Monday 18 January 2016

تربیتِ اَولاد کی فرضیت


تربیتِ اولاد کے بنیادی اصول:
تم اپنے بچوں کو الله کے حقوق ادا کرنا سکھاؤ، الله پاک خود ہی تمہارے بچوں کو والدین کے حقوق ادا کرنا سکھادے گا.
[دلائلِ قرآن: سورۃ لقمان:15، الطور:21]
جو خالق کی فرمانبرداری نہیں کرے گا تو اسکی اولاد بھی اسکی فرمانبرداری نہیں کرے گی۔














بچے اور ہماری ذمے داریاں
یہ ایک حقیقت ہے کہ بچے الله تعالیٰ کا بہت بڑا عطیہ ہیں ، خود قرآن نے ان کو آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ ( الفرقان:74) اور الله تعالیٰ نے دواولو العزم پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کے سلسلہ میں ذکر فرمایا کہ انہو ں نے خدا سے اولاد کے لیے دعا فرمائی اور الله تعالیٰ نے اس کو قبول فرمایا۔ (الصافات:100۔مریم:5) اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کی خواہش انسان کی ایک فطری اور جائز خواہش ہے، الله تعالیٰ ہی نے ان کو انسان کے لیے آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنایا ہے، بچوں کے بغیر کسی خوب صورت اور جاذب قلب ونظر سماج کا تصور بھی ممکن نہیں، اسلام نے جیسے سماج کے مختلف طبقات کے حقوق اور واجبات متعین کیے ہیں ؛ اس طرح بچوں سے متعلق ان کے سرپرستوں اور سماج کے فرائض کی بھی راہ نمائی کی ہے، بچوں سے متعلق اسلام کا پہلا سبق یہ ہے کہ انسان دنیا میں نئے انسان کی آمد پر خوش ہو ،نہ کہ غمگین اور فکر مند، الله تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام (ھود:71-69) اور حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحییٰ علیہ السلام (آل عمران:29) کی پیدائش کی اطلاع دی تو اس کو ”خوش خبری“ سے تعبیر فرمایا گیا ،بچوں کی پیدائش خوشی کی بات ہے، اس میں لڑکوں اور لڑکیوں کی کوئی تفریق نہیں، اسلام سے پہلے لوگ لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہوتے اور اس کو اپنے لیے باعث عار تصور کرتے تھے قرآن مجید نے اس کو کافرانہ طریقہ قراردیا ہے اور اس کی مذمت فرمائی ہے۔ (الزخرف:17) کیوں کہ انسان نہیں جانتا کہ اس کے لیے لڑکے زیادہ مفید ہوں گے یا لڑکیاں؟ اور کون مشکل وقتوں میں اس کے کام آئے گا؟ بچوں کا سب سے بنیادی حق ان کے زندہ رہنے کا حق ہے ، ہندوستان نے بچوں کے حقوق پر منعقدہ کنونشن کے دستاویز پر دستخط کیا ہے، اس میں پہلا حق یہی ہے اسلام نے جس طرح اس حق کی رعایت رکھی ہے شاید ہی اس کی مثال مل سکے، عام طور پر بچہ کا قانونی وجود اس وقت مانا جاتا ہے جب اس کی پیدائش ہو چکی ہو، لیکن اسلام کی نگاہ میں جس روز ماں کے رحم میں تخم انسانی نے قرار پکڑا اسی دن سے وہ ایک قابل احترام اور لائق حفاظت انسان ہے؛ اسی لیے اسلام کی نظر میں اسقاطِ حمل جائز نہیں ،بچہ کی پیدائش کے بعد اس کی حفاظت اور بقا کا انتظام نہ صرف والدین اور سرپرست،بلکہ پوری انسانی برادری کا فریضہ ہے، اسی مقصد کے لیے شریعت نے ماں پر یہ اخلاقی حق رکھا ہے کہ وہ بچوں کودودھ پلائے، قرآن مجید نے ایک سے زیادہ مواقع پر اس کا ذکر کیا ہے ، اس لیے میڈیکل سائنس میں یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ بچوں کے لیے ماں کے دودھ سے زیادہ مفید کوئی غذا نہیں، پھر جب تک بچے اس لائق نہ ہو جائیں کہ خود کسبِ معاش کر سکیں اس وقت تک بچوں کی کفالت والدین اور والدین نہ ہوں تو دوسرے قریبی رشتہ داروں پر رکھی گئی ہے۔ ماں باپ کے لیے یہ روا نہیں رکھا گیا کہ وہ نابالغ بچوں کو مزدوری پر لگائیں او راپنی ذمے داری سے پہلوتہی برتیں ۔ (الدرالمختار مع الرد:337/5)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے سرپرستوں کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ بچوں کے معاملہ میں ایثار سے کام لیا جائے، چناں چہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا خدا نے ہر شخص کے لیے مجھ سے پہلے جنت کا داخلہ حرام کر دیا ہے ، لیکن میں قیامت کے روز اپنی داہنی طرف ایک عورت کو جنت کے دروازے کی سمت دوڑتے ہوئے دیکھوں گا، کہوں گا کہ اسے کیا سوجھی کہ مجھ سے پہلے جنت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے؟ مجھ سے کہا جائے گا کہ یہ ایک خوب صورت بیوی تھی، اس کی یتیم لڑکیاں تھیں، اس نے اپنی ساری خوب صورتی ان لڑکیوں کی تربیت کی بھینٹ چڑھا دی، یہاں تک کہ لڑکیاں جوان ہو گئیں، الله تعالیٰ نے اس کے اس فعل کی قدردانی کی، اس کا نتیجہ آپ دیکھ رہے ہیں ۔ ( کنزالعمال) سب سے زیادہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جس بات کی تاکید فرمائی وہ بچوں کی تعلیم او ران کی تربیت ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اسلام بچوں کی جبری تعلیم کا بھی قائل ہے تو بے جانہ ہو گا، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر مسلمان کے لیے تحصیل علم کو فرض قرار دیا ہے۔ ( ابن ماجہ عن انس) ظاہر ہے کہ فرائض میں ضرورت بڑھنے پر جبر سے بھی کام لیا جاسکتا ہے ، امام بخاری  نے اپنی کتاب میں ایک عنوان کے تحت ثابت کیا ہے کہ پانچ سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز ہونا چاہیے۔ (بخاری ، باب الاغتباط فی العلم والحکمة)

”تعلیم“ میں دین کی تعلیم بھی داخل ہے کہ بقدر ضرورت علم دین حاصل کیے بغیر نہ انسان اپنی دنیا کو بہتر بنا سکتا ہے اور نہ آخرت سنور سکتی ہے، اس لیے ایسے علم کا حصو لبھی ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی معاشی ضروریات کو پوری کرسکے اور ایک باعزت اور خود دار شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اس کے لیے ممکن ہو، قرآن مجید نے اس کے لیے ایک جامع تعبیر اختیار کی ہے کہ اپنے آپ کو او راپنے اہل وعیال کو دوزخ سے بچاؤ ﴿قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً﴾․(التحریم:6) بچوں کو دوزخ سے بچانے کے لیے دین کی تعلیم تو ضروری ہے ہی، طریقہ معاش کی بھی تعلیم ضروری ہے ، تاکہ وہ جائز طریقہ پر اپنی ضروریات کو پوری کرسکیں اور غیر سماجی طریقہ اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوں، بچوں کی تعلیم اسلام کی نگاہ میں کس درجہ اہم ہے ؟ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ گو اصولی طور پر بالغ ہونے کے بعد بچوں کی کفالت باپ پر واجب نہیں، سوائے اس کے کہ وہ معذور ہو، لیکن اگر لڑکے حصول تعلیم میں مشغول ہوں اور والدین ان کے اخراجات ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، تو پھر ان کا نفقہ بھی واجب ہے ، اسی طرح فقہا نے طلبہ کے لیے زکوٰة کو جائز قرار دیا اور بعض اہلِ علم نے ان کو بھی قرآن مجید کے بیان کیے ہوئے مصارف زکوٰة ”فی سبیل الله“ کے زمرہ میں رکھا ہے، بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت بھی ضروری ہے ، تربیت ہی دراصل انسان کو انسان بناتی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص نے اپنی اولاد کو اچھے اخلاق وآداب سے بہتر عطیہ نہیں دیا۔ ( ترمذی، باب ماجاء فی ادب الولد) اور ایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بچوں کو تہذیب اور شائستگی سکھاؤ احسنوا أدبھم․ ( ابن ماجہ ، باب بر الوالد الخ) آپ صلی الله علیہ وسلم واقعی انسانی نفسیات کے عارف اوررہبر تھے اور ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں راہ نمائی فرمایا کرتے تھے، چناں چہ ایک موقعہ پر نہایت جامعیت کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بچوں کے ان حقوق کا ذکر فرمایا جووالدین پر ہیں، ارشاد ہوا:ساتویں دن بچہ کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور نہلایا دھلایا جائے، تیرہ سال میں نماز اور روزہ کے لیے سر زنش کی جائے سولہ سال کی عمر میں باپ اس کی شادی کر دے پھر اس کا ہاتھ پکڑے ا ورکہے میں نے تجھے اخلاق سکھا دیے قد ادبتک تعلیم دے دی اور تمہارا نکاح کر دیا، میں الله کی پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ تو دنیامیں میرے لیے فتنہ کا یا آخرت میں عذاب کا باعث بنے۔ (مسند احمد، ابن حبان عن انس ) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اسوہ اور ارشادات کے ذریعہ ہمیں بچوں کی تعلیم وتربیت کے طریقوں سے بھی آگاہ فرمایا، اس سلسلہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ بچوں کے مزاج اور موقع ومحل کو دیکھتے ہوئے کبھی نرمی اور کبھی سختی کا معاملہ کیا جائے بے جاتشدد اور ہر وقت سخت گیری فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچاتی ہے، اس لیے اصل میں بچوں کے ساتھ شفقت مطلوب ہے، حضرت انس  راوی ہیں کہ میں نے کسی شخص کو بال بچوں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ شفیق نہیں دیکھا ( مسلم)

ایک بار حضرت اقرع بن حابس  نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت حسین  کا بوسہ لے رہے ہیں، حضرت اقرع  نے کہا میرے دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی ان کا بوسہ نہیں لیا! آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔



آپ صلی الله علیہ وسلم کی شفقت ومحبت کچھ اپنے ہی بچوں کے ساتھ مخصوص نہیں تھی، بلکہ دوسروں کے بچوں کے ساتھ بھی آپ صلی الله علیہ وسلم بہت ہی شفقت اور بے تکلفی کا معاملہ فرماتے، جب سفر میں جاتے یا سفر سے واپس تشریف لاتے تو مدینے سے جو بچے آپ صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑنے یا آپ صلی الله علیہ وسلم کے استقبال کے لیے آگے تک جاتے آپ صلی الله علیہ وسلم ان کو اپنی سواری پر آگے پیچھے بیٹھا لیتے۔ بچوں کے ساتھ ہمیشہ بے احترامی او رحوصلہ شکنی کا رویہ بہتر نہیں، ان کے مزاج اور نفسیات کا لحاظ ضروری ہے، جہاں حد سے زیادہ سختی بچوں کی تربیت کے لیے مضر ہے، وہیں یہ بھی روا نہیں کہ جہاں تنبیہ اور ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت ہو وہاں بھی اپنے آپ کو مہر بہ لب رکھا جائے، اس سے بچوں کی تربیت نہیں ہو پاتی اور ان میں بد تہذیبی کا رحجان بڑھتا جاتا ہے۔ بعض بچوں میں اپنی ہر ضد کو پورا کرنے کا مزاج بن جاتا ہے ، یہ بات بچوں کے مستقبل کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے حسب ضرورت بچوں کی تنبیہ کا بھی حکم دیا ہے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بچے دس سال کے ہو جائیں او رنماز پڑھنے میں کوتاہی کریں تو ان کی کسی قدر سرزنش بھی کی جائے۔ (ترمذی:93/1) اسی لیے فقہا نے والدین کو بال بچوں کی اور اساتذہ کو طلبا کی مناسب حد میں رہتے ہوئے تادیب اور سر زنش کی اجازت دی ہے ، بچوں کے لیے دعا خیر بھی ان کا ایک حق ہے ،اپنے بچوں کے لیے بھی اور قوم کے بچوں کے لیے بھی، کیوں کہ دعا بہرحال اثر رکھتی ہے ، قرآن مجید میں بعض انبیاء کی دعائیں ذکر کی گئی ہیں، جن میں الله تعالیٰ سے اولاد کی صالحیت اور حق پر استقامت کا ذکر آیا ہے، اس سلسلہ میں مشہور محدث اورصاحب دل امام عبدالله بن مبارک  کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ اپنی ابتدائی زندگی میں گانے بجانے اور عیش وعشرت میں مست رہتے تھے، یہاں تک کہ شراب بھی منھ سے لگ گئی تھی، آپ کے والدین کو اس پر بڑی کڑھن تھی اور دن رات رو رو کر الله سے دعائیں کرتے تھے، اسی درمیان جب ایک دن عیش ونشاط کی بزم آراستہ تھی اور شراب کا دور چل رہا تھا کہ آپ کی آنکھ لگی گئی اور آپ  نے خواب میں دیکھا کہ ایک خوب صورت باغ ہے، جس میں ایک ٹہنی پر پرندہ بیٹھا ہوا ہے او اوروہ اس آیت کو پڑھ رہا ہے، ترجمہ: ” کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل الله کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں۔“ (الحدیث:16) امام عبدالله بن مبارک بے چین ہو کر اٹھے، ان کی زبان پر تھا کہ خدایا!وہ وقت آگیا، پھر تو اسی وقت جام چکنا چور کر دیے، رنگین کپڑے اتار پھینکے، غسل کیا اور خدا کے حضور توبہ کی، یہاں تک کہ علم ومعرفت کے اُفق پر خورشید بن کر چمکے کہ شاید ہی کوئی محدث اور فقیہ ہو، جس نے ان کی علمی عظمت اور فضل وتقویٰ کا اعتراف نہ کیا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ والدین کی دعا کا اثر تھا۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ مشینی دور میں بچوں کو سرپرست اپنا وقت نہیں دے پاتے ،جو بچوں کے لیے سب سے اہم ضرورت ہے، وہ باپ اور بزرگوں کی سچی محبت سے محروم ہیں اور بچوں کی تربیت کے پہلو پر بے توجہی عام ہے ،کتابوں کی دکانوں پر ایسی کتابوں کی بھر مار ہے جس سے بچوں کے اخلاق بگڑتے ہیں ، لیکن ایسا لٹریچر مقدار اور معیار کے اعتبار سے بہت کم ہے، جو بچوں کی فطری او راخلاقی تربیت کا سروسامان ہو، دوسرے ذرائع ابلاغ بھی بچوں میں تعمیری رحجان پیدا کرنے کے بجائے تخریبی اور غیر اخلاقی میلان پیدا کرنے کا کام کر رہے ہیں ، اس لیے بچوں کا حق صرف یہ نہیں کہ ان کے لیے خورد ونوش کا انتظام کر دیا جائے ، بلکہ ان کے لیے اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کو معلم اخلاق بنایا جائے اور لوگوں کو یہ بات سمجھائی جائے کہ بچوں کے لیے کمانا ہی سب کچھ نہیں، بلکہ بچوں پر اپنے وقت کا صرف کرنا بھی بنیادی اور اہم ہے اور ان کو اس سے محروم رکھنا ان کے ساتھ ناانصافی اور حق تلفی ہے #
        لے لے کے خدا کا نام چلاّتے ہیں
        پھر بھی اثر دعا نہیں پاتے ہیں
        کھاتے ہیں حرام لقمہ پڑھتے ہیں نماز
        کرتے نہیں پرہیز دوا کھاتے ہیں





تربیتِ اولاد کا خلاصہ:
(1)سچ بولنا، (2)پنج وقتہ نماز پڑھنا (3)اور دوسروں کی خدمت کرنا۔
















دینی ماحول کی فراہمی، والدین کی اہم ذمے داری
انسان کی فطرت میں بنیادی طور پر خیر کا غلبہ ہے، اسی لیے ہر شخص سچائی، انصاف، دیانت داری، مروت اور شرم وحیا کو قابل تعریف سمجھتا ہے اور اس کے مقابلہ میں جھوٹ، ظلم، خیانت، بے مروتی او ربے حیائی کو ناپسند کرتا ہے، یہاں تک کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص جھوٹ بولتا ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص اس کو جھوٹا کہہ دے تو اس سے اس کو تکلیف پہنچتی ہے اور بعض اوقات یہ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، انسان بعض دفعہ بے حیائی کا کام کرتا ہے ؛ لیکن اپنے عمل پرپردہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ، یہ دراصل فطرت کی آواز ہے؛ اسی لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر بچہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسلام پر پیدا ہوتا ہے، یعنی الله کی فرماں برداری کے مزاج پر پیدا کیا جاتا ہے؛ لیکن اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں:” کل مولود یولد علی الفطرة فابواہ یھودانہ، اوینصرانہ، او یمجسانہ․“(بخاری 1/185)

لیکن خارجی حالات کی وجہ سے بہت دفعہ انسان اپنی اصل فطرت سے ہٹ جاتا ہے، اس کا رحجان گناہ کی طرف بڑھنے لگتا ہے، ظلم وناانصافی، بے حیائی وبے شرمی، کبروغرور اور دوسروں کی تحقیر سے اس کے قلب کو تسکین ملتی ہے، یہ انسان کی اصل فطرت نہیں ہے ؛ بلکہ خارجی عوامل کی وجہ سے پیدا ہونے والا انحراف ہے!

جو خارجی عوامل انسان پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں، وہ بنیادی طور پر دو ہیں: ایک: ماحول، دوسرے: تعلیم، تعلیم کامطلب تو واضح ہے، ماحول کے اصل معنی گردوپیش کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیان رہتا ہے، فکر ونظر او رعملی زندگی میں اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، پانی کی اصل فطرت ٹھنڈا ہونا ہے، وہ نہ صرف خود ٹھنڈا ہوتا ہے ؛ بلکہ دوسرے کو بھی ٹھنڈک پہنچاتا ہے ؛ لیکن جب سخت گرمی او رتپش کا موقع ہوتا ہے اور دُھوپ کی تمازت بڑھی ہوئی ہوتی ہے تو پانی بھی گرم ہو جاتا ہے او رپینے والوں کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی، اسی طرح انسان پر اس کے ماحول کا اثر پڑتا ہے۔

اگر اس کو نیک، شریف، با اخلاق لوگوں کا ماحول میسر آجاتا ہے تو اس کی فطری صلاحیت پروان چڑھتی ہے اور اس کی خوبیاں دو چند ہو جاتی ہیں، اس کی مثال ایسی ہے، جیسے پانی میں برف ڈال دیا جائے کہ اس سے اس کی ٹھنڈک اور بڑھ جاتی ہے اور یہ پانی پیاسوں کے لیے اکسیر بن جاتا ہے ، اگر اس کو غلط ماحول ملے تو اس کے اندر جو خوبیاں تھیں وہ بھی بتدریج ختم ہو جاتی ہیں، اس کی مثال اس صاف شفاف پانی کی ہے، جس کے اندر کسی نے گندگی ڈال دی ہو۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ماحول کی اہمیت او راس کے اثرات کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نیک آدمی کی مثال اس شخص کی ہے جو مشک رکھے ہوا ہو، اگر تم کو اس سے مشک نہ مل سکے تو خوشبو تو مل جائے گی اور خراب آدمی کی دوستی وہم نشینی کی مثال بھٹّی دُھونکنے والے کی ہے، اگر تمہارا کپڑانہ جلے تو کم سے کم اس کے دُھوئیں سے نہ بچ سکو گے۔ (بخاری،باب المناسک)

ماحول کی اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن وحدیث میں اس کی خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ انسان اچھے ماحول میں رہے اور خراب ماحول سے اپنے آپ کو بچائے، الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تم راست گو اور راست عمل لوگوں کے ساتھ رہا کرو: ﴿کونوا مع الصادقین﴾․(توبہ)

مدینہ تشریف لانے کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے تمام مسلمانوں پر یہ بات واجب قرار دی گئی کہ وہ اپنے اپنے علاقہ کو چھوڑ کر مدینہ میں آکرمقیم ہو جائیں، چناں چہ جزیرة العرب کے طول وعرض سے صحابہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں آباد ہو گئے، ہجرت کرنے والوں کی تعداد چند سوتھی؛ لیکن فتح مکہ کے موقع پر جو لوگ آپ کے ہم رکاب تھے، ان کی تعداد دس ہزار تھی، اور ظاہر ہے کہ فتح مکہ کی مہم میں ایسا نہیں ہوا تھا کہ مدینہ بالکل خالی ہو جائے، بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کے علاوہ بہت سے جوان بھی مدینہ میں موجود رہے ہوں گے ؛ تاکہ مدینہ کا تحفظ خطرہ میں نہ پڑ جائے، ان میں بیشتر لوگ ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے، ہجرت کے حکم کا بنیادی سبب یہی تھا کہ لوگوں کو ایک معیاری دینی ماحول ملے، یہ ماحول ہی کا اثر تھا کہ جو لوگ ظلم وجور، قتل وقتال، بے حیائی وبے شرمی اور شراب وکباب کے لیے مشہور تھے، انہوں نے ایک ایسی بلند پایہ سوسائٹی کا نقشہ چھوڑا کہ انبیائے کرام کے سوا زمین کے سینے پر اور آسمان کے سائے میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی، یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بافیض صحبت اور ماحول کا اثر تھا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے مختلف طریقوں پر ماحول سازی کا حکم دیا ہے جیسا کہ گذرا، آپ نے اچھے لوگوں کی صحبت اختیا رکرنے کی ترغیب دی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ فرض نمازوں کے علاوہ وہ دوسری نمازیں گھروں میں پڑھو، یہ افضل طریقہ ہے۔(بخاری)

حضرت عبدالله بن عمر سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ گھروں میں نماز پڑھا کرو، اس کو قبرستان نہ بناؤ۔ ( مسلم)

فقہاء نے بھی یہ بات لکھی ہے کہ فرض نمازوں کے پہلے اور بعد میں جو سنن مؤکدہ ہیں، انہیں گھر میں ادا کریں۔ (حاشیة الطحطاوی:1/30)

غور کیجیے کہ مسجد سے زیادہ پاکیزہ جگہ کون سی ہو سکتی ہے او رنماز جیسی عبادت کے لیے کون سا مقام ہے جو اس سے زیادہ موزوں ہو؛ لیکن اس کے باوجود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سنن ونوافل کو گھر میں پڑھنے کا حکم دیا، بظاہر اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی وجہ سے گھر کا ماحول دینی بنے گا، بچے جب اپنے بڑوں کو نماز پڑھتے ہوتے دیکھتے ہیں تو اکثر وہ ان کی نقل کرنے لگتے ہیں او رنماز کی اہمیت ان کے تحت الشعور میں بیٹھ جاتی ہے۔

اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی ہے، حضرت ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ؛ بلکہ اس میں تلاوت کیا کرو، خاص کر سورہٴ بقرہ کی کہ جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے، شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ ( مسلم)

گھر میں تلاوتِ قرآن ایک ایسا عمل ہے جو ماحول بنانے میں بہت مؤثر ہوتا ہے، گھر کے بچوں کے ذہن میں بھی یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہمیں قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے گھر میں ذکر کرنے کی فضیلت بیان کی ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں الله کا ذکر کیا جاتا ہے او رجس گھر میں الله کا ذکر نہیں ہوتا ہے، ان کی مثال زندہ اورمردہ شخص کی ہے ۔ ( مسلم)

اسی طرح اس بات کو بھی بہتر قرار دیا گیا ہے کہ گھر میں کوئی جگہ نماز کے لیے مخصوصی کر لی جائے، اگر گھر میں نماز پڑھنی ہو تو وہیں نمازپڑھی جائے، اس کو حدیث وفقہ کی کتابوں میں ” مسجد البیت“ سے تعبیر کیا گیا ہے، ماحول کو بگاڑ سے بچانے کی تدبیر کے طور پر شریعت کے اس حکم کو دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کے مکان یا زمین کے پڑوس میں مکان یا زمین فروخت کی جائے تو پڑوسی کو اس میں حق شفعہ حاصل ہوتا ہے، اگر پڑوسی وہی قیمت ادا کرنے کو تیار ہو، جو قیمت دوسرا دے رہا ہو تو اس کو اس پڑوسی کے ہاتھ ہی بیچناواجب ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی ہدایت فرمائی۔ ( سنن ابی داود:3518)

ماحول کا اثر یوں تو ہر سن وسال کے لوگوں پرپڑتا ہے ؛ لیکن بچوں پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے، انسان کے جسم میں سب سے پہلے دماغ کی نشو ونما ہوتی ہے اور دماغ کی ترقی کا مرحلہ تیز رفتاری کے ساتھ طے پاتا ہے، اسی لیے بچوں میں کسی بات کے اخذ کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے، وہ بولنے والوں سے الفاظ سیکھتا ہے، چلنے والوں سے چلنے کا انداز سیکھتا ہے، اپنے بڑوں سے اُٹھنے بیٹھنے او رکھانے پینے کے طریقے سیکھتا ہے، گانے سن کر گنگناتا ہے، گالیاں سن کر گالیاں ہی اس کی زبان پر چڑھ جاتی ہیں او راگر اچھی باتیں سنے تو ان کو دہراتا ہے، اگر باپ کو نماز پڑھتے ہوتے دیکھتا ہے تو رُکوع وسجدے کی نقل کرتا ہے، مسجد جاتے ہوئے دیکھتا ہے تو مسجد جانے کی کوشش کرتا ہے، لڑکے اپنے والد کے سر پر ٹوپی دیکھ کر ٹوپی پہننا چاہتے ہیں اور لڑکیاں اپنی ماں کے سر پردوپٹہ او رجسم پر برقعہ دیکھ کردوپٹہ اوربرقعہ پہننا چاہتی ہیں، غرضیکہ اس کا ذہن تیزی سے ماحول میں پیش آنے والی چیزوں و کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

