Friday 28 October 2022

فضائل اور تفاسیر آیة الکرسی

1-جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آية الكرسي پڑهے گا، وه جنت میں داخل هوگا۔

امام نسائیؒ(م303ھ) نے یہ حدیث  حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے  نقل  فرمائی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«مَنْ قَرَأَ آيَةَ ‌الْكُرْسِيِّ ‌فِي ‌دُبُرِ ‌كُلِّ ‌صَلَاةٍ ‌مَكْتُوبَةٍ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ دُخُولِ الْجَنَّةِ إِلَّا أَنْ يَمُوتَ»۔

ترجمہ:

جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھا کرے تو اس کو جنت میں داخل ہونے کے لیے بجز موت کے کوئی مانع(رکاوٹ) نہیں ہے۔

(یعنی موت کے بعد فورا وہ جنت کے آثار اور راحت و آرام کا مشاہدہ کرنے لگے گا)

[عمل اليوم والليلة للنسائي:100، السنن الكبرى - النسائي:9848، عمل اليوم والليلة لابن السني:124، فضائل القرآن للمستغفري:748، المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي - مخطوط:18، الخامس عشر من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي:18]

[تفسير الثعلبي:2/ 229، تفسير الزمخشري:1/ 302، تفسير الرازي:7/ 5, تفسير البيضاوي:1/ 154، تفسير النسفي:1/ 210، تفسير ابن كثير - ت السلامة:1/ 667، تفسير النيسابوري:2/ 12، تفسير الثعالبي:1/ 502]





Tuesday 25 October 2022

عذر و معذرت کا بیان


  • عذر، حیلہ، بہانہ، معافی، درگزر
مَعْذَرَت عربی لفظ ہے، اس کے معنیٰ ہیں: ”الزام سے بری ہونا، عذر قبول کرنا، اعتذار کے معنیٰ ہیں: ”عذر بیان کرنا، پس معذرت و اعتذار کے مرادی معنیٰ ہیں: ”اپنی کسی غلطی یا کوتاہی کا عذر یا جواز (Justification) پیش کرنا، اسی کو ”عذر تراشنا یا بہانے بازی کہتے ہیں۔قرآنِ کریم منافقین کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: ”اور ان میں سے بعض نے اللہ تعالی سے عہد کیا: اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں (مال) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور ہم ضرور نِکوکاروں میں سے ہو جائیں گے، پھر جب انہیں اللہ نے اپنے فضل سے مال عطا فرمایا تو انہوں نے بخل کیا اور اپنے عہد سے پھر گئے اور وہ روگردانی کرنے والے تھے۔
[سورۃ التوبہ: 75 تا 76]
منافقین ہر حال میں مومنوں پر طعن کرتے تھے، اللہ تعالی نے فرمایا: ”یہ (منافق) اللہ کی راہ میں صدقات دینے والے مومنوں کو طعنہ دیتے ہیں اوران پر بھی جو (صدقہ دینے کے لیے) اپنی مزدوری کے سوا کچھ نہیں پاتے، تو یہ منافق ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ انہیں ان کے مذاق اڑانے کی سزا دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
[سورۃ التوبہ: 79]
یعنی جو صحابہ کرام اللہ کی راہ میں وافر مال دیتے، ان پر ریاکاری کا طعن کرتے اور جو صحابہ کرام نادار ہونے کے سبب اپنی روز کی مزدوری میں سے کچھ حصہ دیتے، تو ان پر طعن کرتے کہ ایک دو کلو کھجوروں سے کیا حاصل ہو جائے گا، الغرض مخلص مومنین کی کوئی بھی خصلت انہیں پسند نہ تھی اور ان پر طعن کرنا ان کا شعار تھا۔
جو مخلص اہلِ ایمان جہاد میں نہ جانے کے لیے معقول اور مقبول عذر رکھتے تھے، ان کی بابت اللہ تعالی نے فرمایا: ” کمزوروں، بیماروں اور ان پر جو خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، (جہاد میں شریک نہ ہونے پر) کوئی حرج نہیں ہے،جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اخلاص سے عمل کریں اور نِکوکاروں پر بھی کوئی ملامت نہیں ہے اور اللہ نہایت بخشنے والا، بہت مہربان ہے اور ان پر بھی کوئی الزام نہیں ہے،جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ ان کے لیے سواری کا بندوبست کر دیں، تو آپ فرماتے ہیں: ”میرے پاس تمہاری سواری کا کوئی بندوبست نہیں ہے، تو وہ اس حال میں لوٹتے ہیں کہ غم کے مارے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں کہ وہ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، البتہ وہ لوگ قابلِ ملامت ہیں جو مالدار ہوتے ہوئے آپ سے (ترکِ جہاد کی) رخصت طلب کرتے ہیں، وہ اس بات پر راضی ہیں کہ وہ پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ (گھروں میں) رہیں اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، پس وہ کچھ نہیں جانتے۔
[سورۃ التوبہ: 91 تا 93]۔
غزوہ تبوک کو ”جیش العسر بھی کہا جاتا ہے، یعنی ایسا لشکر جو نہایت عسرت اور تنگی کے زمانے میں ترتیب دیا گیا، اس کا پس منظر یہ ہے: ”یہ خبر آئی کہ قیصر نے مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے ایک بہت بڑا لشکر ترتیب دیا ہے، تو رسول اللہۖ نے صحابہ کرام کو جہاد کی ترغیب دی اور مدینہ منورہ میں رہ کر دفاع کرنے کے بجائے آگے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا، اللہ تعالی کے فضل وکرم سے یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی اور دشمن کو مقابلے میں آنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔
آج کل معذرت بھی مشروط ہوتی ہے، یعنی کہنے والا کہتا ہے: ”اگر میری بات سے کسی کی یا فلاں شخص کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں، اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی بات کی صحت پر اصرارکر رہا ہے اوراس کے کلام سے جو معنی ہر سننے اور پڑھنے والے کو واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے، اسے ان کے فہم کا قصور قرار دیتا ہے، لہذا یہ معذرت کسی بھی صورت میں معافی نہیں ہے۔ معافی اسے کہتے ہیں: ”جب انسان اپنی غلطی کا اعتراف کرے، اس پر نادم ہو اور غیر مشروط طور پر اس کی معافی مانگے۔ غزوہ تبوک سے سوائے تین افراد کے اسی کے لگ بھگ افراد کسی عذرِ معقول و مقبول کے بغیر جان بوجھ کرجہاد سے پیچھے رہ گئے تھے، یہ لوگ منافق تھے، جب مسلمان سرخرو ہو کر واپس آئے تو قرآن نے ان کی بابت رسول اللہۖ کو پیشگی بتا دیا: ”(مسلمانو!) جب تم ان (منافقین) کی طرف لوٹ کر جائو گے تو وہ تمہارے سامنے بہانے بنائیں گے، آپ کہہ دیجیے: تم بہانے نہ بنائو، ہم ہرگز تمہاری بات کا یقین نہیں کریں گے، اللہ نے ہمیں تمہارے حالات پر مطلع کر دیا ہے اور اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے طرزِ عمل کو دیکھیں گے، پھر تم اس ذات کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو ہر غیب اور ہر ظاہر کا جاننے والا ہے اور تمہیں ان کاموں کی خبر دے گا جو تم کرتے تھے۔
[سورۃ التوبہ: 94]
البتہ غیر مشروط طور پر اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جو معذرت کی جائے یا معافی مانگی جائے، وہ قابلِ تحسین ہے اور ایسے شخص کی معذرت قبول کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔
احادیث مبارکہ میں ہے:
”حضرت جودان بیان کرتے ہیں: رسول اللہۖ نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے سامنے (اپنی کسی غلطی پر) معافی مانگی اور اس نے یہ معافی قبول نہ کی تو اس پر ایسا ہی گناہ ہو گا جیسے ٹیکس کی وصولی میں خیانت یا زیادتی کرنے والے پر ہوتا ہے۔
[سنن ابن ماجه: 3718]
(2) ”ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں: نبی کریمۖ نے فرمایا: ”تم پاک دامنی اختیار کرتاکہ تمہاری عورتیں بھی پاک دامن ہوں، تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو تاکہ تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ نیک برتاؤ کرے اور جو (اپنی کسی غلطی پر) اپنے مسلمان بھائی سے معافی مانگے اور وہ اس کی معافی کو قبول نہ کرے تو وہ میرے حوضِ(کوثر) پر نہیں آئے گا۔
[المعجم الاوسط: 6295]
(3) ”حضرت انس بیان کرتے ہیں: رسول اللہۖ نے فرمایا: جس نے اپنی زبان کو (لوگوں کی پردہ دری سے) روکے رکھا، اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جس نے اپنے غصے پر قابو پایا، اللہ تعالی اپنے عذاب کو اس سے روک دے گا اور جواللہ تعالی کے حضور (اپنی خطاؤں پر) معافی کا طلبگار ہوا، اللہ اس کی معافی کو قبول فرمائے گا۔
[شعب الاِیمان: 7958]
(4) وکیع بن الجراح کہتے ہیں: سفیان ثوری بیمار ہو گئے، میں نے ان کی عیادت میں تاخیر کر دی، پھر میں ان کی عیادت کو آیا اور تاخیر پر معذرت کی تو انہوں نے کہا: بھائی! معذرت نہ کرو، بہت سے معذرت کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں، جان لو! دوست سے کوئی حساب طلبی نہیں ہوتی اور دشمن سے خیر کی توقع نہیں ہوتی۔
[شعب الاِیمان: 7995]۔
ابتدائے آفرینش میں ہمارے سامنے دو مثالیں ہیں: آدم و حوا علیہما السلام کو اللہ تعالی نے جنت میں داخل کیا تو اس کی بابت قرآن کریم بیان فرماتا ہے: ”اور ہم نے فرمایا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں جہاں سے چاہو، کسی روک ٹوک کے بغیر کھاؤ، ہاں! اس (خاص) درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں سے ہو جاؤ گے، پھر شیطان نے انہیں اس درخت کے ذریعے پھسلایا اور ان نعمتوں سے باہر نکال دیا جن میں وہ رہتے تھے، پھر آدم و حوا جنت سے نکالے گئے، وہ اپنے کیے پر نادم ہوئے تو اللہ تعالی فرماتا ہے: پھر آدم نے اپنے رب سے (توبہ کے) کلمات سیکھ لیے اور توبہ کی، بے شک وہ بہت توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان ہے۔
[سورۃ البقرہ: 36 تا 37]۔
ان کلماتِ توبہ کی بابت اللہ تعالی نے فرمایا: ”ان دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
[سورۃ الاعراف: 23]۔
الغرض حضرت آدم و حوا علیہما السلام نے اپنی خطائے اجتہادی کو تسلیم کیا اور اس پر اللہ تعالی سے غیر مشروط معافی مانگی تو اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی، اس کے برعکس شیطان نے بھی آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کر کے از راہِ تکبر و استکبار اللہ تعالی کی حکم عدولی کی، تو اللہ تعالی نے اس سے بھی جواب طلبی فرمائی: ”جب میں نے تجھے (آدم کو سجدہ کرنے کا) حکم دیا تھا تو تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا، ابلیس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔
[سورۃ الاعراف: 12]
الغرض ابلیس نے اپنے جوہرِ تخلیق کو افضل قرار دیتے ہوئے آدم علیہ السلام پر اپنی برتری ثابت کی، منطق اور دلیل کا سہارا لیا، اللہ تعالی کے حکم کو بلا چون و چرا تسلیم نہ کیا اور قیامت تک کے لیے راندہ درگاہ اور ملعون قرار پایا۔ پس اپنی خطائے اجتہادی کو تسلیم کر کے غیر مشروط طور پر معافی مانگنا آدمیت ہے اور آدم علیہ السلام کی سنت ہے اور اللہ تعالی کے فرمان کو قصداً تسلیم نہ کر کے اس کا جواز پیش کرنا اور عقلی دلیل کا سہارا لینا یہ ابلیس کا وتیرہ ہے اور اسی بنا پر ہمیشہ کے لیے وہ راندہ درگاہ ٹھہرا۔
آج کا مسئلہ یہی ہے کہ لوگ اپنی غلطی کو غیر مشروط طور پر تسلیم کر کے معافی مانگنے پر آمادہ نہیں ہوتے، ان کا عجب و استکبار انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا، وہ بودے دلائل کا سہارا لے کر اپنے نفسِ امارہ اور اپنے چاہنے والوں کو تسکین پہنچاتے ہیں اور وہ بھی ان کی پیروی میں اسی روش کو آگے بڑھاتے ہیں، یہی شعار تمام خرابیوں کی جڑ ہے، جبکہ آدمیت عجز و انکسار کا نام ہے۔ غلطی کو تسلیم کر کے اس کا ازالہ کرنا شِعار آدمیت ہے، افتخارِ آدمیت ہے، وسیلہ نجات ہے اور اسی سے بغض و عداوت اور نفرتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالی کے اسمائے صفات میں ”العفو ہے، یہ ”عفو سے فعول کا وزن ہے جو مبالغہ کے معنی میں آتا ہے، اس کے معنی ہیں: ”گناہ سے درگزر کرنا اور اس پر سزا نہ دینا، اس کے لغوی معنی ہیں: ”مٹا دینا۔
[لسان العرب، ج: 15، ص: 72]
اس کے برعکس صفح کے معنی ہیں: ”کسی کی خطا سے منہ موڑ لینا، یعنی اسے بھلادینا کہ نہ اس کا ذکر کرے، نہ اسے یاد دلائے، نہ اس گناہ پر اسے عار دلائے اور نہ سختی سے پیش آئے۔ اللہ تعالی نے اپنے حبیبِ مکرمۖ سے فرمایا: ”آپ ان کو معاف کیجیے اور درگزر کیجیے، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
[سورۃ المائدہ: 13]
یہ بھی ذہن میں رہے کہ شیطان ہمیشہ خیرخواہ کے روپ میں حملہ آورہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ”اور شیطان نے کہا: تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے بن جاؤ یا دائمی زندگی پا لو اور ان دونوں کو قسم کھاکر کہا: میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔
[سورۃ الاعراف:20 تا 21]


