Thursday 7 February 2013

وصیت ِ امام ابو حنیفہؒ اور پانچ (5) لاکھ احادیث کا خلاصہ

وصیت ِ امام ابوحنیفہؒ اور پانچ (5) لاکھ احادیث کا خلاصہ


يا بني! أن تعمل بخمسة أحاديث جمعتها من خمس مائة ألف:

اے میرے بیٹے (حماد بن نعمانؒ)! (زندگی بھر) ان پانچ احادیث پر عمل کرنے (کی کوشش) میں رہنا جن کو میں نے پانچ لاکھ احادیث کے ذخیرہ سے چنا ہے:



نتیجہ اعمال کا خلاصہ:

١) " إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى..." 

تمام اعمال کا (آخرت میں ثواب کے اعتبار سے) دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر ایک کو (اس کے عمل کے نتیجہ میں الله تعالیٰ کی طرف سے) وہی (مراد) ملے گی جس کی (عمل کے آغاز کے وقت) اس نے نیت کی ہوگی...(1)

[حديث عمر: أخرجه مالك فى رواية محمد بن الحسن:983( طبعة دار ابن خلدون) ، أحمد:168، البخارى:1، مسلم:1907، ترمذى:1647، أبو داود:2201، نسائى:3437)، ابن ماجه:4227. وأخرجه أيضاً: ابن المبارك (1/62، رقم 188) ، والحميدى (1/16، رقم 28) ، والبيهقى (1/41، رقم 181) ، والطحاوى (3/96) ، والطبرانى فى الأوسط (1/17، رقم 40) ، والخطيب (4/244) ، وابن عساكر (32/166) ، وابن منده فى الإيمان (1/363، رقم 201) ، وتمام فى الفوائد (1/205، رقم 483) ، والصيداوى فى معجم الشيوخ (1/117) ، وابن خزيمة (1/73، رقم 142) ، والدارقطنى (1/50) ، وأبو عوانة (4/487، رقم 7438) ، والبزار (1/380، رقم 257) ، وهناد (2/440، رقم 871) ، والبيهقى فى الزهد (2/131، رقم 241) ، والحسن بن سفيان فى الأربعين (1/56، رقم 13) ، وابن منده فى مسند إبراهيم بن أدهم (ص 24، رقم 13) ، وأبو أحمد الحاكم فى شعار أصحاب الحديث (ص 35، رقم 20) ، والحسن بن على العامرى فى الأمالى والقراءة (ص 34، رقم 26) ، والسلفى فى مشيخة ابن الحطاب (ص 102 رقم 15) ، والهروى فى الأربعين فى دلائل التوحيد (1/39، رقم 1) ، والديلمى (1/118، رقم 401) ، والقضاعى (1/35، رقم 1) ، وابن حبان (2/113، رقم 388) .]



اسلامی تعلیمات کا حسین خلاصہ:
٢) " مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ 

کسی کے اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی (بےضرورت) کاموں کو ترک کردے (جس میں دنیا و آخرت کا کوئی فائدہ نہ ہو).(2)


یعنی : بدکاری تو چھوڑنی ہی ہے لیکن بےکاری بھی چھوڑدے.
[حديث أبى هريرة: أخرجه الترمذى (4/558 رقم 2317) وقال: غريب. وابن ماجه (2/1315، رقم 3976) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (4/255، رقم 4987) . وأخرجه أيضًا: ابن حبان (1/466، رقم 229) ، وابن عساكر (41/426) .
حديث الحسين: أخرجه أحمد (1/201، رقم 1737) ، والطبرانى (3/128، رقم 2886) قال الهيثمى (8/18) : رجالهما ثقات.
حديث على بن الحسين: أخرجه مالك (2/903، رقم 1604) ، والترمذى (4/558، رقم 2318) ، والبيهقى فى شعب الإيمان (7/416، رقم 10806) .]









تمام حقوق واخلاق، معاشرت ومعاملات کا خلاصہ:

٣) "  لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ " 

تم میں سے کوئی بھی شخص (حقیقی) مومن نہیں بن سکتا جب تک (اس کی یہ عادت نہ بن جاۓ کہ جو بھلائی) وہ اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے (دوسرے مومن) بھائی کے لئے بھی پسند کیا کرے.(3)

[أخرجه ابن المبارك (1/236، رقم 677) ، والطيالسى (ص 268، رقم 2004) ، وأحمد (3/272، رقم 13901) ، وعبد بن حميد (ص 354، رقم 1174) ، والبخارى (1/14، رقم 13) ، ومسلم (1/67، رقم 45) ، والترمذى (4/667 رقم 2515) وقال: صحيح. والنسائى (8/115، رقم 5016+5017) ، وابن ماجه (1/26، رقم 66) ، والدارمى (2/397، رقم 2740) .]

یعنی کسی کےساتھ حسد (زوالِ نعمت کی تمنا) نہ کرو۔[امداد الباري:٤/٣٦٤]
اور کسی کو مشورہ دینے میں اس کےساتھ بھلائی کرو۔[فضل الباري:١/٣٣٥]



دین کا خلاصہ:
٤) إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ ، وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى ، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ "


بیشک (الله تعالیٰ کے احکام میں) حلال (اشیاء) بھی واضح ہیں اور حرام (اشیاء) بھی واضح ہیں، اور ان دونوں (حلال و حرام) کے درمیاں (ایسی اشیاء و باتیں ہیں جو) مشتبہات میں سے ہیں، جن (کی حقیقی صورت حال) کا علم اکثر لوگوں کو نہیں، پھر جس نے شبہات والی اشیاء سے تقویٰ (پرہیز) اختیار کی اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا، اور جو شخص ان شبھات (والی اشیاء) میں پڑگیا تو وہ حرام میں جا پڑےگا، جیسے کوئی چرواہا (اپنے جانور) کسی دوسرے کی حدود میں چراۓ تو خطرہ یہ ہے کہ وہ غیر کی چراگاہ میں داخل ہوجاۓ گا. خبردار! ہر ایک مالک کے لئے چراگاہ کی حد ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ کی حد اس کی حرام کردہ باتیں (اعمال و اشیاء) ہیں. خبردار! (الله تعالیٰ نے انسان کے) جسم میں ایک لوتھڑا (پیدا کیا) ہے، اور (وہ لوتھڑا اس قدر اہم ہے کہ) جب وہ سنور گیا تو سارا بدن سنور گیا اور جب وہ بگڑ کیا تو سارا ہی بدن بگڑ کیا، اور وہ (لوتھڑا) دل ہے۔ (4)




[أخرجه أحمد (4/270، رقم 18398) ، والبخارى (1/28، رقم 52) ، ومسلم (3/1219، رقم 1599) ، وأبو داود (3/243، رقم 3329، رقم 3330) ، والترمذى (3/511، رقم 1205) وقال: حسن صحيح. والنسائى (7/241، رقم 4453) ، وابن ماجه (2/1318، رقم 3984) ، وأخرجه أيضًا: الدارمى (2/319، رقم 2531) ، والبيهقى (5/264، رقم 10180) .]




حقوق المسلم اور اسلامی سلامتی کا خلاصہ:

٥) الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ

(تم میں سے صحیح) مسلمان وہی (شخص) ہو سکتا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان (ہر طرح سے) محفوظ ہوں.(5)

[حديث جابر: أخرجه مسلم (1/65، رقم 41) . وأخرجه أيضًا: البيهقى (10/187، رقم 20545) .
حديث بلال بن الحارث: أخرجه الطبرانى (1/369، رقم 1137) ، والحاكم (3/593، رقم 6200) . وأخرجه أيضًا: الطبرانى فى الأوسط (4/113، رقم 3745) . قال الهيثمى (1/56) : رواه الطبرانى فى الكبير، والأوسط، ورجاله موثقون.
حديث معاذ بن أنس: أخرجه الطبرانى (20/197، رقم 444) .
حديث أبى أمامة: أخرجه الطبرانى فى الكبير (8/263، رقم 8021) . وأخرجه أيضًا: فى الأوسط (3/78، رقم 2543) . قال الهيثمى (1/56) : فيه فضال بن جبير لا يحل الاحتجاج به.
حديث فضالة: أخرجه الطبرانى (18/309، رقم 796) ، قال الهيثمى (1/56) : إسناده حسن. والحاكم (1/54، رقم 24) . وأخرجه أيضًا: أحمد (6/22، رقم 24013) ، والبزار (9/206، رقم 3752) .]




4800 احادیث رسول اللہؐ کا نچوڑ صرف 4 احادیث




4000 احادیث رسول اللہؐ کا خلاصہ:
حكي أن الشبلي رحمه الله خدم أربعمائة أستاذ، وقال قرأت أربعة آلاف حديث، ثم اخترت منها حديثا واحدا، وعملت به، وخليت ما سواه؛ لأني تأملته فوجدت خلاصي ونجاتي فيه، وكان علم الأولين، والآخرين كله مندرجا فيه فاكتفيت به، وذلك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لبعض أصحابه:” اعمل لدنياك بقدر مقامك فيها، واعمل لآخرتك بقدر بقائك فيها، واعمل لله بقدر حاجتك إليه، واعمل للنار بقدر صبرك عليها” رواه البيهقي بلفظ:” اعمل عمل امرئ يظن أن لن يموت أبدا، واحذر حذر امرئ يخشى أن يموت غدا”. قال المناوي في التيسير 1 176: رمز المؤلف ـ يريد السيوطي ـ لضعفه.


رسول اللہؐ نے اپنے بعض صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ دنیا کے لئے اتنے اعمال(محنت)کرو جتنا اس میں رہنا ہے، اور آخرت کے لئے اتنے اعمال(کوشش)کرو جتنا اس میں رہنا ہے، الله کے لئے اتنے اعمال(عبادت)کرو جتنا تم اس کے محتاج ہو، اور جہنم کے لئے اتنے اعمال(گناہ)کرو جتنا تم اس پر صبر کر سکو.



امام غزالیؒ نے بھی اپنی کتاب [مجموعہ رسائل] میں اسے ذکر فرماکر فرمایا کہ یہ مبارک حدیث چار ہزار احادیث کا خلاصہ ہے جسے ان چار باتوں میں پایا ہے.






*******************************

نیت کی فضیلت اور حقیقت

(١) اس حدیث میں دو چیزوں کا ذکر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ایک اعمال کا ، دوسرے ”نیت“ کا ،پہلے میں نیت کے متعلق عرض کروں گا اوراس کے بعد ان شاء الله اعمال کے متعلق بیان کروں گا۔

اخلاص نیت کی برکت
قرآن مجید اور احادیث میں جا بجا ترغیبات موجود ہیں کہ اعمال کی قبولیت کا دار ومدار نیت پر ہے اور نیت کے فضائل اور اس کا ثواب قرآن وحدیث میں اکثرجگہ موجود ہے ۔ چناں چہ قرآن مجید میں ایک جگہ خدا تعالیٰ نے فقرائے مسلمین کیبارے میں آیت نازل فرمائی جس کا شان نزول یہ ہے کہ مکہ کے سردار اور رؤسا نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ ہم آپ کی بات اس شرط پر سننے کو تیار ہیں کہ جس وقت ہم لوگ آپ کی مجلس میں حاضرہوا کریں تو آپ ان غریب اور کم درجہ کے لوگوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا کریں ، کیوں کہ ہمیں ان کے ہمراہ بیٹھنے میں سخت عار آتی ہے اور ہماری شان کے خلاف ہے کہ ہم اتنے بڑے بڑے لوگ ایسے کم درجہ کے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں۔ جب ان لوگوں نے آپ سے یہ درخواست کی تو آپ اس سلسلے میں متردد تھے، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی ﴿لا تطرد الذین یدعون ربھم بالغداة والعشی یریدون وجھہ﴾ آپ ( اپنے پاس سے ) ان لوگوں کو الگ نہ کریں جو اپنے پرورد گار کو صبح شام پکارتے ہیں، جس سے ان کی غرض یہ ہے کہ وہ خالص خدا تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔

یعنی ان کی عبادت اور الله کو پکارنا محض اخلاص اور نیک نیتی سے ہے اور کوئی غرض ان کی اس میں شامل نہیں ۔ یہی مطلب ہے لفظ ﴿یریدون وجھہ﴾ کا ، تو خدا تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ان سرداروں اور رؤسا کی خاطر نہ اٹھائیں، خواہ یہ سردار آپ کے پاس آئیں یا نہ آئیں۔

اس آیت میں غور کرنے سے معلو م ہو گا کہ اخلا ص او رنیک نیتی کی خدا تعالیٰ کے ہاں کتنی قدر ہے او راس کا کتنا مرتبہ ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یہ بات ناممکن ہے کہ نعوذ بالله نبی کو امیروں سے ان کی امارت کی بنا پر محبت اورانس ہو اور غریبوں سے ان کے افلاس اور فقر کی وجہ سے نفرت ہو، بلکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم جو اس ا مر میں متردد تھے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یہ حرص تھی کہ اگر میں چند منٹ کے لیے ان سردار انِ مکہ کی اس بات کو مان لوں اورتھوڑی دیر کے لیے دعوت اسلام کے خاطران سے تخلیہ میں گفت گو کر لوں تو ممکن ہے کہ یہ اسلام لے آئیں اور اس طرح ان کو ہدایت ہو جائے ، پھر یہ امرا امرا نہیں رہیں گے، بلکہ دل سے ویسے ہی درویش صفت ہو جائیں گے ، جیسے کہ یہ فقرائے مسلمین ہیں تو گویا آپ کا خیال مبارک یہ تھا کہ یہ چند روز کی بات ہے ، پھر جب خدا تعالیٰ ان کو اسلام لانے کی توفیق دے دے گا تو پھر یہ معاملہ ہی نہیں رہے گا۔

غرض آں جناب کو جو اس جانب میلان خاطر تھا وہ اس پر تھا کہ آپ ان امرا کو فقرا صفت بنانا چاہتے تھے اور فقرائے مسلمین چوں کہ سرتاپاجاں نثار اور غلام تھے ، اس لیے ان کو بھی گرانی کے ہونے کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ یہ مصالح تبلیغ ودعوت تھیں، جن کی بنا پر آپ کا خیال مبارک اس بارے میں متردد تھا، مگر چوں کہ خدا تعالیٰ کی شان بے نیازی ہے او راس کی بارگاہ میں کسی کی پروا نہیں ، اس لیے فرمایا کہ خواہ یہ امرا اسلام لائیں یا نہ لائیں، آپ پروانہ کریں ، لیکن ان مسلمانوں کو جو اخلاص او رنیک نیتی سے صبح وشام خدا کو پکارتے ہیں، اپنے دربار سے نہ ہٹائیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ اتنا بڑا اعزاز واکرام ان فقرائے مسلمین کا فرمایا او ران کو ان سرداروں کے مقابلہ میں اتنا بڑا مرتبہ عطا فرمایا، اس کی علت کیا ہے او راس کی وجہ کیا ہے ؟ سو اس کی جو علت خود حق تعالیٰ بیان فرمارہے ہیں ، وہ یہ ہے کہ ﴿یریدون وجھہ﴾ یعنی یہ مرتبہ ان کو اس لیے عطا کیاجارہا ہے کہ یہ خدا تعالی کی عبادت محض اس لیے کرتے ہیں کہ ان کو اس کی رضا او رخوش نودی کی تلاش ہے ، کوئی دنیوی غرض یا اپنی ذاتی خواہش نہیں ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے جو اپنی نیتوں کو خدا کی رضا جوئی کے لیے خالص کر لیا تھا اس اخلا ص اور نیک نیتی کی یہ برکت ہے کہ ان کو اس مرتبہ عظمیٰ پر فائر کیا گیا اور فقط اسی پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ یہ حکم دیا ﴿واذا جاء ک الذین یؤمنون بایتنا فقل سلٰم علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمة انہ من عمل منکم﴾ اس میں بھی یہی ذکر ہے کہ جب یہ فقرا آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کو سلام کیجیے اور ہمارا یہ پیغام پہنچا دیجیے کہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں پر رحمت نازل کرنے کو اپنے اوپر لازم فرمالیا ہے۔ تو یہ اعزاز بھی اسی نیک نیتی او راخلاص کی بنا پر ہو رہا ہے کہ جب نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس یہ لوگ آئیں تو نبی ان کو سلام کریں اور خدا تعالیٰ کی در گاہ میں حاضر ہوں تو وہ ان پر رحمت فرمائیں اور تیسرا اعزازیہ کہ امراء آئیں یانہ آئیں، کوئی پروا نہیں ، مگر ان لوگوں کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے پا س سے ان رؤسا کی خاطراٹھانا گوارا نہیں۔

