ترجمہ:
اس دنیا سے رسول اللہ ﷺ کے رخصت ہو جانے کے بعد آپ ﷺ کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب قرآن مجید اور آپ ﷺ کی تعلیمات جن کا معروف عنوان سنت ہے اس دنیا میں ہدایت کا مرکز و سرچشمہ اور گویا آپ ﷺ کی مقدس شخصیت کے قائم مقام ہے اور امت کی صلاح و فلاح ان کی پیروی و پابندی سے وابستہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں امت کو مختلف عنوانات سے ہدایت و آگاہی دی ہے اور محدثات و بدعات سے اجتناب کی تاکید فرمائی ہے اگلی امتیں اسی لیے گمراہ ہوئی کہ محدثات و بدعات کو اپنا دین بنا لیا اسی سلسلہ میں آپ ﷺ کے چند اہم ارشادات ذیل میں درج کیے جارہے ہیں۔
[سنن ابوداؤد:حدیث نمبر 4607، سنت کا بیان :سنت کو لازم پکڑنے کا بیان]

سیدنا علی المرتضیٰؓ کی نظر میں، خلفاء راشدین کا عمل بھی سنت ہے:
سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا:
جَلَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ، وَجَلَدَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ، وَعُمَرُ ثَمَانِينَ، " وَكُلٌّ سُنَّةٌ.
نبی ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ نے شرابی کو چالیس کوڑے سزا دی، اور حجرت عمرؓ (اور حضرت عثمانؓ) نے اسّی کوڑے سزا دی، اور دونوں باتیں سنت ہیں۔
سأل ابن الكواء عليا عن السنة والبدعة وعن الجماعة والفرقة فقال يا ابن الكواء حفظت المسألة فافهم الجواب السنة والله سنة محمد - صلى الله عليه وسلم - والبدعة ما فارقها والجماعة والله مجامعة أهل الحق وإن قلوا والفرقة مجامعة أهل الباطل وإن كثروا.
[جامع الأحاديث:33424، كنز العمال:1644، تاريخ ابن عساكر:7/ 301 ط بيروت]
ترجمہ:
حضرت علیؓ سے جب سنت اور بدعت ، اجتماعیت اور فرقہ وایت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؓ نے جواب میں ارشاد فرمایا :
”سنت، اللہ کی قسم! محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور بدعت ہر وہ کام جسے حضور ﷺ نے نہیں کیا ہے، اور جماعت (اجتماعیت) اللہ کی قسم! اہلِ حق کا اجتماع اور ملنا ہے، اگرچہ وہ تھوڑے اور کم ہوں اور فرقہ واریت اہلِ باطل سے ملنا ہے اور ان کا جمع ہونا ہے اگرچہ وہ تعداد میں زیادہ ہوں“ ۔
[حياة الصحابة:2/232، الناشر: مؤسسة الرسالة، حیاة الصحابہ :2/9 دار القلم ،دمشق]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ہمارے حکم (دین) میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں، تو وہ مردود ہے.
