Thursday 31 December 2015

عمامہ یا ٹوپی کے بغیر، ننگے سر رہنا سنت کی مخالفت ہے۔



أَخْبَرَنَا ابْنُ الْبَاغَنْدِيِّ ، نَا ابْنُ مُصَفَّى ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ مُفَضَّلِ بْنِ فَضَالَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ خَالَتِهِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَلْبَسُ مِنَ الْقَلانِسِ فِي السَّفَرِ ذَوَاتِ الآذَانِ ، وَفِي الْحَضَرِ الْمُشَمَّرَةَ ، يَعْنِي الشَّامِيَّةَ " .
ترجمہ:
حضرت عائشہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سفر میں کان والی ٹوپی پہنتے تھے اور حضر میں پتلی یعنی شامی ٹوپی۔



تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1يلبس من القلانس ذات الآذانعائشة بنت عبد اللهفوائد تمام الرازي9351011تمام بن محمد الرازي414
2يلبس القلانس ذات الآذانعائشة بنت عبد اللهالجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب905897الخطيب البغدادي463
3كان يلبس من القلانس في السفر ذوات الآذان وفي الحضرعائشة بنت عبد اللهأخلاق النبي لأبي الشيخ الأصبهاني2991 : 104أبو الشيخ الأصبهاني369
4يلبس من القلانس في السفر ذوات الأذنين وفي الحضر المشمرة يعني الشاميةعائشة بنت عبد اللهالأنوار في شمائل النبي المختار810---الحسين بن مسعود البغوي516



