Monday 22 February 2016

...سلامتی ہو اس پر جو ھدایت پر چلے.[قرآن-طه:47]

اسلام اور سلام
          دنیا کی تمام متمدن ومہذب قوموں میں ملاقات کے وقت پیار ومحبت، جذبہٴ اکرام وخیراندیشی کا اظہار کرنے اورمخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج ہے، ہمارے ملک میں ہمارے برادران وطن ملاقات کے وقت ”نمستے“ کہتے ہیں، اس نام نہاد ترقی یافتہ زمانہ میں Good Night/ Good Morning اور بعض روشن خیال حضرات ”صبح بخیر“ ”شب بخیر“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، حضرت عمران بن حصین کا بیان ہے کہ قبل از اسلام عرب کی عادت تھی، کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو ”حَیَّاکَ اللّٰہُ“ (اللہ تم کو زندہ رکھے) ”أنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْنًا“ (اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ کو ٹھنڈا کرے) ”أَنْعِمْ صَبَاحًا“ (تمہاری صبح خوش گوار ہو) وغیرہ الفاظ استعمال کیا کرتے تھے، جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی، یعنی اس کے بجائے ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ کی تعلیم دی گئی، جس کے معنی ہیں ”تم ہر تکلیف اور رنج ومصیبت سے سلامت رہو“ ابن العربی نے احکام القرآن میں فرمایا: لفظ ”سلام“ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے اور ”السلام علیکم“ کے معنی ہیں ”اللہ رقیب علیکم“ اللہ تمہارا محافظ ہے (مستفاد ازمعارف القرآن ۲/۵۰۱)
سلام کی جامعیت ومعنویت:
          سلام نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے کہ یہ کلمہ پیار ومحبت اوراکرام کے اظہار کے لیے بہترین لفظ ہے اوراس کی کئی معنوی خصوصیات ہیں:
(۱)      سلام اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے ہے۔ (بخاری ۲/۹۲۰ کتاب الاستیذان)
(۲)      اس کلمہ میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں؛ بلکہ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ تمام آفات اور آلام سے محفوظ رکھیں۔
(۳)     عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی دعا نہیں؛ بلکہ حیاتِ طیبہ کی دعاء ہے۔
(۴)     سلام کرنے والا اپنی زبانِ حال سے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال اور آبرو کا میں محافظ ہوں۔
(۵)      تذکیرہے، یعنی اس لفظ کے ذریعہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو اس کے ارادہ ومشیت کے بغیر نفع، ونقصان پہنچانہیں سکتے۔
(۶)      یہ کلمہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت، مرحمت اور پیار ومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لیے اکرام وتعظیم کا لفظ بھی۔
(۷)     قرآن مجید میں یہ کلمہ انبیاء ورسل علیہم السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال ہوا ہے اوراس میں عنایت اور محبت کا رس بھرا ہوا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے، سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍ فِي الْعَالَمِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ، سَلاَمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَہَارُوْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ، سَلاَمٌ عََٰی الْمُرْسَلِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی عِبَادہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی․
(۸)     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی اسی طرح سلام عرض کیا جاتاہے۔
(۹)      تمام ایمان والوں کو نماز میں بھی اس لفظ سے نبی علیہ الصلوٰة والسلام پر دُرود بھیجنے کی تلقین کی گئی ہے۔
(۱۰)     آخرت میں موٴمنین کے جنت میں داخلہ کے وقت کہا جائے گا ”أُدخلُوہا بسلامٍ، سلامٌ عَلَیکُمْ بما صَبَرْتُم، فَنِعْمَ عُقبی الدارِ“ (مستفاد از معارف القرآن ۲/۵۰۱، معارف الحدیث۶/۱۴۹)
سلام کی اہمیت وفضیلت:
          سلام، اسلام کا شعار، سلام جنتیوں کا سلام، اللہ سے قریب کرنے والا، محبتوں کو پیداکرنے والا، نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کو مٹانے والا ہے، باہمی تعلق واعتماد کا وسیلہ اور فریقین کے لیے موجبِ طمانیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باہم سلام کارواج دینے اور عام کرنے کی بڑی تاکید فرمائی کہ اسلامی دنیا کی فضاء اس کی لہروں سے معمور رہے اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اوراس کے فضائل وبرکات اور اجر وثواب کو بیان فرمایا ہے۔
          اسلامی سلام کی سنت حضرت آدم علیہ السلام سے چلی آرہی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ارشاد فرمایا: اے آدم! فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ اور ان کو سلام کرو، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام گئے اور فرشتوں کی ایک جماعت سے السلام علیکم فرمایا، فرشتوں نے جواب میں عرض کیا وعلیکم السلام ورحمة اللہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم یہ سلام تمہاری اور تمہاری اولاد کا تحیہ ہے۔ (بخاری کتاب الاستیذان ۲/۲۱۹)
          صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
          تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے؛ جب تک کہ مومن نہ بن جاؤ اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا؛ جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کے لیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو سلام کرو۔(مسلم کتاب الایمان۱/۵۴)
          حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
          لوگو! خداوند رحمن کی عبادت کرو اور بندگانِ خدا کو کھانا کھلاؤ (محتاج اور مسکین بندوں کو بطور صدقہ کے اور دوستوں عزیزوں اور اللہ کے نیک بندوں کو بطور ہدیہ، اخلاص اورمحبت کے کھانا کھلایا جائے، جو لوگوں کو جوڑنے اور باہم محبت والفت پیداکرنے کا بہترین وسیلہ ہے) اور سلام کو پھیلاؤ تو تم پوری سلامتی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤگے (ترمذی، باب الاستیذان ۲/۹۸، ابوداؤد، ابواب السلام ۲/۷۰۶)
          ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس سے فرمایا:
          اے بیٹے جب تم اپنے گھروالوں کے پاس جاؤ تو سلام کیاکرو، یہ سلام تمہارے لیے اور تمہارے گھر والوں کے لیے برکت کا سبب ہوگا۔(ترمذی ۲/۹۹)
          حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
          کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے بندوں کو کھانا کھلانا اور جانا پہچانا اورانجان ہر ایک کو سلام کرنا، سب سے افضل عمل ہے (بخاری۲/۹۲۱)۔
          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو مسلم معاشرہ میں عام کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے، پھر کچھ دیر بعد دیوار، درخت یا پتھر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر دوبارہ سلام کرے، یعنی جتنی بار ملاقات ہواتنی بار سلام کرتا رہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۷)
          حضرت جابر فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا حضرات صحابہ کرام پر غیرمعمولی اثر ہوا اور ان حضرات نے سلام کو اپنی عملی زندگی کا ایک جزء لا ینفک بنالیا، اس کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگاسکتے ہیں، حضرت طفیل بن ابی بن کعب فرماتے ہیں: حضرت ابن عمر مجھے لے کر اکثر بازار جایا کرتے تھے، بازار میں تاجر، خریدار، مسکین، گری پڑی چیز اٹھانے والا، غرض ہر کسی کو جس سے ملاقات ہوتی سلام کرتے، ایک دن میں نے عرض کیا، حضرت بازار میں آپ نہ خریدو فروخت کرتے ہیں، نہ بازار میں آپ کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں، لہٰذا بازار جانے کے بجائے، آپ یہاں تشریف رکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کریں ہم سنیں گے، تو حضرت ابن عمر نے فرمایا: اے بطین (پیٹ والے) ہم بازار صرف مسلمانوں کو سلام کرنے کے لیے جاتے ہیں (کہ بازار میں لوگ ضروریات کی وجہ سے زیادہ رہتے ہیں اور ہم زیادہ مسلمانوں سے ملاقات کریں گے، انھیں سلام کریں گے اور زیادہ ثواب حاصل کریں گے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
سلام کا اجر وثواب:
          سلام کرنا سنت ہے اورجواب دینا واجب ہے، واجب کا ثواب سنت سے زیادہ ہوتاہے، لیکن سلام کرنے کی سنت کا ثواب جواب دینے کے واجب سے زیادہ ہے۔ (مرقاة المفاتیح ۸/۴۲۱ باب السلام)
          جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے، اگربغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دے تو گنہگار ہوگا؛ البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے، ایک یہ کہ جن الفاظ میں سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے، دوسرے یہ کہ بعینہ انھیں الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔ (معارف القرآن ۲/۵۰۴)
          حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور السلام علیکم کہا، آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا، اور وہ شخص بیٹھ گئے، آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: دس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک دوسرے آدمی حاضر حدمت ہوئے اور السلام علیکم ورحمة اللہ کہا، آپ علیہ السلام نے جواب دیا اور وہ آدمی بیٹھ گئے اور آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بیس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک تیسرے شخص حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشاد فرمایا: تیس نیکیاں۔ (ترمذی ۲/۹۸، ابوداؤد۲/۷۰۶)
          اس روایت سے معلوم ہوا کہ مکمل سلام کرنے کے بعد تیس اور ہر ایک کلمہ پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔
سلام کے آداب:
          (۱)      سلام کرنے میں پہل کرے؛ اس لیے کہ سلام میں پہل کرنے سے عاجزی وتواضع پیداہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو بندوں سے تواضع نہایت محبوب ہے۔
          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرنے والا ہو۔ (ترمذی ۲/۹۹، ابوداؤد۲/۷۰۶)
          ایک دوسری روایت میں ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا کبرونخوت سے بری ہوتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
          (۲)      سلام کرنے والا اور سلام کا جواب دینے والا ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ صیغہٴ جمع استعمال کریں، اگرچہ مخاطب اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔ (الاذکار النوویة:۱۹۴)
          (۳)     سلام اتنی بلند آواز سے کرے کہ سلام کیے جانے والے کو بآسانی آواز پہنچ جائے ورنہ جواب کا مستحق نہ ہوگا، نیز جواب دینے والا بھی اسی طرح بلند آواز سے جواب دے ورنہ جواب ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔ (الاذکار النوویة:۱۹۵)
          (۴)     جب کوئی سلام کرے تو بہتر طریقہ پر جواب دینا، کم از کم ویسے ہی الفاظ سے جواب دینا۔
          اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جب تمہیں سلام کیاجائے تو تم سلام سے بہتر الفاظ سے جواب دو، یا اسی کے مثل جواب دو۔ (النساء:۸۶)
          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اس آیت کی تشریح اس طرح فرمائی کہ ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ”السلام علیک یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم“ آپ نے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا کہ ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ“ پھر ایک صاحب آئے انھوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة  اللہ “ آپ نے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا وعلیکم السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ“ پھر ایک اور صاحب آئے انھوں نے اپنے سلام ہی میں تینوں کلمے بڑھا کر کہا ”السلام علیک یا رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة اللہ  وبرکاتہ“ آپ نے جواب میں صرف ایک کلمہ ”وعلیک“ ارشاد فرمایا: ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان، پہلے جو حضرات آئے آپ نے ان کے جواب میں دعاء کے کئی کلمات ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپ نے ”وعلیک“ پر اکتفاء فرمایا، آپ نے فرمایا کہ تم نے ہمارے لیے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیے، اس لیے ہم نے تمہارے سلام کا جواب قرآنی تعلیم کے مطابق جواب بالمثل دینے پر اکتفاء کرلیا، اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیاہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۳)
          (۵)      عزیز، دوست، چھوٹے، بڑے، جانے پہچانے اور انجانے سب کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
          (۶)      چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
          (۷)     سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔(بخاری۲/۹۲۱)
          (۸)     پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
          (۹)      چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
          (۱۰)     اپنے محارم کو سلام کرے۔ (ترمذی۲/۹۹)
         (۱۱)     جب گھر یا مسجد میں داخل ہو، وہاں اس کے علاوہ کوئی نہ ہوتو ان الفاظ سے سلام کرے، السلامُ علینا وعلی عبادِ اللّٰہ الصالحین(ہندیہ۵/۳۲۶)
          (۱۲)     اگر کوئی غائب شخص سلام پہنچائے تو اس طرح جواب دے، وعلیک وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ (ترمذی۲/۹۹)
          (۱۳)    اگر ایک شخص ایک جماعت کو سلام کرے تو جماعت میں سے ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے، تمام حاضرین کا جواب دینا افضل ہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۸)
          (۱۴)    اگر سلام کرنے والی ایک جماعت ہوتو صرف ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے؛ البتہ تمام کا سلام کرنا افضل ہے۔ (الاذکار النوویة:۱۹۶)
          (۱۵)     اگر مسلم اور غیرمسلم کا مخلوط مجمع ہوتو مسلمان کی نیت سے سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)
          (۱۶)     جب کسی کی ملاقات سے فارغ ہوکر رخصت ہونے لگے تو سلام وداع کرے، یہ بھی سنت ہے۔ (ترمذی۲/۱۰۰)
          (۱۷)    جب کسی کے پاس کوئی تحریر لکھے تو السلام علیکم سے کلام کا آغاز کرے۔ (بخاری۲/۹۲۶)
          (۱۸)    اگر مسلمان دو ہو یا بہرا ہوتو ہاتھ سے اشارہ بھی کرے اور زبان سے لفظ سلام بھی کہے، صرف اشارہ پر اکتفاء نہ کرے۔ (الاذکارالنوویة:۱۹۶)
          (۱۹)     سلام یا جوابِ سلام میں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ پر مزید کلمات کا اضافہ کرنا خلافِ سنت ہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۴)
          (۲۰)    اگر کسی غیرمسلم کے پاس خط لکھے تو ”السلام علی من اتبع الہدی“ تحریر کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)
کن لوگوں کو سلام کرنا مکروہ ہے؟
          (۱) بے ایمان کو سلام کرنا مکروہ تحریمی ے، اگر وہ ابتداءً سلام کرے تو ”علیک“ پر اکتفاء کرے۔ (مرقات۸/۴۲۰)
          (۲) زندیق کو سلام کرنا (شامی۲/۳۷۷، مفسدات الصلوٰة)
          (۳) جو شخص برسرعام گناہ اور فسق میں مبتلا ہو اس شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے۔(بخاری۲/۹۲۵)
          (۴) جوان اجنبی عورتوں اور اجنبی مردوں کو سلام کرنا مکروہ ہے،اگر اجنبی نہایت بوڑھا یا بوڑھی ہوتو سلام کرنا جائز ہے۔ (ہندیہ۵/۳۲۶)
          (۵) بدعتی کو سلام کرنا۔ (مرقات ۸/۴۲۰)
          نوٹ: بے ایمان کو کسی ضرورت کی وجہ سے سلام کرنا یعنی معاشرتی الفاظ استعمال کرنا مثلاًصبح بخیر، آداب وغیرہ جائزہے، مذہبی الفاظ ”نمستے“ کہنا جائز نہیں۔ (الاذکار النوویة:۲۰۲، فتاویٰ رحیمیہ ۶/۲۵۶)
          مندرجہ ذیل مواقع میں سلام نہ کرے:
          (۱)      نمازپڑھنے والے (۲) تلاوت کرنے والے (۳) دینی باتوں (حدیث، فقہ وغیرہ) کے بیان کرنے والے (۴) ذکر کرنے والے (۵) اذان دینے والے (۶) اقامت کہنے والے (۷) جمعہ اور عیدین وغیرہ خطبات دینے والوں کو دینی امور میں مصروف ہونے کی وجہ سے سلام کرنا مکروہ ہے۔
          (۸)     اذان، اقامت اور خطبات کے دوران سلام کرنا مکروہ ہے، اگر کوئی ان مواقع میں سلام کرے تو جواب کا مستحق نہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)
          (۹)      کھانے والے کو سلام کرنا۔
          (۱۰)     قضاء حاجت میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔
          (۱۱)     جماع میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔
          (۱۲)     جس آدمی کا ستر کھلا ہوا ہو اس کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے؛ اس لیے کہ موجودہ صورت حال میں جواب دینے کی حالت میں نہیں ہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)
          مندرجہ بالا صورتوں میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں؛ البتہ بعض صورتوں میں عمل موقوف کرکے جواب دے سکتا ہے، بعض صورتوں میں جواب کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔
***
======================
مسنون سلام اسلامی تہذیب کا اٹوٹ حصہ