دنیا میں ہی مظلوم سے معذرت کرنا:
میدان حشر میں حقوق العباد میں کی گئی کم و کاست کا تصفیہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رحِمَ اللهُ عبداً كانت لأخيهِ عندَه مظلمَةٌ في عِرضٍ أو مالٍ، فجاءه فاستحلَّه قبل أن يُؤخذَ، وليس ثمَّ دينارٌ ولا درهمٌ، فإن كانت له حسناتٌ؛ أُخذ من حسناتهِ، وإن لم يكن له حسناتٌ؛ حمَلُوا عليه من سيئاتهم
ترجمہ:
”اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم کرے کہ جس نے اپنے بھائی کی عزت یا مال (‏‏‏‏کے معاملے میں) ناانصافی کی ہو اور پھر اس کے پاس جا کر معذرت کر لی ہو، قبل اس کے کہ (‏‏‏‏وہ دن آ جائے جس میں) اس کا مؤاخذہ کیا جائے اور جہاں دینار ہو گا نہ درہم۔ (‏‏‏‏وہاں تو معاملہ یوں حل کیا جائے گا کہ) اگر اس (‏‏‏‏ظالم) کے پاس نیکیاں ہوئیں تو ا‏‏‏‏س سے نیکیاں لے لی جائیں گی اور اگر ا‏‏‏‏س کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں، تو (‏‏‏‏مظلوم) لوگ اپنی برائیاں ا‏‏‏‏س پر ڈال دیں گے۔“ ‏‏‏‏
[سلسله احاديث صحيحه:2514(3265)]



حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إياك وكل ما يعتذر منه
ترجمہ:
”ایسی بات پر اجتناب کر، جس پر معذرت کرنا پڑے۔“
[سلسله احاديث صحيحه:2775(354)]

حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے کوئی بلیغ و مختصر نصیحت کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو نماز ادا کرے تو (‏‏‏‏اپنی زندگی کی) آخری نماز سمجھ کر ادا کر اور ایسا کلام مت کر کہ جس سے تجھے معذرت کرنا پڑے، نیز جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے ناامید (‏‏‏‏اور غنی) ہو جا۔“
[سلسله احاديث صحيحه:4094(401)]





معذرت اللہ سے زیادہ کسی کو پسند نہیں:
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھوں تو سیدھی تلوار سے اس کی گردن مار دوں پھر یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے؟ بلاشبہ میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے اور اللہ نے غیرت ہی کی وجہ سے فواحش کو حرام کیا ہے۔ چاہے وہ ظاہر میں ہوں یا چھپ کر اور معذرت اللہ سے زیادہ کسی کو پسند نہیں، اسی لیے اس نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے اور تعریف اللہ سے زیادہ کسی کو پسند نہیں، اسی وجہ سے اس نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔
[صحيح البخاري:7416، صحیح مسلم:3764]



جھوٹے/بناوٹی عذر کو بہانہ کہتے ہیں:
حضرت ابوالبختری کہتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے، اور سلیمان کی روایت میں ہے کہ مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ اس وقت تک ہلاک نہیں ہوں گے جب تک ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے یا وہ خود اپنا عذر زائل نہ کر لیں“۔
[سنن ابي داود:4347]





پیغمبر محمد ﷺ کی معذرت:
پیشاب کرتے وقت آدمی سلام کا جواب دینے کے بجائے معذرت کرلے۔
مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے تو انہوں نے آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب نہیں دیا۔
[صحيح مسلم:370] 
یہاں تک کہ وضو کیا پھر (سلام کا جواب دیا اور) مجھ سے معذرت کی اور فرمایا ”مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ میں اللہ کا ذکر بغیر پاکی کے کروں“۔
[سنن ابي داود:17، سنن النسائى:38، سنن ابن ماجه:350]



حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں حاضر نہ ہو سکے ‘ اس لیے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں پہلی لڑائی ہی سے غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی لیکن اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ پھر جب احد کی لڑائی کا موقع آیا اور مسلمان بھاگ نکلے تو انس بن نضر نے کہا کہ اے اللہ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ ان مشرکین نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں۔ پھر وہ آگے بڑھے (مشرکین کی طرف) تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے سامنا ہوا۔ ان سے انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا اے سعد بن معاذ! میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور نضر (ان کے باپ) کے رب کی قسم میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جو انہوں نے کر دکھایا اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد جب انس بن نضر رضی اللہ عنہ کو ہم نے پایا تو تلوار نیزے اور تیر کے تقریباً اسی زخم ان کے جسم پر تھے وہ شہید ہو چکے تھے مشرکوں نے ان کے اعضاء کاٹ دئیے تھے اور کوئی شخص انہیں پہچان نہ سکا تھا ‘ صرف ان کی بہن انگلیوں سے انہیں پہچان سکی تھیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہم سمجھتے ہیں (یا آپ نے بجائے «نرى» کے «نظن» کہا) مطلب ایک ہی ہے کہ یہ آیت ان کے اور ان جیسے مومنین کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ ”مومنوں میں کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا۔“ آخر آیت تک۔
[صحيح البخاري:2805+4048]
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے چچا (انس بن نضر) بدر کی لڑائی میں غیر حاضر تھے، انہوں نے (افسوس کرتے ہوئے) کہا: اس پہلی لڑائی میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے لڑائی میں غیر موجود رہا، اب اگر اللہ نے مشرکین سے مجھے کسی جنگ میں لڑنے کا موقع دیا تو اللہ ضرور دیکھے گا کہ میں (بے جگری و بہادری سے کس طرح لڑتا اور) کیا کرتا ہوں۔ پھر جب جنگ احد کی لڑائی کا موقع آیا، اور مسلمان (میدان سے) چھٹ گئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس شر سے جسے یہ لوگ یعنی مشرکین لے کر آئے ہیں اور ان سے یعنی آپ کے صحابہ سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے، اس کے لیے تجھ سے معذرت خواہ ہوں، پھر وہ آگے بڑھے، ان سے سعد بن معاذ رضی الله عنہ کی ملاقات ہوئی، سعد نے ان سے کہا: میرے بھائی! آپ جو بھی کریں میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں، (سعد کہتے ہیں) لیکن انہوں نے جو کچھ کیا وہ میں نہ کر سکا، ان کی لاش پر تلوار کی مار کے، نیزے گھوپنے کے اور تیر لگنے کے اسّی (۸۰) سے کچھ زیادہ ہی زخم تھے، ہم کہتے تھے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں آیت اتری ہے:
انہی ایمان والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہوں نے (جہاد میں جامِ شہادت نوش کرنے کا) اپنا نذرانہ پورا کردیا، اور کچھ وہ ہیں جو ابھی انتظار میں ہیں۔ اور انہوں نے (اپنے ارادوں میں) ذرا سی بھی تبدیلی نہیں کی۔
(سورۃ الاحزاب:٢٣)
[جامع الترمذي:3200+3201]





حضرت عبداللہ (بن کعب) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ ان تین صحابہ میں سے تھے جن کی توبہ قبول کی گئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ دو غزووں، غزوہ عسرت (یعنی غزوہ تبوک) اور غزوہ بدر کے سوا اور کسی غزوے میں کبھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے سے نہیں رکا تھا۔ انہوں نے بیان کیا چاشت کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (غزوہ سے واپس تشریف لائے) تو میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور آپ کا سفر سے واپس آنے میں معمول یہ تھا کہ چاشت کے وقت ہی آپ (مدینہ) پہنچتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے (بہرحال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اور میری طرح عذر بیان کرنے والے دو اور صحابہ سے دوسرے صحابہ کو بات چیت کرنے سے منع کر دیا۔ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ (جو ظاہر میں مسلمان تھے) اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے لیکن آپ نے ان میں سے کسی سے بھی بات چیت کی ممانعت نہیں کی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔ میں اسی حالت میں ٹھہرا رہا۔ معاملہ بہت طول پکڑتا جا رہا تھا۔ ادھر میری نظر میں سب سے اہم معاملہ یہ تھا کہ اگر کہیں (اس عرصہ میں) میں مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو جائے تو افسوس لوگوں کا یہی طرز عمل میرے ساتھ پھر ہمیشہ کے لیے باقی رہ جائے گا، نہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے گا اور نہ مجھ پر نماز جنازہ پڑھے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ کی بشارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل کی جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مجھ پر بڑا احسان و کرم تھا اور وہ میری مدد کیا کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام سلمہ! کعب کی توبہ قبول ہو گئی۔ انہوں نے عرض کیا۔ پھر میں ان کے یہاں کسی کو بھیج کر یہ خوشخبری نہ پہنچوا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خبر سنتے ہی لوگ جمع ہو جائیں گے اور ساری رات تمہیں سونے نہیں دیں گے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بتایا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خوشخبری سنائی تو آپ کا چہرہ مبارک منور ہو گیا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور (غزوہ میں نہ شریک ہونے والے دوسرے لوگوں سے) جنہوں نے معذرت کی تھی اور ان کی معذرت قبول بھی ہو گئی تھی۔ ہم تین صحابہ کا معاملہ بالکل مختلف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول ہونے کے متعلق وحی نازل کی، لیکن جب ان دوسرے غزوہ میں شریک نہ ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا تھا اور جھوٹی معذرت کی تھی تو اس درجہ برائی کے ساتھ کیا کہ کسی کا بھی اتنی برائی کے ساتھ ذکر نہ کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یہ لوگ تمہارے سب کے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو آپ کہہ دیں کہ بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات نہ مانیں گے! بیشک ہم کو اللہ تمہاری خبر دے چکا ہے اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارا عمل دیکھ لیں گے۔“[سورۃ التوبہ:95]
آخر آیت تک۔
[صحیح البخاری:4677]