حضرت عائشہؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔
تشریح:
(1) حکم یعنی دین "میں" نکالنا مردود ہے، لیکن دین کی ضرورت "کیلئے" نہیں۔ جیسے:- (1)قرآن مجید کی حفاظت کیلئے اسے ایک کتابی شکل میں صحابہ کا جمع کرنا (2)یا عجمیوں کے اختلاف وغلطیوں سے حفاظت کیلئے قرآن مجید میں اعراب لگانا (3)یا عربی قاعدے سکھانا بدعت نہیں۔
(2) لفظ ’’ہمارا حکم‘‘ فرمانا دلیل ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کی جماعت کو بھی شامل فرمایا ہے۔ صحابہ کے طریقہ کی پیروی کی فضیلت قرآن مجید نے بھی فرمائی ہے۔
[دیکھیے، سورۃ التوبۃ:100]
(3) اتباع جیسے فعل(یعنی کرنے) میں ہے اسی طرح ترک(یعنی نہ کرنے) میں بھی ہے، سو جس نے ایسے نئے فعل،طریقہ،تعداد،جگہ،وقت،کیفیت یا درجہ دینے پر مواظبت(ہمیشگی/پابندی) کی جو نبی ﷺ اور صحابہ کرام نے نہیں کی، تو وہ بدعت(یعنی دین میں نئی بات نکالنا) ہے، جو مردود ہے۔
تشریح:
استغفر اللہ، کتنی عظیم محرومی ہے؟ کہ ایسے لوگوں کا نبوی تعلق بھی مردود ہے۔
یعنی
(1)وه نیک باتوں کا لوگوں کو حکم کریں گے لیکن اپنے آپ کو بھول جائیں گے
[سورۃ البقرہ:44]
دعوے کریں گے لیکن وہ کام نہیں کریں گے
[سورۃ الصف:2-3]
(2)جس بات کا انہیں حکم نہیں دیا گیا اسے دین وثواب کا عمل سمجھ کر مضبوطی سے پکڑیں گے۔
[دلائل سورۃ فاطر:8، محمد:14، الاعراف:30، الکھف:104،الزخرف:37]
[مجمع البحرین: م ۱۸ ص ۱۲۹، رسالة إنقاذ الهالكين-البركوي: ص۱۰۵، نظم البیان: ص۷۳، لجنہ ۱۶۵]
امام ابوحنیفہؒ(م150ھ)نے فرمایا:
عَلَيْكَ بِالْأَثَرِ وَطَرِيقَةِ السَّلَفِ، وَإِيَّاكَ وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ، فَإِنَّهَا بِدْعَةٌ
ترجمہ:
تم لازم کرلو نقش قدم اور طریقے سلف(پیشرو) کے، اور بچو ہر نئی بات (دین میں) نکالنے سے، کیونکہ یہ بدعت ہے۔
[أحاديث في ذم الكلام وأهله-أبو الفضل الرازي(م454ھ) : صفحہ86، حدیث نمبر 1006]
اہل بدعت کا یہ کہنا کہ جس چیز کی منع کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اس کا نکالنا اور کرنا برا نہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ باپ کو گھر سے نکالنے سے منع قرآن وسنت میں نہیں لہذا یہ کام برا نہیں ۔۔۔۔ سراسر باطل اور قطعا مردود ہے اور محدثین عظام اور فقہائے کرام کے صریح ضوابط کے خلاف ہے ۔۔علماء اسلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ جیسے عزائم سے خدا تعالیٰ کی بندگی اور عبادت و خشنودی کی جاتی ہے اسی طرح رخصتوں سے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی متعلق ہے اور جس طرح جناب رسول اللہ ﷺ کا کسی کام کو کرنا سنت ہے اسی طرح کسی کام کا چھوڑنا بھی سنت ہے ۔ لہذا آپ کے ترک فعل کی اتباع بھی سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے ۔۔۔چناچہ ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث شریف یوں پیش فرماتے ہیں :
(مرقات ج 2 ص 15)(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 12

نیز حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مشکوۃ شریف کی پہلی حدیث "انما الاعمال بالنیات"کی شرح میں یہ نقل کرتے ہیں کہ "متابعت جیسے فعل میں ہوتی ہے اسی طرح ترک میں بھی متابعت ہوتی ہے ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ بدعتی ہے"(مرقات ج 1 ص 41)
اور اسی موقع پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " اتباع جیسے فعل میں واجب ہے اسی طرح ترک میں بھی اتباع ہوگی ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا وہ بدعتی ہوگا ۔اسی طرح محدثین کرام نے فرمایا ہے "
(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 20)
شرح مسند امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ میں ہے "اتباع جیسے فعل میں ہے اسی طرح ترک میں بھی ہے سو جس نے ایسے فعل پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ مبتدع ہوگا ۔کیوں کہ اس کو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ قول شامل ہے کہ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا ثبوت نہیں تو وہ مردود ہوگا"(انتہی)
(مواہب لطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ بحث تلفظ بالنیۃ)
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ : " إِنَّ رَفْعَكُمْ أَيْدِيَكُمْ بِدْعَةٌ ، مَا زَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا " ، يَعْنِي : إِلَى الصَّدْرِ .
خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن

علامہ سدید الدین کاشغری الحنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "رات کے وقت آٹھ رکعت سے زیادہ اور دن کے وقت چار رکعت سے زیادہ ایک سلام کے ساتھ نفلی نماز پڑھنا آئمہ احناف کے اجماع سے مکروہ ہے"(منیۃ المصلیٰ ص 102)
اور علامہ علاوالدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 587ھ) بعض فقہائے کرام سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "اس لئے مکروہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے اس سے زیادہ مروی نہیں ہے"
(البدائع والصنائع ج 1 ص 295)
صاحب ہدایہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ "اور عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نماز نہ پڑھی جائے کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود نماز پر حریص ہونے کے ایسا نہیں کیا پھر اس میں اختلاف ہے کہ یہ کراہت عیدہ گاہ کے ساتھ خاص ہے ،یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں کراہت ہوگی کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں نماز نہیں پڑھی"
(ہدایہ ج 1 ص 153)
آپ نے ملاحظ فرمایا کہ صاحب ہدایہ نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے عدم فعل کو حجت اور دلیل کو طور پر پیش کیا حالانکہ صراحتہ مرفوع حدیث سے نہی اس پر پیش کرنا ایک دشوار امر ہے کہ آپ نے عید گاہ میں یا عید کے دن کسی دوسری جگہ نفل پڑھنے سے علی الخصوص منع کیا ہے ۔۔۔ تو پھر اہل بدعت کے نزدیک اس فعل کو برا اور مکروہ نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی نہی اس پر موجود نہیں

علامہ ابراہیم حلبی الحنفیؒ (المتوفی 956ھ) نے صلوۃ رغائب(جو رجب میں پڑھی جاتی ہے)وغیرہ کے بدعت اور مکروہ ہونے کی یہ دلیل پیش کی ہے:
"حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام اور بعد کے آئمہ مجتہدین سے یہ منقول نہیں ہے"
(کبیری ص 433)
اور مشہور حنفی امام احمد بن محمدؒ (المتوفی 446ھ ) ایک مسئلہ کی تحقیق میں یوں ارقام ہیں:
"یہ بدعت ہے حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام سے منقول نہیں ہے"
(الواقعات)
(1) غیردین کو دین بنانا، (2) کسی کام کو اچھا یا برا خود قرار دینا جو ایک طرح سے خود کو خدا بنانا ہے. (3) دین کو نامکمل سمجھنا (4) اور نبی پر پورا دین نہ پہنچانے یا چھپانے کا الزام ظاہر کرنا اور (5) خود کو خدا کا پیغام(دین) پہنچانے والا نبی ہونے کا خفیہ دعوا کرنا ہے۔ جو بدعت کی سب سے خطرناک برائی اور تلبیس ابلیس ہے.
خواہش پرست، مشرک اور گمراہ ہے:
القرآن :
ترجمہ:
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) اللّٰه نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب اللّٰه کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
کیا کوئی بات خالق کے علم سے باہر ہوسکتی ہے؟
بھلا وہ نہ جانے جس نے بنایا اور وہی ہے بھید جاننے والا خبردار
کیا رسول الله ﷺ نے دین کی کوئی بات چھپائی؟
وَما هُوَ عَلَى الغَيبِ بِضَنينٍ {81:24}
اور وہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہیں
کیا دین مکمل نہیں ہوا ہے؟
... اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلٰمَ دينًا ۚ ... {5:3}
... آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا.