مومنو! نہ ہوجاوٴ ان کی طرح جو منکر ہوئے ... آل عمران:156


کُفّار سے مشابہت اختیار کرنے کا شرعی حکم



          تمام ادیان میں صرف دینِ اسلام کو ہی جامع، کامل و اکمل ہونے کا شرف حاصل ہے، دنیا کے کسی خطے میں رہنے والا، کوئی بھی انسان ہو ، کسی بھی زبان کا ہو، کسی بھی نسل کا ہو، اگر وہ اپنی زندی کے کسی بھی شعبے کے بارے میں راہنمائی لینا چاہتا ہو ،تواس کے لیے اسلام میں راہنمائی کا سامان موجود ہے،اگر کوئی انسان اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی راہنمائی کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دیتاہے تو ایسے شخص کو دنیا و آخرت کی کامیا بی کا مژدہ سنایا گیا ہے، اور اس کے برعکس کوئی مسلمان اپنی زندگی کے معمولات کے سرانجام دینے میں اسلامی احکامات کی طرف دیکھنے کے بجائے اسلام دشمن لوگوں کی طرف دیکھتا ہے (دیکھ کر ان کے طور طریقوں کو اختیا ر کرتا ہے، یہ طور طریقے، شکل و صورت میں ہوں یا لباس میں ، کھانے میں ہو ں یا سونے میں ، معاملات میں ہوں یا معاشرت میں، اَخلاق میں ہوں یا کسی بھی طریقے میں ہوں )تو اس امر کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے، ایسے شخص کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فیصلہ سنا دیا ہے کہ” جو شخص دنیا میں کسی کی مشابہت اختیار کرے گا، کل قیامت میں اس کاحشر اسی شخص کے ساتھ ہو گا“؛اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کے کسی بھی موڑ پر ،کسی بھی کام میں غیر مسلموں کا طریقہ یا مشابہت اختیار نہ کریں، ہماری مسلمانی کا تقاضیٰ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اور سیرت سے محبت کرتے ہوئے ان کی مبارک سنتوں کو اپنی زندگی میں جگہ دے کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوں اور اس خوفناک دن کی رسوایوں سے بچ سکیں۔
تشبہ کی تعریف
          اپنی حقیقت ،اپنی صورت، ہیئت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اختیار کرنے اور اس کے وجود میں مدغم ہو جانے کا نام تشبہ ہے۔ (التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي، ص: ۷، مکتبہ حکیم الامت کراچی )
           شریعت مطہرہ مسلم وغیر مسلم کے درمیان ایک خاص قسم کا امتیاز چاہتی ہے کہ مسلم اپنی وضع قطع،رہن سہن اور چال ڈھال میں غیر مسلم پر غالب اوراس سے ممتاز ہو،اس امتیاز کے لیے ظاہری علامت داڑھی اور لباس وغیرہ مقرر کی گئی کہ لباس ظاہری اور خارجی علامت ہے۔اور خود انسانی جسم میں داڑھی اور ختنہ کو فارق قراردیا گیا ہے۔
           نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بہ موقع اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم کو غیرمسلموں کے مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ذیل میں ان میں سے کچھ احکامات ذکر کیے جاتے ہیں:
          اللہ رب العزت کی طرف سے بواسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیرمسلمین کفارویہود اور نصاریٰ سے دور رکھنے کی متعدد مقامات پر تلقین کی گئی، مثلاً:
          ﴿یَآأیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ أولیاء، بَعْضُہُمْ أولیاءُ بَعْضٍ، وَّمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ، فاِنّہ مِنْہُمْ، انّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ﴾ (المآئدة: ۵۱)
ترجمہ:” اے ایمان والو! مت بناو یہود اور نصاریٰ کو دوست ،وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے،اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے اِن سے ،تو وہ انہی میں سے ہے ،اللہ ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگوں کو“۔ (تفسیر عثمانی، ص: ۱۵۰)
          ﴿یَآ أیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾(آل عمران: ۱۵۶)
ترجمہ: اے ایمان والوتم نہ ہو (جاوٴ)ان کی طرح جو کافر ہوئے۔(تفسیر عثمانی، ص: ۹۰)
          سنن ترمذی میں ایک روایت ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
 ”جو شخص ملتِ اسلامیہ کے علاوہ کسی اور امت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو وہ ہم میں سے نہیں، اِرشاد فرمایا کہ تم یہود اور نصاری کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو“۔
                              (سنن الترمذي، کتاب الاستیذان، رقم الحدیث: ۲۶۹۵)
          اس حدیث کی شرح میں صاحب تحفة الأحوذي لکھتے ہیں کہ
          مراد یہ ہے کہ تم یہود و نصاریٰ کے ساتھ ان کے کسی بھی فعل میں مشابہت اختیار نہ کرو۔
(تحفة الاحوذی: ۷/۵۰۴)
          سنن ابی داوٴد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
 ”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“․
(سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث: 4031)
          علامہ سہارنپوری  لکھتے ہیں کہ مشابہت عام ہے ، خیر کے کاموں میں ہو یا شر کے کاموں میں، انجام کار وہ ان کے ساتھ ہو گا، خیر یا شر میں۔
(بذل المجہود: ۴/ ۵۹)
          ”مَنْ تَشَبَّہَ “ کی شرح میں ملا علی القاري  لکھتے ہیں کہ:
 ”جو شخص کفار کی، فساق کی، فجار کی یا پھر نیک و صلحاء کی، لباس وغیرہ میں (ہو یا کسی اور صورت میں) مشابہت اختیار کرے وہ گناہ اور خیر میں ان کے ہی ساتھ ہوگا۔
(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس،رقم الحدیث:۴۳۴۷، ۸/۲۲۲،رشیدیہ)
          ایک اور حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:
” ہم میں،اور مشرکین کے درمیان فرق (کی علامت ) ٹوپیوں پر عمامہ کا باندھنا ہے“۔ یعنی:ہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں اور مشرکین بغیر ٹوپی کے عمامہ باندھتے ہیں۔
(سنن ابی داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث:۴۰۷۸۔ مرقاة المفاتیح، رقم الحدیث: ۴۳۴۰، ۸/۲۱۵)
تشبہ کے بارے میں آثارِ صحابہ و تابعین:
          حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں جب سلطنتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیاتو حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو اس بات کی فکر دامن گیر ہوئی کہ مسلمانوں کے عجمیوں کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے اسلامی امتیازات میں کوئی فرق نہ آ جائے ، اس خطرے کے پیش ِ نظر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک طرف مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کی، تو دوسری طرف غیرمسلمین کے لیے بھی دستور قائم کیا۔
          جیسا کہ حضرت ابو عثمان النہدی رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ ہم عتبة بن فرقد کے ساتھ آذربائیجان میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک خط بھیجا (جس میں بہت سارے احکامات و ہدایات تھیں، منجملہ ان کے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ) ”تم اپنے آپ کو اہلِ شرک اور اہلِ کفر کے لباس اور ہیئت سے دور رکھنا“۔
          (جامع الأصول، الکتاب الأول في اللباس، الفصل الرابع في الحریر، النوع الثاني، رقم الحدیث: ۸۳۴۳، ۱۰ / ۶۸۷،مکتبة دارالبیان)
          ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا کہ
 ”اے مسلمانوں! ازار اور چادر کا استعمال رکھو اور جوتے پہنو․․․․ اور اپنے جدِ امجد اسماعیل علیہ السلام کے لباس (لنگی اور چادر)کو لازم پکڑو اور اپنے آپ کو عیش پرستی اور عجمیوں کے لباس اور ان کی وضع قطع اور ہیئت سے دور رکھو،( مبادا کہ تم لباس اور وضع قطع میں عجمیوں کے مشابہہ بن جاوٴ )․․․․اور موٹے ، کھردرے اور پرانے لباس پہنو“
(شعب الایمان، رقم الحدیث ۵۷۷۶، ج۸، ص۲۵۳)
          اور دوسری طرف اہلِ نصاریٰ اور یہود کو دارالاسلام میں رہنے کی صورت میں بہت سے اُمور کا پابند کیا، جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہت ہی مظبوط انداز میں اسلامی تہذیب و تمدن اور اسلامی اَقدار کی حفاظت کی گئی ہے۔
          چنانچہ! فتح شام کے موقع پر نصاریٰ شام کے عہدِ صلح کے بعد جو شرائط طے کی گئیں وہ یہ تھیں:
 ”ہم (نصاریٰ شام) مسلمانوں کی تعظیم و توقیر کریں گے، اور اگر مسلمان ہماری مجالس میں بیٹھنا چاہیں گے توہم ان کے لیے مجلس چھوڑ دیں گے، اور ہم کسی امر میں مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت اختیار نہیں کریں گے، نہ لباس میں ، نہ عمامہ میں ، نہ جوتے پہننے میں ، اور نہ سر کی مانگ نکالنے میں ، ہم اُن جیسا کلام نہیں کریں گے، اور نہ مسلمانوں جیسا نام اور کنیت رکھیں گے، اور نہ زین کی سواری کریں گے، نہ تلوار لٹکائیں گے، نہ کسی قسم کا ہتھیار بنائیں گے، اور نہ اُٹھائیں گے، اور نہ اپنی مہروں پر عربی نقش کندہ کروائیں گے، اور سر کے اگلے حصے کے بال کٹوائیں گے، اور ہم جہاں بھی رہیں گے، اپنی ہی وضع پررہیں گے، اور گلوں میں زنار لٹکائیں گے، اور اپنے گرجاوٴں پر صلیب کو بلند نہ کریں گے، اور مسلمانوں کے کسی راستہ اور بازار میں اپنی مذہبی کتاب شائع نہیں کریں گے، اور ہم گرجاوٴں میں ناقوس نہایت آہستہ آواز میں بجائیں گے، اور ہم اپنے مُردوں کے ساتھ آگ لے کر نہیں جائیں گے(یہ آخری شرط مجوسیوں سے متعلق ہے)۔