اچھی نیت عمل خیر سے بہتر کیوں؟
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ ”نیة المومن خیر من عملہ“ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے ، اس حدیث کی تفسیر میں علماء کا اختلاف ہے، جو درحقیقت اختلاف نہیں ،بلکہ اس حدیث کی مختلف تفسیریں اور تعبیریں ہیں۔ دراصل بہ ظاہر اس حدیث میں یہ اشکال واقع ہوتا ہے کہ عمل کرنے سے نیت کا درجہ کیسے بڑھ سکتا ہے ، کیوں کہ نیت تو عمل سے پہلے ہوتی ہے ، پھر اس میں مشقت بھی کچھ نہیں او رعمل میں مشقت ہے ؟ اس لیے بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ انسان کئی قسم کے ہیں ، ایک وہ کہ انسان نیک نیتی کرے اور عمل نہ کرے اور دوسرا وہ جو عمل تو کرتا ہے مگر نیت ٹھیک نہیں ہے ، مثلاً عمل میں ریا کا شائبہ ہے یا کسی دنیوی غرض کو حاصل کرنے کے لیے نیک کام کر رہا ہے تو چوں کہ اس دوسرے شخص کی نیت ٹھیک نہیں ، اس لیے اس کے عمل کا بھی کوئی ثواب نہیں ، بلکہ ریا وغیرہ کا گناہ ہو گا ،بخلاف اس شخص کے کہ جس نے صرف نیت کی تھی ، اس کو نیت کا ثواب تو مل گیا، گووہ عمل نہ کر سکا اور پہلے شخص کو نہ نیت کا ثواب ملا اور نہ عمل کا تو اس صورت میں نیت عمل سے بڑھ گئی ، کیوں کہ بہرحال وہ نیت ثواب کا باعث ہوئی اور یہ عمل کچھ بھی نہ ہوا۔

بعض علماء نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ چوں کہ عمل تو ہوتا ہے محدود اورنیت انسان غیر محدود کی بھی کر سکتا ہے تو اس صورت میں نیت عمل سے بڑھی ہوئی ہے ، مثلاً حدیث میں ہے کہ ایک تو ایسا شخص ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے مال بھی عطا فرمایا ہے اور علم بھی اور وہ اس مال کو اپنے علم کے مطابق صحیح جگہوں میں خرچ کرتا ہے ، یعنی جہاں خرچ کرنے کا حکم ہے وہاں خرچ کرتا ہے اور جہاں خرچ کرنے کی ممانعت ہے ، وہاں خرچ کرنے سے رک جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ شخص ایسا ہے کہ اس کو اجر اورثواب بہت ملے گا، کیوں کہ جہاں جہاں اس کو خرچ کرنے کی ضرورت ہو گی ، دل کھول کر خدا کی راہ میں خرچ کرے گا او رایک دوسرا شخص ہے کہ اس کے پاس نہ مال ہے او رنہ علم ہے، وہ اس کو دیکھ دیکھ کر حسرت کھاتا اور رشک کرتا ہے کہ کاش! خدا تعالیٰ مجھے بھی اس طرح مال دیتا او رمیں اس کو خدا کی راہ میں اس شخص کی طرح خرچ کرتا ، تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” ھما فی الأجر سواء“ یعنی یہ دونوں اجر اور ثواب میں برابر ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ اس دوسرے کے پا س مال ودولت نہیں ہے، مگر اس کی نیت تو ہے کہ اگر ہوتا تو میں خرچ کرتا ، تو چوں کہ یہاں اس کی نیت شامل ہو گئی ، اس لیے اس کو اجر ثواب میں اس کے برابر کر دیا گیا۔

تیسرا وہ شخص کہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کو مال دیا، مگر اس نے علم حاصل نہیں کیا، اس لیے اپنے مال کو اندھا دھند اور عیش پرستیوں اور فضول خرچیوں میں خرچ کر رہا ہے اور کسی مفلس آدمی نے اس کو دیکھ کر کہ یہ شخص تو خوب مزے اڑارہا ہے اور عیش کر رہا ہے ، اس لیے اس نے بھی یہ حسرت کی کہ اگر مجھے مال ملے تو میں بھی یوں ہی عیش اڑاؤں اور دنیا کے مزے لوٹوں، تو فرمایا کہ یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں ، تو یہ برابری محض نیت کی وجہ سے ہوئی ، اس لیے انسان کوچاہیے کہ اگر کسی کو نیک کاموں میں خرچ کرتے دیکھے تو کہے کہ اگر مجھے بھی مال میسر ہوتا تو میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتا او رکسی کو دیکھو کہ وہ اپنے مال کو بے جا خرچ کرکے گناہ میں مبتلا ہے تو یہ کہو کہ خداوند! تیرا احسان ہے او رشکر ہے کہ تونے مجھے دیا ہی نہیں کہ میں اس خرافات میں خرچ کرتا۔

بعض اولیائے کرام کے کلام میں دیکھا کہ دو چیزیں عجیب وغریب ہیں: ایک توبہ اور دوسری نیت ، یہ دونوں عجیب وغریب اس لیے ہیں کہ نیت کا کام ہے کہ معدوم چیز کو موجود بنا دینا، مثلاً ہم نے کوئی عمل نہیں کیا، مگر نیت کر لی تو ثواب ملے گا تو بغیر عمل کے ثواب ملنے کا یہی حاصل ہوا کہ عمل موجود نہیں،مگر نیت نے اس کو موجود کر دیا اور دوسری چیز توبہ ہے جو موجود کو معدوم کر دیتی ہے، کیوں کہ انسان خواہ ستر (70) برس تک گناہ کرتا رہے، بلکہ شرک وکفر میں بھی مبتلا رہے ، جب بارگاہ الہٰی پر ایک سجدہ کیا اور معافی مانگی، سب یک قلم معاف اور گناہوں کا ایک بے شمار ذخیرہ جو موجود تھا اس کو ایک مخلصانہ توبہ نے معدوم کر ڈالا، یہ دونوں نعمتیں خدا تعالیٰ نے اہل ایمان کوعطا کی ہیں ، عجیب نعمتیں ہیں ”فللہ الحمد حمداً کثیراً“․

جو حدیث ابتدا میں میں نے ذکر کی اس میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیت ہے ، یعنی اعمال بمنزلہ جسم کے ہیں او رنیت بمنزلہ روح کے ہے ۔ جس درجہ کی نیت ہو گی اسی درجہ کا عمل ہو گا ، اگر نیت ہے تو عمل بھی اچھا ہو گا اور فاسدنیت ہے تو عمل بھی فاسد ہو گا۔ اس سے بھی ”نیة المؤمن خیر من عملہ“ کا نیا مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جب نیت بمنزلہ روح کے ہے او رعمل بمنزلہ جسم کے ہے تو ظاہر ہے کہ روح کا درجہ جسم سے بڑھا ہوا ہے، آج کل کے فلسفیوں کو اور مادہ پرستوں کو اس جگہ یہ اشکال پیش آتا ہے کہ یہ باتیں محض مولویوں کے ڈھکوسلے ہیں او رمحض سنی سنائی باتیں ہیں اور اس کے لیے کوئی عقلی دلیل نہیں ، کیوں کہ عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے منکر ہے کہ عمل کا دارومدار نیت پر ہو ، لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے ، اس کے لیے عقلی دلیل بلکہ مشاہدہ موجود ہے ، دیکھیے ، آپ باپ ہونے کی حیثیت سے اپنے بچے کو طمانچہ ماردیں تو اس سے اس بچے کے دل میں، جو آپ کی محبت ہے، اس میں کوئی فرق نہیں آئے گا، لیکن اگر آپ کسی محلے کے بچے کے طمانچہ مار دیں تو اس بچے کو بھی ناگوارہو گا اوراس کے والدین اورسرپرستوں کو بھی ناگوار گزرے گا، سوچنا چاہیے کہ آخر یہ فرق کیوں ہوا؟ وہی نیت کا فرق ہے کہ اپنے بچے کو مارنے میں اس کی اصلاح او رتربیت مدنظر ہے اور محلے کے بچے کو مارنے میں یہ چیز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی شخص سے نادانستہ کسی کا نقصان ہو جائے کہ اس کی نیت اور ارادہ اس کا نقصان کرنے کا نہیں تھا ، مگر لاعلمی او رغیراختیاری طور پر وہ نقصان ہو گیا تو اگر یہ دوسرا شخص عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور عدالت میں یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہ کام اس نے قصداً نہیں کیا، بلکہ نادانستہ ہو گیا ہے تو عدالت اس کو سزا نہ دے گی اور اگر دے گی تو اس درجہ کی سزا نہ دے گی جیسی کہ قصداً کرنے میں دی جاتی ، تو جب دنیا کے احکام نیت سے بدل جاتے ہیں تو آخرت کے احکام بطریق اولیٰ بدل جائیں گے، حدیث ”نیة المومن خیر من عملہ“ کی ایک توجیہ علماء نے یہ کی ہے کہ نیت ایک ایسا فعل ہے کہ اس میں ریا کا احتمال نہیں ، اس لیے یہ عمل سے بہتر ہے، کیوں کہ عمل میں ریا کا احتمال ہے او رایک توجیہ اس کی امام غزالی  نے لکھی ہے ، وہ یہ کہ عمل کا تعلق تو اعضا ظاہری سے ہے اور نیت کا تعلق باطن سے ہے ، تو اس کی مثال ایسی ہے کہ اطبا جو مریضوں کو دوا دیتے ہیں ان میں بعض تو اوپر لیپ کرنے کی ہوتی ہیں اوربعض دوائیں پلانے کی ہوتی ہیں ، تو ظاہر ہے جو دوا جسم کے اندر پہنچ کر اپنا اثر کرے گی ، وہ زیادہ موثر ہو گی بہ نسبت اس دوا کے جو اوپر سے لیپ کے طور پر لگادی جائے، اس طرح نیت اور عمل کا حال ہے۔

نیت کی لغوی وشرعی تعریفیں
اب یہ معلوم کرنا چاہیے کہ لفظ ”نیت“ کے معنی کیا ہیں ؟ … نیت کے معنی لغت میں قصد کرنے او رارادہ کرنے کے ہیں ، مگر حقیقت اس کی قصد اور ارادہ کے سوا کچھ اور ہے ۔ یوں سمجھیے کہ نیت کی حقیقت یہ ہے کہ نیت ایک قلبی صفت او رکیفیت کا نام ہے، جو علم اور عمل کے درمیان میں ہے ۔ اس کو مثال سے سمجھیے کہ مثلاً پہلے تو انسان کو علم حاصل ہوتا ہے کہ فلاں کام میں نفع ہے یا نقصان ہے ، جیسے تجارت میں نفع ہونے کا کسی کو علم ہوا کہ اگر تجارت کی جائے تو نفع ہوتا ہے یا کھیتی کرنے سے غلہ پیدا ہوگا۔ یہ تو سب سے پہلا درجہ ہے، جو علم کا درجہ کہلاتا ہے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان عمل ترویج کر دے، جیسے تجارت کا مال خرید کر دکان میں لگا کر بیٹھ جائے یا کھیتی کرنے کے لیے ہل وغیرہ چلانا شروع کر دے ، یہ عمل کا درجہ ہے او ران دونوں کے درمیان جو چیز ہے وہ نیت ہے، جس سے عمل او رکام کرنے کی ایک آمادگی پیدا ہوئی، بس یہی نیت کا درجہ ہے۔

امام غزالی  نے اس کی تعریف او رحقیقت کو دو لفظوں میں بیان فرمایا ہے ، فرماتے ہیں :” انبعاث القلب إلی مایراہ موافقا بغرضہ من جلب منفعة أو دفع مضرة، حالا أومآلا“ یعنی کسی کام کے لیے دل کاکھڑا ہو جانا او رآمادہ ہو جانا کہ جس کو دل اپنی غرض کے موافق پاتا ہو، خواہ وہ غرض جلب منفعت ہو یا دفع مضرت ہو ، عام ہے ، اس سے کہ وہ غرض فی الحال ہو یا فی المال ہو ۔ اسی لیے فرماتے ہیں کہ اعمال کا دار ومدار دل کے کھڑے ہو جانے پر ہے ۔ اگر دل خدا کے لیے کھڑا ہو گیا تو وہی حکم ہو گا او راگر دنیا کے لیے کھڑا ہو گا تو وہی حکم ہو گا۔ غرض اعمال کی روح نیت ہے ، اگر نیت اچھی ہے تو عمل بھی مقبول ہے ورنہ مردود ، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اعمال کی تین قسمیں ہیں: قسم اول تو وہ اعمال ہیں جو طاعت کہلاتے ہیں ، مثلاً نماز ، روزہ، صدقہ، خیرات وغیرہ اور دوسری قسم وہ کہ جو مباحات کہلاتے ہیں ، یعنی جن کے نہ تو کرنے سے کوئی گناہ ہے اور نہ ان کو ترک کرنے سے کوئی گناہ، جیسے کپڑاپہننا ، کھانا کھانا، خوش بو لگانا وغیرہ اور تیسری قسم اعمال کی معاصی ہیں، یعنی وہ اعمال جن کے کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے او ران کے کرنے میں گناہ ہے۔

کن اعمال کا مدارنیت پر ہے ؟ 
اب اس حدیث میں جن اعمال کا ذکر ہے اس سے اعمال طاعت او راعمال مباح مراد ہیں۔ معاصی یعنی اعمال معصیت اس سے مراد نہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر طاعات او رمباحات میں نیت اچھی ہوئی تو نیت کے مطابق ان کی فضیلت بڑھ جائے گی، مگر گناہوں میں نیت خواہ کتنی بھی اچھی ہو وہ گناہ ، گناہ ہی رہے گا، مثلاً کوئی شخص چوری اس نیت سے کرے کہ میں اس سے غریبوں کو کھانا کھلاؤں گا یا کوئی رشوت اس نیت سے لے کہ میں مسجد بنواؤں گا تو یہ چوری اور رشوت گناہ ہیں، رہیں گے او راس پر کوئی ثواب مرتب نہ ہو گا، اس لیے معصیت میں حسن نیت کا کوئی اعتبار نہیں،بلکہ عمل معصیت کی بنا پر وہ اچھی نیت بھی فاسد ہو جائے گی۔ طاعت میں نیت خالص الله کے لیے کرنی چاہیے اور اس میں کوئی پابندی نہیں، ایک عمل میں جتنی نیتیں کر لو گے اتنا ہی ثواب ملتا چلا جائے گا، مثلاً مسجد میں حاضر ہونا عبادت ہے، اگر کوئی شخص اس کے ساتھ یہ نیت بھی کر لے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لیے حاضرہو رہا ہوں تو اس کو دو ثواب ملیں گے او راگر کسی نے اس کے ساتھ یہ نیت بھی کر لی کہ مسجد الله کا گھر ہے ، میں اس میں جارہا ہوں او رجوکوئی کسی کے گھر جاتا ہے وہ اس کی زیارت کرنے کو جاتا ہے اس لیے میں الله کی زیارت کرنے کے لیے جارہا ہوں تو ایک اجر اور مل جائے گا او راگر کسی نے اس کے ساتھ یہ نیت بھی کر لی کہ کسی کے گھر جانے سے انسان اس کا مہمان ہوتا ہے تو میں خدا کا مہمان بننے کے لیے او راس کی مہمانی کے مزے لوٹنے کو مسجد میں جارہاہوں تو ایک اجر اور بڑھ گیا او راگر کسی نے یہ نیت بھی کر لی کہ مسجد میں نیک لوگ اور فرشتے ہوتے ہیں ،لہٰذا ان سے برکت بھی حاصل ہو گی تو اس صورت میں ایک اجر اوربڑھ جائے گا اور اگر کسی نے یہ بھی نیت کر لی کہ میں تو روسیاہ اور گنہگار ہوں اور وہاں پر الله کے مقبول اور برگزیدہ بندے بھی ہوں گے اس لیے میری روسیاہی او رگنہگاری ان کی برکت سے دھل جائے گی تو اس نیت کا ثواب بھی بڑھ جائے گا او راگر یہ نیت بھی ساتھ ملا لے کہ جتنی دیر مسجد میں بیٹھوں گا، گناہوں سے محفوظ رہوں گا تو ایک اور اجر بڑھ جائے گا۔ نیز فقہاء نے لکھا کہ اعتکاف نفل چند گھنٹوں بلکہ چند منٹ کا بھی ہو سکتا ہے تو اگر مسجد میں آتے وقت اعتکاف کی بھی نیت کر لی تو اعتکاف کا ثواب بھی ملا۔