موجودہ حالات میں صورتِ حال یہ ہے کہ بچہ صبح سات بجے اسکول جانے کی تیاری کرتا ہے او رشام پانچ بجے یا اس کے بعد گھر واپس آتا ہے ، جانے سے پہلے کا وقت سونے اور تیاری کرنے میں گذر جاتا ہے، واپسی کے بعد بھی مغرب تک کا وقت کھیل کود وغیرہ میں، گویا ان کا پورا دن اسکول کے ماحول میں گذرتا ہے، مغرب کے تین ساڑھے تین گھنٹے کے بعد بچے سو جاتے ہیں ؛ کیوں کہ ان کی عمر کے لحاظ سے انہیں آٹھ گھنٹہ سونا چاہیے، اس تین چار گھنٹے میں انہیں اسکول کا ہوم ورک بھی کرنا ہے او رکھانا پینا بھی ہے ؛ اس لیے بہت کم وقت ایسا بچتا ہے، جس میں وہ اپنے والدین او ربھائی بہنوں کے ساتھ بیٹھیں، کچھ وقت مغرب کے بعد او رکچھ وقت فجر کے بعد، عمومی صورت حال یہ ہے کہ والد آفس اور کاروبار سے اتنی دیر سے آتے ہیں کہ بچے نیند کی آغوش میں جاچکے ہوتے ہیں، ماں کھانا پکانے اور اگر خدانخواستہ ٹی وی دیکھنے کا شوق ہو تو ٹی وی دیکھنے میں اپنا وقت گزار دیتی ہیں، اکثر بچوں کے لیے ماں باپ کے پاس کوئی وقت نہیں ہوتا۔

اسکول کا ماحول یہ ہے کہ اگر عیسائی مشنری اسکولوں میں گئے تو وہ صبح سے شام تک عیسائی طور طریقوں کو برتتے ہوئے دیکھتے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر اس طرح آویزاں ہوتی ہے کہ گویا وہ خدا ہیں اور بندوں پر اپنا دست کرم رکھ رہے ہیں، ہندو انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں داخل ہوئے تو وہاں مورتیاں ہیں، وندے ماترم کا مشرکانہ ترانہ ہے، ہندوتہوار منائے جاتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ بچوں پر ہندو آئیڈیالوجی نقش ہو کر رہ جائے، مسلم انتظامیہ کے تحت جو اسکول ہیں ان میں معیار تعلیم کے پست ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کا فقدان ہے، مخلوط تعلیم کا نظام ہر جگہ ہے، یونی فارم شرم وحیا کے تقاضا سے آزاد ہے، کلچرل پروگرام کے نام سے بے ہودہ ڈرامہ کرایا جاتا ہے اور لڑکیاں رقص کرتی ہیں، چند ہی مسلم ادارے اس سے مستثنیٰ ہیں اور وہ بہرحال قابل تحسین اور لائق تشکر ہیں۔

ان حالات میں ماں باپ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں دینی ماحول بنائیں، چھٹی کے اوقات اور بچوں کی تعطیل کے ایام اپنے بچوں کے ساتھ گزاریں، ان اوقات میں انہیں ضروری دینی باتیں سکھائیں او رسمجھائیں، نماز اور تلاوتِ قرآن کا ماحول بنائیں ، گھر کی خواتین ڈھکا چھپا باپردہ لباس پہنیں، گھر کے بڑے مرد وعورت آپسی گفتگو میں تہذیب وشائستگی او رباہمی ادب واحترام کا لحاظ رکھیں، زبان کی حفاظت کریں او رکوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں جس میں بچوں سے تربیت کی باتیں کہی جاسکتی ہوں، موجودہ حالات میں اگر ہم نے بچوں کو دین واخلاق سے ہم آہنگ ماحول فراہم نہیں کیا تو آئندہ نسل کے لیے بڑا خطرہ ہے؛ کیوں کہ ہمارا تعلیمی نظام بھی دین واخلاق سے بیگانہ ہے او رتعلیم گاہ کا ماحول بھی اخلاقی بگاڑ کا شکار ہے، ان حالات میں اگر والدین نے بچوں کو مناسب ماحول فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی تو یہ بچوں کے ساتھ یقینا بڑا ظلم ہے اور ان کے والدین وسرپرست عندالله جواب دہ ہیں۔













اولاد کی تربیت




اولاد الله تعالیٰ کی منجملہ نعمتوں میں ایک عظیم نعمت ہے اور دنیوی زندگی کی زیب وزینت ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :﴿المال والبنون زینة الحیاة الدنیا﴾یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے رب کائنات سے درخواست کی﴿رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ﴾․ (سورة الصافات:100 و101)۔

حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی﴿وَإِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِن وَرَائِیْ وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِراً فَہَبْ لِیْ مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً،یَرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیّاً، یَا زَکَرِیَّا إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُہُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَل لَّہُ مِن قَبْلُ سَمِیّاً﴾․(سورة مریم آیت:5،7)

الله تعالیٰ کے مخصوص بندوں کی پکار بھی یہی رہی ہے﴿رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْیُن﴾․(سورة الفرقان، آیت:74)

بعض مضمون نگاروں نے بھی لکھا ہے کہ”اشھی ثمرات الحیاة الی الانسان: الاولاد“ انسان کے نزدیک پوری زندگی کی مرغوب اشیا میں سب سے مرغوب چیز اولاد ہے۔ اور یہی زندگی کا خوش گوار پھل ہے۔ تعمیر ارض ان ہی پر منحصر ہے اوریہی تخلیق کائنات کا منشا ہے۔ ایک مرتبہ امیر معاویہ رضی الله عنہ اپنے بیٹے یزید پر ناراض ہوئے تو احنف  نے کہا: اے امیر المومنین!”اولادنا ثمار قلوبنا وعماد ظہورنا“ اولاد ہمارے دلوں کے ثمرات ہیں اور کمر کے ستون ہیں۔

امام غزالی  نے فرمایا”الصبی امانة عند والدیہ وقلبہ الطاہر جو ہرة نفسیة ساذجة خالیة من کل نقش وصورة، وھو قابل لکل ما نقش علیہ…“ اولاد والدین کے نزدیک ایک امانت ہیں، جن کے قلوب سادہ لوح کی مانند ہیں، جو چیز نقش کرنا چاہیں کر لیں۔

مذکورہ بالا باتوں سے واضح ہوا کہ اولاد الله رب العزت کی ایک عظیم نعمت ہے۔ جب اولاد نعمت ہیں تو ان کی قدر کرنی چاہیے، ان کی قدر یہی ہے کہ ان کی تعلیم وتربیت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔

والدین کے لیے ضروری ہے کہ اپنی اولاد کو سب سے پہلے ”توحید“ کی تعلیم دیں۔ بچوں کی شروع سے ہی ایسی اسلامی تربیت کریں کہ کہ زندگی کی آخری سانس تک ” موحد“ رہیں۔ ان کا عقیدہٴ توحید زندگی کے کسی موڑ پر نہ لڑکھڑا ئے۔ بچوں کے ذہن پر ایام طفولت سے یہ نقش کر دیں کہ جس ذات کی ہم عبادت کرتے ہیں ، اس کا نام الله ہے، وہ اپنی ذات وصفات میں منفرد ہے ، اس جیسی کوئی چیز نہیں ، اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں، ساری کائنات کا نفع ونقصان، موت وحیات، بیماری وشفا، اس کے دست قدرت میں ہے۔ وہ غنی ہے، سب اس کے محتاج ہیں۔

ماں کے لیے ضروری ہے کہ جس وقت بچے بولنا سیکھیں سب سے پہلے انہیں اپنے خالق ومالک ” الله“ کا مبارک نام سکھائے، پھر کلمہ توحید”لا الہ الله“ سکھائے۔ حضرت عبدالله بن عباس  کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”افتحوا علی صبیانکم اول کلمة بلا الہ الا الله․“ (رواہ الحاکم) اپنے بچوں کی زبان سب سے پہلے ”لا الہ الا الله“ سے کھلواؤ۔ بچہ جب تھوڑا سا سمجھنے لگے تو اس کی سمجھ کے مطابق اسے حلال وحرام کی تعلیم دیں۔

حضرت عبدالله بن عباس فرماتے ہیں:”اعملوا بطاعة الله، واتقوا معاصی الله، ومروا اولادکم بامتثال الاوامر واجتناب النواھی، فذلک وقایة لھم ولکم عن النار․“ (رواہ ابن جریر)

الله کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے باز رہو۔ اپنی اولاد کو احکامات الہیہ کو بجالانے کی تلقین کرو اور محرمات سے متنبہ کرو، اسی میں تمہارے او رتمہاری اولاد کے لیے بچاؤ ہے، عذاب نار سے۔ جیسا کہ خود الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارا﴾․( سورة التحریم، آیت:6)

اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ۔

حضرات فقہاء اسی آیت سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے او راس پر عمل کرانے کی کوشش کرے۔ (معارف القرآن)

حضرت عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”مروا اولادکم بالصلاة وھم ابناء سبع سنین، واضربوھم علیھا وہم ابناء عشر، وفرقوا بینھم المضاجع․“ (ابوداؤد)

بچے جب سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دیں اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کی پٹائی کریں۔ دس سال کی عمر میں ان کے بستر الگ کر دیں۔

عام طور پر بچے سات سال کی عمر میں سمجھ دار ہو جاتے ہیں، اس وقت ان کو خدا پرستی کے راستے پر ڈالنا چاہیے او ران کو نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے، دس سال کی عمر میں ان کا شعور کافی پختہ ہو جاتا ہے اور بلوغ کا زمانہ قریب آجاتا ہے، اس لیے نماز کے معاملہ میں ان پر سختی کرنی چاہیے، نیزاس عمر کو پہنچ جانے پر ان کو الگ الگ لٹانا چاہیے، ایک ساتھ ایک بستر پر لٹانے میں مفاسد کا اندیشہ ہے۔

یعنی لڑکا ماں کے ساتھ اور لڑکی باپ کے ساتھ نہ لیٹے، اسی طرح دس سال کی عمر سے زیادہ کے بھائی بہن بھی ایک ساتھ نہ لیٹیں۔

اولاد کے متعلق باپ کی ذمہ داری
اولاد کی تعلیم وتربیت میں باپ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے، اس لیے باپ ہی سے فطرةً اولاد ڈرتی ہے اور لحاظ کرتی ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:” کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ، والامیر راع، والرجل راع علی اہل بیتہ، والمراةٴ راعیة علی بیت زوجھا وولدہ․“(متفق علیہ)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اس کی ذمے داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ امیر اپنی رعایا کا، مرد اپنے اہل وعیال کا ، عورت اپنے شوہر کے گھر او ربچوں کی ذمہ دار ہے۔

”عن ابی موسی الاشعری رضی الله عنہ ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ما نحل والد ولدا عن نحل افضل عن ادب حسن․“(ترمذی) اس حدیث میں سب سے بہترین تحفہ اولاد کے لیے ادب حسن بتلایا گیا ہے۔

”عن ابن عباس عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اکرموا اولادکم، واحسنوا ادبھم․“ (ابن ماجہ) اس حدیث میں اولاد کی عزت او راچھی تربیت کا حکم دیا گیا ہے۔

”عن علی قال: علموا اولادکم واھلیکم الخیر وادبوھم․“

حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اپنے اہل وعیال کو بھلائی کی تعلیم دو اور انہیں ادب سکھاؤ۔

”عن ابن عباس عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من حق الولد علی الوالد ان یحسن ادبہ، ویحسن اسمہ․“ (البیہقی)

اس حدیث میں باپ کی ذمہ داری اچھا نام او رادب حسن بتلائی گئی ہے۔

حضرت معاذ  بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھے دس باتوں کی وصیت کی اور ارشاد فرمایا: الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اگرچہ تمہیں جان سے مار ڈالا جائے او رجلا دیا جائے ، ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو، اگرچہ وہ دونوں حکم دیں کہ اپنے بال بچوں اور مال ودولت کو چھوڑ کر الگ ہو جاؤ، فرائض نماز کو جان بوجھ کر بھی نہ چھوڑنا، کیوں کہ جس نے فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی اس سے الله کا ذمہ بری ہو گیا۔ ( یعنی الله کے امن وامان سے وہ محروم ہو گیا) شراب کبھی نہ پیو، اس لیے کہ یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ الله تعالیٰ کی نافرمانی سے بچو، اس لیے کہ نافرمانی کی وجہ سے الله کا غضب نازل ہوتا ہے۔ میدان جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھاگنے سے بچو، اگرچہ تمام لوگ شہید ہو جائیں، جب لوگ کسی وبا کی وجہ سے مر رہے ہوں او رتم اس بستی میں موجود ہو تو ٹھہرے رہو، موت کے خوف سے مت بھاگو ، اپنے بچوں پر گنجائش کے مطابق خرچ کرتے رہو، تربیت کی غرض سے اپنی لاٹھی اپنے گھر والوں سے نہ اٹھاؤ۔ الله تعالیٰ کے احکام کے بارے میں ان کو ڈراتے اور سمجھاتے رہو۔ ( رواہ احمد فی مسندہ)

یعنی اپنے اہل وعیال کو خلاف شرع باتوں پر عذاب لہی سے ڈراتے اور سمجھاتے رہو،تاکہ خواہش نفس سے مغلوب ہو کر وہ اپنی عاقبت خراب نہ کر بیٹھیں۔

اس حدیث میں بچوں پر گنجائش کے مطابق خرچ کرنے او رتعلیم وادب حسن کے لیے لاٹھیوں کا سہارا لینے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے اولاد کی بر وقت مناسب پٹائی بھی کرنی چاہیے، تاکہ وہ خلاف شرع عادتوں سے اجتناب کریں۔

لہٰذا جس نے اپنی اولاد کے لیے مذکورہ بالا ہدایات پر عمل کیا اور اپنی اولاد کو دینی تعلیم وتربیت سے مالا مال کیا وہ دنیا میں بھی کام یاب ہے اور آخرت میں بھی کام یاب ہے۔

دنیوی کام یابی آنکھوں کی ٹھنڈک کے ساتھ ایک نمونہ بن جائے گا او رآخرت کی کام یابی یہ ہے کہ الله تعالیٰ ان کو اعزاز واکرام سے نوازے گا۔

حضرت عبدالله بن عمر کی روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک عدل وانصاف کرنے والے حضرات الله تعالیٰ کے یہاں نور کے منبروں پر ہوں گے او رالله تعالیٰ کے دائیں طرف ہوں گے۔ اور الله تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہ حضرات ہیں جو اپنے فیصلوں میں ، اپنے اہل وعیال کے معاملات میں او راپنے اختیارات میں عدل وانصاف سے کام لیتے ہیں ۔ (مسلم)

ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن کریم پڑھنے والے او راس پر عمل کرنے والے کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی اور چمک سورج کی روشنی او رچمک سے بھی زیادہ ہو گی ۔ تو خود قرآن پڑھنے والے او راس پر عمل کرنے والے کو کتنا عظیم ثواب دیا جائے گا؟

نیک صالح اولاد کے اخروی ثمرات میں سے جنت کا بلند مقام حاصل کرنا بھی ہے ۔ یہ اعزارواکرام ہی ہے ،جب والدین اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف کرتے ہوں گے۔

حضرت نعمان بن بشیر  سے مروی ہے کہ ان کے والد اُن کو لے کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور کہا، میں نے اس لڑکے کو اپنا ایک غلام عطا کیا ہے۔ تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اپنے سارے لڑکوں کو اسی طرح دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنا عطیہ لوٹا لو۔ (متفق علیہ)

حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول الله صلى الله عليه وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں اس کا لڑکا آیا۔ اس نے اسے پیار کیا او رپھر گود میں بیٹھایا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی لڑکی آئی تو اس نے اسے اپنے پہلو میں بٹھا۔ یہ دیکھ کر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم نے دونوں کے درمیان انصاف نہیں کیا۔ دیکھیے کس قدر انصاف کا حکم ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔












اولاد کی ظاہری وباطنی تربیت

اہمیت ․․․․انداز




بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر اُنھیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے؛ اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔
بچپن کی تربیت نقش علی الحجرکی طرح ہوتی ہے، بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبڑے ہونے کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوں گے، جنہوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔نیز! اولاد کی اچھی اور دینی تربیت دنیا میں والدین کے لیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے؛ جب کہ نافرمان وبے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے گی۔
لفظِ ”تربیت“ ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے، اس لفظ کے تحت افراد کی تربیت، خاندان کی تربیت، معاشرہ اور سوسائٹی کی تربیت، پھر ان قسموں میں بہت سی ذیلی اقسام داخل ہیں۔ ان سب اقسام کی تربیت کا اصل مقصد وغرض‘ عمدہ، پاکیزہ، بااخلاق اور باکردار معاشرہ کا قیام ہے۔ تربیت ِ اولاد بھی اُنھیں اقسام میں سے ایک اہم قسم ہے۔
آسان الفاظ میں ”تربیت“ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ:” برے اخلاق وعادات اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق وعادات اور ایک صالح ،پاکیزہ ماحول سے تبدیل کرنے کا نام ”تربیت“ ہے۔ “
تربیت کی دو قسمیں
تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: (۱)ظاہری تربیت،(۲)باطنی تربیت۔
ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول ،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔
اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنھیں اُبھارتے ہیں۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔
قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
” قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ“(التحریم:۶)
ترجمہ:”اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں“۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر وتشریح میں فرمایا کہ:
”علموھم وأدِّبوھم“․(تفسیر ابن کثیر:8/188)
ترجمہ:”ان (اپنی ولاد )کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ“۔
فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لیے کوشش کرے۔
اولاد کی تربیت کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث سے بھی ہوتا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
۱- ”مَانَحَلَ والدٌ أفضلَ مِنْ أدبٍ حسنٍ“ (بخاری، جلد:۱،ص:۴۲۲)
ترجمہ:”کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھادے“۔
یعنی اچھی تربیت کرنا اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لیے سب سے بہترین عطیہ ہے۔
[ترمذی:1952، حاکم:7679، بیہقی:2273]
۲- ”عن ابن عباس․․․․․․قالوا: یارسول اللّٰہ! قد علمنا ما حق الوالد فماحق الولد؟ قال: أن یحسن اسمہ ویحسن أدبہ“ (سنن بیہقی)[شعب الایمان:8291]
ترجمہ:”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! والدین کے حقوق تو ہم نے جان لیے، اولاد کے کیا حقوق ہیں؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے “۔
۳- ”یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ انسان جن کا ذمہ دارورکھوالا ہے، اُنھیں ضائع کردے، ان کی تربیت نہ کرے“۔
یہ بھی ضائع کرنا ہے کہ بچوں کو یونہی چھوڑدینا کہ وہ بھٹکتے پھریں، صحیح راستہ سے ہٹ جائیں، ان کے عقائد واخلاق برباد ہوجائیں۔نیز اسلام کی نظر میں ناواقفیت کوئی عذر نہیں ہے، بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں جن امور کا جاننا ضروری ہے، اُس میں کوتاہی کرنا قیامت کی باز پرس سے نہیں بچا سکتا۔
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
”اپنی اولاد کوادب سکھلاوٴ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گاکہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟۔“ (شعب الإیمان للبیہقی:8295)
بچوں کی حوصلہ افزائی
بچہ نرم گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے، ہم اس سے جس طرح پیش آئیں گے، اس کی شکل ویسی ہی بن جائے گی۔بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اس پر اُسے شاباش اورکوئی ایسا تحفہ وغیرہ دینا چاہیے جس سے بچہ خوش ہوجائے اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق اس کے دل میں پیدا ہوجائے۔
بچوں کی غلطی پرتنبیہ کا حکیمانہ انداز
بچوں کو کسی غلط کام پر باربار اور مسلسل ٹوکنا اُن کی طبیعت میں غلط چیز راسخ ہونے سے حفاظت کا سبب بنتا ہے،جس سے اگر غفلت نہ برتی گئی تو اس میں شک نہیں کہ بچوں اور بچیوں میں غلط افکار جڑپکڑنے سے پہلے کامل طریقہ سے ان کی بیخ کنی ہوگی ۔بچے سے خطا ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے، غلطی تو بڑوں سے بھی ہوجاتی ہے۔ ماحول کا بچوں پر اثر ہوتا ہے، ممکن ہے کہ غلط ماحول کی وجہ سے بچہ کوئی غلطی کربیٹھے، تو اس صورت حال کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ بچے سے غلطی کس سبب سے ہوئی؟ اسی اعتبار سے اسے سمجھایا جائے۔تربیت میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، مربی کو اس بات سے باخبر ہونا چاہیے کہ اس وقت بچہ کے لیے نصیحت کارگر ہے یا سزا؟ تو جہاں جس قدر سختی اور نرمی کی ضرورت ہو اسی قدر کی جائے۔ بہت زیادہ سختی اور بہت زیادہ نرمی بھی بعض اوقات بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔
تربیت میں تدریجی انداز اختیار کرنا چاہیے؛ چنانچہ غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے : ۱-سمجھانا۔۲-ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔۳-مارکے علاوہ کوئی سزا دینا۔۴-مارنا۔۵- قطع تعلق کرنا۔ یعنی غلطی ہوجانے پر بچوں کی تربیت حکمت کے ساتھ کی جائے، اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اُسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحةً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات بٹھائیں کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایاجائے ۔
پیارومحبت سے بچوں کی تربیت واصلاح کا ایک واقعہ حضرت عمر بن ابی سلمہ سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ میں بچپن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرتربیت اور زیرکفالت تھا، میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا، یہ دیکھ کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”یا غلامُ سَمِّ اللّٰہ! وکل بیمینک وکل ممایلیک“ ․․․․”اے لڑکے! اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھاؤ۔“
اگر نصیحت اور آرام سے سمجھانے کے بعد بھی بچہ غلطی کرے تو اُسے تنہائی میں ڈانٹا جائے اور اس کام کی برائی بتائی جائے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کو کہا جائے۔ پھر بھی اگر باز نہ آئے تو تھوڑی پٹائی بھی کی جاسکتی ہے۔ تربیت کے یہ طریقے نوعمر بچوں کے لیے ہیں؛لیکن بلوغت کے بعد تربیت کے طریقے مختلف ہیں، اگر اس وقت نصیحت سے نہ سمجھے تو جب تک وہ اپنی برائی سے باز نہ آئے اس سے قطع تعلق بھی کیا جاسکتا ہے، جو شرعاً درست ہے اور کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکے عمل سے ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن مغفل کے ایک رشتہ دار تھے جو ابھی بالغ نہ ہوئے تھے، انھوں نے کنکر پھینکا تو حضرت عبداللہ نے منع کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر مارنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ: ”إنّھا لاتصید صیدًا“ اس سے کوئی جانور شکار نہیں ہوسکتا، اس نے پھر کنکر پھینکا تو انھوں نے غصہ سے فرمایا کہ میں تمہیں بتلارہا ہوں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور تم پھر دوبارہ ایسا ہی کررہے ہو؟ میں تم سے ہرگز بات نہیں کروں گا۔اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر نے بھی اپنے بیٹے سے ایک موقع سے قطع تعلق کیا تھا اور مرتے دم تک اس سے بات نہ کی۔
بچوں کو ڈانٹنے اور مارنے کی حدود
بچوں کی تربیت کے لیے ماں باپ یا استادکااُنھیں تھوڑابہت، ہلکا پھلکا مارنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے؛بلکہ بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے۔اس معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ غصہ میں بے قابو ہوجانا اور حد سے زیادہ مارنایا بچوں کے مارنے ہی کو غلط سمجھنا دونوں باتیں غلط ہیں۔ پہلی صورت میں افراط ہے اور دوسری میں تفریط ہے۔اعتدال کا راستہ وہ ہے جو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا کہ”اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو؛ جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور ان کو نماز نہ پڑھنے پر مارو؛ جب کہ وہ دس سال کے ہوجائیں“۔ (مشکوٰة) اس حدیث سے مناسب موقع پر حسبِ ضرورت مارنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔
مارنے میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اس حد تک نہ ماراجائے کہ جسم پر مار کا نشان پڑجائے۔ نیز جس وقت غصہ آرہا ہو، اس وقت بھی نہ مارا جائے؛ بلکہ بعد میں جب غصہ ٹھنڈا ہوجائے تو اس وقت مصنوعی غصہ ظاہر کرکے ماراجائے؛کیونکہ طبعی غصہ کے وقت مارنے میں حد سے تجاوز کرجانے کا خطرہ ہوتا ہے اور مصنوعی غصہ میں یہ خطرہ نہیں ہوتا، مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے اور تجاوز بھی نہیں ہوتا۔
لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینا گناہ ہے
اولاد اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اورتحفہ ہے،خواہ لڑکا ہو یا لڑکی۔اسلامی تعلیمات کی رو سے بچوں پر رحم وشفقت کے معاملہ میں مذکر ومؤنث میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ جو والدین لڑکے کی بہ نسبت لڑکی سے امتیازی سلوک کرتے ہیں، وہ جاہلیت کی پرانی برائی میں مبتلا ہیں، اس طرح کی سوچ اور عمل کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ بلکہ دینی اعتبار سے تو اس پر سخت وعید یں وارد ہوئی ہیں۔ لڑکی کو کمتر سمجھنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے سے ناخوشی کا اظہار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُسے لڑکی دے کر کیا ہے، ایسے آدمی کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تو کیا پوری دنیا بھی مل کراللہ تعالیٰ کے اس اٹل فیصلہ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔یہ درحقیقت زمانہٴ جاہلیت کی فرسودہ اورقبیح سوچ ہے، جس کو ختم کرنے کے لیے رحمة للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین اور تربیت کرنے والوں کو لڑکیوں کے ساتھ اچھے برتاؤاوران کی ضروریات کا خیال رکھنے کی باربار نصیحت کی۔
اولاد کے درمیان برابری اور عدل
ابوداؤد شریف میں حضرت نعمان بن بشیر  کی حدیث ہے:
”قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اعدلوا بین أبنائکم اعدلوا بین أبنائکم اعدلوا بین أبنائکم“․(ابوداؤد،جلد:۲،ص:۱۴۴)
ترجمہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو،اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو“۔

مطلب یہ ہے کہ ظاہری تقسیم کے اعتبار سے سب بچوں میں برابری کرنی چاہیے؛کیونکہ اگر برابری نہ ہو تو بچوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ہاں! فطری طور پر کسی بچے سے دلی طور پر زیادہ محبت ہو تواس پر کوئی پکڑ نہیں؛بشرطیکہ ظاہری طور پر برابری رکھے۔ حدیث میں تین بارمکرر برابری کی تاکیدآئی ہے جو اس کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے، یعنی اولاد کے درمیان برابری کرنا واجب ہے، اور برابری نہ کرنا ظلم شمار ہوگا۔اور اس کا خیال نہ رکھنا اولاد میں احساسِ کمتری اور باغیانہ سوچ کو جنم دیتا ہے، جس کے بعد بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمان والدین کو اپنی اولاد سے متعلق ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
$ $ $








نومولود سے متعلق شرعی احکام
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک نسل انسانی کے بڑھنے کا سلسلہ بصورت ِ پیدائش جاری ہے ، اس دنیائے فانی میں سانس لینے والا ہر متنَفِّس اپنی زندگی بسر کرنے میں خالقِ کون و مکاں کے احکامات کاپابند ہے،اسی کا نام امتحان ہے کہ کون اس دنیا میں اس کی منشا کو سامنے رکھ کر زندگی گذار کر آتا ہے اور کون من مانی کی زندگی گذار کر آتا ہے؟! 

