Wednesday 12 July 2023

نبوت-رحمت ، خلافت-امامت، سلطنت-ملوکیت، امارت-ولایت


خلافت کا لفظی معنٰی نیابت ہے.

اللہ پاک کا فرمان ہے: 

”إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً“

ترجمہ:

میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔

[سورۃ البقرۃ:30]۔

اللہ کے احکام بندوں تک پہنچانے اور دنیا میں خدا کا قانون نافذ کرنے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے لیے اللہ نے زمین میں جن بندوں کو بھیجا ہے وہ اللہ کے نبی اور خلیفہ کہلاتے ہیں، چنانچہ سب سے پہلے نبی اور خلیفہ آدم علیہ السلام ہیں، پہر نوح علیہ السلام پھر اسی طرح یہ سلسلہ درجہ بدرجہ چلتے ہوئے آخر میں ہمارے آقا محمد ﷺ تک پہنچا اور محمد ﷺ اللہ کے سب سے آخری نبی اور خلیفہ ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی یا خلیفہ اللہ کی طرف سے نہ آیا ہے نہ آئے گا۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد احکامِ الٰہی کے نافذ کرنے اور عدل وانصاف قائم کرنے کے جو منتخب ہوا وہ خلیفة الرسول اور آپ ﷺ کا نائب ہوتا ہے۔ خلافت پوری دنیا میں ایک ہی ہوتی ہے، البتہ ملوکت بادشاہت متعدد ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک ہی زمانہ میں علاقے کے لحاظ سے متعدد سلاطین اسلام ہوئے ہیں، ملوکیت(بادشاہت) بھی خلافت کی طرح ایک عہدہ اور ذمہ داری ہے کیونکہ آپ ﷺ کے اندر خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت کی شان بھی موجود تھی۔ نیز ملوکیت اور بادشاہت بھی اللہ کی طرف سے ایک تحفہ اور انعام ہے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام نے ﴿‌وَهَبْ ‌لِي ‌مُلْكًا ﴾ یعنی اور مجھے سلطنت بخش دے [سورۃ ص:35] کی دعا کی اور اللہ نے ان کو خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت بھی عطا کی تھی جس پر دلالت کرنے والی بہت سی آیتیں قرآن میں موجود ہیں۔

[حوالہ جات؛ سورۃ البقرۃ:246+247، النساء:54، ص:20]

لہٰذا بادشاہت فی نفسہ مذموم شئ نہیں ہے۔ الغرض جب آسمانی خلافت اور بادشاہت ختم ہوگئی تو دنیا کی خلافت اور بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا، چنانچہ خلفائے راشدین آپ ﷺ کے جانشین اور خلیفہ ہیں، خلیفہ بنانے کے مختلف طریقے عہد صحابہ میں پیش آئے ہیں، چنانچہ ایک طریقہ تو حضرت ابوبکرؓ کے انتخاب کا تھا کہ تمام صحابہؓ نے ان کو بالاتفاق اپنا امیر اور آپ ﷺ کا خلیفہ مقرر کیا اور دوسرا طریقہ حضرت عمرؓ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے اخیر زمانہ میں بغیر کسی شوریٰ کے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین اور خلیفہ بنادیا، پھر تیسرا طریقہ حضرت عثمانؓ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے پہلے ایک شوریٰ قائم کی جس کے انتخاب سے حضرت عثمانؓ خلیفہ مقرر ہوئے، اور چوتھا طریقہ حضرت علیؓ کے انتخاب کا تھا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد اکثر صحابہؓ نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کیا اور ان کو اپنا امیر تسلیم کرلیا۔ اسی طرح ایک پانچواں طریقہ وہ ہے جو صحابی رسولِ ہادی، مہدی امیر معاویہؓ سے ثابت ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانیشین اور خلیفہ بنایا۔ الغرض یہ سب کے سب طریقے عہد صحابہ میں پیش آئے ہیں اور بادشاہت کا طریقہ بھی اسلام میں موجود ہے، پس اُسے منسوخ کیسے کہا جائے گا، آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:

«الْخِلَافَةُ بِالْمَدِينَةِ، ‌وَالْمُلْكُ ‌بِالشَّامِ»

ترجمہ:

خلافت مدینہ سے اور ملک وبادشاہی شام سے ہوگی۔

[المستدرك على الصحيحين للحاكم:4440]

الفتن لنعيم بن حماد:248، الجامع لعلوم الإمام أحمد:15/159، دلائل النبوة للبيهقي:6/447، جامع بيان العلم وفضله:2324، المتفق والمفترق، للخطيب البغدادي:626، الفردوس بمأثور الخطاب:3023، التاريخ الكبير للبخاري:4/ 15، تاريخ دمشق لابن عساكر:1/183، البداية والنهاية لابن كثير:9/212، فضائل الشام لابن رجب الحنبلي:3/190، إمتاع الأسماع لالمقريزي:12/209، المقاصد الحسنة للسخاوي:583، 



اہل السنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی پاک ﷺ کے بعد خلیفہ بلافصل حضرت ابو بکر صدیقؓ ہیں، ان کے بعد حضرت عمرؓ ، ان کے بعد حضرت عثمان غنیؓ، اور ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں، بالترتیب یہ چاروں حضرات خلفاء راشدین ہیں جن کی خلافت کی پیشن گوئی قرآن کریم میں دی گئی ہے، اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ میرے بعد خلافت تیس(30) سال رہے گی اس کے بعد بادشاہت اور ملوکیت شروع ہوجائے گی۔

[سنن الترمذي:2226]

اس سے مراد خلافتِ راشدہ ہے جس کی مدت حضرت سیدنا حسنؓ کی خلافت پر جا کر ختم ہوجاتی ہے؛ کیونکہ مستند تاریخی کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ خلفاء اربعہ کی خلافت کی مدت انتیس(29)سال اور چھ(6)ماہ پر جاکر ختم ہوجاتی ہے ابھی چونکہ تیس(30)سال پورا ہونے میں تقریباً چھ(6) ماہ باقی تھے کہ حضرت علیؓ کی شہادت ہوگئی تھی ان کی شہادت کے بعد اکثر مسلمانوں نے حضرت سیدنا حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی اس کے بعد حضرت حسنؓ نے تقریبا چھ(6)ماہ خلافت کی جب خلافت کے تیس(30)سال مکمل ہوگئے تو انہوں نے نبی ﷺ کے پیشن گوئی کے مطابق حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کرتے ہوئے خلافت کی ذمہ داری ان کے حوالے کردی تھی، اس اعتبار سے حضرت سیدنا حسنؓ کی خلافت کا زمانہ بھی خلافتِ راشدہ میں داخل ہوگا، اور حضرت حسنؓ بھی خلفاء راشدین میں شامل ہوں گے، لہذا جو لوگ مذکورہ حدیث کے حوالے سے حضرت حسن کی خلافت کو خلافتِ راشدہ میں داخل کرکے ان کو خلیفہ راشد کہتے ہیں ان کی بات درست ہے، لیکن حضرت امیر معاویہؓ کو خلفاء راشدین کی فہرست میں شامل نہ ہوں گے؛ کیونکہ خلافتِ راشدہ کے لئے ہجرت کرنا شرط ہے، جیسا کہ "ازالة الخلفاء عن خلافة الخلفاء[ج1/ص10] میں اس کی صراحت کی گئی ہے، چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ صاحب لکھتے ہیں: "از جملہ لوازم خلافت خاصہ آنست کہ خلیفہ از مہاجرین اولین باشد" اور یہ شرط حضرت امیر معاویہؓ میں مفقود ہے؛ اس لئے ان کو خلفاءِ راشدین میں شمار کرنا درست نہ ہوگا، رہا مسئلہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو خلفاءِ راشدین میں شمار کرنے کا مسئلہ تو چونکہ خلفاء راشدین میں شمار ہونے کے لئے صحابی ہونا ضروری ہے، جیسا کہ آپ کے مسائل اور ان کا حل [ج1 /ص330] پر اس کی صراحت کی گئی ہے اور یہ شرط حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے اندر مفقود ہے؛ کیونکہ وہ صحابی نہیں ہیں بلکہ تابعی ہیں اس لئے ان کو خلفاء راشدین میں شمار کرنا درست نہ ہوگا جہاں تک تعلق ہے اہل سنت و الجماعت کے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خلفاء راشدین میں شامل کرنے کا تو اگرچہ بعض اہل السنة والجماعة حضرات نے ان کو خلفاء راشدین میں شمار کیا ہے مگر اس معنیٰ میں نہیں کہ یہ بھی اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں خلافتِ راشدہ کی پیشن گوئی دی گئی ہے بلکہ وہ حضرات ان کو اس اعتبار سے خلیفہ راشد کہتے ہیں کہ یہ بذاتِ خود عادل اور خیرخواہی کرنے والے اچھے خلیفہ تھے اور ان کی خلافت میں رشد(ہدایت) پائی جاتی تھی، اور ان کی خلافت، خلافتِ راشدہ کے مشابہ تھی اس اعتبار سے انہوں نے ان کو خلیفہ راشد کہا ورنہ درحقیقت یہ خلفاء راشدین کے مصداق نہیں ہیں۔





(1)الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ سے، وہ حضرت سفینہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خلافت علی منہاج النبوۃ (نبوت کی خلافت) تیس سال رہے گی ، پھر اللہ تعالیٰ سلطنت یا اپنی سلطنت جسے چاہے گا دے گا۔

[سنن ابو داؤد - سنت کا بیان - حدیث نمبر 4647][صحیح ابن حبان:6783]


پھر (سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ کہتے ہیں) مجھ سے سفینہ رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت، عمر رضی الله عنہ کی خلافت، عثمان رضی الله عنہ کی خلافت اور علی رضی الله عنہ کی خلافت، شمار کرو۔

[سنن الترمذی - فتنوں کا بیان - حدیث نمبر 2226]

[سنن ابو داؤد - سنت کا بیان - حدیث نمبر 4646]


....وَأَوَّلُ الْمُلُوكِ مُعَاوِيَةُ۔

ترجمہ:

....اور پہلے بادشاہ حضرت معاویہ ہیں۔

[المصنف-ابن أبي شيبة:36005 (ت الحوت)، المصنف-ابن أبي شيبة:38754(ت الشثري)]

[مصنف ابن ابی شیبہ: کتاب الاوائل، باب:-سب سے پہلے کون سا عمل کس نے کیا ؟ حدیث نمبر: 37156]


قلت: معاویة؟ قال: کان اول الملوک. وتابعہ حماد بن سلمة عن سعید بن جمہان.

(المدخل الی سنن الکبری للبیہقی: باب اقاویل الصحابة رضی اللہ عنہم: ج ۱/ ص ۱۱۶)


تشریح:
حضرت سفینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام ہیں انھوں نے حضور ﷺ کا جو ارشاد نقل فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خلافت یعنی ٹھیک ٹھیک میرے طریقہ پر اور اللہ تعالی کے پسندیدہ طریقہ پر میری نیابت میں دین کی دعوت و خدمت اور نظام حکومت کا کام (جس کا مختصر معروف عنوان "خلافت راشدہ" ہے) بس تیس سال تک چلے گا اس کے بعد نظام حکومت بادشاہت میں تبدیل ہوجائے گا اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ پر یہ حقیقت منکشف فرما دی تھی آپ ﷺ نے مختلف موقعوں پر اس کا اظہار فرمایا اور امت کو اس کے بارے میں آگاہی دی مختلف صحابہ کرامؓ سے اس سلسلہ کے آپ ﷺ کے ارشادات مروی ہیں۔ حضرت سفینہ ؓٗ نے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمانے کے ساتھ اس کا حساب بھی بتلایا لیکن اس کو تقریبی یعنی موٹا حساب سمجھنا چاہیے تحقیقی حساب یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر ؓ کی خلافت کی مدت دو سال چار مہینے ہے۔ اس کے بعد حضرت فاروق اعظم ؓ کی مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہیں۔ اس کے بعد حضرت ذوالنورین کی خلافت کی مدت چند دن کم بارہ سال ہیں۔ اس کے بعد حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت کی مدت چار سال نو مہینے ہیں۔ ان کی میزان 29 سال 7 مہینے ہوتی ہے اس کے ساتھ سیدنا حضرت حسنؓ کی خلافت کی مدت قریبا پانچ ماہ جوڑ لی جائے تو پورے تیس سال ہو جاتے ہیں۔ یہی تیس (30) سال خلافت راشدہ کے ہیں اس کے بعد جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا نظام حکومت بادشاہت میں تبدیل ہوگیا اس طرح کی رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئیاں آپ ﷺ کی نبوت کی کھلی دلیلیں بھی ہیں اور ان میں امت کو آگاہی بھی ہیں۔

[معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1948]

آپؓ کے بعد آپؓ کے بڑے صاحبزادے حضرت حسن ؓٗ آپؓ کے جانشین اور خلیفہ ہوئے لیکن انہوں نے چند ہی مہینے بعد مسلمانوں کی خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ایک پیشن گوئی کے مطابق حضرت معاویہ ؓ سے صلح کر لی اور ان کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ حضرت حسنؓ کی خلافت کے یہ چند مہینے شامل کر لیے جائیں تو پورے تیس سال ہو جاتے ہیں۔ خلافت علی منہاج نبوت اور خلافت راشدہ جس کو اس حدیث میں خلافت النبوہ کہا گیا ہےبس اس تیس سالوں تک رہی۔ اس کے بعد طور طریقوں میں تبدیلی کا عمل شروع ہو گیا اور شدہ شدہ خلافت علی منھاج النبوہ کی جگہ بادشاہت کا رنگ آ گیا۔ آنحضرت ﷺ کی دوسری پیشنگوئیوں کی طرح یہ حدیث بھی رسول اللہ ﷺ کا معجزہ اور آپ ﷺ کی نبوت کی دلیل ہے۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد جو کچھ ہونے والا تھا۔ آپ ﷺ نے اس کی اطلاع دی اور وہی وقوع میں آیا۔ ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کو اس کا علم اللہ تعالی کی وحی کے ہی ذریعہ ہوا تھا۔

[معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1874]


الحسن بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه: أبو محمد، سبط رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وريحانته وآخر الخلفاء بنصه.

ترجمہ:

حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ: ابو محمد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے - اور ان کے پھول اور ان کے بيان کے مطابق آخری خلیفہ۔

[تاريخ الخلفاء-السيوطي: ص144]


وَأَخْرَجَ الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَدْخَلِ عَنْ سَفِينَةَ أَنَّ أَوَّلَ الْمُلُوكِ مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَالْمُرَادُ بِخِلَافَةِ النُّبُوَّةِ هِيَ الْخِلَافَةُ الْكَامِلَةُ وَهِيَ مُنْحَصِرَةٌ فِي الْخَمْسَةِ فَلَا يُعَارَضُ الْحَدِيثُ لَا يَزَالُ هَذَا الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى يَمْلِكَ إثني عَشَرَ خَلِيفَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ مُطْلَقُ الْخِلَافَةِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ

ترجمہ:

اور بیہقی نے سفینہ کی سند سے اسے المدخل میں شامل کیا ہے کہ سب سے پہلے بادشاہ معاویہ رضی اللہ عنہ تھے اور خلافت نبوت سے مراد مکمل خلافت ہے اور یہ محدود ہے۔ پانچوں تک، لہٰذا حدیث اس مذہب سے متصادم نہیں ہے، یہ مذہب اس وقت تک قائم رہے گا جب تک اس کے بارہ خلفاء نہ ہوں، کیونکہ اس سے مراد مطلق خلافت ہے، اور خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

[عون المعبود وحاشية ابن القيم: كتاب السنة  باب في الخلفاء ، ج12 ص 260، حدیث 284]


هُوَ آخر الْخُلَفَاء الرَّاشِدين بِنَصّ جده صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ولي الْخلَافَة بعد قتل أَبِيه بمبايعة أهل الْكُوفَة فَأَقَامَ بهَا سِتَّة أشهر وأياما خَليفَة حق وَإِمَام عدل وَصدق تَحْقِيقا لما اخبر بِهِ جده الصَّادِق المصدوق صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بقوله 

فَإِن تِلْكَ السِّتَّة الْأَشْهر هِيَ المكملة لتِلْك الثَّلَاثِينَ فَكَانَت خِلَافَته مَنْصُوصا عَلَيْهَا وَقَامَ عَلَيْهَا إِجْمَاع من ذكر فَلَا مرية فِي حقيتها

ترجمہ:

وہ اپنے دادا (صلى الله عَلَيْهِ وَسلم) کی بيان کے مطابق صحیح ہدایت یافتہ خلفاء میں سے آخری ہیں، اور کوفہ کے لوگوں سے بیعت کرنے کے بعد اپنے والد کو قتل کرنے کے بعد خلافت کے جانشین تھے، اس لیے آپ نے قیام کیا۔ وہاں چھ ماہ اور دن ایک سچے خلیفہ اور انصاف اور سچائی کے امام کی حیثیت سے اپنے دادا الصادق المصدوق سے کہی گئی بات کو پورا کرتے ہوئے ان کے اس قول کے مطابق۔

وہ چھ مہینے ان تیس کی تکمیل ہیں، اس لیے اس کے لیے اس کی خلافت معین ہوئی اور اس پر مردوں کا اجماع قائم ہوا، اس لیے اس کے حق میں کوئی شک نہیں۔

[الصواعق المحرقة - ابن حجر الهيتمي: ج 2 ص 397]


امام صدر الدین علی بن علی بن محمد بن ابی العز الحنفی اپنی کتاب [شرح العقيدة الطحاوية] میں لکھتے ہیں:

و أول ملوك المسلمين معاوية رضي الله عنه ، و هو خير ملوك المسلمين ، لكنه إنما صار إماما حقا لما فوض إليه الحسن بن علي رضي الله عنهم الخلافة ، فإن الحسن رضي الله عنه بايعه أهل العراق بعد موت أبيه ، ثم بعد ستة أشهر فوض الأمر إلى معاوية 

ترجمہ:

مسلمانوں کے پہلے بادشاہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ ہیں اور وہ مسلمانوں کے تمام بادشاہوں سے بہتر تھے لیکن بعد ازاں وہ بھی خلیفہ برحق تھے جب حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ نے انہیں خلافت تفویض کر دی تھی ۔ حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے حضرت امام حسن مجتبی رضی الله عنہ کی عراقیوں نے بیعت کی لیکن چھ ماہ بعد انہوں نے خلافت حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو تفویض کر دی.

[شرح العقيدة الطحاوية ، لامام صدر الدين علي بن علي بن محمد بن أبي العز الحنفي ، تحت " خلافة علي رضي الله عنه ، ص 479 تا 480 مطبوعة دار ابن رجب ، طبع اول ١٤٢٢ه‍/٢٠٠٢ء]


لما قال العلامة ملا علی القاری رحمہ اللہ:

وخلافة النبوة ثلاثون سنة _منہا خلافة الصدیق سنتان وثلاثة اشہر وخلافة عمر عشر سنین ونصف وخلافة عثمان اثنتا عشرة سنة وخلافة علی اربع سنین وتسعة اشہر وخلافة ابنہ ستة اشہر واول ملوک المسلمین معاویة وہو افضلہم لکنہ انما صار اماما حقا لما فوض الیہ الحسن بن علی الخلافة فان الحسن بایعہ اہل العراق بعد موت ابیہ ثم بعد ستة اشہر فوض الامر الی معاویة والقصة مشہورة وفی الکتب المبسوط مستورہ

[شرح الفقہ الاکبر ص ۸۶، ۹۶]






 خلیفہ اور سلطان میں فرق:

خلافت یعنی نیابت، جانشینی، ولیعہدی۔ اسلامی مملکت کے سربراہ کو خلیفہ کہا جاتا ہے۔ شریعت کے مطابق اُمتِ مسلمہ کے امیر المومنین، امام، حاکم کو بھی خلیفہ کہا جاتا ہے۔ خلیفہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ ہیں نمائندہ یا جانشین۔ خلیفہ واحد ہے جمع کے لیے لفظ خلفاء کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اور

کسی ریاست یا صوبہ کے مرد حکمران کو سلطان کہا جا سکتا ہے۔ لیکن عام طور پر یہ اصطلاح مسلمان حکمران کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ خواتین مسلم حکمران سلطانہ کہلاتی ہے۔ جیسے: رضیہ سلطانہ۔ اور کافرہ حکمران خواتین ملکہ کہلاتی ہے۔ جیسے: بلقیس-ملکۂ سبا

[حوالہ سورۃ النمل:23(مجمع الزوائد:9061)]

اس میں تمام اختیارات بادشاہ (مرد حاکم) یا ملکہ(خاتون حاکم) کو حاصل ہیں۔ آج کل دنیا میں 44 ممالک بادشاہت کے ماتحت ہیں۔ برونائی، عمان، سعودی عرب، قطر، ویٹیکن سِٹی، سوازی لینڈ وغیرہ ممالک میں تاریخی طور پر خود مختار بادشاہت قائم ہے۔ اس طرزِ حکومت میں بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کی اولاد نے جسے وہ نامزد کرے بادشاہ ہوتا ہے۔ بادشاہ جسے نامزد کرتا ہے اسے ولی عہد کہتے ہیں۔



خلافت پوری دنیا میں ایک ہی ہوتی ہے، البتہ ملوکیت وبادشاہت متعدد ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک ہی زمانہ میں علاقے کے لحاظ سے متعدد سلاطینِ اسلام ہوئے ہیں، ملوکیت بھی خلافت کی طرح ایک عہدہ اور ذمہ داری ہے کیونکہ نبی ﷺ کے اندر خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت کی شان بھی موجود تھی۔

نیز ملوکیت اور بادشاہت بھی اللہ کی طرف سے ایک تحفہ اور انعام ہے، جیسا کہ سلیمان علیہ السلام نے ”وَهَبْ لِي ‌مُلْكًا“ یعنی اور مجھے سلطنت بخش دے [سورۃ ص:35] کی دعا کی اور اللہ نے ان کو خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت بہی عطا کی تھی، جس پر دلالت کرنے والی بہت سی آیتیں قرآن میں موجود ہیں۔

[حوالہ جات؛ سورۃ البقرۃ:246+247، النساء:54]۔

اور بادشاہت کا طریقہ بھی اسلام میں موجود ہے، پس اُسے منسوخ کیسے کہا جائے گا، آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:

«الْخِلَافَةُ بِالْمَدِينَةِ، ‌وَالْمُلْكُ ‌بِالشَّامِ»

یعنی خلافت مدینہ سے اور ملک وبادشاہی شام سے ہوگی۔

[حاكم:4440]

لہٰذا بادشاہت فی نفسہ مذموم شئ نہیں ہے۔

الغرض جب آسمانی خلافت اور ملوکیت ختم ہوگئی تو دنیا کی خلافت اور بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا۔


جانشینی اور تمنائے ابراھیمی:

اللہ پاک نے حضرت ابراھیمؑ سے فرمایا۔۔۔ میں تمہیں تمام انسانوں کا "امام" بنانے والا ہوں۔۔۔ابراہیم نے پوچھا: اور میری اولاد میں سے؟ اللہ نے فرمایا: میرا (یہ) عہد ظالموں کو شامل نہیں ہے۔

[سورۃ البقرۃ:124]


جائز اور ناجائز اقرباء-پروری کا معیار:

قابل ہو تو قریبی(رشتہ دار)کی سفارش کرنا حق ہے، دوسروں پر زیادتی نہیں۔

القرآن:

اور(موسیٰ نے رب سے فرمایا کہ)میرے لیے میرے خاندان ہی کے ایک فرد کو وزیر(مددگار)مقرر کردیجیے۔

[سورۃ طٰهٰ:29]

بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی، اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو وزیر(مددگار)کے طور پر(ہم ہی نے)مقرر کیا تھا۔

[سورۃ الفرقان:35]





(1)خلیفہ عادل ہونے کے علاوہ نبوی منہج پر نظامِ الٰہی نافذ رکھتا ہے، جبکہ سلطان کا عادل ہونا بھی لازم نہیں۔

حضرت سفینہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی، پھر دے گا اللہ ملک یا اپنا ملک جسے وہ چاہے گا۔

[سنن ابوداؤد: 4646، صحيح الجامع الصغير: 3257]


سلطان سے عدل میں کوتاہی ممکن ہے:

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

بےشک سب سے بڑے جہاد میں سے حق کا کلمہ کہنا ہے ظالم سلطان کے پاس۔

[سنن الترمذي:2174]

افضل جہاد ہے عدل کا کلمہ کہنا ظالم سلطان-یا-ظالم امیر کے پاس۔

[سنن أبي داود:4344، سنن ابن ماجه:4011]

لہٰذا

جن باتوں سے پناہ مانگنا مسنون ہے، ان میں یہ بھی ہے کہ:

اجْعَلْنِي فِي عِيَاذِكَ مِنْ ‌شَرِّ ‌كُلِّ ‌سُلْطَانٍ

ترجمہ:

مجھے ہر سلطان کے شر سے اپنی حفاظت میں رکھ

[عمل اليوم والليلة لابن السني:346]

اور بعض ررایات میں ہے:

وَمِنْ ‌كُلِّ ‌جَبَّارٍ ‌عَنِيدٍ

ترجمہ:

اور ہر ضدی ظالم سے

[الدعاء - الطبراني:1059]







(2)خلافت پوری دنیا میں ایک ہی ہوتی ہے، البتہ بادشاہت متعدد ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک ہی زمانہ میں علاقے کے لحاظ سے متعدد سلاطینِ اسلام ہوئے ہیں۔


اس میں تمام اختیارات بادشاہ (مرد حاکم) یا ملکہ(خاتون حاکم) کو حاصل ہیں۔ آج کل دنیا میں 44 ممالک بادشاہت کے ماتحت ہیں۔ برونائی، عمان، سعودی عرب، قطر، ویٹیکن سِٹی، سوازی لینڈ وغیرہ ممالک میں تاریخی طور پر خود مختار بادشاہت قائم ہے۔ اس طرزِ حکومت میں بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کی اولاد نے جسے وہ نامزد کرے بادشاہ ہوتا ہے۔ بادشاہ جسے نامزد کرتا ہے اسے ولی عہد کہتے ہیں۔


لیکن قوت واتحادِ امت کیلئے پہلے خلیفہ پر بیعت ہونے[بخاری:3455، مسلم:1842] اور اتحادِ امت کو توڑنے والے یعنی دوسرے خلیفہ بننے کی کوشش والے کو قتل کردینے کی تعلیم دی گئی ہے۔[مسلم:1853، حاکم:2665] یعنی خلیفہ پہلا ہوتا ہے، بعد والا خلیفہ نہیں۔





(3)خلیفہ خود کو خلق کا خادم اور حکومت کو امانت سمجھتا ہے مخدوم نہیں سمجھتا، لیکن سلطان خود کو خلق کا مخدوم اور حکومت کو اپنی سمجھتا ہے۔

مثلا:

حضرت ابوبکر صدیقؓ کا بیتُ المال سے وَظیفہ:

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے یہاں کپڑے کی تجارت ہوتی تھی، اور اُسی سے گزر اوقات تھا، جب خلیفہ بنائے گئے تو حَسبِ معمول صبح کو چند چادریں ہاتھ پر ڈال کر بازار میں فروخت کے لیے تشریف لے چلے، راستے میں حضرت عمرؓ ملے، پوچھا: کہاں چلے؟ فرمایا: بازار جا رہا ہوں، حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ: اگر آپ تجارت میں مشغول ہوگئے تو خِلافت کے کام کا کیا ہوگا؟ فرمایا: پھر اَہل وعَیال کو کہاں سے کھلاؤں؟ عرض کیا کہ: ابوعُبیدہؓ جن کو حضور ﷺ نے اَمین ہونے کا لَقب دیا ہے، اُن کے پاس چلیں، وہ آپ کے لیے بیتُ المال سے کچھ مقرَّر کردیں گے، دونوں حضرات اُن کے پاس تشریف لے گئے، تو اُنھوں نے ایک مُہاجِری  کو جو اَوسطاً ملتا تھا، نہ کم نہ زیادہ، وہ مقرَّر فرمادیا۔

لما استخلف أبو ‌بكر أصبح غاديا إلى السوق وعلى رقبته أثواب يتجر بها فلقيه ‌عمر بن الخطاب وأبو عبيدة بن ‌الجراح فقالا له أين تريد يا خليفة رسول الله (صلى الله عليه وسلم) قال السوق قالا تصنع ماذا وقد وليت أمر المسلمين قال فمن أين أطعم عيالي قالا له انطلق حتى نقرض لك شيئا فانطلق معهما فقرضوا له كل يوم شطر شاة وما كسوه في الرأس والبطن

[كشف المشكل من حديث الصحيحين:12]

ایک مرتبہ بیوی نے درخواست کی کہ: کوئی میٹھی چیز کھانے کو دِل چاہتا ہے، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ: میرے پاس تو دَام نہیں کہ خریدوں، اَہلیہ نے عرض کیا کہ: ہم اپنے روز کے کھانے میں سے تھوڑا تھوڑا بچا لیا کریں، کچھ دنوں میں اِتنی مقدار ہوجائے گی، آپؓ نے اجازت فرما دی، اَہلیہ نے کئی روز میں کچھ تھوڑے سے پیسے جمع کیے، آپؓ نے فرمایا کہ: تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ اِتنی مقدار ہمیں بیتُ المال سے زیادہ ملتی ہے؛ اِس لیے جو اَہلیہ نے جمع کیا تھا وہ بھی بیتُ المال میں جمع فرمادیا، اور آئندہ کے لیے اُتنی مقدار جتنا اِنھوں نے روزانہ جمع کیا تھا، اپنی تنخواہ میں سے کم کردیا۔