غرض اپنی عقل سے سوچ کر جتنی چیزوں کی نیت کرتے جاؤ گے اتنا ہی اجڑ بڑھتا جائے گا۔ آخرت کی تجارت میں انسان کو اپنی عقل خرچ کرنی چاہیے۔ غرض خدا تعالیٰ کا خزانہ کھلا ہوا ہے، وہاں ایک ہی نیت نہ کرو، بلکہ ایک ایک کام کی نیت کرو،تاکہ اجر بڑھتا چلا جائے، وہاں کوئی کمی نہیں اور نہ ہی دینے میں ان کو کوئی مشقت ہوتی ہے ، جیسے صدقہ وخیرات کرنا ثواب کا کام ہے، مگر فقہاء نے لکھا ہے صدقہ کے مستحق سب سے زیادہ اپنے قریبی عزیز ہیں، تو اگر کوئی صدقہ کرتے وقت اپنے عزیزوں کو دے او رنیت کرے کہ چوں کہ یہ ضرورت مند ہیں ، اس لیے ان کو اپنی حاجت رفع کرنے کے لیے دے رہاہوں، تو دگنا ثواب ملے گا۔

صدقہ دینے میں حضرت عمر کا اصول
حضرت عمر ضی الله عنہ نے اپنے اعزہ کو صدقہ دینے کے بارے میں ایک اصول اور ضابطہ بنا رکھا تھا، وہ یہ کہ بعض رشتہ دار تو انسان سے کسی وجہ سے ناخوش رہتے ہیں او ربعض خوش اور راضی ہوتے ہیں تو آپ ان رشتہ داروں وکو دینا زیادہ پسند کرتے تھے، جو ناخوش رہتے ہیں اور قرآن مجید میں عباد مخلصین کے متعلق ارشاد ہے کہ ان کا مسلک یہ ہے ﴿ لانرید منکم جزاء ولا شکورا﴾ ہم ( صدقہ دے کر) تم سے بدلہ او رشکر گزار ی کے طلب گار نہیں ہیں ، تو چوں کہ شکریہ کا طلب کرنا بھی ایک طرح کا بدلہ چاہنا ہے اس لیے حضرت عمر نے فرمایا کہ روٹھے ہوئے رشتہ داروں سے شکرگزاری کی توقع نہیں ہوتی ، اس لیے میں ان کو دینا پسند کرتا ہوں ، یا مثلاً کوئی شخص بے نمازی ہے، اس کو اس نیت سے صدقہ دیا کہ جب میں اس کو دوں گا تو یہ مجھ سے مانوس ہو جائے گا او رپھر اس کو نماز کے لیے ترغیب دے دوں گا تو اس کا اجر بھی بڑھ جائے گا ، اسی طرح دکان کھولنا، خوش بو لگانا، مکان بنانا وغیرہ ، یہ سب کام مباح ہیں ، نہ ان کے کرنے میں کچھ گنا ہ ہے ، نہ ثواب، لیکن اگر مثلاً دکان اس نیت سے کھولی کہ اس کے ذریعے سے روپیہ کماؤں گا اور غربا اور مساکین کی مدد کروں گا اور مسلمانوں کو ضروریات مہیا کروں گا، تاکہ ان کو سہولت ہو اور کافروں سے خریدنے کی مسلمانوں کو ضرورت نہ رہے او راس کی وجہ سے مجھے دنیا والوں سے استغنا ہو جائے گا اور روپیہ خدا کی راہ میں اورجہاد میں خرچ کروں گا، تو اب دکان تجارت گاہ نہیں، بلکہ عبادت گاہ بن گئی۔

تو دیکھیے کہ نیت کی برکت سے تجارت بھی عبادت بن گئی ۔ اب اس کا ہر لمحہ گویا عبادت میں گزر رہاہے ، پھر اگر خدا کسی کو تجارت میں نفع دے اور خدانخواستہ اس کے دل میں ٹکراؤ اور علو پیدا ہو جائے تو یہ وبال ہے ، مثلاً آپ اپنی دکان پر بیٹھے ہیں ، سامنے میز بچھی ہے ، بجلی کا پنکھا چل رہا ہے ، سامنے ٹیلی فون رکھا ہے او رسامنے سڑک پر کوئی گدا گر فقیر خستہ حال گزرا تو اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر ناز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس کا لاکھ لاکھ احسان اور کرم ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے مجھے اتنا دے رکھا ہے وہ اگر چاہتا تو اس کا برعکس بھی کر سکتا تھا، ایسے وقت میں بجائے تکبر اور فخر کے، شکر کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ میرا فرض ہے کہ ایسے ناداروں کی خبرگیری کروں او رمجھ پر جو خدا کی نعمتیں مبذول ہیں ان کا شکر کروں۔

ایک اشکال او راس کا جواب
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ کہ قیامت کے بعد جہنمی جہنم میں اورجنتی جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، جس کی کوئی مدت متعین نہیں ، حالاں کہ جن لوگوں کو جہنم میں بھیجا جائے گا ان کے اعمال کفر محدود ہیں اورجن کو جنت میں بھیجا جائے گا ان کے اعمال صالح بھی محدود ہیں تو اس محدود کی جزالا محدود کیوں مقرر کی گئی ؟ حضرت حسن بصری نے اس اشکال کا بھی جواب دیا ہے کہ چوں کہ عمل کرنے والے کی نیت دوام کی تھی ، اس لیے جزا بھی دائمی مقرر ہوئی ، کافر کی نیت یہ تھی کہ اگر ایک کروڑ سال کے عمر ملے تو کفر ہی پر قائم رہوں گا، اسی طرح مومن کی بھی یہی نیت ہے کہ کتنی ہی عمر دراز کیوں نہ ہو ایمان پر قائم رہوں گا، نیت چوں کہ دوام کی ہے، اس لیے جزا بھی دائمی ہے ، آج کل زمانہ ایسا ہے کہ لوگ دین اور عمل کے نام سے گھبرانے لگے ہیں، کہتے ہیں کہ نیت خالص کیسے ہو سکتی ہے؟ سو انسان کو گھبرانا نہیں چاہیے، بلکہ عمل شروع کرنے سے قبل ایک دفعہ اپنی نیت درست کرے، پھر بارہانیت کرنے کی ضرورت نہیں۔

شیخ الہند کا ارشاد
حضرت شیخ الہند ( مولانا محمودحسن دیوبندی) فرمایا کرتے تھے کہ آدمی کو چاہیے کہ عمل شروع کرنے سے قبل اپنی نیت درست کرلے ، بعد میں اگر نیت میں کچھ خلل آئے تو پروانہ کرے ، شیطان اگر وسوسہ ڈالے تو التفات نہ کرے ، جواب جاہلان باشد خموشی ۔ ایک بزرگ تھے، انہوں نے اپنے شیخ سے عرض کیا کہ حضرت! عجیب کش مکش میں مبتلا ہوں، نفلیں پڑھنے کو دل چاہتا ہے مگر جب پڑھنے کھڑا ہوتا ہوں تو ریا ہوتی ہے اور اگر ریا کی وجہ سے نہ پڑھوں تو نفلوں سے محروم رہتا ہوں ، ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ شیخ نے کہاکہ نفلیں تو ریا سے پڑھ لیا کرو او ربعد میں ریا سے توبہ کر لیا کرو ، سو اس حکایت سے معلوم ہوا کہ انسان کو جو نیک کام کرنا ہو کر گزرے او راگر بعد میں محسوس ہو کہ اس میں ریا ونمود کا شائبہ ہے ، تو اس سے استغفار کر لے۔

شیطان سے بچنے کاراستہ
نیت کی ایک عجیب فضیلت قرآن مجید سے سمجھ میں آئی ہے، وہ یہ کہ قرآن مجید میں ہے کہ جب شیطان مردود ہوا اور وہاں سے نکالا گیا تو اس نے کہا: ﴿ فبعزتک لا غوینھم اجمعین الاعبادک منھم المخلصین﴾ قسم ہے تیری عزت وجلال کی! میں یقینا ضرور ان کو ( لعنی اولاد آدم کو ) گم راہ کروں گا، مگر جوان میں سے تیرے مخلص بندے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان سے بچنے کا راستہ سوائے حسن نیت اور اخلاص کے اور کوئی نہیں ہے اور اس میں کوئی مشقت نہیں کہ نیت کو کام کرنے کے وقت خالص کر لیا جائے اورراگر اس کے بعدبھی کسی کے دل کو تسلی نہ ہو اور دل اس سے راضی نہ ہو تو سمجھ لے کہ یہ شیطان کا وسوسہ ہے، جو اس طرح مجھے نیک کام کرنے سے روک رہا ہے ، ایسے وقت میں اس سے کہہ دے کہ مجھے تیری کچھ پروا نہیں تو کتنا ہی مجھے بہکا او رمیرے پیچھے پڑ، میں یہ کام کرکے چھوڑوں گا او راگر پھر بھی دل میں کچھ خلش رہ جائے تو خدا سے دعا کرے کہ اے الله! میں کمزو رہوں ، میری دست گیری فرما۔

ایک بزرگ کا واقعہ یاد آیا کہ ان کوحکومت وقت نے جیل میں بند کر دیا تو جیل میں ان کا معمول تھا کہ جب جمعہ کا دن آتا تو غسل کرتے ، کپڑے بدلتے اور جب اذان کی آواز آتی تو جیل خانے کے دروازے تک تشریف لے جاتے ، پھر لوٹ آتے، لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے ؟ فرمایا کہ قرآن مجید میں ہے ﴿ اذا نودی للصلوٰة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر الله﴾ جب جمہ کے دن اذان ہو جائے تو تم الله کی یاد کی طرف دوڑو۔ سو میں اس حکم کی تعمیل کرنے کے لیے تیاری کرتا ہوں او رجہاں تک جاسکتا ہوں چلا جاتا ہوں۔ تو اس طرح ان بزرگ کو جمعہ کی نماز پڑھنے کا ثواب مل جاتا تھا، لہٰذا لوگوں کوچاہیے کہ وہ شیطانی وساوس کی پروا نہ کریں اور کہہ دیں کہ میں توالله کی لیے اس کام کو ضرور کروں گا، تو بلا سے راضی ہو یا نہ ہو۔
الله تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ ہماری نیتوں کو درست فرمائے اور حسن نیت اور اخلاص کے ساتھ اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین․



*******************************




(٢) مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے اسلام کے حسن و خوبی اور ایمان کے کامل ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ اس چیز سے اجتناب کرے جس کا اہتمام نہیں کیا جاتا جس کے ساتھ کوئی غرض متعلق نہیں ہوتی اور جس کی یہ شان نہیں ہوتی کہ کوئی شخص اس کا اہتمام کرے اور اس کے حصول میں مشغولیت اختیار کرے حاصل یہ کہ وہ چیز کوئی امر ضروری نہ ہو چنانچہ جس چیز کا امر لایعنی کہا جاتا ہے اس کی تعریف و وضاحت یہی ہے اس کے برخلاف جو چیز امر ضروری کہلاتی ہے اور کوئی شخص جا اہتمام کرتا ہے وہ ایسی چیز ہوتی ہے جس کے ساتھ دنیا میں ضروریات زندگی اور آخرت میں سلامتی ونجات وابستہ ہوتی ہے مثلا دنیا کی ضروریات زندگی میں سے ایک تو غذا ہے جو بھوک کو مٹاتی ہے دوسرے پانی ہے جو پیاس کو رفع کرتا ہے تیسرے کپڑا ہے جو ستر کو چھپتا ہے چوتھے بیوی ہے جو عفت وپاکدامنی پر قائم رکھتی ہے اور اسی طرح کی وہ چیزیں جو زندگی کی دوسری ضروریات کو پورا کریں نہ کہ وہ چیزیں جن سے محض نفس کی لذت حرص و ہوس کی بہرہ مندی اور دنیا کی محبت کا تعلق ہوتا ہے نیز ایسے افعال واقوال اور تمام حرکات و سکنات بھی نہیں جو فضول و بے فائدہ ہوں، اسی طرح وہ چیز کہ جس سے آخرت کی سلامتی و نجات متعلق ہوتی ہے ایمان و اسلام اور احسان کی جس کی وضاحت ابتداء کتاب میں حدیث جبرائیل میں ذکر ہو چکی ہے ۔ حاصل یہ کہ جو چیزیں دنیا و آخرت میں ضروری ہیں اور جن پر دینی و دنیوی زندگی کا انحصار و مدار ہوتا ہے اور جو مولیٰ کی رضا و خوشنودی کا سبب و ذریعہ بنتی ہے وہ تو لایعنی نہیں ہیں ان کے علاوہ باقی تمام چیزیں لایعنی ہیں خواہ ان چیزوں کا تعلق عمل سے ہو یا قول سے۔ حضرت امام غزالی نے کہا کہ لایعنی (بے فائدہ بات ) کا آخری درجہ یہ ہے کہ تم کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نکالو کہ جس کو اپنی زبان سے نہ نکالتے تو گناہگار ہوتے اور اس کی وجہ سے تمہیں فوری طور پر کوئی نقصان پہنچتا اور نہ مال کے اعتبار سے اس کی مثال یہ ہے کہ فرض کرو، تم کچھ لوگ ساتھ بیٹھے ہوئے ہو، اب تم نے ان کے سامنے اپنے کسی سفر کے احوال بیان کئے اس بیان احوال کے دوران تم نے ہر اس چیز کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جو تم نے اپنے سفر کے دوران دیکھی مثلا پہاڑ عمارت وغیرہ یا جو کچھ واقعات و حادثات پیش آئے تھے ان کے بارے میں بتایا ، پھر تم نے ان اچھے کھانوں، عمدہ لباس و پوشاک اور دوسری چیزوں کا بھی ذکر کیا جو تمہیں ملی تھیں یا جن کو تم نے دیکھا تھا، ظاہر ہے کہ تم نے یہ جو ساری تفصیل بیان کی اور جن امور کا ذکر کیا وہ یقینا ایسی چیزیں ہیں کہ اگر تم ان کو بیان نہ کرتے تو گناہگار ہوتے اور نہ تمہیں کوئی نقصان و ضرر برداشت کرنا پڑتا جب کہ اس لمبی چوڑی تفصیل بیان کرنے کی صورت میں بہت ممکن ہے کہ کسی موقع پر تمہاری زبان لغزش کھائی ہو اور اس سے کوئی ایسی بات نکل گئی ہو جس سے تم گناہگار بن گئے ہو۔ 


