نکاح کی ترغیب-حوصلہ افزائی:
القرآن:
تم میں سے جن (مردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں بےنیاز کردے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔
[سورۃ النور:32، تفسیر القرطبی:12/ 243]
خلاصہ تفسیر:
)احرار وآزاد میں سے) جو بےنکاح ہوں (خواہ مرد ہوں یا عورتیں) اور بےنکاح
ہونا بھی عام ہے خواہ ابھی تک نکاح ہوا ہی نہ ہو یا ہونے کے بعد بیوی کی موت یا
طلاق کے سبب بےنکاح رہ گئے) تم ان کا نکاح کردیا کرو اور (اسی طرح) تمہارے غلام
اور لونڈیوں میں جو اس (نکاح) کے لائق ہوں (یعنی حقوق نکاح ادا کرسکتے ہوں) ان کا
بھی (نکاح کردیا کرو محض اپنی مصلحت سے ان کی خواہش نکاح کی مصلحت کو فوت نہ کیا
کرو اور احرار کے نکاح پیغام دینے والے کے فقر و افلاس پر نظر کر کے انکار نہ
کردیا کرو جبکہ اس میں کسب معاش کی صلاحیت موجود ہو کیونکہ) اگر وہ لوگ مفلس ہوں
گے تو اللہ تعالیٰ (اگر چاہے گا) ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا (خلاصہ یہ ہے کہ
نہ تو مالدار نہ ہونے کی وجہ سے نکاح سے انکار کرو اور نہ یہ خیال کرو کہ نکاح
ہوگیا تو خرچ بڑھ جائے گا جو موجودہ حالت میں غنی و مالدار ہے وہ بھی نکاح کرنے سے
محتاج و مفلس ہوجائے گا کیونکہ رزق کا مدار اصل میں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہے وہ
کسی مالدار کو بغیر نکاح کے بھی فقیر و محتاج کرسکتا ہے اور کسی غریب نکاح والے کو
نکاح کے باوجود فقر و افلاس سے نکال سکتا ہے) اور اللہ تعالیٰ وسعت والا ہے (جس کو
چاہے مالدار کر دے اور سب کا حال) خوب جاننے والا ہے (جس کو غنی کرنا مقتضائے حکمت
و مصلحت ہوگا اس کو غنی کردیا جاوے گا اور جس کے محتاج و فقیر رہنے ہی میں اس کی
مصلحت ہے اس کو فقیر رکھا جائے گا) اور (اگر کسی کو اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے
نکاح کا سامان میسر نہ ہو تو) ایسے لوگوں کو کہ جن کو نکاح کا مقدور نہیں ان کو
چاہئے کہ (اپنے نفس کو) قابو میں رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (اگر چاہے تو) ان
کو اپنے فضل سے غنی کر دے (اس وقت نکاح کرلیں)۔
معارف و مسائل:
بعض احکام نکاح
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سورة نور میں زیادہ تر وہ احکام ہیں جن کا تعلق
عفت و عصمت کی حفاظت اور فواحش و بےحیائی کی روک تھام سے ہے۔ اس سلسلہ میں زنا اور
اس کے متعلقات کی شدید سزاؤں کا ذکر کیا گیا پھر استیذان کا، پھر عورتوں کے پردے
کا۔ شریعت اسلام چونکہ ایک معتدل شریعت ہے اس کے احکام سب ہی اعتدال پر اور انسان
کے فطری جذبات و خواہشات کی رعایت کے ساتھ تعدی اور حد سے نکلنے کی ممانعت کے اصول
پر دائر ہیں۔ اس لئے جب ایک طرف انسان کو ناجائز شہوت رانی سے سختی کے ساتھ روکا
گیا تو ضرروی تھا کہ فطری جذبات و خواہشات کی رعایت سے اس کا کوئی جائز اور صحیح
طریقہ بھی بتلایا جائے۔ اس کے علاوہ بقاء نسل کا عقلی اور شرعی تقاضا بھی یہی ہے
کہ کچھ حدود کے اندر رہ کر مرد و عورت کے اختلاط کی کوئی صورت تجویز کی جائے۔ اسی
کا نام قرآن و سنت کی اصطلاح میں نکاح ہے۔ آیت مذکورہ میں اس کے متعلق حرہ عورتوں
کے اولیاء اور کنیزوں غلاموں کے آقاؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کا نکاح کردیا کریں۔
وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ الایة
اَيَامٰى، ایم کی جمع ہے جو ہر اس مرد عورت کے لئے استعمال کیا جاتا
ہے جس کا نکاح موجود نہ ہو۔ خواہ اول ہی سے نکاح نہ کیا ہو یا زوجین میں سے کسی
ایک کی موت سے یا طلاق سے نکاح ختم ہوچکا ہو۔ ایسے مردوں و عورتوں کے نکاح کے لئے
ان کے اولیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کے نکاح کا انتظام کریں۔
آیت مذکورہ کے طرز خطاب سے اتنی بات تو باتفاق ائمہ فقہاء ثابت ہے کہ
نکاح کا مسنون اور بہتر طریقہ یہی ہے کہ خود اپنا نکاح کرنے کے لئے کوئی مرد یا
عورت بلا واسطہ اقدام کے بجائے اپنے اولیاء کے واسطے سے یہ کام انجام دے۔ اس میں
دین و دنیا کے بہت سے مصالح اور فوائد ہیں۔ خصوصاً لڑکیوں کے معاملہ میں کہ لڑکیاں
اپنے نکاح کا معاملہ خود طے کریں، یہ ایک قسم کی بےحیائی بھی ہے اور اس میں فواحش
کے راستے کھل جانے کا خطرہ بھی۔ اسی لئے بعض روایات حدیث میں عورتوں کو خود اپنا
نکاح بلا واسطہ ولی کرنے سے روکا بھی گیا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے
ائمہ کے نزدیک یہ حکم ایک خاص سنت اور شرعی ہدایت کی حیثیت میں ہے اگر کوئی بالغ
لڑکی اپنا نکاح بغیر اجازت ولی کے اپنے کفو میں کرے تو نکاح صحیح ہوجائے گا اگرچہ
خلاف سنت کرنے کی وجہ سے وہ موجب ملامت ہوگی جبکہ اس نے کسی مجبوری سے اس پر اقدام
نہ کیا ہو۔
امام شافعی اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک اس کا نکاح ہی باطل کالعدم
ہوگا جب تک ولی کے واسطہ سے نہ ہو۔ یہ جگہ اختلافی مسائل کی مکمل تحقیق اور دونوں
فقہاء کے دلائل بیان کرنے کی نہیں لیکن اتنی بات ظاہر ہے کہ مذکورہ آیت سے زیادہ
سے زیادہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں اولیاء کا واسطہ ہونا چاہئے باقی یہ صورت
کہ کوئی بلا واسطہ اولیاء نکاح کرے تو اس کا کیا حکم ہوگا یہ آیت قرآن اس سے ساکت
ہے۔ خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ لفظ اَيَامٰى میں بالغان مرد و عورت دونوں داخل ہیں
اور بالغ لڑکوں کا نکاح بلا واسطہ ولی سب کے نزدیک صحیح ہوجاتا ہے اس کو کوئی باطل
نہیں کہتا۔ اسی طرح ظاہر یہ ہے کہ لڑکی بالغ اگر اپنا نکاح خود کرے تو وہ بھی صحیح
اور منعقد ہوجائے۔ ہاں خلاف سنت کام کرنے پر ملامت دونوں کی کی جائے گی۔
نکاح واجب ہے یا سنت یا مختلف حالات میں حکم مختلف ہے:
اس پر ائمہ مجتہدین تقریباً سبھی متفق ہیں کہ جس شخص کو نکاح نہ کرنے
کی صورت میں غالب گمان یہ ہو کہ وہ حدود شریعت پر قائم نہیں رہ سکے گا گناہ میں
مبتلا ہوجائے گا اور نکاح کرنے پر اس کی قدرت بھی ہو کہ اس کے وسائل موجود ہوں تو
ایسے شخص پر نکاح کرنا فرض یا واجب ہے جب تک نکاح نہ کرے گا گنہگار رہے گا۔ ہاں
اگر نکاح کے وسائل موجود نہیں کہ کوئی مناسب عورت میسر نہیں یا اس کے لئے مہر معجل
وغیرہ کی حد تک ضروری خرچ اس کے پاس نہیں تو اس کا حکم اگلی آیت میں یہ آیا ہے کہ
اس کو چاہئے کہ وسائل کی فراہمی کی کوشش کرتا رہے اور جب تک وہ میسر نہ ہوں اپنے
نفس کو قابو میں رکھنے اور صبر کرنے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے
شخص کے لئے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ مسلسل روزے رکھے۔ اس سے غلبہ شہوت کو سکون ہوجاتا
ہے۔
مسند احمد میں روایت ہے کہ حضرت عکاف سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا
کہ کیا تمہاری زوجہ ہے انہوں نے عرض کیا نہیں۔ پھر پوچھا کوئی شرعی لونڈی ہے کہا
کہ نہیں پھر آپ نے دریافت کیا کہ تم صاحب وسعت ہو یا نہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ
صاحب وسعت ہوں۔ مراد یہ تھی کہ کیا تم نکاح کے لئے ضروری نفقات کا انتظام کرسکتے
ہو جس کے جواب میں انہوں نے اقرار کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
کہ پھر تو تم شیطان کے بھائی ہو اور فرمایا کہ ہماری سنت نکاح کرنا ہے۔ تم میں بدترین
آدمی وہ ہیں جو بےنکاح ہوں اور تہمارے مردوں میں سب سے رذیل وہ ہیں جو بےنکاح مر گئے۔
[تفسیر مظہری]
اس روایت کو بھی جمہور فقہاء نے اسی حالت پر محمول فرمایا ہے جبکہ
نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کا خطرہ غالب ہو۔ عکاف کا حال رسول اللہ ﷺ کو معلوم
ہوگا کہ وہ صبر نہیں کرسکتے۔ اسی طرح مسند احمد میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ
ﷺ نے نکاح
کرنے کا حکم دیا اور تَبَتُّل یعنی بےنکاح رہنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔
[تفسیر مظہری]
اسی طرح کی اور بھی روایات حدیث ہیں۔ ان سب کا محمل جمہور فقہاء کے نزدیک وہی صورت
ہے کہ نکاح نہ کرنے میں ابتلاء معصیت کا خطرہ غالب ہو۔ اسی طرح اس پر بھی تقریباً
سبھی فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس شخص کو بظن غالب یہ معلوم ہو کہ وہ نکاح کرنے کی وجہ
سے گناہ میں مبتلا ہوجائے گا مثلاً بیوی کے حقوق زوجیت ادا کرنے پر قدرت نہیں اس
پر ظلم کا مرتکب ہوگا یا اس کے لئے نکاح کرنے کی صورت میں کوئی دوسرا گناہ یقینی
طور پر لازم آجائے گا ایسے شخص کو نکاح کرنا حرام یا مکروہ ہے۔
اب اس شخص کا حکم باقی رہا جو حالت اعتدال میں ہے کہ نہ تو ترک نکاح
سے گناہ کا خطرہ قوی ہے اور نہ نکاح کی صورت میں کسی گناہ کا اندیشہ غالب ہے۔ ایسے
شخص کے بارے میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں کہ اس کو نکاح کرنا افضل ہے یا ترک نکاح
کر کے نفلی عبادات میں مشغول ہونا افضل ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک نفلی
عبادات میں لگنے سے افضل نکاح کرنا ہے اور امام شافعی کے نزدیک اشتغال عبادت افضل
ہے۔ وجہ اس اختلاف کی اصل میں یہ ہے کہ نکاح اپنی ذات کے اعتبار سے تو ایک مباح ہے
جیسے کھانا پینا سونا وغیرہ ضروریات زندگی سب مباح ہیں اس میں عبادت کا پہلو اس
نیت سے آجاتا ہے کہ اس کے ذریعہ آدمی اپنے آپ کو گناہ سے بچا سکے گا اور اولاد
صالح پیدا ہوگی تو اس کا بھی ثواب ملے گا اور ایسی نیک نیت سے جو مباح کام بھی
انسان کرتا ہے وہ اس کے لئے بالواسطہ عبادت بن جاتی ہے کھانا پینا اور سونا بھی
اسی نیت سے عبادت ہوجاتا ہے اور اشتغال بالعبادت اپنی ذات میں عبادت ہے اس لئے
امام شافعی عبادت کے لئے خلوت گزینی کو نکاح سے افضل قرار دیتے ہیں اور امام اعظم
ابوحنیفہ کے نزدیک نکاح میں عبادت کا پہلو بہ نسبت دوسرے مباحات کے غالب ہے احادیث
صحیحہ میں اس کو سنت المرسلین اور اپنی سنت قرار دے کر تاکیدات بکثرت آئی ہیں۔ ان
روایات حدیث کے مجموعہ سے اتنا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ نکاح عام مباحات کی
طرح مباح نہیں بلکہ سنت انبیاء ہے جس کی تاکیدات بھی حدیث میں آئی ہیں صرف نیت کی
وجہ سے عبادت کی حیثیت اس میں نہیں بلکہ سنت انبیاء ہونے کی حیثیت سے بھی ہے۔ اگر کوئی
کہے کہ اس طرح تو کھانا پینا سونا بھی سنت انبیاء ہے کہ سب نے ایسا کیا ہے مگر
جواب واضح ہے کہ ان چیزوں پر سب انبیاء کا علم ہونے کے باوجود یہ کسی نے نہیں کہا
نہ کسی حدیث میں آیا کہ کھانا پینا اور سونا سنت انبیاء ہے بلکہ اس کو عام انسانی
عادت کے تابع انبیاء کا عمل قرار دیا ہے بخلاف نکاح کے اس کو صراحة سنت المرسلین
اور اپنی سنت فرمایا ہے۔
تفسیر مظہری میں اس موقع پر ایک معتدل بات یہ کہی ہے کہ جو شخص حالت
اعتدال میں ہو کہ نہ غلبہ شہوت سے مجبور و مغلوب ہو اور نہ نکاح کرنے سے کسی گناہ
میں پڑنے کا اندیشہ رکھتا ہو۔ یہ شخص اگر یہ محسوس کرے کہ نکاح کرنے کے باوجود
نکاح اور اہل و عیال کی مشغولیت میرے لئے کثرت ذکر اللہ اور توجہ الی اللہ سے مانع
نہیں ہوگی تو اس کے لئے نکاح افضل ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اور صلحاء امت کا
عام حال یہی تھا، اور اگر اس کا اندازہ یہ ہے کہ نکاح اور اہل و عیال کے مشاغل اس
کو دینی ترقی، کثرت ذکر وغیرہ سے روک دیں گے تو بحالت اعتدال اس کے لئے عبادت کے
لئے خلوت گزینی اور ترک نکاح افضل ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس کی تطبیق پر
شاہد ہیں ان میں ایک یہ ہے يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ
اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ اس میں یہی ہدایت ہے کہ
انسان کے مال و اولاد اس کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردینے کا سبب نہ بننے
چاہئیں۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ، یعنی اپنے غلاموں
اور کنیزوں میں جو صالح ہوں ان کے نکاح کرا دیا کرو۔ یہ خطاب ان کے آقاؤں اور
مالکوں کو ہے اس جگہ صالحین کا لفظ اپنے لغوی معنے میں آیا ہے یعنی ان میں جو شخص
نکاح کی صلاحیت و استطاعت رکھتا ہو اس کا نکاح کرا دینے کا حکم ان کے آقاؤں کو دیا
گیا ہے مراد اس صالحیت سے وہی ہے کہ بیوی کے حقوق زوجیت اور نفقہ و مہر معجل ادا
کرنے کے قابل ہوں اور اگر صالحین کو معروف یعنی نیک لوگوں کے معنے میں لیا جائے تو
پھر ان کی تخصیص بالذکر اس وجہ سے ہوگی کہ نکاح کا اصل مقصد حرام سے بچنے کا وہ
صالحین ہی میں ہوسکتا ہے۔
بہرحال اپنے غلاموں اور کنیزوں میں جو صلاحیت نکاح کی رکھنے والے ہوں
ان کے نکاح کا حکم ان کے آقاؤں کو دیا گیا ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ اگر وہ اپنی
نکاح کی ضرورت ظاہر کریں اور خواہش کریں کہ ان کا نکاح کردیا جائے تو آقاؤں پر بعض
فقہاء کے نزدیک واجب ہوگا کہ ان کے نکاح کردیں اور جمہور فقہاء کے نزدیک ان پر
لازم ہے کہ ان کے نکاح میں رکاوٹ نہ ڈالیں بلکہ اجازت دیدیں کیونکہ مملوک غلاموں
اور کنیزوں کا نکاح بغیر مالکوں کی اجازت کے نہیں ہوسکتا تو یہ حکم ایسا ہی ہوگا
جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ
اَزْوَاجَهُنَّ یعنی عورتوں کے اولیاء پر لازم ہے کہ اپنی زیر ولایت عورتوں کو
نکاح سے نہ روکیں اور جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص منگنی لے کر آوے اور اخلاق آپ کو پسند ہوں تو ضرور
نکاح کردو اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور وسیع پیمانے کا فساد پیدا
ہوجائے گا۔
[سنن الترمذی:]
خلاصہ یہ ہے کہ یہ حکم آقاؤں کو اس لئے دیا گیا کہ وہ اجازت نکاح دینے
میں کوتاہی نہ کریں۔ خود نکاح کرانا ان کے ذمہ واجب ہو یہ ضروری نہیں۔ واللہ اعلم
اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ اس
میں ان غریب فقیر مسلمانوں کے لئے بشارت ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لئے نکاح کرنا
چاہتے ہیں مگر وسائل مالیہ ان کے پاس نہیں کہ جب وہ اپنے دین کی حفاظت اور سنت
رسول اللہ ﷺ پر عمل کرنے
کی نیت صالحہ سے نکاح کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو مالی غنا بھی عطا فرما دیں گے
اور اس میں ان لوگوں کو بھی ہدایت ہے جن کے پاس ایسے غریب لوگ منگنی لے کر جائیں
کہ وہ محض ان کے فی الحال غریب فقیر ہونے کی وجہ سے رشتہ سے انکار نہ کردیں۔ مال
آنے جانے والی چیز ہے اصل چیز صلاحیت عمل ہے اگر وہ ان میں موجود ہے تو ان کے نکاح
سے انکار نہ کریں۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو
نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے اس میں آزاد اور غلام سب کو داخل فرمایا ہے اور نکاح
کرنے پر ان سے غنا کا وعدہ فرمایا ہے۔
(ابن کثیر)
اور ابن ابی حاتم نے حضرت صدیق اکبر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم نکاح کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو تو اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ غناء عطا فرمانے کا کیا ہے وہ پورا فرما دیں گے پھر یہ آیت پڑھی۔ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ تم غنی ہونا چاہتے ہو تو نکاح کرلو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ
(رواہ ابن جریرو ذکر البغوی عن عمر
نحواہ۔ کثیر(
تنبیہ
تفسیر مظہری میں ہے کہ مگر یہ یاد رہے کہ نکاح کرنے والے کو غنی اور
مال عطا فرمانے کا وعدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی حال میں ہے جبکہ نکاح کرنے والے
کی نیت اپنی عفت کی حفاظت اور سنت پر عمل ہو اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد
ہو اس کی دلیل اگلی آیت کے یہ الفاظ ہیں۔
نکاح اور شرم وحیا کی تعلیم:
نکاح کے لغوی معنیٰ ہیں جمع کرنا لیکن اس لفظ کا اطلاق مجامعت کرنے اور
عقد(گانٹھ باندھنے، معاملہ طے کرنے) کے معنی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ مجامعت اور عقد دونوں ہی میں جمع ہونا اور ملنا
پایا جاتا ہے لہذا اصول فقہ میں نکاح کے یہی معنی یعنی جمع ہونا بمعنی مجامعت کرنا
مراد لینا چاہئے بشرطیکہ ایسا کوئی قرینہ نہ ہو جو اس معنی کے خلاف دلالت کرتا ہو۔
علماء فقہ کی اصطلاح میں نکاح اس خاص عقد و معاہدہ کو کہتے ہیں جو مرد و عورت کے
درمیان ہوتا ہے اور جس سے دونوں کے درمیان زوجیت کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے نکاح کی
اہمیت نکاح یعنی شادی صرف دو افراد کا ایک سماجی بندھن، ایک شخصی ضرورت، ایک طبعی
خواہش اور صرف ایک ذاتی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ معاشرہ انسانی کے وجود وبقاء کا
ایک بنیادی ستون بھی ہے اور شرعی نقطہ نظر سے ایک خاص اہمیت و فضیلت کا حامل بھی
ہے۔ نکاح کی اہمیت اور اس کی بنیادی ضرورت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ
حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے شریعت محمدی ﷺ تک کوئی
ایسی شریعت نہیں گزری ہے جو نکاح سے خالی رہی ہو اسی لئے علماء لکھتے ہیں کہ ایسی کوئی
عبادت نہیں ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر اب تک مشروع ہو اور جنت میں بھی
باقی رہے سوائے نکاح اور ایمان کے چناچہ ہر شریعت میں مرد و عورت کا اجتماع ایک
خاص معاہدہ کے تحت مشروع رہا ہے اور بغیر اس معاہدہ کے مرد و عورت کا باہمی اجتماع
کسی بھی شریعت و مذہب نے جائز قرار نہیں دیا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس معاہدہ کی
صورتیں مختلف رہی ہیں اور اس کے شرائط و احکام میں تغیر و تبدل ہوتا رہا ہے۔ چناچہ
اس بارے میں اسلام نے جو شرائط مقرر کی ہیں جو احکام نافذ کئے ہیں اور جو قواعد و
ضوابط وضع کئے ہیں اس باب سے ان کی ابتداء ہو رہی ہے۔ نکاح کے فوائد وآفات نکاح کا
جہاں سب سے بڑا عمومی فائدہ نسل انسانی کا بقاء اور باہم توالد وتناسل کا جاری
رہنا ہے وہیں اس میں کچھ مخصوص فائدے اور بھی ہیں جن کو پانچ نمبروں میں اس طرح
بیان کیا جاسکتا ہے۔ -1 نکاح کرلینے سے ہیجان کم ہوجاتا ہے یہ جنسی ہیجان انسان کی
اخلاقی زندگی کا ایک ہلاکت خیز مرحلہ ہوتا ہے جو اپنے سکون کی خاطر مذہب و اخلاق
ہی کی نہیں شرافت و انسانیت کی بھی ساری پابندیاں توڑ ڈالنے سے گریز نہیں کرتا،
مگر جب اس کو جائز ذرائع سے سکون مل جاتا ہے تو پھر یہ پابند اعتدال ہوجاتا ہے اور
ظاہر ہے کہ جائز ذریعہ صرف نکاح ہی ہوسکتا ہے۔ -2 نکاح کرنے سے اپنا گھر بستا ہے
خانہ داری کا آرام ملتا ہے گھریلو زندگی میں سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے
اور گھریلو زندگی کے اس اطمینان و سکون کے ذریعہ حیات انسانی کو فکر و عمل کے ہر
موڑ پر سہارا ملتا ہے۔ -3 نکاح کے ذریعہ سے کنبہ بڑھتا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے
آپ کو مضبوط و زبردست محسوس کرتا ہے اور معاشرہ میں اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے
لئے اپنا رعب داب قائم رکھتا ہے۔ -4 نکاح کرنے سے نفس مجاہدہ کا عادی ہوتا ہے
کیونکہ گھر بار اور اہل و عیال کی خبر گیری و نگہداشت اور ان کی پرورش و پرداخت کے
سلسلہ میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے اس مسلسل جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان
بےعملی اور لاپرواہی کی زندگی سے دور رہتا ہے جو اس کے لئے دنیاوی طور پر بھی نفع
بخش ہے اور اس کیوجہ سے وہ دینی زندگی یعنی عبادات و طاعات میں بھی چاق و چوبند
رہتا ہے۔ -5 نکاح ہی کے ذریعہ صالح و نیک بخت اولاد پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی
شخص کی زندگی کا سب سے گراں مایہ سرمایہ اس کی صالح اور نیک اولاد ہی ہوتی ہے جس
کی وجہ سے وہ نہ صرف دنیا میں سکون و اطمینان اور عزت ونیک نامی کی دولت حاصل کرتا
ہے بلکہ اخروی طور پر بھی فلاح وسعادت کا حصہ دار بنتا ہے۔ یہ تو نکاح کے فائدے
تھے لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو نکاح کی وجہ سے بعض لوگوں کے لئے نقصان و
تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں اور جنہیں نکاح کی آفات کہا جاتا ہے چناچہ ان کو بھی چھ
نمبروں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ -1 طلب حلال سے عاجز ہونا یعنی نکاح کرنے
کی وجہ سے چونکہ گھر بار کی ضروریات لاحق ہوجاتی ہیں اور طرح طرح کے فکر دامن گیر
رہتے ہیں اس لئے عام طور پر طلب حلال میں وہ ذوق باقی نہیں رہتا جو ایک مجرد و
تنہا زندگی میں رہتا ہے۔ -2 حرام امور میں زیادتی ہونا۔ یعنی جب بیوی کے آجانے اور
بال بچوں کے ہوجانے کی وجہ سے ضروریات زندگی بڑھ جاتی ہیں تو بسا اوقات اپنی زندگی
کا وجود معیار برقرار رکھنے کے لئے حرام امور کے ارتکاب تک سے گریز نہیں کیا جاتا
ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ ذہن وعمل سے حلال و حرام کی تمیز بھی
اٹھ جاتی ہے اور بلا جھجک حرام چیزوں کو اختیار کرلیا جاتا ہے۔ -3 عورتوں کے حقوق