اسلام ایک ایسا آفاقی اور ہمہ گیر مذہب ہے، جس کی ہر تعلیم کی بنیاد فلاح وکامیابی اور خیر وبرکت پر ہے، اس کی عالمگیر تعلیمات میں معاشرے کی بھلائی، سماج کا سدھار، کلچر کا حسن اور سارے جہاں کا امن وامان پنہاں ہے؛ اور یہ ایسی بات ہے جس کی گواہی اپنے پرائے سب نے دی ہے، اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس کی تعلیمات ابدی ہیں، جن میں قیامت تک کے آنے والے انسانوں کا خیال یکساں رکھا گیا ہے؛ ایسی ہی ابدی اور عالمگیر تعلیم کا ایک اٹوٹ حصہ، ”اسلامی سلام“ ہے۔
           اسلام میں، اتحاد و اتفاق اور اخوت والفت کو پوری انسانیت کے لیے بالعموم اور سارے مسلمانوں کے لیے بالخصوص ضروری قرار دیاگیاہے، انفرادیت، اختلاف اور انتشار وخلفشار کو ناپسندیدہ بتایاگیا ہے، خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”انَّمَا الْمُوٴْمِنُوْنَ اخْوَةٌ فَأصْلِحُوْا بَیْنَ أخَوَیْکُمْ“ (الحجرات) دوسری جگہ ہے: ”وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوا“ (آل عمران) اسی اتحاد واتفاق کو مضبوط سے مضبوط کرنے، باہمی قلبی ربط، آپسی مواسات ومساوات اور محبتِ دینی کو پختہ اور کامل ومکمل کرنے کے لیے اسلام نے ایک دوسرے کو ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ“ کے ذریعہ سلام کرنے کی تعلیم وتلقین کی اور مسلمانوں پر ضروری قرار دیاگیا کہ جب وہ ایک دوسرے سے ملیں تو ایک دوسرے کو امن وسلامتی کی دعادیں؛ تاکہ یہ آپسی دل جمعی اور باہمی ربط و محبت کا ذریعہ بنے؛ اور یہ جملہ اتنا گراں قدر ہے کہ اگر اس کو اخلاص کے ساتھ برتا جائے تو اس کی وجہ سے معاشرے کی برائی، ایک دوسرے سے دوری، ناراضگی، غلط فہمی، بغض وکینہ اور عداوت وحسد نہ صرف کم ہوں گے؛ بلکہ ان شاء اللہ ختم ہوجائیں گے اور انسان کو ایک ایسا معاشرہ نصیب ہوگا، جس کی معطر فضا میں وہ کھل کر سانس لے سکے گا۔
          اسلامی سلام کی خوبی، مثبت نتیجہ خیزی اوراس کی جامعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد شفیع صاحب رقم طراز ہیں:
          ”دنیا کی ہر مہذب قوم میں اس کا رواج ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہارِ محبت کے لیے کہیں؛ لیکن موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ” اسلامی سلام“ جتنا جامع ہے، کوئی دوسرا ایسا جامع نہیں؛ کیوں کہ اس میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں؛ بلکہ ساتھ ساتھ ادائے حقِ محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کو تمام آفات اور آلام سے سلامت رکھیں، پھر دعا بھی عربِ جاہلیت کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں؛ بلکہ حیاتِ طیبہ کی دعا ہے یعنی تمام آفات اور آلام سے محفوظ رہنے کی، اسی کے ساتھ اس کا بھی اظہار ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو کوئی نفع بغیر اس کے اذن کے نہیں پہنچاسکتا، اس معنی کے اعتبار سے یہ کلمہ ایک عبادت بھی ہے اور اپنے بھائی مسلمان کو خدا تعالیٰ کی یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔
          اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ ہمارے ساتھی کو تمام آفات اور تکالیف سے محفوظ فرمادے، تو اس کے ضمن میں وہ گویا یہ وعدہ کررہا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال، آبرو کا میں محافظ ہوں۔ (معارف القرآن:۲/۵۰۳)
مسنون سلام کو رواج دیجیے
          ”سلام“ چوں کہ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی ادائیگی میں کبھی ناواقفیت کی وجہ سے غلطیاں ہوجاتی ہیں؛ اس لیے ذیل میں صحیح اور مسنون طریقہ درج کیا جارہا ہے:
          افضل اور مسنون یہ ہے کہ ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ “ کہا جائے اور ادنیٰ درجہ کا سلام ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ“ ہے، اس پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور ”رحمةُ اللّٰہ“ کے اضافہ پر دس نیکیاں مزید بڑھ جاتی ہیں اور ”وبَرَکاتُہ“ کا اضافہ کرنا بہتر ہے اور زیادتی ثواب کے سلسلے میں اس کا حکم وہی ہے جو سلام کرنے والے کے لیے ہے(مظاہرِحق ۵/۳۴۵، ردالمحتار ۹/۵۹۳، فتاویٰ رحیمیہ ۱۰/۱۳۳)
          قرآن کی آیت ”وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّواْ بِاَحْسَنَ مِنْہَا“ اور حضور علیہ السلام کے طرزِ عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سلام کا جواب اس سے اچھے الفاظ میں دیا جائے، جس کی صورت یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے الفاظ سے بڑھا کر جواب دیا جائے، مثلاً جس نے کہا: ”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ“ تو آپ جواب دیں: ”وَعَلَیْکُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللّٰہ“ اور اس نے کہا: ”السَّلامُ عَلَیْکُمُ وَرَحْمَةُ اللّٰہ“ تو آپ جواب دیں: ”وَعَلَیْکُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللّٰہ وَبَرَکَاتُہ “ کلمات کی زیادتی صرف تین کلمات تک مسنون ہے، اس سے زیادہ کرنا مسنون نہیں؛ اسی لیے جب ایک صاحب نے اپنے ابتدائی سلام میں ہی تینوں کلمے جمع کردیے تو حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے اور زیادتی سے احتراز فرمایا۔
چند ضروری مسائل
          ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب آدمی اپنے گھر میں جائے تو اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ اس سے اس کے لیے بھی برکت ہوگی اور اس کے گھر والوں کے لیے بھی، ابوداؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان سے بار بار ملاقات ہوتو ہر مرتبہ سلام کرنا چاہیے اور جس طرح اوّل ملاقات کے وقت سلام کرنا مسنون ہے، اسی طرح رخصت کے وقت بھی سلام کرنا مسنون اور ثواب ہے؛ البتہ چند حالات مستثنیٰ ہیں، جو شخص نماز پڑھ رہا ہے؛ اگر کوئی اس کو سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں؛ بلکہ مفسدِ نماز ہے، اسی طرح جو شخص خطبہ دے رہا ہے یا قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہے یا اذان یا اقامت کہہ رہا ہے، یا دینی کتابوں کا درس سے دے رہا ہے، یا انسانی ضروریات استنجاء وغیرہ میں مشغول ہے، اس کو اس حالت میں سلام کرنا بھی جائز نہیں اوراس کے ذمہ جواب دینا بھی واجب نہیں، نامحرم اوراجنبی عورتوں کو سلام کرنا مکروہ ہے، (ردالمحتار ۹/۵۹۳، مظاہر حق ۵/۳۵۹، رحیمہ ۱۰/۱۳۰، معارف ۲/۵۰۵)
تنبیہ
          (۱)      سَلَامْ عَلَیْکُمْ (بغیر الف لام اور میم کے سکون کے ساتھ) یا سَلاَمَالیکم اور سلامْ لیکم وغیرہ جو ہمارے دیار میں رائج ہیں؛ بہ قول علامہ شامی: یہ سلام مسنون نہیں ہیں، صحیح اور مسنون سلام السلامُ عَلیکم ہے۔
          (۲)      صرف ہاتھ کے اشارہ پر اکتفا کرنا بدعت ہے؛ البتہ سلام اوراشارہ دونوں کو جمع کرنے کی گنجائش ہے، اگرچہ بہتر نہیں ہے، ہاں! اگر سامنے والا دُور ہوتو الفاظ کے ساتھ ہاتھ کا اشارہ بھی کرنا چاہیے۔
          مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
          کاش مسلمان اس کلمہ کو عام لوگوں کی رسم کی طرح ادا نہ کرے؛ بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھ کر اختیار کرے، تو شاید پوری قوم کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے، یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہم سلام کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی اوراس کو افضلُ الاعمال قرار دیا اور اس کے فضائل وبرکات اوراجر وثواب بیان فرمائے، ایک حدیث میں سلام کو محبت میں اضافہ کا سبب بتایاگیا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں ابتداء کرے، دوسری حدیث میں ہے کہ وہ آدمی بڑا بخیل ہے، جو سلام میں بخل کرے۔ (معارف القرآن ۲/۵۰۳)
مصافحہ تکملہٴ سلام ہے
          مصافحہ یعنی دو آدمیوں کا باہم ایک دوسرے سے ہاتھ ملاکر مغفرت کی دعائیں دینا، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں، ان کے جدا ہونے سے پہلے خدا ان کو بخش دیتا ہے، دوسری حدیث میں ہے تمہارا پورا سلام جو تم آپس میں کرتے ہو، مصافحہ ہے، معلوم ہوا کہ مصافحہ تکملہٴ سلام اوراس کا تتمہ ہے؛ لہٰذا پہلے سلام کرے پھر مصافحہ کرے اور مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرنا چاہیے، محض ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا، جیساکہ بعض ناواقف لوگ کرتے ہیں غیرمسنون ہے۔ (مظاہر۵/۳۶۷، فتاویٰ رحیمیہ ۱۰/۱۲۵) اور مصافحہ کے وقت ”یَغْفِرُ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمْ“ پڑھنا مسنون ہے۔
لمحہٴ فکریہ
          غور فرمائیں! مسلمان چاہے جس علاقہ کا ہو، اس کی زبان چاہے جو بھی ہو، اس کا تعلق چاہے جس خاندان سے ہو، اسلام نے اس کو یہی سکھلایا کہ وہ ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ“ ہی کہے، اس روشن تعلیم میں اجتماع و ارتباط کا کیسا جامع اور حسین مفید نسخہ مضمر ہے، ہر مذہب میں، مذہب والوں کے لیے کچھ مخصوص علامتیں ہوتی ہیں، جس سے امتیاز ہوتا ہے کہ فلاں کس مذہب کا ماننے والا ہے، اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کے لیے کچھ مخصوص علامتیں مقرر کیں اور اپنی ایک الگ شناخت بنائی؛ تاکہ اسلام وکفر میں فرق ہوسکے،سلام بھی انھیں علامتوں میں سے ایک اسلامی علامت ہے، اس سے بندگانِ خدا اور باغیانِ خدا کے درمیان امتیاز وفرق ہوتا ہے؛ لیکن اس کا دوسرا رخ بڑا ہی مہیب اور تاریک وتلخ ہے، وہ یہ کہ آج اسلامی معاشرے سے پیغمبرِاسلام کی یہ سنت اور اس کی اشاعت کم ہوتی جارہی ہے، اسلام نے شناسا وغیر شناسا، ہر ایک کو سلام کرنے کی تعلیم دی ہے؛ لیکن آج اولاً سلام ہی نہیں کیا جاتا اور اگر کیا جاتا ہے تو اکثر جان پہچان ہی کے لوگوں کو، یہ ہمارے لیے لمحہٴ فکریہ ہے اوراسی کا منفی نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ باہمی الفت، دلی درد اور اخوت ومواسات کی عمارت کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔
          موجودہ ماحول جو یورپی تہذیب سے متاثر ہے، اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنا اور اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں اوراس سلسلے کی جو کوتاہیاں اور کمیاں، ہماری زندگیوں میں درآئی ہیں انھیں دور کریں، سلام کو خوب رواج دیں کہ سلام اسلامی تہذیب کا اٹوٹ حصہ ہے، غیروں کی تہذیب (ہیلو، گڈبائی، نمستے، پرنام، بائے وغیرہ) سے پرہیز کریں؛ لہٰذا ہمیں اپنی تہذیب کی اشاعت اوراسے بروئے کار لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
          شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے بڑی اچھی بات لکھی ہے، اسی پر مضمون ختم کرتا ہوں۔
          جو قوم اپنے یونیفارم کی محافظ نہیں رہی، وہ بہت جلد دوسری قوموں میں منجذب ہوگئی، مسلمان جب سے ہندوستان میں ہیں، اگر اپنا یونیفارم باقی نہ رکھتے تو کب کے مٹ چکے ہوتے، انھوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ کرتا، پاجامہ، عبا، قبا اور دستار محفوظ رکھا؛ بلکہ مذہب اور اسماء الرجال، تہذیب وکلچر، رسم ورواج اور زبان وعمارت وغیرہ جملہ اشیاء محفوظ رکھے؛ اس لیے ان کی مستقل ہستی قائم رہی اور جب تک اس کی مراعات ہوتی رہے گی، رہیں گی، لہٰذا ایک محمدی کو حسبِ اقتضاء فطرت اور عقل لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آقا کا سارنگ ڈھنگ، چال چلن، صورت وسیرت، فیشن وکلچر وغیرہ بنائے اور اپنے محبوب آقا کے دشمنوں کے فیشن سے پرہیز کرے۔ (خلاصہ مکتوباتِ شیخ الاسلام ۲/۱۳۰)
          اللہ رب العزت ہم تمام مسلمانوں کو سلام کی اشاعت وترویج اور اس پر صد فیصد عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز اسلامی تعلیمات میں ہی پوشیدہ ہے۔
***

