اس کو کیا کرنا چاہئے۔ حضور ﷺنےفرمایا۔اسکوچاہئےکہوہاپنیتلوارکیطرفمتوجہہواوراسکوپتھرپرمارکرتوڑڈالے۔ (یعنیاسکےپاسجوبھیآلاتحرباورہتھیارہوںانکوبےکاراورناقابلاستعمالبنادےتاکہاسکےدلمیںجنگوپیکارکاخیالہیپیدا نہ ہو اور وہ مسلمانوں کے باہمی
جنگ وجدل کے اس فتنہ میں شریک ہی نہ ہو سکے۔ یہ حکم اس لئے ہے کہ جس لڑائی میں
دونوں طرف سے مسلمان برسرپیکار ہوں اور ایک دوسرے کی خونریزی کر رہے ہوں، اس میں
شریک نہیں ہونا چاہئے۔ اور پھر اس شخص کو چاہئے کہ اگر وہ فتنہ کی جگہ سے بھاگ سکے
تو جلد نکل بھاگے۔ تاکہ وہ اس فتنہ کے اثرات سے محفوظ رہ سکے۔ اس کے بعد آپ ﷺنےفرمایا۔اےاللہمیںنےتیرےاحکامتیرےبندوںکوپہنچادیئے۔یہالفاظآپﷺنےتینبارفرمائےایکشخصنےعرضکیاکہیارسولاللہﷺ! مجھیہبتائیےکہاگرمجھےمجبورکرکے یعنی زور و زبردستی سے لڑنے والے دونوں فریق
میں سے کسی ایک فریق کی صف میں لے جایا جائے اور وہاں سے کسی شخص کی تلوار سے مارا
جاؤں یا کسی کا تیر آ کر مجھ کو لگے جو مجھے موت کی آغوش میں پہنچا دے تو اس صورت
میں قاتل اور مقتول کا کیا حکم ہوگا۔ آپ ﷺنےفرمایا۔ تمہارا وہ
قاتل اپنے اور تمہارے گناہ کے ساتھ لوٹے گا اور دوزخیوں میں شمار ہوگا۔
]صحيح مسلم:2887، المستدرك على الصحيحين للحاكم:8361]
تشریح علماء اسلام کے ہاں یہ ایک طویل بحث ہے کہ اگر افتراق و انتشار
کا کوئی فتنہ ابھر آئے اور کچھ مسلمان دو فریق میں تقسیم ہو کر آپس میں جنگ وجدال
کرنے لگیں تو اس وقت باقی مسلمانوں کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے؟ اہل علم کی ایک
جماعت کا یہ کہنا ہے کہ افتراق و انتشار اور مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی کی صورت
میں کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ قتل و قتال میں شریک ہو، بلکہ جب
مسلمانوں کے دو فریق آپس میں جنگ وجدال کریں تو اس میں شامل ہونے سے احتراز کرنا
اور دونوں فریق سے یکسوئی وغیرہ جانب داری اختیار کر کے گوشہ عافیت پکڑنا واجب ہے۔
ان حضرات کی دلیل مذکورہ بالا ارشاد گرامی اور اس طرح کی دوسری احادیث ہیں۔ مشہور
صحابی حضرت ابوبکر ؓ اور بعض دوسرے صحابہ ؓ کا مسلک بھی یہی تھا۔ حضرت ابن عمر ؓ
کا قول یہ ہے کہ خونریزی کی ابتدا خود نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی خونریزی کرے
تو اس کا دفعیہ کرنا لازم ہے جمہور صحابہ ؓ اور تابعین کا مسلک یہ ہے کہ اگر
مسلمانوں میں باہمی پھوٹ پڑجائے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو کر قتل و
قتال کرنے لگیں تو اس فریق کی حمایت کرنی چاہئے جو حق و انصاف پر ہو اور جو فریق
ظلم وناانصافی کی راہ اختیار کئے ہوئے ہو یا مسلمانوں کے امام و سردار سے بغاوت کر
کے ملی افتراق و انتشار کا سبب بن رہا ہو اس کے خلاف قتال کرنا چاہئے کیونکہ اگر
ایسا نہ کیا گیا تو فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوجائے گا اور بغاوت و سرکشی کرنے
والوں کی ہمت افزائی ہوگی۔ اس مسلک کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔ آیت
(وَاِنْ طَا ى ِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا) 49۔ الحجرات 9) چناچہ
آیت کریمہ اس امر کو واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ جب مسلمانوں کے دو دو فریق باہمی
قتل و قتال اور خونریزی میں مبتلا ہوں تو ان کے درمیان صلح و صفائی کرانی چاہئے
اور دونوں فریق کو اس فتنہ و انتشار سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہے۔ لیکن اگر ان
دونوں میں سے کوئی فریق دوسرے فریق کے تئیں حد سے تجاوز کرے اور اس فتنہ کو جاری
رکھنے اور بھڑکانے میں مصروف رہے تو پھر اس فریق کے خلاف کہ جو حد سے متجاوز اور
فتنہ کو بھڑکانے کا باعث بن رہا ہو تلوار اٹھا لینی چاہئے اور اس کے ساتھ قتال
کرنا چاہئے تاکہ وہ راہ حق پر آجائے۔ اپنے اور تمہارے گناہ کے ساتھ لوٹے گا کے دو
معنی بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ اس شخص پر دو گناہ ہوں گے ایک گناہ تو اس کے
اس عمل کا کہ اس نے حقیقت میں تمہیں مارا اور دوسرا تمہارا گناہ بایں اعتبار کہ
اگر بالفرض تم اس کو مارتے اور اس کا گناہ تمہیں ہوتا تو گویا وہ گناہ بھی اس کے
سر ڈال دیا جائے گا۔ پس از راہ زجر و توبیخ اس امر کو واضح کیا گیا ہے کہ اس فتنہ
میں کسی ایسے مسلمان کو قتل کرنے کا گناہ کہ جو اس جنگ سے بیزار ہو مگر مجبورا اس
میں شریک ہوگیا ہو الضاعف یعنی دو گناہ ہو کر سر پڑے گا۔ اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ
اس شخص پر دو گناہ ہوں گے، ایک گناہ تو اس بغض و عداوت کا جو وہ مسلمانوں سے رکھتا
تھا اور جس کے سبب تمہارا قتل ہوا اور دوسرا گناہ تمہارے قتل کا جو اس سے سرزد
ہوا۔ اور دوزخیوں میں شمار ہوگا اس کے بعد دوسرا جملہ یہ ہونا چاہئے تھا۔ کہ اور
تم جنتیوں میں سے ہوگے۔ لیکن حضور ﷺنےدوسراجملہارشادنہیںفرمایاکیونکہمذکورہپہلےجملہسے یہ مفہوم خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔
حضرت ابوسعید ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے جب کہ ایک مسلمان کے لئے اس کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑی پر بارش برسنے کی جگہ چلا جائے اور فتنوں سے بھاگ کر اپنا دامن بچا لے۔
[صحيح البخاري:19+7088، سنن ابن ماجه:3980، سنن أبي داود:4267]
تشریح:
اس حدیث کا مطلب بھی یہ تلقین کرنا ہے کہ جب ایسے فتنے رونما ہوں جن سے مسلمانوں میں باہمی افتراق و انتشار اور جنگ وجدل کی وبا پھیل جائے اور ایسا ماحول پیدا ہوجائے جس میں دین کو بچانا مشکل ہو تو اس وقت نجات کی راہ یہی ہوگی کہ گوشہ تنہائی اختیار کرلیا جائے اور جس قدر ممکن ہو سکے اپنے آپ کو دنیا والوں سے الگ تھلگ کرلے، چناچہ فرمایا کہ ایسے میں سب سے بہتر صورت یہ ہوگی کہ ایک مسلمان بس چند بکریوں کا مالک ہو اور وہ ان بکریوں کو لے کر کہیں دور جنگل میں یا پہاڑ پر کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں کوئی چراگاہ اور پانی ملنے کا ذریعہ ہو اور وہاں ان بکریوں کو چرا کر ان کے دودھ کی صورت میں بقدر حیات غذائی ضروریات پر قناعت کر کے اپنی زندگی کے دن گزارتا رہے، تاکہ نہ دنیا والوں کے ساتھ رہے اور نہ دین کو نقصان پہنچانے والے فتنہ میں مبتلا ہو۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ نے فرمایا: میری امت کی ہلاکت قریش کے چند نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔
[صحيح البخاري:7058]
تشریح:
اس حدیث میں امت سے مراد صحابہ کرام اور اہل بیت نبی ﷺ ہیں جو امت کے سب سے بہتر و افضل افراد تھے۔ اور لفظ غلمۃ غلام کی جمع ہیں جس کے معنی نوجوان کے ہیں اور صراح میں لکھا ہے کہ غلام کے معنی لڑکے کے ہیں نیز واضح رہے کہ غلام کا لفظ اصل میں غلم اور اغتلام سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں شہوت کا جوش و غلبہ بہرحال یہاں غلمۃ (نوجوانوں) سے مراد وہ چھوٹی عمر کے نوجوان ہیں جو غیر سنجدیدہ اور بیباک ہوتے ہیں بڑوں، بزرگوں کا ادب و احترام نہیں کرے اور ہل علم و دانش اور باوقار لوگوں کی عظمت کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ پس آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی میں قریش کے جن نوجوانوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے ان سے قریش سے نسلی تعلق رکھنے والے دین وملت کے وہ بدخواہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے جاہ و سلطنت اور ذاتی اغراض حاصل کرنے کے لئے حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ کو شہید کیا اور ان کی ہلاکت کا باعث بنے یا جنہوں نے اس وقت ملت میں افتراق و انتشار اور ظلم و بغاوت کا فتنہ پیدا کیا نیز مجمع البحار میں لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں لوگوں کو تعین وتشخص کے ساتھ جانتے تھے لیکن اس حدیث کو بیان کرتے وقت، فتنہ وشرانگیز کے خوف سے ان لوگوں کے نام ظاہر نہیں فرماتے تھے اور وہ لوگ بنو امیہ کے عبداللہ بن زیاد اور ان جیسے دوسرے نوجوان، حجاج بن یوسف جو عبدالملک بن مراوان کا میرالامراء بنا سلیمان بن عبدالملک جیسے نوخیز اور ان کی اولاد میں سے دوسرے افراد تھے جنہوں نے اس حد تک فتنہ و فساد کا بازار گرم کیا کہ اہل بیت نبوی کو بےپناہ مظالم کا شکار بننا اور جام شہادت نوش کرنا پڑا بڑے اونچے درجہ کے مہاجر اور انصار صحابہ کرام کو بڑی مظلومیت کے ساتھ اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایسی ایسی خونریزیاں ہوئیں اور جان ومال کا اس قدر نقصان ہوا کہ زمین و آسمان کانپ گئے چناچہ ان لوگوں کے وہ سیاہ کارنامے تاریخ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ وہ وقت بھی آنے والا ہے جب زمانے ایک دوسرے کے قریب ہوں گے علم اٹھا لیا جائے گا، فتنے پھوٹ پڑیں گے بخل ڈالا جائے گا اور ہرج زیادہ ہوگا۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ ہرج کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قتل قتل۔
[صحيح البخاري:6037، صحيح مسلم:157، سنن أبي داود:4255]
تشریح:
زمانے ایک دوسرے کے قریب ہوں گے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ کہ اس وقت دنیا کا زمانہ اور آخرت کا زمانہ ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گے، اس صورت میں قیامت کا قریب ہونا مراد ہوگا یا اس جملہ سے مراد زمانہ والوں میں سے بعض کا بعض کے ساتھ برائی اور بدی کے تعلق سے قریب ہونا ہے۔ یعنی اس زمانہ میں جو برے اور بدکار لوگ ہوں گے وہ ایک دوسرے کے قریب و نزدیک آجائیں گے، یا یہ مطلب ہے کہ خود زمانہ کے اجزاء بدی و برائی کے اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب اور مشابہ ہوں گے یعنی ایک زمانہ برائی اور بدی کا ماحول لئے ہوئے آئے گا اور اس کے بعد پھر دوسرا زمانہ بھی اسی طرح آئے گا، یا یہ مطلب ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں حکومتیں دیر پا نہیں ہوں گی اور مختلف انقلابات اور عوامل بہت مختصر مختصر عرصہ میں حکومتوں کو بدلتے رہیں گے۔ اور بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا کہ آخر میں جو زمانہ آئے گا اس میں لوگوں کی عمریں بہت چھوٹی چھوٹی ہوں گی اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ جملہ دراصل گناہوں کے سبب زمانہ سے برکت کے ختم ہوجانے سے کنایہ ہو، یعنی آخر زمانہ میں جب کہ گناہوں کی کثرت ہوجائے اور لوگ دین شریعت کے تقاضوں اور اللہ وآخرت کے خوف سے بےپرواہ ہو کر عیش و عشرت اور راحت و غفلت میں پڑجائیں گے تو زمانہ سے برکت نکل جائے گی اور اس کے شب و روز کی گردش اتنی تیز اور دن رات کی مدت اتنی مختصر محسوس ہونے لگے گی کہ سالوں پہلے گزرا ہوا کوئی واقعہ کل کی بات معلوم ہوگا اور ہر وقت کی کمی کا شکوہ رنج نظر آئے گا۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ آخر زمانہ میں وقت اس طرح جلدی گزرے گا کہ ایک سال ایک مہینے کے برابر اور ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر معلوم ہوگا۔ علم اٹھا لیا جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ میں مخلص، با عمل اور حقیقی علم کے حامل اٹھا لئے جائیں گے اور اس طرح حقیقی علم مفقود ہوجائے گا نیز مختلف علمی فتنوں کا اندھیرا اس طرح پھیل جائے گا کہ علماء سو کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوگا اور ہر طرف ایسا محسوس ہوگا جیسے علم کا چراغ گل ہوگیا ہے اور جہالت ونادانی کی تاریکی طاری ہوگئی ہے۔ بخل ڈالا جائے گا مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں لوگوں میں بخل کی خصلت نہایت پختہ ہوجائے گی اور یہ چیز یعنی بخل کی برائی ایک عام وبا کی طرح پھیل جائے گی، نیز لوگ اس بخل کے یہاں تک تابع ہوجائیں گے کہ صنعت وحرفت والے اپنی صنعتی اشیاء کو بنانے اور پیدا کرنے میں بخل وتنگی کرنے لگیں گے اور مال کی تجارت و لین دین کرنے والے لوگ اپنے مال کو چھپا کر بیٹھ جائیں گے یہاں تک کہ ضروری اشیاء کو بھی فراہم کرنے اور دینے سے انکار کرنے لگیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بخل ڈالا جائے گا سے لوگوں میں اصل بخل کا پایا جانا مراد نہیں ہے کیونکہ اصل بخل تو انسان کی جبلت میں پڑا ہوا ہے اور اس اعتبار سے یہ بات پہلے زمانہ کے لوگوں کے بارے میں بھی نہیں کی جاسکتی کہ ان میں سرے سے بخل کا وجود نہیں تھا۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہیں کیا جاسکتا چونکہ اصل بخل انسان کی جبلت میں پڑا ہوا ہے اس لئے کوئی بھی شخص نہ پہلے زمانوں میں اس خصلت سے کلیۃ محفوظ رکھ سکتا ہے اور جیسا کہ اس آیت (وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِه فَاُولٰ ى ِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) 64۔ التغابن 16) سے واضح ہوتا ہے ایسے پاک نفس انسان سے پہلے بھی گزرے ہیں اب بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی موجود رہیں گے یہ اور بات ہے کہ زمانہ کے اثرات کی وجہ سے ایسے پاک نفسوں کی تعداد ہر آنے والے زمانہ میں پہلے سے کم ہوتی جائے۔ ہرج کے معنی ہیں فتنہ اور خرابی میں پڑنا اور جیسا کہ قاموس میں لکھا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہرج اناس تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں لوگ فتنے میں پڑگئے اور قتل و اختلاط یعنی خونریزی اور کاموں کے خلط ملط ہوجانے کی وجہ سے اچھے برے کی تمیز نہ کرسکنے کی آفت میں مبتلا ہوگئے پس اس ارشاد گرامی ہرج سے مراد خاص طور پر وہ قتل و خونریزی ہے جو مسلمانوں کے باہمی افتراق واتنشار کے فتنہ کی صورت میں اور اچھے برے کاموں کی تمیز مفقود ہونے کی وجہ سے پھیل جائے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے پوری دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک لوگوں پر ایسا دن یعنی بدامنی و انتشار فتنہ و فساد کی شدت انتہا سے بھرا ہوا وہ دور نہ آجائے جس میں نہ قاتل کو یہ معلوم ہوگا کہ اس نے مقتول کو کیوں قتل کیا اور نہ مقتول یا اس کے ورثاء متعلقین کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا۔ پوچھا گیا کہ یہ کیونکر ہوگا یعنی اس کی وجہ کیا ہوگی کہ قتل کا سبب نہ قاتل کو معلوم ہوگا نہ مقتول کو؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہرج کے سبب، نیز قاتل و مقتول دونوں دوزخ میں جائیں گے۔
[صحيح مسلم:2908، مستخرج أبي عوانة:12675]
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگوں کے دل و دماغ سے فتنہ و فساد اور تقل و غارت گری کی برائی کا احساس اس طرح ختم ہوجائے گا کہ نہ تو قاتل بتاسکے گا کہ اس نے مقتول کا خون کس مقصد سے بہایا ہے اور نہ مقتول اور اس کے ورثاء ومتععلقین کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کی جان کس دنیاوی غرض ومقصد کے تحت یا کس شرعی وجہ کی بناء پر ماری گئی ہے ایسا اندھیرا پھیل جائے گا کہ بس شکوک و شبہات اور ذرا ذرا سے واہموں پر انسان کا قیمتی خون بےدریغ بہایا جانے لگے گا اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ کون شخص حق پر ہے اور کون باطل پر، بلا تشخیص وتمیز جو جس کو چاہے گا موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ موجودہ زمانے کے حالات دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ مذکورہ صورت حال کا ظہور نہیں ہوگیا ہے۔ ہرج کے سبب سے کا مطلب یہ ہے کہ اس اندھے قتل و غارت گری کا باعث جہالت ونادانی کی وہ تاریکی ہوگی جو پورے ماحول کو فتنہ و فساد اور بدامنی سے بھر دے گی، شرارت پسندوں اور بلوائیوں کا عروج ہوگا، اخلاقی سرکاری قوانین کی گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ اچھے برے کاموں کی تمیز مٹ جائے گی، حق و باطل باہم خلط ملط ہوجائیں گے او دل و دماغ سے انسانی خون کی حرمت کا احساس مٹ جائے گا۔ دونوں دوزخ میں جائیں گے سے یہ واضح ہوا کہ نیت کا فتور اس قدر عام ہوجائے گا کہ بظاہر مقتول اور مظلوم نظر آنے والا شخص بھی اپنے اندر ظلم و طغیان کا فتنہ چھپائے رہا ہوگا۔ اس کا مقتول ومظلوم ہونا اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ وہ واقعۃ کسی ظالمانہ قتل کا شکار ہوا ہے بلکہ اس اعتبار سے ہوگا کہ وہ موقع پر چوک گیا اور خود وار کرنے سے پہلے دوسرے کے وار کرنے کا شکار ہوگیا۔ چناچہ مذکورہ جملے کا مطلب یہ ہے کہ قاتل تو دوزخ میں اس لئے جائے گا کہ وہ واقعۃ قتل عمد کا گناہ گار ہوا ہے اور مقتول اس وجہ سے دوزخ میں جائے گا کہ وہ خود بھی اس قاتل کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اس کو بتاہ وہلاک کرنے کی خواہش و ارادہ رکھتا تھا اور چونکہ آدمی کسی گناہ کا عزم رکھنے کی وجہ سے بھی ماخوذ ہوتا ہے اس لئے اس کو بھی دوزخ کا مستوجب قرار دیا جائے گا لیکن واضح رہے کہ یہ حکم جہالت کے طاری ہونے اور حق و باطل کے درمیان تمیز مفقود ہونے کی صورت کا ہے۔ ہاں اگر اس مقتول کی مذکورہ نیت و ارادہ کا تعلق جہالت ونادانی اور عدم تمیز سے نہ ہو بلکہ اس بات سے ہو کہ وہ بسبب اشتباہ، خطاء اجتہادی میں پڑگیا ہو تو اس پر مذکورہ حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ وہ مقتول اپنے قاتل کے تئیں جو عداوت ونفرت رکھے ہوئے تھا اور اس کو قتل کے ساتھ مقتول بھی مستوجب عذاب ہوگا لیکن اگر وہ مقتول اس جہالت ونادانی کی بنا پر نہیں بلکہ وہ از روئے دین و دیانت اس شخص یعنی قاتل کو قتل کرنے کا عزم رکھتا تھا نیز اس عزم تک وہ دین و شریعت کے اپنے علم کی روشنی میں غور فکر کرنے کے بعد اور نیت کے اخلاص کے ساتھ پہنچا تھا اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے اس عزم تک اس کا پہنچنا غیر صحیح کیوں نہ ہو۔ اس کو محض اس عزم کی وجہ سے مستوجب عذاب قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ اجتہاد اور صحیح نتیجے تک پہنچنے کی کوشش میں خطا کر جانے والا شخص عند اللہ ماخوذ قرار نہیں دیا جاتا۔ واضح رہے کہ مذکورہ ارشاد گرامی اس مشہور اور صحیح مسلک کی دلیل ہے کہ جو شخص کسی گناہ کی نیت کرے اور اس نیت پر قائم رہے تو وہ گنہگار ہی کے حکم میں ہوگا، اگرچہ وہ اپنے اعضاء اور زبان سے عملی طور پر اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔
حضرت معقل بن یسار ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ہرج (فتنے کے زمانہ) میں (یعنی مسلمانوں کے باہمی محاذ آرائی اور قتل و قتال کے وقت پوری استقامت اور مداومت کے ساتھ دین پر قائم رہنے اور) عبادت کرنے کا ثواب، میری طرف ہجرت کرنے کے ثواب کی مانند ہے۔
[صحيح مسلم:2948، سنن ابن ماجه:3985]
تشریح
مطلب یہ ہے کہ زمانہ نبوی میں فتح مکہ سے پہلے دارالحرب سے ہجرت کر کے مدینہ آجانے اور آنحضرت ﷺ کی رفاقت و صحبت کا شرف رکھنے والے کو جو عظیم ثواب ملتا تھا اسی طرح کا عظیم ثواب اس شخص کو بھی ملے گا جو فتنہ و فساد کی جہالت وتاری کی سے اپنے کو محفوظ رکھ کر اور مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی سے اپنا دامن بچا کر مولیٰ کی عبادت میں مشغول اور اپنے دین پر قائم رہے۔
حدیث نمبر 13
مظالم پر صبر کرو اور یہ جانو کہ آنے والا زمانہ موجودہ دور سے بھی بدتر ہوگا:
حضرت زبیر بن عدی تابعی کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضرت انس بن مالک ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حجاج بن یوسف کے مظالم اور ایذاء رسانیوں کی شکایت کی انہوں نے فرمایا کہ صبر کرو اور ضبط و تحمل سے کام لو، کیو کہ آئندہ جو بھی زمانہ آئے گا وہ گزشتہ زمانے سے بدتر ہوگا پس تمہیں کیا معلوم کہ آنے والے زمانے میں کیسے کیسے حکمران و اعمال ہوں گے جو شاید حجاج سے بھی زیادہ ظالم و جابر ثابت ہوں۔ اس لئے تم حجاج کے مظالم اور ایذاء رسانیوں پر صبر کرو، یہاں تک تم روز آخرت اپنے پروردگار سے ملاقات کرو اور پھر تم دیکھنا کہ تمہارا پروردگار تمہارے ظالموں کو کس طرح عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ بات میں نے تمہارے پیغمبر سے سنی ہے۔
[صحيح البخاري:7068، سنن الترمذي:2206]
تشریح:
اس حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر آنے والا زمانہ گزشتہ زمانہ سے بدتر ہوگا، تو اس پر اس صورت میں اشکال واقع ہوگا جب کہ آنے والا زمانہ سے مراد بلا استثناء ہر آنے والا زمانہ ہو اور اشکال یہ واقع ہوگا کہ حجاج بن یوسف کے زمانہ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ آیا، یا بعد میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی علیہما السلام کا زمانہ آئے گا تو کیا ان زمانوں پر بھی مذکورہ بات کا اطلاق ہوگا اور بلا استثناء یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہر آنے والا زمانہ حجاج کے زمانہ سے بھی بدتر ہوگا، ہاں اگر یہ بات استثناء کے ساتھ فرمائی گئی ہے تو پھر اشکال پیدا ہوگا، چناچہ شارحین حدیث نے وضاحت کی ہے کہ آنے والے زمانوں کے بدتر ہونے کی خبر دینا اکثر و اغلب کے اعتبار سے ہے یعنی آنے والے زمانوں میں اکثر و غالب زمانے ایسے ہی ہوں گے جو پچھلے زمانہ سے بدتر ماحول سے بھرے ہوئے ہوں گے، نیز آنے والے زمانہ سے مراد حجاج کے زمانہ سے زمانہ دجال تک کے زمانے ہیں، جن میں سے حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی کے زمانے مستثنی ہیں، علاوہ ازیں اس حدیث کا اصل مقصود امت کے لوگوں کو تسلی دینا، ظلم و جور پر صبر کرنے کی تلقین کرنا، آنے والے زمانوں کے بارے میں باخبر کرنا اور اس بات کی طرف راغب کرنا ہے کہ اپنے زمانہ کو غنیمت جان کر زیادہ سے زیاہ اخروی فائدے حاصل کرنے میں مشغول رہو، کیا خبر کہ آنے والے زمانوں میں کسی کو اتنا بھی موقع مل سکے یا نہیں۔ بعض حضرات نے اس وضاحت کو زیادہ مناسب کہا ہے کہ آنے والے زمانوں کے بارے میں جہاں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ تو مستثنی ہے باقی تمام زمانے، کسی نہ کسی اعتبار سے، کسی نہ کسی جگہ کے حالات کے مطابق اور کسی نہ کسی معاملہ میں از روئے علم وعمل اور استقامت و اخلاص دین پہلے زمانے سے بتر ہی حالت کے حامل رہے ہیں یا حامل رہیں گے اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک سے بعد و دوری کا تقاضا بھی ہے کہ زمانہ جوں جوں آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک سے دور ہوتا جاتا ہے اسی اعتبار سے بدی اور خرابی بڑھتی جاتی ہے اور اس کا سلسلہ ذات رسالت ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے فورا بعد شروع ہوگیا تھا چناچہ صحابہ تک نے اپنی صفائی باطن اور پاکیزگی نفس کے باوجود آنحضرت ﷺ کی تدفین کے بعد اپنے قلوب کی حالت و کیفیت میں تبدیلی محسوس کی تھی، پہلے کے بعض بزرگوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ پہلے کسی وقت دل میں گناہ کا خیال پیدا ہوگیا اور پھر وہ خیال جاتا رہا تو کہیں کافی مدت کے بعد جب وہی خیال پھر دوبارہ آیا تو اب آسانی کے ساتھ دفعہ ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ بہت غور کرنے بعد اس فرق کی وجہ اس کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ ظلمت، زمانہ نبوت کے نور سے اور زیادہ بعد زمانہ ہوجانے کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے کیونکہ زمانہ نبوت کو گزرے جتنا زیادہ عرصہ ہوتا جاتا ہے برائی کی ظلمت اسی اعتبار سے زیادہ ہوتی جاتی ہے۔
حدیث نمبر 14
حضور ﷺ نے قیامت تک پیدا ہونے والے اس امت کے فتنہ پردازوں کے بارے میں خبر دے دی تھی:
حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ میرے یہ رفقاء یعنی صحابہ کرام بھول گئے ہیں یا وہ بھولے تو نہیں ہیں مگر اپنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ بھول گئے ہیں، اللہ کی قسم، رسول کریم ﷺ نے کسی بھی ایسے فتنہ پردازوں کو ذکر کرنے سے نہیں چھوڑا تھا جو دنیا کے ختم ہونے تک پیدا ہونے والا اور جس کے تابعداروں کی تعداد تین سو تک یا تین سو سے زائد تک کی ہوگی۔ آپ ﷺ ہر فتنہ پرداز کا ذکر کرتے وقت ہمیں اس کا اور اس کے باپ کا اور اس کے قبیلے تک کا نام بتایا تھا۔
[سنن أبي داود:4243]
تشریح:
فتنہ پرداز سے وہ شخص مراد ہے جو فتنہ و فساد اور تباہی و خرابی کا باعث ہو، جیسے وہ عالم جو دین میں بدعت پیدا کرے دین کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑائے، امت میں افتراق و انتشار پیدا کر کے اسلام کی شوکت کو مجروح کرے اور جیسے وہ ظالم بادشاہ و امیر جو مسلمانوں کے باہمی قتل و قتال کا باعث ہو۔ تین سو کے عدد کی قید بظاہر اس لئے لگائی گئی ہے کہ کم سے کم اتنی تعداد میں آدمیوں کا کسی فتنہ پرداز کے گرد جمع ہوجانا اس فتنہ پرداز کی فتنہ پردازیوں کو پھیلانے، فتنہ و فساد کی کاروائیوں کو اثر انداز ہوجانے اور دین وملت کو نقصان پہنچ جانے کے لئے عام طور پر کافی ہوجاتا ہے، اگر کسی فتنہ پرداز کے تابعداروں کی تعداد اس سے کم ہوتی ہے تو گوہ انفرادی اور جزوی طور پر فتنہ پردازی میں کامیاب ہوجائے مگر اجتماعی طور پر اثر انداز ہونے کے قابل نہیں ہوتا۔
حضرت ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی امت کے حق میں جن لوگوں سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے امام ہیں۔ یاد رکھو جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو پھر قیامت تک نہیں رکے گی۔
[سنن أبي داود:4252، سنن الترمذي:2229]
تشریح:
ائمہ اصل میں امام کی جمع ہے اور امام قوم و جماعت کے سردار، پیشوا اور اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو لوگوں کو اپنے قول یا فعل یا عقیدے کی اتباع کی طرف بلائے، پس اس ارشاد کا مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی اور ملی حیثیت نیز ان کے دین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی اور تباہی کی طرف لے جانے والی جو چیز ہے وہ مسلمانوں کی قیادت و رہبری اور پیشوائی کرنے والے لوگوں کا گمراہ ہونا ہے کیونکہ انفرادی حیثیت میں کسی بھی شخص کے گمراہ ہونے کا نقصان اسی کی ذات تک محدود رہتا ہے لیکن قائد و پیشوا کی گمراہی کا نقصان و ضرر پوری قوم و جماعت کو متاثر کرتا ہے۔ جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی الخ کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک دوسرے کے خلاف تلوار و طاقت آزمائی کی سیاست کی ابتداء ہوجائے گی اور باہمی مسائل و معاملات کو افہام تفہیم اور دین ودیانت کی روشنی میں حل کرنے کی بجائے تشدد و خونریزی کے راستے کو اختیار کرلیا جائے گا تو پھر طاقت آزمائی اور تشدد و خونریزی کا وہ فتنہ قیامت تک ٹھنڈا نہیں ہوگا اور مسلمان کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ حضور ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعے امت میں خونریزی کی اتبداء ہوجانے کے جس خوف کی طرف اشارہ فرمایا تھا اس کا مصداق امیرالمومنین حضرت عثمان غنی ؓ کے واقعہ شہادت کی صورت میں سامنے آیا۔ چناچہ اسلام میں سے پہلے مسلمان نے مسلمان کے خلاف جو تلوار اٹھائی اور خون بہایا وہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت ہے۔ اور پھر ان کے سانحہ شہادت کے بعد مسلمانوں میں باہمی خونریزی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک باقی ہے جیسا کہ مخبر صادق ﷺ نے خبر دی ہے کہ مسلمانوں کی بدقسمتی سے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
حضرت سفینہ ؓ جو آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ خلافت کا زمانہ تیس سال کا ہوگا۔ اس کے بعد وہ خلافت بادشاہت میں بدل جائے گی حضرت سفینہ ؓ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد راوی سے یا عام لوگوں کو خطاب کر کے کہا کہ حساب کر کے دیکھو حضور ﷺ نے جو تیس سال کی مدت بیان فرمائی ہے وہ اس طرح ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کا زمانہ دو سال۔، حضرت عمر ؓ کی خلافت کا زمانہ دس سال، حضرت عثمان کی خلافت کا زمانہ بارہ سال اور حضرت علی کی خلافت کا زمانہ چھ سال (ؓ ورضوا عنہ)۔
[مسند أحمد:21919، سنن أبي داود:4646]
تشریح:
خلافت سے مراد خلافت حق ہے یا وہ خلافت مراد ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ اور جس کی بنیاد قرآن وسنت کی ہدایت اور رہنمائی اور دین و شریعت کے آئین حکمرانی کی اتباع پر ہو، چنانہ اس خلافت کا صحیح مصداق حضور ﷺ کے بعد اول کی خلافت ہے جس کو خلافت راشدہ کہا جاتا ہے اور جس کی مدت تیس سال ہوئی ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے اپنی شرح مشکوۃ میں اس روایت کو نقل کرتے ہوئے ملکا کے بعد عضوضا کا لفظ بھی نقل کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وہ خلافت کٹ کھنی بادشاہت میں بدل جائے گی، یعنی خلافت کا دور ختم ہوجانے کے بعد بادشاہت کا دور شروع ہوجائے گا اور بادشاہت بھی ایسی کہ لوگ اس کی سختیوں اور ظالمانہ کاروایوں سے امن نہیں پائیں گے اور عدل و انصاف کا نظام اور دین پروری کا ماحول جیسا کہ ہونا چاہئے، جاری نہیں ہوگا، یہ اور بات ہے کہ اس دور کے حکمران گزرے ہوئے خلفاء کی جانشینی کا دعویٰ رکھنے کی وجہ سے اور مجازا اس بادشاہت پر خلافت ہی کا اطلاق کریں اور اپنے کو خلیفہ کہلائیں اور گو ان کو امیرالمومنین کہنا کوئی خلاف حقیقت بات بھی نہ ہو کیونکہ نظم مملکت اور ظاہری قانون کے مطابق وہ مسلمانوں کے امیر و حاکم بہرحال ہوں گے لیکن حقیقی خلافت کہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بس تیس سال تک رہے گی، چنانہ خلفاء راشدین کہ جن کا دور خلافت حقیقی خلافت کا واقعی مصداق تھا، تیس ہی سال پر مشتمل ہے۔ شرح عقائد میں اس حدیث کے تعلق سے ایک اشکال وارد کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضور ﷺ نے خلافت کا دور صرف تیس سال فرمایا ہے جب کہ خلفاء راشدین کے بعد کے زمانے میں خلفاء عباسیہ بلکہ بنو امیہ میں سے بعض خلفاء جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت پر مسلمانوں کے تقریبا تمام ہی علماء اور اہل عمل وعقد کا اتفاق رہا ہے تو کیا ان کے دور خلافت کو خلافت نہیں کہا جاسکتا اس کا جواب یہ ہے کہ حضور ﷺ نے جس خلافت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت کاملہ کہ جس میں دین و شریعت اور عدل و انصاف کی ذرا سی بھی آمیزش نہ ہو، تیس سال رہے گی، اس کے بعد کی خلافت کی شکل و صورت میں تبدیلی آئے گی، ہاں کچھ دور ایسے بھی آئیں گے جس میں اس خلافت کے طرز کو اختیار کیا جائے گا ورنہ عام طور پر جو بھی خلافت قائم ہوگی وہ بس نام ہی کی خلافت ہوگی، اصل کے اعتبار سے بادشاہت ہوگی، واضح رہے کہ خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کا دور حکمرانی شروع ہوا جس کو انہوں نے اگرچہ خلافت ہی کا نام دیا مگر حقیقت میں وہ بادشاہت تھی، حضرت امیر معاویہ ؓ اس دور کے سب سے پہلے حکمران ہیں ان کا دور حکمرانی اگرچہ خلافت راشدہ کی طرح دین وملت کے حق میں حقیقی خلافت کا نمونہ نہیں رہا مگر ان کی خلافت و حکومت میں بادشاہت کی وہ تمام خرابیاں بھی نہیں تھیں جو ان کے جانشینوں کے دور حکومت میں پیدا ہوئی نیز انہوں نے اپنے دور حکمرانی کو کسی نہ کسی حد تک خلافت راشدہ کے نہج پر رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کے بعد بنو امیہ کا اکثر دور حکمرانی مسلمانوں کی باہمی آویزش وخلفشار قتل و غارت گری، دین و شریعت کی صریح خلاف ورزی اور ظلم و ناانصافی کی بہت زیادہ مثالوں سے بھرا ہوا تھا، اس دور کی ابتداء یزید بن معاویہ کے دور سے ہوتی ہے، یزید کے بعد اس کا بیٹا معاویہ بن یزید حکمران ہوا، اس کے بعد ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک، حضرت عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک، ہشام بن عبدالملک، ولید بن یزید بن عبدالملک، ابراہیم بن ولید بن عبدالملک اور مروان بن محمد بن مروان بالترتیب یکے بعد دیگرے خلیفہ وحکمران ہوتے رہے مروان بن محمد بن مروان، بنو امیہ میں سے آخری حکمران تھا، اس کے بعد خلافت بنو امیہ سے نکل کر بنو عباس میں پہنچ گئی۔ حدیث کے راوی حضرت سفینہ ؓ نے تیس سال کا جو حساب بیان کیا ہے وہ تخمینا ہے اور اس بات پر مبنی ہے کہ انہوں نے کسور کو بیان نہیں کیا، چناچہ صحیح روایات اور مستند تاریخی کتابوں میں خلافت راشدہ کی تیس سالہ مدت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت کا زمانہ دو سال چار ماہ، حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت کا زمانہ دس سال چھ ماہ، حضرت عثمان غنی کی خلافت کا زمانہ چند روز کم بارہ سال اور حضرت علی مرتضی ؓ کی خلافت کا زمانہ چار سال نو ماہ رہا ہے۔ اس طرح چاروں خلفاء کی مجموع مدت خلافت انتیس سال سات ماہ ہوتی ہے اور پانچ مہینے جو باقی رہے وہ حضرت امام حسن ؓ کی خلافت کا زمانہ ہے، پس حضرت امام حسن ؓ بھی خلفاء راشدین میں سے ہوئے ؓ۔
حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں
نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! کیااسخیرکےبعدشرپیداہوگاجیساکہابسےپہلےشرکادوردورہتھا (یعنیجسطرحآپﷺکیبعثتسےپہلے کفر و شرک اور برائیوں کا اندھیرا
پھیلا ہوا تھا اور پھر آپ ﷺکےنورنبوتنےبدیوبرائیکیتاریکیکوختمکرکےنیکیاوربھلائیکااجالاپھیلایا،اسیطرحکیاخیروبھلائیکےاسزمانےکےبعدشروبرائیکازمانہبھیآئےگا) آپﷺنےفرمایاہاں (اسکےبعدپھربدی و برائی کا زمانہ بھی آئے گا) میں نے عرض کیا کہ پھر اس وقت بچنے
کی کیا سبیل ہوگی؟ آپ ﷺنےفرمایا۔تلوار (یعنیاسفتنہسےحفاظت،تلوارآزمائیکےذریعےحاصلہوگییایہمرادہےکہاسفتنہسےبچنےکاراستہیہیہوگاکہتماسفتنہکوپیداکرنےوالےلوگوںکوسر تلوار سے اڑا دو ) میں نے عرض کیا کہ پھر اس تلوار کے بعد اہل
اسلام باقی رہیں (یعنی جب مسلمان بدی اور برائی کی طاقتوں کو ختم کرنے کے لئے
تلوار اٹھائیں گے اور قتل و قتال کریں گے تو کیا اس کے بعد اس زمانے کے مسلمانوں
میں اتنی طاقت واجتماعیت باقی رہ جائے گی کہ وہ امانت ودیانت کے ساتھ اپنی سرداری
وحاکمیت قائم کرلیں اور لوگ اس کی قیادت وامارت پر اتفاق کرلیں؟ آپ ﷺنےفرمایا۔ہاں! امارتیعنیحکومتوسلطنتتوقائمہوجائےگیلیکناسکیبنیادفسادپرہوگیاورصلحکیبنیادکدورتپرہوگی۔میںنےعرضکیاکہپھراسکےبعد کیا ہوگا؟ آپ ﷺنےفرمایااسکےبعدگمراہیکیطرفبلانےوالےلوگپیداہوںگے۔اگراسوقتزمینپرکوئیخلیفہیعنیامیروبادشاہہوتوخواہوہتیریپیٹھپرمارےہیکیوںنہاورتیرامالکیوںنہلےلے (یعنیوہامیربادشاہاگرچہتمہیںناحقستائےتمپرظلموستمڈھائے اور تمہارا مال و اسباب چھین لے لیکن تم اس کی اطاعت سے منہ
نہ پھیرنا تاوقتیکہ وہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺکےخلافکوئیکامکرنےکونہکہےاورحکماسلئےدیاگیاہےتاکہدینوملتمیںافتراقوانتشاراورمملکتمیںبدامنیوفسادپیدانہہو۔اوراگرکوئی خلیفہ یعنی امیر و بادشاہ نہ ہو تو تمہاری موت ایسی حالت میں آنی
چاہئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے
بعد کیا ہوگا؟ آپ ﷺنےفرمایا۔اسکےبعددنیااورزیادہفتنہوانتشاراوربرائیوںکیطرفبڑھتیرہےگیاورمسلمانبتدریج دینی وملی طور پر اور دنیاوی اعتبار سے بھی زوال پذیر ہوتے
رہیں گے، یہاں تک کہ حضرت مہدی کے زمانہ میں دجال کا ظہور ہوگا جس کے ساتھ پانی کی
نہر ہوگی اور آگ کی خندق پس جو شخص اس کی نہر میں پڑے گا اس کا گناہ اس کے لئے
باردوش بنے گا اور اس کا اجر جو اس نے اچھے عمل کر کے حاصل کئے ہوں گے جاتا رہے
گا۔ حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ ﷺنےفرمایا۔گھوڑےکابچہجنوایاجائےگااوروہسوارینہیںدینےپائےگاکہقیامتقائمہوجائےگی۔اورایکروایتمیں (امارتتوقائمہوجائےگیلیکن اس کی بنیاد فساد پر ہوگی الخ) کے بجائے یوں ہے کہ آپ ﷺنےفرمایاکدورتپرصلحہوگییعنیاسوقتلوگظاہرمیںتوصلحصفائیکاراستہاختیارکریںگےلیکنانکےباطنمیںکدورتہوگی۔اوروہکسیمعاہدہوفیصلہپردلوںکیناخوشیاوربخششکےساتھمتفقومجتمعہوں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کدورت پر صلح سے کیا مراد
ہے؟ آپ ﷺنےفرمایا۔اسکامطلبیہہےکہلوگوںکےدلاسحالتپرنہیںہوںگےجسپرپہلےتھے (یعنیجسطرحاسلامکےابتدائیزمانےمیںلوگوںکےدلبغضوکینہسےصافرہاکرتےتھے،وہجوباتکہاکرتےیا جو معاملہ کرتے تھے اس میں صدق دلی شامل ہوتی تھی۔ اس طرح کے پاک
وصاف دل اس وقت لوگوں کے نہیں ہوں گے کہ زبان سے کچھ کہیں گے معاملہ کچھ کریں گے
اور دل میں کچھ اور رکھیں گے۔ یا یہ مراد ہے کہ لوگوں میں باہمی صلح و صفائی
ہوجانے کے باوجود، ان کے دل اس طرح پاک وصاف نہیں ہوں گے جس طرح ایک دوسرے کے خلاف
بغض وعناد میں مبتلا ہونے اور کدورت پیدا ہونے سے پہلے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا
اس بھلائی کے بعد کہ جو آپس کے نفاق کدورت کے بعد مذکورہ باہمی مصالحت ومفاہمت کی
صورت میں ظاہر ہوگی اور جو اگرچہ برائی کی آمیزش سے پوری طرح صاف نہیں ہوگی کسی
اور برائی کا ظہور ہوگا؟ آپ ﷺنےفرمایا۔ہاں،اسکےبعدپھربرائیکاظہورہوگااوروہایکایسےبڑےفتنہکیصورتمیںہوگاجواندھااوربہراہوگا (یعنیوہفتنہلوگوںکیعقلوخرداورنیکیوبدکیقوتتمیزپراسطرحاثراندازہوجائےکہوہحقاور سچائی کو نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں
گے۔ گویا فتنہ کی طرف اندھے پن اور بہرے پن کی نسبت مجازاً ہے اصل مقصد یہ ظاہر
کرنا ہے کہ لوگ اس فتنہ میں مبتلا ہو کر بدی اور برائی کی انتہائی حدوں تک پہنچ
جائیں گے اور اس کا نتیجہ، جیسا کہ آگے فرمایا جا رہا ہے، یہ ہوگا کہ اس فتنہ کی
طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوجائیں گے یعنی لوگ محض اس فتنہ میں مبتلا ہی نہیں ہوں
گے بلکہ ایک ایسی جماعت بھی پیدا ہوجائے گی جو اس فتنہ کو ہوا دے گی اور دوسروں کے
اس فتنہ میں مبتلا ہونے کا باعث بنے گی اور اس جماعت کے لوگوں کا یہ عمل ایسا ظاہر
کرے گا جیسے کہ وہ دوزخ پر کھڑے ہو کر مخلوق کو اس دوزخ کی طرف بلا رہے ہیں چناچہ
بلانے والے اور ان کے بلاوے کو قبول کرنے والے سب ہی دوزخ میں جائیں گے۔ پس اے
حذیفہ! اس وقت تمہاری موت اگر اس حالت میں آئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے
ہوئے ہو تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ تم اہل فتنہ میں سے کسی کی اتباع و پیروی کرو۔
[سنن أبي داود:4246]
تشریح
قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺنےجسفتنہسےبچاؤکاذریعہتلوارکوقراردیاتھااسکامصداقوہلوگہیںجوحضورﷺکیوفاتکےبعدحضرتابوبکرصدیقؓکےزمانہخلافمیںاسلامسےپھرگئےتھےاوراپنےارتداد و بغاوت کے ذریعہ ایک بڑے فتنہ کا باعث بننے والے تھے لیکن حضرت
ابوبکر صدیق ؓ نے نہایت تدبر وہوشیاری کے ساتھ ان کی سرکوبی کی اور طاقت کے ذریعے
ان کو دبایا۔ اقذاء اصل میں قذی کی جمع ہے اور قذاۃ کا معنی اس کیچڑ اور تنکے کے
ہیں جو آنکھ میں یا پانی وشربت وغیرہ میں پڑجائے۔ پس حضور ﷺنےفرمایاکہاسوقتامارتوحکومتتوقائمہوجائےگیاورمسلمانوںکاامیروخلیفہبھیہوگالیکنلوگاخلاصوحسننیتکےساتھاپنیاسامارتوحکومتکےتئیںوفادارینہرکھیںگےبلکہانکےدلوںمیںبغضوعداوت،عدموفاداریاورمخالفتومخاصمت کے جذبات ہوں گے، جیسا کہ اگر کسی کی
آنکھ میں کوئی ریزہ یا تنکا پڑجائے تو گو وہ باہر سے اچھی بچھی معلوم ہوتی ہو مگر
اس کے اندر سخت شوزش اور دکھن ہوتی ہے اسی طرح وہ لوگ گو ظاہر میں اپنی امارت و
حکومت کے وفادار و بہی خواہ نظر آئیں گے مگر ان کے اندر غیر وفاداری اور مخالفت و
عداوت بھری ہوگی اور قاضی نے اس کے دوسرے معنی بیان کئے ہیں اور وہ یہ کہ اس وقت
مسلمانوں کی حکومت وامارت تو قائم ہوگی لیکن وہ امارت و حکومت، بعض بدعتوں اور دین
مخالف کاروائیوں کے ذریعے اپنی حیثیت کو بگاڑے رکھے گی۔ ہدنۃ مصالحت کے مفہوم میں
ہے اور اصل میں اس کے معنی سکون و آرام اور فراغت کے ہیں اور دخن دخان کے مفہوم
میں ہے جس کے معنی ہیں دھواں اس جملے ہدنۃ علی دخن (صلح کی بنیاد کدور پر ہوگی) کا
مطلب بھی وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اس وقت باہم مخاصمت و مخالفت رکھنے والے
فریقوں کے درمیان جو مصالحت ہوگی وہ فریب ونفاق اور بدنیتی کے ساتھ ہوگی کہ اس
اعتبار سے یہ جملہ ماقبل کے جملہ کو مؤ کدہ کرنے کے لئے ہے۔ اور شارحین حدیث نے
بیان کیا ہے کہ حضور ﷺکےاسارشادگرامیکامصداقوہمصالحتومفاہمتہےجوحضرتامامحسناورحضرتامیرمعاویہؓکےسپردکردیتھی اور انہوں نے یعنی امیر معاویہ ؓ نے اپنی امرت وسیادت کو مستحکم
کرلیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض حضرات خصوصا مورخین نے جو یہ نتیجہ اخذ کیا ہے
کہ امیر معاویہ، حضرت امام حسن سے صلح و صفائی کرلینے کے بعد خلیفہ ہوئے تھے۔ اس
معنی میں صحیح نہیں ہے کہ امام حسن واقعۃ حضرت امیر معاویہ ؓ کو خلافت کا اپنے سے
زیادہ مستحق واہل جانتے تھے اس لئے انہوں نے صلح کر کے ان کے حق میں خلاف سے
دستبرداری دے دی تھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے سیاسی عناصر نے حضرت امام حسن
کے خلاف جس طرح کا ماحول بنادیا تھا اور ان دونوں عظیم المرتبت شخصیتوں کی باہمی
آویزش کی وجہ سے دین وملت کو جو نقصان پہنچنے والا تھا، حضرت امام موصوف نے اس سے
بچنے کے لئے بادل نخواستہ مصالحت کی اور اپنی خلافت و حکومت کو دین وملت کے وسیع
تر مفاد پر ترجیح دینے کی بجائے اس سے دستبرداری ہی کو بہتر سمجھا۔ گمراہی کی طرف
بلانے والے لوگ پیدا ہوں گے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے امراء اور ارباب حکومت
میں سے ایسے لوگوں کی جماعت پیدا ہوگی جو لوگوں کو بدعت و گناہ کی طرف مائل کرے گی
اور برائی کے راستے پر لگائے گی۔ کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو کے ذریعے
اس امر کی تلقین کرنا مقصود ہے کہ اپنے نازک حالات اور اس طرح کے سخت دین مخالف
ماحول میں تمہیں چاہئے کہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے کہیں گوشہ نشین ہوجاؤ
اور اپنے آپ کو فتنہ و فساد سے بچا کر اپنی باقی زندگی کو کسی ایسی جگہ گزار دو
جہاں تک اس فتنہ کے برے اثرات تم تک نہ پہنچ سکیں یہاں تک کہ اگر تمہیں ان نازک
حالات اور اس پر فتن ماحول سے دور رہنے کے لئے کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت
کی جڑ میں پناہ لینی پڑے اور وہاں اتنی سخت اور صبر آزما زندگی گزارنی پڑے کہ گھاس
پھوس اور لکڑی چبانے تک کی نوبت آجائے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو۔ اور بعض حضرات نے
کہا ہے کہ والا فمت کا تعلق واطعہ سے ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اس امیر و
بادشاہ کی طرف سے تمہارے حق میں کتنے ہی سخت حالات پیدا کر دئیے جائیں تم اس کی
اطاعت و فرمانبرداری سے منہ نہ پھیرنا، کیونکہ اگر تم اس امیر و بادشاہ کی اطاعت
نہیں کرو گے تو پھر تمہیں اور زیادہ شدید حالات میں اور کہیں زیادہ سخت اذیت کے
ساتھ مرنا پڑے گا۔ نیز بعض نسخوں میں فمت کی بجائے قمت کا لفظ ہے جو لفظ قیام سے
ماضی کا صیغہ ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایسا نہ ہو یعنی تم اس امیر و
بادشاہ کے ظلم وستم کی وجہ سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے سے معذور ہو تو پھر
نکل کھڑے ہو اور کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت کی جڑ میں پناہ لے لو۔ (یعنی اس
امیر و بادشاہ کے زیر حکومت علاقہ سے نکل جاؤ اور کہیں دوسری جگہ جا کر پناہ گزیں
ہوجاؤ۔ جس کے ساتھ پانی کی نہر ہوگی اور آگ کی خندق کے بارے میں بعض حضرات نے کہا
ہے کہ یہ دونوں چیزیں حقیقی نہیں بلکہ محض خیالی ہوں گی اور ان کا تعلق سحر و طلسم
سے ہوگا یعنی بظاہر نظر تو ایسا آئے گا کہ وہ دجال اپنے ساتھ پانی کی نہر اور آگ
کی خندق لئے پھر رہا ہے لیکن حقیقت ان کے علاوہ کچھ اور ہوگی، جیسا کہ شعبدہ باز
نظر بندی کر کے کچھ کا کچھ دکھا دیتے ہیں، چناچہ آگے کی عبارت فمن وقع فی فارۃ میں
دجال کی طرف آگ کی نسبت سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں چیزیں محض جادوئی
اور طلسماتی ہوں گی۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس کے ساتھ پانی کی جو نہر
ہوگی وہ نتیجہ و حقیقت کے اعتبار سے آگ ہوگی اور آگ کی خندق ہوگی وہ نتیجہ و حقیقت
کے اعتبار سے پانی ثابت ہوگا۔ اور حضرت شیخ عبدالحق نے اس جملے کی تشریح میں یہ
لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات تو یہی ہے کہ یہ عبارت حقیقی معنی پر محمول ہے، یعنی اس
کے ساتھ واقعۃ پانی کی نہر اور آگ کی خندق ہوگی، لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ ان
چیزوں سے مراد لطف وقہر اور وعدہ وعید ہو، یعنی پانی کی نہر سے مراد تو یہ ہے کہ
اس کے پاس اپنے متعلقین کے لئے زبردست ترغیبات و لالچ اور آسائش و راحت کے سامان
ہوں گے اور آگ کی خندق سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین و منکرین کے لئے ڈرانے،
دھمکانے اور مصیبت واذیت میں مبتلا کرنے کے ذرائع رکھے گا، پس جو شخص اس کی آگ میں
پڑے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ دجال کی موافقت و تابعداری نہیں کرے گا وہ اس کو آگ
میں ڈالے گا اور طرح طرح کی سختیوں اور آلام میں مبتلا کرے گا) اور جو شخص اس کی
آگ میں پڑے گا وہ اللہ کے دین پر ثابت قدم رہنے اور اللہ کی رضاء کی خاطر ہر مصیبت
پر صبر کرنے کی وجہ سے بڑے بڑے اجر پائے گا اور اس نے پہلے جو گناہ کئے ہوں گے وہ
دھل جائیں گے، اسی طرح جو شخص دجال کی موافقت و تابعداری کرے گا اس کو وہ اپنی میں
ڈالے گا (یعنی اس کو طرح طرح کی آسائش اور راحت زیادہ سے زیادہ دنیاوی فائدے
پہنچائے گا، چناچہ جو شخص اس کے پانی میں جائے گا وہ دنیاوی آسائش و راحت اور یہاں
کی زندگانی کی محبت کے سبب اس پر ایمان لانے، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی
وجہ سخت وبال مول لے لے گا اور اس نے پہلے جو اچھے کام کئے ہوں گے ان سب کا اجر
ضائع ہوجائے گا۔ ثم ینتج المہر الخ میں لفظ ینتج انتج کا صیغہ مجہول ہے نہ کہ یہ
انتاج سے ہے اور نتج کے معنی ہیں حاملہ کی خبر گیری کرنا یہاں تک کہ وہ جنے۔ جب کہ
انتاج کے معنی ہیں ولادت کا وقت آجانا۔ پس علماء نے لکھا ہے کہ یہاں نتج اصل میں
تولید کے معنی استعمال ہوا ہے یعنی لوگ اپنی گھوڑیوں کے ہاں بچہ ہونے کی تدابیر
اختیار کریں گے اور بچہ جننے کے وقت گھوڑیوں کی دیکھ بھال اور خدمت کریں گے جیسا
کہ دایہ کسی عورت کے ہاں ولادت کے وقت خدمت انجام دیتی ہے اور مہر کے معنی بچھڑنے
کے ہیں اور اگر یہ لفظ ۃ کے ساتھ یعنی مہرۃ ہو تو اس کے معنی بچھڑی کے ہوتے ہیں۔
نیز یرکب کے معنی ہیں سواری دینے کی عمر کو پہنچ جانا یا سواری کے قابل ہوجانا۔
بہرحال جو یہ فرمایا گیا ہے کہ لوگ اپنی گھوڑیوں سے بچے جنوانے کی تدابیر کریں گے
تاکہ ان کو سواری کے کام میں لاسکیں لیکن جب ان کی گھوڑیاں بچے جنیں گی تو وہ بچے
ابھی سواری کے قابل بھی نہیں ہونے پائیں گے کہ قیامت آجائے گی، تو اس سے مراد حضرت
عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کی طرف اشارہ کرنا ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ
السلام) کے نزول سے قیامت کے دن تک گھوڑوں کی سواری کا موقع ہی نہیں آئے گا اور یہ
اس وجہ سے ہوگا کہ اس زمانے میں کفار کا وجود ہی نہیں ہوگا کہ جن سے جنگ کرنے کے
لئے گھوڑوں کی سواری کی ضرورت پیش آئے لیکن یہ مراد لینا اور مذکورہ تاویل کرنا اس
زمانے تو صحیح تھا جب کہ گھوڑوں کی سوار صرف میدان جنگ تک محدود رہتی تھی اور
گھوڑے کا اصل مصرف کفار کے مقابلے پر لڑنے کے لئے ان کو استعمال کرنا سمجھا جاتا
تھا، ظاہر ہے کہ موجودہ حالت میں یہ بات کچھ زیادہ وزن دار معلوم نہیں ہوتی۔ یا اس
جملے کے ذریعے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ دجال کے ظاہر ہوجانے کے بعد سے قیامت
آنے تک کا زمانہ طویل نہیں ہوگا، بہت مختصر ہوگا، گویا اس وقت سے قیامت آنے تک میں
بس اتنا عرصہ رہ جائے گا ایک بچھڑے کے پیدا ہونے کے وقت سے اس سواری کے قابل ہونے
تک کے درمیان لگتا ہے۔ یہ وضاحت نہ صرف یہ کہ زیادہ صاف اور قرین قیاس ہے بلکہ ان
احادیث کے مفہوم کے مطابق بھی ہے جو اس سلسلے میں منقول ہیں۔
گلوبلائزیشن کا فتنہ اور مسلم خاندانوں پر اس کے اثرات
دور حاضر کے جن فتنوں نے عالم گیر سطح پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں اور جن سے مسلم معاشرہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ان میں سرفہرست گلوبلائزیشن ہے۔ یہ ایک انتہائی غیر محسوس فتنہ ہے جس کا ظاہر انتہائی پرفریب اور خوش نما ہے لیکن اس کے اثرات دین و ایمان، اخلاق و تہذیب اور مذہبی اقدار کے لیے انتہائی تباہ کن ہیں۔ دیگر فتنوں کی طرح یہ فتنہ بھی مغربی دشمنانِ اسلام کے راستہ سے آیا ہے اور اس کی آب یاری کرنے والے یہود و نصاریٰ ہیں، جن کی اسلام دشمنی ظاہر و باہر ہے۔
گلوبلائزیشن، گلوب سے ماخوذ ہے، جس کے معنی کائنات کے ہیں۔ گلوبلائزیشن کا ترجمہ عالمی بنانا ہے۔ اردو میں اس کے لیے عالم کاری کا لفظ استعمال ہورہا ہے۔ گلوبلائزیشن کی اصطلاح سے پہلے مغرب نے نیوورلڈ آرڈر(نیاعالمی نظام ) کا نعرہ بلند کیا تھا۔ جن مقاصد کے لیے مغربی طاقتوں نے نئے عالمی نظام کا نعرہ بلند کیا تھا گلوبلائزیشن انہی مقاصد کی تکمیل کا نام ہے۔ گلوبلائزیشن اگرچہ تجارت کو بین الاقوامیانے کے لیے بولا جاتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد خالص معاشی بتایا جاتا ہے، لیکن اس کے اہداف انتہائی گہرے اور پہلودار ہیں۔ دین، اخلاق، تہذیب، تمدن اور قدریں سب اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کی تعریف اور اس کی وضاحت کے لیے محققین کی آرا کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
گلوبلائزیشن کی ایک تعریف یوں کی گئی ہے کہ گلوبلائزیشن سرمایہ دار تجارت کو بین الاقوامیانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس عمل کے لیے دوسرا لفظ آزاد تجارت کا استعمال ہوتا ہے۔
( آئی او ایس جرنل، جلد 12 جنوری تاجولائی 2000ء)
عرب مصنف علی المزروعی گلوبلائزیشن کی وضاحت یوں کرتے ہیں: ” گلوبلائزیشن کیا ہے؟ یہ ان طریقوں کے لیے بولا جاتا ہے جو عالمی پیمانے پر باہمی انحصار اور دور دراز کے علاقوں سے تیز تر رابطہ اور تبادلہ کی طرف لے جاتے ہیں۔ گلوبلائزیشن خود ہی بالکل نیا لفظ ہے، لیکن حقیقت میں اس کا آغاز صدیوں پہلا ہوگیا تھا۔ چار قوتیں گلوبلائزیشن کی گاڑی کو آگے بڑھانے میں خاص رول ادا کرتی ہیں۔ دین و مذہب، معیشت، ٹیکنالوجی اور ریاست۔
( امریکہ کا گلوبلائزیشن پر خاص نمبر 1989ء )
فری عرب وائس کے ایک مضمون میں گلوبلائزیشن کی تعریف یوں کی گئی ہے :”گلوبلائز یشن صاف طورپر ایک معاشی اسٹراٹیجی ہے، جو دنیا پر ثروت مند اور صنعتی ملکوں کے ذریعہ مسلط کی گئی ہے۔ اس کا مقصد ان عالمی کارپوریشن کے مفادات کا حصول ہے جن کا جال ہر طرف بکھرا ہوا ہے اور جن کو ٹرانس نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنیاں کہا جاتا ہے۔ اس معاشی اسٹراٹیجی کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کو اپنے لیے کھولا جائے۔ ان کے بہترین وسائل وذرائع اور ثروت کو ان کارپوریشن کے تحت کردیا جائے جو کسی قید و شرط اور حدود کے پابند نہ ہوں۔ “
(اسلامیة المعرفة ابراہیم ابو ربیع ص 17)
ہندوستان کے معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی لکھتے ہیں : ”گلوبلائزیشن کے ظاہری معنی پوری دنیا کو ایک مارکیٹ بنانا ہے اور ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جو بین الاقوامی تجارت میں حائل ہیں، تاکہ سرمایہ بلارکاوٹ ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر کرسکے اور جس جگہ بھی اس کی ضرورت ہو وہاں سرمایہ کاری کی جاسکے۔ اس طرح محنت بھی ہر جگہ کا سفرکرسکے اور جہاں بھی اس کو زیادہ اجرت ملے وہاں اپنی خدمت پیش کرسکے۔ اس میں سرمایہ اور محنت دونوں کا بھلا ہے۔
(زندگی نو، نومبر/دسمبر2000)
امریکہ اور یورپ کے اکثر ممالک عرصہ دراز سے گلوبلائزیشن کے علم بردار ہیں۔ البتہ کمیونزم اس کا مخالف تھا۔ جہاں تک ایشیا اور تیسری دنیا کے ممالک کی بات ہے تو انہوں نے 80 کی دہائی میں کمیونزم کے زوال کے بعد گلوبلائزیشن کو گلے سے لگایا۔ 1991ء سے جب معاشی اصلاحات کا عمل شروع ہوا ہندوستان بھی گلوبلائزیشن کے راستہ پر گام زن ہوا۔ مصری اسکالر ھناء محمد گلوبلائزیشن کے آغاز پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
” ثقافتی طورپر گلوبلائزیشن کی اصطلاح گذشتہ صدی کی آخری دو دہائیوں میں مشہور ہوئی ہے، لیکن عملاً اس کی بنیاد1965ء ہی میں پڑگئی تھی۔ جب الجمع المسکونی کی دوسری میٹنگ کے تمام کیتھولک چرچوں کے اتحاد پر زوردیاگیا تھا، تاکہ وہ متحد ہوکر اسلام کا مقابلہ کرسکیں اور 90کی دہائی میں اسے روئے زمین سے نیست و نابود کرسکیں۔ 1978ء میں ایسی دوسری المسکونی کانفرنس کلوراڈو میں ہوئی، جس میں خاموش طریقہ سے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی تدابیر کے سلسلہ میں چالیس نکات پر بحث و مباحثہ ہوا۔“
(المجتمع،9مارچ2007)
جہاں تک عالم گیر برادری کے تصور کی بات ہے تو اگرچہ اسلام سے پہلے عیسائیت نے بھی اس تصورکو اپنایاتھالیکن تاریخ کے کسی دور میں وہ اس کا عملی مظاہرہ نہ کرسکے۔ پھر بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں کمیونزم نے بھی عالمی برادری کا تخیل پیش کیا، لیکن چوں کہ اس کی بنیاد انکار مذہب پر رکھی گئی تھی اس لیے اس کو دوام حاصل نہ ہوسکا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس جب دو سپر پاور بن کر ابھرے تو انہوں نے محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک بار پھر عالم گیر برادری کا نعرہ بلند کیا اور اس مقصد کے لیے مجلس اقوام کا قیام عمل میں لایاگیا چوں کہ اس کے قیام میں نیک مقاصد کار فرما نہ تھے، اس لیے بہت جلد پوری دنیا کو ایک خطرناک جنگ میں جھونک دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روس اور امریکہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کی شکل میں سامنے آئے، لیکن دونوں کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف تھے، اس لیے دونوں میں سرد جنگ کی فضا قائم ہوئی اور دنیا دو حصوں میں بٹ گئی۔ کچھ دوسرے درجہ کی طاقتوں نے طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک بار پھر عالم گیر برادری کی آواز اٹھائی۔ اس طرح اقوام متحدہ وجود میں آیا، لیکن اس پر مفادات غالب آگئے اور اس کے پانچ دائمی ارکان کے ہاتھوں میں حق تنسیخ دے دیاگیا۔ جنگ خلیج کے بعد امریکہ کی جانب سے ایک بار پھر عالمی نظام کا نعرہ بلند کیا گیا اور اس کے ساتھ گلوبلائزیشن کی اصطلاح رواج پاگئی۔
گلوبلائزیشن کے نقصانات گلوبلائزیشن پر خود مغربی دانش وروں کی جانب سے بھی منفی اور مثبت موقف کااظہار کیا جارہا ہے۔ مغرب کے کچھ اصحاب علم نے گلوبلائزیشن کو انسانی معاشرہ کے لیے مفید اور ترقی کا باعث گردانا ہے تو مغربی دانش وروں کے ایک بڑے طبقہ نے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ گلوبلائزیشن کی تائید میں لکھنے والے مغربی مفکرین میں جیزے فاچس اور تھامس فرائیڈے کافی مشہور ہیں۔ ان کی نگاہ میں گلوبلائزیشن انسانی برادری کے لیے مثبت اثرات رکھتا ہے ۔ غریب ممالک میں بیرونی سرمایہ کی آمد سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، جس سے غربت کے خاتمہ میں مدد ملتی ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں عصری ٹیکنالوجی اور مصنوعات کی فراہمی سے عوام کا معیار زندگی اونچا ہوتا ہے۔ صنعتی ترقی کے سبب روزگار کے جدید مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ صحت عامہ میں بہتری کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کی سہولتیں مہیا ہوجاتی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے حامیوں کے نزدیک گلوبلائزیشن سے حقوق انسانی، حقوق نسواں اور انسانی قدروں کو فروغ ملنے سے جمہوریت کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے، لیکن یہ اس کے ظاہری منافع ہیں۔ ان سے ہٹ کر گلوبلائزیشن کے نقصانات اور منفی اثرات انتہائی تباہ کن ہیں۔ گلوبلائزیشن کے ظاہری نقصانات میں یہ ہے کہ اس سے ملکی صنعتیں ٹھپ پڑجاتی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے نتیجہ میں دنیا بھر کی کمپنیاں اور تجارتی ادارے ملک میں داخل ہوجاتے ہیں۔ بیرونی اشیا کے ملک میں داخلہ سے مقامی صنعتیں بری طرح متاثر ہوجاتی ہیں۔ جن مقامی صنعتوں میں بیرونی اشیا کے مقابلہ کی سکت ہوتی ہے وہ ٹک پاتی ہیں، بقیہ مصنوعات اور ان کی فیکٹریاں راستہ سے ہٹ جاتی ہیں۔ اس سے مزدوروں کے حقوق متاثر ہونے لگتے ہیں۔ جان رب، نوم چومسکی وغیرہ گلوبلائزیشن مخالفین کا کہنا ہے کہ:
”گلوبلائزیشن سے بلاشبہ کسی ملک کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن چوں کہ دولت منصفانہ طورپر تقسیم نہیں ہوتی ،اس لیے عدم مساوات پیدا کرتی ہے۔ گلوبلائزیشن کے نتیجہ میں آنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سرمایہ اور خوش حالی کا فائدہ صرف اس چھوٹی سے اقلیت کو ہوتا ہے جو تعلیم یافتہ اور پیشہ وارانہ قابلیتوں سے آراستہ ہوتی ہے ،چوں کہ اس عمل کے نتیجہ میں معیشت کے روایتی ذرائع، یعنی زراعت، چھوٹی تجارت، گھریلو صنعتیں وغیرہ متاثر ہوتی ہیں، اس لیے آبادی کابڑا حصہ، خصوصاً غریب اور کمزور طبقات، شدید نقصان اٹھاتے ہیں۔ دیہی معیشت تباہ ہوجاتی ہے اور چند لوگوں کی خوش حالی کیلے عوام کی اکثریت کو بھاری قربانی دینی پڑتی ہے۔ اسی طرح گلوبلائزیشن کا عمل ملک کے اقتدار اعلیٰ کو متاثر کرتا ہے۔ حکومت کے اختیارات کم ہوجاتے ہیں۔وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں ا ور بااثر عالمی اداروں کے سامنے بے بس ہوجاتی ہیں۔ اور چوں کہ حکومت کے برخلاف ملٹی نیشنل کمپنیاں یا عالمی ادارے جمہوری طریقوں سے عوام کے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل نہیں ہوتے، اس لیے وہ نہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں اور نہ عوام کے مسائل و مفادات سے انہیں کوئی دلچسپی ہوتی ہے ۔ اس طرح گلوبلائزیشن کا عمل سیاسی سطح پر جمہوریت کی بنیادی روح کو ختم کردیتا ہے۔“ (رفیق منزل رہنمائے عہد نو، خصوصی اشاعت جنوری 2008ء)
گلوبلائزیشن کا سب سے بڑا نقصان تہذیب و تمدن اور قدروں کی بربادی کی شکل میں ہورہا ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ پہلو سب سے زیادہ تشویش ناک ہے۔ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی نظر میں تہذیب و تمدن کی کوئی اہمیت نہیں، اس لیے کہ ان کی اپنی کوئی تہذیبی شناخت نہیں ہوتی، لیکن اسلام کی اپنی مستقل تہذیب ہے۔ اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل راہ نمائی کرتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے نتیجہ میں ساری دنیا پر مغربی تہذیب کا تسلط قائم ہونے لگا ہے۔
”دنیا بھر میں مغربی تہذیب کے غلبہ اور مقامی تہذیبوں کے خاتمہ کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ماس پروڈکشن کے اس دور میں بڑی کمپنیاں ایسی اشیا کو فروغ دے رہی ہیں جو خالصتاً مغربی تہذیب کی نمائندگی کرتی ہیں۔ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور اٹھنے بیٹھنے میں مغربی طریقوں کو ساری دنیا پر مسلط کیا جارہا ہے۔ ہندوستان کے بہت سے دیہاتوں میں بھی نئی نسل روایتی مقامی مشروبات سے ناآشناہوتی جارہی ہے اور پیپسی کولا کی دیوانی ہوتی جارہی ہے۔ اسی طرح ماس میڈیا پر عالمی طاقتوں کے غلبہ کے باعث رہن سہن، طرز ہائے حیات، خیالات اور لوگوں کے تصورات پر بھی بیرونی تہذیبی عناصر غالب ہوتے جارہے ہیں۔ ہم جنسی، عریانیت اور جنسی بے قاعدگی، جیسے معاملات جن سے مشرقی معاشرے ناآشنا تھے، اب تیزی سے ان معاشروں میں بھی عام ہوتے جارہے ہیں۔ “
(رفیق منزل عہد نو،خصو صی اشاعت جنوری 2008ء)
گلوبلائزیشن سب سے زیادہ مسلم خاندانی زندگی پر اثر انداز ہورہا ہے۔ اسلام خاندانی زندگی کے استحکام پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ خاندانی وعائلی زندگی کا استحکام، آپسی رشتوں کے احترام، محبت و مودت، خیر خواہی وہم دردی، باہمی الفت اور حقوق کی ادائیگی سے ہوتاہے۔ خاندانی زندگی میں عورت کا اہم رول ہوتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کی پامالی یا انہیں بے لگام کردینے سے عائلی ڈھانچہ کھوکھلا ہونے لگتا ہے۔ گلوبلائزیشن سے خاندانی زندگی پر کاری ضرب پڑتی ہے۔ مصری اسکالر ہناء محمد گلوبلائزیشن کے اس خطرناک پہلو پر توجہ مبذول کرواتے ہوئے لکھتی ہیں:
”گلوبلائزیشن، نیو ورلڈ آرڈر، گلوبل ولیج اور ”لارج مڈل ایسٹ“ ان تمام اصطلاحات کا ایک مشترک ہدف ہے اور وہ ہے اسلام کی عزت وشوکت کو نابود کرنا اور اسلام کے ا س نظام خاندان کو ختم کرنا جو اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ اہل مغرب باوجود اپنی ترقی یافتہ تہذیب کے ایسا نظام پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اسلام کے نظام خاندان میں عورت کو مرکزیت حاصل ہونے کی وجہ سے وہ ان سازشوں کا اوّلین ہدف بنی ہوئی ہے۔ جن کے تانے بانے خفیہ طریقے سے بنے جارہے ہیں، تاکہ اسے اس کے دینی تشخص سے عاری کردیاجائے اور ثقافتی طورپر گلوبلائزیشن کے تقاضوں کا پابند بنادیاجائے۔“
(المجتمع3/مارچ2007ء)
گلوبلائزیشن کے ذریعہ مسلم خاتون اور اسلامی نظام خاندان کو کس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ہناء محمد لکھتی ہیں کہ: ” اس کے لیے متعدد وسائل کا استعمال کیا جارہا ہے۔ مثلاً عورتوں کی مقامی تنظیموں کے لیے بیرونی دولت فراہم کی جاتی ہے، تاکہ اس کے ذریعہ گلوبلائزیشن کے منصوبوں کو نافذ کیا جاسکے۔ اسی طرح عورتوں سے متعلق بین الاقوامی قرار دادوں اور اقوام متحدہ کی کانفرنسوں کی تجاویز کے نفاذ کے لیے معاشی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی تجاویزآوارگی کو فروغ دیتی ہیں اور ناجائز تعلقات کے لیے بھی فائدہ کا اعلان کرنے والی ہیں۔ عورتوں کو مارکٹنگ کے لیے وسیلہ کے طورپر استعمال کرکے انہیں سامان تجارت کی حیثیت دی جارہی ہے۔ فحش اور عریاں گانوں کے ذریعہ عورتوں کو بے حیا بنایا جارہا ہے۔
عورتوں سے متعلق ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنسوں کی دستاویزات میں دینی و اخلاقی تحفظات کو ختم کردینے پر زور دیاگیا اور یہ باور کرایاگیا ہے کہ مذہب بس ایک موروثی سلسلہ ہے، جسے بے چون و چرا قبول کرنے پر عورت بے چاری مجبور ہے۔ اسی طرح ان قراردادوں میں یہ بھی کہا گیا کہ زوجیت اور امومت عورت پر جبر کے ذرائع ہیں۔ گھریلو کام میں عورت ایسی مشقت میں مبتلا رہتی ہے جس میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔حتی کہ بعض مسلم خواتین گلوبلائزیشن کے پروپگنڈہ سے متاثر ہوکر اساسیات ِدین پر تنقیدیں کرنے لگی ہیں اور بعض بنیادی تعلیمات، مثلاً وراثت، عورت کی گواہی اور عدت وغیرہ کو منسوخ کرنے تک کا مطالبہ کرنے لگی ہیں۔ “
(حوالہ سابق)
مسلم خاندان پر گلوبلائزیشن کے اثرات صاف محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ گلوبلائزیشن کے نتیجہ میں مسلم خاندان اختلاف و انتشار کا شکار ہورہے ہیں۔ افراد خاندان میں باہمی مدد کا جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔ربط و تعلق کمزور ہورہا ہے ،خود غرضی اور مفاد پرستی بام عروج کو پہنچ چکی ہے۔ ہر فرد کو خاندانی مفاد و استحکام سے زیادہ ذاتی مفاد عزیز ہورہا ہے۔ اولاد میں والدین کی نافرمانی تشویش ناک حدتک بڑھتی جارہی ہے۔ اولاد ماں باپ کو پس ماندہ اور پرانے خیالات کا تصور کرنے لگی ہے۔ دوسری جانب خود ماں باپ میں اولاد کے تئیں ذمہ داریوں کا احساس ختم ہوتا جارہا ہے۔ اب ماں باپ اولاد کو اپنی پرتعیش زندگی کے لیے رکاوٹ سمجھنے لگے ہیں۔ شفقت پدرانہ اور ماں کی ممتا مفقود ہوتی جارہی ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کی تعمیر سیرت اور روحانی تربیت سے دامن بچاتے ہیں۔ ایک ہی جگہ اور ایک ہی اپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے لوگ پڑوسیوں سے کٹے ہوئے رہتے ہیں۔ لفٹوں اور سیڑھیوں سے چڑھتے اترتے بارہا آمنا سامنا ہوتا ہے، لیکن بات چیت تو دور سلام تک نہیں کرتے۔ پڑوسیوں کا حسن سلوک قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے۔ ہر خاندان دوسرے خاندان سے کٹا ہوا زندگی گزار رہا ہے۔ خاندان کے بزرگوں سے نیازمندانہ روابط اور ان کا ادب و احترام ختم ہوتا جارہا ہے۔ اب گھر کے نوجوان بوڑھوں اور بزرگوں کو بوجھ خیال کرنے لگے ہیں۔ ”بیت المعمرین“ جدید کلچر کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ گھر کے بوڑھوں سے جان چھڑانے کے لیے انہیں بیت المعمرین میں داخل کرادیا جاتاہے۔
خاندانی انتشار اور خود غرضی اور مفاد پرستی کی بڑھتی وبا نے خاندانی جرائم میں خوب اضافہ کیا ہے۔ باپ کا اپنی اولاد کو قتل کرڈالنا اور اولاد کا باپ کو قتل کرنا، شوہر کا بیوی کو اور بیوی کا شوہر کو قتل کردینا اور محرم رشتہ داروں کے ساتھ بدکاری عام ہورہی ہے۔ گلوبلائزیشن کے ان اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے دینی شعور کی بے داری اور مضبوطی کے ساتھ دین پر عمل آوری ضروری ہے ۔ گلوبلائزیشن دراصل دینبے زاری اور دین سے آزادی کی دعوت ہے۔ اس کا مقابلہ دین پسندی اور شریعت پر سخت عمل آوری کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں علماء اور داعیانِ امت پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مسلم معاشرے کوگلوبلائزیشن کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں اپنی دعوتی و اصلاحی کوششوں میں تیزی لانی ہوگی۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے فتنوں کا ذکر کیا اور بہت کثرت سے ان کا تذکرہ کیا یہاں تک کہ فتنہ احلاس کا ذکر کیا، تو ایک کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! فتنہ احلاس کیا ہے؟ فرمایا: بھاگنا اور جنگ ہے پھر اس کے بعد سراء کا فتنہ ہے، جس کا دھواں ایک ایسے آدمی کے پیر کے نیچے سے نکلے گا جو میرے گھر والوں میں سے ہوگا وہ یہ گمان کرے گا وہ مجھ سے ہے لیکن مجھ سے نہیں ہوگا اور بیشک میرے ولی دوست تو وہی ہیں جو متقی ہیں پھر لوگ ایک شخص پر اعتماد کریں جیسے کہ سرین، پسلی کے اوپر یعنی ایک کجی والے شخص پر اتفاق کریں گے پھر دہیماء کا فتنہ ہوگا اور اس میں امت میں کسی کو نہیں چھوڑے گا مگر یہ کہ اسے ایک طمانچہ مارے گا جب لوگ کہیں گے کہ فتنہ ختم ہوگیا تو وہ اور بڑھے گا اس میں آدمی صبح کو مومن ہوگا تو شام کو کافر ہوگا یہاں تک کہ لوگ دو خیموں کی طرف ہوجائیں ایک ایمان کا خیمہ جس میں نفاق نہیں ہوگا اور دوسرا نفاق کا خیمہ جس میں ایمان نہیں ہوگا پس اگر تم اس وقت ہو تو اس دن یا اس سے اگلے دن دجال کا انتظار کرو۔
قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
انما امولکم و اولادکم فتنہ واللہ عندہ اجر عظیم ط فاتقوا اللہ مااستطعتم واسمعوا واطیعواللہ وانفقوا خیرا لانفسکم ومن یوق شح نفسہ فاُولٰئک ھم المفلحون ان تقرضوا للہ قرضاً حسناً یضا عفہ لکم ویغفرلکم واللہ شکور حلیم o عالم الغیب والشہادة العزیز الحکیم o
یعنی، تمہارے اموال اور اولاد بس تمھارے لیے ایک آزمائش کی چیز ہیں، اور اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ تو جہاں تک تم سے ہوسکے، اللہ سے ڈرتے رہو اور سنو اور مانو اور خرچ کیا کرو، یہ تمارے لیے بہتر ہوگا۔اور جو شخص نفسانی حرص سے محفوظ رہا، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، اگر تم اللہ کو اچھی طرح قرض دوگے تو وہ اس کو تمہارے لیے بڑھاتا چلا جائے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بڑا قدر دان ہے، بڑا بردبار ہے، پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے، زبردست حکمت والا ہے۔
یہ چند آیات سورہ تغابن کی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان والوں کو دو چیزوں کے نقصان کی خبر دی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نہایت شفقت ہے وہ اپنے بندوں کو ایسا چاہتے ہیں کہ جیسا ماں باپ اپنے بچوں کو چاہتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ماں باپ کو بھی اپنے بچے سے اتنی محبت نہیں ہوتی، جتنی کہ حق تعالیٰ کو اپنے بندوں سے ہوتی ہے۔ کیوں کہ ماں باپ کو اولاد کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے، اور جب اللہ تعالیٰ نے کسی کو محبت عطا کی ہے تو خود اللہ تعالیٰ کے پاس کس قدر زیادہ محبت ہوگی کہ جب کوئی شخص ایک چیز بانٹتا ہے تو اس کے پاس تو سب سے زیادہ وہ چیز ہوتی ہے۔ اسی طرح، اگر یہ کوئی خوبی، کوئی صفت ہے تو وہ بھی بانٹنے والے کے پاس لینے والوں سے زیادہ ہی ہوگی۔ ۔ البتہ بانٹنے والا جب بانٹتا ہے تو اس کے پاس یہ چیز بانٹنے پر کچھ کم ہوجاتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں کمی نہیں ہوتی، وہاں کم کا احتمال ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ اللہ کے پاس ہر چیز کے غیر متناہی، لامحدود خزانے موجود ہیں۔ اب چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں ماں باپ کی محبت دی ہے تو اس سے خداکے ہاں یہ صفت کم نہیں ہوئی۔
دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بعض مرتبہ ایک شخص کے اخلاق کا دوسرے پر اثر ہوتاہے مثلاً شاگرد میں استاد کی خوبیوں کا اثر پہنچتا ہے، نیز اچھے اخلاق بھی صحبت کے باعث پیدا ہوتے ہیں، مگر اس سے استاد کی خوبیوں میں کمی نہیں ہوتی، حالانکہ استاد کی صفات لازمی نہیں کہ ہر استاد میں ہوں، اس کے باوجود ایک استاد کی خوبی دوسرے میں منتقل ہونے سے خود استاد کی کسی صفت میں کمی نہیں ہوتی اور حق تعالیٰ کی صفات تو ہمیشہ سے ہیں اور ان میں تمام صفات موجود ہیں تو بھلا اللہ تعالیٰ کے معاملے میں یہ خدشہ کیوں کر پیدا ہوسکتاہے کہ اگر وہ کسی کے اندر کوئی صفت پیداکریں تو ان میں کمی ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر چیز کے خزانے غیر متناہی اور لامحدودہیں۔ لہٰذا، اگر کسی درجے میں کمی کا احتمال ہوتا، تب بھی یہ کمی انتہائی معمولی ہوتی۔
چنانچہ جب ماں باپ کی محبت کا یہ حال ہے جو دن رات ہمارے مشاہدے میں آتا ہے جو خدا کی دی ہوئی ہے، تو خود اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے کتنی زیادہ محبت ہوگی، اس کا تواندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔
اسی محبت کا تقاضا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر قسم کے نفع و نقصان سے خبر دار کردیا۔چنانچہ مذکورہ بالا آیت میں دو باتوں کا ذکر ہے جو انسان کو پیاری ہوتی ہیں اور ان میں انسان کا نقصان بھی ہے، مگر نقصان کے ساتھ ان میں کچھ فائدہ بھی ہے۔ اس لیے یہاں ایسا لفظ استعمال فرمایا جو لغوی اعتبار سے نفع کیلیے بھی بولا جاسکتا ہے اور نقصان کیلیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوں کہا جاسکتاہے کہ یہاں دو محبوب چیزوں کے نفع اور نقصان سے مطلع کیا گیا ہے۔
محبوب چیز کے نقصان سے خبردار کرنے کی ضرورت زیادہ ہے، کیوں کہ جو چیز ناگوار ہو، اس کے نقصانات سے تو آدمی خود ہی بچا کرتاہے۔ مگر محبوب چیزوں میں نقصان زیادہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے معالج بھی اپنے مریض کو ایسی چیزوں سے زیادہ روکتا ہے کہ جو اسے مرغوب ہیں اور ان میں مریض کا نقصان ہے۔
نقصان دہ دو چیزیں
وہ نقصان دہ دو چیزیں کیا ہیں؟ ایک مال اور دوسرے اولاد۔
ان دونوں چیزوں میں رغبت بھی ظاہر ہے اور ان کیلیے انسان کیا کچھ نہیں کرتا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دنیا میں جتنے بھی محبوب مشاغل اور دھندے ہیں، بس انھی دو کیلیے ہیں۔ خاص کر ماں کی محبت کے ساتھ کچھ نادانی ہوتی ہے جس سے اولاد کے اخلاق بگڑجاتے ہیں، اگرچہ باپ کو اولاد سے ایک حد تک محبت ہوتی ہے جس سے عموماً کوئی برا نتیجہ مرتب نہیں ہوتا بلکہ اس سے اولادکی اصلاح ہوتی رہتی ہے۔ یہاں محبت ان تکلفات کا سبب ہے جس سے اولاد بگڑجائے اور اس محبت میں نادانی بھی ہے۔
اس قسم کی محبت محفلوں مجلسوں میں اس وقت خرابی پیدا کرتی ہے کہ جب لوگ زیب و زینت کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اہتمام کرنے والے الگ سے جماعت کرانے لگتے ہیں۔ آپ صحابہ کی زندگیوں کے دیکھئے کہ وہاں کتنی سادگی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرت کی کیفیت یہ تھی کہ وضع میں، لباس میں، مکان میں، نشست میں، غرض ہر معاملے میں سادگی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات سے یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ ان میں بزرگ اور سردار کون ہے، حتیٰ کہ اجنبی آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر یہ پوچھنا پڑتا تھا من محمد فیکم یعنی تم میں سے محمدصلى الله عليه وسلم کون ہیں؟ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کوئی بڑا عمامہ نہ ہوتا تھا، نہ لباس دوسروں سے مختلف تھا نہ کوئی بڑا تخت تھا جس پر آپ بیٹھتے ہوں۔ سب کی نشست اور انداز ایک سا ہوتا تھا۔
البتہ، وعظ کیلیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے تو منبر پر بیٹھتے اور وہ بھی دینی مصلحت کی وجہ سے، کیوں کہ زمین پر بیٹھ کر تقریر کرنے سے بڑے مجمع تک آواز دور تک نہیں پہنچ سکتی۔ نیز، کھڑے ہو کر تقریر کرنا بعض اوقات مشکل اور مشقت کا باعث ہوتا ہے، خصوصاً جب دیر تک وعظ کرنا ہو تو․․․ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھتے تھے۔ اس کے سوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام مجالس میں سب کے ساتھ ملے جلے رہتے تھے کہ کسی انداز سے یہ پتا نہیں چلتا تھا۔ اس لیے لوگ آکر پوچھتے تھے کہ تم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ جس کے جواب میں کہا جاتا ھذا المتکی الابیض یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ گورے چٹے جو ہاتھ یا دیوار کا سہارا لگائے بیٹھے ہیں۔
یہ تو نشست و برخاست کی کیفیت تھی۔ چلنے پھرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت یہ تھی کہ نہ سب سے آگے چلتے تھے اور نہ سب کے پیچھے چلتے تھے بلکہ ملے جلے چلتے تھے۔ پھر کبھی دائیں تو کبھی بائیں ہوجاتے تھے۔ غرض، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سادگی تھی۔حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان یہ ہے کہ #
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
یہ بزرگی ہی تو تھی کہ اہل کمال کو تصنع اور بناوٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تصنع تو وہ کرتا ہے کہ جس میں ذاتی کمال نہ ہو۔ اور جس میں ذاتی کمال ہوتا ہے، وہ تصنع نہیں کرتا وہ اسباب کمال سے مستغنی ہوتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی کمال اللہ کی معرفت اور محبت ہے․․․ اور یہ کمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے بحمداللہ ہر مسلمان کو حاصل ہے۔ چنانچہ جسے اس کی عظمت پتا چل جائے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ان چیزوں سے مستغنی ہوجاتا ہے۔ ایک کابلی کہا کرتا تھا کہ ہم امیر ہیں او رہم سے بڑھ کر دولت کسی کے پاس نہیں کیوں کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی دولت ہے۔
مگر ہم نے اس دولت کی حقیقت نہیں سمجھی، اس کا اثر نہیں دیکھا، اس کی قدر نہیں جانی، اس لیے ہم تکلف اور تصنع میں مبتلا ہیں۔ واللہ، یہ وہ دولت ہے کہ جس کے پاس ہے اسے کسی دوسرے سامان کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر ہماری حالت اس شخص کی سی ہے کہ جس کے سر پر روٹیوں کاٹوکرا رکھا ہے اور وہ روٹی کے ٹکڑے کیلیے بھیک مانگتا پھر رہا ہے۔ تم دوسری قوموں کے طرز اور طریقے اختیار کرکے دولت حاصل کرنا چاہتے ہو، حالانکہ تمہارے پاس اتنی بڑی دولت ہے کہ جس کی قیمت تمام دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔ ہمارے پاس واللہ سب کچھ ہے لیکن اس کی خبر نہیں ہے۔
اسی بے خبری کا نتیجہ ہے کہ اگر کوئی ہم سے اس دولت (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کو چھیننا چاہے تو بعض نادان اسے گنوا دیتے ہیں؛ دنیا کے چار ٹھیکروں کے بدلے اس سے یہ دولت لے لے تو گوارا کرلیتے ہیں، مگر کوئی ان سے چار پیسے چھین لے تو لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال اس نادان بچے کی سی ہے کہ اگر کوئی شخص اس سے ایک لڈوکے بدلے جیب میں پڑے پچاس روپے ہتھیالے تو اس پر نہ لڑے گا، مگر کوئی اس سے مٹی کا کھلونا لینے لگے تو اس سے لڑنا شروع کردے گا حالانکہ کھلونے کی کیا حیثیت۔
اس کا راز کیا ہے؟
اس کا راز یہ ہے کہ اس نادان کو پچاس روپے کی قدر و حقیقت نہیں معلوم اور مٹی کے کھلونے کی ظاہری بھڑک اسے محبوب ہے۔ یہی حال آج کے مسلمانوں کا ہے کہ انھیں ایمان کی قدر نہیں، اس لیے ان کاموں سے باک نہیں جو ایمان کو ضائع یا ضعیف کرنے والے ہیں۔ ہاں، روپے پیسے کی قدر ہے اس لیے مال میں نقصان سے ڈرتے ہیں۔ اگر انھیں ایمان کی دولت کی قدر معلوم ہوجاے تو پھر ان کا بھی وہی حال ہوگا جو اس کابلی کا تھا جوخود کو سب سے امیر سمجھتا تھا۔
غرض، ہر مسلمان حقیقتاً صاحب کمال ہے اور کمال کیلیے بے تکلفی اور سادگی لازم ہے۔ بناوٹ تو وہ کرے جس میں عیب ہو۔ اس وجہ سے گنجا اپنا سر چھپاتا ہے، کبھی اپنا سرکھولنا پسند نہیں کرتا۔ کبھی عمدہ ٹوپی پہنتا ہے تو کبھی بھڑک دار عمامہ باندھتا ہے۔ صلاحیت والا آدمی زیادہ زیب و زینت نہیں کرتا۔ ہاں، جس میں خود کوئی کمال، کوئی صلاحیت نہ ہو تو وہ اپنا عیب چھپایا کرتاہے۔ اسی لیے آپ علمائے محققین کو ہمیشہ سادہ لباس میں دیکھیں گے۔ ہاں، ناقص علماکو جبہ و دستار کے اہتمام میں مشغول پائیں گے کہ چونکہ ان میں خود کوئی کمال نہیں ہوتا، وہ لباس پہن کر بڑا بننا چاہتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ میلے کچیلے رہا کرو۔ سادگی سے میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ میں صفائی ستھرائی سے منع نہیں کرتا بلکہ تکلف اور تصنع (بناوٹ) سے منع کرتا ہوں۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
نظافت اور چیز ہے اور بناوٹ اور چیز ہے۔ نظافت تو شریعت میں مطلوب ہے اور اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا اہتمام فرمایا ہے کہ ارشاد فرماتے تھے کہ اپنے گھروں کے سامنے کا میدان بھی صاف رکھا کرو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو کیوں کہ یہود صفائی نہیں رکھتے تھے۔ جب گھر کے سامنے کی جگہ کی صفائی کا بھی حکم ہے تو خود گھر کی صفائی کا کتنا حکم ہوگا۔ پھر لباس اور بدن کی صفائی کا کس درجہ حکم ہوگا۔ اور جب ظاہر کی صفائی مطلوب ہے تو دل کی صفائی تو کہیں زیادہ مطلوب ہوگی۔
صفائی تو بڑی اچھی چیز ہے۔ حضور صلى الله عليه وسلم اس کا بہت اہتمام فرماتے تھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم بہت صاف رہتے تھے اور مسلمانوں کو بھی صفائی کی تاکید کرتے تھے۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ جمعہ کے دن کپڑے بدل کرآیا کرو۔ مگر اس نظافت کے ساتھ آپ کا ارشاد یہ بھی ہے کہ سادگی ایمان میں سے ہے۔ (البذاذةُ من الایمان)
اس سے معلوم ہوا کہ سادگی اور نظافت دونوں جمع ہوسکتے ہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ تصنع اور تکلف ایمانی شان کے خلاف ہے۔ مگر آج کل دونوں میں افراط و تفریط سے کام لیا جارہا ہے۔ بعض لوگ صفائی پسندہیں تو وہ حد تکلف تک پہنچ جاتے ہیں کہ ہر وقت بناؤ سنگھار ہی میں لگے رہتے ہیں۔ کپڑا بھی ان کیلیے قیمتی اور بھڑکیلا ہونا چاہیے۔ سرمہ اور کنگھی میں بھی ناغہ نہیں ہونا چاہیے۔ جبکہ جو سادگی پسندہیں وہ میلے کچیلے رہتے ہیں۔ دونوں میں اعتدال نہیں ہے۔
سادگی اور صفائی یہ ہے کہ لباس چاہے گھٹیا ہی ہو، مگر داغ دھبے سے صاف ہو۔ اگر دھبا لگ جائے تو فوراً اسے صاف کردیا جائے۔ اگر کپڑا میلا ہوجائے تو اسے صابن سے دھولیا جائے، کلف اور استری کے انتظار میں نہ رہا جائے۔ اس کا انتظار تکلف ہے۔ اسی طرح، قیمتی بھڑکیلا کپڑا پہننا بھی تکلف ہے، اور کپڑے پر داغ دھبا لگا رہنے دینا یا میلا کچیلا رہنے دینا بھی براہے کہ یہ صفائی اور نظافت کے خلاف ہے۔
اس سے آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ سادگی اور صفائی کس طرح جمع ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا، سادگی کے ساتھ صفائی کا اہتمام کرنا بھی اعتدال ہے۔ ہمارے بزرگانِ دین نے کبھی کسی قسم کا تکلف نہیں کیا۔ ہمیشہ سادگی اور اعتدال کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ ہمیں بھی اپنی معاشرت ایسی ہی سادہ رکھنی چاہیے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مسجد میں بھی تکلف برداشت نہ تھا۔ چنانچہ نقش و نگار سے منع فرمایا۔ حضرت عمرؓ نے مسجد کی بنیاد کے وقت اس کے معمار سے فرمایا تھا کہ لوگوں کو گرمی سردی سے بچاؤ، سرخ اور زرد رنگ کرنے سے بچو، لوگوں کو اس کے فتنے میں نہ ڈالو!