کیا محمد رسول الله ﷺ انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے نہیں؟ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّۦنَ ۗ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمًا {33:40}
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے.
کیا رسول الله ﷺ نے بدعت سے نہیں روکا؟
قُلۡ هَلۡ نُنَبِّئُکُمۡ بِالۡاَخۡسَرِیۡنَ اَعۡمَالًا ﴿۱۰۳﴾ اَلَّذِیۡنَ ضَلَّ سَعۡیُهُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ هُمۡ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمْ یُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا ﴿۱۰۴﴾ سورۃ الکھف
ترجمہ:
یہ سب سے پہلا فرقہ تھا جس نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور صحابہ کے رفقاء یعنی تابعین (رحمھم الله) کے خلاف بغاوت کی اور بغاوت کو حق سمجھا۔
مطلب یہ ہے کہ جیسے یہ آیت یہود و نصاریٰ وغیرہ کفّار کو شامل ہے، اسی طرح خارجیوں کا حکم بھی اس میں شامل ہے، کیونکہ آیت عام ہے. جو بھی الله کی عبادت و اطاعت اس طریقے سے بجا لاۓ جو طریقہ الله کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اپنے اعمال سے "خوش" ہو اور "سمجھ" رہا ہو کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کرلیا ہے، میرے نیک اعمال الله کے پسندیدہ ہیں اور مجھے ان پر اجر و ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے. اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں اور وہ غلط گمان شخص ہے.
صحابہؓ کے اعمال پر بدعت کا اطلاق نہیں
پس ہرچہ خلفائے راشدین بداں حکم کردہ باشند....اطلاق بدعت برآں نتواں کرد۔
[أشعة اللمعات: ١/١٣٠]
"ہر مومن کو سنت اور جماعت (اہلِ سنّت-والجماعت) کی پیروی کرنا واجب ہے، سنّت اس طریقے کو کہتے ہیں جس پر آپ ﷺ چلتے "رہے" اور جماعت اسے کہتے ہیں جس پر چاروں خلفاءِ راشدین نے اپنے خلافت کے زمانے میں "اتفاق(اجماع)" کیا، یہ لوگ سیدھی راہ دکھانے-والے تھے، کیوں کہ انہیں سیدھی راہ دکھائی گئی تھی."
[غنية الطالبين: صفحة # ١٨٥]
"وأماأهل السنةوالجماعة فيقولون في كل فعل وقول لم يثبت عن الصحابة: هوبدعة؛ لأنه لو كان خيرا لسبقونا إليه، لأنهم لم يتركوا خصلة من خصال الخير إلا وقد بادروا إليها"۔
(تفسیر ابن کثیر۔تفسیر الاحقاف:۱۱،شاملہ)
ترجمہ:اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ہر وہ قول وفعل جو حضورﷺ کے صحابہ سے ثابت نہ ہو بدعت ہے کیوں کہ اس(دینی کام)میں کوئی خیر ہوتی تو صحابہ کرام ہم سے پہلے اس کام کی طرف رخ کرتے انہوں نے نیکی کی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف دوڑتے تھے۔
"کل عبادۃ لم یتعبد ھااصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا"۔
(الاعتصام:۱/۵۴)
ترجمہ:دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔
جو دینی-کام نبی ﷺ اور خلفاء راشدین کی سنّت سے ثابت نہ ہو وہ دین میں "بدعت" ہے.
