Wednesday 2 November 2022

تقوی کے معنی وحقیقت، فضائل اور تقاضے

پرہیز گاری، پارسائی، خدا ترسی
  • احتیاط، پرہیز گاری میں مبالغہ کرنا
  • طاقتور ہونا، مضبوط ہونا
  • مضبوط کرنا، امداد کرنا

تَق٘ویٰ کا استعمال شریعت میں دو معنی میں ہوتا ہے، ایک ڈرنا دوسرے بچنا، اصل مقصد تو معاصی سے بچنا ہی ہے، ڈرنا اس کا سبب ہے، کیونکہ جب کسی چیز کا خوف دل میں ہوتا ہے جبھی اس سے بچاجاتا ہے، پس تقوی کا حاصل یہ ہوا اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اس ڈر کی وجہ سے ناجائز خواہشات اور تمام قسم کے منکرات ومعاصی اور فواحش سے بچنا۔ تقوے کے مختلف درجے ہوتے ہیں ایک تقوی یہ ہے کہ کفر اور شرک سے بچے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ اعمال صالحہ کو ترک نہ کرے اور محرمات کا ارتکاب نہ کرے،پھر جیسے جیسے اعمال ہوں گے ویسا ہی تقوی پیدا ہوتا رہے گا، اور اس تقوے کے کمال سے ایمان بھی کامل ہوتا رہے گا، چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللَّہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُونَ․ الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ․ لَہُمُ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ․
ترجمہ:
آگاہ ہوجاوٴ کہ بے شک اللہ کے اولیاء پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے، وہ یہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقوی کرتے ہیں ان کے لیے زندگانی دنیا میں بھی اور آخرت میں بشارت ہے۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّہَ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوْا وَالَّذِینَ ہُمْ مُحْسِنُونَ․
ترجمہ:
بیشک اللہ تعالی ان لوگوں کے ساتھ ہے جنھوں نے تقوی اختیار کیا اور وہ لوگ جو نیکوکار ہیں۔

انسان کسی ایسے راستہ پر چل رہا ہو جس کے دونوں جانب خاردار درخت ہیں اور راستہ بھی تنگ ہے، ایسے وقت میں آدمی اپنے کپڑے اور جسم کو کانٹے سے بچاتے ہوئے قدم آگے کو بڑھاتا ہے، اسی طرح دنیا کی زندگی میں ہرجانب معاصی اور شہوات ہیں، آدمی ان سے دامن بچاتا ہوا اعمال صالحہ پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھتا جائے اسی کا نام تقوی کی زندگی ہے۔













گناہوں سے بچنے کی "کوشش" کا نام تقویٰ ہے۔
القرآن:
لہذا جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو ...
[سورۃ نمبر 64 التغابن، آیت نمبر 16]
تفسیر:
5: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ واضح فرمادیا ہے کہ انسان کو جو تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے، وہ اس کی استطاعت کے مطابق ہے، یعنی کسی انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا گیا، یہی مضمون سورة بقرہ : 223، 286 سورة انعام : 152، سورة اعراف : 42 سورة مومنون : 63 میں گزرچکا ہے۔
















القرآن:
اے لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے، اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو، (9) درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے۔
[سورۃ نمبر 49 الحجرات، آیت نمبر 13]


تفسیر:
اس آیت کریمہ نے مساوات کا یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی کی عزت اور شرافت کا معیار اس کی قوم اس کا قبیلہ یا وطن نہیں ہے، بلکہ تقویٰ ہے۔ سب لوگ ایک مرد و عورت یعنی حضرت آدم و حواء (علیہما السلام) سے پیدا ہوئے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے مختلف قبیلے خاندان یا قومیں اس لیے نہیں بنائیں کہ وہ ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتائیں، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بیشمار انسانوں میں باہمی پہچان کے لیے کچھ تقسیم قائم ہوجائے۔