کی ادائیگی میں کوتاہی ہونا۔ اسلام نے عورتوں کو جو بلند وبالا حقوق عطا کئے ہیں
ان میں بیوی کے ساتھ اچھے سلوک اور حسن معاشرت کا ایک خاص درجہ ہے لیکن ایسے بہت
کم لوگ ہیں جو بیوی کے حقوق کا لحاظ کرتے ہوں بلکہ بدقسمتی سے چونکہ بیوی کو
زیردست سمجھ لیا جاتا ہے اس لئے عورتوں کے حقوق کی پامالی اور ان کے ساتھ برے سلوک
و برتاؤ بھی ایک ذاتی معاملہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، حالانکہ یہ چیز ایک
انسانی اور معاشرتی بد اخلاقی ہی نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر بھی بڑے گناہ کی حامل
ہے اور اس سے دین و دنیا دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔ -4 عورتوں کی بد مزاجی پر صبر نہ
کرنا عام طور پر شوہر چونکہ اپنے آپ کو بیوی سے برتر سمجھتا ہے اس لئے اگر بیوی کی
طرف سے ذرا سی بھی بدمزاجی ہوئی تو ناقابل برداشت ہوجاتی ہے اور صبر و تحمل کا
دامن ہاتھ سے فورا چھوٹ جاتا ہے۔ -5 عورت کی ذات سے تکلیف اٹھانا بعض عورتیں ایسی
ہوتی ہیں جو اپنی بدمزاجی و بداخلاقی کی وجہ سے اپنے شوہروں کے لئے تکلیف و
پریشانی کا ایک مستقل سبب بن جاتی ہیں اس کی وجہ سے گھریلو ماحول غیر خوشگوار اور
زندگی غیر مطمئن و اضطراب انگیز بن جاتی ہے۔ -6 بیوی بچوں کی وجہ سے حقوق اللہ کی
ادائیگی سے باز رہنا یعنی ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو اپنی گھریلو زندگی کے
استحکام اور بیوی بچوں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ ساتھ اپنی دینی زندگی کو پوری
طرح برقرار رکھتے ہوں جب کہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ بیوی بچوں اور گھر بار کے
ہنگاموں اور مصروفیتوں میں پڑ کر دینی زندگی مضمحل وبے عمل ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ یہ
ہوتا ہے کہ نہ تو عبادات و طاعات کا خیال رہتا ہے نہ حقوق اللہ کی ادائیگی پورے
طور پر ہو پاتی ہے۔ نکاح کے ان فوائد وآفات کو سامنے رکھ کر اب یہ سمجھئے کہ اگر
یہ دونوں مقابل ہوں یعنی فوائد وآفات برابر، برابر ہوں، تو جس چیز سے دین کی باتوں
میں زیادتی ہوتی ہو اسے ترجیح دی جائے مثلا ایک طرف تو نکاح کا یہ فائدہ ہو کہ اس
کی وجہ سے جنسی ہیجان کم ہوتا ہے اور دوسری طرف نکاح کرنے سے یہ دینی نقصان سامنے
ہو کہ عورت کی بدمزاجی پر صبر نہیں ہو سکے گا تو اس صورت میں نکاح کرنے ہی کو
ترجیح دی جائے کیونکہ اگر نکاح نہیں کرے گا تو زنا میں مبتلا ہوجائے گا اور ظاہر
ہے کہ یہ چیز عورت کی بد مزاجی پر صبر نہ کرنے سے کہیں زیادہ دینی نقصان کا باعث
ہے۔ نکاح کے احکام -1 حنفی مسلک کے مطابق نکاح کرنا اس صورت میں فرض ہوتا ہے جب کہ
جنسی ہیجان اس درجہ غالب ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہوجانے کا
یقین ہو اور بیوی کے مہر پر اور اس کے نفقہ پر قدرت حاصل نہ ہو اور یہ خوف نہ ہو
کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بجائے اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتاؤ ہوگا۔
-2 نکاح کرنا اس صورت میں واجب ہوجاتا ہے جب کہ جنسی ہیجان کا غلبہ ہو مگر اس درجہ
کا غلبہ نہ ہو کہ زنا میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہو، نیز مہر و نفقہ کی ادائیگی کی
قدرت رکھتا ہو اور بیوی پر ظلم کرنے کا خوف نہ ہو۔ اگر کسی شخص پر جنسی ہیجان کا
غلبہ تو ہو مگر وہ مہر اور بیوی کے اخراجات کی ادائیگی پر قادر نہ ہو تو ایسی صورت
میں اگر وہ نکاح نہ کرے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا جب کہ مہر اور نفقہ پر قادر شخص
جنسی ہیجان کی صورت میں نکاح نہ کرنے سے گناہ گار ہوتا ہے۔ -3 اعتدال کی حالت میں
نکاح کرنا سنت مؤ کدہ ہے اعتدال کی حالت سے مراد یہ ہے کہ جنسی ہیجان کا غلبہ تو
نہ ہو لیکن بیوی کے ساتھ مباشرت و مجامعت کی قدرت رکھتا ہو اور مہر و نفقہ کی
ادائیگی پر بھی قادر ہو۔ لہذا اس صورت میں نکاح نہ کرنیوالا گنہگار ہوتا ہے جب کہ
زنا سے بچنے اور افزائش نسل کی نیت کے ساتھ نکاح کرنیوالا اجر وثواب سے نوازا جاتا
ہے۔ -4 نکاح کرنا اس صورت میں مکروہ ہے جب کہ بیوی پر ظلم کرنے کا خوف ہو یعنی اگر
کسی شخص کو اس بات کا خوف ہو کہ میرا مزاج چونکہ بہت برا اور سخت ہے اس لئے میں
بیوی پر ظلم و زیادتی کروں گا تو ایسی صورت میں نکاح کرنا مکروہ ہے -5 نکاح کرنا
اس صورت میں حرام ہے جبکہ بیوی پر ظلم کرنے کا یقین ہو یعنی اگر کسی شخص کو یہ
یقین ہو کہ میں اپنے مزاج کی سختی وتندی کی وجہ سے بیوی کے ساتھ اچھا سلوک قطعا
نہیں کرسکتا بلکہ اس پر میری طرف سے ظلم ہونا بالکل یقینی چیز ہے تو ایسی صورت میں
نکاح کرنا اس کے لئے حرام ہوگا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شریعت نے نکاح کے بارے
میں مختلف حالات کی رعایت رکھی ہے بعض صورتوں میں تو نکاح کرنا فرض ہوجاتا ہے بعض
میں واجب اور بعض میں سنت مؤ کدہ ہوتا ہے جب کہ بعض صورتوں میں نکاح کرنا مکروہ
بھی ہوتا ہے اور بعض میں تو حرام ہوجاتا ہے لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اسی صورت
کے مطابق عمل کرے جو اس کی حالت کے مطابق ہو۔ نکاح کے مستحبات جب کوئی شخص نکاح
کرنا چاہے خوہ مرد ہو یا عورت تو چاہئے کہ نکاح کا پیغام دینے سے پہلے ایک دوسرے
کے حالات کی اور عادات واطوار کی خوب اچھی طرح جستجو کرلی جائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ
بعد میں کوئی ایسی چیز معلوم ہو جو طبیعت ومزاج کے خلاف ہو نیکی وجہ سے زوجین کے
درمیان ناچاقی وکشیدگی کا باعث بن جائے۔ یہ مستحب ہے کہ عمر، عزت، حسب اور مال میں
بیوی خاوند سے کم ہو اور اخلاق و عادات خوش سلیقی وآداب حسن و جمال اور تقوی میں
خاوند سے زیادہ ہو اور مرد کے لئے یہ بھی مسنون ہے کہ وہ جس عورت سے نکاح کرنا
چاہتا ہے اس کو نکاح سے پہلے دیکھ لے بشرطیکہ یہ یقین ہو کہ میں اگر اس کو پیغام
دوں گا تو منظور ہوجائے گا۔ مستحب ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے گا اور نکاح کی
مجلس اعلانیہ طور پر منعقد کی جائے جس میں دونوں طرف سے اعزہ و احباب نیز بعض
علماء وصلحا بھی شریک۔ اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ نکاح پڑھانے والا نیک بخت و
صالح ہو اور گواہ عادل وپرہیزگارہوں۔ ایجاب و قبول اور ان کے صحیح ہونے کی شرائط
نکاح ایجاب و قبول کے ذریعہ منعقد ہوتا ہے اور ایجاب و قبول دونوں ماضی کے لفظ کے
ساتھ ہونے چاہئیں (یعنی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے یہ بات سمجھی جائے کہ
نکاح ہوچکا ہے) جیسے عورت یوں کہے کہ میں نے اپنے آپ کو تمہاری زوجیت میں دیا، یا
عورت کا ولی، مرد سے یہ کہے کہ میں نے فلاں عورت کا جس کا نام یہ ہے، تمہارے ساتھ
نکاح کیا اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے منظور کیا یا ایجاب میں سے کوئی
ایک ماضی کے لفظ کے ساتھ ہو جیسے عورت یہ کہے کہ مجھ سے نکاح کرلو یا عورت کا ولی،
مرد سے یہ کہے کہ فلاں عورت سے جس کا نام یہ ہے نکاح کرلو اور اس کے جواب میں مرد
یہ کہے کہ میں نے نکاح کرلیا۔ یا اس کا برعکس ہو، جیسے مرد یہ کہے کہ میں نے
تمہارے ساتھ اپنا نکاح کرلیا اور اس کے جواب میں عورت یہ کہے کہ میں منظور کرتی
ہوں اور اگر مرد، عورت سے یوں کہے کہ کیا تم نے اپنے آپ کو میری زوجیت میں دیا؟ یا
کہے کہ کیا تم نے مجھے قبول کیا اور اس کے جواب میں عورت ( ہاں میں نے دیا یا ہاں
میں نے قبول کیا کہنے کی بجائے) صرف یہ کہے کہ ہاں دیا۔ یا ہاں قبول کیا ( یعنی
لفظ میں نہ کہے) تو اس صورت میں بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ البتہ گواہوں کے سامنے صرف یہ
کہنے سے کہ ہم بیوی خاوند ہیں، نکاح نہیں ہوتا۔ جس طرح ایجاب و قبول میں ماضی کا
لفظ استعمال کرنا ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ایجاب و قبول میں خاص کر
نکاح اور تزوجی کا لفظ استعمال کیا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ
نکاح کیا یا تمہارے ساتھ تزویج کیا۔ یا نکاح وتزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ
استعمال کیا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا یا تہارے ساتھ
تزویج کیا یا نکاح وتزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جائے جو نکاح کا
مطلب صراحۃ ادا کرتا ہو جیسے مرد یوں کہے کہ میں نے تمہیں اپنی بیوی بنا لیا یا
یوں کہے کہ میں تمہارا شوہر ہوگیا یا یوں کہے کہ تم میری ہوگئیں۔ اور نکاح وتزویج
یا اس کا ہم معنی لفظ صراحۃً استعمال نہ کیا جائے بلکہ کوئی ایسا لفظ استعمال کیا
جائے جس سے کنیۃً نکاح کا مفہوم سمجھا جاتا ہو تو یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ لفظ
ایسا ہو جس کے ذریعہ سے کسی ذات کامل کی ملکیت فی الحال حاصل کی جاتی ہو جیسے ہبہ
کا لفظ یا صدقہ کا لفظ یا تملیک کا لفظ یا بیع وشراء کا لفظ جیسے بیوی یوں کہے کہ
میں نے اپنی زوجیت تمہیں ہبہ کردی، یا میں نے اپنی ذات تمہیں بطور صدقہ دیدی یا
میں نے تمہیں اپنی ذات کا مالک بنادیا یا یوں کہے کہ میں نے تمہیں اس قدر روپیہ کے
عوض خرید لیا اور ان سب کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے قبول کیا، لیکن اس کے صحیح
ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ متکلم نے اس لفظ سے نکاح مراد لیا ہو اور کوئی قرینہ
اس پر دلالت کرتا ہو اور اگر کوئی قرینہ نہ ہو تو قبول کرنیوالے نے متکلم کی مراد
کی تصدیق کردی ہو نیز گواہوں نے بھی سمجھ لیا ہو کہ اس لفظ سے مراد نکاح ہے خواہ
انہوں نے کسی قرینہ سے سمجھا ہو یا بتادینے سے سمجھا ہو۔ ایجاب و قبول کے وقت
عاقدین ( دولہا دولہن) میں سے ہر ایک کے لئے دوسرے کا کلام سننا ضروری ہے خواہ وہ
بالاصالۃ ( یعنی خود) سنیں خواہ بالوکالۃ ( یعنی ان کے وکیل سنیں) اور خواہ
بالولایۃ سنیں (یعنی ان کا ولی سنے) ایجاب و قبول کے وقت دو گواہوں کی موجودگی
نکاح صحیح ہونے کی شرط ہے اور یہ گواہ خواہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں
ہو، گواہوں کا آزاد ہونا ضروری ہے لونڈی یا غلام گواہوں کی گواہی معتبر نہیں ہوگی،
اسی طرح گواہوں کا عاقل اور مسلمان ہونا بھی ضروری ہے مسلمانوں کی گواہی ہر حال
میں کافی ہوگی خواہ وہ پرہیزگار ہوں یا فاسق ہوں اور خواہ ان پر حد قذف لگائی جا
چکی ہو۔ گواہوں کا بینا ہونا یا زوجین کا رشتہ دار نہ ہونا شرط نہیں ہے، چناچہ
اندھو کی گواہی اور زوجین کے رشتہ داروں کی گواہی معتبر ہوگی خواہ وہ زوجین کے یا
ان میں سے کسی ایک کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، گواہوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دونوں
ایجاب و قبول کے الفاظ کو ایک ساتھ سنیں اور سن کر یہ سمجھ لیں کہ نکاح ہو رہا ہے
گو ان الفاظ کے معنی نہ سمجھیں ( مثلا ایجاب و قبول کسی ایسی زبان میں ہو جسے وہ
نہ جانتے ہوں) اگر دونوں گواہ ایجاب و قبول کے الفاظ ایک ساتھ نہ سنیں بلکہ الگ
الگ سنیں تو نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص سے کہا کہ میری
فلانا بالغ لڑکی کا نکاح فلاں شخص کے ساتھ کردو اور اس شخص نے اس لڑکی کا نکاح اس
باپ اور ایک دوسرے مرد کی موجودگی میں کیا تو یہ جائز ہوگا لیکن اگر باپ موجودہ ہو
تو پھر دونوں مردوں یا ایک مرد اور عورتوں کی موجودگی کے بغیر نکاح درست نہیں
ہوگا۔
حدیث نمبر 1
جوانوں کو نکاح کرنے کا حکم:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ»
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو شخص مجامعت کے لوازمات (یعنی بیوی بچوں کا نفقہ اور مہر ادا کرنے) کی استطاعت رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ نکاح کرلے کیونکہ نکاح کرنا نظر کو بہت چھپاتا ہے اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھتا ہے ( یعنی نکاح کرلینے سے اجنبی عورت کی طرف نظر مائل نہیں ہوتی اور انسان حرام کاری سے بچتا ہے) اور جو شخص جماع کے لوازمات کی استطاعت نہ رکھتا ہو، اسے چاہئے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ رکھنا اس کے لئے خصی کرنے کا فائدہ دے گا (یعنی جس طرح خصی ہوجانے سے جنسی ہیجان ختم ہوجاتا ہے اسی طرح روزہ رکھنے سے بھی جنسی ہیجان ختم ہوجاتا ہے۔
]صحيح البخاري:5066، صحيح مسلم:1400]
تشریح:
اس خطاب عام کے ذریعہ نبی کریم ﷺ نے جوانوں
کو نکاح کی ترغیب دلاتے ہوئے نکاح کے دو بڑے فائدے ظاہر فرمائے ہیں ایک تو یہ کہ انسان
نکاح کرنے سے اجنبی عورتوں کی طرف نظر بازی سے بچتا ہے اور دوسری طرف حرام کاری سے
محفوظ رہتا ہے۔ جوانی کی حد انسان بالغ ہونے کے بعد جوان کہلاتا ہے لیکن جوانی کی
یہ حد کہاں تک ہے؟ اس میں اختلاف ہے چناچہ امام شافعی کے نزدیک جوانی کی حد تیس
برس کی عمر تک ہے جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک انسان چالیس برس
کی عمر تک جوان کہلانے کا مستحق رہتا ہے۔
حیث نمبر 2
تَبَتُّل (تجرد وتنہائی اختیار کرنے) کی ممانعت:
عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: رَدَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُثْمَان ابْن مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ وَلَوْ أَذِنَ لَهُ لَاخْتَصَيْنَا۔
ترجمہ:
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعونؓ کو تبتل (یعنی نکاح ترک کرنے) سے منع کردیا تھا اگر آنحضرت ﷺ ان کو تبتل کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی خصی ہوجاتے۔
]صحيح البخاري:5073، صحيح مسلم:1402]
تشریح:
تَبَتُّل کے معنیٰ ہیں عورتوں سے انقطاع اور ترک نکاح، نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین) کے ہاں تَبَتُّل ایک اچھا اور پسندیدہ فعل ہے کیونکہ ان کے نزدیک دینداری کی آخری حد یہ ہے کہ انسان عورتوں سے اجتناب کرے اور نکاح وغیرہ سے پرہیز کرے۔ لیکن جس طرح عیسائیت یا بعض دوسرے مذاہب میں نکاح کو ترک کردینا اور لذائذ زندگی سے کنارہ کش ہوجانا عبادت اور نیکی وتقوی کی آخری حد سمجھا جاتا ہے اس طرح کی کوئی بات اسلام میں نہیں ہے بلکہ شریعت اسلامیہ نے نکاح کو انسانی زندگی کے لئے ایک ضرورت قرار دے کر اس کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ لذائذ زندگی سے مکمل کنارہ کشی اور خود ساختہ تکالیف برداشت کرنا عبادت نہیں ہے بلکہ رہبانیت ہے جسے اس دین فطرت میں کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ ہاں امام شافعی اتنا ضرور کہتے ہیں کہ بغیر نکاح زندگی گزارنا افضل ہے لیکن امام شافعی کا یہ قول بھی نکاح کے بارے میں شریعت اسلامیہ کے بنیادی منشاء کے منافی نہیں ہے کیونکہ اول تو اس کا تعلق صرف فضیلت سے ہے اور دوسرے یہ کہ یہ فضیلت بھی نفس نکاح یعنی کرنے یا نہ کرنے) کے بارے میں نہیں ہے بلکہ صرف تخلی للعبادۃ (یعنی عبادت کے لئے مجرد رہنا) کے نکتہ نظر سے ہے گویا امام شافعی کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ عبادات میں مشغول رہنا نکاح کی مشغولیت سے افضل ہے۔ چناچہ ملا علی قاری نے مرقات میں امام شافعی کی دلیلیں نقل کرنے کے بعد امام اعظم ابوحنیفہ کی بہت سی دلیلیں نقل کی ہیں جن سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ تجرد بغیر نکاح رہنے کے مقابلہ میں تاہل نکاح کرنا ہی افضل ہے۔ بہرکیف حضرت عثمان بن مظعون نے جب آنحضرت ﷺ سے تَبَتُّل کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا کیونکہ اسلام مسلمانوں کے ہاں نکاح کے ذریعہ افزائش نسل کو پسند کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ اللہ کے حقیقی نام لیوا موجود رہیں اور وہ ہمیشہ کفر و باطل کے خلاف جہاد کرتے رہیں۔ اسی سلسلہ میں حدیث کے راوی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے یہ کہا کہ اگر آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو تَبَتُّل کی اجازت دیدیتے تو ہم سب اپنے آپ کو خصی کر ڈالتے تاکہ ہمیں عورتوں کی ضرورت نہ پڑتی اور نہ ہمیں عورتوں سے متعلق کسی برائی میں مبتلا ہونے کا خوف رہتا۔ طیبی کہتے ہیں کہ اس موقع کے مناسب تو یہ تھا کہ حضرت سعد یہ کہتے کہ آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو تَبَتُّل کی اجازت دیدیتے تو ہم بھی تَبَتُّل کرتے۔ مگر حضرت سعد نے یہ کہنے کی بجائے یہ کہا کہ ہم سب اپنے آپ کو خصی کر ڈالتے لہذا حضرت سعد نے یہ بات دراصل بطور مبالغہ کہی یعنی اپنی اس بات سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو اجازت دے دیتے تو ہم بھی تَبَتُّل میں اتنا مبالغہ اور اتنی سخت کوشش کرتے کہ آخر کار خصی کی مانند ہوجاتے۔ گویا اس جملہ سے حضرت سعد کی مراد حقیقۃً خصی ہوجانا نہیں تھا کیونکہ یہ فعل یعنی اپنے آپ کو خصی کر ڈالنا جائز نہیں ہے۔ اور علامہ نووی کہتے ہیں کہ حضرت سعد نے یہ بات اس وجہ سے کی کہ ان کا گمان یہ تھا کہ خصی ہوجانا جائز ہے حالانکہ انکا یہ گمان حقیقت و واقعہ کے خلاف تھا کیونکہ خصی ہوجانا انسان کے لئے حرام ہے خواہ چھوٹی عمر کا ہو یا بڑی عمر کا اس موقع پر جانوروں کے بارے میں جان لینا چاہئے کہ ہر اس جانور کو خصی کرنا حرام جو غیر ماکول یعنی کھایا نہ جاتا ہو اور جو جانور کھایا جاتا ہے اس کو خصی کرنا چھوٹی عمر میں تو جائز ہے لیکن بڑی عمر میں حرام ہے۔ جانوروں کو خصی کرنے کے بارے میں مذکورہ بالا تفصل علامہ نووی شافعی نے لکھی ہے جب کہ فقہ حنفی کی کتابوں اور مختار اور ہدایہ میں بڑی عمر اور چھوٹی عمر کی تفصیل کے بغیرصرف یہ لکھا ہے کہ جانوروں کو خصی کرنا جائز ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَات الدّين تربت يداك"۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: کسی عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اول اس کا مالدار ہونا دوم اس کا حسب نسب والی ہونا سوم اس کا حسین و جمیل ہونا اور چہارم اس کا دین دار ہونا لہذا دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو اور خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ۔
[صحيح البخاري:5090، صحيح مسلم:1466]
تشریح:
حسب ونسب والی سے مراد وہ عورت ہے جو نہ صرف اپنی ذات میں شرف و بلندی اور وجاہت رکھتی ہو بلکہ وہ جس خاندان و قبیلہ کی فرد ہو وہ خاندان و قبیلہ بھی عزت و وجاہت اور شرف و بلندی کا حامل ہو چناچہ انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسی عورت سے بیاہ کرے جو باحیثیت و باعزت خاندان و قبیلہ کی فرد ہو تاکہ اس عورت کی وجہ سے اپنی اولاد کے نسب میں شرف و بلندی کا امتیاز حاصل ہو۔ بہرکیف حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عام طور پر لوگ عورت سے نکاح کرنے کے سلسلہ میں مذکورہ چار چیزوں کو بطور خاص ملحوظ رکھتے ہیں کہ کوئی شخص تو مالدار عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ بعض لوگ اچھے حسب ونسب کی عورت کو بیوی بنانا پسند کرتے ہیں بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایک حسین و جمیل عورت ان کی رفیقہ حیات بنے اور کچھ نیک بندے دین دار عورت کو ترجیح دیتے ہیں لہذا دین و مذہب سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ دین دار عورت ہی کو اپنے نکاح کے لئے پسند کرے کیونکہ اس میں دنیا کی بھی بھلائی ہے اور آخرت کی بھی سعادت ہے۔ اور خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ ویسے تو یہ جملہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے ذلت و خواری اور ہلاکت کی بددعا کے لئے کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں اس جملہ سے یہ بددعا مراد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد دین دار عورت کو اپنا مطلوب قرار دینے کی ترغیب دلانا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: « الدُّنْيَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ »
ترجمہ:
حضرت عبداللہؓ (بن مسعود) نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا «متاع» (چند روزہ سامان) ہے اور دنیا کا بہترین «متاع» (یعنی فائدہ بخش سامان) نیک عورت ہے۔“
[صحيح مسلم:1467، سنن النسائي:3232]
تشریح:
دنیا میں جو کچھ بھی ہے اس سے ایک خاص وقت تک لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے پھر وہ فنا (ختم) ہو جاتا ہے، لیکن اس فانی دنیا کی سب سے بہترین پونجی نیک عورت ہے، جو آخرت کی تیاری میں معاونت کرتی ہے، نیک بیوی کی وضاحت نبئ کریم ﷺ نے یوں بیان فرمائی ہے: ”(خاوند) جب اسے دیکھے تو اسے خوش کر دے اور جب اسے حکم دے تو اطاعت کرے اور اگر وہ گھر پر نہ ہو تو اپنے نفس اور اس کے مال کی حفاظت کرے“۔
قریش کی نیک بخت عورتوں کی فضیلت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ صَالِحُو نِسَاءِ قُرَيْشٍ، أَحْنَاهُ عَلَى وَلَدٍ فِي صِغَرِهِ، وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ.»