[أسد الغابة في معرفة الصحابة:3/ 310]

فائدہ:

اِتنے بڑے خلیفہ اوربادشاہ پہلے سے اپنی تجارت بھی کرتے تھے، اوروہ ضروریات کے لیے کافی بھی تھی، جیسا کہ اُس اعلان سے معلوم ہوتا ہے جو’’بخاری‘‘ میں حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا سے مَروِی ہے، کہ جب حضرت ابوبکرص  خلیفہ بنائے گئے توآپص نے فرمایاکہ: ’’میری قوم کویہ بات معلوم ہے کہ میرا پیشۂ تجارت میرے اَہل وعَیال کے خرچ کو ناکافی نہیں تھا؛ لیکن اب خلافت کی وجہ سے مسلمانوں کے کاروبار میں مشغولی ہے؛ اِس لیے بیتُ المال سے میرے اَہل وعَیال کا کھانا مقرَّر ہوگا‘‘۔ اِس کے باوجود حضرت ابوبکرص کا وِصال ہونے لگا، تو حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا    کو وَصِیَّت فرمائی کہ: میری ضرورتوں میں جوچیزیں بیتُ المال کی ہیں وہ میرے بعد آنے والے خلیفہ کے حوالے کر دی جائیں۔ حضرت اَنس صفرماتے ہیں کہ: آپ کے پاس کوئی دینار یادرہم نہیں تھا، ایک اونٹنی دودھ کی، ایک پیالہ، ایک خادم تھا۔ بعض روایات میں ایک اوڑھنا، ایک بچھونا بھی آیا ہے۔ یہ اَشیاء حضرت عمرؓ کے پاس جب نِیابت میں پہنچیں، تو آپ نے فرمایا کہ:

رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى أَبِي بَكْرٍ لَقَدْ أَتْعَبَ من بعده

 اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رَحم فرمائیں، کہ اپنے سے بعدوالے کو مَشقَّت میں ڈال گئے۔

[مصنف ابن أبي شيبة:22180+32911]




حضرت عمرفاروق  کا بیتُ المال سے وظیفہ:

حضرت عمرؓ  بھی تجارت کیا کرتے تھے، جب خلیفہ بنائے گئے تو بیتُ المال سے وظیفہ مقرَّر ہوا، مدینۂ طَیِّبہ میں لوگوں کوجمع فرماکر ارشاد فرمایا کہ: ’’مَیں تجارت کیا کرتا تھا، اب تم لوگوں نے اِس میں مشغول کردیا؛ اِس لیے اب گُزارے کی کیاصورت ہو؟‘‘ لوگوں نے مُختلِف مِقداریں تجویز کیں، حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ چپ بیٹھے تھے، حضرت عمرص نے دریافت فرمایا کہ: تمھاری کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا کہ: ’’توسُّط کے ساتھ جو تمھیں اورتمھارے گھر والوں کو کافی ہوجائے‘‘، حضرت عمرص نے اِس رائے کوپسند فرمایا اور قبول کرلیا،اورمتوسِّط مقدار تجویز ہوگئی۔ اِس کے بعد ایک مرتبہ ایک مجلس میں- جس میں خود حضرت علیص بھی تھے، اور حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت طلحہ ث  شریک تھے- یہ ذکرآیا، کہ حضرت عمرص کے وَظیفے میں اِضافہ کرنا چاہیے، کہ گُزر میں تنگی ہوتی ہے؛ مگر اُن سے عرض کرنے کی ہمَّت نہ ہوئی؛ اِس لیے اُن کی صاحبزادی حضرت حفصہرَضِيَ اللہُ عَنْہَا جو حضورﷺ کی بیوی ہونے کی وجہ سے امُّ المؤمنین بھی تھیں، اُن کی خدمت میں یہ حضرات تشریف لے گئے، اور اُن کے ذریعے سے حضرت عمرصکی اِجازت اور رائے معلوم کرنے کی کوشش کی، اورساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ: ہم لوگوںکے نام معلوم نہ ہو، حضرت حفصہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَانے جب حضرت عمرصسے اِس کاتذکرہ کیاتو چہرے پرغصے کے آثار ظاہر ہوئے، حضرت عمرصنے نام دریافت کیے، حضرت حفصہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا نے عرض کیا کہ: پہلے آپ کی رائے معلوم ہوجائے، حضرت عمر صنے فرمایا کہ: مجھے اُن کے نام معلوم ہوجاتے تواُن کے چہرے بدل دیتا، یعنی ایسی سخت سزائیں دیتا کہ منھ پر نشان پڑ جاتے، تُوہی بتا کہ حضورﷺکاعمدہ سے عمدہ لباس تیرے گھر میں کیاتھا؟ اُنھوں نے عرض کیا کہ: دو کپڑیگِیروی  رنگ کے، جن کوحضورﷺجمعہ کے دن یاکسی وَفد  کی وجہ سے پہنتے تھے۔ پھرفرمایا کہ: کونسا کھانا تیرے یہاں عمدہ سے عمدہ کھایا؟ عرض کیا کہ: ہمارا کھانا جَوکی روٹی تھی، ہم نے گرم گرم روٹی پر گھی کے ڈبے کے تَلچَھٹ اُلٹ کر اُس کو ایک مرتبہ چُپڑ دیا، توحضورﷺ خودبھی اُس کومزے لے کر نوش فرمارہے تھے، اور دوسروں کوبھی کھلاتے تھے۔ فرمایا: کون سا بسترہ عمدہ ہوتا تھا جو تیرے یہاں بچھاتے تھے؟ عرض کیا: ایک موٹا سا کپڑا تھا، گرمی میں اُس کوچوہراکرکے بچھالیتے تھے، اور سردی میںآدھے کوبچھا لیتے اور آدھے کو اوڑھ لیتے، فرمایا کہ: حفصہ! اُن لوگوں تک یہ بات پہنچادے کہ: حضورﷺ نے اپنے طرزِعمل سے ایک اندازہ مقرَّر فرمادیا، اوراُمید (آخرت) پر کِفایت فرمائی، مَیں بھی حضورﷺکا اِتِّباع کروںگا، میری مثال اورمیرے دو ساتھی: حضورِاقدس ﷺاور حضرت ابوبکرصدیقص کی مثال اُن تین شخصوں کی سی ہے جو ایک راستے پرچلے، پہلا شخص ایک توشہ لے کرچلا اورمقصد کو پہنچ گیا، دوسرے نے بھی پہلے کا اِتباع کیا اور اُسی کے طریقے پرچلا، وہ بھی پہلے کے پاس پہنچ گیا، پھر تیسرے شخص نے چلنا شروع کیا، اگروہ اُن دونوں کے طریقے پرچلے گا تواُن کے ساتھ مل جائے گا، اور اگر اُن کے طریقے کے خلاف چلے گا توکبھی بھی اُن کے ساتھ نہیں مِل سکے گا۔

أَنَّ حَفْصَةَ، قَالَتْ لِعُمَرَ: ‌أَلَا ‌تَلْبَسْ ‌ثَوْبًا ‌أَلْيَنَ ‌مِنْ ‌ثَوْبِكَ، وَتَأْكُلُ طَعَامًا أَطْيَبَ مِنْ طَعَامِكَ؟ فَقَالَ: «سَأُخَاصِمُكِ إِلَى نَفْسِكِ»، فَجَعَلَ يُذَكِّرُهَا مَا كَانَ فِيهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا كَانَتْ فِيهِ مِنْ الْجَهْدِ حَتَّى أَبْكَاهَا، فَقَالَ: " قَدْ قُلْتُ لَكِ: إِنَّهُ كَانَ لِي صَاحِبَانِ سِلْكًا طَرِيقًا، وَإِنِّي إِنْ سَلَكَتُ غَيْرَ طَرِيقِهِمَا، سُلِكَ بِي غَيْرُ طَرِيقِهِمَا، وَإِنِّي وَاللهِ لَأُشَارِكَنَّهُمَا فِي مِثْلِ عَيْشِهِمَا، لَعَلِّي أَنْ أُدْرِكَ مَعَهُمَا عَيْشَهُمَا الرَّخِيَّ

[السنن الكبرى للنسائي:11806، المستدرك على الصحيحين للحاكم:424، تاريخ دمشق لابن عساكر:44/ 289]


فائدہ:

یہ اُس شخص کاحال ہے جس سے دنیا کے بادشاہ ڈرتے تھے، کانپتے تھے، کہ کس قدر زاہِدانہ زندگی کے ساتھ عمرگزار دی۔ ایک مرتبہ آپ صخطبہ پڑھ رہے تھے، اورآپص کی لنگی میں بارہ پیوندتھے جن میں سے ایک چمڑے کابھی تھا۔ ایک مرتبہ جمعہ کی نمازکے لیے تشریف لانے میں دیر ہوئی، توتشریف لاکرمعذِرت فرمائی، کہ مجھے اپنے کپڑے دھونے میں دیرہوئی، اور اِن کپڑوں کے عِلاوہ اَور تھے نہیں۔

[اَشہُر المشاہیر الاسلام: ۲ / ۴۲۶ - ۴۲۸]

ایک مرتبہ حضرت عمر صکھانانوش فرمارہے تھے، غلام نے آکر عرض کیاکہ: عُتبہ بن اَبی فَرقَدص حاضر ہوئے ہیں، آپ نے اندر آنے کی اجازت فرمائی اور کھانے کی تواضع فرمائی، وہ شریک ہوگئے، تو ایسا موٹا کھانا تھاکہ نِگلا نہ گیا، اُنھوں نے عرض کیا کہ: چھَنے ہوئے آٹے کا کھانا بھی تو ہوسکتا تھا، آپص نے فرمایا: کیا سب مسلمان مَیدہ کھا سکتے ہیں؟ عرض کیا کہ: سب تو نہیں کھاسکتے، فرمایا کہ: افسوس! تم یہ چاہتے ہوکہ مَیں اپنی ساری لَذَّتیں دنیا ہی میں ختم کردوں!۔ 

[أسد الغابة في معرفة الصحابة:4/ 150]






(1) خطبہء جمعہ میں سنائی جانے والی نبوی نصیحت»

مسلمانوں کیلئے سایہ خداوندی عادل سلطان:

حضرت ابوبکرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سلطان زمین پر الله کا سایہ ہے۔۔۔

[السنة ابن ابي عاصم(م287ھ)» حدیث#1024]

جو اس کا اکرام(عزت)کرے گا ﴿دنیا میں﴾ تو الله اس کا اکرام کرے گا﴿قیامت کے دن﴾، اور جس نے اس کی توہین کی ﴿دنیا میں﴾ تو الله اس کو بےعزت کرے گا ﴿قیامت کے دن﴾۔

[﴿مسند(امام)احمد بن حنبل(م241ھ)» حدیث#20433﴾ظلال الجنة-الباني:1024]


حضرت کثیر بن مرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بےشک سلطان سایہ ہے الله کا زمین میں، پناہ حاصل کرتا ہے اس کے ذریعہ ہر مظلوم اس(الله)کے بندوں میں سے، تو جب وہ عدل کرے تو اس(سلطان)کیلئے اجر ہے اور اس کی رعیت(عوام)پر شکر(لازم)، اور جب وہ ظلم کرے تو اس پر اس کا بوجھ ہے اور رعیت پر صبر(یعنی دین پر ثابت قدمی لازم ہے)۔

[الاموال (امام)ابن زنجویہ(م251ھ): حدیث#32]



(2) کس سلطان کی تعظیم، الله کی تعظیم ہے؟

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بےشک الله کی تعظیم میں سے، اکرام(عزت و تعظیم کرنا شامل)ہے (1)بوڑھے مسلمان کی، (2)حافظِ قرآن کی جو نہ(حد سے بڑھنے والا)غالی ہو اور نہ ہی(بےوفائی کرنے والا)جافی ہو، (3)اور "عادل" سلطان کی۔

[ابوداؤد:4843]

یعنی

بغیر-عادل-سلطان کے، الله کی تعظیم کے ایک حصہ سے محرومی ہوتی ہے۔




(3) زمین میں الله کا سایہ کون سا سلطان ہے؟

حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مت برا بھلا کہو سلطان کو، کیونکہ وہ سایہ ہے الله کا زمین پر، کہ اسی کے ذریعہ الله قائم کرتا ہے حق کو، اور غالب کرتا ہے دین کو، اور اسی کے ذریعہ الله اُٹھا(مِٹا)دیتا ہے ظلم کو، اور ہلاک کرتا ہے فاسقین(نافرمانوں)کو۔

[فضيلة العادلين من الولاة-ابونعيم(م430ھ)» حدیث:41]




(4) سلطان سے ظالم کے خلاف مدد حاصل کی جاتی ہے۔

حضرت مخارقؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرا مال چھیننا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے اللہ تعالیٰ سے نصیحت کر۔‘‘ اس نے کہا: اگر وہ نصیحت نہ مانے تو؟ آپ نے فرمایا: اپنے آس پاس کے مسلمانوں سے مدد حاصل کر۔ اس نے کہا: اگر میرے آس پاس کوئی مسلمان نہ ہوں تو؟ آپ نے فرمایا: سلطان سے مدد طلب کر۔ اس نے کہا: اگر سلطان بھی مجھ سے دور ہو؟ فرمایا: پھر اپنے مال کی حفاظت کے لیے لڑائی کر حتی کہ تو آخرت میں شہید بن جائے یا اپنے مال کو بچالے۔

[سنن النسائی:4086]




(5) بغیر سلطان مرنا نافرمانی-گمراہی میں مرنا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جو شخص اپنے امیر(وزیر/گورنر) میں کوئی "ناپسندیدہ" بات دیکھے تو صبر کرے، اور اگر کوئی سلطان کی اطاعت سے بالشت بھر بھی خارج ہوا(باہر نکلا) تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔

[صحیح مسلم:105(292)]

یعنی شرعی سزائیں نافذ کرنے والے سلطان کی سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے۔



(6) سلطان کو برا-بھلا کہنے پر نبوی ڈانٹ:

حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ سے روایت ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا:

لا تَسُبُّوا السُّلْطَانَ، فَإِنَّهُ ظِلُّ اللَّهِ فِي الأرض۔

مت برابھلا کہو سلطان کو، کیونکہ وہ سایہ ہے الله کا زمین میں۔

[السنة لابن أبي عاصم:1013، ظلال الجنة للألباني:1024]



(7) سلطان ہو تو مسلمان کو مناسب نہیں کہ اس زمین کے علاؤہ کسی زمین میں ہمیشہ رہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سلطان سایہ ہے الله کا زمین پر، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ایک داخل ہو کسی شہر میں جہاں کوئی سلطان نہیں تو وہ اس میں نہ ٹھہرے۔

[جامع الأحادیث:13350]


(8) سلطان طالم ہوسکتا ہے؟

سلطان سے عدل میں کوتاہی ممکن ہے؟

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

بےشک سب سے بڑے جہاد میں سے ہے حق کا کلمہ کہنا ظالم سلطان کے پاس۔

[سنن الترمذي:2174]

افضل جہاد ہے عدل کا کلمہ کہنا ظالم سلطان-یا-ظالم امیر کے پاس۔

[سنن أبي داود:4344، سنن ابن ماجه:4011]




 



خلیفہ کو مقرر کرنا مسلمانوں پر قیامت تک فرضِ کفایہ ہے:


(1) ایک لمحہ بھی بیعتِ خلافت سے غافل نہ گزارنا۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے:

«‌مَنْ ‌مَاتَ ‌وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً»

جو شخص اس حال میں مرے کہ اس کی گردن میں (کسی خلیفہ کی) بیعت (کا تعلق) نہ ہو تو وہ جاہلیت کی (سی) موت مرا۔

[المعجم الكبير للطبراني:769]

[صحيح مسلم:1851]


امامتِ کبریٰ اور خلافت:

دوسری روایت میں ہے:

من ‌مَاتَ ‌وَلَيْسَ لَهُ إِمَامٌ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً۔

جسے موت آئے اور نہ ہو اس کا کوئی (اللہ کا فرمانبردار) امام، تو وہ مرا جاہلیت(نافرمانی - گمراہی) کی موت۔

[صحيح موارد الظمآن: 1288 وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: صحيح]


اور اللہ پاک نے فرمایا:

فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ

لہذا اپنی اس بیعت پر خوشی مناؤ جو تم نے اللہ سے کرلی ہے۔

[سورۃ التوبہ:111]


امام ابن حبانؒ (م354ھ) نے اس حدیث کے باب کو یہ نام دیا:

‌‌ذِكْرُ الزَّجْرِ عَنْ تَرْكِ اعْتِقَادِ الْمَرْءِ الْإِمَامَ الَّذِي يُطِيعُ اللَّهَ جَلَّ وَعَلَا فِي أَسْبَابِهِ

ترجمہ:

ذکر ڈان٘ٹنے کا۔۔۔اعتقاد چھوڑنے پر۔۔۔اس امام کا۔۔۔جو اپنے مقاصد میں۔۔۔اللہ جل وعلا کی اطاعت کرتا ہے۔

[صحيح ابن حبان:4573]


ابن ہانی نے کہا: میں پوچھا امام احمدؒ سے کہ امام کون؟

فرمایا: جس پر تمام مسلمان جمع ہوتے ہیں۔

[الجامع لعلوم الإمام أحمد:‌‌967(‌‌2917)، السنة لأبي بكر بن الخلال:10]


امام ابن ابی عاصمؒ (م287ھ)نے اس حدیث کے باب کو یہ نام دیا:

‌‌بَابٌ فِي ذِكْرِ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ

(امام کی) سننے اور ماننے کے بیان میں۔

[السنة لابن أبي عاصم:1057]


وصال نبوی میں نبی ﷺ کی جسم پاک کو غسل وکفن کا انتظام کا ہر ایک پر فرض نہیں تھا کیونکہ یہ فرضِ کفایہ ہے، اور کسی امیر(خلیفہ) کو مقرر کرنے کیلئے بیعت کرنا اول مرحلہ میں ہی سب پر فرض نہیں یعنی یہ بھی فرضِ کفایہ ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:

صحابہ کرام کی توجہ نبی ﷺ کے دفن سے بھی پہلے خلیفہ کا تعین وتقرر کی طرف مائل ہوئی لہٰذا (معلوم ہوا کہ) اگر صحابہ کرام کو شریعت کی چرف سے خلیفہ مقرر کرنے کی فرضیت (اور اس کے مقرر کرنے میں تاخیر کی معلوم) نہ ہوتی تو وہ حضرات ہرگز خلیفہ کو تقرر کو نبی ﷺ کے دفن پر مقدم نہ کرتے۔ یہ تقریر (صرف صحابہ کرام کے فعل کو ثابت نہیں کرتی بلکہ) نبی ﷺ سے اجمالا دلیلِ شرعی (کا خاص اس مسئلہ میں پایا جانا) ثابت کرتی ہے۔

[ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء: ج1 ص17]




(2) بغیر امام امت محفوظ نہیں، لہٰذا امام مقرر کرنا ہر صورت لازمی ہے:

(1) امامتِ کُبریٰ(پوری امت پر اکیلی سربراہی) کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا:

امام (leader) ڈھال ‌ہے، ‌اس ‌كے ‌پیچھے ‌مسلمان(كافروں ‌سے)لڑتے ہیں ‌اور ‌اس کی وجہ سے بچتے ‌ہیں(ظالموں اور لٹیروں سے)، ‌پھر ‌اگر ‌وہ ‌حكم ‌كرے ‌اللہ ‌سے ‌ڈرنے ‌كا ‌اور ‌انصاف ‌كرے ‌تو ‌اس ‌كو ‌ثواب ‌ہوگا، ‌اور ‌جو ‌اس ‌كے ‌خلاف ‌حكم ‌دے تو ‌اس ‌پر ‌وبال ‌ہوگا۔

[سنن نسائی:4196]


(2)امامتِ صُغریٰ(بعض مسلمانوں پر وقتی امامتِ نماز وغیرہ) کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا:

امام ڈھال ہے (یعنی تم اس کے پیچھے پیچھے رہو)، چنانچہ جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو اور جب وہ سمع الله لمن حمده كہے تو تم {اللهم،ربنا لك الحمد} کہو کیونکہ جب زمین والے کا کہا ہوا آسمان والوں کے کہنے کے موافق ہو جائے گا تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔

[صحیح مسلم:416(934)، صحیح ابن خزیمہ:1597]

تفسیر سورۃ البقرۃ:246




(3) مسلم سلطان کی نافرمانی-گمراہی میں مرنا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جو شخص اپنے امیر میں کوئی "ناپسندیدہ" بات دیکھے تو صبر کرے، اور اگر کوئی سلطان کی اطاعت سے بالشت بھر بھی خارج ہوا(باہر نکلا) تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔

[صحیح مسلم:105(292)]

جو آدمی مسلمانوں کا امیر ہو اور پھر ان کی بھلائی کے لئے جدوجہد نہ کرے اور خلوص نیت سے ان کا خیر خواہ نہ ہو تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا۔
[صحيح مسلم:366(142)، مسند الروياني:1299، السنن الكبرى للبيهقي:17901]



امارت-امیر:

اللہ عزوجل نے فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ 

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور امر والوں کا بھی جو تم میں سے ہوں۔

[سورۃ النساء:59]

امر یعنی حکم، امیر یعنی حاکم۔ یہاں اردو امیر یعنی دولت والا مراد نہیں۔(1)امیروں(حاکموں)کا حکم ماننا تب ہی ممکن ہوگا جب امیر ہوگا۔

(2) امیروں(حاکموں) کا مومنوں ہی میں سے ہونا لازم ہے لہٰذا غیرمسلم(مثلاً: قادیانی) کو خود حکومتی منصب دینا اور خود اس کی اطاعت کرنا یا اس پر راضی ہونا حرام ہے۔

(3)امیروں کی اطاعت اس لئے لازم ہے کہ وہ الله اور رسول کے احکام ہی کو نافذ العمل بناتے ہیں۔

(2) بغیرامیر اطاعتِ نبوی نامکمل۔

رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔

[صحیح مسلم:1835]


(3) کتاب الله کی طرف راہنمائی کرنے والا امیر کیسا ہی بدصورت یا کم-حیثیت ہو، اسکی اطاعت لازم ہے۔

حضرت عبادہ بن صامت اور ام حصین ؓ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اگر کسی ناک اور کان کٹے ہوئے ﴿حبشی-کالا﴾ غلام کو تمہارا "امیر" مقرر کر دیا جائے اور وہ اللہ کی کتاب کے مطابق تمہاری راہنمائی کرے تو پھر اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔

[﴿صحیح بخاری:7142﴾ صحیح مسلم:1298-1837-1838﴾ ترمذی:1706، ابن ماجہ:2861-2862]


(1) امیر کتاب الله کا عالم نہ ہوگا تو اس سے کیسے ہدایت دے سکے گا۔

(2) عالم-امیر بظاہر چاہے جتنا بھی ناپسند ہو اس کی بیعت اور اطاعت لازم ہے۔



ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملہ میں امیر مقرر کرنا، چاہے معاملہ عارضی ہو۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے:

«إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ ‌فَلْيُؤَمِّرُوا ‌أَحَدَهُمْ»

جب تین افراد کسی سفر میں ہوں تو ہوئے کہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنالیں.

[سنن أبي داود:2608، صحيح ابن خزيمة:2541]

[السياسة الشرعية في إصلاح الراعي والرعية - ابن تيمية (م728ھ) : ص238]

[بذل النصائح الشرعية فيما على السلطان وولاة الأمور وسائر الرعية - أبو حامد المقدسي (م896ھ) : ص1/108]







مسلم سلطان کی ضرورت:

حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مت برا بھلا کہو سلطان کو، کیونکہ وہ سایہ ہے الله کا زمین پر، کہ اسی کے ذریعہ الله قائم کرتا ہے حق کو، اور غالب کرتا ہے دین کو، اور اسی کے ذریعہ الله اُٹھا(مِٹا)دیتا ہے ظلم کو، اور ہلاک کرتا ہے فاسقین(نافرمانوں)کو۔

[فضيلة العادلين من الولاة-ابونعيم(م430ھ)» حدیث:41]




خطبہء جمعہ میں سنائی جانے والی نبوی نصیحت»

مسلمانوں کیلئے سایہ خداوندی عادل سلطان:

حضرت ابوبکرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سلطان زمین پر الله کا سایہ ہے۔۔۔

[السنة ابن ابي عاصم(م287ھ)» حدیث#1024]

جو اس کا اکرام(عزت)کرے گا ﴿دنیا میں﴾ تو الله اس کا اکرام کرے گا﴿قیامت کے دن﴾، اور جس نے اس کی توہین کی ﴿دنیا میں﴾ تو الله اس کو بےعزت کرے گا ﴿قیامت کے دن﴾۔

[﴿مسند(امام)احمد بن حنبل(م241ھ)» حدیث#20433﴾ظلال الجنة-الباني:1024]


حضرت کثیر بن مرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بےشک سلطان سایہ ہے الله کا زمین میں، پناہ حاصل کرتا ہے اس کے ذریعہ ہر مظلوم اس(الله)کے بندوں میں سے، تو جب وہ عدل کرے تو اس(سلطان)کیلئے اجر ہے اور اس کی رعیت(عوام)پر شکر(لازم)، اور جب وہ ظلم کرے تو اس پر اس کا بوجھ ہے اور رعیت پر صبر(یعنی دین پر ثابت قدمی لازم ہے)۔

[الاموال (امام)ابن زنجویہ(م251ھ): حدیث#32]




عادل سلطان کی تعظیم، الله کی تعظیم ہے۔

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بےشک الله کی تعظیم میں سے، اکرام(عزت و تعظیم کرنا شامل)ہے (1)بوڑھے مسلمان کی، (2)حافظِ قرآن کی جو نہ(حد سے بڑھنے والا)غالی ہو اور نہ ہی(بےوفائی کرنے والا)جافی ہو، (3)اور "عادل" سلطان کی۔

[ابوداؤد:4843]

یعنی

بغیر-عادل-سلطان کے، الله کی تعظیم کے ایک حصہ سے محرومی ہوتی ہے۔



أَهْلُ الْجَنَّةِ ثَلَاثَةٌ: ذُو سُلْطَانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ۔۔۔۔

جنت والوں میں تین(طرح کے لوگ) ہیں: (1) انصاف کرنے والا سلطان، (جو) صدقہ کرنے والا ، اچھائی کی توفیق دیا گیا ہے۔۔۔۔

[صحیح مسلم:7207(2865)]



سلطان سے ظالم کے خلاف مدد حاصل کی جاتی ہے۔

حضرت مخارقؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرا مال چھیننا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے اللہ تعالیٰ سے نصیحت کر۔‘‘ اس نے کہا: اگر وہ نصیحت نہ مانے تو؟ آپ نے فرمایا: اپنے آس پاس کے مسلمانوں سے مدد حاصل کر۔ اس نے کہا: اگر میرے آس پاس کوئی مسلمان نہ ہوں تو؟ آپ نے فرمایا: سلطان سے مدد طلب کر۔ اس نے کہا: اگر سلطان بھی مجھ سے دور ہو؟ فرمایا: پھر اپنے مال کی حفاظت کے لیے لڑائی کر حتی کہ تو آخرت میں شہید بن جائے یا اپنے مال کو بچالے۔

[سنن النسائی:4086]







سلطان کو برا-بھلا کہنے پر نبوی ڈانٹ:

حضرت ابو عبیدہؓ سے روایت ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا:

لا تَسُبُّوا السُّلْطَانَ، فَإِنَّهُ ظِلُّ اللَّهِ فِي الأرض۔

مت برابھلا کہو سلطان کو، کیونکہ وہ سایہ ہے الله کا زمین میں۔

[السنة لابن أبي عاصم:1013، ظلال الجنة للألباني:1024]






سلطان ہو تو مسلمان کو مناسب نہیں کہ اس زمین کے علاؤہ کسی زمین میں ہمیشہ رہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سلطان سایہ ہے الله کا زمین پر، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ایک داخل ہو کسی شہر میں جہاں کوئی سلطان نہیں تو وہ اس میں نہ ٹھہرے۔

[جامع الأحادیث:13350]



سلطان سے عدل میں کوتاہی ممکن ہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بےشک سب سے بڑے جہاد میں سے ہے حق کا کلمہ کہنا ظالم سلطان کے پاس۔

[سنن الترمذي:2174]

افضل جہاد ہے عدل کا کلمہ کہنا ظالم سلطان-یا-ظالم امیر کے پاس۔

[سنن أبي داود:4344، سنن ابن ماجه:4011]








اسلام میں حکومتی مناصب والقاب

(1) نبوت-نبی:

(2) امامت-امام

(3) خلافت-خلیفہ

(4) سلطنت وملوکیت-سلطان وبادشاہ

(5) امارت-امیر

(6) ولایت-والی،متولی


نبوی سچی پیشگوئیاں »

حضرت ابن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ نبی  نے ارشاد فرمایا:

»أول هذا الأمر نبوة ورحمة، ثم يكون خلافة ورحمة، ثم يكون ملكا ورحمة، ثم يكون إمارة ورحمة، ثم يتكادمون عليه تكادم الحمر فعليكم بالجهاد، وإن أفضل جهادكم الرباط، وإن أفضل رباطكم عسقلان۔«

"سب سے پہلے نبوت و رحمت ہوگی، پھر خلافت و رحمت ہوگی، پھر بادشاہت ورحمت ہوگی، اور پھر امارت و رحمت ہوگی اور اس کے بعد لوگ اس حکومت کو حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کو گدھے کی طرح کاٹیں گے. اس دور میں تم جہاد کو لازم پکڑنا، اور تمہارا افضل جہاد الرباط (یعنی سرحدوں کی حفاظت) ہے اور افضل رباط عسقلان شہر کا رباط ہے."