وقت کی قدر کیجئے:
الله تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بہت ساری نعمتیں عطا کی ہیں اور وہ تمام کی تمام نعمتیں بہت بڑی نعمتیں ہیں اور سب ہی کی قدر کرنے کی ضرورت ہے اور سب ہی کی قدر کرنے کی تاکید بھی ہے ۔ لیکن بعض نعمتیں عظیم الشان ہیں، اُن کی طرف توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے ، اس لیے کہ لوگوں کو ان نعمتوں کا قیمتی ہونا معلوم نہیں ہے او راگر کسی کی کو تھوڑا بہت معلوم بھی ہے تو اس کو ان کی قدر کرنے کی طرف توجہ نہیں ہے اور اگر توجہ ہے تو پوری نہیں ہے ۔
بہرحال ، میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب کو ان نعمتوں کا قیمتی ہونا معلوم ہو جائے اور اگر ہم ان نعمتوں کی قدر نہیں کر رہے ہیں تو قدر کرنی شروع کر دیں اور احتیاط سے انہیں استعمال کریں، تاکہ وہ ہمارے لیے زیادہ سے زیادہ نافع اور مفید ہو جائیں اور اب تک اس سلسلہ میں ہم سے جو غفلت اور کوتاہی ہوئی ہے وہ دور ہو جائے۔
وقت عظیم نعمت ہے
اُن عظیم الشان نعمتوں میں سے ایک وقت کی نعمت ہے ، جس کی الله پاک نے ”سورة العصر“ میں قسم کھائی ہے ۔ الله پاک نے فرمایا کہ: ﴿والعصر، ان الانسان لفی خسر… ﴾ اور قسم ہے زمانے کی! بلا شبہ انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو نیکی کی نصیحت کرتے رہے او رایک دوسرے کو صبر رکھنے کی نصیحت کرتے رہے۔
الله تعالیٰ نے زمانے کے عظیم الشان ہونے کی وجہ سے اس کی قسم کھائی ہے ۔ دنیا میں آنے کے بعد الله تعالیٰ نے ہر انسان کو زمانے اور وقت کی نعمت عطا فرمائی ہے ، اب یہ نعمت یعنی زمانہ اور وقت اور عمر ہر ایک کی الگ الگ ہے ، کسی کی کم، کسی کی زیادہ اور کسی کی بہت کم اور کسی کی بہت زیادہ ۔ بہرحال دنیا میں جو بھی آیا ہے وہ وقت کی نعمت ضرور لے کر آیا ہے او رکامیاب شخص وہی ہے جو اس نعمت کو صحیح طریقے سے استعمال کر لے۔
وقت کے استعمال کی پہلی صورت
وقت کے استعمال کی تین صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وقت کو الله تعالیٰ کی یاد میں ، اطاعت میں اور عبادت میں صرف اور خرچ کیا جائے اورالله تعالیٰ کی یہ اطاعت ویاد صرف چند عبادات کا ہی نام نہیں ہے، بلکہ سارے دین کا نام ہے اور مسلمان کو ساری زندگی عمل کے لیے دین کا کوئی نہ کوئی شعبہ اس کے سامنے آتا رہتا ہے ۔ لہٰذا زندگی کے کسی بھی موڑ پر دین کا کوئی بھی شعبہ یا دین کا کوئی بھی حکم عمل کرنے کے لیے سامنے آجا ئے تو اس پر عمل کرنا یہ اپنے وقت کو عبادت واطاعت میں گزارنا او راپنے وقت کو قیمتی بنانا ہے ۔ مثال کے طور پر کبھی تبلیغ کا حکم ہے ، کبھی جہاد کا حکم ہے، کبھی اصلاح لینے کا حکم ہے، کبھی نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم ہے ، کبھی اچھے اخلاق سے پیش آنے کا حکم ہے ، اسی طرح والدین کی خدمت او رنماز پڑھنے کا حکم ہے ، اسی طرح جب روزہ رکھنے کا وقت آیا تو روزہ رکھ لیا ، زکوٰة دینے کا وقت آگیا تو زکوٰة دے دی، صلہ رحمی کرنے کا وقت آگیا تو صلہ رحمی کر لی ، سچ بولنے کا موقع آگیا تو سچ بول دیا، حلال کمانے کا موقع آیاتو حلال کما لیا ، حرام سے بچنے کا وقت آیا تو حرام سے بچ گیا ، ٹی وی دیکھنے کا وقع آیا تو اپنے آپ کو اس سے بچا لیا ، گانا سننے کا موقع آیا تو اپنے کانوں کواس سے بچا لیا ، بد نگاہی کا موقع آیا تو بد نگاہی سے اپنے آپ کو بچا لیا ، لڑائی کا موقع آیاتو اپنے آپ کو بچالیا، بے صبری کا موقع آیا تو دامنِ صبر تھام لیا، شکر کرنے کا وقت آیا تو شکر کرنے لگا اورکسی عبادت کا وقت اور موقع آیا تو عبادت کرنے لگا ۔تو یہ تمام احکامات وقتاً فوقتاً انسان کو پیش آتے رہتے ہیں اور ان احکامات میں وقت لگانا الله تعالیٰ کی اطاعت اورعبادت میں وقت لگانا ہے ۔
بہرحال پہلی صورت یہ ہوئی کہ اپنے وقت کو الله تعالیٰ کی عبادت میں ، اطاعت میں اور الله تعالیٰ کی فرماں برداری میں گزارے اور جس وقت جو بھی دین کا حکم اور تقاضا ہو اس پر عمل کرے اور یہی صورت سب سے بہتر اوراعلیٰ ہے، کیوں کہ اطاعت خدا وندی میں ، الله تعالیٰ کی فرماں برداری میں اور الله تعالیٰ کا حکم بجالا نے میں جو وقت گزر گیا ، بس وہی وقت سب سے سنہری اور قیمتی ہے اور یہ زندگی کا مقصدِ اصلی بھی ہے، کیوں کہ الله تعالیٰ نے تمام انسانوں او رجنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے اوقات کو الله تعالیٰ کی اطاعت میں گزاریں اور نافرمانی سے بچیں ، کیوں کہ نافرمانی سے بچنا یہ بھی اطاعت ہی ہے۔
دوسری صورت
وقت کے استعمال کی دوسری صورت جس سے الله پاک ہمیشہ ہمیں محفوظ رکھیں، یہ ہے کہ وہ وقت الله تعالیٰ کی نافرمانی، فسق وفجور او رگناہ کرنے میں گزر جائے ، مثلاً بدنگاہی کرنے میں ، جھوٹ بولنے میں ،غیبت کرنے میں ، الزام تراشی میں ، لایعنی باتوں میں، فضول تبصروں میں ، بے کار اور لایعنی خبریں پڑھنے میں ایسی کتابیں اور ایسے رسالے اور ایسے مضامین کے پڑھنے میں، جو بالکل فضول اور لایعنی ہوں ، ایسے گندے ناول اور افسانے جن سے بے حیائی، بے غیرتی، عیاشی اور بد معاشی کی تعلیم دی جاتی ہو اور ان کے پڑھنے والے پر بُرے اثرات پڑتے ہوں تو ایسے گندے ناول وغیرہ پڑھنے میں ، ٹی وی دیکھنے میں ، وی سی آر کے ذریعے فلمیں دیکھنے میں ، انٹرنیٹ کے ذریعے حرام اور ناجائز پروگرام دیکھنے میں، کیبل کے ذریعے ننگی دنیا دیکھنے میں ، نامحرم عورتوں کو شہوت کے ساتھ دیکھنے میں ، بے ریش لڑکوں کو شہوت سے دیکھنے میں، چوری کرنے میں ، ڈاکا ڈالنے میں ، شراب پینے میں ، جان بوجھ کر نماز چھوڑنے میں اور بلاعذر جماعت کی نماز چھوڑنے میں یا کسی اور گناہ میں اگر کسی نے اپنا وقت گزارا تو بس گویا اس نے اپنے وقت کا خون کر لیا اور اپنے کو تباہ وبرباد کر لیا۔
پس خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت کوئی بندہ گناہ میں مشغول ہوتا ہے تو اس وقت وہ بندہ الله تعالیٰ کی نظر میں انتہائی مبغوض اور ناپسندیدہ ہوتا ہے اور جس وقت کوئی بندہ الله تعالیٰ کی اخلاص کے ساتھ عبادت کر رہا ہوتا ہے ، چاہے وہ سات کمروں میں چھپ کر اور بند ہو کر عبادت کرے تو اس وقت یہ بندہ الله تعالیٰ کا انتہائی پسندیدہ او رمجبوب ہوتا ہے ۔ بہرحال، دوسری صورت یہ ہوئی کہ اگر ہم اپنے وقت کو الله کی نافرمانی میں اور گناہ میں گزار دیں تو جتنا وقت بھی گناہ میں گزرے، اس وقت کو گویا ہم نے ضائع کر دیا، برباد کر دیا، اس وقت کی ناشکری وناقدری کی اور اپنا قیمتی سرمایہٴ، حیات ہم نے ضائع وبرباد کر دیا۔
تیسری صورت
وقت کے استعمال کی تیسری صورت یہ ہے کہ اس وقت کے اندر ہم نہ کوئی نیکی کا کام کریں اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کریں، بلکہ کوئی جائز او رمباح کام کریں ۔ جائز او رمباح کام وہ ہوتا ہے جس کے کرنے میں کوئی ثواب نہیں اور چھوڑنے میں کوئی گناہ بھی نہیں ، یعنی کرنے میں کوئی ثواب نہیں اور نہ کرنے میں کوئی عذاب نہیں تو ایسے کام کو جائز او رمباح کہتے ہیں ۔ مباح او رجائز کاموں کی فہرست بہت طویل ہے۔
صبح وشام آدمی جتنے کام کرتا ہے ، ان میں عموماً یہ تینوں صورتیں ہوتیں ہیں۔ صبح سے شام تک کا آدمی یہ جائز ہ لے کہ آج کا یہ دن میں نے کس طرح گزارا ہے تو وہ خود یہ محسوس کرے گا کہ کچھ تو اس نے نیک کام کیے ہیں ، کچھ برے کام بھی کیے ہیں اور کچھ ایسے کام کیے ہیں جنہیں نہ اچھا کہا جاسکتا ہے اور نہ برا کہا جاسکتا ہے، جو اچھے کام کیے ہیں ان پر الله تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اسی کی توفیق سے میں نے یہ کام کیے ، اس میں میرا کوئی کمال نہیں ، اس پر فخر نہ کرے اور عجب میں مبتلا نہ ہو اور جو برے کام کیے ہیں ، یعنی جوو قت کسی گناہ کے کام میں گزارا، مثلاً کسی کو کوئی ایک جملہ ایسا کہہ دیا جس سے اس کے دل کو تکلیف پہنچی ، کسی کی برائی کر دی ، کسی پر تہمت لگادی ، کسی کو ناجائز اور بلاوجہ ڈانٹ دیا، والدین کو ستایا، بہن بھائیوں کوپریشان کیا یا کوئی اور گناہ کیا، تو ان پر فوراً توبہ واستغفار کرے اور الله تعالیٰ سے معافی مانگے اور گڑ گڑائے اور اس سے آئندہ بچنے کا اہتمام کرے ۔
اور کچھ وقت پورے دن میں ایسا گزرا کہ جس میں ایسے کام کیے کہ ان پر نہ ثواب ہے اور نہ عتاب ہے،بلکہ جائز او مباح کام کیے ، مثلاً سونا، کھانا، پینا، زائد از ضرورت پہننا، زیب وزینت اختیار کرنا، کسی سے ملنے کے لیے جانا، اب اگر الله کے لیے ملنے گیا تو یہ عبادت بن جائے گا اور اگر ویسے ہی گیا تو یہ جائز او رمباح ہو گا ، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مباح کام انسان دن بھر کرتا ہے ، تو ان پر نہ ثواب ہے اور نہ عذاب ہے۔
حسن نیت سے مباح کام بھی عبادت بن جاتا ہے 
البتہ جائز او رمباح کام بھی ایسے ہیں کہ انہیں بھی حسنِ نیت کی وجہ سے آسانی کے ساتھ عبادت بنایا جاسکتا ہے ، ایک کام جو اپنی ذات کے اعتبار سے جائز ہے ، اگر اس کو کرتے وقت ہم اچھی نیت کر لیں تو وہی جائز او رمباح کام آسانی سے عبادت بن جائے گا ، وہ کام بذات خود تو جائز او رمباح ہی رہے گا، لیکن حسنِ نیت کی وجہ سے وہ عبادت بن جائے گا اور ہمارے لیے باعث اجر وثواب ہو جائے گا ۔ تو جتنے بھی جائز او رمباح کام ہوں ان میں اچھی نیت کو ہم اپنے دامن میں باندھ لیں، یعنی ہر مباح کام کرتے ہوئے اس میں اچھی نیت کر لیں تو یہ ہمارے لیے عبادت بن کر اجر وثواب کا موجب ہو جائے گا ، حسن نیت اتنا بہترین عمل ہے کہ اس میں نہ پیسہ خرچ ہوتا ہے ، نہ طاقت خرچ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خاص وقت خرچ ہوتا ہے ، ذرا سا دل کا رخ صحیح کر لیں تو وہ جائز او رمباح کام ہمارے لیے نیکی بن جائے گا۔
نیت کا دوسرا رخ
نیت کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر خوانخواستہ کسی عبادت میں بری نیت کر لی تو عبادت بھی گناہ بن جاتی ہے ، مثلاً نفلی نماز پڑھتے وقت کوئی یہ نیت کرے کہ لوگ مجھے عابد وزاہد کہیں ، حج اس لیے کرے کہ لوگ مجھے حاجی اور الحاج کہیں اور رشتہ داروں کے ساتھ اس لیے حسن سلوک کرے کہ برادری کے لوگ کہیں کہ اس کو تو بہت ہی زیادہ اپنے رشتہ داروں کا خیال رہتا ہے ، یہ تو قوم کا بہت ہی ہمدرد اور بہی خواہ ہے ، تو اب ان تینوں صورتوں میں پیسے بھی خرچ ہوئے ، وقت بھی خرچ ہوا اور محنت ومشقت بھی برداشت کی ، لیکن پھر بھی اس کے نامہ اعمال میں گناہ لکھا جائے گا کہ یہ نمائشی اور ریا کار ہے اور اس کی ایسی کوئی عبادت قابلِ قبول نہیں اور اگر یہی تینوں کام الله کی رضا کے لیے کر لیے جائیں تو یہ سارے کام عبادت بن جائیں اور کندن بن جائیں اور تھوڑی سی عبادت بھی بہت ہو جائے او رمقبول ہو جائے۔
بہرحال، یہ نیت ایسی پیاری چیز ہے کہ اگر اس کو جائز او رمباح کاموں میں اچھے طریقے سے استعمال کیا جائے تو تمام جائز کام بھی باعثِ اجروثواب ہو جائیں۔
چنانچہ مشہور صحابی رسول حضرت ابن عباس  آپ اسے نقل کرتے ہیں:
”عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ ا نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس الصحة والفراغ“۔ (بخاری، ص:۹۴۹)
ترجمہ:…”حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ انے ارشاد فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ غبن کرتے ہیں، ۱…صحت، ۲…فرصت کے لمحات“۔
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ بدر الدین عینی المتوفی ۸۵۲ھ رقمطراز ہیں:
”فکأنہ قال: ہذان الامران اذا لم یستعملا فیما یبنغی فقد غبن صاحبہا ای باعہا یبخس لاتحمد عاقبتہ“۔ (عمدة القاری:۲۳/۳۱)
یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں جب اپنے مصرف میں استعمال نہ کی جائیں تو گویا اس کے مالک نے غبن کیا، یعنی اس نے معمولی قیمت کے بدلہ میں اسے بیچا جس کے انجام کار تعریف نہیں کی جاسکتی۔
وقت کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں دن رات کے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے اور ایک جگہ زمانہ کی قسم کھائی فرمایا ”والعصر، ان الانسان لفی خسر“ آیات بالا کی تفسیر کرتے ہوئے مشہور مفسر علامہ فخر الدین الرازی المتوفی ۶۰۶ھ لکھتے ہیں:
”فکان الدہر والزمان من جملة اصول النعم فلذلک اقسم بہ ونبّہ علی ان اللیل والنہار فرصة یضیعہا المکلف“۔ (التفسیر الکبیر،ص:۶۷۴)
یعنی دہر اور زمانہ من جملہ نعمتوں میں سے ہے، اسی لئے اللہ نے اس کی قسم کھائی اور متنبہ کیا کہ رات اور دن فرصت کے لمحات ہیں جسے مکلف (انسان) ضائع کرتا ہے۔
بروز قیامت جب جہنمی مدد کو پکاریں گے تو ان کو وقت ضائع کرنے پر حسرت دلاکر ملامت کیا جائے گا اور ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوگی، اس حقیقت کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا۔
”وہم یصطرخون فیہا ربنا اخرجنا نعمل صالحا غیر الذی کنا نعمل، اولم نعمرکم ما یتذکر فیہ من تذکر وجاء کم النذیر، فذوقوا فما للظالمین من نصیر“۔ (الفاطر:۳۷)
ترجمہ:…”اور وہ چلائیں اس میں اے ہمارے رب ہم کو نکال کہ ہم کچھ بھلا کام کرلیں وہ نہیں جو کرتے رہے، کیا ہم نے عمر نہ دی تھی تم کو اتنی کہ جس میں سوچ لے جس کو سوچنا ہو اور پہنچا تمہارے پاس ڈرانے والا اب چکھو کہ کوئی نہیں گناہ گاروں کا مددگار“۔
اسی مضمون کو آقائے نامدار انے اپنے مبارک ارشاد میں یوں بیان فرمایا:
”عن ابی ہریرة  قال: قال رسول اللہ ا اعذر اللہ امرئ اخر اللہ عمرہ حتی بلغہ ستین سنة“۔ (بخاری،ص:۹۵۰)
اندازہ فرمایئے کہ وقت ضائع کرنے کا نتیجہ کتنا بھیانک ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے اس دور میں اگر یوں سوال کیا جائے کہ دنیا میں سستی ترین چیز کیا ہے؟تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ستر فیصد لوگ وقت کو سستی اشیاء کی فہرست میں شامل کریں گے۔
وقت کی رفتار معلوم ہو یہ مشکل ہے
یہ زمین گھومتی ہے پر ہلتی نہیںزندگی کی قیمت پہچانیں
ہمیں سوچنا چاہیے کہ الله پاک نے ہمیں کتنی قیمتی زندگی دے رکھی ہے ، مگر ہم اس کو انتہائی بے دردی کے ساتھ ضائع کرنے میں لگے ہوئے ہیں، کسی نے اس کو کیا خوب کہا ہے #
ہو رہی ہے عمر مثلِ برف کم
چپکے چپکے رفتہ رفتہ دم بدم
کہ یہ زندگی برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ ہمارے حضرت رحمة الله علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری ز ندگی کی مثال برف بیچنے والے کی سی ہے کہ برف بیچنے والے کا کل سرمایہ برف ہے اور وہ برابر پگھل پگھل کر بہہ رہا ہے اور اس کا قطرہ قطرہ نالی میں جارہا ہے ، اس کا فائدہ اس میں ہے کہ جتنی جلدی برف بک جائے گی اتنی جلدی پیسے کھرے ہو جائیں گے اور جو بچ جائے گی وہ اس کا سرمایہ پانی بن کر بہہ جائے گا ۔ بالکل اسی طرح ہماری زندگی کے یہ سانس بھی گنے چنے ہیں ، جو سانس ایک مرتبہ لے لیا وہ لے لیا، اب دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے گا ، اب نیا سانس آئے گا۔ اسی طرح جو منٹ ، گھنٹہ ، دن، ہفتہ ، مہینہ، حتی کہ جو سال گزر گیا وہ گز ر گیا، اب دوبارہ واپس نہیں آئے گا، وہ ختم ہو گیا ، جو گیا سو گیا اور جو آیا اس کو اگر صحیح استعمال کر لیا تو کھر ا کر لیا، اگر ضائع کر دیا تو کھو دیا۔
وقت کو ضائع کرنے سے بچیں
الله تعالیٰ ہمیں اپنے سرمایہ حیات کو محض اپنے فضل سے حقیقتاً اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ یہ ہمارا وقت بے کار او رفضولیات میں ضائع نہ ہو اور فضول مجلسوں ، فضول بیٹھکوں، فضول کاموں اور فضول باتوں میں ضائع نہ ہو ۔ آج کل اس کی بہت عادت ہے کہ ہمارا وقت یا تو معاصی میں ضائع ہو تا ہے، الا ماشاء الله یا پھر فضول او ربے کار بیٹھے ہوئے ہیں ، بے کار لیٹے ہوئے ہیں، بے کار باتیں کر رہے ہیں ، ادھر ادھر کے تبصرے ہو رہے ہیں کبھی اخبارات پر ، کبھی ان کی خبروں پر ، کبھی حکومت پر ، کبھی اپنے ملک پر اورکبھی دوسرے ممالک پر کہ جن کا نہ تو کوئی فائدہ ہے ، نہ ضرورت وحاجت ہے او رنہ ہی اس کا کوئی نتیجہ اورحاصل ہے ، بس فضول وقت ضائع کیا جارہا ہے۔
اسی طرح اگر کمروں میں جاکر بیٹھتے ہیں تو فضول بیٹھے ہوئے ہیں اور گھنٹوں ادھر ادھر کی باتیں ہانکنے میں لگے ہوئے ہیں، ان میں فضول اور لایعنی باتیں تو خود معصیت ہیں ہی ، اس کے علاوہ ان میں غیبتیں ، جھوٹ ، الزام، بہتان، دل آزاری، بدتمیزی، بد تہذیبی ، بد اخلاقی اور ساتھ ساتھ ایسا مذاق واستہزا کہ جس سے دوسرے کو تکلیف اور اذیت ہو ، یہ سب شامل ہوتے ہیں ، اس طرح وقت گزارنا یہ تو معصیت میں وقت گزارنا ہے اور جس وقت کوئی بندہ معصیت میں وقت گزار رہا ہوتا ہے تو اس وقت وہ بندہ الله تعالیٰ کی نظر میں انتہائی مبغوض اور ناپسندیدہ ہوتا ہے۔
دعا
اس لیے میرے عزیزو اور بزرگو! دعا کریں کہ الله تعالیٰ ہمیں اپنے اس قیمیتی سرمایہ حیات کو، جو کہ اس نے محض اپنی رحمت سے ہم سب کو عطا فرمایا ہوا ہے، زیادہ سے زیادہ آخرت کے کاموں میں او رزیادہ سے زیادہ اچھے کاموں اور حسن نیت کے ساتھ جائز اور مباح کاموں میں لگانے کی توفیق دیں اور جو وقت گزر گیا اس کو الله تعالیٰ معاف فرما دیں اور جو خصوصاً وقت گناہ اور معصیت اور لایعنی وفضول کاموں میں گزرا ہے، اس کو بھی معاف فرما دیں۔ او ران کی قدرت میں یہ بھی داخل ہے اور ان کے خزانہ رحمت میں کوئی کمی بھی نہیں آئے گی کہ جونیک کام ان اوقات ماضیہ میں ہو سکتے تھے اور ہم نہ کر سکے ، الله پاک ان کا ثواب بھی ہمارے اعمال ناموں میں درج فرما دیں۔ ہمیں دعا تو کرنی چاہیے، وہ کریم الکرماء ہیں، انہوں نے دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے: ﴿ادعونی استجب لکم﴾․
تم مجھی سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
دل وجان سے گڑ گڑا کر دعا کریں کہ یا الله! ہم تو ناواقف اورنالائق ہیں ، بس آپ ہم پر اپنا کرم فرما دیجیے، آپ کے کرم سے ہی اول بھی کام چلے گا اور آپ ہی کے کرم سے آخر میں بھی کام چلے گا اور اے الله! جو وقت ہم غفلت میں گزار چکے ہیں، اے کریم! آپ اس وقت کو بھی کھرا کر دیجیے، اورہماری نمازوں، حج، تسبیح او رنیک کاموں پر ثواب لکھ دیجیے اور ہم سے جو گناہ ہو گئے ہیں ان پر معافی کا قلم پھیر دیجیے اور اب تک جووقت گزرا سو گزرا، اب ان شاء الله ہمارا کوئی وقت غفلت او رنافرمانی میں نہیں گزرے گا اور جائز ومباح کام میں بھی جووقت گزرے گا تو ان شاء الله کوشش کرکے، حسن نیت کرکے اس کو بھی کار آمد بنائیں گے ۔
اور مستقبل کے لیے بھی یہ تہیہ کر لیں اور دعا بھی کرتے رہیں کہ یا الله! اب جو وقت ہمارا باقی رہ گیا ہے وہ گناہوں، نافرمانیوں، فضولیات اور بے کار کاموں میں نہ گزرے، بلکہ آپ کی یاد میں اور آپ کی اطاعت اور فرماں برداری میں گزرے، الله تعالیٰ ہم سب کو توفیق عمل عطا فرمائے۔ آمین!




