Saturday 7 March 2015

خالق کے وجود کے عقلی و نقلی دلائل - The evidences of the existence of Creator



خالق اور مخلوق
القرآن:
کیا یہ لوگ بغیر کسی کے آپ سے آپ پیدا ہوگئے، یا یہ خود (اپنے) خالق ہیں؟
[سورۃ نمبر 52 الطور، آیت نمبر 35]

وجود کی دو صورتیں ہیں:
(1)ہر تخلیق کا خالق ضروری ہے۔ پس اگر وہ خالق کا انکار کرتے ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ خود بغیر خالق کے پائے جائیں۔
(2)یا خود کو خود پیدا کیا جائے،  اور یہ سخت ترین باطل(جھوٹی بات) ہے۔ اس لئے کہ جس چیز کا خود وجود نہ تھا وہ کیسے پیدا کرسکتی ہے۔ پس جب دونوں صورتیں باطل ہوگئیں تو ان پر حجت قائم ہوگئی کہ ان کا خالق ہے۔ پس چاہیے کہ وہ اس پر ایمان لے آئیں۔ کہ کیا وہ باطل(فضول) پیدا گئے ہیں کہ نہ ان کا محاسبہ نہ ہوگا اور نہ ان کو حکم دیا جائے گا؟
[تفسیر(امام)البغوي(م510ھ)» سورۃ نمبر 52 الطور، آیت نمبر 35]







جس طرح بیوقوفوں کا اعتراض کسی شے کے "معقول" ہونے کی دلیل ہے، اسی طرح اہل باطل کا اعتراض "حقانیت" کی دلیل ہے.




مخلوقات میں اللہ کی نشانیاں:
إِنَّ فى خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ وَاختِلٰفِ الَّيلِ وَالنَّهارِ وَالفُلكِ الَّتى تَجرى فِى البَحرِ بِما يَنفَعُ النّاسَ وَما أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّماءِ مِن ماءٍ فَأَحيا بِهِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها وَبَثَّ فيها مِن كُلِّ دابَّةٍ وَتَصريفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحابِ المُسَخَّرِ بَينَ السَّماءِ وَالأَرضِ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَعقِلونَ {2:164}
بیشک آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اور کشتیوں میں جو کہ لے کر چلتی ہیں دریا میں لوگوں کے کام کی چیزیں اور پانی میں جس کو کہ اتارا اللہ نے آسمان سے پھر جلایا اس سے زمین کو اس کے مر گئے پیچھے اور پھیلائے اس میں سب قسم کے جانور اور ہواؤں کے بدلنے میں اور بادل میں جو کہ تابعدار ہے اس کے حکم کا درمیان آسمان و زمین کے بیشک ان سب چیزوں میں نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لئے [۲۳۰]
یعنی جب مادّہ (Matter) اور طبیعت (Nature) ایک ہے تو پھر پھلوں کے مزوں میں اختلاف کیوں ہے؟ ایک ہی پانی سے نباتات (plants) اشجار (trees) کو سیراب کیا جاتا ہے مگر بایں ہمہ پھلوں میں اختلاف ہے، رنگ اور بو میں ہر ایک علیحدہ ہے، مزہ بھی ہر ایک کا جدا یعنی مادّہ ایک ہے اور اسات مختلف کیوں اور کس نے کیے؟؟؟
یعنی آسمان کے اس قدر وسیع اور اونچا اور بےستون پیدا کرنے میں اور زمین کے اتنی وسیع اور مضبوط پیدا کرنے اور اس کے پانی پر پھیلانے میں اور رات اور دن کے بدلتے رہنے اور ان کے گھٹانے اور بڑھانے میں اور کشتیوں کے دریا میں چلنے میں اور آسمان سے پانی برسانے اور اس سے زمین کو سرسبز و تازہ کرنے میں اور جملہ حیوانات میں اُس سے توالد و تناسل نشوونما ہونے میں اور جہات مختلفہ سے ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں معلق کرنے میں دلائل عظیمہ اور کثیرہ ہیں حق تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت اور حکمت اور رحمت پر ان کے لئے جو صاحب عقل اور فکر ہیں۔ فائدہ { لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ } میں توحید ذات کا اور { الرَّحمٰنُ الرَّحِیْمُ } میں توحید صفات کا ثبوت تھا اور { اِنَّ فِی خَلْقِ } الخ میں توحید افعال کا ثبوت ہوا جس سے مشرکین کے شبہات بالکلیہ مندفع ہو گئے۔


Science of Signs:
Surely, in the creation of heavens and earth, and the alternation of night and day, and the ships that sail in the sea, carrying that which benefits men, and in the water Allah sent down from the sky, then revived with it the earth after it was dead, and in every creature He has scattered on it, and in turning of winds, and in the clouds employed to serve between heaven and earth, there are signs for those who have sense.

Tafsir al-Jalalayn :
They then asked for a sign to prove this, and the following was revealed: Surely in the creation of the heavens and the earth, and the marvels contained in them, and the alternation of the night and day, passing and returning, increasing and diminishing, and the ships that run in the sea, and do not become cracked and sin
k, with what profits men, of trade and merchandise, and the water, the rain, God sends down from the heaven with which He revives the earth, with vegetation, after it is dead, after it has dried out, and He scatters abroad in it all manner of crawling thing, by dividing them and spreading them throughout on account of the vegetation, for they thrive on the fertile pastures it produces; and the disposition of the winds, changing it from south to north, from cold to warm, and the clouds compelled, subjugated by God’s command, moving to wherever God wishes, between heaven and the earth, without being attached [to either of the two] — surely there are signs, indicating His Oneness, exalted be He, for a people who comprehend, [a people] who contemplate.




اب سورج ہی کو دیکھو اور اپنے علم کے گھوڑے دوڑاؤ اور اس (سورج) کو ساکن(motionless) بھی ماں لو اور زمین کو اس کے اردگرد حرکت کرتے ہوۓ سمجھ لو تو اب یہ بتاؤ اگر یہ خود بخود بن گیا ہے تو گول کس نے کردیا؟ اور پھر دوسرے ستاروں سے یہ کیوں بڑا بن گیا؟ ان (دوسرے ستاروں) میں نور کیوں نہیں ، پھر اس کے نور میں گرمی کی کیا وجہ ہے؟ دوسروں کے نور میں سردی کا کون سبب ہے؟ پھر ان میں باہم ابعاد (Dimensions) اس مقدار پر کیوں ہیں؟ اور جب یہ کسی کے مسخر (Subservient) نہیں تو اس فاصلہ میں تفاوت (Difference)  کیوں پیدا نہیں ہوتا؟
اگر کہو کہ مادّہ (Matter) علّت (Cause) ہے تو مادّہ تمہارے قول کے بموجب "غیر محسوس" چیز ہے، تو اس (کے غیر محسوس ہونے) کے قائل ہونے کا کون سبب ہے؟ پھر مادّہ کو اس طرح کس نے تقسیم کیا؟ اور مادّہ تو سب کا ایک ہے پھر تفاوت (Difference) کیوں؟
پھر اگر کہو کہ صورت کے سبب سے تفاوت (Difference) ہے تو اس صورت کو کس نے پیدا کیا اور کیوں مختلف سورتیں پیدا ہوئیں؟ آخرکار پھر کر اسی طرف آنا پڑتا ہے. مادّی اور لوگون کو بجز سکوت (Silence)  اور حیرت (wonder) کے کوئی چرا نہیں ہوتا.

خلاصہ کلام:
یہ کہ مصنوع (product) کو دیکھ  کر صانع (manufacturer) کا تصور ایک بدیہی (intuitive) اور فطری (natural) امر ہے، منکرین خدا ذرا بتلائیں تو سہی کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی ہے کہ مکان کو دیکھے اور مکان بنانے والے کا اس کو تصور نہ ہو، کتب کو دیکھے اور کاتب کا تصور نہ ہو؟
عجیب بات ہے کہ دہریہ (atheist) تو عالم کے تغیرات (Variations) اور تنوعات (diversity) کو ایک بے شعور مادّہ (unconscious matter) کی طرف منسوب کرکے حکمت و دانائی کا مدّعی ہے اور جو شخص عالم (world) کے اس عجیب و غریب نظام کو خداۓ حکیم اور قادر و توانا کی طرف منسوب کرتا ہے اس کو ناداں بتلاتا ہے!!! جو شے سراسر عقل اور فطرت کی مخالف ہے، اس کو تو بلا دلیل منوانا چاہتا ہے اور جو شے عین عقل اور فطرت کے مطابق ہے اس کا مزاق اڑاتا ہے.
یہ (اس کی عقل کا) اندھیر نہیں ہے تو اور کیا ہے، خداوند علیم و خبیر کو چھوڑکر ایک اندھے، بہرے، گونگے، بےحس، بےشعور، بےتمیز بلکہ مردہ اور بےجان مادّہ کے ہاتھ میں نظام_عالم کے باگ دے دینا بےوقوفی اور بےتمیزی نہیں تو بتلاؤ پھر کیا ہے. جس طرح یہ بےشعور تھا اسی طرح اس کے پرستار بھی بےشعور نکلے.









زمین کی نعمتوں میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں:
وَفِى الأَرضِ قِطَعٌ مُتَجٰوِرٰتٌ وَجَنّٰتٌ مِن أَعنٰبٍ وَزَرعٌ وَنَخيلٌ صِنوانٌ وَغَيرُ صِنوانٍ يُسقىٰ بِماءٍ وٰحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعضَها عَلىٰ بَعضٍ فِى الأُكُلِ ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَعقِلونَ {13:4}
اور زمین میں کھیت ہیں مختلف ایک دوسرے (پاس پاس) سے متصل اور باغ ہیں انگور کے اور کھیتیاں ہیں اور کھجوریں ہیں ایک کی جڑ دوسری سے ملی ہوئی اور بعضی بن ملی انکو پانی بھی ایک ہی دیا جاتا ہے اور ہم ہیں کہ بڑھا دیتے ہیں ان میں ایک کو ایک سے میووں میں ان چیزوں میں نشانیاں ہیں انکو جو غور کرتے ہیں [۹]
یعنی جب مادّہ (Matter) اور طبیعت (Nature) ایک ہے تو پھر پھلوں کے مزوں میں اختلاف کیوں ہے؟
بلند آسمانوں کے مقابل پست زمین کا ذکر کیا۔ آسمان کے ساتھ چاند سورج کا بیان ہوا تھا کہ ہر ایک کی رفتار الگ ہے اور ہر ایک کا کام جداگانہ ہے ۔ ایک کی گرم و تیز شعاعیں جو کام کرتی ہیں ، دوسرے کی ٹھنڈی اور دھیمی چاندنی سے وہ بن نہیں پڑتا۔ اسی طرح یہاں زمین کے مختلف احوال اور اس سے تعلق رکھنے والی مختلف چیزوں کا ذکر فرمایا ۔ کہیں پہاڑ کھڑے ہیں کہیں دریا رواں ہیں ، جو میوے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ان میں بھی شکل ، صورت ، رنگ ، مزہ چھوٹے بڑے بلکہ نر و مادہ کا اختلاف ہے ۔ کبھی زمین دن کے اجالے سے روشن ہو جاتی ہے کبھی رات کی سیاہ نقاب منہ پر ڈال لیتی ہے۔ پھر طرفہ تماشا یہ ہے کہ چند قطعات زمین جو ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ ایک پانی سے سیراب ہوتے ہیں ، ایک سورج کی شعاعیں سب کو پہنچتی ہیں ، ایک ہی ہوا سب پر چلتی ہے۔ اس کے باوجود اس قدر مختلف پھول پھل لاتے ہیں اور باہم پیداوار کی کمی زیادتی کا اتنا فرق ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والے ان نشانیوں کو دیکھ کر سمجھ لیتےہیں کہ ایک ہی ابر رحمت کی آبیاری یا ایک ہی آفتاب ہدیات کی موجودگی میں انسانوں کے مادی و روحانی احوال کا اختلاف بھی کچھ مستبعد و مستنکر نہیں ہے اور یہ کہ لا محدود قدرت کا کوئی زبردست ہاتھ آسمان سے زمین تک تمام مخلوق کے نظام ترکیبی کو اپنے قبضہ قدرت میں لئے ہوئے ہے۔ جس نے ہر چیز کی استعداد کے موافق اس کے دائرہ عمل و اثر کی بہت مضبوط حد بندی کر رکھی ہے پھر ایسے لامتناہی قدرت و اختیار رکھنے والے خدا کو کیا مشکل ہے کہ ہم کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے اور اس عالم کے مخلوط عناصر کی کیماوی تحلیل کر کے ہر خیر و شر کو اس کے مستقر میں پہنچا دے۔