مسجد میں نقش و نگار کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ فتنہ ہیں۔ اس تکلف اور بناوٹ سے آدمی اصل کام سے رہ جاتا ہے اور انھی کے دیکھنے میں لگ جاتا ہے۔نماز میں یکسوئی نصیب ہی نہیں ہوتی۔ اسی لیے ہمارے فقہا نے مساجد میں ایسے نقش و نگار اور ظاہری بھڑک کو مکروہ قرار دیا ہے جس سے نمازیوں کا دل ہٹنے لگے۔ حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک وہ وقت آئے گاکہ لوگ مسجد بنانے پر ایک دوسرے سے فخر کریں گے۔ ایک اپنی مسجد کو اچھا کہے گا تو دوسرا اس سے اچھی مسجد بنانے کی کوشش کرے گا۔ اور آج کل یہی ہورہا ہے کہ مسجدیں اسی لیے بنائی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ جب کوئی مسجد بناتا ہے تو نئی بناتا ہے کہ پرانی مسجد میں رقم لگانے سے نام نہ ہوگا، کیوں کہ پرانی مسجد میں رقم لگانے سے تو پرانی مسجد کے اصل بانی کا نام ہوجائے گا، پھر ہم رقم کیوں لگائیں۔ مگر خوب سمجھ لیجیے کہ شہرت کی خواہش سے شہرت نہیں ہوتی۔ شہرت تو خود کو مٹانے سے ہوتی ہے۔
اگر شہرت ہوس داری اسیر دام عزلت شو
کہ در پرواز دارد گوشہ گیری نام عنقا را
یعنی اگر شہرت کی ہوس ہے تو گوشہ نشینی اختیار کرو، گوشہ گیری سے عنقا کا نام مشہور ہے۔ اب دیکھئے کہ عنقا (ایک پرندے کا نام) پوشیدہ ہوگیا تو اس کا کس قدر نام ہوگیا کہ ہر شخص اسے جانتا ہے۔ اسی طرح اہل اللہ کو دیکھئے کہ وہ اپنے کو مٹاتے ہیں تو ان کا کتنا نام ہوتا ہے، حتیٰ کہ مرنے کے بعد ان کی جوتیاں تک تبرکات میں رکھی جاتی ہیں جبکہ بادشاہوں کے عمدہ عمدہ تختوں کی بھی لوگوں کو خبر نہیں ہوتی۔
افسوس، لوگوں نے موت کو بھی فخر کا موقع بنا رکھا ہے۔ چنانچہ کہیں تیجہ ہوتا ہے تو کہیں چالیسواں۔ ان تقاریب میں بڑا تکلف کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ مسئلہ تو الگ رہا کہ یہ رسوم سنت کے خلاف ہیں، یہاں میں ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ حدیث میں ہے انما الاعمال بالنیات وانما لکل امری ما نویٰ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اعمال کا اعتبار نیت سے ہے اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔
اب ذرا غور کیجیے کہ تیجے، دسویں اور چالیسویں کے کرنے میں کیا نیت ہوتی ہے۔ اس کا انداشہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ اگر کسی نے اپنی ماں کے ایصالِ ثواب کیلیے پچاس روپے رکھے ہوں اور اس سے پلاؤ پکوا کر مسجد یا غریب کے گھر بھیجنا چاہتا ہو تو ہم یا آپ اسے مشورہ دیں گے کہ اس رقم کا پلاؤ نہ بنواؤ، کسی وقتی ضرورت میں خرچ کردو کیوں کہ وقتی ضرورت زیادہ اہم ہے، اور وقتی ضرورت میں خرچ کرنا غیر وقتی ضرورت میں خرچ کرنے سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ یا فلاں آدمی کو چپکے سے دے دو تاکہ اس کی آبرو بھی محفوظ رہے اور یوں اس سے جو ثواب ہو وہ اپنی ماں کو بخش دو․․․ تو اس شخص کے دل میں فوراً یہ بات آئے گی کہ واہ، میرا اتنا روپیہ پیسہ خرچ ہوجائے اور کچھ نام بھی نہ ہوگا۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ تیجہ، دسواں، چالیسواں کرنا مقصد نہیں ہے، بلکہ محض فخر کرنا ہے۔ کیرانہ میں ایک گوجر بیمار ہوگیا تو اس کا بیٹا حکیم صاحب کے پاس آیا اور بولا کہ حکیم جی، اب کی دفعہ تو کسی طرح میرے باپ کو اچھا کرہی دو، کیوں کہ چاول بہت مہنگاہے، اگر میرا باپ ان دنوں مرگیا تو برادری کو تیجہ دسواں کھلانا پڑے گا جس کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔ اس غریب بے چارے کو باپ کے مرنے کا غم اس قدر نہ تھا جتنا کہ اس بات کی فکر کہ اس کے مرنے پر بہت خرچہ ہوگا۔
یہ تو کیرانہ کا قصہ ہے، خود ہمارے قصبے میں بھی ایک قصہ ہوا کہ ایک دن کوئی بڑھیا عورت ہمارے گھر آئی اور کہنے لگی کہ میں فلانی کے گھر گئی تھی، اس کی ساس مرگئی ہے۔ وہ بہت رو رہی ہے اور یوں کہتی تھی کہ مجھے اس کے کفن دفن کا تو زیادہ فکر نہیں، مجھے تو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ اس وقت گھر میں کچھ بھی نہیں اور مرنے کی خبر سن کر ساری برادری جمع ہوجائے گی، انھیں کھلانے پلانے کا سامان کہاں سے کروں گی۔ کہیں سے آٹھ آنے ہی ہوجاتے تو میں ان کے لیے پان چھالیا منگالیتی تاکہ ان کے سامنے رکھ سکوں۔ کفن دفن تو ہو ہی جائے گا۔ یہ سن کر میں نے اپنے گھر پر کہا کہ یہ کام تمہارے کرنے کا ہے، یہ وعظ کہاں تک اثر کرے گا، تم اس رسم کو توڑو اور عورتوں کو سمجھاؤ کہ میت کے گھر جاکر کھانا پینا بہت بری بات ہے۔ ایک تو غریبوں پر موت کا صدمہ ہوا ہے اور دوسرا صدمہ ان پر یہ ڈالا جائے کہ وہ آنے والیوں کے کھانے پینے کا انتظام کریں۔ بہت شرم کی بات ہے۔
میرے گھر والے اس سے پہلے کسی شادی غمی میں نہیں جاتے تھے کیوں کہ اکثر منکرات ہوتے ہیں مگر میں نے اس ضرورت کے تحت اس غمی کے موقع پر انھیں جانے کی اجازت دے دی اور یہ کہا کہ یہ دین کا کام ہے، اس لیے تمہیں شرکت کرنی چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی شروع کیا اور عورتوں کو میت کے گھر جاکر کھانے پینے حتیٰ کہ پان کھانے سے بھی روکا۔ اس پر خود بھی عمل کیا تو اس کا اثر زیادہ ہوا۔ اس پر اگرچہ بہتوں نے ناک منھ چڑھایا کہ کیا ہم ایسے گرے پڑے ہیں کہ آنے والیوں کو پان چھالیا بھی نہ کھلاسکیں؟ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں سب مستورات نے اس پر عمل شروع کردیا اور اب کوئی عورت کسی میت کے گھر پر پان تک نہیں کھاتی۔
=============================
جزیرۃ العرب میں توحید کی مضبوط بنیاد سے شیطان مایوسی کا شکار!
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرہ عرب میں مصلی (یعنی مسلمان) اس کی پرستش کریں لیکن ان کے درمیان فتنہ و فساد پھیلانے سے مایوس نہیں ہوا ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح:
مطلب یہ کہ جزیرۃ العرب میں ایمان و اسلام کی جڑیں اتنی مضبوط ہوگئیں ہیں اور تو حید کا کلمہ یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ میں اس طرح جم گیا ہے کہ اب اس خطہ ارض میں بت پرستی جیسی لعنت کبھی نظر آئے گی چنانچہ اس بارہ میں شیطان نے بھی اپنی شکست تسلیم کرلی ہے اور وہ اس بات سے قطعا مایوس ہوگیا ہے کہ یہاں کے مومن و مسلمان اس کے بہکاوے میں آکر بت پرستی اور دوسری کھلی ہوئی مشرکانہ حرکتوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں، لیکن بہر صورت بہکانا اور ورغلانا چونکہ شیطان کی فطرت ہے اس لئے اس نے جزیرۃ العرب کے لوگوں میں اپنا مشن ختم نہیں کیا ہے اور اس بات میں پر امید ہے کہ ان کے درمیان طرح طرح جذبات ابھار کر ان کو آپس میں لڑایا جا سکتا ہے۔ ان کو افتراق و انتشار کے فتنوں میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ اس حدیث کے پس منظر میں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ زمانہ رسالت سے لے کر آج تک کبھی بھی جزیرۃ العرب میں بت پرستی نہیں ہوئی۔ کھلے ہوئے مشرکانہ اعمال کا کبھی مظاہرہ نہیں ہوا۔ یہ دوسری بات ہے کہ شیطان کمزور عقیدہ لوگوں کو ایمان و اسلام سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو گیا، کچھ لوگ مرتد ہوگئے ہوں لیکن ان میں سے بھی کوئی بت پرست ہوگیا ہو ایسا ہرگز نہیں ہوا۔
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت کے بگڑنے کے وقت جس آدمی نے میری سنت کو دلیل بنایا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ تو بیہقی نے یہ روایت اپنی کتاب زہد میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کی ہے۔" تشریح : ایسے عظیم اجر کے ملنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ایک شہید دین اسلام کو زندہ رکھنے اور اس کی شان و شوکت کو بڑھانے کی خاطر دنیا کی تمام مصیبتیں جھیلتا ہے یہاں تکہ کہ اپنی جان بھی قربان کر دیتا ہے، اسی طرح جب کہ دین میں رخنہ اندازی ہونے لگے اور فتنہ فساد کا دور دورہ ہو تو سنت کو رائج کرنے اور علوم نبوی کو پھیلانے میں بے شمار مصائب و تکالیف کا سامنا ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں اس لئے اس عظیم اجر کی خوشخبری دی جا رہی ہے اس حدیث میں بھی لفظ رواہ کے بعد مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں جگہ خالی ہے مگر مذکورہ عبارت میرک شاہ نے بڑھا دی ہے۔
عورتوں کا فتنہ (اس وقت) زیادہ نقصان دہ ہے:
حضرت اسامہ ابن زیؓد کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
میں نے اپنے بعد ایسا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے جو مردوں کے حق میں عورتوں کے فتنہ سے زیادہ ضرر رساں ہو۔
[مسند الحميدي:556، مسند ابن أبي شيبة:154، مسند أحمد:21829، مسند البزار:1255، +2598+2598، مسند أبي يعلى:972]
[صحيح مسلم::2740]
تشریح :
مردوں کے حق میں عورتوں کے فتنے کو سب سے زیادہ ضرر رساں اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ اول تو مردوں کی طبائع عام طور پرعورتوں کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں دوسرے یہ کہ مرد عام طور پر عورتوں کی خواہشات کے زیادہ پابند ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حارم امور میں گرفتار ہوتے ہیں اور عورتوں ہی کی وجہ سے آپس کے لڑائی جھگڑے نفرت وعداوت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ عورتیں ہی ہیں جن کی بےجا ناز برداریاں مردوں کو دنیا داری کی طرف راغب کرتی ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ دنیاداری سے زیادہ اور کون سی چیز ضرر رساں ہوسکتی ہے کیونکہ سرکار دوعالم ﷺ نے اس کے بارہ میں فرمایا کہ ((حب الدنیا رأس کل خطیئۃ)) یعنی دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ ارشاد گرامی اپنے بعد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عورتوں کے فتنے آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں کم تھے اور ان کا زیادہ ظہور آپ ﷺ کے بعد ہوا کیونکہ اس وقت حق کا غلبہ تھا اور نیکی کی طاقت تمام برائیوں کو دبائے ہوئے تھی جب کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آہستہ آہستہ باطل کی قوت بڑھتی گئی اور برائیوں کا غلبہ ہوتا گیا۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ وَ اَوۡلَادِکُمۡ عَدُوًّا لَّکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَعۡفُوۡا وَ تَصۡفَحُوۡا وَ تَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿التغابن:۱۴﴾ اے ایمان والو تمہاری بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن بھی ہیں سو ان سے بچتے رہو اور اگر معاف کر دو اور درگذر کرو اور بخش دو تو اللہ بھی بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دنیا شیریں اور سبز جاذب نظر ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا کا خلیفہ بنایا ہے اس لئے وہ ہر وقت دیکھتا ہے کہ تم اس دنیا میں کس طرح عمل کرتے ہو لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں کے فتنہ سے بچو کیونکہ بنی اسرائیل کی تباہی کا باعث سب سے پہلا فتنہ عورتوں ہی کی صورت میں تھا۔ (مسلم)
تشریح :
دنیا شیریں اور سبز ہے ، کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شیرنی طبیعت کے لئے ایک مرغوب چیز ہوتی ہے اور اس طرح سبز چیز آنکھوں کو بہت بھاتی ہے اسی طرح دنیا بھی دل کو بہت پیاری لگتی ہے اور آنکھوں کو بھی بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا کا خلیفہ بنایا ہے الخ، کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے وہی اس کا حقیقی مالک وحاکم ہے تمہیں اس نے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر گویا اس دنیا کے تصرفات میں تمہیں اپنا وکیل بنایا ہے لہذا اللہ تعالیٰ تمہیں ہر وقت دیکھتا ہے کہ تم اس زمین پر اس کے بارخلافت کو کس طرح اٹھا رہے ہو اور اپنی عملی زندگی کے ذریعہ تصرفات دنیا میں حق وکالت کس طرح ادا کر رہے ہو؟ یا اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ تم سے پہلے اس دنیا سے جا چکے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کا خلیفہ وارث بنایا ہے، لہذا ان کے پاس جو کچھ تھا وہ سب تمہیں دیدیا ہے اور اب وہ تمہیں دیکھتا ہے کہ تم اپنے اسلاف کے احوال وکوائف سے کس طرح عبرت پکڑتے ہو اور ان کے اموال و میراث میں کس طرح تصرف وانتظام کرتے ہو۔ دنیا سے بچو الخ، کا مطلب یہ ہے کہ دنیا مکروفریب کا بچھا ہوا ایک جال ہے اس جال سے حتی الامکان بچتے رہو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جال میں پھنس کر دنیا کے ظاہری مال وجاہ پر اپنی دینداری گنوا بیٹھو کیونکہ دنیا کو ثبات نہیں ہے یہ ایک فنا ہو جانیوالی چیز ہے پھر اس فناء کے بعد کل جب تم ہمیشہ کی زندگی کے لئے اٹھائے جاؤ گے تو اس کی حلال چیزوں کا حساب دینا ہوگا اور اس کی حرام چیزوں پر عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے ۔ اسی طرح عورتوں کے مکروفریب سے بھی بچتے رہو، کیونکہ ایک مشت خاک کا یہ دل فریب مجسمہ جہاں نیک عورت کی صورت میں اللہ کی ایک نعمت ہے وہیں بری عورت کے روپ میں فتنہ عالم بھی ہے ایسا نہ ہو کہ بری عورتوں کی مکاریاں یا اپنی بیویوں کی بے جانازبرداریاں تمہیں ممنوع وحرام چیزوں کی طرف مائل کر دیں اور ان کی وجہ سے تم تباہی وہلاکت کی کھائیوں میں دکھیل دئیے جاؤ۔ بنی اسرائیل پر تباہی کے دروازے کھولنے والا پہلا فتنہ عورت تباہیوں کے دروازے کھلنے کا پہلا سبب اور ذریعہ بنا ۔ چنانچہ اس کی تفصیل یوں بیان کی جاتی ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص جس کا نام بلعم بن باعور تھا۔ بہت مستجاب الدعوات تھا، اسے اسم اعظم یاد تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی ہر دعا مقبول کرا لیتا تھا، چنانچہ جب حضرت موسی علیہ السلام جباروں سے لڑنے کے لئے علاقہ شام میں واقع بنی کنعان کے ایک حصہ میں خیمہ زن ہوئے تو بلعم کی قوم کے لوگ بلعم کے پاس آئے اور کہا کہ موسی علیہ السلام اپنے پیروکاروں کا ایک عظیم لشکر لے کر ہمیں قتل کرنے اور اس علاقہ سے نکالنے کے لئے آئے ہیں تم ان کے لئے کوئی ایسی بددعا کرو کہ وہ یہاں سے واپس بھاگ جائیں۔ بلعم نے جواب دیا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم وہ نہیں جانتے بھلا میں اللہ کے پیغمبر علیہ السلام اور اس کے ماننے والوں کے حق میں بددعا کیسے کر سکتا ہوں؟ اگر میں ان کے لئے بددعا کرتا ہوں تو میری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہو جائیں گی۔ جب اس قوم کے لوگوں نے بہت منت سماجت کی اور وہ بددعا کرنے پر اصرار کرتے رہے تو بلعم نے کہا کہ اچھا میں استخارہ کروں گا اور دیکھوں گا کہ کیا حکم ہوتا ہے پھر اس کے بعد کوئی فیصلہ کروں گا۔ بلعم کا یہ معمول تھا کہ وہ بغیر استخارہ کوئی بھی کام نہیں کرتا تھا چنانچہ اس نے جب استخارہ کیا تو خواب میں اسے ہدایت کی گئی کہ پیغمبر اور مؤمنوں کے حق میں ہرگز بددعا مت کرنا ! بلعم نے اس خواب سے اپنی قوم کو مطلع کیا اور بددعا نہ کرنے کے لئے اپنے ارادہ کا پھر اظہار کیا قوم کے لوگوں نے غوروفکر کے بعد ایک طریقہ اختیار کیا کہ اور وہ یہ کہ وہ لوگ اپنے ساتھ بیش قیمت تحفے لے کر بلعم کے پاس آئے اور پھر اس کے سامنے بہت ہی زیادہ منت سماجت کی ، روئے گڑگڑائے اور اسے اتنا مجبور کیا کہ آخر کار وہ ان کے جال میں پھنس ہی گیا چنانچہ وہ بددعا کرنے کی غرض سے اپنے گدھے پر سوار ہو کر جستان پہاڑ کی طرف چلا جس کے قریب حضرت موسی علیہ السلام کا لشکر مقیم تھا، راستہ میں کئی مرتبہ گدھا گرا جسے وہ مار مار کر اٹھاتا رہا یہاں تک کہ جب یہ سلسلہ دراز ہوا اور بلعم بھی اپنے گدھے کو مار مار کر اٹھاتا ہوا پریشان ہو گیا تو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے گدھے کو گویائی عطاء کی چنانچہ گدھا بولا کہ نادان بلعم ! تجھ پر افسوس ہے کیا تو یہ نہیں دیکھتا کہ تو کہاں جا رہا ہے تو مجھے آگے چلانے کی کوشش کر رہا ہے اور ملائکہ میرے آگے آ کر مجھے پیچھے دھکیل رہے ہیں بلعم نے جب چشم حیرت سے گدھے کو بولتے دیکھا تو بجائے اس کے کہ اس تنبیہ پر اپنے ارادہ سے باز آجاتا گدھے کو وہیں چھوڑا پیادہ یا پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں بددعا کرنے لگا مگر یہاں بھی قدرت الٰہی نے اپنا یہ کرشمہ دکھایا کہ بلعم اپنی بددعا میں جب بھی حضرت موسی اور ان کے لشکر کا نام لینا چاہتا اس کی زبان سے بنی اسرائیل کے بجائے بلعم کی قوم کا نام نکلتا ۔ یہ سن کر اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ بلعم یہ کیا حرکت ہے بنی اسرائیل کی بجائے ہمارے حق میں بددعا کر رہے ہو؟ بلعم نے کہا کہ اب میں کیا کروں یہ حق تعالیٰ میرے قصد وارادہ کے بغیر میری زبان سے تمہارا نام نکلوا رہا ہے۔ لیکن بلعم پھر بھی اپنی بددعا سے باز نہ آیا اور اپنی سی کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ عذاب الٰہی کی وجہ سے بلعم کی زبان اس کے منہ سے نکل کر سینہ پر آ پڑی پھر تو گویا بلعم کی عقل بالکل ہی ماری گئی اور دیوانہ وار کہنے لگا کہ لو اب تو میری دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد ہو گئی اس لئے اب ہمیں بنی اسرائیل کی تباہی کے لئے کوئی دوسرا جال تیار کرنا پڑے گا۔ پھر اس نے مشورہ دیا کہ تم لوگ اپنی اپنی عورتوں کو اچھی طرح آراستہ پیراستہ کر کے اور ان کے ہاتھو میں کچھ چیزیں دے کر ان چیزوں کو فروخت کرنے کے بہانہ سے عورتوں کو بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو اور ان سے کہدو کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کوئی شخص تمہیں اپنے پاس بلائے تو انکار نہ کرنا یاد رکھو اگر بنی اسرائیل میں سے ایک بھی شخص کسی عورت کے ساتھ بدکاری میں مبتلا ہو گیا تو تہاری ساری کوششیں کامیاب ہو جائیں گی ۔ چنانچہ بلعم کی قوم نے اس مشورہ پر عمل کیا اور اپنی عورتوں' کو بنا سنوار کر بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دیا وہ عورتیں جب لشکر میں پہنچیں اور ان میں سے ایک عورت جس کا نام کسی بنت صور تھا ، بنی اسرائیل کے ایک سردار زمزم بن شلوم نامی کے سامنے سے گزری تو وہ اس عورت کے حسن وجمال کا اسیر ہو گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر حضرت موسی علیہ السلام کے پاس لے گیا اور ان سے کہنے لگا کہ کیا آپ اس عورت کو میرے لئے حرام قرار دیتے ہیں؟ حضرت موسی علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہاں، اس عورت کے پاس ہرگز مت جانا تو زمزم نے کہا کہ میں اس بارے میں آپ کا حکم نہیں مانوں گا چنانچہ وہ اس عورت کو اپنے خیمہ میں لے گیا اور وہاں اس کے ساتھ منہ کالا کیا بس پھر کیا تھا حکم الٰہی نے قہر کی شکل اختیار کر لی اور اس سردار کی شامت عمل سے ایک ایسی وبا پورے لشکر پر نازل ہوئی کہ آن کی آن میں ستر ہزار آدمی ہلاک و تباہ ہو گئے ادھر جب فحاص کو کہ جو حضرت ہارون علیہ السلام کا پوتا اور ایک قوی ہیکل آدمی تھا اور حضرت موسی علیہ السلام کا نگہبان تھا یہ معلوم ہوا کہ ہمارے ایک سردار کی شامت عمل نے قہر الٰہی کو دعوتی دیدی ہے تو فورًا اپنا ہتھیار لے کر زمزم کے خیمہ میں داخل ہوا اور پلک جھپکتے ہی زمزم اور اس عورت کا کام تمام کر ڈالا اور پھر بولا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی شخص کی وجہ سے ہم سب کو ہلاک وتباہ کر دیا ہے چنانچہ ان دونوں کے قتل ہوتے ہی وہ وباء جو عذاب الٰہی کی صورت میں نازل ہوئی تھی ختم ہو گئی۔
نکاح مشکل ہونے کا فتنہ:
حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تمہارے پاس کوئی شخص نکاح کا پیغام بھیجے اور تم اس شخص کی دینداری اور اس کے اخلاق سے مطمئن ہو تو اس کا پیغام منظور کر کے اس سے نکاح کر دو اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین پر فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا۔ (ترمذی)
تشریح :
یہ ارشاد گرامی دراصل عورتوں کے سرپرست اور ولیوں سے ایک خطاب اور ان کے لئے ایک ضروری ہدایت ہے کہ اگر کوئی دیندار اور اچھے اخلاق واطوار کا حامل شخص تمہاری بیٹی یا تمہاری بہن وغیرہ سے نکاح کا پیغام بھیجے تو منظور کر لو اور اس سے نکاح کر دو اگر ایسا نہ کرو گے بلکہ ایسے شخص کے پیغام کو نظر انداز کر کے کسی مالدار یا ثروت دار شخص کے پیغام کی انتظار میں رہو گے جیسا کہ اکثر دینداروں کی عادت ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اکثر عورتیں بغیر خاوند کے بیٹھی رہ جائیں گی اور اکثر مرد بغیر بیوی کے پڑے رہیں گے اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بدکاری اور برائیوں کا عام چلن ہو جائے گا بلکہ ان عورتوں کے سرپرست اور ولی بڑی بری قسم کی عار وغیرت میں مبتلا ہوں گے پھر جو لوگ ان کو عار اور غیرت دلائیں گے وہ ان سے لڑنے جھگڑنے لگیں گے آخرکار اس برائی وفحاشی اور لڑائی جھگڑے سے ایک ہمہ گیر فتنہ وفساد کی شکل پیدا ہو جائے گی۔ طیبی کہتے ہیں کہ ایک طرح سے یہ حدیث حضرت امام مالک کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کفائت زوجین میں سے ایک دوسرے کا کفو ہونے کا لحاظ صرف دین کے وصف میں کیا جائے گا گویا ان کے نزدیک ایک دوسرے کا کفو صرف دین میں ہو سکتا ہے جبکہ علماء کی اکثریت کا مسلک یہ ہے کہ ان چاروں اوصاف میں ایک دوسرے کا کفو شریک ہونے کا لحاظ کیا جائے (١) دین حریت نسب پیشہ چنانچہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کافر سے نہ کیا جائے نہ کسی غیر معلوم النسب سے کیا جائے ۔ اور کسی سودا گر یا اچھے پیشے والے کی بیٹی کا نکاح کسی حرام یا مکروہ پیشہ والے سے نہ کیا جائے ۔ لیکن اس بارے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اگر کسی عورت کا ولی اور خود وہ عورت کسی غیرکفو والے سے نکاح کرنے پر راضی ہو جائے تو نکاح صحیح ہو جائے گا ۔
میاں بیوی کے درمیان شیطان کا پسندیدہ کام:
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابلیس اپنا تخت حکومت پانی (یعنی سمندر) پر رکھتا ہے۔ پھر وہاں سے اپنی فوجوں کو روانہ کرتا ہے تاکہ لوگوں کو فتنہ اور گمراہی میں مبتلا کریں۔ اس کی فوجوں میں ابلیس کا سب سے بڑا مقرب وہ ہے جو سب سے بڑا فتنہ انداز ہو۔ ان میں سے ایک واپس آکر کہتا ہے۔ میں نے فلاں فلاں فتنے پیدا کئے ہیں۔ ابلیس اس کے جواب میں کہتا ہے : تو نے کچھ نہیں کیا، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ پھر ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے! میں نے (ایک بندہ کو گمراہ کرنا شروع کیا اور ) اس وقت تک اس آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑا جب تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈالو دی۔ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ابلیس ( یہ سن کر) اس کو اپنے قریب بٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو نے اچھا کام کیا (حدیث کے ایک راوی) اعمش فرماتے ہیں میرا خیال ہے جابر ؓ نے بجائے (فیدنیہ کے) فیلتذمہ (پس ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے) کے الفاظ نقل کئے تھے۔" (صحیح مسلم)
تشریح:
جدائی ڈلوانے سے مراد لڑائی جھگڑے کے ذریعہ مرد کی زبان سے ناسمجھی میں ایسے الفاظ ادا کر دینا ہے جس سے اس کی بیوی پر طلاق بائن پڑ جائے۔ طلاق بائن میں عورت اپنے خاوند پر حرام ہو جاتی ہے، اس سے شیطان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرد اپنی جہالت کے سبب اس عورت کو اپنے نکاح میں داخل سمجھتے ہوئے اس سے صحبت کرتا رہے جو دراصل حرام کاری ہوتی ہے اور اس طرح کے لوگوں کی حرام کاری کے نتیجہ میں ناجائز اولاد پیدا ہوتی رہے، جس سے روئے زمین پر ناجائز اولاد کی تعداد بڑھتی رہے اور وہ ناجائز پیدا ہونے والے لوگ دنیا میں فسق و فجور اور گناہ و معصیت زیادہ سے زیادہ پھیلاتے رہیں۔
عذابِ قبر کے ثبوت کا بیان:
حضرت زید بن ثابت ( زید بن ثابت انصاری خزرجی ہیں آپ کاتب وحی ہیں۔ آپ کی وفات ٤٢ھ یا ٤٥ میں ہوئی)۔ راوی ہیں کہ (ایک روز) جب کہ رسول اللہ ﷺ بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے کہ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ ﷺ کو گرادے، ناگہاں پانچ چھ قبریں نظر آئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا، " میں جانتا ہوں!" آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ کب مرے ہیں؟ (یعنی حالت کفر میں مرے ہیں یا ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں) اس آدمی نے عرض کیا۔ یہ تو شرک کی حالت میں مرے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے (یعنی ان لوگوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے) اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر (کی اس آواز ) کو سنا دے جس کو میں سن رہا ہوں، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: قبر کے عذاب سے خداہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا: قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ ہم دجال کے فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔"
(صحیح مسلم)
تشریح:
نبی کا احساس و شعور اور اس کی قوت ادراک دنیا کے تمام لوگوں سے بہت زیادہ قوی ہوتی ہے چونکہ اس کے احساس ظاہری و باطنی میں وہ قدرتی طاقت ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ اس دنیا سے بھی آگے عالم غیب کی چیزوں کا ادراک کر لیتا ہے اس لئے اس کی ظاہری آنکھوں کے ساتھ ساتھ باطنی آنکھیں بھی اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ غیب کی ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اسے دکھانا چاہتا ہے۔ چانچہ سرکار دو عالم ﷺ کہیں سفر میں جا رہے تھے جب آپ ﷺ کا گزر ایک قبرستان پر ہوا تو وہاں آپ کی چشم بصیرت نے ادراک کر لیا کہ قبروں میں مردوں پر عذاب ہو رہا ہے اور پھر آپ ﷺ نے صحابہ کو تلقین کی کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں عذاب قبر کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تمہاری آنکھیں اس کا مشاہدہ کر لیں اور تمہارے کان اس کو سن لیں تو تم اپنی عقل و دماغ سے ہاتھ دھو بیٹھو اور تم اس کی شدت و سختی کا محض احساس ہی کر کے بے ہوش ہو جاؤ گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس خوف و ہر اس کی وجہ سے مردوں کو دفن کرنا بھی چھوڑ دو گے اگر مجھے اس کا خدشہ نہ ہوتا تو میں یقینا تمہیں اس عذاب کا مشاہدہ بھی کر ادیتا اور تمہیں سنوا بھی دتیا۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر راوی ہیں کہ ایک دن سرکار دو عالم ﷺ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور قبر کے فتنہ کا ذکر فرمایا جس میں انسانوں کو مبتلا کیا جاتا ہے چنانچہ اس ذکر سے مسلمان (خوف زدہ ہو کر روتے) اور چلاتے رہے، یہ روایت صحیح البخاری کی ہے اور سنن نسائی نے اتنا اور زیادہ بیان کیا ہے کہ (خوف و دہشت کی وجہ سے ) مسلمانوں کے چیخنے اور چلانے کے سبب میں رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کو نہ سن سکی، جب یہ چیخنا چلانا بند ہوا تو میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے پوچها، الله تمہیں برکت عطا فرمائے (یعنی تمہارے علم و حلم میں زیادتی ہو، آخر میں آپ ﷺ نے کیا فرمایا؟) اس آدمی نے کہا آپ ﷺ نے فرمایا مجھ پر یہ وحی آئی ہے کہ تم قبروں کے اندر فتنہ میں ڈالے جاؤ گے یعنی تم کو آزمایا جائے گا اور یہ آزمائش و امتحان فتنہدجال کے قریب قریب ہوگا۔"
فائدہ : مطلب یہ ہے کہ جس طرح فتنہ دجال اپنی تباہی و بربادی اور نقصان و خسران کی بناء پر سخت ہلاکت آفریں اور تباہ کن ہو گا، اسی طرح فتنہ قبر بھی ہول و دہشت اور اپنی شدت و سختی کی بناپر بہت زیادہ خوفناک ہوگا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ایسے سخت و نازک وقت میں اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور اس امتحان و آزمائش میں ثابت قدم رکھے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ تھے رسول اللہ ﷺ جب پڑھتے نماز جنازہ فرماتے یا الٰہی بخشش کر واسطے ہمارے زندوں کے اور ہمارے مردوں کے اور حاضر ہمارے کے اور غائب ہمارے کے اور ہمارے چھوٹوں کے اور ہماری عورتوں کے یا الٰہی جس کو زندہ رکھے تو ہم میں سے پس زندہ رکھ اس کو اسلام پر اور جس کو مارے تو ہم میں سے پس مار اس کو ایمان پر۔ یا الٰہی نہ محروم رکھ ہم کو ثواب اس کے سے اور نہ فتنہ میں ڈال ہم کو پیچھے اس کے۔ (احمد، ابوداؤد ، ترمذی، ابن ماجہ) اور روایت کی نسائی نے ابوابراہیم اشہلی سے کہ اس نے نقل کیا اپنے باپ سے اور تمام ہوئی روایت اس کی " وانثانا " تک اور بیچ روایت ابی داؤد کے پس زندہ رکھ اس کو ایمان پر اور وفات دے اس کو اسلام پر اور اس حدیث کے آخر میں یوں ہے کہ نہ گمراہ کر ہم کو اس کے پیچھے۔
حضرت واثلہ بن اسقع ؓ سے روایت ہے کہ نماز پڑھائی ہم کو رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص پر مسلمانوں میں سے پس سنا میں نے آپ ﷺ کو فرماتے تھے یا الٰہی! تحقیق فلاں بیٹا فلانے کا بیچ امان تیری کے ہے اور تیری پناہ کے ہے پس بچا اس کو فتنہ قبر سے اور آگ کے عذاب سے اور تو صاحب وفا کا ہے اور تو صاحب حق کا ہے یا الٰہی بخشش کر واسطے اس کے اور رحم کر اس پر تحقیق تو بخشنے والا مہربان ہے۔
( ابوداؤد ، ابن ماجہ)
تشریح:
ملا علی قاری رحمہ اللہ نے " وحبل جوارک " میں لفظ حبل کے کئی معنی بیان کئے ہیں اور آخر میں لکھا ہے کہ اس جملہ کے سب سے بہتر معنی یہ ہیں کہ " وہ قرآن کریم سے تعلق رکھنے والا اور اسے مضبوطی سے پکڑنے والا تھا۔ لہٰذا یہاں لفظ حبل سے قرآن مراد ہے جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت (کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑو) میں حبل سے مراد قرآن کریم ہے اسی طرح لفظ جوار سے امان مراد ہے اور اس جملہ و حبل جوارک میں اضافت بیانیہ ہے گویا اس جملہ کے وضاحتی معنی یہ ہوں گے کہ وہ شخص قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑنے والا تھا، ایسا قرآن کریم کہ جسے مضبوطی سے اختیار کرنا (یعنی اس پر پوری طرح عمل کرنا) امن و سلامتی ایمان و اسلام اور معرفت کا باعث اور ذریعہ ہے۔
زندگی اور موت کا فتنہ:
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نماز میں (تشہد کے بعد) یہ دعا مانگتے تھے :
(یعنی اے اللہ میں عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور کانے دجال کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور زندگی کے فتنوں اور موت کے فتنوں سے تیری پناہ کا طلب گار ہوں اے پروردگار ! میں تجھ سے گناہوں سے اور قرض سے پناہ چاہتا ہوں)۔ (راوی کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کی یہ دعا سن کر کسی کہنے والے نے کہا کہ" آپ ﷺ قرض سے پناہ مانگنا بڑے تعجب کی بات ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا " جب آدمی قرضدار ہوتا ہے تو باتیں بناتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔"
(صحیح البخاری و صحیح مسلم )
تشریح:
دجال آخر زمانے میں قیامت کے قریب پیدا ہوگا جو خدائی کا دعویٰ کرے گا اور لوگوں کو اپنے مکر و فریب اور شعبدہ بازیوں سے گمراہ کرے گا۔ اس کا مفصل ذکر انشاء اللہ مشکوٰۃ کے آخری ابواب میں آئے گا۔ دجال کو مسیح کیوں کہتے ہیں : دجال کو مسیح اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک آنکھ ملی ہوئی ہوگی یعنی وہ کانا ہوگا چونکہ ممسوح ہوگا اس لئے اس مناسبت سے اسے مسیح کہا جاتا ہے ۔ ممسوح کا مطلب ہے" تمام بھلائیوں، نیکیوں اور خیر و برکت کی باتوں سے بالکل بعید، نا آشنا اور ایسا کہ جیسے اس پر کبھی ان چیزوں کا سایہ بھی نہ پڑا ہوگا۔" اور ظاہر کہ اتنی بری خصلتوں کا حامل دجال کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ حضرت عیسی علیہ السلام کو مسیح کہنے کی وجہ : اسی کے ساتھ حضرت عیسی علیہ السلام کا لقب بھی " مسیح" ہے جس کی اصل مسیحا ہے اور مسیحا عبرانی زبان میں " مبارک" کو کہتے ہیں یا یہ کہ مسیح کے معنی ہیں " بہت سیر کرنے والا " چونکہ قرب قیامت حضرت عیسی علیہ السلام اس دنیا میں آسمان سے اتارے جائیں گے اور دنیا سے گمراہی وضلالت اور برائیوں کی جڑ اکھاڑنے اور پھر تمام عالم پر اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے حکمرانی کرنے پر مامور فرمائے جائیں گے اور اس سلسلے میں آپ ﷺ کو امور مملکت کی دیکھ بھال کرنے اور اللہ کے دین کو عالم میں پھیلانے اور کانے دجال کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے تقریبا پوری دنیا میں پھرنا پڑے گا۔ اس لئے اس مناسبت سے مسیح علیہ السلام کا لقب قرار پایا ہے۔ بہر حال لفظ مسیح کا اطلاق حضرت عیسی علیہ السلام اور دجال ملعون دونوں پر ہوتا ہے اور دونوں کے درمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ جب صرف " مسیح" لکھا اور بولا جاتا ہے تو اس سے حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات گرامی مراد لی جاتی ہے اور جب دجال ملعون مراد ہوتا ہے تو لفظ مسیح کو دجال کے ساتھ قید کر دیتے ہیں یعنی" مسیح دجال" لکھتے اور بولتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس دعا میں چھ چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی ہے (١) عذاب قبر (٢) فتنہ دجال (٣) فتنہ زندگی (٤) فتنہ موت (٥) گناہ (٦) قرض۔ یہ چھ چیزیں اپنی ہیبت و ہلاکت اور دینی و دنیاوی خسران و نقصان کے باعث بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان چیزوں سے اگر اللہ تعالیٰ نے نجات دی اور اپنا فضل و کرم فرما دیا تو دینی و دنیاوی دونوں زندگیاں کامیابی و کامرانی سے اور رحمت و سعادت کی ہم آغوش ہوگی اور اگر خدانخوستہ کہیں کسی بد نصیب کا ان میں سے کسی ایک سے بھی پالا پڑ گیا تو جانئے کہ اس کی دنیا بھی تباہ و برباد ہو جائے گی اور آخرت کی تمام سہولتیں و آسانیاں اور وہاں کی رحمتیں و سعادتیں بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیں گی اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مسحتق ہوگا اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے خود ان چیزوں سے پناہ مانگ کر امت کے لئے تعلیم کا دروازہ کھولا ہے کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے پروردگار سے ان سخت وہیبت ناک چیزوں سے پناہ مانگتا رہے تاکہ پروردگار اس کو ان سے محفوظ و مامون رکھے۔ عذاب قبر اور فتنہ دجال یہ تو بالکل ظاہر ہیں ان کی کسی فائدہ و توضیح کی ضرورت نہیں ہے البتہ " فتنہ زندگی" یہ ہے کہ صبر و رضا کے فقدان کی وجہ سے زندگی کی مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار ہو اور نفس ان چیزوں میں مشغول و مستغرق ہو جائے جو راہ ہدایت اور راہ حق سے ہٹا دیتی ہوں اور زندگی کو گمراہیوں وضلالتوں کی کھائی میں پھینک دیتی ہوں۔ " فتنہ موت" کا مطلب یہ ہے کہ " شیطان لعین حالت نزع میں اپنے مکروفریب کا جال پھینکنے اور مرنے والے کے دل میں وسو اس و شبہات کے بیج بو کر اس کے آخری لمحوں کو جن پر دائمی نجات و عذاب کا دارومدار ہے برائی و گمراہی کی بھینٹ چڑھا دے تاکہ اس دنیا سے رخصت ہونے والا نعوذ باللہ ایمان و یقین کے ساتھ نہیں بلکہ کفر و تشکیک کے ساتھ فوت ہو جائے (العیاذ با اللہ ) اسی طرح منکر و نکیر کے سوالات کی سختی، عذاب قبر کی شدت اور عذاب عقبی میں گرفتاری بھی موت کے فتنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے ہر مسلمان کو محفوظ و مامون رکھے۔ آمین" لفظ" ماثم" یا تو مصدر ہے یعنی گناہ کرنا، یا اس سے مراد وہ چیز ہے جو گناہ کا باعث ہے۔ بہر حال اس کا مطلب یہ ہے کہ ان گناہوں سے اللہ کی پناہ، جس کے نتیجے میں بندہ عذاب آخرت اور اللہ کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ یا ان چیزوں سے اللہ کی پناہ جو گناہ صادر ہونے کا ذریعہ ہیں، یا جن کو اختیار کر کے بندہ راہ راست سے ہٹ جاتا ہے اور ضلالت و گمراہی کی راہ پر پڑ جاتا ہے۔ قرض سے پناہ مانگنے کی وجہ : قرض سے پناہ مانگنے پر ایک صحابی کو تعجب ہوا کہ قرض میں ایسی کونسی برائی ہے جس سے پناہ مانگی جا رہی ہے بلکہ اس سے تو بہت سے ضرورت مندوں کے کام پورے ہوتے ہیں اور دنیاوی حالات میں اس سے بڑی حد تک مدد ملتی ہے رسول اللہ ﷺ نے اس کی قباحت اور برائی کی جس کی بنیادی حقیقت کی طرف توجہ دلائی وہ یقینا ایسی ہی ہے کہ اس سے پناہ مانگی جانی چاہئے۔ اول تو دنیاوی اعتبار سے بھی کسی کا قرضدار ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے پھر دین و آخرت کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کی وجہ سے ایسی چیزوں کا ارتکاب ہوتا ہے جو شریعت کی نظر میں نہ صرف یہ کہ معیوب بلکہ عذاب آخرت کا سبب بنتی ہیں۔ مثلاً جب کوئی آدمی کسی سے قرض مانگنے جاتا ہے تو پہلا مرحلہ یہی ہوتا ہے جب وہ گنہگار ہوتا ہے کیونکہ بسا اوقات قرض مانگنے والا سینکڑوں بہانے تراشتا ہے سیکڑوں غلط سلط باتیں بناتا ہے اور مقصد برآری کے لئے بڑے سے بڑا جھوٹ بولنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ قرض کی ادائیگی کا آتا ہے کہ قرض دار قرض لیتے وقت ایک وقت و عرصہ متعین کرتا ہے جس میں وہ قرض کی ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے مگر تجربہ شاہد ہے کہ کوئی ایک آدھ ہی قرضدار ایسا ہوگا جو وقت معینہ پر ادائیگی کر دیتا ہوگا ورنہ اکثر و بیشتر وعدہ خلافی کرتے ہیں اس موقع پر بھی نہ صرف یہ کہ وعدہ خلافی ہوتی ہے بلکہ عدم ادائیگی کے عذر میں ہر طرح کا جھوٹ بولنا پڑتا ہے ۔ اس طرح قرضدار وعدہ خلافی اور جھوٹ کا ارتکاب کر کے گناہ گار ہوتا ہے۔ پھر عدم ادائیگی کا یہ عذر ایک دو مرتبہ ہی پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو بہت دنوں تک چلتا رہتا ہے اس طرح قرضدار مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بولتا ہے، ہر مرتبہ وعدہ خلافیاں کرتا ہے اور اس طرح وہ گناہوں کی پوٹ اپنے اوپر لادتا رہتا ہے۔ ظاہر کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور مواخذہ آخرت کا سبب ہیں اس لئے ایسی غلط چیز سے پناہ مانگی گئی ہے۔
حضرت ابودرداء ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص سورت کہف کی ابتدائی تین آیتیں پڑھے گا وہ دجال کے فتنہ سے بچایا جائے گا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح:
پہلی فصل میں ایک حدیث حضرت ابودرداء ؓ ہی سے نمبر ٧ میں گزری ہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جو شخص سورت کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرے گا وہ دجال کے فتنہ سے بچایا جائے گا جب کہ یہاں تین آیتوں کو ذکر کیا جا رہا ہے اس حدیث کی تشریح میں اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے ان دونوں حدیثوں میں ایک مطابقت تو اس موقع پر بیان کی گئی تھی۔ اس سلسلہ میں ایک دوسری وجہ مطابق یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلے تو دس آیتوں کو یاد کرنے پر مذکورہ بالا خاصیت و برکت کی بشارت دی گئی ہو گی پھر بعد میں از راہ وسعت فضل تین آیتوں کے پڑھنے ہی پر یہ بشارت عطا فرمائی گئی۔
درمنثور میں منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص سورت کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرے گا وہ دجال کے فتنہ سے بچایا جائے گا اسی طرح وہ شخص بھی دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا جو اس سورت کی آخری دس آیتیں یاد کرے گا جو شخص سوتے وقت سورت کہف کی دس آیتیں پڑھ لیا کرے گا وہ فتنہ دجال سے بچایا جائے گا و اور جو شخص سوتے وقت اس سورت کا آخری حصہ پڑھے گا تو اس کے لئے قیامت کے دن اس کی قرأت کے نزدیک سے اس کے قدم تک نور ہی نور ہو گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن سورت کہف پڑھتا ہے تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک (کے صغیرہ گناہوں) کا کفارہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک روایت میں یہ ہے کہ جس گھر میں سورت کہف پڑھی جاتی ہے اس رات کو اس گھر میں شیطان داخل نہیں ہوتا۔
جہنم کی آگ کے عذاب کا فتنہ:
حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ بارگاہ رب العزت میں یوں عرض کیا کرتے تھے۔
اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، طاعت میں سستی سے، بڑھاپے کے سبب سے مخبوط الحواس اور اعضاء کے ناکارہ ہونے سے تاوان یا قرض سے اور گناہ سے ، اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے عذاب سے اور عذاب کے فتنہ سے ۔ قبر کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے، دولت کے فتنہ سے اور برائی سے، فقر کے فتنہ کی برائی سے اور کانے دجال کے فتنہ سے اے اللہ! برف اور اولے کے پانی سے میرے گناہ دھو دے (یعنی طرح طرح مغفرتوں کے ذریعہ مجھے گناہوں سے پاک کر دے جس طرح برف اور اولے کا پانی میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور میرے دل کو برے اخلاق اور برے خیالات سے پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا پانی سے صاف کیا جاتا ہے اور میرے گناہوں کے درمیان اسی طرح بعد پیدا کر دے جس طرح تونے مشرق اور مغرب کے درمیان بعد پیدا کیا ہے۔
[صحيح البخاري:6375، سنن النسائي:5477]
تشریح :
" پناہ مانگتاہوں آگ کے عذاب سے " کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میرا شمار ان لوگوں میں ہو جو دوزخی ہیں یا کفار۔ اس موقع پر یہ بات جان لینی چاہئے کہ " عذاب الٰہی " میں صرف کفار ہی مبتلا ہوں گے چنانچہ موحدین جو اپنی بد عملیوں کی سزا آخرت میں پائیں گے اسے عذاب نہیں کہا جاتا بلکہ وہ " تادیب" ہے یعنی اگر ان کو دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا اور ایسا عذاب کے لئے نہیں بلکہ تادیب یعنی ان کے گناہوں کو دھونے اور ختم کرنے کے لئے ہوگا۔ " آگ کے فتنہ " سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آگ اور قبر کے عذاب کا باعث بنتی ہیں یعنی گناہ و معصیت۔ " قبر کے فتنہ " سے مراد ہے منکر و نکیر کے سوالات کا جواب دیتے وقت حو اس باختہ ہونا۔ " قبر کے عذاب " سے مراد ہے، فرشتوں کا، ان لوگوں کو لوہے کے گرزوں سے مارنا اور ان کا عذاب میں مبتلا ہونا۔ جو منکر نکیر کے سوالات کا جواب نہ دے سکیں گے۔ " قبر" سے مراد ہے عالم برزخ چاہے وہ قبر ہو یا کچھ اور ہو دولت کے فتنہ سے مراد ہے تکبر و سرکشی کرنا مال و زر حرام ذرائع سے حاصل کرنا اور ان کو گناہ کی جگہ خرچ کرنا اور مال و جاہ پر بے جا فخر کرنا اسی طرح فخر کے فتنے سے مراد ہے۔ دولت مندوں پر حسد کرنا ، ان کے مال و زر کی ہوس اور طمع رکھنا، اس چیز پر راضی نہ ہونا جو اللہ نے اس کی قسمت میں لکھ دی ہے یعنی فقر اور اسی قسم کی وہ تمام چیزیں جو صبر و توکل اور قناعت کے منافی ہیں۔ اب آخر میں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کر لیجئے۔ کہ آنحضرت ﷺ کا ان تمام چیزوں سے پناہ مانگنا اس کے معنی میں نہیں تھا کہ نعوذ باللہ آپ ﷺ ان چیزوں میں مبتلا تھے، یا ان میں مبتلا ہونے کا خوف تھا۔ کیونکہ آپ ﷺ معصوم تھے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو دائمی طور پر ان تمام چیزوں سے امن و حفاظت میں رکھا تھا بلکہ ان چیزوں سے پناہ مانگنا تعلیم امت کے طور پر تھا کہ امت کے لوگ ان چیزوں سے پناہ مانگیں اور ان سے بچیں۔
سینہ (دلوں) کا فتنہ:
حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔ (١) نامردی سے۔ (٢) بخل سے (٣) عمر کی برائی سے یعنی عمر کی اتنی زیادتی سے کہ آخر میں قویٰ اور حواس میں فرق آ جائے اور عبادت و طاعت کی قوت نہ رہے۔ (٤) سینہ کے فتنہ سے یعنی اس چیز سے کہ سینہ کے اندر برے اخلاق اور برے عقائد جاگزیں ہوں یا حق بات قبول نہ ہو اور بلاؤں کا متحمل نہ ہو (٥) قبر کے عذاب سے۔ (ابوداؤد، نسائی)
حضرت ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے رونے لگے اور پھر فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ سے بخشش و عافیت مانگو کیونکہ کسی کو ایقان (ایمان) کے بعد عافیت سے بہتر کوئی عمل نہیں. (اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے، نیز امام ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث باعتبار سند کے حسن غریب ہے)۔
تشریح: آنحضرت ﷺ جانتے تھے کہ میری امت کے افراد خواہشات نفس، ہوس و حرص اور غلبہ شہوت کے فتنوں میں مبتلا ہوں گے اس لئے آپ ﷺ اس کے تصور سے بھی رونے لگے کہ جس امت کے لوگوں کو ایمان و ایقان کی دولت اسلام کی ہدایت اور میری تربیت نے ضبط نفس ایثار و استغناء، دیانت و امانت، عزت و خدداری ، پاک دامنی و پرہیزگاری کے معیار پر نہ صرف پورا اتارا بلکہ انہیں ان اخلاق حمیدہ اور خصائل شریفہ کا بذات خود معیار بنا دیا ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب اسی امت کے لوگ شیطان کے مکر و فریب میں پھنس کر اور اپنے نفس کے تابع ہو کر حرص و ہوس کے مجسمے، بد دیانتی و بد کرداری کے پیکر اور خواہشات نفسانیہ کے غلام بن جائیں گے چنانچہ آپ ﷺ نے منبر رشد و ہدایت سے یہ حکم فرمایا کہ لوگ اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت و بخشش کی طلب کریں اور عافیت مانگیں تاکہ پروردگار انہیں ان آفات و بلاء سے محفوظ و مامون رکھے۔ عافیت کے معنی ہیں سلامتی حاصل ہونا دین میں فتنہ سے اور جسم و بدن کو بری بیماریوں، شدید مصائب اور سخت رنج و تکلیف سے۔
فتنہ زدہ قلوب والے قاری :
حضرت حذیفہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ تم قرآن کریم اہل عرب کی طرح اور ان کی آوازوں کے مطابق پڑھو اہل عشق اور اہل کتاب کے طریق کے مطابق پڑھنے سے بچو میرے بعد ایک جماعت پیدا ہو گی جس کے افراد راگ اور نوحہ کی طرح آواز بنا کر قرآن پڑھیں گے۔ ان کا حال یہ ہو گا کہ قرآن ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا (یعنی ان کا پڑھنا قبول نہیں ہو گا) نیز ان کی قرأت سن کر خوش ہونے والوں کے قلوب فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ (بیہقی ، رزین)
تشریح:
اہل عرب بلاتکلف اور برجستہ قرآن کریم پڑھتے ہیں۔ ان کی آواز ان کے دل کی امنگ سے ہم آہنگ ہوتی ہے ان کے سامنے موسیقی وغیرہ کی طرح کے قواعد نہیں ہوتے ، نہ وہ خواہ مخواہ کا تکلف کر کے اپنی آواز اور اپنا لہجہ بنا کر کوشش کرتے ہیں اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ ہر مسلمان کو چاہئے وہ قرآن کریم اسی خالص لہجہ اور آواز میں پڑھے جو قرآن کی عظمت شان اور حقیقت کے مطابق ہے اور وہ اہل عرب کا لہجہ ہے۔ اس جملہ بلحون العرب واصواتہا میں لفظ اصوا تھا عطف تفسیر کے طور پر ہے۔ اہل عشق اور اہل کتاب کے طریقہ کے مطابق الخ سے یہ مراد ہے کہ جس طرح عشاق اور شعراء اپنی نظمیں وغزلیں اور اشعار آواز بنا کر اور ترنم و سر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور موسیقی اور راگ کے قواعد کی رعایت کرتے ہیں تم اس طرح قرآن کریم نہ پڑھو چونکہ یہود و نصاریٰ بھی اپنی کتابوں کو اسی طرح غلط طریقوں سے پڑھتے تھے اس لئے ان کی مانند پڑھنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے۔ ان کے قلوب فتنہ میں مبتلا ہوں۔ کا مطلب یہ ہے کہ وہ حب دنیا میں مبتلا ہوں گے اور لوگ چونکہ ان کی آوازوں کو اچھا کہیں گے اس لئے وہ اور زیادہ گمراہی میں پھنسے ہوں گے اسی طرح ان کی آوازوں کو سن کر خوش ہونے والے اور ان کو اچھا کہنے والے بھی ایک غلط بات اور غلط کام کو اچھا سمجھنے کی وجہ سے ضلالت میں مبتلا ہوں گے۔
گمراہ کرنے والوں کی گمراہی کا فتنہ:
حضرت عطاء بن سائب اپنے والد حضرت سائب سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا حضرت عمار بن یاسر ؓ نے ہمیں ایک نماز پڑھائی۔ نماز میں انہوں نے اختصار کیا یعنی نہ تو انہوں نے طویل قرأت کی اور نہ تسبیحات وغیرہ بہت زیادہ پڑھیں، چنانچہ ان سے بعض لوگوں نے کہا آپ نے ہلکی نماز پرھی اور نماز کو مختصر کر دیا ۔ حضرت عمار ؓ نے فرمایا کہ میرے لئے یہ تخفیف مضر نہیں کیونکہ میں نے اس نماز کے قعدہ میں یا سجدہ میں وہ کئی دعائیں پڑھی ہیں جن کو میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے پھر جب حضرت عمار ؓ اٹھ کر چلے تو جماعت میں سے ایک شخص ان کے ساتھ ہو لیا اور حدیث راوی حضرت عطاء ؓ کہتے ہیں کہ وہ میرے باپ حضرت عطاء ؓ ہی تھے، سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنے آپ کو چھپایا یعنی انہوں نے اس طرح بیان نہیں کیا کہ حضرت عمار ؓ کے ساتھ میں گیا بلکہ اپنے کو پوشیدہ رکھنے کے لئے یوں کہا کہ ایک شخص ان کے ساتھ ہو لیا ۔ بہر کیف انہوں نے حضرت عمار ؓ سے اس دعا کے بارہ میں دریافت کیا۔ حضرت عمار ؓ نے انہیں وہ دعا بتا دی جو انہوں نے نماز کے دوران پڑھی تھی پھر وہ آئے اور جماعت کو وہ دعا بتا دی جو یہ ہے ۔
(اللہم بعلمک الغیب وقدرتک علی الخلق احیینی ماعلمت الحیوۃ خیرالی وتوفنی اذا علمت الوفاۃ خیرا لی اللہم واسئلک خشیتک فی الغیب والشہادۃ واسئلک کلمۃ الحق فی الرضا والغضب واسئلک القصد فی الفقر والغنی واسئلک نعیما لا ینفد واسئلک قرۃ عین لا تنقطع واسئلک الرضا بعد القضاء واسئلک برد العیش بعد الموت واسئلک لذۃ النظر الی وجہل والشوق الی لقائک فی غیر ضراء مضرۃ ولا فتنۃ مضلۃ اللہم زینا بزینۃ الایمان واجعلنا ہداۃ مہدیین)۔
اے اللہ! تو بحق اپنے علم غیب کے اور بحق قدرت کے اپنی مخلوق پر مجھ کو زندہ رکھ جب تک کہ تو زندگی کو میرے لئے بہتر جانے اور مجھے موت دے جب تو موت کو میرے لئے بہتر جانے یعنی جب تک نیکیاں برائیوں پر غالب ہیں اس وقت تک زندگی بہتر ہے اور جب برائیاں نیکیوں پر غلبہ پا لیں اور ظاہری و باطنی فتنے گھیر لیں تو اس وقت موت بہتر ہے اے اللہ! اور میں مانگتا ہوں تجھ سے تیرا خوف باطن و ظاہر میں اور مانگتا ہوں کلمہ حق کہنے کی توفیق خوشی میں بھی اور تنگی میں بھی اور مانگتا ہوں تجھ سے میانہ روی فقر و افلاس میں بھی اور خوش حالی کے وقت میں بھی (یعنی نہ تو زیادہ فقر و افلاس اور رنج و تکلیف ہی میں مبتلا ہوں اور نہ اتنا تونگر و خوش حال ہو جاؤں کہ اسراف کرنے لگوں) اور مانگتا ہوں میں تجھ سے ایسی نعمت جو کبھی ختم نہ ہو۔ (یعنی غیب کی نعمتیں) اور مانگتا ہوں تجھ سے آنکھ کی ٹھنڈک جو کبھی ختم نہ ہو۔ اور مانگتا ہوں رضا مندی (یری ) قضا (یعنی تقدیر) کے بعد اور مانگتا ہوں تجھ سے ٹھنڈک زندگی کی مرنے کے بعد یعنی ہمیشہ کی راحت برزخ اور قیامت میں۔ اور مانگتا ہوں لذت دیکھنے کی تیرے چہرہ کی طرف آخرت میں اور مانگتا ہوں تیری ملاقات کا شوق ایسی حالت میں جو ضرر نہ پہنچائے اور نہ گمراہی کے فتنہ میں مبتلا کرے اے اللہ! ہمیں ایمان کی زینت کے ساتھ مزین فرما یعنی ہمیں ایمان پر ثابت قدم رکھ اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں راہ راست دکھانے والے اور راہ راست پر چلنے والے بنا۔ (نسائی)
تشریح :
" اور مانگتا ہوں کلمہ حق" کا مطلب یہ ہے کہ میرے اندر اتنی استقامت اور بے خوفی پیدا فرما کہ میں ہمیشہ کلمہ حق یعنی حق بات ہی کہوں چاہے مجھ سے لوگ خوش ہوں یا ناراض ہوں۔ یا یہ کہ اپنی خوشی کی حالت میں بھی اور خفگی کی حالت میں بھی کلمہ حق ہی کہوں عوام کی طرح نہ ہو جاؤں کہ جب وہ خفگی کی حالت میں ہوتے ہیں تو برا کہتے ہیں اور جب خوش ہوتے ہیں تو خوش آمد کرتے ہیں۔ " آنکھ کی ٹھنڈک" سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے جذبہ طاعت و عبادت کامل اور حقیقی لذت و کیف پاتا ہے۔ یا اس سے مراد دعا مانگنے والے کے مرنے کے بعد اس کی اولاد کا باقی رہنا ہے، اسی طرح آنکھ کی ٹھنڈک سے نماز پر پختگی اور اس کی پابندی بھی مراد ہو سکتی ہے اور اس کے مفہوم کو زیادہ وسعت دی جائے تو دونوں جہان کی بھلائیاں بھی مراد لی جا سکتی ہیں۔ فی غیر ضراء مضرۃ ، ایسی حالت جو ضرر نہ پہنچائے۔ کا تعلق جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے شوق ملاقات سے ہے یعنی میں تیری ملاقات کا ایسا شوق چاہتا ہوں ۔ جو میری راہ سلوک ، راہ ادب میں میری استقامت میں اور احکام و اعمال کی بجا آوری اور ادائیگی میں نقصان نہ پہنچائے کیونکہ جن لوگوں کو راہ سلوک و تصوف پر گامزن ہونے کا شرف حاصل ہے وہ جانتے ہیں کہ باری تعالیٰ کی ملاقات کا شوق بسا اوقات ورفتگی و بے خودی کی اس منزل تک پہنچ جاتا ہے جسے غلبہ حال کہا جاتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب قدم راہ ادب کی استقامت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں، سلوک میں کوتاہی پیدا ہو جاتی اور احکام و اعمال میں نقصان واقع ہو جاتا ہے چنانچہ اگلے جملہ ولا فتنۃ مضلۃ کا بھی یہی مطلب ہے کہ ایسا شوق چاہتا ہوں جو راہ استقامت سے ہٹانے والی اور احکام و اعمال میں بے راہ روی پیدا کرنے والی آزمائش میں مبتلا نہ کرے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ اس جملہ کا تعلق دعا کے ابتدائی لفظ احیینی سے ہے تاکہ اس کا مفہوم دعا میں مذکور تمام چیزوں پر حاوی ہو جائے یعنی مجھ کو اس مذکورہ نعمتوں کے ساتھ اسی طرح زندہ رکھ کہ ایسی بلاء و آزمائش میں گرفتار نہ ہو جاؤں جس میں صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور میں گمراہی میں پڑ جاؤں۔ " راہ راست پر چلنے والے بنا " کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم دوسروں کو اچھی راہ بتائیں اور دوسروں کو نیک زندگی اختیار کرنے کی تلقین کریں اسی طرح ہم خود بھی اس پر عمل کرتے ہوئے اچھی راہ اپنائی۔ اور نیک زندگی اختیار کریں۔ ہماری حالت خود رافضیحت و دیگرے نصیحت والی نہ ہو بلکہ ہمارا عمل ہمارے قول کے مطابق ہو۔
متشابہات کی پیچھے لگنے والے فتنہ باز:
حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنها فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: (ھُوَ الَّذِيْ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ) 3۔ آل عمران : 7) ترجمہ : یہ وہ (خدا) ہے جس نے آپ ﷺ پر کتاب نازل کی کہ جس کی بعض آیات محکم ہیں۔ اور آخر آیت وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّا اُولُوا الْاَلْبَابِ (سورۃ آل عمران : 7) اور نہیں نصیحت پکڑتے مگر صاحب عقل، تک پڑھی، حضرت عائشہ رضی الله عنها کہتی ہیں کہ یہ آیت پڑھ کر، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس وقت تو دیکھے (اور مسلم کی روایت میں ہے: "جب تم دیکھو") کہ لوگ ان آیتوں کے پیچھے پڑتے ہیں جو متشابہ ہیں تو (تم سمجھو کہ یہ) وہ لوگ ہیں جن کا نام اللہ تعالیٰ نے (کجرو یا گمراہ) رکھا ہے لہٰذا ان لوگوں سے بچتے رہو۔"
(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح :
آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے آیت ( ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَا ءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَا ءَ تَاْوِيْلِه څ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَه اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِه كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّا اُولُوا الْاَلْبَاب) 3۔ آل عمران : 7) " اور وہی (آیات محکمات) اصل کتاب ہیں اور بعض آیات متشابہ ہیں۔ ایسے لوگ کہ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں ، حالانکہ مراد اصلی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں کامل دسترس رکھتے ہیں وہ یہ فرماتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقلمند ہی قبول کرتے ہیں۔" اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ آیات متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں اور ان کی اصل مراد کو پانے کے لئے اپنی عقل کے تیر چلاتے ہیں ان کو اللہ نے کجرو یعنی گمراہ کہا ہے جیسا کہ آیت بالا (فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ) 3۔ آل عمران : 7) سے معلوم ہوا۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم میں دو طرح کی آیتیں ہیں اول " آیات محکمات" یہ وہ آیتیں ہیں جس کے معنی و مطلب ظاہر ہوتے ہیں ان میں اخفاء و ابہام نہیں ہوتا، دوسری آیات متشابہات ہیں یعنی جن کے معنی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ ان کی حقیقی مراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے جیسے آیت (يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ) 48۔ الفتح : 10) وغیرہ۔ لہٰذا جو لوگ نیک اور صالح ہوتے ہیں اور جن کے قلوب ایمان و ایقان کی روشنی سے پوری طرح منور ہوتے ہیں وہ آیات محکمات کے معنی و مطالب کو سمجھتے بھی ہیں اور ان پر ایمان بھی لاتے ہیں اور آیات متشابہات پر پوری رسوخ وایقان کے ساتھ ایمان لا کر ان کے معنی و مطالب اور حقیقی مراد کا علم اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں کہ وہی بہتر جاننے والا ہے۔ لیکن جن لوگوں کے قلوب میں کجی ہوتی ہے اور جن کے ذہن گمراہ ہوتے ہیں وہ آیات متشابہات کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور ان میں اپنی طرف سے غلط تاویلین کر کے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اس حدیث اور مذکورہ بالا آیات شریفہ کا یہی خلاصہ اور مطلب ہے.