حکومت و اقتدار کو طلب کرنا درست نہیں۔
قاضی بنائے جانے کے خواہشمند کو قاضی نہ بنایا جائے۔
امارت کی درخواست اور حرص کرنا منع ہے۔
کسی نیک مرد کو مزدوری پر لگانا۔
عہدہ قضاء کو طلب کرنا اور فیصلہ میں جلدی کرنا صحیح نہیں ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس قبیلہ اشعر کے کچھ لوگوں نے آ کر کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلئے، ہمیں کچھ کام ہے، چنانچہ میں انہیں لے کر گیا، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم سے اپنا کوئی کام لیجئیے(یعنی ہمیں کوئی عہدہ دیجئیے۔) میں نے آپ سے ان کی اس بات کی معذرت چاہی اور بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی غرض کیا تھی، چنانچہ آپ نے میری بات کا یقین کیا اور معذرت قبول فرما لی اور فرمایا: ہم اپنے کام (عہدے) میں ایسے لوگوں کو نہیں لگاتے جو ہم سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔
[سنن نسائي:5384]
یعنی جو شخص منصب و عہدے کا طالب ہو ہم اسے یہ چیز نہیں دیتے کیونکہ اگر اسے صحیح طور پر انجام نہ دے سکا تو ایسے شخص کی صرف دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت کی تباہی و بربادی کا بھی ڈر ہے، اور عہدہ و منصب کا طالب تو وہی ہو گا جو حصول دنیا کا خواہاں ہو۔





حضرت ام ہانی بنت ابی طالب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شادی کا پیغام دیا، تو میں نے آپ سے معذرت کر لی
(یہ معذرت اس وجہ سے تھی کہ ان کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور وہ اس بات سے ڈریں کہ ان کے رونے پیٹنے سے کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو۔)
تو آپ ﷺ نے میری معذرت قبول کر لی، پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
”اے نبی ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموؤں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ باایمان عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے“
(سورۃ الاحزاب: ۵۰)
ام ہانی کہتی ہیں کہ اس آیت کی رو سے میں آپ کے لیے حلال نہیں ہوئی کیونکہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی میں (فتح مکہ کے موقع پر) «الطلقاء» آزاد کردہ لوگوں میں سے تھی، (اور اسی موقع پر ایمان لائی تھی)۔
[سنن ترمذي:3214 ضعیف]



عذر سے متعلق قرآنی آیات
(۱) وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَھُمْ۔
اور آئیں کچھ عذر کرنے والے دیہاتیوں میں سے تاکہ اُن کو اجازت مل جاوے۔
[سورۃ التوبہ:90]

علامہ الآلوسی، شہاب الدین ابو الفضل،(م۔1270ھ) رحمہ اللہ اس آیت کے ضمن میں تحریرفرماتے ہیں:
‌الْمُعَذِّرُونَ ‌من ‌عذر في الأمر، إذا قصر فيه۔
معذرون معذور کی جمع ہے اور معذور کسی کام میں عذر سے مشتق ہے جب اس کام کی بجا آوری سے قاصر ہو۔
[تفسير الألوسي = روح المعاني: جلد 5/ صفحہ 344، سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 90]
[تفسير أبي السعود (م982ھ) : جلد 4 / صفحہ 91]
[تفسير الزمخشري (م538ھ) : جلد 2 / صفحہ 300]

امام قر طبیؒ(م۔671ھ) اور امام بغویؒ(م۔516ھ) عذر کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
عُذِرَ ‌فُلَانٌ ‌فِي ‌أَمْرِ ‌كَذَا تَعْذِيرًا، أَيْ قَصَّرَ وَلَمْ يُبَالِغْ فِيهِ۔
ترجمہ:
فلاں شخص نے فلاں امر کے کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ یعنی اس میں کمی کی۔ اور اس کو تکمیل تک نہیں پہنچایا۔
[تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن: 8 /225 (دار الكتب المصرية - القاهرة) سورۃ التوبۃ آیت نمبر 90]
[معالم التنزیل فی التفسیر والتأویل (دارالفکر،بیروت 1405ء) سورۃ التوبۃ آیت نمبر 90]

امام طبریؒ(م۔310ھ) اس آیت کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں۔
ان المعذر فی کلام العرب انما ھو الذی یعذر فی الا مر فلا یبالغ فیہ ولا یحکم۔
یعنی کلام عرب میں معذور اس شخص کو کہتے ہیں کہ وہ اس کام کے کرنے سے عاجز ہو اور اس کام کا حکم اُسے نہ دیا جا سکتا ہو۔
[امع البیان فی تفسیرالقرآن، دارالمعرفۃ، بیروت 1986ء سورۃ التوبۃ آیت نمبر 90]



(۲)قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے:
وَلاَ یُؤْذَنُ لَہُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ۔
ترجمہ:
اور انہیں اجازت نہ دی جائے گی کہ وہ عذر کریں۔
[سورۃ المرسلات:36]

اس آیت کے ذیل میں امام جلال الدین سیوطیؒ(م۔911ھ)، امام ابن کثیرؒ(م۔774ھ) اور امام قرطبیؒ(م۔671ھ) لکھتے ہیں:
وَلَا يُؤْذَنُ ‌لَهُمْ ‌فِيهِ ‌لِيَعْتَذِرُوا، بَلْ قَدْ قَامَتْ عَلَيْهِمُ الْحُجَّةُ۔
ترجمہ:
انہیں عذر پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی کیونکہ ان پر حجت قائم ہو گئی ہے۔
[تفسیر جلالین،( دارالحدیث القاہرہ) ، سورۃ المرسلٰت، آیت نمبر92]
[صفوۃ التفاسیر، (مکتبہ برھان، کراچی1976ء)، سورۃ المرسلٰت آیت نمبر 92]
[الجامع لاحکام القرآن، مذکور، سورۃ المرسلٰت آیت نمبر 92]



(۳)تیسری آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْکُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْھِمْ قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکُمْ۔
ترجمہ:
یہ لوگ تمہارے پاس عذر پیش کریں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے۔ آپ کہہ دیجئے کہ عذر پیش مت کرو ہم کبھی تم کو سچا نہ سمجھیں گے۔
[سورۃ التوبہ:94]

امام رازیؒ(م۔606ھ) اور امام ابو حیان اندلسیؒ(م754ھ) اس کی تفسیر بیان فرماتے ہیں۔
لِأَنَّ ‌غَرَضَ ‌الْمُعْتَذِرِ أَنْ يُصَدَّقَ فِيمَا يَعْتَذِرُ بِهِ، فَإِذَا عَرَفَ أَنَّهُ لَا يُصَدَّقُ تَرَكَ الِاعْتِذَارَ۔
ترجمہ:
معذور کا عذر سے غرض یہ ہوتا ہے کہ وہ جس کام کے کرنے سے معذوری ظاہر کر رہا ہے اس میں اس کے عذر کو سچا مانا جائے۔ پس جب اسے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا تو وہ اعتذار کو ترک کردیتا ہے۔
[فتح القدير للشوكاني:2 /449]
[التفسیر الکبیر،( دارالکتب العلمیہ تہران)، سورۃ التوبۃ آیت نمبر 94]
[البحرالمحیط، دارالفکر، بیروت، 1983ء)، سورۃ التوبۃ آیت نمبر 94]



عذر سے متعلق احادیث مبارکہ
(١)عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ جَمَعَ بَيْنَ ‌الصَّلَاتَيْنِ ‌مِنْ ‌غَيْرِ ‌عُذْرٍ فَقَدْ أَتَى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الكَبَائِرِ»۔
ترجمہ:
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے بلا عذر دو نمازوں کو جمع کیا وہ کبیرہ گناہوں کے ایک دروازے سے داخل ہوا۔
[سنن الترمذي:188، تفسير ابن أبي حاتم:5207، ناسخ الحديث ومنسوخه لابن شاهين:245، المستدرك على الصحيحين للحاكم:1020، السنن الكبرى - البيهقي:5561]

امام ترمذیؒ عذر کی تشریح میں فرماتے ہیں:
العذر قد یکون بالسفر و قد یکون بالمطر و بغیر ذلک۔
ترجمہ:
عذر کبھی سفر سے ہوگا اور کبھی بارش سے اور کبھی ان کے علاوہ سے۔
[سنن الترمذي:188، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:1745]



(٢)عَنْ أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وَسَلَّمَ قَالَ: (أَعْذَرَ اللَّهُ إِلَى امْرِئٍ أخَّر أَجَلَهُ حَتَّى ‌بلَّغه ‌سِتِّينَ ‌سَنَةً)۔
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رکھا جس کو ساٹھ برس تک دنیا میں مہلت دی۔
[صحيح البخاري:6419]

امام ابن حجر العسقلانیؒ،(م-852ھ) فرماتے ہیں:
قوله ‌أعذر ‌الله الإعذار إزالة العذر والمعنى أنه لم يبق له اعتذار كأن يقول لو مد لي في الأجل لفعلت ما أمرت به ۔۔۔۔۔ ونسبة الإعذار إلى الله مجازية والمعنى أن الله لم يترك للعبد سببا في الاعتذار يتمسك به والحاصل أنه لا يعاقب إلا بعد حجة
ترجمہ:
اعذار عذر کے ازالۃ کو کہتے ہیں جس کا معنیٰ ہے کہ اُس کے لیے عذر کا موقع نہ رہاجیسا کہ وہ یہ کہے کہ اگر مجھے مہلت دی گئی موت میں تو میں وہ کام کروں گا جس کا مجھے حکم دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔ اور اعذار کی نسبت اللہ کی طرف کرنا یہ مجازی ہے اور اس کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے لیے کوئی سبب نہیں چھوڑتا کہ جس کو بنیاد بنا کر وہ عذ ر پیش کرے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک سزا نہیں دیتا جب تک حجت قائم نہ ہو۔
[فتح الباری شرح صحیح البخاری: جلد 1 / صفحہ 240، (دارالفکر، بیروت،1428ھ) (کتاب الرقاق،باب من بلغ ستین سنۃ فقد اعذر اللہ الیہ فی العمر)]

عبادات (نماز، روزہ، حج، جہاد وغیرہ) اور دیگر فقہی امور میں عذر کی تاثیر سے متعلق آیات قرآنیہ اور احادیث نبویۃ کا ایک وافر ذخیرہ موجود ہے۔