And in the earth there are tracts of land neighboring each other, and gardens of grapes, and farms and date palms, some having twin trunks and some having a single one. (Although) all of them are irrigated with the same water, We make some of them better than others in taste. Surely, in that there are signs for a people who understand.

Tafsir al-Jalalayn :
And on the earth are tracts, diverse terrains, neighbouring each other, joined side by side, some good, some briny, some of little yield and some fruitful — and these constitute proofs of His power, exalted be He — and gardens, orchards, of vines and sown fields (read zar‘un, in the nominative, as a supplement to jannātun, ‘gardens’, or read zar‘in, in the genitive, [as a supplement] to a‘nābin, ‘of vines’); similarly [constituting proofs of His power are] His words: and date-palms sharing one root (sinwān is the plural of sinw, which are date-palms belonging to the same root, but with many offshoots) and date-palms otherwise, [each] of individual root, watered (read tusqā as [referring to] jannāt, ‘gardens’, and what is in them, or read yusqā as [referring to] the mentioned [date-palms]) by the same [source of] water; and We make some of them to excel (wa-nufaddil, or read wa-yufaddil, ‘and He [God] makes [some of them] to excel’) others in flavour (read fī’l-ukul or fī’l-ukl): and so some are sweet, others, bitter — and these are [also] proofs of His power, exalted be He. Surely in that, which is mentioned, are signs for a people who understand, [who] reflect.

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(And in the Earth are neighbouring) adjacent (tracts) places: a bad, swampy land close to a good, fertile land, (vineyards and ploughed lands, and date-palms, like) which have the same roots, whether they are ten or less (and unlike) have different roots, (which are watered with one water) they are watered with the rain or water from rivers. (And We have made some of them to excel others in fruit) in bearing and taste. (Lo! Herein) in their difference and different colours (verily are portents) signs (for people who have sense) for people who believe that they are from Allah.






وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيلَ وَالنَّهارَ وَالشَّمسَ وَالقَمَرَ ۖ وَالنُّجومُ مُسَخَّرٰتٌ بِأَمرِهِ ۗ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَعقِلونَ {16:12}
اور تمہارے کام میں لگا دیا رات اور دن اور سورج اور چاند کو اور ستارے کام میں لگے ہیں اسکے حکم سے [۱۸] اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کو جو سمجھ رکھتے ہیں
رات اور دن برابر ایک دوسرے کے پیچھے لگے چلے آتے ہیں تا دنیا کا کاربار چلے اور لوگ سکون و آرام حاصل کر سکیں۔ اسی طرح چاند سورج ایک معین نظام کے ماتحت نکلتے اور چھپتے رہتے ہیں۔ رات ، دن کی آمدو شد اور شمس و قمر کے طلوع و غروب کے ساتھ انسانوں کے بے شمار فوائد وابستہ ہیں۔ بلکہ غور سے دیکھا جائے تو ان کے بدون انسان کی زندگی محال ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے اقتدار کامل سےچاند سورج اور کل ستاروں کو ادنیٰ مزدوروں کی طرح ہمارے کاموں پر لگا رکھا ہے ۔ مجال نہیں کہ ذرا سستی یا سرتابی کر سکیں۔ لیکن چونکہ رات دن اور چاند سورج سے بالکل صریح طور پر ہمارے کام متعلق ہیں اور دوسرے ستاروں سے ہمارے فوائد و مصالح کی وابستگی اس قدر واضح نہیں ہے، شاید اس لئے ان کو جدا کر کے دوسرے عنوان سے بیان فرمایا ۔ واللہ اعلم۔

He has subjugated for you the day and the night and the sun and the moon, and the stars (too) are subservient by His command. Surely, in that, there are signs for a people who understand.


Tafsir al-Jalalayn :
And He disposed for you the night and the day and the sun (wa’l-shamsa, read in the accusative as a supplement to what precedes it; or read wa’l-shamsu in the nominative as a subject [of a new sentence]) and the moon and the stars (also read both ways) are disposed (musakhkharātin, read in the accusative as a circumstantial qualifier, or in the nominative [musakhkharātun] as a predicate) by His command, by His will. Surely in that there are signs for people who understand, [a people] who reflect.

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(And He hath constrained the night and the day and the sun and the moon to be of service unto you) to be subservient to you, (and the stars are made subservient by His command) by His leave. (Lo! Herein) in the subservience of that which I have mentioned (indeed are portents) signs (for people who have sense) for people who act and believe that it is Allah Who made all these things subservient.






پھلوں کے منافع:


وَمِن ثَمَرٰتِ النَّخيلِ وَالأَعنٰبِ تَتَّخِذونَ مِنهُ سَكَرًا وَرِزقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايَةً لِقَومٍ يَعقِلونَ {16:67}
اور میووں سے کھجور کے اور انگور کے بناتے ہو اس سے نشہ اور روزی خاصی [۱۰۰] اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے واسطے جو سمجھتے ہیں (سوچتے ہیں) [۱۰۱]
یعنی جب مادّہ (Matter) اور طبیعت (Nature) ایک ہے تو پھر پھلوں کے مزوں میں اختلاف کیوں ہے؟
یعنی ان میووں سے نشہ لانے والی شراب کشید کرتے ہو۔ اور کھانے پینے کی دوسری عمدہ چیزیں مثلاً شربت ، نبیذ، سرکہ اور خشک خرما یا کشمش وغیرہ ان سے حاصل کرتے ہو۔ (تنبیہ) یہ آیت مکی ہے شراب مکہ میں حرام نہ ہوئی تھی پینے والے اس وقت تک بے تکلف پیتے تھے ۔ ہجرت کے بعد حرام ہوئی۔ پھر کسی مسلمان نے ہاتھ نہیں لگایا ۔ تاہم اس مکی آیت میں بھی "سکرًا" کے بعد { وَرِزْقًا حَسَنًا } فرما کر متنبہ فرما دیا کہ جو چیز آئندہ حرام ہونے والی ہے اس پر "رزق حسن" کا اطلاق کرنا موزوں نہیں۔
یہاں { یَعْقِلُوْنَ } کا لفظ جو عقل سے مشتق ہے "سَکَرًا" کے تذکرہ سے خاص مناسبت رکھا ہے چونکہ نشہ عقل کو زائل کر دیتا ہے اس لئے اشارہ فرما دیا کہ آیات کا سمجھنا عقل والوں کا کام ہے نشہ پینے والوں کا نہیں۔

And from the fruits of date palms and grape vines, you obtain intoxicants, and good provision. Surely, in that there is a sign for a people who understand.

Tafsir al-Jalalayn :
And of the fruits of date-palms and vines, [comes forth] a fruit, from which you draw an intoxicant, a wine that intoxicates — it [the wine] is referred to by the verbal noun [sakaran, ‘intoxicant’], and this [verse] came before it was prohibited — and goodly provision, such as dates, raisins, vinegar, and molasses. Surely in that, which is mentioned, there is a sign, indicating His power, exalted be He, for a people who understand, [a people who] reflect.

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(And of the fruits of the date-palm, and grapes, whence ye derive strong drink) intoxicants. But this is abrogated; it is also said that this means: you derive food from it (and (also) good nourishment) a lawful nourishment such as vinegar, treacle, raisin and other things. (Lo! Therein) in that which I have mentioned to you, (is indeed a portent) a sign (for people who have sense) for people who believe.




اللہ تعالٰی کی قدرت کاملہ:
وَهُوَ الَّذى يُحيۦ وَيُميتُ وَلَهُ اختِلٰفُ الَّيلِ وَالنَّهارِ ۚ أَفَلا تَعقِلونَ {23:80}
اور وہی ہے جلاتا اور مارتا اور اسی کا کام ہے بدلنا رات اور دن کا سو کیا تم کو سمجھ نہیں [۸۷]
زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ، یا اندھیرے سے اجالا اور اجالے سے اندھیرا کر دینا جس کے قبضہ میں ہے اس کی قدرت عظیمہ کے سامنے کیا مشکل ہے کہ تم کو دوبارہ زندہ کر دے اور آنکھوں کے آگے سے ظلمتِ جہل کے پردے اٹھا دے۔ جس کے بعد حقائق اشیاء ٹھیک ٹھیک منکشف ہو جائیں، جیسا کہ قیامت میں ہو گا۔{ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْد }۔

And He is the One who gives life and brings death, and it is He who controls the alternation of night and day. So, do you not understand?

Tafsir al-Jalalayn :
And He it is Who gives life, by breathing the Spirit into the embryo (mudgha), and brings death, and due to Him is the alternation of night and day, in darkness and brightness, [and through] increase and diminution. Will you not then comprehend?, His handiwork, exalted be He, and so reflect?

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(And He it is Who giveth life) upon resurrection (and causes death) in the life of this world, (and His is the difference of night and day) He changes the day and the night; He makes them come and go, increase and decrease in length; the brightness of day and darkness of night-all these are a sign that Allah will bring the dead back to life. (Have ye then no sense) do you then not believe in resurrection after death?


کفار کو حق تعالٰی کی تنبیہ:
وَمَن نُعَمِّرهُ نُنَكِّسهُ فِى الخَلقِ ۖ أَفَلا يَعقِلونَ {36:68}
اور جس کو ہم بوڑھا کریں اوندھا کریں اس کی پیدائش میں پھر کیا ان کو سمجھ نہیں [۵۶]
یعنی آنکھیں چھین لینا اور صورت بگاڑ کر اپاہج بنا دینا کچھ مستبعد مت سمجھو۔ دیکھتے نہیں؟ ایک تندرست اور مضبوط آدمی زیادہ بوڑھا ہو کر کس طرح دیکھنے، سننے اور چلنے پھرنے سے معذور کر دیا جاتا ہے۔ گویا بچپن میں جیسا کمزور و ناتواں اور دوسروں کے سہارے کا محتاج تھا بڑھاپے میں پھر اسی حالت کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے۔ تو کیا جو خدا پیرانہ سالی کی حالت میں ان کی قوتیں سلب کر لیتا ہے، جوانی میں نہیں کر سکتا؟

And whomsoever We give long life, we reverse him in creation. Then, do they have no sense?