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت عبداللہ رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو آدمیوں کی آوازیں سنیں جو ایک (متشابہ) آیت میں اختلاف کر رہے تھے یعنی اس کے معنی میں جھگڑ رہے تھے، آنحضرت ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے (اس وقت) آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار نمایاں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے کے لوگ کتاب (الہٰی) میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔" (صحیح مسلم)
تشریح :
اس سے مراد وہ اختلاف ہے جس کی وجہ سے قلوب شک میں گرفتار ہوں، یا ایمان میں کمزوری پیدا ہو اور آپس میں فتنہ وفساد اور دشمنی کا سبب نیز کفر و بدعت کا باعث ہو، جیسے نفس قرآن میں اختلاف کرنا، اس کے معنی و مطالب میں فرق پیدا کرنا، ظاہر ہے کہ ان چیزوں میں نہ تو اجتہاد جائز ہے اور نہ اختلاف کرنا صحیح ہے، ہاں علمائے مجتہدین کے اختلاف صحیح ہیں جو اللہ کی رحمت کا باعث اور دین و شریعت میں وسعت کا ذریعہ ہیں، چنانچہ صحابہ کرام رضوان الله علیهم سے اس طرح کا اجتہادی اختلاف جو فائدہ مند ہے، منقول ہے جو جائز تھا اور جس کی وجہ سے بے شمار مسائل کا استنباط ہوا اور امت ان سے منتفع ہوگئی۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ آخری زمانہ میں ایسےدجل وفریب دینے والے اور جھوٹے لوگ ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہوگا اور نہ تمہارے باپوں نے سنا ہوگا لہٰذا ان سے بچو اور ان کو اپنے آپ سے بچاؤ تاکہ وہ تمہیں نہ گمراہ کریں اور نہ فتنہ میں ڈالیں۔ " (صحیح مسلم:7-9)
تشریح :
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زہد و تقدس کا پر فریب لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بہکائیں گے، عوام سے کہیں گے کہ ہم علماء اور مشائخ میں سے ہیں اور تمہیں اللہ کے دین کی طرف بلاتے ہیں، نیز جھوٹی حدیث اپنی طرف سے وضع کر کے لوگوں کے سامنے بیان کریں گے، یا پچھلے بزرگوں کی طرف غلط باتیں منسوب کر کے لوگوں کو دھوکا دیں گے، باطل احکام بتلائیں گے اور غلط عقیدوں کا بیج لوگوں میں بوئیں گے(چونکہ وہ احادیث اور ان کی فقہ و تشریح ایسی ہونگی جو ہم تک اسلاف سے مسموع یعنی منقول نہ ہوگی)۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اگر وہ ایسے لوگوں کو پائیں تو ان سے بچیں، ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے مکر و فریب سے نیک لوگوں کو فتنہ میں ڈال دیں یعنی شرک و بدعت میں مبتلا کر دیں۔ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ دین کے حاصل کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے، نیز بدعتی اور ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنا چاہئے جو ذاتی اغراض اور نفسانی خواہشات کی بنا پر دین و مذہب کی نام پر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان سے ربط و ضبط نہ رکھنا چاہئے چوں بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہر دستے نباید داد دست
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جو آدمی کسی طریقہ کی پیروی کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ ان لوگوں کی راہ اختیار کرے جو فوت ہو گئے ہیں کیونکہ زندہ آدمی (دین میں) فتنہ سے محفوظ نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو فوت ہو گے ہیں ( اور جن کی پیروی کرنی چاہئے) رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہیں، جو اس امت کے بہترین لوگ تھے، دلوں کے اعتبار سے انتہا درجہ کے نیک، علم کے اعتبار سے انتہائی کامل اور بہت کم تکلّف کرنے والے تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لئے منتخب کیا تھا لہٰذا تم ان کی بزرگی کو پہچانو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اور جہاں تک ہو سکے ان سے آداب و اخلاق کو اختیار کرتے رہو (اس لئے کہ) وہی لوگ ہدایت کے سیدھے راستہ پر تھے۔" (رزین)
تشریح :
مرے ہوئے لوگوں سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور زندوں سے عبداللہ ابن مسعود ؓ کے زمانہ کے لوگ اور تابعین مراد ہیں حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ نے یہ ارشاد تابعین کے سامنے ازراہ نصیحت فرمایا تھا اور ہو سکتا ہے کہ ان دور میں چونکہ باطل فرقے جنم لینے لگے تھے جو صحابہ کرام کی ذات اقدس کے پاک دامن پر گندگی و غلاظت کے چھینٹے ڈالتے تھے جیسا کہ رافضی اور ملحدین کے گروہ اس ناپاک مشغلہ میں لگے ہوئے تھے اس لئے عبداللہ ابن مسعود ؓ نے ان کے غلط الزامات اور صحابہ پر باندھے گئے ہتان کی رد میں صحابہ کرام کی عظمت و بزرگی اور ان کی فضیلت کا اظہار فرمایا۔ چنانچہ عبداللہ ابن مسعود ؓ شہادت دے رہے ہیں کہ صحابہ کرام امت کے بہترین اور انتہا درجہ کے نیک لوگ تھے۔ یعنی ان کے قلوب ایمان و اسلام کی روشنی سے پوری طرح منوّر تھے خلوص و استقامت کے اوصاف سے متصف تھے ایمان کامل کی دولت سے مشرف تھے اور زہد و تقدس و خشیت الہٰی سے ان کی زندگیاں معمور تھیں۔ پھر دوسری بات یہ کہ یہی وہ مقدس جماعت تھی جس نے سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی آواز پر لبّیک کہا اور اللہ کے دین کو پھیلانے میں معین و مددگار رہے، جس کے نتیجہ میں انہیں جن جانکاہیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ ظلم و ستم اور تشدّد و بربریّت کے جس دور سے گزرے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت و بقاء کے سلسلہ میں جو قربانیاں دیں وہ اسلامی تاریخ کا سب سے تابناک باب ہے۔ چنانچہ اسلامی تاریخ کے جاننے والے جانتے ہیں کہ ان مقدّس حضرات کو رسول اللہ ﷺ کی معاونت اور رفاقت اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے صلہ میں کتنی سختیوں اور مشکلات سے دو چار ہو نا پڑا، زندگی کی کوئی ایسی تکلیف نہ تھی جس میں یہ مبتلا نہ کئے گئے ہوں، کوئی ایسی آزمائش نہ تھی جس سے انہیں سابقہ نہ پڑا ہو اور یہ سب اللہ کی جانب سے محض اس لئے تھا کہ ان قلوب کو خوب جانچ، پرکھ لیا جائے اور دیکھ لیا جائے کہ جس عظیم مشن کے چلانے کے لئے ان کو منتخب کیا جا رہا ہے اور جس رسول کی رفاقت جیسے عظیم منصب کے لئے ان کو پسند کیا جا رہا ہے ان کے ذہن و فکر اور دل و دماغ اس کے اہل ہیں یا نہیں، ان کے قلوب سختیوں کو برداشت کرنے کے قابل اور مشکلات پر صبر و شکر کرنے والے ہیں یا نہیں، چنانچہ ان کو امتحان میں ڈالا گیا ہے، آزمائش کی گئی اور وہ حضرات امتحان و آزمائش کے ہر مرحلہ سے کامیاب گزرے اور مصیبت و سختی کی ہر بھٹی سے کندن ہو کر نکلے، ان کے صبر و رضا کا جب امتحان لیا گیا تو ایسے صابر و شاکر نکلے کہ بڑی سے بڑی سختی اور سخت مصیبت پر بھی ان کے قدم میں لغزش آنے کی بجائے اور استقامت پیدا ہوئی اور وہ اپنے ایمان و اسلام پر پورے ایقان و اعتماد کے ساتھ قائم و مضبوط رہے ان کے اسی عظیم وصف کی شہادت قرآن نے اس طرح دی ہے کہ : آیت ( اُولٰ ى ِكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ۔ (49۔ الحجرات : 3) " یہ صحابہ وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے ادب کے واسطے جانچ لیا ہے۔" اگر علم و فضل کی کسوٹی پر ان سختیوں کو پرکھا جائے تو بلا مبالغہ نتیجہ یہی قائم کرنا پڑے گا کہ ہر صحابی علم و معرفت، فہم و فراست ، تدبر و فکر، عقل و دانش کا مینارہ نور تھا جن سے دنیا نے ظلم و جہل کے اس ماحول میں تعلیم و ترقی وتہذیب و شرافت اور انسانیت کی روشنی حاصل کی۔ چنانچہ کوئی حدیث و تفسیر میں یکتا تھا تو کوئی فقہ و قراءت کا امام کسی کے اندر تصوّف و فرائض کا علم پورے کمال کے ساتھ تھا تو کسی کے اندر معانی و ادب کا بحربیکراں موجزن تھا، غرض کہ ہر ایک اپنی جگہ علمی حیثیت سے بھی کامل واکمل تھا۔ اور پھر یہ رسول اللہ ﷺ کے شرف و صحبت کا اثر اور آپ ﷺ کی نگاہ کرشمہ ساز کا کمال تھا کہ نہ صرف مرد صحابی بلکہ عورت صحابیہ بھی اپنی اپنی جگہ علم و معرفت کے آفتاب ہدایت تھے جن سے بڑے بڑے صحابی روشنی حاصل کرتے تھے۔ روحانی واخروی عظمت و سعادت کے اس عظیم مرتبہ پر ہوتے ہوئے ان مقدس حضرات کی بے تکلّفی کا یہ عالم تھا کہ عملی دنیا میں بھی دولت و ثروت ، اقتدار حکمرانی اور ملک و وجاہیت کے باوجود انہیں ننگے پاؤں پھرنے میں عار تھا اور نہ زمین و فرش پر نماز پڑھنے، لیٹنے بیٹھنے میں کوئی شرم محسوس ہوتی تھی۔ سادگی کی حد تھی کہ مٹی لکڑی کے برتن و باسن میں انہیں کھانے پینے میں کوئی تکلّف نہیں ہوتا تھا، دوسرے لوگوں کا جھوٹا کھانا اور پینا ان کے نزدیک کوئی معیوب چیز نہ تھی، آداب گفتگو کی یہ کیفیت تھی کہ ہر ایک کی نجی بات چیت نے بھی کبھی شرافت و تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا، بیکار گفتگو، لا یعنی باتیں، لغو باتوں سے کو سوں دور رہتے کلام و گفتگو وہی کرتے جو ضروری اور بامقصد ہو صاف گوئی اس درجہ کی تھی کہ جو مسئلہ انہیں معلوم نہ ہوتا نہایت صفائی سے کہہ دیتے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے آج کل کی طرح خواہ مخواہ تکلّف کر کے لچھے دار تقریریں کر کے مسئلے کو غلط سلط بیان نہیں کرتے تھے بلکہ وہ جسے اپنے سے افضل سمجھتے تھے نہایت خلوص کے ساتھ سائل کو ان کے پاس بھیج دیتے کہ ان سے دریافت کر لو، حصول علم کا اتنا شوق تھا کہ جس کو وہ علم میں اپنے سے بڑا سمجھتے، خواہ وہ عمر میں کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، استفادہ کے لئے اس کے پاس جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ان کے یہاں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں تصنع و بناوٹ نام کو بھی نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ وہ لوگ اگر قرآن پڑھتے تو وہ بھی کسی تصنع و بناوٹ کے بغیر اس کے پورے حقوق و آداب کو ملحوظ رکھ کر خالص عربی لہجہ میں پڑھتے تھے یہ نہیں تھا کہ خواہ مخواہ آواز بنا کر راگ و سر کے ساتھ پڑھتے ہوں۔ یہی حال ان کے باطن کا تھا چونکہ انہیں براہ راست سرکار دو عالم ﷺ سے قرب و صحبت کا شرف حاصل تھا اس لئے ان کے قلوب پوری طرح مجلیٰ و مصفا ہو کر ہمہ وقت یاد الہٰی اور ذکر اللہ میں مصروف رہتے تھے، ان کے افکار عرفان و حقیقت کی انتہائی بلندیوں پر تھے، آج کل کے جاہل صوفیاء اور پیروں کی طرح وہ دکھلانے کے لئے حال میں آکر رقص نہ کرتے تھے نہ ہو ہا کا شور و شغب کرتے تھے اور نہ وہ اپنے قلوب کی صفائی کے لئے ہارمونیم کے ساز پر، طبلہ کی تھاپ پر اور قوالی کی تان پر حصول معرفت کا دعویٰ کرتے تھے جیسا کہ آج کے دور میں اہل اللہ کے مزارات پر ان لغویات سے تصوّف و طریقت کے نام پر سرور و کیف حاصل کیا جاتا ہے اور نہ وہ کسی اسکیم و تنطیم کے باعث حلقہ وغیرہ بنا کر مسجد و گھر میں ذکر جہر کرتے تھے بلکہ نہایت سادگی کے ساتھ جسے جہاں موقع مل جاتا وہیں یاد الہٰی میں نہایت صبر و سکون کے ساتھ مشغول ہو جانا ان کی اسی سادگی اور خلوص کی وجہ سے بظاہر تو ان کے اجسام فرش پر نظر آتے مگر ان کی روحیں عرش پر سیر کرتی ہوتیں، ان کے ظاہری بدن لوگوں کے ساتھ ہوتے مگر ان کے قلوب مقام قرب کی انتہائی بلندیوں پر ہوتے۔ صحابہ کا طرز معاشرت بھی تصنع و بناوٹ اور تکلّف سے بالکل پاک و صاف تھا، انہیں جو میسر آتا وہی کھا لیتے جو مل جاتا وہی پہن لیتے، موٹا چھوٹا کپڑا ہو وہ پہن لیا، عمدہ ملا اسے استعمال کر لیا، یہ نہیں تھا کہ دنیا کو دکھلانے کے لئے یا اپنے زہد و تقدّس کا رعب جمانے کے لئے حرقہ، گڑری یا ایسے ہی لباس اپنے اوپر لازم کر رکھے ہوں، ہاں جسے یہی لباس میسر ہوتا وہ اسے بھی استعمال کرتا، کھانے پینے میں یہ تامل تھا نہایت ذوق و شوق سے کھاتے اور اگر روکھا سوکھا دال دلیا ہی اللہ دے دیتا تو اسے بھی نہایت صبر و شکر سے کھا لیتے۔ بہر حال عبادات ہوں یا معاملات، اخلاق و عادات ہوں، یا معیشت و معاشرت، زندگی کے ہر پہلو میں ان کے یہاں خلوص اور بے تکلّفی و سادگی تھی اور انہوں نے اپنے نظام حیات کو ایسے سانچے میں ڈھال رکھا تھا جو خالص اسلامی دینی اور اخلاقی تھا اور یہ سب نگاہ نبوت کی کرشمہ سازی اور اس ذات اقدس کی صحبت کا اثر تھا جو خود اپنے قول الحدیث (ادبنی ربی فاحسن تادیبی) (یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے ادب سکھایا اور ادب کے انتہائی درجہ بر پہنچایا) کے مطابق ادب و اخلاق اور تہذیب و شرافت کے تمام جواہر ازل ہی سے اپنے اندر سموئے ہوئے تھے کہ جو قوم دنیا کی سب سے زیادہ غیر مہذب، غیر متمدن اور غیر ترقی یافتہ تھی اور اصلاح و تربیت کے ذریعہ اسے تہذیب و تمدن اور اخلاق و احسان کے اس مقام رفیع تک پہنچا دیا جہاں نہ صرف یہ کہ وہ خود ایک کامل اور عظیم قوم ثابت ہوئی بلکہ دنیا کی دوسری قوموں نے اس کے نقش قدم کو اپنے لئے جادہ منزل بنا کر تہذیب و تمدن کی انتہائی بلندیوں پر بسیرا کیا۔ چنانچہ اس حدیث میں عبداللہ ابن مسعود ؓ لوگوں کو یہی ہدایت فرما رہے ہیں کہ اگر تم ہدایت کا راستہ چاہتے ہو، فلاح کی منزل کے خواہش مند ہو، عرفان الہٰی اور حبّ رسول ﷺ کے انتہائی مقام پر پہنچنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ اسی مقدّس جماعت کے راستہ کو اختیار کرو، انہی کے اخلاق و عادات کو اپنے لئے جادہ منزل جانو، انہی کی متابعت و پیروی کو کامیابی و کامرانی کا ذریعہ سمجھو اور ان کی عقیدت و محبت سے زندگی کے ہر گوشہ کو منور کرو۔ اس جگہ اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کے ارشاد سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انتقال فرما گئے ہیں انہیں کی پیروی و اطاعت کرنی چاہئے۔ حالانکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ پیروی کے لائق صحابہ کرام کی جماعت ہے خواہ وہ زندہ ہوں یا اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں مردوں کی تخصیص صرف اس لئے کی گئی ہے کہ اکثر صحابہ کرام اس وقت انتقال فرما چکے تھے ورنہ یہاں زندہ اور مردہ دونوں مراد ہیں۔ اس حدیث سے صحابہ کی انتہائی عظمت اور فضل و کمال کا اظہار ہوتا ہے چونکہ تمام مخلوق اور تمام انسانوں میں یہ سب سے افضل تھے اور حق و صداقت کے قبول کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم ان میں موجود تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی ﷺ کی رفاقت کے لئے منتخب فرمایا اور قرآن میں بایں طور پر ان کے فضل و کمال کی شہادت دی کہ : آیت ( وَاَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَكَانُوْ ا اَحَقَّ بِهَا وَاَهْلَهَا) 48۔ الفتح : 26) " اور ان (صحابہ) کو پرہیزگاری کی بات پر قائم رکھا اور وہ اس کے مستحق اور اہل تھے۔" بعض آثار میں آیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام بندوں کے قلوب پر نظر فرمائی چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا قلب مبارک سب سے زیادہ منوّر و روشن اور پاک و صاف تھا تو نور نبوت اس میں ودیعت فرمایا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب بھی بہت زیادہ پاک و صاف اور اہل و لائق تھے تو ان کو اپنے نبی کی ﷺ کی رفاقت کے لئے پسند فرمایا۔ اور اتنی بات تو ہم آج خود جانتے ہیں کہ ایک آدمی جب کسی پیر برحق کا مرید ہوتا ہے تو باوجودیکہ وہ پہلے سے بالکل خالی اور کورا ہوتا ہے مگر پیر کی صحبت اور اس کی خدمت و اطاعت گزاری کی وجہ سے وہ کتنا اعلیٰ مقام حاصل کر لیتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی زندگیاں رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اور اپنی عمریں آپ ﷺ کی خدمت میں صرف کر دیں اور فضل و کمال حاصل نہ کریں۔
حضرت جندب ؓ (آپ کا اسم گرامی جندب ابن عبداللہ بجلی علقی ہے حضرت عبداللہ ابن زبیر اور یزید کے حامیوں میں جو جنگ چل رہی تھی اس وقت یہ حیات تھے اس فتنہ کے چار دن بعد آپ کا انتقال ہوا ہے)۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہا اور وہ حقیقت و واقع کے مطابق بھی ہو تو اس نے تب بھی غلطی کی۔"
(جامع ترمذی و سنن ابوداؤد)
تشریح :
یعنی کسی آدمی نے قرآن کی کسی آیت کی ایسی تفسیر بیان کی جو نہ تو احادیث سے ثابت تھی اور نہ علمائے امت سے منقول بلکہ محض اپنی عقل و رائے پر بھروسہ کر کے آیت کی تفسیر بیان کر دی مگر اتفاق سے اس کی بیان کردہ تفسیر صحیح اور حقیقت و واقعہ کے بالکل مطابق ہوئی کہ اس سے آیت کے معنی و مطالب میں کوئی غلطی نہیں ہوئی تو اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ بھی اس نے غلطی کی کیونکہ تفسیر گو صحیح ہوئی مگر چونکہ اس نے قصدًا اپنی عقل اور رائے کو قرآن کی تفسیر میں دخل دیا اور تفسیر کا جو شرعی قاعدہ و طریقہ ہے اس سے انحراف کیا اس لئے وہ بھی خطا کار کے حکم میں شامل کیا جائے گا۔ مجتہد کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ اگر مجتہد اپنے اجتہاد میں غلطی بھی کر جائے تو اس پر نہ صرف یہ کہ کوئی مواخذہ نہیں بلکہ اسے ثواب بھی ملتا ہے۔ " تفیسر" اسے فرماتے ہیں کہ آیت کے جو معنی و مطالب بیان کئے جائیں اس کے بارے میں یہ یقین ہو کہ آیت کی مراد اور اس کا حقیقی مطلب یہی ہے اور یہ بات سوائے اہل تفسیر کی نقل کے جس کی سند رسول اللہ ﷺ تک پہنچی ہو درست نہیں ہے یعنی ایسا یقین اور اطمیان اسی تفسیر پر صحیح ہوگا جو اجلہ علماء اور مستند مفسرین سے منقول ہو کیونکہ انہوں نے وہی معنی و مطالب بیان کئے ہیں جو براہ راست سرکار دو عالم ﷺ سے منقول ہیں اور جو واسطہ بالواسطہ ان تک پہنچے ہیں۔ " تاویل" اسے فرماتے ہیں کہ کسی آیت کے معنی و مطالب بیان کرتے ہوئے بطریق احتمال کے یہ کہا جائے کہ میں جو معنی بیان کر رہا ہوں اور آیت کی جو تفسیر کر رہا ہوں ہو سکتا ہے کہ مراد اصلی یہی ہو۔ یہ چیز درست اور صحیح ہے لیکن یہ بھی جب ہی صحیح ہوگی کہ بیان کردہ تفسیر قواعد عربی اور شرع کے مطابق ہو۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ قرآن کریم سات طرح پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے ہر آیت ظاہر ہے اور باطن ہے اور ہر حد کے واسطے ایک جگہ خبردار ہونے کی ہے۔" (شرح السنۃ)
تشریح :
دنیا کی ہر زبان میں فصاحت و بلاغت اور لب ولہجہ کے اعتبار سے مختلف اسلوب اور مختلف لغات ہوتی ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں بھی سات لغات عرب میں مشہور تھیں، اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم سات طرح یعنی سات لغات پر نازل ہوا ہے۔ اس سات لغات کی تفصیل اس طرح ہے۔ لغت قریش، لغت طی، لغت ہوازن، لغت اہل یمن، لغت ثقیف، لغت ہذیل اور لغت بنی تمیم۔ قرآن کریم سب سے پہلے قریش کی لغت کے مطابق نازل ہوا تھا جو سرکار دو عالم ﷺ کی لغت تھی لیکن جب تمام عرب میں اس لغت کے مطابق قرآن کا پڑھنا جانا اس لئے دشوار و مشکل ہوا کہ ہر قبیلہ اور ہر قوم کی اپنی ایک مستقل لغت اور زبان کے لب و لہجہ کا الگ الگ انداز تھا تو سرکا دو عالم ﷺ نے بارگاہ الوہیت میں درخواست پیش کی کہ اس سلسلہ میں وسعت بخشی جائے تو حکم دے دیا گیا کہ ہر آدمی قرآن کو اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکتا ہے چنانچہ حضرت عثمان غنی کے ؓ کے زمانہ تک اسی طرح چلتا رہا اور لوگ اپنی اپنی لغت کے اعتبار سے قرآن پڑھتے رہے۔ لیکن جب حضرت عثمان غنی ؓ نے کلام اللہ کو جمع کیا اور اس کی کتابت کرا کر اسلامی سلطنت کے ہر ہر خطہ میں اسے بھیجا تو انہوں نے اسی لغت کو مستقل قرار دیا جس پر حضرت زید بن ثابت ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق صدیق ؓ کے حکم اور حضرت عمر فاروق ؓ کے مشورہ سے قرآن کو جمع کیا تھا اور وہ لغت قریش تھی، حضرت عثمان غنی ؓ نے یہ حکم بھی فرمایا کہ تمام لغات منسوخ کر دی جائیں صرف اس ایک لغت کو باقی رکھا جائے۔ چنانچہ حضرت عثمان غنی ؓ کے حکم کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ قرآن صرف ایک لغت میں جمع ہوگیا جس سے دنیا کے ہر خطہ کے لوگوں کے لئے آسانیاں ہوگئیں بلکہ اس کی وجہ سے ایک بڑے فتنہ کی جڑ بھی ختم کر دی گئی اور فتنہ یہ تھا کہ لغات کے اختلافات کی وجہ سے مسلمان آپ میں لڑنے جھگڑنے لگے تھے اور نوبت بأیں جا رسد کہ اگر کوئی آدمی کسی دوسرے کو اپنی لغت کے خلاف قرآن پڑھتا دیکھتا تو یہ سمجھ کر کہ صرف میرے قبیلہ ہی کی لغت صحیح ہے اسے کافر کہہ دیا کرتا تھا، چنانچہ لغت قریش کے علاوہ جس پر قرآن نازل ہوا تھا بقیہ تمام لغات ختم کر دی گئیں اور اگر کوئی لغت باقی بھی رہی تو وہی رہی جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتفاق رہا اور جو سند متصل اور تواتر کے ساتھ آخر میں قراء سبعہ تک پہچنی اس کے علاوہ لغت میں مکرر یعنی امالہ و ادغام وغیرہ کا اختلاف بھی باقی رہا جو آج تک قراء سبعہ میں موجود ہے۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ قرآن سات طرح پر نازل ہوا ہے تو ساتھ طرح سے مراد وہ سات قرأتیں ہیں جو قراء سبعہ پڑھتے ہیں، پھر علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ اگرچہ قرأتیں ساتھ سے زیادہ ہیں لیکن یہاں سات کی تحدید اس لئے کی گئی ہے کہ اختلاف کی بھی سات ہی قسمیں ہیں جن کی طرف یہ سات قرأتیں راجع ہیں۔ جیسے (١) کلمہ کی ذات میں اختلاف یعنی کلمہ میں کمی و زیادتی ہیں۔ (٢) جمع اور مفرد کا اختلاف (٣) مذکر اور مونث کا اختلاف (٤) صرفی اختلاف یعنی تخفیف و تشدید اور فتح و کسرہ وغیرہ کا اختلاف جیسے مَیَّتٌ اور مِیَتٌ یَقنط اور یقنط (٥) اعراب کا اختلاف (٦) حروف کا اختلاف جیسے لکن الشیطین میں نون کی تشدید اور تخفیف (٧) ادائیگی لغات کا اختلاف جیسے تفخیم اور امالہ وغیرہ حدیث کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ ہر آیت کا ظاہر ہے اور باطن ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آیت کے ایک ظاہر معنی ہیں جو تمام اہل زبان سمجھتے ہیں اور ایک باطنی معنی ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے وہی بندگانِ خاص سمجھتے ہیں جن کے قلب و دماغ معرفت کی روشنی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا گیا ہے کہ ہر حد کے واسطے ایک جگہ خبردار ہونے کی ہے حد کے معنی طرف اور نہایت کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہر ایک ظاہر اور باطن کی ایک حد اور نہایت ہے اور حد و نہایت کے لئے ایک مطلع یعنی ایسا مقام ہے جس پر پہنچنے اور اس کے حاصل کرنے کے بعد آدمی اس حد اور نہایت پر مطلع ہوتا ہے۔ چنانچہ ظاہر کا مطلع یعنی وہ مقام جس پر پہنچ کر حد اور نہایت معلوم ہوتی ہے، یہ ہے کہ عربی زبان اور اس کے اصول و قواعد سیکھے جائیں، علم صرف و نحو حاصل کیا جائے کہ قرآن کے ظاہری معنی انہیں سے متعلق ہیں، نیز ہر آیت کا شان نزول اور ناسخ و منسوخ کا علم حاصل کرے، یا اسی طرح وہ دوسری چیزیں ہیں جن پر قرآن کے ظاہری معنی کے سمجھنے کا انحصار ہے۔ باطن کا مطلع یہ ہے کہ ریاضت و مجاہدہ کیا جائے، قرآن کے ظاہری معنی اور ان کے احکام کا اتباع اور ان پر عمل کیا جائے نفس کو تمام برائی اور گناہ و معصیت سے پاک و صاف کیا جائے دل کو عبادت الٰہی اور رضائے الہٰی کے نور سے جلا بخشی جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے حصول کے بعد قرآن کے باطنی علوم اور اس کے اصرار و معارف کا قلب انسان پر انکشاف ہوتا ہے۔ امام محیّ السنۃ نے اپنی تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ حدیث کے الفاظ " ظہر" سے مراد قرآن کے الفاظ ہیں اور " باطن" سے مراد الفاظ کی تاویل ہے۔ " مطلع" سے مراد فہم یعنی وہ سمجھ ہے جس کی وجہ سے قرآن کے اندر غور و فکر کرنے والے پر قرآن کے جن علوم و معنی اور تاویل کا انکشاف ہوتا ہے وہ دوسروں پر نہیں ہوتا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ سے دو باسن (یعنی دو طرح کے علم) یاد رکھے ہیں، ان میں سے ایک کو تمہارے درمیان میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا علم وہ ہے کہ اگر میں اسے بیان کروں تو میرا یہ گلا کاٹ ڈالا جائے۔" (صحیح البخاری )
تشریح :
پہلے علم سے مراد تو علم ظاہر ہے جس کا تعلق احکام و اخلاق وغیرہ سے ہے۔ دوسرے علم کے دو مفہوم لئے جا سکتے ہیں اول تو یہی کہ اس سے مراد وہ علم باطن ہے جس کے اسرار و معانی عوام سے ان کے ناقص فہم کی بنا پر پوشیدہ ہیں اور وہ علم خواص علماء عارفین کے ساتھ محضوص ہے یا دوسرے معنیٰ یہ ہو سکتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے بتایا تھا کہ میرے بعد ایک جماعت کی طرف سے ایک زبردست فتنہ اٹھے گا جس سے بدعات کی بنیاد پڑ جائے گی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کو اس قوم اور قوم کے افراد کے ناموں کا بھی علم تھا چنانچہ ہو سکتا ہے کہ اس سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی مراد یہی علم ہو جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اگر میں اسے لوگوں کے سامنے بیان کر دوں گا تو میری جان کے لالے پڑ جائیں گے۔
حضرت علی المرتضیٰ ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)
تشریح :
یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔ مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔ اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔
حضرت عبیداللہ ابن عدی ابن خیار کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ حضرت عثمان غنی ؓ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ وہ (اپنی شہادت سے پہلے بغاوت کے ایام میں اپنے مکان کے اندر) محصور تھے چنانچہ (عبیدا اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ سے) میں نے عرض کیا کہ آپ ہم سب کے امام (اور امیر) ہیں اور آپ پر جو کچھ مصائب و پریشانیاں) نازل ہوئی ہیں وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں اور (ہمارا حال یہ ہے کہ) ہمیں فتنے و فساد کا ایک امام نماز پڑھاتا ہے (جس کے پیچھے نماز پڑھنا) گناہ سمجھتے ہیں، (یہ سن کر) حضرت عثمان غنی ؓ نے فرمایا کہ نماز پڑھنا لوگوں کے تمام اعمال سے بہتر و افضل ہے۔ لہٰذا جب لوگ نیکی و بھلائی کریں تو تم بھی ان کے ساتھ نیکی و بھلائی کرو اور اگر وہ برائی کریں تو تم ان کی برائیوں سے بچو۔" (صحیح البخاری )
تشریح:
" فتنہ و فساد کے امام" سے مراد باغیوں کا سردار ہے جس کا نام کنانۃ ابن بشیر تھا۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی نیکیوں میں تو شریک رہو یعنی اگر وہ نیک کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ مل کر وہی نیک کام کرو البتہ ان کی بدی میں شریک نہ رہو۔ اور نماز کا پڑھنا نیک ہی عمل ہے اس لئے باغیوں کے سردار کے پیچھے تمام پڑھ سکتے ہو اسے گناہ کی بات نہ سمجھو۔ حضرت عثمان غنی ؓ کے اس ارشاد سے ان کے عدل و انصاف اور ان کے حلم و بردباری کے عظیم وصف پر روشنی پڑتی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے سخت موقعہ پر جب کہ باغیوں نے اپنے ظلم و ستم کی انتہا کرتے ہوئے انہیں مکان میں محصور کر رکھا تھا اور ان کے اوپر تکالیف و پریشانیوں کے پہاڑ توڑ رہے تھے تو انہوں نے اس وقت بھی ان کی نیکی اور بھلائی کو از راہ بغض و انتقام برائی سے تعبیر نہیں کیا بلکہ اسے اچھا ہی کہا۔ یہ ارشاد اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ہر نیک و بد آدمی کے پیچھے نماز جائز ہو جاتی ہے جیسا کہ اہل سنت و الجماعت کا مسلک ہے۔
امت مسلمہ میں آج بھی ایسی جماعت موجود ہے جو اہل فتن سے نبردآزما رہتی ہے اور اور ان کے فتنوں سے قوم وملت کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔
Add caption
پیٹ کا فتنہ اور اس کا علاج
آج کل دنیا طرح طرح کے فتنوں کی آما ج گاہ بنی ہوئی ہے، ان سب فتنوں میں ایک بنیادی اور بڑا فتنہ ”پیٹ“ کا ہے، شکم پروری وتن آسانی زندگی کا اہم ترین مقصد بن کر رہ گیا ہے، ہر شخص کا شوق یہ ہے کہ لقمہ تر اس کی لذت کام ودہن کا ذریعہ بنے اور یہ فتنہ اتنا عالم گیر ہے کہ بہت کم افراد اس سے بچ سکے ہیں، تاجر ہو یا ملازم، اسکول کا ٹیچر ہو یا کالج کا پروفیسر، دینی درس گاہ کا مدرّس ہو یا مسجد کا امام، اس آفت میں سب ہی مبتلا نظرآتے ہیں، ہاں! فرقِ مراتب ضرور ہے، زہد و قناعت، ورع و تقویٰ اور اِخلاص و اِیثار جیسے اخلاق وفضائل اور ملکات کا نام ونشان نہیں ملتا، اسی کانتیجہ ہے کہ آج پورا عالم ساز وسامان کی فراوانی کے باوجود حرص وآز، طمع و لالچ اور زر طلبی وشکم پروری کی بھٹی میں جل رہا ہے او رکرب و اضطراب، بے چینی وبے اطمینانی او رحیرت وپریشانی کا دھواں چہار سمت پھیلا ہوا ہے۔
دراصل اس فتنہٴ جہاں سوز کا بنیادی سبب یہی ہے، جس کی نشان دہی رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، آخرت کا یقین بے حد کمزور اور آخرت کی نعمتوں اور راحتوں کا تصور تقریباً ختم ہو چکا ہے، مادی نعمتیں اور ان کا تصور اس قدر غالب ہے کہ روحانی قدریں مضمحل ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسانوں کی چھوٹائی، بڑائی، عزت و ذلت اور بلندی و پستی کی پیمائش ﴿ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم﴾کے پیمانے سے نہیں ہوتی، بلکہ ”پیٹ اور جیب“ کے پیمانے سے ہوتی ہے، مادیت کے اس سیلاب میں پہلے ایمان ویقین رُخصت ہوا، پھر انسانی اخلاق ملیامیٹ ہوئے، پھر اسوہٴ نبوت سے وابستگی کمزور ہو کر ”اعمالِ صالحہ“ کی فضا ختم ہوئی، پھر معاشرت ومعاملات کی گاڑی لائن سے اتری، پھر سیاست وتمدن تباہ ہوا اور اب مادیت کا یہ طوفان انسانیت کو بہیمیت کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے، انفرادی بے اصولی اور آوارگی وبے راہ روی اور بے رحمی وشقاوت کا وہ دور دورہ ہے کہ الامان والحفیظ۔
الغرض اس ”پیٹ“ کے فتنے نے ساری دنیا کی کایا پلٹ ڈالی ہے، دنیا بھر کے عقلا ”پیٹ“ کی فتنہ سامانی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، وہ اس فتنہ کے ہول ناک نتائج کا تدارک بھی کرنا چاہتے ہیں، مگر صد حیف کہ علاج کے لیے ٹھیک وہی چیز تجویز کی جاتی ہے جو خود سبب مرض ہے، درحقیقت انبیا علیہم السلام ہی انسانیت کے نباض ہیں او رانہیں کا تجویز کردہ علاج اس مریض کے لیے کار گر ہوتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہول ناک مرض کی صحیح تشخیص بہت پہلے فرما دی تھی، چناں چہ ارشاد فرمایا:
”واللہ لا الفقر اخشیٰ علیکم، ولکن اخشیٰ علیکم ان تبسط علیکم الدنیا کما بسطت علی من کان قبلکم، فتنافسوھا کما تنافسوھا، فتھلککم کما اھلکتہم․“ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب من یحذر من زہرة الدنیا والتنافس فیھا، ج:2، ص:951، ط: قدیمی․ الصحیح لمسلم، کتاب الزہد ج:2، ص:407، ط: قدیمی)
” بخدا! مجھے تم پر فقر کا اندیشہ قطعاً نہیں، بلکہ اندیشہ ہے کہ تم پر دنیا پھیلائی جائے، جیسا کہ تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی، پھر تم پہلو ں کی طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو، پھر اس نے جیسے ان کو برباد کیا، تمہیں بھی برباد کر ڈالے۔“ (بخاری ومسلم)
لیجیے! یہ تھا وہ نقطہٴ آغاز، جس سے اِنسانیت کا بگاڑ شروع ہوا، یعنی دنیا کو نفیس اور قیمتی چیز سمجھنا اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس پر جھپٹنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشخیص پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے ایک جامع نسخہ شفا بھی تجویز فرمایا، جس کا ایک جزاعتقادی ہے اور دوسرا عملی۔
اعتقادی جزیہ ہے کہ اس حقیقت کو ہر موقع پر مستحضر رکھا جائے کہ اس دنیا میں ہم چند لمحوں کے مہمان ہیں، یہاں کی ہر راحت وآسائش بھی فانی ہے اور ہر تکلیف ومشقت بھی ختم ہونے والی ہے، یہاں کے لذائذ و شہوات، آخرت کی بیش بہا نعمتوں او رابدالآباد کی لازوال راحتوں کے مقابلہ میں کالعدم اور ہیچ ہیں۔ قرآن کریم اس اعتقاد کے لیے سراپا دعوت ہے اور سینکڑوں جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ سورة اعلیٰ میں نہایت بلیغ مختصر او رجامع الفاظ میں اس پر متنبہ فرمایا:﴿بل توٴثرون الحیوٰة الدنیا والآخرة خیر و أبقی﴾ (کان کھول کر سن لو!کہ تم آخرت کو اہمیت نہیں دیتے) بلکہ دنیا کی زندگی کو (اس پر) ترجیح دیتے ہو، حالاں کہ آخرت (دنیا سے) بدر جہابہتر اور لازوال ہے۔“ (سورہٴ اعلیٰ:16،17)
اور عملی حصہ اس نسخہ کا یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں مشغول ہوا جائے او ربطورِ پرہیز کے حرام او رمشتبہ چیزوں کو زہر سمجھ کران سے کلی پرہیز کیا جائے اور یہاں کے لذائذ وشہوات میں انہماک سے کنارہ کشی اختیار کی جائے، دنیا کا مال واسباب، زن و فرزند، خویش و اقربا اور قبیلہ و برادری کے سارے قصے زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھ کر صرف بقدرِ ضرورت ہی اختیار کیے جائیں، ان میں سے کسی چیز کو بھی دنیا میں عیش وعشرت اور لذت وتنعم کی زندگی گزارنے کے لیے اختیار نہ کیا جائے اور نہ یہاں کی عیش کوشی کو زندگی کا مقصد او رموضوع بنایا جائے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
”ایاک والتنعم\ فان عباد اللہ لیسوا بالمتنعمین․“ (مشکاة المصابیح، کتاب الرقاق، باب فضل الفقراء ج:2، ص:449، ط: قدیمی) ”عیش وعشرت سے پرہیز کرو ، کیوں کہ اللہ کے بندے عیش پرست نہیں ہوتے۔“
تعجب ہے کہ اگر کسی ڈاکٹر کی رائے ہو کہ دودھ، گھی، گوشت، چاول وغیرہ کا استعمال مضر ہے تو اس کے مشورے او راشارے سے تمام نعمتیں ترک کی جاسکتی ہیں، لیکن خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات اور وحی آسمانی کے صاف احکام پر ادنیٰ سے ادنیٰ لذت کا ترک کرنا گوارا نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل واصحاب کرام کی زندگی او رمعیارِ زِندگی کو اوّل سے آخر تک دیکھاجائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا کی نعمتوں سے دل بستگی سراسرجنون ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کا قصہ مروی ہے کہ کچھ لوگوں پر ان کا گزر ہوا، جن کے سامنے بھنا ہوا گوشت رکھا تھا، انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ کو کھانے کی دعوت دی، آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔“ (صحیح بخاری، کتاب الاطعمة، باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ یاکلون، ج:2، ص:815، ط: قدیمی) مہینوں پر مہینے گزر جاتے، مگر کاشانہٴ نبوت میں نہ رات کو چراغ جلتا، نہ دن کوچولہا گرم ہوتا، پانی او رکھجور پر گزر بسر ہوتی، وہ بھی کبھی میسر آتیں، کبھی نہیں، تین تین دن کا فاقہ ہوتا، کمر سیدھی رکھنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھے جاتے او راسی حالت میں جہاد وقتال کے معرکے ہوتے۔ الغرض زہد وقناعت، فقر وفاقہ، بلند ہمتی و جفاکشی اور دنیا کی آرائشوں سے بے رغبتی اورنفرت وبے زاری سیرتِ طیبہ کا طغرائے امتیاز تھی، اپنی حالت کا اس ”پاک زندگی“ سے مقابلہ کرنے کے بعد ہم میں سے ہر شخص کو شرم آنی چا ہیے۔ ہمارے یہاں سارا مسئلہ روٹی اور پیٹ کا ہے او روہاں یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ زندگی بالقصد اختیار کی گئی تھی، تاکہ آئندہ نسلوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہو جائے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو آپ کو من جانب اللہ کیا کچھ نہ دیا جاسکتا تھا؟ مگر دنیا کا یہ سازوسامان، جس کے لیے ہم مرکھپ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس قدر حقیر وذلیل ہے کہ وہ اپنے محبوب ومقرب بندوں کو اس سے آلودہ نہیں کرنا چاہتے، بعض انبیا علیہم السلام کو عظیم الشان سلطنت بھی دی گئی، مگر ان کے زہد وقناعت اور دنیا سے بے رغبتی اور بے زاری میں فرق نہیں آیا، ان کے پاس جو کچھ تھا، دوسروں کے لیے تھا، اپنے نفس کے لیے کچھ نہ تھا۔
الغرض یہ ہے ”فتنہ پیٹ“ کا صحیح علاج، جو انبیا علیہم السلام اور بالخصوص سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا اور اگر انسان ”پیٹ کی شہوت“ کے فتنہ سے بچ نکلے تو ان شاء اللہ”شہوتِ فرج“ کے فتنہ سے بھی محفوظ رہے گا کہ یہ خرمستی پیٹ بھرے آدمی کو ہی سوجھتی ہے، بھوکا آدمی اس کی آرزوکب کرے گا؟ ان ہی دو شہوتوں سے بچنے کا نام اِسلام کی اِصطلاح میں ”تقویٰ“ ہے، جس پر بڑی بڑی بشارتیں دی گئی ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ضعیف مریض کو بقائے حیات کے لیے ہلکی پھلکی، معمولی غذا کا مشورہ دیا جاتا ہے او رزبان کے چسکے سے بچنے کی سخت تاکید کی جاتی ہے، تاکہ مطلوبہ اعلیٰ ”صحت“ نصیب ہو، بس یہی حیثیت اِسلام کی نظر میں دنیا کی ہے۔
مادیت کا فتنہ اور اس کا علاج
آج کل دنیا طرح طرح کے فتنوں کی آما ج گاہ بنی ہوئی ہے، ان سب فتنوں میں ایک بنیادی اور بڑا فتنہ ”پیٹ“ کا ہے، شکم پروری وتن آسانی زندگی کا اہم ترین مقصد بن کر رہ گیا ہے، ہر شخص کا شوق یہ ہے کہ لقمہ تر اس کی لذت کام ودہن کا ذریعہ بنے اور یہ فتنہ اتنا عالم گیر ہے کہ بہت کم افراد اس سے بچ سکے ہیں، تاجر ہو یا ملازم، اسکول کا ٹیچر ہو یا کالج کا پروفیسر، دینی درس گاہ کا مدرّس ہو یا مسجد کا امام، اس آفت میں سب ہی مبتلا نظرآتے ہیں، ہاں! فرقِ مراتب ضرور ہے، زہد و قناعت، ورع و تقویٰ اور اِخلاص و اِیثار، جیسے اخلاق وفضائل اور ملکات کا نام ونشان نہیں ملتا، اسی کانتیجہ ہے کہ آج پورا عالم ساز و سامان کی فراوانی کے باوجود حرص وآز، طمع و لالچ اور زر طلبی وشکم پروری کی بھٹی میں جل رہا ہے او رکرب و اضطراب، بے چینی وبے اطمینانی او رحیرت وپریشانی کا دھواں چہار سمت پھیلا ہوا ہے۔
دراصل اس فتنہٴ جہاں سوز کا بنیادی سبب یہی ہے، جس کی نشان دہی رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، آخرت کا یقین بے حد کمزور اور آخرت کی نعمتوں اور راحتوں کا تصور تقریباً ختم ہو چکا ہے، مادی نعمتیں اور ان کا تصور اس قدر غالب ہے کہ روحانی قدریں مضمحل ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسانوں کی چھوٹائی، بڑائی، عزت و ذلت اور بلندی و پستی کی پیمائش ”ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم“ کے پیمانے سے نہیں ہوتی، بلکہ ”پیٹ اور جیب“ کے پیمانے سے ہوتی ہے، مادیت کے اس سیلاب میں پہلے ایمان و یقین رُخصت ہوا، پھر انسانی اخلاق ملیامیٹ ہوئے، پھر اسوہٴ نبوت سے وابستگی کمزور ہو کر ”اعمالِ صالحہ“ کی فضا ختم ہوئی، پھر معاشرت ومعاملات کی گاڑی لائن سے اتری، پھر سیاست وتمدن تباہ ہوا اور اب مادیت کا یہ طوفان انسانیت کو بہیمیت کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے، انفرادی بے اصولی اور آوارگی وبے راہ روی اور بے رحمی وشقاوت کا وہ دور دورہ ہے کہ الامان والحفیظ․
الغرض اس ”پیٹ“ کے فتنے نے ساری دنیا کی کایا پلٹ ڈالی ہے، دنیا بھر کے عُقلاء ”پیٹ“ کی فتنہ سامانی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں وہ اس فتنہ کے ہول ناک نتائج کا تدارک بھی کرنا چاہتے ہیں، مگر صد حیف کہ علاج کے لیے ٹھیک وہی چیز تجویز کی جاتی ہے جو خود سبب مرض ہے، درحقیقت انبیا علیہم السلام ہی انسانیت کے نباض ہیں او رانھیں کا تجویز کردہ علاج اس مریض کے لیے کار گر ہوتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہول ناک مرض کی صحیح تشخیص بہت پہلے فرما دی تھی، چناں چہ ارشاد فرمایا:
”واللّٰہ لا الفقر أخشیٰ علیکم ولکن أخشیٰ علیکم أن تبسط علیکم الدنیا کما بسطت علی من کان قبلکم فتنافسوھا کما تنافسوھا فتھلککم کما اھلکتہم“․ (سحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب من یحذر من زہرة الدنیا والتنافس فیھا، ج:۲، ص:۹۵۱، ط: قدیمی․ الصحیح لمسلم، کتاب الزہد ج:۲، ص:۴۰۷، ط: قدیمی)
” بخدا! مجھے تم پر فقر کا اندیشہ قطعاً نہیں، بلکہ اندیشہ ہے کہ تم پر دنیا پھیلائی جائے، جیسا کہ تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی، پھر تم پہلو ں کی طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو، پھر اس نے جیسے ان کو برباد کیا، تمہیں بھی برباد کر ڈالے۔“ (بخاری ومسلم)
لیجیے! یہ تھا وہ نقطئہ آغاز، جس سے اِنسانیت کا بگاڑ شروع ہوا، یعنی دنیا کو نفیس اور قیمتی چیز سمجھنا اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس پر جھپٹنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشخیص پر ہی اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ اس کے لیے ایک جامع نسخہٴ شفا بھی تجویز فرمایا، جس کا ایک جزاعتقادی ہے اور دوسرا عملی۔
اعتقادی جزیہ ہے کہ اس حقیقت کو ہر موقع پر مستحضر رکھا جائے کہ اس دنیا میں ہم چند لمحوں کے مہمان ہیں، یہاں کی ہر راحت وآسائش بھی فانی ہے اور ہر تکلیف ومشقت بھی ختم ہونے والی ہے، یہاں کے لذائذ و شہوات، آخرت کی بیش بہا نعمتوں او رابدالآباد کی لازوال راحتوں کے مقابلہ میں کالعدم اور ہیچ ہیں۔ قرآن کریم اس اعتقاد کے لیے سراپا دعوت ہے اور سیکڑوں جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ سورة اعلیٰ میں نہایت بلیغ مختصر او رجامع الفاظ میں اس پر متنبہ فرمایا:”بل توٴثرون الحیوٰة الدنیا والآخرة خیر و أبقی“ (کان کھول کر سن لو!کہ تم آخرت کو اہمیت نہیں دیتے) بلکہ دنیا کی زندگی کو (اس پر) ترجیح دیتے ہو؛ حالاں کہ آخرت (دنیا سے) بدر جہابہتر اور لازوال ہے۔“ (سورہٴ اعلیٰ:۱۶، ۱۷)
اور عملی حصہ اس نسخہ کا یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں مشغول ہوا جائے او ربطورِ پرہیز کے حرام او رمشتبہ چیزوں کو زہر سمجھ کران سے کلی پرہیز کیا جائے اور یہاں کے لذائذ وشہوات میں انہماک سے کنارہ کشی اختیار کی جائے، دنیا کا مال واسباب، زن و فرزند، خویش و اقربا اور قبیلہ و برادری کے سارے قصے زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھ کر صرف بقدرِ ضرورت ہی اختیار کیے جائیں، ان میں سے کسی چیز کو بھی دنیا میں عیش وعشرت اور لذت وتنعم کی زندگی گزارنے کے لیے اختیار نہ کیا جائے اور نہ یہاں کی عیش کوشی کو زندگی کا مقصد او رموضوع بنایا جائے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
”ایاک والتنعم فان عباد اللہ لیسوا بالمتنعمین“ (مشکاة المصابیح، کتاب الرقاق، باب فضل الفقراء ج:۲، ص:۴۴۹، ط: قدیمی) ”عیش وعشرت سے پرہیز کرو؛ کیوں کہ اللہ کے بندے عیش پرست نہیں ہوتے۔“
تعجب ہے کہ اگر کسی ڈاکٹر کی رائے ہو کہ دودھ، گھی، گوشت، چاول وغیرہ کا استعمال مضر ہے تو اس کے مشورے او راشارے سے تمام نعمتیں ترک کی جاسکتی ہیں؛ لیکن خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات اور وحی آسمانی کے صاف احکام پر ادنیٰ سے ادنیٰ لذت کا ترک کرنا گوارا نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل واصحاب کرام کی زندگی او رمعیارِ زِندگی کو اوّل سے آخر تک دیکھاجائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا کی نعمتوں سے دل بستگی سراسرجنون ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کا قصہ مروی ہے کہ کچھ لوگوں پر ان کا گزر ہوا، جن کے سامنے بھنا ہوا گوشت رکھا تھا، انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ کو کھانے کی دعوت دی، آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔“ (صحیح بخاری، کتاب الاطعمة، باب ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ یاکلون، ج:۲، ص:۸۱۵، ط: قدیمی) مہینوں پر مہینے گزر جاتے؛ مگر کاشانہٴ نبوت میں نہ رات کو چراغ جلتا، نہ دن کوچولہا گرم ہوتا، پانی او رکھجور پر گزر بسر ہوتی، وہ بھی کبھی میسر آتیں، کبھی نہیں، تین تین دن کا فاقہ ہوتا، کمر سیدھی رکھنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھے جاتے او راسی حالت میں جہاد وقتال کے معرکے ہوتے۔ الغرض زہد وقناعت، فقر وفاقہ، بلند ہمتی و جفاکشی اور دنیا کی آرائشوں سے بے رغبتی اورنفرت وبے زاری سیرتِ طیبہ کا طغرائے امتیاز تھی، اپنی حالت کا اس ”پاک زندگی“ سے مقابلہ کرنے کے بعد ہم میں سے ہر شخص کو شرم آنی چا ہیے۔ ہمارے یہاں سارا مسئلہ روٹی اور پیٹ کا ہے او روہاں یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ زندگی بالقصد اختیار کی گئی تھی؛ تاکہ آئندہ نسلوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہو جائے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو آپ کو من جانب اللہ کیا کچھ نہ دیا جاسکتا تھا؟ مگر دنیا کا یہ سازوسامان، جس کے لیے ہم مرکھپ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس قدر حقیر وذلیل ہے کہ وہ اپنے محبوب ومقرب بندوں کو اس سے آلودہ نہیں کرنا چاہتے، بعض انبیا علیہم السلام کو عظیم الشان سلطنت بھی دی گئی؛ مگر ان کے زہد وقناعت اور دنیا سے بے رغبتی اور بے زاری میں فرق نہیں آیا، ان کے پاس جو کچھ تھا، دوسروں کے لیے تھا، اپنے نفس کے لیے کچھ نہ تھا۔
الغرض یہ ہے ”فتنہ پیٹ“ کا صحیح علاج، جو انبیا علیہم السلام اوربالخصوص سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا او راگر انسان ”پیٹ کی شہوت“ کے فتنہ سے بچ نکلے تو ان شاء اللہ”شہوتِ فرج“ کے فتنہ سے بھی محفوظ رہے گا کہ یہ خرمستی پیٹ بھرے آدمی کو ہی سوجھتی ہے، بھوکا آدمی اس کی آرزوکب کرے گا؟ ان ہی دو شہوتوں سے بچنے کا نام اِسلام کی اِصطلاح میں ”تقویٰ“ ہے، جس پر بڑی بڑی بشارتیں دی گئی ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ضعیف مریض کو بقائے حیات کے لیے ہلکی پھلکی، معمولی غذا کا مشورہ دیا جاتا ہے او رزبان کے چسکے سے بچنے کی سخت تاکید کی جاتی ہے؛ تاکہ مطلوبہ اعلیٰ ”صحت“ نصیب ہو، بس یہی حیثیت اِسلام کی نظر میں دنیا کی ہے۔ (بصائر و عبر جلد اوّل، ص: ۱۱۰ تا ۱۱۳)
$$$
اغیار کے اطوار کا فتنہ
اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے جس میں رواں دواں متحرک اورتغیر پذیر ز ندگی کے تمام شعبوں اور گوشوں کے لیے بدرجہٴ اتم رہبری ورہنمائی موجود ہے،اور اسلام ایک ایسا دستورِ حیات ہے جس میں ولادت سے وفات تک کے تمام پیش آمدہ مسائل کا حل موجود ہے،لہٰذا ہم فرزندانِ اسلام کو کسی بے بنیاد مذہب اورگمراہ دین سے یاکسی باطل قدیم وجدید تہذیب وکلچر سے کچھ سیکھنے اور لینے کی بالکل ضرورت نہیں ہے،کتاب وسنت ہی ہمارے لیے کافی وشافی ہیں ۔
لیکن افسوس وصدافسوس کہ آ ج امت کا ایک بڑا طبقہ اغیار(کفار ومشرکین اور یہود ونصاری) کے طور وطریق کاشوقین وشیدائی ہے؛ بلکہ ان کو اپنافخر محسوس کرتا ہے،من جملہ ان کے ”یوم ولادت “ منانا، عیسوی سال کی آمد پر ”نیا سال مبارک “کہنا، اور اس کے پیغامات ترسیل کرنا، ” اپریل فول“ منانااوریوم عاشقاں منانا وغیرہ۔
یہ سب رسومات غیر اسلامی ہیں،اورنیزعقل ودانش کی ترازوں میں بھی یہ باوزن نہیں ہیں۔مناسب ہوگا کہ عقل کی کسوٹی پر ان کا تھوڑاساحقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے ۔
رسوم کا جائزہ
(۱) ”یوم ولادت “ کوئی خوشی کی تقریب سجانے کا موقع نہیں ہے؛ بلکہ فکر کرنے کا مقام ہے کہ محدود زندگی کا ایک سال کم ہوگیا۔
(۲)عیسوی سال کی آمد پر ”نیا سال مبارک “کہنا؛ بلکہ اسے شب عید کی طرح منانا، ازروئے عقل وفہم درست نہیں کہ اس سے دنیا کی عمرکاایک سال کم ہوجاتاہے،اور دنیا قیامت کے قریب ہوجاتی ہے،اور سال نوکیا؛ بلکہ سمجھا جائے تو ہر لمحہ نیا ہے ،پھر سال نو منانے کا کیا مطلب؟ آج کل تو اس میں حد درجہ غلو کیا جارہا ہے، رات کے بارہ بجنے کا رقص وشراب ، ناچ وگانے اور ہیجان انگیز موسیقی سے انتظارکیا جاتاہے،اور بارہ بجنے پر آتش بازی کی جاتی ہے،اور غبارے پھوڑے جاتے ہیں، وغیرہ۔
(۳)اپریل فول یہ تو جھوٹ،دھوکہ ،فریب اوراذیت وایذارسانی کاپلندہ ہے، تعجب ہے ان لوگوں کی عقل پر جو اسے تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
(۴)یوم عاشقاں ا س میں بے حجابی ،بے غیرتی ا وربے حیائی سے نوجوان لڑکے اور لڑکی کا ملنا،اوسرخ گلاب کا تحفہ وہدیہ پیش کرناہوتاہے،کیا یہ دعوتِ زنا نہیں ہے ؟
ان رسوما ت میں خلق کی افادیت اور منفعت کابھی کوئی پہلو نہیں ہے۔
دورنگی چھوڑدے
اور اللہ تعالی نے اس چیزکوبھی نا پسند فرمایا کہ کوئی دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوتے ہوئے بھی یہودیت کی بعض چیزوں پرعمل کرے،جیسا کہ کتب تفاسیر میں ہے ، حضرت عبداللہ بن سلام (جو قبول اسلام سے قبل یہودیوں کے زبردست عالم تھے) اورآپ کے بعض (یہودی)ساتھی اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی یوم السبت(ہفتہ کے دن) کی تعظیم کرتے تھے،اور اونٹ کے گوشت اور اس کے دودھ کو مکروہ گردانتے تھے،انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ التَّوْرَاةَ کِتَابُ اللّٰہِ، فَدَعْنَا فَلْنَقُمْ بِھَا فِیْ صَلَاتِنَا بِاللَّیْلِ، یا رسول اللہ! ہمیں اجازت دیں کہ ہم (احکامات اسلام کے ساتھ ساتھ)قیام لیل (تہجد)میں تورات کی تلاوت کریں کہ وہ بھی تو کتاب اللہ ہے۔ اس پر قرآن پاک کی اِس آیت کا نزول ہوا۔
ترجمہ: اے ایمان والو!اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاوٴ،اورشیطان کے نقش قدم ہر نہ چلو،یقین جانو وہ تمہارا کھلادشمن ہے۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں مکمل وسراپا داخل ہوجاوٴ،تمہارے لیے احکامات اسلام ہی کافی وشافی ہیں، اب تمہیں کسی اور شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے،سابق مذہب کی بعض باتوں پر عمل کا خیال شیطانی کارستانی ہے؛اس لیے یہ خیال دل سے نکال دو،اور سابق مذہب کی بعض باتوں پر عمل کرنے سے ان کی مشابہت ہوجائے گی جو مذموم ہے۔ (البغوی:۱/۲۴۰)
خضاب میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت
(۱)یہود ونصاری بالوں میں خضاب نہیں لگاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت میں خضاب کاحکم دیا،جیساکہ کتب احادیث میں ہے،حضرت ابوہریرہ راوی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اِنَّ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارَی لَایَصْبَغُوْنَ فَخَالِفُوْھُمْ(۱) بیشک یہود ونصاری خضاب نہیں لگاتے ہیں، لہٰذا تم ان کی مخالفت کیا کرو، یعنی خضا ب لگایا کرو، کسی بھی رنگ کے خضاب کا استعمال سیاہ رنگ کے علاوہ درست ہے کہ سیاہ رنگ کی ممانعت دیگر احادیث میں آئی ہے۔
طریقہ سلام میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت
(۲) یہود انگلیوں کے اشارہ سے اور نصاریٰ ہتھیلیوں کے اشارہ سے سلام کرتے تھے، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کاحکم دیا،جیساکہ کتبِ احادیث میں ہے،حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص راوی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ترجمہ: یہود کی مشابہت نہ کرو اور نہ نصاری کی مشابہت کرو، یہود کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاری کا سلام ہتھیلی کا اشارہ ہے۔
یعنی زبان سے کلمات سلام اداکیے بغیر صرف انگلیوں سے اور ہتھیلی سے اشارہ کرنا،یہود ونصاریٰ کے سلام کا طریقہ ہے ، ہاں اگر کوئی دو رفاصلے پر ہوتوزبان سے کلمات سلام ادا کرتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کردے تو کوئی مضایقہ نہیں ہے۔
سحری سے امتیاز
(۳) اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) کے روزوں میں سحری نہیں تھی،اور ہمیں سحری کا حکم ہے اور ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے اور ہمارے روزوں میں فرق وامتیاز سحری ہے۔ جیساکہ کتب احادیث میں ہے،حضرت عمر وبن العاص راوی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
دین ہمیشہ غالب رہے گا؛ جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کریں گے،بیشک یہود ونصاریٰ افطار میں تاخیر کرتے ہیں۔
یہ یہودیت کاشیوہ ہے
(۵)ابتدا ء میں باجماعت نماز کے لیے مسلمانوں کو جمع کرنے کا کوئی خاص طریقہ مقررنہ تھا، مسلمان ازخود وقت کااندازہ کر کے جمع ہوجاتے تھے ،پھرآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا کَیْفَ یُجْمَعُ النَّاسُ لِلصَّلاَةِ؟کہ لوگوں کو نماز کے لیے کیسے جمع کیا جائے؟کسی نے مشورہ دیا کہ ناقوس بجا یا جائے،آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورہ کو رد کرتے ہو ئے فرمایا ، ھُوَ مِنْ اَمْرِ النَّصَارَی کہ یہ نصاری کاطریقہ ہے،اور کسی نے یہ رائے پیش کی کہ”بوق“ نرسنگھا پھونکا جائے، اسے بھی رد کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریا، ھُوَ مِنْ اَمْرِ الْیَھُوْدِ کہ یہ یہود کا طرز ہے،اور کسی نے کہا کہ آ گ جلائی جا ئے، مجوس کا طریقہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی رد کردیا۔ پھرجب عبد اللہ بن زید نے( اور دیگر بعض صحابہ نے) اذان والا خواب دیکھا،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسنایاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کو سچا اور منجانب اللہ قرار دیا اوراس کے مطابق اذان کوجاری فرمایا۔(۵)
صوم عاشوراء میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت
(۶)اور جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہواکہ یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم یہ روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ تو انھوں نے جواب دیا،یہ ہمار ا بہترین اور مبارک دن ہے ، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کوفرعون کے ظلم سے بچایا اور فرعون اور اس کی قوم کو اسی دن بحرِقلزم میں غرقاب کیا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: نَحْنُ اَحَقُّ بِمُوْسٰی مِنْکُمْ ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں ۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے عاشورا ء کے روزہ کا وجوبی یاتاکیدی حکم دیا ۔پھر جب اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کی عیاری ومکاری اور ان کی اسلامی عداوت ظاہر ہوگئی تو صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، اِنَّہُ یَوْمٌ یُعَظِّمُہُ الْیَہُوْدُ،یارسول اللہ! یہ وہ دن ہے کہ جس کی تعظیم و تکریم یہود (بھی) کرتے ہیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فَاِذَا کَانَ الَعَامُ الْمُقْبِلْ اِنْشَاء اللّٰہُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِع․(۶)
”انشا ء اللہ اگر میں آئند ہ سال زندہ رہا تو(دسویں کے ساتھ) نویں کا بھی روزہ رکھوں گا“، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم عاشورا ء میں ان سے یگانگت اور یکسانیت کی روش بدل دی؛مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی عمر نے وفانہ کی اورآ پ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال ماہ محرم کے آنے سے پہلے ہی ۱۲/ ربیع الاول ۱۱ھ کو ملا ء اعلیٰ سے جاملے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنِ۔
یہود ونصاریٰ کی مخالفت میں ہفتہ اور اتوار کو روزہ
(۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخالفتِ اہل کتاب میں شنبہ اور یکشنبہ(یعنی ہفتہ اور اتوار) کا روزہ رکھا کرتے تھے؛ جیسا کہ کتب احادیث میں ہے، حضرت ام سلمی فرماتی ہیں:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَصُوْمُ یَوْمَ السَّبْتِ وَ یَوْمَ الْاَحَدِ اَکْثَرَ مِمَّا یَصُوْمُ مِنَ اْلاَیَّامِ، وَیَقُوْلُ: اِنَّھُمَا عِیْدَا الْمُشْرِکِیْنَ، فَاَنَا اُحِبُّ اَنْ اُخَالِفَھُمْ․(۷)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنوں میں اکثر شنبہ اور یکشنبہ کو روزہ رکھا کرتے ،اور فرماتے کہ یہ دونوں دن مشرکوں کے عید کے ہیں،مجھے پسند ہے کہ میں ان کی مخالفت کروں۔ یعنی شنبہ یہود کی عید کادن اور یکشنبہ نصاری کی عید کادن ہے اور ظاہر ہے کہ عید کے دن وہ کسی بھی حال میں روزہ نہ رکھیں گے، اور ان دنوں میں روزہ رکھنے سے مخالفتِ اہل کتاب ظاہر ہوتی ہے،اور اسی کا اظہارمطلوب و مقصودہے۔
نصاریٰ کی مخالفت میں صوم وصال کی ممانعت
(۸) حضرت لیلیٰ فرماتی ہیں: اَرَدتُّ اَنْ اَصُوْمَ یَوْمَیْنِ مُوَاصَلَةً کہ میں نے ارادہ کیا کہ (بغیر سحری کے)مسلسل دو دن روزہ رکھوں، میرے شوہر بشیر نے مجھے منع کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے : یَفْعَلُ ذَالِکَ النَّصَارَی،(۸)کہ نصاریٰ اس طرح کرتے ہیں،یعنی وہ بغیر سحری کے مسلسل روزے رکھتے ہیں؛اس لیے ہمیں یہ عمل نہیں کرناہے۔
یہود ونصاریٰ کے برخلاف اسلام میں عورت اچھوت نہیں ہے
(۹)اہل کتاب عورت کوحالتِ حیض میں بالکل اچھوت سمجھتے تھے، قربت ومجامعت سے اجتناب واحترازکے ساتھ ساتھ، نہ کھاتے پیتے نہ اٹھتے بیٹھتے اورنہ بات چیت کرتے؛بلکہ اسے خود سے بالکل الگ کردیتے تھے،اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِصْنَعُوْا کُلَّ شَیْءٍ اِلَّا النِّکَاحْ،ہم بستری ومجامعت تو ممنوع ہے، اس کے علاوہ تناول طعام، نشست و برخواست،گفتار وتکلم؛ بلکہ ساتھ لیٹنے کی بھی اجازت ہے، یعنی اہل کتاب کی طرح ہمیں مبالغہ آمیزرویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے،اس طرح اس معاملہ میں بھی ان سے ہماری جداگانہ شناخت رکھی گئی۔
اور جب اہل کتاب کو اس جدا گانہ طرز کی اوران کی محالفت کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے کہا، مَا یُرِیْدُ ھٰذَ الرَّجُلُ اَنْ یَّدَعَنَا مِنْ اَمْرِنَا شَےْئاً اِلاَّ خَالَفْنَا فِیْہِ،(۹)لگتاہے کہ اس آدمی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہمارے ہر امر کی مخالفت کا ارادہ کرلیا ہے۔
قبرستان میں مخالفت
(۱۰)ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنازہ کے ساتھ چلتے تو جب تک میت کو قبر میں نہ رکھاجاتا بیٹھتے نہ تھے،اس پر ایک یہودی عالم نے کہا: ھٰکَذَا نَصْنَعُ یَا مُحَمَّدْ،اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہم بھی اسی طرح کرتے ہیں،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے، اورفرمایا: خَالِفُوھُم،(۱۰)کہ ان کی مخالفت کرو!یعنی یہودکہ وہ جنازہ کے ساتھ بیٹھتے ہی نہیں ہیں، ان کی مخالفت اس طرح کرو کہ جب تک جنازہ گردنوں سے نیچے نہ رکھا جائے، نہ بیٹھو،پھر جب جنازہ گردنوں سے نیچے رکھ دیا جائے تو بیٹھ سکتے ہو۔
کتب احادیث میں موجود متعدد مثالوں میں سے میں نے آ پ کے سامنے دس مثالوں کو رکھا ہے،جن سے روزروشن کی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل کتاب (یہود ونصاری) کا اور ہمارا راستہ الگ الگ ہے،ان کی اور ہماری شناخت جدا جدا ہے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادات ہو یامعاشرت ہر جگہ ہمیں ان کی راہ و روش سے بچنے اوران کی مشابہت سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، مَنْ َتشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ(۱۱) جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا تو وہ انھیں میں سے شمارہوگا۔
کتنی سخت بات ہے ، کتنی بڑی وعید ہے اور کس قدر اظہارِ ناراضگی ہے، العیاذ باللہ! اگر کوئی مومن ومسلمان کفار یایہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار کرے گا، عبادات میں ہو یا معاشرت میں، عادات و اطوار میں ہو یا ظاہری ہیئت وانداز میں ہو،ان کے مخصوص اعمال اور رسوم ورواج کو اپنائے گا تواس کا شمار بھی انھیں میں ہوگا۔
اور ایک روایت میں ہے، لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا، یعنی جو غیروں کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
ایک طرف یہ شرعی ہدایات ہیں، جن میں اغیا ر کی مشابہت اور مماثلت پر سخت زجر وتوبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ کی گئی ہے،اور دوسری طرف ہمارے سامنے امت کا ایک بڑا طبقہ ہے جو بے باکی کے ساتھ اغیار کے طوروطریق کو فخریہ اپنا رہا ہے،اوراس پر نازاں بھی ہے۔
افسوس کہ احساس زیاں جاتا رہا
للہ اپنا جأیزہ لیں،اوراپنا محاسبہ کریں،ہمیں تو کامل دین وشریعت سے نوازاگیاہے، ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بطور نمونہ واسوہ دی گئی ہے،اور ہمیں سنتوں کے خزانے دیے گئے ہیں ، پھر بھی آج ہمارے گھرانوں میں اغیار کے اطوار کافروغ کیوں ہے؟ ہمارے نوجوانوں کا لباس اوران کے بال اُن جیسے کیوں ہیں؟شادی بیاہ اُن جیسے کیوں ہیں؟اورزندگی میں طرز وانداز اُن جیسے کیوں ہیں؟اورآج کیوں فرزندان اسلام ان کے رنگ ڈھنگ میں رنگنے اور انکی مشابہت اختیار کرنے کے لیے بیتاب ومشتاق ہیں؟
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں محض اپنے فضل واحسان سے اغیار کے فتنہ سے محفوظ رکھے،آمین!