[المعجم الكبير الطبراني:11138، مجمع الزوائد: 8964، سلسلة الأحاديث الصحيحة: 3270]

 

حضرت عمر بن الخطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«إِنَّ اللَّهَ بَدَأَ هَذَا الْأَمْرَ حِينَ بَدَأَ بِنُبُوَّةٍ وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ يَعُودُ إِلَى خِلَافَةٍ، ثُمَّ يَعُودُ إِلَى سُلْطَانٍ وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ يَعُودُ ‌مُلْكًا ‌وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَعُودُ جَبْرِيَّةً تَكَادَمُونَ تَكَادُمَ الْحَمِيرِ، أَيُّهَا النَّاسُ، عَلَيْكُمْ بِالْغَزْوِ وَالْجِهَادِ مَا كَانَ حُلْوًا خَضِرًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ مُرًّا عَسِرًا، وَيَكُونُ تَمَامًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ رِمَامًا - أَوْ يَكُونَ حُطَامًا -، فَإِذَا أَشَاطَتِ الْمَغَازِي وَأُكِلَتِ الْغَنَائِمُ وَاسْتُحِلَّ الْحَرَامُ، فَعَلَيْكُمْ بِالرِّبَاطِ فَإِنَّهُ خَيْرُ جِهَادِكُمْ»

بےشک اللہ نے ابتداء کی اس معاملہ(حکمرانی) کی(1)نبوت اور رحمت سے، (2)پھر(یہ معاملہ)لوٹے گا خلافت کی طرف، (3)پھر لوٹے گا(یہ معاملہ)سلطانی اور رحمت کی طرف، (4)پھر لوٹے گا ملوکیت(بادشاہت)اور رحمت کی طرف، (5)پھر لوٹے گا جبریت کی طرف، حکمرانی کیلئے ایک دوسرے کو گدھوں کی طرح کاٹیں گے۔ اے لوگو! غزوہ اور جہاد کو لازم پکڑو، یہ سرسبز میٹھا نہیں تھا کہ اب یہ تمہیں کڑوا - یا شورا - محسوس ہوتا ہے، اور یہ بوسیدہ ہونے سے پہلے ختم نہیں ہوسکتا، جب جہاد چھوڑدیا جائے اور غنیمتیں کھائی جائیں، حرام کو حلال سمجھا جائے، تو تم پر دفاع لازم ہے کیونکہ اس وقت تمہارے لئے جہاد ہوگا۔

[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 8459]

 

حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَدَأَ هَذَا الْأَمْرَ ‌نَبُوَّةً ‌وَرَحْمَةً، وَكَائِنًا خِلَافَةً وَرَحْمَةً وَكَائِنًا مُلْكًا ‌عَضُوضًا وَكَائِنًا عَنْوَةً وَجَبْرِيَّةً وَفَسَادًا فِي الْأَرْضِ يَسْتَحِلُّونَ الْفُرُوجَ وَالْخُمُورَ وَالْحَرِيرَ وَيُنْصَرُونَ عَلَى ذَلِكَ وَيُرْزَقُونَ أَبَدًا حَتَّى يَلْقَوُا اللَّهَ»

ترجمہ :

اللہ تعالیٰ نے اس دین کی ابتدا نبوت اور رحمت سے فرمائی، پھر (دورِ نبوت کے بعد) خلافت اور رحمت کا دور ہوگا، اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی، اس کے بعد خالص آمریت، جبر واستبداد اور امت کے عمومی بگاڑ کا دور آئے گا ؛ یہ لوگ زنا کاری، شراب نوشی اور ریشمی لباس پہننے کو حلال کرلیں گے اور اس کے باوجود، ان کی مدد بھی ہوتی رہے گی اور انہیں رزق بھی ملتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حضور پیش ہوں گے (یعنی مرتے دم تک)۔

[مسند أبي داود الطيالسي:225، (تفسیر ابن کثیر:سورۃ النور:55)]


=========================

(1)پہلا دور» نبوت ورحمت:

فرمایا:

أول هذا الأمر نبوة ورحمة۔

ترجمہ:

پہلے یہ معاملہ(دین) نبوت اور رحمت ہوگا۔

[(الطيالسي:225) حاکم:8459، الطبراني:11138]


اس دین کی ابتدا یا اس کا ظہور نبوت اور رحمت سے ہوا ہے؛ یعنی لوگوں کے دین ودنیا کی اصلاح کے لیے اللہ نے جس چیز کو اتارا، یعنی اسلام کی ابتدا نبوت ورحمت سے ہوئی ہے؛ چناں چہ حضرت آدمؑ سے لے کر محمد ﷺ تک یہ سلسلۂ نبوت جاری رہا، جس کو اللہ نے بندوں پر رحمت وشفقت کے طور پر جاری فرمایا تھا۔


اللہ تعالیٰ سب حاکموں کا حاکم ہے۔[سورۃ ھود:45] اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔[آل عمران:26]۔


جس نے ہر قوم[الرعد:7]

ہر امت[فاطر:24]

ہر بستی[الشعراء:208]

میں لوگوں کیلئے ہدایت[سورۃ آل عمران:4]

روشنی[ابراھیم:1]

مومنوں کیلئے بشارت[النمل:2]اور رحمت[لقمان:3] اور شفاء[فصلت:44]

عقلمندوں کیلئے نصیحت[غافر:54] نازل فرمائی ہے۔


اس(نبی)کی قوم کی زبان میں[ابراھیم:4]


اپنے "بندوں" میں سے(نبی-رسول)خود منتخب کرتا-چنتا ہے۔[الحج:75، النمل:59]

بھیجتا ہے[القصص:99، غافر:34]

کیونکہ وہ زیادہ جانتا ہے کہ کہاں رکھے-بھیجے اپنی رسالت۔[الانعام:124]

 

رسالت کہتے ہیں پیغام "پہنچانے"[المائدۃ:67] کی ذمہ داری کو۔ اور اس کے ذمہ دار بندے کو رسول کہتے ہیں۔[آل عمران:53]

اور

اسی طرح ھدایت کرنے[الانبیاء:73] خبر بتلانے[الحجر:49-50] کی ذمہ داری کو نبوت[آل عمران:79] کہتے ہیں۔ اور انبیاء بھی اللہ کے "بھیجے" ہوئے(رسول)ہیں۔[الزخرف:6]

لیکن شرعی رسول پر الگ کتاب[آل عمران:79] اور نئے احکام[الانعام:89] منہج-طریق[المائدۃ:48] دئے جاتے ہیں۔


*نبی اور رسول میں فرق:*

(1)نبی صرف انسانوں میں ہوتے اور رسول ملائکہ اور انسان دونوں میں ہوتے ہیں۔

اللہ چنتا ہے رسول(پیغام پہنچانے والے) ملائکہ میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی۔[الحج:75]

یعنی

ملائکہ میں سے پیغامِ الٰہی پہنچانے کیلئے چنا ہوا جبریلؑ روح الامین ہے[الشعراء:123] کیونکہ ملائکہ کی طرف وحی کرتا(ذمہ داری سونپتا) ہے اللہ[الانفال:12]۔۔۔ تاکہ وہ نازل کرے نبی کے دل پر[البقرۃ:97]

۔۔۔ جبکہ ۔۔۔

لوگوں میں سے چنے ہوئے (خاص) بندوں[النمل:59] کو پیغامِ الٰہی پہنچانے والے(رسول) بھیجے۔۔۔

انہیں میں[البقرۃ:129، المومنون:32، الصافات:72]

انہی کے نفسوں(جنس)میں سے[آل عمران:164]

تمہارے نفسوں(جانوں)میں سے[التوبۃ:128]

بشر(آدمی)کو[سورۃ الانعام:91، ابراھیم:11، الکھف:110، فصلت:6، الشوريٰ:51]

رجل(مرد)کو[سورۃ الاعراف:63+69، يونس:2]

یعنی

جن اور عورت میں کوئی رسول یا نبی نہیں بھیجا۔

 

 

 

(2) بشری نبی اور بشری رسول میں فرق:

ہر نبی پر وحی بھیجی جاتی ہے اور نبوت عطا ہوتی ہے[] پچھلے رسول کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔[المائدۃ:44]

اور

رسول کو نبوت، حکم وشریعت اور کتاب بھی دی جاتی ہے۔
الگ نئی کتاب[آل عمران:79] جیسے:حضرت داؤدؑ کو زبور[النساء:163، الاسراء:55]، حضرت عیسیٰؑ کو انجیل[الحدید:27]

اور

حکم [الانعام:89] یعنی الگ شریعت[المائدۃ:48]

جیسے:

پہلے قبلہ بیت المقدس(مسجد اقصیٌٰ) تھا اور اب بیت اللہ(مسجد الحرام)[سورۃ البقرۃ:142-145، الاسراء:1]

 

 

مشترکاتِ انبیاء اور رسل:

(1) وحی: دونوں پر نازل ہوتی ہے۔ یعنی پیغامِ الٰہی پہنچانے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔[النساء:163]

(2) بنیادی کلمہ، عقیدہ اور پیغامِ وحی یہی تھی کہ۔۔۔نہیں ہے کہوئی معبود سوائے اللہ کے، لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔[الانبیاء:25]

 

 پیغمبر اور اوتار میں فرق:

عیسیٰ بھی رسول ہی ہیں(خدا نہیں)پہلے رسولوں کی طرح۔۔۔کہ وہ بھی کھاتے پیتے ہیں۔[المائدۃ:75]

محمد بھی رسول ہی ہیں پہلے رسولوں کی طرح۔۔۔یعنی وہ قتل یا فوت ہوسکتے ہیں۔[آل عمران:144]

کہدیجیئے میں کوئی نیا رسول نہیں۔۔۔(یعنی دوسرے رسولوں کی طرح)۔۔۔میں بھی نہیں جانتا کہ میرے اور تم سب کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔[الاحقاف:9]

 

لیکن محمد رسول اللہ کو خاتم النبیین[الاحزاب:40] کو سب کی طرف[الاعراف:158] ساری انسانیت کیلئے[النساء:170، الحج:49، سبا:28] بھیجا۔


لہٰذا لازم ہے:

(1)ان پر ایمان لانا۔

[البقرۃ:177+285، النساء:136، الاعراف:158، النور:62، الاحزاب:15، الحدید:7المجادلۃ:4، الصف:11 التغابن:8، ]

(2)انکی عزت وتعظیم کرنا۔[الفتح:9]

(3)انکی اطاعت کرنا۔[النساء:64+80]

(4)انکی مدد کرنا۔[الاعراف:157]

یہ

جنت میں داخلے کا سبب ہے٫[النساء:14]

 

(1)ان کی نافرمانی کرنا۔[النساء:42]

جھٹلانا۔

[آل عمران:184، الانعام:34، الاعراف:92+101، النحل:113، الحج:42، المومنون:44، ق:14]

انکار کرنا کفر ہے[آل عمران:86، النساء:136+150+170]

(2)تمسخر اُڑانا[الزمر:56، الانعام:10،الانبیاء:41]

اور استہزاء کرنا کفر ہے[الکھف:106، التوبۃ:65]

اور ان سے بغض ودشمنی رکھنا بھی کفر ہے[البقرۃ:97]

انہیں قتل کرنا بھی کفر ہے[البقرۃ:61، آل عمران:21]

 

یہ کفر فورا دنیاوی سزا کا مستحق بناتا[الانعام:10، یٰس:30-31]

اور جہنم میں داخلے کا سبب ہے۔[الجن:23، النساء:15]۔




مقاصدِ نبوت:

(1) فرمانبرداروں کو خوشخبری دینا، (2) ظالموں کو ڈرانا، (3) اور لوگوں کے اختلافات میں فیصلہ کرنا۔

القرآن:

(شروع میں) سارے انسان ایک ہی دین کے پیرو تھے، پھر (جب ان میں اختلاف ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے جو (حق والوں کو) خوشخبری سناتے، اور (باطل والوں کو) ڈراتے تھے، اور ان کے ساتھ حق پر مشتمل کتاب نازل کی، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں ان کا اختلاف تھا۔ اور (افسوس کی بات یہ ہے کہ) کسی اور نے نہیں بلکہ خود انہوں نے جن کو وہ کتاب دی گئی تھی، روشن دلائل آجانے کے بعد بھی، صرف باہمی ضد کی وجہ سے اسی (کتاب) میں اختلاف نکال لیا، پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انہیں اپنے حکم سے حق کی ان باتوں میں راہ راست تک پہنچایا جن میں انہوں نے اختلاف کیا تھا، اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست تک پہنچا دیتا ہے۔

[سورۃ البقرۃ:213]



مقصدِ خاتم الانبیاء:

القرآن:

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اسے ہر دوسرے دین پر غالب کردے، چاہے مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی ناپسند ہو۔

[سورۃ التوبۃ:33، الصف:9]

اور (اس کی) گواہی دینے کے لیے اللہ کافی ہے۔

[سورۃ الفتح:28]



طریقہ اقامتِ دین:

(1) اشاعتِ علمِ دین:

وہی ہے جس نے اُمی(اَن-پڑھ)لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں، جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

[سورۃ الجمعۃ:2 (البقرۃ:129+آل عمران:164)]

تاکہ تم ان لوگوں کو خبردار کرو جن کے باپ دادوں کو پہلے خبردار نہیں کیا گیا تھا، اس لیے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

[سورۃ یٰس:6]



(2) ارکانِ اسلام کا قائم کرنا۔

اور ان سب(انبیاء)کو ہم نے امام بنایا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، اور ہم نے وحی کے ذریعے انہیں نیکیاں کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید کی تھی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔

[سورۃ الانبیاء:73]

یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں، اور برائی سے روکیں، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔

[سورۃ الحج:41]



نبوت کی شانیں:

(1)خلافتِ الٰہی:

اللہ پاک نے حضرت آدمؑ کیلئے فرمایا۔۔۔ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔۔۔[سورۃ البقرۃ:30]

(2)امامت من جانب اللہ:

اللہ پاک نے حضرت ابراھیمؑ سے فرمایا۔۔۔ میں تمہیں تمام انسانوں کا "امام" بنانے والا ہوں۔۔۔ابراہیم نے پوچھا: اور میری اولاد میں سے؟ اللہ نے فرمایا: میرا (یہ) عہد ظالموں کو شامل نہیں ہے۔[سورۃ البقرۃ:124] لہٰذا، ظالم امام نہیں۔

(3)ملوکیت وبادشاہت:

حضرت سلیمانؑ نے اللہ پاک سے دعا فرمائی: ۔۔۔اور مجھے سلطنت بخش دے [سورۃ ص:35] اور اللہ پاک نے بخش دی۔[البقرۃ:102]


امامت-امام:

امام عربی کا ماخوذ لفظ ہے، اس کا معنیٰ رہبر ہے۔ (جو مذکر و مونث دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے)جس کی جمع ائمہ ہے۔

اس کے استعمالات مندرجہ ذیل ہیں:

رہبر و رہنما، پیشوا، جس کی اقتداء کی جائے، نمونہ، واضح راستہ، قرآن، خلیفہ، امیر لشکر، مصلح و منتظم، ڈوری جس سے معمار عمارت کی سیدھ قائم کرتے ہیں.

[المنجد : صفحہ # 35]

سرغنہ، سردار، تسبیح کا بڑا دانہ نیز دیگر استعمالات۔


یہ اسلامی رہبری کا عہدہ ہے جو اکثر مسلمانوں کی جماعت کے رہنما ہو تو اس منصب کو امامتِ کُبریٰ کہتے ہیں۔ اور مسجد میں عبادت پر رہنما ہو تو اس منصب کو امامتِ صُغریٰ کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ اسلامی عبادت و تعلیمات کا عالم ہوتا ہے۔


اصطلاحی معانی:

کسی بھی فن کا معروف عالم۔ جیسے: فنِ حدیث میں امام بخاریؒ، فنِ فقہ میں امام ابو حنیفہؒ۔

فقہ میں پیش نماز کو امام کہا جاتا ہے۔




بغیر امام امت محفوظ نہیں، لہٰذا امام مقرر کرنا ہر صورت لازمی ہے:

(1) امامتِ کُبریٰ(پوری امت پر اکیلی سربراہی یعنی خلافتِ نبوی) کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا:

امام (راہنما) ڈھال ‌ہے، ‌اس ‌كے ‌پیچھے ‌مسلمان(كافروں ‌سے)لڑتے ہیں ‌اور ‌اس کی وجہ سے بچتے ‌ہیں(ظالموں اور لٹیروں سے)، ‌پھر ‌اگر ‌وہ ‌حكم ‌كرے ‌اللہ ‌سے ‌ڈرنے ‌كا ‌اور ‌انصاف ‌كرے ‌تو ‌اس ‌كو ‌ثواب ‌ہوگا، ‌اور ‌جو ‌اس ‌كے ‌خلاف ‌حكم ‌دے تو ‌اس ‌پر ‌وبال ‌ہوگا۔

[سنن نسائی:4196]


جسے موت آئے اور نہ ہو اس کا کوئی (اللہ کا فرمانبردار) امام، تو وہ مرا جاہلیت(نافرمانی - گمراہی) کی موت۔

[صحيح موارد الظمآن: 1288 وقال الشيخ شعيب الأرناؤوط: صحيح]


سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اول عادل امام(راہنما)۔۔۔۔
[بخاری:660، مسلم:1031، ترمذی:2391]

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بےشک لوگوں میں سب سے سخت عذاب قیامت کے دن ظالم امام(راہنما) کو ہوگا۔
[مسند أبي يعلى:1088، صَحِيح الْجَامِع: 1001 , صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب: 2185، الصحيحة:‌‌281]

عمرو بن حارث بن مصطلق کہتے ہیں: کہا جاتا تھا کہ قیامت کے روز سب سے سخت عذاب دو طرح کے لوگوں کو ہو گا: ایک اس عورت کو جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرے، دوسرے اس امام (راہنما) کو جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں۔ منصور کہتے ہیں کہ ہم نے امام(راہنما) کے معاملے میں پوچھا تو ہمیں بتایا گیا کہ اس سے مراد ظالم ائمہ ہیں، لیکن جو امام سنت قائم کرے تو گناہ اس پر ہوگا جو اسے ناپسند کرے۔
[ترمذی:359]

(2)امامتِ صُغریٰ(بعض مسلمانوں پر وقتی امامتِ نماز وغیرہ) کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا:

امام ڈھال ہے (یعنی تم اس کے پیچھے پیچھے رہو)، چنانچہ جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو اور جب وہ سمع الله لمن حمده كہے تو تم {اللهم،ربنا لك الحمد} کہو کیونکہ جب زمین والے کا کہا ہوا آسمان والوں کے کہنے کے موافق ہو جائے گا تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔

[صحیح مسلم:416(934)، صحیح ابن خزیمہ:1597]

تفسیر سورۃ البقرۃ:246

=========================


(2) دوسرا دور» خلافت ورحمت:

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

…..ثم يكون خلافة ورحمة……
ترجمہ:

.….پھر ہوگی خلافت اور رحمت…..

[(الطيالسي:225) حاکم:8459، الطبراني:11138]

 

خلافت یعنی نیابت، جانشینی، ولیعہدی۔ اسلامی مملکت کے سربراہ کو خلیفہ کہا جاتا ہے۔ شریعت کے مطابق اُمتِ مسلمہ کے امیر المومنین، امام، حاکم کو بھی خلیفہ کہا جاتا ہے۔

خلیفہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ ہیں نمائندہ یا جانشین۔ خلیفہ واحد ہے جمع کے لیے لفظ خلفاء کا استعمال کیا جاتا ہے۔


پہلے دورِ نبوت و رحمت کے بعد دوسرا دَور خلافت و رحمت کا ہوگا؛ چناں چہ حضرت خاتم النبیین  کے بعد آپ ﷺ کی پیش گوئیوں کے مطابق خلافت کا دور آیا اور یہ تیس(30) برس تک قائم رہا، جیسا کہ بعض احادیث میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔


«‌خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ‌ثَلَاثُونَ ‌سَنَةً، ‌ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ»

نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی، پھر دے گا اللہ ملک یا اپنا ملک جسے وہ چاہے گا۔

[سنن ابوداؤد: 4646، صحيح الجامع الصغير: 3257]

 

«‌الْخِلَافَةُ بَعْدِي فِي أُمَّتِي ‌ثَلَاثُونَ ‌سَنَةً، ‌ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ»

خلافت میرے "بعد" میری امت میں تیس سال ہوگی، پھر ہوگی ملوکیت(بادشاہت) اس(خلافت)کے بعد۔

[سنن ترمذی: 2226، مسند احمد: 21928، صحيح ابن حبان: 6943]


یعنی وہ حکومت نبوی منہج(طریقہ)پر ہوگی، اور یہ حضرت حسن بن علیؓ کے دور تک قائم رہی[البدایۃ والنہایۃ:11 /134] اور یہ دور بھی خدائی رحمت وشفقت کا دور تھا؛ اسی لیے نبوت کے منہاج پر چلنے والے خلفاء راشدین اس میں خلافت پر متمکن ہوئے۔

القرآن:

تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے، اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا۔ (بس) وہ میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔
[سورۃ النور:55]

 

خلفاء راشدین کون ہوسکتے ہیں؟

خلیفہ راشد کی خوبیاں سیدنا امام حسنؓ میں تو ملتی ہیں، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز تابعی میں نہیں، لہٰذا انہیں خلیفہ تو کہنا درست ہے لیکن راشد نہیں۔ کیونکہ یقینی راشدین، صحابہ کا طبقہ ہے۔

القرآن:

اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں۔ بہت سی باتیں ہیں جن میں وہ اگر تمہاری بات مان لیں تو خود تم مشکل میں پڑجاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پرکشش بنادیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے۔ ایسے ہی لوگ راشد(ٹھیک راستے والے)ہیں۔
[سورۃ الحجرات:7]

 

خلافت کا وعدہ، صحابہ میں "مہاجرین" سے ہے۔

القرآن:

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صرف اتنی بات پر اپنے گھروں سے ناحق نکالا گیا ہے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے …….. یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں، اور برائی سے روکیں، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔

[سورۃ الحج:40+41]

نوٹ:

خلفاء راشدین میں پہلے چار مہاجر تھے کہ جنہیں دین کیلئے مکہ سے اپنا گھر چھوڑنا پڑا، کیونکہ دین حب الوطنی تو سکھاتا ہے لیکن وطن پرستی نہیں کہ وطن کیلئے دین چھوڑدیا جائے۔

 

خلیفہ، مہاجر صحابہ میں "قریشی" خاندان سے ہوں گے۔

رسول اللہ  کا ارشاد ہے:

یہ خلافت قریش میں رہے گی، اور جو بھی ان سے دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سرنگوں اور اوندھا کر دے گا، جب تک وہ(قریش)دین کو قائم رکھیں گے۔

[صحیح البخاری:3800-7139]

لوگ تابع ہیں قریش کے اس شان(یعنی معاملہ امارت)میں۔

[مسلم:4701(1818)]

خیر اور شر میں بھی۔

[صحیح مسلم:4703(1819)]

انکے فرمانبردار انکے فرمانبرداروں کیلئے، اور انکے کافر انکے کافروں کیلئے۔

[صحیح مسلم:4702]

 

«يَكُونُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً.....كُلُّهُمْ مِنْ ‌قُرَيْشٍ

میرے بعد……میری امت میں……بارہ(12)خلیفہ ہوں گے…… یہ بارہ کے بارہ(خلیفہ)قبیلہ قریش سے ہوں گے.

[مسند أحمد:20805+20830+20860+21033، صحيح مسلم:1821-1822، السنة لابن أبي عاصم: 1123، مسند البزار:+4279+42844230، مسند أبي يعلى:7463+7463، مستخرج أبي عوانة: 7420+7421+7426+7434+7436+7437+7439، المعجم الكبير للطبراني: 1799، صحيح ابن حبان:6661+6662، المستدرك على الصحيحين للحاكم:6586+6589]

 

 

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے، ابوبکر تھوڑے ہی دن رہیں گے۔ چکی چلانے والا عزت سے زندگی گذارے گا اور شہادت کی موت پائے گا، پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! وہ کوں ہے؟ فرمایا: وہ عمر بن خطاب ہے۔ پھر آپ حضرت عثمان کی طرف متوجہ ہوئے، تم سے لوگ قمیص اتارنے(خلافت چھیننے) کی کوشش کریں گے جو اللہ نے تمہیں پہنائی ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر کوئی اتارے گا تو جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ داخل ہوجائے۔(جو ناممکن ہے)۔

[السنة لابن أبي عاصم:1152 +1169، المعجم الكبير للطبراني:12+ 142، الشريعة للآجري:1181، فضائل الخلفاء الراشدين لأبي نعيم الأصبهاني:198، معرفة الصحابة لأبي نعيم:64]

 

حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

۔۔۔۔۔ عَليّ ولي وكل مُؤمن بعدِي۔

علی ولي ہے ہر مومن کا میرے بعد۔

[السنن الكبرى للنسائي: 8420]

.....وَهُوَ وَلِيُّكُمْ بَعْدِي.

.....اور وه(علی)ولي ہے تمہارا میرے بعد۔

[السنن الكبرى للنسائي: 8421]

 

حضرت حسن رضی اللہ عنہ پانچویں خلیفہ راشد ہیں۔

[مآثر الإنافة في معالم الخلافة-امام ابن تیمیہ:١/١٠٥]

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تیس سال پورے ہوجاتے ہیں، آپ ربیع الاول ۴۱ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر اس وقت تک پورے تیس سال ہوتے ہیں، آپ کی وفات ربیع الاول ۱۱ھ میں ہوئی تھی، اس طرح کی پیشین گوئی نبوت کی واضح دلیل ہے۔

[البداية والنهاية-امام ابن كثير:۱۱؍۱۳۴]



=========================

(3)تیسرا دور» بادشاہت و رحمت:

پھر (حضرت کعبؓ کے فرمان اور) حضرت عمرؓ کی روایت کے مطابق نبی  نے ارشاد فرمایا:

…..ثُمَّ سُلْطَانٌ وَرَحْمَةٌ….

ترجمہ:

……پھر سلطنت(بادشاہت) اور رحمت ہوگی….