[تفسیر_ابن_کثیر: سورہ احقاف، آیت # ١١]
ما تركت من شيءٍ يقربُكم إلى الجنةِ إلا وقد حدثتكم به ، ولا تركتُ من شيءٍ يبعدُكم عن النارِ إلا وقد حدثتكم به
ترجمہ :
ما تركتُ شيئًا مما أمركم اللهُ به إلا قد أمرتُكم به ، وما تركتُ شيئًا مما نهاكم عنه إلا قد نهيتُكم به
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 2866 خلاصة حكم المحدث :حسن على أقل الأحوال
المصدر : صحيح الترغيب الصفحة أو الرقم: 1700 خلاصة حكم المحدث : صحيح لغيره
المصدر : الترغيب والترهيب الصفحة أو الرقم: 3/9 خلاصة حكم المحدث : [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
المصدر : إتحاف الخيرة المهرة الصفحة أو الرقم: 3/271 خلاصة حكم المحدث :له شاهد
کیا ہر نئی چیز بدعت ہے؟
بدعت کی برائی:
غیر-دین کو دین بنانا ، کسی کام کو اچھا یا برا خود قرار دینا ایک طرح سے خود کو خدا بنانا ہے. دین کو نامکمل اور نبی پر پورا دین نہ پہنچانے یا چھپانے کا الزام لگانا اور خود کو خدا کا پیغام(دین) پہنچانے والا نبی ہونے کا خفیہ دعوا کرنا بدعت کی سب سے خطرناک برائی اور تلبیس ابلیس ہے ہے.
قرآن :
أَم لَهُم شُرَكٰؤُا۟ شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَولا كَلِمَةُ الفَصلِ لَقُضِىَ بَينَهُم ۗ وَإِنَّ الظّٰلِمينَ لَهُم عَذابٌ أَليمٌ {42:21}
کیا ان کے لئے اور شریک ہیں کہ راہ ڈالی ہے انہوں نے انکے واسطے دین کی کہ جس کا حکم نہیں دیا اللہ نے [۳۰] اور اگر نہ مقرر ہو چکی ہوتی ایک بات فیصلہ کی تو فیصلہ ہو جاتا ان میں اور بیشک جو گنہگار ہیں انکو عذاب ہے دردناک [۳۱]
أَفَرَءَيتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰهَهُ هَوىٰهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ وَخَتَمَ عَلىٰ سَمعِهِ وَقَلبِهِ وَجَعَلَ عَلىٰ بَصَرِهِ غِشٰوَةً فَمَن يَهديهِ مِن بَعدِ اللَّهِ ۚ أَفَلا تَذَكَّرونَ {45:23}
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) خدا نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب خدا کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
... قُل إِنَّ الأَمرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ... {3:154}
... تم کہہ دو کہ بےشک سب باتیں خدا ہی کے اختیار میں ہیں ...
أَلا يَعلَمُ مَن خَلَقَ وَهُوَ اللَّطيفُ الخَبيرُ {67:14}
بھلا وہ نہ جانے جس نے بنایا اور وہی ہے بھید جاننے والا خبردار
====================
وَما هُوَ عَلَى الغَيبِ بِضَنينٍ {81:24}
اور وہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہیں
یعنی یہ پیغمبر ہر قسم کے غیوب کی خبر دیتا ہے ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے۔ یا اللہ کے اسماء و صفات سے یا احکام شرعیہ سے یا مذاہب کی حقیقت و بطلان سے یا جنت ودوزخ کے احوال سے یا واقعات بعدالموت سے اور ان چیزوں کے بتلانے میں ذرا بخل نہیں کرتا نہ اُجرت مانگتا ہے۔ نہ نذرانہ، نہ بخشش، پھر کاہن کا لقب اُس پر کیسے چسپاں ہو سکتا ہے، کاہن محض ایک جزئی اور نامکمل بات غیب کی سو جھوٹ ملا کربیان کرتا ہے اور اُس کے بتلانے میں بھی اس قدر بخیل ہے کہ بدون مٹھائی یا نذرانہ وغیرہ وصول کیے ایک حرف زبان سے نہیں نکالتا۔ پیغمبروں کی سیرت سے کاہنوں کی پوزیشن کو کیا نسبت۔
... اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلٰمَ دينًا ۚ ... {5:3}
... آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا.