*******************************

(٣) مومن درحقیقت وہ شخص ہے جو دل سے اﷲ تعالی کی وحدانیت، نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے تمام عقائد واحکام پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہو۔ اور اس کو اس بات کا پختہ یقین ہو کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے انسانوں کو جو احکام دیئے ہیں وہی ان کی دین و دنیا کی فلاح کے ضامن ہیں۔ اس ایمان کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق گزارے، جن باتوں کا اس کو حکم دیا گیا ہے ان کو بجا لائے اور جن سے روکا گیا ہے ان سے رک جائے۔
لہذا ایک مومن کی بنیادی صفت یہ ہے کہ اس کی زندگی اﷲ تعالی کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔ وہ اپنے ہر کام اور نقل وحرکت میں پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اﷲ تعالی کی طرف سے اس کو اجازت ہے یا نہیں۔ اجازت ہوتی ہے تو کرتا ہے ورنہ رک جاتا ہے۔ چنانچہ اس کو زندگی میں اپنی نفسانی خواہشات کے بہاؤ پر بہنے کے بجائے اﷲ تعالی کی مرضی کے مطابق بسر ہوتی ہے۔
مومن کی یہ وہ بنیادی اور جامع صفت ہے کہ اس کے نتیجے میں تمام نیک اور اچھی صفات اس میں خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ اﷲ تعالی نے جتنے احکام اپنے بندوں کو عطا فرمائے ہیں ان سب کا مقصد یہ ہے کہ انسان اچھی صفات سے آراستہ اور بری صفات سے پاک ہوجائے اور جو شخص ایک مرتبہ یہ عہد کرے کہ وہ اﷲ تعالی کے تمام احکام کی پابندی کرے گا تو لازما وہ ساری اچھی صفات اس میں پیدا ہوجائیں گی۔
مومن کی یہ صفات جو اطاعت خداوندی سے پیدا ہوتی ہیں اتنی بے شمار ہیں کہ مختصر وقت میں ان سب کا بیان ممکن نہیں۔ لیکن اگر اختصار اور جامعیت سے کام لیا جائے تو مومن کی صفات خاص طور سے زندگی کے پانچ شعبوں سے متعلق ہوتی ہیں:
عقائد۔ عبادات۔ معاملات۔ معاشرت۔ اور اخلاق۔
عقائد کے شعبے میں مومن کی بنیادی صفت قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔
’’اور یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں ان ہدایات پر جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل کی گئیں اور ان ہدایات پر جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے پیغمبروں پر نازل کی گئیں اور وہ آخرت کا یقین رکھتے ہیں۔‘‘
مومن کی اس صفت کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے جتنے عقائد اور جتنی ہدایات دنیا میں بھیجی ہیں ان سب کو برحق ماننے کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا پختہ یقین رکھتا ہے کہ مرنے کے بعد اسے ایک ایک عمل کا جواب دینا ہوگا۔
اس یقین کی بناء پر وہ رات کی تاریکی اور جنگل کی تنہائی میں بھی حتی الامکان کسی ایسے کام کا مرتکب نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کو آخرت میں پروردگار کے سامنے شرمسار ہونا پڑے۔
عبادت کے شعبے میں مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو صرف اور صرف اﷲ کا بندہ سمجھتا ہے، اﷲ کے سوا کسی کو پوجتا ہے نہ کسی کے آگے جھکتا ہے، نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ اس کے سوا کسی کی قدرت اور اختیار سے کسی مدد کا طلب گار ہوتا ہے اور اﷲ تعالی نے عبادت کے جتنے طریقے مقرر فرمادیئے ہیں ان سب کو پورے اخلاص عاجزی اور احساس بندگی کے ساتھ بجالاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
’’فلاح وہ مومن حاصل کریں گے جو اپنی نماز میں خشوع سے کام لیتے ہیں۔‘‘
اور آگے ارشاد ہے:
’’اور جو لوگ رب کی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے اور جو لوگ کہ (اﷲ کی راہ) میں جو کچھ دیتے ہیں اس طرح دیتے ہیں کہ (مال خرچ کرنے کے باوجود) ان کے دل اس بات سے ڈرے ہوئے رہتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کرجانا ہے اور یہ لوگ دوڑ دوڑ کر نیکیوں کی طرف جاتے ہیں اور ان نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں۔‘‘
مطلب یہ کہ اﷲ تعالی کی بدنی عبادت کا معاملہ ہو یا اس کی راہ میں مال خرچ کرکے مالی عبادت کا سوال ہو مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ سب سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔
اور معاملات کے شعبے میں مومن کی صفت ہے کہ وہ اپنی بات کا سچا اور وعدے کا پکا ہوتا ہے وہ کسی سے دھوکہ، فریب، بدعہدی کا معاملہ نہیں کرتا اور بے جا طریقے سے دوسرے کا حق غصب کرنے کی فکر میں نہیں رہتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
’’اور وہ مومن فلاح یافتہ ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کا پاس کرنے والے ہیں۔‘‘
لفظ ’’امانت‘‘ کے لغوی معنی ہر اس چیز کو شامل ہیں جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس کے معاملے میں اس پر بھروسہ کیا گیا ہو اور چونکہ ایسی امانت کی بہت سی قسمیں ہیں اس لئے قرآن کریم نے اس کے لئے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے تاکہ اس میں امانت کی تمام قسمیں شامل ہوجائیں اس میں مالی امانت تو ظاہر ہی ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنا کوئی مال کسی کے پاس رکھوایا ہو تو یہ اس کی امانت ہے جسے واپس کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔
اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی سے کی ہو تو یہ بھی اس کی امانت ہے۔ اور شرعی عذر کے بغیر اس راز کا کسی پر ظاہر کرنا اس امانت میں خیانت ہے۔
اس طرح کسی ملازم کو جتنے وقت کے لئے ملازم رکھا اس پورے وقت کو ملازمت کے کام میں لگانا بھی امانت ہے۔ اور وقت کی چوری یا کام کی چوری خیانت کے حکم میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امانت کا پاس کرنا بڑا جامع لفظ ہے جس میں معاملات کی بے شمار قسمیں داخل ہوجاتی ہیں اور مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ ان تمام امانتوں کا پاس کرتا ہے۔
اسی طرح وعدے اور معاہدے کا پاس کرنے میں بھی معاملات کی بہت سی صورتیں داخل ہوجاتی ہیں۔ اشیائے فروخت میں ملاوٹ یا ان کے عیب کو چھپانا یا کم ناپ تول کا ارتکاب یہ تمام جرائم عہد شکنی میں داخل ہیں۔ اور مومن کی صفت یہ ہے کہ اسے اپنے معاہدے کا پاس ہوتا ہے وہ جیسا معاہدہ کرتا ہے اس کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ اگر بدعہدی کے نتیجہ میں اس نے کچھ تھوڑا بہت ظاہری نفع کما بھی لیا تو دنیا وآخرت دونوں میں اس کا انجام بڑا ہی ہولناک ہوگا۔ معاملات کی صفائی، امانت داری اور معاہدے کی پابندی مومن کا وہ طرہ امتیاز رہا ہے جسے دیکھ کر ماضی میں بہت سے کافر مسلمان ہوئے۔
عبادت میں اگر تھوڑی بہت کوتاہی ہوجائے تو اس کی تلافی توبہ سے ہوسکتی ہے، لیکن بدمعاملگی اور حقوق العباد کو تلف کرنے کی تلافی صرف توبہ سے بھی ممکن نہیں جب تک کہ صاحب حق کو اس کا حق نہ پہنچادیا جائے۔ یا وہ خوش دلی سے از خود معاف نہ کردے اس وقت تک اس گناہ عظیم کے معاف ہونے کی کوئی صورت نہیں۔
چنانچہ جب اسلام عملا دنیا میں نافذ تھا تو اس وقت مسلمان خواہ کتنا ہی گیا گزرا ہو، لیکن چھوٹ، دھوکہ، فریب، بدعہدی، خیانت کو کسی قیمت پر گوارا نہیں کرتا تھا۔
زندگی کا چوتھا شعبہ معاشرت ہے یعنی دوسروں کے ساتھ میل جول اور باہمی تعلقات کے انداز۔
اس شعبے میں ایک مومن کی بنیادی صفت سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ:
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں۔‘‘
’’اور مومن وہ ہے جس سے دوسروں کو اپنی جان ومال کے معاملے میں کوئی خطرہ نہ ہو۔‘‘
اسلام کے نظام معاشرت کے تمام احکام اس بنیادی اصول کے گرد گھومتے ہیں کہ ہر مسلمان اس بات کا دھیان رکھے کہ اس کے کسی طور طریقے اور کسی عمل سے دوسرے کو کسی قسم کی جسمانی یا نفسیاتی تکلیف نہ پہنچے۔ کسی شخص کو دل آزار باتیں کہنا، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا، کسی کی چغلی کھانا، کسی کے خلاف بدگمانی میں مبتلا ہونا، کسی کے عیوب کی جستجو کرنا کسی کی اجازت کے بغیر اس کی خلوت میں مخل ہونا۔ یہ سب وہ گناہ ہیں جنہیں قرآن کریم نے صریح الفاظ میں ممنوع قرار دیا ہے۔
اور ایک مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ اس قسم کی تمام گھٹیا باتوں سے مکمل پرہیز کرتا ہے۔
آخری شعبہ ’’اخلاق‘‘ کا ہے اور اس شعبے میں سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ:
’’مکمل ایمان ان ہی لوگوں کا جو خوش اخلاق ہوں گے۔‘‘
خوش اخلاقی کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں تکبر کے بجائے تواضع اور انکسار، بخل کے بجائے سخاوت، بزدلی کے بجائے بہادری، سخت مزاجی کے بجائے رحم دلی، جلد بازی کے بجائے تحمل، زبان درازی کے بجائے خوش کلامی اور فحاشی کے بجائے عفت وپاکیزگی پائی جائے۔ اس سے مل کر اس کی باتیں سن کر اس کے کردار کو دیکھ کر دوسرے کو انقباض کے بجائے فرحت حاصل ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ انسانی شرافت کی جتنی اچھی صفات ہوسکتی ہیں ایک مومن کو ان سب کا مجموعہ ہونا چاہیے۔ اور جس شخص میں ان صفات کی جتنی کمی ہے اتنا ہی اس کا ایمان نامکمل ہے۔ اور جو شخص ان صفات سے محروم ہے وہ خواہ قانونی طور پر مسلمان ہی کہلائے لیکن جس قسم کا مسلمان اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو مطلوب ہے اس سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
اﷲ تعالی ہم سب کو ان صفات سے آراستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے جو ایمان کا لازمی تقاضہ ہیں جن سے مزین ہوکر قرون اولی کے مسلمانوں نے دنیا بھر پر اپنے عروج و اقبال کے پرچم لہرائے ہیں اور آج بھی ہماری دنیا وآخرت سنوارنے کے لئے لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہیں۔