[حاکم:8459، الفتن لنعيم بن حماد:236 (الفتن لنعيم بن حماد:237)، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:6 /25]




دوسری روایات (حضرت ابوثعلبہؓ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ اور حضرت ابن عباسؓ) کے مطابق خلافت کے بعد، (سلطنت ورحمت کے بجائے) ملوکیت ورحمت فرمایا گیا:

ثم يكون ملكا ورحمة

ترجمہ:

پھر ہوگی ملوکیت(بادشاہت)اور رحمت ہوگی۔

[مسند ابوداؤد الطيالسي:225، المعجم الكبير للطبراني:11138]


سلطنت وملوکیت-سلطان وبادشاہ:

کسی ریاست یا صوبہ کے مرد حکمران کو سلطان کہا جا سکتا ہے۔ لیکن عام طور پر یہ اصطلاح مسلمان حکمران کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ خواتین مسلم حکمران سلطانہ کہلاتی ہے۔ جیسے: رضیہ سلطانہ۔ اور کافرہ حکمران خواتین ملکہ کہلاتی ہے۔ جیسے: بلقیس-ملکۂ سبا[حوالہ سورۃ النمل:23(مجمع الزوائد:9061)]

اس میں تمام اختیارات بادشاہ (مرد حاکم) یا ملکہ(خاتون حاکم) کو حاصل ہیں۔ آج کل دنیا میں 44 ممالک بادشاہت کے ماتحت ہیں۔ برونائی، عمان، سعودی عرب، قطر، ویٹیکن سِٹی، سوازی لینڈ وغیرہ ممالک میں تاریخی طور پر خود مختار بادشاہت قائم ہے۔ اس طرزِ حکومت میں بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کی اولاد نے جسے وہ نامزد کرے بادشاہ ہوتا ہے۔ بادشاہ جسے نامزد کرتا ہے اسے ولی عہد کہتے ہیں۔


خلافت پوری دنیا میں ایک ہی ہوتی ہے، البتہ ملوکیت وبادشاہت متعدد ہوسکتی ہے، چنانچہ ایک ہی زمانہ میں علاقے کے لحاظ سے متعدد سلاطینِ اسلام ہوئے ہیں، ملوکیت بھی خلافت کی طرح ایک عہدہ اور ذمہ داری ہے کیونکہ نبی ﷺ کے اندر خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت کی شان بھی موجود تھی۔

نیز ملوکیت اور بادشاہت بھی اللہ کی طرف سے ایک تحفہ اور انعام ہے، جیسا کہ سلیمان علیہ السلام نے ”وَهَبْ لِي ‌مُلْكًا“ یعنی اور مجھے سلطنت بخش دے [سورۃ ص:35] کی دعا کی اور اللہ نے ان کو خلافت کے ساتھ ساتھ بادشاہت بہی عطا کی تھی، جس پر دلالت کرنے والی بہت سی آیتیں قرآن میں موجود ہیں۔

[حوالہ جات؛ سورۃ البقرۃ:246+247، النساء:54]۔

اور بادشاہت کا طریقہ بھی اسلام میں موجود ہے، پس اُسے منسوخ کیسے کہا جائے گا، آنحضرت ﷺ کا ارشاد

«الْخِلَافَةُ بِالْمَدِينَةِ، ‌وَالْمُلْكُ ‌بِالشَّامِ»

یعنی خلافت مدینہ سے اور ملک وبادشاہی شام سے ہوگی۔

[حاكم:4440]

لہٰذا بادشاہت فی نفسہ مذموم شئ نہیں ہے۔


سلطان سے عدل میں کوتاہی ممکن ہے:

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

بےشک سب سے بڑے جہاد میں سے حق کا کلمہ کہنا ہے ظالم سلطان کے پاس۔

[سنن الترمذي:2174]

افضل جہاد ہے عدل کا کلمہ کہنا ظالم سلطان-یا-ظالم امیر کے پاس۔

[سنن أبي داود:4344، سنن ابن ماجه:4011]


حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”‏‏‏‏میری امت کے دو قسم کے افراد کے حق میں میری شفاعت قبول نہیں ہوگی: (١)انتہائی ظالم {دوسروں کو بے وقوف بنا کر جو ہاتھ لگے لے لینا والا} راہنما اور (٢)ہر وہ شخص {دین میں} غالی یعنی حد سے بڑھنے والا ہو، نکلنے والا ہو اس(دین) سے۔

[مساوئ الأخلاق للخرائطي:612، المعجم الكبير للطبراني:8079، صَحِيح الْجَامِع:3798، صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب:2218، الصَّحِيحَة:470]


الغرض جب آسمانی خلافت اور ملوکیت ختم ہوگئی تو دنیا کی خلافت اور بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا۔


جانشینی اور تمنائے ابراھیمی:

اللہ پاک نے حضرت ابراھیمؑ سے فرمایا۔۔۔ میں تمہیں تمام انسانوں کا "امام" بنانے والا ہوں۔۔۔ابراہیم نے پوچھا: اور میری اولاد میں سے؟ اللہ نے فرمایا: میرا (یہ) عہد ظالموں کو شامل نہیں ہے۔

[سورۃ البقرۃ:124]


جائز اور ناجائز اقرباء-پروری کا معیار:

قابل ہو تو قریبی(رشتہ دار)کی سفارش کرنا حق ہے، دوسروں پر زیادتی نہیں۔

القرآن:

اور(موسیٰ نے رب سے فرمایا کہ)میرے لیے میرے خاندان ہی کے ایک فرد کو وزیر(مددگار)مقرر کردیجیے۔

[سورۃ طٰهٰ:29]

بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی، اور ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو وزیر(مددگار)کے طور پر(ہم ہی نے)مقرر کیا تھا۔

[سورۃ الفرقان:35]




حدیثِ مبارکہ میں نبوی پیشگوئی کے مطابق دوسرے دورِ خلافت و رحمت کے بعد تیسرا دَور سلطنت و رحمت کا ہوگا۔ سلطنت سلطان کی ہوتی ہے اور سلطان کے متعلق احادیثِ مبارکہ یہ ہیں:

(1) خطبہء جمعہ میں سنائی جانے والی نبوی نصیحت»

مسلمانوں کیلئے سایہ خداوندی عادل سلطان:

حضرت ابوبکرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سلطان زمین پر الله کا سایہ ہے۔۔۔

[السنة ابن ابي عاصم(م287ھ)» حدیث#1024]

جو اس کا اکرام(عزت)کرے گا ﴿دنیا میں﴾ تو الله اس کا اکرام کرے گا﴿قیامت کے دن﴾، اور جس نے اس کی توہین کی ﴿دنیا میں﴾ تو الله اس کو بےعزت کرے گا ﴿قیامت کے دن﴾۔

[﴿مسند(امام)احمد بن حنبل(م241ھ)» حدیث#20433﴾ظلال الجنة-الباني:1024]


حضرت کثیر بن مرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بےشک سلطان سایہ ہے الله کا زمین میں، پناہ حاصل کرتا ہے اس کے ذریعہ ہر مظلوم اس(الله)کے بندوں میں سے، تو جب وہ عدل کرے تو اس(سلطان)کیلئے اجر ہے اور اس کی رعیت(عوام)پر شکر(لازم)، اور جب وہ ظلم کرے تو اس پر اس کا بوجھ ہے اور رعیت پر صبر(یعنی دین پر ثابت قدمی لازم ہے)۔

[الاموال (امام)ابن زنجویہ(م251ھ): حدیث#32]



(2) کس سلطان کی تعظیم، الله کی تعظیم ہے؟

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بےشک الله کی تعظیم میں سے، اکرام(عزت و تعظیم کرنا شامل)ہے (1)بوڑھے مسلمان کی، (2)حافظِ قرآن کی جو نہ(حد سے بڑھنے والا)غالی ہو اور نہ ہی(بےوفائی کرنے والا)جافی ہو، (3)اور "عادل" سلطان کی۔

[ابوداؤد:4843]

یعنی

بغیر-عادل-سلطان کے، الله کی تعظیم کے ایک حصہ سے محرومی ہوتی ہے۔




(3) زمین میں الله کا سایہ کون سا سلطان ہے؟

حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مت برا بھلا کہو سلطان کو، کیونکہ وہ سایہ ہے الله کا زمین پر، کہ اسی کے ذریعہ الله قائم کرتا ہے حق کو، اور غالب کرتا ہے دین کو، اور اسی کے ذریعہ الله اُٹھا(مِٹا)دیتا ہے ظلم کو، اور ہلاک کرتا ہے فاسقین(نافرمانوں)کو۔

[فضيلة العادلين من الولاة-ابونعيم(م430ھ)» حدیث:41]




(4) سلطان سے ظالم کے خلاف مدد حاصل کی جاتی ہے۔

حضرت مخارقؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرا مال چھیننا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے اللہ تعالیٰ سے نصیحت کر۔‘‘ اس نے کہا: اگر وہ نصیحت نہ مانے تو؟ آپ نے فرمایا: اپنے آس پاس کے مسلمانوں سے مدد حاصل کر۔ اس نے کہا: اگر میرے آس پاس کوئی مسلمان نہ ہوں تو؟ آپ نے فرمایا: سلطان سے مدد طلب کر۔ اس نے کہا: اگر سلطان بھی مجھ سے دور ہو؟ فرمایا: پھر اپنے مال کی حفاظت کے لیے لڑائی کر حتی کہ تو آخرت میں شہید بن جائے یا اپنے مال کو بچالے۔

[سنن النسائی:4086]




(5) بغیر سلطان مرنا نافرمانی-گمراہی میں مرنا ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جو شخص اپنے امیر(وزیر/گورنر) میں کوئی "ناپسندیدہ" بات دیکھے تو صبر کرے، اور اگر کوئی سلطان کی اطاعت سے بالشت بھر بھی خارج ہوا(باہر نکلا) تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔

[صحیح مسلم:105(292)]

یعنی شرعی سزائیں نافذ کرنے والے سلطان کی سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے۔


أَهْلُ الْجَنَّةِ ثَلَاثَةٌ: ذُو سُلْطَانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ۔۔۔۔

جنت والوں میں تین(طرح کے لوگ) ہیں: (1) انصاف کرنے والا سلطان، (جو) صدقہ کرنے والا ، اچھائی کی توفیق دیا گیا ہے۔۔۔۔

[صحیح مسلم:7207(2865)]



سلطان کو برا-بھلا کہنے پر نبوی ڈانٹ:

حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ سے روایت ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا:

لا تَسُبُّوا السُّلْطَانَ، فَإِنَّهُ ظِلُّ اللَّهِ فِي الأرض۔

مت برابھلا کہو سلطان کو، کیونکہ وہ سایہ ہے الله کا زمین میں۔

[السنة لابن أبي عاصم:1013، ظلال الجنة للألباني:1024]


سلطان ہو تو مسلمان کو مناسب نہیں کہ اس زمین کے علاؤہ کسی زمین میں ہمیشہ رہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سلطان سایہ ہے الله کا زمین پر، لہٰذا جب تم میں سے کوئی ایک داخل ہو کسی شہر میں جہاں کوئی سلطان نہیں تو وہ اس میں نہ ٹھہرے۔

[جامع الأحادیث:13350]


=========================

(5)امارت-امیر(حکومت-حاکم):

اسلامی ملک میں تمام مسلمان متفقہ طور پر ایک امیر منتخب کرلیں ایسے شخص کو جو علم و عمل اور تقویٰ دیانت میں یکتا ہو۔ خصومات میں فیصلہ کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہو۔ پوری قوم کے نزدیک قابل اعتماد ہو۔ تو وہ پوری قوم کا امیر ہوتا ہے وہ قوم کا حاکم ہوتا ہے تمام عملہ اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ جب تک امیر اسلام کے اصول پر رہتے ہوئے کام کرتا ہے اسے بدلا نہیں جاتا ہے البتہ جب اسلام کے اصول سے بدل جائے اس میں فسق و فجور اور خرابی آجائے تو اس حاکم کو معزول کرکے دوسرا امیر جو نیک اور عادل ہو دیندار و دیانتدار ہو منتخب کرلیا جاتا ہے ہر ملک میں الگ الگ امیر ہوتا ہے اور وہاں اسلامی احکام کو جاری کرتا ہے۔

نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

میرے "بعد" بارہ امیر)خلیفہ(ہوں گے…… یہ بارہ کے بارہ(خلیفہ)قبیلہ قریش سے ہوں گے.

[سنن الترمذي:2223، (مسند البزار: 4279، السنة لابن أبي عاصم: 1182، المعجم الكبير للطبراني: 1799) احمد: 20941، مستخرج أبي عوانة: 7431(6990)]



سب سے پہلے آپ ہی نے امیر المؤمنین کا لقب پایا :

حضرت سیِّدُنا زبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا: حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو تو خلیفۂ رسولِ خدا کہا جاتا تھا ، جب کہ مجھے یہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ میں تو سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا خلیفہ ہوں اور(اگر مجھے خلیفۂ خلیفۂ رسولِ خدا کہا جائے تو) یوں بات طویل ہوجائے گی۔یہ سن کر حضرت سیِّدُنا مغیرہ بن شعبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بولے: آپ ہمارے امیر ہیں اور ہم مؤمنین ، تو آپ ہوئے ’’ امیر المومنین ‘‘ ۔یہ سن کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اِرشاد فرمایا: ’’ یہ صحیح ہے۔

[ الاستيعاب ، عمر بن الخطاب ، باب عمر ، ج۳ ، ص۲۳۹۔]

واضح رہے کہ حضرت عبد اللہ بن جحش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں ’’ امیر المؤمنین ‘‘ کا لقب عطا فرمایا ، لیکن آپ خلفاء میں سے نہ تھے اور حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ خلیفہ تھے۔

[زرقانی علی المواھب ، ج۱ ، ص۳۹۷]



لقب ’’ امیر المومنین ‘‘ کی دوسری وجہ:

حضرت شفاء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا جو پہلے ہجرت کرنے والی عورتوں میں سے ہیں روایت کرتی ہیں کہ حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے امیر عراق کو لکھا کہ میرے پاس دو تندرست و دانا عراقی آدمی بھیجو جو مجھے یہاں کے حالات سے آگاہ کریں ۔ تو عراق کے گورنر نے حضرت سیِّدُنا لبیدبن ربیعہ عامری اور سیِّدُنا عدی بن حاتم طائی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو بھیجا۔ وہ مدینہ منورہ میں آئےاوراپنی سواریوں کو بٹھا کر مسجد میں داخل ہوئے جہاں حضرت سیِّدُنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ موجود تھے۔ انہوں نے سیِّدُنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے کہا: ’’ آپ امیر المومنین سے ہمارےحاضر ہونے کی اجازت طلب کریں ۔ ‘‘ یہ سن کر سیِّدُنا عمروبن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے کہا: ’’ خدا کی قسم ! تم نے ان کا صحیح نام تجویز کیا ہے ، ہم مومنین ہیں ، اور وہ ہمارے امیر ہیں ۔ ‘‘ سیِّدُنا عمرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاندر گئے اورحضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سامنے یوں گویا ہوئے: ’’ یَااَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْن! ‘‘ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سنا تو فرمایا: ’’ یہ نام تم کہاں سے لے آئے ہو؟ ‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’ لبید بن ربیعہ اور عدی بن حاتم طائی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا آئے ہیں ، انہوں نے اپنی سواریاں باہربٹھائیں اور مسجد میں آکرمجھ سے کہا: ’’ امیر المومنین کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی جائے۔ ‘‘ میں نے ان سے کہا: ’’ تم نے درست نام تجویز کیا ہے ، وہ امیر ہیں اور ہم مؤمنین۔ ‘‘ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اس سے پہلے اپنے مکتوبات(یعنی خطوط) میں خلیفۂ خلیفۂ رسول ‘‘ لکھتے تھے ، پھر آپ نے ’’ مِنْ عُمَرَ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْن ‘‘ لکھنا شروع کردیا۔

[ اسدالغابہ ، عمر بن الخطاب ، ج۴ ، ص۱۸۱]

 


امر یعنی حکم، معاملہ۔ اور امیر وحاکم یعنی وہ شخص جو امر وحکم دے۔ لہٰذا مذہبی معاملہ ہو تو حکم والے علماء وفقہاء ہوئے، اور حکومتی وسیاسی معاملہ ہو تو حکم والے خُلفاء اور اُمراء ہوئے، اور جھگڑوں میں فیصلہ وحکم کرنے والے قاضی وجج ہوئے۔

(1) اللہ تعالیٰ کے فرمان:

"اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور حکم والوں کی تم میں سے۔۔۔"[سورۃ النساء:59]

حضرت ابن عباسؓ(م68ھ) نے فرمایا: (یہ آیت نازل ہوئی) حضرت عَبْدِ اللهِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَدِيٍّ السَّهْمِيِّ کے بارے میں ہے، جب بھیجا انہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ میں۔

[مسند أحمد:3124، صحيح البخاري:4584، صحيح مسلم:1834، سنن أبي داود:2624 (سنن النسائي:4194، المنتقى-ابن الجارود:1116+1040مسند أبي يعلى:2746]

حضرت ابن عباسؓ(م68ھ) سے(دوسرے موقع پر) دوسری روایت میں یہ فرمان بھی مروی ہے کہ: یعنی فقہ اور دین والے۔

[تفسير الطبري:9867]

ایک روایت میں یہ فرمان مروی ہے کہ:

یعنی فقہ اور دین والے، اور اللہ کا کہا ماننے والے جو علم سکھاتے ہیں لوگوں کو دینی معاملات کا، اور انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، لہٰذا اللہ نے ان کی اطاعت واجب کردی ہے(اپنے بندوں پر)۔

[تفسير ابن أبي حاتم:5534، المستدرك على الصحيحين للحاكم:423 (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:78المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي:266(1394]


حضرت ابوھریرہؓ(م57ھ) نے فرمایا: أُمَرَاءُ (السَّرَايَا)۔

[(مصنف ابن أبي شيبة:32539) سنن سعيد بن منصور:652، السنة لأبي بكر بن الخلال:48، سلسلة الآثار الصحيحة:443]

امام وکیعؒ(129-م197ھ) نے تشریح کرتے فرمایا: امراء یعنی امیرِ لشکر (commanders) جنہیں نبی ﷺ بھیجا کرتے تھے۔

[نسخة وكيع عن الأعمش:19]


حضرت جابر بن عبداللہؓ(م68/78ھ) فرماتے ہیں: یعنی فقہ والے اور خیر والے۔

[مصنف ابن أبي شيبة:32531، المستدرك على الصحيحين للحاكم:422، أخلاق العلماء للآجري:ص20، سلسلة الآثار الصحيحة:19]


امام مجاہدؒ(21-م104ھ)فرماتے:

اصحابِ محمد ﷺ ہیں۔ علم، عقل وفقہ، اور دین والے۔

[تفسير الطبري:9874، مصنف ابن أبي شيبة:32534، تفسير ابن المنذر:1928]

دین میں فقہ(گہری سمجھ)اور علم والے۔

[تفسير الطبري:9864+9872، سنن سعيد بن منصور:656، العلم لزهير بن حرب:62، فوائد تمام:631، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:77، سلسلة الآثار الصحيحة:20]


حضرت عطاءؒ بن سائب-ابی رباح(27-م114ھ) فرماتے ہیں:

اس سے مراد علم اور فقہ کے ماہرین ہیں اور رسول کی اطاعت سے مراد کتاب اللہ اور سنت کی پیروی کرنا ہے۔

[سنن سعيد بن منصور:655، تفسير الطبري:9870، تفسير ابن المنذر:1931+1932، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:78، سنن دارمی:225(226) إسناده صحيح، باب علماء کی پیروی کرنا]


حضرت عکرمہؓ صحابی سے روایت ہے کہ یعنی ابوبکرؓ اور عمرؓ۔
[تفسير الطبري:9875, تفسير ابن أبي حاتم:5538, الإبانة الكبرى لابن بطة:57، تفسير البغوي:651]
یعنی خاص طور پر حضرت ابوبکر وعمر کی طرف اشارہ ہے۔
[تفسير ابن عطية:2/ 71، تفسير القرطبي:5/ 259، الموسوعة الفقهية الكويتية:43/ 122]
نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر وعمر کو فرمایا:
اگر تم دونوں کسی رائے میں متفق ہوجاؤ تو میں اس کے خلاف نہیں کروں گا۔
[مسند أحمد:17994، المعجم الكبير للطبراني:12244]
حضرت سعید بن المسیبؒ نے فرمایا:
حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی ﷺ کے وزیر(بوجھ اٹھانے)کے درجہ پر تھے، لہٰذا آپ ﷺ ان سے تمام معاملات میں مشورہ لیا کرتے تھے۔۔۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:4408]


بغیرامیر اطاعتِ نبوی نامکمل۔

حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے "میرے" امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے "میرے" امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔

[صحيح البخاري:7137، صحیح مسلم:1835]



احکام:

(1) امیروں(حاکموں) کا مومنوں ہی میں سے ہونا لازم ہے لہٰذا غیرمسلم(مثلاً: قادیانی)کو خود حکومتی منصب دینا اور خود اس کی اطاعت کرنا یا اس پر راضی ہونا حرام ہے۔

(2)امیروں کی اطاعت اس لئے لازم ہے کہ وہ الله اور رسول کے احکام ہی کو نافذ العمل بناتے ہیں۔




کتاب الله کی طرف راہنمائی کرنے والا امیر کیسا ہی بدصورت یا کم-حیثیت ہو، اسکی اطاعت لازم ہے۔

حضرت عبادہ بن صامت اور ام حصین ؓ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اگر کسی ناک اور کان کٹے ہوئے ﴿حبشی-کالا﴾ غلام کو تمہارا "امیر" مقرر کر دیا جائے اور وہ اللہ کی کتاب کے مطابق تمہاری راہنمائی کرے تو پھر اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔

[﴿صحیح بخاری:7142﴾ صحیح مسلم:1298-1837-1838﴾ ترمذی:1706، ابن ماجہ:2861-2862]

(1) امیر کتاب الله کا عالم نہ ہوگا تو اس سے کیسے ہدایت دے سکے گا۔

(2) عالم-امیر بظاہر چاہے جتنا بھی ناپسند ہو اس کی بیعت اور اطاعت لازم ہے۔


ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملہ میں امیر مقرر کرنا، چاہے معاملہ عارضی ہو۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے:

«إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ ‌فَلْيُؤَمِّرُوا ‌أَحَدَهُمْ»

جب تین افراد کسی سفر میں ہوں تو ہوئے کہ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنالیں.

[سنن أبي داود:2608، صحيح ابن خزيمة:2541]

[السياسة الشرعية في إصلاح الراعي والرعية - ابن تيمية (م728ھ) : ص238]

[بذل النصائح الشرعية فيما على السلطان وولاة الأمور وسائر الرعية - أبو حامد المقدسي (م896ھ) : ص1/108]


عوام کو نصیحتِ نبوی:

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جو شخص اپنے امیر میں کوئی "ناپسندیدہ" بات دیکھے تو صبر کرے، اور اگر کوئی سلطان کی اطاعت سے بالشت بھر بھی خارج ہوا(باہر نکلا) تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔

[صحیح مسلم:105(292)]


امیروں کو نصیحتِ نبوی:

جو آدمی مسلمانوں کا امیر ہو اور پھر ان کی بھلائی کے لئے جدوجہد نہ کرے اور خلوص نیت سے ان کا خیر خواہ نہ ہو تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا۔

[صحيح مسلم:366(142)، مسند الروياني:1299، السنن الكبرى للبيهقي:17901]

خطراتِ امارت:
حضرت عوف بن مالکؓ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اگر تم چاہتے ہو تو میں تم پر امارت(حکومت) کی حقیقت واضح کر دیتا ہوں کہ یہ ہے کیا؟ سب سے پہلے ملامت ہوتی ہے، اس کے بعد ندامت ہوتی ہے اور آخر میں روز قیامت عذاب ہوتا ہے، مگر وہ جس نے عدل و انصا ف کیا، بھلا کون ہے جو اپنے قرابتداروں کے سا تھ انصاف والا معاملہ کر سکے گا۔
[مسند الشاميين للطبراني:1195، الصَّحِيحَة:1562]

حضرت ابوهريرهؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

امراء کے لیے ویل (ہلاکت و تباہی یا جہنم کی ایک وادی) ہے، {وزراء کیلئے ویل ہے}، ناظمین کے لیے ویل ہے اور امانت رکھنے والوں کے لیے ہلاکت ہے ، روز قیامت لوگ آرزو کریں گے کہ ان کی پیشانیاں ثریا کے ساتھ معلق ہوتیں وہ زمین و آسمان کے درمیان حرکت کرتے رہتے لیکن وہ کسی کام کے ذمہ داری و سرپرستی قبول نہ کرتے۔

[مسند أحمد:8627{10759}، مسند أبي يعلى:6217، صحيح ابن حبان:4483، المستدرك على الصحيحين للحاكم:7016]


حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
عنقریب تم امارت(حکومت)کی خواہش کرو گے جبکہ یہ قیامت کے دن ندامت اور افسوس و حسرت (کا سبب) بن جائے گی۔ پس یہ دودھ پلاتی رہے تو اچھی لگتی ہے اور دودھ چھڑا دے تو بری لگتی ہے۔
[بخاري:7148، نسائي:5387، احمد:9791، الصحیحة:2530]

یعنی

خود سے امارت وحکومت کے عہدوں کی لالچ وخواہش نہ رکھے، بلکہ اللہ کی جانب سے قابلیت ملنے پر امت میں قبولیت عام ہوجائے تو پھر اسے اختیار کرنا چاہئے۔


حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:

اے ابوذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور میں تمہارے لیے وہی پسند کرتا ہوں جو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں، تو تم دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ ہونا، اور نہ یتیم کے مال کا ولی(سرپرست وذمہ در) بننا۔

[صحيح مسلم:1826، سنن أبي داود:2868، سنن النسائي:3667]


عبدالرحمٰن بن سمرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! کبھی کسی امارت(حکومت) کے عہدہ کی درخواست نہ کرنا کیونکہ اگر تمہیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھا لے گا، تو جان، تیرا کام جانے اور اگر وہ عہدہ تمہیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں اللہ کی طرف سے تمہاری اعانت کی جائے گی اور جب تم کوئی قسم کھالو اور اس کے سوا کسی اور چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بھلائی کا ہو۔

[صحيح البخاري:6622، صحيح مسلم:1652، سنن أبي داود:2929، سنن الترمذي:1529، سنن النسائي:5384]


حضرت ابوهريرهؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

دس آدمیوں کے امیر کو بھی قیامت کے روز اس حال میں لایا جائے گا کہ وہ جکڑا ہوا ہو گا، اس کا عدل و انصاف اس کو آزاد کرائے گا یا اس کا ظلم و ستم اس کو ہلاک کر دے گا۔

[مسند أحمد:9573، سنن الدارمي:2557، الصحيحة 349]


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو کسی کام پر امیر بنایا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے (‏‏‏‏کوئی نفع مند چیز) بتاؤ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھر میں ٹھہرے رہنا۔

[المعجم الكبير للطبراني:13969، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌1535]


رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو لشکر کا امیر مقرر کیا، وہ چلا گیا اور جب آپ کی طرف واپس لوٹا تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: ”‏‏‏‏تم نے امارت کو کیسا پایا؟“ اس نے کہا: بس میں بعض لوگوں کی طرح ہی رہا، ‏‏‏‏جب میں سوار ہوتا تو وہ بھی سوار ہو جاتے اور جب میں اترتا تو وہ بھی اتر جاتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بےشک سلطان گناہ کے دروازے پر ہوتا ہے، سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ بچائے۔“ اس آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میں (‏‏‏‏آئندہ) آپ کا عامل بنوں گا نہ کسی اور کا۔ رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کی داڑھیں ظاہر ہونے لگیں۔

[المعجم الكبير للطبراني:3603، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌3239]






() ولایت-والی،متولی:

یعنی ذمہ دار، حاکم، گورنر، منتظم، مہتمم، ٹرسٹی۔



حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللَّهِ عَلَی مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ وَکِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُکْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا۔
ترجمہ:
جو لوگ انصاف کرتے ہیں وہ اللہ کے پاس منبروں پر ہوں گے پروردگار کے داہنی طرف اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں (یعنی بائیں ہاتھ میں جو داہنے سے قوت کم ہوتی ہے یہ بات اللہ تعالیٰ میں نہیں کیونکہ وہ ہر عیب سے پاک ہے) اور یہ انصاف کرنے والے وہ لوگ ہیں جو حکم کرتے وقت انصاف کرتے ہیں اور اپنے اہل وعیال میں بھی انصاف کرتے ہیں اور جو "ذمہ داری" ان کو دیی جائے اس میں انصاف کرتے ہیں۔
[صحیح مسلم:4721(1827)، سنن النسائي:5379، صحيح ابن حبان:4484]


خطراتِ ولایت:

حضرت ابوهريرهؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عنقریب آدمی یہ تمنا کرے گا کہ وہ ثریا ستارے سے گر پڑے (تو خیر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے) لوگوں کے کسی معاملے کا "ذمہ دار" بنا دیا جائے۔
[مسند أحمد:10737، الصحيحة:2620]

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ شَيْئًا فَغَشَّهُمْ , فَهُوَ فِي النَّارِ

ترجمہ:

جو "ذمہ داری" اٹھائے مسلمانوں کے (اجتماعی) معاملہ میں سے کسی بات کی پھر وہ انہیں دھوکہ دے، تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔

[المعجم الصغير للطبراني:392، صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب: 2206]


سیدنا ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جو آدمی دس افراد کے معاملات کی "ذمہ داری" سنبھالتا ہے، وہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کے پاس اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن تک جکڑے ہوں گے۔ اس کی نیکی اس کو آزاد کرائے گی یا اس کی برائی اس کو ہلاک کر دے گی۔ (‏‏‏‏اس امارت) کی ابتداء میں ملامت، درمیان میں ندامت اور آخر میں یعنی قیامت کے روز رسوائی ہوتی ہے۔
[مسند أحمد:22300، المعجم الكبير للطبراني:7724، الصحيحة:‌‌349]

حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:

اے ابوذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور میں تمہارے لیے وہی پسند کرتا ہوں جو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں، تو تم دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ ہونا، اور نہ یتیم کے مال کا ولی(سرپرست وذمہ در) بننا۔

[صحيح مسلم:1826، سنن أبي داود:2868، سنن النسائي:3667]



دورِ نبوت، خلافت اور بادشاہت میں رحمت کا مطلب:


نبوی سچی پیشگوئی:


(1)حضرت ابن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ نبی  نے ارشاد فرمایا:

»أول هذا الأمر نبوة ورحمة، ثم يكون خلافة ورحمة، ثم يكون ملكا ورحمة، ثم يكون إمارة ورحمة، ثم يتكادمون عليه تكادم الحمر فعليكم بالجهاد، وإن أفضل جهادكم الرباط، وإن أفضل رباطكم عسقلان«

"سب سے پہلے نبوت و رحمت ہوگی، پھر خلافت و رحمت ہو گی، پھر بادشاہت ورحمت ہو گی، اور پھر امارت و رحمت ہوگی اور اس کے بعد لوگ اس حکومت کو حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کو گدھے کی طرح کاٹیں گے. اس دور میں تم جہاد کو لازم پکڑنا، اور تمہارا افضل جہاد الرباط (یعنی سرحدوں کی حفاظت) ہے اور افضل رباط عسقلان شہر کا رباط ہے."