مِنَ الَّذينَ فَرَّقوا دينَهُم وَكانوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزبٍ بِما لَدَيهِم فَرِحونَ {30:32} |
جنہوں نے کہ پھوٹ ڈالی اپنے دین میں اور ہو گئے ان میں بہت فرقے ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر فریفتہ ہے [۳۸] |
(اور نہ) اُن لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (خود) فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے |
یعنی دین فطرت کے اصول سے علیحدہ ہو کر ان لوگوں نے اپنے مذہب میں پھوٹ ڈالی، بہت سے فرقے بن گئے۔ ہر ایک کا عقیدہ الگ، مذہب و مشرب جدا، جس کسی نے غلط کاری یا ہوا پرستی سے کوئی عقیدہ قائم کر دیا یا کوئی طریقہ ایجاد کر لیا۔ ایک جماعت اسی کے پیچھے ہو گئ، تھوڑے دن بعد وہ ایک فرقہ بن گیا۔ پھر ہر فرقہ اپنے ٹھہراے ہوئے اصول و عقائد پر خواہ وہ کتنے ہی مہمل کیوں نہ ہوں ایسا فریفتہ اور مفتون ہے کہ اپنی غلطی کا امکان بھی اس کے تصور میں نہیں آتا۔ |
ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّۦنَ ۗ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمًا {33:40}
محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے.
شرک کے بعد سب سے زیادہ برائی بدعت کی آئی ہے
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ الله فرماتے ہیں: ”آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے بدعت کی جتنی مذمت فرمائی ہے شاید کفر وشرک کے بعد کسی او رچیز کی اتنی برائی نہیں کی ۔“ (اختلاف امت اور صراطِ مستقیم :74)
دین میں اضافہ الله تعالیٰ کے ہاں ناقابل قبول ہے
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات نکالی تو وہ مردود ہو گی ۔“( بخاری:371/1)
بدعت کی نحوست کی وجہ سے سنت کے نور سے محرومی ہو جاتی ہے
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت گھڑ لیتی ہے تو الله تعالیٰ اسی کے بقدر سنت اس سے چھین لیتے ہیں او رپھر قیامت تک ان کی طرف واپس نہیں لوٹاتے۔“ ( مشکوٰة:31/1)
نیز فرمایا:” جب کوئی قوم کوئی بدعت ایجاد کر لیتی ہے تو اس کی مثل سنت اس سے اٹھالی جاتی ہے ، اس لیے چھوٹی سے چھوٹی سنت پر عمل کرنا بظاہر اچھی سے اچھی بدعت ایجاد کرنے سے بہتر ہے ۔“ (ایضا)
بدعت شیطان کا جال ہے
حضرت صدیق اکبر رضی الله تعالی عنہ نقل فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” ابلیس نے کہا میں نے انہیں گناہوں کے ذریعہ ہلاک کیا اور لوگوں نے مجھے استغفار کرکے ہلاک کیا، جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے انہیں خواہشات نفسانی ( بدعات) سے ہلاک کیا، تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں اور استغفار نہیں کرتے۔“ ( الترغیب والترہیب:46/1)
پل صراط پر دیر نہ لگنے کا طریقہ
حضرت حسن بصری رحمہ الله فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ پل صراط پر تمہیں دیر نہ لگے اور سیدھے جنت میں جاؤ تو الله تعالیٰ کے دین میں اپنی رائے سے کوئی نیا طریقہ پیدا نہ کرو۔ (سنت و بدعت بحوالہ اعتصام)
بدعت کی وجہ سے حوض کوثر کا پانی نصیب نہ ہو گا