رسول اللہ ﷺ کے قریب ترین لوگ: وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: " إِنَّ أَوْلِيَائِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمُتَّقُونَ، وَإِنْ كَانَ نَسَبٌ أَقْرَبَ مِنْ نَسَبٍ، فلَا يَأتِينِي النَّاسُ بِالْأَعْمَالِ , وَتَأتُونَ بِالدُّنْيَا تَحْمِلُونَهَا عَلَى رِقَابِكُمْ، فَتَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَقُولُ هَكَذَا وَهَكَذَا: لَا - وَأَعْرَضَ فِي كِلا عِطْفَيْهِ
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ‌ؓ سے مرفوعا مروی ہے كہ: قیامت كے دن میرے دوست متقی لوگ ہوں گے۔ اگرچہ نسب کے اعتبار سے کوئی میرے زیادہ قریب ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ میرے پاس (نیک) اعمال لے کر آئیں اور تم میرے پاس اپنی گردنوں پر دنیا اٹھائے ہوئے آؤ۔ اور كہہ رہے ہو گے: اے محمد ‌ﷺ ‌ اور میں اس طرح اس طرح كروں كہ نہیں اور آپ ﷺ نے اپنے كاندھے دونوں طرف موڑیے۔ [ (خد) 897 , (فر) 903 , الصَّحِيحَة: 765 , وصحيح الأدب المفرد: 69]
[الصحيحة رقم (1622)، صحيح ابن حبان رقم (7438)].
[تفسیر القرطبی»سورۃ الحجرات، آیت#13]
[تفسیر الدر المنثور» سورۃ الشعراء، آیت#214]



القرآن:
اور (اے پیغمبر) تم اپنے قریب ترین خاندان کو خبردار کرو۔
[سورۃ نمبر 26 الشعراء، آیت نمبر 214]

تفسیر:
یہ وہ آیت ہے جس کے ذریعے آنحضرت ﷺ کو سب سے پہلی بار تبلیغ کا حکم ہوا اور یہ ہدایت دی گئی کہ تبلیغ کا آغاز اپنے قریبی خاندان کے لوگوں سے فرمائیں، چنانچہ اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے اپنے خاندان کے قریبی لوگوں کو جمع کرکے ان کو دین حق کی دعوت دی، اس میں یہ سبق بھی دیا گیا ہے کہ اصلاح کرنے والے کو سب سے پہلے اپنے گھر اور اپنے خاندان سے شروع کرنا چاہیے۔



م




م
القرآن: اور بھلا ان میں کیا خوبی ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے جبکہ وہ لوگوں کو مسجد حرام سے روکتے ہیں۔ (20) حالانکہ وہ اس کے متولی نہیں ہیں۔ متقی لوگوں کے سوا کسی قسم کے لوگ اس کے متولی نہیں ہوسکتے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ (اس بات کو) نہیں جانتے۔ [سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 34]
تفسیر: 20: یعنی اگرچہ مذکورہ بالا دو وجہ سے ان پر دنیا میں کوئی عام عذاب تو نہیں آیا مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ لوگ عذاب کے مستحق نہیں ہیں، واقعہ یہ ہے کہ کفر وشرک کے علاوہ ان کی ایک خرابی یہ ہے کہ مسلمانوں کو مسجد حرام میں عبادت کرنے سے روکتے ہیں، جیسا کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کے واقعے میں پیچھے گزرچکا (دیکھئے اس سورت کا ابتدائی تعارف) لہذا جب آنحضرت ﷺ اور دوسرے صحابہ مکہ مکرمہ سے نکل جائیں گے تو ان پر جزوی عذاب آئے گا، جو بعد میں فتح مکہ کی صورت میں سامنے آیا اور پھر آخرت میں ان کو مکمل عذاب ہوگا۔
م





















تقویٰ کی عظمت:
آیتِ مبارَکہ میں روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری قرار دیا ہے۔ تقویٰ عظیم عبادت ، تمام نیکیوں کی اصل اور بےشمار فضائل کا حامل ہے۔

تقوی اولیا اللہ کی پہچان ہے:

          1:تقویٰ ، اللہ کےدوستوں یعنی ولیوں کی پہچان ہے ، فرمایا :  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳)  ترجمہ : (اللہ کے دوست ہیں)وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔ 
[پ11 ، یونس : 63]



اللہ کے ہاں عزت دار:

2: متقی کا مرتبہ خدا کی بارگاہ میں سب سے بلند ہے ، فرمایا :  اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ- ترجمہ : بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔
[پ26 ، الحجرات : 13]



اللہ کے دوست:

3:متقی اللہ کے دوست ہیں اور خدا متقیوں کا دوست ہے ، فرمایا :
وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ
ترجمہ : اور اللہ پرہیزگاروں کا دوست ہے۔
[پ25 ، الجاثیۃ : 19]

4: پرہیزگاروں سے اللہ کریم محبت فرماتا ہے ، فرمایا :
اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
ترجمہ :
بیشک اللہ پرہیزگاروں سے محبت فرماتا ہے۔
[پ10 ، التوبۃ : 7]