عذر کے مفہوم کو متعین کرنے کے لیے بلاشبہ قرآنی آیات اور احادیث نبویۃ ایک مستند ذریعہ ہے کہ قرآن کی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق نبی کریم ﷺ معاشرہ اور سماج کی تشکیل فرما رہے تھے۔

جیسا کہ مذکورہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے ثابت ہوا کہ اللہ جل شانہ اور رسول اللہ ﷺ نے اوامر کے بجا لانے اور نواہی سے اجتناب کرنے میں معذور شخص کو ان احکام کے عمومی اطلاق سے مستثنیٰ قرار دیا۔ اسی طرح فقہ اسلامی میں بھی معذور کے عذر کی خوب رعایت رکھی گئی ہے۔



فقہائے کرام ؒ کےنزدیک لفظ عذر کی تعریفات
۱۔العذر Excuse 
العذر: الحجة التي يعتذر بها۔۔۔۔في قول ابن حجر: هو الوصف الطارئ على المكلف المناسب للتسهيل عليه۔
ترجمہ:
یعنی ایسی حجت جو قابل عذر ہو (اور اعذار اس کی جمع ہے)۔ اورابن حجر کے قول کے مطابق عذر وہ وصف ہے جو شخص مکلف پر طاری ہوجاتا ہے اور پھر اس کے حق میں سہولت کا سبب بنتا ہے۔
[القاموس الفقهي:ص 245، (ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ، کراچی، 1397ء)]

۲۔المعذورExcusable
من یدوم العذر معہ وقتاً صلوۃً کاملاً۔ ولا یضر انقطاعہ وقتاً لا یتسع للو ضوء و الصلوۃ ثم لا یخلو بعد ذلک وقت من الا وقات من وجود ھذا العذر۔
ترجمہ:
اور اسی سے معذور نکلا ہے یعنی صاحب عذر عذر والا کہ جس کو ایک مکمل نماز کے وقت تک عذر گھیرے۔ وہ معذور ہے اور اُس عذر کا ختم ہونا ایسے وقت کو ضرر نہیں دیتا جس میں وضو اور نماز کی گنجائش نہ ہو اور اس عذر کے موجود ہونے سے اوقات میں کوئی وقت خالی نہ رہے۔ (یعنی جب تک وقت موجود ہے اس مکمل وقت میں کوئی لمحہ بھی اس عذر سے خالی نہ ہو)۔
[معجم لغة الفقهاء: ص 307 (ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی 1397ھ)]
[معجم لغة الفقهاء: ص 440 (الناشر: دار النفائس الطبعة: الثانية، ١٤٠٨ هـ - ١٩٨٨ م)]


۳۔العذر تعذر علیہ الا مر بمعنی تعسر علیہ۔
ترجمہ:
عذر کا مطلب ہے جب کسی پر کسی امر کا بجالانا شاق گذرے یعنی وہ اس کے لئے مشکل بن جائے۔
[المقری، احمد بن محمد،(م۔770ھ)، المصباح المنیر،( مطبع امیریہ، قاہرہ،1926ء)]
[الرازی ،زین الدین، محمد بن ابی بکر، ، (م۔۶۶۶ھ)، مختار الصحاح، (المکتبہ العصریہ ، بیروت 1420ھ)]

۴۔العذر السبب الشرعی الذی جعلہ الشارع امارۃ علی اباحۃٍ ترک بعض الواجبات و ارتکاب بعض المحظورات۔
ترجمہ:
عذر ایک ایسا شرعی سبب ہے کہ جس کے ذریعے شارع بعض واجبات کو ترک کرنے اور بعض محظورات (منع کی گئی چیزوں) کو مباح کرنے کا حکم دے۔
[الدکتور، قطب مصطفی سانو، معجم مصطلحات اصول الفقہ،(دار الفکر المعاصر، بیروت،۲۰۰۲ء)]


حنفی فقہاء کے نزدیک جب مکلف کسی امر شرعی کو بجالانے میں اضافی ضرر سے دوچار ہوتا ہو۔ تو یہ عذر کہلائے گا۔ اس ضمن میں انہوں نے عذر کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔

العذر: الحجۃ التی یعتذر بھا ما یتعذر علیہ المعنٰی علی موجب الشرع الا بتحمل ضرر زائد۔
یعنی
جب کسی شخص پر شریعت کے موجب کے مطابق ضرر زائد برداشت کئے بغیر احکام شرعی کا معنی متعذر ہو تو یہ عذر کے زمرے میں آئے گی۔
[القاموس الفقهي:ص 245، (ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ، کراچی، 1397ء)]


جدید فقہی ماہرین نے عذر کو ارتفاعِ مسؤلیت اور موانع سزا کے اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا ہے۔ اور اسے اعذارِ معفیہ (Excuse Absolutory) کا نام دیا ہے۔

جس کے تحت مرتکب فعل سے جسمانی سزا تو ختم ہوتی ہے۔ تاہم اُس پر مالی تاوان باقی رہتا ہے۔ مثلاً یہ کہا گیا ہے۔

”اذا اکرہ المتہم علی فعل جنایۃ أو جنحۃ بقوۃ لایستطیع مقاومتھا فلایعد ماوقع منہ جنایۃ أوجنحۃ“
ترجمہ:
جب ثابت ہو کہ ملزم کو جرم پر مجبور کیا گیا تھا۔ جبکہ ملزم اس جبر کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا تو اس صورت میں اس کا کردہ فعل جرم متصور نہیں ہوگا۔

تاہم اس تعریف پر اضافہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس قسم کے افعال کا فاعل مدنی مسؤلیت سے مستثنیٰ نہیں ہوگا۔ چنانچہ کہا گیا۔

أمافی حالۃ وجود سبب من الاسباب الشخصیۃ کالاکراہ أوالجنون فإن المسؤلیۃ المدنیۃ قدتبقی علی عاتق الفاعل۔
ترجمہ:
جہاں تک شخصی اسباب کا تعلق ہے۔ جیسے اکراہ یا جنون تو اس صورت میں فاعل کے ذمے مدنی مسؤلیت باقی رہے گی۔

جدید فقہاء نے عذر یا عدم مسؤلیت کی دو صورتیں بیان کی ہیں۔ ایک شخصی ہے۔ جس کی نسبت فاعل کی طرف کی جاتی ہے۔ جس کا ذکر ابھی ابھی کیا گیا۔ جیسے اکراہ‘ ضرورت‘ جنون یا عدم بلوغ وغیرہ۔ اس صورت میں فعل کا فاعل فوجداری طور پر مسؤل نہیں ہوتا۔ لیکن مدنی طور پر مسؤل ہوتا ہے اسے شخصی عدم مسؤلیت کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری صورت مادی عدم مسؤلیت ہے۔ جس کی نسبت فعل کی ماہیت اور طبیعت کی طرف کی جاتی ہے۔ جیسے دفاع شرعی یا (Self Defense) کی صورت میں کسی کو مالی تاوان دینا۔ تو اس صورت میں فاعل فوجداری اور مدنی دونوں اعتبار سے مسؤل نہیں گردانا جاتا۔

شارحین کے نزدیک پہلی صورت عدم مسؤلیت کے اسباب جبکہ دوسری صورت اسباب اباحت کے زمرے میں آتی ہے۔
[جندی، عبدالملک، الموسوعۃ الجنائیہ، (داراحیاء، التراث العربی،بیروت 1360ھ)، ۱/۴۷۴وما بعد]

عبدالقادر عودہ شہیدؒ نے بھی ابوالحسن الآمدیؒ کے حوالہ سے بتایا ہے کہ عذر وہ ہوتا ہے۔ جب فاعل تکلیف یعنی خطاب کا محل نہ ہو۔ اس صورت میں غیر عاقل یا غیر مختار شرعی خطاب سے معذور متصور ہوگا۔
[عودہ، عبدالقادر،(م۔1385ھ)، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی، (دارالکتب العربی، بیروت) ، بذیل مادہ نمبر ۲۷۲، نظریہ، المسئولیۃ الجنائیہ فی الشریعہ]




فقہ اسلامی کی رو سے عذر کی صورتیں:
سابقہ صفحات میں علامہ ابن حجر اور دیگر فقھاء اور محدثین نے عذر کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ عذر کا اطلاق انسانی زندگی میں اس حالت پر ہوتا ہے۔ جو کسی مکلف پر طاری ہو۔ اوراس کی حالت اس بات کا تقاضا کرتی ہو کہ اس کے ساتھ رعایت کی جائے۔ اور اس حالت کی وجہ سے اُسے تکلیف اور شرعی امور کے امتثال سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔

گذشتہ صفحات میں عذر کی تعریف کے حوالے سے اس بات کی بھی نشاندہی کی جا چکی ہے کہ عذر کوئی ایسا امر ہے۔ جو شرعی امور یا واجبات کو ترک کرنے کا سبب بنتا ہے۔اور جس کے طاری ہونے کے نتیجے میں انسان پہلے کی طرح مکلف نہیں رہتا۔

گذشتہ صفحات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فقہی ماہرین کے نزدیک عذر جب ارتفاعِ مسؤلیت کا سبب بنتا ہے۔ تو وہ اس حالت میں کئے گئے کسی ایسے فعل کی سزا سے بھی مستثنیٰ ہوگا۔ جو کسی عام انسان کے بارے میں ازروئے شرع جرم کہلائی جاسکتی ہے۔

فقہ اسلامی کی رُو سے اس قسم کے اعذار کبھی داخلی اور کبھی خارجی عوارض کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ فقھاء نے اس قسم کے عوارض کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ تاہم یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اُصول فقہ کے مقابلے میں فقہ اسلامی کی رُو سے عارضہ بطور عذر یا عوارض بطور اعذار زیادہ تفصیل کی حامل ہیں۔ بایں ہمہ اس قسم کی تفصیل کسی نہ کسی شکل میں اُن عوارض کے زمرے میں آتی ہے جس کو اصول فقہ میں عوارض سماویہ اور عوارض مکتسبہ کا نام دیا گیا ہے۔

عوارض سماویہ:
وہ عوارض جن میں انسانی ارادہ و فعل کو کوئی دخل نہ ہو بلکہ یہ صاحب شرع کی جانب سے ثابت ہوتے ہیں۔ ان میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے ان کی نسبت آسمان کی طرف کی جاتی ہے۔ کیونکہ جن امور میں انسان کو اختیار نہ ہو۔ ان کو آسمان کی طرف کرنا اسی معنی میں ہوتا ہے۔ کہ یہ انسان کی قدرت سے خارج ہیں۔

مثلاً جنون، صغر (کم سنی)، عتاہت، نسیان، نوم، اغماء، مرض، حیض، نفاس اور موت۔
[[كشف الأسرار شرح أصول البزدوي:٤/٢٧٦ (الناشر: دار الكتاب الإسلامي)]
[كشف الأسرار شرح أصول البزدوي۴/370 ( مکتبہ العبیکان، 1997ء) ]
[قاموس الفقہ،(زمزم پبلشرز،کراچی 2007ء) ، ۲/ 259]
[الو جیز فی اُصول الفقہ: (مکتبہ رحمانیہ ،لاہور) ، ص ۱۲۱]