اصلاً تو اللہ رب العزت کے احکامات بلوغت کے بعد ہی انسان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، لیکن ان احکامات پر چلنے کے لیے” مطلوبہ استعداد (یعنی: ایمان)کا حصول“ اس انسان کے اندر اس کے وجود میں آنے سے پہلے ہی ہونا شروع ہو جاتا ہے،اس کی دلیل سرکار ِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کا وہ ارشاد ِمبارک ہے جس میں آپ علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا: 

”لو أن أحدکم إذا أتیٰ أھلہ، قال : ”بِاسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا“ فقضي بینھما ولد، لم یضرہ الشیطان“․
(الصحیح للبخاري،کتاب الوضوء، باب التسمیة علی کل حال وعند الوقاع،رقم الحدیث:141) 
کہ جب تم میں سے کوئی اپنی زوجہ حیات کے پاس جاتے وقت(یعنی صحبت کرنے سے پہلے) یہ دعا ”بِاسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا“ پڑھ لے ،پھر اللہ تعالیٰ اُس رات کے ملنے کی وجہ سے اگر اولاد کا فیصلہ کرلے، تو شیطان اس بچے کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔

اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جو بچہ شیطان کے اثرات سے محفوظ رہے گا،وہ بلوغت کے بعد احکامات ِ الہی پر بھی چلنے والا ہو گا اور ان احکامات ِالٰہی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ اپنے والدین کا فرماں بردار بھی ہو گا، اس کے برعکس جو بچہ بلوغت سے پہلے ہی شیطان کا قیدی بن جائے گا ، وہ بلوغت کے بعد بھی اس کے اثرات میں جکڑا رہے گا، چناں چہ ! وہ بچہ نہ صرف اللہ جل جلالہ کے احکامات چھوڑنے والا ہوتا ہے ،بلکہ وہ اپنے ماں باپ کا بھی نافرمان ہوتا ہے،اس وقت اس کے والدین بھی اس سے شاکی رہتے ہیں کہ یہ بچہ نافرمان ہے ، ہماری مانتا ہی نہیں ، اپنی مَن مانیوں پر چلتا ہے ،وغیرہ وغیرہ ۔ حالاں کہ دیکھا جائے تو اول قصور وار اس کے والدین ہی نکلتے ہیں جنہوں نے ابتدا سے ہی اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اُن افعال سے نہیں بچایا جو انسان کو گناہوں اور نافرمانیوں کی طرف لے کر چلتے ہیں اور ان کے اندر سرکشی پیدا کرتے ہیں۔

دوسری بات :جیسے گناہوں کی تاثیر ہوتی ہے ، اسی طرح نیکیو ں کی بھی تاثیر ہوتی ہے،جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ سفر کیا ،تو اس سفر میں جہاں اور بہت سارے عجائبات ان کے سامنے آئے ، وہاں ایک یہ بات بھی سامنے آئی کہ انہوں نے ایک ایسی دیوار کو سیدھا کیا جو گرنے کے قریب تھی،یعنی اس دیوار کی تعمیر کی ، تاکہ وہ گرنے سے بچ جائے،حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دریافت کرنے پر حضرت خضر علیہ السلام نے یہ حکمت بتلائی:

﴿وَأَمَّّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلامَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِيْ الْمَدِیْنَةِ وَکَانَ تَحْتَہ کَنْزٌ لَہُمَا وَکَانَ أَبُوْھُمَا صَالِحاً فَأَرَادَ رَبُّکَ أَنْ یَبْلُغَا أَشُدَّھُمَا وَیَسْتَخْرِجَا،کَنْزَھُمَا رَحْمَةً مِنْ رَّبِّکَ﴾(الکھف:82)
کہ اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ مدفون تھا، جو دو یتیم بچوں کی ملکیت تھااور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا، اس نے مرنے سے قبل اپنے ان نابالغ بچوں کے لیے وہ خزانہ دفن کیا تھا کہ بلوغت کے بعدوہ اسے نکال لیں گے اور وہ(خزانہ) ان کے کام آ ئے گا۔ 

اس پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان بچوں کا باپ نیک آدمی تھا،جس کی نیکی کا یہ صلہ دیاگیا کہ اس کے مال کی حفاظت کی گئی، جو کہ بطورِ امانت رکھا گیا تھا، تاکہ بوقت ضرورت اس کی اولاد کے کام آئے، جب کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ ساتویں پشت کاباپ تھااور اس کی نیکی کے بارے میں تفاسیر میں یہ آتا ہے کہ ”لوگ اس کے پاس امانتیں رکھواتے تھے اور وہ بغیر کسی خیانت کے لوگوں کی امانتیں ان کو واپس کر دیتا تھا“۔
(روح المعانی،سورة الکہف:28:11/963)۔

الغرض بات یہ چل رہی تھی کہ” احکامات پر چلنے کے لیے” مطلوبہ استعداد (یعنی: ایمان)کا حصول“ اس انسان کے اندر اس کے وجود میں آنے سے قبل ہی ہونا شروع ہو جاتا ہے“ جو کہ اس کے والدین کے ذریعے ہوتا ہے،لہٰذا ماں اور باپ ،اگر یہ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد نیکو کار ہو اور ا ن کی فرماں بردار ہو، تو دونوں کے ذمے یہ بات لازم ہے کہ جہاں وہ خود اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتے ہوئے نیک کاموں کو کریں ،وہاں اولاد سے متعلق احکاماتِ الٰہیہ کو بھی پورا کریں اور اولاد سے متعلق منہیات سے بھی بچیں۔

چناں چہ ذیل میں سب سے پہلے شریعت کی نظر میں اولاد کے حصول کا مقصد اور اس کی اہمیت ذکر کی جائے گی اور اس کے بعد والدین کی طرف ان کی اولاد سے متعلق جو احکامات متوجہ ہوتے ہیں ، ان کو ذکر کیا جائے گا۔

حصولِ اولاد کا مقصد
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے اولاد کے حصول کو پسندیدہ اور مطلوب قرار دیا ہے اور اولاد کے حصول کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ:
اس سے سید الانبیاء حضرت محمد ِ مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی امت میں اضافہ ہو ۔ اپنے لیے راحت ِ جسمانی اورراحتِ روحانی کا حصول ہو۔ مرنے کے بعد اپنے لیے صدقہ جاریہ کا ذریعہ بنے۔صالح اولادکے ذریعے نیک اور صالح معاشرے کا قیام وجود میں آئے، وغیرہ وغیرہ۔

چناں چہ! جس ذریعے سے اولاد کا حصول ہوتا ہے ، (یعنی : نکاح) اس کے اپنانے کی پر زور ترغیب دی گئی اور اس کے ترک کو سخت ناپسند کیا گیا اور اس کے تارک کی حوصلہ شکنی کی گئی، اس لیے صرف نکاح ہی نہیں ، بلکہ اس عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی جو زیادہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی ہو اور اس عورت سے نکاح کرنے کو ناپسند قرار دیا گیا جو اس صلاحیت سے محروم ہو۔

ذریعہ اولاد ”نکاح“ کا مقصد
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کرتی ہیں ،جسے امام ابن ِ ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے کہ:
قالت:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:”النکاح من سنتي، فمن لم یعمل بسنتي فلیس مني، وتزوجوا، فإني مکاثر بکم الأمم، ومن کان ذا طول فلینکح، وإن لم یجد فعلیہ بالصیام، فإن الصوم لہ وِجاء“․
(سنن ابن ماجہ ، کتاب النکاح، باب ما جاء في فضل النکاح، رقم الحدیث:1836)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :”نکاح میری سنت ہے اور جو میری سنت پر عمل نہیں کرے گا ، تو وہ مجھ سے نہیں ہو گا (یعنی میرے طریقے پرقائم نہیں رہے گا) اور تم نکاح کیا کرو، کیوں کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے (قیامت کے دن ) دوسری امتوں پر فخر کروں گا اور تم میں سے جو طاقت رکھتا ہو، تو اسے چاہیے کہ نکاح کرے اور جسے طاقت نہ ہو تو وہ (کثرت سے)روزے رکھنے کا اہتمام کرے، کیوں کہ روزہ اس کے لیے وِجاء ہے (یعنی شہوت کو ختم کرنے والا ہے)۔

اس ارشادِ مبارک میں نکاح کا مقصد ذکر کیا گیا ہے، کہ شہوت کے غلبے کی صورت میں جائز طریقے سے اپنی شہوت کو پورا کرنے کا ذریعہ نکاح ہے اور اگر جائز طریقہ نہ ہو یعنی نکاح نہ ہوا ہو تواس کا علاج کثرت سے روزے رکھنا بتایا گیاہے۔

بانجھ عورت سے نکاح کا ناپسندیدہ ہونا
اوپرذکرکردہ حدیث کے برعکس ایک حدیث مبارکہ میں ایسی عورت سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے ، جو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو، جیسا کہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
”جاء رجل إلی النبي صلی الله علیہ وسلم، فقال:”إنّي اَٴَصبت إمرأةً ذات حسبٍ وجمالٍ، و أنھا لا تلد ،أفأتزوّجھا؟“ قال:”لا“․ ثم أتاہ الثّانیة، فنھاہ ، ثم أَتاہ الثّالثة، فقال:”تزوّجوا الودودَ الولودَ، فإنّي مکاثرٌ بکم الأمم“․
(سنن أبي داوٴد، کتاب النکاح ،باب النھي عن تزویج من لم یلد من النساء، رقم الحدیث:2052)
ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ میں ایک ایسی عورت کو جانتا ہوں،جو بڑے اونچے نسب والی اور خوب صورت عورت ہے،لیکن اس کے اندر اولاد پیدا کرنے کی صفت نہیں ہے،کیا میں اس سے شادی کر لوں؟تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں پھر وہ شخص دوسری بار حاضرِ خدمت ہوا اور اسی عورت سے نکاح کرنے کی اجازت طلب کی ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس بار بھی اسے اُس عورت سے شادی کرنے سے منع کردیا،وہ شخص پھر تیسری مرتبہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوااور اس عورت سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی، تو اس بار نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسے ارشاد فرمایا کہ تم ایسی عورت سے شادی کرو، جوزیادہ محبت کرنے والی اور بچے پیدا کرنے والی ہو، کیوں کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے (قیامت والے دن)دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔

البتہ اگر مقصود محض عفت و پاک دامنی کا حصول ہو، دیگر کوئی اور رشتہ بھی نہ مل رہا ہو تو پھر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اس لیے کہ نکاح کے مقاصد میں صرف اولاد کا حصول ہی نہیں ہے، بلکہ شرم گاہوں کی حفاظت بھی ہے۔

شریعت کی نگاہ میں حصول ِ اولاد کی اہمیت
اس فرمانِ مبارک سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ شریعت کی نظر میں نہ صرف اولاد کے حصول کی اہمیت بلکہ اس حصول کے ذریعے (یعنی: بچے جننے والی عورت سے نکاح)کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے،اسی لیے اس عورت سے نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا جو مال و دولت کی اور حسن و جمال کی مالک تو ہے لیکن وہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔چناں چہ نکاح کرنے اور اس کے ذریعے اولاد کے حصول کی اہمیت کو اور زیادہ واضح انداز میں سمجھنے کے لیے ایک اور فرمانِ رسول پر نظر ڈالیے:

عن أنس بن مالک قال:کان رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یأمر بالباء ة، و ینہیٰ عن التبتل نھیاً شدیداً، ویقول:”تزوجوا الودود الولود، إني مکاثرٌ بکم الأنبیاء یوم القیامة“․
(مسند أحمد بن حنبل،مسند أنس بن مالک،رقم الحدیث:12613،13569، 20/63،21/191،موٴسسة الرسالة)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جنابِ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس شخص کو سختی سے نکاح کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے جو نکاح پر قدرت رکھتا ہواور ایسے شخص کو بے نکاح رہنے پرسختی کے ساتھ منع کیاکرتے تھے اور ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ ایسی عورت سے نکاح کیا کرو جو خوب محبت کرنے والی اور زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی ہو، ارشاد فرمایا کہ : ”بے شک تمہاری کثرت کی وجہ سے میں دوسرے انبیا کی امتوں پر قیامت کے دن فخر کروں گا“۔

مذکورہ صفات کی حکمت
ان دونوں احادیث میں خوب محبت کرنے والی اور زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی عورت سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا، اس کی حکمت کے بارے میں ملا علی القاری  فرماتے ہیں کہ: یہ دونوں قیدیں اس لیے لگائی گئی ہیں کہ : اگر عورت محبت کرنے والی نہ ہوئی، تو خاوند کی اُس عورت میں رغبت نہیں ہوگی اور اگر اُس کے اندر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہوئی، تو پھر نکاح کا مقصد ِ عظیم ( زیادہ اولاد کے ذریعے اُمت ِ محمدیہ علی صاحبہا تحیة وسلام کا کثیر التعداد ہونا ) فوت ہو جائے گا۔

زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی عورت کی پہچان کا طریقہ
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو گا کہ کس عورت کے اندر زیادہ محبت کرنے کی صلاحیت اور زیادہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ہے ؟ تو اس بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ یہ دونوں خوبیاں پہچاننے کے لیے اس کے خاندان کی دوسری عورتوں کو دیکھا جائے گا کہ ان کے اندر یہ دونوں وصف کس حد تک پائے جاتے ہیں ، اگر ان کے اندر یہ اوصاف نظر آئیں تو پھر اس عورت میں بھی یہ اوصاف ہوں گے، کیوں کہ صفات و طبائع، نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں،تو احتمالِ غالب کے مطابق اس عورت میں بھی یہ صفات منتقل ہوئی ہوں گی، بس اتنا اندازہ لگا لینا کافی ہے، بعد میں اولاد کا پیدا ہونا یا نہ ہونا تقدیر کا کھیل اور ربِّ عزوجلّ کی طرف سے ایک امتحان ہو گا۔
(مرقاة المفاتیح، کتاب النکاح،النوع الثانی، رقم الحدیث:3091،6/247،دار الکتب العلمیہ)

اولاد کی کثرت میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رغبت
آپ علیہ الصلاة و السلام کو اس کی رغبت کس قدر تھی ؟ اس کا اندازہ مذکورہ حدیث سے لگایا جا سکتا ہیکہ: ام سلیم رضی اللہ عنہا اپنے بیٹے حضرت اَنَس رضی اللہ عنہ کی پیدائش پر ان کو لے کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا :

”یا رسول اللہ خادمک أنس، أُدع اللہ لہ، فقال:”اَللہُمَّ أَکْثِرْ مَالَہ ووَلَدَہ، وَبَارِکْ لَہ فِیْمَا أَعْطَیْتَہ“․
(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أنس ابن مالک، رقم الحدیث 2480، المکتبة بیت الأفکار)

کہ یہ میرا بیٹا انس آپ کا خادم ہے، اس کے لیے آپ اللہ رب العزت سے دعا کیجیے، تو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت انس کے لیے ان الفاظ میں دعا فرمائی:”اَللہُمَّ أَکْثِرْ مَالَہ ووَلَدَہ، وَبَارِکْ لَہ فِیْمَا أَعْطَیْتَہ“ کہ یا اللہ! اس کے مال کو اور اس کی اولاد کو زیادہ فرما دیجیے اور جو کچھ آپ نے اس کو عطا فرمایا ہے، اس میں برکت ڈال دیجیے۔

اس دعا کی قبولیت کس شکل میں ہوئی ؟ اس بارے میں علامہ سندھی رحمہ اللہ حاشیہ بخاری میں لکھتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعا کو قبول فرمایااور ان کے مال میں اس قدر برکت عطا فرمائی کہ بصرہ شہر میں ان کے دو باغ تھے ، جو سال میں دو بار پھل دیتے تھے اور ان کی اولاد میں اس طرح برکت ہوئی کہ ان کی(زندگی میں ہی ان کی اولاد اور ”اولاد کی اولاد“ کی ) تعداد 120 تک پہنچی اور ان کی عمر میں اس طرح برکت ہوئی کہ 99 سال یا 103سال یا 107سال اور ایک قول کے مطابق 110سال تک زندہ رہے“۔
(حاشیة السندی علی صحیح البخاری،کتاب الدعوات،باب الدعاء للصبیان بالبرکة،4/159، دارالفکر، بیروت)

خاندانی منصوبہ بندی کا شرعی حکم
اوپر ذکر کردہ اب تک کی بحث سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ نکاح شریعت کی نظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اسی طرح نکاح سے جو مقصود ہے یعنی: اولاد، وہ بھی نہایت اہم ہے، چناں چہ جس طرح اولاد کے حصول پر زور دیا گیا ہے ، اسی طرح ہر ایسی حرکت سے منع کیا گیا ،جس سے اولاد کے حصول کا سلسلہ منقطع ہو جائے ، چاہے وہ صورت عزل (یعنی : بیوی سے ملتے وقت مادہ منویہ باہر خارج کرنے)کی ہو یا نس بندی کی،مانع حمل ادویات کا استعمال ہو یا خاندانی منصوبہ بندی کا پراسس،عورت سے پیدائش ِ اولاد کی صلاحیت کو ختم کرنا ہو یا حمل ٹھہر جانے کے بعد اسقاطِ حمل ہو، ہر صورت کو شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے۔عارضی طور پر مانع ِ حمل کے لیے مختلف تدابیر کو اختیار کرنا اگر کسی ضرورت ِ شرعیہ کی وجہ سے ہوتو شریعت کی طرف سے کچھ گنجائش ہے، بصورت ِ دیگرسرکار ِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا کہ وہ میری امت میں سے نہیں۔

”لیس منا مَن خصیٰ ولا اختصیٰ،إن خصاء أمتي الصیام“․
(کتاب الزہد لابن المبارک،باب التواضع،رقم الحدیث: 845، ص:336،دارالکتب العلمیة)

مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کا حکم؟
اور جن صورتوں میں شریعت نے عارضی طور پر مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کی اجازت دی ہے ان میں بھی اجازت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ یہ عمل تنگ دستی او ر افلاس کے خوف سے نہ ہو، وگرنہ (مذکورہ بد عقیدگی کے ساتھ) مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، اس بارے میں ایک فرمانِ رسول صلی الله علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیں:

عن عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہ،قال رجل:یا رسول اللہ ، أيّ الذنب أکبر عند اللہ؟ قال: أن تدعوا للہ ندّا وھو خلقک ، قال: ثم أيّ ؟ قال: أن تقتل ولدک خشیة أن یطعم معک، قال: ثم أيّ؟ قال: أن تزاني بحلیلة جارک، فأنزل اللہ عزوجل تصدیقھا ﴿والذین لا یدعون مع اللہ إلھا آخر ولا یقتلون النفس التي حرم اللہ إلا بالحق ولا یزنون ومن یفعل ذلک یلق أثاما﴾․ (الفرقان:68)․
(صحیح البخاري، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالیٰ:﴿ومن یقتل موٴمنا متعمدا فجزاوٴہ جھنم﴾ رقم الحدیث: 6861،4/265،المکتبة السلطانیة)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کون سا گناہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراوٴ، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا ہے، اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی،اس شخص نے عرض کیا کہ پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے؟ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی:(ترجمہ)”رحمن کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کو شریک نہیں کرتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے، اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا“۔

اس کے بعد جاننا چاہیے کہ یہ تدابیر اختیار کرنا شرم و عار کی وجہ سے ہو تو اس کا گناہ اپنی بیٹی کو زندہ درگور(یعنی قتل) کرنے کے برابر ہے،حضرت جدامہ بنت وھب رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ:

قالت: حضرتُ رسولَ اللہ صلی الله علیہ وسلم في أُناسٍ …،ثم سألوہ عن العزل؟ فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ”ذٰلک الوأدُ الخفيُّ“۔
(صحیح مسلم ، کتاب النکاح، باب جواز الغیلة، وھي وطء المرضع وکراھة العزل، رقم الحدیث: 1442،ص:573، بیت الأفکار)
حضرت جدامہ بنت وھب رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا کہ کچھ لوگوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ عزل کرنے کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :یہ (عزل)خفیہ طور پر اپنی اولاد کو زندہ درگور کرنا ہے۔

خفیہ طور پر اپنی اولاد کو زندہ درگور کرنے کے بارے میں شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
وھي ”وإذا المووٴدة سئلت“، الوأد دفن البنت، وھي حیة وکانت العرب تفعلہ خشیة الإملاق، وربما فعلوہ خوف العار․
(شرح النوويعلی صحیح مسلم:10/17،المطبعة المصریة بالأزھر)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہلِ عرب اپنی بیٹیوں کو تنگ دستی کے خوف اور شرم و عار کی بنا پر زمین میں زندہ دفن کر دیتے تھے۔

ان کا یہ فعل علی الاعلان ہوتا تھا ، اور عزل کی صورت میں یہی فعل خفیةً ہوتا ہے، لہٰذا جیسے زندہ درگور کرنا اللہ رب العزت کے نزدیک بہت بڑا گناہ اور قتل کرنا ہے، اسی طرح خفیہ طور پر زندہ درگور (یعنی عزل )کرنا بھی ہے۔اور اگر یہ تدابیرایسی ہوں جن سے پیدائشِ اولاد کی صلاحیت ہی ختم ہو جائے تو ایسا کرنا بھی شرعاً بالکلیہ ناجائز ہے۔

چناں چہ اس بارے میں علامہ عینی رحمہ اللہ(اس حدیث کی شرح میں جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے خصی ہونے (یعنی: اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنے سے منع فرمایا، ارشاد فرماتے ہیں:

قال العلامة العینی  تحت قولہ:”نھانا عن ذالک“،یعني: عن الاختصاء، وفیہ تحریم الاختصاء، لما فیہ من تغییر خلق اللہ تعالیٰ، و لما فیہ من قطع النسل و تعذیب الحیوان․“
(عمدة القاري، کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ:﴿یا أیھا الذین اٰمنوا لا تحرموا طیبات ما احل اللہ لکم﴾،18/280، دار الکتب العلمیة)․

اس حدیث سے خصی ہونے کی حرمت کا پتہ چلتا ہے اور یہ حرمت اس وجہ سے ہے کہ اس فعل میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تغییر و تبدیلی کرنا ہے اور اس وجہ سے کہ اس فعل میں نسلِ انسانی کو ختم کرنا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس میں کسی جان دار کو عذاب دینا پایا جاتا ہے۔

اور اگر حمل میں جان پڑ چکی ہو (یعنی حمل ٹھہرے ہوئے چار ماہ کا عرصہ گذر چکا ہو )تو اس وقت اسقاطِ حمل کرنا حرام اور قتلِ نفس ہے، چاہے ڈاکٹروں کے کہنے کی وجہ سے اسقاط ہو(بایں صورت کہ بچہ معذور ہو گا ،یا نہایت کمزور ہو گا ،یا عجیب الخلقت ہو گا وغیرہ وغیرہ) یا ان کے کہے بغیر۔

وفيحاشیة ابن العابدین:”لو أرادت إلقاء الماء بعد وصولہ إلیٰ الرحم، قالوا: إن مضت مدة ینفخ فیہ الروح لا یباح لھا․ وقبلہ اختلف المشائخ فیہ، والنفخ مقدر بمائة وعشرین یوماً بالحدیث“․
(کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، 9/537، دار الکتب العربي)

عارضی مانع ِ حمل تدابیراختیار کرنے کا حکم
کسی ایسے عذر کی وجہ سے جس کا شریعت نے بھی اعتبار کیا ہو ، منع حمل کے لیے عارضی طور پر مختلف تدابیر اختیار کرنے کی شرعاً گنجائش ہے،مثلاً: کوئی عورت بہت زیادہ کم زور ہو اور ماہر تجربہ کار مسلمان طبیب کی تشخیص کے مطابق اس عورت کے لیے حمل ٹھہر جانے کی صورت میں ناقابلِ برداشت تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، یا پیدا ہونے والے بچے کے نہایت کم زور یا ناقص پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہو ، یا اس سے پہلے والا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہو، یا(اس بار کے حمل سے) پہلے بچے کی تربیت و پرورش اور دودھ پلانے پر اثر پڑتا ہو تو کسی فاسد عقیدے کے بغیر ، بیوی کی اجازت اور رضامندی سے عزل یا عارضی مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں،بصورتِ دیگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔

علامہ شامی رحمہ اللہ ”شرح الدر المختار“ میں فرماتے ہیں :
ویکرہ أن تسقیٰ لإسقاط حملھا، وجاز لعذر حیث لا یُتَصوَّرُ(الدرالمختار)․