$$$
حواشی:
(۱) البخاری (۵۵۵۹)
(۲)الترمذی (۲۶۹۵)
(۳)مسلم (۱۰۹۶)
(۴)سنن ابو داود ( ۲۰۶۳)
(۵)ملاحظہ ہو سنن ابوداود(۴۹۸)
(۶)مسلم (۱۱۳۴)
(۷)المسند (۲۶۷۹۳)
(۸)المسند (۱۱۵۲)
(۹)مسلم :(۳۰۲)
(۱۰) الترمذی (۱۰۲۰)
(۱۱)سنن ابوداود (۴۰۳۳)
$$$
عصر حاضر کافتنہٴ الحاد
اسلام کا نام لے کر اسلام کو ڈَسنا، اسے تحریفی نشتر لگانا، اس پر جرح وتنقیدکی مشق کرنااور محض مفروضات سے اُس کے قطعی مسائل کو پامال کرناہر دور کے ملاحدہ وزنادقہ کا طرئہ امتیاز رہا ہے۔ پہلی صدی کے خوارج ہوں یا مابعد کے باطنیہ، تیسری صدی کے اصحاب العدل والتوحید ہوں یا دورِ حاضر کے ”اربا ب فکر ونظر“، دوسری صدی کا ابن المقفع ہو یا چودھویں صدی کا اسلم جیراجپوری، اکبری دور کے ابوالفضل اور فیضی ہوں یا ہمارے دور کے جاوید غامدی، ماضی قریب کے ڈاکٹر فضل الرحمن اور عمر احمد عثمانی ہوں یا آج کا عمارخان ناصر،سب کا مشترک مقصد، مشترک نقطئہ نظر اور مشترک سرمایہ اسلام کی چاردیواری میں رخنہ اندازی کرنا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اسلام کی اصل روح پہلی صدی کے وسط یا تقریبا آخر میں دفن ہوکر رہ گئی۔ اور اب جو ”مدونِ اسلام“ تیرہ یا چودہ صدیوں سے مسلمانوں کے پاس موجود ہے، یہ وہ اسلام نہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیاتھا؛ بلکہ یہ اسلام ”مردہ کا ورثہ“ اور ”زندگی کی حرارت“ سے محروم جسد بے روح ہے۔ نعوذباللہ۔(۱)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے امت محمدیہ سے اجتماعی عذاب اُٹھا لیا ہے۔ یعنی اب اس امت پر کوئی ایسا عذاب نہیں آئے گا کہ جس سے پوری امت ہلاک وبرباد ہوجائے؛ لیکن اہل ایمان کے امتحان اور آزمائش کے لیے فتنے برابر پیدا ہوتے رہیں گے؛ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”کل شیٴ ینقص، إلا الشر، فإنہ یزاد فیہ․“ ہر چیز میں کمی ہوگی لیکن شر (وفتن) میں برابر اضافہ ہوتا رہے گا۔(۲)
”فتنہ“ عربی زبان کا لفظ ہے، جو متعدد معانی کے لیے قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ لیکن معروف معنی دنگا فساد ہی ہے۔ اور اسی معنی میں یہ لفظ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ روزمرہ کی گفتگو میں بھی ”فتنہ وفساد“ وغیرہ الفاظ ہم استعمال کرتے رہتے ہیں۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق امت محمدیہ مسلسل فتنوں کا شکار رہے گی۔
آج نقشہٴ عالم پر نگاہ دوڑائیے! حرمین شریفین سے لے کر تمام عرب ممالک، ایشیاء، یورپ، افریقہ اور امریکہ سبھی خطے شرور وفتن کی لپیٹ میں ہیں۔ آفات ومصائب کا ایک عالمی طوفان ہے جو بڑھتا چلا جارہا ہے، فتنوں پر فتنے اٹھ رہے ہیں، دینی وعلمی فتنے، ملکی وقومی فتنے، تہذیب وتمدن کے فتنے، آرائش وآشائش کے فتنے، سرمایہ داری کے فتنے، غربت وافلاس کے فتنے، اخلاقی وسیاسی فتنے، عقل پرستی کے فتنے، داخلی وخارجی فتنے حتیٰ کے نورانی اور روحانی فتنے۔ ایک تسلسل کے ساتھ تمام فتنے دنیا میں پھیلتے چلے جارہے ہیں، دنیا کا کوئی بھی خطہ شاید ایسا نہیں جو فتنوں سے بالکلیہ محفوظ اور مامون ہو۔
اور انتہائی کرب ناک صورت حال یہ ہے کہ دشمنان اسلام کی سازشوں کے نتیجے میں عالم اسلام فتنوں کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔ اسلام کے نام پر فتنے، اسلامی عقائد اور اسلامی اعمال میں فتنوں کی ایک شورش برپا ہے۔ فریق مخالف کے خلاف کفر وضلال کی مشین گن تھامے ہر کوئی اسلام کا ٹھیکیدار نظر آتا ہے۔ یورپ سے درآمد شدہ دانشور مسلمانوں کے ایمان کو ختم یا کم از کم کمزور کرنے کے لیے آئے دن ”نئی تحقیق“ اور ”جدیدریسرچ“ کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ قلمی جولانیاں، زبان کی سلاست وروانی، چرب لسانی کے ذریعے اذہان وعقول کو متاثر کرکے احکام دین سے باغی کرنا ان کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔ اُن سے اور کچھ نہ بن پڑے تو اچھے بھلے مسلمان کو اس کے عقائد وافکار کے حوالے سے شک میں تو ڈال ہی دیتے ہیں۔ اور یہ سب اِس وجہ سے ہے کہ ہم مسلمانوں نے اپنے خالق سے بے پروائی اختیار کرلی ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:”ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا․“ جو ہماری یاد سے منہ موڑے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی۔ آج ہماری پستی وذلت کا بڑا سبب یہی ہے کہ ہم نے خالق کائنات سے روگردانی کر رکھی ہے۔
فتنوں کی اِس بھرمار میں سب سے خطرناک ایمان سوز فتنے ہیں؛ کیونکہ کسی بھی مسلمان کے لیے سب سے قیمتی چیز ایمان ہے، جب متاعِ ایمان ہی لٹ جائے تو دنیا وآخرت کی سب خیریں گویا چھن گئیں؛ چنانچہ احادیث میں فتنہٴ دجال کو بڑا فتنہ قرار دیا گیا؛ کیونکہ وہ ایمان کے لیے خطرناک ہوگا۔ انھیں ایمان سوز فتنوں میں سے ایک ”فتنہ الحاد“ ہے۔ جس کا معنی : راہِ راست سے ہٹ جانا، بے دینی اور مذہب بیزاری اختیار کرناہے۔ یعنی حق سے منحرف ہو کر اس میں بے بنیاد باتیں داخل کردینا۔ اور دینی احکام کے بارے میں غلط قسم کی تاویلیں کرنا۔ مختصریوں کہہ لیں کہ دین میں تحریف، رد و بدل یا دین کے نام پر دین سے دُوری کا نام اِلحاد ہے۔
اِس فتنہٴ الحاد سے اسلام اور اہل اسلام کا واسطہ کوئی نیا نہیں، جب سے اِسلام آیا تب سے اِسلام میں تحریف کرکے لوگوں کو اسلام سے دُور کرنے والے بھی موجود ہیں۔ اُسی زمانے سے ملحدین نے دینی احکام کو کھیل اور مذاق سمجھ کر تاویلاتِ باطلہ کا نشانہ بنائے رکھا۔ اور مسلمانوں کو اُن کے دین سے کاٹنے اور دُور کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ علمائے اسلام اپنی شرعی اور دینی ذمہ داری کی بدولت ان فتنوں کا تعاقب کرتے رہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق یہ سلسلہ دراز ہوتا رہا اور آج ہم ان فتنوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ماضی قریب میں سرسیداحمد خان، غلام احمد پرویز، غلام احمد قادیانی، ڈاکٹر فضل الرحمن، عمر احمد عثمانی ،ابوالاعلیٰ مودودی، عنایت اللہ مشرقی اور ان جیسے متجددین اِسی سلسلے کی کڑیاں گزری ہیں۔
دورِ حاضر میں بھی یہ فتنہ مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ سب سے پہلے میں جاوید غامدی صاحب اور ان کے فکری جانشین جناب عمارخان ناصر کا نام لینا چاہوں گا؛ کیونکہ یہ وہ شخصیات ہیں جنھوں نے دین کی ازسرنوتشکیل کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اور اللہ کے نازل کردہ دین میں سے صحابہٴ کرام سے لے کر آج تک کی چودہ صدیوں کے علماء، فقہاء، محدثین ومفسرین کے آراء کے برخلاف ”جو کچھ“ غامدی صاحب کے سمجھ آسکا، وہ انھوں نے اپنی کتاب ”میزان“ میں بیان کردیا ہے۔(۳)
غامدی صاحب نے تشکیل جدید میں پہلا حملہ قرآن پاک پر کیا کہ قرآن سمجھنے کے لیے صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے ”عربی دانی“۔ قرآن سمجھنے کے لیے نہ کسی تفسیرکی پابندی ضروری ہے نہ تشریحات سلف کی پیروی۔(۴) اور ”سنت“ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ: ”سنت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے افعال وعادات نہیں؛ بلکہ ”دین ابراہیمی کی روایت“ ہے، جسے آپ … نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ۔ نیز سنت کو سمجھنے کے لیے دین ابراہیمی کے حاملین (یہود ونصاری) کے عمل وتواتر کو دیکھا جائے گا۔ (امت محمدیہ کے تواتر عملی کو نہیں۔)“(۵) اور تیسرا اُصول یہ وضع کیا کہ ”حلت وحرمت اور جواز وعدم جواز کے لیے مدار شریعت نہیں، ”فطرت“ اور عقل انسانی ہے۔“(۶) اِن اُصولِ ثلاثہ سے دین کا کوئی جز بچتا نظر آئے، مثلا حدود وتعزیرات اور اِقدامی جہاد وغیرہ تو اُس کے بندوبست کے لیے ”قانونِ اتمام حجت“ نامی اصطلاح معرضِ وجود میں لائی گئی۔
لیجیے! قرآن مجید کی تمام تر تفاسیر سے بھی آزادی ملی، سنت کے نام پر ”ملاں لوگ“ جو قیود لگاتے ہیں اُن سے بھی جان چھوٹی اور ”شریعت“ کے گورکھ دھندے سے بھی خلاصی ہوئی۔ اَب غامدی صاحب ہیں اور قرآن کی آیات۔ اپنی ”عربی دانی“ کی بنیاد پر جس آیت کی جو چاہیں تشریح کریں۔ غامدی صاحب ہیں اور ”دین ابراہیمی کی روایات“۔ لہٰذا سنتوں کی تعداد سمٹ کر ۲۷/ رہ گئی۔ غامدی صاحب ہیں اور ان کی ”فطرت سلیمہ“۔لہٰذا اپنی فطرت سے سوال کرکے، جسے چاہیں حلال قرار دیں اور جسے چاہیں حرام۔ رہی سہی کسر ”قانون اتمام حجت“ پوری کر دے گا۔ رہے نام ملتِ غامدیہ کا۔۔!!
اِسی اُصول کے پیش نظر اُنہوں نے حیات عیسیٰ، ظہورِ مہدی، حجیت حدیث، ڈاڑھی کی سنیت، حجیت ِاجماع، رجم کی حد، قرآن کریم کی مختلف قراآت،تصوف، مسلم وغیر مسلم اور مرد وعورت کی گواہی میں فرق، زکوة کے معین نصاب اور نبی کریم کی افعال واعمال کی سنیت کا انکار کردیا کہ ”قرآن اِن سے خاموش ہے۔“ اور موسیقی، تصویر، بیمہ وغیرہ کو اس لیے جائز قرار دیدیاکہ ”قرآن اِن سے منع نہیں کرتا۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکڑوں سنتوں کا اِنکار اِس بنا پر کردیا کہ ”دین ابراہیمی کی روایت نہیں۔“ اور کھانے کی چیزوں میں چار چیزوں کے سوا سب کی حرمت ِشرعی کاانکار کردیا کہ ”وہ فطرت پر موقوف ہیں۔“(۷) اوراِقدامی جہاد، مرتد کی شرعی سزا اور مسئلہ تکفیر کو ”قانونِ اتمام حجت“ میں نمٹا دیا۔
عمارخان صاحب اکثر مسائل میں تو غامدی صاحب کے بالکل قدم بہ قدم ہیں؛ چنانچہ تفسیر بالرائے، انکارِ اِجماع، انکارِ سزائے ارتدادو رجم، اقدامی جہاد کے انکاراور تصوف واہل تصوف کے استہزاء میں بعینہغامدی اصغر ہیں۔ اور بعض مسائل جن میں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر میں نے غامدی صاحب سے اتفاق کیا تو امت کی اجماعی رائے کی روشنی میں دائرہ اسلام سے خارج قرار پاوٴں گا تو اُن میں اِنکار کی بجائے تشکیک اور نفس مسئلہ کی اصل حیثیت کو مجروح کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ چنانچہ ڈاڑھی کی شرعی حیثیت، حیات عیسیٰ اور مسئلہ تکفیروغیرہ مسائل میں وہ اِسی راہ پر گامزن ہیں۔(۸)
اِن افکار کا یقینی نتیجہ مذہب بیزاری، دینی تشکیک وتذبذب، تمام امت اسلامیہ کی تجہیل اور تحمیق اور قدیم علماء امت اور حاملین دین کو ناقابل اعتماد مجرم قرار دینا اور اسلام کی پوری تاریخ تاریک در تاریک دِکھلانا ہے۔ غامدی صاحب کے وضع کردہ فہم دین کے اُصولوں کے نتیجے میں کیا کچھ ہمارے ہاتھ سے جاتا ہے؟ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم کی تفسیر وتشریح میں جو کچھ صاحبِ قرآن نے فرمایا وہ ناقابل اعتبار ٹھہرا کہ ”قرآن سمجھنے کا مدار فقط ”عربی دانی“ ہے۔“ اقوالِ صحابہ وتابعین، تشریحاتِ مفسرین اور فقہاء کرام کے قرآن سے اخذ کردہ مسائل واحکام سب بیک جنبش قلم ناقابل التفات ٹھہرے۔ سنت رسول اور آثار صحابہ کی پابندی بھی غیر لازم ہوئی کہ ”سنت تو دین ابراہیمی کی روایت ہے۔“ اور اجماع کو تو غامدی صاحب نے صاف لفظوں میں ”بدعت“ اور عمارخان نے ”علمی افسانہ“ لکھ دیا۔ یوں پوری امت مبتدع وافسانوی کردار کی حامل ٹھہری۔ تصوف کو جناب نے ”عالمگیر ضلالت“ قرار دے کر تمام صوفیاء ملت کو ”گمراہی“ کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ یہودونصاریٰ کے لیے نبی کریم پر ایمان کو غیر ضروری قرار دے کر کلمہ اسلام کی اہمیت ختم کرڈالی۔ الغرض کلمہٴ اسلام سے لے کر دین کے معمولی حکم تک سب کو غامدی صاحب نے مردود، ناقابل التفات، یا مشکوک کردیا۔ اور چودہ صدیوں کا اجماعی تعامل اور جمہور اہل علم کا موقف غیر معتبر ٹھہرا۔ اَب دین کو سمجھنے کا واحد ذریعہ عقلِ غامدی اور فطرتِ عمار ہے۔ ۔!! اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ․
طرفہ تماشا یہ ہے کہ اِس ”تحریف دین“ کا نام ”تحقیقِ اسلام“ اور ”اِلحاد فی الدین“ کا نام ”اظہارِ حقیقت“ رکھا جاتا ہے۔ غامدی وعمار صاحبان کے علاوہ دیگر ملحدینِ زمانہ میں زیدحامد، فرحت ہاشمی اور ان جیسے دسیوں پروفیسرز، بیسیوں ڈاکٹرز اور نام نہاد دانشوران شامل ہیں۔ جنھوں نے مختلف ٹی وی چینلز، پرنٹڈ والیکٹرانک میڈیا اور مختلف لیکچرز وانٹرویوز میں آئے دینی احکام کی من پسند تشریحات وتوضیحات کرکے قوم کو گمراہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ان سے ہٹ کر اسکولوں کالجوں میں رائج انگریزی کلچر، یہود وہنودکی تہذیب وتمدن بھی اِلحاد پھیلانے میں پیش پیش ہے، اسی کو دیکھ کر علامہ اقبال نے کہا تھا۔
ہم تو سمجھے تھے کہ لائے گی فراخی تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
ابتدا ہی سے بچوں کے گلے میں ٹائی لٹکا کر ان کو عیسائی تہذیب سے مانوس اور اسلامی تہذیب سے بے گانا کیا جاتا ہے، بود وباش، رہن سہن، شکل وصورت، لباس وغیرہ سب کچھ عیسائیوں کے طرز پر ہے، مخلوط تعلیم ہم نے شروع کررکھی ہے، بے حیائی اور فحاشی کے حلقے ہمارے گھروں میں لگے ہوئے ہیں، قومی ودینی غیرت کا جنازہ ہم نے نکال رکھا ہے، ہندوٴں کے تہوار ہم نے اپنا رکھے ہیں، اقبال کہتا ہے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
تم مسلماں ہو جن کو دیکھ کر شرمائیں یہود؟
گویا لادینیت، الحاد، سیکولرازم، لامذہبیت اور دین سے دُوری کی جتنی ممکنہ صورتیں ہیں، کفار نے وہ سب اختیار کر رکھی ہیں، اپنے ایجنٹ اسلامی ممالک میں بھیج کر ہمارے میڈیا پر اُن کو ”اسلامی سکالرز“ باور کرایا ہے؛ حالانکہ اُن کا مقصد اورواحد مقصد مسلمان قوم کو خدا، نبی اور قرآن سے کاٹنا اور دُور کرنا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ والوں، نبی کے وارثوں اور قرآن کے حاملین سے قوم کو بدظن کریں۔ سو اِس کوشش میں دِن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ: یہ اسکالرز ”ناموس رسالت“ کے قانون کے غلط استعمال کا تو بہت واویلا مچاتے ہیں؛ لیکن بیسیوں دیگر قوانین کے غلط استعمال پر ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ شرعی حدود کے نفاذ پر تو چیخ اٹھتے ہیں؛ لیکن ماوائے عدالت قتل اور دیگر انسانیت سوز مظالم پر ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں فتنوں سے حفاظت اور پناہ کی دعا مانگتے تھے، وہیں یہ دعا بھی مانگتے تھے کہ یااللہ! جب تو کسی قوم کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے فتنہ میں ڈالے بغیر اٹھالینا۔ گویافتنوں سے حفاظت کے دوطریقے ہیں:
۱- اللہ تبارک وتعالیٰ فتنے کے زمانہ سے پہلے اٹھالے۔
۲- فتنوں کے زمانے میں ہونے کے باوجود اللہ کریم اپنی رحمت سے فتنوں سے محفوظ فرمادے۔ ہم لوگ فتنوں کے زمانے میں موجود ہیں؛ اس لیے پہلی صورت تو ممکن نہیں؛ البتہ دوسری صورت ممکن ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور وہ اپنی رحمت کاملہ سے ہمیں فتنوں سے محفوظ فرمالے۔
خارجی وداخلی فتنوں، آپس کے خلفشار اور باہمی تنازعات سے حفاظت کے لیے ہمیں جواقدامات کرنے چاہئیں وہ یہ ہیں:
۱- اکابر پر مضبوط اعتماد۔
۲- علماء، فقہاء اور اہلِ دین سے حسنِ ظن۔
۳-کسی صاحبِ نسبت سے گہرا تعلق۔
۴-رجوع الی اللہ کا اہتمام۔
۵- اہل خیر وصلاح سے مشورہ۔
۶- اعتدال پسندی۔
۷- بلاتحقیق بات قبول کرنے یا پھیلانے سے احتراز۔
۸-اکرام واحترام مسلم۔
۹- باہمی اختلاف وانتشار یا اس کے اسباب سے کلی پرہیز۔
علماء ومصلحین کے لیے ایمان وتقویٰ، اخلاص وعمل، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، امت کی اصلاح کے لیے تڑپ، گروہ بندی اور افتراق سے پرہیز ․․․․ اورعلمی فتنوں کی سرکوبی کے لیے ٹھوس علمِ دین، جدید علمِ کلام، جدید سائنس، معلوماتِ عامہ، حسنِ تحریر، شگفتہ بیانی، سنجیدہ متوازن دماغ، پیہم کوشش اور صالح وموٴثر لٹریچر کا حصول نہایت ضروری ہے۔ واللہ الموفق
$$$
حواشی وحوالہ جات:
(۱) فکرونظرج:۲،ش:۳،ص:۱۵۳۔بحوالہ تجددپسندوں :۸۔
(۲) مسنداحمد،بحوالہ دورِ حاضر کے فتنے اور ان کا ۔
(۳)میزان،ص:۱۱،طبع۲۰۱۴ء۔
(۴) میزان:۲۵،ط:۲۰۱۴ء۔
(۵)میزان،ص:۱۴ ․․․․ ص:۴۷،ط:۲۰۱۴ء۔
(۶)میزان، ص:۱۴ ․․․․ ص:۵۹، ط:۲۰۱۴ء۔
(۷)حیات عیسیٰ،میزان ،ص:۱۷۸ ، ظہورِ مہدی،میزان،ص:۱۷۸ ، اقدامی جہاد، اشراق، اپریل ۲۰۱۱ء، ص:۲، حجیت حدیث: میزان، ص:۱۵،ڈاڑھی، مقامات، ص:۱۳۸ ، اجماع، اشراق، اکتوبر ۲۰۱۱ء، ص:۲، مرتد کی شرعی سزا،اشراق،اگست ۲۰۰۸ء، ص:۶۴، رجم کی حد،برہان،ص:۳۵، قرآت قرآن، اشراق، اکتوبر ۲۰۰۹ء، ص:۶۱، مردوعورت کی گواہی، برہان، ص: ۲۵ تا ۳۴ ، زکوٰة کا نصاب،اشراق،جون۲۰۰۸ء،ص:۶۴، موسیقی و تصویر، اشراق،فروری ۲۰۰۸ء، ص۶۹، بیمہ، اشراق، جون ۲۰۱۰ء، ص:۲۔
(۸) الشریعہ اشاعت خاص، جون ۲۰۱۱ء۔
$$$
فتنوں کے دور میں ایمان کو کیسے بچایا جائے ؟
اللہ رب العز ت نے ہمیں انسا ن کی صور ت میں وجو د بخشا ، یہ اللہ کا انتہا ئی عظیم انعام ہے ، اللہ کی مخلو ق میں انس و جن ہی مستحق جزا ء و سزا ء ہیں، اس لیے کہ اللہ نے انسا ن کو قو تِ ارادہ عطا کیا ، پھرعقل دی جس سے وہ خبیث وطیب میں تمیز کر سکے ، اپنے نفع و نقصا ن کو سمجھ سکے ، اور اسے ہدایت وضلا لت کے درمیا ن امتحا ن کے لیے چھوڑ دیا ، اس کی ہدایت کے لیے انبیا ء علیہم السلا م کو مبعو ث کیا ،جنہوں نے وحی کی روشنی میں ہدایت کی را ہیں بتائیں ، انبیا ء کے سلسلے کو احمد ِمصطفی محمدِ مجتبیٰ حبیب ِکبریا ء صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی جامع وحی ناز ل کی ، جس میں انسا ن کو اللہ سے مر بو ط رکھنے کے لیے عقائدکی تعلیم ، اللہ کی مر ضیا ت کے مطابق قو ل و فعل کے لیے احکامِ فقہیہ کی تعلیم ، اخلاق کی درستگی کی لیے تزکیہٴ نفس کی تعلیم ، حقو ق العباد وحقوق الحیو ا ن کے لیے معاشر ت کی تعلیم ، اور کسب ِحلا ل کے لیے معیشت کی تعلیم کو مکمل جامعیت وما نعیت کے ساتھ اور سا تھ سا تھ ” اشر اط الساعة “ کے عنو ا ن سے قیامت تک امت کو پیش آ نے والے فتنو ں اور اخبار سے مطلع کیا گیا، غرضیکہ ان تمام امور کی تعلیم دی گئی جو انسا ن کی دنیوی ضرورت کو بہ حسن وخو بی پورا کر نے کے ساتھ ساتھ آ خر ت کی کا م یابی کی مکمل ضا من ہو ، جب تک امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت پر عمل کرتی رہی دنیوی کا م یا بیا ں اس کی قدم بو سی کرتی رہیں، مگر جہاں امت نے تعلیمات ِنبویہ سے انحر ا ف کیا اور اپنی خواہشا ت کے مطا بق قرآ ن وحدیث کی باطل تاویلا ت کر نی شروع کردیں تو اللہ نے اس کو ہرطرح کی دنیو ی پریشا نی میں مبتلا کر دیا ۔ قر آن نے پہلے ہی کہہ دیا تھا ﴿انتم الا علو ن ان کنتم موٴمنین﴾ ”تم ہی سر بلند رہو گے اگر صفتِ ایما ن کے ساتھ متصف رہو گے ۔“
ایک سنگین مسئلہ
مسلما نو ں کو بڑی سنجیدگی کے سا تھ اس مسئلہ پر غو ر وفکر کرنے کی ضرو رت ہے کہ مقصد ِحیات کیا ہے ؟ اور آج کا انسا ن مقصد ِحیا ت کو پس پشت ڈا ل کر کہاں جا رہا ہے ؟!!
لو گوں کا عجیب حال ہے ، ایسے زندگی گز ار رہے ہیں جیسے مرنا ہی نہیں ہے !!! اور زندگی کا حساب ہی نہیں دینا ہے !!! حالا ں کہ یہ دو نو ں چیز یں امر مسلّم ہیں ، نہ مو ت سے کوئی بچ سکتا ہے اور نہ حسا ب و کتا ب اور میز ا ن سے اور نہ جزاوسز ا سے ۔ مغر ب نے ما دّیت یعنی دنیا پر ستی کو لو گو ں کے ذہن ودما غ پر ایسا مستو لی کردیاہے کہ دینی علم اور فکر آخرت میں رسو خ کے بغیر دنیاداری سے بچنا انتہائی دشوار ہے ۔ اہل مغر ب یہو د و نصا ریٰ نے حب دنیا کو ذہن دماغ پر مسلط کرنے اور آخرت سے غافل کرنے کے لیے بڑی زبر دست پلاننگ کی اور دنیو ی تعلیم میں لو گوں کو ایسا مشغو ل کیا کہ دینی تعلیم کے لیے فرصت ہی نہیں بچی اور جو فر صت کی گھڑیاں تھیں اس میں انسا ن کو ذرائع ابلا غ کے جال میں پھنسا دیا کہ ٹیلی ویژن پر اخبار بینی، اسپور ٹ ، سیر یل، فلم ، ناچ ، گا نے ، مختلف کلچر پروگرام وغیرہ میں ایسا مشغو ل کیا کہ دین کے لیے اس کے پا س وقت ہی نہیں بچا ، نہ دین سیکھنے کا وقت ہے اور نہ دین پر عمل کر نے کی فرصت ۔
دنیوی تعلیمی نصاب میں بلاضرورت وحاجت افکار واعتقادات سے تعرض
اور مادی افکار کی زہرافشانی:
دنیو ی تعلیمی نصاب میں اگر فن اور ہنر پر اکتفا کیا جا تا تو کوئی با ت تھی، مگردنیوی تعلیمی نصا ب میں ما دّی افکار کا زہر اور اس کے ایما ن سو ز اثرات ، افکار ، اعتقادات اور تہذیب و ثقا فت کو بھی شا مل کیا …گہری سازش اور منصو بہ سے اس کی بھی ما دی تفسیر کی… قصداً وعمداً تعلیمی نصاب میں مادّی افکا ر کو فر و غ دیا …دین و مذہب کو انسان کی زندگی سے دریا بر د کر دیا اور خوا ہ مخواہ یہ ثابت کیا کہ” مذہب “ انسان کا ذاتی ونجی مسئلہ ہے (جب کہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ) اجتما عی زندگی میں اس کی کوئی ضر ور ت نہیں اس فکر و تھنکنگ کو فروغ دینے کے لیے ”سیکو لرزم “(Secularism) کو بڑ ھا چڑھا کر پیش کیا ۔ اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ انسا ن کو نجی زندگی میں مذہب سے دور رکھنے کے لیے” ہیو منز م“(Humanism) کو فر و غ دیا۔ انسا ن کو یہ تعلیم دی کہ وہ مختارِ کل … اور العیاذ با للہ اسے اپنی زندگی گزا ر نے میں کسی خدائی پا بند ی کا لحاظ کر نے کی ضرو ر ت نہیں۔ ایک اور قدم آ گے بڑھاتے ہوئے ”میٹر یلزم“ (Materialism) کو فر و غ دیا، اس کے ذریعہ انسا ن کو یہ بتلا نے کی نا مسعود کوشش کی کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے ،لہٰذا دنیا کی کام یابی کی کوشش ہی میں مشغول ہوناہے ۔ العیا ذ با للہ آخر ت کی زندگی کس نے دیکھی ؟ اور پتہ نہیں مرنے کے بعد زند ہ ہو نا بھی ہے یا نہیں ؟ لہٰذا جو کچھ کر نا ہو سب دنیا ہی کے لیے کر و ، اپنی ہر چیز کو دنیا کی کا میا بی کے لیے قر با ن کردو ، اپنا ما ل ،اپنی جا ن، اپنا وقت ، اپنی اولا د سب کو دنیا داری میں مشغو ل کر دو ۔ اللہم احفظنا من الفتن
یہو د ونصا ریٰ کی شیطنت نے اپنے شیطا نی ایجنڈے کو مز ید استحکام دینے اور عو ا م تو عو ا م خو اص کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے اور وحی الہٰی کی حیثیت ِحاکمہ کو ختم کر نے لیے لیے ”امپر یز م ‘ ‘ (Empiricism) کو فر و غ دیا اور یہ ثابت کر نے کی کو شش کی کہ جو کچھ حقیقت اور حقا ئق کا ادرا ک ہو تا ہے، محض مشا ہد ہ اور تجر بہ سے حا صل ہو تا ہے ۔ لہٰذا عقل، حس ،تجر بہ اور مشا ہدہ ہی اشیا ء کی حقیقت کو معلو م کر نے کے لیے کافی ہے۔ العیا ذ با للہ! اس کے لیے کسی ”نبی“ اور ”رسول ‘ ‘ کی تصدیق کر نے اور ا ن کی با ت پر اعتما د کر نے کی چند ا ں ضرو ر ت نہیں، اور اسی خطرناک حر بہ سے ان شیطا ن نما انسا نو ں نے عور ت کو آ زا دی دلا ئی ، جو آ زادی نہیں بر با دی کا با عث ہو ئی ۔ آج دنیا کے حالا ت اس پر گواہ ہیں اور جب عو ر ت گھر سے بے پر دہ ہو کر با ہر آ ئی تو اس کے کیا کیا نتا ئج سا منے آئے ؟ جنسی ابا حیت ، عریا نی ، فحاشی ، زنا کا ری ، کو عا م روا ج حا صل ہو گیا ۔ دنیا میں زنا کا ری کے لیے لا ئسنس جاری ہو نے لگے ، مر د اور عورت کی رضا مندی کو زنا کی فہرست سے خا رج کر دیا ،جس کے سبب یورپ میں خاندانی نظا م جو تبا ہ ہو ا، وہ دنیا والو ں کے سامنے ہے ۔ گویا ”من حفر بئراً لاخیہ وقع فیہ“ کا یو رپ صحیح مصدا ق ٹھہر ا ،جو اپنے بھا ئی کے لیے کو ا ں کھو دتا ہے خودہی اس میں گر تا ہے ۔اور” لبر یز م “ (Labralism) کے ذریعہ مذکورہ نظریہ کو مزید تقویت دی گئی۔ اب بھی اگرانسا ن اہل مغرب کے اس منصو بہ کو سمجھ کر رد کرنے پر آ ما دہ ہو جائے تو اس کے لیے خیر ہے ورنہ ہلا کت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنے والا ۔ ” خسر الدنیا وا لآ خر ة “سے دو چا ر ہو نا لا ز م ہے ۔ (اللہم اھدنا واھدبنا واھد النا س جمیعا ً )
یہو د و نصا ریٰ پر انسا ن کو گمر ا ہ کر نے اور اپنا تسلط قا ئم کر کے اسے بر قر ار رکھنے کا ایسا خبط سو ا ر ہوا کہ اس نے معاشر ے کے معصو م بچو ں کو بھی نہیں بخشا اور نصابی کتا بو ں میں مقصد ِحیا ت یعنی اللہ کی عبا د ت اور ا س کی رضا کے حصول کے لیے حتی المقدور کوشش سے غافل کر نے کے لیے ”فر ائیڈزم“ (Fraidism)اورجنسیت کو شا مل کیا اور العیاذ باللہ انسا ن کو یہ با و ر کرانے کی کوشش کی کہ وہ دنیا میں محض جنسی ضرو ر ت کو پور ا کرنے کے لیے آ یا ہے ، لہٰذا اسی پر اپنی توجہ مبذول کر ے اوراس طر ح انسا ن کو اشرف المخلو قات کے درجہ سے اتا ر کر دیگر حیو ا نو ں کی صف میں لاکھڑ ا کر دیا ۔
اخیر میں انسا ن کو خدا سے کاٹنے کے لیے ”ڈارونز م“ (Darivinism) کی کیل ٹھونک دی اور یہ جتلا نے کی کوشش کی کہ انسا ن ایک ترقی یا فتہ جا نو ر ہے اوریہ دنیا ” بقا ء اصلح “ کے اصو ل کے تحت وجود میں آئی اور چل رہی ہے۔ العیاذباللہ ! نہ اسے کوئی پیدا کر نے والا ہے اورنہ اسے کوئی چلا رہا ہے اور نہ یہ ختم ہو گی ۔
اللہ اللہ ! یہ کیا ہے دشمنا نِ انسا نیت اتنا سب کچھ کر نے پر بھی نہیں تھمے اور سیا ست کو بھی اپنے دا مِ فریب میں لے لیا اور یہ ہو ّ ا کھڑا کیا کہ سیاست اور دین علیحدہ علیحدہ ہے، لہٰذا انسا ن کی سیا سی کا م یا بی محض ”ڈیموکریسی “ اور جمہوریت میں مخفی ہے۔ اور حکم را نی کے لیے العیا ذ باللہ خدائی قوانین کی کوئی حا جت اورضر ور ت نہیں۔ اور اس طرح پارلمینٹ کو شریعت کی جگہ حلت اور حر مت کا ٹھیکا دیدیا بس پھر کیا تھا پا رلیمنٹ میں مو جو د ملحد فکر انسانوں کے ٹولہ نے شراب نوشی، جو ا،ہم جنس پرستی وغیرہ کو حلا ل قر ا ر دیدیا اورانسا ن کی بچی کھچی شرافت کو بھی ملیا میٹ کردیا ۔
اردو زبا ن میں ضر ب المثل مشہو ر ہے” دھوبی کا کتا نہ گھر کانہ گھاٹ کا “ بس مغر ب کی اندھی تقلید میں انسان کا بھی یہی حشر ہو ا کہ وہ خدا سے کٹا ہی تھا، سر ما یہ دارا نہ نظام کو فر و غ دیکر اس کو خود انسا نی ہمد ردی سے دور کردیا اور سو د کی بد تر ین لعنت میں گر فتا ر کر دیا کہ انسا ن بس اپنی مالی ترقی کی فکر کر ے اور بس !کو ئی دوسر ا انسا ن چاہے کیسی ہی بری حا لت میں کیو ں نہ ہو، اس کی ہمدر دی کر نے کی کوئی ضر و رت نہیں کیو نکہ سر ما یا دارانہ نظا م میں آمدنی کی تقسیم محض چار افرا د میں تقسیم ہو ئی ”انٹر پینر“ سرمایہ داراور اجیرکرایہ دار کے درمیان ہو گی ، معاشر ے کے کمزو ر او ر مفلو ک الحا ل کی طر ف کو ئی التفات نہیں کیا جا ئے گا ۔
انسان کی شرافت اور ایمانی طا قت کو سلب کر نے کی عالمگیر سازش:
دور حا ضر کے ایمان سو ز فتنے جس نے مسلما نو ں کو خاص طور پر اور سار ے انسا نو ں کو عا م طور پر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور انسا ن کو ہلا کت کے دہا نے پر لا کھڑ ا کیا ہے ، ایسے بد تر ین حالات سے کیسے نمٹا جا ئے اوراپنے خدائی قیمتی تحفہ ایما ن کو کیسے بچا یا جا ئے ، ہمیں اس کی فکر کر نی ہے، ورنہ انسا ن دشمن طاقتیں اب بھی اپنی کمینی حرکتو ں سے با ز نہیں آئی ہیں ۔مذکور ہ نظریا ت کے بعد بھی پے در پے نظر یا ت کو ذرا ئع ابلا غ کے ذریعہ عام کیا جا رہا ہے، مثلاً:”نظریہٴ بگ با نگ‘ ” انفجا رِعظیم“ اسی طر ح نظریہ” اضا فت و قت“ اسی طرح سال گز شتہ” ا سٹیفن ہو کنگ “کا نظریہ اور سا ل روا ں میں” ھیگ بوسوں پارٹ اوف گو ڈ “ کا نظریہ، یہ سب مادیت ”میٹرلیزم “ کو مہمیز دینے کے لیے کیا جا رہا ہے،بات دراصل یہ ہے کہ اس وقت غلبہ انہیں حاصل ہے ، لہٰذا وہ رکنے والے نہیں ،سیا سی غلبہ انہیں حاصل ہے، میڈیا ان کے مکمل کنٹرول میں ہے، ذرائع ابلاغ انسا ن کی قوتِ فکر پر کنٹرول پانے میں فعّا ل کر دا ر اداکر تا ہے، دو نو ں ان کے زیر نگیں ہیں ” الیہو د والعالم و ا لموٴامرات والا ہداف والا سرا ر “کے مصنف فارو ق محمد نجلا نے ”جذور البلا ء“ ص14 کے حوالہ سے ایک یہو دی حاخام Reichoen کی یہ با ت نقل کی ہے کہ اس نے ” سیمون بن یہود ا“ کی قبر کے پاس ایک تقریر کی تھی ،جس میں کہا تھا کہ”اگردنیا پر تسلط کے لیے سو نا اور چا ند ی انتہا ئی اہم ہتھیا رہے ،تو صحافت اور ذرائع ابلا غ کو دوسر ی پو زیشن حاصل ہے ۔ گو یا دو لت اور ذرا ئع ابلا غ دو نو ں ہی عالمی تسلط کے لیے نا گزیر ہیں، لہٰذا ہمار ے لیے یہ انتہا ئی ضروری ہے کہ مال و دولت کے ذریعہ صحا فت اورذرا ئع ابلا غ پر پو را کنٹر و ل حاصل کرلیں، چا ہے ذرائع ابلا غ پر کنٹرو ل کرنے کے لیے ہمیں کتنی ہی رشو ت کیو ں نہ دینی پڑے، ہم اس کے لیے تیاررہیں، کیو نکہ خاندانی نظا م ، عقا ئد اور اخلاق فاضلہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے بغیر چا رہ کا ر نہیں“۔ ( الیہود والعالم الموٴامرات والا ہداف والا سرا ر : 161)
قا رئین ! آ پ اندا ز ہ لگا ئیں کہ ان کی سا زش کتنی گہر ی اور عا لمگیر ہے ، قر آ ن نے صحیح کہا ﴿ وان کان مکرہم لتزول منہ الجبا ل ﴾کہ اگر ان کا فریب اور بس چل جا ئے تو پہا ڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جا ئے ۔ قرآن پہاڑ ہٹا نے کی با ت نہیں کررہا ہے بلکہ قرآ ن یہ کہہ رہا ہے کہ ان کی تد بیر یں، سا زشیں ، اتنی خطرنا ک ہو تی ہیں کہ راسخ العقیدہ انسا ن کو بھی ہلا کر رکھ دے ۔ اللہ ہما ری حفا ظت فر ما ئے آ مین ۔
یہ دشمنا نِ ایما ن نہیں بلکہ دشمنا نِ انسا نیت ہیں۔ محض اپنے مفا د کی خا طرمسلما نو ں ہی کو نہیں بلکہ پورے انسا نی معاشر ے کو عا لمگیر پیما نے پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، اورما دّیت کا حملہ ایسا خو فنا ک کیا ہے کہ ” الا ما ن و الحفیظ “۔ زند گی کے کسی بھی اہم شعبہ کو بخشا نہیں بلکہ سب میں ما دّی افکا ر کوپور ی مکاری عیاری اور منصو بہ بند ی سے مسلط کر دیا ہے ، مثلاً عقا ئد کو مسخ کر نے اور بگاڑ نے کے لیے ”ریشنلائزیشن“ (Rationalization)کو فر و غ دیا جس کا مفہو م ہے ۔ عقل کو مذہب میں آخر ی فیصلہ کر نے والا قر ار دینا اور ان تمام نظریا ت کو رد کرنا جو عقل سے مطابقت نہ رکھتے ہو ں ،(عالمی یہودی تنظیمیں :193) اور پھر اس عقلیت کے سہا رے مذکو رہ نظریا ت کو اس اصو ل کے پیش نظر فر و غ دیا کہ” جھو ٹ کو اتنا دہرا ؤ کہ لو گ اس کو سچ تسلیم کر نے پر آمادہ یا مجبو ر ہو جا ئیں“ اس عقلیت کے نتیجہ میں بالآ خر لا دینیت نے جنم لیا اور پھر یکے بعد دیگرے مادّی افکا ر جنم لیتے رہے اور اب بھی لے رہے ہیں ۔
عقا ئد کے بعد جمہو ریت کے ذریعہ سیا ست کو اپنی لپیٹ میں لیا اور اخیرمیں معاشر ت اور معیشت کو ”کمرشلا ئزیشن ‘ ‘کے ذریعہ اپنے قا بو میں کر لیا۔
آئیے اب ہم اپنی دنیا و آ خرت کی کا م یا بی کا عز م کرتے ہیں اوردنیا داری سے تو بہ ہی نہیں ”التو بة النصوحة “ کرتے ہیں اللہ ہماری مدد فر ما ئے ۔آمین
فتنو ں سے بچنے کی تدا بیر
اپنے ایمان کی حفاظت یہ ہماری اولین تر جیح ہو نی چا ہئے، کیوں کہ اگر ایما ن سے ہا تھ دھو بیٹھے، تو نا قابلِ تلافی نقصان اٹھا نا پڑے گا ،جس پر موت کے بعد کف ِافسو س ملنے سے بھی کوئی فا ئدہ نہ ہو گا اور اس کے بعد عذابِ جہنم سے خلا صی کی بھی کوئی صور ت نہیں ہو گی، جیسا کہ قر آ ن کریم نے جا بجا بیا ن کیا ہے ۔لہٰذ ا اس مسئلہ کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے مند رجہ ذیل ہدایات پر عمل کیا جا ئے ،ان شا ء اللہ مکمل فا ئد ہ ہو گا۔ اللہ صحیح لکھنے کی اورپھر اس پر ہم سب کو عمل کر نے کی توفیق مرحمت فر ما ئے ۔ آ مین ۔
عربی زبا ن کی کہاوت ہے ” کیف یتقی من لا یدری ما یتقی “ یعنی جو شخص فتنو ں سے نا واقف ہو اور نہ اس کے بد تر ین انجام سے ،تو وہ کیسے فتنو ں سے بچ سکتا ہے ۔!!!
٭…راسخین فی العلم علما ء ربا نین کی تحر یرو ں اور تقریروں سے فتنہ کو جا نا جا ئے اور اس کے انجا م پر نظر رکھی جا ئے اور اس سے بچنے کی مکمل تدابیر اختیا ر کی جائیں ۔مثلا ً ”قیا مت کی نشا نیاں “(عمرا ن اشرف عثما نی ) ”عالمی یہودس تنظیمیں“ مفتی ابولبابہ صاحب ۔ ٭…دعاء کا اہتمام کیا جائے اور رو رو کر اللہ سے مانگا جائے۔ ٭…اسلامی فر ائض کا خا ص اہتمام کیا جائے مثلا ً نما ز ، رو ز ہ، حج ، زکوٰة اور ہر حالت میں ان فرائض کو ادا کرنے کی انتھک کوشش کی جا ئے ۔ ٭…مقصد ِحیا ت” اللہ کی عبا دت اورا س کی رضا مندی کا حصول“ ہر حالت میں پیش نظر رکھا جا ئے ۔ اور اخلا ص کے ساتھ اس پر عمل کر نے کی کوشش کی جا ئے جس سے اللہ راضی ہو تے ہوں، اورہراس قو ل و عمل سے بچاجائے ،جس سے اللہ نا را ض ہو تے ہوں ۔ ٭…آخرت کی فکر اپنے اندر پیدا کی جائے اور اس کے لیے صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اورایسی کتا بیں پڑھی جائیں، اور گھرمیں اس کی تعلیم کی جائے جو فکر آ خر ت پید ا کر تی ہوں ، مثلاً مو ت کا جھٹکا ، دوزخ کا کھٹکا ، مو ت کا منظر ، کیا آ پ مو ت کے لیے تیا ر ہیں ؟ ، مر نے کے بعد کیا ہو گا۔ (ا ئمہٴ مسا جد اور علما ء کو خاص طور پر امت کے سا منے ایسی آ یا ت کی تفسیر کر نی چا ہئے جن میں آ خر ت اور آ خر ت کے عذا ب ،جہنم اور جہنم کے مناظر کو اللہ نے بیا ن کیا ہے ۔) ٭… اسلا م کے بارے میں ادھوری معلومات رکھنے والوں سے بچا جائے اور مخلص علماء ربانین اور راسخین فی العلم سے رابطہ کیا جائے ، خاص طور سے ٹیلیویژن پر جو ٹائی اور شرٹ پہن کر اپنے آ پ کو اسلامی اسکالر گردانتے ہیں ، جنہوں نے باقاعدہ کسی عالم کے پاس دین کا علم نہ سیکھا ہو، ان سے بچا جائے ، وہ آپ کی صحیح رہنمائی نہیں کر سکتے بلکہ دین کے نام پر گمراہی کی راہ ڈال دینگے اور آپ کواس کا احساس بھی نہ ہو سکے گا۔ ٭… دینی تعلیمات کو حاصل کرنے کا نظام بنایا جائے ، یہ بات امر مسلّم ہے ہماری تمام پر یشا نیو ں کا حل دینی تعلیم کے سیکھنے اور اس پر عمل کر نے میں ہے ، ہمارے بچے ، بڑے، عورتیں ، جوا ن سب کو خوب اچھی طرح اسلامی عقائد سے واقف ہونا چاہئے ، سا تھ ہی ساتھ روزمرہ کے فرائض کے احکام مثلاً نماز ، روزہ ، زکوٰة، حج وغیرہ اور تاجر کے لیے تجارت کے احکام، مزدور کے لیے مزدوری کے احکام ، جس کا جو پیشہ ہو اس پیشہ کے احکا م سے واقف ہو نا فر ض ہے۔ اسلامی عقا ئد کو خو ب اچھی طر ح سمجھا اور سمجھا یا جائے، اور روز مر ہ پیش آ نے والے مسائل کے شرعی احکام سے واقفیت حاصل کی جا ئے، یا تو صحیح العقیدہ علما ء سے براہِ راست سیکھاجائے یا ا ن کی کتا بو ں کی گھر میں تعلیم کی جا ئے، مثلاً اسلا م کی بنیا دی تعلیما ت (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھا نوی)، تحفة المسلمین (مو لا نا عاشق الہٰی میرٹھی )، حیاةالمسلمین ، بہشتی زیو ر (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھانوی ) ، دینی تعلیم کا رسالہ ، تعلیما ت ِاسلام(مفتی کفا یت اللہ ) ، اسلا می عقیدے (مولانا عبدالحق ) ، وغیرہ مگر علما ء سے بر ا ہ ِراست سیکھنا زیا دہ بہتر ہے ۔ ٭…اہل اللہ اور صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اور ان کے سامنے اپنے احو ال رکھ کر ا س کا علا ج کر وا یا جائے ۔اور تز کیہٴ نفس کی فکر کی جائے، اس سے متعلق کتا بیں پڑھی جا ئیں ، مثلاً دل کی دنیا (مفتی شفیع صاحب ) ، خطبا ت ذوالفقا ر ، مجا لس فقیر وغیرہ ۔ ٭… اپنے بچو ں کی دینی تر بیت کی جائے اور فیشن پر ستی سے دور رکھا جائے ، گھر کا ما حو ل دینی بنا یا جائے ، کھا تے وقت بسم اللہ کھا نے کے بعد الحمد للہ وغیرہ کی تعلیم دی جائے ، اور ادعیہٴ ما ثور ہ کا خود بھی عا دی بنیں اور گھر والو ں کو بھی بنا ئیں ، صبح و شا م کی مسنو ن دعائیں او راذکار کا خاص اہتمام کیا جا ئے ۔ ٭…بر ے لو گو ں اوربر ے کلچرسے مکمل پر ہیز کیا جا ئے ۔خاص طور پر ٹیلیویژن ، ویڈیو ، میوزک ، ناچ گا نا سے بچا جا ئے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ٹی وی صر ف خبر و ں کے لیے رکھا ہے مگر انہیں یہ سو چنا چاہیے کہ مر نے کے بعد دنیا بھر کی خبر و ں کا سو ال نہیں ہو گا ،بلکہ خو د آپ کی اپنی خبر لی جا ئے گی کہ آپ نے کیا اچھا ئی کی اور کیا بر ائی۔ او ر پھر جزاء وسز ا کا فیصلہ ہو گا ، تو بس اسی کی فکر میں لگنا چا ہئے ، اپنی آ خر ت مقد م با قی سب بعد میں۔ ٭…قر آ ن سے وابستگی ضرو ری ہے ۔ اس کو پڑھا جائے اس کو سمجھا جا ئے اور اس پر عمل کیا جائے ،جیسا کہ صحابہ نے کیا مگر افسو س کے امت نے قر آ ن کو پس پشت ڈا لدیا نہ اس کی تلا و ت ہوتی ہے نہ اس کو سمجھنے کی سعی اور نہ اس پر عمل ۔ لہٰذا ائمہ مساجد اور علما ء سب سے پہلے اس کو صحت اور تجو ید کے ساتھ پڑھنا سیکھیں ، ائمہ اور علماء بھی فکرمندی سے امت کو قر آ ن کی تعلیم دیں اور جو لو گ قرآ ن فہمی کے اصو ل وقو ا عد سے مکمل واقف ہوں ان سے قرآ ن کو سمجھا جائے نہ کہ ان لو گو ں سے جو نہ عربی جا نتے ہوں، نہ حدیث کا علم رکھتے ہو ں، نہ اصو ل و قو اعد تفسیر کی جانکار ی رکھتے ہو ں اور نہ نحوو صر ف ، علم بیا ن ومعانی اورعلم لغت وغیرہ سے واقف ہو ں بس اردو ترجموں کے سہارے تفسیر کر تے ہو ں ، اس سے بجا ئے فا ئدہ پہنچنے کے نقصا ن ہو گا ماضی میں ایسا ہو ا ہے ۔ اور اب بھی ہو رہا ہے اور اگر کسی کو تفسیر کے لیے منا سب عالم نہ ملے تو معتبر علما ء کی تفاسیر کا مطا لعہ کر ے البتہ اگر کو ئی بات سمجھنے میں دشو ار ی ہو تو ضر ور علما ء سے رابطہ کریں۔ شاہرا ہ کے” ای میل “ایڈریس پر دریا فت کر سکتے ہیں۔
عو ا م کے لیے عا م فہم تفا سیر یہ ہیں
معارف القرآ ن (حضرت مفتی شفیع صاحب )
گلدستہ تفاسیر (مو لانا عبد القیوم صاحب )
یہ دو نو ں تفاسیر ان لو گو ں کے لیے ہیں جو تفصیلی مطالعہ کر نا چاہتے ہیں ۔ اور مختصر کے لیے:
تفسیر عثما نی (شیخ الا سلا م علا مہ شبیر احمد صاحب عثما نی )
” آ سا ن تر جمہ قر آ ن “ (حضرت مو لا نا مفتی تقی عثما نی)
اورعلما ء کے لیے تو اردو میں بہت ساری تفاسیر ہیں ۔
٭…وقت کی قدر کریں ۔ ہم مسلما ن ہیں ، ہمار ا عقید ہ ہے کہ مرنے کے بعد زندہ ہو نا ہے اور اس زندگی کا حسا ب دینا ہے اور دنیا فانی اور آخرت با قی ہے اور یہ دنیو ی زندگی آخر ت کی تیار ی کے لیے ہے، لہٰذا
حتی المقدو ر ہر وقت ایسا عمل کر نا چاہئے جس سے آخر ت کا فا ئدہ ہو وقت کو ضا ئع ہو نے سے بچا نا چا ہئے ۔
آج انسان کا سب سے بڑ ا مسئلہ وقت کا ضیا ع ہے ، لو گو ں کو بے ہو دہ با تو ں میں مبتلا کر کے دشمنا نِ انسانیت نے بڑ ا ظلم ڈھا یا ہے ، موبائل ، ٹی وی ، انٹر نیٹ ، تفریح گا ہیں وغیرہ کو اتنا عا م کیا جا رہا ہے کہ اللہ کی پنا ہ انسان آخرت کی تیا ری سے بے خبر ہو کر ان میں ایسا ہمہ تن مصر و ف ہے، جو اس کے لیے بڑ ے خسا رے کی با ت ہے ، لہٰذا عقلمند ی یہ ہے کہ لغو یا ت سے بچا جا ئے ، عا دا ت اور ضرو ریا ت کو بھی نیک نیتی کے ذریعہ عبا دات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ، مثلاً کھا تے وقت یہ نیت کر لیں کہ عباد ت پر تقویت کے لیے کھا رہا ہو ں ، تجا رت حلا ل کمائی کی نیت سے ہو، تو یہ سب دنیو ی امو ر بھی عبا د ت بن جا ئیں گے ،اور آ دمی گنا ہو ں سے بچنے لگے گا ۔ اللہ ہماری فتنوں سے حفا ظت فر ما ئے ۔
٭…سیرت نبوی کا خاص مطالعہ کیاجائے کیوں کہ انبیا ء علیہم السلا م کو تعلیما ت وحی کی عملی صو ر ت بتلا نے کے لیے ہی مبعو ث کیا جا تا رہا ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چو نکہ خا تم الا نبیا ء والمر سلین تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور زندگی قیا مت تک آنے والو ں کے لیے اسوہ اور نمو نہ ہے جیسا کہ قر آ ن میں ارشا د باری ہے ہے ﴿لقد کان لکم فی رسو ل اللہ اسو ة حسنة ﴾ ” تمہار ے لیے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہتر ین نمونہ ہے ۔“ اس مو ضو ع پر سب سے عمدہ کتا ب عارف با للہ حضرت مولا نا عبد الحی عارفی رحمة اللہ علیہ کی ”اسوہ ٴرسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم“ہے، (اس کا انگلش میں ترجمہThe Ways Of Holy Prophet Mohammad ہو چکا ہے ) آپ نے اس کو لکھا بھی ہے سیرتِ نبو ی پر عمل کر نے ہی کے لیے۔ اس کے علا وہ سیر تِ خا تم الا نبیا ء اور تفصیلی مطالعہ کے لیے سیر ت المصطفی مولانا ادریس کا ندھلو ی رحمة اللہ علیہ ۔
یہ اور اس کے علاوہ علما ء سے اور جو کچھ معلو م ہو سکے اس پر عمل درآمد شرو ع کیا جا ئے ، اللہ کی ذات سے امید قوی ہے کہ وہ اپنی خصو صی رحمت میں ڈھانپ کر فتنو ں سے بچا لے گا اور ایما ن پر خا تمہ فر ما کر دنیا اور آخر ت کی کا م یا بی سے ہم کنا ر کر دے گا اللہ تعالیٰ عمل کی تو فیق عطا فر ما ئے آمین ۔
فرض نماز پڑھنے والے کو نفل نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرنا جائز ہے یا نہیں؟
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ ابن جبل ؓ آقائے نامدار ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ کر آتے اور پھر اپنی قوم کو نماز پڑھایا کرتے تھے چنانچہ ( ایک دن) انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عشاء کی نماز پڑھی اور پھر آکر اپنی قوم کی امامت کی اور (نماز میں) سورت بقرہ شروع کر دی (جب قرأت طویل ہوئی تو ) ایک آدمی سلام پھیر کر جماعت سے نکل آیا اور تنہا نماز پڑھ کر چلا گیا لوگوں نے (جب یہ دیکھا تو اس سے کہا کہ " فلانے ! کیا تو منافق ہوگیا ہے (کیونکہ جماعت سے جان بچا کر نکل بھاگنا تو منافقوں ہی کا کام ہے) اس نے کہا " نہیں اللہ کی قسم (میں منافق نہیں ہوا ہوں) میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر حقیقت حال بیان کروں گا " چنانچہ وہ آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! ہم اونٹوں والے ہیں، دن کو کام کرتے ہیں (یعنی) اونٹوں کے ذریعے پانی کھینچ کر درختوں کی آبپاشی کرتے ہیں اور دن بھر محنت و مشقت میں لگے رہتے ہیں) معاذ رات کو آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ کر آئے اور ہمیں نماز پڑھائی اور سورت بقرہ شروع کر دی (لمبی قرأت ہونے اور اپنے تھکے ہوئے ہونے کی وجہ سے میں بد دل ہو گیا) یہ سن کر رسول اللہ ﷺ حضرت معاذ ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا " معاذ! کیا تم فتنے پیدا کرنے والے ہو ؟ (یعنی کیا تم لوگوں سے جماعت ترک کرا کر انہیں دین سے بیزار اور فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟ بہتر یہ ہے کہ ) تم سورت والشمس وضحھا سورت والضحی سورت واللیل اذا یغشی اور سورت سبح اسم ربک الا علی پڑھا کرو۔
(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح:
یہ آدمی نعوذ باللہ جماعت یا نماز سے متنفر نہیں ہوا تھا بلکہ چونکہ دن بھر کی محنت و مشقت کی وجہ سے تھکا ماندہ تھا اس لئے جب قرأت لمبی ہوئی اور نماز نے طوالت اختیار کی تو یہ مجبور ہو کر جماعت سے نکل آیا اور اپنی نماز تنہا پڑھ لی۔ اسی وجہ سے جماعت سے نکلتے ہوئے باوجود اس کے کہ سلام پھیرنے کا کوئی موقعہ و محل نہ تھا اس نے سلام پھیرا کیونکہ اس نے سوچا کہ نماز سے سلام پھیر کر نکلے تاکہ کم سے کم نماز پوری ہونے کی مشابہت تو ہو ہی جائے۔ ایک دوسری روایت میں سبح اسم ربک الاعلی کے بعد کچھ اور سورتیں بھی ذکر کئی گئی ہیں مثلاً اذا السماء انفطرت اذا السماء انشقت اور سورت بروج و سورت طارق۔ حضرات شوافع نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ فرض نماز پڑھنے والے کو نفل نماز پڑھنے والے کی اقتدا کرنا جائز ہے اس لئے کہ حضرت معاذ ابن جبل جب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے تو ان کی فرض نماز ادا ہو جاتی تھی اور اپنی جماعت کے ساتھ جو نماز پڑھتے تھے نفل رہتی تھی اور ان کے مقتدیوں کی نماز فرض ہوتی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کے اس عمل کو جائز رکھا انہیں اس عمل سے منع نہیں کیا۔ علماء حنفیہ کے نزدیک چونکہ فرض نماز پڑھنے والے کے لئے نفل نماز پڑھنے والے کی امامت میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اس لئے حضرات سوافع کو جواب دیا جاتا ہے کہ" نیت ایک ایسی چیز ہے جس پر کوئی دوسرا آدمی مطلع نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ خود نیت کرنے والا یہ نہ بتائے کہ اس نے کیا نیت کی تھی۔ لہٰذا یہ غالب ہے کہ حضرت معاذ ابن جبل رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بہ نیت فرض نہیں بلکہ آپ ﷺ سے طریقہ نماز سیکھنے اور آپ ﷺ کی نماز کی برکت و فضیلت حاصل کرنے نیز تہمت نفاق سے بچنے کی خاطر بہ نیت نفل نماز پڑھتے ہوں پھر اپنی قوم کے پاس آکر انہیں فرض نماز پڑھاتے ہوں گے تاکہ دونوں فضیلتیں حاصل ہو جائیں لہذا حضرت معاذ ؓ کے اس عمل کو اس صورت پر محلول کرنا اولیٰ ہے کیونکہ یہ شکل تو بالا تفاق سب علماء کے نزدیک جائز ہے بخلاف پہلی شکل کے کہ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام کو مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام کے لئے ضعیف و کمزور مقتدیوں کی رعایت کے پیش نظر نماز میں تخفیف کرنا سنت ہے اگر اسے اس بات کا احساس ہو کہ پیچھے مقتدی ضعیف و کمزور ہیں یا دن بھر کی محنت و مشقت سے تھکے ماندے ہیں یا نہیں کوئی دوسری مجبوری و تکلیف لا حق ہے تو اسے نماز ہلکی پھلکی پڑھانی چاہے اتنی لمبی قرأت نہ کرنی چاہئے جس سے ضعیف و کمزور لوگ تکلیف و پریشانی محسوس کریں اور اس بناء پر جماعت کو ترک کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
حضرت عبداللہ ابن عمرو ؓ راوی ہیں کہ سرتاج دو عالم ﷺ نے فرمایا۔ ایسا کوئی مسلمان نہیں ہے جو جمعے کے دن یا جمعے کی رات انتقال کرے اور اللہ تعالیٰ اسے فتنے (یعنی قبر کے سوال اور قبر کے عذاب) سے نہ بچائے۔
(احمد بن حنبل، جامع ترمذی ) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اس کی اسناد متصل نہیں ہے۔"
تشریح: مطلب یہ ہے کہ کسی خوش قسمت مسلمان کا جمعے کے روز یا جمعے کی شب میں انتقال کرنا درحقیقت اس کی سعادت اور آخرت کی بھلائی کی دلیل ہے کیونکہ جمعہ کی مقدس ساعتوں میں انتقال کرنے والا آدمی اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں اور اس کی نعمتوں سے نوازا جاتا ہے چنانچہ جمعے کو انتقال کرنے والے مسلمانوں کے حق میں بہت زیادہ خوشخبری منقول ہیں۔ مثلاً ایک روایت میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جو مسلمان جمعہ کے دن مرتا ہے وہ عذاب قبر سے نجات دیا جاتا ہے اور وہ قیامت کے دن اس حال میں (میدان حشر میں) آئے گا کہ اس کے اوپر شہیدوں کی مہر ہوگی۔ یا ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ جو آدمی جمعے کے دن مرتا ہے اس کے لئے شہید کا اجر و ثواب لکھا جاتا ہے اور وہ قبر کے فتنے سے بچایا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " جس مسلمان مرد یا عورت کا انتقال جمعہ کے روز یا جمعہ کی شب میں ہوتا ہے تو اسے فتنہ قبر اور عذاب قبر سے بچایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی ملاقات اس حال میں ہوگی کہ قیامت کے دن اس سے کوئی محاسبہ نہیں ہوگا کیونکہ اس کے ساتھ گواہ ہوں گے جو اس کی سعادت و بھلائی کی گواہی دیں گے یا اس پر شہداء کی مہر ہوگی۔
قرآن فتنوں کا علاج اور سرچشمہ ہدایت ہے:
حضرت حارث رحمۃ اللہ علیہ جو اعور (یعنی کانی آنکھ والے) تھے راوی ہیں کہ میں ایک دن کوفہ کی مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگ بیکار و لایعنی گفتگو (یعنی قصے کہانیوں) میں مصروف ہیں (اور انہوں نے قرآن مجید کی تلاوت وغیرہ ترک کی ہوئی ہے) چنانچہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس بارہ میں بتایا، انہوں نے فرمایا کیا انہوں نے واقعی ایسا کیا ہے (کہ تلاوت قرآن مجید چھوڑ کر بیکار باتوں میں مصروف ہیں؟) میں نے کہا کہ جی ہاں! انہوں نے فرمایا تو پھر سن لو میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خبردار! فتنہ واقع ہو گا (یعنی لوگوں کے دینی افکار و عقائد میں اختلاف ہو گا، اعمال میں سست روی اور گمراہی پیدا ہوگی اور وہ گمراہ لوگ اسلام کے نام پر نت نئے مذاہب و نظریات کی داغ بیل ڈالیں گے) میں نے عرض کیا کہ حضرت ﷺ ! پھر اس سے نجات پانے کا کیا راستہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کتاب اللہ (یعنی نجات کا راستہ قرآن پر عمل کرنے ہی سے ہاتھ لگے گا) جس میں تم سے پہلے لوگوں (یعنی پچھلی امتوں) کے حالات بھی ہیں اور ان باتوں کی خبر بھی دی گئی ہے جو تمہارے بعد واقع ہونے والی ہیں (یعنی قیامت کی علامات و احوال) اور اس قرآن میں وہ احکام بھی مذکورہ ہیں جو تمہارے درمیان (ضروری ) ہیں (یعنی ایمان و کفر، اطاعت و گناہ حلال و حرام اور اسلام کے شرائع نیز آپس کے تمام معاملات وغیرہ کے بارہ میں احکام بیان کئے گئے ہیں جو پوری انسانی برادری کے لئے ضروری ہیں) اور (یاد رکھو ) وہ قرآن حق و باطل کے درمیان (اپنے احکام کے ذریعہ سے) فرق کرنے والا ہے وہ کوئی بیکار و لایعنی چیز نہیں ہے اور (یہ بھی کان کھول کر سن لو کہ ) جس متکبر نے قرآن کو چھوڑ دیا اس کو اللہ تعالیٰ ہلاک کر ڈالے گا اور جو شخص اس قرآن کے علاوہ (کسی ایسی کتاب و علم سے کہ جو نہ قرآن سے مستنبط ہے اور نہ اسلامی شرائع و نظریات کے مطابق ہے) ہدایت و روشنی چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے گا وہ قرآن اللہ کی مضبوط سیدھی رسی ہے (یعنی اللہ کے قرب اور اس کی معرفت کا سب سے قوی وسیلہ ہے) قرآن باحکمت ذکر اور بیان ہے، قرآن بالکل سیدھا اور صاف راستہ ہے (جس پر چل کر انسان اپنی تخلیق کا حقیقی مقصد پاتا ہے) قرآن وہ سرچشمہ ہدایت ہے جس کی اتباع کے نتیجہ میں خواہشات انسانی حق سے باطل کی طرف مائل نہیں ہوتیں اس کی زبان سے اور زبانیں نہیں ملتیں علماء اس سے (کبھی ) سیر نہیں ہوتے (یعنی علماء و مفسرین اس کے تمام علوم و معارف پر حاوی نہیں ہوتے) اور قرآن مجید مزاولت (کثرت تلاوت) سے پرانا نہیں ہوتا اور نہ اس کے عجائب تمام ہوتے ہیں قرآن کریم وہ کلام ہے جس کو جنات نے سنا تو وہ ایک لمحہ توقف کئے بغیر کہہ اٹھے کہ ہم نے قرآن سنا جو ہدایت کی عجیب راہ دکھاتا ہے لہٰذا ہم اس پر ایمان لائے (یاد رکھو) جس شخص نے قرآن کے مطابق کہا اس نے سچ کہا اور جس نے اس پر عمل کیا اسے ثواب دیا جائے گا (یعنی وہی اقوال و نظریات صحیح اور قابل قبول ہیں جو قرآن کے عین مطابق ہیں اسی طرح ہدایت یافتہ بھی وہی شخص ہے جس نے قرآن کو سرچشمہ ہدایت جان کر اس پر عمل کیا) جس شخص نے (لوگوں کے درمیان) قرآن کے مطابق فیصلہ و انصاف کیا اور جس نے (لوگوں کو) اس (پر ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے) کی طرف بلایا اس کو سیدھی راہ دکھائی گئی ہے (یعنی وہ ہدایت یافتہ ہے) ۔
(ترمذی، دارمی اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند مجہول ہے اور اس کے راوی حارث اعور کے بارہ میں کلام ہے (یعنی ان کے سچا ہونے میں شبہ کیا جاتا ہے)۔
تشریح:
متکبر سے مراد منکر قرآن ہے یعنی وہ شخص جو قرآن پر ایمان نہیں لایا اور نہ اس نے قرآن پر عمل کیا اور ظاہر ہے کہ ایسا بد بخت شخص وہی ہو سکتا ہے جس کے قلب میں غرور تکبر اور تعصب کے جراثیم موجود ہوں۔ حدیث میں لفظ قصم کے معنی ہیں توڑ ڈالنا اور جدا کر دینا اس لئے اس جملہ کا لفظی ترجمہ یہ ہو سکتا ہے کہ جس متکبر نے قرآن چھوڑ دیا اللہ تعالیٰ اس کی گردن توڑ ڈالے گا لیکن عام طور پر اس کا ترجمہ یہی کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر ڈالے گا۔ کیونکہ مفہوم و حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دونوں کا مطلب یہی ہے کہ جو شخص قرآن کا انکار کرے گا یا اس پر عمل نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے گا جس کا مآل کار ہلاکت و تباہی ہے بخلاف اس شخص کے کہ جو قرآن پر ایمان بھی لائے اور اس پر عمل بھی کرے اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے قریب کر دے گا اور اسے اعلیٰ مراتب و درجات عطا فرمائے گا۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے قرآن کی کسی ایسی ایک آیت یا ایک کلمہ پر بھی عمل کرنا چھوڑ دیا جس پر عمل کرنا واجب ہے یا از راہ تکبر اس آیت یا کلمہ کی قرأت نہیں کی تو وہ شخص کافر ہو جاتا ہے ہاں اگر کوئی محض کسل و ضعف یا عجز کی وجہ سے قرآن کی تلاوت چھوڑ دے مگر اس کا قلب قرآن کی عظمت و حرمت کے اعتقاد سے پر ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں البتہ وہ ثواب سے محروم رہتا ہے۔ خواہشات انسانی حق سے باطل کی طرف مائل نہیں ہوتیں۔ اس پورے جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن کی اتباع کرتا ہے اس کے احکام پر عمل کرتا ہے اور اپنی زندگی کے ہر موڑ پر قرآن کی رہنمائی و ہدایت کا طلب گار ہوتا ہے تو وہ ہر گمراہی اور ہر ضلالت سے محفوظ رہتا ہے توفیق الٰہی اسے اسی راستہ پر گامزن رکھتی ہے جو حق و ہدایت کی شاہراہ ہوتی ہے۔ اگر اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہو کہ اہل بدعت اور روافض و خوارج یا موجودہ دور کے دوسرے فرقے وغیرہ بھی تو قرآن ہی سے استدلال کرتے ہیں اور قرآن ہی کی رہنمائی ہی کا دم بھرتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ گمراہی سے محفوظ نہیں ہوتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہی بات محل نظر ہے کہ قرآن سے ان کا استدلال اور قرآن کی رہنمائی کا ان کا دعویٰ حقیقت پر مبنی بھی ہے یا نہیں۔ کیونکہ قرآن سے اس کا استدلال بالکل غلط زاویہ فکر سے ہوتا ہے وہ پہلے تو اپنے خیالات و نظریات کی ایک عمارت بنا لیتے ہیں پھر اس کی مضبوطی و استواری کے لئے قرآن کا سہارا لیتے ہیں اس طرح وہ قرآنی آیات کو ان کے حقیقی مفہوم و معانی سے الگ کر کے اپنے خیالات و نظریات پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اہل حق اپنے خیالات و عقائد کو قرآن کے تابع بناتے ہیں قرآن کی جو واضح ہدایات ہیں ان کی روشنی میں وہ اپنے اعتقادات کو آراستہ کرتے ہیں اس کے برخلاف گمراہ ذہن و فکر کے لوگ قرآن کو اپنے خیالات و نظریات کا تابع بناتے ہیں اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں قرآن سے استدلال کر کے ہی کہتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان لوگوں کی دلیلیں بایں طور بھی کامل نہیں ہوتیں کہ وہ اپنے ذہن میں یہ گمراہ کن تصور قائم کرے کہ اصل اور کامل رہنمائی صرف قرآن ہی سے حاصل کی جا سکتی ہے احادیث اور دیگر ذرائع کو جو قرآن فہمی کے لئے ضروری ہیں بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ قرآن کا حقیقی مفہوم اور اس کا اصل مقصد منشاء احادیث نبوی ، اقوال صحابہ اور ارشادات علماء حقانیین سے ہی واضح ہو سکتا ہے مگر وہ کرتے یہ ہیں کہ نہ تو ان احادیث کو پیش نظر رکھتے ہیں جس سے کلام اللہ کا مقصد واضح ہوتا ہے اور نہ ان حضرات کے فیوض و اقوال سے استفادہ اور ان کی تقلید کرتے ہیں جو کلام اللہ کے سمجھنے اور اس کے اصل مقصد و منشاء تک پہنچنے میں کامل سمجھے جاتے ہیں مثلا صحابہ کرام تابعین اور دیگر علماء امت۔ لہٰذا یہ بات معلوم ہو جانی چاہئے کہ وہ قرآن سے استدلال کرنے اور بزعم خود قرآن کی رہنمائی کرنے کے باوجود گمراہ نہیں ہیں بلکہ ان کی گمراہی کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ قرآن کی صحیح راہنمائی اختیار نہیں کرتے یا یوں کہئے کہ وہ قرآن کو راہنما اور سرچشمہ ہدایت سمجھ کر نہیں بلکہ اس کو اپنے نظریات و اعتقادات کا تابع بنا کر اختیار کرتے ہیں لہٰذا قرآن کو اختیار کرنے کے باوجود قرآن کی حقیقی منشاء و مقصد اور اس کے اصل مفہوم و معانی تک ان کی رسائی ہی نہیں ہوتی۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت اسی وقت کار آمد ہوتی ہے جب کہ ان ذرائع اور وسائل کو پورے قلبی اعتقاد کے ساتھ اختیار کیا جائے جن پر قرآن فہمی موقوف ہے کہ ان کے بغیر نہ تو قرآن کی حقیقی سمجھ میسر آتی ہے اور نہ قرآن کے اصل مفہوم و منشاء تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور وہ احادیث نبوی ہیں اقوال صحابہ ہیں اور ارشادات ائمہ و علماء ہیں اسی لئے حضرت جنید نے کہا ہے کہ " جو شخص قرآن یاد نہ کرے اور احادیث نہ سیکھے اور نہ جانے تو اس کی پیروی نہ کی جائے اور جو شخص ہمارے زمرہ اور ہمارے مسلک میں بغیر علم کے داخل ہوا اور اس نے ہمیشہ اپنے جہل پر قناعت کی تو وہ مسخرہ شیطان ہے کیونکہ ہمارا علم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے ساتھ مقید ہے" ۔ علامہ طیبی نے حدیث کے مذکورہ بالا جملہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ہوس یعنی بدعتی اور گمراہ لوگ اس بات پر قادر نہیں ہوتے کہ وہ قرآن کے اصلی معنی و مفہوم میں تغیر و تبدل کر دیں یا اس میں کوئی کجی پیدا کر دیں اس صورت میں لا یزیغ الا ہواء میں بہ کا حرف باء تعدیہ کے لئے ہو گا۔ اس کی زبان سے اور زبانیں نہیں ملتیں، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم باعتبار الفاظ کے بھی فصاحت بلاغت کا وہ نقطہ عروج ہے کہ دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی فصیح و بلیغ عبارت قرآن کی آیات کا مقابلہ نہیں کر سکتی یا اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت مومنین کی زبانوں پر دشوار و مشکل نہیں ہوتی اگرچہ ان کی زبان عربی نہ بھی ہو کیونکہ قرآن کی تلاوت اور اس کی آیات کی قرأت دلوں پر کیف و انبساط کی وہ فضا طاری کر دیتی ہے کہ زبان عربی سے نآشنا ہونے کے باوجود الفاظ قرآنی ادائیگی میں ذرا بھی ثقل محسوس نہیں کرتی۔ آیت (ولقد یسرنا القرآن للذکر) ۔ اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا۔ علماء اس سے سیر نہیں ہوتے ، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے علوم و معارف اتنے وسیع اور ہمہ گیر ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی اس کے تمام علوم کا احاطہ نہیں کر سکتا اور نہ اس کے نکات و حقائق کا اس انداز سے ادراک کر سکتا ہے کہ اس کی طلب تحقیق و جستجو کسی مرحلہ پر پہنچ کر رک جائے اور اس کا ادراک سیر ہو جائے جیسا کہ جب کوئی شخص کھانے سے سیر ہو جاتا ہے تو اس کی طلب رک جاتی ہے اور خواہش مزید قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے اس کے برخلاف جب علماء قرآن حقائق و معارف میں سے کسی مفہوم پر مطلع ہو جاتے ہیں تو ان کا اشتیاق اور بڑھ جاتا ہے اور ان کی خواہش تلاش و جستجو اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ حاصل شدہ مفہوم سے بھی زیادہ کوئی بات معلوم ہو جائے اسی طرح اس طلب، خواہش اور تلاش و جستجو کی کوئی حد قانع نہیں ہوتی۔ پرانا نہیں ہوتا، کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو بار بار پڑھنے اور کثرت تلاوت کی وجہ سے قرأت قرآن اور اس میں مذکور احوال و احکام سننے کی لذت اور اس کے کیف میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ کوئی شخص جب بھی قرآن پڑھتا ہے یا اس کی قرأت سنتا ہے تو ہر مرتبہ اسے پہلے کے مقابلہ میں زیادہ حلاوت وکیف محسوس ہوتا ہے خواہ اس کے معنی و مفہوم کو سمجھے یا نہ سمجھے۔
[سنن أبي داود:2479] حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا " جو شخص جنگلی (دیہات ) میں رہتا ہے وہ جاہل ہوتا ہے جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے وہ غافل ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کے پاس آتا جاتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
(احمد، ترمذی، نسائی )
اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ " جو شخص بادشاہ کی ملازمت میں رہتا ہے (یعنی اس کے ہاں ہر وقت حاضر باش و حاشیہ نشین اور مددگار رہتا ہے وہ فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے اور جو شخص بادشاہ کا جتنا زیادہ قرب چاہتا ہے اتنا ہی اللہ سے دور ہو جاتا ہے "۔ تشریح : جو شخص جنگل (دیہات ) میں رہتا ہے الخ " سے دیہات میں رہنے والوں کی ہتک وتضحیک مراد نہیں ہے اور نہ ان کو کمتر بنانا مقصود ہے بلکہ یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ دیہات وگاؤں میں رہنے والے لوگوں کو چونکہ علماء وصلحاء اور اولیاء اللہ کی صحبت میسر نہیں ہوتی اس لئے ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں اور ان میں علم و معرفت عقل ودانش اور فہم وذکاوت کی روشنی پیدا نہیں ہوتی ۔ " جو شخص شکار کے پیچھے پڑا رہتا ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ لہوولعب اور حصول لذت وخوشی کی خاطر ہر وقت شکار کی دھن میں رہتا ہے وہ طاعات وعبادت اور جمعہ اور جماعت نماز کے التزام سے غافل ہو جاتا ہے نیز اس میں شفقت ومحبت اور نرم خوئی کی صفات ختم ہو جاتی ہیں، واضح رہے کہ اس ارشاد کے ذریعہ ان لوگوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے جو شکار کو عادت بنا لیتے ہیں اور حلال رزق حاصل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ محض تفریح اور وقت گزاری کے لئے اپنے اوقات کا اکثر حصہ اس میں مصروف رکھتے ہیں ورنہ تو جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے مطلق شکار کے مباح وحلال ہونے میں شبہ نہیں ہے اور بعض صحابہ نے شکار کیا ہے البتہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ آپ نے خود بہ نفس نفیس کبھی شکار کرنے سے منع نہیں کیا ہے ۔ حدیث کے آخر میں بادشاہ وحاکم کی حاشیہ نشینی اور دربار حکومت میں حاضر باشی کی خرابی کو واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص بغیر کسی ضرورت وحاجت کے بادشاہ وحاکم کی چوکھٹ پر گیا وہ فتنہ میں مبتلا ہوگیا کیونکہ اگر وہ بادشاہ حاکم کے ان افعال واعمال کی موافقت وحمایت کرے گا جو خلاف شرع ہوں تو اس کا دین خطرہ میں پڑے گا اور اگر ان کی مخالفت کرے گا تو اپنی دنیا خراب کرے گا مظہر کہتے ہیں کہ جو شخص بادشاہ وحاکم کے دربار میں حاضر ہوا اور وہاں مداہنت اختیار کی (یعنی ان کے خلاف شرع امور پر ان کو ٹوکا نہیں ) تو اس نے فتنہ میں اپنے آپ کو مبتلا کیا (یعنی اپنا دین خطرے میں ڈالا ) اور اگر اس نے مداہنت اختیار نہیں کی بلکہ ان کو نصیحت کی اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا تو اس صورت میں دربار حکومت میں اس کی حاضری جہاد سے بھی افضل ہوگی۔ دہلوی نے مسند فردوس میں حضرت علی ؓ سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ : حدیث (من ازداد علما ولم یزدد فی الدنیا زہدا لم یزدد من اللہ الا بعد ا ) ٫٫جس شخص نے اپنا علم تو زیادہ کیا لیکن دنیا کے (مال ومتاع ) میں بے رغبتی کو زیادہ نہیں کیا تو اس نے اللہ سے دوری کو زیادہ کیا ۔" =============================
دین و امت کو فتنہ سے بچانے کو صحابہ کی جدوجہد:
مانعین زکوۃ سے حضرت ابوبکرؓ کا اقدام :
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا اور آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ قرار پائے تو اہل عرب میں جنہیں کافر ہو گئے یعنی زکوۃ کے منکر ہو گئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا حضرت عمر فاروق ؓ نے یہ فیصلہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے عرض کیا کہ آپ لوگوں یعنی اہل ایمان سے کیونکہ جنگ کریں گے۔ جب کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں (یعنی اسلام لے آئیں) لہٰذا جس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا یعنی اسلام قبول کر لیا اس نے مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کر لیا سوائے اسلام کے حق اور اس کے باطن کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم میں اس شخص سے ضرور جنگ کروں جو نماز اور روزہ کے درمیان فرق کرے کیونکہ جس طرح جان کا حق نماز ہے اسی طرح بلاشبہ مال کا حق زکوۃ ہے اور اللہ کی قسم اگر وہ لوگ جو منکر زکوۃ ہو رہے ہیں مجھے بکری کا بچہ بھی نہ دیں گے جو وہ رسول کریم ﷺ کو دیتے تھے تو میں ان کے اس انکار کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا۔ حضرت عمر ؓ یہ سن کر کہنے لگے اللہ کی قسم اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کہ میں نے جان لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنگ کرنے کے لئے الہام کے ذریعہ حضرت ابوبکر ؓ کا دل کھول دیا ہے یعنی پر یقین کر دیا ہے لہٰذا مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہی یعنی منکرین زکوۃ سے جنگ ہی حق اور درست ہے۔ تشریح جب نبی کریم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ اول قرار پائے تو کچھ نئے فتنوں نے سر ابھارنا چاہا۔ اس بارے میں ہم نے دسویں قسط میں تذکرہ صدیق کے تحت کچھ روشنی ڈالی تھی اور وہاں ان فتنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے خصوصیت سے فتنہ ارتداد کا ذکر کیا تھا جس کے متلعق بتایا تھا کہ اس عظیم فتنہ کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کتنی جرات اور تدبر کے ساتھ ختم کیا اور وہ موت کے گھاٹ اتر گیا۔ مذکورہ بالا حدیث میں اسی قسم کے ایک اور فتنہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی صورت یہ ہوئی کہ کچھ قبائل مثلا غطفان اور بنی سلیم وغیرہ نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اس طرح انہوں نے اسلام کے اس اہم اور بنیادی فریضہ کا انکار کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ کسی فریضہ پر عمل نہ کرنا اور بات ہے مگر اس فریضہ کا سرے سے انکار ہی کر دینا ایک دوسرے معنی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ منکرین زکوۃ کے بارے میں کفر حقیقی معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے ویسے اس لفظ کے بارے میں تفصیل یہ کی جاتی ہے کہ یا تو ان لوگوں کے بارے میں لفظ " کفر" (وہ کافر ہو گئے) حقیقی معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے کیونکہ زکوۃ کی فرضیت قطعی ہے اور فرضیت زکوۃ سے انکار کفر ہے یا یہ کہ ان لوگوں کو کافر اس لئے کہا گیا کہ انہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا لہٰذاان کے اس سخت جرم پر بطریق تغلیظ و تشدید کفر کا اطلاق کیا گیا۔ بہرحال جو معنی بھی متعین کئے جائیں ان کا یہ جرم اتنا سخت تھا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے جنگ کرنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت عمر ؓ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو ان لوگوں کے ظاہر احوال کے مطابق کہ وہ لوگ بظاہر تو مسلمان کہلاتے ہی تھے ان کے کفر میں تامل کیا اور حضرت ابوبکر ؓ کے اس فیصلہ پر اعتراض کیا مگر جب حضرت ابوبکر ؓ نے انہیں حقیقت حال بتائی تو نہ صرف یہ کہ وہ بھی حضرت ابوبکر ؓ کے فیصلے کے ہمنوا ہو گئے بلکہ انہیں یقین کامل بھی ہو گیا کہ حضرت ابوبکر ؓ کی فراست ایمانی اور ان کے تدبر نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ دوسرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم حتی کہ حضرت علی ؓ نے بھی حضرت ابوبکر ؓ کو جنگ کرنے سے منع کی اور کہا کہ عہد خلافت کا ابتدائی دور ہے مخالف بہت زیادہ ہیں ایسا نہ ہو کہ فتنہ و فساد پھوٹ پڑے اور اسلام کو کسی طرح نقصان پہنچ جائے اس لئے اس معاملے میں ابھی توقف کرنا چاہئے مگر حضرت ابوبکر ؓ نے نہایت جرات اور بہادری کے ساتھ انہیں یہ جواب دیا کہ اگر اس معاملے میں تمام لوگ ایک طرف ہو جائیں اور میں تنہا رہ جاؤں تو پھر بھی اپنے فیصلے میں کوئی لچک نہیں دکھاؤں گا اور شعائر دین کی حفاظ اور اسلام کے نظریات و اعمال کے تحفظ کے لئے میں نے جو قدم اٹھایا ہے اس میں لغزش نہیں آئے گی اور میں پوری قوم سے تن تنہا جنگ کروں گا اس سے حضرت ابوبکر ؓ کی اصابت رائے، جرات اور شجاعت و بہادری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی جس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا، میں لاالہ الا اللہ سے مراد پورا کلمہ تو حید یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، ہے کیونکہ اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اسلام قبول کرنے کے لئے صرف لا الہ الا اللہ کہہ لینا ہی معتبر نہیں ہے بلکہ اللہ کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی رسالت کا اقرار بھی ضروری ہے۔ الا بحقہ (سوائے اسلام حق کے) کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس پر دیت لازم ہو گی یا اور کسی قسم کا کوئی حق اس کے ذمے ہو گا تو اس کی ادائیگی بہر صورت ضروری ہو گی اسی طرح قصاص وغیرہ میں اسے قتل کیا جا سکے گا۔ وحسابہ علی اللہ (ا ور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص لاالہ الا اللہ کہہ لے گا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے گا تو ہم اس کے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیں گے اور اس سے جنگ نہیں کریں گے اور نہ ہم اس کے باطن کی تحقیق و تفتیش کریں گے کہ آیا وہ اپنے ایمان و اسلام میں مخلص و صادق ہے یا نہیں؟ بلکہ اس کے باطن کا حال اللہ کے سپرد کر دیں گے اگر وہ صرف ظاہر طور پر مسلمان ہوا ہو گا اور دل سے ایمان نہیں لایا ہو گا جیسا کہ منافقین کا حال ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے آپ اس سے نمٹ لے گا۔ من فرق بین الصلوۃ والزکاۃ (جو شخص نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کرے گا) یعنی نماز کے وجوب کا تو قائل ہو مگر زکوۃ کے وجوب کا منکر ہو یا نماز پڑھتا ہو مگر زکوۃ ادا نہ کرے۔ عناق بکری کے اس بچہ کو کہتے ہیں جو ایک برس سے کم عمر کا ہو۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے ارشاد میں بکری کا بچہ فرض اور واجب حق کے طلب کرنے کا سلسلہ میں بطور مبالغہ فرمایا ہے ۔ یہاں یہ حقیقت پر محمول نہیں ہے کیونکہ نہ تو بکری کا وہ بچہ جو ایک سال سے کم ہو زکوۃ ہی میں لیا جاتا ہے اور نہ بکری کے ایسے بچوں میں زکوۃ ہی واجب ہوتی ہے زکوۃ میں لینے کے لئے ادنیٰ درجہ مسنہ ہے (یعنی وہ بچہ جو ایک سال کا ہو) اگر بچے بکریوں کے ساتھ ہوں گے تو پھر ان میں زکوۃ واجب ہو گی لیکن بہر صورت زکوۃ میں مسنہ ہی دیا جائے گا یہی حکم گائے اور اونٹوں کا ہے کہ زکوۃ کے طور پر بھی مسنہ ہی دیا جائے گا پچھلی قسط میں غالباً بتایا جا چکا ہے کہ بکریوں کا مسنہ تو وہ ہے جس کی عمر ایک سال ہو اور گائے کا مسنہ وہ ہے جس کی عمر دو سال ہو اور اونٹ کا مسنہ وہ ہے جو پانچ سال کا ہو۔ اب آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے جو فرمایا کہ میں ان کے اس انکار کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا، تو ابھی اوپر " کفر" کے بارے میں جو تفصیل بیان کی گئی تھی اسی طرح اس قول کے بارے میں بھی یہ تفصیل ہو گی کہ وہ وجوب زکوۃ کے منکر ہو گئے ہیں تو میں ان کے کفر اور ان کے ارتداد کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا اور اگر وہ منکر زکوۃ تو نہ ہوئے ہوں بلکہ زکوۃ ادا نہ کر رہے ہوں تو پھر ان سے میری جنگ شعائر اسلام کی حفاظت اور اس فتنہ کے سدباب کے لئے ہو گی۔
حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمانؓ، حضرت عثمان غنیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت حضرت عثمان ؓ شام عراق کے آرمینیہ اور آذر بائیجان کی جنگوں کی غرض سے سامان جہاد کی فراہمی اور تیاری میں مصروف تھے حذیفہ کی قرأت کے بارے میں لوگوں کے اختلاف نے اضطراب میں اور خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ لوگ بے محابا آپس میں ایک دوسرے کی قرأت کا انکار کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان ؓ سے عرض کیا کہ امیرالمومنین اس امت کے بارہ میں تدارک کی کوئی راہ نکالئے قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کلام اللہ میں اختلاف کرنے لگیں۔ حضرت عثمان ؓ نے ان کی بات سن کر حضرت حفصہ ؓ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ وہ صحیفے جو حضرت ابوبکر نے جمع کئے تھے ہمارے پاس بھیج دیجئے ہم ان کو نقل کرا کر یہ مصاحف آپ کے پاس بھیج دیں گے حضرت حفصہ ؓ نے وہ تمام صحیفے حضرت عثمان ؓ کے پاس بھیج دیئے حضرت عثمان ؓ نے انصار میں سے زید بن ثابت ؓ کو اور قریش میں عبداللہ بن زبیرؓ، سعید بن عاسؓ اور عبداللہ بن حارث بن ہشامؓ کو ان صحیفوں کو نقل کرنے پر مامور کیا چنانچہ ان سب ان صحیفوں کو مصاحف میں نقل کیا حضرت عثمان ؓ نے قریش کے تینوں حضرات سے فرمایا کہ اگر قرآن کے لغات میں کسی جگہ تم میں اور زید بن ثابت ؓ میں اختلاف ہو جائے تو وہاں لغت قریش کے مطابق لکھو کیونکہ کلام اللہ لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا ہے چنانچہ ان سب نے اس پر عمل کیا اور جب مصاحف میں صحیفے نقل کئے جا چکے تو حضرت عثمان ؓ نے ان صحیفوں کو تو حضرت حفصہ ؓ کے پاس بھیج دیا اور ان مصاحف میں جو نقل کئے تھے ایک ایک مصحف (اسلامی مملکت میں ) ہر جگہ بھیج دیا اس کے ساتھ ہی یہ حکم جاری فرمایا کہ ان مصاحف کے علاوہ ہر اس مصحف یا صحیفے کو جلا دیا جائے جس میں قرآن لکھا ہوا ہے۔ حدیث کے ایک راوی حضرت ابن شہاب ؓ فرماتے ہیں کہ زید بن ثابت ؓ کے صاحبزادے خارجہ نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنے والد حضرت زید بن ثابت ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس وقت کہ ہم (یعنی میں اور دونوں قریشی صحابہ سعید بن عاص اور عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ) قرآن کریم (مصحف عثمانی میں) نقل کر رہے تھے مجھے سورت احزاب کی ایک آیت نہیں مل رہی تھی ۔ حالانکہ میں رسول کریم ﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا۔ چنانچہ تلاش وجستجو کے بعد مجھے یہ آیت حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری ؓ کے پاس سے لکھی ہوئی ملی۔ اور وہ آیت یہ ہے ۔ (مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ) 33۔ الاحزاب : 23)۔ پھر میں نے یہ آیت مصحف میں اس کی سورت یعنی سورت احزاب کے ساتھ ملا دی۔
(بخاری)
تشریح:
کرمانی رحمہ اللہ نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ لفظ یغازی معنی کے اعتبار سے یغزی کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے گویا اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ : کان عثمان یجہز اہل الشام واہل العراق لغزوۃ ہاتین الناحیتین وفتحہما۔ حضرت عثمان ؓ ان دنوں اہل شام و اہل عراق کے لئے ان دونوں ملکوں کی جنگ اور ان کی فتح کی غرض سے سامان جہاد کی فراہمی میں مصروف تھے۔ لہٰذا حدیث میں اس لفظ کا ترجمہ بھی اسی وضاحت کے مطابق کیا گیا ہے ۔ نیز کرمانی نے یہ بھی لکھا ہے کہ آرمینیہ نواح روم (بیز نطین) میں ایک علاقہ کا نام تھا اور آذربائیجان تبریز کے علاقوں میں سے ایک علاقہ تھا۔ ملا علی قاری اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے " کان" کا اسم اور " یغازی" فاعل حذیفہ کو لکھا ہے نیز ملا علی قاری نے قاموس کے حوالہ سے بھی لکھا ہے کہ آرمینیہ اور آذربائیجان کا ایک علاقہ تھا لہٰذا اس طرح حدیث میں آذربائیجان تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کلام اللہ میں اختلاف کرنے لگیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہود و نصاریٰ نے توریت و انجیل میں تغیر تبدل کیا اور اس طرح اپنی خواہشات کے مطابق کلام اللہ میں کمی و زیادتی کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان بھی ایسا ہی کرنے لگیں ۔ اور وہ اس فتنہ میں مبتلا ہو جائیں اس لئے اس فتنہ کے برپا ہونے سے پہلے ہی آپ کچھ تدبیر کیجئے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ ؓ نے حضرت عثمان ؓ کے سامنے اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا تو حضرت عثمان ؓ نے تو اس اہم مسئلہ پر غور کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا جن کی تعداد اس وقت پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ حضرت عثمان ؓ نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن پڑھنے والوں میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے سے یہ کہتے ہیں کہ میری قرأت تمہاری قرأت سے بہتر ہے۔ یعنی وہ ایک دوسرے کی قرأت سے اختلاف کرتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا کفر کے بالکل قریب ہے! لوگوں نے عرض کیا کہ پھر آپ کی کیا رائے ہے اور اس کے سدباب کے لئے آپ کیا چیز مناسب سمجھتے ہیں؟ حضرت عثمان ؓ نے کہا کہ میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ تمام لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دوں تاکہ کوئی اختلاف ہی پیدا نہ ہو، لوگوں نے کہا کہ جس چیز کو آپ مناسب سمجھتے ہیں وہ بہت بہتر ہے اس کے بعد حضرت عثمان ؓ نے یہ ارادہ کیا کہ لوگوں کو ایک مصحفہ پر جمع کریں گے۔ چنانچہ حدیث میں فارسل عثمان الخ (حضرت عثمان ؓ نے حضرت حفصہ ؓ کے پاس پیغام بھیجا) سے اسی بات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کلام اللہ لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا ہے یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ اصل میں تو قرآن کریم لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا تھا۔ پھر آنحضرت ﷺ کی درخواست پر اس بات میں وسعت و فراخی عطا فرمائی گئی یعنی یہ اجازت دے دی گئی کہ ہر شخص اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکتا ہے۔ اب حضرت عثمان ؓ نے جب یہ دیکھا کہ یہ اختلاف لغت امت میں ایک زبردست انتشار اور دین میں ایک بڑے فتنہ کا باعث ہو رہا ہے تو انہوں نے حکم دیا کہ لغت قریش کے علاوہ اور تمام لغات منسوخ کر دی جائیں اور سب لوگ قرآن کریم لغت قریش کے مطابق پڑھیں چنانچہ حدیث میں مذکور حضرت عثمان ؓ کے الفاظ فاکتبوا بلسان قریش کا یہی مطلب ہے۔ سخاوی نے مصحف عثمانی میں قرآن کریم نقل کرتے وقت مذکورہ ناقلین کے درمیان واقع ہونے والے کچھ اختلافات کو بیان بھی کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک موقع پر لفظ " تابوت" کے بارہ میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ حضرت زید ؓ نے تو کہا کہ اسے " التابوہ" لکھا جائے مگر دوسرے حضرات کا کہنا تھا کہ التابوت لکھنا چاہئے ۔ اس کے بعد ان لوگوں نے حضرت عثمان ؓ کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کو " ت" کے ساتھ لکھو یعنی التابوت ہی لکھو۔ کیونکہ لغت قریش میں یہ لفظ یوں ہی ہے۔ اسی طرح اس موقع پر ان لوگوں نے حضرت عثمان ؓ سے لم یتسن کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں " ہ" لکھو ۔ اس مصحف کے علاوہ ہر اس صحیفہ یا مصحف کو جلا دیا جائے الخ۔ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ہر صحیفہ سے مراد تو وہ صحیفے ہیں۔ جو حضرت حفصہ ؓ کے پاس تھے اور مصحف سے مراد وہ صحیفے ہیں جو دیگر لوگوں نے جمع کئے تھے اور وہ ان کے پاس تھے تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ اس جملہ فی کل صحیفۃ او مصحف میں لفظ" او" راوی کے شک کے اظہار کے لئے ہو۔ حدیث کے ظاہری مفہوم میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حفصہ ؓ کے پاس جو صحیفے تھے انہیں حضرت عثمان ؓ نے ایفاء وعدہ کے پیش نظر حضرت حفصہ ؓ کے پاس واپس بھیج دیا تھا مگر پھر انہیں بھی دوبارہ حاصل کر کے جلا ڈالا تھا۔ لیکن سخاوی نے اس بارے میں تفصیل لکھی ہے کہ حضرت عثمان ؓ جب مصحف عثمانی کی تکمیل سے فارغ ہوئے تو حضرت حفصہ ؓ کے پاس ان کے صحیفے واپس بھجوا دئیے ان صحیفوں اور اپنے مصحف کے علاوہ بقیہ تمام صحیفے انہوں نے نذر آتش کرا دئیے چنانچہ وہ صحیفے حضرت حفصہ ؓ کے پاس رہے جب مروان مدینہ کا حاکم ہوا تو اس نے وہ صحیفے جلانے کے لئے حضرت حفصہ ؓ سے منگوا بھیجے مگر انہوں نے دینے سے انکار کر دیا ۔ حضرت حفصہ ؓ کے انتقال کے بعد مروان نے وہ صحیفے ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے منگا کر اس خوف سے جلا دئیے کہ یہ صحیفے اگر کبھی باہر آ گئے اور لوگوں نے دیکھا تو پھر اختلاف کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ حضرت عثمان ؓ نے جو مصحف تیار کر کے اطراف عالم میں بھیجے تھے ان کی تعداد کے بارہ میں مختلف اقوال منقول ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ ان مصاحف کی تعداد پانچ تھی۔ لیکن ابوداؤد رحمہ اللہ تعالی علیہ کہ میں نے ابوحاتم سجستانی سے سنا کہ ان کی تعداد سات تھی۔ ان میں سے ایک مکہ بھیجا گیا (ایک شام ایک یمن ایک بحرین ایک بصرہ ایک کوفہ اور ایک مدینہ میں رکھا گیا۔
مصحف کے بوسیدہ اوراق کا مسئلہ:
اس بارہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ مصحف(قرآن کریم) کے ان پرانے اور بوسیدہ اوراق کا کیا جائے جن سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکتا ہو یعنی ان میں پڑھنا اور تلاوت کرنا ممکن نہ رہا۔ آیا انہیں جلا دینا اولی ہے یا دھو ڈالنا۔ چنانچہ بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ ان اوراق کو جلا دینا بہتر ہے کیونکہ جلا دینے کی صورت میں کلام اللہ کی ذلت وبے حرمتی کی کسی بھی صورت کے واقع ہونے کا مکان نہیں رہتا۔ بخلاف دھونے کہ اس کا دھوون زمین پر بہتا ہے اور پیروں کے نیچے پڑتا ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ دھونا اولیٰ ہے اور اس کا دھوون پاک جگہ میں ڈالا جائے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ اس کا پانی پی لیا جائے کیونکہ وہ ہر مرض کی دوا اور سینہ کی علتوں کی شفاء ہے۔،
حضرت عثمان کا فعل:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے مصحف عثمانی کے علاوہ وہ بقیہ تمام صحیفوں کو جلا کیوں دیا۔ اس کا سیدھا سادھ سا جواب یہ ہے کہ اگر ان صحیفوں کو جلایا نہ جاتا اور اس طرح باقی رہنے دیا جاتا تو ہو سکتا تھا کہ پھر بعد میں لوگوں کے اختلاف و فتنہ کا باعث بن جاتا؟ لہٰذا حضرت عثمان ؓ نے اس مصلحت کی بنا پر کہ اختلاف باقی نہ رہے ان صحیفوں کو جلا ڈالا۔ اس طرح حضرت عثمان ؓ کے اس فعل کو مورد طعن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ ان پر طعن تو اس وقت وارد ہو جب کہیں بھی شریعت سے یہ ثابت ہو کہ قرآن کے اوراق کو جلانا بے ادبی ہے۔ جب یہ بات ثابت ہی نہیں ہے اور پھر یہ کہ ان کا یہ فعل مصلحت پر مبنی تھا تو ان پر کوئی الزام وارد ہی نہیں ہو سکتا تھا۔
اول جامع قرآن :
علماء نے لکھا ہے کہ قرآن کا جمع ہونا تین مرتبہ واقع ہوا ہے ایک مرتبہ تو خود سرکار دو عالم ﷺ کے زمانہ میں لیکن اس وقت پورا قرآن کریم ایک مصحف میں مرتب طریقہ سے جمع نہیں ہوا تھا۔ دوسری مرتبہ حضرت ابوبکر ؓ کے سامنے جمع ہوا گویا اول جامع قرآن حضرت ابوبکر صدیق ہی ہیں اللہ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ اور وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے کتاب اللہ کو جمع کیا۔ تیسری مرتبہ حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں جمع ہوا کہ حضرت عثمان ؓ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور ان کے مشورہ سے قرآن کریم مصاحف میں مرتب طور پر لغت قریش کے مطابق نقل کرایا اور پھر وہ مصاحف اطراف وجوانب میں بھیجے یہ بات ٢٥ہجری کی ہے۔ لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عثمان ؓ دونوں کے قرآن جمع کرنے میں فرق یہ ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے تو قرآن کو اس خوف سے جمع کیا کہ کہیں اس کے بغیر قران کا کچھ حصہ جاتا نہ رہے اور حضرت عثمان ؓ نے اس لئے جمع کیا کہ امت میں اختلاف و انتشار کا فتنہ نہ پیدا کیا جائے اس طرح کہا جائے گا کہ حضرت عثمان ؓ نے حقیقت میں قرآن جمع نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے امت کو اختلاف و انتشار کی راہ سے بچا کر ایک لغت (لغت قریش ) پر قائم و جمع کیا ہے۔
فتنوں کے دور میں ایمان کی حفاظت!
اللہ رب العز ت نے ہمیں انسا ن کی صور ت میں وجو د بخشا ، یہ اللہ کا انتہا ئی عظیم انعام ہے ، اللہ کی مخلو ق میں انس و جن ہی مستحقِ جزا ء و سزا ء ہیں؛ اس لیے کہ اللہ نے انسا ن کو قو تِ ارادہ عطا کیا، پھرعقل دی جس سے وہ خبیث وطیب میں تمیز کر سکے ، اپنے نفع و نقصا ن کو سمجھ سکے ، اور اسے ہدایت وضلا لت کے درمیا ن امتحا ن کے لیے چھوڑ دیا ، اس کی ہدایت کے لیے انبیا ء علیہم السلا م کو مبعو ث کیا ،جنہوں نے وحی کی روشنی میں ہدایت کی را ہیں بتائیں ، انبیا ء کے سلسلے کو احمد ِمصطفی محمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی جامع وحی ناز ل کی ، جس میں انسا ن کو اللہ سے مر بو ط رکھنے کی تعلیم ، اللہ کی مر ضیا ت کے مطابق قو ل و فعل کے لیے احکامِ فقہیہ کی تعلیم ، اخلاق کی درستگی کی لیے تزکیہٴ نفس کی تعلیم ، حقو ق العبا دکے لیے معاشر ت کی تعلیم ، اور کسب ِحلا ل کے لیے معیشت کی تعلیم بھی مکمل جامعیت کے ساتھ دی اسی طرح قیامت تک آ نے والے فتنو ں سے مطلع کیا گیا ، غرضیکہ ان تمام امور کی تعلیم دی گئی جو انسا ن کی دنیوی ضرو رت کو بہ حسن و خو بی پورا کر نے کے ساتھ ساتھ آ خر ت کی کا میا بی کی مکمل ضا من ہو ، جب تک امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت پر عمل کرتی رہی دنیوی کا میا بیا ں قدم بو سی کرتی رہیں؛ مگر جہاں امت نے تعلیمات ِنبویہ سے انحر ا ف کیا اور اپنی خواہشا ت کے مطا بق قرآ ن وحدیث کی باطل تاویلا ت کر نی شروع کردی تو اللہ نے اس کو ہرطرح کی دنیو ی پریشا نی میں مبتلا کر دیا ۔ قر آن کریم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا﴿اَنْتُمُ الْأعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُوٴْمِنِیْن﴾”تم ہی سر بلند رہو گے اگر صفتِ ایمان کے ساتھ متصف رہے ۔“
ایک سنگین مسئلہ : مسلما نو ں کو بڑی سنجیدگی کے سا تھ اس مسئلہ پر غو ر وفکر کرنے کی ضرو رت ہے کہ مقصد ِحیات کیا ہے ؟ اور آج کا انسا ن مقصد ِحیا ت کو پس پشت ڈال کر کہاں جا رہا ہے ؟
لو گوں کا عجیب حا ل ہے ، زندگی ایسی گز ار رہے ہیں، جیسے مر نا ہی نہیں ہے۔ اور زندگی کا حساب دینا ہی نہیں ہے ؛ حالا نکہ نہ تو مو ت سے کوئی بچ سکتا ہے اور نہ حساب و کتا ب سے ۔ مغر ب نے ما دّیت یعنی دنیا پر ستی کو لو گو ں کے ذہن ودما غ پر ایسا سوار کردیاہے کہ دینی علم اور فکر آخرت میں رسو خ کے بغیر دنیاداری سے بچنا انتہائی دشو ار ہے ۔ اہل مغر ب نے دنیو ی تعلیم میں لو گوں کو ایسا مشغو ل کیا کہ دینی تعلیم کے لیے فرصت ہی نہیں بچی اور ٹیلی ویژن پر اخبار بینی، اسپور ٹ ، سیر یل، فلم ، ناچ ، گا نے اور مختلف پروگراموں میں ایسا مشغو ل کیا کہ دین کے لیے وقت ہی نہیں بچا ، نہ دین سیکھنے کا وقت ہے اور نہ اس پر عمل کر نے کی فرصت ۔
دنیوی تعلیمی نصاب میں مادی افکار کی زہرافشانی:
دنیوی تعلیمی نصاب میں ما دّی افکار کا زہر اور اس کے ایما ن سو ز اثرا ت ،افکار ، اعتقادات اور تہذیب و ثقا فت کو بھی شامل کیا اور خوا ہ مخواہ یہ ثابت کیا کہ ”مذہب “ انسان کانجی مسئلہ ہے، اجتما عی زندگی میں اس کی کوئی ضر ور ت نہیں؛بلکہ انسا ن کو نجی زندگی میں مذہب سے دور رکھنے کے لیے تعلیم دی کہ اسے اپنی زندگی گزا ر نے میں کسی خدائی پا بند ی کا لحا ظ کر نے کی ضرو ر ت نہیں۔ جو کچھ کر نا ہو سب دنیا ہی کے لیے کر و ، اپنی ہر چیز کو دنیا کی کا میا بی کے لیے قر با ن کردو ، اپنا مال، اپنی جا ن، اپنا وقت ، اپنی اولا د سب کو دنیا داری میں مشغو ل کر دو ۔ اللّٰہُمَّ احْفَظْنَا مِنْہ․
یہو د ونصا ریٰ نے یہ بھی ثابت کر نے کی کو شش کی کہ حقا ئق کا جو بھی ادراک ہو تا ہے وہ محض مشاہد ہ اور تجر بہ سے حا صل ہو تا ہے ۔اس کے لیے کسی ”نبی“ اور ”رسول ‘ ‘ کی ضرو ر ت نہیں، اور اسی خطرناک حر بہ کے ذریعہ عور ت کو آ زا دی دلا ئی ، جو آ زادی نہیں بر با دی کا با عث ہو ئی ۔ آج دنیا کے حالا ت اس پر گواہ ہیں اور جب عو ر ت گھر سے بے پر دہ ہو کر با ہر آ ئی تو زناکاری کے لیے لائسنس جاری ہو نے لگے ، مر د اور عورت کی رضا مندی کو زنا کی فہرست سے خارج کر دیا، جس کے سبب یور پ میں خا ندا نی نظا م جو تبا ہ ہو ا، وہ دنیا والو ں کے سامنے ہے ۔ گویا ”مَنْ حَفَرَ بِئْراً لأخِیْہِ وَقَعَ فِیْہ“ کا یو رپ صحیح مصدا ق ٹھہر ا ،جو اپنے بھا ئی کے لیے کو ا ں کھو دتا ہے خودہی اس میں گر تا ہے ۔
معاشر ے کے معصو م بچو ں کی نصابی کتا بو ں میں جنسیت کے مواد کو شا مل کیا اور العیاذ باللہ انسان کو یہ با و ر کرانے کی کوشش کی کہ یہ دنیا میں محض جنسی ضرو ر ت پور ی کرنے کے لیے ہے، اس طرح انسا ن کو اشرف المخلو قات کے درجہ سے اتا ر کر دیگر حیو ا نو ں کی صف میں لاکھڑ ا کردیا۔
یہ دشمنا نِ ایما ن نہیں؛ بلکہ دشمنا نِ انسا نیت ہیں۔ محض اپنے مفا د کی خا طرمسلما نو ں ہی کو نہیں؛ بلکہ پورے انسا نی معاشر ے کو عا لمگیر پیما نے پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
اپنے ایما ن کی حفا ظت یہ ہمار ا اولین تر جیح ہو نی چا ہیے؛ کیو نکہ اگر ایما ن سے ہا تھ دھو بیٹھے، تو نا قابلِ تلافی نقصان اٹھا نا پڑے گا ،جس پر مو ت کے بعد کف ِافسو س ملنے سے بھی کوئی فا ئدہ نہ ہو گا اور اس کے بعد عذابِ جہنم سے خلا صی کی بھی کوئی صور ت نہیں ہو گی، جیسا کہ قر آ ن کریم نے جابجا بیان کیا ہے ۔لہٰذ ا اس مسئلہ کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے مند رجہ ذیل ہدا یا ت پر عمل کیا جائے۔
(۱) علما ء ربا نین کی تحر یرو ں، تقریروں اور ان کی مجالس سے فتنہ کو جا نا جا ئے اور اس کے انجام پر نظر رکھی جا ئے اور اس سے بچنے کی مکمل تدا بیر اختیا ر کی جائے ۔مثلا ً ”قیا مت کی نشا نیاں“ (عمرا ن اشرف عثما نی ) ”عالمی یہودس تنظیمیں “ مفتی ابولبابہ صاحب دامت برکاتہم۔
(۲) دعاء کا اہتمام کیا جائے اور رو رو کر اللہ سے مانگا جائے۔
(۳) اسلامی فر ائض کا خا ص اہتمام کیا جائے مثلا ً نما ز ، رو ز ہ، حج ، زکوٰة اور ہر حالت میں ان فرائض کو ادا کرنے کی انتھک کوشش کی جا ئے ۔
(۴) مقصد ِحیا ت” اللہ کی عبا دت اورا س کی رضا مندی کا حصو ل“ ہر حالت میں پیش نظر رکھا جا ئے ۔ اور اخلا ص کے ساتھ اس پر عمل کر نے کی کوشش کی جا ئے جس سے اللہ راضی ہو تے ہیں، اورہراس قو ل و عمل سے بچاجائے ،جس سے اللہ نا را ض ہو تے ہوں ۔
(۵) آخرت کی فکر اپنے اندر پیدا کی جائے اور اس کے لیے صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اورایسی کتا بیں پڑھی جائیں، اور گھرمیں اس کی تعلیم کی جائے جو فکر آ خر ت پید ا کر تی ہوں ۔
(۶) اسلا م کے بار ے میں ادھو ری معلو ما ت رکھنے والو ں سے بچا جائے۔
(۷) دینی تعلیم حا صل کر نے کا نظا م بنا یا جا ئے، ہمار ی تمام پریشا نیو ں کا حل دینی تعلیم کے سیکھنے اور اس پر عمل کر نے میں ہے ، ہمارے بچے ، بڑے، عو رتیں ، جوا ن؛ سب کو خو ب اچھی طر ح اسلا می عقا ئد سے واقف ہو نا چا ہیے ، نما ز ، رو زہ ، زکوٰة اور حج کے احکام ہر ایک کے لیے ضروری ہیں، اور تا جر کے لیے تجا رت کے احکا م، جس کا جو پیشہ ہو اس پیشہ کے احکا م سے واقف ہو نا فر ض ہے ۔ یا تو صحیح العقیدہ علما ء سے براہِ راست سیکھاجائے یا گھر میں ا ن کی کتا بو ں کی تعلیم کی جائے، مثلاً اسلا م کی بنیا دی تعلیما ت (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھا نوی)، تحفة المسلمین (مو لا نا عاشق الٰہی میرٹھی )، حیاةالمسلمین ، بہشتی زیو ر (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھانوی)، دینی تعلیم کا رسالہ ، تعلیمات ِاسلام(مفتی کفا یة اللہ ) ، اسلا می عقیدے (مولانا عبد الحق ) ، وغیرہ مگر علما ء سے براہ ِراست سیکھنا زیا دہ بہتر ہے ۔
(۸) صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اور ان کے سا منے اپنے باطنی احو ال رکھ کر علا ج کروا یا جائے اور تز کیہٴ نفس کی فکر کی جائے ، اس سے متعلق کتا بیں پڑھی جا ئیں ۔
(۹) اپنے بچو ں کی دینی تر بیت کی جائے اور فیشن پر ستی سے دور رکھا جائے ، گھر کا ما حو ل دینی بنا یا جائے ادعیہٴ ماثور ہ کا خود بھی عا دی بنیں اور گھر والو ں کو بھی بنا ئیں ، صبح و شا م کی مسنو ن دعائیں او راذکار کا خاص اہتمام کیا جا ئے ۔
(۱۰) بُر ے لو گو ں اوربری تہذیب سے مکمل پر ہیز کیا جا ئے ۔خاص طور پر ٹیلیویژن ، ویڈیو، میوزک ، ناچ گا نا سے بچا جا ئے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ٹی وی صر ف خبر و ں کے لیے رکھا ہے مگر انھیں یہ سو چنا چاہیے کہ مر نے کے بعد دنیا بھر کی خبر و ں کا سو ال نہیں ہو گا ؛بلکہ خو د آپ کی خبرلی جا ئے گی او ر پھر جزاء وسز ا کا فیصلہ ہو گا ۔
(۱۱) قر آ ن کو پڑھا جائے اس کو سمجھا جا ئے اور اس پر عمل کیا جائے ،جیسا کہ صحابہ نے کیا؛ مگر افسو س کے امت نے قر آ ن کو پس پشت ڈا لدیا نہ اس کی تلا و ت ہوتی ہے نہ اس کو سمجھنے کی سعی اور نہ اس پر عمل ۔ لہٰذا ائمہ مساجد اور علما ء سب سے پہلے اس کو صحت اور تجو ید کے سا تھ پڑھنا سیکھیں ، ائمہ اور علماء بھی فکرمندی سے امت کو قر آ ن کی تعلیم دیں اور جو لو گ قرآ ن فہمی کے اصو ل وقو ا عد سے مکمل واقف ہوں ان سے قرآ ن کو سمجھا جا ئے۔
عو ا م کے لیے عا م فہم تفا سیر یہ ہیں :
(۱)معارف القرآ ن (حضرت مفتی شفیع صاحب )
(۲)ہدایتُ القرآن (حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہ)
(۳) آ سا ن تر جمہ قر آ ن (حضرت مو لا نا مفتی تقی عثما نی زیدمجدہ)
(۴) ترجمہ شیخ الہند مع فوائد عثمانی۔
(۱۲)وقت کی قدر کریں اور ہر وقت ایسا عمل کریں جس سے آخر ت کا فا ئدہ ہو۔
آج انسان کا سب سے بڑ ا مسئلہ وقت کا ضیا ع ہے ، لو گو ں کو بے ہو دہ با تو ں میں مبتلا کرکے دشمنا نِ انسانیت نے بڑ ا ظلم ڈھا یا ہے ، موبائل ، ٹی وی ، انٹر نیٹ ، تفریح گا ہیں وغیرہ کو اتنا عا م کیا جا رہا ہے کہ اللہ کی پنا ہ انسان آ خر ت کی تیا ری سے بے خبر ہو کر ان میں مصر و ف ہے۔
(۱۳) سیرت نبوی کا خاص طور پر مطالعہ کیاجائے آپ … کی سیرت اور زندگی قیا مت تک آنے والو ں کے لیے اسوہ اور نمو نہ ہے۔ اس مو ضو ع پر سب سے عمدہ کتا ب عارف با للہ حضرت مولانا عبد الحئی عارفی رحمة اللہ علیہ کی ”اسوہ ٴرسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم“ہے،(اس کا انگلش میں ترجمہThe Ways Of Holy Prophet Mohammad ہو چکا ہے ) آپ نے اسے سیرتِ نبو ی پر عمل کر نے ہی کے لیے لکھا ہے۔ اس کے علا وہ سیر تِ خا تم الا نبیا ء اور تفصیلی مطالعہ کے لیے سیر ت المصطفیٰ، مولانا ادریس کا ندھلو ی اور سیرت النبی مولانا سید سلیمان ندوی۔
عقل پرستی کا فتنہ
عَالَم تمدن کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جو قومیں سیاسی طور پر غالب ہو جاتی ہیں ، ان کا تمدن انتہائی تیزی کے ساتھ مفتوح قوموں کو مرعوب کرتا ہوا پھیل جاتا ہے، کیوں کہ مفتوح قومیں نفسیاتی طور پر مرعوب ہو کر فاتح قوم کے نظریات، عادات واطوار کو ترقی کا مدار سمجھ لیتی ہیں، مسلمان جب سے اپنے سیاسی مرکز ”خلافت“ سے محروم ہوئے اور یورپ نے دنیا کی قیادت کا علَم اپنے ہاتھ میں لیا ہے ، تب سے مسلمان معاشرہ ان عقل پرست تحریکوں کی زد میں ہے، جو یورپ کی ”نوروحی“ سے محروم ”عقل محض“ کے عمل بردار ہیں، مسلمان معاشرے میں رہنے کی وجہ سے اسلام سے بے زاری کا اعلان کرنے کی سکت تو نہیں رکھتے، لیکن امور دینیہ کے مادی فوائد بتا کر یورپ کے عقلی سانچے میں ڈھالنے کے لیے مصروف کار ہیں ، چناں چہ ان کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ:
”نمازورزش اور ڈسپلن کا ذریعہ ہے، بالخصوص نماز فجر صبح سویرے کاروبار ِزندگی شروع کرنے کا ترغیبی بہانہ ہے، روزے سے معدے کی اصلاح ہوتی ہے اور ایک ماہ کے آرام سے گیارہ ماہ نظام ہاضمہ درست رہتا ہے ، زکوٰة ٹیکس ہے ،جس سے اسلامی سرکار اپنے اخراجات پورا کرتی ہے ،جہاد فقط دفاعی جنگ کا نام ہے حج اہل اسلام کی عالمی کانفرنس ہے ، سیاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ۔( یہ بعینہ وہی نعرہ ہے جو یورپی عوام نے کلیسا کے ظالمانہ نظام کی بغاوت میں بلند کیا تھا ، اس احتجاجی تحریک نے بالآخر پوپ اور کلیسا کو ہمیشہ کے لیے سیاسی جد وجہد سے محروم کر دیا، آج یہی نعرہ مسلمان ممالک میں زور شور سے اٹھایا جارہا ہے، بلکہ بنگلادیش میں مذہبی جماعتوں کی سیاسی جدوجہد پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔) کوئی ان دانش وروں سے پلٹ کر یہ پوچھے کہ اگر نماز ورزش ہے تو مرد وعورت، بچے و بوڑھے کے لیے یکساں کیوں ہے؟ دنیا کا کون سا جیم خانہ ہے جہاں دن میں پانچ بار ورزش کرنے کی ترغیب دی جاتی ہو ؟ پھر اس ورزش کے لیے ، طہارت، وضو کی شرائط چہ معنی دارد؟ معدے کی صحت کے لیے مسلسل ایک مخصوص مہینے میں ہی روزے کیوں؟ ایسے دانش وروں کا ایک اور لطیفہ سنیے۔
حضرت مولانا محمد منظور نعمانی فرماتے ہیں کہ وہ اور ان کے رفیق محترم حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ایک جگہ گئے ہوئے تھے ،کچھ ہی دنوں پہلے ”الفرقان“ کے حج نمبر میں مولانا موصوف کا ایک مضمون(اپنے گھر سے بیت الله تک) نکلا تھا ،واقعہ یہ ہے کہ حج کے موضوع پر الله تعالیٰ نے مولانا سے یہ عجیب وغریب مضمون لکھوایا تھا، عجب تاثیر اور عجب سوز سے بھرا ہوا ہے ، خود میرا حال یہ ہے کہ میں نے بارہا اسے پڑھا، لیکن ہر دفعہ اس نے رلایا، ایک بڑے اچھے تعلیم یافتہ دوست، جن کا دینی مطالعہ بھی اچھا خاصا رہا ہے وہ، ملنے آئے، انہوں نے مولانا کے مضمون کی تعریف کی اور آخر میں کہا:
” لیکن اس میں ایک بڑی کمی رہ گئی ہے کہ حج کے اجتماع کا خاص مقصد اور فائدہ ہے، اس کا آپ نے بالکل ذکر نہیں کیا، میں نے عرض کیا وہ کیا؟ فرمایا دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تیرہویں تاریخ تک منی کے میدان میں سارے حجاج کو ٹھہرنے کا حکم ہے ،اس کا مقصد اور کیا ہو سکتا ہے کہ شہر کے شور وشغب اور ہنگاموں سے بالکل الگ رہ کر اطمینان کے ساتھ وہاں کی پرسکون فضا میں دنیا کے اہم مسائل میں غور کریں۔“
میں نے دریافت کیا جناب حج کر چکے ہیں اور آپ نے منی میں حجاج کے ٹھہرنے کا منظر دیکھا ہے ؟ فرمایا ابھی تو نہیں، الله نصیب فرمائے۔ میں نے عرض کیا جب الله تعالیٰ نصیب فرمائیں گے تو آپ کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ آپ کتنی بڑی غلطی پر تھے؟ حیرت ہے حج کا یہ مقصد سمجھنے والے یا اس قسم کی چیزوں کو حج کا خاص فائدہ بتانے والے اور ان باتوں کو زیادہ اہمیت دینے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس مقصد کا تقاضا تویہ ہے کہ ہر ملک کے خواص اور نمائندے اور اہل الرائے حضرات کو بلایا جاتا یا کم از کم ان کے جمع ہونے پر خاص زور دیا جاتا، حالاں کہ ایسا نہیں، بلکہ ہر اس مسلمان پر حج فرض کیا گیا ہے۔ جو وہاں پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو اور عمر میں صرف ایک دفعہ فرض کیا گیا ہے پھر غور کرنے کی بات ہے کہ احرام، طواف، سعی، قربانی، مکہ سے منی جانا، منی سے عرفات دوڑنا، عرفات سے رات کو مزدلفہ آنا، وہاں سے پھر منی او رمنی سے پھر مکہ بھاگنا اور مکہ سے منی واپس جانا اور پھر ٹھہر کر روزانہ رمی جمار کرنا، آخر دیوانوں کے سے ان اعمال اور اس مجنونانہ دوڑ بھاگ سے اور عالم اسلام کی کانفرنس والے مقصد سے کیا ربط اور جوڑہے؟ (اسلام ص:204)
حقیقت یہ ہے کہ اگر امور دینیہ کو روحانی قالب سے نکال کر خالص مادی تناظر میں دیکھا جائے تو پھر نہ حل ہونے والے سوالات کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔ قربانی ایک عظیم اسلامی شعار ہے، جس کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ خدا کے احکام میں حکمتوں اور مصلحتوں کے درپے نہیں ہونا چاہیے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب بیٹے کی قربانی کا حکم ملا تو انہوں نے پلٹ کر یہ نہیں پوچھا کہ اس میں کون سی حکمت ومصلحت ہے، بلکہ فوراً حکم خداندی پر عمل کرتے ہوئے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی، لیکن عقل پرستوں نے یہاں بھی قربانی کے حقیقی مقصد کے نام سے ایک من گھڑت فائدہ”غربا پروری“ نکال لیا، عید الاضحی کے موقع پر مضمون نگاروں کا ایک پورا قبیلہ ملکی اخبارات کے ذریعے عوام کو یہ ترغیب دیتا نظر آتا ہے کہ” قربانی کا گوشت غریب کے فاقے ختم نہیں کرسکتا، اس لیے قربانی کے بجائے نقدی دے کر اس کے معاش کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے “ نت نئے ذرائع ابلاغ اس فکری کج روی کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ہر اسکرین پرکوئی نام نہاد دانش ور آن لائن ہے اور فکرونظر کی گتھیاں سلجھا رہا ہے، اسلام”تماشہ عوام “بن چکا ہے، ہر شخص حکم خدا میں فائدے پوچھتا پھرتا ہے ، اب تو دینی کتابوں کے نام تک یوں رکھے جارہے ہیں” نماز اور سائنس“ ”وضو اور سائنس۔“ گویااب نجات کا دار مدار ایمانِ سائنس پر ہے، نہ کہ ایمان شرعی پر ، ارباب فتاوی کے نزدیک تو ایسا ایمان عقلی معتبر ہی نہیں ہے ، جو انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے بجائے محض عقلی بنیادوں پر استوار ہو۔
اہل علم کی ذمہ داریاں اس فتنے کی سرکوبی تو درحقیقت یورپ کے قائدانہ علَم کے سرنگوں کرنے میں مضمر ہے، تاہم اس کے سدباب کے لیے اگر علمائے کرام، فقہائے امت، آئمہ عظام، اساتذہ کرام، تزکیہ نفس کے منصب پر فائز صوفیا اور مشائخ عظام، دعوتی، اصلاحی اور تبلیغی کام سے وابستہ افراد اپنے اپنے حلقوں میں توجہ رکھیں تو یہ گمراہی زیادہ پنپ نہیں سکتی، اس تربیتی سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کرائی جائے کہ:
امور دینیہ کے اہتمام کا اصل مقصد معبود حقیقی کی قربت اور رضائے الہی کا حصول ہے، جو صرف آں حضرت ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں سے ہی ہو سکتی ہے۔
امور دینیہ کے مادی فوائد جو محسوس ہوتے ہیں وہ ہر گز مقصود نہیں۔ چوں کہ عوام الناس کی ذہنی سطح، مقصود بالذات، مقصود بالعرض، علّت، سبب، فائدہ، اسرار کا فرق سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے، اس لیے عوامی مجمع میں فقط اتنا ہی بتا دیا جائے کہ خدا کا کوئی حکم بے فائدہ نہیں ہو سکتا، اگرچہ ہمیں اس فائدے کا علم نہ ہو۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں ”علما درحقیقت مُنادی کرنے والے ہیں اور ناقل احکام ہیں، خود موجد احکام نہیں، اس لیے ان سے علتیں پوچھنا حماقت نہیں تو کیا ہے؟ پھر جب آپ نے ایک فن سیکھا نہیں اور آپ اس سے محض ناواقف ہیں تو آپ کو سمجھانا بھی تو ایسا ہی ہو گا جیسے ایک سائیس کو اقلیدس کی اشکال سمجھانے لگیں تو وہ کیا سمجھے گا؟… علما آج کل لوگوں کی رائے پر چلنے لگیں ہیں ،جس سے عوام کی جرات بڑھ گئی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے، علماء کیا نوکر ہیں کہ بے فائدہ دماغ خالی کریں؟ (مجادلات معدلت نمبر8 ،حصہ سوم دعوات عبدیت)
جس علّت کے وجود پر قطعی دلائل نہ ہوں اس کے بیان سے گریز کیا جائے، بالخصوص جب وہ جامع اور مانع نہ ہو، مثلا حرمتِ زنا کا یہ سبب بیان کرنا کہ اس سے اختلاطِ نسب کا اندیشہ رہتا ہے ، درست نہیں، کیوں کہ اگر خاتون حاملہ ہو یا بانجھ پن میں مبتلا ہو تو اختلاطِ نسب کا اندیشہ نہیں رہتا، اسی طرح سود کی حرمت میں یہ علت بیان کرنا کہ یہ انسان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا ایک ہتھکنڈہ ہے ، درست نہیں، کیوں کہ یہ علّت تجارتی سود جو بڑے بڑے تاجر اپنی تجارت کے فروغ کے لیے بینکوں سے قرض اٹھاتے ہیں ان، پر کسی طرح صادق نہیں آتی، اسی طرح خنزیر کی حرمت میں یہ بیان کرنا کہ وہ گندگی کھاتا ہے یا اس کے گوشت میں مضر صحت جراثیم پائے جاتے ہیں، درست نہیں۔ کیوں آج کل انہیں صاف ستھرے فارموں میں پالا جاتا ہے، نیز مضر صحت جراثیم کسی وقت بھی ختم ہو سکتے ہیں اور سائنسی تحقیق بھی بدل سکتی ہے۔ اس لیے ایسی علت ہر گز نہ بیان کی جائے جو جامع اور مانع نہ ہو۔
حکمت واسرار بیان کرنے میں پہلی ترجیح قرآن کریم اور حدیث رسول الله ﷺ کو دی جائے، جہاں جہاں نفس عبارت کے ساتھ اس کی حکمت ومنفعت کا بیان ہوا ہے ، اسے بیان کیا جائے ، مثلاً نماز کے متعلق قرآن کریم میں ہے ۔ ﴿واقم الصلوٰة لذکری﴾․(طہ:14) (اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو۔) نماز یاد خدا کا بہترین ذریعہ ہے۔
دوسرے مقام پر ہے۔﴿ان الصلوٰة تنہی عن الفحشآ والمنکر﴾․( عنکبوت:45)
بے شک نماز بے حیائی او ربرے کاموں سے روکتی ہے ) روزے کے متعلق ارشاد باری تعالی ہے : ﴿ یاٰیھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون﴾․ (البقرة:183)
(اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے امید ہے کہ تم پرہیز گار بن جاؤ گے)۔
زکوٰة کے متعلق ارشاد ہوا ہے :﴿ خذمن اموالھم صدقة تطھرھم وتزکیھم بھا وصل علیھم ان صلوتک سکن لھم﴾․ (التوبة:103)
(اے پیغمبر! ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کر لو، جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردوگے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے اوران کے لیے دعا کرو، یقینا تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے۔ زکوٰة کی حکمت بیان ہوئی کہ یہ مالی فریضہ ہے۔ تطہیر ہے ، تزکیہ ہے ۔
حج کے متعلق ارشاد ہے: ﴿واذن فی الناس بالحج یأتوک رجالاً وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق لیشھدوا منافع لھم ویذکروا اسم الله فی ایام معلومت علی مارزقھم من بھیمة الانعام﴾․(الحج:27)
(اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو ، کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں او ردوردراز کے راستوں سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں جو لمبے سفر میں دبلی ہو گئی ہوں تاکہ وہ ان فوائد کو آنکھوں سے دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر الله کا نام لیں جو الله نے انہیں عطا کیے ہیں۔ )
حدیث شریف میں ہے۔ الله کے گھر کا طواف، صفا ومروة کے درمیان سعی اور کنکریاں مارنا الله کے ذکر کو قائم کرنے کے لیے ہے۔ ( ابوداؤد)
ہدی اور ذبیحہ جانوروں کے متعلق آیا ہے ﴿لن ینال الله لحومھا ولا دماؤ ھا ولکن ینالہ التقوی منکم کذالک سخرھا لکم لتکبرو ا الله علیٰ ماھدکم﴾ (الحج:37)
(الله کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون ، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے، ہم نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دیے ہیں، تاکہ تم اس بات پر الله کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی۔
شراب کے متعلق ارشاد فرمایا: ﴿رجس من عمل الشیٰطن﴾ (مائدہ:9) (یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں ایک دوسرے مقام پر اس کی علت یوں بیان کی گئی: ﴿إنما یرید الشیٰطن ان یوقع بینکم العداوة والبغضآء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر الله وعن الصلوٰة﴾․ (المائدة:91)
(شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے او رتمہیں الله کی یاد او رنماز سے روک دے ) ۔
دیکھیے !اس آیت میں شراب کے نقصان میں یہ بات بیان نہیں کی گئی کہ اس سے عقل میں خلل پڑتا ہے ، کیوں کہ اس صورت میں ایک دو گھونٹ او رمخصوص مقدار میں پینے والے اپنا جواز ڈھونڈ نکالتے۔
فضول خرچی اور اسراف کے متعلق بیان ہوا:﴿ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین وکان الشیٰطن لربہ کفوراً﴾․ (اسراء:26)
(بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے)۔
قتل اولاد پر روک ٹوک کرتے ہوئے بیان فرمایا گیا:﴿ ان قتلھم کان خطاءً کبیراً﴾․ (اسراء:31)
(یقین جانو کہ ان کو قتل کرنا بڑی بھاری غلطی ہے۔) زنا کے قریب جانے سے روکتے ہوئے فرمایا گیا ہے ﴿ انہ کان فاحشة وساء سبیلاً﴾․ (اسراء:32) (وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی او ربے راہ وری ہے۔)
کلام الہٰی کا یہ اعجاز ہے کہ مختصر سا جملہ زنا سے پیدا ہونے والی ہر قسم کی معاشرتی برائیوں کا احاطہ کرتا چلا جاتا ہے۔
یتیموں کے مال کھانے پر فرمایا گیا﴿ انہ کان حوبا کبیراً﴾․ (نساء:2) (بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔) قرآن وحدیث کا یہ سادہ طرز تخاطب حکمتوں کے بیان میں انتہائی مؤثر ہے ۔
معاملات ومعاشرت کے دیگر احکام جن میں اس طرح حکمتوں کا تذکرہ نہیں ہوا ان کے متعلق یہی عقیدہ رکھا جائے کہ خدا اپنے احکام کی حکمتوں او راسرار کو ہماری نظر سے پوشیدہ رکھ کر ہمارا امتحان لیناچاہتا ہے کہ کون عقل کے گھوڑے دوڑا کر اس کے پیچھے سرپٹ دوڑتا چلا جاتا ہے او رکون تسلیم ورضا کے جذبے سے سر شار ہو کہ سر تسلیم ختم کر لیتا ہے اور سراپا نمونہ بن جاتا ہے،آیت قرآن کا ﴿سمعنا واطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر﴾․ ( بقرة:285)
( ہم نے الله اور رسول کے احکام کو توجہ سے سن لیا ہے او رہم خوشی سے ان کی تعمیل کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار! ہم آپ کی مغفرت کے طلب گار ہیں اور آپ ہی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے ۔
اسرار وحِکم اور فتنہ عقل پرستی کی تردید پر مشتمل اہم کتب اہل علم، درس وتدریس سے وابستہ افراد، دعوت وارشاد کے جذبے سے سر شار طلبائے کرام اپنی فکر ونظر میں وسعت پیدا کرنے کے لیے اسرار وحکم کے موضوع پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ کریں، علامہ غزالی رحمہ الله، علامہ خطابی رحمہ الله اور علامہ ابن سلام دمشقی رحمہ الله کی کتابیں اس موضوع پر بڑی اہمیت رکھتی ہیں ، برصغیر کے نام ور عالم، محدث کبیر، علامہ، شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمہ الله نے اس موضوع پرسب سے پہلی مدون ومرتب کتاب ”حجة البالغہ“ تحریر فرمائی ہے، جسے حضرت مولانا محمد منظورنعمانی رحمہ الله تعالیٰ نے آں حضرت ﷺ کا معجزہ قراردیا ہے، جو آپ ﷺ کی وفات کے بعد ظاہر ہوا ہو۔( مقدمہ حجة الله البالغة ص:16) اس کا اردو ترجمہ بمع تشریحات دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری کے ہاتھوں ہو کر چھ جلدوں میں شائع ہو چکا ہے، زمانہ قریب کے ایک طرابلسی عالم دین، فقیہ وادیب حسین بن محمد بن مصطفی رحمہ الله نے ایک رسالہ ”الرسالة الحمیدیة“ کے نام سے تحریر فرمایا، جو ایک عرصے تک پاکستان کے مدارس میں داخل نصاب رہا او راس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے بھی اس موضوع پر دو کتابیں تحریر فرمائی ہیں ، ۱ انتباہات مفیدہ۔۲۔ احکام اسلام عقل کی نظر میں۔ یہ دونوں کتابیں اردو زبان میں ہیں ، پہلی کتاب کا عربی ترجمہ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند کے استاذ ادب مولانا نور عالم خلیل الامینی دامت برکاتہ نے فرمایا، جب کہ پاکستان میں اس کا عربی ترجمہ جامعہ فاروقیہ کراچی کے استاذ حدیث ، معروف محقق اور محدث حضرت مولانا نورالبشر صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا ہے، جو پاکستان کے دینی مدارس میں داخل نصاب ہے، حقیقت یہ ہے کہ حضرت تھانوی رحمہ الله نے یہ دونوں کتابیں تحریرفرماکر یورپ کے عقلی سیلاب کے سامنے بند باندھ دیا ہے الله تعالیٰ عالم اسلام کی طرف سے انہیں بہترین جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
اس کے علاوہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ الله تعالیٰ نے ایک مختصر مگرجامع رسالہ عقل ونقل کے نام سے تحریر فرمایا ہے، جس میں انتہائی اہم اور مفید بحثیں ہیں۔
اس سلسلے کی آخری گزارش یہ ہے کہ صحبت اولیاء کا اہتمام کیا جائے، قیل وقال کے مریضوں کے لیے تویہ نسخہ شفا ہے۔ الله کے برگزیدہ بندوں کی صحبت وہ بھٹی ہے جہاں قلب وفکر کی آلودگیاں جھڑتی ہیں او رعشق الہٰی کا رنگ چڑھتا ہے، خدا کی معرفت کے لیے عشق ومحبت سے زیادہ آسان اور بے خطر راستہ کوئی اور نہیں ہے، عشق آتش نمرود میں بے خطر کو دجاتا ہے اور عقل دربام رہ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمہ الله نے ایک خط میں امام المتکلمین فخر الدین رازی رحمہ الله کو ان کی حمیت دینی کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”عقل مند کو چاہیے کہ وہ وخدا کی جودو کرم کی خوشبوؤں سے فائدہ اٹھاتا رہے، ہمیشہ نظر واستدلال کی قید میں نہ پھنسا رہے، کیوں کہ خدا کی معرفت کے لیے استدلال عقلی کا سہارا لینے والا ہمیشہ شک وشبہ میں رہتا ہے ، حال ہی میں مجھے آپ کے ایک دوست نے آپ کے متعلق بتایا کہ ایک دن اس نے آپ کو روتے ہوئے دیکھا، حاضرین مجلس نے آپ سے اس آہ وزاری کی وجہ دریافت کی تو آپ نے بتایا ”جس مسئلے پر میں عرصہ تیس سال سے اعتقاد جمائے بیٹھا تھا، اس کے خلاف واقعہ ہونے کا عقدہ اب مجھ پر کھلا ہے ، اب میں نئے استدلال پر کب تک اطمینان کر سکتا ہوں ، وہ بھی تو پہلے کی طرح کسی وقت غلط ہو سکتا ہے۔“ یہ تو آپ کا اپنا اقرار ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جو شخص عقل واستدلال سے آگے بڑھ کر وادی عشق میں قدم نہیں رکھتا، اس کے لیے راحت وسکون او راطمینان قلب کی دولت حاصل کرنا ناممکن ہے، بالخصوص خدا کی معرفت تو اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی ، تو پھر میرے بھائی آپ کیوں اس گرداب میں پڑے ہیں ، ریاضات، مجاہدات، مکاشفات او رخلوت کا وہ طریقہ کیوں اختیار نہیں کر لیتے جیسے رسول الله ﷺ نے مشروع فرمایا ہے، جس کے نتیجے میں آپ اس چشمہ معرفت سے فیض یاب ہو سکتے ہیں، جو خدا اپنے محبوب بندوں کی سیرابی کے لیے کھولتا ہے، جس کے متعلق فرمایا گیا﴿اتینٰہ رحمة من عندنا وعلمنہ من لدنا علماً﴾ (الکھف:65) (جس کو ہم نے اپنی خصوصی رحمت سے نوازا تھا اور خاص اپنی طرف سے ایک علم سکھایا تھا)․ (رسائل ابن عربی ص:185)
والدین کی نافرمانی کا فتنہ
12مئی کا دن عالمی یوم ماں (مدرڈے) کے طور پر منایا جاتا ہے، انسانی رشتوں میں سب سے عظیم رشتہ ماں باپ کا ہے، دنیا کے سارے مذاہب ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہیں، شریعتِ اسلامی میں بھی ماں باپ کے حقوق پر کافی زور دیا گیا ہے، قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر خدا کی عبادت کے بعد والدین سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے، ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّاتَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً﴾․(بنی اسرائیل:23) ”اور تمہارے رب کا قطعی حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت اور پرستش کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھے سے اچھا برتاوٴ کرو“۔
اللہ تعالیٰ نے پچھلی قوموں سے بھی اس بات کا عہد لیا تھا کہ وہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کریں، ارشادِ خدا وندی ہے:﴿ وَاِذْاَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِی اِسْرَائِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّااللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً﴾․ (البقرة:83) ”اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے حسنِ سلوک کرو“۔
سورہٴ لقمان میں ماں باپ کا حق بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا گیا کہ اگر بالفرض کسی کے ماں باپ کافر ومشرک ہوں اور اولاد کو بھی کفر وشرک کے لیے مجبور کریں تو اولاد کو چاہیے کہ ان کے کہنے سے کفر وشرک تو نہ کرے، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک اور ان کی خدمت کرتی رہے، چناں چہ ارشاد ہے: ﴿وَاِنْ جَاھَدَاکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ فَلَا تَطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوْفاً﴾․(لقمان:15)
رسول کریم ﷺ نے بھی ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک پر کافی زور دیا ہے، ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک پر جنت کی ضمانت اور ان کے ساتھ بدسلوکی پر جہنم کی وعیدیں سنائی ہیں، چناں چہ ایک شخص نے جب آپ ﷺ سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا حق کتنا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں“ (مشکوٰة:421) مطلب یہ ہے کہ اگر تم ماں باپ کی اطاعت اور خدمت کے ذریعہ ان کو راضی رکھو تو جنت پاوٴ گے، اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذارسانی کر کے انہیں ناراض کرو گے تو پھر تمہارا ٹھکانہ دوزخ میں ہوگا، ایک روایت میں آپ ﷺ نے خداکی رضامندی اور خوش نودی کو والدین کی رضامندی اور خوش نودی سے وابستہ فرمایا، چناں چہ فرمایا: ”رِضَی الرّبِ فِی رِضَا الْوَالِدِ وَسَخْطُ الرَّبِّ فِیْ سَخْطِ الْوَالِدِ“․ (ترمذی، مشکوٰة:419)
”اللہ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔“ بعض روایات میں مخصوص حالات کے پیش نظر ماں باپ کی خدمت کو جہاد سے بھی مقدم قرار دیا گیا، چناں چہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ ہیں؟ اس نے کہا ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر ان کی خدمت اور راحت رسانی میں جدوجہد کرو، یہی تمہارا جہاد ہے ۔(ابوداؤد)
اسی طرح کی ایک اور روایت ہے کہ حضرت جاہمہؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے اور میں آپ سے اس بارے میں مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: کیا تمہاری ماں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں، ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر انہی کے پاس جاوٴ اور انہی کی خدمت میں رہو، ان کے قدموں میں تمہاری جنت ہے۔ (مشکوٰة:421،مسندِاحمد، نسائی)
والدین کی خدمت سے آدمی کس طرح جنت کا حق دار ہوتا ہے، اس کا ایک نمونہ رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دکھایا گیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں، وہیں میں نے کسی کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی تو میں نے دریافت کیا کہ یہ اللہ کا بندہ کون ہے جو یہاں جنت میں قرآن پڑھ رہا ہے؟ تو مجھے بتایاگیا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں، ماں باپ کی خدمت واطاعت شعاری ایسی ہی چیز ہے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ حارثہ بن نعمان اپنی ماں کے بہت ہی خدمت گذار اور اطاعت شعار تھے ۔ (شعب الایمان)