عوارض مکتسبہ:
وہ عوارض جو انسانی ارادہ و اختیار سے وجود میں آئیں اور ان میں انسان کو کسب اور اختیار حاصل ہو یا اس لیے کہ آدمی ان کے روکنے میں کوشاں نہ ہو۔ ”ای اکتسبھا العبد او ترک ازالتھا“۔
[رحمانی، سیف اللہ، قاموس الفقہ: ۲/ 259]
[امیر بادشاہ، محمد امین بن محمود،(م۔978ھ)، تیسیرالتحریر،(دارالفکر، بیروت )، ۲/258]

ان کی پھر دو قسمیں ہیں۔

اول:وہ امور جن میں انسان کی اپنی ذات کا دخل ہو۔ مثلاً جہل، سکر، ہزل، خطاء، سفر اور سفاہت

ثانی:وہ امور جو اس پر غیر کے لازم کرنے کی وجہ سے لازم ہو مثلاً اکراہ



عذر کی جدید طبی اور نفسیاتی صورتیں:
۱۔مرگی اور ہسٹریا (Hysteria)
بعض اعصابی بیماریوں میں بھی مریض کا شعور اور اختیار ختم ہو جاتا ہے اور ان کا فہم و ادراک معدوم ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان سے ایسی حر کات اعمال اور اقوال سر زد ہوتے ہیں جن کو نہ وہ سمجھتے ہیں اور نہ ان کی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں۔

اس ضمن میں فقہا ء کرام نے خصوصیت کے ساتھ اس قسم کی مر یضانہ کیفیتوں پر روشنی نہیں ڈالی ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہو کہ اس وقت نفسیاتی اور طبعی علوم نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی جس قدر کہ آج کر چکے ہیں۔ مگر قواعد شر یعت کی روشنی میں ان مریضانہ کیفیتوں کا حکم معلوم کر لینامشکل نہیں ہے۔

جس وقت مرگی کے مریض پر تشنجی دورے پڑتے ہیں تو اس کا ادراک و اختیار مفقود ہو جاتا ہے اور اس وقت اس سے ایسے اعمال سرزد ہو سکتے ہیں جن کا اسے افاقہ ہو جانے کے بعد بھی احساس نہ ہو کہ اس نے کیا کیا ہے۔

اسی طرح ہسٹیر یا کے مریض پر تشنجی دورے آتے ہیں جن میں وہ بے سمجھے ہذیان بکتا ہے جبکہ مالیخو لیا کا مریض ایسے تصور اور خیالات قائم کرتا ہے جن کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ان تصورات کے وقت وہ بلا جواز امور کا ارتکاب کر لیتا ہے۔

چنانچہ عبدالقادر عودہ نے التشریع الجنائی الاسلامی میں ان مریضوں اور ایسی ہی دیگر صورتوں کا حکم وہی لکھا ہے جو مجنون کا ہے بشر طیکہ ارتکاب جرم کے وقت ان کا ادراک مفقود ہو۔ یا ان کا ادراک معتوہ کے درجے میں کمزور ہو۔ اور اگر ان مریضوں کا وقت ارتکاب جرم ادراک و اختیار مفقود نہ ہو تو یہ فوجداری طور پر مسؤل ہوں گے۔
[عودہ،عبدالقادر، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی،بذیل مادہ نمبر 418، الصرع والھستیریا وماأشبہ، نمبر417، ۱/587-588]

۲۔ذہن پر غلط تصورات کا تسلط (تسلّط الأفکار الخبیثۃ)
افکارِ خبیثہ کا تسلط ایک ایسا عذر ہے جو جنون کے ساتھ ملحق ہے اور ذہن پر غلط تصورات کا تسلط بھی عوارض جدیدہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ یہ ایک ایسی مر یضانہ کیفیت ہے جو اعصاب کی کمزوری سے رونما ہوتی ہے یا خاندانی وراثت سے منتقل ہوتی ہے اور انسان کے ذہن پر ایک تصور اس قدر چھا جاتا ہے کہ وہ اس کے نتیجے میں وہ شخص کوئی خاص کام یا عمل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پرزیر نظر عارضہ سے متاثرہ شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ مظلوم ہے اور اسے کچھ لوگ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں یا مثلاً قتل کرنا یا زہر دینا چاہتے ہیں تو اس کے ذہن میں انتقام کا شدید جذبہ پیدا ہوجاتا ہے کہ جو لوگ اسے نقصان پہنچانا یاقتل کرنا چاہتے ہیں تووہ خود انہیں قتل کر دے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شخص کے ذہن پر یہ غلط تصور مسلط نہیں ہوتا بلکہ اس کا سر کش جبلی میلان اسے کسی جرم کے ارتکاب پر مجبور کر دیتا ہے۔

فقہاء کرام نے اس قسم کے مریضوں کا حکم مجنون کے ساتھ ملحق کیاہے۔ اب اگر ارتکابِ جرم کے وقت ان میں ادراک مفقود ہے یا ان کا ادراک اس قدر کمزور ہے کہ معتوہ کے درجے پر پہنچ گیا ہے تو وہ فوجداری طور پر مسؤل نہیں ہیں لیکن اس کے لیے نا قص اہلیت اداء ثابت ہوتی ہے مگر اہلیت وجوب مکمل طور پر باقی رہتی ہے۔ اسی بناء پر ان پر ایسے حقوق العباد جن سے مال مقصود ہو واجب ہو نگے لیکن سزائیں اورحدود ثابت نہ ہو گے۔
[عودہ،عبدالقادر، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی،بذیل مادہ نمبر 418، تسلط الأفکار الخبیثۃ،]

۳۔جذبات کی بر انگیختگی
شریعت اسلامیہ میں کوئی ایسا عذر نہیں ہے جو اہلیت وجوب یا اہلیت اداء کے منافی ہو۔ لہٰذا اس صورت میں جب ادراک و اختیار کی موجودگی بھی ہو جو انسان ارتکاب جرم کرے وہ اس جرم کے بارے میں فوجداری اور دیوانی دونوں طرح مسؤل ہے خواہ اس نے جرم کا ارتکاب کسی شدید جذبے کے زیر اثر کیا ہو اور خواہ اس کا یہ جذبہ شائستہ ہو یا کوئی سفلی میلان ہو۔ لہٰذا اگر کسی نے جذبہ انتقام کی شدت کے زیر اثر یا کسی دوسرے شخص کو انتہائی برا محسوس کرتے ہوئے ارتکاب جرم کیا تو وہ جواب دہ ہے۔ اسی طرح اگر کسی سے کوئی شخص شدید محبت رکھتا ہو اور وہ اسے اس کے تکالیف و مصائب سے نجات دلانے کے لیے قتل کر دے۔ تو وہ بھی مسؤل ہو گا۔ عرض جذبات کی شدت خواہ کسی درجے پر پہنچ جائے۔ مر تکب جرم فوجداری طور پر مسؤل ہے اور دیوانی طور پر بھی البتہ اگر تعزیری سزا ہو تو اس میں یہ عارضہ شدیدہ شر یعت کی نظر میں مؤثر ہو سکتا ہے۔ مگر حدود میں جذبہ شدید نہ مسؤلیت پر اثر انداز ہے اور نہ سزا پر۔

شدید جذبات کی برانگیختگی شر یعت کی نظر میں نہ تو ارتکاب جرم کا جواز بنتا ہے اور نہ فو جداری مسؤ لیت سے مانع ہے۔ اگر اس کی کچھ تا ثیر ہے تو وہ تعزیری سزا میں ظاہر ہوتی ہے۔ مگر حدود میں اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔

ظلم و اعتداء کے شدید خوف سے فو جداری مسؤ لیت ختم ہو جاتی ہے۔ بشر طیکہ مدافعت کی حالت شرعی موجود ہو یا اکراہ کی صورت ہو۔

مروجہ ملکی قوانین میں بھی شر یعت اسلامیہ کی طرح شدید جذبات کا اہلیت پر اور مسؤ لیت پر کوئی اثر نہیں ہوتا تاہم اگر عدالت محسوس کرے تو یہ جذبات سزا کی تخفیف کا سبب بن سکتے ہیں۔ البتہ بعض قوانین حالت اشتعال کو قانونی عذر مانتے ہیں جیسے فر انسیسی قانون جرائم قتل اور ضرب میں اشتعال کو بطور عذر تسلیم کرتا ہے اور جیسے مصری قانون حالت ِ ارتکاب زنا کو شوہر کے لیے عذر خیال کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اس کے آشنا کو قتل کر دے۔ 
[عودہ،عبدالقادر، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی، بذیل مادہ نمبر ۴۲۴، ھیاج العواطف، ۱/٥٩٢]

۴۔حرکت نومیہ (یقظۃ النوم)
یاتی بعض الناس افعالا وھو نائم دون ان یشعر‘ ویغلب ان تکون الحرکات التی یاتی بھا النائم تردیدا للحرکات التی اعتاد ان یأتیھا فی الیقظۃ۔ولکن یحدث ان یاتی بحرکات مخالفۃ لاعلاقۃ لھا بالحرکات التی یاتیھا وھو متیقظ۔
ترجمہ:۔
عض اشخاص غیر شعوری طور پر سوتے ہوئے کوئی فعل انجام دیتے ہیں اور ان کی یہ حرکات ان حرکات کی تر دید ہوتی ہیں جو وہ حالت ِبیداری میں کرتے ہیں۔ مگر کبھی وہ حالت ِ خواب میں ایسی حرکات کرجاتے ہیں جن کا بیداری کی حالت کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
[عودہ،عبدالقادر، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی:۱/٥٩٠]

اس ضمن میں سائنسی نقطہ نگاہ سے عالم خواب میں چلنے پھرنے یا کچھ کرنے کی تو جیہہ یہ ہے کہ انسان کی تمام صلا حیتیں نیند سے متاثر نہیں ہوتیں۔ بلکہ بعض صلا حیتیں کسی نہ کسی درجے میں بیدار رہتی ہیں اور کبھی یہ صلاحیتیں غیر معمولی طور پر بیدار رہتی ہیں اور اس صورت میں سونے والا ایسے اعمال انجام دے لیتا ہے۔ جن کا اسے پتہ بھی نہیں چلتا اور جب یہ حالت ختم ہو جاتی ہے۔ تو پھر اپنی طبعی حالت پر آ جاتا ہے اور بیدار ہونے کے بعد اسے احساس بھی نہیں ہوتا کہ عالم خواب میں وہ کیا کرتا رہا ہے۔

شر یعت اسلامیہ میں ایک عمومی اصول یہ ہےکہ نائم یعنی سونےوالے پر سزا نہیں ہے کیونکہ ارشاد نبویﷺ ہے:

”رفع القلم عن ثلاث عن النائم حتی یستیقظ وعن الصبی حتی یکبر وعن المجنون حتی یعقل او یفیق“۔
ترجمہ:
تین افرادکے اعمال نہیں لکھے جاتے۔ ۱۔سونے والے کے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے۔ ۲۔ بچے کے یہاں تک کے بالغ ہو جائے۔ ۳۔اور مجنون کے یہاں تک کہ اُسے فاقہ ہو جائے۔
[ابوداؤد، سلیمان بن الاشعث ،السجستانی ،(م-275ھ )السنن،( مکتبہ العصریہ،بیروت )(باب ماجاء فی المجنون)، حدیث نمبر 4401]
[النسائی،ابوعبدالرحمٰن،احمد بن شعیب،(م-302ھ)،السنن،(مطبع مجتبائی،دہلی،1991ء)،( کتاب الطلاق،باب مالایقع طلاقہ من الازواج،حدیث نمبر3465]