وقال تحت قولہ:”وجاز لعذر“کالمرضعةإذا ظھربھا الحبل، وانقطع لبنھا، ولیس لأبي الصبي ما یستأجر بہ الظئر، ویخاف ھلاک الولد، قالوا: یباح لھا أن تعالج في استنزال الدم، ما دام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق لہ عضو، وقدروا تلک المدة بمائة وعشرین یوماً، جاز، لأنہ لیس بآدمي، وفیہ صیانة الآدمي، خانیة․ قولہ:”حیث لا یتصور“ قید لقولہ: ”وجاز لعذر“، والتصور کما في القنیة أن یظھر لہ شعر أو أصبع أو رجل أو نحو ذالک․
(حاشیة ابن عابدین، کتاب الحظر والإباحة، فصل في الاستبراء و غیرہ،9/615، دار عالم الکتاب)

مندرجہ بالا بحث سے پوری طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی نسل کشی کی جتنی بھی صورتیں ہیں، شرعاً ناجائز اور حرام ہیں، سوائے عذر والی چند صورتوں کے، کہ مخصوص شرائط کے ساتھ ان پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔اس کے بالمقابل حصول ِاولاد کی اہمیت بھی پوری طرح سامنے آچکی ہے۔ 

اولاداللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت
من جانب ِاللہ انسان کو جو بھی اولاد حاصل ہو، لڑکا ہو یا لڑکی، وہ اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت اور اللہ کا تحفہ ہے ، اللہ رب العزت قرآن ِ پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:﴿ یھب لمن یشاء إناثاً و یھب لمن یشاء الذکور﴾․(الشوریٰ: 49,50)

کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ، لڑکیاں ہبہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، لڑکے ہبہ کرتا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اولاد چاہے نرینہ (یعنی: لڑکا) ہو یا غیر نرینہ (یعنی: لڑکی)وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہبہ یعنی: تحفہ ہے، تو جب یہ تحفہ ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا لازم ہے۔ 

پیدائش اولاد پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا معمول
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اہل خانہ میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو آپ یہ معلوم نہیں کرتی تھیں کہ لڑکا پیدا ہوا ہے یا لڑکی، بلکہ یہ معلوم کیا کرتی تھیں کہ ٹھیک طریقے سے اور بعافیت پیدا ہو گیا ہے؟ جب آپ کو یہ جواب ملتا کہ جی ہاں ! بخیر و عافیت پیدا گیا ، تو آپ یہ سن کر فرماتی تھیں:”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمَیْنَ“۔اس اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الادب المفرد “میں ذکر کیا ہے۔ (جاری)




اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا معمول نقل کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ جب نبی اکر م صلی الله علیہ وسلم کے پاس نومولود بچوں کو لایا جاتا تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے لئے برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو:
عن عائشة رضي اللہ عنہا قالت: ”کان رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یوٴتیٰ بالصبیان، فیدعو لہم بالبرکة“․
(سنن أبي داوٴد،کتاب الأدب، باب في الصبي یولد، فیوٴذن في أذنہ، رقم الحدیث: 5105، 5/209، دار ابن الحزم )

ولادت کے موقع پر لڑکے کی پیدائش پر تو مبارک باد دینا اور لڑکی کی پیدائش پر مبارک باد نہ دینا، جاہلیت کا طرز ہے، موجودہ دور میں یہ روش بہت عام ہو چکی ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ اوروں کے سامنے بیٹی کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے بھی کتراتے ہیں اور اگر کوئی مبارک باد پیش کرے تو اس کے جواب میں ”جزاک اللہ خیراً“ بھی نہیں کہتے، یہ طرزِ عمل اور روش اصلاح کی محتاج ہے۔

ولا ینبغي للرجل أن یھنیٴ بالبنت؛(فقط) بل یھنیٴ بھما، أو یترک التھنئة(بھما)؛ لیتخلص من سنة الجاھلیة؛ فإن کثیراً منھم کانوا یھنئون بالابن وبوفاة البنت دون ولادتھا․(تحفة المودود بأحکام المولود ، الباب الثالث:في استحباب بشارة من ولد لہ ولد و تھنئتہ، ص:58،دار ابن القیم)

مبارک کن الفاظ سے دی جائے؟
بچے کی پیدائش پر مبارک باد دینا مستحب ہے، اب یہ مبارک باد کن الفاظ سے دی جائے ؟ امام بزار رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں ایک حدیث نقل کی ہے، جس میں آپ ا نے بچے کی والدہ کو یہ پیغام بھجوایا ”بارک اللہ لکِ فیہ وجعلہ براً تقیاً“․
(مسند البزار،من حدیث النضربن أنس، عن أنس، رقم الحدیث:7310،13/496،موٴسسة علوم القرآن)

صاحب مجمع الزوائد علامہ الہیثمی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے،”رواہ البزار، ورجالہ رجال الصحیح“․
(مجمع الزوائدو منبع الفوائد،رقم الحدیث:15421،دارالفکر)

تنبیہ: اگر کسی کو مذکورہ دعا عربی میں نہ آتی ہو تو اسے چاہیے کہ جس زبان کا ہو، اسی زبان میں مبارک باد دے دے۔نیز!جس کو مبارک باد دی جائے، وہ بھی اسے جواب میں ”جزاک اللہ خیرا“ کہہ دے۔اس موقع پرلمبی چوڑی ضیافتیں کرنا، ہدیہ دینے میں مبالغہ کرنا اور اسے ضروری سمجھنا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کے ہدیے دینے کے لیے قرض لینا وغیرہ، سب غیر شرعی امور ہیں، جن سے گریز کرنا چاہیے۔

حصول اولادکے بعد اولاد کی تربیت ،کفالت اورحقوق سے متعلق شریعت نے بہت واضح انداز میں احکامات ذکر کیے ہیں، ان کی تفصیلات پر مستقل تصانیف اس وقت منظرِ عام پر آچکی ہیں، یہاں صرف اس باب سے متعلق تھوڑا تھوڑا اشارہ کرنا مقصود ہے، تاکہ اس شعبہ سے واقفیت حاصل ہوجائے اور پھر بوقت ِ ضرورت مطوَّلات(یعنی: اس موضوع پر لکھی گئی بڑی کتب)کی طرف رجوع کیا جا سکے۔

اولاد پر خرچ کرنے کی فضیلت
اولاد کی تربیت،کفالت اورحقوق کے بے شمار فضائل ذخیرہ احادیث میں ملتے ہیں ، لیکن ان سے ہٹ کے اولاد پر خرچ کرنے کا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت زیادہ اجر ہے، بلکہ صرف اولاد پر ہی نہیں اور بہت سارے اعزہ ایسے ہیں جن پر خرچ کرنے کی فضیلت احادیث میں مذکور ہے۔مثلاً: حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو جو کچھ خود کھائے گا وہ تیرے لیے صدقہ ہو گا، اور جو تو اپنی اولاد کو کھلائے گا ،وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گااورجو کچھ تو اپنی بیوی کو کھلائے گا وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گا اور جو تو اپنے خادم کو کھلائے گا وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہو گا۔ملاحظہ ہو:
عن مقدام بن معدی کرب رضي اللہ عنہ أنہ سمع رسول اللہ ا یقول:”ما أطعمت نفسک، فھو لک صدقة، وما أطعمت ولدک،فھو لک صدقة، وما أطعمت زوجتک، فھو لک صدقة، وما أطعمت خادمک ، فھو لک صدقة“․
(الأدب المفرد للبخاري، باب :”فضل من عال ابنتہ“،ص:58،رقم :82،مکتبة الدلیل)

البتہ اس صدقہ کے ثواب کا حصول نیت کے ساتھ مربوط ہے، کہ جو اس کی نیت کر ے گا، وہ یہ ثواب پائے گا۔ جیسا کہ علامہ مناوی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”إن نوی فيالکل کما دلّ علیہ تقییدہ في الخبر الصحیح بقولہ:”وھو یحتسبھا“ فیحمل المطلق علی المقید“․
(فیض القدیر،حرف المیم،رقم الحدیث:7824،دار الکتب العلمیة)

پھر ایک اور جگہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ بہترین صدقہ اپنی اس بیٹی پر خرچ کرنا ہے جو (اپنے شوہر کی وفات کے بعد یا طلاق ملنے کے بعد) اپنے والدین کے گھر لوٹ آئی ہو۔ملاحظہ ہو:
”عن سراقة بن مالک رضي اللہ عنہ أن النبي صلی الله علیہ وسلم قال:ألا أدلک علیٰ أفضل الصدقة؟ إن من أعظم الصدقة أجراً، ابنتک مردودة إلیک، لیس لھا کاسب غیرک “․
(المعجم الکبیر، سراقة بن مالک کان ینزل في ناحیة المدینة،7/169،رقم الحدیث:6591، مکتبة العلوم و الحکم)

تربیت ِ اولاد کی اہمیت
موجودہ دور میں ہرشخص دنیا کے دھندوں میں لگ کر اپنے عزیز واقارب اور گھر بار سے دور ہو چکا ہے، باپ مال کمانے کی دوڑ میں ہے توماں بھی اسی فکر میں سرگرداں ہے، اوروں کی تو دور کی بات ہے، اپنی حقیقی اولاد کی تربیت سے بھی غافل ہو چکے ہیں، اس کام کے لیے ملازمہ/آیا رکھی جاتی ہے،واضح رہے کہ یہ طرزِعمل اور روش ٹھیک نہیں ہے، سرکار دو عالم ا نے ارشاد فرمایا:
”حق الولد علی والدہ أن یحسن إسمہ، ویحسن من مرضعہ، ویحسن أدبہ“․
(شعب الإیمان، باب فيحقوق الأولاد وأالھلین، رقم الحدیث:8667،6/402،دارالکتب العلمیة)

ارشاد فرمایا:”والد کے ذمہ اولاد کا حق یہ ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے دودھ پلانے والی کے ساتھ احسان کرے اور اس کو اچھا ادب سکھلائے“۔

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
عن عثمان الحاطبي قال: سمعت ابن عمر یقول لرجل:”أدّب ابنک، فإنک مسوٴل عن ولدک: ماذا أدّبتہ؟ وماذا علّمتہ؟ “․
(شعب الإیمان للبیہقي، باب فيحقوق الأولاد، رقم الحدیث:8662،6/400،دارالکتب العلمیة)

فرمایا:”اپنی اولاد کو ادب سکھلاوٴ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا،کہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟“

مذکورہ احادیث میں اچھا نام رکھنے ، ادب سکھلانے، دینی تعلیم دینے کا ذکر ہے، اس کے علاوہ احادیث ِ مبارکہ میں بچوں کی تربیت سے متعلق بہت سارے احکام مذکورہیں،مثلاً:سب سے پہلے کلمہ طیبہ”لا إلہ إلا اللہ“ سکھلانا، ایمان کی باتیں سکھلانا، قرآنِ پاک سکھلانا، نماز سکھلانا اور اس کی عادت ڈالنا،ان کی اخلاقی تربیت کی خاطر ان کے بستر (بلوغت سے پہلے ہی) الگ کر دینا وغیرہ و غیرہ۔ یہ وہ تربیتی اعمال ہیں جن کے اختیار کرنے کا حکم بچے کے بالغ ہونے سے پہلے ہی دے دیا گیا ہے۔

کلمہ کی تربیت دینے کی فضیلت:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ رَبَّى صَغِيرًا حَتَّى يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لَمْ يُحَاسِبْهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ»
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی بچے کی تربیت کی حتی کہ وہ کہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، تو اللہ عزوجل اس کا (سخت)حساب نہیں لے گا۔‘‘
[المعجم الأوسط للطبراني:4865]






اگر بچوں کی تربیت اچھے طریقے سے کر دی جائے تو جہاں یہ بچہ ایک انسانِ کامل اور ایک فردِ کامل بنے گا، وہیں یہ بچہ ایک صالح معاشرے کے لیے ایک مضبوط بنیاد بھی ثابت ہو گا۔یہ بچہ خود بامقصد زندگی گذارنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے دیگر انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی والے کاموں کا ذریعہ بنتا ہے۔اس کے برخلاف اگر اس کی صحیح اور اچھی تربیت نہ کی گئی تو سب سے پہلے اس کا وجود معاشرے کے لیے بوجھ اور وبال بنے گااور خود اس کی زندگی جانوروں والی زندگی ہو گی، ایسے فرد سے خیر کی توقع ایک عبث کام ہو گا۔

نیز! اولاد کی دینی تربیت کے باعث والدین کی دنیا میں بھی نیک نامی ہو گی اور آخرت میں بھی سرخ روئی ان کا مقدر بنے گی، جب کہ اس کے برعکس ناخلف(نافرمان) اولاد والدین کے لیے دنیا میں بھی وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی اللہ کے سامنے رسوا کروانے کا سبب بنے گی۔

تربیت کی دو قسمیں
اس کے بعد سمجھنا چاہیے کہ تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: اول :اولاد کی تربیت ظاہری اعتبار سے، دوم :اولاد کی تربیت باطنی اعتبار سے۔

اوپر ذکر کردہ حدیثِ مبارکہ میں بچوں کی باطنی اعتبار سے تربیت کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے۔ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی شکل وصورت، سر کے بالوں (ڈاڑھی، مونچھ، بغل و زیرِ ناف کے بالوں )کی شرعی ہیئت، شرعی لباس، طور اطوار(کھانا کھانے، پانی پینے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے وغیرہ ) جیسے کام داخل ہیں، اس کے علاوہ اس بات پر نظر رکھنا بھی ظاہری تربیت میں داخل ہے کہ بچوں کو دوسروں سے پیسے مانگنے یا کھانے پینے والی اشیا مانگنے، چھوٹی موٹی چیزیں یا پیسے چرانے یا دوسروں کو اذیت دینے والی شرارتیں یا بد تمیزی سے بولنے کی عادت نہ پڑے۔اسی طرح بچوں کی گھر سے باہروالی زندگی، اس کے دوست یار، اس کے تفریحی مشاغل کو بھی نظر میں رکھنا ہو گا۔اس کے تعلیمی مراحل ( دینی ہوں یا عصری)کو اپنی نگرانی میں مکمل کروانا، اس کے اساتذہ سے مل کے اس کی تعلیمی حالت وکیفیت سے باخبر رہنا بھی ضروری ہے، نمازوں کے اوقات میں جب اولاد تنہا مساجد کی طرف جائے تو اس بات کی تسلی کرنا کہ وہ واقعتا مسجد میں ہی گئے ہیں، ضروری ہے۔نیز! جب اولاد کمانے کے قابل ہو جائے اور کمانے لگے تو ان کے ذرائع معاش کی نگرانی کرنا بھی اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہے۔

نومولود سے متعلق شرعی احکام
امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:” اولاد کی (ظاہری و باطنی) تربیت کا وقت اورموقع سمجھ داری اور عقل والی عمر ہے“۔

قال الإمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ: ”وأما التعلیم والتأدیب، فوقتہما أن یبلغ المولود من السن والعقل مبلغاً یحتملہ“․
(شُعب الإیمان للبیہقي، الستون من شعب الإیمان في حقوق الأولاد والأھلین،11/126،مکتبة الرّشد)

اس عمر تک پہنچنے سے پہلے اس بچے کے والدین پر اس کے کچھ حقوق اور احکامات متوجہ ہوتے ہیں، جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں اوران پر مرتب ہونے والے نتائج واثرات بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں، ایسے احکامات کی تعداد چھ ہے:
کان میں اذان دینا۔ تحنیک کرنا۔ نام رکھنا۔ عقیقہ کرنا۔ سر کے بال مونڈنااور ان بالوں کے وزن کے برابر صدقہ کرنا۔ ختنہ کرنا۔

پہلا حکم : اذان دینا
نومولود سے متعلق سب سے پہلا حکم ا س کے کان میں اذان دینے کا ہے،اذان کا حکم اس لیے دیا گیا کہ اس دنیا میں آنے والا نیا مہمان اس دنیا میں آنکھ کھولتے ہی شیطان کے اثر سے محفوظ ہو جائے اور سب سے پہلے اس بچے کے کانوں میں اللہ تعالی کی وحدانیت (”اللہ اکبر “کے ذریعے)، اللہ رب العزت کے علاوہ دیگر معبودان ِ باطلہ کی نفی (”اشھد ان لا الہ الا اللہ“ کے ذریعے)، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت (”أشھد أن محمدا رسول اللہ“ کے ذریعے)،اسلام کے سب سے بڑے اور اہم ترین عمل نمازکی دعوت اور اس میں کام یابی کی خبر(”حيّ علی الصلاة “ اور”حيّ علی الفلاح“ کے ذریعے) ڈالی جاتی ہے۔

قال الإمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ: ”وأما التعلیم والتأدیب، فوقتہما أن یبلُغ المولود من السن والعقل مبلغاً یحتمِلہ، وذلک یتفرع․ فمنھا:أن یُنشَّئِہ علی أَخلاق صُلحاء المسلمین، ویصونہ عن مخالطة المفسِدین، ومنھا: أن یُعلِّمہ القرآن ولسانَ الأدب ویُسمِعہ السُنَن، وأقاویل السلَف، ویُعلِّمہ من أحکام الدین ما لا غِني بہ عنہ، ومنھا:أن یُرشِدَہ من المَکاسِب إلی ما یُحمَد ویُرجیٰ أن یرُدَّ علیہ کفایتُہ، فإذا بلَغ أحدُہم حدَّ العقل عُرِّفَ الباریٴَ جلَّ جلالُہ إلیہ بالدلائل التي توصِلہ إلیٰ معرفتہ من غیر أن یُسمِعہ من مقالات المُلحدین شیئاً، ویذکرھم لہ في الجملة أحیاناً، ویُحذِّرہ إیّاھم، ویُنفِّرہ عنھم، ویُبغِّضُھم إلیہ ما استطاع، ویُبدَأ من الدلائل بالأقرب الأجلٰی، ثم ما یلیہ، وکذٰلک یُفعَل بالدلائل الدالة علیٰ نبوةِ نبیّنا صلی الله علیہ وسلم بھدیِہ فیھا إلیٰ الأقرب الأوضَح، ثم الّذي یلیہ، وبسَط الحلیميّ الکلامَ في کل فصلٍ من فصولِ ھذا الباب، مَن أراد الوقوف علیہ رجع إلیہ إن شاء اللہ“․
(شُعب الإیمان للبیہقي، الستون من شعب الإیمان في حقوق الأولاد والأھلین،11/126 127،مکتبة الرّشد)

شیطان کے اثر سے حفاظت
شیطان سے حفاظت کے لیے ارشاد ِ نبوی صلی الله علیہ وسلم کی روشنی میں اذان کا عمل ہے، اسی کا اہتمام نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے،حضرت عبید اللہ بن ابی رافع اپنے والد یعنی”ابورافع“ سے روایت کرتے ہیں کہ” جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے دونوں کانوں میں اذان دی“۔

عن أبي عبید بن أبي رافع عن أبیہ، قال: ”رأیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم أذّن في أذني الحسن، حین ولدتہ فاطمةُ، بالصلاة“․
(مسند أحمد بن حنبل،حدیث ضمیرة بن سعد، رقم الحدیث:23869، 29/297،موٴسسة الرسالة)

مذکورہ روایت میں دونوں کانوں میں اذان دینے سے مراد دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت ہے،یعنی: لفظِ اذان بول کر مجازاً اقامت مراد لی گئی ہے۔

شیطان سے بچنے کے لیے دوسراعمل یہ بتایا کہ پیدائش کے وقت بچے کا سرپرست یہ دعا پڑھے: ”إني أعیذھا بک وذریتھا من الشیطان الرجیم“․ ایسا کرنا مستحب ہے۔
(مرقاة المفاتیح، کتاب الأطعمة،رقم الحدیث:……،12/418)

اذان سے متعلق مسائل
بچے کی پیدائش پر اس کے دائیں کان میں (نماز والی)اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا سنت ہے۔

اس اذان اور اقامت کے بارے میں بھی وہی مسائل و احکامات ہیں ، جو نماز سے قبل دی جانے والی اذان کے ہیں، مثلاً:اذان دینے والے کا مسلمان، عاقل، بالغ یاقریب البلوغ، سمجھ دار ، مردہونا، باوضو ہونا،جنبی نہ ہونا، قبلہ رو ہونا،کھڑا ہونا،اذان ٹھہر ٹھہر کے دینا اور اقامت میں کلمات(بنسبت اذان کے) جلدی جلدی ادا کرنا، البتہ اس اذان و اقامت میں ”الصلاة خیر من النوم“کہنے کی اور ”حيّ علی الصلاة“ کہتے ہوئے چہرہ دائیں طرف پھیرنے کی، ”حيّ علی الفلاح“ کہتے ہوئے چہرہ بائیں طرف پھیرنے کی ضرورت، آواز بلند کرنے کی،کانوں میں انگلیاں ڈالنے کی،اذان کے کلمات بہت زیادہ ٹھہر ٹھہر کے دینے کی ضرورت نہیں ہوتی، تاہم اگر یہ امور کر بھی لیے جائیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔

بچے کی پیدائش کے بعد اذان کے لیے یہ بات ضروری نہیں ہے کہ اس کو غسل دے دیا گیا ہو، البتہ جسم پر لگی ہوئی نجاست و غلاظت کو صاف کر لینا چاہیے۔

اذان دینے میں زیادہ تاخیر پسندیدہ نہیں ہے، تاہم اگر کسی عذر کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو(جیسے بعض حالات میں ولادت کے فورا بعد بچے میں کچھ کمزوری یا پیدائشی مرض وغیرہ کی وجہ سے انتہائی نگہداشت کی شیشے والی مشینوں یا مخصوص درجہ حرارت والی جگہ میں رکھا جاتا ہے، اسے باہر کے ماحول میں نہیں نکالا جاتا، تو ایسی صورت حال میں اگر کچھ تاخیر بھی ہو جائے) تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ بعد میں اذان دے دی جائے۔

مستحب یہ ہے کہ کسی نیک ،صالح، باشرع شخص سے اذان دلوائی جائے۔

دوسرا حکم : تحنیک
بچے کے کان میں اذان دینے کے بعددوسرا مسنون عمل تحنیک کا ہے،تحنیک کا مطلب یہ ہوتا ہے:”کسی نیک ،صالح ،متبع سنت بزرگ کے منہ میں چبائی ہوئی کھجوریا اس کے لعاب میں ملی ہوئی کوئی بھی میٹھی چیز بچے کے منہ میں ڈال کے اس کے تالو کے ساتھ چپکانا، تاکہ یہ لعاب اس بچے کے پیٹ میں چلا جائے اور اس طرح اس نیک بزرگ کی نیکی کے اثرات اس بچے کے اندرمنتقل ہوں“۔

قال أھل اللغة :”التحنیک أن یمْضُغ التمر أو نحوہ، ثم یُدَلَّکُ بہ حَنَک الصغیرِ“وفیہ لغتان مشھورتان :حَنَکْتُہ وحَنَّکْتُہ بالتخفیف والتشدید․
(شرح النووي علی مسلم، کتاب الطھارة، باب حکم بول الطفل الرضیع وکیفیة غسلہ:1/462،رقم الحدیث:688)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس نومولود بچوں کو لایا جاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور ان کی تحنیک فرماتے تھے۔

عن عائشة رضي اللہ عنہا أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کان یوٴتی بالصبیان، فیبرِّک علیہم، ویُحنِّکُہم․
(صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ و حملہ إلی صالح یحنکہ، رقم الحدیث:2147)

تحنیک کا مقصد
تحنیک کا مقصد یہ ہے کہ بچے کے پیٹ میں پہلی غذا کسی نیک بزرگ کا لعاب جائے، تاکہ اس سے برکت کا حصول ہو۔

وقولہ: ”ویحنکہم“ لیکون أول ما یدخل أجوافہم ما أدخلہ النبي صلی الله علیہ وسلم، لا سیما بما مزجہ بہ من ریقہ وتفلہ فی فیہ․
(إکمال المعلم للقاضي عیاض،کتاب الطھارة، باب حکم بول الطفل الرضیع وکیفیة غسلہ، رقم الحدیث:688)

تحنیک سے متعلقہ مسائل
اذان کے بعد پہلا کام تحنیک کا عمل کرنا ہے، یہ عمل مسنون ہے۔

تحنیک کسی نیک شخص سے کروانی چاہیے، تاکہ یہ بچے کے ایمان اور نیک عمل کی بنیاد بنے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”والحکمة فیہ أنہ یتفاوٴل لہ بالإیمان لأن التمر ثمرة الشجرة التي شبھھا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بالموٴمن، وبحلاوتہ أیضاً، ولا سیما إذا کان المحنِّکُ من أھل الفضل والعلماء والصالحین، لأنہ یصل إلی جوف المولود من ریقہم، ألا تریٰ أن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم لما حنک عبداللہ بن الزبیر حاز من الفضائل والکلمات ما لا یوصف، وکان قارئاً للقرآن، عفیفاً في الإسلام“․
(عمدة القاري، کتاب العقیقة، باب تسمیة المولود غداة یولد لمن یعق عنہ وتحنیکہ:21/125،دارالکتب العلمیة)

افضل یہ ہے کہ تحنیک کھجور سے کی جائے اور اگر کھجور میسر نہ ہو تو چھوہارہ اور اگر چھوہارہ بھی نہ ہو تواس کو شہدچٹا دیا جائے ، یاپھر کوئی بھی میٹھی چیزچبا کے یا اپنے منہ میں چوس کے بچے کے منہ میں ڈال دی جائے ، البتہ اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ وہ چیز آگ پر پکی ہوئی نہ ہو، بلکہ کوئی پھل وغیرہ ہو۔ 

وأولاہ التمر، فإن لم یتیسر تمر، فرطب وإلا فشيء حلو، عسل النحل أولیٰ من غیرہ، ثم ما لم تمسہ نار کما في نظیرہ مما یفطر الصائم علیہ․
(فتح الباري،کتاب العقیقة، باب تسمیة المولود غداة یولد لمن یعق عنہ و تحنیکہ:9/588،دارالمعرفة)