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اونٹوں پر سوار ہونیوالی بہترین عورتیں قریش کی ہیں جو چھوٹے بچوں پر بہت شفیق ہوتی ہیں اور اپنے شوہر کے اس مال کی جو ان کے قبضہ میں ہوتا ہے بہت زیادہ حفاظت کرتی ہیں۔
[صحيح البخاري:5082، صحيح مسلم:2527]
تشریح:
اونٹوں پر سوار ہونیوالی عورتوں سے مراد عرب کی عورتیں کیونکہ عرب کی عورتیں عام طور پر اونٹ کی سواری کی عادی ہوتی تھیں لہذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ عرب کی عورتوں میں بہترین عورتیں قریش کی نیک بخت عورتیں ہیں۔
حدیث نمبر 6
(بےحیاء)عورتوں کا فتنہ زیادہ نقصان دہ ہے:
عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ من النِّسَاء»
ترجمہ:
حضرت حضرت اسامہ ابن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے بعد ایسا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے جو مردوں کے حق میں عورتوں کے فتنہ سے زیادہ ضرر رساں ہو۔
[صحيح البخاري:5096، صحيح مسلم:2740]
تشریح:
مردوں کے حق میں عورتوں کے فتنے کو سب سے زیادہ ضرررساں اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ اول تو مردوں کی طبائع عام طور پر عورتوں کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں دوسرے یہ کہ مرد عام طور پر عورتوں کی خواہشات کے زیادہ پابند ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حارم امور میں گرفتار ہوتے ہیں اور عورتوں ہی کی وجہ سے آپس کے لڑائی جھگڑے نفرت و عداوت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ چناچہ اس کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ عورتیں ہی ہیں جن کی بےجا نازبرداریاں مردوں کو دنیا داری کی طرف راغب کرتی ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ دنیاداری سے زیادہ اور کون سی چیز ضرررساں ہوسکتی ہے کیونکہ سرکار دوعالم ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ حب الدنیا رأس کل خطیئۃ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ ارشاد گرامی اپنے بعد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عورتوں کے فتنے آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں کم تھے اور ان کا زیادہ ظہور آپ ﷺ کے بعد ہوا کیونکہ اس وقت حق کا غلبہ تھا اور نیکی کی طاقت تمام برائیوں کو دبائے ہوئے تھی جب کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آہستہ آہستہ باطل کی قوت بڑھتی گئی اور برائیوں کا غلبہ ہوتا گیا۔
حدیث نمبر 7
(بےحیاء)عورت کے فتنہ سے بچو:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ فِي النِّسَاء»
ترجمہ:
حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: دنیا شیریں اور سبز جاذب نظر ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا کا خلیفہ بنایا ہے اس لئے وہ ہر وقت دیکھتا ہے کہ تم اس دنیا میں کس طرح عمل کرتے ہو لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں کے فتنہ سے بچو کیونکہ بنی اسرائیل کی تباہی کا باعث سب سے پہلا فتنہ عورتوں ہی کی صورت میں تھا۔
[صحيح مسلم:2742، السنن الكبرى - النسائي:9224]
تشریح:
کنواری سے نکاح کرنا زیادہ بہتر ہے:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَالِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَيْكُمْ بِالْأَبْكَارِ فَإِنَّهُنَّ أَعْذَبُ أَفْوَاهًا وَأَنْتَقُ أَرْحَامًا وَأَرْضَى بِالْيَسِيرِ»
ترجمہ:
حضرت عبدالرحمن بن سالم بن عتبہ بن عویمر بن ساعدہ انصاری اپنے والد حضرت سالم اور وہ عبدالرحمن کے دادا یعنی حضرت عتبہ تابعی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تمہیں کنواری عورتوں سے نکاح کرنا چاہئے کیونکہ وہ شیریں دہن ہوتی ہیں (یعنی کنواری عورتیں شیریں زبان وخوش کلام ہوتی ہیں کہ وہ بد زبانی فحش گوئی میں مبتلا نہیں ہوتیں) اور زیاد بچے پیدا کرنیوالی ہوتی ہیں نیز وہ تھوڑے پر بھی راضی رہتی ہیں (یعنی تھوڑا مال و اسباب پانے پر بھی راضی رہتی ہیں)۔
[سنن ابن ماجه:1861، الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم:1947، سلسلة الأحاديث الصحيحة:623]
تشریح:
اس ارشاد گرامی کے ذریعہ کنواری عورتوں کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو بیوہ عورتوں میں نہیں پائی جاتیں مثلا کنواری عورت زیادہ بچے پیدا کرنے کے قابل ہوتی ہے کیونکہ اس کے رحم میں حرارت زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کا رحم مرد کا مادہ تولید بہت جلد قبول کرلیتا ہے لیکن یہ چیز محض ظاہری اسباب کے درجہ کی ہے جو حکم الٰہی کے بغیر کوئی اہمیت نہیں رکھتی، کنواری عورتوں کی ایک نفسیاتی خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ تھوڑے سے مال و اسباب پر بھی راضی وخوش رہتی ہیں ان کا شوہر انہیں جو کچھ دے دیتا ہے اسی کو برضا ورغبت قبول کرلیتی ہیں اور اس پر قانع رہتی ہیں کیونکہ وہ بیوہ عورت کی طرح پہلے سے کسی خاوند کا کچھ دیکھے ہوئے تو ہوتی نہیں کہ انہیں کمی بیشی کا احساس ہو اور وہ اپنے شوہر سے زیادہ مال و اسباب کا مطالبہ کریں۔
حدیث نمبر 14
نکاح کی ایک خصوصیت:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمْ تَرَ لِلْمُتَحَابِّينَ مثل النِّكَاح»
ترجمہ:
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اے شخص! تو نے نکاح کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ہوگی جو دو محبت کرنیوالوں کے درمیان محبت کو زیادہ کرے۔
[سنن ابن ماجه:1847، سلسلة الأحاديث الصحيحة:624]
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ نکاح کے ذریعہ جس طرح خاوند اور بیوی کے درمیان بغیر کسی قراب کے بےپناہ محبت والفت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس طرح کا کوئی تعلق ایسا نہیں ہے جو دو شخصوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہوں اس درجہ کی محبت والفت پیدا کر دے۔
حدیث نمبر 15
آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی فضیلت:
عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنْ أَرَادَ أَنْ يَلْقَى اللَّهَ طَاهِرًا مُطَهَّرًا، فَلْيَتَزَوَّجِ الْحَرَائِرَ»۔
ترجمہ:
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس بات کا خواہشمند ہو کہ وہ زنا کی نجاست سے پاکی کی حالت میں اور پاکیزہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اسے چاہئے کہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے۔
[سنن ابن ماجه:1862، السنن والأحكام عن المصطفى:5509]
تشریح:
اس کی وجہ عام طور پر آزاد عورتیں لونڈیوں کی بہ نسبت زیادہ پاک و پاکیزہ ہوتی ہیں اس لئے ان کی پاکیزگی مخالطت و مباشرت کے ذریعہ ان کی شوہروں میں سرایت کرتی ہے پھر یہ کہ آزاد عورتیں اپنی اولاد کو جو ادب وسلیقہ اور تہذیب سکھا سکتی ہیں وہ لونڈیوں کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ جب وہ خود بھی کمتر و پست حیثیت ہوتی ہیں تو اپنی اولاد کو ادب وتہذیب اور اخلاق سے کیسے مزین کرسکتی ہیں۔
حدیث نمبر 16
نیک بخت بیوی کی خصوصیت:
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَقُولُ: «مَا اسْتَفَادَ الْمُؤْمِنُ بَعْدَ تَقْوَى اللَّهِ خَيْرًا لَهُ مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ إِنْ أَمْرَهَا أَطَاعَتْهُ وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهَا سرته وَإِن أقسم عَلَيْهِ أَبَرَّتْهُ وَإِنْ غَابَ عَنْهَا نَصَحَتْهُ فِي نَفْسِهَا وَمَاله»
ترجمہ:
حضرت ابوامامہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مؤمن اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کے بعد جو سب سے بہتر چیز اپنے لئے منتخب کرتا ہے وہ نیک بخت بیوی ہے، ایسی بیوی کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر شوہر اس کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ اس کی تعمیل کرتی ہے جب وہ اس کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اپنے حسن اور پاکیزگی اور اپنی خوشی سلیقگی وپاک سیرتی سے) اس کا دل خوش کرتی ہے جب وہ اس کو قسم دیتا ہے تو اس قسم کو پورا کرتی ہے اور جب اس کا خاوند موجود نہیں ہوتا تو وہ اپنے نفس کی بارے میں یہ خیرخواہی کرتی ہے کہ اس کو ضائع وخراب ہونے سے بچاتی ہے اور اس میں کوئی خیانت نہیں کرتی۔
[سنن ابن ماجه:1857]
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ {وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ} قَالَ: كَبُرَ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ عُمَرُ أَنَا أُفَرِّجُ عَنْكُمْ فَانْطَلَقُوا، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ إِنَّهُ كَبُرَ عَلَى أَصْحَابِكَ هَذِهِ الْآيَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ لَمْ يَفْرِضِ الزَّكَاةَ إِلَّا لِيُطَيِّبَ مَا بَقِيَ مِنْ أَمْوَالِكُمْ، وَإِنَّمَا فَرَضَ الْمَوَارِيثَ لِتَكُونَ لِمَنْ بَعْدَكُمْ، قَالَ: فَكَبَّرَ عُمَرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ مَا يَكْنِزُ الْمَرْءُ: الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ إِذَا نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ، وَإِذَا أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ، وَإِذَا غَابَ عَنْهَا حَفِظَتْهُ.»
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ {اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کر کر کے رکھتے ہیں} نازل ہوئی تو مسلمانوں پر بہت گراں گزری تو عمر ؓ نے کہا: تمہاری اس مشکل کو میں رفع کرتا ہوں، چناچہ وہ (نبی اکرم ﷺ کے پاس) گئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! آپ کے صحابہ پر یہ آیت بہت گراں گزری ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے زکاۃ صرف اس لیے فرض کی ہے کہ تمہارے باقی مال پاک ہوجائیں (جس مال کی زکاۃ نکل جائے وہ کنز نہیں ہے) اور اللہ نے میراث کو اسی لیے مقرر کیا تاکہ بعد والوں کو ملے ، اس پر عمر ؓ نے تکبیر کہی، پھر آپ ﷺ نے عمر ؓ سے فرمایا: کیا میں تم کو اس کی خبر نہ دوں جو مسلمان کا سب سے بہتر خزانہ ہے؟ وہ نیک عورت ہے کہ جب مرد اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب وہ حکم دے تو اسے مانے اور جب وہ اس سے غائب ہو تو اس کی حفاظت کرے۔
[سنن أبي داود:1664]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «قِيلَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النِّسَاءِ خَيْرٌ؟ قَالَ: الَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ، وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ، وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِهَا بِمَا يَكْرَهُ»
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا: عورتوں میں اچھی عورت کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت جو اپنے شوہر کو جب وہ اسے دیکھے خوش کر دے ١ ؎، جب وہ کسی کام کا اسے حکم دے تو (خوش اسلوبی سے) اسے بجا لائے، اپنی ذات اور اپنے مال کے سلسلے میں شوہر کی مخالفت نہ کرے کہ اسے برا لگے۔
[سنن النسائي:3231]
تشریح:
اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کو اور ممنوعات سے بچنے کو تقوی کہتے ہیں لہذا ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نیک و صالح بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور ممنوعات سے اجتناب کے بعد اپنی دینی اور دنیاوی بھلائی کے لئے جو سب سے بہتر چیز پسند کرتا ہے وہ نیک بخت وخوب صورت بیوی ہے۔ وہ اس کی تعمیل کرتی ہے، کا تعلق ان چیزوں سے ہے جو گناہ و معصیت کا باعث نہیں ہوتیں یعنی وہ اپنے شوہر کی انہیں باتوں اور انہی احکام کی تعمیل کرتی ہے جو شریعت کے خلاف اور اللہ کی ناراضگی کا باعث نہیں ہوتے، یہ قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ شریعت کا یہ حکم ہے کہ مخلوق یعنی کسی شخص کا کوئی بھی ایسا حکم تعمیل نہ کرنا چاہئے جو خالق یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے متعلق ہو۔ وہ اس کی قسم کو پورا کرتی ہے، کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی خواہش ومرضی پر اپنے شوہر کی خواہش ومرضی کو مقدم رکھتی ہے مثلا جب اس کا شوہر اس کو کسی ایسے کام کے کرنے کی قسم دیتا ہے جو اس کی خواہش کے خلاف ہوتا ہے تو وہ اپنی خواہش کو چھوڑ کر وہ اپنے شوہر کی قسم ومرضی کے مطابق وہی کام کرتی ہے یا جب اس کا شوہر اس کو کسی ایسے کام کے نہ کرنی کی قسم دیتا ہے جو اس کی خواہش کے مطابق ہے تو وہ اپنی خواہش کی پرواہ کئے بغیر اپنے شوہر کی قسم ومرضی کی مطابق اس کام کو ترک کردیتی ہے۔
حدیث نمبر 17
نکاح آدھا دین ہے:
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ نِصْفَ الدِّينِ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ فِي النِّصْفِ الْبَاقِي»
ترجمہ:
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس بندہ نے نکاح کیا اس نے اپنا آدھا دین پورا کرلیا اب اسے چاہئے کہ باقی آدھے کے بارے میں اللہ سے ڈرے۔
[شعب الإيمان-البيهقي:5486 - ت زغلول، سلسلة الأحاديث الصحيحة:625]
تشریح:
انسان کے جسم میں دو چیزیں ایسی ہیں جو عام طور پر دین میں فساد و نقصان کا سبب بنتی ہی یعنی شرمگاہ اور پیٹ لہذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی شخص نے نکاح کر کے شرمگاہ کے فتنہ و فساد سے نجات پائی تو اب اسے چاہئے کہ پیٹ کے فتنے و فساد کو دور کرنے کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے یعنی حلال کمائی اور حلال رزق ہی کے ذریعہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھرے تاکہ دین کی بھلائی پوری حاصل ہو۔
ہر پیغمبر کی سنت»نکاح
القرآن:
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے ہیں اور انہیں بیوی بچے بھی عطا فرمائے ہیں۔۔۔
[سورۃ نمبر 13 الرعد، آیت نمبر 38]
القرآن:
تم میں سے جن (مردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں بےنیاز کردے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 32]
حدیث نمبر 18
کون سا نکاح بابرکت ہے؟
عَن عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مُؤْنَةً»
ترجمہ:
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ بہت زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جو (محنت کے لحاظ سے) آسان ہو۔
[مسند أحمد:24529، شعب الإيمان-البيهقي:6566- ت زغلول]
[مسند أبي داود الطيالسي:1530، مسند إسحاق بن راهويه:946]
امام ابوداؤدؒ کہتے ہیں:
حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حدیث کے شروع میں ان الفاظ کا اضافہ کیا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«خَيْرُ النِّكَاحِ أَيْسَرُهُ»
ترجمہ:
بہتر نکاح وہ ہے جو سب سے آسان ہو۔
[سنن أبي داود:2117
حضرت عقبہ بن عامرؓ سے بھی یہی مروی ہے۔
[الكنى والأسماء - للدولابي:599، صحيح ابن حبان:4072، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1842]
تشریح:
محنت کے لحاظ سے آسان نکاح، سے مراد وہ نکاح ہے جس میں بیوی کا مہر کم ہو اور عورت زیادہ مال و اسباب اور حیثیت سے زیادہ ضروریات زندگی یعنی روٹی کپڑا طلب کر کے مرد کو پریشان نہ کرے بلکہ مشورہ کی طرف سے جو کچھ اور جیسا کیسا مل جائے برضا ورغبت اسی پر قانع رہے۔
حوالہ
نکاح کے افراد واقسام (یعنی مہر، ولیمہ، روزمرہ اخراجات وغیرہ) کم سے کم اور سادہ سے سادہ ہو۔
تو
برکت یعنی دائمی خیر وبھلائی جو ضرورت پوری کرنے کیلئے کافی ہوجائے، جس کا نفع نہ ختم ہونے والا مسلسل ہو۔
[مرقاۃ المفاتیح:3097]
(2) *باب:- (نکاح میں)خرچہ کرنے میں میانہ روی اور ناحق طریقہ سے کمائے مال کے حرام ہونے کے متعلق بیان۔*
[شعب الایمان (امام)بیھقی(م456ھ) » حدیث#6146]
(3) *مہر میں جو قصد و ارادہ کرنا پسندیدہ ہے۔*
[السنن الكبير للبيهقي:14472]
یعنی
جس سے نکاح میں رکاوٹ یا تاخیر نہ ہو۔
ناجائز کاموں جیسے:- تصویریں اور فلمیں بنوانا، دف کے بجائے موسیقی کے آلات کا انتظام کرنے وغیرہ میں خرچ کا فضول زیان نہ کرنا چاہئے۔
وسعت وگنجائش سے زیادہ دعوتیں دینے کیلئے قرض لینا شرعی مجبوری یا عذر نہیں۔
دوسروں پر فخر جتانے، دکھلاوے اور شہرت کیلئے غیرمسنون رسم ورواج کی پابندیوں سے آزاد وآسان نکاح کرنا۔
سادہ نکاح کی مثال:-(امام بخاری لکھتے ہیں کہ)ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے حضرت انس ؓ نے کہنبی کریم ﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے مہر پر نکاح کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے، دعوت ولیمہ کر، خواہ ایک بکری ہی کی ہو۔[صحیح البخاری:5155، صحیح مسلم:1427، سنن ابن ماجہ:1907]
باحوالہ فقہی نکات:-(1)نکاح کرنے والے کو کیسے دعا کی جائے۔[صحیح بخاری: 5155]جب کسی کا نکاح ہو تو کیا کہے۔[السنن الکبریٰ للبیہقی:13840](2)نکاح کرنے والے کیلئے زرد رنگ(زعفران)کا استعمال[صحیح البخاری:5153](3)ولیمہ...یعنی شادی کے کھانے کی دعوت...حق ہے۔[صحیح البخاری:5166]ولیمہ کا حکم[السنن الکبریٰ للبیہقی:14497 +14498]یہ مستحب(یعنی پسندیدہ) ہے کہ (ولیمہ سے)نکاح کا اظہار(اعلان)ہو۔[السنن الکبریٰ للبیہقی:14699]یعنیفرض(لازم)نہیں۔(4)ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے۔[صحیح البخاری:5167]مستحب ہے اگر وہ وسعت رکھتا ہو۔[السنن الکبریٰ للبیہقی:14499]یعنیفرض(لازم)نہیں۔(5) مہر کتنا ہو۔[السنن الصغیر للبیہقی:2537]کم از کم مہر کا بیان[سنن ابوداؤد:2109]سونے کی (کھجور کی) گٹھلی جتنے مہر پر نکاح کرنے کا بیان[سنن النسائی:3355]گھٹلی وزن میں پانچ درہم(یعنی 15 گرام 309 ملی گرام) کے ہے۔[مسخرج ابی عوانہ:4586-4589]اپنی عورت کو مرد کا مہر میں سونا دینے کے جائز ہونے کا بیان[صحیح ابن حبان:4096](6)ولیمہ کا وقت» نکاح کے بعد
نوٹ:-آسان وسادہ نکاح میں رسول اللہ ﷺ جیسی معزز وبزرگ ہستی کو دعوت نہ تھی، تب بھی اظہارِ ناراضگی نہ کیا بلکہ برکت کی دعا دی (لہٰذا الله نام لئے بغیر محض مبارک ہو کہنا سنت نہیں)، کیونکہ اظہارِ ناراضگی کے قابل بات فرض چھوڑنا اور حرام کام یعنی کبیرہ گناہ کرنا ہے۔اور اگر کوئی نصیحت فرمائی تو محض ولیمہ(یعنی شادی کے کھانے کی دعوت) کی، جس میں خرچ کی کم از کم مقدار ایک بکری تجویز فرمائی، وہ بھی مالدار ترین مہاجر صحابی حضرت عبدالرحمان بن عوف کو۔
ذرا غور کریں کہجن وفادار، جانثار اور قریب ترین دس صحابہ کو رسول الله ﷺ نے جنت کی خوشخبری دنیا ہی میں سنا دی تھی، جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے، جن میں چار خلفاء کے بعد پانچویں یہ صحابی ہیں۔لہٰذا
سادگی سے نکاح اور ولیمے کا انعقاد مسنون ہے، اور اس کے لئے لئے خاندان کے تمام افراد سعد اور دوست و احباب کو اکٹھا کرنا بھی ضروری نہیں۔ فضول خرچی اور غیر ضروری قرض کے بوجھ سے بچتے ہوئے بقدر استطاعت جتنے قریبی لوگوں کو مدعو کیا جاسکتا ہے کرلیا جائے بقیہ کو چھوڑ دیا جائے۔
نیز جن رشتہ داروں اور دوست احباب کو مدعو نہ کیا جائے وہ بھی اسے اپنی بےعزتی تصور نہ کریں۔
کیونکہ مہاجر وانصار(صحابہ)کے نقشِ قدم پر چلنے میں بھی الله کی (1)رضا، (2)دائمی جنت اور (3)عظیم کامیابی ملنے کی خوشخبری الله ہی نے فرمائی ہے۔[حوالہ سورۃ التوبہ:100]
نکاح— اصول وضوابط
اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا سنت ہے؛کیوں کہ حدیث میں ہے: النکاح من سنتی۔ فقہا کرام نے حالات کے اعتبار سے نکاح کرنے اور نہ کرنے کے احکام بیان کیے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
فرض
اگر شہوت بہت زیادہ ہو حتی کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کرلینے کا یقین ہو، مہر اور نان ونفقہ ادا کرسکتا ہو، نیز بیوی پر ظلم وستم کرنے کا خوف نہ ہو، تو ایسی صورت میں نکاح کرلینا فرض ہے۔
واجب
نکاح کرنے کا تقاضہ ہو، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو، مہر اور نان ونفقہ ادا کرسکتا ہو نیز بیوی پر ظلم وستم کرنے کا خوف نہ ہو، تو ایسی صورت میں نکاح کرلینا واجب ہے۔
سنت موٴکدہ
عام حالات میں یعنی مالی اور جسمانی حالت اچھی ہو،بیوی کے حقوق کو ادا کرسکتا ہو، بیوی پر ظلم وستم کرنے کا خوف نہ ہو تو نکاح کرنا سنتِ موٴکدہ ہے۔
مکروہ تحریمی
اگر نکاح کرنے کے بعد بیوی کے مالی یا صنفی حقوق ادا نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔
حرام
اگر نکاح کرنے کے بعد بیوی کے مالی یا صنفی حقوق ادا نہ کرنے کا؛ یا عورت پر ظلم کرنے کا یقین ہو؛ یا نکاح کرنے کا مقصد بیوی پر ظلم کرنا ہو تو پھر نکاح کرنا حرام ہے۔
(البحرالرائق ۳/۸۴، الدرالمختارعلی ردالمحتار:۳/۶، فتاوی محمودیہ۱۰/۴۷۲پاکستان)
نکاح کرنے کے یہ درجات جس طرح مردوں کے لیے ہیں، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہیں۔ نکاح میں لڑکے کے اوپر مہر، ولیمہ مسنونہ اور مستقل طور پر بیوی کے نان ونفقہ کے اخراجات کے علاوہ کوئی مالی ذمہ داری نہیں ہے؛ اس لیے صرف اس وجہ سے کہ ابھی زیادہ روپیہ پیسہ نہیں ہے، یا ولیمہ میں بھاری بھرکم خرچہ کرنے کی استطاعت نہیں ہے، نکاح نہ کرنا یا نکاح کو موٴخر کرنا درست نہیں ہے؛ بلکہ اگر نکاح کرنے کی ضرورت ہو تو ایسی صورت میں سخت گناہ ہوگا اور اپنے ذہن اور جسم وروح کے ساتھ ناانصافی بھی ہوگی۔
جہیز کا مطالبہ کرنا