Tafsir al-Jalalayn :
And whomever We give long life, by prolonging his term [of life], We cause him to regress (nankushu; a variant reading has [2nd verbal form] nunakkishu, derived from al-tankīs) in creation, that is, in terms of his physical form, so that after having enjoyed strength and youth, he becomes feeble and decrepit. Will they then not understand?, that One Who is able to effect such [a state] — with which they are familiar — is also able to resurrect, that they might then become believers? (a variant reading [for ya‘qilūna, ‘they understand’] has [the second person plural] ta‘qilūna, ‘you understand’).

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(He whom We bring unto old age, We reverse him in creation (making him go back to weakness after strength)) until he becomes like a little child, possessing no teeth or power, he urinates and defecates on himself like a young child. (Have ye then no sense) do you then not believe in this?



وَلَئِن سَأَلتَهُم مَن نَزَّلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَحيا بِهِ الأَرضَ مِن بَعدِ مَوتِها لَيَقولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الحَمدُ لِلَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعقِلونَ {29:63}
اور جو تو پوچھے ان سے کس نے اتارا آسمان سے پانی پھر زندہ کر دیا اس سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد تو کہیں اللہ نے تو کہہ سب خوبی اللہ کو ہے پر بہت لوگ نہیں سمجھتے [۹۹]
یعنی مینہ بھی ہر کسی پر برابر نہیں برستا۔ اور اسی طرح حال بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ذرا دیر میں مفلس سے دولتمند کر دے۔

And if you ask them as to who sends down water from the sky, then revives the land with it, they will certainly say, “Allah”. Say, “Praise is for Allah.” But most of them do not understand.

Tafsir al-Jalalayn :
And if (wa-la-in: the lām is for oaths) you were to ask them, ‘Who sends down water from the heaven, and therewith revives the earth after its death?’ They would assuredly say, ‘God’: so how can they ascribe partners to Him?! Say, to them: ‘Praise be to God!’, that the proof has been established against you. Nay, but most of them do not realise, their contradictiousness in this respect.

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(And if thou wert to ask them) i.e. the people of Mecca: (Who causeth water) the rain (to come down from the sky, and therewith reviveth the earth after its death) after its drought and dryness? (they) the disbelievers of Mecca (verily would say: Allah) causes it to come down. (Say: Praise be to Allah) thanks to Allah for it! (But most of them) all of them (have no sense) do not know and do not believe in it.


بجلی کی چمک اور بارش میں نشانیاں:
وَمِن ءايٰتِهِ يُريكُمُ البَرقَ خَوفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ ماءً فَيُحيۦ بِهِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها ۚ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايٰتٍ لِقَومٍ يَعقِلونَ {30:24}
اور اسکی نشانیوں سے ہے یہ کہ دکھلاتا ہے تمکو بجلی ڈر اور امید کے لئے [۲۳] اور اتارتا ہے آسمان سے پانی پھر زندہ کرتا ہے اس سے زمین کر مر گئے پیچھے اس میں بہت پتے ہیں ان کے لئے جو سوچتے ہیں [۲۴]
یعنی اسی سے سمجھ لو کہ مرے پیچھے تمہارا پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔
بجلی کی چمک دیکھ کر لوگ ڈرتے ہیں کہیں کسی پر گر نہ پڑے۔ یا بارش زیادہ نہ ہو جائے جس سے جان و مال تلف ہوں۔ اور امید بھی رکھتے ہیں کہ بارش ہو تو دنیا کا کام چلے۔ مسافر کبھی اندھیرے میں اس کی چمک کو غنیمت سمجھتا ہے کہ کچھ دور تک راستہ نظر آ جائے۔ اور کبھی خوف کھا کر گھبراتا ہے۔

And it is among His signs that He shows you the lightening which causes fear and hope, and that He sends down water from the sky, then He revives the earth with it after its death. Surely in this there are signs for a people who understand.

Tafsir al-Jalalayn :
And of His signs is His showing you lightning to arouse fear, in the traveller, of storms, and hope, in the one not travelling, of [the coming of the] rain; and He sends down water from the heaven and with it He revives the earth after it has died, that is, [after] it has dried out, so that it produces vegetation [once again]. Surely in that, mentioned, there are signs for people who understand, [a people who] reflect.

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(And of His signs) and of the signs of His divine Oneness and power (is this: He showeth you the lightning) in the sky (for a fear) to the traveller lest the rain comes down and soak his clothes (and for a hope) for the settler lest it waters his fields, (and sendeth down water) rain (from the sky, and thereby) and by means of the rain (quickeneth the earth after her death) after drying up and being exposed to drought. (Lo! Herein) in what I mentioned about the rain (indeed are portents) signs and lessons (for folk who understand) for people who believe that it is from Allah.

انسانی اصلیت اور تخلیق کے مراحل:
هُوَ الَّذى خَلَقَكُم مِن تُرابٍ ثُمَّ مِن نُطفَةٍ ثُمَّ مِن عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخرِجُكُم طِفلًا ثُمَّ لِتَبلُغوا أَشُدَّكُم ثُمَّ لِتَكونوا شُيوخًا ۚ وَمِنكُم مَن يُتَوَفّىٰ مِن قَبلُ ۖ وَلِتَبلُغوا أَجَلًا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُم تَعقِلونَ {40:67}
وہی ہے جس نے بنایا تم کو خاک سے [۹۰] پھر پانی کی بوند سے پھر خون جمے ہوئے سے [۹۱] پھر تم کو نکالتا ہے بچہ پھر جب تک کہ پہنچو اپنے پورے زور کو پھر جب تک کہ ہو جاؤ بوڑھے اور کوئی تم میں ایسا ہے کہ مر جاتا ہے پہلے اس سے اور جب تک کہ پہنچو لکھے وعدے کو [۹۲] اور تاکہ تم سوچو [۹۳]
یعنی بچہ سے جوان اور جوان سے بوڑھا ہوتا ہے۔ اور بعض آدمی جوانی یا بڑھاپے سے پہلے ہی گذر جاتے ہیں۔ بہرحال سب کو ایک معین میعاد اور لکھے ہوئے وعدے تک پہنچنا ہے۔ موت اور حشر سے کوئی مستثنٰی نہیں۔ ؎ ہر آنکہ زاد بنا چار بایدش نوشید، زجامِ دہر مِے کل من علیہا فان۔
یعنی تمہارے باپ آدم کو، یا تم کو، اس طرح کہ نطفہ جس غذا کا خلاصہ ہے وہ خاک سے ہی پیدا ہوتی ہے۔
حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "یعنی سوچو اتنے احوال (اور دور) تم پر گذرے ۔ ممکن ہے ایک حال اور بھی گذرے۔ وہ مر کر جینا ہے"۔ آخر اسے کیوں محال سمجھتے ہو۔
یعنی بنی آدم کی اصل ایک پانی کی بوند (قطرہ منی) ہے جو آگے چل کر جما ہوا خون بنا دیا گیا۔

He is the One who created you from dust, then from a drop of semen, then from a clot. After that, He takes you out as an infant. Then, (He makes you grow) so that you reach your full maturity, and, thereafter, become old - and some of you die earlier - and so that you reach the appointed term, and so that you understand.

Tafsir al-Jalalayn :
He it is Who created you from dust, by having created your father Adam from it, then from a drop [of sperm], then from a blood-clot, congealed blood, then He brings you forth as infants, then, He sustains you, that you may come of age, [until you have attained] your full strength — [this being] from the age of thirty to forty — then that you may become aged (read shuyūkhan or shiyūkhan)— though there are some of you who die earlier, that is, before coming of age or becoming aged. He does this to you so that you may live [on], and that you may complete an appointed term, a defined length of time, that perhaps you might understand, the proofs of [His] Oneness and thus become believers.

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(He it is Who created you from dust) He created you from Adam and Adam is from dust, (then from a drop (of seed)) then He created you from the sperm drops of your fathers (then from a clot) then from a clot of blood, (then brings you forth) from your mothers' wombs (as a child) as a young child, (then (ordaineth) that ye attain full strength) 18 to 30 years old (and afterward that ye become old men) after having attained your full strength (though some among you die before) before the age of puberty or before reaching old age (and that ye reach an appointed term) the end of your lifespan, (that haply ye may understand) that haply you may believe in resurrection after death.


زمین و آسمان میں مومنین کیلئے کافی نشانیاں:
وَاختِلٰفِ الَّيلِ وَالنَّهارِ وَما أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّماءِ مِن رِزقٍ فَأَحيا بِهِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها وَتَصريفِ الرِّيٰحِ ءايٰتٌ لِقَومٍ يَعقِلونَ {45:5}
اور بدلنے میں رات دن کے اور وہ جو اتاری اللہ نے آسمان سے روزی [۳] پھر زندہ کر دیا اس سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد اور بدلنے میں ہواؤں کے نشانیان ہیں ان لوگوں کے واسطے جو سمجھ سےکام لیتے ہیں [۴]
یعنی پانی آسمان کی طرف سے اتارا جو مادہ ہے روزی کا۔
یعنی ذرا بھی سمجھ سے کام لیں تو معلوم ہو جائے کہ یہ امور بجز اس زبردست قادر و حکیم کے اور کسی کے بس میں نہیں۔ جیساکہ پہلے متعدد مواضع میں اس کی تقریر گزر چکی۔

And in the alternation of the day and the night, and in the provision He has sent down from the sky, then has revived the earth after its death, and in changing of the winds, there are signs for a people who understand.

Tafsir al-Jalalayn :
and, in, the alternation of night and day, their passing and their arrival, and what God sends down from the heaven [in the way] of provision, rain, for it constitutes a means of provision, with which He revives the earth after it is dead, and the circulation of the winds, its alternation between southerly and northerly, hot and cold, there are signs for a people who understand, proofs and therefore have faith.

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(And the difference of night and day) and in the alternation of night and day, the increase and decrease of their duration, their coming and going, are a sign and lesson for you, (and the provision that Allah sendeth down from the sky) of rain (and thereby) by means of the rain (quickeneth the earth after her death) after her dryness and exposure to drought are also lessons and signs for you, (and the ordering of the winds) right and left, north and south, as a punishment and as mercy, (are portents) signs and lessons (for a people who have sense) for people who believe they are from Allah.