والدین کی اطاعت وخدمت سے نہ صرف یہ کہ آخرت میں سرفراز کیا جائے گا، بلکہ خدمتِ والدین کے دنیوی اثرات بھی ہیں، ماں باپ کی خدمت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی خاص برکتوں سے نوازتا ہے، چناں چہ حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ ماں باپ کی اطاعت وخدمت اور حسن سلوک کی وجہ سے آدمی کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ (کامل ابن عدی) نیز رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے ماں باپ کی خدمت وفرماں برداری کرو، تمہاری اولاد تمہاری فرماں بردار اور خدمت گذار ہوگی۔(معجم اوسط للطبرانی) حتی کے ماں باپ کی خدمت کو بہت سے گناہوں کی معافی کا ذریعہ قرار دیا گیا، چناں چہ ایک شخص رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت! میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے تو کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ ﷺ نے پوچھا: ”تمہاری ماں زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ماں تو نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: تو کیا تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے عرض کیا: ہاں خالہ موجود ہے، آپ انے فرمایا: تو اس کی خدمت اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمہاری توبہ قبول فرمالے گا۔ (ترمذی،مشکوٰة:420)
اسلام میں ماں باپ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ والدین کے انتقال کے بعد بھی بہت سی باتوں کی تاکید کی گئی، شریعتِ اسلامی کی رو سے اولاد پر ماں باپ کے حقوق کا سلسلہ ان کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہوتا، بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے کچھ اور حقوق عائد ہوتے ہیں، حق کا ادا کرتے رہنا سعادت مند اولاد کی ذمہ داری اور اللہ تعالیٰ کی خاص رضا اور رحمت کا وسیلہ ہے، روایات میں اس طرح کے بعض حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے، چناں چہ ابواسید ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، بنی سلمہ میں کے ایک شخص آئے اور انہوں نے دریافت کیا: یارسول اللہ! کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے حقوق بھی ہیں جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہئیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! ان کے لیے خیرورحمت کی دعا کرتے رہنا، ان کے واسطے اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش کی دعا مانگنا، ان کا اگر کوئی عہد معاہدہ کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا، ان کے تعلق سے جو رشتے ہوئے ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام واحترام کرنا۔ (ابوداوٴد2/700، ابن ماجہ) اس روایت میں والدین کے انتقال کے بعد ان کے تین حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کے لیے رحمت ومغفرت کی دعا۔ کسی سے ان کا معاہدہ ہوا ہو اور اس کی تکمیل کیے بغیر انتقال کر گئے ہوں تو اس کی تکمیل۔ان کے رشتہ دار اور دوست واحباب کے ساتھ حسن سلوک اور اکرام کا معاملہ۔
عمر کے ہر مرحلہ میں ماں باپ کی خدمت کرنی چاہیے، لیکن جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں تو اُن کی اطاعت وخدمت میں کوئی کسر باقی نہ رکھنا چاہیے، اس لیے کہ بڑھاپے میں وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں، قرآن مجید میں اس کی خاص تاکید کی گئی ہے، چناں چہ ارشاد ہے: ﴿اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبْرَ اَحَدُھُمَا اَوْکِلَاَھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍ وَّلَاتَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْماً وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا﴾․(بنی اسرائیل:24) ترجمہ:”اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا، ان سے نرمی سے بات کرنا، ان کے لیے عاجزی کے بازو بچھانا اور یوں کہنا میرے رب! اِن پر آپ رحم فرمائیے جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔“
آدمی کے لیے خوش نصیبی کی بات ہے کہ اسے ماں باپ کا بڑھاپا ملے، اس لیے کہ یہ ماں باپ کی خدمت کر کے اللہ کی رضا اور مغفرت حاصل کرنے کا زرّیں موقع ہوتا ہے، ماں باپ کا بڑھاپا پاکر بھی اگر کوئی اپنی مغفرت کا سامان نہ کرے، تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے؟! ایسے ہی بدنصیب کے سلسلہ میں حضور ﷺ نے فرمایا: ہلاک ہو برباد ہو وہ شخص، جو اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے، پھر وہ ان کادل خوش کر کے جنت حاصل نہ کرسکے۔ (مسلم)
والدین میں ماں کا درجہ باپ کے مقابلہ میں زیادہ اس لیے ہے کہ ماں کو اولاد کی پرورش اور ولادت کے دیگر مراحل میں بڑی تکلیفوں سے گذرنا پڑتا ہے، قرآن مجید میں ماں کے ان دشوار گزار مرحلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا: ﴿وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَاناً حَمَلَتْہُ اُمُّہ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھَا﴾․ (الاحقاف :15) ترجمہ:”اور ہم نے انسان کو وصیت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے، اس کی ماں نے اسے تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف سے جنم دیا“۔
ماں کی تکلیفوں کا ذکر قرآن میں ایک سے زائد مقامات پر کیا گیا ہے، رسولِ کریم ﷺ نے بھی ماں کے حق کی زیادتی کی طرف اشارہ فرمایا، چناں چہ ایک شخص نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ مجھ پر خدمت اور حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں کا، تمہاری ماں کا، تمہاری ماں کا، اس کے بعد تمہارے باپ کا، پھر اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں۔(بخاری ومسلم، مشکوٰة:420) ایک طرف والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی اطاعت وفرماں برداری کی اس قدر تاکید ہے، دوسری طرف ہمارے معاشرہ کی وہ صورتِ حال ہے جسے دیکھ کر سرشرم سے جھک جاتا ہے، اسلامی تعلیمات سے دوری کا اثر یہ ہے کہ ماں باپ کی خدمت تو دور رہی، بہت سے بدنصیب نوجوان اپنے والدین پردست درازی میں بھی تامل نہیں کرتے، اب تو اخبارات میں اولاد کے ہاتھوں ماں باپ کے قتل کی خبر بھی آنے لگی ہے، والدین کی حکم عدولی، ان کی مرضی کے خلاف کام، گفتگو کے دوران تندلہجہ اختیار کرنا اب اتنا عام ہوگیا ہے کہ کسی کو حیرت بھی نہیں ہوتی۔نبی ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ قیامت کے قریب ماں باپ کی نافرمانی ہوگی۔ دور ِ حاضر کا یہ بھی ایک خطرناک سماجی فتنہ ہے ۔اس صورتِ حال کے ذمہ دار ایک حد تک خود والدین ہوتے ہیں جنھیں اپنی اولاد کی دینی تربیت کی فکر نہیں ہوتی، ماں باپ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں، ایسی نعمت کہ جس کا کوئی بدل نہیں، دنیا کی بہت سے نعمتیں اگر فوت ہو جائیں، تو دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہیں، لیکن ماں باپ کی نعمت دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتی، اس نعمت کے ذریعہ آدمی اپنی دنیا بھی سنوار سکتا ہے اور آخرت بھی ، اس نعمت کی ناقدری کرنے والا نہ صرف یہ کہ آخرت میں پشیمانی اٹھائے گا، بلکہ اس کی دنیا بھی بے رونق ہو جائے گی۔
فتنوں کا اصل علاج
قرآنِ کریم حق تعالیٰ شانہ کی وہ آخری اور عظیم ترین نعمت ہے جو اس دنیا کو دی گئی ہے‘ قرآنِ کریم ہی وہ قانونِ الٰہی ہے جو انسانوں کو اعلیٰ ترین سطح پر پہنچانے کا ضامن ہے اور جو قوموں کی سربلندی اور حکومتوں کی عزت ومجد کا بہترین ذریعہ ہے‘ دور حاضر کے جتنے بھی فتنے ہیں ان سب کا واحد علاج قرآنی دستور ہے‘ اسلامی ممالک میں آج کل جو فتنے رونما ہو رہے ہیں‘ ان کا اصلی سبب قرآن کریم کی تعلیمات سے انحراف واعراض ہے:
”نسوا اللہ فأنساہم انفسہم اولئک ہم الفاسقون“۔(الحشر:۱۹)
ترجمہ:․․․․”انہوں نے اللہ کو بھلا دیا‘ پھر اللہ نے ان کو اپنی جانوں سے بھلا دیا یہی لوگ ہیں نافرمان“۔ شام ہو یا مصر‘ انڈونیشیا ہو یا افریقہ ان سب میں روز روز کے انقلابات اور بے چینی اور اضطراب کا اصلی سبب یہی ہے کچھ ظاہری اسباب یہی ہیں جن میں روس اور امریکہ کی ریشہ دوانیاں سر فہرست ہیں‘ لیکن ان اسباب میں کوئی تزاحم وتعارض نہیں‘ ظاہر بین ظاہری اسباب کو دیکھتے ہیں اور حقائق بین نگاہیں باطن تک پہنچی ہیں‘ میں سمجھتا ہوں کہ قرآنِ کریم میں سورہٴ حشر کے آخری رکوع میں یہ مضمون بالکل واضح کردیا گیا ہے‘ سورہٴ حشر جس میں یہود کی تباہی وبربادی کی داستان اور ان کا حشر یہ سب کچھ نعمتِ قرآن کی ناشکری اور اس عظیم نظامِ قرآنی سے انکار وجحود کا نتیجہ تھا‘ الغرض سورہٴ حشر کا محور بھی قرآنی دعوت ہے اور یہود کی عبرت انگیز تاریخی داستان پیش کرنے سے مقصد بھی یہی ہے کہ قرآنِ کریم پر عمل نہ کرنے کا انجامِ کار آخر کیا ہوتا ہے‘ اس لئے ابتداءِ سورت میں حق تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس کا بیان ہے اور انتہاء میں اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کمال‘ جمال وجلال کا ذکر ہے‘ تاکہ دعویٰ ودلیل دونوں کا ساتھ ہی ساتھ ذکر ہو:
ترجمہ․”ایک کتاب ہے جو اتاری ہم نے تیری طرف برکت کی تاکہ لوگ اس میں تدبر کریں اور عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں“۔ لفظ ومعنی وحروف ونقوش سب ہی بابرکت ہیں جن کی تفصیلات احادیث میں ہیں تدبرعمل کرنا ہے‘ علمی درجہ میں حکیمانہ حقائق پر غور کرنا ہے‘ ”تذکرہٴ اولی الالباب“ عملی قانون بنانا ہے اور جب تک اسلامی ممالک کا قانون قرآنِ کریم رہا سارے عالم پر ان کا جھنڈا لہراتا رہا اور ایک ہزار برس تک ان کا سکہ چلتا رہا‘ آخر بے عمل وبدعملی کے نتائج سامنے آگئے۔ ”جامع ترمذی“ اور” مسند دارمی“ میں بروایتِ حارث الاعور حضرت علی کی مرفوع حدیث میں ان سب حقائق کا بیان موجود ہے‘ حدیث کا یہ جملہ انتہائی قابل غور ہے:
”من ترکہ من جبار قصمہ اللہ“۔
یعنی اگر کوئی طاقتور حکمران بھی اس قانونِ الٰہی کو ترک کرے گا تو اللہ اس کو ریزہ ریزہ کردے گا۔ انتہائی صدمہ یہ ہے کہ عالمِ اسلام کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان جس میں دنیا کی قیادت کی صلاحیت تھی اور ہے‘ وہ آج قرآنِ حکیم سے دردناک بے اعتنائی کررہی ہے اور افسوس کہ نہ صرف بے اعتنائی ‘ بلکہ اس دور میں قرآنی حقائق کے مسخ کرنے اور تحریف کرنے کا جو منظم وپیہم سلسلہ جاری ہے‘ اس کو نہ صرف یہ کہ برداشت کیا جارہا ہے ‘ بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے‘ ان اٹھارہ سال (۱۹۶۵ء) میں دینِ اسلام کی سربلندی کے لئے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے ‘ بلکہ جہاں تھے‘ اس سے بھی پیچھے ہٹ کر پوری طرح قعرِ مذلت میں جاپڑے‘ پرویز اور پھر اس کے نقشِ قدم پر چلنے والے ڈاکٹر فضل الرحمن ڈائرکٹر ادارہٴ تحقیقاتِ اسلامیہ نے سابق تحریفات کا ریکارڈ توڑدیا‘ ادارہ پر حکومت کا لاکھوں روپیہ سالانہ خرچ ہورہا ہے‘ کیا پاکستان اس لئے بنا تھا کہ برطانوی دورِ استعمار میں جو کام نہ ہو سکا وہ پاکستان پورا کردے‘اناللہ واناالیہ رجعون پاکستان کے موجودہ صدرِ محترم (صدرایوب )سے کچھ توقعات وابستہ ہوگئی تھیں اور خیال تھا کہ جس طرح مملکت کا نظم ونسق پہلے سے بہتر ہوگیا ہے‘ دینی اعتبار سے بھی یہ حکومت گوئے سبقت لے جائے گی اور دینی اعتبار سے بھی ایوبی عہد مبارک ثابت ہوگا‘ فریضہٴ جہاد حق تعالیٰ نے میسر فرمایا اور امت نے اس کی برکات کا بھی معائنہ کیا‘ لیکن ان اثرات کو مٹا دیا گیا‘ ہم بارہا ان حقائق کو واشگاف الفاظ میں بیان کرچکے ہیں‘ لیکن سب کچھ صدا بصحراء ثابت ہوا‘ کوئی نتیجہ ابھی تک ظاہر نہیں ہے‘ اگر ہماری آواز نہیں پہنچتی تو افسوس ہے اور اگر پہنچتی ہے اور پھر اس پر غور نہیں ہوتا تو صد افسوس ‘ نتیجہ دونوں صورتوں میں ظاہر ہے‘ ہماری آرزو وخواہش ہے کہ جس طرح ظاہری اعتبار سے پاکستان عہدِ حاضر میں قابلِ فخر بن گیا ہے کاش! دینی اعتبار سے بھی ایسا ہی ہوتا‘ تاکہ اقوامِ عالم میں ہمارا سر اونچا ہوتا اور ایک معیاری اسلامی حکومت ہوتی لیکن از ماست کہ برماست۔
:
مادیت کا فتنہ اور اس کا علاج:
آج کل دنیا طرح طرح کے فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے‘ ان سب فتنوں میں ایک بنیادی اور بڑا فتنہ ”پیٹ“ کا ہے‘ شکم پروری وتن آسانی زندگی کا اہم ترین مقصدص بن کر رہ گیا ہے‘ ہرشخص کا شوق یہ ہے کہ لقمہٴ تر اس کی لذتِ کام ودہن کا ذریعہ بنے اور یہ فتنہ اتنا عالم گیر ہے کہ بہت کم افراد اس سے بچ سکے ہیں‘ تاجر ہو یا ملازم‘ اسکول کا ٹیچر ہو یا کالج کا پروفیسر‘ دینی درس گاہ کا مدرس ہو یا مسجد کا امام اس آفت میں سبھی مبتلا نظر آتے ہیں‘ ہاں فرقِ مراتب ضرور ہے‘ زہد وقناعت‘ ورع وتقویٰ اور اخلاص وایثار جیسے اخلاق وفضائل اور ملکات کا نام ونشان نہیں ملتا‘ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کا پورا عالم سازو سامان کی فراوانی کے باوجود حرص وآرزو‘ طمع ولالچ اور زرطلبی وشکم پروری کی بھٹی میں جل رہا ہے اور کرب واضطراب ‘ بے چینی وبے اطمینانی اور حیرت وپریشانی کا دھواں ہر چہار سمت پھیلا ہوا ہے۔ دراصل اس قتنہ جہاں سوز کا بنیادی سبب یہی ہے جس کی نشاندہی رحمة اللعالمین انے فرمائی‘ آخرت کا یقین بے حد کمزور اور آخرت کی نعمتوں اور راحتوں کا تصور قریباً ختم ہوچکا ہے‘ مادی نعمتیں اور ان کا تصور اس قدر غالب ہے کہ روحانی قدریں مضمحل ہو چکی ہیں‘ یہی وجہ ہے‘ آج انسانوں کی چھوٹائی بڑائی‘ عزت وذلت اور بلندی وپستی کی پیمائش ”ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم“ کے پیمانے سے نہیں ہوتی‘ بلکہ ”پیٹ اور جیب“ کے پیمانے سے ہوتی ہے‘ مادیت کے اس سیلاب میں پہلے ایمان ویقین رخصت ہوا‘ پھر انسانی اخلاق ملیا میٹ ہوئے‘ پھر اسوہٴ نبوت سے وابستگی کمزور ہوکر اعمالِ صالحہ کی فضا ختم ہوئی‘ پھر معاشرت ومعاملات کی گاڑی لائن سے اتری‘ پھر سیاست وتمدن تباہ ہوا اور اب مادیت کا یہ طوفان انسانیت کو بہیمیت کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے‘ افراتفری اور بے اصولی‘ آوارگی وبے راہ روی اور بے رحمی وشقاوت کا وہ دور دورہ ہے کہ الامان والحفیظ۔ الغرض اس ”پیٹ“ کے فتنے نے ساری دنیا کی کا یا پلٹ کر ڈالی‘ دنیا بھر کے عقلاء ”پیٹ“ کی فتنہ سامانی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں‘ وہ اس فتنہ کے ہولناک نتائج کا تدارک بھی کرنا چاہتے ہیں‘ مگر صدحیف! کہ علاج کے لئے ٹھیک وہی چیز تجویز کی جاتی ہے جو خود سبب مرض ہے ‘ درحقیقت انبیاء کرام علیہم السلام ہی انسانیت کے نباض ہیں اور انہی کا تجویز کردہ علاج اس مریض کے لئے کار گر ہوتا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ ا نے اس ہولناک مرض کی صحیح تشخیص بہت پہلے فرمادی تھی‘ چنانچہ ارشاد فرمایا:
”واللہ لا الفقر اخشی علیکم ولکن اخشی علیکم ان تبسط علیکم الدنیا کما بسطت علی من کان قبلکم فتنافسوہا کما تنافسوہا فتہلککم کما اہلکتہم“۔ (بخاری ومسلم)
ترجمہ:”بخدا! مجھے تم پر فقر کا اندیشہ قطعاً نہیں‘ بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ تم پر دنیا پھیلائی جائے‘ جیساکہ تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی‘ پھر تم پہلوں کی طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو‘ پھر اس نے جیسے ان کو برباد کیا‘ تمہیں بھی برباد کرڈالے“۔ لیجئے یہ تھا وہ نقطہٴ آغاز جس سے انسانیت کا بگاڑ شروع ہوا یعنی دنیا کو نفیس اور قیمتی چیز سمجھنا اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس پر جھپٹنا‘ پھر آپ ا کے تشخیص پر ہی اکتفاء نہیں کیا‘ بلکہ اس کے لئے ایک جامع نسخہٴ شفاء بھی تجویز فرمایا‘ جس کا ایک جزء اعتقادی ہے اور دوسرا عملی۔ اعتقادی جز یہ ہے کہ اس حقیقت کو ہر موقع پر مستحضر رکھا جائے کہ اس دنیا میں ہم چند لمحوں کے مہمان ہیں‘ یہاں کی ہر راحت وآسائش بھی فانی ہے اور ہر تکلیف ومشقت بھی ختم ہونے والی ہے‘ یہاں کے لذائذ وشہوات آخرت کی بیش بہا نعمتوں اور آبد الاباد کی لازوال راحتوں کے مقابلہ میں کالعدم اور ہیچ ہیں‘ قرآنِ کریم اس اعتقاد کے لئے سراپا دعوت ہے اور سینکڑوں جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے‘ سورہٴ الاعلیٰ میں نہایت بلیغ‘ مختصر اور جامع الفاظ میں اس پر متنبہ فرمایا:
” بل تؤثرون الحیاة الدنیا والآخرة خیر وابقی“۔
ترجمہ:․․․”کہ تم آخرت کو اہمیت نہیں دیتے‘ بلکہ دنیا کی زندگی کو اس پر ترجیح دیتے ہو‘ حالانکہ آخرت دنیا سے بدرجہا بہتر اور لازوال ہے“۔ اور عملی حصہ ا س نسخہ کا یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں مشغول ہوا جائے اور بطور پرہیز کے حرام اور مشتبہ چیزوں کو زہر سمجھ کر ان سے کلی پرہیز کیا جائے اور یہاں کے لذائذ وشہوات میں انہماک سے کنارہ کشی کی جائے‘ دنیا کا مال واسباب ‘ زن وفرزند‘ خویش واقرباء اور قبیلہ وبرادری کے سارے قصے زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھ کر صرف بقدرِ ضرورت ہی اختیار کئے جائیں‘ ان میں کسی چیز کو بھی دنیا میں عیش وعشرت اور لذت وتنعم کی زندگی گذارنے کے لئے اختیار نہ کیا جائے‘ نہ یہاں کی عیش کوشی کو زندگی کا مقصد اور موضوع بنایاجائے‘ آنحضرت ا کا ارشاد گرامی ہے:
”ایاک والتنعم‘ فان عباد اللہ لیسوا بالمتنعمین“۔(ابوداؤد)
ترجمہ:․․”عیش وتنعم سے پرہیز کرو‘ کیونکہ اللہ کے بندے عیش پرست نہیں ہوتے“۔
عجیب متضاد طرزِ عمل
تعجب ہے کہ اگر کسی ڈاکٹر کی رائے ہو کہ دودھ ‘ گھی‘ گوشت‘ چاول وغیرہ کا استعمال مضر ہے تو اس کے مشورے اور اشارے سے تمام نعمتیں ترک کی جاسکتی ہیں‘ لیکن خاتم الانبیاء ا کے واضح ارشادات اور وحی آسمانی کے صاف احکام پر ادنیٰ سے ادنیٰ لذت کا ترک کرنا گوارا نہیں ‘ نبی کریم ا اور آپ کی آل واصحاب کی زندگی اور معیارِ زندگی کو اول سے آخر تک دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی نعمتوں سے دل بستگی سراسر جنون ہے: ”صحیح بخاری شریف“ میں حضرت ابوہریرہ کا قصہ مروی ہے کہ کچھ لوگوں پر ان کا گذر ہوا‘ جن کے سامنے بھنا ہوا گوشت رکھا تھا‘ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ کو کھانے کی دعوت دی‘ آپ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ ”محمد ا ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی“ مہینوں پر مہینے گذر جاتے مگر کاشانہٴ نبوت میں نہ رات کو چراغ جلتا نہ دن کو چولہا گرم ہوتا‘ پانی اور کھجور پر گذر بسر ہوتی‘ وہ بھی کبھی میسر آتیں کبھی نہیں‘ تین تین دن کا فاقہ ہوتا‘ کمر سیدھی رکھنے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھے جاتے اور اسی حالت میں جہاد وقتال کے معرکے ہوتے‘ الغرض زہد وقناعت‘ فقر وفاقہ ‘ بلند ہمتی وجفا کشی اور دنیا کی آسائشوں سے بے رغبتی اور نفرت وبیزاری سیرت طیبہ کا طغرائے امتیاز تھی‘ اپنی حالت کا اس پاک زندگی سے مقابلہ کرنے کے بعد ہم میں سے ہرشخص کو شرم آنی چاہئے‘ ہمارے یہاں سارا مسئلہ روٹی اور پیٹ کا ہے اور وہاں یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا‘ ظاہر ہے کہ یہ زندگی بالقصد اختیار کی گئی تھی‘ تاکہ آئندہ نسلوں پر خدا کی حجت پوری ہوجائے‘ ورنہ آپ ا چاہتے تو آپ ا کو منجانب اللہ کیا کچھ نہ دیا جاسکتا؟ مگر دنیا کا یہ ساز وسامان جس کے لئے ہم مر‘کھپ رہے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس قدر حقیر وذلیل ہے کہ وہ اپنے محبوب اور مقرب بندوں کو اس سے آلودہ نہیں کرنا چاہتا‘ بعض انبیاء علیہم السلام کو عظیم الشان سلطنت بھی دی گئی‘ مگر ان کے زہد وقناعت اور دنیا سے بے رغبتی وبیزاری میں فرق نہیں‘ ان کے پاس جو کچھ تھا دوسروں کے لئے تھا‘ اپنے نفس کے لئے کچھ نہ تھا۔ الغرض یہ ہے ”فتنہٴ پیٹ“ کا صحیح علاج جو انبیاء کرام علیہم السلام اور بالخصوص سید کائنات ا نے تجویز فرمایا اور اگر انسان ”پیٹ کی شہوت“ کے فتنہ سے بچ نکلے تو انشاء اللہ شہوتِ فرج“ کے فتنہ سے بھی محفوظ رہے گا کہ یہ خرمستی پیٹ بھرے آدمی کو ہی سوجھتی ہے‘ بھوکا آدمی اس کی آرزو کب کرے گا‘ ان ہی دو شہوتوں سے بچنے کا نام اسلام کی اصطلاح میں ”تقوی“ ہے جس پر بڑی بشارتیں دی گئی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ضعیف مریض کو بقائے حیات کے لئے ہلکی پھلکی معمولی غذا کا مشورہ دیا جاتا ہے اور زبان کے چسکے سے بچنے کی سخت تاکید کی جاتی ہے تاکہ مطلوبہ اعلیٰ صحت نصیب ہو‘ بس یہی حیثیت اسلام کی نظر میں دنیا کی ہے۔
توہین علماء کا فتنہ
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جہاں کتابیں نازل فرمائیں وہیں پیغمبروں کی شکل میں اپنے منتخب بندوں کو بھی مبعوث فرمایا، انسانیت کی راہ نمائی کے لیے صرف کتابوں پر اکتفا نہیں کیا گیا، ہر کتاب کے ساتھ ایک رسول بھی بھیجا گیا، نبوت کی تاریخ میں ایسا بارہا ہوا کہ صرف نبی کی بعثت پر اکتفا کیا گیا اور اس پر کوئی کتاب نازل نہیں کی گئی، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نبی یا رسول کے بغیر صرف کتاب پر اکتفا کیا گیا ہو، یہی وجہ ہے کہ انبیا کی تعداد تو ایک لاکھ سے متجاوز ہے، لیکن مشہور آسمانی کتابیں صرف چار ہیں اور ان کے علاوہ چند صحیفے تھے، جو بعض پیغمبروں پر نازل کیے گئے، اس طرح انبیا کی ایک بڑی تعدادایسی تھی جن پر مستقل کتاب نازل نہیں کی گئی، اللہ تعالیٰ کی اس عمومی سنت سے یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ بشری ہدایت اور اصلاحِ عالم کے لیے آسمانی ہدایت ناموں کے ساتھ خدا کے ان رجالِ خاص کی ضرورت ہے، جو انسانوں کے سامنے ربانی ہدایات کا عملی نمونہ پیش کرسکتے ہوں اور اپنی زندگی کے ذریعہ وحی الٰہی کی تشریح وتوضیح کرسکیں، خود قرآن مجید میں جگہ جگہ اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے: ”اور آپ پر بھی یہ قرآن ہم نے اتارا ہے، تاکہ جو مضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ان کو آپ ان سے ظاہر کردیں اور تاکہ وہ لوگ فکر کیا کریں“ ۔(النحل: 44)
حضرات انبیائے کرام کی تشریح اور عملی نمونے کے بغیر آسمانی کتابوں سے استفادہ ناممکن ہے، ہدایت واصلاح ہی نہیں، بلکہ کسی بھی فن یاعلم کے حصول کا یہی ضابطہ ہوتا ہے، موجودہ دور میں علم وفن اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ ہرفن کی کتابیں دنیا کی تقریباً مشہور زبانوں میں پائی جاتی ہیں، اگر کوئی کسی فن کے حصول کے لیے استاذ کے بغیر صرف کتابوں پر اکتفا کرنا چاہے تو اس کے لیے اس فن کا حصول ممکن نہیں، فن طب کی ہزاروں کتابیں اس وقت بازار میں دست یاب ہیں، اگر کوئی صرف کتابوں کے مطالعہ سے علاج ومعالجہ شروع کرے تو ظاہر ہے کہ وہ قبرستان آباد کرنے لگے گا، جب تک ماہر اطباء کی صحبت میں ایک عرصہ نہیں گذارے گا اور ان سے راہ نمائی حاصل نہیں کرے گا، نہ اسے ڈاکٹری کی ڈگری دی جائے گی اور نہ ہی علاج کی اجازت دی جائے گی، فن طب تو بہت آگے کی چیز ہے، بغیر استاذ کی راہ نمائی کے آدمی معمولی قسم کا پکوان بھی نہیں تیار کرسکتا، کتاب کا مطالعہ کر کے چھوٹی سی ڈش بھی نہیں بنائی جاسکتی۔
دنیا کے کسی حقیر علم یا فن کے حصول کے لیے جب ماہر فن کی راہ نمائی ناگزیر ہے تو بھلا اخروی ہدایت اور مقصدِ حیات کے تعین کا مسئلہ بغیر راہ نما اور معاون کے کیسے حل ہوسکتا ہے؟ انسانی ہدایت کے سلسلہ میں رجال اللہ کی اہمیت کو قرآن مجید میں مختلف انداز سے واضح کیا گیا ہے، قرآن کریم نے رجال اللہ کو ہدایت وگم راہی کی کسوٹی کے طور پر پیش کیا ہے، چناں چہ سورہٴ فاتحہ میں بندوں کو جہاں اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کی ہدایت مانگنے کی تلقین کی گئی ہے، وہیں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ صراطِ مستقیم کونسا راستہ ہے، صراطِ مستقیم کی توضیح کرتے ہوئے کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا گیا، بلکہ رجال اللہ کا حوالہ دیا گیا﴿صِرَاط الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ﴾․ان لوگوں کا راستہ جن پر آپ نے انعام فرمایا۔ ان انعام یافتہ رجال اللہ کی نشان دہی سورہ نساء میں کی گئی ہے، چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے:﴿فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ وَالصَّالِحِیْنَ﴾․(النساء: 69) اور جو شخص اللہ اور او ررسول کا کہا مانے گا تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا اور صدیقین اور شہدا اور صلحا اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں، سورہ فاتحہ کی ان آیات کی تفسیر کے ضمن میں حضرت مفتی محمدشفیع صاحب فرماتے ہیں: ”یہاں ایک بات قابل غور ہے اور اس میں غور کرنے سے ایک بڑے علم کا دروازہ کھلتا ہے، وہ یہ کہ صراطِ مستقیم کی تعیین کے لیے بظاہر صاف بات یہ تھی کہ صراط الرسول یاصراط القرآن فرمادیا جاتا، جو مختصر بھی تھا اور واضح بھی، کیوں کہ پورا قرآن درحقیقت صراطِ مستقیم کی تشریح ہے اور پوری تعلیماتِ رسول ﷺ اس کی تفصیل، لیکن قرآن کی اس مختصر سورت میں اختصار اور وضاحت کے اس پہلو کو چھوڑ کر صراطِ مستقیم کی تعیین کے لیے اللہ تعالیٰ نے مستقل دو آیتوں میں ایجابی اور سلبی پہلووٴں سے صراطِ مستقیم کو اس طرح متعین فرمایا کہ اگر سیدھا راستہ چاہتے ہو تو ان لوگوں کو تلاش کرو اور ان کے طریق کو اختیار کرو، قرآن کریم نے اس جگہ نہ یہ فرمایا کہ قرآن کا راستہ اختیار کرو، کیوں کہ محض کتاب انسانی تربیت کے لیے کافی نہیں اور نہ یہ فرمایا کہ رسول کا طریقہ اختیار کرو، کیوں کہ رسولِ کریم ﷺ کی بقا ہمارے درمیان دائمی نہیں اور آپ ﷺ کے بعد کوئی دوسرا رسول اور نبی نہیں، اس لیے صراطِ مستقیم جن لوگوں کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے ان میں نبیین کے علاوہ ایسے حضرات بھی شامل کردیے گئے جو تاقیامت ان کے لیے موجود رہیں گے،مثلاً صدیقین، شہدا اور صالحین، خلاصہ یہ کہ سیدھا راستہ معلوم کرنے کے لیے حق تعالیٰ نے کچھ رجال اور انسانوں کا پتہ دیا، کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا ۔(معارف القرآن: 1/39)
قرآن کریم نے ایسے معیاری رجال کا تذکرہ انتہائی والہانہ انداز میں بار بار کیا ہے، سورہٴ مریم میں مختلف انبیا کا ذکر کرتے ہوئے حکم دیا گیا کہ انہیں یاد کرو، یہ سلسلہ حضرت زکریا سے شروع ہو کر حضرت ادریس پر ختم ہوتا ہے، چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے: ﴿ذِکْرُ رَحْمَةِ رَبِّکَ عَبْدَہ زَکَرِیَا﴾․ (مریم:4) حضرت مریم کے سلسلہ میں فرمایا گیا: ﴿وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ مَرْیَم﴾ (مریم:16) حضرت یحییٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں فرمایا گیا: ﴿یَایَحْییٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنَاہ الْحُکْمَ صَبِیًّا، وَحَنَاناً مِّنْ لَّدُنَّا وَزَکٰوةً وَکَانَ تَقِیَّا، وَبَرّا بِوَالِدَیْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّاراً عَصِیًّا، وَسَلَامٌ عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا﴾․(مریم: 12۔ 15) حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہوا: ﴿وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّہ کَانَ صِدِیّْقًا نَّبِیًّا﴾(مریم::41) حضرت ادریس پر سلسلہ کو ختم کرتے ہوئے فرمایا گیا:﴿ اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ علیہم مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ آدَمَ﴾․یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا ہے آدم کی اولاد سے نبیوں میں سے۔ سورہٴ انعام میں حضرت ابراہیم، اسحاق، یعقوب، نوح، داوٴد، سلیمان، ایوب ، یوسف، موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، الیاس، اسماعیل، الیسع، یونس اور لوط علیہم السلام جیسے مختلف پیغمبروں اور ان کے آبا واجداد کا ذکر کرنے کے بعد اخیر میں فرمایا گیا: ”اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہْ“․(الانعام:90)یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے، آپ ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے۔
قرآنِ مجید شروع سے اخیر تک رجال اللہ کے تذکرہ سے بھرا ہوا ہے، کتنی سورتیں ایسی ہیں جن میں صرف انبیا کے حالات بیان کیے گئے ہیں، سورہٴ شعراء سورہٴ انبیاء اور سورہٴ یوسف وغیرہ وہ سورتیں ہیں جن میں خالصتاً رجال اللہ کا ذکر ہے، بہت سی سورتوں کو انبیا کے نام سے موسوم کیا گیا، جن میں سورہ یونس، سورہ ابراہیم، سورہ یوسف، قابل ذکر ہیں، رجال اللہ کے ذکر کا اس قدر اہتمام کیا گیا کہ جو رجال، انبیا نہیں ہیں انہیں بھی اہتمام سے یاد کیا گیا، چناں چہ اصحابِ کہف کا تفصیلی واقعہ، اسی طرح حضرت لقمان، حضرت خضر، حضرت مریم علیہم السلام وغیرہم کا والہانہ تذکرہ ملتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے عمل اور ارشادات کے ذریعہ رجالِ خاص کی اہمیت کو واضح فرمایا ہے، چناں چہ آپ ﷺ نے اپنی امت کو جہاں اپنے طریقہ کو لازم کرلینے کی تاکید فرمائی وہیں خلفائے راشدین کے طریقہ کا بھی ذکر فرمایا، چناں چہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:”علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ“․(مشکوٰة شریف:30) ”تم میرے طریقہ کو اورمیرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقہ کو لازم پکڑو، اسے دانتوں سے دبائے رکھو“۔ اسی طرح آپ ﷺ نے اپنی امت کے 73فرقوں میں بٹنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ سب کے سب جہنمی ہیں، سوائے ایک فرقہ کے اور اس جنتی اور حق فرقہ کی نشانی یہ بتائی کہ وہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوگا ”اصحابی کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم“․ (مشکوٰة:554) میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاوٴ گے۔
امت ِ محمدیہ کے لیے ایسے رجال اللہ اور حاملین علم نبوت کی اہمیت ایک دوسرے زاویہ سے بھی ہے اور وہ یوں کہ محمد عربی ﷺ کو خاتم الانبیاء قرار دے کر آپ ﷺ کے بعد نبوت کے سلسلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا، نتیجتاً قیامت تک کے لیے آپ ﷺ ہی کی شریعت نافذ العمل رہے گی اور کتاب وسنت ہی کے ذریعہ قیامت تک کے مسائل کا حل نکالا جائے گا، جب زمانہ کے تغیر کے ساتھ نت نئے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے تو یہ رجالِ خاص اور حاملینِ علوم شریعت ہی امت کی راہ نمائی فرماتے رہیں گے، اس طرح حاملین علوم نبوت ختم نبوت کے بعد ذمہ داریوں کے لحاظ سے نبوت کی جگہ کھڑے رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے علما کو انبیا کا وارث قرار دیا ہے، چناں چہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے: ”العلماءُ ورثة الأنبیاء والأنبیاء، لم یورّثوا دینارا ولادرھماً، إنّما ورّثوا العلم فمن أخذہ أخذ بحظ وافر“․(مشکوٰة:34) علما انبیا کے وارث ہیں اور انبیا نے درہم ودینار کا ورثہ نہیں چھوڑا، بلکہ علم الٰہی کا ورثہ چھوڑا ہے۔ علما کو انبیا کا جانشین قرار دے کر انہیں امت کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا کہ وہ ختم نبوت کے بعد نبیوں کی طرح امت کی راہ نمائی کریں ، قرآن وسنت میں قیامت تک پیدا ہونے والے سارے مسائل کے ہر جزیئے کو بیان نہیں کیا گیا، بلکہ کلی اور اصولی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان اصولی قواعد کے ذریعہ مسائل کا حل نکالنا حاملین علوم شریعت کی ذمہ داری ہے، اس لحاظ سے امت قیامت تک علمائے حق اور حاملینِ علوم نبوت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی، ہردور میں علم نبوت کے تحفظ کے سلسلہ میں علمائے امت کے اس کردار کی طرف رسول اکرم ﷺ نے بارہا اشارہ فرمایا ہے، چناں چہ ایک موقع سے آپ ﷺ نے فرمایا:”یحمل ھذا العلم من کل خلف عدولہ، ینفون عنہ تحریف الغالین، وانتحال المبطلین، وتاویل الجاھلین“․(مشکوٰة شریف:36)
اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی بتادیا کہ جب امت کے درمیان سے علما ایک ایک کر کے اٹھتے چلے جائیں گے تو علما کی قلت کی وجہ سے لوگوں پر دینی لحاظ سے اس کے کیا اثرات پڑیں گے؟ اور کس طرح امت گم راہی کی طرف چلی جائے گی؟ چناں چہ ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے اسے کھینچ لے، بلکہ علم کے اٹھائے جانے کی یہ صورت ہوگی کہ علما اٹھالیے جائیں گے، یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدا بنالیں گے اور ان سے دینی معاملات میں سوال کیا جانے لگے گا اور وہ پیشوا علم کی کمی کی وجہ سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گم راہ کردیں گے۔“ (مشکوٰة)
اس حدیث میں جہاں امت کے درمیان سے علما کے اٹھ جانے کے انتہائی خطرناک نتائج سے آگاہ کیا گیاہے وہیں دَرپردہ یہ پیغام دیا گیاہے کہ امت علما کی جماعت کو غنیمت سمجھے اور ان کی قدر کرے، علمائے امت نے ہردور میں حفاظتِ دین کا فریضہ انجام دیا ہے، صحابہ کے دور میں تمام صحابہ علم وفقہ میں یکساں نہ تھے،مسائل میں چند ہی صحابہسے دوسرے لوگ رجوع ہوتے تھے، تابعین، تبعِ تابعین اور فقہائے کرام کے زمانہ میں بھی علم وفقہ کا کمال سب کو حاصل نہ تھا، علما ہی کی جماعت کی طرف رجوع کیا جاتا تھا، فقہ اسلامی کی شکل میں علما نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے وہ قیامت تک امت کی راہ نمائی کرتا رہے گا، تاریخ کے مختلف ادوار میں نئے نئے فتنوں نے سراٹھائے، دشمنانِ اسلام نے مختلف سازشوں کے ذریعہ مسلمانوں سے دین وایمان کی دولت چھین لینی چاہی، مگر علمائے امت نے ہرفتنہ کا مقابلہ کیا اور امت کے دینی تشخص کی حفاظت کی، ہندوستان ہی کو لیجیے، آزادی کے وقت یہاں کیسے نازک حالات تھے؟ مسلمانوں کے ملی تشخص کو ختم کرنے کے لیے ہرطرح کی کوشش کی گئی، حضرات علماء ہی نے نبی ﷺ کی نیابت اور حقِ وراثت ادا کرتے ہوئے ملت کے تحفظ کا بھرپور سامان کیا، ذرا غور کیجیے! اگر ہندوستان میں علما کی یہ جماعت نہ ہوتی تو آج ہمارا کیا حال ہوتا؟ مسجدوں کو امام نہ ملتے، تحریکوں کو راہ نما نہ ملتے اور باطل افکار کا ہرطرف غلبہ ہوتا، اسلامی تہذیب وتمدن کا صفایا کیا جاچکا ہوتا، علما کی جماعت معمولی اسباب، سادہ زندگی، محدود وسائل اور ہرطرح کی مشکلات ومصائب کا سامنا کرتے ہوئے علم ِدین کی شمع روشن کرتی رہی۔
امتِ مسلمہ ایک ایسی امت ہے جو کسی لمحہ علما سے بے نیاز نہیں رہ سکتی، اس لیے کہ وہ جس دین کی حامل ہے وہ علم کا دین ہے، اسلام پر عمل کرنے کے لیے آدمی کو ہرقدم پر علم کی ضرورت ہوتی ہے، ایک نماز ہی کو لے لیجیے، اس کی ادائیگی کے لیے آدمی کو سیکڑوں مسائل کا جاننا ہوتا ہے، پھر دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی کچھ کم تفصیلات نہیں، معاشرت، معاملات، اخلاقیات، ہرشعبہ میں ایک مسلمان کے لیے اسلامی تعلیمات سے واقفیت ضروری ہے، غور کیجیے کہ مسجد کا احترام اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس میں نماز جیسی عبادت انجام دی جاتی ہے، کعبة اللہ کے احترام کا سبب یہ ہے کہ وہ الله تعالیٰ کا گھر اور اہل اسلام کا قبلہ ہے اور اس سے حج کی عبادت کا تعلق ہے، رمضان قابل قدر اس لیے ہے کہ اس سے روزہ کی عبادت وابستہ ہے، ان تمام محترم چیزوں سے صرف ایک عبادت وابستہ ہے، جب کہ علما کا تعلق تمام عبادات اور دین کے تمام شعبوں سے ہے، پھر کیسے ان کی بے احترامی کی جاسکتی ہے؟!
اس وقت ایک منظم سازش کے ذریعہ علمائے امت پرسے اعتماد ختم کیا جارہا ہے اور امت میں توہین ِعلما کا فتنہ زورپکڑرہا ہے،دشمنانِ اسلام طویل تجربات کے بعد اس نتیجہ کو پہنچے کہ مسلمانوں میں روح پھونکنے والی اصل جماعت علما کی ہے، انہیں کے ذریعہ سارے مسلمانوں میں ایمانی جوش منتقل ہو رہا ہے، اس لیے اب ان کی پوری توجہ اس بات پر ہے کہ عام مسلمان علما سے بدظن ہوجائیں اور ان سے اپنا ناطہ توڑلیں، چناں چہ عالمی سطح پر علما کو بدنام کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، کہیں کہیں یہ کام عمل بالحدیث اور قرآن وسنت کے حسین عنوان کی آڑ میں انجام پارہا ہے، ائمہٴ امت اور فقہائے اسلام کے بارے میں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ وہ قرآن وحدیث سے دور تھے، ان کا قول وعمل قرآن وحدیث کے صریح حکم سے ٹکراتا ہے، اگر یہ فکر اسی طرح جڑ پکڑتی گئی تو مستقبل میں سنگین نتائج پیدا ہوسکتے ہیں، دنیا کے جس جس خطہ سے اسلام کا صفایا کیا گیا اس کی ابتدا اس طرح کی گئی کہ پہلے مسلمانوں کو علما سے بدظن کیا گیا، پھر مسلمانوں سے دین کھرچ لیا گیا، روس میں اسلام کو مٹانے کے لیے پہلے انہیں کو نشانہ بنایا گیا اور علما وعوام میں دراڑ پیدا کی گئی، پھر ایک ایک کر کے اسلامی آثار کا خاتمہ کیا گیا۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ علما ہر طرح کے نقائص سے پاک ہیں، وہ بھی انسان ہیں،ان میں بھی خامیاں ہوسکتی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک آدھ واقعہ کو بنیاد بناکر علما کی کردار کشی کی مہم چلائی جائے، لوگ انجینئر سے تعمیر کا کام لیتے ہیں، ڈاکٹر سے علاج کراتے ہیں، اسی طرح مختلف ماہرین سے ضرورت پوری کرتے ہیں، لیکن کبھی یہ نہ دیکھا ہوگا کہ انجینئر سے اس کے ذاتی عیوب کی وجہ سے تعمیری کام میں راہ نمائی سے اجتناب کیا گیا ہو یا ڈاکٹر سے محض اس لیے علاج نہ کرایا جارہا ہو کہ اس کا کیریکڑ صحیح نہیں، یہ صحیح ہے کہ ایک عالم دین کا مسئلہ انجینئروں اور ڈاکٹروں سے مختلف ہے، اسے کردار واخلاق کی بلند چوٹی پر ہونا چاہیے، لیکن بہرِحال وہ انسان ہے، اس سے بھی کوتاہی ہوسکتی ہے، چند ایک واقعات کو بنیاد بناکر ساری جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا، جیسا کہ آج بعض لوگوں کا مزاج بن چکا ہے، غلط ہے۔
موجودہ مسلم معاشرے میں علم دین اور علما کی بے احترامی مختلف شکلوں میں ظاہر ہو رہی ہے، مساجد میں ائمہ اور موٴذّنین کو تنگ کیا جاتا ہے، کسی مسجد کے امام کا مطلب اب یہ ہوگیا ہے کہ وہ سارے محلہ والوں کی باتیں سہتارہے، محلہ کا معمولی فرد بھی امام کو کچھ نہ کچھ کہنے کا حق رکھتا ہے، گویا یہ اس کے بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک حق ہے، ائمہ اور منصبِ امامت کا کیا مرتبہ ہے اس کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا، مسجد کی کمیٹی اور متولیان کے نزدیک امام وموٴذّن جیسے ان کے غلام ہیں، بار بار خدمت سے سبک دوش کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے، کمیٹی کے ہرفرد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ امام اس کے تابع فرمان رہے، ارکان کے آپسی اختلافات میں امام کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے، امت میں علما وائمہ کے احترام کا اندازہ ان کی تنخواہوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، امت جس شخص کو اپنا دینی راہ نما سمجھتی ہے اس کے نزدیک اس کی قیمت ہزار بارہ سو سے زیادہ کی نہیں، موٴذّنوں کے ساتھ جو بدسلوکی کی جاتی ہے وہ بیان سے باہر ہے، تھوڑی سی غفلت سے سارے لوگوں کا غضب نازل ہو جاتا ہے۔
مدارس کے ذمہ دار علما پر کیچڑ اچھالنا اور ان کے بارے میں بے بنیاد تبصرے کرنا تو اب بعض لوگو ں کا محبوب ترین مشغلہ بن گیا ہے، ابتدا میں مدرسہ کا بانی کن قربانیو ں سے گذرتا ہے اسے تو کوئی نہیں جانتا، لیکن جب مدرسہ کی پختہ عمارت بن جاتی ہے تو پھر وہ ہرشخص کی نگاہ میں کھٹکنے لگتا ہے، اس پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ علما کے بھیس میں ایسے افراد بھی ہوں جو مالی خیانت کے مرتکب ہوں، ایسے افراد کی غلط حرکتوں کو کسی طرح سندِ جواز نہیں دی جاسکتی، لیکن ان کی وجہ سے سارے ہی مدارس کو مورد الزام ٹھہرانا کتنا بڑا ظلم ہے؟ اب تو یہ بات اس قدر جڑپکڑ چکی ہے کہ اس طرح کی ذہنیت کے لوگ مرحومین تک کو نہیں بخش رہے ہیں۔
اسی طرح مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کو بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، انہیں قوم کا ایک انتہائی کمزور طبقہ تصورکیا جاتاہے، جو قوم پر بوجھ بنا ہوا ہے، دین کے عنوان سے بھی آج لوگ علما سے کٹتے جارہے ہیں، کسی دینی تحریک سے وابستگی پر چند دن گذرتے نہیں کہ علما سے بدظنی پیدا ہونے لگتی ہے، مدارس کے کام کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اور جو کام وہ کر رہے ہیں، اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں، ایسے لوگ بسااوقات اہل ِ علم پر طعن وتشنیع سے بھی دریغ نہیں کرتے۔اکابر علما کی بے احترامی کی ایک شکل وہ ہے جو ائمہ سلف اور فقہائے امت پر سب وشتم کی شکل میں پائی جارہی ہے، ساری امت کے محسن فقہا کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور لوگو ں میں ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔
یہ مہم آج امت میں بڑی تیزی سے جاری ہے، علما پر سے عوام کا اعتماد ختم کرنا اسلام دشمنوں کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے، اس پر فوری قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں اس کے سنگین نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔یہ ایک فتنہ ہے جس سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
فتنے اور ان سے بچاؤ کا راستہ
حضرت صادق ومصدوق سیدنا رسول اللہ ﷺ (فداہ ابی وامی) کا ارشاد گرامی ہے کہ: خیر وسعادت کے تمام ابواب میں روز افزوں تنزل ہی تنزل ہے‘ صرف ”شر“ ہی ایک ایسی چیز ہے جس میں برابر ترقی ہوتی جائے گی۔ حدیث کے الفاظ جو مسند احمد میں حضرت ابودرداء سے مروی ہے‘ یہ ہیں:
”کل شیئ ینقص الا الشر ”فانہ یزادفیہ“۔
ترجمہ:․․․”دنیا کی ہر چیز روبہ تنزل ہے سوائے شر کے کہ اس میں برابر اضافہ وترقی ہوتی رہے گی“۔ صحیح بخاری شریف میں ایک حدیث ہے‘ زبیر بن عدی کہتے ہیں کہ: ” ہم نے حضرت انس بن مالک کی خدمت میں حجاج بن یوسف ثقفی کے مظالم کی شکایت کی‘ فرمایا: صبر کرو! میں نے نبی کریم ا سے سنا ہے کہ تم پر جو زمانہ بھی آئندہ آئے گا وہ پہلے سے بدتر ہوگا“۔ آج نقشہٴ عالم کو سامنے رکھ کر دیکھئے‘ مرکزِ عالم (مکہ مکرمہ‘ مدینہ طیبہ اور حجاز مقدس ) سے لے کر تمام عرب‘ تمام ایشیا‘ تمام یورپ اور امریکہ کے جس جس خطے پر نظر جاتی ہے وہ شر ور وفتن کی آماجگاہ بنا ہوا ہے‘ آفات ومصائب کا ایک عالمی طوفان ہے جو تھمتا نظر نہیں آتا‘ اضطراب وقلق‘ بے چینی‘ وپریشانی اور حیرانی وسراسیمگی کا ایک کوہِ آتش فشاں ہے جس کے عالمگیر شعلوں نے پورے عالم کے امن وسکون اور حقیقی مسرت کو خاکستر کر ڈالا ہے‘ فتنوں پر فتنے اٹھ رہے ہیں‘ دینی وعلمی فتنے‘ ملکی وقومی فتنے‘ تہذیب وتمدن کے فتنے‘ آرائش کے فتنے‘ سرمایہ داری کے فتنے‘ غربت وافلاس کے فتنے‘ اخلاقی وسیاسی فتنے۔ دنیا کا کوئی گوشہ فتنوں کی یورش سے خالی نہیں‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام دنیا‘ آخرت فراموشی‘ دنیا طلبی اور خدا تعالیٰ کو بھول جانے کی سزا بھگت رہی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکاً ونحشرہ یوم القیامة اعمی“۔ (طہٰ:۱۲۴)
ترجمہ:․․․”اور جو شخص میری یاد سے منہ موڑے گا‘ پس یقینی طور پر اسے ”تنگ زندگی“ نصیب ہوگی اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے“۔ شقاق ونفاق کی حد ہوگئی‘ جو ”مجاہدین“ قدس اور عمان کے محاذ پر ”اسرائیل“ سے نبروآزما تھے‘ ان کا رخ یہودیوں سے ہٹ کر اپنوں کی طرف مڑ گیا‘ باہم دست گریباں ہوکر ہزاروں نوجوان ”اپنوں“ کا نشانہ بن گئے اور ایک بڑی طاقت جو اعداء اسلام کے مقابلہ میں سینہ سپر تھی‘ وہ خانہ جنگی کی نذر ہوگئی‘انا للہ‘ اس سے بڑھ کر عبرت کی کیا خبر ہوگی؟ کہ ایک ہی ملک وملت اور ایک ہی قوم کے افراد کے باہمی نفاق وعناد کا جب یہ حال ہو تو ان سے دوسروں کے ساتھ خیر کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ ظاہر ہے اس صورت حال سے امریکہ اور روس -خدا دشمن- فائدہ اٹھائیں گے‘ ایک طاقت ایک فریق کو شہ دے گی اور دوسری دوسرے فریق کو ابھارے گی اور یوں مشرق وسطیٰ کوایک نیا ”ویٹ نام“ بنایا جائے گا‘ بچے مسلمانوں کے کٹ رہے ہیں‘ قوت مسلمانوں کی پامال ہو رہی ہے افسوس! ”ازما است کہ برما است“۔ ان حالات میں کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ سوریا‘ عراق اور مصر کے عرب متحد ہوکر اعداء اسلام کے سامنے سینہ سپر ہوسکیں گے‘ بلکہ عرب ممالک میں خانہ جنگی کا ایک نیا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ سنا ہے کہ لیبیا سے جو امریکہ کا عظیم الشان ہوائی اڈہ اٹھایا جارہاہے‘ اسے سرزمین مقدس حجاز میں مکہ ومدینہ کے درمیان منتقل کیا جائے گا‘ اگر یہ خبر صحیح ہے تو اس سے بڑھ کر دردناک صورت حال اور کیا ہوگی؟ نہ معلوم دور حاضر کے مسلمان سلاطین وحکام کی عقلوں پر کیسے پردے پڑ گئے ہیں کہ عواقب کا احساس ہی ختم ہوگیا۔ خیر یہ داستان تو جتنی دردناک ہے اس سے زیادہ طویل ہے‘ کہنا یہ ہے کہ تمام عالم اور عالم اسلام خصوصاً فتنوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور یہ تشتت وافتراق کا فتنہ تو اتنا الم انگیز ہے کہ اس سے -الا ماشاء اللہ - کوئی محفوظ نہیں رہا‘ عوام وخواص ‘ عالم وجاہل اور ملوک ورعایا سب میں سرایت کر گیا ہے‘ اتحاد واتفاق اور خدا تعالیٰ کے لئے ایک دوسرے سے سچی محبت کرنا قصہٴ پارینہ بن کر رہ گیاہے۔ باہر کی دنیا کو جانے دیجئے‘ خود ہمارے ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک سیاسی جماعتوں میں جس طرح سر پھٹول اور رسہ کشی ہورہی ہے‘ اس سے عقل حیران ہے‘ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور خدا کے بے گناہ بندوں کی طرف گھناؤ نے فرضی افسانے منسوب کرنا‘ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنا سیاسی کارنامہ سمجھا جاتاہے‘ جن جماعتوں کے افراد کی اسلام دشمنی‘ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے‘ وہ بھی لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے آپ کو سب سے زیادہ اسلام کا ہمدرد اور خیر خواہ ظاہر کررہے ہیں اور اپنے مخالفین کو نہ معلوم کیا کیا خطاب دے رہے ہیں‘ یہ تو ظاہر ہے کہ اس عالم کون وفساد کا خمیر ہی خیر وشر کے مرکب سے اٹھا یا گیا ہے‘ دنیا کا مزاج خیر وشر کے امتزاج سے بنا ہے‘ دونوں کا سلسلہ چلاآیا ہے اور قیامت تک جاری رہے گا‘ لیکن ان دنوں شراتنا غالب اور خیر اتنی مغلوب ہورہی ہے کہ عذاب ِ الٰہی کے نازل ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے‘ دراصل عہد نبوت سے جتنا بعد ہوتا جائے گا خیرکم ہوتی جائے گی‘ فقیہ الامت حضرت عبد اللہ بن مسعود دورِ نبوت اور بعد کے زمانے کا فرق بیان کرتے ہوئے خلافتِ راشدہ کے دور میں فرمارہے ہیں کہ دنیا کی مثال ایسی ہے:
”کالثغب شرب صفوہ وبقی کدرہ“
یعنی جیسے وہ تالاب جس کا صاف اور نتھراہوا پانی پی لیا گیا ہو اور گدلاپانی باقی رہ گیا ہو۔ یہ جلیل القدر صحابی عہدِ عثمانی میں وفات پاچکے ہیں‘ اگر وہ جمل وصفین کے ہولناک مناظر دیکھ لیتے تو کیا فرماتے ؟ اور خدانخواستہ ہماری حالتِ زار ان کے سامنے آتی تو ان کا کیا حال ہوتا؟ رائے اور ذوق کا اختلاف پہلے بزرگوں میں بھی رہاہے‘ لیکن بہتان طرازی‘ افتراء پردازی‘ سب وشتم اور لعن طعن کا جو طوفان اس دور میں برپا ہے‘ وہ انتہائی دردناک ہے‘ موجودہ صورتِ حال نے جو شکل اختیار کرلی ہے‘ اس سے نہ کسی کی عزت وحرمت باقی ہے‘ نہ جان ومال محفوظ ہے‘ پوری امت کے خرمنِ امن وسکون کو آگ لگادی گئی ہے‘ سب جانتے ہیں اور ہمیشہ سے یہ بات مسلم چلی آتی ہے کہ بعض دفعہ ایک مخلص اور سراپا اخلاص شخصیت کی رائے بھی غلط ہوسکتی ہے‘ کسی مخلص کے لئے ضروری نہیں کہ وہ صاحب الرائے بھی ہو‘ اس کے برعکس بعض دفعہ ایک غیر مخلص کی رائے صحیح بھی ہوسکتی ہے‘ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ہماری شریعت نے ”شوریٰ“ کا طریق تجویز کیا تھا‘ کہ جو قدم اٹھایا جائے‘ اہل صلاح اور اہل دانش کے مشورہ سے اٹھا یا جائے‘ مگر افسوس ہے کہ خود غرضی اور نفسا نفسی کی کیفیت نے امت سے یہ نعمت بھی چھین لی ہے اور اس کے نتیجہ میں پوری امت کا شیرازہ منتشر ہوچکا ہے‘ ہرجماعت اپنی رائے پراڑی ہوئی ہے اور جماعت کاہر فرد اپنے کو عقل کل سمجھتا ہے‘ جس سے آئے دن جماعتیں تقسیم ہوہو کر جماعت درجماعت کا عمل جاری ہے۔ آنحضرت ا جہاں فتنوں سے پناہ مانگتے تھے‘ وہاں یہ دعا بھی فرماتے تھے:
”واذا اردت بقوم فتنة فتوفنی غیر مفتون“
یعنی اے اللہ جب تو کسی قوم کو فتنے میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے فتنہ میں ڈالے بغیر اٹھالینا“۔ فتنے سے محفوظ رہ کردنیا سے رخصت ہونے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں : ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو فتنہ کے زمانے سے پہلے ہی دنیا سے اٹھالے‘ دوسری یہ کہ فتنوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کسی پر اپنی رحمت فرمائے اور اسے فتنہ میں مبتلا کئے بغیر دنیا سے اٹھائے۔ ہمارے دور میں فتنے شروع ہوچکے ہیں(بلکہ ہم سے بہت پہلے شروع ہوچکے تھے) اس لئے پہلی صورت تو نہیں ہوسکتی‘ البتہ دوسری صورت ممکن ہے کہ آدمی ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جس کے ذریعہ فتنوں سے محفوظ رہ سکے‘ بہت سے مخلصین کے خطوط آرہے ہیں کہ ہمیں فتنوں کی اس موجودہ فضا میں کیا کرنا چاہے‘ اس لئے فتنوں سے حفاظت کا ایک مختصر دستور العمل عرض کیا جاتاہے:
اول: شورائیت
کسی بھی قسم کا دینی‘ دنیاوی یا سیاسی قدم اٹھائیں تو اہل خیر وصلاح اور اہل دانش وخرد سے مشورہ کئے بغیر نہ اٹھائیں‘ اور اہل شوریٰ میں سے ہرشخص نہایت اخلاص کے ساتھ فی ما بینہ وبین اللہ اپنا مشورہ دے‘ اپنی بات منوانے کی فکر نہ کرے‘ نہ اپنی رائے پر خواہ مخواہ کا اصرار کرے‘ اگر صحیح اسلامی شوریٰ پر عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ! بہت سی گمراہیوں اور فتنوں کا سد باب ہوسکتا ہے‘ ان سب میں بڑا فتنہ عجب اور اعجاب بالرأی کا ہے۔ الغرض مخلصین کے لئے لازم ہے کہ اپنی رائے پر اصرار نہ کریں‘ بلکہ اپنی رائے کو متہم سمجھیں‘ مبادا اس میں نفس وشیطان کا کوئی خفی کید چھپا ہوا ہو۔
دوم:اعتدال
اگر پوری کوشش کے باوجود سب کی رائے متفق نہ ہوسکے اور اہل حق کی دوجماعتیں وجود میں آہی جائیں تو ہر جماعت اپنے کو قطعی حق پر اور دوسری کو قطعی باطل پر نہ سمجھے‘ زیادہ سے زیادہ جس بات کی گنجائش ہے‘ وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے مؤقف کو ”صواب محتمل خطأ“ اور دوسرے کے مؤقف کو ”خطاء محتمل صواب“ سمجھے اور دونوں طرف سے برابر یہ خواہش رہنی چاہئے اور کوشش بھی کہ تمام اہل حق ایک کلمہ پر متفق ہوجائیں۔
سوم: حکایات وشکایات سے احتراز
آج کل پروپیگنڈے کا دور ہے‘ پروپیگنڈے کے کرشمہ سے رائی کو پر بت اور تنکے کو شہتیر بناکر پیش کیا جاتاہے‘ غلط افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلا کرایک دوسرے کے درمیان منافرت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ جو شخص اس فتنہ سے محفوظ رہنا چاہتاہے‘ اس کے لئے ضروری ہے کہ جب تک کسی حکایت وشکایت کے صحیح ہونے کا پورا وثوق نہ ہوجائے‘ اس وقت تک اس پر کان نہ دھرے‘ نہ اس پر کوئی کارروائی کرے‘ امیر المؤمنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے لوگوں نے شکایت کی کہ ابن ملجم آپ کے قتل کا منصوبہ بنارہا ہے اور قتل کی دھمکیاں دیتاہے‘ آپ اسے قتل کرا دیجئے۔ فرمایا: ”کیا میں اپنے قاتل کو قتل کردوں“؟ اسی طرح اس قسم کی حکایات وشکایات کو نقل کرنا بھی امت کو فتنے میں ڈالناہے‘ آنحضرت ا نے امت کو اسی قسم کے فتنوں کے بارے میں ہدایت فرمائی تھی:
”ستکون فتن‘ القاعد فیہا خیر من القائم‘ والقائم فیہا خیر من الماشی‘ والماشی فیہا خیر من الساعی“۔
ترجمہ:․․․”بہت سے فتنے ہوں گے‘ ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا‘ کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا“۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے:
”النائم فیہا خیر من الیقظان والیقظان فیہا خیر من القائم“۔
ترجمہ:․․․” جو ان میں سو رہا ہوگا وہ جاگنے والے سے بہتر ہوگا اور جو جاگ رہا ہوگا وہ اٹھنے والے سے بہتر ہوگا“۔ ہرشخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ میرے کسی قول وعمل سے امت کے درمیان افتراق کی خلیج وسیع نہ ہو۔ نیز اہل حق کو اس بات سے چوکنا رہنا چاہئے کہ اہل باطل ان کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر اپنا الو سیدھا نہ کر سکیں‘ جب اہل حق آپس ہی میں لڑنے لگتے ہیں تو اہل باطل کے لئے میدان صاف ہوجاتاہے‘ اس لئے اہل حق کو اہل باطل کے ہاتھ کا کھلونا نہیں بننا چاہئے‘ کہ جوش میں اپنوں ہی کو بدنام کرنے لگیں‘ افسوس ہے کہ مسلمانوں میں سب سے بڑا مرض یہی ہے کہ اپنوں سے بدگمانی رکھیں گے اور حق کے نام پر اہل حق سے لڑیں گے‘ لیکن اہل باطل کے ساتھ مسامحت اور رواداری برتی جائے گی‘ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے۔
چہارم:اکرام واحترام:
ایک مسلمان اللہ ورسول ا پر ایمان رکھنے کی وجہ سے اکرام واحترام کا مستحق ہے اور ہماری باہمی رنجشوں سے اس کے احترام کا حکم منسوخ نہیں ہو جاتا‘ سنن ابوداؤد میں آنحضرت ا کا ارشاد مروی ہے کہ:
”ان من اجلال اللہ تعالیٰ اکرام ذی الشیبة المسلم وحامل القرآن غیر الغالی فیہ والجافی عنہ واکرام السلطان المقسط“۔ (مشکوٰة:۴۲۳)
ترجمہ:․․․”تین چیزیں اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں داخل ہیں: سفید ریش مسلمان کی عزت کرنا‘ حامل قرآن کی عزت کرنا‘ جو نہ قرآن میں غلو کرے نہ بے پروائی کرے اور عادل حاکم کی عزت کرنا“۔ بہرحال اختلاف کی بنا پر کسی بھی مسلمان کی ہتکِ عزت جائز نہیں اور خاص طور پر علمائے دین کی بے حرمتی کرنا تو بہت ہی بُری بات ہے‘ کوئی مخلص عالمِ دین ایک رائے رکھتا ہو تو اس پر سب وشتم کرنا اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتقام کا نہایت خطرہ ہے‘ ایسا شخص مخذول اور بے توفیق ہوجاتاہے اور ایمان کی سلامتی مشکل ہوجاتی ہے۔
پنجم: استخارہ کرنا
دورِ حاضر میں امت کا شیرازہ جس بُری طرح بکھر گیا ہے‘ مستقبل قریب میں اس کی شیرازہ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا‘ جب استشارے کا راستہ بند ہوگیا تو اب صرف استخارہ کا راستہ ہی باقی رہ گیا ہے‘ حدیث شریف میں تو فرمایا تھا:
”ما خاب من استخار وما ندم من استشار“ ۔
یعنی جو استخارہ کرے گا خائب وخاسر نہ ہوگا اور جو مشورہ کرے گا وہ پشیمان نہ ہوگا۔ عوام کے لئے یہی دستور العمل ہے کہ اگر کوئی ان فتنوں میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا ہے تو مسنون استخارہ کرکے عمل کرے اور امید ہے کہ استخارہ کے بعد اس کا قدم صحیح ہوگا۔ مسنون استخارہ کا مطلب یہی ہے کہ انسان جب کسی امر میں متحیر اور متردد ہوتا ہے اور کوئی واضح وصاف پہلو نظر نہیں آتا ‘ اس کا علم رہنمائی سے قاصر رہتا اور اس کی طاقت بہتر کام کرنے سے عاجز تو حق تعالیٰ کی بار گاہ رحمت والطاف میں التجاء کرتا ہے اور حق تعالیٰ کی بار گاہ سے دعا ‘ توکل ‘ تفویض اور تسلیم ورضا بالقضاء کے راستوں سے کرتاہے کہ وہ اس کی دستگیری اور رہنمائی فرمائے‘ بہتر صورت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فتنوں کے اس دور میں
جدیدیت کا دور دورہ ہے، سائنسی اور مادی ترقی کی محیر العقول ایجادات آئے دن بڑھ رہی ہیں، دنیا گلوبلائزشین کا روپ دھار چکی ہے۔ انسان مصروف سے مصروف تر بنتا چلا جارہا ہے، اس کا اٹھنے والا ہر قدم زندگی کی محدود سلطنت سے نکل کر موت کی منزل کی طرف مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اس کو وہ وقت یاد ہی نہیں ہے کہ جب اس کے خالق اور مالک نے اس کو وجود بخشا، گل وآب کو انسانی سانچے میں ڈھالا، عقل وخرد کو اس کے خمیر میں گوندا، نفع ونقصان کی پہچان دی، کامیابی اور ناکامی کے رستوں کی نشاندہی بھی کردی، وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ․
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا، اس کی فطرت میں ذہول ونسیان کا عنصر بھی تھا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ جاری کیا؛ تاکہ ”عہدِ الست“ ذہن نشین رہے، یہاں تک کہ خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت آمد ہوئی۔ قصرِ نبوت کی تکمیل سے اتمامِ نعمت کا عظیم احسان بھی ہوا۔
اسلام آیا․․․․ ہدایت کے چراغ جگمگانے لگے، کفر وشرک کے اندھیرے چھٹنے لگے، معاشرتی بدتہذیبی کافور ہونے لگی، ادیانِ عالم میں اسلام کی ہمہ جہتی اور عالمگیریت کا سِکَّہ چلنے لگا۔
خالقِ دوجہاں کی طرف سے محبوبِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا دستور عطا کیاگیا کہ جس میں امیر غریب، کالے گورے، عربی عجمی، شہری دیہاتی، نسب نسل، قوم قبیلہ، برادری وخاندان کی کمتری وبرتری کا تصور مٹ گیا۔ امن وسکون، عدل وانصاف، چین وراحت، فرحت وسرور صرف عرب میں ہی نہیں؛ بلکہ کائنات کے چپے چپے میں عام وتام ہوگیا۔ یعنی اسلام نے عرب کی حدود سے تجاوز کرکے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، پھیلا اور پھیلتا ہی چلا گیا۔
چونکہ اسلام ایک جامع مذہب کی حیثیت سے اپنا تعارف کراتا ہے؛ اس لیے دنیا بھر کے انسانوں کی قبل از پیدائش تا بعدازو فات ساری رہنمائی کی ذمہ داری لیتا ہے، جو لوگ اس کو محض عبادات کے خود ساختہ خول میں قید کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام کے مسلمات، بنیادی نظریات اور اساسی عقائد میں زمانے کے بدلنے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
توحید کل بھی لازمی تھی، رسالت پر ایمان کل بھی ضروری تھا، ختم رسالت پر ایقان کل بھی فرض تھا، آخرت پر اعتقاد کل بھی ابدی نجات کا ایک ذریعہ تھا اور یہ ساری باتیں آج بھی ہیں اور ہمیشہ ہی رہیں گی۔
ایک طرف اسلام ہے تو دوسری طرف کفر بھی موجود ہے۔ یہودیت، عیسائیت، مورتیوں اور بتوں کے سامنے جبینِ نیاز جھکانے والے، قبروں اور آستانوں پر ناک رگڑنے والے، آگ اور ستاروں کی پرستش کرنے والے، درختوں اور پتھروں کو معبود ماننے والے، سورج وچاند کو الٰہ سمجھنے والے اور دیگر اہل باطل اپنی اپنی کاوشوں میں مگن ہیں۔
ہمارے زمانے میں اہلِ اسلام کو راہ راست سے ہٹانے اور ورغلانے کے لیے کئی طرح کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں، ٹی وی کی روشنی سے لے کر موبائل کی اسکرین تک،کتاب کی تحریر سے لے کر منبر ومحراب کی تقریر تک؛ ہرطرف سے دشمنِ دین چومکھی لڑائی لڑرہاہے، ذہنی غلامی سے لے کر جسمانی تشدد تک، اہلِ اسلام کو ہر طرح کے شکنجوں میں کسا جارہاہے۔
اسی میں دشمنانِ دین کی پیداوار مخلوق بھی نمودار ہورہی ہے، نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں، ہر روز کوئی ”اسکالر“ اور ”پروفیسر“ اٹھ کر احکامِ اسلام اور عقائدِ اہل السنة کو تختہٴ مشق بنائے ہوئے ہے۔ مسلمِ قوم کو کفار کے کچوکے پہلے ہی زخمی کرچکے ہیں، پھر اہل الحاد وبدعت کے ہاتھوں ان پر نمک پاشی کا ستم، الٰہی! اس قوم کا کیا ہوگا!!!