لڑکے کا یا اس کے گھر والوں کی طرف سے کسی کا لڑکی سے یا اس کے گھر والوں میں سے کسی سے کسی بھی سامان کا یا کھانے کی دعوت کا صراحت کے ساتھ یا اشارہ وکنایہ میں یا رسم ورواج کی بنیاد پر مطالبہ کرنا جائز نہیں، سخت گناہ کی بات ہے اور مرد کی غیرت کے خلاف ہے۔ کپڑے، زیورات، اور گھریلو ساز وسامان کا انتظام کرنا سب مرد کے ذمہ ہے۔ اگر لڑکی والے مطالبہ کے بغیر مگر رسم ورواج یا سماج کے دباؤ میں آکر کچھ دے تو بھی لینا نہیں چاہیے۔ نبی کریم …نے ارشاد فرمایا: ”لَا یَحِلُّ مَالُ رَجُلٍ مُسْلِمٍ لِأَخِیہِ، إِلَّا مَا أَعْطَاہُ بِطِیبِ نَفْسِہِ“ (سنن الکبریٰ للبیہقی:۱۶۷۵۶)یعنی کسی دوسرے کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیرکسی کے لیے حلال نہیں۔سماجی دباؤ میں آکر دینے کا مطلب یہ ہے کہ دینے والا یوں سمجھے کہ ہمارے یہاں اس موقع پر فلاں چیز دینے کی رسم ہے دینا ہی پڑے گا، اگر نہیں دیں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟ اگر لڑکی ازخود کوئی سامان اپنے میکے سے لاتی ہے تو اس پر صرف اسی لڑکی کا حق ہے۔ مرد کو اس میں اپنا حق جتانا یا بیوی کی اجازت کے بغیر اس کا استعمال کرنا صحیح نہیں ہے۔
حق مہر
نکاح کی وجہ سے بیوی کا مہر واجب ہوتا ہے۔ مہر کی مقدار کم از کم دس درہم یعنی تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام چاندی یا اس کی مالیت کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے کم مالیت میں اگر نکاح کیا جائے مثلاً پانچ سو روپئے میں یا صرف ۷۸۶ روپئے میں تو نکاح تو منعقد ہوجائے گا؛مگر دس درہم کی مقدار کا ادا کرنا واجب ہوگا؛ تاہم متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے مہر فاطمی یعنی ایک کلو پانچ سو تیس گرام نو سو ملی گرام چاندی متعین کرنا مستحب ہے۔ دین مہر کا بعد نکاح فوراً ادا کردینا بہتر ہے۔ اس کو موٴخر کرنا مناسب نہیں، علماء کرام کا مشورہ ہے کہ اس زمانہ میں سونے یا چاندی میں مہر متعین کرنا لڑکی کے حق میں مناسب ہے؛ اس لیے کہ افراط زر کے اس زمانہ میں سالوں گزرنے کے باوجود اس کی مالی حیثیت میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔دوسرے یہ کہ یہ سنت سے زیادہ قریب ہے؛ کیوں کہ دورِ نبوی میں عموماً سونے وچاندی سے مہر طے ہوتا تھا۔
ارکانِ نکاح
نکاح حرام کو حلال کرتا ہے؛ اس لیے اس کے ارکان اور شرائط کو بوقت نکاح ملحوظ رکھنا نہایت ہی ضروری ہے، ورنہ بعض دفعہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ہے اور طویل عرصہ تک لڑکا لڑکی دونوں حرام کاری کرتے رہتے ہیں۔ نکاح کے ارکان ایجاب وقبول ہیں۔ پیغام دینے اور پیش کش کرنے کو ایجاب کہتے ہیں، خواہ لڑکے کی طرف سے ہو یا لڑکی کی طرف سے اور دوسرے کی طرف سے منظور کرلینے کو قبول کہا جاتا ہے۔
ایجاب وقبول کی شرائط
پہلی شرط: ایجاب وقبول کی شرطوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایجاب وقبول کی مجلس ایک ہو، مثلاً ایجاب جس مجلس میں ہوا اسی مجلس میں قبول ہوجائے ورنہ نکاح منعقد نہیں ہوگا، مثلاً اگر ایجاب وقبول کی جگہ بدل جائے یا کوئی ایک مجلس سے اٹھ جائے پھر قبول کرے تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(بدائع الصنائع:۲/۲۳۲،ہندیہ:۱/۲۶۹)
دوسری شرط: دوسری شرط یہ ہے کہ:
(الف)ایجاب وقبول کا تلفظ کیا گیا ہو، یعنی اگر ایجاب وقبول کرنے والا بولنے پر قادر ہے اور دونوں مجلس میں موجود ہیں تو ایجاب وقبول کی منظوری زبان سے دینا ضروری ہے۔ مثلاً ایجاب یوں کرے ”میں نے آپ سے اتنے مہر کے عوض نکاح کیا“ اور قبول یوں کرے ”ہاں میں نے قبول کیا“ اگر ایجاب وقبول کے الفاظ لکھ دیے جائیں، یا صرف سر کو ہلادیا جائے یا نکاح نامہ میں صرف دستخط کردیے جائیں تو ان صورتوں میں نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(ب) اگر نکاح کرنے والوں میں سے کوئی ایک مجلس میں موجود نہ ہو؛ مگر اس کی طرف سے اس کا ولی جس کو اس نے نکاح کرانے کی اجازت دے رکھی ہو یا وکیل جس کو اس نے نکاح کرانے کا وکیل بنایا ہو، موجود ہو تو وہ خود اس کی طرف سے ایجاب یا قبول کرے۔ مثلاً یوں ایجاب کرے ”میں نے فلاں یا فلانہ کا نکاح آپ سے اتنے مہر کے عوض کیا“ اور قبول اس طرح کرے ”ہاں میں نے فلاں یا فلانہ کی طرف سے قبول کیا“ یا قاضی ولی اور وکیل کا ترجمان بن کر اس کی موجودگی میں ایجاب کرے تو اس سے بھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔
(ج) اگر کوئی ولی یا وکیل بھی موجود نہ ہو تو اگر کسی ایک نے ایجاب کو لکھ کر بھیجا اور دوسرے نے جس مجلس میں اس کو ایجاب کی تحریر پہونچی اسی مجلس میں گواہوں کی موجودگی میں ایجاب کو پڑھ کر یا کسی سے پڑھوا کر زبان سے قبول کیا تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔
(ہندیہ:۱/۲۶۹-۲۷۰)
تیسری شرط: تیسری شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کے صیغے ماضی یاحال کے ہوں، مثلاً میں نے آپ سے نکاح کیا یا نکاح کرتا ہوں کہے، اسی طرح میں نے قبول کیا یا میں قبول کرتا ہوں، یا مجھے قبول ہے وغیرہ الفاظ کہے، پس اگر مستقبل کے صیغے استعمال کیے جائیں، مثلاً یوں کہا کہ نکاح کروں گا، قبول کروں گا یا ٹھیک ہے کرلوں گا وغیرہ تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(الفقہ الاسلامی وادلتہ:۹/۳۵)
چوتھی شرط: چوتھی شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کم از کم دو ایسے مسلمان عاقل وبالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں ہو، جو فریقین کے ایجاب وقبول کے الفاظ کو سن سکیں؛ لہٰذا اگر دو گواہ نہیں ہیں یا گواہ تو ہیں؛ مگر مسلمان نہیں ہیں، یا صرف عورتیں ہیں، یا گواہ بالغ نہیں ہیں، یا عاقل نہیں ہیں تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
نکاح کرنے کے طریقے
نکاح کرنے کے چار طریقے ہیں جو حسبِ ذیل ہیں:
اَصالتہً: یعنی نکاح کرنے والا خود ایجاب یا قبول کرے۔ مثلاً لڑکا یا لڑکی دونوں میں سے کوئی ایک دو گواہوں کی موجودگی میں دوسرے سے کہے کہ میں نے آپ سے اتنے مہر کے عوض نکاح کیا اور وہ کہے ہاں میں نے قبول کیا۔
وِلایةً: یعنی نکاح کرنے والے کاولی، مثلاً اس کا باپ یا دادا، بھائی، چچا وغیرہ (بالترتیب) اس کی طرف سے ایجاب یا قبول کرے، ایسا صرف اس صورت میں ہوتا ہے؛ جب کہ لڑکا یا لڑکی نابالغ ہو۔ اگر نکاح باپ دادا کے علاوہ کسی دوسرے ولی، مثلاً بھائی، چچا وغیرہ نے کرایا ہے، تب تو ان کو بالغ ہونے کے بعد اختیار ہوگا کہ اس نکاح کو باقی رکھیں یا ختم کردیں، اور اگر باپ دادا نے کرایا ہے تو یہ اختیار نہیں رہے گا۔ ہاں اگر باپ دادا اپنے فسق وفجور میں مشہور ہوں تو پھر نکاح ختم کرنے کا اختیار ہوگا۔ فقہ کی اصطلاح میں اس کو ”خیار بلوغ“ کہا جاتا ہے؛مگر اس کے لیے قضاء قاضی شرط ہے، یعنی شرعی دار القضاء میں جاکر قاضی شریعت کی خدمت میں فسخ نکاح کا درخواست دینا ضروری ہے، قاضی محترم تحقیق کرنے کے بعد فسخ کرسکتے ہیں۔
اجازةً: اگر لڑکا یا لڑکی بالغ ہو تو اس کی طرف سے اجازت یا وکالت کا ہونا ضروری ہے۔ ہمارے معاشرہ میں عموما لڑکا اور لڑکی کے والدین، اولیاء وسرپرستان نکاح کراتے ہیں، یہ ایک بہتر اورمستحسن عمل ہے؛ کیوں کہ دونوں کے اولیاء اپنی اولاد کی دینی اور دنیاوی بھلائی دیکھ کر ہی نکاح کرائیں گے۔ اسی وجہ سے شریعت میں ولی کی اجازت کے بغیر کیے گئے نکاح کو ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے۔ نبی کریم … نے اولیاء کو حکم فرمایا ہے کہ وہ اپنی بالغ اولاد کا نکاح ان کی رضامندی کے بغیر نہ کریں۔ ”لاَ تُنْکَحُ الأَیِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْکَحُ البِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ“ (بخاری:۵۱۳۶) کیوں کہ ازدواجی زندگی دونوں میاں بیوی کو گزارنی ہے؛ اس لیے ان سے اجازت لی جائے۔
اجازت کا مطلب یہ ہے کہ بالغ لڑکا یا لڑکی اپنے ولی مثلاً باپ، دادا،یا بھائی کو اس بات کی اجازت دے دے کہ آپ میرا نکاح فلاں سے کرادیں، یا جس سے چاہیں کرادیں، یا ولی اپنے بیٹے یا بیٹی سے اس بات کی اجازت لے لیں کہ وہ اس کا نکاح فلاں یا فلانہ سے کرانے جارہا ہے، واضح رہے کہ اگر باپ دادا نے کنواری لڑکی سے اجازت طلب کی اور وہ خاموش رہی تو اس کا خاموش رہنا بھی اجازت کے حکم میں ہوگا۔ بہرحال ایسی صورت میں ولی کو بھی اپنے بالغ بیٹے یا بیٹی کا نکاح کرانے کا یعنی ایجاب یا قبول کرنے کا حق ہوگا۔ اجازت دیتے یا لیتے وقت بہتر ہے کہ دو گواہ بھی موجود ہوں۔
وکالةً: یعنی نکاح کرنے والا لڑکا یا نکاح کرنے والی لڑکی کسی کو ایجاب وقبول کرنے کا زبانی یا تحریری طور پر وکیل بنادے، مثلاً یوں کہے یا لکھ دے کہ میں نے فلاں بن فلاں کو فلانہ بنت فلانہ سے یا فلاں بن فلاں سے اپنا نکاح کرانے کا وکیل بنادیا اور وکیل اس کی طرف سے ایجاب یا قبول کرے۔ مثلاً یوں ایجاب کرے کہ میں نے اپنے موٴکل یا موٴکلہ کو آپ کی زوجیت میں دیا یا میں نے اپنے موٴکل یا موٴکلہ کا نکاح آپ سے کیا۔ قبول اس طرح کرے کہ میں نے اپنے موٴکل یا موٴکلہ کی طرف سے قبول کیا۔
واضح رہے کہ وکیل یا بالغ اولاد کا ولی خود اپنی طرف سے کسی کو نکاح کرانے کی اجازت نہیں دے سکتا ہے اور نہ کسی کو وکیل بنا سکتا ہے؛ اگر کسی نے ایسا کرلیا یعنی ولی نے کسی کو نکاح کرانے کی اجازت دے دی یا کسی کو وکیل بنادیا یا وکیل نے خود کسی دوسرے کو وکیل بنادیا یا نکاح کرانے کی اجازت دے دی اور اس نے نکاح کردیا تو ایسی صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
ہاں دو صورتیں ایسی ہیں کہ نکاح منعقد ہوجائے گا: (۱)اسی مجلس میں ولی یا وکیل (اول) بھی موجود ہو، (۲)بعد نکاح جب لڑکی کو اس کی اطلاع ہوئی کہ فلاں نے میر انکاح فلاں سے کردیا ہے تو وہ انکار نہ کرے تو اس کی خاموشی بھی دلالتہً ایجاب کے حکم میں ہوگی اور نکاح منعقد ہوجائے گا۔
(الدرالمختارعلی ردالمحتار:۳/۸۵،ہندیہ:۱/۲۹۸)
جدیدٹکنالوجی کے ذریعہ نکاح
ٹیلیفون، موبائل، وہاٹس ایپ، فیس بک میں، چیٹنگ کے ذریعہ ہو یا آیڈیو کانفرنس ہو یا ویڈیو کانفرس ہو نکاح کسی بھی صورت میں منعقد نہیں ہوگا؛ کیوں کہ دونوں کی مجلس ایک نہیں ہے؛ البتہ اگر ان ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کسی کو وکیل بنادیا جائے اور وہ وکیل اپنے موٴکل کی طرف سے گواہوں کی موجودگی میں ایجاب یا قبول کرے تو پھر نکاح منعقد ہوجائے گا۔
کورٹ میریج
کورٹ میں نکاح کرنے کی صورت میں اگر ایجاب و قبول کی ساری شرطیں موجود ہوں تو نکاح منعقد ہوگا، ورنہ نکاح نہیں ہوگا۔ مثلاً اگر متعلقہ افسر کے سامنے صرف کاغذ پر دستخط کردیا، زبان سے ایجاب وقبول نہیں کیا۔ یا دونوں گواہ مسلمان نہیں تھے یا صرف عورتیں گواہ تھیں، تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
خطبہٴ مسنونہ
ایجاب وقبول سے پہلے خطبہ دینا مسنون ہے۔ جس میں سورہ نساء کی پہلی آیت، سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۰۲، سورہ احزاب کی آیت نمبر ۷۰، ۷۱، اور سورہ حجرات کی آیت نمبر ۳۱۔ اسی طرح نکاح سے متعلق احادیث مثلاً ”النکاح من سنتی“ وغیرہ کا پڑھنا بہتر ہے۔
مجلسِ نکاح میں تقریر کرنا
مجلس نکاح میں اردو یا مادری زبان میں تقریر کرنا جس میں نکاح کی فضیلت، مسائل واحکام، اور میاں بیوی کے فرائض وحقوق کو بیان کرنا اور انھیں شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرنا مناسب ہے۔ نیز طلاق وخلع کے نقصانات کو واضح کرنا اور اس کے مسنون طریقہ کو بھی بیان کردینا مناسب ہے۔
میاں بیوی کو مبارکباد دینا
نکاح کے بعد میاں بیوی کو دعا اور مبارک باد دینا سنت ہے، مبارکبادی کے الفاظ حدیث میں اس طرح منقول ہیں: بَارَکَ اللہُ لَکُمَا وَجَمَعَکُمَا فِی خَیْرٍ۔ترجمہ:اللہ تعالیٰ اس نکاح میں برکت دے اور تم دونوں میاں بیوی کو خیر میں جمع کردے۔ (بخاری:۶۳۸۶)
نکاح کا اعلان کرنا
حدیث میں ہے: أَعْلِنُوا ھٰذَا النِّکَاحَ، وَاجْعَلُوہُ فِی الْمَسَاجِدِ، وَاضْرِبُوا عَلَیْہِ بِالدُّفُوف۔ (ترمذی:۱۰۸۹)، یعنی کھلے عام نکاح کرو، اس کو مسجد میں قائم کرو اور دف بجاؤ؛ تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں اورفلانہ کے درمیان نکاح ہوا ہے۔
نکاح کاوقت
نکاح کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے؛ البتہ شوال کے مہینے میں اور جمعہ کے دن نکاح کرنا مستحب ہے؛ کیوں کہ نبی کریم … کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے ماہ شوال میں اور جمعہ کے دن نکاح کرنا منقول ہے۔
(الدرالمختارعلی ردالمحتار:۳/۸)
ولیمہ کرنا
نکاح کے فوراً بعد چھوارے یا کوئی میٹھی چیز تقسیم کرنا مستحب ہے، اسی طرح نکاح کی خوشی میں ولیمہ کرنا بھی لڑکے کے لیے مستحب ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے اعزہ واقربہ کو اپنی وسعت کے مطابق کھانا کھلائے؛ بشرطے کہ کوئی نام ونمود نہ ہو اور فضول خرچی نہ ہو۔ کھانا کھلانے کے تعلق سے لڑکی یا اس کے گھر والوں پر کوئی چیز واجب یا مستحب نہیں ہے۔ ولیمہ کرنے کے نام پر لڑکے والے کا لڑکی والے سے کچھ مانگنا درست نہیں۔ اگر وسعت نہ ہو تو ولیمہ ہی نہ کرے؛ مگر دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔
نکاح نامہ کی حیثیت
نکاح نامہ کی حیثیت ایک دستاویز کی ہے، بعض دفعہ اس کی ضرورت پڑتی ہے؛ اس لیے نکاح نامہ تیار کرالینا بھی بہتر ہے؛ تاہم اس کے بغیر بھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔
نکاح کا رجسٹریشن کرانا
متعلقہ سرکاری دفتر میں جاکر نکاح کا رجسٹریشن کرالینا چاہیے؛ تاکہ سرکاری طور پر بھی نکاح کا ریکارڈ رہے؛ البتہ رجسٹریشن کیے بغیر بھی نکاح شریعت کی نظر میں صحیح ہوجاتا ہے۔
$$$
--------------------------------------------------------
نکاح کے چار اہم مقاصد
نکاح انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ مرد ہو یا عورت زندگی ادھوری رہتی ہے۔ جب تک کہ وہ نکاح کے بندھن میں نہ بندھ جائیں۔ یہ بڑا پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیداکیا اور انھی سے اُن کا جوڑا حضرت حوا کو بنایا۔ اس طرح شوہر اور بیوی کا یہ پہلا انسانی رشتہ وجود میں آیا۔ باقی سارے رشتے ماں باپ، بیٹابیٹی، بھائی بہن و دیگر رشتے داریاں بعد میں وجود میں آئی ہیں۔
قرآن میں نکاح کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: وَانْکِحُوالاَیَامیٰ مِنکُم
تم سے جن کے نکاح نہیں ہوئے ہیں، ان کے نکاح کردو۔ عام طورپر ہر زمانے میں رہبانیت
سے متاثر لوگوں نے شادی بیاہ کے ذریعے سے بھی عورتوں سے تعلق کو اللہ سے قریب ہونے
میں رکاوٹ اور تقویٰ کے خلاف سمجھا۔ آپﷺ نے اس کی تردید فرمائی۔ اَلنِّکَاحُ مِنْ
سُنَّتِی نکاح میری سنت کہہ کر اسے عبادت کادرجہ دیا۔
عثمان بن مظعونؓ کی بیوی خولہ بنت حکیمؓ کے ذریعے سے جب یہ بات نبی
کریمﷺ کے علم میں
آئی کہ ان کے شوہردن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات کو جاگ جاگ کر نمازپڑھتے ہیں اور ان
کا اپنی بیوی سے کوئی تعلق نہیں ہے تو نبی کریمﷺ نے انھیں
بلابھیجا اور فرمایا: عثمان! کیا تم میرے طریقے کو چھوڑرہے ہو؟ عثمانؓ نے عرض کیا:
اے اللہ کے نبیﷺاللہ گواہ
ہے کہ میں تو آپ ہی کے طریقے کی تلاش میں ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا:
میں سوتاہوں رات کے ایک حصّے میں اور نماز تہجد پڑھتاہوںرات کے ایک حصّے میں، روزے
﴿نفل﴾ رکھتاہوں اور نہیں بھی رکھتا، میں عورتوں سے نکاح بھی کرتاہوں ۔ اے عثمان! اللہ
سے ڈر، تیرے بیوی بچوں کا تجھ پر حق ہے۔ تیرے مہمان کاتجھ پر حق ہے، تیرے جسم
کاتجھ پر حق ہے پس تو روزے رکھ اور افطار بھی کر ، رات کو نفل پڑھ اور سو بھی۔
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
علی ! تین چیزوںمیں تاخیر نہ کر، ان میں سے ایک یہ کہ جب تم غیرشادی شدہ کا ہمسر
پاؤ ﴿تو اس سے اس کا نکاح کردو﴾۔ غرض قرآن وحدیث میں نکاح سے متعلق بڑی اہم رہ
نمائی ہمیں ملتی ہے۔ درج ذیل چار اہم مقاصد قابل غور ہیں:
۱- اخلاق کی
حفاظت
نکاح کا اوّلین مقصد ایک ایک مرد اورعورت کے اخلاق کی حفاظت اور پورے
معاشرے کو بگاڑ و فساد سے بچانا ہے۔ ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے
فرمایا: ’’نوجوانو! تم میں سے جو شخص نکاح کی ذمّے داریوں کو ادا کرسکتاہو اُسے شادی
کرلینی چاہیے، اس سے نگاہ قابو میں آجاتی ہے اور آدمی پاک دامن ہوجاتاہے۔ ہاں جوشخص
نکاح کی ذمے داریوں کو ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتاہو وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ
اس کے شہوانی جذبات کو کم کردے گا۔‘‘
غیرشادی شدہ آدمی ہر وقت شیطان کے نرغے میں رہتاہے۔جوانی کا فطری
تقاضا ، خیالات اور جذبات کو غلط راہوں پر ڈال سکتاہے۔ خصوصاً بے حیائی کے اِس
ماحول میں، جب کہ جذبات کو بہکانے اور بھڑکانے کا سامان ہر طرف موجود ہے۔ نوجوان
لڑکوں اور لڑکیوں کو زیادہ عرصے تک ازدواجی زندگی سے محروم رکھنے سے معاشرے میں
بڑی گھناؤنی اخلاقی بیماریاں نشوونما پاتی ہیں۔ سورۂ بنی اسرائیل میں
فرمایا: وَلاتَقربُوالزِّنیٰ اِنَّہ‘ کَانِ فاحِشہ ط وَسَآئَ
سَبِیلاً اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی کاکام ہے، بڑا
ہی بُرا راستہ ہے۔ اس بُرائی اور بے حیائی کے راستے سے بچنے کے لیے جہاں یہ تدبیر
بتائی گئی ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہوں کو بچاکر رکھیں وہیں نکاح
کو عملی ذریعہ بتایاگیا۔ سورۂ المؤمنون میں کامیاب اہل ایمان جو آخرت میں جنت کے
وارث بنیں گے، کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے
ہیں۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ عملی ذریعہ کیا ہے۔ اس
بُرائی اور بے حیائی کے راستے سے بچنے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کااَلَاعْلٰی
اَزْوَاجِھِمْ سوائے اپنی بیویوں/شوہروںکے۔ زوج سے تعلق ہی شرم گاہوں کی حفاظت کا
عملی ذریعہ ہے۔ اس لیے نبی کریمﷺ نے امت کو
یہ ہدایت دی کہ نکاح کو آسان بناؤ تاکہ زنا مشکل ہوجائے۔ یہ بھی فرمایاکہ برکت کے لحاظ
سے بہترین نکاح وہ ہے، جس میں کم سے کم خرچ ہو۔
آج امت نے نبی کریمﷺ کی ان ہدایات
کو نظرانداز کرکے اپنی بداعمالیوں کے ذریعے نکاح کو مشکل بنادیا ہے۔ حال یہ ہے کہ چاہے
بال بال قرض میں ڈوب جائے ، مکان جائیداد بک جائے یا گروی رکھنے کی نوبت آئے، اولاد
کے لیے ترکہ میں چھوڑنے کے لیے کچھ نہ بچے، مگر رسموں، بدعتوں، نمود ونمائش کے
ہنگاموں سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں، جس کی وجہ سے آج نوجوان لڑکے اور
لڑکیاں بے حیائی کے اس بُرے راستے کی طرف جارہے ہیں۔ یہ راستہ ان کے لیے آسان
ہوگیاہے، بالخصوص بڑے شہروں میں۔ اللہ تعالیٰ ملّت کے نوجوانوں کی حفاظت فرمائے۔
ابوہریرہؓ فرماتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین
طرح کے لوگوں کی مدد اللہ نے اپنے ذمّے لے لی ہے۔ اس میں سے ایک وہ آدمی ہے جو عفت
اور پاک دامنی کی زندگی بسر کرنے کے لیے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ ﴿مگر غریبی رکاوٹ
ہے﴾۔‘‘
سورۂ البقرہ، آیت: ۱۸۶ روزوں سے متعلق مسائل کاذکر کرتے
ہوئے فرمایاگیاکہ تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا
حلال کردیاگیاہے۔ ھُنّ لِباسٌ لَکُمْ وَ اَنْتُم لِباسٌ لَہُنَّ ط وہ
تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس۔ جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی
پردہ نہیں رہتا، اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا باہمی تعلق ہے۔ لباس کا
نمایاں پہلو آدمی کے جسم کے لیے ساترہونا ہے جس سے عیوب کی پردہ پوشی ہوتی ہے ٹھیک
اسی طرح شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے جنسی جذبات کے لیے پردہ فراہم کرتے ہیں۔
بہرحال نکاح کا پہلا اور اہم مقصد ہر مومن مرد اور عورت کے اخلاق کی
حفاظت اور اس کے ذریعے سے پورے معاشرے کو فتنہ و فساد اور اخلاقی بگاڑ سے محفوظ
رکھنا ہے۔
۲-سکون و راحت کاحصول
نکاح کا دوسرا اہم مقصد سکون و راحت کاحصول ہے۔ زندگی نام ہے سخت محنت
و مشقت کاآدمی دن بھر محنت کرتا ہے رزق حلال کے حصول کی کوشش میں ملازمت ،کاروبار
،تجارت، محنت ومزدوری کرتے ہوئے وہ تھک جاتاہے۔ اسی طرح عورت گھر کی ذمّے داریوں
کو ادا کرتے ہوئے تھک جاتی ہے۔ دونوں کو آرام کی، سکون و راحت کی ضرورت ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے جہاں نیند کو تھکان دور کرنے کا ذریعہ بنایا، تاکہ وہ دوسرے دن کے لیے
تازہ دم ہوکر اپنی جدوجہد کو جاری رکھ سکے، وہیں اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کو
ایک دوسرے کے لیے سکون و راحت کا ذریعہ بنایا۔ سورۂ الاعراف، آیت ۱۸۹ میں
فرمایا: ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْہَا
زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْْہَا ’’وہ
اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنت سے اس کاجوڑا بنایا۔
تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔‘‘
اور یہ راحت و سکون صرف جنس تعلق ہی کو نہیں بلکہ آپس کی محبت اور
رحمت کو قرار دیا۔ وجعل بینکم مودہ و رحمہ ط اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت
پیدا کردی اور اس رحمت ومحبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانی قرار دیا۔ان فی ذلک
لاٰیٰت لقوم یتفکرون یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں، ان لوگوں کے لیے جو غورو
فکر سے کام لیتے ہیں۔ دو اجنبی رِشتۂ ازدواج میں بندھ جاتے ہیںتو ان کے درمیان جو
محبت اور الفت پیداہوتی ہے وہ غیرمعمولی ہوتی ہے۔ یہ ہے اللہ کی نشانیوں میں سے
ایک نشانی۔
۳-نسل انسانی کو پھیلانے کا ذریعہ
پہلے انسان حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی حواؑ کو اللہ تعالیٰ نے براہ
راست اپنی قدرت کاملہ سے پیداکیا۔ سورہ النساء کی پہلی آیت میں فرمایا: یَا
أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ
وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا’’لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو
ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ عورت مرد کے جائز تعلق و