[المعجم الكبير الطبراني:11138، مجمع الزوائد: 8964، سلسلة الأحاديث الصحيحة: 3270]

 

رحمت یعنی خیر وسلامتی کا غالب رہنا اور شر وفساد کا مغلوب رہنا ہے۔

 

(2)حضرت عمر بن الخطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«إِنَّ اللَّهَ بَدَأَ هَذَا الْأَمْرَ حِينَ بَدَأَ بِنُبُوَّةٍ وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ يَعُودُ إِلَى خِلَافَةٍ، ثُمَّ يَعُودُ إِلَى سُلْطَانٍ وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ يَعُودُ ‌مُلْكًا ‌وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَعُودُ جَبْرِيَّةً تَكَادَمُونَ تَكَادُمَ الْحَمِيرِ، أَيُّهَا النَّاسُ، عَلَيْكُمْ بِالْغَزْوِ وَالْجِهَادِ مَا كَانَ حُلْوًا خَضِرًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ مُرًّا عَسِرًا، وَيَكُونُ تَمَامًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ رِمَامًا - أَوْ يَكُونَ حُطَامًا -، فَإِذَا أَشَاطَتِ الْمَغَازِي وَأُكِلَتِ الْغَنَائِمُ وَاسْتُحِلَّ الْحَرَامُ، فَعَلَيْكُمْ بِالرِّبَاطِ فَإِنَّهُ خَيْرُ جِهَادِكُمْ»

بےشک اللہ نے ابتداء کی اس معاملہ(حکمرانی) کی (1)نبوت اور رحمت سے، (2)پھر(یہ معاملہ)لوٹے گا خلافت کی طرف، (3)پھر لوٹے گا(یہ معاملہ)سلطانی اور رحمت کی طرف، (4)پھر لوٹے گا ملوکیت(بادشاہت)اور رحمت کی طرف، (5)پھر لوٹے گا جبریت کی طرف، حکمرانی کیلئے ایک دوسرے کو گدھوں کی طرح کاٹیں گے۔ اے لوگو! غزوہ اور جہاد کو لازم پکڑو، یہ سرسبز میٹھا نہیں تھا کہ اب یہ تمہیں کڑوا - یا شورا - محسوس ہوتا ہے، اور یہ بوسیدہ ہونے سے پہلے ختم نہیں ہوسکتا، جب جہاد چھوڑدیا جائے اور غنیمتیں کھائی جائیں، حرام کو حلال سمجھا جائے، تو تم پر دفاع لازم ہے کیونکہ اس وقت تمہارے لئے جہاد ہوگا۔

[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 8459]


 

(3)حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَدَأَ هَذَا الْأَمْرَ ‌نَبُوَّةً ‌وَرَحْمَةً، وَكَائِنًا خِلَافَةً وَرَحْمَةً وَكَائِنًا مُلْكًا ‌عَضُوضًا وَكَائِنًا عَنْوَةً وَجَبْرِيَّةً وَفَسَادًا فِي الْأَرْضِ يَسْتَحِلُّونَ الْفُرُوجَ وَالْخُمُورَ وَالْحَرِيرَ وَيُنْصَرُونَ عَلَى ذَلِكَ وَيُرْزَقُونَ أَبَدًا حَتَّى يَلْقَوُا اللَّهَ»

ترجمہ :

اللہ تعالیٰ نے اس دین کی ابتدا نبوت اور رحمت سے فرمائی، پھر (دورِ نبوت کے بعد) خلافت اور رحمت کا دور ہوگا، اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی، اس کے بعد خالص آمریت، جبر واستبداد اور امت کے عمومی بگاڑ کا دور آئے گا ؛ یہ لوگ زنا کاری، شراب نوشی اور ریشمی لباس پہننے کو حلال کرلیں گے اور اس کے باوجود، ان کی مدد بھی ہوتی رہے گی اور انہیں رزق بھی ملتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حضور پیش ہوں گے (یعنی مرتے دم تک)۔

[مسند أبي داود الطيالسي:225، (تفسیر ابن کثیر:سورۃ النور:55)]


نبوت کی شانیں:

(1)خلافت [سورۃ البقرۃ:30]

(2) امامت [البقرۃ:124]

(3) بادشاہت [البقرۃ:102]

کا ذکر کیا گیا، جن میں رحمت شامل رہتی ہے۔ اور رحمت کہتے ہیں نرمی دل ہونا، مہربان ہونا، شفقت کرنا، ترس کھانا، رحم کرنا وغیرہ۔ لہٰذا یہ رحمت مظلوم پر یہ ہے کہ اسے اس کا حق دلانے میں نصرت ومدد کرنا ہے اور ظالم کی نصرت ومدد یہ ہے کہ اسے ظلم کرنے سے روکا جائے۔

[حوالہ صحيح البخاري: 6952، صحيح مسلم: 2584، جامع الترمذي: 2255]

 

 

قرآن مجید میں رحمتِ الٰہی سے مراد:

(1)تخفیف وآسانی

[سورۃ البقرۃ:178]

(2)دین پر استقامت

[آل عمران:107]

(3)خیر وبھلائی

[آل عمران:157، الاحزاب:17]

(4)دوسروں سے نرم رویہ ملنا

[آل عمران:159]

(5)عذاب سے حفاظت

[الانعام:16]

(6) ظالموں کیلئے ڈھیل

[الانعام:147]

(7)ہدایت

[الانعام:154-157، الاعراف:52-203، یوسف:111، النحل:64-89، النمل:77، القصص:43، لقمان:3، الجاثیہ:20]

(8)جنت میں داخلہ، ناحق خوف اور دکھ سے حفاظت

[الاعراف:49]

(9)ظلم وظالم سے نجات

[الاعراف:72، ھود:58-66-94]

(10) رضائے الٰہی اور جنتیں

[التوبۃ:21]

(11)شفا اور سینوں کی راحت

[یونس:57، الاسراء:82]

(12)قوت وعزت

[ھود:66]

(13)عصمت وحفاظت

[ھود:43]

(14)اختلاف سے حفاظت:

[ھود:119]

(15)امید

[الحجر:56، الاسراء:28، الزمر:53]

(16)فضل وخصوصی اضافہ

[الاسراء:87]

(17)مخفی خزانے

[الاسراء:100، ص:9]

(18)سہولت واسباب مہیا ہونا

[الکھف:10]

(19)مخفی علوم

[الکھف:65]

(20)مال ویتیم اولاد کی حفاظت

[الکھف:82]

(21)غیبی مدد اور کرامات

[مریم:21]

(22)نفع ونعمت سے راحت کا ذائقہ

[الانبیاء:84، الروم:33، الشوریٰ:48]

(23)تکلیف وضرر کا دور ہونا

[فاطر:2]

(24)باہمی محبت

[الروم:21]

(25)مال ومتاع

[یٰس:44]

(26)نصیحت وخیرخواہی

[العنکبوت:51، ص:43]

(27) تقدیر وتقسیم

[الدخان:6]

(28)غنا اور نصرت

[الدخان:42]

(29)رافت، شدید رحمت

[الحدید:27]

(30)نفس امارہ کی برائی سے حفاظت

[یوسف:35]



کاٹ کھانے والی حکومت سے پہلے رحمت والی بادشاہت

(1)سیدنا حذیفہ بن یمانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«إِنَّكُمْ فِي نُبُوَّةٍ ‌وَرَحْمَةٍ، وَسَتَكُونُ ‌خِلَافَةٌ ‌وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ ‌كَذَا ‌وَكَذَا، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا، يَشْرَبُونَ الْخُمُورَ، وَيَلْبِسُونَ الْحَرِيرَ، وَفِي ذَلِكَ يُنْصَرُونَ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ»۔

ترجمہ:

’’تمہارے پاس نبوت اور رحمت رہے گی اور عنقریب خلافت اور رحمت آئے گی، پھر ایسا اور ایسا ہو گا، پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت آئے گی۔ لوگ شرابیں پئیں گے اور ریشم پہنیں گے، لیکن اس کے باوجود قیامت تک وہ منصور رہیں گے۔‘‘

[المعجم الأوسط للطبراني : 345/6، ح : 6581، وسندہٗ حسنٌ. الأحكام الكبرى:4/ 544، إتحاف الخيرة:4164+7552، المطالب العالية:4337]

دوسری روایت میں ہے:

أَنْتُمُ الْيَوْمَ فِي نُبُوَّةٍ ‌وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ تَكُونُ ‌خِلَافَةٌ ‌وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ ‌كَذَا ‌وَكَذَا، ثُمَّ يَكُونُ ‌كَذَا ‌وَكَذَا مُلُوكًا عَضُوضًا، يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، وَيَلْبَسُونَ الْحَرِيرَ، وَفِي ذَلِكَ يُنْصَرُونَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ۔

ترجمہ:

’’تم ہو آج نبوت اور رحمت میں، پھر ہوگے خلافت اور رحمت میں، پھر ہوگے اس میں اور اس میں، پھر ہوگے اس میں اور اس میں، پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت آئے گی۔ لوگ شرابیں پئیں گے اور ریشم پہنیں گے، اور اس میں بھی وہ مدد یافتہ(غالب) رہیں گے اپنے مخالفین پر۔‘‘

[معجم ابن الأعرابي(م340ھ):1645، غريب الحديث للخطابي:1/ 249، الفائق في غريب الحديث:2/ 443]


یعنی خلافت کے بعد ایک خاص زمانہ ہے، جسے [کذا وکذا] سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ ہے سیدنا معاویہؓ کی بادشاہت کا زمانہ۔ اس کے بعد جا کر کاٹ کھانے والی ملوکیت کا دور شروع ہوگا۔ لہٰذا جن روایات میں خلافت کے بعد ملک عضوض(کاٹ کھانے والی بادشاہت) کا ذکر ہے، وہ اختصار پر مبنی ہیں۔ اس کی تائید ایک دوسری صریح روایت سے ہوتی ہے.


ملوکیت اور امارت میں رحمت:

(2)حضرت ابن عباسؓ کی روایت میں ہے کہ نبی  نے ارشاد فرمایا:

»أول هذا الأمر نبوة ورحمة، ثم يكون خلافة ورحمة، ثم يكون ملكا ورحمة، ثم يكون إمارة ورحمة، ثم يتكادمون عليه تكادم الحمر فعليكم بالجهاد، وإن أفضل جهادكم الرباط، وإن أفضل رباطكم عسقلان«

"سب سے پہلے نبوت و رحمت ہوگی، پھر خلافت و رحمت ہو گی، پھر بادشاہت ورحمت ہو گی، اور پھر امارت و رحمت ہوگی اور اس کے بعد لوگ اس حکومت کو حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کو گدھے کی طرح کاٹیں گے. اس دور میں تم جہاد کو لازم پکڑنا، اور تمہارا افضل جہاد الرباط (یعنی سرحدوں کی حفاظت) ہے اور افضل رباط عسقلان شہر کا رباط ہے."

[المعجم الكبير الطبراني:11138، مجمع الزوائد: 8964، سلسلة الأحاديث الصحيحة: 3270]


سلطنت میں رحمت:

(3)حضرت عمر بن الخطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«إِنَّ اللَّهَ بَدَأَ هَذَا الْأَمْرَ حِينَ بَدَأَ بِنُبُوَّةٍ وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ يَعُودُ إِلَى خِلَافَةٍ، ثُمَّ يَعُودُ إِلَى سُلْطَانٍ وَرَحْمَةٍ، ثُمَّ يَعُودُ ‌مُلْكًا ‌وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَعُودُ جَبْرِيَّةً تَكَادَمُونَ تَكَادُمَ الْحَمِيرِ، أَيُّهَا النَّاسُ، عَلَيْكُمْ بِالْغَزْوِ وَالْجِهَادِ مَا كَانَ حُلْوًا خَضِرًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ مُرًّا عَسِرًا، وَيَكُونُ تَمَامًا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ رِمَامًا - أَوْ يَكُونَ حُطَامًا -، فَإِذَا أَشَاطَتِ الْمَغَازِي وَأُكِلَتِ الْغَنَائِمُ وَاسْتُحِلَّ الْحَرَامُ، فَعَلَيْكُمْ بِالرِّبَاطِ فَإِنَّهُ خَيْرُ جِهَادِكُمْ»

بےشک اللہ نے ابتداء کی اس معاملہ(دین) کی (1)نبوت اور رحمت سے، (2)پھر(یہ معاملہ)لوٹے گا خلافت کی طرف، (3)پھر لوٹے گا سلطانی اور رحمت کی طرف، (4)پھر لوٹے گا ملوکیت(بادشاہت)اور رحمت کی طرف، (5)پھر لوٹے گا جبریت کی طرف، حکمرانی کیلئے ایک دوسرے کو گدھوں کی طرح کاٹیں گے۔ اے لوگو! غزوہ اور جہاد کو لازم پکڑو، یہ سرسبز میٹھا نہیں تھا کہ اب یہ تمہیں کڑوا - یا شورا - محسوس ہوتا ہے، اور یہ بوسیدہ ہونے سے پہلے ختم نہیں ہوسکتا، جب جہاد چھوڑدیا جائے اور غنیمتیں کھائی جائیں، حرام کو حلال سمجھا جائے، تو تم پر دفاع لازم ہے کیونکہ اس وقت تمہارے لئے جہاد ہوگا۔

[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 8459]


(4) حضرت کعبؓ نے فرمایا:

«أَوَّلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ ‌نُبُوَّةٌ ‌وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ ‌سُلْطَانٌ ‌وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ مُلْكٌ جَبْرِيَّةٌ، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَبَطْنُ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مِنْ ظَهْرِهَا»

ترجمہ:

یہ امت پہلے نبوت ورحمت میں، پھر خلافت ورحمت میں، پھر سلطنت ورحمت میں، پھر جابرانہ ملوکیت میں ہوگی، پھر جب ایسا ہو تو اس دن زمین کا اندرونی حصہ اس کی ظاہری سطح سے بہتر ہوگا۔

[الفتن لنعيم بن حماد:237، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:6/ 25]


 

اور اسی کی تائید اجماعِ امت سے ہوتی ہے،جیسا کہ :

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)اس حدیث کی روشنی میں فرماتے ہیں :

‌فكانت ‌نبوّةُ ‌النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نبوّة ورحمة، وكانت خلافةُ الخلفاء الراشدين خلافةَ نبوّةٍ ورحمة، وكانت إمارةُ معاوية مُلكًا ورحمة، وبعده وقع مُلكٌ عَضُوض.

ترجمہ:

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت،نبوت و رحمت تھی۔خلفاء راشدین کی خلافت، خلافت ِ نبوت اور رحمت تھی۔ سیدنا معاویہؓ کی امارت رحمت والی بادشاہت تھی۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت شروع ہو گئی۔‘‘

[جامع المسائل : 154/5]

نیز فرماتے ہیں:

وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ مُعَاوِيَةَ أَفْضَلُ مُلُوكِ هَذِهِ الْأُمَّةِ ‌فَإِنَّ ‌الْأَرْبَعَةَ ‌قَبْلَهُ ‌كَانُوا ‌خُلَفَاءَ نُبُوَّةٍ وَهُوَ أَوَّلُ الْمُلُوكِ؛ كَانَ مُلْكُهُ مُلْكًا وَرَحْمَةً كَمَا جَاءَ فِي الْحَدِيثِ: " {يَكُونُ الْمُلْكُ نُبُوَّةً وَرَحْمَةً ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ ثُمَّ يَكُونُ مُلْكٌ وَرَحْمَةٌ ثُمَّ مُلْكٌ وَجَبْرِيَّةٌ ثُمَّ مُلْكٌ عَضُوضٌ} " وَكَانَ فِي مُلْكِهِ مِنْ الرَّحْمَةِ وَالْحُلْمِ وَنَفْعِ الْمُسْلِمِينَ مَا يُعْلَمُ أَنَّهُ كَانَ خَيْرًا مِنْ مُلْكِ غَيْرِهِ۔

ترجمہ:

’’اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیدنا معاویہt اس امت کے سب سے افضل بادشاہ تھے۔آپ سے پہلے چاروں حکمران خلفائے نبوت تھے۔آپ ہی سب سے پہلے بادشاہ ہوئے۔آپ کی حکمرانی باعث ِرحمت تھی، جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔، اور آپ کی بادشاہت مسلمانوں کے لیے اتنی فائدہ مند تھی اور اس میں اتنی رحمت و برکت تھی کہ اس کے دنیا کی سب سے اچھی بادشاہت ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے۔‘‘

[مجموع الفتاوٰی : 478/4]

یعنی یہ اجماعی بات ہے کہ سیدنا معاویہt کی خلافت و ملوکیت باعث ِرحمت تھی۔ ملوکیت ِعضوض(کاٹ کھانے والی بادشاہت)آپ کے دور اقتدار کے بعد میں شروع ہوئی۔


صدر الدین، محمد بن علاء الدین علی، امام ابن ابو العز حنفی رحمہ اللہ (792-731ھ)فرماتے ہیں :

وَأَوَّلُ مُلُوکِ الْمُسْلِمِینَ مُعَاوِیَۃُ ، وَہُوَ خَیْرُ مُلُوکِ الْمُسْلِمِینَ ۔

ترجمہ:

’’مسلمانوں کے سب سے پہلے اور افضل بادشاہ سیدنا معاویہؓ تھے۔‘‘

[شرح العقیدۃ الطحاویّۃ، ص : 722]


سنی مفسر،ابو فدائ، اسماعیل بن عمر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-701ھ)فرماتے ہیں :

وأجمعت ‌الرَّعَايَا عَلَى بَيْعَتِهِ فِي سَنَةِ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ كَمَا قَدَّمْنَا، فَلَمْ يَزَلْ مُسْتَقِلًّا بِالْأَمْرِ فِي

هَذِهِ الْمُدَّةِ إِلَى هَذِهِ السَّنَةِ الَّتِي كَانَتْ فِيهَا وَفَاتُهُ، وَالْجِهَادُ فِي بِلَادِ الْعَدُوِّ قَائِمٌ، وَكَلِمَةُ اللَّهِ عَالِيَةٌ.

وَالْغَنَائِمُ تَرِدُ إِلَيْهِ مِنْ أَطْرَافِ الْأَرْضِ، وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ فِي رَاحَةٍ وَعَدْلٍ، وَصَفْحٍ وَعَفْوٍ۔

ترجمہ:

’’تمام رعایا نے 41 ہجری میں سیدنا معاویہؓ کی بیعت پر اجماع کیا، جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ آپؓ اپنی وفات (60ہجری) تک خود مختار حکمران رہے۔ آپ کے دور میں دشمنانِ اسلام کے علاقوں میں جہاد جاری تھا، کلمۃ اللہ بلند تھا اور اطراف ِزمین سے مالِ غنیمت آ رہا تھا۔ مسلمان آپ کی حکومت میں خوش و خرم تھے، انہیں عدل و انصاف مہیا تھا اور حکومت کا ان کے ساتھ نہایت شفقت و درگزر والا سلوک تھا۔‘‘

[البداية والنهاية : 127 /8]


حافظ ابن کثیر(م774ھ) رحمہ اللہ نے فرمانِ باری تعالیٰ : {وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطَانًا}(بني إسرائیل17 : 33) (اور جو شخص ظلم سے قتل کر دیا جائے، ہم نے اس کے ولی کو اختیار دیا ہے) کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

وَقَدْ أَخَذَ الْإِمَامُ الْحَبْرُ ابْنُ عَبَّاسٍ مِّنْ عُمُومِ ہٰذِہِ الْـآیَۃِ الْکَرِیمَۃِ وِلَایَۃَ مُعَاوِیَۃَ السَّلْطَنَۃَ، أَنَّہٗ سَیَمْلِکُ، لِأَنَّہٗ کَانَ وَلِيَّ عُثْمَانَ ۔

’’حبرامت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت ِکریمہ کے عموم سے سیدنا معاویہؓ کی ولایت ثابت کی ہے کہ وہ عنقریب حکمران بنیں گے، کیونکہ وہ سیدنا عثمانؓ کے ولی تھے۔‘‘

[تفسیر ابن کثیر : 142/4، بتحقیق عبد الرزّاق المہدي]


حافظ ابن کثیر(م774ھ) رحمہ اللہ کی یہ بات بلا دلیل نہیں، اس کے لیے یہ روایت ملاحظہ فرمائیں:

ثقہ تابعی، ابومسلم، زہدم بن مضرب جرمی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

کُنَّا فِي سَمَرِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ : إِنِّي مُحَدِّثُکُمْ بِحَدِیثٍ، لَیْسَ بِسِرٍّ وَّلَا عَلَانِیَۃٍ، إِنَّہٗ لَمَّا کَانَ مِنْ أَمْرِ ہٰذَا الرَّجُلِ مَا کَانَ، یَعْنِي عُثْمَانَ، قُلْتُ لِعَلِيٍّ : اعْتَزِلْ، فَلَوْ کُنْتَ فِي جُحْرٍ طُلِبْتَ حَتّٰی تُسْتَخْرَجَ، فَعَصَانِي، وَایْمُ اللّٰہِ ! لَیَتَأَمَّرَنَّ عَلَیْکُمْ مُعَاوِیَۃُ، وَذٰلِکَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ : {وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ إِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا}(الإسرائ17: 33) ۔

’’ہم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس رات کی محفل میں شریک ہوئے۔انہوں نے فرمایا : میں تمہیں ایسی بات بیان کرنے والا ہوں جو نہ مخفی ہے نہ ظاہر۔جب عثمانؓ(کی شہادت) کا معاملہ ہوا تو میں نے علیؓ سے کہا : اس معاملے سے دُور رہیں، اگر آپ کسی بِل میں بھی ہوں گے تو (خلافت کے لیے)آپ کو تلاش کر کے نکال لیا جائے گا، لیکن انہوںنے میری بات نہیں مانی۔اللہ کی قسم! معاویہؓ ضرور تمہارے حکمران بنیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ إِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا}(سورۃ الإسراء17: 33)(اور جو شخص ظلم سے قتل کر دیا جائے، ہم نے اس کے ولی کو اختیار دیا ہے،وہ قتل کرنے میں زیادتی نہ کرے، اس کی ضرور مدد کی جائے گی)۔‘‘

[المعجم الکبیر للطبراني : 320/10، وسندہٗ حسنٌ]


معروف مؤرخ، حافظ محمد بن سعد، المعروف ابن سعد رحمہ اللہ (230-168ھ)فرماتے ہیں:

فَکَانَتْ وِلَایَتُہٗ عَلَی الشَّامِ عِشْرِینَ سَنَۃً أَمِیرًا، ثُمَّ بُویِعَ لَہٗ بِالْخِلَافَۃِ، وَاجْتَمَعَ عَلَیْہِ بَعْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَلَمْ یَزَلْ خَلِیفَۃً عِشْرِینَ سَنَۃً حَتّٰی مَاتَ لَیْلَۃَ الْخَمِیسِ، لِلنِّصْفِ مِنْ رَجَبَ، سَنَۃَ سِتِّینَ ۔

’’سیدنا معاویہؓ بیس سال تک شام کے گورنر رہے،پھر ان کی خلافت پر بیعت ہو گئی۔ سیدنا علیؓ کی وفات کے بعد امت ِمسلمہ کا ان پر اتفاق ہو گیا۔وہ بیس سال خلیفہ رہے اور آخر کار 15رجب ،30 ہجری کو جمعرات کی رات وفات پا گئے۔‘‘

[الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 285/7]



حبیب بن سالم نے بیان کیا کہ حضرت نعمان بن بشیرؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، اور بشیر اپنی احادیث(علم خاص لوگوں کیلئے) روک رکھتے تھے، ہماری مجلس میں حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ آئے اور کہنے لگے کہ اے بشیر بن سعد! کیا امراء کے حوالے سے آپ کو نبی کریم ﷺ کی کوئی حدیث یاد ہے؟ حضرت حذیفہ فرمانے لگے کہ مجھے نبی کریم ﷺ کا خطبہ یاد ہے، حضرت ابوثعلبہؓ(سننے کیلئے) بیٹھ گئے اور حضرت حذیفہؓ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا تمہارے درمیان نبوت موجود رہے گی پھر اللہ اسے اٹھانا چاہیے گا تو اٹھالے گا، پھر طریقہ نبوت پر گامزن خلافت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا، پھر اللہ اسے اٹھانا چاہیے گا تو اٹھالے گا پھر کاٹ کھانے والی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا، پھر اللہ اسے اٹھانا چاہیے گا تو اٹھالے گا اس کے بعد ظلم کی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا پھر اللہ اسے اٹھانا چاہیے گا تو اٹھالے گا، پھر طریقہ نبوت پر گامزن خلافت آجائے گی پھر نبی ﷺ خاموش ہوگئے۔

راوی حدیث حبیب کہتے ہیں کہ جب عمربن عبدالعزیز خلیفہ مقرر ہوئے تو یزید بن نعمانؓ ان کے مشیر بنے میں نے یزید بن نعمان کو یاد دہانی کرانے کے لیے خط میں یہ حدیث لکھ کر بھیجی اور آخر میں لکھا کہ مجھے امید ہے کہ امیر المومنین کی حکومت کاٹ کھانے والی اور ظلم کی حکومت کے بعد آئی ہے، یزید بن نعمان نے میرا یہ خط امیر المومنین کی خدمت میں پیش کیا جسے پڑھ کر وہ بہت مسرور اور خوش ہوئے۔

[مسند أبي داود الطيالسي:439، مسند أحمد:18406، مسند البزار:2796، دلائل النبوة للبيهقي:6/ 491، سلسلة الأحاديث الصحيحة:5]