لیکن اے مسلمان! تجھے تیرے خالق ومالک نے فطرتِ سلیم اور عقلِ مستقیم عطا فرمائی، ایمان کی عظیم نعمت سے نوازا، مجھے قرآن دیا، اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دیا، اپنے برگزیدہ بندوں کا کردار دیا، اپنے اسلاف اور اکابر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے باطل کو چاروں شانے چت کردے۔
میدان، کارزار بنے ہوئے ہیں، رزم گاہیں گرم ہیں، مختلف تقاضوں کے پیشِ نظرکئی ایک محاذ سجے ہوئے ہیں، ہر ایک دامن پھیلا پھیلا کر اپنی طرف بلارہا ہے، سب سے پہلا میدان عقیدے کا ہے، اس کے لیے دینی مدارس میں وہ تعلیم دی جارہی ہے، جو مکہ مکرمہ میں کوہِ صفا پر، غارِحراء میں مدینہ منورہ کی سرزمین پر اور طائف وحجاز کے تپتے صحراؤں سے لے کر بیت المقدس تک اور وہاں سے عرشِ معلی تک نبی علیہ السلام کو ملی۔ وحیِ الٰہی اور احادیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ رہنما اصول پڑھائے اور سکھلائے جارہے ہیں، جس کی معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں علماءِ کرام وحی کی روشنی بانٹ رہے ہیں، علومِ نبوت کی ضوفشانی سے کرہٴ ارض کو منور کررہے ہیں، اصلاح معاشرہ میں سب سے اہم کردار ادا کررہے ہیں، بھولی بھٹکی انسانیت کو وہی درس دے رہے ہیں، جس سے خود انسان میں اور جس معاشرے میں وہ سانس لے رہا ہے دونوں میں سکون نصیب ہوگا۔
علماء کی مجالس میں شرکت کرنے والے اس سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ ان کی زبان پر خدائے لم یزل کا وہ فرمان جاری رہتا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔ اور ہادیِ عالم، سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم انَّمَا أخَافُ عَلی أمَّتِيْ أئمَّةً مُضِلِّیْنَ قَالَ وَقَالَ رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِّنْ أمَّتِیْ عَلی الْحَقِّ ظَاہِرِیْنَ لَا یَضُرُّہُمْ مَنْ خَذَلَہُمْ حَتّٰی یَأتِیَ أمْرُ اللّٰہِ(سنن ترمذی،ج۲، ص۴۹۴)
آج دیکھاجائے تو ہم اسی دور میں ہیں۔ ہر طرف فتنوں کی یلغار ہے، وہی لوگ دین دشمنی کررہے ہیں جن کو لسانِ نبوت نے ائمہٴ مُضلِّین (گمراہ گروہوں کے سردار) قرار دیا ہے۔ ان سے بچاؤ کی صورت وہی ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی۔ اہل السنة والجماعة ہی قیامت کے دن کامیاب ہوں گے۔
جو راہزن، راہبروں کے روپ میں عوام کے ایمان وعمل برباد کررہے ہیں ہم ایسے لوگوں کی نشاندہی کرکے عقائد ونظریات اور مسائل کا تحفظ کررہے ہیں، ان کے بارے میں ہمارے ہاں مرکز اہل السنة والجماعة میں علماء کرام کے لیے ایک سال کے کورس کا انعقاد کیاجاتا ہے،جس میں درج ذیل علوم وفنون پڑھائے جاتے ہیں:
اس کے ساتھ ساتھ تربیتی مزاج کو ملحوظ رکھتے ہوئے خانقاہی ماحول بھی میسر کیاجاتا ہے؛ تاکہ تصوف وسلوک، تزکیہ واحسان، طریقت ومعرفت کے اس ماحول میں ان کی اصلاحِ نفس ممکن ہو۔ اس کا اہتمام اس لیے کیا جاتا ہے؛ تاکہ یہی سربراہانِ قوم کل کو قیادت وسیادت کریں گے تو صحیح عقیدہ اور صحیح مسائل بتائیں گے۔ اس کے لیے پوری ”سنی“ قوم سے التماس ہے کہ ہم سب کے لیے دعا فرمائیں، اللہ تعالیٰ دین کی خدمت کے لیے قبول فرمائے اور پھر اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں بھی قبول فرمائے۔ آمین
$$$
غیروں كی طرف سے اسلام كی نئی فتنہ انگیز تشریحات
جوزف گوئبلز نے تو کہا تھا: ”جھوٹ کو اتنا بولو کہ وہ سچ محسوس ہونے لگے“ اسی طرح امریکی پروفیسر اور دفاعی تجزیہ نگار سموئیل ہنٹنگٹن (Sammuel Huntington) نے سب سے پہلے جدید تاریخ میں نام نہاد ”اسلامی دہشت گردی“ کی اصطلاح گھڑ کر اتنی کثرت سے استعمال کی کہ وہ سازشی اصطلاح اب حقیقت لگنے لگی ہے۔ ملت کے زعما پریشان ہیں، امام کعبہ، امام و خطیب مسجد نمرہ سے لے کر دنیا بھر کے ائمہ، علماء اور اسلامی دانشور ان اپنے تئیں اس داغ کو دھونے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں کمالِ ہنر کہ جس طرح تین ٹھگوں نے ایک دیہاتی سے بکری کے بچہ کو ٹھگنے کے لیے ایک سازش رچی، ایک نے بکری کو کتا بتایا، ایک نے گدھا اور ایک نے لومڑی تو بیچارے دیہاتی نے آخر پریشان ہوکر بکری کو تقریباً مفت میں ہی ٹھگوں کو دے دیا۔ وہی حال امت کے علماء اور مخلص؛ مگر ضروری علم اور ایمانی جرأت سے خالی دانشوروں کا ہے کہ اسلام دشمنوں کے مسلسل پروپیگنڈہ سے دباؤ میں آکر طرح طرح کے فضول، غیرمفید اور مضر ایمان اقدامات کررہے ہیں۔ اسلام دشمنوں نے روس کے زوال کے بعد ایک دشمن کی تلاش میں اسلام کو موزوں ترپایا، جیساکہ کلدیپ نیر نے خود اپنی کانوں سنی مارگریٹ تھیچر برطانوی پرائم منسٹر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ہمارا اگلا دشمن اسلام ہے۔ امتِ مسلمہ کی سخت جانی اور ایمانی حرارت کا ذائقہ یہ دشمنانِ اسلام پہلے بھی تاریخ میں چکھ چکے ہیں؛ اس لیے اس بار پچھلے تمام تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک کثیر جہت حملہ امتِ مسلمہ پر بولا گیا، جس میں فوج کے ساتھ ساتھ میڈیا، تعلیم، تفریح تمام محاذ ایک ساتھ کھول دیے گئے۔ آئندہ سطروں میں اس حملہ کے ایک بڑے محاذ ”مسلمانوں کے اندرونی اختلاف“ کو شدید ترین بناکر فروغ دینے پر کیاگیا ہے۔ اور اسی ضمن میں اسلام کی طرح طرح کی تفسیریں ایجاد کی گئی ہیں۔ سیاسی، صوفی، سنی، وہابی، گنگاجمنی، رواداری اور نہ جانے کون کون سے برانڈ ایجاد کیے گئے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اسلام کی جو عام سمجھ پچھلے چودہ سو سالوں سے امت میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت کے تصور کے تحت موجود ہے، اس کے بجائے انسانی زندگی کو ٹکڑوں میں بانٹ کر غلامی کو بھی ٹکڑوں میں بانٹ دیاگیا۔ مسجد اور قبرستان میں غلامی کسی اور کی، بازار میں کسی اور کی، عدالت میں کسی اور کی، اور پارلیمنٹ میں کسی اور کی۔ ایک طر ف سے ملتِ اسلامیہ کو عسکری (ملٹری)، تہذیبی، علمی، میڈیا ئی یلغار پر رکھاگیا، فوجوں کو مسلم ممالک میں تعینات کرانے کی سازش (کویت، عراق، افغانستان، الجزائر، مصر) کی گئی، دوسری طرف اس یلغار اور وسائل کی لوٹ مار اور اپنی موجودگی کو مستقل بنانے کے لیے ذہنوں کو پراگندہ اور منتشر کرنے کی مہم بھی بڑے پیمانہ پر چھیڑی گئی، جس کو دماغ و اذہان کی جنگ کہا گیا۔ اس جنگ کے تحت قرآن کی بنیادی تعلیمات میں ہی من مانی، ہیرپھیر کردی گئی اوراسلام کا وہ برانڈ پیش کیا جارہا ہے، جو اللہ کے باغیوں، ظالموں، انسانوں کو اپنا غلام بنانے والوں، سودی نظام کی پرورش کرنے والوں اور زنا وبے حیائی کو فروغ دینے والوں کے آگے سر جھکائے ہاتھ باندھے کھڑا رہے۔ اور اسی برانڈ کو آج مختلف حیلوں بہانوں سے امت میں رائج کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ حالات کا دباؤ اتنا زبردست ہے کہ ملت کے علماء وائمہ کی خاصی بڑی موثر تعداد بھی مرعوب ہوکر اسی راہِ فرار یا بقاء کی طرف بھاگ رہی ہے، جدھر اسلام دشمن شکاریوں نے ہانک کر راستہ خالی چھوڑا ہوا ہے۔ یوروپی ممالک میں جرمنی میں چار ایسے مراکز قائم کیے گئے ہیں، جہاں اسلامیات کے اساتذہ اور ائمہ کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیاجارہا ہے۔ اور کیا سکھایا جاتا ہے، اس کا ایک نمونہ حاضر ہے۔ ایک مرکز کے ذمہ دار 42 سال کے مہندس خورشید بتاتے ہیں کہ ”انسان کو مذہب سمجھنے کے لیے اپنی عقل استعمال کرنی چاہیے۔ دینیات کا کام عقلی بنیادوں پر مذہب کی بنیاد کو واضح کرنا ہے۔ یہاں معاملہ سوچے سمجھے بغیر کسی چیز کو یہ کہہ کر قبول کرلینے کا نہیں ہے کہ میں تو ایسے ہی کروں گا؛ کیوں کہ کتابوں میں ایسا ہی لکھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کوئی چیز کیوں لکھی ہے؟ خدا انسان سے کیا چاہتا ہے؟ زندگی کے ساتھ مذہب کا تعلق کیا ہے؟“ (یعنی ایمان بالغیب اور کتاب کسوٹی نہیں ہے؛ بلکہ عقل کسوٹی ہوگی، اس کے آگے کیا ہوگا سب کو معلوم ہے)اس پروگرام پر جرمن حکومت 20ملین یورو خرچ کررہی ہے۔ ان مراکز کے نصاب کے بنانے میں وہاں کی اسلامی تنظیموں کا کوئی تعاون نہیں لیاگیا ہے؛ جبکہ مسیحیوں کے لیے ایسے پروگرام کے نصاب کی تیاری میں کلیسائی تنظیموں سے مشورہ لیے جاتے ہیں۔ (عزیز الہند، دہلی ۲/۱۲/۲۰۱۳/)
برطانیہ میں افغانستان میں جنگ لڑچکے لی رگبی کے قتل کے بعد کیمرون بہت طیش میں ہیں۔ ہاں انھیں اس وقت طیش نہیں آتا جب ان کے فوجی لوگوں کو قتل کرکے ان کے سروں پر پیشاب کرنے کی فلم بناکر انٹرنیٹ پر لگادیتے ہیں اور نہ تب طیش آتا ہے جب ان کے فوجی بے قصور افغانوں کو شہید کرکے ان کے جسم کے اعضاء: انگلیاں وغیرہ بطور یادگار ساتھ لے جاتے ہیں۔ انھوں نے بھی مساجد، مدارس اور اسلامک کمیونٹی سنٹرز کی تطہیر کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ان مقامات کو سڑاند کا مرکز بتایا ہے۔ اور ان مراکز پر زبردست دباؤ کے حربہ اپنائے جارہے ہیں ائمہ اور مقررین کو ڈرا دھمکاکر حقائق سے روشناس کرانے اور حق کی تبلیغ سے دور رکھنے کی پالیسی بنائی گئی ہے۔ لی رگبی کے قتل کے بعد قائم کی گئی ٹاسک فورس نے جو سفارشات کی ہیں، اس میں یہ سب رہنما خطوط شامل ہیں۔ (یعنی ہر جگہ اپنی جارحانہ، ظالمانہ، اسلام دشمنانہ رویہ پر نظر ثانی کرنے کے بجائے اس کے رد عمل کو اسلام سے جوڑ کر ”اسلام کی اصطلاح“ کی آڑ میں ملت میں فکری گمراہی کو پروان چڑھانے کا ماسٹر پلان تیار ہوگیا ہے) (تلخیص: عزیز الہند ۸/۱۲/۲۰۱۳/)
وطن عزیز ہندوستان میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کا کام زوروں پر چل رہا ہے۔ ایک تنظیم کو اس معاملہ میں کافی متحرک کیاگیا ہے جو کہ ہندوستان کی تمام مسلم نمائندہ تنظیموں کے عہدیداروں کو سعودی، وہابی بتاکرانتہائی سازشی انداز میں مسائل کا ٹھیکرا غیرملکی حکومت کے سرپھوڑنا چاہتی ہے۔ تنظیم ملکی وسائل میں حصہ داری لینے کی بات کرتی ہے؛ مگر مثال دیتی ہے پرسنل لاء بورڈ، وقف بورڈ، حج کمیٹیوں کی؛ حالانکہ یہ تو قوم کی دولت اور قوم کی امانت ہے، جو حکومت کی سرپرستی میں برباد کی جارہی ہے۔ ہر حکومت بلا استثناء اپنے عہدیداروں کو حکومتی ریوڑیاں بانٹنے کے بجائے یہ مُردوں کی ہڈیاں اور حاجیوں کی گاڑھی کمائی کا پیسہ دیدیتی ہیں کہ انھیں میں سے تیل نکال لو۔ کیا مایاوتی جی کی حکومت میں وقف کے ذمہ دار بھی سعودی/وہابی تھے؟ انھوں نے کیا ترقیاتی کام وقف کے لیے کیے تھے؟ ایک بیان میں عہدیدار فرماتے ہیں: ”کچھ غیرملکی امداد یافتہ افراد اور ادارے ٹوپی اور داڑھی کی چلمن (سنت رسول کو چلمن بتانے کی جسارت؟) سے ہمارے ملک کی سالمیت پر حملہ آور ہوکر اس کی تمدنی اور تہذیبی یکجہتی اور امن وآشتی میں نقب زنی کرکے ماحول کشیدہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ملک کی جتنی بھی وقف املاک ہیں، وہ سب سنی صوفی مسلمانوں کے ذریعہ وقف کی گئی ہیں، باقی اسلام ماننے کا دعویٰ کرنے والے تمام فرقہ ایصال ثواب کے مخالف ہیں؛ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ سنی صوفی مسلمانوں کو نظر انداز کرکے ریاستی اور مرکزی سرکاروں نے مسلم وقف سے متعلق معاملات کو ان افراد و تنظیموں کو سونپ دیا ہے جو 80% سنی صوفی مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ (حالات وطن دہلی ۲۵/۱۱/۲۰۱۳/)
مزید پروپیگنڈہ ملاحظہ فرمائیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل سعودی شہنشاہیت کے اشاروں پر نہیں نکلیں گے۔ سعودی شہنشاہیت کی اپنی مجبوریاں ہیں کہ اسے اپنے ایجنٹ ہندوستان میں اہم عہدوں پر مسلط کرنے پڑرہے ہیں؛ مگر ہماری حکومتوں کی کیا مجبوریاں ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو ہم پر تھوپے ہوئے ہیں جن کی وفاداریاں ملت سے کم اور شہنشاہیت سے زیادہ ہے۔ (حالات وطن، دہلی ۹/۱۲/۲۰۱۳/)
کیا یہ پراسرار امر نہیں ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل کا ٹھیکرا ایک غیرملکی حکومت کے سرپھوڑا جائے؟ کیا وقف بورڈ اور حج کمیٹیوں میں نام نہاد صوفی سنی کہلانے والے عناصر کی تقرری سے مسلمانوں کے تحفظ، بے روزگاری، تعلیم کی کمی، تہذیبی یلغار کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ ان تمام مسائل کے لیے غیرملکی حکومت کیسے ذمہ دار ہوگئی؟ غالباً اس سازشی گروہ کو معلوم نہیں کہ جس وقت بابری مسجد شہید کی گئی اس وقت دہلی کی حکومت کے سب سے قریبی مشیر یہی صوفی سنی علماء تھے؟ اس وقت مرکز میں وزیر بھی اسی فکر کے تھے اور آج بھی محترم کے رحمن خاں، محترم غلام نبی آزاد، محترم احمد پٹیل سب کے سب طاقت ور ترین سیاسی لوگ کس ذہن کے ہیں؟ مولانا توقیر رضا خاں صاحب کس فکر کے حامل ہیں؟ کیا یہ سب وہابی سعودی ذہن کے ہیں؟ سعودی حکومت کی کمزوریاں، بزدلی اور شہنشاہیت غلط ہیں؛ مگر اس کا ہندوستانی مسلمانوں کے وسائل کی حصہ داری میں کمی سے کیا تعلق ہے؟ ایک اہم بات یہ ہے کہ ان صوفی اور سنی زعماء کو امریکہ، یورپ ، اسرائیل اور اس کے اسلام دشمن کارنامہ اور ہندوستان کے حالات؛ بلکہ ہر مسلم ملک کے معاملات میں دخل دینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ یہ ممالک اپنے یہاں اللہ کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون اور فلم بنانے والوں پر اور بابری مسجد شہید کرنے والوں کے عقیدہ پر حملہ نہیں کرتے۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق مضبوط کرکے ملت کو فکری اور عقیدہ کے انتشار سے محفوظ رکھنے کی مہم چلائی جائے، نہ کہ ملت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں کی مدد کرکے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب کو دعوت دی جائے!
$$$
افتراق وانتشار کا فتنہ
یہودیوں کی مسلم دشمنی قدیم ہے، عہد نبوت ہی سے یہود مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے یہودی تفریق بین المسلمین کاحربہ استعمال کرتے رہے ہیں، یہودیوں کو اندازہ ہے کہ اتحاد میں عظیم طاقت ہے، متحد قوم تعداد کی کمی کے باوجود فتح وکام رانی سے ہم کنار ہو جاتی ہے، جب کہ بھاری تعداد رکھنے والی منتشر قوم کے قدم جلد لڑکھڑانے لگتے ہیں، مسلمانوں کو کم زور کرنے کے لیے یہودی لابی شروع ہی سے تفریق کی پالیسی اپناتی رہی ہے، حضورصلى الله عليه وسلم کی مدینہ آمد سے قبل مدینہ کے دومشہور قبیلے باہم دست وگریباں تھے، جو اوس وخزرج کے نام سے جانے جاتے تھے، دورِ جاہلیت کی تاریخ ان کے درمیان چلی مشہور جنگوں کی تفصیلات سے بھری پڑی ہے، لیکن جب انہوں نے نبی صلى الله عليه وسلم کی دعوت کو گلے سے لگایا اور آپ مکہ شریف سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ جلوہ افروز ہوئے تو آپ کی برکت سے یہ دونوں حریف قبیلے آپس میں شیروشکر ہوگئے، لیکن مدینہ کے اطراف آباد یہودی قبائل کو ان دونوں حریف قبائل کا اتحاد کسی طرح ہضم نہیں ہوتا تھا، وہ ہمیشہ ان دونوں قبائل میں قدیم عداوت کو بھڑکانے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے، تاکہ مسلمانوں کا شیرازہ پارہ پارہ ہو جائے، یہودیوں کی جانب سے اس قسم کے اقدامات بار بار کیے گئے، ایک مرتبہ کسی مقام پر اوس وخزرج کے دونوں قبائل موجود تھے تو ایک یہودی نے جنگ بعاث کے اشعار سنانا شروع کردیے، اشعار سننا تھا کہ دونوں قبیلوں کے دلوں میں دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی اور دونوں پہلے زبانی، پھر ہتھیاروں سے لڑنے پر اترآئے، اس دوران نبی رحمت صلى الله عليه وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کو لے کر وہاں پہنچے اور صورتحال کو دیکھ کر فرمایا: اے مسلمانوں کی جماعت! میں تمہارے درمیان موجود ہوں، پھر یہ جاہلیت کا نعرہ کیسا؟ اللہ نے تم کو جاہلیت سے نکال کر اسلام کی روشنی عطا کی، قرآن کریم میں اسی واقعہ کے پس منظر میں کہا گیا: ﴿وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُوا﴾․(آلِ عمران: 103) ترجمہ:” سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو“۔
یہودیوں کی تفریق کی پالیسی آج تک جاری ہے، آج بھی یہودی امریکہ اور مغربی ممالک کے تعاون سے امت مسلمہ کے خلاف تفرقہ کا حربہ استعمال کر رہے ہیں، فلسطین میں برسوں سے ساری فلسطینی جماعتیں بیت المقدس کی آزادی کے لیے متحدہ کوشش کر رہی تھیں، لیکن آخر کار یہودی فلسطینیوں میں دراڑ پیدا کرنے میں کام یاب ہوئے اور سرزمین فلسطین نے اس منظر کو بھی دیکھا جب یہودی فوجیوں پر گولیاں چلانے والے فلسطینی خود آپس میں ایک دوسرے کو نشانہ بنارہے تھے اور اس آپسی برادر کشی میں سینکڑوں مسلمان جاں بحق ہوگئے، بالآخر سعودی عرب کی کام یاب ثالثی نے طوفان کو تھمادیا، گذشتہ ماہ کی اخباری اطلاعات کے مطابق صہیونی حکام فلسطینیوں پر براہ راست حملوں کے ساتھ فلسطینی عوام میں پھوٹ ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
اسرائیلی خفیہ ادارے ”شاباک“ کی طرف سے فلسطینی عوام، خصوصاً حماس اور فتح کو آپس میں لڑانے کی ایک نئی سازش بے نقاب ہوئی ہے، اسرائیلی خفیہ ادارے نے قلقبلیہ میں ایک ہینڈ بل تقسیم کیا ہے، جس میں حماس پر مختلف قسم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، بل پر لکھے گئے الزامات کے ساتھ درجنوں شہریوں کے جعلی دستخط بھی دکھائے گئے ہیں، یہ ہینڈبل سینکڑوں کی تعداد میں تقسیم کیے گئے، ان میں حماس اراکین پر حملوں اور اس کے مفادات کو تباہ کرنے کی دھمکی دی گئی ہے، بعض دستخطوں میں دستخط کنندگان نے اپنا تعلق الفتح پارٹی سے ظاہر کیا ہے، خوشی کی بات یہ ہے کہ فلسطینی حکام نے دشمن کی اس سازش کو بھانپ لیا، چناں چہ حماس نے اس اسرائیلی خفیہ ادارے کی سازش کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینی عوام کے درمیان پھوٹ ڈال رہا ہے، چناں چہ حالیہ تازہ جھڑپیں اس کا کھلا ثبوت ہیں، گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران ہوئی جھڑپوں میں اب تک قریب ۵۰/فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں، تفریق بین المسلمین کی مہم میں امریکہ یہودیوں کا سب سے بڑا حلیف ہے، امریکہ منظم انداز میں اس پالیسی پر گام زن ہے، گذشتہ دنوں امریکہ کی تفریق بین المسلمین مہم کے تعلق سے ایک سروے کرایا گیا، اس سروے کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ مسلم دنیا کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مسلم دنیا کو تقسیم کرنے اور انہیں تباہ کرنے کے لیے امریکی پالیسی اپنی پوری طاقت صرف کر رہی ہے، سروے کے مطابق پاکستان، مصر، انڈونیشیا اور مراکش کی 70فی صد آبادی کا یقین ہے کہ امریکہ مسلم ممالک کو تقسیم کرنے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کر رہا ہے، امریکی رسالہ کے ایک گروپ کی طرف سے کیے گئے سروے کے مطابق صرف چار مسلم ممالک میں کیے گئے سروے میں 40فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اصل مقصد مسلمانوں کو آپس میں لڑانا ہے، تاکہ وہ آپسی تصادم کا شکار ہو کر تباہ وبرباد ہوجائیں، جب کہ12فیصد افراد کے مطابق امریکہ کی جانب سے چھیڑی گئی جنگ کا مقصد مسلم ملکوں کے حملوں سے محفوظ بنانا ہے،امریکہ مسلمانوں کو عامی، نظریاتی اور مسلکی اعتبار سے مختلف خانوں میں بانٹ دینا چاہتا ہے، چناں چہ اس نے اس مقصد کے لیے انتہا پسند اور اعتدال پسند مسلمانوں کی اصطلاح گڑھ لی ہے۔
امریکہ عراق میں شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینے میں کام یاب ہوگیا، چناں چہ اس وقت امریکہ کی اس شیطانی پالیسی کے سبب سینکڑوں عراقی خون میں نہارہے ہیں، عراق کی صورت حال سب کے سامنے ہے، وہاں کبھی شیعہ آبادی اور ان کے مذہبی مقامات پر خودکش حملے ہو رہے ہیں تو کبھی سنی آبادی کو حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس وقت عراق میں روزانہ جس قسم کے حملے ہو رہے ہیں ان کے تعلق سے یہ کہنا مشکل ہے کہ ان میں عراقیوں کا کتنا ہاتھ ہے اور اتحادی فوجیں اور امریکی ایجنٹوں کی کتنی کارستانی ہے۔
امریکہ عراق میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی منافرت کو دیگر ان ملکوں میں بھی عام کرنا چاہتا ہے جہاں شیعہ سنی مخلوط آبادیاں پائی جاتی ہیں، جیسے ایران اور پاکستان، امریکہ چاہتا ہے کہ ایران میں سنی اقلیت کو شیعہ اکثریت اور پاکستان میں شیعہ اقلیت کو سنی اکثریت کے خلاف کھڑا کیا جائے، بیشتر مسلم ممالک میں شیعہ سنی تصادم کی فضا نظر آتی ہے، شام، لبنان، سعودی عرب، بحرین وغیرہ میں وقتاً فوقتاً تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں،اس وقت شام میں شیعہ ظالم حکم راں سنی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑتوڑرہے ہیں، امریکہ ایران کے نیوکلیئر معاملہ کو بھی شیعہ سنی اختلافات کے پس منظر میں دیکھنا چاہتا ہے، امریکہ اس بات کا پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ اگر شیعہ اکثریتی ایران ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو جاتا ہے تو پھر مغربی ایشیائی ممالک سنی بم کے لیے پاکستان کی طرف رخ کریں گے، امریکہ کی تفریق بین المسلمین کی پالیسی کسی حد تک افغانستان میں بھی کام یابی سے ہمکنار ہوئی، اب افغانستانی عوام عملاً طالبان اور موجودہ حکومت کے حامی ومخالف میں بٹ کر رہ گئے ہیں، اگرچہ افغانستان میں عوام کی اکثریت طالبان کی حامی ہے، لیکن ایک بڑا طبقہ امریکہ نواز قائدین کا ہے، جو امریکہ کا حق ِ نمک ادا کر رہا ہے، ابتدا میں اگر سارے افغان گروہ اتحاد کا مظاہرہ کرتے تو دشمن کو قدم جمانے کا موقع ہاتھ نہ آتا۔
افسوس اس کا ہے کہ امت مسلمہ تاریخ کے پچھلے واقعات سے قطعی عبرت حاصل نہیں کرتی، شروع سے دشمنوں کی جانب سے ملت کے شیرازہ کو نشانہ بنایا جاتا رہاہے، لیکن بڑے سے بڑا حادثہ مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانہ سکا،اندلس میں جہاں سینکڑوں برس مسلم حکم رانی کا پرچم لہراتا رہا، اسی وبال انتشار کے نتیجہ میں مسلمانوں کوزوال کا منھ دیکھنا پڑا، جب مسلمان اندلس میں فاتحانہ داخل ہوئے تو ان کی صفوں میں اتحاد تھا، لیکن جب موحدوں اور مرابطوں کی چپقلش رونما ہوئی، قبائلی تعصب رنگ دکھانے لگا، یمنی، حجازی اور نجدی وصحرائی جھگڑے سراٹھائے تو دشمنوں کو موقع ہاتھ آگیا اور انہیں خانہ جنگی کا شکار کم زور مسلمانوں کو مار بھگانے میں کام یابی حاصل ہوئی، اندلس کا آخری خلیفہ عبداللہ عامر المنصور جب اندلس سے تباہ وبرباد ہو کر واپس جارہا تھا تو وہ زاروقطار رورہا تھا، ایک بوڑھا شخص نمودار ہوا اور خلیفہ کو مخاطب کر کے کہنے لگا: ”یہ دن تمھیں دیکھنا ہی تھا، تم نے آپس کی لڑائی میں مسلمانوں کا قتل کرایا، میرے چار بیٹے تمہاری سلگائی ہوئی آپس کی لڑائی میں شہید ہوگئے، میں نے شہر چھوڑ کر پہاڑوں میں پناہ لی، میں اس دن کا منتظر تھا، جب تمھیں عیسائی رسوائی کے ساتھ ملک بدر کریں گے، آج وہی دن ہے، ابھی کیا روتے ہو؟ قیامت میں تم کو بہت رونا ہے۔“
خلافتِ عثمانیہ کا زوال ہمارے سامنے ہے، کتنا دبدبہ اور کیسی شان وشوکت تھی؟ لیکن آپسی انتشار نے اس کی طاقت وقوت کو پاش پاش کر کے رکھ دیا، لوگ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے متعدد اسباب بتاتے ہیں، لیکن اہل نظر جانتے ہیں کہ بنیادی سبب آپسی خلفشار اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا اعلان تھا۔
ہم پر عجیب بے حسی طاری ہے، نہ ہم ماضی سے سبق لیتے ہیں اور نہ ہی حال کی تباہی ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار کرتی ہے ،ان معروضات کے لیے قلم کوجنبش دینے کا داعیہ اس وقت پیدا ہوا جب گذشتہ دنوں احقر کی نظر گلبرگہ سے شائع ہونے والے ایک روزنامے پر پڑی، روزنامہ انقلاب دکن گلبرگہ کی 15اپریل کی اشاعت میں صفحہ اول کی سرخی اور تصویر دیکھ کر احقر کے حواس اڑگئے، ابتدا میں تصویر دیکھ کر ذہن میں کسی حادثہ کا تصور آیا، لیکن تصویر کے نیچے دی گئی تحریر پڑھ کر دم بخود رہ گیا، پانچ کالمی تصویر میں کئی مسلمان افراد زخمی حالت میں دکھائے گئے تھے، جن کے سروں پر پٹی باندھی گئی تھی، بظاہر بے ہوش اور نیم مردہ نظر آرہے تھے، اوّلِ وہلہ میں خیال آیا کہ یہ کسی حادثہ کا شکار افراد ہوں گے، لیکن جب نیچے دی گئی تحریر پڑھی تو شدتِ غم سے آنکھوں میں اندھیرا چھاگیا، نیچے لکھا تھا کہ سنگتراش واڑی کی مسجد میں پیش آئے ایک واقعہ میں زخمی افراد کی تصویر ہے، تفصیلات کے بموجب سنگتراش واڑی گلبرگہ کی مسجد میں حی علی الصلوٰة پر اٹھنے کے مسئلہ کو لے کر دومسلم گروہوں کے درمیان تصادم پیش آیا اور شدید زدوکوب ہوئی، ایک چھوٹے سے مسئلہ پر اس طرح کا تشدد انتہائی افسوس ناک ہے، آخر یہ مسلکی تشدد ہمیں کہاں لے جائے گا؟ آخر کب ہماری آنکھیں کھلیں گی؟ کیا عراق میں برپا قیامت ہمیں بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا لبنان کی تباہی سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا؟ اگر ہم نے اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں لائی اور اختلاف کے باوجود اپنے شیرازہ کو متحد نہیں رکھا تو پھر ہمیں مزید تباہی کے لیے تیار رہنا ہوگا، گذشتہ کچھ عرصہ سے شہر حیدرآباد کی فضا بھی مکدر نظر آرہی ہے، ایک طرف ملت کے عمائدین اور صحافت وسیاست کی نمائندگی کرنے والی شخصیات باہم دست وگریباں ہیں تو دوسری طرف بعض لوگ مسلکی اختلاف کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔
اختلاف ہر باشعور سماج کا لازمی جز ہے، اختلاف کا رونما ہونا برا نہیں، بلکہ اختلاف کا نزاع کی شکل اختیار کرنا افسوس ناک ہے، نزاع اور تفرقہ بازی ملت کے لیے سم قاتل ہے، میرا ذہن اس وقت مولانا آزاد مرحوم کے اس اقتباس کی طرف منتقل ہو رہا ہے، جس میں مولانا نے آپسی انتشار کے مسئلہ پر مسلمانوں کو جھنجھوڑا ہے، مولانا کی یہ تحریر گوش دل سے سننے اور سرمہ بصیرت بنانے کے لائق ہے، مولانا لکھتے ہیں ”قرآن نے اسلام کی حقیقت دراصل اس چیز کو بتلایا ہے جو اختلاف اور تفریق کے ساتھ جمع ہی نہیں ہوسکتی، وہ ہرجگہ اسلام کو وحدت وتالف اور کفر کو تعدد وتشتت قرار دیتا ہے اور جس شدت اور تکرار کے ساتھ شرک سے روکتا ہے، ٹھیک ٹھیک اسی طرح تفریق وشقاق سے بھی باز رکھنا چاہتا ہے، وہ بار بار کہتا ہے کہ تم ”مغضوب علیہم“یعنی یہود اور ”الضالین“ یعنی نصاریٰ کی ضلالتوں سے اپنے آپ کو بچاوٴ اور انعام یافتہ جماعتوں کی راہ پر چلو، پھر جابجا تشریح کرتا ہے کہ یہود ونصاریٰ کی سب سے بڑی ضلالت یہ تھی کہ انہوں نے نزول علم، یعنی نزول شریعت کے بعد راہ شقاوت اختیار کی، خدا نے ان کو ایک کردیا تھا، پر وہ ایک نہ رہے اور مختلف مذہبوں، مختلف جماعتوں، مختلف ناموں اور مختلف غیر الٰہی دینوں میں متفرق ہوگئے ﴿الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا کل حزب بمالدیھم فرحون﴾․ (الروم:۳۲)اس سے بھی زیادہ یہ کہ جابجا واضح کیا کہ کسی امت کے لیے تالیف واتحاد رحمتِ الٰہی اور تخریب وتفریق عذابِ الٰہی ہے۔
خدا جب بھی کسی قوم کو سزا دینا چاہتا ہے تو اس میں باہمی تفرقہ اور اختلاف ڈال دیتا ہے، ارشادِ ربانی ہے: ”کہہ دو کہ اللہ اس پر قادر ہے کہ تم پر اوپر سے کوئی عذاب لائے یا تمہارے قدموں کے نیچے ہی سے اس کا عذاب نمایاں ہو یا پھر تمہارے اندر پھوٹ ڈال دے، تم گروہ گروہ اور جماعت جماعت ہو جاوٴ اور باہم ایک دوسرے سے لڑکر خود اپنی ہی تلوار سے اپنے کو ہلاک کرلو“۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے سب سے بڑی وصیت امت کو یہی کی کہ ”لاترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض“․ (بخاری 1048/2، مسلم58/1) میں نے تم کو عذاب شقاق وافتراق سے نکال کر اتحاد وتالیف کی رحمت کا پیکر بنادیا ہے، لیکن میرے بعد کافروں کا طریق اختیار نہ کرنا کہ باہم ایک کی تلوار دوسرے کی گردن پر چلے ۔اور یہی چیز ہے جس کی طرف باب مدینة العلم حضرت علی رضی الله عنہ نے اپنے ایک خطبہ مقدسہ میں دعوت دی: ”الٰھھم واحد، ونبیھم واحد، وکتابھم واحد، أیأمرھم اللّٰہ بالاختلاف فاطاعوہ؟ أم نھاھم عنہ فعصوہ؟ أم انزل اللّٰہ دینا ناقصا فاستعان بہ علی اتمامہ؟“(نہج البلاغة) ان کا خدا ایک ہے، نبی ایک ہے، پھر کیا ہے کہ وہ باہم اختلاف کرتے ہیں؟ خدا نے کیا ان کو اختلاف کا حکم دیا ہے کہ اس کی پیروی میں مختلف ہو رہے ہیں، یا اس نے اختلاف سے روکا ہے اور وہ حکم الٰہی کی نافرمانی کر رہے ہیں؟ یا پھر یہ ہے کہ خدا نے ناقص دین اتارا اور اس کے اس طریقہ سے اب اس کو مکمل کرنا چاہتے ہیں؟
لیکن بدبخت مسلمانوں نے وہی کیا جس سے وہ روکے گئے تھے، خدا نے ان کو دوسروں کے لیے تلوار دی تھی، انہوں نے خود اپنوں پر چلائی، خدا نے ان کو ایک بنایا تھا وہ متعدد جماعتوں میں متفرق ہوگئے، خدا نے ان کو ایک شریعت دی تھی، انہوں نے بہت سی شریعتیں بنالیں، خدا نے ان کا ایک ہی نام ”مسلم“ رکھا تھا، مگر ان میں سے ہر جماعت نے اپنا الگ الگ نام رکھا، پس یہ اختلاف وشقاوت ایک عذاب الٰہی ہے، مسلمانوں کی سب سے بڑی مصیبت ہے، سب سے بڑا طغیان ہے، سب سے بڑا عدوان ہے، ان کے تمام مصائب وخسران قومی کامبدائے حقیقی ہے، زمین کی سطح پر مسلمانوں نے اس سے بڑھ کر اور کوئی گناہ نہیں کیا اور خدا نے جس قدر بھی اس وقت ان کو سزائیں دی ہیں وہ سب کی سب اسی بڑے جرم کی پاداش میں“۔
مولانا آزاد کے یہ تازیانے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، ملت سے مذموم اختلاف اور آپسی نزاع کے خاتمہ کے لیے ہمیں کچھ ٹھوس اقدامات کرنے ہیں اور یہ اقدامات عالمی سطح پر بھی ہونے چاہییں اور ملکی اور علاقائی سطح پر بھی، عالمی سطح پر درجِ ذیل اقدامات پر فوری عمل آوری کی جائے: عالمی سطح پر مسلم ممالک اور قائدین کے درمیان آپسی تعاون اور ایک دوسرے سے استفادے کی شکلیں ڈھونڈ نکالی جائیں۔ان اسباب کا جائزہ لیا جائے جن کے سہارے صہیونی اور صلیبی طاقتیں مسلمانوں میں انتشار پھیلا ر ہیں ۔عالمی سطح پر مختلف مسلم ممالک کے دانش وروں اور اصحاب علم وبصیرت کا ایک کمیشن تشکیل دیا جائے، جو تفریق بین المسلمین کی صہیونی سازشوں پر نظر رکھیں اور حکم رانوں اور ارباب اقتدار کو رپورٹ دیں۔ عالمی سطح کی سرکاری ونیم سرکاری تنظیموں اور تحریکوں جیسے تنظیم اسلامی کانفرنس، عرب لیگ، رابطہ عالم اسلامی وغیرہ کو مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔مسلم ممالک کے علماء اور اصحاب افتاء کتاب وسنت کی بنیاد پر امت کومجتمع کرنے کی مساعی میں تیزی پیدا کریں۔ ساری امت بشمول قائدین اور عامة المسلمین دعوت دین کو اپنا نصب العین بنالیں، دعوت واحد راستہ ہے جو امت کے تمام طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر لاسکتا ہے۔ مسلمانوں میں ان گروہوں پر نظر رکھی جائے جو انتشار کے لیے کوشاں رہتے ہیں، نیز ایسے لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے جس میں اتحاد کی اہمیت اور افتراق کے نقصانات پر روشنی ڈالی گئی ہو۔نزاع کی صورت میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کے مزاج کو فروغ دیا جائے۔
جہاں تک علاقائی سطح کے اقدامات ہیں تو ان میں چند یہ ہیں: علماء اور ائمہ اپنے اپنے پیروکاروں کومسلکی مسائل میں اعتدال کی راہ اپنانے کی تلقین کریں، امت کو اختلاف کے باوجود متفق علیہ اور عام ملی مسائل میں اجتماعیت اختیار کرنے پر زور دیں۔ جمعہ کے خطبوں اور عوامی جلسوں میں متنازعہ مسائل کو زیرِبحث لانے سے گریز کریں۔ علمائے امت، داعیان دین اور امت کا باشعور طبقہ ساری توجہ دعوت واصلاح پر مرکوز کرے، اپنوں کی اصلاح کے ساتھ برادرانِ وطن میں دعوت کو اپنا نصب العین بنالیں۔
فتنے اور امت محمدیہ
حق تعالیٰ جل ذکرہ نے امت محمدیہ کے لئے جس ہادی ورسول کا انتخاب فرمایا‘ (ا ) اسے رحمة للعٰلمین بنایا‘ اس رحمت کا ظہور بہت سی شکلوں میں ہوا‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ تمام امت-خواہ وہ دعوتِ محمدیہ کے سایہ میں آئی ہو یا نہ آئی ہو- اس رحمتِ عامہ کی بدولت عام عذابِ الٰہی سے محفوظ ہوگئی‘ پہلی امتوں پر طرح طرح کے عذابِ عام نازل ہوئے‘ جن سے پوری پوری امتیں تباہ وبرباد کردی گئی‘ بعض کو بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ کردیا گیا‘ بعض پر آسمان سے پتھر برسائے گئے‘ بعض کو زمین میں دھنسا دیا گیا‘ بعض کو طوفان کی نذر کردیا گیا اور بعض کو سمندر میں غرق کردیا گیا‘ حق تعالیٰ نے آنحضرت ا کی امت کو ان سے محفوظ رکھا۔ صحیح بخاری وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:
”قل ہو القادر علی ان یبعث علیکم عذاباً من فوقکم او من تحت ارجلکم او یلبسکم شیعاً ویذیق بعضکم باس بعض“۔ (الانعام ع ۷۸)
ترجمہ:․․․”تو کہہ اس کو قدرت ہے اس پر کہ بھیجے تم پر عذاب اوپر سے (جیسے پتھر برسنا یا‘ طوفانی ہوا اور بارش‘ یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (جیسے زلزلہ اور سیلاب وغیرہ) یا بھڑا دے تم کو مختلف فرقے کرکے اور چکھادے ایک کو لڑائی ایک کی “۔(ترجمہ شیخ الہند‘) جس میں تین قسم کے عذاب سے ڈرایاگیا ہے: آسمانی عذاب‘ زمین کا عذاب اور باہمی اختلاف کا عذاب‘ تو رسول اللہ ا نے پہلی قسم کے عذاب سے نجات کی دعا فرمائی اور وہ قبول ہوئی‘ پھر دوسری قسم کے عذاب سے نجات کی دعا کی اور وہ بھی قبول ہوئی‘جب تیسری قسم کے عذاب سے نجات کی دعا فرمائی تو قبول نہیں ہوئی‘ جس سے معلوم ہوا کہ اس امت کا عذاب آپس کا اختلاف ونزاع ہوگا۔ اس اختلاف کی صورتیں مختلف رہی ہیں‘ یہ کبھی باہمی خانہ جنگی اور قتل وقتال کی صورت میں ظاہر ہوا‘ کبھی باہمی نزاع وجدال کی صورت میں نمودار ہوا‘ کبھی شقاق وافتراق کے راستے سے آیا اور کبھی بدظنی وبدگمانی‘ طعن وتشنیع اور لعنت وملامت کی صورت میں ابھرا۔ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ خلیفہٴ مظلوم سیدنا عثمان بن عفانؓ کی شہادت کے بعد اس امت پر فتنوں کا دروازہ کھل گیا‘ جنگِ جمل‘ جنگ صفین‘ واقعہٴ حرہ‘ واقعہٴ دیر الجماجم‘ واقعہٴ کربلا اور سیدنا حسینؓ کی شہادت وغیرہ اسی دردناک سلسلہ کی کڑیاں ہیں‘ بہرحال اس امت میں ابتداہی سے فتنوں کا دور شروع ہوا اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت میں فتنوں کا دور کم وبیش برابر جاری رہے گا‘ فرق یہ ہے کہ دور اول میں عہد نبوت کے قرب کی وجہ سے امت کا ایمان قوی تھا‘ یہی وجہ ہے کہ شدید ترین اختلاف اور جدال وقتال کے باوجود دور اول کے تمام فتنے امت کے ایمان کو متزلزل نہیں کرسکے‘ بلکہ تمام مسلمانوں کا ایمان اپنی جگہ قائم وراسخ رہا۔ سب سے بڑا اور خطرناک فتنہ وہ ہوتاہے جس سے زوالِ ایمان کا خطرہ پیدا ہوجائے‘ اگرچہ اپنی ظاہری شکل وصورت کے اعتبار سے وہ معمولی معلوم ہوتا ہو‘ چنانچہ احادیث سے علوم ہوتا ہے کہ اس امت کا سب سے بڑا فتنہ دجالِ لعین کا فتنہ ہوگا جو خدائی کا دعویٰ کرے گا اور ہرقسم کے دجل وفریب سے لوگوں کے ایمان کو غارت کرے گا‘ یہ فتنہ اگرچہ قیامت کے بالکل قریب ہوگا‘ اور قیامت کی علامات ِ کبریٰ میں سے ہوگا‘تاہم اس کی شدت واہمیت کی بنا پر ہر نبی ورسول نے اپنی اپنی امتوں کو اس فتنہ سے ڈرایا اور اس کے ایمان سوز نتائج وعواقب سے آگاہ کیا‘ مگر چونکہ اس فتنہ کا ظہور امتِ محمدیہ کے عہد میں ہونا تھا اور اس فتنہ ٴ کبریٰ سے براہ راست اسی امت کا تعلق تھا‘ اس لئے حضرت رسالت پناہ جناب رسول اللہ ا نے بہت وضاحت وصراحت کے ساتھ اس سے ڈرایا اور اس کی واضح علامتیں بیان فرمائیں‘ تاکہ ہرشخص دجالی فتنہ کو پہچان سکے اور امت گمراہی سے بچے۔ الغرض زوال ایمان کا فتنہ تو سب سے بڑا فتنہ ہے- اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے- اور اس کا ظہور بھی امت کے بالکل آخری دور میں ہوگا‘ لیکن اس کے علاوہ ہر دور میں جن فتنوں کا ظہور ہوتا رہاہے‘ وہ اعمال واخلاق‘ بدعت والحاد اور تشتت وافتراق کے فتنے ہیں۔ ہمارا یہ دور جس سے ہم گذررہے ہیں‘ گوناگوں فتنوں کی آماجگاہ ہے‘ ہرطرف سے مختلف قسم کے فتنوں کی یورش ہے‘ ان میں سب سے زیادہ جن فتنوں سے امت کو واسطہ پڑا ہے‘ وہ اخلاقی وعملی فتنے ہیں‘ عوام زیادہ تر اخلاقی فتنوں میں مبتلا اور بدعملی کے فتنوں کا شکار ہیں‘ فریضہٴ نماز میں تساہل‘ فریضہٴ صیام سے تغافل‘ فریضہٴ حج وزکوٰة میں تکاسل‘ وغیرہ وغیرہ۔ عبادات ہوں یا اخلاق‘ معاملات ہوں یا معاشرت ہرشعبہٴ دین میں بدعملی کا دور دورہ ہے اور بہت سے فتنے اس بدعملی کے نتائج ہیں۔ ملک میں شراب نوشی‘ عریانی وبے حیائی‘ فواحش ومنکرات‘ مردوزن کے مخلوط اجتماعات‘ مخلوط تعلیم‘ تھیٹر اور سینما ‘ ریڈیو اور ٹیلیویژن‘ زنا اور بدمعاشی‘ بداخلاقی وبداطواری ‘ لوٹ مار‘ چوری اور ڈاکہ‘ رشوت وخیانت‘ جھوٹ اور بہتان طرازی‘ غیبت اور چغلی ‘ حرام خوری کی نت نئی صورتیں‘ حرص دنیا کی خاطر اشیاء خوردنی میں ملاوٹ۔ کہاں تک شمار کیا جائے‘ بے شمار برائیاں ہیں جو دورِ حاضر میں اس کثرت سے ظاہر ہوئیں کہ پچھلے زمانوں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا‘ عقل حیران اور انسانی ضمیر انگشت بدنداں ہے کہ یا اللہ! دنیا کیا سے کیا ہوگئی؟ اگر آج قرون اولیٰ کے مسلمان زندہ ہوکر آجائیں اور اس دور کے مدعئی اسلام مسلمانوں کے اخلاق وعمل کا یہ نقشہ دیکھیں تو خدا جانے کیا کہیں اور ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کریں‘ نعوذ باللہ من الفتن ما ظہر منہا وما بطن۔ بہرحال یہ فتنے اور یہ امراض تو وہ ہیں جن میں زیادہ عوام مبتلا ہیں ‘ اب ذرا خواص امت پر بھی سرسری نگاہ ڈالئے- یہ حقیقت ہے کہ علماء کرام اس عالَم کا دل ودماغ ہیں اور عوام امت بمنزلہ اعضائے انسانی کے ہیں‘ علمائے امت کا مقام وہی ہے جو انسانی جسم میں قوائے رئیسہ- دل ودماغ جگر اور گردوں کا ہے- اعضائے رئیسہ اپنا کام ٹھیک ٹھیک کررہے ہوں تو جسم کسی اندرونی مرض کا شکار نہیں ہوتا اور بیرونی آفات وصدمات کے مقابلہ میں پوری قوتِ مدافعت رکھتاہے‘ عام اعضائے انسانی کا نقص‘ اعضائے رئیسہ کے اختلال کی نشاندہی کرتا ہے اور ظاہر جسم کی خرابی اکثر وبیشتر جسم کی اندرونی قوتوں کی خرابی سے ہوتی ہے‘ اسی طرح عوام امت میں خرابی زیادہ تر علماء امت کی خرابی وفساد سے ظہور میں آتی ہے۔ جب علمائے امت اپنا فرض منصبی ادا کرنا چھوڑدیتے ہیں تو عوام میں فساد کے در آنے کا راستہ کھل جاتاہے۔ اس جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ خود صحیح ہوں اور ایمان وتقویٰ اور اخلاق وعمل صالح سے آراستہ ہوں اور دوسرا فرض یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے منصب پر فائز ہوں اور صراط مستقیم کی طرف امت کی راہنمائی کریں اور کسی قسم کا نقص․․․ اعتقادی‘ اخلاقی یا عملی․․․ امت میں واقع ہو تو اس کے لئے بے چین ہوجائیں اور اس کی اصلاح کے لئے صحیح تدابیرکریں‘ اگر خود ان ہی میں نقص آجائے تو امت کے عوام کا خراب ہونا لازمی ہے‘ اسی طرح اگر وہ اپنے مقام ومسند کو چھوڑ بیٹھیں‘ دعوت وتبلیغ اور اصلاح وتزکیہ کی خدمت سے دستکش ہوجائیں اور اصلاح امت کی فکر کو بالائے طاق رکھ دیں تو اس کے نتیجہ میں پوری امت فساد اور بدعملی کی لپیٹ میں آجاتی ہے۔ یہرکیف امت کے لئے سب سے بڑا فتنہ یہ ہوتاہے کہ مصلحین امت اپنے فریضہٴ منصبی سے غافل ہوجائیں اور جب رفتہ رفتہ یہ مرض یہاں تک بڑھ جاتاہے کہ علماء امت خود اپنی اصلاح سے بھی غافل اور مختلف امراض اور فتنوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں امت پر ایک وقت ایسا بھی آتاہے کہ امت امراض کے انتہائی خطرناک درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور اس وقت کوئی توقع نہیں رہتی کہ دعوت وتبلیغ اور اصلاح کی کوشش مثمر ہوسکے ‘ نبی کریم ا کے مبارک کلمات میں اسی کا نقشہ یوں پیش کیا گیاہے:
ترجمہ:۔”جب تم دیکھو کہ نفسیاتی خواہشات کی اتباع ہورہی ہے‘ طبیعت کی حرص قابلِ اطاعت بن گئی ہے‘ ہرکام میں دنیا کی مصلحت بینی کا خیال رکھا جاتاہے اور ہر شخص کو اپنی رائے پر ناز ہے اور اپنی رائے کے خلاف ہربات کو ہیچ سمجھتاہے“۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو پھر اپنی فکر کرنی چاہئے‘ دنیا کی اصلاح کی فکر ختم کر دینی چاہئے‘ یا یہ کہ تبلیغی فریضہ ساقط ہوجاتاہے‘ یہ دوسری بات ہے کہ انتہائی اولو العزمی سے کام لیا جائے اور اس وقت بھی میدان میں آکر اس خدمت کو انجام دیا جائے‘ بہرحال جب حالات اتنے مایوس کن نہ ہوں تو قدم کو جادہٴ دعوت واصلاح سے نہیں ہٹنا چاہئے۔
علماء ومصلحین اور ان کے فتنے
سب سے بڑا صدمہ اس کا ہے کہ مصلحین کی جماعتوں میں جو فتنے آج کل رونما ہورہے ہیں‘ نہایت خطرناک ہیں‘ تفصیل کا موقعہ نہیں‘ لیکن فہرست کے درجہ میں چند باتوں کا ذکر ناگزیر ہے:
۱- مصلحت اندیشی کا فتنہ
یہ فتنہ آج کل خوب برگ وبار لارہاہے‘ کوئی دینی یا علمی خدمت کی جائے‘ اس میں پیش نظر دنیاوی مصالح رہتے ہیں‘ اس فتنہ کی بنیاد نفاق ہے‘ یہی وجہ ہے کہ بہت سی دینی وعلمی خدمات برکت سے خالی ہیں۔
۲- ہر دلعزیزی کا فتنہ
جوبات کہی جاتی ہے‘ اس میں یہ خیال رہتا ہے کہ کوئی بھی ناراض نہ ہو‘ سب خوش رہیں‘ اس فتنہ کی اساس حب جاہ ہے۔
۳- اپنی رائے پر جمود واصرار
اپنی بات کو صحیح وصواب اور قطعی ویقینی سمجھنا‘ دوسروں کی بات کو درخور اعتناء اور لائق التفات نہ سمجھنا‘ بس یہی یقین کرنا کہ میرا موقف سو فیصد حق اور درست ہے اور دوسرے کی رائے سو فیصد غلط اور باطل- یہ اعجاب بالرائے کا فتنہ ہے اور آج کل سیاسی جماعتیں اس مرض کا شکار ہیں- کوئی جماعت دوسرے کی بات سننا گوارا نہیں کرتی‘ نہ حق دیتی ہے کہ ممکن ہے کہ مخالف کی رائے کسی درجہ میں صحیح ہو یا یہ کہ شاید وہ بھی یہی چاہتے ہوں جو ہم چاہتے ہیں‘ صرف تعبیر اور عنوان کا فرق یا الا ہم فالا ہم کی تعیین کا اختلاف ہو۔
۴-سوء ظن کا فتنہ
ہرشخص یا ہر جماعت کا خیال یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد مخلص ہے اور ان کی نیت بخیر ہے اور باقی تمام جماعتیں جو ہماری جماعت سے اتفاق نہیں رکھتیں‘ وہ سب خود غرض ہیں‘ ان کی نیت صحیح نہیں‘ بلکہ اغراض پر مبنی ہیں‘ اس کا منشاء بھی عجب وکبر ہے۔
۵- سوء فہم کا فتنہ
کوئی شخص کسی مخالف کی بات جب سن لیتا ہے تو فوراً اسے اپنا مخالف سمجھ کر اس سے نہ صرف نفرت کا اظہار کرتاہے‘ بلکہ مکروہ انداز میں اس کی تردید فرض سمجھی جاتی ہے۔ مخالف کی ایک ایسی بات میں جس کے کئی محمل اور مختلف توجیہات ہوسکتی ہیں‘ وہی توجیہ اختیار کریں گے جس میں اس کی تحقیر وتذلیل ہو‘ کیا ”ان بعض الظن اثم“ ( یقیناً بعض گمان گناہ ہیں) اور ”ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث“ ( بدگمانی سے بچاکرو‘ کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے اور بڑے بڑے جھوٹ اسی سے پیدا ہوتے ہیں) کی نصوص مرفوع العمل ہوچکی ہیں؟․
۶-بہتان طرازی کا فتنہ
مخالفین کی تذلیل وتحقیر کرنا‘ بلاسند ان کی طرف گھناؤنی باتیں منسوب کرنا۔ اگر کسی مخالف کی بات ذرا بھی کسی نے نقل کردی‘ بلاتحقیق اس پر یقین کرلینا اور مزے لے لے کر محافل ومجالس کی زینت بنانا‘ بالفرض اگر خود بہتان طرازی نہ بھی کریں‘ دوسروں کی سنی سنائی باتوں کو بلاتحقیق صحیح سمجھنا‘ کیا یہ نص قرآنی ”ان جاء کم فاسق بنباء فتبینوا“ الآیة ( اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہ گار خبر لے کر تو تحقیق کرلو) کے خلاف نہیں؟
۷- جذبہٴ انتقام کا فتنہ
کسی شخص کو کسی شخص سے عداوت ونفرت یا بدگمانی ہے‘ لیکن خاموش رہتاہے لیکن جب ذرا اقتدار مل جاتاہے ‘ طاقت آجاتی ہے تو پھر خاموشی کا سوال پیدا نہیں ہوتا‘ گویا یہ خاموشی معافی اور درگذر کی وجہ سے نہیں تھی‘ بلکہ بیچارگی وناتوانی اور کمزوری کی وجہ سے تھی‘ جب طاقت آگئی تو انتقام لینا شروع کیا‘ رحم وکرم اور عفو درگذر سب ختم۔
۸-حب شہرت کا فتنہ
کوئی دینی یا علمی یا سیاسی کام کیا جائے‘ آرزو یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ داد ملے اور تحسین وآفرین کے نعرے بلند ہوں‘ درحقیقت اخلاص کی کمی یا فقدان سے اور خود نمائی ورباکاری کی خواہش سے یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے‘ صحیح کام کرنے والوں میں یہ مرض پیدا ہوگیا اور درحقیقت یہ شرکِ خفی ہے‘ حق تعالیٰ کے دربار میں کسی دینی یا علمی خدمت کا وزن اخلاص سے ہی بڑھتا ہے اور یہی تمام اعمال میں قبول عند اللہ کا معیار ہے‘ اخبارات‘ جلسے‘ جلوس‘ دورے زیادہ تر اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔
۹- خطابت یا تقریر کا فتنہ
یہ فتنہ عام ہوتا جارہاہے کہ لن ترانیاں انتہا درجہ میں ہوں‘ عملی کام صفر کے درجہ میں ہوں‘ قوالی کا شوق دامن گیر ہے‘ عمل وکردار سے زیادہ واسطہ نہیں۔
”لم تقولون ما لاتفعلون کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا مالاتفعلون“ ۔
ترجمہ:۔کیوں کہتے ہو منہ سے جو نہیں کرتے‘ بڑی بیزاری کی بات ہے اللہ کے یہاں کہ کہو وہ چیز جو نہ کرو “۔ (ترجمہ شیخ الہند) خطیب اس انداز سے تقریر کرتاہے گویا تمام جہاں کادرد اس کے دل میں ہے‘ لیکن جب عملی زندگی سے نسبت کی جائے تو درجہ صفر ہوتاہے۔
۱۰- پروپیگنڈہ کا فتنہ
جو جماعتیں وجود میں آئی ہیں‘ خصوصاً سیاسی جماعتیں ان میں غلط پروپیگنڈہ اور واقعات کے خلاف جوڑ توڑ کی وبا اتنی پھیل گئی ہے جس میں نہ دین ہے اور نہ اخلاق‘ نہ عقل ہے نہ انصاف‘ محض یورپ کی دین باختہ تہذیب کی نقالی ہے‘ اخبارات‘ اشتہارات ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ تمام اس کے مظاہر ہیں۔
۱۱- مجلس سازی کا فتنہ
چند اشخاص کسی بات پر متفق ہوگئے یا کسی جماعت سے اختلاف رائے ہوگیا‘ فوراً اخبار نکالا جاتاہے بیانات چھپتے ہیں کہ اسلام اور ملک ‘ بس ہماری جماعت کے دم قدم سے باقی رہ سکتاہے۔ نہایت دل کش عنوانات اور جاذبِ نظر الفاظ وکلمات سے قرار دادیں اور تجویزیں چھپنے لگتی ہیں‘ امت میں تفرق وانتشار اور گروہ بندی کی آفت اسی راستے سے آئی ہے۔
۱۲- عصبیت جاہلیت کا فتنہ
اپنی پارٹی کی ہربات خواہ وہ کیسی ہی غلط ہو‘ اس کی حمایت وتائید کی جاتی ہے اور مخالف کی ہربات پر تنقید کرنا سب سے اہم فرض سمجھا جاتا ہے‘ مدعئی اسلام جماعتوں کے اخبار ورسائل‘ تصویریں‘ کا رٹون‘ سینما کے اشتہار‘ سود اور قمار کے اشتہار اور گندے مضامین شائع کرتے ہیں‘ مگر چونکہ ”اپنی جماعت “ کے حامی ہیں‘ اس لئے جاہلی تعصب کی بنا پر ان سب کو بنظر استحسان دیکھا جاتاہے‘ الغرض جو اپنا حامی ہو وہ تمام بدکرداریوں کے باوجود پکا مسلمان ہے اور جو اپنا مخالف ہو‘ اس کا نماز روزہ کا بھی مذاق اڑایاجاتاہے۔
۱۳- حب مال کا فتنہ
حدیث میں تو آیاہے کہ
”حب الدنیا رأس کل خطیئہ“
دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے‘ حقیقت میں تمام فتنوں کا قدر مشترک حب جاہ یا حب مال ہے‘ بہت سے حضرات
”ربنا آتنا فی الدنیا حسنة“
کو دنیا کی جستجو اور محبت کے لئے دلیل بناتے ہیں‘ حالانکہ بات واضح ہے کہ ایک ہے دنیا سے تعلق اور ضروریات کا حصول- اس سے انکار نہیں‘ نیز ایک ہے طبعی محبت ‘ جو مال اور آسائش سے ہوتی ہے‘ اس سے بھی انکار نہیں‘ مقصد تو یہ ہے کہ حب دنیا یا حب مال کا اتنا غلبہ نہ ہو کہ شریعت محمدیہ اور دین اسلام کے تمام تقاضے ختم یا مغلوب ہوجائیں‘ اقتصاد واعتدال کی ضرورت ہے‘ عوام سے شکایت کیا کی جائے‘ آج کل عوام سے یہ فتنہ گذر کر خواص کے قلوب میں بھی آرہاہے‘ الا ماشاء اللہ! اس فتنے کی تفصیلات کے لئے ایک طویل مقالے کی ضرورت ہے‘ حق تعالیٰ توفیق عطا فرمائے‘ ہم ان مختصر اشاروں کو حضرت رسول اللہا کی محبت کی ایک دعا پر ختم کرتے ہیں:
”اللہم! رزقنی حبک وحب من یحبک وحب عمل یقربنی الیک‘ اللہم ما رزقتنی مما احب فا جعلہ قوة فیما یحب وما زویت عنی مما احب فاجعلہ فراغاً لی فیما تحب‘ اللہم اجعل حبک احب الاشیاء الیّ من نفسی واہلی ومن الماء البارد“
فتنہٴ قادیانیت سے باخبر رہئے!