پاکیزہ مقدس رشتے کے ذریعے بہت مرد اور عورت دنیا میں پھیلادیے۔ سورہ فاطر میں
فرمایا: وَاللّٰہ خلقکم من تراب ثم من نظفت ثم جعلکم ازواجاًط اللہ نے
تم کو مٹی سے پیداکیا۔ پھر نطفہ سے پھر تمہارے جوڑے بنادیے۔ سورہ الدھر میں
فرمایا: اناخلقناالانسان من نطفۃ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے
پیداکیا۔ بیوی اور شوہر کے باہمی تعلق سے خانہ آبادی کے نظام کی تکمیل ہوتی ہے۔
نسل انسانی کے تسلسل کو جاری رکھنے کا ذریعہ ہے۔ حضورﷺ نے اولاد
کی کثرت کو پسند فرمایا: اس کی ترغیب دلائی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
تم بہت زیادہ پیارکرنے والی، زیادہ بچے جننے والی سے شادی کرو، تمہاری کثرت کی وجہ
سے میں کہہ سکوںگا کہ میرے پیروکاروں کی تعداد دوسری امتوں سے زیادہ ہے۔ مگر افسوس
آج مسلمان پروپیگنڈے سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی جیسی خوبصورت
اصطلاحوں کے فریب کا شکارہوگئے ہیں۔
نبی کریمﷺ کے زمانے
میں افلاس کے ڈر سے بچوں کو قتل کردیاجاتاتھای، کہاں سے لائیںگے، کیاکھلائیں گے۔ قرآن
نے رہ نمائی دی: ولاتقتلوا اولادکم خشیہ املاق ط اپنی اولاد کو
افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ پھر ہمت بندھائی اور فرمایا۔ نحن نرزقھمہ
م وایاکمط انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی بتایاکہ ان قتلہم
کان خطاکبیراً ﴿بنی اسرائیل:۲۱﴾ درحقیقت انکا قتل ایک بڑی خطا ہے، بڑے گناہوں
میں سے ہے۔
آج جہاں یہ فریب دیاجارہاہے کہ معاشی بدحالی اور پس ماندگی سے نجات
حاصل کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کرو۔ اولاد کم سے کم بہت چھوٹا خاندان ہو
تاکہ ان کی ضروریات زندگی آسانی سے فراہم کی جاسکے۔ وہیں یہ دیکھاجارہاہے مسئلہ
صرف اِفلاس کا نہیں ہے ۔ بلکہ آرام و آسائش کاہے۔ یہ خطرناک رجحان پروان چڑھاہے کہ
زیادہ بچے ہمارے عیش و آرام میں رکاوٹ بنیںگے۔ Luxury
Lifeگزارنے کا جو کلچر پیدا ہواہے، یہ اسی کی دین ہے۔ جو جتنا مال دار اور
خوش حال ہے، اتنی ہی اولاد کم ہے۔ یہ بیماری خوش حال گھرانوں کے علاوہ کسی درجے
میں متوسط طبقے میں پائی جاتی ہے۔ آج بھی غریب طبقے میںاولاد کی کثرت ہے۔ خاندانی
منصوبہ بندی مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر ایک گہری سازش ہے۔ یہ فحاشی اور عریانی
کو پھیلانے اور مسلم نوجوانوں کو عیش وعشرت میں مبتلا کرنے کی ایک کوشش ہے۔
حضرت عمرؓ کے بارے میں آیاہے کہ وہ کہاکرتے تھے کہ میں شادی کرتاہوں
حالاں کہ اب مجھے اس کی خاص ضرورت نہیں۔ میں عورتوں ﴿بیویوں﴾ سے تعلق قائم کرتاہوں
حالاں اس کا شوق نہیں ہے۔ لوگوں نے حیران ہوکر پوچھا۔ امیرالمومنین پھر آپ کو کون
سی چیزآمادہ کرتی ہے؟ فرمایا: مجھے اس چیز کا شوق ہے کہ میری اولاد کثرت سے ہو،
نبی کریمﷺ قیامت کے
دن اپنی امت کی کثرت پر باقی امتوں کے مقابلے میں خوشی اور فخر کااظہار کریں گے۔ اس
میں میرابھی حصہ ہو۔ کتنا بلند اور کتنا پاکیزہ ہے حضرت عمرؓ کا نقطۂ نظر۔
اس طور کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ اولاد اللہ کی نعمت ہے۔ یہ زحمت
نہیں اللہ کی رحمت ہے۔ نکاح کے اس اہم مقصد کا شعور مسلمانوں میں پیدا کرنے کی
ضرورت ہے۔
شریک زندگی شریک مقصد
نکاح کا چوتھا اور سب سے اہم مقصد زندگی میں ایک دوسرے کی شرکت و مدد
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کا مقصد اپنی بندگی بتایا: وماخلقت الجن
والانس الا لیعبدون
مرد کی زندگی کا مقصد بھی اللہ کی بندگی ہے اور عورت کی زندگی کا بھی۔
اب وہ دونوں شریک زندگی بنے ہیں تو وہ اب شریک مقصد بھی ہیں۔ بندگی کے مقصد کو
پورا کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار۔ سورہ توبہ ، آیت :۷۱ میں
فرمایا: والمؤمنون والمومنٰت بعضھم اولیائ بعض مومن مرد اور مومن
عورتیں ایک دوسرے کے ولی رفیق، و مددگار ہیں۔ یامرون بالمعروف و ینہون عن
المنکر و یقیمون الصلوٰۃ و یوتون الزکوٰۃ و یطیعون اللہ رسولہ ط
بھلائیوں کا حکم دینے اور بُرائیوں سے روکنے کے معاملے میں ایک دوسرے
کے معاون و مددگار نماز کو قائم کرنے اور زکوٰۃ کی ادائی کے معاملے میں ایک دوسرے
کے ساتھی اور اللہ سے رسول کی اطاعت کے معاملے میں وہ ایک دوسرے کے ولی۔ اس آیت
میں مومن مردوں اور عورتوں کی جو مشترکہ خصوصیات بتائی گئی ہیں وہ ایک اسلامی
معاشرے کی عمومی کیفیت ہے۔ ایک بھائی اور ایک بہن ایک دوسرے کے معاون، ماں باپ اور
اولاد اور قریبی رشتے دار ایک دوسرے کے معاون ومددگار اسی طرح ایک اسلامی تحریک سے
وابستہ مرد اور عورتیں اپنے اپنے دائرہ کار میں ذمے داریوں کو ادا کرتے ہوئے حسب
ضرورت ایک دوسرے کے معاون۔ ان عمومی کیفیات میں جو پہلو خصوصیت کاحامل ہے وہ ہے
شوہر اور بیوی کے درمیان تعاون۔
نبی کریمﷺ کی ایک حدیث
میں اس کی بڑی عمدہ مثال سامنے آتی ہے۔ حدیث کامفہوم یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ
اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتاہے، اس بندے پر جو راتوں کو اٹھتاہے اور اللہ کی بارگاہ
میں کھڑا ہوتاہے، محض خود کھڑا نہیں ہوتا، اپنی بیوی کو جگاتاہے اور اگر وہ تھکان
کی وجہ سے گہری نیند سورہی ہے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتاہے اور کہتاہے
کہ اے اللہ کی بندی اٹھ اور تو بھی اللہ کی بارگاہ میں کھڑی ہوجا۔ آپﷺ نے فرمایا:
اس طرح اللہ رحمت نازل فرماتا ہے۔ اس بندی پر جو راتوں کو اٹھتی ہے اور اللہ کی
بارگاہ میں کھڑی ہوتی ہے اور اپنے شوہر کو جگاتی ہے اور اگر وہ گہری نیند میں ہے
تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے اور کہتی ہے کہ اے اللہ کے بندے اٹھ اور
کھڑے ہوجا اللہ کی بارگاہ میں۔
نوافل کے سلسلے میں یہ اہتمام ہوتو فرائض میں یہ تعاون عروج پر ہوگا
اور ہوناچاہیے یہ تعاون پہلے انسانی رشتے کے آغاز ہی سے ہمیں نظرآتا ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے حضرت آدم کو بنایا، انھیں سے ان کا جوڑا بنایا۔ جنت میں آدمؑ کو اپنی
بیوی حوا کے ساتھ داخل کیاگیا۔ جنت کی نعمتوں سے استفادے کا موقع دونوں کو ملا۔
ایک درخت کے قریب نہ جانے اور اس کا پھل نہ کھانے کی ہدایت دونوں کی دی گئی۔ قصور
دونوں سے ہوا۔ شیطان کے بہکاوے میں دونوں آگئے اور درخت کا پھل کھالیا۔ شرمندگی و
ندامت کا احساس دونوں میں پیداہوا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں پر رحم آیا۔ اس نے
ان کو توبہ کے کلمات سکھائے اور ان دعائیہ کلمات کو ادا کرکے دونوں نے اپنے رب سے
مغفرت و رحم کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی دعا قبول فرمائی۔ پھر جنت سے
نکال کر دنیا میں بھیجاگیاتو دنیا میں زندگی کے آگے کے مراحل دونوں نے مل کر طے
کیے۔
اسی طرح انبیائ کی سیرتوں کے ذریعے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی
ازواج کا﴿بہ استثنا نوحؑ و لوطؑ ﴾ اُنھیں بھرپور تعاون ملا۔ نمایاں مثال تو حضرت
ابراہیمؑ اور ان کی ازواج سارہ وہاجرہ کی ہے کہ راہِ دین کی ہرجدوجہد و آزمائش میں
ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ نبی کریمﷺ کی ازواج
مطہرات میں نمایاںا مثال حضرت خدیجہؓ کی ہے، جنھوںنے دکھ درد ہر آزمائش میں نبی
کریمﷺ کا بھرپور
ساتھ دیا۔ آپﷺ کو حوصلہ
دیا، اپنا مال دیا، ہر طرح سے مدد کی۔ اس طرح صحابہ کی پرتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے
کہ بحیثیت شوہر اور بیوی کے دین کے جملہ فرائض و ذمے داریوں کی ادائی میں اہلِ
ایمان نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ حضرت عثمانؓ و رقیہؓ ، ام سلمائ ابوسلماء، ام
سلیمہ و ابوطلحہ۔ فہرست طویل ہے۔
زندگی کے مقصد کی تکمیل میں۔ تعاون و مدد بہت ضروری ہے اس لیے نبی
کریمﷺ نے رشتوں
کے انتخاب میں سب سے زیادہ اہمیت دین اور اخلاق کو دینے کی ترغیب دلائی۔ آپﷺ نے فرمایا:
عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر نکاح کیاجاتاہے، مال کی وجہ سے، خاندانی شرافت کے باعث،
اس کے حسن وجمال کے سبب اور اس کی دینداری کی بنیاد پر۔ تم دیندار عورت کو حاصل کرو۔
دیندار عورت سے مراد پاک دامن، سنجیدہ مزاج، نیک سیرت اور دین کے کام میں اپنے
شوہر کا ہاتھ بٹانے والی۔ اور یہی اصول شوہر کے انتخاب کے سکسلے میں بھی پیش نظر
رہنا چاہیے۔ جتنا مرد کے لیے ایک دیندار عورت ضروری ہے، اتنا ہی ایک عورت کے لیے
دیندار مرد ضروری ہے۔ رسولﷺ نے فرمایا:
جب تمہارے پاس وہ آدمی نکاح کاپیغام لائے، جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو
تو اس سے اپنی لڑکی کا نکاح کردو اور اگر تم ایسا نہ کروگے تو ملک میں فتنہ و فساد
برپا ہوگا۔
غرض شادی بیاہ صرف لطف لذت کے حصول کاذریعہ نہیں ، بلکہ اخلاق کی
حفاظت کا، مرد اور عورت کے لیے راحت و سکون کے حصول کا، نسل انسانی کے تسلسل کو
جاری رکھنے کا اور ایک دوسرے کی مدد و تعاون کے ذریعے مقصد زندگی کی تکمیل کا
ذریعہ ہے۔
آخر میں یہ کہناہے کہ نکاح کی کارروائی انجام دینے میں عموماً تاخیر
ہوتی ہے۔ لوگ دلہا کا بعض اوقات قاضی صاحب کا گھنٹوں انتظار کرتے ہیں، کیا ہی اچھا
ہوگا کہ کارروائی وقت پر ہو، خطبہ نکاح سے پہلے یا بعد پندرہ بیس منٹ کے وقت میں
شوہر بیوی کے حقوق فرائض، ذمّے داریاں، مہر کی اہمیت، وغیرہ پر اظہار خیال
کیا جائے۔
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے تعلق سے جو فکرِ
اعتدال اور نظریہٴ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر
میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔
انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم
فطری ضرورت ہے۔ اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب
طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے اوراسلام نے نکاح کوانسانی بقا وتحفظ کے لیے
ضروری بتایا ہے اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے
تعبیر فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔
ارشاد نبوی ہے: ”النکاح من سنّتی“ نکاح کرنا میری سنت ہے۔(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے نکاح کوآدھا ایمان بھی قرار دیا ہے ”اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ
اِسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ“ جو کوئی
نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا
رہے۔(۲) نکاح انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا
رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً“ (اے محمد
صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے یقینا رسول بھیجے اورانہیں بیویوں اور اولاد
سے بھی نوازا(۳)۔ اس ارشاد ربانی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام بھی صاحبِ
اہل وعیال رہے ہیں۔ارشاد نبوی اس طرح ہے حضرت ابوایوب انصاری فرماتے
ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رسولوں کی چار سنتیں ہیں: (۱) شرم
و حیاکا خیال (۲)مسواک کا اہتمام (۳) عطر کا استعمال (۴) نکاح کا التزام(۴)۔
نکاح کی اہمیت ان احادیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے
نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح
کرلینا چاہئے کیونکہ نکاح نگاہ کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے
(یعنی نظرکو بہکنے سے اور جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتا ہے) اور جو نکاح کی ذمہ
داریوں کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اسے چاہئے کہ شہوت کا زور توڑنے کے لیے
وقتاً فوقتاً روزے رکھے(۵)۔ اسی طرح ایک مرتبہ جب بعض صحابہ کرام نے عبادت و ریاضت
میں یکسوئی و دلچسپی کے پیشِ نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوت شہوت کو
ختم کردینے کی خواہش ظاہر کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے
منع فرمایا اور شادی نہ کرنے کو زندگی سے فرار اختیار کرنا قرار دیا۔ اس لیے کہ
اسلام زندگی سے فرار کی راہ کو بالکل ناپسند کرتاہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم ہے: ”وَاللّٰہِ اِنِّیْ لاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَہ
وَلٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ
فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ“ بخدا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے
ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اس کی ناراضگی سے بچنے والا ہوں (لیکن میرا حال)
یہ ہے کہ میں کبھی نفل روزے رکھتا ہوں اور کبھی بغیر روزوں کے رہتا ہوں راتوں میں
نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں (یہ میرا طریقہ ہے) اور جو
میرے طریقے سے منھ موڑے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔(۶)
انسان کسی قدر آرام طلب واقع ہوا ہے اور فطری طور پر راحت وسکون کا
محتاج ہے اوراسی طرح فطری جذبات اورانسانی خواہشات کو پورا کرنے کا مزاج رکھتا ہے۔
راحت و مسرت سکون و اطمینان اس کی فطرت میں داخل ہیں۔ انسان کو اپنے مقصد تخلیق
میں کامیاب ہونے عبادت میں یکسوئی و دلچسپی پیدا کرنے بندوں کے حقوق کو اچھی طرح
ادا کرنے اور اپنے متضاد جبلی اوصاف کو صحیح رخ پر لانے کے لیے نکاح انسان کے حق
میں نہایت موٴثر ذریعہ اور کارآمد طریقہ ہے۔ اللہ نے نکاح میں انسان کے لیے بہت سے
دینی ودنیاوی فائدے رکھے ہیں۔ مثلاً معاشرتی فائدے خاندانی فائدے اخلاقی فائدے
سماجی فائدے نفسیاتی فائدے غرضیکہ فائدوں اور خوبیوں کا دوسرا نام نکاح ہے۔
انسان کو نکاح کے ذریعہ صرف جنسی سکون ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ قلبی
سکون ذہنی اطمینان غرض کہ ہرطرح کا سکون میسر ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
”ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا
لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا“ وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی
کی جنس سے اس کا جوڑا بنادیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے(۷)۔ اس آیت سے عورت کی
اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ عورت مرد کے حق میں ایک انمول تحفہ ہے اورمرد کے لئے باعث
سکون و اطمینان ہے لہٰذا جو مرد عورت کی قدر کرتا ہے وہ کامیاب اور پرسکون زندگی
گزارتا ہے۔ اگر انسان نکاح سے جو انسانی فطری ضرورت ہے منھ موڑنے کی کوشش کرتا ہے
تو انسان کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نکاح کے بغیر سارا نظام درہم
برہم ہوجاتا ہے۔ تاریخ میں چند استثنائی صورتوں اور چند مذہبی لوگوں کے افکار کے
علاوہ دنیا میں ہمیشہ تمام انسان ہر زمانے میں شادی کو اہم ضرورت تسلیم کرتے آئے
ہیں تاریخ کی روشنی میں شادی سے مستثنیٰ کبھی کوئی قوم مذہب اور ملت نہیں رہے
ہیں۔ہر مذہب وملت میں مقررہ مراسم اور رواجات کے بغیر تعلقات مرد وعورت برے
اوراخلاق سے گرے ہوئے سمجھے گئے ہیں اگرچہ ہر مذہب وملت میں شادی کے طور طریقے رسم
و رواج الگ الگ رہے ہیں بحرحال شادی کی اہمیت پر سب متفق ہیں۔
نکاح کے متعلق بعض مذاہب اوراہلِ مغرف کے افکار
آگے اجمالی طور پر ان مذاہب کے افکار کو پیش کیا جارہا ہے جنھوں نے
شادی کو غیراہم بتایا ہے اور شادی سے انکار کیا ہے بعض مذاہب کے بعض لوگوں نے
رہبانیت کے چکر میں پھنس کر شادی کو روحانی اور اخلاقی ترقی میں رکاوٹ مانا ہے
تجرد(تنہا) رہنے اور سنیاس لینے (یعنی شادی نہ کرنے) کو اہم بتایا ہے اسی طرح روحانی و
اخلاقی ترقی کیلئے انسانی خواہشات مٹانے اور فطری جذبات دبانے کو ضروری قرار دیا
ہے۔ ان لوگوں کے نظریات وافکار نہ صرف فطرتِ انسانی کے خلاف ہیں بلکہ نظامِ قدرت
کے بھی خلاف ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب رقم طراز ہیں: ”رہبانیت کا تصور آپ کو عیسائیوں
میں بھی نظر آئے گا اور ہندؤں میں بھی۔ دنیا کے اور بھی مذاہب ہیں جیسے بدھ مت جین
مت ان میں بھی یہ تصور مشترک ملے گا کہ نکاح اور گھر گرہستی کی زندگی روحانیت کے
اعتبار سے گھٹیا درجہ کی زندگی ہے۔ اس اعتبار سے ان مذاہب میں اعلیٰ زندگی تجرد(تنہائی) کی
زندگی ہے۔ شادی بیاہ کے بندھن کو یہ مذاہب کے بعض لوگ روحانی ترقی کے لئے رکاوٹ
قرار دیتے ہیں مرد ہو یا عورت دونوں کے لئے تجرد(تنہائی) کی زندگی کو ان کے ہاں روحانیت کا
اعلیٰ و ارفع مقام دیا جاتا ہے نکاح کرنے والے ان مذاہب کے نزدیک ان کے معاشرہ میں
دوسرے درجہ کے شہری (Second rate Citizens) شمار ہوتے
ہیں چونکہ شادی بیاہ میں پڑکر انھوں نے اپنی حیثیت گرادی ہے“(۸(
چنانچہ جن لوگوں نے شادی کرنے کو غلط قرار دیا ہے اور عورت سے دور
رہنے کا درس دیا ہے اور روحانی ترقی کے لئے ایسا کرنا ناگزیر بتایا ہے آخر کار وہی
لوگ انسانی خواہشات اور فطری جذبات سے مغلوب ہوکر طرح طرح کی جنسی خرابیوں اور
اخلاقی برائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں حتیٰ کہ فطرت کے خلاف کاموں تک میں ملوث ہوئے
ہیں اور برے نتائج اور تباہ کن حالات سے دوچار ہیں۔
اسی طرح عصرِ حاضر میں خصوصاً بعض اہلِ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں نے
بھی شادی کو غیراہم بتایاہے اور شادی سے انکار کردیا ہے۔ ان کے بے ہودہ نظریات کے
مطابق انسان ہر طرح کی آزادی کا حق رکھتا ہے اور اسے اپنے فطری جذبات کو جیسا چاہے
ویسا پورا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس معاملہ میں انسان کسی قسم کی روک ٹوک اسی
طرح شادی جیسی کوئی پابندی اور بندھن کا قائل نہیں ہے۔ ان کے ہاں شادی کا تصور ہے
بھی تواس کا مقصد صرف جنسی خواہشات کا پورا کرنا رنگ رلیاں منانا، موج مستی کرنا
اور سیر وتفریح کرنا پھر ایک مقررہ وقت اورمدت کے بعدایک دوسرے سے جدا ہوجانا ہے۔
مغربی ممالک کے لوگ خصوصاً اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے دنیا کے دیگر ممالک کے
افراد عموماً مرد کے لئے عورت دوست اور عورت کے لئے مرد دوست (Boy
friend, Girl friend) نظریے کے تحت بے حیائی بے شرمی کے شکار ہیں۔ عاشق و معشوق کی حیثیت سے
بے حیا وے بے شرم بن کر زندگی گزارتے ہیں ایشیائی ممالک میں تو بعض بیوقوف اور کم
عقل لوگ اخلاق سوز فلموں اور بے ہودہ ٹی وی پروگراموں کی بدولت عشق کی خاطر جان
دینے اور جان لینے کی احمقانہ باتیں اور عقل کے خلاف حرکتیں بھی کرتے ہیں۔ اہلِ
مغرب اور مغرب زدہ لوگوں نے شادی کو ایک کھیل تماشا بناکر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے
مغربی ممالک میں گھرگرہستی کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ خاندان اور اقارب کا نام ونشان
مٹ گیا ہے۔ ماں باپ اور بچوں کے درمیان کوئی تعلق قائم نہیں رہ گیا ہے۔ اس سنگین
صورت حال سے خود مغربی ممالک کے سنجیدہ اور غیور لوگ بہت پریشان ہیں اور غور و فکر
کررہے ہیں کہ کس طرح ان تباہ کن حالات اور انسانیت سوز ماحول پر قابو پایا جائے
اور سوسائٹی کو ان برائیوں اور خرابیوں سے محفوظ رکھا جائے۔
اسلامی طریقہٴ نکاح میں تمام مسائل ومصائب کا حل
ان تمام مسائل کا حل اور تمام مصائب کا علاج صرف اسلام میں موجود ہے۔
اس لیے کہ اسلام دینِ فطرت اور دینِ اعتدال ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”فِطْرَتَ اللّٰہِ
الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْہَا لاَ تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ“ یہ فطرت
(یعنی فطری جذبات) اللہ کی طرف سے ہے۔ اس فطرت پر انسان قائم رہے اوراس میں کسی
قسم کی تبدیلی نہ کرے(۹)۔ ہر انسان اپنے فطری جذبات اور انسانی خواہشات کو پورا
کرنے پر مجبور ہے۔ اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ اگر انسان نکاح سے فرار اختیار کرتا
ہے اورجائز و مذہب طریقے پر اپنی فطری خواہشات کو پورا نہیں کرتا ہے تو ناجائز اور
غیرمہذب طریقے پر پورا کرنے لگتا ہے اور ہرطرح کی برائی وبے حیائی کا شکار ہوجاتا
ہے۔ لہٰذا جو کوئی بھی اللہ کی قائم کی ہوئی فطرت سے بغاوت کرتا ہے تو وہ خود تو
تباہ و برباد ہوتا ہی ہے لیکن دوسروں کو بھی تباہ و برباد کردیتا ہے اوراس سے دنیا
میں فتنہ و فساد پھیل جاتے ہیں یعنی لاوارث معصوم بچوں کے مسائل اور اسقاطِ حمل
جیسے اخلاق سوز واقعات ہونے لگتے ہیں۔جیسا کہ مغربی سوسائٹی کے لئے یہ مسائل
پریشانی کا باعث اور سرکا درد بنے ہوئے ہیں یورپ و امریکہ میں بہت سے لوگ ان سنگین
حالات اورمسائل سے دوچار ہیں اوران ممالک میں بہت سارے لوگ لاوارث کی حیثیت سے
زندگی گزار رہے ہیں۔
اسی بنا پر اسلام نے نکاح کو اس قدر اہم بتایا ہے اور مرد اور عورت کو
نکاح کے مہذب بندھن میں باندھنا لازمی سمجھا ہے اس لئے کہ نکاح خاندان کو وجود
بخشتا ہے۔ سماج کا تصور دیتا ہے۔ گھرگرہستی کا نظام قائم کرتا ہے۔ اسلام نکاح کے
ذریعہ نسل آدم کا تسلسل کے ساتھ صحیح طریقہ پر افزائش چاہتا ہے اور اس میں کسی بھی
طرح کے انقطاع کو ناپسند کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ”وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ
مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا وَّجَعَلَہ نَسَبًا وَّصِہْرًا وَّکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا“
وہی اللہ ہے جس نے انسان کو پانی (یعنی ایک قطرہ بوند) سے پیدا کیا (اور اس کے
ذریعہ) نسل آدم کو چلادیا اور اسے خاندان اور سسرال والا بنادیا اور تمہارا رب
واقعی بڑی قدرت والا ہے(۱۰)۔ اسی طرح اسلام انسانی زندگی کو اللہ کی بندگی
اوراسوئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈھلی ہوئی دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام
نکاح کو روحانی اوراخلاقی ترقی کے لیے رکاوٹ نہیں بلکہ ترقی کی شاہراہ قرار دیتا
ہے۔ روحانیت اور اخلاق میں سب سے اونچا مقام اور بلند معیار انبیاء کرام کا ہوتا