عبرت کے اسباق:
أَفَلَم يَسيروا فِى الأَرضِ فَتَكونَ لَهُم قُلوبٌ يَعقِلونَ بِها أَو ءاذانٌ يَسمَعونَ بِها ۖ فَإِنَّها لا تَعمَى الأَبصٰرُ وَلٰكِن تَعمَى القُلوبُ الَّتى فِى الصُّدورِ {22:46}
کیا سیر نہیں کی ملک کی جو اُنکے دل ہوتے جن سے سمجھتے یا کان ہوتے جن سے سنتے [۷۹] سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں پر اندھے ہو جاتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں [۸۰]
یعنی ان تباہ شدہ مقامات کے کھنڈر دیکھ کر غور و فکر نہ کیا، ورنہ ان کو سچی بات کی سمجھ آ جاتی اور کان کھل جاتے۔
یعنی آنکھوں سے دیکھ کر اگر دل سے غور نہ کیا تو وہ نہ دیکھنے کے برابر ہے۔گو اس کی ظاہری آنکھیں کھلی ہوں پر دل کی آنکھیں اندھی ہیں اور حقیقت میں زیادہ خطرناک اندھا پن وہ ہی ہے جس میں دل اندھے ہو جائیں۔ (العیاذ باللہ)



Have they not, then, traveled on earth so that they should have had hearts to understand with, or ears to listen with? The fact is that it is not the eyes that turn blind, but what turns blind is the hearts contained in the chests.

Tafsir al-Jalalayn :
Have they, namely, the disbelievers of Mecca, not travelled in the land so that they may have hearts with which to comprehend, what befell deniers before them, or ears with which to hear?, the stories of how they were destroyed and their dwelling-places were ruined, and so take heed? Indeed it is not the eyes that turn blind, but it is the hearts that turn blind within the breasts (allatī fī’l-sudūr, for emphasis).

Tanwîr al-Miqbâs min Tafsîr Ibn ‘Abbâs :
(Have they not travelled in the land) have the people of Mecca not travelled for their trade, (and have they hearts wherewith to feel) fear and that which was done to others upon beholding and reflecting (and ears wherewith to hear) the Truth and threats? (For indeed it) seeing without reflection; it is also said that " it " here refers to the expression of idolatry (is not the eyes that grow blind) such that it ceases to see physical objects, (but it is the hearts which are within the bosoms, that grow blind) from the Truth and guidance.


وجود باری تعالی یعنی ہستی صانع عالم کے دلائل عقلیہ سے ثبوت
پہلی دلیل --- دلیل صنعت
تمام عقلاء اس بات پر متفق ہیں کے صنعت سے صانع(بنانے والا) کی خبر ملتی ہے مصنوع (جس کو بنایا گیا)اور صنعت (factory)کو دیکھ کر عقل مجبور ہوتی ہے کے صانع کا اقرار کرے اور دہریئے(atheist) اور لا مذہب لوگ بھی اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کے فعل کے لئے فاعل  کا ہونا ضروری ہے . پس جبکہ ایک بلند عمارت اور ایک بڑا قلعہ اور اونچے مینار کو اور ایک دریا کے پل کو دیکھ کر عقل یہ یقین کر لیتی ہے کہ اس عمارت کا بنانے والا کوئی ضرور ہے اور اس منار اور پل کا  بنانے والا کوئی بڑا ہی ماہر انجینیر ہے تو کیا آسمان اور زمین کی اعلیٰ ترین عمارت اور اسکی عجیب و غریب صنعت اور اسکی باقائدگی اور حسن ترتیب کو دیکھ کر ایک اعلیٰ ترین صانع کا کیوں اقرار نہیں کیا جاتا.
          ایک تخت کو  دیکھتے ہی یہ یقین آجاتا ہے کہ کسی کاریگر نے اس ہئیت اور وضع سے اس کو بنایا ہے کیونکہ تخت کا خود بخود تیّار ہوجانا اور خاص ترتیب کے ساتھ لوہے کی کیلوں کا اس میں جڑ جانا محال ہے کسی درخت کے تختوں اور لوہے کی کیلوں میں یہ قدرت نہیں کہ اس ترتیب سے خود بخود جڑ جائیں.
          ایک دہریہ (Atheist) اور سائنسدان ایک معمولی گھڑی اور گھنٹہ کو دیکھ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ کسی بڑے ہی ماہر کی ایجاد ہے کے جو قوائد ہندسہ(digits) اور کل سازی کے اصول سے پورا واقف ہے اور یہ یقین کر لیتا ہے کے ضرور بالضرور اس گھڑی کا کوئی بنانے والا ہے کہ جس نے عجیب انداز سے اسکے پرزوں کو مراتب کیا ہے اور جس کے ذریعہ اوقات کا بخوبی پتہ چلتا ہے حالانکہ وہ یہ امر بخوبی جانتا ہے کہ دنیا کی گھڑیاں اور گھنٹے وقت بتلانے میں بسا اوقات غلطی کرتے ہیں مگر چاند سورج جو کبھی طلوع اور غروب میں غلطی نہیں کرتے اور جنکے ذریعہ سارے عالم کا نظام حیات اور نظام اوقات چل رہا ہے ،یہ دہریہ (Atheist) چاند اور سورج کے صانع کا اقرار نہیں کرتا اگر اس موقعہ پر کوئی یہ کہنے لگے کہ اس گھڑی کو ایک ایسے شخص نے بنایا ہے جو اندھا اور بھرا اور گونگا ہے اور ناسمجھ اور بے خبر اور علم ہندسہ سے بے بہرہ اور کل سازی کے اصول سے ناواقف ہے تو کیا یہی فلسفی اور سائنسدان اس کہنے والے  کو پرلے درجہ کا احمق نہ بتلائےگا ؟ غرض یہ کہ جہاں صنعت اور کاریگری پائی جائیگی صانع کا تصور اور اقرار ضرور کرنا پڑےگا.
بلکہ
صنعت کو دیکھ کر صرف صانع کا یقین ہی نہیں ہوتا بلکہ اجمالی طور پر صانع کا مرتبہ بھی معلوم ہو جاتا ہے پس کیا آسمان و زمین کی اعلی ترین صنعت کو دیکھ کر ہم کو یہ یقین نہیں ہوگا کہ اس کا صانع بھی بڑا ہی اعلی اور ارفع اور اعظم اور اجل اور عقل سے بالا اور برتر ہے کہ جس کے صنائع اور بدائع کے سمجھنے سے عقلاء عالم کی عقلیں قاصر اور عاجز ہیں.
یہ منکرین خدا جب بازار میں بوٹ جوتا خریدنے جاتے ہیں تو دکاندار سے پوچھتے ہیں کے یہ بوٹ کس کارخانہ کا بنا ہے تو وہ اگر جواب میں یہ کہے کہ یہ بوٹ کسی کارخانہ میں نہیں بنا ہے بلکہ یہ بوٹ خود مادہ اور ایتھر کی حرکت سے آپ کے پیر کے مطابق تیار ہوگیا ہے اور خود بخود حرکت کرکے میری اس دکان پر آگیا ہے تو منکر خدا صاحب دکاندارکے اس جواب کے متعلق کیا کہیں گے، غور کرلیں اور بتلائیں کہ کیا سمجھ میں آیا اور اپنے اوپر منطبق کریں.
اثبات صانع  کی دوسری دلیل--- وجود بعد العدم
ہر ذی عقل کو یہ بات معلوم ہے کہ میں ایک وقت میں معدوم(نا پید،فنا کیا گیا ) تھا اور ایک طویل وعریض عدم(نیستی۔نہ ہونا۔ناپیدی) کے بعد موجود ہوا ہوں اور جو چیز عدم کے بعد وجود میں آئے اس کے واسطے کوئی پیدا کرنے والا اور اس کو عدم سے وجود میں لانے والا چاہئے اور یہ  بھی معلوم ہے کہ میرا خالق نہ میرا نفس ہے اور نہ میرے ماں باپ اور نہ میرے جنس اس لئے کہ وہ سب میری طرح عاجز ہیں کسی میں ایک ناخن اور بال پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں اور نہ آسمان اور زمین اور نہ یہ عناصر اور نہ کواکب اور نہ یہ فصول میرے خالق ہیں اس لئے کہ یہ چیزیں بے شعور اور بے ادراک (بے عقل) ہیں اور ہر وقت متغیر (بدلتی) اور متبدل ہوتی رہتی ہیں ان میں یہ صلاحیت کہاں کہ ایک ذی علم اور ذی فہم انسان کو پیدا کرسکیں پس معلوم ہوا کہ میرا  خالق کوئی ایسی چیز ہے کہ جو لاچارگی اور حدوث اور تغیر و تبدل اور عیب اور نقسان سے پاک ہے وہی ہمارا خدا اور معبود ہے۔