اسلامی معاشرت میں دوسرے افراد کے ساتھ خیر خواہی کی اہمیت
اصل بات یہ ہے کہ ایمان کا درخت امانت کی زمیں میں لگتا ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ زمین جتنی بہتر ہو درخت اتنا ہی سرسبز وشاداب ہوتا ہے، اسی طرح یہ صفت جتنی اس کے قلب میں موجود ہوگی اتنا ہی اس کا ایمان کامل ہوگا۔ اسلام کی نظر میں دل کے کسی گوشے میں اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان فرق کرنا اُخوت اور امانت دونوں کے خلاف ہے اس لئے ہم کو چاہیے کہ حتی الوسع اس کی کوشش کریں کہ یہ صفت ہم میں پیدا ہو تا کہ حقیقت ایمان تک رسائی ہوجائے۔
اب آپ اس حدیث کی کسوٹی پر اپنے ایمان کو پرکھئے اور یہ فیصلہ خود کرلیجئے کہ آپ کے ایمان میں کتنا کھوٹ ہے اور اگر خدا نہ کردہ قلبی جذبات یہاں تک تجاوز کرگئے ہوں کہ اگر اپنے مسلمان بھائی کو کوئی خیر نصیب ہوجا تو دل کو اس پر ناگواری ہونے لگے تو اس کو تو کفر کا ایک شعبہ سمجھنا چاہیے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
ما یود الذین کفروا من اہل الکتٰب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم۔ (دل نہیں چاہتا ان لوگوں کا جو کافر ہیں، اہل کتاب میں اور نہ مشرکوں میں اس بات کو کہ اترے تم پر کوئی نیک بات تمہارے رب کی طرف سے۔ (پارہ۱ رکوع ۱۳)
اس حدیث سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام میں صفت امانت کی کتنی اہمیت ہے اور دوسری جہت سے اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اسلامی معاشرت کتنی بلند معاشرت ہے اگر آج صرف یہی ایک شعبہ ہماری معاشرت میں داخل ہوجائے تو ہمارے تمام نزاعات ایک ہی آن میں ختم ہوجائیں اور عالم کی نظروں میں ہمارا مقام کچھ دوسرا ہی نظر آئے۔ حدیث مذکورہ بالا گو بہت مختصر ہے مگر جتنی مختصر ہے اتنی اہم بھی ہے، اس کو بار بار پڑھنا چاہیے اور عمل کے لئے تا بحد امکان قدم اُٹھانا چاہیے۔
حق تعالیٰ نے جب عالم کو پیدا فرمایا تھا تو بارِ امانت اُٹھانے کے لئے سب سے پہلے اپنی مخلوقات میں سے سب سے مضبوط مخلوق کو خطاب فرمایا، یعنی زمین وآسمان وپہاڑ۔ لیکن صرف یہ دیکھ کر کہ یہ امانت کیا ہے اور اس کی وسعت اور اہمیت کیا اور اس میں کیسی کیسی باریکیاں ہیں اس کے اُٹھانے سے سب نے انکار کیا اور سہم کر رہ گئے، اور انسان کے مقدر میں کیونکہ خلافت کا تاج لکھا ہوا تھا، اس لئے اس نے بے دھڑک اقرار کرلیا۔ اسی طرح آیت انا عرضنا الامانة علی السمٰوٰت والارض الخ (ہم نے دکھلائی امانت آسمانوں کو اور زمین کو) (پارہ ۲۲ رکوع۶) میں اشارہ ہے، اس کی تفصیل کے لئے بھی ایک رسالہ درکار ہے۔​
(اقتباس از جواہر الحکم، تالیف مولانا بدر عالم میرٹھی مرحوم، صفحہ 98، 99)​



*******************************



(٤) حلال ظاہر ہے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو وہ ہیں جن کا حلال ہونا سب کو معلوم ہے نیک کلام اچھی باتیں وہ مباح چیزیں ہیں جن کو کرنا یا جن کی طرف دیکھنا درست ہے شادی بیاہ کرنا اور چلنا پھرنا وغیرہ وغیرہ اسی طرح حرام ظاہر ہے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا حرام ہونا نص کے ذریعہ بالکل واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے جیسے شراب خنزیر مردار جانور٫جاری خون زنا سود جھوٹ غیبت چغل خوری امرد اور اجنبی عورت کی طرف بہ نظربد دیکھنا وغیرہ وغیرہ ایسے ہی کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کی حرمت یا حلت کے بارہ میں دلائل کے تعارض کی بناء پر کوئی واضح حکم معلوم نہیں ہوتا بلکہ یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ یہ حرام ہیں یا حلال ایسی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کے حلال ہونے کی دلیلیں بھی ہیں اور حرام ہونے کی بھی اس صورت میں کوئی واضح فیصلہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی چیزوں کے بارے میں دونوں طرف کی دلیلوں میں سے کسی ایک طرف کی دلیل کو اپنی قوت اجتہاد اور بصیرت فکر ونظر کے ذریعہ راجح قرار دے کر کوئی واضح فیصلہ کر لیتے ہیں ۔ بہرکیف مشتبہ چیز کے بارہ میں علماء کے تین قول ہیں۔ -1 ایسی چیز کو نہ حلال سمجھا جائے نہ حرام اور نہ مباح یہی قول سب سے زیادہ صحیح ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیز سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔ -2 ایسی چیز کو حرام سمجھا جائے -3 ایسی چیز کو مباح سمجھا جائے اب ان تینوں اقول کو ذہن میں رکھ کر مشتبہ کو بطور مثال اس طرح سمجھئے کہ مثلًا ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا ایک دوسری عورت نے آ کر کہا کہ میں نے ان دونوں کو اپنا دودھ پلایا ہے اس صورت میں وہ منکوحہ عورت اس شخص کے حق میں مشتبہ ہوگئی کیونکہ ایک طرف تو عورت کا بیان ہے کہ میں نے چونکہ ان دونوں کو دودھ پلایا ہے اس لئے یہ دونوں رضاعی بہن بھائی ہوئے اور ظاہر ہے کہ رضاعی بھائی بہن کے درمیان نکاح درست نہیں ہوتا لہذا اس دلیل کا تو یہ تقاضا ہے کہ اس نکاح کو قطعًا ناجائز کہا جائے مگر دوسری طرف نکاح کے جائز رہنے کی یہ دلیل ہے کہ صرف یہ ایک عورت کی بات ہے جس پر کوئی شرعی گواہی نہیں ہے اس پر کیسے یقین کر لیا جائے کہ یہ عورت صحیح ہی کہہ رہی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ محض بدنیتی کی وجہ سے یہ بات کہ کر ان دونوں کے درمیان افتراق کرانا چاہتی ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ نکاح جائز اور درست ہے دلائل کے اس تعارض کی وجہ سے لا محالہ یہی حکم ہوگا کہ یہ ایک مشتبہ مسئلہ ہو گیا ہے اس لئے اس شخص کے حق میں بہتر یہی ہوگا کہ وہ اس عورت کو اپنے نکاح میں نہ رکھے کیونکہ مشتبہ چیز سے اجتناب ہی اولی ہے مشتبہ چیز کی دوسری مثال یہ ہے کہ مثلا ایک شخص کے پاس کچھ روپے ہیں جن میں سے کچھ تو جائز آمدنی کے ہیں اور کچھ ناجائز آمدنی کے اس صورت میں وہ سب روپے اس شخص کے حق میں مشتبہ ہیں لہذا اس کو ان روپیوں سے اجتناب وپرہیز کرنا چاہئے۔ ارشاد گرامی میں حرام چیزوں کو ممنوعہ چراگاہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح کوئی حاکم کسی خاص چراگاہ کو دوسروں کے لئے منوع قرار دے دیتا ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو اس ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھیں اسی طرح جو چیزیں شریعت نے حرام قرار دی ہیں وہ لوگوں کے لئے ممنوع ہیں کہ ان کے ارتکاب سے اجتناب وپرہیز واجب و ضروری ہے اور مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہونے کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ (منڈیر) پر عام جانور چرانے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح چرواہے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھ کر چرائے تا کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں نہ گھس جائیں اور اگر وہ اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چرائے گا تو پھر اس بات کا ہر وقت احتمال رہے گا کہ اس کے جانور ممنوعہ چراگاہ میں گھس جائیں جس کے نتیجہ میں اسے مجرم قرار دے دیا جائے گا اسی طرح انسان کو چاہئے کہ وہ مشتبہ چیزوں سے دور رہے تا کہ محرمات حارم چیزوں میں مبتلا نہ ہو جائے اس کے بعد آپ نے مذکورہ بالا تشبیہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جان لو کہ ہر بادشاہ کا ایک ایسا ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے جس میں جانور چرانا جرم سمجھا جاتا ہے (یہ گویا زمانہ جاہلیت کے بادشاہوں اور حکام کے بارہ میں خبر دی ہے یا یہ کہ مسلمانوں میں سے ان بادشاہوں اور حکام کے بارے میں خبر دی ہے جو غیر عادل ہیں کیونکہ کسی علاقہ کی گھاس کو جانوروں کے چرنے سے روک کو ممنوعہ چراگاہ قرار دینا درست نہیں ہے) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ممنوعہ علاقہ حرام چیزیں ہیں کہ جن میں مبتلا ہونا لوگوں کے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے لہذا جو کوئی اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہوگا یعنی حرام چیزوں کا ارتکاب کرے گا اسے مستوجب عذاب قرار دیا جائے گا اور پھر ان حرام چیزوں میں بھی بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کے مرتکب کی بخشش ہی نہیں ہو گی جیسے شرک اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہیں کہ چاہے ان کے مرتکب کو بخشے چاہے نہ بخشے البتہ سچے دل کے ساتھ توبہ استغفار سے ہر چیز بخشی جائے گی۔ حضرت شیخ علی متقی نے اس موقع پر یہ ترتیب ضروری مباح مکروہ حرام کفر قائم کر کے لکھا ہے کہ جب بندہ اپنی معاشی تمدنی اور سماجی زندگی کے تمام گوشوں میں اس قدر ضرورت پر اکتفاء کر لیتا ہے جس سے اس کا وجود اور اس کی عزت باقی رہے تو وہ اپنے دین میں ہر خطرہ سے سلامت رہتا ہے مگر جب حد ضرورت سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے تو حد مکروہات میں داخل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ حرص وہوس حد مکروہات سے نکال کر محرمات کی مد میں داخل کر دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا اگلا قدم کفر میں پہنچ جاتا ہے نعوذ باللہ من ذلک۔ حدیث کے آخر میں انسانی جسم میں گوشت کے اس ٹکڑے کی اہمیت بیان کی گئی ہے جسے دل کہا جاتا ہے چنانچہ فرمایا کہ جب وہ ٹکڑا بگڑ جاتا ہے یعنی انکار شک اور کفر کی وجہ سے اس پر ظلمت طاری ہو جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں ارتکاب گناہ ومصیبت کی وجہ سے پورا جسم بگڑ جاتا ہے لہذا ہر عاقل وبالغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کی طرف متوجہ رہے اور اس کو خواہشات نفسانی میں منہمک ہونے سے روکے تاکہ وہ آگے بڑھ کر مشتبہ چیزوں کی حد میں داخل نہ ہو جائے کیونکہ جب دل خواہشات نفسانی کی طرف چل پڑتا ہے تو پھر اللہ کی پناہ وہ تمام حدوں کو پھلانگتا ہوا ظلمت کی آخری حدوں تک پہنچ جاتا ہے۔ آخر میں یہ سمجھ لیجئے کہ یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ بدن کی بھلائی وبہتری حلال غذا پر موقوف ہے کیونکہ حلال غذا سے دل کو صفائی حاصل ہوتی ہے اور دل کی صفائی ہی سے تمام بدن اچھی حالت میں رہتا ہے بایں طور کہ اس کے ایک ایک عضو سے اچھے اعمال ہی صادر ہوتے ہیں اور تمام اعضاء کا برائی کی طرف میلان ختم ہو جاتا ہے۔ اور اب ایک بات یہ جان لیجئے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ حدیث علم ومسائل کے بڑے وسیع خزانے کی حامل ہے نیز جن حدیثوں پر اسلامی شرائع واحکام کا مدار ہے وہ تین ہیں ایک تو حدیث (انما الاعمال بالنیات) دوسری حدیث (من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ) اور تیسری ہی ہے حدیث (الحلال بین) الخ۔