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” میں حوض کوثر پر تم سے پہلے موجود ہوں گا، جو شخص میرے پاس آئے گا وہ اس کا پانی پئے گا او رجو ایک بارپی لے گا ،پھر اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی ، کچھ لوگ میرے پاس وہاں آئیں گے ، جن کو میں پہچانتا ہوں گا او روہ مجھے پہچانتے ہوں گے، مگر میرے اور ان کے درمیان رکاوٹ پیدا کردی جائے گی ، میں کہوں گا کہ یہ تو میرے آدمی ہیں۔ مجھے جواب ملے گا کہ آپ نہیں جانتے، انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ یہ جواب سن کر میں کہوں گا:” پھٹکار، پھٹکار ان لوگوں کے لیے جنہوں نے میرے بعد میرا طریقہ بدل ڈالا۔“ (مشکوٰة:488)
بدعتیں کس قدر عام ہوں گی؟
حضرت حذیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا، خدا کی قسم! آئندہ زمانے میں بدعتیں اس طرح پھیل جائیں گی کہ اگر کوئی شخص اس بدعت کو چھوڑ دے گا تو لوگ کہیں گے کہ تم نے سنت چھوڑ دی۔ ( سنت وبدعت)
ہر سال بدعتوں میں اضافہ ہو گا
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ آئندہ لوگوں پر کوئی نیا سال نہیں آئے گا جس میں وہ بدعت ایجاد نہیں کریں گے اور کسی سنت کو مردہ نہیں کریں گے ، یہاں تک کہ بدعتیں زندہ اور سنتیں مردہ ہو جائیں گی۔ (ایضا)
اتباعِ سنت کیا ہے ؟
حضرت ابوعلی جوزانی رحمہ الله سے پوچھا گیا اتباع سنت کیا ہے ؟ فرمایاکہ بدعات سے اجتناب او ران عقائد واحکام کا اتباع جن پر پچھلے علمائے اسلام کا اتفاق ہے او ران کی پیروی کو لازم سمجھنا ۔ ( ایضا)
بدعتی کا کوئی عمل مقبول نہیں
رسول کریم ا نے فرمایا: ”الله تعالیٰ بدعتی کا نہ روزہ قبول کرتا ہے ، نہ نماز، نہ حج ، نہ عمرہ، نہ جہاد، نہ نفل، نہ فرض ، وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح آٹے سے بال نکل جاتا ہے ۔“ (الترغیب والترہیب:46/1)
بدعتی کی تعظیم کرنا ممنوع ہے
حضرت ابراہیم بن میسرة رضی الله تعالی عنہ نقل فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم کی تو اس نے اسلام کو گرانے میں مدد دی ۔“
بدعتی آں حضرت ا پر خیانت کا الزام لگاتا ہے
امام مالک رحمہ الله نے فرمایا جو شخص کوئی بدعت ایجاد کرتا ہے تو وہ گویا یہ دعوی کرتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ( معاذ الله) رسالت میں خیانت کی کہ پوری بات نہیں بتائی ( اور میں بتا رہا ہوں )۔ نیز فرمایا جو کام اس زمانے میں دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں کہا جاسکتا ۔ ( سنت و بدعت)
بدعتی سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ہے
الله تعالیٰ فرماتے ہیں :”آپ فرمائیے! کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ کون لوگ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں، وہ لوگ جن کی کوشش عمل دنیا کی زندگی میں ضائع اور بے کار ہو گئی او روہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہم اچھا عمل کر رہے ہیں۔ “( سورة الکہف:104,103)
بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” الله تعالیٰ نے ہر بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند کر دیا ہے ۔ ( مجمع)
بدعتی کی نماز اسے الله تعالیٰ کے قریب نہیں کرتی
حضرت حسن رحمہ الله نے فرمایا:” بدعتی جتنا زیادہ روزہ او رنماز میں مجاہدہ کرتا ہے اتنا ہی الله تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے۔“ نیز فرمایا: ” بدعتی کے پاس نہ بیٹھو ، وہ تمہارے دل کو بیمار کر دے گا۔“ ( سنت و بدعت)