ہے اور انبیاء کرام کے تعلق سے ذکر کیا جاچکا ہے کہ انبیاء کرام شادی شدہ اور بال
بچے والے رہے ہیں۔ انسان کو نکاح کے بعد گھر کی ذمہ داریوں کو نبھانے میں
اورانسانی حقوق کے ادا کرنے میں جو پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں اگر انسان ان حقوق و
ذمہ داریوں کو اسلامی تعلیمات اور اسوئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی
میں ادا کرتا ہے تو اسلام کی نظر میں نکاح خود انسان کے حق میں روحانی اور اخلاقی
ترقی کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے ایک طرف رہبانیت کو روا نہیں
رکھا ہے تو دوسری طرف انسان کو بے لگام بھی نہیں چھوڑدیا ہے۔ اسلام انسان کی زندگی
میں اعتدال و توازن پیدا کرتا ہے اوراسلام کے فکر اعتدال اور نظریہٴ توازن میں
انسان ہی کی خیرخواہی و بھلائی ہے۔ اسلام نے نکاح کے سلسلہ میں اعتدال و توازن کا
جو جامع فکری و عملی نظریہ پیش کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اسلام میں نکاح کو انجام دینے کیلئے چند اہم امور
مندرجہ ذیل امور میں سے چند کو تفصیل کے ساتھ اور چند کو اختصار کے ساتھ
پیش کیا جارہا ہے اور وہ چند امور اس طرح ہیں۔ایجاب و قبول دوگواہوں کی موجودگی،
نکاح میں عورت کے لئے ولی (سرپرست) کا موجود ہونا، نکاح کا اعلان، دعوتِ ولیمہ،
مہر کی ادائیگی اور خطبہٴ نکاح۔ اگر ان امور پر غور وفکر سے کام لیا جائے تو یہ
بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ یہ امور عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ کس قدر دعوتِ فکر
وعمل اور باعثِ ثواب ہیں۔
ایجاب و قبول:
ایجاب سے مراد ہے ایک فریق (یعنی دلہے) کی طرف سے نکاح کے معاملہ میں
پیش کش اور قبول سے مراد ہے دوسرے فریق (یعنی دلہن) کی طرف سے اس پیش کش پر
رضامندی غرض کہ فریقین کا نکاح پر خوشی سے رضامند ہوجانا ایجاب و قبول کہلاتا ہے۔
ایجاب و قبول نکاح کے لئے شرط ہے اسلام میں کسی مرد یا عورت کی مرضی و
اجازت کے بغیر نکاح قرار نہیں پاسکتا چنانچہ ارشادِ ربانی ہے ”یٰٓاَیُّہَا
الَّذِیْنَ آمَنُوا لاَیَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ کَرْہًا“ اے ایمان
والو تم کو حلال نہیں کیا کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ(۱۱)۔ لفظ کرہا کا
اطلاق بہت سے معنوں میں ہوتا ہے مثلاً زور زبردستی جبر دباؤ وغیرہ۔ اسی طرح کسی
مرد کا نکاح کسی عورت سے اس کی مرضی و اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا چونکہ عموماً
عورت باختیار نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے عورت کی اجازت و مرضی کا ذکر وضاحت سے کردیاگیا
ہے اوراس سے بتانا مقصود ہے کہ اسلام نے نکاح میں عورت کو رضامندی پسند ناپسند کا
پورا حق دیا ہے۔
دوگواہ:
نکاح میں دو گواہ کا موجود ہونا بھی شرط ہے۔ نکاح میں شہادت نہایت
ضروری ہے۔ اس لئے کہ اس سے بدکاری بے حیائی کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ارشاد
نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ ”اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَلْبَغَایَا الَّتِیْ یَنْکِحْنَ اَنْفُسَہُنَّ
بِغَیْرِ بَیِّنَةٍ“ عبداللہ ابن عباس سے روایت
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورتیں چوری چھپے نکاح کرلیں
وہ حرام کار ہیں(۱۲)۔
ولی کی اہمیت:
عورت کے لئے نکاح میں رضامندی کے ساتھ ولی (سرپرست) کا ہونا بھی ضروری
ہے۔ عورت کا نکاح بغیرولی کے نہیں ہوسکتا چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ
وسلم ہے ”عَنْ اَبِی مُوْسٰی عَنِ النَّبِیّ قَالَ لاَ نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِیٍّ“
حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
ولی کے بدون نکاح نہیں(۱۳)۔ عورت کا شرف اور مقام اسی میں ہے کہ وہ کسی کی سرپرستی
میں نکاح کرے۔ اس طرح بہت سی سماجی اور معاشرتی خرابیاں دور ہوجاتی ہیں۔ اس میں
بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ اگرچہ نکاح کرنے یا نہ کرنے کا اختیار پورا عورت
کو حاصل ہے ولی اس کی مرضی اور رائے کے بغیر نکاح نہیں کرسکتا۔
اعلانِ نکاح:
اسی طرح اسلام نے نکاح میں اعلان و تشہیر کی تعلیم دی ہے۔ نکاح کا
اعلان کرنا اورمسجد میں نکاح کرنا سنت ہے۔ ارشادِ نبوی ہے ”اِعْلِنُوْا ہٰذَا
النِّکَاحَ وَاجْعَلُوہُ فِی الْمَسَاجِدِ“(۱۴)۔ نکاح کا اعلان کرو اور مسجد وں
میں نکاح کرو۔ اس کا بنیادی مقصد نکاح کو عام کرنا اور نسب کو ثابت کرنا ہے۔
ولیمہٴ مسنون:
دولہا اپنی شادی کی خوشی و شادمانی کے موقع پر جو دعوت دیتا ہے اسے
ولیمہ کہا جاتا ہے اور ولیمہ کرنا سنت ہے۔ ولیمہ شوہر کے ذمہ ہے اور دعوت ولیمہ
نکاح کے بعد ہے۔ مولانا عتیق احمد بستوی صاحب رقم طراز ہیں ”دعوتِ ولیمہ زن وشوہر
کی پہلی ملاقات کے بعد کی جاتی ہے۔ اس میں بے شمار مصلحتیں ہیں۔ اس سے شائستہ طور
پر نئے رشتے کی تشہیر ہوتی ہے۔ عورت اوراس کے اہلِ خاندان کا اعزاز ہوتا ہے ایک
قابلِ قدر نئی نعمت کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا ہوتا ہے“(۱۵)۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ نکاح کے دوسرے دن کیا ہے۔ چنانچہ حضرت
عبدالرحمن بن عوف نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے نکاح کا ذکر کیا
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ“ ولیمہ
کرو اگرچہ ایک بکری کا ہی کیوں نہ ہو(۱۶)۔ لہٰذا نکاح کے دوسرے یا تیسرے دن ولیمہ
کرنا مناسب اور سنت ہے۔ چاروں فقہی مسالک میں ولیمہ کا مستحب وقت عقد کے بعد ہے(۱۷)۔
ولیمہ اپنی حیثیت کے مطابق کیا جاسکتا ہے۔ قرض تکلف اسراف اور نمائش سے اجتناب
ضروری ہے۔ ولیمہ کی دعوت میں اقارب احباب اور دیگر لوگوں کو بلانے کی گنجائش ہے۔
اپنی طاقت اور حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنا خلافِ شریعت ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ
اسراف اور غیرضروری اخراجات سے اپنا دامن بچاتے ہوئے تکلّفات اور لوازمات سے بچتے
ہوئے ولیمہ کی دعوت حیثیت کے مطابق کی جاسکتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت انس سے فرمایا تھا کہ جاؤ فلاں فلاں کو دعوت ولیمہ میں بلالاؤ(۱۸)۔ حضرت
علی کا نکاح جب حضرت فاطمہ سے ہوا تو ان کے ولیمہ میں صرف کھجوراور منقیٰ پیش کیاگیا اور سادہ
پانی پلایاگیا(۱۹)۔ دعوت ولیمہ کے تعلق سے ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے
”قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذْ دُعِیَ اِلَی
الْوَلِیْمَةِ فَلْیَاتِہَا“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم
میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت دی جائے تواس میں ضرور شرکت کرے(۲۰)۔ نیز فرمایا جو
شخص دعوتِ ولیمہ بلاعذر قبول نہ کرے وہ اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کیا(۲۱)۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ”بدترین کھانا اس
ولیمہ کا کھانا ہے جس میں فقط مالدار لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز
کردیا جائے“(۲۲)۔ عموماً ایسا کیا جاتا ہے۔ اس سے بچنا ضروری ہے ورنہ نکاح اور
ولیمہ کی برکات و فیوضات سے محرومی یقینی ہے۔
مہر کی ادائیگی:
نکاح میں مہر کا ادا کرنا واجب ہے۔ مہر عورت کا شرعی حق ہے۔ مہر اس
رقم کو کہا جاتا ہے جو مرد شادی کے پرمسرت موقع پر خوشی سے اپنی ہونے والی بیوی کو
تحفہ کی شکل میں دیتا ہے۔ مہر اسلام کے سوا کسی مذہب یا قوم میں نہیں ہے۔ ارشاداتِ
ربانی یوں ہیں ”وَآتُوْا صَدَقٰتِہِنَّ نِحْلَةً“ اور دے ڈالو عورتوں کو مہر ان کے
خوشی سے(۲۳)۔ ”وَآتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ“ بہترطریقے سے ان کے
مہر ادا کرو(۲۴)۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مرد کو جو مہر زیادہ سے زیادہ
مقرر کرتا ہے اور پھر اسے نہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے نہ صرف گناہ گار بتایا ہے
بلکہ زانی قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے ”اَیُّمَا رَجُلٍ تَزَوَّجَ اِمْرَأةً عَلٰی
صَدَاقٍ وَلاَ یُرِیْدُ اَنْ یُعْطِیْہَا فَہُوَ زَانٍ“ آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی عورت سے مہر کے بدلے نکاح کرتا ہے مگر وہ اسے
ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے تو وہ زانی ہے(۲۵)۔ امام نووی نے مہر کو نکاح کا جز لاینفک قرار دیا ہے اوراس کے بغیر ازدواجی
تعلقات کو ناجائز بتایا ہے(۲۶)۔
مہر کی ادنیٰ رقم دس درہم یا اس کے بقدر قیمت ہے۔ قیمت کا اعتبار عقد
کے وقت کا ہوگا ادائیگی کے وقت کا نہیں(۲۷) اور مہر میں زیادہ سے زیادہ کی کوئی
تعیین نہیں ہے۔ شوہر کی حیثیت اور آمدنی پر انحصار ہے۔ اگر زیادہ مہر باندھتا ہے
تو اسے ادا کرنا ضروری ہے۔مہر کی فوری ادائیگی مناسب اور مستحب ہے یا کچھ مدت کے
بعد کا بھی جواز ہے۔ ان دونوں صورتوں کو اسلام کی اصطلاح میں اول الذکر کو مہر
معجل کہا جاتاہے اورآخر الذکر کو مہر موٴجل کہتے ہیں۔ مہر کے تعلق سے مولانا محمد
شہاب الدین ندوی لکھتے ہیں ”مہر کے نام سے عورت کو جو تھوڑی
بہت رقم ملتی ہے وہ اس کی خدمات کا پورا پورا صلہ تو نہیں ہوسکتی ہاں البتہ اس کی
وحشت دور کرنے کی راہ میں ایک درجہ میں باعث اطمینان ہوسکتی ہے۔ شریعت نے اگرچہ کم
سے کم مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے مگر زیادہ کی حد بھی مقرر نہیں کی ہے۔ اس
میں حکمت عملی یہ معلوم ہوتی ہے کہ مہر مرد کی مالی اور اقتصادی حالت کے مطابق ہو
لہٰذا اگر کوئی صاحب حیثیت اپنی منکوحہ کو ہزاروں بلکہ لاکھوں روپئے بھی دے دے تو
وہ جائز ہوگا قرآن میں ڈھیرسارا مال دینے کا تذکرہ بھی موجود ہے“(۲۸)۔
اس لئے مہرفاطمی بہت مناسب مہر ہے۔ اس کی مقدار چار سو مثقال چاندی ہے
یعنی ایک کیلوسات سو گرام چاندی جس کی قیمت لگ بھگ بارہ ہزار روپئے ہوتی ہے(۲۹)۔
مہر نقد بھی ادا کیا جاسکتا ہے اور زیور کی شکل میں بھی دیا جاسکتا ہے(۳۰)۔ بیوی
کی مرضی اور خواہش پر ہے۔ حضرت عمر کے ارشاد
سے بھی مہر میں اعتدال و توازن کا نکتہ سامنے آتا ہے ”اے لوگو! عورتوں کے بھاری
بھاری مہر نہ باندھنا اس لیے کہ اگر دنیا میں یہ کوئی شرف و عزت کی چیز ہوتی اور
اللہ کی نگاہ میں اچھا فعل ہوتا تو اس کے سب سے زیادہ حقدار نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم تھے لیکن مجھے نہیں معلوم کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ
اوقیہ سے زیادہ پر کسی عورت سے نکاح کیا ہے یا اپنی لڑکیوں میں سے کسی لڑکی کا
نکاح کیا ہے“(۳۱)۔
ایک اوقیہ کی مقدار دس تولہ چاندی کے برابر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم نے صرف اُم حبیبہ کا مہر
زیادہ باندھا تھا، اس لیے کہ ان کا مہر حبش کے بادشاہ نجاشی نے مقرر کردیا تھا(۳۲)۔
لوگ خاندانی شرافت و عزت کی بنا پر جھوٹی شان دکھانے کی خاطر بھاری بھاری مہر مقرر
کردیتے ہیں اور ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتے ہیں اس لئے حضرت عمر نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہاں اگر کوئی واقعی صاحب حیثیت ہے
زیادہ سے زیادہ مہر ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے تو مضائقہ نہیں ہے۔
آج برِصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں مسلم گھرانے لڑکیوں کے سلسلے
میں جوڑے جہیز اور بہت ساری رسومات کی بنا پر پریشان ہیں تواسلامی ممالک میں مسلم
گھرانے لڑکیوں کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کرکے غیرضروری پریشانیوں میں
گھرے ہوئے ہیں خاص طور پر عرب ممالک میں جو جتنا زیادہ مہر باندھتا ہے اتنی جلدی
نکاح کرسکتا ہے بسا اوقات نکاح کا انحصار مہر کے زیادہ مقرر ہونے پر ہے جس کی وجہ
سے بہت سارے مرد شادی سے محروم ہیں۔
***
حوالے وحواشی:
(۱)
بخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح۔
(۲)
مشکوٰة المصابیح کتاب النکاح۔
(۳)
الرعد: ۳۸۔
(۴)
ترمذی بحوالہ اسلامی معاشرہ،ص:۶۰ مولانا یوسف اصلاحی۔
(۵)
بخاری کتاب النکاح باب قول النبی مَنِ السْتَطَاعَ مِنْکُمْ ۔
(۶)
بخاری بحوالہ اسلامی معاشرہ،ص:۶۳ مولانا یوسف اصلاحی۔
(۷)
اعراف:۱۸۹۔
(۸)
نکاح ایک اصلاحی تحریک،ص:۳۸ ڈاکٹراسراراحمد صاحب۔
(۹)
الروم: ۳۰۔
(۱۰)
الفرقان:۵۴۔
(۱۱)
النساء:۱۹۔
(۱۲)
ترمذی بحوالہ معارف الحدیث،ج:۷، ص:۲۰۔
(۱۳)
ابوداؤد بحوالہ معارف الحدیث،ج:۷،ص:۱۸۔
(۱۴)
ترمذی کتاب النکاح باب ما جاء فی اعلان النکاح ۔
(۱۵)
بحوالہ اسلامی نکاح، ص:۱۰ ، ناشر جمعیة شباب الاسلام۔
(۱۶)
بخاری کتاب النکاح باب ”کیف یدعی للمتزوج“
(۱۷)
”الفقہ علی المذاہب الاربعة“ ج:۲، ص:۳۳ بحوالہ شادی کے شرعی اور غیر
شرعی طریقے،ص:۳۰ شمس پیرزادہ۔
(۱۸)
بخاری ۶/۱۴۰۔
(۱۹)
ابن ماجہ ۱/۶۱۶۔
(۲۰)
بخاری ومسلم۔
(۲۱)
بخاری کتاب النکاح باب حق الولیمہ والدعوة۔
(۲۲)
مسلم کتاب النکاح باب الامر باجابة الداعی الی الدعوة۔
(۲۳)
نساء: ۴۰۔
(۲۴)
نساء: ۲۵۔
(۲۵)
سنن کبریٰ ۷/۲۴۱۔
(۲۶)
اوجز المسالک، ج:۹ ،ص:۲۸۹۔
(۲۷)
ہدایة باب المہر۔
(۲۸)
بحوالہ نکاح کتنا آسان اور کتنا مشکل،ص:۳۰۔
(۲۹)
تحفة الاحوذی بشرح ترمذی،ج:۴، ص:۲۵۶۔
(۳۰)
شادی کے شرعی اور غیرشرعی طریقے ،ص:۲۴ شمس پیرزادہ۔
(۳۱)
ترمذی بحوالہ حسنِ اخلاق دہلی اگست ۱۹۹۵،ص:۲۹۔
(۳۲)
عون المعبود،ج:۲، ص:۱۰۵۔
نکاح‘ نسلِ انسانی کی بقاء کا ذریعہ اور خواہشِ نفسانی کی تکمیل کا
مہذب طریقہ ہے۔ مذہبِ اسلام میں اسے عبادت کادرجہ حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے مسجد
کے نورانی اورپاکیزہ ماحول میں منعقد کرنے کی تلقین کی گئی ہے، چنانچہ صحیح بخاری
میں حضرت عائشہرضی اللہ عنہما کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
ہے: ’’أعلنوا ہٰذا النکاح واجعلوہ في المساجد‘‘ یعنی ’’یہ نکاح اعلانیہ طورپر کرو
اور مسجد میں اس کا اہتمام کرو۔‘‘ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’أفضل
المساجد‘‘ یعنی مسجد حرام میں حضرت میمونہ ؓ سے رشتۂ ازدواج منسلک کیا تھا۔ نیزاس
پرمسرت موقع پر خطبۂ مسنونہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی حمد وثناء اور قولِ سدید اور تقویٰ و ورع کی نصیحت نکاح کے مذہبی تشخُّص
کو اُجاگر کرتی اوراس کے عبودیت کے پہلو کو عیاں کرتی ہے۔ اس کے برعکس کفار کے ہاں
نکاح محض نفس رانی اورخواہش پرستی کا نام ہے، اس لیے وہ رقص وسرود کی محفلوں اور
معصیت کے متعفن زدہ ماحول میں اس کی تقریب کا انتظام کرتے ہیں ۔
نکاح کی اہمیت
اللہ رب العزت نے انسان کو رشتوں کی جس خوبصورت لڑی میں پرویا ہے، ان
میں ایک اہم رشتہ عقدِ نکاح کے ذریعہ زوجین میں طے پانے والی نسبت ہے۔ اللہ رب
العزت نے قرآن کریم میں اس رشتے کو نسبی رشتے کے ساتھ مقامِ نعمت میں ذکر فرمایا
ہے، چنانچہ سورۃ الفرقان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَائِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا
وَّصِھْرًا‘‘ (الفرقان:۵۴)
’’اوروہ (اللہ) ایسی ذات ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اوراس کو
خاندان والا اور سسرال والا بنایا۔‘‘
نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرغوب چیزوں میں سے ہے، ایک طویل
حدیث میں ارشادِ نبوی ہے:
’’حبب إليّ من دنیاکم ثلاث: الطیب والنساء وجعلت قرۃ عیني في الصلٰوۃ۔‘‘
’’تمہاری دنیا کی چیزوں میں سے مجھے تین چیزیں محبوب ہیں: خوشبو اور
عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ عورتوں سے شادی فرمائی، جس سے
نکاح کی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اُمت کوازدواجی زندگی کے زریں اصول بھی
فراہم کیے۔ پھر صرف اپنی ذات کی حد تک نہیں، بلکہ اسے اپنے سے پیشتر تمام انبیاء
علیہم السلام کی مشترکہ سنت قراردیا، چنانچہ ترمذی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’أربع من سنن الأنبیاء: الحیاء والتعطر والسواک والنکاح۔‘‘
’’چار چیزیں انبیاء ( علیہم السلام )کی (متفقہ) سنتیں ہیں: حیاء، خوشبو،
مسواک اور نکاح۔‘‘
اسلام اور رہبانیت
مذہبِ عیسائیت میں رہبانیت کا تصور پایا جاتا ہے، جو قرآنی بیان ’’وَرَھْبَانِیَّۃَ نِ ابْتَدَعُوْھَا‘‘ کی روسے
خدائی پابندی کے بغیران کااپنا ایجادکردہ نظریہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ
عیسائی نکاح کو عبادت میں مخل سمجھتے ہیں، اس لیے ان کا ایک بڑا طبقہ نکاح کے عمل
سے کنارہ کش ہوکر جنگلوں، غاروں اورخلوت گاہوں کا رُخ کرلیتا ہے اور تمام زندگی
وہیں گزار دیتا ہے، جبکہ اسلام جیسے عالمگیر اور آفاقی مذہب میں رہبانیت کی کوئی
گنجائش نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے:
’’لارہبانیۃ في الإسلام‘‘ ۔۔۔۔۔’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔‘‘
بلکہ اسلامی نقطۂ نظرسے تو نکاح عبادت میں معین و مددگار ثابت ہوتا
ہے، کیونکہ حدیث کی روشنی میںنکاح انسان کی فرج اورقلب ونظر کا محافظ ہے اور جس
قدر دل اور نگاہ پاک ہوں گے، اُسی قدر حق تعالیٰ کی معرفت کا عکس اس میں شفاف
ہوگا، پھر جتنی زیادہ معرفت حاصل ہوگی اتنا عبادت کی طرف میلان اوررجحان زیادہ
ہوگا۔ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین آدمی نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق
معلومات حاصل کرنے کے لیے آئے، جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرتِ
عبادت کے بارے میں سنا تو اپنی عبادت کو کم خیال کرنے لگے۔ ان میں سے ایک نے کہا:
میں تمام عمرشب بیداررہوں گا۔ دوسرے نے کہا: میں ساری زندگی روزے رکھوں گا اور
کبھی افطار نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے جدا رہوں گا اورکبھی شادی
نہیں کروں گا۔ اس دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور ان سے
فرمایا :
’’أما واللہ إني أخشاکم للہ وأتقاکم لہ، لکني أصوم وأفطر وأصلي
وأرقد وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فلیس مني۔‘‘
’’اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس
کاتقویٰ اختیارکرنے والا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا
ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوںاورعورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں،
لہٰذا جس نے میری سنت سے بےرغبتی کی، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
اس سے منشاء نبوت یہ تھاکہ انسان ان بشری تقاضوں کو پوراکرنے کے ساتھ
بھی عبادت کا فریضہ بخوبی اور بکثرت سرانجام دے سکتا ہے، اس کے لیے طبعی حوائج کے
ترک کی ضرورت نہیں۔
رشتۂ ازدواج کی نزاکت
اپنی مسلمہ افادیت کے ساتھ ساتھ یہ اہم رشتہ نزاکت اورلطافت میں بھی
اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ سنجیدگی، مذاق، غصے، پیار، اجبار اور اختیار میں ایک لفظِ
قبول سے یہ قائم ہوجاتا ہے اور ان تمام صورتوں میںایک لفظ طلاق یااس کے ہم معنی
کنائی لفظ سے برسہا برس پر محیط تعلق پاش پاش ہوجاتا ہے۔ ایک لحظے میں اپنائیت سے
اجنبیت اور اجنبیت سے اپنائیت کاطویل سفر طے کرنے میںاس کا کوئی بدل نہیں، لہٰذا
کسی لمحہ بھی اس کے نزاکتی پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ورنہ آتشِ غضب میں
مشتعل ہوکر کیا گیا کوئی بھی جذباتی فیصلہ ہنستے بستے گھرکوویران کرکے اپنی اور
اپنے اہل وعیال کی زندگی کو حسرت وندامت کے اس تاریک غار میں دھکیل سکتا ہے، جہاں
سے واپسی کا سفر ناممکن ہوجاتا ہے۔
قرآنی فیصلے ’’الَّذِیْ
بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ‘‘ کے مطابق
اس رشتے کے قیام اور انہدام کی ڈوری مرد کے ہاتھ میںپکڑائی گئی ہے، اس اختیار
کاناجائز اور بے موقع استعمال کرکے اپنی عزت تک قربان کر دینے والی اور خاوند کی
دلجوئی کے لیے ہر جتن کردینے والی رفیقۂ حیات کے ساتھ یہ نازیبا سلوک شرعاً اور
عقلاً کسی طرح بھی درست نہیں، چنانچہ سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابن
عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ أبغض الحلال إلی اللہ تعالیٰ الطلاق‘‘
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض چیز طلاق ہے۔‘‘
نکاح میں سادگی
نکاح چونکہ ہر امیرو غریب اورمردوزن کی یکساں بشری ضرورت ہے، اس لیے
شریعتِ اسلامیہ نے اس کو سادگی کے ساتھ منعقد کرنے اورخوامخواہ کے تکلفات سے دور
رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ شعب الایمان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’ إن أعظم النکاح برکۃ أیسرہٗ مؤنۃ۔‘‘
’’سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم تکلف ہو۔‘‘
بدقسمتی سے سادگی اور بے تکلفی کی اس اہم دینی ہدایت کو ہمارے مسلم
معاشرے میں یکسر نظرانداز کرکے اس طبعی اورفطری عمل کومشکل سے مشکل تر بنادیا گیا
ہے۔ متحدہ ہندوستان میں دس صدیوں پر محیط اسلامی سلطنت میں چونکہ ہندو بھی
بطوراقلیت کے مسلمانوں کے ساتھ رہے، پھراسلامی حکومت کے زوال کے بعدسلطنتِ برطانیہ
میں بھی دونوں قومیں ایک ساتھ رہیں، اس لیے ہندوؤں کی بہت سی رسومات اورخرافات
مسلم سماج کاحصہ بن گئیں، جو تقسیم ہند کے تہتر سال بعد بھی بدستور رائج ہیں، جن
پر عمل کرنا فرض اور واجب عمل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس موقع پر رسم حناء،
نیوتہ، جہیز اوربیسیوں قسم کی غیرعقلی اور غیرشرعی رسومات ادا کی جاتی ہیں، جن کے
بغیر نکاح کی تقریب کو نامکمل متصور کیا جاتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں
اضافہ ہورہا ہے۔ ان رسومات کا نقصان یہ ہے کہ ان کی ادائیگی کے لیے مطلوب رقم نہ
ہونے کی وجہ سے قوم کی لاکھوں بچیاں نکاح کی عمرسے متجاوزہوجاتی ہیں اورشوہر کی
صورت میں ایک محفوظ سائبان سے محروم رہ جاتی ہیں، ان کے بے بس والدین کی راتیں