اثبات صانع کی تیسری دلیل---- تغیراتِ عَالَم
موجودات عالم پر ایک نظر ڈالیے ہر ایک چھوٹی اور بڑی چیز حیوانات یا نباتات یا جمادات مفردات یا مرکبات جس پر نظر ڈالیے ہر لمحہ اس میں تغیر و تبدل ہے اور کون و فساد اور موت و حیات کا ایک عظیم  انقلاب برپا ہے جو بآواز بلند پکار رہا ہے کہ یہ تمام متغیر ہونے والی (بدلنے والی) چیزیں حادث ہیں اپنی ذات سے کوئی بھی قدیم نہیں۔ کسی عظیم ترین ہستی کے زیر ِفرمان ہیں کہ وہ جس طرح چاہتا ہے ان کہ پلٹییں دیتا رہتا ہے اور طرح طرح سے ان کہونچاتا رہتا ہے اور زیر و  زبر کرتا ہے پس جس ذات بابرکت کے ہاتھ میں ان تغیرات اور انقلابات کی باگ ہے وہی ان سب کا خالق و موجد ہے۔
          منکیرین  ِ خدا یہ کہتے ہیں کہ عالم کے یہ تغیرات اور تبدلات محض قانون طبعی اور قانون فطری کے تحت چل رہے ہیں ،اہل اسلام یہ کہتے ہیں کہ قانون طبعی اور قانون فطری  صرف ایک آلہ ہے جو کسی با اختیار کاریگر کا محتاج ہے اس کاریگر کو ہم خدا کہتے ہیں جو اس آلہ کا محرک ہے اور وہی اس آلہ کا خالق بھی ہے وہی اپنے اختیار سے اس عجیب و غریب نظام کو چلا رہا ہے محض آلہ کو کاریگر سمجھ لینا اور یہ گمان کرلیتا کہ اس آلہ اور بسولہ(لکڑی چھیلنے کا آلہ)  ہی نے تخت اور الماریاں تیار کردی ہیں یہ ایک خیال خام ہے اور جو شخص یہ گمان کرے کہ بغیر کاریگر کے محض آلہ کی فطری اور طبعی حرکت سے یہ الماری تیار ہوگئی ہے تو وہ بلا شبہ دیوانہ ہے۔
اثبات صانع کی چوتھی دلیل-امکانِ اشیاء
واجب الوجود کی ہستی کی ایک دلیل  یہ ہے کہ عالم میں جس قدر اشیاء موجود ہیں وہ سب کی ممکنات ہیں یعنی ان کا ہونا اور نہ ہونا وجود اور عدم  ہستی اور نیستی دونوں برابر کے درجہ میں ہیں نہ انکا وجود ضروری ہے اور نہ ان کا عدم ضروری ہے اور جو چیز بذاتہ (خود سے)ممکن الوجود ہو یعنی اپنی ذات کے اعتبار سے اسکی ہستی اور نیستی برابر ہو اس کے وجود اور ہستی کے لئے عقلاً کسی مرجح (افضل) اور موجد(بانی)  کا وجود ضروری ہے کیوں کہ کوئی چیز خود بخود یا محض اتفاق وقت سے بلا سبب عدم سے نکل کر وجود میں نہیں آسکتی جب تک اس کے وجود کے لئے کوئی سبب اور موجد نہ ہو کہ جو اس کو ترجیح دیکر اس کو عدم سے نکال کر وجود میں لائے ورنہ ترجیح بلا مرجح   لازم آئے گی جو بالبداہت محال ہے اور ہر ذی ہوش کے نزدیک ظاہر البطلان ہے  کیوں کہ ممکن اپنی ذات اور ماہیت (کیفیت)کے لحاظ سے نہ موجود ہے اور نہ معدوم ۔ وجود اور عدم دونوں اس کے حق میں یکساں ہیں پس ضرورت اس کی ہے کہ کوئی ذات ایسی ہو کہ جو اس کو عدم ازلی (ہمیشہ کی نیستی/نہ ہونے)کے پنجرے سے نکال کر وجود کے دلفریب میدان میں لے آئے پس جس ذات نے اس عالم امکانی کو عدم سے نکال کر وجود کا خلعت(پوشاک) پہنایا اور اس کے وجود کو اس کے عدم پر ترجیح دی وہی ذات واجب الوجود ہے جس کو اہل اسلام خدا کی ہستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ؂
یہ بارونق جو ہے ہستی کا گلزار :: عدم سے کر دیا اس نے نمودار
        اور واجب الوجود وہ ہے کہ جس کا وجود ضروری ہو اور ممکنات کے قبیل سے نہ ہو ورنہ ، خفتہ را خفتہ کے کند بیدار(خفتہ – سویا ہوا، کند – سست کاہل) کی مثل صادق ہوگی کیوں کہ اگر وہ خود ممکن ہوگا تو اس کا وجود اور عدم اس کے حق میں یکساں ہوگا تو وہ دوسری چیز کے لئے وہ کیوں کر علت اور مرجح (افضل)  بن سکے گا۔ پس جو واجب الوجود اور خود بخود موجود ہو اور دوسرے کے لئے واجب الوجود ہو اسی کو ہم خدا کہتے ہیں۔ خدا کو خدا اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خود بخود ہے۔
اثبات صانع کی پانچویں دلیل ---- فناء و زوال
          عالم کی جس چیز کو بھی دیکھو تو اس کا وجود پائدار نہیں ،ایک زمانہ تھا کو وہ پردہ عدم میں مستور تھی اور پھر اسی طرح ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جس میں اس کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔؂
رہیں گے پھول نہ پھولوں میں رنگ و بو باقی :: رہے گا اے میرے معبود ایک تو ہی باقی
یہ موت اور حیات کی کشمکش اور وجود و عدم کی آمد و رفت بآواز بلند یہ پکار رہی ہے کہ ہمارا یہ وجود ہمارا خانہ زاد اور خود ساختہ نہیں بلکہ مستعار اور کسی دوسرے کی عطا ہے جیسے زمیں پر دھوپ اور روشنی کی آمد و رفت اس امر کی دلیل ہے کہ یہ روشنی زمین کی ذاتی نہیں بلکہ عطیئہ آفتاب ہے کہ حرکت طلوعی میں آفتاب اس کو عطا کرتا ہے اور حرکت غروبی میں اس کو واپس لےلیتا ہے اسی طرح ممکنات اور کائنات کا وجود اور عدم جس ذات کے ہاتھ میں ہے وہی واجب الوجود ہے جس کا وجود ذاتی ہے اسی کو ہم مسلمان اللہ اور خدا کہتے ہیں۔
اثبات صانع کی چھٹی دلیل ----  اختلاف صفات  و کیفیات
زمین سے لے کر آسمان تک عالم کے تمام اجسام جسمیت کے لحاظ سے برابر ہیں اور جب چیزیں حقیقت اور ماہیت سے برابر ہوں تو جو کچھ ایک چیز کے لئے روا ہے وہی دوسرے کے لئے بھی روا ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے معلوم ہوا  کہ آسمان جو بلند ہے اس کا نشیب اور پستی میں ہونا بھی روا ہے اور زمین جو پستی میں ہے اس کا بلندی میں ہونا بھی روا ہے اور آگ جو گرم اور خشک ہے اس کا سرد اور تر ہونا بھی روا ہے اور پانی جو سرد اور تر ہے اس کا گرم اور خشک ہونا بھی  روا ہے پس جب اجسام میں تمام صفات اور کیفیات جائز اور روا ہیں تو پھر ہر جسم کے لئے ایک خاص معیّن کیفیت اور معیّن شکل اور معیّن احاطہ اور معیّن مقدار کے لئے کوئی مؤثر مدبّر اور مقدّر مقتدر چاہئے کہ جس نے ان تمام جائز اور ممکن صفات اور کیفیات میں سے ہر جسم کو ایک خاص صفت اور خاص کمیّت اور خاص کیفیت اور خاص ہئیت کے ساتھ معیّن اور مخصوص کیا ،کیوں کہ ہر جائز اور ممکن کے لئے کسی مرجح (افضل)  کا ہونا ضروری ہے کہ جو کسی ایک جانب کو ترجیح دے ورنہ ترجیح بلا مرجح   لازم آئیگی پس وہی مؤثر مدبر اور مقدّر مقتدر اس عالم کا رب ہے۔
اثبات صانع کی  ساتویں دلیل ---- دلیل حرکت
علامہ  احمد بن مسکویہ الفوز الاصغر میں فرماتے ہیں کہ عالم کی جس چیز پر بھی نظر ڈالو وہ حرکا سے خالی نہیں اور حرکت کی چھ قسمیں ہیں
(۱)حرکتِ کَون
(۲)حرکت فساد
(۳)حرکتِ نمو
(۴)حرکت ذبول
(۵)حرکت استحالہ
(۶)حرکت نقل۔
اس لیے حرکت ایک قسم کے تبدل یا نقل کو کہتے ہیں اگر ایک شئی عدم سے وجود کی طرف حرکت کرے تو یہ حرکت کَون ہے اور اگر خرابی کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت فساد ہے اور اگر ایک کیفیت اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت استحالہ ہے اور اگر کمی سے زیادتی کی طرف ہو جیسے بچّہ کا بڑا ہوجانا اور پودہ کا درخت ہو جانا تو یہ حرکت نمو ہے اور افر زیادتی سے کمی کی طرف حرکت ہو جیسے کسی موٹے آدمی کا دبلا ہو جانا تو یہ حرکت ذبول ہے اور اگر ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف حرکت ہو تو یہ حرکت نقل ہے اس کی دو قسمیں ہیں مستقیمہ اور مستدیرہ غرض یہ کہ عالم کے تمام عناصر اور جمادات اور نباتات اور حیوانات سب کے سب حرکت میں ہیں اور ان میں کسی شئی کی حرکت اس کی ذاتی نہیں اور کوئی چیز اپنی ذات سے متحرک نہیں اور عقلاً ہر متحرک کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس کے علاوہ اس کے لئے کوئی محرِّک ہو پس ضروری ہے کہ تمام اشیاء عالم کا بھی کوئی محرک ہو جس کی وجہ سے تمام اشیاء عالم حرکت میں آرہی ہیں پس وہ ذات جس پر کائینات عالم کی حرکت کا سلسلہ ختم ہوتا ہے وہی خدا ہے جو اس سارے عالم کو چلا رہا ہے اور طرح طرح حرکت دے رہا ہے جن کے انواع و اقسام کے ادراک سے عقلاء عالم کی عقلیں قاصر اور عاجز اور درماندہ ہیں۔
اثبات صانع کی آتھویں دلیل--- حسن ترتیب
امام رازی فرماتے ہیں کہ ہستی صانع کی ایک دلیل یہ ہے کہ آسمان اور ستارے اور نباتات اور جمادات اور حیوانات کی ترتیب ہم اس طرح پر پاتے ہیں کہ حکمت کی نشانیاں اس میں ظاہر ہیں اور جس قدر زیادہ غور و فکر کرتے ہیں اسی قدر یہ نشانیاں زیادہ معلوم ہوتی ہیں جیسا کہ ہم  آئیندہ فصلوں (پوسٹس) میں اس کی شرح اور تفصیل کرینگے اور بداہت عقل سے یہ جانتے ہیں کہ ایسی عجیب و غریب نشانیوں کا ظہور محض اتفاقی طور پر محال ہے اس لئے ضروری ہوا کہ ایسے کامل اور قادر حکیم کے وجود کا اقرار کیا جائے جسے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ان عجیب و غریب چیزوں کو عالم علوی اور سفلی میں ظاہر کیا ہے۔
قدرت کا نظام ہے بتاتا   ::   تو صانع و منتظم ہے سب کا
اثبات صانع کی نویں دلیل--- عاجزی اور درماندگی
ہر ذی ہوش اس امر کو بداہت عقل سے جانتا ہے کہ انسان جب کسی بلا اور مصیبت  میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اسباب اور وسائل اسکو جواب دے دیتے ہیں تو اس وقت اس کا دل بے اختیار عاجزی اور زاری کرنے لگتا ہے اور کسی زبردست قدرت والی ہستی سے مدد مانگتا ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہر شخص فطری طور پر ہی جانتا ہے کہ کہئی دافع البلیات اور مجیب الداعوات اور حافظ و ناصر اور دستگیر ضرور ہے جس کو انسان بیچارگی کی حالت میں بے اختیار اپنی دستگیری کے لئے پکارتا ہے اور اس کے روبرو گریہ و زاری کرتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ وہ دستگیر میری مصیبت کو ٹال دے گا پس وہی دستگیر ہمارے نزدیک خدا ہے جو سارے عالم کی سنتا ہے اور دستگیری کرتا ہے ؂
جب لیتے ہیں گھیر تیری قدرت کے ظہور
منکر بھی پکار اٹھتے ہیں تجھکو ضرور
اثبات صانع کی دسویں دلیل--- ذلّت و خواری ِ اشیاء
اس کارخانۂ عالم کی جس چیز پر بھی نظر ڈالیے تو ذلّت و خواری اوراحتیاج ہی ٹپکتی ہوئی نظر آئےگی جس سے بالبداہت یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ محض بخت و اتفاق سے پیدا نہیں ہوا بلکہ کسی بڑے عزت و حکمت والے کے سامنے ذلیل و خوار اور اس کے حکم کا فرمانبردار ہے۔
آسمان، چھاند، سورج ستاروں کو دیکھے کہ ایک حال پر قرار نہیں کبھی عروج اور کبھی نزول کبھی طلوع اور کبھی غروب کبھی نور اور کبھی گہن ہے ۔ آگ کو دیکھئے کہ تھامے نہیں تھمتی ،ہوا کا حال یہ ہے کہ کبھی حرکت اور کبھی سکون اور حرکت بھی ہے تو کبھی شمال اور کبھی جنوب کی جانب اور کبھی مشرق اور کبھی مغرب کی جانب ہے۔ غرض یہ کہ ہوا ماری ماری پھرتی ہے اور پانی کا کرہ ہوا کے جھونکوں سے کہیں کا کہیں نکلا چلا جاتا ہے زمین کو دیکھے کہ اس کی پستی اور لاچاری اس درجہ میں ہے کہ مخلوق اس کہ جس طرح چاہتی ہے پامال کرتی ہے کوئی بول و براز سے اسے آلودہ کر رہا ہے اوع کوئی لید اور گوبر سے اس کو گندہ کر رہا ہے  کوئی اس پر دوڑ رہا ہے اور کوئی اسے کھود رہا ہے مگر زمیں سر نہیں ہلا سکتی، حیوانات کو دیکھئے  کہ وہ کس طتح لاچار ہیں کوئی ان پر سوار ہو رہا ہے اور کوئی ان پر بوجھ لاد رہا ہے اورکوئی ان کو ذبح کر رہا ہے اور تمام مخلوقات میں سب سے افضل یہ نوع انسانی ہے وہ ذلت اور احتیاج میں تمام مخلوقات سے بڑھا ہوا ہے۔ بھوک اور پیاس اور بول و براز صحت و  مرض ، گرمی و سردی اور قسم قسم کی ضرورتوں اور خواہشوں نے اس کو نچا رکھا ہے حیوانات تو فقط کھانے اور پینے ہی میں محتاج ہیں اور حضرت انسان کے پیچھے تو حاجتوں کا ایک لشکر لگا ہوا ہے انسان کو کبڑا بھی چاہئے مکان بھی چاہئے گھوڑا گاڑی بھی چاہئے ، عزت اور منصب اور جاگیر بھی چاہئے بیاہ شادی بھی چاہئے بیماری کی حالت میں طبیب اور ڈاکڑ بھی چاہئے بغیر ان کے زندگی دوبھر ہے اور حیوانات کو ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ حیوان کو نہ لباس کی ضرورت ہے اور نہ بیماری میں لسہ ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ حیوان بغیر کسی میڈیکل کالج میں تعلیم پائے خود بخود اپنی بیماری کے مناسب جڑی بوٹیوں کو کھا کر شفایاب ہوجاتا ہے پس جب انسان کہ جو باتفاق اہل عقل اشرف المخلوقات ہے اس قدر ذلیل اور حاجت مند اور محکوم ٹھرا کہ ہر طرگ سے حاجتیں اور ضرورتیں اس کی گردن پکڑے ہوئے ہیں اور باقی عالم کی ذلت و خواری کا حال آسمان سے لیکر زمین تک محمل طور پر معلوم ہی ہوچکا تو پھر کیوں  کر عقل باور کرسکتی ہے کہ یہ سارا کارخانہ خود بخود چل رہا ہے کائینات عالم کی اس ذلت و خواری اور مجبوریو لاچاری کو دیکھ کر بے اختیار دل میں آتا ہے کہ ان کے سر پر کوئی ایسا زبردست حاکم ہے جو ان سے ہر دم مثل قیدیوں کے بیگاریں لیتا ہے تاکہ یہ مغرور نہ ہوجائیں اور کسی کو ان کی بے نیازی کا گمان نہ ہو بیشک یہ قید میں رکھنے والی زبردست اور غالب ہستی واجب الوجوب اور الہ العالمین کی ہے۔
ایں جہاں آئینہ دارروئے تو :: ذرہ ذرہ رہ نماید سوئے تو