اللہ نے انسان کو پیدا فرمایا اور پیدا فرماکر خالی چھوڑ نہیں دیا بلکہ اس کی ہر ضرورت کے پورا ہونے کا مکمل انتظا فرمایا، انسان چونکہ دو چیزوں کا نام ہے ایک جسم دوسرے روح، جسم کی تعلیم و تربیت کا نظام اللہ نے عقل کے سپرد کیا ہے،اور روح کی تعلیم و تربیت کانظام انبیاء علیہم السلام کے، کیونکہ ہر انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ براہ راست اللہ سے اس کی مرضیات ونامرضیات کا علم حاصل کرسکے۔
اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے کچھ مقدس ہستیوں کا انتخاب فرمایا،اور انہیں یہ روحانی نظام عطا فرماکر اپنے بندوں کی طرف بھیجا تاکہ وہ اللہ کی مرضی و نامرضی سے واقف ہوجائیں، اللہ کی طرف سے اس انتخاب کا نام اصطلاح شرع میں نبوت ہے جو صرف انتخاب خداوندی ہے، بندے کے کسب ومحنت کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ ارشاد خداوندی ہے:
تم اگر یہ سوال کروکہ نبوت کسبی چیز ہے یا وہبی تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبوت کسبی نہیں کہ محنت اور کوشش سے حاصل کی جائے جیساکہ بیوقوفوں کی جماعت کا خیال ہے۔ مالکی وغیرہ نے اس شخص کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا ہے جو یہ کہے کہ نبوت کسبی چیز ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ کوئی شخص کثرت عبادت محنت اور مجاہدہ سے نبی نہیں بن سکتا؛ البتہ اپنی کوشش وعبادت سے انسان ولی بن سکتا ہے، مگر افسوس ہے انیسویں صدی عیسوی میں صوبہ پنجاب ضلع گورداسپور کے قصبہ قادیان میں پیداہونے والے مرزاغلام احمد پر کہ وہ اپنے ولی ہونے کا جھوٹا دعویٰ تو کیا کرتے انھوں نے صاف نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کردیا، حالانکہ عقیدئہ ختم نبوت ایک سو آیات قرآنیہ اور دوسو سے زائد احادیث نبویہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
آپ فرمادیجئے کہ میں تم سب کی طرف سے اس اللہ کا پیغمبر ہوں جس کے لئے آسمانوں اور زمینوں کی حکومت ہے۔
جب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی بعثت عام ہوچکی سبھی لوگوں کی طرف تو اب کسی اور نبی کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح حضور صلى الله عليه وسلم نے احادیث متواترہ میں اپنے آخری نبی ہونے کا اعلان فرمایا اور ختم نبوت کی ایسی تشریح فرمائی کہ جس کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم کے آخری نبی ہونے میں کوئی شک وشبہ اور تاویل کی گنجائش نہیں رہی۔
متعدد علماء نے ختم نبوت کی حدیثوں کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے، چنانچہ حافظ ابن کثیر آیت خاتم النّبیین کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
وَبِذٰلِکَ وَرَدَتِ الأحَادِیْثُ المُتَوَاتِرَةُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم مِنْ حَدِیْثِ جَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ.(تفسیر ابن کثیر جلد۳/۴۹۳)
اور اسی ختم نبوت پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے متواتر حدیثیں وارد ہوئیں جن کو صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا ہے۔ جن میں سے صرف دو حدیثیں یہاں ذکر کی جارہی ہیں:
حضرت ثوبانرضى الله عنهسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے ہوں گے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں ہی آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
سعد ابن ابی وقاص رضى الله عنه سے روایت ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے حضرت علیرضى الله عنهسے فرمایا کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارن عليه السلام کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعدکوئی نبی نہیں۔
اسی طرح اجماع امت سے بھی عقیدئہ ختم نبوت ثابت ہے جیساکہ بیشمار علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔
ملا علی قاری شرح ”فقہ اکبر“ میں تحریر فرماتے ہیں:
دَعْویٰ النُّبُوَّةِ بَعْدَ نَبِینَا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کُفْرٌ بِالاِجْمَاعِ.(شرح فقہ اکبرص:۲۰۲، بحوالہ اسلام اور قادیانیت کا تقابلی مطالعہ ص:۷۱)
ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے، ان تمام ثبوت کے بعد بھی بعض حریص انسانوں حسد وجلن کی وجہ سے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے میں دریغ نہیں کیا۔
انہی جھوٹے مدعیان نبوت میں سے ایک (مرزا غلام احمد) ہمارے دور کے بعض انسانوں کے حصہ میں آگیا جس کی ہمیں سختی سے تردید کرنی چاہئے، تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر جھوٹے مدعیان نبوت ناکام ہوئے، مگر مرزا کا معاملہ حکومت برطانیہ کے سہارے کی وجہ سے الگ ہے۔
مرزا نے دیگر مدعیان نبوت کی طرح اولاً صاف صاف نبوت کا دعویٰ نہیں کیا کیونکہ ایسے مدعیوں کا عبرتناک انجام اس کو معلوم تھا، لہٰذا اس نے بڑی چالاکی سے تدریجی انداز اپنایا، اولاً خادم و مبلغ اسلام کے روپ میں ظاہر ہوا، پھر اپنے کو ملہم اور مامور من اللہ بتلایا پھر مجدد ہونے کا اظہار کیا، آگے بڑھ کر مہدی ومثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا، مزید ترقی کرکے ظلی وبروزی نبوت کا پروپیگنڈہ کرنے لگا آخر کار اصل منزل مقصود پر پہنچ کر مستقل اور صاحب شریعت نبی ہونے کا اعلان کرکے اپنے نہ ماننے والوں کو جہنمی کہنے لگا۔ (ماخوذ از محاضرئہ رد قادیانیت پیش کردہ قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری)
قارئین کرام! اسلام کے خلاف وقتاً فوقتاً بہت سی تحریکیں اٹھیں وہ یا تو اسلام کے نظام حکومت کے خلاف تھیں، یا شریعت اسلامی کے خلاف لیکن قادیانیت درحقیقت نبوت محمدی کے خلاف بغاوت اور ایک سازش ہے۔
قادیانیت کے بارے میں یہ غلط فہمی ہوگی اسے مسلمانوں کے دینی وعلمی اختلافات اور مکاتب فکر میں سے ایک دینی وعلمی اختلاف اور خاص مکتب فکر خیال کیا جائے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ قادیانیت مسلمانوں سے الگ ایک مستقل خود ساختہ مذہب ہے۔
حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں، قادیانی تحریک اسلام کے دینی نظام اور زندگی کے ڈھانچے کے مقابلے میں ایک نیا دینی نظام اور زندگی کا نیا ڈھانچہ پیش کرتی ہے، وہ دینی زندگی کے تمام شعبوں اور مطالبوں کی خود خانہ پری کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے پیرؤوں کو جدید نبوت، جدید مرکز محبت وعقیدت، نئی دعوت، نئے روحانی مرکز اور مقدسات نئے مذہبی شعائر، نئے مقتدا، نئے اکابر، نئی تاریخیں اور شخصیتیں عطا کرتی ہے۔ (قادیانیت تحلیل و تجزیہ ص:۱۴۲)
اسی وجہ سے فتنہٴ قادیانیت دوسرے فتنوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے، یہاں ایمان وکفر سے متعلق بھی کچھ ذکر کرنا مناسب ہے تاکہ قادیانیوں کے بارے میں مسلمان فیصلہ کرسکیں، علامہ حموی ”شرح الاشباہ “ میں تحریر فرماتے ہیں:
الایْمَانُ تَصْدِیْقُ مُحَمَّدِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِیْ جَمِیْعِ مَا جَاءَ بِہمِنَ الدِّیْنِ ضَرُوْرَةً، وَالکُفْرُ تَکْذِیْبُ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِیْ شَیْءٍ مِمَّا جَاءَ بِہمِنَ الدِّیْنِ ضَرُوْرَةً.(حموی شرح الاشباہ/۲۴۳، بحوالہ اسلام اور قادیانیت کا تقابلی مطالعہ/۶۲)
ایمان؛ محمد صلى الله عليه وسلم کو دین کی ان تمام چیزوں کے بارے میں دل سے سچا قرار دینا ہے جن چیزوں کو آپ صلى الله عليه وسلم یقینا لے کر آئے ہیں، کفر؛ محمد … کو دین کی ان چیزوں میں سے کسی ایک چیز میں جھٹلانا ہے جن کو یقینا حضور صلى الله عليه وسلم لے کر آئے۔
اسلام کی مخالفت کرنے والے کو کافر قرار دینے میں کوئی اختلاف نہیں اگرچہ وہ ظاہر میں اہل قبلہ میں سے ہو، اس سے واضح ہوچکا کہ قادیانی لوگ عقیدئہ ختم نبوت (جوکہ ضروریات اسلام میں سے بالکل واضح اور کھلا ہوا عقیدہ ہے) کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہیں۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ زندیق ہیں، کیونکہ وہ قرآن وحدیث کے نصوص میں تحریف کرکے انہیں اپنے عقائد کفریہ پر فٹ کرنے کی ناجائز کوشش کرتے ہیں، پس مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ قادیانیوں سے میل جول رکھیں نہ ان کے یہاں لڑکے یا لڑکی کی شادی کریں، کیونکہ نکاح صحیح ہونے کے لئے زوجین (لڑکے اور لڑکی) میں سے ہر ایک کا مسلمان ہونا شرط ہے اور قادیانی دائرہ اسلام سے خارج (باہر) ہیں۔
اسی طرح مسلمان نہ ان کے جنازوں میں شریک ہوں اور نہ کسی تقریب میں، نہ ان کو اپنے یہاں کسی تقریب میں آنے کی دعوت دیں، نہ ان کے گھر کا کھانا کھائیں نہ ان کے ساتھ تجارت وغیرہ کا معاملہ کریں، نہ ان کا ذبیحہ (ذبح کیا جانور) کھائیں، نہ ان کو مقابر مسلمین (مسلمانوں کے قبرستان) میں دن ہونے دیں، وغیرذلک من الاحکام۔
حقیقت تو یہ ہے کہ قادیانیوں کا سب سے بڑا سربراہ (مرزا غلام احمد) نبی یا ولی تو کیا ہوتا وہ تو عام معمولی شریف انسان کے برابر بھی نہیں تھا، بلکہ مہاکذاب انتہائی درجہ کا بدکردار انسان تھا، جیساکہ خود مرزائی تصنیفات سے بخوبی واضح ہوتا ہے یہاں صرف اس کی زندگی کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔
مومن نہ تو طعن و تشنیع کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت بھیجنے والا نہ سخت گو نہ فحش کلام کرنے والا۔
دوسری طرف مرزا صاحب کا حال یہ ہے کہ اپنے زمانے کے اکابر علماء ومشائخ (مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله عليه، مولانا احمدعلی سہارنپوری رحمة الله عليهوغیرہ) کے لئے ذئاب وکلاب شیطان لعین جیسے الفاظ استعمال کئے،اور اپنے حریف مقابل مولانا سعد اللہ لدھیانوی کے بارے میں وہ الفاظ کہے کہ ایک شریف انسان انہیں پڑھنے، لکھنے سے شرماجائے، عربی داں حضرات کے لئے صرف اصلی اشعار نقل کرنا مناسب ہے:
(ملاحظہ فرمائیں انجام اتھم اخیر دور روحانی خزائن ج/۱۱)
اللہ تعالیٰ فتنہٴ قادیانیت سے تمام امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
***
فتنہ غامدیت اور فتنہ قادیانیت
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو عباسی دور حکومت میں جب فلسفہٴ یونان عربی زبان میں منتقل ہوا تو اس کے ردعمل میں مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک بڑی اکثریت نے تو اسے قرآن وسنت سے متصادم پاکر اس کے تاروپود بکھیر دیے اور یکسر مسترد کر دیا۔ دوسرے گروہ نے اس کی معقولیت سے مرعوب ہوکر گھٹنے ٹیک دیے۔ پہلا گروہ اہل سنت والجماعت کے نام سے موسوم ہوا اور دوسرے نے فرقہ معتزلہ کے نام سے شہرت پائی۔ معتزلہ نے عقل کو اصل قرار دے کر شریعت کو اس کے تابع کیا۔ کیوں کہ یونانی فلسفہ کے اعتقادات وافکار، اسلامی عقائد وافکار سے یکسر مختلف تھے اور ان کو فروغ دینے کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی ،جو قرآن کی حتمی تعبیر کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ اور ان میں رائج تھی۔ چناں چہ انہوں نے انکار سنت کی راہ اپنائی۔ نتیجے کے طور پر یونانی فلسفے کی روشنی میں جدید اصولوں کی بنیاد پر معتزلہ کا ایک نیا اسلام وجود میں آیا۔ جس کا کوئی تصور صحابہ کرام اور ائمہ کرام کے دور میں موجود نہ تھا۔ خلافت عباسیہ کے دور میں حکومتی سرپرستی کی وجہ سے اس فرقہ کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ لیکن ائمہ کرام کی انتھک محنتوں اور بے مثال قربانیوں کی وجہ سے یہ فرقہ زیادہ عرصے تک چل نہ سکا۔ ایک تاریخی واقعے کی حیثیت سے کتابوں کے صفحات تک محدود رہ گیا۔
انیسویں صدی میں جب سائنس نے پاپائیت کے نرغے سے نکل کر عملی تفوّق پایا تو اس کے اثرات عالمگیر سطح پر مرتب ہوئے۔ سائنس کو کام یابی کی معراج سمجھا جانے لگا۔ پہلے کی طرح اس بار بھی مسلمانوں کی طرف سے دو طرح کا طرز عمل سامنے آیا۔ ایک طرف راسخ اور پختہ فکر علماء تھے، جنہوں نے واضح کیا کہ مذہب کی بنیاد وحی ہے۔ دنیا کی کوئی مسلمہ حقیقت وحی کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ ان حضرات میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا سید حسین احمد مدنی کے اسمائے گرامی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں دوسرے گروہ نے اپنی مرعوبانہ ذہنیت کے مطابق سائنسی نظریات کو مسلمہ حقائق کا درجہ دے کر وحی کو ان کے مطابق ڈھالنے کی تدابیر شروع کر دیں۔ اس گروہ کے سرخیل سرسید احمد خان اور خوشہ چینوں میں حمید الدین فراہی اور امین حسن اصلاحی سرفہرست ہیں۔ ان حضرات نے عربی لغت کے بل بوتے پر قرآن کو سمجھنا شروع کر دیا۔ ائمہ مجتہدین کی وہ تفاسیر اور تاویلات، جو حدیث اور صاحب قرآن کے مزاج کو سامنے رکھ کر کی گئی تھیں ان کو ائمہ کے ذاتی خیالات واجتہادات کہہ کر نظرانداز کر دیا۔ اپنی ضرورت اور چاہت کے مطابق قرآن کی تفسیر اور شریعت کی وضاحت شروع کی۔
امین حسن اصلاحی اور حمیدالدین فراہی کا ایک خوشہ چیں ”محمد شفیق عرف کاکو شاہ ککے زئی“ تھا۔ جس کی گھٹی میں ہر دو حضرات نے انکار حدیث، تجدد پسندی، لغت پرستی اور شریعت کی من چاہی تعبیر کا سارا زہر انڈیلا تھا۔ اتنی لمبی تمہید ہم نے اسی شخصیت ”محمد شفیق عرف ککو شاہ ککے زئی“ کے تعارف کے لیے باندھی۔ یہ حضرت آج کل ”جاوید احمد غامدی“ کے نام سے مشہور ہیں۔ جن کا ٹی․وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بڑا غلغلہ ہے۔ جن کی چرب زبانی، طلاقت لسانی اور الٹے سیدھے فلسفے سے متأثر ہوکر بہت سارے سادہ لوح مسلمان شریعت کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔ جو وضع قطع میں اسلامی شعائر سے عاری، نام نہاد روشن خیالی کے پرزور داعی، دینی اصولوں میں جدت وارتقا کے نام پہ من چاہی تحریف کے قائل وفاعل اور دینی احکام کی عملی تعبیر کو انتہا پسندی اور دقیانوسیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ محمد شفیق ”ککو شاہ ککے زئی“ سے جاوید احمد غامدی کیسے بنے؟ یہ ایک پر پیچ قضیہ ہے۔ ہم اس سے بحث نہیں کرنا چاہتے۔ سردست ہم غامدی صاحب کے عقائد ونظریات کا مختصر ساجائزہ لیتے ہیں۔ غامدیت اور قادیانیت کے درمیان غیرمعمولی مشابہت ومماثلت پر روشنی ڈالتے ہیں اور غامدی صاحب کی ہر مسئلہ میں الگ اور انوکھی رائے کن عزائم کی پیش خیمہ ہے، اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ غامدی صاحب نے اکثر مسائل میں وہ راہ اپنائی ہے جو اس کے پیش رو عقل پرستوں یا قادیانیوں نے اپنائی تھی۔ چند ایک مسائل کا ذکر کرتے ہیں، جن میں غامدی صاحب نے مرزائیوں کے ساتھ موافقت کی ہے۔ ہر مسئلہ میں جمہور امت کی رائے پیش کریں گے اور پھر غامدی صاحب اور قادیانیوں کا اس مسئلہ میں نقطہٴ نظر بیان کر کے قرآن وسنت کی روشنی میں اس کا جائزہ لیں گے۔
رفع ونزول عیسیٰ عليه السلام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود بے بہبود کے ہاتھوں سے محفوظ، صحیح وسالم بچا کر الله تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھالیا ہے۔ اب تک زندہ ہیں۔ قیامت کے قریب آسمان سے ان کا نزول ہوگا اور دجال کو قتل کریں گے۔ دور نبوت سے لے کر چودھویں صدی ہجری تک سوائے چند معتزلہ اور فلاسفہ کے کسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع ونزول کا انکار نہیں کیا۔ تیرھویں صدی میں کچھ ملحدانہ ذہن رکھنے والوں کی اکّا دکّا آوازیں سننے کو ملیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی اور نزول سے انکار کیا اور جن احادیث مبارکہ میں رفع ونزول کا تذکرہ تھا۔ ان کو بہ یک جنبش قلم اسرائیلیات اور ناقابل قبول قرار دے کر رد کر دیا۔ ان میں مصر کے شیخ محمد عبدہ، ان کے شاگرد علامہ رشید رضا، شیخ محمد شلتوت اور مسیلمہٴ ہند مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے متبعین نمایاں نظر آتے ہیں۔ مصر کے علماء حق نے ان عقل پرستوں اور فلسفے کے دلدادہ حضرات کی خوب خوب خبر لی۔ بڑی شدومد کے ساتھ ان کا رد کیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی کا عقیدہ 1891ء تک یعنی تقریباً 52سال تک وہی تھا جو امت مسلمہ کا ہے۔ 1891ء کے بعد اس نے رفع ونزول عیسیٰ کا انکار کیا اور خود عیسیٰ بن چراغ بی بی بن بیٹھا۔ 1891ء سے پہلے کی تحریر ملاحظہ ہو: ”حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔“ (براہین احمدیہ ص499، خزائن ج۱ ص593)
1891ء کے بعد مرزاقادیانی کا کیا عقیدہ تھا، ان کا جانشین مرزامحمود لکھتا ہے: ”حضرت اقدس (مرزاقادیانی) نے پہلے خود مسیح کے آسمان سے آنے کا عقیدہ ظاہر فرمایا اور بعد کی تحریروں میں لکھا کہ یہ شرک ہے۔“ (حقیقت النبوة:53)
جاوید احمد غامدی بھی رفع ونزول عیسیٰ علیہ السلام کے عقیدے کے منکر ہیں اور اس میں تردد اور تأمل ظاہر کرتے ہیں۔ چناں چہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے بارے میں نہ صرف یہ کہ قرآن بالکل خاموش ہے۔ بلکہ اس سے جو قرائن سامنے آتے ہیں۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے بارے میں کچھ سوالات ضرور ذہن میں پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ قرآن نے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے اٹھائے جانے کا تذکرہ کیا ہے۔ وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین کے یہود پر غلبے کی پیشین گوئی بھی کی ہے۔ یہ نہایت موزوں موقع تھا کہ آپ کی آمد ثانی کا تذکرہ کر دیاجاتا اور اس غلبے کی پیشین گوئی بھی کر دی جاتی، جس کا ذکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے حوالے سے روایات میں ہوا ہے… ،پھر حدیث کی سب سے پہلے مرتب ہونے والی کتاب موطا امام مالک میں حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق کوئی روایت موجود نہیں۔ یہ چیز بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ایک روایت میں البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب بیان ہوا ہے، جس میں آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو بیت الله کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔ ہمیں یہ خیال ہوتا ہے کہ کہیں یہی مضمون بڑھتے بڑھتے حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی میں تو نہیں بدل گیا۔“(ماہنامہ اشراق جنوری 1996ء)
دوسری جگہ خامہ فرسائی کی ہے۔ ”سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ قرآن مجید سے میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہیں کہ ان کی روح قبض کی گئی اور اس کے فوراً بعد ان کا جسد مبارک اٹھا لیا گیا تھا، تاکہ یہود اس کی بے حرمتی نہ کریں۔“ (ماہنامہ اشراق، اپریل 1995ء)
اپنی کتاب ”میزان“ جو بقول ان کے ”ربع صدی کے مطالعہ وتحقیق کے بعد لکھی ہے۔“ میں نزول کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہوجانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ لیکن موقع بیان کے باوجود اس واقع کی طرف کوئی ادنیٰ اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم وعقل اسی خاموشی پر مطمئن نہیں ہوسکتے۔ اسے باور کرنا آسان نہیں۔(میزان ص178)
غامدی صاحب کی اس عبارت سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ رفع ونزول عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن خاموش ہے۔ دوسری یہ کہ جو چیز قرآن میں نہ ہو وہ بھلے حدیث اور اجماع سے ثابت ہو، لیکن قابل اعتبار نہیں۔ اس لیے کہ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث دین کا حصہ نہیں۔ رفع ونزول مسیح علیہ السلام کے حوالے سے غامدی صاحب کا یہ کہنا قرآن میں مذکور نہیں، بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ کیوں کہ قرآن میں واضح طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا تذکرہ موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَقَوْلِہِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُولَ اللّہِ وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلَکِن شُبِّہَ لَہُمْ وَإِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوہُ یَقِیْناً، بَل رَّفَعَہُ اللّہُ إِلَیْْہِ وَکَانَ اللّہُ عَزِیْزاً حَکِیْما﴾(نساء:157،158)
چوں کہ قرآن کریم یہود ونصاریٰ میں حکم اور قول فیصل ہوکر نازل ہوا ہے۔ لہٰذا اس آیت میں یہود ونصاریٰ کے باہمی اختلاف میں فیصلہ فرماتا ہے۔ یہود کا قول ہے: ﴿انا قتلنا المسیح﴾کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کو قتل کیا اور نصاریٰ کہتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔ لیکن رفع میں دو فریق تھے۔ ایک فریق کہتا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام سولی پر قتل کیے گئے اور تمام امت کی جانب سے کفارہ ہوگئے۔ پھر تین دن بعد زندہ کر کے آسمانوں پر اٹھا لیے گئے۔ قیامت میں نازل ہوں گے۔ دوسرا فریق کہتا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کے ہاتھوں سے محفوظ، صحیح وسالم بچا کر آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا گیا اور دوسرا شخص ان کی جگہ مصلوب ہوا۔ پھر قیامت میں نازل ہوں گے۔ الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح (ابن تیمیہ)
الله تعالیٰ یہود اور نصاریٰ میں فیصلہ فرماتا ہے: ﴿وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ الله﴾ یعنی قائلین قتل غلطی پر ہیں۔ ان کو کچھ علم نہیں۔ محض تخمینہ اور اٹکل کرتے ہیں۔ الله تعالیٰ نے ان کو جسم سمیت زندہ آسمان پر اٹھا لیا ہے۔ یہود اور نصاریٰ کے جس فریق کا قول قتل کا تھا۔ دونوں کو بالکل غلط فرماکر اس کی نفی کر دی۔ آیت کریمہ میں لفظ ”بل“ آیا ہے ،جو ابطال ماقبل کے لیے آتا ہے۔ یعنی یہ بتانے کے لیے کہ میرا مابعد ، ما قبل سے مختلف ہے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کے رفع کے تو قائل تھے۔ رفع جسمانی کے منکر تھے۔ رفع روحانی کے عقیدہ کو الله تعالیٰ نے ﴿ما قتلوہ وما صلبوہ﴾کہہ کر رد فرمایا۔ یعنی ان کی روح جسم سے نکلی نہیں تو آسمان کی طرف جائے گی کیسے؟ ﴿بل رفعہ الله﴾ سے واقعہ کی تحقیق اور منشائے غلطی کا بیان ہے۔ یعنی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے غائب ہو جانے سے غلطی میں پڑ گئے۔ الله تعالیٰ نے پہلے ان کے قتل کی نفی کی۔ ”بل“ ابطالیہ کا قبل اورمابعد متغائر ہوتے ہیں۔ قتل جسمانی اور رفع روحانی باہم جمع ہوسکتے ہیں۔ یہ متغائر نہیں۔ تغائر اسی صورت میں ہوگا کہ قتل جسمانی کی نفی اور رفع جسمانی کا اثبات ہو۔ اس لیے بل کے بعد ان کا رفع جسمانی بیان کیا۔ اس آیت سے رفع ونزول مسیح تقریباً سات طرق سے ثابت ہوتا ہے۔ اختصار کے پیش نظر اس پر اکتفا کرتے ہیں۔ احتساب قادیانیت ج۱۷ میں تفصیل اور وضاحت موجود ہے۔ من شاء فلیراجع اس کے علاوہ (نساء․59، زخرف:61، مائدہ:11، اٰل عمران:45، اٰل عمران:55، مائدہ:116،117) سے بھی یہی مضمون ثابت ہوتا ہے۔ صحیح احادیث، جو کہ ایک درجن صحابہ کرام سے مروی ہیں اورجن کو تلقی بالقبول کی وجہ سے تواتر کا درجہ حاصل ہے، بھی رفع ونزول کے مسئلے کو مبرہن کرتی ہیں۔ صرف ایک حدیث ملاحظہ ہو۔
”عن ابی ہریرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذی نفسی بیدہ، لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً، فیکسر الصلیب، ویقتل الخنزیر، ویضع الجزیہ، ویفیض المال، حتیٰ لا یقبلہ احد، حتیٰ تکون السجدة الواحدہ خیراً من الدنیا وما فیہا“․
”حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عنقریب عیسیٰ ابن مریم تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کے طور پر نازل ہوں گے۔ وہ صلیب توڑ دیں گے۔ خنزیر کو مار ڈالیں گے۔ جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ مال کی اتنی ریل پیل ہوگی کہ اسے لینے والا کوئی نہ ہوگا۔ ایک سجدہ دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہوگا۔“ ( صحیح بخاری رقم:3448، صحیح مسلم رقم:389، ترمذی رقم:2233)
اس مسئلہ پر خلفائے اربعہ اور صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے ہیں۔ پھر دوبارہ تشریف لاکر دجال کو قتل کریں گے۔ اس میں کسی صحابی نے اختلاف نہیں کیا۔(مشکوٰة ص479، باب قصہ ابن صیاد، شرح السنہ ج7 ص454)
غامدی صاحب موجودہ تورات، زبور اور چاروں انجیلوں کو بالکل برحق قابل اعتبار اور قابل حجت واستدلال سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ سب خدا کی کتابیں (Word of Allah) ہیں۔ (میزان:151)
حالاں کہ اہل اسلام کا عقیدہ ان کے بارے میں یہ ہے کہ سابقہ تمام الہامی کتابیں اپنے اپنے زمانے میں خاص قوموں کے لیے ہدایت تھیں۔ پھر یہ محفوظ نہیں رہیں۔ نزول قرآن سے قبل ہی دنیا سے ناپید ہوچکی تھیں۔ اب روئے زمین پر صرف اور صرف قرآن مجید ہی الله کا کلام ہے جو محفوظ بھی ہے اور پوری انسانیت کے لیے ہدایت وراہ نما بھی ۔اب جب کہ غامدی صاحب انجیل کو الله کا کلام، قابل حجت مانتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ پھر رفع ونزول مسیح کا عقیدہ بھی مانیں اس لیے کہ انجیل سے بھی یہی عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
”اور یہ کہہ کر ان کے دیکھتے ہوئے اوپر اٹھا یا گیا اور بدلی نے اسے(حضرت عیسیٰ کو) ان کی نظروں سے چھپا لیا اور وہ اس کو آسمان پر جاتے ہوئے تاکتے ہی تھے کہ دیکھو، دو مرد سفید پوشاک ان کے پاس آکھڑے ہوئے اور بولے اے جلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع تمہارے پاس سے آسمان پر اٹھایا گیا ہے۔ جس طرح تم نے اسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے اسی طرح واپس آئے گا۔“(انجیل اعمال باب:1، آیات:9تا12)
انجیل یوحنا میں ہے: ”تم سن چکے ہو کہ میں نے تم کو کہا کہ میں (آسمان کی طرف) جاتا ہوں اور تمہارے پاس پھر آتا ہوں۔“ (انجیل یوحنا باب:14، آیت:128)
ظہور مہدی علیہ الرضوان جمہور مسلمانان عالم کا ازروئے احادیث متواترہ یہ عقیدہ ہے کہ قرب قیامت کے زمانے میں حضرت مہدی علیہ الرضوان تشریف لائیں گے۔ وہ خانوادہ سادات کے چشم وچراغ ہوں گے۔ نام محمد، والد کا نام عبدالله ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیرامارت دجال کے خلاف جہاد کریں گے۔ مرزائیوں اور جاوید غامدی صاحب کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام نہیں آئیں گے۔ مرزائی تو کہتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی خود مسیح بھی تھا اور مہدی بھی۔ یعنی ان کے نزدیک مہدی مرزاقادیانی کی شکل میں آچکا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب کہتے ہیں: ”مہدی محض ایک افسانہ ہے، جو مسلمانوں کے مابین رائج کر دیا گیا اور اب امت مسلمہ اس انتظار میں بیٹھی ہے کہ کوئی مہدی آئے اور ایک مرتبہ پھر ان کی خلافت دنیا میں قائم کر دے گا۔ قرآن مجیدمیں نزول مہدی کے بارے میں اشارةً بھی کوئی ذکر نہیں۔ اسی طرح صحیح حدیثیں بھی اس تذکرے سے یک سرخالی ہیں۔ البتہ بعض دوسرے درجے کی ایسی روایات ملتی ہیں جن میں قیامت کے قریب اس طرح کی ایک شخصیت کے پیدا ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن ان میں ایسی باتیں کہی گئی ہیں جو نہ علمی لحاظ سے درست ہوسکتی ہیں نہ عقلی لحاظ سے۔ میرا رجحان اس معاملے میں یہ ہے کہ یہ روایتیں درحقیقت اگر کچھ تھیں بھی تو سیدنا عمر بن العزیز کے بارے میں تھیں۔ ان کے زمانے کے لوگوں نے اس کا مصداق پالیا اور وہ تاریخ میں اپنا کام مکمل کر کے دنیا سے رخصت ہوگئے۔“ (ماہنامہ اشراق اکتوبر 2009ء)
غامدی صاحب، خدا جانے کیسے اتنی بڑی بات کہہ گئے کہ صحیح احادیث امام مہدی کے تذکرے سے یکسر خالی ہیں؟! اس لیے کہ امام مہدی علیہ الرضوان کا آنا تو متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ صرف دو حدیثیں ملاحظہ ہوں: عن ام سلمہ قالت: سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یقول: المہدی من عترتی من ولد فاطمة․ (ابوداوٴد ج2 ص131، ابن ماجہ ص300، باب خروج المہدی) ترجمہ:”حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مہدی میرے خاندان سے ہوگا یعنی اولاد فاطمہ سے۔“
عن علی قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: سیخرج من صلبہ رجل یسمّی باسم نبیکم، یشبہ فی الخلق ولا یشبہ فی الخلق، ثم ذکر یملأ الارض عدلاً․ (ابوداوٴد ج2 ص131، کتاب المہدی، مشکوٰة باب اشراط الساعة) ترجمہ:حضرت علی نے فرمایا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ” آپ کی صلب سے ایک شخص نکلے گا جو آپصلی اللہ علیہ وسلم ہی کے نام سے موسوم ہوگا اور اخلاق میں آپ کے مشابہ ہوگا۔ مگر خلقت میں نہیں ہوگا۔ وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا۔“
امام مہدی علیہ الرضوان کے متعلق وارد احادیث کے بارے میں امام شوکانی فرماتے ہیں: ”فتقرر ان الاحادیث الواردة فی المہدی المنتظر متواترة“ (کتاب الازعة ص77)
غامدی صاحب نے یہ جو گل افشانی کی ہے کہ میرا رجحان یہ ہے امام مہدی علیہ الرضوان کی روایات حضرت عمر بن العزیز کے بارے میں ہیں۔ بالکل غیرمعقول بات ہے۔ اس لیے کہ حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان حضور صلى الله عليه وسلم کے خاندان میں سے ہوں گے اور حضرت عمر بن العزیز تو خاندان بنی امیہ میں سے تھے۔ وہ ان احادیث کا مصداق کیسے ہوسکتے ہیں؟
مسیح دجال اہل اسلام کا نظریہ ہے کہ دجال معہود ایک کانا شخص یہودی النسل ہوگا اور یہودی اس کی اتباع کریں گے۔ آخر زمانے میں بڑا فتنہ برپا کرے گا۔ خدائی کا دعویٰ کرے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر کر اسے قتل کریں گے اور یاجوج ماجوج دو مخصوص قومیں ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بددعا سے سب یک لخت مر جائیں گے۔ تمام جہاں میں تعفن اور ان کی لاشوں کی بدبو پھیل جائے گی۔ (الیٰ آخر الحدیث مسلم ج2 ص402)
جاوید غامدی اور مرزاقادیانی کا عقیدہ دجال اور یاجوج ماجوج کے بارے میں قریب قریب ایک جیسا ہے۔ مرزاقادیانی کہتا تھا۔ ”دجال عیسائی پادریوں کا گروہ ہے۔“(ازالہ اوہام ص296، خزائن ج3 ص366)
”اور یاجوج ماجوج انگریز اور روس ہیں۔“ (ازالہ اوہام ص502، خزائن ج3 ص369)
غامدی دجال اور یاجوج ماجوج کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”نبیصلی اللہ علیہ وسلمنے قیامت کے قریب یاجوج ماجوج ہی کے خروج کو دجال کے خروج سے تعبیر کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یاجوج وماموج کی اولاد یہ مغربی اقوام، عظیم فریب پر مبنی، فکر وفلسفہ کے علم بردار ہیں اور اسی سبب سے نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دجال (عظیم فریب کار قرار دیا) قرار دیا۔“ (بحوالہ غامدیت کیا ہے؟)
غامدی صاحب اور قادیانی نے دجال کے شخص معین ہونے کا انکار کیا۔ حالاں کہ صحاح ستہ کی احادیث میں دجال کو شخص معین بتایا گیا ہے اور باقاعدہ اس کا حلیہ، جسامت اور قد کاٹھ کی صراحت کی گئی ہے۔
٭...”عن عبادة بن الصامت انہ حد ثہم ان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال: انی قد حدّثتکم عن الدجال حتّٰی خشیت ان لا تعقلوا ان مسیح الدجال رجل قصیرہ افحج،جعد اعور ممسوح العین لیس بناتئة ولا حجراء، فان لبس علیکم فاعلموا ان ربکم لیس بأعور (ابوداوٴد ج2 ص134، باب خروج الدجال) ترجمہ:”حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق میں نے تم کو دجال کے متعلق بہت کچھ بیان کیا۔ یہاں تک کہ میں ڈرا کہ تم سمجھ نہ سکو گے۔ تحقیق مسیح دجال ایک پستہ قد آدمی ہوگا جو ٹانگیں پھیلا کر چلے گا۔ گھنگھریالے بال، کانا، ہموار آنکھ والا کہ زیادہ باہر نکلی ہوگی اور نہ پچکی ہوئی ہوگی۔ اگر تم کو اشتباہ ہو تو جان لو (کہ دجال کانا ہے اور) تمہارا رب کانا نہیں ہے۔“
٭...حضرت عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ آپ نے حمد وثنا بیان کی، جیسا کہ بیان کرنے کا حق ہے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ کیا اور فرمایا: ”انی انذر کموہ وما من نبی الا وقد انذر قومہ لقد انذر نوح قومہ، ولکن سأقول لکم فیہ قولاً لم یقل نبی لقومہ، اتعلمون انہ اعور، وان الله لیس بأعور․“(بخاری، کتاب الجہاد) ترجمہ:”کہ میں تمہیں اس (دجال) سے ڈراتا ہوں۔ کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا نہ ہو۔ یقینا حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا تھا۔ لیکن میں تمہیں دجال کے بارے میں ایک ایسی بات بتا رہا ہوں جو کہ کسی نبی نے اس سے پہلے اپنی قوم کو نہیں بتائی۔ تم جان لو کہ دجال کانا ہے اور (معاذ الله) الله سبحانہ وتعالیٰ کانا نہیں ہے۔“
صرف صحاح ستہ میں بہت ساری احادیث ہیں جو دجال کے شخص معین ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اختصار کے پیش نظر صرف یہ دو ذکر کیں۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی دنیا بھی جس دجال کو اپنی کتابوں کے حوالے سے جانتی ہے وہ ایک معین شخص ہے، نہ کہ یاجوج ماجوج اور امریکہ۔ غامدی صاحب کو صاحب قرآن کی دجال کے حوالے سے یہ احادیث ماننی چاہیے۔ قادیانیوں کی طرح معقولیت کے ڈھکوسلوں اور ظاہر پرستی کی بھول بھلیوں میں پڑنے کے بجائے امت مسلمہ کے اجتماعی موقف کو تسلیم کر لیں۔
جہاد فی سبیل الله امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ جہاد کا مسئلہ جو قرآن، احادیث اور آثار میں بیان ہوا ہے، بالکل برحق ہے۔ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قیامت تک فرض رہے گا، علی وجود الشرائط۔ جہاد کے متعلق غامدی کانظریہ اور مرزاغلام احمد قادیانی کا نظریہ سرتاسر مماثل ہے۔ دونوں جہاد کا انکار کرتے ہیں۔ جاوید غامدی لکھتے ہیں: ”انہیں (نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو) قتال کا جو حکم دیاگیا اس کا تعلق شریعت سے نہیں، بلکہ الله تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے۔“ (میزان ص264)
مزید لکھتے ہیں: ”یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق (کفار) کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انہیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق اب ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔“ (میزان ص270)
لوگوں کی تکفیر اور ان کے خلاف محض ان کے کفر کی وجہ سے جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین کو قتل کرنے یا ان پر جزیہ عائد کر کے انہیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ (ماہنامہ اشراق اگست 2009ء)
غامدی صاحب کی تحریر یہ ظاہر کرتی ہے کہ جہاد دور نبوت میں ہوا ہے۔ اس کے بعد اگر مسلمانوں نے کچھ لوگوں کو غلطی سے کافر سمجھ کر ان کے خلاف جہاد وقتال کیا۔ یا ان سے مال غنیمت حاصل کیا۔ یا ان سے جزیہ وصول کیا۔ تو ان کے یہ سارے کام غیرشرعی، غیر اخلاقی اور خلاف قرآن ہیں۔ اس لیے کہ دور نبوت کے بعد جہاد کی حقیقت نہ رہی۔ یہ محض جھگڑا اور تخریب کاری ہے۔ جہاد کے متعلق یہی نظریہ جاوید غامدی کے پیش رو مرزاقادیانی کا بھی تھا۔ اس نے کہا تھا # اب چھوڑ دو اے دوستو! جہاد کا خیال دین کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص26، خزائن ج17 ص76)
نیز لکھتا ہے: ”یہ بات تو اچھی ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کی مدد کی جائے اور جہاد کے خراب مسئلہ کے خیال کو دلوں سے مٹایا جائے۔“ (اعجاز احمدی ص34، خزائن ج19 ص144)
مرزاقادیانی نے انگریز سرکار کی خوش نودی کی خاطر جہاد کو حرام قرار دیاتھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آج غامدی صاحب امریکہ، یورپی یونین، اسرائیل اور بھارت کی رضا اور تعاون حاصل کرنے کے لیے جہاد وقتال کے فریضے کا انکار کر رہے ہیں اور اسے حرام اور خلاف شرع قرار دے رہے ہیں۔
دیکھیے! کس قدر مشابہت اور مماثلت ہے۔ مرزاقادیانی اور جاوید غامدی کے درمیان کہ دونوں ہی بیک زبان جہاد کو حرام کہہ رہے ہیں۔ جہاد کی فرضیت اور وجود یوم قیامت تک جاری رہنے کی قرآن کریم کی دو آیتیں اور ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
﴿کتب علیکم القتال﴾ (بقرة:216)”اے مسلمانو! تم پر قتال (جہاد) فرض کیاگیا ہے۔“
﴿قاتلوا الذین لایوٴمنون بالله ولا بالیوم الاٰخر…﴾ (توبہ:29) (اے مسلمانو!) تم لڑو ان اہل کتاب سے جو نہ الله پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پراور ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے۔ جنہیں الله اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور نہ سچے دین کو مانتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مغلوب ہوکر خود اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے (ذلیل) بن کر رہیں۔“
عن ابی ہریرة قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: من مات ولم یغز ولم یحدث بہ نفسہ مات علیٰ شعبة من نفاق․ (صحیح مسلم) ”جو بندہ اس حال میں مر جائے کہ اس نے جہاد نہیں کیا اور جہاد کا خیال بھی اس کے خاطر میں نہیں آیا تو وہ منافق کی موت مرا۔“ قادیانی فتنہ انگریزوں کے اشارے پر برپا کیا گیا تھا، تاکہ مسلمانوں کے دل سے جذبہ جہاد کو ختم کیا جا سکے۔ قادیانی نے انگریزوں کی نمک خواری کا پورا پورا حق ادا کیا اور جہاد کو حرام قرار دے دیا۔ آج کل جاوید غامدی صاحب وہی کام کر رہے ہیں۔ اپنے آقاوٴں کی غم خواری اور نمک حلالی کر رہے ہیں۔
حجیت حدیث
احادیث مبارکہ محدثین کی اصطلاح میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں۔ احادیث مبارکہ کی گراں قدر امانت حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ، صحابہ کرام سے تابعین، تبع تابعین اور پھر ہر دور میں ایک جماعت سے سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچی ہے۔ غامدی صاحب نے دوسرے عقائد واعمال کی طرح احادیث پر بھی اپنا زہریلا پنجہ مار دیا۔ لکھتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے ،ان کے بارے میں دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب علم انہیں ماننے سے انکار نہیں کر سکتا۔ ایک یہ کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ واشاعت کے لیے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔ دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔ حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بناء پر یہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوا۔“ (میزان ص68)
انکار حدیث کے لیے بطور مقدمہ کے غامدی صاحب نے جو دو دعوے پیش کیے وہ بالکل بے بنیاد اور مبنی برجہل ہیں۔ پہلی بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کی حفاظت واشاعت کا اہتمام نہیں کیا، غلط اور بے اصل ہے۔ اس لیے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو احادیث سننے، ان کو حفظ کرنے اور ان کی کتابت وتحریر کرنے کی تاکید فرمائی اور ایسا کرنے والوں کے حق میں دعا فرمائی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظ اور کتابت دونوں ذرائع سے کام لیتے ہوئے احادیث کی حفاظت اور ان کی تبلیغ واشاعت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ”نضّر الله امرأ سمع منا حدیثاً فحفظہ حتیٰ یبلغہ غیرہ․“ (ترمذی، رقم:2656) (کہ الله اس آدمی کو تروتازہ اور شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سن کر یاد کر لی اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا۔)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز جو خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس میں فرمایا: ”ویبلغ الشاہد الغائب․“ (بخاری:154) (کہ جو یہاں حاضر ہے وہ میری باتیں غائبوں تک پہنچائے۔) صحابہ کرام نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ یاد کر لیا۔ اسے لکھ کر محفوظ کیا۔ اس پر عمل کیا اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا۔ مرزاقادیانی بھی احادیث مبارکہ کا انکار کرتا ہے۔ لیکن وہ ایک قدم بڑھ کر سخت بے ادبی کے الفاظ استعمال کرکے احادیث مبارکہ کی توہین بھی کرتا ہے۔ چناں چہ لکھتا ہے: ”میرے اس دعویٰ کی بنیاد حدیث نہیں، بلکہ قرآن مجید اور وحی ہے، جو میرے پرنازل ہوئی۔ ہاں! تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔“(اعجاز احمدی، ص30، خزائن ج19 ص140)
جاوید غامدی نے بھی احادیث کو ناقابل استدلال قرار دیا اور دین سے خارج قرار دیا اور مرزاقادیانی نے بھی ناقابل اعتبار گردانا۔ فرق صرف یہ کہ غامدی صاحب نے تمہید باندھ کر اور الفاظ کو گھما پھرا کر احادیث کی حجیت سے انکار کیا ہے اور مرزاقادیانی نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کر کے خوب دھڑلے سے انکار کیا۔
توہین صحابہ کرام
اہل اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے بعد اس دھرتی پر ہر انسانی آبادی میں جو طبقہ سب سے بڑھ کر الله تعالیٰ کی رحمتوں کا مورد بنا، وہ حضرات صحابہ کرام ہیں۔ قرآن پاک اس گروہ کو الله کی جماعت قرار دیتا ہے اور الله کی رضا کا سر ٹیفکیٹ عطا کرتا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جماعت کو ہدایت کے ستارے قرار دیا اور فرمایا: خبردار! ان کو اذیت پہنچانا مجھے اذیت پہنچانا ہے۔
عمار خان ناصر علم وفضل کے افق پر سرتاسر سفر کرنے والے خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔لیکن شومئی قسمت کہ غامدی طرز فکر اور آزاد خیالی کے ترجمان ہیں اور اس کی اشاعت وترویج کے لیے اپنی صلاحیتیں پورے طور پر بروئے کار لائے ہوئے ہیں۔ اپنی کتاب ”حدود وتعزیرات“ میں لکھتے ہیں: ”صحابہ کا عورت کی نصف دیت پر اجماع کرنا زمانہ جاہلیت کے معاشرتی تصورات اور رسم ورواج سے متأثر ہونے کی بنا پر تھا۔“ (حدود وتعزیرات، ص105)
مزید لکھتے ہیں: ”اس معاشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور بلند کردار صحابہ کے علاوہ منافقین اور تربیت سے محروم کمزور مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جو مختلف اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں میں مبتلا تھی۔ اس طرح کے گروہوں میں نہ صرف پیشہ ورانہ بدکاری اور یارآشنائی کے تعلقات کی مثالیں پائی جاتی تھیں، بلکہ اپنی مملوکہ لونڈیوں کو زنا پر مجبور کر کے ان کے ذریعے کسب معاش کا سلسلہ بھی جاری وساری تھا۔“(مفتی عبدالواحد کی تنقیدات کا جائزہ، ص43)
عمار صاحب کی اس تحریر میں ہمیں اس پر ہرگز اعتراض نہیں کہ منافقوں کے لیے پیشہ وارانہ بدکاری اور یارآشنائی جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اشکال اس بات پہ ہے کہ انہوں نے منافقین کے ساتھ ”تربیت سے محروم کمزور مسلمانوں“ کو بھی ملایا ہے۔ حالاں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلمکے دور میں بالفرض اگر کوئی مسلمان کمزور بھی ہے اس کی شان میں بھی ہم جیسوں کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنا سوئے ادب اور گستاخی ہے۔ اس لیے کہ اس دور میں جتنے مسلمان تھے ان کو رب تعالیٰ نے اپنی رضا کی سند دی تھی۔رضی اللہ عنہم۔ حضور نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ باصفا پر طعن وتشنیع کرنے والوں کو الله تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کا مستحق قرار دیا ہے۔ اسی لعنت کا مستحق مرزاقادیانی بھی ٹھہرا ہے۔ اس نے بھی صحابہ کرام کے خلاف سوقیانہ اور توہین آمیز زبان کا استعمال کیا ہے۔ ایک دو نمونے ملاحظہ فرمائیں:
1…”ابوہریرہ (رضی الله عنہ) جو غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔“ (اعجاز احمدی ص18، خزائن ج19 ص127)
2…”ابوبکر وعمر کیا تھے وہ تو حضرت غلام احمد کے جوتیوں کے تسمے کھولنے کے لائق نہ تھے۔“(ماہنامہ المہدی جنوری 1915ء)
قرآن کی من مانی تفسیر
اپنے پیش رو مرزاقادیانی کی طرح غامدی صاحب بھی قرآن کی من مانی تفسیر، الفاظ کو کھینچ تان کر اپنے مطلب کی بات نکالنے میں طاق ہیں۔ قرآن کی معنوی تحریف اور جمہور امت سے ایک الگ اعتزال کی راہ اپنانا اور ایک امتیازی رائے رکھنا ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ ”اسلام کے حدود وتعزیرات“ پر حضرت کی خامہ فرسائی ملاحظہ فرمائیں۔
”موت کی سزا قرآن کی رو سے قتل اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں نہیں دی جاسکتی۔ الله تعالیٰ نے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ ان دو جرائم کو چھوڑ کر، فرد ہو یا حکومت، یہ حق کسی کو حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص کی جان کے در پے ہو اور اسے قتل کر ڈالے۔“
(سورة) مائدہ میں ہے: ﴿ُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعا﴾․(آیت:32) (جس نے کسی کو قتل کیا اس کے بغیر کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو، یازمین میں فساد برپا کیا ہو تو اس نے گویا سب انسانوں کو قتل کیا۔) (میزان ص283)
محولہ بالا عبارات میں غامدی صاحب نے یہ مغالطہ اور فریب دیا کہ سورة المائدہ کی پوری آیت نہیں لکھی۔ کیوں کہ اگر وہ پوری آیت لکھ دیتے تو اس سے وہ اپنا من پسند مفہوم کشید نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے مذکورہ آیت کا صرف اتنا حصہ لکھا جس سے ان کو اپنا خود ساختہ مفہوم نکالنے میں آسانی ہو۔ دراصل مذکورہ آیت کے مضمون کا تعلق بنی اسرائیل کے ساتھ ہے۔ اسلامی حدود وتعزیرات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس آیت میں الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے قانون کا ایک اصول ذکر فرمایا ہے۔ سورة مائدہ کی اس آیت کی جو تفسیر غامدی نے کی ہے۔ اس کے استاذ امین حسن اصلاحی سمیت امت میں کسی عالم نے یہ تفسیر نہیں کی۔ کسی نے ان کو حدود وتعزیرات کا ماخذ نہیں سمجھا۔یہ صرف غامدی صاحب کا کمال ہے۔ شاید جاوید غامدی جمہور امت کی کی گئی تفسیر میں غلطیاں نکال رہے ہیں۔ جس طرح مرزاقادیانی اپنے بارے میں کہتا ہے: ”میں قرآن کی غلطیاں نکالنے آیا ہوں، جو تفسیروں کی وجہ سے واقع ہوگئی ہیں۔“(ازالة الاوہام ص708، خزائن ج3 ص482)
اسی طرح سورة الفیل کی بھی غامدی صاحب نے وہ تفسیر کی ہے جو سلف سے خلف تک کسی مفسر نے نہیں کی۔ ملاحظہ ہو ا : البیان ص239۔
سورة نصر مکی ہے
اہل علم ودانش بخوبی جانتے ہیں کہ سلف وخلف کے تمام مفسرین کے نزدیک سورة نصر مدنی ہے اور اس کے مدنی ہونے پر سب کا اتفاق واجماع ہے۔ جناب جاوید غامدی صاحب نے امت سے امتیازی رائے رکھنے کی قسم کھائی ہے۔ یہاں بھی ان کا راستہ وہ ہے جو امت میں سوائے مرزائیوں کے بعض مفسرین کے کسی نے نہیں رکھا۔ غامدی صاحب کا اصرار ہے کہ سورة نصر مکی ہے۔ اپنی تفسیر ”البیان“ میں لکھتے ہیں: ”سورة کافرون کے بعد اور لہب سے پہلے یہاں اس سورة (النصر) کے مقام سے واضح ہے کہ سورة کوثر کی طرح یہ بھی، ام القریٰ مکہ میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلہ ہجرت وبرأت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عظیم بشارت کی حیثیت سے نازل ہوئی۔“(البیان ص252)
اسی بات کو دوسرے مقام پر مختصر اور واضح طور پر یوں فرماتے ہیں: ”ساتواں باب سورة ملک سے شروع ہوکر سورة الناس پر ختم ہوتا ہے۔ اس میں آخری دو معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔“(البیان ص6)
سورة نصر کے بارے میں یہی رائے مرزائیوں کے لاہوری گروپ کے بانی مولوی محمد علی کی بھی ہے۔ اپنی تفسیر ”بیان القرآن“ میں لکھتے ہیں: ”سورة کا نام نصر ہے۔ اس میں تین آیتیں ہیں۔ اس کو مکی سورتوں کے مجموعہ میں شامل کیا جاتا ہے۔“ (بیان القرآن، جلد سوم، سورة النصر)
مرتد کی سزائے قتل سے انکار
یہ بات اسلامی قانون کے کسی واقف کار آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام میں اس شخص کی سزا قتل ہے جو مسلمان ہوکر پھر کفر کی طرف لوٹ جائے۔ ہمارا پورا دینی لٹریچر شاہد ہے کہ قتل مرتد کے معاملے میں مسلمانوں کے درمیان کبھی دورائے نہیں پائی گئیں۔ نبیصلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین، کبار صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ان کے بعد ہر صدی کے علمائے شریعت کی تصریحات کتابوں میں موجود ہیں۔ ان سب کو جمع کر کے دیکھ لیجیے۔ آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ دور نبوت سے لے کر آج تک اس مسئلے میں ایک ہی حکم مسلسل ومتواتر چلاآرہا ہے اور کہیں اس شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی کہ شاید مرتد کی سزا قتل نہ ہو۔ غامدی صاحب نے ایسے ثابت شدہ مسائل میں بھی روشن خیالی سے متاثر ہوکر اختلافی بحث کا دروازہ کھولا اور امت کے اس اجتماعی موقف سے انکار کر کے مرتد کی سزا کے بارے میں یہ امتیازی رائے اختیار کی۔ ملاحظہ ہو: ”ارتداد کی سزا کا یہ مسئلہ محض ایک حدیث کا مدعانہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ابن عباس کی روایت ہے۔ ”من بدل دیناً فاقتلوہ“ (کہ جو شخص اپنا دین تبدیل کرے اسے قتل کر دو۔) ہمارے فقہاء بالعموم اسے ایک عام حکم قرار دیتے ہیں۔ جس کا اطلاق ان کے نزدیک ان سب لوگوں پر ہوتا ہے جو زمانہ رسالت سے لے کر قیامت تک اس زمین پر کہیں بھی اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کریں گے۔ ان کی رائے کے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنی آزادانہ مرضی سے کفر اختیار کرے گا، اسے اس حدیث کی رو سے لازماً قتل کر دیا جائے گا۔ اس معاملے میں اگر ان کے درمیان کوئی اختلاف ہے تو بس یہ کہ قتل سے پہلے اسے توبہ کی مہلت دی جائے گی یا نہیں اور اگر دی جائے گی تو اس کی مدت کیا ہونی چاہیے۔ “
مزید لکھتے ہیں: ”لیکن فقہاء کی یہ رائے کسی طرح صحیح نہیں۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم توبے شک ثابت ہے۔ مگر ہمارے نزدیک یہ کوئی حکم عام نہ تھا۔ بلکہ صرف انہی لوگوں کے ساتھ خاص تھا۔ جس میں آپ کی بعثت ہوئی… ہمارے فقہاء کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے قرآن وسنت کے باہمی ربط سے اس حدیث کامدعا سمجھنے کی بجائے اسے عام ٹھہرا کر ہر مرتد کی سزا موت قرار دی اور اس طرح اسلام کے حدود وتعزیرات میں ایک ایسی سزا کا اضافہ کیا جس کا وجود ہی اسلامی شریعت میں ثابت نہیں۔“ (برہان ص139تا143)
جاوید غامدی صاحب کی اس متفردانہ رائے کے جواب میں مولانا مودودی صاحب کی عبارت پیش کرتے ہیں، جن سے بقول پروفیسر مولانا محمد رفیق صاحب ”غامدی بہت متأثر تھے اور کئی سال ان کی جماعت کے کارکن رہے۔“ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے مرتد کی سزا پر اعتراضات کرنے والوں کے جواب میں لکھا ہے: ”ذرائع معلومات کی کمی کی وجہ سے جن لوگوں کے دلوں میں شبہ ہے کہ شاید اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہ ہو اور بعد کے ”مولویوں“ نے یہ چیز اپنی طرف سے اس دین میں بڑھادی ہو۔ ان کو اطمینان دلانے کے لیے میں یہاں مختصراً اس کا ثبوت پیش کرتا ہوں۔ قرآن میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّکَاةَ فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَنُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُون، وَإِن نَّکَثُواْ أَیْْمَانَہُم مِّن بَعْدِ عَہْدِہِمْ وَطَعَنُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُواْ أَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّہُمْ لاَ أَیْْمَانَ لَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَنتَہُون﴾․ (سورہ توبہ، آیت:12-11)
یہ آیت سورہ توبہ میں جس سلسلے میں نازل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ 9/ہجری میں حج کے موقع پر الله تعالیٰ نے اعلان برأت کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس اعلان کا مفاد یہ تھا کہ جو لوگ اب تک خدا اور اس کے رسول سے لڑتے رہے ہیں اور ہر طرح کی زیادتیوں اور بدعہدیوں سے خدا کے دین کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان کو اب زیادہ سے زیادہ چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے۔ اس مدت میں وہ اپنے معاملے پر غور کرلیں۔ اسلام قبول کرنا ہو تو قبول کر لیں، معاف کر دیے جائیں گے۔ ملک چھوڑ کر نکلنا چاہیں تو نکل جائیں۔ مدت مقررہ کے اندر ان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو لوگ ایسے رہ جائیں جنہوں نے نہ اسلام قبول کیا ہو اور نہ ملک چھوڑا ہو، ان کی خبر تلوار سے لی جائے گی۔ اس سلسلے میں فرمایا کہ اگر وہ توبہ کر کے ادائے نماز وزکوٰة کے پابند ہو جائیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ لیکن اگر اس کے بعد وہ پھر اپنا عہد توڑ دیں تو کفر کے لیڈروں سے جنگ کی جائے۔ یہاں عہد شکنی سے مراد کسی طرح بھی سیاسی معاہدات کی خلاف ورزی نہیں لی جاسکتی۔ بلکہ سیاق عبارت صریح طور پر اس کا معنی ”اقرار اسلام سے پھر جانا“ متعین کر دیتا ہے اور اس کے بعد ﴿فقاتلوا ائمة الکفر﴾ کا معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ تحریک ارتداد کے لیڈروں سے جنگ کی جائے۔“ (مرتد کی سزا اسلامی قانون میں، مولانا مودودی ص2،3)
یہ تو تھا قرآن کا حکم، احادیث کا بھی ایک بڑا ذخیرہ ہے۔ جس میں مرتد کی سزا قتل ہی تجویز کی گئی ہے۔ صرف ایک حدیث پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت عبدالله بن عباس کی روایت ہے: ”من بدل دیناً فاقتلوہ“جو مسلمان اپنا دین بدل دے اسے قتل کردو۔ (بخاری رقم:6922)
یہ حدیث حضرت ابوبکر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت عبدالله بن عباس، حضرت خالد بن ولید اور متعدد دوسرے صحابہ کرام سے مروی ہے اور تمام معتبر کتب حدیث میں موجود ہے۔
غامدی صاحب نے اس مسئلہ میں قادیانیوں اور دیگر فتنہ پرور مرتدوں کو محفوظ راستہ دینے کے لیے بالکل ایک الگ، انوکھا اور امتیازی مذہب اختیار کیا۔
مسئلہ تکفیر
اسی سے ملتا جلتا مسئلہ تکفیر کا ہے۔ اس میں بھی غامدی صاحب نے پوری امت سے بالکلیہ ایک الگ اور شاذ راستہ اختیار کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ صرف پیغمبر ہی کسی شخص یا گروہ کی تکفیر کر سکتا ہے۔ کسی غیرنبی، عالم، فقیہ یا مفتی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص یا گروہ کو کافر قرار دے۔ ایک سوال کے جواب میں غامدی صاحب فرماتے ہیں: ”کسی کو کافر قرار دینا ایک قانونی معاملہ ہے۔ پیغمبر اپنے الہامی علم کی بنیاد پر کسی گروہ کی تکفیر کرتا ہے۔ یہ حیثیت اب کسی کو حاصل نہیں۔“(اشراق دسمبر2000ء)
غامدی صاحب کی یہ رائے بالکل غلط، بے اصل اور بے بنیاد ہے۔ اس لیے کہ خلفائے راشدین سے لے کر آج تک ایسے لوگوں کی ہمیشہ تکفیر کی گئی ہے جو ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرتے رہے ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق نے اپنے دور خلافت میں مدعیان نبوت اور مانعین زکوٰة کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف جہاد کیا تھا۔ ماضی قریب میں امت مسلمہ نے اجماعی طور پر مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کو کافر قرار دیا تھا۔ ریاض احمد گوہر شاہی کے دعویٰ مہدویت پر پاکستان کے قریباً ایک ہزار علماء نے اسے کافر قرار دیا تھا۔ یوسف کذاب کے دعویٰ نبوت ومہدویت کرنے کے بعد پاکستان کی عدلیہ اور تمام مسلمانوں نے اسے کافر اور کذاب کہا۔ غامدی صاحب دراصل تکفیر کا حق مسلمان سے چھین کر اپنے لیے اور اپنے سنگی بھائیوں مرزائیوں، بہائیوں وغیرہ کو محفوظ راستہ دینا چاہتے ہیں۔
اس مضمون کے مکمل ہونے کے بعد برادرم مولانا حمزہ احسانی نے جاوید غامدی کی ایک ویڈیو کلپ بھیج دی۔ جس میں غامدی صاحب کہہ رہے ہیں: مرزاغلام احمدبنیادی طور پر صوفی تھا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔صرف الفاظ کے استعمال میں احتیاط نہیں برتی۔ ہما رے حضرات نے اس کو سمجھا نہیں۔اس کا مقصد یہ تھا کہ میں نبوت کا کام کرتا ہوں، یعنی دعوت والا۔اس کی اپنی تصانیف میں کہیں بھی دعوی نبوت نہیں ہے۔ میری لائبریری میں روحانی خزائن رکھی ہوئی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں۔
یہ ویڈیو سن کہ غامدی کی عقل پر ماتم کرنے اور اپنا سر پیٹنے کو جی چاہ رہا ہے۔مرزا قادیانی ملعون نے بالکل صریح طور پر نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ لکھا ہے:
”سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنارسول بھیجا۔“ (روحانی خزائن ج18، ص 231)
”خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول یعنی اس عاجز کو ہدایت اوردین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔“روحانی خزائن ج17، ص426
مرزا کی اور بھی عبارات ہیں جن میں صراحتاً نبوت کا دعویٰ ہے۔لیکن وہ ایک بھی محقق غامدی صاحب کی نظر سے نہ گذری۔ جو دو حوالے پیش کیے ہیں وہ روحانی خزائن ہی کے ہیں جو مرزا کی اپنی کتاب ہے۔ پھر غامدی صاحب یہ کیوں کرکہہ سکتے ہیں کہ اس کی اپنی کتابوں میں دعویٰ نبوت نہیں ہے۔ مزید اس کا یہ کہنا کہ ہمارے حضرات مرزاقادیانی کو سمجھے ہی نہیں، کتنا بڑا دعویٰ ہے۔مرزا کومرے تقریبا ًسو سال گذر گئے۔ اس دوران تمام قابل ذکر اور جید علماء نے مرزا قادیانی مدعی نبوت سمجھا اور مرتد قرار دیا۔اور غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ سب اس معاملے کو سمجھے ہی نہیں ۔پس شرم چہ باید کرد
غامدی صاحب کی ایک دو مسائل میں امت مسلمہ سے امتیازی رائے نہیں، بلکہ وہ اسلام کے متوازی ایک الگ مذہب کے علم بردار ہیں۔ ایمانیات، قرآنیات، حدیث وسنت، عبادات، معاشرت، سیاست وریاست، فقہی مسائل اور متفقہ اسلامی عقائد واعمال کے چیدہ چیدہ مسائل کی ایک بڑی فہرست ہے۔ جن میں غامدی صاحب نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے۔ سب کا احاطہ کرنا وقت اور مناسب موقع کا متقاضی ہے۔ اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ خداوند قدوس سے دست بدعا ہیں کہ ہمیں تادم مرگ ایمان کامل کے ساتھ رکھے اور ایسے نئے روشن خیالوں کی خیالی روشنی سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین!
شکیل بن حنیف کا فتنہ قادیانیت کی نئی صورت
شکیل بن حنیف، دربھنگہ، بہار کے موضع عثمان پور کا رہنے والا ایک شخص ہے، جس نے چند برس قبل، جب کہ وہ دہلی میں تھا،مہدی ہونے اور پھر مہدی ومسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اس طرح ایک نئی قادیانیت کی داغ بیل ڈالی، اس نے پہلے دہلی کے مختلف محلوں میں اپنی مہدویت ومسیحیت کی تبلیغ کی؛ لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں کے بعد ہٹنا پڑا، پہلے محلہ نبی کریم کو اس نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اور پھر لکشمی نگر کے دو مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے رہ کر اپنے مشن کو چلا، دہلی کے زمانہٴ قیام میں اس نے بالخصوص ان سادہ لوح نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنایا جو دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے؛ لیکن جیسے ہی لوگوں کو اس کی حرکتوں کی اطلاع ہوتی، وہ اس کے خلاف ایکشن لیتے اور اسے اپنا ٹھکانہ تبدیل کرنا پڑتا، بالآخر اسے دہلی سے ہٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا، اور اس نے اپنی بود وباش مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں اس طرح اختیار کرلی کہ ’کسی‘ نے اس کے لیے ایک پورا علاقہ خرید کر ایک نئی بستی بسادی، جس میں وہ اور اس کے ”حواری“ رہتے ہیں۔
ملک کے مختلف حصوں میں اس جھوٹے مہدی ومسیح کی دعوت وتبلیغ کا سلسلہ برسوں سے خاصی تیزی کے ساتھ جاری ہے، دہلی، بہار، مہاراشٹر وآندھرا پردیش وغیرہ میں اس کے فتنہ میں اچھی خاصی تعداد میں لوگ آچکے ہیں، اور الحمد للہ ہر جگہ کچھ نہ کچھ لوگوں نے اس کے تعاقب کی فکر بھی شروع کردی ہے۔
ہم سمجھتے تھے کہ یوپی اس فتنہ سے محفوظ ہے، اور اب تک یہاں شکیلیوں نے اپنے پاوٴں نہیں پھیلائے ہیں؛لیکن معلوم ہوا کہ ہم ناواقف تھے، یوپی میں ؛بلکہ لکھنوٴ میں بھی کچھ لوگ اس فتنہ کے داعی بن کرتقریبا ڈیڑھ برس سے سر گرم ہیں، اور بڑی راز داری؛ لیکن تیز رفتاری کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، اور افسوس کہ ان کے فتنہ کا شکار ہمارے کچھ سادہ لوح نوجوان بن بھی رہے ہیں؛ بلکہ غالبا تھوڑے وقفے سے لکھنوٴ ومشرقی یوپی کے مختلف اضلاع کے چند افراد اس فتنہ کا شکار ہوکر اس جھوٹے مسیح ومہدی کے ہاتھ پر بیعت کرنے جارہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی پوری سرگرمی کے ساتھ خفیہ انداز میں تحریک چلانے میں کامیاب ہیں کہ وہ ہمارے علاقہ میں ہمارے نوجوانوں پر محنت کررہے ہیں اور ہم کو خبر تک نہیں، ہماری ناواقفی یا بے خبری کی یہ صورت حال تشویش ناک ہے، اور ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
اس فتنہ کی دعوت اور اس کے داعیوں کا طریقہٴ کار
ان لوگوں کا طریقہٴ کار یہ ہے کہ یہ خفیہ طور پر کسی نوجوان سے رابطہ کرتے ہیں، یہ نوجوان عام طور پر کسی کالج یا یونیورسٹی کا ایسا طالب علم ہوتا ہے کہ جس کا کسی عالم، دینی جماعت یا دینی تنظیم سے کوئی رابطہ نہ ہو، یہ پہلے اس سے عام دینی گفتگوئیں کرتے ہیں، اور چونکہ اس فتنہ کے تمام داعی اپنا حلیہ ایسا بنائے پھرتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر ہر شخص یہی محسوس کرے کہ یہ متبعِ سنت قسم کے دین دار نوجوان ہیں،مثلا لمبی داڑھیاں رکھتے ہیں، لباس میں لمبے کرتے اور اونچی شلوار کا اہتمام کرتے ہیں، گفتگو میں بار بار الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ، ان شاء اللہ اور ان جیسے دیگر الفاظ کی کثرت رکھتے ہیں؛ اس لیے وہ سادہ لوح اور ناواقف نوجوان ان سے بہت زیادہ متاثر ہوجاتا ہے، اور انہیں بہت دین دار سمجھنے لگتا ہے،اپنی بابت یہ تاثر قائم کرنے کے بعد یہ اپنے مخاطب سے علاماتِ قیامت کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کا مصداق نئے انکشافات، نئی ایجادات اور معاصر دنیا کے بعض حالات وواقعات کو قرار دیتے ہیں، اس درمیان یہ بہت ہوشیاری کے ساتھ یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ اپنے مخاطب کے ذہن میں علماء کی تصویر ایسی بنادیں کہ وہ ان کی کسی بات کی تصدیق علماء سے کرانے کی ضرورت نہ سمجھے، مثلا یہ کہتے ہیں کہ علماء کو ان علامات قیامت کا کچھ علم نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ انھیں زمانہٴ طالب علمی میں یہ حدیثیں پڑھائی ہی نہیں جاتیں، انھیں بس حدیث کی کتابوں کے چند منتخب ابواب پڑھا دیے جاتے ہیں، جن کا تعلق نماز، روزہ جیسے مسائل سے ہوتا ہے؛ تاکہ یہ کسی مسجد کے امام یا کسی مدرسہ کے مدرس بن سکیں۔ انکا مخاطب جو اب تک ان کے دین دار ہونے کا تاثر رکھتا ہے، یہ باتیں سن کر ان کو دین کا ایسا ماہر بھی سمجھنے لگتا ہے کہ جو علما سے زیادہ دین کو جاننے والا ہے، اور اب اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ یہ اسے جو بتادیں وہ اس پر یقین کرلے۔
اس کے بعد انھیں باور کراتے ہیں کہ دجال کی آمد ہوچکی ہے، وہ امریکا وفرانس کو دجال بتاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ … نے ایک حدیث میں جو یہ بتایا تھا کہ دجال کی پیشانی پر ’کافر‘ لکھا ہوگا اس سے آپ … کا اشارہ یہی دونوں ممالک تھے؛ اس لیے کہ جب ان دونوں کا نام ایک ساتھ لکھا جائے (امریکا فرانس) تو بیچ میں کافر لکھا ہواہوتا ہے، دجال کی ایک آنکھ ہونے کا مصداق وہ سیٹلائٹ کو قرار دیتے ہیں، بعض روایات میں دجال کے بارے میں ہے کہ وہ ایک گدھا ہوگا، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد فائٹر پلین ہے، اور اسی طرح کی کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔
دجال کی بابت اپنی ایسی گفتگووں کے بعد داعیانِ شکیلیت یہ کہتے ہیں کہ دجال کی آمد کے بعد مہدی ومسیح کو آنا تھا، اور وہ آچکے ہیں، اور اب نجات کا بس یہی ایک ذریعہ ہے کہ ہم ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں، اگر مخاطب بہت سادہ لوح ہوتا ہے اور یہ خواہش ظاہر کرتا ہے کہ مجھے بھی اس ’سفینہٴ نجات‘ میں سوار ہونا ہے تو اسے (عام طور پر) پہلے صوبائی امیرکے پاس بھیجا جاتا ہے، مثلاً یوپی میں بنارس بھیج دیا جاتا ہے، جہاں بنارس ہندو یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک نوجوان سے اس کی ملاقات ہوتی ہے،یہ صاحب یوپی میں اس جھوٹے مہدی ومسیح کے مشن کے امیربتائے جاتے ہیں، اور پھر کچھ دنوں کے بعد اورنگ آباد بھیج کر شکیل کے ہاتھ پر بیعت کرادی جاتی ہے؛ لیکن اس بات کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے کہ بیعت سے پہلے اس جھوٹے مہدی ومسیح کا اصلی نام سامنے نہ آئے، یہاں تک کہ لوگوں کے دریافت کرنے پر بھی یہ لوگ اس کا اصلی نام نہیں بتاتے ہیں؛تاکہ اگر یہ شخص کہیں کسی سے تذکرہ کر بھی دے تو بھی لوگوں کو معلوم نہ ہوپائے کہ یہ کس ’مسیح‘ کی دعوت دی جارہی ہے۔
=====================
ذیل کی سطروں میں دجال اور حضرت مہدی وحضرت عیسی کی بابت صحیح احادیث میں بتائی گئی چند علامتوں کا تذکرہ کرکے شکیلی فتنہ کے دعووں کا جائزہ لیا جارہا ہے؛ تاکہ یہ بات بالکل واضح ہوجائے کہ شکیل بن حنیف جھوٹا ہے، حضرت مہدی وحضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اس کو وہی نسبت ہے جو رات کو روز روشن سے۔
شکیلی دجال بمقابلہ حقیقی دجال
دجال کی بابت شکیلیوں کا دعوی اتنا بدیہی غلط ہے کہ کوئی بھی آدمی جسے اللہ نے عقل سلیم سے نوازا ہو انھیں صحیح مان ہی نہیں سکتا، اور اس لیے اس سلسلہ میں کسی تفصیلی گفتگو کی ضرورت نہیں ہے، لیکن پھر بھی اتنا عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ … نے دجال کی بابت جو کچھ بتایا ہے اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک انسان ہی ہوگا، دو ممالک کا مجموعہ یا سیٹلائٹ یا فائٹر پلین نہیں، آپ … نے اس کا حلیہ بھی بالکل واضح طور پر بتادیا ہے، مثلا بخاری کی ایک حدیث (۷۰۱، کتاب ذکر الانبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم) میں ہے کہ آپ کو خواب میں دجال دکھایا گیا، تو وہ ایک سرخ رنگ کا موٹا شخص تھا، اس کے بال گھنگھریالے تھے، داہنی آنکھ سے کانا تھا، یہاں تک کہ اس حدیث میں آپ … نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ قبیلہٴ خزاعہ کے ایک آدمی ابن قطن کے مشابہ تھا، ان واضح نشانیوں کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ کوئی بھی عقل مند شخص یہ کہے کہ دجال ایک شخص نہ ہوکر دو ممالک کا مجموعہ ہے، اور اس کی آنکھ سیٹلائٹ ہے۔
علامات مہدی کی روشنی میں شکیل کا جائزہ
احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ دو الگ الگ شخصیات ہیں، جب کہ شکیل غلام احمد قادیانی کی طرح اس بات کا دعوے دار ہے کہ وہ بیک وقت مہدی بھی ہے اور مسیح بھی، ظاہر ہے کہ یہی ایک بات اس کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہے۔
حضرت مہدی کی بابت رسول اکرم … کی حدیثوں میں متعدد علامتیں بیان کی گئی ہیں، ذیل میں ہم ان میں سے چند کا تذکرہ کریں گے، اور پھر ان کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیں گے:
۱- رسول اللہ … نے بتایا تھا کہ حضرت مہدی کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا، (ابوداود: ۴۲۸۲، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل، شکیل بن حنیف ہے، محمد بن عبد اللہ نہیں۔
۲- رسول اللہ … نے یہ بھی بتایا تھا کہ مہدی آپ کی ہی نسل سے ہوں گے،اور ان کا سلسلہٴ نسب حضرت فاطمہ تک پہنچے گا، (ابوداود:۴۲۸۴، کتاب المہدی)۔ جب کہ شکیل کا اس خاندان اور نسل سے کوئی تعلق نہیں، وہ تو ہندوستانی نسل کا ہی ہے۔
۳- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی روشن پیشانی کے ہوں گے یعنی گورے رنگ کے ہوں گے،(ابوداود:۴۲۸۵، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل ایسا نہیں ہے۔
۴- رسول اللہ … نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان سے پہلے دنیا بھر میں ظلم ونا انصافی کا راج ہوگا، اور وہ ظلم کا خاتمہ کرکے دنیا میں عدل وانصاف کا بول بالا کردیں گے،(ابوداود: ۴۲۸۲، کتاب المہدی) جب کہ شکیل کے دعوائے مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیا ہے، اور اس عرصہ میں دنیا میں ظلم ونا انصافی بڑھی ہی ہے، کم نہیں ہوئی ہے۔
۵- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکمراں بھی ہوں گے، (ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی)، اور شکیل حکمرانی کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔
۶- احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ محمد بن عبد اللہ مہدی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ نو برس رہیں گے (ترمذی: ۲۲۳۲،ابواب الفتن، باب بعد باب ماجاء فی المہدی)، جن میں سے سات برس وہ حکومت فرمائیں گے،(ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی) شکیل بن حنیف کے دعوائے مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیاہے اور ابھی تک نہ اس کا انتقال ہوا ہے اور نہ اس کی حکومت قائم ہوئی ہے۔
شکیل اور حضرت عیسیٰ
حضرت عیسیٰ کی اس دنیا میں دوبارہ تشریف آوری کی بابت بھی قرآن اور حدیث میں کچھ ایسی واضح باتیں بتادی گئی ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر شکیل وقادیانی جیسے ہر جھوٹے کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے، ذیل میں ایسی ہی چند علامتیں درج کی جاتی ہیں:
۱- اس سلسلہ میں سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی آمد کے سلسلہ میں آں حضرت … نے جو کچھ بیان فرمایا ہے، اس سے یہ بات بالکل قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ وہی عیسی بن مریم علیہما السلام ہوں گے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے، اور جن کی والدہ حضرت مریم تھیں اور جو بغیر والد کے پیدا ہوئے تھے، صحیح بخاری وصحیح مسلم سمیت حدیث کی متعدد کتابوں میں ایسی کئی روایتیں پائی جاتی ہیں، جن میں قیامت کے قریب آپ کی آمد کا تذکرہ ہے اور آپ کا نام عیسیٰ بن مریم ہی لیا گیا ہے، ان میں سے چند روایتیں ابھی آپ پڑھیں گے۔ اور مہدی وعیسی ہونے کا یہ دعوے دار شکیل بن حنیف ہے، ہندوستان کے ایک علاقہ سے تعلق رکھتا ہے، یہ وہ عیسیٰ بن مریم نہیں ہے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے اور جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور جن کی والدہ کا نام مریم تھا۔
۲- حضرت عیسی کی دوبارہ آمد کے سلسلہ میں متعدد احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اتریں گے (مثلا ملاحظہ ہو: بخاری: ۲۲۲۲، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، )؛جب کہ یہ شکیل بن حنیف عثمان پور نامی ایک گاوٴں میں اپنے والد حنیف کے یہاں پیدا ہوا ہے، آسمان سے نہیں اترا ہے۔
۳- صحیح بخاری وصحیح مسلم کی ایک حدیث میں رسول اللہ … کا ارشاد ہے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں ابن مریم انصاف پسند حکمراں بن کرضرور نازل ہوں گے، صلیب کو توڑ دیں گے(یعنی آپ کی آمد کے بعد سارے عیسائی مسلمان ہوجائیں گے، اور صلیب کی عبادت ختم ہوجائے گی)، خنزیر (کی نسل) کو قتل کردیں گے․․․․، اور مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ کوئی صدقات قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ (بخاری: ۲۲۲۲،کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، مسلم: ۱۵۵/۲۴۷۶، کتاب الایمان، باب نزول عیسی بن مریم)۔
اب ذرا اس حدیث کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیجیے، وہ نہ اب تک حکمراں بنا ہے اور نہ حکمرانی کا کوئی ارادہ رکھتا ہے، وہ تو اورنگ آباد، مہاراشٹر کے پاس کی ایک بستی میں چھپا بیٹھا ہے، اور وہاں سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا، اور اس نے نہ کبھی کوئی صلیب توڑی ہے اور نہ کسی عیسائی نے اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے، نہ خنزیروں کوقتل کیا ہے اور نہ اس کے آنے کے بعد دنیا میں مال ودولت کی فراوانی ہوئی ہے اور نہ غربت کا خاتمہ ہوا ہے کہ صدقات لینے والا کوئی نہ ملے۔
۴- قرآن مجید نے سورہ نساء کی آیت (۱۵۹) میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسی کی وفات سے پہلے تمام اہلِ کتاب (یہودی وعیسائی) مسلمان ہوجائیں گے: ”وان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ“ اور شکیل کے ہاتھ پر اب تک ایک بھی عیسائی اسلام نہیں لایا۔
ان کے علاوہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ کی بابت اور بھی علامتیں یا پیشین گوئیاں حدیث کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں؛ لیکن قرآن وصحیح احادیث میں مذکور یہی چار علامتیں شکیل کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں، اس مختصر سے مضمون میں مزید کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے۔
اس فتنہ کا مقابلہ کیسے ہو؟
یہ فتنہ چونکہ بہت رازداری کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے؛ اس لیے عام طور پر جب کسی علاقہ کے خادمانِ دین کو اپنے علاقے کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اس فتنہ کے داعی سرگرم ہیں،تو اس وقت تک بہت تاخیر ہوچکی ہوتی ہے اور کئی نوجوان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے ہیں، خود لکھنوٴ میں اس فتنہ کے سرگرم ہونے کی اطلاع تب ملی جب اس کو ایک سال کا عرصہ گزرچکا تھا، دہلی، بہار، مہاراشٹر،گجرات اور یوپی سمیت ملک کے جس حصہ میں بھی اس فتنہ کی سرگرمی کی آج اطلاع ہے ان تمام مقامات پر خادمانِ دین کو جب اس فتنہ کی موجودگی وسرگرمی کی اطلاع ملی تو کافی دیر ہوچکی تھی؛اس لیے کسی بھی علاقہ میں اس انتظار میں نہیں رہنا چاہیے کہ جب ہمارے یہاں فتنہ کی آمد کی خبر ملے گی تو پھر فکر کریں گے؛ اس لیے کہ عین ممکن ہے کہ کسی علاقہ میں یہ سرگرم ہو اور ہمیں اس کی خبر نہ ہو، صورتِ حال کی خطرناکی کا اس سے اندازہ کیجیے کہ جن علاقوں کے سلسلے میں یہ اطمینان تھا کہ یہاں یہ فتنہ موجود نہیں ہے، وہاں کے ائمہٴ مساجد نے بھی جب اپنی مسجدوں میں اس مسئلہ پر گفتگو کی تو کچھ نوجوانوں نے ان میں سے کچھ ائمہ کو بتایا کہ اس طرح کے لوگوں نے ہم سے بھی رابطہ کیا ہے؛ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی بھی علاقہ کے سلسلہ میں اطمینان نہ کیا جائے، اور پہلے سے ہی عوام کو اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے؛ تاکہ اگر یہ فتنہ آپ کے علاقہ میں نہ پہنچا ہو تو اس کی آمد کو روکا جاسکے، اور اگر خدانخواستہ پہنچ گیا ہو تو اس کا ازالہ کیا جاسکے۔
اس فتنہ کے مقابلہ کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر علاقہ کی تمام مساجد میں جمعہ کی نماز کے موقع پر اس سلسلہ میں گفتگو کرکے لوگوں کو اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے، اسی طرح ہم ان لوگوں کو فتنہ سے آگاہ کرسکتے ہیں جن کو اس فتنہ کے داعیان اپنا مخاطب بناتے ہیں، نماز جمعہ کے علاوہ ان لوگوں کا کوئی رابطہ کسی دینی راہ نمائی کے نظام سے نہیں ہوتا ہے،اگر ہر علاقہ کے سرگرم خادمانِ دین اپنے اپنے علاقہ کی فکر کرلیں اور یہ کوشش کرلیں کہ ان کے علاقہ کی ہر مسجد میں نمازِ جمعہ سے قبل اس طرح کی گفتگو کرلی جائے تو امید ہے کہ اس فتنہ کو روکا جاسکے گا۔
ہمارے یہاں عام طور پر کسی فتنہ کی فکر اس وقت کی جاتی ہے؛ جب اس کے شکار ہزاروں لاکھوں لوگ ہوجاتے ہیں، اور اس وقت فتنہ اپنے پاوٴں اتنے جما چکا ہوتا ہے کہ اس کو ختم کرنا مشکل ہوچکا ہوتا ہے، قادیانیت کے سلسلہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا؛ اس لیے اس نئی قادیانیت کا تعاقب ابھی سے کرنا لازمی وضروری ہے، ورنہ بعد میں یہ فتنہ اگر تناور درخت بن گیا تو پھر اس کا خاتمہ ویسے ہی ناممکن ہوجائے گا، جیسے قادیانیت کا ہوگیا ہے۔ع
thanks for upload
ReplyDeleteقابل مطالعہ پر مواد پیش کرنے پر ممنون
ReplyDelete