تیسرا حکم: نام رکھنا
عام طور پر کتب میں نام رکھنے کا ذکر عقیقہ کے بعد کیا جاتا ہے، لیکن اگر بنظر ِ غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بچے کے نام رکھنے کا عمل عقیقہ کرنے سے قبل ہوناچاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عقیقہ کرتے وقت جو دعا پڑھنا مستحب ہے ، اس میں بچے کا نام لیاجاتا ہے، اس بنا پر پہلے بچے کا نام رکھنا چاہیے ،پھر عقیقہ کرنا چاہیے، اچھا نام رکھنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بہت پسند تھا، اس کی ترغیب دی جاتی تھی، اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب میں کسی کا نام اچھا نہ ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس کا نام تبدیل بھی فرما دیا کرتے تھے،یعنی: اچھا نام آپ صلی الله علیہ وسلم کو پسند اور بُرا نام ناپسند ہوتاتھا۔



اچھے نام کی ترغیب اور اہمیت
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ :”بے شک قیامت کے دن تمہیں تمہارے اور تمہارے باپوں کے نام سے پُکارا جائے گا،اس لیے تم اپنے اچھے نام رکھا کرو“۔

عن أبي الدرداء رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم:”إنکم تدعون یوم القیامة بأسمائکم وأسماء آبائکم، فأحسنوا أسمائکم“․
(سنن أبي داوٴد، کتاب الآدب، باب في تغییر الأسماء، رقم:4950، 5 /149،دارابن حزم)

اس حدیث ِ مبارکہ سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ قیامت کے دن مخلوقاتِ عالم کے سامنے بندوں کو ان کے ناموں سے پکارا جائے گا، چناں چہ اچھے ناموں کے اچھے اثرات اوربرے ناموں کے برے اثرات ظاہر ہوں گے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ انسان کو اس کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا،بعض دیگر روایات میں انسان کو ماں کے نام سے پکارے جانے کا ذکر ہے، لیکن یہ روایات احادیث ِ صحیحہ کے خلاف ہیں۔صحیح اور مستند بات یہ ہی ہے کہ باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔

بچے کا نام رکھنے کا وقت
بچے کا نام پیدائش کے ساتویں دن رکھنا افضل ہے، جیسا کہ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والدسے اور ان کے والد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ :”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پیدا ہونے والے بچے کا نام ساتویں دن رکھنے کا حکم فرمایا“․
عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ: ”أن النبي صلی الله علیہ وسلم أمر بتسمیة المولود یوم سابعہ، ووضعِ الأذیٰ عنہ، والعق“․
(سنن الترمذي، کتاب الأدب، باب ما جاء في تعجیل إسم المولود، رقم الحدیث:2758 ،5/132،مطبعہ مصطفیٰ البابي الحلبي)

اس کے علاوہ اگر بچے کا نام کسی وجہ سے پیدائش کے فوراً بعد رکھنا پڑ جائے، یا نام رکھنے میں ساتویں دن سے کچھ تاخیر ہو جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، تاہم بلاوجہ بہت زیادہ تاخیر کرنا خلافِ سنت ہے،ساتویں دن سے قبل اگر نام رکھنا تجویز ہو رہا ہو تو اس کی یہ صورت اپنائی جا سکتی ہے، کہ نام تو پہلے سوچ لیا جائے ،لیکن طے ساتویں دن کر لیا جائے۔

وقال الخطابي: ”ذھب کثیر من الناس إلی أن التسمیة تجوز قبل ذلک“․ وقال محمد بن سیرین وقتادة والأوزاعي: ”إذا ولدوقد تم خلقہ، یسمیٰ في الوقت إن شاء“․ وقال المھلب: ”وتسمیة المولود حین یولد وبعد ذلک بلیلة أو لیلتین وما شاء إذا لم ینوِ الأبُ العقیقةَ عند یوم سابعہ جائز، وإن أراد أن ینسکہ عنہ، فالسنة أن تُوَٴخَّر التسمیة إلیٰ یوم النسک، وہو السابع“․
(عمدة القاري، کتاب العقیقة، باب تسمیة المولودغداة یولد لمن یعق عنہ وتحنیکہ:21/125،دارالکتب العلمیة)

اچھے اور بُرے ناموں کے اثرات
یوں تو دیکھنے میں نام رکھنا چھوٹی سے بات ہے، لیکن اس کے اثرات دینی اور دنیوی زندگی میں مرتب ہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم بہت ہی زیادہ اہتمام سے برے نام تبدیل فرمایا کرتے تھے، ناموں کے اثرات انسان کے اعمال و احوال پر پڑنے کا ذکر احادیثِ نبویہ علی صاحبھا الصلاة والتحیة اور آثار ِ صحابہ میں موجود ہے، جیسا کہ حضرت ابن مسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:” ان کے باپ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوئے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارا کیا نام ہے؟انہوں نے جواب دیا کہ میرا نام”حزن“ (یعنی:غم اور سختی والا)ہے، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ:(نہیں! بلکہ)تمہارا نام ”سہل“(یعنی:آسانی والا)ہے، تو انہوں نے کہا کہ میں اس نام کو نہیں بدلوں گاجو میرے والد نے رکھا ہے“۔حضرت ابن مسیب فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ہمارے گھر میں غم کے حالات ہی پیش آتے رہے۔

عن ابن المسیب عن أبیہ أن أباہ جآء إلی النبيصلی الله علیہ وسلم فقال:”مااسمک؟“ قال:حُزنٌ، قال:”أنت سھلٌ“․ قال:لا أُغیِّرُ اِسماً سمّانیہ أبي، قال ابن المسیب: فما زالت الحزونةُ فینا بعدُ․
(صحیح البخاري، کتاب الأدب، باب إسمِ الحُزن، رقم الحدیث:6190،9/43،دارطوق النجاة)

اسی طرح حضرت یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اس شخص نے جواب دیاکہ ”جمرہ“ (اس کا مطلب ہے، چنگاری )، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کس کے بیٹے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ”شہاب“(یعنی: شعلے ) کا بیٹا ہوں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد معلوم کیا کہ کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ”حرقہ“ (یعنی: آگ جلانے والے ) قبیلہ سے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر معلوم کیا کہ تم کہاں رہتے ہو؟تو اس نے جواب دیا کہ ”حرّة النار“ (آگ کی گرمی ) میں رہتا ہوں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر معلوم کیا کہ یہ ”حرة النار “ کہاں واقع ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ ”ذات اللظیٰ“ (یعنی: بھڑکتی ہو ئی آگ کے علاقے)میں ہے،تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ اپنے گھر والوں کی خبر لو، وہ جل گئے ہیں،راوی کہتے ہیں کہ اس نے جا کردیکھا تو ویسے ہی پایا، جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا۔ (جاری)



بال منڈوانے سے متعلق مسائل
اس عمل سے مقصود چوں کہ صدقہ ہوتا ہے ، اس لیے اگر وسعت ہو تو بالوں کے وزن کے برابر چاندی کے بجائے سوناصدقہ کرناچاہیے اور یہ صدقہ طلبا علوم دینیہ پر کرنا زیادہ بہتر ہے۔

اس عمل کا وقت عقیقہ کرنے کے بعد کا ہے،لیکن اگر عقیقہ کرنے کی وسعت نہ ہو تو صرف صدقہ ہی کر لینا چاہیے اور اگر اس وقت صدقہ کرنے کی بھی وسعت نہ ہو تو پھر بعد میں جب بھی توفیق ہو جائے یہ عمل کر لینا چاہیے۔

بال اتروانے کے بعد انہیں کسی محفوظ جگہ دفن کر دینا چاہیے، گندگی وغیرہ کے ڈھیر پر پھینک دینا مناسب نہیں۔

اگر اس عمل سے پہلے ہی بچہ فوت ہو جائے تو اس کے بال نہیں مونڈنے چاہییں۔

نومولود سے متعلق چھٹا حکم: ختنہ کرنا
بچے سے متعلق چھٹا حکم اس کا ختنہ کرنا ہے،ختنہ کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہ شعائرِ اسلام میں داخل ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس عمل کے اہتمام کی بہت تاکید آئی ہے،فقہائے کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر شہر کے تمام افراد ترکِ ختنہ پر متفق ہو جائیں تو حاکمِ وقت ان سے قتال کرسکتا ہے۔

عن أبي ھریرة رضي اللہ عنہ ،عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال:”خمس من الفطرة: الختان، والاستحداد، وتقلیم الأظفار، ونتف الإبط، وقص الشارب“․
(المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الطھارة، رقم الحدیث:2059 ،1/195، دارالسلفیة)

الختان سنة کما جاء في الخبر وھو من شعائر الإسلام وخصائصہ، حتیٰ لو اجتمع أھل بلدٍ علیٰ ترکہ، یحاربھم الإمام، فلا یُترَک إلا للضرورة، وعذرُ الشیخ الذي لا یطیق ذٰلک ظاھرٌ، فیُترک․
(البحر الرائق، کتاب الخنثیٰ، مسائل شتّٰی:9/359، دار الکتب العلمیة)

ختنہ کی عمر
ختنہ کس عمر میں کروایا جاتا ہے؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بچہ ختنہ کی تکلیف برداشت کرنے کا متحمل ہو جائے ، اس کا ختنہ کر دینا چاہیے، چاہے، وہ پیدائش کا ساتواں دن ہو، چاہے بلوغت سے پہلے پہلے کوئی بھی وقت،لیکن بغیر کسی عذر یا وجہ کے اس عمل میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس عمل کی تکلیف بھی بڑھتی جائے گی۔

وما یستفاد من حال السلف أنھم کانوا یختتنون عند شعور الصبي، وکانوا یوٴخرون فیہ تاخیرا حسنا․ والأحسن عندي أن یعجّل فیہ، ویختتن قبل سن الشعور، فإنہ أیسر․(فیض الباری، کتاب الاستئذان، باب الختان بعد الکبر، رقم الحدیث:6299،10/214، دار الکتب العلمیة)

بڑی عمر میں ختنہ کروانے کا حکم
احناف کے نزدیک ختنہ کرواناسنت ہے، لیکن بچپن میں ختنہ نہ ہونے کی صورت میں بلوغت کے بعد یا اسلام قبول کرنے کے بعدختنہ کروانا لازم ہے، اس عمل میں اگرچہ شرم گاہ کی طرف دیکھنا لازم آتا ہے، لیکن ختنہ کی ضرورت کی وجہ سے شریعت میں اس کی اجازت دی گئی ہے، اس لیے اس عمل ِ مسنون کی ادائیگی میں ترکِ واجب لازم نہ آئے گا،تاہم اس عمل کے دوران ڈاکٹر پر لازم ہے کہ وہ بلا ضرورت شرم گاہ پر نظرڈالنے سے گریز کرے۔ 

وأما النظر إلی العورة لأجل الختان، فلیس فیہ ترک الواجب لفعل السنة، لأن النظر مأذون فیہ للضرورة․
(رد المحتار مع الدرالمختار، کتاب الحج، مطلب في مکة:3/ 505،دار عالم الکتب)

یحل للرجل أن ینظر من الرجل إلیٰ سائر جسدہ إلا ما بین السرة والرکبة إلا عند الضرورة، فلا بأس أن ینظر الرجل إلیٰ موضع الختان لیختنہ ویداویہ بعد الختن․
(بدائع الصنائع، کتاب الاستحسان:5/123،دارالکتب العلمیة,الطبعةالثانیة،1406 ھ ) 

إذا جاء عذر فلا بأس بالنظر إلیٰ عورة لأجل الضرورة، فمن ذٰلک أن الخاتن ینظر ذٰلک الموضع والخافضة کذٰلک تنظر، لأن الختان سنة، وھو من جملة الفطرة في حق الرجال لا یکمن ترکہ․
(المبسوط للسرخسي، کتاب الاستحسان، النظر إلیٰ الأجنبیات:10/163، الغفاریة، کوئٹة)

ائمہ اربعہ کے نزدیک ختنہ کا حکم
ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی و امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے نزدیک ختنہ کروانا واجب ہے اور امام ابو حنیفہ و امام مالک رحمہما اللہ ختنہ کے سنت ہونے کے قائل ہیں،تاہم سب کے نزدیک یہ شعائرِ اسلام میں سے ہے۔

الختان واجب علی الرجال والنساء عندنا، وبہ قال کثیرون من السلف، کذا حکاہ الخطابي، وممن أوجبہ أحمد، وقال مالک وأبو حنیفة: سنة في حق الجمیع․
(المجموع شرح المھذب، کتاب الطھارة، باب السواک:1/366، دار الفکر،والمغني لابن قدامہ، کتاب الطھارة، فصول في الفطرة، فصل:1/115، دار عالم الکتب، والفتاویٰ الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب التاسع عشرفيالختان:5/357، رشیدیة، والفواکہ الدواني، باب في الفطرة و الختان:2/494،دارالکتب العلمیة)

نو مسلم کے لیے ختنہ کا حکم
اگرکوئی شخص بلوغت کے بعد اسلام قبول کرے تو اس کے لیے ختنہ کروانا لازم ہے، البتہ نو مسلم اگر بڑی عمر والا ہو ، ضعیف و کمزور ہو، ختنہ کی تکلیف برداشت نہ کر سکتا ہو اور کوئی ماہر ،دین دار ڈاکٹربھی اس کے لیے ختنہ کروانے کو جان لیوا قرار دے دے تو ایسے شخص کے لیے ختنہ نہ کروانے کی گنجائش ہے، تاہم ایسے شخص پر قضائے حاجت کے وقت نہایت اہتمام سے صفائی کرنا لازم ہو گا۔

عن قتادة الرھاوي قال: أتیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، فأسلمتُ، فقال لي:”یا قتادة! اغتسل بماءٍ و سدرٍ، واحلق عنک شعرَ الکفر“․ وکان رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یأمر من أسلم أن یختتن، وکان ابن ثمانین سنةً․ 
(المعجم الکبیر للطبراني، قتادة الرھاوي، رقم الحدیث: 15363،13/344، مکتبہ دارابن تیمیہ)

واعلم أن الاختتان قبل البلوغ، وأما بعدہ فلا سبیل إلیہ، وکان الشاہ إسحاق رحمہ اللہ یفتي باختتان من أسلم من الکفار، ولو کان بالغاً، فاتفق مرَّة أن أسلم کافر کھول، فأمرہ بالاختتان، فاختتن، ثم مات فیہ، فلذا(لا) أتوسع فیہ، ولا آمر بہ البالغ، فإنہ یوٴذي کثیراً، وربما یفضي إلیٰ الھلاک․ أما قبل البلوغ، فلا توقیت فیہ، وھو المروي عن الإمام الأعظم أبي حنیفة․ 
(فیض الباری، کتاب الاستئذان، باب الختان بعد الکبر، رقم الحدیث:6299،10/214، دار الکتب العلمیة)

ختنہ کی حکمت و فوائد
اس عمل میں اللہ رب العزت نے شرعی و طبی بہت سارے فوائد رکھے ہیں، جن میں سے چند ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:

اس عمل کی ادائیگی پر انسان کو تمام انبیا علیہم السلام کی سنت پوری کرنے کا اجر ملتا ہے، اس لیے کہ یہ تمام انبیا علیہم السلام کی سنت ہے۔

اس عمل کی وجہ سے انسان کامل طہارت اور صفائی حاصل کر سکتا ہے، اس کے بغیر نہیں، اس لیے کہ لٹکی ہوئی کھال مکمل طہارت حاصل ہونے سے مانع ہوتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے غیر مختون کی نماز کے بارے میں عدم قبولیت کا قول ہے:
عن عکرمة عن ابن عباس قال:”لا تقبل صلاة رجل لم یختتن“․
(مصنف عبد الرزاق،کتاب الجامع للِامام معمر بن راشد، باب الفطرة والختان، رقم الحدیث:20248،11 /175، المکتب الإسلامی، بیروت)

یہ عمل وظیفہ زوجیت کی ادائیگی میں سہولت اور بہت زیادہ لذت کا سبب بنتا ہے۔
”وختان المرأة لیس سنة، بل مکرمة للرجال“ ْ قال: ابن عابدین تحت قول ”بل مکرمة للرجال“ : لأنہ ألذ في الجماع․زیلعي․
(در المختار مع رد المحتار، کتاب الخنثیٰ، مسائل شتیٰ: 10/481 ،دار عالم الکتب، ریاض)
والختان سنة للرجل تکرمة لھا، إذ جماع المختون ألذ․(شرح النقایة، کتاب الطھارة، باب الغسل:1/77،سعید)

ختنہ سے متعلق مسائل
عمل ختنہ ہمارے دیار میں مردوں کے لیے سنت ہے، عورتوں کے لیے نہیں، البتہ اگر عورتیں بھی ختنہ کروا لیں تو ناجائز نہیں ہے؛ بلکہ بعض فقہا نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔

بلوغت سے پہلے پہلے ختنہ کروا دینا چاہیے، اگر کوئی عذر ہو تو بعد میں جیسے ہی اس پر قدرت ہوجائے، تو اس عمل کو کر لینا چاہیے۔

لڑکے کے ختنہ کے لیے کوئی ماہر مرد ہونا چاہیے، اگر ایسا کوئی مرد میسر نہ ہو تو پھر عورت بھی یہ کام کر سکتی ہے، اسی طرح بچی کا ختنہ کوئی ماہر عورت ہی کرے ، البتہ اگر کوئی ماہر نہ ملے تو جو بھی ماہر مرد ملے وہ بھی کر سکتا ہے۔

پیدائشی پیدا ہونے والے مختون کے ختنہ کی ضرورت نہیں۔
ختنہ کا جملہ خرچ بچے کا والد برداشت کرے گا، الا یہ کہ کوئی اور اپنی خوشی سے یہ اخراجات اپنے ذمے لے تو ٹھیک ہے۔

ختنہ کے موقع پر دعوت کرنے یا نہ کرنے میں اختلاف ہے،بعض کی طرف سے ممانعت منقول ہے اور بعض جواز کے قائل ہیں، بہر صورت ان مواقع پر ہونے والی رسوم و رواج اور منکرات سے بچنا از حد ضروری ہے۔

اگر کوئی بچہ ختنہ سے قبل فوت ہو جائے تو اس کا ختنہ نہیں کیا جائے گا۔

الحمد للہ! نومولود کے احکام سے متعلق سارے احکام اجمال کے ساتھ، لیکن مدلل بیان ہو چکے ہیں، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ان احکاماتِ الٰہیہ کو جگہ دیں، اپنی زندگی میں بھی اور بچوں کے اندر بھی یہ صفات پیداکرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانی چاہیے، بوقت ضروت مفتیان کرام اور دیگر تفصیلی و بڑی کتب سے مدد لی جاسکتی ہے، مذکورہ مضمون ان موضوعات کا استقصا نہیں کرتا ، بلکہ ایک حد تک ہمیں ان احکامات سے روشناس کروا سکتا ہے، اللہ رب العزت اس کا نفع عام و تام فرمائے۔آمین.




اس بات میں کسی کو شک نہیں ہوسکتا کہ نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی تربیت کے لیے بہترین حکمت عملی اختیار کی ہوگی، لیکن اس حقیقت سے بھی سب واقف ہیں کہ وہ نتیجہ خیز نہ ہوسکی۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بہترین جماعت تیار کی اس کے نتیجے میں خود صحابہ کرام کے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ اب آیندہ لوگ ہدایت ہی پر رہیں گے۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی کہ عنقریب بے جا اقربا پروری کا زمانہ آنے والا ہے تو صحابہ کرام نے شدید حیرانی ظاہر کی۔ اسی طرح جب مسلمانوں کے اوپر کفار قوموں کے ایسے جھپٹنے کی پیش گوئی فرمائی کہ جیسے لوگ دسترخوان پر ایک دوسرے کو دعوت دے کر کھانے پر آمادہ کرتے ہیں تو بھی صحابہ کرامؓ کو یہ خیال نہ گزرا کہ امت کے ایمان کمزور ہوچکے ہوں گے، بلکہ وہ یہ سمجھے کہ مسلمان بہت تھوڑے رہ گئے ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ نہیں تم تو بہت کثرت سے ہوگے، لیکن سمندر کی جھاگ کی طرح بے شان و شوکت کیونکہ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت پھیل چکی ہوگی۔ خلاصہ یہ کہ نوح علیہ السلام کی وضع کردہ حکمت عملی ہو یا سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی تدبیر اور پرحکمت تربیت، زمانہ گزرنے سے اس کے اثرات بدل جاتے ہیں۔ چند نسلوں کے بعد اس کا اثر مضمحل ہوجاتا ہے۔ کئی صدیوں کے بعد اس کے اثرات کم ہوچکے ہوتے ہیں اور ایک دہائی کے بعد تو اس کے اثرات کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔


اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب ہم غور کریں کہ اپنے اور اپنی نسلوں کے ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے ہم آج جس حکمت عملی پر چل رہے ہیں، کیا ہم امید کرسکتے ہیں کہ ہماری قیامت تک کی نسلوں کا ایمان محفوظ ہوگا؟ دور کیوں جائیں؟ کیا اپنی موجودہ اولاد کو بھی ہم دین سے وابستہ کرپائے ہیں؟ کیا ان کی دین سے وابستگی میں ہمیں واضح فرق محسوس نہیں ہورہا؟ بہت دیندار گھرانوں میں بھی زیادہ سے زیادہ گھر میں تعلیم ہوجاتی ہے۔ بچوں کو حفظ کروالیا جاتا ہے۔ نماز پر زور دے دیا جاتا ہے، لیکن وہی بچے موبائل فونز آزادانہ استعمال کررہے ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سہولت بھی کسی قدر پابندی کے ساتھ دستیاب ہوتی ہے۔ کرکٹ میچز، ریسلنگ اور خبروں کے نام پر غیرشرعی ویڈیوز بکثرت دیکھی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر قسم کے ویڈیوز تک رسائی کے علاوہ ملحدانہ اور گمراہ کن بحثوں سے بھی مسلسل پالہ پڑرہا ہوتا ہے۔ پھر اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ بھی اپنی اپنی مذہبی اور سیکولر آرا سے طلبہ کے دماغ کی خالی تختی کو بھانت بھانت کے نظریات سے بھردیتے ہیں۔ ظاہر ہے ہماری اولاد ان مشغلوں میں بہت زیادہ وقت گزارتی ہے اور ہمارے ساتھ بہت کم وقت، اس لیے وہ ان سرگرمیوں سے ملنے والی تربیت کے اثر کو زیادہ قبول کرتی ہے 

اور ہمارے اثر کو کم۔ اگر ہم اس تھوڑے سے وقت میں اس کی کچھ تربیت کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوپاتے، جبکہ اسی دوران ہمیں اپنی اولاد کو تفریحی وقت بھی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جنہیں تربیت کی کچھ فکر ہے، لیکن حالات قابو نہیں آرہے۔ سوچیے جو لوگ اس حوالے سے آزاد خیال اور بے فکر ہیں، ان کی اولادوں کا اگلی صدی تک کیا حشر ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ 

اب ہم آتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ کیونکہ تربیت اتنا آسان کام نہیں۔ آج کل تو فکرمند لوگ بھی اولاد کے ہاتھ سے نکلنے کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ تو سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ آپ اپنی اولاد کو بچپن سے وقت دیا کریں۔ وقت دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کی باتوں کو اہمیت سے وقت دے کر سنیں۔ ان کے خیالات کے جاننے اور ان میں ہونے والی تبدیلویں سے بروقت واقف ہونے کا اس سے بہتر ذریعہ کوئی نہیں۔ ہوتا یو ںہے کہ ہم اکثر ان کی طرف سے غافل رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے دماغ میں آنے والی تبدیلی سے بروقت واقف نہیں ہوپاتے۔ اور جب واقف ہوتے ہیں تو پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کرنے کی بجائے ان کو ایک تربیتی ماحول فراہم کریں۔ دیرپا نتائج کے لیے ان کو خیر کے مراکز سے جوڑ دیں۔ مسجد میں ان کے ساتھ جائیں۔ مسجد میں دیر تک ان کے ساتھ بیٹھیں۔ ذکر کریں۔ تلاوت کریں، درود شریف پڑھیں۔ ہر نیکی کے کام میں ان کو ساتھ رکھیں۔ روزانہ ان کے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ صدقہ کروائیں۔ ان کے سامنے مہمان کا اکرام کریں۔ بڑوں سے ادب کا معاملہ کریں۔ یوں وہ لاشعوری طو رپر نیک بن جائیں گے۔ گویا اس طریقے میں دینی تعلیمات کے ساتھ خاندانی اقدار کا بڑا دخل ہوگا۔ اسی طرح ان کے لیے اچھے سلجھے ہوئے خاندانوں میں دوست ڈھونڈیں۔ اسکول میں بھی ان کے دوستوں اور اساتذہ پر نظر رکھیں۔ ان سے ملتے رہیں۔ جہاں کچھ گڑبڑ محسوس کریں تو مناسب حکمتِ عملی سے ان سے دور لے جائیں۔ زبانی زیادہ باتیں نہ کریں۔ اس سے اولاد منفی تاثر لیتی ہے۔ کبھی کبھی تنبیہ کریں اور اکثر تدابیر اور تربیتی ماحول سے مدد لیں۔ اسی طرح دینی تعلیمات کی وافر معلومات بھی کم عمر ہی میں سکھادیں۔ اس سے انہیں اسلام سے محبت بھی ہوگی اور اس سے تعلق بھی گہرا ہوجائے گا۔ ملحدانہ نظریات اور گمراہی کے قبول کرنے کی ایک بڑی وجہ دینی معلومات کی کمی بھی ہوتی ہے۔ غرض! تربیتی حصار میں اولاد کی حفاظت کرنا آج کی اہم ترین ضرورت اور ہمارا فرض ہے۔ یاد رہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اولاد اس حصار کا لازمی اثر قبول کرے گی اور کبھی نہیں بہکے گی، لیکن اس سے آپ کو بروقت اندازہ ہوجائے گا کہ آج کل میری اولاد کن خیالوں میں ہے۔ یوں اس کا حل آسان ہوجائے گا۔ آپ ایسے مواقع پر اس کے ساتھ گفتگو Counsilling کے ذریعے یا علمائے کرام سے مشورہ کرکے کوئی راہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ آپ تین کام ضرور کریں۔ اولاد کو ٹھوس دینی معلومات سے آراستہ اور خاندانی اقدار سے وابستہ کریں۔ ان کو خیر کے مراکز مساجد، خانقاہ، علمائے کرام، نیک دوست سے جوڑ کر ایک تربیتی حصار میں لے لیں اور انہیں مسلسل وقت دے کر ان کے ذہنوں میں جھانکتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے اولاد کی تربیت آسان کردیں گے۔ آپ کے آج وضع کردہ خاندانی اقدار نسل درنسل منتقل ہوکر آپ کی نسلو ںکے ایمان کو محفوظ رکھیں گے، ان شاء اللہ!