فلسفہ سلام قرآن کی روشنی میں
﴿وَإِذَا حُیِّیْْتُم بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ حَسِیْبا﴾․(النساء: 86)
اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو؛ بلا شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سلام اور جوابِ سلام کے آداب بتائے ہیں۔

حیاہ تحیةً کے اصل معنی کسی کو زندگی کی دعا دینے کے ہیں، مثلا: حیاک اللّٰہ (اللہ آپ کی عمر دراز کرے) کہنا، سلام اور اس کے ہم معنی دوسرے دعائیہ کلمات بھی چوں کہ کم و بیش یہی یا اسی سے ملتے جلتے مفہوم اپنے اندر رکھتے ہیں، اس وجہ سے لفظ کے عام مفہوم میں وہ سب اس کے اندر شامل ہوجاتے ہیں، اسلام نے حیّاک اللّٰہ یا أنعِم صباحاً جیسے طرزِ تحیہ کو بدل کر ” السلام علیکم“ کہنے کا طریقہ جاری کیا؛ چناں چہ جمہور مفسرین کی رائے ہے کہ یہاں تحیہ سے مراد سلام کرنا ہے۔

صاحبِ روح المعانی لکھتے ہیں:
وہي في الأصل کما قال الراغب: الدعاء بالحیاة وطولہا، ثم استعملت في کل دعاء، وکانت العرب إذا لقی بعضہم بعضا تقول: حیاک اللّٰہ تعالیٰ، ثم استعملہا الشرع في السلام، وہو تحیة الإسلام․(روح المعانی:5/100)

آیت کا پس منظر
جن حالات میں یہ آیت نازل ہوئی، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات کشیدہ تھے اورعموماً جب تعلقات کشیدہ ہوں تو اندیشہ ہوا کرتا ہے کہ کہیں تلخ کلامی کی نوبت نہ آجائے اور گفتگو میں کج روی یا کج خلقی کی صورت نہ ہو جائے، ان دونوں باتوں کو پیشِ نظر رکھ کر مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم باہم ملو، تب بھی شائستہ انداز ہونا چاہیے، پیار ومحبت کا برتاوٴ ہونا چاہیے اور دوسروں سے ملو تب بھی تہذیب واخلاق کے دائرے میں رہنا چاہیے، دوسرے احترام سے پیش آئیں تو تم بھی اس کے جواب میں زیادہ احترام سے پیش آوٴ، شائستگی کا جواب، شائستگی ہونی چاہیے، ترش روئی تمہارے منصب کے خلاف ہے، مسلمان دنیا کے لیے داعی ہیں، ان کو تو دوسروں سے بڑھ کر مہذب وشائستہ ہونا چاہیے، سخت کلامی اور درشتی سے نفس کی تسکین بھلے ہی ہوجائے؛ لیکن ساتھ ہی وہ شخص نظروں سے گرجاتا ہے اور اس کے کاز کو نقصان پہنچتا ہے۔(تفسیر انوار القرآن:2/318)

اس آیت میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا حکم ہے اور حسنِ اخلاق ومعاشرت کی اس اصل پر زور دیا ہے کہ جب کبھی کوئی شخص تمہیں سلام کرے، تو چاہیے کہ اس نے جو کچھ کہا ہے، اس سے بہتر طور پر اس کا جواب دو، اور اگر بہتر طور پر نہ دو تو کم از کم اسی کی بات اس پر لوٹا دو، یہ حکم یہاں اس مناسبت سے آیا کہ جنگ کی حالت ہو یا امن کی، منافق ہو یا ایمان دار؛ لیکن جو کوئی بھی تم پر سلامتی بھیجے، تمہیں بھی اس کا ویسا ہی جواب دینا چاہیے، اس کے دل کا حال خدا جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔(تفسیر ترجمان القرآن:1/382)

اس آیت سے ثابت شدہ مسائل واحکام ان شاء اللہ ”مسائل واحکام“ کے تحت لکھے جائیں گے۔

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَی أَہْلِہَا﴾․(النور:27)
اے ایمان والو! تم اپنے گھروں کے سو ادوسرے گھروں میں داخل مت ہو؛ جب تک اجازت حاصل نہ کرلو(اور اجازت لینے سے پہلے) ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو۔

یعنی اول باہر سے سلام کر کے پھر ان سے پوچھو کہ کیا ہمیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ اور بغیر اجازت لیے ایسے ہی مت داخل ہو، یعنی کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے دو کام کرنا ضروری ہیں اول کام استیناس، یعنی اجازت لینا اور دوسرا گھر والوں کو سلام کرنا۔

﴿فَإِذَا دَخَلْتُم بُیُوتاً فَسَلِّمُوا عَلَی أَنفُسِکُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِندِ اللَّہِ مُبَارَکَةً طَیِّبَة﴾ً․(النور:61)
جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے لوگوں کو (یعنی وہاں جو مسلمان ہوں ان کو) سلام کر لیا کرو(جوکہ) دعا کے طور پر (ہے) اور جو خدا کی طرف سے متعین ہے۔ اس آیت میں گھریلو معاشرت کی جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ آمدورفت کے وقت اہل خانہ کے ساتھ کیسا معاملہ ہونا چاہیے۔

﴿وَإِذَا جَاء کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْْکُمْ﴾․ (الانعام: 54)
اور یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ ان کو سلام علیکم کہیے۔

یعنی ان پر سلام کر کے یا ان کے سلام کا جواب دے کر ان کی تکریم اور قدر افزائی کریں، فأکرمہم برد السلام علیہم․(تفسیر ابن کثیر: 2/136)

مفتی محمد شفیع عثمانی لکھتے ہیں:
یہاں سلام علیکم کے دو معنی ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ ان کو اللہ جل شانہ کا سلام پہنچا دیجیے، جن میں ان لوگوں کا انتہائی اعز از واکرام ہے، اس صورت میں ان غریب مسلمانوں کی دل شکنی کا بہترین تدارُک ہوگیا، جن کے بارے میں روٴسائے قریش نے مجلس سے ہٹا دینے کی تجویز پیش کی تھی اور یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ان لوگوں کو سلامتی کی خوش خبری سنا دیجیے کہ اگر ان لوگوں سے عمل میں کوتاہی یا غلطی بھی ہوئی ہے تو وہ معاف کردی جائے گی، اور یہ ہر قسم کی آفات سے سلامت رہیں گے۔(معارف القرآن: 3/337)

﴿وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِناً﴾․ (النساء: 93)
اورجوتم سے سلام کہے تو اسے یہ مت کہو کہ تو ایمان والانہیں۔

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے: مسلمانوں کادستہ بنو سلیم کے ایک آدمی سے ملا، تو اس آدمی نے مسلمانوں کو ”السلام علیکم“ کہا، مسلمانوں نے کہا کہ اس نے جان بچانے کے لیے مسلمانوں والا سلام کیا ہے؛ چناں چہ اسے قتل کر کے اس کی بکریاں ساتھ لے آئے، تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر ابن کثیر:1/539)

اس سے معلوم ہوا کہ سلام، اسلام کی نشانی ہے اور جوشخص اسلامی سلام کرے، اسے قتل کرنا جائز نہیں؛ بلکہ اسے مسلمان تصور کیا جائے گا، اس کے دل کا حال خدا جانتا ہے، ہم نہیں جانتے۔

﴿ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ ضَیْْفِ إِبْرَاہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ․إِذْ دَخَلُوا عَلَیْْہِ فَقَالُوا سَلَاماً قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُّنکَرُونَ﴾․ (الذاریات: 24،25)
کیا آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر (بھی) پہنچی ہے؟ وہ جب ان کے یہاں آئے تو سلام کیا، حضرت ابراہیم علیہ الصلاة والسلام نے( جواب میں) سلام کہا اور (کہا) یہ اجنبی لوگ ہیں۔

ایک نکتہ: حضرت ابراہیم  اور فرشتوں کی باہمی ملاقات میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ فرشتوں نے ”سلاماً“ نصب کے ساتھ کہا؛ جب کہ خلیل اللہ نے جواب میں ”سلامٌ“ رفع کے ساتھ کہا، اس کی وجہ ابن کثیر یہ بتاتے ہیں کہ: رفع، نصب سے اقوی اور زیادہ بہتر ہے؛ کیوں کہ سلام کے مرفوع ہونے کی صورت میں یہ جملہ اسمیہ بنا؛ جس میں دوام واستمرار اور پائیداری ہوتی ہے اور سلاماً نصب کی صورت میں جملہ فعلیہ بنا سلمت سلاما، جو حُدوث وتجدُّد پر دلالت کرتا ہے، تو جیسا کہ قرآن کریم میں حکم ہے کہ سلام کا جواب، سلام کرنے والے کے الفاظ سے بہتر الفاظ میں ہو، حضرت خلیل اللہ نے اس کی تعمیل فرمائی، اس کی مزید تفصیل ”رموزِ سلام“ کے تحت آئے گی۔(ابن کثیر:4/236)

﴿تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہُ سَلَامٌ وَأَعَدَّ لَہُمْ أَجْراً کَرِیْماً﴾․ (الاحزاب: 44)
جس دن مومنین کاملین اپنے رب سے ملاقات کریں گے، ان کاتحیہ سلٰمٌ ہوگا اور اللہ نے ان کے واسطے بڑا اچھا اجر تیار کررکھا ہے۔

مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
یہ اسی صلاة کی توضیح وتفسیر ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن بندوں پر ہوتی ہے، یعنی جس روز یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ملیں گے تو اس کی طرف سے ان کا اعزازی خطاب، سلام سے کیا جائے گا، یعنی السلام علیکم، کہا جائے گا، اللہ تعالیٰ سے ملنے کا دن کون سا ہوگا؟ امام راغب وغیرہ نے فرمایا کہ مراد اس سے روز قیامت ہے اور بعض ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ جنت میں داخلے کا وقت مراد ہے؛ جہاں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی سلام پہنچے گا اور سب فرشتے بھی سلام کریں گے اور بعض حضرات مفسرین نے اللہ تعالیٰ سے ملنے کا دن موت کا دن قرار دیا ہے کہ وہ دن سارے عالم سے چھوٹ کر صرف ایک اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کا دن ہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ ملک الموت جب کسی مومن کی روح قبض کرنے کے لیے آتا ہے تو اول اس کو یہ پیام پہنچاتا ہے کہ تیرے رب نے تجھے سلام کیا ہے اور لفظ لقاء ان تینوں حالات پر صادق ہے؛ اس لیے ان اقوال میں کوئی تضاد وتعارض نہیں، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سلام تینوں حالات میں ہوتا ہو۔(روح المعانی)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا باہم ایک دوسرے کو تحیہ لفظ ”السلام علیکم“ ہونا چاہیے، خواہ بڑے کی طرف سے چھوٹے کے لیے ہو یا چھوٹے کی طرف سے بڑے کے لیے ہو۔(معارف القرآن: 7/176)

علامہ قرطبی نے ایک روایت ذکر کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن بندے کی روح قبض کرنے سے پہلے ملک الموت، اسے خود سلام کرتے ہیں۔

وقد ورد أنہ لا یقبض روح موٴمن إلا سلم علیہ، روي عن البراء بن عازب قال: ”تحیتہم یوم یلقونہ سلم“ فیسلم ملک الموت علی الموٴمن عند قبض روحہ، لا یقبض روحہ حتی یسلم علیہ․ (مختصر تفسیر القرطبی: 3/479)

اب کل چار اقوال ہوگئے۔

﴿وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّةً وَسَلَاماً﴾․ (الفرقان: 74)
یعنی جنت کی دوسری نعمتوں کے ساتھ، ان کو (مومنین) کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوگا کہ فرشتے ان کو مبارک باد دیں گے اور سلام کریں گے۔ (معارف القرآن6/498)

﴿لَا یَسْمَعُونَ فِیْہَا لَغْواً وَلَا تَأْثِیْماً إِلَّا قِیْلاً سَلَاماً سَلَاماً﴾․ (الواقعة: 25،26)
(اور) وہاں نہ بَک بَک سنیں گے اور نہ وہ کوئی اور بے ہودہ بات (سنیں گے، یعنی شراب پی کر یا ویسے بھی ایسی چیزیں نہ پائی جاویں گی جن سے عیش مُکَدَّر ہوتی ہے) بس (ہر طرف سے) سلام ہی سلام کی آواز آوے گی…(جو کہ دلیل، اکرام واعزاز کی ہے، غرض روحانی وجسمانی ہر طرح کی لذت ومسرت اعلیٰ درجہ کی ہوگی)۔ (معارف القرآن: 8/267)

سورہ واقعہ کی ابتدائی آیات میں، میدانِ حشر میں حاضرین کی جو تین قسمیں ہوں گی، ان میں سے ”سابقین“کے لیے بہت ساری نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ وہ لوگ ہر طرف سلام کے ترانے سنیں گے، جو رحمت اور محبت کی نشانی ہے اور غالباً اسی وجہ سے جنت کا ایک نام ”دارالسلام“ بھی ہے۔

﴿سَلاَمٌ عَلَیْْکُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ﴾․ (الرعد: 24)
سورہ رعد کی آیات 20 تا24 میں اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بندوں کی نو صفات کا تذکرہ ہے، اس کے بعد ان کی جزا کا بیان ہے، اخیرمیں، دارِ آخرت میں ان کی فلاح وکام یابی کا مزید بیان یہ ہے کہ فرشتے ہر دروازے سے ان کو سلام کرتے ہوئے داخل ہوں گے اور کہیں گے: تمہارے صبر کی وجہ سے تمام تکلیفوں سے سلامتی ہے اور کیسا اچھا انجام ہے دار آخرت کا۔

﴿سَلَامٌ قَوْلاً مِن رَّبٍّ رَّحِیْمٍ﴾․ (یس:58)
اور ان کو (اہل جنت) پروردگار مہربان کی طرف سے سلام فرمایا جائے گا(یعنی حق تعالیٰ فرمائیں گے السلام علیکم یا أہل الجنة(رواہ ابن ماجة)․ (معارف القرآن:7/400)

﴿تَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلاَمٌ﴾․(یونس: 10)
(پھرجب (اہل جنت) ایک دوسرے کو دیکھیں گے تو ان کا باہمی سلام یہ ہوگا السلام علیکم․

اس آیت میں اہل جنت کا حال بتایا گیا ہے کہ تحیتہم فیہا سلٰم، تحیہ عرف میں اس کلمہ کو کہا جاتا ہے، جس کے ذریعہ کسی آنے والے یا ملنے والے شخص کا استقبال کیاجاتا ہے جیسے سلام یا” خوش آمدید“ یا ”أہلا وسہلا“ وغیرہ، اس آیت نے بتادیا کہ اللہ جل شانہ کی طرف سے یا فرشتوں کی طرف سے اہل جنت کا تحیہ لفظ سلام سے ہوگا، یعنی یہ خوش خبری کہ تم ہر تکلیف اور ناگوار چیز سے سلامت رہو گے، یہ سلام خود حق تعالیٰ کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے، جیسے سورہ یس: 58 میں ہے ﴿سَلَامٌ قَوْلاً مِن رَّبٍّ رَّحِیْمٍ﴾ اور فرشتوں کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے، جیسے دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿والملئکة یدخلون علیہم من کل باب سلم علیکم﴾ یعنی فرشتے اہل جنت کے پاس ہر دروازہ سے سلام علیکم کہتے ہوئے داخل ہوں گے اور ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں کہ کسی وقت براہ راست اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچے اور کسی وقت فرشتوں کی طرف سے اور سلام کا لفظ اگر چہ دنیا میں دعا ہے؛ لیکن جنت میں پہنچ کر تو ہرمطلب حاصل ہوگا؛ اس لیے وہاں یہ لفظ دعا کے بجائے خوشی کا کلمہ ہوگا۔(روح المعانی)(معارف القرآن: 4/512)

﴿وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا سَلَامٌ عَلَیْْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوہَا خَالِدِیْن﴾َ․(الزمر:73)
یعنی جب متقی لوگ جنت پر پہنچ جائیں گے تومحافظ فرشتے ان سے کہیں گے السلام علیکم تم پر سلامتی ہو، تم مزے میں رہو، پس جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے تشریف لے جایئے، یعنی ان جنتی مہمانوں کے سرپر عزت وشرافت کا یہ زریں تاج لا محدود زمانے تک کے لیے باندھ دیا جائے گا اور اہل جنت کا یہ استقبال ایک تاریخ ساز استقبال ہوگا، اس آیت میں قابل غور بات یہ ہے کہ ایسے مرحلہ پر خطبہ استقبالیہ کے قائم مقام یہ الفاظِ سلام ہی قابل ترجیح سمجھے گئے، آخر کیوں؟ یقینا اس میں کوئی خصوصی تاثیراور معنویت کا عنصر چھپا ہوا ہے؛ جس کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔

﴿وَنَادَوْاْ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلاَمٌ عَلَیْْکُمْ﴾․ (الاعراف: 46)
مذکورہ آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو جہنم سے تو نجات پاگئے؛ مگر ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے؛ البتہ اس کے امیدوار ہیں کہ وہ بھی جنت میں داخل ہوجائیں، ان لوگوں کو اہل اعراف کہا جاتاہے۔

اب اصل آیت کا مضمون دیکھیے، جس میں ارشاد ہے کہ: اہل اعراف اہلِ جنت کو آواز دے کر کہیں گے (سلامٌ علیکم) یہ لفظ دنیامیں بھی باہمی ملاقات کے وقت بطور تحفہ واکرام کے بولا جاتا ہے اور مسنون ہے اور بعد موت کے، قبروں کی زیارت کے وقت بھی اور محشر اور جنت میں بھی؛ لیکن آیات اور روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں السلام علیکمکہنا مسنون ہے اور اس دنیا سے گذرنے کے بعد بغیر الف لام کے سلامٌ علیکم کا لفظ مسنون ہے، زیارتِ قبور کاجو کلمہ قرآن مجید میں مذکور ہے، وہ بھی ﴿سلامٌ علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار﴾آیا ہے اور فرشتے جب اہلِ جنت کا استقبال کریں گے اس وقت بھی یہ لفظ اسی عنوان سے آیا ہے، ﴿سلامٌ علیکم طبتم فادخلوہا خالدین﴾اور یہاں بھی اہل اعراف اہل جنت کو اسی لفظ کے ساتھ سلام کریں گے۔(معارف القرآن:3/768)

﴿لَہُمْ دَارُ السَّلاَمِ عِندَ رَبِّہِمْ وَہُوَ وَلِیُّہُمْ بِمَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ﴾․ (الانعام: 127)
یعنی جو لوگ قرآنی ہدایات قبول کرنے والے ہیں، ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے، ان کے رب کے پاس۔

اس آیت میں صراطِ مستقیم پر چلنے والوں کے لیے ثمرہ کا بیان ہے کہ ان کے واسطے دارالسلام ہے؛اسی لیے دخولِ جنت کے وقت ہی انہیں سلامتی کا پیغام سنا دیا جائے گا اور کہا جائے گا ادْخُلُوہَا بِسَلاَمٍ آمِنِیْنَ․ (الحجر: 46)

مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
اس آیت میں لفظ دار کے معنی گھر اور سلام کے معنی تمام آفتوں، مصیبتوں اور محنتوں سے سلامتی کے ہیں، اس لیے دارالسلام اس گھر کو کہاجاتا ہے، جس میں کسی تکلیف ومشقت اور رنج وغم اور آفت ومصیبت کا گذر نہ ہو اور وہ ظاہر ہے کہ جنت ہی ہوسکتی ہے۔

اور حضرت عبد اللہ ابن عباس نے فرمایا کہ ”السلام“ اللہ جل شانہ کا نام ہے اور دارالسلام کے معنی ہیں اللہ کا گھر اور ظاہر ہے کہ اللہ کا گھر امن وسلامتی کی جگہ ہوتی ہے؛ اس لیے حاصل معنی پھر یہی ہوگئے کہ وہ گھر جس میں ہر طرح کا امن وسکون اور سلامتی واطمینان ہو، جنت کو دارالسلام فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ جنت ہی صرف وہ جگہ ہے جہاں انسان کو ہر قسم کی تکلیف، پریشانی اور اذیت اور ہر خلافِ طبع چیز سے مکمل اور دائمی سلامتی حاصل ہوتی ہے، جو دنیا میں نہ کسی بڑے بادشاہ کو کبھی حاصل ہوئی اور نہ بڑے سے بڑے نبی ورسول کو؛ کیوں کہ دنیائے فانی کا یہ عالم ایسی مکمل اور دائمی راحت کا مقام ہی نہیں۔

… اور رب کے پاس ہونے کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ دارالسلام یہاں نقد نہیں ملتا؛ بلکہ جب وہ قیامت کے روز اپنے رب کے پاس جائیں گے اس وقت ملے گا اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ دارالسلام کا وعدہ غلط نہیں ہوسکتا، رب کریم اس کا ضامن ہے وہ اس کے پاس محفوظ ہے اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس دارالسلام کی نعمتوں اور راحتوں کو آج کوئی تصور میں بھی نہیں لا سکتا، رب ہی جانتا ہے جس کے پاس خزانہ محفوظ ہے۔(معارف القرآن:3/448)

مذکورہ آیات میں سلام کاتذکرہ، بطور تحیہ کے تھا اور عام طور سے مومنین کا ملین کے لیے استعمال ہوا ہے،یا ادب وتہذیب سکھانے کے لیے؛ اس کے علاوہ قرآن میں یہ کلمہ انبیاء ورسل کے لیے بھی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال کیا گیا ہے؛ جس میں عنایت وتوجہ اور محبت کارس بھرا ہوا ہے، وہ آیات مندرجہ ذیل ہیں۔

﴿وَسَلَامٌ عَلَیْْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیّاً﴾․ (مریم: 15)
اور سلام پہنچے ان پر (حضرت یحییٰ) جس دن وہ پیدا کیے گئے اور جس دن دنیا سے رخصت ہوں اور جس دن (قیامت میں) زندہ ہوکر اٹھائے جائیں۔

یعنی حضرت یحییٰ علیہ الصلاة والسلام ایسے وجیہ اور مکرم تھے کہ ان کے حق میں، منجانب اللہ یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچے، جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن وفات پائیں اور جس دن(قیامت میں) زندہ ہوکر اٹھائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تین اوقات میں سلامتی کی دعا جو دی گئی ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ، ان تینوں اوقات میں انسان انتہائی ضعیف اور ضرورت مند ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے نصرت ، مدد اور سلامتی کا خواہاں ہوتا ہے، پیدائش کاوقت، موت کا وقت بڑا نازک ہوتا ہے اور دوبارہ زندہ کیے جانے کے وقت کی نزاکت کا کیا پوچھنا۔(بدائع الفوائد:2/ 168)