اہل السنت کے ہاں امامت کا تصور:
اللہ رب العزت نے انسانیت کی رشد و ہدایت کے لیے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا جس کی پہلی کڑی حضرت آدم علیہ السلام اور آخری کڑی جناب خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد شریعت کے اجتماعی نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ عامۃ المسلمین اپنے میں سے کسی اہل اور با صلاحیت فرد کو اپنا رئیس مقرر کریں جو اجتماعی طور پر احکام شریعت کو نافذ کرے۔ اس فرد منتخب کو ”امیر المومنین“ کہا جاتا ہے، یہی ”امام“ بھی کہلاتا ہے اور اس کے اس منصب اقتدار کو ”امامت کبریٰ“ اور ”خلافت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ امیر المومنین، خلیفہ وقت اور امامت کبریٰ پر فائز یہ شخص شریعت خداوندی کو عوام پر نافذ کرتا ہے، سب کے سامنے ظاہر اور صاحب اقتدار ہوتا ہے۔ اہل السنت والجماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امامت کا منصب اسی تصور کے ساتھ مانتے ہیں جو ”خلافت“ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اہل تشیع کے ہاں امامت کا مفہوم:
اہل تشیع کے عقیدہ امامت کا خلاصہ یہ ہے کہ امت کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کہ امام کو متعین کریں۔ تو اللہ نے قیامت تک کے لیے بارہ امام متعین کردیے ہیں جن میں سے گیارہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ سب سے پہلے امام حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے اور آخری (بارہویں) امام ”امام غائب “ ہیں جن کو ”امامِ منتظر“ بھی کہا جاتا ہے جو ان کے عقیدہ کے مطابق ”سُرَّ مَنْ رَّاٰہُ“ شہر کے کسی غار میں موجود ہے، مرتبہ امامت؛ نبوت و رسالت کے برابر ہے بلکہ بعض مرتبہ بڑھ کر ہوتا ہے اور امام کو حلت و حرمت، ملک وقدرت اور دیگر وہ اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں جو خاصہ خداوندی ہیں۔
فریقین کے اختلاف کا خلاصہ:
عقیدہ امامت کا جو مفہوم فریقین کے ہاں ہے اس کے لحاظ سے مندرجہ ذیل فرق بطور نتیجہ ظاہر ہوتے ہیں:
فرق نمبر1:
اہل السنت کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت میں سلسلہ خلافت چلا ہے جس میں خلیفہ کا تقرر عامۃ المسلمین پر واجب ہے جب کہ اہلِ تشیع کے ہاں سلسلہ امامت چلا ہے جس کا تعین اللہ پر واجب ہے۔ سید عبداللہ شبرشیعی نے امام کے منصوص من اللہ ہونےکا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے :
والذی علیہ الفرقۃ المحقۃ والطائفۃ الحقۃ انہ یحب علی اللہ نصب الامام فی کل زمان.
(حق الیقین ص183)
وقال ایضآً: فکما لایجوز للخلق تعیین نبی فکذا لایجوز لھم تعیین امام.
(حق الیقین: ص185)
فرق نمبر2:
اہل السنت کے ہاں امامت کبریٰ پر فائز خلفاء کی تعداد متعین نہیں جب کہ اہل تشیع کے ہاں 12امام متعین ہیں جو یہ ہیں:
(1)حضرت علی رضی اللہ عنہ(2)حضرت حسن رضی اللہ عنہ(3)حضرت حسین رضی اللہ عنہ(4)حضرت زین العابدین رحمہ اللہ(5)حضرت محمد باقر(6)حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ(7)حضرت موسیٰ کاظم (8)حضرت علی رضا (9)حضرت محمد تقی (10)حضرت علی نقی(11)حضرت حسن عسکری(12)حضرت محمد مہدی
فرق نمبر3:
اہل السنت کے ہاں امام ایسا امتی ہوتا ہے جو باصلاحیت اور خلافت کا اہل تو ہوتا ہے لیکن معصوم نہیں ہوتا جب کہ اہل تشیع کے ہاں امام معصوم ہوتا ہے۔
سید عبداللہ شبر نے امام کی شرائط میں سے پہلی شرط ”عصمت“ کی لگائی ہے:
الاول العصمۃ کما تقدم لانہ حافظ للشرع قائم بہ فحالہ کحال النبی صلی اللہ علیہ وسلم.
(حق الیقین ص187)
باقر مجلسی لکھتا ہے:
بداں کہ اجماع علماء امامیہ منعقد است بر آنکہ امام معصوم است از جمیع گناہان صغیرہ و کبیرہ از اول عمر تا آخر عمرخواہ عمدا وخواہ سہوا.
(حیوٰۃ القلوب ج5ص49)
فرق نمبر4:
اہل السنت کے ہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بلا فصل ہیں جب کہ اہل تشیع کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بلا فصل ہیں۔
فرق نمبر5:
خلیفہ کا وہ فیصلہ جو اجتہادی ہو، اجماعی نہ ہو اس سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے جبکہ امام کے کسی بھی فیصلہ سے اختلاف کی گنجائش نہیں۔
اس کے علاوہ کئی اور فرق پیش کیے جاسکتے ہیں۔
عقیدہ امامت کی تاریخ:
عقیدہ امامت کو امت میں متعارف کرانے والا پہلا شخص عبداللہ بن سبا یہودی تھا۔ علامہ محمد بن عبد الکریم شہرستانی لکھتے ہیں:
عبد الله بن سبأ... أنه كان يهوديا فأسلم... وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه.
(الملل والنحل : ج1ص172)
خود روافض کی کتب میں اس بات کی صراحت موجود ہےکہ حضرت علی کے وصی اورامام مفروض ہونے کا پہلا مدعی ابن سباتھا۔ چنانچہ ملاباقرمجلسی نے عبداللہ بن سبا کے بارے میں لکھا:
وکان اول من اشھر بالقول بفرض امامۃ علی علیہ السلام .
(بحارالانوار ج25ص152،153 ،رجال کشی ص85)
روافض کے ہاں امامت کی اہمیت:
شیعوں کے پانچ اصولِ دین یہ ہیں:
توحید، نبوت، معاد، امامت اور عدل۔
(اسلام کے بنیادی عقائدمصنف سید مجتبیٰ موسوی ، اردو ترجمہ شیخ روشن علی نجفی)
مسئلہ امامت ان کے ہاں اصولِ دین میں سے ہے جس کا منکر کافر ہے۔ چنانچہ ان کی کتب میں تصریح موجود ہے:
1: عن ابی عبداللہ ، نحن الذین فرض اللہ طاعتنا لایسع الناس الا معرفتنا... من انکرنا کان کافرا.
(اصول کافی ج1ص243کتاب الحجہ باب فرض طاعۃ الائمہ)
2: ہر کہ شک کند وتوقف نماید در امامت امام کافر است.
(حیوٰۃ القلوب ج5ص81 فصل چہارم در بیان وجوب معرفت امام است)
اہل تشیع کے ہاں امام کے اوصاف:
کتبِ روافض میں عقیدہ امامت کو بڑی بسط وتفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ان لوگوں نے اس عقیدہ میں غلو کرتے ہوئے ائمہ کے لیے ایسے اوصاف بیان کیے ہیں جن کے ذریعے امام کا مقام حضرات انبیاء علیہم السلام سے بھی بلند اور خدا کے برابر معلوم ہوتا ہے۔ ان کی کتابوں میں عموماً ائمہ کے اوصاف تین طرح کے بیان کیے گئے ہیں:
1: امام میں عام امتی سے امتیازی اوصاف کا وجود
2: امام میں اوصافِ نبوت کا وجود
3: امام میں خدائی اوصاف کا وجود
1: امام اور عام امتی میں فرق
[۱]: ملا باقر مجلسی نے اپنی کتاب ”حق الیقین “ میں امام کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:
پاکیزہ وناف بریدہ وختنہ کردہ متولد میشود چوں از شکم مادر بزیر می آید دستہارابر زمین میگزارد وصدابشہادتین بلند میکند.
(حق الیقین ص42)
اس عبارت سے امام کے یہ اوصاف ثابت ہوتے ہیں :
1:امام پاک صاف پیداہوتا ہے 2:ناف برید ہ ہوتا ہے 3:مختون پیداہوتا ہے 4:پیداہوتے ہی زمین پر ہاتھ رکھ کر کلمہ پڑھتا ہے۔
ایک جگہ لکھا : وسایہ ندارد.
(حق الیقین ص42)
کہ امام کا سایہ نہیں ہوتا۔
[۲]: عبداللہ شبر نے اپنی تصنیف ”حق الیقین فی معرفۃ اصول الدین“ میں امام کے شرائط و اوصاف کو ذکر کرتے ہوئے لکھا:
الثانی ان یکون افضل من جمیع امتہ من کل جھۃ. .. الثالث: کونہ اشجع الامۃ... السادس: ان یکون ازھد الناس واطوعہم للہ واقربہم منہ.
(حق الیقین ج1ص187، 188)
2: امام میں اوصاف نبوت
[1]: امام منصوص من اللہ ہوتا ہے
سید عبداللہ شبر نے امام کے منصوص من اللہ ہونےکا ذکر ان الفاظ میں کیا :
والذی علیہ الفرقۃ المحقۃ والطائفۃ الحقۃ انہ یحب علی اللہ نصب الامام فی کل زمان.
(حق الیقین ص183)
[2]: امام معصوم ہوتا ہے
سید عبداللہ شبر نے امام کی شرائط میں سے پہلی شرط عصمت کی لگائی ہے:
الاول العصمۃ کما تقدم لانہ حافظ للشرع قائم بہ فحالہ کحال النبی صلی اللہ علیہ وسلم.
(حق الیقین ص187)
باقر مجلسی نے لکھا:
بداں کہ اجماع علماء امامیہ منعقد است بر آنکہ امام معصوم است از جمیع گناہان صغیرہ و کبیرہ از اول عمر تا آخر عمرخواہ عمدا وخواہ سہوا.
(حیوٰۃ القلوب ج5ص49)
[3]: امام مفترض الطاعۃ ہوتا ہے
کلینی نے اس کے متعلق مستقل باب قائم کیا ہے:
باب فرض طاعۃ الائمۃ.
(اصول کافی ج1ص241)
[4]:امام صاحبِ وحی ہوتا ہے
کلینی نے ایک باب قائم کیا ہے: ”باب الفرق بین الرسول والنبی المحدث“ اس کے تحت روایت نقل کی کہ رسول وہ ہوتا ہے جس کے پاس وحی لے کر جبرائیل امین تشریف لاتے ہیں، رسول جبرائیل کو دیکھتا بھی ہے اور اس کی بات کو سنتا بھی ہے اور نبی وہ ہوتاہے جو کبھی جبرائیل کو دیکھتا ہے کبھی صرف وحی سنتا ہے،
والامام ھو الذی یسمع الکلام ولا یری الشخص.
(اصول کافی ج1ص231)
[5]:امام کے پاس معجزات ہوتے ہیں
ملاباقر مجلسی نے امامت کی شرائط میں یہ شرط بھی بیان کی ہے:
آنکہ معجزہ ھاازاوظاھر شود کہ دیگران ازاوعاجز باشند.
(حق الیقین ص42)
[6]:امام کو احتلام نہیں ہوتا
(حق الیقین ص42)
[7]:امام کی آنکھ سوتی ہے دل جاگتا ہے
(حق الیقین ص42)
[8]: امام کے پاخانہ سے مشک کی خوشبو آتی ہے نیز اس کو زمین چھپالیتی ہے
(حق الیقین ص42)
ان عبارات سے ثابت ہوا کہ یہ لوگ اگر چہ علی الاعلان امام کو نبی نہیں کہتے لیکن در پردہ امام میں یہ اوصاف مان کر اس کو نبی کے برابر کھڑاکردیتے ہیں بلکہ ان کی بعض کتب سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ امام کو نبی کے برابر بلکہ اس سے بڑھ کر مانتے ہیں، مثلاً:
1: وحق ایں است کہ درکمالات وشرائط وصفات فرق میان پیغمبر وامام نیست.
(حیاۃ القلوب ج5ص18)
2: ان مرتبۃ الامامۃ کالنبوۃ۔۔۔ فکما لایجوز للخلق تعیین نبی فکذا لایجوز لھم تعیین امام.
(حق الیقین لعبد اللہ شبر: ص185)
3:مرتبہ امامت بالا تر از مرتبہ پیغمبر ایست.
(حیوٰۃ القلوب ج5 ص17)
3: امام میں خدا کے اوصاف
1: باب ان الائمۃ علیھم السلام یعلمون علم ماکان ومایکون وانہ لایخفیٰ علیھم الشئی صلوات اللہ علیھم.
(اصول کافی ج1ص319)
2: باب ان الائمۃ علیھم السلام اذاشآءوا ان یعلموا علموا.
(اصول کافی ج1ص316)
3: باب ان الائمۃ علیھم السلام یعلمون متیٰ یموتون وانھم لایموتون الا باختیار منھم.
(اصول کافی ج1ص317)
4: باب ان الارض کلھا للامام علیہ السلام.
(اصول کافی ج1ص470)
5: کلینی نے حضرت امام جعفر صادق کی طرف نسبت کرکے لکھا:
اما علمت ان الدنیا والآ خرۃ للامام یضعھا حیث یشاء ویدفعھا الیٰ من یشاء.
(اصول کافی ج1ص472)
بارہویں امام کے خواص:
[۱]: امام غائب کا نام لینا جائز نہیں
کلینی نے اصول کافی میں باب قائم کیا: باب فی النہی عن الاسم اور اس کے تحت امام ابو الحسن علی العسکری کا قول نقل کیا کہ انہوں نے بارہویں امام کے متعلق حکم دیا:
لا یحل لکم ذکرہ باسمہ فقلت [ای داؤد بن قاسم الجعفری] فیکف نذکرہ؟فقال قولوا الحجۃ من آل محمد صلو ات اللہ علیہ وسلامہ.
(اصول کافی ج1ص393 کتاب الحجہ)
اس کے بعد کلینی نے امام جعفر صادق کا یہ قول نقل کیا:
صاحب ھذا الامر لایسمیہ باسمہ الا کافر
(اصول کافی ج1ص394)
[۲]: جب امام غائب آئے گا تو سب سے پہلے اس کی پیروی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے۔
محمد بن ابراہیم بن جعفر نعمانی نے لکھا:
عن ابی حمزۃ الثمانی قال سمعت ابا جعفر محمد بن علی علیہ السلام یقول لو قد خرج قائم آل محمد علیہم السلام... اول من یتبعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلی علیہ السلام الثانی.
(غیبت نعمانی المعروف کتاب الغیبۃ ص376 الباب الثالث عشر ماروی فی صفتہ وسیرتہ )
ملا باقر مجلسی نے اس بات کو یوں لکھا:
اول کسے کہ بیعت اور کند محمد باشد وبعد ازاں علی.
(حق الیقین ص 347)
[۳]: امام غائب جب ظاہر ہوگا تو بغیر گواہوں کے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرے گا
کلینی نے اس پر مستقل باب قائم کر کے حضرت امام محمد باقر کی طرف منسوب کر کے یہ روایت لکھی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
اذا قام قائم آل محمد علیہ السلام حکم بحکم داود وسلیمان لا یسئال بینۃ
(اصول کافی ج1 ص461)
[۴]: باقر مجلسی نے اپنے مہدی کی ایک عجیب علامت یہ بھی بیان کی ہے:
بدن برھنہ ای درپیش قرص آفتاب ظاھر خواھد شد .
(حق الیقین ص 347)
یعنی مہدی جب آئے گا تو جسم برہنہ ہوگا۔
دلائل اہل السنت علی ثبوت الخلافۃ
دلیل نمبر1:
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ•
(سورۃ النور:55)
تفسیر:
1: علامہ محمود آلوسی بغدادی فرماتے ہیں:
واستدل كثير بهذه الآية على صحة خلافة الخلفاء الأربعة رضي الله تعالى عنهم لأن الله تعالى وعد فيها من في حضرة الرسالة من المؤمنين بالإستخلاف وتمكين الدين والأمن العظيم من الأعداء ولا بد من وقوع ما وعد به ضرورة امتناع الخلف في وعده تعالى ولم يقع المجموع إلا في عهدهم فكان كل منهم خليفة حقا باستخلاف الله تعالى إياه حسبما وعد جل وعلا لا يلزم عموم الإستخلاف لجميع الحاضرين المخاطبين بل وقوعه فيهم كبنو فلان قتلوا فلانا فلا ينافي ذلك عموم الخطاب الجميع وكون من بيانية وكذا لا ينافيه ما وقع في خلافة عثمان وعلي رضي الله تعالى عنهما من الفتن لأن المراد من الأمن الأمن من أعداء الدين وهم الكفار کما تقدم۔
(روح المعانی:ج18ص208)
2: امام تفسیر امام نظام الدين حسن بن محمد بن حسين النيسابوري فرماتے ہیں:
قال أهل السنة : في الآية دلالة على إمامة الخلفاء الراشدين لأن قوله { منكم } للتبعيض وذلك البعض يجب أن يكون من الحاضرين في وقت الخطاب ، ومعلوم أن الأئمة الأربعة كانوا من أهل الإيمان والعمل الصالح ، وكانوا حاضرين وقتئذ وقد حصل لهم الاستخلاف والفتوح ، فوجب أن يكونوا مرادين من الآية .
(تفسیر النیشاپوری: ج6ص24)
3: امام اہل سنت مولانا عبدالشکور لکھنویؒ فرماتے ہیں کہ:
’’اس آیت میں استخلاف کا ربط سابقہ آیات سے یہ ہے کہ اوپر کی آیتوں میں حق تعالیٰ نے کافروں اور منافقوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اپنے دلائل قدرت، وحدانیت بیان فرما کر ان کو ایمان لانے کی ترغیب دی ہے۔ یہ آیت استخلاف اس ترغیب کا تکملہ اور تتمّہ ہے کہ دیکھو! ایمان والوں کے لیے اس دنیا میں اِن اِن انعامات کا ہم نے وعدہ کیا ہے۔ اگر تم ایمان لاؤ تو ان انعامات سے تم بھی فیض یاب ہو گے۔ آیت استخلاف کے بعد خدا نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے... اور ’’الّذین اٰمنوا وعملوا‘‘ دونوں صیغہ ماضی کے ہیں، پھر اس کے بعد لفظ ’’منکم‘‘ ہے جو ضمیر حاضر پر شامل ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ وعدہ ان لوگوں سے ہے جو نزولِ آیت کے وقت موجود تھے اور نزول سے پہلے ایمان لا چکے تھے۔ پس حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت امام مہدی یا خلفائے بنی اُمیّہ و بنی عبّاس وغیرہ ’’موعود لہم‘‘ نہیں ہو سکتے۔ ’’موعود لہم‘‘ وہی صحابہ کرام مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم ہیں جو نزولِ آیت کے پہلے سے ان دونوں صفتوں کے ساتھ موصوف تھے ،خلفائے اربعہ بھی ان ہی میں ہیں۔
(تحفہ خلافت صفحہ109، 110۔ مطبوعہ تحریک خدّام اہل سنت جہلم)
دلیل نمبر2:
عَن أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي.
(صحیح البخاری: رقم الحدیث 7137)
دلیل نمبر3:
عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَإِنْ اسْتُعْمِلَ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ.
(صحیح البخاری: رقم الحدیث693)
دلیل نمبر4:
عَنْ أَبِى ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - : « مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الإِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِهِ ».
(سنن ابی داؤد: باب فى قتل الخوارج)
دلیل نمبر5:
عَن أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً
(صحیح مسلم: حدیث نمبر 1848)
دلیل نمبر6:
عَن أَبِي هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ.
(صحیح البخاری: ح 3455، صحیح مسلم: ح1842)
دلیل نمبر7:
قَالَ الْعِرْبَاضُ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ « أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ».
(سنن ابی داؤد: کتاب السنۃ- باب فی لزوم السنۃ)
دلیل نمبر8:
عن حذيفة بن اليمان قلت: يا رسول الله إنا كنا بشر فجاء الله بخير فنحن فيه فهل من وراء هذا الخير شر قال نعم قلت هل وراء ذلك الشر خير قال نعم قلت فهل وراء ذلك الخير شر قال نعم قلت كيف قال يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهداي ولا يستنون بسنتي وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان إنس قال قلت كيف أصنع يا رسول الله إن أدركت ذلك قال تسمع وتطيع للأمير وإن ضرب ظهرك وأخذ مالك فاسمع وأطع.
(صحیح مسلم: ح 1847)
اہل تشیع کے دلائل/ شبہات کے جوابات
قبل اس سے کہ اہلِ تشیع کے مزعومہ دلائل کو ذکر کر کے ان کا علمی تجزیہ کیا جائے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اس توجیہ کا جائزہ لیا جائے جو انہوں نے عقیدہ امامت کے صراحتاً قرآن میں نہ ہونے کے متعلق کی ہے۔ اہلِ تشیع کے نزدیک امامت عقائد دینیہ کا بنیادی جزء ہے جس پر ایمان لائے بغیر ایمان نامکمل ہے لیکن پورے قرآن مجید میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جس میں امامت پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہو، یا امامت پر ایمان نہ رکھنے کو کفر و شرک قرار دیا گیا ہو، دور قریب کے معروف شیعی عالم خمینی صاحب نے اپنی کتاب ”کشف الاسرار“ میں امامت پر گفتگو کی ہے اور اس پر دلائل دینے کی کوشش کی ہے۔ قبل اس سے کہ اس کے دلائل کا جائزہ لیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خمینی صاحب کی اس توجیہ کا بھی جائزہ لیا جائے جو انہوں نے ایک سوال کے جواب میں پیش کی ہے۔ اسی کتاب کے ص105 پر ایک سوال اٹھایا کہ:
چرا خدا چنیں اصل مہم را یک بارہم در قرآن صریح نہ گفت کہ ایں ہمہ نزاع و خونریزی برسر ایں کار پیدا نشود.
ترجمہ: کیوں اللہ تعالیٰ نے اس اہم اصل (بنیاد) کو قرآن میں صراحتاً ایک بار بھی بیان نہ فرمایا تاکہ اس سلسلہ میں جو اختلاف اور خونریزی ہوئی وہ پیدا ہی نہ ہوتی؟
اس سوال کے کئی جوابات جو خمینی صاحب نے دیے، ان میں سے ایک یہ ہے:
در صورتیکہ امام را در قرآن ثبت میکردند آنہائیکہ جز برائے دنیا و ریاست با اسلام وقرآن سروکار نداشتد و قرآن را وسیلہ اجراء نیات فاسدہ خود کردہ بودند آں آیات را از قرآن بر دارند و کتاب آسمانی را تحریف کنند.
(کشف الاسرار ص114)
ترجمہ: اس صورت میں کہ امام کا قرآن میں ذکر کردیا جاتا تو وہی لوگ جو دنیا طلبی کے سوا اسلام اور قرآن سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے اور قرآن کو اپنی فاسد نیتوں کا ذریعہ بنا رکھا تھا، ان آیات کو جن میں امام کا ذکر ہوتا قرآن سے نکال دیتے اور آسمانی کتاب میں تحریف کردیتے۔
تبصرہ:
ایک طرف اہلِ تشیع کا دعویٰ ہے کہ امامت کی تعیین اللہ تعالیٰ پر واجب ہے، دوسری طرف بزعم شیعہ حضرات اللہ تعالیٰ مخلوق کی مخالفت کے ڈر سے اس عقیدہ کا صراحتاً ذکر نہیں کر رہے۔ اس سے تو خدا پر یہ الزام آرہا ہے (معاذ اللہ) کہ اللہ تعالیٰ اپنے واجب کی ادائیگی سے قاصر ہے۔
دلیل نمبر1:
خمینی صاحب نے امامت کے اثبات کے لیے اس آیت سے استدلال کیا ہے، لکھتے ہیں:
اینک بذکر بعضی از آیات کہ در موضوع امامت وارد شدہ می پر دازیم واز خرد کہ فرستادہ نزدیک خدا است داوری میخواہیم.
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ.
(کشف الاسرار ص137)
کہ ہم وہ آیات ذکر کرتے ہیں جو امامت کے موضوع پر نازل ہوئی ہیں اور عقل سے جو خدا کا قریب ترین فرستادہ ہے، انصاف چاہتے ہیں۔
خمینی صاحب کا کہنا ہے کہ ”اولی الامر“ سے بارہ ائمہ معصومین مراد ہیں۔
جواب:
1: محض عقلی قیاسات سے مذہب کا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا جب کہ قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہ ہو۔ اس سے ہر شخص آیت پڑھ کر اپنا مزعومہ نظریہ قرآن سے ثابت کرنے کی جرأت کرے گا۔
2: پوری آیت کو ملاحظہ فرمائیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تنازع اور اختلاف کے وقت اللہ اور رسول کا فیصلہ حرفِ آخر سمجھا جائے گا نہ کہ اولی الامر کا، اگر اولی الامر سے ائمہ معصومین مراد ہوتے تو ان کی رائے کو چھوڑ کر قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کا کیا معنیٰ؟
دلیل نمبر2:
خمینی صاحب نے عقیدہ امامت کے اثبات پر اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے:
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.
(کشف الاسرار مترجم عربی ص149)
خمینی صاحب کا کہنا ہے کہ آیت میں جس چیز کے پہچانے کا ذکر ہے وہ عقیدہ امامت ہے۔
جواب:
اس آیت سے استدلال باطل ہے اس لیے کہ:
1: آیت میں تبلیغ کا حکم مطلق ہے جس سے مراد شریعت ہے، اسے ایک جز کے ساتھ بغیر دلیل کے مقید کرنا باطل ہے، کیونکہ قاعدہ ہے:
”العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب“
2: آیت میں ”مَااُنْزِلَ“ کی تبلیغ کرنے کا حکم ہے، اور ”تبلیغ“ تصریح اور بیان کو کہا جاتا ہے۔ خمینی صاحب نے پہلے کہا کہ امامت کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا تاکہ فاسد نیتوں والے کہیں اسے قرآن سے حذف نہ کردیں، سوال یہ ہے کہ اگر”ما انزل“ سے مراد امامت ہے تو اسے اللہ نے خود مخفی رکھا ہے تو اس کی تبلیغ اور تصریح اور بیان کا حکم دینا سوائے تضاد کے اور کیا ہے؟ جب کہ قرآن تضادات سے پاک ہے۔
دلیل نمبر3:
خمینی صاحب لکھتے ہیں کہ ہم قرآنی آیات ذکر کر رہے ہیں جن کی تفسیر میں اہل السنت کے حوالہ جات سے ثابت کریں گے کہ یہ آیات امامت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں:
اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِيْنًا.
(کشف الاسرار ص156 عربی مترجم )
اس آیت کے تحت خمینی صاحب لکھتے ہیں کہ ”غایۃ المرام“ میں باب سادس کے تحت چھ احادیث کتبِ اہلِ سنت سے ملتی ہیں جن میں یہ مضمون ہے کہ یہ آیت غدیر خم والے واقعہ کے دن نازل ہوئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے چن لیا اور ان احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا :
اللہ اکبر علی اکمال الدین وتمام النعمۃ ورضا الرب برسالتی والولایۃ لعلی.
(کشف الاسرار ص156 عربی مترجم )
جواب:
اولاً…… خمینی صاحب نے استدلال میں کتب اہل السنت کے حوالے کے ضمن میں ”غایۃ المرام“ کا حوالہ دیا جس سے موصوف کے استدلال کی ساری قلعی کھل جاتی ہے اس لیے کہ غایۃ المرام سنی عالم کی نہیں بلکہ شیعی عالم کی کتاب ہے جن کا کام علماء اہل السنت پر کذب و افتراء کے علاوہ کچھ نہیں۔
(حاشیہ کشف الاسرار ص156)
ثانیاً…… غایۃ المرام جو ہاشم بن سلیمان البحرانی الشیعی کی کتاب ہے، اس میں جن چھ روایات کا ذکر ہے جو بزعم خمینی صاحب کتب اہل السنت سے لی گئی ہیں، ان تمام کا ماخذ جوینی کی کتاب”فرائد السمطین فی فضائل المرتضیٰ و البتول و السبطین“ ہے۔
(دیکھیے غایۃ المرام ص560، 572)
”جوینی“ نام کے کئی محدث و مؤلف ہیں:
1: الجويني: الإمام الكبير شيخ الإسلام أبو عمران موسى بن العباس الخراساني الجويني الحافظ مؤلف " المسند الصحيح " الذي خرجه كهيئة " صحيح " مسلم . توفي أبو عمران بجوين سنة ثلاث وعشرين وثلاث مئة
[سير أعلام النبلاء للذهبي الجزء15 صفحة235]
2: الجويني: شيخ الشافعية أبو محمد عبد الله بن يوسف بن عبد الله بن يوسف بن محمد بن حيويه الطائي السنبسي كذا نسبه الملك المؤيد الجويني والد إمام الحرمين.... توفي في ذي القعدة سنة ثمان وثلاثين وأربع مئة
[سير أعلام النبلاء للذهبي الجزء17 صفحة617]
3: الجويني: الإمام الكبير شيخ الشافعية إمام الحرمين أبو المعالي عبد الملك بن الإمام أبي محمد عبد الله بن يوسف بن عبد الله بن يوسف بن محمد بن حيويه الجويني ثم النيسابوري ضياء الدين الشافعي صاحب التصانيف . ولد في أول سنة تسع عشرة وأربع مئة.... توفي في الخامس والعشرين من ربيع الآخر سنة ثمان وسبعين وأربع مئة ودفن في داره ثم نقل بعد سنين إلى مقبرة الحسين فدفن بجنب والده.
[سير أعلام النبلاء للذهبي الجزء18 صفحة468]
یہ تین محدث ہیں جو اہل السنت کے جید ائمہ ہیں۔ ایک چوتھا آدمی بھی ”جوینی“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حالات یہ ہیں:
الجويني (644 - 722 ه‍ = 1246 - 1322 م) إبراهيم بن محمد بن المؤيد أبي بكر بن حمويه الجويني صدر الدين أبو المجامع... من أهل (جوين بها رحل في طلب الحديث فسمع بالعراق والشام والحجاز وتبريز وآمل طبرستان والقدس وكربلاء وقزوين وغيرها وتوفي بالعراق ... جعله الأمين العاملي من أعيان الشيعة ولقبه بالحموئي (نسبة إلى جده حمويه) وقال : له (فرائد السمطين في فضائل المرتضى والبتول والسبطين) في طهران في 160 ورقة وقال الذهبي : شيخ خراسان كان حاطب ليل - يعني في رواية الحديث - جمع أحاديث ثنائيات وثلاثيات ورباعيات من الأباطيل المكذوبة.
[الأعلام لخير الدين الزركلي الجزء1 صفحة63]
اس سے معلوم ہوا کہ ”فرائد السمطین“ کا مصنف شیعہ ہے، شیعہ حضرات کا اسے ”شیخ الاسلام“ کے لقب سے ذکر کرنا کذب صریح ہے اس لیے کہ ”شیخ الاسلام“ تو موسى بن العباس الجويني کا لقب ہے نہ کہ ابراہیم بن محمد۔ مزید یہ کہ اس کتاب کے مطالعہ اور دیگر حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص اثنی عشری شیعہ تھا، ثبوت پیش خدمت ہے:
1: یہ عصمت غیر انبیاء کا قائل تھا۔
(فرائد السمطين ج2 ص133)
2: مختلف دلائل دے کر بارہ اماموں کا اثبات کرتا ہے۔
(فرائد السمطين ج2 ص140 الباب الثاني والثلاثون)
3: یہ اس بات کا قائل تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بارہ ائمہ کی وصیت کی تھی۔
(فرائد السمطين ج2 ص136 الباب الثاني والثلاثون)
4: یہ عليّ بن موسى المعروف امام رضا کی عصمت کا قائل تھا اور انہیں آٹھواں امام کہتا تھا۔
(فرائد السمطين ج2 ص187 الباب التاسع والثلاثون)
5: اس کے کئی شیخ اور استاذ رافضی تھے۔
(دیکھیے: فرائد السمطين ج2 ص73 الباب السادس عشر، الذريعة لآقا بزرگ الطهراني الجزء2 صفحة442، )
6: کتب شیعہ کو بطور حجت پیش کرتا ہے۔ مثلاً
نقل من كتاب كمال الدين
[فرائد السمطين ج2 صفحات 140 و 142 و 147]
نقل من كتاب عيون أخبار الرضا
[فرائد السمطين ج2 صفحات 174 و179 و188 و191 و192 و200 إلخ]
7: شیعوں کا اعتراف ہے کہ یہ انہی میں سے تھا۔
(دیکھیے: ذيل كشف الظنون لآقا بزرگ الطهراني ص70، الذريعة لآقا بزرگ الطهراني الجزء8 صفحة126، موسوعة مؤلفي الإمامية - مجمع الفكر الإسلامي الجزء1 صفحة379 وغیرہ)
یہ تمام امور اس کے شیعہ ہونے پر دال ہیں۔ لہٰذا اس کو سنی کہنا اور اس کی روایت کو سنیوں پر بطور حجت پیش کرنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔
خمینی صاحب نے سنیوں کے حوالے سے ثابت کرنا تھا کہ آیت کا شان نزول امامت علی کے بارے میں ہوا لیکن افسوس کہ یہ لوگ تو شیعہ نکلے۔
ثالثاً…… شیعی مفسرین کا یہ دعویٰ کہ یہ آیت حجۃ الوداع سے واپسی کے موقعہ پر غدیر خم پر 18ذی الحجہ کو خطبہ کے بعد نازل ہوئی، غلط ہے اس لیے کہ جمہور مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں نازل ہوئی یعنی 9ذی الحجہ بروز جمعہ شام کے وقت۔ خود حضرت علی رضی االلہ عنہ کا قول ہے کہ یہ آیت عرفہ کی شام (یعنی 9ذی الحجہ) کو نازل ہوئی۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
عن علي قال: نزلت هذه الآية على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو قائم عَشِيَّةَ عرفة{ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ}
(تفسیر ابن کثیر: ج3 ص27)
امام بخاری حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مختلف نے روایات نقل کی ہیں کہ یہ آیت یوم عرفہ کو نازل ہوئی مثلاً:
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَتْ الْيَهُودُ لِعُمَرَ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً لَوْ نَزَلَتْ فِينَا لَاتَّخَذْنَاهَا عِيدًا فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي لَأَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ وَأَيْنَ أُنْزِلَتْ وَأَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ وَإِنَّا وَاللَّهِ بِعَرَفَةَ.