زندگی میں بیٹیوں کواپنے ہاتھوں سے رخصت کرنے کاخواب سراب بنتے دیکھ کر دکھ اور
کرب میں گزرتی ہیں۔ مستعاررقم سے ان رسومات کی ادائیگی کر کے بیٹیاں بیاہ دیں
توتمام عمرقرض کے منڈلاتے سائے ان کی زندگی اجیرن کیے رکھتے ہیں۔ اس تشویشناک صورت
حال میںان رسومات کے انسداد اور سدِ باب کے لیے معاشرے کے بااثر اور سرکردہ افراد
کومؤثر آواز بلند کرنی چاہیے اور انسانی حقوق کی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں
اوراربابِ حل وعقد کو سنجیدگی سے قانونی جدوجہد کرنی چاہیے۔
رفیقۂ حیات کی تلاش
نکاح کے سلسلہ کی اہم ترین کڑی شریکِ حیات کی تلاش ہے۔ اس حوالے سے
شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ عورت کے حسب ونسب، مال وزر اور حسن وجمال سے زیادہ اس کی
دینداری کے پہلو کو دیکھا جائے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے:
’’تنکح المرءۃ لأربع خصال: لمالھا ولحسبھا ولجمالھا ولدینھا، فاظفر
بذات الدین تربت یداک‘‘
’’چارخصلتوں کی وجہ سے عورت سے نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال کی وجہ سے
اور اس کے حسب کی وجہ سے اوراس کے جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے، لہٰذا
تودین والی کو اختیار کر (پھر بطور تکیہ کلام کے فرمایا) تیرے ہاتھ خاک آلود ہو
جائیں۔‘‘
اس میں حکمت یہ ہے کہ ماں کی گود اولاد کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے، جب
عورت نیک ہوگی تواس کی پارسائی اولاد کی تربیت پراثرانداز ہوگی، پھر یہ اولادنبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’أو ولد صالح یدعولہ‘‘ کی روشنی میں صدقہ
جاریہ بن کر والدین کے لیے نجات کا سبب ہوگی۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ حکایت اہلِ
علم میں مشہور ہے، معروف حنفی فقیہ شیخ محمد بن احمد سمرقندیؒ کی صاحبزادی کا نام
فاطمہ تھا، جوعلم و فضل میں اپنے والد کی طرح تھی، موصوفہ کی علمی شہرت کی وجہ سے
روم اورعرب کے بہت سے مسلم سلاطین وحکام کی جانب سے انہیں نکاح کی پیشکش کی گئی،
لیکن فاطمہ کی ایک ہی شرط تھی کہ میں اس شخص سے نکاح کروں گی جو میرے والدقابل قدر
کی کتاب ’’تحفۃ الفقہاء‘‘ کی شرح لکھے گا۔ شیخ محمدبن احمد سمرقندیؒ کے مایہ ناز
شاگرد علاء الدین کاسانی ؒنے ’’بدائع الصنائع‘‘ کے نام سے اس کتاب کی شرح تحریر
کی۔ والد نے اپنی بیٹی کی شرط کے مطابق اپنے اسی شاگرد کے ساتھ باوجود اُن کے مفلس
اورغریب ہونے کے نکاح کر کے رخصت کردیا۔ بعد میں اللہ نے انہیں مالی وسعت بھی عطا
فرمائی اور ایسا علمی فضل وکمال عطا فرمایا کہ ان کی تصدیق کے بغیر سمرقند میں
کوئی فتویٰ معتبر نہیں مانا جاتا تھا۔
احادیث میں سرکارِ دوعالم ﷺ نے اس اُمت کو ہدایت اور رہنمائی دی ہے کہ شادیاں ہلکی پھلکی اور کم خرچ ہوا کریں، اور بشارت سنائی گئی ہے کہ اگر ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شادیوں میں اور اُن کے نتیجوں میں بڑی برکتیں ہوں گی، آج ہم جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور خاص کر خانگی زندگی میں جو اُلجھنیں ہیں اُن کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ نکاح وشادی کے بارے میں حضورa کی ان ہدایات سے انحراف کرکے ہم آسمانی برکات اور خداوندی عنایات سے محروم ہوگئے ہیں، اسی بنا پر ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بار کم سے کم پڑے۔
(شعب الایمان للبیہقی)
یہ بات یاد رہے کہ اگر والد اپنی رضا و خوشی سے اپنی بیٹی کو رخصتی کے موقع پر کچھ دینا چاہے تو یہ شرعی طور پر ممنوع بھی نہیں، لیکن شریعت میں کہیں اس کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی گئی، نہ ہی کسی روایت میں اس کا تذکرہ یا ترغیب ملتی ہے۔ جہاں تک حضرت فاطمہ ﷺ کے سلسلہ میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی فاطمۃ الزہراءؓ کو جہیز کے طور پر یہ چیزیں دی تھیں:
ایک پلودار چادر، ایک مشکیزہ، ایک تکیہ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔ (سنن نسائی) اکثر اہل علم اس حدیث کا یہی مطلب سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ چیزیں اپنی صاحبزادی کے نکاح کے موقع پر جہیز کے طور پر دی تھیں، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں عرب میں نکاح شادی کے موقع پر لڑکی کو جہیزکے طور پر کچھ سامان دینے کا رواج بلکہ تصور بھی نہیں تھا۔ اور جہیز کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوتا تھا۔ سیدہ فاطمہؓ کے علاوہ دوسری صاحبزادیوں کے نکاح کے سلسلہ میں کہیں کسی قسم کے جہیز کا ذکر نہیں آیا۔ رہی بات حدیث کے لفظ ’’جھز‘‘ کا مطلب، تو اس کے معنی اصطلاحی جہیز دینے کے نہیں، بلکہ ضرورت کا انتظام اور بندوبست کرنے کے ہیں، حضرت فاطمہؓ کے لیے حضور ﷺ نے ان چیزوں کا انتظام حضرت علیؓ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے انہی کی طرف سے اورانہی کے پیسوں سے کیا تھا، کیونکہ یہ ضروری چیزیں ان کے گھرمیں نہیں تھیں، روایات سے اس کی پوری تفصیل معلوم ہوجاتی ہے، بہرحال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا۔
(معارف الحدیث، جلدہفتم)
جہیز کے سلسلہ میں ہمارے معاشرے میں بے شمار غلط تصورات پھیلے ہوئے ہیں، جہیز کو شادی کے لیے ایک لازمی شرط سمجھ لیا گیا ہے، چنانچہ جب تک جہیز دینے کے لیے رقم نہ ہو لڑکی کی شادی نہیں کی جاتی۔ ہمارے معاشرے میں نہ جانے کتنی ہی بچیاں صرف اسی بنا پر بن بیاہی رہ جاتی ہیں کہ باپ کے پاس جہیز دینے کی استطاعت نہیں ہوتی، اور جب سر پر آہی جائے تو ناجائز ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ جہیز کی اشیاء کی فہرست میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، اب جہیز محض ایک بیٹی کے لیے باپ کا تحفہ نہیں، بلکہ معاشرے کا ایک جبر ہے۔ اور اب تو جہیز کی نمائش کی رسم نے بھی ضروری قراردے دیا ہے کہ جہیز ایسا ہو اور اس میں اتنی چیزیں شامل ہوں جو ہر دیکھنے والے کو خوش کرسکے، اور تعریف حاصل کرسکے۔ جہیز کے بارے میں بعض لوگ یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ جہیز کو قانوناً بالکل ممنوع قراردیا جائے، لیکن غور کیا جائے تو یہ انفرادی مسئلہ نہیں، بلکہ اجتماعی اور معاشرتی مسئلہ ہے، اور اس قسم کے مسائل صرف قانون کی جکڑبندی سے حل نہیں ہوتے، اس کے لیے تعلیم و تربیت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک مناسب ذہنی فضا تیار کرنا ضروری ہے، اور معاشرے کے بااثر، اہل دانش، بارسوخ طبقے اور صاحبِ اقتدار حضرات کو اس کا نمونہ عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی حسبِ خواہش کسی عورت سے نکاح ہوجانا بلاشبہ بڑی نعمت ہے، اس نعمت کے شکرکے طور پر اس کی عملی شکل ولیمہ کو قرار دیا گیا ہے، ولیمہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بلاتکلف اختصار کے ساتھ جس قدر میسر ہوجائے اپنے خاص لوگوں کو کھلادے، ولیمہ اسی حد تک مسنون ہے جس کو اسلام نے متعین کردیا ہے، جس میں غرباء بھی ہوں، اور ولیمہ اپنی حیثیت کے مطابق ہو، سودی قرض سے نہ کیا گیا ہو، دکھلاوے اور شہرت کے لیے نہ ہو، تکلفات سے پاک ہو، اس سنت کی ادائیگی کے لیے شرعاً نہ مہمانوں کی کوئی تعداد مقرر ہے، نہ کھانے کا کوئی معیار، بلکہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق کرسکتا ہے، البتہ اگر استطاعت ہو تو زیادہ مہمان بلانے اور اچھے کھانے کا اہتمام کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، لیکن مقصود دکھلاوا یا نام کمانا یا دوسروں سے اپنے اپنے آپ کو اونچا دکھلانا نہ ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ولیمہ سے متعلق بھی بہت سی رسومات اور فضول خرچیاں پائی جاتی ہیں، کم آمدنی والے لوگ اس کے لیے بھاری قرض اُٹھاتے ہیں، اور مالدار خوب نمائش کرتے ہیں، دونوں باتیں حداعتدال کے خلاف ہیں۔ ولیمہ میں کثیر افراد کی شرکت کو لازمی سمجھا جاتا ہے، اس کے انتظام کے لیے چاہے زندگی بھر انسان قرض کے بوجھ تلے دبا رہے، مگر نام اونچا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر انتظام کو لازم سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ شریعت کی روح کے منافی ہے۔ کوئی لازم نہیں کہ خاندان بھر کے اور تمام دوست احباب کی شرکت کو لازمی سمجھا جائے، اور اگر اپنی حیثیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا انتظام نہیں ہوسکتا تو اس کو عار سمجھا جاتا ہے، یہ بھی ایک معاشرتی ناسور بن چکا ہے، اکابر صحابہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی شادیاں ہوئیں اور سرکارِ دو عالم ﷺ کو اطلاع تک نہیں تھی، اس کی کیا وجہ تھی؟ حالانکہ ان سے زیادہ کون محب صادق اور عاشق رسول ہوسکتا ہے؟ جنہوں نے گھربار، اہل واولاد سب کچھ پیغمبر ﷺ کے اشاروں پر قربان کردیا۔
اصل بات یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم وتربیت نے صحابہ کرامؓ کو ایسا بنا دیا تھا کہ وہ اپنی شادی اور نکاح کی تقریبات میں بھی حضور ﷺ کو شرکت کی زحمت نہیں دیتے تھے، بلکہ اطلاع کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ عبدالرحمن بن عوفؓ جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور خواص اصحاب میں شامل ہیں، انہوں نے خود اپنی شادی کی اور حضور ﷺ کو خبر بھی نہیں ہوئی۔
۱:۔۔۔۔۔۔ شادی کے موقع پر اطلاع کے لیے کارڈ چھپوائے جاتے ہیں، اور
کارڈ چھپوانے میں ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، حالانکہ اس کا حاصل صرف
اطلاع دینا ہے، جس گھر میں دیا گیا انہوں نے پڑھا اور ایک طرف رکھ دیا۔ اس سلسلہ
میں بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ شادی کی اطلاع کے لیے اگر کارڈ چھپوانے کی ضرورت
بھی ہو تو معمولی درجے کا کارڈ چھپوایا جائے۔ سرکاری سطح پر اس کی ترغیب چلائی
جائے۔
۲:۔۔۔۔۔نیوتہ یعنی شادی کے موقع پر پیسے لینے دینے کا رواج بھی شریعت
کے خلاف ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ دینے والا اس نیت سے دیتا ہے کہ آئندہ کسی موقع
پر یہ رقم مزید بڑھا کردی جائے گی، یہ ایک طرح کاسودی قرض ہے، اس کاتذکرہ بھی
قانون سازی میں شامل کیا جائے۔
۳:۔۔۔۔۔ جہیز اگرچہ اولاد کے ساتھ صلہ رحمی کے سلسلہ میں دیا جاتا ہے،
مگر اس کو لازم سمجھنے اور مطالبہ کی حد تک اس معاملہ کے پہنچ جانے کی بنا پر اس
کے متعلق ٹھوس قانون سازی کی جائے،اس رسم جہیز کی وجہ سے لڑکیاں گھروں میں بیٹھی
بیٹھی اپنی عمر کھودیتی ہیں، مگر اسباب نہ ہونے کی وجہ سے ماں باپ ان کی شادی سے
کتراتے ہیں۔ اگر جہیز میں کچھ دینا ہی ہے تو ایسی چیزیں دی جائیں جن کی بیٹی کو
ضرورت ہو، جیسے حضرت فاطمہ tکے سلسلہ
میں سابق میں ذکر ہوا۔ اپنی حیثیت کے مطابق اگر انسان انتظام کرے گا تو اس کا بڑا
فائدہ یہ ہوگا کہ کہیں ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا۔ اور جہیز میں بھی صرف ضروری اور
استعمال کی چیزیں شامل ہوں، ایسی چیزیں نہ شامل کی جائیں جو کبھی کام نہیں آتیں،
سوائے اس کے کہ گھرمیں جگہ گھیریں۔
۴:۔۔۔۔۔ لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں کے لیے کھانے کی دعوت کوولیمہ
کی طرح لازم سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ خیال بالکل بے بنیادہے،شرعی طورپرکسی صورت
یہ پسندیدہ نہیں ہے،اس کی حوصلہ شکنی کی جائے، البتہ حسبِ استطاعت خاص خاص
عزیزواقارب اور بطور مہمان نوازی کے‘ بغیرکسی سابقہ انتظام کے کھانا کھلادیا جائے
تو کوئی حرج نہیں ۔
۵:۔۔۔۔۔ شادی کے موقع پر گانا بجانا، مووی بنوانا اور تصویرکشی کی
وباعام ہوچکی ہے، حالانکہ ہر مسلمان جانتاہے کہ شریعت میں یہ چیزیں سخت حرام
اورناپسندیدہ ہیں اور ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کی سزا سنائی گئی ہے، اس کے
بارے میں بھی غور و خوض کیا جائے۔
۶:۔۔۔۔۔ ہماری معاشرتی تقریبات میں مخلوط اجتماعات کی وبا عام ہوچکی
ہے، سب جانتے ہیں کہ مخلوط اجتماع نہ صرف یہ کہ شرعی طور پر حرام ہیں، بلکہ
معاشرتی سطح پر بھی اس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں، اس سلسلہ میں مردوں
اورعورتوں کے لیے جدا جدا جگہوں کے انتظامات یا درمیان میں حائل بناکر پوشن بنانے
پر زور دیا جائے۔
۷:۔۔۔۔۔ جہیز کے مطالبے اور اس کی نمائش پر پابندی عائد کی جائے،
کیونکہ یہ بھی ایک بڑاسبب ہے اس بات کاکہ نمائش اورتعریف کے حصول کے لیے لوگ اپنی
استطاعت سے بڑھ کرقرضوں کے بوجھ تلے دب کرایسی اشیاء دیتے ہیں جو اُن کی استطاعت
سے باہرہوتی ہیں، اشیاء کی قلت یا کم جہیزکی وجہ سے نمائش نہ ہونے کو اور لوگوں کے
نہ دکھلانے کو اپنے لیے عیب سمجھا جاتا ہے۔
۸:۔۔۔۔۔ شادی بیاہ کی تقریبات کے لیے نظام الاوقات بنایا جائے، اور
وقت کی پابندی کو لازم قرار دیا جائے۔ مستقل قانون سازی کی جائے۔اگرچہ اس سلسلہ
میں پہلے بھی قانون سازی کی جاچکی ہے، مگراس پرعمل نہ ہونے کے برابرہے۔اکثراوقات
مقررہ وقت کے چار چار،پانچ پانچ گھنٹوں بعد تقریبات کا آغاز کیا جاتا ہے اور ساری
رات اسی میں صرف ہوجاتی ہے،تضییعِ اوقات کے علاوہ بجلی وغیرہ کا بے جا استعمال بھی
اسی بنا پرہوتاہے۔
۹:۔۔۔۔۔ ولیمہ اور جہیز کے سلسلہ میں سب سے زیادہ ذمہ داری اُن
افرادپرعائد ہوتی ہے جو کھاتے پیتے امیر اور صاحبِ اقتدار طبقہ کے گھرانے
کہلاتے ہیں، جب تک یہ لوگ اپنے خاندانوں میں شادی سادگی کے ساتھ نہیں کریں گے
اورمعاشرے میں رائج رسومات سے دستبردارنہیں ہوں گے، اس وقت تک معاشرے میں تبدیلی
ناممکن ہے،محض قانون ہی تبدیلی کاسبب نہیں بنتا، بلکہ اس کے لیے عملی کردار ادا
کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
۱۰:۔۔۔۔۔ سرکاری خزانہ سے نادار اور بے سہارا بچیوں کی تعلیم اور ان
کی شادی کے لیے انتظام کیا جائے، اور اس کے لیے مستقل کوٹہ مقرر کیا جائے، ہر صوبہ
میں اس کے لیے مستقل ایک محکمہ قائم کیا جائے، جب ملک میں ثقافت اوردیگرکاموں کے
لیے لاکھوں کروڑوں روپے صرف کیے جاسکتے ہیں تو اس مد میں خرچ کرنے میں کون سی
رکاوٹ ہے؟ اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔
۱۱:۔۔۔۔۔سرکاری انتظام کے علاوہ اہل ثروت کو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے
معاشرے میں مستحق بچیوں کے لیے اجتماعی شادی کا انتظام کریں، تاکہ اسلامی طریقۂ نکاح
معاشرے میں آسان ہو اور فحاشی وبے حیائی کا سدباب ہو۔
۱۲:۔۔۔۔۔ شادی ہال میں کھانوں کے سلسلہ میں بھی فضول خرچی کے علاوہ
بڑے پیمانے پر کھانوں کا ضیاع ہوتا ہے، ضرورت سے زائد کھانا لیا جاتا ہے اور
استعمال کے بعد بقیہ ضائع کردیا جاتا ہے، اس مسئلہ پر بھی غور و فکر کرنی چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں ماہِ محرم، صفر، شوال اور ذو القعدہ میں نکاح کرنے
کو معیوب اور غلط سمجھا جاتا ہے، بلکہ ان مہینوں میں نکاح کرنے کو نحوست کا باعث
قرار دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نکاح کی تاریخ طے کرنے سے پہلے باقاعدہ ان مہینوں
پر نظر رکھی جاتی ہے کہ اگر کہیں ان مہینوں میں نکاح کی تاریخ آرہی ہو تو بد فالی
اور بد شگونی لیتے ہوئے اسے تبدیل کیا جاتا ہے، تاکہ نحوست سے حفاظت ہوسکے اور
شادی کامیاب رہے۔ مہینوں کو منحوس قرار دینے کے معاملے میں علاقوں اور قوموں کے
نظریات بھی باہم مختلف ہیں کہ مختلف قومیں مختلف مہینوں کو منحوس قرار دیتی ہیں ۔
ایسے بے بنیاد نظریات وتوہمات میں عمومًا خواتین زیادہ مبتلا ہوتی
ہیں، اس لیے اس معاملے میں بھی مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ دخل اندازی اور
اصرار کرتی ہیں اور بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ نکاح کی تاریخ ان مہینوں میں نہ آنے
پائے۔افسوس کہ آج کا مسلمان دینِ اسلام کی تعلیمات سے کس قدر بے خبر ہے!! اس لیے
ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس سے متعلق شریعت کی تعلیمات کو سمجھے، تاکہ معاشرے میں
رائج یہ غلط فہمیاں دورہوسکیں۔ ذیل میں اس غلط فہمی کا جائزہ لیا جاتا ہے:
سال کے تمام مہینے اللہ ہی کے ہیں
یہ قمری اور اسلامی سال اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور اللہ ہی نے اسے
بنایا اور مقرر فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ میں فرماتے ہیں:
’’إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِيْ
کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَآ أَرْبَعَۃٌ
حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۔‘‘ (التوبہ:۳۶)
ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے
ہے، جو اللہ کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ چلی آتی ہے، جس
دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت
والے مہینے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا (تقاضا) ہے۔‘‘
اس آیت سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اسلامی سال کے بارہ مہینے اللہ
تعالیٰ نے خود مقرر فرمائے ہیں، جس سے اسلامی سال اور اس کے مہینوں کی قدر وقیمت
اور اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح اس سے معلوم ہوا کہ ان بارہ مہینوں میں سے
چار مہینے حرمت، عظمت اور احترام والے ہیں، ان کو ’’أَشْہُرُالْحُرُم‘‘ بھی کہا جاتا ہے، یہ مضمون متعدد احادیث میں آیا ہے جس سے ان چار
مہینوں کی تعیین بھی واضح ہوجاتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ:
’’عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: اَلزَّمَانُ قَدِ
اسْتَدَارَ کَہَیْئَتِہٖ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ،
السَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا، مِنْہَا: أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَۃٌ
مُتَوَالِیَاتٌ: ذُو الْقَعْدَۃِ وَذُو الْحِجَّۃِ وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ
مُضَرَ الَّذِیْ بَیْنَ جُمَادٰی وَشَعْبَانَ۔‘‘
ترجمہ: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد
فرمایا کہ: زمانہ اب اپنی اسی ہیئت اور شکل میں واپس آگیا ہے جو اُس وقت تھی جب
اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا، سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں
سے چار مہینے حرمت (عظمت اور احترام) والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں، یعنی:ذُوالقعدہ،
ذُوالحجہ اور مُحرم، اور چوتھا مہینہ رجب کا ہے، جو کہ جُمادی الثانیہ اور شعبان
کے درمیان ہے۔‘‘
حُرمت اورعظمت والے ان چار مہینوں کے خصوصی تذکرے سے یہ بات بھی بخوبی
واضح ہوجاتی ہے کہ ان سے متعلق نحوست، بد فالی اور بد شگونی کے تمام خیالات
وتوہمات غلط ہیں۔
سال کے مہینوں کے احکامات بھی اللہ ہی کی طرف سے ہیں
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ قمری اور اسلامی سال اللہ تعالیٰ ہی کا ہے
اور اللہ ہی نے اسے بنایا اور مقرر فرمایا ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اللہ
ہی سال بھر کے احکامات کا نازل کرنے والا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے ذریعے قرآن وسنت کی صورت میں اُمت کو سال بھر کے احکامات وتعلیمات
بیان فرمادئیے ہیں، ان احکامات میں اپنی طرف سے کمی یا زیادتی اللہ اور اس کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
کسی مہینے میں شادی کو ناجائز اور غلط قرار دینے کا اختیار اللہ ہی کے
پاس ہے
کس مہینے میں شادی جائز ہے اور کس میں ناجائز ؟ یہ طے کرنے کا اختیار
اللہ ہی کے پاس ہے کہ وہی حاکم ہے، اس لیے بندوں کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ دین
میں اپنی طرف سے اضافہ کرتے ہوئے کسی مہینے میں شادی کو معیوب یا منحوس قرار دیں،
اس لیے اس معاملے میں بھی شریعت ہی کی پیروی کی جائے گی۔
کسی مہینے میں شادی کرنے کو معیوب یا غلط سمجھنا دین میں زیادتی ہے
جب اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے قرآن وسنت کی
صورت میں اُمت کو سال بھر کے احکامات وتعلیمات بیان فرمادئیے ہیں تو ان تعلیمات کی
رُو سے سال کے کسی بھی مہینے اور کسی بھی تاریخ کو شادی کی ممانعت نہیں، بلکہ ہر
مہینے میں شادی کرنا جائز ہے، اس لیے کسی مہینے میں شادی بیاہ کو غلط، منحوس یا
معیوب سمجھنا دین میں اپنی طرف سے زیادتی کے زُمرے میں آتا ہے جو کہ قرآن وسنت
کی رُو سے سنگین جرم ہے۔
کسی مہینے میں شادی کرنے کو معیوب یا غلط سمجھنا بِلا دلیل ہے
ساتھ میں یہ واضح رہے کہ کسی مہینے میں شادی بیاہ کو غلط، منحوس یا
معیوب سمجھنا ایک حکمِ شرعی کے زمرے میں آتا ہے اور حکمِ شرعی کے لیے کوئی معتبر
شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ نحوست کا یہ نظریہ بلا دلیل ہے، جس کا قرآن
وسنت اور شرعی دلائل سے کوئی ثبوت نہیں۔
اسلام میں نحوست کا تصور
اسلام میں کسی دن، کسی مہینے، کسی سال یا کسی چیز کی نحوست کا کوئی
تصور ہی نہیں ہے، البتہ نحوست صرف گناہ میں ہے، ساری نحوستیں اللہ کی نافرمانی کے
نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں، افسوس کہ آج کا مسلمان دنوں اور مہینوں کو نحوست زدہ
قرار دے کر ان میں شادی سے تو گریز کرلیتا ہے، لیکن شادیوں میں اللہ کی نافرمانی
نہیں چھوڑتا، جو کہ نحوست کی اصل وجہ ہے!! شیطان نے نحوست کے حقیقی اسباب ووجوہات
ہماری نگاہوں سے پوشیدہ کرلی ہیں جن میں ہم مبتلا ہیں، اور اللہ کو ناراض کرکے
شادی خانہ آبادی کی بجائے شادی خانہ بربادی کے سامان مہیا کیے جاتے ہیں!! شیطان
نے ہماری نافرمانیوں کو کس قدر مزیّن کرکے پیش کیا ہے!! کس قدر شیطان نے گناہوں کی
سنگینی دِلوں سے مٹا دی ہے!! اللہ کی نافرمانی کس قدر ہلکی چیز تصور کی جاتی
ہے!!اس لیے شادیوں میں نحوست سے بچنا ہو اور شادی کو کامیاب بنانا ہو تو اللہ کی
نافرمانی سے بچئے اور شادی سنت کے مطابق کیجیے!!