بچوں کی تعلیم وتربیت
اسلامی نقطہٴ نظر سے بچہ کی آموزش کا دور ماں کے پیٹ میں قرار پانے والے نطفہ سے بھی پہلے شروع ہوتا ہے، بوقت نکاح زوجین میں حسن کردار اور اسلامی قدروں کی اہمیت بچہ کی کام یاب زندگی میں غیر معمولی تاثیر ہی کی وجہ سے ہے، جدید تحقیقات نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ماں باپ کی اپنی تربیت ،ان کے جذبات وخواہشات، ان کے علم و ذہانت کااثر براہ راست بچوں پر پڑتا ہے، اس لیے مثالی اور باکردار اولاد کی آرزو کے حوالہ سے باپ کے اقدام، نکاح اور بیوی کے انتخاب کا مرحلہ انتہائی نازک اور بڑا اہم ہے، گھر اور خاندان ہی اولاد کے روشن یا تاریک مستقبل کا حقیقی سبب ہے ،ماں باپ کو اولاد کی تربیت میں سستی اور کوتاہی ہرگز نہیں کرنی چاہیے، اولاد کی تربیت ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔

اولاد کی تعلیم و تربیت کے دو مدرسے
ایک مدرسہ ماں کی گود ہے، جہاں اس کی تربیت ہوتی ہے، یہاں معلمہ مربیہ خود اس کی ماں ہوتی ہے اور یہی بچہ کا پہلا مدرسہ ہے، اس مدرسہ میں جیسی تربیت ہوگی اسی طرح کے اثرات بعد کی زندگی میں مرتب ہوتے چلے جاتے ہیں اور دوسرا مدرسہ درودیوار کا مروجہ مدرسہ ہے، جہاں اس کا مربی معلم اور استاذ ہوتا ہے۔

پہلے زمانے میں ماں باپ بچوں کے ہاتھ میں پیسہ دے کر صدقہ کرایا کرتے تھے، تاکہ ان کے دل سے مال کی محبت نکلے ،بخل کی عادت نہ ہو، اور غریبوں کی ہم دردی کا مزاج بنے، اس طرح بچپن ہی سے نمازوں کا شوق وذوق ان کے اندر پیدا کرتے تھے، خو د حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب بچہ سات برس کا ہوجائے تواسے نماز پڑھنے کو کہا جائے اور جب دس برس کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو اس کو تنبیہ کی جائے ۔

حدیث شریف میں ہے کہ ماؤں کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت کی فکر حمل کے زمانے ہی سے کرتی رہیں، آج کتنے ماں باپ ایسے ہیں کہ ان کو اپنی اولاد سے شکایت ہے کہ اولاد کہنا نہیں مانتی، ماں باپ کے علاوہ سب کی بات سنتی ہے، یہ بھی تو دیکھو کہ آپ نے اسی طرح تربیت کی تھی، یا نہیں؟ پہلے زمانے میں لوگ سمجھتے تھے کہ اولاد بنے گی تو میری وجہ سے، بگڑے گی تو میری وجہ سے، اس زمانے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ بنے گی تو خود بنے گی اور بگڑے گی تو خودبگڑے گی، جس کا نتیجہ لامحالہ یہی نکلے گا کہ اولاد تو بھگتے گی ہی، ماں باپ کو بھی بھگتنا پڑے گا، آج کل اولاد کی وجہ سے لوگ کتنے پریشان ہیں؟ اس کی وجہ صحیح تربیت نہ ہونا ہے، جب کہ اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، بہر حال آج کا سب سے بڑا المیہ اور فکر یہ ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے صالح معاشرہ وجود میں نہیں آرہا ہے اور جب صالح معاشرہ وجود میں نہیں آئے گا تو جرائم کی کثرت ہوگی۔

بچپن کی صحیح تربیت مستقبل میں کام یابی کی ضمانت
بچپن کی مثال ہمیشہ کمہار کی کچی مٹی سے دی جاتی ہے، بچوں کے کمہار اساتذہ اور والدین ہوتے ہیں، ان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ یہ بچے بڑے ہوکر مستقبل میں ملک وملت کا نام روشن کریں، کوئی بھی والدین یہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے ناکام ہوں، یہ فرض ہے کہ بچوں کی صحیح تربیت کریں اوراس کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، بلکہ صحیح اور منظم طریقہ سے ہم ایسی عادات کا بچوں کو خوگر بنائیں ،جس کے وہ عادی ہوجائیں، مثلاً معمولی غلطیوں کو بھی نظر انداز نہ کریں، بیجا لاڈ پیار کی وجہ سے بچپن کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگذر نہ کریں، کھیل کود کے لیے وقت مقرر کریں، بچپن ہی سے نماز کی عادت ڈلوائیں، صحابہ کرام کے سچے واقعات سنائیں، ادعیہ مسنونہ یاد کرائیں ،اگر مائیں اس طرح کا نظم وضبط کا خیال رکھتے ہوئے بچوں کو اچھی اچھی عادات اور اطوار کی عادی بنائیں گی تو جلد ہی اس کا اچھا اثر بچوں میں ملاحظہ فرمائیں گی، کیوں کہ مستقبل میں یہی عادتیں کام یابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔

نئی نسل کو اسلامی ماحول اور دینی تربیت کی ضرورت
آج مسلمانوں کے بچے دینی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے کافی پستی میں ہیں اور ان بچوں کے حق میں دین سیکھنے کا دروازہ بند ہوتا جارہا ہے، چوں کہ عصری تعلیم میں مذہبی عقائد کا ذکر نہیں ہے، مسلمانوں کے بزرگوں اور دینی پیشواؤں کا تذکرہ نہیں ہے اور اسکولی نصاب میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کے عقیدوں کے خلاف ہیں، اس میں دوسرے مذہب کے پیشواؤں کا تذکرہ اس انداز سے ملتا ہے کہ پڑھنے والے بچوں کے دلوں میں ان کی عظمت کا سکہ بیٹھ جائے اور بچوں کے سادہ ذہن پر دوسرے مذہب کے خیالات اور عقیدوں کی چھاپ لگ جائے ،انسانی فکر پرتعلیم کے ساتھ ساتھ ماحول کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے، بلکہ بعض اوقات ماحول کا اثر تعلیم سے بھی بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ اسکولوں میں ہندو مذہب کی بنیاد پر تیار شدہ ڈرامے، ناچ گانے کی مشقیں ، کہیں کہیں رام لیلا اور دوسرے ہندو تہواروں کے منانے کے لیے خصوصی پروگرام، غرض کہ پورا ماحول بچے کے ذہن پر اثر ڈالتا ہے اور بتدریج اپنے سانچے میں ڈھال لیتا ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ بچوں کو اسکول میں داخل کرادینے کے بعد مطمئن ہوجاتے ہیں اور پھر سوائے فیس ادا کرنے یا امتحان پر بچوں کا نتیجہ معلوم کرلینے کے وہ بچوں کی دینی واخلاقی نگہ داشت کے بارے میں کوئی تعلق نہیں رکھتے۔

تادیب میں احتیاط
ماہرین کا کہنا ہے کہ مار پیٹ بچوں کی نشو ونما کے لیے نقصان دہ ہے، حد سے زیادہ زد وکوب بچوں کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے، اگر چہ والدین کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ بچوں کی اصلاح کے لیے انہیں ہلکی پھلکی سزا دیں، لیکن مارپیٹ اور جسمانی تشدد نہیں کرنا چاہیے، اس سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بچوں کی نشوو نما میں مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں اور بچے ذہنی معذوری کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی، جس طرح چاہے، پٹائی نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ ایک تو اب قویٰ کمزور ہوگئے ہیں، بچوں میں تحمل نہیں رہا، ایک آدھ چھڑی لگادی تو الگ بات ہے، مگر ان پر غصہ نہیں نکالنا چاہیے، آج کل یہ مرض عام ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کا حساب بھی ہوگا۔

شیخ العجم والعرب حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب سہارن پوری کو ایک صاحب نے خط لکھا کہ میں بچوں کو بہت مارتا ہوں؟ حضرت شیخ نے جواب دیا ”قیامت کا انتظار کرو“ کیا مطلب؟ قیامت کے دن تو حساب دینا پڑے گا، اس کی نافرمانی اور تمہاری سزا دونوں تو لے جائیں گے، اور انصاف کیا جائے گا ۔اس لیے بچوں کو زدوکوب کرنے سے پہلے اس کی سزا کا تصور بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

والدین کی عادات بچے جلد سیکھتے ہیں
بچے کی اچھی تربیت جہاں ان کے کام یاب مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے، وہیں یہ معاشرے اور ملک و قوم کی ترقی میں بھی اہم رول ادا کرتی ہے، بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار اہم ترین ہوتا ہے ،بچہ کم عمری میں اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے والدین کو اپنے طرز عمل میں بہت محتاط رہنا چاہیے، ناپسندیدہ کاموں سے گریز کرنا چاہیے، بچوں کو جھوٹ بولنے سے منع کرنا ہو تو نصیحتوں کے ساتھ ساتھ خود بھی اس سے پرہیز کرنا چاہیے، آپ دیکھیں گے کہ بچے سچ بولنے کے عادی ہوجائیں گے۔

برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بچے اپنے والدین کی بری عادتیں جلدی سیکھ لیتے ہیں ،یہ تحقیق ایک سال تک جاری رہی۔ بہر کیف جوو الدین اپنے بچوں کو اچھے اور برے کے بارے میں بتاتے ہیں اگر وہ خود ہی ناپسندیدہ عادات کے مالک ہوں تو بچوں کی تربیت کیسے درست انداز میں کرسکیں گے؟!

بچوں میں خوداعتمادی پیدا کرنے کی ضرورت
بچوں میں قیادت کی صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے، ماہرین نفسیات کے مطابق اگر بروقت بچوں کو صحیح مواقع فراہم کردیے جائیں توجملہ صلاحیتوں میں بہتری پیدا ہوجاتی ہے، نیز بچوں کی کوششوں کی تعریف ان میں خود اعتمادی پیدا کرتی ہے، ماں باپ کا تلخ رویہ بچے کے اعتماد کو نقصان پہنچاتا ہے، اپنے خیالات کو بچے پر مسلط نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس میں پوشیدہ صلاحیتیں باہر نکالنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ،بچے کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں سامنے رکھتے ہوئے اس کے مزاج و طاقت کو پرکھ کر ہی اسے ہدایت دینا چاہیے، صلاحیت سے زیادہ توقعات رکھنے سے بچنے میں احساس کمتری پیدا ہونے لگتی ہے ،ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بچوں پر کلاس میں اول پوزیشن لانے کا دباؤ کبھی نہیں ڈالنا چاہیے، مزید دباؤ ڈالنے کی صورت میں کبھی کبھی بچے خود سوزی اور خود کشی تک کرلیتے ہیں، مختلف سوالات کا نام بچپن ہے، بچے ہر پل کچھ نیا جاننا یا سمجھنا چاہتے ہیں، والدین مصروفیت کے باوجود بچوں کے سوالات کے جواب دیں، جھڑکیں نہیں ،بچوں کے سوالات کا صحیح جواب دینا ہی انہیں صحت مند علم فراہم کرے گا۔

تعلیم کے ساتھ تربیت اور بڑوں کا احترام زندگی کا جزءِ لاینفک ہے، ورنہ تعلیم سے خاک فائدہ ہوگا، اگرہم چاہتے ہیں کہ بچے بڑوں کا احترام کریں تو ہمیں بھی بچوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنا پڑے گا، ان کے دوستوں کا بھی احترام واستقبال کرنا ہوگا، بچے کے دوست سے بھی بچے کی شکایت کرنا مناسب نہیں ہے، اس کے دوستوں کے سامنے اپنے بچوں کو ڈانٹنا، پھٹکارنا یا مارنا یا ان پر تنقید کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے، بہر حال وقت کے پیش نظر مصلحت وحکمت کے ساتھ بچہ کو تربیت دیں۔

والدین کو اپنی اولاد کے روشن مستقبل اور مثالی انسان بنانے کے خواب کی تکمیل کے لیے ماحول کی اصلاح اور تعمیری خطوط پر ہونے والی کوششوں میں حصہ لینا بھی ضروری ہے، تاکہ بچے غلط راہ پر جانے سے ہر وقت محفوظ و مامون رہیں۔






بچوں کے ساتھ آپ   کا مشفقانہ سلوک



          نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامل ومکمل نظرآئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مربیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے تمام ہی معلّمین آپ کے خوشہ چین نظر آئیں، آپ علیہ الصلاة والسلام کی ازدواجی زندگی کا جائزہ لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے لیے بہترین شوہر ہیں، آپ ں کی مجاہدانہ وسپاہیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے بہادر آپ سے کوسوں دور ہوں گے، اسی طرح بچوں کے ساتھ آپ ں کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپ ں بہترین مربی بھی ہیں، نیز آپ سے زیادہ کوئی بچوں پر رحم کرنے والابھی نہ ہوگا، آپ ں نے بچوں کے ساتھ نرمی، محبت، عاطفت، ملاطفت کا درس نہ صرف اپنی تعلیمات ہی کے ذریعہ دیا؛ بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت پیش فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں(سنن ابی داوٴد: ۴۹۴۳ باب فی الرحمة) اسی طرح آپ ں نے فرمایا: جو نرمی سے محروم ہے وہ تمام ہی خیر سے محروم ہے (مسلم: ۲۵۹۲ باب فضل الرفق) بچوں کے تئیں حسنِ سلوک کے عطر بنیر سیرت کے چند نمونے ذیل میں مذکور ہیں:
اولاد واحفاد کے ساتھ
          آپ ں کے فرزند حضرت ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپ ں بڑے غمزدہ تھے، آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، حضرت عبد الرحمن بن عوف  نے تعجب خیز لہجہ میں استفسار کیا: آپ بھی رورہے ہیں؟ آپ ں نے جواب دیا، اے ابن عوف یہ رحمت ہے، بلا شبہ آنسو بہہ رہے ہیں، دل غم زدہ ہے؛ لیکن اس حالتِ غم میں بھی ہم وہی بات کہیں گے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو، پھر آپ صنے فرمایا: اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی سے غم زدہ ہیں، (بخاری: ۱۳۰۳، باب قول النبی انا بک الخ) اس صورتِ حال کو دیکھ کر حضرت انس نے فرمایا: اہل وعیال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشفق میں نے کسی کو نہیں دیکھا (مسلم:۲۳۱۶) بچپن کا زمانہ بے شعوری وبے خیالی کا زمانہ ہوتا ہے، اس زمانہ میں بچے بڑوں کے رحم وکرم کے محتاج ہوتے ہیں، بچے انھیں کو اپنا محسن سمجھتے ہیں جو انھیں اپنے قریب رکھتے ہیں، تربیت کا جو حسین موقع قربت وانسیت سے ممکن ہے، ڈانٹ ڈپٹ سے زجرو توبیخ سے اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ عمل یہی رہا کہ بچوں کو بالکل اپنے سے قریب رکھا حتی کہ بچوں کے کھیل کا بھی لحاظ کیا، اگر کسی موقع پر وہ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سوار ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضرورت کی تکمیل کا بھر پور خیال رکھا؛ چنانچہ اپنے نواسوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھر پور محبت کا مظاہرہ فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن شداد  اپنے والدسے نقل فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں حضرت حسن یا حسین کو ساتھ لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، درمیان نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ طویل فرمایا: حضرت شداد فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سوار ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہیں، لہٰذا میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا، جب نماز مکمل ہوگئی تو صحابہ کرام نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دورانِ نماز سجدہ طویل فرمایا، ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ کوئی معاملہ پیش آیا ہے یا یہ کہ آپ پر وحی اتررہی ہے، آپں نے فرمایا:ان میں سے کوئی بات نہ تھی؛ بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار تھا، میں نے مناسب نہ سمجھا کہ بچہ کی ضرورت کی تکمیل سے پہلے سجدہ ختم کروں (مسند احمد : ۱۶۰۳۳ حدیث شداد بن الہاد)
          اقرع بن حابس نے دیکھا کہ آپ ں حضرت حسن کو چوم رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ حضور ں میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما، آپ ں نے فرمایا: جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا (بخاری: ۵۹۹۷، باب رحمة الولد وتقبیلہ ) ایک د فعہ آپ حضرت حسن کو چوم رہے تھے ایک دیہاتی نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔(بخاری: ۵۹۹۸ باب رحمة الولد وتقبیلہ)
          غور کیجئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد سے خود محبت فرمائی؛ بلکہ امت کو بھی اس کی تعلیم دی، اور رحیمانہ سلوک کے ترک پر دھمکی دی کہ وہ شخص عند اللہ بھی قابلِ رحم نہیں، لہٰذا بچوں کے ساتھ مشفقانہ برتاوٴ ہمارا وطیرہ ہونا چاہیے، حضرت ابو ہریرة فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر حضرت حسن کے بارے میں دریافت کیا، تھوڑی ہی دیر میں وہ آگئے، آپ ں نے انھیں گلے سے لگایا، بوسہ دیااور فرمایا: اے اللہ! میں حسن سے محبت رکھتا ہوں تو بھی حسن سے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھ (بخاری: ۳۷۴۹، باب مناقب الحسن)جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ان کی صاحبزادی امامہ سے آپ ں بہت زیادہ محبت کا اظہار فرماتے، ان پر بہت زیادہ شفقت فرماتے، بعض دفعہ اپنے ساتھ مسجد بھی لے آتے، وہ آپ ں پر حالت ِ نماز میں سوار بھی ہوجاتیں، جب آپ سجدہ میں جاتے تو انھیں نیچے اتار دیتے، جب قیام فرماتے تو کاندھے پر سوار فرمالیتے(بخاری: ۵۱۶ باب إذا حمل جاریة صغیرة)
           بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں کے پاس آتے، انھیں گود میں بٹھاتے، انھیں چومتے ان کے لیے دعا فرماتے، آپ ں نے اپنے نواسوں کے ذریعہ اپنی آل واولاد کے ساتھ رہنے کا طریقہ سکھلایا۔
دیگر بچوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل
          ہم بچوں سے محبت کرتے ہیں؛ صرف اپنے ہی بچوں سے، دوسروں کے بچوں سے محبت یکسر نا پید ہے، آپ ں نے اس تفریق کا خاتمہ فرمایا، جہاں آپ ں نے اپنے بچوں کے تئیں تعلق کا اظہار فرمایا، وہیں دیگر صحابہٴ کرام کی اولاد پر بھی نگاہِ شفقت ڈالی۔
          ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ میرے گھر ایک لڑکا تولد ہوا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر حاضر ہوا، آپ ں نے اس کا نام ابراہیم رکھا، کھجورسے اس کی تحنیک (گھُٹّی) فرمائی، اور اس بچے کے لیے برکت کی دعافرمائی، (بخاری: ۵۴۶۷ باب تسمیة المولود) یہ ابو موسی اشعری کے بڑے صاحبزادے تھے، حضرات صحابہٴ کرام کی عادتِ طیبہ یہ تھی کہ کسی کے گھر بھی ولادت ہوتی تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے آپ بچے کو لیتے، اسے چومتے اس کے لیے برکت کی دعا کرتے، اسی طرح جب بعض دفعہ دورانِ نماز بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تخفیف فرمادیتے، (بخاری:۷۰۷ باب من أخف الصلاة عند بکاء الصبی) اسی طرح ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام خالد کو بلایا، بذاتِ خود اس لڑکی کو خصوصی قمیص پہنائی، اور فرمایا: اس وقت تک پہنو کہ یہ پُرانی ہوجائے(بخاری:۵۸۲۳ با ب الخمیصة السوداء) ایک دفعہ آپ نے ایک بچے کو گود میں اٹھالیا، بچے نے کپڑے پر پیشاب کردیا، آپ نے اس پر پانی بہا کر صاف کرلیا، (بخاری: ۶۰۰۲ با ب وضع الصبی فی الحجر) حضرت انس فرماتے ہیں کہ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، اس کانام ابو عمیر تھا، (اس کے پاس ایک چڑیا تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ابو عمیر سے فرمانے لگے: ”یَا أبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ الْنُغَیر؟“ یعنی اے ابو عمیر تمہاری چڑیا کیا ہوئی؟ (بخاری:۶۱۲ باب الانبساط إلی الناس) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشغولیت ومصروفیت کے باوجود صحابہٴ کرام کی اولاد کے ساتھ نرمی، محبت، انسیت اور الفت کا معاملہ فرماتے، انھیں خوش کرنے کی ترکیبیں اپناتے، ان کے پرندوں کے تئیں استفسار کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کردہ اس محبت بھرے جملے سے فقہاء عظام نے کئی مسائل نکالے ہیں۔
حقوق میں بچوں کی تقدیم
          آج تمام تر تنازعات کا حل حقوق کی ادائیگی پر موقوف ہے، ہر کوئی اپنے حق کا طالب ہے؛ لیکن دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے بیزار ہے ،آپ ں نے نہ صرف اکابر کے حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دی؛ بلکہ آپ ں نے اصاغر کے حقوق تک کا لحاظ فرمایا، اور اصاغر کے حقوق ادا کرتے ہوئے امت کی توجہ اس جانب مبذول فرمائی کہ ہر ایک کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے،حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں : ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پینے کی کوئی چیز لائی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا، اس کے بعد آپ ں نے دیکھا کہ آپ کی دائیں جانب ایک بچہ ہے، اور بائیں جانب صحابہٴ کرام ہیں، آپ ں نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ مشروب ان بڑے حضرات کو عنایت کروں، اس بچے نے کہا، ہر گز نہیں، قسم بخدا میں (آپ کے تبرک میں) اپنے حق پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا، یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے پیالہ اسے تھمادیا (بخاری:۲۳۶۶ باب من رأی أن صاحب الحوض الخ) اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچوں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام ہو، بچوں کے حقوق معلوم کرکے انھیں ادا کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
یہودی بچے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل
          مسلمان بچوں کے ساتھ توہم کسی قدر نرمی کا مظاہرہ کر ہی لیتے ہیں؛ لیکن کفار کے بچوں کے ساتھ ہمارا جو طرزِ عمل ہوتا ہے ،وہ نا قابلِ بیان ہے، ان پر تو کوئی نظرِ التفات ہوتی ہی نہیں، قربان جائیے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اپنے اُسوہ سے کفار کے بچوں کے ساتھ بھی نرمی کی تلقین کی،ایک یہودی شخص کا لڑکا آپ ں کی خدمت میں تھا، وہ ایک دفعہ بیمار ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازخود تشریف لا کر اس کی عیادت فرمائی، اس بچے کے سر ہانے بیٹھے، پھر اس بچے سے فرمایا: اسلام قبول کرو، اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی، والد نے بھی کہا: ابوالقاسم (ا) کی اطاعت کر! لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے نکلے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَنْقَذَہ مِنَ النَّار (بخاری : ۱۳۵۶ باب إذا أسلم الصبي فمات)کہ تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے ہیں جس نے اس کو آگ سے بچالیا، یہ حدیث بتارہی ہے کہ بچے پر شفقت ونرمی کی جائے، چاہے وہ بچہ کافر ہی کا کیوں نہ ہو!
لڑکی کا خصوصی مقام
          زمانہٴ جاہلیت میں عرب لڑکی کی پیدائش کو اپنے لیے عارسمجھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کے حقوق کا تحفظ کیا، لڑکیوں کے اکرام کی تعلیم دی، اس کی تربیت اس پر خرچ کی تلقین کی، لہٰذا آپ علیہ السلام نے فرمایا: جس نے دو لڑکیوں کی بالغ ہونے تک پرورش کی، قیامت کے دن میں اور وہ ایک ساتھ ہونگے (مسلم :۲۶۳۱ با ب فضل الإحسان إلی البنات
          الغرض آپ علیہ السلام نے اپنے قول وعمل سے معاشرہ کے ایک کمزور طبقہ پر رحم وکرم کے عجیب وغریب نمونے پیش فرمائے، آنے والی امت کو تلقین کی کہ اس طبقہ کا لحاظ کرو، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے پرہیز کرو؛ کیونکہ یہی بچے مستقبل کے اثاثہ ہیں، ان بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک ان کی صحیح انداز میں تربیت روشن وتابناک مستقبل کی ضامن ہوگی، ابتدائی مراحل میں بچوں کے ساتھ بے اعتنائی وبے احتیاطی بچوں کے لیے غلط راہیں فراہم کریں گی، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا خاتمہ کر کے سیرتِ طیبہ کی روشنی میں بچوں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے!
$ $ $