اگرچہ حدیث میں حالت نوم اور حالت جنون کو ایک ساتھ بیان کر کے ان کا ایک ہی حکم بیان کیا گیا ہے۔ مگر فقہاء کرام حالت نوم کو اکراہ کے ساتھ ملحق کرتے ہیں۔ جنون کے ساتھ ملحق نہیں کرتے اور شاید اس کی حکمت یہ ہے کہ نائم متیقظ یعنی خواب میں جا گنے والے میں اد راک نوم موجود ہے مگر اختیار موجود نہیں ہے کیونکہ وقت عمل اس کے اپنے ارادے کو کوئی دخل نہیں ہوتا مگر اس کا ادراک موجود ہوتا ہے کیونکہ وہ نا سمجھی کے کام نہیں کرتا بلکہ اُسے مفید اور غیر مفید امور کی تمیز ہوتی ہے اور نقصان دہ امور سے اجتناب کرتا ہے۔

تاہم مروجہ قوانین میں یہ حالت جنون کے ساتھ ملحق ہے اوران کا اساس یہ ہے کہ نائم کا ادراک اور اختیار دونوں مفقود ہوتے ہیں اوراُسکےمیلانات اُس کے عضلات کو حرکت دیتے ہیں۔ مگر وہ خود اپنے عمل کو نہ دیکھتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔

عرض یہ کہ اس مسئلے میں شر یعت اسلامیہ اور مروجہ قوانین میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ اکراہ اور جنون سے شر یعت میں بھی سزاختم ہو جاتی ہے اور مروجہ ملکی قوانین میں بھی۔ اس لیے نائم کو خواہ مکرہ سمجھا جائے یا مجنون بہر صورت اس کے ان جرائم پر سزا نہیں ہے جن کا وہ حالت خواب میں ار تکاب کرے اور اس صورت میں وہ معذور سمجھا جائے گا۔
[عودہ،ایضاً،التشریع الجنائی الاسلامی ، بذیل مادہ نمبر 422، الحرکۃ النومیۃ]

مسمر یزم (عمل تنویم)
یہ مصنوعی نیند کی ایک صورت ہے جس میں ایک شخص عمل تنویم کرنے و الے کے اس طرح زیر اثر آ جاتا ہے کہ اس عمل کے دوران یا اس کے بعد عمل کرنے والا معمول کو جو بھی حکم دے وہ اُسے غیر شعوری طور پر اور بالکل مشینی انداز میں انجام دیتا ہے اور وہ عمل کرنے والے کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اگرچہ ابھی تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ عمل تنویم کے دوران معمول پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے۔ مگر بعض اطباء کا خیال ہے کہ معمول حکمِ جرم کی خلاف ورزی کر سکتاہے۔ اس حالت پر اگر قواعد شر عیہ کی تطبیق کی جائے تو اس عمل تنویم کو طبعی نوم کے ساتھ ملحق کرنا چاہیے اس لیے معمول مکرہ ہے اور حالت اکراہ میں سزا نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمل تنویم کو جنون کے ساتھ ملحق کرنا دشوار ہے کیونکہ مصنوعی نیند سے ادراک ختم نہیں ہوتا صرف اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

بیشتر ماہرین قانون کی رائے اس ضمن میں شر یعت اسلامیہ کے مطابق ہے چنانچہ ماہرین قانون عمل تنویم کو اکراہ کے ساتھ ملحق کرتے ہیں اگرچہ اس پر گفتگو جنون کے ذیل میں کرتے ہیں۔

عمل تنویم کا یہ حکم بایں صورت ہے کہ معمول کو جبرا ً معمول بنا یا گیا ہو یا عمل تنویم سے قبل معمول کا ارتکابِ جرم کے بارے میں کوئی ارادہ نہ ہو لیکن اگر معلوم ہو کہ عامل کا مقصد اُسے ارتکابِ جرم کی جانب متوجہ کرنا اور آمادہ کرنا ہے اور اس کے باوجود وہ عمل تنویم کو قبول کرے تو وہ ارتکاب جرم کو قصداکرنے والا متصور کیا جائے گا اور اس تنویم کو ایک وسیلہ سمجھا جائے گا اور وہ شر یعت کے عام اصولوں کے مطابق مسؤل ہو گا۔ اس ضمن میں مروجہ قوانین بھی شر یعت اسلامیہ سے متفق ہیں۔
[عودہ،ایضاً،التشریع الجنائی الاسلامی: بذیل مادہ نمبر 423، التنویم المقناطیسی، ۱/591ومابعد]

۶۔ضعف ِ تمیز
بعض لوگوں میں مجنون اور معتوہ سے زیادہ ادراک موجود ہوتا ہے۔ مگرایسا ادراک نہیں ہوتا جیسا ایک مکمل انسان میں ہونا چاہیے چنانچہ ایسے لوگوں میں ادراک اور تمیز کی کمی ہوتی ہے اور اس کمزور ادراک کی بناء پر کسی فعل کی جانب تیزی سے سبقت کرجاتے ہیں۔تاہم ارتکاب جرم کے وقت ان میں اپنے فعل کا ادراک اور تمیز کچھ نہ کچھ موجود ہوتی ہے۔

اس ضمن میں قوانین شریعت اورمروجہ قوانین ایک دوسرے کےمطابق ہیں اوران قوانین کی روسےیہ کمزور ادراک والے سزا سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔اسی طرح جدید مروجہ قوانین میں بھی کمزور ادراک کے حامل لوگ سزا سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔

البتہ بعض ماہرین فاعل کو معذور خیال کرتے ہوئے تخفیف سزا کے قائل ہیں۔ جبکہ دیگر ماہرین سزا میں شدت کے قائل ہیں کیونکہ ان کے نزدیک سخت سزا اس قسم کے لوگو ں کو ارتکاب جرم سے باز رکھے گا۔

علاوہ ازیں قواعد شرعیہ کے مطابق تعزیراتی سزاؤں میں تخفیف ہو سکتی ہے مگر حدود و قصاص میں نہ تخفیف ہو سکتی ہےاورنہ انہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ جرائم انتہائی شدید ہیں اوراشخاص اور امن عامہ سے ان کا گہرا تعلق ہے۔
[عودہ،ایضاً،التشریع الجنائی الاسلامی: بذیل مادہ نمبر 423، التنویم المقناطیسی،  ۱/589]


۷۔گونگے بہرے انسان
گونگے بہرے انسان اپنے جرائم کے بارے میں فو جداری طور پر مسؤل ہیں۔ بشر طیکہ وقت ارتکابِ جرم ان میں ادراک و اختیار موجود ہو۔ اگر ان کی حالت ان کے ادراک پر اس حد تک اثر انداز ہو جائے کہ انہیں مجنون اور معتوہ کے درجے میں تصور کیا جا سکے تو ان پر مسؤ لیت نہیں ہے۔

امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ گونگے بہرے لوگوں سے حدساقط ہے اور انہیں صرف تعزیزی سزا دی جائے گی اگرچہ وہ اقرار جرم بھی کر لیں کیونکہ گو نگا بہرا ہونا شبہ ہے اور ان کا اقرار اشارے سے ہوتا ہے۔ممکن ہے کہ ان کا اپنے اشارے سے کوئی اور مفہوم مراد ہو۔ نیز یہ کہ اگر وہ بول سکتے تو انہیں الزام کو رد کرنے اور شاہدوں (گواہوں) پر جرح کرنے کا اختیار ہوتا۔ ائمہ ثلاثہ کی رائے اس کے بر خلاف ہے۔ چنانچہ یہ ائمہ گونگے بہرے کے اشارے کو درست تسلیم کرتے ہیں اور سقوطِ حد کے قائل نہیں ہیں۔چنانچہ یہ فرماتے ہیں۔

الاشارۃ المعھودۃ للاخرس کالبیان باللسان۔
[الاتاسی،محمد خالد،شرح المجلہ لاحکام العدلیۃ،( مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ، 1403ھ)، ۱/193
تنزیل الرحمن، جسٹس، قانونی لغت،(پی ایل ڈی پبلشرز،لاہور،2011ء،چودھواں ایڈیشن) ، ص554]

یعنی گونگے کا معین اشارہ زبان سے بیان کرنے کی مانند ہے۔یہاں تک کہ نکاح وطلاق، خریدو فروخت، رہن وھبہ، اقرار ویمین میں اس پر احکام صادر ہوں گے۔
[عودہ، ایضاً، التشریع الجنائی الاسلامی، بذیل مادہ نمبر 421، الصم البکم، ۱/589 ومابعد]




قانونی عذر کے اطلاق سے متعلق قواعد فقہیہ کا تعارف
قانونی عذر کے اطلاق سے متعلق فقہ اسلامی کے بہت سارے فقہی قواعد ہیں جن کا مختصر تعارف مندرجہ ذیل ہے:

۱۔ماجاز لعذر بطل بزوالہ۔
(جو امر کسی عذر کے سبب جائز ہوا ہو۔ وہ اس عذر کے زائل ہونے کے ساتھ ہی باطل ہوجاتا ہے)
[الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ ، ۱/59۔60]

یعنی جب کوئی چیز عذر کی وجہ سے جائز ہوجاتی ہو تو جب وہ عذر ختم ہوجائیں اور اصل پر عمل کرنا ممکن ہو تو پھر اصل پر عمل کرنا ضروری ہوگا وگرنہ اصل اور خلف کا جمع ہونا لازم آئے گا جیسے حقیقت اور مجاز کو ایک وقت میں جمع کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ یہ قاعدہ ہے جب تک حقیقت پر عمل کرنا ممکن ہو تو مجاز کی طرف نہیں جائیں گے۔ لیکن جب حقیقت پر عمل کرنا متعذر ہوجائے تو پھر مجاز کی طرف جا سکتے ہیں۔مثلاً

العاری اذا وجد ثوبا یستر عورتہ لان الطھارۃ والستر والقیام والقرا ء ۃ فرض علی القادر علیھا والسقوط عن ھٰؤلاء للعجز وقد زال۔یعنی جب شرعی لباس پر قادر نہ ہونے والے کو اسی حالت میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر جب وہ اتنے کپڑے پر قادر ہوجائے جس سے وہ ستر چھپا سکے تو پھر ستر کا چھپانا اس پر لازم ہوجاتا ہے اور پھر بغیر ستر چھپائے نماز نہیں ہو گی۔ کیونکہ طہارت‘ ستر کا ڈھانپنا‘ قیام‘ قرات‘ فرض ہے۔اور جو کوئی اس پر قادر نہ ہو تو اس کے لئے عجز کی وجہ سے گنجائش ہے مگر جب یہ عجز زائل ہوجائیں تو پھر فرض پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔اسی طرح متیمم جب پانی پالے تو اُس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔اسی طرح اشارہ کے ساتھ نماز پڑھنے والا جب رکوع سجود پر قادر ہوجائے تو اس کی نماز اشارے سے نہیں ہوگی۔ وگرنہ پھر اصل اور فرع کا جمع ہونا لازم آئے گا۔

۲۔الضرورات تبیح المحظورات۔
( ضرورتیں محظورات (ممنوعات) کو جائز کر دیتی ہیں)
[الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ:۱/۵۵]

یہ قاعدہ دراصل قرآنِ کریم کی آیت سے ماخوذ ہے اور اللہ کا قول ہے

اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ۔
[سورۃ الانعام 119]

اور اضطرار حاجت شدیدہ کو کہتے ہیں جبکہ ممنوع چیز کے کرنے سے منع کیا گیا ہے مگر یہی ممنوع چیز ضرورت کے وقت جائز ہوجاتی ہے جیسے کہ شدید بھوک کی حالت میں مردار کا کھانا۔اورشراب کا پینا شدید پیاس کی حالت میں۔