(صحیح البخاری: حدیث نمبر4606 تفسیر سورۃ المائدۃ)
رابعاً…… سنی مفسرین نے اس روایت کا صراحتا رد کیا ہے۔ لہٰذا اسے سنیوں کے سر تھوپنا غلط ہے:
قال الآلوسی البغدادی: وأخرج الشيعة عن أبى سعيد الخدرى أن هذه الآية نزلت بعد أن قال النبى صلى الله عليه و سلم لعلى كرم الله وجهه فى غدير خم : من كنت مولاه فعلى مولاه فلما نزلت قال عليه الصلاة و السلام : الله أكبر على إكمال الدين وإتمام النعمة ورضاء الرب برسالتى وولاية على كرم الله وجهه بعدى ولايخفى أن هذا من مفترياتهم وركاكة الخبر شاهدة على ذلك فى مبتدأ الأمر.
(روح المعانی: ج6 ص61)
کہ شیعوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ مذکورہ آیت (الیوم اکملت لکم دینکم) غدیر خم پر اس وقت نازل ہوئی جب نبی علیہ السلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا:” من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ پھر جب یہ آیت نازل ہوگئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمۃ ورضا الرب برسالتی وولایۃ علی کرم اللہ وجہہ بعدی“
یہ روایت شیعہ افتراءات کا ایک نمونہ ہے اور سند کے علاوہ اس روایت کے رکیک الفاظ بھی خود اس کے من گھڑت ہونے پر گواہ ہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے دو شیعہ روایتیں نقل کر کے فرمایا:
ولا يصح هذا ولا هذا، بل الصواب الذي لا شك فيه ولا مرية: أنها أنزلت يوم عرفة، وكان يوم جمعة، كما روى ذلك أمير المؤمنين عمر بن الخطاب، وعلي بن أبي طالب، وأول ملوك الإسلام معاوية بن أبي سفيان، وترجمان القرآن عبد الله بن عباس، وسَمُرَة بن جندب، رضي الله عنهم، وأرسله [عامر] الشعبي، وقتادة بن دعامة، وشَهْر بن حَوْشَب، وغير واحد من الأئمة والعلماء.
(تفسیر ابن کثیر: ج3 ص26 تحت ھذہ الآیۃ)
ترجمہ: نہ یہ روایت صحیح ہے نہ وہ بلکہ حق بات جس میں ادنیٰ شک و شبہ کی گنجائش نہیں وہ یہ ہے کہ یہ آیت عرفہ 9 ذی الحجہ کو جمعہ کے دن نازل ہوئی جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ نیز امام شعبی، امام قتادہ ،امام شہر بن حوشب اور دیگر ائمہ اور علماء کا یہی قول ہے۔
علامہ فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے اس آیت سے شیعہ کے استدلال پر بہترین رد فرمایا، لکھتے ہیں:
المسألة الثالثة : قال أصحابنا : هذه الآية دالة على بطلان قول الرافضة ، وذلك لأنه تعالى بيّن أن الذين كفروا يئسوا من تبديل الدين ، وأكد ذلك بقوله {فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ } فلو كانت إماة علي بن أبي طالب رضي الله عنه منصوصاً عليها من قبل الله تعالى وقبل رسوله صلى الله عليه وسلّم نصاً واجب الطاعة لكان من أراد إخفاءه وتغييره آيساً من ذلك بمقتضى هذه الآية ، فكان يلزم أن لا يقدر أحد من الصحابة على إنكار ذلك النص وعلى تغييره وإخفائه ، ولما لم يكن الأمر كذلك ، بل لم يجر لهذا النص ذكر ، ولا ظهر منه خبر ولا أثر ، علمنا أن ادعاء هذا النص كذب ، وأن علي بن أبي طالب رضي الله عنه ما كان منصوصاً عليه بالإمامة.
(التفسیر الکبیر للرازی: تحت ہذہ الآیۃ)
ترجمہ: ہمارے علماء نے فرمایا کہ یہ آیت ”الیوم اکملت لکم دینکم“ روافض کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے، اس لیے کہ اللہ نے اس آیت کی ابتداء میں فرمایا ہے ”اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ“ (آج کے دن کافر ناامید ہوگئے تمہارےدین سے، سو ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو) جس نے واضح کردیا کہ کافر دین میں تبدیلی سے مایوس ہوگئے ہیں اور یہ بھی فرمادیا کہ اب ان سے مت ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ اگر حضرت علی بن ابی طالب کی امامت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے منصوص ہوتی یعنی نص واجب الطاعۃ ہوتی تو اسے چھپانے اور اسے تبدیل کرنے والے کو اس آیت کے مطابق نا امید ہوجانا چاہیے تھا یعنی صحابہ میں سے کوئی بھی اس نص کے انکار، اس کی تبدیلی یا اس کے چھپانے پر قادر نہ ہوتا، اور جب ان میں سے کوئی بات پیش نہ آئی بلکہ اس نص امامت کا ذکر ہوا نہ اس کی خبر ظاہر ہوئی اور نہ اس کی کوئی روایت آئی تو ہمیں علم ہوگیا کہ کہ اس نص کا دعویٰ محض کذب ہے اور یہ کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یقیناً منصوص بالامامت نہیں تھے۔
دلیل نمبر4:
شیعہ حضرات نے اپنے دعوی پر ایک حدیث یہ بھی پیش کرتے ہیں:
من کنت مولاہ فعلی مولاہ .
کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کا علی مولا ہے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل پر نص ہے اور عقیدہ امامت کی بنیاد ہے۔ ( اسی روایت کی وجہ سے یہ لوگ قرآنی آیات میں تاویلات بلکہ تحریفات کر گزرتے ہیں)
جواب:
اس حدیث کے متعلق چند بنیادی باتیں بیان کی جاتی ہیں تاکہ اصل مفہوم واضح ہو اور شیعہ استدلال کی قلعی کھل سکے۔
پہلی بات:
روایت کی اسنادی حیثیت
یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے ، بعض صحیح اور بعض حسن درجہ کے ہیں۔
1: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
واما حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ فقد اخرجہ الترمذی والنسائی وھو کثیر الطرق جدا وقد استوعبہا ابن عقدۃ فی کتاب مفرد و کثیر من اسانیدہا صحاح و حسان.
(فتح الباری: ج7س74)
2: حافظ ابن حجر مکی الہیثمی لکھتے ہیں:
وبیانہ انہ حدیث صحیح لا مریۃ فیہ وقد اخرجہ جماعۃ کالترمذی والنسائی و احمد وطرقہ کثیرۃ جدا.
(الصواعق المحرقہ ص42)
دوسری بات:
خطبہ غدیر کا وقت اور موقع محل
فتحِ مکہ کے بعد لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے (کما قال تعالیٰ: ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجاً) دین اسلام کی تکمیل ہورہی تھی یہاں تک کہ حجۃ الوداع جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری اور اہم سفر تھا، میں 9ذی الحجہ کو آیت ”الیوم اکملت لکم دینکم الخ“ نازل ہوئی، اس سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دینِ اسلام کے بنیادی اصولوں، امت کو پیش آنے والی گمراہیوں سے بچانے والی نصیحتوں اور ارشادات سے نوازا تاکہ امت باہمی اختلافات سے محفوظ رہ کر صراط مستقیم پر گامزن رہے۔
حجۃ الوداع سے واپسی پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ”حجفہ“ کے قریب ایک تالاب کے کنارے درختوں کے سائے میں آپ صلی علیہ وسلم نے پڑاؤ ڈالا، یہ جگہ ”وادی خم“ اور ”غدیر خم“ کے نام سے معروف ہے، نماز کا اعلان کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر پڑھائی اور اس کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہی خطبہ ”حدیث غدیر“ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ اتوار کا دن تھا اور ذی الحجہ کی 18 تاریخ تھی۔
(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ج4ص414 )
تیسری بات:
خطبہ دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی:
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حجۃ الوداع کے موقعہ پر 4 ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ میں تشریف لائے، حرم مکہ پہنچ کر عمرہ کے ارکان ادا فرمائے، اور پھر چار دن تک مکہ میں قیام فرمایا، انہی چار دنوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ (جو رمضان 10ھ سے یمن تشریف لے گئے ہوئے تھے) واپس مکہ مکرمہ پہنچے اور وہ خمس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جسے لانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں یمن روانہ کیا تھا، اس سفر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعض ساتھیوں کو آپ رضی اللہ عنہ سے چند شکایتیں ہوگئی تھیں جن کا تذکرہ ان ساتھیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان شکایات کے ازالہ کے لیے یہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔
ان روایات کو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ”باب بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بن ابی طالب و خالد بن ولید رضی اللہ عنہما الی الیمن“ قبل حجۃ الوداع کے تحت جمع کیا ہے۔ چند روایات یہ ہیں:
1: عن ابی بريدة قال: أبغضت عليا بغضا لم أبغضه أحدا قط، قال: وأحببت رجلا من قريش لم أحبه إلا على بغضه عليا قال فبعث ذلك الرجل على خيل فصحبته ما أصحبه إلا على بغضه عليا قال فأصبنا سبيا قال فكتب (ای حاکم الیمن خالد بن الولید) إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أبعث إلينا من يخمسه قال فبعث إلينا عليا وفي السبي وصيفة من أفضل السبي. قال: فخمس وقسم فخرج ورأسه يقطر فقلنا: يا أبا الحسن ما هذا ؟ فقال ألم تروا إلى الوصيفة التي كانت في السبي، فإني قسمت، وخمست فصارت في الخمس، ثم صارت في أهل بيت النبي صلى الله عليه وسلم ثم صارت في آل علي ووقعت بها، قال، فكتب الرجل إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم فقلت أبعثني فبعثني مصدقا فجعلت أقرأ الكتاب وأقوله صدق قال: فأمسك يدي والكتاب فقال: " أتبغض عليا " قال: قلت نعم ؟ قال " فلا تبغضه وإن كنت تحبه فازدد له حبا فوالذي نفس محمد بيده لنصيب آل علي في الخمس أفضل من وصيفة " قال: فما كان من الناس أحد بعد قول النبي صلى الله عليه وسلم أحب إلي من علي.
(البدایۃ والنہایۃ: ج5 ص121)
2: عن خاله عمرو بن شاس الاسلمي وكان من أصحاب الحديبية. قال: كنت مع علي بن أبي طالب في خيله التي بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن فجفاني علي بعض الجفاء. فوجدت في نفسي عليه فلما قدمت المدينة، اشتكيته في مجالس المدينة وعند من لقيته، فأقبلت يوما ورسوله الله جالس في المسجد، فلما رآني أنظر إلى عينيه نظر إلي حتى جلست إليه فلما جلست إليه قال: " إنه والله يا عمرو بن شاس لقد آذيتني " فقلت: إنا لله وإنا إليه راجعون، أعوذ بالله والاسلام أن أوذي رسول الله. فقال: " من آذى عليا فقد آذاني "
(البدایۃ والنہایۃ: ج5 ص121)
3: عن أبي سعيد الخدري. أنه قال: بعث رسول الله علي بن أبي طالب إلى اليمن. قال أبو سعيد، فكنت فيمن خرج معه، فلما أخذ من إبل الصدقة، سألناه أن نركب منها ونريح إبلنا - وكنا قد رأينا في إبلنا خللا - فأبى علينا، وقال: إنما لكم فيها سهم كما للمسلمين. قال، فلما فرغ علي وانطفق من اليمن راجعا، أمر علينا إنسانا وأسرع هو وأدرك الحج، فلما قضى حجته، قال له النبي صلى الله عليه وسلم. " ارجع إلى أصحابك حتى تقدم عليهم " قال أبو سعيد: وقد كنا سألنا الذي استخلفه ما كان علي منعنا إياه ففعل، فلما عرف في إبل الصدقة أنها قد ركبت، ورأى أثر الركب، قدم الذي أمره ولامه. فقلت: أما أن الله علي لئن قدمت المدينة لاذكرن لرسول الله، ولاخبرنه ما لقينا من الغلظة والتضييق. قال: فلما قدمنا المدينة غدوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أريد أن أفعل ما كنت حلفت عليه، فلقيت أبا بكر خارجا من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رآني وقف معي، ورحب بي وساءلني وساءلته. وقال متى قدمت ؟ فقلت: قدمت البارحة، فرجع معي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل، وقال هذا سعد بن مالك بن الشهيد. فقال: ائذن له فدخلت، فحييت رسول الله وحياني، وأقبل علي وسألني عن نفسي وأهلي وأحفى المسألة، فقلت: يا رسول الله ما لقينا من علي من الغلظة وسوء الصحبة والتضييق، فاتئد رسول الله وجعلت أنا أعدد ما لقينا منه، حتى إذا كنت في وسط كلامي، ضرب رسول الله على فخذي، وكنت منه قريبا وقال: " يا سعد بن مالك ابن الشهيد: مه، بعض قولك لاخيك علي، فوالله لقد علمت أنه أحسن في سبيل الله ".
قال: فقلت في نفسي ثكلتك أمك سعد بن مالك - ألا أراني كنت فيما يكره منذ اليوم، ولا أدري لا جرم والله لا أذكره بسوء أبدا سرا ولا علانية.
(البدایۃ والنہایۃ: ج5 ص122)
4: عن يزيد بن طلحة بن يزيد بن ركانة قال إنما وجد جيش علي بن [ أبي ] طالب الذين كانوا معه باليمن، لانهم حين أقبلوا خلف عليهم رجلا، وتعجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فعمد الرجل فكسى كل رجل حلة، فلما دنوا خرج عليهم علي يستلقيهم فإذا عليهم الحلل. قال علي: ما هذا ؟ قالوا: كسانا فلان: قال: فما دعاك إلى هذا قبل أن تقدم على رسول الله فيصنع ما شاء فنزع الحلل منهم، فلما قدموا على رسول الله اشتكوه لذلك، وكانوا قد صالحوا رسول الله، وإنما بعث عليا إلى جزية موضوعة.
(البدایۃ والنہایۃ: ج5 ص123)
5: عن عمران بن حصين قال : بعث رسول الله صلى الله عليه و سلم جيشا واستعمل عليهم علي بن أبي طالب فمضى في السرية فأصاب جارية فأنكروا عليه وتعاقد أربعة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالوا إذا لقينا رسول الله صلى الله عليه و سلم أخبرناه بما صنع علي وكان المسلمون إذا رجعوا من السفر بدءوا برسول الله صلى الله عليه و سلم فسلموا عليه ثم أنصرفوا إلى رحالهم فلما قدمت السرية سلموا على النبي صلى الله عليه و سلم فقام أحد الأربعة فقال يا رسول الله ألم تر إلى علي بن أبي طالب صنع كذا وكذا فأعرض عنه رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم قام الثاني فقال مثل مقالته فأعرض عنه ثم قام الثالث فقال مثل مقالته فأعرض عنه ثم قام الرابع فقال مثل ما قالوا فأقبل رسول الله صلى الله عليه و سلم والغضب يعرف في وجهه فقال ما تريدون من علي ؟ ما تريدون من علي إن عليا مني وأنا منه وهو ولي كل مؤمن بعدي.
(جامع الترمذی: باب مناقب علي بن أبي طالب رضي الله عنه)
ان مجموعہ روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مختلف حضرات خصوصاً جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفرِ یمن میں شریک تھے، ان کو حضرت علی کی طرف کچھ بد گمانی یا کدورت پیدا ہوگئی تھی، چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شمار کبار صحابہ اور السابقون الاولون میں ہے اور مزید یہ کہ آئندہ چل کر اپنے وقت میں امت کی قیادت و امامت کے فرائض بھی آپ نے سر انجام دینے ہیں اس لیے ضروری تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کی براءت ظاہر کریں بلکہ امت کو یہ حکم بھی دیں کہ وہ حضرت علی کے ساتھ محبت وعقیدت کا تعلق رکھیں۔
چوتھی بات:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ غدیر خم میں کیا ارشاد فرمایا؟ مختلف روایات اس بارے میں ملتی ہیں۔ ان میں مسند احمد بن حنبل کی روایت تقریباً تمام روایات کی جامع ہے، ملاحظہ ہو:
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا بِغَدِيرِ خُمٍّ فَنُودِيَ فِينَا الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ وَكُسِحَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فَقَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ قَالُوا بَلَى قَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ قَالُوا بَلَى قَالَ فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ قَالَ فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ فَقَالَ هَنِيئًا يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ.
(مسند احمد: رقم الحدیث 18479)
خلاصہ کلام: اہل تشیع کا اس روایت سے امامت اور خلافت علی بلا فصل پر استدلال باطل ہے اس لیے کہ:
[1]: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور موالاۃ کا اظہار محض اس لیے تھا کہ لوگوں کے دلوں میں ان کے بارے میں کوئی رنجش باقی نہ رہے، خلافت بلا فصل اور امامت کا اس میں دور دور کا تذکرہ نہیں۔
[2]: کتب اہل السنت میں جہاں حدیث غدیر خم موجود ہے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح اشارات بھی ہیں جن میں خلافت صدیق اکبر کا ذکر ہے یا خلفاء راشدین کی ترتیب کا ذکر ہے (گو اشارۃً ہی سہی) جس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ حدیثِ غدیر خم ایک وقتی ضرورت کے پیش نظر وارد ہوئی نہ کہ مستقلاً اصول امامت یا خلافت کے لیے۔
[3]: اگر یہ حدیث مسئلہ امامت یا حضرت علی کے خلیفہ بلا فصل کے متعلق ہوتی تو اس کا محل اور مقام حجۃ الوداع کا اجتماع تھا جہاں قرب و بعد تمام جگہوں کے مسلمان جمع تھے جو ایک عالمی اجتماع تھا، جس کا مقصد ایک عالمی نظریہ امت کو دینا تھا لیکن یہ حدیث خم کے تالاب کے پاس بیان ہوئی ہے جو اس بات کی یقینی دلیل ہے کہ اس سے مقصود آفاقی اور اجتماعی فیصلہ کا بیان کرنا مقصود نہیں تھا، بلکہ ایک وقتی ضرورت کا بیان کرنا تھا۔
دلیل نمبر5:
بعض شیعہ ویب سائٹس پر کتب اہل السنت سے امامت کا ثبوت کے عنوانات سے صحیحین کی روایات کو مستدل بنایا گیا ہے، جو ان الفاظ میں ہے۔
”ہم صحیحین سے اس بارے میں نقل شدہ روایات پیش کر نے پر اکتفا ء کرتے ہیں:
عن عبد الملک؛ سمعت جابر بن سمرة؛ قال: سمعت النبی(ص)یقول: یکون اثنیٰ عشرامیرا، فقال کلمة،۔ لم اسمعھا،فقال ابی: انہ قال: کلھم من قریش•
[صحیح بخاری ج۹، کتاب الاحکام، باب(۵۲)”استخلاف“ حدیث۶۷۹۶۔ صحیح مسلم ج۶، کتاب الامارة، باب(۱۱)” الناس تبع القریش و الخلافة فی قریش“حدیث ۱۸۲۱]
مسلم نے بھی اس حدیث کو آٹھ سندوں کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور ا ن میں سے ایک حدیث میں اس طرح آ یا ہے:
جابر بن سمرة؛ قال:انطلقتُ الی رسول(ص) اللّٰہ ومعی ابی، فسمعتہ، یقول: لایَزَالُ ہذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْہَا الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلھم من قریش•
[صحیح مسلم ج ۶ ،کتاب الامارہ ،باب۱حدیث۱۸۲۱۔(کتاب الامارة کی حدیث نمبر۹)]
اس حدیث کومختلف مضامین کے ساتھ اہل سنت کی اہم کتابوں میں کثرت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور یہ حدیث مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے بطلان اور مذہب شیعہ کے حق ہونے پر ایک محکم و مضبوط دلیل ہے، اس لئے کہ اس حدیث کا مضمون مذہب شیعہ کے علاوہ کسی اور فرقہ ٴ اسلامی کے رہنماؤں سے منطبق نہیں ہوتا،کیونکہ اہل سنت خلفائے راشدین (جو چار ہیں ) کے قائل ہیں ، یا پھر امام حسن مجتبی (ع) کی خلافت کو ملا دیں توپانچ ہوتے ہیں ، لیکن حدیث میں رسول(ص) نے بارہ فرمائے ہیں ، لہٰذا ان کے مذہب سے یہ حدیث منطبق نہیں ہوتی۔۔۔۔ لہٰذا صرف شیعہ اثنا عشریہ کے خلفاء کی تعداد سے منطبق ہوتی ہے، ان میں سر فہرست مولائے متقیان حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور آخر حضرت مھدی حجة ابن الحسن العسکری ارواحنا لہ الفداء ہیں۔ “
جواب :
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ کتب اہل السنت میں آئی ہے، جن میں سے چند کتب کے الفاظ پیش ہیں تاکہ اس روایت کا مطلب واضح ہو:
صحیح مسلم(حدیث نمبر1821) میں یہ الفاظ ہیں:
لا يزال أمر الناس ماضيا ما وليهم اثنا عشر رجلا•
کہ جب تک بارہ خلفاء ہوں گے لوگوں کا معاملہ چلتا رہے گا۔
سنن ابی داؤد(حدیث نمبر4282) میں ہے:
لا يزال هذا الدين عزيزا إلى اثني عشر خليفة•
کہ یہ دین بارہ خلیفہ کے آنے تک غالب رہے گا۔
صحیح بخاری (حدیث نمبر7222) میں یہ الفاظ ہیں:
يَكُونُ اثْنَا عَشَرَ أَمِيرًا••• كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ•
(کہ بارہ امیر ہوں گے، سب کے سب قریشی ہوں گے۔)
اس حدیث کا معنی و مطلب:
شیعہ حضرات کااس حدیث سے اپنے مزعومہ ائمہ مراد لینا کسی طرح درست نہیں اس لیے کہ ائمہ اہل السنت نے اس حدیث کے جو مطلب بیان کیے ہیں وہ شیعہ موقف کی واضح تردید کرتے ہیں اور اصول اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو روایت کتب اہل السنت میں ہے س کا معنی بھی اہل السنت کا بیان کردہ ہی معتبر ہو گا نہ کہ شیعہ فرقہ کا، اس لیے اس حدیث کے چند مطلب پیش خدمت ہیں:
مطلب نمبر1:
حافظ ا بن حجر عسقلانی رحمہ اللہ( م 852 ھ) نے اس حدیث پر طویل گفتگو فرمائی ہے اور جس تشریح کو راجح قرار دیاہے وہ علامہ ابن الجوزی اور قاضی عیاض مالکی کی تشریح ہے، جو کہ پیش خدمت ہے:
وينتظم من مجموع ما ذكراه (یعنی ابن الجوزی و القاضی عیاض) أوجه: أرجحها الثالث من أوجه القاضي (و ہو ان المراد ان يكون الاثنا عشر في مدة عزة الخلافة وقوة الإسلام واستقامة أموره والاجتماع على من يقوم بالخلافة) لتأييده بقوله في بعض طرق الحديث الصحيحة كلهم يجتمع عليه الناس• وإيضاح ذلك ان المراد بالاجتماع انقيادهم لبيعته والذي وقع ان الناس اجتمعوا على أبي بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي إلى ان وقع أمر الحكمين في صفين فسمى معاوية يومئذ بالخلافة ثم اجتمع الناس على معاوية عند صلح الحسن ثم اجتمعوا على ولده يزيد ولم ينتظم للحسين أمر بل قتل قبل ذلك ثم لما مات يزيد وقع الاختلاف إلى ان اجتمعوا على عبد الملك بن مروان بعد قتل بن الزبير ثم اجتمعوا على أولاده الأربعة الوليد ثم سليمان ثم يزيد ثم هشام …… فهؤلاء سبعة بعد الخلفاء الراشدين والثاني عشر هو الوليد بن يزيد بن عبد الملك اجتمع الناس عليه لما مات عمه هشام…… وانتشرت الفتن وتغيرت الأحوال من يومئذ ولم يتفق ان يجتمع الناس على خليفة بعد ذلك لأن يزيد بن الوليد الذي قام على بن عمه الوليد بن يزيد لم تطل مدته بل ثار عليه قبل ان يموت بن عم أبيه مروان بن محمد بن مروان ولما مات يزيد ولى أخوه إبراهيم فغلبه مروان ثم ثار على مروان بنو العباس إلى ان قتل ثم كان أول خلفاء بني العباس أبو العباس السفاح ولم تطل مدته مع كثرة من ثار عليه…… وانفرط الأمر في جميع أقطار الأرض إلى ان لم يبق من الخلافة الا الاسم في بعض البلاد…… ومن نظر في أخبارهم عرف صحة ذلك•
(فتح الباری شرح صحیح البخاری: ج13 ص263)
ترجمہ: ابن الجوزی اور قاضی عیاض نے جو کچھ ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کی چند توجیہات کی ہیں جن میں سے تیسری توجیح راجح ہے کہ ”بارہ سےمراد وہ اربابِ خلافت ہیں جو اس دور میں ہوں گے جس میں خلافت کی شان وشوکت ، اسلام کی قوت، اسلام کے امور کی طاقت عروج پر ہوگی اور لوگ ان خلفاء پر متفق اور مجتمع ہوں گے“ اس مطلب کی تائید بعض طرق سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کلھم یجتمع علیہ الناس“ [ کہ ان خلفاء پر لوگ متفق اور مجتمع بھی ہوں گے] لوگوں کے متفق اور مجتمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سارے لوگ ان بارہ کی بیعت کے لیے متفق ہوں گے۔ جو کچھ اتفاق اس بارے میں پیش آیا وہ یہ ہے کہ لوگ پہلے پہل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر متفق ہوئے ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر متفق ہوئے ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر متفق ہوئے ، پھر حضر ت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر متفق ہوئے یہاں تک کہ واقعہ صفین میں حکم مقرر کرنے کا معاملہ پیش آیا جسے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کا نام دیا۔ پھر لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر متفق ہوئے جب حضرت حسن بن علی کی نے دستبرداری کر کے صلح کرا دی تھی۔ پھر لوگ حضرت معاویہ کے بیٹے یزید کی خلافت پر متفق ہوئے۔ [بقول ابن الجوزی حدیث کی یہ پیشنگوئی استقامت سلطنت سے متعلق تھی باعتبار مدح خلیفہ کے نہیں تھی۔ بحوالہ كشف المشكل من حديث الصحيحين لابن الجوزی: ج1 ص289، لہذا اس سے یزید کی مدح و تعریف لازم نہیں آتی۔ از ناقل] حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ پر اتفاق ہو نہیں پایا تھا کہ آپ شہید ہوگئے۔ جب یزید کی وفات ہوئی تو خلافت کے معاملے میں اختلاف پڑ گیا یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے بعد عبد الملک بن مروان کی خلافت پر لوگ متفق ہوگئے۔ عبد الملک بن مروان کی وفات کے بعد ان کے چار بیٹوں ولید ، سلیمان ، یزید اور ہشام کی خلافت پر اتفاق پایا گیا، تو خلفاء راشدین کی بعد یہ سات حضرات ہیں۔ بارہواں خلیفہ ولید بن یزید بن عبدالملک ہے اس پر لوگوں کا اتفاق اس وقت ہوا تھا جب اس کا چچا ہشام بن عبدالملک فوت ہو ا تھا (تو لوگوں نے متفقہ طور پر ولید بن یزید بن عبدالملک کو خلیفہ نامزد کر دیا) اس کی وفات کے بعد سے اب تک فتنوں کا دور دورہ رہا اور حالات ابتر رہے۔ اس کے بعد خلیفہ کی نامزدگی پر کبھی (مجموعی) اتفاق نہیں پایا گیا۔ اس لیے کہ یزید بن ولید جو اپنے چچا ولید بن یزید پر قابض ہوا ، کی مدت حکومت زیادہ دیر نہ رہی بلکہ اس کےمرنے سے قبل اس کے باپ کا چچا زاد بھائی مروان بن محمد بن مروان اس پر مسلط ہوا۔ جب یزید فوت ہوا تو اس کا بھائی ابراہیم تخت نشین ہوا۔ جس پر مروان (مروان الحمار ) غالب ہوا پھر مروان الحمار پر بنو العباس حملہ آور ہوتے رہے یہاں کہ وہ قتل ہوگیا۔ بنو عباس کے پہلا خلیفہ ابو العباس السفاح تھا ، وہ بھی زیادہ مدت نہ ٹھہر سکا کیونکہ اس پر بھی فتنوں کا سیلاب امڈ پڑا اور معاملات ایسے چلتے رہے کہ صرف چند شہروں میں خلافت برائے نام رہ گئی ( اس کی حکومت کا استحکام اور اتفاقِ عوام ویسا نہ رہا جیسا کہ بنی عبدالملک بن مروان کے ادوار میں رہا) تو جو شخص ان ادوار کے حالات میں غور کرے تو اس پر بخوبی واضح ہو گا کہ یہ بارہ خلفاء کے تعین کے بارے میں یہ قول صحیح ہے۔
اس راجح تشریح سے واضح ہوا کہ بارہ خلفاء سے مراد وہ نہیں ہیں جن کے شیعہ قائل ہیں، لہذا شیعہ حضرات کا اس حدیث کو اپنے موقف پر دلیل سمجھنا سوائے بے خبری کے اور کچھ نہیں۔
مطلب نمبر2:
مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
ان عدد الاثنی عشر مبنی علی الاقل و لا ینافی ان یکون الخلفاء اکثر منہ•
(تکملہ فتح الملہم للعلامۃ تقی العثمانی: ج3 ص285)
ترجمہ: خلفاء کی تعداد ”بارہ“ ہو یہ کم از کم عدد ہے بارہ سے زیادہ خلفاء ہونے کے منافی نہیں ہے۔
مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”بارہ خلیفہ“ کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی زینت اور طاقت ان خلفاء کے وجود تک رہے گی چاہے وہ 12 ہوں یازیادہ کیونکہ12 کہنے سے زائد کی نفی نہیں ہوتی۔ یہی بات علامہ عینی نے ان الفاظ میں لکھی ہے :
أنه لم يقل لا بلى إلا اثنا عشر وإنما قال يكون اثنا عشر فلا يمنع الزيادة عليه•
(عمدۃ القاری ج35ص328)
کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ”صرف بارہ خلیفہ ہوں گے“ بلکہ فرمایا: ”بارہ ہوں گے“ (یعنی بارہ کے عدد پر منحصر نہیں کیا) اس سے پتا چلا کہ بارہ سے زائد بھی خلفاء ہو سکتے ہیں۔
خلاصہ کلام: 1: اس حدیث میں جن خلفاء کا ذکر ہے ان سے مراد وہ حضرات ہرگز مراد نہیں جن کے شیعہ قائل ہیں، اس لیے کہ اہل السنت و الجماعت (جن کی کتب میں یہ حدیث درج ہے) خود اس کی تشریح جن خلفاء سے کرتے ہیں وہی معتبر ہو گی نہ کہ شیعہ حضرات کی من چاہی تشریح، مزید یہ کہ دوسری توجیہہ کے مطابق تو یہ عدد حصر کے لیے ہے ہی نہیں تو ان سے حتمی طور پر بارہ مراد لینا کیسے درست ہو گا؟ البتہ اس دوسری توجیہہ کے مطابق اہل السنت والجماعت کے ہاں چونکہ ان بارہ مذکورہ حضرات کے علاوہ بھی خلفاء گزرے ہیں اس لیے ان کے ہاں ”بارہ“ کا عدد تکثیر کے لیے بھی ہو تب بھی ان کے خلفاء پر منطبق آتا ہے۔ لہذا شیعہ حضرات کا یہ کہنا ”ان (اہل السنۃ) کے مذہب سے یہ حدیث منطبق نہیں ہوتی“ باطل و مردود ہے۔
2: علماء اہل السنت و الجماعت نے ان کا مصداق جن خلفاء کو قرار دیا ہے ان کے نام ماقبل میں پیش کر دیے گئے ہیں۔
3: یہ حدیث ان خلفاء پر منطبق ہوتی ہے جن کے ہم اہل السنت و الجماعت قائل ہیں۔ تفصیل عرض کر دی گئی ہے۔