بہترین زادِ راہ:

5: تقویٰ ، سفرِِ آخرت کے لئے بہترین زادِ راہ  ہے۔ فرمایا : فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى٘- ترجمہ : پس سب سے بہتر زادِ راہ یقیناً پرہیزگاری ہے۔ (پ2 ، البقرۃ : 197

تقویٰ انسان کے لئے بہترین لباس ہے جو ایمان ، عملِ صالح ، شرم و حیا اور اچھے اَخلاق کے ساتھ انسان کے باطنی و روحانی وُجود کی شیطان سے حفاظت کرتا ہے اور اس کے اخلاقی وُجود کو زینت بھی بخشتا ہے ،6:  فرمایا : وَ لِبَاسُ التَّقْوٰىۙ-ذٰلِكَ خَیْرٌؕ- ترجمہ : اورپرہیزگاری  کا لباس سب سے بہتر ہے۔ (پ8 ، الاعراف : 26)




 عبادات کی غرض و غایت:
7: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ

اے لوگو اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا یہ امید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے

مشکلات سے نجات اور بغیر حساب زق:

متقی کے لئے اللہ تعالیٰ مشکلات میں راہِ نجات پیدا کردیتا ہے اور اسے عالی شان رزق وہاں سے عطا کرتا ہے جس کا اُس نے سوچا بھی نہیں ہوتا 8: وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ-وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ- ترجمہ : اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لئے نکلنے کا راستہ بنا دے گا۔ اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ (پ28 ، الطلاق : 2 ، 3)

متقین کا ٹھکانہ:

9: اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍۙ

ترجمہ: بے شک متقین امن والے مقام میں ہوں گے۔

11: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ

ترجمہ: بے شک متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔

12: اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ نَهَرٍۙ(۵۴)فِیْ مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْكٍ مُّقْتَدِرٍ۠(۵۵

ترجمہ: بےشک پرہیزگار باغوں اور نہر میں ہیں سچ کی مجلس میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے حضور

13: مثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَؕ-فِیْهَاۤ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ اٰسِنٍۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗۚ-وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ﳛ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّىؕ-وَ لَهُمْ فِیْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ‘‘(سورہ محمد:۱۵) ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: اس جنت کا حال جس کا پرہیزگاروںسے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اس میں  خراب نہ ہونے والے پانی کی نہریں  ہیں  اور ایسے دودھ کی نہریں  ہیں  جس کا مزہ نہبدلے اور ایسی شراب کی نہریں  ہیں  جو پینے والوں  کیلئے سراسرلذت ہے اور صاف شفاف شہد کی نہریں  ہیں  اور ان کے لیے اس میں  ہر قسم کے پھل اوران کے رب کی طرف سے مغفرت ہے

14: تِلْكَ ٱلدَّارُ ٱلْـَٔاخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَٱلْعَـٰقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ

آخرت کا گھر ہم نے ان کے لیے بنایا ہے جو زمین میں بلندی اور فساد نہیں چاہتے اور عاقبت و آخرت تو متقین کے لیے ہے۔



اللہ تعالی متقین کے ہر عمل کو قبول کرتا ہے:

15: قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الۡمُتَّقِيۡنَ

ترجمہ: بے شک اللہ تعالی اہل تقوی کی طرف سے قبول کرتا ہے۔

متقین کے گناہ اللہ تعالی معاف فرما دیتا ہے:

16: ۞ وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (133) الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (134) وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (135)

متقی کو رب تعالیٰ حق و باطل میں فرق کرنے والا نور عطا فرماتا ہے ، متقی کی خطائیں معاف ہوتی ہیں اور اسے بخشش سے نوازا جاتا ہے۔ فرمایا :

17: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(۲۹) ترجمہ : اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو تمہیں حق و باطل میں فرق کر دینے والا نور عطا فرما دے گا اور تمہارے گناہ مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (پ9 ، الانفال : 29

( یعنی اللہ تعالی وہ صلاحیت پیدا کر دیتا ہے اور وہ کسوٹی عطا فرما دیتا ہے کہ جس سے انسان سچ اور جھوٹ، نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔)