علامہ طبری کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں”سلام“ سے مشہور ومتعارف سلام مراد نہیں ہے؛ بلکہ یہ سلام امن وامان کے معنی میں ہے؛ لیکن ابن عطیہ نے اس رائے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اظہر قول یہ ہے کہ یہاں سلام سے وہی متعارف تحیہ مراد ہے اور امن وامان کے مقابلہ میں یہ معنی زیادہ بہتر اور قرینِ قیاس ہے؛ کیوں کہ امن وامان کا مفہوم تو حضرت یحییٰ علیہ الصلاة والسلام سے عصیان کی نفی کر کے حاصل ہوجاتا ہے، شرف وسعادت تو اس میں ہے کہ اللہ انہیں سلام کریں۔

قال الطبري وغیرہ: معناہ أمان، ابن عطیة: والأظہر عندي: أنہا التحیة المتعارفة فہي أشرف وأنبہ من الأمان؛ لأن الأمان متحصل لہ بنفي العصیان عنہ، وہي أقل درجاتہ؛ وإنما الشرف في أن سلم اللہ علیہ․ (القرطبی: 3/58)

﴿سَلَامٌ عَلَی نُوحٍ فِیْ الْعَالَمِیْنَ﴾․(الصافات: 79)
اور ہم نے ان کے لیے پیچھے آنے والے لوگوں میں یہ بات رہنے دی کہ نوح پر سلام ہو عالم والوں میں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے،ان کی نظر میں حضرت نوح کو ایسا معزز ومکرم بنادیا کہ وہ قیامت تک حضرت نوح علیہ السلام کے لیے سلامتی کی دعا کرتے رہیں گے؛ چناں چہ واقعہ بھی یہی ہے کہ تمام وہ مذاہب جو اپنے آپ کو آسمانی کتابوں سے منسوب کرتے ہیں، سب کے سب حضرت نوح علیہ السلام کی نبوت اورتقدس کے قائل ہیں، مسلمانوں کے علاوہ یہودی اور نصرانی بھی آپ کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔(معارف القرآن:7/444)

﴿وَتَرَکْنَا عَلَیْْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ سَلَامٌ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ﴾․ (الصافات:108، 109)
اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لیے رہنے دی کہ ابراہیم پر سلام ہو۔

﴿سَلَامٌ عَلَی مُوسَی وَہَارُون﴾․(الصافات: 120) سلام ہے موسی وہارون پر۔

﴿سَلَامٌ عَلَی إِلْ یَاسِیْنَ﴾․(الصافات: 130) (الیاسین بھی الیاس علیہ السلام ہی کا ایک نام ہے، اہل عرب اکثر عجمی ناموں کے ساتھ یاء اور نون بڑھادیتے ہیں، جیسی سینا سے سینین، اسی طرح یہاں بھی دو حروف بڑھا دیے گئے ہیں)

سلام ہے الیاس پر۔

﴿وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْن﴾․(الصافات: 181) اور سلام ہے رسولوں پر۔

شروع میں اللہ تعالیٰ نے کچھ پیغمبروں کے اسماء کی صراحت کر کے سلام بھیجا ہے اور اخیر آیت میں ”المرسلین“ کا لفظ استعمال کر کے جملہ انبیاء ورسل پر سلامتی بھیجی ہے؛ چناں چہ اس کا اثر دنیا میں یہ ظاہر ہوا کہ جب بھی انبیاء ورسل کے نام آتے ہیں، مسلمان اُن کے ناموں کے ساتھ”علیہ السلام“ کا اضافہ کرتے ہیں، اِس طرح اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کو لوگوں کی دعاوٴں اور سلامتی کی بشارتوں کا مرکز بنادیا۔

﴿قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ وَسَلَامٌ عَلَی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفَی﴾․ (النمل: 59)

انبیائے سابقین اور ان کی امتوں کے کچھ حالات اور ان پر عذاب آنے کے واقعات ،کا ذکر کرنے کے بعد یہ جملہ نبی کریمصلی الله علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ آپ اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ کی امت کو دنیا کے عذابِ عام سے مامون کردیا گیا ہے اور انبیائے سابقین اور اللہ کے بر گزیدہ بندوں پر سلام بھیجے۔

جمہور مفسرین نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے اور بعض نے اس کا مخاطب بھی حضرت لوط علیہ السلام کو قرار دیا ہے، اس آیت میں الَّذِیْنَ اصْطَفٰیکے الفاظ سے ظاہر یہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام مراد ہیں؛ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے ﴿وسلٰمٌ علی المرسلین﴾ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھماسے ایک روایت میں ہے کہ اس سے مراد رسول اللہصلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں، سفیان ثوری نے اسی کواختیار کیا ہے۔(أخرجہ عبد بن حمید والبزار وابن جریر وغیرہم)

اگر آیت میں الذین اصطفٰی سے مراد صحابہ کرام لیے جائیں، جیسا کہ ابن عباس کی روایت میں ہے تو اس آیت سے غیر ابنیاء پر سلام بھیجنے کے لیے انہیں ”علیہ السلام“ کہنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

مسئلہ: اس آیت سے خطبہ کے آداب بھی ثابت ہوئے کہ وہ اللہ کی حمد اور انبیاء علیھم السلام پر درود وسلام سے شروع ہونا چاہیے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے تمام خطبات میں یہی معمول رہا ہے؛ بلکہ ہر اہم کام کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پر درود وسلام مسنون ومستحب ہے،کذا فی الروح۔ (معارف القرآن :6/592)

﴿قُلْنَا یَا نَارُ کُونِیْ بَرْداً وَسَلَاماً عَلَی إِبْرَاہِیْمَ﴾․ (انبیاء: 59)

ہم نے (آگ کو) حکم دیا کہ اے آگ! تو ٹھنڈی اور بے گزند ہوجا، ابراہیم کے حق میں(یعنی نہ ایسی گرم رہ جس سے جلنے کی نوبت آوے اور نہ بہت ٹھنڈی برف ہوجا کہ اس کی ٹھنڈک سے تکلیف پہنچے؛ بلکہ مثل ہوائے معتدل کے بن جا؛ چناں چہ ایسا ہی ہوگیا)۔

بردو سلام کا مفہوم
اوپر گذر چکا ہے کہ آگ کے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر برد وسلام ہونے کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ آگ، آگ ہی نہ رہی ہو؛ بلکہ ہوامیں تبدیل ہوگئی ہو؛ مگر ظاہر یہ ہے کہ آگ اپنی حقیقت میں آگ ہی رہی، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آس پاس کے علاوہ دوسری چیزوں کو جلاتی رہی؛ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جن رسیوں میں باندھ کر آگ میں ڈالا گیا تھا، اُن رسیوں کو بھی آگ ہی نے جلا کر ختم کیا؛ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بدن مبارک تک کوئی آنچ نہیں آئی۔ (کما في بعض الروایات)

تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آگ میں سات روز رہے اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے عمر میں کبھی ایسی راحت نہیں ملی جتنی ان سات دنوں میں حاصل تھی (مظہری)۔ (معارف القرآن: 6/202)

﴿سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾․ (القدر: 5)

(اور وہ شبِ قدر) سراپا سلام ہے (جیسا کہ حدیث بیہقی میں حضرت انس سے مرفوعاً مروی ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے ایک گروہ میں آتے ہیں اور جس شخص کو قیام وقعود وذکر میں مشغول دیکھتے ہیں تو اس پر صلاة بھیجتے ہیں، یعنی اس کے لیے دعاء ِرحمت کرتے ہیں، اور خازن نے ابن الجوزی سے اس روایت میں، یسلّمونبھی بڑھایا ہے، یعنی سلامتی کی دعا کرتے ہیں اور یصلونکا حاصل بھی یہی ہے ؛کیوں کہ رحمت وسلامتی میں تلازُم ہے، اسی کو قرآن میں سلام فرمایاہے اور امرِ خیر سے مراد یہی ہے اور نیز روایات میں، اِس میں توبہ قبول ہونا، ابواب سماء کا مفتوح ہونا اور ہر مومن پر ملائکہ کا سلام کرنا آیاہے، (کذا فی الدر المنثور)…( اور) وہ شب قدر (اسی صفت وبرکت کے ساتھ) طلوع فجر تک رہتی ہے۔

سلامٌ،عبارت کی اصل ہی سلامٌہے، لفظ ھیحذف کردیا گیا، معنی یہ ہیں کہ یہ رات سلام اور سلامتی ہی ہے اور خیر ہی خیر ہے، اس میں شرکا نام نہیں(قرطبی) اور بعض حضرات نے تقدیر عبارت سلام ہو قرار دے کر اس کو من کل أمر کی صفت بنایا اور معنی یہ ہوئے کہ یہ فرشتے ہر ایسا امر لے کر آتے ہیں جو خیر وسلام ہے۔(مظہری) (معارف القرآن:8/794)

راقم الحروف عرض گزار ہے کہ ان تمام آیات اور ان کی تفاسیرسے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ لفظ ”سلام“ راحت اور سلامتی کے حوالے سے ایک بحربیکراں ہے، جس کی گہرائی وگیرائی اللہ کو ہی معلوم ہے اور اسی لیے یہ دعا اتنی اہم اور با عظمت سمجھی گئی، اس کے باوجود اگر کوئی سلام سے بے رخی برتے یا سلام کی اصلی شکل کو مسخ کر کے غیروں کی رَوِش اپنائے یا سلام کو جوں کا توں رکھے؛ مگر اس کے تقاضوں سے نابلد رہے تو یہ قابلِ افسوس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک لمحہ فکریہ ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے۔