          حضرت عبد الرحمن بن غنم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ شرائط نامہ لکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ملاحظہ کرنے کے لیے رکھا، تو انہوں نے اس شرائط نامہ میں کچھ مزید اضافہ کروایا جو یہ تھا:
” ہم کسی مسلمان کو ماریں گے نہیں ، یعنی تکلیف نہیں پہنچائیں گے، ہم نے انہی شرائط پر اپنے لیے اور اپنے اہلِ مذہب کے لیے امان حاصل کیا ہے، پس اگر ہم نے شرائط مذکورہ بالا میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی کی تو ہمارا عہد اور امان ختم ہو جائے گا اور جو معاملہ اہلِ اسلام کے دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ کیا جاتا ہے وہی معاملہ ان کے ساتھ کیا جائے گا“
(تفسیر ابن کثیر، سورہ توبة:۲۹)
          ایک اورروایت جسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے،اس میں کچھ مزید شرائط کا بھی ذکر ہے،جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:
” ہم اپنی آبادی میں کوئی نیا گرجا گھر نہیں بنائیں گے، اور جو گرجا گھرخراب ہو جائیں گے، اس کی مرمت نہیں کروائیں گے، اور جو خطہٴ زمین مسلمانوں کے لیے ہو گا، ہم اُسے آباد نہیں کریں گے، اور کسی مسلمان کو دن ہو یا رات، کسی وقت بھی گرجا میں اُترنے سے نہیں روکیں گے، اور اپنے گرجاوٴں کے دروازے مسافروں اور گزرنے والوں کے لیے کشادہ رکھیں گے، اور تین دن تک ان مسلمان مہمانوں کی مہمان نوازی کریں گے، اور اپنے کسی گرجا اور کسی مکان میں مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے والے کو ٹھکانہ نہیں دیں گے، اور مسلمانوں کے لیے کسی غل و غش کو پوشیدہ نہیں رکھیں گے، اور اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم نہیں دیں گے، اور کسی شرک کی رسم کو ظاہراً اور اعلانیہ طور پر نہیں کریں گے، اور نہ کسی کو شرک کی دعوت دیں گے، اور نہ اپنے کسی رشتہ دار کو اسلام میں داخل ہونے سے روکیں گے“۔
          مذکورہ بالا شرائط کو دیکھتے ہوئے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اسلامی تہذیب و تمدن اور تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے کس قدر اہتمام کیا گیا؛ اس لیے کہ اسلام میں غیروں کے طور طریقوں کاداخل ہو جانا مسخِ اسلام اور تخریبِ اسلام ہے۔
          حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”تشبہ بالغیر فی الحقیقت تخریبِ حدود اور ابطالِ ذاتیات کا نام ہے“۔ 
(مجموعہ رسائل حکیم الاسلام ، اسلامی تہذیب وتمدن:۵/۴۸۵)
          غیروں کے ساتھ اختلاط ، میل جول اختیار کرنے سے کس قدر سختی سے اور کن کن طریقوں سے روکا گیا، اس کا اندازہ اس مکالمے سے بخوبی ہو سکتا ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا، وہ یہ ہے:
”حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے یہاں ایک نصرانی کاتب ملازم ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھے کیا ہو گیا؟خدا تجھے غارت کرے ! کیا تو نے اللہ کا یہ حکم نہیں سنا کہ ”یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناوٴ؛ کیوں کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں“۔ تو نے کسی مسلمان کو ملازم کیوں نہیں رکھا؟
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جواب دیا کہ اے امیر الموٴمنین! میرے لیے اس کی کتابت ہے اور اس کے لیے اس کا اپنا دین۔ (یعنی: وہ نصرانی ہے تو کیا ہوا، مجھے تو اس کی کتابت سے غرض ہے، میرا اس کے دین سے کیا تعلق؟)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جن کی اہانت اللہ تعالیٰ نے کی ہے، میں ان کی تکریم نہیں کروں گا، جن کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا ہے میں ان کو عزت نہیں دوں گا، جن کو اللہ تعالیٰ نے دور کیا ہے میں ان کو قریب نہیں کروں گا“
(المستطرف: ۲/۶۰)۔
          اس پر مغز مکالمے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ
          (۱) جب تک کوئی اضطراری حالت داعی نہ ہو اس وقت تک اصل یہی ہے کہ غیر مسلمین سے استغاثہ اور وہ بھی ایسا کہ جس میں ان کی تکریم ہوتی ہو ، دینِ متین کی فہم حقیقی اورعقل و دانش اس کی اجازت نہیں دیتی ۔
          (۲) یہ عذر قابلِ سماعت نہیں ہے کہ ہمیں تو ان کی صرف خدمات درکار ہیں،نہ کہ ان کا مذہب؛کیوں کہ اس تحصیل ِ خدمت کے ذیل میں ان کے ساتھ معیت ہماری اس شدت اور تغلیظ کو کم کر دے گی یا محو کر دے گی جو ایک مسلمان کا اسلامی شعار بتایا گیا ہے، اور یہی قلتِ تغلیظ بالآخر مداہنت و چشم پوشی اور اعراض عن الدین کا مقدمہ بن کر کتنے ہی شرعی منکرات کی نشوونما کا ذریعہ ثابت ہو گی۔
          (۳) حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بعد کوئی شخص ان جیسا تدین نہیں لا سکتا؛ لیکن اگر کوئی شخص بالفرض لے بھی آئے تو کوئی وجہ نہیں کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو تو کفار کی خدمات حاصل کرنے سے روکا جائے اوراسے نہ روکا جائے۔
          یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ ایک شخص پختہ اور راسخ الایمان بھی ہے اور اس اشتراک ِ عمل سے اس میں کوئی تزلزل بھی نہیں آسکتا؛ لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایسی ذمہ دار ہستی کا اشتراکِ عمل، عامة المسلمین کے لیے کفار سے استعانت اور اختلاط کے معاملے میں شبہ کا باعث بن جائے اور عوام اپنے لیے اس فعل کو حجت شمار کریں اور اس طرح یہ اختلاط و التباس عام ہو کر ناقابلِ تدارک مفاسد کا باعث بن جائے۔
          (۴) جس مخلوق کی اس کے خالق نے تکریم نہ کی، اور ان کے لیے عزت کا کوئی شمہ گوارا نہ کیا، تواُسی خالق کے پرستاروں کی غیرت و حمیت کے خلاف ہے کہ وہ اس کے اعداء کی تکریم کریں ، وہ جسے پھٹکار دے، یہ اس سے پیار کریں۔
          (۵) اسلام میں سیاستِ محضہ مقصود نہیں ؛ بلکہ محض دین مقصودہے، سیاسی الجھنیں محض تحفظ ِ دین کے لیے برداشت کی جاتی ہیں، پس اگر کوئی سیاست ہی کا کوئی شعبہ تخریب ِ دین یا مداہنت و حق پوشی کا ذریعہ بننے لگے، توبے دریغ اس کو قطع کر کے دین کی حفاظت کی جائیگی، ورنہ بصورتِ خلاف قلبِ موضوع لازم آجائے گاکہ وسیلہ مقصود ہو جائے اور مقصود وسیلہ کے درجہ پر بھی نہ رہے گا۔
(مجموعہ رسائل حکیم الاسلام ، اسلامی تہذیب و تمدن: ۵/ ۹۷، ۹۸)
تشبہ با لکفارکے مفاسد:
          غیروں کی وضع قطع اور ان جیسا لباس اختیار کرنے میں بہت سے مفاسد ہیں:
          (۱) پہلا نتیجہ تو یہ ہو گا کہ کفر اور اسلام میں ظاہراً کوئی امتیاز نہیں رہے گا، اور ملتِ حقہ ، ملتِ باطلہ کے ساتھ ملتبس ہو جائے گی، سچ پوچھیے تو حقیقت یہ ہے کہ ”تشبہ بالنصاریٰ “ (معاذ اللہ) نصرانیت کا دروازہ اور دہلیز ہے ۔
          (۲) دوم یہ کہ غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت کے بھی خلاف ہے، آخر دینی نشان اور دینی پہچان بھی تو کوئی چیز ہے، جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ شخص فلاں دین کا ہے، پس اگر یہ ضروری ہے تو اس کا طریقہ سوائے اس کے اور کیا ہے کہ کسی دوسری قوم کا لباس نہ پہنیں ، جیسے اور قومیں اپنی اپنی وضع کی پابند ہیں، اسی طرح اسلامی غیرت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنی وضع کے پابند رہیں، اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں ہماری خاص پہچان ہو۔
          (۳) کافروں کا معاشرہ ، تمدن اور لباس اختیار کرنا درپردہ ان کی سیادت اور برتری کو تسلیم کرنا ہے؛ بلکہ اپنی کمتری اور تابع ہونے کا اقرار اور اعلان ہے، جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔
          (۴) نیز! اس تشبہ بالکفارکا نتیجہ یہ ہو گا کہ رفتہ رفتہ کافروں سے مشابہت کا دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہو گا، جو صراحةً نصِ قرآنی سے ممنوع ہے:
          وَلاَ تَرْکُنُوْا الیٰ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ، وَمَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ أوْلِیَاءَ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ
(ھود: ۱۱۳)
ترجمہ: اور تم ان کی طرف مت جھکو، جو ظالم ہیں، مبادا ان کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے تم کو آگ نہ پکڑ لے، اور اللہ کے سوا کوئی تمھارا دوست اور مددگار نہیں، پھر تم کہیں مدد نہ پاوٴگے۔
          بلکہ غیر مسلموں کا لباس اور شعار اختیار کرنا ان کی محبت کی علامت ہے، جو شرعاً ممنوع ہے،
          یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ أوْلِیَاءَ، بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ، وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ مِنْکُمْ، فانَّہ مِنْہُمْ، انَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِيْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ
(المآئدة: ۵۱)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناوٴ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور رفیق ہیں، وہ تمھارے دوست نہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست بنائے گا، وہ انہی میں سے ہو گا، تحقیق اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔
          (۵) اس کے بعد رفتہ رفتہ اسلامی لباس اور اسلامی تمدن کے استہزاء اور تمسخر کی نوبت آئے گی، اسلامی لباس کو حقیر سمجھے گا، اور تبعاً اس کے پہننے والوں کوبھی حقیر سمجھے گا، اگر اسلامی لباس کو حقیر نہ سمجھتا تو انگریزی لباس کو کیوں اختیار کرتا؟
          (۶) اسلامی احکام کے اجراء میں دشواری پیش آئے گی، مسلمان اس کافرانہ صورت کو دیکھ کر گمان کریں گے کہ یہ کوئی یہودی یا نصرانی ہے، یا ہندو ہے، اور اگر کوئی ایسی لاش مل جائے توتردد ہو گا کہ اس کافر نما مسلمان کی نمازِ جنازہ پڑھیں یا نہیں؟! اور کس قبرستان میں دفن کریں؟
          (۷) جب اسلامی وضع کو چھوڑ کر دوسری قوم کی وضع اختیار کرے گا تو قوم میں اس کی کوئی عزت باقی نہیں رہے گی، اور جب قوم ہی نے اس کی عزت نہ کی تو غیروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کی عزت کریں، غیر بھی اُسی کی عزت کرتے ہیں جس کی قوم میں عزت ہو۔
          (۸) دوسری قوم کا لباس اختیار کرنا اپنی قوم سے لا تعلقی کی علامت ہے۔
          (۹) افسوس! کہ دعویٰ تو ہے اسلام کا ؛ مگر لباس، طعام ، معاشرت ، تمدن ، زبان اور طرزِ زندگی سب کا سب اسلام کے دشمنوں جیسا! جب حال یہ ہے تو اسلام کے دعوے ہی کی کیا ضرورت ہے؟! اسلام کو ایسے مسلمانوں کی نہ کوئی حاجت ہے اور نہ ہی کوئی پرواہ کہ جو اس کے دشمنوں کی مشابہت کو اپنے لیے موجب ِ عزت اور باعث ِ فخر سمجھتے ہوں۔
(التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي: ۱۶ تا ۲۰)
تشبہ کے فقہی اعتبار سے مراتب
          تشبہ کی ممانعت اور مفاسد اچھی طرح ظاہر ہو جانے کے بعد جاننا چاہیے کہ تشبہ بالکفارکے وہ کون سے مراتب ہیں ، جن سے تشبہ کے جواز ، عدمِ جواز، حرمت و کراہت ، استحسان و عدمِ استحسان اور امکان و عدمِ امکان کی تفصیلات واضح ہو کر سامنے آ سکیں۔
          چناں چہ انسان سے صادرہونے والے افعال و اعمال کی دو ہی قسمیں ہو سکتی ہیں: اضطراری امور اور اختیاری امور۔ ذیل میں ہر دو قسموں پر تفصیلی بحث نقل کی جاتی ہے۔
اضطراری امور میں تشبہ اختیار کرنے کا حکم
          اضطراری امور سے مراد وہ امور ہیں جن کے ایجاد و عدمِ ایجاد میں انسانی اختیارات کو کوئی دخل نہیں ہوتا، مثلاً: انسان کی خلقی اوضاع و اطواراور جبلّی اقتضاء ات، یعنی اس کے اعضاء ِ بدن ، چہرہ مہرہ، پھر اس کے ذاتی عوارض، مثلاً: بھوک پیاس لگنا، اس اندرونی داعیہ کی بناء پر کھانے پینے پر مجبور ہونا، اپنے بدن کو ڈھانپنا وغیرہ ایسے امور ہیں جو اضطراری ہیں اور وہ نہ بھی چاہے ، تب بھی یہ جذبات اس کے دل پر ہجوم کرتے رہتے ہیں۔
          تو ظاہرہے کہ شریعت ایسے امور میں انسان کو خطاب نہیں کرتی، یہ امور کفار و غیر کفار میں مشترک ہیں، یہ نہیں کہا جائے گا کہ منع تشبہ کی وجہ سے اس اشتراک کو ختم کیا جائے، یعنی: شریعت ان امور میں یہ نہیں کہتی کہ چوں کہ کفار کھانا کھاتے ہیں تو ان کی مشابہت کو ترک کرتے ہوئے تم کھانا نہ کھاوٴ، یا چوں کہ وہ (کفار ) لباس پہنتے ہیں تم ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے لباس نہ پہنو،یا چوں کہ ان کے ہاتھ، پیر ، ناک ، کان ہیں تم ان کی مخالفت میں اپنے یہ اعضاء کاٹ ڈالو؛ بلکہ شریعت اس بات کا حکم دیتی ہے کہ تم کھانا تو ضرور کھاوٴ لیکن تم کھانے کے طریقے کو ترکِ تشبہ کے ذریعے ممتاز ضرور بناوٴ؛ کیوں کہ یہ تمہارا اختیاری فعل ہے ، اضطراری نہیں۔ اسی طرح شریعت یہ نہیں کہتی کہ ترکِ تشبہ کے جوش میں تم لباس پہننا ہی ترک کردو؛ لیکن یہ ضرور کہتی ہے کہ تم لباس کی وضع قطع کو غیر اقوام کے لباس سے ممتاز اور نمایاں رکھو کہ یہ ضرور تمہارے حدود و اختیا ر میں ہے۔
           شریعت کبھی یہ نہیں کہے گی کہ اپنے اعضاء ِ بدن کاٹ ڈالو کہ یہ تمہارے اعضاءِ جوارح غیر مسلم اقوام کی طرح ہیں؛ اس لیے بوجہ مشابہت یہ نہیں ہونے چاہیئں، ہاں یہ ضرور کہے گی کہ ٹھیک ہے کہ ان کا وجود میں آنا تمہارے اختیار یا ایجاد سے نہیں ہوا لیکن تمہارے ان اعضاء کی تزیین اور بناوٴ سنگھار کا غیر اقوام سے ممتاز اور نمایاں ہونا تو تمہارے اختیار کا ہی فعل ہے، وہ چھوٹنے نہ پائے۔
اختیاری امور میں تشبہ ختیار کرنے کا حکم
          اس کے بعد انسان سے صادرہونے والے افعال اختیاری طور پرصادرہوتے ہیں ، ان اختیاری امور کی دو قسمیں ہیں: مذہبی امور اور معاشرتی و عادی امور۔
مذہبی امور میں تشبہ کا حکم
          مذہبی امور سے مراد وہ امور و اعمال ہیں، جن کا تعلق مذہب سے ہو، یعنی: ان افعال و اعمال کو عبادت کے طور پر کیا جاتا ہو ، جیسے: نصاریٰ کی طرح سینے پرصلیب لٹکانا، ہندووٴں کی طرح زنار باندھنایا پیشانی پر قشقہ لگانا، یا سکھوں کی طرح ہاتھ میں لوہے کا کڑاپہننا و غیرہ ، تو اس قسم کے مذہبی امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بالکلیہ ناجائز اورحرام ہے۔
معاشرت و عادی امور میں تشبہ کا حکم
          معاشرتی و عادی امور بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ، ایک وہ امور جو قبیح بالذات ہیں، یعنی : وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست منع کیا ہے کہ ان افعال کو نہ کیا جائے؛ دوسرے: وہ امور جو مباح بالذات ہیں، یعنی :وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست تو منع نہیں کیا؛ لیکن دیگر خارجی امور کی وجہ سے وہ ممنوع قرار دیے جاتے ہیں۔
قبیح بالذات امور میں تشبہ کا حکم
          قبیح بالذات امور میں غیر مسلم اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بھی حرام ہے، جیسے : ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا، ریشمی لباس استعمال کرنا، یا کسی قوم کی ایسی حرکت کی نقل اتارنا جن میں ان کے معبودانِ باطلہ کی تعظیم ہوتی ہو، جیسے: بتوں کے آگے جھکنا وغیرہ، ان افعال میں تشبہ کی حرمت اس وجہ سے ہے کہ یہ امور قبیح بالذات ہیں، شریعت کی طرف سے ان کی ممانعت صاف طور پر آئی ہے۔
مباح بالذات امور میں تشبہ کا حکم
          اگر وہ امور اپنی ذات کے اعتبار سے قبیح نہ ہوں؛ بلکہ مباح ہوں تو ان کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک: وہ امور کسی غیر قوم کا شعار (یعنی: علامتی و شناختی نشان) ہوں، دوسرے: وہ افعال جو کسی غیر قوم کا شعار نہ ہوں، ہر دو کی تفصیل ذیل میں لکھی جاتی ہے:
غیر اقوام کے شعار میں مشابہت کا حکم
          اگر وہ (مباح بالذات ) امور غیر مسلم اقوام کے شعار (یعنی: علامتی و شناختی نشان)میں سے ہوں تو ان امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، مثلاً: غیر مسلم اقوام کا وہ لباس جو صرف انہی کی طرف منسوب ہو اور انہی کی نسبت سے مشہور ہو اور اس مخصوص لباس کو استعمال کرنے والا انہی میں سے سمجھا جاتا ہو، جیسے : بدھی اور قشقہ۔
مطلقاً غیروں کے افعال میں مشابہت کا حکم
          اور اگر وہ مباح بالذات امور غیر مسلم اقوام کے شعار میں سے نہیں ہیں ، تو پھر ان افعال کی دو قسمیں ہیں کہ ان افعال کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہے یا ان کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود نہیں ہے، ان دونوں قسموں میں مشابہت کا حکم ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم
          اگر ان مباح بالذات امور میں مسلمانوں کے پاس امتیازی طور ایسے طور طریقے موجود ہوں جو کفار کے طور طریقوں کے مشابہہ نہ ہوں تو ایسے امور میں غیروں کی مشابہت مکروہ ہے، کیوں کہ اسلامی غیرت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان اقوام کی ان اشیاء کا استعمال بھی ترک کر دیں جن کا بدل ہمارے پاس موجود ہو، ورنہ یہ مسلم اقوام کے لیے عزت کے خلاف ایک چیزہو گی اور بلا ضرورت خوامخواہ دوسروں کا محتاج و دستِ نگر بننا پڑے گا۔
جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے ہاتھ میں فارسی کمان (یعنی : ملکِ ایران کی بنی ہوئی کمان) دیکھی تو ناخوشی سے ارشاد فرمایا کہ ”یہ کیا لیے ہوئے ہو؟ اسے پھنک دو اور عربی کمان اپنے ہاتھ میں رکھو ، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوت و شوکت دی اور بلادِ ارض کو مفتوح کیا“۔
                                      (سنن ابن ماجة، باب السلاح، رقم الحدیث: ۲۸۱۰)
           فارسی کمان کا بدل عربی کمان موجود تھا؛ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرت دلا کر روک دیا؛ تاکہ غیر اقوام کے ساتھ ہر ممکن امتیاز پیدا ہو سکے اور چھوٹے سے چھوٹے اشتراک کا بھی انقطاع ہو جائے۔
غیر ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم
          اور اگر غیر اقوام کی اشیاء ایسی ہوں کہ ان کا کوئی بدل مسلم اقوام کے پاس موجود نہ ہو ، جیسے آج یورپ کی نئی نئی ایجادات، جدید اسلحہ، تہذیب و تمدن کے نئے نئے سامان، تو اس کی پھر دوصورتیں ہیں یا تو ان کا استعمال تشبہ کی نیت سے کیا جائے گا یا تشبہ کی نیت سے نہیں کیا جائے گا، پہلی صورت میں استعمال جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ تشبہ بالکفار کومقصود بنا لینا، ان کی طرف میلان و رغبت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا، اور کفار کی طرف میلان یقینا اسلام کی چیز نہیں ہے؛ بلکہ اسلام سے نکال دینے والی چیز ہے۔
          نیز! غیر مسلموں کی تقلید کسی مسلم کو بامِ عروج پر نہیں پہنچا سکتی، جیسا کہ ظلمت کی تقلید نور کی چمک میں، مرض کی تقلید صحت میں، اور کسی ضد کی تقلید دوسری ضد میں کوئی اضافہ و قوت پیدا نہیں کرسکتی، ہاں ! اگر ان چیزوں میں تشبہ کی نیت نہ ہو؛ بلکہ اتفاقی طور پر یا ضرورت کے طور پراستعمال میں آرہی ہوں، تو ضرورت کی حد تک ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، اسلامی تہذیب و تمدن : ۵/ ۱۲۸-۱۳۳، التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي، ص: ۸ -۱۲ ، فیض الباری: ۲/ ۱۵، انوار الباری: ۱۱/ ۱۰۵، ۱۰۶)
خلاصة کلام
          پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی تہذیب اور اپنی اَقدار کو باقی رکھتے ہوئے ہر غیر مسلم قوم کے طور طریقوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
علامہ انور شاہ کشمیری  کی تحقیق
          فرمایا: شعار کی بحث صرف ان امورمیں چلے گی، جن کے بارے میں صاحبِ شرع سے کوئی ممانعت کا حکم موجود نہ ہو ، ورنہ ہر ممنوع ِ شرعی سے احتراز کرنا ضرور ہو گا، خواہ وہ کسی قوم کا شعار ہو یا نہ ہو، اس کے بعد جن چیزوں کی ممانعت موجود نہ ہو ، اگر وہ دوسروں کا شعار ہوں تو ان سے بھی مسلمانوں کو اجتناب کرنا ضروری ہو گا، اگر وہ نہ رُکیں اور ان کا تعامل بھی دوسروں کی طرح عام ہو جائے یہاں تک کہ اس زمانے کے مسلمان صلحاء بھی ان کو اختیار کر لیں تو پھر ممانعت کی سختی باقی نہ رہے گی، جس طرح کوٹ کا استعمال ابتداء میں صرف انگریزوں کے لباس کی نقل تھی، پھر وہ مسلمانوں میں رائج ہوا یہاں تک کہ پنجاب میں صلحاء اور علماء تک نے اختیار کر لیا تو جو قباحت شروع میں اختیار کرنے والوں کے لیے تھی ، وہ آخر میں باقی نہ رہی، اور حکم بدل گیا، لیکن جو امور کفار و مشرکین میں بطورِ مذہبی شعار کے رائج ہیں یا جن کی ممانعت صاحبِ شرع صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحةً کر دی ہے، اُن میں جواز یا نرمی کا حکم کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا۔ (انوار الباری: ۵/ ۱۰۱، فیض الباری: ۲/ ۱۵)
تشبہ سے متعلق اکابر علماء دیوبند کے فتاویٰ
          لباس کی کن کن صورتوں میں تشبہ بالغیر ہے، اس کے بارے میں ہمارے علماء دیو بند نے وقتاً فوقتاً امتِ مسلمہ کی راہنمائی کی ہے، جن میں سے کچھ منتخب فتاویٰ نقل کیے جاتے ہیں، واضح رہے کہ لباس میں مشابہت (اگر وہ لباس غیروں کا مخصوص لباس نہ ہو تو اس)کا تعلق ہر ہر علاقے کے مزاج اور عرف کے ساتھ ہوتا ہے، ایک ہی چیز ایک شہر و علاقے میں عرف کی وجہ سے ناجائز ٹھہرتی ہے تو وہی چیز دوسرے علاقے میں عرف نہ ہونے کیوجہ سے جائزہوتی؛ اس لیے اس معاملے میں اپنے علاقے کے ماہر و تجربہ کار مفتیانِ عظام سے رابطہ کر کے صورتِ حقیقی سے باخبر رہنا ضروری ہو گا۔
پتلون پہننے کا حکم:
          سوال: دور ِ حاضر میں پتلون اور شرٹ پہننے کا اتنا رواج ہو گیا ہے کہ اب یہ کسی خاص قوم کا شعار نہیں رہا، نیز! قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لباس میں کوئی امتیازی نشان نہیں تھا، یہ بات اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ من تشبہ بقوم فھو منھم میں جس مشابہت کا ذکر ہے، مشابہتِ لباس اس میں داخل نہیں ہے؛ اس لیے پتلون اور شرٹ کا پہننا جائز معلوم ہوتا ہے، جناب اپنی تحقیق فرما کر ممنون فرمائیں، بینوا توجروا․
          الجواب باسم ملھم الصواب:
          آج کل کوٹ پتلون وغیرہ کا اگرچہ مسلمانوں میں عام رواج ہو گیا ہے؛ مگر اس کے باوجود اسے انگریزی لباس ہی سمجھا جاتا ہے، بالفرض تشبہ بالکفار نہ بھی ہو تو تشبہ بالفساق میں تو کوئی شبہ نہیں، لہٰذا ایسے لباس سے احتراز ضروری ہے۔
          یہ کہنا صحیح نہیں کہ پہلے زمانہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لباس میں کوئی امتیاز نہ تھا، نیز! اگر کسی زمانہ یا کسی علاقہ میں امتیاز نہ ہو تو وہاں تشبہ کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہو گا، یہ مسئلہ تو وہاں پیدا ہو گا، جہاں غیر مسلم قوم کاکوئی مخصوص لباس ہو، احادیث میں غیر مسلموں کے مخصوص لباس سے ممانعت صراحةً وارد ہوئی ہے۔
           یہ تفصیل اس لباس کے بارے میں ہے، جس سے واجب الستر اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر نہ آتا ہو، اگر پتلون اتنی چست اور تنگ ہو اس سے اعضاء کی بناوٹ اور حجم نظر آتا ہو، جیسا آج کل ایسی پتلون کا کثرت سے رواج ہو گیا ہے، تو اس کا پہننا اور لوگوں کو دکھانا اور دیکھنا سب حرام ہے، جیسا کہ ننگے آدمی کو دیکھنا حرام ہے۔
          (احسن الفتاویٰ، کتاب الحظر والاباحة،پتلون پہننے کا حکم: ۸/۶۴، ۶۵، ایچ ایم سعید)
 مرد اور عورت کے لباس میں ایک دوسرے کی مشابہت
          سوال: زعفران یا عصفر کے سوا تمام رنگ مرد کو شرعاً جائز ہیں؛ لیکن بعض علاقوں میں سیاہ اور سرخ رنگ کے کپڑے عورتوں کا شعار سمجھے جاتے ہیں اور سفید کپڑے مردوں کا شعار سمجھے جاتے ہیں، کیا ان علاقوں میں مرد کو مختص بالنساء رنگوں کے کپڑے اور عورتوں کو مختص بالرجال رنگوں کے کپڑے پہننا جائز ہے؟ بینوا توجروا۔
          الجواب باسم ملھم الصواب: مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے ساتھ تشبہ اختیار کرنا جائز نہیں؛ اس لیے ان علاقوں میں اس شعار کی رعایت رکھنا ضروری ہے ، ایک دوسرے کا شعار اختیار کرنا جائز نہیں۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم (احسن الفتاویٰ، کتاب الحظرو الاباحة ، مرد اور عورت کے لباس میں ایک دوسرے کی مشابہت: ۸/ ۶۶، ۶۷، ایچ ایم سعید)
ٹائی کا استعمال
          سوال: کسی ملازمت میں ترقی کا معیار ٹائی باندھنے پر ہو تو ایسی صورت میں ٹائی باندھنا جائز ہے یا نہیں؟
          الجواب حامداً و مصلیاً: ٹائی ایک وقت میں نصاریٰ کا شعار تھا، اس وقت اس کا حکم بھی سخت تھا، اب غیر نصاریٰ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں ، اب اس کے حکم میں تخفیف ہے، اس کو شرک یا حرام نہیں کہا جائے گا، کراہیت سے اب بھی خالی نہیں ، کہیں کراہیت شدیدہو گی، کہیں ہلکی، جہاں اس کا استعمال عام ہو جائے، وہاں اس کے منع پر زور نہیں دیا جائے گا۔
          اس پر محشی صاحب لکھتے ہیں: کہ ٹائی کا استعمال اگرچہ مسلمانوں میں بھی عام ہو گیا ہے؛ مگر اس کے باوجود انگریزی لباس کا حصہ ہی ہے، اگر انگریزی لباس تصور نہ کیا جائے؛ لیکن فساق و فجار کا لباس تو بہر حال ہے، لہٰذا تشبہ بالفساق کی وجہ سے ممنوع قرار دیا جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ اہلِ صلاح اس لباس کو پسند بھی نہیں کرتے ؛ کیوں کہ یہ علماء و صلحاء کے لباس کے خلاف ہے، تیسری بات یہ کہ اس کے علاوہ ٹائی میں ایک اور خرابی یہ بھی ہے کہ عیسائی ا س سے اپنے عقیدہ ”صلیب عیسیٰ علیہ السلام “یعنی: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو کہ نص قرآنی کے خلاف ہے، لہٰذا تشبہ بالکفار کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی مذہبی یادگار اور مذہبی شعار ہونے کی وجہ سے بھی پہننا جائز نہیں:
          ”وعنہ (أي: عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ“ أي: مَنْ شَبَّہَ نَفْسَہ بِالْکُفَّارِ، مثلاً: فِي اللِّبَاسِ وَغَیْرِہ، أو بِالْفُسَّاقِ أوْ بِالْفُجَّارِ، أوْ بِأہْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الأبْرَارِ ”فَہُو مِنْہُمْ“، أي: في الاثْمِ وَالْخَیْرِ“ (مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، رقم الحدیث: ۴۳۴۷،۸/۱۵۵، رشیدیة)
          البتہ اگر ادارہ یا حکومت کی طرف سے پابندی ہو، نہ لگانے پر سزا دی جاتی ہو، یا کوئی اور رکاوٹ بنتا ہو تو اس صورت میں لگانے والے پر گناہ نہیں ہو گا؛ بلکہ اس ادارے یا حکومت کے ارکان پر گناہ عائد ہو گا، جس نے ایسا ضابطہ بنایا۔(فتاویٰ محمودیہ،باب اللباس، ٹائی کا استعمال: ۱۹/۲۹۰، ادارة الفاروق)
ساڑھی پہننے کاحکم
          سوال: تشبہ لباس وغیرہ کے بارے میں ایک استفسار یہ ہے کہ عورتوں کے لیے پیچ دار پائجامہ اور ساڑی جائز ہے یا نہیں؟ اور موٹی ساڑھی پہن کر نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟
الجواب حامداً و مصلیاً:
          جہاں یہ کفارو فساق کا شعار ہے، وہاں ناجائز ہے۔ جہاں عام ہے، ان کا شعار نہیں، وہاں جائز ہے۔پھر اگر پردہ پورا ہو تو اس سے نماز بھی درست ہے۔ فقط: واللہ اعلم بالصواب
(فتاویٰ محمودیہ، باب اللباس، فساق و فجار کا شعار: ۱۹/ ۲۹۰، ادارة الفاروق)
***