18: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

اللہ کی رحمت کے 100 حصے ہیں ایک حصہ اس نے دنیا میں بھیجا ساری کائنات اسی کو استعمال کرتی ہے۔( قیامت کے دن اللہ تعالی اپنے ساری رحمتوں کے ساتھ لوگوں کی طرف متوجہ ہو گا۔دنیا میں آج اس لیے پیار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ایک حصہ دے رکھا ہے مگر قیامت کے دن کوئی کسی کا نہیں ہو اور نفسا نفسی کا عالم ہو گا کیوں کہ اللہ تعالی محبت  اور رحت کو اٹھا چکا ہو گا۔ )  مگر فرمایا جو تقوی اختیار کرتا ہے اسے دوحصے عطا فرما دیتا ہوں۔

سابقہ انبیاء کرام کا اپنی امتوں کو تقوی کی تلقین کرنا:

19: اِذۡ قَالَ لَهُمۡ اَخُوۡهُمۡ نُوۡحٌ اَلَا تَتَّقُوۡنَ‌ۚ

20: اذ قال لہم اخوھم صالح اٴلاتتقون۔

21: اذ قال لہم اخوھم لوط اٴلاتتقون

22: اذ قال لھم شعيب اٴلاتتقون





تقویٰ کا مفہوم:ا۔لغوی معنی:علمائے اُمت نے تقویٰ کے لغوی معنی کو خوب واضح کیا ہے۔ ذیل میں تین علماء کے اقوال توفیق الٰہی سے نقل کیے جا رہے ہیں:
۱: علامہ فیروز آبادی نے تحریر کیا ہے: ’’وَقَاہُ ، وُقْیًا، وَوِقَایَۃٌ ، وَوَاقِیَۃً ‘‘ اس کو بچایا اور اسم [تقویٰ] ہے۔ [القاموس المحیط، مادۃ ’’وقی‘‘ ، ۴؍۴۰۳۔ نیز ملاحظہ ہو: لسان العرب المحیط، مادۃ ’’وقی‘‘ ، ۳؍۹۷۱]
۲: علامہ زمخشری رقم طراز ہیں: ’’ [الْمُتَّقِيْ] [تقویٰ اختیار کرنے والا] [وَقَاہُ فَاتَّقَی] [اس کو بچایا ، سو وہ بچ گیا]سے اسم فاعل ہے اور [الْوِقَایَۃ] بہت زیادہ بچاؤ کرنا ہے۔[الکشاف ۱؍۱۹؛ نیز ملاحظہ ہو: التفسیر الکبیر ۱؍۲۰؛ وتفسیر البیضاوي ۱؍۱۶؛ و تفسیر أبي السعود ۱؍۲۷؛ وروح المعاني ۱؍۱۰۸]
۳: علامہ راغب اصفہانی نے قلم بند کیا ہے: ’’[التَّقْوٰی] کے معنی کے بارے میں تحقیق یہ ہے ، کہ نفس کو اس چیز سے بچانا، جس سے اس کو اندیشہ ہو۔‘‘[المفردات في غریب القرآن ، مادۃ ’’وقی ‘‘ ، ص ۵۳۰]
ب۔ شرعی معنی:علمائے اُمت نے تقویٰ کے شرعی معنی کی بھی خوب وضاحت کی ہے۔ توفیق الٰہی سے ذیل میں چند ایک عبارات پیش کی جارہی ہیں:۱: علامہ قرطبی نے نقل کیا ہے، کہ حضرت عمر بن الخطاب نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہما سے تقویٰ کے بارے میں استفسار کیا ، تو انہوں نے کہا: ’’کیا آپ کبھی خار دار راستے میں چلے ہیں؟‘‘انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘انہوں نے دریافت کیا: ’’تو آپ نے کیا کیا؟‘‘انہوں نے جواب دیا: ’’میں آستین چڑھا لیتا ہوں اور محتاط ہو جاتا ہوں۔‘‘انہوں نے فرمایا: ’’سو یہی تقویٰ ہے۔‘‘[ تفسیر القرطبي۱؍۱۶۱۔۱۶۲۔ امام ابن ابی الدنیا نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کا اسی جیسا مفہوم نقل کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: فتح القدیر ۱؍۵۳)۔]
۲: علامہ قرطبی نے لکھا ہے ’’ابن المعتز نے یہی معنی لے کر اس کو شعروں میں بیان کیا ہے ، انہوں نے کہا:خَلِّ الذُّنُوْبَ صَغِیْرَھَاوَکَبِیْرَھَا ذَاکَ التُّقَیوَاصْنَعْ کَمَاشٍ فَوْقَ أَرْضِ الشَّوْکِ یَحْذَرُ مَا یَرَیلَا تَحْقِرَنَّ صَغِیْرَۃًإِنَّ الْجِبَالَ مِنَ الْحِصَی‘‘ترجمہ:
چھوٹے ، بڑے گناہوں کو چھوڑ دو ، یہ تقویٰ ہے۔ کانٹوں والی زمین پر چلنے والے کی طرح کرو ، جو اس سے بچتا ہے ، جو کہ وہ دیکھتا ہے۔
صغیرہ [گناہ] کو معمولی نہ سمجھو ، بلاشبہ پہاڑ کنکریوں سے [بنتے] ہیں۔[تفسیر القرطبي ۱؍۱۶۳]