سلام اور جوابِ سلام میں”وبرکاتہ“ کے بعد”ومغفرتہ“ وغیرہ کا اضافہ

جائز یا ناجائز --- ایک تحقیقی بحث



سلام کرنے کا افضل طریقہ یہ ہے کہ ”السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ“ کہا جائے، یہی حکم جواب کابھی ہے؛ لیکن بعض روایتوں میں ”وبرکاتہ“ کے بعد”ومغفرتہ“ کا اضافہ وغیرہ بھی منقول ہے، اُس کی حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ معمول بہا ہے یا نہیں؟ ذیل میں اس حوالے سے ایک تحقیقی اور علمی بحث پیش کی جارہی ہے۔
اگر بات سنت کی کی جائے تو مسنون یہی ہے کہ السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ پر اضافہ نہ کیا جائے ”وبرکاتہ“ سلام کی انتہا ہے اور اِس پر اضافہ کرنا خلافِ سنت ہے۔
(۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یا عائشة! ہذا جبرئیل یُقرأ علیکِ السلامَ، فقلت: وعلیہ السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ، فذہبت تزید، فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: إلی ہذا انتہی السلام، فقال: (رحمة اللہ وبرکاتہ علیکم أہل البیت)
اے عائشہ! یہ جبرئیل تھے،تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، میں نے کہا : وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اِس پر اضافہ کرنے لگیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلام کی حد یہیں تک ہے، پھر آپ نے (مذکورہ آیت) پڑھی (اللہ کی رحمت اور برکات تم پر ہوں اے اہل بیت!) (بخاری، رقم: ۳۰۴۵، بدء الخلق)
(۲) امام مالک رحمة ا للہ علیہ نے موطا میں سند جید کے ساتھ محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت نقل کی ہے: وہ کہتے ہیں:
میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ کے پاس ایک یمنی شخص داخل ہوئے اور سلام یوں کیا: السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ، ثم زاد شیئاً مع ذلک پھر مزید کچھ کلمات کہے، حضرت نے، جو اُن دنوں بینائی سے محروم ہوگئے تھے، کہا: کون ہے؟ لوگوں نے کہا: ایک یمنی صاحب ہیں جوآپ کے پاس آتے رہتے ہیں؛ چناں چہ لوگوں نے اُن کا تعارف کرایا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: إن السلام انتہی إلی البرکة سلام کی انتہا برکت تک ہے۔(موطا مالک، رقم: ۱۷۲۸، باب العمل فی السلام)
(۳) اسی روایت کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں بھی نقل کیا ہے، اس روایت میں کچھ اضافہ ہے:
ایک سائل آیا اور آپ کو سلام کیا اور کہا: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ ورضوانہ اور اِس کو اُس سے شمار کیا (یعنی ومغفرتہ ورضوانہ کو سلام کا حصہ خیال کیا) تو ابن عباس نے کہا: ما ہذا السلام؟ وغضب حتی احمرت وجنتاہ یہ کیسا سلام ہے ؟اور غصہ ہوئے؛ یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، پھر آپ کے بیٹے علی نے آپ سے کہا :اباجان! یہ مسئلہ پوچھنے والا ہے، آپ نے کہا: إن اللّٰہ حدّ السلام حداً وینہی عما وراء ذلک ثم قرأ ”رحمة اللہ وبرکاتہ علیکم أہل البیت انہ حمید مجید“ بے شک اللہ نے سلام کی ایک حد مقرر کردی ہے اور اس سے زائد سے منع فرمایا ہے، پھر آیت پڑھی رحمة اللّٰہ وبرکاتہ علیکم أہل البیت انہ حمید مجید(ہود: ۳۷) (شعب الایمان، رقم: ۸۸۷۸، فصل فی کیفیة السلام)
(۴) زہرہ ابن معبد کہتے ہیں: کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انتہی السلام إلی ”وبرکاتہ“ حافظ ابن حجر نے کہا: اس کے رجال ثقہ ہیں۔(فتح الباری: ۱۱/۶، رقم الحدیث: ۸۸۷۸)
(۵) ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کویوں سلام کیا : السلام علیک ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ ومغفرتہ، تو ابن عمر نے اسے ڈانٹا اور کہا: حسبک إذا ا نتہیت إلی ”وبرکاتہ“ إلی ما قال اللّٰہ عزوجل یعنی تیرے لیے کافی ہے جب تو ”وبرکاتہ“ تک پہنچے، جو اللہ تعالیٰ نے کہا( ابن عمر کی مراد وہی آیت تھی جو اوپر گذری) (ہود: ۳۷) (شعب الایمان: ۸۸۸۰)
(۶) حضرت یحییٰ بن سعید سے مروی ہے: کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک شخص نے یوں سلام کیا، السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ والغادیات والرائحات ابن عمر نے جواباً کہا: تمہارے اوپر ہزار مرتبہ ہو ․ راوی کہتے ہیں : ابن عمر نے ایسا جواب، اس سلام کے طریقے کو ناپسند کرنے کی وجہ سے دیا( گویا طنزاً جواب تھا) کیوں کہ اُس نے وبرکاتہ کے بعد والغادیات کا اضافہ کردیا تھا۔(موطا مالک، رقم: ۱۷۳۳)
(۷) پیچھے عمران بن حصین کی روایت نقل کی گئی ہے، جس میں السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ تک کا تذکرہ ہے، جس پر تیس نیکیاں ملتی ہیں اُس میں اِس کے بعد کچھ الفاظ کا تذکرہ نہیں ہے۔(ابوداوٴد: ۵۱۹۵)
(۸) ہندیہ میں ہے: ولا ینبغي أن یزاد علی البرکات، قال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: لکل شيء منتہی، ومنتہی السلام البرکات کذا في المحیط (ہندیہ: ۵/۳۲۵)
(۹) صاحب منتقٰی علامہ باجی لکھتے ہیں: سلام کے تین اجزاء ہیں (۱) السلام علیکم (۲) ورحمة اللّٰہ (۳) وبرکاتہ، جس کسی نے ایک یا دو جزوں پر اکتفا کیا تو کافی ہے اور جس نے تینوں اَجزاء کو جمع کیا تو اُس نے مقصود کوحاصل کرلیا اور جب مقصود حاصل ہوگیا تو اُس پر اضافہ کرنا درست نہیں۔(المنتقٰی: ۴/۲۸۰)
(۱۰) امام محمد نے موطا محمد میں لکھا ہے: إذا قال: السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ، فلیکفف؛ فإن اتباع السنة أفضل یعنی اگر سلام کرنے والے نے سلام یوں کیا السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ تو اب وہیں رک جائے، اضافہ نہ کرے؛ کیوں کہ سنت کی پیروی بہر حال افضل ہے۔(موطا امام محمد: ۳۸۵)
اور موطا امام محمد کے شارح علامہ لکھنوی نے اس قول کی شرح میں لکھا ہے:
العمل الکثیر في بدعة لیس خیرا من عمل قلیل في سنة وظاہرہ أن الزیادة علی ”وبرکاتہ“ خلاف السنة مطلقاً(التعلیق الممجد مع موطا امام محمد:۳۸۵)
بدعت میں عمل کثیر، سنت میں عمل قلیل سے بہتر نہیں ہے یعنی سنت کا عمل چاہے تھوڑا ہی ہو بدعت میں زیادتی ٴعمل سے بہر حال بہتر ہے؛ پس ظاہر یہی ہے کہ وبرکاتہ پر اضافہ مطلقاً خلافِ سنت ہے۔ تلک عشرة کاملة
خلاصہٴ کلام: مذکورہ تصریحات سے معلوم ہوا کہ سلام کا ادنیٰ درجہ السلام علیکم ہے، اس پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور اگر السلام علیکم ورحمة اللّٰہ کہا جائے تو بیس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ سلام کا اعلیٰ درجہ ہے، اس پر تیس نیکیاں ملتی ہیں، اور یہی حکم جواب کا بھی ہے؛ البتہ جواب ہمیشہ سلام کے مقابلہ میں اچھے الفاظ میں دینا چاہیے یعنی اگر کوئی صرف السلام علیکم کہے تو جواباً وعلیکم السلام ورحمة اللّٰہ کہنا  افضل ہے اور السلام علیکم ورحمة اللّٰہ کسی نے کہا تو جواباً وعلیکم السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ کہنا افضل ہے، اور اگر کسی نے ابتداء ً ہی السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ کہہ دیا تو جواب میں وبرکاتہ پر اضافہ مسنون نہیں؛ کیوں کہ وبرکاتہ ابتداء ً اور جواباً سلام کی حد ہے اور سنت سمجھتے ہوئے حد کو پار کرنا درست نہیں۔
شواہد ومویدات
مذکورہ دلائل کے علاوہ اس مسئلہ کے دیگر مویدات اور شواہد بھی ہیں۔
(۱) تَشَہُّد میں سلام کے الفاظ بھی ”وبرکاتہ“ پر ختم ہوتے ہیں: السلام علیک أیہا النبي ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ(مسلم، رقم: ۸۷۲)
(۲) نماز سے نکلنے کے سلام کے عام الفاظ ،جو احادیث صحیحہ کثیرہ سے ثابت ہیں وہ رحمة اللّٰہ تک ہیں؛ جب کہ بعض احادیث میں وبرکاتہ بھی ثابت ہے؛ لیکن وبرکاتہ پر اضافہ کسی روایت میں نہیں ہے۔ علقمہ بن وائل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
صلیت مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم فکان یُسَلِّم عن یمینہ السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ (ابوداوٴد: ۱/۱۵۰)
(۳) امام بیہقی نے شعب الایمان میں زہرہ بن معبد کی روایت نقل کی ہے:
عروہ بن الزبیر کو ایک آدمی نے یوں سلام کیا : السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ تو عروہ نے کہا: ما ترک لنا فضلا إن السلام انتہی إلی وبرکاتہ کہ اس نے ہمارے لیے کوئی فضیلت نہیں چھوڑی؛ بے شک سلام کی انتہا وبرکاتہ تک ہے۔(شعب الایمان، رقم الحدیث: ۹۰۹۶)
اُن روایات کا علمی جائزہ جن میں ”وبرکاتہ“ پر اِضافہ ہے
کتب حدیث میں کچھ روایتیں ایسی ملتی ہیں، جن سے ”وبرکاتہ“ پر اضافہ ثابت ہوتا ہے، ذیل میں چند روایات کا تذکرہ کیا جارہا ہے:
(۱) حدثنا إسحاق بن سوید الرملي، حدثنا أبو مریم، أظن أني سمعت نافع بن یزید قال: أخبرني أبو مرحوم، عن سہل بن معاذ بن أنس، عن أبیہ، عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بمعناہ، زاد ثم أتی آخر، فقال: السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ ومغفرتہ فقال: أربعون قال: ہکذا تکون الفضائل
․․․․․ پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ ومغفرتہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ان کے لیے) چالیس نیکیاں ہیں اور فرمایا: فضیلت وثواب میں ایسے ہی اضافہ ہوتا ہے۔(ابوداوٴد: ۵۱۹۶، باب کیف السلام)
      ابوداوٴد نے یہ روایت اُس روایت کے بعد متصلًا ذکر کی ہے، جس میں تیس نیکیوں کے ملنے کا تذکرہ ہے، جس کے راوی حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ہیں، مذکورہ بالا حدیث کے راوی معاذ بن انس رضی اللہ عنہ ہیں، اِس میں ومغفرتہ کا اضافہ ہے، نیز اِس پر چالیس نیکیوں کے ملنے کا تذکرہ ہے۔
جائزہ: لیکن علمی اعتبار سے یہ حدیث قابل استدلال نہیں، صاحب اوجز المسالک نے اِس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: علامہ منذری فرماتے ہیں: کہ یہ حدیث ضعیف ہے؛ کیوں کہ سندِ حدیث کا ایک راوی ابو مرحوم عبد الرحیم بن میمون ہے، اِس کی روایات قابل استدلال نہیں ہوتیں۔(اوجز: ۱۷/۱۷۶) ابو حاتم کہتے ہیں: یُکتبُ حدیثُہ ولا یُحتَجُّ بہ اس کی حدیث لکھی جائے گی؛ مگر استدلال نہیں کرسکتے۔(میزان الاعتدال: ۵۰۳۷)
اِسی حدیث کے دوسرے راوی ہیں سہل بن معاذ، اِن کو بھی یحییٰ بن معین نے ضعیف کہا ہے؛ اگر چہ ابن حبان نے اِنہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔(میزان: رقم: ۳۵۹۲)
حافظ ابن حجر نے تقریب میں عبد الرحیم بن میمون کو صَدوق اور سہل بن معاذ کو لا بأس بہ کہنے کے باوجود اِس حدیث کے بارے میں کہا ہے: کہ اِس کی سند ضعیف ہے۔(فتح الباری:۱۱/۸)
حدیث کے راوی ابن ابی مریم نے دوسرے راوی نافع ابن یزید کے بارے میں، سند کے اندر کہا ہے: میرا گمان ہے کہ میں نے نافع بن یزید سے سنا ہے، یعنی اُنھوں نے سماعت کا جزم اور یقین بیان نہیں کیا ہے؛ چناں چہ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:
ولا یثبت ہذا الحدیث؛ فإن لہ ثلاث علل: إحداہا، أنہ من روایة أبي مرحوم عبد الرحیم بن میمون، ولا یُحتَجُّ بہ
الثانیة: أن فیہ أیضا سہل بن معاذ وہو أیضا کَذٰلک
الثالثة: أن سعید بن أبي مریم أحَدُ راویہ لم یَجزِم بالروایة؛ بل قال: أظن أني سمعت نافع بن یزید(زاد المعاد: ۲/۴۱۷، فصل صیغة السلام)
اب حاصل یہ نکلا کہ ابوداوٴد کی مذکورہ روایت ضعیف ہے، اور اُن روایات کے مقابلہ میں جن میں وبرکاتہ پر اضافہ نہیں ہے یا منع کیا گیا ہے، قابلِ استدلال نہیں۔
(۲) حضرت انس سے مروی ہے: کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جانور چَرانے والے صاحب گذرتے تھے، تو یوں سلام کرتے تھے ”السلام علیک یا رسول اللہ! تو رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم جواب یوں دیتے: وعلیک السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ ومغفرتہ ورضوانہ صلی اللہ علیہ وسلمالحدیث (عمل الیوم واللیلة لابن السنی: رقم: ۲۳۵، منتہی رد السلام)
اس حدیث میں ”وبرکاتہ“ پر دو الفاظ ومغفرتہ ورضوانہ کا اضافہ ہے؛ لیکن مذکورہ حدیث ضعیف ہے، محققین کی آراء پڑھیے:
علامہ نووی کہتے ہیں: روینا في کتاب ابن السني بإسناد ضعیف عن أنس (الاذکار: ۲۰۹)
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: وأخرج ابن السني في کتابہ بسندٍ واہٍ من حدیث أنس (فتح الباری:۱۱/۶)
حافظ ابن القیم لکھتے ہیں: وأضعف من ہذا، الحدیثُ الآخر عن أنس (زادالمعاد: ۲/۴۱۸)
 خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث ابوداوٴد والی حدیث سے بھی زیادہ ضعیف ہے اور بقول ابن حجر: اس کی سند واہی تبا ہی ہے، لہٰذا وبرکاتہ پر اضافہ کی مسنونیت پر استدلال درست نہیں۔
(۳) عن زید بن أرقم قال: کنا إذا سلم النبي صلی اللہ علیہ وسلم علینا، قلنا: وعلیک السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ ومغفرتہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سلام کرتے تو ہم جواب میں وعلیک السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ ومغفرتہ کہتے تھے۔ (شعب الایمان: رقم: ۸۸۸۱، فصل فی کیفیة السلام)
اس حدیث پر بھی شارحینِ حدیث نے کلام کیا ہے؛ چناں چہ محقق حافظ ابن حجر کہتے ہیں: وأخرج البیہقي في ”الشعب“ بسندٍ ضعیف أیضا، من حدیث زید بن أرقم (فتح الباری: ۱۱/۶)
حاصل گفتگو: الغرض سلام وجوابِ سلام میں ومغفرتہ وغیرہ کے اضافہ کے جواز کے بارے میں یہ چند روایات ذکر کی گئیں؛ جن کا حال ظاہر ہوا کہ علمی اعتبار سے ضعیف ہیں؛ جب کہ دوسری طرف سلام اور جوابِ سلام کا ”وبرکاتہ“پر ختم ہونا اور اُس پر اضافہ کے عدم جواز کی روایات سامنے آگئیں؛ لہٰذا اب مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ ابتداء ً اور جواباً دونوں صورتوں میں سلام کی آخری حد وبرکاتہ ہے اور یہی مسنون ہے۔
حافظ ابن حجر کی رائے
حافظ ابن حجر شارحِ بخاری نے اِن روایات پر گفتگو کرتے ہوئے اخیر میں لکھا ہے:
وہذہ الأحادیث الضعیفة إذا انضَمَّت قوي ما اجتمعت علیہ من مشروعیة الزیادة علی ”وبرکاتہ“ یعنی وہ روایات جنہیں محدثین نے ضعیف کہا ہے، اگر انہیں جمع کیا جائے اور اُن کے شواہد وتوابع کو دیکھا جائے تو کم از کم اتنا تو ثابت ہوسکتا ہے کہ ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ پر اضافہ مشروع ہے۔(فتح الباری:۱۱/۶)
شیخ الحدیث مولانا زکریا کی رائے
موطا مالک کے حنفی شارح شیخ الحدیث صاحب نور اللہ مرقدہ اوجز المسالک میں لکھتے ہیں:
اِن روایات سے زیادہ سے زیادہ ”وبرکاتہ“ پر اضافہ ثابت ہوسکتا ہے؛ لیکن سنتِ سلام کا مصداق وہی روایات ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ”وبرکاتہ“ پر اضافہ نہ کیا جائے؛ رہ گئی یہ بات کہ ابوداوٴد کی وہ روایت جس میں ”ومغفرتہ“ کے اضافہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس نیکیوں کے حصول کی بات کہی ہے، تووہ کسی مخصوص حال یا عارض کی وجہ سے ہے۔
ایسا ہوتا ہے کہ ایک عمل کا ثواب متعین ہوتا ہے اور اس میں کبھی کسی عارض کی وجہ سے زیادہ ثواب مل جاتا ہے؛ لیکن اس عارضی چیز پر مسئلہ کا مدار نہیں ہوتا؛ بلکہ پہلا طریقہ ہی معمول بہ اور مسنون ہوتا ہے، اِس کی نظیرصحیح مسلم کی وہ روایت ہے، جو حضرت انس سے مروی ہے: کہ ایک صحابی نماز کی صف میں اُس وقت شامل ہوئے؛ جب کہ ان کی سانسیں پھول رہی تھیں، انھوں نے کہا: اللّٰہ أکبر، الحمدُ لِلّٰہِ حَمْداً کَثیراً طَیِّباً مُبَارَکاً فِیہِ، اِسی روایت میں آگے ہے کہ حضور نے فرمایا: کہ میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ اِن کلمات کی جانب سبقت کررہے ہیں(مسلم، رقم الحدیث: ۶۰۰، فضل قول الحمد للہ) بخاری کی روایت میں ہے کہ ایسا واقعہ قَومَہ میں پیش آیا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ تقریباً تیس فرشتے اِس کلمے کو لینے میں سبقت کررہے تھے(رقم الحدیث: ۷۹۹) اور نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ کے پیچھے، ایک صحابی نماز پڑھ رہے تھے کہ انہیں چھینک آگئی، انھوں نے الحمد للّٰہ حمدا کثیرا طیباً مبارکا فیہ کہہ دیا۔ (رقم الحدیث: ۹۳۱)
الغرض واقعہ تکبیر تحریمہ کا ہو یا قومہ کا یا نماز میں چھینک آنے کا، بہر حال اتنا طے ہے کہ اِن مواقع پر، اِن الفاظ کا کہنا، معمول بہا اور مسنون نہیں ہے؛ حالاں کہ اِس ذکر کی خاص فضیلت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے؛ لہٰذا جیسے یہاں اِس ذکر کی فضیلت کے باوجود، اِس کا مسنون ہونا لازم نہیں آتا، ٹھیک اِسی طرح ”وبرکاتہ“ پر اضافہ کی وجہ سے چالیس نیکیوں کی فضیلت جو بیان کی گئی ہے، لازم نہیں آتا کہ وہ بھی مسنون ہو؛ الغرض اختلاف مسنون ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں ہوا، رہ گئی گنجائش کی بات، سو اضافہ کی گنجائش ہے۔ (خلاصہ اوجز المسالک: ۱۷/۱۷۷)
چناں چہ علامہ عبد الحی لکھنوی لکھتے ہیں:
فالأولی: القول بتجویز ذلک أحیانا، والاکتفاء علی ”وبرکاتہ“ أکثریاً
یعنی اکثر او رعمومی احوال میں تو وبرکاتہ پر اضافہ نہ کیا جائے، کبھی کبھار ومغفرتہ وغیرہ کا اضافہ ہوگیا تو کوئی حرج نہیں ہے۔(التعلیق الممجد علی موطا امام محمد: ۳۸۵)
خلاصہ: احیاناً جوازِ اضافہ ثابت ہے؛ البتہ اختلاف ،اضافہ کی سنیت کے بارے میں ہوا، اور سنت یہ ہے کہ اضافہ نہ کیا جائے، گو جائز ہے؛ جواز اور سنت کا فرق یاد رکھنا چاہیے۔
$ $ $