*******************************



(٥) صحیح معنی میں مومن وہی ہے جس کا وجود اللہ کی مخلوق کے لئے باعث اطمینان و راحت ہو، لوگوں کو اس پر پورا پورا اعتماد بھروسہ ہو۔ اس کی امانت و دیانت، عدالت و صداقت اور اخلاق و پاکیزگی اس طرح نمایاں ہو کہ نہ تو کسی کو اپنے مال کے ہڑپ کر لئے جانے کا خوف ہو اور نہ کسی کو اس کی طرف سے اپنی جان و آبرو کے نقصان کا خدشہ اور نہ کسی کے دل میں اس کی جانب سے کسی اور طرح کا خوف وہراس ہو۔ 





اسلام اورامن عالم



تعارف:
امن کے لفظی معنی ہیں چین، اطمینان، سکون وآرام نیز صلح، آشتی وفلاح کے۔ اسی طرح امن بجائے خود لفظ اسلام میں داخل ہے، جس کے معنی ہیں دائمی امن وسکون اورلازوال سلامتی کا مذہب۔
اسلام میں امن کا اتنا واضح تصور موجود ہے کہ دیگر ادیانِ عالم ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں، مثال کے طور پر آیت ذیل پیش کی جاسکتی ہے:
”مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فسَادِ فِی الْاَرْضِ فَکَأنَّمَا قَتل النَّاس جَمِیعًا“ (پ۶، آیت۳، ع۴)
(جو شخص قتل کرے ایک جان کو بلا عوض جان کے یا ملک میں فساد کرنے لگے تو گویا قتل کرڈالا اس نے سب لوگوں کو اورجس نے زندہ رکھا ایک جان کو توگویا زندہ کردیا سب لوگوں کو)
اسلام کے بنیادی عناصر:
رحم، خیرخواہی اور امن پسندی اسلام کے بنیادی عناصر ہیں، اسلام میں پہلے سلام پھر کلام کی ترغیب آئی ہے۔ السلام علیکم کے صرف یہ معنی نہیں ہیں کہ تم پر سلامتی ہو، بلکہ یہ اس مفہوم پر بھی محیط ہے کہ تم میری طرف سے محفوظ و مامون ہو۔ اسلام میں ہر کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے، جس میں اللہ کے دو صفاتی نام یعنی رحمن ورحیم بھی شامل ہیں، یعنی بڑامہربان نہایت رحم والا ہے۔ اس طرح بندوں کے کیرکٹر پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں:
”عملی طور پر ایک مسلمان کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں امن وسلامتی کا پیغامبر بنے نہ کہ تشدد، نا انصافی اور ظلم و زیادتی کاسفیر۔ چنانچہ اسے حکم دیاگیا کہ ہر روز تشہد کے اندر بار بار ان الفاظ کی تکرارکرے۔ ”السّلام علیک أیُّہا النبي ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ، السّلام علینا وعلیٰ عباد اللّٰہ الصالحین“۔ یہی نہیں بلکہ نماز کا اختتام ہی ان الفاظ پر ہوتا ہے ”السّلام علیکم ورحمة اللّٰہ“(۱)
اسلام میں رحم کی ترغیب وترہیب:
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”الرَّاحِمُوْنَ یَرحَمُہُمُ الرَّحمٰن“
(مہربانوں پر خدائے مہربان رحم کرتا ہے۔)
کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر   $                   خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا“۔ (مشکوٰة شریف ۲/۴۲۵)
اسلام میں امن وسکون کی فضیلت اور ظلم کی بیخ کنی کی ہدایت:
اسلام میں امن وسکون کی اتنی فضیلت بیان کی گئی ہے اور ظلم وستم سے اس روئے زمین کو پاک کرنے کی اتنی واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ دیگر مذاہب عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں:
”اسلام نے پہلی بار دنیا کو امن ومحبت کا باقاعدہ درس دیا اور اس کے سامنے ایک پائیدار ضابطہٴ اخلاق پیش کیا، جس کا نام ہی ”اسلام“ رکھا گیا یعنی دائمی امن وسکون اور لازوال سلامتی کا مذہب۔ یہ امتیاز دنیا کے کسی مذہب کو حاصل نہیں۔ اسلام نے مضبوط بنیادوں پر امن وسکون کے ایک نئے باب کاآغاز کیا اور پوری علمی واخلاقی قوت اور فکری بلندی کے ساتھ اس کو وسعت دینے کی کوشش کی۔ آج دنیا میں امن وامان کا جو رجحان پایا جاتاہے اورہر طبقہ اپنے اپنے طور پر کسی گہورائہ سکون کی تلاش میں ہے، یہ بڑی حد تک اسلامی تعلیمات کی دین ہے۔“(۲)
”اسلام ظلم کوکسی حالت میں اور کسی بھی نام اور عنوان سے برداشت نہیں کرتا۔ وہ اپنے فرزندوں کو جان، مال ومذہب، عقیدہ، وطن، مذہبی مقدسات، شعائر دین، مساجد ومعابد وغیرہ کی حفاظت، ان کے دفاع اور کسی بھی طرح کی تعدی سے ان کے بچاؤ کی تدبیر کرنے کا ناگزیر حکم دیتا ہے اور ان ساری سازشوں کو ناکام بنادینے کا انہیں پابند بناتا ہے جو خود ان کے خلاف کی جائیں یا انسانیت کے خلاف روبہ عمل لائی جائیں۔“(۳)
اسلام میں ظلم کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا، بلکہ اس کے برعکس یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ اسلام دنیا میںآ یا ہی ہے ظلم کے استیصال کے لیے، اس کی بیخ کنی کے لیے، خواہ وہ کسی بھی سطح پر موجود ہو۔ حدیث میں ہے:
”مَن آذی الناس آذی اللّٰہ“ (جس نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی، اللہ کو تکلیف پہنچائی)
ظاہر ہے اللہ کی ناراضگی کوئی مردمومن گوارہ نہیں کرسکتا۔ حدیث بالا میں کسی مذہب وملت کی قید نہیں ہے۔ بلکہ اس کا دائرہ ساری انسانیت پر محیط ہے:
”یہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات میں امن وسلامتی کا عنصر زیادہ ہے، وہ تمام معاملات میں ان پہلوؤں کو اختیار کرنے پر زور زیادہ دیتا ہے جن میں نہ خود کوئی زحمت اٹھانی پڑے اور نہ دوسروں کو کوئی تکلیف ہو، اللہ تعالیٰ نے مومنین کا یہ وصف بیان کیا ہے وہ تسامح اور صلح جوئی کو ترجیح دیتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جبکہ فریق ثانی سے زیادتی اور جھگڑے کا اندیشہ ہو۔“(۴)
”لاضرر ولاضرار“ اسلام کا وہ لائحہ عمل ہے، جس کی روشنی میں ممکنہ حد تک قوت اور اثرات کے ذریعہ مظلوم کی دستگیری کی جائے اور ظالم کو ظلم سے روک دیا جائے۔ مظلوم کی حمایت میں حسب ذیل حدیث میں کسی قدر واضح ہدایت موجود ہے:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے، اللہ تعالیٰ تہتر مغفرت کا انتظام فرماتا ہے، جن میں سے صرف ایک مغفرت اس کے تمام معاملات سدھارنے کے لیے کافی ہے۔ مابقیہ ۷۲ مغفرتیں اس کے لیے آخرت میں رفع درجات کا ذریعہ بنیں گی۔
دوسروں پر رحم نہ کرنے والا اللہ کی رحمت سے محروم رہتا ہے۔ چنانچہ:
”عن جریر بن عبد اللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ، لا یرحمُ اللّٰہ من لا یرحم النّاس“ (بخاری:۲/۸۸۹)
(حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ لوگ اللہ کی رحمت سے خصوصی طور سے محروم رہیں گے، جن کے دلوں میں دوسروں کے لیے رحم نہیں اور جو دوسروں پر ترس نہیں کھاتے)
”اس حدیث میں الناس کا لفظ عام ہے جو مومن و کافر اور متقی وفاجر سب کو شامل ہے اور بلاشبہ رحم سب کا حق ہے۔“(۵)
اسلام نے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر احسان کو ترجیح دیا ہے:
”خلق خدا اللہ کی عیال کے مانند ہیں، لہٰذا اللہ کی نظر میں سب سے پسندیدہ وہ شخص ہے،جو اللہ کی مخلوق پر احسان کرنے والا ہو۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”عن عبد اللّٰہ بن عمر بن العاص ان النبی قال: من قتل عصفوراً فما فوقہا بغیر حقہا الاّسألہ اللّٰہ عن قتلہ “
(جس نے کسی گوریا یا اس سے بھی چھوٹی چڑیا کو ناحق قتل کیاتو اس سے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ بازپرس کریں گے)
اسلام کی رحمت عمومی:
”رحمت دراصل اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے اور رحمن ورحیم اس کے خاص نام ہیں اور جن بندوں میں اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا جتنا عکس ہے، وہ اتنے ہی مبارک اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اتنے ہی مستحق ہیں اورجو جس قدر بے رحم ہیں، وہ اللہ کی رحمت سے اسی قدر محروم رہنے والے ہیں۔“(۶)
جس طرح سورہ فاتحہ کی شروعات ہی رحمتِ عالم کے اعلان کے ساتھ ہوتی ہے، یعنی ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلمین الرّحمٰنِ الرّحیم“ (سب تعریفیں اس پروردگار کے لیے ہیں جو سارے جہان کا پالنہار ہے، مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے)۔ اس آیت میں خداکو رب العالمین کہاگیا ہے، صرف رب المسلمین نہیں۔ جس سے اسلام کے فیض عمومی کا اندازہ بلاتکلف لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن نے نہ صرف رب کائنات کو بلکہ پیغمبرآخرالزماں کی تخصیص وتحدید بھی صرف مسلمانوں کے لیے نہیں کی، بلکہ اس کا دائرہ سارے عالم کے لیے وسیع کرتے ہوئے فرمایا:
”وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِیْن“
(ہم نے آپ کو سارے عالم کے لیے رحمت ہی بناکر بھیجا ہے)
چونکہ اللہ رب العزت کی ذات رحمن ورحیم ہے اور پیغمبر آخرالزماں رحمة للعالمین لہٰذا دونوں کی انتہائے رحمت کے نتیجے میں اسلامی تعلیمات محبت وشفقت، رحمت ورافت کا سرچشمہ بن گئیں۔ اسلامی تعلیمات پوری کائنات کے لیے امن وسلامتی، اتحاد واتفاق، احترام آدمیت، ہمدردی وغم خواری، وحدت ومساوات، رحم وکرم، عفو ودرگزر، صلح وآشتی، عدل وانصاف، سکون واطمینان اور پرامن بقائے باہم لامنتاہی ثابت ہوئیں۔ مذکورہ خوبیاں جن سے اسلام متصف ہے، دراصل امن کے لیے خمیر کی حیثیت رکھتی ہیں، جن سے صرف نظر کرکے امن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام کی انہیں گوناگوں خوبیوں نے اسے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب بلااکراہ پھیلادیا، جس میں جورو تعدی یا شمشیروسنان کا قطعاً کوئی دخل نہیں۔ جن لوگوں نے تاریخ اسلام کا معروضی مطالعہ کیا ہے اور معاندانہ کے بجائے منصفانہ ذہن ودماغ کے حامل ہیں، انہیں اس کا دل سے اعتراف ہے کہ اسلام اپنی مذکورہ بالا خوبیوں کے سبب ہی دنیا میں پھیلا اور آج بھی تمام تر مخالفتوں کے باوجود اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ جس کا برملا اظہار مستشرقین نے بھی بار بار کیاہے، مثال کے طور پر مشہور مورخ مسٹرولز رقم طراز ہیں:
”اسلامی تعلیمات نے دنیا میں منصفانہ، شریفانہ طرز عمل کے لیے عظیم روایات چھوڑی ہیں اور وہ لوگوں میں شرافت اور رواداری کی روح پھونکتی ہیں۔ یہ تعلیمات اونچی انسانی تعلیمات ہیں اور قابل عمل ہیں۔ ان تعلیمات نے ایسی سوسائٹی کو جنم دیا، جس میں اس کے پیشتر کی سوسائٹی کے مقابلے میں سنگدلی اور اجتماعی ظلم کم سے کم رہا۔ اسلام نرمی، رواداری، خوش اخلاقی اور بھائی چارہ سے پھیلا ہے۔“(۷)
عفودرگزر:
عفوودرگزر قیام امن کے لیے کس قدر ناگزیر ہے، یہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ سرزمین عرب پر خاص طور سے قتال وجدال کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس وقت رکا جب آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم طلوع ہوا ورنہ پشتہا پشت بدلے لینے کی روش برقرار رہتی تھی، لیکن سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آئندہ کے لیے ختم کردیا اور اولیں قربانی خود پیش کی اور اپنے خاندان پر ہونے والے مظالم کو فراموش کردیا اور ان کے اوپر بیک جنبش قلم خطِّ عفو کھینچ دیا۔ جہاں تک عفوودرگزر کا سوال ہے:
”ارباب سیر نے تصریح کی اور تمام واقعات شاہد ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا․․․․ قریش نے آپ کو گالیاں دیں، مارنے کی دھمکی دی، راستوں میں کانٹے بچھائے، جسم اطہر پر نجاستیں ڈالیں، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا، آپ کی شان میں گستاخیاں کیں، نعوذ باللہ کبھی جادوگر، کبھی پاگل، کبھی شاعر کہا، لیکن آپ نے کبھی ان کی باتوں پر برہمی ظاہر نہیں فرمائی۔“(۸)
انسان کے ذخیرئہ اخلاق میں سب سے کم یاب، نادرالوجود چیز دشمنوں پررحم اور ان سے عفوودرگزر ہے، لیکن حاملِ وحی ونبوت کی ذات اقدس میں یہ جنس فراواں تھی۔ دشمن سے انتقام لینا انسان کا قانونی فرض ہے، لیکن اخلاق کے دائرئہ شریعت میں آکر یہ فرضیت مکروہ تحریمی بن جاتی ہے۔ تمام روایتیں اس بات پر متفق ہیں کہ آپ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ دشمنوں سے انتقام کا سب سے بڑا موقع فتح حرم کا دن تھا جب کہ وہ کینہ خو سامنے آئے جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے تھے اور جن کے دستِ ستم سے آپ نے طرح طرح کے اذیتیں اٹھائی تھیں، لیکن ان سب کو یہ کہہ کر چھوڑدیا:
”لا تثْریب علیکم الیوم فانتم الطَّلَقَاءَ“ (تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو)
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عربوں جیسی وحشی اور جنگجوقوم کو اس فضا سے نکال کرامن اور بھائی چارہ کا درس دیا۔ اگر انھوں نے کبھی جنگ بھی لڑی تو اس وقت، جب انھیں مجبور کیاگیا یا جب قیام امن کے لیے ناگزیر ہوگئی۔“(۹)
اسلام میں رواداری اور حقوق وسلوک:
قیام امن میں رواداری، حسن سلوک اور حقوق کی پاسبانی بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس امر کے وضاحت کی ضرورت نہیں کہ ان تینوں بنیادی امور کے محاذ پر بھی اسلام سب سے اعلیٰ وارفع منہاج فراہم کرتا ہے۔ اسلام بلاشبہ نہ صرف اپنوں بلکہ دوسروں کے لیے بھی رحیم وشفیق بننے کی ہدایت کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اَحْسِنْ کَمَا اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ“
(تم دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرو جیساکہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھلائی کرتاہے)
لیکن اس سلسلے میں بھی وہ جادئہ اعتدال سے ہٹنے کی اجازت نہیں دیتا:
”اسلام راواداری، محبت، شائستگی، شرافت اورمعقولیت کی تعلیم ضرور دیتا ہے، لیکن ایسی عاجزی اور مسکینی کی بھی تعلیم نہیں دیتا کہ اس کے پیروہرظالم کے لیے نرم چارہ بن کر رہ جائیں۔“(۱۰)
نہ حلوا بن کہ چٹ کرجائیں بھوکے      $            نہ کڑوا بن کہ جو چکھے سو تھوکے
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو اللہ کی بندگی کے لیے شرط اولیں قرار دیا ہے:
”اگر تمہیں خدا کی بندگی کرنی ہے تو پہلے اس کے بندوں سے محبت کرو۔“
”اسلام دین رحمت ہے،اس کا دامن محبت ساری انسانیت کو محیط ہے، اسلام نے اپنے پیروکاروں کو سخت تاکید کی ہے کہ وہ دیگر اقوام اور اہل مذاہب کے ساتھ مساوات، ہمدردی، غمخواری ورواداری کا معاملہ کریں اوراسلامی نظام حکومت میں ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی، بھیدبھاؤ اور امتیاز کا معاملہ نہ کیا جائے۔ ان کی جان ومال عزت وآبرو، اموال اور جائیداد اورانسانی حقوق کی حفاظت کی جائے۔ ارشاد ربانی ہے:
”لا ینہٰکم عن الذین لم یُقاتلوکم فی الدین ولم یُخرجوکم من دیارکم ان تبرّ و ہُم وتُقسطوا اِلیہِم، ان اللّٰہ یُحبُّ المقسطین“
(اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلے میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بیشک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو)(۱۱)
اسلام اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ بے ضرر کافروں سے بغض وعداوت رکھی جائے، یہ فعل اسلام کی نظر میں غیرمطلوب اور انتہائی ناپسندیدہ ہے۔
اسلام نے کفارِ مکہ، یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ منافقوں کے ساتھ بھی کھل کر حسن سلوک کی ہدایت دی ہے۔ اس نے جہاں رشتہ داروں، قرابت داروں کے حقوق متعین کیے ہیں، وہیں قیدیوں، عام انسانوں اور غیرمسلم رعایا(ذمیوں) کے حقوق کی بھی وضاحت کی ہے۔
جہاد اور اسلام:
جہاد کا حکم شریعت مطہرہ میں خالق ارض وسما نے بڑی مصلحتوں کے پیش نظر بڑے قیدوبند اور اصول وضوابط کے ساتھ دیا ہے، جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی یہ خوبصورت دنیا فتنہ وفساد سے پاک ہوکر امن وامان کا گہوارہ بن جائے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ساری انسانیت کو اس نے اپنی خاندان قرار دیا ہے اور من آذی النَّاس آذی اللّٰہ فرماکر شریعت نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت عمومی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ جہاد کے درج ذیل چند بنیادی مصالح سے اس کی حکمت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں:
”(۱) جہاد لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی عزت اور ناموس کی حفاظت کے لیے ہے․․․․ تلوار، تیر اور خنجر سے کوئی عقیدہ قلب میں نہیں اترسکتا․․․․ بلکہ اگر اسلام کو تلوار اور تیر سے پھیلایا جاتا تو اسلام پھیلنے کے بجائے کمزور ہوتا اور لوگ اپنے اس قاتل مذہب کے دشمن بن جاتے۔
(۲) بعثت کے بعد مکہ مکرمہ میں۱۳ سال آپ کا قیام رہا۔ اسی زمانے اور اسی حالت میں صدہا قبائل اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے․․․․ نجاشی بادشاہ حبشہ حضرت جعفر کی تقریر سن کر مشرف باسلام ہوا، ہجرت سے قبل مدینہ کے ۷۰ آدمیوں نے مقام منیٰ میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ مصعب بن عمیر کے وعظ سے ایک ہی دن میں تمام قبیلہ بنی عبدالاشہل مدینہ منورہ میں مشرف باسلام ہوا، بعد ازاں باقی ماندہ انصار بھی مشرف باسلام ہوئے۔
یہ سب قبائل جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہی مسلمان ہوئے اورابوبکر صدیق،فاروق اعظم، عثمان غنی، علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہم اجمعین، جنھوں نے چہاردانگ عالم میں اسلام کا ڈنکا بجایا، یہ بہادرانِ اسلام بھی آیت جہاد وقتال کے نازل ہونے سے پہلے ہی اسلام کے حلقہ بگوش بن چکے تھے۔
(۳) نجران اور شام کے نصاریٰ کو کسی نے مجبور نہیں کیاتھا․․․․ ہر طرف سے وفود کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ وفود آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اسلام قبول کرتے۔ جبر تو درکنار آپ نے تو ان کو بلانے کے لیے بھی کوئی قاصد نہیں بھیجا تھا۔
(۴) مسئلہ جہاد اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ انبیاء سابقین کی شریعت میں بھی یہ مسئلہ موجود تھا۔
(۵) سلاطین اسلام اگر لوگوں کو جبراً مسلمان بناتے یا اس قسم کی تدبیریں کرتے جو عیسائیت کے لیے کی گئیں اور کی جارہی ہیں تو کم از کم اسلامی قلم رو میں عیسائیوں کا نام ونشان بھی نہ ہوتا۔“(۱۲)
ہفت روزہ ٹائمز مجریہ یکم اکتوبر ۲۰۰۲/ میںآ رم اسٹرانگ کا ایک مضمون ”اسلام کاحقیقی پر امن چہرہ“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے، جس میں اس نقطئہ نظر کی تردید کی گئی ہے کہ اسلام تشدد پسند دین ہے۔ مضمون نگار نے لکھا ہے کہ:
”اسلام میں اگر ان واقعات کے لیے کوئی دلیل ہوتی جو ۱۱/دسمبر کو پیش آئے تو اسلام کبھی دنیا کا تیزی سے پھیلنے والا مذہب نہ ہوتا۔“(۱۳)
حاصل کلام:
یاد رکھئے حکومت کفر کے ساتھ چل سکتی ہے، ظلم کے ساتھ نہیں، کیونکہ
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں  $            ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں
دنیا میں اتنی طویل المدتی اسلامی حکومتیں اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ انھوں نے ظلم وستم کے بجائے انصاف اور عدل کو اپنا شعار بنایا اور ملک کے باشندوں کو بلاتخصیص مذہب وملت ہمیشہ ایک آنکھ سے دیکھا، ان کے ساتھ کسی طرح کا امتیاز روا نہیں رکھا۔ انھوں نے اسپین میں اپنے آٹھ سو سالہ دور حکومت میں شمشیر کا استعمال نہیں کیا۔ پورا خطّہٴ عرب گزشتہ چودہ صدیوں سے عربوں کے زیرنگیں ہے اور وہاں کم وبیش ڈیڑھ کروڑ قبطیوں (Christian Captic) کی موجودگی اس حقیقت کی غماز ہے کہ اگر مسلمانوں نے اسلام کی اشاعت میں تلوار کا سہارا لیا ہوتا یا بزور قوت مسلمان بناتے تو آج قبطیوں کا وہاں نام ونشان بھی نہ ہوتا۔ دور کیوں جائیے خود ہندوستان کو دیکھئے، جہاں آج غیرمسلموں کا تناسب ٪۸۰ ہے، اس ملک پر مسلمانوں نے ہزار سال (محتاط اندازے کے مطابق مستحکم حکومت ۸۰۰ سال) حکومت کی۔ اگر حکمرانوں نے جبر واستبداد، شمشیر وسنان کو روا رکھا ہوتا تو ایک بھی غیرمسلم نظر نہ آتا۔
بلاشبہ:
”مسلمانوں ہی کے ذریعہ آج پھر اس دنیا میں امن وامان پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام اپنے حسن اخلاق اوراپنے ہمہ گیر نظام امن سے دنیا کو پھر امن سے بھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اورامیر، غریب، کمزور اور قوی کو اپنا گرویدہ بنانے کی خصوصیت رکھتا ہے۔“(۱۴)
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں امن کا تصور اظہر من الشمس ہے، کیا بلحاظ نظریہ (Theory) اور کیا بلحاظ عمل (Practice) ۔
$ $ $
حوالہ جات:
(۱)  ندیم الواجدی، مولانا، ۲۰۱۳/ اسلام اور امن عالم، راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، ۲۷، دسمبر، ص۷
(۲) ماہنامہ دارالعلوم، دیوبند، دسمبر ۲۰۰۸/ وجنوری ۲۰۰۹/ ص۷
(۳) دہشت گردی کا عالمی منظرنامہ، ص۱۶
(۴) ندیم الواجدی، مولانا، ۲۰۱۳/ اسلام اور امن عالم، راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، ۲۷، دسمبر، ص۷
(۵) معارف الحدیث، ج۲، ص۱۷۲
(۶) ایضاً
(۷)                اسلامی تہذیب کے درخشاں پہلو، ص۱۲۸
(۸) سیرت النبی، حصہ دوم، ص۵۹۹
(۹) ایضاً ص۶۰۳
(۱۰)اسلام میں مذہبی رواداری، ص۱
(۱۱)ماہنامہ دارالعلوم، دیوبند، دسمبر ۲۰۰۸/ وجنوری ۲۰۰۹/ ص۶
(۱۲)صحابہٴ کرام کے جنگی معرکے، ص۲۷-۲۶
(۱۳)ہفت روزہ ٹائمز ممبئی، مجریہ یکم اکتوبر ۲۰۰۲/
(۱۴)باب الاسلام، ص۱۶
مصادر و مراجع
(۱)  قاسمی، اختر امام عادل، مفتی، جنوری ۲۰۰۸/ اسلام امن وسلامتی کا مذہب، دارالعلوم، دیوبند، ص۱۹-۷
(۲) اصلاحی، فضل الرحمن، اکتوبر-دسمبر۲۰۰۷/ اسلام پیغام امن وسلامتی، سہ ماہی، باب الاسلام، ص۱۶
(۳) اصلاحی، حکیم صفات، جون ۲۰۰۲/، کیا اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے؟، معارف اعظم گڑھ، ص۴۵۲-۴۴۱
(۴) پریم چند، منشی، اسلامی تہذیب؟ مرکزی مکتبہ اسلامی، دہلی
(۵) نعمانی، علامہ شبلی، ستمبر۲۰۰۲/، سیرت النبی، ج۱، حصہ دوم،ادارہ اسلامیات، انارکلی، لاہور
(۶) شوکت علی بستوری، مولانا، اکتوبر ۲۰۰۹/ اسلام میں حقوق انسانی کی حفاظت، ندائے شاہی، ص۳۷-۳۲
(۷)                شوکت علی بستوی قاسمی، دسمبر۲۰۰۸/ جنوری۲۰۰۹/، اسلام میں دیگر اقوام اور اہل مذاہب کے ساتھ رواداری، دارالعلوم دیوبند، ص۱۶-۶
(۸) صباح الدین عبدالرحمن، سید، ۱۹۸۷/، اسلام میں مذہبی رواداری، دارالمصنّفین، اعظم گڑھ
(۹) نعمانی، مولانا منظور، اکتوبر ۲۰۰۹/، معارف الحدیث، جلددوم، کتاب الرقاق وکتاب الاخلاق، الفرقان بک ڈپو، لکھنوٴ
(۱۰)محمد طیب، حکیم الاسلام، مولانا قاری، ۱۹۹۱/، خطبات حکیم الاسلام، جلداول، دارالکتاب، دیوبند
(۱۱)نور عالم خلیل الامینی، مولانا، ۱۴۲۹ھ، دہشت گردی کا عالمی منظرنامہ، دارالعلوم دیوبند۔
(۱۲)ندیم الواجدی، مولانا ۲۰۱۳/، اسلام اور امن عالم، روزنامہ راشٹریہ سہارا، ۲۷/دسمبر، ص۷
(۱۳)واقدی، علامہ محمد بن عمر/حکیم شبیراحمد سہارنپوری، ۲۰۰۶/، صحابہٴ کرام کے جنگی معرکے، (تسہیل، تلخیص، عنوانات: مولانا امداد اللہ)، انوردارالاشاعت مصطفائی، دہلی-۱۱۰۰۰۶
$ $ $