==================

تربیتِ اَولاد 
اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ  
بچوں کی پرورش سے متعلق احادیثِ نبویہ   بچوں کی پرورش میں مصیبتیں جھیلنے اور دُودھ پلانے کی فضیلت ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا عورت اپنی حالتِ حمل سے لے کر بچہ جننے اور دُودھ چھڑانے تک فضیلت و ثواب میں ایسی ہے جیسے اِسلام کی راہ میں سرحد کی نگہبانی کرنے والا (جس میں ہر وقت وہ مجاہدہ کے لیے تیا ر رہتا ہے) اور اگر (عورت)اِس درمیان میں مر جائے تو اُس کو شہید کے برابر ثواب ملتا ہے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ” جب عورت بچہ کو دُودھ پلاتی ہے تو ہر گھونٹ کے پلانے پر اُس کو ایسا اَجر ملتا ہے جیسے کسی جاندار کو زندگی دے دی پھر وہ جب دُودھ چھڑاتی ہے تو فرشتہ اُس کے کندھے پر (شاباشی سے ہاتھ ) مارتا ہے اور کہتا ہے کہ پچھلے گناہ سب معاف ہو گئے ،اَب آگے جو گناہ کا کام ہو گا وہ آئندہ لکھا جائے گا”اور اِس سے مراد گناہِ صغیرہ ہیں ،مگر گناہِ صغیرہ کا معاف ہو جانا کیا تھوڑی بات ہے۔ لڑکیوں کی پرورش کرنے کی فضیلت ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا جس شخص کی تین لڑکیاں ہوں اور وہ اُن کو علم و اَدب سکھلائے اور اُن کی پرورش کرے اور اُن پر مہربانی کرے، اُس کیلیے ضرور جنت واجب ہو جاتی ہے ۔(بخاری ) فائدہ : چونکہ اَولاد سے طبعی محبت ہو تی ہے اِس لیے اِس حق کے بیان کرنے میں شریعت نے زیادہ اہتمام نہیں فرمایا اور لڑکیوں کو چونکہ حقیر سمجھتے تھے اِس لیے اُن کی تربیت کی فضیلت بیان فرمائی۔ حمل ساقط ہو جانے اور زچہ بچہ کے مر جانے کی فضیلت ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا جو عورت کنوارے پَنے کی حالت میں یا حمل میں بچہ جننے کے وقت یا چلّے کے دنوں میں مر جائے اُس کو شہادت کا درجہ ملتا ہے۔ (بہشتی زیور ) ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا جو حمل گر جائے وہ بھی اپنی ماں کو گھیسٹ کر جنت میں لے جائے گا جبکہ ثواب سمجھ کر صبر کرے۔ (بہشتی زیور ) ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا جس عورت کے تین بچے مر جائیں اور وہ ثواب سمجھ کر صبر کرے تو جنت میں داخل ہو گی۔ ایک عورت بولی یا رسول اللہ !جس کے دو ہی بچے مرے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دَو کا بھی یہی ثواب ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے ایک بچے کے مرنے کو پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِس میں بھی بڑا ثواب بتلایا ۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں سے اِرشاد فرمایا کیا تم اِس بات پر راضی نہیں (یعنی راضی ہونا چاہیے ) کہ جب تم میں کوئی اپنے شوہر سے حاملہ ہوتی ہے اور وہ شوہر اِس سے راضی ہو تو اُس کو ایسا ثواب ملتا ہے جیسا کہ اللہ کی راہ میں روزہ رکھنے والے اور شب بیداری کرنے والے کو ملتا ہے ۔ اور جب اُس کو درد زِہ ہوتا ہے توآسمان اور زمین کے رہنے والوں کو اِس کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت کا جو سامان مخفی رکھا گیا ہے اُس کی خبر نہیں ۔ پھر جب وہ بچہ جنتی ہے تو اُس کے دُودھ کا ایک گھونٹ بھی نہیں نکلتا اوراُس کی پستان سے ایک دفعہ بھی بچہ نہیں چوستا جس میں اُس کو ہر گھونٹ اور ہر چوسنے پر ایک نیکی نہ ملتی ہو (یعنی ہر مرتبہ نیکی ملتی ہے) اور اگر بچہ کے سبب اُس کو رات کو جاگنا پڑے تو اُس کو راہِ خدا میں ستر غلاموں کے آزاد کرنے کا اَجر ملتا ہے ۔ (کنز العمال ) ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی، اُس کے ساتھ دو بچے تھے۔ ایک کو گود میں لے رکھا تھا دُوسرے کو اُنگلی سے پکڑے ہوئے تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھ کر اِرشاد فرمایا کہ یہ عورتیں پہلے پیٹ میں بچے کو رکھتی ہیں پھر جنتی ہیں پھر اِن کے ساتھ کس طرح محبت اور مہربانی کرتی ہیں ۔اگر ان کا برتاؤ شوہروں سے برا نہ ہوتا تو اِن میں جو نماز کی پابند ہوتی ہیں سیدھی جنت میں چلی جایا کرتیں ۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اِرشاد فرمایا جو عورت بیوہ ہو جائے اور خاندانی بھی ہو ،مالدار بھی ہو لیکن اُس نے اپنے بچوں کی خدمت اور پرورش میں لگ کر اپنا رنگ میلا کر دیا یہاں تک کہ وہ بچے یا تو بڑے ہو کر الگ رہنے لگے یا مر مرا گئے تو ایسی عورت جنت میں مجھ سے ایسی نزدیک ہو گی جیسے کلمہ والی اُنگلی اور بیچ کی اُنگلی۔ فائدہ : اِس سے مراد وہ عورت ہے جس کو نکاح کی خواہش قطعاً نہ ہو ورنہ بیوہ کو بھی نکاح کرنا ضروری ہے۔   اَولاد کی اہمیت اور اُس کے فضائل حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی ہو اور بچے جنے والی ہو کیونکہ تمہاری زیادتی سے دُوسرے اُمتوں پر فخر کروں گا کہ میری اُمت اِتنی زیادہ ہے۔ (ابوداود و نسائی ) فائدہ : اَولاد کا ہونا بھی کتنا بڑا فائدہ ہے زندگی میں بھی کہ وہ سب سے بڑھ کر اپنے خدمت گزار اور مددگار اور فرمانبردار اور خیر خواہ ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد اِس کے لیے دُعا ( اور ایصالِ ثواب بھی کرتے ہیں ) اور اگر آگے نسل چلی تو اُس کے دینی راستہ پر چلنے والے مدتوں تک رہتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی برابر اِس کو ثواب ملتا رہتا ہے اور قیامت میں بھی (بڑا فائدہ ہے )۔ اِسی طرح جو بچے بچپن میں مر گئے وہ اِس کو بخشوائیں گے۔ جو بالغ ہو کر نیک ہوئے وہ بھی (اپنے والدین کے لیے ) سفارش کریں گے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہے جس سے دُنیا میں بھی قوت بڑھتی ہے اور قیامت میں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خوش ہو کر فخر فرمائیں گے۔ (حیاة المسلمین )   حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اَولاد سے محبت حق تعالیٰ نے اَولاد کی محبت والدین کے دِل میں پیدا کی ہے اَور یہ ایسی محبت ہے کہ جو مقدس ذاتیں محض حق تعالیٰ ہی کی محبت کے لیے مخصوص ہیں وہ بھی اِس محبت سے خالی نہیں ۔ چنانچہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضراتِ حسنین سے ایسی محبت تھی کہ ایک بار آپ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اِتنے میں حضرات حسنین بچے تھے لڑکھڑاتے ہوئے مسجد میں آ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اُن کا لڑکھڑانا دیکھ کر نہ رہا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے درمیانِ خطبہ ہی ممبر سے اُتر کر اُن کو گود میں اُٹھا لیا اور پھر خطبہ جاری فرمایا۔ اگر آج کوئی شیخ ایسا کرے تو جہلا اُس کی حرکت کو خلافِ وقار کہتے ہیں ۔ مگر وہ زبان سنبھالیں کیسا وقار لیے پھرتے ہیں آج کل لوگوں نے تکبر کا نام وقار اور خود داری رکھ لیا ہے۔اور وفات کے واقعات میں یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت رنج و غم کا اظہار فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان سے یہ بھی فرمایا کہ اے ابراہیم ہم کو تمہاری جدائی کا واقعی صدمہ ہے۔ الغرض اَولاد کی محبت سے ذواتِ قدسیہ بھی خالی نہیں ۔یہ تو حق تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ہمارے اَندر اَولاد کی محبت پیدا کر دی اور اگر یہ داعی نہ ہوتا تو ہم اُن کے حقوق اَدا نہ کرسکتے۔ (الفیض الحسن ملحقہ حقوق الزوجین) اَولاد کی محبت کیوں پیدا کی گئی ؟ بچے جو گوہ کا ڈھیر اور موت کی پوٹ ہیں ۔ اُن کی پرورش بغیر قلبی داعیہ (اور جذبہ) کے ہوہی نہیں سکتی۔ بچے تو ہر وقت اپنی خدمت کراتے ہیں، خود خدمت کے لائق نہیں اُن کی حرکتیں بھی مجنونانہ (پاگل پن کی سی ہوتیں ) ہیں مگر حق تعالیٰ نے ایسی محبت پیدا کر دی ہے کہ اُن کی مجنونانہ حرکت بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں حتی کہ بعض دفعہ وہ کبھی خلاف تہذیب کام کرتے ہیں جس پر سزا دینا عقلاً ضروری ہوتا ہے مگر بچوں کے متعلق عقلمندوں میں اِختلاف ہو جاتا ہے، ایک کہتا ہے سزا دی جائے دُوسرا کہتا ہے نہیں بچے ہیں اِن سے ایسی غلطی ہو ہی جاتی ہے معاف کر دینا چاہیے۔ غرض اپنے بچوں کو تو کیوں نہ چاہیں، دُوسرے کے بچوں کو دیکھ کر پیار آتا ہے اور اُن کی حرکتیں اچھی معلوم ہوتی ہیں ۔ اگر یہ محبت کا تقاضا اور داعیہ نہ ہو تو راتوں کو جاگنا اور گوہ موت کرانا دشوار ہو جاتا۔ کسی غیر کی بچے کی خدمت کر کے دیکھو تو حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ گو خدا کا خوف کر کے تم روزانہ اُس کی خدمت کر دو مگر دِل میں ناگواری ضرور ہو گی۔ غصّہ بھی آئے گا سوتیلی اَولاد کی خدمت اِس لیے گراں ہوتی ہے کہ اِس کے دِل میں اُن کی محبت نہیں ہوتی۔ چونکہ اَولاد کی محبت بغیر محبت کے دُشوار تھی اِس لیے حق تعالیٰ نے اولاد کی محبت والدین کے دِل میں ایسی پیدا کر دی کہ اَب وہ اُس کی خدمت کرنے پر مجبور ہیں ۔   اَولاد کی تمنا (لوگوں کو) اَولاد کی تمنا اِس لیے ہوتی ہے کہ نام باقی رہے گا (خاندان اور سلسلہ چلے گا )۔ تو نام کی حقیقت سن لیجئے کہ ایک مجمع میں جا کر ذرا لوگوں سے پوچھئے تو بہت سے لوگوں کو پردادا کا نام معلوم نہ ہو گا۔ جب خود اَولاد ہی کو اپنے پردادا کا نام معلوم نہیں تو دُوسروں کو خاک معلوم ہو گا؟ تو بتلائیے اَولاد والوں کا بھی نام کہاں رہا۔ صاحبو ! نام تو خدا کی فرمانبرداری سے چلتا ہے۔ خدا کی فرمانبرداری کرو اُ س سے نام چلے گا، اولاد سے نام نہیں چلا کرتا بلکہ اَولاد نالائق ہوئی تو اُلٹی بدنامی ہوتی ہے۔ اور نام چلا بھی تو نام چلنا ہی کیا چیز ہے جس کی تمنا کی جائے۔ یوں کسی کو طبعی طور پر اَولاد کی تمنا بھی ہو تو میں اُس کو برا نہیں کہتا کیونکہ اَولاد کی محبت اِنسان میں طبعی (فطری ) ہے چنانچہ بعض لوگ جنت میں بھی اَولاد کی تمنا کریں گے حالانکہ وہاں نام کا چلنا بھی مقصود نہ ہو گا۔ کیونکہ جنت کے رہنے والے کبھی ختم نہ ہوں گے بلکہ وہاں اِس تمنا کا منشاء (سبب )محض طبعی تقاضا ہو گا، تو میں اِس سے منع نہیں کرتا۔ مقصود صرف یہ ہے کہ اِس طبعی تقاضے کی وجہ سے عورت کی خطاء نکال لینا کہ تیرے اَولاد نہیں ہوتی یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں،بڑی غلطی ہے۔ اور اِس قسم کی غیر اِختیاری جرائم نکال کر اُن سے خفا ہونا اور اُن پر زیادتی کرنا ممنوع (اور ناجائز) حرام ہے اِس میں اُن بیچاریوں کی کیا خطاء ہے جو ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ (حقوق البیت ص ٣٩) یہ تو نہایت سخت غلطی ہے مثلاً بعض لوگ بیوی سے کہتے ہیں کہ کمبخت تیرے کبھی اولاد ہی نہیں ہوتی تو اِس میں وہ بیچاری کیا کرے۔ اَولاد کا ہونا کسی کے اِختیار میں تھوڑی ہے بعض دفعہ بادشاہوں کے اَولاد نہیں ہوتی حالانکہ وہ ہر قسم کی مقوی غذائیں اور (حمل والی ) دوائیں بھی اِستعمال کرتے ہیں مگر پھر بھی خاک اَثر نہیں ہوتا۔ یہ تو محض اللہ تعالیٰ کے قبضہ و اِختیار کی بات ہے اِس میں عورتوں کا کیا قصور ہے۔ بعض مردوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ بیوی سے اِس بات پر خفا ہوتے ہیں کہ کم بخت تیرے تو لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوتی ہیں ۔ سو اوّل تو اِس میں اُس کی کیا خطاء ہے۔ اطباء(ڈاکٹروں ) سے پوچھو تو وہ شاید اِس میں آپ ہی کا قصور بتلائیں ۔ دُوسرے یہ ناگواری کی بات بھی نہیں ۔ اگر اَولاد ذخیرۂ آخرت ہو تو بہت بڑی نعمت ہے اگر اَولاد دین میں مدد دے تو سبحان اللہ (اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ) ایک بزرگ تھے وہ نکاح نہ کرتے تھے ایک مرتبہ سورہے تھے کہ اچانک چونک پڑے اور کہنے لگے جلدی کوئی لڑکی لاؤ(نکاح کرنا ہے ) ایک مخلص مرید حاضر تھے اُن کی ایک لڑکی کنواری تھی لا کر فوراً حاضر کی اُسی وقت نکاح ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بچہ دیا اور وہ مرگیا۔ بیوی سے کہا کہ جو میرا مطلب تھا وہ پورا ہو گیا اَب تجھ کو اِختیار ہے اگر تجھ کو دُنیا کی خواہش ہے تو میں تجھ کو آزاد کر دُوں کسی سے نکاح کر لے اور اگر اللہ کی یاد میں اپنی عمر ختم کرنا ہو تو یہاں رہو چونکہ وہ بیوی اُن کے پاس رہ چکی تھی اور صحبت کا اَثر اُس کے اندر آگیا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں تو اَب کہیں نہیں جاؤں گی۔ چنانچہ دونوں میاں بیوی اللہ کے یاد میں رہے۔ اُن کے بعض خاص لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا بات ہے (اِتنی جلدی شادی کرنے کی کیا وجہ تھی حالانکہ پہلے آپ اِنکار فرماتے تھے ) فرمایا بات یہ تھی کہ میں سورہا تھا میں نے دیکھا کہ میدانِ محشر قائم ہے اور پلِ صراط پر لوگ گزر رہے ہیں ۔ ایک شخص کو دیکھا کہ اُس سے چلا نہیں جاتا لڑکھڑاتا ہوا چل رہا ہے اُسی وقت ایک بچہ آیا اور ہاتھ پکڑا آناً فاناً (یعنی فوراً) اُس کو لے گیا۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے؟ اِرشاد ہوا کہ اِس کا بچہ ہے جو بچپن میں مرگیا تھا یہاں اِس کا رہبر ہو گیا اِس کے بعد میری آنکھ کھل گئی مجھے خیال آیا کہ میں اِس فضیلت سے محروم نہ رہوں شاید بچہ ہی میری نجات کا ذریعہ ہو جائے اِس لیے میں نے نکاح کیا تھا اور میرا مقصود حاصل ہو گیا۔ (الدنیا ملحقہ دُنیا و آخرت ص ٩٨ )۔ بعض اَولاد وَبالِ جان اور عذاب کا ذریعہ ہوتی ہے یاد رکھو! جس طرح اَولاد ہونا نعمت ہے اِسی طرح نہ ہونا بھی نعمت ہے بلکہ جس کے نہ ہوئی ہویا جس کے ہو کر مر گئی ہو اُس کو اَور بھی زیادہ شکر کرنا چاہیے۔ صاحبو ! آج کل کی تو اَولاد عموماً خداسے غافل رہنے والی ہوتی ہے۔ پس جس کے نہ ہو وہ شکر کرے کہ اللہ تعالیٰ نے سب فکروں سے آزاد کیا ہے اُن کو چاہیے کہ اطمینان سے اللہ تعالیٰ کو یاد کریں۔ بعض لوگوں کے لیے اَولاد عذابِ جان ہو جاتی ہے جیسے منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں : وَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالھُُمْ وَلَا اَوْلَادھُُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا (سورة توبہ) ”اے محمد ( صلی الله علیہ و آلہ وسلم ) آپ کو اِن کے مال اور اَولاد اچھے معلوم نہ ہوں اللہ تعالیٰ تو یہ چاہتے ہیں کہ اِن مالوں اور اَولادوں کی وجہ سے اُن کو اِس دُنیا میں عذاب دیں۔” واقعی بعض لوگوں کے لیے اَولاد وَبالِ جان ہی ہو جاتی ہے۔ بچپن میں تو اُن کے پیشاب پاخانہ میں نمازیں برباد کرتے ہیں۔ جب بڑے ہو جاتے ہیں تو اُن کے لیے طرح طرح کی فکریں ہو جاتی ہیں کہ اِن کے لیے جائداد ہو روپیہ ہو اور گھر ہو خواہ دین رہے یا نہ رہے لیکن جس طرح بن پڑے گا اِن کے لیے دُنیا سمیٹیں گے اور ہر وقت اِسی دھُن میں رہیں گے۔ حلال و حرام میں بھی کچھ تمیز نہ کریں گے پس ایسی اَولاد کا نہ ہونا ہی نعمت ہے جن لوگوں کے اَولاد نہیں اُن پر خدا کی بڑی نعمت ہے اگر اَولاد ہوتی تو اُن کی کیا حالت ہوتی، واللہ اعلم   جن کی صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں اُن کی تسلی کے لیے ضروری مضمون حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ حضرات! آپ کو خوب یاد ہو گا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے جس لڑکے کو قتل کر دیا تھا اُس کے لیے اور اُس کے والدین کے لیے (اِس میں بڑی )مصلحت بھی تھی۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس لڑکے کے قتل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس کے والدین کو ایک لڑکی دی جس کی اَولاد میں انبیاء علیہم السلام پیدا ہوئے۔ تو بتلایئے اگر آگے لڑکا ہوتا اورویسا ہی ہوتا جیساوہ لڑکا تھا جسے حضرت خضر علیہ السلام نے مار ڈالا تھا تو آپ کیا کر لیتے۔ یہ خدا کی بہت بڑی مصلحت ہے کہ اُس نے آپ کو لڑکیاں دیں کیونکہ عموماً لڑکیاں خاندان کو بدنام نہیں کیا کرتیں اور وَالدین کی اِطاعت بھی خوب کرتی ہیں اَور لڑکے تو آج کل ایسے آزاد ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ ! اُن کے ہونے سے تو نہ ہونا ہی بھلا تھا۔اَب آج کل اگر حضرت خضر علیہ السلام ایسے کو نہیں مارتے تو اللہ میاں تو ذبح کرسکتے ہیں اَور اللہ کا پیدا نہ کرنا (یا پیدا کر کے موت دے دینا ) یہ بھی ایک گو نہ ذبح کرنے کے مثل ہے۔ اور جس کو اللہ تعالیٰ کچھ بھی اَولاد نہ دیں نہ لڑکا نہ لڑکی اُس کے لیے یہی مصلحت ہے کیونکہ بندوں کے مصلحتوں کو اُن سے زیادہ اللہ جانتے ہیں (دیکھیے آج ایک شخص بے فکری سے دین کے کام میں لگا ہوا ہے کیونکہ اُس کے اَولاد نہیں )۔ اَولاد کے پسِپشت مصیبتیں اور پریشانیاں عورت کے لیے تو بچے کا ہونا سخت مصیبت ہے۔ لوگ کہا کرتے ہیں کہ عورت دوبارہ جنم لیتی ہے۔ مگر مرد کے لیے بھی کم مصیبت نہیں ہے کہ زچہ کی خبرگیری، گوند سونٹھ گھی وغیرہ کے لیے خرچ کی ضرورت ہوتی ہے اور بچہ صاحب جو تشریف لائے ہیں وہ مانند پھول اور پان کے ہیں (یعنی نہایت کمزور) ذراسے میں کملا جاتے ہیں۔ سرد ہو الگ گئی تو اَینٹھ گئے اور گرم ہوا لگ گئی (یعنی لُو لگ گئی) تو بھڑک اُٹھے۔ کبھی رونا شروع ہوا تو روئے ہی جاتے ہیں اور یہ پتا نہیں چلتا کہ کیوں رو تے ہیں ،بچہ حیوان بے زبان ہوتا ہے اپنا دُکھ بیان نہیں کر سکتا۔ علاج بھی قرائن اور قیاس سے (یعنی اَندازے سے) کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ خیال ہوتا ہے کہ پیٹ میں درد ہے اِس واسطے روتا ہے لہٰذا گٹھی دی جاتی ہے اور کبھی خیال ہوتا ہے کہ کان میں درد ہے اس کے واسطے تمباکو کی پیک کان میں ڈلوائی جاتی ہے ،یہ تکلیفیں تو وہ ہیں جو معمولی سمجھی جاتی ہیں اِن کی تدبیریں عورتیں خود ہی کر لیتی ہیں۔ اور کبھی ایسی بیماریاں بچوں کو ہوتی ہیں کہ جو گھر والوں کو سمجھ میں نہیں آتیں اور بڑے بڑے قابل اور تجربہ کار حکیموں اور ڈاکٹروں کو تلاش کرنا پڑتا ہے اور ذرا سے بالشت بھر کے آدمی کے لیے ہزاروں روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے اُس وقت تارے نظر آتے ہیں (دماغ چکرا جاتے ہیں ) اور بے ساختہ آدمی کہہ اُٹھتا ہے کہ پہلی اَولاد ہوئی تو ہمیں مار دیا بھلے مانس اِس کا کیا قصور ہے تو ہی نے تو اِسے بلایا ہے۔ غرض کہیں ناک دُکھ رہی ہے کہیں آنکھ دُکھ رہی ہے ذرا ساجی اچھا ہوتا ہے تو اپنی جان میں بھی جان آ جاتی ہے اور جب اِس کی طبیعت خراب ہوتی ہے تو اپنی زندگی بھی تلخ ہو جاتی ہے۔” بین الرجاء والخوف” یعنی اُمید اور خوف کے درمیان کی زندگی کا لطف آتا ہے (اور درجات کی ترقی ہوتی ہے)۔ خیر خدا خدا کر کے لڑکا بڑا ہوا تو اَب اُس کی شادی ہوئی پھر اُس کی اولاد ہوئی پھر اُس کے اولاد ہوئی اَور سارا دھَندا اَز سرنو شروع ہوا۔ جن تکلیفوں سے خدا خدا کر کے کچھ نجات پائی تھی اَب پھر اُن کا آغاز ہوا۔ اگر اُس کی اولاد نہ ہوئی تو اُس کا غم کہ اَولاد کیوں نہیں ہوتی اور اگر ہوئی بھی تو وہ بھی سب سازو سامان لائی یعنی وہی گُوہ مُوت۔ یہ عیش و آرام ہے دُنیا کے، یہ اشغال ایسے ہیں کہ جن سے کوئی بھی خالی نہیں حتی کہ لوگوں کی طبیعتیں اِن سے ایسے مانوس ہو گئی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوں تو طبیعت گھبراتی ہے کہ کوئی شغل نہیں۔(جاری ہے)   اَولاد کی وجہ سے ہزاروں فکریں اور جھمیلے اَولاد کے ساتھ ہزاروں فکریں لگی ہوئی ہیں آج کسی کان میں درد ہے کسی کے پیٹ میں درد ہے کوئی گر پڑا ہے کوئی گم ہو گیا ہے اور ماں باپ پریشان ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ خدا نے اِس کو اِسی لیے اَولاد نہیں دی کہ وہ اِس کو آزاد رکھنا چاہتے ہوں ۔ میرے بھائی ایک کہانی سناتے تھے کہ ایک شخص نے صاحبِ عیال (بال بچوں والے) سے پوچھا کہ تمہارے گھر خیریت ہے؟ تو بڑا خفا ہوا کہ میاں خیریت تمہارے یہاں ہو گی، مجھے بد دعا دیتے ہو؟ ہمارے یہاں خیریت کہاں ۔ ماشاء اللہ بیٹے بیٹیاں ہیں پھر اُن کے اَولاد ہے سارا گھر بچوں سے بھرا ہوا ہے، آج کسی کے کان میں درد ہے کسی کو دَست آ رہے ہیں کسی کی آنکھ دُکھ رہی ہے کوئی کھیل کُود میں چوٹ کھا کر رو رہا ہے۔ ایسے شخص کے یہاں خیریت ہو گی؟ خیریت تو اُس کے یہاں ہو گی جو منہوس ہو جس کے گھر میں کوئی بال بچہ نہ ہو، ہمارے یہاں خیریت کیوں ہوتی۔ واقعی بچوں کے ساتھ خیریت کہاں !بچپن میں اُن کے ساتھ اِس قسم کے رنج اور فکریں ہوتی ہیں اور جب وہ سیانے ہوئے تو اگر صالح (نیک) ہوئے تو خیر اور آج کل اِس کی بہت کمی ہے ورنہ پھر جیسا وہ ناک میں دم کرتے ہیں معلوم ہے۔ پھر ذرا اَور بڑے ہوئے جوان ہو گئے تو اُن کے نکاح کی فکر ہے۔ بڑی مصیبتوں سے نکاح بھی کر دیا تو اَب یہ غم ہے کہ اُس کے اَولاد نہیں ہوتی۔ اللہ اللہ کر کے تعویذ گنڈوں اور دواؤں سے اَولاد ہوئی تو بڑے میاں کی اِتنی عمر ہو گئی کہ پوتے بھی جوان ہو گئے۔ اَب بچہ اُن کو بات بات میں بیوقوف بناتا ہے اور اُن کی خدمت کرنے سے اُکتا تا ہے اور بیٹے پوتے منہ پر (سامنے ہی )کورِی (کھری کھری ) سناتے ہیں اور یہ بیچارے معذور ایک طرف پڑتے ہیں ، یہ اَولاد کا پھل ہے تو پھر خوامخواہ لوگ اِس کی تمنائیں کرتے ہیں ۔   جن کے اَولاد نہ ہوتی ہو اُن کی تسلی کے لیے عجیب مضمون میرے اُستاذ مولانا سیّد احمد صاحب دہلوی کے ماموں مولانا سیّد محبوب علی صاحب جعفری کے کوئی اَولاد نہیں ہوئی تھی۔ ایک دفعہ وہ غمگین بیٹھے تھے میرے اُستاد نے پوچھا اور یہ اُن کے لڑکپن کا زمانہ ہے کہ آپ غمگین کیوں ہیں ؟ کہا مجھے اِس کا رنج ہے کہ بڑھاپا آگیا اور میرے اَب تک اَولاد نہیں ہوئی۔ اُستادنے فرمایا سبحان اللہ !یہ خوشی کی بات ہے یا غم کی ؟ اُنہوں نے پوچھا یہ خوشی کی بات کیسے ہے؟ فرمایا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کے سلسلہ نسل (خاندان) میں آپ ہی اَصل مقصود ہیں اور آپ کے تمام آباء و اَجداد مقصود بالخیر یعنی ذریعہ ہیں بخلاف اَولاد وَالوں کے کہ وہ مقصود نہیں ہیں بلکہ اُن کو تو غم کے واسطے پیدا کیا گیا ہے۔ دیکھیے گیہوں دو قسم کے ہوتے ہیں ،ایک وہ جن کو کھانے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ دُوسرے وہ جو تخم کے لیے رکھے جاتے ہیں تو اِن دونوں میں مقصود وہ ہے جو کھانے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ کھیت بونے سے مقصود یہی گیہوں تھے اَور جس کو تخم (بیج) کے واسطے رکھتے ہیں وہ مقصود نہیں بلکہ واسطہ ہیں مقصود کے۔ اسی طرح جس کے اَولاد نہ ہو آدم علیہ السلام سے لے کر اِس وقت تک ساری نسل میں مقصود وہی تھا اور سب (آباء و اَجداد) اِس کے وسائل (ذرائع) تھے اور جن کے اَولاد ہوتی ہے وہ خود مقصود نہیں ہیں بلکہ تخم کے لیے رکھے گئے ہیں تو واقعی ہے تو یہ علمی مضمون۔بے اَولادوں کو اپنی حسرت اِس مضمون کو سوچ کر ٹالنی چاہیے۔ اَور اگر اِس سے بھی حسرت نہ جائے تو دُنیا کی حالت دیکھ کر تسلی کر لیا کریں کہ جن کے اَولاد ہے وہ کس مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ اور اِس سے بھی تسلی نہ ہو تو یہ سمجھ لیں کہ جو خدا کو منظور ہے وہی میرے واسطے خیر ہے۔ نہ معلوم اَولاد ہوتی تو کیسی ہوتی۔ اور یہ بھی نہ کر سکے تو کم اَز کم یہ سمجھے کہ اَولاد نہ ہونے میں بیوی کی کیا خطاء ہے۔