مادہ پرست بتلائیں کہ ہماری یہ بے شمار قسم قسم کی ضرورتیں اور حاجتیں کون پوری کر رہا ہے آیا مادہ اور اس کی حرکت سے پوری ہو رہی ہیں یا کسی خداوند کریم سے پوری ہو رہی ہیں



      وجود باری عز اسمہ
ابتداۓ آفرینش سے لے کر اس وقت تک عالم کے کسی خطے پر کوئی لحظہ اور لمحہ ایسا نہیں گزرا کے وہاں کے جن و انس اپنے پروردگار کو نہ جانتے ہوں اور اپنے لئے کسی خالق کا اقرار اور اعتراف نہ کرتے ہوں ہر زمانہ میں لاکھوں انسان ایسے گزرے ہیں اور اب بھی ہیں کہ جنہوں نے علم کا نام و نشان بھی نہیں سنا مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہمارا ایک خالق اور پروردگار ہے اور جب دنیا کے اسباب و وسائل سے مجبور اور مضطر ہو جاتے ہیں اس وقت خدا کو پکارتے ہیں. الله تعالى انکی مضطربانہ دوا کو سنتا ہے بڑے سے بڑا حادثہ دفعتا دور ہوجاتا ہے اور تمام مادی اور ظاہری اسباب و وسائل کا یک لخت خاتمہ ہوجاتا ہے. اور یک یک نہ امیدی کے بعد امید اور آرزو نظروں کے سامنے آجاتی ہے.
جیسا کہ الله تعالى نے فرمایا
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ
(القرآن ٢٧/٦٢)
ترجمہ :"کون ہے کہ جو مضطر کی دعا کو قبول کرتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کرتا ہے."
اور اسی وجیہ سے کہ حق تعالى شانہ کی معرفت فطری ہے جو لوگوں کی فطرت اور جبلت مے مرکوز ہے. حق جل و علا ارشاد فرماتے ہیں
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
(القرآن ٣٠/٣٠)
ترجمہ:"اپنے چہرے کو الله کی عبادت کے لئے سیدھا کر ایک طرف ہوکر اور الله کی اس فطرت کو لازم پکڑ جس پر الله نے لوگوں کو پیدا کیا ہے الله کی بنائی ہوئی چیز میں تبدیلی ممکن نہیں یہی دین جو فطرت کے مطابق ہے ٹھیک دین ہے."
الغرض وجود باری عز شانہ کا اقرار بدیہی اور فطری امر ہے اور تمام بنی نوع انسان کا اجماعی مسلک ہے اسی وجیہ سے حضرات انبیاء علیھم السلام جا نصب العین ہمیشہ توحید کی دعوت رہی اور جن کو سرے ہی سے اپنے خالق میں شک پیش آیا. ان سے نہایت تعجب سے یہ خطب فرمایا.

قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
(القرآن ١٤/١٠)
ترجمہ: " ان کے رسولوں نے کہا کہ کیا تم کو الله کے بارے میں بھی کسی قسم کا کوئی شک و شبہ ہے کہ جو آسمانوں اور زمینوں کا بنانے والا ہے."
        حق تو یہ ہے کہ حق تعالى شانہ کا وجود آفتاب اور مہتاب سے بڑھ کر بدیہی ہے اور روشن ہے کسی دلیل اور برہان کا موہتاج نہیں بلکہ اسی کا وجود کائنات کے لئے دلیل اور برہان ہے لیکن مزید اطمینان کے لئے دلائل بھی ذکر کیے دیتے ہیں. وہ ھوا هذا
        کون شخص ہے کہ یہ نہ جانتا ہو کہ ایک زمانہ وہ تھا کے ہم پردۂ عدم میں مستور تھے اور عن قریب پھر ایک ایسا ہی زمانہ آنے والا ہے کہ اسی پردۂ عدم میں جا چھپیں گے۔ ہمارا وجود دو عدموں میں اس طرح گھرا ہوا ہے جس طرح نور زمین شب آئندہ کی دو ظلمتوں میں محصور ہے زمین پر نور کی آمد و رفت با آواز بلند کہ رہی ہے کہ یہ نور زمین کا ذاتی نہیں مستعار اور عطاء غیر ہے اگر یہ نور زمین کا ذاتی ہوتا تو کبھی زائل نہ ہوتا. پس اسی طرح موت و حیات کی کشمکش اور وجود کی آمد و رفت اس امر کی واضح دلیل ہے کہ کائنات کا وجود ذاتی نہیں ورنہ عدم اور زوال کو کبھی قبول نہیں کرتا. بلکہ جس طرح زمین کی روشنی آفتاب کا فیض ہے اور پانی کی گرمی آگ کا فیض ہے. اسی طرح ہمارا وجود بھی کسی ایسی ذات کا فیض اور عطیہ ہوگا کہ جس کا وجود اصلی اور خانہ زاد ہو اور وجود اس ذات کے لئے اس طرح لازم ہو جیسے آفتاب کے لئے نور اور آگ کے لئے حرارت اور چار کے لئے زوجیت اور تین کے لئے فردیت لازم ہے. یہ ناممکن ہے کہ آفتاب ہو اور نور نہ ہو، آگ ہو اور حرارت نہ ہو ، چار اور پانچ ہوں اور زوجیت اور فردیت نہ ہو. اسی موجود اصلی کو اہل اسلام الله تعالى اور واجب الوجود کہتے ہیں اس آیت میں اسی دلیل کی طرف اشارہ ہے.
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
(القرآن ٢/٢٨)
ترجمہ: " تم الله کا کیسے انکار کرتے ہو حالانکہ تم پہلے موجود نہ تھے پس خدا نے تم کو حیات عطا کی اور پھر تم کو فنا کردےگا."
        حکیم فرفوریوس کا مقولہ ہے کہ :
        "جو امور بداحت عقل سے ثابت ہیں منجملہ انکے ایک مسئلہ ثبوت صانع کا بھی ہے جتنے حق پسند حکماء گزرے ہیں وہ اس مسئلہ کی بداحت کے قائل ہیں اور جو لوگ ثبوت صانع  کی بداحت کے قائل نہیں وہ قبل ذکر نہیں اور نہ زمرہ حکماء مے شمار کیے جانے کے مستحق ہیں."
        علامہ احمد بن مسکویہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ:
                " حکماء مے سے کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ اس نے ثبوت صانع کا انکار کیا ہو اور نہ کسی نے اسکا انکار کیا کہ جو صفات کمال انسان اور بشر مے بقدر طاقت بشری پائی جاتی ہیں جیسے جود و کرم ، قدرت و حکمت وہ باری تعالى میں علی وجہ ال کمال پائی جاتی ہیں."
        میں کہتا ہوں کہ آج تک کسی عاقل اور سمجھدار نے وجود صانع (بنانے والے) کا انکار نہیں کیا اور جب کبھی کسی نادان نے وجود صانع کا انکار کیا تو عقلاء(عقلمدنوں) نے اس کو مہمل اور ساقط الاعتبار گردآنا، جو شخص عقلاء عالم کے متفقہ فیصلہ کا انکار کرے اسکو سن لینا چاہئے کہ وہ عقل سے بے بہرہ ہے.
        علامہ احمد بن مسکویہ رحمہ الله نے الفوز الاصغر میں وجود صانع پر ٢ دلیلیں ذکر فرمائی ہیں:
اول: یہ کہ ہر جسم طبعی کے لئے حرکت ضروری ہے کوئی جسم طبعی ایسا نہیں کہ جو متحرک نہ ہو اور ہر متحرک(حرکت کرنے والا) کے لئے ایک محرک (حرکت دینے والا) کا ہونا ضروری اور لازمی ہے کہ جس پر تمام حرکات کا سلسلہ ختم ہوتا ہو ، وہی متحرک اول ان تمام اجسام و اعیان کا خالق اور صانع(بنانے والا) ہوگا. اور چونکہ یہ امر بدیہی(روشن/ظاہر) ہے کہ محرک متحرک کے سوا اور علاوہ ہونا چاہئے اس لئے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ محرک اول متحرک نہیں ہوسکتا. کیونکہ محرک اول کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ حرکت سے پاک اور منزہ ہو ورنہ اگر محرک نکل آیا تو جس کو محرک اول فرض کیا تھا وہ محرک اول نہ رہا، اسکی اولیت جاتی رہی . نیز اسے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ محرک اول جسم نہیں ہوسکتا، اسلئے کہ ہر جسم کے لئے متحرک ہونا لازمی اور ضروری ہے.