اہل سنت والجماعت کا مؤقف

اول : اہل سنت والجماعت کے اصول میں ہے کہ ان کے دل اورزبانیں صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہم کےبارہ میں صاف اورسلیم میں ۔

دل بغض ، عناد، کینہ، دھوکہ اورکراہت سےاورزبانیں ہراس قول سےپاک صاف ہیں جوصحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کےشایان شان اورلائق نہیں ۔

اس لئےاللہ سبحانہ وتعالی کاارشاد ہے :

اور( ان کےلئے ) جوان کےبعدآئیں جوکہ کہیں گےکہ اے ہمارے رب ہمیں بخش دےاورہمارےان بھائیوں کوبھی جوہم سے پہلےایمان لاچکےہیں اورایمان والوں کےلئےہمارے دل میں کینہ وبغض ( اوردشمنی ) نہ ڈال اے ہمارے رب بیشک توشفقت ومہربانی کرنےوالاہے  الحشر ۔/(10)

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتےہوئےکیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاہے :

( میرےصحابہ کوبرانہ کہواورگالی نہ دواس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہےتم میں سےاگرکوئی احدپہاڑکےبرابرسونابھی خرچ کردےتووہ ان کےایک مداورنہ ہی اس کےنصف تک پہنچ سکتاہے )۔

صحیح بخاری حدیث نمبر۔(3673)صحیح مسلم حدیث نمبر۔(2541)

اوراہل سنت والجماعت کایہ بھی اصول ہےکہ وہ صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہم کےجوفضائل ومراتب کتاب وسنت اوراجماع سےثابت ہیں اسےقبول کرتےہیں اوران میں سےجس نےفتح ۔صلح حدیبیہ ۔سےقبل اللہ تعالی کےراہ میں خرچ اورقتال کیااسےاس کے بعدخرچ کرنےاورقتال کرنےوالے پرفضیلت دیتےہیں ۔

کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کاارشاد ہے :

تم میں سےجن لوگوں نےفتح سے پہلےفی سبیل اللہ خرچ کیااورقتال کیاوہ ( دوسروں ) کےبرابرنہیں بلکہ ان سےبہت بڑے بلنددرجے پرفائزہیں جنہوں نےفتح کےبعدخیراتیں دی اورجہادکیےہاں بھلائی کاوعدہ تواللہ تعالی کاان سب سے ہےجوکچھ تم کررہےہواس سےاللہ تعالی خبردار ہے  الحدید ۔/(10)

اہل سنت والجماعت مہاجرین کوانصارپرمقدم کرتےہیں :

اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

اورجومہاجرین اورانصارسابق اورمقدم ہیں اورجتنےلوگ اخلاص کےساتھ ان کے پیروکارہیں اللہ تعالی ان سب سےراضی ہوااوروہ سب اللہ تعالی سےراضی ہوئےاوراللہ تعالی نےان کےلئےایسےباغات تیارکررکھےہیں جن کےنیچےسےنہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گےیہ بہت بڑی کامیابی ہے  التوبۃ ۔/(100)

تواللہ تعالی نےمہاجرین کوانصارپرمقدم کیاہے ۔

اوراہل سنت والجماعت کایہ ایمان ہےکہ اللہ تعالی نےاہل بدرکے۔جوکہ تین سودس کےکچھ اوپرتھے۔متعلق فرمایاہے : تم جوکچھ بھی عمل کرومیں نےتمہیں بخش دیاہے ۔

اس لئےکہ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :

( اللہ تعالی نےاہل بدرپرجھانکااورفرمایا : تم جوکچھ بھی عمل کرومیں نےتمہیں بخش دیا ہے ۔)

صحیح بخاری حدیث نمبر۔(3007) صحیح مسلم حدیث نمبر۔(2494)

اوراہل سنت والجماعت کایہ ایمان ہےکہ جس نےبھی درخت کےنیچےبیعت کی وہ آگ وجہنم میں نہیں جاسکتا ۔

جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کی خبردی اوربتایاہےبلکہ ان سےتواللہ تعالی راضی اوروہ اللہ تعالی سےراضی ہوگئےہیں اورجن کی تعدادایک ہزارچارسو(1400) تھی ۔

کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کاارشاد ہے :

یقینااللہ تعالی مومنوں سےراضی ہوگیاجبکہ وہ درخت تلےآپ سےبیعت کررہےتھے ان کےدلوں میں جوکچھ تھااسےاللہ تعالی نےمعلوم کرلیااوران پراطمینان اورسکون نازل فرمایااورانہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی  الفتح ۔/(18)

اوراس لئےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :

( ان شاءاللہ درخت والوں میں جنہوں نےاس کےنیچےبیعت کی کوئی بھی آگ میں داخل نہیں ہوگا ) صحیح مسلم حدیث نمبر۔(2496)

توبیعت کرنےوالوں میں ابوبکروعمروعثمان اورعلی رضی اللہ تعالی عنہم بھی شامل تھے ۔

اوراہل سنت ان کوجنہیں اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےجنت کی خوشخبری دی ہےکہ وہ جنتی ہیں انہیں وہ جنتی مانتےہیں جن کی تعداددس ہےاورجنہیں عشرۃ مبشرہ کےنام سےیادکیاجاتاہےاوران کےساتھ ثابت بن قیس بن شماس اوران کےعلاوہ دوسرےصحابہ رضی اللہ تعالی عنہم بھی شامل ہیں ۔

اس لئےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان ہے :

( ابوبکرجنتی ہیں، عمرجنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیرجنتی ہیں، عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں، سعدجنتی ہیں، سعیدجنتی ہیں، ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں، رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین )

سنن ابوداوودحدیث نمبر۔(4649) سنن ترمذی حدیث نمبر۔(3747) اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی ہےاسےصحیح قراردیا ہے ۔

اوراہل سنت اس بات کااقرارکرتےاورمانتےہیں کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ سےتواترکےساتھ نقل ہےکہ اس امت میں سےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدسب سےافضل ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ اوران کےبعدعمررضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔

محمدبن حنفیہ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ میں نےاپنےوالد( علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ) کوکہارسول صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدلوگوں میں سےسب سےبہتر اورافضل کون ہےتوانہوں نےفرمایا : ابوبکرمیں نےکہاان کےبعدپھرکون توانہوں نےفرمایا: عمرمیں ڈرگیاکہ آپ یہ نہ کہہ دیں کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہم میں نےکہاپھران کےبعد آپ ہیں توانہوں نےفرمایامیں تومسلمانوں میں سےایک عام آدمی ہوں )

صحیح بخاری حدیث نمبر۔(3671)

تواہل سنت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کوتیسرےنمبراورعلی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کوچوتھےنمبر پرمانتےہیں ۔

دیکھیں کتاب : الواسطیۃ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی شرح کےساتھ ۔

دوم : اوراہل سنت کایہ مذھب اورمسلک ہےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد لوگوں میں سےسب سےزیادہ خلافت کےحقدارابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔

آپ کےسامنےذیل ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کی امامت کےدلائل پیش کئےجاتےہیں:

1۔ محمدبن جبیربن مطعم اپنےوالدسےبیان کرتےہیں کہ انہوں نےکہاکہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی توآپ نےاسےدوبارہ آنےکافرمایاتووہ کہنےلگی مجھےیہ بتائیں کہ اگرمیں آؤں توآپ نہ ملیں گویاکہ وہ یہ کہہ رہی ہوکہ آپ پرموت آجائےتونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اگرتم مجھےنہ پاؤتوابوبکرکے پاس آجانا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر۔(3659)

2۔عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہمابیان کرتےہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :

( میرےبعدابوبکراورعمر( رضی اللہ تعالی عنہما ) کی اقتداءکرنا )۔

سنن ترمذی حدیث نمبر۔(3805)علامہ البانی رحمہ اللہ نےاسےصحیح کہاہے ۔

3۔عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہمابیان کرتےہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :

( میں کنویں سے پانی نکال رہاتھاکہ ابوبکراورعمررضی اللہ تعالی عنہماآئےتو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نےڈول پکڑکرایک یادوڈول پانی نکالااوراس نکالنےمیں کمزوری تھی اللہ تعالی اسےبخشے پھراس کےبعدعمررضی اللہ تعالی نےابوبکررضی اللہ تعالی کےہاتھ سےڈول پکڑاتوان کےہاتھ میں وہ ایک بڑےڈول میں بدل گياتومیں نےلوگوں میں اس سےبڑاکوئی عبقری دیومالائي قوت والا نہیں دیکھاجوکہ کام کوپوری طرح کرنےوالاہوحتی کہ لوگوں نےکھال میں مارا )

صحیح بخاری حدیث نمبر۔(3676)

حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح میں کہتےہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ قول ( میں کنویں پرتھا ) یعنی نیندمیں ۔

اوریہ قول ( اس سےپانی نکال رہاتھا ) یعنی میں پانی سےڈول بھررہاتھا ۔

اوریہ فرمان ( توایک یادوڈول نکالے ) ذنوب بڑےسےڈول کوکہتےہیں جس میں پانی ہوجومجھےظاہرہورہا ہےوہ یہ کہ اس میں ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کےدورمیں جوبڑی بڑی فتوحات ہوئی ہیں ان کی طرف اشارہ ہےجوکہ تین ہیں اوراسی لئےعمررضی اللہ تعالی عنہ کےذکرمیں ڈول نکالنےکی تعدادکاذکرنہیں بلکہ اس کی عظمت بیان کی ہےجوکہ ان کے دورخلافت میں کثرت فتوحات کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ تعالی اعلم ۔

اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالی ہےاس حدیث کی تفسیراپنی کتاب ( الام ) میں ذکرکی ہےوہ اس حدیث کوبیان کرنےکےبعدفرماتےہیں :

( ان کےڈول نکالنےمیں ضعف اورکمزوری تھی ) اس کامعنی یہ ہےکہ ان کی مدت خلافت کےقلیل ہونےاوران کی موت اوراہل ردہ کےساتھ لڑائی میں مشغول رہنےکی طرف اشارہ ہےجس نےانہیں فتوحات سےمشغول رکھااورعمررضی اللہ تعالی عنہ جوزیادتی میں پہنچےوہ ان کی مدت خلافت میں زیادہ ہونےکی طرف اشارہ ہے۔انتہی ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان : ( اوراللہ تعالی انہیں معاف فرمائے )

اس کےمتعلق امام نووی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ :یہ متکلم کی طرف سےدعاء ہے یعنی اس کاکوئی مفہوم نہیں ۔

اوران کےعلاوہ دوسروں کاکہناہےکہ : اس میں ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کی جلد وفات کی طرف اشارہ ہےیہ ایسےہی ہےجس طرح کہ اللہ تعالی ہےاپنےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشادفرمایاہے :

تو اپنے رب کی تسبیح بیان کراوراس سےبخشش طلب کربیشک وہ توبہ قبول کرنےوالاہے 

کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرب وفات کی طرف اشارہ ہے ۔

میں کہتاہوں کہ : اس میں یہ بھی احتمال ہوسکتاہےکہ اس میں فتوحات کےقلیل ہو نےکی طرف اشارہ ہےجس میں کوئی مضائقہ نہیں اوراس کاسبب ان کی مدت خلافت قلیل ہوناہےتوان کےلئےمغفرت کامعنی یہ ہوگاکہ ان پرکوئی ملامت نہیں ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان :( توان کےہاتھ میں ایک بڑاڈول بن گیا ) یعنی بہت بڑاڈول ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان :( میں نےاس سےبڑاعبقری نہیں دیکھا )۔

اس سےمرادیہ ہےکہ ہرچیزاپنےانتہاءکوپہنچ جائے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان:(فریہ)اس کامعنی یہ ہےکہ وہ ہرکام کوپوراکرے۔

4۔عائشہ رضی اللہ تعالی عنہابیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی بیماری میں مجھےفرمایا کہ اپنےباپ ابوبکراوربھائی کومیرے پاس بلاؤتا کہ میں کچھ لکھ دوں کیونکہ مجھےڈرہےکہ کوئی خواہش کرنےوالاخواہش کرےاوریہ کہےگا کہ میں اولی ہوں اوراللہ تعالی اورمومن اس کاانکارکریں ابوبکرکےعلاوہ ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر۔(2387)

5۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی مرض الموت میں ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کونماز میں مسلمانوں کاامام متعین کیااورابوبکرکےعلاوہ کسی اورپرراضی نہیں ہوئےتواس امامت صغری میں انہیں خلیفہ بنانےمیں امامت کبری ( خلافت ) کی طرف اشارہ تھا کہ امامت کبری میں بھی وہ ہی خلیفہ ہوں گے ۔

واللہ اعلم .






خلافت و امامت: اہل سنت اور اہل تشیع کا بنیادی اختلاف

اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین نزاعی اور اختلافی مسائل میں ایک اہم مسئلہ خلافت و امامت کا ہے جس کے مختلف پہلوؤں پر صدیوں سے گفتگو اور مباحثہ جاری ہے، اس کے صرف ایک پہلو پر کچھ ضروری باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ اصل مسئلہ اصولی طور پر ہے کیا اور اس میں اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین مابہ النزاع امور کیا ہیں؟

اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جانشین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نامزد کر دیا تھا، اس حیثیت سے وہ ’’وصی رسول اللہ‘‘ ہیں اور یہ کلمہ اہل تشیع کے ایمانیات اور اذان کا حصہ ہے۔ جبکہ اہل سنت کا نقطہ نظریہ ہے کہ نبی اکرم ؐ نے اپنا جانشین خود نامزد کرنے کی بجائے اس کا انتخاب امت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جناب نبی اکرم ؐ کے وصال کے بعد کھلے مباحثہ اور اجتماعی صوابدید کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کو نبی اکرم ؐ کا جانشین منتخب کیا تھا۔ چنانچہ اہل تشیع کے نزدیک رسول اکرمؐ کے جانشین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں اور یہ منصب ’’امامت‘‘ کے عنوان سے موسوم ہے، مگر اہل سنت کے نزدیک جناب نبی اکرم ؐ کے جانشین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ منصب خلافت کہلاتا ہے۔ خلافت و امامت کے ان دو فلسفوں میں چند بنیادی فرق ہیں جن کو ملحوظ رکھنا اس اختلاف کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

  1. پہلا فرق تو یہی اصطلاح کا ہے کہ اہل سنت جانشینِ رسولؐ کو ’’خلیفۃ الرسول‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور اہل تشیع اسے ’’امام‘‘ اور ’’وصی‘‘ کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں۔
  2. دوسرا فرق یہ ہے کہ ’’خلیفہ‘‘ نامزد نہیں ہوتا بلکہ امت اپنی صوابدید اور اجتماعی رائے کے ذریعے اس کا انتخاب کرتی ہے، مگر ’’امام‘‘ کے انتخاب میں رائے عامہ اور امت کی صوابدید کا کوئی دخل نہیں ہوتا اور یہ منصب نامزدگی اور وصیت کے ذریعے تشکیل پاتا ہے۔
  3. تیسرا فرق یہ ہے کہ ’’امام‘‘ اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نبی کی براہ راست راہنمائی فرماتے ہیں، اسی طرح امام کی بھی اللہ پاک راہنمائی خود کرتے ہیں، اس لیے امام جو بھی کہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ جبکہ خلیفہ اللہ تعالیٰ کی نیابت کرنے کی بجائے نبی اکرم ؐ کے نائب اور ’’خلیفہ‘‘ کے طور پر امت کی قیادت کرتا ہے۔ جیسا کہ قاضی ابو یعلی نے ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ایک شخص نے یا خلیفۃ اللہ کہہ کر خطاب کیا تو حضرت صدیق اکبرؓ نے اسے ٹوک دیا اور فرمایا کہ میں اللہ کا نہیں اللہ کے رسول ؐ کا خلیفہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین کو ’’خلیفۃ رسول اللہ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا اور ہمارے فقہاء کرام نے خلیفہ کی جو تعریف کی ہے اس میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو امت مسلمہ کی اجتماعی امور میں قیادت کرے اور نبی اکرمؐ کی نیابت کرتے ہوئے آپؐ کی ہدایات اور سنت کے مطابق حکومت و ریاست کے معاملات سرانجام دے۔

    یہ فرق بہت بنیادی اور اہم ہے اس لیے کہ جب کوئی شخص براہ راست اللہ تعالیٰ کی نیابت کرتا ہے تو وہ کوئی دلیل پیش کرنے کا پابند نہیں ہے بلکہ اس کی صرف یہ بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری یوں راہنمائی فرمائی ہے۔ لیکن جناب نبی اکرمؐ کی نیابت کرنے والے کو نبی اکرم ؐ کا کوئی حوالہ دینا ہوتا ہے، اس کے بغیر اس کی کوئی بات نبی اکرم ؐ کی بات نہیں کہلا سکتی، گویا خلیفہ دلیل اور حوالہ کا پابند ہے اور امام کے لیے کوئی حوالہ دینا ضروری نہیں ہے، اور خود دلیل اور اس کی ہر بات تسلیم کی جائے گی اس لیے کہ وہ خدا کا نمائندہ ہے۔

  4. چوتھا فرق یہ ہے کہ امام اللہ تعالیٰ کا براہ راست نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ’’معصوم عن الخطا‘‘ ہے اور اس کی کسی بات کو خطا سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ خلیفہ معصوم نہیں ہے بلکہ اس کا شرعی درجہ مجتہد کا ہے اور مجتہد کے فیصلوں میں صواب اور خطا دونوں کا احتمال یکساں قائم رہتا ہے۔ اہل سنت کا اصول ہے کہ ’’المجتہد یخطی و یصیب ‘‘مجتہد خطا کا مرتکب بھی ہوتا ہے اور صواب کا احتمال بھی رکھتا ہے۔ اس لیے مجتہد کی کسی بھی بات سے علمی دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیا جا سکتا ہے اور خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین کے فیصلوں سے اختلاف کیا جاتا رہا ہے۔ مگر امام معصوم ہوتا ہے اور اس کی رائے میں خطا کا احتمال نہیں ہے اس لیے اس کی کسی بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ دونوں بزرگوں کے خلیفہ کی حیثیت سے پہلے خطبوں میں صراحت موجود ہے کہ ہم قرآن و سنت کے مطابق حکومت کریں گے اور اسی وجہ سے تم پر ہماری اطاعت ضروری ہے، اگر ہم قرآن و سنت کے پابند رہیں تو ہمارا ساتھ دو اور اگر ہم قرآن و سنت سے ہٹتے ہوئے نظر آئیں تو ہماری اطاعت تم پر ضروری نہیں ہے۔

    اس حوالے سے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں دلیل کی بنیاد پر قائم ہونے والی پہلی حکومت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تھی اس لیے کہ بادشاہت میں بادشاہ خود اتھارٹی ہوتا ہے جبکہ اللہ کا نبی بھی خود اتھارٹی ہوتا ہے، اسی طرح آج کے دور کی پارلیمنٹ بھی خود اتھارٹی تصور کی جاتی ہے کیوں کہ وہ کسی طے شدہ قانون کی پابند ہونے کی بجائے خود قانون بنانے اور اس میں ردوبدل کی مجاز ہوتی ہے۔ مگر ایسی حکومت جو کسی طے شدہ قانون کی پابند ہو اور اسے اس قانون میں رد و بدل کا اختیار بھی نہ ہو صرف ’’خلافت اسلامیہ‘‘ ہے، اس کے علاوہ کسی حکومت کو بھی خواہ وہ شخصی ہو، جماعتی ہو یا پارلیمانی ہو، علی الاطلاق دلیل کی حکومت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

  5. خلافت اور امامت میں پانچواں فرق یہ ہے کہ خلیفہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے اور پبلک کا کوئی بھی شخص خلیفہ کے کسی بھی فیصلے پر سرعام روک ٹوک کر سکتا ہے۔ جبکہ امام کی رائے حتمی ہوتی ہے اور وہ کسی کے سامنے بھی جواب دہ نہیں ہوتا۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلافت سنبھالتے ہی اپنے پہلے خطبہ میں عوام کے اس حق کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا کہ ’’اگر میں سیدھا چلوں تو میری معاونت کرو اور اگر میں ٹیڑھا ہونے لگوں تو مجھے سیدھا کرو‘‘۔ یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ حضرت صدیق اکبرؓ یہ نہیں فرما رہے کہ اگر میں ٹیڑھا چلوں تو مجھے بتا دو اور ٹوک دو بلکہ یہ فرما رہے ہیں کہ مجھے سیدھا کر دو۔ یعنی عام آدمی کا حق خلیفہ کو اس کے غلط فیصلے پر صرف غلطی سے آگاہ کرنا نہیں ہے بلکہ اسے سیدھا کر دینے کا حق بھی اسے حاصل ہے۔ اسی کو آج کی دنیا میں عوام کا حق احتساب کہا جاتا ہے اور اسلام میں خلیفہ نہ صرف عوام کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے بلکہ عوام کو اس کے احتساب کا حق بھی حاصل ہے۔
  6. خلافت اور امامت کے تصور میں اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان چھٹا فرق یہ ہے کہ امامت نسبی اور موروثی ہے جیسا کہ اہل تشیع کے بارہ اماموں سے واضح ہے۔ جبکہ خلافت نسبی اور موروثی نہیں ہے اس لیے کہ حضرت ابوبکرؓ جناب نبی اکرم ؐ کے نسبی وارث نہیں تھے اور نہ ہی چاروں خلفاء راشدینؓ میں سے کوئی ایک دوسرے کا نسبی وارث ہے۔

اہل سنت کے تصور خلافت اور اہل تشیع کے تصور امامت میں چند اہم فرق میں نے واضح کیے ہیں۔ اور اس حوالے سے یہ بات بھی آپ حضرات کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ ایرانی انقلاب کے بعد ایران میں اثنا عشریہ اہل تشیع کی جو مذہبی حکومت قائم ہوئی ہے اس کی دستوری بنیاد اسی امامت کے فلسفہ پر ہے، انہوں نے آج کے حالات کے تناظر میں جمہوریت، پارلیمنٹ اور ووٹ کو حکومت کی تشکیل کا ذریعہ ضرور بنا یا ہے مگر دستور کی اساس ’’ولایت فقیہ‘‘ پر رکھی ہے۔ ان کے نزدیک جو بارہویں امام غائب ہیں اصل حکومت ان کی ہے، ان کی نیابت ’’ولایت فقیہ‘‘ کے عنوان سے ایک متفق علیہ فقیہ کرتے ہیں جو پہلے خمینی صاحب تھے اور ان کے بعد اب خامنائی صاحب ہیں۔ وہ پورے دستور و قانون اور ریاست و حکومت کے نگران اعلیٰ کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے ساتھ فقہاء اور ماہرین قانون کی ایک کونسل ’’شورائے نگہبان ‘‘ کے عنوان سے ان کی مشیر و معاون ہے مگر اصل اتھارٹی ولایت فقیہ کے طور پر خامنائی صاحب کے پاس ہے اور انہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ صدر، حکومت اور پارلیمنٹ سمیت کسی بھی ادارے کے فیصلے کو ویٹو کر سکتے ہیں۔ ان کے اس ویٹو کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہے اور یہی وہ دستوری شکل ہے جو اہل تشیع نے آج کے حالات کے تناظر میں اپنے تصور امامت کو دی ہے۔

جبکہ اہل سنت کی طرف سے خلافت کو دستوری ڈھانچہ فراہم کرنے کے لیے ابھی تک کوئی عملی پیشرفت نہیں ہوئی، پاکستان کے دستور میں ’’قرار داد مقاصد‘‘ کی صورت میں ایک اچھا آغاز ہوا تھا جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے جمہور کے نمائندوں کے ذریعے اس کی عملداری کی بات کی گئی ہے اور دستور میں قرآن و سنت کے قوانین کے نفاذ کی ضمانت اور قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کی نفی کے ذریعے اس کی عملی شکل پیدا کی گئی ہے، لیکن دستور پر قرآن و سنت کی غیر مشروط بالا دستی کے بارے میں تذبذب ابھی تک موجود ہے جو نفاذ شریعت کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت کا کوئی قانون از خود نافذ ہونے کی بجائے اپنے نفاذ اور عملداری کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری کا محتاج اور اس پر موقوف ہے جس سے اصل بالا دستی پارلیمنٹ کی تصور ہوتی ہے۔

پاکستان چونکہ اسلامی تشخص کے اظہار کے لیے ایک مستقل اور الگ ملک کی صورت میں وجود میں آیا تھا اور اسی اساس پر پاکستان کے دستوری ڈھانچے کی تشکیل ہوئی ہے، اس لیے یہ پاکستانی پارلیمنٹ کی دستوری، شرعی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کنفیوژن کو دور کرے۔ ہمارے خیال میں اگر دستور میں قرآن و سنت کی غیر مشروط بالا دستی تسلیم کر کے اس کی نگرانی کے لیے اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کی ایک بااختیار کونسل ایران کی شورائے نگہبان کی طرز پر قائم کر دی جائے تو اہل سنت کے نظام خلافت کو بھی آج کے عالمی حالات کے تناظر میں کسی حد تک ایک دستوری ڈھانچہ فراہم ہو سکتا ہے جیسا کہ ایران کے دستور میں اہل تشیع کے نظام امامت کو فراہم کیا گیا ہے، چنانچہ اس طرح چند اسلامی ممالک میں اس اساس پر اسلامی امارتیں قائم ہونے کے بعد عالمی سطح پر خلافت اسلامیہ کے باقاعدہ قیام کی بھی کوئی عملی صورت سامنے آ سکتی ہے۔





 

No comments:

Post a Comment