تعلیم اور تربیت، دونوں ضروری

اولاد اللہ کی جانب سے یقینا والدین کے لیے بڑی نعمت ہیں، جس کا تقاضا ہے کہ وہ اس نعمت پر اللہ کے شکر گذار ہوں اور اپنی اولاد کی اچھے انداز میں پرورش وتربیت کریں۔ عام طور سے والدین اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کے سبب حتی الوسع ان کی سہولیات کا خیال کرتے ہیں اوربہت سے لوگ ان کی تعلیم وتربیت پر بھی خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ دراصل وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کام یاب ہوں اور ان کے بہترین وارث بنیں۔ لیکن موجودہ زمانہ کا المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنی اولاد کی پرورش و تربیت اس طور پر کرنے لگے ہیں جو بظاہر ان کے حق میں بہتر دکھائی دیتی ہے، مگر فی الواقع وہ حقیقی کام یابی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔مثلا بہت سے لوگ اپنے بچوں کے ساتھ بہت زیادہ پیار کامظاہرہ کرتے ہوئے انہیں ہر طرح کے تعیشات کی اشیا فراہم کرتے ہیں ، ان کے خرچ کے لیے بڑی رقمیں دیتے ہیں، جہاں وہ گھومنے کے لیے جانا چاہتے ہیں انہیں اس کی اجازت دیتے ہیں، جس طرح کے کپڑوں کی خواہش کا وہ اظہار کرتے ہیں، مہیا کرتے ہیں۔آگے چل کرجس کایہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غلط راہوں میں بھٹکنے لگتے ہیں ۔اگر شروع سے ان کی صحیح خطوط پر پرورش کی جاتی ہے ، انہیں بے جاآزادی نہیں دی جاتی اور ان کی تمام خواہشات کو پورا کرنے کی بجائے یہ سوچا جاتا کہ کیاان کے حق میں بہتر ہے اور کیاغلط؟ تویہ صورت حال سامنے نہیں آتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی پرورش بہتر طور پر محتاط انداز میں کریں۔

عصر حاضر میں یہ صورت حال بھی سامنے آرہی ہے کہ لوگ بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کے لیے ایسی تعلیم کا بندوبست کر رہے ہیں جس کے مادی فوائد تو نظر آتے ہیں، لیکن روحانی واخلاقی اعتبار سے بچے کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے ۔مگر چوں کہ آج کل ہر چیز کو مادیت کے پیمانے پر تولا جارہا ہے ، اس لیے تعلیم دیتے ہوئے بھی اس چیز کو پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ مادی لحاظ سے اس تعلیم کا کیا فائدہ ہے؟ یاد رکھنا چاہیے کہ مال ودولت کا حصول حقیقی کام یابی نہیں ہے، اس سے دنیوی زندگی میں قدرے سہولیات تو حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کے ذریعہ دنیا و آخرت کی حقیقی کام یابی بھی حاصل ہوسکے۔اس لیے ضروری ہے کہ اپنی اولاد کے لیے ایسی تعلیم وتربیت کا بندوبست کیاجائے جو اسے حقیقی کام یابی سے ہم کنار کرنے والی ہو۔ والدین کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی اولاد کے لیے اس بات کی فکر کریں کہ وہ جہنم کی آگ سے خلاصی پاجائیں ۔ کیوں کہ جہنم ایسا براٹھکانہ ہے جس کا ایندھن انسان ہوں گے۔ اللہ تعالی ارشادفرماتا ہے: ”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ“۔(تحریم 6)

اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد کو ایسی تعلیم و تربیت دیں جوانہیں جہنم کی آگ سے محفوظ رکھ سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا جائے ۔ کیوں کہ اس کا مقصد ہی انسان کو سیدھا راستہ دکھانا ، اللہ کی وحدانیت پر لوگوں کے یقین کو پختہ بنانا اور اس بات کوواضح کرنا ہے کہ ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے ، محض اللہ کی ذات باقی رہنے والی ہے ، اس نے ساری دنیا کو پیدا کیا ہے ، وہی رازق ومالک ہے ، اس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چناں چہ وہی عبادت کے لائق ہے ، اس کے احکام کی پیروی لازمی ہے اور اس کے مبعوث کیے ہوئے دین پر چلنے میں ہی فلاح یابی ہے اور ہر انسان کو بالآخر اس کی طرف لو ٹنا ہے۔ رب کائنات پر مضبوط یقین اور اس کے بھیجے ہوئے انبیاء ورسل پر اعتقاد کامل کے بعد انسان کی فلاح کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں اور وہ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے لگتا ہے ۔ اس کے برعکس مادی علوم و فنون کے بارے میں پورے طور سے یہ بات نہیں کہی جاسکتی ۔ خاص طور سے وہ نظام جو لینن، مارکس ، ڈارون ، فرائڈجیسے لوگوں نے پیش کیے ، وہ انسان کو اس کے حقیقی مقصدسے ہٹاکر محض مادیت پسند بناتے ہیں۔

تعلیم کے ساتھ تربیت کی افادیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جہاں محض تعلیم ہے ، مگر تربیت کا فقدان ہے ، وہاں تعلیم کے پورے نتائج سامنے نہیں آپاتے ۔ اگر تربیت بچپن سے ہی کی جائے تو اور زیادہ بہتر ہے۔ تربیت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ادارہ میں ہی کی جائے اور گھر پر بچہ کو آزاد چھوڑ دیا جائے ، بلکہ وہ تربیت جو گھر پر کی جاتی ہے ، عام طور سے زیادہ موثر و مضبوط ہوتی ہے پھر گھر پر تربیت کرنا زیادہ آسان بھی ہوتا ہے۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ والدین سب سے پہلے خود نیک ہوں اورجس چیز کی تربیت اولاد کودیں پہلے اس پر خود عامل ہوں ، بچے بہت سی باتیں اپنے والدین کی نقل وحرکت اور ان کے کاموں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب والدین کھانا سلیقہ سے کھاتے ہیں ، لقمہ بناتے ہیں ، اپنے آگے سے کھاتے ہیں ، بسم اللہ پڑھ کر کھاتے ہیں تو بچے بھی ویسے ہی کرتے نظر آتے ہیں ، والدین لباس پہنتے ہیں اور بچوں کو بھی وہی لباس پہناتے ہیں تو بچے بخوشی اسے پہن لیتے ہیں ۔ اگر والدین نماز پڑھتے ہیں تو وہ بھی نماز پڑھتے ہیں ۔ اگر بچپن میں والدین اپنے بچوں کو سلام کی عادت ڈلواتے ہیں، کلمے سکھاتے ہیں ، اچھے اچھے طریقہ بتاتے ہیں تو وہ بہت حد تک اپنے والدین کی باتوں اور ان کے ماحول کو اختیار کر لیتے ہیں ۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ آج کل مسلم معاشرہ کے بہت سے گھرانوں کا ماحول اس قدر آزاد ہوگیا ہے کہ اولاد پر اس کا اچھا اثر مرتب ہوتا نظرنہیں آتا ۔ والدین رات کو دیر تک جاگتے ہیں اور دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں۔ بچوں کی بھی عادت اسی طرح کی پڑنے لگتی ہے ۔دن بھر گھروں میں ٹی وی چلتا رہتا ہے ، جسے والدین اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ چھوٹے بچوں کو بھی ٹی وی دیکھنے کی عادت پڑجاتی ہے۔ ایک تو اس سے ضیاع وقت ہوتا ہے، دوسرے اس پربہت سی منفی باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بہت سے والدین قسم قسم کے فیشن کے کپڑے خود بھی پہنتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی پہناتے ہیں ۔ بعض جگہ خواتین کے بے جا میک اپ اور ان کے فیشن سے بچے متاثر ہوتے ہیں اور بچیاں انتہائی کم عمر “میں میک اپ کرنے لگتی ہیں، جس کا نتیجہ بعد میں اچھا نہیں نکلتا ۔ اس لیے والدین کو تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں بہت زیادہ سنجیدہ و حساس ہونے کی ضرورت ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” باپ کا اپنے اولاد کے لیے بہترین تحفہ یہی ہے کہ بہترین تعلیم و تربیت سے آراستہ کرے“۔

اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے بھی دعا کریں ۔ ارشاد باری ہے ” اور میری اولاد میں صلا ح وتقوی دے “۔(احقاف15)”تقوی “انتہائی اہم چیز ہے، جس سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے ، اس سے انسان کی افضلیت بڑھتی ہے ۔ ارشاد باری ہے ”بلاشبہ تم میں زیادہ مکرم اللہ کے نزدیک وہ ہے جو متقی ہے “حیرت کی بات ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اولاد سے بے انتہا محبت کر تے ہیں ، ان کے لیے اعلی سہولیات مہیا کرتے ہیں، ان کے لیے گاڑیاں خریدتے ہیں ، زمینیں خریدتے ہیں اور کشادہ مکانات بناتے ہیں ۔ تاکہ اولاد پریشان نہ ہو اور وہ آرام کی زندگی بسر کریں، مگر ان کی تعلیم کا بہتر بندوبست نہیں کرتے یا ایسی تعلیم دلانے میں عار محسوس کرتے ہیں جو ان کی دنیا و آخرت دونوں جہاں کی کا م یابی کے لیے ضروری ہے ۔

اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ والدین ایسا کردار پیش کریں کہ نئی نسل کامیاب و بامراد ہو۔ نئی نسل کے تحفظ اور اور ان کی کام یابی کے لیے دین اسلام کس قدر زور دیتا ہے ،اس کا اندازہ اس آیت سے لگا یا جاسکتا ہے ، جس میں پروردگار نے ارشاد فرما یا ” اور اپنی اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ نسل کشی بہت ہی بڑا گنا ہ ہے “۔(بنی اسرائیل 31) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نسل کشی گناہ عظیم ہے اور اولاد کے قتل کی تمام شکلیں ناجائز ہیں ۔موجودہ دور میں والدین کے ہاتھوں اپنے بچوں کے قتل کے واقعات کی شرح فیصد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو ، مگر اولاد کی پیدائش روکنے کے لیے جوکوششیں چل رہی ہیں وہ کہیں زیادہ ہیں شریعت اسلامی ان کی اجازت نہیں دیتی۔


موسم گرما کی تعطیلات کا ایک بہترین مصرف
بچپن اور جوانی زندگی کے دو ایسے مرحلے ہیں جو مستقبل کی بنیاد بنتے ہیں ، بچے قوم کا سرمایہ اور نوجوان قوم کے معمار ہوا کرتے ہیں ، انسانی زندگی کے یہ دو دور تربیت کا انتہائی اہم زمانہ ہوتے ہیں ، اس زمانے میں اگر صحیح دینی تربیت نصیب ہو جائے ، اچھے اور صالح ہم نشین مل جائیں او رپاکیزہ ماحول میسر آجائے تو یہ ایک مسلمان نوجوان کی نشو ونما کا آغاز ہوتا ہے، اسلاف اور اکابر کے حالات او ران کے واقعاتِ زندگی میں اس اجمال کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے او راگر خدا نخواستہ اس بچپن وجوانی کے دور میں صحیح تربیت نہ ہو سکے، غلط ماحول ملے او ربرے دوستوں کی صحبت مل جائے تو یہ خطرے کی پہلی گھنٹی ہوتی ہے #
        خشتِ اول چوں نہد معمار کج
        تاثریا می رود دیوار کج

(یعنی تعمیر کرنے والا اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دے تو یہ دیوار ثریا کی بلندی کو ہی کیوں نہ پہنچ جائے، ٹیڑھی ہی کھڑی ہو گی ) چناں چہ اس دور کی اسی اہمیت کی بناء پر قرآن وحدیث میں بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے سلسلے میں صرف اشارات ہی نہیں، بلکہ واضح تصریحات ملتی ہیں، بطور نمونہ چند آیات واحادیث ملاحظہ ہوں:﴿یآایھا الذین اٰمنوا قوآ انفسکم واھلیکم ناراً وقودھا الناس والحجارة﴾ ․ (التحریم:6)

ترجمہ:” اے ایمان والو! تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔“

اس آیت کے تحت امام ابوبکر جصاص رازی نے لکھا ہے کہ اہل واولاد کو دین کی ، بھلائی کی اور ضروری آداب کی تعلیم دینا لازم اور واجب ہے۔ (احکام القرآن:624/3) اور علامہ آلوسی نے بعض سلف کا قول نقل کیا ہے کہ:”اشد الناس عذاباً یوم القیمة من جھل اھلہ“․ (روح المعانی:6/10)

ترجمہ:” قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب اس شخص کو ہو گا ( جس کی تربیت نہ ہونے کی بنا پر ) اس کے گھر والے ( بنیادی امور دینیہ سے) جاہل رہیں۔“

سورہٴ کہف میں اصحاب کہف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:﴿انھا فتیة امنوا بربھم وزدناھم ھدی﴾․ (الکہف:13)

ترجمہ: ” وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اور ترقی دی۔“

امام ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہاں الله تعالیٰ نے اصحاب کہف کی جوانی کا بطور خاص اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ نوجوانوں میں حق کی قبولیت اور راہ ہدایت پر چلنے کا زیادہ جذبہ ہوتا ہے اوروہی معاشرے کا کار آمد پر زہ ہوتے ہیں ، برخلاف بوڑھوں کے کہ وہ اپنی روش پر چلنے کی وجہ سے اخلاق وعادات میں پختگی کی انتہا تک پہنچ چکے ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ خود صحابہ کرام میں پہلے پہل دین اسلام کی دعوت قبول کرنے والے اکثر نوجوان ہی تھے۔ ( تفسیر ابن کثیر:100/3)

بچوں کی تربیت کی عمر، انداز اور اہمیت سے متعلق نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے چند ارشادات ملاحظہ ہوں:”علموا الصبی الصلوة ابن سبع سنین واضربوہ علیھا ابن عشرة“․ ( ترمذی:93/1)

ترجمہ:” نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بچے کو سات برس کی عمر میں نماز سکھاؤ اور دس برس کی عمر میں ( نہ پڑھنے پر) مارو“۔

فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ یہی حکم روزے کا بھی ہو ا او راس میں حکمت یہ ہے کہ بچے کو بچپن میں ہی عبادت کی عادت پڑ جائے، تاکہ وہ بلوغت تک عبادت وطاعت او رمعاصی سے اجتناب کا عادی بن جائے۔ (تفسیر ابن کثیر:502/4)

نیز یہ بھی لکھا ہے کہ نہ پڑھنے کی صورت میں لکڑی وغیرہ سے نہ مارے، بلکہ ہاتھ سے مارے۔ (معارف السنن:35/4)

نوجوانی میں دین داری او رعبادت گزاری کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ حدیث شریف بھی کافی ہے :” سبعة یظلہم الله فی ظلہ یوم لاظل إلا ظلہ: إمام عادل، وشاب نشأ فی عبادة الله، ورجل قلبہ معلق بالمسجد إذا خرج منہ حتی یعود إلیہ، ورجلان تحابا فی الله اجتمعا علیہ، وتفرقا علیہ، ورجل ذکر الله خالیاً ففاضت عیناہ، ورجل دعتہ امرأة ذات حسب وجمال، فقال: إنی أخاف الله، ورجل تصدّق بصدقة، فأخفاھا حتی لا تعلم شمالہ ما تنفق یمینہ“․(مشکوٰة:68)

ترجمہ:” سات اشخاص کو الله تعالیٰ اس دن اپنا سایہٴ رحمت عطا فرمائیں گے ، جس دن اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا ، ایک عادل بادشاہ، دوسرا وہ نوجوان جو الله کی عبادت میں پلا بڑھا ہو ، تیسرا وہ شخص جس کا دل مسجد سے نکلنے کے بعدد وبارہ مسجد آنے تک وہیں اٹکا ہوا ہو، چوتھے وہ دو افراد جن کی آپس کی محبت محض الله کی رضا کے لیے ہو ، اسی پر ان کا اجتماع ہو او راسی پر افتراق ، پانچواں وہ شخص جو تنہائی میں الله کو یاد کرے او راس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگیں ، چھٹا وہ شخص جس کو کوئی اعلی حسب نسب کی مالک خوب صورت عورت (گناہ کی) دعوت دے اور وہ کہے کہ مجھے الله تعالیٰ کا ڈر اور خوف ( اس گناہ سے مانع) ہے ، ساتواں وہ شخص جو چھپ کر اس طرح صدقہ کرے کہ بائیں ہاتھ کو بھی یہ خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔“

مذکورہ بالا آیات واحادیث او ران جیسی دیگر بے شمار احادیث میں اولاد کی اصلاح وتربیت کا اہتمام کرنے کی بھرپور ترغیب وتاکید فرمائی گئی ہے، ہمارے اساتذہ کے استاذ حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب الله مختار شہید نے ایک عرب عالم، شیخ عبدالله ناصح علوان کی کتاب کا اردو میں ترجمہ فرمایا تھا، جو ” اسلام اور تربیت اولاد“ کے نام سے چھپ چکا ہے، اس میں اس موضوع پر مستقل کتاب کی صورت میں کافی مواد موجود ہے۔

دورِ حاضر میں فتنوں کا ایک سیلاب امنڈتا چلا آرہا ہے ، ہر صبح ایک نیا فتنہ لے کر آتی ہے او رہر شام ایک تازہ فتنہ چھوڑ کر رخصت ہوتی ہے ، ہر طرف علمی ، فکری اور تہذیبی حملوں کا طوفان برپا ہے ، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”إنی لأری الفتن تقع خلال بیوتکم کوقع المطر“․ (مشکوٰة:462)

ترجمہ:” میں دیکھ رہا ہوں کہ فتنے تمہارے گھروں میں بارش کی طرح برس رہے ہیں۔“

آج دیگر چیزوں سے قطع نظر الیکٹرونک میڈیا کی صورت میں یہ پیش گوئی حرف بحرف صادق ہوتی دکھائی دے ر ہی ہے۔

عصری تعلیم گاہوں میں موسم گرما کی تعطیلات کا آغاز ہوتے ہی طلبہ کی ان تعطیلات سے فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف عنوانات سے پروگرام شروع ہو جاتے ہیں ، پر فریب نعروں اور خوش کن وعدوں کے ذریعے اپنی طرف مائل کرنے والے بے شمار دشمنانِ اسلام میدان میں آکھڑے ہوتے ہیں اور ” سمر کیمپ“ کے نام پر نہ جانے کیا کچھ ہو رہا ہے ۔ عصری طلبہ کے تعلیمی سلسلے کا یہ وقفہ بھی انتہائی اہم ہوتا ہے، اس وقت کا درست یا غلط استعمال ان کی آئندہ تعلیمی زندگی کو صحیح رخ پر بھی لاسکتا ہے اور غلط رخ کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے ، طلبہ کی ایک بڑی تعداد فرصت کے ان لمحات کو فضول سرگرمیوں، بری محفلوں یا انٹرنیٹ کیفوں میں گزار کر مزید انحطاط وپستی کا شکار ہو جاتی ہے ، جس کے اثرات ان کی اگلی تعلیمی زندگی پر انتہائی بھیانک ہوتے ہیں ، ایسے اخلاق سوز ماحول میں والدین کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنی اولاد کی مصروفیات پر کڑی نظر رکھیں او ران کے اوقات کو کسی صحیح مصرف میں لگائیں ، نیز امت کے علما ومصلحین کے فرائض میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ مستقبل کے معماروں کے ان لمحات کو دینی ترقی کا ذریعہ بنانے کے لیے اصلاحی وتربیتی پروگرام شروع کریں۔

امت مسلمہ کے علما ومشائخ ہمیشہ سے امت کے اجتماعی مسائل کا حل سوچتے اور ممکنہ تدابیر اختیار کرتے آئے ہیں، کچھ عرصہ قبل جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اکابر اساتذہ نے کافی غور وفکر او رسوچ وبچار کے بعد عصری طلبہ کی موسم گرما کی تعطیلات کو دینی ماحول او راخلاقی تربیت کا موقع فراہم کرنے کے لیے ایک کورس کا آغاز فرمایا،2002 میں کراچی کی ایک مسجد سے شروع ہونے والا یہ کورس چند سالوں میں صرف شہر کی مختلف مساجد میں ہی نہیں ، بلکہ ملک کے کئی شہروں اور دوردراز کے دیہی علاقوں تک عام ہو چکا ہے او راس کی بدولت ایمانی او رروحانی فضائیں قائم ہو رہی ہیں، حتی کہ کئی بیرونی ممالک میں بھی اس کورس کا آغاز ہو چکا ہے ، کورس کی ابتدا میں کوئی باقاعدہ نصاب مرتب نہیں کیا گیا تھا، رفتہ رفتہ جامعہ ہی کے اساتذہ کی نگرانی میں طلبہ کی ذہنی استعداد کے مطابق ایک تدریجی نصاب مرتب ہو گیا، جس میں قرآن کریم کی منتخب آیات کا ترجمہ وتفسیر، چنیدہ احادیث اور ان کی تشریح، اسلام کے بنیادی احکام ومسائل، مسنون دعائیں اور عربی زبان کا شوق دلانے کے لیے مکالمے وغیرہ جمع کیے گئے ہیں، چند ہی سالوں میں اس سلسلے کے بہترین فوائد وثمرات محسوس کیے گئے ، طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی اور ایمان وعمل میں ایسی بہتری اور ترقی محسوس کی کہ وہ معاشرے کے بہترین افراد اور اسکول وکالج کے اچھے مسلمان طلبہ ثابت ہوئے، بہت سوں نے حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی، والدین نے بھی اپنے بچوں کی عمدہ تربیت پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا اور یقینا ایسے بچے اپنے والدین کے لیے دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور آخرت میں ابدی سرخ روئی کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ کی طرف سے اس کورس کا آغاز در حقیقت ایک ”دعوت فکر“ ہے اور قوم کے سرمایہ کی دینی واخلاقی تربیت کے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا ایک مثالی نمونہ ہے ، اس راہ میں نہ تو تجارتی مقاصد پیش نظر ہیں اور نہ ہی کسی خاص نصاب کی قید، نصاب کی ترتیب اورا شاعت بھی دراصل ایک بنیادی ضرورت کی تکمیل ہے، جامعہ کے اساتذہ اس سلسلے کی ہر مفید تجویز کا خیر مقدم کریں گے اور ہر رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے، جو حضرات اس بارے میں مشورہ کرنا چاہیں تو اساتذہ ان کی راہ نمائی فرمائیں گے۔ داعیان ملت اور مصلحین امت کو اس فکر کے اپنانے کی دعوتِ عام ہے۔ الله تعالیٰ امت مسلمہ کو خیر امت بنائے…آمین۔