دوم: یہ کہ عالم کا تغیر اور تبدل ، فناء اور زوال اس امر کا شاہد ہے کہ عالم کی کسی شئے کا وجود بالذات نہیں، جس شیے کا بھی وجود ہے وہ بالعرض ہی ہے. اور تمام حکماء کا اس پر اتفاق ہے کہ جو چیز بھی کسی شئے میں بالعرض پائی جائے گی وہ کسی شئے میں بالذات ضرور پائی جائے گی. کیونکہ جو شئے عارضی ہوتی ہے وہ کسی کا اثر ہوتی ہے اور ہر اثر حرکت ہے لہذا ضروری ہوا کہ ان تمام اثر اور حرکات کا سلسلہ ایسے موثر حقیقی اور محرک اول پر جاکر ختم ہو کہ جو کسی کا اثر نہ قبول کرتا ہو بلکہ وہی سب میں موثر ہو اور کوئی اثر اور کوئی متاثر اس موثر حقیقی کے حیطہ(احاطہ) تاثیر سے باہر نہ ہو جو بھی موجود ہو وہ اسی کی فیض تاثیر سے وجود میں آیا ہو.
        سب جانتے ہیں کہ اعراض کا وجود ذاتی  نہیں بلکہ جواہر اور اجسام کے سہارے سے ہے اگر اعراض کا جواہر سے تعلق منقطع ہو جائے تو تمام اعراض اسی وقت معدوم اور فنا ہو جاینگے ایک لمحہ کے لئے باقی نہ رہ سکتے. کیونکہ اعراض کا وجود عرضی یعنی ناقص اور ضعیف ہے جواہر کے تابع ہے مگر اعراض کے معدوم ہونے سے جواہر کا معدوم لازم نہیں.
        پاس جس طرح جواہر کے مقابلے میں اعراض کا وجود محض عارضی ہے . اسی طرح واجب الوجود کے مقابلے میں جواہر اور اجسام کے وجود کو سمجھ کہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا. اگر ایک لمحہ کے لئے اس بے نیاز واجب الوجود کے فیض تاثیر کو ان جواہر اور اجسام سے منقطع فرض کر لیا جائے تو یک لخت تمام کے تمام معدوم ہوجائیں اور فنا کے گھٹ اتر جائیں کسی جوہر اور جسم کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے اسی کی فیض تاثیر سے انکا وجود قیام ہے.
        جب یہ ثابت ہوگیا کہ کائنات میں جو بھی وجود ہے وو اسی کا عنایات کیا ہوا ہے تو یہ بھی ثابت ہوا کہ وجود اس مبدا فیاض کا ذاتی ہوگا کہ جب اس کی ذات کا تصور کیا جائے تو ساتھ ہی ساتھ اس کے وجود کا بھی تصور ہوتا ہو اسی وجہ سے اسی کو واجب الوجود کہتے ہیں.


القرآن : لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو. جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے مینہ برسا کر تمہارے کھانے کیلئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کئے پس کسی کو خدا کا ہمسر نہ بناؤ اور تم جانتے تو ہو. (البقرہ :٢٢)
امام رازی وغیرہ نے اللہ تعالیٰ کے وجود پر بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ اور فی الواقع یہ آیت اللہ تعالیٰ کے وجود پر بہت بڑی دلیل ہے زمین اور آسمان کی مختلف شکل و صورت مختلف رنگ مختلف مزاج اور مختلف نفع کی موجودات ان میں سے ہر ایک کا نفع بخش ہونا اور خاص حکمت کا حامل ہونا ان کے خالق کے وجود کا اور اس کی عظیم الشان قدرت، حکمت، زبردست سطوت اور سلطنت کا ثبوت ہے کسی بدوی سے پوچھا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی موجودگی کی کیا دلیل ہے؟ تو اس نے کہا دعا
(یا سبحان اللہ ان البعر لیدل علی البعیر۔ وان اثر الا قدام لیدل علی المسیر۔ فسماء ذات ابراج وارض ذات فجاج۔ وبحار ذات امواج الا یدل ذالک علی وجود اللطیف الخبیر۔)
یعنی مینگنی سے اونٹ معلوم ہو سکے اور پاؤں کے نشان زمین پر دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ کوئی آدمی گیا ہے تو کیا یہ برجوں والا آسمان یہ راستوں والی زمین یہ موجیں مارنے والے سمندر اللہ تعالیٰ باریک بین اور باخبر کے وجود پر دلیل نہیں ہو سکتے؟
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے آپ نے فرمایا زبانوں کا مختلف ہونا، آوازوں کا جداگانہ ہونا، نغموں کا الگ ہونا، ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتے ہیں کہ چھوڑو میں کسی اور سوچ میں ہوں۔ لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کی تجارتی چیزیں ہیں نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے باوجود اس کے وہ برابر آ جا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی پھاڑتی گزر جاتی ہے ٹھہرنے کی جگہ پر ٹھہر جاتی ہے چلنے کی جگہ چلتی رہتی ہے نہ اس کا کوئی ملاح ہے نہ منتظم۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا آپ کس سوچ میں پڑ گئے کوئی عقلمند ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی اتنے بڑے نظام کے ساتھ تلاطم والے سمندر میں آئے جائے اور کوئی اس کا چلانے والا نہ ہو آپ نے فرمایا افسوس تمہاری عقلوں پر ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے لیکن یہ ساری دنیا آسمان و زمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی رہیں اور ان کا مالک حاکم خالق کوئی نہ ہو؟ یہ جواب سن کر وہ لوگ ہکا بکا ہو گئے اور حق معلوم کر کے مسلمان ہو گئے۔
[أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة: ص222 محمد بن عبد الرحمن الخميس]

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا:
هَذَا وَرَقُ التُّوتِ طَعْمُهُ وَاحِدٌ تَأْكُلُهُ الدُّودُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْإِبْرَيْسِمُ، وَتَأْكُلُهُ النَّحْلُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْعَسَلُ، وَتَأْكُلُهُ الشَّاةُ وَالْبَعِيرُ وَالْأَنْعَامُ فَتُلْقِيهِ بَعْرًا وَرَوَثًا، وَتَأْكُلْهُ الظِّبَاءُ فَيَخْرُجُ مِنْهَا الْمِسْكُ وَهُوَ شَيْءٌ وَاحِدٌ
ترجمہ:
توت کے پتے ایک ہی ہیں ایک ہی ذائقہ کے ہیں کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائیں بکریاں ہرن وغیرہ سب اس کو چباتے کھاتے اور چرتے چگتے ہیں اسی کو کھا کر ریشم کا کیڑا ریشم تیار کرتا ہے مکھی شہد بناتی ہے، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے اور گائیں بکریاں مینگنیاں دیتی ہیں۔ کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک پتے میں یہ مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ مانتے ہیں وہی موجد اور صانع ہے۔
[تفسير الرازي:2/ 333]

حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک مرتبہ وجود باری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا۔ سنو یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں نہ کوئی راستہ ہے بلکہ سوراخ تک نہیں باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا خوبصورت شکل اور پیاری بولی والا چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ بتاؤ اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہے پھر اس میں پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے۔ یہی دلیل ہے اللہ کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔
[تفسير الرازي:2/ 334]


حضرت ابو نواس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا آسمان سے بارش برسنا، اس سے درختوں کا پیدا ہونا اور ان ہری ہری شاخوں پر خوش ذائقہ میووں کا لگنا ہی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی کافی دلیل ہے۔

ابن المعتز فرماتے ہیں افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی تکذیب پر لوگ کیسے دلیر ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر چیز اس پروردگار کی موجود اور لاشریک ہونے پر گواہ ہے بزرگوں کا مقولہ ہے کہ آسمانوں کو دیکھو ان کی بلندی ان کی وسعت، ان کے چھوٹے بڑے چمکیلے اور روشن ستاروں پر نظریں ڈالو۔ ان کے چمکنے دمکنے ان کے چلنے پھرنے، ٹھہر جانے، ظاہر ہونے اور چھپ جانے کا مطالعہ کرو۔ سمندروں کو دیکھو، جو موجیں مارتے ہوئے زمین کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اونچے نیچے مضبوط پہاڑوں کو دیکھو جو زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور اسے ہلنے نہیں دیتے، جن کے رنگ، جن کی صورتیں مختلف ہیں۔ قسم قسم کی دوسری مخلوقات پر نظر ڈالو، ادھر سے ادھر پھر جانے والی کھیتیوں اور باغوں کو شاداب کرنے والی خوشنما نہروں کو دیکھو۔ کھیتوں، باغوں کی سبزیوں٠ اور ان کے طرح طرح کے پھل پھول مزے مزے کے میووں پر غور کرو زمین ایک پانی ایک، لیکن شکلیں صورتیں، خوشبوئیں، رنگ ذائقہ، فائدہ الگ الگ۔ کیا یہ تمام مصنوعات تمہیں نہیں بتاتیں کہ ان کا صانع کوئی ہے؟ کیا یہ تمام موجودات با آواز بلند نہیں کہہ رہیں کہ ان کا موجد کوئی ہے؟ کیا یہ ساری مخلوق اپنے خالق کی ہستی اس کی ذات اور اس کی توحید پر دلالت نہیں کرتی۔ یہ ہیں وہ زور دار دلائل جو اللہ جل و علا نے اپنی ذات کے منوانے کے لئے ہر نگاہ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں جو اس کی زبردست قدرتوں ، اس کی پرزور حکمتوں، اس کی لاثانی رحمتوں، اس کے بےنظیر انعاموں، اس کے لازوال احسانوں پر دلالت کرنے کے لئے کافی وافی ہیں۔
ہم اقرار کرتے ہیں کہ نہ اس کا کوئی پالنے والا ہے، نہ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے اور حفاظت کرنے والا، نہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہ اس کے سوا کوئی مسجود لاشک۔ ہاں دنیا کے لوگو! سن لو میرا توکل اور بھروسہ اسی پر ہے میری انابت اور التجا اسی کی طرف ہے، میرا جھکنا اور پست ہونا اسی کے سامنے ہے، میری تمناؤں کا مرکز، میری امیدوں کا آسرا، میرا ماویٰ، ملجا وہی ایک ہے اس کے دست رحمت کو تکتا ہوں اور اسی کا نام جپتا ہوں۔

 Signs of Allah's Existence
Several scholars of Tafsir, like Ar-Razi and others, used these Ayat as an argument for the existence of the Creator, and it is a most worthy method of argument. Indeed, whoever ponders over the things that exist, the higher and lower creatures, their various shapes, colors, behavior, benefits and ecological roles, then he will realize the ability, wisdom, knowledge, perfection and majesty of their Creator.
Once a Bedouin was asked about the evidence to Allah's existence, he responded,
"All praise is due to Allah! The camel's dung testifies to the existence of the camel, and the track testifies to the fact that someone was walking. A sky that holds the giant stars, a land that has fairways and a sea that has waves, does not all of this testify that the Most Kind, Most Knowledgeable exists''
Hence, whoever gazes at the sky in its immensity, its expanse, and the various kinds of planets in it, some of which appear stationary in the sky - whoever gazes at the seas that surround the land from all sides, and the mountains that were placed on the earth to stabilize it, so that whoever lives on land, whatever their shape and color, are able to live and thrive - whoever reads Allah's statement,
وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَنُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالاٌّنْعَـمِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَنُهُ كَذَلِكَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ
And among the mountains are streaks white and red, of varying colours and (others) very black. And likewise, men and Ad-Dawabb(moving (living) creatures, beasts) and cattle are of various colours. It is only those who have knowledge among His servants that fear Allah. (35: 27-28)
Whoever thinks about the running rivers that travel from area to area bringing benefit, whoever ponders over what Allah has created on earth; various animals and plants of different tastes, scents, shapes and colors that are a result of unity between land and water, whoever thinks about all of this then he will realize that these facts testify to the existence of the Creator, His perfect ability, wisdom, mercy, kindness, generosity and His overall compassion for His creation. There is no deity worthy of worship except Allah, nor is there a Lord besides Him, upon Him we rely and to Him we turn in repentance.
There are numerous Ayat in the Qur'an on this subject.