۳: امام طبری کی رائے میں[اَلْمُتَّقِیْنَ] [تقویٰ والے لوگ۔] کی بہترین تفسیر یہ ہے ، کہ بلاشبہ وہ ، وہ لوگ ہیں، جو کہ منہیات کے ارتکاب میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے، ان کی نافرمانیوں سے بچتے ہیں، اور تقویٰ اختیار کرتے ہوئے، ان کے احکامات کو بجا لا کر ان کی اطاعت کرتے ہیں۔[ملاحظہ ہو: تفسیر الطبري ۱؍۳۳۳۔۳۳۴۔ (ط: دار المعارف بمصر)۔]
۴: علامہ راغب اصفہانی نے تحریر کیا ہے: ’’عرف شریعت میں تقویٰ سے مراد : گناہ گار کرنے والی چیز سے نفس کو بچانا ہے اور یہ ممنوعہ باتوں کو چھوڑنے سے ہے اور اس کی تکمیل بعض جائز چیزوں کو ترک کرنے سے ہوتی ہے۔‘‘[المفردات في غریب القرآن، مادۃ ’’وقی‘‘ ، ص۵۳۰۔۵۳۱۔]




اللہ تعالیٰ کا تمام انسانیت کو حکم تقویٰتقویٰ کی اہمیت پر دلالت کرنے والی باتوں میں سے ایک یہ ہے ، کہ اللہ عزوجل نے تمام انسانیت کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس سلسلے میں قدرے تفصیل سے ذیل میں گفتگو کی جارہی ہے:ا: پہلے پچھلے لوگوں کو تقویٰ کا حکم:اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:{وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ أُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ إِیَّاکُمْ أَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ}[سورۃ النساء؍ جزء من الآیۃ ۱۳۱۔][اور یقینا ہم نے ان لوگوں کو، جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور تمہیں بھی وصیت کی تھی، کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔]علامہ شوکانی اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں: ہم نے ان پر جو کتاب نازل کی ، اس میں انہیں حکم دیا ، اور [ الکتاب] میں لام جنس کے لیے ہے ،[مراد یہ ہے، کہ ہر وہ کتاب، جو ہم نے نازل فرمائی ، اس میں یہ حکم تھا۔] {اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ} یعنی ہم نے انہیں اور تمہیں تقویٰ کا حکم دیا۔[ملاحظہ ہو: فتح القدیر ۱؍۷۸۹]شیخ قاسمی نے لکھا ہے: {مِنْ قَبْلِکُمْ}: یعنی ہم نے تمہیں اور انہیں، سب کو، تقویٰ کی وصیت کی ہے۔ مراد یہ ہے ، کہ تقویٰ کا حکم قدیم سے ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہمیشہ سے اسی بات کی وصیت فرماتے رہے ہیں۔ تقویٰ کا حکم صرف تمہارے لیے ہی نہیں [بلکہ سب لوگوں کے لیے ہے]، کیونکہ وہ اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے رُوبرو سرخرو ہوتے ہیں۔[ملاحظہ ہو: تفسیر القاسمي ۵؍۵۱۲۔]
ب۔ تمام رسولوں کو حکمِ تقویٰ :اللہ جل جلالہ نے اپنے تمام پیغمبروں علیہم السلام کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ اللہ کریم نے فرمایا:
{یٰٓاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا إِِنِّی بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ۔ وَاِنَّ ہٰذِہٖ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ}[سورۃ المؤمنون ؍ الآیتان ۵۱۔۵۲]ان دو آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام پیغمبروں کو درج ذیل تین باتو ں کا حکم دیا:ا: پاکیزہ چیزیں کھانے کاب: نیک عمل کرنے کاج: تقویٰ اختیار کرنے کااللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے رسولوں علیہم السلام کو دیے گئے احکامات کی اہمیت و عظمت چنداں محتاج بیان نہیں۔ علامہ ابن حیان نے اپنی تفسیر میں تحریر کیا ہے: رسولوں کو ندا دینے اور مخاطب کرنے سے مراد یہ ہے، کہ ہر رسول کو اس کے زمانے میں ندا دی گئی اور مخاطب کیا گیا ، کیونکہ وہ سب تو ایک زمانے میں یکجا موجود نہ تھے، اور ان کے لیے جمع کا صیغہ اختیار کرنے میں حکمت یہ ہے ، تاکہ سامع کے دل میں یہ بات راسخ ہو جائے ، کہ جس حکم کے ساتھ تمام رسولوں کو ندا کی گئی اور انہیں اس کی وصیت کی گئی ، وہ اس قابل ہے ، کہ وہ اس کو [ مضبوطی سے] تھام لے اور اس کے مطابق عمل کرے۔[ملاحظہ ہو: تفسیر البحر المحیط ۶؍۳۷۷]