بدعتی کو توبہ نصیب نہیں ہوتی
حضرت ابو عمر وشیبانی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ بدعتی کو توبہ نصیب نہیں ہوتی۔
بدعتوں کے پھیلنے پر علمائے کرام کی ذمہ داری
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” جب میری امت میں بدعتیں پیدا ہو جائیں اور میرے صحابہ کو برا کہا جائے تو اس وقت کے عالم پر لازم ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرے گا تو اس پر الله تعالیٰ اور فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہے۔“
بدعت کیا ہے ؟
جو چیز آں حضرت صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنہم، تابعین او رتبع تابعین رحمہم الله کے دور میں معمول ومروج نہ رہی ہو اسے دین کی بات سمجھ کر کرنا، بدعت کہلاتا ہے۔ (اختلاف امت:72)
لوگ بدعتوں میں کیوں مبتلا رہتے ہیں؟
اس کی پہلی وجہ جہالت ہے ، کہ اصل سنت ودین کا بہت سے لوگوں کو پتہ نہیں او رنہ سیکھنے کی طلب ہے۔
دوسری وجہ شیطان کا بہکانا ہے ، کہ شیطان بنی آدم کا بھلا کبھی نہیں چاہ سکتا ، وہ لوگوں کو بدعت کے نت نئے راستوں پر چلاتا ہے۔
تیسری وجہ شہرت پسندی کامرض ہے کہ چھپ کر صدقہ کرنے میں وہ دکھاوا کہاں ہو سکتا ہے۔ جو مسجدوں، گھروں اور سڑکوں کو سجانے میں ہوتا ہے۔
چوتھی وجہ غیر قوموں کی تقلید ہے کہ انہوں نے اہم شخصیات کے دن منائے تو مسلمان بھی ان کی دیکھا دیکھی دن منانے میں لگ جاتے ہیں۔( ملخص از اختلاف امت)
سنت اور بدعت کی پہچان
جس طرح اصلی نوٹ پورے پاکستان میں ایک ہوتا ہے ، جب کہ جعلی کئی طرح کے ، کمپنیوں کی مصنوعات اصلی ایک سی اور جعلی کئی طرح کی ہوتی ہیں، اسی طرح سنت او راس کا رنگ پوری دنیا میں ایک جیسا ہو گا جب کہ بدعات او ررسم ورواج ہر جگہ کے الگ ہوں گے ۔
رسول کریم صلی الله علیہ وسلم، صحابہ رضی الله عنہم، تابعین وتبع تابعین رحمہم الله کے مبارک زمانوں میں 12 ربیع الاول کی بدعات، محرم کی بدعات، صفر کو منحوس سمجھنا، رجب کے کونڈے، سوئم، چہلم، عرس، جنازہ کے بعد دعا ،قبر پر اذان اور عہد نامہ رکھنے کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔
قارئین کرام! حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله نے بہشتی زیور او راغلاط العوام میں ، مفتی محمد شفیع رحمہ الله نے ” سنت وبدعت “ نامی رسالے میں ، حضرت لدھیانوی رحمہ الله نے ” اختلاف امت اور صراطِ مستقیم“ میں ،مولانا سرفراز خان صاحب صفدر نے ” راہِ سنت“ میں بدعات جمع فرمائی ہیں ، مگر دین دار سے دین دار گھرانے کے حضرات ذرا اپنی خوشی او رغمی کے مواقع پر گھر کی خواتین کے معمولات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ آج بھی ہم کس قدر بدعات او ررسم ورواج کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
بہرحال حکمت وبصیرت سے، اگر ابھی سے ہم نے گھر کے افراد، بالخصوص خواتین کی ” ذہن سازی‘ نہ کی تو عین موقع پر ہمارا ان کو سمجھا نا فائدہ مند نہ ہو گا۔ الله کریم ہمیں سنتوں کو عام کرنے اور بدعات او ررسوم ورواج کو ختم کرنے کا ذریعہ بنائے!
وصلی الله علی سیدنا محمد والہ وصحبہ اجمعین
کیا باجماعت نماز تراویح بدعت ہے؟
(ترویج الجنان ۔۔والجنہ ص 161)
(عمدۃ القاری ج 5 ص 356)

عمدہ مضمون ہے
ReplyDelete