۳۔الضرورات تقدر بقدرھا۔
(ضرورتوں کی مقدار اُن کے اندازہ کے اعتبار سے متعین کی جاتی ہے)
[امام ابن نجیم(-970ھ)،الاشباہ والنظائرعلی مذہب ابی حنیفۃ النعمان،(دارالکتب العلمیہ،بیروت،1419ھ):87، تنزیل الرحمن، ایضاً،قانونی لغت ، ص۵۳۵]

ضرورت کے وقت ممنوع چیز کے مباح ہونے کی مقدار معین ہے اور اس سے تجاوز نہیں کر سکتے جیسا کہ شدید بھوک کی حالت میں مردار کا کھانا اتنا جائز ہے جس سے ہلاکت سے بچ جائے۔اور اسی قاعدہ پر بڑے سارے فقہی مسائل کا دارومدار ہے۔

۴۔المشقۃ تجلب التیسیر۔
یعنی ان الصعوبۃ تصیر سبب للتسھیل ویلزم التوسیع فی وقت المضایقۃ یتفرع علی ھذا الاصل کثیر من الاحکام الفقھیۃ کالقرض والحوالۃوالحجروغیرذالک وماجوزہ الفقھاءمن الرخص والتخفیفات فی الاحکام الشرعیۃمستنبط من ھذہ القاعدۃ۔
ترجمہ:
(مشقت آسانی کو پیدا کرتی ہے یعنی سختی سہولت کی موجب ہوتی ہے اور تنگی کے وقت میں وسعت ضروری ہوجاتی ہے۔ اس کلیہ پر بہت سے فقہی احکام مبنی ہیں مثلاً قرض‘ حوالگی اور حجر (محرومی) وغیرہ اور فقہاء نے شرعی احکام میں جورخصتیں اور سہولتیں جائز کی ہیں وہ اسی قاعدے سے مستنبط ہیں)
[۔ابن نجیم، ایضاً ،الاشباہ والنظائر:87، تنزیل الرحمن،قانونی لغت: ص534]

۵۔ما حرم فعلہ حرم طلبہ۔
( جس کام کا کرنا حرام ہوں۔ اُس کام کو طلب کرنا بھی حرام ہے)
[الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ، ۱/78]

ہر وہ شی ئجس کا کرنا (مرتکب ہونا) ناجائز ہوں۔اس کا دوسرے سے طلب عمل بھی ناجائز ہے۔ چاہے اس کا تعلق قول سے ہو یا عمل سے ہو۔ بایں صورت کہ وہ واسطہ ہو یا ذی واسطہ ہو۔

جیسے انسان پر ظلم کرنا حرام ہے۔ اور رشوت لینا‘جھوٹی گواہی دینا‘ جھوٹی قسمیں کھانا حرام ہے۔ اسی طرح اوروں سے طلب کرنا بھی حرام ہیں۔

کہ دوسرے کو ان کے کرنے کا حکم دیں۔ یا شوق دلائیں یا اس کے لئے آلہ یا واسطہ بن جائے۔

۶۔الاشارات المعھودۃ للاخرس کالبیان باللسان۔
(گونگے کے معین اشارات زبان سے بیان کرنے کے مانند ہے)
[الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ:۱/193، ابن نجیم،الاشباہ والنظائر:87]

تشریح:گونگےکےلئےمعین اشارات جوعرف میں عام ہوں۔ جیسےاشارہ کرناآنکھ سے یا سر سے یا ہاتھ اور پیر سے تو یہ نطق”کلام“کےحکم میں ہیں۔ یہاں تک کہ نکاح وطلاق،خریدوفروخت،رہن وھبہ،اقرارویمین میں اس پراحکام صادر ہوں گے۔

۷۔البینۃ حجۃ متعدیۃ والاقرار حجۃ قاصرۃ۔
( گواہ دلیل متعدیہ ہوتا ہے جب اقرار دلیل قاصرہ ہے)
[تنزیل الرحمن، ایضاً، قانونی لغت، ص۵۴۵۔546]

تشریح:گواہ دلیل متعدیہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک گواہ کسی معاملے میں جو گواہی دیتا ہے۔ وہ اپنے اثرات ونتائج کے اعتبار سے محض فریقین مقدمہ پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی۔ بلکہ دیگر افراد ومعاملات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ مثلاً کسی مقدمے میں یہ گواہی دی جائے کہ زید عمر کا بیٹا ہے۔ تو اس سے نہ صرف زید کا نسب ثابت ہوگا۔ بلکہ اس دلیل کے نتیجے میں زید عمر کا وارث بھی تسلیم کیا جائے گا۔

حجۃ قاصرہ سے مراد یہ ہے کہ اقرار کا اثر مقرتک محدود رہتا ہے۔ اس کااثر کسی دوسرے شخص کی طرف متعدی نہیں ہوتا۔ یعنی اقرار صرف اس شخص کے حق میں معتبر ہے جو اقرار کررہا ہو۔ اگر اس اقرار کا اثر کسی دوسرے شخص کے حق پر پڑتا ہو تو اس دوسرے شخص کے حق میں اس کا اعتبار نہیں کیونکہ مقرکو اپنے علاوہ دوسرے پر ولایت نہیں ہوتی۔ اس لیے مقرکی ذات پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔

اس حوالہ سے جب فقہی اور قانونی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اقرار کا دائرہ مقر کی ذات تک محدود ہے یا کوئی بھی شخص (مقر) اپنے اقرار پر ماخوذ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عدالت کی نگاہوں میں اگر کوئی مقر دوسرے کو اپنے اقرار میں اپنا شریک جرم (Accomplice) قرار دینا چاہے تو عدالت اس کو شریک جرم قرار نہیں دے گی کیونکہ حجت قاصرہ کے طور پر اقرار ثانی الذکر شخص کے حق میں عذر ہے۔

۸۔المرء مواخذ باقرارہٖ۔
( آدمی اپنے اقرار سے پکڑا جاتا ہے)
[الاتاسی، ایضاً، شرح المجلہ ، ۱/226]

شرعی طور پر اقرار حق غیر کو اپنے نفس پر ثابت کرناہے کہ جب خبر سچ وجھوٹ کے درمیان متردّد ہوں تو اس وقت مرد کے اقرار کا اعتبار ہوگا۔اور جب اس نے اقرار کر لیا تو پھر رجوع نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ رجوع میں تضاد ہے۔مثلاً زید عمر کے لئے ایک ہزار روپے کا اقرار کرتا ہے تو پھر اپنے اس اقرار سے رجوع نہیں کر سکتا۔

۹۔الاضطرار لایبطل حق الغیر۔

یتفرع علی ھذہ القاعدۃ انہ لو اضطر انسان من الجوع فاکل طعام الاخر یضمن قیمتہ۔
ترجمہ:
اضطرار دوسرے کا حق باطل نہیں کرتا۔ اس قاعدہ پر یہ امر مبنی ہے کہ جب انسان بھوک سے بیتاب ہو اور کسی دوسرے شخص کا کھانا کھالے تو اس کھانے کی قیمت اس کے ذمہ واجب ہو گی۔
[۔تنزیل الرحمن، ایضاً، قانونی لغت، ص537]

۱۰۔الضرر لایکون قدیما۔
(ضرر قدیم نہیں ہوتا)
[الاتاسی، ایضاً ،شرح المجلہ، ۱/24]
تشریح:یعنی ہر وہ شی جو غیر مشروع ہوں۔ اور اس میں ضرر ہوں۔تو وہ زائل ہوجائیگا۔ اور قدیم اور جدیدمیں کوئی فرق نہیں اس لئے کہ ضرر دونوں میں مشترک علت ہیں۔

۱۱۔لا حجۃ مع الاحتمال الناشئی عن دلیل۔
(جو احتمال دلیل سے پیدا ہو وہ دلیل نہیں بن سکتا)
[تنزیل الرحمن، ایضاً ،قانونی لغت، ص544]
مثلاً ایک شخص نے مرض الموت میں اپنے ایک وارث کے قرض کا اقرار کیا تو وہ اقرار اس وقت تک صحیح نہ ہوگا جب تک دوسرے ورثاء اس کی تصدیق نہ کر دیں کیونکہ اس کا احتمال ہے کہ مریض نے اس اقرار قرض سے دوسرے تمام ورثاء کو ورثہ سے محروم کردینے کا ارادہ کیا ہو۔اور اس حوالے سے یہ احتمال دیگر ورثاء کے حق میں عذر متصور ہوگا جیسے کہ طلاق فار مطلقہ کے حق میں۔ کیونکہ وہ اقرار بحالت مرض الموت کیا گیالیکن اگر قرض کا اقرار صحت وتندرستی کے زمانہ میں کیا گیا ہو تو ایسا اقرار جائز ہوگا کیونکہ صحت کی حالت میں دوسرے تمام ورثاء کو محروم کر دینے کے ارادہ کا محض احتمال ایک وہم ہے اور وہم اقرار کی دلیل میں مانع نہیں ہو سکتا۔




مروجہ ملکی قوانین اور عذر:
قانونی لغات کی رو سے عذر کی تعریف:
قانونی اعتبار سے جب عذر کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد کوئی ایسا قانونی وجہ ہوتی ہے جو قانون کی نظر میں قابل توجہ ہو۔ اور جسے قانون بطور عذر تسلیم کرتا ہو۔
[تنزیل الرحمن، ایضاً ،قانونی لغت، بذیل مادہ Lawful, Excuse ، ص216]

اسی طرح ایک معنی یہ بیان کیا گیا ہے

العذر تعذر علیہ الامر بمعنی تعسر علیہ۔
ترجمہ:
عذر کا مطلب ہے جب کسی پر کسی امر کا بجا لانا شاق گزرے یعنی وہ اس کے لئے مشکل بن جائے۔
[فیروز آبادی، محمد بن یعقوب،(م۔817ھ)،القاموس المحیط،مذکور، بذیل مادہ،عذر]

المعجم الوسیط میں بھی بذیل مادہ عذر یہی معنی کئے گئے ہیں۔
[ابراہیم مصطفی،احمد الزیات،حامد عبدالقادر،محمد النجار،مجمع اللغۃ العربیۃ بالقاہرہ،المعجم الوسیط،(دارالدعوۃ،مصر)،بذیل مادہ، عذر]

EXCUSE.


A Lawful Excuse is a defence that may be raised by the defendant at trial. The onus/burden is on the defendant that even though they were breaking a law, they have a legal reason why they did it, and thus should not be found guilty. Example. Medical Emergency, if you get a ticket for speeding, but the reason you were speeding was you that were driving a very sick friend to the hospital.


An Excuse is essentially a defence for an individual's conduct that is intended to mitigate the individual's blame - worthiness for a particulars act or to explain why the individual acted in a specific manner. A driver sued for negligence, for exmaple, might raise the defence of excuse if the driver was rushing an injured person to a hospital.