اغیار کے اطوار کا فتنہ



اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے جس میں رواں دواں متحرک اورتغیر پذیر ز ندگی کے تمام شعبوں اور گوشوں کے لیے بدرجہٴ اتم رہبری ورہنمائی موجود ہے،اور اسلام ایک ایسا دستورِ حیات ہے جس میں ولادت سے وفات تک کے تمام پیش آمدہ مسائل کا حل موجود ہے،لہٰذا ہم فرزندانِ اسلام کو کسی بے بنیاد مذہب اورگمراہ دین سے یاکسی باطل قدیم وجدید تہذیب وکلچر سے کچھ سیکھنے اور لینے کی بالکل ضرورت نہیں ہے،کتاب وسنت ہی ہمارے لیے کافی وشافی ہیں ۔
لیکن افسوس وصدافسوس کہ آ ج امت کا ایک بڑا طبقہ اغیار(کفار ومشرکین اور یہود ونصاری) کے طور وطریق کا شوقین وشیدائی ہے؛ بلکہ ان کو اپنافخر محسوس کرتا ہے،من جملہ ان کے ”یوم ولادت “ منانا، عیسوی سال کی آمد پر ”نیا سال مبارک “کہنا، اور اس کے پیغامات ترسیل کرنا، ” اپریل فول“ منانااوریوم عاشقاں منانا وغیرہ۔
یہ سب رسومات غیر اسلامی ہیں،اورنیزعقل ودانش کی ترازوں میں بھی یہ باوزن نہیں ہیں۔مناسب ہوگا کہ عقل کی کسوٹی پر ان کا تھوڑاساحقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے ۔
رسوم کاجائزہ
(۱) ”یوم ولادت “ کوئی خوشی کی تقریب سجانے کا موقع نہیں ہے؛ بلکہ فکر کرنے کا مقام ہے کہ محدود زندگی کا ایک سال کم ہوگیا۔
 (۲)عیسوی سال کی آمد پر ”نیا سال مبارک “کہنا؛ بلکہ اسے شب عید کی طرح منانا، ازروئے عقل وفہم درست نہیں کہ اس سے دنیا کی عمرکاایک سال کم ہوجاتاہے،اور دنیا قیامت کے قریب ہوجاتی ہے،اور سال نوکیا؛ بلکہ سمجھا جائے تو ہر لمحہ نیا ہے ،پھر سال نو منانے کا کیا مطلب؟ آج کل تو اس میں حد درجہ غلو کیا جارہا ہے، رات کے بارہ بجنے کا رقص وشراب ، ناچ وگانے اور ہیجان انگیز موسیقی سے انتظارکیا جاتاہے،اور بارہ بجنے پر آتش بازی کی جاتی ہے،اور غبارے پھوڑے جاتے ہیں، وغیرہ۔
(۳)اپریل فول یہ تو جھوٹ،دھوکہ ،فریب اوراذیت وایذارسانی کاپلندہ ہے، تعجب ہے ان لوگوں کی عقل پر جو اسے تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
(۴)یوم عاشقاں ا س میں بے حجابی ،بے غیرتی ا وربے حیائی سے نوجوان لڑکے اور لڑکی کا ملنا،اوسرخ گلاب کا تحفہ وہدیہ پیش کرناہوتاہے،کیا یہ دعوتِ زنا نہیں ہے ؟
ان رسوما ت میں خلق کی افادیت اور منفعت کابھی کوئی پہلو نہیں ہے۔
دورنگی چھوڑدے
اور اللہ تعالی نے اس چیزکوبھی نا پسند فرمایا کہ کوئی دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوتے ہوئے بھی یہودیت کی بعض چیزوں پرعمل کرے،جیسا کہ کتب تفاسیر میں ہے ، حضرت عبداللہ بن سلام (جو قبول اسلام سے قبل یہودیوں کے زبردست عالم تھے) اورآپ کے بعض (یہودی)ساتھی اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی یوم السبت(ہفتہ کے دن) کی تعظیم کرتے تھے،اور اونٹ کے گوشت اور اس کے دودھ کو مکروہ گردانتے تھے،انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ التَّوْرَاةَ کِتَابُ اللّٰہِ، فَدَعْنَا فَلْنَقُمْ بِھَا فِیْ صَلَاتِنَا بِاللَّیْلِ، یا رسول اللہ! ہمیں اجازت دیں کہ ہم (احکامات اسلام کے ساتھ ساتھ)قیام لیل (تہجد)میں تورات کی تلاوت کریں کہ وہ بھی تو کتاب اللہ ہے۔ اس پر قرآن پاک کی اِس آیت کا نزول ہوا۔
یٰاَایُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّةً وَلَاتَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ، اِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِیْن(البقرہ:۲۰۸)
ترجمہ: اے ایمان والو!اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاوٴ،اورشیطان کے نقش قدم ہر نہ چلو،یقین جانو وہ تمہارا کھلادشمن ہے۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں مکمل وسراپا داخل ہوجاوٴ،تمہارے لیے احکامات اسلام ہی کافی وشافی ہیں، اب تمہیں کسی اور شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے،سابق مذہب کی بعض باتوں پر عمل کا خیال شیطانی کارستانی ہے؛اس لیے یہ خیال دل سے نکال دو،اور سابق مذہب کی بعض باتوں پر عمل کرنے سے ان کی مشابہت ہوجائے گی جو مذموم ہے۔ (البغوی:۱/۲۴۰)
خضاب میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت
(۱)یہود ونصاری بالوں میں خضاب نہیں لگاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت میں خضاب کاحکم دیا،جیساکہ کتب احادیث میں ہے،حضرت ابوہریرہ  راوی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اِنَّ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارَی لَایَصْبَغُوْنَ فَخَالِفُوْھُمْ(۱) بیشک یہود ونصاری خضاب نہیں لگاتے ہیں، لہٰذا تم ان کی مخالفت کیا کرو، یعنی خضا ب لگایا کرو، کسی بھی رنگ کے خضاب کا استعمال سیاہ رنگ کے علاوہ درست ہے کہ سیاہ رنگ کی ممانعت دیگر احادیث میں آئی ہے۔
طریقہ سلام میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت
(۲) یہود انگلیوں کے اشارہ سے اور نصاریٰ ہتھیلیوں کے اشارہ سے سلام کرتے تھے، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کاحکم دیا،جیساکہ کتبِ احادیث میں ہے،حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص  راوی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لَاتَشَبَّھُوْا بِالْیَہُوْدِ وَلَا بِالنَّصَارَی، فَاِنَّ تَسْلِیْمَ الْیَھُوْدِ الِاشَارَةُ بِاْلَاصَابِعِ، وَتَسْلِیْمَ النَّصَارَی اِلاشَارَةُ بِالْاَکُفِّ(۲)
ترجمہ: یہود کی مشابہت نہ کرو اور نہ نصاری کی مشابہت کرو، یہود کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاری کا سلام ہتھیلی کا اشارہ ہے۔
یعنی زبان سے کلمات سلام اداکیے بغیر صرف انگلیوں سے اور ہتھیلی سے اشارہ کرنا،یہود ونصاریٰ کے سلام کا طریقہ ہے ، ہاں اگر کوئی دو رفاصلے پر ہوتوزبان سے کلمات سلام ادا کرتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کردے تو کوئی مضایقہ نہیں ہے۔
سحری سے امتیاز
(۳) اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) کے روزوں میں سحری نہیں تھی،اور ہمیں سحری کا حکم ہے اور ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے اور ہمارے روزوں میں فرق وامتیاز سحری ہے۔ جیساکہ کتب احادیث میں ہے،حضرت عمر وبن العاص  راوی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
فَصْلُ مَابَیْنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ اَھْلِ الْکِتَابِ اَکْلَةُ السِّحْرِ(۳)
ہمارے روزوں اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق سحری کھانا ہے ، یعنی شریعت نے ہمارے روزں کو بھی ان سے ممتاز وجداگانہ رکھا ہے ۔
عجلت افطار کے ذریعہ یہود ونصاریٰ کی مخالفت
(۴) اہل کتاب افطار میں تاخیر کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ یہ اہل کتاب(یہود ونصاریٰ) کا طریقہ ہے۔
لَایَزَالُ الدِّیْنُ ظَاھِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ، لِاَنَّ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَی یُوَٴخِّرُوْنَ(۴)
دین ہمیشہ غالب رہے گا؛ جب تک کہ لوگ افطار میں جلدی کریں گے،بیشک یہود ونصاریٰ افطار میں تاخیر کرتے ہیں۔
یہ یہودیت کاشیوہ ہے
(۵)ابتدا ء میں باجماعت نماز کے لیے مسلمانوں کو جمع کرنے کا کوئی خاص طریقہ مقررنہ تھا، مسلمان ازخود وقت کااندازہ کر کے جمع ہوجاتے تھے ،پھرآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا کَیْفَ یُجْمَعُ النَّاسُ لِلصَّلاَةِ؟کہ لوگوں کو نماز کے لیے کیسے جمع کیا جائے؟کسی نے مشورہ دیا کہ ناقوس بجا یا جائے،آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشورہ کو رد کرتے ہو ئے فرمایا ، ھُوَ مِنْ اَمْرِ النَّصَارَی کہ یہ نصاری کاطریقہ ہے،اور کسی نے یہ رائے پیش کی کہ”بوق“ نرسنگھا پھونکا جائے، اسے بھی رد کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریا، ھُوَ مِنْ اَمْرِ الْیَھُوْدِ کہ یہ یہود کا طرز ہے،اور کسی نے کہا کہ آ گ جلائی جا ئے، مجوس کا طریقہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی رد کردیا۔ پھرجب عبد اللہ بن زید نے( اور دیگر بعض صحابہ نے) اذان والا خواب دیکھا،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسنایاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کو سچا اور منجانب اللہ قرار دیا اوراس کے مطابق اذان کوجاری فرمایا۔(۵)
صوم عاشوراء میں یہود ونصاریٰ کی مخالفت
(۶)اور جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہواکہ یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم یہ روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ تو انھوں نے جواب دیا،یہ ہمار ا بہترین اور مبارک دن ہے ، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کوفرعون کے ظلم سے بچایا اور فرعون اور اس کی قوم کو اسی دن بحرِقلزم میں غرقاب کیا تھا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نَحْنُ اَحَقُّ بِمُوْسٰی مِنْکُمْ ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں ۔
 اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے عاشورا ء کے روزہ کا وجوبی یاتاکیدی حکم دیا ۔پھر جب اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کی عیاری ومکاری اور ان کی اسلامی عداوت ظاہر ہوگئی تو صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، اِنَّہُ یَوْمٌ یُعَظِّمُہُ الْیَہُوْدُ،یارسول اللہ! یہ وہ دن ہے کہ جس کی تعظیم و تکریم یہود (بھی) کرتے ہیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فَاِذَا کَانَ الَعَامُ الْمُقْبِلْ اِنْشَاء اللّٰہُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِع(۶)
”انشا ء اللہ اگر میں آئند ہ سال زندہ رہا تو(دسویں کے ساتھ) نویں کا بھی روزہ رکھوں گا“، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم عاشورا ء میں ان سے یگانگت اور یکسانیت کی روش بدل دی؛مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی عمر نے وفانہ کی اورآ پ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال ماہ محرم کے آنے سے پہلے ہی ۱۲/ ربیع الاول ۱۱ھ کو ملا ء اعلیٰ سے جاملے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنِ۔
یہود ونصاریٰ کی مخالفت میں ہفتہ اور اتوار کو روزہ
(۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخالفتِ اہل کتاب میں شنبہ اور یکشنبہ(یعنی ہفتہ اور اتوار) کا روزہ رکھا کرتے تھے؛ جیسا کہ کتب احادیث میں ہے، حضرت ام سلمی  فرماتی ہیں:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَصُوْمُ یَوْمَ السَّبْتِ وَ یَوْمَ الْاَحَدِ اَکْثَرَ مِمَّا یَصُوْمُ مِنَ اْلاَیَّامِ، وَیَقُوْلُ: اِنَّھُمَا عِیْدَا الْمُشْرِکِیْنَ، فَاَنَا اُحِبُّ اَنْ اُخَالِفَھُمْ(۷)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنوں میں اکثر شنبہ اور یکشنبہ کو روزہ رکھا کرتے ،اور فرماتے کہ یہ دونوں دن مشرکوں کے عید کے ہیں،مجھے پسند ہے کہ میں ان کی مخالفت کروں۔ یعنی شنبہ یہود کی عید کادن اور یکشنبہ نصاری کی عید کادن ہے اور ظاہر ہے کہ عید کے دن وہ کسی بھی حال میں روزہ نہ رکھیں گے، اور ان دنوں میں روزہ رکھنے سے مخالفتِ اہل کتاب ظاہر ہوتی ہے،اور اسی کا اظہارمطلوب و مقصودہے۔
نصاریٰ کی مخالفت میں صوم وصال کی ممانعت
(۸) حضرت لیلیٰ فرماتی ہیں: اَرَدتُّ اَنْ اَصُوْمَ یَوْمَیْنِ مُوَاصَلَةً کہ میں نے ارادہ کیا کہ (بغیر سحری کے)مسلسل دو دن روزہ رکھوں، میرے شوہر بشیر نے مجھے منع کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے : یَفْعَلُ ذَالِکَ النَّصَارَی،(۸)کہ نصاریٰ اس طرح کرتے ہیں،یعنی وہ بغیر سحری کے مسلسل روزے رکھتے ہیں؛اس لیے ہمیں یہ عمل نہیں کرناہے۔
یہود ونصاریٰ کے برخلاف اسلام میں عورت اچھوت نہیں ہے
(۹)اہل کتاب عورت کوحالتِ حیض میں بالکل اچھوت سمجھتے تھے، قربت ومجامعت سے اجتناب واحترازکے ساتھ ساتھ، نہ کھاتے پیتے نہ اٹھتے بیٹھتے اورنہ بات چیت کرتے؛بلکہ اسے خود سے بالکل الگ کردیتے تھے،اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِصْنَعُوْا کُلَّ شَیْءٍ اِلَّا النِّکَاحْ،ہم بستری ومجامعت تو ممنوع ہے، اس کے علاوہ تناول طعام، نشست و برخواست،گفتار وتکلم؛ بلکہ ساتھ لیٹنے کی بھی اجازت ہے، یعنی اہل کتاب کی طرح ہمیں مبالغہ آمیزرویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے،اس طرح اس معاملہ میں بھی ان سے ہماری جداگانہ شناخت رکھی گئی۔
اور جب اہل کتاب کو اس جدا گانہ طرز کی اوران کی محالفت کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے کہا، مَا یُرِیْدُ ھٰذَ الرَّجُلُ اَنْ یَّدَعَنَا مِنْ اَمْرِنَا شَےْئاً اِلاَّ خَالَفْنَا فِیْہِ،(۹)لگتاہے کہ اس آدمی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہمارے ہر امر کی مخالفت کا ارادہ کرلیا ہے۔
قبرستان میں مخالفت
(۱۰)ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنازہ کے ساتھ چلتے تو جب تک میت کو قبر میں نہ رکھاجاتا بیٹھتے نہ تھے،اس پر ایک یہودی عالم نے کہا: ھٰکَذَا نَصْنَعُ یَا مُحَمَّدْ،اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ہم بھی اسی طرح کرتے ہیں،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے، اورفرمایا: خَالِفُوھُم،(۱۰)کہ ان کی مخالفت کرو!یعنی یہودکہ وہ جنازہ کے ساتھ بیٹھتے ہی نہیں ہیں، ان کی مخالفت اس طرح کرو کہ جب تک جنازہ گردنوں سے نیچے نہ رکھا جائے، نہ بیٹھو،پھر جب جنازہ گردنوں سے نیچے رکھ دیا جائے تو بیٹھ سکتے ہو۔
کتب احادیث میں موجود متعدد مثالوں میں سے میں نے آ پ کے سامنے دس مثالوں کو رکھا ہے،جن سے روزروشن کی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل کتاب (یہود ونصاری) کا اور ہمارا راستہ الگ الگ ہے،ان کی اور ہماری شناخت جدا جدا ہے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادات ہو یامعاشرت ہر جگہ ہمیں ان کی راہ و روش سے بچنے اوران کی مشابہت سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، مَنْ َتشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ(۱۱) جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا تو وہ انھیں میں سے شمارہوگا۔
کتنی سخت بات ہے ، کتنی بڑی وعید ہے اور کس قدر اظہارِ ناراضگی ہے، العیاذ باللہ! اگر کوئی مومن ومسلمان کفار یایہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار کرے گا، عبادات میں ہو یا معاشرت میں، عادات و اطوار میں ہو یا ظاہری ہیئت وانداز میں ہو،ان کے مخصوص اعمال اور رسوم ورواج کو اپنائے گا تواس کا شمار بھی انھیں میں ہوگا۔
اور ایک روایت میں ہے، لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا، یعنی جو غیروں کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
 ایک طرف یہ شرعی ہدایات ہیں، جن میں اغیا ر کی مشابہت اور مماثلت پر سخت زجر وتوبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ کی گئی ہے،اور دوسری طرف ہمارے سامنے امت کا ایک بڑا طبقہ ہے جو بے باکی کے ساتھ اغیار کے طوروطریق کو فخریہ اپنا رہا ہے،اوراس پر نازاں بھی ہے۔
افسوس کہ احساس زیاں جاتا رہا
للہ اپنا جأیزہ لیں،اوراپنا محاسبہ کریں،ہمیں تو کامل دین وشریعت سے نوازاگیاہے، ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بطور نمونہ واسوہ دی گئی ہے،اور ہمیں سنتوں کے خزانے دیے گئے ہیں ، پھر بھی آج ہمارے گھرانوں میں اغیار کے اطوار کافروغ کیوں ہے؟ ہمارے نوجوانوں کا لباس اوران کے بال اُن جیسے کیوں ہیں؟شادی بیاہ اُن جیسے کیوں ہیں؟اورزندگی میں طرز وانداز اُن جیسے کیوں ہیں؟اورآج کیوں فرزندان اسلام ان کے رنگ ڈھنگ میں رنگنے اور انکی مشابہت اختیار کرنے کے لیے بیتاب ومشتاق ہیں؟
      اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں محض اپنے فضل واحسان سے اغیار کے فتنہ سے محفوظ رکھے،آمین!
$ $ $
 حواشی:
(۱)    البخاری (۵۵۵۹)
(۲)الترمذی (۲۶۹۵)
(۳)مسلم (۱۰۹۶)
(۴)سنن ابو داود ( ۲۰۶۳)
(۵)ملاحظہ ہو سنن ابوداود(۴۹۸)
(۶)مسلم (۱۱۳۴)
(۷)المسند (۲۶۷۹۳)
(۸)المسند (۱۱۵۲)
(۹)مسلم :(۳۰۲)
(۱۰) الترمذی (۱۰۲۰)
(۱۱)سنن ابوداود (۴۰۳۳)
$ $ $












حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ ، وَفِّرُوا اللِّحَى وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ " ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ .[صحيح البخاري » كِتَاب اللِّبَاسِ » باب تَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ ... رقم الحديث: 5469]
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ، مونچھیں کترواؤ اور حضرت ابن عمر ؓ جب عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی مٹھی سے پکڑتے اور جتنی زیادہ ہوتی اس کو کاٹ دیتے۔
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1خالفوا المشركين وفروا اللحى وأحفوا الشواربعبد الله بن عمرصحيح البخاري54695892محمد بن إسماعيل البخاري256
2خالفوا المشركين أحفوا الشوارب وأوفوا اللحىعبد الله بن عمرصحيح مسلم387262مسلم بن الحجاج261
3أعفوا اللحى وأحفوا الشواربعبد الله بن عمرسنن النسائى الصغرى49865046النسائي303
4أعفوا اللحى وحفوا الشواربعبد الله بن عمرمسند أحمد بن حنبل49905114أحمد بن حنبل241
5تعفى اللحى وأن تجز الشواربعبد الله بن عمرمسند أحمد بن حنبل49935117أحمد بن حنبل241
6أعفوا اللحى وحفوا الشواربعبد الله بن عمرمسند أحمد بن حنبل62756420أحمد بن حنبل241
7خالفوا المجوس أحفوا الشوارب وأعفوا اللحىعبد الله بن عمرمستخرج أبي عوانة350468أبو عوانة الإسفرائيني316
8أمر بإعفاء اللحى وإحفاء الشواربعبد الله بن عمرالمسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم509601أبو نعيم الأصبهاني430
9خالفوا المشركين أحفوا الشوارب وأعفوا اللحىعبد الله بن عمرالمسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم510602أبو نعيم الأصبهاني430
10أعفوا اللحى وأحفوا الشواربعبد الله بن عمرالسنن الكبرى للنسائي89499247النسائي303
11أعفوا اللحى وأحفوا الشواربعبد الله بن عمرالسنن الكبرى للبيهقي6271 : 149البيهقي458
12خالفوا المشركين وفروا اللحى وأحفوا الشواربعبد الله بن عمرالسنن الكبرى للبيهقي6281 : 150البيهقي458
13أعفوا اللحى وأحفوا الشواربعبد الله بن عمرالبحر الزخار بمسند البزار 10-1312715566أبو بكر البزار292
14أعفوا اللحى واحفوا الشواربعبد الله بن عمرمسند أبي يعلى الموصلي56895738أبو يعلى الموصلي307
15اعفوا اللحى واحفوا الشواربعبد الله بن عمرإتحاف المهرة9544---ابن حجر العسقلاني852
16أعفوا اللحى واحفوا الشواربعبد الله بن عمرمعجم الشيوخ لابن جميع الصيداوي316309ابن جميع الصيداوي402
17اعفوا اللحى وحفوا الشواربعبد الله بن عمرجزء الألف دينار للقطيعي541 : 80أبو بكر القطيعي368
18أعفوا اللحى وأحفوا الشواربعبد الله بن عمرشعب الإيمان للبيهقي59326430البيهقي458
19خالفوا المشركين وفروا اللحى وأحفوا الشواربعبد الله بن عمرشعب الإيمان للبيهقي59336430البيهقي458
20اعفوا اللحى واحفوا الشواربعبد الله بن عمرالترجل من مسائل الإمام أحمد7983أبو بكر الخلال311
21خالفوا المشركين أوفوا اللحى وأحفوا الشواربعبد الله بن عمرشرح السنة30953194الحسين بن مسعود البغوي516
22خالفوا المشركين أحفوا الشوارب وأعفوا اللحىعبد الله بن عمرالمحلى بالآثار لابن حزم2851 : 424ابن حزم الظاهري456
23اعفوا اللحىعبد الله بن عمرتاريخ بغداد للخطيب البغدادي20767 : 219الخطيب البغدادي463





حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ مَوْلَى الْحُرَقَةِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " جُزُّوا الشَّوَارِبَ ، وَأَرْخُوا اللِّحَى ، خَالِفُوا الْمَجُوسَ " .
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مونچھوں کو کتراؤ اور ڈاڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوس یعنی آتش پرستوں کی مخالفت کیا کرو۔ 
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1جزوا الشوارب وأرخوا اللحى خالفوا المجوسعبد الرحمن بن صخرصحيح مسلم388262مسلم بن الحجاج261
2قصوا الشوارب وأعفوا اللحىعبد الرحمن بن صخرمسند أحمد بن حنبل69567092أحمد بن حنبل241
3جزوا الشوارب واعفوا اللحىعبد الرحمن بن صخرمسند أحمد بن حنبل85798560أحمد بن حنبل241
4جزوا الشوارب واعفوا اللحى خالفوا المجوسعبد الرحمن بن صخرمسند أحمد بن حنبل85868567أحمد بن حنبل241
5خذوا من الشوارب وأعفوا اللحىعبد الرحمن بن صخرمسند أحمد بن حنبل88218795أحمد بن حنبل241
6أحفوا الشوارب وأعفوا اللحى خالفوا المجوسعبد الرحمن بن صخرمستخرج أبي عوانة347465أبو عوانة الإسفرائيني316
7جزوا الشوارب وأعفوا اللحى خالفوا المجوسعبد الرحمن بن صخرالمسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم511603أبو نعيم الأصبهاني430
8جزوا الشوارب وأرخوا اللحى خالفوا المجوسعبد الرحمن بن صخرالسنن الكبرى للبيهقي6291 : 150البيهقي458
9جزوا الشوارب وأرخوا اللحى خالفوا المجوسعبد الرحمن بن صخرمعرفة السنن والآثار للبيهقي312339البيهقي458
10أحفوا الشوارب وأعفوا اللحىعبد الرحمن بن صخرالمعجم الصغير للطبراني80916سليمان بن أحمد الطبراني360
11جزوا الشوارب وأرخوا اللحىعبد الرحمن بن صخرشرح معاني الآثار للطحاوي43344347الطحاوي321
12أحفوا الشوارب وأعفوا اللحىعبد الرحمن بن صخرشرح معاني الآثار للطحاوي43354348الطحاوي321
13أحفوا الشوارب وأعفو اللحىعبد الرحمن بن صخرتاريخ بغداد للخطيب البغدادي6063 : 260الخطيب البغدادي463


حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : " أَعْفُوا اللِّحَى ، وَخُذُوا الشَّوَارِبَ ، وَغَيِّرُوا شَيْبَكُمْ ، وَلَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ وَالنَّصَارَى " .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مونچھیں خوب تراشا کرو اور داڑھی کو خوب بڑھایا کرو اور اپنے بالوں کا سفید رنگ تبدیل کرلیا کرو البتہ یہود و نصاری کی مشابہت اختیار نہ کیا کرو۔ 
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1أعفوا اللحى وخذوا الشوارب وغيروا شيبكم ولا تشبهوا باليهود والنصارىعبد الرحمن بن صخرمسند أحمد بن حنبل84718458أحمد بن حنبل241
2أهل الشرك يعفون شواربهم ويحفون لحاهم فخالفوهم فأعفوا اللحى وأحفوا الشواربعبد الرحمن بن صخركشف الأستار27912967نور الدين الهيثمي807
3وفروا اللحى وخذوا من الشوارب وانتفوا الآباط واحذروا الفلقتينعبد الرحمن بن صخرالمعجم الأوسط للطبراني52045062سليمان بن أحمد الطبراني360
4اعفوا اللحى وحفوا الشواربعبد الرحمن بن صخرالثالث من الفوائد المنتقاة لابن أبي الفوارس40---أبو الفتح بن أبي الفوارس412
5أعفوا اللحى وخذوا من الشواربعبد الرحمن بن صخرالتاريخ الكبير للبخاري142419محمد بن إسماعيل البخاري256


حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ , حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ , قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَشْيَخَةٍ مِنَ الْأَنْصَارٍ بِيضٌ لِحَاهُمْ , فَقَالَ : " يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ , حَمِّرُوا , وَصَفِّرُوا , وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ " , قَالَ : فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَتَسَرْوَلَونَ وَلَا يَأْتَزِرُونَ ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " تَسَرْوَلُوا وَائْتَزِرُوا , وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ " , قَالَ : فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَتَخَفَّفُونَ وَلَا يَنْتَعِلُونَ , , قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " فَتَخَفَّفُوا وَانْتَعِلُوا , وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ " , قَالَ : فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ , وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ , قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ , وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ " .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ انصار کے کچھ عمر رسیدہ افراد کے پاس " جن کی ڈاڑھیاں سفید ہوچکی تھیں " تشریف لائے اور فرمایا اے گروہ انصار! اپنی ڈاڑھیوں کو سرخ یا زرد کرلو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ( ﷺ ) اہل کتاب شلوار پہنتے ہیں تہنبد نہیں باندھتے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم شلوار بھی پہن سکتے ہو اور تہبند بھی باندھ سکتے ہو، البتہ اہل کتاب کی مخالفت کیا کرو، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ( ﷺ ) اہل کتاب موزے پہنتے ہیں ، جوتے نہیں پہنتے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم موزے بھی پہنا کرو اور جوتے بھی پہنا کرو اور اس طرح اہل کتاب کی مخالفت کیا کرو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ( ﷺ ) اہل کتاب ڈاڑھی کٹاتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم مونچھیں تراشا کرو اور ڈاڑھیاں بڑھایا کرو اور اس طرح اہل کتاب کی مخالفت کیا کرو۔ 
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1حمروا وصفروا وخالفوا أهل الكتاب تسرولوا وائتزروا وخالفوا أهل الكتاب تخففوا وانتعلوا وخالفوا أهل الكتاب قصوا سبالكم ووفروا عثانينكم وخالفوا أهل الكتابصدي بن عجلانمسند أحمد بن حنبل2169521779أحمد بن حنبل241
2حمروا وصفروا وخالفوا أهل الكتابصدي بن عجلانإتحاف المهرة6235---ابن حجر العسقلاني852
3حمروا وصفروا وخالفوا أهل الكتابصدي بن عجلانالمعجم الكبير للطبراني78457924سليمان بن أحمد الطبراني360
4تخففوا وانتعلوا وخالفوا أهل الكتابصدي بن عجلانالمعجم الكبير للطبراني78467924سليمان بن أحمد الطبراني360
5قصوا سبالكم واعفوا عثانينكمصدي بن عجلانالمعجم الكبير للطبراني78477924سليمان بن أحمد الطبراني360
6حمروا وصفروا وخالفوا أهل الكتاب وفروا عثانينكم وقصروا سبالكم انتعلوا وتخففوا وخالفوا أهل الكتابصدي بن عجلانشعب الإيمان للبيهقي59076405البيهقي458
7فإن أهل الكتاب يقصون عثانينهم ويوفرون سبالهم فقال النبي قصوا سبالكم ووفروا عثانينكم وخالفوا أهل الكتابصدي بن عجلانطرح التثريب للعراقي1391 : 238أبو زرعة العراقي806



*********************************

بالوں کو مہندی سے رنگنا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " إِنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى لَا يَصْبُغُونَ فَخَالِفُوهُمْ " .
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہود و نصاریٰ اپنے بالوں کو مہندی وغیرہ سے نہیں رنگتے سو تم ان کی مخالفت کرو۔

گڈ مارننگ یا سلامِ مسنون:
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ قَتَادَةَ أَوْ غَيْرِهِ , أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ , قَالَ : " كُنَّا نَقُولُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَيْنًا وَأَنْعِمْ صَبَاحًا , فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ , نُهِينَا عَنْ ذَلِكَ " , قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ مَعْمَرٌ : يُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ : أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَيْنًا , وَلَا بَأْسَ أَنْ يَقُولَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَيْنَكَ " .
[سنن أبي داود » كِتَاب الْأَدَبِ » أَبْوَابُ النَّوْمِ » باب فِي الرَّجُلِ يَقُولُ أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَيْنًا ... رقم الحديث: 4552(5227)]
حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ ہم لوگ دور جاہلیت میں ایک دوسرے کو کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ ٹھنڈک رکھے اور تم نعمتوں میں رہو صبح کو۔ جب اسلام آیا تو ہمیں اسے منع کردیا گیا۔ عبدالرزاق نے کہا کہ معمر نے فرمایا کہ مکروہ ہے یہ بات کہ أَنْعَمَ اللَّهُ بِکَ عَيْنًا کہے اور أَنْعَمَ اللَّهُ عَيْنَكَ کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
Narrated Imran ibn Husayn: 
In the pre-Islamic period we used to say: "May Allah make the eye happy for you," and "Good morning" but when Islam came, we were forbidden to say that. AbdurRazzaq said on the authority of Ma'mar: It is disapproved that a man should say: "May Allah make the eye happy for you," but there is no harm in saying: "May Allah make your eye happy.
خلاصة حكم المحدث :
سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
الصفحة أو الرقم: 4/317 | خلاصة حكم المحدث : [حسن كما قال في المقدمة]
المحدث : الذهبي | المصدر : تاريخ الإسلام
الصفحة أو الرقم: 1/280 | خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد
الصفحة أو الرقم: 8/289 | خلاصة حكم المحدث : رجاله رجال الصحيح‏

عاشوراء کے دن عورتوں کا مزین لباس:
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ رَقَبَةَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ لأَهْلِ يَثْرِبَ عِيدًا يَلْبَسُ فِيهِ النِّسَاءُ شَارَتَهُنَّ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَالِفُوهُمْ فَصُومُوهُ " .
طارق بن شہاب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: عاشورہ کا دن یثرب کے لوگوں کے لیے عید(جشن) کا دن تھا جس میں عورتیں اپنے بیج پہنتی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی مخالفت کرو لہٰذا اس دن روزہ رکھو۔"
شاہد:
بخاری:2005، مسلم:130

عاشوراء کےساتھ دوسرا روزہ بھی رکھنا
حدثنا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا ، أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » وَمِنْ مُسْنَدِ بَنِي هَاشِمٍ » مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ ... رقم الحديث: 2075(2155)]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عاشورہ کا روزہ رکھا کرو ، لیکن اس میں بھی یہودیوں کی مخالفت کیا کرو اور وہ اس طرح کہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی ملا لیا کرو۔
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1صوموا يوم عاشوراء وخالفوا فيه اليهود صوموا قبله يوما أو بعده يوماعبد الله بن عباسمسند أحمد بن حنبل20752155أحمد بن حنبل241
2صوموا يوم عاشوراء وخالفوا فيه اليهود صوموا قبله يوما أو بعده يوماعبد الله بن عباسالسنن الكبرى للبيهقي77634 : 287البيهقي458
3صوموه وخالفوا فيه اليهود وصوموا قبله يوما وبعده يوماعبد الله بن عباسالبحر الزخار بمسند البزار 10-1310145238أبو بكر البزار292
4صوم عاشوراء صوموه وخالفوا فيه اليهود وصوموا قبله وبعده يوماعبد الله بن عباسكشف الأستار9921049نور الدين الهيثمي807
5صوموا عاشوراء وخالفوا فيه اليهود صوموا يوما قبله وصوموا بعده يوماعبد الله بن عباسمشيخة أبي الطاهر بن أبي الصقر11ابن مفلح اللخمي476
6صوموا عاشوراء وخالفوا فيه اليهود صوموا يوما قبله وصوموا بعده يوماعبد الله بن عباسفوائد مخرجة عن شيوخ أبي عبد الله المؤذن23---محمد بن عبد العزيز بن علي المؤذن330
7صوموا عاشوراء وخالفوا فيه اليهود صوموا قبله يوما وبعده يوماعبد الله بن عباسفوائد تمام الرازي8794تمام بن محمد الرازي414
8صوموا يوم عاشوراء وخالفوا فيه اليهود صوموا قبله يوما أو بعده يوماعبد الله بن عباسأمالي ابن بشران4801 : 205أبو القاسم بن بشران430
9صوموا يوم عاشوراء وخالفوا فيه اليهود صوموا قبله يوما أو بعده يوماعبد الله بن عباسأمالي ابن بشران ( مجالس أخرى )4631 : 205عبد الملك بن بشران431
10صوموا يوم عاشوراء وخالفوا فيه اليهود صوموا قبله يوما أو بعده يوماعبد الله بن عباسأمالي ابن بشران 724---أبو القاسم بن بشران430
11صوموا يوم عاشوراء وخالفوا فيه اليهود وصوموا قبله يوما أو بعده يوماعبد الله بن عباسفضائل الصحابة لأحمد بن حنبل16881951أحمد بن حنبل241


حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ مَيْمُونٍ الرَّمْلِيِّ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَالِفُوا الْيَهُودَ فَإِنَّهُمْ لَا يُصَلُّونَ فِي نِعَالِهِمْ وَلَا خِفَافِهِمْ " .
حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہودیوں کے خلاف (عمل) کرو کیونکہ وہ جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے۔
نوٹ:
مسجد کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ مسجد کو پاک رکھا جائے اور پاک سرزمین پر جوتے اتارکر داخل ہو، جیساکہ قرآن[طه:12]میں اس کا حکم ہے۔ اور جوتوں میں ناپاکی کا وحی سے علم ہونے پر نبیﷺ نے نماز میں جوتے اتاردیے تھے۔ لہٰذا مسجد کے سوا پاک جوتوں میں نماز جائز ہے۔



فِيمَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، أَخْبَرَنِي خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبُخَارِيُّ ، ثَنَا سُهَيْلُ بْنُ شَاذَوَيْهِ ، ثَنَا حُلْوَانُ بْنُ سَمُرَةَ إِمْلاءً ، ثَنَا عِصَامُ بْنُ مُقَاتِلِ بْنِ مُقَاتِلٍ النَّحْوِيُّ ، عَنْ عِيسَى بْنِ مُوسَى ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَتْرِعُوا الطُّسُوسَ وَخَالِفُوا الْمَجُوسَ " . قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ : قَوْلُهُ : أَتْرِعُوا يُرِيدُ وَاللَّهُ أَعْلَمُ امْلَئُوا . وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ .
ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ طشت پانی سے بھرلیا کرو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ : نا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ ، قَالَ : نا عَمِّي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ السَّمْحِ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ الْمُشْرِكِينَ يَتَسَرْبَلُونَ ، وَلا يَتَّزِرُونَ ؟ قَالَ : " تَسَرْبَلُوا أَنْتُمْ ، وَاتَّزِرُوا " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَإِنَّ الْمُشْرِكِينَ يَحْتَفُونَ وَلا يَنْتَعِلُونَ ؟ قَالَ : " فَاحْتَفُوا أَنْتُمْ ، وَانْتَعِلُوا ، خَالِفُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ كُلَّمَا اسْتَطَعْتُمْ " . لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يُونُسَ إِلا خَالِدٌ ، وَلا عَنْ خَالِدٍ إِلا عَبْدُ اللَّهِ ، وَلا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ إِلا ابْنُ وَهْبٍ ، تَفَرَّدَ بِهِ : ابْنُ أَخِيهِ .