ج: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکمِ تقویٰ:تقویٰ کی اہمیت و عظمت کو اُجاگر کرنے کے لیے صرف یہی ایک بات بہت کافی ہے ، کہ اللہ تعالیٰ نے سید الخلق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ۔ اللہ جل جلالہ نے ارشاد فرمایا:{یٰٓاَیُّھَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا}[سورۃ الأحزاب؍ الآیۃ ١][اے نبی۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔! آپ اللہ تعالیٰ کاتقویٰ اختیار کیجیے اور کافروں اور منافقوں کی پیروی نہ کیجیے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے بڑی حکمت والے ہیں۔]حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں: اس میں اعلیٰ [حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ] کا ذکر کر کے ادنیٰ [اُمت] کو تنبیہ کی گئی ہے ، جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دے رہے ہیں، تو ان سے کم درجہ والوں پر تو اس حکم کی تعمیل بطریق اولیٰ ہو گی۔[تفسیر ابن کثیر ۳؍۵۱۶]
د: ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو حکم تقویٰ:اللہ کریم نے تقویٰ کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیویوں کو بھی دیا۔ اللہ جل جلالہ نے فرمایا:{وَ اتَّقِیْنَ اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدًا}[سورۃ الأحزاب؍ الآیۃ ۵۵][اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں۔]
شیخ امرتسری اپنی تفسیر میں رقم طراز ہیں: {وَاتَّقِیْنَ اللّٰہَ} [اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو] اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو!][تفسیر القرآن بکلام الرحمن ص ۵۴۱]
شیخ سعدی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:{وَاتَّقِیْنَ اللّٰہَ} یعنی اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کو تمام احوال میں اختیار کرو۔[تفسیر السعدي ص ۷۳۱]
ہ: اہل ایمان کو تقویٰ کا حکم:اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ ایمان والوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ،بطورِمثال دو آیات کریمہ ذیل میں تحریر کی جارہی ہیں:ا: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَ أَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ}[سورۃ آل عمران؍ الآیۃ۱۰۲][اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو، جیسا کہ اس کا تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے اور تمہاری موت آئے تو اسلام پر۔]۲: {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ}[سورۃ الحشر؍ الآیۃ ۱۸][اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان دیکھے، کہ اس نے کل [یعنی روزِ قیامت] کے لیے کیا تیاری کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ بلاشبہ جو تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے خوب باخبر ہے۔]
و: تمام لوگوں کو حکم تقویٰ:اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں کئی ایک جگہوں میں تمام لوگوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ، بطورِ مثال دو آیات کریمہ ذیل میں درج کی جارہی ہیں:۱: {یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ}[سورۃ البقرۃ؍ الآیۃ ۲۱](اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو، جس نے تمہیں پیدا فرمایا اور ان لوگوں کو ، جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔)۱: {یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْأَرْحَامَ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا}[سورۃ النساء:١](اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا فرمایا اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا۔ اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قطع رحمی سے بچو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہیں۔)خلاصہ گفتگو یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے پچھلے لوگوں ، رسولوں، خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ، اہل ایمان اور تمام انسانوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ بات بلاشبہ تقویٰ کی شان و عزت اور اہمیت کو خوب نمایاں کرتی ہے۔









No comments:

Post a Comment