[1] سابق ڈپٹی ڈائریکٹر، سی،سی،آر،یو،ایم، دلکشا، این-۴۹، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی-۱۱۰۰۲۵











راویوں کے حالات  :

حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ:

آپ کی کنیت"ابو حفص" اور لقب "فاروق" تھا. رسول اللهﷺ کی دعا کے نتیجے میں اسلام لاۓ، آپ سے پہلے چالیس مرد  و عورتیں اسلام قبول کر چکی   تھیں،حضرت عمر رضی الله عنہ  کے اسلام سے مسلمانوں کو قوت اور اسلام کو شوکت حاصل ہوئی. حضرت عمر رضی الله عنہ  نے تمام غزوات میں شرکت فرمائی ، حضرت ابو بکر رضی الله عنہ  کے بعد  خلیفہ مقرر ہوۓ. آپ کے دور خلافت میں عراق، مصر اور شام فتح ہوۓ. کتب حدیث میں آپ سے مروی احادیث کی تعداد ٥٣٩ ہے.سن ٢٣ھ میں ٦٣ سال کی عمر  میں شہید ہوۓ.(تهذيب التهذيب:٤/٢٦٤)

کلمات حدیث:

اعمال:  عمل کی جمع ہے. عمل يعمل عملا ( باب سمع) کام کرنا. بالارادہ کوئی کام کرنا عمل ہے جبکہ  انسانی حرکت خواہ ارادہ سے ہو یا نہ ہو فعل ہے. نیات:نية کی جمع ہے، جس کی معنی قصد و ارادہ اور عزم قلب کے ہیں.

شرح حدیث:

یہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے اور اپنے معانی کی وسعت اور اپنے مفاھم کی ہمہ گیری کے اعتبار سے بےحد اہم ہے.یہی وجہ ہے کہ امام شافعی رحمہ الله نے اسے ثلث (تہائی) اسلام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ فقہ کے ستر ابواب پر مشتمل ہے.(شرح مسلم، للنووی:١٣/٤٦)
امام بخاری رحمہ الله نے  اس حدیث کو "كتاب الإيمان"کے آغاز میں اور "باب بدأ الوحي" سے پہلے ذکر کیا ہے، کیونکہ روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے صحابہ کرام کی موجودگی میں اپنے ایک "خطبہ" میں اس حدیث کو ذکر فرمایا اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ الله نے اسے "خطبۂ کتاب"میں ذکر فرمایا. ایک اور روایت میں ہے کہ جب رسول الله ﷺ مکّہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منوّرہ تشریف  لاۓ تو آپ ﷺنے  "خطبہ"میں یہ حدیث ارشاد فرمائی جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مکّی زندگی مدنی زندگی کے لیے بطور "مقدمہ" تھی اور اسی بناء پر امام بخاری رحمہ الله نے اسے مقدمہ کتاب میں ذکر فرمایا. ابن المنیر فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺنزول وحی کے آغاز سے پہلے ہی خلوت پسند فرمانے لگے تھے اور سب کچھ چھوڑ کر غار حرا میں متکف ہوجاتے، آپ ﷺکی یہ غیر الله سےإلى الله