Evidence of the Existence of God, and the Wisdom Behind His Creation

A non Muslim friend of mine asked how I could prove the existence of God and why He has given us life, and what its purpose is. My answer did not satisfy him, please tell me what I should tell him?

Praise be to Allah

My dear Muslim brother, your efforts to call people to Allah and explain the reality of Allah’s existence make us very happy. Finding out about Allah is in tune with the sound fitrah (natural inclinations of man) and with sound reasoning. How many there are who, once the truth becomes clear to them, they hasten to submit to Allah (enter Islam). If each one of us was to do his duty towards his religion, a great deal of good would be achieved. So we congratulate you, our brother, for undertaking the mission of the Prophets and Messengers, and we give you glad tidings of the great reward which you are promised, as your Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said: “If Allah were to guide one man at your hands, that would be better for you than red camels.” (al-Bukhaari,Muslim). “Red camels” are the best kind of camels. 

Secondly: 

With regard to proof of the existence of Allah, it is obvious to anyone who ponders the matter, and there is no need for a lengthy discussion. When we ponder the matter, we find that it is divided into three categories: instinctive evidence, tangible evidence and shar’i (revelatory) evidence. We will explain this to you further, insha Allah. 

1 – Instinctive evidence: 

Al-Shaykh Ibn ‘Uthaymeen said: 

The instinctive evidence that God exists is the strongest of all evidence for those who are not led astray by the devils. Hence Allah says (interpretation of the meaning): 

“So set you (O Muhammad) your face towards the religion (of pure Islamic Monotheism) Haneef (worship none but Allah Alone). Allah’s Fitrah (i.e. Allah’s Islamic Monotheism) with which He has created mankind.” [30:30] 

Man’s sound nature (fitrah) testifies to the existence of God and man cannot turn away from this unless the devils mislead him; whoever is misled by the devils may not recognize this evidence.” (From Sharh al-Safareeniyyah) 

Every person feels inside himself that he has a Lord and Creator, and he feels that he is in need of Him; if some major calamity befalls him he turns his hands, eyes and heart towards the heavens, seeking help from his Lord. 

2 – Tangible evidence: 

This refers to the things that exist in this universe; we see around us things that exist, such as trees, rocks, mankind, the earth, the heavens, seas, rivers… 

If it is asked: these things are so many – who created them and is taking care of them? 

The answer is that if these things came into being by accident, spontaneously and with no cause, then there is no one who knows how they were created, and that is one possibility. But there is another possibility, which is that these things created themselves and are taking care of themselves. And there is a third possibility, which is that there is Someone Who created them. When we look at these three possibilities, we find that the first and the second are impossible. If we reject the first and the second, then the third must be the one which is correct, which is that these things have a Creator Who created them, and that Creator is Allah. This is what is stated in the Quran, where Allah says (what means): 

“Were they created by nothing? Or were they themselves the creators?

Or did they create the heavens and the earth? Nay, but they have no firm Belief.” [52:35] 

Moreover, when were these mighty things created? For all these years, who is it that has decreed that they should remain in this world and has granted them the means of abiding? 

The answer is it is Allah who has given to each thing that which is suited to it and will guarantee its survival. Do you not see the beautiful green plants; when Allah cuts off their water supply, can they live? No, rather they become dry stalks. If you ponder all things you will find that they are dependent upon Allah. Were it not for Allah, nothing would remain. 

And Allah has created everything to do that for which it is suited. So camels, for example, are for riding. Allah says (interpretation of the meaning): 
“Do they not see that We have created for them of what Our Hands have created, the cattle, so that they are their owners.
And We have subdued them unto them so that some of them they have for riding and some they eat.” [36:71-72]
Look at the camel and how Allah has created it strong, with a strong back, so that it can be used for riding and it is able to endure harsh conditions which other animals cannot bear.
If you look at other creatures you will find that they are suited to the purposes for which they were created. Glory be to Allah.
Other examples of tangible evidence include the following:
When calamities befall people this points to the existence of the Creator, for example, when they call upon Allah and Allah responds to their prayer; this points to the existence of Allah. Al-Shaykh Ibn ‘Uthaymeen said: “When the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) prayed for rain, he said, ‘Allahumma aghithna, Allahumma aghithna (O Allah, send us rain, O Allah, send us rain).’ Then a cloud came and it started to rain before he had even come down from the minbar (pulpit). This points to the existence of the Creator.” (Sharh al-Safareeniyyah).
 3 – Shar’i evidence:
 All divinely-revealed laws point to the existence of Allah. Al-Shaykh Ibn ‘Uthaymeen said:
“All the divinely-revealed laws point to the existence of the Creator and to the perfect nature of His knowledge, wisdom and mercy, because these laws must have been prescribed by someone, and that Lawgiver is Allah.” (From Sharh al-Safareeniyyah).
With regard to your question: Why did Allah create us?
The answer is: so that we would worship Him, thank Him and remember Him, and do that which He has commanded us. You know that among mankind there are disbelievers and there are Muslims. This is because Allah wants to test His slaves as to whether they will worship Him or worship others. That is after Allah has showed the way to everyone. Allah says (interpretation of the meaning):
“Who has created death and life that He may test you which of you is best in deed.” [67:2]
“And I (Allah) created not the jinn and mankind except that they should worship Me (Alone).” [51:56]
We ask Allah to enable us and you to do that which He loves and is pleased with, and to do more da’wah (propagation) and work for the sake of His religion.
May Allah send blessings and peace upon our Prophet Muhammad.
And Allah knows best.



EXISTANCE OF GOD

Scattered Pearls

An atheist Professor of philosophy speaks to his class on the problem science has with God, The Almighty.
He asks one of his new students to stand and.....
Professor: So you believe in God?
Student: Absolutely, sir.
Professor: Is God good?
Student: Sure.
Professor: Is God all-powerful?
Student: Yes.
Professor: My brother died of cancer even though he prayed to God to heal him. Most of us would attempt to help others who are ill. But God didn't. How is this God good then? Hmm?
Student: (Student is silent.)
Professor: You can't answer, can you? Let's start again, young fella. Is God good?
Student: Yes.
Professor: Is Satan good?
Student: No.
Professor: Where does Satan come from?
Student: From...God...
Professor: That's right. Tell me son, is there evil in this world?
Student: Yes.
Professor: Evil is everywhere, isn't it? And God did make everything. Correct?
Student: Yes.
Professor: So who created evil?
Student: (Student does not answer.)
Professor: Is there sickness? Immorality? Hatred? Ugliness? All these terrible things exist in the world, don't they?
Student: Yes, sir.
Professor: So, who created them?
Student: (Student has no answer.)
Professor: Science says you have 5 senses you use to identify and observe the world around you. Tell me, son...Have you ever seen God?
Student: No, sir.
Professor: Tell us if you have ever heard your God?
Student: No , sir.
Professor: Have you ever felt your God, tasted your God, smelt your God? Have you ever had any sensory perception of God for that matter?
Student: No, sir. I'm afraid I haven't.
Professor: Yet you still believe in Him?
Student: Yes.
Professor: According to empirical, testable, demonstrable protocol, science says your GOD doesn't exist. What do you say to that, son?
Student: Nothing. I only have my faith.
Professor: Yes. Faith. And that is the problem science has.



Student: Professor, is there such a thing as heat?
Professor: Yes.
Student: And is there such a thing as cold?
Professor: Yes.
Student: No sir. There isn't.
(The lecture theatre becomes very quiet with this turn of events.)
Student: Sir, you can have lots of heat, even more heat, superheat, mega heat, white heat, a little heat or no heat. But we don't have anything called cold. We can hit 458 degrees below zero which is no heat, but we can't go any further after that. There is no such thing as cold. Cold is only a word we use to describe the absence of heat. We cannot measure cold. Heat is energy. Cold is not the opposite of heat, sir, just the absence of it.
(There is pin-drop silence in the lecture theatre.)
Student: What about darkness, Professor? Is there such a thing as darkness?
Professor: Yes. What is night if there isn't darkness?
Student: You're wrong again, sir. Darkness is the absence of something. You can have low light, normal light, bright light, flashing light....But if you have no light constantly, you have nothing and it's called darkness, isn't it? In reality, darkness isn't. If it were, you would be able to make darkness darker, wouldn't you?
Professor: So what is the point you are making, young man?
Student: Sir, my point is your philosophical premise is flawed.
Professor: Flawed? Can you explain how?
Student: Sir, you are working on the premise of duality. You argue there is life and then there is death, a good God and a bad God. You are viewing the concept of God as something finite, something we can measure.
Sir, science can't even explain a thought. It uses electricity and magnetism, but has never seen, much less fully understood either one. To view death as the opposite of life is to be ignorant of the fact that death cannot exist as a substantive thing. Death is not the opposite of life: just the absence of it. Now tell me, Professor. Do you teach your students that they evolved from a monkey?
Professor: If you are referring to the natural evolutionary process, yes, of course, I do.
Student: Have you ever observed evolution with your own eyes, sir?
Professor: (The Professor shakes his head with a smile, beginning to realize where the argument is going.)
Student: Since no one has ever observed the process of evolution at work and cannot even prove that this process is an on-going endeavour, are you not teaching your opinion, sir?
Are you not a scientist but a preacher?
Professor: (The class is in uproar.)
Student: Is there anyone in the class who has ever seen the Professor's brain?
Professor: (The class breaks out into laughter.)>
Student: Is there anyone here who has ever heard the Professor's brain, felt it, touched or smelt it?.....No one appears to have done so. So, according to the established rules of empirical, stable, demonstrable protocol, science says that you have no brain, sir. With all due respect, sir, how do we then trust your lectures, sir?
Professor: (The room is silent. The Professor stares at the student, his face unfathomable.)
Professor: I guess you'll have to take them on faith, son.
Student: That is it sir.. The link between man & God is FAITH. That is all that keeps things moving & alive.
NB: I believe you have enjoyed the conversation...and if so...you'll probably want your friends/colleagues to enjoy the same...won't you?...forward them to increase their knowledge...