الفاظِ سلام کی تعریف وتنکیر

(لفظ سلام ال کے ساتھ اور ال کے بغیر)




قرآن کریم کی متعدد آیات میں سلام کے دونوں صیغے: یعنی السلام الف لام کے ساتھ اور سلامٌ بغیر الف لام کے آئے ہیں؛ اِسی طرح احادیث میں اکثر وبیشتر مواضع میں لفظ سلام معرفہ آیا ہے،نکرہ بہت کم آیاہے(سلام کے بارے میں صحیح تلفظ السلام علیکم ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسی پر عمل پیرا تھے، سلامٌ علیکم کہنا درست ہے؛ البتہ یہ شیعوں کا شعار بتایاجاتا ہے؛ اس لیے سلامٌ علیکم کہنے سے احتراز کرنا چاہیے، دارالافتاء دارالعلوم دیوبند: ۳۰۰۰۱) ، اِسی بنا پر فقہاء نے کہا ہے کہ لفظِ سلام کی تعریف وتنکیر دونوں درست ہیں؛ لہٰذا سلامٌ علیکم اور السلام علیکم دونوں کہنا جائز ہے؛ لیکالبتہ السلام علیکم کہنا افضل اور بہتر ہے۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: 
ولو حذف اللام، فقال: سلامٌ علیکم أجزأ، قال اللّٰہ تعالی: والملائکة یدخلون علیہم من کل باب سلام علیکم (الرعد:۲۳) وقال تعالی: فقل سلام علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمة (الأنعام:۵۴) وقال تعالی: سلام علی نوح في العالمین (الصافات:۷۹) إلی غیر ذلک؛ لکن باللام أولیٰ؛ لأنہا للتفخیم والتکثیر وثبت في حدیث التشہد السلام علیک أیہا النبي (فتح الباري:۱۳/۷)
یعنی الف لام کے حذف کے ساتھ بھی جائز ہے؛ لیکن الف لام کے ساتھ اولیٰ اور افضل ہے؛ کیوں کہ الف لام میں معنی کی زیادتی اور کثرت ہے، اِس صورت میں جنسیت واستغراق مراد ہوگا اور سلامتی کی ہر نوع اور جنس اِس دعا میں آجائے گی اور تَشَہُّد جو نماز میں مشروع ہے ،اُس میں بھی الف لام کے ساتھ السلام علیک ہے۔
علامہ شامی لکھتے ہیں: 
لو نَوَّن المجرد من أل کما ہو تحیة الملائکة لأہل الجنة، یجب الرد؛ فیکون لہ صیغتان
یعنی اگر کسی نے ال کے بغیر سلامٌ نکرہ استعمال کیا تو جواب دینا واجب ہے؛ کیوں کہ یہ فرشتوں کا، اہلِ جنت کو سلام کرنے کاطریقہ ہے؛ لہٰذا سلام کے دو صیغے ہوئے۔(ردالمحتار:۹/۵۹۶)
السلام علیکم اور سلامٌ علیکم کا ایک فرق
 آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں السلام علیکم کہنا مسنون ہے اور دنیا سے گذرنے کے بعد بغیر الف لام کے سلامٌ علیکم کا لفظ مسنون ہے، زیارتِ قبور کا جو کلمہ قرآن مجید میں مذکور ہے، وہ بھی سلامٌ علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار آیا ہے اور فرشتے جب اہلِ جنت کا استقبال کریں گے اُس وقت بھی یہ لفظ اِسی عنوان سے آیا ہے، سلامٌ علیکم طبتم فادخلوہا خالدین اور یہاں بھی اہل اَعراف اہلِ جنت کو اِسی لفظ کے ساتھ سلام کریں گے۔(معارف القرآن: ۳/۷۶۸)
ایک غلط رواج
یادرہے کہ سلام کے مسنون صیغے صرف دو ہیں: السلامُ علیکم (شروع میں الف لام اور میم پر پیش) اور سلامٌ علیکم (شروع میں ا لف لام کا حذف اور میم پر تنوین) اس کے علاوہ آپ جتنے صیغے، سلام کے بولیں، وہ سب غیر مسنون ہوں گے۔
آج خصوصاً عجم میں جہاں عربی اور عربی گرامر سے ناواقفیت عام ہے، یہ رواج عام ہے کہ لوگ السلامُ علیکم کی جگہ سَلَامْ علیکمکہتے ہیں یعنی سلام کے میم کو ساکن کر کے بولتے ہیں، در مختار میں ہے: 
أنہ لا یجب رَدُّ ”سلامْ علیکم“ بجزم المیم یعنی ایسے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے، اس کی شرح میں علامہ شامی لکھتے ہیں:
ثم رأیتُ في الظہیریة: ولفظ السلام في المواضع کلہا: السلامُ علیکم أو سلامٌ علیکم بالتنوین وبدونِ ہذین کما یقول الجُہّالُ، لا یکونُ سلاماً؛ لمخالفتہ السنة التي جائت بالترکیب العربي (الرد مع الدر: ۹/۵۹۶)
یعنی السلام علیکم یہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے شروع میں الف لام اور اخیر میں پیش ہے، حدیث میں ایسے ہی وارد ہے، اب اگر یوں کہیں ”سلامْ علیکم“ میم کے سکون کے ساتھ تو اس صورت میں ایک تو شروع سے الف لام حذف ہوگئے، دوسرے جب اسم پر الف لام نہ ہو تو عموماً اُس کے اخیر میں تنوین آتی ہے، اور یہاں وہ بھی نہیں، تو یہ نہ صرف عربی قواعد کے خلاف ہے؛ بلکہ الفاظِ حدیث کے موافق بھی نہیں؛ لہٰذا یہ مسنون نہیں ہے؛ بلکہ بقول علامہ شامی: ایسے سلام کرنے والے ناواقف اور جاہل ہوتے ہیں، اور ایسا عموماً بے توجہی اور جلد بازی کی وجہ سے ہوتا ہے؛ اِس لیے اس پہلو پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، خود بھی السلام علیکمکہیں اور دوسروں کو بھی بتائیں۔
چند اور غلط صیغے: (۱) سَلَامْ لِیکُم (۲) سَلَامَا لِیکُم (۳) السلامٌ علیکم (۵) السام لیکم (۶) السام علیکم (۷) سام علیکم (۸) سام لیکم (۹) السلامْ عَلِیکُم (میم کا سکون اور علیکم میں لام کے زیر کے ساتھ) (۱۰) السلام ألَیکم
یہ سب سلام کے غلط اور غیر مسنون صیغے ہیں، جو ناواقفیت کی وجہ سے لوگ بول دیتے ہیں، علامہ شامی کا فیصلہ یاد رکھیں ولفظ السلام في المواضع کلہا: السلامُ علیکم أو سلامٌ علیکم بالتنوین، وبدون ہذین کما یقول الجہال، لا یکون سلاماً
لفظ سلام ہر جگہ السلامُ علیکم یا سلامٌ علیکم ہے، اِن دونوں الفاظ کے علاوہ جتنے الفاظ ہیں، وہ سب مسنون سلام نہیں ہیں۔
سلام کے موقع پر ”علیک السلام“ کہنا
ابتداے سلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم کردہ الفاظ السلام علیکم یا السلام علیک ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتداءِ سلام میں علیک السلام یا علیکم السلام کو ناپسند فرمایاکرتے تھے، حضرت جابر بن سُلیم رضی ا للہ عنہ کہتے ہیں: 
میں رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو یوں سلام کیا، علیک السلامُ یا رسول اللہ! (آپ نے جواب نہیں دیا) اور کہا: لا تَقُل: علیک السلام؛ فإن علیک السلام تحیة الموتیکہ علیک (شروع میں) مت کہا کرو، یہ تو مُردوں کا سلام ہے۔(ابوداوٴد، رقم: ۵۲۰۹) 
مسئلہ: سلام کا آغاز علیک السلام یا علیکم السلام کے ذریعہ مکروہ ہے۔ (عمدةالقاری: ۱۵/۳۴۶)
مسئلہ: اِس طرح سلام کرنا،مسنون طریقہ نہیں ہے؛ لہٰذا اِس کا جواب دینا ضروری نہیں؛ ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جواب دیتے، پھر ادب سکھلاتے؛ لہٰذا اس کا سلام نہ ہونا راجح ہے۔ (ردالمحتار: ۹/۵۹۶) 
لیکن علامہ عینی کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی نے آغاز ہی میں لا علمی کی وجہ سے ”علیکم السلام“ کہہ دیا تو اگر چہ ایسا کرنا مکروہ ہے؛ لیکن اُسے جواب دے دینا چاہیے، اِس رائے کو انہوں نے صحیح قرار دیا ہے، او رعدمِ جواز کی رائے کو ”قیل“سے بیان کیا ہے۔(عمدة القاری: ۱۵/۳۴۶)؛ چناں چہ ترمذی کی روایت میں حضور کا بعد میں جواب دینا ثابت ہے۔(رقم الحدیث: ۲۷۲۱)
مسئلہ: اگر صورتِ مذکورہ میں کوئی واو کا اضافہ کرکے وعلیکم السلام کے ذریعہ سلام کرے تو جواب کا مستحق نہیں ہوگا؛ کیوں کہ اِس لفظ میں، ابتداء ًا سلام بننے کی صلاحیت ہی نہیں؛ لہٰذا یہ سلام ہی نہیں ہے۔(رد المحتار:۹/۵۹۶) 
اس کی مزید تفصیل ”رموزِ سلام“ کے تحت آئے گی، ان شاء اللہ۔
سلام کے جواب میں علیک السلام یا علیکم السلام کہنا ایک علمی بحث
السلام علیکم کا مسنون جواب وعلیکم السلام یا وعلیک السلام ہے؛ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے اور یہی لوگوں میں رائج ہے؛ لیکن فقہاء نے اِس موقع پر یہ بھی گفتگو کی ہے کہ اگر کسی نے، جواب میں بغیر واو کے علیکم السلام کہہ دیا تو یہ جوابِ سلام ہوگا یا نہیں؟ یہ ایک علمی بحث ہے، شائقینِ علم وفن کے لیے، سپرد قرطاس کی جارہی ہے۔
اس سلسلے میں دورائے ہیں: پہلی رائے یہ ہے کہ ”علیکم السلام“ بحذف الواو ،سلام کا جواب نہیں بن سکتا ،اور نہ ہی اس سے جوابِ سلام کا فریضہ ساقط ہوگا․ اِس رائے کی بنیاد تین دلیلوں پر ہے: (۱) اِس طرح جواب دینا مسنون جوابِ سلام کے خلاف ہے (۲)ایسی صورت میں یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ علیکم السلام کہنے والے نے سلام کا جواب دیا ہے یا خود ہی سلام کیا ہے؛ کیوں کہ اس صیغے میں سلام او رجواب ِسلام: دونوں کی گنجائش ہے: (۳) تیسری دلیل وہ حدیث ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا: إذا سلَّم علیکم أھل الکتاب، فقولوا: ”وعلیکم“ یعنی اہل کتاب تمہیں سلام کردیں تو جواب میں”وعلیکم“ کہہ دیا کرو(مسلم: ۲۱۶۳، باب النہی عن ابتداء أہل الکتاب) طرزِاستدلال یوں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اُن اہل کتاب کے سلام کے جواب میں ”وعلیکم“ (باثبات الواو) کہنے کا حکم دیا ہے جو کبھی السلام علیکمکے بجائے السام علیکم ( تم پر موت ہو) بھی کہہ دیا کرتے تھے، تو مسلمان کے سلام کے جواب میں تو وعلیکم السلام کہنا بدرجہ اولیٰ لازم اور ضروری ہوگا۔
دوسری رائے اِس سلسلے میں یہ ہے کہ جیسے وعلیکم السلام (واو کے ساتھ)صحیح ہے، ویسے ہی علیکم السلام(بلا واو)بھی درست ہے، دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے: ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ إِبْرَاہِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ إِذْ دَخَلُوا عَلَیْْہِ فَقَالُوا سَلَاماً قَالَ سَلَامٌ (الذاریات: ۳۴) قال سلام کا مطلب ہے سلامٌ علیکم،دیکھیے سلام کے جواب میں وَسَلام نہیں ہے؛ بلکہ صرف سلامٌ ہے، دوسری دلیل خلقِ آدم کا قصہ ہے، حضرت آدم علیہ الصلاة والسلام نے فرشتوں کو سلام کیا تو فرشتوں نے کہا: السلام علیک ورحمة اللّٰہ (بخاری: ۳۳۲۶،باب خلق آدم) دیکھیے یہاں واوٴ نہیں ہے، تیسری یہ ہے کہ قرآن میں ہے وَإِذَا حُیِّیْْتُم بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا(النساء: ۸۶) اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ، جواب دینے والا دو باتوں کا مُکلَّف ہے: یا تو جواب بالمثل دے یا اُس سے اچھا جواب دے، پہلا عدل ہے اور دوسر افضل، اب جواب دینے والے نے علیکم السلام کہہ دیا تو یہ جواب بالمثل اور عدل ہے؛ لہٰذا صحیح ہے (خلاصہ زاد المعاد: ۲/۳۸۵)
فیصلہ: علامہ ابن القیم نے ان دونوں رایوں کو ذکر کرنے کے بعد، یہ بحث ذکر کی ہے کہ یہودیوں کے سلام کے جواب میں احادیث میں وعلیکم ہے یا صرف علیکمہے؟ روایتیں دونوں طرح کی ہیں، ابن القیم کا رجحان اِس جانب ہے کہ اثباتِ واو، والی روایتیں صواب اور احسن ہیں؛ غالباً اِس سے یہی ثابت کرنا ہے کہ السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا زیادہ بہتر اور سنت کے قریب ہے۔(عمدة القاری: ۱۵/۳۴۶، نقلا عن شرح النووی) تاہم جائز وعلیکم السلام بھی ہے؛ کیوں کہ ایسی بحث جب اہل کتاب کے جواب کے سلسلے میں کی جاسکتی ہے تو یہی حکم مسلمان کے سلام کے جواب کا بھی ہونا چاہیے۔
چند مسائل
۱- سلام کے جواب کا افضل اور اعلیٰ درجہ ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ“ ہے اور صرف ”وعلیکم السلام“ کہنا بھی جائز ہے۔(عمدة القاری: ۱۵/۳۴۶)
۲- کسی نے سلام کے جواب میں صرف ”علیکم“ کہا تو یہ سلام کا جواب نہیں سمجھا جائے گا۔(حوالہ سابق) 
۳- کسی نے سلام کے جواب میں صرف ”وعلیکم“ کہا تو دونوں قول ہیں: جواب ہوجائے گا، دوسرا قول یہ ہے کہ کافی نہیں ہوگا۔(ایضا)
شریعت میں الفاظ بھی مقصود ہیں
حضرت جابر بن سلیم رضی ا للہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں ”علیک السلام“ کہنے کی ممانعت آئی ہے؛ اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ سلام میں الفاظِ منصوصہ مسنونہ کی پیروی ضروری ہے۔
اِس اِجمال کی تفصیل یہ ہے کہ الفاظِ شرعیہ میں ا پنی طرف سے اضافہ ،کمی اور ردّو بدل جائز نہیں؛ بلکہ اِس میں نص کی اِتّباع ضروری ہے، بطور دلیل کچھ روایات پڑھیے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم اپنی خواب گاہ میں آوٴ تو اِس طرح وضو کرو، جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے، پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاوٴ اور یہ دعا پڑھو:
اللّٰہم أسْلَمتُ وَجْہِي إلیک، وفَوَّضتُ أَمْرِي إلیک، وأَلْجأتُ ظَہْري إلَیک، رَغْبَةً ورَہْبَةً إلَیک، لا مَلْجَأَ ولا مَنْجیٰ مِنْکَ إلاَّ إِلَیکَ آمَنْتُ بکتابک الذي أنْزَلتَ وبِنَبِیِّکَ الذي أرْسَلْتَ
اگر تم اسی رات فوت ہوئے تو مسلمان ہوتے ہوئے فوت ہوگے؛ لہٰذا تم اِن کو اپنے آخری کلمات بناوٴ، میں نے کہا: میں تو وَبِرَسُولک الذي أرسلتَ یاد کرتا ہوں(بخاری کی دوسری روایت میں ہے :کہ میں نے یہ کلمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دُہرائے، جب میں نے وَبِرَسُولک پڑھا) تو آپ نے فرمایا: نہیں، وبِنَبِیِّک الذي أرسلتَ پڑھو۔ (بخاری، رقم: ۵۹۵۲، الدعوات) 
دیکھیے رسول اور نبی میں، عام علماء کے نزدیک تَرادُف ہے یا بعض کے نزدیک رسول خاص ہے، یعنی معنی میں اعلیٰ ہے نبی سے؛ لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت براء کو اِس طرح پڑھنے سے منع فرمادیا۔
حضرت نافع کہتے ہیں: ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس چھینکا اور کہا: 
الحمد للّٰہ والسلام علی رسول اللّٰہ، تو ابن عمر نے کہا میں بھی الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ کہہ سکتاہوں؛ لیکن یہ طریقہ نہیں ہے (کہ الحمد للّٰہ کے ساتھ والسلام کو ملایا جائے)ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس موقع پر یہ تعلیم دی ہے کہ ہم الحمد للّٰہ علی کل حال کہیں۔(ترمذی، رقم: ۲۷۳۸) 
اِن نُصوص سے یہ بات نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ الفاظِ شرعیہ کی پیروی ضروری ہے، اِس کے اندر کمی بیشی جائز نہیں؛ لہٰذا سلام اور جوابِ سلام کے وہی الفاظ معتبر ہوں گے، جو قرآن وسنت سے ثابت ہیں، اور اگر سلام کے الفاظ بالکلیہ ترک کردئیے جائیں اور اُن کی جگہ دوسرے الفاظ: عربی یا علاقائی زبانوں کے اختیار کیے جائیں تو وہ اسلامی تحیہ نہیں ہوگا، اسلامی سلام وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کابتایا ہوا ہے اور عربی میں ہے؛ ہاں اگر اسلامی سلام کے بعد، علاقائی کلماتِ ملاقات بولے جائیں، جیسا کہ بولا جاتا ہے تو اِس میں کوئی حرج نہیں۔
مفتی محمدتقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: 
اس حدیث (اس سے مراد وہ روایت ہے، جس میں ہے کہ حضرت جابر بن سُلیم نے ابتداء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں سلام کیا تھا: علیک السلام یا رسول اللّٰہ! تو آپ نے منع فرمادیا تھا، (ابوداوٴد، رقم:۵۲۰۹) سے ایک اور بنیادی بات معلوم ہوئی، جس سے آج کل لوگ بڑی غفلت برتتے ہیں، وہ یہ کہ احادیث سے معنی، مفہوم اور روح تو مقصود ہے ہی؛ لیکن شریعت میں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے الفاظ بھی مقصود ہیں، دیکھیے ”السلام علیکم“ اور ”علیکم السلام“ دونوں کے معنی تو ایک ہی ہیں، یعنی تم پر سلامتی ہو؛ لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن سُلیم رضی اللہ عنہ کو پہلی ملاقات ہی میں اِس امر پر تنبیہ فرمائی کہ سلام کرنے کا سنت طریقہ اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ ”السلام علیکم“ کہو، ایسا کیوں کیا؟ اِس لیے کہ اس کے ذریعہ آپ نے امت کو یہ سبق دے دیا کہ ”شریعت“ اپنی مرضی سے راستہ بتا کر چلنے کا نام نہیں ہے؛ بلکہ ”شریعت“ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا نام ہے۔
آج کل لوگوں کی زبانوں پر ا کثر یہ رہتا ہے کہ شریعت کی روح دیکھنی چاہیے، ظاہر اورالفاظ کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، معلوم نہیں لوگ الفاظ کے بغیر روح تک کیسے پہنچ جاتے ہیں، اُن کے پاس کون سی ایسی خورد بین ہے، جس میں اُن کو روح نظر آتی ہے؛ حالاں کہ شریعت میں روح کے ساتھ ظاہر بھی مطلوب اور مقصود ہے، سلام ہی کو لے لیں کہ آپ ملاقات کے وقت ”السلام علیکم“ کے بجائے اردو میں یہ کہہ دیں ”سلامتی ہو تم پر“ دیکھیے معنی اور مفہوم تو اِس کے وہی ہیں جو ”السلام علیکم“ کے ہیں؛ لیکن وہ برکت، وہ نور اور اتباعِ سنت کا اجر وثواب، اِس میں حاصل نہیں ہوگا، جو ”السلام علیکم“ میں حاصل ہوتا ہے۔(اصلاحی خطبات: ۶/۱۸۶)
وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں:
ویکرہ تغییر صیغة السلام المشروعة ہکذا بمثل قول بعضہم: ”سلام من اللّٰہ“ فذلک بدعة منکرةصیغہ سلام کی تبدیلی مکروہ ہے، مثلاً کچھ لوگوں کا سلام من اللّٰہ کہنا بدعت اور منکر ہے۔(الفقہ الإسلامي۴/۲۶۸۵) 
مسنون سلام ”السلام علیکم“سے ہی ادا ہوگا
آداب عرض یا اِسی قسم کے دوسرے الفاظ، شرعی اسلامی تحیہ کے قائم مقام نہیں ہوں گے، اور سنتِ سلام ادا نہ ہوگی۔ (کفایت المفتی:۹/۹۰)
(باقی)
$ $ $