Monday 5 December 2016

میلاد النبی ﷺ کے متعلق عرب وعجم کے اکابر علماء کا موقف

مِیلاد کے معنیٰ:
(‌ميلاد) الرجل اسم الوقت الذي ولد فيه. (والمولد) الموضع الذي ولد فيه۔
ترجمہ:
(پیدائش) کسی آدمی کے اس وقت کا نام ہے جس میں وہ پیدا ہوا۔ (اور مولد) وہ جگہ جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔
[مختار الصحاح-امام الرازي اللغوي(م666ھ): صفحہ 345]

میلاد النبی ﷺ کیا ہے؟
میلاد النبی ﷺ یعنی پیغمبر کی پیدائش کے وقت(حالات) کا تذکرہ۔
حوالہ
قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِي يَعْمَرَ بْنِ لَيْثٍ:‏‏‏‏ أَأَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْبَرُ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِيلَادِ، ‏‏‏‏‏‏وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَفَعَتْ بِي أُمِّي عَلَى الْمَوْضِعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرَأَيْتُ خَذْقَ الْفِيلِ أَخْضَرَ مُحِيلًا
ترجمہ:
قیس بن مخرمہ ؓ کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں واقعہ فیل (1) کے سال پیدا ہوئے، وہ کہتے ہیں: عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم (جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں) سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ ؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ مجھ سے بڑے ہیں اور پیدائش میں، میں آپ سے پہلے ہوں (2)، رسول اللہ ﷺ ہاتھی والے سال میں پیدا ہوئے، میری ماں مجھے اس جگہ پر لے گئیں (جہاں ابرہہ کے ہاتھیوں پر پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں) تو میں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کی لید بدلی ہوئی ہے اور سبز رنگ کی ہوگئی ہے۔
[سنن الترمذی - مناقب کا بیان - نبی اکرم ﷺ کی پیدائش کے بارے میں - حدیث نمبر 3619]
نوٹ:
(1)یعنی جس سال ابرہہ اپنے ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ ڈھانے آیا تھا۔
(2)کیا ہی مہذب انداز ہے کہ بےادبی کا لفظ بھی استعمال نہ ہو اور مدعا بھی بیان ہوجائے۔
(3)نبی اکرم ﷺ کی ولادت بار بار یا ہر سال نہیں ہوا کرتی تھی کہ یہ کہا جاۓ کہ میلاد کا موسم آیا ہے۔



میلاد کو ماننے اور منانے میں فرق:


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا شان کی (۱)عظمت کرنا، آپ ﷺ کی (۲)اطاعت یعنی حکموں کو ماننا، اور آپ ﷺ کی (۳)اتباع یعنی نقش قدم کی پیروی کرنا، اور آپ ﷺسے (۴)محبت کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم و ضروری ہے۔ محبت ہی کا تقاضہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت، حیات طیبہ اور سیرت پاک کا ذکر کیا جائے اور آپ کے اخلاق و شمائل، عادات و اطوار کا بیان مستند کتابوں سے پڑ ھاجائے یا سنا جائے۔ یہ محبت کا تقاضہ بھی ہے اور محبت میں اضافہ کا سبب بھی اور اجرو ثواب کا ذریعہ بھی ہے۔

لیکن میلاد مروجہ میں (۱) ولادت کے مقصد وپیغام کے بجاۓ صرف ولادت کے ذکر ہی کو ضروری(کافی) سمجھتے ہیں، اور (۲)بے سند روایات اور قصے بیان کرتے ہیں، (۳)حاضرین مجلس کے لئے کھڑے ہوکر ولادت کے بیان کو سننا ضروری سمجھتے ہیں، اور (۴)اس کے لئے دن تاریخ کا تعین کرکے اسی خاص تاریخ اور دن ہی ضروری سمجھا جاتا ہے اور (۵)اسی کو سال بھر کے لئے کافی سمجھ لیا جاتا ہے، (۶)عورتوں کا بن سنور کر محفلوں میں شریک ہونا، (۷)محفل میلاد میں شریک ہونے کو فرائض و واجبات سے زیادہ اہم اور باعث برکت سمجھنا، یہ اور اسی طرح کی دیگر بہت سی خرابیوں کی بنا پر یہ بدعت ہے۔ جس کا ثبوت صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ سے نہیں ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں اس کا آغاز ابو سعید نظر الدین(لقب: مظفر الدین کوکبوری) نامی بادشاہ نے کیا تھا لیکن ہر دور میں علماء نے لوگوں کو اس بدعت سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔

مندرجہ ذیل تفصیلی دلائل وحوالہ جات سے یہ خلاصہ واضح کیا جارہا ہے۔

میلاد النبی ﷺ پر خوشیاں منانا کیسا ہے؟ اور اس پر اعتراض کرنے والے کیوں اعتراض کرتے ہیں؟