صحیح بخاری میں ہے:
’’عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ عَن النَّبِيِّ صلی
اللہ علیہ وسلم قَالَ: لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا ہَامَۃَ وَلَا صَفَرَ۔‘‘
(صحیح بخاری، رقم الحدیث:۵۷۶)
ترجمہ: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: مرض کا اللہ کے
حکم کے بغیر دوسرے کو لگنا، بدشگونی، مخصوص پرندے کی بدشگونی اور صفر کی نحوست؛ یہ
ساری باتیں بے بنیاد ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔‘‘
یہ حدیث یقیناً متعدد غلط فہمیوں کی اصلاح کے لیے کافی ہے۔
نکاح میں بلاوجہ تاخیر ممنوع ہے
نکاح ایک حکمِ شرعی ہے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب سنت
ہے، ایک تو اس کے سنت ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر عمل کرنے میں بلاوجہ تاخیر نہ
کی جائے۔ دوم یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد
فرمایا کہ: اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرنا: ایک تو نماز میں تاخیر نہ کرنا
جب اس کا وقت ہوجائے، دوم: نمازِ جنازہ میں تاخیر نہ کرنا جب وہ تیار ہوجائے، سوم:
غیر شادی شدہ لڑکی کے نکاح میں تاخیر نہ کرنا جب اس کے ہم پلہ کوئی مناسب رشتہ مل
جائے، مستدرک حاکم(رقم الحدیث:۲۷۴) میں ہے:
’’عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ
رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: ثَلَاثٌ یَا عَلِیُّ! لَا
تُؤَخِّرْہُنَّ: الصَّلَاۃُ إِذَا آنَتْ، وَالْجَنَازَۃُ إِذَا حَضَرَتْ،
وَالْأَیِّمُ إِذَا وَجَدَتْ کُفْؤًا۔‘‘
اس لیے جب نکاح تیار ہو تو پھر نحوست کے اس بے بنیاد نظرئیے کو مدنظر
رکھتے ہوئے ان مہینوں کی وجہ سے اس میں تاخیر کرنا نہایت ہی ناپسندیدہ عمل ہے، جس
سے اجتناب کرنا چاہیے۔
شادی سال بھر میں کسی بھی روز ممنوع، منحوس یا معیوب نہیں
خلاصہ یہ ہوا کہ شرعی اعتبار سے شادی سال بھر میں کسی بھی روز منع
نہیں، بلکہ جب بھی کرنی ہو اس کے لیے سال کے تمام ایام میں سے کسی بھی دن کا
انتخاب کیا جاسکتا ہے، اس لیے جو لوگ محرم، صفر، شوال یا کسی بھی مہینے میں نکاح
غلط اور منحوس سمجھتے ہیں، ان کی یہ سوچ بے بنیاد ہے، کیونکہ قرآن و سنت سے اس بات
کا کوئی ثبوت نہیں، ایسا نظریہ رکھنا دین کے سراسر خلاف ہے۔
ماہِ محرم میں شادی کرنے کا حکم
ماہِ محرم اُن چار بابرکت مہینوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ
کائنات بناتے وقت ہی سے بڑی عزت، احترام، فضیلت اور اہمیت عطا فرمائی ہے، جیسا کہ
ماقبل میں تفصیل بیان ہوچکی۔ جب ماہِ محرم کی عظمت وحرمت واضح ہوگئی تو اس کی عظمت
اور برکت کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ مہینہ شادی کے لیے نہایت ہی موزوں اور مناسب
مہینہ ہے، تاکہ اس کی برکت سے شادی بھی بابرکت بنے، جیسا کہ مختلف مقامات کی
برکتیں ہوتی ہیں، اسی طرح مہینوں اور ایام کی برکتیں بھی ہوتی ہیں، تعجب ہے کہ اس
عظمت اور برکت والے مہینے میں شادی کو غلط یا منحوس کیسے سمجھا جاتا ہے!!
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی بنا پر ماہِ محرم میں شادی نہ
کرنے کا حکم
بعض لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رُفقاء کی شہادت کو بنیاد
بناکر ماہِ محرم میں شادی سے گریز کرتے ہیں، یاد رہے کہ:
شہادت تو نہایت ہی معزز اور مقدس چیز ہے، جو کہ اُمت کے خوش نصیب
افراد کو عطا ہوتی ہے، اس لیے اس کی وجہ سے کسی مہینے یا دن میں نحوست کیسے آسکتی
ہے؟ اور اس کی وجہ سے کسی مہینے میں شادی کیسے ممنوع ہوسکتی ہے؟
قرآن وسنت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بڑی سی بڑی شخصیت کی شہادت کی
وجہ سے کسی مہینے کے احکام پر اثر نہیں پڑتا کہ اس کی وجہ سے بعض جائز اُمور
ناجائز یا ممنوع ٹھہریں، اس لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے ماہِ
محرم کے احکام میں تبدیلی کا تصور قرآن وسنت کے مطابق نہیں، بلکہ واضح طور پر بلا
دلیل ہے، خصوصاً جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ
کی شہادت کی خبرپہلے ہی سے دے دی تھی، لیکن پھر بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم
نے محرم کے مہینے سے متعلق کسی حکم میں تبدیلی نہیں فرمائی اور نا ہی اس بنا پر
خصوصیت کے ساتھ اس مہینے سے متعلق کچھ مخصوص حکم ارشاد فرمایا۔
کیا محرم غم کا مہینہ ہے؟
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے دیگر جانثار احباب s کی شہادت یقینا ایک نہایت ہی غمناک اور روح فرسا واقعہ تھا، لیکن ان
کی شہادت کی وجہ سے ماہِ محرم کو غم کا مہینہ قرار دینا قرآن وسنت اور شرعی دلائل
سے ہرگز ثابت نہیں، اس لیے یہ بات بلا دلیل ہے۔
اور اگر حضرت حسینؓ اور ان کے دیگر جانثار احباب s کی شہادت
کی وجہ سے کسی مہینے کو غم زدہ قرار دینا درست مان لیا جائے تو پھر اسلامی تاریخ
ایسے ہی المناک سانحات سے بھری پڑی ہے کہ سال کے بارہ مہینوں میں بڑے بڑے جلیل
القدر صحابہ کرامؓ کی المناک شہادتیں ہوئی ہیں، جیسا کہ حضرت حمزہ، حضرت صہیب،
حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور دیگر بہت سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کی دردناک شہادتیں اُمت کی تاریخ کا حصہ ہیں، تو پھر ان کی شہادتوں
کی وجہ سے تو سال بھر کو غم والا قرار دے دینا چاہیے، ظاہر ہے کہ اسے کون تسلیم
کرسکتا ہے؟ بلکہ سرکارِ دو عالم رحمتِ کائنات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے
واقعے کے مقابلے میں اُمت کے لیے کونسا سانحہ بڑا ہوسکتا ہے؟! لیکن اس کی وجہ سے
بھی ربیع الاول کو غم والا مہینہ قرار دے کر سوگ کے احکام جاری کرنا کہیں سے ثابت
نہیں۔
کسی شخص کی وفات پر اس کے عزیز واقارب کے لیے سوگ منانے کا حکم یہ ہے
کہ سوگ تین دن تک ہونا چاہیے، تین دن کے بعد بھی سوگ منانا دین کا تقاضا نہیں،
البتہ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے اور وہ حاملہ نہ ہو تو اس کا سوگ چار ماہ دس دن
تک ہے، لیکن اگر وہ حاملہ ہو تو اس کا سوگ بچے کی پیدائش تک ہے، اس لیے تین دن کے
بعد سوگ منانا شریعت کے خلاف ہے۔ (صحیح البخاری، حدیث: ۵۳۳۴، احکامِ میت، فتاویٰ
رحیمیہ)
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے
ماہِ محرم کو غم کا مہینہ قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی
شہادت کی وجہ سے آج کل جو غم منانے کے طور پر مختلف کام کیے جاتے ہیں یا مختلف
نظریات قائم کیے جاتے ہیں، یہ سراسر غیر شرعی اعمال و نظریات ہیں۔
ماہِ صفر المظفر میں شادی کرنے کا حکم
بعض لوگ ماہِ صفر کو نحوست والا مہینہ قرار دے کر اس میں شادی نہیں
کرتے ہیں، یاد رہے کہ:
یہ بات صریح احادیث کے خلاف ہے، جس کی تفصیل ماقبل میں بیان ہوچکی۔
اس ماہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوا۔(البدایہ)
وضاحت: حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے نکاح سے متعلق
اختلاف ہے کہ کس مہینے میں ہوا، اس حوالے سے محرم، صفر یا ذو القعدۃ کا ذکر ملتا
ہے۔ (سیرۃِ مصطفی، حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ )
ماہِ ربیع الاوّل میں نکاح کا حکم
ماہِ ربیع الاول کو عظیم الشان شرف حاصل ہے کہ اس میں سرورِ دو عالم،
افضل الخلائق، خاتم النبیین، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں جلوہ افروز
ہوئے، یقینا یہ شرف اور مقام کسی اور مہینے کو حاصل نہیں، اس لیے اس حیثیت سے ماہِ
ربیع الاول کو سال بھر کے تمام مہینوں پر فضیلت وفوقیت حاصل ہے۔ اس ماہِ مبارک کے
لیے یہی فضیلت ومقام کافی ہے، اس لیے اس ماہ میں شادی نہ کرنے کا تصور ویسے ہی بے
بنیاد قرار پاتا ہے۔مزید یہ کہ اس ماہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نکاح
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا سے ہوا۔
(البدایہ، سیرۃِ مصطفی حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ )
ماہِ شعبان میں نکاح کا حکم
شعبان اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے اور ماہِ شعبان کی فضیلت یہ ہے
کہ اس کے متصل بعد ہی رمضان کا نہایت ہی مبارک مہینہ ہے، جس کے لیے شعبان میں
تیاری کرنے کا بہترین موقع میسر آجاتا ہے اور رمضان میں خوب سے خوب تر عبادات ادا
کرنے کی پہلے ہی سے عادت ہوجاتی ہے،گویا کہ یہ مہینہ رمضان کی تمہید ہے۔ مزید یہ
کہ اس ماہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ہوا،
جیسا کہ اُسد الغابہ میں ہے:
’’وتزوَّج صلی اللّٰہ علیہ وسلم حفصۃ بنت عمر بن الخطاب في شعبان سنۃ
ثلاث۔‘‘ (اُسد الغابہ، ذکر زوجاتہ وسراریہ صلی اللہ علیہ وسلم )
ماہِ شوال میں شادی کا حکم
ماہِ شوال حج کے مبارک مہینوں میں سے پہلا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں خود
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوا اور رخصتی
بھی شوال ہی میں ہوئی اور اس سے زیادہ مبارک نکاح اور کس کا ہوگا؟! چنانچہ اسی غلط
نظرئیے کی تردید کرتے ہوئے یہی برکت والی بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی
ارشاد فرمائی ہے، بلکہ اسی بنا پر وہ ماہِ شوال میں نکاح کو پسند فرماتی تھی، جیسا
کہ صحیح مسلم میں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے
نکاح بھی ماہِ شوال ہی میں ہوا تھا۔ (دیکھیے: الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد
البر: وأم سلمۃ بنت أبی أمیۃ بن المغیرۃ المخزومیۃ واسمہا ہند تزوجہا سنۃ أربع
فی شوال) ۔۔۔۔ جبکہ اسد الغابہ کے مطابق ان کا نکاح ماہِ شعبان میں ہوا۔
ماہِ ذو القعدہ میں نکاح کرنے کا حکم
ماہِ ذوالقعدہ حج کے مبارک مہینوں میں سے دوسرا مہینہ ہے، یہ بھی اس ماہ کی فضیلت کے لیے کافی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً تین عمرے اس ماہ میں ادا فرمائے، ظاہر ہے کہ یہ اس ماہ کے لیے کتنا بڑا شرف ہے۔
(اسلامی شادی از
حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ)
ساتھ میں یہ بھی یاد رہے کہ بعض اہلِ علم کے مطابق ماہِ ذو القعدہ میں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا۔
احکامِ نکاح:
اعلم أن أصول فن تدبير المنازل مسلمة عند طوائف العرب والعجم لهم اختلاف في أشباحها وصورها۔
نکاح کے لغوی واصطلاحی معنی
نکاح کے فوائد
نکاح کے كاركکان
نکاح کے شرائط
(۲) ایجاب وقبول میں مطابقت ہونا مثلاً لڑکی یا اس کا ولی وغیرہ دس ہزار روپیے مہرپر نکاح کا ایجاب کرے اور مرد یااس کا وکیل وغیرہ پانچ ہزار پرنکاح قبول کرے تونکاح منعقد نہیں ہوگا۔
(۳) ایجاب وقبول کرنے والے ایک دوسرے کی بات (ایجاب وقبول) کوسنیں۔
(۴) طرفین مجلس میں موجود ہوں اور بولنے پرقادر ہوں توایجاب وقبول کوزبان سے ادا کرے (فون وغیرہ کے ذریعہ نکاح کی بہترین صورت یہ ہے کہ جونکاح کرنا چاہے وہ کسی کووکیل بنادے اور وکیل مجلس عقد میں ایجاب کرے اور دوسرا فریق اس کوقبول کرے) اسی طرح خط کے ذریعہ کسی نے نکاح کا ایجاب کیا توخط ملنے پر صرف قبول ہے کہنا کافی نہ ہوگا بلکہ وہ ایجاب بھی گواہوں کے سامنے پڑھ کرسنایا جائے اس کے بعد قبول کیا جائے اور لڑکی اگرباکرہ ہوتو اس کی خاموشی اور مسکراہٹ یارونا رضامندی سمجھی جائیگی اگر ثیبہ (عقدوالی) ہے توزبان سے رضامندی کا اظہار کرنا ہوگا اور سنت یہ ہے کہ ولی نکاح سے پہلے ہی لڑکی سے اجازت لے لے۔
(۵) مجلس عقد میں ایجاب وقبول کے وقت دوگواہوں کا ہونا اور وہ گواہان عاقل، بالغ اور آزاد ہو، ایجاب وقبول کوسنیں اور سمجھیں، دونوں مرد ہوں توبہتر ہے، ایک مرد دوعورتیں بھی کافی ہونگی ۔حوالہ
نکاح كا حكم
(۱)باکره ہو، (۲)دیندارہو، (۳)حسب (فضل وکمال،عزت ووقار) اور نسب (خاندان)، (۴)حسن وجمال، (۵)نیک مزاجی،خوش خلقی میں لڑکے سے زیادہ ہو، (۶) مال و دولت ،زور وقوت،قد وقامت اور عمر میں لڑکے سے کم ہو ورنہ صحیح طور پر اطاعت نہ کریگی۔
جن لوگو ں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کا بیان
حرمت کی صورتیں
پہلی صورت حرمت ابدیہ (ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے)۔
دوسری صورت؛حرمت وقتیہ (یعنی کسی وقتی اور عارضی سبب کی وجہ سے نکاح حرام ہو جب وہ سبب دور ہوجائے تو پھر ان کا ا ٓپس میں نکاح صحیح ہوجائے گا)،مثلاً ایک بہن کی موجودگی میں دوسری بہن سے نکاح کرنا،اسی طرح پھوپی کی موجودگی میں اس کی بھتیجی سے نکاح کرنا اور خالہ کی موجودگی میں اس کی بھانجی سے نکاح کرنا۔
پہلی صورت یعنی حرمت ابدیہ کی تین قسمیں ہیں:
(۱)نسب و قرابت کی وجہ سے حرمت، (۲)سسرالی رشتہ کی وجہ سےحرمت، (۳)رضاعت کی وجہ سےحرمت۔
نسب و قرابت کی وجہ سے حرمت
سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرمت
رضاعت یعنی دودھ پلانے کی وجہ سے حرمت
ولی كا بیان
ولی کی تعریف اور اس کی صورتیں
(۱) ولایت اجبار۔ اس صورت میں ولی کا حکم ماننا ضروری ہوتا ہے اگر اس کا حکم نہ مانا جائے تب بھی وہ حکم جاری ہوجائے گا
(۲) ولایت ندب۔ اس صورت میں ولی کا حکم ماننا ضروری نہیں ہوتا، مان لے تو بہتر ہے، اوراگر اس کا حکم نہ مانا جائے تو وہ ختم ہوجائے گا۔حوالہ
لڑکے اور لڑکی کا ولی سب سے پہلے اس کا باپ ہے اگر باپ نہ ہو تو دادا اگر دادانہ ہو تو پرداد ا اگر کوئی نہ ہو تو پھر اس کا حقیقی بھائی اگر حقیقی نہ ہو تو سوتیلا علاتی بھائی (باپ شریک بھائی) اگر یہ نہ ہو تو بھتیجا پھر بھتیجے کا لڑکا ولی ہوگا اگر یہ سب بالغ عاقل نہ ہوں تو پھر حقیقی چچا وہ نہ ہو تو سوتیلا چچا اگر یہ نہ ہو تو پھر حقیقی چچا کا لڑکا پھر سوتیلے چچا کا لڑکا، پھر اگر باپ دادا کا حقیقی یا سوتیلا چچا ہے تو وہ ولی ہوگا، اگر یہ نہ ہوں تو ان کے لڑکے یعنی باپ کے چچا زاد بھائی ولی ہونگے اگر مذکورہ بالا لوگوں میں سے کوئی نہ ہو تو پھر ماں ولی ہوگی، ماں نہ ہو تو پھر نانی، پھر دادی، پھر نانا، پھر حقیقی بہن پھر سوتیلی بہن (باپ شریک بہن) پھر ماں شریک بھائی بہن (جن کی ماں ایک، باپ الگ الگ ہوں)، پھر پھوپھی، پھر ماموں، پھر خالہ وغیرہ پھر پھوپھی زاد بھائی، ماموں زاد بھائی، پھر خالہ زاد بھائی وغیرہ۔ حوالہ
نکاح کے سلسلہ میں وکیل اورفضولی کا بیان
وکالت
وکیل کی تعریف
وکالت کے ارکان
وکیل بننے کے شرائط:
فضولی
كُلُّ عَقْدٍ صَدَرَ مِنْ الْفُضُولِيِّ وَلَهُ قَابِلٌ يُقْبَلُ سَوَاءٌ كَانَ ذَلِكَ الْقَابِلُ فُضُولِيًّا آخَرَ أَوْ وَكِيلًا أَوْ أَصِيلًا انْعَقَدَ مَوْقُوفًا هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ وَشَطْرُ الْعَقْدِ يَتَوَقَّفُ عَلَى الْقَبُولِ فِي الْمَجْلِسِ وَلَا يَتَوَقَّفُ عَلَى مَا وَرَاءَ الْمَجْلِسِ ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ۔(البحر الرائق الْبَابُ السَّادِسُ فِي الْوَكَالَةِ بِالنِّكَاحِ وَغَيْرِهَا:۱۱۸/۷)
کفائت (برابری) کا بیان
کفائت کسے کہتے ہیں
کفائت (برابری) کن چیزوں میں دیکھی جائے
(۱)اسلام، (۲)خاندان، (۳)پیشہ، (۴)حریت، (آزاد ہونا، غلام نہ ہونا)، (۵)مال، (۶)دیانت و تقوی۔
(۱)اسلام: میں برابری کا مطلب یہ ہے کہ اس کے باپ دادا بھی کم از کم مسلمان ہوں۔حوالہ
کفو (برابری) میں اعتبار کس کا ہوگا
مہر کا بیان
مہر کی حقیقت
مہر کی قسمیں اور ان کی تعریفات
مہر کے احکام
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا تُنْكَحُ النِّسَاءُ إِلا مِنَ الأَكْفَاءِ ، وَلا يُزَوِّجُهُنَّ إِلا الأَوْلِيَاءُ ، وَلا مَهْرَ دُونَ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ " .[مسند أبي يعلى الموصلي » تَابِعْ : مُسْنَدُ جَابِرٍ ... رقم الحديث: 2064]
متعہ کا مقصد
متعہ کی مقدار
نفقہ وسکنی کابیان
نفقہ کی تعریف
بیویوں کے درمیان مساوات کا بیان
جن امور میں برابری قائم کرناضروری ہے
نکاح کے آداب
(١) اچھی نیت (یعنی آنکھوں اور شرمگاہ کی حفاظت اور صالح اولاد کی غرض) سے نکاح کرنا۔
القرآن:
ان عورتوں کو چھوڑ کر تمام عورتوں کے بارے میں یہ حلال کردیا گیا ہے کہ تم اپنا مال (بطور مہر) خرچ کر کے انہیں (اپنے نکاح میں لانا) چاہو، بشرطیکہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کا رشتہ قائم کر کے عفت حاصل کرو، صرف شہوت نکالنا مقصود نہ ہو۔
[سورہ النساء:٢٤]
(٢) شادی کرنے میں جلدی کرنا۔
(٣) نان و نفقہ وغیرہ کی استطاعت ہو تب ہی نکاح کرنا۔
(٤) عورت کا اپنے ولی کے ذریعے پیغام بھجوانا۔
(٥)دوسرے کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام نہ بھیجنا۔
(٦)عورت کا اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرنا۔
(٧)شادی سے پہلے مخطوبہ صبح کو ایک نظر نظر دیکھ لینا۔
(٨) شادی سے پہلے عورت کی رائے معلوم کرلینا۔
(٩) مرد عورت کا دل ایک دوسرے کی طرف راغب ہو (اور کوئی مانع نہ ہو) تو ان کا آپس میں نکاح کروا دینا۔
(١٠) دیندار اور اچھی اخلاق والی شریک حیات کو پسند کرنا کفو (یعنی نسب، دین، مال، آزادی اور پیشے میں برابری) کا خیال رکھنا۔
(١١) زیادہ بچے جننے والی عورت کو تلاش کرنا۔
(١٣) ثیبہ(بیوہ)سے نکاح میں کوئی مصلحت نہ ہو تو باکرہ(کنواری) سے نکاح کرنا۔
(١٤) استطاعت سے زیادہ مہر متعین نہ کرنا۔
(١٥) شادی کے لئے کسی دن کو منحوس نہ سمجھنا۔
(١٦) علی الاعلان نکاح کرنا۔
(١٧) مسجد میں نکاح کرنا۔
(١٨) دلہا اور دلہن کو یہ دعا دینا:
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شادی کرنے پر جب کسی کو مبارک باد دیتے تو فرماتے:
بَارَكَ اللَّهُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ
”اللہ تجھے برکت عطا کرے، اور تجھ پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں کو خیر پر جمع کرے“۔
[جامع الترمذي:1091، سنن أبي داود:2130، سنن ابن ماجه:1905]
(١٩) چھوہارے تقسیم کرنا۔
(٢٠) (بغیر کسی رواجی پابندی اور شرما شرمی کے) دولہا دلہن کو ہدیہ(تحفہ) دینا۔
(٢١) سادگی سے نکاح کرنا، فضول خرچی اور زیادہ تکلفات نہ کرنا۔
(٢٢) رسومات سے بالکلیہ احتراز کرنا۔
(٢٣) شادی کے بعد جب پہلی مرتبہ تنہائی ہو تو بیوی کے پیشانی کے بال پکڑ کر یہ دعا پڑھنا:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی جب کسی عورت سے نکاح کرے یا کوئی خادم خریدے تو یہ دعا پڑھے:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَمِنْ شَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ»
”اے اللہ! میں تجھ سے اس کی بھلائی اور اس کی جبلت اور اس کی طبیعت کا خواستگار ہوں، جو خیر و بھلائی تو نے ودیعت کی ہے، اس کے شر اور اس کی جبلت اور طبیعت میں تیری طرف سے ودیعت شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور جب کوئی اونٹ خریدے تو اس کے کوہان کی چوٹی پکڑ کر یہی دعا پڑھے“۔
ابوداؤد کہتے ہیں: عبداللہ سعید نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ ”پھر اس کی پیشانی پکڑے اور عورت یا خادم میں برکت کی دعا کرے“۔
[سنن أبي داود:2160، سنن ابن ماجه:1918]
(٢٤) ولیمہ کرنا۔
well Researched
ReplyDelete