[zaka336@gmail.com (10-9-2013) Time: 8:16pm]

مذکورہ عبارت میں کہا گیا ہے کہ Lawful Excuse ایک دفاعی طریقہ ہے۔ البتہ اِس اَمر کی ذمہ داری، بہرحال، مدعا علیہ پر ہے کہ وہ ثابت کرے گا کہ اگر وہ قانون شکنی کا ملزم ہے تو اس کے پاس قانونی جواز موجود ہے جس کی بنا پر اُسے مجرم قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ اس کی مثال میڈیکل ایمرجنسی کی ہے، اگر آپ کا مقررہ حد رفتار سے زائد گاڑی چلانے پر چالان کیا جاتا ہے تو آپ اس عذر کی وجہ سے اپنا دفاع کر سکتے ہیں کہ آپ نے ایسا مجبوری کی وجہ سے کیا۔ اور وہ مجبوری یہ تھی کہ ایک انتہائی بیمار دوست کو جلد از جلد ہسپتال پہنچا کر اس کی جان بچانا چاہتے تھے۔

دراصل کوئی عذر بنیادی طور پر اس لئے ہوتا ہے کہ کسی فرد پر لگائے گئے الزام کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ کسی خاص معاملہ میں ایک طرزِ عمل کی وضاحت کرکے دفاع کیا جا سکے۔مثلا اگر ایک ڈرائیور پر غفلت کے مرتکب ہونے کا کیس ہو تو وہ اپنے دفاع میں یہ عذر پیش کر سکتا ہے کہ اس نے ایسا مجبوری کی وجہ سے کیا تاکہ ایک زخمی کو فوری طور پر ہسپتال پہنچا سکے۔




مروجہ ملکی قوانین کی رو سے عذر کی ممکنہ صورتیں:
مجموعہ تعزیرات پاکستان میں لفظ عذر کی نپی تلی تشریح تو نہیں کی گئی ہے۔ تاہم جیسا کہ تعزیرات پاکستان کے باب نمبر 4 کے متعلقہ دفعات میں کہا گیا کہ کچھ افراد ارتکاب جرم کے باوجود اس جرم پر مجوزہ سزا سے مستثنیٰ ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ جب استثناء کا لفظ بولاجاتا ہے۔ تو اس کا لازمی مطلب یہی ہوتا ہے کہ سزا اور مجرم کے درمیان کوئی ایسی بات ضرور آڑے آئی ہے۔ جومجرم کو سزا سے دور رکھتی ہے۔ اور سزا کو لاگو ہونے نہیں دیتی۔ اس قسم کی استثنائی صورتیں لازماً عذر کے زمرہ میں آتی ہیں۔

قانون کے تحت عذر کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ اور اس میں قانونی مجبوریاں‘ خطائیں‘ بھول چوک جسمانی اور ذہنی عوارض اور وہ ضرورتیں بھی شامل ہیں۔ جن کی تکمیل پر انسانی حیات کے بقاء کا انحصار ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کا دفعہ نمبر ۴۹ بابت فعل بصورت اکراہ، دفعہ ۶۹ بابت حفاظت خود اختیاری دفعہ نمبر ۷۹ بابت حق حفاظت جان واملاک، دفعہ نمبر۸۹ بابت حق دفاع، دفعہ نمبر ۶۰۱ کے تحت اگر مذکورہ وجوہ کی بناء پر کسی فاعل کا فعل اور ردِّعمل کسی ایسے فعل پر منتج ہوجائے۔ جوازروئے قانون جرم مستوجب سزا ہو۔ تو اس صورت میں مندرجہ بالا وجوہات کو عذر مان کر ملزم کو اصل سزاسے استثناء حاصل ہوگی۔

مذکورہ دفعات باب نمبر ۲بذیل عام مستثنیات میں ذکر کئے گئے ہیں۔
[نظامی،محمدمظہرحسن،(مرتب)مجموعہ تعزیرات پاکستان مجریہ1860ء،( PLD لاہور)،دفعہ نمبر94،96،97،98 ،106]

قانون قصاص ودیت کے تحت بھی اکراہ کو بطور عذر مانا گیا ہے۔

اس ضمن میں دفعہ نمبر ۳۰۳ کی تشریحی نوٹ کو دیکھا جا سکتا ہے جہاں اکراہ کی صورت میں شراب نوشی کی سزا ساقط ہوتی ہے۔ تاہم قصاص ودیت کے سلسلے میں سزا میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
[قانون قصاص ودیت مجریہ ۲۰۰۲ء، دفعہ ۳۰۳، ص165]

قانون شہادت مجریہ ۴۸۹۱ء کے آرٹیکل نمبر ۷۱ میں اہلیت شہادت کے تحت پاگل اور اس قسم کے دوسرے معذور افراد شہادت سے مستثنیٰ قرار دئیے گئے ہیں۔
[قانون شہادت مجریہ 1984ء ، (منصور بک ہاؤس، لاہور 2012ء)، آرٹیکل 17، ص ۷۷]

حدود آرڈیننس بابت ۹۷۹۱ء جرم خلاف اموال کے دفعہ نمبر ۰۱ کے شق نمبر رکے تحت اکراہ اور اضطرار کو عذر مان کر ملزم سے حد سرقہ کو ساقط کرنے کا حکم دیا گیا۔
[میجرایکٹ، حدود آرڈیننس، جرم برخلاف اموال،،(القانون پبلشرز،لاہور،ایڈیشن 45،2012ء) باب نمبر 34،دفعہ نمبر 10]

مسلم فیملی لاء مجریہ ۲۶۹۱ء بابت ولایت دفعہ نمبر ۵۱ کے تحت کوئی بھی ولی کسی عمرانی معاہدے کا حصہ نہیں بن سکتا۔
[حکیم امین بخش، مینول آف فیملی لاز، (منصور بک ہاؤس، لاہور، 2011)، ص712]

قانون میعاد سماعت (Limitation Act) ۸۰۹۱ء کے دفعہ نمبر۶ کے تحت عدم بلوغ‘ پاگل پن اور اس کے ہم مثل عوارض کو معذور گردانا گیا ہے۔ لہٰذا دفعہ نمبر۶ کے تحت اگر وہ ادخالِ دعویٰ میں تاخیر کرے۔ تو اُن پر مذکورہ قانون کا دفعہ نمبر۳ بابت منسوخی مقدمات بعد از مرورِ میعاد کا اطلاق نہیں ہوتا۔
[قانون میعاد سماعت مجریہ1908ء، (The Limitation Act)، (منصور بک ہاؤس، لاہور 2012ء)، ص 17ومابعد]

مجموعہ ضابطہ دیوانی کے دفعہ نمبر ۷۴۱ کے تحت معذور افراد کے ولی یا رفیق کی طرف سے اُس کے حق میں اقرار یا رضامندی کو قبول کیا گیا ہے۔
[مجموعہ ضابطہ دیوانی،مجریہ 1908ء،(منصور بک ہاؤس،لاہور، 2010ء)، ص 71]

قانون معاہدہ مجریہ ۲۷۸۱ء (The Contract Act) کے دفعہ نمبر ۱۱، ۲۱، ۳۱، ۴۱، ۵۱ اور ۶۱، کے تحت بھی عدم بلوغ، جنون، جبرواکراہ، اضطرار، اور اس قسم کے دوسرے عوارض کے نتیجے میں کئے گئے معاہدے کو بوجہ عذر غیر جائز معاہدے (Voidable and Void Contract) سے تعبیر کیا گیا ہے۔
[قانون معاہدہ مجریہ1872ء، (The Contract Act)،( سول اینڈ کریمنل لاء پبلیکشنز، لاہور)، ص40 ومابعد]

Wednesday 5 October 2022

آخری پیغمبر محمد ﷺ کا تعارف اور ان کے ممتاز اوصاف

آخری پیغمبر ﷺ کو جانئے» ذاتی اور صفاتی ناموں سے تعارف:

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَعْنٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏

لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ.

ترجمہ:

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معن نے کہا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے محمد بن جیبر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد  (جبیر بن مطعم ؓ)  نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:

میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد، احمد اور ماحی ہوں  (یعنی مٹانے والا ہوں)  کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں کہ تمام انسانوں کا  (قیامت کے دن)  میرے بعد حشر ہوگا اور میں عاقب ہوں یعنی خاتم النبین ہوں۔ میرے بعد کوئی نیا پیغمبر دنیا میں نہیں آئے گا۔

[صحیح بخاری »

کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان،

باب: باب: رسول اللہ ﷺ کے ناموں کا بیان۔

حدیث نمبر: 3532]




تشریح :

یہ تمام نام سابقہ کتابوں میں موجود تھے اور پچھلی امتوں کے اہلِ علم کے پاس محفوظ تھے۔


(1) آپ ﷺ مُحَمَّدٌ(یعنی بہت تعریف کے قابل) ہیں، کیونکہ انسانوں اور پیغمبروں میں آپ ﷺ کی تعریف سب سے زیادہ کی گئی ہے۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن صحابہ کرام سے) فرمایا کہ تمہیں اس پر تعجب نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قریش مکہ کی گالیوں اور لعنتوں سے کس طرح محفوظ رکھا ہے ؟ وہ مُذَمَّم(یعنی مذمت کیا گیا) کو گالیاں دیتے ہیں اور مُذَمَّم پر لعنت کرتے ہیں جب کہ میں "مُحَمَّدٌ"(یعنی بہت تعریف کیا گیا) ہوں۔
[صحيح البخاري:3533، سنن النسائى:3468]
تشریح :
"مُذَمَّم" معنی کے اعتبار سے "مُحَمَّدٌ" کی ضد ہے یعنی وہ شخص جس کی مذمت وبرائی کی گئی ہویہ لفظ قریش مکہ کے بغض وعناد کا مظہر تھا ، وہ بدبخت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو " محمد " کہنے کے بجائے مذمم کہا کرتے تھے اور یہی نام لے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بد زبانی کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لعن وطعن کیا کرتے تھے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کرتے تھے کہ قریش مکہ جو بدزبانی کرتے ہیں اور سب وشتم کے تیر پھینکتے ہیں ، ان سے آزردہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، وہ بدبخت تو مذمم کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور مذمم پر لعن طعن کرتے ، اور میں مذمم نہیں ہوں بلکہ محمد ہوں ، یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ اس نے میرے نام کو جو میری ذات کا مظہر ہے ، ان حاسدوں کی گالیوں اور لعن طعن کا نشانہ بننے سے بچا رکھا ہے۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔



(2)آپ ﷺ اَحْمَدٌ(یعنی سب سے زیادہ تعریف کرنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے الله کی سب سے زیادہ اور بہترین تعریف بیان کی ہے اور قیامت کے دن مقامِ محمود پر ایسی تعریف بیان کرنے کی توفیق عطا کی جائے گی جو کسی اور کو نہیں عطا کی گئی۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔

(3)آپ ﷺ اَلْمَاحِيْ(یعنی مٹانے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کے ذریعہ الله نے کفر کے غلبہ کو مکہ سے مٹایا۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔

(4)آپ ﷺ اَلْحَاشِرُ(یعنی اٹھانے/اکٹھا کرنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھیں گے اور پھر آپ ﷺ کے سامنے(ارد گرد) قبروں سے لوگوں کو اٹھائے/اکٹھا کئے جائیں گے۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔

(5)آپ ﷺ اَلْعَاقِبُ(یعنی اخیر میں آنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی(پیغمبر)نہیں۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔





اللہ کے پیغمبر کے بھیجے جانے ﷺ کے مقاصد

محبت رسول اللہ ﷺ کی علامات

توہین رسالت کا موثر حل سنتوں کو زندہ کرنا
میں تو بس ایک بشر(آدمی)ہوں۔۔۔[سورۃ الکھف:110،فصلت:6]
http://raahedaleel.blogspot.com/2017/01/1109.html
حدیث : مجھے حد سے نہ بڑھاو جیسے ...